خطبات محمود ۔ خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ جلد 26
1
تبلیغ دین کا کام صرف روپیہ سے نہیں بلکہ آدمیوں سے چل سکتا ہے
(فرمودہ 5جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘سردی کی وجہ سے میری طبیعت ناساز ہے اور منہ اور ہاتھوں پر ورم ہو گیا ہے۔ اور اس لئے مجھے سردی میں باہر تو نہ آنا چاہیے تھا۔ مگر چونکہ یہ جمعہ نئے سال کا پہلا جمعہ ہے اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھاکہ میں اس نئے سال کے متعلق جماعت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں۔
بعض باتیں بڑی صاف اور واضح ہوتی ہیں۔ مگر وہ جتنی صاف اور واضح ہوتی ہیں اتنی ہی ان کی طرف سے انسان کی طبیعت غافل کہویا ناواقف کہو ہوتی ہے۔
موت ایک ایسی چیز ہے جو ساری دنیا کی چیزوں میں سے جو زیادہ یقینی چیزیں ہیں ان میں سے ہے۔ کیونکہ ہر ایک چیز بدل بھی جاتی ہے اور اس میں فرق بھی پڑ جاتا ہے مگر موت نہیں ٹل سکتی۔دنیا میں سرد ہوائیں چلتی ہیں جو جگر و گُردوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہزاروں انسان سرد ہواؤں کی وجہ سے زکام اور نزلہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں انسان بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں کے جگر اور گُردے خراب ہو کر وہ سُوء القنیہ اور البیومنریا 1 ( Albuminuria)
سے بیمار ہو جاتے ہیں، ہزاروں کو نمونیہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہزاروں ہزار انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ سرد ہواؤں کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جانے والوں کی نسبت بظاہر کمزور ہوتے ہیں۔ مگر سرد ہواؤں کا ان کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں ہوتا۔ ان کی صحت نسبتاً ان لوگوں سے کمزور ہوتی ہے جو سرد ہوائیں چلنے کی وجہ سے نزلہ، زکام، نمونیہ، بخار، یا جگر اور گردوں کی خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مگر ان سرد ہواؤں کی وجہ سے ان کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں ہوتا۔ ملیریا کا موسم آتا ہے۔ کئی موٹے تازے اور اچھی صحت کے لوگ ملیریا کا شکار ہو جاتے ہیں اور کئی کئی روز تک بستر پر پڑے رہتے ہیں۔ مگر کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بظاہر دبلے پتلے ہوتے ہیں اور ایسے کمزور نظر آتے ہیں کہ ان کے جسم کی ہڈیاں گِنی جا سکتی ہیں۔ اور جو عام طور پر بیماریوں کا شکار رہتے ہیں مگر ملیریا کے موسم میں سے سلامت گزر جاتے ہیں۔ یہی حال سب وباؤں اور سب امراض کا ہوتا ہے وہ بعض لوگوں پر حملہ کرتی ہیں اور بعض کو چھوڑ جاتی ہیں۔ ہندوستان میں جب انفلوئنزا (Influenza)پھیلا تو اکثر گھر ایسے تھے کہ جن کے سارے کے سارے افراد اس میں مبتلا ہو گئے۔ پھر کئی گھر ایسے تھے کہ ان میں بعض افراد بیمار ہو گئے اور بعض تندرست رہے۔ اور کچھ ایسے بھی تھے کہ جن میں کوئی بھی بیمار نہ ہوا۔ تو ہر وباء اور ہربیماری کچھ نہ کچھ لوگوں کو چھوڑ دیتی ہے اور کچھ لوگوں کو اپنا شکار بنا لیتی ہے۔ مگر موت ایک ایسی چیز ہے کہ جو کسی کو نہیں چھوڑتی، کوئی گھر، کوئی خاندان، کوئی بستی ، کوئی قوم اور کوئی ملک ایسا نہیں کہ جس پر موت نازل نہ ہوئی ہو۔ اور جس کے گزشتہ لوگ مر نہ چکے ہوں اور جس کے موجودہ لوگ آئندہ زمانہ میں مرنے والے نہ ہوں۔
پس موت تو ایک یقینی چیز ہے۔ مگر دیکھو دنیا میں اکثر لوگ کس طرح موت کو بُھلائے رکھتے ہیں۔ انہیں بیماریوں کا فکر ہوتا ہے۔ اپنی تجارتوں اور ملازمتوں کا فکر ہوتا ہے۔ ملازمتوں کے سلسلہ میں کسی الزام کے لگ جانے کا فکر ہوتا ہے۔ ترقیات نہ ملنے کا فکر ہوتا ہے اور دنیا کے کاموں کافکر ہوتا ہے مگر موت کا خیال ان کے دل میں نہیں آتا۔ حالانکہ موت ایک ایسی چیز ہے جو سب سےز یادہ یقینی اور قطعی ہے۔ مگر یا تو اس کی عمومیت کی وجہ سے لوگوں کی نظروں سے وہ اوجھل ہوتی ہے اور یا شدتِ دشت کی وجہ سے لوگ اس کا خیال بھی دل میں نہیں آنے دیتے تا زندگی خراب نہ ہو جائے۔ یا پھر یہ بات ہے کہ دنیا کی دلچسپیاں اور دنیا کی امنگیں اتنی زبردست ہوتی ہیں کہ وہ موت کے خیال کو پاس پھٹکنے نہیں دیتیں۔
ایسی ہی اَور بہت سی چیزیں ہیں جو موت ہی کی طرح قطعی اور یقینی ہوتی ہیں مگر انسان ان کے خیال کو پاس نہیں آنے دیتا۔ گرنے والے اور زوال پذیر ہونے والے خاندان جن کی جائدادیں بِکتی اور رہن ہوتی جاتی ہیں۔ جن کے نوجوان تعیّش کی زندگیاں بسر کرنے لگتے ہیں اور علم و تقویٰ کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور کام کاج سے جی چُرانے لگتے ہیں ہر دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ وہ گر رہے ہیں۔ سوائے ان کے جو ان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو گر رہے ہوتے ہیں مگر اپنی حالت دیکھ نہیں سکتے۔ وہ گرتے چلے جاتے ہیں مگر اپنی حالت پر غور نہیں کرتے۔
ہماری جماعت کے سپرد جو کام ہے اس کے متعلق بھی ایک ایسی چیز ہے جو ایسی واضح ہے کہ اس کے بارہ میں کوئی شبہ نہیں مگر ابھی تک جماعت میں اس کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ اور وہ ہے تبلیغی جدوجہد۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے نبیِٔ اشاعت قرار دیا ہے۔ اسلام کی اشاعت اور اظہار عَلَی الاَدیان کے آپ ہی کے زمانہ میں ہونے کے متعلق پیشگوئیاں ہیں۔ پھر آپ کا نام اللہ تعالیٰ نے سلطان القلم رکھا ہے۔ گویا کام کی دو ہی چیزیں ہیں۔ یعنی دعوۃ اور قلم۔ انہی دو سے اسلام کو دوسرے مذاہب پر غلبہ حاصل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے بیان اور تحریر دونوں چیزیں آپ کو دی ہیں اور ان دونوں سے ہی اسلام دوسرے مذاہب پر غالب ہو گا۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انہی دو سے آپ کی جماعت نے کام لینا ہے اور انہی ذرائع سے آپ کی جماعت کو ترقی حاصل ہو گی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ترقی کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ‘‘ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے۔ اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا ۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا۔ اور اب وہ بڑھے گا اور پُھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔’’2
اور یہ بات ظاہر ہے کہ اتنا بڑا کام سوائے اس کے نہیں ہو سکتا کہ وسیع پیمانہ پر تبلیغ کی جائے۔ اور پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ وسیع پیمانہ پر تبلیغ مبلغوں کے بغیر نہیں ہو سکتی۔اور پھر یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جو لوگ نئے جماعت میں شامل ہوں گے اُن کو دین سکھانے والوں کی بھی ضرورت ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ رات کو فرشتے آسمان سے اُتریں اور ان کو دین سکھا جائیں۔ یہ کام آدمی ہی کر سکتے ہیں اور آدمیوں نے ہی کرنا ہے۔ پس جہاں تبلیغ کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے وہاں نئے داخل ہونے والوں کو دین سکھانے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے۔ کوئی شخص پورے طور پر کسی مذہب کو سیکھ کر اسے اختیار نہیں کیا کرتا۔ ہر وہ شخص جو مسلمان ہوتا ہے یا عیسائیت یا یہودیت کواختیار کرتا ہے وہ ان مذاہب کو پوری طرح سیکھ کر نہیں کرتا۔ دیگ میں سے چاولوں کے چند دانے ہی دیکھے جاتے ہیں اور پھر قیاس کر لیا جاتا ہے کہ تمام چاول پک چکے ہیں۔ اسی طرح کسی مذہب کو اختیار کرنے والا بھی اس کی پوری جزئیات سمجھ کر اختیار نہیں کرتا۔ جو لوگ حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے یا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لائے وہ ان کی تعلیمات کی پوری پوری جزئیات اور تفاصیل کو سمجھ کر ایمان نہ لائے تھے بلکہ بعض اصولی باتوں کو دیکھ کر لائے تھے۔ انہی باتوں کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ دین سچا ہے۔ جس طرح دیگ میں سے چند دانے دیکھ کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ دیگ پک چکی ہے یا نہیں اسی طرح انہوں نے چند اصولی باتوں کو دیکھ کر ان مذاہب کا سچا ہونا تسلیم کر لیا اور ایمان لے آئے۔
سو فیصدی تسلی کر کے اگر ہر کام کیا جائے تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ جو شخص دیگ کے تمام چاول انگلی کے نیچے دبا کر دیکھنا چاہے وہ مہمانوں کو اُسی دن کھانا نہ کِھلا سکے گا بلکہ ایک ماہ بعد کِھلا سکے گا۔ اور اتنے عرصہ تک چاول کھانے کے قابل رہ بھی نہیں سکتے سڑ جائیں گے۔ پس جو شخص سو فیصدی تسلی کرنا چاہے کہ ہر چاول پک گیا ہے وہ کبھی مہمانوں کی دعوت نہیں کر سکتا۔ جو شخص ہر بوٹی کو توڑ کر دیکھے اور ہر آلو کو انگلیوں میں دبا کر دیکھے کہ وہ اچھی طرح پک گیا ہے وہ بھی مہمانوں کو کھانا نہیں کِھلا سکتا بلکہ ایسا سالن کھانے سے مہمان کراہت کریں گے جس کی ہر بوٹی کا ٹکڑا ہاتھ سے توڑا گیا ہو اور جس کے ہر آلو کو انگلیوں سے دبا کر دیکھا گیا ہو۔ پس جس طرح آدمی دیگ کے ہر چاول اور ہر بوٹی اور ہر آلو کو نہیں دیکھا کرتا بلکہ چند ایک کو دیکھ کر ہی قیاس کر لیتا ہے اسی طرح جو لوگ کسی مذہب کو اختیار کرتے ہیں وہ صرف چند ایک اہم اصول اور مسائل کو دیکھ کر ہی اختیار کر لیتے ہیں تمام جزئیات اور تفاصیل کو نہیں سیکھا کرتے۔ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ تفاصیل پھر سیکھیں گے۔ اسی طرح جو لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے وہ سو فیصدی سیکھ کر نہیں ہوں گے بلکہ ان کے داخل ہونے کے بعد ان کو دین سکھانا ہمارا کام ہے۔ اور اگر کثرت سے لوگ داخل ہوں اور ان کو دین سکھانے والے نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ان پر غالب نہیں آئے بلکہ وہ ہم پر غالب آگئے۔اسلام دوسرے مذاہب پر غالب نہیں آیا بلکہ اگر وہ عیسائیت سے آئے ہیں تو گویا عیسائیت اسلام پر غالب آگئی اور اگر نئے داخل ہونے والے ہندو مذہب سے آئیں گے تو ہندو مذہب اسلام پر غالب آگیا کیونکہ کسی قوم میں جن لوگوں کی کثرت ہو گی انہی کے خیالات پھیلیں گے۔ پس جو لوگ احمدیت میں بکثرت داخل ہوں گے اگر ہم ان کو دین سکھانے کا انتظام نہ کر سکے تو لازمی بات ہے کہ بجائے احمدیت کی تعلیم پھیلنے کے ان کے خیالات پھیل جائیں گے۔ اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ہم میں داخل نہیں ہوئے بلکہ ہم ان میں داخل ہو گئے ہیں۔
بعض لوگ بہت حیرت سے پوچھتے ہیں کہ یہ ہوا کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کا عقیدہ مسلمانوں میں پھیل گیا۔ یہ گویا ایک مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ایک غیر اسلامی عقیدہ اسلامی بن گیا۔ یہ مثال ہمیں ہوشیار کرنے کے لئے ہے کہ غفلت کے باعث اِس طرح غیر احمدی عقائد احمدی عقائد بن سکتے ہیں اگر ہم آنے والوں کی اچھی طرح تربیت نہ کریں گے۔دیکھو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کا غیر اسلامی عقیدہ اسلامی کس طرح بن گیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ شروع میں جب خلافت کا نظام ٹُوٹا تو حکومت کا مرکز دمشق قرار پایا جہاں زیادہ تر عیسائی رہتے تھے۔ وہ مسلمان تو ہو گئے مگر چونکہ ان کی دینی تعلیم کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ تھا اس لئے ان کے بہت سے عقائد مسلمانوں میں پھیل گئے۔ اُس زمانہ میں عیسائیوں سے مسلمان ہونے والوں کی کثرت تھی۔ اگر شام میں دس عیسائیوں سے مسلمان ہونے والے تھے تو ایک عرب کا مسلمان تھا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ وہی عقائد زیادہ پھیل سکتے تھے جو دس کے ہوں۔ عیسائیوں سے مسلمان ہونے والوں کے دلوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت تھی۔ انہوں نے ان کی خدائی کا خیال تو ترک کر دیا مگر ان کی بڑائی کے سب عقائد کو نہ چھوڑا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے عقائد مسلمانوں میں بھی رائج ہو گئے۔ دیکھ لو ایسے تمام غلط عقائد جو آج مسلمانوں میں ہیں سب عیسائیوں والے ہی ہیں جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بڑائی پائی جاتی ہے۔ اگر کسی مسلمان سے پوچھا جائے کہ حضرت نوحؑ مُردے زندہ کرتے تھے؟ تو کہے گا نہیں۔ حضر ت ابراہیم ؑ مُردے زندہ کرتے تھے؟ وہ کہے گا نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کرتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کرتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ اگر پوچھو کوئی نبی کرتاتھا؟ تو وہ کہے گا ہاں حضرت عیسیٰ ؑ کرتے تھے۔ اسی طرح پوچھو کسی نبی نے کوئی مخلوق پیدا کی؟ حضرت نوحؑ نے حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت موسیٰؑ نے کوئی مخلوق پیدا کی؟ تو وہ انکار کرے گا۔ اگر پوچھا جائے کہ کسی نبی نے کی؟ تو کہے گا ہاں۔ کس نے؟ حضرت عیسیٰ ؑ نے۔ پوچھو کسی نبی کو علمِ غیب تھا؟ کوئی بتا سکتا تھا کہ کسی نے گھر میں کیا کھایا؟ کیا حضرت نوح ؑ یہ بات بتا سکتے تھے؟وہ کہے گا نہیں ۔ حضرت ابراہیمؑ بتا سکتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ بتا سکتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بتا سکتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ کوئی بتا بھی سکتا تھا؟ کہے گا ہاں ۔کون؟حضرت عیسیٰؑ۔ تو ایسی سب باتیں حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔کلمۃُ اللہ حضرت عیسیٰ ؑ ہیں اور کوئی نبی نہیں۔ گناہوں سے پاک صرف وہ ہیں اور کوئی نہیں۔ اور یہ سب عقائد وہی ہیں جو عیسائیوں کے تھے۔
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد اسلامی بادشاہت دمشق میں چلی گئی تھی یہ عیسائی ملک تھا۔ یہاں کثرت سے عیسائی مسلمان ہو گئے۔ مگرچونکہ ان کی تربیت صحیح طور پر نہ ہو سکی انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی خدائی کا عقیدہ تو ترک کر دیا لیکن قرآن کریم کی جو بھی ذُوالمعانی آیت نظر آئی اُس کو لیا اور اس رنگ میں اسکے معنے کئے کہ زیادہ سے زیادہ بڑائیاں حضرت عیسیٰؑ کی طرف منسوب کر دیں۔ اور چونکہ دمشق اُس وقت اسلامی حکومت کا مرکز تھا اس لئے وہاں سے جو خیالات پھیلتے تھے اُنہی کو دوسرے علاقوں کے مسلمان بھی صحیح سمجھنے لگتے تھے۔ اور یہ خیال ان کو نہ آتا تھا کہ دمشق پر عیسائیت کا اثر ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں قرآن کریم نے عیسیٰ کو مارا تھا عیسائیوں نے مسلمانوں کو مار دیا۔ یہی حال عیسائیت کا بھی ہوا تھا وہ اپنی جگہ کفر کا کشتہ تھی۔ عیسائیت زیادہ روما میں پھیلی اور وہ لوگ بت پرست تھے۔ وہ پہلے ستاروں وغیرہ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔ پھر عیسائیت کو اختیار کرنے کےبعد حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا کا بیٹا ماننے لگے۔ اور حضرت عیسیٰؑ کی ماں کی پرستش کرنے لگے جس طرح وہ پہلے بعض دیوتاؤں کی ماں کی پرستش کرتے تھے۔ یہ لوگ آرین نسل کے تھے جو اتوار کو مقدس دن سمجھتے تھے۔ ان کے زیراثر عیسائیوں نے بھی ہفتہ کے بجائے اتوار کو مقدس دن بنا لیا۔ تو جس طرح عیسائیت روما میں جا کر بگڑی تھی اسی طرح اسلام دمشق میں جا کر بگڑ گیا۔ آج بعض لوگ حیرت سے پوچھتےہیں کہ یہ عیسائی عقائد مسلمانوں میں کیونکر داخل ہو گئے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عیسائی بکثرت مسلمان ہوئے اور ان کو دینی تعلیم نہ دی جا سکی مسلمانوں نے ان کی تربیت کا کوئی انتظام نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نےا پنے عقائد اسلام میں داخل کر دیئے۔ اور یہی حال ہمارا ہونے کا ڈر ہے۔ اگر ہم نے کافی تبلیغ نہ کی اور پھر نئے داخل ہونے والوں کی تعلیم وتربیت کا خاطر خواہ انتظام نہ کر سکے۔
پس ہمارے پاس کافی مبلغ ہونے ضروری ہیں جو احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پھیلا سکیں۔ اور جو نئے آنے والوں کو اسلام اور احمدیت کی صحیح تعلیم دے سکیں۔ مگر اس کے لئے ہم نے کون سے سامان کئے ہیں؟ ایک مدرسہ احمدیہ جاری ہے۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ کوئی ایک مدرسہ ساری دنیا میں تبلیغ کے لئے مبلغ مہیا نہیں کر سکتا۔ یا ایک کالج ہے وہ بھی کافی نہیں۔ دنیا کے دوسرے کالجوں میں ڈیڑھ ڈیڑھ اور دو دو ہزار طالب علم ہوتے ہیں۔ اور بڑے بڑے شہروں میں کئی کئی کالج ہیں۔ اور کئی یونیورسٹیاں مُلکوں میں ہوتی ہیں۔ کوئی بہت ہی چھوٹا ملک ہو گا جس میں یونیورسٹی ایک ہی ہو۔ ورنہ مختلف ممالک میں کئی کئی یونیورسٹیاں ہوتی ہیں۔ لیکن کسی ملک میں اگر ایک ہی یونیورسٹی ہو تو بھی اس میں ہزاروں طالب علم ہوتے ہیں۔ مصر ایک چھوٹا سا ملک ہے کروڑ سَوا کروڑ آبادی ہو گی۔ اور وہاں ایک ہی مذہبی یونیورسٹی ہے یعنی ازہر یونیورسٹی۔ اور اس میں قریباًَ دس ہزار طلباء تعلیم پاتے ہیں۔ مگر ہم نے جو سکول تعلیم ِدین کے لئے جاری کر رکھا ہے اس کی یہ حالت ہے کہ سارے سال میں اس میں صرف آٹھ طالبعلم داخل ہوئے ہیں۔ اور یہ وہ پہلی جماعت ہے جو آٹھ سال کے بعد آخری جماعت بنے گی۔ اور اس سال تو پھر بھی آٹھ طالب علم داخل ہوئے ہیں پچھلے سال صرف تین ہوئے تھے۔ اور آٹھ کے معنی ہیں چار۔ کیونکہ کسی سکول میں جتنے لڑکے شروع میں داخل ہوں ان میں سے نصف کے قریب بالعموم گر جایا کرتے ہیں۔کچھ تو ہمت ہار کر خود ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ اَور ہوتے ہیں جو پڑھائی کی طرف توجہ نہیں کرتے اور مدرسہ والے ان کو خود نکال دیتے ہیں۔ کچھ پڑھائی تو ختم کر لیتے ہیں مگر وہ دینی کام کرنے کے بجائے دُنیوی کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ اس لئے آٹھ کے معنے چار ہی سمجھنے چاہئیں۔ تو اب جو آٹھ طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں ان میں سے چار ہمیں آٹھ سال کے بعد مل سکیں گے۔ حالانکہ ہمیں تمام دنیا میں تبلیغ اور دینی تعلیم و تربیت کے لئے لاکھوں آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اور اگر مبلغین کی تیاری کی رفتار یہی رہی تو اس کے یہ معنے ہیں کہ دس ہزار سال میں ہمیں کام کرنے والے آدمی پوری تعداد میں مل سکیں گے۔ اور وہ بھی اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ یہ قانون بنا دے کہ ان میں سے کوئی مرے گا نہیں اور بوڑھا بھی نہیں ہو گا۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا قانون ہو تب دس ہزار سال کے بعدہمیں پورے مبلغ مل سکتے ہیں۔ اور دنیا کی کوئی قوم دس ہزار سال تک زندہ نہیں رہ سکتی۔ کسی قوم کی زندگی تین سَو سال سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس عرصہ میں وہ یا تو غالب آکر دوسری طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور یا پھر مٹ جاتی ہے۔ اور اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ اس کے بعد کہیں کہیں صوفیاء وغیرہ رہ جاتے ہیں جو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے حلقہ میں اپنے سلسلہ کو جاری رکھتے ہیں ورنہ اس مذہب کی طرف منسوب ہونے والے تو باقی رہتے ہیں لیکن مذہب باقی نہیں رہتا۔ آج ہندوستان میں کروڑوں ہندو موجود ہیں مگر ہندو مذہب باقی نہیں ۔ہندو کہلانے والے جو قانون اپنے لئے چاہتے ہیں بنا لیتے ہیں۔ عیسائی ہیں ان کو آج دنیا میں بڑی طاقت حاصل ہے مگر عیسائیت باقی نہیں۔ بلکہ عیسائیت تو رسول کریم ﷺ سے پہلے ہی مٹ گئی تھی۔ یہودی تو دنیا میں موجود ہیں لیکن اگر آج حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں آئیں تو اس یہودیت سے کانوں پر ہاتھ دھریں۔ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا کہ خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ3 ثُمَّ یَکُوْنُ فَیْجُ اَعْوَجَ۔
توقوموں کی زندگی تین سو سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض تو دو ڈیڑھ سو سال میں ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ اس عرصہ میں یا تو وہ غالب آکر سیاست کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں اور اس کے زور سے قائم رہتی ہیں یا مٹ جاتی ہیں۔ پس کوئی ایسی سکیم کہ دس ہزار سال میں قومی ترقی کے سامان کئے جائیں گے کسی پاگل کے نزدیک ہی قابلِ توجہ ہو سکتی ہے۔ بلکہ ایسی بات کو تو پاگل بھی نہیں مان سکتا اور جو ایسی بات پر یقین رکھتا ہے اس سے زیادہ پاگل کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک ایسی واضح بات ہے کہ جو دنیا کی واضح ترین باتوں میں سے ہے۔ مگر میں حیران ہوا کرتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ بی۔اے اور ایم۔ اے لوگ ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ واضح بات کیوں نہیں آتی کہ ہماری جماعت تبلیغ کے فریضہ کو کس طرح ادا کرے گی۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کے لئے آسمان سے فرشتے اتریں گے؟ کیا پہلے انبیاء کے زمانوں میں فرشتوں نے آسمان سے اتر کر یہ کام کیا تھا جو اَب وہ اتر کر کریں گے؟ جب رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں فرشتے یہ کام کرنے کے لئے نہیں اترے تو اب کیا اتریں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ پہلے بھی آدمیوں نے ہی یہ کام کیا تھا اور اب بھی آدمی ہی کریں گے۔ پہلے بھی بعد میں آنے والوں کو تعلیم آدمیوں نے ہی دی تھی اور اب بھی آدمی ہی دیں گے۔ اور ایک انسان اتنے ہی لوگوں کو تعلیم دے سکتا اورتبلیغ کر سکتا ہے جتنےلوگوں کو تعلیم دینے اور تبلیغ کرنے کی طاقت اُس کے اندر ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان لاکھوں کی تعلیم و تبلیغ کا بوجھ اٹھا سکے۔ لیکن ہمارے پاس مبلغوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ دنیا کی دو ارب آبادی کے لئے اگر دس ہزار مبلغ بھی ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ دو لاکھ افراد کے لئے ایک مبلغ ہے۔ اور یہ تعداد بالکل ناکافی ہے۔ قادیان کی آبادی دس ہزار ہے۔ اگر اس دس ہزار آبادی کے لئے ایک آدمی ہو تو کیا اسے کافی سمجھا جا سکتا ہے اور کام چل سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لیکن ہمارے پاس تو ابھی اتنے بھی نہیں ہیں۔
ایک آدمی کے کام کا وقت 25سال عام طور پر ہوتا ہے۔ یا اگر 25سال کی عمر میں تعلیم ختم کر لی جائے تو تیس سال کام کا زمانہ سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر چونکہ بعض کام کرنے والے اتنا عرصہ کام کرنے سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں اس لئے کام کرنے کی اوسط بیس سال سمجھنی چاہیے اور اگر موجودہ رفتار کے لحاظ سے ہمیں چار آدمی ہر سال ملیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ بیس سال میں ہمارے پاس صرف 80 آدمی ہوں گے۔ اور یہ اتنی واضح بات ہے کہ اس رفتار سے وہ عظیم الشان کام نہیں ہو سکتا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔ اس کے لئے بہت زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ مگر مدرسہ احمدیہ میں دوست اپنے بچوں کو داخل کرانے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ہر خاندان یہی سمجھتا ہے کہ دوسرے خاندانوں سے لڑکے آجائیں گے اسے بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ اور چونکہ ہر گھر یہی سمجھ لیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سارے ہی گھر خالی رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ ایمان کی کم سے کم علامت یہ ہونی چاہیے کہ ہر خاندان ایک لڑکا دے۔ اور جو یہ بھی نہیں کرتا وہ گو شرم و حیا کی وجہ سے منہ سے تو نہیں کہتا مگر عملی طور پر وہ یہی کہتا ہے کہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۔4اے موسیٰ! تُو اور تیرا رب جاؤ اور دونوں جا کر دشمنانِ دین سے جنگ کرو ہم تو اسی جگہ بیٹھے رہیں گے۔ گو وہ منہ سے یہ الفاظ نہ کہے مگر اپنے عمل سے یہی کہتا ہے اور اس کے دل میں یہی ہے اور جس کےد ل میں یہ بات ہووہ بھی مومن نہیں ہو سکتا ۔کیا اگر کوئی شخص دل میں خداتعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات پر ایمان نہ رکھتا ہو، دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان نہ رکھتا ہو تو وہ مومن ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ کوئی شخص زبان سے ہزار کہے کہ وہ مومن ہے اگر وہ دل سے نہیں مانتا تو وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جو شخص دل میں کہتا ہے کہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ وہ بھی ہر گز مومن نہیں ہو سکتا۔
مَیں نے تحریک جدید کےپہلے دَور میں بھی یہ بات بیان کی تھی کہ کام آدمیوں سے چل سکتا ہے روپیہ سے نہیں۔ روپیہ تو ایک ضمنی چیز ہے۔ اور پھر روپیہ کے لحاظ سے تو ہم دنیا کا مقابلہ کر بھی نہیں سکتے۔ ہم خوش ہیں کہ ہم نے تحریک جدید کے پہلے دَور کے دس سالوں میں 14 لاکھ روپیہ جمع کر لیا۔ مگر دوسروں کے مقابلہ میں 14لاکھ روپیہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہندوستان ایک گھٹیا قسم کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اور صوبہ پنجاب کا ہندوستان کے گھٹیا صوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ گویا پنجاب دولت کے لحاظ سے بہت گھٹیا درجہ کا ہے۔ لیکن اس صوبہ کے ایک ہندو سر گنگا رام نے ایک کروڑ روپیہ وقف کر دیا تھا اور جب ایک گھٹیا ملک کے گھٹیا صوبہ کے ایک فرد نے ایک کروڑ روپیہ وقف کر دیا تو ہمارا 14 لاکھ روپیہ دس سالوں میں جمع کر دینا اور روپیہ کے لحاظ سے کون سی بڑی بات ہے۔ ہم اس قربانی پر خوش ہیں تو اس لئے کہ یہ ایک غریب جماعت کی جیبوں سےنکلا ۔اور یہ ہماری جماعت کے اخلاص کا ثبوت ہے ورنہ دنیا کے روپیہ کے مقابلہ میں چودہ لاکھ روپیہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہندوستان کے ہندو اخلاص سے کوئی رقم جمع کرنا چاہیں تو چودہ ارب جمع کر سکتے ہیں۔ صرف ایک ہندو نے اعلان کیا ہے کہ مَیں نے پچاس کروڑ روپیہ جنگ کے بعد موٹروں کا کارخانہ جاری کرنے کے لئے الگ کر دیا ہے۔ مَیں نے کمپنی نہیں بنائی اس لئے کہ اگر نقصان ہؤا تو کم سرمایہ والے لوگوں کو نقصان نہ ہو۔ اس نے اپنی جائداد کا صرف ایک حصہ الگ کیا ہے جو پچاس کروڑ ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے پاس دو تین ارب روپیہ ہو گا۔ اور یہ تو صرف ایک ہندو کی دولت کا حال ہے۔ ایسے اور بھی کئی ہیں اور میں سمجھتا ہوں صر ف سَو دو سَو بڑے بڑے ہندو اگر چاہیں تو چودہ ارب روپیہ جمع کر سکتے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ ہزار آدمی مل کر دے سکتے ہیں۔ تو جہاں تک روپیہ کا سوال ہے چودہ لاکھ کی رقم اتنی حقیر رقم ہے کہ دوسروں کے روپیہ کے سامنے اس کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا۔ یورپ اور امریکہ میں اگر کوئی احمدی اپنی چودہ لاکھ روپیہ کی رقم کو اپنی قربانی کی مثال کے طور پر پیش کرے تو سننے والے ہنسیں گے۔ کیونکہ وہاں تو دوستوں کی تفریح کے لئے کوئی فلم وغیرہ بنانے پر لوگ لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں۔پس ہماری اِس قربانی کی عظمت چودہ لاکھ روپیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ یہ روپیہ غریبوں کی جیبوں سے آیا ہے۔ اور دوسرے اس لئے کہ یہ خدا تعالیٰ کی خاطر جمع کیا گیا ہے۔ پس جہاں تک روپیہ کے مقابلہ کا سوال ہے ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ دنیا اس سے بہت بڑھ کر یہ چیز پیش کر سکتی ہے۔ لیکن ایک ایسی چیز ہے کہ دنیا اس سے بڑھ کر پیش نہیں کر سکتی اور وہ جان ہے۔جان دینے میں وہ ہم سے بڑھ نہیں سکتی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ جان کے مقابلہ میں جان پیش کر دے اس سے زیادہ نہیں کر سکتی۔ ہمارے ایک روپیہ کے مقابلہ میں تو بے شک امریکہ کا کوئی کروڑ پتی یا ہندوستان کا کوئی کروڑ پتی ایک کروڑ روپیہ دے سکتا ہے۔ مگر جان کے مقابلہ میں وہ زیادہ سے زیادہ جان ہی دے سکے گا ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پس یہ وہ چیز ہے جس میں جماعت نمونہ دکھا سکتی تھی مگر افسوس ہے کہ اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی۔ تبلیغ کے کام کے لئے ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اگر کم سے کم تعداد رکھی جائے اور ایک ہزار مبلغ سے کام چلانے کی سکیم سامنے رکھی جائے تو بھی موجودہ رفتار کے لحاظ سے اتنے آدمی اڑھائی سَو سال میں ہمیں مل سکتے ہیں۔
تحریک جدید کے پہلے دَور میں مَیں نے صرف اِس کا اعلان کیا تھا مگر اب میں جماعت کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاص کا ثبوت دے اور نوجوان زندگیاں وقف کریں۔ ہر احمدی گھر سے ایک نوجوان ضرور اِس کام کے لئے پیش کیا جائے۔ مگر ہمارے مشورہ سے پیش کیا جائے۔ کیونکہ سب کو فورًا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم باری باری لیں گے۔ اس سال پچاس دیہاتی مبلغ لئے جائیں گے یوں تو صرف پنجاب کے لئے موجودہ حالات میں کم سے کم دو سَو دیہاتی مبلغین کی ضرورت ہے مگر اس سال صرف پچاس لئے جائیں گے۔ بیس سے تیس سال تک عمر کے دوست جو کم سے کم مڈل تک تعلیم رکھتے ہوں اپنے نام پیش کریں۔ چالیس سال عمر کے موزوں آدمی بھی لئے جا سکتے ہیں۔ انہیں سال ڈیڑھ سال تک ضروری تعلیم دینے کے بعد مختلف دیہات میں مقرر کر دیا جائے گا۔ اور اسی طرح مدرسہ احمدیہ میں بھی داخلہ کے لئے ہر سال کم سے کم پچاس طالبعلم آنے چاہئیں۔ سَو ہوں تو بہت بہتر ہے۔ ان کی تعلیم آٹھ سال میں ختم ہو گی۔ اگر پچاس طالب علم ہر سال داخل ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ آٹھ سال کے بعد ہمیں 25 آدمی کام کے لئے مل سکیں گے۔ گویا اٹھارہ سال کے بعد 250 آدمی مل سکیں گے۔ اور اگر ہر سال سَو طالب علم داخل ہوں تو 18 سال کے بعد پانچ سو حاصل ہوں گے۔ یہ کتنا لمبا عرصہ ہے پھر اتنے لمبے عرصہ کےبعد بھی جو آدمی ملیں گے وہ بالکل ناکافی ہوں گے۔ کیونکہ دنیا میں تبلیغ کے علاوہ نئے آنے والوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے۔ پس دوست اپنے لڑکوں کو اس تحریک کے ماتحت پیش کریں اور جن کے ہاں اولاد نہ ہو یا ہو مگر بڑی عمر کی ہو۔ یا جن کے ہاں لڑکیاں ہی ہوں لڑکے نہ ہوں تو وہ ایک دیہاتی مبلغ یا مدرسہ احمدیہ کے ایک طالب علم کا ماہوار خرچ دیں۔ یا چند دوست مل کر ایک طالب علم کا خرچ برداشت کریں٭ جو آج کل کے لحاظ سے بیس روپیہ ماہوار سے کم نہیں ہو گا تا غرباء کے بچوں کو تعلیم دلائی جا سکے۔ لیکن اصل قربانی تو جان کی ہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ بھی رکھا ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے دوستوں کو اسماعیلؑ جیسی قربانیاں کرنی ہوں گی۔ ہر سال عید آتی ہے اور ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔ آپ لوگ عید کے موقع پر بکرے ذبح کرتے ہیں مگر یہ اصل قربانی نہیں یہ تو صرف علامت ہوتی ہے اس بات کی کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آئے گا آپ اپنی جانیں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مگر اب جانی قربانی کا وقت آگیا ہے لیکن دوست ابھی بکرے ہی پیش کرتے ہیں جانیں پیش نہیں کرتے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ نےفرمایا تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ کتَابَ اللہِ وَ عِتْرَتِیْ5۔ کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں یعنی قرآن کریم اور عترت۔ شیعہ لوگ عترت سے مراد حضرت علیؓ لیتے ہیں مگریہ صحیح نہیں۔ عترت کے معنے ہیں وہ مخلص لوگ جو دین کی خاطر اپنے آپ کو ذبح کر دینے کے لئے تیار ہوں۔ الْعَتِیْرَۃُ اُس قربانی کا نام ہے جو بتوں کے آگے پیش کی جاتی تھی۔ عربی میں محاورہ ہے عَتَرَ الْعَتِیْرَۃَ۔ اس نے بت کے آگے بکری کی قربانی پیش کی۔ پس رسول کریم ﷺ کے قول کا یہ مطلب ہے کہ میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں ایک قرآن کریم اور دوسرے ایسے لوگ جو اپنی زندگیاں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جب تک یہ دونوں چیزیں باقی رہیں گی اسلام مٹ نہیں سکتا۔ شیعوں نے عِتْرَتِیْ کے معنے حضرت علیؓ اور اہلِ بیت کے کئے ہیں اور وہ اس سے ان کی فضیلت ثابت کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ بھی عترت تھے۔ مگر دنیوی رشتہ داری کے لحاظ سے نہیں۔ بلکہ اس لئے کہ انہوں نے خدا کی راہ میں جان کی قربانی کر دی۔ ہم ان کے عترت ہونے کا انکار نہیں کرتے۔ صرف اُس وجہ کا انکار کرتے ہیں جو شیعہ پیش کرتے ہیں۔ وہ ضرور عترت تھے مگر اس لئے تھے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاطر اپنی جان قربانی کے لئے پیش کر دی۔ جب کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
٭ اس خطبہ کے بعد تین وظائف تین طالب علموں کے لئے میرے پاس آچکے ہیں۔
کو مار دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ6۔ کیونکہ میں خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق ہجرت کر کے جارہا ہوں7 اور حضرت علیؓ نے اس قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ اگر کفار بغیر دیکھے حملہ کردیتے تو آپ ضرور مارے جاتے۔ مگر ان کو شک پیدا ہوا کہ یہ جسم تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا معلوم نہیں ہوتا۔ اور انہوں نے شکل دیکھی تو معلوم ہوگیا کہ علیؓ ہیں اس لئے انہوں نے نہ مارا۔ تو اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ عترت تھے مگر کسی دنیوی تعلق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے دین کی خاطر اپنے آپ کو ذبح ہونے کے لئے پیش کر دیا۔
پس ہر وہ شخص جو دنیا پر لات مار کر دین کی خاطر اپنی زندگی کو وقف کرتا ہے اور ہر باپ جو اپنی اولاد کو تعلیم دلا کر دین کے لئے وقف کرتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عترت ہے جس سے اسلام زندہ رہ سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دو چیزیں چھوڑیں۔ ایک قرآن اور ایک عترت۔ قرآن تو ہمیشہ وہی رہے گا مگر عترت ہمیشہ بدلتی رہے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضر ت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ، حضرت سعیدؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور دوسرے ایسے ہی صحابہ عترت تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ 8 کہ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ اور یہ کہہ کر بتا دیا کہ میری عترت سے مراد صرف وہ لوگ نہیں جو صلب سے ہیں بلکہ وہ ہیں جو دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں ا پنی جانیں ذبح کئے جانے کے لئے پیش کر دیتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی انہی لوگوں کو اپنی عترت قرار دیا ہے۔ چنانچہ بائبل میں آتا ہے کہ ‘‘جب وہ بِھیڑ سے یہ کہہ ہی رہا تھا تو دیکھو اُس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اُس سے باتیں کرنی چاہتے تھے۔ کسی نے اس سے کہا دیکھ ! تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سےباتیں کرنی چاہتے ہیں۔ اس نے خبر دینے والے کے جواب میں کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی۔ اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا دیکھو! میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں۔ کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی بہن اور ماں ہے۔’’9
اور صحیح بات بھی یہی ہے کہ آپ جس کام کے لئے مبعوث ہوئے تھے وہ انہی سے وابستہ تھا جن کو وہ اس وقت تعلیم دے رہے تھے۔ اسی طرح جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کام کے چلانے والے ہیں وہی آپ کی عترت ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں دو چیزیں اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہوں۔ جو ثَقَلَان ہیں یعنی بوجھ ہیں۔ ایسے بوجھ کہ جب تک وہ رہیں گے دین آسمان پر نہ جائے گا۔ یہ دو بوجھ ہوں گے جو دین کو زمین پر رکھیں گے جب یہ دونوں بوجھ اُٹھ جائیں گے اسلام بھی آسمان پر چلا جائے گا۔ جب مسلمانوں میں سے قرآن کریم کا مفہوم اُڑ گیا اور جب عترت اُڑ گئی تو اسلام بھی اُڑ کر آسمان پر چلا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے دوبارہ دنیا میں لائے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا کہ لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ مِّنْ ہٰٓؤُلَآءِ۔10 اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب مسلمانوں میں نہ قرآن رہے گا اور نہ میری عترت۔ یہ دونوں ایسے بوجھ ہیں جن کی وجہ سے ایمان زمین پر رہ سکتا ہے ورنہ ایمان ایسی ہلکی چیز ہے کہ جب یہ بوجھ نہ رہیں گے تو وہ بھی نہ رہ سکے گا۔ جب یہ بوجھ اُٹھ جائیں گے اسلام بھی اُٹھ جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوبارہ اسے دنیا میں لائے ہیں۔ مگر جو پہلے اُڑ کر آسمان پر چلا گیا تھا اب بھی جا سکتا ہے اور جن دو چیزوں نے پہلے اسے دبایا تھا وہی اب بھی دبا کر رکھ سکتی ہیں اور وہ دو چیزیں قرآن کریم اور عترت ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کا مفہوم دوبارہ سمجھایا ہے اور اس کی تفسیر بیان فرما دی ہے۔ مگر قرآن کریم عترت کے دل میں ہی رہ سکتا ہے۔ اگر باہر رہ سکتا تو پہلے اُڑ کیوں جاتا۔ اصل قرآن وہ نہیں جو اَوراق پر لکھا ہوتا ہے بلکہ وہ ہے جو عترت کے دل میں ہوتا ہے۔ اور جب عترت اُڑے گی تو وہ بھی اُڑ جائے گا۔ پس ہر وہ خاندان جو خدمت سلسلہ کے لئے کسی کو وقف نہیں کرتا وہ قرآن کریم کے دنیا سے اُڑنے میں مدد دیتا ہے۔ اور وہ ایمان کے دنیا سے اٹھ جانے میں مدد دیتا ہے کیونکہ جب تک قرآن کریم اور عترت دنیا میں قائم نہ ہو گی ایمان قائم نہیں رہ سکتا۔
پس میں جماعت کے دوستوں کو اس نہایت ہی ضروری امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ تحریک جدید کے پہلے دَور میں مَیں نے اس کی تمہید باندھی تھی۔ مگر اب دوسری تحریک کے موقع پر میں مستقل طور پر دعوت دیتا ہوں کہ جس طرح ہر احمدی اپنے اوپر چندہ دینا لازم کرتاہے اِسی طرح ہر احمدی خاندان اپنے لئے لازم کرے کہ وہ کسی نہ کسی کو دین کے لئے وقف کرے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ سب دوست جلد سے جلد اس بلاوا پر لبیک کہیں گے تااحمدیت کی تبلیغ ہماری زندگیوں میں ہی دور دور تک پہنچ سکے۔ اگر ہم نےز یادہ سے زیادہ آدمی دین کے سکھلانے کے لئےجلد از جلد پیدا نہ کر دیئے تو دین کے قیام میں خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ ہمیں آدمیوں کا فکر نہیں بلکہ یہ فکر ہے کہ دین اپنی اصل شکل میں دنیا میں قائم ہو جائے۔
اِس وقت دو قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے ایک تو دیہاتی مبلغ ان کی تعلیم کم سے کم مڈل تک ہونی چاہیے اور انہیں سال ڈیڑھ سال تک تعلیم دے کر دیہات میں لگا دیا جائے گا۔ دوسرے ایسے مڈل پاس طالب علم جو مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کریں۔ ابھی داخلہ میں تین ماہ کا عرصہ ہے۔ اس لئے ابھی سے اس کے لئے دوست تیاری کریں۔ زیادہ نہیں تو فِی الحال ہر ضلع سے چار پانچ طالب علم ضرور آنے چاہئیں۔ اور بنگال اور بہار وغیرہ صوبوں سے جہاں جماعتیں کم ہیں صوبہ بھر میں سے ہی چار پانچ آنے چاہئیں۔ ہم انشاء اللہ جلد تبلیغ کے کام کو وسیع کرنے والے ہیں۔ جس کے لئے مبلغ درکار ہیں اور معلّم بھی جو نئے آنے والوں کو دین سکھائیں۔
کل ہی میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں کابل گیا ہوں جس کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ وہاں بھی انشاء اللہ احمدیت کی اشاعت کی کوئی صورت پیدا ہو گی۔ میں نے دیکھا کہ مَیں وہاں گیا ہوں اور وہاں بادشاہ، وزراء اور بڑے سرکاری حکام اور بڑے بڑے آدمیوں سے مل چکا ہوں۔ مجھے وہاں گئے دو تین روز ہو چکے ہیں اور اب میں واپس آنا چاہتا ہوں۔ اور موٹر میں یہ سفر میں نے کیا ہے۔ جب میں واپسی کا ارادہ کر رہا ہوں تو کسی نے مجھے کہا کہ یہاں دو طرح سے پٹرول ملتا ہے ایک تو دکانوں میں ملتا ہےا ور ایک پٹرول پمپ پر۔ پمپ پر زیادہ مل سکتا ہے مگر قیمت زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ اور میں کہتا ہوں کہ بطور احتیاط پٹرول زیادہ ہی ہونا چاہیے بیس پچیس روپے زیادہ خرچ ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اور اس خواب سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وہاں بھی تبلیغ کا راستہ کھولے گا اور ان علاقوں میں تبلیغ کے لئے فارسی اور پشتو زبانیں جاننے والوں کی ضرورت ہے۔ پس صوبہ سرحد کو بھی توجہ کرنی چاہیے اور وہاں سے بھی نوجوان آنے چاہئیں۔ اب تک اس صوبہ سے بہت کم آئے ہیں اور جو آئے بھی ہیں وہ تعلیم پانے کےبعد دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں۔ سوائے ایک کے کہ وہ مبلغ بنے ہیں۔ اور وہ اگر اس صوبہ کی جماعتوں میں تحریک کر کے نوجوانوں کو تعلیم کے لئے یہاں بھجوائیں تو میں سمجھتا ہوں ان کا یہی کام بڑا کام ہو گا۔
خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی تبلیغ کے نئے رستے جلد کھولنے والا ہے اور ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہو گی۔ اور اگر آج تیاری شروع کی جائے تو آٹھ سال کے بعد پہلا پھل مل سکے گا اور اُس وقت تک ہم تبلیغ وسیع پیمانے پر نہ کر سکیں گے۔ اس لئے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ گریجوایٹ اور مولوی فاضل نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں تا انہیں جلد سے جلد کام پر لگایا جا سکے۔ ایسے نوجوان دو سے چار سال تک کے عرصہ میں کام کے قابل ہو سکیں گے۔ اور ان سے وقتی ضرورت کو پورا کیا جا سکے گا۔ مگر اصل چیز تو یہ ہے کہ ہر سال مدرسہ احمدیہ میں سو دو سو طالب علم داخل ہوتے رہیں۔
اِس کا دوسرا قدم یہ ہو گا کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہم ایسے ہی مدرسے جاری کریں گے۔ اور پھر مختلف ملکوں میں عرب، مصر، فلسطین، شام اور دیگر ممالک میں اِسی طرز پر اور اِسی کورس پر مدرسے جاری کئے جائیں گے۔ یہاں سےتعلیم مکمل کرنے کے بعد آدمی جائیں گے اور وہاں ایسے مدرسے چلائیں گے۔ تا ان ممالک کی تبلیغی اور تعلیمی ضرورت کےلئے آدمی تیار ہو سکیں۔ تمام ممالک میں ایسے مدرسے ہمیں جاری کرنے ہوں گے۔ حتّٰی کہ یورپ اور امریکہ میں بھی۔ پھر ان میں سے چند منتخب طالب علم یہاں آکر رہیں گے اور مکمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہاں جا کر کام کریں گے۔ اور اس طرح مرکز سے گہرا تعلق ان ملکوں کو پیدا ہوتا رہے گا۔ مگر ابھی تو ہندوستان میں بھی ہم انتظام نہیں کر سکتے بلکہ پنجاب کے لئے بھی ہمارے پاس سامان نہیں۔ پنجاب میں ساٹھ ہزار دیہات ہیں۔ اگر اوسطاً ساٹھ دیہات کے لئے ایک آدمی رکھا جائے جو بالکل بے معنی سی بات ہے تب بھی ایک ہزار آدمی چاہیے۔ اور اگر ہر گاؤں کے لئے ایک آدمی رکھا جائےتو ساٹھ ہزار آدمیوں کی ضرورت ہو گی۔ میں تو حیران ہوں کہ جماعت کیا سمجھتی ہے کہ یہ اتنا بڑا کام کس طرح ہو سکے گا۔ کیا دوست سمجھتے ہیں کہ صرف چندے دے دینے سے یہ کام ہو سکے گا؟ جو ایسا خیال کرتا ہے وہ سخت غلطی پر ہے۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے دو چیزوں کے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کی اور عترت کی۔ قرآن کریم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندہ کر دیا اور عترت کا پیدا کرنا ہمارا کام ہے۔ پس میں قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کو دین کے کاموں کے لئے وقف کریں۔
وہ دن عنقریب آنے والا ہے جب ہر قسم کی عزت احمدیت سے وابستہ ہو گی۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے دو سری قومیں چوہڑے چماروں کی طرح کمزور اور تھوڑی رہ جائیں گی۔ اور جو آج قربانی کرے گا وہ کل عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور جو آج غداری کرے گا وہ کوئی عزت نہ حاصل کر سکے گا۔ یہ بات میں نے ایسے لوگوں کے لئے کہی ہے جو دینی امور کو بھی دُنیوی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ورنہ مومن کو دُنیوی عزت کی کوئی پروا نہیں۔ وہ تو اُس چیز کو قبول کرتا ہے جس سے دین کو تقویت حاصل ہو اور اس کی خدمت ہو سکے۔ خواہ اس کے ساتھ دنیا کی ہزار لعنتیں کیوں نہ ہوں اسے دنیا کی لعنتوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ تو خداتعالیٰ کی رضاء کا طالب ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا ایک پیار دنیا کی سب لعنتوں کو دھو دیتا ہے۔
پس میں پھر قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر کے دوستوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ایک تو وہ دیہاتی مبلغوں کے لئے ایسے آدمی دیں جو کم از کم مڈل تک تعلیم رکھتے ہوں۔ اور بیس سے تیس سال تک کی عمر کے ہوں۔ اگر موزوں ہوں تو چالیس سال کی عمر تک کے بھی لئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے اپنے مڈل پاس لڑکوں کو مدرسہ احمدیہ میں تعلیم کے لئے بھیجیں۔ اور چونکہ ان سے کام آٹھ سال کے بعد لیا جا سکے گا اس لئے فِی الحال گریجوایٹ اور مولوی فاضل نوجوان آگے آئیں۔ تا ان کو دینی تعلیم دے کر جس قدر جلد ممکن ہو کام شروع کیا جا سکے۔ پس دوست جلد سے جلد اس طرف توجہ کریں تا ہمیں ایسے مبلغ مل سکیں جو دنیا کے کناروں تک احمدیت کو پھیلا دیں اور سلسلہ میں داخل ہونے والے نئے لوگوں کو دینی تعلیم دے سکیں۔ اے میرے رب! تُو لوگوں کے دل کھول دے کہ وہ اس بات کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اور پھر ان کے اندر قربانی کی روح پیدا کر کہ وہ آگے بڑھ کر دین کے لئے اپنی جانیں فدا کریں۔ آمین۔’’ (الفضل مورخہ 10جنوری 1945ء)
1: البیومنریا: (ALBUMINURIA) گُردوں کی بیماری
2: تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ67
3: بخاری کتاب فضائل اَصْحَابِ النّبی ﷺ باب فضائل اَصْحَابِ النبی ﷺ
4: المائدۃ:25
5: کنزالعمال جلد 1صفحہ186 مطبوعہ حلب میں‘‘ اِنِّیْ تَارِکٌ ’’ کے الفاظ ہیں۔
6: سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ126۔ مطبوعہ مصر 1936ء
7: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ129۔ مطبوعہ مصر 1936ء
8: مستدرک حاکم ۔ کتاب معرفۃ الصحابہ رضی اللہ عنہم ذکر سلمان فارسی
جزنمبر3صفحہ691۔ مطبوعہ بیروت 1990ء
9: متی باب 12 آیت 46تا50
10: بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ وآخرین منہم میں ‘‘عِنْدَ الثُّرَیَّا’’ کے الفاظ ہیں۔
2
وقت آگیا ہے کہ انگلستان اور ہندوستان آپس میں صلح کر لیں
(فرمودہ 12جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں نے سالانہ جلسہ کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ آئندہ آنے والے دن دنیا کے لئے نہایت ہی نازک اور سخت معلوم ہوتے ہیں اور جیسا کہ میں اڑھائی سال کا عرصہ ہوا اِس منبر پر ایک خطبہ پڑھ چکا ہوں اور اپنے بعض خواب سنا چکا ہوں دنیا میں ایک اَور جنگ کی بنیاد پڑ رہی ہے۔ میں اُس خطبہ میں کسی ملک کے نام کا اظہار تو نہ کرنا چاہتا تھا مگر غلطی سے بعض نام میرے منہ سے نکل گئے تھے۔ دنیا میں جنگوں کا سلسلہ ابھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ بعض عظیم الشان تغیرات اُن پیشگوئیوں کے مطابق جو بعض سابق انبیاء کی موجود ہیں اور جو رسول کریم ﷺ نے کیں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہیں اور جو شائع شدہ موجود ہیں ابھی دنیا کے لئےاَور فتنے بھی مقدر ہیں۔ میں نے ان خیالات کے ماتحت انگلستان اور ہندوستان دونوں کو نصیحت کی تھی کہ دونوں اپنے سابقہ اختلافات کو بُھلا کر باہم سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ میرا ایسی نصیحت کرنا اِس زمانہ میں جبکہ ہماری جماعت ایک نہایت قلیل جماعت ہے بالکل ایک بے معنی سی چیز نظر آتی ہے۔ میری
آواز کا نہ ہندوستان پر اثر ہو سکتا ہے اور نہ انگلستان پر اثرہو سکتا ہے۔ہندوستان تک تو ایک حد تک میری یہ آواز پہنچ بھی سکتی ہے۔ گو زبردست طاقتیں اور زبردست قوتیں اسے سن کر ہنس دیں گی اور کہیں گی کہ لو جی مینڈکی کو بھی زکام ہو گیا۔ یہ چھوٹی سی جماعت جس کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہندوستان کو نصیحت کرنے نکلی ہے۔ لیکن انگلستان تک تو میری آواز شاید پہنچنی بھی مشکل ہے۔ سوائے اس کے کہ ہمارے انگلستان کے مبلغ کے ذریعہ کسی حد تک پہنچ سکے۔ مگر میں نے یہ باتیں اس لئے بیان کر دی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ارشاد فرمایا ہے کہ تو اپنی باتیں لوگوں کو سنا دے1 اِس سے اَور نہیں تو ان پر حجت تمام ہو جائے گی۔ سو میں نے بھی یہ باتیں اس لئے بیان کر دیں تا خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا پر حجت تمام ہو جائے اور لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ انہیں وقت پر خطرات سے آگاہ نہیں کیا گیا اور وقت پر صحیح طریق اختیار کرنے کی نصیحت نہیں کی گئی۔ اور دوسرے یہ باتیں میں نے اس لئے بیان کر دی تھیں کہ قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ 2بعض دفعہ کمزور آوازیں بھی اثر پیدا کر دیا کرتی ہیں اور بعض دفعہ اس سے بھی لوگ نصیحت حاصل کر لیا کرتے ہیں۔ خدائی جماعتیں تبلیغی جماعتیں ہوتی ہیں۔ پس اگر ہماری جماعت کے لوگ بیعت کے صحیح مفہوم کو سمجھیں اور اپنے فرائض کو ادا کرنے کا خیال رکھیں تو ضروری ہے کہ امام کی آواز کو ہر احمدی خواہ وہ ہندوستان کا رہنے والا ہو یا انگلستان کا یا امریکہ کا یا افریقہ کا اور یا کسی اَور ملک کا دہرانے لگے گا اور اپنے اپنے حلقہ میں اسے پھیلانے کی پوری کوشش کرے گا اور جب ہر احمدی ایسا کرے گا تو لازمی بات ہے کہ وہ آواز ہزاروں لاکھوں سے گزر کر کروڑوں انسانوں کے کانوں تک پہنچے گی۔ اور ہماری جماعت ہندوستان میں بھی ہے، پنجاب کے اضلاع میں بھی کثرت سے ہے، سندھ میں بھی ہے، صوبہ سرحد میں بھی ہے، یوپی، بہار، سی۔پی، بمبئی، مدراس میں بھی ہے، اڑیسہ میں بھی ہے، بنگال میں بھی ہے اور آسام میں بھی ہے، مختلف ریاستوں میں بھی ہے۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ اور میری آواز کا اثر اگر غیروں پر نہیں ہو سکتا تو اپنی جماعت کے لوگوں پر تو ہو سکتا ہے اور جب جماعت کے لوگ جو ملک کے مختلف صوبوں اور ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں اگر دیانتداری سے اپنے فرضِ بیعت کو ادا کرنے والے ہوں۔ اگر ان کے تعلقات مخلصانہ ہوں اور وہ وہی آواز دہرائیں جو میرے منہ سے نکلے تو وہ آواز یقیناً لاکھوں انسانوں سے گزر کر کروڑوں کے کانوں تک پہنچ سکتی ہے۔
پھر ہمارے مبلغ اور ہماری جماعت انگلستان میں بھی ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ میں بھی مبلغ اور جماعت ہے۔ جنوبی امریکہ میں مبلغ بھی اور جماعت بھی ہے۔ فلسطین میں بھی ، شام میں بھی اور مصر میں بھی ہماری جماعت ہے۔ عراق میں بھی جماعت ہے، سوڈان میں بھی ہماری جماعت ہے۔ مغربی افریقہ کے تین اہم ملکوں میں بھی ہے اور مشرقی افریقہ کے تین اہم ملکوں میں بھی جماعت ہے۔ اور مختلف جزیروں میں بھی ہماری جماعتیں قائم ہیں۔ اور اگر یہ مبلغ اور یہ جماعتیں اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے والے ہوں تو میری آواز دنیا کے ہر ملک میں پہنچ سکتی ہے۔ مبلغ دراصل امام کا لاؤڈ سپیکر ہوتا ہے۔ جس طرح میری یہ آواز دور دور بیٹھے ہوئے لوگوں تک یوں تو نہیں پہنچ سکتی مگر یہ آلہ پہنچا دیتا ہے اِسی طرح مبلغ بھی امام کی آواز کو اُن لوگوں تک پہنچانے والا ہوتا ہے جن تک وہ براہ راست نہیں پہنچ سکتی۔ اور اگر ہمارے مبلغ اپنے فرض کو سمجھیں اور یہ محسوس کریں کہ مبلغ ہونے کی حیثیت سے ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ امام جماعت کے منہ سے جو الفاظ نکلیں ان کو ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا دیں اور اس میں زیادہ سے زیادہ اثر پیدا کرنے کی کوشش کریں تو میری آواز کا ہر جگہ پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ انگلستان، برٹش ایمپائر کے دوسرے ممالک بالخصوص ہندوستان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ میل جول رکھنے اور اس کے ساتھ صلح کرنے کے لئے پرانے جھگڑوں کو بُھلا دے اور دونوں مل کر دنیا میں آئندہ ترقیات اور امن کی بنیادوں کو مضبوط کریں اور اسی وجہ سے میں نے یہ اعلان کیا تھا۔ نہ اس لئے کہ ایک قلیل جماعت کا امام ہونے کے باوجود مجھے یہ خیال تھا کہ لوگ مجھے بڑا آدمی سمجھتے ہوئے میری نصیحت کی طرف توجہ کریں گے اور آج پھر میں اِسی مضمون کی طرف ان دونوں ممالک کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون بار بار دہرائے جانے کے قابل ہے کیونکہ دنیا کی آئندہ بہتری کا بڑا انحصار اِسی بات پر ہے۔ جہاں تک ہماری جماعت کے انگریزوں سے تعلقات کا سوال ہے لوگ ہمیں انگریزوں کا خوشامدی کہتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم ایسے نہیں۔ مگر ہم اللہ تعالیٰ کے خوشامدی ضرور ہیں۔ اور جب خداتعالیٰ کی حکمتیں اس کی مقتضی ہوں اور دنیا کی ترقیات اور دنیا کا امن انگریزوں سے وابستہ ہو اور جب خداتعالیٰ نے اس قوم کی کمزوریوں کے باوجود اس میں بہت سی خوبیاں رکھی ہوں تو ہم خداتعالیٰ کی باتوں کو کیسے ردّ کر دیں اور ان کی طرف سے اندھے کس طرح بن جائیں۔ ہماری جماعت کا تعاون ہمیشہ حکومتوں کو حاصل رہا ہے خصوصاً انگلستان کو۔ کیونکہ ہم نے قرآن کریم کی تعلیم سے یہی سمجھا ہے کہ اپنے ملک کی حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔ اس کی راہ میں ہمارے لئے مشکلات بھی پیدا ہوئیں، ہمیں نقصان بھی پہنچے مگر جماعت نے بالعموم ہر حکومت سے تعاون ہی کیا ہے۔
پس ہماری جماعت کا سوال نہیں۔ دوسروں کے جذبات اور احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے مَیں انگلستان کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں خواہ میری یہ نصیحت ہوا میں ہی اُڑ جائے۔ اور اب تو ہوا میں اُڑنے والی آواز کو بھی پکڑنے کے سامان پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ ریڈیو ہوا میں سے ہی آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے۔ پس مجھے اس صورت میں اپنی آواز کے ہوا میں اُڑ جانے کا بھی کیا خوف ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے۔ پس میں انگلستان کو نصیحت کرتا ہوں کہ اے انگلستان!تیرا فائدہ ہندوستان سے صلح کرنے میں ہے۔ خداتعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ تم دونوں مل کر کام کرو اور دونوں مل کر دنیا میں امن قائم کرو، دونوں مل کر دنیا میں صحیح آزادی کو قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بِلا وجہ ہندوستان میں نہیں بھیجا بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اس ملک سے بڑے بڑے کام لینا چاہتا ہے۔ بے شک یہ ملک ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحانی غلامی سے محروم ہے اور مذہبی طور پر ہمارے مخالف اس میں کثرت سے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بِلا وجہ اس ملک میں نہیں بھیجا۔ یہ ملک جلد یا بدیر، آج نہیں تو کل ضرور آپ کی غلامی میں آنے والا ہے۔ اس ملک کے لوگ خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان یا کسی اَور قوم و مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف آنے والے ہیں۔ اور ضرور آکر رہیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جدا نہیں رکھ سکے گی ۔ یہ ملک ایک عظیم الشان مرتبہ کو پہنچنے والا ہے اور اسے ایسی عزت ملنے والی ہے جو ہندوستانیوں کو خواب میں بھی اس سے پہلے نصیب نہیں ہوئی بلکہ یہ ملک ایسی ترقیات حاصل کرنے والا ہے جسے کسی اَور قوم نے خواب میں بھی نہیں دیکھا۔دنیا کی آئندہ ترقیات اس ملک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس اے انگلستان! تجھے خداتعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ تُو اس ملک کے ساتھ صلح کر لے اور ان ترقیات میں حصہ لے اور برکات کا وارث ہو۔ تجھ پر صدیوں اللہ تعالیٰ نے رحمتیں کی ہیں۔ مگر گزشتہ صدیاں تو خواب ہو جایا کرتی ہیں۔ تیرے لئے موقع ہے کہ تُو آئندہ صدیوں میں اپنے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے کی بنیاد رکھ لے تا تجھ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔ ایک خوش ہندوستان انگلستان کے لئے بہت بڑی برکت اور بہت بڑی طاقت کا موجب ہے۔ خوش ہندوستان میں انگلستان کے لئے امن کے زمانہ میں ایسی وسیع منڈیاں ہیں کہ اسے کہیں اَور ایسی وسیع منڈیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اور جنگ کے زمانہ میں انگلستان کو اتنی بڑی فوج کہیں سے بھی نہیں مل سکتی جتنی خوش ہندوستان دے سکتا ہے۔
عام طور پر کسی ملک کی فوجی طاقت دس بارہ فیصدی سمجھی جاتی ہے۔ مگر ہندوستان چونکہ مدتوں اسلحہ سے محروم رہا ہے اور فوجی روح عام طور پر یہاں مفقود ہے اس لئے اگر 12 فیصدی نہیں چھ فیصدی ہی سمجھیں تو اگر ہندوستان خوشی کے ساتھ تعاون کرے اور اپنے فوائد انگلستان کے فوائد کے ساتھ اور اپنی امنگیں اس کی امنگوں کے ساتھ وابستہ سمجھے تو چالیس کروڑ کی آبادی میں سے دو کروڑ چالیس لاکھ سپاہی دے سکتا ہے۔ اور اتنے سپاہی دنیا کا اور کوئی ملک نہیں دے سکتا اور کوئی حکومت اتنی بڑی فوج بہم نہیں پہنچا سکتی۔ پس ہندوستان بے شک انگلستان کے بادشاہ کے تاج کا کوہ نور ہیرا ہے مگر انگلستان کو چاہیے کہ وقت سے پہلے پہلے اس ہیرے پر پوری طرح قبضہ کر لے مگر محبت اور صلح کے ساتھ اور ہندوستان کو خوش کرکے۔
دوسری طرف میں ہندوستان کو بھی یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی انگلستان کے ساتھ اپنے پرانے اختلافات کو بُھلا دے۔ لوگ ہمیں خواہ انگریزوں کا خوشامدی کہیں خواہ چاپلوسی کرنے والے کہیں مگر اس امر کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ ایک سچائی ہے کہ انگلستان جیسا نرمی کا معاملہ اپنے ساتھ والے ملک سے کرتا ہےاس کی مثال سوائے امریکہ کے اَور کہیں نہیں مل سکتی۔ ہم نے اَور ملکوں کو پھر کر دیکھا ہے اور ہمارے مبلغوں نے دوسری حکومتوں کو دیکھا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ سوائے امریکہ کے کوئی اَور حکومت ایسی نہیں جس کے ماتحت لوگوں کو ایسے آرام اور سُکھ کے سامان میسر ہوں جیسے برطانیہ کے ماتحت ہیں۔ پس میں ہندوستان کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اے ہندوستان! پیشتر اس کے کہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں، تُو ظالم بھیڑیوں کا شکار ہو جائے یا تیرے کُھلے دروازوں میں سے غنیم3 اندر گھس آئے تُو انگلستان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا کہ یہی ملک ہے جو تیری سب سے زیادہ مدد کر سکتا ہے۔ تیری آزادی اور تیری حفاظت کے لئے اتنی قربانی کر سکتا ہے جتنی اس سے دُگنی آبادی رکھنے والے ممالک بھی کبھی کرنے کو تیار نہیں ہو سکتے۔ تاریخ میں اس کی بہت ہی کم مثالیں ہیں کہ انگلستان نے کبھی اپنے ساتھیوں کو چھوڑا ہو۔ کہا جاتاہے کہ وہ فوائد اُٹھاتا ہے مگر دنیا میں کون ہے جو فائدہ نہیں اٹھاتا؟ کیا دوست دوست سے فوائد نہیں حاصل کرتے؟ کیا مائیں اپنے بچوں سے فوائد حاصل نہیں کرتیں؟ کیا باپ اپنے بیٹوں سے اور بھائی بھائیوں سے فوائد حاصل نہیں کرتے؟ اور جب دوست دوست سے، ماں باپ اولاد سے اور بھائی بھائیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو اگر انگلستان نے ایمپائر کے دوسرے ممالک سے فوائد حاصل کرلئے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ اگر ہر قوم اور ہر ملت میں دوست دوست سے، ماں باپ اولاد سے اور بھائی بھائی سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اگر انگلستان اپنے ساتھ والے ملکوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس پر اس وجہ سے کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک وہ فائدہ اٹھاتا ہے مگر فائدہ پہنچاتا بھی تو ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خطرہ کی حالت میں جس قسم کی مدد اپنے ساتھ والے ملکوں کی انگلستان نے کی ہے کبھی کسی نے نہیں کی۔ انگلستان ہر دفعہ ایسی ہی جنگ میں کُودا ہے کہ جس میں سے اس کے بچ نکلنے کے امکانات بہت کم ہوتے تھے۔ مگرہمیشہ خداتعالیٰ نے غیر معمولی طاقتوں سے اس کی مدد کی ہے اور اسے بچا لیا ہے۔
میں نے انگریزوں کے بعض مخالفوں کے سامنے یہ بات پیش کی ہے کہ اَور باتوں کو جانے دو صرف اِتنی ہی بات بتاؤ کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں میں جب بھی انگلستان کسی جنگ میں کُودا وہ ایسے خطرات میں مبتلا ہو گیا کہ اس کے مارے جانے میں بہت کم شبہ باقی رہا مگر پھر ایسے غیر معمولی حوادث پیدا ہوئے کہ وہ بچ گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہیں کرتا تو یہ غیر معمولی حوادث کیونکر پیش آجاتے رہے ہیں۔ اسی لڑائی میں دیکھ لو۔ فرانس کے کُچلے جانے کے بعد اگر ہٹلر انگلستان پر حملہ کر دیتا تو انگلستان کے پاس اپنی حفاظت کا کوئی سامان نہ تھا حتّٰی کہ رائفلیں بھی پوری نہ تھیں۔ اور جس طرح انگریزی فوج کی پرانی رائفلیں بعض اوقات حکومت ریاستی فوجوں کو دے دیتی ہے یا پٹھانوں کے پاس فروخت کر دی جاتی ہیں اسی طرح اس انگلستان نے جو اسلحہ میں دنیا کی رہبری کر رہا تھا امریکہ سے پرانی مستعمل اور متروک رائفلیں قرض مانگیں۔ اور اس قسم کا نظارہ تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظر نہیں آتا۔ اور اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آسکتی کہ ہٹلر نے اس وقت کیوں انگلستان پر حملہ نہ کیا۔ وہ کس چیز سے ڈر رہا تھا کہ حملہ نہیں کرتا تھا۔ کہتے ہیں وہ برطانوی بحری بیڑے سے ڈرتا تھا مگر یہ بیڑا خود اس کے بعد جن حالات سے گزرا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ جرمنوں کو روکنے کے لئے کافی طاقتور نہ تھا۔ یہ صرف وہ رعب اور ڈر تھا جو خداتعالیٰ نے ہٹلر کے دل میں پیدا کر دیا اور جس کی وجہ سے اس نے انگلستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انگلستان سے ایک بہت بڑا کام لینا ہے۔ جب تک یہ اس کام کو نہ کرلے گا خداتعالیٰ اسے کمزور نہ ہونے دے گا۔ الٰہی نوشتوں نے ازل سے اس کے ذمہ ایک اتنا بڑا کام لگایا ہے کہ جتنا بڑا کام آج تک اس نے نہیں کیا۔ اور جب تک وہ اس کام کو نہ کر لے گا کوئی طاقت اسے تباہ نہیں کر سکتی۔ اور اس کام کے کر لینے کے بعد امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعائیں کی ہیں اور آپ کی پیشگوئیاں بھی ہیں اسے سچا مذہب اختیار کرنے کی توفیق دے دے گا۔ اور پھر آئندہ صدیوں تک اس طرح اسے ایک نئی زندگی مل جائے گی۔
پس یہ خیال کہ انگلستان اپنے ساتھی ممالک کے ساتھ خود غرضی کے ماتحت سلوک کرتا ہے غلط ہے۔ بے شک وہ ان ممالک سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر کون ہے جو فائدہ نہیں اٹھاتا۔ اپنے فائدہ کو تو ہر کوئی مدنظر رکھتا ہے۔ اگر ہندوستان کا تاجر انگلستان کے کسی تاجر سے کوئی چیز منگواتا ہے تو کیا اس لئے منگواتا ہے کہ نقصان اٹھائے؟ وہ اس لئے منگواتا ہے کہ اسے فائدہ حاصل ہو۔اور انگلستان کا تاجر اگر بھیجتا ہے تو اس لئے کہ اُسے فائدہ ہو۔ دونوں کے مدنظر فائدہ ہوتا ہے۔ پس یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں دونوں کو چاہیے کہ اس امر کو یاد رکھیں کہ صلح اور جنگ دونوں صورتوں میں جو فوائد انگلستان کو ہندوستان سے پہنچ سکتے ہیں وہ کسی اَور ملک سے نہیں پہنچ سکتے۔ اور ہندوستان کو جو مدد انگلستان سے مل سکتی ہے وہ کسی اَور ملک سے نہیں مل سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان بغیر ایک زبردست طاقت کی مدد کے ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ابھی اسے دسیوں سال چاہئیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے۔
پس مَیں پھر دونوں کو نصیحت کرتا ہوں باوجود یہ جاننے کے کہ اس معاملہ میں میری نصیحت ہوا میں اُڑنے والی چیز ہے۔ مگر اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ کبھی ایک کمزور آواز بھی اثر پیدا کر دیا کرتی ہے۔ اور پھر اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ سچی بات کا پہنچانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ تا قوموں پر حُجت تمام ہو سکے۔ اور بعد میں ان کے دلوں میں ندامت اور شرمندگی پیدا ہو کہ وقت پر ہم نے نصیحت کو کیوں نہ مانا۔ میں پھر یہ آواز اٹھاتا ہوں کہ انگلستان اور ہندوستان اپنے اختلافات بُھلا کر آپس میں جلد از جلد صلح کر لیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہماری جماعت کو سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں مگر یہ بات جو میں اب کہنے لگا ہوں سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی ہے۔ اور دنیا میں صلح اور امن کی بنیادوں کے قائم ہونے کا موجب ہے۔ دنیا میں صلح کی سکیم اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہندوستان کی مختلف قومیں آپس میں صلح نہ کر لیں۔ اگر انگلستان ہندوستان سے صلح کرنا بھی چاہے تو موجودہ صورت میں کس سے کرے۔ کیا ہندوؤں سے وہ صلح کرے؟ مگر کیا مسلمان ہندوستان کے باشندے نہیں ہیں؟ پھر کیا وہ مسلمانوں سے صلح کرے؟ تو کیا ہندو اس ملک میں نہیں رہتے؟
پس ضروری ہے کہ ہندوستان کی مختلف قومیں آپس میں صلح کریں۔مسلمان و ہندو، کانگرس و مسلم لیگ اور دوسری سیاسی پارٹیاں پہلے آپس میں صلح کریں۔ موجودہ حالات میں ہندوستان کی قوموں کے آپس میں اختلافات ایسی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ دماغوں کو سکون نصیب نہیں اور جب صلح کے سوال پر غور کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو غصہ میں آجاتے ہیں۔ اختلافات اتنے شدید ہیں کہ ان کو دور کرنا ہر قوم کو موت نظر آتا ہے۔ مگر بعض اہم زندگیاں بعض اعلیٰ درجہ کی زندگیاں اور بعض پائیدار زندگیاں موت سے گزرنے کے بعد ہی حاصل ہوا کرتی ہیں۔ یعنی جب تک ہندوستان کی مختلف قومیں اس موت کو قبول نہ کریں گی انہیں دائمی اور پائیدار زندگی حاصل نہیں ہو سکتی۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہندوستان کے رہنے والے یہ محسوس کریں کہ خداتعالیٰ نے ان کے لئے ترقی کے رستے کھول دیئے ہیں۔ اگر وہ آج ان سے فائدہ اٹھائے تو اسے ایسی قوت حاصل ہو سکتی ہےکہ اس کی آواز دنیا میں زیادہ سے زیادہ وزنی قرار دی جانے والی آواز بن سکتی ہے۔ وہ موقع ترقیات کا جو آج ہندوستان کو مل رہا ہے وہ اس ملک کے پہلے لوگوں کو کبھی نصیب نہیں ہوا۔ صرف ہاتھ لمبا کرنے کی دیر ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ ہاتھ کی وہ انگلیاں جو ٹوٹی ہوئی ہیں ایک دوسری کےساتھ جڑ جائیں۔ اِس وقت تو یہ حالت ہے کہ اگر ہندوستان کو ایک ہاتھ قرار دیا جائے تو اس کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ہندو، مسلمان ، سکھ، عیسائی اور دوسری قومیں اس ہاتھ کی انگلیاں ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اور تم کسی چیز کو انگلیوں کے بغیر نہیں پکڑ سکتے۔ انگلیوں پر بغیر کسی دوسرے کی مدد سے تم کسی چیز پر بوجھ تو ڈال سکتے ہو مگر کسی چیز کو پکڑ نہیں سکتے۔ پکڑنا اور گرفت کرنا انگلیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک تمام انگلیاں ہتھیلی کے ساتھ جڑ نہ جائیں اِس ملک کو وہ عظیم الشان کامیابیاں حاصل نہیں ہو سکتیں جو سامنے دکھائی دے رہی ہیں اور صرف ہاتھ بڑھانے سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ اِس وقت ہندوستان میں جو سیاسی فساد پھیلا ہوا ہے وہ ہم پر بھی اثر انداز ہوتا ہے گو ہماری جماعت سیاسی جماعت نہیں ہے اِس وقت پنجاب میں ہندو مسلم اختلافات کے علاوہ مسلمانوں میں آپس میں بھی اختلافات ہیں۔ مسلم لیگ اور زمیندارہ لیگ کا ایک نیا جھگڑا شروع ہو گیا ہے گویا پہلے جو اختلافات تھے وہ کافی نہ تھے۔ اتحاد کا جامہ جتنا چاک تھا اب اس کی دھجیاں اَور بھی اڑائی جا رہی ہیں۔ وہ دھجیاں ہماری تسلی کا موجب نہیں ہو سکتی تھیں۔ جب تک کہ جامہ کی تار تار الگ نہ ہو جائے اور اتحاد کے سُوت کا ہر دھاگا علیحدہ علیحدہ نہ ہو جائے اُس وقت تک چین نہیں آسکتا تھا۔ زمانہ تو یہ تھا کہ ہندو مسلمان اور دوسری قومیں بھی ایک دوسرے سے صلح کر لیتیں۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ مسلمان مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں اور اسی طرح خواہ اوپر سے نظر نہ آئے ہندو ہندو بھی آپس میں پھٹ رہے ہیں۔ اور اتحاد کی طرف قدم اٹھانے کے بجائے اختلافات کو بڑھایا جار ہا ہے۔
ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے اور ہمارا کام سیاسی خیالات کو تقویت دینا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اگر سیاست کے خیالات ہمارے دل میں پیدا ہوں تو ان کو کُچل دیں۔ مگر ہم پر بھی یہ اختلافات اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ ایک طرف سے مجھے خط آتا ہے کہ بعض لوگ آتے اور ہم پر زور دیتے ہیں کہ مسلم لیگ میں شامل ہو جاؤ۔ بتائیں ہم کیا جواب دیں؟ اور دوسری طرف سے خط آتا ہے کہ سرکاری افسر بلاتے ہیں وزراء آتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ زمیندارہ لیگ میں شامل ہو جاؤ۔ ہم ان کو کیا جواب دیں؟ گویا ہم سیاسیات سے بھاگتے ہیں اور سیاسیات ہماری طرف بھاگی آتی ہیں۔ بعض دفعہ انگریز حکام نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ کی جماعت کو سیاسیات سے کیا واسطہ؟ کشمیر کی تحریک کے دنوں میں لارڈ ولنگڈن نے خو دمجھے کہا کہ آپ کی جماعت مذہبی ہے آپ کو سیاسیات سے کیا واسطہ ہے؟ اور اس میں شک نہیں کہ ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے اور خدا کرے کہ ہماری توجہات اور کسی طرف نہ پھریں۔ ہم اگر کسی اَور طرف متوجہ ہوں تو یہ بہت بڑی کمزوری ہو گی۔ بلکہ بڑی غداری اور بے ایمانی ہو گی اگر ہم اپنی توجہات کو کسی اَور طرف پھیریں۔ مگر ہم اس بات کا کیا علاج کریں کہ ہم بھی اِسی دنیا میں رہتے ہیں۔ اور ہماری مثال وہی ہے جو کہتے ہیں کہ دو آدمی نہر کے کنارے جا رہے تھے ایک نے کہا وہ دیکھو کسی کا کمبل نہر میں گر گیا ہے اور بہتا جارہا ہے۔ دوسرے نے اسے پکڑنے کے لئے نہر میں چھلانگ لگا دی کہ اسے لے آئے۔ مگر اس کی بدقسمتی سے وہ کمبل نہ تھا بلکہ سردی سے ٹھٹھرا ہوا ریچھ تھا جو بہا جارہا تھا اور اس کی کھال تھی جسے کمبل سمجھ لیا گیا۔ اس آدمی نے جب اسے پکڑ کر کھینچنا چاہا تو بجائے اِس کے کہ وہ اُس کی طرف کھنچتا ریچھ نے اسے اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ جب دیر ہو گئی تو اس کے ساتھی نے آواز دی کہ اگر کمبل نہیں کھینچا جاتا تو اسے چھوڑ دو اور واپس آجاؤ سفر خراب ہوتا ہے۔ اس پر اس ساتھی نے کہا کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ یہی حالت ہماری ہے ہم تو سیاسیات کو چھوڑتے ہیں مگر وہ ہمیں نہیں چھوڑتیں۔ ہمارے آدمی مختلف مقامات پر رہتے ہیں کبھی مسلم لیگ والے آکر ان کی گردن پکڑتے اور کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل جاؤ اور کبھی زمیندارہ لیگ والے آکر ان کو کھینچتے ہیں کہ ہم میں شامل ہو جاؤ۔ اور اس کا علاج یہی ہے کہ ان میں باہم صلح ہو جائے اور ہم کہیں کہ تم اپنے گھر میں خوش رہو اور ہمیں آرام سے تبلیغ کا کام کرنے دو۔ جب تک یہ صلح نہ ہو گی ہمارے دوستوں کے لئے جو مختلف دیہات و قصبات اور شہروں میں رہتے ہیں مصیبت ہی مصیبت ہے۔ اِس وقت تو یہ حالت ہے کہ ہم تو کمبل کو چھوڑتے ہیں مگر کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا۔
پس میں نے جو آواز بلند کی ہے اگر کوئی احمدی اپنے حلقہ میں کوئی رسوخ رکھتا ہے تو اسے یہی کام کرنا چاہیے کہ اِسی آواز کو بلند کرے اور ہر ایک سے کہے کہ آپس میں صلح کر لو یہ لڑائی کے دن نہیں ہیں۔ اور خوش قسمت ہے وہ شخص جسے کوئی رسوخ حاصل ہو اور وہ اس سے کام لے کر صلح کرانے کی کوشش کرے۔ جو کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالے گا میری دعائیں اُس کے ساتھ ہوں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا وارث ہو گا۔ ہمیں خود بھی ملک میں ایسی فضا کی ضرورت ہے جو سکون کی فضا ہو اور جو ہماری تبلیغی سکیم کی کامیابی میں مُمد ہو سکے۔ وہ زمانہ اب گزر گیا جب مذہبی جماعتیں ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی تھیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے ہمارے تبلیغ کے دائرہ کو اتنا وسیع کر دیا ہے کہ دشمن کے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ اب اللہ تعالیٰ نے سب جگہ تبلیغ کے رستے کھول دیئے ہیں اور ہم اب ایک سمجھدار جرنیل کی طرح جو جب دیکھتا ہے کہ ایک محاذ پر دشمن کا مقابلہ شدت اختیار کر گیا ہے تو دوسری طرف اپنا حملہ تیز کر دیتا ہے کام کر سکتے ہیں۔ جب ایک جگہ دشمن حملہ کرے تو ہم رُخ دوسری طرف بدل سکتے ہیں تو یوں ہمیں تبلیغی لحاظ سے مشکلات نہیں ہیں۔ اب نئی قسم کی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اور وہ یہ کہ ہر ایک ہم کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور جب ہم اس کی طرف نہیں جاتے تو وہ ناراض ہوتا اور ہم کوکمّی قرا دیتا ہے۔ حالانکہ مذہبی لحاظ سے اس میں کوئی شرم کی بات نہیں اور کوئی ہتک نہیں کہ ہم کہیں ہم تو ہر ایک کے کمّی ہیں اور ہر ایک کی خدمت کرنا ہمارا کام ہے۔ ہم زمیندارہ لیگ کے بھی کمّی ہیں اور مسلم لیگ کے بھی کمّی ہیں۔ ہم کانگرس والوں کے بھی کمّی ہیں اور ہندو مہاسبھا والوں کے بھی اور سکھوں و عیسائیوں کے بھی۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے ہمیں سب کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس میں ہمارے لئے عزت ہے کہ سب کی خدمت کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک پرانے صحابی جو ایک زمانہ دیکھے ہوئے تھے اور زمانہ شناس تھے یعنی مولوی برہان الدین صاحب ایک دفعہ گاڑی میں سوار ہونے لگے۔ وہ سادہ طریق کے آدمی تھے معمولی تہہ بند باندھا کرتے تھے اور پھٹا سا کُرتہ اور اوپر معمولی سی لوئی اوڑھے ہوتے تھے۔ گاڑی میں بھیڑ بہت تھی وہ سوار ہونے لگے تو لوگوں نے روکا۔ انہوں نے کہا کہ تھوڑی دور جانا ہے جلدی اُتر جاؤں گا سوار ہو لینے دو۔ آخر لوگوں نے انہیں سوار ہونے دیا۔ جب وہ سوار ہو گئے تو کسی نے ان سےپوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم تو سب کے کمّی ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ تھا کہ ہم احمدی ہیں اور ہمارا کام یہ ہے کہ ہر ایک کی خدمت کریں۔ مگر لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ شخص چوہڑا ہے اور ہندؤوں کو چوہڑوں وغیرہ ادنیٰ درجہ کے لوگوں سے جو نفرت ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب ہندو یہ لفظ سنتے ہی دُور دُور کِھسک گئے اور تمام بنچ خالی ہو گیا اور مولوی برہان الدین صاحب بڑے مزے سے سوتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ گئے۔ تو یہ حقیقت ہے کہ ہماری عزت اور ہماری ترقی دنیا کی خدمت میں ہی ہے۔ ہمیں روحانی طور پر دنیا کی خدمت کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو بھی اور دنیا کے دوسرے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملا دیں تا دنیا کے لوگوں کے دلوں سےظلم اور تاریکی دور ہو اور ہمارے اپنے دلوں سے بھی دور ہو۔ ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اپنی بھی اصلاح ہو، ہمسایہ کی بھی اصلاح ہو اور اپنے وطن اور اپنے براعظم اور تمام دنیا کے لوگوں کی اصلاح ہو۔ دنیا کے سب انسانوں کا گند اُٹھانا اور میل کو دُور کرنا ہمارا کام ہے۔ اگر دنیا ہمیں اس کام میں مشغول رہنے دے اور حکومتیں اور بادشاہتیں اپنے پاس رکھے تو ہم سمجھیں گے کہ اس خدمت کا موقع دے کر اس نے ہمیں بادشاہت اور حکومت دے دی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کی تعلیم کے پھیلے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی ہیں اصل حکومت انہی کی ہے۔ وہ قلعہ جس میں دنیا کو امن مل سکتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو صرف اس کا دروازہ کھولنے والے ہیں۔ دنیا اس امن کے قلعہ سے ناواقف تھی اور ا س امن کے حصار سے باہر تھی اور اسی جگہ کھڑی تھی جہاں اسے درندے کھانے والے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اس حصارِ امن کے دروازے کھول دیئے۔ پس بادشاہت اسی آقا کی ہے جو قرآن کریم دنیا میں لایا اور ہم سب بشمولیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی آقا کے خادم ہیں۔ اگر ہم اپنے حقِ خدمت کو دیانتداری سے ادا کریں اور وہ فرض سرانجام دیں جو خداتعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگایا ہے تو خداتعالیٰ کے حضور عزت کے مستحق ہوں گے۔ لیکن اگر ہم اسے ادا نہ کر سکیں تو خداتعالیٰ ہم پر رحم کرے۔ کیونکہ دنیا نے تو ہمیں دھتکار دیا اگر خداتعالیٰ بھی دھتکار دے تو ہمارا ٹھکانا کہاں ہو گا۔
پس یہ نیا سال جو شروع ہوا ہے اس میں مَیں نے صلح کی آواز بلند کی ہے۔ ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسے ہر ملک ہر شہر ہر گاؤں ہر گھر بلکہ ہر ایک کمرہ اور ہر ایک آدمی تک اسے پہنچائے تا یہ دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچ جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صلح کا شہزادہ قرا دیا ہے۔ اور ہم بھی جو آپ کی روحانی اولاد ہیں صلح کے شہزادے ہیں۔ جو اولاد باپ کی صورت پر نہ ہو وہ اس کے نطفہ سے نہیں سمجھی جاتی۔ پس ہر احمدی جو صلح کا شہزادہ بننے کی کوش نہیں کرتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سچا خادم نہیں۔اور آپ کی روحانی اولاد نہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صلح سے میری مراد وہ صلح نہیں جو عقائد کو قربان کر کے کی جائے۔ جو خداتعالیٰ نے سمجھایا ہے اس پر قائم رہنا ہر ایک کا فرض ہے۔ گو ہم کمزور ہیں، گو ہم میں سے بعض کے لئے دکھوں کی برداشت مشکل ہوتی ہے مگر ہم خداتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسا ایمان بخشے کہ اگر ہمارا ذرہ ذرہ آروں سے چِیر دیا جائے اور ہماری ہڈیاں ہتھوڑوں سے توڑ دی جائیں پھر بھی ہم ایمان کو نہ چھوڑیں اور ہماری زبانوں پر اُسی کا نام ہو۔ پس ہم وہ صلح چاہتے ہیں جو امن و اطمینان کا موجب ہو مگر جس میں حریتِ ضمیر قائم رہے۔
مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک دفعہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی میرے پاس آئے اور کہا کہ خواجہ کمال الدین صاحب صلح کرنا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لئے انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپس میں صلح ہو جائے۔ یہ خلیفہ اول کا زمانہ تھا۔ خواجہ صاحب ابھی ولایت نہ گئے تھے اور مسئلہ خلافت کے بارہ میں اختلاف پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ شیخ صاحب نے مجھے کہا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے اور صلح کا عمدہ موقع ہے ان کے اپنے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے ضرور صلح کر لینی چاہیے۔ میں نے کہا شیخ صاحب! صلح واقعی بہت اچھی چیز ہے میں بھی بہت خوش ہوں گا اگر جھگڑا مٹ جائے۔ مگر شیخ صاحب اگر تو جھگڑا کسی دنیوی امر کے بارہ میں ہے تو آپ خواجہ صاحب کو جا کر کہیں کہ وہ جو کچھ بھی لکھ دیں گے میں اُس پر دستخط کر دوں گا اور مان لوں گا۔ لیکن اگر اختلاف مذہبی عقائد کا ہے تو چاہے زمین و آسمان ٹل جائیں میں جب تک ایک عقیدہ کو درست سمجھتا ہوں اُسے ہرگز چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں گا۔ تو صلح وہی ہے جو خداتعالیٰ سے صلح کرا دے۔ یوں تو ہمارے پاس کوئی ریاست بھی نہیں لیکن اگر بادشاہتیں بھی ہوں تو ہم ان کو بڑی خوشی سے چھوڑ دیں گے لیکن وہ عقیدہ ہرگز نہ چھوڑیں گے جس پر خداتعالیٰ نے ہمیں قائم کیا ہو۔
پس میں اپنی طرف سے دنیا کو صلح کا پیغام دیتا ہوں۔ میں انگلستان کو دعوت دیتا ہوں کہ آؤ اور ہندوستان سے صلح کر لو۔ اور میں ہندوستان کو دعوت دیتا ہوں کہ جاؤ اور انگلستان سے صلح کر لو۔ اور میں ہندوستان کی ہر قوم کو دعوت دیتا ہوں اور پورے ادب و احترام کے ساتھ دعوت دیتا ہوں بلکہ لجاجت اور خوشامد سے ہر ایک کو دعوت دیتا ہوں کہ آپس میں صلح کر لو۔ اور میں ہر قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ جہاں تک دنیوی تعاون کا تعلق ہے ہم ان کی باہمی صلح اور محبت کے لئے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ اور میں دنیا کی ہر قوم کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ہم کسی کے دشمن نہیں۔ ہم کانگرس کے بھی دشمن نہیں۔ ہم ہندو مہا سبھا والوں کے بھی دشمن نہیں۔ مسلم لیگ والوں کے بھی دشمن نہیں۔اور زمیندارہ لیگ والوں کے بھی نہیں اور خاکساروں کے بھی دشمن نہیں۔ اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ ہم تو احراریوں کے بھی دشمن نہیں ہیں۔ ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور ہم صرف ان کی ان باتوں کو برا مناتے ہیں جو دین میں دخل اندازی کرنے والی ہوتی ہیں ورنہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں۔ اور ہم سب سےکہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دو کہ ہم خداتعالیٰ کی اور اس کی مخلوق کی خدمت کریں۔ ساری دنیا سیاسیات میں اُلجھی ہوئی ہے اگر ہم چند لوگ اس سے علیحدہ رہیں اور مذہب کی تبلیغ کا کام کریں تو دنیا کا کیا نقصان ہو جائے گا۔ ہم سیاسیات میں ہرگز دخل دینا نہیں چاہتے۔ احرار سے ہمارے اختلاف کی بنیاد تحریکِ کشمیر ہی تھی۔ مگر اس میں مَیں نے صرف اس لئے حصہ لیا تھا کہ اہلِ کشمیر انسانی حقوق سے محروم تھے۔ لارڈ ولنگڈن نے مجھے کہا کہ آپ کی جماعت مذہبی ہے آپ سیاسیات میں کیوں حصہ لیتے ہیں؟ تو مَیں نے ان سے کہا کہ ہم سیاسیات میں حصہ نہیں لیتے جب تک اہلِ کشمیر کا مطالبہ انسانی حقوق حاصل کرنے کا ہے میں اس تحریک میں حصہ لوں گا۔ اور جب یہ حقوق ان کو مل گئے تو میں اس میں حصہ لینا چھوڑ دوں گا۔ میرے پاس بعض اور ریاستوں کی طرف سے بھی آدمی آئے۔ بعض رؤساء کے آپس میں جھگڑے تھے۔ بعض کی طرف سے میرے پاس آدمی آئے کہ ہمارے پاس فلاں فلاں سامان موجود ہیں جو ہم آپ کو دیں گے آپ کے کام کرنے والے آدمیوں کےاخراجات بھی دیں گے آپ تحریک چلائیں۔ مگر میں نے انہیں یہی جواب دیا کہ میں تو کفر مار ہوں ریاست مار نہیں ہوں۔ میں نے تو کشمیر کی تحریک میں اگر ہاتھ ڈالا ہے تو صرف اس لئے کہ اہلِ کشمیر ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ جب یہ حقوق ان کو مل گئے تو کسی سیاسی تحریک سے میرا کوئی واسطہ نہ ہو گا۔ مگر بعض لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ سیاسیات کے میدان میں آگئے ہیں اور ان کی لیڈریاں خطرہ میں ہیں۔ حالانکہ یہ بات نہ تھی۔ ہمارا سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں یہ تو صرف ابتدائی انسانی حقوق کے حصول کا سوال تھا جس کے لئے میں نے کشمیر کی تحریک میں حصہ لیا۔ اور اہلِ کشمیر کو بہت سے حقوق مل بھی گئے اور ابھی باقی ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ بغیر اس کے کہ اللہ تعالیٰ کوئی اَور رَو چلائے مہاراجہ صاحب خود ہی انصاف سے کام لیتے ہوئے یہ حقوق اپنی رعایا کو دے دیں گے۔ ایک تو مذہب کی تبدیلی کا حق ہے جو ملنا چاہیے۔یہ بعض اور ریاستوں میں بھی نہیں۔ مگر یہ بہت ہی ناواجب بات ہے یہ گویا حریتِ ضمیر میں دخل اندازی ہے اور انسانیت کو کچلنے والی بات ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ مہاراجہ صاحب کشمیر خود ہی اپنی نیکی اور صلاحیت کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ حق اپنی رعایا کو دے دیں گے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ وہاں ذبیحہ گاؤ پر بہت شدید سزا دی جاتی ہے اس جرم کی جو سزا وہاں مقرر ہے وہ حد سے زیادہ ہے۔ اس میں بھی اول تو منسوخی ورنہ کم سے کم نرمی کا پہلو انہیں اختیار کرنا چاہیے۔ تا جولوگ بعض دفعہ مجبوریوں کے ماتحت ایسا کرتے ہیں سخت سزا پانے سے محفوظ رہیں۔
بہرحال یہ احرار کی غلطی تھی کہ انہوں نے سمجھا کہ میں سیاسیات کے میدان میں آنا چاہتا ہوں۔ ہمارا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کام کانگرس، احرار، مسلم لیگ، زمیندارہ لیگ، خاکساروں اور دوسری جماعتوں کو مبارک ہو۔ ہم اپنے حال میں خوش ہیں اورسوائے تبلیغی کام کے ہمیں کسی اور طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ پس میں ہر ایک قوم سے یہی کہتا ہوں کہ ہمیں کسی سے کوئی عِناد نہیں، کوئی دشمنی نہیں اور کوئی بُغض نہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے اور اب پھر کہتا ہوں کہ میں نے اپنے دل کو کئی بار ٹٹولا ہے اور دیکھا ہے کہ ہمارے سلسلہ کے سب سے دیرینہ مخالف مولوی ثناء اللہ صاحب ہیں۔ کیا میرے دل میں ان کی عداوت ہے؟ مگر خداتعالیٰ جانتا ہے کہ مَیں نے اپنے دل میں ان کے لئے بھی کوئی عداوت محسوس نہیں کی۔ میں نے آج تک ہر ایک کی عداوت سے اپنے آپ کو بچایا ہے۔ میں کسی کابھی دشمن نہیں گو ساری دنیا میری دشمن ہے۔ مگر مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ اس میں میرے لئے خداتعالیٰ کے عفو اور غفران کی علامت ہے کیونکہ جو کسی کا دشمن نہ ہو پھر بھی اُس سے دشمنی کی جائے تو خداتعالیٰ اس کے گناہوں کے بخشنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔
تو میں نے کہا ہے کہ سیاسیات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں مگر صلح کی بات سیاسیات سے نہیں بلکہ اخلاقیات سے تعلق رکھتی ہے اور ہر احمدی کا فرض ہے کہ مختلف اقوام میں صلح کرانے کی کوشش کرے اور جو لوگ ایسے مقام پر ہیں کہ ان کو کوئی عزت حاصل ہے وہ اگر سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی عزتیں جاتی رہیں گی تو میں ان سے کہوں گا کہ خدا کے لئے ان عزتوں کو جانےدو۔ جب تک تم ان عزتوں کو نہ چھوڑ و گے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کھوئی ہوئی عزت واپس نہیں آسکتی۔ اگر تم بھی دنیا کے کاموں میں لگ گئے تو یہ کام کون کرے گا ۔ اگر تم میں سے کوئی ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کا صدر نہ بنے تو اور ہزاروں ہیں جو بڑے شوق سے بن جائیں گے۔ اگر تم میں سے کوئی زمیندارہ لیگ کا سیکرٹری نہ بنے تو اور ہزاروں لوگ ہوں گے جو اس پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہیں گے اور اس میں اپنے لئے بہت بڑی عزت اور فخر محسوس کریں گے۔ لیکن اگر تم ان کاموں میں لگ گئے تو خداورسول( ﷺ) کا کام کون کرے گا۔ پس ان عزتوں کو جو دنیا کی چند روزہ عزتیں ہیں جانے دو۔ تا محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) کی کھوئی ہوئی عزت واپس آئے۔ آخر اِس دنیا کی زندگی اگلے جہان کی زندگی کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا رکھتی ہے کہ کوئی خیال کرے کہ اگر اس دنیا میں مجھے عزت نہ ملی تو میری زندگی برباد ہو جائے گی۔ اِس دنیا کی زندگی اور اگلے جہان کی زندگی میں اتنی نسبت بھی تونہیں جتنی کہ ایک آدمی اپنی پچاس ساٹھ سالہ عمر میں ایک دفعہ پاخانہ جاتا ہے اوروہاں پاخانہ پونچھتا اور اسے دھوتا ہے ۔کیا یہ وقت جو پاخانہ صاف کرنے اور دھونے پر لگاتا ہے اس کی وجہ سے وہ کہہ سکتا ہے اس کی زندگی برباد ہو گئی؟ اس دنیا کی زندگی آخرت کی غیر محدود زندگی کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی جتنی کہ ایک آدمی کی زندگی میں ایک دفعہ پاخانہ جانے میں جو وقت صَرف ہوتا ہے۔ پس اگر اس زندگی میں خداتعالیٰ کے لئے کسی کو کسی عزت سے محروم بھی رہنا پڑے تو اس میں گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں۔ گھبراہٹ اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ اگلی زندگی پر ایمان نہیں ہوتا۔ اس غیر محدودزندگی کے مقابلہ میں چالیس یا پچاس سال کی زندگی کی حیثیت تو اتنی بھی نہیں جتنا کہ ایک دفعہ آدمی کا طہارت کرنے پر وقت صَرف ہوتا ہے۔ اور یہ وقت بادشاہ بھی صَرف کرتے ہیں اور غلام بھی۔ پھر اگر اس دنیا میں عزتیں نہ ملیں تو کیوں کوئی یہ خیال کرے کہ اس کی زندگی برباد ہو گئی۔
میں خدام الاحمدیہ سے بھی اور انصار اللہ سے بھی یہ کہتا ہوں کہ میں نے ان کو سیاسیات سے الگ رہنے کا حکم دیا ہوا ہے مگر یہ آواز جو میں نے بلند کی ہے اس کا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اخلاقیات سے ہے۔پس وہ جہاں بھی جائیں اور جہاں بھی انہیں موقع ملےاس آواز کو دہرائیں اور ہر قوم کے لوگوں سے یہی کہیں کہ صلح کر لو۔ محبت کےساتھ اپنےاختلافات طے کر لو۔ کانگرس، مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا، زمیندارہ لیگ، اکالی، خاکسار سب کے لئے ان کے پاس یہی الفاظ ہوں اور وہ سب کو یہی کہیں کہ آپس کے جھگڑے محبت کےساتھ طے کر لو۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ صلح کر لو اور پھر ہمیں چھوڑ دو کہ ہم تبلیغ دین کا کام کریں۔ اس مضمون کا دوسرا حصہ بھی ہے مگر اب وقت اتنا ہو گیا ہے کہ اگر میں نے فورًا نماز نہ پڑھائی تو عصر کا وقت ہو جائے گا اس لئے میں اس خطبہ کو اسی پر ختم کرتا ہوں۔ اس کا دوسرا حصہ ا گر خداتعالیٰ نے توفیق دی اور زندہ رہا تو انشاء اللہ اگلے جمعہ میں بیان کروں گا’’۔
(الفضل مورخہ 17جنوری 1945ء)
1: يٰۤاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ )المائدۃ: 68 (
2: القصص:47
3:غنیم: لٹیرا ، ڈاکو،دشمن
3
اپنی اولادیں خدمت دین کےلئے خدا کے سپرد کردو
(فرمودہ 19جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ سیاسی حالات کے لحاظ سے یہ وقت ایسا ہےکہ ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی آپس میں صلح کر لینی چاہیے۔ اور ہندوستان اور انگلستان کو بھی باہمی سمجھوتہ کر لینا چاہیے۔ اور میں نے بتایا تھا کہ ہماری جماعت کو چونکہ سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں اس لئے جہاں میں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں آپس میں سمجھوتہ کرنے کی کوئی صورت نکالیں وہاں میں ان سیاسی پارٹیوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کو وہ سیاسیات سے الگ رہنے دیں۔ کیونکہ ہمارا کام مذہبی ہے اور ہم اپنی زندگیاں اس مطمح نظر کے لئے وقف کر چکے ہیں جو مطمح نظر ہمارے ایمان اور ہمارے یقین کےمطابق خداتعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ دشمن ہمارے عقیدہ اور ہمارے خیال کو تسلیم کرے یا نہ کرے، لوگ ہماری باتوں کو مانیں یا نہ مانیں بہرحال اس بات کو تو وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر انسان اپنےعقیدہ کے مطابق عمل کرتا ہے۔ پس جبکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی روحانی اور اخلاقی زندگی کا کام ہمارے سپرد کیا ہے تو سیاسی پارٹیوں کو ہماری جماعت پر زور نہیں ڈالنا چاہیے کہ ہم اپنے اس مقصد کو بُھلا کر جو خداتعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اپنی توجہ کسی اَور طرف پھیردیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ ملازمتیں بھی کرتے ہیں، ہماری جماعت کے لوگ تجارتیں بھی کرتے ہیں،ہماری جماعت لوگ صنعت وحرفت بھی کرتے ہیں، ہماری جماعت کے لوگ زمینداریاں بھی کرتے ہیں اور ہماری جماعت کے لوگ مزدوریاں بھی کرتے ہیں۔ سب کچھ کرتے ہیں لیکن دنیا میں اگر ایک کام مجبوری کےطور پر اور گزارے کے لئے کیا جائے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ چونکہ اصل مقصد کے سوا تم اپنے گزارے کے لئے کام کرتے ہو اس لئے کوئی اَور کام بھی کرو۔ انسان صرف ایک حد تک ہی اپنے اوقات اور اپنی قوتیں خرچ کر سکتا ہے۔ ایک شخص اگر اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے گزارہ کے لئے اپنے اوقات کا ایک حصہ دنیا کمانے پر صَرف کرتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ دنیا کے اَور بھی تمام کام کر سکتا ہے۔ یہ بات ہی غلط ہے کہ ہر انسان، ہر ڈاکٹر،ہر طبیب، ہر صناع، ہر تاجر، ہر زمیندار اور ہر مزدور اپنے گزارہ کے لئے کام کرنے کے علاوہ دوسرے سارے کام بھی کر سکتا ہے۔ پس کسی ایک کام کو معیشت کمانے کے لئے اختیار کرنا اَور بات ہے لیکن یہ کہ ہر شخص دنیا کے سارے کاموں میں حصہ لے یہ بالکل اَور بات ہے۔
پس ہماری جماعت کے سامنے جو مقصد ہے اس کو پورا کرنے کے لئے اسے سیاسیات اور اس قسم کے دوسرے تمام کاموں سے الگ رہنا چاہیے۔ جو کام انسان کے اوقات کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اسے اہم کام کے قابل نہیں رہنے دیتے۔ سیاسی لوگ سیاسیات میں ہی حصہ لے سکتے ہیں، تعلیم والے تعلیم دینے پر ہی اپنے اوقات صَرف کر سکتے ہیں۔ اور پیشہ ور اپنے پیشہ میں ہی وقت لگا سکتے ہیں اور کسی دوسرے کام کے لئے وقت نکالنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ اگرممکن ہو سکتا تو ہماری جماعت کو پورے طور پر دین کے کاموں میں لگ جانا چاہیے تھا۔ لیکن چونکہ یہ ناممکن ہے اور ہمارے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ ہر انسان کے کھانے پینے اور اس کے گزارہ کا ہم انتظام کر سکیں اور اپنی اس کمزوری کا ہمیں اقرار ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی وہ ایمان پید انہیں ہوا کہ ہر شخص کھانے پینے اور اپنی دوسری دنیوی ضروریات سے بے نیاز ہو کر دین کے کاموں میں لگ جائے۔ اس لئے مجبورً اہماری جماعت کے لوگوں کو کچھ اس کمزوری کی وجہ سے اور کچھ خدائی قانون کے ماتحت اپنے گزارہ کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اس کے علاوہ وہ سارے کے سارے اَور کاموں میں بھی لگ جائیں تو اتنی وسیع دنیا میں تبلیغ کا کام کس طرح ہو سکے گا۔ اگر ہم ایمان میں پختہ ہیں، اگر ہمارے اندر یقین اور وثوق ہے، اگر ہم نے دین کا کام کرنا ہے جس کا ہم منہ سے دعویٰ کرتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ جب تک ہم اپنے اوقات دین کی خدمت کے لئے نہ لگائیں گے اُس وقت تک ہمارے منہ کے کہنے سے کچھ نہیں بن سکتا اور ہم اس کام سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے ۔
کسی شخص کا ہماری جماعت سے یہ خواہش کرنا کہ ہم سیاسیات میں دخل دیں اور کسی احمدی کا یہ خیال کرنا کہ علاوہ اپنی روزی کمانے کے اور دین کا کام کرنے کے وہ سیاسیات اور دوسرے کاموں کے لئے بھی وقت نکال سکتاہے یہ بالکل غلط ہے۔ اگر واقع میں ایک احمدی سنجیدگی سے غور کرے تو اس کو اپنے تمام اوقات ضرورت کے مطابق اپنی روزی کمانے کے لئے اور باقی دین کے کاموں کے لئے صَرف کرنے چاہئیں۔ آج کل تو کام اتنے ہیں کہ انسان اپنے دنیوی کاموں سے ہی فارغ نہیں ہوتا اور اسے اپنے کام میں اتنی محنت کرنی پڑتی ہے کہ اس کی جان نکل رہی ہوتی ہے۔ پہلے زمانہ میں اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ لیکن اِس زمانہ میں ہر کام میں مقابلہ ہے۔ پہلے زمانہ میں دکاندار دکان پر بیٹھے مکھیاں مارتے تھے لیکن اِس زمانہ میں دکاندار کو اتنی محنت سے کام کرنا پڑتا ہے کہ شام کو جب وہ اپنے کام سے واپس آتا ہے تو تھک کر نڈھال ہو چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح پہلے زمانہ میں ملازمین دفتروں میں بیٹھے قلمیں گھڑتے رہتے تھے لیکن اب یہ بات نہیں بلکہ اب ایک ملازم کو مسلسل چھ سات گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اور جب وہ واپس آتا ہے تو کام کی وجہ سے اتنا چُور ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے کچھ دیر آرام کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ وقت اسے گھر کےلیے سَودا سلف لانے پر بھی صَرف کرنا پڑتا ہے۔ پھر اگر دین کے لئے کوئی کام کرنے کی بجائے وہ کسی اَور کام کے لئے چلا جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا کیوں ہے۔ آخر اس نے دین کو کیا فائدہ پہنچایا ہے کہ وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے۔ اگر یہ نوکری کرتاہے تو اس کی طاقت تو اس کی نوکری نے سلب کر لی، اگر یہ پیشہ ور ہے تو اس کی طاقت تو اس کے پیشہ نے سلب کر لی، اگریہ مزدور ہے تو اس کی طاقت تو اس کی مزدوری نے سلب کر لی اور اگر یہ زمیندار ہے تو اس کی طاقت تو اس کی زمینداری اور اس کے ہل چلانے نے سلب کر لی۔ اور یہ اپنے کام سے چُور ہو کر تھکا ماندہ گھر آتا ہے۔ اب اگر کھانے پینے ، آرام کرنے اور سونے کے بعد اس کے پاس گھنٹہ دو گھنٹے نہایت قلیل وقت بچتا ہے جس میں یہ دین کا کوئی کام کر سکے۔ لیکن یہ اُس وقت کو بھی کسی اَور کام میں صَرف کر دیتا ہے تو پھر اسکا اپنے آپ کو احمدی کہنا کیا معنے رکھتا ہے۔ جب اس کے اوقات میں خداتعالیٰ کا کوئی خانہ خالی ہی نہیں تو پھر اس کو خدا کے سپاہیوں میں داخل ہونے کی ضرورت کیا ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ احمدیوں میں ابھی کئی ہیں جن کا ایمان راسخ نہیں کہ وہ اپنے اوقات دین کے لئے صَرف کریں۔ اگران سے پوچھا جائے کہ آپ نے دین کا کیا کام کیا ہے تو ان میں سے بمشکل پانچ فیصدی یا دو فیصدی ایسے ہوں گے جو یہ کہیں کہ ہم نے دین کا فلاں کام کیا ہے۔ باقی سارے کے سارے ایسے ہوں گے جویہ کہیں گے کہ جی فرصت ہی نہیں ملتی کہ کوئی کام کریں۔ پس اول تو یہی حالت نہایت خطرناک ہے کہ جماعت کےا کثر افراد ایسے ہیں جو دین کی خدمت کے لئے وقت نہیں نکال رہے۔ لیکن جو اپنا کچھ وقت دین کی خدمت کے لئے نکال رہے ہیں وہ بھی اگر اپنی توجہ اَور کاموں کی طرف پھیر دیں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ جماعت میں دین کا کام کرنے والا کوئی نہ رہے اور اس کام کے لئے صرف مبلغ رہ جائیں۔ اور جو شخص یہ خیال کرتاہے کہ دین کا کام صرف مبلغوں کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے اُس کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ مبلغ تبلیغ نہیں کرتا تبلیغ کے لئے رستہ صاف کرتاہے۔ مبلغ تبلیغ نہیں کرتا بلکہ تبلیغ کے لئے مصالحہ بہم پہنچاتا ہے۔ تبلیغ کرنے والا جماعت کا ہر فرد ہے۔ رشتہ دار اپنے رشتہ دار کو تبلیغ کر سکتا ہے۔ ہمسایہ اپنے ہمسایہ کو تبلیغ کر سکتا ہے۔ دوست اپنے دوست کو تبلیغ کرسکتاہے لیکن ایک اجنبی دوسرے اجنبی کو کیا تبلیغ کرے گا۔
میں نے بارہا جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس جا کر بیٹھ جائیں اور ان سے جا کر کہیں کہ ہم یہاں سے اُس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک ہم آپ کو اپنی جماعت میں داخل نہ کر لیں اور آپ کو ہدایت نصیب نہ ہو جائے اور یا آپ ہم پر ثابت نہ کر دیں کہ ہم غلط راستہ پر جارہے ہیں۔ اور وہ اپنے اوپر کھانا پینا حرام کر لیتے اور اپنے رشتہ داروں سے جا کر کہتے کہ یا ہم مر جائیں گے اور یا آپ کو ہدایت منوا کر رہیں گے۔ مگر جماعت میں کتنے افراد ہیں جنہوں نے یہ کام کیا ہے؟ بہت ہی کم ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ کی ہے۔ اگر وہ اس طرف توجہ کرتے اور اس طریق پر عمل کرتے تو بہت اچھے نتائج پید اہو سکتے تھے۔ آج ہی مجھے ایک احمدی کا خط آیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ آپ کی بات پر عمل کرتے ہوئے میں اپنے رشتہ داروں کے پاس چلا گیا جو دو میاں بیوی تھے۔ اور ان سے جاکر کہا کہ میں یہاں سے اُس وقت تک نہیں ہِلوں گا جب تک آپ کو ہدایت نہ منوا لوں۔ اب میں یہاں سے تب جاؤں گا کہ یا تو آپ مجھ پر واضح کر دیں کہ میں غلط راستہ پر جا رہا ہوں یا پھر آپ میرے مذہب میں داخل ہو جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر دونوں نے تیسرے دن بیعت کا خط ارسال کر دیا۔ پس جب آپ لوگوں کے اندر سنجیدگی پائی جائے گی اور آپ کا رشتہ دار یہ سمجھے گا کہ آپ روحانی طور پر مرنے مارنے پر تُلے بیٹھے ہیں تو لازمی بات ہے کہ وہ آپ کی باتوں کو ہنسی مذاق میں ٹالنے کی بجائے ان پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔ اب تو ایک شخص اپنے رشتہ دار کو تبلیغ کرتا ہے تو تھوڑی دیر اس کی باتیں سننے کے بعد اسے کہہ دیتا ہے کہ اچھا جی جاؤ۔ آپ کے لئے آپ کا مذہب اچھا ہے اور ہمارے لئے ہمارا مذہب اچھا ہے۔ اور اس کے بعد یہ شخص واپس آکر اپنے گھر میں بیٹھ جاتاہے۔ لیکن اگر یہ اپنے رشتہ داروں کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور انہیں کہتا کہ میں کس طرح برداشت کر لوں کہ آپ میری آنکھوں کے سامنے جہنم میں جا رہے ہوں اور میں آپ کو بچانے کی کوشش نہ کروں۔ یا میں غلط راستہ پر جارہا ہوں اور آپ مجھے بچانے کی کوشش نہ کریں۔ پس میرے ساتھ فیصلہ کرو تاکہ جو بھی صحیح راستہ ہے اسے دونوں مل کر اختیار کریں۔ اگراس طرح کیا جاتا تو لازمی بات ہے کہ اس کے رشتہ دار اس کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرتے اور ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ اور اس کے بعد یقینی بات ہے کہ انہیں ہدایت نصیب ہو جاتی۔
پس ابھی ہماری جماعت میں اس کام کے لئے بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ اور اس بیداری پیدا نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنےمبلغ نہیں جو جماعت کو بیدار کریں اور جو تبلیغ کے لئے نئے نئے رستے تلاش کریں۔ اس کے لئے میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہر ایک جماعت اپنا ایک ایک آدمی قرآن شریف پڑھنے کے لئے یہاں بھیجے۔ مگرمجھے افسوس ہےکہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ حقیقی تبلیغ تو قرآن مجید جاننے سے ہی ہو سکتی ہے۔ خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا 1۔یعنی عظیم الشان جہاد قرآن مجید کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہی نہیں کہ قرآن مجید میں کیا لکھا ہے تو وہ تبلیغ کیا کرے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت میں قرآن مجید سیکھنے کا شوق ہے۔ اس دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر عورتوں میں تقریر کرتے وقت میں نے کہا کہ جو عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کتنی عورتیں ہیں جنہیں قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ ایک دو فیصدی عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوں گی۔مگرمیری حیرت کی حد نہ رہی کہ آٹھ دس فیصدی عورتیں کھڑی ہو گئیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں قرآن مجید سیکھنے کی خواہش تو ہے مگر جب تک وہ خواہش عملی جامہ نہ پہن لے اُس وقت تک صحیح تبلیغ کس طرح ہو سکتی ہے اور اپنا ایمان کس طرح مضبوط ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید کے معنے ہیں ایمان۔ اور ایمان کے معنے ہیں قرآن مجید۔ بِسْمِ اللّٰہِ سے لے کر وَالنَّاسِ تک سارے قرآن میں ایمان کی تشریح ہے۔ اگر کسی شخص کو قرآن مجید کا پتہ ہی نہیں تو وہ کس طرح کہتاہے کہ اس کے اندر ایمان پایا جاتا ہے۔ ایمان تو قرآن مجید کے مضمون کو ماننے کا نام ہے۔ اگر ایک شخص اپنے کسی دوست سے کہے کہ میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں تم وہ بات مان لو۔ اور وہ اس بات کو سُنے بغیر ہی کہہ دے کہ بہت اچھا میں نے تمہاری بات مان لی ہے تو وہ یقینا معقول آدمی نہ کہلا سکے گا کیونکہ جب اُس نے اس کی بات کو سنا ہی نہیں کہ وہ ہے کیا تو پھر یہ مانتا کس چیز کو ہے۔اِسی طرح اگر ایک شخص قرآن مجید کو پڑھتا نہیں، اس کے مضامین کو اپنے ذہن میں مستحضر نہیں کرتا اور ان پر غور نہیں کرتا تو پھر یہ ایمان کس چیز پر لاتا ہے۔ پس درحقیقت قرآن مجید کو ماننے کا نام ایمان ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر خداتعالیٰ کی طرف سے جو وحی نازل ہوئی۔ اس کو ماننے کا نام ایمان ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے تو اس کے یہی معنے ہیں کہ جو باتیں خداتعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے کہیں اور ان کے متعلق جو تفصیلات رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیان فرمائیں ان سب باتوں کو ہم مانتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں ان تمام باتوں کو مانتا ہوں لیکن وہ ان باتوں کو پڑھتا نہیں اور اسے معلوم نہیں کہ وہ کیا باتیں ہیں جنہیں وہ مانتا ہے۔
پس ہماری جماعت اگر صحیح معنوں میں تبلیغ کرنا چاہتی ہے، اگر ہماری جماعت اپنے نفس کی اصلاح کرنا چاہتی ہے اور اگر ہماری جماعت اپنی روحانیت کو درست رکھنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا قریب ترین مقصد یہ ہو کہ سو فیصدی احمدی قرآن مجید جانتے ہوں۔ جب ہم اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے تب یہ امید ہو سکے گی کہ ہم اپنی اور اپنے گرد و پیش کی اصلاح کر سکیں۔ جب تک ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے اُس وقت تک نہ ہم اپنے شیطان کو قتل کر سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے کفر کو دور کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہر ایک جماعت میں سے ایک ایک آدمی یہاں آئے اور یہاں سے قرآن مجید پڑھ کر واپس جائے اور جا کر دوسروں کو پڑھائے ۔مجھے افسوس ہے کہ اس طرف توجہ پیدا نہیں ہوئی۔ میں نے کہا ہوا ہے کہ ہر ناظر کا کام ہے کہ جب مَیں خطبہ میں کسی کام کی طرف توجہ دلاؤں تو جس صیغہ کے ساتھ اُس کام کا تعلق ہو اُس صیغہ کا ناظر اس کے مطابق کام شروع کر دے۔ لیکن محکمہ تعلیم نے سُستی کی ہے اور اِس کام کو شروع کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ پس نظارت تعلیم کو چاہیے کہ اس کام کے لئے وہ ایک مہینہ مقرر کرے۔ اور پھر جماعتوں میں اخبار کے ذریعہ اور مبلغوں اور انسپکٹروں کے ذریعہ تحریک کریں کہ اس مہینہ میں ہر ایک جماعت اپنا ایک ایک آدمی قرآن مجید پڑھنے کے لئے یہاں بھیجے۔ جو یہاں سے سارا قرآن مجید یا آدھا یا دس پارے پڑھ کر واپس چلے جائیں اور اپنے اپنے ہاں واپس جا کر دوسروں کو پڑھائیں اور ہر سال یہ سلسلہ جاری رہے۔ پھر مبلغوں اور بیت المال کے انسپکٹروں کا یہ کام ہو کہ جس جس جماعت میں وہ جائیں وہاں جا کر دیکھیں کہ جو آدمی یہاں سےپڑھ کر گئے تھے انہوں نے آگے کتنے آدمیوں کو قرآن مجید پڑھایا ہے۔ اگراس سکیم پر عمل کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ چند سالوں کے اندر اندر ہماری جماعت کے لوگ قرآن مجید جاننے لگ جائیں گے اور جب وہ قرآن مجید جاننے لگ جائیں گے تو پھر ان کی تبلیغ بھی مؤثر ہو سکے گی اور ان کے اپنے ایمان بھی کامل ہو سکیں گے۔
دوسری چیز جس کے متعلق مَیں نے اس جلسہ پر بھی اعلان کیا تھا اور بعد میں خطبہ جمعہ میں بھی جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ علماء پیدا کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ کثرت کے ساتھ طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں۔ اور میں نے بتایا تھا کہ یہ کام بہت اہم اور بہت لمبا ہے۔ اگر ایک مڈل پاس طالب علم آج مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہے تو دس سال میں اس کی تعلیم مکمل ہو گی۔ گویا اگر ہم آج درخت لگائیں تو دس سال کے بعد ہمیں پہلا پھل ملے گا۔ اگر آج تین طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو اس کے معنے ہیں کہ دس سال کے بعد ہمیں تین مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے۔ یہ کتنا ڈرنے کا مقام ہے اُس قوم کے لئے جو دس سال کے بعد تین مبلغ تیار کرے۔ وہ قوم تبلیغ نہیں کرتی بلکہ سُستی کر کے اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودتی ہے۔ اگر آج دس طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو دس سال کے بعد دس مبلغوں کے تیار ہونے کی امید ہو سکتی ہے اور آج سے بیس سال بعد سَو مبلغوں کے تیار ہونے کی امیدہو سکتی ہے۔ مگر ہمیں تو ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے۔ بیس سال کے بعد سَو مبلغوں سے کام کس طرح ہو سکتا ہے۔ ہماری تو جماعتیں ہی کئی ہزار ہیں۔ ہندوستان میں آٹھ سَو سے اوپر تو ہماری انجمنیں ہی ہیں۔ اور ایک ایک انجمن میں کئی کئی گاؤں شامل ہیں۔ بعض انجمنیں ایسی ہیں جن میں پندرہ پندرہ بیس بیس گاؤں شامل ہیں۔ تو اگر ہم صرف احمدی گاؤں میں ہی مبلغ رکھیں تو ہزارہا گاؤں میں احمدی ہیں جن کے لئے ہمارے پاس ہزاروں مبلغ ہونے چاہئیں۔ اور پھر اس تعداد سے بہت زیادہ علاقے ہماری تبلیغ سے باہر رہ جائیں گے جہاں کوئی احمدی نہیں۔ تو یہ ہزاروں مبلغ تبھی پیدا ہو سکتے ہیں اگر ہم سو یا دو سو طالب علم ہر سال مدرسہ احمدیہ میں داخل کریں۔ اگر ایک سو طالب علم ہر سال مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں اور ان میں سے کوئی فیل نہ ہو، کوئی بیمار نہ ہو، کوئی تعلیم نہ چھوڑے اور سارے کے سارے پاس ہو جائیں تو پھر دس سال کے بعد ہمیں سَو مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے۔ اور بیس سال کے بعد ایک ہزار مبلغوں کی امید ہو سکتی ہے۔ میرا دل تو یہ قیاس کر کے بھی کانپ جاتا ہے کہ بیس سال کے بعد صرف ایک ہزار مبلغ تیار ہوں۔ کیونکہ بیس سال میں تو دنیا تہہ و بالا ہو جانے والی ہے۔ اور ایسے ایسے عظیم الشان تغیرات پیدا ہونے والے ہیں کہ ہم میں سے جو اُس وقت زندہ ہوں گے وہ دیکھیں گے کہ آج سے بیس سال بعد دنیا بالکل بدلی ہوئی ہو گی۔ خدا اور خدا کے فرشتے ایک طرف ہیں اور شیطان اور شیطان کے لشکر دوسری طرف ہیں اور ان کے درمیان جنگ ہو رہی ہے۔ اور آج سے بیس سال بعد یا اسلام کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہو گی (اِنْشَاءَ اللہ) اور یا کفر اسلام کی جڑوں کو اکھاڑ کر پھینک چکا ہو گا (اَلْعِیَاذُ بِاللہ) دہریت دوڑتی ہوئی دنیا میں پھیلتی جارہی ہے اور اس کے مقابلہ میں جس طرح ربڑ کو کھینچ کر چھوڑ دیں تو وہ سمٹ جاتی ہے اسلام پیچھے ہٹ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اصل چیز تو آخری فیصلہ ہے اور آخری فیصلہ کے لئے لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر جب کسی انسان پر غرغرہ اور نزع کی حالت طاری ہو جائے اور وہ اشاروں سے باتیں کرنے پر آجائے تو پھر اس کی زندگی قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔ پھر تو وہ آگے موت کی طرف ہی جاتا ہے۔ پس آخری فیصلہ کو جانے دو۔ اُس وقت تو تمام امیدیں ختم ہو جاتی ہیں اور تمام کوششیں بے کار ہوتی ہیں۔ انسان کی کوششیں تو اسی حالت میں کارآمد ہو سکتی ہیں جب اُسے حیات کی امید ہو اور وہ یہ سمجھ کر کام کرے کہ یا تو مَیں زندگی حاصل کر کے رہوں گا اور یا پھر مجھ پر موت آجائے گی۔
پس موت و حیات کی کشمکش میں کی ہوئی کوششیں ہی کار آمد ہو سکتی ہیں۔ اور وہ یہی چند سال ہیں اور ان چند سالوں کےاندر ایسے ایسے عظیم الشان تغیرات ہونے والے ہیں کہ اگر اس عرصہ کے اندر اندر ہماری طرف سے اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کی پوری پوری کوشش نہ کی گئی تو اس کا نتیجہ ہمارے حق میں نہایت خطرناک ہو گا اور ہم آپ اپنی موت کو بلانے والے ہوں گے۔ پس اگر ہر سال ایک سو طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو بیس سال کے بعد ہمیں ایک ہزار مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے جو قلیل ترین تعداد ہے۔ کیونکہ ساری دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے۔ اور پھر یہ اندازے بھی تو صرف خیالی ہیں واقع میں تو ہمارے پاس ایک سومبلغ بھی موجود نہیں۔ پچھلے سے پچھلے سال صرف تین طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے اور پچھلے سال سات طالب علم داخل ہوئے تھے۔ ان تین تین اور سات سات لڑکوں کے داخل ہونے سے کیا بن سکتا ہے۔ اور تین تین یا سات سات مبلغوں کے تیار ہونے سے ہم ساری دنیا میں کیا تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اس سے تومعلوم ہوتاہے کہ ہماری جماعت کا بیشتر حصہ تبلیغ کوگداگروں، بھک منگوں اور بھوکوں کا کام سمجھتا ہے جن کو اور کوئی کام نہ ہو۔ اگر یہی سُستی رہی، اگر یہی غفلت رہی، اگر یہی افکار رہے کہ دین کے کام کرنا غریبوں کا کام ہے اور امراء دین کے کاموں سے غافل رہے تو یہ چیز خداتعالیٰ کے عذاب کوبلانے کا موجب ہو گی۔ اور دنیا ختم نہیں ہو گی کہ کفار کو مارنے کی بجائے خداتعالیٰ کے فرشتے پہلے ایسے لوگوں کو چُن چُن کر ماریں گے جو دین میں داخل ہوئے مگر پھر دین کی کوئی پرواہ نہ کی اور دین کی خدمت کے لئے کوئی کام نہ کیا۔
آخر تم کیا سمجھتے ہو کہ دین کی خدمت کا کام کس نے کرنا ہے۔ اگر تم اپنی آمدنی کا سولہواں حصہ دے کر یا دسواں حصہ دے کر یا پانچواں حصہ دے کر یہ سمجھتے ہو کہ تم نے دین کی خدمت کر لی تو یہ غلط خیال ہے۔ دین کے لئے تمہیں یہ چیز بھی دینی ہو گی اور اپنی جانیں بھی دینی ہوں گی۔ اور جانیں دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرو۔ کیا یہ خدا سے مذاق نہیں کہ تم اس کے دین میں داخل ہو کر پھر دین کی خدمت سے جی چُراتے ہو اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہو۔ کیا تم خدا سے مذاق کر کے اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے ہو؟ جب تم دنیا کے کسی بادشاہ سے مذاق کر کے اس کی سزا سے محفوظ نہیں رہ سکتے تو خداتعالیٰ سے مذاق کر کے پھر تم اس کے عذاب سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہو۔ مگر یہ کتنا مذاق ہے کہ تم خدا کے دین میں داخل ہوتے ہو اور اس کے بعد دین کی خدمت سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہو۔
میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سےکئی ایسے ہیں جو پہلے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں اورکہتےہیں کہ جی !ہم نے غلط سمجھا تھا۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ وقف کیا ہے۔ رات کومیرے پاس ایک شخص کا خط آیا جس میں اس نے لکھا ہے کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ وقف کرنے میں اتنی تنگی ہو گی۔ میں نے اس کا غلط مفہوم سمجھا تھا میں اپنا وقف واپس لیتا ہوں۔ حالانکہ وقف کرتے وقت جس فارم پر دستخط کئے جاتے ہیں اُس میں یہ سب باتیں لکھی ہوتی ہیں کہ میں ہر قسم کی تنگی اور ہر قسم کی تکلیف برداشت کروں گا اور گزارہ کے لئے جو کچھ مجھے دیا جائے گا اسے میں انعام سمجھوں گا اور اسی میں گزارہ کروں گا۔ اور گزارہ نہ بھی ملے تب بھی اپنا پیٹ پالنے کے لئے خود کوئی انتظام کروں گا۔ اب یہ ایمان ہے یا بے ایمانی اور کفر ہے کہ پہلے ایک شخص اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ میں دین کی خاطر ہر طرح کی تکلیف برداشت کروں گا مگر پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ اور پھر یہ بھی کتنے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے ان کی تعداد بھی تو تسلی بخش نہیں۔ ظفر کا ایک شعر ہے۔
عجب طرح کی ہوئی تسلی جو بار اپنا گدھوں پہ ڈالا
میں تو سمجھتا ہوں کہ یہی حال ہماری جماعت کے ایک حصہ کا ہے کہ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کرنا مبلغوں کا کام ہے۔ ہم اس کام سے آزاد ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ خداتعالیٰ تم سے تمہاری جانوں کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ اپنی اولادیں دین کی خاطر وقف کرو۔ اگر تم دین کے لئے اپنی اولادیں دینے کے لئے تیار نہیں ہو گے تو خداتعالیٰ تمہاری اولادیں شیطان کو دے دے گا۔ یاد رکھو دنیا میں کسی کی اولاد اُس کے پاس نہیں رہتی۔ اگر تمہاری اولاد خدا کی ہو کر نہیں رہے گی تو وہ شیطان کی ہو جائے گی، اگرتمہاری اولاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے رستہ میں اپنی جانیں نہیں دے گی تو وہ ابلیس کے رستہ میں مرے گی (اَلْعِیَاذُ بِاللہ) مگر موت بہرحال ہر ایک پر آتی ہے۔
پس اب وقت آگیا ہے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک فرد حالات پر غور کرے اور اس بات کی طرف توجہ کرے کہ ان میں سے جو بڑی عمر کے لوگ ہیں اور وہ نئے سرے سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ کمائیں ان کے لئے جو پڑھتے ہیں۔ اور دوسرے جو پڑھے ہوئے ہیں وہ آگے آئیں اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہر سال کم از کم ایک سَو طالبعلم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تاکہ ہمیں ہزاروں کی تعداد میں مبلغ مل سکیں۔
میں نے اپنے خطبات میں بتایا ہے کہ ہمیں کئی قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ضرورت ہے عربی یا انگریزی کے گریجوایٹوں کی جو اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر یں اور دو تین سال میں ہم انہیں سلسلہ کے کاموں یا بیرونی تبلیغ کے لئے تیار کر سکیں۔ ہمیں ضرورت ہے مڈل پاس یا انٹرنس پاس طالب علموں کی جو فورًا سینکڑوں کی تعداد میں آکر مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں اور پھر آٹھ نو سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور مبلغ کام کر سکیں۔ ہمیں ضرورت ہے ایسے نوجوانوں کی جو پرائمری پاس یا مڈل پاس ہوں اور ہم انہیں ایک دو سال میں موٹی موٹی تعلیم دے کر بطور دیہاتی مبلغ گاؤں میں مقرر کر سکیں۔ پس تین قسم کے آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہے ۔ ایک مڈل پاس طالب علموں کی جو کثرت سے آکر مدسہ احمدیہ میں داخل ہوں۔ جن کا کام یہ ہو گا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے عربی ممالک میں جا کر تبلیغ کریں گے۔ یا جہاں علمی لوگوں سے مقابلہ ہو گا وہاں جائیں گے۔ یا قادیان میں درس دیں گے اور نئی پود تیار کرنے کا کام کریں گے۔ دوسرے مڈل یا پرائمری پاس نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ایک دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور دیہاتی مبلغ کام کریں۔ اور تیسرے بعض جگہوں پر فوری طور پر مشن کھولنے کے لئے عربی اور انگریزی گریجوایٹوں کی ضرورت ہے کیونکہ اِس وقت لوگوں کے دل مصائب اور مشکلات کی وجہ سے غمزدہ ہیں اور وہ خداتعالیٰ کی باتیں سُننے اور خدا کے دین کی طرف متوجہ ہونے کے لے تیار ہیں۔ اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان جگہوں پر ہم فوری طور پر مشن کھولیں اوران کی اِس غم اور مصیبت کی حالت سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو ہم خداتعالیٰ کے جاں نثار سپاہی نہیں کہلا سکتے۔ غم اور مصیبت کی حالت میں ہی انسان خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اور یہ غم کی حالت چار پانچ سال تک رہے گی۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد لوگ غم کو بھول جایا کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام انگریزی حکومت کی خوبیاں بیان فرماتے تو اس پر بعض معترضین اعتراض کیا کرتے تھے۔ اس کے جواب میں آپ فرمایا کرتے تھے کہ تم نے سکھا شاہی کے زمانہ کا قریب سے مطالعہ نہیں کیاکہ اس میں کس قسم کی مشکلات تھیں لیکن ہم نے اس زمانہ کے آثار کو دیکھا ہے گو اصل کو نہیں اس لئے ہمارے دل میں انگریزی حکومت کی قدر ہے۔ پس جن لوگوں نے موجودہ مشکلات اور غم نہیں دیکھے ہوں گے وہ اِس قسم کا درد اپنے اندر نہیں رکھتے ہوں گے جس قسم کا درد ان لوگوں کے دلوں میں ہو سکتا ہے جنہوں نے ان مشکلات اور ان مصائب کو دیکھا ہے۔ پھر ان مصائب اور مشکلات دیکھنے والوں میں بھی بہت تھوڑا طبقہ ہوتا ہے جن کو وہ غم یاد رہتے ہیں۔ ہم نے کئی عورتوں کو اپنے خاوندوں کی وفات پر روتے اور سر پیٹتے بھی دیکھا ہے۔ اور پھر انہیں سنگار 2کر کے خوشی خوشی دوسرے مرد کے گھر جاتے بھی دیکھا ہے۔ ہم نے عورتوں کو اپنے بچوں کی وفات پر پچھاڑیں 3 کھا کھا کر گرتے اور دیواروں کے ساتھ سر پٹکتے بھی دیکھا ہے اور پھر سال دو سال بعد ان کی یاد محو ہوتے بھی دیکھا ہے۔ ہم نے خاوندوں کو اپنی بیویوں کی وفات پر تڑپتے بھی دیکھا ہے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد انہیں عیش کے دوسرے سامان کرتے بھی دیکھا ہے۔ پس کچھ عرصہ کے بعد غم کی تصویریں دھندلی پڑ جاتی ہیں اور اس کے نقش مٹ جاتے ہیں۔ اگر ہم نے بھی اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا یا جبکہ لوگ غم اور مصیبت میں مبتلا ہیں تو پھر چار پانچ سال کے بعد اس قسم کے نقش دھندلے پڑ جائیں گے اور مصائب کی یاد ان کے دلوں سے محو ہو جائے گی۔
پس ضروری ہے کہ ہمارے پاس کافی آدمی تیار ہوں جن کے ذریعے ہم غیر ممالک میں فورًا تبلیغ پھیلا سکیں۔ اس کے لئے مولوی فاضلوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم انہیں فورًا باہر بھجوا سکیں۔ اور پھر ہماری جماعت کا سب سے مقدم فرض تو یہ ہے۔ اپنے ہمسایوں سے ہمدردی کریں اور اپنے ملک میں تبلیغ کو وسیع کریں۔ اس کے لئے بڑی تعداد میں دیہاتی مبلغین کی ضرورت ہے۔ اور پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت ہر سال ایک سو طالب علم مدرسہ احمدیہ کے لئے دے۔ اور جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس خیال کو زندہ رکھے ۔میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں یہ کمزوری پائی جاتی ہےکہ روپیہ کے مقابلہ میں بھی اگر تعہد نہ کیا جائے تو ہماری جماعت کے لوگ سُستی کر جاتے ہیں۔ مثلاً تحریک جدید کے دس سالوں میں چندہ دینے کے بعد بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے پہلے سالوں سے بھی زیادہ چندہ دینے کے وعدے کئے ہیں۔ اور کئی ایسے ہیں جو دس سال چندہ دینے کے بعد اب تھک کر حصہ لینا چھوڑ چکے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ دراصل تو دس سالوں میں حصہ لینا ضروری تھا اب ضروری نہیں۔ حالانکہ خدا کے ہاں تو دس کا سوال ہی نہیں وہاں تو ضرورت کا سوال ہے۔ اگر ضرورت باقی ہے تو تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ
دیکھئے سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں
اگر کوئی شخص خدا کے ساتھ شرطیں باندھتا ہے تو وہ عقل سے کام لیتا ہے عشق سے کام نہیں لیتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کےپاس جب مدینہ سے وفد آیا کہ وہ آپ کو اپنے ہاں لےجائے تو حضرت عباسؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چچا تھے لیکن عمر کے لحاظ سے کوئی زیادہ فرق نہیں تھا وہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ایک سال بڑے تھے مگر دنیوی تجربہ رکھتے تھے جب وہ وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس آپ کو مدینہ لے جانے کے لئے آیا تو حضرت عباسؓ نے کہا۔ بھتیجے! تمہیں دنیا کا تجربہ نہیں مجھے ساتھ لے چلو اور ان لوگوں سے شرط طے کر لو کہ وہ تمہاری حفاظت کریں گے۔ چنانچہ وہ آپ کے ساتھ گئے اور اس وفد سےکہنے لگے کہ تم اِن کو یہاں سے لے جاتے ہو تو ان کے ساتھ عہد کرو کہ تم وہاں ان کی حفاظت کرو گے۔ اور اگر کوئی مدینہ میں ان پر حملہ کرے گا تو تم اس کا مقابلہ کرو گے۔ یہاں تو خواہ کچھ بھی ہو اور لوگ کتنی مخالفت کریں پھر بھی ہم ان کے چچے تو ہیں۔ اگر کسی کے دل میں ان پر حملہ کرنے کا خیال آتا ہے تو وہ ان کو بالکل اکیلا نہیں سمجھتا بلکہ اسے اس کے دس پندرہ رشتہ دار بھی نظر آتے ہیں مگر تمہارے علاقے میں تو یہ بالکل غیر ہو گا اس لئے تم عہد کرو اگر کوئی مدینہ میں اِن پر حملہ آور ہو گا تو تم اس کے ذمہ دار ہو گے اور دشمن کا مقابلہ کرو گے۔ چنانچہ انہوں نےعہد کیا کہ اگر کوئی مدینہ میں آپ پر حملہ کرے گا تو ہم مدینہ کے لوگ اپنی جانیں قربان کر کے آپ کی حفاظت کریں گے۔ اس معاہدہ کے بعد آپ خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق مدینہ تشریف لے گئے۔4
اس کے کچھ عرصہ بعد جب آپ کو خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع ملی۔ اور خداتعالیٰ نے حکم دیا کہ تم اپنے ساتھیوں کو لے کر مدینہ سے باہر جاؤ۔ تمہارے لئے ایک کام مقدر کیا ہے۔ چاہے کفار کا قافلہ تمہارے سامنے آئے اور چاہے کفار کے لشکر سے مقابلہ ہو۔ چونکہ کفار کے لشکر کے متعلق کمزور روایات تھیں جن کی بنا پر لشکر سے مقابلہ قطعی نہیں تھا اس لئے بیشتر صحابہؓ نے یہی سمجھا کہ قافلہ سے مقابلہ ہوگا جو کوئی مشکل نہیں اور جس کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت نہیں۔ اس لئے تھوڑے سے صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ باہر آئے۔ مختلف روایتوں میں ان کی مختلف تعدادیں بیان ہوئی ہیں جو تین ساڑھے تین سو تک کی ہیں۔ ان میں سے جو مشہور روایت ہے وہ تین سو تیرہ کی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینہ سے نکل کر تھوڑے فاصلہ پر گئے تو خداتعالیٰ نے آپ کو قطعی علم دے دیا کہ مقابلہ لشکر سے ہی ہو گا قافلہ سے نہیں ہو گا۔ اور یہ علم خداتعالیٰ نے مدینہ میں اس لئے نہ دیا تاکہ وہ مومنوں کی آزمائش کرے۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان تمام صحابہؓ کو جمع کیا جو آپ کے ساتھ تھے اور آپ نے فرمایااے لوگو !مجھے مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہیے کیونکہ اب مقابلہ قافلہ سے نہیں ہو گا بلکہ دشمن کی فوج سامنے آئے گی۔ صحابہؓ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا یہ مشورہ دے رہے تھے کہ یا رسول اللہ! اور کیا کرنا ہے ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن جب ایک شخص مشورہ دےکر بیٹھتا تو آپؐ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیا کرنا چاہیے؟ جب دوسرا شخص مشورہ دے کر بیٹھتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیا کرنا چاہیے؟ اور جب تیسرا شخص مشورہ دے کر بیٹھتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیا کرنا چاہیے؟ اس پر ایک انصاری اٹھے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مشورہ تو آپ کو دیر سے مل رہا ہے لیکن آپ پھر بھی اس بات کو دُہرا رہے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو میں کیا کروں۔ شاید اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ انصار مشورہ دیں۔ آپ نےفرمایا ہاں میری یہی مراد ہے، میں آپ سے مشورہ لینا چاہتا ہوں کہ کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم اس مصلحت کی بناء پر خاموش تھے کہ مکہ والے جن کےساتھ مقابلہ ہے مہاجرین کے رشتہ دار ہیں ہمیں نہیں بولنا چاہیے شاید مہاجرین کو یہ بات بُری لگے۔ اس لئے یہ ان کا حق تھا کہ وہ مشورہ دیتے اور جو بھی وہ مشورہ دیں ہم تو آپ کےساتھ ہی ہیں۔ پھر اس نے کہا یا رسول اللہ ! شاید آپ اُس معاہدہ کی وجہ سے ہم سے مشورہ پوچھ رہے ہیں جو مکہ کی وادی میں ہم نے آپ سے کیا تھا کہ اگر آپ پر مدینہ میں حملہ ہو گا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گےاور مدینہ سے باہر کے ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ لیکن یا رسول اللہ ! اُس وقت ہمیں پتہ نہیں تھا کہ آپ کیا چیز ہیں اور ابھی آپ کی شان کا ہمیں علم نہیں ہوا تھا اور آپ کا مقام ہم پر نہیں کُھلا تھا۔ اس کے بعد جب آپ ہمارے اندر تشریف لائے تو پھر ہمیں آپ کے مقام اور آپ کی شان کا علم ہوا تو یا رسول اللہ! اب وہ معاہدہ ختم ہو چکا ۔ اب تو یہ سامنے سمندر ہے آپ حکم دیجئے کہ اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دو ہم بغیر چون و چرا کے اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے۔5 اور یارسول اللہ! اگر دشمن مقابلہ پر آئے گا تو ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے۔ اور دشمن اگر آپ تک پہنچے گا تو ہماری لاشوں کو روندتا ہوا ہی پہنچے گا اس کے بغیر نہیں پہنچ سکے گا۔ 6
تو دیکھو جہاں عشق ہوتا ہے وہاں اس بات کو نہیں دیکھا جاتا کہ ہم نے کیا شرط کی تھی بلکہ اِس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ ہم نے وہ کام کر لیا ہے یا نہیں جو ہمارے سپرد کیا گیا تھا۔ پس کیا ان دس سالوں میں ہم نے روپیہ کے لحاظ سے یا آدمیوں کے لحاظ سے کام کر لیا ہے؟ ہم نے معمولی سی تبلیغ کے لئے جس میں چند سو مبلغ ہوں تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کا اندازہ بتایا تھا اور ان دس سالوں میں کُل تیرہ چودہ لاکھ روپیہ چندہ جمع کیا ہے جس میں سے کچھ ساتھ کے ساتھ خرچ ہو چکا ہے۔ تو جہاں چند لاکھ روپیہ کا کُل ریزرو فنڈ ہو وہاں تبلیغ کی معمولی سے معمولی سکیم پر عمل کرنے کے لئے تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کہاں سے آئے گا؟ اگر پانچ فیصدی منافع کا اندازہ لگا لیا جائے جو زیادہ سے زیادہ اندازہ ہے گورنمنٹ تو اپنے کاموں میں عام طور پر اڑھائی فیصدی منافع کا اندازہ لگایا کرتی ہے۔ لیکن اگر پانچ فیصدی منافع کا ہی اندازہ لگا لیا جائے تو عام کاروباری اندازہ کے مطابق تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کے لئے پانچ کروڑ بیس لاکھ روپیہ کا ریزرو فنڈ ہو تو اس سے تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمدنی ہو سکتی ہے۔ اور پانچ فیصدی آمد رکھی جائے تب بھی اڑھائی کروڑ روپیہ سے یہ آمد پیدا ہو سکتی ہے۔ پس جب تک ہماری جماعت دین کی ہر ضرورت کے موقع پر اپنا روپیہ اور اپنی جانیں پیش نہیں کرتی اُس وقت تک اس کو کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ خداتعالیٰ کا کام تو ہو جائے گالیکن ہم دین کی خدمت کا ثواب حاصل کرنے اور اپنے ایمانوں کا ثبوت دینے سے قاصر رہیں گے۔ پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کو سمجھے۔ اور دین کے لئے جہاں مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کا سوال ہو وہاں آگے بڑھ بڑھ کر اپنے اموال پیش کریں۔اور جہاں جانی قربانی کا سوال ہو وہاں آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں اور اپنی اولادیں دین کے لئے پیش کریں۔
میں نے گزشتہ سے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں یہ تحریک کی تھی کہ جن کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو یا ان کی اولاد چھوٹی ہو یا صر ف لڑکیاں ہی ہوں لڑکے نہ ہوں وہ کم از کم اتنا ہی کریں کہ تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے وظائف مقرر کریں۔ اس تحریک میں اِس وقت تک تین وظائف کے وعدے آچکے ہیں۔ بعض لوگوں نے دریافت کیا ہے کہ اگر کوئی غریب ہو اور وہ اکیلا وظیفہ کے لئے رقم نہ دے سکے تو کیا وہ اور لوگوں کے ساتھ مل کر دے سکتا ہے؟ تو اس کے متعلق بھی میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہاں اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص اکیلا وظیفہ مقرر کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دوسروں کے ساتھ مل کر اس میں حصہ لے سکتا ہے۔
اِس وقت تک تین وظائف کے وعدے آچکے ہیں۔ ایک تو میاں محمد احمدخاں صاحب جو میرے بھانجے ہیں انہوں نے ایک وظیفہ کے لئے نقد رقم جمع کرا دی ہے اور ایک وظیفہ دینے کے لئے چودھری ظفراللہ خاں صاحب نے وعدہ کیا ہے اور انہوں نے دفتر محاسب کو لکھ دیا ہے کہ میری امانت میں سے یہ رقم ادا کر دی جائے۔ اور ایک میری بیٹی اور ان کے خاوند نے وعدہ کیا ہے وہ مجھے کہتے تھے کہ ہم اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ اور میں نے انہیں کہا تھا کہ دفتر میں لکھوا دو۔ غالبًا انہوں نے لکھوا دیا ہو گا۔ میں نے یہ نیت کی ہے کہ اگر خداتعالیٰ زیادہ کی توفیق دے گا تو اس سے زیادہ دوں گا لیکن انشاء اللہ دس سال تک کم از کم پانچ طالبعلموں کا مَیں سالانہ وظیفہ دوں گا اور میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں زندہ رہوں تو میں اس وعدہ کو پورا کرنے کا خود پابند رہوں گا اور اگر میں مر جاؤں تو میری جائیداد میں سے پہلے اِس رقم کو پورا کر لیا جائے اور بعد میں پھر وہ میرے ورثاء میں تقسیم ہو۔
میرا منشاء ہے کہ ہر سال چھ ہزار روپیہ مَیں داخل کرتا چلا جاؤں تا پہلے سالوں کی تعلیم پر جو کم رقم خرچ ہو گی اور بعد میں زیادہ خرچ ہو گی۔ پہلے وقت کا بچا ہوا روپیہ دوسرے وقت میں کام دے۔ یہ وعدہ دس سال میں پچاس طالبعلموں کو تعلیم دلانے کا ہوتا ہے جس پر قریباً ایک لاکھ روپیہ خرچ ہو گا۔ باقی میں نے اپنی اولاد اپنی طرف سے دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے۔ آگے کام کا ثواب تو انہوں نے خدا سے ہی لینا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو دین کی خدمت کا موقع ملے اور کس کو نہ ملے۔ میں نے بہرحال اپنی طرف سے انہیں دین کے لئے ہی وقف کیا ہوا ہےاور ان کو تعلیم دلانے میں بھی میں نے ہمیشہ اسی چیز کو مدنظر رکھا ہے۔ میں نے اپنی اولاد میں سے کبھی ایک بیٹے کو بھی خالصۃً اپنے لئے رکھنے کی خداتعالیٰ سے درخواست نہیں کی۔ یہ سب اُسی کے دیئے ہوئے ہیں اور اُسی کی چیز ہیں۔ اُس کی مہربانی اور اُس کا احسان ہو گا تو ان کو اپنے دین کی خدمت کے لئے قبول فرمالے گا۔ لیکن اگر وہ کسی کو اس کی غفلت کی وجہ سے رد کر دے تو میں بری الذّمہ ہوں۔ میں نے اپنے لئے ان کو لینے کی کبھی ضرورت نہیں سمجھی سوائے اس کے کہ اپنے گزارہ کے لئے باری باری کچھ عرصہ وہ جائیداد کا انتظام کریں تادوسرے دین کا کام کر سکیں۔ اور وہ بھی دوسرے وقت میں دین کا کام کر سکیں۔
میرا تو عقیدہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باقی اولاد بھی اگر اس پر غور کرے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے احسان کے بعد کہ شدید ترین گمراہی کے وقت میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے خاندان میں سے مبعوث فرمایا۔ اس احسان کے بعد بھی اگر ہمارے اندر دنیا طلبی اور دین سے بے رغبتی پائی جائے تو ہم سے زیادہ بدقسمت اور کون ہو سکتا ہے۔ اس ایک احسان کے بدلہ اگر ہمارا سر قیامت تک خداتعالیٰ کے آگے جھکا رہے تو ہم اس احسان کا بدلہ نہیں اُتار سکتے۔ یہ خداتعالیٰ کا اتنا بڑا احسان ہے کہ اس سے بڑھ کر احسان ممکن ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس احسان کو دیکھ کراگر ہمارے خاندان کے لوگ ہی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو چونکہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ تَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا۔7 یعنی تیری نسل دور دور تک پھیل جائے گی۔ اور جس طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا اسی طرح تیری نسل بھی اتنی زیادہ ہو گی کہ وہ گنی نہیں جائے گی۔ پس ہمارے خاندان ہی کے افراد اگر دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کووقف کر دیں تو تبلیغ اور مبلغوں کا سوال حل ہو جاتا ہے۔ مگر بہرحال کسی ایک شخص کے اپنے آپ کو پیش کر دینے سے دوسرے لوگ بری الذّمہ نہیں ہو سکتے۔ جب تک ساری جماعت اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش نہیں کرتی اُس وقت تک جماعت بری الذّمہ نہیں ہو سکتی۔ اور جب تک کوئی فرد اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش نہیں کرتا۔ اُس وقت تک وہ فرد ہونے کے لحاظ سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ اگر جماعت کی اکثریت اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کرتی ہے تو وہ بلحاظ جماعت خداتعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کر سکتی۔ اور اگرایک فرد اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض نہیں سمجھتا تو وہ منفرد طور پر سزا کا مستحق ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو کھول دے اور ہمارے ایمانوں کو مضبوط کر دے۔ اور ہمیں اُس مقام پر کھڑا نہ کرے جہاں مجرم کو سزا دینے کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔ بلکہ خداتعالیٰ ہمیں اُس مقام پر کھڑا کرے جہاں خدمت گزار اور وفادار غلام کو انعام کے لئے کھڑا کیا جاتاہے۔ آمین’’ (الفضل 23 جنوری 1945 ء )
1: الفرقان:53
2: سنگار: سنگھار۔ زیب و زینت
3: پچھاڑیں کھانا: تڑپنا، صدمے اُٹھانا
4: سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ84،85۔ مطبوعہ مصر1936ء
5: سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ266،267
6: بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ
7: تذکرہ صفحہ185 ایڈیشن چہارم
4
تحریک جدید کے وعدے جلد سے جلد کئے جائیں
(فرمودہ 26جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مَیں آج زیادہ بول نہیں سکتا۔ کیونکہ دو تین گھنٹے سے میری طبیعت خراب ہے اور بخار کے آثار بھی معلوم ہوتے ہیں ۔ چونکہ تحریک جدید کے وعدوں کا وقت چند دنوں (7فروری) تک ختم ہونے والا ہے اس لئے میں پھر ایک دفعہ جماعت کو اس کے فرض کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ شروع میں جن لوگوں نے اس سال وعدے لکھوائے ان میں ایک خاص جوش اور اخلاص پایا جاتا تھا۔ مگر ان کے بعد جماعت کا جو بقیہ حصہ رہ جاتا ہے انہوں نے وعدے بھجوانے میں سُستی کی ہے۔ ممکن ہے وہ کوشش کر رہے ہوں اور میعاد ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ اپنے وعدے بھجوا دیں مگر جس رفتار میں ہر سال ان ایام میں وعدے آیا کرتے تھے اُس رفتار میں اس سال فرق معلوم ہوتا ہے۔ گویا پہلا حصہ تو اخلاص میں بڑھا ہوا تھا اور بہت ہی نمایاں حصہ لینے والا تھا اور یہ لوگ کُل حصہ لینے والوں کے ساٹھ فیصدی تھے۔ انہوں نے نہایت اخلاص سے حصہ لیا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت سے بھی زیادہ حصہ لینے کی کوشش کی ہے لیکن بقیہ چالیس فیصدی لوگ جن کے وعدے دسمبر میں نہ آئے تھے ان میں سے ایک حصہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سُستی دکھا رہا ہے۔ چونکہ ابھی وعدہ کی آخری میعاد ختم نہیں ہوئی اس لئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے ممکن ہے بقیہ جماعتیں کوشش کر رہی ہوں اور وقت ختم ہونے کے قریب یکدم اپنے وعدے بھجوا دیں۔ لیکن گزشتہ سالوں میں جس رفتار سے وعدے ہوا کرتےتھے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی قیاس ہوتا ہے کہ جماعت کا ایک حصہ کچھ تھکا ہوا سا ہے۔ میں نے اس کے متعلق ایک نوٹ الفضل میں بھی شائع کرایا ہے۔ اور آج خطبہ میں بھی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے سامنے جو کام ہے بغیر قربانی کے ہم اس کام میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہر کام ان ذرائع سے ہوتا ہے جو ذرائع اس کام کےلئے مقرر ہوتے ہیں۔ جب تک اس کام کے لئے وہ ذرائع اور وہ سامان مہیا نہ کئے جائیں اُس وقت تک انسان کا یہ امید کرنا کہ میں اس کام میں ان ذرائع کی مدد کے بغیر اور ان سامانوں کے مہیا کرنے کے بغیر کامیاب ہو جاؤں گا سراسر خلافِ عقل ہے۔ ہم نے بہت بڑا کام کرنا ہے۔ اتنا بڑا کام کہ ہمارے جیسی کسی کمزور جماعت نے کبھی اتنا بڑا کام نہیں کیا۔ پہلے انبیاء کی جماعتیں ایسے زمانہ میں ہوئی ہیں جب ساری دنیا کا تمدن اس قسم کا تھا کہ اس میں روپیہ خرچ نہیں ہؤا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ زمانہ نہیں۔ اب بسا اوقات روپیہ خرچ نہ کرنا انسان کے ایمان میں سستی اور غفلت پیدا کرنے کا موجب ہو جاتاہے۔ مثلاً حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے ساتھی پیدل سفر کر کے تبلیغ کیا کرتے تھے مگر اُس زمانہ میں چونکہ ساری دنیا ہی پیدل سفر کیا کرتی تھی اس لئے ان کا تبلیغ کے لئے پیدل سفر کرنا دشمن کے مقابلہ میں کمزوری نہیں تھی۔ لیکن آج جبکہ سفر کے لئے ریلیں اور ہوائی جہاز تیار ہو چکے ہیں اگرہم دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر کرنا ہو گا۔ اگر ہم ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر نہیں کرتے تو ہم دشمن کے مقابلہ میں ہر میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پس اگر دشمن کا ہر میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے مبلغوں کا ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر کرنا ضروری ہے تو یہ کام ان کے اخلاص اور ان کی قربانی سے نہیں ہو سکتا بلکہ روپیہ سے ہو سکتا ہے۔ اگر ہمارا کوئی مبلغ سٹیشن پر جا کر کہے کہ میں نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے مجھے ریل میں بیٹھنے دیجئے، اگر ہمارا کوئی مبلغ جہاز کے دروازہ پر جا کر کہے کہ میں نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے مجھے جہاز میں سفر کرنے دیجئے تو وہ کہیں گے کرایہ کے لئے پیسے لاؤ۔ پس جس واقفِ زندگی کو ہم یہ کہیں کہ پیدل پھر کر دنیا میں تبلیغ کرو کیا یہ پیدل پھر کر اپنے اُس دشمن کا مقابلہ کر سکتا ہےجس کے مبلغ ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر کرتے ہیں ؟وہ اگر ایک دن میں دس جگہوں پر پہنچ کر تبلیغ کرے گا یا ایک ماہ میں سارے ملک کا چکر لگا لے گا تو یہ پیدل سفر کر کے ساری عمر میں اُس ملک کا چکر لگا سکے گا۔ تو اُس کا اور اِس کا مقابلہ کہاں ہو سکتا ہے۔ ایک یورپین پادری یا کسی دوسرے مذہب کا مبلغ ہندوستان میں تبلیغ کرنے کے لئے کھڑا ہوتاہے اور وہ ایک مہینہ کے اندر بمبئی، مدراس، بنگال اور پنجاب کے علاقوں کا دورہ کر کے لیکچر دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ کے لئے اگر ہم اپنے مبلغ کو یہ کہتے ہیں کہ پیدل سفر کر کے تبلیغ کرو تو وہ تو پیدل سفر کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ اتنی جگہوں پر وہ کتنی دیر میں پہنچے گا۔ اس کی قربانی اسلام کے لئے مفید نہیں ہو گی بلکہ اسلام کے لئے مُضِر ہو گی۔ پس یہ وہ زمانہ ہے جبکہ جانی قربانی کے علاوہ مالی قربانی کی اہمیت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ پس مَیں اس خطبہ میں جو وقت پر پہنچنے کے لحاظ سے آخری خطبہ ہے گو 7 فروری سے پہلے ابھی ایک اَور جمعہ آئے گا مگر اُس جمعہ کا خطبہ وقت پر جماعتوں تک نہیں پہنچ سکے گا۔ وقت پر پہنچنے کے لحاظ سے یہ آخری خطبہ ہے۔ پھر جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنہوں نے اس سال تحریک جدید کے وعدوں کی طرف ابھی تک توجہ نہیں کی وہ توجہ کریں اور جنہوں نے کم توجہ کی ہے وہ پوری توجہ کریں۔ اور وہ لوگ جو تحریک جدید کے دفتر اول میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ اب دفتر ثانی میں شامل ہوں۔ اور جن کو خداتعالیٰ شامل ہونے کی توفیق دے اُنہیں چاہیے کہ وہ دوسرے ایسے لوگوں کو بھی شامل ہونے کی تحریک کریں جنہوں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا۔
اس کے علاوہ میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تبلیغ کے لئے واقفین کے تین گروہ ضروری ہیں۔ ان کےبغیر خالی روپیہ ہمیں کام نہیں دے سکتا۔ ہمیں ضرورت ہے گریجوایٹ اور مولوی فاضلوں کی جو اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور انہیں ایک دو سال میں ضروری تعلیم دے کر مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے بھیجا جائے۔ یا ہندوستان میں تبلیغ کے لئے یا سلسلہ کے اداروں میں ان کو کام پر لگایا جائے۔
ہمیں ضرورت ہے مڈل پاس طالبعلموں کی جو اس سال مارچ میں مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو کر اور ہر سال داخل ہو کر اور اتنی کثرت سے داخل ہو کر مبلغین کی تعداد کو بڑھائیں کہ چند سالوں میں سینکڑوں اورہزاروں مبلغ تیار ہو جائیں۔ اور ہمیں ضرورت ہے ایسے مڈل پاس یا کم از کم پرائمری پاس نوجوانوں کی جو ایک دو سال ٹریننگ لینے کے بعد دیہاتی مبلغین کا کام دے سکیں۔ اس سال ہمیں پچاس دیہاتی مبلغوں کی ضرورت ہے اور اِس وقت تک پینتیس آئے ہیں۔ پس میں اَور نوجوانوں کو جنہوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دیہاتی مبلغین میں شامل ہوں۔ یہ وہ ہوں جو واقفین کی طرح ہر قسم کی تکلیف اٹھا کر تبلیغ کے لئے تیار ہوں۔ ایسے لوگ جو قربانی نہ کر سکیں تبلیغ کا کام نہیں کر سکتے۔ ہم ان کو کچھ طب بھی پڑھا دیں گے اور سلسلہ کی طرف سے گزارہ کےلئے ماہوار کچھ رقم بھی دیں گے ۔ اس رقم سے اور طب کے ذریعہ سے وہ اپنی روزی کا سامان کر سکیں گے۔ گو میری سکیم یہی ہے کہ ہمارے واقفین جس علاقہ میں جائیں وہ اُس علاقہ کو اتنا منظم کر لیں کہ وہاں کی جماعتیں اس مبلغ کا بوجھ اٹھا سکیں تاکہ نئے مبلغین تیار کرنے میں ہمیں سہولت ہو۔ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ پنجاب میں صحیح طور پر تبلیغ کرنے کے لئے ایک ہزار مبلغ ہونے چاہئیں۔ پنجاب میں ساٹھ ہزار گاؤں ہیں۔ ان ساٹھ ہزار گاؤں کے لئے اگر ہم ایک ہزار مبلغ رکھیں تو اس کے معنے ہیں ساٹھ گاؤں کے لئے ایک مبلغ۔ اگر ہم اس سکیم پر عمل کریں اور ساٹھ ہزار گاؤں کے لئے ایک ہزار مبلغ رکھیں تو خط و کتابت، سٹیشنری، سفر اور گزارہ کی رقم ملا کر ایک ہزار مبلغ کے لئے تمام خرچ چھ لاکھ روپیہ سالانہ کم از کم ہونا چاہیے۔ اور اگر بافراغت خرچ کیا جائے تو آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ ہونا چاہیے۔ گویا ساٹھ دیہات کے لئے اگر ہم ایک مبلغ رکھیں تو چھ لاکھ سے لے کر آٹھ لاکھ روپیہ تک سالانہ خرچ کی ضرورت ہے۔ مگر ہم یہ بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارا تو صدر انجمن کا چندہ والا سالانہ بجٹ سارا چھ لاکھ روپیہ کا ہوتاہے۔ اگر ہم وہ سارا بھی اس کام کے لئے لگا دیں تو پھر بھی گزارہ نہیں ہو سکتا۔ گزارہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جو مبلغ یہاں سے تیار ہو کر جائیں وہ جا کر وہاں کی جماعتوں کو منظم کریں اور وہاں کی جماعتوں کا چندہ اور افراد اتنے بڑھ جائیں کہ اس مبلغ کا خرچ وہ خود برداشت کر سکیں تاکہ ہم اَور مبلغ بھجوائیں۔ اور جب وہ بھی باہر جا کر وہاں کی جماعتوں کو منظم کر لیں اور وہ جماعتیں ان مبلغوں کا بوجھ خود اٹھا لیں تو ہم اَور مبلغ بھجوائیں۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے ہر علاقہ میں ہماری تبلیغ پھیل جائے۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو وہ اخلاص عطا فرمائے کہ جس کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق پائے۔ اور اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کی سستیوں اور غفلتوں کو معاف فرمائے۔ اور دین کے لئے اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لئے جن سامانوں کی ضرورت ہے وہ سامان اپنے فضل سے مہیا فرما دے۔ اور آسمان سے اپنے فرشتوں کو نازل فرمائے جو جماعت کے نوجوانوں کے دلوں میں دین کی ایسی محبت اور ایسا اخلاص پیدا فرمائیں کہ وہ پروانوں کی طرح آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں دین کی خدمت کے لئے پیش کریں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کےد لوں میں اور جماعت کے دوسرے لوگوں کےد لوں میں آخرت کی ایسی محبت پیدا فرمائے کہ وہ آخرت کو دنیا پر مقدم کریں۔ آمین
میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے یہ نماز بھی میں نہیں پڑھاؤں گا۔ مولوی سرور شاہ صاحب پڑھا دیں گے مجھے نماز بیٹھ کر پڑھنی پڑے گی۔ ’’
(الفضل 29جنوری 1945ء)
5
ستیارتھ پرکاش کا جواب۔ آخری پارہ کی تفسیر
(فرمودہ 2 فروری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں نے جلسہ سالانہ پر آج سے ایک مہینہ پہلے اس سال کے متعلق بعض کاموں کا اعلان کیا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سےا س وقت تک وہ کام اپنے پروگرام کے مطابق ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پروگرام کے مطابق وہ ہو جائیں گے۔ ایک تو میں نے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ اس کا جواب قریباً سات آٹھ بابوں کا ہو چکا ہے اور بقیہ تیار ہو رہا ہے۔ جو نوجوان اس کام کو کر رہے ہیں مجھے خوشی ہے کہ وہ محنت کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے نوجوان پیدا ہو رہے ہیں جو ہندو لٹریچر کو اس کی اپنی زبان میں پڑھ کر غور کر سکتے ہیں۔ اس کام کے لئے میں نے مولوی ناصر الدین صاحب عبداللہ اور مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب کو مقرر کیا ہؤا ہے۔ اور یہ تینوں بہت جانفشانی سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اور مَیں سرِدست ایڈیٹنگ(Editing) کرتا ہوں۔ وہ نوٹ لکھ کر مجھے دے دیتے ہیں اور میں جرح کرکے واپس بھیج دیتا ہوں۔ پھر وہ اصل مضمون لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور میں اسے دیکھ لیتا ہوں۔ اس میں میرا اپنا کام صرف اتنا ہی ہے کہ جو دلائل کمزور ہوں ان کی طرف انہیں توجہ دلا دیتا ہوں کہ یہ یہ دلائل کمزور ہیں۔ یا تمہارا یہ اعتراض ان معنوں پر پڑتا ہے اور ان معنوںپر نہیں پڑتا۔ یا یہ کہ
بعض دفعہ ان کی عبارتوں میں جوش ہوتا ہے۔ کیونکہ ستیارتھ پرکاش میں سخت سخت حملے کئے گئے ہیں اس لئے اس کا جواب دیتے وقت جذبات کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے میں اس بات کی بھی نگرانی کرتا ہوں کہ ایسے سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں جن سے کسی کی دل شکنی ہو یا اس بات کو بھی مَیں مدنظر رکھتا ہوں کہ یہ کتاب آریہ سماج کی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوان بعض دفعہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے اس بات کو بھول کر کہ ہمارے مخاطب تمام ہندو نہیں بلکہ صرف آریہ سماجی ہیں مضمون زیر بحث میں سناتن دھرم کی بعض باتوں کی بھی تردید شروع کر دیتے ہیں۔ تو میں اس بات میں بھی ان کی نگرانی کرتا ہوں کہ وہ صرف آریہ سماج کو ہی مخاطب کریں اور ایسی باتوں کا ذکر نہ کریں جو براہِ راست ویدوں یا سناتن دھرم کے لٹریچر کے متعلق ہوں۔ جس حد تک میرے پاس مضمون آچکا ہے اور غالباً اکثر آچکا ہے اس کو دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا ہے کہ بہت محنت اور جانفشانی سے لکھا گیا ہے۔ انشاء اللہ جب یہ جواب شائع ہو گا تو اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو آریہ سماج کا پرانا قرضہ جو ہمارے ذمہ تھا وہ اتر جائے گا۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس قسم کی اہم کتاب کا جواب دینے کی آریہ سماج ضرور کوشش کرے گی۔ اور جب اس کی طرف سے اس کا جواب دیا جائے گا تو ہمیں پتہ لگ جائے گا کہ ہمارے نوجوانوں کی ہندی جاننے کی ذاتی قابلیت کہاں تک ہے۔ اس وقت ہم پورے طور پر فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ہمارے نوجوان کس حد تک ہندی یا سنسکرت جانتے ہیں۔ لیکن جب آریہ سماج کی طرف سے اس کا جواب دیا جائے گا کہ تمہارا فلاں ترجمہ غلط ہے فلاں معنے لغت کے خلاف ہیں تو پھر ہم کو بھی صحیح طور پر موازنہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اور ہمیں آئندہ سنسکرت کے علماء پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ دراصل ہندو علم اتنا مخفی ہے اور ہمیں اس کے متعلق اتنی ناواقفیت ہے کہ ہم پورے طور پر ہندو مذہب کےعالم بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ بعض علوم ایسے ہیں جن کا اندازہ ہم کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے جاننے والے ہمیں کثرت سے ملتے ہیں مگر ویدوں کا علم اس قسم کا ہے کہ خود ہندوؤں میں بھی اس علم کو جاننے والے بہت کم ہیں۔ بلکہ بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ سارے ہندوستان میں کُل تین آدمی ویدوں کا علم جاننے والے ہیں۔ تو جہاں سارے ہندوستان میں ویدوں کے جاننے والے کُل تین آدمی ہوں وہاں ہمیں کہاں توفیق مل سکتی ہے کہ ہم یہ پتہ لگائیں کہ ہمارے نوجوان اس علم کو جان گئے ہیں یا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے مقابلہ میں آکر ہمیں صحیح طور پرپتہ لگ جائے گا کہ ہمارے نوجوانوں کے علم میں خامیاں ہیں یا نہیں۔ اگر خامیاں ہوں گی توہم سوچ سکیں گے کہ کس رنگ میں ان کی اصلاح ہو سکتی ہے اور اگر خامیاں نہیں ہوں گی تو پھر اسی طریق پر ہندو مذہب کے نئے علماء پیدا کرنے میں ہمیں سہولت ہو گی۔ اس وقت تک ہماری یہ کمزوری ہے کہ ہم ہندوؤں اور سکھوں کو صرف اردو میں ہی تبلیغ کرتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوؤں اور سکھوں میں بھی اردو جاننے والے موجود ہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ خواہ وہ اردو جانتے ہوں مگر وہ مانوس ہندی اور گورمکھی سے ہیں۔ اور یہ قدرتی بات ہے کہ جس زبان سے انسان مانوس ہو اُس کی طبیعت پر زیادہ اثر اسی زبان میں ہی تبلیغ کرنے سے ہو سکتا ہے۔ مثلاً اردو کو ہی لے لو ۔ اردو میں بعض چیزوں کے دو دو لفظ ہوتے ہیں۔ ایک لفظ عربی یا فارسی کا ہوتا ہے اور دوسرا لفظ ہندی یا بھاشا کا ہوتا ہے۔ اگر کوئی مقرر کھڑا ہو اور اپنی تقریر میں چُن چُن کر ہندی یا بھاشا کے الفاظ استعمال کرنے شروع کر دے تو ہماری مجلس اس بات کو عجیب سا سمجھے گی اور اس کی باتوں سے اتنا متاثر نہیں ہو گی جتنا کہ عام اردو زبان سے متاثر ہو سکتی ہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ابر آیا، برکھا آئی۔ ایک لفظ فارسی ہے اور ایک ہندی، گو دونوں لفظ ہم سمجھتے ہیں مگر ایک مقرر اگر کھڑا ہو کر چُن چُن کر ایسے ہندی الفاظ استعمال کرنا شروع کر دے تو گو وہ بولے اور سمجھے بھی جاتے ہوں گے مگر جب وہ ان الفاظ کو جمع کر کے لے آئے گا تو گو ان کا سمجھنا تو مشکل نہیں ہو گا مگر وہ الفاظ ہمارے اندر وہ کیفیتِ جذب پیدا نہیں کر سکیں گے جو کیفیت عام اردو الفاظ سے ہمارے اندر پیدا ہو سکتی ہے۔ ہم صرف اسی خیال میں رہیں گے کہ کیسے کیسے انوکھے الفاظ استعمال کر رہا ہے۔ اسی طرح ایک ہندو یا ایک سکھ گو اردو سمجھتا ہے بالعموم شہری طبقہ مگر دیہات کا بھاری طبقہ ایسا ہے جن کی اردو اپنی ہی قسم کی ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نےد یکھا ہے کہ کئی دفعہ ایسے لوگوں سےبات کرتے وقت ان کو ٹوک ٹوک کر پوچھنا پڑتا ہے کہ آپ کے اس فقرہ کا مطلب ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ کیونکہ ان کی زبان میں ہندی اور گورمکھی کے ایسے پرانے الفاظ ہوتے ہیں جنہوں نے اردو کی شکل اختیار نہیں کی۔ پس ہم اُس وقت تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کی کافی تعداد موجود نہ ہو جو ہندی، گورمکھی اور بنگالی، مرہٹی، تاملی وغیرہ جاننے والے ہوں۔ کیونکہ ہندوؤں میں تبلیغ کرنے کے لئے ہندی زبان اسی طرح ہے جس طرح مسلمانوں کے لئے اردو ۔ گویا ہندی اور اردو کے دو الگ الگ دریا بہتے ہیں جو آپس میں ملتے نہیں۔ قرآن مجید میں آتا ہے ۔ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیٰنِ1 کہ دو دریا پاس پاس بہتے ہیں لیکن ان کے درمیان برزخ ہے اور وہ آپس میں ملتے نہیں۔ اسی طرح ہندی اور اردو بھی دو الگ الگ دریا ہیں جو سارے ہندوستان پر چھائے ہوئے ہیں۔ مگر اردو کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ جو ہندی جاننے والے ہیں ان میں سے اکثر اردو بھی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ مگر مسلمان جو اردو جاننے والے ہیں ان میں بہت کم لوگ ہیں جو ہندی جانتے ہیں۔ گویا اردو کا دریا ہندی پر بھی چھایا ہوا ہے۔ لیکن ہندوؤں میں سے بعض لوگ جو گاؤں کے رہنے والے ہیں وہ ہندی کے ذریعہ تو باتیں سمجھ سکتے ہیں مگر اردو کے ذریعہ سے ان کے اندر وہ اثر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو مؤثر طور پر تبلیغ کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر ہندی اور سنسکرت جاننے والے ہوں۔ اِس وقت تک جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ بہت کم لوگ ہیں جو ہندی جانتے ہیں۔
پس جہاں میں جماعت کو یہ اطلاع دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا کام جلد جلد ہو رہا ہے وہاں میں جماعت کو اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہندوؤں اور سکھوں میں مؤثر طور پر تبلیغ کرنے کے لئے کثرت سے ہندی اور گورمکھی وغیرہ جاننے والے ہونے چاہئیں۔ یہ تو ایک ضمنی بات تھی اصل بات میں یہ کہہ رہا تھا کہ ستیارتھ پرکاش کا جواب لکھا جا رہا ہے اور اس میں تین باتوں میں میرا حصہ ہے۔ اول یہ کہ کوئی دلیل کمزور نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ عام ہندوؤں کی طرف خطاب نہ ہو بلکہ صرف آریہ سماج مخاطب ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی سخت کلامی نہ ہو۔ اور ان تینوں باتوں کے لحاظ سے میں اس مضمون کو دیکھ چکا ہوں جو اِس وقت تک تیار ہو چکا ہے۔
دوسرا کامقرآن مجید کی تفسیر شائع کرنے کا تھا۔ چنانچہ روزانہ جماعت کے چھ سات سَو کے قریب آدمی جمع ہوتے ہیں اور میں ان کے سامنے قرآن مجید کے نوٹ لکھا رہاہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِس وقت تک دو سو پچھتر صفحات کے قریب کا مضمون جنوری میں لکھوایا جاچکا ہے۔ اس سے پہلے ڈلہوزی میں ساڑھےتین سو صفحات کا مضمون میں لکھوا چکا ہوں۔ اس طرح گویا سَوا چھ سَو صفحہ کا مضمون ہو چکا ہے۔ یوں تو ہزار بارہ سو صفحات جنوری میں لکھے جا چکے ہیں۔ مگر چھپوائی میں چونکہ باریک اور گنجان الفاظ لکھے جاتے ہیں اور تھوڑی جگہ لیتے ہیں اس لئے ہزار بارہ سو صفحات کا مضمون تفسیرکے دو سو پچھتر صفحات میں آتا ہے۔ تو اتنا کام ہو چکا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ایک مہینہ میں آخری پارہ کی تفسیر ختم ہو جائے گی ۔آخری پارہ اس لحاظ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں چھوٹے چھوٹے فاصلہ پر سورۃ بدلتی ہے۔ اگر انسان بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھے جو دو دو تین تین فرلانگ تک لمبی چلتی چلی جائیں تو وہ شخص اپنی ساری سیر میں تین چار عمارتوں کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی طبیعت پر اَور قسم کا اثر ہوتا ہے ۔ مگر جب وہ ایسی عمارتوں کے پاس سے گزرے جو ایک مکان کے بعد دوسرا مکان اور دوسرے مکان کے بعد تیسرا مکان اور تیسرے مکان کے بعد چوتھا مکان سامنے لاتی ہوں اور تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر مکان بدلتے چلے جائیں تو اس کی طبیعت پر اَور قسم کا اثر ہوتا ہے۔ چلتا تو وہ اُتنا ہی ہے مگر وہاں بڑی بڑی عمارتوں کے پاس سےگزرتے وقت وہ اتنے عرصہ میں تین یا چار نظارے دیکھتا ہے۔ اور یہاں اتنے ہی عرصہ میں سینکڑوں نظارے اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کی تفسیر ہے پہلے پاروں کی سورتیں لمبی ہیں۔ سورۃ بقرۃ میں پہلا پارہ سارا ختم ہو جاتا ہے۔ پھر دوسرا پارہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور تیسرا بھی آدھا گزر جاتا ہے اور پھر جا کر یہ سورۃ ختم ہوتی ہے۔ اور اڑھائی پاروں تک ایک ہی سورۃ چلتی چلی جاتی ہے۔ پھر آگے چل کر ڈیڑھ ڈیڑھ پارہ میں ایک ایک سورۃ آجاتی ہے۔ پھر پارے پارے میں اور پھر ایک ایک پارے میں دو دو سورتیں آجاتی ہیں۔ پھر ایک ایک پارے میں تین تین چار چار سورتیں آجاتی ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخری پارہ میں جا کر سینتیس سورتیں آگئی ہیں۔ گویا پہلی سورتیں لمبی لمبی عمارتیں تھیں جو دُور تک چلتی چلی جاتی ہیں اور آخری سورتیں چھوٹی چھوٹی عمارتیں ہیں جو ایک کے بعد دوسری اور دوسری کےبعد تیسری بدلتی چلی جاتی ہیں۔ وہاں سورۃ بقرۃ میں پہلا پارہ گزر کر بھی ایک ہی مضمون تھا اور وہی مضمون پھر دوسرے پارے میں بھی چلتا چلا جاتا ہے اور تیسرے پارہ کے نصف میں جا کر ختم ہوتا ہے۔ مگر یہاں قدم قدم پر مضمون بدلتا ہے۔ یورپین مصنفین کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی سورتوں کی ترتیب مضمون کے لحاظ سے نہیں بلکہ جو لمبی سورتیں ہیں وہ پہلے رکھ دی گئی ہیں اور جو چھوٹی سورتیں ہیں وہ آخر میں رکھ دی گئی ہیں۔ یہ بات غلط ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کی سورتوں میں مضمون کے لحاظ سے ترتیب پائی جاتی ہے اور اس ترتیب کے مطابق سورتیں رکھی گئی ہیں۔ اور اس دعویٰ کی وجہ سے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم وہ ترتیب ثابت کریں۔ اور یہ ترتیب کا مضمون اتنا مشکل ہے کہ آج تک اس پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جس میں بِالاستیعاب یہ بحث کی گئی ہو کہ قرآن مجید کی تمام سورتوں میں کُلی طور پر کس طرح ترتیب پائی جاتی ہے۔ یہ اتنا مشکل مضمون ہے کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب جیسے آدمی جو زمانہ آخر کے چوٹی کے عالم تھے اور جنہوں نے قرآن مجید کی بڑی خدمت کی ہے انہوں نے بھی آخر لکھ دیا کہ قرآن مجید کے مضامین ایسے ہیں جیسے نمائش میں مختلف اشیاء جمع کر کے رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ گویا مکمل ترتیب ثابت کرنے سے وہ بھی قاصر رہے۔پس چونکہ آج تک اس قسم کی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جس میں قرآن مجید کی ترتیب کے متعلق مکمل بحث کی گئی ہو اور ہمارے عقیدہ کی رو سے چونکہ قرآن مجید میں کُلّی ترتیب پائی جاتی ہے اس لحاظ سے آخری پارہ کی تفسیر سب سے اہم اور سب سے مشکل ہے۔ کیونکہ پہلے حصہ میں تو کہیں اڑھائی پاروں یا دو پاروں یا ڈیڑھ پارہ کے بعد جا کر سوچنا پڑتا تھا کہ اب اس سورۃ کی پہلی سورۃ سے کیا ترتیب ہے گویا مضمون کی یگانگت ہمیں سوچنے سے بے نیاز کر دیتی تھی او راڑھائی پارہ تک یا ڈیڑھ پارہ تک یا ایک پارہ تک یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ اب اس مضمون کی ترتیب کیا ہے۔ کیونکہ ایک ہی مضمون چلتا چلا جاتاتھا۔ مگر یہاں نام کو تو ایک پارہ ہے مگر سینتیس دفعہ ٹھہر کر دیکھنا پڑتا ہے کہ اس سورۃ کا تعلق پہلی سورۃ سے کیا ہےاور مضمون کے لحاظ سے کیا ترتیب پائی جاتی ہے۔ اور اس سورۃ کو اس سے پہلی سورۃ کے بعد کیوں رکھا ہے۔
پس اس لحاظ سے آخری پارہ کی تفسیر سب سے زیادہ اہم اور سب سےز یادہ مشکل ہے یہ تفسیر اگر خداتعالیٰ توفیق دے دے تو ایک مہینہ تک ہو جائے گی اور پھر اس کی وجہ سے ترتیب کے متعلق ذہنوں میں جو مشکل پید اہوتی ہے وہ حل ہو جائے گی۔ اس سے پہلے مسلمان قرآن مجید پڑھتے تھے مگر ان کے ذہن میں کبھی یہ شبہ پیدا ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے کیا تعلق ہے اور مضمون کے لحاظ سے ان دونوں میں کیا ترتیب ہے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عَمَّ يَتَسَآءَلُوْنَ۠الگ ہے، سورۃ النازعات الگ ہے، سورۂ عبس الگ ہے، ہر ایک سورۃ پہلی سورۃ سے الگ ہے اور ان میں کوئی جوڑ اور کوئی ترتیب نہیں بلکہ الگ الگ مضامین ہیں۔ اس لئے ان کو اس بات کے متعلق سوچنے کی کوفت نہیں ہوتی تھی کہ ایک سورۃ کی دوسری سورۃ سے ترتیب معلوم کریں۔ مگر ہم نے جہاں دنیا کے سامنے قرآن مجید کی ترتیب کا دعویٰ پیش کیا ہے وہاں لوگوں کاجھوٹا امن جو اُن کو حاصل تھا وہ بھی ساتھ ہی برباد کر دیا ہے۔ پہلے تو ایک مسلمان قرآن مجید پڑھتا تھا تو یہ سمجھ کر پڑھتا تھا کہ اس کے مضامین میں کوئی ترتیب نہیں اس لئے وہ بغیر کسی شُبہ کے پڑھتا چلا جاتا تھا۔ خواہ یہ اس کی کمزوری تھی، خواہ یہ علم کا نقص تھا، خواہ یہ قرآن مجید کی ہتک تھی کہ کہا جائے کہ قرآن مجید کی سورتوں میں کوئی جوڑ نہیں کوئی ترتیب نہیں۔ یونہی پہلے لمبی لمبی سورتیں جمع کر دی ہیں اور آخر میں چھوٹی چھوٹی سورتیں رکھ دی ہیں۔ کچھ بھی ہو بہرحال اس خیال کی وجہ سے وہ شبہات سے بچا ہوا تھا۔ سب مسلمان اس خیال سے قرآن مجید پڑھتے تھے کہ اس کی سورتوں میں کوئی جوڑ نہیں اس لئے وہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی ترتیب اور جوڑ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ اور ان کو مضمون کی ترتیب نکالنے کے متعلق کوئی تشویش پیدا نہیں ہوتی تھی۔ جب کوئی نئی سورۃ شروع ہوتی تو وہ یہی سمجھتے کہ اب ایک نیا مضمون شروع ہوا ہے جس کا پہلی سورۃ کے مضمون سے کوئی تعلق اور جوڑ نہیں۔ مگر جب ہماری طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ سارا قرآن مجید باترتیب ہے اور ہر ایک سورۃ اپنے سے پہلی سورۃ کے ساتھ ملتی ہے اور ان کے اندر ایک فلسفیانہ اور عقلی جوڑ پایا جاتا ہے تو ہمارے اس دعویٰ سے وہ جو جھوٹا امن حاصل تھا کہ قرآن مجید کی ترتیب نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں وہ جھوٹا امن بھی جاتا رہا۔ اب ایک احمدی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چلو سورۃالنَّبَاء کے بعد سورۃ النازعات آگئی اور اب ایک نیا مضمون شروع ہو گیا جس کا پہلی سورۃکے مضمون سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کو تو جب تک پتہ نہیں لگتا کہ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے کیا جوڑ ہے اور مضمون کے لحاظ سے ان میں کیا ترتیب پائی جاتی ہے اُس وقت تک اس کی تشویش دور نہیں ہوتی اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے قرآن مجید کو سمجھا ہی نہیں۔ کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ تمام سورتوں کا آپس میں جوڑ ہے اور اس کے مضامین میں زنجیر کی طرح ایک تسلسل اور ایک تعلق پایا جاتا ہے۔ مگر مجھے وہ ترتیب اور وہ جوڑ معلوم نہیں اس لئے میں نے قرآن مجید کو نہیں سمجھا اور یہ بے کلی اس کے دل کے اطمینان کو ضائع کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس تفسیر کے ذریعہ جو لوگ درس میں شامل نہیں ہو سکتے یا جو باہر رہتے ہیں ان کی یہ تشویش اور یہ بے کلی دور ہو جائے گی۔ اور جو لوگ درس میں شامل ہوتے ہیں ان کو تو ساتھ ہی ساتھ معلوم ہو جاتا ہے کہ کس طرح خاص حکمت اور خاص غرض کے ماتحت سورتوں کو ایک دوسری کے بعد رکھا گیا ہے اور ان کےمضامین میں کیا ترتیب اور کیا جوڑپایا جاتا ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی آخری پارہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں کثرت کے ساتھ زمانہ حاضرہ کے متعلق پیشگوئیاں اور حالات بیان کئے گئے ہیں۔ زمانہ حاضرہ کے متعلق جتنی باتیں اور جتنی خبریں اس پارہ میں بیان کی گئی ہیں شاید سارے قرآن مجید میں بھی اس زمانہ کے متعلق اتنی خبریں اور اتنے حالات بیان نہیں کئے گئے۔ بعض جگہوں پر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اِس زمانہ کا گویا تمام نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے۔ پس اِس زمانہ کے حالات کا جس رنگ میں اس پارہ میں ذکر کیا گیا ہے اور جو نقشہ خداتعالیٰ کے اس زمانہ میں ظاہر ہونے والے افعال کا اس بارہ میں کھینچا گیا ہے ہر آدمی جو چاہے احمدی نہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کا مطالعہ کرے اور معلوم کرے کہ قرآن مجید میں آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے کس طرح اس زمانہ کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور اِس زمانہ میں پیدا ہونے والے مفاسد کا کیا علاج بتایا گیا ہے اور کس رنگ میں آئندہ ترقی کرنے کی صورت کو پیش کیا گیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اگر حالات مساعد ہوں تو آخری پارہ فروری کے آخر تک یا مارچ کے شروع تک ختم ہو جائے گا۔ آگے پھر چھپنے کا سوال ہے اس کا میرے ساتھ تعلق نہیں۔ اس کا تعلق دفاتر کے ساتھ ہے اور یہ ان کا کام ہے۔ جنگ کی وجہ سے مشکلات اور قدم قدم پر روکیں پیدا ہو رہیں ہیں۔ کاغذ تو موجود ہے باقی کاموں کے متعلق کوشش ہو رہی ہے۔ امید ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اپریل، مئی یا حد جون تک یہ جلد شائع ہو جائے گی۔ اس کے بعد جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا تھا میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اسی سال پہلی جلد بھی جو آدھی باقی ہے مکمل کرکے شائع کر دی جائے۔
اس کے بعد میں جماعت کوتحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ اب جو جمعہ آئے گا اس جمعہ کے خطبہ میں تحریک جدید کی تحریک کرنا بے فائدہ ہو گا کیونکہ وہ خطبہ وقت پر نہیں پہنچ سکے گا۔ پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو اپنے آئندہ فرائض معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ میں یہ بتا دوں کہ جو کام ہمارے سامنے ہے وہ بہت بڑی قربانی چاہتا ہے۔ وہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے ابتدائی اخراجات کے لئے بھی ہمارے پاس سامان موجود نہیں۔ اب جبکہ جنگ کے خاتمہ کے آثار نظر آرہے ہیں اور جبکہ ہمیں جلد سے جلد تبلیغ کرنے کا موقع ملنے والاہے میں نے پھر ایک دفعہ اس سارے مضمون کو اپنے دماغ میں دہرانا شروع کیا اور ساتھ ساتھ اس میں سے کچھ باتیں کاغذ پر نوٹ کرتا گیا۔ میں نے غور کیا کہ تبلیغ کے لئے ہم پہلا قدم کیا اٹھائیں اور اس کے لئے کس قدر اخراجات کی ضرورت ہے۔ چنانچہ میں غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگرہم صحیح طور پر تبلیغ کرنا چاہیں تو فی مرکز میں چھ چھ مبلغوں کی ضرورت ہے۔ اور مرکز سے مراد وہ علاقہ نہیں ہے جس میں ہم تبلیغ وسیع کرنا چاہتے ہیں اور جہاں آدمی کامیاب طور پر تبلیغ کر سکتا ہے۔ مثلاً انگلستان کو ہی لے لیں۔ تو اسے ہم ایک مرکز قرار نہیں دے سکتے۔ کیونکہ انگلستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ کی ہے۔ اس ساڑھے چار کروڑ کی آبادی کو چھ آدمی ایک جگہ بیٹھ کر تبلیغ نہیں کر سکتے۔ انگلستان کو جانے دو۔ لندن کو ہی لے لیا جائے تو لندن میں بھی چھ آدمی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ لندن کی آبادی اسّی لاکھ کی ہے اور یہ شہر ستّر اسّی میل تک پھیلا ہؤا ہے اور اس کے باشندے اپنے کاموں میں اتنے مشغول رہتے ہیں کہ ان کو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہوتی۔ شاذ ہی کوئی ہو گا جو اپنے کام سےوقت بچا کر کسی دوسرے کام کے لئے دے سکے اور اس طرف توجہ کر سکے۔ تو انگلستان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ چھ مبلغ وہاں مؤثر طور پر تبلیغ کر سکتے ہیں یہ خیال ہی غلط ہے۔ اگر لندن کے دس دس لاکھ کے حصے کر لئے جائیں تو تب بھی سات آٹھ مبلغ ہونے چاہئیں مگر یہ تو ساری دور کی خوابیں ہیں۔ بے شک دور کی خوابیں بھی اللہ تعالیٰ نزدیک کر دیا کرتاہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مکی زندگی میں کس کو یہ خیال آسکتا تھا کہ آج سے سات سال کے اند رمسلمان سارے عرب پر غالب آجائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ دور کی خوابیں بھی حقیقت میں بدل دیا کرتاہے۔ مگریہ تو اس کا فعل ہے اس کو وہی جانتا ہے کہ کب ہو گا۔ ہم نے تو اپنے ماحول کو ہی دیکھنا ہے۔ تو موجودہ حالات کے لحاظ سے اگر ہم یہی کریں کہ سارے انگلینڈ کو ایک مرکز قرار دیں تو ہے تو یہ عجیب بات کہ چار ساڑھے چار کروڑ کی آبادی کو تبلیغ کرنے کے لئے جو کئی ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے ہم یہ فیصلہ کریں کہ اس کو ایک مرکز قرار دیں اور چھ مبلغ وہاں رکھیں۔ کیونکہ چھ آدمی اتنی آبادی میں تبلیغ کا کام پوری طرح نہیں کر سکتے۔ بہرحال اگر موجودہ مشکلات کے لحاظ سے ایک مرکز انگلستان کو قرار دیں اور ایک ایک مرکز جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین اور شمالی یورپ اور مشرقی یورپ میں رکھیں تو یہ سارے دس کے قریب مرکز ہوتے ہیں۔ اور پھر اس کے علاوہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے حصے ہیں۔ پھر عرب ممالک کے پانچ اور ایران کا ایک اور افریقہ کے دس کُل اٹھائیس مراکز، ممالک اور براعظموں کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ اور ان میں ایک ایک ملک میں صرف چھ چھ مبلغ مقرر کریں تو کُل ایک سَو اَڑسٹھ مبلغوں کی ضرورت بنتی ہے۔ اور چونکہ ہر مبلغ، اس کے قائمقام ، سفر خرچ ، لٹریچر اور نگرانی کا خرچ کم سے کم سات سو ماہوار فی مبلغ ہوتا ہے۔ اس تعداد کا کُل خرچ گیارہ لاکھ روپیہ سالانہ کے قریب ہوتا ہے۔ جب میں نے اس پر غور کیا تو میں نے کہا ابھی جتنی چادر ہے اُتنے پاؤں پھیلاؤ۔ کیونکہ یہ کام ابھی ہماری طاقت سے باہر ہے اور ہمارے پاس اتنے سامان نہیں کہ ان تمام جگہوں پر مرکز قائم کر سکیں۔ لیکن یہ بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ کسی ایک ملک کو چُن کر وہاں تبلیغ شروع کر دی جائے۔ کیونکہ حالات کے لحاظ سے یہ تمام ممالک ایسے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ اس زمانہ میں خطرناک تغیرات کسی ایک ملک میں رونما نہیں ہو رہے بلکہ یہ تغیرات عالمگیر ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ عالمگیر تبلیغ کے سامان مہیا فرمائے۔ اگر خداتعالیٰ کا ارادہ عالمگیر تبلیغ کے لئے سامان مہیا فرمانے کا نہ ہوتا تو خطرناک تغیرات صرف اٹلی میں رونما ہوتے یا صرف فرانس میں رونما ہوتے یا صرف جرمنی میں رونما ہوتے یا صرف انگلستان میں رونما ہوتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کے ایک سرے سے لے کر دوسرے تک اس قسم کے تغیرات رونما ہوئے ہیں اور خصوصاً مغربی یورپ میں تو اتنے خطرناک تغیرات پیدا ہو چکے ہیں کہ وہاں نہ کوئی حکو مت باقی رہی ہے اور نہ سرحدیں باقی رہی ہیں اور جس طرح لوہے کو گلا دیا جاتا ہے اِسی طرح سارے کا سارا یورپ گل گیا ہے۔ کوئی قومیت باقی نہیں رہی اور کوئی ملک نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا ہونے والاہے۔ فرانس اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا کہ کل کو کیا بننے والا ہے، اٹلی اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا ،سپین اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا، یوگوسلاویہ اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا۔ اسی طرح ہنگری اور دوسرے یورپین ممالک بھی نہیں جانتے کہ کیا بننے والا ہے اور مستقبل میں ہمارا کیا حال ہو گا۔ شاید روس اپنے مستقبل کے متعلق سمجھتا ہو لیکن درحقیقت اس کی بھی ناواقفیت ہے۔ خود انگلستان میں بھی گھبراہٹ ہے کہ ہماری کامن ویلتھ کا کیا بنے گا۔ اخبارات میں اس قسم کے حالات نہیں آتے۔ میں انگلستان سے ایک رسالہ منگواتا ہوں جو پارلیمنٹ کی طرف سے شائع ہوتاہے۔ قانونی طور پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے کچھ ممبر مل کر اسے شائع کرتے ہیں۔ جس میں اس قسم کی ساری اہم باتوں کے متعلق بحث ہوتی ہے کہ ہماری کامن ویلتھ کا کیا بننے والا ہے۔ اسی طرح یورپ اور امریکہ کے ممالک کی پالیٹکس کے متعلق بحث ہوتی ہے کہ کیا کیا تغیرات رونما ہونے والے ہیں اور کس قسم کے خطرات پیش آنے والے ہیں۔ اس رسالہ سے پتہ لگتا ہے کہ خود انگلستان کے لوگ بھی گھبرا رہے ہیں کہ ہماری کامن ویلتھ کا کیا ہونے والا ہے۔
پس ان حالات میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خدا کی آواز ہمیں بلا کر کہہ رہی ہے کہ ہماری تبلیغ کسی ایک ملک کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ ان تمام ممالک میں تبلیغ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ جب میں نے ان حالات پر غور کیا تو میں نے سوچا کہ انگلستان، جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین کم سے کم یورپ کے یہ ممالک تو ایسے ہیں جن کو کسی طرح بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ روس کو بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ مگر وہاں چونکہ تبلیغ کی اجاز ت نہیں اس لئے مجبوری ہے۔ روس میں آزادی کا ڈھول تو بہت پیٹا جاتا ہے مگر اس کے متعلق ہمارا نہایت تلخ تجربہ ہے۔ ہمارے آدمی وہاں کے قید خانوں سے نکل نکل کر آئے ہیں اور ایک کو تو کئی سال قید میں رکھا اور اسے بڑی بڑی سخت تکالیف دی گئیں۔ پس اس میں تبلیغ کا ابھی انتظام نہیں کیا جا سکتا۔ باقی یورپ کے ہر ملک کے دروازے ہمارے لئے کُھلے ہیں اور ہم انہیں اپنی تبلیغ میں لا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ میں بھی شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ دو الگ الگ براعظم ہیں۔ اول تو جنوبی امریکہ میں ہی تیرہ چودہ وسیع حکومتیں ہیں۔ پھر بھی اگر ہم سارے جنوبی امریکہ کو ایک مرکز قرار دے لیں کہ وہ لوگ متحدُ الْقوم اور متحدُ الِّلسان ہیں اور اسی طرح شمالی امریکہ کو بھی ایک مرکز قرار دیں تو پانچ وہ (یعنی انگلستان جرمنی، فرانس، اٹلی اور سپین) اور دو یہ ۔ کُل سات مرکز ہو گئے۔ گویا بیالیس مبلغ ہوں تو ان سات مراکز میں تبلیغ ہو سکتی ہے۔ مگر میں نے اندازہ لگایا کہ بیالیس مبلغوں کا بھی اتنا بوجھ ہے کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے اسے برداشت کرنا ناممکن ہے یعنی جہاں تک جماعت کی قابلیت کے معیار کا سوال ہے اس کے لحاظ سے تو یہ ناممکن نہیں۔ مگر جس قربانی کے معیار پر جماعت اِس وقت کھڑی ہے اس کے لحاظ سے یہ مشکل ہے۔ ورنہ جماعت کی حالت تو ایسی ہے کہ اگر وہ قربانی کے صحیح معیار کو قائم رکھے تو پھر یہ ناممکن نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت قربانی کے صحیح معیار پر قائم رہے تو اس سے زیادہ کام بھی ہو تو وہ بھی ہو سکتا ہے۔
خیر تو مَیں نے سوچا کہ اگر ہم ان مرکزوں میں سے ہر ایک میں چھ چھ مبلغ رکھیں تو سات مراکز کا خرچ ساڑھے تین لاکھ روپیہ سالانہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ ساڑھے تین لاکھ روپیہ سالانہ کا بار ایسا ہے کہ تحریک جدید کا فنڈ اسے اٹھا نہیں سکتا۔ مگر عرب، ایران یہ پھر بھی اس سے باہر رہ جاتے ہیں اور یہ دونوں ملک ایسے ہیں کہ ان کو بھی خالی نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر ان ممالک کو بھی ملا لیں، افریقہ کو بھی ملا لیں اور پھر اس رقم کو بھی ملا لیں جو مبلغین کے جانے پر کرایہ کے لئے خرچ ہو گی اور پھر ان مبلغین کے جو قائمقام یہاں رکھے جائیں گے ان کے اخراجات کو بھی ملا لیں تو اس لحاظ سے یہ سکیم ناقابلِ عمل نظر آتی ہے۔ اور یہ اتنا بار ہے کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے ناممکن ہے کہ تحریک جدید اس بار کو اٹھا سکے۔ یہ سوچنے کے بعد پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر ایک مرکز میں مبلغین کی تعداد کم کر دی جائے۔ اور میں نے یہ تجویز کیا کہ انگلستان میں بجائے پورا مرکز رکھنے کے آدھا مرکز رکھا جائے یعنی چھ کی بجائے تین مبلغ رکھے جائیں۔ اور اسی طرح امریکہ میں بھی آدھا مرکز رکھا جائے اور تین مبلغ وہاں رکھے جائیں۔ اور باقی جتنے مراکز ہیں ان میں دو دو مبلغ رکھے جائیں۔ گویا ایک مرکز کا ایک تہائی حصہ وہاں رکھیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک ایک مرکز میں د ودو مبلغ رکھنا کوئی مؤثر تبلیغ نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ یہ ممالک ہیں شہر نہیں۔ لیکن بہرحال کام چلانے کے لئے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ تین مبلغ انگلستان میں، دو فرانس میں، دو جرمنی میں اور اگر ایک زائد کا انتظام ہو گیا تو جرمنی میں تین کر دیئے جائیں گے اور ہالینڈ کو بھی اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ گویا دو جرمنی کے لئے اور ایک ہالینڈ کے لئے اور دو مبلغ اٹلی میں اور دو سپین میں۔یہ گویا قلیل سے قلیل دائرہ تبلیغ ہے۔ اور پھر ادھر فلسطین اور شام اور ایران ہیں۔ فلسطین اور شام میں ہمارا صرف ایک مشنری کام کر رہا ہے۔ مگر خدا کے فضل سےان لوگوں میں بیداری پائی جاتی ہے اور یہ لوگ جلد صداقت قبول کرتے معلوم ہوتے ہیں اور یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ اگر عرب، فلسطین، شام، عراق اور مصر کے لوگ دور دور دنیا کے کناروں تک اسلام نہ پہنچاتے تو ہم تک یہ نعمت نہ پہنچتی۔ ہم میں سے ہر ایک کی گردن ان ملکوں کے احسان کےنیچے جُھکی ہوئی ہے۔ کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہمیں انہوں نے پڑھایا۔ اب ہمارا بھی حق ہے کہ اگر وہ اس لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے اصلی معنوں کو بھول گئے ہیں توہم دوبارہ ان کو یاد کرائیں۔ ایک شریف آدمی جب تک ایک معمولی سے معمولی احسان کا بدلہ بھی اتار نہیں لیتا اُس وقت تک اسے چَین نہیں آتا۔ اور یہ تو اتنا بڑا احسان ہے کہ اگر ہم اتنے بڑے احسان کا بدلہ نہ اتاریں تو حد درجہ کی بے حیائی کہلائے گا۔ تو یہاں مشن قائم کرنے بھی ضروری ہیں اس کے لئے اگر ہم قلیل سے قلیل تعداد میں مبلغ رکھیں تو کم از کم تین عرب میں اور دو ایران میں ہونے چاہئیں۔ ا س سے کم تعداد میں کام ہو سکتا ہی نہیں۔ دراصل تو بیسیوں مبلغ عربی ممالک میں اور درجنوں ایران میں ہونےچاہئیں۔ پھر افریقہ ہے جہاں خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھ رہی ہے اور نہایت سُرعت کے ساتھ ہماری تبلیغ پھیل رہی ہے۔
میں نے ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو قلیل سے قلیل اندازہ لگایا ہے تاکہ میں اس کے مطابق کام شروع کر دوں وہ یہ ہے کہ میں نے تجویز کیا ہے کہ تین مبلغ عربی ممالک میں، دو ایران میں، دو سپین میں، دو فرانس میں، دو اٹلی میں، تین جرمنی میں (جس میں ہالینڈ بھی شامل ہو گا) تین انگلستان میں، تین شمالی امریکہ میں اور دو جنوبی امریکہ میں رکھے جائیں۔ یہ سارے بائیس مبلّغ بنتے ہیں اور یہ قلیل سے قلیل تعداد ہے جس سے کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے کم تعداد میں کسی صور ت میں بھی کام نہیں کیا جا سکتا۔ جب میں نے ان کے اخراجات کا اندازہ لگایا تو تین مبلغ انگلستان میں، تین جرمنی میں، دو فرانس میں، دو اٹلی میں، دو سپین میں، دو ایران میں، تین عرب میں، تین شمالی امریکہ میں اور دو جنوبی امریکہ میں، بائیس مبلغ تو یہ ہو گئے۔ اور پندرہ مبلغ افریقہ میں۔ یہ کُل سینتیس مبلغ ہو گئے۔ اور سینتیس مبلغ ان کو فارغ کرنے کے لئے مرکز میں رکھے جانے چاہئیں۔ ان 74مبلغوں کے لئے میں نے دو لاکھ پچاس ہزار روپیہ سالانہ کا اندازہ لگایا ہے۔ ہمارا تحریک جدید کا دسویں سال کا جو چندہ تھا اگر جماعت کی قربانی کا معیار گیارھویں سال میں اس کے مطابق ہوتا تو اس سے یہ کام چل سکتا تھا۔ دسویں سال تحریک جدید کے تین لاکھ تیس ہزار سے کچھ زائد کے وعدے تھے اور ان میں سے تین لاکھ ا ٹھائیس ہزار روپیہ وصول ہو چکا ہے۔ اگر جماعت کی قربانی اس معیار پر قائم رہتی تو یہ ایسی رقم تھی کہ اس سے ان سینتیس مبلغوں کے اخراجات کا انتظام ہو سکتا تھا۔ اور پھر اتنے ہی آدمی یہاں قادیان میں بھی رکھے جا سکتے تھے جو مدرسہ کو جاری رکھیں۔ اور پہلے مبلغوں کو جو باہر گئے ہوئے ہوں جب ان کو واپس بلایا جائے(تاکہ ان کی نسل اور ان کی بیویاں تباہ نہ ہوں اور یوں بھی پہلوں کا واقفیت کے لئے بار بار قادیان آنا ضروری ہے) تو ان لوگوں کوان کی جگہ بھجوایا جائے۔
پس اگر جماعت کی قربانی کا وہی معیار قائم رہتا جو دسویں سال میں تھا تو اس سکیم کو جاری کرنا مشکل نہیں تھا۔ تین لاکھ تیس ہزر روپیہ کی آمد سے دو لاکھ پچاس ہزار کا خرچ سینتیس مبلغوں کا کام چلانے کے لئے کافی ہو جاتا۔ اور باقی کو ریزرو فنڈ کے طور پر جمع رکھا جاتا تا فوری ضرورتوں کے وقت اس سے کام لیا جا سکے۔ اسی وجہ سے میں نے گیارھویں سال کے لئے یہ تجویز کی تھی کہ جن لوگوں نے دس سال حصہ لیا ہے وہ اپنی قربانی کو اور نو سال تک جاری رکھیں اور کم سے کم نویں سال کے برابر حصہ لیں۔ اس طرح اس قدر رقم کا پورا کرنا ممکن ہو جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اِسی خیال سے کہ اس کام نے ہمیشہ جاری رہنا ہے میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ایک اَور جماعت پانچ ہزاری فوج کی تیار کی جائے جو آئندہ انیس سال تک اپنی ایک ماہ کی آمد ہر سال دیا کرے تاکہ نو سال کے بعد جب پہلی پانچ ہزاری فوج اپنے کام سے فارغ ہو تو یہ دوسری پانچ ہزاری فوج بوجھ اٹھالے اور اسی طرح ہر دس سال بعد ایک نئی پانچ ہزاری فوج۔ اور اگر خداتعالیٰ چاہے تو ائندہ دس ہزاری اور پھر اس سے بڑی فوج تیار ہوتی چلی جائے۔ کیونکہ آخر اس انیس سال کے عرصہ میں بعض بچے جوان ہو چکے ہوں گے اور بعض نئے احمدی بھی ہوں گے۔ تو جب پہلے دَور کے لوگ اپنے انیس سال پورے کریں گے تو ان کے بعد نئے احمدی ہونے والے اور نئے پیدا ہونے والے ان کے قائم مقام پیدا ہو چکے ہوں گے اور اس طرح ہمیشہ ہمیش تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ جو لڑکا اس دَور کے پہلے سال میں پیدا ہو گا انیس سال کے بعد وہ جوان ہو کر برسرِروزگار ہو چکا ہو گا اور اس قابل ہو گا کہ دین کی خاطر قربانیوں میں حصہ لے سکے۔ اور جو اس دَور کے پہلے سال میں تین چار سال کا ہو گا انیس سال کے بعد وہ بائیس تئیس سال کا ہو چکا ہو گا۔ گویا انیس سال کا دَور ہونے کے لحاظ سے نئی پود تیار کرنے کا ایسا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے جو قیامت تک اپنی قربانی کو جاری رکھے۔ انیس سال کے بعد پہلے لوگوں پر سے یہ بوجھ اُتر چکا ہو گا۔ اور ان کے بعد ایک نئی پَود اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہو گی جنہوں نے پہلے سالوں میں حصہ نہیں لیا ہو گا۔ یا جو نئے احمدی ہوں گے یا جو بچے تھے اور انیس سا ل کے بعد جوان ہو کر برسرِروزگارہو چکے ہوں گے اب ان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے باپ دادوں اور بھائیوں کی قربانی کا بوجھ اپنے ذمہ اٹھائیں۔ اور جب ان لوگوں کے بھی انیس سال ختم ہوں گے تو پھر اَور نئی پَود تیار ہو چکی ہو گی جوان کا بوجھ اٹھائے گی۔ اور اس طرح جماعت کی قربانی کا سلسلہ ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری رہے گا۔ غرض انیس سال کاعرصہ اتنا کافی عرصہ ہے کہ اس کے بعد نئی نسل آجاتی ہے اور پھر بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی آجاتی ہے جو ہزاروں کی تعداد میں نئے احمدی ہوتے ہیں۔ ان کا بھی فرض ہو گا کہ اس قربانی میں حصہ لیں۔
پس اس سکیم سے میرا منشاء یہ تھا کہ یہ سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے اور جوں جوں ہماری تبلیغ بڑھتی جائے اور کام وسیع ہوتا جائے ساتھ ہی ساتھ اس کام کو چلانے کےلئے بھی سامان بھی پیدا ہوتے چلے جائیں۔ چنانچہ اس سکیم کے ماتحت میں نے تحریک کی تھی کہ جو لوگ پچھلے دس سالوں میں حصہ لیتے رہے ہیں وہ آئندہ نو سال تک حصہ لیں اور انیس سال کا دور پورا کریں۔ اور گیارھویں سال کا چندہ کم از کم نویں سال کے برابر ضرور دیں۔ میں سمجھتا تھا کہ کچھ لوگ تو ایسے ہوں گے کہ اگر ان کے حالات اجازت نہ دیں تو وہ کم از کم نویں سال کے برابر تو ضرور دیں گے اور کچھ مخلصین ایسے بھی ہوں گے جو دسویں سال کے برابر یا ا س سے زیادہ دیں گے اور اس طرح ہمارا سلسلہ تحریک جدید کی اتنی رقم پیدا کرتا رہے گا کہ جو رقم تبلیغ کی اس سکیم کے بوجھ کو اٹھا لے گی۔ کیونکہ نویں سال دو لاکھ کے قریب کے وعدے وصول ہوئے تھے۔ تو اگر گیارہویں سال اڑھائی لاکھ کی آمد ہو تو تبلیغ کی سکیم پر جو اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی رقم خرچ ہو گی وہ اس سے نکل آئے گی۔ اور اگر کسی وقت کچھ کمی رہی تو وہ نئی پانچ ہزاری فوج کی رقم سے ادا کی جا سکے گی۔ پھر جس وقت دفتر اول والوں کے انیس سال پورے ہو جائیں گے تو دفتر دوم والوں کے ابھی دس سال باقی ہوں گے اور وہ منظم ہو کر اس بوجھ کو اٹھا لیں گے۔اور جو کمی رہ جائے گی اس کو پورا کرنے کے لئے دفتر سوئم والے آجائیں گے۔ اور پھر جب دفتر دوئم والوں کے انیس سال پورے ہو جائیں گے تو اُس وقت دفتر سوئم والوں کے ابھی دس سال باقی ہوں گے وہ اس بوجھ کو اٹھا لیں گے۔ اور جو کمی رہ جائے گی اس کو پورا کرنے کے لئے دفتر چہارم والے آجائیں گے اور اس طرح جماعت کی قربانی کا سلسلہ قیامت تک چلتا جائے گا۔
یہ سکیم میرے ذہن میں تھی جہاں تک ابتدائی حصہ نے حصہ لیا ہے واقع میں ان کی قربانی بہت شاندار تھی۔ ان ابتدائی حصہ لینے والوں میں بالعموم ایسے تھے جنہوں نےد سویں سال سے بڑھا کر وعدے کئے۔ اور تھوڑے ایسے تھے جنہوں نے نویں سال کے برابر وعدے کئے۔ پھر ان وعدہ کرنے والوں میں سے چونکہ بعض فوت بھی ہو جاتے ہیں، بعض کی پنشن ہو جاتی ہے اس بات کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس وجہ سے بھی وصولی کے وقت آٹھ دس فیصدی رقم خطرہ میں رہتی ہے۔ مگر جو حصہ باقی رہ گیا تھا انہوں نے قربانی کرنے میں کوتاہی کی ہے اور انہوں نے ابتدائی حصہ لینے والوں کے برابر اخلاص کا نمونہ پیش نہیں کیا۔ اس وقت تک دفتر اول کے گیارھویں سال میں صرف ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ کےوعدے آئے ہیں۔٭ لیکن یہ وعدے صرف ہندوستان کے ہیں۔ ہندوستان سے باہر کے وعدے ابھی باقی ہیں۔ اور ابھی ہندوستان کے وعدوں میں بھی آٹھ دس دن باقی ہیں۔ سات دن (7فروری) تک تو وعدے لکھوائے جا سکتے ہیں اور کچھ وقت ڈاک میں خطوط آنے پر بھی صَرف ہو گا۔ اس کو ملا کر قریباً دس دن ابھی باقی ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اس سال دو لاکھ سے اوپر کے وعدے ہو جائیں گے۔ لیکن یہ دو لاکھ کی رقم تبلیغ کے اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان مشنوں کو جاری رکھنے کے لئے اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی کم سے کم ضرورت ہے اور جو نئی تحریک (دفتر دوم) کی میں نے جاری کی تھی مجھے افسوس ہے کہ اب تک وہ پوری طرح منظم نہیں ہو سکی۔ اس کے وعدے اِس وقت تک صرف پچیس ہزار سالانہ کے ہوئے ہیں۔ اگر دفتر دوم کو منظم کر کے پانچ ہزار نئے آدمی تیار کر لئے جائیں توامید ہے دفتر دوم کے ذریعہ سے بھی ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو سکتی ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو دفتر اول والوں کی قربانی کا وقت ختم ہونے کے بعد یہ لوگ اس بوجھ کو اٹھا سکیں گے۔ مگرجو وقفہ پڑا ہے اور اس سے جو کمی واقع ہوئی ہے اس کمی کودور کرنے کے لئے جماعت کو اس کام کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو کام ہمارے سامنے ہے اس کے لئے کتنی بڑی قربانی درکار ہے۔
بعض لوگوں کے دلوں میں یہ بھی خیال پیدا ہو سکتاہے کہ جائیدادوں کی آمدنی کہاں جائے گی۔ یہ بھی میں واضح کر دیتا ہوں کہ بڑے کاموں کے لئے ہمیشہ بڑی تیاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے نہ تو تبلیغ کا یہ دائرہ وسیع ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور نہ ہی اتنے مبلغ کافی ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ہر ملک میں اس سے آٹھ دس گُنا زیادہ مبلغ رکھنے پڑیں گے اور علاقوں کے لحاظ سے گویا ساٹھ ستّر گُنا زیادہ علاقوں میں تبلیغ کو وسیع کرنا پڑے گا۔ اور پھر بھی ابھی بہت سی دنیا ہماری تبلیغ سے باہر رہ جائے گی۔ اگر موجودہ حالت سے ساٹھ گُنا زیادہ علاقوں میں تبلیغ کو وسیع کریں تو موجودہ اندازہ مَیں نے اڑھائی لاکھ بتایا ہے اس کو اگر ساٹھ سے ضرب دیں تو یہ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپیہ ہو جاتا ہے۔ بہرحال جب وہ زمانہ آئے گا تو اُس وقت خداتعالیٰ ایسے سامان بھی پیدا کر دے گا کہ ایک کروڑ پچاس لاکھ تو کیا اگر ایک ارب روپیہ کا مطالبہ کیا جائے گا تو لوگ کہیں گے یہ تھوڑا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ زمانہ کب آئے گا ۔ہماری زندگی میں آئے یا ہماری زندگی کے بعد آئے، مگر آئے گا ضرور۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خداتعالیٰ کے وعدے نہیں ٹل سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیّت فیصلہ کر چکی ہے کہ ساری دنیا پر اسلام اور احمدیت کی تبلیغ پھیلا دی جائے۔ اور اس کے لئے غیر معمولی سامان پیدا ہو رہے ہیں، آسمان سے فرشتے نازل ہو رہے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کی اصلاح کرلیں اور روحانی توپیں مادیت کے قلعوں کو مسمار کرنے کے لئے گاڑی جارہی ہیں۔
یہ کام تو ہو گا جب ہو گا مگر جہاں تک انسانی تدابیر کا سوال ہے اس کے لحاظ سے بھی اب ایسا زمانہ آرہا ہے کہ ہمیں اپنے کاموں کو بڑھانا پڑے گا۔ اگر کسی شخص کے ہاں آج بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے لئے ایک گز کپڑا درکار ہوتاہے تو کوئی احمق ہی ہو گا جو یہ کہے کہ اگلے سال بھی اتنے کپڑے میں ہی کام چل جائے گا۔ کیونکہ اگلے سال اس کے لئے دو گز کپڑا درکار ہو گا۔ اور کوئی نادان ہی ہو گا جو یہ خیال کرے کہ پانچ چھ سال کے بعد بھی دو گز میں ہی کام چل جائے گا کیونکہ پانچ چھ سال کے بعد پھر اسے تین چار گز کپڑا درکار ہو گا۔ اسی طرح جوں جوں وہ بچہ بڑھتا چلا جائے گا اس کے لئے زیادہ سے زیادہ کپڑا درکار ہو گا۔ پس ہم نے اگر آج ایک کام شروع کیا ہے تو کل اس کام میں جو زیادتی پیدا ہونے والی ہے ہمیں اس کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔ اگر آج ہم اڑھائی لاکھ روپے سے کام شروع کرتے ہیں تو آج سے پانچ سال بعد ہمیں پانچ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہو گی اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں آج سے ہی سامان کرنا ہو گا۔ اس لئے میں نے جائیداد کی آمد کو اس وقت بالکل مدنظر نہیں رکھا۔ اول تو اِس جائیداد پر پانچ لاکھ روپے کا قرضہ ہے۔ اس عرصہ میں اس سے جو آمد ہو گی اس سے یہ قرضہ اتاریں گے۔ اس کے بعد جو آمد ہو گی اس کو ریزرو فنڈ میں جمع کریں گے۔ اور پھر اس سے اَور آمدنی پیدا کرنے کے ذرائع سوچیں گے اور کام میں جووسعت پیدا ہو گی وہ اس آمدنی سے پوری کریں گے۔ پس جہاں تک موجودہ اڑھائی لاکھ روپے کا بوجھ اٹھانے کا سوال ہے یہ بوجھ تحریک جدید کے چندوں پر ڈالا جائے اور جب دفتر اول کے انیس سال پورے ہوں تو دفترثانی اس بوجھ کو اٹھائے۔ مگر اُس وقت تک کام میں جو وسعت پیدا ہو چکی ہو گی اور اس کام کو چلانے کےلئے جو ضرورت بڑھ جائےگی وہ ضرورت اس ریزرو فنڈ کی آمد سے پوری کی جائے۔ میں اس کے متعلق بتانا نہیں چاہتا تھا مگر شاید یہ خیال کیا جائے کہ جائیداد کی آمد بے کار پڑی رہے گی اس لئے میں نے بتا دیا ہے کہ وہ بے کار نہیں پڑی رہے گی بلکہ اس کے آمدنی کےنئے ذرائع پیدا کئے جائیں گے جو کام کی وسعت کو سنبھال سکیں۔ اِس وقت اس جائیداد کی قیمت پنجاب کی قیمتوں کےلحاظ سے اسّی لاکھ روپیہ کی ہے اور وہاں (سندھ) کی قیمتوں کے لحاظ سے ستائیس لاکھ روپے کی ہے اور گورنمنٹ کو اس پر کوئی سترہ لاکھ روپے کے قریب اس کی قیمت دی گئی ہے۔ اس رقم میں سے چھ سات لاکھ روپیہ چندوں سے بچا کر دیا گیا ہے۔ باقی وہیں کی آمدنی سے یا قرض لے کر ادا کیا گیا ہے۔ کُل سترہ لاکھ روپیہ دے کر اب یہ جائیداد آزاد کرائی جا چکی ہے جس کی قیمت اب ستائیس لاکھ روپیہ ہے۔ تین چار لاکھ وہاں کی آمدنی سے، پانچ لاکھ قرض لے کر اور چھ سات لاکھ چندہ میں سے ادا کیا گیا ہے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ ان جائیدادوں کو منظم کر کے ان کی آمدنی سے آہستہ آہستہ بیس پچیس لاکھ کا ایک اَور ریزرو فنڈ قائم کر دیا جائے۔
پس میری اِس سکیم کے ماتحت جائیداد کی آمدنی کو اُس وقت تک چُھؤ انہیں جا سکتا۔ ورنہ کچھ سال کے بعد کام کے بڑھنے پر سلسلہ کو سخت نقصان پہنچے گا۔ ضرورت ہے کہ اس کی آمدن سے مزید آمد پیدا کی جائے تاکہ کام میں جو وسعت پیدا ہو اس کے لئے ابھی سے سامان مہیا کرنا شروع کر دیا جائے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے ڈیڑھ کروڑ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ہم بیس پچیس لاکھ روپیہ سالانہ بھی خرچ کریں تو اس بیس پچیس لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد پیدا کرنے کے لئے بھی ابھی سے سامان پید اکرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ جماعت کو کس قدر بڑھا دے گا کہ وہ اِس بوجھ کو اٹھا لے۔ ہماری امیدیں تو یہی ہیں اور کل مَیں نے جب مبلغین بلائے کہ باہر جانے کے لئے تیاری شروع کردیں تو میں نے ان سے یہی کہا کہ ہمارے پاس اتنے سامان بھی نہیں لیکن کام کو وسیع کرنے کے بغیر بھی چارہ نہیں۔ آپ اس نیت سے باہر جائیں اور وہاں جاکر یہ کوشش کریں کہ اس ملک کے اتنے افراد احمدی ہو جائیں کہ اُن کا چندہ اُس ملک کی تبلیغ کے بوجھ کو اٹھائے تاکہ مرکز پر سے جلد اُن مشنوں کا بوجھ اُتر جائے۔ اور وہ فارغ شدہ رقوم سے اَور مبلغ بھجوا سکے۔ پس یہ تین باتیں میں جماعت کے سامنے رکھتا ہوں۔
اول یہ کہ جماعت کے دوست تحریک جدید کے چندہ میں اس رنگ میں حصہ لیں کہ ہر گروپ انیس سال تک اس بوجھ کو اٹھائے۔ اور جب انیس سال کے بعد ان کی قربانی ختم ہو جائے تو پھر دوسرا گروپ آگے آئے اور وہ اس بوجھ کو اٹھائے اور اس طرح قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے۔ اس طرح ہر فرد پر اس کا ہمیشہ بوجھ نہیں رہے گا۔ کیونکہ انیس سال کے بعد نئی نسل آجائے گی اور وہ اس بوجھ کو اٹھا لے گی اور اس طرح یہ تبلیغ ہمیشہ تک جاری رہے گی۔
دوسرے یہ کہ ہمارے مبلغ اس محنت اور دیانتداری سے کام کریں کہ وہ جس ملک میں جائیں وہ ملک دو تین سال کے بعد وہاں کی تبلیغ کا بوجھ خود اٹھائے۔
تیسرے یہ کہ جائیداد کی آمدنی ریزرو فنڈمیں جمع ہوتی رہے۔ ان تینوں ذرائع کو ملا کر امید ہے کہ اگر ہم اس کے مطابق چلیں اور گناہ کی شامت ہمارےرستہ میں حائل نہ ہو تو دس بارہ سال کے بعد بیس پچیس لاکھ روپیہ سالانہ کی آمدنی ان تینوں ذرائع سے پیدا ہو سکے۔ بہرحال اصل نتیجہ تو دس بارہ دن کے بعد ہی معلوم ہو گا کہ تحریک جدید میں دوستوں نے کس حد تک حصہ لیا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ میرے الفاظ کےظاہری معنوں سےجو کچھ نکلتا تھا کہ کم از کم نویں سال کے برابر چندہ ہو یہ تو ہو جائے گا ۔)اور جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے اِس وقت تک ہو چکا ہے( مگر جو سکیم ہمارے مدنظر ہے اس کے لحاظ سے وہ رقم کافی نہیں۔ کیونکہ گیارھویں سال کے چندوں کا موجودہ اندازہ دو لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ مگر میں نے بتایا ہے کہ ہمیں اپنی اس تبلیغی سکیم کو جاری کرنے کے لئے اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ مگر اس اڑھائی لاکھ میں ابھی ایک چیز مَیں نے شامل نہیں کی۔ اور وہ یہ کہ جو مبلغین باہر جائیں گے ان کے سفر خرچ پر بھی چالیس پچاس ہزار روپیہ خرچ ہو گا بلکہ اس بھی زیادہ۔
اِس وقت تک چار مبلغ افریقہ جا چکے ہیں اور دو تیاری کر رہے ہیں۔ باقی ہر ملک کے لئے میں نے مبلغ مقرر کر دیئے ہیں جو ممالک قریب ہیں اُن کا کرایہ کم ہے اور جو دور ہیں اُن کا زیادہ ہے۔ مثلاً افریقہ جانے کے لئے ڈیڑھ ہزار روپیہ کرایہ خرچ ہوتا ہے۔ اور جو ممالک دور ہیں وہاں کے لئے اڑھائی تین ہزار روپیہ کرایہ خرچ ہوتاہے۔ اگر ڈیڑھ ہزار روپیہ ہی اوسط لگالی جائے تواس لحاظ سےسینتیس مبلغوں کا پچپن چھپن ہزار روپیہ تو صرف کرایہ کا خرچ ہے۔ اور یہ بھی تھرڈ کلاس کا کرایہ ہے یہ نہیں کہ وہ بڑے آرام سے سفر کریں گے۔ آخر جو کرایہ مقرر ہے وہی دینا پڑے گا اِس میں کفایت کرنا تو ہمارے اختیار کی بات نہیں۔ تو یہ رقم ابھی میرے اس حساب سے باہر ہے۔ بہرحال اگر اس کو بھی شامل کر لیا جائے تو تین لاکھ روپیہ کی اس سال ضرورت ہو گی۔
اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے کہ وہ ان تینوں باتوں کی اہمیت کو سمجھے اور دوسروں پر ان کی اہمیت اور معقولیت واضح کرے اور اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ خوشی خوشی ان بوجھوں کو اپنے سروں پر اٹھا لیں اور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کریں۔ اور اللہ تعالیٰ نئے نئے لوگوں کو پیدا کرے کچھ ہمارے گھروں میں اور کچھ باہر سے لا کر جو اس بوجھ کو ہم سے بھی زیادہ اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ اور اس قسم کی قربانی کی روح اپنے ساتھ لائیں کہ یہ کام بجائے گھٹنے کے ہر سال بڑھتا چلا جائے اور ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ لیں کہ ہر ملک میں اسلام کی تبلیغ پھیل چکی ہو۔ ہمارے مبلغ ہزاروں کی تعداد میں تبلیغ کر رہے ہوں اور لاکھوں لاکھ آدمی ہر ملک میں احمدیت میں داخل ہو چکے ہوں۔ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیں کہ دشمن بھی اقرار کرے کہ اب اسلام پھیل چکا اور اب احمدیت دنیا پر غالب آگئی۔ اب اس کا مقابلہ کرنا فضول ہے۔ یہ خدا کی بات تھی جو پوری ہو گئی۔ آمین ’’ (الفضل مورخہ 8فروری 1945ء)
1: الرحمٰن: 20،21
6
دفتردوم کے مجاہدین کے وعدوں کی میعاد میں اضافہ
(فرمودہ 9فروری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘تحریک جدید دفتر اول کے وعدوں کا وقت تو گزر چکا ہے اور اردو بولنے والوں کے لئے وعدوں کی جو میعاد مقرر تھی وہ میعاد ختم ہو چکی ہے۔ سوائے ایسے لوگوں کے وعدوں کے جو کسی وجہ سے اس تحریک کے گیارھویں سال کا علم ہی حاصل نہیں کر سکے۔ یا ان ممالک کے جن کی اصلی زبان اردو نہیں ہے جیسے بنگال ،مدراس وغیرہ۔یافوجی لوگ جن تک نہ تو اخبار پہنچتے ہیں اور نہ ان کو ڈاک کے ذریعہ خطوط پہنچتے ہیں کیونکہ ان کی ڈاک بھی بہت کچھ ضائع ہو جاتی ہے۔ گورنمنٹ نے انتظام تو بہت اعلیٰ کیا ہے جس کی غرض یہ ہے کہ سپاہیوں کی ڈاک اُن تک پہنچتی رہے اور وہ مطمئن رہیں لیکن پچھلے چار پانچ ماہ سے کثرت سے سپاہیوں کو شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ ان کو خطوط نہیں ملتے۔ کئی ایسے خطوط آئے ہیں جن میں ان لوگوں نے شکوہ کیا ہے کہ ہم نے کثرت سے خطوط لکھے ہیں لیکن ہمیں ان کا جواب نہیں ملا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے خط و کتابت ہوتی رہی ہے لیکن نہ ان کے خطوط ان کے ماں باپ یا رشتہ داروں تک پہنچے ہیں اور نہ ہی ان کے ماں باپ یا رشتہ داروں کے یا ہمارے خطوط ان تک پہنچ سکے ہیں۔ نہ معلوم اس کی کیا وجہ ہے۔ شاید سپاہیوں کے دو ردو رپھیل جانے کی وجہ سے ایسا ہؤا ہے یا اِس وجہ سے کہ وہ ڈاک کے مرکز سے یعنی جہاں اُن کا بیس (Base) ہے اس سے دور چلے گئےہیں۔ یا دہلی کے ڈاکخانہ میں کوئی نقص ہے یا کوئی اَور وجہ ہے ۔ بہرحال پہلے یہ نقص نہیں تھا لیکن اب چار پانچ ماہ سے کثرت سے یہ شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ سپاہیوں کے خطوط ان کے بال بچوں کو نہیں مل رہے۔ اور اگر مل جاتے ہیں تو فوجیوں کو ان کا جواب نہیں ملتا حالانکہ جواب لکھا جاتاہے۔ پس ایسے حالات میں فوجیوں کو کم از کم اپریل تک وعدہ بھجوانے کی اجازت ہو گی۔ اور اگر یہ ثابت ہوا کہ اُن تک خطوط پہنچنے میں دقت پیدا ہو رہی ہے تو پھر بعد میں بھی اجازت ہو گی۔ یا غیر ممالک کے لوگ ہیں جن کے وعدوں کی میعاد گزشتہ سالوں میں بھی جون تک مقرر ہوتی تھی۔ اس سال بھی ان کے لئے جون تک میعاد مقرر ہے۔ وہ جون کے آخر تک اپنے وعدے بھیج سکتے ہیں۔ کیونکہ وہاں کے لوگوں تک اطلاعات پہنچنا اور پھر ہمارے سلسلہ کے کارکنوں کا ہر جگہ یہ اطلاع پہنچا کر لوگوں سے وعدے لینا مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ امریکہ کے نویں سال کے وعدے جولائی کے چلے ہوئے ہمیں یہاں اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں آکر ملے تھے۔ پس ان لوگوں کے سوا باقی لوگوں کےوعدوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ مگر دفتر دوم کے متعلق چونکہ ہم نے نئے سرے سے ایک اَورپانچ ہزاری فوج قائم کرنی ہے اس لئے اس کی میعاد کو ابھی ختم نہیں کیا جاتا۔
جیسا کہ میں نے بیان کیاہے اللہ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ اس تحریک کی بنیاد ایسے رنگ میں رکھ دی ہے کہ اس کے ذریعہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تبلیغی مشنوں کی جڑیں مضبوط کر دی جائیں۔ جماعت کے وہ دوست جنہوں نے پہلے دس سالوں میں حصہ لیا تھا ان میں سے اکثر 19 سال کی سکیم میں شامل ہو چکے ہیں اور انہوں نے گیارہویں سال کے وعدے لکھوا دیئے ہیں۔ اور جو باقی ہیں وہ ایسے ہیں جو دوسرے ممالک میں ہیں یا جو فوج میں ہیں یا ایسے صوبوں میں ہیں جن کی زبان اردو نہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غالباً دس سال کے بعدحصہ لینا چھوڑ بیٹھے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دس سال حصہ لینے کےبعد اب ضروری نہیں رہا کہ گیارہویں سال میں بھی ہم حصہ لیں۔ اول تو پہلے دس سالوں میں حصہ لینا بھی فرض نہیں تھا۔ بار بار میں بتا چکا ہوں کہ یہ تو طوعی چندہ ہے جس کی مرضی ہو اس میں شامل ہو اور جس کی مرضی نہ ہو وہ شامل نہ ہو تو بقیہ نو سال حصہ لینا تو اَور بھی طوعی ہے کیونکہ جو دس سال میعاد مقرر کی گئی تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔ باقی جیسے میں نے بتایا تھا اگر کوئی صاحبِ توفیق ہے اور اس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت اور اسلام کی خدمت کا جذبہ پایا جاتا ہے تو طوعی کہنا تو الگ رہا اگر لوگ اس کے رستہ میں روک بن کر کھڑے ہو جائیں تب بھی وہ راستہ نکال کر ضرور اس میں حصہ لے گا۔ کیونکہ اس کے دل میں جو محبت خداتعالیٰ کی پائی جاتی ہو گی اس محبت کی وجہ سے کوئی چیز اُس کو اسلام کی خدمت کا کام کرنے سے روک نہیں سکے گی۔ دنیا میں مختلف قسم کے کام ہوتے ہیں۔ کوئی کام جبری ہوتا ہے لیکن وہ جبری، سیاسی جبری نہیں ہوتا جیسے ماں باپ اپنے بچوں سے کام لیتے ہیں۔ کوئی کام طاقت سے کروایاجاتا ہے جیسے کسی کو مار پیٹ کر اس سے کام کرایا جائے۔ کوئی کام سیاسی جبری ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس کام کو کرنے سے انکار کرے تو اسے قید میں ڈالا جاتا ہے۔ لیکن دینی کام تو ہمیشہ طوعی ہی رہے ہیں اور طوعی ہی رہیں گے۔ اور طوعی کاموں میں ہی برکتیں ہوتی ہیں۔ مار مار کر کسی کو نماز پڑھانا نماز پڑھنے والے کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا۔ وہ نماز جس میں کھڑےہو کر وہ یہ سوچتا رہے کہ مجھے فلاں نے مار کر نماز پڑھائی ہے ورنہ میں کیوں پڑھتا تو اس کی نماز نماز نہیں ہو گی۔
حضرت بابا نانکؒ کے متعلق ایک بات مشہور ہے نامعلوم وہ کہاں تک سچی ہے لیکن وہ بڑی اچھی بات ہے۔ غالباً پشاور کی کسی مسجد میں بابا صاحبؒ نے امام کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد نماز توڑ کر الگ پڑھنی شروع کر دی۔ سلام پھیرنے کے بعد امام نے پوچھا کہ آپ نے جماعت کے ساتھ نماز توڑ کر الگ نماز کیوں شروع کر دی؟ یہ تو آپ نے نہایت نادرست اور تقویٰ کے خلاف کام کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں کمزور آدمی ہوں آپ کے پیچھے نماز کس طرح پڑھ سکتا تھا۔ بات یہ تھی کہ نماز پڑھاتے وقت امام کے دل میں جو خیالات گزر رہے تھے وہ بابا صاحبؒ پر کشف میں ظاہر ہو گئے۔ امام جب نماز پڑھانے کے لئے گھر سے آیا تو وہ یہ سوچ رہا تھا کہ میرا گزارہ امامت سے نہیں ہوتا کوئی اَور کام کرنا چاہیے۔ اس نے سوچا کہ جو قافلہ تجارت کرنے کے لئے یہاں سے بخارا جا رہا ہے کسی سے کچھ روپیہ قرض لے کر اس کا سامان خرید کر بخار ابھیج دوں۔ اس سامان کو فروخت کر کے وہاں سے کوئی اَور سامان خرید لائیں گے۔ اسے یہاں فروخت کر کے اس کا پھر اَور سامان خرید کر بخارا بھیجوں گا۔ اور پھر وہاں سے اس کا اَور سامان اور قالین وغیرہ منگواؤں گا۔ اورپھر کچھ سامان بنگال وغیرہ کی طرف بھیجوں گا اور اس طرح تجارت کر کے بہت سا روپیہ کماؤں گا۔ تو یہ خیالی سکیم بناتا ہؤا وہ گھر سے آیا اور جب نماز میں کھڑا ہؤا تو وہی خیالات دماغ میں جاری رہے۔ منہ سے کہہ رہا تھا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ1 اور دماغ کبھی قالین خریدنے بخارا جا رہا تھا اور کبھی بنگال کی طرف تجارت کرنے جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کشف میں یہ نظارہ بابا صاحبؒ کو دکھا دیا اور انہوں نےامام کے پیچھے نماز چھوڑ کر الگ پڑھنی شروع کر دی۔ اور جب امام نے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ تو انہوں نےجواب دیا کہ حضرت! آپ تو قوی آدمی ہیں آپ نے لمبے لمبے سفر شروع کر دیئے میں کمزور آدمی ہوں آپ کے پیچھے پیچھے مجھ سے بخارا اور بنگال نہیں جایا جاتا۔ اس لئے میں نے الگ نماز پڑھ لی۔
تو انسان اپنے جذبات میں اسی طرح بہنے کا عادی ہوتا ہے۔ جس کو مار پیٹ کر نماز پڑھائی جائے گی اُس کے دل میں خداتعالیٰ کا خیال آئے گا کس طرح۔ اُس کے دل میں تو شکوے گِلے چلتے چلے جائیں گے کہ فلاں شخص نے مجھے مار کر نماز پڑھائی ورنہ میں کیوں پڑھتا۔ نماز تو اُسی کی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے پڑھے گا۔ جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے نماز پڑھے گا اس کے دل میں الٰہی محبت کے خیالات پیدا ہوں گے اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی خواہش اس کے دل میں سوز و گداز پیدا کرے گی۔ اور اس کی وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ کی طرف جھکے گا۔ ورنہ یہ چیز اگر اس کے دل میں نہیں ہو گی تو اس کے دل میں جس قسم کے خیالات ہوں گے نماز میں بھی وہ خیالات اُسے اپنی طرف کھینچ لیں گے۔ امام بے شک اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ 2 پڑھ رہا ہو گا مگر یہ اس کے پیچھے کھڑا اپنے خیالات کی دنیا میں بہتا چلا جائے گااور اس کی نماز صرف ظاہری نماز ہو گی باطنی نہیں ہو گی۔
پس دین کے ایسے کام جو جبر سے کرائے جائیں وہ کبھی بھی نفع رساں نہیں ہوتے۔ بچوں پر جبر کرنا بے شک جائز ہوتا ہے تاکہ انہیں عادت ڈالی جائے۔ بچے کے ماں باپ اگر اس پر جبر کر کے نماز پڑھاتے ہیں یا بورڈنگ کا سپرنٹنڈنٹ جبر کر کے نماز پڑھاتا ہے تو وہ نماز بچے کی نماز نہیں ہوتی بلکہ اُ س کے ماں باپ یا بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کی ہوتی ہے۔ جب تک بچے کےد ل میں یہ احساس پید انہیں ہوتا کہ میں خدا کے لئے نماز پڑھتا ہوں اُس وقت تک اگر اس کے ماں باپ اُس کو نماز پڑھاتے ہیں تو اُس کا ثواب اُس کے ماں باپ کو ملے گا۔ اور اگر بورڈنگ کا سپرنٹنڈنٹ نماز پڑھاتا ہے تو اس نماز کا ثواب سپرنٹنڈنٹ کو ملے گا۔ اور اگر اس بچے کے ماں باپ اس کو نماز پڑھانے میں کوتاہی کرتے ہیں یا سپرنٹنڈنٹ نماز پڑھانے میں کوتاہی کرتا ہے تو بچے سے پُرسش نہیں ہوگی کہ تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی۔ بلکہ اُس کے ماں باپ یا سپرنٹنڈنٹ سے پُرسش ہو گی کہ کیوں تم نے نماز نہیں پڑھی۔ یعنی کیوں تم نے بچے سے نماز نہیں پڑھوائی۔ لیکن جس وقت بچے کے دل میں احساس پیدا ہو جائے کہ میرا ایک مالک اور آقا ہے اور میں نے اس کی عبادت کرنی ہے اور اس سے اپنے تعلقات بڑھانے ہیں اور اس کی محبت کو اپنے دل میں پیدا کرنا ہے اُس وقت سے اس کی نماز اس کی ہو جاتی ہے خواہ اس کی عمر چار پانچ سال کی ہویا دس سال کی ہو یا بارہ سال کی ہو۔جس وقت یہ احساس پیدا ہو جائے گا اُس وقت سے اُس کی نماز ہو گی۔ اُس سے پہلی اس کی نماز نہیں بلکہ اس کے ماں باپ یا بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کی نماز ہو گی۔
یہ مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ اِس وقت بچے میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ یہ میں تعیین نہیں کرتا کہ بچے کی نماز کس وقت سے شروع ہوتی ہے کیونکہ بعض بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں اور بعض کم ذہین ہوتے ہیں۔ بعض بچے چودہ پندرہ سال کے ہو کر بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے پانچ چھ سال کا بچہ اور بعض پانچ چھ سال کے بچے ایسے ذہین ہوتے ہیں جیسے چودہ پندرہ سال کا نوجوان۔ اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو چھ سات سال کی عمر میں اٹھارہ انیس سال کی عمر والوں سے بھی زیادہ ذہین اور زیادہ عقلمند ہوتے ہیں۔
امام شافعیؒ کی نسبت آتا ہے وہ کہتے تھے میں چھ سات سال کی عمر کا تھا جبکہ اچھی طرح قرآن مجید سمجھنے لگ گیا تھا۔ اور وہ نو سال کے تھے جب انہوں نے گھر کی تعلیم ساری حاصل کر لی۔ اور بارہ تیرہ سال کی عمر میں امام مالکؒ کے پاس جا کر ان کے شاگرد ہو گئے۔ امام مالکؒ نے اپنے شاگردوں کو حکم دے رکھا تھا کہ جب وہ مجلس میں سبق پڑھنے کے لئے آئیں تو کاپیاں اور قلم دوات لے کر آئیں اور جو سبق میں انہیں پڑھاؤں اسے لکھیں۔ جب امام شافعیؒ وہاں پہنچے تو سینکڑوں شاگرد امام مالکؒ کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھے تھے۔ یہ ان میں سے گزر کر آگے آکر بیٹھ گئے۔ کسی نے انہیں بچہ ہونے کے لحاظ سے کچھ نہ کہا کہ بچہ ہے جہاں چاہے بیٹھ جائے۔ دو تین دن بیٹھے رہے امام مالکؒ کی نظر ان پر پڑی تو انہوں نے کہا بچے! تم یہاں کیا کرتے ہو؟ کہنے لگے میں آپ کا شاگرد بنا ہوں اور سبق پڑھتا ہوں۔ امام مالکؒ نے کہا سبق، تم نے سبق کیا پڑھنا ہے یہ دوسرے لوگ جو سبق پڑھ رہے ہیں قلم دوات اور کاپیاں ان کے پاس ہیں اور وہ سبق ساتھ کے ساتھ لکھتے جا رہے ہیں مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لکھتے لکھاتے کچھ نہیں تم کیا سبق پڑھو گے۔ امام شافعیؒ نے جواب دیا کہ ان کو لکھنے کی حاجت ہو گی اس لئے یہ لکھتے ہیں مجھے لکھنے کی حاجت نہیں۔ امام مالکؒ نے سمجھا بچپن کی شوخی کی وجہ سے ایسی بات کرتا ہے۔ لیکن امام شافعیؒ نے ان سے کہا کہ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو تجربہ کر لیجئے۔ ابھی جب آپ اپنے شاگردوں سے سبق سنیں گے تو میں آپ کو بتاتا جاؤں گا۔ امام مالکؒ باقاعدہ اپنے شاگردوں سے سبق سنا کرتے تھے کہ کل میں نے کیا بیان کیا تھا۔ جب انہوں نے ایک شاگرد سے سننا شروع کیا تو امام شافعیؒ نے اس کو ٹوکنا شروع کیا۔ پیشتر اس کے کہ امام صاحب اُس شاگرد کی غلطی نکالتے امام شافعیؒ اُسے ٹوک دیتے کہ یوں نہیں امام صاحب نے یوں بتایا تھا اور وہ ٹھیک ہوتا۔ یہ دیکھ کر امام مالکؒ نے کہہ دیا کہ تم کو یہ شرط معاف ہے۔ تم کو کاپی اور قلم دوات کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہر آدمی تو شافعی نہیں بن جاتا۔ہر شخص الگ الگ ذہن کا مالک ہوتاہے۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ کونسی عمر میں بچہ کی نماز اس کی نماز ہوتی ہے۔ اگر اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ میں خدا کی نماز پڑھتا ہوں، اگر اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ نماز کاچھوڑ دینا اس سے زیادہ خطرناک ہے جتنا کہ مر جانا، اگر اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ نماز کے ذریعہ میں خداتعالیٰ کا قرب حاصل کروں تو جس عمر میں بھی یہ احساس پیدا ہو جائے اُس عمر میں اُس کی نماز اس کی ہو جاتی ہے ماں باپ یا سپرنٹنڈنٹ کی نماز نہیں رہنی چاہیے۔ چار پانچ سال کے بچے کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے تو یہ بات اس کے متعلق نہیں کہ اس کی نماز اپنی نماز نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے متعلق ہے جس کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہؤا کہ میں خدا کی نماز پڑھتا ہوں بلکہ ماں باپ نے کہا کہ نماز پڑھ تو میں نے نماز پڑھی۔ جس کی حالت یہ ہو کہ اگر کوئی اسے روکے کہ نماز نہیں پڑھنی اور خواہ اس پر سختی کی جائے اور اس کو زخمی کر دیا جائے اور اسے گِھسٹ کر جا کر نماز پڑھنی پڑے تو بھی وہ نماز نہ ترک کرے تو اس کی نماز اس کی نماز ہے۔ خواہ یہ خیال تین چار سال کے بچہ میں پید اہو جائے۔ بہرحال میں بتارہا تھا کہ دینی کام ہمیشہ طوعی ہی ہوتے ہیں۔ جب عبادت میں بھی وہی عبادت فائدہ مند ہوتی ہے جو طوعی ہو اور دل کی محبت کےساتھ کی جائے تو یہ چندے تو اس سے زیادہ طوعی ہیں۔ پس تحریک جدید کا ابتدائی دَور بھی طوعی تھا اور یہ دَور بھی طوعی ہے۔ ہر شخص جو خداتعالیٰ کی محبت اور اسلام کی خدمت کے لئے اس میں حصہ لیتا ہے خداتعالیٰ اس کی قربانی کو قبول کرے گا اور اسے اپنی طرف بڑھنے کا موقع دے گا۔ اور ہر وہ شخص جو کسی مجبوری کی وجہ سے حصہ نہیں لیتا مگر اُس کا دل چاہتا ہے کہ حصہ لے تو خداتعالیٰ اس کی دلی خواہش اور کوشش کو ضائع نہیں کرے گا اور اس کے لئے ان برکتوں میں حصہ لینے کے سامان پید کر دے گا۔ لیکن ہر وہ شخص جس کے دل میں اسلام کی محبت نہیں رہی اور باوجود طاقت رکھنے کے اوردیکھنے کے کہ مجھ سے زیادہ غریب آدمی حصہ لے رہے ہیں وہ حصہ نہیں لیتا اور سمجھتا ہے کہ اس میں حصہ لینا طوعی ہے اور ہمیں کوئی مجبور نہیں کرتاکہ ہم اس میں ضرور حصہ لیں تو وہ شخص اپنی عاقبت کا خود ذمہ دار ہے۔ ہم نہ اس کے ٹھیکیدار ہیں اور نہ ذمہ دار۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ خدا کے پاس اس کے اعمال کا بڑا ذخیرہ پڑا ہے اور زیادہ اعمال کی مجھے ضرورت نہیں تو وہ بے شک مطمئن ہو۔ لیکن اگر خداکے سامنے اس کے ذخیرۂ اعمال میں سے بہت سے اعمال کھوٹے بھی ہیں تو پھر اگر یہ طوعی اعمال کو ضائع کرتا ہے تو اس سے زیادہ قابلِ افسوس اور قابلِ حسرت حالت میں اور کون ہو سکتا ہے۔
تو یہ جو طوعی چندوں کا سلسلہ ہے اس میں اکثر دوستوں نے حصہ لے لیا ہے گو اِس وقت تک اس رقم کی مقدار اُتنی تو نہیں جتنی ایک سال کے لئے ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا تھا تبلیغی مشنوں کو چلانے کے لئے ہمیں اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ لیکن کل تک جو رپورٹ میرے پاس آچکی ہے اس کے حساب سے دو لاکھ پندرہ ہزار کے وعدے آچکے ہیں۔ چونکہ ابھی بیرونجات سے وعدے آنے ہیں اور فوجیوں کی طرف سے بھی اور ان علاقوں کی طرف سے بھی ابھی وعدے آنے ہیں جن کی اصلی زبان اردو نہیں ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ غالبًا دو لاکھ تیس ہزار روپیہ سے لے کر دو لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ تک کوئی رقم ان وعدوں کی ہو جائے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کےفضل سے نویں سال تک تبلیغی سکیم کے چلانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اس عرصہ میں ہم نے تحریک جدید دفتر دوم کی دوسری پانچ ہزاری فوج کا انتظام کرنا ہے۔ پہلی فوج کا انتظام زیادہ مشکل نہیں تھا اس لئے کہ جماعت ساری کی ساری خالی پڑی تھی اور اس میں سے لوگ چُننے تھے۔ جیسے پہلی دفعہ بھرتی ہوتی ہے تو آسانی سے آدمی مل جاتے ہیں۔ لیکن دوسری دفعہ بھرتی مشکل ہوتی ہے کیونکہ بہت سارے آدمی بھرتی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اِسی طرح تحریک جدید کی پہلی پانچ ہزاری فوج کا تیار کرنا آسان تھا کیونکہ جماعت کے سب آسودہ حال آدمی بار سے خالی تھے۔ لیکن اب دوسری پانچ ہزاری فوج کا تیار کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ اب اکثر مالدار اور بہت سارے درمیانہ طبقہ کے لوگ پہلی تحریک میں شامل ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ سے اب دوسری نئی فوج بنانا پہلی فوج کی طرح آسان نہیں مشکل ہے۔ لیکن اس عرصہ میں کئی نئے احمدی بھی آئے ہیں اور کئی بچے بھی جوان ہو چکے ہیں اور ابھی نو سال تک پہلی پانچ ہزاری فوج نے بوجھ اٹھانا ہے۔ اور نو سال کے بعد اس دوسری پانچ ہزاری فوج نے بوجھ اٹھانا ہو گا۔ تو یہ نو سال کا عرصہ اس دوسری فوج کو منظم کرنے کے لئے پڑا ہے۔
پس ہمیں چاہیے کہ کوشش کر کے اس نئی پانچ ہزاری فوج کو تیار کریں۔ کئی نئے احمدی ہوئے ہیں، کئی بچے تھے جو اَب جوان ہو چکے ہیں یا بعض کمزور آدمی جو پہلی تحریک میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ اب اس دَور میں شامل ہوں ۔جب انسان کے دل میں نیکی ہوتی ہے تو وہ نیکی انسان سے بعض دفعہ کمزوری کے بعد طاقت کے زمانہ سے بھی زیادہ کام کرا دیتی ہے۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ اس دوسری پانچ ہزاری فوج میں بعض ایسے آدمی شامل ہوئے ہیں جن کی مالی حیثیت پہلے سے خراب ہے وہ پہلے دَور میں پانچ روپے دے کر شامل ہو سکتے تھے لیکن وہ اُس وقت شامل نہ ہوئے اور اب ان کے دل میں افسوس پیدا ہوا کہ ہم نے پہلے دَور کا وقت گزار دیا اور ہم سے سستی ہوئی کہ ہم اُس میں شامل نہ ہوئے۔ اب ہم ایک ماہ کی آمد دے کر نئے دَور میں شامل ہوتے ہیں۔ جب ان سے پانچ روپے مانگے گئے تو انہوں نے نہیں دیئے۔ لیکن اب پچاس روپے کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے دے دیئے حالانکہ ان کی مالی حالت پہلے سے خراب ہے۔ اب ان کے دل میں افسوس پیدا ہوا کہ کاش! ہم پہلے دَور میں شامل ہو جاتے اور اُس میں ہمارا نام آجاتا۔ مگر ہم پہلے دَور میں شامل نہ ہوئے۔ اب اس کا کفارہ یہ ہے کہ زیادہ روپےدےکر اس دوسرے دور میں شامل ہوں۔ اسی طرح اب جو دوسرے دَور میں شامل نہیں ہوں گے ان میں سے کئی ہوں گے جو تیسرے دَور میں شامل ہوں گے اور ان کے دل میں افسوس پیدا ہو گا کہ ہم دوسرے دَور میں کیوں شامل نہ ہوئے۔ اور اُس وقت اگر ان سے اِس سے بھی زیادہ رقم کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ زیادہ دے کر تیسرے دور میں شامل ہو جائیں گے۔ اور اس تحریک کو آہستہ آہستہ خداتعالیٰ ایسی شکل دے دے گا کہ جب تک ہماری جماعت زندہ ہے خداتعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے ذریعہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تبلیغ کا راستہ کھلتا چلا جائے گا۔ کیونکہ ہر نو سال کے بعد دوسری پانچ ہزاری فوج پہلی فوج کی جگہ لینے کے لئے آجائے گی۔ دس سال تک ہر پانچ ہزاری فوج تبلیغ کے اخراجات کا بوجھ اٹھائے گی اور نو سال تک اس کا چندہ ریزرو فنڈ میں جمع ہوتا رہے گا۔ آج جس دوسری پانچ ہزاری فوج کا میں نے اعلان کیا ہے اس نے نو سال کے بعد کام شروع کرنا ہے اور اس کے بعد دس سال تک بوجھ اٹھانا ہے نو سال تک اس کا جو چندہ ہو گا وہ ریزرو فنڈ میں جمع ہوتا رہے گا۔ جس کی غرض یہ ہو گی کہ اگر نو سال کے بعد اس دوسری فوج نے پورا بوجھ اٹھا لیا تو پھر اس رقم سے ریزرو فنڈ کو اَور مضبوط کیا جائے گا۔ اور اگر خدانخواستہ اس کی رقم اڑھائی لاکھ کی نہ بنتی ہو تو پھر اس جمع شدہ رقم سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر اَور بچے جوان ہو جائیں گے اور کئی نئے احمدی بھی ہوں گے اور ان کے لئے دینی کاموں کے لئے قربانی میں حصہ لینا اُسی طرح ضروری ہو گا جیسے ہمارے لئے ضروری ہے۔ جس طرح جومبلغین آج تبلیغ کے لئے جائیں گے آج سے کچھ سال بعد اَور نوجوان مبلغین کی ضرورت ہو گی جو ان کی جگہ لیں۔ اسی طرح دوسری پانچ ہزاری فوج نو سال کے بعد روپے کا بوجھ اٹھائے گی اور دس سال تک اٹھاتی چلی جائے گی۔ اور آج سے نو سال کے بعد جب یہ فوج بوجھ اٹھا لے گی تو پھر تیسری فوج آگے آئے گی جو نو سال تک اپنا چندہ ریزرو فنڈ میں جمع کرے گی۔ اور جب دوسری فوج کی قربانی کی میعاد ختم ہو جائے گی تو پھر دس سال تک یہ تیسری فوج اس بوجھ کو اٹھائے گی اور اللہ تعالیٰ چاہے تو اس صورت میں یہ سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے گا۔
پس یہ ایک ایسی تحریک ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے ذریعہ تبلیغ کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قائم کر دی گئی ہیں ۔آج سے دس سوا دس سال پہلے جب میں نے اسی ممبر سے تحریک جدید کا اعلان کیا تھا اُس وقت میرے وہم و گمان میں بھی یہ سکیم نہیں تھی جو آج میرے ذہن میں ہے۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس سکیم کےلئے اگر آج اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کا بجٹ ہے تو کچھ عرصہ کےبعد پانچ لاکھ۔ پھر دس لاکھ، پھر بیس لاکھ، پھر چالیس لاکھ، پھر اسّی لاکھ، پھر کروڑ اور پھر دو کروڑ اور پھر چار کروڑ روپیہ سالانہ بجٹ کی ضرورت ہو گی (کیونکہ پانچ ہزاری مبلغوں کی فوج کا خرچ چار کروڑ ہوتا ہے) کیونکہ ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان کی ایک مشنری انجمن کابجٹ ایک کروڑ روپیہ سالانہ ہے اور باقی ممالک کی انجمنیں اس کے علاوہ ہیں۔ جب ہم نے ان سب کا مقابلہ کرنا ہے تو ہم کو بھی ہزاروں مبلغ اور کروڑوں روپے کے بجٹ کی ضرورت ہو گی۔ گو ابھی وہ وقت نہیں آیا مگر تحریک جدید نے اس کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے تین قسم کی آمدنیاں تبلیغ کے لئے پیدا ہوں گی۔ ایک آمدن جائیداد کی جو اس طرح محفوظ رکھی جائے گی کہ تبلیغی سلسلہ کو وسیع کرنے میں کام آئے۔ دوسرا حصہ آمدن کا وہ ہے جو ہر پانچ ہزاری فوج دس سال تک مہیا کرے گی جو ساتھ کےساتھ خرچ ہو گا ۔اور تیسرا حصہ آمدن کا وہ ہے جو ہر پانچ ہزاری فوج نو سال تک ایسے زمانہ میں پیدا کرے گی جبکہ پہلی پانچ ہزاری فوج بوجھ اٹھائے ہوئے ہو گی جو یا تو ریزرو فنڈ میں جائے گا یا اگر خدانخواستہ کوئی پانچ ہزاری فوج دس سال پورا بوجھ نہ اٹھا سکی تو کمی پوری کرنے میں خرچ ہو گا۔
پس یہ تین ذرائع آمدنی کے ہیں اور تینوں کو ہم نے پورا کرنا ہے۔ ہماری پہلی پانچ ہزاری فوج نے خداتعالیٰ کے فضل سے دس سالہ دَور کو کامیابی سے نبھایا ہے میں امید کرتا ہوں اور دعا بھی کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی دس سالہ قربانی کے بدلہ ان کو توفیق دے کہ آئندہ نو سال میں اپنے اخلاص اور محبت اسلام کے جذبہ کو اعلیٰ دکھاتے ہوئے اس دور کو کامیابی کے ساتھ ختم کریں۔ اس کے بعد دوسری پانچ ہزاری فوج کو خداتعالیٰ کھڑا کر دے اور لاکھوں لاکھ آدمی نئے جماعت میں داخل ہو کر اور ہزاروں ہزار بچے جوان ہو کر اس بوجھ کو اٹھا لیں۔ اِس وقت تک دفتر دوم کے تیس ہزار سے زیادہ کے وعدے آچکے ہیں۔ مگر میں نے بتایاہے کہ اس سکیم کو چلانے کے لئے اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے اس لئے میں تحریک جدید کے دورِ ثانی یعنی دفتر دوم والوں کے وعدوں کی میعاد کو ختم نہیں کرتا۔ دفتر اول والوں کی میعاد تو ختم ہو چکی ہے لیکن دفتر دوم والوں کے لئے دو ماہ کی میعاد اَور بڑھاتا ہوں یعنی سات اپریل تک وہ اپنے وعدے بھجوا سکتے ہیں۔ اس عرصہ میں دفتر اول والوں کو بھی چاہیے کہ جہاں انہوں نے انیس سال تک قربانی کرنے میں حصہ لیا ہے وہاں اس رنگ میں بھی وہ دائمی ثواب حاصل کریں کہ دفتر اول کا ہر مجاہد یہ کوشش کرے کہ دفتر دوم میں حصہ لینے والا ایک مجاہد کھڑا کرے۔ اس طرح دفتر دوم والوں کا ثواب دفتر اول والوں کو بھی ملتا رہے گا۔ پھر دفتر دوم والے آگے دفتر سوم والوں کو کھڑا کریں گے اور اس طرح دفتر اول والوں کے ثواب کا سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ اور جہاں ان کو اپنے روپے کا ثواب ملے گا ساتھ ہی دفتر دوم اور دفتر سوم والوں کے روپیہ کا ثواب بھی ملتا رہے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کو نیکی کی تحریک کرکے اُسے نیکی پر قائم کرتا ہے تو اس نیکی کا ثواب تحریک کرنے والے کوبھی ہوتا ہے۔3 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس فتویٰ کے مطابق جب دفتر اول والے کوشش کر کے دفتر دوم کے لئے آدمی تیار کریں گے تو خداتعالیٰ دفترِاول والوں کو دفتر دوم والوں کے ثواب میں بھی شامل کرے گا۔ تو یہ دو ماہ کی مہلت میں اس لئے دیتا ہوں کہ ہر دفتر اول والے کو چاہیے کہ وہ تحریک کر کے کم از کم ایک آدمی دفتر دوم میں حصہ لینے کے لئے کھڑا کرے۔ اسی طرح جو لوگ دفتر دوم میں شامل ہو چکے ہیں اُن کو چاہیے کہ دوسرے لوگوں میں تحریک کر کے اِس تعداد کو بڑھائیں۔ اور اُن کو کوشش کرنی چاہیے کہ یہ پانچ ہزار کی تعداد پوری ہو جائے۔ پہلے بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں تھا کہ اُس نے دَورِ اول کی تکمیل کے لئے رستہ کھول دیا اور اب بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے فضل سے لوگوں کے دلوں کوکھول دے اور دَو ر ثانی کی تکمیل کے سامان پیدا کر دے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ہمارے نئے آنے والے بھائیوں اور پچھلی نسلوں کو جنہوں نے پہلے دو رمیں حصہ نہیں لیا یا جن کو توفیق نہیں ملی کہ وہ دَور اول میں حصہ لیں توفیق دے کہ وہ اب دَورِ ثانی میں حصہ لیں۔اور خداتعالیٰ جماعت کی بیداری کو قائم رکھے کہ پہلی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی پانچ ہزاری فوج آگے آکر اس بوجھ کو اٹھاتی رہے اور قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے۔ بلکہ پانچ ہزاری کی بجائے پھر یہ تعداد بڑھتی چلی جائے اور پانچ ہزار کے بعد دس ہزار اور دس ہزار کے بعد بیس ہزار اور بیس ہزار کے بعد پچاس ہزار کی فوج آگے آئے اور اس بوجھ کو اٹھاتی چلی جائے۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعا مانگی ہے کہ ایک لاکھ سپاہی مجھے دیا جائے خدا کرے کہ ایک لاکھ نہیں بلکہ کئی لاکھ سپاہی ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلام کی خدمت کے لئے احمدیت میں پیداہوتے رہیں جو تبلیغِ اسلام کا بوجھ اُٹھاتے چلے جائیں۔ ہم کمزور ہیں، ہمارے ارادے بھی کمزور ہیں اور ہماری تمام کوششیں اُس وقت تک بیکار ہیں جب تک کہ خداتعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت نہ آئے۔ ہماری غریب جماعت میں سے پانچ ہزار آدمیوں کا نکلنا اور اسلام کی خدمت کے لئے مشقت اٹھا کر اور اپنے بیوی بچوں کو تکلیف میں رکھ کر سال بسال محنت کر کے اور پیسہ پیسہ جوڑ کر ایسے سامان پیدا کرنا جس سے تبلیغِ اسلام جاری رہےخداتعالیٰ کے نزدیک یہ اتنی مقبول قربانی ہے کہ خداتعالیٰ نے ان کے مال میں اتنی برکت دے دی کہ اُس کے فضل و کرم سے اس روپیہ سے چار سو مربع زمین پیدا کرنے کی طاقت مل گئی۔ جس کی آمدنی سے ہمیشہ ہمیش کے لئے دین کی خدمت ہو سکے۔ اُس خدا سے میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری اس حقیر اور کمزور قربانی میں مزید برکت دے دے اور ہمارا یہ روپیہ قیامت تک دین کی خدمت میں لگا رہے ۔اور خداتعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں اور عزیزوں اور دوستوں کے دلوں میں یہ تحریک جاری رکھیں اور کم از کم اتنی ہی تعداد دوسرے دور میں حصہ لینے والوں کی پیدا کر سکیں اور یہ تعداد بڑھتی چلی جائے۔ اور ہماری اس حقیر قربانی کے ذریعہ ایسا بیج بویا جائے جس میں سے ایسا درخت اُگےکہ ساری دنیا اس کے سایہ تلے آرام کرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام روشن ہو اور خداتعالیٰ کی بادشاہت جیسی کہ آسمان پر ہے زمین پر بھی قائم ہو۔ آمین’’ (الفضل مورخہ 17 فروری 1945ء)
1: الفاتحۃ: 2
2: الفاتحۃ: 4
3: مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ274 مطبوعہ بیروت 1313ھ
7
کسی بددیانت اور دروغ گو کو جماعت احمدیہ میں نہیں رہنے دیا جائے گا
(فرمودہ 16فروری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مذہب صرف عقیدہ کا ہی نام نہیں عمل کا بھی نام ہے اور اعمال کچھ شخصی ہوتے ہیں اور کچھ قومی ہوتے ہیں۔ یعنی کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر افراد پر یا ان افراد کے اہل و عیال پر پڑتا ہے اور کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا اثر جا کے قوم پر پڑتا ہے۔ بعض جرائم ایسے ہیں کہ ان کو لوگوں نے ناواجب طور پر سب سے بڑا گناہ کہنا شروع کر دیا ہے۔ ناواجب سے میری مراد یہ نہیں کہ وہ بُرے نہیں بلکہ میری مراد یہ ہے کہ وہ افعال سب سے بُرے نہیں۔ اور ان کی بُرائی بعض لحاظ سے اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی کہ بعض اَور قسم کے افعال کی برائی خطرناک ہوتی ہے۔ مثلاً لوگوں میں قتل کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اور جہاں تک قتل کی برائی کا سوال ہے یہ صحیح ہے کہ یہ بہت بُرا فعل ہے لیکن قتل کے مقابلہ میں جھوٹ اور بددیانتی کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ حالانکہ جھوٹ اور بددیانتی ایسے افعال ہیں جو قتل سے کم نہیں۔
ہزاروں آدمی ایسے ہوں گے جو کہ ایک قاتل سزا یافتہ کے ساتھ جو اپنی سزا بھگت کر آیا ہو مثلاً اسے پھانسی کی سزانہیں ملی بلکہ اور کوئی سزا قید و غیرہ بُھگت کر آیا ہے تو لوگ اس کے ساتھ بیٹھنے اور اس کے ساتھ کھانے پینے میں کراہت محسوس کریں گے۔ حالانکہ اس سے پہلے اُسی منٹ میں ایک جھوٹ بولنے والے اور بددیانتی کرنے والے انسان کے گلے میں باہیں ڈالے اُس سے پیار اور محبت کا اظہار کر رہے ہوں گے۔ حالانکہ قاتل تو صرف ظالم ہے۔ مگرجھوٹا اور بددیانت آدمی ظالم بھی ہے اور کمینہ بھی ہے۔ اور پھر قتل ایسا جرم نہیں جو عام ہوتا ہے کیونکہ قتل میں آخر دوسرا انسان بھی تو اپنی حفاظت کرتا ہے سوائے اس کے کہ کوئی دھوکا سے قتل کرد ے۔ دھوکا کے ساتھ کسی کو قتل کر دینا بہت کم ہوتا ہے۔ مثلاً زہر دے کر مار دینا یا حیلہ بہانہ سے قتل کر دینا۔ اس قسم کے قتل کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر اس قسم کےقتل ہوتے ہیں کہ دو آدمیوں میں لڑائی ہو گئی دونوں نے ایک دوسرے کو مارنے کے لئے لٹھ اٹھایا اور بسا اوقات دونوں کا منشاء نہیں ہوتا کہ دوسرے کو جان سے مار دیا جائے۔ بلکہ اکثر دفعہ دیکھا گیا ہے کہ جب اس کے ہاتھ سے دوسرا مارا جائے تو یہ خود گھبرا جاتا ہے مگر باوجود اس کے طبائع اس کو زیادہ برا محسوس کرتی ہیں۔ حالانکہ نیت کے لحاظ سے بھی یہ صاف نیت تھا اس کا منشاء نہیں تھا کہ کسی کو قتل کر دے۔ لڑائی ہوئی اور اتفاقی طور پر اس سے قتل ہو گیا۔ مگر چونکہ اس کا لڑنا ثابت ہوتا ہے چونکہ اس کا لٹھ اٹھانا ثابت ہوتاہے اور چونکہ اس کا مقابلہ کرنا اور مارنا ثابت ہوتا ہے اس لئے بنی نوع انسان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر چہ اس نے دفاعی لڑائی لڑی لیکن یہ اس قتل کا ذمہ دار ہے۔ اس لئے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور اس کے اس فعل کو بُرا مناتے ہیں۔ اس سے بھاگتے ہیں اور اس کے ساتھ مجلس میں بیٹھنے سے گھبراتے ہیں۔ سوائے ان چند لوگوں کے جو اسی ماحول میں پلتے ہیں یا خود قاتل ہوتے ہیں یا قاتل کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر باقی عام لوگ قاتل سے گھبراتے ہیں۔ ذرا مجلس میں کسی کے متعلق کہہ دو کہ یہ شخص قاتل ہے اُس نے بِالارادہ قتل کیا یا لڑائی لڑی اور اس لڑائی میں فلاں کو قتل کر دیا۔ تو تمام انگلیاں اس کی طرف اٹھنی شروع ہو جائیں گی اور کانوں میں کُھسر پُھسر شروع ہو جائے گی کہ اس نے قتل کیا تھا۔ اور ہر شخص اپنے آپ کو سمٹانے لگ جائے گا تاکہ وہ اس قاتل کےساتھ چُھو کر گندہ نہ ہو جائے۔ مگر اس سے زیادہ مجرم وہ ہے جو جھوٹا ہے۔ اس سے زیادہ مجرم وہ ہے جو بد دیانت ہے جو اس کی مجلس میں بیٹھتا ہے۔ اور یہ نہ صرف اس کی مجلس میں اس کے ساتھ بیٹھتا اور اس کے ساتھ محبت اور پیار کرتاہے بلکہ بسا اوقات اس کی مدد کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اسے کیا کہو گے؟ میں اگر اس کو زیادہ عام کروں تو تم میں سےبُہتوں کے لئے اس کا جواب دینا مشکل ہو جائے۔ مگرجو اِس وقت یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے بیسیوں اور سینکڑوں ایسے ہوں گے جن کے دوست جھوٹ بولتے ہیں اوریہ ان کو برا نہیں مناتے بلکہ ان کو اگر اپنے دوست کے جھوٹ کا پتہ لگ جائے تو اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ خصوصاً لڑکوں میں یہ مرض بہت زیادہ ہوتاہے۔ میں نے دیکھا ہےکہ بظاہر بڑے بڑے دیانتدار نظر آنے والے آدمی جب اپنے دوست کے متعلق گواہی دینے آئیں تو آئیں بائیں شائیں کر کے بات کوٹالنے اور پردہ ڈالنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ ‘‘جی بات دراصل یوں ہے’’۔اصل سوال کا جواب نہیں دیں گے اور کہیں گے پہلے آپ میری بات سن لیں۔ بات دراصل یوں ہےاور ‘‘بات یوں ہے’’ کہنے سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل بات معلوم نہ ہو سکے اور وہ ایک کہانی کے ریت کے میدان میں حقیقت کے دریا کو خشک کریں۔ براہ راست اور بِلاواسطہ سیدھے طور پر وہ ہاں یا نہ میں جواب نہیں دیں گے۔ پہلا فقرہ ان کا یہی ہو گا کہ ‘‘جی میں تہانوں گل دساں’’ (یعنی میں آپ کو اصل بات بتاؤں) یہ نہیں کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ کیا فلاں شخص نے فلاں کو مارا؟ تو وہ اس کے جواب میں ہاں یا نہ کہے بلکہ اپنی گواہی کو ان الفاظ سے شروع کرے گاکہ ‘‘پہلے میرے کولوں گل سنو’’۔(یعنی پہلے میری بات سن لیں) اور یہ کہہ کر پھر لمبا قصہ شروع کر دے گا تاکہ اس لمبے قصہ میں اصل بات کو ضائع کر دے۔ وہ سیدھا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہو گا کہ ہاں یوں ہے یا یوں نہیں ہے۔ یہ تو سچے کا حال ہوتاہے۔ اور جو جھوٹ بولنے والا ہوتا ہے وہ تو صاف جھوٹ بول دیتا ہے۔ حالانکہ کوئی قوم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے اندر سچائی پیدا نہ ہو اور جب تک اس کے اندر دیانت پیدا نہ ہو۔ سچائی اور دیانت کے بغیر ہرگز کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے ہزاروں عیبوں میں سے جو عیب چُنا ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ بددیانت ہیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے اگر تم کسی یہودی کے پاس اپنا روپیہ رکھو تو جب تک تم اُس کے سر پر کھڑے رہو اُس وقت تک وہ اقرار کرے گا کہ ہاں تمہارا روپیہ میرے پاس ہے۔ ذرا تم اُس سے جدا ہوئے تو وہ اس کا انکار کر دے گا۔1 تو یہودیوں کے ہزاروں عیوب میں سے یہ عیب سب سے زیادہ نمایاں ہے کہ ان کے اندر بددیانتی پائی جاتی ہے۔ باقی تمام عیوب اس کے ماتحت آجاتے ہیں۔
پس جب کسی قوم میں بد دیانت لوگ پیدا ہو جائیں تو اُس قوم پر کبھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بد دیانتی ہی کی وجہ سے ہے کہ ہر قوم یہودیوں سے آنکھ چُراتی ہے۔انگریز بظاہر یہودیوں کی جلاوطنی سے چِڑتے ہیں مگر خود انگلستان میں زبردست سوسائیٹیاں بنی ہوئی ہیں کہ یہودیوں کو ملک سے نکال دینا چاہئے۔ کیونکہ یہ بددیانت اور جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں۔ تو یہ بد دیانتی اور جھوٹ ہی ہے جس کی وجہ سے قوم مغلوب ہوتی ہے۔ ہندوستان کی ساری بدقسمتی اور خرابی کی وجہ یہی ہے کہ ہندوستان کے لوگوں میں سچ نہیں پایا جاتا، دیانت اور امانت نہیں پائی جاتی۔ کسی ہندوستانی کے ہاتھ اگر کچھ روپیہ آجائے تو وہ یہی کوشش کرے گا کہ کسی طرح اسے کھا جاؤں اور یہ روپیہ واپس نہ جانے پائے۔ اکثر ہندوستانی گواہی میں جھوٹ بول جاتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ منافق کی علامت یہ ہے کہ اِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے۔ وَ اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔2 تو جو قوم منافق ہو وہ کبھی غالب ہو ہی نہیں سکتی۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق کو دوزخ کے ذلیل ترین مقام میں رکھا جائے گا۔ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ 3 فرمایا کہ دوزخ میں بھی جو سب سے نچلا درجہ ہے۔ منافق کو وہاں رکھا جائے گا۔ گویا خداتعالیٰ منافقوں کے ساتھ کفار سے بھی سخت معاملہ کرے گا اور ان کو ذلیل ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اس لئے کہ کافر کی وجہ سے تو کافر کو ہی نقصان پہنچتا ہے مگر منافق کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ہندوستان کے لوگ شور مچاتے ہیں کہ انگریزوں نے ہمیں یہ نقصان پہنچایا اور وہ نقصان پہنچایا۔ انگریزوں نے بھلا ان کو کیا نقصان پہنچانا تھا ۔واقع یہ ہے کہ ہندوستان کی بڑی بھاری بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کے اندر جھوٹ اور بددیانتی پائی جاتی ہے۔ یہاں کی کوئی ایک چیز بھی معیار کے مطابق نہیں ہر چیز بے معیاری اور ہر چیز میں پردہ ہے۔ اگر کسی انگریز کی فرم میں چلے جاؤ تو وہ ناقص چیز نکال کر الگ پھینک دے گا اور اچھی چیز آپ کےسامنے رکھے گا۔ اور بعض تو ایسے ہیں کہ سال کے بعد ناقص اور خراب چیزوں کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ مگر ایک ہندوستانی کٹے ہوئے تھان کو بڑے اہتمام سے لپیٹ لپاٹ کر ناقص حصہ چُھپا دے گا اور اچھا حصہ آپ کے سامنے رکھے گا۔ اور جب آپ اس کو گھر لا کر دیکھیں کہ وہ خراب ہے اور آپ اسے واپس کرنے جائیں تو وہ صاف انکار کر دے گا کہ میں نے تو آپ کو یہ نہیں دیا آپ کو غلطی لگتی ہے۔ شاید آپ نے کسی اور دکان سے خریدا ہو گا۔ اور اس بد دیانتی کی وجہ سے خوش ہو گا کہ میں نے اپنا ناقص مال چلا دیا۔
پس قومی تنزل کی بنیاد جھوٹ اور بددیانتی ہے۔ جو قوم جھوٹ اور بددیانتی کو مٹا نہیں سکتی اور اس کے باوجود وہ یہ سمجھتی ہے کہ اسے ترقی اور عزت حاصل ہو جائے گی تو اس کا یہ خیال ایسا خام خیال ہے جیسے ایک بچہ کا یہ خیال کہ وہ چاند کے پاس پہنچ جائے گا یا ستاروں کے پاس پہنچ جائے گا۔ جس طرح ایک بچہ کی چاند یا ستاروں تک پہنچنے کی خواہش ناکام رہتی ہے اور اس کی یہ مراد پوری نہیں ہو سکتی اِسی طرح وہ قوم جس کے اندر جھوٹ اور بددیانتی پائی جاتی ہے اور اس کے باوجود وہ یہ امید رکھتی ہے کہ اسے ترقی اور عزت حاصل ہو گی اس کی یہ امید کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منافق کی یہ دو علامتیں بیان فرمائی ہیں کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ بددیانتی کرتا ہے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے۔ مگر ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ حال تھا کہ آپ کا دشمن بھی اقرار کرتا تھا کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے۔ ایک تو کسی کے متعلق یہ کہا جاتاہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا اور ایک یہ کہ وہ سچائی کے لئے مشہور ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق یہی نہیں کہ دشمن یہ اقرار کرتا تھا کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے بلکہ آپ سچائی کے لئے مشہور تھے اور یہ اُس وقت کی بات ہے جب آپ پر وحی نازل ہونا شروع نہیں ہوئی تھی۔ لوگوں کو آپ کی سچائی پر اِس قدر اعتبار تھا کہ جب آپ پر وحی نازل ہوئی کہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو آپ نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر مکہ کے لوگوں کو بلانا شروع کیا۔ اونچا پہاڑ تو نہیں تھا پہاڑ تو اُس علاقہ میں ہوتے ہی نہیں۔ ایک ٹیلہ تھا جس کا نام ابو قبیس ہے۔ اُس پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مکہ کے لوگوں کو بلانا شروع کیا کہ اے فلاں قبیلہ کے لوگو! ادھر آؤ اور اے فلاں قبیلہ کے لوگو! تم بھی ادھر آؤ ۔جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا دشمن تم پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ اب بظاہر یہ بات ناممکن تھی اس لئے کہ اس ٹیلہ کے پیچھے میدان تھا جس میں کھڑی ہونے والی فوج نظر آ سکتی تھی اور ہر دیکھنے والا شخص آکر بتا سکتا تھا کہ وہاں فوج کھڑی ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ اتنی بڑی فوج وہاں جمع ہوجہاں پانی وغیرہ کا بھی کوئی انتظام نہیں اور کسی کو نظر بھی نہ آئے۔ پس بظاہر یہ ناممکن تھا کہ اتنی بڑی فوج وہاں جمع ہو اور مکہ والوں کو اس کا علم نہ ہو۔ جیسے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لشکر کا مکہ والوں کو پتہ لگ گیا تھا۔ اور پھر مکہ پر کسی کے حملہ کرنے کا خیال بھی ان لوگوں کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ مکہ تمام عرب کے نزدیک ایک متبرک مقام تھا اور مذہبی طور پر لوگ اس کا احترام کرتے تھے اس لئے مکہ پر حملہ کرنے کا خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لئے تیار کھڑا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے ؟تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم مان لیں گے۔ گویا ان کو آپ کی سچائی پر اتنا اعتبار اور اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے کہا کہ اگر آپ اس قسم کی ناممکن بات بھی کہیں تو ہم اس کو رد نہیں کریں گے اور اسے مان لیں گے۔ مگر جس وقت آپ نے فرمایا کہ اگر تم کو مجھ پر اتنا اعتبار اور اتنا اعتماد ہے تو میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے مجھے اس کام کے لئے مقرر فرمایا ہے کہ میں تمہیں متنبہ کر دوں کہ خداتعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اگر تم باز نہیں آؤ گے اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ گےتو وہ تمہیں عذاب دے گا۔ تو یہ سن کر وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ بے چارہ پاگل ہو گیا ہے۔4 تو جہاں تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا سوال تھا مکہ والے باوجود اِس کے کہ وہ آپ کے دشمن تھے پھر بھی وہ آپ کی سچائی کا یہاں تک اقرار کرتے تھے کہ آپ کی طرف سے پیش ہونے والی ایک فرضی اور بظاہر ناممکن بات ماننے کے لئے بھی آمادگی کا اظہار کرتے تھے کہ ہم ایسی ناممکن بات بھی مان لیں گے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔
اِسی طرح قیصر روما نے جب ابوسفیان کو اپنے دربار میں بلا کر اُس سے پوچھا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اور اس کے ساتھی جھوٹ بولتے ہیں اور کیا انہوں نے تمہارے ساتھ کبھی جھوٹا معاہدہ کیا ہے؟ تو ابوسفیان نے کہا کہ ان کے پچھلےافعال کے متعلق تو میں کوئی گرفت نہیں کر سکتا اب انہوں نے ایک معاہدہ کیا ہے دیکھیں وہ عہد شکنی کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔5 تو قیصر نے کہا آئندہ کا جانے دو۔ جب اس نے پیچھے تمہارے ساتھ عہد شکنی نہیں کی تو یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آئندہ بھی نہیں کرے گا۔
تو شدید سے شدید دشمن کو بھی جو آپ سے لڑائی کر رہا تھا یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ آپ کے متعلق یہ کہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ بولا۔ یا کوئی معاہدہ کیا اور اس میں عہد شکنی کی۔ یہی وہ چیز تھی کہ مسلمان جب کسی ملک میں بھی جاتے تو وہاں کے لوگ اُن کا اِس طرح استقبال کرتے کہ اپنےر شتہ داروں کا بھی اُس طرح استقبال نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ وہ قوم ہے جوجھوٹ نہیں بولتی، یہ وہ قوم ہے جو دیانتدار ہے اور یہ وہ قوم ہے کہ جب معاہدہ کرے تو اسے پورا کرتی ہے۔ دنیا تو آخر امن چاہتی ہے۔ اگر اسے حقیقی امن نصیب ہو جائے تو جس کے ذریعہ سے اسے امن نصیب ہو گا خواہ وہ اُس کا دشمن ہی ہو دنیا اُس کو مان لے گی۔
احمدی اپنے اپنے رنگ میں اخلاص دکھاتے رہے ہیں۔ ایک احمدی مغلا نام تھا۔ شروع شروع میں یہاں آکر بھی رہا ہے۔ نوجوان احمدی تھا۔ غالباً حضرت خلیفہ اول کے آخری زمانہ میں یا میرے شروع زمانہ میں احمدی ہوا تھا۔ جھنگ کا رہنے والا تھا۔ جب وہ احمدی ہو کر واپس گیا تو اس کے بھائیوں اور باپ نے اُس کی بہت مخالفت کی اور اسے مارا پیٹا ۔سارے علاقے نے کہہ دیا کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔ مدتوں تک اُس پر ظلم ہوتے رہے۔ اس علاقہ میں جانوروں کی چوری کا عام رواج ہے۔ جیسے گوجرانوالہ اور گجرات میں بھی جانوروں کی چوری کو فن سمجھا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں ایسی ایسی قومیں بھی ہیں جن میں یہ رواج ہے کہ اُس وقت تک لڑکے کے سر پر پگڑی نہیں پہنائی جاتی جب تک بھینس چُرا کر بہن کو نہ دے۔ گویا یہ بھی ان کے شرفاء کے اعلیٰ اخلاق میں سے ہے کہ وہ چوری کا فن جانتا ہو۔ چنانچہ گوجرانوالہ کے ایک ڈپٹی کمشنر نے گورنمنٹ کو رپورٹ کی تھی کہ اس علاقہ میں ہر شخص چوری کرتا ہے اس لئے اس کو چوری کہنا درست ہی نہیں۔ ان لوگوں میں چوری کرنا ایک قومی رسم اور کھیل سمجھا جاتا ہے۔ جیسے کبڈی کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ان علاقوں میں چوری بھی ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ہوتی ہے اور اس کو ذلیل نہیں سمجھا جاتا۔ اگر کوئی بھینس چُرا لائے تو کہتے ہیں بہت اچھا کیا بڑی بہادری دکھائی۔ بہن کو جب تک بھائی چوری کی بھینس لا کر نہ دے اُس وقت تک اس کے سر پر پگڑی نہیں باندھتے۔ پھر دوسرے اس چوری کا پتہ بھی لگاتے ہیں اور کھوج کا ملکہ بھی ان میں پایا جاتا ہے۔ تو مغلا کے بھائی بھی ان امراض میں مبتلا تھے اور جانور چوری کر کے لاتے تھے۔ جن کی چوری ہوتی وہ بھی کھوج لگا کر وہاں پہنچ جاتے۔ لوگ ان کو جمع کر کے پوچھتے کہ یہ تمہارے پیچھے کھوج لائے ہیں کہ تم جانور چُرا کر لائے ہو۔ وہ قسمیں کھا دیتے کہ ہم تو نہیں لائے۔ اِس پر وہ کہتے کہ اچھا پھر مغلے سے پوچھو۔ اگر وہ کہہ دے کہ تم نہیں لائے تو ہم مان لیں گے ۔باپ اور بھائی مغلے سے کہتے کہ دیکھو! اگر تم سچی گواہی دو گے تو ہماری بہت ذلت ہو گی۔ تم ہماری خاطر کہہ دو کہ نہیں لائے ورنہ ہم تمہیں ماریں گے۔ وہ کہتا تم لائے تو تھے پھر میں کس طرح کہہ دوں کہ تم نہیں لائے۔ وہ کہتے لانے کا سوال نہیں، تم ہماری خاطر کہہ دو کہ نہیں لائے۔ وہ کہتا یہ تو میں نہیں کہوں گا۔ جب تمہیں معلوم ہے کہ میں سچی گواہی دوں گا تو پھر تم میری گواہی کیوں دلواتے ہو۔ وہ کہتے تمہارے بغیر وہ مانتے نہیں اور اسے مجبور کر کے لے جاتے۔ مجلس میں جا کر جب اُسے گواہی کے لئے پیش کرتے تو وہ کہہ دیتا کہ میں تو تمہارے نزدیک کافر ہوں تم کافر سے کیوں گواہی لیتے ہو؟ وہ کہتے ہو تو تم کافر لیکن بولتے سچ ہو اِس لئے اگر تم کہہ دو گے کہ تمہارے بھائی جانور چُرا کر نہیں لائے تو ہم واپس چلے جائیں گے۔ اور اگر کہہ دو گے کہ لائے ہیں تو پھر ان کو دینے پڑیں گے۔ پھر وہ جواب دیتا کہ میں تو تمہارے نزدیک کافر ہوں میں گواہی نہیں دینا چاہتا۔ آخر جب دونوں طرف سے اصرار ہوتا تو یہ کہہ دیتا کہ ہاں لائے تو تھے۔ بھینس والوں کو اُن کی بھینس مل جاتی اور اِس کو ڈنڈے پڑتے۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کے ذریعہ غیر قوم بھی مرعوب ہو جاتی ہے۔ اب خواہ وہ اِس کو مارتے تھے لیکن جس مجلس میں یہ ذکر ہوتا ہو گا کہ مغلا ہے تو کافر پر ہے بڑا سچا۔ تو اُس مجلس میں جتنی صادق روحیں اور نیک فطرتیں ہوں گی وہ یہی کہتی ہوں گی کہ کاش! یہ کفر ہمیں بھی نصیب ہو جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں
بعد از خدا بعشقِ محمّد مخمرم
گر کفر ایں بَوَدْ بخدا سخت کافرم 6
کہ لوگ مجھے کافر کافر کہتے ہیں میرا قصور کیا ہے جس کی وجہ سے وہ مجھے کافر کہتے ہیں۔ مجھے تو یہی نظر آتا ہے کہ خدا کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بے انتہا طور پر میرے اندر پائی جاتی ہے۔اگر وہ اِس کی وجہ سے مجھے کافر کہتے ہیں تو خدا کی قسم! میں سب سے بڑا کافر ہوں۔ اب جو راستباز اور صادق روحیں ہوں گی وہ تو یہی کہیں گی کہ اگر یہ کفر ہے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عاشق کافر ہے تو خدایا! ہمیں بھی ایسا کافر بنا دے۔ کیونکہ سعید الفطرت انسان سمجھتے ہیں کہ روح کی صفائی اور پاکیزگی اور روحانی ترقی جب اسی میں ہے تو یہی چیز ہم چاہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ گندی چیز ہمیں ملے۔ تو جب کسی انسان کےا ندر سچائی اور دیانت پائی جائے تو دنیا خواہ اُس کے ساتھ کتنا ہی تعصب اور بُغض رکھے مگر اُس کو کوئی حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا اور کتنا ہی شدید سے شدید دشمن کیوں نہ ہو وہ اس چیز سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے اندر ایسا اخلاص اور ایسا تقویٰ پیدا کر دیا تھا کہ ابتدائی ایام میں شدید سے شدید دشمن بھی اِس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ اگر احمدی کسی بات کے متعلق گواہی دے گا تو ہم مان لیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اور اگر ہم احمدی کے پاس امانت رکھیں گے تو وہ کبھی ضائع نہیں ہو گی۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ کبھی خیانت نہیں کرے گا۔
دلّی کا ایک مشہور خاندان ہے جو طب کی وجہ سے بہت مشہور ہے لیکن حق یہ ہے کہ اِتنی عزت انہوں نے اپنے شہر میں اس فن کی وجہ سے حاصل نہیں کی جتنی عزت کہ دیانت کی وجہ سے اس کو حاصل ہوئی۔ حکیم اجمل خان صاحب اسی خاندان میں سے تھے۔ یہ خاندان دیانت کی وجہ سے اتنا مشہور تھا کہ غدر کے موقع پر جب سخت گڑبڑ ہوئی تو لوگ وہاں سے بھاگ گئے۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ انگریزوں نے ظلم نہیں کیا لیکن حق یہ ہے کہ اُس وقت انگریزی فوج نے لُوٹ مار اور قتل و غارت میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے ہندوستانیوں نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا اور ان پر ظلم کئے جس کے بدلہ میں پھر انگریزوں نے کئی قسم کے مظالم توڑے۔ انہوں نے ضرور بدلہ لیا اور سخت لیا۔ ہم نے خود سنا ہے۔ غیروں سے کیا ہماری اپنی نانی جان مرحومہ سنایا کرتی تھیں کہ میری عمر اُس وقت آٹھ نو سال کی تھی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے سپاہی ہمارے مکان کے اندر گھسے۔ اُس مکان کے اندر ہمارے والد کئی ماہ کے بیمار لیٹے ہوئے تھے جو غدر میں گھر سے بھی نہ نکلے تھے اور نہ نکل سکتے تھے۔ ایک شخص نے اُن کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ بھی غدر میں شامل تھا اور اس پر سپاہیوں نے ان کو مار دیا۔ پھر یہ بھی ہم نے سنا ہے کہ بعض بچوں کو ان کی ماؤں کے سامنے کِرَچِیں 7اور برچھے مار مار کر مار دیا گیا۔ بے شک ابتدا میں ہندوستانیوں نے بھی انگریزوں سے ایسا ہی سلوک کیا تھا لیکن یہ کہ انگریزوں نے ان کے مقابلہ میں محبت کا نظارہ دکھایا یہ بالکل غلط ہے۔ انگریزی فوج نے بھی اس کے مقابلہ میں وہ وہ مظالم توڑے کہ ان واقعات کو سن کر دل بیٹھنے لگ جاتا ہے۔ بے تحاشا لوگ مارے جاتے تھے اور کُھلے بندوں لُوٹے جاتے تھے۔ سپاہی گھروں کےا ندر گھس جاتے اور عورتوں کی بے حرمتی کرتے۔ اس لئے لوگ اپنی عورتیں اور بچے لے کر بھاگ رہے تھے کہ کسی طرح شہر سے نکل کر گاؤں میں پہنچ جائیں اور چُھپ جائیں۔ اُس وقت طبیبوں کا یہ خاندان جو دیانت میں مشہور ہے اس کے بزرگ اُس وقت مہاراجہ پٹیالہ کے طبیب تھے۔ چونکہ مہاراجہ پٹیالہ انگریزوں کےساتھ تھے اس لئے انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ یہ ہمارے طبیب ہیں، ان کی ہمارے دل میں عزت ہے ان کے گھر کو نہ لُوٹا جائے۔ چنانچہ پٹیالہ کی فوج ان کے گھر کے پہرہ پر مقرر کر دی گئی تھی۔ اُس وقت جو لوگ بھاگ رہے تھے وہ ان کےدروازے کے آگے سے گزرتے تھے اور اپنے زیور اور روپوں کی پوٹلیاں ان کی ڈیوڑھی میں پھینک جاتے تھے۔ سینکڑوں لوگ ایسے تھے جنہوں نے دس دس سال بعد روپوں اور زیورات کی تھیلیاں ان کے ہاں سے آکر لیں۔ وہ پوٹلیاں جن کا کوئی گواہ نہ تھا، وہ پوٹلیاں جو کسی کے ہاتھ میں نہیں دی گئی تھیں دس دس سال بعد آکر ویسی کی ویسی لے گئے۔ اس قسم کی امانت ہے جو لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ آج تک اس خاندان کی جو عظمت دلّی کے لوگوں کے دلوں میں ہے اور اس خاندان کا جو ادب و احترم لوگوں میں پایا جاتا ہےیہ خالی اِس بات کی وجہ سے نہیں کہ یہ بڑے طبیب ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ ادب واحترام اس بات کی وجہ سے بھی ہے کہ ان کے خاندان نے ایک وقت دیانت کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا تھا۔ پس اعلیٰ درجہ کی دیانت کا جو نمونہ اِس خاندان نے دکھایا ہے اس کی وجہ سے اس خاندان کی عزت اور عظمت کم از کم پوتوں تک تو جائے گی۔ چاہے دیسی طب کا کوئی مخالف ہو اور چاہے ڈاکٹری علاج کرائے مگر دلّی کا رہنے والا اِس خاندان کی عظمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس نے اس خاندان کی دیانت اور شرافت کا حال سنا ہوا ہے۔ کچھ مدت کے بعد پھر خرابیاں شروع ہو جاتی ہیں اور لوگ بھول جاتے ہیں وہ اور بات ہے۔ کم از کم یہ اثر ان کے پوتوں تک تو جائے گا۔
پس دیانت اور سچائی ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بغیر کسی قوم کا رعب قائم نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں میں امانت اور قول کی پاسداری اتنی شاندار تھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک قتل کا مقدمہ پیش ہوا اور قاتل کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ جب اسے قتل کرنے لگے تو اُس نے کہا میرے پاس یتیموں کی امانتیں ہیں اگر میں مارا گیا تو بے چارے یتیم جن کی امانتیں میرے پاس جمع ہیں ساری عمر بھوکے مریں گے۔ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان کی امانتیں ان کے سپرد کر آؤں۔ تھا وہ بادیہ کا رہنے والا۔ قاضی نے کہا کہ تمہارا کوئی ضامن ہے کہ تم وقت پر پہنچ جاؤ گے اور اگر نہ آؤ تو ہم اسے پکڑیں؟ غالباً خود حضرت عمرؓ ہی کی مجلس تھی۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور حضرت ابوذر غفاریؓ پر اُس کی نظر پڑی اور کہا کہ یہ میرے ضامن ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اس کی ضمانت دیتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ چنانچہ اُس کو تاریخ دے دی گئی اور وہ چلا گیا۔ جب مقررہ دن آیا توپھر مدعی بدلہ لینے کےلئے آموجود ہوئے۔ دوسرے لوگ بھی جمع ہو گئے۔ سزا کا جو وقت مقرر تھا وہ وقت قریب ہو رہا تھا۔ لیکن اس شخص کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ تب صحابہؓ میں گھبراہٹ شروع ہوئی کہ ایک مخلص صحابی مارا جائے گا کیونکہ وہ ضامن تھا۔ بعض نے پوچھا ابوذر ؓ !جانتے ہو وہ تھا کون؟ اتنی دیر ہو گئی ابھی تک وہ آیا نہیں۔ انہوں نے جواب دیا مجھے نہیں پتہ کون تھا۔ لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ تمہیں پتہ نہیں تھا کہ وہ کون ہے تو پھر تم نے ضمانت کیوں دی؟ ابوذرؓ نے کہا اس نے جو اتنے آدمیوں کا منہ دیکھ کر ان میں سے اپنی ضمانت کے لئے مجھے چُنا تو کیا میں اُس پر بے اعتباری کرتا؟ اُس نے مجھ پر اعتبار کیا میں نے بھی اُس پر اعتبار کیا۔ جب اس نے میرے متعلق یہ سمجھا کہ یہ وہ شخص ہے جو ایک اجنبی کی خاطر جان دے دے گا تو میں کس طرح اس کی بات کو رد کرتا۔ مَیں نے بھی ضمانت دے دی۔ جب مقررہ وقت آگیا اور لوگ سمجھنے لگے کہ ضامن کو سزا دینے کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سوار گھوڑا دَوڑاتا ہوا اتنا تیز آرہا ہے کہ گَرد میں سوار کا پتہ نہ لگتا۔ وہ گرد قریب ہوتی گئی اور مجمع کے قریب آکر سوار گھوڑے پر سے اُترا۔ وہ اتنی تیزی سے گھوڑا دوڑاتا ہوا آرہا تھا کہ جونہی اُس نے گھوڑے پر سے چھلانگ لگائی گھوڑا زمین پر گِرا اور گِرتے ہی دم توڑ دیا۔ یہ وہی شخص تھا جس کے لئے یہ دن قصاص کے لئے مقرر تھا۔ لوگوں کو یہ اطمینان ہو گیا کہ ابوذرؓ کی جان بچ گئی۔ کسی شخص نے اُس شخص سے پوچھا میاں! تم آکس طرح گئے تمہارے متعلق تو معلوم ہوا ہے کہ یہاں کوئی تمہارا واقف ہی نہیں۔ ابوذرؓ جس نے تمہاری ضمانت دی تھی اِس کو بھی پتہ نہیں تھا کہ تم کون ہو۔ دوستی اور تعلقات کا آخر لحاظ اور شرم ہوتی ہے کہ کسی دن پکڑ لیں گے لیکن تمہیں تو کوئی جانتا ہی نہیں تھا تم کس طرح آگئے؟ اُس نے آگے سے جواب دیا کہ ایک شخص جو مجھے جانتا ہی نہیں تھا اُس نے جب میری خاطر اپنی جان کی پروا نہ کی اور میری ضمانت دے دی تو کیا میں اتنا ہی بے حیا تھا کہ نہ آتا اور اس کی جان کی پروا نہ کرتا۔ مجھے آنے میں کچھ دیر ہو گئی اس لئے میں اتنی تیزی سے گھوڑا دَوڑاتا آرہا تھا کہ مجھے اس کی پروا نہیں تھی کہ گھوڑا بچتا ہے یا مرتا ہے۔ جب دونوں طرف کی شرافت کا یہ نظارہ مدعیوں نے دیکھا تو انہوں نے بھی آگے بڑھ کر کہہ دیا کہ ہم اپنا قصاص معاف کرتے ہیں، ہم بدلہ لینا نہیں چاہتے اِس کو معاف کیا جائے۔
یہ وہ شرافت تھی، یہ وہ ایمان تھا، یہ وہ سچائی اور یہ وہ دیانت تھی جس نے مسلمانوں کے نام کو بلند کیا اور ہمیشہ کے لئے دنیا میں ان کی عزت قائم کر دی۔ جو لوگ یہ نمونہ دکھاتے ہیں وہ قوم کو چار چاند لگا دیتے ہیں اور جو لوگ یہ نمونہ نہیں دکھاتے وہ قوم کا گلا کاٹنے والے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ لوگوں کو یہ شبہ ہو گا کہ جماعت کو ترقی کس طرح ہو گی اور اموال کس طرح آئیں گےلیکن مجھے یہ شبہ نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے اور خداتعالیٰ ہی تبلیغ کے لئے جن جن سامانوں کی ضرورت ہے وہ سامان مہیا فرمائے گا۔ پس مجھے یہ فکر نہیں کہ اموال کہاں سے آئیں گے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ کیا جماعت میں وہ لوگ ہوں گے یا نہیں ہوں گے جو دیانتداری سے اموال استعمال کریں۔ مجھے اس کے متعلق تو شبہ ہی نہیں کہ اموال کہاں سے آئیں گے۔ اموال بھیجنا خدا کا کام ہےاور خدا یہ کام ضرور کرے گا۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ جماعت اپنے فرض کو ادا نہیں کر سکے گی۔ کیونکہ ان اموال کو سنبھالنے کے لئے سچے اور دیانتدار آدمیوں کی ضرورت ہے جو ان اموال کو صحیح رنگ میں استعمال کرنے والے ہوں۔ 8 اور میں دیکھتا ہوں کہ آج جبکہ خداتعالیٰ کے فضل سے اموال بڑھ رہے ہیں یہ کوڑھ کا مرض جماعت میں پیدا ہو رہا ہے۔ یہ ذلیل ترین مرض میں مبتلا کر دینے والے کیڑے جماعت میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اور دیانت کا وہ معیار اب بعض شخصوں میں نہیں رہا جو پہلے تھا۔ وہ معیار نہیں رہاجو ہونا چاہئے تھا۔ وہ معیار نہیں رہاجس سے قومی شرافت اور عزت پیدا ہوتی ہے اور وہ معیار نہیں رہا جس سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔
بعض نوجوانوں کے ہاتھ میں اگر سلسلہ کا روپیہ آجائے جو سلسلہ کے ملازم ہیں تو وہ اس روپیہ کو بجائے سلسلہ کے کاموں پر خرچ کرنے کے اسے کھانے کی طرف دَوڑ پڑتے ہیں۔ سلسلہ کے ملازموں میں بھی بعض ایسے غداروں کا ثبوت ملا ہے۔ اور چندہ لینےو الوں میں بھی بعض ایسے آدمیوں کا ثبوت ملا ہے جو دیانتداری سےکام نہیں لیتے۔ اگر طاعون کسی کے گھر کےپاس آجائے یا اُس کے گھر میں آجائے اور اس کے کسی عزیز کو طاعون ہو جائے تو جتنی گھبراہٹ اور جتنا خطرہ اُس سے ہوتا ہے اُس سے ہزاروں گُنا زیادہ اِس ذلیل ترین مرض سے خطرہ اور گھبراہٹ ہونی چاہیے۔ وہ طاعون تو ایک آدمی یا ایک گھر کو تباہ کرتی ہے لیکن یہ طاعون اتنی خطرناک ہے کہ ساری قوم کو تباہ کر دیتی ہے۔ جس طرح اُس طاعون کے چُوہوں کو بِلوں میں مارا جاتاہے اِسی طرح جب تک تم اِس طاعون کے چُوہوں کو ان کے بِلوں میں روحانی طور پر نہیں ماردو گے اُس وقت تک یہ امید رکھنا کہ تم اس خطرناک اور ذلیل ترین مرض سے بچ جاؤ گے اور اُس وقت تک تمہارا یہ امید رکھنا کہ تم ترقی حاصل کر سکو گے اور کامیاب ہو جاؤ گے ایک موہوم امر ہے۔
پس ہماری جماعت کا کوئی فرد ایسا نہیں ہونا چاہیے جو جھوٹی گواہی دے اور جماعت کا کوئی فرد ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بددیانت ہے۔ میں نے اس پر غور کیا ہے اور غور کرنے کے بعد میں نے قطعی طور پر فیصلہ کیا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ جماعت میں کوئی بددیانت ہے تو ایسے شخص کو جماعت میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ اور جس شخص کی بددیانتی ثابت ہو جائے گی اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ اور اگر آئندہ کے لئے توبہ کرنے کی وجہ سے اُسے معاف کیا جائے گا تو اُسے سلسلہ کے کسی کام کا موقع ہر گز نہیں دیا جائے گا۔ اور جس طرح قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والے کی گواہی نہ لی جائے9 ایسے شخص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اور سلسلہ اسے مجرم اور غدار تسلیم کرےگا۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ہمارا رحم بعض دفعہ ایسے شخص کو پولیس کے حوالے نہ کرے اور اس کے متعلق انجمن میں ہی کارروائی کی جائے۔ مگر ایک شخص کے ساتھ رحم کرنے کے یہ معنے نہیں کہ قوم کی گردن پر چُھری پھیر دی جائے۔ اگر اُس پر ہمارا رحم اُسے پولیس کے حوالہ نہ کرنے سے گریز کرے گا تو ہمارا قوم پر رحم اسے جماعت سے خارج کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔
پس اگر کوئی شخص بددیانتی کرے گا یا اس کا جھوٹ ثابت ہو جائےگا بچوں کی عقل چونکہ کم ہوتی ہے اس لئے ان کے بارہ میں یہ قاعدہ ہو گا کہ ان کا جو اہم جھوٹ پکڑا جائے۔ اس دونوں قسم کے لوگوں کو جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ ضروری ہو گا کہ اگر کوئی شخص کسی پر بددیانتی یا جھوٹ کا الزام لگاتا ہےتو اُس کو اپنا یہ دعویٰ قضاء میں ثابت کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں کہ یونہی کسی کے متعلق کہہ دیا جائے کہ یہ بددیانت یا جھوٹا ہے بلکہ اس الزام کو ثابت کرنا ہو گا۔ مثلاً ایک شخص زید کا ملازم ہے اور زید آکر کہتا ہے کہ میرا یہ ملازم بددیانت ہے۔ تو اس کو قضاء میں اس کا بددیانت ہونا ثابت کرنا ہو گا۔ یا ایک شخص آکر کسی کے متعلق کہتا ہے کہ اس نے فلاں جھوٹ بولا۔ تو اس کو قضاء میں وہ جھوٹ ثابت کرنا ہوگا۔ اور جب قضائی طور پر اُس کا بددیانت یا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا تو پھر سلسلہ اُس کو یہ سزا دے گا کہ اسے جماعت سے خارج کر دے گا۔ اور اگر سزا کے بعد اسے معافی بھی دی جائے گی تو بعض شرطوں کےساتھ دی جائے گی تاکہ ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ احمدی جھوٹ اور بددیانتی کو برداشت نہیں کرتے اور کہ احمدی جھوٹ بولنے والے نہیں ہوتے۔ سچے احمدی بددیانت نہیں ہوتے۔ اگر ان میں سے کوئی ایسا فعل کرتا ہے تو وہ ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ جماعت انہیں ایسی سزا دیتی ہے جس سے وہ ہمیشہ کےلئے مشہور ہو جاتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان اپنے اخلاق کو درست کرنے کی کوشش کریں گے اور میں امید کرتا ہوں کہ تم میں سے ہر فرد جھوٹ اور بددیانتی کو مٹانے کی کوشش کرے گا۔جب تک ہم جھوٹ اور بددیانتی کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوں گے اُس وقت تک جماعت معیاری سکّہ پر پوری نہیں اُتر سکتی۔ معیاری سکّہ پر جماعت تبھی پوری اُتر سکتی ہے جب ساری کی ساری جماعت سچائی کے ساتھ مشہور ہو اور جب ساری کی ساری جماعت بددیانتی سے بکلی پاک ہو۔
خدام الاحمدیہ کا دعویٰ ہے کہ ہم خدمتِ خلق کرتے ہیں۔ الفضل میں چھپتا ہے کہ ہم نے خدمتِ خلق کا یہ کام کیا، فلاں کے کھیت کی منڈیر بنائی، فلاں کے کھیت کو پانی دیا اور فلاں کا کھیت کاٹا۔ بے شک وہ بھی خدمتِ خلق ہے لیکن یہ خدمتِ خلق نہایت ہی ضروری ہے۔ آیا خدام نے کبھی یہ خدمتِ خلق بھی کی ہے؟ میں ان کو اس خدمتِ خلق کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو غیر کی بھی خدمت ہے اور اپنی بھی خدمت ہے کہ سچائی اور دیانت قائم کی۔ میں نے بار بار خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی ہے مگر اِس وقت تک باوجود توجہ دلانے کے انہوں نے اخلاق کی درستی کی طرف توجہ نہیں کی۔ یہ کہ کسی کے کھیت کو پانی دے دیا یا منڈیریں بنا دیں اس سے کیا بنتا ہے۔ اصل کام تو قوم کے اندر سچائی اور دیانت کو قائم کرنا ہے۔ جب وہ اس چیز کو قائم کریں گے تو نہ صرف وہ ایک کھیت کوتباہ ہونے سے بچائیں گے بلکہ ہزاروں ہزار آدمیوں کو بچائیں گے جنہوں نے ان مکّاروں کا شکار ہونا تھا۔ آخر بددیانت آدمی اپنا روپیہ نہیں کھاتا دوسروں کا کھاتا ہے۔ اپنی بدنامی نہیں کرتا بلکہ ساری قوم کی بدنامی کا موجب ہوتا ہے۔
پس قومی ترقیات تمام کی تمام دیانت اور سچائی کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس قوم میں یہ دونوں چیزیں نہیں پائی جاتیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ایک شخص کسی انگریزی فرم کو آرڈر دے کر گھر آجاتا ہے اور اُسے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ کسی ہندوستانی فرم کو آرڈر دے کر واپس آتا ہے تو اُس کا دل گھٹتا رہتا ہے کہ خبر نہیں پتھر یا کیا چیز بھیج دیں۔ اسی بددیانتی کی وجہ سے ہندوستان کی ترقی رُکی ہوئی ہے۔جو دکاندار دیانتدار ہو گا اُس پر لوگ اعتبار کریں گے اور بغیر کسی فکر اور ہچکچاہٹ کے اس کو آرڈر دے آئیں گے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کبھی ناقص چیز نہیں دے گا۔ پس قومی ترقی امانت اور دیانت کی شہرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگر تمام احمدی دیانتدار ہوں گے تو جہاں بھی کوئی احمدی دکاندار ہو گا لو گ اُس کے پاس جائیں گے کہ اس سے سودا اچھا ملتا ہے چلو اس کے پاس چلیں۔ اور کہیں گے کہ ہےتو کافر پر ہے دیانتدار۔ اور سب سودا لوگ اس سے خریدیں گے۔ لیکن اگر قادیان کا احمدی دکاندار بھی ایک من آٹے میں سیر بھر مٹی ملا دیتا ہے تو اس کے اندر وہ کونسی چیز ہے جس کی وجہ سے لوگ احمدیت کی طرف توجہ کریں گے اور جو چیز اس کو دوسرے دکانداروں سے ممتاز کرنے والی ہے۔
میں نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خدام کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ اس کی نگرانی کریں۔ انہوں نے کچھ دن کام بھی کیا تھا مگر انہوں نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ اگر ہر خادم اس بات کا فیصلہ کر لے کہ میں نے بددیانتی کو مٹانا ہے، اگر اس کا باپ دکاندار ہے تو باپ سے کہہ دے کہ تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا، اگر اس کے بھائی دکاندار ہیں تو بھائیوں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا، اگراس کے دوست اور رشتہ دار دکاندار ہیں تو دوستوں اور رشتہ داروں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا،اگر اس کی بیوی دکان کرتی ہے تو بیوی سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا اور اگر تم باز نہ آئے اور اصلاح نہ کی تو میں تمہارے خلاف گواہی دوں گا۔ تو مجھے امید ہے کہ اگر ہر خادم یہ فیصلہ کر لے تو ایک گھنٹہ کے اندر اندر اس عیب کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اگر تمہار ابھائی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے، اگر تمہارا باپ تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے، اگر تمہاری ماں تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے ، اگر تمہاری بیوی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے تو یہ بددیانتی اُسی وقت تک ہے جب تک ان کو یقین ہے کہ تم ان کی محبت کی خاطر ان کی رپورٹ نہیں کرو گے۔ لیکن جب ان کو معلوم ہو جائے گا کہ تم ان کی محبت کی پروا نہیں کرو گے۔ اور تم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر وہ بددیانتی سے باز نہ آئے تو تم اس کی رپورٹ کرو گے تو کیا ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے منٹ میں بددیانتی کریں؟ باپ کہے گا بیٹا پچھلا جانے دو آئندہ میں کبھی بددیانتی نہیں کروں گا۔ بھائی کہے گا پچھلا معاف کر دو آج سے میں باز آیا۔ بیوی کہے گی یہ قصور معاف کر دو آئندہ یہ حرکت نہیں کروں گی۔ پس جب تم یہ تنبیہہ کر دو گے اور ایسے موقع پر ان کی محبت کو قربان کر دو گے تو تم دیکھوگے کہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر بددیانتی مٹ جائے گی۔
پس قوم کی اصلاح تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ بیٹے کی اصلاح باپ کے ہاتھ میں ہے۔ باپ کی اصلاح بیٹے کے ہاتھ میں ہے۔ بھائی کی اصلاح بھائی کے ہاتھ میں ہے۔ بیوی کی اصلاح خاوند کے ہاتھ میں ہے اور ماں کی اصلاح بیٹوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگرتم اس طریق کو استعمال کرو تو چند دن نہیں بلکہ ایک گھنٹہ کے اندر ساری قوم کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر تمہارا دوست دیکھتا ہے کہ وہ بددیانتی کرے گا تو تم اس پر پردہ ڈالو گے اورجھوٹ بولو گے تو تم اُس کو بھی غرق کرتے ہو اور آپ بھی غرق ہوتے ہو۔ کیا تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اس کی بددیانتی پکڑی جائے اور اس کی سزا میں اسے پانچ دس گالیاں یا دو چار تھپڑ پڑیں؟ یا تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اس کو لاکھ سال تک جلتی ہوئی جہنم میں ڈال دیا جائے؟ اگر تم پسند نہیں کرتے کہ اس کو جہنم میں ڈالا جائے تو تمہارا دوست ان پانچ دس گالیوں یا دو چار تھپڑوں سے اگر بچنا بھی چاہتا ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس کو گھسیٹ کر لاؤ اور اسے تھپڑ اور گالیاں دلاؤ تاکہ اس کی سزا اسی دنیا میں ختم ہو جائے اور وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے۔ ہاں اگر تمہیں خدا پر ایمان نہیں، اگر تمہیں جزا سزا اور دوزخ پر اعتبار نہیں تو پھر بے شک تم اس شخص کو انسانوں کی سزا سے بچاؤ۔ کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ خدا کی کوئی سزا نہیں۔ اس سے بچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسان کی سزا ہے اس سے میں بچاتا ہوں۔پس ایسی بے ایمانی کی صور ت میں ہی ہو سکتا ہے کہ تم اس کو سزا سے بچانے کی کوشش کرو۔ ورنہ قومی جرائم میں کسی کی رعایت کرنا خطرناک چیز ہے۔ ہاں فردی خرابی میں پردہ پوشی کرنابے شک اعلیٰ صفت ہے۔ ایک ایسا جُرم ہے جس کا زید یا بکر سے تعلق ہے مثلاً زید سے کوئی غلطی ہوئی یا بکر سے کوئی غلطی ہوئی جس کا صرف ان کےساتھ ہی تعلق ہے تو ہمارا فرض ہے کہ پردہ پوشی سے کام لیں۔ خداتعالیٰ ان کے گناہ بھی معاف کرے اور ہمارے گناہ بھی معاف کرے۔ مگر ایسا جرم جو قوم کے اخلاق بگاڑنے والا ہے اور جس کا اثر ساری قوم پر پڑتا ہے۔ ہر شخص جو اس کاارتکاب کرتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے اور ہر شخص جو اُس پر پردہ ڈالتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے اور ہر وہ شخص جس کے دل میں اس جرم کو دور کرنے کی خواہش نہیں وہ بھی قوم کا دشمن ہے۔ پس آج سے تم یہ فیصلہ کر لو کہ جھوٹ اور بددیانتی کو مٹانا ہے۔ تم یہ کر کے دیکھ لو۔ اگر یہ دونوں چیزیں تم اپنے اندر پیدا کر لو گے تو تم دیکھو گے کہ شدید سے شدید دشمن بھی تمہاری تعریف کرنے پر مجبور ہو گا اور اپنی ضرورتوں کے موقع پر وہ تم پر اعتبار اور اعتماد کرے گا۔
پس میں جماعت کو آنے والے خطرہ سے جس کی الوصیت میں خبر دی گئی تھی آگاہ کرتا ہوں اوریہ نہیں کہ آگاہ کر دینے سے میں اپنے آپ کو اپنی ذمہ داری سے آزادسمجھتا ہوں بلکہ جب تک مجھے خدا تعالیٰ توفیق دے میں اپنی اس ذمہ داری کو پورے طور پر ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اور میرا ہی نہیں بلکہ تم میں سے ہر شخص کا فرض ہو گا کہ اس خطرہ سے آگاہ رہے جس کے متعلق آج سے سینتیس سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خبردار کیا تھا۔ اگر پھر بھی وہ چور تمہارے گھر میں گھس آئے تو تم سے زیادہ اَبْلَہ 10کون ہو گا کہ خدا کے مامور نے سینتیس سال پہلے بتا دیا تھا کہ شیطان فلاں طرف سے آئے گا مگر پھر بھی تم نے احتیاط نہ کی اور اسے گھر میں گھسنے دیا ۔ پس اب بھی تمہارا فرض ہے کہ ہو شیار ہو جاؤ اور کمریں کَس لو اور قومی عزت کو بچانے اور قومی ناک کو بچانے کے لئے مجرموں اور غداروں کو نکال باہر کرو۔ خواہ وہ تمہارا باپ ہو، خواہ وہ تمہارا بھائی ہو، خواہ وہ تمہاری ماں ہو، خواہ وہ تمہاری بیوی ہو اور خواہ وہ تمہارا دوست ہو۔ اور کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ کا سلسلہ نیک نامی اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ترقی کرے۔ یاد رکھو قومی اخلاق اُسی وقت غالب ہو سکتے ہیں جب قوم غالب ہو۔ اور جب احمدیت غالب آئے گی تو اُس وقت ہمارے یہ اخلاق کام نہیں آئیں گے جو آج میرے اندر یا تمہارے اندر پائے جاتے ہیں بلکہ وہ اخلاق کام آئیں گے اور اُن سے دنیا کی اصلاح ہو گی جو اُس وقت جماعت کے اندر پائے جاتے ہوں گے۔ میرے اندر جو اخلاق پائے جاتے ہیں اُس وقت یہ کام نہیں آئیں گے بلکہ اُس شخص کے اخلاق کام آئیں گے جو اُس وقت جماعت کے سر پر ہو گا۔ جب جماعت میں حکومت آئے گی کیونکہ یہ کام اُس نے کرنا ہے کہ ان اخلاق کو تمام دنیا پر غالب کرے۔ میں تو واعظ ہوں سیاست میرے پاس نہیں، غلبہ مجھے حاصل نہیں، میرے پاس تو اتنی بھی طاقت نہیں جتنی کم سے کم اقلیّت کو حاصل ہے۔ ہندوستان میں سب سے چھوٹی مینارٹی(Minority) سکھوں کی ہے مجھے تو اتنی بھی طاقت حاصل نہیں جتنی کہ سکھوں کو حاصل ہے۔ تو میرے اندر کتنے ہی بلند اخلاق ہوں وہ دنیا کی اصلاح میں کام نہیں آ سکتے۔ ہاں اس شخص کے اخلاق کام آئیں گے جو اُس وقت جماعت کے سر پر ہو گا جب جماعت کو غلبہ حاصل ہو گا۔ میں تو وعظ کرتا ہوں لیکن وعظ کیا قرآن مجید میں کم ہے؟ اچھے سے اچھا وعظ قرآن مجید میں موجود ہے، اچھے سے اچھا وعظ حدیث میں موجود ہے۔ اگر قرآن مجید اور حدیث کے وعظ نے کام نہ دیا تو میرا وعظ کیا کام دے گا۔ پس وہی اخلاق کام دیں گے جو اُس وقت جماعت میں ہوں گے جب جماعت کو غلبہ حاصل ہو گا اور جو اُس شخص میں پائے جائیں گے جو جماعت کے سر پر ہو گا۔ اس لئے اُس وقت تک اخلاق کی درستی کا کام کرتے جاؤ جب تک کہ جماعت کو غلبہ حاصل ہو۔ اگراُس وقت تک تم برابر اخلاق کو درست رکھتے گئے تو جب غلبہ ملے گا وہ غلبہ نیکی کا ہو گا۔ پس جماعت کی حالت کم از کم اس وقت تک نیک ہونی چاہیے۔ جب تک یہ حالت قائم رہے گی اُس وقت تک جماعت بڑھتی جائے گی۔ اور جب یہ حالت نہ رہے اور خرابی پھیل جائے تو پھر ترقی رُک جاتی ہے۔ پھر کسی مامور کے ذریعہ سے ترقی حاصل ہو تو ہو اس جماعت کے اخلاق سے نہیں ہو سکتی۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ان اخلاق کو کم از کم اُس دن تک جاری رکھیں جس دن کہ احمدیت کو غلبہ حاصل ہو، تاکہ یہ اخلاق ساری دنیا میں جاری ہو جائیں اور دنیا تسلیم کرلے کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر ان اخلاق کو جاری کیا۔ اگر آج ہم نے ان اخلاق کو مار دیا تو کل کو خراب اخلاق دنیا میں جاری ہوں گے اور جب جماعت میں حکومت آئے گی تو وہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حکومت نہیں ہو گی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حکومت نہیں ہو گی بلکہ وہ شیطان کی حکومت ہو گی۔ اور اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی جماعت کو اس لئے تو پیدا نہیں کیا کہ ان کے ذریعہ انسانوں کی گردنیں شیطان کے قبضہ میں چلی جائیں۔
پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی قوم کےا خلاق کو درست رکھیں، اپنی اولادوں کے اخلاق کو درست رکھیں، اور وہ آگے اپنی اولادوں کے اخلاق کو درست کرتے چلے جائیں۔ یہاں تک کہ یہ اخلاق رواج پا جائیں۔ اور جب احمدیت کا غلبہ ہو اور دنیا کی اصلاح کا کام احمدیت کے سپرد ہو تو احمدیت دنیا کےاخلاق درست کردے۔ اور دنیا تسلیم کر لے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کام کے لئے اگر ہماری راتوں کی نیندیں حرام ہو جائیں، ہمارے دنوں کا آرام اُڑ جائے اور ہمارے دلوں کا چین اور سکینت کھویا جائے تو یہ کوئی بڑی تکلیف نہیں بلکہ عین حق ہو گا جو ہم نےا دا کیا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ان بلاؤں سے ہمیں اس سے زیادہ نجات دے جتنی کہ طاعون اور ہیضہ سے بچنے کی بندے تمنا رکھتے ہیں۔اٰمین’’ (الفضل مورخہ 22فروری 1945ء)
1: وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِيْنَارٍ
لَّا يُؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآىِٕمًا(آل عمران: 76)
2: بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق
3: النساء: 146
4: بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الشعراء باب وَاَنْذِرْ (الخ)
5: بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ (الخ)
6: درثمین فارسی صفحہ112 شائع کردہ سید عبدالحی شاہ صاحب
7: کِرَچِیں: ایک قسم کی لمبی تلوار
8: الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ319(مفہوماً)
9: لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا(النور:5)
10: اَبْلَہ: نادان۔ بیوقوف
8
خدا تعالیٰ کی ساری کی ساری صفات کو ظاہر کرنے والے بنو
(فرمودہ 23فروری 1945ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ انبیاء کی آمد ایک بادل سے مشابہت رکھتی ہے جس طرح بادل اور وہ بادل جو کہ ضرورت کے مطابق اور لمبے انتظار کے بعد دنیا میں آتا ہے جب لوگ گرمی کی شدت اور حبس کی تکلیف کی وجہ سے بے کل ہو رہے ہوتے ہیں، جب انسان اور جانور تازہ اور اچھے پانی کے لئے تڑپ رہے ہوتے ہیں، جب کھیت اپنی روئیدگی کو نکالنے اور سبزہ کو اُبھارنے کے لئے پانی کے چھینٹوں کو ترس رہے ہوتے ہیں تب اُس تاریکی کے زمانہ میں اور تکلیف کے زمانہ میں ایک لمبے عرصہ اور لمبے انتظار کے بعد آسمان پر بادل نظر آتا ہے اور اسے دیکھ کردنیا خوش ہوتی ہے کہ اب ہماری امیدیں پوری ہوں گی۔
اِسی طرح تکلیف اور دکھ کے بعد اور ایک لمبے انتظار کے بعد انبیاء علیہم السلام کا ظہور ہؤا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی خدا کی طرف سے صادق اور راستباز انبیاء علیہم السلام ظاہر ہوتے ہیں تو ان کے ظاہر ہونے سے پہلے اور پیچھے ایک گروہ غلطی خوردہ اور حقیقت سے دور مدعیوں کا بھی پیدا ہو جاتاہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد سے پہلے بھی اور پیچھے بھی ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو اپنے آپ کو خدا کا فرستادہ اور رسول قرار دیتے تھے۔ لیکن وہ خدا کی طرف سے سچے اور راستباز نہیں تھے۔ ان کے دلوں میں رسول بننے کی خواہش پہلے تو ان پیشگوئیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی جو ایک آنے والے نبی اور رسول کے متعلق گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی طرف سے کی گئی تھیں۔ جب ان کے باپ دادوں نے سنا کہ ایک آنے والے کی خبر دی گئی ہے جس کا نام یہودیوں کی بعض کتابوں میں محمد بتایا گیا ہے تو انہوں نے بھی اپنے بچوں کے نام محمد رکھنا شروع کر دیئے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش سے پہلے محمد نام بہت کم بلکہ قریباً نہیں تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش کے قریب پانچ نام محمد ثابت ہیں۔ اور اپنے بچوں کے یہ نام رکھنے والے ماں باپ وہی تھے جنہوں نے یہودیوں سے یہ خبر سنی ہوئی تھی کہ آنے والے نبی کا نام محمد(ﷺ) ہو گا۔ تو کچھ لوگوں نے تو نام ایسے رکھے جس کا یہودیوں کی کتب میں ذکر تھا کہ آنے والے کا یہ نام ہو گا۔ اور اس کے بعد جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والا ظاہر ہؤا اور لوگوں نے دیکھا کہ پروانہ وار لوگ اس کے گرد جمع ہو رہے اور اس کے دین میں داخل ہو رہے ہیں اور اس کو فتح نصیب ہو رہی ہے۔ تو اس فتح اور کامیابی کو دیکھ کر بعض جھوٹے لوگوں نے بھی نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ جب تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کامیابی نہیں ہوئی اُس وقت تک ان جھوٹے مدعیوں کو دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اور جب آپ کو کامیابی اور فتح ہونا شروع ہوئی تو آپ کی کامیابی کو دیکھ کر ان جھوٹے مدعیوں نے بھی دعویٰ کر دیا۔ اور یہی ثبوت تھا اِس بات کا کہ دعویٰ کرنے والے جھوٹے تھے اور وہ آپ کی کامیابی کا نمونہ دیکھ کر لُوٹ کا مال سمجھ کر آگے آئے تھے ورنہ اگر وہ واقع میں خداتعالیٰ کی طرف سے اصلاح کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے تو پھر ان مدعیوں کا زمانہ فتح مکہ سے پہلے بلکہ ہجرت سے پہلے ہونا چاہیےتھا۔
ہجرت سے پہلے عرب ایک تاریک ملک تھا جو گناہ اور غفلت میں ڈوباہوا تھا اور جس کی جہالت انتہا تک پہنچ چکی تھی۔ کیونکہ اگر بنی نوع انسان کی محبت نے اُن کو اِس دعویٰ پر آمادہ کیا تب بھی ان کو اُس زمانہ میں کھڑا ہونا چاہیے تھا اور اگر ان مدعیوں کو خدا نے بھیجا تھا تب بھی ان کو ایسے زمانہ میں آنا چاہیے تھا جبکہ جہالت اور گمراہی پھیلی ہوئی تھی۔ کیا کوئی شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ خداتعالیٰ نے نعوذ باللہ ایک جھوٹے آدمی کو کھڑا کر دیا تاکہ وہ عرب سے شرک کو دور کر دے، تاکہ وہ جہالت اور گمراہی کو دور کر دے، تاکہ وہ فساد کو دور کر دے، تاکہ وہ عرب سےعورتوں پر جو ظلم ہوتے ہیں اُن کو مٹا دے، تاکہ وہ عرب سے بچوں کے قتل کو مٹا دے، تاکہ وہ عرب سے دوسری بد رسوم کو دور کر دے۔ اور جب نَعُوْذُ بِاللہ جھوٹا مدعی یہ تمام کام کر چکا تو پھر خدا تعالیٰ نے اپنے سچے نبیوں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی وغیرہ کو بھیجنا شروع کر دیا۔ جب ملک میں بغاوت ہوتی ہے تو اُسی وقت بادشاہ کی طرف سے جرنیل آیا کرتے ہیں۔ شاہی جرنیل اُس وقت نہیں آیا کرتے جب بغاوت فرو ہو چکی ہو اور امن قائم ہو چکا ہو۔ تو کسی مدعی کی طرف سے اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ابتدائی زمانہ میں دعویٰ کیا جاتا تو ایک انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید یہ سچا ہو، شاید خداتعالیٰ نے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے اسی کو بھیجا ہو ۔ مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہ کام کر لیا جو کام خدا چاہتا تھا اور اس کے دین کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قائم کر دیں تو کچھ اَور لوگ اٹھے کہ ہم کو بھی خداتعالیٰ نے بھیجا ہے۔ کوئی پوچھے تم کو کس لئے بھیجا ہے؟ کام تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کر چکے ہیں اب وہ کونسی کمی رہ گئی تھی جس کو پورا کرنے کےلئے خداتعالیٰ نے تم کو بھیجا ہے۔ تو ان کااُس ابتدائی زمانہ میں ظاہر نہ ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں تھے۔ یا تو یہ ہوتا کہ کوئی مدعی کھڑا ہو کر یہ بتاتا کہ اسلام نے یہ یہ خرابیاں پیدا کر دی ہیں اور وہ یہ ثابت کرتا کہ عرب کی حالت اسلام سےپہلے اچھی تھی محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے ظاہر ہونے سے خراب ہو گئی۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ عرب کی حالت پہلے سے بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے اس لئے خدا نے مسیلمہ کو یا اسود عنسی کو یا کسی اور کو بھیجا تاکہ وہ اس خرابی کی اصلاح کرے مگر جب وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عرب کی حالت کیا سیاسی لحاظ سے اور کیا علمی لحاظ سے اور کیا اخلا قی لحاظ سے اور کیا روحانی لحاظ سے پہلے سے بہتر ہو چکی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے سچے نبی کو بھیجنے کے لئے انتظار کیوں کیا؟ پس وقت کے لحاظ سے ان کا دعویٰ بالبداہت جھوٹا تھا۔ اگر کسی اَور نے آنا ہوتا تو وہ آتا اور آکر یہ کہتا کہ یہ جھوٹا ہے میں سچا ہوں۔ اس نے آکر خرابی پیدا کر دی میں اب اصلاح کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اور پھر وہ اصلاح کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہؤا۔ پس وقت کے لحاظ سے ان کا ایسے زمانہ میں ظاہر ہونا جبکہ کام ہو چکا تھا جہاں یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جھوٹے تھے وہاں اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ گزشتہ خبروں کی وجہ سے ایک آنے والے کا انتظار قلوب میں پیدا ہو چکا تھا جس سے ان لوگوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی مگرغلطی یہ کی کہ انتظار کے بعد جب آنےو الا آگیا اور قلوب کو سیری ہو چکی تو اُس وقت انہوں نےبھی دعویٰ کر دیا۔
ان کی مثال ایسی ہے کہ ہمارے گھرمیں ایک عورت ہؤا کرتی تھی اس نے قرآن شریف پڑھنا شروع کیا۔ وہ ایسی کند ذہن تھی کہ اُس نے اپنی استانی سے کہا کہ صبح مجھے ایک آیت بتا دیا کرو میں شام تک اُسے دہراتی رہا کروں گی اس طرح مجھے وہ آیت یاد ہو جائے گی اور اگلے دن دوسری آیت یاد کر لوں گی۔ ایک دن صبح کے وقت ایک آیت جو اسے پڑھائی گئی تو عصر کے قریب لوگوں نے سنا کہ وہ آٹا گوندھ رہی تھی اور یہ فقرہ بار بار دُہرا رہی تھی۔ ‘‘جا بھانوں آبھیناں جا بھانوں آبھیناں‘‘۔کسی نے پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟کہنے لگی آیت یاد کر رہی ہوں۔ اس نے کہا قرآن مجید میں تو اِس قسم کی کوئی آیت نہیں۔ کہنے لگی کیوں نہیں صبح مَیں نے یہ آیت سیکھی تھی اور اب تک میں اِسے دُہرا رہی ہوں۔ آخر معلوم ہوا کہ صبح اُس کو يَعْلَمُ مَا بَيْنَ سکھایا گیا تھا جو بگڑتے بگڑتے ‘‘جا بھانوں آبھیناں’’ بن گیا۔ اس عورت کو یہ بھی عادت تھی کہ مجلس میں جب دوسری عورتیں ہنستی تھیں اور تھوڑی دیر کے بعد ہنس کے خاموش ہو جاتیں اور کوئی سنجیدہ بات شروع ہو جاتی تو دو منٹ کے بعد یہ عورت زور سے قہقہہ لگا کر ہنسنا شروع کر دیتی تھی۔ دوسری عورتوں نے ایک دفعہ اس سے پوچھا کہ تم کس بات پر ہنس رہی ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ فلاں بات کی وجہ سے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بات تو دو منٹ ہوئے ختم ہو چکی اُس وقت تو تم ہنسی نہیں اب کیوں ہنس رہی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ‘‘ساڈا ہاسا دوسریاں دے ہاسے وچہ مل جائے!!’’۔یعنی میری ہنسی کیا دوسروں کی ہنسی میں مل کر ضائع ہو جائے۔ تو یہ مدعی بھی اِسی رنگ کے ہوتے ہیں۔ اگر یہ اُس وقت دعویٰ کرتے جب اصلاح کی ضرورت تھی تو لوگ بجائے ان کو پاگل سمجھنے کے یہ خیال کرتے کہ شاید یہ سچے ہوں۔ مگر جب کام ہو چکا اور پھر انہوں نے دعویٰ کیا تو اب تو ان کے پاگل ہونے میں شبہ ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا کے دین کو قائم کر دیا اور لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کر دیا اور ایسی جماعت تیار کی اور ایسے شاگرد پیدا کئے جنہوں نے آپ کی تعلیم کو پھیلانا شروع کر دیا تو پھر جھوٹے مدعی بھی کھڑے ہو گئے کہ شاید ہم بھی اِسی طرح کامیاب ہو جائیں گے جس طرح محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ فعل ایسا ہی تھا جیسا کہ منافق مدینہ میں کیا کرتے تھے کہ جب مسلمان لڑائی میں فتح حاصل کر کے آتے تو مدینہ سے آگے نکل کر اُن سے جاملتے اور کہتے کہ ہم بھی آپ کے بھائی ہیں۔ ان کا مطلب دراصل یہ تھا کہ ہم بھی تمہاری فتح اور کامیابی میں شریک ہیں ۔ بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ اتنے جھوٹے آدمیوں کا ظاہر ہونا اس وجہ سے تھا کہ دنیا ایک آنے والے نبی کی منتظر تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ چونکہ وہ جھوٹےتھے اس لئے جب قربانی اور تکالیف کا وقت تھا اُس وقت وہ شامل نہ ہوئے اورجب کامیابی کا زمانہ آیا اُس وقت شامل ہوئے۔
ایسے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی دنیا ایک مسیح اور مہدی کی منتظر تھی اور اس انتظار کا بڑا بھاری ثبوت یہ ہے کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی کئی مدعی ظاہر ہوئے جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ ایران میں باب کی طرف سے باب مہدی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ اس لئے وہ آنے والے مہدی کے لئے بطور دروازہ کے ہے اور اس کے بعد مہدی ظاہر ہو گا۔ سوڈان میں بھی ایک مہدی ظاہر ہوا۔ اَور ملکوں میں بھی کئی جھوٹے مہدی ظاہر ہوئے۔ ان سب جھوٹے مدعیوں کا دعوی کرنا اِس بات کی علامت تھی کہ آنے والے مہدی کے متعلق لوگوں میں یہ احساس پیدا ہونے لگ گیا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ وہ موعود مہدی ظاہر ہو۔ اِس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظاہر ہوئے اور آپ نے ایک جماعت بنائی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ مگر آپ سے پہلے جن لوگوں نے دعویٰ کیا اور جن کا دعویٰ کرنا صرف اس بات کی علامت تھی کہ اب وقت آگیا ہے کہ سچا مدعی پیدا ہو جس کی وجہ سے وہ سمجھے تھے کہ شاید وہ ہم ہی ہوں وہ سب ناکام رہے اور ان کی ناکامی نے بتا دیا کہ یہ لوگ اپنے خیالات میں غلطی کرنے والے تھے اور ان کا یہ خیال غلطی کی وجہ سے یا افتراء کی وجہ سے درست نہیں تھا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے اور آپ نے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر لی۔ کامیابی کے یہ معنے نہیں کہ وہ ساری دنیا پر غالب آگئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ آپ نے اسلام کی فتح کی ایسی داغ بیل ڈال دی اور ایسی جماعت پیدا کی کہ دنیا بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ یہی وہ جماعت ہے جس کے ذریعہ اسلام کو فتح حاصل ہو گی۔ اس کے بعد پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چونکہ انتظار کا اثر بہت سی طبائع میں پایاجاتا تھا اس لئے اس کامیابی کو دیکھ کر کئی اَور جھوٹے مدعی کھڑے ہو گئے کہ ہم بھی ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے ہیں جو ایک آنے والے کے متعلق پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ شاید دنیا کو فتح کر لینا آسان کام ہے اور شاید ہم بھی اس میں کامیاب ہو جائیں گے مگر پہلے بھی ناکام رہے تھے اوریہ بعد والے بھی ناکام رہے۔
اِسی قسم کے مدعیوں میں سے کچھ دن ہوئے ایک کے خطوط میرے پاس روزانہ آتے تھے۔ میں نے آخر ایک دن دفتر کو ہدایت کی کہ اسے یہ خط لکھیں کہ تم مجھے کیوں لکھتے ہو؟ اس سے تمہاری غرض کیا ہے؟ اگر تمہارا میری طرف خط لکھنے سے مطلب یہ ہے کہ تم میرے ذریعہ سے جماعت کو فتح کر لو گےتو جماعت کی خوبی کو تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ یہی وہ جماعت ہے جو کام کرنے والی ہے اور تم یہ خواہش رکھتے ہو کہ بنی بنائی جماعت تمہیں مل جائے۔ ورنہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ جماعت خراب ہے اور اس کے اندر نقص پایا جاتا ہے تو پھر تم بھی کوشش کر کے ایک جماعت بنا لو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ جماعت بناناکہاں تک آسان کام ہے۔ اور اگر تمہارے دل میں یہ خیال ہے کہ پکی پکائی چیز تمہیں مل جائے تو یہ خیال غلط ہے۔ اس کو تو جس کے لئے خدا نے پکایا ہے وہی استعمال کرے گا خدا کسی دوسرے کو نہیں دے گا۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد بھی ایسا گروہ جھوٹے مدعیوں کا کھڑا ہوا اور انہوں نے سمجھا کہ جو جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بنائی ہے اسے ہم اُچک کر لے جائیں گے۔ حالانکہ اگر جماعت بنا لینا انسانوں ہی کا کام ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے ہی کیوں نہ بنا لیتے۔ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے جو مہدی ہونے کے جھوٹے مدعی کھڑے ہوئے تھے انہوں نے جماعت کیوں نہ بنالی۔ یا بعد میں جھوٹے مدعی اس طرف کیوں راغب ہوئے کہ بنی بنائی جماعت ہمیں مل جائے۔ کیوں نئی جماعت نہ بنا لی۔ تو جہاں ان جھوٹے مدعیوں کا وجود غلطی خوردہ یا افترا کرنے والا ثابت ہوتا ہے وہاں ساتھ ہی یہ بھی ضرور ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے زمانہ میں بنی نوع انسان کویہ امید ہوتی ہے کہ اب خداتعالیٰ ضرور روحانی بادل بھیجے گا۔ اور سچے نبی کی بعثت سے قبل ان جھوٹے مدعیوں کا دعویٰ اس بات کاثبوت ہے کہ لوگوں کو ایک سچے نبی کی امید اور آس ہے۔ پھر جب خداتعالیٰ کی طرف سے بارش آتی ہے توہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح مادی بادل برستے ہیں تو طریق یہ ہے کہ وہ ہر جگہ پر برستے ہیں اور ان کے برسنے سے ہر قسم کی روئیدگی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بارش ایک ہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اسی بارش سے ایک طرف میٹھے پھل پیدا ہوتے ہیں اور دوسری طرف اسی بارش سے کڑوے پھلوں کو بھی نشو ونماحاصل ہوتا ہے۔1 ایک ہی قطرہ بارش کا جہاں انگور کو زیادہ شیریں بنا دیتا ہے، جہاں آم کو زیادہ شیریں بنا دیتا ہے، جہاں اَور مختلف قسم کے میٹھے پھلوں کو زیادہ شیریں بنا دیتا ہے وہاں بارش کا وہی قطرہ کیکر کو اور حنظل کو زیادہ تلخ بنا دیتا ہے اور کھٹی چیزوں کو زیادہ ترش بنا دیتا ہے۔ وہی بارش کا قطرہ جو انسان کے اندر گوشت پیدا کر دیتا ہے وہی قطرہ گھاس کے اندر روئیدگی پید اکر دیتاہے۔ جنگل میں اُگی ہوئی مختلف قسم کی جھاڑیاں اور جڑی بُوٹیاں جن کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں اور پہاڑوں کی وادیوں میں پیدا ہونے والی بُوٹیاں بھی اِسی بارش سے اپنی روئیدگی کو ابھارنا شروع کردیتی ہیں۔ تو بارش کا وہی قطرہ جہاں انسان کے اندر تر وتازگی اور نمو پیدا کر دیتاہے وہاں وہ جنگل میں اُگنے والی ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیوں میں بھی روئیدگی پیدا کر دیتا ہے۔ یہی حال انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں ہوتاہے یعنی جب روحانی بارش آسمان سے آتی ہے تو دونوں قسم کی روئیدگی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک طرف سویا ہؤا کفربھی بیدار ہو جاتا ہے اور دوسری طرف ایمان بھی تر و تازہ ہو جاتا ہے۔ کفر بھی اُس زمانہ میں اپنی شان دکھانا شروع کردیتا ہے اور مخالف لوگوں کے اندر بھی بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے آخر مکہ بھی وہی تھا اور عرب بھی وہی تھا لیکن آپ کی بعثت سے قبل عرب کے سرداروں کا کوئی نظام معلوم نہیں ہوتا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد ہم کفار کو بھی منظّم اور مشہور عمل پاتے ہیں۔ اور وہ سارے کے سارے اس کام کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں کہ کسی طرح محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے دین کو پھیلنے سے روکیں اور سارے متحد ہو کر اس دین کو مٹانے کے لئے کوشش کریں۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ یہ تنظیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے قبل نہیں تھی؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ جب آسمان سے بارش آتی ہے تو ہر قسم کی چیزوں میں روئیدگی پید اہو جاتی ہے۔ اس معاملہ میں بھی جھوٹے اور سچے میں بڑا فرق ہے۔ جب جھوٹےمدعی کھڑے ہوتے ہیں تو لوگ اُن سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ بکری بکری سے کبھی نہیں ڈرتی بلکہ بکری شیر سے ڈرتی ہے۔ اس لئے جب کوئی جھوٹا مدعی کھڑا ہوتاہے تو لوگ اُس سے نہیں ڈرتے۔ لیکن جب کبھی فطرتِ انسانی یہ سمجھتی ہے کہ سچا موعود آگیا ہے تو اُس وقت کافر بھی بیدار ہوجاتا ہے کہ یہ ہے سچا خطرہ۔ اس کو دور کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ جو مخالفت اور جس قسم کی منظم مخالفت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ہوئی ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوئی ہے ایسی مخالفت اور کسی کے زمانہ میں نہیں ہوئی۔ باب کے زمانہ میں بے شک شورش اور فساد پیدا ہوا لیکن یہ فساد بابیوں کے اپنے افعال کے نتیجہ میں تھا۔ پہلے بابیوں نے بعض لوگوں کو قتل کیا ان قتلوں کے نتیجہ میں حکومت نے ان کو مارا۔ لیکن پبلک خاموش رہی اور اس نے کوئی خاص مقابلہ نہیں کیا۔ مگرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تمام غیر قوموں میں آپ کے مقابلہ کا جوش پایا جاتاہے۔ غیر احمدی علماء کی تنظیم پہلے سے زیادہ ہے ۔ کیا تعلیمی لحاظ سے اور کیا دوسرے لحاظ سے۔ سارے کےسارے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ احمدیت کو کُچلا جائے۔ یہ چیز دنیا کے پردہ پر اور کسی مدعی کے مقابلہ میں نظر نہیں آتی۔ بہائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شریعت کو منسوخ قرا ر دیتے ہیں۔ لیکن ایک مسلمان کہلانے والا ایک بہائی کی باہوں میں باہیں ڈالتا ہے اور کہتا ہے چھوڑو اِن باتوں کو تم بھی سچے اور ہم بھی سچے، چلو دونوں مل کر احمدیت کا مقابلہ کریں۔ بہائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے دل میں کوئی جوش پید انہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی وجہ سے کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ ہے تو احمدیت کی وجہ سے ہے۔
تو جس طرح بارش کا پانی گرنے سے ہر قسم کی روئیدگی پیدا ہوتی ہے اسی طرح روحانی بارش کے وقت کفر بھی بیدار ہو جاتا ہے اور ایمان بھی تر وتازہ ہو جاتا ہے۔ ادھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے ایک جماعت قائم ہوئی۔ وہ جماعت کہ اس کے اندر اخلاص اور تقویٰ پایا جاتا ہے اور اس کے ایمان کے اندر ایک بیداری اور بلندی کی امنگ پائی جاتی ہے۔ خواہ وہ اس درجہ تک نہ ہو جس کی امید کی جاتی ہے، خواہ وہ ابھی تربیت کی محتاج ہو۔ مگر ایک لُولہ لنگڑا اور کمزو رآدمی اگر صحیح راستہ پر جا رہا ہو تو ہر دیکھنے والا یہی کہے گا کہ ہے تو یہ لنگڑا پر چلتا ٹھیک راستہ پر ہے۔ آخر یہ ایک دن اپنی منزل پر پہنچ ہی جائے گا۔ اسی طرح ہماری جماعت کے متعلق خدائی قانون کے مطابق دیکھ کر ہرشخص یہی کہے گا کہ خواہ یہ جماعت سُست ہو یا چُست ہو، کمزور ہو یا طاقتور ہو مگر چلتی ٹھیک راستہ پر ہے۔ ایک دن آخر اپنی منزل پر پہنچ ہی جائے گی۔ تو ادھر آپ کی آمد سے اس قسم کی ایک جماعت قائم ہوئی اور اُدھر آپ کے آنے سے کفر میں بھی بیداری پیدا ہو گئی۔ یہ دونوں قسم کی جماعتیں ہیں اور دونوں اپنے اندر بیداری اور اُبھار پیدا کر رہی ہیں۔ جس طرح تلخ بُوٹیاں جو آپ ہی آپ اُگ آتی ہیں وہ اپنا جوش اور ابھار دکھا رہی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے بھی امید رکھتا ہے کہ ان تلخ بُوٹیوں کےمقابل میں اُسی طرح بلکہ اس سے زیادہ اپنا ابھار دکھائے اور اپنی روئیدگی کو ظاہر کرے۔ دنیا ساری کی ساری اپنا ابھار اور اپنا جوش دکھانا چاہتی ہے اور اپنے حسن اور اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ گویا شیطان اپنی پوری زینت کے ساتھ ظاہر ہو اہے تاکہ وہ لوگوں کو خد اکے دین سے موڑے۔ تو اس کے بالمقابل خدا کے بیٹوں کا بھی یہ کام ہے٭ کہ وہ اپنے اندرونی اور روحانی حسن کو ظاہر کرنے کی اس رنگ میں کوشش کریں کہ شیطان کا حسن ماند پڑ جائے۔ اور اس کی خرابی تمام دنیا کو نظر آجائے، ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا اپنے کاموں میں اس قدر چستی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اس کے مقابلہ میں پچھلے کام ہیچ نظر آتے ہیں۔ مجھےحیرت آتی ہے اور میں جرمن قوم کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا خواہ وہ ہمارے دشمن ہیں، خواہ ہمیں ان کے ساتھ اختلاف ہے مگر جب میں جرمن فوجوں کی قربانی کو دیکھتا ہوں تو میں ان کی بہادری کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چھ سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ چھ سال سے ان لوگوں نے نہ تو آرام کیاہے اور نہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے۔ رات اور دن لڑتے رہے ہیں۔ بعض دن تو ایسے آئے ہیں اور روسیوں نے بھی ان کی بہادری کو تسلیم کیا ہے کہ سٹالن گراڈ سے ہٹتے وقت لاکھوں کی جرمن فوج متواتر سات دن تک لڑتی رہی اور اس نے آرام نہیں کیا۔ سارا دن لڑتے اور رات کو پیچھے ہٹتے۔ ساتویں دن جا کر اس فوج کو آرام کرنے کا موقع ملا۔ اور وہ جگہ اتنی تنگ تھی کہ سپاہیوں نے کھڑے کھڑے ایک دوسرے سے ٹیک لگا کر آرام کیا۔ یہ کتنی ہمت اور کتنی بہادری ہے۔ لیکن یہ ہمت ہمارے آدمیوں میں ابھی کہاں ہے۔ حالانکہ اگر ہم نے ان سب کا مقابلہ کرنا ہے تو ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ ہم اِس زمانے کے حالات کو دیکھیں اور سمجھیں کہ کفر کی بُوٹیوں نے اس پانی سے کتنا فائدہ اٹھایا ہے۔
کیا یہ شرم کا مقام نہیں کہ ایمان کے درخت تو اس پانی سے فائدہ نہ اٹھائیں حالانکہ یہ پانی ان کے لئے اتارا گیا تھا۔ مگر کفر کی بُوٹیاں اس سے فائدہ اٹھائیں۔ جب باغ کو پانی دیا جاتا ہے تو اس کا مقصد یہی ہوتاہے کہ باغ کے درختوں کو سیراب کیا جائے لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اس پانی سے باغ کے کناروں کا گھاس تو اُگ آئے اور اس میں روئیدگی پیدا ہو جائے لیکن باغ کا درخت سُوکھ جائے۔ حالانکہ وہ پانی کنارے کے گھاس کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ ان درختوں کو دیا گیا تھا جو اس باغ کے درمیان میں ہیں۔پس اللہ تعالیٰ نے یہ روحانی بارش اس لئے بھیجی ہے کہ مومن اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔ اور اپنے اندر ترو تازگی اور جوش اور نئی زندگی پیدا کریں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جن کے لئے یہ پانی نہیں اتارا گیا وہ گھاس پھونس تو اِس پانی سے فائدہ اٹھا کر سرسبز و شاداب ہو رہا ہے لیکن باغ کے وہ درخت جن کے لئےیہ پانی اتارا گیا تھا وہ ابھی اس بات کے محتاج ہیں کہ ان کےا ندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کی جائے۔
پس میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ وقت کو پہچاننے اور ضرورتِ زمانہ کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ ایک نئی دنیا پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس کام کے لئے پہلا موقع اُس نے ہم کو دیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پہلے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے آسانیاں ہیں۔ مگر خداتعالیٰ کے ساتھ ہمارا معاہدہ نہیں کہ ہم اس کے ساتھ اپنے عہد کو توڑتے چلے جائیں اور پھر بھی یہ کام وہ ہمارے ذریعہ سے ہی کرائے۔ یہ تو اس کا احسان اور اس کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ اس نے ہم کو موقع دے دیا ہے۔ اب ہماری شرافت ہو گی، ہماری ایمانداری ہو گی ، ہماری دیانت ہو گی اور ہماری ہوشیاری ہو گی اگر ہم اس انعام سے فائدہ اٹھا کر خداتعالیٰ کی برکتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اپنی عادات اور اپنے افعال کی نگرانی کرنا چاہیے۔ ہمارا سونا ضرورت سے زیادہ نہ ہو۔ ہمارا کھانا ضرورت سے زیادہ نہ ہو۔ جب تک ہر چیز اس طرح ہمارے قابو میں نہ ہو اور ہمارے زائد اوقات، ہماری عقل اور ہمارا علم خدا اور اس کے دین کی خاطر صَرف نہ ہو اُس وقت تک ہماری مثال اُس برتن کی ہو گی جو ٹوٹا ہوا ہو اور جب اس میں پانی بھرا جائے تو وہ پانی دوسرے سوراخ کے رستہ نکل جائے۔ پس ٹوٹا ہوا برتن کسی کام نہیں آتا اور میلا شیشہ کوئی اپنے پاس نہیں رکھتا۔
میں جب بچہ تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تقریر کر رہا ہوں اور میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے اور میں کہتا ہوں کہ دیکھو انسان کا دل خدا کے سامنے آئینہ کی مانند ہے۔ جس طرح انسان اپنا حسن آئینہ میں دیکھتا ہے اسی طرح خدا بھی اپنے حسن کو اور اپنی صفات کو انسان کے قلب میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے اگر انسان کا دل خدا تعالیٰ کی صفات کو اعلیٰ درجہ کا ظاہر کرنے والا ہو تو خداتعالیٰ اُس کو قیمتی قرار دیتا ہے اور اسے اپنے پاس رکھتا ہے۔ لیکن اگر انسان کا قلب داغدار اور میلا ہو اور شفاف نہ ہو اور اس میں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ غلط نظر آتا ہو تو اتنا کہہ کر میں نے رؤیا میں اس آئینہ کو جو میرے ہاتھ میں تھا زور سے زمین پر دے مارا اور کہا کہ ایسے دل کو خداتعالیٰ بھی اٹھا کر اِسی طرح دے مارتا ہے۔ تو انسان کو اور خصوصاً انبیاء کے زمانہ کے انسان کو خداتعالیٰ نے چُنا تو ہے مگر اس لئے کہ وہ خداتعالیٰ کا چہرہ دکھائے اور اس کے ذریعہ خداتعالیٰ کی صفات کا ظہورہو۔ پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ رب ہو، وہ رحمٰن ہو، وہ رحیم ہو، وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہو،2 وہ مُحیٖ ہو، وہ مُمِیت ہو وہ رزّاق ہو، وہ جبّار ہو، وہ علیم ہو، وہ شکور ہو، وہ ستّار ہو، وہ غفّار ہو، اور وہ رشید و حمید ہو۔ غرض خداتعالیٰ کی ساری کی ساری صفات کو ظاہر کرنے والا ہو جن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ننانوے ہیں مگر ہیں اس سے بھی زیادہ۔ وہ ساری کی ساری صفات مومن اپنے اندر دکھائے اور ان کو صحیح طور پر استعمال کرے اور ان سے اچھے پھل پھول پیدا کرے۔ تبھی یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اُس مقصد کو پورا کرنے والاہے جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا اور اس مقصد کو پورا کرنے والا نہیں تو وہ ایسا آئینہ ہے جو میلا ہے اور جو شفاف نہیں اور اس میں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر نہیں آتا۔ خداتعالیٰ ایسے آئینہ کو توڑ دے گا۔ کیا ہی بدقسمت ہے وہ آئینہ جو پہلے خدا کے ہاتھ میں اور خدا کی آنکھوں کے سامنے اس کے حسن کو ظاہر کرنے کے لئے آیا مگر جب میلا ہونے کی وجہ سے وہ خدا کے حسن کو ظاہر نہ کر سکا تو بعد میں خدا کے حکم کے مطابق اُسے توڑ دیا گیا۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ 3یعنی ان کو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تم اس مقصد کو پورا نہیں کرتے جس کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو تو خداتعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہے۔ اگر تم اس بچہ کی طرح جو ماں کی طرف دَوڑ کر جاتا ہے میری طرف دَوڑ کر آنے والے نہیں۔ اگر تم میرے حضور اپنی اصلاح کے لئے نہیں آتے تو پھر میں بھی تمہاری کوئی پروا نہیں کرتا۔ اُس وقت انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ یعنی دوزخ کے اس مقام میں جا گرتا ہے جس کے نیچے اور کوئی مقام نہیں۔
پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر بیداری پیدا کریں اور اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنے آپ کو ایسا بدقسمت نہ بنائیں کہ جو بارش خداتعالیٰ نے ان کے لئے نازل کی ہے کافر تو اس سے فائدہ اٹھائیں او ر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ خداتعالیٰ نے دنیا کا مستقبل ان ہی کے ہاتھ میں دے دیا ہے؟ اگر وہ خداتعالیٰ کے وعدوں پر قائم رہے اورانہوں نےاپنے عہد کو نباہا تو جس طرح آج لوگ ابراہیم ؑ اور موسیٰؑ اور دوسرے نبیوں کی جماعتوں کو یاد کرتے ہیں اسی طرح آنے والی نسلیں انہیں بھی یاد کریں گی اور خواہش کریں گی کہ کاش! اُس وقت ہم بھی ہوتے اور مل کر دین کی خدمت کرتے۔ لیکن جو صحیح طور پر دین کی خدمت نہیں کرتا اور اپنے اوقات اور اپنی طاقتوں کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا اُس کا نام اسی طرح لیا جائے گا جس طرح اُبی بن سلول کا نام لیا جاتاہے۔ آج ہر شخص کراہت سے اس کا نام لیتا ہے اور حیران ہوتا ہے کہ یہ بھی کیا شخص تھا کہ خداتعالیٰ نے اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب عطا کیا اور پھر بھی یہ ایمان سے محروم رہا اور خداتعالیٰ کی نعمت اسے نصیب نہ ہوئی۔ اور وہ ایک ایسی بُوٹی ثابت ہوا جو ایک اچھے باغ میں پیدا ہوئی مگر اس نے تلخ اور بدمزہ پھل دیا۔ پس تم اپنے آپ کو شکور بناؤ اور اپنے علوم اور اپنے اوقات کو ضائع کرنے کی بجائے ان کو دین کے لئے صَرف کرو تا کہ خدا بھی تم سے خوش ہو اور خداتعالیٰ کے بندے بھی دعاؤں کے ساتھ تمہیں یاد کریں۔’’ (الفضل مورخہ 2مارچ 1945ء)
1: وَ فِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَيْرُ صِنْوَانٍ
يُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ١۫ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ
يَّعْقِلُوْنَ۔ (الرعد:5)
2: الفاتحۃ:4
3: الفرقان:78
9
جماعت احمدیہ لاہور کو بہت زیادہ ترقی اور حرکت کی ضرورت ہے
(فرمودہ 2 مارچ 1945ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘پچھلے دنوں میں نے اخباروں میں پڑھا تھا کہ لاہور کی آبادی جس کے لئے راشن مہیا کرنے کی ذمہ د اری گورنمنٹ نے اٹھائی ہے نو لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ پڑھ کر جہاں میں نے پنجابی لوگوں کے ترقی کے جذبہ کی تعریف کی وہاں میرے دل میں یہ احساس اور تکلیف دہ احساس بھی پیدا ہؤا کہ جس نسبت سے لاہور کی آبادی بڑھی ہے اُس نسبت سے یہاں کی احمدی جماعت نہیں بڑھی۔ پہلے میں یہ خیال کرکے اپنے ذہن میں خوش تھا کہ لاہور کی آبادی تو وہیں چار پانچ لاکھ پر کھڑی ہے اور ہماری جماعت بڑھ رہی ہے۔ لیکن جب لاہور کی آبادی چار پانچ لاکھ سے بڑھ کر نو لاکھ تک ہو گئی ہے تو ہماری لاہور کی جماعت کی ترقی تبھی تسلی بخش ہو سکتی تھی کہ یہاں کی جماعت چار ہزار سے بڑھ کر دس ہزار ہو جاتی۔ گو لاہور کی جماعت نے ترقی کی ہے۔ اولاد کے ذریعہ بھی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کچھ نئے آدمی بھی جماعت میں داخل ہوئے ہیں۔ مگر پھر بھی اس نسبت سے ترقی نہیں کی جس سے لاہور کی آبادی بڑھی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ متمدن ملک کے رہنے والے دنیا دار لوگوں کی توجہ زیادہ تر شہروں کی طرف ہوتی ہے۔ جس ملک کی صنعت و حرفت ترقی کرتی ہے اس ملک کے شہر بھی بڑے ہوتے ہیں۔ کیونکہ صنعت و حرفت کی ترقی کا اصل مقام شہر ہی ہوتے ہیں۔ کیا بلحاظ اس کے کہ کارخانوں وغیرہ کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ مزدور شہروں میں رہ سکتے ہیں اور کیا بلحاظ اس کے کہ شہروں میں بوجہ کمپنیوں کے مرکز ہونے کے مشینیں اور صنعت و حرفت کے دوسرے سامان آسانی سے میسر آجاتے ہیں۔ اور کیا بلحاظ اس کے کہ روپیہ کمانے والےلوگ جن کےدل میں خدا کا خوف نہیں ہوتا ایسی جگہوں میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں کھانے پینے اور پہننے کے سامانوں کے علاوہ سینما (Cinema)تھیٹر(Theatre) اور سرکس(Circus) وغیرہ کا انتظام ہو۔ وہ کہتے ہیں روپیہ کمانے کی غرض تو یہ ہے کہ انسان عیش اور راحت سے زندگی بسر کرسکے۔ اگر روپیہ کے بدلہ میں راحت اور عیش میسر نہیں ہو سکتا تو روپیہ کمانے سے کیا فائدہ۔
پس ریلوں کی سہولتوں کی وجہ سے اور کارخانوں کی وجہ سے اور رہائش اور دوسرے سامانوں کے میسر آنے کی وجہ سے اور پھر بینکوں کی وجہ سے صنعت جب شہروں میں پھیلتی ہے تو اردگرد کے علاقہ کے لوگ شہروں کی طرف دوڑتے ہیں۔ لیکن ہماری جماعت کے لوگ بجائے اِدھر اُدھر جانے کے قادیان کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس لئے جہاں تک امیگریشن (Immigration) یعنی نقل مکانی کا سوال ہے ہماری جماعت کو دوسری اقوام کے ساتھ مشابہت نہیں۔ دوسرے لوگ خالص طور پر بڑے بڑے شہروں کی طرف خصوصًا دارالحکومت کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں کیونکہ بینکوں کی وجہ سے اور سرکاری امداد میسر ہوسکنے کی وجہ سے جو سہولتیں وہاں حاصل ہوتی ہیں دوسرے چھوٹے شہروں میں اتنی سہولتیں صنعتی اور تجارتی ترقی کی حاصل نہیں ہوتیں۔ مگر جماعت احمدیہ کا بیشتر حصہ جب اپنے علاقہ کو چھوڑنا چاہتا ہے تو بجائے دوسرے شہروں کی طرف جانے کے وہ قادیان کی طرف دوڑتا ہے۔ لیکن قادیان کی آبادی کی ترقی اور لاہور کی جماعت کی معمولی ترقی کو ملا کر بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ باوجود قادیان کی طرف میلان ہونے کے لاہور کی جماعت میں ایسی حرکت پیدا نہیں ہوئی جس کی قومی ترقی کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔
میں جب ایک مذہبی تقریب پر انگلستان گیا تو راستہ میں فسلطین، شام اور لبنان کو بھی دیکھا۔ لبنان جانا تو خیال ہی تھا کیونکہ لبنان میں داخل ہونے سے پہلے میں شدید بیمار ہو گیا تھا اور اسی حالت میں تھا جبکہ لبنان کو چھوڑا۔ اس لئے لبنان کو میر ادیکھنا نہ دیکھنے کے برابر تھا۔ لیکن فلسطین اور شام کو میں نے دیکھا۔ فلسطین میں یہودیوں کی اصل آبادی تو دو تین فیصدی تھی۔ مگر نقل مکانی کی وجہ سے جس کی غرض یہ ہے کہ چاروں طرف سے یہودیوں کو جمع کر کے لایا جائے اور ان کے آبائی وطن میں ان کو آباد کیا جائے اس کی وجہ سے دو تین فیصدی سے فلسطین میں یہودیوں کی آبادی دس فیصدی ہو گئی۔ اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی کچھ تو یہودیوں کے کثرت سے آجانے سے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ طبقہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا ایسا بھی تھا جو فلسطین کے جھگڑے سے ڈر کر شام یا دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہو گیا تھا اس لئے یہودیوں کی آبادی دس فیصدی ہو گئی اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی نوے فیصدی رہ گئی تھی۔ بہرحال عیسائی اور مسلمان جو اُس وقت متحد تھے اور آج تک بھی متحد ہیں ٭فلسطین میں ان دونوں کی آبادی نوے فیصدی تھی اور یہودیوں کی آبادی دس فیصدی تھی۔
قوموں کی حرکت دیکھنے کا ذریعہ اسٹیشن ہوتے ہیں۔ جہاں پر لوگ آنے جانے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ اورجہاں پر پتہ لگ جاتا ہے کہ قوم کے اندر کیسی حرکت پائی جاتی ہے۔ تجارتیں کرنے والوں کو اِدھر اُدھر آنا جانا پڑتا ہے۔ ملازمتوں والے بھی اِدھر اُدھر دورے کرتے ہیں۔ صنعت و حرفت والوں کو بھی اپنے کام کے لئے دورے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اسٹیشنوں اور ریلوں کے ذریعہ پتہ لگ جاتا ہے کہ کسی قوم میں آبادی کے لحاظ سے حرکت پائی جاتی ہے یا نہیں۔ فلسطین کے ریلوے اسٹیشنوں پر مجھے اس بات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور میں نے آبادی کے لحاظ سے دس فیصدی یہودیوں کو اسٹیشنوں پر نوے فیصدی کی تعداد میں دیکھا۔ اور آبادی کے لحاظ سے نوے فیصدی مسلمان اور عیسائی اسٹیشنوں پر دس فیصدی نظر آئے۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں بلکہ ایسا فرق ہے کہ شاید خطۂ زمین پر اور کسی جگہ نظر نہیں آسکتا۔
٭یہ عجیب بات ہے کہ باقی تمام دنیا میں یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ایک سمجھتے ہیں۔ لیکن فلسطین کے عیسائی کُلّی طور پر مسلمانوں کے ساتھ اس بات میں متفق ہیں۔ اور وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہودیوں کو یہاں آباد نہ ہونے دیا جائے۔
پس قوموں میں حرکت بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں سفر کرنے اور سیر فی الارض کا بار بار ذکر آتا ہے۔ بعض مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید نے خالی سیر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ پہاڑوں، دریاؤں اور سمندروں کی سیر کیا کرو۔ رات کے وقت آسمان پر نظر ڈال کر ستارے دیکھ لیا کرو۔ اس سے زیادہ قرآن مجید کا اور کوئی مطلب نہیں۔ اور یہ سمجھنے والے بھی صرف ایک فیصدی ہیں باقی ننانوے فیصدی ایسے ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن مجید میں لکھا کیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ آسمان کو دیکھنے اور ستاروں پر غور کرنے کا ذکر آتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ پہاڑوں کو دیکھنے اور دریاؤں اور سمندروں کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کا ذکرآتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ اس بات کا ذکر آتا ہے کہ جاؤ اور دنیا میں پھر کر دنیا کے حالات کا مطالعہ کرو۔ مگر مسلمانوں میں کتنے ہیں جنہوں نے کبھی آسمان پر اور ستاروں پر غور کیا ہے؟ ہزار میں سے ایک بھی نہیں بلکہ لاکھ میں سے ایک بھی نہیں۔ کتنے ہیں جنہوں نےپہاڑوں اور دریاؤں اور سمندروں پر کبھی غور کیا ہے؟ کتنے ہیں جنہوں نے دنیا میں پھر کر دنیا کے حالات کا مطالعہ کیا ہے؟ قرآ ن مجید میں اِس قسم کی آیات پڑھ کر اکثر مسلمان تو یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں یہ باتیں محض حُسنِ کلام کے طور پر ہیں۔ اس سے زیادہ اس کا اور کوئی مطلب نہیں۔ جس طرح غالب کے کلام میں یا ذوق کے کلام میں یا سودا کے کلام میں یا میرتقی کے کلام میں بعض باتیں محض تزئینِ کلام کے طور پر ہیں اور اس سے زیادہ اُن کی اور کوئی غرض نہیں اسی طرح اللہ میاں نے بھی قرآن مجید میں اِس قسم کی باتیں کہ جاؤاور پہاڑوں کو دیکھو، جاؤ اور دریاؤں اور سمندروں کی سیر کرو اور ان پر غور کرو، آسمان اور آسمان کے ستاروں پر غور کرو محض کلام کو مزیدار بنانے کے لئے بیان کر دی ہیں ورنہ خدا کا یہ منشاء نہیں کہ آسمان اور آسمان کے ستاروں پر سچ مچ غور کیا جائے۔ یا پہاڑوں اور دریاؤں اور سمندروں پر غور کرو۔ پس جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی باتیں محض حُسنِ کلام کے طور پر بیان کی گئی ہیں اس سے زیادہ اس کی اور کوئی غرض نہیں تو انہوں نے ان باتوں پر عمل کیا کرنا ہے۔ اور جب انہوں نے عمل نہیں کرنا تو قرآ ن کریم کی تعلیم سے انہوں نے فائدہ کیا اٹھانا ہے۔
تھوڑے دن ہوئے میں نے ایک فرانسیسی شخص کے لکھے ہوئے مضمون کا ایک اقتباس پڑھا۔ یہ شخص جہازوں کا افسر ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میری ساری عمر جہازوں میں گزری۔ مجھے قرآن مجید دیکھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ایک دن اتفاقاً سفر میں مجھے ایک شخص ملا جس کےپاس فرانسیسی یا ڈچ زبان میں قرآن مجید کی ایک کاپی تھی۔ اُسے لے کر میں نے کھولا تو اس میں سے پہلی جگہ جس پر میری نظر پڑی وہ یہ تھی کہ کافر کی زندگی ایسی ہوتی ہے جیسے رات کی تاریکی میں کوئی شخص سمندر میں سفر کر رہا ہو۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہوں اور سخت تاریکی ہو۔ گہرے سمندر میں ایک لہر کے بعد دوسری لہر اُٹھ رہی ہو اور بچاؤ کا کوئی سامان نظر نہ آتا ہو۔ بالکل یہی حالت کافرکی ہوتی ہے۔ وہ شخص لکھتا ہے کہ میں نے اسے بہت پسند کیا اور میں نے کہا کہ کسی اچھے تجربہ کار بحری نے نہایت عمدگی سے سمندر کے خطرات کو تھوڑے سے تھوڑے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب مجھے معلوم ہوا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو سمندر کا سفر کرنے کا موقع ملنا تو الگ رہا آپ نے کبھی کسی چھوٹی کشتی میں بھی پاؤں نہ رکھا تو پھر میں نے کہا کہ یہ بات کہنے والی کوئی اَور ذات ہے۔ یعنی خدا جو سمندروں کے رازوں سے بھی واقف ہے اور میں نے اسلام کا مزید مطالعہ کیا اور میں مسلمان ہو گیا۔
پس یہ خیال کرنا جیسا کہ بعض مسلمان سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اس قسم کی باتیں محض شاعرانہ رنگ میں حُسنِ کلام کے طور پر بیان کی گئی ہیں کہ پہاڑوں کو دیکھو، سمندروں اور دریاؤں کو دیکھو اور آسمان کے ستاروں کو دیکھو بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں اس قسم کی باتیں محض حُسنِ کلام کے طور پر بیان نہیں کی گئیں بلکہ دنیا کی ہر ایک چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ان کو دیکھو اور ان پر غور کرو۔ اور ان سے سبق حاصل کرو۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو ان باتوں پر غور کرتے ہیں؟ بہت کم لوگ ہیں جو ان باتوں پر غور کرتے ہیں اکثر لوگ کنویں کے مینڈک کی طرح اپنے ماحول سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اگر کوئی چیز انگشتانہ1 میں رہ سکے۔ تو وہ اس انگشتانہ میں رہنے والی چیز ہیں۔ قرآن مجید ہمیں کسی ایک چیز پر بس نہیں کراتا بلکہ وہ ہمیں دنیا کے سارے علوم کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ میرے پاس بعض آدمی آتے ہیں اور باتیں سننے کے بعد وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ اچھا صاحب آپ نے یہ علم کہاں سے پڑھا ہے؟ جب میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ میں نے سب کچھ قرآن مجید سے پڑھا ہے تو وہ حیران ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میں نے جھوٹ بولا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اُس سے زیادہ نادان دنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتا جس کو یہ بھی پتہ نہیں کہ قرآن مجید میں دنیا کے سارے علوم پائے جاتے ہیں۔ اور جس طرح پودوں میں خداتعالیٰ نے یہ طاقت رکھی ہے کہ وہ سورج کی روشنی میں سے کیمیائی مادے کھینچ لیتے ہیں جن سے ان کی نشو و نما ہوتی رہتی ہے اور آپ ہی آپ بڑھتے رہتے ہیں اِسی طرح قرآن مجید کے علوم میں بھی خداتعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ اس کو پڑھ کر انسان دنیا کا ہر علم حاصل کر سکتا ہے۔
لاہور میں ایک دفعہ میرے پاس ایک عورت آئی وہ ایم اے میں فلاسفی پڑھتی تھی۔ مرد تو اس قسم کے بیہودہ سوال بہت کم کرتے ہیں مگر عورتیں ایسے سوال کر لیا کرتی ہیں۔ کم از کم مجھ سے سوائے ایک شخص کے کبھی کسی مرد نے ایسا سوال نہیں کیا۔ مگر اس عورت نے چُھوٹتے ہی مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں دین کی خدمت کرتا ہوں۔ کہنے لگی آپ کی تعلیم کہاں تک ہے؟ میں نے کہا میں تو پرائمری فیل ہوں۔ پھر اور باتیں شروع ہوئیں۔ میں اُس پر کوئی سوال کرتا جب وہ اُس کا جواب دیتی تو میں اُس پر جرح کرتا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگی۔ کیا آپ انگلستان اور امریکہ رہے ہیں؟ میں نے کہا میں صرف دو ماہ کے لئے انگلستان گیا تھا اور امریکہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ پھر اَور باتیں شروع ہوئیں۔ پھر شاید اُسے یاد آگیا کہ باہر اس نے شیخ بشیر احمد صاحب کا بورڈ دیکھا تھا۔ اس پر کہنے لگی اچھا آپ ایڈووکیٹ ہیں؟ میں نے کہا میں کچھ بھی نہیں میں تو صرف قرآن مجید پڑھا ہؤا ہوں۔
پس حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہر سچائی موجود ہے۔ اگر ہم قرآن مجید پر غور اور تدبر کریں تو کوئی ایسی ضرورت نہیں جو قرآن مجید میں پوری نہ ہوتی ہو۔ اگر ہم دنیوی علوم کے لحاظ سے جاہل مطلق بھی ہوں تب بھی قرآن مجید پر غور کرنے کےبعد اتنا علم ہمیں ضرور حاصل ہو جائے گا کہ ہم کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوں گے۔ اور اگر ہم قرآن مجید پر غور اور تدبر کرنے کےعادی ہوں گے تو ہم اس کے علوم سے فائدہ اٹھائیں گے۔ مگر جیساکہ میں نے بتایا ہے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو اس قسم کی باتیں بیان کی گئی ہیں کہ دنیا میں پھرو اور دنیا کے حالات کا مطالعہ کرو اور دریاؤں اور سمندروں اور پہاڑوں پر غور کرو یہ باتیں محض کلام کو زور دار بنانے کے لئے بیان کی گئی ہیں اس سے زیادہ ان کی اور کوئی غرض نہیں۔ حالانکہ قرآن مجید نے ان باتوں کو یونہی بیان نہیں کیا بلکہ قرآن مجید ہر مسلمان کو وہی پوزیشن دیتا ہے جو آجکل مسٹر چرچل یا روز ویلٹ یا سٹالن کی ہے۔ اور فرماتا ہے کہ تم دنیا کی قوموں کی کامیابی پر نگاہ ڈالو اور غور کرو کہ ان کو وہ کامیابیاں کس طرح حاصل ہوئیں۔ اور جو قومیں دنیا میں گری ہیں ان کے گرنے کی وجوہ تلاش کرو اور سوچو کہ ان کے تنزل کے کیا اسباب تھے۔ جن قوموں نے ترقی حاصل کی ہے ان کو کون کونسی سہولتیں میسر تھیں جن کی وجہ سے انہوں نے ترقی کی۔ تم بھی وہ سہولتیں اور وہ سامان مہیا کرنے کی کوشش کرو۔ اور جو قومیں گر گئی ہیں ان کےگر جانے کے کیا اسباب تھے۔ اور کونسی خرابیاں تھیں جن کی وجہ سے ان کا تنزل ہوا۔ تم ان باتوں سے بچنے کی کوشش کرو۔ اسی طرح قرآن مجید علمِ جغرافیہ اور علم ِہیئت کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تم زمین و آسمان کو دیکھو اور ان پر غور کرو۔ ستاروں کو دیکھو اور ان پر غور کرو۔ تمہیں ان کے پیچھے اَور بہت سارے جہان نظر آئیں گے۔ یہ وہ چیز ہے جو قرآن مجید ہمیں سکھاتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر ایک چیز پر زیادہ سے زیادہ غور کرو۔ اِدھر تو قران مجید یہ کہتا ہے کہ لغو چیزوں سے پرہیز کرو اور اُدھر فرماتا ہے کہ آسمان اور ستاروں کو دیکھا کرو۔ اِس سے صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ آسمان اور ستاروں پر غور کرنا لغو نہیں بلکہ ان پر غور کرنے سے بہت سے علوم کھلتے ہیں۔ اِسی طرح اِدھر تو قرآن مجید فرماتا ہے کہ لغو کاموں سے پرہیز کرو اور اُدھر یہ فرماتا ہے کہ کھنڈرات کو دیکھو۔ تو صاف معلوم ہوا کہ کھنڈرات کو دیکھنا لغو نہیں بلکہ اس سے سبق حاصل ہوتا ہے اور معلومات وسیع ہوتے ہیں۔ اسی طرح اِدھر تو قرآن مجید یہ فرماتا ہے کہ لغو کاموں سے پرہیز کرو اور اُدھر فرماتا ہے کہ گزشتہ لوگوں کی تاریخوں پر غور کرو۔ اِدھر فرماتا ہے لغو کاموں سے پرہیز کرو اور اُدھر فرماتا ہے کہ قوموں کی ترقی اور تنزل کے اسباب پر غور کرو۔ تو معلوم ہؤا کہ یہ ساری باتیں جن کے دیکھنے اور جن پر غور کرنے کا قرآن مجید نے حکم دیا ہے یہ لغو نہیں بلکہ ان کو دیکھنا اور ان پر غور کرنا ضروری ہے۔
بعض لوگ جہالت کے جوش میں آکر کہہ دیا کرتے ہیں کہ سیاحت کرنا لغو اور بے ہودہ ہے حالانکہ قرآن مجید نے ایک طرف لغو کاموں سے اِعراض کرنے کا حکم دیا ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا ہے کہ دنیا میں چلو، پھرو اور دنیا کے حالات کو دیکھو۔ تو صاف معلوم ہوگیا کہ قرآن مجید ہر کام کی حد بندی کرتا ہے۔ وہی چیز جو اپنے دائرہ کے اندر مفید ہوتی ہے اپنے دائرہ سے باہر لغو ہو جاتی ہے۔کیا اس صورت میں دین کا علم حاصل کرنا بھی لغونہیں بن جاتا جب مولوی ساٹھ ساٹھ سال تک اپنی عمر پڑھنے میں گزار دیتے ہیں؟ جب میں عربی مدارس کا دورہ کرتے ہوئے رام پور گیا تو وہاں میں نے ایک افغانی طالب علم کو دیکھا جس کی عمر پچاس پچپن سال کی تھی اور بال سفید ہو رہے تھے۔ وہ بیٹھا بخاری پڑھ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا آپ کیوں پڑھ رہے ہیں؟ اُس وقت تو سب کے سامنے اُس نے یہی جواب دیا کہ علم کو علم کی خاطر حاصل کرنا نیکی ہے لیکن میں بھی سمجھتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور وہ بھی جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جب ہم وہاں سے باہر آئے تو وہ بھی ہمارے پیچھے باہر آگیا اورباہر آکر کہنے لگا کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ علم جو ہم پڑھ رہے ہیں اِس کا دنیا میں کیا فائدہ ہے۔ اسے پڑھ کر کونسی نوکری مل جانی ہے۔ مجھے پڑھائی ختم کئے تو پندرہ بیس سال ہو گئے ہیں لیکن میں ہر سال عمدًا فیل ہو جاتا ہوں کیونکہ میں اس انتظار میں ہوں کہ یہاں کے بڑے مدرِّس صاحب فوت ہوں۔ جب وہ فوت ہو جائیں گے تو مَیں بھی پاس ہو جاؤں گا اور مجھے ان کی جگہ نوکری مل جائے گی۔ اب اس زندگی کا کیا فائدہ؟ بظاہر وہ دین کی کتابیں پڑھتا تھا، بخاری پڑھتا تھا ،فقہ کی کتابیں پڑھتا تھا لیکن وہ یہ ساری کتابیں محض اس لئے پڑھتا تھا کہ اُس کا وقت کسی کام میں لگا رہے اور انتظار کرنا اُس پر شاق نہ گزرے۔یہاں تک کہ استاد فوت ہو جائے اور اُس کی جگہ اُسے مل جائے۔ اب یہ کام ایسا ہی لغو تھا جیسا کہ سینما یا سرکس میں وقت گزارنا لغو ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ لغو تھا کیونکہ ایک شخص سینما یا سرکس دیکھنے کے بعد آکر اَور کام شروع کر دیتا ہے مگر اس نے تو اپنی ساری عمر ہی سینما میں گزار دی۔ ساری عمر ہی سرکس میں گزار دی اور ساری عمر ہی عملی میدان میں قدم نہ رکھا۔ مرنے کے بعد جب خداتعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ تم نے دنیا میں کیا کام کیا؟ تو وہ سوائے اس کے اور کیا جواب دے گا کہ حضور! میں نے اپنی ساری عمر اس انتظار میں گزار دی کہ کب استاد مرے اور مجھے اس کی جگہ ملے۔
پس قرآ ن مجید نے عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ 2 کہہ کر ایک طرف یہ اشارہ فرمایا ہے کہ جس کام کا کوئی نتیجہ اور کوئی فائدہ نہ ہو وہ لغو ہے اُس سے مومن کو اعراض کرنا چاہیے اور دوسری طرف یہ ارشادفرمایا ہے کہ سمندروں اور دریاؤں کی سیر کرو، صحراؤں اور میدانوں کو دیکھو اور دنیا کے حالات پر غور کرو جس سے معلوم ہوا کہ یہ کام لغو نہیں بلکہ ان کو دیکھنے سے علوم حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں یہ ذکر آتا ہے کہ قافلے صحراؤں میں رستہ بھول جاتے ہیں اور صحرا میں چلتے چلتے انسان اپنے سامنے دیکھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ سامنے جھیل ہے اور چمکتا ہوا پانی اسے نظر آتا ہے مگرجب وہاں پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتاہے کہ وہ جھیل نہیں بلکہ سفید ریت ہے۔ اور چمکتا ہوا پانی نہیں بلکہ سورج کی شعاعیں ہیں جو ریت کے اوپر تپ رہی تھیں۔ اور ایسے رنگ میں ریت پر روشنی ڈال رہی تھیں کہ دور سے دیکھنے والا اسے پانی سمجھتا تھا۔ ایسا ہی ان لوگوں کا حال ہوتا ہے جو جھوٹی دنیا اپنے دل میں بساتے ہیں اور جھوٹی امیدیں اور جھوٹی امنگیں اور جھوٹے مقاصد کو اپنے سامنے رکھ کر ان کو حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی عمر کا زمانہ ختم ہو جاتاہے اور ان کی امیدیں اور امنگیں سراب کی طرح ثابت ہوتی ہیں۔ جس طرح سراب کو دور سے پانی سمجھنے والا جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو پانی کی بجائے چمکتی ہوئی ریت پاتا ہے اسی طرح وہ شخص جو جھوٹی امیدوں اورجھوٹی امنگوں میں اپنی ساری عمر گزار دیتا ہے زندگی کے خاتمہ پر مایوسی کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔ اور ا س کی تمام امیدیں اسے سراب معلوم ہوتی ہیں جسے وہ پانی سمجھ رہا تھا۔ اب یہ نظارہ ایک لاہور میں رہنے والا کس طرح قیاس میں لا سکتا ہے جس نے کبھی سراب دیکھا ہی نہیں کہ کس طرح صحرا کی ریت دور سے شفاف پانی نظر آتی ہے جس کو دیکھ کر پیاسا آدمی اس کی طرف دوڑنے لگتا ہے۔ جب اس نے یہ نظارہ دیکھا ہی نہیں تو وہ قرآن مجید کے اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش میں ناکام رہے گا اور خیال کرے گا کہ قرآن مجید کوئی ایسی بولی بول رہا ہے جسے میں نہیں سمجھ سکتا ۔اسی طرح قرآن مجید میں کافر کی زندگی کو جو سمندر کے طوفان سے مشابہت دی گئی ہے اس مثال کو وہ شخص کس طرح سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی سمندر نہ دیکھا ہو کہ اس میں طوفان اٹھ رہا ہو، بجلیاں چمک رہی ہوں، سمندر کا پانی جہاز کے اوپر سے کُود کُود کر اسے اپنی گود میں لے رہا ہو۔ جہاز ڈوب جائے اور یہ شخص سمندر میں غوطے کھاتا ہوا بچنے کی کوشش کررہا ہو۔ لیکن نہ دائیں اور نہ بائیں، نہ آگے اور نہ پیچھے بچاؤ کا کوئی سامان نظر نہ آتا ہو۔ اس کے دائیں بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اُٹھ رہی ہو اور بائیں بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اٹھ رہی ہو۔ اس کے سامنے بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اٹھ رہی ہو اور پیچھے بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اٹھ رہی ہو۔ اور یہ سمجھ رہا ہو کہ اس کے ساتھیوں کو سمندر کھا گیا ہے اور ان میں سے کوئی باقی نہیں بچا۔ حالانکہ واقع یہ ہو کہ اس سے دس فٹ کے فاصلہ پر یہی جذبات اُس کے ساتھی کے دل میں پیدا ہو رہے ہوں گے اور اِن دونوں کو ایک دوسرے کا پتہ نہیں ہو گاکیونکہ ان کے درمیان پہاڑ کی سی ایک لہر حائل ہو گی۔ یہ تمام نظارے جب تک کسی شخص نے سمندر کا سفر نہ کیا ہو اُس وقت تک اس کے قیاس میں بھی نہیں آ سکتے۔ اِسی طرح بہت سے انسان آسمان کی طرف اِس طرح دیکھتے ہیں جس طرح مُقَیش 3 والے دوپٹہ کی طرف دیکھتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ آسمان ایک نیلی چادر ہے جس میں سفید سفید مُقَیش لگی ہوئی ہے اور وہ اس کی بیک گراؤنڈ (Background)پر نظر نہیں کرتے۔ اور اس احساس سے آسمان پر غور نہیں کرتے کہ اس کے پیچھے کیا ہے۔ اور غورنہیں کرتے کہ درحقیقت اَن گِنت میلوں وسیع علاقہ میں یہ ستارے پھیلے ہوئے ہیں اور آسمان میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جس طرح ایک پھدڑ 4 ایک وسیع سمندر میں تیرتی پھرتی ہو۔ پس جب تک کوئی شخص ان تمام باتوں پر غور نہ کرے وہ خداتعالیٰ کی قدرتوں کا اندازہ کس طرح لگا سکتا ہے۔
آجکل کے مسلمانوں نے ان باتوں پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے لیکن اس زمانہ میں جب کہ نہ تاریں تھیں اور نہ ریلیں ایک مسلمان عرب سے اٹھتا تھا اور بغیر روپیہ اور بغیر سامانوں کے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھر جاتا تھا۔ ابن بطوطہ سپین سے چلا اور افریقہ کا دَورہ کرتاہوا مڈل اِیسٹ میں سے ہوتاہوا ایران آیا ۔ ایران سے افغانستان اور افغانستان سے ہندوستان اور ہندوستان سے پھر چین پہنچا اور پھر اپنے ملک واپس جا کر ایک کتاب لکھی اور اُس زمانہ کے حالات کا حیرت انگیز نقشہ کھینچا۔ گو بعض باتیں اس نے ایسی بھی لکھی ہیں کہ اُن میں مبالغہ معلوم ہوتاہے۔ اور بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو بظاہر اُس زمانہ کے لحاظ سے صحیح معلوم نہیں ہوتیں۔ لیکن ممکن ہے اس قسم کی باتیں اُس زمانہ میں ہوتی ہوں۔ تو مسلمان نکلتے تھے اور دنیا کے کونوں میں پھیل جاتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو لاہور کی جماعت کی ترقی بالکل محدود اور کیلے سے بندھی ہوئی نظر آتی ہے۔ حالانکہ ہماری مثال تو اُس بادل کی ہے جوکبھی ایک جگہ پر نہیں ٹھہرتا۔ کبھی تم نے دیکھا ہے کہ بادل کیلے سے بندھا ہؤا ہو؟ لیکن وہ شخص جو اپنے ماحول سے باہر نہیں نکلتا اور کیلے سے بندھا رہتا ہے۔ گھر سے دفتر چلے جانا اور دفتر سے گھر آجانا یہی اُس کی زندگی ہے۔ وہ ہر جگہ برسنے والا بادل نہیں بلکہ پنجرے کا قیدی ہے۔ وہ طوطا یا بَیَّا 5 ہے جو کبھی اپنے قفس سے باہر نہیں نکلا۔ حالانکہ مومن تو ان بادلوں کی طرح ہوتاہے جو ایک وقت کلکتہ پر برس رہے ہوں تو دوسرے وقت کراچی پر موسلا دھار بارش برسا رہے ہوں۔ پس جب تک یہ بیداری پیدا نہ ہو، جب تک مومن کی یہ حالت نہ ہو کہ اُس کو ایک جگہ پر بیٹھنا دوبھر معلوم ہو اُس وقت تک صحیح رنگ میں تبلیغ بھی نہیں ہو سکتی۔
صحیح تبلیغ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مومن کے اندر ایسا مادہ پایا جائے جو اسے کبھی نچلا نہ بیٹھنے دے۔ اور وہ یہ سمجھے کہ اگر ایک منٹ کے لئے بھی میری حرکت بند ہو گئی اور میں بیٹھ گیا تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے بھی تھے تو چل پھر کر۔ آپ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کمرے کے اندر چلتے جاتے تھے اور لکھتے جاتے تھے۔ مولوی برہان الدین صاحب ذکر کیا کرتے تھے کہ جوانی میں ہم نے سنا کہ قادیان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو قرآنی علوم کا بڑا ماہر ہے اور اُس نے آریوں اور عیسائیوں کو ان کے اعتراضات کے خوب جواب دیئے ہیں۔ اُس وقت ابھی حضور علیہ السلام نے دعویٰ نہیں فرمایا تھا۔ جب ہم نے آپ کا ذکر سنا تو خواہش پیدا ہوئی کہ اس شخص کی زیارت ضرور کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں جہلم سے چل پڑا اور قادیان پہنچا۔ قادیان آکر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی کام کی وجہ سے گورداسپور تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی گورداسپور چلا گیا اور پوچھ پاچھ کر اُس مکان پر پہنچا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہرے ہوئے تھے۔ کمرے کے دروازے پر چِک لٹک رہی تھی اور باہر شیخ حامد علی صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اُن سے ذکر کیا کہ میں حضرت صاحب کی زیارت کے لئے آیا ہوں۔ وہ کہنے لگے کہ اندر جانے کی اجازت نہیں حضور کتاب لکھ رہے ہیں۔ اور حضور نے منع فرمایا ہؤا ہے کہ کوئی شخص اِس وقت میرے پاس نہ آئے۔ مولوی برہان الدین صاحب سنایا کرتے تھے کہ میں نے بہت لجاجت سے حامد علی صاحب سے کہا کہ صرف اتنی اجازت دے دو کہ چِک اٹھا کر جھانک لوں۔ مگر انہوں نے اس کی بھی اجازت نہ دی اور کہا کہ حضور ایک کتاب کا مسودہ لکھ رہے ہیں ان کا حکم ہے کہ کسی کو اندر نہ جانے دیا جائے۔ میں نے بہت منت سماجت کی کہ میں صرف حضور کی زیارت کے لئے بڑی دور سےآیا ہوں مجھے صرف ایک نظر اندر جھانک کر دیکھ لینے دو تمہاری بڑی مہربانی ہو گی۔ مگر انہوں نے ایک نہ مانی۔ آخر میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور سوچ رہا تھا کہ اِتنی دور سے آیا ہوں اب زیارت کئے بغیر جانا ٹھیک نہیں۔ میں اِس تاڑ میں بیٹھا رہا کہ حامد علی صاحب ذرا اِدھر اُدھر ہوں تو میں اندر جھانک کر حضور کی زیارت کر لوں۔ اتفاقاً کسی شخص نے اُن کو آواز دی اور وہ اُدھر چلے گئے۔ میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر چِک اٹھا کر اندر جھانکا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کمرے کے اندر جلدی جلدی چل رہے تھے اور ساتھ ساتھ لکھتے بھی جاتے تھے۔ جس وقت میں نے آپ کودیکھا اُس وقت دروازے کی طرف آپ کی پیٹھ تھی۔ لیکن پیشتر اِس کے کہ میں اچھی طرح سے آپ کو دیکھوں اتنی دیر میں آپ واپس لَوٹ چکے تھے۔ میں ڈر کے مارے بھاگا کہ کہیں آپ دیکھ نہ لیں۔ اُس وقت میں نے آپ کو دیکھ کر یہی نتیجہ نکالا کہ جو شخص اتنا تیز تیز چلتا ہے اس نے بہت دور جانا ہے۔ یہ اُس زمانہ کی بات ہے جب کہ آپ نے ابھی دعویٰ نہیں کیا تھا صرف آپ کے مضامین اور آپ کی کتابیں شائع ہوئی تھیں۔ آپ کو ایک عالم اور بزرگ مانا جاتا تھا۔ اُس زمانہ میں مولوی برہان الدین صاحب پر آپ کے تیز تیز چلنے کا یہ اثر تھا کہ اِس شخص نے کسی بڑی منزل پر جانا ہے۔ اب بظاہر یہ بچوں والی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ صحیح ہے کہ جس شخص کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کا مادہ ہو گا اُس کے اندر بے کلی بھی ضرور پیدا ہو گی۔ اور ہو نہیں سکتا کہ وہ اطمینان سے ایک جگہ بیٹھا رہے۔وہ کبھی نچلا نہیں بیٹھے گا۔ وہ کبھی اِدھر حرکت کرے گا اور کبھی اُدھر حرکت کرے گا۔ اور بیٹھا ہوا بھی ہو گا تو اپنے بڑھنے کی ہزاروں تدبیریں سوچتا رہے گا اور کسی وقت خالی نہیں بیٹھےگا۔ وہ شخص جو نچلا ہو کر بیٹھ رہتا ہے۔ اس کی حالت اسی طرح ہے جس طرح کچی سڑکوں پر چلنے والا چھکڑا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ چھکڑے پر بیٹھا ہوا مالک سو جاتا ہے اور چھکڑا چلتا جاتاہے۔ اور بعض دفعہ بیل بھی سو جاتے ہیں اور چھکڑا کھڑا ہو جاتا ہے۔ جن افراد کی حالت اس قسم کی ہو وہ کبھی کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پس لاہور کی جماعت کو احمدیت کے لحاظ سے بہت زیادہ ترقی کی ضرورت ہے اور بہت زیادہ حرکت کی ضرورت ہے۔ ایسی حرکت جو اس کے گِرد وپیش والوں کو بھی ہِلا دے۔ جس شخص کے اندر حرکت پائی جائے اُس کے گِرد و پیش کی چیزیں بھی ضرور ہلتی رہتی ہیں اور ہِل کر بیداری اور جوش پیدا کر دیتی ہیں۔ پس اپنے اندر ایسی زندگی اور ایسی بیداری پیدا کرو کہ لاہور کے جس کُوچے اور جس محلہ میں سے تم گزرو لوگ یہ محسوس کریں کہ یہ زندہ انسان ہے جو دوسروں کو ہِلا دے گا اور سوتوں کو جگا دے گا۔ پس میں اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اندر بیداری پیدا کریں۔ وہ بیداری جو قرآن مجید تمہارے اند رپیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ بیداری جو کبھی ایک جگہ نہیں رہنے دیتی بلکہ اٹھائے اٹھائے آسمان پر لے جاتی ہے۔ اس سے بھی آگے جہاں جیالوجی (Geology)اور طبقاتُ الارض والوں کی تھیوریاں ختم ہو جاتی ہیں جو فلسفی کی طرح ذروں پر تسلی نہیں پاتی۔ بلکہ کہتی ہے اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا6 اَور آگے چل ۔ ان ذروں سے آگے اور غیر محدود ہستی ہے۔
میرے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا۔ کہنے لگا میں پیر ہوں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا فرمائیے ۔کہنے لگا اگر کوئی شخص اپنے دوست سے ملنے کے لئے جائے اور دوست کے دروازے پر پہنچ کر بھی سواری پر ہی بیٹھا رہے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اُس کو سواری پر بیٹھا رہنا چاہیے یا نیچے اتر آنا چاہیے؟ یا ایک شخص کشتی میں بیٹھ کر دریا پار کر رہا ہو تو کیا کنارے پر پہنچ کر اُس کو کشتی میں بیٹھا رہنا چاہیے یا نیچے اترآئے؟ اللہ تعالیٰ کی میرے ساتھ یہ سنت ہے کہ وہ مجھے سوال کرنے والے کا مطلب سمجھا دیا کرتاہے کہ اِس سوال کی تہہ میں اصل غرض کیا ہے میں اُس کے سوال کا مطلب سمجھ گیا کہ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ عبادت تو ایک قسم کی سواری ہے جو شخص خدا تک پہنچ جائے اُس کو عبادت کی ضرورت نہیں ۔ میں نے اس کو جواب دیا کہ اگر اُس دریا کا کوئی کنارہ ہے اور کنارہ پر پہنچ کر بھی یہ شخص کشتی میں بیٹھا رہے گا تو بے وقوف ہو گا لیکن اگر یہ ایسے دریا میں سفر کر رہا ہے جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں تو جہاں اُترا وہیں ڈوبا۔ وہ شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا اچھا ! یہ بات ہے۔ جھوٹے صوفیا کا یہ خیال ہے کہ نماز ایک سواری ہے جب تک خدا نہ ملے اُس وقت تک نماز پڑھنے کی ضرورت ہے اور جب خدا مل گیا پھر نماز کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کے نزدیک بزرگی کی یہ علامت ہے کہ فلاں بزرگ نے نماز چھوڑ دی مگر ہمارے نزدیک وہ کافر ہو گیا اور ان کے نزدیک نماز چھوڑ دینے سے وہ بزرگ ہو گیا۔
پس مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی ایک مقام پر کھڑا ہو جائے۔ وہ دائیں بھی دیکھتا ہے اور بائیں بھی دیکھتا ہے، آگے بھی دیکھتا ہے اور پیچھے بھی دیکھتا ہے مگر آخری نقطہ اپنے رب کو سمجھتا ہے۔ وہ کسی ذرے پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ ان کے پیچھے ایک غیر محدود ہستی کو دیکھتا ہے۔ پس انسان کے لئے خداتعالیٰ نے کوئی ایسا مقام تجویز نہیں کیا جہاں وہ ٹھہر جائے۔ مومن وہی ہے جس میں دائمی حرکت پائی جائے ۔جس میں دائمی حرکت نہ پائی جائے وہ مسلمان نہیں۔ اور جو مسلمان نہیں وہ خدا کو بھی پسند نہیں۔ ’’ (الفضل 12 مارچ 1945 ء)
1: انگشتانہ: اُس آلہ کو کہتے ہیں جسے کپڑا سینے کے وقت درزی اپنی انگلی میں پہن لیتے ہیں۔
2: المومنون:4
3: مُقَیش: سونے چاندی کے تاروں کا بنا ہوا کپڑا جیسے زری۔
4: پِھدڑ: چھوٹی سی مچھلی کو پنجابی میں پِھدڑ کہتے ہیں۔
5: بَیّا: چِڑیا کی طرح کا ایک پرندہ جس کا گھر بنانا بڑا مشہور ہے۔
6: عبس:45
10
ہر فردِ جماعت اپنے آپ کو غیر معمولی قربانیوں کےلئے تیار کرے
(فرمودہ 9مارچ 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں آج کا خطبہ تو ایک اَور اہم امر کےمتعلق پڑھنا چاہتا تھا لیکن آج مجھے ایک خط ملا ہے اُس کی بناء پر میں اصل مضمون سے پہلے چند باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ آج رات ہی مَیں نے اُن جلسوں کے متعلق خیالات کا اظہار کیا تھا جو یہاں احرار اور آریہ سماج کے ہوئے اور جن کے جواب ہماری جماعت نے اِسی مسجد میں دیئے ہیں۔ میں نے رات کو کہا تھا کہ قادیان کی آبادی ایک خاص رنگ اختیار کر رہی ہے۔ یہاں کچھ احمدی ہیں کچھ غیر احمدی۔ اور کچھ ہندو ہیں بعض حالات کی وجہ سے جن کی تفاصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں کے غیر احمدی قریباً احراری ہیں۔ اور یہاں کے ہندو قریباً آریہ سماجی ہیں۔ اوریہ دونوں گروہ ایسے ہیں کہ ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہمارے دلائل کو سُنیں گے اور ان سے متأثر ہوں گے خصوصاً ایسے موقع پر کہ جب جذبات اُبھرے ہوئے ہوں ایک غلط خیال ہے۔ باہر حالت بالکل اور ہے۔ باہر اکثر حصہ مسلمانوں کا اور اتنا کثیر حصہ کہ کوئی نسبت قائم کرنی بھی مشکل ہے احراری نہیں اور معقول پسند شریف الطبع اور بات پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کرنے والا ہے۔ جب بھی کوئی معقول بات اس کے سامنے پیش کی جائے اُس پر غور کرتاہے۔ مگرجو معاند بن کر سامنے کھڑا ہو اُس سے یہ امید رکھنا کہ اُس پر کسی نصیحت کا اثر ہو گا خصوصاً اشتعال کے موقع پر ایک بالکل غلط خیال ہے۔ اِسی طرح باہر کے آریہ سماجیوں کی حالت بھی بالکل مختلف ہے۔ ان میں بھی جہاں تک مجھے ان سے ملنے کا موقع ملا ہے شریف الطبع اور بات پر سنجیدگی سے غور کرنےوالوں کی کثرت ہے اور وہ معقول بات پرغور کرتے ہیں۔ لیکن قادیان کے آریوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہمارے دلائل پر غور کریں گے صحیح نہیں۔ جیسے محاذِ جنگ پر جو سپاہی کھڑے ہوں وہ گولی چلانا ہی جانتے ہیں اِسی طرح یہ لوگ ہماری مخالفت میں ایسے بڑھے ہوئے ہیں کہ ان کے سامنے دلائل پیش کرنا چنداں مفید نہیں ہو سکتا۔ وہ خود بھی جب ہمارے خلاف تقریر کرتے ہیں تو یہ سمجھ کر نہیں کرتے کہ ان کی تقریروں کو سن کر یہاں کےاحمدی، احراری یا آریہ ہو جائیں گے بلکہ محض ہمیں اشتعال دلانے کے لئے کرتے ہیں اَور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اور کچھ نہیں کر سکتے تو ان کو غصہ تو دلائیں۔ اِسی طرح ہماری طرف سے ان کےجواب میں جو جلسے کئے جاتے ہیں اُن سے بھی وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ احمدی خواہ اپنی تقریروں میں کیسا نرم لہجہ کیوں نہ اختیار کریں اور نرمی سے کام کیوں نہ لیں۔ہماری ترقی اور کامیابیوں کو دیکھ کر چونکہ ان کے دل جَلتے ہیں اس لئے وہ صرف غصہ میں آکر گالیاں دیتے ہیں۔ جیسا کہ قاعدہ ہے۔ پس ایسے موقع پر ہمارے جلسوں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو سکتا۔
پھر رات مَیں نے کہا تھا کہ ہمارے دوستوں کو خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ پروٹیسٹ(Protest) کرتے ہیں اور حکومت اِس پر توجہ کرے گی۔ ایسا خیال کرنے والے شاید سمجھتے ہیں کہ یہاں ابوبکرؓ اور عمرؓ کی حکومت ہے مگر یہاں ابوبکرؓ اور عمرؓ حکومت نہیں کرتے۔ بلکہ سیاسی لوگ کرتے ہیں اور سیاسی لوگ ہمیشہ اکثریت کا خیال رکھتے ہیں۔ امرتسر میں ہمارا جلسہ ہوا۔ وہاں کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے پہلے اجازت دے دی مگر جب احرار نے فساد انگیزی شروع کی تو اس نے جلسہ کو روک دیا۔ حالانکہ اُسے کوئی مذہبی تعصب نہ تھا۔ ہمارے آدمی جب اُس سے ملے تو اس نے صاف کہا کہ میں اپنے ضلع میں فساد برداشت نہیں کر سکتا خواہ وہ دوسروں کی طرف سے ہی پیدا ہو۔ تو افسر اکثریت کو ناراض کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ ہمارے دوستوں کاخیال ہے کہ قادیان میں ہماری اکثریت ہے۔ مگریہ خیال غلط ہے۔قادیان کوئی ایسا جزیرہ نہیں جو دنیا سے الگ تھلگ ہو۔ یہ تو ضلع کے دو ہزار گاؤں میں سےایک گاؤں ہے۔ یہاں ایک جگہ پر ہماری اکثریت اگرہو بھی تو حکام اسے نہ دیکھیں گے بلکہ یہ دیکھیں گے کہ اردگرد کے علاقہ میں کس کی کثرت ہے۔ اور چونکہ اردگرد کے علاقہ میں ہماری اکثریت نہیں اِس لئے قادیان میں جو اکثریت ہے اس کی حکام کوئی پروا نہیں کرتے، اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے احمدیوں کی تائید کی تو تمام علاقہ میں جوش پیدا ہو جائے گا اور پھر اس کی وجہ سے ہمیں تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ اس لئے وہ سارا غصہ اقلیت پر نکالتے ہیں۔ ان حالات میں ہماری جماعت کی طرف سے پروٹیسٹ کا کوئی فائدہ نہیں۔اور اب تک ایسے پروٹیسٹوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ میں سمجھتا ہوں یہ بھی انگریزوں کی خوش قسمتی ہے کہ لوگوں کے قلوب میں ان کی نیک نامی اتنی جاگزیں ہے کہ ہماری جماعت متواتر بیس سال سے ان کی حکومت کے افسروں کی طرف سے سوتیلے پن کا سلوک دیکھنے کے باوجود یہی خیال کرتی ہے کہ وہ اس کے پروٹیسٹوں سے متأثر ہو جائیں گے۔ جب بیس سال سے حکام پر ہمارے کسی پروٹیسٹ کا اثر نہیں ہؤا تو کیا اب کوئی نئے افسر آگئے ہیں۔ جو وہ پروٹیسٹ سے متاثر ہو جائیں گے؟ بے شک بعض افسر زیادہ عقلمند اور انصاف سے زیادہ کام لینے والے بھی ہوتے ہیں مگر وہ سیاسیات کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ان کو حکومت کی طرف سے قیامِ امن کے لئے مقرر کیا جاتا ہے اور اگر وہ انصاف سے کام لیتے ہوئے امن قائم نہیں کر سکتے تو پھروہ اقلّیت کو دبا کر امن قائم کرتے ہیں۔ اور مجھے حیرت ہوتی ہے جب ہمارے دوست گزشتہ سالہا سال کی تاریخ کو بھلا کر حکام کے پاس پروٹیسٹ کے لئےجاتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ بندۂ خدا! کس کے پاس پروٹیسٹ کرتے ہو اور اس پروٹیسٹ کا اثر کیا ہو سکتا ہے جبکہ تم اقلیت میں ہو۔ میں 1934ء سے جماعت کویہ بتا رہا ہوں کہ تم چونکہ اقلیت میں ہو اس لئے تمہاری آواز کا حکام پر اثر نہیں ہو سکتا۔ اور جو لوگ سمجھتے ہیں کہ قادیان میں ہماری اکثریت ہے وہ بھی غلطی پر ہیں۔ قادیان کوئی الگ تھلگ جزیرہ نہیں بلکہ وسیع علاقہ کا ایک ٹکڑہ ہے۔ اس لئے جب تک اردگرد ہماری اکثریت نہ ہو یہاں کی اکثریت کا حکام پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔
رات مَیں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ ایسی فضول باتوں کا کوئی فائدہ نہیں اور ان میں وقت ضائع نہ کرنا چاہیے۔ معاندین کی گالیاں سن کر اگر واقعی کسی کو اشتعال آتا ہے، اگر غیرت آتی ہے، اگر واقعی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدر دل میں ہے تو اِس کے اظہار کا یہ طریق درست نہیں۔ بلکہ اس کا طریق دوسرا ہے۔ جب کسی کےبیٹے کو ٹائیفائیڈ ہو جاتا ہے تو وہ کس طرح بیس بیس دن اورمہینہ مہینہ دکان کوبند کر کے اور کاروبار ترک کر کے اُس کی تیمارداری میں لگ جاتا ہے۔ اسی طرح جسے گالیاں سن کر غصہ آتا ہے، اشتعال پیدا ہوتا ہے، اگر غیرت جوش میں آتی ہے تو چاہیے کہ وہ دفتر تبلیغ میں جائے اور کہے کہ میں نے قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں ملتی سنی ہیں جس سے مجھے بہت غصہ آیا ہے اس لئے میں پندرہ دن یا بیس دن تبلیغ کے لئے دیتا ہوں۔ اگر قادیان کے احمدی یہ طریق اختیار کریں تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ قادیان میں دس ہزار احمدی ہیں اگران میں سے دو ہزار بھی تبلیغ کے لئے پندرہ پندرہ دن دیں تو یہ تیس ہزار بنتے ہیں۔ سال کے 360 دن ہوتے ہیں اور اس کے یہ معنے ہوں گے کہ گویا دس آدمی روزانہ تبلیغ میں لگے رہیں گے دس نہیں تو نو ہی سہی، اور اس طرح سلسلہ کو مفت کے نو مبلغ مل سکتے ہیں۔ اور ایسے نو آدمی جن کے دلوں پر زخم ہوں۔ جن کی غیرت جوش میں آئی ہوئی ہو وہ تو پہاڑوں کو گِرا سکتے ہیں۔ پس یہ طریق درست نہیں کہ مسجد میں جمع ہوئے اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے لگاتے رہے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ تو روزانہ اذان دیتے ہوئے پانچ بار مسلمان کرتے ہیں پھر اس سے کتنے لوگ مسلمان ہو جاتے ہیں۔ پس مسجد میں جمع ہو کر اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے لگانا اور ‘‘زندہ باد’’ کا شور مچانا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ یہ تو عورتوں کی گریۂ و زاری سا طریق ہے۔ جب تم اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے لگاتے ہو تو ان کے پیچھے کوئی طاقت نہیں ہوتی اور یہ بالکل ایسی ہی بات ہوتی ہے جیسے بچے جمع ہو کر ہاہُو کرتے اور شور مچاتے پھرتے ہیں۔ صحیح طریق یہی ہے کہ اردگرد کے علاقہ کو احمدی کر لو۔ پھر اگر آج کے حکام کی نسبت بہت زیادہ بد تر حکام بھی آئیں گے تو وہ یہی کہیں گے کہ جماعت احمدیہ ہرگز ظلم نہیں کر سکتی۔ کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ سارے علاقہ میں ان کی اکثریت ہے اس لئے ان کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ پس یہ صحیح طریق ہے جو ہمارے دوستوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ رات مَیں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور میں سمجھتا تھا یہ کافی ہے مگر آج صبح مجھے وہ خط ملا جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور وہ بھی میرے ان خیالات کی تصدیق میں ہے۔
ایک دوست نے لکھا ہے کہ وہ ریل میں ایک سرکاری افسر کے ہم سفر تھے جو پہلے سے ان کا واقف تھا۔ انہوں نے اُس افسر سے کہا کہ دیکھئے احمدیوں پر یہ کتنا ظلم ہے کہ ان کے صدر مقام میں ان کو گالیاں دی گئی ہیں۔ مگر اُس افسر نے کہا کہ احمدیوں کو کوئی گالیاں نہیں دی گئیں۔ میں نے سنا ہے کہ گالیاں احمدی دیتے ہیں۔ مثلاً احمدی لیکھو کہتے ہیں، مرزا صاحب کو کرشن جی کا مثیل کہا جاتاہے ، باوا نانک علیہ الرحمۃ کو مسلمان کہا جاتا ہے اور احمدیوں کے جلسہ میں لاؤڈ سپیکر مینار پر لگایا گیا۔ اُس دوست نے کہا لاؤڈ سپیکر تو احراریوں نے اور آریوں نے بھی لگایا ہؤ اتھا۔ تو اُس افسر نے کہا کہ تمہارا لاؤڈ سپیکر زیادہ طاقتور تھا۔ اب دیکھ لو یہ ایک ایسے افسر کے اعتراض ہیں جس کا کام انصاف قائم کرنا ہے۔ اور یہ باتیں ایسی ہیں کہ اگر لوگ انہیں سنیں تو یا تو وہ کہیں گے کہ یہ ایک سرکاری افسر پر الزام ہے اور یا یہ کہیں گے کہ یہ بھی عجیب افسر ہے جو یکطرفہ رائے قائم کر رہا ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ جب موقع کے افسروں کی یہ رائے ہو تو افسرانِ بالا کی کیا رائے ہو گی جو خود موقع پر موجود نہ تھے اور جو ماتحت افسروں کی رپورٹوں کی بناء پر ہی رائے قائم کرتے ہیں۔ اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر مجھے مل چکے ہیں اور سلسلہ کے افسر بھی اُن سے کئی بار ملے ہیں اور ان کے متعلق یہ سمجھا جاتاہے کہ وہ بہت ذہین آدمی ہیں۔ مگر انگریز حکام عام طور پر اِس ذہنیت کے ہوتے ہیں جسے انگریزی میں Least Resistance کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کم سے کم جھگڑوں میں ڈالنا چاہتے ہیں اور بالعموم اپنےماتحت افسروں کی بات کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ توسرکاری افسر ہے اس لئے بے تعلق آدمی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر افسر کا ایک اپنا مذہب بھی تو ہوتا ہے۔ انگریز افسر بے شک مذہب کے بارہ میں مساوات قائم رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس لئے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہندوستانی افسر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یورپ کا عیسائی افسر تو اپنے مذہبی جذبات کو دبا سکتا ہے مگر ہندوستان کا افسر بالعموم ایسا نہیں کرسکتا۔ یہاں تویہ حالت ہوتی ہے کہ مثلاً احرار کا جلسہ ہورہا ہے اور ڈپٹی صاحب یا تھانیدار صاحب بیٹھے سر دھن رہے ہیں کہ کیا اچھی باتیں بیان کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ انہیں حکومت کی طرف سے قیامِ امن کے لئے وہاں بھیجا گیا ہوتا ہے مگر وہ اس منصب کو بھول جاتا اور سمجھتا ہے کہ میرے پیر صاحب یا میرے بزرگ تقریر کر رہے ہیں۔ اور ایسا افسر جس قسم کی رپورٹ افسرانِ بالا کے پیش کرے گا وہ ظاہر ہے کہ کہاں تک صحیح ہو سکتی ہے۔ مگر افسرانِ بالا ایسے افسروں کی رپورٹوں کو صحیح سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو افسرتھا اس کی رپورٹ کیونکر غلط ہو سکتی ہے۔ اور وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ بے شک وہ افسر تو تھا مگر آریہ تھا یااحراری تھا۔ ہندوستان کا افسر افسر کم ہوتا ہے اور آریہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ افسر کم ہوتاہے اور سکھ زیادہ ہوتاہے۔ وہ افسر کم ہوتا ہے اور مسلمان زیادہ ہوتا ہے۔ ہاں انگریز افسر، افسرزیادہ اور عیسائی کم ہوتاہے۔
انگریزوں کا کیریکٹر یہ ہے کہ وہ افسر زیادہ اور عیسائی کم ہوتے ہیں۔ اور ہمارے سامنے تو اس کی ایک بہت ہی واضح مثال ہے۔ کیپٹن ڈگلس جب اس ضلع میں تبدیل ہو کر آئے تو اُن کا اپنا بیان ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سنا ہے اس ضلع میں ایک شخص ہے جو حضرت عیسیٰ کی ہتک کرتا ہے اب تک کسی نے اسے پکڑا کیوں نہیں۔ مگر جب خود انہی کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقدمہ پیش ہؤا تو اُن کی افسریت غالب آگئی اور عیسائیت دَب گئی۔ اور اب تک ہماری جماعت سے اُن کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ابھی چند روز ہوئے مجھے شمس صاحب کا خط آیا تھا کہ وہ انہیں ملے اور کہا کہ مجھے معلوم ہؤا ہے فلاں شخص نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں احمدیت کے متعلق بعض غلط باتیں درج کر دی ہیں۔ آپ مجھے وہ نوٹ کرا دیں میں ان کی تردید کروں گا۔ تو انگریز افسر، افسر زیادہ اور عیسائی کم ہوتا ہے۔ مگر ہندوستانی افسر، افسر کم اور آریہ زیادہ ہوتا ہے۔ افسر کم اور سکھ زیادہ ہوتا ہے۔ افسر کم اور مسلمان زیادہ ہوتا ہے۔ ایک غیر احمدی پولیس افسر اگر مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری کی تقریر نوٹ کرنے کے لئے آتا ہے تو یہ کہنا کہ ایک افسر نے اس تقریر کے نوٹ لئے غلط بات ہو گی۔ کیونکہ نوٹ کرنے والا اُن کا ایک مرید یا عقیدت مند تھا۔ اور یہ گفتگو جو ایک احمدی دوست سے ہوئی بتاتی ہے کہ ان سے ایک سرکاری افسر گفتگو نہیں کر رہا تھا بلکہ ایک آریہ بول رہا تھا مگر مجبوری یہ ہے کہ وہ آریہ بیٹھا ہؤا افسر کی کُرسی پر تھا اس لئے جب وہ کوئی رپورٹ دے گا تو بالا افسر اسے غلط نہیں کہیں گے۔ اور سمجھیں گے کہ یہ سرکاری افسر ہے اور اس لئے بے تعلق آدمی ہے اس کی رپورٹ کیونکر غلط ہو سکتی ہے۔ پھر اس افسر کے انصاف اور دیانت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اُس نے اس احمدی دوست سے کہا کہ اگر تمہارے مرزا کو لیکھو کہا جائے تو تم کیا محسوس کرو گے؟ اور جب اس احمدی دوست نے کہا کہ مجھے افسوس ہے آپ بدتہذیبی سے کام لے رہے ہیں تو اُس نے کہا کہ تم نے بھی تو کرشن کہا تھا۔ اور جب اس احمدی دوست نے جواب دیا کہ میں نے تو حضرت کرشن جی کہا تھا۔ تو اُس افسر نے کہا کہ اچھا میں بھی مرزا جی کہہ دیتا ہوں۔ اور کیا ہمارے دوست ایسے افسروں کے سامنے پروٹیسٹ کرتے ہیں؟ ایسے افسروں کے سامنے پروٹیسٹ کا کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ ایسے افسروں کے سامنے پروٹیسٹ جن پر کوئی اثر نہ ہو ذلّت اور خواری ہے۔ ٭ ایسے افسروں کے سامنے تو تم منتیں بھی کرو تو بھی کوئی شنوائی نہ ہو گی۔ بلکہ وہ تمہارے خلاف قدم اٹھانے کے لئے بہانے تلاش کرتے ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ ایک دریا پر بھیڑیا پانی پی رہا تھا ۔اُس سے نیچے کی طرف بکری کا ایک بچہ بھی پانی پی رہا تھا۔ بھیڑیے کا دل چاہا کہ اسے کھا جائے۔ اُس نے اُسے ڈانٹ کر کہا کہ تم میرے پینے کا پانی گدلا کیوں کر رہے ہو اس بکری کے بچے نے کہا کہ حضور! آپ تو اوپر کی طرف ہیں آپ کی طرف سے پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میری طرف سے آپ کی طرف جاتا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ اُس پر جھپٹا اور پنجہ مارتے ہوئے کہا کہ نالائق! آگے سے جواب دیتے ہو۔!!
مومن کا طریق یہ ہے کہ وہ طاقت کو صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اس لئے ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ ایسے مواقع پر جلسے کرنے اور نعرے لگانے کی بجائے تبلیغ پر زور دیا کریں۔ اسی راستہ سے ہمیں پہلے کامیابی ہوئی ہے اور اسی سے آئندہ ہو گی۔ مجھے اس افسر کی اس
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب پھر کہہ دیتا ہوں کہ اگر آئندہ اس قسم کے کوئی مقدمات ہوں گے تو ان کا بوجھ جماعت پر نہیں ڈالا جائے گا۔
بات پر حیرت ہوتی ہے کہ چونکہ مرزا صاحب کو کرشن کا مثیل کہا جاتا ہے اس لئے کرشن کی
ہتک کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت ہے جو عیسائی ہیں۔ جتنی دفعہ آپ کو ایک دن میں مسیح موعود کہا جاتا ہے شاید سال بھر میں اتنی دفعہ کرشن نہ کہا جاتا ہو گا۔ مگر انگریز کو کبھی اِس بات پر غصہ نہیں آیا او رکسی انگریز افسر نے اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک نہیں سمجھا۔ اور اسے ہتک سمجھنا دراصل غلام ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ اس میں ہتک کی کونسی بات ہے۔ کیا ہم حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معمولی شان کا سمجھتے ہیں؟ ہم تو انہیں تمام مذاہب کا موعود یقین کرتے ہیں اور اس لئے ہم جب آپؑ کو حضرت کرشن کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں تو حضرت کرشن کی عزت کو بڑھاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مشابہت حاصل کرنے سے سب انبیاء جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے گزر چکے ہیں عزت پاتے ہیں۔ کیونکہ آپ موعود کُل اَدیان ہیں اور یہ انبیاء ایک ایک دین کے موعود تھے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مثیلِ کرشن ہونے کا اعلان 1904 ء میں کیا تھا۔ اور اِس دعویٰ پر چالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر یہ ہتک کا سوال پانچ سال قبل سے ہی کیوں پیدا ہؤا ہے۔ پہلے 35 سال تک کیوں پیدا نہیں ہؤا۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ یہ سیاسی اغراض کے ماتحت شور مچایا جاتا ہے۔
اور پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر یہ بات کسی عدالت میں گئی اور وہاں کسی احمدی نے یہ پیش کیا کہ ہندو لٹریچر میں حضرت کرشن کو خدانخواستہ چور وغیرہ کہا گیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ مکھن چُرا لیا کرتے تھے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان کے ساتھ مماثلت کو ان کی ہتک سمجھنے والے ان کی طرف ایسا گند منسوب کرتے ہیں اور ہم کو جو انہیں چور کہنے والوں کو چور اور خبیث سمجھتے ہیں ان کی ہتک کرنے والا کہا جاتا ہے۔ یہ ان کو چور کہہ کر پھر بھی ان کی عزت کرنے کے دعویدار ہیں۔ اور ہم جو انہیں پرہیز گار اور نیک یقین کرتے ہیں اِن کے خیال میں اُن کی ہتک کرنے والے ہیں۔ اگر کسی ایسی بات کے متعلق حکومت کی طرف سے کوئی ایسا مقدمہ چلایا گیا اور اس میں اس قسم کے تمام حوالے پیش کئے گئے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ اگر کوئی آریہ ہم پر حضرت کرشن کی ہتک کا الزام لگاتا ہے تو وہ بھی غلطی کرتاہے کیونکہ آریہ تو خود ان کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ ان کے عقیدہ کے مطابق تو ویدوں کے بعد اور کوئی صداقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور الہام آ ہی نہیں سکتی۔ اگر کسی عدالت میں کوئی مقدمہ چلا اور آریوں کے اس عقیدہ کو احمدی زیر بحث لائے اور انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ آریہ ان کو کیا کہتے ہیں اور ہم کیا کہتے ہیں۔ ہم تو ان کو بنی نوع انسان کے لئے نمونہ اور استاد سمجھتے ہیں۔ اور ہم اس افسر کی شکل دیکھنا چاہتے ہیں جو اسے بھی ہتک قرار دیتا ہو۔ تو سوچو کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔
ایک دفعہ یہاں سکھوں کے لیڈر بابا کھڑک سنگھ صاحب آئے۔ قادیان کے پاس ہی ایک جگہ سکھوں نے جلسہ کیا اور بابا صاحب نے اس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ گورو نانک صاحبؒ کو مسلمان کہہ کر ان کی ہتک کی جاتی ہے۔ میں نے دوسرے دن ایک اشتہار شائع کرایا جس میں لکھا کہ ہم تو ان کو مسلمان کہتے ہیں مگر دوسرے مسلمان جو آپ کو ہمارے خلاف اُکساتے ہیں ان سے پوچھیں وہ ان کو کیا سمجھتے ہیں۔ وہ تو کافر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اسلام کی یہی دونوں اصطلاحیں ہیں۔ مسلمان یا کافر۔ اور جو کسی کو مسلمان نہیں سمجھتا وہ گویا اُسے کافر سمجھتا ہے۔ ہم تو بابا نانک صاحبؒ کو مسلمان یعنی نیک بزرگ اور خداتعالیٰ کا برگزیدہ سمجھتے ہیں۔ مگر یہ لوگ انہیں کافر کہتے ہیں جس کے معنے ہیں جہنمی۔ پس آپ کو اُن پر غصہ کرنا چاہیے نہ کہ ہم پر۔ دوسرے دن میرے اشتہار کو پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے مجھے خواہ مخواہ ورغلایا۔ ہم تو باوا نانک صاحبؒ کو مسلمان، متقی، پرہیزگار اور ولی اللہ سمجھتے ہیں۔ مگر جو مسلمان انہیں مسلمان نہیں سمجھتے وہ تو مجبور ہیں کہ انہیں کافر سمجھیں۔ اور اگر کسی عدالت کے سامنے یہ سوال آیا تو لازماً ایک فریق غیر احمدی علماء کو پیش کرنے کا مطالبہ کرے گا اور پوچھے گا کہ وہ باوا نانک صاحبؒ کو کیا سمجھتے ہیں۔ اور پھر پوچھے گا کہ حکومت اور سکھ کیا پسند کرتے ہیں ۔ یہ کہ باوا نانک صاحبؒ کو خدا کا برگزیدہ اور ولی اللہ کہا جائے یا نعوذ باللہ کافر ۔ پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں۔ 45،46 سال پہلے یہ بات لکھی گئی تھی آج اس پر کسی کو اشتعال آنے کے کوئی معنے نہیں۔ میں نے تو دیکھا ہے کہ عقلمند سکھ اس بات کو سن کر خوش ہوتے ہیں۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ خیال صحیح نہیں کہ باوا نانک صاحب ؒ مسلمان تھے مگر اِس بات کو وہ مانتے ہیں کہ ہم انہیں مسلمان کہہ کر اپنے نزدیک ان کی عزت کرتے ہیں۔
یہ جو باتیں ہیں مجھے علم نہیں کہ یہ ہمارے جلسوں میں کہی بھی گئی ہیں یا نہیں۔ یہ تو میں اُس افسر کے بیان کا ذکر کر رہا ہوں کہ اُس نے یہ یہ باتیں کہیں۔ ورنہ مجھے یہ علم نہیں کہ ان جلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مثیلِ کرشن کہا گیا یا نہیں۔ اور باوا نانک صاحب ؒ کو مسلمان کہا گیا یا نہیں۔ اور لیکھرام کو لیکھو کہا گیا یا نہیں۔ لیکن اگر کہا بھی گیا ہو تو اُن گالیوں کے مقابلے میں جو اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیں یہ لفظ کیا حقیقت رکھتا ہے۔ اگر چہ میری تعلیم یہی ہے کہ نرمی سے کام لینا چاہیے اور ہمارے دوست اس رنگ میں نام نہ لیا کریں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا ہے تو اُن کا مقام اَور ہے اور ہمارا اَور ہے۔ وہ جج کے مقام پر تھے اور ہم لوگ اس مقام پر نہیں ہیں۔ لیکن اگر کسی نے کہہ بھی دیا ہو تو اُن گالیوں کے مقابلہ میں جو اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیں اور حضرت مسیح موعو علیہ السلام کو دیں یہ لفظ کیا حقیقت رکھتا ہے۔ اگر کوئی موقع آیا تو یہ سب گالیاں دنیا کے سامنے پیش کی جائیں گی اور ہر شخص دیکھ لے گا کہ اگر کسی احمدی نے لیکھو کہہ بھی دیا تو یہ تو اُس کی گالیوں کے مقابلہ میں ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ 999 حصے تو سارے کے سارے بے جواب باقی ہیں۔
باقی رہا اس افسر کا یہ کہنا کہ اگر مرزا صاحب کو لیکھو کہا جائے تو احمدی کیا کہیں گے؟ تو مَیں اس کے جواب میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو الہام ہوتا ہے۔ اگر آریہ سماجی اعلان کر دیں کہ لیکھرام کو بھی الہام ہوتا تھا اور کہ وید کا الہام آخری الہام نہیں تو گو ہم یہ کہیں گے کہ اُن کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ لیکھرام کو الہام ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اُن کے لیکھو کہنے کو ہم آپ کی ہتک نہیں سمجھیں گے۔
آخری بات لاؤڈ سپیکر کی ہے۔ پانچ سال سے معاندینِ سلسلہ بازاروں اور گلیوں میں لاؤڈ سپیکر لگا کر جماعت احمدیہ اور اِس کے بزرگوں کو گالیاں دیتے چلے آرہے ہیں اور ہم نے بارہا حکام کو توجہ دلائی ہے کہ اس سلسلہ کو روکا جائے۔ ڈپٹی کمشنر تک ہی نہیں بلکہ کمشنرکے پاس بھی ہمارا ایک وفد گیا اور مسٹر کنگ سے یہ بات کہی کہ اس سلسلہ کو روکا جائے اس سے احمدیوں کی سخت دلآزاری ہوتی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہا کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ہم بھی لاؤڈ سپیکر لگا کر ان کا جواب دیں گے۔ یہ بات سن کر مسٹرکنگ بہت ہنسے اور کہا کہ اچھی بات ہے جب وہ لوگ لگاتے ہیں تو آپ بھی اگر لگائیں گے تو کسی کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہ ہو گا۔ اور یہ سوال بھی اگر گورنمنٹ نے اٹھایا تو جماعت احمدیہ ان سرکاری افسروں کو بطور گواہ بلوائے گی اور ثابت کرے گی کہ ہم نے پانچ سال متواتر صبر کرنے کے بعد ایسا کیا ہے۔ اور اگر کسی عدالت میں یہ سوال پیش ہوا اور اُس نے کسی قانونی روک کی وجہ سے ان افسروں کو بطور گواہ طلب کرنے سے انکار کیا تو ہم اشتہاروں کے ذریعہ ان افسروں سے اِس کا جواب دریافت کریں گے۔ اور اگر وہ جواب نہ دیں گے تو دنیا کے سامنے بات واضح ہو جائے گی اور اس صورت میں بھی فتح ہماری ہی ہو گی۔
بہرحال مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ باتیں جو اس افسر نے بیان کیں وہ ہمارے جلسوں میں کہی گئیں یا نہیں یا کس رنگ میں کہی گئیں۔ مجھے جو خط ملا ہے اس میں اس افسر کے جو اعتراض نکلے ہیں میں نے ان کے بارہ میں یہ باتیں کہہ دی ہیں اور ایک بار پھر جماعت کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ صحیح طریق یہی ہے کہ وہ تبلیغ کو وسیع کریں۔ باہر سے جو لوگ ہمیں گالیاں ہی دینے کے لئے آتے ہیں اُن پر ہماری تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا اس لئے جن کو مخالفوں کی گالیاں سن کر غصہ آئے اور غیرت جوش مارے وہ تبلیغ کے لئے اپنا کچھ وقت وقف کریں اور اردگرد کے دیہات میں جا کر تبلیغ کریں جو مولوی اور پنڈت صاحبان یہاں آتے ہی اِس لئے ہیں کہ ہمیں غصہ دلائیں اُن پر ہماری تبلیغ کا اثر کیا ہو سکتا ہے۔ اور جب اثر نہیں ہو سکتا تو پھر یونہی گلا پھاڑنے کا کیا فائدہ۔ مومن کو جب علم ہو جائے کہ اس کی تبلیغ کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تو وہ پھر وہاں تبلیغ نہیں کرتا کیونکہ وہاں تو تبلیغ کرنا ایک لغو فعل ہو جاتا ہے اور مومن لغو فعل نہیں کیا کرتا۔
اس کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔ انگریزی میں زیرو آور (Zero Hour) ایک محاورہ ہے جو کچھ عرصہ سے جنگی اور فوجی کارروائیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جب فوجی تیاری کرتے کرتے یعنی حملہ کر دینے کا وقت آجائے تو اسے zero hour کہتے ہیں۔ مثلًا اتحادی فوج، جرمن فوج کے مقابل کھڑی ہے اور اس پر حملہ کرنے کی زبردست تیاریاں کر رہی ہے۔ جب اس کی تمام تیاریاں پوری ہو جائیں، وہ گولہ بارود کا کافی سٹاک مہیا کر لے، کافی ہوائی طاقت جمع کر لے، ٹینک اور توپیں وغیرہ اچھی طرح درست کر لے اور جرمن فوج پر حملہ کا وقت آجائے تو اسے zero hour کہا جائے گا اور انگریزی اخبار لکھیں گے کہ حملہ کا zero hour آگیا ہے۔ میں بھی جماعت کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ الٰہی سامانوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لئے zero hour آپہنچا ہے۔قدم قدم پر بعض ایسے واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ وقت عنقریب آنےوالا ہے جب ہمیں اپنا سب کچھ تبلیغ میں لگا دینا ہو گا۔ اور جماعت کے ہر فرد کے لئے لازم ہےکہ اُس وقت کے لئے تیاری کرے۔ میں نے پہلے کئی دفعہ کہا ہے کہ جب وہ وقت آئے گا میں اطلاع دوں گا۔ سو میں اطلاع دیتا ہوں کہ یا وہ وقت آگیا ہے یا آنے والا ہے اور اس لئے بھی میں نے یہ نصیحت کی ہے کہ دوستوں کو بے فائدہ باتوں پر وقت نہ ضائع کرنا چاہیے۔ یہ بالکل معمولی اور مقامی باتیں ہیں۔ تم نے ایک وسیع تبلیغی حملہ کرناہے۔ دشمن تمہیں مقامی باتوں میں اُلجھانا چاہتے ہیں مگر تمہیں ان میں نہ الجھنا چاہیے۔ تمہارا ایسی باتوں میں اُلجھ جانا دشمن کی فتح ہے اور کوئی نادان ہی اپنے ہاتھ سے دشمن کی فتح کا سامان دے سکتا ہے۔
اِس جلسہ سالانہ کے بعد ایسے جلدی جلدی حالات بدل رہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے وہ وقت جبکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ زور سے تبلیغ کی جائے اور چاروں طرف تبلیغ کے کام کو وسیع کر دیا جائے وہ اب بالکل قریب آگیا ہے۔ اور ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ معلوم ہوتاہے ہمارے لئے zero hourآنے والا ہے یا آچکا ہے۔ جلسہ سالانہ کے بعد حیرت انگیز طور پر اور بڑی سرعت کے ساتھ ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں جو پہلے سال سال میں نہیں ہوتے تھے۔ اور وہ باتیں جو پہلے سال سال میں بھی نہ ہوتی تھیں وہ ان دو ماہ میں اللہ تعالیٰ کےفضل سے ظاہر ہونے لگی ہیں۔
(الف)اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مَیں نے 12 جنوری 1945ء کو اِسی سٹیج پر ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں انگلستان او رہندوستان دونوں کو نصیحت کی تھی کہ دونوں اپنے سابقہ اختلافات کو بُھلا کر باہم سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں۔ مَیں نے انگلستان کو نصیحت کی تھی کہ ‘‘اے انگلستان! تیرا فائدہ ہندوستان سے صلح کرنے میں ہے۔ خداتعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ تم دونوں مل کر کام کرو اور دونوں مل کر دنیا میں امن قائم کرو’’۔ پھر میں نے کہا تھا کہ ‘‘میں انگلستان کو دعوت دیتا ہوں کہ آؤ اور ہندوستان سے صلح کر لو’’۔ اور پھر میں نے ہندوستان کو بھی نصیحت کی تھی کہ ‘‘وہ بھی انگلستان کے ساتھ اپنے پرانے اختلافات کو بُھلا دے۔’’ اور میں نے کہا تھا کہ ‘‘میں ہندوستان کو دعوت دیتا ہوں کہ جاؤ انگلستان سے صلح کر لو۔ ’’ او رپھر میں نے کہا تھا کہ ‘‘میں ہندوستان کی ہر قوم کو دعوت دیتا ہوں کہ آپس میں صلح کر لو۔’’ پھر میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ ‘‘میری آواز کا نہ ہندوستان پر اثر ہو سکتا ہے اور نہ انگلستان پر اثرہو سکتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ میری یہ نصیحت ہوا میں اُڑ جائے مگر اب تو ہوا میں اُڑنے والی آواز کو بھی پکڑنے کے سامان پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ ریڈیو ہوا میں سےہی آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے۔ پس مجھے اس صورت میں اپنی آواز کے ہوا میں اُڑ جانے کا بھی کیا خوف ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہو سکتا ہےکہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے۔’’اور اب دیکھ لو! اللہ تعالیٰ نے ایک قلیل عرصہ کے اندر ہی کس طرح اُس آواز کے بلند ہونے کے سامان بہم پہنچا دیئے۔ انگلستان میں کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں چودھری سر ظفراللہ خان صاحب ہندوستانی ڈیلیگیشن(Delegation) کے لیڈر بنا کر بھیجے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں میری اس آواز کو وہاں بلند کرنے کی توفیق دی۔ اور اب یہی آواز کہ برطانیہ کو چاہیے ہندوستان کو آزاد کر دے اور اس سے صلح کر لے سارے انگلستان میں بلند ہو رہی ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہ تھا جس سے ہم اس آواز کو انگلستان میں بلند کر سکتے۔ ہم تو دس سال میں بھی ایسا نہ کر سکتے تھے۔ مگر دیکھو اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اِدھر میں نے یہ اعلان کیا اور اُدھر چودھری صاحب کو جلدی ہی انگلستان جانا پڑا اور انہوں نے وہاں جاتے ہی اس آواز کو بلند کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سعادت کے لئے منتخب کر لیا کہ وہ انگلستان میں میری اس آواز کو بلند کر سکیں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
میں نے اُس خطبہ میں کہا تھا کہ خوش قسمت ہے وہ شخص جسے کوئی رسوخ حاصل ہو اور وہ اس سے کام لے کر صلح کرانے کی کوشش کرے۔ جو کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالے گا میری دعائیں اُس کے ساتھ ہوں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا وارث ہو گا۔اللہ تعالیٰ نے چودھری صاحب کو میری یہ آواز انگلستان میں بلند کرنے کی توفیق دی اور انہوں نے اسے ایسے رنگ میں پیش کیا کہ نہ صرف انگلستان بلکہ امریکن اخبارات میں بھی یہی آواز بلند ہو رہی ہے۔ حتّٰی کہ ٹائمز جیسے وقیع اخبار نے بھی اس کی تائید میں نوٹ لکھا ہے۔ اور لکھا ہے کہ چودھری صاحب کی آواز کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اور اب ہندوستان میں بھی یہی آواز اٹھنے لگی ہے۔ اسمبلی میں کئ ممبروں نے تقریریں کی ہیں کہ چودھری صاحب کی یہ آواز ان کی اکیلی آواز نہیں بلکہ یہ سارے ہندوستان کی آواز ہے۔ حال میں تاجروں کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن نے بھی اپنے اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ یہ آواز اکیلے ظفراللہ خاں کی آواز نہیں بلکہ ہم تاجر سَو فیصدی ان کی اس آواز میں ان کے شریک ہیں۔ تو دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے جلد سے جلد ایک پسماندہ صوبہ کے ایک گوشہ کے قصبہ سے اُٹھی ہوئی آواز کو پکڑ کر ریڈیو اور تاروں کے ذریعہ سے ساری دنیا میں پھیلا دیا۔
جماعت کے دوسرے دوستوں کو چاہیے کہ اس آواز کے دوسرے حصہ کو بھی بلند کریں۔ اس آواز کے دو حصے تھے۔ ایک تو انگلستان کے لئے نصیحت تھی کہ وہ ہندوستان کو آزادی دے دے اور اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے اور دوسرے حصہ میں ہندوستان کو میں نے دعوت دی تھی کہ وہ انگلستان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے اور پرانے اختلافات کو بُھلا کر اس سے صلح کر لے۔ میری اس آواز کے دوسرے حصہ کو اب ہندوستان میں بلند کرنے کی کوشش جماعت کے دوسرے دوستوں کو کرنی چاہیے۔ اور تمام ملک میں اس آواز کو پوری طرح پہنچانا چاہیے۔ کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے انگلستان کے ساتھ لڑنا جھگڑنا ہندوستان کے لئے فائدہ کا موجب نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان اگر آزاد زندگی کا متمنی ہے تو ضروری ہے کہ وہ انگلستان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو بعد میں اسے پچھتانا پڑے گا اور آئندہ نسلیں اپنے باپ دادوں پر لعنتیں کریں گی۔ اور یہ ملک غلامی کی ایسی زنجیروں میں جکڑا جائے گا کہ سینکڑوں سالوں کی قربانیاں بھی اس سے رہائی کے لئے کافی نہ ہوں گی۔
پس میں اپنی اس آواز کے جو میں نے 12 جنوری 1945ء کو بلند کی تھی دوسرے حصہ کی طرف دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ چودھری ظفراللہ خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور انہوں نے اس کے پہلے حصہ کو انگلستان میں بلند کیا۔ پنجاب، بنگال، بمبئی، مدراس، یو پی، سی پی، اڑیسہ، بہار، صوبہ سرحد، صوبہ سندھ اور ریاستوں کے احمدیوں کو چاہیے کہ وہ میری اِس آواز کے دوسرے حصہ کو اب ہندوستان میں ہر جگہ بلند کریں کہ ہندوستان کو چاہیے انگلستان کے ساتھ صلح کر لے۔ انگلستان کا پچھلا سلوک ہندوستان کے ساتھ اچھا تھا یا بُرا ہندوستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ اُسے بُھول جائے اور آپس میں صلح کر کے دونوں ایک مشترکہ محاذ قائم کریں کہ انسانیت اور حُریت پر کوئی ضَرب نہ لگ سکے۔ اور وہ دونوں مل کر دنیا میں آزادی، حُریت اور امن قائم کر سکیں۔
(ب) دوسری بات اس سلسہ میں یہ ہے کہ میں نے جلسہ سالانہ سے قبل اور جلسہ پر بھی دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ ہمیں کمیونسٹ تحریک کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ اس کے بعد 17 فروری کے قریب میں نے خواب دیکھا کہ ‘‘اخبار انقلاب’’ لاہور کا ایک پرچہ میرے ہاتھ میں ہے۔ میں اسے پڑھتا ہوں۔ اس کے ایک صفحہ پر میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ کچھ سطریں لکھی ہوئی ہیں۔ پھر کچھ سطریں اُڑی ہوئی ہیں اور پھر ڈیڑھ سطر لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد پھر کچھ سطریں اُڑی ہوئی ہیں۔ جس طرح کسی مضمون کے بعض حصے سنسر نے کاٹ دیئے ہوں۔ درمیان میں جو سطر لکھی ہے میں اسے پڑھتا ہوں تو اُس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ‘‘امام جماعت احمدیہ نے پنجاب یونیورسٹی کا انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا ہے۔’’یہ خبر پڑھ کر مجھے اپنے نفس پر بہت غصہ آیااور میں نے دل میں کہا کہ میں نے یہ امتحان کیوں دیا۔ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنا علم دیا ہے اور اتنا بلند مقام عطا کیا ہے تو مجھے انٹرنس(Entrance) کا امتحان دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اور میں نے یہ امتحان کیوں دیا۔ ایک دو منٹ کے بعد میری یہ غصہ اور انقباض کی حالت دو رہوئی تو میں نے خیال کیا کہ میں نے جب یہ امتحان دیا ہے تو یہ کوئی بے ہودہ حرکت نہیں کی اس میں بھی ضرور اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت مخفی ہو گی۔ اور پھر میں اپنے دل میں کہتا ہوں کہ جب انٹرنس کا امتحان پاس کیا ہے تو اب بی اے کا امتحان بھی دے دوں۔ پھر مجھے خیال آتا ہے کہ بی اے کا امتحان تو ایف اے کا امتحان پاس کئے بغیر نہیں دیا جا سکتا۔ مگر خود ہی دل میں کہتا ہوں کہ یونیورسٹی مجھے بی اے کا امتحان دینے کی اجازت دے دے گی۔
میں نے یہ خواب دیکھا اور حیران تھا کہ یہ کیا بات ہے۔ دوسرے تیسرے روز جب میں مسجد میں اپنے بعض رؤیا بیان کرنے لگا تو یہ رؤیا مجھے بھول گئی۔ یہ یاد تھا کہ ایک اَور اہم رؤیا ہے مگر دوسرے رؤیا بیان کرتے کرتے یہ بھول گئی۔ اب جو لاہور میں کمیونزم کے متعلق میرا لیکچر ہوا تو اس کے بعد ایک دن اخبار دیکھتے ہوئے امتحان کا لفظ جو سامنے آیا تو معاً یہ رؤیا یاد آگئی اور ساتھ ہی اس کی تعبیر بھی سمجھ میں آگئی۔ انٹرنس کے معنے ہیں دروازہ کے ۔ کسی بڑی جلسہ گاہ یا تماشہ گاہ کے بڑے دروازہ کو انٹرنس کہتے ہیں۔ اور میں نے کمیونزم کے متعلق جو لیکچر دیا اس میں پنجاب یونیورسٹی کے طلباء اور پروفیسر کثرت سے شامل ہوئے۔ اور اس طرح ہم گویا پنجاب یونیورسٹی کے علمی حلقوں میں داخلہ میں کامیاب ہو گئے اور اپنے خیالات کامیابی سے ان تک پہنچا دیئے۔ بہت سے طالب علم اور پروفیسر میری اس تقریر کے نوٹ لیتے رہےاور بعض لوگوں نے سنایا کہ ایک پروفیسر پر تو اتنا اثر ہوا کہ وہ رو پڑا اور تمام کالجوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ بعد میں پروفیسر اور طلباء آ آکر ملتے رہے۔ اور بعض طالب علموں نے سنایا کہ بعض چوٹی کے پروفیسروں نے معذرتیں کیں اور اِس امر پر افسوس کیا کہ وہ بعض دوسری مصروفیتوں کی وجہ سے لیکچر نہ سن سکے۔ اور اس طرح میری وہ رؤیا پوری ہوگئی کہ ‘‘امام جماعت احمدیہ نے پنجاب یونیورسٹی کا انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا۔ ’’اور رؤیا کا یہ حصہ جو ہے کہ میں کہتا ہوں اب بی اے کا امتحان بھی دے دوں تو اس میں اِس طرف اشارہ ہے کہ اگر ہم اس کوشش کو جاری رکھیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ پر سے کمیونزم کا اثر دور ہو جائے تو اس میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے ایک اَور لیکچر کمیونزم اور مذہب کے موضوع پر دینے کا ارادہ کیا ہے۔ اور ایک رات بیٹھ کر اس کے نوٹ بھی لکھ لئے ہیں۔ پہلا مضمون تو ‘‘اسلام کا اقتصادی نظام بہ نظر کمیونزم’’ تھا۔ مگر دوسرا لیکچر ‘‘کمیونزم اور مذہب’’ کے موضوع پردینے کا ہے۔ اس کے نوٹ لکھ لئے گئے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو قریب عرصہ میں ہی یعنی دو تین ماہ تک لاہور میں یہ دوسرا لیکچر بھی ہو گا۔ پہلا لیکچر اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیرمعمولی طور کامیاب ہوا ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسے سمجھنے اور یاد کرنے کا خاص جوش اور رغبت پیدا ہو گئی۔ بیسیوں تعلیم یافتہ اصحاب نے بہ اصرار کہا کہ یہ لیکچر بہت جلد شائع ہونا چاہیے۔ اسے بہت سے اعلیٰ سرکاری حکام، پروفیسران، وکلاء، بیرسٹران اور رؤساء نے بڑے شوق سے سنا اور اپنے اپنے حلقوں میں اسے پھیلایا۔ یہ جو دیکھا کہ یہ خبر ‘‘انقلاب’’ میں شائع ہوئی ہے اِس سے اِس طرف اشارہ ہے کہ انشاء اللہ یہ لیکچر خیالات میں انقلاب پیدا کرنےکا موجب ہو گا۔
(ج) تیسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے نئے نئےراستے خود بخود کھل رہے ہیں۔ مثلاً ان دو ماہ میں سلسلہ کی تبلیغ اتنی اوپر پہنچ گئی ہے کہ پچھلے سارے سال میں جتنے احمدی ہوئے تھے اس سال جنوری فروری صرف دو مہینوں میں اُس کے نصف سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی حالت قائم رہے تو پچھلے سال کی نسبت چار گنے سے بھی زیادہ کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔
(د) پھر ان دو ماہ میں ایک عجیب بات یہ ہوئی ہے کہ عورتوں کے طبقہ میں حیرت انگیز طور پر تبلیغی رستہ کھلا ہے۔ اور ان دو ماہ میں مسلمانوں کے ایک چوٹی کے خاندان کی جسے تمام ہندوستان میں علمی اور تجارتی رُعب حاصل ہے ایک خاتون احمدی ہوئی ہیں۔ پھر ایک اَور خاتون جو انگریز ہیں اور انگلستان کے ایک ڈیوک(Duke) کی رشتہ دار اور ہندوستان کے ایک بہت بڑے انگریز افسر کی بیوی ہیں مسلمان ہوئی ہیں اور بیعت کی ہے۔ جو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مثال ہے۔
(ہ) انہی دو ماہ میں دو نواب خاندانوں کے افراد نے بیعت قبول کی ہے۔
(و) ہماری تبلیغ کا رُخ زیادہ تر اسلامی ممالک کی طرف ہے۔ گو ہم مغربی ممالک میں بھی تبلیغ کرتے ہیں مگر زیادہ خیال ہمیں اسلامی ممالک کا ہی ہے۔ کیونکہ ان کا حق ہم پر بہت زیادہ ہے۔ ان ممالک میں احمدیت کی ترقی کے سامان اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہونے لگے ہیں۔ اٹلی کی حکومت میں لیبیا کا ایک علاقہ تھا جسے تھوڑا عرصہ ہؤا اتحادیوں نے فتح کر لیا ہے۔ یہ علاقہ مصر کے ساتھ لگتا ہے۔ اور وہاں بہت عرصہ تک اُسی طرح لڑائی ہوتی رہی ہے جیسا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے رؤیا میں دکھایا تھا۔ اس علاقہ کا ایک مشہور شہر بن غازی ہے جس کا ذکر بار بار خبروں میں آتا رہا ہے۔ اس علاقہ کے ایک حصہ کا صدر مقام طبروق اور دوسرے حصہ کا بن غازی ہے۔ اور یہ شہر لڑائی کا گویا ایک بیس(Base) تھا۔ بن غازی اس لئے بھی زیادہ مشہور ہے کہ دینی تحریک یہاں طبروق کی نسبت زیادہ زبردست ہے۔ جیسے مثلاً ہندوستان میں دیوبند وغیرہ مقام ہیں۔ بن غازی کے چیف امام جو عرب ممالک کی آزادی کی تحریک کے ایک لیڈر بھی تھے اور اس وجہ سے اٹلی کی حکومت ان کی مخالف تھی اور انہیں اطالوی حکام نے اٹلی کے کسی مقام پر قید کررکھا تھا اطالوی حکومت نے ان کو جنگ کا تمام عرصہ قید رکھا اور واپس اپنے ملک میں نہ آنے دیا کیونکہ وہ ڈرتی تھی کہ وہ ملک کو آزادی کی تحریک کی طرف لائیں گے۔ امریکنوں اور انگریزوں کے داخلہ پر وہ آزاد ہوئے ہیں۔ چند روز ہوئے ان کی بیعت کا خط اٹلی سے آیا ہے۔ یہ بیعت گو ہے تو جلسہ سالانہ سے پہلے کی مگرچونکہ خط ملا بعد میں ہے اس لئے اِنہی دو ماہ میں اس کا شمار ہو گا۔ گویا اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان علاقوں میں تبلیغ کا ایک نیا رستہ کھول دیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ ان دنوں بیما رہیں۔ کل میں ان سے ملنے گیاتو اُن کو اِس بات کا کوئی علم نہ تھا۔ میرے وہاں پہنچتے ہی اُنہوں نے کہا کہ جب سے نواب صاحب فوت ہوئے ہیں میں نے اُن کو خواب میں نہ دیکھا تھا۔ آج رات پہلی دفعہ میں نے اُنہیں خواب میں دیکھا ہے۔ اور انہوں نے جو خواب سنایا وہ بھی اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ نواب صاحب مرحوم اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب میں بیمار تھا تو بیماری کی حالت میں بھی ان کو تبلیغ کرتا رہا اور جب میری زبان بند ہو گئی تو میں اشاروں سے اُن کو تبلیغ کرتا رہا۔ یہ بات کہتے کہتے آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا کہ بڑی خوشی کی خبر آئی ہے۔ بڑی خوشی کی خبر آئی ہے۔ مصر اور لیبیا وغیرہ عربی ممالک میں احمدیت خوب پھیل گئی ہے۔ یہاں تک کہ اب الفضل کا ایک عربی ایڈیشن بھی شائع ہونے لگا ہے اورعربی ممالک کے بادشاہ اور بڑے بڑے لوگوں کو اُس وقت تک چَین نہیں آتا تھا جب تک کہ وہ اسے پڑھ نہ لیں۔ تو ایک ایسے سیاسی لیڈر کو جس سے اطالوی حکومت ڈرتی تھی اور قید کر کے اٹلی لے گئی تھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ احمدیت کو قبول کرے۔ اور انہوں نے وعدہ کیا ہےکہ میں اپنے وطن میں واپس جا کر احمدیت کی اشاعت کی کوشش کروں گا۔
اسی سلسلہ میں ایک اَور نوجوان کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے جو مدینہ منورہ سے حال ہی میں یہاں اتفاق سے آئے ہیں۔ اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو وہی نوجوان ان علاقوں میں احمدیت کی اشاعت کا موجب بن جائے۔ وہ طالب علم ہیں ان کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لئے مکہ میں آیا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں مزید تعلیم بھی حاصل کروں گا مگر وہاں مجھے خیال آیا کہ میں حنفی ہوں اس لئے اہلحدیث علماء سے نہ پڑھنا چاہیے اور میں نے ہندوستان آکر تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ جدہ پہنچے اور وہاں کے برطانوی قنصل سے کہا کہ ہندوستان پہنچنے کا کوئی انتظام کر دے۔ چنانچہ اس نے اپنے پاس سے بمبئی تک کا ٹکٹ لے دیا۔ بمبئی سے انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ علم پڑھنا ہے تو لاہور جاؤ۔ وہ لاہور آئے تو وہاں کسی نے انہیں پیر جماعت علی شاہ صاحب کے پاس علی پور سیداں جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ وہ وہاں گئے مگر پیر صاحب وہاں نہ تھے۔ وہ حیران تھے کہ اب کیا کریں۔ اور اس افسردگی کی حالت میں وہ ریلوے سٹیشن پر بیٹھے تھے کہ کوئی احمدی دوست وہاں آگئے۔ ان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ علم حاصل کرنا ہے تو میرے ساتھ قادیان چلو اور وہ ان کو قادیان لے آئے۔ ان کو احمدیت کا کوئی علم نہ تھا۔ جب علم ہوا تو انہوں نے کہا مجھے یاد آیا میرے والد کے نام ایک عربی رسالہ البشریٰ آیا کرتا تھا۔ وہ اسے مطالعہ کیا کرتے تھے اورا ن کی خواہش تھی کہ ہندوستان جا کر اس تحریک کے متعلق علم حاصل کروں۔ مگر وہ فوت ہو گئےاور یہاں نہ آسکے۔ اب شاید اللہ تعالیٰ اُن کی خواہش کو ہی پورا کرنے کے لئے مجھے یہاں لے آیا ہے۔ وہ کل مجھ سے ملے اور بیعت بھی کرنا چاہتے تھے مگر میں نے کہا اس طرح بیعت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بیعت تو اُس وقت کرنی چاہیے جب اپنے نفس کو ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار کر لیا جائے۔
(ز) پھر انہی دنوں اٹلی سے اطلاع ملی ہے کہ البانیہ کے چودہ پندرہ طلباء احمدیت کی طرف متوجہ ہیں اور لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں اور تحقیقات کر رہے ہیں۔ اِدھر اٹلی سے یہ اطلاع ملی اور اُدھر شملہ سے ریڈ کراس سوسائٹی نے اطلاع دی ہے کہ البانیہ کا ایک فوجی لفٹیننٹ جو جرمنی قید میں ہے اس نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کی کتاب اسے بھجوائی جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ البانیہ میں احمدیت کی رَو چلنے والی ہے۔ اس کے ساتھ جب یہ بات ملائی جائے کہ بادشاہ البانیہ کنگ زوغو 1نے شمس صاحب سے خواہش کی ہے کہ ان کی واپسی پر وہ وہاں آئیں اور ان کے مہمان ٹھہریں تو اس تحریک کی اہمیت اَور بھی بڑھ جاتی ہے۔
(ح) انگلستان میں بھی ان دو ماہ میں چار انگریزوں نے اسلام قبول کیا ہے جو تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
(ط) ان دو ماہ میں فوج سے بھی کافی بیعت کے خطوط موصول ہوئے ہیں جن میں سے بعض کنگز کمیشنڈ آفیسر ہیں اور بعض دوسرے عہدیدار ہیں۔
(ی) اسی طرح کی بعض اور تحریکات بھی ہیں جن کو مَیں اِس وقت بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ تھوڑے دنوں میں جب وہ باتیں پختہ ہو جائیں گی تو ان کا اظہار کیا جا سکے گا۔ اسی سلسلہ میں ایک اَور بات یہ ہے کہ انہی دنوں ہمارے چار مبلغ ہندوستان سے باہر جا چکے ہیں۔ اور چھبیس اَور مبلغ باہر مختلف ممالک میں جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تبلیغی حملہ ہونے ہی والا ہے۔ جوں جوں پاسپورٹ ملتے جائیں گے یہ لوگ روانہ ہوتے جائیں گے۔ اور اس طرح انشاء اللہ کئی ہزار میلوں میں تبلیغ کا میدان وسیع ہو جائے گا۔
گویا ایسے آثار ظاہر ہو رہے ہیں کہ فوجی محاورہ کے مطابق ہمارے لئے zero hour بالکل قریب ہے۔ جبکہ ہم لوگوں کے دلوں پر وسیع پیمانہ پر ایک تبلیغی حملہ کرنے والے ہیں۔ اِسی لئے میں نے جماعت کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنی طاقتوں کو ضائع نہ کرے اور انہیں سمیٹ کر رکھے تا وہ زیادہ سے زیادہ کارآمد ہو سکے۔ جیسا کہ گزشتہ سال اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا تھا کہ‘‘ روزِ جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے۔’’ یہ تغیرات ایسے ہیں کہ پہلے بعض سال سال میں بھی نہ ہوتے تھے۔ اور بعض تو دو دو چار چار سال میں نہ ہوتے تھے مگر اب اللہ تعالیٰ نے دو ماہ میں وہ تکمیل تک پہنچا دیے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی تغیرات پیدا کئے جار ہے ہیں۔ پس ہمارا بھی فرض ہے کہ غیر معمولی قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کر یں۔ ایک دن تھا جب ہم تحریک جدید کی قربانیوں کو بڑا کہتے تھے مگر اب وہ وقت آنے والا ہے جب یہ قربانیاں ہیچ نظر آئیں گی۔
پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک طرف تو تحریک جدید کے دفتر دوئم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں۔ اِس وقت تک صرف چالیس ہزار روپیہ سالانہ کے وعدے آئے ہیں حالانکہ ضرورت اڑھائی لاکھ کی ہے۔ پس دوست زیادہ سے زیادہ اس دفتر میں شامل ہوں۔ بعض لوگ چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرف سے دو دو چار چار آنے یا آٹھ آنہ یا روپیہ دے کر ان کو شامل کرتے ہیں۔ مگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بارہ سال سے کم عمر کے بچہ کو اس میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس سے کم عمر کے بچوں کو شامل کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ پورے انیس سال میں اُس کی طرف سے اُس کے والدین معمولی سی رقم داخل کرتے رہیں گے اور اسے خود آخر تک قربانی کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔ اگربارہ سال کے کسی لڑکے کو والدین شامل کریں تو پھر اگر وہ 21 سال کی عمر کاہو کر بھی خود کمانے لگے تو دس سال تک خود بھی حصہ لینے کا موقع پا سکے گا۔ پس میں نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ 12 سال سے کم عمر کے کسی بچہ کو شامل نہ کیا جائے۔ ہاں ثواب کےطور پر والدین چاہیں تو اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دے سکتے ہیں مگر تحریک جدید کے سپاہیوں میں ان کا شمار نہ ہو سکے گا۔ ہاں بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو باقاعدہ شامل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ دس سال کا عرصہ خود قربانی کرنے کا پا سکتے ہیں۔ اگر چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہی چند آنے لے کر شامل کر لیا جائے اورپانچ ہزار میں سے دو تین ہزار ایسے بچے ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ تحریک بالکل بے حیثیت ہو جائے گی۔ اور ان بچوں کی طرف سے دو دو چار چار آنہ چندہ دوسروں کی قربانیوں کو بھی چُھپا دے گا۔
تحریک جدید کے بعد وقف فنڈ کی تحریک ہے۔ اس میں اب تک ایک کروڑ چودہ لاکھ روپے کے وعدے آچکے ہیں۔ چار سو کے قریب اَور وعدے بھی ہیں جن کی تفصیلات اب تک نہیں ملیں۔ ان کو ملا کر شاید ڈیڑھ کروڑ کے وعدے ہو جائیں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ اس تحریک کو کم سے کم پانچ کروڑ تک پہنچایا جائے۔ اگر کسی وقت دو فیصدی کا بھی مطالبہ کیا جائے تو بھی آٹھ ، دس لاکھ روپیہ وصول ہو سکے۔ بہرحال جماعت کے ہر دوست کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امتحان کا وقت آگیا ہے اس لئے اپنے کو تیار رکھو۔ خدا ہی جانتا ہے کہ کب تم میں سے ہر ایک کو بلایا جائے گا خواہ کوئی وقف ہو یا نہ ہو۔ جو وقف نہ ہوں گے اُنہیں اُن کی بیعت کی وجہ سے بلایا جائے گا کہ آگے آؤ۔ پس اپنے آپ کو اُس وقت کے لئے تیار کر لو ایسا نہ ہو کہ جب آواز بلند ہو تو کوئی شخص ایسا بھی ہو کہ امتحان میں پورا نہ اُتر سکے اور ارتداد یا منافقت کے گڑھے میں جاگر ے۔
پس اچھی طرح سن لو کہ بلاوے کا وقت آرہا ہے بلکہ شاید آچکا ہے۔ گو قطعی طور پر تو میں نہیں کہہ سکتا کہ آچکا ہے۔ مگر ایسے سامان ظاہر ہو رہے ہیں کہ جن سے یہ گمان غالب ہے کہ وہ وقت آچکا ہے یا بالکل قریب آرہا ہے۔ جب تمام مذاہب پر اسلام اور احمدیت کی طرف سے عام دھاوا بول دیا جائے گا اورشیطان اور خداتعالیٰ کے فرشتوں میں آخری فیصلہ کُن لڑائی ہو گی۔ خوش قسمت ہوں گے وہ جن کواِس لڑائی میں اپنی جان اور اپنا مال قربان کرنے کا موقع ملے اور وہ خداتعالیٰ کے حضور قُرب کے اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں۔ اور بدقسمت ہے وہ جو اِس نایاب اور نادر موقع کو کھودے اور اعلیٰ درجہ کے قُرب کا مقام پانے سے محروم رہے۔ جس کے انتظار میں اس دنیا کے صلحاء ہزاروں سال سے بیتاب تھے۔’’
(الفضل مورخہ 14 مارچ 1945ء)
1:کنگ زوغو : احمد زوغو (1895ء1961-ء) شاہ البانیا 1922 ء تا 1924ء البانیا کے
وزیرِ اعظم بنے اور 1925ء میں آمر مطلق کا منصب حاصل کرلیا ۔1928ء میں بادشاہی کا
اعلان کیا (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ 73 شیخ غلام علی اینڈ سنز چوک انار کلی لاہور)
11
خصوصیت سے دعائیں کرنے کا ارشاد
(فرمودہ 30مارچ1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘چونکہ نماز کو دیر ہو گئی ہے اور اب نماز کے بعد جبکہ میں عصر کی نماز بھی جمعہ کی نماز کے ساتھ جمع کر کے پڑھاؤں گا مجلس شوریٰ ہونے والی ہے اس لئے آج میں کوئی لمبا خطبہ نہیں پڑھوں گا۔ صرف جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان ایام میں جو ہمارے لئے نہایت ہی اہم ایام ہیں یعنی ہم سال بھرکا پروگرام بنانے والے ہیں خصوصیت سے دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور عجز اور انکسار سے درخواست کریں کہ وہ اپنے فضل سے ترقی کی طرف ہماری راہنمائی فرمائے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم صحیح لائحہ عمل تیار کریں۔ اور باقی جماعت کو اِس بات کی توفیق دے کہ وہ اس پروگرام کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں اور ہر قسم کی قربانی کر کے اس پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی بھی توفیق دے۔
قوم کا بگاڑ یا سُدھار قوم کے اپنے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جس طرح ہر شخص جیسا عمل کرتا ہے ویسا ہی پھل پاتا ہے اسی طرح ہر قوم جیسا عمل کرتی ہے ویسا ہی پھل پاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی قومی زندگی کو علاوہ فردی زندگی کے ایسا بنائے کہ تفرقہ اور فساد اور قومی ترقی کے راستہ میں روک پید انہ ہو۔ چونکہ ہمارے اعمال محدود ہیں اور اسلامی ترقی کے لئے جس قسم کے سامانوں کی ضرورت ہے چونکہ ان سامانوں اور ان حالات کا پیدا ہونا ہمارے اعمال کے مطابق ممکن نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور اپنے احسان سے ہمارے اعمال سے زائد انعام ہمیں دے۔ اتنا زائد کہ ہماری حقیر اور ذلیل قسم کی کوششیں نتائج کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی ثابت ہوں اور ان کے ذریعہ احمدیت اور اسلام کو غلبہ حاصل ہو۔ اب میں اسی پر بس کرتا ہوں۔ اور پھر یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی جمع ہو گی۔ اس کے بعد مجلس شوریٰ کی کارروائی حسبِ قاعدہ پہلے وہ سکول تھا اب کالج ہے، کالج کے ہال میں شروع ہو گی۔ ’’ (الفضل 5؍اپریل1945ء)
12
جماعت احمدیہ لاہور کو تبلیغ کے متعلق ضروری ہدایات
(فرمودہ 13اپریل 1945ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘جس دن میں قادیان سے چلا تھا اُس سے ایک دن پہلے مجھ پر نزلہ کا شدید حملہ ہؤا اور دوسرے دن سفر کی وجہ سے جو مجھے مجبوراً کرنا پڑا یہ تکلیف زیادہ بڑھ گئی جس کی وجہ سے میں پچھلا جمعہ نہ پڑھا سکا۔ اب گو پہلے سے آرام ہے لیکن اب تک بھی اس کا اثر گلے اور سینہ پرباقی ہے جس کی وجہ سے میں بلند آواز سے تو بالکل نہیں بول سکتا۔ لیکن درحقیقت آہستہ بولنا بھی میری صحت کے لئے مُضِر ہے۔ اس لئے میں صرف چند منٹ ہی بولنا چاہتا ہوں اور وہ بھی نہایت آہستہ آواز سے ہی بول سکتا ہوں۔
کل میں نے یہاں کی جماعت کے عہدہ داروں کی ایک میٹنگ بلائی تھی اور ان کو تبلیغ کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی تھی اور اس کے بعض اہم پہلوؤں کو خاص طور پر مدنظر رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن تبلیغ ایک ایسا کام ہے جس کو صر ف عہدہ دار ہی نہیں کر سکتے بلکہ اس کام کے لئے جماعت کے ہر مرد و عورت، بچے، جوان اور بوڑھے سب کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نہیں جانتا میری کل کی نصیحت سے یہاں کی جماعت کے عہدہ داروں نے کیا اثر قبول کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک جو حاضر ہے وہ میری باتیں غائب کو سنا دے۔ 1کیونکہ کئی غائب ایسے ہیں جو زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں بہ نسبت حاضر کے۔ پس میں نہیں جانتا جماعت کے عہدہ داروں نے میری اس نصیحت سے کیا فائدہ اٹھایا۔ میں اس بات کو پھر تمام جماعت کے سامنے دہرا دینا چاہتا ہوں تاکہ سب جماعت اپنی ذمہ داری اور اپنے فرض کو سمجھ سکے۔ میں نے کچھ عرصہ سے بار بار خدا تعالیٰ سے علم اور آگاہی حاصل کر کے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دنیا کے سامنے بہت بُرے دن آنے والے ہیں اور اسلام ایسے خطرناک مرحلہ سے گزرنے والا ہے کہ اس قسم کا مرحلہ اسلام کو کبھی پیش نہیں آیا۔ وہ پیشگوئیاں جو اس قسم کے خطرات کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بیان کی گئی ہیں اُن کے پورا ہونے کا زمانہ آنے والا ہے۔ اس کے آنے سے پہلے ہمیں اپنی طاقت اور قوت کو مجتمع کرلینا چاہیے اور ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ سامان مہیا کر لینے چاہئیں تاکہ ہم اسلام کی حفاظت کر سکیں۔ جیسا کہ پہلے اعلان کیا جا چکا ہے ہندوستان میں سات مقامات پر خصوصیت سے تبلیغی مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سات مقامات ایسے ہیں جو ہندوستان اور بیرونی ممالک کو مدنظر رکھتے ہوئے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاہور ہے جو اس صوبہ کا سیاسی صدر مقام ہونے کی وجہ سے جس میں قادیان واقع ہے دوسرے صدر مقامات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرا دلّی ہے جو ہندوستان کا صدر مقام ہے۔ تیسرا پشاور ہے جو ہندوستان کی شمال مغربی سرحد کا صدر مقام اور اسلامی ممالک کا راستہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ چوتھا کراچی ہے جو عرب کا دروازہ ہونے اور عراق اور ایران وغیرہ کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ پانچواں بمبئی ہے جو افریقہ کے اکثر ممالک کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اور ان جزائر کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے جو ہندوستانی سمندر میں پائے جاتے ہیں اہمیت رکھتا ہے۔ چھٹا مدراس ہے جو سیلون سٹریٹسیٹلمنٹ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ ساتواں کلکتہ ہے جو ہندوستان کا اتنہائی مشرقی مقام ہے او ربرما، چین، جاپان، ملایا، سماٹرا اور جاوا کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتاہے۔ یہ سات مقامات ہیں جو خصوصیت سے ہندوستان اور بیرونی ممالک میں تبلیغ کرنے کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاہور بھی ہے۔ اگر اس مقام پر ہماری جماعت کو مضبوطی حاصل ہو جائے تو پنجاب میں احمدیت پھیلانا ہمارے لئے آسان ہو جائے۔ قادیان تو وہی جاتا ہے جس کو احمدیت سے دلچسپی ہو۔ لیکن لاہور میں پنجاب کا ہر شخص آتا ہے۔ اگر احمدیت لاہور میں مضبوط ہو جائے تو بیرونجات سے لاہور میں آنے والا ہر شخص خواہ اسے احمدیت سے دلچسپی ہو یا نہ ہو وہ یہاں کی جماعت کے ذریعہ احمدیت سے متأثر ہو گا۔ اور لاہور میں احمدیت کو طاقت اور قوت حاصل ہو جانے سے سارے علاقہ میں اُسی طرح اثر ڈالا جا سکے گا جس طرح گھڑیال بجانے سے میلوں میل تک آواز سنی جاتی ہے۔
میں نے کل عہدہ داروں کی میٹنگ میں بتا یا تھا کہ یہ تبلیغ جو اِس وقت تک ہو رہی ہے یہ کوئی چیز نہیں۔ اِس میں بہت سی خامیاں ہیں۔ اور میں نے ہدایت کی تھی کہ جلد سے جلد لاہور کا سروے کر کے ایک نقشہ تیار کیا جائے جس میں ہر محلے، ہر گلی اور ہر کُوچے پر نشان ہو۔ اورر وہ میرے پاس بھیج دیں اور ایک نقل اپنے پاس بھی رکھیں تاکہ اس کے مطابق تبلیغ کی جائے۔ خالی بڑے بڑے حلقے بنا دینا کہ یہ حلقہ نیلا گنبد کا ہے، یہ حلقہ مال روڈ کا ہے، یہ حلقہ دہلی دروازہ کا ہے، یہ حلقہ سول لائن کا ہے یہ کوئی معنے نہیں رکھتا۔ یہ تبلیغ اور یہ کوشش تو ایسی ہی ہے جیسے لاکھوں کے مجمع میں کوئی شخص کھڑا ہو کر کہے کہ بھئی! پانی لانا۔ اس پر بعض دفعہ تو پانی کا ایک گلاس لانے کے لئے ہزار آدمی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بعض دفعہ ایک آدمی بھی نہ اُٹھے گا۔ کیونکہ ہر شخص یہی سمجھ رہا ہو گا کہ اتنے بڑے مجمع میں سے کوئی نہ کوئی جا کر پانی کا گلاس لے آئے گا میرے اٹھنے کی کیا ضرورت ہے۔ پس یہ تبلیغ جو اِس وقت تک ہو رہی ہے یہ صحیح طریق پر نہیں ہو رہی۔ اس کے لئے سب سے پہلا طریق یہی ہے کہ سارے لاہور کا سروے کر کے نقشہ تیار کیا جائے جس میں ہر محلے، ہر گلی، ہر کُوچے اور ہر چھتے پر نشان لگاہؤا ہو۔ اور اُُس کی ایک نقل یہاں کی انجمن کے پاس رہے اور ایک مجھے بھیج دی جائے تاکہ اس کو سامنے رکھ کر میں بھی سوال کر سکوں کہ فلاں گلی میں کتنے غیر احمدی ہیں جن کے ساتھ ہمارے احمدیوں کی دوستی ہے۔ اور اس گلی میں کتنی دفعہ تبلیغ کی گئی۔ یہ بات گو بظاہر معمولی نظر آتی ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے بہت شاندار ہے۔ اگر اس طریق کو استعمال کیا جائے تو یہ طریق تبلیغ کے لئے بہت بڑا دروازہ کھول دینے والا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کوشش کرے تو ایک مہینہ کے اندر اندر یہ نقشہ تیار ہو سکتا ہے۔ پس میں جماعت کے دوستوں سے چاہتا ہوں کہ وہ کارکنوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں تاکہ یہ نقشہ جلدی مکمل ہو جائے اور کام شروع ہو سکے۔
دوسری بات جو میں کل نہیں بتا سکا تھا کیونکہ درحقیقت مَیں گلے کی تکلیف کی وجہ سے بول نہیں سکتا تھا اُس کا اعلان مختصر ًا آج کر دیتا ہوں۔ جماعت کے کارکن بھی یہاں موجود ہیں اور جماعت کے دوسرے دوست بھی اسے توجہ سے سن لیں کہ اگلے مہینے یعنی مئی کی پندرہ تاریخ تک مجھے لاہور کے احمدیوں کی فہرست پہنچ جانی چاہیے جس میں جماعت کے پندرہ سال اور پندرہ سال سے اوپر کے ہر فرد کے متعلق یہ لکھا ہوا ہو کہ یہ آدمی کوئی کام کرتا ہے یا بیکار ہے۔ اگر کام کرتا ہے تو وہ کام کیا ہے اور آیا وہ کام اس کی لیاقت کے مطابق ہے یا وہ اس سے زیادہ کام کی لیاقت رکھتا ہے مگر مجبوری کی وجہ سے اس کام کو اختیار کئے ہوئے ہے جو اس کی لیاقت سے کم ہے۔ اور اگر بیکار ہے تو کس قسم کا کام کر سکتا ہے اور اُس کی کیا مدد کی جا سکتی ہے۔ آیا اُس کو کام پر لگانے کی کوئی صورت کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ پھر اِسی طرح اس فہرست میں سوائے سرکاری ملازموں کے اور سوائے اُن لوگوں کے جو پہلے سے تاجر ہیں ایسے نوجوانوں کے متعلق بھی لکھا جائے جو تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں یا تجارت کے شائق ہیں مگر یا تو ان کو تجارتی واقفیت نہیں یا ہے مگر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔ اور کتنے نوجوان ہیں بیکاروں میں سے یا کام کرنے والوں میں سے جن کے لئے ترقی کے مواقع بہم پہنچا کر اُن کو تبلیغ کے لئے زیادہ مفید بنایا جا سکتا ہے۔
اِس کے بعد میرا منشاء ہے کہ لاہور میں تبلیغ کا کام شروع کر دیا جائے۔ لاہور تبلیغی مرکز تو منظور ہو چکا ہے گو مجھے ڈر ہے کہ لاہور کے لئے فوری طور پر قابل مبلغ کا ملنا مشکل ہو گا۔ مگر کوشش کی جائے گی کہ جلدی مبلغ کا انتظام ہو جائے اور یہاں پر کام شروع کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ تبلیغ کے اَور ذرائع بھی میرے ذہن میں ہیں مگر ابھی میں اُن کو بیان کرنا نہیں چاہتا۔ جس وقت فہرست مکمل ہو کر میرے پاس آجائے گی اُس وقت میں وہ آسان طریق بتاؤں گا جس سے قلیل عرصہ میں جماعت کو زیادہ سے زیادہ منظم اور مضبوط کر کے اس کے ذریعہ سے پنجاب میں اور پنجاب سے باہر دائرہ تبلیغ کو وسیع کیا جا سکے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہاں کی جماعت کے تعلیم یافتہ دوست وقت کے مطابق کارکنوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس کام کو جلد سے جلد کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور اگر کارکن سُست ہوں تو خود زور دے کر ان کے اندر چستی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں جماعت سے یہ بھی امید کرتا ہوں کہ اگر جماعت کا کوئی کارکن کام کا اہل نہ ہو تو اُس کی جگہ بغیر کسی لحاظ کے دوسرا آدمی مقرر کیا جائے۔ قومی اور دینی کاموں میں کسی انسان کا لحاظ کرنا انسان کو ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ وہی قوم ایماندار کہلا سکتی ہے جو دین کی ضروریات کو مقدم رکھے اور دینی اور قومی فرض کے مقابلہ میں ذاتی تعلقات کی پروا نہ کرے۔ میں سمجھتا ہوں لاہور کی جماعت کا کام اَور منظم ہو سکتا تھا۔ اگر جماعت کے بعض اَور افراد کو بھی کام کا موقع دیا جاتا۔ میں نے یہاں کے سکرٹریوں کو دیکھا ہے وہ ایک خاص ٹائپ کے آدمی ہیں اور وہی کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ حالانکہ لاہور میں بعض اَور ٹائپ کے آدمی بھی ہیں جن کو اگر کام کرنے کا موقع دیا جاتا تو وہ کام کے اہل اور جماعت کے لئے مفید ثابت ہو سکتے تھے مگر بوجہ کام کرنے کا موقع نہ ملنے کے وہ اپنے آپ کو جماعت کے لئے مفید ثابت نہیں کر سکے۔ ایک نوجوان کے متعلق جو اچھا کام کرنے والا تھا میں نے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ داڑھی نہ رکھنے کی وجہ سے اُس کو کام سے الگ کر دیا گیا ہے۔ مجھے اس نوجوان پر بھی افسوس ہوا کہ اُس نے اِس رنگ میں اپنی اصلاح نہ کی کہ وہ دین کی خدمت کر سکے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ قانون ان عہدوں کے متعلق ہے جو مرکز کا حصہ ہوں اس کے علاوہ مقامی طور پر کام کرنے کے بعض ایسے مواقع ہوتے ہیں جن پر اِس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس لئے اِس قسم کے کاموں پر بعض فعّال نوجوانوں کو لگانا چاہیے۔ اس سے ہمارا جماعتی قانون بھی قائم رہے گا کہ جو نوجوان اس اسلامی شعار کی پابندی کرنے والے نہ ہوں ان کو کوئی ایسا عُہدہ نہ دیا جائے جس کا تعلق مرکز سے ہو۔ اور مقامی ضرورت کے مطابق کام کرنے والے نوجوانوں کو موقع بھی مل جائے گا کیونکہ مقامی طور پر جو کام ان کے سپرد کیاجائے گا وہ قومی عُہدہ یا سلسلہ کا عُہدہ نہیں ہو گا۔ اس طرح ہمارا قانون بھی نہیں ٹُوٹے گا اور نوجوانوں میں کام کرنے کی روح اور بیداری بھی پیدا ہو جائے گی۔ ایسے نوجوانوں کے رات دن کان بھرنے چاہئیں کہ وہ اسلامی تعلیم کی پابندی نہ کر کے کیوں جماعت کے اندر تفرقہ اور شِقاق کا موجب بنتے ہیں۔ اور جماعت کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ کیوں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہدایت کو وہ قیمت دینے کے لئے تیار نہیں جو قیمت وہ فیشن کو دے رہے ہیں۔ اگر نوجوانوں پر متواتر یہ زور ڈالا جائے تو کچھ عرصہ کے اندر اُن کی اصلاح بھی ہو جائے اور پھر مقامی کاموں پر جو مرکز کا حصہ نہ ہوں اُن کو مقرر کر کے ان کی دلچسپی کو بھی قائم رکھا جا سکتا ہے اور ان کی فعّال روح کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہماری دونوں باتیں پوری ہو جائیں گی۔ یہ قانون بھی پورا ہو جائے گا کہ جو نوجوان عَلَی الْاِعْلان شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں اُن کو کسی ملّی عُہدہ پر مقرر نہ کیاجائے اور یہ بات بھی پوری ہو جائے گی کہ ایسے نوجوانوں کو اپنے اِردگِرد رکھا جائے تاکہ خود اُن کی بھی اصلاح ہو اور وہ آگے دوسروں کی اصلاح کا موجب ہوں۔
پس میں امید کرتا ہوں کہ لاہور کی جماعت جلد سے جلد اِن دو باتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے گی اور اپنے نظام کو اِس رنگ میں چلائے گی کہ نئے نوجوانوں کو آگے لانے کی کوشش کی جائے اور ان کو مقامی عُہدوں پر مقرر کر کے ان کی فعّال روح کو ابھارا جائے۔ میں نے بتایا ہے کہ مجھے یہاں کئی قسم کی طبائع اور کئی قسم کی لیاقتوں کے نوجوان نظر آئے ہیں جو کام کرنے کے لحاظ سے نہایت مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ مگر وہ ایسے ہی پڑے ہیں جیسے دو پہاڑوں کی وادیوں میں پُھول نکلتے بھی ہیں اور لہلاتے بھی ہیں اور سُوکھ بھی جاتے ہیں۔ لیکن اُن کو نہ نکلتے وقت کوئی دیکھتا ہے، نہ لہلہاتے وقت کوئی دیکھتا ہےاورنہ ہی ان کے سُوکھنے پر کسی کو افسوس پیدا ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ کا ان وادیوں میں سے دوبارہ پھول نکالنا خدائی طاقت میں ہے۔ اس کی طاقتیں غیر متناہی ہیں وہ اسی لئے بعض چیزوں کو ضائع کر دیتا ہے اور ان کی پروا نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں جب چاہوں اور جو کچھ چاہوں پیدا کر سکتا ہوں۔ لیکن یہ مقام ہمارا نہیں ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے جو چیزیں ہمارے ہاتھ میں دی ہیں ہمیں اُن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور ان چیزوں کو بیج کے طور پر استعمال کرنا چاہیے تاکہ ہمارے لئے پہلے سے بھی زیادہ آسانیاں پیدا ہو جائیں اور پہلے سے بھی زیادہ سامان ہمیں مل جائیں۔
خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جماعت کے لوگوں کو صحیح طور پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جو ہدایات میں نے دی ہیں اُن پر عمدگی سے عمل کرنے کی جماعت کو توفیق بخشے۔ تاکہ میں اپنی نگرانی کے ساتھ لاہور میں احمدیت کی مضبوطی سے عُہدہ برآ ہو کر سارے پنجاب کی تبلیغ کی تکمیل میں کامیاب ہو سکوں۔اَللّٰہُمَّ اٰمِیْنَ ۔’’
(الفضل مورخہ19؍اپریل1945ء)
1: بخاری کتاب العلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ رُبَّ مُبَلَّغٍ
اَوْعیٰ مِنْ سَامِعٍ
13
احمدیت کی ترقی کے سامان۔ ہال اور اس کے لوازمات کے اخراجات کا سرسری تخمینہ
(فرمودہ 20 ؍اپریل 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘گو مجھے کل سے بخار تو نہیں لیکن پیچش کی تکلیف ہے اور کھانسی بھی باقی ہے۔ اس کے باوجود مَیں جمعہ کے لئے اِس لئے آگیا ہوں کہ دو جمعے ہو گئے میں نے قادیان میں جمعہ نہیں پڑھایا۔
مَیں نے گزشتہ ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی کے سامان پیدا ہو رہے ہیں۔ چنانچہ پچھلے مہینہ کی بیعت جو ہے وہ بھی گزشتہ مہینوں سے زیادہ رہی ہے۔ اس مہینہ میں کچھ کمی معلوم ہوتی ہے لیکن چونکہ میں اِس دفعہ سفر پر رہا ہوں اور ساری دفتری ڈاک ابھی میرے سامنے نہیں آئی اس لئے ممکن ہے یہ کمی اِس وجہ سے نظر آتی ہو کہ ابھی مَیں ساری ڈاک نہیں دیکھ سکا۔ بہرحال جماعت کی ترقی کے سامان خداتعالیٰ کے فضل سے نمایاں طور پر پیدا ہو رہے ہیں۔ چنانچہ میرے اعلان کے بعد تین فوجی لفٹیننٹوں نے بیعت کی ہے جن میں ایک انگریز بھی ہے۔ اور اس انگریز کے اخلاص کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ مجھے بیت المال والوں نے بتایا ہے کہ اس نے دو سو روپیہ زکوٰۃ کا بھیجا ہے اور اس کے علاوہ
چندہ بھی بھیجا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیغامی لوگ جو ہمارے مقابلہ میں اپنے ذریعہ مسلمان ہونے والوں کا شور مچایا کرتے ہیں وہ کوئی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتے کہ ان کے ذریعہ ہونے والے نو مسلموں نے ایسی قربانی کا ثبوت دیا ہو اور زکوٰۃ کی عظمت رکھنے والے نو مسلم ان میں ہوں۔ اسی طرح افریقہ میں جو تبلیغ کے خاص سامان پیدا ہورہے ہیں ان میں سے ایک خاص بات جو خوشی کا موجب ہے یہ ہے کہ لندن سے شمس صاحب کا تار آیا ہے کہ افریقہ کے ایک پیرامونٹ چیف کا لڑکا جو ولایت میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا ہوا ہے وہ احمدی ہو گیا ہے اور اُس نے اپنے باپ کو بھی احمدیت قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اَور خوشی کی بات ہے جو میں پہلے بیان نہیں کر سکا یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے لندن میں ہم نے ایک اَور مکان تبلیغ کے لئے خرید لیا ہے جو ہماری مسجد کے ساتھ ملحق ہے۔ یہ مکان لندن کی عام قیمتوں کے لحاظ سے ہمیں بہت سستا مل گیا ہے کیونکہ لوگ ڈرتے ہیں کہ بموں وغیرہ کے گرنے سے نقصان نہ ہو۔ جس وقت یہ مکان خریدا گیا ہے اُس وقت بم گر رہے تھے ۔ لیکن خدا کے فضل سے خریدنے کے بعد بم گرنے بند ہو گئے ہیں ۔ یہ مکان اکتیس ہزار روپیہ میں آیا ہے اور نو ہزار روپیہ اِس کی مرمت پر خرچ ہو گا۔ گویا چالیس ہزار میں یہ جائیداد مل گئی ہے۔ یہ مکان مسجد کے ساتھ ہی ہے۔ درحقیقت یہ مکان اور پہلا مکان ایک ہی زمین میں بنے ہوئے تھے۔ ایک حصہ جو ہم نے مسجد کے لئے خرید لیا تھااُس میں مکان چھوٹا تھا اور زمین زیادہ تھی اور دوسرے حصہ میں مکان زیادہ تھا اور زمین تھوڑی تھی۔ اور مکان والامتعصب آدمی تھا جو اکثر یہ کہا کرتا تھا کہ میں خواہ اپنا مکان اور کسی کو دے دوں مگر احمدیوں کو ہرگز نہیں دوں گا۔ لیکن آخر خداتعالیٰ نے اُس کے دل سے بُغض نکال دیا اور کچھ بموں کے ڈر سے اور کچھ اِس وجہ سے کہ اُس کے لڑکے کسی دوسری جگہ چلے گئے اُس نے یہ مکان ساڑھے بائیس سَو پونڈ میں ہمارے پاس فروخت کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں اِس میں سات آٹھ مبلغ آسانی سے رہ سکتے ہیں۔ ہمارا پہلا مکان بھی سہ منزلہ ہے اور یہ بھی سہ منزلہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے مکان سے زیادہ وسیع ہے اور اس کے کمرے زیادہ ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے لئے اس طرح نیا سامان پیدا کر دیا ہے کیونکہ اب ہمارے مبلغوں کے لئے جو وہاں جائیں گے اکٹھے رہنا آسان ہو گا۔ میں صرف اس مکان کو نہیں دیکھتا بلکہ میری نظر اس بات پر بھی ہے کہ یہ ایک خداتعالیٰ کا نشان ہے۔ اور خداتعالیٰ کے اشارے اس کے عمل سے معلوم ہو رہے ہیں کہ وہ ہمارے جانے والے مبلغوں کے لئے جگہ بنا رہا ہے۔ ایک عرصہ تک جبکہ ہماری سکیم میں نئے مبلغ بھجوانے کا کوئی امکان نہیں تھا صاحبِ مکان مکان نہ دینے پر اڑا رہا حالانکہ اُس وقت ہم اِس سے زیادہ قیمت دینے پر تیار تھے۔ لیکن جونہی کہ ہم نے یہ سکیم تیار کی کہ انگلستان میں پانچ چھ مبلغ بھیجے جائیں وہ شخص اپنا مکان پہلی پیش کردہ قیمتوں سے کم قیمت پر دینے پر آمادہ ہو گیا۔ چنانچہ اِس مکان کا سَودا ہوچکا ہے، قیمت کا کچھ حصہ ادا کیا جا چکا ہے۔ اور باقی حصہ چند دنوں تک ادا کر دیا جائے گا۔
اس کے بعد میں اُس ہال کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کی تحریک پہلے کسی سوچی ہوئی تجویز کے مطابق نہیں تھی بلکہ مجلس شوریٰ میں پیش ہونے والی تجویز کے سلسلہ میں تھی۔ جن لوگوں نے وہ نظارہ دیکھا ہے غالباً وہ اب تک مزا اٹھا رہے ہوں گے کہ کس طرح خداتعالیٰ نے مجلس شوریٰ کے موقع پر جماعت کے دلوں میں جوش اور اخلاص پیدا کر دیا کہ اِس غرض کے لئے اُس وقت جو اندازہ کیا گیا تھا اس سے بھی زیادہ چندہ نقد اور وعدوں کی صورت میں جمع ہوگیا۔ اور ابھی باہر سے اَور لوگوں کی طرف سے بھی چندے آرہے ہیں اور یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وہی لوگ اس ثواب میں شامل ہوں جو اُس موقع پر حاضر تھے اور ہم شامل نہ ہوں؟ اِس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہر شخص جو ایسے موقع پر جاتا ہے قربانی کر کے جاتا ہے اور جو قربانی کر کے جاتا ہے یقیناً اُس کو دوسروں کی نسبت ثواب کا زیادہ موقع ملتا ہے اس لئے یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم نے کوئی اعلان نہیں کیا کہ آئندہ اس بارہ میں چندہ نہیں لیا جائے گا۔ جماعت کا ہر فرد جو اِس مد میں چندہ لکھوانا چاہے وہ لکھوا سکتا ہے اور پانچ سال کے عرصہ میں ادا کر سکتا ہے۔ اگر جلدی ادا کر دے تو زیادہ اچھا ہے ورنہ پانچ سال کے اندر کسی وقت یا قسط وار ادا کر سکتا ہے۔ جو تحریک مجلس شوریٰ کے موقع پر کی گئی تھی وہ تحریک ایک وقتی اندازے کے مطابق کی گئی تھی اور اس میں کام کا ایک بڑا حصہ نظر انداز ہو گیا تھا یعنی میں نے شیڈ کا اندازہ لگایا تھا۔ لیکن بعد میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ خالی شیڈ(Shed) سے اس قسم کی جلسہ گاہ کا کام نہیں لیا جا سکتا جس میں ایک لاکھ آدمی بیٹھ سکیں۔ کیونکہ جس جگہ ایک لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا جائے گا اُس جگہ کو ایسے رنگ میں بنایا جائے گا کہ ہر ایک شخص تک آواز پہنچ سکے۔ اس کے لئے بہترین طریقہ وہی ہے جو اٹلی وغیرہ میں رائج ہے جس کو غالباً ایمفی تھیٹر (Amphitheatre) 1 کہتے ہیں۔ یہ اس رنگ میں ہوتا ہے کہ لیکچرار کے کھڑے ہونے کی جگہ کے پاس سے ہی عمارت شروع ہو جاتی ہے اور سیڑھیاں نیچے سے اوپر چڑھتی چلی جاتی ہیں۔ جیسے ہماری جلسہ گاہ میں گیلریاں ہوتی ہیں اسی طرح یہ سیڑھیاں ہوتی ہیں۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ ہماری جلسہ گاہ میں گیلریاں کناروں پر جا کر شروع ہوتی ہیں لیکن یہ سیڑھیاں لیکچرار کے کھڑے ہونے کی جگہ کے پاس سے ہی اٹھائی جانی شروع ہو جاتی ہیں اور ہر پچھلی سیڑھی پہلی سیڑھی سے بلند ہوتی چلی جاتی ہے۔ جہاں تک عام اندازہ ہے اگر ایک آدمی کے بیٹھنے کے لئے تین فٹ جگہ رکھی جائے تو ایک لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے تین لاکھ فٹ جگہ کی ضرورت ہے۔ تین لاکھ فٹ جگہ کے معنے یہ بنتے ہیں کہ اگر گیلریوں کی جگہ پختہ نہ بنائیں بلکہ لکڑی کی گَیلیاں 2 لگائی جائیں تو اگر چہ مَیں انجینئر تو نہیں ہوں لیکن اس کے متعلق مَیں نے موٹا اندازہ لگایا ہے کہ اس پر چھبیس ستائیس ہزار گَیلیاں لگیں گی۔ اگر لکڑی کی گَیلیاں لگائی جائیں جو پچیس تیس سال تک کام دیں گی تو اُس وقت کی قیمتوں کے لحاظ سے تو نہیں۔ جنگ سے پہلے جو قیمتیں تھیں اُن قیمتوں کے لحاظ سے چھبیس ستائیس ہزار چِیل کی گَیلیوں پر د و لاکھ روپیہ خرچ ہو گا اور ان گَیلیوں کے رکھنے کے لئے لوہے کے گارڈروں پر تین لاکھ روپے کا اندازہ ہے۔ اور دو لاکھ روپیہ کم از کم چھت پر خرچ ہو گا۔ یہ سات لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ اور چونکہ اندازہ میں غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں ایک لاکھ روپیہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے رکھیں تو کم سے کم آٹھ لاکھ روپیہ میں یہ عمارت بنے گی۔ اور اگر پختہ یعنی اینٹوں اور سیمنٹ کی عمارت بنائی جائے جو کئی سَو سال تک کام دے تو ایسی عمارت پر پچیس لاکھ روپیہ صَرف کرنا ہو گا۔ اتنی بڑی جگہ دس ایکڑ زمین میں بنے گی۔ اور دس ایکڑ زمین میں اِس قسم کی سیڑھیاں بناتے چلے جانے کایہ مطلب ہے کہ اگر پچھلی اونچائی پچاس فٹ اور اگلی ڈیڑھ فٹ ہوتو دس ایکڑ زمین میں پچیس فٹ اونچی دیواریں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ہوئی اٹھائی جائیں۔ یہ عمارت ہمارے سکول اور بورڈنگ دونوں کے مجموعے سے کوئی دو سو گنے بڑی ہو جاتی ہے۔ پس اگر پکی عمارت یعنی اینٹوں اور سیمنٹ وغیرہ سے جلسہ گاہ بنائی جائے تو کم سے کم پچیس لاکھ میں بنے گی اور اگر لکڑی کی گَیلیاں یا لوہے کی تختیاں وغیرہ لگائی جائیں تو وہ آٹھ لاکھ روپیہ میں بنے گی۔ پس جو لوگ شوریٰ کے موقع پر اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکے ان کے لئے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور پھر پانچ سال کا لمبا عرصہ ہے اس میں وہ سہولت کے ساتھ اس رقم کو پورا کر سکتے ہیں اور جماعت کے کسی فرد کے لئے بھی امکان نہیں کہ وہ اس تحریک میں شامل ہونے سے محروم رہ جائے بلکہ ہر فرد شوق سے اس میں حصہ لے سکتا ہے۔
لیکن ایک اَور بات جس کو اُس وقت میں نے پیش نہیں کیا تھا لیکن اس کے بغیر یہ سکیم نامکمل رہ جاتی ہے اور جس کی وجہ سے جلسہ گاہ کے علاوہ بھی ابھی بہت سے روپے کی ضرورت ہے اتنے روپے کی کہ شاید جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے لوگ سمجھیں کہ جماعت کے لئے اتنا روپیہ جمع کرنا بہت بڑا بار ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب ہال کی تجویز فرمائی تھی تو اس قسم کا ہال تیار کرنے سے آپ کا اصل مقصد یہی تھا کہ اسلام کو دوسرے مذاہب کے لوگوں سے روشناس کرایا جائے۔ اور اُس وقت کے لحاظ سے آپ نے سمجھا تھا کہ ایک سَو آدمیوں کے لئے ہال بنانا بڑی بات ہے۔ لیکن آج ہمارے حوصلے خدا کے فضل سے بڑھے ہوئے ہیں اور ہم کہتے ہیں سَو کیا لاکھ آدمیوں کا ہال بناؤ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس ہال کے ذریعہ سے دنیا بھر کو اسلام سے روشناس کر اسکیں گے؟ ہال تو بن گیا لیکن اس ہال کی جو غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی تھی کیا ہم اس غرض کو پورا کرنے کیلئے ہر مذہب کے ایک لاکھ آدمیوں کو دعوت دے کر ان کو یہاں بلانے میں بھی کامیاب ہو سکیں گے؟ ظاہر ہے کہ ہماری موجودہ حیثیت ایسی نہیں کہ ایک لاکھ تو کُجا دس ہزار آدمیوں کو بھی یہاں بلانے میں کامیاب ہو سکیں۔ جو اپنے مذہب اور اپنی قوم میں اہمیت اور اثر و رسوخ رکھتے ہوں۔ ہمارے جلسہ سالانہ پر دو تین سو غیر مذاہب کا آدمی باہر سے آجاتا ہے۔ لیکن ان دو تین سو میں سے ہر ایک کی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی قوم اور اپنے مذہب میں اثر و رسوخ رکھتا ہو۔ وہ جو اثر و رسوخ والے ہوتے ہیں ان کی تعداد دس بیس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پس ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ اگر ہم کوشش کریں تو یہ کر سکتے ہیں کہ ایسے سو آدمیوں کو جمع کر لیں مگر ہم ہال بنا رہے ہیں لاکھ آدمیوں کا۔ ظاہر ہے کہ اس میں زیادہ تر ہماری اپنی جماعت کے لوگ ہی آئیں گے۔ مگر کیا احمدیوں کے سن لینے سے اسلام ساری دنیا میں روشناس ہو جائے گا؟ پس اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد ہمیں ایسی صورت سوچنی چاہیے کہ جس سے ہم اس ہال کو اسلام کی تبلیغ کا مرکز بنا دیں۔ اس کے متعلق میں نے جو تجویز سوچی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جہاں یہ ہال بنائیں اُس کے ساتھ ایک بہت بڑی لائبریری بنائیں جس لائبریری میں دنیا کے تمام مذاہب کی کتب جمع کی جائیں۔ اگر ساری نہیں تو تمام مذاہب کی اہم کتب اور اسلام کی قریباً ساری کتب جمع کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ دنیا کے مذاہب کا مقابلہ ان کی کتب اور اپنی کتب کے مطالعہ سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہم جاہلوں کو تو موٹی موٹی باتوں کے ذریعہ سے سمجھا سکتے ہیں لیکن قوم کے علماء کو جب تک ہم ہر میدان میں اُن کے مذہب کی کمزوری اُن پر ثابت نہ کرد یں ان کے مذہب سے بدظن نہیں کر سکتے۔ اِسی طرح ہمارے مبلغ جو کام کرتے ہیں ہم اُن سے امید تو کرتے ہیں کہ وہ مخالف مذہب کی کتب کا مطالعہ کریں لیکن ایک انسان تبلیغ بھی کرے، تربیت کا کام بھی کرے، عبادت بھی کرے اور پھر ایسا مطالعہ بھی کرے کہ ہر مذہب کی کتب کا واقف ہو سکے یہ ناممکن بات ہے۔ اور اگر ہمارے مبلغین کا علمی مقام اتنا بلند نہ ہو کہ وہ ہر مذہب کے مقابلہ میں کامیاب طور پر کھڑے ہو سکیں تو ہماری تعلیم اور تبلیغ اتنی مؤثر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم پہلے تو ہر مذہب کے لٹریچر کو اپنے یہاں جمع کریں۔ اس کے لئے میرا اندازہ یہ ہے کہ تین لاکھ روپے کی ضرورت ہو گی جس سے عمارت تیار کی جائے گی۔ عمارت تیار کرنے کے بعد ہر مذہب کی کتابیں جمع کرنے کا کام ہے۔ جو لوگ کتابیں جمع کرنے کا شوق رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کتابیں جمع کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ میری اپنی چھوٹی سی لائبریری ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ بھی پچیس تیس ہزار کی ہو گی۔ اور وہ اِس وقت کامل لائبریری کا ہزارواں حصہ بھی نہیں بلکہ دس ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ ہمیں ایک مکمل لائبریری کے لئے تین چار لاکھ جلدوں کی ضرورت ہے اور یہ تین چار لاکھ جلدیں پچاس ساٹھ لاکھ روپے میں خریدی جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر ابتدا میں ساری کتب نہ خریدیں بلکہ اہم کتب جمع کی جائیں تو میرے خیال میں ابتدائی کام کے لئے پانچ لاکھ خرچ کرنا ہو گا۔ کیونکہ شروع میں ہی یہ کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ پانچ لاکھ روپے کی رقم سے تمام مذاہب کی اہم کتابیں خرید کر لائبریری کی ابتدا کی جا سکتی ہے۔ تین لاکھ کی بلڈنگ اور پانچ لاکھ کی کتابیں یہ آٹھ لاکھ بنا۔ آٹھ لاکھ یہ اور آٹھ لاکھ ہال کے لئے یہ سولہ لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ یوں تو لائبریری پڑھنے ہی کے لئے ہوتی ہے لیکن ہماری غرض چونکہ یہ ہو گی کہ اسلام کی تبلیغ کو ساری دنیا میں پھیلائیں اس لئے ساری دنیا میں تبلیغ پھیلانے کے لئے ضروری ہو گا کہ ہم ایسے آدمی تیار کریں جو ہر زبان جاننے والے ہوں۔ یا اگر ہر ایک زبان نہیں تو نہایت اہم زبانیں جاننے والے ہوں جن زبانوں میں ان مذاہب کی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً یونانی ہے، عبرانی ہے تاکہ عیسائیت اور یہودیت کا لٹریچر پڑھ سکیں اور عربی جاننے والے بھی ہوں تاکہ اسلام کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ فارسی جاننے والے بھی ہوں تاکہ اسلام کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ سنسکرت اور تامل زبان جاننے والے بھی ہوں تاکہ ہندو اور ڈریوڈینز 3 (Dravidians) کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ پالی زبان جاننے والے بھی ہوں تاکہ بدھوں کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ چینی زبان جاننے والے ہوں تا کہ کنفیوشس کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ اور پہلوی زبان جاننے والے بھی ہوں تاکہ زرتشتیوں کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ اسی طرح پرانی دو تہذیبیں ایسی ہیں کہ گو اَب وہ تہذیبیں مٹ چکی ہیں لیکن اُن کا لٹریچر ملتا ہے۔ اُن میں سے ایک پرانی تہذیب بغداد میں تھی اور ایک مصر میں تھی۔ ان کا لٹریچر پڑھنے کے لئے بابلی زبان اور ببلیوگرافی(Bibliography) جاننے والے چاہئیں تاکہ ان کے لٹریچر کو پڑھ کر اسلام کی تائید میں جو حوالے مل سکیں ان کو جمع کریں۔ اور ان کے ذریعہ اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں ان حملوں کا جواب دے سکیں۔ جب تک ہم یہ کام نہیں کرتے ہم دشمن کا اُس کے ہی تجویز کردہ میدان میں مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
مقابلے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک اجمالی مقابلہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معجزات، نشانات اور دعا کے ذریعہ کیا۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ان معجزات اور نشانات کی طرف رُخ نہیں کرتا بلکہ وہ اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ دوسری چیزوں اور دوسرے علوم کے ذریعہ اسے قائل کیا جائے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ‘‘مسیح ہندوستان میں’’ لکھ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ اس کتاب میں آپ نے معجزات یا نشانات پیش کر کے دشمن کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ ان کا مقابلہ تاریخی حوالوں کو پیش کر کے کیا گیا ہے۔ اور آپ نے ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ کشمیر میں آئے اوریہاں آکر فوت ہوئے۔ یہیں ان کی قبرہے۔ اسی طرح ‘‘ست بچن’’ ہے۔ اس کی بنیاد بھی دعا یا معجزات اور الہامات پر نہیں ہے بلکہ سکھ لٹریچر سے ہی ثابت کیا گیا ہے کہ بابا نانک مسلمان تھے۔ تو ‘‘مسیح ہندوستان میں’’ یا ‘‘ست بچن’’ میں جو باتیں ثابت کی گئی ہیں ان باتوں کے ثابت کرنے سے آپ کی یہی غرض تھی کہ آپ جانتے تھے کہ ایک طبقہ بنی نوع انسان کا ایسا بھی ہے جو دعا اور معجزات وغیرہ سے فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ اُن علوم کے ذریعہ قائل ہونا چاہتا ہے جس کو وہ علوم سمجھتا ہے۔
پس ہمارے لئے ضروری ہو گا کہ ہم اس قسم کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے لوگ پیدا کریں اور اُن کو اِس کام کے لئے وقف کریں کہ وہ لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھیں اور معلومات جمع کرکے مدوّن صورت میں مبلغوں کو دیں تا وہ انہیں استعمال کریں۔ اسی طرح وہ اہم مسائل کے متعلق تصنیفات تیار کریں۔ اگر ان لوگوں کی رہائش اور گزارہ کے لئے دو لاکھ روپیہ وقف کریں تو یہ اٹھارہ لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ پھر ان کی کتب کو شائع کرنے کے لئے ایک مطبع کی ضرورت ہے جس کے لئے ادنیٰ اندازہ دو لاکھ کا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ لاکھ روپیہ اندازًا اس بات کے لئے چاہئے کہ جو تصنیفات وہ تیار کریں اُن کو شائع کیا جائے۔ اور پھر ایسا انتظام کیا جائے کہ نفع کے ساتھ وہ سرمایہ واپس آتا جائے اور دار المصنفین کا گزارہ اس کی آمد پر ہو۔ یہ وہ صحیح طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم علمی دنیا میں ہیجان پیدا کر سکتے ہیں اور اس کام کے لئے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ اِس وقت مَیں تحریک نہیں کر رہا میں صرف باہر کے لوگوں کو بتا رہا ہوں کہ یہ ایک بڑا وسیع میدان ہمارے سامنے ہے جس کی طرف ہم نے آہستہ آہستہ قدم اٹھاناہے۔ اس لئے جماعت کا کوئی فرد یہ خیال نہ کرے کہ جو لوگ ہال کے چندہ میں نہیں آ سکے اُن پر کوئی ذمہ واری نہیں یا ان کے لئے ثواب حاصل کرنے کا کوئی موقع نہیں۔ ابھی ثواب کا موقع پڑا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آٹھ لاکھ روپیہ تو ہال کی ادنیٰ سے ادنیٰ عمارت کے لئے چاہیے۔ اس لئے بیرونی دوستوں کے لئے بھی بڑا موقع ہے کہ وہ بڑھ بڑھ کر حصہ لیں اور ثواب حاصل کریں۔ ابھی پانچ سال کا عرصہ پڑا ہے۔ خدا نے چاہا تو اِس عرصہ میں جماعت بھی بڑھ جائے گی اور اموال بھی بڑھ جائیں گے۔ اگر خداتعالیٰ کامنشاء ہو تو پانچ سال میں اوراگر خدا تعالیٰ کا منشاء اِس کو لمباکرنے کا ہو تو اِس سے زیادہ عرصہ میں ہم اس پچیس لاکھ روپیہ والی سکیم کو مکمل کر سکتے ہیں۔ ورنہ خالی زمین میں کرسیاں بچھا دینے سے دنیا ہنسے گی کہ تم نے آٹھ لاکھ روپیہ یونہی خرچ کر دیا۔ پس ہم آٹھ لاکھ روپیہ کویونہی خرچ کرنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے ساتھ سترہ لاکھ روپیہ اَورلگانا چاہتے ہیں تاکہ اس کے ساتھ ہم ساری دنیا کو ہلِا سکیں اور علمی دنیا میں ہیجان پیدا کر سکیں۔ اور چین، جاپان، فرانس، اٹلی، سپین، جرمنی، روس، امریکہ، انگلستان، شام، فلسطین، ترکی ، ایران، افغانستان کے لوگوں کو یہ کتابیں پڑھ کر خود بخود تحریک ہو کہ اس جلسہ گاہ میں چل کر ان کتابوں کے لکھنے والے لوگوں کے خیالات اور اسلام کی خوبیاں اپنے کانوں سے سنیں۔ پس ہم نے ایک لاکھ آدمی کے لئے ہال بنا کر اس کو غیرمذاہب کے آدمیوں سے بھر دینے کا سامان نہیں کرنا ورنہ اس ہال کی ایک ایک اینٹ ہم کو بد دعائیں دے گی کہ ہال بنا کر بغیر کام کے اسے خالی چھوڑ دیا۔ پس یہ مت سمجھو کہ ہم نے صرف یہ ہال بنانا ہے۔ بلکہ ہم نے اس ہال کو غیر قوموں اور غیر مذاہب کے لوگوں سے پُر کرنے کے سامان بھی کرنے ہیں۔ اور ایک ایسا علمی میدانِ جنگ تیار کرنا ہےجس کے ذریعہ سے دنیا کی چاروں اطراف سے لوگ کھنچے چلے آئیں اور اس ہال میں بیٹھ کر ہماری باتیں سنیں۔ پس ہم نے صرف ہال ہی نہیں بنانا بلکہ ہال کو آباد کرنے کے سامان بھی مہیا کرنے ہیں۔ لوگ کہیں گے کہاں سے؟ اور کس طرح؟ میں کہتا ہوں جس طرح ہمارے تمام کام پہلے ہوئے اُسی طرح انشاء اللہ یہ بھی ہو گا۔ دنیا باتیں بناتی ہی رہے گی اور ہم اپنے کام کرتے ہی چلے جائیں گے۔ ’’ (الفضل مورخہ یکم مئی 1945ء)
1: ایمفی تھیٹر: (Amphitheatre)(قدیم رومی) مُدوَّر تماشہ گاہ
2: گَیلیاں: گَیلی کی جمع: تنے کی کاٹی ہوئی گول لکڑی جس سے شہتیر نکلتے ہیں۔
3: ڈریوڈینز: (Dravidians)(i) جنوبی ہندوستان اور سری لنکا کے قدیم باشندوں کی زبان
(ii)آسٹریلیا کے ابتدائی سیاہ فام باشندوں کی زبان
14
آئندہ کے حالات کےمتعلق چند رؤیا
(فرمودہ 27 ؍اپریل1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بعض باتیں بتائی جاتی ہیں اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان اس سے فائدہ اٹھائے۔ لیکن بعض دفعہ لوگ ان باتوں کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کرتے یا پوری طرح ذہن اس طرف نہیں جاتا پھر وہ وقت آنے پر تکلیف اٹھاتے ہیں۔ ان دنوں مَیں دیکھتا ہوں کہ کپڑے کی تکلیف لوگوں کے لئے بہت بڑھ رہی ہے۔ یہاں قادیان میں تو شاید لوگوں کو صبر کی عادت پید اہو چکی ہے اس لئے یہاں اتنا شور اور واویلا نہیں۔ لیکن بیرونجات میں کپڑے کے متعلق اِس قدر تکلیف پیدا ہو چکی ہے کہ بعض جگہ پر گورنمنٹ کے افسروں نے تسلیم کیا ہے کہ مُردے بغیر کفن کے دفن کئے گئے ہیں۔ گورنمنٹ اپنے کنٹرول کے ماتحت بہت کچھ انتطام تو کرتی ہے اور وہ انتظام ایک حد تک سہولت کا موجب بھی ہوتا ہے لیکن جب کوئی چیز استعمال کرنے والوں سے کم ہوجائے تو پھر مشکلات کا بڑھنا ایک قدرتی امر ہے۔
بنگال کے متعلق خبریں شائع ہوئی ہیں کہ کپڑے کی دِقّت کی وجہ سے بعض عورتوں نے خودکشی کر لی کیونکہ ان کے پہلے کپڑے پھٹ گئے اور ستر ڈھانکنے کے لئے اَور کپڑے میسر نہیں آسکے۔ اور بعض گھرانوں کے متعلق یہ اطلاعات شائع ہوئی ہیں کہ آٹھ آٹھ دس دس افراد کے پاس ایک ہی چادر ہے۔ باری باری جو باہر جاتا ہے اُسے اوڑھ لیتا ہے اور باقی افراد کو گھر میں ننگا ہی بیٹھنا پڑتا ہے۔ اور بنگال کے بعض گھرانوں کے متعلق یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ ان کی عورتیں سال سال بھر سے گھر سے باہرنہیں نکلیں۔ کیونکہ ان کے پاس کپڑے نہیں جنہیں پہن کر وہ باہرجا سکیں۔ ان حالات کے پیدا ہونےسے پہلے اللہ تعالیٰ نے مجھے ان حالات کی خبر دے دی تھی جو میں نے متفرق مواقع پر جماعت کے سامنے بیان کر دی تھی۔ ایک موقع پر تو ایک دوست نے بتایا ہے کہ جب سلطان محمود صاحب کی شادی ہوئی اور ان کے ولیمہ کی دعوت مدرسہ احمدیہ میں ہوئی تو اُس موقع پر میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہر گھر میں چرخے رکھے جائیں اور وہ سُوت کات کر اس کے کپڑے بنوا کر پہنا کریں۔ یہ واقعہ1943ء کا ہے۔ اِسی طرح 1942ء یا 1943ء کے جلسہ کے موقع پر بھی میں نے اپنا رؤیا تمام دوستوں کے سامنے سنا دیا تھا کہ میں نے دیکھا کہ میں نے کھدر کی قمیص پہنی ہوئی ہے اور رؤیا میں مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کھدر کی قمیص پہننا کسی کانگرسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے۔ اور اُس وقت میں نے دوستوں کو اِس طرف توجہ دلائی تھی کہ کپڑ ابہت کم ہونے والا ہےجہاں تک ہو سکے گھروں میں سُوت کاتنے اور کپڑا بنوانے کا کام کیا جائے تاکہ اگر خود تمہارے لئے دقّت نہ ہو تو تمہارا بچا ہوا دوسرے غریبوں کے کام آسکے۔ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی توفیق دی ہوئی ہے کہ وہ جس قیمت پر بھی چیز میسر آسکے خرید لیتے ہیں۔ چنانچہ ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر ایسا فضل ہوا ہے کہ جو چیز ہم جنگ سے پہلے استعمال نہیں کر سکتے تھے اب اُس کو استعمال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی حالانکہ قیمتیں پہلے سے بہت بڑھ چکی ہیں تو بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کو جنگ کے حالات کی وجہ سے سہولت میسر آگئی ہے اور خداتعالیٰ نے اُن کے روپیہ میں فراوانی بخش دی ہے۔ مگر بہت سا طبقہ ملک کا ایسا بھی ہے جس کی حالت اس قسم کی نہیں کہ وہ ہر قیمت پر کپڑے خرید کر استعمال کر سکے۔
پس جہاں میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا اظہار کرتا ہوں کہ اس نے قبل از وقت اپنے فضل سے اس غیب کی خبر سے مجھے اطلاع دے دی کہ کپڑے کا فقدان ملک میں ہونے والا ہے وہاں میں جماعت کا شکوہ تو نہیں کرتا لیکن افسوس ضرور ہے کہ اس خواب سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ شکوہ میں اِس لئے نہیں کرتا کہ خود میرا ذہن بھی اس قسم کی کمی کی طرف نہیں گیا تھا کہ کپڑے کی دِقّت اِس قسم کی ہونے والی ہے کہ بعض علاقوں میں مُردے بغیر کفن کے دفن کئے جائیں گے۔ بہرحال میں نے جماعت کو توجہ دلا دی تھی اور میں نے اپنے گھروں میں بھی کہا تھا کہ چرخے منگوا کر رکھواور سُوت کات کر کپڑا بنوایا کرو۔ تاکہ اگر تمہیں دقّت پیش نہ آئے تو کم از کم غرباء کے لئے ہی کپڑا مہیا کر سکو۔ لیکن میں افسوس سے کہتا ہوں کہ ہمارے گھر میں بھی پوری طرح اس پر عمل نہیں کیا گیا گو چرخے تو منگوا لیے مگر سُوت کاتنے کا کام اُس وقت رؤیا کے ماتحت شروع نہیں ہوا بلکہ اب آکر شروع ہوا ہے۔ جب یہ کام رؤیا کے ماتحت نہیں کہلا سکتا بلکہ عملاً کپڑے کی کمی ہو جانےکی وجہ سے ہے۔ چونکہ یہ زمانہ بظاہر ابھی چھ ماہ یا سال دو سال تک ممتد معلوم ہوتاہے اس لئے اب بھی جن کو خداتعالیٰ توفیق دے ان کو چاہیے کہ عورتیں گھروں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے چرخے رکھیں اور سُوت کات کر جلاہوں سے کپڑے بنوا لیں۔
ہمارے علاقہ ضلع گورداسپور میں سُوت کا کپڑا بُننے کا رواج کم ہے۔ حالانکہ ایسی کھڈیاں نکل آئی ہیں جن سے اچھے سے اچھا کپڑا بُنا جا سکتاہے۔ اگر ہمارے کسی دوست کو خداتعالیٰ توفیق دے تو ہمارے ضلع کا سُوت کا کوٹہ جو رائیگاں چلا جاتا ہے یا دوسرے ضلع والے اِس سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں یایہاں کے لوگ دوسرے ضلعوں کے پاس مہنگے بھاؤ فروخت کردیتے ہیں یا لوگوں کی بے پرواہی کی وجہ سے ہمارا ضلع اپنے حق کا مطالبہ ہی نہیں کرتا تو اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی کو توفیق ملے تو یہ بھی اچھی تجارت ہے کہ کپڑا بُننے کی کھڈیاں لگا لی جائیں اور سُوت کا جو کوٹہ ملتا ہے اُس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کر دیا ہؤا ہے کہ ضلع وار سُوت تقسیم کیا جائے۔ میں نہیں جانتا ہمارے ضلع کو کیا ملتا ہے یا ہمارا ضلع لیتا بھی ہے یا نہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ضلع کا حق نامنظور کیا جائے۔ اگر اس قسم کے کارخانے والے زور دیں تو بہرحال پہلے اگر نہیں بھی ملتا تو آئندہ اس ضلع کا حق دینے سے گورنمنٹ انکار نہیں کرے گی۔
انہی دنوں میں میرا ایک رؤیا اَور رنگ میں بھی پورا ہوا ہے۔ اس کا بھی اظہار کر دینا چاہتا ہوں۔ جس وقت امریکہ میں مسٹر روز ویلٹ کا انتخاب ہورہا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ الیکشن ہو رہا ہے اور مسٹر روز ویلٹ کے ساتھ ایک اَور شخص کا نام لیا جا رہا ہے۔ او رجب ووٹ گِنے گئے تو پہلے تو مسٹر روز ویلٹ کے ووٹ زیادہ ہوتے گئے لیکن آخر میں جا کر دوسرے شخص کے ووٹ بڑھ گئے۔ میں نے اِس کی تعبیر یہ بتائی تھی کہ چونکہ میں اِن دنوں یہ دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ امریکہ اور انگلستان کے لوگوں کی توجہات اِس طرف پھیر دے کہ وہ اپنے مفتوح دشمنوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک نہ کریں کیونکہ آئندہ دنیا کا امن اِسی بات پر مبنی ہے کہ قوموں میں صلح اور امن قائم رکھا جائے اور کسی قوم کو سختی سے دبایا نہ جائے۔ اس لئے اس خواب کی تعبیر غالباً یہ نہیں کہ مسٹر ڈیوی جیت جائیں بلکہ یہ ہے کہ ان کی پارٹی کی تجویز کہ جرمنی پر زیادہ سختی نہ کی جائے آخر کامیاب ہو جائے گی۔ چنانچہ ایسے حالات بھی پیدا ہو رہے ہیں اور ایسی رَو چل رہی ہے کہ مختلف ملکوں کےمختلف افراد اِس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ رؤیا اِس رنگ میں بھی پورا ہوا کہ مسٹر روز ویلٹ بر سر اقتدار آنے کے بعد جنوری 1945ء میں اپنے نئے عُہدہ پر بیٹھے اور اپریل 1945ء کے شروع میں فوت ہو گئے۔ اور خدا تعالیٰ نے اس رؤیا کو اِس رنگ میں بھی پورا کر دیا کہ دوسرا شخص اُن کی جگہ پریذیڈنٹ بن گیا۔ گو وہ مسٹر ٹرومین ہیں مسٹر ڈیو ی نہیں۔
عجیب بات ہے میں لاہور میں تھا جب یہ خبر آئی۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے مجھے یہ خبر سنائی تھی۔نماز کے بعد اس کے متعلق باتیں شروع ہوئیں تو ایک نوجوان جو واقف زندگی ہیں اور فورمین کرسچن کالج میں پڑھتے ہیں انہوں نے ذکر کیا کہ میں نےیہ ڈائری جس میں آپ کا یہ رؤیا شائع ہو ابعض لڑکوں کو پڑھنے کے لئے دی تھی اور جب مسٹر روز ویلٹ پریذیڈنٹ ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ خواب تو غلط نکلا۔ میں نے کہا ساتھ ہی اس کی تعبیر بھی بتائی ہوئی ہے اس کی طرف کیوں توجہ نہیں کرتے صرف ظاہر کی طرف کیوں جاتے ہو۔ خواب بین نے بتایا ہے کہ دعا وہ ایک اَور امر کے لئے کر رہا تھا اُس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ظاہر کی طرف اشارہ معلوم نہیں ہوتا۔ اس پر اُن میں سے ایک نوجوان نے کہا میں یہ نہیں مانتا۔ اب اگر خواب پورا کرنا ہے تو روز ویلٹ کو مار دو۔ گویا اس کے لئے خواب کو پورا کرنے کی ایک ہی صورت تھی کہ مسٹر روز ویلٹ فوت ہو جائے۔ اور یہ عجیب بات تھی کہ اُس کے منہ سے ایسا لفظ نکلا جو قدرت کی طرف سے ایک دوسرے رنگ میں خواب کو پورا کرنے کا ذریعہ بننے والا تھا۔
اِسی تسلسل میں مجھے اپنا ایک رؤیا یاد آ گیا جو 1941ء کے شروع کا ہے۔ مجلس شوریٰ کے موقع پر دوسرے دن شام کو باہر سیر کرتے وقت میں نے یہ رؤیا چودھری ظفراللہ خان صاحب کو سنا دیا تھا اور اُمِّ طاہر مرحومہ کو بھی سنایا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ خواب مجھے بُھول گیا۔ ایک دن ٹہلتے ٹہلتے مجھے اس کا خیال آیا اور اس پرمیں نے سوچنا شروع کیا کہ وہ خواب کیا تھا۔ میں نے اُمِّ طاہر مرحومہ سے کہا کہ مجھے ایک خواب بُھول گیا ہے اِس وقت وہ ذہن میں نہیں آتا وہ اہم خواب تھا۔ انہوں نے کہا ایک خواب آپ نے مجھے بھی سنایا تھا وہی تو نہیں۔ پھر انہوں نے وہ خواب سنایا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ آپ نے مجھے خواب سناتے وقت یہ بتایا تھا کہ یہ خواب آپ نے چودھری ظفراللہ خانصاحب کو بھی سنایا تھا۔ وہ خواب بھی آئندہ کے حالات کی طرف اشارہ کرتا ہؤا معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ترکوں کے علاقہ میں ہوں اور ایک بڑی بھاری عمارت ہے اس میں ٹھہرا ہؤا ہوں۔ کسی نے میری دعوت کی ہے اور میں اُس دعوت میں گیا ہوں۔ جب میں دعوت سے واپس آیا تو اس وقت مَیں اکیلا ہوں۔ ساتھ والے دوست جو ہیں اُن میں سے کوئی بھی اُس وقت ساتھ معلوم نہیں ہوتا۔ عمارت جس میں ہم ٹھہرے ہوئے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ صرف اُمِّ طاہر مرحومہ میرے ساتھ ہیں اور وہ اوپر کے کمرے میں سو رہی ہیں۔ جب میں اس عمارت کے پہلے کمرے میں داخل ہوا ہوں تو مجھے پیچھے سے آہٹ سنائی دی اورمجھے شبہ ہوا کہ کوئی شخص کمرے کے اندر آنا چاہتا ہے۔ میں نے روشندان میں سے باہر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ایک شخص فوجی وردی پہنے ہوئے کمرے کے اندر جھانک رہا ہے۔ میں نے کھڑکی کے پاس سے آکر باہر کی طرف جھانکا تو مجھے معلوم ہؤا کہ چند فوجی افسر باہر کھڑے آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور ان کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حملہ کر کے عمارت کے اندر گھس جائیں۔ پہرے دار اور دوسرے ساتھی اُس وقت تک نہیں پہنچے ۔ میں نے جلدی جلدی اوپر چڑھنا شروع کر دیا تا کہ اُمِّ طاہر کو بیدار کر دوں۔ بہت اونچا جا کر عمارت ایسی ہے کہ ایک طرف شیڈ(Shed) سا بنا ہوا ہے اور ساتھ صحن ہے۔ وہاں اُمِّ طاہر سو رہی ہیں اور ایک بچہ ان کے پاس سو رہا ہے۔ میں نے جس وقت یہ خواب دیکھا 1940ء کی بات ہے۔ اُس وقت ہماری لڑکی امۃ الجمیل ساڑھے تین سال کی تھی تو میں نے دیکھا کہ اُمِّ طاہر وہاں سو رہی ہیں اور ان کے ساتھ ایک بچہ سو رہا ہے۔ میں نے اُمِّ طاہر کو جگانا شروع کیا لیکن وہ میرے جگانے پر جلدی نہ اٹھیں۔ میں کہتا ہوں کہ خطرہ ہے اٹھو اور بچہ کو لے لو مگر انہوں نے اٹھنے میں دیر کی تو میں نے وہ بچہ اٹھا لیا۔ اُس وقت وہ بچہ لڑکا بن گیا ممکن ہے اللہ تعالیٰ اُمِّ طاہر مرحومہ کی بچیوں یا بچوں کو مبارک لڑکا دے یا امۃ الجمیل جو لڑکے کی صورت میں دکھائی گئی ہے ممکن ہے جیسےحضرت مریم علیہا السلام کے متعلق آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہی مردوں کے کام کی توفیق دے دے۔ بہرحال میں نے بچہ کو اٹھا لیا اور میں نے کہا لو میں بچہ لے کر چلتا ہوں تم جلدی جلدی میرے پیچھے آؤ۔ وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مٹی ڈال کر کسی اونچی جگہ پر رستہ بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے پہاڑوں پر مکان ہوتے ہیں اور ایک منزل نیچے اور ایک اوپر ہوتی ہے اور اوپر کی منزل کےساتھ بھی گو وہ اونچی ہوتی ہے پہاڑ پر رستہ مل جاتا ہے۔ اِسی طرح اس مکان کی بھی دوسری یا تیسری منزل ہے اور وہاں سے بھی ایک سڑک نیچے کی طرف جاتی ہے۔ اُس پر میں تیز تیز چلتا ہوں اور پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا جاتا ہوں اور اُمِّ طاہر کو اشارہ کرتا چلا جاتا ہوں کہ جلدی جلدی چلو۔ دور جانے کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ جھونپڑیاں ہیں جن کی پھوس کی دیواریں اور پھوس کی چھتیں ہیں۔ وہاں ایک کٹہرے کے ساتھ جو سڑک پر بنا ہوا ہے مجھے ایک عورت نظر آئی۔ میں نے اسے کہا کہ کیا یہاں کوئی ٹھہرنے کی جگہ مل سکتی ہے؟ اُس نے کہاہاں مل سکتی ہے۔ اتنے میں اُمِ طاہر بھی قریب آگئیں اور میں نے اُس عورت سے کہا کہ بتاؤ کونسی جگہ ہے؟ وہ ہمیں گاؤں میں لےگئی۔ جیسے گاؤں میں جگہیں ہوتی ہیں کہیں اُپلے پڑے ہیں اور کہیں کوڑا کرکٹ پڑا ہے۔ ایسی جگہوں سے چلتے چلتے ایک چھوٹی سی پھوس کی دیواروں والی جھونپڑی آئی۔ وہ ہمیں وہاں لے گئی۔ کچھ لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ میں نے ان سے حالات پوچھنے شروع کئے۔ حالات پوچھتے ہوئے مذہب کی باتیں شروع ہو گئیں۔ اُس وقت میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ تو ان میں سے ایک مرد پہلے تو ہچکچاتا ہے۔ اس کے بعد اُس نے کہا کہ ہم ایک نئے مذہب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے کہا وہ کونسا فرقہ ہے؟ تو پھر وہ ایسے رنگ میں جیسے کوئی شخص خیال کرتا ہے کہ مخاطب اس کے متعلق نہیں جانتا اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ اس کو بتانا فضول ہے کہتا ہے کہ ہندوستان کا ایک فرقہ ہے۔ میں نے کہا ہندوستان کا کونسا فرقہ ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستان میں ایک شخص نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے ہم اسکے مرید ہیں۔ پھر وہ کچھ خلافت کا بھی ذکر کرتاہے کہ وہاں ہمارا خلیفہ ہے۔ مجھے اس پر خواب میں خوشی ہوتی ہے اور میں اسے بتانا چاہتا ہوں کہ جس کے متعلق تم کہتے ہو وہ خلیفہ مَیں ہی ہوں۔ وہ میری بات فورًا سمجھ کر اشارہ کرتا ہے کہ آپ بولیں نہیں۔ اوراس کے بعد اُس نے الگ یا کان میں مجھے بتایا کہ ہم چند لوگ احمدی ہیں اور باقی لوگ دہریہ ہیں۔ میں پوچھتا ہوں یہ کونسا علاقہ ہے؟ تو وہ کہتا ہے یہ روس کا علاقہ ہے۔ اور کہتا ہے کہ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان لوگوں کو آپ کا پتہ لگ جائے۔ اسکے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ رؤیا بھی اس امر کی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو روس میں احمدیت کی تبلیغ کے ذرائع کھول دے۔ ممکن ہے ترکی کے علاقہ کی طرف سے یا ایران کے علاقہ کی طرف سے اللہ تعالیٰ روس میں تبلیغ اسلام کا رستہ کھول دے۔
آخرمیں مَیں اپنا ایک تازہ رؤیا جو اہم ہے اور جس کا بیان کرنا میرا اصل مقصود تھا اسے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ میں قادیان کے شمال مشرق کی طرف ہوں کچھ اور لوگ بھی میرے ساتھ ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ساتھ ہیں۔ میں نے وہاں بڑی بڑی عمارتیں دیکھی ہیں جیسے پرانے زمانہ کے محلات ہوتے تھے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ گویا پرانے زمانہ کا نقشہ میرے سامنے آگیا ہے جو ہمارے باپ دادا کے زمانہ میں تھا۔ اُس وقت جبکہ قادیان کی ریاست تباہ نہیں ہوئی تھی اور ہمارے باپ دادا برسرِاقتدار تھے وہ نقشہ میرے سامنے ہے۔ ان گھروں کے رہنے والوں کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ہمارے جدّی رشتہ دار ہیں۔ اُس وقت مجھے کسی نے بتایا کہ ان لوگوں نے ہمارے پڑدادا کو پیغام دیا ہے کہ آپ پوری طرح کفار کا مقابلہ نہیں کرتے۔ اگر یہ غفلت جاری رہی تو اس کے نتیجہ میں ریاست جاتی رہے گی اس لئے ہم خود ریاست پر قبضہ کر لیں گے تاکہ ہم دشمن کا مقابلہ کریں اور وہ ہم پر غالب نہ آجائے۔ ممکن ہے ہمارے کسی پڑدادا کے زمانہ میں جب ریاست میں کمزوری پیدا ہوئی ہو کسی رشتہ دار نے ایسا کہا بھی ہو۔ بہرحال یہ بات میں نے پرانے زمانہ کے متعلق وہاں سنی ہے۔ پھر میں وہاں سے چل پڑا۔ اُس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دشمن ہمارے نقصان کی فکر میں ہے۔ میں آگے آگے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میرے پیچھے پیچھے ہیں اور آپ کے پیچھے جماعت کے لوگ ہیں۔
یہ خواب کا نقشہ ایسا ہی ہے جیسے شیخ احمد صاحب سرہندی نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں آگے آگے ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے پیچھے ہیں۔ جب انہوں نے اپنا یہ خواب لوگوں کے سامنے بیان کیا تو جہانگیر کے پاس اُس کی شکایت ہوئی اور اس نے سرہندی صاحب کو گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا کہ یہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہتک کرتاہے۔ لیکن آخر اللہ تعالیٰ نے اُس کو توجہ دلائی اور اس نے سید صاحب سے پوچھاکہ اس خواب کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جرنیل ہمیشہ بادشاہ کے آگے ہی چلا کرتا ہے۔ جو جرنیل مقرر ہوتا ہے کیا وہ بادشاہ کو لڑائی میں آگے کیا کرتا ہے یا خود آگے ہو کر لڑا کرتا ہے؟ اسی طرح مجھے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کی حفاظت کے لئے تجھے جرنیل مقرر کیا گیا ہے۔ تو سرہندی صاحب کے خواب کی طرح میں رؤیا میں دیکھتا ہوں کہ میں آگے ہوں میرے پیچھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور آپ کے پیچھے جماعت کےا فراد ہیں۔ چلتے چلتے ایک جگہ ایسی ہے جیسے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے مکانات ہیں۔ ان کے مکانات کے پاس سے ہم مکانات میں جانے کے لئے داخل ہوئے ہیں۔ اس جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چوک تک جانے کے لئے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ کی طرف میں گیا ہوں تو وہ بند ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن نے شرارت کی وجہ سے اسے بند کیا ہے تاکہ ہمیں راستہ نہ ملے اور وہ حملہ کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ جب دیکھا کہ راستہ بند ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فکر کی آواز سے کہا کہ یہ راستہ تو بند ہے۔ اُس وقت میں نے دوسری طرف دیکھ کر کہا یہ راستہ کھلا ہے۔ وہ راستہ اس قسم کا ہے جیسے پرانے زمانہ میں مکانوں کے آگے پردہ کے لئے ایک دیوار بنائی ہوئی ہوتی تھی تاکہ باہر سے مکان کے اندر نظر نہ پڑسکے۔ خواب میں اسی طرح کی ایک دیوار ہے اور اس کے ساتھ راستہ ہے۔ میں اس میں داخل ہو کر پہلے جنوب کی طرف اور پھر مڑ کر مغرب کی طرف گیا ہوں۔ وہاں بھی دروازہ بند معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل وہ بند نہیں بلکہ کھلا ہے۔ اور جس طرح سپرنگ والا دروازہ ہوتا ہے کہ کھولیں تو کھل جاتا ہے اور چھوڑ دیں تو آپ ہی آپ بند ہو جاتا ہے اس قسم کا وہ دروازہ ہے۔ میں نے اُس کو سوٹی سے دھکّا دیا تو وہ کھل گیا۔ اس میں سے گزر کر ہم چوک میں آگئے ہیں۔ چوک میں ایک کمرہ ہے جو بہت وسیع ہے اور اس میں بیس پچیس کے قریب چارپائیاں آسکتی ہیں اور کچھ چارپائیاں وہاں بچھی ہوئی بھی ہیں۔ ان میں سے دو چارپائیاں شمالاً جنوباً بچھی ہوئی ہیں اور باقی شرقاً غرباً بچھی ہوئی ہیں۔ جو چارپائیاں شمالاً جنوباً بچھی ہوئی ہیں اُن کی پائینتی کی طرف دوسری چارپائیاں ہیں جو شرقاً غرباً بچھی ہوئی ہیں۔ ان دو میں سے ایک پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیٹھ گئے ہیں اور ایک پر مَیں بیٹھ گیا ہوں اور باقی جماعت کے افراد دوسری چارپائیوں پر بیٹھ گئے ہیں جو شرقاً غرباً بچھی ہوئی ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے چارپائی پر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر جہاں تک یاد پڑتا ہے کھڑے ہو کر بڑے جوش سے تقریر شروع کی۔ تقریر میں مَیں نے ایک خاص بات بتائی ہے جس کا اظہار خطبہ میں کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں نے جماعت کے جن دوستوں کو بتانا مناسب سمجھا تھا اُن کو بُلا کر اُسی دن وہ بات بتا دی تھی۔ بہرحال میں نے ایک چیز کی طرف توجہ دلائی ہے جو جماعت کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور بار بار میں اُس کی اہمیت بیان کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر تم یہ کام نہیں کرو گے تو احمدیت کو نقصان پہنچے گا اور آئندہ اس نقصان کا مٹانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ دیکھو سب کے سب لوگ اس مقصد کو اپنے سامنے رکھ لو اور اس کو سامنے رکھ کر کام کرو۔ اُس وقت میں جوش میں آکر یہ آیت پڑھتا ہوں کہ دیکھو خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ 1 کہ اس مقصد کو سامنے رکھ کر تم جدھر بھی منہ کرو گے وہیں اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہو گا۔ اُس وقت میں نے اس آیت کی ایک ایسی تفسیر بیا ن کی جو جاگتے ہوئے کبھی میرے ذہن میں نہیں آئی۔ میں نے اس آیت کو پڑھنے کے بعد اسے دہرانا شروع کیا اور تُوَلُّوْا کے لفظ پر زور دیا اور جماعت کو توجہ دلائی کہ دیکھو تُوَلُّوْا جمع کا لفظ ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! تم بحیثیت جماعت جدھر بھی پھرو گے اُدھر ہی اللہ تعالیٰ کا منہ ہو گا۔ اور میں کہتا ہوں دیکھو فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر جماعت کا مقصد ایک ہو تو اس ایک مقصد کو سامنے رکھ کر پھر خواہ اس کے افراد مختلف جہات کی طرف جائیں اِن میں تفرقہ پیدا نہیں ہو گا بلکہ وہ بحیثیت قوم کام کرنے والے ہوں گے۔ اور اگر کسی مقصد کے بغیر جماعت ایک طرف بھی چلے تب بھی وہ پراگندہ اور متفرق ہوں گے کیونکہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں۔ جیسے ہمارے جلسہ سالانہ کے موقع پر کسیر جمع کرتے ہیں اب اگر کسیر جمع کرنے کے لئے کوئی مشرق کی طرف چلا جائے اور کوئی مغرب کی طرف چلا جائے اور کوئی شمال کی طرف چلا جائے اور کوئی جنوب کی طرف چلا جائے تو باوجود مختلف جہات کی طرف جانے کے یہ متفرق نہیں ہوں گے بلکہ ایک ہی ہوں گے کیونکہ گو ان کی جہات مختلف ہیں مگر مقصد ایک ہی ہے۔ اور اس متحدہ مقصد کے لئے بظاہر مختلف جہات میں کام کر رہے ہیں مگر خدا کے نزدیک وہ سب ایک ہی ہیں۔ لیکن اگر وہی دس پندرہ یا بیس آدمی اکٹھے مشرق کی طرف جا رہے ہوں مگر ان کے سامنے کوئی بھی مقصد نہ ہو اور کچھ بھی ذہن میں نہ ہو کہ کہاں کیوں اور کس کام کے لئے جا رہے ہیں تو بظاہروہ اکٹھے نظر آئیں گے لیکن حقیقت میں وہ پراگندہ اور متفرق ہوں گے کیونکہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں۔ تو مَیں خواب میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ تم سب کا ایک جہت میں جانا ہی ضروری ہے بلکہ اگر تم مختلف جہات کی طرف ایک ہی مقصد لے کر جاؤ گے تو خداتعالیٰ کے نزدیک تم اکٹھے ہی سمجھے جاؤ گے اور خداتعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا اور تمہیں اپنا چہرہ دکھا دے گا۔ پھر مَیں اس کا م کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہوں کہ یہ کام بظاہر دنیوی نظر آتا ہے لیکن یہ دنیوی نہیں۔ جو بھی اس کا م کو کرے گا جس طرف بھی وہ پھرے گا اور جس جہت کو بھی وہ نکلے گا وہاں وہ خداتعالیٰ کا چہرہ دیکھ لے گا اور خداتعالیٰ اپنے آپ کو اُس پر ظاہر کر دے گا۔ جب میں یہ تفسیر بیان کر رہا ہوں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ خوشی سے چمک رہا ہے۔ اس کے بعد میں بیٹھ گیا اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ میں لیٹ گیا اور میں نے کہا کہ اب دوست چلے جائیں۔ جب میں نے کہا کہ اب دوست چلے جائیں تو کچھ دوست جلدی سے اٹھ کر چل پڑے اور کچھ آہستہ آہستہ اٹھنے لگے اور کچھ بیٹھے رہے۔ اس موقع پر ایک نوجوان کھڑا ہؤا اچھی طرح معلوم نہیں کہ کون ہے یا ناصر احمد ہے یا میر محمد اسحاق صاحب مرحوم ہیں جو اٹھ کر لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ جب کہا گیا ہے کہ چلے جاؤ تو پھر تم کیوں نہیں جاتے؟ اور جو بیٹھے ہیں ان کو اٹھار ہے ہیں۔ اُس وقت میری چارپائی پر دائیں طرف ایک نوجوان بیٹھا ہے جو رشتہ دار معلوم ہوتاہے۔ غالباً دامادوں میں سے کوئی ہے۔ رشتہ پوری طرح ذہن میں نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے گھر کا کوئی فرد ہے۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بات کو دیکھ کر کہ لوگوں نے پوری طرح میری فرمانبرداری نہیں کی چارپائی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اُس نوجوان کے پاس آکر اور اُس کا بازو پکڑکرفرمایا کہ جانا ہے تو جاؤاور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا۔ اُس وقت میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ خیال نہیں کہ اُس نے نافرمانی کی ہے بلکہ آپ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ تعلق کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ میرا پاس رہنا ضروری ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھتے ہیں کہ اگریہ بغیر استثناء کے بیٹھا رہا تو دوسرے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ حکم کا ماننا ضروری نہیں تو آپ یہ بتانے کے لئے اور یہ احساس پیدا کرانے کے لئے کہ حکم کی پوری فرمانبرداری کرنی چاہیے اور اس وسوسہ کو دور کرنے کے لئے جو اُس نوجوان کے بیٹھنے سے لوگوں کےد لوں میں پیدا ہو سکتا ہے اُس نوجوان سے فرماتے ہیں کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا۔ دوسرے میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اس نوجوان نے بیٹھنا ہو اور نکالنے والے اس کو باہر نکال دیں اور اس کی ہتک ہو۔ تو یہ دونوں باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقصود تھیں کہ نکالنے والے اس کو نکالیں نہیں اور اس کے بیٹھے رہنے کی وجہ سے کسی کو ٹھوکربھی نہ لگے۔ اور یہ نہ سمجھا جائے کہ حکم کا ماننا ضروری نہیں کیونکہ یہ نوجوان حکم کے باوجود بیٹھا ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا اُس وقت میری آنکھ کھل گئی۔
اس رؤیا میں ایک اہم بات وہ ہے جس کو میں نے ظاہر نہیں کیا۔ وہ بات سلسلہ کی ترقی کےساتھ تعلق رکھتی ہے۔ میں نے اُس کو اِس لئے ظاہر نہیں کیا کہ اگر ایسی باتیں ظاہر کر دی جائیں تو پھر دشمن بھی مقابلہ میں تیاری شروع کر دیتا ہے اور پھر وہ مقصد حل تو ہو جاتا ہے مگر دقتیں پیش آ جاتی ہیں۔ اس لئے بعض لوگوں کو جن کو بتانا میں نے مناسب سمجھا یا جو اس کام کے اہل تھے اُن کو بلا کر وہ بات میں نے بتا دی تھی۔ بعض اَور لوگ جو میرے نزدیک اس کام کے اہل ہوں گے اُن کو بھی بتا دوں گا۔ گو وہ بات تو معمولی ہے کوئی خاص بات نہیں مگر بہرحال وہ ایسی ہے کہ اگر دشمن کو اُس کا پتہ لگ جائے تو وہ ہمارے کام میں روڑے اٹکا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس بات کے علاوہ بھی اس رؤیا میں بڑے بڑے اہم معاملات بتائے گئے ہیں۔
ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ میرے پیچھے چل رہے ہیں۔ جس میں خداتعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اِس زمانہ میں خداتعالیٰ نے احمدیت کی ترقی کو میرے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ گو یا جدھرمیں ہوں گااُدھر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوں گے اور اُدھر ہی خداتعالیٰ ہو گا۔
دوسرے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے کہنے پر کہ اب دوست چلے جائیں اور جب بعض لوگوں نےسستی دکھائی تو اس پر آپ کا جوش میں آجانا کہ لوگوں نے کیوں فرمانبرداری نہیں کی اور اس جوش میں چارپائی سے اٹھ کر اُس نوجوان کے بازو کو پکڑ کر کہنا کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا بتاتا ہے کہ امام کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کو ماننا بھی ضروری ہے اور جو لوگ اس حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتے ہیں۔
تیسرے اس رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے اَيْنَمَا تُوَلُّوْا کے ماتحت اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جماعت کو چاہیے کہ ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کام کرے۔ اگر جماعت ہمیشہ ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کام کرے گی تو خداتعالیٰ ہماری جماعت کو اپنا چہرہ دکھانے میں بخل نہیں کرے گا۔ لوگ ساری ساری عمر وظیفے کرنے میں گزار دیتے ہیں اور ساری عمر اندھے ہی رہتے ہیں اور اندھے ہی مر جاتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ اگر جماعت ایک مقصد کو سامنے رکھ کر چلے گی اور دین کی ترقی اور شوکت کے لئے کوشش کرے گی تو جدھر بھی وہ منہ کرے گی اور جہاں بھی جائے گی جب یہ وہاں پہنچے گی تو دیکھے گی کہ اللہ تعالیٰ اس کے انتظار میں پہلے سے وہاں کھڑا ہے۔
پس اس رؤیا میں بشارتوں والی کئی شِقیں ہیں۔ خداتعالیٰ ہماری جماعت کو اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جن لوگوں پر میں نے اس بات کا اظہار کیا ہے خداتعالیٰ اُن کو توفیق دے کہ وہ اپنا فرض سمجھیں۔ اور دوسرے حصہ کو بھی جس پر میں نے یہ بات ظاہر نہیں کی عمدگی سےاس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ اور بار بار اور ہر جگہ پر عمدگی سے اپنی چہرہ نمائی فرمائے تاکہ ہم اگلے جہان میں اُس کا چہرہ دیکھنے کے انتظار میں نہ رہیں بلکہ اِسی دنیا میں ہمیں اُس کا چہرہ نظر آجائے۔ آمین۔ ’’ (الفضل مورخہ 7 مئی 1945ء)
1: البقرۃ:116
15
آئندہ نسلوں میں قربانی، محنت، اور بروقت کام کرنے کی روح کس طرح پیدا کی جائے
(فرمودہ 4مئی 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘تین دن کی بات ہے ڈلہوزی میں مَیں نے ایک رؤیا دیکھا کہ کوئی شخص ماریسن نامی انگریز ہیں وہ کہتے ہیں کہ چالیس سال کے عرصہ تک کانگڑہ کے ضلع میں میرے جیسا اور عقلمند آدمی پیدا نہیں ہوگا یا شاید یہ کہا ہے کہ پایانہیں جائے گا۔ میں اُس وقت رؤیا میں سمجھتا ہوں کہ ماریسن سے وہ وزیر مراد ہے جو لیبر پارٹی کی طرف سے وزارت میں شامل ہیں۔ یہ فقرہ سن کر میرے دل میں فوراً یہ بات گزری کہ ‘‘انشاء اللہ’’ انہوں نے نہیں کہا۔ اگر یہ ‘‘انشاء اللہ’’ کہہ لیتے تو اچھا تھا۔ پھر ساتھ ہی میرے دل میں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کانگڑے کے ساتھ ان کا کیا تعلق ہے۔ کانگڑہ ہندوستان کا علاقہ ہے اور یہ انگلستان کے رہنے والے ہیں۔ اس سوال کے پیدا ہوتے ہی میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ کانگڑے کا لفظ استعارۃً انگلستان کے لئے بولا گیا ہے۔ اور کانگڑے میں چونکہ آتش فشاں پہاڑ ہیں اس لفظ میں انگلستان کی آئندہ حالت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ انگلستان میں بھی بہت کچھ ردّ و بدل اور اُتار چڑھاؤ کا زمانہ آرہا ہے اور جس طرح آتش فشاں علاقے میں زلزلے آتے رہتے ہیں اِسی طرح انگلستان میں بھی سیاسی اور اقتصادی اُتار چڑھاؤ رونما ہونے والے ہیں۔ اور مسٹر ماریسن کے قول کا مطلب یہ معلوم ہوتاہے کہ ایسے تغیرات اور فساد کے وقت مَیں سب سے اچھا کام کرنے والا ثابت ہوں گا۔
اس رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ جو بظاہر اب ختم ہو رہی ہے اس کو ختم نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ اس جنگ کے نتائج میں بعض اَور ایسی باتیں پیدا ہونے والی ہیں جن کی وجہ سے شورش اور جھگڑے، اختلافات اور مناقشات کا سلسلہ جاری ہو جائے گا۔ اور نہ صرف یہ کہ یہ جھگڑے اور فسادات جیسا کہ پہلی بعض رؤیا میں بتایا جا چکا ہے انگلستان سے باہر رونما ہوں گے بلکہ خود انگلستان میں بھی مناقشات اور اختلافات کا دروازہ زیادہ وسیع ہو جائے گا۔ اور انگلستان کانگڑے کے علاقہ کی طرح ایک آتش فشاں مادہ رکھنے والا ملک ثابت ہوگا۔ مگر ساتھ ہی اِس میں اِس بات کی خبر معلوم ہوتی ہے کہ انگلستان ان جھگڑوں اور فسادات کے نتیجہ میں تباہ نہیں ہو گا کیونکہ رؤیا میں ایک شخص کی زبانی یہ کہا گیا ہے کہ میرے جیسا دانا اور سمجھ دار آدمی اتنے سالوں میں کوئی نہیں ہو گا۔ ایسا فقرہ وہی کہا کرتاہے جو ان مناقشات اور فسادات کو کم کرنے یا دور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ لیبر پارٹی کی وجہ سے جن خطرات کا امکان پایا جاتا ہے وہ خطرات مسٹر ماریسن کے اثر کے نتیجہ میں دور ہو جائیں یا کم ہو جائیں یا ممکن ہے کہ مسٹر ماریسن اپنی پارٹی کو بدل کر کسی اَور پارٹی میں شامل ہو جائیں اور ان کو ایسا کام کرنے کا موقع مل جائے۔ بعض دفعہ ناموں کی تعبیر بھی ہوتی ہے۔ ممکن ہے اس نام کی بھی تعبیر ہو۔ مجھے اِس وقت اِس نام کے معنے معلوم نہیں۔ اور اگر ظاہر مراد ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ مسٹر ماریسن کو کوئی بڑا کام کرنے کا موقع ملے گا۔
میں اس سے پہلے مسٹر ماریسن کے متعلق ذاتی طور پر کوئی واقفیت نہیں رکھتا۔ مجھے ان کے متعلق بہت ہی کم ذاتی واقفیت ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اخباری لحاظ سے بھی مسٹر ماریسن کے متعلق کوئی ایسی معلومات حاصل نہیں جن کی وجہ سے ان سے کوئی لگاؤ ہو۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ خوابیں دماغی خیالات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اگر ایسا ہوتاتو میری خواب میں ان لوگوں میں سے کسی کا نام آنا چاہیے تھا جن کےسا تھ ہمارے ذاتی تعلقات رہے ہیں یا جو سیاسی لحا ظ سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں یا جن سے ہماری جماعت کو کام پڑے ہیں۔ اگر اس بناء پر کوئی نام آتا تو سیاسی لحاظ سے مسٹر چرچل(Mr.Churchill)کا نام آنا چاہیے تھا یا ہندوستان کے تعلقات کے لحاظ سے مسٹر ایمری کا نام آنا چاہیے تھا۔ یا پرانے تعلقات کے لحاظ سے ارل ونٹرسن، سرٹیلر Sir Taylor) (یا لارڈ ہیلی فیکس(Lord Halifax) کا نام آنا چاہئے تھا۔ یا کشمیر کے معاملہ کے وقت کے میل جول کے لحاظ سے لارڈ ٹسپٹن کا نام آنا چاہئے تھا جو پہلے سموئیل ہوم(Samuel Holme) کہلاتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے بعض کے ساتھ ہمارے تعلقات جماعتی طور پر رہے ہیں اور ہم نے ان سے کوئی کام لیا ہے۔ اور بعض وہ ہیں جن سے چودھری ظفراللہ خان صاحب کو ملنے کا موقع ملا ہے۔ یا بعض لوگ ایسے ہیں جن سے براہِ راست ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن سیاسی لحاظ سے وہ انگلستان کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔
پس یہ الٰہی خواب ہونے کا ایک نشان اور ثبوت ہے کہ ایسے شخص کے متعلق خبر دی گئی ہے جن کے ساتھ گزشتہ زمانہ میں ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا اور عقل باور نہیں کر سکتی کہ ایسے شخص کو چننے کی دماغ کوئی خاص مناسبت رکھتا تھا۔ دماغ تو ایسے ہی آدمیوں کو چُن سکتا ہے جن کے ساتھ سابق میں کوئی تعلق رہا ہو۔ لیکن ایسا شخص جس کے ساتھ نہ ہمارے دوستوں کا کوئی تعلق ہے نہ ہی ہمارا اس سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی اس نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس کی وجہ سے وہ نمایاں حیثیت سے آگے آیا ہو اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔ اس کا نام بتایا جانا اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ یہ خواب دماغی نہیں بلکہ خدائی ہے۔
اِس کے بعد میں آج کے خطبہ کا مضمون لیتا ہوں۔ میں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ قومیں اگلی نسل سے بنا کرتی ہیں کوئی قوم اپنی زندگی کا اعتبار نہیں کر سکتی۔ اگر اس کی اگلی نسل کارآمد، نیک اور محنتی نہ ہو۔ جب کبھی قوم پر زوال آتا ہے تو آئندہ نسلوں سے آتا ہے اور جب بھی ترقی ہوتی ہے تو وہ بھی آئندہ نسلوں سے ہوتی ہے۔ دوام بخشنے والی چیز اولاد ہی ہے۔ اگر اولاد انسان کو حاصل ہوتی ہے تو اُس خاندان کا نام رہتا ہے اور اگر اچھی اولاد حاصل ہوتی ہے تو اس کے مذہب اور اس کی قوم کا نام رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو انسان کے اندر اولاد کی خواہش رکھی ہے یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو دوام بخشنا چاہتا ہے۔ ہر ماں اور ہر باپ ایک لڑکے یا لڑکی کی جستجو میں رہتے ہیں۔ جن گھروں میں اولاد نہیں ہوتی باپ بھی اور مائیں بھی سخت غمزدہ ہوتی ہیں۔ کبھی طبیبوں سے علاج کراتے ہیں، کبھی دائیوں سے
مشورے لیتے ہیں، کبھی دعائیں کرتے اور دعائیں کراتے ہیں کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں،اولاد ہو جائے۔ حالانکہ اولاد کیا فائدہ پہنچاتی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ ہزاروں ہزار انسان دنیا میں ایسے ہیں پچاس ساٹھ یا ستر فیصدی نہیں بلکہ نوے فیصدی لوگ ایسےہیں جنہوں نے اپنی اولاد سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اگر تو نوے فیصدی لوگ ایسے ہوتے کہ ان کی اولاد انہیں فائدہ پہنچاتی اور اُن کی خبر گیری کرتی تو ہم سمجھتے کہ اولاد کی خواہش انسان کے اندر اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اولاد سے فائدہ اٹھائے مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ اِدھر اولاد جوان ہوتی ہے اور اُدھر وہ اپنے بیوی بچوں کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ سینکڑوں بوڑھے میرے ذاتی علم میں ایسے ہیں جو اس بات کے محتاج تھے کہ اُن کی خبر گیری کی جاتی مگر اُن کے لڑکوں یا لڑکیوں نے اُن کی طرف توجہ نہیں کی۔ کیونکہ وہ لڑکیاں اپنےخاوندوں یا لڑکے اپنی بیویوں کے چونچلوں میں مشغول ہوگئے۔ یہ نظارہ عام طور پر دنیا میں نظر آتا ہے کہ گھروں میں ماں باپ کی قدر نہیں کی جاتی۔ گو بعض قدر کرنے والے بھی ہوتے ہیں مگر وہ خدمت سے قاصر رہتے ہیں اِدھر وہ جوان ہوئے اور اُدھر اُن کے ماں باپ دنیا سے چل بسے تو جب بالعموم یہ با ت دنیا میں نظر آتی ہے تو ان حالات میں یہ شدید خواہش جو انسان کے دل میں اولاد کے متعلق پائی جاتی ہے وہ دماغی تأثرات کا نتیجہ نہیں قرار پا سکتی۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض طبعی خواہش ہے۔ عقلی خواہش کی بنیاد ہمیشہ دلیل اور تجربہ پر ہوتی ہے لیکن طبعی خواہش کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں ہوتی۔ پس جب دنیا میں اِس بات کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی تو معلوم ہؤا کہ یہ طبعی خواہش ہے جو خداتعالیٰ نے بنی نوع انسان میں تسلسل قائم رکھنے کے لئے رکھی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں کہ اولاد سے نام قائم رہتا ہے مگر نام کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو کہاں قائم رہتا ہے؟ کوئی پوچھے کہ تمہارے پڑدادا کا نام کیا ہے؟ تو لوگ کہہ دیتےہیں پتہ نہیں حالانکہ پڑدادا قریب کی چیزہے۔ پڑدادا کے معنے ہیں باپ کا دادا۔ تو دنیا میں ہزاروں لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو اپنےپڑدادا کا نام نہیں جانتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اِس مسجد کے دروازہ پر کھڑا ہو جائے اور وہ ہر گزرنے والے سے پوچھے کہ تمہارے پڑدادا کا کیا نام ہے؟ تو
مجھے یقین ہےکہ پچاس فیصدی لوگ یہ کہیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں۔٭ جب اتنی جلدی لوگ اپنے باپ دادوں کا نام بھول جاتے ہیں تو پھر اس دلیل کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے کہ اولاد ہو گی تو ہمارا نام قائم رہے گا۔ نام کہاں قائم رہتا ہے؟ کتنے لوگوں کی اولاد ہے جو اپنے ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کا ذکر کرتی ہے؟ ان لوگوں کو دیکھ لو جن کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور سوچو تو سہی کہ وہ کتنی دفعہ اپنے ماں باپ کا ذکر خیر کرتے ہیں؟ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے والدین کو یاد رکھتے ہیں۔ تحریک جدید سے اِس بات کا پتہ لگ جاتا ہے۔ تحریک جدید میں حصہ لینے والوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہے۔مگر یہ لوگ دس فیصدی بھی نہیں بلکہ پانچ فیصدی بھی نہیں۔ پانچ فیصدی کے حساب سے پانچ ہزار میں سے اڑھائی سو بنتے ہیں۔ مگر میرے خیال میں تو اڑھائی سوبھی ایسے نہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہو۔ ٭٭ تو ماں باپ کا تعلق بالکل قریب کا تعلق ہے مگر لوگ ان کو بھی یاد نہیں رکھتے۔ ماں باپ کس طرح تکلیف اٹھا کر اور اپنی ضرورت کو پیچھے ڈال ڈال کر بچوں کی پرورش کرتے اور ان کو پڑھاتے لکھاتے ہیں۔ لیکن وہی بچے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے والدین پر ایک پیسہ خرچ کرنے میں بھی دریغ محسوس کرتے ہیں۔ میرے پاس کئی ایسے جھگڑے آتے ہیں اور ماں باپ آکر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہم ضعیف ہو گئے ہیں اور ہمارے لڑکے ہماری خدمت نہیں کرتے۔ جب لڑکوں سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں تنخواہ تھوڑی ہے دو اڑھائی سو روپیہ تو ملتا ہے مشکل سے اپنا گزارہ ہوتا ہے ا ن کی خدمت کہاں سے کریں؟ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے باپ کا گزارہ ان سے بھی کم تھا لیکن اِس کے باوجود ان پر خرچ کرتے تھے۔ غرض ہر نسل کی نظر آگے کی طرف جارہی ہے جس سےپتہ لگتا
٭جب میں خطبہ کے بعد گھر آیا تو مجھے ایک خاتون نے بتایا کہ ہم پانچ عورتیں اکٹھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ خطبہ کے بعد ہم نے ایک دوسرے سے اس کے پڑدادا کا نام پوچھا تو پانچ میں سے صرف ایک کو پڑدادا کا نام معلوم تھا۔
٭ ٭ بعد میں اندازہ لگوایا گیا تو وہ لوگ جنہوں نے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہے صرف دو سو کے قریب ہیں۔
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر اولاد کی خواہش کا مادہ اِس لئے رکھا ہے تاکہ بنی نوع انسان کے تسلسل کو جاری رکھے اگر یہ خواہش نہ ہوتی تو دنیا کے واقعات کو دیکھ کر اکثر ماں باپ اولاد پیدا کرنے کے مخالف ہوتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ماں باپ مصیبتیں اٹھاتے ہیں، دکھ سہتے ہیں، بھوکے رہتے ہیں، بچہ جننے کی وجہ سے ماؤں کو ہزاروں قسم کی بیماریاں لگ جاتی ہیں پھر بھی ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ہو جائیں۔ حالانکہ بچوں سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا سوائے نیک اور وفا شعار اولاد کے۔ پھر بھی چھ چھ سات سات بچے ہونے پر بھی اگر درمیان میں وقفہ پڑ جائے تو عورتیں کہتی ہیں مدت سے بچہ نہیں ہوا ایک بچہ اَور ہو جائے۔ ساری عمر عورت کا خون اولاد کے پیدا کرنے میں بہتا چلا جاتا ہے مگر وہ پروا نہیں کرتی۔ کئی عورتیں منہ سے تو کہتی ہیں کہ ہمیں اولاد کی خواہش نہیں مگر ان کی باتوں سے عیاں ہو جاتا ہے کہ وہ صرف شرم و حیا کی وجہ سےا یسا کہہ رہی ہیں ورنہ اُن کا دل اولاد نہ ہونے کی وجہ سے زخمی ہوتا ہے۔
پس اولاد کی خواہش ایک طبعی خواہش ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اس کے پیچھے جو جذبہ خداتعالیٰ نے رکھا ہے وہ یہی ہے کہ نسلِ انسانی قائم رہے۔ گو انسان اس کو شکل یہ دیتا ہے کہ نام قائم رہے۔ گو نام بھی کچھ مدت تک قائم رہتا ہے۔ باپ کا نام بیٹے نے یاد رکھا یا دادا کا نام پوتے نے یاد رکھا۔ اور بعض خاندانوں میں چار چار پانچ پانچ پُشت تک بھی نام قائم رہتا ہے۔ لیکن بعض جگہ نام بالکل قائم نہیں رہتا۔ بیٹے باپ کا نام لینا اور یہ کہنا کہ ہمارے باپ کا یہ نام تھا پسند نہیں کرتے بلکہ وہ جگہیں چھوڑ دیتے ہیں جہاں ان کے باپ نے غربت میں زندگی گزاری ہو کیونکہ اُس جگہ رہنا وہ ہتک سمجھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی ہندو کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اُس نے مصیبت اٹھا کر اور تکلیف برداشت کر کے اپنے لڑکے کو پڑھایا لکھایا اور اسے گریجوایٹ کرایا۔ اُس وقت گریجوایٹ ہونا بھی بڑی بات تھی اس لئے وہ ای۔اے۔سی ہو گیا۔ باپ اِس بات کو سن کر کہ میرا لڑکا ڈپٹی ہو گیا ہے بہت خوش ہؤا۔ اُس وقت بڑے سے بڑا درجہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ کوئی ہندوستانی ای۔ اے۔سی ہو جائے۔ اُس وقت اسے گورنری کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے وہ بڑے شوق سے اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے گیا کہ ذرا میں بھی جا کر اس کی عزت میں شریک ہوں۔ اور میں بھی لوگوں سے سلام کراؤں کہ میرا بیٹا ڈپٹی ہے۔ جب یہ وہاں پہنچا تو ڈپٹی صاحب کرسیاں بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس کے دوست ای۔اے۔سی۔ تحصیلدار، رؤساء اس کے پاس بیٹھے تھے۔ وہ تمام سُوٹڈ بُوٹڈ اور عمدہ لباس میں تھے۔ یہ بھی اپنی دھوتی اور جنیوُّ 1پہنے ایک کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس کے لباس سے غربت ٹپکتی تھی۔ پہلے بھی غریب تھا پھر لڑکےکی تعلیم اور پڑھانے لکھانے پر جو کچھ تھا وہ سب خرچ ہو چکا تھا اب اُس کا سارا اثاثہ دھوتی اور جنیوُّ ہی رہ گیا تھا۔ یہ بڑے فخر سے جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اول تو اسے امید تھی کہ میر ابیٹا آگے آکر گلے ملے گا جیسا پہلے ملا کرتا تھا۔ مگر بیٹے نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اب تو اِس بات میں کچھ کمی آگئی ہے مگرپہلے زمانہ میں چونکہ ہندوستانیوں کو اعزاز بہت کم ملتا تھا اس لئے ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو بہت حقیر سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی ایک شخص کو جو اِس قسم کا گندا لباس، میلی سی دھوتی اور جنیوُّ لٹکائے ہوئے تھا کُرسی پر بیٹھے دیکھا تو اس امر کو بُرا منایا اور حقارت سے کہنے لگے کہ یہ کون بدتہذیب ہے جوبایں ہیئت ہماری مجلس میں آبیٹھا ہے؟ اس نالائق بیٹے نے بھی اپنی عزت جتانے کے لئے جسے وہ عزت سمجھتا تھا کہا ‘‘ایہہ ساڈے گھر دے ٹہلئے نے’’ یعنی ہمارا پرانا نوکرہے اس لئے گستاخ ہو گیا ہے۔ باپ نے سنا اور حقیقت سمجھ لی کہ میرے بیٹے کے دماغ میں تغیر آچکا ہے۔ وہ غصہ سے کھڑا ہو گیا اور ان لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا۔ کہ ‘‘جی میں اینہا دا ٹہلیا نہیں اینہا دی ماں دا ٹہلیا ہاں’’ یعنی میں ان کا نوکر نہیں ان کی ماں کا نوکر ہوں۔ اس فقرہ سے وہ لوگ حقیقت سمجھ گئے۔ ان کے اندر کچھ حیا تھی وہ اس کے بیٹے کو ملامت کرنے لگے اور کہا کہ بڑا افسوس ہے آپ کو چاہیے تھا کہ آپ ہمیں اِن سے ملواتے اور ان سے انٹروڈیوس کراتے۔ لاعلمی میں اِن کی شان میں ہم سے ایسےالفاظ نکل گئے جو نامناسب تھے۔ تو ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ماں باپ کی کمزوری اور اُن کی ادنیٰ حالت کو دیکھ کر اپنی جگہیں چھوڑ دیتے ہیں، ملک بدل لیتے ہیں،و طن جانا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ پتہ نہ لگ سکے کہ ان کے ماں باپ غریب تھے اور تاکہ وہ غریب والدین کی اولاد ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں ذلیل نہ ہو جائیں۔ پس دونوں قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں۔ اور جو گروہ ماں باپ کا نام قائم رکھنے والا ہے وہ بھی لمبے عرصہ تک نام قائم نہیں رکھ سکتا۔ اگر ماں باپ کا نام لمبے عرصہ تک قائم رکھنا ممکن ہوتا تو ہمارے ملک میں میراثیوں کو جو شجرۂ نسب یا د کرایا جاتا ہے یہ نہ کرایا جاتا۔ کسی نے شعر کہا ہے
عجب طرح کی ہوئی فراغت جو بار اپنا گدھوں پہ ڈالا
تو جس طرح گدھوں پر بوجھ ڈال کر فراغت حاصل کی جاتی ہے یہ بھی اسی طرح کی فراغت ہے کہ میراثیوں کو اپنے باپ دادوں کے نام یاد کرا دیئے جاتے ہیں اور کہہ دیا جاتا ہے کہ چلو چھٹی ہوئی اب باپ دادا کا نام یاد رکھنے کی زحمت سے آزادی حاصل ہو گئی ہے۔ پس انسان کے اندر اولاد کی خواہش پیدا کرنے میں اصل حکمت یہ نہیں کہ باپ دادا کا نام قائم رکھا جائے بلکہ اصل میں تو خداتعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ بنی نوع انسان کے تسلسل کو اس حکمت کے ماتحت قائم رکھا جائےاور اس حکمت کے ماتحت اُس نے ماؤں اور باپوں کےدلوں میں اولاد کی خواہش پیدا کر دی ہے۔ اور سب مرد اور سب عورت اِلَّا مَا شَاءَ اللہُجس کی فطرت مسخ ہو چکی ہو یا جو اپنی قوتِ مردمی کھو چکا ہو اس خواہش کے ماتحت ہی اولاد پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوتا، فاقے کررہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی قبروں پر جا کر منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ اولاد ہو جائے۔ بھلا کوئی پوچھے ایک روٹی میں تم گزارہ کرتے ہو اگر ایک اَور آگیا تو تم نصف کھاؤ گے۔ اگر ان کو یہ سمجھاؤ تو کہتے ہیں ہاں جی ہم آدھی ہی کھا لیں گے مگربچہ ہو جائے۔
تو یہ انسانی فطرت کا ایک تقاضا ہے او رنسلِ انسانی کے قائم رکھنے کے لئے خدا نے اولاد کی خواہش پید اکر دی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دین اور تقویٰ کو قائم رکھنے کے لئے اچھی نسل کا تقاضا ہوتا ہے۔ جس طرح نسلِ انسانی کے قائم رکھنے کے لئے اولاد کا تقاضا ہوتا ہے۔ اِسی طرح نیک اور متقی نسل قائم رکھنے کے لئے اچھی اولاد کا تقاضا ہوتا ہے۔ جس طرح وہ تقاضا اگر ماں باپ کے دماغوں میں کمزور ہو جائے تو نوع انسانی تباہ ہوجائے اِسی طرح اگر یہ تقاضا کمزور ہو جائے کہ دین اور تقویٰ کو قائم رکھنے کے لئے نیک اولاد پیدا کریں جو کام کرنے والی اور محنتی ہو تو قوم تباہ ہو جائے۔ ذرا ایک منٹ کے لئے اس بات کا خیال کر کے تو دیکھو کہ اگر عورتوں اور مردوں کے دل سے اولاد پیدا کرنے کی خواہش مٹ جائے تو کیا نسلِ انسانی مٹ نہ جائےگی؟ اور دس پندرہ یا بیس سال کے اندر نئی اولاد کا ملنا مشکل ہو جائے گا کہ نہیں ؟اِسی طرح سوچ لو کہ اگر نیک اور محنتی نسل پیدا کرنے کی خواہش مٹ جائے تو پندرہ بیس سال تک مذہب تباہ ہو جائے گا۔ کیونکہ جب نیک نسل پیدا کرنے کی خواہش نہ ہو گی تو وہ تدابیر بھی اختیار نہیں کی جائیں گی جن سے آئندہ نسل نیک،متقی، دیندار اور محنتی ہو۔ جس طرح محض اولاد پیدا کرنے کے لئے لوگ دعائیں کرتے اور دعائیں کراتے ہیں اور وہمی لوگ تو ٹونے ٹوٹکے کرتے ہیں، قبروں پر جاتے ہیں، چڑھاوے چڑھاتےہیں۔ اسی طرح ایک مذہبی انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر اچھی نسل پیدا کرنے کی خواہش ہو۔ اور وہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایسے ذرائع استعمال کرے جن سے اولاد نیک، متقی، دیندار اور محنتی ہو۔
میں نے بارہا جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ سلسلہ اچھے نام کے ساتھ اور حقیقی معنوں میں قائم رہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو ایک متقی اور محنتی بنائیں۔ آج دنیا میں مسلمان کہلانے والے بھی موجود ہیں، عیسائی کہلانے والے بھی موجود ہیں، ہندو کہلانے والے بھی موجود ہیں۔ آخر یہ سب مذاہب شیطان کی طرف سے تو نہیں تھے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی کرشنؑ کو بھیجا تھا اللہ تعالیٰ نے ہی رامچندرؑ کو بھیجا تھا، اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت مسیحؑ کو بھیجا تھا۔ یہ نہیں کہ چونکہ ان کو نَعُوْذُ بِاللہِشیطان نے بھیجا تھا اس لئے ان کی قومیں شیطان کے قبضہ میں چلی گئیں۔ بلکہ جس خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اُسی خدا نے آپ کے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ اُسی خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑ کو بھیجا۔ اُسی خدا نے حضرت موسیٰ ؑ کو بھیجا۔ اُسی خدا نے حضرت کرشنؑ کو بھیجا اور اُسی خدا نے حضرت رام چندرؑ کو بھیجا تھا۔ اور جن معجزات اور جن کرامات کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو قائم کیا اِن سے بڑھ کر معجزات اور کرامات کے ساتھ خداتعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو قائم کیا۔ اور گو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو معجزات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملے تھے سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو آپ سے بہرحال بلند مرتبت تھےاَور کسی نبی کو ایسے معجزات نہیں ملے۔ مگربہرحال خدا کی قدرتوں سے ہی عیسیٰؑ کی جماعت قائم ہوئی۔ خدا کی قدرتوں کے ساتھ ہی موسیٰؑ کی جماعت قائم ہوئی۔ خدا کی قدرتوں کے ساتھ ہی کرشنؑ کی جماعت قائم ہوئی اور خدا کی قدرتوں کےساتھ ہی رامچندرؑ کی جماعت قائم ہوئی۔ مگر کہاں ہیں اب وہ نشانات اور کہاں ہیں اب وہ معجزات جو دلوں کو پِگھلا دیتے تھے اور جو حیوانوں کو انسان اور انسان کو فرشتے اور فرشتہ خصلت انسانوں کو خدا کے مقرب اور عرش نشین بنا دیتے تھے۔ کہاں ہیں وہ کرامتیں اور وہ معجزات جو رامچندرؑ اور کرشن ؑنے دکھائے جنہوں نے ہندوؤں کی کایا پلٹ دی تھی۔ کہاں ہیں وہ نشانات جو قرآن مجید میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ نو بڑے بڑے نشانات حضرت موسیٰؑ کو دیئے گئے تھے۔ کیا ان نشانات میں سے نصف یا ان کا چوتھا حصہ یا ان کا کوئی حصہ بھی اب دنیا میں باقی ہے؟ حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت عیسائی تو بیان کرتے ہی ہیں مسلمان بھی اُن کو ایسا بڑھا چڑھا کر دکھاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو تمام انبیاء سے بڑھا دیتے ہیں۔ ان کے معجزات میں سے علمِ غیب ، جانوروں کا پیدا کرنا، مُردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کو پُھونک مار کر شفا دینا بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ لیکن جو معجزات بھی تھے بڑے یا چھوٹے وہ انبیاء کی سنت کے مطابق تھے۔ کیا آج ان معجزات میں سے کوئی بھی باقی ہے؟ حضرت مسیحؑ نے کہا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو گا اور تم پہاڑوں کو حکم دو گے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں تو تمہارے حکم سے پہاڑ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں گے۔ 2مگر کیا ان معجزات میں سے کچھ بھی اب باقی ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسا انسان دنیا نے کہاں جنا اور کب جن سکتی ہے۔ وہ جو تمام بنی نوع انسان کا مقصود اور مدعا تھا،جس کی خاطر دنیا پیدا کی گئی، جو کرامتیں آپؐ نے دکھائیں اور جو معجزات آپ سے ظاہر ہوئے صحابہ کرام کی قوتِ عملیہ ،تقویٰ اور اخلاص سے پتہ لگتا ہے کہ ان کا سکھانے والا کتنا بڑا انسان تھا۔ مگر کیا وہ کرامتیں آج مسلمانوں میں نظر آتی ہیں؟ آج وہ کرامتیں اور وہ نشانات مسلمانوں کے دلوں میں بھی گُدگُدی اور اُن کے دماغ میں بھی ہیجان پیدا کرتے ہیں مگر ایک ذرہ بھرحرکت بھی تو ان میں نہیں پائی جاتی۔ آخر یہ کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ بعد میں آنے والی نسلوں نے نشانات دکھانے والے سے تعلق قطع کر لیا۔ ورنہ خداتعالیٰ میں نشان دکھانے کی قدرت تو پھر بھی موجود تھی۔ اور نسل بھی موجود تھی۔ مگر اس زنجیر کے ٹوٹ جانےاور تسلسل کے کٹ جانے کی وجہ سے وہ ان نشانات سے فائدہ حاصل نہ کر سکی۔ پس جو پہلوں سے ہؤا وہی ہمارے ساتھ بھی ہو گا۔ کیونکہ جو قانون پہلے تھا وہی اب بھی جاری ہے۔ ابھی تو ہماری ابتدائی حالت ہے۔ ابھی تو ہماری حالت ایسی ہی ہے جیسے کونپل نکلتی ہے۔ اگر اس حالت میں بھی ایثار کا مادہ کم ہو جائے، قربانی کا مادہ کم ہو جائے، عقل اور محنت سے کام کرنے کا مادہ کم ہو جائے اور دنیا داری بڑھ جائے تو یقینا ہمیں مستقبل کے آنے سے پہلے ہی موت کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ میں نے بار بار اس بات کی طرف جماعت کو توجہ دلائی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی اِس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی۔
ہمارے نوجوان جو آگے آرہے ہیں ان کے اندر محنت کی عادت کم ہے۔ کام سے جی چُراتے ہیں، ذکر الٰہی کا مادہ ان میں کم ہے۔ میں نے خدام کو کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ نوجوانوں کے اندر وہ یہ مادہ پیدا کریں مگر جہاں انہوں نے کچھ کام کیا ہے وہاں یہ حقیقی کام صفر کے برابر نظر آتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ جماعت کے لوگوں سے کام پڑتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ حقیقی قربانی اور محنت نوجوانوں میں کم نظر آتی ہے۔ اَور تو اَور یہ واقفین جو کہتے ہیں ہم نے زندگی قربان کر دی ہے اِن واقفین میں سے بھی بعض غیر معقول دماغ کے ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم نے کام کی ڈائری اِس لئے نہیں دی کہ وقت زیادہ ہو گیا تھا۔ ایک طرف وہ قوم ہے جسے ہم کافر اور بے دین کہتے ہیں جو چھ چھ سات سات دن بغیر آرام کرنے کے متواتر میدانِ جنگ میں لڑتے ہیں اور دوسری طرف یہ نوجوان ہیں جنہوں نےا پنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں لیکن یہ کہتے ہیں کہ چونکہ چھ بجے تک کام کیا تھا اور وقت زیادہ ہو گیا تھا اِس لئے ڈائری لکھنی مشکل تھی۔ اگر ایک دن زیادہ پڑھنا پڑ جائے تو کہتے ہیں آج زیادہ پڑھنا پڑ گیا تھا اس لئے باقی کام نہیں کیا۔ اگران کا یہ حال ہے جو واقفین ہیں اور جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے لئے ہم سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں تو غیر واقفین کا کیا حال ہو گا۔ ان کے اندر بھی ابھی وہ بیداری اور وہ روح نظر نہیں آتی اور ان کے اندر بھی ابھی وہ ارادہ پیدا نہیں ہوا کہ ان میں سے کسی کے سپرد کوئی کام ہو تو وہ کہے کہ میں مر جاؤں گا مگر اپنے کام کو پورا کر کے چھوڑوں گا۔ اگر ان کے اندر عام مومن کے ایمان کا کروڑواں حصہ بلکہ دس کروڑواں حصہ بھی ہوتا تو اگر سارا دن کام کرنے کے بعد بارہ گھنٹے اَور لگتے تھے تو اِن کے اندر یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ انہوں نے بارہ گھنٹے یا بیس گھنٹے یا چوبیس گھنٹے کام کیا ہے اس لئے اب کام ختم کرنے سے پہلےآرام کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ یہ کام کرتے کرتے مر جاتے اور کیا ہوتا؟ پاگل ہی ہیں جو کہا کرتے ہیں کہ مرنے سے بڑھ کر کوئی اور مصیبت ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کسی مجسٹریٹ نے ایک ملزم کو یہ سزا سنائی کہ اُس کو پھانسی دے دی جائے۔ تو وہ کہنے لگا کہ اس سے تو بہتر ہے کہ مجھے مروا ہی دیں۔ تو اس قسم کی باتیں جاہلوں اور پاگلوں کی طرف تو منسوب کی جا سکتی ہیں مگر ایک واقف جو یہ کہہ کر آتا ہے کہ میں مرنے کے لئے آیا ہوں کیا اس کے منہ سے اس قسم کے لفظ بیہودہ اور پوچ عذر نکلنے زیب دیتے ہیں؟ ایک شخص کو جو واقفِ زندگی تھا میں نے کام کے لئے سندھ بھیجا۔ چار دن کے بعد وہ بھاگ آیا اور آکر خط لکھ دیا کہ وہاں کام سخت تھا اس لئے میں اس کام کو چھوڑ کر بھاگ آیا ہوں اور اب روزانہ معافی کے خطوط لکھتا رہتا ہے۔ حالانکہ دینی جنگ کے میدان سے بھاگنے والے کو قرآن کریم جہنمی قرار دیتا ہے۔ اس کے لئے معافی کیسی؟
یہ تحریک جدید کے واقفِ زندگی ہیں۔ ان کی مثال کشمیریوں کی سی ہے۔ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ راجہ نے ان کو بلایا اور کہا کہ سرکارکو لڑائی پیش آ گئی ہے سرکار نے ہم سے بھی مدد کے لئے فوج مانگی ہے۔ میں تمہیں حکم د یتاہوں کہ تم بھی لڑنے کے لئے جاؤ۔ جو افسر راجہ سے بات کرنے کے لئے آیا تھا اُس نے کہا حضور! آپ کا نمک کھاتے رہے ہیں، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، ساری عمر آپ کا نمک اِسی لئے تو کھاتے رہے ہیں کہ لڑائی کریں۔ اگر مہاراج اجازت دیں تو میں ذرا فوجیوں سے بات کر آؤں؟ مہاراج نے اجازت دے دی۔ جب فوجیوں سے بات کر کے واپس آیا تو عرض کیا مہاراج! فوج تیار ہے ان کو کوئی عذر نہیں مگر وہ ایک عرض کرتے ہیں۔ راجہ نے کہا کیا؟ کہنے لگا حضور! سنا ہے پٹھانوں کے ساتھ لڑائی ہے۔ پٹھان بہت سخت ہوتے ہیں اگر ہمارے ساتھ پہرہ کا انتظام ہو جائے تو ہم لڑائی کے لئے تیار ہیں۔ تو ایسے ہی ہمارے نوجوان پیدا ہو رہے ہیں۔ وہ قربانیوں کے موقع سے ڈرتے ہیں، محنت سے کام کرنے سے ڈرتے ہیں اور پھر وہ اپنے آپ کو واقفِ زندگی اور مجاہد کہتے ہیں۔ اور ہر شخص اپنے نام کے ساتھ واقف اور مجاہد لکھنے کے لئے تیار ہے مگر کام کرنے کے وقت ان کی جان نکلتی ہے۔ مگر بہرحال یہ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے کچھ نہ کچھ تو قربانی کی ہے ان میں بعض ایسے ہیں جو دنیوی طور پر اس سے زیادہ کما سکتے تھے جتنا ان کو یہاں گزارہ ملتا ہے۔ لیکن دوسرے نوجوانوں کی حالت تو اَو ربھی بد تر ہے۔
میں نے بار بار توجہ دلائی ہے مگر خدام نے کوئی ایسا رستہ نہیں نکالا جس کے ساتھ نوجوانوں کو باقاعدہ اور متواتر کام کرنے کی عادت ہو اور وہ یہ نہ کہیں کہ وقت زیادہ ہو گیا تھا اس لئے کام رہ گیا۔ بلکہ ان کےد ل میں یہ احساس ہو کہ جو کام ہمارے سپرد کیا جائے ہم نے اسے ضرور کرنا ہے اور اسے ختم کر کے چھوڑنا ہے چاہے ڈیسک پر بیٹھے بیٹھے یامیز پر بیٹھے بیٹھے یا فرش پر بیٹھے بیٹھے یا چلتے چلتے یا کام کرتے کرتے میری جان ہی کیوں نہ نکل جائے۔ جب تک یہ مادہ اور یہ حِسّ پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے اور کبھی ہم تسلی اور اطمینان کے ساتھ یہ امانت اگلی نسل کے سپرد نہیں کر سکتے۔
احمدیت کی محبت، اخلاص اور تربیت جھگڑوں سے روکتی ہے۔ مگرلوگ معمولی معمولی بات پر جھگڑتے ہیں، عُہدوں پر جھگڑ کر ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ سارا نقص اِس وجہ سے ہے کہ احمدیت کی محبت دل میں نہیں۔ اگر احمدیت کی محبت ہوتی تو کچھ بھی ہو جاتا وہ اس کی پروا نہ کرتے۔ یہ لوگ ہسپتالوں میں جاتے ہیں، عدالتوں میں جاتے ہیں۔ کہیں ان کو چپڑاسی تنگ کرتے ہیں، کہیں ان کو کمپاؤنڈر (Compounder) دِق کرتے ہیں۔ یہ ان ساری ذلتوں کو برداشت کرتے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے عزیز کی جان یا ہماری عزت خطرے میں ہے۔ اگر اسلام کی جان اور اسلام کی عزت کی قدر ان کے دل میں ہوتی تو یہ آپس میں ذرا ذرا سی بات پر کیوں جھگڑتے۔ تو فرق یہی ہے کہ اپنے عزیز کی جان یا اپنی عزت ان کو زیادہ پیاری ہے اس لئے کچہریوں یا ہسپتالوں میں مجسٹریٹوں یا ڈاکٹروں کی جھڑکیاں کھاتے ہیں اور ان کو برداشت کرتے ہیں۔ ان سے گالیاں سنتے ہیں اور ہنستے ہوئے کہتے چلے جاتے ہیں کہ حضور! ہمارے مائی باپ ہیں جو چاہیں کہہ لیں۔ مگر خدا کے سلسلہ اور خدا کے نظام میں معمولی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔ وہاں ہسپتالوں میں دائیاں اور نرسیں اِن کو جھڑکتی ہیں، ڈاکٹر حقارت سے کہتا ہے چلے جاؤ۔ تو یہ دروازہ کے پاس جا کر چُھپ کر کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اس کو ناراض کیا تو میرے عزیز کی جان خطرہ میں پڑ جائے گی۔ لیکن ان کو احمدیت عزیز نہیں ہوتی، اسلام عزیز نہیں ہوتا اس لئے سلسلہ اور نظام کی خاطر ادنیٰ سا بُرا کلمہ سننے کی تاب نہیں رکھتے۔
دوسری چیز محنت ہے۔ اگر واقع میں احمدیت کی محبت ہوتی تو ضرور نوجوانوں کے اندر محنت کی بھی عادت ہوتی۔ مگر ان کے کاموں میں محنت اور باقاعدگی سے کام کرنے کی عادت بالکل نہیں۔ اور اگرکوئی کسی کو اچھی بات بھی کہہ دے تو وہ چِڑ جاتا ہے کہ اس نے مجھے ایسی بات کیوں کہی۔ پس میں پھر ایک دفعہ خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مشورہ کر کے میرے سامنے تجاویز پیش کریں۔ میں نے بھی اس پر غور کیا ہے اور بعض تجاویز میرے ذہن میں بھی ہیں۔ لیکن پہلے میں جماعت کے سامنے اس بات کو پیش کرتا ہوں کہ وہ مشورہ دیں کہ آئندہ نسلوں میں قربانی اور محنت اور کام کو بروقت کرنے کی روح پیدا کرنے کے لئے ان کی کیا تجاویز ہیں۔ مگر یہ شرط ہے کہ جو شخص تجویز پیش کرے وہ اپنی اولاد کو پہلے پیش کرے۔ بعض لوگ لکھنے کو تو لکھ دیتے ہیں کہ اس طرح سلوک کیا جائے، اس طرح نوجوانوں پر سختی کی جائے مگر جب خود اُن کے بیٹوں کے ساتھ سختی کی جائے تو شور مچانے لگ جاتے ہیں۔ تو جو شخص اپنی تجاویز لکھے وہ ساتھ یہ بھی لکھے کہ میں اپنی اولاد کے متعلق سلسلہ کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ جو قانون بھی بنائیں میں اپنی اولاد کے ساتھ اس سلوک کوجائز سمجھوں گا۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ آپس میں مشورہ کر کے مجھے بتائیں کہ نوجوانوں کے اندر محنت اور استقلال سے کام کرنے کی عادت پید اکرنے کے لئے اُن کی کیا تجاویز ہیں۔ نوجوان کام کے موقع پر سو فیصدی فیل ہو جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ مشکل پیش آ گئی اس لئے کام نہیں ہو سکا۔ وہ نوے فیصدی بہانہ اور دس فیصدی کام کرتے ہیں۔ یہ حالت نہایت خطرناک ہے اس کو دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
پس خدام مجھے بتائیں کہ نوجوانوں کے اندر محنت سے کام کرنے اور فرائض کو ادا کرنے میں ہر قسم کے بہانوں کو چھوڑنے کی عادت کس طرح پید اکی جائے۔ مشورہ کے بعد ان تجاویز پر غور کر کے پھر میں تجاویز کروں گا اور جماعت کے نوجوانوں کو اِن کا پابند بنایا جائے گا۔ پہلے اسے اختیاری رکھیں گے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون کونسے ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو سلسلہ کی تعلیم دلانا اور ان کی تربیت کرانا چاہتے ہیں۔ اور جس وقت ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے اور ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا طریق درست ہے تو پھر دوسرا قدم ہم یہ اٹھائیں گے کہ اسے لازمی کر دیا جائے ۔
بہرحال یہ کام ضروری ہے اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو احمدیت کی مثال اس دریا کی ہو گی جو ریت کے میدان میں جا کر خشک ہو جائے۔ اور جس طرح بعض بڑے بڑے دریا صحراؤں میں جا کر اپنا پانی خشک کر دیتے ہیں پانی تو ان میں اُسی طرح آتا ہے مگر صحرا میں جا کر خشک ہو جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی نالیاں پہاڑوں سے گزرتی ہوئی مِیلوں مِیل تک چلی جاتی ہیں مگر بڑے بڑے دریا ریت کے میدانوں میں جا کر خشک ہو جاتے ہیں۔ پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے اند رمعرفت کا دریا بہہ رہا ہے۔ اگر تم میں سستی، کم محنتی اور غفلت کا صحرا پیدا ہو گیا تو یہ دریا اس کے اندر خشک ہو کر رہ جائے گا۔ چھوٹی چھوٹی ندیاں مبارک ہوں گی جو پہاڑوں کی وادیوں میں سے گزر کر مِیلوں مِیل تک چلتی چلی جاتی ہیں مگر تمہارا دریا نہ تمہارے لئے مفید ہو گا اور نہ دنیا کے لئے مفید ہو گا۔
پس یہ آفت اور مصیبت ہے جس کو ٹلانا ضروری ہے۔ اس آفت کو دور کرنے کے لئے پہلے میں جماعت کے دوستوں سے فرداً فرداً اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سے بحیثیت جماعت مشورہ چاہتا ہوں۔ انصار اللہ سے اِس لئے کہ وہ باپ ہیں اور خدام الاحمدیہ سے بحیثیت نوجوانوں کی جماعت ہونے کے کہ ان پر ہی اِس سکیم کا اثر پڑنے والا ہے۔ اور ہر فرد سے جس کے ذہن میں کوئی نئی یا مفید تجویز ہو پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے مشورہ دے۔ پھر میں ان سب پر غور کر کے فیصلہ کروں گا کہ آئندہ نسل کی اصلاح کے لئے ہمیں کونسا قد م اٹھانا چاہیے۔ ’’
(الفضل مورخہ 11 مئی 1945ء)
1: جَنیوُّ: وہ بٹا ہوا دھاگا جسے ہندو لوگ بدھی کی طرح گلے میں ڈالے رہتے ہیں۔
2: متی باب 17 آیت 20
16
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا ایک
عظیم الشان نشان
(فرمودہ 11 مئی 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘رات سے مجھے نقرس کا دورہ ہے اور درد کی وجہ سے میرا پاؤں سُوجا ہؤا ہے جس کی وجہ سے جمعہ کے لئے آنا بھی مشکل تھا۔ لیکن میں آتو گیا ہوں مگر کھڑا ہو کر خطبہ نہیں پڑھ سکتا۔ اس ہفتے خداتعالیٰ نےا پنے فضل اوراپنی رحمت کا نشان اِس رنگ میں دکھایا ہے کہ یورپ کی جو ابتدائی اور اصلی جنگ تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔ اس جنگ کے متعلق میں نے بارہا بیان کیا تھا کہ قرآن مجیدسے اور خداتعالیٰ کے فعل سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ جنگ 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی یعنی اپریل 1945ء یا جون 1945ء تک۔ یہ بات خداتعالیٰ نے ایسے عجیب رنگ میں پوری کی ہے کہ اِس پرحیرت آتی ہے۔ آج ہی لاہور سے ایک طالب علم نے لکھا ہے گزشتہ سال میڈیکل کالج لاہور کے کچھ طالب علم جب آپ سے ملنے آئے تھے تو ان میں سے ایک نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ اور آپ نے اُسے یہ جواب دیا تھا کہ جو کچھ میں قرآن مجید سے اور خداتعالیٰ کے کلام اور اس کے فعل سے سمجھتا ہوں یہ جنگ اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات اُسی وقت نوٹ کر لی تھی۔ اور اب میں نے وہ تحریر اُس لڑکے کو جس نے یہ سوال کیا تھا دکھا دی ہے کہ تمہارے ساتھ یہ گفتگو ہوئی تھی دیکھ لو اب وہ بات پوری ہو گئی ہے۔
عجیب بات یہ ہے جو نہایت حیرت انگیز ہے کہ گزشتہ الہامات تو الگ رہے میرے اس استدلال کی بنیاد کہ جنگ اپریل 1945 میں ختم ہو جائے گی اِس بات پر تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریک جدید کے بواعث کے نتیجہ میں یہ جنگ پیدا کی گئی ہے۔ چنانچہ اس مضمون کے متعلق کثرت سے میرے خطبات موجود ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے ہماری جماعت کو جو تکالیف دی گئی ہیں اُن کے نتیجہ میں اُسے یہ ابتلاء پیش آیا ہے اور تحریک جدید کے ساتھ اس کی وابستگی ہے۔ چنانچہ میں نے جو یہ کہا تھا کہ جنگ اپریل 1945ء کے آخر میں ختم ہو جائے گی یہ اِسی بناء پر کہا تھا کہ تحریک جدید کاآخری سال وعدوں کے لحاظ سے تو 1944ء میں ختم ہوتا ہے لیکن جہاں تک سارے ہندوستان کے لئے چندوں کی ادائیگی کا تعلق ہے اِس لحاظ سے یہ مدت اپریل 1945ء میں ختم ہوتی ہے اور جون یا جولائی اس لحاظ سے کہا تھا کہ بیرونجات کے چندوں کی ادائیگی کی آخری میعاد جون یا جولائی میں جا کر ختم ہونی ہے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ جو مقرر ہے وہ سات ہوتی ہے۔ یعنی اگر ہندوستان کے اُن علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے 31 جنوری مقرر ہے تو یہ میعاد 7 فروری کو جا کر ختم ہوتی ہے۔ اور اگر ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی نہیں جاتی 30 اپریل مقرر ہے تو یہ میعاد 7 مئی کو جا کر ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر وعدہ لکھوانے کی تاریخ 30 اپریل تک رکھی جائے تو چونکہ بعض جگہ ہفتہ میں ایک دفعہ ڈاک آتی ہے اس وعدہ کے روانہ ہونے کی آخری تاریخ اگلے مہینہ کی 7 ہونی چاہیے۔ اس اصل کے مطابق ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے آخری میعاد 7فروری مقرر ہے۔ اور ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی نہیں جاتی وعدوں کی ادائیگی کی آخری میعاد7 مئی مقرر ہے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ جس دلیل پر میری بنیاد تھی کہ تحریک جدید کے آخری سال کے اختتام پر یہ جنگ ختم ہو گی میری وہ بات اِسی رنگ میں پوری ہوئی کہ جنگ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں ختم ہوئی جو میں نے بتایا تھا بلکہ عین 7 مئی کو آکر سپردگی کے کاغذات پر دستخط ہوئے۔ چونکہ وعدوں کی ادائیگی کے لئے ایک سال مقرر ہے اس لئے دس سالہ دَور تحریک کے چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ حسب قاعدہ 7 مئی 1945ء ہوتی ہے۔ اور اسی تاریخ کو سپردگی کے کاغذات پر جرمنی کےنمائندوں نے دستخط کئے۔ گویا قانونی طور پر عین اُسی تاریخ کوآکر جنگ ختم ہوئی جو تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے سارے ہندوستان کے لئے آخری تاریخ ہے اور جس کے بارہ میں مَیں بار بار اور متواتر اڑھائی سال سے اعلا ن کر رہا تھا۔
خداتعالیٰ کی قدرت کا یہ کتنا بڑا نشان ہے۔ صوفیاء لکھتے ہیں کہ بعض بندوں کی زبان اور ہاتھ خداتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں۔ قرآ ن مجید میں بھی خداتعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى1 کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) بدر کے موقع پر جب تُو نے مٹھی بھر کر کنکر پھینکے تھے بظاہر تو وہ تُو نے ہی دعائیہ رنگ میں پھینکے تھے لیکن ہم نے تیرے ہاتھ کو اپنا ہاتھ بنا لیا اور اسے کفار کی تباہی کا موجب بنا دیا۔ تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے یہ سلوک رہا ہے کہ وہ ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ اور ان کی زبان کو اپنی زبان بنا لیتا ہے۔ مَیں نے متواتر بیان کیا ہےکہ میں جو کہتا ہوں کہ جنگ 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی مَیں یہ کسی الہام کی بناء پر نہیں کہتا بلکہ میرے استدلال کی بنیاد اِس بات پر ہے کہ چونکہ تحریک جدید کا آخری سال چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے 1945ء کے شروع میں یعنی اپریل میں جا کر ختم ہوتا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جنگ 1945ء کے شروع یعنی اپریل میں ختم ہو جائے گی۔ خداتعالیٰ نے میری اس بات کو لفظاً لفظاً پورا کیا اور نہ صرف سال اور مہینہ کے لحاظ سے بلکہ تاریخ اور دن کے لحاظ سے بھی یہ بات لفظاً لفظاً پوری ہوئی۔ (اَلْحَمْدُ للہِ)
یہ ایک ایسا عظیم الشان نشان ہے جو نہ صرف احمدیوں بلکہ غیراحمدیوں کی مجلسوں میں بھی مَیں نے اس کو متواتر بیان کیا تھا۔ 1943ء میں دہلی میں جب مجھ سے ایک مجلس میں جس میں کئی غیر احمدی معززین موجود تھے یہ پوچھا گیا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ تو میں نے بتایا تھا کہ اپریل 1945ء سے جون 1945ء تک ختم ہو جائے گی۔ اور اب ایک دوست نے یاد کرایا ہے کہ 1944ء کے شروع میں جب میڈیکل کالج کے غیر احمدی طلباء آپ سے ملنے کے لئے آئے تھے اُن میں سے ایک نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ تو آپ نے تعیین کر دی تھی کہ جنگ اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی۔ اور وہ لکھتے ہیں کہ میں نے آپکی یہ بات اُسی وقت لکھ لی تھی۔ چنانچہ وہی ہؤا اور جنگ ٹھیک اُسی وقت پر آکر ختم ہوئی۔ اپریل کی میعاد اِس لحاظ سے درست ثابت ہوئی کہ کہا جاتا ہے کہ ہٹلر 28؍ اپریل کو مارا گیا۔ اور آخری تاریخ تحریک کے لحاظ سے اس لحاظ سے یہ بات پوری ہوئی کہ قانونی طور پر جنگ 7 مئی کو ختم ہوئی اور 7 مئی ہی تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ تھی۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے کہ وہ نہ صرف اپنے الہام کے ذریعہ رحمت کا نشان دکھاتا ہے بلکہ بعض دفعہ اپنے بندہ کے منہ سے نکلی ہوئی بات ایسے عجیب رنگ میں پوری کر دیتا ہے کہ وہ بات نہ صرف سالوں اور مہینوں کے لحاظ سے پوری ہوتی ہے بلکہ دنوں کے لحاظ سے بھی پوری ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اس نے یہ نشان دکھایا ہے کہ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں جنگ ختم ہوئی بلکہ عین اُسی تاریخ اور اُسی دن جنگ ختم ہوئی جو تحریک جدید کے آخری سال کا بلحاظ چندوں کی ادائیگی کے آخری دن تھا۔ اور میں بارہا بیان کر چکا ہوں کہ تحریک جدید کے ساتھ اِس جنگ کی وابستگی ہے۔ جب تحریک جدید کا آخری سال ختم ہو گا جنگ بھی اُسی وقت ختم ہو گی۔
پس یہ خداتعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے کہ عین اسی تاریخ اور اسی دن جنگ ختم ہوئی۔ حالانکہ ابھی ستمبر یا اکتوبر 1944ء میں مسٹر چرچل کی تقریر شائع ہوئی تھی کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی لیکن میں وعدہ نہیں کرتا کہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ جنگ 1945ء کے آخر تک چلی جائے۔ پس عین سرے پر پہنچ کر بھی وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں اِس جنگ کی باگ ڈور تھی اُن کا تو یہ حال تھا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم وعدہ نہیں کرتے کہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی۔ ٭ لیکن خدا تعالیٰ نے 1942ء
٭یہ بات اس تقریب پر کہی گئی تھی کہ بعض لوگ کہہ رہے تھے کہ دسمبر1944ء میں برلن فتح ہو جائے گا۔
سے ہی میرے منہ سے یہ بات کہلوانی شروع کر دی تھی کہ جنگ 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی۔ مجھے افسوس ہے کہ 1942ء کا یہ خطبہ لکھنے والے نے میرا خطبہ عمدگی سے نہیں لکھا ورنہ یہ بات اَور بھی زیادہ شاندار ہو جاتی۔ کیونکہ میں نے مہینہ تک بتا دیا تھا کہ 1944ء کے آخر میں یا اپریل 1945ء یا جولائی 1945ء میں جنگ ختم ہو گی۔ مگر خطبہ نویس نے مہینوں کا حوالہ اُڑا دیا۔ اِسی طرح 1942ء کے جلسہ سالانہ پر میں نے جماعت کے تمام دوستوں کے سامنے بیان کیا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں نے کھدر کی قمیص پہنی ہوئی ہے اور خواب میں مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کھدر کی قمیص پہننا کسی کانگرسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے۔ اب جبکہ کپڑے کی تنگی ہوئی اور اس خواب کی تلاش کی گئی تو مجھے حیرت ہوئی کہ وہ خواب ملتا نہیں۔ آخر مولوی محمد یعقوب صاحب نے بتایا کہ 1942ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر تو چھپی ہے مگر تقریر نویس صاحب نے درمیان میں سے وہ خواب اُڑا دیا ہے۔ حالانکہ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو یاد ہو گا کہ میں نے یہ خواب اُس موقع پر بیان کیا تھا کہ میں نے کھدر کی قمیص پہنی ہوئی ہے۔ اور میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی کانگرسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے۔ اور اس کے بعد میں نے تحریک کی تھی کہ دوست اپنے گھروں میں سُوت کاتنے اور کپڑے بنوانے شروع کریں۔ کیونکہ کپڑے کے متعلق دقّت پیدا ہونے والی ہے۔ تقریر نویس نے اِس مضمون کو تو لے لیا مگر درمیان میں سے خواب کو اُڑا دیا۔ اِسی طرح مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے 4 ستمبر 1942ء کے خطبہ جمعہ میں جو 12 ستمبر 1942ء کے ‘‘ الفضل’’ میں چھپا یہی بیان کیا تھا کہ جنگ تحریکِ جدید کے آخری سال کےختم ہونے پر یعنی اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی مگر وہاں بھی خطبہ نویس نے اتنا ہی لکھ دیا کہ جنگ 1944ء یا 1945ء میں ختم ہو جائے گی اور مہینہ درمیان میں سے اُڑا دیا۔ گو خطبات مَیں دیکھتا ہوں او رمیرے دیکھنے کےبعد ہی وہ شائع ہوتے ہیں مگر چونکہ دیکھتے وقت جلدی جلدی گزرنا پڑتا ہے اِس لئے میری نظر سے بھی وہ بات رہ گئی۔ حالانکہ مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے اس خطبہ میں اپریل کا مہینہ بتایا تھا کہ اس مہینہ میں جنگ ختم ہو گی۔ اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دہلی میں بھی ایک مجلس میں جب مجھ سے سوال کیا گیا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ تو وہاں بھی میں نے اپریل 1945ء یا جون 1945ء کا وقت بتایا تھا۔ اپریل 1945ء اس لحاظ سے کہ ہندوستان کے لئے تحریک جدید کے آخری سال کے چندوں کی ادائیگی کی آخری میعاد اپریل 1945ء مقرر ہے۔ اور جون 1945ء اس لحاظ سے کہ بیرونجات کے چندوں کی ادائیگی کے لئے آخری میعاد جون 1945ء مقرر ہے۔ اور اب لاہور سے گواہی ملی ہے کہ معیّن طورپر میں نے اپریل 1945ء کا مہینہ بتایا تھا کہ اس مہینہ میں جنگ ختم ہوجائے گی۔ تو جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے وہاں میں جماعت کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کی طرف توجہ کرے اور اس بات کو سمجھے کہ یہ عظیم الشان نشان پیش خیمہ ہے آنے والی اور بڑی بڑی خبروں کا۔ جب کوئی بہت بڑا امر ظاہر ہونےو الا ہو تو خدا تعالیٰ کا یہ طریق ہے کہ پہلے وہ گزشتہ انبیاء کے ذریعہ اس کے متعلق پیشگوئیاں کراتا ہے اور پھر جب وہ زمانہ قریب آجاتا ہے تو اُس زمانہ کے مامور کے ذریعہ سےزیادہ تفصیلات اُس کی دیتا ہے۔ اور بعض دفعہ عین موقع پر پہنچ کر وہ اپنے کسی بندہ کے ذریعہ سے سہ بارہ اس کی خبر دیتا ہے۔
اِس زمانہ کے مفاسد کے متعلق پہلے خداتعالیٰ نے گزشتہ انبیاء سے مجملاً پیشگوئیاں کرائیں۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تفصیلاً پیشگوئیاں کرائیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کےوقت کی تعیین کرائی۔ اور پھر جب وہ وقت اَور زیادہ قریب آگیا تو خداتعالیٰ نے کثرت سے نشانات ظاہر کر کے مجھے بتایا۔ میں سمجھتا ہوں اس جنگ کے متعلق دو درجن سے اوپر نشانات خداتعالیٰ نے میرے ذریعہ ظاہر فرمائے ہیں جن کو میں نے قبل از وقت بیان کر دیا تھا۔ اور پھر وہ نشانات اسی رنگ میں پورے ہوئے مثلاً یہ کہ خداتعالیٰ نے مجھے خواب میں بتایاکہ امریکہ کی فوجیں ہندوستان میں آئیں گی پھر بتایا گیا تھا کہ یونان لڑائی میں شامل ہو گا۔ پھر یہ کہ فرانس کُچلا جائے گا اورانگلستان والے اس کے سامنے متحدہ قومیت کی تجویز پیش کریں گے۔ پھر یہ کہ اس واقعہ کے چھ ماہ بعد حالات نسبتاً خوشکن ہو جائیں گے۔ پھر یہ کہ امریکہ اٹھائیس سو ہوائی جہاز انگلستان کو دے گا۔ اور یہ بات لفظاً لفظاً اُسی طرح پوری ہوئی جس طرح میں نے بیان کی تھی۔ پھر یہ بتایا گیا تھا کہ پٹیان گورنمنٹ2 نازیوں کا ساتھ دینا شروع کر دے گی۔ اور اس کی اس شرارت کے ایک سال کے اندر اندر اس کے ضرر کو مٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ پٹیان حکومت نے جب جرمنی کا کھلے بندوں ساتھ دینا شروع کیا تو ایک سال کے اندر حکومت برطانیہ کو شام میں کامیابی حاصل ہوئی اور پٹیان حکومت کی شرارت سے نجات مل گئی۔ اِسی طرح یہ بھی بتایا گیا تھا کہ لیبیا میں کئی دفعہ انگریزی فوجیں آگے بڑھیں گی اور کئی دفعہ پیچھے ہٹیں گی مگر آخری دفعہ دشمن کی فوجوں کو شکست ہو گی۔ پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اٹلی میں انگریزی فوجیں اُتریں گی۔ پھر یہ بھی بتایا گیا تھا جو اُسی وقت اخبار میں شائع بھی ہو گیا تھا کہ یہ جنگ جلد ختم نہ ہو گی بلکہ بہت سخت ہوگی۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ جن کے ہاتھ میں لڑائی کی باگ ڈور تھی وہ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ اٹلی جلد فتح ہو جائے گا یہ لڑائی لمبی ہو گئی اور اٹلی اب آکر اپریل کے آخر میں فتح ہؤا ہے۔
اِسی طرح جنگ کے متعلق اَور بہت سارے واقعات کی خبریں خداتعالیٰ نے مجھے قبل از وقت بتائیں اور اسی طرح وہ واقعات رونما ہوئے مثلاً ہرہیس 3 کا انگلستان میں اُترنا اور جاپان کا حملہ کرنا اور جاپانی فوجوں کا ہندوستان میں داخل ہو جانا۔جاپان کے حملہ کے متعلق ابھی کوئی خبر نہیں آئی تھی کہ اُسی رات مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا اور اگلے دن صبح ریڈیو پر خبر آئی کہ جاپان نے حملہ کر دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں اِس جنگ کے متعلق دو درجن سے بھی زیادہ واقعات ہیں جن کی خبر خداتعالیٰ نے قبل از وقت مجھے دے دی تھی۔
پس کثر ت کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف سے جو یہ خبریں بتائی گئیں اس کے معنے یہ ہیں کہ فیصلہ کا وقت اب قریب ہے۔ مگر جیسا کہ اَور بہت ساری پیشگوئیوں اور الہامات سے معلوم ہوتا ہے اِس زمانہ کے فیصلہ کُن حالات اِس لڑائی سے ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ فیصلہ کُن حالات اَور ہیں جو تھوڑے دنوں تک رونما ہونے والے ہیں۔ تھوڑے عرصہ سے مراد یہ ضروری نہیں کہ ایک دو سال تک بلکہ ممکن ہے دس پندرہ یا بیس سال تک وہ واقعات ظاہر ہوں۔ بہرحال دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر اَور آنے والا ہے کہ اگر خداتعالیٰ کا فضل نہ ہو تو شاید وہ لڑائی جھگڑے دنیا کے لئے تباہی اور بربادی کا موجب ہو جائیں۔ اس لئے ہمیں اُس خطرےکے وقت سے پہلے اپنی جماعت کو انتہائی طور پر مضبوط کر لینا چاہیے۔ اور اُس وقت سے پہلے اپنے اعمال کو اور اپنے نوجوانوں کے اخلاق کو درست کر لینا چاہیے۔ اور اُس وقت سے پہلے ہمارے تبلیغی مشن جو پہلے قائم ہیں اور جو نئے قائم ہوں وہ مضبوط اور تنظیم میں جکڑے ہوئے ہوں۔ اور اُس وقت سے پہلے ہندوستان میں ہماری جماعت اتنی پھیل جائے کہ وہ ایک مینارٹی(Minority) نہ کہلائے بلکہ ایک میجارٹی ہو۔ اور اگر میجارٹی نہیں تو کم از کم ایک زبردست مینارٹی ہو۔ اور اُن مصائب اور اُس خطرہ کے وقت سے پہلے ہماری جماعت یورپ کے تمام ممالک انگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سپین وغیرہ میں اور افریقہ اور امریکہ کے تمام ممالک میں اتنا اثر و نفوذ پیدا کر لے کہ آنے والی مصیبت اور خطرہ میں ہماری آواز بیکار نہ ہو بلکہ وہ ایسی وزنی ہو کہ قومیں اسے سننے پر مجبور ہوں۔ اگر ہم یہ کام کر لیں تو آنےو الے فتنے ہمارے لئے بشارتوں اور خوشخبریوں کا موجب ہوں گے۔ اور اگر ہم اس میں ناکام رہے تو آنے والے فتنے ہمارے لئے نہ معلوم کتنے تاریک سال پیدا کر دیں گے۔ اور کتنی مشکلات اور مصائب ہمارے رستہ میں حائل کر دیں گے۔ رستہ تو طے ہونا ہی ہے اور فتح تو ہمارے لئے مقدر ہے ہی۔ مگر ایک راستہ ایسا ہوتا ہے جو آسانی سے طے ہو جاتا ہے اور ایک راستہ ایسا ہوتا ہے جو مصائب اور مشکلات کے بعد طے ہوتا ہے ۔اور ہر عقلمندر آدمی دنیوی لحاظ سے بھی اور دینی لحاظ سے بھی یہ کوشش کرتا ہے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے وہ آسان طریق سے اور سہل اور قریب طریق سے اور جلدی حاصل ہو جائے۔ پس جو جماعت اس کام کوجو خداتعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے جلدی اور آسان طریق سے کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ انعامات کی مستحق ہوتی ہے۔ اور جو جماعت اس کام کو جلدی اور آسان طریق سے نہیں کرتی یا تو اُس کا انعام کم ہو جاتا ہے اور یا وہ ملامت کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ پس چونکہ یہ اہم موقع تھا اس لئے باوجود اس کے کہ میں زیادہ بول نہیں سکتا اور باوجود اس کے کہ پاؤں میں درد کی وجہ سے میرے لئے چلنا مشکل تھا یہاں تک کہ راستہ میں جب میں نے زیادہ تکلیف محسوس کی تو میں نے خیال کیا کہ میں واپس ہی چلا جاؤں مگر بوجہ اس موقع کی اہمیت کے میں آگیا۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اب وقت غفلتوں اور سُستیوں کا نہیں۔ کمرِ ہمت باندھ لو اور مقصود تک پہنچے کے لئےسارا زور لگا دو۔ جن اخلاق کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس تنظیم کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس علم کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس عرفان کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس دعا اور جس التجا کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، ان سب کو حاصل کرنے کی کوشش کرو تا کہ جلد سے جلد خداتعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری فرمائے۔ اور جلدسے جلدرسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کا جھنڈا دنیا پر لہرانے لگے۔ آمین ’’ (الفضل مورخہ 14 مئی 1945ء)
1: الانفال: 8
2: پٹیان گورنمنٹ: (Petain Government) 1940ء سے 1942ء تک فرانس میں
مارشل ہنری فلپ پٹیان (1856ء1951-ء) کی سربراہی میں قائم گورنمنٹ۔
(Wikipedia,The free encyclopedia under “Philippe Petain”)
3: ہر ہیس: (Rudolf Hess) (26؍ اپریل 1894 ء تا 17؍ اگست1987ء )جرمنی کا ایک
نازی رہنما ، ہٹلر نے اسے 1930ء تا 1940ء کے دوران نازی پارٹی میں ڈپٹی فورر
(Deputy Fuhrer)مقرر کیا ۔ 1941ء میں سوویت یونین کے ساتھ جنگ سے تھوڑا
عرصہ قبل ہیس برطانیہ کے ساتھ امن قائم کرنے کی بات چیت کے لئےخفیہ طور پر پرواز
کرکے سکاٹ لینڈ گیا جہاں اسے گرفتار کرلیا گیا اور وہ جنگی قیدی بنا۔
(Wikipedia,The free encyclopedia under “Rudolf Hess”)
17
جماعت اپنی حالت پر غور کرے
(فرمودہ یکم جون 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘ابھی تک میری بیماری میں ایسا افاقہ نہیں ہوا کہ میں کھڑے ہو کر خطبہ پڑھ سکوں بلکہ ابھی تک مرض کا کچھ حصہ باقی ہے۔ آج سے دو ہفتہ پہلے جب مَیں نے بیٹھ کر خطبہ پڑھا تو گو میں نے یہاں بیٹھ کر خطبہ پڑھا لیکن میرےمرض کے بڑھنے میں اُس کا دخل تھا۔ اگر میں اس دن لیٹا رہتا تو شاید مرض زیادہ شدت اختیار نہ کرتا۔ خطبہ کے بعد خون کا دباؤ لیا گیا تو ستّر نوے تھا یعنی ایک سَو تیس کی جگہ نوّے۔ اور دونوں کا فرق بجائے چالیس کے بیس۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ دل اپنا کام ٹھیک طرح نہیں کرتا۔ ڈاکٹری مشورہ یہ ہے کہ فورًا پہاڑ پر چلے جانا چاہیے تا خون کا دباؤ بہتر ہو جائے اور خون کےسرخ ذرات میں ترقی ہو۔ مگر ابھی مشکل یہ ہے کہ مکان زیر تعمیر ہے اس لئے میرا رادہ ہے کہ فی الحال دو تین دن کے لئے ہو آؤں۔ پھر مکان کی تکمیل کے بعدڈلہوزی لمبے عرصہ کے لئے جلد جاؤں یا جس طرح خداتعالیٰ چاہے۔
آج میں خصوصیت سے اس غرض کے لئے جمعہ پر آیا ہوں کہ میں دیکھتا ہوں ایک طرف تو ہمارے لئے کام کے دروازے کُھل رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر رہا ہے کہ جن سامانوں کی موجودگی میں ہمیں تبلیغِ اسلام اور تبلیغِ احمدیت کی سہولتیں میسر آنے کے امکانات ہیں۔ لیکن دوسری طرف مجھے یہ بھی نظر آرہا ہے کہ جماعت میں نہ معلوم ان سہولتوں کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے یا نہ معلوم ایک لمبے عرصہ کی قربانی کی وجہ سے کسی قدر سُستی کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اس موقع پر جبکہ روحانی جنگ شروع ہونے والی تھی ہمارے حوصلے آگے سے زیادہ بڑھ جاتے اورہماری قربانیاں آگے سے زیادہ ترقی کر جاتیں۔ ہمارا جوش آگے سے بہت اونچا چلا جاتا ہمارے لئے وہ اطمینان اور سکون جو غافلوں اور جاہلوں کو حاصل ہوتا ہے ناممکن ہو جاتا۔ اور جیسے کام کرنےو الوں کےدلوں میں ایک بے کلی سی پائی جاتی ہے وہ حالت ہماری ہو جاتی جماعت میں ایک رنگ میں سُستی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ جیسے بخار دیکھنے کے لئے تھرمامیٹر ہوتا ہے اور تھرمامیٹر سےپتہ لگ جاتا ہے کہ انسانی خون کے دوران میں کتنی تیزی یا کمی ہے اسی طرح جماعت کے قلوب کی حالت کا اندازہ اُس کے چندوں کی ادائیگی سے لگایا جاتا ہے۔
تحریک جدید کے گزشتہ سالوں کے حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ بالعموم مئی کے آخر تک 60،65بلکہ 70فیصدی تک رقوم وصول ہو جایا کرتی تھیں۔ لیکن اس دفعہ بجائے 60،65 یا 70 فیصدی کے بمشکل 40فیصدی چندہ اِس وقت تک ادا ہؤا ہے۔ حالانکہ چھ مہینے گزر چکے ہیں اور زیادہ تر چھ مہینوں میں ہی رقمیں زیادہ آیا کرتی ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جلدی چندہ دینے والے وہی ہوتے ہیں جن کے اندر اخلاص زیادہ ہوتا ہے۔ اور جن کے اندر اخلاص زیادہ ہوتا ہے وہی قربانی زیادہ کیا کرتے ہیں۔ اور جو قربانی زیادہ کرتے ہیں وہی وقت پر اپنے فرائض کو ادا کیا کرتے ہیں۔ تو پہلے چھ مہینوں میں چندہ ادا کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہؤا کرتی تھی۔ کیونکہ ہماری جماعت میں سَابِق رہنے والوں کی خواہش کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طرح پہلے چھ مہینوں میں ادا شدہ رقوم بھی زیادہ ہوتی تھیں اس لئے کہ وہ لوگ جن کے اندر اخلاص ہوتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ رقوم قلیل سے قلیل عرصہ میں ادا کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ لیکن اس سال بجائے اس کے کہ اس نئے دور میں ایک نئی زندگی پائی جاتی بجائے اس کے کہ اب جبکہ عملی تبلیغ کا دروازہ کُھل رہا ہےاور جبکہ کچھ مبلغ بیرونِ ہند میں جا بھی چکے ہیں اور دوسرے پاسپورٹ لینے کی فکر میں ہیں اورجلد ہی غیر ممالک میں چلے جائیں گے۔ا ور اس طرح تبلیغی بوجھ پہلے سے کئی گُنے زیادہ ہو جائے گا۔ ہماری جماعت بجائے اس کے کہ 60،65 فیصدی کو 70،80 فیصدی بنا دیتی اس سال ابھی تک صرف 40فیصدی رقوم اس نے ادا کی ہیں۔ اور چونکہ عام طور پر پیچھے رہ جانے والے سست یا کمزور ہوتے ہیں یا ان کے ذرائع محدود ہوتے ہیں اگر اسی اندازہ کے مطابق جس طرح پہلے رقوم وصول ہوتی تھیں اندازہ لگایا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس سال بجائے 100 فیصدی وصول ہونے کے 60،65فیصدی چندہ وصول ہو گا۔ اسی طرح قرآن شریف کے چندہ کے متعلق بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت پورے جوش کے ساتھ کام نہیں کر رہی۔ جہاں تک چندہ لکھوانے کا سوال تھا یہ چندہ مطلوبہ رقم سے زیادہ آگیا ہے۔ یعنی بجائے دو لاکھ کے دو لاکھ پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ وعدے خداتعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس عرصہ میں یورپین تبلیغ جس کے ساتھ قرآن شریف کے تراجم کا زیادہ تر تعلق ہے وسیع ہو گئی ہے۔ اور اس کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ضرورت تھی کہ ہم انگلستان میں اپنے دارالتبلیغ کو بڑھاتے۔ چنانچہ اس کے لئے ہمیں اکتیس ہزار روپے میں ایک مکان مسجد کے پاس ہی مل گیا ہے جس کی مرمت پر تودس ہزار روپیہ خرچ ہو گا۔ اس طرح چالیس ہزار وپے کا ایک اَور خرچ تبلیغِ یورپ کے لئے پیدا ہو گیا ہے۔ پس یہ وعدے جو زیادہ ہوئے خداتعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہیں جو قریب عرصہ میں تبلیغ اور اس کی وسعت کے لئے پیدا ہونے والی ہیں۔ جہاں تک وصولی کا سوال ہےیہ چندہ بھی آٹھ مہینے کے اندر اُتنا وصول نہیں ہؤا جتنا وصول ہو جانا چاہیے تھا۔ اِس وقت تک اس چندہ میں سے صرف ساٹھ فیصدی وصول ہوا ہے۔ ابھی تین مہینے باقی ہیں اور اس عرصہ میں چالیس فیصدی چندہ وصول ہونا ضروری ہے۔ پس میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے وعدے جلد سے جلد پورا کرنے کی کوشش کرے۔
تحریک جدید دفتر دوم کے وعدے بھی بہت کم ہیں۔ ہمارے خرچ کا سالانہ اندازہ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا تین لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن تحریک جدید دفتر دوم کے وعدے اِس وقت تک پچاس ہزار ہوئے ہیں۔ گویا ہماری آئندہ نسل بجائے سارا بوجھ اٹھانے کے صرف 1/6 حصہ اُٹھانے کے قابل ہو سکی ہے۔ اس کے متعلق بھی مَیں جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ جو لوگ پہلے دَور میں شامل نہیں ہوئے اُن کو اپنی اپنی جگہ پر دوست تحریک کریں۔ میں نے اس کی میعاد تو بڑھا دی ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو میعاد اَور بھی بڑھا دی جائے گی۔ کیونکہ سال دو سال کے اندر ہمیں اِس تعداد کو اتنا بڑھا دینا چاہیے کہ پہلے انیس سالہ دَور کے خاتمہ پر نئی پود اِس بوجھ کو پوری طرح اٹھا سکے۔
اگر ہماری جماعت کی ترقی اولاد کی وسعت کے لحاظ سے، اگر ہماری جماعت کی ترقی بیکاروں کے کام پر لگ جانے کے لحاظ سے اور اگرہماری جماعت کی ترقی تبلیغ کی وسعت کے لحاظ سے اِتنی نہیں ہوتی کہ ہر دس سال کے بعد ہم کو ایک نیا دَور جاری کرنے کے لئے اتنی جماعت مہیا ہو سکے جو اپنی قربانی سے اس حصہ کے اخراجات کو اٹھا سکے تو یقینا یہ بات ہماری کمزوری پر دلالت کرنے والی اور ہماری کامیابی کو پیچھے ڈالنے والی ہو گی۔ پس ہمارا فرض ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے ہم آئندہ نسل اور آئندہ آنے والے نئے احمدیوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ایک جماعت پانچ ہزاری فوج کی ہر دفعہ کھڑی کرتے رہیں جو پہلے دو رکے بعد دوسرے دور کے بوجھ کو اٹھانے والی ہو۔ اور دوسرے دور کے بعد تیسرے دور کے بوجھ اٹھانے والی ہو۔ اور تیسرے دور کے بعد چوتھے دور کے بوجھ کو اٹھانے والی ہو۔ کیونکہ تبلیغ ایسا کام نہیں جو ایک دو دن میں ختم ہو جانے والا ہو۔
میں نے بار ہا جماعت کو بتایا ہے کہ کوئی قوم قربانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی او رجو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ قربانی کب ختم ہونے والی ہے دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ خداتعالیٰ ہماری قوم کو مارنے کا فیصلہ کس دن کرے گا۔ جو شخص قربانی کے متعلق یہ امید رکھتا ہے کہ وہ ختم ہو جائے گی یا ختم ہو جانی چاہیے وہ دشمن ہے اپنا۔ وہ دشمن ہے اپنے خاندان کا۔ وہ دشمن ہے اپنی قوم کا۔ کیونکہ قربانی قوموں کی زندگی کا معیار ہے۔ اور جس دن کسی قوم میں سے قربانی مٹ جاتی ہے اُسی دن اِس دنیا سے اُس قوم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ گو اُس قوم کے وجود اِس دنیا میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ بیکار وجود ہوتے ہیں۔ غلام اور محکوم اور ذلیل اور ناکام وجود اگر دنیا میں آرام سے زندگی گزارتے ہیں تو یہ ان کے لئے انعام نہیں ہوتا بلکہ ایک سزا ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے بہتر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندہ دفن کر دیں اور مٹ جائیں۔ کیونکہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہوتی ہے۔ سلطان حیدر الدین ٹیپو ہندوستان کے بادشاہوں میں سے ایک مشہور بادشاہ گزرے ہیں۔ جس وقت انگریزوں سے ان کی جنگ ہوئی اور اس جنگ میں آخری موقع پر انہیں شکست ہوئی تو ان کے متعلق ایک عجیب واقعہ تاریخوں میں آتا ہے جو انسان کے دل پر اثر ڈالنے والا ہے اور انسان کی شرافت کے معیار کی حقیقت کوظاہر کرنے والا ہے۔ جس وقت بعض غداروں نے انگریزوں سے روپیہ لے کر قلعہ کے بعض دروازے کھول دئیے اُس وقت سلطان حیدر الدین ایک خندق میں کھڑے ہوئے اپنی فوج کی کمان کر رہے تھے۔ عین اُس وقت جبکہ وہ اپنی فوج کو حملہ کے لئے تیار کر رہے تھے ایک جرنیل دَوڑتا ہؤا آیا اور اُس نے کہا بادشاہ سلامت! دروازہ کسی غدار نے کھول دیا ہے اور انگریزی فوج قلعہ میں داخل ہو گئی ہے اور عنقریب یہاں پہنچنے والی ہے۔ آپ بھاگ چلیں تا آپ ان کے ہاتھ نہ پڑ جائیں۔ اُس وقت سلطان حیدر الدین نے جو فقرہ کہا وہ ہر شریف آدمی کے لئے مشعل راہ کا کام دیتا ہے۔ سلطان حیدر الدین نے کہا تم مجھے بھاگنے کی تعلیم دیتے ہو!! تم چاہتے ہو کہ میں چُھپ کر اپنی جان بچا لوں لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شیر کی ایک گھنٹے کی زندگی لومڑی کی سَو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔ میں شیروں کی طرح لڑوں گا لومڑیوں کی طرح نہیں بھاگوں گا۔ وہ اُسی جگہ مارا گیا اور اِس شدت کے ساتھ لڑتا ہوا کہ فصیل کی مختلف جگہوں پر اُس کی لاش کے ٹکڑے پڑے ہوئے ملے۔
تو ہر شریف انسان کو ذلت اور ناکامی کی زندگی سے موت ہزار درجے بہتر معلوم ہوتی ہے۔ ایک مسلمان کہلانے والا اگر احمدی نہیں تب بھی ہرگزوہ اپنی سابق عزت و عظمت اور شوکت کو دیکھتے ہوئے اس قربانی کے لئے تیار نہیں جو قوم کو نئی زندگی بخشنے والی ہو تو یقینا وہ نہایت ہی بے حیا اور نہایت ہی بے شرم انسان ہے۔ اور اس کی زندگی سے اس کی موت ہزار درجے بہتر ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے ساتھیوں کےذریعہ سے اسلام نے وہ شوکت حاصل کی تھی کہ یہ بڑی بڑی حکومتیں اور طاقتیں جو آج نظر آتی ہیں غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑی رہتی تھیں۔ لیکن آج مسلمانوں کی اولاد یورپین لوگوں کی جُوتیوں کی مار کھانے پر بھی اُف نہیں کر سکتی اور کوئی احتجاج نہیں کر سکتی۔ اس حالت کو دیکھنے کے بعد اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دنیا میں نہ آئے ہوتے، اگرحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نئی امیدیں اور نئی ترقی کی راہیں نہ دکھلا گئے ہوتے تب بھی میں سمجھتا ہوں ایک غیرت مند انسان جب تک ان حالات کوبدل نہ لیتا ایک منٹ کے لئے بھی آرام نہ کر سکتا۔ مگر اب تو ہماری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ ایک طرف ہمارے اَسلاف کے کارناموں کے متعلق ہماری غیرت مطالبہ کرتی ہے اور دوسری طرف ہمارے خدا کی آواز ہم سے مطالبہ کرتی ہے۔ گویا دو رسیاں ہیں جو ہمیں آگے کی طرف کھینچ رہی ہیں۔ ہمارے اَسلاف بھی پکارتے ہیں کہ کوئی ہماری ذلت اور بدنامی کے دھبے دھوئے اور ہمارا خدا بھی بلاتا ہے کہ آؤ اور دین کی خدمت کر کے انعام پاؤ۔ اگران کششوں کے باوجود ہمارے اندر قربانی کی روح پیدا نہیں ہوتی، اگر ان دو کششوں کے باوجود ہمارے قدم آگے نہیں اٹھتے، اگر ان دو کششوں کے باوجود ہم اپنی موت کوشیریں خیال نہیں کرتےاور اپنی موت سب سے میٹھا پھل نہیں سمجھتے تو یقینا ہم اِس دنیا میں اور اگلے جہان میں رہنے کے قابل نہیں اور ذلت و رسوائی ہی ہماری حقیقی جزا کہلا سکتی ہے۔ پس چاہیے کہ جماعت اپنی حالت پر غور کرے اور اپنی کوتاہیوں کو دو رکرنے کا فیصلہ کرے۔
اب زمانہ خاموشی کا نہیں اب زمانہ ٹھہرنے کا نہیں۔ جو شخص کھڑا ہو گا وہ مارا جائے گا اور تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ یہ زمانہ ایسا ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو پُلِ صراط پر چلنا پڑے گا۔ ان کے دائیں بھی جہنم ہو گا اور ان کے بائیں بھی جہنم ہو گا۔ وہ ذرا سا اِدھر اُدھر ہوں گے تو تباہ ہو جائیں گے1 یہی ہماری حالت ہے۔ اگر ہم اپنے قدموں کو روک کر کھڑے ہوں گے تو اگر اپنے دائیں طرف گریں گے تو جہنم ہو گا بائیں طرف گریں گے تو جہنم ہو گا۔ ہمارے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہی سیدھا راستہ ہے کہ ہم آفات کی پروا نہ کرتے ہوئے سیدھے چلے جائیں اور ہمارے سامنے ہر وقت ہماری منزلِ مقصود ہو۔ اگر ہم منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں تو وہاں ہمارا سب سے بڑا انعام اللہ وہاں کھڑا ہو گا۔ اور اگر ہم ٹھہرتے ہیں اور گرتے ہیں تو دائیں طرف بھی شیطان کی گود میں گرتے ہیں اور بائیں طرف بھی شیطان کی گود میں گرتے ہیں۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے دلوں کو تقویت دے اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں موت ان کو سب سے پیاری چیز نظر آنے لگے۔ اور وہ چیزیں جن کے لئے دنیا دوڑتی ہے اور ان کی خواہش رکھتی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے وہ انہیں بُری نظر آنے لگیں تا کہ ہمارا اصلی بدلہ اور ہماری حقیقی جزا ہمیں اس دنیا میں بھی ملے اور اگلے جہان میں بھی مل جائے۔’’
(الفضل مورخہ 4 جون 1945ء)
1: مسلم کتاب الْاِیْمَان باب اَدْنٰی اَہل الْجَنَّۃِ مَنْزِلَـۃً فِیْہَا
18
خاص طور پر دعائیں کریں کہ ایک اَور جنگ شروع ہونے سے قبل ہمیں تراجم قرآن شائع کرنے اور مبلغ بھیجنے کے لئے وقفہ مل جائے
(فرمودہ 8جون 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مَیں نے جماعت کو بارہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنگ کے بعد جہاں مذہبی جنگ شروع ہونے والی ہے وہاں ہمارے لئے اسلام کی تبلیغ اور احمدیت کی ترقی کے راستے بھی کھلنے والے ہیں۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس جنگ کے بعد ایک اَور جنگ آنےو الی ہے۔ میرا خیال تھا کہ موجودہ جنگ اور آئندہ آنے والی جنگ میں کچھ وقفہ ہو گا لیکن حالات اتنی سُرعت سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ تیسری جنگ کے خطرہ کے آثار ابھی سے نظر آر ہے ہیں۔ ہمیں موجودہ جنگ کے ختم ہونے کی خوشی تبھی ہو سکتی تھی جب اس جنگ اور آئندہ آنےو الی جنگ میں اتنا وقفہ ہوتا کہ ہم اپنے تبلیغی پروگرام کو مکمل کر سکتے۔ اگرکچھ وقفہ ہمیں میسر آجاتا تو ہمیں امید تھی کہ ہم مختلف ممالک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے مراکز قائم کر لیتے۔ لیکن آنے والے خطرات سے مزید مشکلات پیدا ہوتی نظر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ حالات جو خراب نظر آرہے ہیں عارضی ہیں یا مستقل طور پر لمبے عرصہ تک چلے جائیں گے۔ بہرحال ان حالات کا جلدی سُدھرنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر اس جنگ کے خاتمہ اور اگلی جنگ کے ابتدا میں لمبا فاصلہ نہ ہؤا تو ہم اپنی تبلیغی سکیموں میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ ہماری تبلیغی سکیمیں اُس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتیں جب تک ان مشکلات کا خاتمہ نہ ہو جائے جو اِس وقت نظر آرہی ہیں۔ ابھی تک مختلف ممالک کے راستے نہیں کھلے۔ گو ہمارے مبلغین تیار ہیں اور بعض کے پاسپورٹ بھی بن چکے ہیں۔ لیکن سفر کے لئے پریئرٹی سرٹیفکیٹ (Priority Certificate) منظور نہیں ہوئے۔ اور بعض کے ابھی تک پاسپورٹ بھی تیار نہیں ہوئے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک پاسپورٹ نہیں ملیں گے ہمارے مبلغ مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے نہیں جا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ حالات کب سازگار ہوں گے اور یہ نئی پیچیدگیاں کب دور ہوں گی۔ بہرحال ہماری طرف سے انشاء اللہ پہلا تبلیغی جتھا تیار ہے اور اگر پاسپورٹ اور اجازتِ سفر مل جائے تو مبلغین جانے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں۔ اپنے کام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم تبلیغ کے لئے پوری طرح تیاری کرتے اور مبلغین کو بھی تیار کر لیتے۔ چنانچہ جہاں تک ہماری کوششوں کا سوال تھا ہم نے اس کے لئے پوری جدوجہد کی۔ اِس وقت مغربی ممالک میں سے آٹھ ملک ہمارے مدنظر ہیں جہاں ہم اپنے مبلغین بھیجنے والے ہیں۔ یعنی انگلستان، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، فرانس، ہسپانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور اٹلی۔ مغربی ممالک میں سے فی الحال انہی ممالک میں مبلغ بھیجنے کا ارادہ ہے۔ مشرقی ممالک میں سے ایران، شام، فلسطین، مصر اور افریقہ کے مختلف ممالک ہیں جہاں ہم نے مبلغ بھجوانے ہیں۔ ہماری طاقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بہت بڑی سکیم ہے۔ ایک ہی وقت میں بیس پچیس ممالک میں پچاس ساٹھ مشنریوں کا بھیجنا آسان کام نہیں۔ ان کو بیرونِ ہند بھیجنے کے لئے بہت سے اخراجات درکار ہوں گے۔ اگر باقی سب اخراجات کو چھوڑ دیا جائے اور صرف کرایہ کا اندازہ لگایا جائےجو اِن مبلغوں کے جانے اور واپس آنے اور آنے جانے کی تیاری پر خرچ ہو گا تو وہی تقریباً تین لاکھ روپیہ بن جاتا ہے۔ اگر ان مبلغوں کے جانے اور واپس آنے میں چار سال لگ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر سال پچہتّر ہزار روپیہ خرچ کرنا پڑے گا۔ تبلیغ اور لٹریچر کی اشاعت کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں مخلصینِ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی طاقت سےبڑھ کر قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس لحاظ سے جو چیز ہماری طاقت میں تھی اُس کے لئے ہم نے پوری طرح تیاری کر لی ہے۔ مگرجو چیز ہماری طاقت سے باہر ہے اُس کے لئے ہم مجبور ہیں۔ حکومتیں ہماری طاقت سے باہر ہیں۔ غیرممالک میں داخلے کی اجازت ہمارے اختیار میں نہیں۔ بلکہ ان حکومتوں کےا ختیار میں ہے جن سے ہماری روحانی جنگ جاری ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارےراستے میں مشکلات پیش آئیں۔ اب جنگ کے خاتمہ کےساتھ مزیدسیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اِدھر جنگِ یورپ کا خاتمہ ہؤااُدھر سیاسی حالات خراب ہو گئے ہیں۔ اِس سے قبل ہم نے متواتر پانچ چھ سال غیر ممالک کے راستوں کے کھلنے کا انتظار کیا۔ لیکن اب دوبارہ ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے تبلیغ میں رکاوٹیں ہوتی نظر آتی ہیں۔ ہمارے دلوں کی حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے۔
قسمت تو دیکھئے کہ کہاں ٹوٹی ہے کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا1
پانچ چھ سال کا لمبا عرصہ ہم نے انتظار کرتے کرتے گزار دیا اور اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ہم نے ایک مضبوط تبلیغی فنڈ قائم کر لیا۔ اس فنڈ کو قائم کرنے کے لئے جماعت نے بڑھ چڑھ کر قربانیاں کیں۔ انتظار کے یہ سال ہمارے لئے نہایت تلخ اور تکلیف دِہ سال تھے۔ لیکن اگر پھر سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مزید پانچ چھ سال تک ہمیں اپنی تبلیغی سکیموں کو جاری کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔
جہاں جماعت کے سامنے یہ مشکلات اور خطرات ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم
ہوتا ہے کہ جماعت کو مزید قربانیوں کی طرف بلائے۔ ہماری مشکلات کی زیادتی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا جتھا کم ہے۔ دنیا آج جتھا کو دیکھتی اور اس سے مرعوب ہوتی ہے۔ اگر ہمارے مبلغین کے پاسپورٹوں کا سوال ہو تو گورنمنٹ کہہ دیتی ہے ابھی راستے نہیں کھلے بہت مشکلات ہیں لیکن پادری ساری دنیا میں تبلیغ کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ کے انتظام کے ماتحت ان کو دورانِ جنگ میں بھی اٹلی، روس، فرانس، سپین، چین، آسٹریلیا اور دوسرے ملکوں میں بھیجا گیا اور ان کے لئے پاسپورٹ مہیا کئے گئے۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ کیا جاپان والے دوسرے جہازوں پر تو گولہ باری کرتے ہیں اور ان جہازوں پر گولہ باری نہیں کرتے جن میں پادری سفر کر رہے ہوں۔ پس اصل بات یہ نہیں کہ جنگ کی وجہ سے ہمیں تو مشکلات پیش آتی ہیں لیکن پادریوں کو مشکلات پیش نہیں آتیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ پادریوں کا ایک ایسی قوم کے ساتھ تعلق ہے جو اپنی طاقت اور حکومت کی وجہ سے ان کو راجوں مہاراجوں کی طرح لئے پھرتی ہے۔ چونکہ ہماری جماعت سیاسی لحاظ سے ان کی نظر میں کچھ وقعت نہیں رکھتی اس لئے ہمارے مبلغین کی ضروریات کو اُتنی بھی وقعت نہیں دی جاتی جتنی ان گورنمنٹوں کے چپڑاسیوں کو وقعت دی جاتی اور ان کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ ان مشکلات کو دیکھ کر ہمیں اپنی کوششوں اور قربانیوں کو پہلے سے بہت زیادہ بڑھا دینا چاہیے۔ کیونکہ ان مشکلات کا ایک حصہ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس قسم کے حالات پیدا ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا کام بڑھ رہا ہے وہاں ہماری یہ کمزوری کہ سیاسی لحاظ سے ہماری جمعیت اور جتھا کم ہے ہماری مشکلات کو اَور بھی بڑھا دیتی ہے۔ اگر ہماری جماعت بیس پچیس گُنا زیادہ ہو جائے تو جس قسم کی تنظیم ہماری جماعت کی ہے اور جس قسم کی قربانیاں ہماری جماعت کرتی ہے ان کے لحاظ سے اس قسم کی مشکلات آپ ہی آپ دور ہو جائیں۔
خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت ایسی قربانیاں کرتی ہے کہ دوسری قومیں اس رنگ میں قربانیاں نہیں کر سکتیں۔ اور درحقیقت قوم کی عزت اُس کی قربانیوں کی وجہ سے اس کی تعداد سے کئی گُنے زیادہ ہو جاتی ہے۔ پس ایک طرف میں جماعت کے افراد کو مزید قربانیوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور دوسری طرف یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دوستوں کو دعاؤں پر خاص طور سے زور دینا چاہیے۔ تا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اتنا وقفہ مل جائے کہ ہم قرآن مجید کے تراجم شائع کر سکیں اور بیرونی ممالک میں اپنے مبلغین بھیج سکیں۔ اس کے بعد اگر جنگ شروع بھی ہو جائے تو ہمارے مبلغین اپنی اپنی جگہوں پر جہاں بھی وہ ہوں گے تبلیغی کام کرتے رہیں گے۔ اور ہماری روحانی جنگ جاری رہے گی اور ہم مطمئن ہوں گے کہ ہمارا روحانی گولہ وبارود ان کے پاس موجود ہے۔ اگر ہمیں اپنے مبلغین کو باہر بھیجنے کے لئے وقفہ نہ ملا تو یہ بات ہم سب کو خصوصیت کے ساتھ غمگین کرنے والی ہو گی۔ اگر حالات سازگار نہ ہوئے اور پیشتر اس کے کہ ہمارے مبلغین غیر ممالک میں پہنچ جائیں جنگ شروع ہو گئی تو ہم میں سے کئی ایسے ہیں جن کی طاقتِ صبر جواب دے جائے گی۔ کیونکہ بعض ہم میں سے ایسے ہیں جو دنیوی لحاظ سے کام کرنے کی عمر سے نکل چکے ہوں گے۔ اور ان کے لئے یہ بات نہایت تلخ اور تکلیف دہ ہو گی کہ وہ اس کامیابی کی سکیم کا نتیجہ باوجود تیاری میں پورا حصہ لینے کے نہ دیکھ سکے۔
پس حالات سخت نازک ہیں۔ زمانہ انتہائی سرعت کے ساتھ بدل رہا ہے۔ دوست دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل جلد از جلد نازل ہو۔ کیونکہ اُس کےفضل کا دیر سے آنا ہمارے لئے مُہلک اور خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ہماری کوششوں اور قربانیوں کے رائیگاں جانے سے بچائے اور ہماری حقیر کوششوں کو اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کا موجب بنائے۔ اَللّٰہُمَّ آمِیْنَ’’
(الفضل مورخہ 14 جون 1945ء)
1: کلیات قائم از قائم چاند پوری جلد اول غزلیات ردیف الف غزل نمبر 5 صفحہ نمبر 4
مرتبہ اقتدا حسن مجلس ترقی ادب لاہور میں یہ الفاظ ہیں
‘‘قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جاکر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا’’
19
ہندوستان کے سیاسی لیڈروں کے نام پیغام
(فرمودہ 22جون 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘قریباً ساڑھے پانچ ماہ کا عرصہ ہوا کہ اِسی مقام پر مَیں نے ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں انگلستان اور ہندوستان کو میں نے اِس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ انہیں آپس میں صلح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ خدائی تقدیر میں بعض ایسے حادثات مقدر ہیں جن کا علم اُس نے متعدد بار مجھ کو دیا ہے جو آئندہ نہایت ہی خطرناک فتنے پیدا کرنے کا موجب ہونے والے ہیں۔ اور نہ صرف خداتعالیٰ نے مجھے ان حادثات کا علم دیا ہے بلکہ ان کے متعلق بعض تفاصیل بھی اُس نے مجھے بتائی ہیں۔ وہ خطبہ گو الہام کی بناء پر نہیں تھا لیکن مختلف الہاموں اور کشوف اور رؤیا کے نتیجہ میں تھا اور اُن کو پورا کرنے کی تحریک کے طور پر ہی میں نے پڑھا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی زبان کو بسا اوقات اپنی زبان بنا لیتا ہے۔ جس وقت مَیں نے وہ خطبہ دیا تھا اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان سمجھوتہ کی کوئی صور ت پیدا ہونے والی ہے۔ بلکہ ہندوستانی اور انگریز دونوں مایوس نظر آتے تھے اور اس بارہ میں کوئی نیا قدم اٹھانے کے لئے کوئی جہت تیا رنہیں تھی۔ اُس زمانہ کے قریب قریب عرصہ میں بلکہ غالباً اس کے بعد بھی پارلیمنٹ میں جو سوالات ہوئے ان کے جوابات بھی نہایت مایوس کُن تھے اور ہندوستان کےلوگ بھی آئندہ کسی نیک تغیر کے متعلق
اپنے دلوں میں کوئی امیدیں نہیں رکھتے تھے۔ لارڈ ویول جو اِس وقت ہندوستان کے وائسرائے ہیں ان کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ہندوستان کے مطالبات کے خلاف ہیں۔ چنانچہ جب یہ ہندوستان میں افواج کے کمانڈر انچیف تھے اور سر کرپس یہاں آئے اُس وقت عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ سر کرپس کی تحریک اگر ناکام رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ لارڈ ویول کی مخالفت ہی تھی۔ گویا لارڈ ویول وہ شخص ہیں جن کے متعلق لوگوں میں یہ خیال تھا خواہ یہ خیال غلط ہی کیوں نہ تھا کہ وہ ہندوستان کی آزادی اور ہندوستان کے حقوق کے خلاف ہیں۔ مگر ایسے وقت میں جبکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہندوستان کو آزاد کرنے کا سوال اب ایک عملی پالیٹکس کے طور پر انگلستان کے سیاسی مدبروں کے سامنے نہیں آسکتا۔ اور ایسے وقت میں جب ہندوستان کے مدبر بھی کسی تبدیلی کے متعلق امید رکھنے سے مایوس ہو چکے تھے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات کی تحریک فرمائی کہ میں انگلستان اور ہندوستان کو سمجھوتہ کی دعوت دوں۔
میں نے اپنے اُس خطبہ میں بیان کیا تھا کہ میری آواز ایک ایسی چھوٹی سی جماعت کے امام کی آواز ہے جو سیاسی طور پر کسی گنتی اور شمار میں نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی میں نے کہا تھا کہ باوجود اِس بات کے جاننے کے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اِس دنیا کا ایک زندہ خدا ہے اور اُس میں یہ طاقت ہے کہ وہ میری آواز کو بلند کر دے۔ یہ خطبہ چَھپا ہوا موجود ہے دوستوں اور دشمنوں نے اُس کو پڑھا ہے بلکہ ولایت میں شمس صاحب نے اس کا ترجمہ پارلیمنٹ کے بہت سے ممبروں کے پاس بھی بھجوا دیا تھا جس کے جواب میں بہت سے ممبروں نے شکریہ کے خطوط لکھے۔ ان میں سے بعض ‘‘الفضل’’ میں شائع بھی ہو چکے ہیں۔ میرے اُس خطبہ کے معاً بعد اللہ تعالیٰ نے اِس قسم کے سامان پیدا کر دیئے کہ چودھری ظفراللہ خان صاحب کو گورنمنٹ نے کسی کام کے لئے انگلستان بھجوایا اور باوجود اس کے کہ وہ برطانوی گورنمنٹ کے نمائندہ تھے اُس نے انگلستان میں ان سے اِس قسم کی تقریر کروائی جس میں انہوں نے میرے خطبہ کے بیان کردہ مطالب کو اپنی زبان میں انگلستان کے لوگوں کے سامنے رکھا۔ سیاسی طور پر چودھری ظفراللہ خان صاحب سے بھی بڑی پوزیشن رکھنے والے آدمی وہاں جاتے ہیں لیکن کبھی کسی کی تقریر کی طرف اُتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی کہ اِس تقریر کی طرف۔ متواتر کئی دن تک انگلستان کے سر برآوردہ اخبارات میں بڑے بڑے لیڈروں نے چودھری صاحب کی آواز کے خلاف یا اس کی تائید میں مضامین لکھے اور اِس طرح وہ آواز جو میں نے قادیان سے بلند کی تھی سارے انگلستان میں پہنچ گئی۔ انگلستان سے امریکہ کے نمائندوں نے تاروں کے ذریعہ اِس کو امریکہ میں پھیلایا اور رائٹر کے نمائندوں نے اس آواز کو ہندوستان میں پہنچایا اور پھر ہندوستان کے مختلف گوشوں میں اس کی تائید میں آوازیں بلند ہونی شروع ہو گئیں۔ اس طرح وہ بات جو میں نے اپنے اُس خطبہ میں بیان کی تھی پوری ہو گئی کہ مجھے اپنی آوا زکے ہوا میں اُڑ جانے کا کیا خوف ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اُڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے۔ یہ ریڈیو آخر ہوا میں سے ہر آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے۔ اگر ریڈیو کے ذریعہ آوازیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکتی ہیں تو ہمارے خدا میں بھی یہ طاقت ہے کہ وہ ریڈیو سے کام لیتے ہوئے میری آواز کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے۔ خدا نے میری اس بات کو پورا کیا اور ہندوستان اور انگلستان کے مفاد کے لئے میں نے جس آواز کو بلند کیا تھا وہ ہندوستان اور انگلستان اور امریکہ میں تھوڑے ہی دنوں میں گونجنے لگ گئی۔ لیکن یہ آواز بلند ہوئی تھی اُس کی تکمیل کے لئے ابھی ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو ان معاملات میں صاحبِ اقتدار ہو ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لئے وہ شخص پکڑاجن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ انہیں ہندوستان کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ہندوستان کی آزادی کے حق میں نہیں۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ سر کرپس جو ہندوستان میں آزادی کی تجاویز لائے تھے ان کی تجاویز میں اگر کسی نے رخنہ ڈالا تو وہ لارڈ ویول ہی تھے۔
غرض وہی شخص جس پر یہ بدظنی اور بدگمانی کی جاتی تھی اِس تقریر پر دو تین مہینہ گزرنے کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے اُس کے دل میں ایسی تحریک پیدا کی کہ وہ ہندوستان سے انگلستان پہنچا تاکہ وہ وزارت سے یہ مطالبہ کرے کہ وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کو آزاد کر دیا جائے۔ اور جیسا کہ انگلستان کے اخبارات سے پتہ لگتا ہے وزارت کےا یک حصہ نے سختی سے ان کی تجاویز کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ اخبارات میں شائع ہؤا کہ لارڈ ویول استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہندوستان کی آزادی کے متعلق میری بات نہ مانی گئی تو میں اپنے عُہدہ سےمستعفی ہو جاؤں گا۔چنانچہ برابر چھ ہفتے تک اِس قسم کی خبریں آتی رہیں۔ بعض وزراء پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ لارڈ ویول کی تجاویز کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اورلارڈ ویول کی طرف یہ بات منسوب کی گئی کہ وہ سختی کے ساتھ اپنی تجاویز پر مُصِر ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اپنی باتیں منوا کر چھوڑوں گا ورنہ اپنے عُہدے سے الگ ہو جاؤں گا۔ اور حق یہ ہے کہ اگر غیرمعمولی سامان خداتعالیٰ کی طرف سے پیدا نہ ہوتے توغالباً لارڈ ویول مایوس ہونے کی حالت میں ہی ہندوستان واپس آتے۔ یا اگر ان کے مستعفی ہونے کی خبر سچی تھی تو بجائے مایوس واپس آنے کے وہ استعفیٰ دے کر الگ ہو جاتے۔ لیکن اِس دوران میں خداتعالیٰ نے یہ سامان کیا کہ لیبر پارٹی نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم مشترک وزارت سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں۔ لیبر پارٹی کے اس فیصلہ پر مسٹر چرچل وزیر اعظم نے فورًا نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ باوجود اس کے کہ لیبر پارٹی نے زور دیا کہ ابھی ایسا نہ کیا جائے اور باوجود اِس کے کہ لیبر پارٹی کی تعداد پارلیمنٹ میں تھوڑی تھی اور اس کے الگ ہونے سے گورنمنٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا مسٹر چرچل نے اصرار کیا کہ ہم نیا انتخاب کرائیں گے۔ جب انہوں نے اس بات پر اصرار کیا اور لیبر پارٹی نے سمجھ لیا کہ اسے اب بہرحال مقابلہ کرنا پڑے گا تو اس نے اپنا آئندہ پروگرام تیار کیا جس میں ایک تجویز یہ رکھی کہ ہندوستان کو آزادی کا حق دے دیا جائے۔ لارڈ ویول کی تجاویز پر بے شک گورنمنٹ نے مشورہ کیا تھا اور اس میں لیبر پارٹی کےممبر بھی شامل تھے لیکن وزارت جس میں کثرت کنزرویٹو پارٹی کی تھی وہ ابھی اِس فیصلہ کو شائع کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اور باوجود فیصلہ کے وہ اس کے راستہ میں روکیں پیدا کر رہی تھی لیکن خدا نے ان روکوں کو دور کرنے کایہ سامان کیا کہ لیبر پارٹی نے اعلان کر دیا کہ ہم آئندہ الیکشن میں ہندوستان کی آزادی کا سوال اُٹھائیں گے اور ملک کے سامنے یہ بات رکھیں گے کہ کنزرویٹو ہندوستان کو آزادی دینا نہیں چاہتے اور اس طرح وہ حکومت کو کمزور کر رہے ہیں۔ اگر تم نے ہم کو حکومت میں بھیج دیا اور لیبر پارٹی برسرِ اقتدار آگئی تو ہم ہندوستان کو آزاد کر دیں گے اور اس طرح انگلستان اور ہندوستان کے درمیان جو ایک پُرانا جھگڑا چلا آرہا ہے وہ دور ہو جائے گا۔ اور برطانوی حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ جب لیبر پارٹی کی طرف سے یہ اعلان ہوا تو کنزرویٹو پارٹی مجبور ہو گئی کہ وہ بھی ہندوستان کی آزادی کا سوال اٹھائے۔ اگر کنزرویٹو پارٹی یہ سوال نہ اٹھاتی تو آئندہ الیکشن میں اس کو سخت مشکلات پیش آنے کا خطرہ تھا۔ یہ تیسری غیر معمولی بات تھی جو پیدا ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ کنزرویٹو پارٹی اپنے فیصلے کو جلد تر نافذ کرنے پر مجبو رہو گئی۔ ورنہ نئے انتخابات میں اس کے لئے کامیابی کا حاصل کرنا بہت مشکل ہوجاتا۔ کیونکہ انگلستان کی عام رائے اِس بات کے حق میں ہے کہ اب ہندوستان کو کسی نہ کسی طرح خوش کرنا چاہیے ورنہ برطانوی حکومت کمزور ہو جائے گی۔
اس تغیر کے نتیجہ میں وہ بات جس کے لئے لارڈ ویول چھ ہفتہ سے انگلستان میں مقیم تھے اور جس کے اکثر حصے کا گو تصفیہ ہو چکا تھا مگر اعلان میں بعض روکیں حائل تھیں اس کا دو تین دنوں میں ہی اعلان ہو گیا۔ وہ انگلستان سے ہندوستان واپس آئے اور انہوں نے ہندوستان کے سامنے آزادی کی سکیم پیش کر دی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس سکیم میں قریباً وہی فقرات درج ہیں جو میرے خطبہ میں تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انگلستان ہندوستان کی طرف اپنا صلح کا ہاتھ بڑھاتا ہے کیونکہ آئندہ سخت خطرات پیش آنےو الے ہیں۔ ہندوستان کو اپنے جائز مقام اور جائز حق کے حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ہندوستان کا کام ہے کہ وہ اس پیشکش کو قبول کرے اور پرانے زخموں کو تازہ نہ کرے۔ یہ ویسا ہی فقرہ ہے جیسے میں نے کہا تھا کہ نئے سمجھوتہ میں پرانی باتیں بُھول جانی چاہئیں۔ یہ وہ پیشکش ہے جو اِس وقت ہندوستان کے سامنے ہے۔ اور چونکہ یہ غیر معمولی آسمانی سا مانوں کے ساتھ پیش ہوئی ہے اِس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدائی پیشکش ہے اور ہندوستان کی نہایت ہی بدقسمتی ہو گی کہ اگر اس نے اس پیش کش کو رد کر دیا۔
میں تو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ ہندوستانی لیڈر باوجود اِس کے کہ ان میں بعض بڑے بڑے سمجھدار اور بڑے بڑے عقلمند ہیں کس طرح اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ انگریزوں کےہاتھ میں سو فیصدی اختیارات کے ہوتے ہوئے اگر وہ آزادی کی امید رکھتے ہیں تو نوے فیصدی اختیارات اگر ان کے اپنے ہاتھ میں آجائیں تو کیوں وہ آزادی کی امید نہیں رکھ سکتے۔ اگر انگریزوں کو دشمن سمجھ لیا جائے تو بھی یہ غور کرنا چاہیے کہ اگر کسی دشمن کے پاس سوبندوقیں ہوں لیکن دوسرے شخص کے پاس کوئی ایک بندوق بھی نہ ہو اور اس حالت میں بھی وہ سمجھتا ہو کہ میں اپنے دشمن کا مقابلہ کر کے جیت جاؤں گا تو اگر فرض کرو اُس کا دشمن اُسے کہے کہ نوّے بندوقیں تم مجھ سے لے لو اور دس میرے پاس رہنے دو۔ تو ایسی حالت میں اگر وہ کہے کہ میں نوّے نہیں لوں گا جب دو گے سَو ہی لوں گا تو کیا ایسے شخص کو کوئی بھی عقلمند کہہ سکتا ہے؟ یقینا ہر شخص اُسے نادان اور ناسمجھ ہی قرار دے گا۔ اِسی طرح خواہ کچھ کہہ لو اِس میں کچھ شبہ نہیں کہ ہندوستان کو جو بھی اختیارات ملیں، زیادہ ملیں تب بھی اور کم ملیں تب بھی وہ اختیارات بہرحال ہندوستان کے لئے مفید اور بابرکت ہوں گے اور وہ ہندوستان کو پہلے کی نسبت آزادی کے زیادہ قریب کر دیں گے۔ پس میرے نزدیک ہندوستان کو اِس پیشکش کو قبول کرنا انگریزوں سے صلح کرنا نہیں بلکہ اپنے آپ پر اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں پر احسان عظیم کرنا ہے۔ دو سَو سال سے ہندوستان غلامی کی زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اور یہ ایک ایسی خطرناک بات ہے جو انسانی جسم کو کپکپا دیتی ہے۔ بے شک بعض لوگ ایسے اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں کہ خواہ انہیں قید خانوں کے اندر رکھاجائے تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں غلامی اُن کے قریب بھی نہیں آتی۔ مگربیشتر حصہ بنی نوع انسان کا ایسا ہی ہوتا ہے جو ظاہری غلامی کے ساتھ دلی غلام بھی بن جاتا ہے۔ ہم ہندوستان میں روزانہ اِس قسم کے نظارے دیکھتے ہیں جو اِس غلامی کا ثبوت ہوتے ہیں جو ہندوستانیوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے۔ ان واقعات کو دیکھنے کے بعد کون شخص ہندوستانیوں کی غلامی سے انکار کر سکتا ہے۔
اِسی ضلع کی بات ہے یہاں ایک دفعہ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر آئے ان کو شکار کا شوق تھا۔ یہ میرے ابتدائی ایامِ خلافت کا واقعہ ہے یا حضرت خلیفہ اول کی وفات کے قریب کی بات ہے۔ بہرحال وہ ایک د ن شکار کے لئے نکلے تو ایک جوہڑ میں جو کسی گاؤں کے پاس تھا نمبردار کی بطخیں تیر رہی تھیں۔ کسی نے غلطی سے اُنہیں کہہ دیا کہ مگھ آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فائر کر دیا۔ فائر کے بعد جب وہ قریب گئے تو سمجھ گئے یہ تو بطخیں تھیں جن کو غلطی سے مگھ سمجھ کر فائر کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے نمبردار کو بلایا اور پانچ روپے کا نوٹ اپنی جیب سے نکال کر اسے دیا کہ لو یہ روپے میں تمہیں دیتا ہوں۔ مگر وہ اِس ذہنیت کی وجہ سے کہ کہیں ڈپٹی کمشنر کو یہ احساس نہ ہو جائے کہ میں نے ان کے فعل کو بُرا سمجھا ہے کہنے لگا صاحب! شکار تو آپ نے مارا ہے مجھے کیسا انعام دے رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا بے شک شکار ہم نے مارا لیکن تم یہ روپے لے لو۔ مطلب یہ تھا کہ یہ تمہاری بطخوں کی قیمت ہے میں نے غلطی سے ان کو مار ڈالا ہے اب یہ روپے ان کی قیمت کے طور پر لے لو۔ مگر وہ یہی کہتا رہا کہ آپ مجھے کیوں انعام دیتے ہیں شکار تو آپ نے کیا ہے۔ یہ ذہنیت اَور کسی ملک میں نظر نہیں آ سکتی۔ یہاں اگر انگریز کسی کو مارتا بھی چلا جائے تو اُس میں جرأت نہیں ہوتی کہ وہ اُس کے مقابلہ میں اپنی زبان ہِلا سکے۔ اب تو پھر بھی لوگوں میں کچھ آزادی کی روح پیدا ہو گئی ہے لیکن آج سے چند سال پہلے یہ حال تھا کہ کسی انگریز کے ساتھ لوگ ریل کےا یک کمرہ میں بھی سوار نہیں ہو سکتے تھے۔ اگر کسی ڈبہ میں انگریز بیٹھا ہوتاتھا تو بڑے بڑے ہندوستانی افسر وہاں سے ٹل جاتے تھے کہ صاحب بہادر اندر بیٹھے ہیں۔ خواہ صاحب بہادر ان کے نوکروں سے بھی ادنیٰ ہوں۔
ہندوستان کے لوگوں کی یہ حالت جو بیان کی گئی ہے اس میں اعلیٰ اخلاق کے لوگ شامل نہیں۔ ان لوگوں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ خواہ وہ صلیب پر لٹک رہےہوں یا جیل خانوں میں بند ہوں تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں۔ کیونکہ اصل آزادی جسم کی آزادی نہیں بلکہ دل کی آزادی ہے۔ آزاد قوموں کے جرنیل جب لڑائی میں پکڑے جاتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ غلام بن جاتے ہیں؟ وہ غلام نہیں بلکہ آزاد ہوتے ہیں۔ بے شک انہیں بند جگہوں میں رکھا جاتا ہے لیکن بند جگہوں میں رہنے کے باوجود وہ آزاد ہوتے ہیں۔ مگر ہندوستان وہ ملک ہے جس کا بیشتر حصہ بلکہ ننانوے فیصدی حصہ یقینا غلام ہو چکا ہے۔ اس قسم کی حالت کو اگر لمبا کیا جائے تو اس سے زیادہ اپنی قوم کے ساتھ اور کوئی دشمنی نہیں ہو سکتی۔ میں تو کہتا ہوں ایک ویٹو کیا اگر وائسرائے کو دس ویٹو بھی دے دیئے جائیں تب بھی اس تغیر کی وجہ سے ہندوستان میں جو آزادی کی روح پیدا ہو گی وہ اس قابل ہے کہ اُس کو خوشی سے قبول کیا جائے۔ جب تک ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ نہیں نکل جائے گا۔ (اور ہندوستانیوں سے مراد جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں عوام الناس ہیں نہ کہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ) کہ وہ انگریزوں کے غلام ہیں اُس وقت تک ہندوستان سے کسی بہتری یا کسی بڑے کام کی امید رکھنا بالکل فضول اور عبث ہے۔ لیڈر ہونا اَور بات ہے لیکن کام عوام الناس کیا کرتے ہیں۔ ہٹلر نے انگلستان سے لڑائی کی اور بے شک بڑی جرأت اور بہادری دکھلائی مگر لڑا ہٹلر نہیں بلکہ جرمن قوم لڑی۔ سٹالن نے بے شک ایک اعلیٰ مہارت جرنیل کی دکھائی اور لوگ سٹالن کی تعریف کرتے ہیں لیکن سٹالن، سٹالن نہیں بن سکتا تھا جب تک روس کا ہر آدمی بہادر اور دلیر نہ ہوتا۔ انگلستان میں مسٹر چرچل نے بے شک بڑا کام کیا ہے لیکن مسٹر چرچل کیا کام کر سکتے تھے اگر ہر انگریز اپنے اندر وہ اخلاق نہ رکھتا جو عام طور پر انگریزوں میں پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح مسٹر روز ویلٹ کو بھی بڑی عزت اور شُہرت حاصل ہوئی۔ مگر ان کوعزت اور شُہرت اِسی وجہ سے حاصل ہوئی کہ امریکن لوگوں نے قربانی کی ایک بے نظیر روح دکھائی۔ہندوستان میں بھی بے شک گاندھی جی کو اونچا کرنے کے لئے لوگ کتابیں لکھتے اور تقریریں کرتے ہیں لیکن کوئی اکیلا گاندھی یا دو درجن گاندھی یا بیس درجن گاندھی یا ہزار گاندھی بھی ہندوستان کو آزاد نہیں کرا سکتا جب تک عوام الناس میں آزادی کی روح پید انہ ہو۔ پس صرف گاندھی اور نہرو کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ ہندوستان ترقی کر رہا ہے محض حماقت ہے۔ چند بڑے بڑے لیڈروں کی وجہ سے یہ سمجھ لینا کہ ہندوستان میں آزادی کی روح پیدا ہو گئی ہے ویسی ہی جہالت کی بات ہے جیسے بلی کبوتر پر حملہ کرتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں امن میں آگیا ہوں۔ جب تک ہندوستان کے عوام الناس کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے، جب تک ہندوستان کے مزدوروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے، جب تک ہندوستان کے زمینداروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے اور جب تک ہم ان میں بیداری اور حرکت پیدا نہیں کر لیتے اُس وقت تک نہ ہندوستان آزاد ہو سکتا ہے نہ ہندوستان حقیقی معنوں میں کوئی کام کر سکتا ہے۔ اور یہ آزادی پیدا نہیں ہو سکتی جب تک موجودہ دَور بدل نہ جائے۔ جب تک ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ نکل نہ جائے کہ ہم غلام ہیں۔ جس دن ہندوستانیوں کے ذہن سے غلامی کا احساس نکل جائے گا اُس دن ان میں تعلیم بھی آجائے گی، ان میں جرأت اور دلیری بھی پیدا ہو جائے گی اور ان میں قربانی اور ایثار کی روح بھی رونما ہو جائے گی۔ جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں کسی کا غلام ہوں تو وہ کہتا ہے مجھے کیا زمین اُلٹی ہو یا سیدھی، آسمان گرے یا قائم رہے فائدہ تو مالک کو ہے میں کیوں تکلیف اٹھاؤں۔ میں سمجھتا ہوں وہ لیڈر، لیڈر نہیں ہوں گے بلکہ اپنی قوم کے دشمن ہوں گے جو ان حالات کے بدلنے کے امکان پیدا ہونے پر بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ضد کر کے بیٹھ جائیں۔ اور ان معمولی معمولی باتوں میں اس اہم ترین موقع کو ضائع کر دیں کہ فلاں کو کانفرنس میں کیوں لیا گیا اور فلاں کو کیوں نہیں لیا گیا۔ لوگ تو اپنے جسم کو بچانے کے لئے اپنے اور اپنے بچوں کے اعضا تک کٹوا دیتے ہیں لیکن یہاں یہ سوال پیدا کئے جار ہے ہیں کہ فلاں کو نمائندہ سمجھا جائے اور فلاں کو نہ سمجھا جائے، فلاں کو شامل کیا جائے اور فلاں کو شامل نہ کیا جائے۔ حالانکہ جس شخص کے دل میں حقیقی درد ہوتا ہے وہ ہر قسم کی قربانی کر کے اپنی قیمتی چیز کو بچانے کی کوشش کیا کرتاہے۔
یہودی تاریخ میں ایک مشہور واقعہ آتا ہے۔ لکھاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے والد کی زندگی میں ایک موقع پر جج کے طور پر کام کر رہے تھے کہ دو عورتیں ان کے پاس اپنا مقدمہ لے کر آئیں۔ وہ دونوں ایک شخص کی بیویاں تھیں۔ اور دونوں اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے کے لئے اکٹھی روانہ ہوئیں۔ دونوں کا ایک ایک بیٹا تھا۔ راستہ میں وہ جنگل میں سے گزر رہی تھیں کہ ایک مقام پر بھیڑیا حملہ کر کے ان میں سے ایک کا بیٹا اٹھا کر لے گیا۔ جس عورت کا بیٹا بھیڑیا اٹھا کر لے گیا تھا اُسے جب یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے فورًا دوسری عورت کا بیٹا اٹھا لیا اور کہا یہ میرا بچہ ہے۔ چونکہ خاوند سفر پر گیا ہوا تھا اور سال دو سال اسے گزر چکے تھے وہ سمجھتی تھی کہ اگر خاوند واپس آیا تو وہ پہچان نہیں سکے گا کہ یہ بیٹا اُس کا نہیں بلکہ دوسری کا ہے۔ اسے یہ بھی خیال تھا کہ اگر میرا بیٹا نہ ہوا تو خاوند میری سوت سے محبت کرنے لگ جائے گا اور میری طرف اِس کی توجہ کم ہو جائے گی اِس وجہ سے اُس نے اپنی سَوت کا بچہ اٹھا لیا اور کہا کہ یہ میرا ہے۔ اِس پر دونوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ ایک کہتی یہ میرا بچہ ہے اور دوسری کہتی کہ یہ میرا بچہ ہے۔ مقدمہ کئی قاضیوں کے پاس گیا مگر سب حیران تھے کہ ہم کیا کریں۔ دو گواہ ہیں تیسرا آدمی کوئی گواہی دینے والا نہیں اور دونوں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ اب اس جھگڑے کا کس طرح فیصلہ کیا جائے۔ آخر یہ معاملہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ انہوں نے سنتے ہی پتہ لگا لیا کہ اس مقدمہ کا دلائل سے ثابت کرنا بالکل ناممکن ہے۔ انہوں نے بھولے پن سے جیسے کوئی بالکل ناواقف ہوتا ہے یہ کہا کہ اس میں لڑائی کی کونسی بات ہے خوامخواہ تم جھگڑ رہی ہو، سیدھی بات ہے میں ابھی چُھری منگوا کر اِس بچے کو آدھا آدھا کر دیتا ہوں اور تم دونوں میں بانٹ دیتا ہوں۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اِس طرح فیصلہ دیا تو وہ جو سوتیلی ماں تھی اُس نے سمجھا کہ میرا لڑکا تو مر ہی چکا ہے اگریہ بھی مر گیا تو ہم دونوں برابر ہو جائیں گی اُس نے کہا ہاں یہی انصاف ہے۔ مگر جو اصلی ماں تھی اُس نے کہا حضور! مَیں جھوٹ بول رہی تھی یہ اِس کا بچہ ہےمیرا نہیں آپ اِسی کو دے دیں اور اسے ذبح نہ کریں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اِس پر وہ بچہ اصلی ماں کے حوالے کر دیا اور کہا یہ تیرا ہی بچہ ہے اس عورت کا نہیں جو اسے کاٹنے پر خوش ہو رہی تھی۔ 1
تو دیکھو سچی محبت میں انسان اپنی چیز بچانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ یہاں چالیس کروڑ انسان غلامی میں مبتلا ہے، چالیس کروڑ انسان کی ذہنیت نہایت خطرناک حالت میں بدل چکی ہے۔ نسلاً بعد نسلٍ وہ ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ انگریز جس نے ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کر رہا ہے۔ لیکن سیاسی لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیں کہ تمہارے اتنے ممبر ہونے چاہئیں اور ہمارے اتنے۔ اگر ہندوستان کی سچی محبت ان کے دلوں میں ہوتی تو مَیں سمجھتا ہوں ان میں سے ہر شخص کہتا کہ کسی طرح ہندوستان آزاد ہو جائے۔ کسی طرح چالیس کروڑ انسان غلامی کے گڑھے سے نکل آئے۔ چلو تم ہی سب کچھ لے لو مگر ہندوستان کی آزادی کی راہ میں روڑے مت اٹکاؤ۔ لیکن بجائے اِس کے کہ انہیں ہندوستان کی آزادی کا فکر ہو، انہیں چالیس کروڑ انسانوں کی غلامی کی زنجیریں کاٹنے کا احساس ہو، وہ معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑ رہے ہیں۔
پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان دنوں میں خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے، ان کی بینائی کو تیز کرے اور وہ خدائی تحریک جو میرے خطبہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے اُس سے اِنہیں فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی غفلت اور کوتاہی سے اِس اہم موقع کو ضائع کر دیں اور وہ مزید بیس یا پچاس یا سو سال تک ہندوستان کو غلامی کے گڑھے میں دھکیلنے والے بن جائیں۔ بے شک ایسی حالت میں ان کی لیڈریاں ہی قائم رہیں گی مگر ملک غلام کا غلام بنا رہے گا۔ اور میں تو کہتا ہوں ہر شریف انسان اپنی لیڈری پر *** بھیجنے سے بھی زیادہ کے لئے تیار ہو گا اگر اس کا ملک غلامی میں پڑا رہےاور وہ اپنی لیڈری کے خیال میں مست رہے۔ ہم ایک قلیل جماعت ہیں اور ہم ان حالات کو دیکھنے کے باوجود کچھ کر نہیں سکتے۔ لیکن ہماری جماعت یہ دعا ضرور کر سکتی ہے کہ اے خدا! خواہ مسلمان لیڈر ہوں یا ہندو تُو اِن کی آنکھیں کھول اور انہیں اِس بات کی توفیق عطا فرما کہ وہ ہندوستان کے چالیس کروڑ غلاموں کی زنجیریں کاٹنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے لئے مفید ہےبلکہ آئندہ دنیا کے امن کے لئے بھی مفید ہے۔ اگر اِس موقع پر لڑنا جائز ہوتا تو انگریزکو لڑنا چاہیے تھا۔ مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ وائسرائے جو انگلستان کی طرف سے ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے آیا ہوا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرتا ہوں۔ انگلستان کا صنّاع جو ہندوستان کو لُوٹ کر اپنی صنعت کو فروغ دے رہا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ انگلستان کی وہ ٹوری گورنمنٹ (Tory Governament) جو ہندوستان پر ہمیشہ جبری حکومت کے لئے کوشش کرتی چلی آئی ہے وہ کہتی ہے کہ میں ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہوں۔ انگلستان کی لیبر پارٹی جو نئی پارٹی ہے اور جسے برسرِاقتدار آنے کا پہلا موقع ملنے والا ہے یا ممکن ہے کچھ دیر کے بعد ملنے والا ہو وہ بھی اعلان کر رہی ہے کہ ہم ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہیں۔ انگلستان کے پریس کا بیشتر حصہ خواہ ٹوری ہو یا لیبر ہو یا لبرل (Liberal) ہو شور مچا رہا ہے کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے۔ امریکہ اور فرانس اور دوسرے ممالک جن کا براہِ راست ہندوستان سے کوئی واسطہ نہیں وہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے۔ لیکن اگر انگلستان ہندوستان کو آزادی دینے کےلئے تیار ہے تو ہندوستان کے اپنے بعض سپوت آزادی لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پس اِن دنوں میں اللہ تعالیٰ سے خاص طو رپر دعائیں کرو کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں یہ معاملات ہیں اللہ تعالیٰ اُنہیں اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ راہِ راست پر آجائیں اور ہندوستانی غلاموں کی زنجیروں کو کاٹ کر وہ ہندوستان کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے والے ثابت ہوں۔
اسی سلسلہ میں مَیں اپنے ایک رؤیا کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو نہایت عظیم الشان طور پر پورا ہوا ہے۔ غالباً 8 یا 9۔اپریل کی بات ہے میں اُن دنوں لاہور میں تھا کہ میں نے یہ رؤیا دیکھا اور میں نے لاہور میں ہی جماعت کے کئی دوستوں کو سنا دیا۔ اس کے بعدیہاں بھی اپنی مجلس میں مَیں نے اس رؤیا کا ذکر کیا۔ تین چار سَو کا مجمع تھا جس میں مَیں نے اپنے اس خواب کو بیان کیا۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جیسے ہمارے ہندوستانی لوگوں پر کام کرتے وقت عام طور پر نحوست اور سستی چھا جاتی ہے یہی نقص ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ دس بارہ دن کے بعد جب میں نے دریافت کیا کہ اُس دن کی خوابوں والی ڈائری میرے پاس کیوں نہیں آئی؟ تو ڈائری نویسی کے محکمہ نے اطلاع دی کہ ہمارے ڈائری نویس صاحب معذرت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ دو دن پہلے آپ بیمار تھے اور مسجد میں تشریف نہیں لائے تھے اس لئے اُنہوں نے فرض کر لیا کہ آپ تیسرے دن بھی تشریف نہیں لائیں گے اور اس طرح وہ ڈائری قلمبند ہونے سے رہ گئی۔ بہرحال تین چار سو کے مجمع میں مَیں نے اپنے اس خواب کو بیان کر دیا تھا اور لاہور میں بھی کئی دوستوں کے سامنے اس کا ذکر کیا تھا۔ وہ رؤیا یہ تھا کہ ابو الکلام صاحب آزاد کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ قریب عرصہ میں ان کی ذات کے متعلق ایک عظیم الشان واقعہ ہونے والا ہے۔ مَیں نے اس رؤیا کی تعبیر یہ بتائی تھی کہ انسانی زندگی میں دو ہی واقعات عظیم الشان ہوتے ہیں یا تو اس کا مرجانا اور یا جس کام میں وہ مشغول ہو اُس میں اُسے کسی عظیم الشان خدمت کا موقع مل جانا۔ پس میں نے کہا تھا کہ یا تو اس خواب میں ان کی موت کی طرف اشارہ ہے یا آزاد ہو جانے پر کسی بڑے کام کا موقع پانے کی طرف۔ اس رؤیا کے دو ماہ کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ لارڈ ویول کی طرف سے ہندوستان کی آزادی کا سوال پیش کیا گیا اور چونکہ خدا نے اس رؤیا کو پورا کرنا تھا اس لئے اس نے اس رؤیا کو نمایاں طور پر پورا کرنے کے سامان اس طرح پیدا کئے کہ لارڈ ویول نے جن کو دعوت نامے بھیجے اُن میں ابو الکلام صاحب آزاد کا نام نہیں تھا۔ گاندھی جی کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے شمولیت سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ میں کانگرس کا نمائندہ نہیں۔ کانگرس کے صدر مولانا ابو الکلام آزاد ہیں۔ آپ مجھے ایک غیر جانبدار شخص کے طور پر بلا سکتے ہیں مگر کانگرس کی نمائندگی کے لئے آپ ابو الکلام صاحب آزاد کو بلائیں۔ چنانچہ اس کے بعد لارڈ ویول کی طرف سے ابو الکلام صاحب آزاد کو بھی دعوت دی گئی۔ اب چاہیں تو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا لیں اور چاہیں تو اس کو ضائع کر دیں۔ بہرحال اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی سیاسی زندگی میں یہ سب سے اہم موقع ہے جو مولانا ابوالکلام صاحب آزاد کو ملا ہے۔ اِس وقت ہندوستان کی آزادی کا سوال پیش ہے اگر وہ اس کو رد کر دیں تب بھی یہ ایک بڑا واقعہ ہے جو ان کی طرف منسوب ہو گا۔ اور اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا کر ہندوستان کو آزاد کرا دیں تب بھی یہ ایک بڑا واقعہ ہے جو ان کی طرف منسوب ہو گا۔ اور اگر وہ اس کو رد کر دیں گے تو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیشہ ان پر *** کریں گی کہ ہندوستان کو آزادی حاصل ہونے والی تھی مگر ابوالکلام آزاد کی وجہ سے آزادی نہ ملی۔ اور اگر وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے سمجھوتہ کرا دیا تو آئندہ آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کریں گی کہ خدا ابو الکلام پر رحمت کرے کہ جب ہندوستان کی آزادی کا سوال آیا تو انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی طرز پر کام کیا کہ ہندوستان کو آزادی نصیب ہو گئی۔
ہمارے ہاں مشہور ہے کہ کوئی شخص حج کے لئے گیا تو چشمۂ زمزم میں پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ لوگوں نے یہ دیکھ کر اُسے مارا پیٹا اور کہا کہ نامعقول! تُو نے یہ کیا حرکت کی ہے؟اس نے جواب دیا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ کوئی ایسا کام کروں جس سے میری شُہرت ہو جائے۔ جو بھی لیاقت کا کام ہوتا میں دیکھتا کہ ہزاروں آدمی مجھ سے زیادہ لائق ہیں اور میں ان کے مقابلہ میں کوئی شہرت حاصل نہیں کر سکتا۔ آخر مَیں یہاں حج کرنے کے لئے آیا تو مجھے خیال آیا یہ کام آج تک کسی نے نہیں کیا ہو گا اگرمیں ایسا کروں تو میری دنیا میں خوب شہرت ہو جائے گی۔ تو بڑے کام بُرے بھی ہوتے ہیں اور اچھے بھی۔
بہرحال یہ ایک ایسا موقع ابوالکلام صاحب کو ملا ہے کہ اگر وہ اس کو رد کر دیں تب بھی اتنا بُرا کام اور کسی نے نہیں کیا ہو گا اور اگر وہ اس سے فائدہ ا ٹھائیں اور اس تحریک کو قبول کر لیں تب بھی اتنا اچھا کام پچھلی کئی صدیوں میں کسی نے نہیں کیا ہو گا۔ پس وہ رؤیا اِس صورت میں پورا ہو چکا ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ ڈائری نویسوں کی سُستی کی وجہ سے وہ رؤیا شائع نہیں ہوا۔ بہرحال اُس روز قادیان کے تین چار سَو افراد شام کی مجلس میں موجود تھے جنہوں نے یہ رؤیا میری زبان سے سنا اور وہ اس رؤیا کی صداقت کے گواہ ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی بھاری حکمت معلوم ہوتی ہے کہ اول میں نے ہندوستان کی آزادی کے متعلق خطبہ پڑھا۔ پھر میری آواز چودھری ظفراللہ خان صاحب کے ذریعہ انگلستان پہنچی اور پریس میں ایک شور مچ گیا۔ اس کے بعد لارڈ ویول ہندوستان کی آزادی کے متعلق تجاویز لے کر انگلستان گئے اور وزارت سے دیر تک بحث کرتے رہے۔ اِسی دوران میں پارلیمنٹ کے نئے انتخابات کا سوال آگیا اور آخر کنزرویٹو پارٹی اِس بات پر مجبور ہو گئی کہ وہ جلد سے جلد اِس سوال کو اٹھائے۔ پھر خدا تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت خبر دے دی کہ ابو الکلام صاحب آزاد کی زندگی سے ایک بہت بڑا کام وابستہ ہے۔ چنانچہ اِنہی کی پریذیڈنٹی میں یہ سوال اٹھا حالانکہ اگر وہ فوت ہو جاتے یا پریذیڈنٹ بدل جاتا تو یہ کام ان کی طرف منسوب نہ ہو سکتا۔ پس یہ تمام واقعات خدائی مشیّت کے ماتحت ہوئے ہیں۔ اور اس کے نشانات میں سے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے جو ظاہر ہؤا ہے۔ یہ نشانات جو متواتر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو رہے ہیں ہماری جماعت کے مخلصین کے ایمانوں میں زیادتی کا موجب ہونے چاہئیں اور انہیں دیکھنا چاہیے کہ کس طرح یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے نشانات ظاہر کر رہا ہے جو انسانی طاقت و قوت سے بالکل بالا ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ہماری جماعت کو اپنے اخلاص اور اپنے ایمان اور اپنی قربانیوں میں نمایاں طور پر ترقی کرنی چاہئے۔
مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ بے شک جماعت مالی قربانی کر رہی ہے مگرجہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے اِس میں جماعت نے سُستی سے کام لیا ہے۔ اب بھی باوجود میرے خطبہ کے جماعت میں شائع ہونے کے جماعت میں سُستی کے آثار نظر آتے ہیں۔ سات مہینے تحریک جدید کے گیارہویں سال پر گزر چکے ہیں لیکن ابھی چالیس فیصدی چندہ بھی وصول نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں اِس میں زیادہ تر جماعت کی سُستی نہیں کیونکہ انجمن کے چندے باقاعدہ وصول ہو رہے ہیں۔ اس میں زیادہ تر غفلت تحریک جدید کے دفتر کی ہے۔ اگر لوگوں کے اخلاص اور ان کی قربانی میں کمی آجاتی تو چاہیے تھا کہ دوسرے چندوں میں بھی کمی آجاتی۔ لیکن صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں کمی نہیں آئی بلکہ زیادتی ہو رہی ہے۔ایک دو ہفتوں میں مجھے کمی نظر آئی تھی مگر انہوں نے ثابت کیا ہے کہ بعد کے ہفتوں میں یہ کمی پوری ہو کر پہلے سے بھی زیادہ چندہ وصول ہو گیا ہے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ یا تو جو میں نے کہا تھا کہ ہر انجمن میں اس غرض کے لئے ایک سیکرٹری تحریک جدید ہونا چاہیے دفتر نے اِس نشہ میں کہ میرے خطبات کی وجہ سے جماعت میں ایک عام بیداری پیدا تھی جماعتوں میں سیکرٹریوں کے مقر ر کرنے میں کوتاہی سے کام لیا ہے۔ اور یا پھر جو سیکرٹری مقرر ہیں وہ سُست ہیں دفتر نے ان کی نگرانی نہیں کی اور ان کو ہوشیار اور بیدار کرنے کے لئے کوئی جدوجہد نہیں کی۔ بجائے اس کے کہ وہ سیکرٹریوں کو چُست کرتے وہ ہمیشہ اخبار میں یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل ہونے کا وقت آگیا۔ یہ ایک فقرہ ہے جو انہوں نے سیکھا ہوا ہے اور اِسی ایک فقرہ کو وہ بار بار دہراتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ کوئی ایک فقرہ خواہ کتنا ہی بیدار کرنے والا ہو ہمیشہ کے لئے کام نہیں آسکتا۔ تیز سے تیز چُھری بھی تھوڑی دیر چلنے کے بعد کُند ہو جاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اسے تیز کیا جائے۔
حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ بھوپال میں ایک بزرگ تھے جن سے مَیں عموماً ملنے کے لئے جاتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ کچھ دیر کے بعد ملا تو آپ نےفرمایا میاں! کبھی قصاب کی دکان پر بھی گئے ہو؟ میں نے کہا ہاں جناب! کئی دفعہ جاتا ہوں۔ کہنے لگے کیا تم نے دیکھا کہ قصاب کچھ دیر گوشت کاٹنے کے بعد چُھریوں کوآپس میں رگڑ لیتا ہے؟ آپ فرماتے تھے میں نے کہا میں نے ایسا کئی بار دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا جانتے ہو وہ چُھریاں آپس میں کیوں رگڑتا ہے؟ اِس لئے رگڑتا ہے کہ چربی میں جب بار بار چُھری جاتی ہے تو کُند ہو جاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اُسے تیز کیا جائے۔ چنانچہ جب دو چُھریاں آپس میں رگڑی جاتی ہیں تو وہ دونوں تیز ہو جاتی ہیں۔ یہ مثال دے کر فرمانے لگے ہمارا دماغ بھی دُنیوی کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے کُند ہو جاتا ہے اور تمہارا دماغ بھی کُند ہو جاتا ہو گا۔ کبھی کبھی آجایا کرو تاکہ ہم بھی اپنی چُھریاں آپس میں رگڑ لیا کریں اور میرا اور تمہارا ذہن دونوں تیز ہوتے رہیں۔ تو متواتر السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے الفاظ کو اخبار میں دہراتے رہنا اثر کو کم کر دیتا ہے اور آخر کثرتِ استعمال کی وجہ سے السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے معنے جاتے رہتے ہیں۔ کام کرنے کا طریق یہ ہوتا ہے کہ تنظیم کی جائے۔ مگر انہوں نے جماعتوں میں اپنے سیکرٹری مقرر نہیں کئے۔ اور اگر کئے ہیں تو وہ سُست ہیں۔ چاہیے تھا کہ ان کو ہوشیار کیا جاتا یا بدلوایا جاتا مگر ان کو بدلوانے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ آٹھ سو جماعتوں میں صدر انجمن احمدیہ کے آدمی کام کرتے ہیں اور وہ اپنے چندوں میں برابر ترقی کر رہے ہیں۔ بے شک ان کے انسپکٹر بھی ہیں لیکن سیکرٹریانِ تحریک جدید کو بھی انسپکٹروں کے ذریعہ چُست کیا جا سکتا تھا۔ مگر دفتر والوں نے اِس بارہ میں اپنی ذمہ داری کو قطعاً محسوس نہیں کیا۔ پس اِس چندہ کی عدمِ وصولی میں زیادہ تر دفتر والوں کی کوتاہی ہے۔ اگر جماعت کی کوتا ہی ہوتی تو صدر انجمن احمدیہ کے چندوں پر بھی اس کا اثر پڑتا مگر ان کے چندوں پر اس کا اثر نہیں پڑا۔
پس میں اس کا الزام دفتر والوں کو دیتا ہوں مگر میں سمجھتا ہوں جماعت بھی اپنی ذمہ داری سے پوری طرح بَری نہیں۔ میں نے بتایا تھا کہ کام کرنے کا وقت اب آیا ہے اور یہی وہ سال ہے جس میں اخراجات پہلے سے کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ کچھ مبلغ باہر جا چکے ہیں اور کچھ مبلغ تیار ہیں جو عنقریب تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں روانہ ہونے والے ہیں۔ اگرایسے وقت میں جماعت اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نہ سمجھے تو کس قدر افسوس کا مقام ہو گا یہ بالکل ویسی ہی بات ہو گی جیسے کوئی شخص اپنے معشوق سے ملنے کے لئے ایک لمبے فاصلہ سے دوڑتا چلا آئے مگر جب اس کے دروازہ پر پہنچ جائے تو ڈیوڑھی میں ہی بیٹھ جائے اور اندر داخل ہونے کی کوشش نہ کرے۔ جو افسوس ایسے شخص کو ہو گا وہی حال ان لوگوں کا ہے جنہوں نے دس سال قربانی کی مگر جب عملی طور پر کام کرنے کا وقت آیا اور خدا تعالیٰ کے سپاہی میدانِ جنگ میں کام کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے تو وہ ہمت ہار کر بیٹھ گئے۔ کیا خدا تعالیٰ کے نشانات، اُس کے تازہ بتازہ معجزات اور اس کی تائید اور نصرت کے متواتر واقعات سے مومنوں کو اسی طرح فائدہ اٹھانا چاہیے؟
یاد رکھو! خداتعالیٰ کے نشانات جہاں بہت بڑی رحمت کا موجب ہوتے ہیں وہاں بہت بڑے ابتلا کا بھی موجب ہوتے ہیں۔ اگر انسان ان نشانات کی قدر کرے تو اس کا ایمان زمین سے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر وہ ان نشانات کی قدر نہ کرے اور ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو اُس کا ایمان آسمان سے زمین پر آگرتا ہے۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانات سے فائدہ اٹھائے، اپنے ایمانوں کو مضبوط بنائے اور پہلے سے زیادہ قربانیاں کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ اب اس کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں اور خدا نے اس پر حُجت تمام کر دی ہے۔ اگر اب بھی کوئی شخص توجہ نہیں کرے گا تو وہ گھڑا گھڑایا اور بنا بنایا مجرم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا۔
وہ لوگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات نہیں دیکھے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کیا کریں ہم نے تو اپنی آنکھ سے خدا تعالیٰ کا کوئی نشان نہیں دیکھا۔ وہ لوگ جن پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور گو کسی پہلے زمانہ میں انہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھا ہو مگر اب ایک لمبے زمانہ سے انہوں نے کسی نشان کو نہیں دیکھا وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات پر ایک عرصۂ دراز گزر چکا ہے۔ اب ہمارے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے اور ہم میں قربانی کرنے کی روح نہیں رہی۔ لیکن وہ جماعت جس کے سامنے خدا تعالیٰ نے اپنے تازہ بتازہ نشانات دکھائے ہیں اور اب بھی دکھا رہا ہے وہ خداتعالیٰ کو کیا جواب دے سکتی ہے۔ اس کے ایمان میں تو اتنی تیزی اور شدت ہونی چاہیے کہ کوئی بات اس کو سست کرنے والی نہ ہو۔ ہر قدم اس کا آگے بڑھے اور اِس طرح دیوانہ وار وہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہو جائے کہ اسے اپنی زندگی اور اپنی موت دونوں یکساں معلوم ہوں بلکہ موت اسے زندگی سے زیادہ شیریں اور لذیذ معلوم ہو۔ کیونکہ موت میں مومن اپنے یار کے دیدار کو دیکھتا ہے۔
صحابہؓ کی طرف دیکھو اُنہوں نےد ین کے لئے کیسی کیسی قربانیاں کیں۔ حضرت ضرارؓ بن اسود ایک مخالف جرنیل کے مقابلہ میں اُس سے لڑنے کے لئے نکلے۔ وہ کئی مسلمانوں کو شہید کر چکا تھا۔ جب یہ اُس کے سامنے ہوئے تو فورًا بھاگے اور دَوڑتے ہوئے اپنے خیمہ کی طرف چلے گئے۔ یہ دیکھ کر صحابہؓ میں سخت بے کلی اور بے چینی کی لہر دَوڑ گئی کہ اب عیسائیوں کے سامنے ہماری کیا عزت رہ جائے گی۔ کمانڈر انچیف نے فوراً ان کے پیچھے اپنا آدمی دوڑایا اور کہا کہ پتہ لو ضرارؓ کیوں بھاگے ہیں؟ وہ گیا تو اُس وقت ضرارؓ اپنے خیمہ سے باہر نکل رہے تھے اس شخص نے کہا ضرارؓ !آج تم نے کیا کیا؟ تمہارے اس فعل کے نتیجہ میں آج سارے اسلامی لشکر کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں کہ اسلام کا سپاہی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا صحابی میدانِ جنگ سے بھاگ گیا۔ حضرت ضرارؓ نے کہا ہاں تم نے یہی سمجھا ہو گا مگر بات یہ ہے کہ جب کئی مسلمان یکے بعد دیگرے اِس جرنیل کے ہاتھ سے مارے گئے تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس کے مقابلہ میں نکلوں گا۔ مگرجب میں اس کے سامنے کھڑا ہوا تو مجھے یاد آگیا کہ میں نے کُرتے کے نیچے لوہے کی زِرہ پہنی ہوئی ہے۔ اُس وقت میرے دل نے مجھ سے کہا کہ ضرار! کیا یہ زِرہ تو نے اِس لئے پہن رکھی ہے کہ یہ بڑا بھاری جرنیل ہے ایسا نہ ہو کہ تُو اس کے ہاتھ سے مارا جائے؟ کیا خدا کے ملنے سے تُو ڈرتا ہے کہ زِرہ پہن کر لڑنے کے لئے آیا ہے؟ جب میرے دل نے مجھ سے یہ کہا تو میں نے سمجھا اگر مَیں اِس وقت مارا گیا تو مَیں جہنم میں جاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ مجھے کہے گا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تجھے ہم سے ملنے کی خواہش نہیں تھی۔ چنانچہ میں دوڑتا ہوا واپس چلا گیا تا کہ میں زِرہ اُتا رآؤں اور اس کے بغیر اس کا مقابلہ کروں۔ چنانچہ انہوں نے اپنا کُرتا اٹھا کر بتایا کہ دیکھ لو میں زِرہ اُتار کر آیا ہوں۔ اس کے بعد وہ اس کے مقابلہ کے لئے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اِنہوں نے اُسے مار لیا۔ تو مومن موت کو اپنی زندگی سے بھی پیارا سمجھتا ہے۔ جس چیز کو لوگ ہلاکت سمجھتے ہیں مومن اسے اپنے لئے برکت کا باعث سمجھتے ہیں اور جس چیز کو لوگ تباہی کا موجب سمجھتے ہیں مومن اسے اپنی ترقی کا موجب سمجھتے ہیں۔
پس جہاں مَیں مرکز کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں اور ان کی غفلت اور کوتاہی پر انہیں ملامت کرتے ہوئے انہیں صحیح طور پر کام کرنے کی نصیحت کرتا ہوں وہاں مَیں جماعتوں کو بھی ملامت کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ اور عین اُس موقع پر جبکہ ہم لڑائی کے لئے تیاری کر رہے تھے انہوں نے ہماری طبیعتوں کو مُشَوَّش2 کر دیا اور ہمارے وقتوں کو اس عظیم الشان کام کی بجائے اور کاموں کے لئے خرچ کروانے لگیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کو دور کرے اور خدا تعالیٰ کے تازہ نشانات جو اس کے سامنے ظاہر ہو رہے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے ایمان اور اپنے اخلاص کو بڑھاتی چلی جائے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ ہمارے کارکنوں کو اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ سُستی اور غفلت کو چھوڑ کر صحیح طریقوں پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو اُس کی صحیح بنیادوں پر قائم کر دیں تاکہ دونوں گروہ اُس کے حضور سُرخرو ہوں اور دونوں گروہ اُس کے حضور ثواب کے مستحق ہوں۔ ’’
(الفضل مورخہ 23 ،25 جون 1945ء )
1: بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ وَ وَہَبْنَا لِدَاوٗدَ…الخ
2: مشوّش: پریشان۔ مضطرب
20
کمیونزم موجودہ زمانہ کے سب سے بڑے فتنوں میں سے ایک فتنہ ہے
(فرمودہ 29جون 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مَیں نے اس سال جلسہ سالانہ پر بعض کتابوں کےشائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یعنی تفسیر کبیر کی ایک جلد بلکہ ہو سکے تو دو جلدیں۔ ستیارتھ پرکاش کا جواب اور ایک احادیث کا انتخاب۔ مجھے افسوس ہے کہ اِس سال کی پہلی ششماہی کے آخری حصہ میں ایک لمبی بیماری کی وجہ سے تفسیر کے کام میں بہت حد تک روک رہی ہے کیونکہ مئی اور جون کا اکثر حصہ میری بیماری میں گزرا ہے۔ لیکن آخری ایام میں بیماری کی تخفیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جو مجھے توفیق دی اس کی امداد سے تفسیر کی پہلی جلد کا بہت سا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے میں نے ختم کر لیا ہے۔ اور سَوا چار سو صفحے کا مضمون چھ سو صفحات کی جلد میں سے یا تو میں دے چکا ہوں یا میرے پاس تیار پڑا ہے۔ امید ہے کہ بقیہ حصہ بھی ہفتہ عشرہ تک تیار ہو کر مکمل ہو جائے گا۔ اور اگر پریس کی دقّت پیش نہ آئی تو جولائی کے مہینہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ کام تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ دو سو ساٹھ صفحات تک مضمون پریس میں جا چکا ہے اور دو سو تک غالباً چَھپ بھی چکے ہیں۔
ہمارے لئے اس زمانہ میں پریس کی بہت دقتیں ہیں بڑے شہروں میں تو بہت سے پریس ہوتے ہیں اگر ایک خراب ہو جائے تو دوسرے پریس میں کتاب چَھپ سکتی ہے۔ دوسرا خراب ہو جائے تو تیسرے پریس میں کتاب چَھپ سکتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس سامان بہت کم ہیں۔ صرف ایک دو پریس ہیں اور وہ بھی اس قابل نہیں کہ سب کا سب تفسیر کا کام کر سکیں۔
جیسا کہ اعلان کیا جا چکا ہے آخری پارہ دو حصوں میں شائع ہو گا۔ کیونکہ مضمون کے متعلق اندازہ کیا گیا ہے کہ وہ غالباً ہزار صفحہ سےزیادہ ہو جائے گا۔ اس صور ت میں اس کا ایک جلد میں شائع کرنا مناسب نہیں تھا۔ کیونکہ تفسیر کبیر کی پہلی جلد جو شائع ہو چکی ہے اور جو ایک ہزار صفحہ کی کتاب ہے۔ وہ بھی بہت بھاری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری دقّت ہمیں یہ پیش آئی کہ آجکل کاغذ نہیں ملتا۔ اس لئے موجودہ جلد کے لئے جو کاغذ مہیا کیا گیا ہے اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ بھاری اور موٹا ہے۔ اس کی وجہ سے خطرہ تھا کہ یہ جلد ایسی بھاری ہو جائے گی کہ اس کا استعمال کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ جِلد بندی ہو کر اگست میں یہ کتاب لوگوں تک پہنچ جائے گی یا نہیں۔ بہرحال یہ امید کی جاتی ہے اور ہدایتیں یہی ہیں کہ جولائی میں یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے فضل سے شائع ہو جائے۔ جو میرے کام کا حصہ ہے وہ اکثر ختم ہو چکا ہے باقی کام آٹھ دس دن میں انشاء اللہ ختم ہو جائے گا۔ اِس کے بعد میرا ارادہ ہے کہ اسکے دوسرے حصہ کی بھی جلد سے جلد تکمیل کر لی جائے تاکہ اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو حسبِ وعدہ دوسری جلد بھی جلسہ سالانہ سے قبل شائع ہو سکے۔اِس وقت دوسری جلد کے مضمون کا بھی ایک حصہ تیار ہے اور ایک حصہ ابھی تیار ہونے والا ہے جس کو ہمارے زود نویس لکھ رہے ہیں۔ اور غالباً پندرہ بیس دن تک وہ اس کام سے فارغ ہو جائیں گے۔ اس حصہ کو بھی درست کر کے میں انشاء اللہ کاتبوں کو دے دوں گا تاکہ دوسری جلد کی کتابت بھی جلد سے جلد شروع ہو جائے۔ صرف ایک ربع کا مضمون ابھی باقی ہے جس کے متعلق میرا منشاء یہ ہے کہ اس دفعہ ڈلہوزی میں درس دے کر وہ مضمون بھی لکھوا دوں۔ ستیارتھ پرکاش کے جواب کا بھی بہت سا کام ہو چکا ہے اور اب مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں اس پر نظرثانی کر کے مضمون کو انشاء اللہ درست کیا جائے گا۔ صرف ایک باب باقی ہے جو انشاء اللہ اگلے ایک دو ماہ کے اندر اندر لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس دوران میں میرا ایک لیکچر جو اسلام کے اقتصادی نظام پر لاہور میں ہوا تھا اور جس میں اسلامی اقتصادیات کا سوویٹ اقتصادی نظام کے ساتھ مقابلہ کر کے اسلامی نظامِ اقتصاد کی فوقیت کو ثابت کیا گیا تھا اس پر نظر ثانی کر کے اور آخری حصہ جو لیکچر میں پورے طور پر بیان نہیں ہو سکا تھا اُس کی مزید تشریح کر کے تحریک جدید والوں کو پانچ چھ دن ہوئے میں اپنی طرف سے مکمل طور پر دے چکا ہوں اور امید ہے کہ جولائی کے مہینہ میں یہ کتاب بھی انشاء اللہ شائع ہو جائے گی۔
میں نےد وستوں کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ کمیونزم اس زمانہ کے اہم ترین فتنوں میں سے ہے۔ یہ لوگ بظاہر تو کہتے ہیں کہ مذہب سے ہمارا کوئی ٹکراؤ نہیں لیکن ان کا تمام طوروطریق مذہب سے ٹکراؤ کا ہی ہے۔ درحقیقت اس اقتصادی نظام کے ماتحت جس کو سوویٹ سسٹم دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اسلام کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں۔ اب چند دن ہوئے روس کے کسی مسلمان امام کی طرف سے ایک اعلان شائع ہو اہے کہ یہ خبر بالکل غلط ہے کہ اس ملک میں اسلام کو کسی قسم کا ضُعف پہنچا ہے۔ ہم تو ہر طرح خوش و خرم ہیں لیکن ہمیں مولویوں کے اِس قسم کے اعلانات کی حقیقت اچھی طرح معلوم ہے۔ کیونکہ ہندوستان میں روزانہ اس قسم کے اعلان ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے ہندوستان کے بعض مولوی ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے اعلان کرتے رہتے ہیں کہ گاؤ کشی اسلام میں بھی حرام ہے اور درحقیقت اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی۔ تجارتی لوگوں کو خوش کرنے کے لئے مسلمانوں میں وہ علماء بھی ہیں جو سُود کی ایسی تعریف کرتے ہیں جس کے ماتحت بنکوں کا سُود سُود ہی نہیں رہتا بلکہ اس کا استعمال جائز ہو جاتا ہے۔ پھر ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ کوئی سیاسی مسئلہ جو لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف پھیر رہا ہوتا ہے اُس کے متعلق علماء کی ایک جماعت اعلان کر دیتی ہے کہ خالص اسلام یہی ہے۔ کبھی خالص اسلام انگریزوں کی تائید ہوتا ہے اور کبھی خالص اسلام ہندوستان سے ہجرت کرنا ہوتا ہے۔ کبھی خالص اسلام کانگرس کی مخالفت کرنا ہوتا ہے اور کبھی خالص اسلام گاندھی جی کی کامل اتباع ہوتا ہے۔ یہ خالص اسلام،اسلام نہیں بلکہ درحقیقت موم کی ناک ہے جسے مولوی اپنی مرضی کے مطابق ہمیشہ موڑتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ اسے دائیں طرف کر دیتے ہیں اور کبھی بائیں طرف۔ ایسا ہی وہ اعلان بھی ہے جو بالشویک(Bolshevik) نظام کے متعلق ایک مسلمان امام نے کیا۔ اگر مسلمان اس ملک میں پوری طرح آزادی رکھتے ہیں، اگر عیسائیت وہاں پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقائد کو پھیلا رہی اور لوگوں سے اپنے دین پر عمل کر ارہی ہے تو آخر وجہ کیا ہے کہ سوویٹ نظام غیر ممالک کے لوگوں کو اپنے ملک میں آنے کی اُسی طرح کھلی اجازت نہیں دیتا جس طرح ساری دنیا کے ممالک میں لوگوں کو آنے جانے کی اجازت ہے۔ آخر یہ چُھپانا اور لوگوں کو اپنے ملک میں داخلہ کی اجازت نہ دینا کس غرض کے لئے ہے۔ امریکہ میں ساری دنیا کے سیاح اور تاجر اور پیشہ ور جاتے ہیں مگر امریکہ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ انگلستان میں ساری دنیا کے سیاح اور تاجر اور پیشہ ور جاتے ہیں مگر انگلستان کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ فرانس میں ساری دنیا کے سیاح اور تاجر اور پیشہ ور جاتے ہیں مگر فرانس کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ حتّٰی کہ ہٹلر کی جرمنی کو بھی کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا تھا۔ مسولینی کی اٹلی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا تھا اور وہاں سب لوگ آسانی سے آجا سکتے تھے۔ فرانکو کے سپین کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور وہاں سب لوگ آسانی سے آجا سکتے ہیں۔ ایشیائی حکومتیں جن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ سختی سے کام لیتی ہیں وہ بھی اِس قسم کی رکاوٹیں حائل نہیں کرتیں اور نہ ان ممالک میں لوگوں کے آنے جانے میں کسی قسم کی دقتیں ہیں۔ ایران میں بھی لوگ جاتے ہیں، عراق میں بھی جاتے ہیں، شام میں بھی جاتے ہیں،مصر میں بھی جاتے ہیں۔ جاپانی لوگ نہایت قدامت پسند مشہور ہیں مگر جاپان میں بھی لوگوں کے آنے جانے میں کوئی روک نہیں تھی۔ چین ایک نہایت پیچھے رہا ہؤا ملک ہے مگر اس میں بھی لوگوں کےآنے جانے میں کوئی روک نہیں۔ پس آخر وہ کیا چیز ہے جس کو چُھپانے کے لئے روس میں کثرت سے اور بِلانگرانی لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں۔ یہاں تک کہ روس کی سیر کے لئے جو بیرونی ممالک کے نمائندے جاتے ہیں ان کے ساتھ بھی ہر وقت ایک روسی افسر رہتا ہے۔ بظاہر تو یہ غرض ہوتی ہے کہ ان کو روس دکھایا جائے لیکن باہر آکر وہ بتاتے ہیں کہ ان کی اصل غرض یہ تھی کہ ہمیں پوری طرح روس دیکھنے نہ دیں۔ صرف وہی حصہ د یکھنے دیں جس کے متعلق وہ چاہتے ہیں کہ ہم دیکھیں۔ وہ حصہ ہمیں نہ دیکھنے دیں جس کے متعلق ہم چاہتے ہیں کہ دیکھیں۔
پس اس قسم کے اعلانات قطعاً کوئی حقیقت نہیں رکھتے ان تحریروں کے مقابلہ میں جو روس کے لیڈروں کی ہیں اور جن میں مذہب کی شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہاں تک الفاظ پائے جاتے ہیں کہ مذہب کی موجودگی میں ہمارا طریق کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ لینن لکھتا ہے ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم مذہب کو کچل دیں اور اسے دنیا سے مٹا کر رکھ دیں۔ یہ کہنا کہ مذہب سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں لینن کہتا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے۔ ہمارا واسطہ ہے اور ضرور ہے اور وہ واسطہ یہ ہے کہ ہم مذہب کو دنیا سے مٹا دیں۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ جب تک خدا کا خیال دنیا میں باقی ہے۔ جب تک دنیا اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتی ہے اُس وقت تک ہمارے اصول دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اب بتاؤ جب کمیونزم کے بانی اپنی تحریرات میں یہ امر کھلے طور پر واضح کر چکے ہیں کہ دنیا سے مذہب کو مٹانا ان کا اولین فرض ہے تو ہم اس قسم کے ملّانوں کے اعلانات کو کیا کریں۔ ملّا نے تو ہمارے ملک میں بھی موجود ہیں اور وہ جو چاہیں اعلان کر دیتے ہیں۔ اس تجربہ کے بعد کسی مولوی کی ایسی تحریر سے متأثر ہو جانا قابلِ تعجب بات ہے۔
غرض اسلام کے لئے بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کے لئے کمیونزم کا اقتصادی نظام ایک خطرناک چیز ہے کیونکہ وہ مذہب کی جڑ پر تبر رکھتا ہے اور مذہب کی اشاعت اور اس کی تبلیغ کے راستہ میں روک بنتا ہے۔ پس ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ کمیونزم کے متعلق جو لٹریچر شائع ہو اُس کی دنیا میں اچھی طرح اشاعت کرے۔ مَیں نے تحریک جدید والوں کو حکم دے دیا ہے کہ وہ اس کتاب میں کسی نفع کا خیال نہ رکھیں بلکہ لاگت کے قریب قریب قیمت پر اس کو تقسیم کریں۔ چنانچہ اس لحاظ سے کہ کچھ کتابیں مفت بھی دینی پڑتی ہیں۔ جو جماعتیں کثرت سے یہ کتاب خریدیں ان کے لئے ایسی قیمت مقرر کی گئی ہے جو لاگت سے بھی کم ہے کیونکہ انہیں کثرت کے ساتھ لوگوں میں مفت کتابیں تقسیم کرنی پڑیں گی اور پھر کچھ کتابیں یوں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ میں نے ان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کی پہلی اشاعت پانچ ہزار کریں۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعتیں ہر جگہ اس کتاب کو نہ صرف جماعت کے تمام افراد تک پہنچانے کی کوشش کریں گی بلکہ ہر جماعت یہ بھی کوشش کرے گی کہ اپنی جماعت کےا فراد سے دُگنی بلکہ تگنی تعداد میں اس کتاب کی مفت اشاعت اپنےا پنے علاقہ میں کرے۔ گاؤں میں چونکہ کتابوں کی تقسیم زیادہ نہیں ہو سکتی اس لئے شہری جماعتوں کو اس طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہیے اور انہیں شہری آبادی میں یہ کتاب زیادہ سے زیادہ تقسیم کرنی چاہیے۔ اگر بڑی بڑی جماعتیں اس کی طرف توجہ کریں جیسے امرتسر، لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، جہلم، فیروز پور، راولپنڈی، ملتان، منٹگمری، کراچی، پشاور ہیں۔ اسی طرح دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد، سکندرآباد،بمبئی اور کلکتہ وغیرہ کی جماعتیں مل کر کوشش کریں تو وہ بہت آسانی سے پندرہ بیس ہزار کتابیں اپنے اپنے علاقہ میں شائع کر سکتی ہیں۔
بعض علاقوں میں چونکہ ہماری جماعتیں تھوڑی ہیں اس لئے دوسری جماعتوں کو چاہیے کہ وہاں اپنی طرف سے یہ کتاب بھجوا دیں کیونکہ کمیونزم کا وہاں بہت زور پایا جاتا ہے۔ مثلاً کانپور کا شہر اس بات کے لئے مشہور ہے کہ سارے ہندوستان میں وہاں کمیونسٹ پارٹی طاقت رکھنے والی ہے۔ مگر ہماری جماعت وہاں بہت محدود ہے۔ اس لئے ہر جماعت کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ کتابیں خریدتے وقت اپنے نسخوں میں سے پچاس یا سو کاپیاں کانپور کی جماعت کو بھی مفت بھیج دے تاکہ کانپور کی جماعت کمیونسٹ لوگوں میں اس کتاب کو مفت تقسیم کر سکے۔
ہمارے سامنے کمیونزم کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف عقلی لحاظ سے اسلام کے لئے خطرناک ہے بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ گزشتہ انبیاء نے ہزاروں سال سے اس فتنہ کے متعلق خبر دی ہوئی ہے۔ مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق احادیث میں بھی آتا ہے اورپہلی کتب میں بھی کہ تمام گزشتہ انبیاء نے اِس زمانہ کے فتنوں کی خبر دی تھی۔ اور جب ہم فِتن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں سب سے زیادہ اس فتنہ کی خبر معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ حزقیل نبی نے اپنی کتاب میں روس کے ایک فتنہ کے متعلق پیشگوئی کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ آخری زمانہ میں اس کے ذریعہ دین پر حملہ کیا جائے گا۔ گویا وہ فتنے جن کی تمام انبیاء نے خبر دی ہے ان میں اگر نام لے کر کسی فتنہ کی خبر دی گئی ہے۔ تو وہ یہی فتنہ ہے اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ فتنہ کتنا اہم ہے کہ اس نے آج سے ہزاروں سال پہلے اس کے متعلق خبر دے دی تھی تاکہ آخری زمانہ میں کمزور ایمان والے لوگ یہ نہ کہہ دیں کہ یہ خطرہ محض خیالی ہے۔ ہر نئی تبدیلی سے لوگ ڈر جاتے اور بغیر سوچے سمجھے اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ چونکہ اس نظام کے ذریعہ تمدن میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس لئے اس نئی تبدیلی سے ڈر کر سوویٹ نظام کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ورنہ درحقیقت اس میں خطرہ کی کوئی بات نہیں۔
بے شک جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ حکومت سے تعلق رکھنے والی چیز ہے اور حکومت سے تعلق رکھنے والی عملی سیاست خواہ روس کی ہو یا کسی اور ملک کی ہمارا اُس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ لیکن جہاں تک سیاسیات کے فلسفہ کا سوال ہے ہمارا تعلق فلسفۂ سیاست سے ضرور ہے۔ کیونکہ فلسفہ ایسی چیز ہے جو ہر انسان سے تعلق رکھتا ہے۔ پس عملی سیاسیات سے بے شک ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔ اسے روس جانے، فرانس جانے، انگلستان جانے یا امریکہ جانے۔ لیکن جہاں تک اس کے ان مُضِر عقائد کا سوال ہے جن کا مذہب پر بُرا اثر پڑتا ہے تو ہر مذہب والا جس کے خلاف بات پڑتی ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرے اور اِس زہرکا ازالہ کرنے کی پوری کوشش کرے۔ مگر کمیونسٹوں کی طرف سے چونکہ ظاہر یہ کیا جاتاہے کہ ہم غرباء کی تائید اور ان کی مدد کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس لئے عام طور پر خواہ مسلمان ہوں یا ہندو اِس عقیدہ کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ بلکہ ہندوستان میں بعض مولوی ایسے موجود ہیں جو عام طور پر کمیونزم کی تائید کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض مسلمان اخبارات کے ایڈیٹر ہیں جو اس کی تائید میں زور و شور سے مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ان اقتصادیات کا ہمارے ملک سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ وہ اقتصادیات خالص روس کی ترقی کے لئے ہیں اور روس ہی ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مگر بعض دفعہ ایک چیز ایسی خوشنما معلوم ہوتی ہے کہ انسان اسے لینے کی کوشش کرتا ہے خواہ وہ کتنی ہی مُضِر کیوں نہ ہو۔
مثنوی رومی والے لکھتے ہیں۔ ایک سپیرا تھا جسے ایک دفعہ نئی قسم کا سانپ مل گیا۔ اُس نے سمجھا کہ مجھے ایک عجیب چیز مل گئی ہے میں اس کا تماشہ دکھا دکھا کر لوگوں سے بہت روپے کمالوں گا۔ رات کو اُس نے وہ سانپ ایک گھڑے میں بند کیا اور خود کسی کام میں مشغول ہو گیا۔ چونکہ وہ نئی قسم کا سانپ تھا اس لئے تھوڑی دیر کے بعد اسے پھر شوق پیدا ہؤا کہ میں اِس کو دیکھوں۔ جب اُس نے ڈھکنا اٹھایا تو سانپ اندر سے غائب تھا۔ معلوم ہوتا ہے کسی نے غلطی سے ڈھکنا کھول دیا۔ اور سانپ اندر سے نکل گیا۔ وہ سمجھتا رہا کہ میرا سانپ محفوظ ہے مگر جب اُس نے برتن کو کھولا تو اُس میں سانپ نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر اسے شدید صدمہ ہوا کہ مجھے ایک ہی چیز ملی تھی جس سے میں اپنے لئے بڑی آمدنی پیدا کر سکتا اور اپنے سپیرے بھائیوں پر فخر کر سکتا تھا مگر افسوس کہ وہ چیز گُم ہو گئی۔ اِس کا اُسے ایسا صدمہ ہوا کہ وہ ساری رات دعائیں کرتا رہا کہ یا اللہ! یہ کیا ہو گیا ہے؟ مجھے ایسا عجیب سانپ ملا تھا اور وہ کہیں غائب ہو گیا ہے الٰہی! میرا سانپ مجھے مل جائے۔ الٰہی! میرا سانپ مجھے مل جائے۔ کچھ دیر دعا کرنے کے بعد وہ اٹھتا اور اِدھر اُدھر دیکھتا کہ مکان کے کسی گوشہ میں تو وہ نہیں بیٹھا۔ مگر جب سانپ دکھائی نہ دیتا تو پھر دعائیں شروع کر دیتا یہاں تک کہ ساری رات وہ دعاؤں میں مشغول رہا۔ آخر اُس کے دل میں مایوسی پیدا ہوئی کہ میں نےساری رات دعا بھی کی اور سانپ بھی مجھے نہ ملا۔ جب صبح ہوئی تو ایک شخص آیا اور اس نے دروازہ پر دستک دے کر کہا کہ فلاں گھر میں تمہیں بلاتے ہیں وہاں ایک موت واقع ہو گئی ہے۔ وہ اس کا ایک رشتہ دار سپیرا تھا۔ جب یہ وہاں گیا تو اس نے دیکھا کہ وہی سانپ جس کے لئے وہ ساری رات دعائیں کرتا رہا تھا انہوں نے مار کر رکھا ہوا ہے اور پاس ہی ایک لاش پڑی ہے۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ سانپ رات کو اتفاقاً یہاں سے گزر رہا تھا کہ اس شخص نے پکڑ لیا سانپ نے اسے کاٹا اور یہ مرگیا کیونکہ یہ نئی قسم کا سانپ تھا جس کے زہر کا علاج ہمیں معلوم نہیں۔ وہ یہ دیکھتے ہی سجدہ میں گر گیا اور اس نے خدا تعالیٰ سے کہا یا اللہ! میں نے یونہی بدظنی کی تھی کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ اگر میری دعا قبول ہو جاتی اور یہ سانپ مجھے مل جاتا تو اس شخص کی بجائے آج میری لاش پڑی ہوتی۔ تو بعض دفعہ انسان ایک چیز کو اچھا اور خوشنما سمجھتا اور اسے لینے کی خواہش کرتا ہے مگر وہ ہوتی بری ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کونسی چیز انسان کے لئے اچھی ہے اور کون سی بُری۔
وہ خدا جس نے آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے حزقیل نبی کے ذریعہ اس فتنہ کی خبر دی تھی اُس خدا کایہ فعل ظاہر کر رہا ہے کہ اس فتنہ کو معمولی سمجھنا یا اس کے خطرناک نتائج سے اپنی آنکھیں بند کر لینا نادانی اور حماقت ہے۔ آجکل کے لوگوں کے متعلق تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں کمیونزم سے حسد ہے، بُغض اور کینہ ہے جو ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے۔ یا وہ پرانی لکیر کے فقیرہیں یا ایسے جاہل ہیں کہ اقتصادیات کے فلسفہ کو نہیں سمجھ سکتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج سے پچیس سَو سال پہلے حزقیل نبی کو کس نے اس فریب اور دغا میں شامل کر لیا تھا؟ آخر یہ کیا بات ہے کہ حزقیل نبی نے آج سے پچیس سو سال پہلے یہ خبر دی جو آج تک بائبل میں لکھی ہوئی موجود ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حزقیل نبی کو آجکل کے زمانہ کے لوگوں نے اس فریب میں شامل کر لیا تھا؟ کیا اینٹی کمیونزم پالیسی کو اختیار کرتے وقت ہٹلر نے حزقیل سے منصوبہ کیا تھا؟ یا کیا مسولینی نے کمیونزم کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لئے حزقیل سے منصوبہ کر لیا تھا؟ یا کیا انگلستان کی کسی اینٹی کمیونزم پارٹی نے حزقیل سے منصوبہ کر لیا تھا؟ یاامریکہ کے رہنے والوں میں سے کسی شخص میں یہ طاقت تھی کہ وہ آج سے پچیس سو سال پہلے کے کسی نبی سے اپنی تائید میں کوئی خبر لکھوا سکتا؟ اور اگر کسی آدمی میں یہ طاقت ہو سکتی ہے کہ وہ پچیس سَو سال پہلے اپنے متعلق کوئی خبر لکھوا دے تو وہ آجکل کے لوگوں سے کیا ڈر سکتا ہے؟ جو شخص ایسا کر سکتا ہے اس کے متعلق یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو بھی ملیامیٹ کر سکتا ہے۔
پس یہ وہ فتنہ ہے جس کا حزقیل نبی کی پیشگوئی میں ذکر آتا ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جو بہت بڑے فِتن پیدا ہونے والے ہیں ان کی سب نبیوں نے خبر دی ہے۔ گویا آپؐ نے بھی اس رنگ میں حزقیل نبی کی پیشگوئی کی تائید کر دی۔ یہ امر بتاتا ہے کہ جہاں تک عملی سیاست کا تعلق ہے گو ہمارا کسی حکومت سے کوئی لگاؤ نہیں۔ مگر جہاں تک اس فلسفۂ سیاست کا تعلق ہے خدا اس نظام کا دشمن ہے۔ اور آج سے ہزاروں سال پہلے خدا نے اپنے انبیاء کے ذریعہ اس فتنہ کی اسی لئے خبر دی تاکہ مومنوں کا ایمان مضبوط رہے اور کمزور لوگ مذہب کے خلاف اِس تحریک کو قبول کرنے کےلئے تیار نہ ہو جائیں۔
پس ہماری جماعت کو اس فتنہ کے مقابلہ کے لئے پوری طرح تیار ہو جانا چاہیے۔ میں نے تحریک کی تھی کہ کالجوں کے پروفیسر اس طرف خصوصیت سے توجہ کریں اور وہ لڑکوں کے سامنے اس پر تقریریں کرتے رہیں۔ میں نے کہا تھا کہ ہمارے ماہرِ فن جو اقتصادیات یا مذہب میں مہارت رکھتے ہیں وہ کمیونزم کے ان اثرات پر روشنی ڈالیں جو اقتصاد اور مذہب پر پڑتے ہیں۔ اسی طرح میں نے کہا تھا کہ ہمارے مبلغ اپنے تبلیغ کے دائرہ کو کمیونسٹ پارٹی کی طرف وسیع کریں۔ غرض میں نے جماعت کو اِس فتنہ کی اہمیت بتاتے ہوئے انہیں نصیحت کی تھی کہ وہ اس فتنہ کو مٹانے کے لئے پوری طرح تیار ہو جائیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ میری اس نصیحت کا کسی قدر اثر بھی ہوا ہے خصوصاً کانپور جو کمیونزم کا گڑھ ہے وہاں ہماری جماعت کے بعض افراد نے کوشش کی۔ چنانچہ ایک آدمی جو کمیونزم کی طرف مائل تھا احمدی ہو گیا ہے اور مزید تبلیغ جاری ہے۔ اسی طرح اس موضوع پر قادیان میں بھی کچھ لیکچر ہوئے ہیں اور باہر سے بھی ‘‘الفضل’’ میں بعض مضامین شائع ہوئے ہیں۔ جن میں سے بعض مضمون اچھے تھے اور ان میں مفید معلومات لوگوں کے سامنے پیش کئے گئے تھے۔ مگر یہ کام اِس قسم کا نہیں کہ میں نے خطبہ پڑھا، لوگوں نے دو چار دن توجہ کی اور پھر خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ یہ کام تو ایسا ہے کہ اِس میں ہزاروں ہزار آدمی مشغول ہو جانے چاہئیں تب دنیا میں کچھ حرکت پیدا ہو سکتی ہے۔ جو تنظیم ان لوگوں میں پائی جاتی ہے وہ ایسی ہے کہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ان کے لاکھوں مبلغ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک اخبار میں شائع ہوا تھا کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات کی اشاعت کے لئے بارہ ہزار مبلغ روس میں تیار کئے جا رہے ہیں۔ اس سے تم سمجھ لو کہ اگر بارہ ہزار مبلغ ایک وقت میں روس کے ایک مدرسہ میں تیار کئے جا رہے ہیں تو پندرہ بیس سال میں وہ مختلف ممالک میں اپنے کس قدر مبلغ پھیلا چکے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں ان کے مبلغ چار پانچ لاکھ سے کم نہیں ہو سکتے۔ اب بتاؤ وہ کام جو دنیا میں چار پانچ لاکھ باقاعدہ مبلغ علاوہ لاکھوں دوسرے آدمیوں کے کر رہا ہے اگر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پانچ دس آدمی پندرہ بیس دن کام کر کے خاموش ہو جائیں تو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ پس ضرورت ہے کہ تقریر کے ذریعہ سے، تحریر کے ذریعہ سے، گفتگو کے ذریعہ سے، طلباء کے ذریعہ سے، وکلاء کے ذریعہ سے، ڈاکٹروں کے ذریعہ سے، مزدوروں کے ذریعہ سے، پیشہ وروں کے ذریعہ سے، صنّاعوں کے ذریعہ سے، سیاحوں کے ذریعہ سے، تاجروں کےذریعہ سے اِس تحریک کے وہ تمام پہلو جو مذہب سے ٹکراؤ رکھتے ہیں بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بتایا جائے کہ درحقیقت یہ اسلامی اقتصاد کی ایک بُری شکل ہے جو کمیونزم کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کی جار ہی ہے۔ اسلام نے جو چاہا تھا کہ امیر اور غریب کے فرق کو مٹا کر دنیا میں مساوات قائم کی جائے غرباء کو آگے بڑھنے کے مواقع بہم پہنچائے جائیں دولت کو چند محدود ہاتھوں میں نہ رہنے دیا جائے اور امراء کو نسلاً بعد نسلٍ اپنی دولت پر قابض نہ رہنے دیا جائےاس نظام کی کمیونسٹ نظام نے ایک نقل اتاری ہے۔ مگر ایسے بھونڈے طریق پر کہ اِس نے انسانی آزادی کو کچل دیا ہے اور وہ بِلاوجہ مذہب کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے۔ جب اس رنگ میں ہر مذہب اور ہر قوم اور ہر فرقہ اور ہر پیشہ اور ہر حرفہ والے کو ہم اپنے خیالات پہنچائیں گے اور متواتر اور مسلسل پہنچائیں گے تب اس کے نتیجہ میں انہیں کمیونزم سے نفرت ہو گی اور تبھی ہماری جدوجہد صحیح نتائج کی حامل ہو گی۔
یاد رکھو کہ جن فتنوں کے متعلق خدا اور اس کے رسول نے خبر دی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ ان سے بڑے فتنے پہلے کبھی نہیں ہوئے اور اِسی وجہ سے شروع سے لے کراب تک تمام انبیاء ان کی خبر دیتے چلے آئے ہیں ان کے متعلق وہ جدوجہد جو ہماری جماعت اِس وقت کر رہی ہے کچھ بھی حقیقت اور وقعت نہیں رکھتی۔ معمولی معمولی لڑائیوں میں گاؤں کا گاؤں باہر نکل آتا ہے ایک چھوٹے سے کھیت کے کنارے پر جھگڑا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ایک مینڈ1 پر لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو پچاس پچاس ، سو سو آدمی ایک طرف سے اور پچاس پچاس، سو سو آدمی دوسری طرف سے مقابلہ کے لئے نکل آتے ہیں۔ حالانکہ اس جھگڑے کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہوتی۔ مگر یہ وہ فتنہ ہے جس کے متعلق تمام انبیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں۔ آدمؑ سے لے کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے لوگوں کو اس فتنہ سے نہ ڈرایا۔ اتنے عظیم الشان فتنہ کے متعلق جس کی تمام انبیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں اگر ہماری جدوجہد کو دیکھا جائے تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ یا تو سارے انبیاء سے خدا نے مذاق کیا ہے اور یا یہ کہنا پڑے گا کہ انہوں نے ہم سے مذاق کیا ہے۔ فتنہ تو صرف اتنا تھا کہ ایک یا دو آدمیوں کی تقریروں سے یا ایک یا دو مضمون ‘‘الفضل’’ میں شائع کرا دینے سے دور ہو سکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آدم سے لے کر اب تک تمام انبیاء کے ذریعہ اس کی خبر دینی شروع کر دی۔ اور کہنا شروع کر دیا کہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے، بہت بڑا خطرہ ہے جو تمہارے سامنے آنے والا ہے۔ حالانکہ وہ خطرہ ایسا تھا جس کے لئے ‘‘الفضل’’ کے ایک یا دو مضمون کافی تھے، جس کے لئے ہمارے کالج کے کسی پروفیسر کےا یک یا دو لیکچر کافی تھے، اس کے لئے ہمارے کسی مبلغ کی ایک یا دو تقریریں بھی کافی تھیں۔ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے اسے اِس قدر اہمیت کیوں دی۔ اُس نے آدمؑ کے وقت سے کہنا شروع کر دیا کہ لوگو! ایک بہت بڑ افتنہ آنے والا ہے اس سے ڈر جاؤ اور ابھی سےاس کے متعلق دعائیں کرنا شروع کر دو۔ پس یا تو اللہ تعالیٰ نے مذاق کیا ہے نبیوں سے اور یا نبیوں نے مذاق کیا ہے ہم سے۔ اور اگر یہ باتیں ہماری عقل میں نہیں آسکتیں اور نہیں آنی چاہئیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نہ خدا نے اپنے نبیوں سے مذاق کیا اور نہ نبیوں نے ہم سے مذاق کیا۔ بلکہ ہم مذاق کر رہے ہیں اپنے ایمان سے، ہم مذاق کر رہے ہیں اپنی عقل سے اور ہم مذاق کر رہے ہیں اپنے مذہب سے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ اَور کوئی صورت نہیں ہو سکتی کہ یا تو خدا اور اس کے رسول نے ہم سے مذاق کیا ہے اور یا ہم ان سے مذاق کر رہے ہیں۔ اگر وہ فتنہ اتنا اہم نہیں تھا جتنا انہوں نے بتایا اور ہماری موجودہ جدو جہد اس فتنہ کو مٹانے کے لئے کافی ہے تو پھر خدا نے ہم سے مذاق کیا ہے۔ اور اگر یہ فتنہ اُتنا ہی بڑا ہے جتنا خدا اور اس کے رسولوں نے ظاہر کیا تو ہم مذاق کر رہے ہیں خدا سے۔ ہم مذاق کر رہے ہیں خدا کے رسولوں سے۔ اور ہم مذاق کر رہے ہیں اپنے ایمان سے ۔ پہلی بات تو ممکن نہیں مگر دوسری بات ممکن ہے۔ مگرجہاں یہ بات ممکن ہے وہاں ہمارے لئے سخت حسرت اور اندوہ کا مقام بھی ہے کہ جس بات کے لئے ہمیں قبل از وقت ہوشیار کردیا گیا تھا اس کی خبر سن کر بھی ہم ہوشیار نہ ہوئے اور غفلت میں اپنےقیمتی اوقات کو ضائع کرتے رہے۔
کمیونسٹوں کی طرف سے بار بار مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ آپ تو باہر کے لوگوں کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم قادیان میں ہی فتنہ پیدا کرنے کی تدابیر سوچ رہے ہیں۔ اور ہم نے اپنے ایجنٹ بھی وہاں بھیج دیئے ہیں تا کہ اندر ہی اندر آہستہ آہستہ فتنہ پیدا کریں۔ یہ بات تو الگ ہے کہ جماعت نے اُس فتنہ کی اہمیت کو ابھی تک نہیں سمجھا۔ یہ بات بھی الگ ہے کہ ہماری جماعت نے اس آواز پر لبیک نہیں کہا جو میں نے بلند کی تھی۔ لیکن کمیونسٹ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب میں اپنی جماعت کو امداد کے لئے بلاتا ہوں تو میرا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اُن کی مدد کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ میں صرف ان کو ثواب میں شریک کرنے کے لئے بلاتا ہوں۔ ورنہ جب خدا نے مجھے اِس کام کے لئے کھڑا کیا ہے تو اگر لاکھوں کی جماعت میں سے کوئی ایک شخص بھی میرا ساتھ نہیں دیتا تب بھی کمیونسٹ میرے مقابلہ میں جیت نہیں سکتے بلکہ ان کا ہی منہ کالا ہو گا۔ کیونکہ میری آواز میری نہیں بلکہ میری زبان سے خدا اپنی آواز دنیا میں پھیلا رہا ہے۔ اور خد اکا مقابلہ کرنے کی ان کمیونسٹوں میں تو کیا ان کے سرداروں میں بھی طاقت نہیں ہے۔ میں اگر اپنی جماعت کو کسی نیکی کی طرف توجہ دلاتا ہوں تو میرا ان کو توجہ دلانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی ملک میں سونا برس رہا ہو تو وہ شخص جس کے رشتہ دار غفلت میں سوئے پڑے ہوں وہ اُن کو آواز دینے لگ جائے کہ آؤ اور اِس لُوٹ میں تم بھی شامل ہو جاؤ۔ وہ اگر بلاتا ہے تو اِس لئے نہیں کہ اُسے فائدہ پہنچے بلکہ اس لئے کہ ان غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے حصہ نہ لینا انسان کی بہت بڑی محرومی ہوتی ہے۔
تفسیروں میں ایک روایت آتی ہے گو وہ کمزور روایت ہے اور تمثیلی زبان اس میں اختیار کی گئی ہے مگر بہرحال اس روایت میں سبق موجود ہے۔ گو اس وجہ سے کہ اس کی زبان تمثیلی ہے لوگوں نے غلطی سے اس واقعہ کو ظاہر پر محمول کر لیا ہے۔ بعض دفعہ ایک خواب ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھایا جاتا ہے مگر لوگ اسے ظاہری واقعہ سمجھ لیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بھی ایک خواب تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیان کیا مگر لوگوں نے اسے ایک ظاہری واقعہ سمجھ لیا۔ یہ روایت یوں بیان کی جاتی ہے کہ حضرت ایوبؑ ایک دفعہ نہا رہے تھے کہ اُن پر سونے کی مچھلیوں کی بارش شروع ہو گئی۔ حضرت ایوبؑ نے نہانا چھوڑ دیا اور جلدی جلدی اُن مچھلیوں کو چُننا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دیکھا تو حضرت ایوب علیہ السلام سے کہا اے ایوب! کیا تجھے میں نے اتنی دولت نہیں دی تھی جو تیرے لئے کافی ہوتی؟ اور کیا میں نے تیرے اہل و عیال میں برکت نہیں رکھ دی تھی؟ پھر تُو نے یہ کیا حرص کا کام کیا کہ نہانا چھوڑ کر مچھلیاں چننے میں مشغول ہو گیا؟ حضرت ایوب علیہ السلام نے جواب دیا۔ اےمیرے اللہ! وہ دولت جو تُو نے مجھے دی ہے میرے لئے کافی ہے مگر تیرا فضل تو کسی کے لئے کافی نہیں ہو سکتا۔ میں سونے کی مچھلیاں نہیں چُن رہا تھا بلکہ میں تیرے فضل کو چُن رہا تھا کیونکہ تیرے فضل سے کوئی انسان مستغنی نہیں ہو سکتا۔
پس ایک مومن خواہ کتنا کام کرے وہ ثواب کے نئے سے نئے مواقع تلاش کرتارہتاہے۔ اور مومنوں کے استاد اور راہبر کا فرض ہوتاہے کہ وہ ان سب کو ثواب میں حصہ لینے کے لئے بلائے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ سمجھتاہے کہ ان کی مدد کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ خدا کے کام بہرحال ہو کر رہتے ہیں خواہ بنی نوع انسان ان کی طرف توجہ کریں یا نہ کریں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے کہا۔ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ 2۔ مگر اس کے باوجود موسیٰ ؑ جیت ہی گئے۔ یہ نہیں ہوا کہ موسیٰ ؑ ہار گئے ہوں اور دشمن کامیاب ہو گیا ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم صرف تجھے مخاطب کرتے ہیں، تیرا فرض ہے کہ تُو دشمن سے لڑے۔ مسلمان اگر تیرے ساتھ شامل ہو نا چاہیں تو ہو جائیں ورنہ اصل ذمہ داری صرف تجھ پر ہے۔ اور تجھ اکیلے کو ہمارا حکم ہےکہ تُو اس کام کو سر انجام دے۔ چنانچہ کون کہہ سکتا ہے کہ صحابہؓ اگر آپؐ کے ساتھ نہ جاتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نَعُوْذُ بِاللہِ مارے جاتے۔ اگر ایک صحابی بھی آپؐ کے ساتھ نہ جاتا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ والوں کو مار کر ہی آتے ان سے شکست کھا کر واپس نہ آتے۔
پس خدا کے کام ہو کر رہیں گے دشمن ناکام ہو گا اور اس فتنہ کے پیدا کرنے میں اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کر نا پڑے گا۔ بے شک جماعت میں کچھ لوگ منافق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پہلے بھی ایسے فتنے پیدا ہوتے رہے ہیں مگرنہ پہلے کوئی فتنہ کامیاب ہوا اور نہ یہ فتنہ کامیاب ہو گا۔ خدا کی مشیّت بہرحال پوری ہو کر رہے گی اور اِس قسم کے لوگ ہمیشہ ناکام و نامراد رہیں گے۔ لیکن میرا یہ فرض ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ میں جماعت کے لوگوں کو بار بار توجہ دلاتا رہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ثواب کے کاموں میں حصہ لینے کی کوشش کریں، زیادہ سے زیادہ الٰہی تحریک کو پھیلانے کی کوشش کریں اور زیادہ سے زیادہ شیطانی تحریک کو کچلنے کی کوشش کریں۔ ’’
(الفضل مورخہ 5 جولائی 1945ء)
1: مینڈ: کھیت کی منڈیر، باڑ،پشتہ، حد ،گھاٹ
2: المائدۃ:25
21
اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ
کی لطیف تفسیر
(فرمودہ 6 جولائی 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی )
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ آل عمران کی درج ذیل آیت تلاوت کی:
‘‘اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۔1 ‘‘یہ آیت قرآن مجید میں سورۂ آل عمران میں عیسائیوں کے مباحثہ کےذکر میں آتی ہے اور مختلف رنگ میں لوگوں نے اس کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس کے الفاظ اور اس کی عربی پر پورا غور نہ کرنے کی وجہ سے اس کے صحیح معنی نہیں سمجھ سکے۔ غالباً غور تو کیا ہو گا۔ لیکن غور کےباوجود اصل مضمون کی طرف نہیں گئے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک چیز ذہن پر غالب ہوتی ہے اور وہ انسان کو الفاظ کے صحیح مضمون کی طرف جانے سے روک دیتی ہے۔ اور غالباً اِسی وجہ سے مفسرین کا ذہن اس طرف نہیں گیا۔ اس آیت کے معنے یہ کئے جاتے ہیں کہ عیسیٰؑ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدمؑ کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا ہو جا۔ اگلے الفاظ کے معنی بِلاساختہ بغیر الفاظ کی طرف نظر کئے یہ کر دیئے جاتے ہیں۔ پھر وہ ہو گیا۔ حالانکہ عربی زبان میں يَكُوْنُ کے معنی
‘‘ہو گیا’’ کے نہیں ہوتے۔ مضارع جب امر کے مقابلے میں آئے تو اس کے دو معنے ہوتے ہیں ہوتا ہے یا ہو جائے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے لفظ کُنْ کہا یعنی ہو جا۔ تو اس کے نتیجہ میں فَیَكُوْنُآیا ہے۔ پس يَكُوْنُ کے یا تو یہ معنے ہیں کہ پھر خدا تعالیٰ کے حکم کے نتیجہ میں ویسا ہی ہوتا جا رہا ہے اور ہوتا جائے گا۔ اور یا پھر یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کُنْ کہا اس لئے اب وہ امر جس کے بارہ میں ایسا کہا تھا ضرور ہو کر رہے گا۔ یہی معنی ماضی اور امر کے بعد کے مضارع کے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ ان دونوں معنوں کےسوا عربی زبان میں اس کے اور کوئی معنے نہیں ہوتے اور نہ عقلاً ہو سکتے ہیں۔ اردو زبان ہی کو لے لو اگر کوئی شخص یہ فقرہ کہے کہ میں نے زید سے کہا کہ چلا جا سو وہ چلا جائے گا۔ تو اس کے معنے کبھی بھی کوئی شخص یہ کر سکتا ہے کہ وہ چلا گیا یا یہ کہے کہ میں نے زید سے کہا پڑھ سو وہ پڑھ رہا ہے۔ تو اس کے کبھی بھی یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ کسی سابق زمانہ میں پڑھ چکا ہے۔ مضارع حال یا استقبال کے لئے آتا ہے۔ اور حال جب ماضی کے جواب میں آئے تو اس کے معنے استمرار کے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ فعل زمانۂ ماضی سے شروع ہؤا اور اب تک جاری ہے۔ جب یہ ذکر ہو کہ زمانہ ماضی میں کسی نے حکم دیا تھا اور اس کے نتیجۂ امر کے جواب میں فعل مضارع آئے تو اس فعل مضارع کو استعارۃً بھی ماضی کے معنوں میں استعمال نہیں کرسکتے۔ بلکہ وہ صرف حالِ استمراریہ یا مستقبل کے معنے دے گا۔ لیکن گزشتہ لوگ اس جگہ يَكُوْنُ کے معنی ماضی کے کرتے چلے آئے ہیں۔ اور یہ مطلب لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ ہو جا سو وہ ہو گیا۔ حالانکہ ماضی میں دیئے جانے والے أمر کے جواب میں جو مضارع آئے اس کے معنے ماضی کے کبھی نہیں کئے جا سکتے۔ اگر اللہ تعالیٰ ماضی کا واقعہ بیان فرماتا تو یوں فرماتا کہ قَالَ اللّٰہُ کُنْ فَکَانَ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہو جا سو وہ ہو گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے فَیَكُوْنُ ۔ پس وہ ہو جائے گا یا ہوتا چلا آرہا ہے۔ اب ان معنوں کو مدنظر رکھ کر آیت کے وہ معنے کرو جو مفسرین نے کئے ہیں۔ یعنی اس آیت کو آدمؑ اور مسیحؑ کی محض پیدائش کے متعلق سمجھو تو آیت کا یوں ترجمہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسیح کی مثال آدمؑ کی طرح ہے۔ اسے اس نے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اسے کہا ہو جا سو وہ ہو جائے گایا یہ کہ ہوتا چلا آرہا ہے اور ہوتا چلا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ معنے بالکل بے جوڑ ہیں۔ آدمؑ اور مسیحؑ دونوں ہزاروں سال پہلے پیدا ہو چکے ہیں۔ پس آیت کے یہ معنے کرنے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا پیدا ہو جا چنانچہ وہ پیدا ہو جائے گایا پیدا ہوتا چلا جائے گا ایک بِالبداہت طور پر غلط بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ہے۔ اس مشکل کا حل دو ہی طرح ہو سکتا ہے۔ یا تو ہم یہ سمجھیں کہ یَکُوْنُ کے اس جگہ معنے ماضی کے ہیں۔ یا یہ سمجھیں کہ اس آیت میں پیدائشِ جسمانی کا ذکر نہیں بلکہ کسی اَور قسم کی پیدائش کا ذکر ہے۔ سو میں یہ پہلے ثابت کر چکا ہوں کہ اس موقع پر کسی طرح بھی یَکُوْنُ کے معنے ماضی کے نہیں کئے جا سکتے۔ پس یہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم اس آیت میں پیدائشِ جسمانی کے معنے نہ لیں بلکہ کوئی اَور معنے لیں۔ اور وہ معنے ہوں بھی ایسے جو ایک طرف تو تواتر پر دلالت کریں اور دوسری طرف ان کی رو سے مسیح ؑ کی الوہیت پر بھی زد پڑتی ہو۔ مگر ان معنوں میں سے جو مفسرین نے بیان کئےہیں کوئی بھی اِن شرائط کو پورا نہیں کرتا۔
مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک معنے سمجھائے ہیں جو اِن دونوں شرطوں کو پورا کرتے ہیں ان معنوں کے رو سے مضارع کے معنے ماضی کے بھی نہیں کرنے پڑتے اور عیسائیوں کے سب سے بڑے عقیدہ الوہیتِ مسیح ؑ کی تردید بھی ان سے ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسیٰ ؑ کے متعلق عیسائی لوگ یہ خیال پیدا کر رہے ہیں کہ عیسیٰ ؑ کسی غیر قسم یا غیر جِنس کے تھے۔ نہ پہلے کوئی ایسا وجود ظاہر ہؤا اور نہ آئندہ ایسا وجود ظاہر ہو گا۔ اور سمجھتے ہیں کہ مسیح ؑ خدا کا بیٹا ان معنوں میں نہیں جن معنوں میں پہلے انبیاء خدا کے بٹیے تھے بلکہ ان کے اندر فِی الْحقیقت الوہیت کی صفات پائی جاتی ہیں۔ پہلے انبیاء کے لئے استعارۃً ‘‘خدا کا بیٹا’’ کے الفاظ استعمال کئے جاتے تھے مگر مسیح ؑ کے لئے یہ لفظ حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ مسیح الٰہی صفات کا مالک ہے کہ نہ پہلے کسی میں وہ صفات پائی گئیں اور نہ آئندہ کسی میں پائی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ہم بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جو شخص اپنی جنس کے لحاظ سے منفرد ہو اور کوئی اُس کا مثیل نہ ہو وہ الوہیت کی صفات اپنے اندر رکھتا ہے۔ پس اگر مسیح ؑ واقع میں ابنُ اللہ ہے اور جیسا کہ تم کہتے ہو خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ تو اکلوتے بیٹے کئی نہیں ہو سکتے۔ ہاں اگر استعارہ کے طور پر کسی کو اکلوتا بیٹا کہا جائے تو ایسے اکلوتے بیٹے متعدد ہو سکتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے اکلوتے بیٹے کے محض یہ معنے ہوں گے کہ جیسے کسی انسان کو اکلوتا بیٹا پیارا ہوتا ہے ایسا ہی وہ شخص خداتعالیٰ کو پیارا ہے۔ اِس لحاظ سے اس لفظ کا استعمال ایک سے زیادہ وجودوں کی نسبت درست اور جائز ہو گا۔ چنانچہ بائبل میں یہود کی نسبت بھی آتا ہے کہ وہ خدا کے بیٹے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ جس کے اَور بیتے ہوں اُس کے کسی بیٹے کو اکلوتا بیٹا نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر کہیں گے تو اس کے معنے صرف یہ ہوں گے کہ جس طرح ماں باپ کو اپنا اکلوتا بیٹا پیارا ہوتا ہے اُسی طرح وہ شخص خدا تعالیٰ کو پیارا ہے۔ اور باوجود اکلوتا بیٹا کہنے کے اس کے معنے یہ نہ ہوں گے کہ وہ اپنی اس صفت میں منفرد ہے۔ اور جب منفرد نہ رہا تو الوہیت کا سوال خود حل ہو گیا۔
غرض اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ عیسیٰ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے آدم کی مثال۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر کہا اب تُو ہوتا رہ یعنی تیرے جیسے اَور وجود پیدا ہوتے چلے جائیں۔ چنانچہ اُس کی نسل چل رہی ہے۔ آدم کے بعد اَور آدم اس کے بعد اَور آدم اور اس کے بعد اَور آدم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پس یَکُوْنُ کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہو گیا۔ یہ معنے عربی زبان کے خلاف ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ اے آدم! ہو جا یعنی نسلِ آدم دنیا میں چلے۔ فَیَکُوْنُ پس آدم کا ظہور ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آدم کسی اور جنس کا تھا اور بیٹا کسی اور جنس کا ہے۔ جس طرح کا پہلا آدم تھا اُسی طرح اس کے بعد کا آدم تھا۔ اور اُسی طرح کا آدم اب بھی ہے۔ اس تعدّد اور تواتر کی وجہ سے کسی کو شبہ پیدا نہیں ہوتا کہ آدمؑ منفرد وجود تھا اور وہ اپنے اندر خدائی صفات رکھتا تھا۔ خواہ وہ بِن باپ اور بِن ماں کے پیدا ہوا۔ لیکن چونکہ اس کی نسل چل رہی ہے اور اس کے مثیل پیدا ہوتے جا رہے ہیں جو اس کی جنس سے ہیں اس لئے کسی کو آدمؑ پر خدائی کا شبہ نہ ہؤا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسیٰ ؑ کے متعلق بھی ہم نے یہی طریق جاری کیا ہے۔ یعنی عیسیٰ کو پیدا کر کے کہا کہ تُو ہو جا پس وہ ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی عیسویؑ وجود بار بار پیدا ہو رہے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے۔ پھر اِس میں اِس طرف بھی اشارہ ہے کہ آدم باوجود دوسرے آدمیوں کا باپ ہونے کے ان سب سے درجہ میں بڑا نہیں۔ حضرت آدمؑ سے حضرت نوحؑ درجہ میں بڑے تھے، حضرت ابراہیمؑ حضرت آدمؑ سے بڑے تھے۔ اِسی طرح حضرت موسیٰؑ حضرت آدم سے بڑے تھے۔ اور آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے جو سب سے بڑے تھے۔ اسی طرح مسیحؑ کا حال ہے کہ عیسویت کے مقام کی ابتداء کرنے کی وجہ سے وہ سب سے بڑے مسیحؑ نہیں بلکہ جس طرح آدمیت کا کمال بعد میں ہؤا اسی طرح عیسویت کا کمال بھی بعد میں آنے والے بعض وجودوں سے ہو گا۔ حضرت آدمؑ پہلے آدمی ہونے کی وجہ سے تقدمِ زمانی رکھتے ہیں۔ لیکن مقام کے لحاظ سے کیا نسبت ہے حضرت آدمؑ کو حضرت نوحؑ سے ،کیا نسبت ہے حضرت ابراہیمؑ سے، کیا نسبت ہے حضرت موسیٰ ؑ سے اور کیا نسبت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِسی طرح ہم نے مقامِ مسیحیت کو کُنْ کہا ہے۔ اب اِس سے مسیحؑ پیدا ہوتے جائیں گے۔ اور بعض ان میں سےایسے ہوں گے جو پہلے مسیح ؑ سے بڑھ جائیں گے آدم کے بعد آنے والے سب آدم سے چھوٹے اور ادنیٰ نہیں تھے بلکہ آدم سے ادنیٰ بھی تھے اور آدم سےبڑھ کر بھی۔ اِسی طرح مسیحؑ کے بعد آنے والے مسیح سے ادنیٰ درجہ کے بھی ہوں گے اور اعلیٰ درجہ کے بھی ہوں گے۔ جیسے ہم نے آدم کو پیدا کر کے کہا کہ اب تیری نسل چلے ایسا ہی ہم نے مقامِ عیسویت کو پیدا کر کے کہا کُنْ فَیَکُوْنُ کہ اب عیسوی صفات رکھنے والے پیدا ہوتے چلے جائیں۔
حضرت آدمؑ کے متعلق بھی خدا ئی کا شبہ ہو سکتا تھا کیونکہ وہ بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے لیکن آگے ان کی نسل کے چلنے کی وجہ سے یہ شُبہ جاتا رہا۔ ایسے ہی مسیحؑ بے شک بِن باپ کے پیدا ہوئے لیکن اگر ایک وجود بھی ایسا ہو جائے جو مثیلِ مسیحؑ ہو بلکہ مسیحؑ سے بڑھ کر ہو تو مسیحؑ کی الوہیت باطل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے مثیلوں کا ایک سلسلہ چل پڑا جس طرح آدمؑ کی نسل سے بعض چھوٹے آدم ہوئے اور بعض بڑے آدم ہوئے اسی طرح مسیح کے بعد بعض چھوٹے عیسیٰ ہوئے اور بعض بڑے ہوئے۔حضرت معین الدین چشتی فرماتے ہیں:
دم بدم روح القدس اندر معینے مے دمد
من نمے گویم مگر من عیسیٰ ثانی شدم 2
یعنی روح القدس ہر وقت میرے کان میں یہ بات کہہ رہا ہے کہ تُو عیسیٰ ثانی ہے۔ پس معین الدین صاحب چشتیؒ عیسوی مقام پر تھے اور عیسیٰؑ کی الوہیت کو ردّ کرنے والے تھے کہ چھوٹے عیسیٰؑ تھے۔ جس طرح آدم کی نسل کے ہزاروں آدمی گو آدمؑ سے چھوٹے ہیں مگر آدمؑ کی الوہیت کو ردّکررہے ہیں۔ مگر جس طرح آدمؑ سے بڑے آدم بھی ان کی نسل سے پیدا ہوئے اسی طرح مسیحؑ سے بڑے مسیح بھی پیدا ہونے والے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے 3
جسمانی لحاظ سے چونکہ مسیح کو تقدم حاصل ہے اس لئے اُن کی عزت اور ادب ضرور کیا جائے گا جیسا کہ لوگ باپ دادا کی عزت کرتے ہیں۔ اگر ایک چرواہے کا بیٹا بادشاہ ہو جائے جیسے نادر خان ایرانی تھا اور اس کا باپ اُس کے سامنے آئے تو وہ ضرور اُس کی عزت کرے گا اور یہ عزت اور ادب بوجہ تقدمِ زمانی کے ہو گا نہ اُس سے درجہ میں بڑا ہونے کے سبب سے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں میں مسیح کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ خدا نے مجھے اُس کا نام دیا ہے۔ 4
غرض اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی طرح ہے۔ آدم بے باپ تھا اور عیسیٰ بھی بے باپ کے پیدا ہؤا ۔ آدمؑ کو بعض خصوصیات حاصل تھیں ایسے ہی عیسیٰ کو بھی بعض خصوصیات حاصل تھیں۔ لیکن آدمؑ کی نسل کے تواتر نے اسے الوہیت کے مقام سے عبودیت کے مقام پر لا کھڑا کیا اورکوئی شخص بھی آدمؑ کو خدا نہیں سمجھتا۔ ایسے ہی اگر کوئی فرد ایسا ہو جو عیسویت میں عیسیٰؑ کے ساتھ روحانی مشابہت رکھتا ہو بلکہ مقام کے لحاظ سے اُن سے بڑھ جائے تو پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ عیسیٰؑ اپنے اندر منفردانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اور جب آدمؑ کی طرح عیسیٰؑ کے بعد آنے والے روحانی لحاظ سے اُس سے بڑھ جائیں تو پھر کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ عیسیٰؑ خدا تھا۔ اگر مسیح خدا کا بیٹا تھا تو اس سے بڑھ جانا کیونکر ممکن ہے۔ خدا نے آدمؑ کو مٹی کی حالت سے پیدا کیا۔ پھر اسے بڑھایا اور کہا اب تم اپنے آپ کو بار بار ظاہر کرو تا خدا تعالیٰ کی صفات جو تمہارے ذریعہ اس دنیا میں ظاہر ہوئیں وہ ختم نہ ہو جائیں۔ بلکہ وہ آئندہ زمانوں میں جاری رہیں اور بار بار ان کا ظہور ہوتا رہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے مقامِ عیسویت کو پیدا کیا اور پھر اس کا بار بار مختلف وجودوں کے ذریعہ ظہور کیا۔ بعض ان میں سے مسیحؑ سے مقام کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔ جیسے معین الدین صاحب چشتی اور بعض مسیحؑ سے بڑھ گئے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ تو ابتدائی حالات میں بعض چیزوں کو ایک منفردانہ حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن جب وہی چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار تواتر کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں تو پھر ان کی وہ حیثیت نہیں رہتی۔
پس کُنْ فَیَکُوْنُ تعدّد اور تواتر پر دلالت کرتا ہے۔ خدا نے کہا ہو جا چنانچہ دیکھ لو کہ ہو رہا ہے۔ ایک آدمؑ، کے بعد دوسرا آدمؑ دوسرے کے بعد تیسرا آدمؑ اور اِسی طرح یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے عیسوی مقام کے متعلق کہا کُنْ یعنی ہو جا اور پھر فرمایا فَیَکُوْنُ پھر ویسا ہی ہوتا چلا جارہا ہے اور دیکھ لو کہ بار بار عیسوی مقام ظاہر ہو رہا ہے۔ اور ہوتا رہے گا اور اس میں تعدّد اور تواتر پایا جائے گا۔ اور جب تعدّد پایا گیا تو مسیحؑ حقیقی معنوں میں خدا کا اکلوتا بیٹا نہ رہا کیونکہ اکلوتا بیٹا تو ایک ہی ہؤا کرتا ہے۔
اِس مثال کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے اِس طرف اشارہ کیا کہ تم ابنِ مریم کو خدا نہ کہنا جبکہ اس کے مثیل کو تم دیکھ رہے ہو۔ اِسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا
ابن مریم کےذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے
غرض اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کی مثال آدمؑ کے ساتھ اس لئے دی کہ آدمؑ سے صفاتِ الٰہیہ کا ظہور شروع ہؤا۔ لیکن آدمؑ کے بعد آنے والے آدمؑ سے بڑھ گئے۔ اِسی طرح عیسیٰ ؑ سے مسیحیت کا دَور شروع ہؤا مگر بعد میں آنے والے اُن سے بھی بڑھ گئے۔ آدمؑ کی پیدائش کی غرض بے شک یہ تھی کہ ان کے ذریعہ صفات الٰہیہ کا ظہور ہو۔ مگر الٰہی منشاء یہ نہ تھا کہ پہلا آدم ؑپیدائشِ آدمؑ کے مقصود کو اَتَمّ صور ت میں ظاہر کرنے والا ہو بلکہ مقصود یہ تھا کہ اس کی نسل میں سے اور اُس کی اولاد میں سے آدمؑ کی صفت کو ظاہر کرنے والے اَتَمّ وجود پیدا ہوں۔ اِسی طرح عیسیٰؑ کے ذریعہ مقامِ عیسویت کا ظہور ہوا۔ مگر اِس ظہور کا یہ مقصد نہ تھا کہ اس کے ذریعہ مقامِ عیسویت اَتَمّ صورت میں ظاہر ہو بلکہ آئندہ زمانہ میں مقام عیسویت کا اَتَمّ صورت میں ظہورمقصود تھا۔ اگر عیسیٰ اَتَمّ صورت میں آتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ نہ کہتے کہ
ابن مریمؑ کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے
پس کُنْ فَیَکُوْنُ تواتر اور تعدّد پر دلالت کرتا ہے اور صحیح معنی یہی ہیں جو میں نے بیان کئے ہیں۔ اس میں آدمؑ اور مسیحؑ کی پیدائش کا تطابق بھی ہو جاتا ہے اور عقیدہ الوہیتِ مسیح کی بھی تردید ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جب تعدّد اور تواتر پایا گیا تو مسیحؑ اکلوتا بیٹا کہلانے کا حقدار نہ رہا جس کی وجہ سے اسے حقیقی بیٹا قرار دیا جاتا ہے۔ ’’
حضور نے نماز جمعہ پڑھانے کے بعد فرمایا کہ :
‘‘یَکُوْنُ کے معنی اس جگہ محض مستقبل کے بھی اس آیت میں کئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ یَکُوْنُ کا لفظ اگر حضرت آدم ؑ کی نسبت سمجھا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے آدمؑ کو پیدا کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ کُنْ تو صفتِ آدمیت کو بدرجۂ اَتَمّ ظاہر کیا۔ چنانچہ ایسا ہو کر رہے گا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ سے آدمؑ کی پیدائش کا مقصد بدرجہاَتَمّ ظاہر ہو گا۔ اور اسی طرح مسیح علیہ السلام کے متعلق ہو گا۔ ان کو بھی پیدا کر کے ہم نے کہا کہ گو تجھے ایک روحانی مقام کا ابتدائی نقطہ ہم قرار دیتے ہیں۔ مگر تُو اِس کا اَتَمّ اور اکمل ظہور نہیں۔ بلکہ تجھے ہم کہتے ہیں کہ ہو۔ یعنی تیری روح اپنا پَرتَو دنیا پر ڈالتی رہے۔ جس طرح آدمؑ کی روح پَرتَو ڈالتی رہی یہاں تک کہ درجۂ اَتَمّ پر پہنچا ہؤا وجود ظاہر ہو جائے۔ اور ایسا ہی مسیحؑ کے بارہ میں بھی ہو گا۔ یعنی عیسویت کے مقام کا انتہائی درجہ کا ظہور ایک زمانہ میں ظاہر ہو کر رہے گا۔ اور اس کا ظہور مسیح کے خدائی کے عقیدہ کو باطل اور پاش پاش کرنے والا ہو گا۔ پس یَکُوْنُ کی نسبت اگر حضر ت آدم علیہ السلام کی طرف کریں تو اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظہور ہے۔ اور اگر یَکُوْنُ کی نسبت مسیح علیہ السلام کی طرف ہو تو اِس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ظہور ہے۔ ’’
(روزنامہ الفضل قادیان مورخہ 18 جولائی 1945ء)
1: آل عمران:60
2: دیوان حضرت خواجہ معین الدین چشتی صفحہ 56 مطبوعہ نولکشور 1868ء
3: درثمین اردو صفحہ 58
4: کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17 (مفہوماً)
22
زندگی کے تین اَدوار بچپن، جوانی اور بڑھاپا
(فرمودہ 13جولائی 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کے لئے ایک عمر مقرر کی ہے اور پھر اس عمر کے کئی حصے بنائے ہیں۔ پہلے کمزوری کا دَور ہوتا ہے پھر طاقت کا دَور ہوتاہے اور پھر ضُعف کا دَور ہوتا ہے۔ قوتِ نامیہ1 رکھنےو الی چیزیں ہمیشہ سے اِسی قانون کے ماتحت چل رہی ہیں۔ اور اگر وہ اپنی حیاتِ طبعی کے نیچے چلیں تو ان پر یہ تینوں اَدوار گزرتے ہیں۔ بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو حیاتِ طبعی کو حاصل نہیں کرتیں۔اور بعض وجود دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی حقیقی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتے ہیں۔ جیسے انسانوں میں عورتوں کے اور دوسرے جانوروں میں ماداؤں کے حمل ضائع ہو جاتے ہیں۔ ابھی پیدا ہونے والی چیز اپنا حقیقی وجود حاصل نہیں کرتی کہ تلف ہو جاتی ہے۔ پھر بعض ایسے وجود بھی ہوتے ہیں جو حقیقی وجود حاصل کرنے کے بعد اور اپنی کامل شکل اختیار کرنے کے بعد اپنے قویٰ اور اپنی طاقتوں کو ظاہر نہیں کر سکتے۔ جیسے بعض بچے پورے حمل میں ضائع ہو جاتے ہیں یا مُردہ بچے پیدا ہو جاتے ہیں یا پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ پھر کچھ وجود ایسے بھی ہوتے ہیں جو کامل وجود کو حاصل کر لینے کے بعد اُن قویٰ اور طاقتوں کو ظاہر بھی کرنے لگتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے ان کے اندر پیدا کی ہوتی ہیں۔ لیکن ابھی کمزوری ہی کا دَور ہوتا ہے کہ وہ مر جاتے ہیں۔ خواہ وہ وجود انسانوں میں سے ہوں یا جانوروں میں سے۔ جیسا کہ بعض لوگوں کے بچے چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتے ہیں۔ پھر کچھ وجود ایسے ہوتے ہیں جو اِس عمر سے ترقی کر کے جوانی کو پہنچتے ہیں لیکن پیشتر اس کے کہ جوانی اپنے کمال کو پہنچے وہ جوانی کے ابتدا میں یا درمیان میں ہی مر جاتے ہیں۔ لیکن کچھ طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو زندگی کے اِن تینوں دَوروں میں سے گزرتا ہے۔ یعنی بچپن سے بھی گزر جاتا ہے، جوانی سے بھی گزر جاتا ہے اور بڑھاپے کا زمانہ بھی اُس پر آتا ہے۔ اور وہ بڑھاپے میں اپنی زندگی کا کچھ حصہ جو اُس کے لئے مقدر ہوتاہے گزارتا ہے۔ یہ تینوں دَور اپنے اندر الگ الگ رنگ رکھتے ہیں۔ اور یہ تینوں دور ایسے ہیں جو اپنے اندر خوبیاں بھی رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ خرابیاں بھی ہیں۔
بچپن کی خرابیاں ہمیشہ جہالت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ چونکہ اِس عمر میں انسان کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اس لئے ایسی حرکات کر بیٹھتا ہے جو اُس کی ذات کے لئے بھی مُضِر ہوتی ہیں اور دوسروں کے لئے بھی۔ اِسی طرح علم نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات وہ جہالت کی باتوں کو سن کر انہیں علم سمجھ لیتا ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَـاَبَـوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ۔2 یعنی بچہ تو فطرتاً اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت کی غلط باتیں اس کے کان میں ڈالتے رہتے ہیں۔ اور بچپن کی وجہ سے چونکہ اُس کے اندر امتیاز کرنے کا مادہ نہیں ہوتا اِس لئے وہ ان باتوں کو قبول کر لیتا ہے۔ خواہ وہ باتیں فطرت کے خلاف ہوں، خواہ عقل کے خلاف ہوں اور خواہ دیانت کے خلاف ہوں۔ تو یہ بچپن کی کمزوری ہے۔ بچپن میں تجربہ نہیں ہوتا اور تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے بچہ غلط اور صحیح بات میں امتیاز کرنےکی قابلیت کم رکھتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی بچپن کی عمر میں بعض خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ بچپن کی عمر کا موجودات کے ساتھ پہلا تعلق ہوتا ہے اس لئے بچے جو علم بچپن میں سیکھ سکتے ہیں وہ بڑے ہو کر نہیں سیکھ سکتے۔ اِس کا تجربہ یوں ہو سکتا ہے کہ دو آدمیوں کو لے کر شہر میں سے گزرو۔ ان میں سے ایک ایسا ہو جو اُسی جگہ پیدا ہوا ہو اور دوسرا ایسا ہو جو باہر سے آیا ہو۔ تو تم دیکھو گے کہ باہر سے آنے والا کئی ایسے سوالات کرے گا جو اُس جگہ کے رہنے والے کے دل میں کبھی پیدا نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ ان چیزوں کو شروع سے دیکھتا آیا ہے اور دیکھتے چلے آنے کی وجہ سے تجسس کا مادہ اس میں نہیں رہا۔ لیکن جو نیا نیا آتا ہے وہ ہر چیز کو غور سے دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ یہ اس طرح کیوں ہے؟ اِسی طرح جو لوگ بڑی عمر کے ہو جاتے ہیں وہ اس دنیا کی زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں اور اپنے لمبے تجربہ کی بناء پر اور لمبے تجسس کی وجہ سے اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ دنیا کی بعض چیزیں سمجھ میں آسکتی ہیں اور بعض نہیں آ سکتیں۔ اور جو چیزیں اُن کی سمجھ میں نہیں آ تیں اُن کے متعلق وہ خیال کرلیتے ہیں کہ یہ سمجھ میں آنے کے قابل ہی نہیں۔ حالانکہ جو چیزیں اُن کی سمجھ میں نہیں آتیں ان میں سےا یک بڑا حصہ ہوتا ہے جو دوسروں کی سمجھ میں آسکتا ہے مگرجب وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ چیزیں ہماری سمجھ میں آہی نہیں سکتیں تو ان کی طرف سے توجہ ہٹا لیتے اور ان کے متعلق تجسس چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر بچے کے اندر یہ مادہ ہوتا ہے کہ جب وہ کوئی نئی چیز دیکھتا ہے تو اُس کے متعلق سوالات شروع کر دیتا ہے۔ اگر بادلوں کو دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے کہ بادل کیا چیز ہیں؟ کیوں آتے ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کیونکر برستے ہیں؟غرض وہ سوالات جو ایک سائنسدان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں یا ایک حساب دان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں یا ایک تاریخ دان کےدل میں پیدا ہوتے ہیں وہی سوالات اس بچے کے دل میں بھی پیدا ہوتے ہیں بلکہ درمیانہ درجہ کے سائنسدان، درمیانہ درجہ کے حساب دان اور درمیانہ درجہ کے تاریخ دان کے دل میں وہ سوالات پیدا ہی نہیں ہوتے جو ایک بچے کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ سوالات ان کے دلوں میں اِس لئے پیدا نہیں ہوتے کہ وہ دنیا میں ایک لمبا عرصہ رہنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ ہر چیز جس کا وجود دنیا میں ہے ہم اس کی کُنہ اور حقیقت کو حل نہیں کر سکتے۔ لیکن بچے نے ابھی یہ سوال حل نہیں کیا ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ میرا فرض ہے کہ میں ہر چیز کو غور سے دیکھو ں اور اس کے متعلق پوچھوں۔ اِس لئے وہ ہر چیز کے متعلق سوال کرتا چلا جاتا ہے اور اُس کا دماغ بھی ان باتوں کو اخذ کرنے کے لئے زیادہ آمادہ ہوتاہے۔یہ کتنا بڑا فائدہ ہے۔ اگر بچپن کا زمانہ انسان پر نہ آتا، اگر بچپن کی خصوصیات نہ ہوتیں تو دنیا میں علوم کا قیام بھی نہ ہوتا کیونکہ علوم کا قیام بچپن کےساتھ وابستہ ہے۔
پھر جوانی آتی ہے، جوانی کام کرنے کے دن ہوتے ہیں۔ ان کام کے دنوں میں انسان قسم قسم کی قربانی کرتا ہے اور قسم قسم کی جرأت کے نظارے دکھاتا ہے۔ اور اپنے عمل کےساتھ دنیا میں تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بچپن کے علوم اور بچپن کے سوالات کی وجہ سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ دنیا نے کچھ بھی نہیں کیا لیکن مَیں بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ اور یہ انسانی فطرت ہے کہ جسے تجربہ نہیں ہوتا وہ یہ نتیجہ نکالا کرتا ہے کہ لوگوں نے اس کام کو پوری طرح سمجھا ہی نہیں۔ اِس لئے وہ اس میں غلطی کر گئے ہیں مگر میں اِس کام کو زیادہ بہتر صورت میں کر سکتا ہوں۔ اس خیال کی وجہ سے وہ لازمی طور پر دنیا میں تغیر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور چونکہ حرکت میں برکت ہوتی ہے اس لئے وہ اپنی اِس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ اور بسااوقات اس کے ذریعہ ایسا تغیر ہوتا ہے جو دنیا کے لئے بہت ہی مفید اور دنیا کو ایک قدم آگے بڑھا دینے والا ہوتا ہے۔ اور یہ کامیابی اُس کو اُس قوتِ عملی کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے جو بچپن نے اُس کے اندر پیدا کی۔ بچپن میں بچے کو اگر کھلونا دیا جائے تو وہ اُس کو توڑ دیتا ہے۔ وہ کھلونے کو اِس لئے توڑتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میں اِس سے اچھا بنا سکتا ہوں۔ لیکن بوجہ بچپن کے اُس کو توڑ کر بنانے پر قادر نہیں ہوتا۔ مگر جب وہ جوان ہوتا ہے اور اُس میں تخلیق کی قوت پیدا ہو جاتی ہے وہ اِس کھلونے کو بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور گو بسا اوقات وہ غلطی بھی کرتا ہے لیکن بعض اوقات کامیاب بھی ہو جاتا ہے بلکہ اُس سے بھی اچھا بنا لیتا ہے۔
مگر جہاں جوانی میں خوبیاں ہیں وہاں بعض نقائص بھی ہیں۔ کہتے ہیں جوانی دیوانی۔ انسان جوانی میں کہتا ہے کہ جو بھی میری بات کا انکار کرے اُسے مار دوں اور جو مقابلہ کرے اسے کُچل دوں۔ لیکن ایک لمبے تجربہ کے بعد وہ اِس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ انکار اور مقابلہ کرنے والے وجود بعض دفعہ بہت مخلص ثابت ہوتے ہیں۔ جوانی کہتی ہے کہ جو مقابلہ کرتا ہے اُسے مار دو، اُسے نکال دو لیکن تجربہ انسان کو بتاتا ہے کہ جنہیں وہ مارنا چاہتا ہے یا جن کو وہ نکالنا چاہتا ہے یا جن کو وہ توڑنا چاہتا ہے وہی کل کو بڑے کام کے وجود ثابت ہوں گے۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھنے والے بعد میں کتنے مخلص وجود ثابت ہوئے۔ صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ایسے تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک نے میرا انکار کیا مگر ابوبکرؓ ایسا تھا جس میں مَیں نے کوئی کجی نہیں دیکھی۔ مگر دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلے تھے۔ اب جوانی میں انسان کے جو خیالات ہوتے ہیں اگر ان کے مطابق حضرت عمر ؓسے سلوک کیا جاتا اور فرض کرو کہ اُس وقت مسلمانوں کے پاس طاقت ہوتی اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں کام ہوتا اور حضرت عمر ؓ کو مار ڈالتے تو حضرت عمرؓ کو مارنا صرف عمرؓ کا مارنا نہ ہوتا بلکہ ساری دنیا کو مار دینے کے مترادف ہوتا۔ کیونکہ جس قسم کے تغیرات حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ہوئے اور جس قسم کا کام حضرت عمر ؓنے کیا ایسا کام دنیا میں بہت کم انسانوں نے کیا ہے۔ پس اگر یہی فیصلہ ہوتا کہ چونکہ حضرت عمرؓنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے اِس لئے اُن کو قتل کر دیا جائے تو دنیاایک نہایت ہی قیمتی وجودسے محروم ہوجاتی ۔
اِسی طرح حضرت خالدؓ بن ولید جو اسلامی فتوحات کے بڑے بھاری موجب ہیں اور انہوں نے اسلام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور سالہا سال تک رات دن اپنے آپ کو موت میں ڈال کر اسلام کی خدمت کی یقینا ًان کو بھی نوجوانوں کے فیصلہ کے ماتحت مار دیا جاتا۔ حضرت عمروؓ بن العاص کی موت کا فتویٰ بھی صادر کیا جاتا۔ عکرمہؓ بن ابی جہل جس نے بعد کی قربانیوں کی وجہ سے دنیا کے لئے ایثار کی ایک بہترین مثال قائم کر دی اسے بھی قتل کر دیا جاتا۔ اور اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ جنہوں نے اسلام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور جو اسلام کی تاریخ میں روشن ستاروں کی طرح نظرآتے ہیں اور جن پر مسلمان آج بجا طور پر فخر کرتے ہیں نہ اسلام کے لئے قربانیاں کر تےاور نہ مسلمان اِن ہستیوں پر فخر کر سکتے۔ تو جوانی میں جہاں قوتِ عملیہ پائی جاتی ہے وہاں بوجہ اِس خیال کے کہ دنیا غلطی کر رہی ہے میں اِس غلطی کو درست کروں گا۔ اور بوجہ اس کے کہ اِس درست کرنے کے ساتھ دوسرا پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ جو چیز بگڑی ہوئی ہے اُسے توڑ ڈالوں بعض نوجوان دیوانگی کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور دنیا کو بڑے بڑے فوائد سے محروم کر دیتے ہیں۔
اِس کے بعد بڑھاپا آتا ہے۔ بعض دفعہ بڑھاپا ایسا ہوتاہے کہ انسان سیکھا سکھایا سب کچھ بُھول جاتاہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ١ۙ۫ وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔا 3۔اس حالت میں انسان کو کچھ علم نہیں ہوتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ میں نے بعض بُڈھوں کو بچوں کی طرح روتے دیکھا ہے۔ محض اِس لئے کہ مجھے فلاں چیز نہیں ملی یا فلاں نے میری خبرگیری نہیں کی۔
مجھے یاد ہے مولوی محمد احسن صاحب امروہی مرحوم قادیان آئے اور ان سے مختلف باتیں ہوئیں۔ آخر میں انہوں نے علیحدگی میں میرے ساتھ گفتگو کی اور صاف طور پر اقرار کیا کہ وہ پوری طرح سمجھ گئے ہیں کہ راستی اور سچائی قادیان میں ہے لیکن ساتھ ہی روپڑے اور کہا کہ میں مجبور ہوں ۔ میری بیوی میری طہارت کرتی ہے اور وہی میری خدمت کرتی ہے اِس لئے میں اُس کا محتاج ہوں۔ پیغامیوں نے میرے بیوی بچوں کو لالچ دیا ہوا ہے اِس لئے وہ انہیں نہیں چھوڑتے اور میں اُن کےساتھ جانے پر مجبور ہوں۔ اب یہ بھی بڑھاپے کی ایک مجبوری تھی۔ لیکن بڑھاپا اپنے ساتھ تجارب بھی لاتا ہے۔ بچپن اور جوانی کے تجارب کے بعد جو خلاصہ نکلتا ہے بڑھاپا اُس خلاصے کا برتن ہے۔ جیسے بھینس چارہ کھاتی ہے، اُس کو حمل ہوتاہے ،حمل سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اسکے تھنوں میں دودھ پیدا ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح وہ برتن جس میں دودھ دوہا جاتا ہے وہ بڑھاپا ہے جو تمام زندگی کا خلاصہ اپنےا ندر رکھتا ہے۔ اگر انسان کی اعصابی طاقتیں ماری جائیں تو یہ عمر انسان کے لئے دکھ اور تکلیف کی عمر ہوتی ہے۔ لیکن اگر دماغی طاقتیں قائم رہیں اور جسمانی طاقتیں بھی ایسی کمزور نہ ہوں کہ انسان بے کار ہو جائے تو یہ عمر زندگی کے تجارب کا بہترین خلاصہ ہوتی ہے۔ جس کے بغیر دنیا صحیح طو رپر آگے نہیں بڑھ سکتی۔
غرض ہر دَور اپنے اندر خوبیاں بھی رکھتا ہے اور نقائص بھی۔ جس طرح انسانی زندگی ہے اِسی طرح قومی زندگی بھی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد پیدا ہوتا ہے اِسی طرح قوم پیدا ہوتی ہے۔ اور جو اَدوار افراد پر گزرتے ہیں وہی قوموں پر بھی گزرتے ہیں۔ قومیں بھی افراد کی طرح پیدا ہوتی ہیں۔ اور وہ بچوں کی طرح بچپن کی غلطیاں بھی کرتی ہیں۔ بچپن کی قسم کی بیوقوفیاں بھی کرتی ہیں اور بچوں کی طرح سوال و جواب بھی کرتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں سوالات صحابہؓ کی طرف سے اور مستورات کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کئے گئے۔ اور جب آپ نے اُن کے جوابات دیئے تو اُن کا علم ترقی کر گیا اور آنے والے لوگوں کے لئے ترقی کا ایک نیا باب کھل گیا۔
تاریخوں میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی حضرت عمرؓ کی مجلس میں آیا۔ اور کہنے لگا کہ ہمیں توآپ کی شریعت پر رشک آتا ہے۔ پیشاب، پاخانہ، نہانا، دھونا، کھانا، پینا، کپڑے پہننا۔ غرض ہر چیز کاذکر اس میں تفصیل کےساتھ موجود ہے۔ یہ رشک اسےاُنہی سوالات کی وجہ سے پیدا ہوا جو صحابہؓ فرداً فرداً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے۔ اگر اُن سوالات کو الگ الگ کرکے دیکھا جائے تو بچوں کے سے سوالات معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اُنہیں یکجائی طور پر دیکھا جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ اگر یہ سوالات نہ ہوتے تو اسلام کی عمارت نامکمل رہ جاتی۔ اِس کے مقابلہ میں جن قوموں کی بچپن کی عمر نامکمل رہ جاتی ہے وہ احکام کی تفاصیل سے محروم رہتی ہیں۔ اور جب اُن سےاخلاقی یا تمدنی احکام کی تفصیلات کے متعلق سوال کیا جائے تو وہ کہہ دیتی ہیں کہ اس کے متعلق تو ہماری شریعت میں کچھ نہیں لکھا۔ لیکن قرآن کریم نے تمام امور پر روشنی ڈالی ہے اور کسی اہم امر کو نظر اندا ز نہیں کیا۔ گو تمام مضامین کی تفصیل اِس کے اندر نہیں۔ اور نہ اتنے مضامین کی تفصیل محدود صفحات میں آسکتی تھی۔ اگر قرآن کریم میں سب مضامین اِس تفصیل کے ساتھ لکھے جاتے اور ہر آدمی سب مسائل کا جواب اِسی میں سے نکال سکتا بلکہ ہر سوال اس میں حل کیا ہوا ہوتاتو قرآن کریم چار پانچ سَو صفحے کی کتاب نہ ہوتی بلکہ دس بیس لاکھ صفحے کی کتاب ہوتی اور کوئی بھی اسے پوری طرح پڑھ نہ سکتا۔ اور بجائے ہر رمضان میں پورا قرآن مجید تلاوت کرلینے کے لوگ ساری عمر پڑھتے رہتے اور پھر بھی پورا نہ پڑھ سکتے۔ کوئی پندرھویں پارے تک پہنچتا اور مر جاتا، کوئی بیسویں پارے تک پہنچتا اور مر جاتا اور کوئی ایک آدمی زیارت کے قابل ایسا نہ ملتا جس نے پورا قرآن مجید پڑھا ہوتا۔ تو عوام الناس کو فائدہ پہنچانے کے لئے ضروری تھا کہ خدائی کلام مختصر ہو اور اُس میں اشارتاً سارے علوم موجود ہوں۔ اور ان اشارات کی تفصیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ظاہر ہو۔ یہ تفصیل اِسی صور ت میں ظاہر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو یہ شوق عطا فرمایا کہ جیسے بچہ سوال کرتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے اماں! یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ اِسی طرح صحابہؓ سوال کرتے چلے جاتے تھے۔ آخر یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ4 یعنی اے مومنو! تم ان باتوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہارے لئے تکلیف کا موجب بن جائیں۔ تو کیا اِس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ صحابہ کرامؓ کثرت سے سوال کیا کرتے تھے؟ لیکن جیسے بچہ جب سوال کرنے میں حد سے بڑھ جاتا ہے تو اُس کو روکا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو سوالات کی زیادتی سے روکا۔ لیکن اِس بات سے پتہ لگتا ہے کہ بچپن کا زمانہ صحابہؓ پر پوری طرح آیا اور انہوں نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اموال کو خرچ کرنے کا سوال آیا تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم اسکے متعلق سب کچھ جانتے ہیں بلکہ وہ فوراً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! ہم اپنے اموال کو کس طرح خرچ کریں؟ ساری دنیا کھانا کھاتی ہے مگر صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللہ ! کونسی چیز حلال اور کون سی حرام ہے؟ دنیا میں یتیم پائے جاتے ہیں مگر صحابہؓ کو اُن کا بھی احساس ہوا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا کہ یتامیٰ کے بارے میں کیا احکام ہیں؟ غرض صحابہؓ سوالات پوچھتے چلے گئے۔ اور جو پوچھنے کے عادی نہ تھے وہ پوچھنے والوں کےسا تھ چمٹ گئے۔ جیسے حضرت ابوہریرہؓ خود نہیں پوچھتے تھے لیکن سارا دن مسجد میں پڑے رہتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنتے رہتے تھے۔
پھر شباب کا دَور آیا تو ہم دیکھتے ہیں کہ اِس دَور میں بھی صحابہ کرامؓ نے وہ قوتِ عملیہ دکھائی کہ دوسری اقوام میں اِس کی مثال نہیں ملتی۔ اِس چھوٹی سی قوم نے تھوڑے عرصہ میں ہی بڑی بڑی سرکش حکومتوں کو کچل کر رکھ دیا۔ عرب کی آبادی اِس وقت پچاس ساٹھ لاکھ کے قریب ہے اور میرا اندازہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ دس لاکھ کے معنے یہ ہیں کہ اِتنی آبادی تھی جتنی آبادی اِس وقت لاہور شہر کی ہے۔ مگر کیا کوئی قیاس کر سکتا ہے کہ لاہور کی آبادی اُٹھے اور امریکہ کی حکومت کو یا انگلستان کی حکومت کو یا روس کی حکومت کو یا جرمنی کی حکومت کو یا جاپان کی حکومت کو توڑ کر رکھ دے؟ بلکہ لاہور تو پھر بھی متمدن شہر ہے اور یوں سمجھو کہ جھنگ کا ضلع اُٹھ کھڑا ہو یا ڈیرہ غازیخان کے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں اور ان کے اُٹھتے ہی روس سے خبر آ رہی ہو کہ ماسکو فتح ہو گیا ہے، انگلستان سے خبر آرہی ہو کہ لندن فتح ہو گیا ہے، امریکہ سے خبر آرہی ہو کہ واشنگٹن اور نیویارک فتح ہو گیا ہے، جاپان سے خبر آرہی ہو کہ ٹوکیو فتح ہو گیا ہے۔ یہ بات کسی انسان کے وہم میں بھی نہیں آسکتی۔ اور پھر یہ کامیابی کسی لمبے عرصہ میں نہیں بلکہ ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں ہوئی۔حضرت ابوبکرؓ کی خلافت پونے تین سال اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا زمانہ نو سال ہے۔ اس بارہ سال کے عرصہ میں قریباً تمام ملک فتح ہو گئے تھے۔ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں کوئی ملک ایسا نہ تھا جو فتح نہ ہؤا ہو۔ پس صحابہؓ پر شباب بھی آیا تو ایسا کہ دنیا اِس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
پھر بڑھاپے کا زمانہ آیا تو وہ بھی کمال کا۔ بڑھاپے کے معنے عقل اور تجربہ کے ہیں۔ عقل اور تجربے کے لحاظ سے جس طرح صحابہؓ نے حدیث کی تدوین کی یا قرآن مجید کے معارف اور اس کے نکات کو اَخذ کیا ہے کسی اَور قوم نے اتنے قریب زمانہ میں اَخذ نہیں کیا ۔ اور نہ ہی کسی قوم نے اس قدر قریب زمانہ میں تصوف اور فقہ کی تدوین کی جتنے قریب زمانہ میں صحابہؓ نے کی۔ یہودیوں میں فقہ اور تصوف کی بے شک تدوین ہوئی مگر ایک ہزار سال کے بعد۔ یعنی حضرت عیسیٰؑ کے زمانہ سے چار سو سال پہلے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اور تابعین نے ان علوم کی تدوین میں کمال کر دیا۔ تو بڑھاپا بھی آیا مگر کمال درجے کا۔ گویا صحابہؓ نے تینوں اَدوار کا اعلیٰ ترین نمونہ باقی دنیا کے لئے قائم کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی تاریخ پڑھ کر انسان کے دل پر ایسا گہرا اثر پڑتا ہے کہ کسی قوم کے حالات پڑھ کر وہ اثر محسوس نہیں ہوتا۔
اب اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اِسی کام کے سر انجام دینے کے لئے کھڑا کیا ہے جو صحابہؓ نے کیا تھا۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارا بچپن کیسا تھا؟ اور ہماری جوانی کیسی ہے؟ اگر بچپن اچھا نہ ہو تو انسان گھبراتا ہے کہ فلاں بات نہیں پوچھی، فلاں بات باقی رہ گئی۔ لیکن اگر بچپن کمال کا ہو تو تسلی ہوتی ہے کہ ہم نے جو کچھ پوچھنا تھا پوچھ لیا۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ صرف دو باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حل کرانی رہ گئی تھیں حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ وہ دوباتیں بھی حل ہو چکی تھیں۔ لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کے دلوں کو تسلی تھی کہ ہم نے باقی سب باتیں پوچھ لی ہیں صرف دو باتیں حل کرانی رہ گئی ہیں۔ مگر کیا کوئی دوسری قوم ایسی ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم نے جو کچھ پوچھنا تھا پوچھ لیا؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم نے جو کچھ حل کروانا تھا کروا لیا؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کہہ سکتی ہے کہ ہم نے جو کچھ حل کروانا تھا کروا لیا؟ اگر اب ان پر کوئی سوال پڑے تو وہ اِس کے لئے عقل دَوڑاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ خدائی کتاب کی طرف رجوع کریں اور اُس سے جواب حاصل کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دشمنوں کےخلاف یہی حربہ استعمال کیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ یہ لغو بات ہے کہ انسان اپنے پاس سے کوئی دعویٰ کرے یا کسی دعویٰ کی دلیل پیش کرے۔ بلکہ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ دعویٰ بھی اُسی کتاب سے پیش کرے جسے وہ مانتا ہے۔ دلیل بھی اُسی کتاب سے دے۔ لیکن اسلام کے سوا تمہیں کوئی مذہب ایسا نظر نہیں آئے گا جو دعویٰ بھی اُسی کتاب سے پیش کرے جس کو وہ مانتا ہے اور دلیل بھی اُسی کتاب سے دے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہماری جماعت میں صحابہؓ کا رنگ پایا جاتا ہے یا نہیں اور عملی طور پر ہماری جماعت صحابہؓ سے مشابہت رکھتی ہے یا نہیں؟ مخالف تو اعتراض کیا ہی کرتا ہے لیکن ہم جو ایک دوسرے کے خیر خواہ اور مُحِب ہیں کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم وہی کام کر رہے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی جماعتیں کیا کرتی ہیں اور جس کا اعلیٰ نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ نے دکھایا؟ اگر دیانت داری کے ساتھ ہمارا جواب ہو‘‘ ہاں!’’ تو ہم سے زیادہ خوش قسمت اَور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور اگر دیانت داری سے جواب ہو ۔ ‘‘نہیں’’ تو ہماری زمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں اور ہمیں بہت جلد اپنی اصلاح اور جماعت کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور ہمیں اپنی موجودہ قربانیوں کو بہت زیادہ بڑھا دینا چاہیے۔ ہم میں بہت سے ایسے ہیں جن کی زندگیاں شریف انسانوں کی طرح تو بسر ہو رہی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان کی زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ یا تابعین کی طرح ہو رہی ہے یا نہیں۔ مجھے جب کوئی کہتا ہے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے اُس سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی تو وہ یہ فقرہ کہہ کر مجھے اس کے متعلق خوش کرنا چاہتا ہے۔ مگر میرا دل جل جاتا ہے کہ یہ تو ایسا ہی ذلیل درجہ ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص بدمعاش نہیں۔ فلاں شخص خبیث نہیں۔ یہ بھی کوئی تعریف ہے۔ اگر کوئی آدمی بادشاہ کے دربار میں جائے اور کہے اے بادشاہ! تُو خبیث نہیں۔ اے بادشاہ! تُو بدمعاش نہیں۔ اے بادشاہ! تُو لُچّا نہیں! تو بتاؤ وہ وہاں سے انعام لے کر نکلے گا یا مار کھا کر ۔
یہ چیزیں تو ساری سلبی ہیں یہ نفی کرتی ہیں اس کی خباثت کی۔ یہ نفی کرتی ہیں اس کی بدمعاشی کی۔اور نفی تعریف نہیں ہوا کرتی۔ بلکہ شریف انسان اس کو گالی سمجھتا ہے۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں احمدی ایسے ہیں جن کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے اندر وہ عیوب نہیں رکھتے جو اوباش لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ مگر کتنے ہیں جو دین کے لئے جوش اور اخلاص رکھتے ہیں اور رات دن اُن کو یہی دُھن لگی ہوئی ہو کہ دنیا میں اسلام اور احمدیت جلد پھیلے۔ وہ لوگوں سے حُسنِ سلوک سے پیش آتے ہوں۔ کمزوروں کی مدد کرتے ہوں۔ ضعیفوں کی طاقت کا موجب بنتے ہوں۔ گرے ہوئے کو اٹھاتے ہوں۔ بیواؤں کی خبر گیری کرتے ہوں۔ اور دنیا کو یہ محسوس ہوتا ہو کہ وہ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے فائدہ کے لئے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم میں یہ بات ہو یا نہ ہو لیکن صحابہ کی زندگی میں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے۔ پس جب تک ہم میں یہ رنگ نہیں پایا جاتا اُس وقت تک ہماری جوانی صحیح معنوں میں جوانی نہیں کہلا سکتی۔ بچپن کا زمانہ گزر گیا۔ بچپن میں اگر ہم نے اپنے فرائض ادا نہیں کئے تو یہ بہت بڑا نقص تھا۔ لیکن بچپن تو گزر گیا۔ اس کے بعد اب اگر ہماری جوانی بھی بے کار جائے تو بڑھاپا بہرحال خطرہ سے خالی نہیں ہوتا۔ اور ہماری مثال اُس شخص کی سی ہو گی جس پر جوانی آنے سےپہلے ہی بڑھاپا آجائے۔
پس قوم کی جوانی کی اپنی جوانی سے بڑھ کر حفاظت کرو ۔ہم دنیا کے سامنے دعویٰ تو پیش کرتے ہیں کہ ہم دنیا کی حفاظت کے لئے آئے ہیں، ہم دنیا کو امن دینے کے لئے آئے ہیں لیکن ہم کو دیکھنا چاہیےکہ کیا ہم اس قسم کے حالات پیدا کر رہے ہیں جن سے دنیا کو امن ملے؟ ہم کہتے تو یہ ہیں ہم دنیا میں اس لئے آئے ہیں کہ ہم غرباء کی کمزوریوں کو دور کریں اور انہیں ترقی کی راہوں پر چلائیں۔ لیکن سوچو تو کیا ہمیں غرباء کی کمزوریوں کو دور کرنے کی فکر دامنگیر رہتی ہے؟ میری نگاہ تو یہ دیکھ رہی ہے کہ صرف مرکز کے غرباء کے لئے بھی غلہ کا انتظام نہیں ہوتا۔ حالانکہ غرباء کی موجودگی میں جو فاقے کر رہے ہیں ہزاروں احمدی ایسے موجود ہیں جن کے بچے آٹے سے کھیلتے ہیں اور غرباء کے گھروں میں بچے ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہماری جوانی کے ایام ایسے ہیں جن پر ہم فخر کر سکیں۔ جب تک حقیقی جوانی کے حالات پیدا نہیں ہوتے ہم فخر نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اپنے منہ سے فخر کی باتیں کریں گے تو وہ ہماری ذلت کا موجب ہوں گی۔ ہم جتنا فخر کریں گے، جتنے دعوے کریں گے وہ سب ہمارے لئے گالیاں ہوں گی، وہ ہمارے لئے جُوتیاں ہوں گی جو ہم ریشم کے رومال میں لپیٹ کر اپنے سر پر مار رہے ہوں گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کوئی مرتا ہے اور اُس کے رشتہ دار اس پر نوحہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں تُو بڑا بہادر تھا، تُو بہت سخی تھا تو فرشے اُس کو نیزے کی ہُک مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بول تُو تھا بہادر؟ پھر نیزے کی ہُک مارتے ہیں اور کہتے ہیں بول تُو تھا سخی؟ اِس کا مفہوم یہی ہے کہ انسانی فطرت اگر زندہ اور صحیح ہو تو وہ ایسی تعریفوں پر شرمندہ ہوجاتی ہے۔ ایک انسان جو لالچ اور بخل سے بھرا ہوا ہو، اگر اسے کوئی کہے کہ یہ ہمارے اَن داتا ہیں، یہ ہمارے بڑے محسن ہیں اور یہ بہت ہی سخی ہیں تو اگراُس کی فطرت مُردہ ہو تو اَور بات ہے لیکن اگر اُس کی فطرت زندہ ہے تو اُس کا نفس یہ نہیں سمجھے گا کہ میری تعریف ہو رہی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص گھوڑے سے گِر پڑے اور لوگ کہیں کہ یہ بڑا شاہ سوار ہے تو وہ خوب سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میری تعریف نہیں کی جا رہی بلکہ مجھے طعنہ دیاجا رہا ہے۔ تو محض تقریروں سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا، محض جوش و خروش ظاہر کرنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک ہم حقیقی طور پر تبلیغ کی طرف متوجہ نہ ہوں، جب تک ہم حقیقی طور پر سوچ سمجھ کر کام نہ کریں، جب تک ہم حقیقی طور پر غریبوں کی فکر نہ کریں، جب تک ہم حقیقی طور پر بنی نوع انسان کے اندر امن پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ تب تک ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہماری قوم جوانی کے دن دیکھ رہی ہے۔ اگر اسلام ترقی نہیں کر رہا اور ہماری کوششوں کے باوجود دنیا میں اس رنگ میں مساوات پیدا نہیں ہو رہی جس رنگ میں اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ جوانی سے پہلے ہم پر بڑھاپا آگیا ہے۔
پس جماعت کو اپنی عملی حالت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ وقت سُرعت کے ساتھ گزر رہا ہے اور کئی کام ایسے ہیں جو ابھی تک روز اول میں سے گزر رہے ہیں۔ ’’
(الفضل مورخہ 23 ستمبر 1959ء)
1: قوتِ نامیہ: بڑھنے والی قوت
2: بخاری کتاب الجَنَائز باب مَا قِیْلَ فِی اَوْلَادِ الْمُشْرِکِیْنَ
3: الحج:6
4: المائدہ: 102
23
ہندوستانی لیڈر اپنی ہمسایہ قوم کو ایک انچ دینے کے لئے تیار نہیں
(فرمودہ 20 جولائی 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کےبعدفرمایا:
‘‘گزشتہ دنوں ہندوستان کے سیاسی لیڈر شملہ میں جمع ہوئے اور پھر اپنی ناکامی کا اقرا ر کرتے ہوئے منتشر ہو گئے۔ جہاں تک اختلاف کا سوال ہے وہاں تک تو خیر ایک انسان معذور بھی خیال کیا جا سکتا ہے اور سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ بعض اصول کی پچ رکھنے کی وجہ سے اپنے مدمقابل سے صلح نہیں کر سکا گوخالی ان لوگوں کا بغیر کسی کامیابی کے پراگندہ ہو جانا بھی ایک تشویشناک امر تھا۔ اور ہندوستان کی بدقسمتی پر دلالت کرتا تھا کہ اس کے چوٹی کے لیڈر ایسے وقت میں جبکہ آزادی دروازے پر کھڑی تھی چھوٹے چھوٹے اختلافات کی وجہ سے آپس میں اتحاد نہ کر سکے اور ہندوستان بدستور غلامی کے گڑھے میں گر رہا۔ لیکن اس ‘‘صلح کانفرنس ’’کے بعد جس قسم کے اخلاق کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ اس ناکامی سے بھی زیادہ تکلیف دِہ ہے۔ اِس اِس رنگ میں ایک دوسرے کے خلاف پھبتیاں اُڑائی گئی ہیں،خصوصاً ہندو پریس نے مسٹر جناح اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایسی باتیں کہی ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے آپس میں صلح اور محبت کے ساتھ مل بیٹھنا ایک ناممکن خیال معلوم ہوتاہے۔
بعض مسلمان اخبارات نے بھی اِسی حربہ سے کام لیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کو پسِ پُشت ڈال کر اپنے لئے ندامت اور شرمندگی کا سامان مہیا کیا ہے۔ مثلاً ایک اخبار گاندھی جی کا وہ لفظ جو ان کے نام کےساتھ ہوتا ہے یعنی ‘‘مہاتما’’ اس کو بدل کر ‘‘مہاطمع’’ لکھتا ہے۔ یعنی بڑی طمع اور بڑی حرص۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان ہتھیاروں کے استعمال کے بعد آپس میں کسی سمجھوتہ پر پہنچ جانے کی امید کس طرح کی جا سکتی ہے۔ ان باتوں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دلوں میں اختلاف کو جاری رکھنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ ورنہ چاہیے تو یہ تھا کہ اس ناکامی کے بعد افسوس اور ندامت کی ایک ایسی رَو چل جاتی کہ ہر شخص یہ محسوس کرتا کہ ہندوستان آزادی لینے کے لئے بے تاب نظر آتا ہے مگر بجائے اِس کے کہ اصل معاملہ کے متعلق کسی قسم کا افسوس دل میں پیدا ہوتا، بجائے اس کے کہ اصل معاملہ کے متعلق کسی قسم کی تکلیف دل میں پیدا ہوتی، بجائے اس کے کہ یہ احساس پیدا ہوتا کہ ہم کامیاب نہیں ہوئے اور اہم مقاصد کو اپنے سامنے رکھنے کی بجائے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُلجھ کر رہ گئے وہ ایک دوسرے پر گند اُچھالنے لگ گئے ہیں۔ اور اس طرح آئندہ کے لئے بھی اِس راستہ کو مسدود کر رہے ہیں۔
ملک کی یہ اخلاقی حالت جو ہندوؤں اور مسلمانوں نے دکھائی ہے نہایت افسوسناک ہے۔ مگر ایسے وقت میں ہم سوائے اِس کے کیا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے ملک کی اس مصیبت کو دور کرے۔ سب سے بڑی مصیبت تو اخلاق کی خرابی ہے۔ اور دوسری مصیبت یہ ہے کہ عظیم الشان مطالب کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے بھی لوگ اس قسم کی قربانیاں نہیں کرتے جس قسم کی قربانیاں انہیں کرنی چاہئیں۔ جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے اس اختلاف میں دونوں طرف سے متضاد باتیں پیش کی جاتی رہی ہیں۔ یعنی کانگرس اپنے مسلّمہ اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ باتیں نہیں کہہ سکتی تھی جو اس نے کہیں اور بعض باتیں جو مسلم لیگ نے اس موقع پر پیش کیں وہ بھی اصول کے خلاف تھیں۔ اسی طرح وہ دعویٰ جو درمیان میں وزیر اعظم پنجاب نے پیش کیا اس دعویٰ کو بھی وہ اپنے مسلّمہ اصول کے مطابق پیش نہیں کر سکتے تھے۔ یہ تضاد بتاتا ہے کہ حقیقتاً ابھی تک سچی خواہش آزادی کی پیدا نہیں ہوئی۔ یا یہ بتاتا ہے کہ ہر شخص کے ذہن کے پیچھے کوئی ایسی بات ہے کہ وہ سمجھتا ہے میں اپنے مخالف کے دعووں کو رد کر کے بھی اپنے مقصد کو حاصل کر سکوں گا مجھے صلح کی طرف اپنا قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔
میں نے جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے آئندہ زمانہ میں ایسے حالات پیش آنے والے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی تو الگ رہی جو کچھ حقوق اسے حاصل ہیں ان کے بھی کھوئے جانے کا امکان نظر آتا ہے۔ اور جہاں تک میں لیڈروں کی تقریروں سے سمجھا ہوں ان کو بھی یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ خطرات آنے والے ہیں مگر باوجود خطرات کا احساس رکھنے کے وہ اس بات کے لئے تیار نہیں کہ ایک انچ اپنی ہمسایہ قوم کو دے دیں۔ لیکن وہ اس بات پر آمادہ ہیں کہ سارا ملک غیر قوموں کے ہاتھ میں چلا جائے۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان نازک حالات میں زیادہ سے زیادہ دعاؤں سے کام لیں۔ جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے ہمیں ان سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔ مگر آنے والے واقعات صرف سیاست پر ہی اثر انداز نہیں ہوں گے بلکہ مذہب پر بھی اثر ڈالنے والے ہوں گے اس لئے ہمیں ان سیاسی معاملات سے جن سے براہ راست ہمارا کوئی تعلق نہیں صرف اس لئے دلچسپی ہے کہ ان کا اثر لَوٹ کر مذہب پر پڑنے والا ہے۔
پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خصوصیت سے اِن دنوں دعاؤں میں مشغول ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عجز اور انکسار سے یہ عرض کرے کہ اے خدا! آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنا ہماری طاقت سے باہر ہے۔ کیونکہ وہ سیاسیات سے وابستہ ہیں۔ اور سیاسیات میں ہمارا دخل نہیں بلکہ اور لوگوں کا دخل ہے اور جن کا ان معاملات میں دخل ہے وہ کچھ ایسے سخت دل ہو گئے ہیں کہ عظیم الشان امور کو چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے قربان کر رہے ہیں۔ الٰہی! یا تو ان لوگوں کےد لوں کو تُو بدل دے یا پھر ان کی جگہ تُو دوسرے لیڈروں کو لا جوملک کو امن اور صلح کی طرف لے جانے والے ہوں۔
اب صلح دو ہی طرح ہو سکتی ہے یا تو اس طرح صلح ہو سکتی ہے کہ دلوں کی صفائی ہوجائے۔ اور اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایسی توفیق عطا فرمائے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بجائے اہم مقاصد کو اپنے سامنے رکھیں اور اس بات کے لئے آمادہ ہو جائیں کہ ہم پیار اور محبت سے رہیں گے۔ اور یا پھر صلح اس طرح ہو سکتی ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں لیڈری کی باگ ڈور ہے اللہ تعالیٰ ان کو بدل دے اور ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے جو صلح اور امن کے خواہاں ہوں اور اس اہم مقصد کے لئے وہ ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ پہلے توہمیں یہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کوجنہوں نےاپنے ملک کی ایک حد تک خدمت کی ہے توفیق عطا فرمائے کہ وہ صلح اور امن کی صورت پیدا کریں۔ اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ملک کو آزادی سے محروم نہ کریں۔ لیکن اگر ان کے دلوں کی اصلاح نہ ہو تو ملک کی آزادی بہرحال مقدم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے کسی مخفی گناہ کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور اب ان کی اصلاح ناممکن ہو چکی ہے تو اللہ تعالیٰ سے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ان کی بجائے ایسے لیڈر کھڑے کر دے جو خداتعالیٰ کے کسی عذاب کے ماتحت نہ ہوں بلکہ ملک میں صلح اور امن پیدا کرنے کا موجب ہوں۔
اس کے بعد میں ایک مقامی بات کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ کچھ دن ہوئے میرے پاس ایک شکایت پہنچی ہے۔ غالباً دارالبرکات غربی کے خدام الاحمدیہ کی طرف سے ان کے صدر کے پاس ایک شکایت کی گئی جس کی ایک نقل شکایت کنندہ نے میرے پاس بھی بھیج دی ہے۔ وہ شکایت یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ کے چندہ کے لئے جب نوجوان انصار اللہ کے پاس گئے تو انہوں نے نہ صرف چندہ دینے سے انکار کیا بلکہ قسم قسم کے طعنے بھی دیئے کہ تمہارا ہمارے ساتھ کیا واسطہ ہے۔ تم خدام ہو اور ہم انصار ہیں۔ تم خدام ہمارا کیا کام کرتے ہو کہ جس کے بدلہ میں ہم تمہیں چندہ دیں۔ اگر یہ رپورٹ درست ہے تو جہاں تک چندہ کا سوال ہے میں خدام سے یہ کہوں گا کہ ان کے لئے اِس بات پر بُرا منانے کی وجہ ہی کیا تھی۔ خدام سب کے سب اطفال تو نہیں ہیں۔ اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ میں فرق ہے۔ خدام الاحمدیہ سے مراد وہ تمام نوجوان ہیں جو پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کے ہیں اور یہ ظاہر بات ہے کہ چالیس سال کی عمر تک نوجوان بیکار نہیں رہتے۔ بالعموم اٹھارہ، انیس یا بیس سال کی عمر میں وہ کام پر لگ جاتے ہیں گویا 15 سال کی عمر سے خدام الاحمدیہ کی جماعت کے ممبر شروع ہوتے ہیں۔ بیس سال کی عمر تک وہ کسی نہ کسی کام پر لگ جاتے ہیں۔ اور 25سال تک وہ اس جماعت میں شامل رہتے ہیں۔ ان میں سے پانچواں حصہ ایسے خدام کا لیا جا سکتا ہے جو برسرِکار نہیں۔ لیکن باقی 5/4 یعنی اسّی فیصدی حصہ ایسے نوجوانوں کا بھی ہے جو کام پر لگے ہوئے ہیں۔ اگر تو خدام الاحمدیہ کی جماعت پندرہ سولہ یا سترہ اٹھارہ سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہوتی تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم تو کماتے نہیں ہم اپنے لئے روپیہ کہاں سے لائیں۔ ہم نے تو بہرحال بڑوں سے مانگنا ہے۔ مگر جبکہ خدام الاحمدیہ کے ممبر وہ تمام نوجوان ہیں جو پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کے ہیں اور ان میں سے اسّی فیصدی نوجوان ایسے ہیں جو ملازمتیں رکھتے ہیں یا تجارتی کاروبار میں مصروف ہیں تو انہیں اپنے کاموں کے لئے دوسروں سے مانگنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ اگرمرکزی دفاتر کے کارکنوں اور قادیان کے دکانداروں کو ہی دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں ان میں سینکڑوں کی تعداد ایسے لوگوں کی نکلے گی جو اپنی عمر کے لحاظ سے خدام الاحمدیہ میں شامل ہیں۔ اور جب اس کثرت کے ساتھ برسرکار افراد خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں شامل ہیں تو میرے نزدیک نوجوانوں کو اپنا بوجھ خود اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آخرکیا وجہ ہے کہ وہ انصار کے پاس جائیں اور اُن سے اپنے لئے چندہ مانگیں۔ ہر شخص کے اندر غیرت ہونی چاہیے اور ہر جماعت کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی ضروریات اپنے افراد کے ذریعہ پوری کرے۔ سوائے اس کے کہ کوئی ایسا کام پیش آجائے جس کا بوجھ وہ خود نہ اٹھا سکتی ہو اور جس کے لئے دوسروں کی امداد کے بغیر گزارہ نہ ہو ورنہ عام دفتری ضرورتوں کے لئے جو چندے کرنے پڑتے ہیں وہ بہرحال جماعت کی طاقت کے اندر ہوتے ہیں اور ان کو پورا کرنا ہر جماعت کا اپنا فرض ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ باوجود اِس کے کہ قادیان میں سے پندرہ سَو بلکہ اِس سے بھی کچھ زیادہ رنگروٹ (Recruit)باہر جا چکا ہے۔ اگر اب بھی گنا جائے تو قادیان میں نوجوانوں کی تعداد بہت کافی نکل آئے گی۔ اگر وہ معمولی رقوم بھی چندہ میں ادا نہ کر سکیں تو یہ ان کا اپنے منہ سے اپنی شکست کا اقرار کرنا ہو گا۔ پس میرے نزدیک اول تو ان کو انصار اللہ کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے۔ اور اگر گئے تھے تو ان کے انکار پر برا نہیں منانا چاہیے تھا۔ جو شخص اپنی حد سے آگے نکل جائے اسے لازماً اِس قسم کا تلخ جواب سننا پڑتاہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے کے پاس جائے اور اُسے کہے کہ اپنا مکان میرے لئے خالی کر دو اور وہ آگے سے انکار کر دے تو بجائے اِس کے کہ کوئی مکان والے کو ملامت کرے ہر شخص اِسی قسم کا مطالبہ کرنے والے سے کہے گا کہ تم گئے ہی کیوں تھے؟ اور کیوں تم نے اس سے یہ مطالبہ کیاکہ اپنا مکان خالی کر دو؟ اور اگر اُس نے انکار کر دیا ہے تو بہرحال برا منانے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کا حق تھا کہ وہ تمہیں کہے کہ تم اپنے گھر بیٹھو میں تمہاری اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔
پس میرے نزدیک انصاراللہ سے چندہ مانگ کر خدام الاحمدیہ نے غلطی کی۔ خدام الاحمدیہ کی جو عمر میں نے مقرر کی تھی وہ ایسی نہیں کہ ان کے پاس برسرکار نوجوانوں کی کمی ہو اور اس بات پر مجبور ہوں کہ چالیس سال سے بڑی عمر والوں سے بھی اپنی ضروریات کے لئے چندہ کا مطالبہ کریں۔ چالیس سال ایسی عمر ہے کہ جس میں ایک ملازم شخص اپنی ملازمت کی اکثر عمر گزار چکا ہوتا ہے۔ بیس سال کی عمر میں عموماً ملازمت اختیار کی جاتی ہے اور پچپن سال کی عمر میں پنشن ہو جاتی ہے۔ گویا ملازمت والی عمر میں سے بیس سال میں نے خدام الاحمدیہ کو دیئے ہیں اور پندرہ سال انصار کو دیئے ہیں۔ لوگوں کی بیس سالہ ملازمت سے خدام فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور لوگوں کی پندرہ سالہ ملازمت سے انصار فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور جبکہ چالیس سال تک کی عمر کے تمام نوجوان خدام الاحمدیہ میں شامل ہیں اور جبکہ نوجوانوں کی بیس سالہ ملازمت سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کے مقابل میں انصار کو عمر کا صرف وہ حصہ دیا گیا ہے جس میں وہ پندرہ سال تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اپنے اخراجات کے لئے انصار اللہ کے پاس جاتے اور اُن سے چندے کا مطالبہ کرتے۔ لیکن اگر وہ گئے ہی تھے تو انصار کا جواب بھی مجھے اُس کشمیری کا واقعہ یاد دلاتا ہے جو ہمارے ملک میں ایک مشہور مثال کے طور پر بیان کیا جاتاہے۔ خدام الاحمدیہ کوہ قاف سے آنے والی پریوں کانام نہیں۔ بلکہ خدام الاحمدیہ نام ہے ہمارے اپنے بچوں کا۔ اور خدام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام ہے کہ وہ بچوں کو محنت کی عادت ڈالیں اور ان میں قومی روح پیدا کریں، ان کے سپرد یہ کام نہیں گو اخلاقاً یہ بھی ہونا چاہیئے کہ وہ بحیثیت خدا م کے بھی لوکل انجمن کے ساتھ مل کر کام کریں کیونکہ خدام الاحمدیہ کا ہر ممبر مقامی انجمن کا بھی ممبر ہوتا ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کی وجہ سے لوکل انجمن کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا۔ ہر احمدی جو چالیس سال سے کم عمر کا ہے وہ خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے۔ ہر احمدی جو چالیس سال سے اوپر ہے وہ انصار اللہ کا ممبر ہے۔ اور ہر احمدی جو چالیس سال سے نیچے یا چالیس سے اوپر ہے وہ مقامی انجمن کا بھی ممبر ہے۔ اس سے کوئی علیحدہ چیز نہیں۔ پس خدام الاحمدیہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ جماعت احمدیہ مقامی کے ممبر نہیں ہیں یا انصار اللہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ جماعت احمدیہ مقامی کے ممبر نہیں ہیں۔ بلکہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مجموعے کا نام مقامی انجمن ہے۔ مثلاً لاہور کی انجمن ہے یا دہلی کی انجمن ہے۔ یا پشاور، گجرات اور سیالکوٹ کی انجمن ہے یا امرتسر کی انجمن ہے۔ ان انجمنوں کے کیا معنے ہیں؟ ان انجمنوں کے معنے یہ ہیں کہ فرداً فرداً ہر شخص جو چالیس سال سے کم عمر کا ہے وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہے اور فرداً فرداً ہر شخص جو چالیس سال سے زیادہ عمر کا ہے وہ انصار اللہ میں شامل ہے۔ مگر ان خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مجموعے کا نام ہے جماعت احمدیہ لاہور یا جماعت احمدیہ دہلی یا جماعت احمدیہ پشاور یا جماعت احمدیہ گجرات یا جماعت احمدیہ سیالکوٹ یا جماعت احمدیہ امرتسر۔پس میں تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ اِس میں اختلاف کی کونسی بات ہے یا کس بناء پر خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے۔
خدام الاحمدیہ کے معنے صرف اتنے ہیں کہ وہ نوجوانوں کو آوارہ گردی سے بچائیں اور انہیں کام کی عادت ڈالیں۔ بے شک ان میں نقائص بھی ہیں مگرجہاں تک میرا تجربہ ہے اور جو روایتیں میں نے سُنی ہیں اُن کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ خدام الاحمدیہ میں صحیح طور پر شامل ہوتے ہیں ان میں کام کرنے کی عادت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ ذاتی طور پر بھی مَیں نے دیکھا ہے کہ خدام الاحمدیہ میں جن نوجوانوں کو کام کرنے کا موقع ملا ہے وہ بہت زیادہ ذہین اور بہت زیادہ تجربہ کار ہو گئے ہیں اور اب بڑے بڑے کام ان کے سپرد کئے جا سکتے ہیں۔ مجھے ایک کارخانہ والوں نے بتایا کہ انہوں نے خدام الاحمدیہ کے ایک کارکن کو ملازم رکھا تو وہ کام کا اتنا عادی ثابت ہوا کہ نہ وہ رات کو رات سمجھتا اور نہ دن کو دن بلکہ دوسرے انسانوں سے علیحدہ معلوم ہوتا۔ یہی خدام الاحمدیہ کی غرض ہے کہ وہ نوجوانوں میں کام کرنے کی عادت پیدا کریں۔ پس یہ تو نہیں کہ دارالبرکات کے خدام کوہِ قاف سے آئے ہوئے ہیں جو دوسروں سے الگ ہیں اور یہ بھی نہیں کہ دارالبرکات کے خدام دارالفضل یا دارالرحمت سے آئے ہوئے ہوں کہ لوگ کہہ سکیں ہمیں ان سے کیا غرض ہے۔ پس وہ جنہوں نے کہا کہ ہم انصار کو تم خدام سے کیا غرض ہے اُنہیں سوچنا چاہیے تھا کہ خدام الاحمدیہ کوئی الگ چیز نہیں بلکہ خدام الاحمدیہ ان کے اپنے بیٹوں کا نام ہے۔ پس جب انہوں نے کہا کہ ہمیں خدام الاحمدیہ سے کیا غرض ہے تو دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ کہا کہ ہمیں اس سے کیا غرض ہے کہ ہمارے بیٹے جیتے ہیں یا مرتے ہیں۔ مگرکیا کوئی بھی معقول انسان ایسی بات کر سکتا ہے؟ خدام الاحمدیہ کی جماعت تو صرف نوجوانوں کی اصلاح کے لئے قائم کی گئی ہے۔ ایسی صورت میں وہ کونسے ماں باپ ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ ہم اپنے بیٹوں کی اصلاح ضروری نہیں سمجھتے، ہم نہیں چاہتے کہ ان میں قومی روح پیدا ہو، ہم نہیں چاہتے کہ ان میں کام کرنے کی عادت پید اہو، یا ہم نہیں چاہتے کہ ایک تنظیم میں شامل ہونے کی وجہ سے ان میں اطاعت کا مادہ پیدا ہو۔
میں نے بتایا ہے کہ مجھے انصار اللہ کے جواب پر ایک کشمیری کی مثال یاد آگئی۔ کہتے ہیں ایک کشمیری پنجاب میں آیا، گرمی کا موسم تھا جیٹھ ہاڑ کے دن تھے کہ ایک دن وہ چلچلاتی دھوپ میں بیٹھ گیا۔ کوئی مسافر پاس سے گزرا تو اُس نے یہ دیکھ کر کہ ایسی سخت گرمی میں یہ شخص دھوپ میں بیٹھا ہے حالانکہ پاس ہی ایک دیوار کا سایہ موجود ہے کشمیری سے کہا کہ میاں کشمیری! تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ تمہارے پاس ہی فلاں جگہ سایہ ہے اس کے نیچے بیٹھ جاؤ۔ کشمیری صاحب نے یہ سنتے ہی اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور کہا کہ اگر میں وہاں جا بیٹھوں تو تم مجھے کیا دو گے؟ یہی دارالبرکات کے انصار کا حال ہے۔ان سے کہا گیا کہ آؤ ہم تمہارے بیٹوں کی اصلاح کی طرف توجہ کریں۔ انہوں نے جواب میں کہا تم ہمیں دیتے کیا ہو کہ ہم تمہیں چندہ دیں۔ یہ کہنا کہ خدام الاحمدیہ کیا کام کرتے ہیں؟ میرے نزدیک درست نہیں کیونکہ جہاں تک میرا تجربہ ہے اِس وقت تک انصار نے بہت کم کام کیا لیکن خدام نے ان سے زیادہ کیا ہے۔ گو وہ اپنے کام کے لحاظ سے اُس حد تک نہیں پہنچے جس حد تک میں انہیں پہنچانا چاہتا ہوں۔ مگر بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انصار نے خدام الاحمدیہ کی تنظیم اور ان کے کام کے مقابلہ میں دس فیصدی کام بھی نہیں کیا۔ گو اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انصار کی تنظیم خدام کے کئی سال بعد شروع ہوئی ہے۔ میں نے ان کو بھی بار بار توجہ دلائی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے ابھی تک اپنے فرائض کو نہیں سمجھا۔ میں نے کہا تھا کہ چونکہ بوڑھے آدمی زیادہ کام نہیں کر سکتے اس لئے بڑی عمر والوں کے ساتھ ایسے سیکرٹری مقرر کر دینے چاہئیں جو اکتالیس یا بیالیس سال کے ہوں تا کہ ان کے کام میں بھی تیزی پیدا ہو۔ کچھ دن ہوئے میں نے انصار اللہ کے ایک ممبر سے پوچھا کہ میری اس تجویز کے بعد بھی انصار اللہ میں بیداری پیدا نہیں ہوئی اس کی کیا وجہ ہے؟ اس نے بتایا کہ سیکرٹری تو مقرر کر دیئے گئے ہیں مگر ابھی ان کے سپرد کام نہیں کیا گیا۔ بہرحال انصار اللہ کا وجود اپنی جگہ نہایت ضروری ہے کیونکہ تجربہ جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ اسی طرح امنگ اور جوش جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ خدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے اور انصاراللہ نمائندے ہیں تجربہ اور حکمت کے۔ اور جوش اور امنگ اور تجربہ اور حکمت کے بغیر کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پس مجھے تعجب ہے انصار اللہ کے اِس جواب پر اور مجھے تعجب ہے خدام الاحمدیہ کی اس کم ہمتی پر۔ اور میں حیران ہوں کہ وہ ان کے پاس مانگنے ہی کیوں گئے تھے اور اگر انہوں نے کچھ دینے سے انکار کیا تھا تو کیوں انہوں نے اس انکار کو خوشی سے برداشت نہ کرلیااور سارے اخراجات کو اپنے اوپر نہ لے لیا۔ میں تو سمجھتا ہوں اگر وہ نوجوانوں سے اپنی ضروریات کے لئے ہزارہا روپیہ بھی جمع کرنا چاہیں تو آسانی سے جمع کر سکتے ہیں۔ اِس وقت ان کے سارے سال کا خرچ چار پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ کیا اتنی معمولی رقم بھی وہ جمع نہیں کر سکتے؟ میں تو سمجھتا ہوں اگر وہ صحیح طور پر کام کریں تو چوبیس پچیس ہزار روپیہ سالانہ بہ سہولت جمع کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان پر کوئی مشکل آئی بھی تھی تو انہیں ایسے لوگوں کو مخاطب کرنا چاہیےتھا جو بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ کام کرتے۔ اور اگر بِالفرض روپیہ کی کمی کی وجہ سے ان کے کام بالکل ہی رُک جاتے تب بھی ان کے لئے گلے اور شکوہ کی کوئی بات نہیں تھی۔ بچے مصائب اور مشکلات کے وقت ہمیشہ اپنے ماں باپ کے پاس جاتے ہیں۔ اگرخدام الاحمدیہ جماعت کی حقیقت کو سمجھتے تو اگر ان کے جسمانی ماں باپ نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کی کوئی پروا نہیں، ہم ان کی ضروریات کے لئے کوئی چندہ نہیں دے سکتے تو خدا نے اِس جماعت کو یتیم نہیں بنایا تھا وہ اپنے روحانی باپ کے پاس جاتے اور اسے کہتے کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں رہا۔ اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ اپنے روحانی باپ کے پاس جاتے تو اس کی طرف سے انہیں وہ جواب نہ ملتا جو انہیں اپنے جسمانی ماں باپ سے ملا۔ وہ محبت اور پیار کے ساتھ تمہاری ضرورتوں کو پورا کرتا اور تمہیں یہ شکوہ پیدا نہ ہوتا کہ ہم اپنے کاموں کو کس طرح چلائیں یا اپنی ضروریات کو کس طرح پورا کریں۔ مجھے جہاں اس بات پر خوشی ہوتی ہے کہ خدام عمدہ سکیمیں تیار کرتے رہتے ہیں وہاں میں نے بارہا اس امر پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ خدام الاحمدیہ کو جتنا مشورہ مجھ سے لینا چاہیے اُتنا مشورہ وہ نہیں لیتے۔ اگرلیتے تو وہ زیادہ اچھا کام کر سکتے اور زیادہ عمدگی سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر سکتے۔
پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو مشترک طور پر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ چونکہ بعض دفعہ باہر بھی ایسے جھگڑے پیدا ہوئے ہیں اس لئے میں خدام کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ صرف خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں بلکہ مقامی جماعت کے بھی ممبر ہیں۔ خدام الاحمدیہ کا کام لوکل انجمن کے کام کے علاوہ زائد طور پر ان کے سپرد کیا گیا ہے۔ پس مقامی انجمن کے جو عہدیدار ہوں خواہ وہ سیکرٹری ہوں یا پریذیڈنٹ ان کے احکام کی پیروی ہر خادم کے لئے ضروری ہے۔ البتہ کوئی سیکرٹری یا کوئی پریذیڈنٹ جماعتی طو رپر خدام الاحمدیہ کو کسی کام کا حکم دینے کا مجاز نہیں۔ وہ فرداً فرداً تو انہیں کہہ سکتا ہے کہ آؤ اور فلاں کام کرو مگر لوکل انجمن کا پریذیڈنٹ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خدام کو بحیثیت خدام یہ کہے کہ آؤ اور فلاں کام کرو۔ اُس کو چاہیے کہ اگر خدام الاحمدیہ سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اُن کے زعیم کو مخاطب کرے اور کہے کہ مجھے فلاں کام کے لئے خدام کی مدد کی ضرورت ہے۔ اور زعیم کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے پریذیڈنٹ کے احکام کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدام الاحمدیہ کو جماعت میں تفرقہ اور شقاق کا موجب بناتا ہے۔ اسی طرح انصار اللہ گو تنظیم کے لحاظ سے علیحدہ ہیں مگر بہرحال وہ لوکل انجمن کا ایک حصہ ہیں ان کو بھی کوئی پریذیڈنٹ بحیثیت جماعت حکم نہیں دے سکتا۔ ہاں فرداً فرداً وہ انصار اللہ کے ہر ممبر کو اپنی مد دکے لئے بلا سکتا ہے۔ اور انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے ہر پریذیڈنٹ کے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں۔
بہرحال کوئی پریذیڈنٹ انصار اللہ کو بحیثیت انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کو بحیثیت خدام الاحمدیہ کسی کام کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ یہ تو کہہ سکتاہے کہ چونکہ تم احمدی ہو اس لئے آؤ اور فلاں کام کرو۔ مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آؤ انصار! یہ کام کرو۔ یا آؤ خدام! یہ کام کرو۔ خدام کو خدام کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے اور انصار کو انصار کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے۔ مگر چونکہ لوکل انجمن اِن دونوں پر مشتمل ہوتی ہے انصار بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور خدام بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اس لئے گو وہ بحیثیت جماعت خدام اور انصار کو کوئی حکم نہ دے سکے مگر وہ ہر خادم اور انصار اللہ کے ہر ممبر کو ایک احمدی کی حیثیت سے بلا سکتا ہے اور خدام اور انصار دونوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔
میں حیران ہوں کہ جہاں باقی مقامات پر آرام سے کام چل رہا ہے وہاں قادیان میں کیوں اختلاف پیدا ہو گیا۔ یہاں تو علاوہ محلّوں کی انجمنوں کے ایک لوکل انجمن بھی موجود ہے۔ اگر دارالبرکات کے انصار اپنے فرائض کو سمجھنے کے قابل نہیں تھے یادارالبرکات کے جو خدام ہیں ان میں سےبعض کے ساتھ وہ صلح اور محبت سے کام نہیں کر سکتے تھے۔ تو پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ وہ اس جھگڑے کو دور کرتا۔ درحقیقت اگر ایسے مواقع پیش آجائیں تو اُس وقت بہترین طریق یہ ہوتا ہے کہ پریذیڈنٹ جھگڑے کو نپٹانے کی کوشش کرے۔ مثلاً جب قادیان کےا یک محلہ میں یہ جھگڑا پیدا ہو گیا تھا تو اُس وقت لوکل انجمن کے پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ اس جھگڑے کو دور کر نے کی کوشش کرتا۔ وہ مقامی پریذیڈنٹ کو بھی بلاتا، انصار اور خدام کے زعماء کو بھی بلاتا۔ اور پھر اگر ضروری سمجھتا تو مرکز کو لکھ کر انصار اور خدام کا ایک ایک نمائندہ بلایا جاتا اور تحقیق کر کے فیصلہ کیا جاتا کہ قصور کس کا ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ نہ قادیان کی لوکل انجمن نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا، نہ خدام نے اس جھگڑے کو دور کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ انصار اللہ نے اس طرف کوئی توجہ کی۔ حالانکہ یہ جھگڑے اگر اِسی طرح بڑھتے چلے جائیں اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا وجود جماعت میں دو نئی جماعتیں پیدا کرنے کا موجب بن جائے تو یہ تنظیم بجائے انعام کے ہمارے لئے وبال بن جائے گی۔ اور بجائے اتحاد کو ترقی دینے کے ہم میں تفرقہ اور تنزل پیدا کر دے گی۔ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو دو علیحدہ علیحدہ وجود نہیں بنایا گیا بلکہ ایک کام اور ایک مقصد کے لئے ان کے سپرد دو علیحدہ علیحدہ فرائض کئے گئے ہیں۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گھر میں سے کسی کے سپرد خدمت کا کوئی کام کر دیا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اُس کا کوئی مستقل وجود گھر میں پیدا ہو گیا ہے بلکہ وہ بھی جانتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جانتے ہیں کہ وہ گھر کا ایک حصہ ہے۔ صرف کام کو عمدگی سے چلانے کے لئے اس کے سپرد کوئی ڈیوٹی کی گئی ہے۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں مقامی انجمن کے بازو ہیں۔ اور ہر شخص کو خواہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہو یا انصار اللہ میں اپنے آپ کو محلہ کی یا اپنے شہر کی یا اپنے ضلع کی انجمن کاایک فرد سمجھنا چاہیے۔ اور بجائے اس کے ساتھ ٹکرانے کے صلح اور آشتی سے کام لینا چاہیے۔ میں نے بتایا ہے کہ جب اِس قسم کا کوئی اختلاف پیدا ہواُس وقت پریذیڈنٹ پر اختلاف کو دور کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر ضلع میں جھگڑا ہو تو ضلع کے پریذیڈنٹ کا، شہر میں جھگڑا ہو تو شہر کے پریذیڈنٹ کا، محلہ میں جھگڑا ہو تو محلہ کے پریذیڈنٹ کا فرض ہے کہ وہ دونوں فریق کو جمع کرے اور ان کے شکوے سن کر باہمی اصلاح کی کوشش کرے۔ اور اگر اس سے اصلاح نہ ہو سکے تو وہ لوکل انجمن کے سامنے معاملہ رکھے۔ اور پھر لوکل انجمن کا فرض ہے کہ وہ لوکل مجلس انصار اللہ اور لوکل مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک ایک نمائندہ بلوائے اور اس طرح مل کر جھگڑے کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
درحقیقت ہماری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے قیام سے یہ ہے کہ جماعت کو ترقی حاصل ہو۔ یہ غرض نہیں کہ تفرقہ اور شقاق پیدا ہو۔ پس میرے نزدیک اس معاملہ میں خدام الاحمدیہ کی بھی غلطی ہے، انصار اللہ کی بھی غلطی ہے ،لوکل انجمن کی بھی غلطی ہے اور اگر اس رنگ میں یہ معاملہ لوکل انصار اللہ تک پہنچ گیا تھا تو پھر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی بھی غلطی ہے کہ اس نے اس جھگڑے کو دور نہ کیا۔ آخر جب کوئی نہ کوئی جھگڑا پیدا ہوتا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ بغیر کسی سبب کے ہی جھگڑا پیدا ہو جائے۔ جب کسی انسان کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کے اندر ضرور کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے۔ یا اس کی انتڑیوں میں نقص ہے یا معدہ میں نقص ہے یا جگر میں پھوڑا ہے یا پتہ میں پتھری ہے یا گُردہ میں پتھری ہے۔ بہرحال کوئی نہ کوئی پیٹ درد کی وجہ ہو گی۔ اِسی طرح جب لڑائی ہو جاتی ہے یا تفرقہ اور شقاق کی کوئی صورت رونما ہوتی ہے۔ تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وہ بات اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ سننے والا حیران رہ جاتا ہے۔ مگر بہرحال چونکہ وجہ موجود ہوتی ہے اس لئے جب تک اس کا ازالہ نہ کیا جائے تفرقہ اور شقاق دور نہیں ہوتا۔
میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو میں مکمل کر دوں۔ ایک دیوار انصار اللہ ہیں۔ دوسری دیوار خدام الاحمدیہ ہیں اور تیسری دیوار اطفال الاحمدیہ ہیں اور چوتھی دیوار لجنات اماء اللہ ہیں۔ اگر یہ چاروں دیواریں ایک دوسری سے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی۔ عمارت اُس وقت مکمل ہوتی ہے جب اُس کی چاروں دیواریں آپس میں جُڑی ہوئی ہوں۔ اگر وہ علیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چار دیواریں ایک دیوار جتنی قیمت بھی نہیں رکھتیں۔ کیونکہ اگر ایک دیوار ہو تو اُس کے ساتھ ستون کھڑا کر کے چھت ڈالی جا سکتی ہے لیکن اگر ہوں تو چار دیواریں لیکن چاروں علیحدہ علیحدہ کھڑی ہوں تو اُن پر چھت نہیں ڈالی جا سکے گی۔ اور اگر اپنی حماقت کی وجہ سے کوئی شخص چھت ڈالے گا تو وہ گر جائے گی کیونکہ کوئی دیوار کسی طرف ہو گی اور کوئی دیوار کسی طرف۔ ایسی حالت میں ایک دیوار کا ہونا زیادہ مفید ہوتا ہے بجائے اس کے کہ چار دیواریں ہوں اور چاروں علیحدہ علیحدہ ہوں۔
پس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہئے۔ اگر کسی حصہ میں شقاق پیدا ہوا تو خدا تعالیٰ کے سامنے تو وہ جواب دہ ہوں گے ہی۔ میرے سامنے بھی وہ جواب دہ ہوں گے یا جو بھی امام ہو گا اس کے سامنے انہیں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل کرنے کے لئے مہیا کئے ہیں۔ اس لئے مہیا نہیں کئے کہ جماعت کو جو طاقت پہلے سے حاصل ہے اُس کو بھی ضائع کر دیا جائے۔ ’’ (الفضل 30 جولائی 1945ء)
24
جماعت احمدیہ کی فتح اور کامیابی کے لئے ایک نیا قدم اور نئی قربانیوں کا وقت
(فرمودہ 27 جولائی 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ کی بعض باتیں اپنے اندر لطیفے کا رنگ رکھتی ہیں۔ یعنی گو وہ واقعات کے لحاظ سے تو اہمیت نہیں رکھتیں لیکن ان میں ایک قافیے اور تلازمہ کا رنگ پایا جاتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں جہاں تک اس کے مضامین اور مطالب کا تعلق ہے اس میں کسی رِدَم (Rhythm) یا وزن کا پایاجانا ضروری نہیں۔ جس سے ہمیں معلوم ہو کہ اس کی نثر اپنے اندر شاعرانہ رنگ رکھتی ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نہ صرف ان اندرونی حکمتوں سے پُر کیا ہے جو انسان کی سمجھ اور عقل کو جِلا بخشتی ہیں اور انسان کے فہم و فراست کو قوت دیتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ظاہر میں بھی ایک ایسا توازن قائم کیا ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ مضامین آپس میں وابستہ اور ہم رشتہ ہیں اور اُچھلتے کُودتے آگے کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری باتوں میں بھی بسا اوقات ایک تلازمہ کا رنگ پایا جاتا ہے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ ایک چھوٹی سی چیز کو اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ کو راحت اور خوشی پہنچانے کے لئے دوسری چیز کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ گو اس جوڑ میں کوئی معنوی حکمت نظر نہیں آتی لیکن اس کے ساتھ ایک قسم کی لذت اور راحت ضرور محسوس ہوتی ہے۔
مجھے اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ ہوا رؤیا میں بتایا کہ مسٹر ماریسن جو انگلستان کی لیبر پارٹی کے ممبر ہیں وہ کہتے ہیں کہ جیسا کام کرنے کی مجھے توفیق ملی ہے چالیس سال کے عرصہ میں ایسی توفیق کسی کو نہیں ملی۔ اور گویا وہ ضلع کانگڑہ کے متعلق کہتے ہیں۔ اور میں حیران ہوتا ہوں کہ انگلستان کے افسر کو کانگڑہ سے کیا تعلق۔ پھر اس کی یہ تعبیر ذہن میں آئی کہ انگلستان میں بھی کانگڑہ کے ضلع کی قسم کے آتش فشانی مادے ظاہر ہونے والے ہیں یعنی عظیم الشان تغیرات ہونے والے ہیں۔ یہ رؤیا مجھے ڈلہوزی کے پچھلے سفر میں دکھایا گیا۔ اُس وقت ابھی پارلیمنٹ کے ٹوٹنے کا کوئی ذکر نہ تھا اور نہ ہی پارلیمنٹ کے ٹوٹنے کا کوئی امکان تھا۔ چودھری ظفراللہ خان صاحب اُس وقت انگلستان جا رہے تھے۔ میں نے یہ رؤیا لکھ کر ان کو بھجوا دیا تا وہ لندن میں شمس صاحب کو اشاعت کے لئے دے دیں۔ آگے شمس صاحب نے فورًا ہی وہ رؤیا 22 مئی کو مسٹر ماریسن تک پہنچا دیا۔ مسٹر ماریسن لیبر پارٹی کے ممبر ہیں اور اگر انہیں کوئی خاص کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے تو وہ لیبر پارٹی کے ذریعہ سے ہی مل سکتا ہے۔ کیونکہ ڈیموکریٹک ملکوں میں کوئی شخص اپنی ذات میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ اس کو اپنی پارٹی کےساتھ مل کر ہی پوزیشن حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنی پارٹی کےساتھ مل کر ہی کوئی بڑا کام کر سکتا ہے۔ پس اس رؤیا میں یہ اشارہ تھا کہ قریب میں ہی مسٹر ماریسن کی پارٹی برسراقتدار آنے والی ہے۔ اس رؤیا کے بعد جب میں واپس قادیان گیا تو کچھ دنوں کے بعد یہ ہلچل مچ گئی کہ لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی (Conservative Party)میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور لیبر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ دونوں پارٹیاں الگ الگ اور جدا جدا کام کریں۔ لیکن کنزرویٹو پارٹی (Conservative Party) اصرار کرتی ہے کہ ابھی کولیشن گورنمنٹ (Collision Govt.) رہے تا وقتیکہ جاپان کی جنگ کا خاتمہ ہو جائے۔ لیکن لیبر پارٹی نے اسے تسلیم نہ کیا اور آخر باوجود لیبر پارٹی کے اس اصرار کے کہ ابھی کسی نئے انتخاب کی ضرورت نہیں مسٹر چرچل نے اِس خیال کے ماتحت کہ اگر اِس وقت مَیں نیا انتخاب کراؤں گا تو میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا، کیونکہ ابھی میری جنگی خدمات کا گہرا اثر لوگوں کے دل پر ہے اور جاپان کی جنگ جاری ہے۔ اگر جاپان کی لڑائی کا خاتمہ ہو گیا تو ملک والے سمجھیں گے کہ اب لڑنے والے آدمی کی ضرورت نہیں اب صلح کے کاموں والے آدمی کی ضرورت ہے اِس لئے اِس وقت میرے جیتنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اس طرح مجھے اور میری پارٹی کو پانچ سال کا عرصہ پھر حکومت کے لئے مل جائے گا۔ مسٹر چرچل نے اپنی طرف سے ہوشیاری اور چالاکی کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا کہ اب تو مسٹر ماریسن کو کوئی بڑا کام کرنے کا موقع ملنے والا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف کنزرویٹو پارٹی کو یہ اصرار تھا کہ اگر انتخاب ہونا ہے تو اِسی وقت ہو لیکن دوسری طرف لیبر پارٹی اِس بات پر مُصِر تھی کہ یہ انتخاب ابھی نہ ہو۔ جس کے معنے یہ تھے کہ کنزرویٹو پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ اگر اب انتخاب ہو جائے تو اس کے لئے جیتنے کا زیادہ موقع ہے۔ اسی طرح لیبر پارٹی کا بھی یہی خیال تھا کہ اگر اِس وقت انتخاب ہوا تو وہ کنزرویٹو پارٹی کے حق میں اچھا ہو گا۔ مگر باوجود لیبر پارٹی کے کہنے کے کہ ابھی انتخاب میں دیر کی جائے مسٹر چرچل یہی کہتے رہے کہ ہمیں ابھی انتخاب کے لئے پبلک کے سامنے جانا چاہئے۔ ان کا اصرار کرنا یہ بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک ان کے جیتنے کے لئے یہ بہترین موقع تھا اور لیبر پارٹی کا اِس بات پر اصرار کرنا کہ ابھی انتخاب نہ کیا جائے اور کچھ دیر پیچھے ڈالا جائے فوری طور پر نئے انتخاب کی ضرورت نہیں چھ ماہ یا سال کے بعد کر لیا جائے گا اِس بات کا ثبوت ہے کہ لیبر پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ ابھی پبلک کے سامنے جانا ان کے لئے اچھا نہیں۔ اگر ابھی پبلک کے سامنے جائیں گے تو ہار جائیں گے۔ لیکن یہ دونوں رائیں خدائی فیصلہ کے خلاف تھیں۔ مسٹر چرچل نے انتخاب پر زور اسی لئے دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے لئے جیتنے کا زیادہ موقع ہے۔ اور لیبر پارٹی نے انتخابات میں تأخیر پر اِس لئے زور دیا کہ اس کے نزدیک یہ وقت ان کے لئے مناسب نہ تھا۔ مگر آخر لیبر پارٹی نے یہ سمجھ کر کہ اب جو ہمارے سر پر پڑنا تھا پڑ گیا انتخاب کی مُہم شروع کر دی۔ اُس وقت مسٹر چرچل کو اپنی کامیابی پر اس قدر یقین تھا میں حیران ہوں کہ وہ اب اِس فقرے کو پڑھ کر جو انہوں نے انتخاب کے دوران میں کہا دل میں کیا محسوس کرتے ہوں گے۔ انتخاب کے دنوں میں جب وہ لندن کی ایک انتخاب کی چوکی پر پہنچے تو وہاں ہزارہا آدمی قطاریں باندھے کھڑے تھے۔ مسٹر چرچل کی جنگی خدمات کی وجہ سے لوگوں نے ان کے آنے پر خوش آمدید کہا اور اپنے طریق کے مطابق تالیاں پیٹیں اور نعرے لگائے۔ اُس وقت مسٹر چرچل نے یہ فقرہ کہا کہ میں تمہیں گورنمنٹ کا ایک راز بتانے آیا ہوں۔ اور پھر مذاقاًکہا کہ تم یہ راز کسی دوسرے کو نہ بتانا۔ وہ راز یہ ہے کہ کنزرویٹو پارٹی اِس انتخاب میں جیت گئی ہے۔ گویا وہ اپنی کوششوں اور اپنی طاقت کے اندازہ کے مطابق یہ خیال کرتے تھے کہ یہ ناممکن بات ہے کہ ہم ہار جائیں۔ ایک بچہ ایسی بات کہے تو اَور بات ہے لیکن ایک ایسا آدمی جو ایک اہم پارٹی کا لیڈر ہے اور ایسے وقت میں جبکہ وہ دنیا میں غیر معمولی حیثیت حاصل کر چکا ہے اور ایسے وقت میں جبکہ وہ اپنے دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہے اُس وقت اُس کا یہ کہنا کہ میں تمہیں گورنمنٹ کا یہ راز بتانے آیا ہوں کہ کنزرویٹو پارٹی جیت گئی ہے بتاتا ہے کہ مسٹر چرچل کو اپنی فتح پر سو فیصدی یقین تھا۔ لیکن مسٹر چرچل کے اِس اعلان سے دو مہینے پہلے اللہ تعالیٰ مجھے یہ اطلاع دے چکا تھا کہ اب مسٹر ماریسن جیسے لوگوں کے کام کرنے کا وقت آیا ہے۔ آج الیکشن کے نتیجہ کا اعلان ہو گیا ہے لیبر پارٹی انتخاب سے پہلے اپنے متعلق جو ناکامی کا خطرہ محسوس کرتی تھی وہ بھی غلط ثابت ہوا ہے اور کنزرویٹو پارٹی جو کامیابی کا یقین رکھتی تھی وہ بھی غلط ثابت ہوا ہے۔ اور الیکشن میں 640 ممبروں میں سے 390 ممبر لیبر پارٹی کی طرف سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اور مسٹر چرچل کی پارٹی جس کے متعلق مسٹرچرچل نے کہا تھا کہ میں تمہیں گورنمنٹ کاراز بتاتا ہوں کہ کنزرویٹو پارٹی جیت چکی ہے اُس کے گزشتہ ممبروں میں سے نصف کے قریب ممبر آئے ہیں۔ پچھلی دفعہ 350 ممبر تھے اور اِس دفعہ 185 ممبر آئے ہیں۔
اِس خبر میں عجیب تلازمہ 1ہے ۔میں حیران ہوں اللہ تعالیٰ نے اس خبر کو روکے رکھا اور یہ خبر اِس سفر سے نہ دس دن پہلے اور نہ دس دن بعد بتائی بلکہ ڈلہوزی میں ہی بتائی ۔اِس میں یہ اشارہ تھا کہ ڈلہوزی میں اِس خبر کی اطلاع دی گئی ہے اور ڈلہوزی میں ہی اس کے پورا ہونے کی خبر آئے گی۔ یہ ایک قسم کا تلازمہ ہے۔ جیسے قرآن مجید میں مُؤْمِنُوْنَ یا یُوْقِنُوْنَ آتا ہے۔ مُؤْمِنُوْنَ یا یُوْقِنُوْنَ کو ایک د وسرے کے بعد لانے میں بظاہر کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا لیکن اِس میں ایک رِدم اور توازن اور شعریت ہے۔ اسی طرح حادثات میں بھی بسااوقات شعریت اور توازن پایا جاتا ہے۔ اس تلازم میں اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ اے ڈلہوزی میں آئے ہوئے شخص !وہ خبر ڈلہوزی میں ہی پوری ہو گی جو ڈلہوزی میں دی گئی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ نےایک قاضی کو معزولی کا حکم بھجوایا۔ اس میں لکھا یَا قَاضِی الْقُمِّ عَزَلْتُکَ فَقُمْ۔ اے قُم کے قاضی! میں نے تجھے معزول کر دیا ہے اب اُٹھ اور اپنے گھر جا۔ اُس نے پڑھا تو ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا مجھے تو اس قافیہ نے ڈبویا۔ کسی نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے اُس نے کہا کہ بادشاہ یہاں سے گزرا اُس کو معلوم ہوا یہ قُم قصبہ ہےاور یہاں کوئی قاضی بھی ہے۔ تو بادشاہ کو خیال آیا کہ لطیفہ بنانا چاہیے اور بادشاہ کو یہ قافیہ پسند آیا۔ اس لئے اُس نے میری معزولی کا حکم دے دیا۔ تو قوافی بھی اپنے اندر دلکشی اور دلچسپی رکھتے ہیں۔ بعض دفعہ جب اللہ تعالیٰ آئندہ کی خبریں دیتا ہے تو ان میں اس قسم کا تلازمہ رکھ دیتا ہے۔کبھی وزن کے ذریعہ اور کبھی شعر کے ذریعہ اور بعض دفعہ خاص حالات میں ہونے والے واقعات کو اُسی قسم کے مناسب حالات میں بیان کر دیتا ہے۔ جیسے ترازو کے دو پلڑے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی بھی ڈلہوزی میں اور پوری ہوئی بھی ڈلہوزی میں۔ یہ تلازمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اِس خبر میں رکھا تھا۔
چونکہ خبروں میں بعض دفعہ اوقات کی تعیین نہیں ہوتی اِس لئے ڈلہوزی میں خبر دینے سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ اس خبر کو پورا ہونے میں لمبا وقت مقدر نہیں بلکہ یہ خبر قریب میں ہی پوری ہونے والی ہے۔ اس کے بعد کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ خود انگلستان کے نزدیک بھی لیبر پارٹی کی یہ کامیابی غیرمعمولی ہے۔ ایک کنزرویٹو پارٹی کے اخبار نے لکھا ہے کہ یہ نتیجۂ انتخاب زلزلہ پیدا کر دینے والا ہے (میری خواب کے الفاظ کو یاد کرو) ٹائمز آف لنڈن نے لکھا ہے کہ انگلستان کی ساری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ اس وقت کہ انگلستان ایک لیڈر کی فتوحات اور کارناموں سے گونج رہا ہو اس نے اُس لیڈر کو کام سے ہٹا دیا ہو۔ اِسی طرح بعد کی خبروں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مسٹر ایٹلی2 نئے وزیر اعظم نے مسٹر ماریسن کو نائب وزیر اعظم مقرر کیا ہے۔ بلکہ تازہ اطلاع ریڈیو کی تو یہاں تک ہے کہ پارٹی کے اجلاس میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ مسٹر ماریسن کو ہی پارٹی کا لیڈر بنایا جائے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ سیاسی طور پر لیبر پارٹی یہ فیصلہ کرے کہ وزیر اعظم بجائے مسٹر ایٹلی کے مسٹر ماریسن بنے۔ خواب کے بعد تین ماہ کے اندر ان حالات کا ظاہر ہونا کتنا عظیم الشان نشان ہے۔ اور دشمنانِ اسلام اور احمدیت اور پیغامیوں پر کتنی زبردست حجت ہے۔ اور ابھی تو اس عظیم الشان پیشگوئی کے اَور بہت سے پہلو ہیں جو اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے۔ موجودہ سیاسیات میں ان کا ظاہر کرنا مناسب نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ خبر ایک اَور خواب کے پورا ہونے کے لئے بھی راستہ کھولنے والی ہے۔ وہ خواب میں بیان کر چکا ہوں اور شائع بھی ہو چکا ہے۔ وہ خواب میں نے لاہور میں دیکھا تھا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ہاتھ سے کوئی بہت اہم کام ہونے والا ہے۔ شملہ کانفرنس میں یہ سامان پیدا ہوئے لیکن بعض وجوہ سے رُک گئے۔ اب لیبر پارٹی برسراقتدار آئی اور وہ ہندوستان کی آزادی کے حق میں ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ہندوستان کو جلد سے جلد آزاد کیا جائے۔ ان حالات میں مَیں سمجھتا ہوں کہ شاید پھر کانگرس اور مسلم لیگ کو اِس بات کا موقع مل جائے کہ وہ آپس میں فیصلہ کر لیں اور کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں۔ اور وہ خواب اس صورت میں پورا ہو جائے ۔
جہاں تک اہمیت کا تعلق ہے کسی کام میں ناکامی بھی انسان کے اہم واقعات میں سے ہوتی ہے۔ بادشاہوں کی زندگی کے اہم واقعات بڑی فتوحات بھی کہلاتی ہیں اور بڑی بڑی شکستیں بھی۔ محمد شاہ رنگیلا بہت سے بادشاہوں سے زیادہ مشہور ہےاِس کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے ایک خطرناک شکست کھائی جس سے ہندوستان کی طاقت ٹوٹ گئی۔ تو جیسے بڑی بڑی فتوحات اہمیت رکھتی ہیں ایسے ہی بڑی بڑی شکستیں بھی اہمیت رکھتی ہیں اور ممکن ہے مولانا ابوالکلام آزاد کی ناکامی وہ اہم کام ہو جس کی نسبت خواب میں اشارہ تھا۔ لیکن چونکہ کامیابی زیادہ اہمیت رکھنے والی شے ہے پس جب اس خواب کے نتیجہ میں یہ حالات پیدا ہو رہے ہیں تو یہ قیاس کرنا عقل کے خلاف نہیں کہ یہ خواب ابھی پوری طرح پورا نہیں ہوا اور آئندہ کامیابی کی صورت میں بھی پورا ہونے والا ہے۔ کیونکہ قریب ترین مفہوم کسی چیز کی اہمیت کا اس کی کامیابی سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا نمبر ناکامی کا ہوتا ہے۔ شملہ کانفرنس کے بعد اب بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ یہ ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ دیر تک پڑا رہے گا اور شاید اس کا نتیجہ اچھا نہ نکلے اور ہندوستان دیر تک تکلیف میں رہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پورا کرنے کے سامان کر دیئے ہیں۔
یہ ساری باتیں چھ ماہ کے اندر اندر ظاہر ہوئی ہیں۔ یہ کتنی عظیم الشان بات ہے کہ اِسی سال اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ اعلان کرایا کہ ہندوستان اور انگلستان آپس میں صلح کر لیں اور اِسی سال یہ خبر دی۔ کہ مولانا ابو الکلام کے ذریعہ کوئی بڑا کام ہونے والا ہے۔ اسی سال مسٹر ماریسن کے متعلق بھی خبر دی اسی سال وہ خبریں جو جرمن قوم کی شکست کے متعلق میں نے دی تھیں پوری ہوئیں۔ یہ مجموعہ خبروں کا ایسا ہے جو نہایت اہم علمِ غیب پر مشتمل اور ان میں سے ہر ایک واقعہ ایسا ہے جو غیر معمولی ہے۔ اگر کوئی شخص بتائے کہ فلاں کے گھر لڑکا پیدا ہو گا یا فلاں مر جائے گا اور ایسے پچاس ساٹھ واقعات پورے ہو جائیں تو ان کی اتنی اہمیت نہیں ہو گی جتنی ان اہم واقعات کی ہے۔ اِس سال ایسے اہم واقعات اور ایسی اہم باتیں پوری ہوئی ہیں جو سب دنیا کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ متواتر پوری ہوئی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس سال کو اہمیت اور خصوصیت کا مقام دینا چاہتا ہے۔ میں نے اِس کے متعلق تین سال پہلے بتایا تھا کہ الٰہی اشارہ اِس طرف معلوم ہوتا ہے کہ 1945ء بہت اہمیت رکھنے والا سال ہو گا۔ اور وہ ہمارے لئے ایک کامیابی کی وادی کے مشابہ ہو گا۔ اِس میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی شاندار بنیاد پڑے گی۔ اگر کوئی پوچھے کہ کونسی بنیاد پڑی ہے تو میں کہتا ہوں اول تو صلح ہو جانے کی وجہ سے ہمارے مبلغ باہر جانے شروع ہو گئے ہیں اور آٹھ نو مبلغ غیر ممالک میں جاچکے ہیں اور باقی جانے کو تیار ہیں۔ دوسرے اس سے بڑھ کر ترقی اور فتح کی بنیاد اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس سلسلہ کے ہاتھوں یہ ثبوت دے کہ اس سلسلہ کا میرے ساتھ تعلق ہے اور میں اس سلسلہ کے ذریعہ غیب کی خبریں دنیا کو بتاتا ہوں۔ یہ بہت بڑی بنیاد ہے فتح اور کامیابی کی۔ اگر ایک خبر بھی ایسی ہو جو دوسرے لوگوں سے تعلق رکھتی ہو اور وہ پوری ہو جائے تو لوگوں کے نزدیک اس کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے چہ جائیکہ متواتر غیب کی خبروں کا پورا ہونا۔ جیسے جرمن قوم کی شکست، مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق رؤیا کہ ان کےذریعہ کوئی اہم کام ہونے والا ہے، مسٹر ماریسن کے متعلق رؤیا،ہندوستان اور انگلستان کی صلح کے متعلق اعلان۔ یہ متواتر واقعات سارے کے سارے اِسی سال میں پورے ہوئے ۔ جس کے متعلق تین سال قبل اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا کہ یہ سال بہت اہمیت رکھنے والا سال ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسا نشان ہے کہ اگر جماعت صحیح طور پر اسے دہریہ دشمن کے سامنے بھی پیش کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا انکار نہیں کر سکے گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ اگر صحیح طور پر نشان کو پیش کیا جائے تو لوگوں سے اس کا جواب نہیں بنتا۔ اور انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے یہ چیز ضرور ایسی ہے جو اپنے اندر اہمیت رکھتی ہے اور اس پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے۔ یوں تو خدا تعالیٰ نے مجھے کئی بین الاقوامی واقعات کے متعلق جو کروڑوں کروڑ انسانوں کی زندگیوں سے تعلق رکھتے تھے کشوف کے ذریعہ خبر دی ہے اور وہ پورے ہوئے ہیں لیکن اِس سال میں تو صرف تین ماہ کے عرصہ میں پانچ عظیم الشان واقعات جو دنیا کی عظیم الشان قوموں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں پورے ہوئے ہیں۔
ا ول:اللہ تعالیٰ نے مجھ سے جو متواتر اعلان کروایا تھا کہ جرمن قوم کی شکست اور جنگ کا خاتمہ تحریک جدید کے دَور کے خاتمہ کے ساتھ ہو گا۔ سو یہ بات اسی طرح مئی میں پوری ہو گئی۔
دوم :بعض رؤیا کے نتیجہ میں مجھ سے اُس نے اعلان کروایا کہ انگلستان اور ہندوستان کے سمجھوتے کا اب وقت آگیا ہے۔
سوم:مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق مارچ کے مہینہ میں مجھے خبر دی کہ عنقریب اِن کی زندگی کا کوئی اہم امر ظاہر ہونے والا ہے۔
چہارم :مسٹر ماریسن کے متعلق خواب کہ اِن کو اب کوئی اہم کام کرنے کا موقع ملنے والا ہے۔
پنجم:شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد مسٹر ماریسن کی پارٹی کی کامیابی کے ساتھ میرے اعلان نمبر دوم و خواب نمبر سوم کے پورا ہونے کے سامان کا پیدا ہو جانا۔ اور ابھی کئی حصے خوابوں کے پورے ہونے والے ہیں اور آسمان پر ان کے لئے سامان تیار ہو رہے ہیں۔ یہ باتیں ایسی ہیں کہ کوئی شخص ان کو حادثات قرار نہیں دے سکتا۔ ایک کو حادثہ کہہ لو، دو کو حادثات کہہ لو، تین کو حادثات کہہ لو مگر کون کہہ سکتا ہے کہ تین ماہ میں یکے بعد یگرے پورے ہونے والے یہ پانچ اہم اور بینَ الاقوامی واقعات محض حادثات ہیں۔ اور ابھی تو اس تسلسل کے بعض حصے باقی ہیں۔ اگر باقی حصے بھی پورے ہو جائیں تواللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ زنجیر مکمل ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اِس سال ہمارے لئے عظیم الشان بنیادیں قائم کر دی ہیں۔ اگر جماعت صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے اور اپنی قربانیوں میں ترقی کرے، اپنے کام میں ترقی کرے، اپنے معاملات میں ترقی کرے تو اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی ترقی کی ایک اَور بنیاد اِس سال ڈال دے گا۔
بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ترقی کی ایک اَوربنیاد کا کیا مطلب ہے؟اس بارہ میں مَیں ایک مثال دیتا ہوں۔ بعض دفعہ لوگ مجھ سے یہ بھی پوچھا کرتے ہیں کہ آپ نے جو فلاں تقریر کی تھی اُس میں قومی کیریکٹر کے لئے فلاں فلاں چیز ضروری قرار دی تھی۔ پھر دوسری تقریر میں آپ نے فلاں فلاں اخلاق قومی کیریکٹر کے لئے ضروری قرار دیئے۔ ان دونوں میں اختلاف ہے۔ میں انہیں جواب دیا کرتا ہوں کہ دونوں تقریروں میں کوئی اختلاف نہیں۔ مختلف اخلاق مختلف اوقات اور مختلف حالات میں ضروری ہوتے ہیں۔ بعض اخلاق ایسے ہیں جو لڑائی کے وقت ضروری ہوتے ہیں جیسے بہادری اور شجاعت۔ اگر صنعت و حرفت کا سوال ہو تو کہا جائے گا کہ اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ اگر تجارت کا سوال ہو تو کہا جائے گا کہ تجارت کو ترقی دینے کے لئے سچائی اور دیانت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اس موقع پر جبکہ علموں کا مقابلہ ہو اور ایک قوم علم اور سائنس کے ذریعہ دوسری قوم پر حملہ کر رہی ہو تو مظلوم قوم سے کہا جائے گا کہ قومی ترقی کے لئے علم کی بڑی ضرورت ہے۔ تو اس کے یہ معنے نہیں کہ یہ نصیحت دوسری سے مختلف ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ مختلف چیزیں مختلف مواقع پر الگ الگ حیثیت حاصل کر لیتی ہیں۔ ایک نقطہ نگاہ سے ایک موقع پر ایک چیز اہمیت رکھتی ہے اور دوسرے موقع پر دوسری۔ جیسا کہ ایک لالٹین چار طرف روشنی دینے والی ہو یعنی اُس کے چاروں طرف شیشے لگے ہوئے ہوں اب ہر جہت کو اس کے ایک شیشہ سے تعلق ہے۔ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ دوسری طرف والا کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ تیسری طرف والا کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ چوتھی طرف والا کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ وہ سارے ہی اپنی اپنی جگہ پر درست کہہ رہے ہوں گے کیونکہ مثلاً اگر پہلے نے یہ کہا تھا کہ شمالی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی یا دوسرے نے کہا تھا کہ جنوبی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی یا تیسرے نے کہا تھا کہ مشرقی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی یا چوتھے نے کہا تھا کہ مغربی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی تو یہ چاروں باتیں درست تھیں۔ ان میں نہ اختلاف تھا اور نہ جھوٹ۔ کیونکہ اگر مشرق کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو مشرق والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اگر مغرب کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو مغرب والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اگر شمال کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو شمال والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اگر جنوب کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو جنوب والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اِسی طرح قومی کیریکٹر بھی مختلف جہات سے اہمیت رکھتے ہیں۔ جب تبلیغ کا موقع آئے گا تو ہم کہیں گے کہ تبلیغ کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ جب نوجوانوں کے اخلاق کی درستی کا سوال آئے گا تو ہم کہیں گے کہ نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ جب صنعت و حرفت کی کمزوری کا سوال ہو گا تو ہم کہیں گے کہ قومی ترقی کے لئے صنعت و حرفت بہت ضروری چیز ہے۔ چونکہ انسانی زندگی اپنے اندر مختلف جہات رکھتی ہے اس لئے ان جہات کے لحاظ سے مختلف اخلاق مختلف مواقع پر ضروری ہو جاتے ہیں۔ جیسے نمازیں بھی ضروری ہیں، روزے بھی ضروری ہیں، زکوٰۃ بھی ضروری ہے، حج بھی ضروری ہے۔ لیکن ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ سب سے اہم کام کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ سب سے اہم کام جہاد ہے۔3 جب دوسرے موقع پر ایک شخص نے پوچھا کہ مجھے سب سے اہم کام بتایئے تو آپ نے فرمایا کہ سب سے اہم کام ماں کی خدمت ہے۔4 اور جب تیسرے نے آپ سے پوچھا کہ اہم کام کیا ہے؟ تو آپ نے نماز یا سچائی کا ذکر فرمایا۔5 تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ (نعوذباللہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کلام میں اختلاف تھا بلکہ ان اشخاص کے لحاظ سے ان احکام کی اہمیت مختلف تھی۔ آپ نے پہلے شخص کے لئے جہاد کو سب سے اہم اس لئے قرار دیا کہ وہ اپنے اندر بزدلی رکھتا تھا۔ باقی احکام وہ بجا لاتا تھا۔ وہ ماں کی خدمت کرتا تھا اس لئے اُس کو ماں کی خدمت کی اہمیت بتانے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے لحاظ سے جہاد ہی سب سے بڑی چیز تھی۔ دوسرا شخص جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ماں کی خدمت سب سے اہم کام ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماں کی خدمت کرنے میں کمزور تھا۔ اِس لئے اُس کو ماں کی خدمت سب سے اہم کام بتایا۔ ورنہ آپ کی بات کا یہ مطلب نہ تھا کہ اُس کے لئے جہاد کرنا ضروری نہ تھا۔ اِس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی کی مشرقی دیوار میں سوراخ ہوجائے اور وہ انجینئر سے پوچھے کہ اسے مکان کی حفاظت کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ تو انجینئر اسے کہے گا کہ مشرقی دیوار کے سوراخ کو بند کردو۔ اور اگر کسی کا مغربی دیوار میں سوراخ ہو جائے اور وہ انجینئر سے پوچھے گا کہ مکان کی حفاظت کے لئے کیا کرنا چاہیے تو وہ کہے گا مغربی سوراخ کو بند کر دیا جائے۔ اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس انجینئر کے کلام میں اختلاف ہے کہ پہلے شخص سے اس نے مشرقی سوراخ کے بند کرنے کے لئے کہا اور دوسرے سے مغربی سوراخ کے بند کرنے کے لئے کہتا ہے۔
پس اشخاص کی نوعیت کے بدل جانے سے، اوقات کی نوعیت بدل جانے سے اور مقامات کی نوعیت بدل جانے سےا حکام کی نوعیت بھی بدل جایا کرتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اِس سال کو اہمیت دی ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ پہلے آپ نے فلاں وقت کو بڑا کہا تھا اور فلاں وقت کو آپ نے اہم قرار دیا تھا اور اب آپ اِس سال کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ تو اس کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی آدمی کسی سے راستہ پوچھے تو راستہ بتانے والا اُسے کہے کہ اس راستہ پر چلے جاؤ۔ آگے جا کر دائیں طرف مڑ جانا۔ پھر بائیں طرف مڑ جانا ۔اور کچھ دُور آگے جا کر فلاں جگہ پر دائیں طرف مڑ جانا۔ تو اِس پر وہ شخص جسے راستہ بتایا گیا ہے اگر کہے کہ آپ عجیب آدمی ہیں پہلے کہتے ہیں دائیں طرف مڑ جانا پھر کہتے ہیں بائیں طرف مڑ جانا پھر کہتے ہیں دائیں طرف مڑ جانا۔ آپ کے کلام میں توبہت اختلاف پایا جاتا ہے تو معترض عجیب دماغ کا ہو گا نہ کہ راستہ بتانے والا۔
جس طرح انسانی زندگی میں مختلف موڑ ہوتے ہیں اِسی طرح قومی زندگی میں بھی موڑ ہوتے ہیں اور ہر موڑ کو اپنے وقت میں اہمیت حاصل ہوتی ہے اور ہر موڑ انسان کو نئے رخ پر ڈال دیتا ہے۔ وہ رُخ کئی ہو سکتے ہیں ۔ہماری جماعت کے لئے ا ن نئے رُخوں میں سے ایک اہم رُخ 1945ء بھی ہے اب ہم اِس نئے موڑ پر ہیں۔ خداتعالیٰ نے اِس سال متواتر نئے نئے نشانات دکھائے ہیں اور وہ نشانات ایسے ہیں جو دنیا کی عظیم الشان قوموں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہ سال بنیاد ہے ہمارے حملہ کی جوہم دنیا پر کرنے والے ہیں۔ نتائج خواہ کتنے شاندار ہوں مگر بنیاد اپنی جگہ پر بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بیٹا خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے باپ کی عزت اُس پر واجب ہوتی ہے۔ اِسی طرح جس سال میں کسی چیز کی بنیاد رکھی جاتی ہے وہ سال بہت اہم ہوتاہے۔ اور جس سال نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ سال بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر وہ بنیاد ہونے کے لحاظ سے خصوصیت رکھتا ہے تو یہ نتائج کے ظاہر ہونے کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔ ایک بنیاد آج سے تین سال پہلے ڈالی گئی تھی اور وہ مخفی تھی اُس سال میں جمعے جمع کر دیئے گئے تھے۔ پھر دوسرا سال آیا جو میری پیدائش کے دن سے شروع ہوتا تھا اُس میں میرے مصلح موعود ہونے کی خبر دی گئی تھی۔ اب تیسرے سال میں مختلف عظیم الشان پیشگوئیاں یکے بعدد یگرے پوری ہوئی ہیں اور اس سال میں ایسے رستے کھولے گئے ہیں جو جماعت کو ترقی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ یہ سال ہمارے لئے ٹرننگ پوائنٹ (Turning Point)ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک نیا زاویہ پیدا کر دیا ہے جس سے ہم دنیا کو نئے رنگ اور نئے پیرائے میں مخاطب کریں گے۔ اور نئے رنگ اور نئے پیرائے میں دنیا پر حملہ کریں گے۔ اور یہ سال اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت کی فتح اور کامیابی کے لئے ایک نیا قدم ہے۔
پس جہاں اللہ تعالیٰ نے ان نشانات کے ذریعہ اپنا ظہور فرمایا ہے وہاں ہمارا فرض ہے کہ ہم اسکے ظہور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قربانی اور زیادہ سے زیادہ ایثار کو کام میں لائیں اور اس کے فضلوں کو جذب کریں۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنی برکتوں اور اپنی رحمتوں کو نازل فرماتا ہے تو بندے کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ انہی مواقع کے متعلق کہا گیا ہے کہ کبھی تو بادشاہ گالی پر بھی خوش ہو جاتے ہیں اور کبھی ثناء پر بھی ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ مواقع بہت نازک ہوتے ہیں۔ اُس وقت انسان کے لئے نادر موقع ہوتا ہے۔ تھوڑی سی بات سے خداتعالیٰ کا بے انتہا قُرب حاصل کر سکتا ہے۔ مگر اس موقع پر تھوڑی سی بات سے خداتعالیٰ کی نظروں سے گِر بھی سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے فضل کے دنوں میں اُس کے رحم اور اُس کی بخشش کو حاصل کریں۔ اور اپنے کسی فعل کی وجہ سےاُس کی ناراضگی اور اُس کی خفگی کا مَورِد نہ بن جائیں۔ اٰمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔’’
(الفضل یکم اگست 1945ء)
1: تلازمہ: مضمون کی رعایت الفاظ کا استعمال کرنا۔ رعایتِ لفظ
2:ایٹلیClement Attlee) 1883ء میں پیدا ہوئے ۔1967ء میں وفات پائی۔لیبر پارٹی
سے تعلق تھا۔1945ء تا1951ء برطانیہ کے وزیراعظم رہے۔
3: بخاری کتاب العتق باب اَیُّ الرِّقَابِ اَفْضَل
4: بخاری کتاب الادب باب مَنْ اَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَۃِ
5: بخاری کتاب الادب باب الْبِرِّ وَالصِّلَۃ
25
ہم اٹامک (Atomic) بم ایسے مہلک حربے استعمال کرنا جائز نہیں سمجھتے
(فرمودہ 10 اگست1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘یہ خبریں کئی سال سے آرہی تھیں کہ جرمنی میں اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایٹم (Atom) یعنی وہ ذرہ جس سے مادہ بنتا ہے اور جو خوردبینی ذرہ ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں کہ اگر سائنسدان اس کو توڑنے اور اس کی طاقت کو محفوظ کرنے اور اس کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کے اندر ایسی طاقتیں ہیں کہ ایک ذرہ کے توڑنے اور اس کی طاقت کو محفوظ رکھنے سے ایک شہر کو ایک لمبے عرصہ تک بجلی مہیا کی جا سکتی ہے۔ ان خبروں پر بعض لوگ ہنس دیتے تھے اور بعض لوگ تعجب کرتے تھے اور حیران ہوتے تھے کہ ایک خوردبینی ذرے میں اتنی طاقتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ خیال سائنسدانوں کے دلوں میں تقویت پکڑتا چلا گیا اور بیسیوں سائنسدانوں نے اپنی زندگیاں اس تحقیق میں لگانی شروع کر دیں۔ جنگ کے دوران میں خصوصاً انگلستان، امریکہ اور جرمنی تینوں نے اپنے اپنے طور پر اِس طاقت کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ جنگی مفاد کے لحاظ سے یہ بات بہت اہم سمجھی جاتی تھی کہ وہ باریک ذرہ جو اپنے اندر اتنی عظیم الشان طاقتیں رکھتا ہے۔
اگر اِس کو بم کے طور پر استعمال کیا جا سکے تو وہ بہت کچھ اس جنگ کے سوال کو حل کر دے گا۔ جہاں تک سائنس کا سوال ہے میں تو سائنس جانتا نہیں اس لئے میں اس کی تفصیلات کو سمجھ نہیں سکتا لیکن یہ معلوم ہوا ہے کہ عملی طو رپر جرمنی کی جنگ کے بعد اب ستائیس اٹھائیس دن ہوئے کہ امریکہ اور انگلستان کے سائنس دان اِس بات میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ایٹم کو پھاڑ کر اِس سے طاقت حاصل کر سکیں۔ اور انہوں نے اس سے بم بنانا شروع کر دیا ہے۔ کوئی پانچ دن کی بات ہے کہ ایٹم سے حاصل کردہ طاقت کا پہلا بم جاپان کے ایک شہر ہیروشیما پر استعمال کیا گیا جو کہ ایک چھاؤنی ہے اور بندرگاہ بھی ہے جہاں جاپانی بیڑا کھڑا ہوتا ہے یا تیار کیا جاتا ہے۔ یہ شہر کوئی سات مربع میل کا ہے۔ یعنی قریباً سَوا دو میل چوڑا اور تین میل لمبا ہے۔ اور بوجہ اس کے کہ یہ صنعتی شہر ہے سمجھا جا سکتا ہے کہ اِس کی آبادی گنجان ہو گی کیونکہ صنعتی شہروں میں بجائے پھیلاؤ کے بڑے بڑے بلاکس بنا دیئے جاتے ہیں جن میں ایک ایک بلاک میں کئی کئی سَو بلکہ کئی کئی ہزار آدمی بستے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی آبادی چھ سات لاکھ کے قریب ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ چھ سات لاکھ کے قریب تھی۔ اور جب یہ بم جو پھینکا گیا ہے تو اس شہر کے متعلق آخری رپورٹ یہ ہے کہ ساٹھ فیصدی حصہ شہر کا یا یہ کہہ لو کہ چھ لاکھ کی آبادی میں سے پونے چار لاکھ آدمی ایک بم سے ہلاک ہو گئے۔ اور شہر کی 60 فیصدی عمارتیں ایک بم سے تباہ ہو گئیں۔ جاپانی لوگوں کا بیان ہے کہ اس بم کے گرنے کے بعد شدید گرمی پیدا ہوئی۔ اور اس بم کے دھماکے اور نقصان کے علاوہ وہ گرمی اتنی شدید تھی کہ اُس کی شدت کے دائرہ کے اندر کوئی ذِی روح چیز زندہ نہیں رہی۔ کیا انسان اور کیا حیوان، کیا چرند اور کیا پرند سب کےسب جُھلس کر خاک ہو گئے ہیں۔ یہ ایک ایسی تباہی ہے جو جنگی نقطۂ نگاہ سے خواہ تسلی کے قابل سمجھی جائے لیکن جہاں تک انسانیت کا سوال ہے اِس قسم کی بمباری کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیشہ سے جنگیں ہوتی چلی آئی ہیں اور ہمیشہ سے عداوتیں بھی رہی ہیں لیکن باوجود ان عداوتوں کے اور باوجود ان جنگوں کے ایک حد بندی بھی مقرر کی گئی تھی جس سے تجاوز نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن اب کوئی حد بندی نہیں رہی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ شہر جس پر اس قسم کی بمباری کی گئی ہے وہاں عورتیں اور بچے نہیں رہتے تھے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ لڑائی کی ذمہ داری میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔اگر جوان عورتوں کو شامل بھی سمجھا جائے تو کم از کم بلوغت سے پہلے کے لڑکے اور لڑکیاں لڑائی کے کبھی بھی ذمہ دار نہیں سمجھے جا سکتے۔
پس گو ہماری آواز بالکل بیکار ہو لیکن ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خونریزی کو جائز نہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان بُرا لگے یا اچھا۔ ہمارے نزدیک جاپان کا قصور ہے اور ہم نے ہزارہا آدمی اس جنگ کی بھرتی میں دیئے ہیں۔ اور ہمارے نزدیک جرمنی اور اٹلی کا بھی قصور تھا اور ہماری جماعت کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی اٹلی اور جرمنی میں جا کر لڑے اور ان میں سے کئی قید ہوئے جواَب واپس آئے ہیں۔ ہم نے مال کے ساتھ بھی ،آدمیوں کے ساتھ بھی اور اخلاقی طور پر بھی غرض ہر رنگ میں اتحادیوں کو مدد دی ہے اور اگر اس جنگ کے فتح کرنے میں کوئی مطالبہ ابھی باقی ہو تو ہمیں اس سے بھی انکار نہیں ہو گا بلکہ ہم دوسروں سے بڑھ کر قربانی کر نے کے لئے تیار ہوں گے۔ مگر اس کے ہرگز یہ معنے نہیں کہ ہم جنگی افسروں کے ہر فعل کو خواہ وہ انسانیت کے کتنا ہی خلاف ہو، خواہ وہ شریعت کے کتنا ہی خلا ف ہو جائز قرار دیں۔ اگر اس قسم کی جنگ کا راستہ کُھل گیا تو وہ دنیا کے لئے نہایت ہی خطرناک ہو گا۔ پہلے زمانہ کے لوگوں نے لمبے تجربہ کے بعد کچھ حدبندیاں مقرر کر دی تھیں جن کی وجہ سے جنگیں خواہ کتنی ہی خطرناک ہوتی تھیں ایک حد پر جا کر اُن کا خطرہ رُک جاتا تھا۔ لیکن اب تو یہ سوال پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے کہ جس قوم نے ہم سے جنگ کی ہے اِس جنگ کے ذمہ داروں کو پھانسی کی سزا دی جائے۔ اس قانون نے میں سمجھتا ہوں حالات کو بہت زیادہ بھیانک صورت دے دی ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فتوحات کسی ایک قوم کے حق میں رہن نہیں ہوتیں کہ وہ ایک ہی قوم کے پاس رہیں۔ اور اگر یہ طریق جاری کر دیا جائے کہ فاتح قوم مفتوح قوم کے لیڈروں کو اِس لئے پھانسی دے دے کہ وہ اپنی قوم کی طرف سے لڑے تھے تو پھر اگر کل کو کوئی اَور قوم فاتح ہوئی اور اتحادیوں میں سے کوئی قوم مفتوح ہوئی تو ان کے لئے بھی وہی چیز مقدر سمجھی جانی چاہیے جو آج مفتوح قوم کے لئے جائز قرار دی گئی تھی۔ اگر انگلستان، امریکہ اور فرانس کو یہ حقوق حاصل ہوں کہ وہ مفتوح جرمنی اور مفتوح اٹلی کے لوگوں کو محض اِس وجہ سے کہ انہوں نے ان کے خلاف جنگ کی پھانسی کی سزا دیں تو اِس قانون کو غلط کہو یا صحیح (جب ایک قانون بنا دیا جائے تو غلط اور صحیح کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے) اگر اس جنگ کے بعد کوئی اَور ملک فاتح ہوا اور انگلستان یا امریکہ یا روس اِن تینوں میں سے کوئی مفتوح ہوا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ فاتح قوم ان کے آدمیوں کو بھی پکڑ پکڑ کر پھانسی دینے لگ جائے٭ گو اس میں شبہ نہیں کہ جرمنی، اٹلی اور جاپان کا قصور ہے لیکن میرے نزدیک یہ طریق بھی پسندیدہ نہیں کہلا سکتا کہ بغیر کسی خاص دلیل کے جس کی وجہ سے عقل و انصاف ایک جنگیقیدی کو بھی سزاد ینے کا فیصلہ کریں۔ ٭٭جنگی قیدیوں کو سزادی جائے اگر ایسا ہو تو آئندہ بہت سے خطرات کا رستہ کھلنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ نیز اس سے مزید جنگوں کا رستہ کھل جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی جنگ کے بند ہونے سے لوگ یہ نہیں سمجھیں گے کہ خونریزی بند ہو گئی ہے بلکہ یہ سمجھیں گے کہ ایک قسم کی خونریزی تو بند ہو ئی ہے لیکن دوسری قسم کی خونریزی شروع ہو گئی ہے۔ جرمنی کے لوگوں کا یہ جُرم قرار دیا جاتا ہے کہ انہوں نے لندن کے نہتّے آدمیوں پر گولے پھینکے۔ جرمنوں نے یقینا ظلم کیا، انسانیت کے خلاف حرکت کی اور ان کے اس فعل کو جس قدر بھی بُرا کہا جائے کم ہے اور خداتعالیٰ نے ان کے جرم کی سزا بھی اُن کو دے دی کہ اُن کا غرور خاک میں مل گیا۔ لیکن یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جرمنوں نے جو گولےپھینکے وہ سَو سَو گز یا اِس سے کچھ زیادہ تک اثر رکھتے تھے اب اگر اتحادی ان کے مقابل پر اس سے زیادہ مار کرنے والے بم ان پر پھینکیں اور ان کی طرح ہی ان آدمیوں پر پھینکیں جو نہتّے ہوتے ہیں تو یہ فعل بھی ویسا ہی بُرا سمجھا جائے گا جیسا کہ ان کاتھا۔
اسی طرح جنگی قیدیوں کا سوال ہے دنیا میں یہ تسلیم شدہ قاعدہ ہے کہ انسان ان لوگوں
٭اس خطبہ کے بعد ایک اعلان شائع ہوا ہے جس میں ان مجرموں کی اقسام بیان کی گئی ہیں جن کو سزا دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگی مجرم کی خاص تعریف کی گئی ہے۔ گو مجھے اس تعریف سے پوری طرح اتفاق نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ایسی تعریف سے اکثر وہی سزا پائیں گے جن کو عقل اور انصاف سزا دینا چاہتے ہیں۔
٭٭ اور یقیناً جنگی قیدی بھی ایسے ہو سکتے ہیں کہ جو سزا کے مستحق ہوں۔ اس امر کی صحت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
کو جُرم کی سزا دے سکتا ہے جو اس کے اپنے ملک میں رہتے ہوں یا وہ جُرم جو جنگ کے علاوہ ہوں۔ یعنی ان کا جنگ کےساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔ جیسے کوئی قوم جنگ میں آدمیوں کو پکڑ کر ان کے ناک کان کاٹے۔ اب یہ فعل ایسا ہے جو جنگ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔ تو ایسے جرائم کی سزا دینا جائز تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اس قانون کو وسیع کرنا گویا آئندہ کے لئے خطرات کو بڑھا دینے والی بات ہے۔ اور ان باتوں کے نتیجہ میں مجھے نظر آرہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں جنگیں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی۔اور وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اٹامک سے بڑی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اور ان کے مقابلہ میں کوئی جنگی طاقت حاصل نہیں کرسکے گا یہ لغو اور بچوں کا سا خیال ہے۔ یہ خیال صرف اٹامک بم کے ایجاد ہونے پر ہی لوگوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ جب بندوق ایجاد ہوئی تھی تو لوگ سمجھتے تھے کہ بندوق والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ اور جب توپ ایجاد ہوئی تو لوگ سمجھتے تھے کہ توپ والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ جب ہوائی جہاز ایجاد ہوئے تھے تو لوگوں نے گمان کیا تھا کہ ہوائی جہاز والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ جب گیس ایجاد ہوئی تھی تو لوگوں نے خیال کیا تھا کہ گیس والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ لیکن پھر وی۔ون 1(V.One) اور وی۔ٹو2 (V.Two) نکل آئے۔ تو لوگ سمجھے کہ وی ون اور وی ٹو والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ اس کے بعد اب اٹامک بم نکل آئے ہیں۔ یاد رکھو! خدا کی بادشاہت غیر محدود ہے اور خدا کے لشکروں کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ مَایَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَ3 یعنی تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔ اگر بعض کو اٹامک بم مل گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی سائنس دان کو کسی اَور نکتہ کی طرف توجہ دلا دے اور وہ ایسی چیز تیار کر لے جس کے تیار کرنے کے لئے بڑی بڑی لیبارٹری کی بھی ضرورت نہ ہو۔ بلکہ ایک شخص گھر میں بیٹھے بیٹھے اُس کو تیار کر لے اور اُس کے ساتھ دنیا پر تباہی لے آئے اور اس طرح وہ اٹامک بم کا بدلہ لینے لگ جائے۔
پس جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان مہلک چیزوں کو کم کیا جائے نہ کہ انہیں بڑھایا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کتنا لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ آگ کا عذاب دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ مسلمانوں کو نہیں چاہئے کہ وہ اپنے دشمن کو آگ سے تعذیب و تکلیف دیں۔4 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے تھے کہ آگ جنگ کو روکنے کا موجب نہیں ہو گی بلکہ بڑھانے کا موجب ہو گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اگر جنگ میں دشمن نئی نئی ایجادوں کو اسلامی حکومت کے خلاف استعمال کرے تو اسلامی حکومت کو بھی اجازت ہے کہ اس کا اُسی رنگ میں جواب دے لیکن غلو سے کام نہ لے۔ یعنی مسلمانوں کو آگ کی ایسی ایجادوں کی طرف رغبت رکھنی منع ہے جن سےکسی کو عذاب دینا مقصود ہو۔ دنیا میں جتنے تغیرات ہوتے ہیں وہ سب کے سب خیالات کے ماتحت پیدا ہوتے ہیں۔ ان تغیرات کے پیچھے ایک جذبہ اور ایک محرک ہوتا ہے جس کے ماتحت لوگ سکیمیں بناتے ہیں۔ اگر کسی قوم کے دماغ کے پیچھے جذبہ اور محرک یہ ہو کہ ہم نے آگ کو بطور عذاب استعمال نہیں کرنا تو یقینا وہ ایسی ایجادیں نہیں کرے گی جن میں آگ کا استعمال ہو۔ لیکن اگر کسی قوم کے دماغ کے پیچھے جذبہ اور محرک یہ ہو کہ آگ کا عذاب دینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ جتنا کسی کو نقصان پہنچایا جا سکے اُتنا ہی اچھا ہے تو وہ ضرور اس کی طرف راغب ہو گی۔ تیرہ سو سال پہلے دنیا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لڑائیوں کے کم کرنے کا ایک راستہ بتایا تھا جب تک دنیا اِس راستہ پر نہیں چلے گی لڑائیاں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی۔ امریکہ اور یورپ والے امن نہیں پائیں گے جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔ وہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ نہ کہیں گے کہ ہمیں اِن آگ کی چیزوں کو ناجائز قرار دینا چاہیے اُس وقت تک حقیقی امن ان کو نصیب نہیں ہو گا۔ وہ ان چیزوں کو ناجائز قرار دیں اور پھر اُتنی ہی سختی کریں جتنی دشمن نے کی تو پھر دنیا میں یقینا امن قائم ہو جائے گا۔ کیونکہ دشمن محسوس کرے گا کہ اگرچہ ان کے پاس زیادہ سخت سزا دینے کی طاقت تھی لیکن اخلاقی تعلیم کے ماتحت انہوں نے ہم سے نرمی کی ہے اور جو سلوک ہمارے ساتھ کیا گیا ہے وہ محض جوش، غصہ اور بدلہ کے جذبہ کے ماتحت نہیں۔ لیکن اگر ہم بوجہ اس کے کہ ہمارے پاس تباہی کے سامان زیادہ ہیں ایسے سخت ہتھیار استعمال کریں کہ دشمن کے بچے اور عورتیں تباہ کر دیں تو پھر دنیا اِسی کو اخلاق سمجھے گی کہ جتنی طاقت میسر آئے اُسے استعمال کرو یہی قانون ہے۔ اور جب دنیا کے خیالات اِس طرف مائل ہوں گے کہ جنتے زیادہ سے زیادہ خطرناک ہتھیار ملتے جائیں اُن کو استعمال کرو تو لازماً دنیا میں فساد، جنگ اور خونریزی بڑھے گی۔
پس میر ایہ مذہبی فرض ہے کہ میں اس کے متعلق اعلان کردوں گو حکومت اسے بُرا سمجھے گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امن کے رستے میں یہ خطرناک روک ہے۔ اس لئے میں نے بیان کر دیا ہے کہ ہمیں دشمن کے خلاف ایسے مہلک حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جو اِس قسم کی تباہی لانے والے ہوں۔ ہمیں صرف وہی حربے استعمال کرنے چاہئیں جو جنگ کے لئے ضروری ہوں۔لیکن ایسے حربوں کو ترقی دینا اور ایسے حربوں کو استعمال کرنا جن سے عورتوں، بچوں اور اُن لوگوں کو جن کا جنگ کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تکلیف پہنچے ہمارے لئے جائز نہیں۔ اور ہمارا فرض ہے کہ خواہ ہماری آواز میں اثر ہو یا نہ ہو حکومت سے کہہ دیں کہ ہم آپ کی خیر خواہی کے جذبہ کی وجہ سے مجبور ہیں کہ اِس امر کا اظہار کر دیں کہ ہم آپ کے اس فعل سے متفق نہیں۔ اور مجبور ہیں کہ آپ کو ایسا مشورہ دیں جس کے نتیجہ میں آئندہ جنگیں اور فنتے بند ہو جائیں۔
جہاں مَیں اس قسم کے حربوں کے استعمال کے خلاف ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اخلاقی طو رپر ہمارا فرض ہے کہ ہم حکومت کو بتائیں کہ یہ کام اچھا نہیں وہاں میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی اس بم کی ایجاد سے پوری ہوئی ہے اور آئندہ اَور بھی شدت سے اس کے پورا ہونے کا احتمال ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہماری آواز میں اثر تو ہے نہیں کیونکہ نہ ہم سیاست میں بڑے سمجھے جاتے ہیں اور نہ ہم جتھے میں اتنے بڑے ہیں کہ کوئی ہماری آواز کی طرف توجہ کرے اور نہ مذہبی طور پر ان قوموں کا ہم پر ایمان ہے کہ وہ سمجھیں کہ ہمیں اِن کی بات ماننی چاہیے۔ ہم نے تو صرف ایک فرض ادا کیا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا اور نہ ہی ہم کر سکتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ہم اِس بات کو بھی نہیں بھول سکتے کہ خدائی فیصلہ کس طرح اپنے اپنے زمانہ میں پورا ہوتا چلا آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ ‘‘شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا۔’’5 پچھلی بمباریاں جو ہوئی ہیں وہ اتنی عظیم الشان نہ تھیں جنہیں دیکھ کر رونا آتا ہو لیکن اٹامک بم سے جو بمباری کی گئی ہے اخبارات والے لکھتے ہیں کہ اِس بمباری کی تباہی کو دیکھ کر واقع میں رونا آتا ہے۔ اِس بم کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چالیس چالیس میل تک کے علاقہ کو تباہ کر سکتا ہے۔ یہ صاف بات ہے کہ جہاں یہ بم گِرے گا اُن جگہوں کو دیکھ کر رونا آئے گا۔ مگر جن جن علاقوں پر وہ گِرے گا جہاں وہ اپنی تباہی کی طاقت پر شہادت دے رہا ہو گا اور اپنے بنانے والوں کے ہنر کی توصیف کر رہا ہو گا وہاں ہر تباہ شدہ علاقہ اور ہر تباہ شدہ ملک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی گواہی بھی ساتھ دے رہا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہوائی جہاز بھی نہ تھے کہ ان کے ذریعہ بمباری کی جاتی۔ آپ کے بعد ہی ہوائی جہاز نکلے۔ پھر اس کے بعد ہوائی جہازوں سے گرانے والے بم نکلے۔ اور اس کے بعد اب یہ اٹامک بم نکل آئے ہیں جو حجم میں بالکل چھوٹے ہوتے ہیں لیکن دو ہزار سُپر فورٹرس (Super Fortress)6 کی بمباری کے برابرایک بم کا اثر ہوتا ہے۔ دو ہزار سُپر فورٹرس کی بمباری بیس ہزار ٹن کےبرابر ہوتی ہے یا ہمارے ملک کے حساب سے پانچ لاکھ ساٹھ ہزار من ڈائنامیٹ پھینکنے کے برابر اس ایک بم کا پھینکنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں جہاں یہ بم گریں گے وہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت ظاہر ہو گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیشگوئی عظیم الشان طور پر پوری ہو گی کہ ‘‘شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا۔ ’’
جب کبھی مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ غم کا پہلو نکالتا ہے تو ساتھ ہی خوشی کا پہلو بھی پیدا کر دیتا ہے۔ ہمیں غم ہے کہ دنیا اُس رستے پر چل رہی ہے جو اسے تباہی اور ہلاکت کی طرف لے جانے والا ہے۔ لیکن ساتھ ہی خوشی بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی پوری ہو کر ہمارے لئے زیادتیٔ ایمان کا موجب ہوئی۔ اور ہمیں مزید یقین دلاتی ہے کہ جس طرح یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے ویسے ہی وہ پیشگوئیاں بھی اپنے وقت پر پوری ہوں گی جن میں اسلام اور سلسلہ کے غلبہ کی خبر دی گئی ہے۔ اور ایک زمانہ اسلام پر ضرور آئے گا جب وہ تمام دنیا پر غالب ہو گا۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کے بعد دنیا تباہ ہو گی یا باقی رہے گی لیکن اسلام کے غلبہ سے پہلے دنیا تباہ نہیں ہو گی۔ لوگ ایک دوسرے کو مارنے اور تباہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن انسان ان تباہیو ں اور بربادیوں میں سے کسی نہ کسی طرح بچ ہی نکلے گا۔ یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی میں اور آپ کے جھنڈے کےنیچے ایک دفعہ پھر دنیا میں امن قائم کیا جائے گا۔ اور خدا کا کلام پورا ہو کر دنیا کو اِن خطرناک عذابوں اور بلاؤں سے بچا لے گا۔ اس کے بعد اگر قیامت جلد آنی ہے تو آجائے گی مگر اس سے پہلے نہیں اور ہرگز نہیں۔ ’’ (الفضل 16 ؍اگست 1945ء)
1: وِی وَن (V.One): ہوائی بم جو 1944ء، 1945ء کے دوران ہٹلر نے انگلستان پر حملہ
کرنے کے لئے ایجاد اور استعمال کیا۔
2: وِی ٹو(V.Two): ہوائی بم جو 1944ء، 1945ء کے دوران ہٹلر نے انگلستان پر حملہ
کرنے کے لئے ایجاد اور استعمال کیا۔
3: المدثر: 32
4: بخاری کتاب الْجِہَاد باب لَا یُعَذَّبُ بِعَذَابِ اللہِ
5: تذکرۃ صفحہ 719 ایڈیشن چہارم
6:سُپر فورٹرس (B-29 Super Fortress) : یہ چار انجنوں والا ہیوی بمبار طیارہ تھا جس
کو امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے قریب استعمال کیا ۔ یہ دوسری جنگ عظیم
میں استعمال کیا جانے والا سب سے بڑا اور سب سے ایڈوانس بمبار جہاز تھا۔اس جہاز کے
ذریعے سے ہی ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا تھا۔
( Wikipedia , The Free Encyclopedia )
26
جسمانی جنگ ختم ہوئی آؤ ہم روحانی جنگ کی تیاری کریں
(فرمودہ 17 اگست1945ءبمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘دنیا میں انسانی زندگی اور قوموں کی زندگی پر مختلف دَور آتے رہتے ہیں اور ہر دَور کے مطابق کچھ اعمال ہوتے ہیں۔ جب کوئی انسان ان اعمال کو اپنے وقت پر بجا لاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں وہ تعریف و توصیف کا مستحق ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے موقع پرجب کام کا معیّن وقت گزر جائے تو اس کی ادائیگی صحیح تصور نہیں کی جا سکتی۔ سوائے اِس کے کہ کوئی مجبوری یا معذوری ہو۔ مثلاً جب ظہر کی نماز کا وقت آتا ہے تو اس نماز کو جو شخص وقت پر ادا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے انعام اور اس کی رضا کا مستحق ہوتا ہے۔ یا معذوری اور مجبوری کی حالت میں دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں جیسے ظہر و عصر، مغرب و عشاء کی نمازیں ہم یہاں جمع کر لیتے ہیں کیونکہ عام طور پر بارش ہوتی رہتی ہے۔ اور پھر چڑھائی کی وجہ سے نہ صرف دُور رہنےو الے نماز میں شامل نہیں ہو س
1
تبلیغ دین کا کام صرف روپیہ سے نہیں بلکہ آدمیوں سے چل سکتا ہے
(فرمودہ 5جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘سردی کی وجہ سے میری طبیعت ناساز ہے اور منہ اور ہاتھوں پر ورم ہو گیا ہے۔ اور اس لئے مجھے سردی میں باہر تو نہ آنا چاہیے تھا۔ مگر چونکہ یہ جمعہ نئے سال کا پہلا جمعہ ہے اس لئے میں نے یہی مناسب سمجھاکہ میں اس نئے سال کے متعلق جماعت کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاؤں۔
بعض باتیں بڑی صاف اور واضح ہوتی ہیں۔ مگر وہ جتنی صاف اور واضح ہوتی ہیں اتنی ہی ان کی طرف سے انسان کی طبیعت غافل کہویا ناواقف کہو ہوتی ہے۔
موت ایک ایسی چیز ہے جو ساری دنیا کی چیزوں میں سے جو زیادہ یقینی چیزیں ہیں ان میں سے ہے۔ کیونکہ ہر ایک چیز بدل بھی جاتی ہے اور اس میں فرق بھی پڑ جاتا ہے مگر موت نہیں ٹل سکتی۔دنیا میں سرد ہوائیں چلتی ہیں جو جگر و گُردوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ہزاروں انسان سرد ہواؤں کی وجہ سے زکام اور نزلہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں انسان بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں کے جگر اور گُردے خراب ہو کر وہ سُوء القنیہ اور البیومنریا 1 ( Albuminuria)
سے بیمار ہو جاتے ہیں، ہزاروں کو نمونیہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہزاروں ہزار انسان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ سرد ہواؤں کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جانے والوں کی نسبت بظاہر کمزور ہوتے ہیں۔ مگر سرد ہواؤں کا ان کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں ہوتا۔ ان کی صحت نسبتاً ان لوگوں سے کمزور ہوتی ہے جو سرد ہوائیں چلنے کی وجہ سے نزلہ، زکام، نمونیہ، بخار، یا جگر اور گردوں کی خرابی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مگر ان سرد ہواؤں کی وجہ سے ان کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں ہوتا۔ ملیریا کا موسم آتا ہے۔ کئی موٹے تازے اور اچھی صحت کے لوگ ملیریا کا شکار ہو جاتے ہیں اور کئی کئی روز تک بستر پر پڑے رہتے ہیں۔ مگر کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بظاہر دبلے پتلے ہوتے ہیں اور ایسے کمزور نظر آتے ہیں کہ ان کے جسم کی ہڈیاں گِنی جا سکتی ہیں۔ اور جو عام طور پر بیماریوں کا شکار رہتے ہیں مگر ملیریا کے موسم میں سے سلامت گزر جاتے ہیں۔ یہی حال سب وباؤں اور سب امراض کا ہوتا ہے وہ بعض لوگوں پر حملہ کرتی ہیں اور بعض کو چھوڑ جاتی ہیں۔ ہندوستان میں جب انفلوئنزا (Influenza)پھیلا تو اکثر گھر ایسے تھے کہ جن کے سارے کے سارے افراد اس میں مبتلا ہو گئے۔ پھر کئی گھر ایسے تھے کہ ان میں بعض افراد بیمار ہو گئے اور بعض تندرست رہے۔ اور کچھ ایسے بھی تھے کہ جن میں کوئی بھی بیمار نہ ہوا۔ تو ہر وباء اور ہربیماری کچھ نہ کچھ لوگوں کو چھوڑ دیتی ہے اور کچھ لوگوں کو اپنا شکار بنا لیتی ہے۔ مگر موت ایک ایسی چیز ہے کہ جو کسی کو نہیں چھوڑتی، کوئی گھر، کوئی خاندان، کوئی بستی ، کوئی قوم اور کوئی ملک ایسا نہیں کہ جس پر موت نازل نہ ہوئی ہو۔ اور جس کے گزشتہ لوگ مر نہ چکے ہوں اور جس کے موجودہ لوگ آئندہ زمانہ میں مرنے والے نہ ہوں۔
پس موت تو ایک یقینی چیز ہے۔ مگر دیکھو دنیا میں اکثر لوگ کس طرح موت کو بُھلائے رکھتے ہیں۔ انہیں بیماریوں کا فکر ہوتا ہے۔ اپنی تجارتوں اور ملازمتوں کا فکر ہوتا ہے۔ ملازمتوں کے سلسلہ میں کسی الزام کے لگ جانے کا فکر ہوتا ہے۔ ترقیات نہ ملنے کا فکر ہوتا ہے اور دنیا کے کاموں کافکر ہوتا ہے مگر موت کا خیال ان کے دل میں نہیں آتا۔ حالانکہ موت ایک ایسی چیز ہے جو سب سےز یادہ یقینی اور قطعی ہے۔ مگر یا تو اس کی عمومیت کی وجہ سے لوگوں کی نظروں سے وہ اوجھل ہوتی ہے اور یا شدتِ دشت کی وجہ سے لوگ اس کا خیال بھی دل میں نہیں آنے دیتے تا زندگی خراب نہ ہو جائے۔ یا پھر یہ بات ہے کہ دنیا کی دلچسپیاں اور دنیا کی امنگیں اتنی زبردست ہوتی ہیں کہ وہ موت کے خیال کو پاس پھٹکنے نہیں دیتیں۔
ایسی ہی اَور بہت سی چیزیں ہیں جو موت ہی کی طرح قطعی اور یقینی ہوتی ہیں مگر انسان ان کے خیال کو پاس نہیں آنے دیتا۔ گرنے والے اور زوال پذیر ہونے والے خاندان جن کی جائدادیں بِکتی اور رہن ہوتی جاتی ہیں۔ جن کے نوجوان تعیّش کی زندگیاں بسر کرنے لگتے ہیں اور علم و تقویٰ کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے اور کام کاج سے جی چُرانے لگتے ہیں ہر دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ وہ گر رہے ہیں۔ سوائے ان کے جو ان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو گر رہے ہوتے ہیں مگر اپنی حالت دیکھ نہیں سکتے۔ وہ گرتے چلے جاتے ہیں مگر اپنی حالت پر غور نہیں کرتے۔
ہماری جماعت کے سپرد جو کام ہے اس کے متعلق بھی ایک ایسی چیز ہے جو ایسی واضح ہے کہ اس کے بارہ میں کوئی شبہ نہیں مگر ابھی تک جماعت میں اس کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ اور وہ ہے تبلیغی جدوجہد۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے نبیِٔ اشاعت قرار دیا ہے۔ اسلام کی اشاعت اور اظہار عَلَی الاَدیان کے آپ ہی کے زمانہ میں ہونے کے متعلق پیشگوئیاں ہیں۔ پھر آپ کا نام اللہ تعالیٰ نے سلطان القلم رکھا ہے۔ گویا کام کی دو ہی چیزیں ہیں۔ یعنی دعوۃ اور قلم۔ انہی دو سے اسلام کو دوسرے مذاہب پر غلبہ حاصل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے بیان اور تحریر دونوں چیزیں آپ کو دی ہیں اور ان دونوں سے ہی اسلام دوسرے مذاہب پر غالب ہو گا۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انہی دو سے آپ کی جماعت نے کام لینا ہے اور انہی ذرائع سے آپ کی جماعت کو ترقی حاصل ہو گی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ترقی کے متعلق تحریر فرمایا ہے کہ‘‘ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے۔ اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا ۔ میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا۔ اور اب وہ بڑھے گا اور پُھولے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔’’2
اور یہ بات ظاہر ہے کہ اتنا بڑا کام سوائے اس کے نہیں ہو سکتا کہ وسیع پیمانہ پر تبلیغ کی جائے۔ اور پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ وسیع پیمانہ پر تبلیغ مبلغوں کے بغیر نہیں ہو سکتی۔اور پھر یہ بات بھی ظاہر ہے کہ جو لوگ نئے جماعت میں شامل ہوں گے اُن کو دین سکھانے والوں کی بھی ضرورت ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ رات کو فرشتے آسمان سے اُتریں اور ان کو دین سکھا جائیں۔ یہ کام آدمی ہی کر سکتے ہیں اور آدمیوں نے ہی کرنا ہے۔ پس جہاں تبلیغ کے لئے آدمیوں کی ضرورت ہے وہاں نئے داخل ہونے والوں کو دین سکھانے کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے۔ کوئی شخص پورے طور پر کسی مذہب کو سیکھ کر اسے اختیار نہیں کیا کرتا۔ ہر وہ شخص جو مسلمان ہوتا ہے یا عیسائیت یا یہودیت کواختیار کرتا ہے وہ ان مذاہب کو پوری طرح سیکھ کر نہیں کرتا۔ دیگ میں سے چاولوں کے چند دانے ہی دیکھے جاتے ہیں اور پھر قیاس کر لیا جاتا ہے کہ تمام چاول پک چکے ہیں۔ اسی طرح کسی مذہب کو اختیار کرنے والا بھی اس کی پوری جزئیات سمجھ کر اختیار نہیں کرتا۔ جو لوگ حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے یا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لائے وہ ان کی تعلیمات کی پوری پوری جزئیات اور تفاصیل کو سمجھ کر ایمان نہ لائے تھے بلکہ بعض اصولی باتوں کو دیکھ کر لائے تھے۔ انہی باتوں کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ دین سچا ہے۔ جس طرح دیگ میں سے چند دانے دیکھ کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ دیگ پک چکی ہے یا نہیں اسی طرح انہوں نے چند اصولی باتوں کو دیکھ کر ان مذاہب کا سچا ہونا تسلیم کر لیا اور ایمان لے آئے۔
سو فیصدی تسلی کر کے اگر ہر کام کیا جائے تو کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا۔ جو شخص دیگ کے تمام چاول انگلی کے نیچے دبا کر دیکھنا چاہے وہ مہمانوں کو اُسی دن کھانا نہ کِھلا سکے گا بلکہ ایک ماہ بعد کِھلا سکے گا۔ اور اتنے عرصہ تک چاول کھانے کے قابل رہ بھی نہیں سکتے سڑ جائیں گے۔ پس جو شخص سو فیصدی تسلی کرنا چاہے کہ ہر چاول پک گیا ہے وہ کبھی مہمانوں کی دعوت نہیں کر سکتا۔ جو شخص ہر بوٹی کو توڑ کر دیکھے اور ہر آلو کو انگلیوں میں دبا کر دیکھے کہ وہ اچھی طرح پک گیا ہے وہ بھی مہمانوں کو کھانا نہیں کِھلا سکتا بلکہ ایسا سالن کھانے سے مہمان کراہت کریں گے جس کی ہر بوٹی کا ٹکڑا ہاتھ سے توڑا گیا ہو اور جس کے ہر آلو کو انگلیوں سے دبا کر دیکھا گیا ہو۔ پس جس طرح آدمی دیگ کے ہر چاول اور ہر بوٹی اور ہر آلو کو نہیں دیکھا کرتا بلکہ چند ایک کو دیکھ کر ہی قیاس کر لیتا ہے اسی طرح جو لوگ کسی مذہب کو اختیار کرتے ہیں وہ صرف چند ایک اہم اصول اور مسائل کو دیکھ کر ہی اختیار کر لیتے ہیں تمام جزئیات اور تفاصیل کو نہیں سیکھا کرتے۔ وہ خیال کر لیتے ہیں کہ تفاصیل پھر سیکھیں گے۔ اسی طرح جو لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے وہ سو فیصدی سیکھ کر نہیں ہوں گے بلکہ ان کے داخل ہونے کے بعد ان کو دین سکھانا ہمارا کام ہے۔ اور اگر کثرت سے لوگ داخل ہوں اور ان کو دین سکھانے والے نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ان پر غالب نہیں آئے بلکہ وہ ہم پر غالب آگئے۔اسلام دوسرے مذاہب پر غالب نہیں آیا بلکہ اگر وہ عیسائیت سے آئے ہیں تو گویا عیسائیت اسلام پر غالب آگئی اور اگر نئے داخل ہونے والے ہندو مذہب سے آئیں گے تو ہندو مذہب اسلام پر غالب آگیا کیونکہ کسی قوم میں جن لوگوں کی کثرت ہو گی انہی کے خیالات پھیلیں گے۔ پس جو لوگ احمدیت میں بکثرت داخل ہوں گے اگر ہم ان کو دین سکھانے کا انتظام نہ کر سکے تو لازمی بات ہے کہ بجائے احمدیت کی تعلیم پھیلنے کے ان کے خیالات پھیل جائیں گے۔ اور اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ ہم میں داخل نہیں ہوئے بلکہ ہم ان میں داخل ہو گئے ہیں۔
بعض لوگ بہت حیرت سے پوچھتے ہیں کہ یہ ہوا کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کا عقیدہ مسلمانوں میں پھیل گیا۔ یہ گویا ایک مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ایک غیر اسلامی عقیدہ اسلامی بن گیا۔ یہ مثال ہمیں ہوشیار کرنے کے لئے ہے کہ غفلت کے باعث اِس طرح غیر احمدی عقائد احمدی عقائد بن سکتے ہیں اگر ہم آنے والوں کی اچھی طرح تربیت نہ کریں گے۔دیکھو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کا غیر اسلامی عقیدہ اسلامی کس طرح بن گیا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ شروع میں جب خلافت کا نظام ٹُوٹا تو حکومت کا مرکز دمشق قرار پایا جہاں زیادہ تر عیسائی رہتے تھے۔ وہ مسلمان تو ہو گئے مگر چونکہ ان کی دینی تعلیم کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ تھا اس لئے ان کے بہت سے عقائد مسلمانوں میں پھیل گئے۔ اُس زمانہ میں عیسائیوں سے مسلمان ہونے والوں کی کثرت تھی۔ اگر شام میں دس عیسائیوں سے مسلمان ہونے والے تھے تو ایک عرب کا مسلمان تھا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ وہی عقائد زیادہ پھیل سکتے تھے جو دس کے ہوں۔ عیسائیوں سے مسلمان ہونے والوں کے دلوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت تھی۔ انہوں نے ان کی خدائی کا خیال تو ترک کر دیا مگر ان کی بڑائی کے سب عقائد کو نہ چھوڑا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے عقائد مسلمانوں میں بھی رائج ہو گئے۔ دیکھ لو ایسے تمام غلط عقائد جو آج مسلمانوں میں ہیں سب عیسائیوں والے ہی ہیں جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بڑائی پائی جاتی ہے۔ اگر کسی مسلمان سے پوچھا جائے کہ حضرت نوحؑ مُردے زندہ کرتے تھے؟ تو کہے گا نہیں۔ حضر ت ابراہیم ؑ مُردے زندہ کرتے تھے؟ وہ کہے گا نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ کرتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کرتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ اگر پوچھو کوئی نبی کرتاتھا؟ تو وہ کہے گا ہاں حضرت عیسیٰ ؑ کرتے تھے۔ اسی طرح پوچھو کسی نبی نے کوئی مخلوق پیدا کی؟ حضرت نوحؑ نے حضرت ابراہیم ؑ نے حضرت موسیٰؑ نے کوئی مخلوق پیدا کی؟ تو وہ انکار کرے گا۔ اگر پوچھا جائے کہ کسی نبی نے کی؟ تو کہے گا ہاں۔ کس نے؟ حضرت عیسیٰ ؑ نے۔ پوچھو کسی نبی کو علمِ غیب تھا؟ کوئی بتا سکتا تھا کہ کسی نے گھر میں کیا کھایا؟ کیا حضرت نوح ؑ یہ بات بتا سکتے تھے؟وہ کہے گا نہیں ۔ حضرت ابراہیمؑ بتا سکتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ بتا سکتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم بتا سکتے تھے؟ کہے گا نہیں۔ کوئی بتا بھی سکتا تھا؟ کہے گا ہاں ۔کون؟حضرت عیسیٰؑ۔ تو ایسی سب باتیں حضرت عیسیٰ ؑ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں۔کلمۃُ اللہ حضرت عیسیٰ ؑ ہیں اور کوئی نبی نہیں۔ گناہوں سے پاک صرف وہ ہیں اور کوئی نہیں۔ اور یہ سب عقائد وہی ہیں جو عیسائیوں کے تھے۔
حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد اسلامی بادشاہت دمشق میں چلی گئی تھی یہ عیسائی ملک تھا۔ یہاں کثرت سے عیسائی مسلمان ہو گئے۔ مگرچونکہ ان کی تربیت صحیح طور پر نہ ہو سکی انہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی خدائی کا عقیدہ تو ترک کر دیا لیکن قرآن کریم کی جو بھی ذُوالمعانی آیت نظر آئی اُس کو لیا اور اس رنگ میں اسکے معنے کئے کہ زیادہ سے زیادہ بڑائیاں حضرت عیسیٰؑ کی طرف منسوب کر دیں۔ اور چونکہ دمشق اُس وقت اسلامی حکومت کا مرکز تھا اس لئے وہاں سے جو خیالات پھیلتے تھے اُنہی کو دوسرے علاقوں کے مسلمان بھی صحیح سمجھنے لگتے تھے۔ اور یہ خیال ان کو نہ آتا تھا کہ دمشق پر عیسائیت کا اثر ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں قرآن کریم نے عیسیٰ کو مارا تھا عیسائیوں نے مسلمانوں کو مار دیا۔ یہی حال عیسائیت کا بھی ہوا تھا وہ اپنی جگہ کفر کا کشتہ تھی۔ عیسائیت زیادہ روما میں پھیلی اور وہ لوگ بت پرست تھے۔ وہ پہلے ستاروں وغیرہ کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔ پھر عیسائیت کو اختیار کرنے کےبعد حضرت عیسیٰ ؑ کو خدا کا بیٹا ماننے لگے۔ اور حضرت عیسیٰؑ کی ماں کی پرستش کرنے لگے جس طرح وہ پہلے بعض دیوتاؤں کی ماں کی پرستش کرتے تھے۔ یہ لوگ آرین نسل کے تھے جو اتوار کو مقدس دن سمجھتے تھے۔ ان کے زیراثر عیسائیوں نے بھی ہفتہ کے بجائے اتوار کو مقدس دن بنا لیا۔ تو جس طرح عیسائیت روما میں جا کر بگڑی تھی اسی طرح اسلام دمشق میں جا کر بگڑ گیا۔ آج بعض لوگ حیرت سے پوچھتےہیں کہ یہ عیسائی عقائد مسلمانوں میں کیونکر داخل ہو گئے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ عیسائی بکثرت مسلمان ہوئے اور ان کو دینی تعلیم نہ دی جا سکی مسلمانوں نے ان کی تربیت کا کوئی انتظام نہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نےا پنے عقائد اسلام میں داخل کر دیئے۔ اور یہی حال ہمارا ہونے کا ڈر ہے۔ اگر ہم نے کافی تبلیغ نہ کی اور پھر نئے داخل ہونے والوں کی تعلیم وتربیت کا خاطر خواہ انتظام نہ کر سکے۔
پس ہمارے پاس کافی مبلغ ہونے ضروری ہیں جو احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پھیلا سکیں۔ اور جو نئے آنے والوں کو اسلام اور احمدیت کی صحیح تعلیم دے سکیں۔ مگر اس کے لئے ہم نے کون سے سامان کئے ہیں؟ ایک مدرسہ احمدیہ جاری ہے۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ کوئی ایک مدرسہ ساری دنیا میں تبلیغ کے لئے مبلغ مہیا نہیں کر سکتا۔ یا ایک کالج ہے وہ بھی کافی نہیں۔ دنیا کے دوسرے کالجوں میں ڈیڑھ ڈیڑھ اور دو دو ہزار طالب علم ہوتے ہیں۔ اور بڑے بڑے شہروں میں کئی کئی کالج ہیں۔ اور کئی یونیورسٹیاں مُلکوں میں ہوتی ہیں۔ کوئی بہت ہی چھوٹا ملک ہو گا جس میں یونیورسٹی ایک ہی ہو۔ ورنہ مختلف ممالک میں کئی کئی یونیورسٹیاں ہوتی ہیں۔ لیکن کسی ملک میں اگر ایک ہی یونیورسٹی ہو تو بھی اس میں ہزاروں طالب علم ہوتے ہیں۔ مصر ایک چھوٹا سا ملک ہے کروڑ سَوا کروڑ آبادی ہو گی۔ اور وہاں ایک ہی مذہبی یونیورسٹی ہے یعنی ازہر یونیورسٹی۔ اور اس میں قریباًَ دس ہزار طلباء تعلیم پاتے ہیں۔ مگر ہم نے جو سکول تعلیم ِدین کے لئے جاری کر رکھا ہے اس کی یہ حالت ہے کہ سارے سال میں اس میں صرف آٹھ طالبعلم داخل ہوئے ہیں۔ اور یہ وہ پہلی جماعت ہے جو آٹھ سال کے بعد آخری جماعت بنے گی۔ اور اس سال تو پھر بھی آٹھ طالب علم داخل ہوئے ہیں پچھلے سال صرف تین ہوئے تھے۔ اور آٹھ کے معنی ہیں چار۔ کیونکہ کسی سکول میں جتنے لڑکے شروع میں داخل ہوں ان میں سے نصف کے قریب بالعموم گر جایا کرتے ہیں۔کچھ تو ہمت ہار کر خود ہی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ اَور ہوتے ہیں جو پڑھائی کی طرف توجہ نہیں کرتے اور مدرسہ والے ان کو خود نکال دیتے ہیں۔ کچھ پڑھائی تو ختم کر لیتے ہیں مگر وہ دینی کام کرنے کے بجائے دُنیوی کاموں میں لگ جاتے ہیں۔ اس لئے آٹھ کے معنے چار ہی سمجھنے چاہئیں۔ تو اب جو آٹھ طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں ان میں سے چار ہمیں آٹھ سال کے بعد مل سکیں گے۔ حالانکہ ہمیں تمام دنیا میں تبلیغ اور دینی تعلیم و تربیت کے لئے لاکھوں آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اور اگر مبلغین کی تیاری کی رفتار یہی رہی تو اس کے یہ معنے ہیں کہ دس ہزار سال میں ہمیں کام کرنے والے آدمی پوری تعداد میں مل سکیں گے۔ اور وہ بھی اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ یہ قانون بنا دے کہ ان میں سے کوئی مرے گا نہیں اور بوڑھا بھی نہیں ہو گا۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا قانون ہو تب دس ہزار سال کے بعدہمیں پورے مبلغ مل سکتے ہیں۔ اور دنیا کی کوئی قوم دس ہزار سال تک زندہ نہیں رہ سکتی۔ کسی قوم کی زندگی تین سَو سال سے آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس عرصہ میں وہ یا تو غالب آکر دوسری طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور یا پھر مٹ جاتی ہے۔ اور اس کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ اس کے بعد کہیں کہیں صوفیاء وغیرہ رہ جاتے ہیں جو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے حلقہ میں اپنے سلسلہ کو جاری رکھتے ہیں ورنہ اس مذہب کی طرف منسوب ہونے والے تو باقی رہتے ہیں لیکن مذہب باقی نہیں رہتا۔ آج ہندوستان میں کروڑوں ہندو موجود ہیں مگر ہندو مذہب باقی نہیں ۔ہندو کہلانے والے جو قانون اپنے لئے چاہتے ہیں بنا لیتے ہیں۔ عیسائی ہیں ان کو آج دنیا میں بڑی طاقت حاصل ہے مگر عیسائیت باقی نہیں۔ بلکہ عیسائیت تو رسول کریم ﷺ سے پہلے ہی مٹ گئی تھی۔ یہودی تو دنیا میں موجود ہیں لیکن اگر آج حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں آئیں تو اس یہودیت سے کانوں پر ہاتھ دھریں۔ رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا کہ خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ3 ثُمَّ یَکُوْنُ فَیْجُ اَعْوَجَ۔
توقوموں کی زندگی تین سو سال سے زیادہ نہیں ہوتی۔ بلکہ بعض تو دو ڈیڑھ سو سال میں ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ اس عرصہ میں یا تو وہ غالب آکر سیاست کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں اور اس کے زور سے قائم رہتی ہیں یا مٹ جاتی ہیں۔ پس کوئی ایسی سکیم کہ دس ہزار سال میں قومی ترقی کے سامان کئے جائیں گے کسی پاگل کے نزدیک ہی قابلِ توجہ ہو سکتی ہے۔ بلکہ ایسی بات کو تو پاگل بھی نہیں مان سکتا اور جو ایسی بات پر یقین رکھتا ہے اس سے زیادہ پاگل کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک ایسی واضح بات ہے کہ جو دنیا کی واضح ترین باتوں میں سے ہے۔ مگر میں حیران ہوا کرتا ہوں کہ ہماری جماعت میں ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ بی۔اے اور ایم۔ اے لوگ ہیں۔ ان کی سمجھ میں یہ واضح بات کیوں نہیں آتی کہ ہماری جماعت تبلیغ کے فریضہ کو کس طرح ادا کرے گی۔ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس کام کے لئے آسمان سے فرشتے اتریں گے؟ کیا پہلے انبیاء کے زمانوں میں فرشتوں نے آسمان سے اتر کر یہ کام کیا تھا جو اَب وہ اتر کر کریں گے؟ جب رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں فرشتے یہ کام کرنے کے لئے نہیں اترے تو اب کیا اتریں گے۔ حقیقت یہی ہے کہ پہلے بھی آدمیوں نے ہی یہ کام کیا تھا اور اب بھی آدمی ہی کریں گے۔ پہلے بھی بعد میں آنے والوں کو تعلیم آدمیوں نے ہی دی تھی اور اب بھی آدمی ہی دیں گے۔ اور ایک انسان اتنے ہی لوگوں کو تعلیم دے سکتا اورتبلیغ کر سکتا ہے جتنےلوگوں کو تعلیم دینے اور تبلیغ کرنے کی طاقت اُس کے اندر ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان لاکھوں کی تعلیم و تبلیغ کا بوجھ اٹھا سکے۔ لیکن ہمارے پاس مبلغوں کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ دنیا کی دو ارب آبادی کے لئے اگر دس ہزار مبلغ بھی ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ دو لاکھ افراد کے لئے ایک مبلغ ہے۔ اور یہ تعداد بالکل ناکافی ہے۔ قادیان کی آبادی دس ہزار ہے۔ اگر اس دس ہزار آبادی کے لئے ایک آدمی ہو تو کیا اسے کافی سمجھا جا سکتا ہے اور کام چل سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ لیکن ہمارے پاس تو ابھی اتنے بھی نہیں ہیں۔
ایک آدمی کے کام کا وقت 25سال عام طور پر ہوتا ہے۔ یا اگر 25سال کی عمر میں تعلیم ختم کر لی جائے تو تیس سال کام کا زمانہ سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر چونکہ بعض کام کرنے والے اتنا عرصہ کام کرنے سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں اس لئے کام کرنے کی اوسط بیس سال سمجھنی چاہیے اور اگر موجودہ رفتار کے لحاظ سے ہمیں چار آدمی ہر سال ملیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ بیس سال میں ہمارے پاس صرف 80 آدمی ہوں گے۔ اور یہ اتنی واضح بات ہے کہ اس رفتار سے وہ عظیم الشان کام نہیں ہو سکتا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔ اس کے لئے بہت زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ مگر مدرسہ احمدیہ میں دوست اپنے بچوں کو داخل کرانے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ہر خاندان یہی سمجھتا ہے کہ دوسرے خاندانوں سے لڑکے آجائیں گے اسے بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ اور چونکہ ہر گھر یہی سمجھ لیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سارے ہی گھر خالی رہ جاتے ہیں۔ حالانکہ ایمان کی کم سے کم علامت یہ ہونی چاہیے کہ ہر خاندان ایک لڑکا دے۔ اور جو یہ بھی نہیں کرتا وہ گو شرم و حیا کی وجہ سے منہ سے تو نہیں کہتا مگر عملی طور پر وہ یہی کہتا ہے کہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۔4اے موسیٰ! تُو اور تیرا رب جاؤ اور دونوں جا کر دشمنانِ دین سے جنگ کرو ہم تو اسی جگہ بیٹھے رہیں گے۔ گو وہ منہ سے یہ الفاظ نہ کہے مگر اپنے عمل سے یہی کہتا ہے اور اس کے دل میں یہی ہے اور جس کےد ل میں یہ بات ہووہ بھی مومن نہیں ہو سکتا ۔کیا اگر کوئی شخص دل میں خداتعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات پر ایمان نہ رکھتا ہو، دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان نہ رکھتا ہو تو وہ مومن ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ کوئی شخص زبان سے ہزار کہے کہ وہ مومن ہے اگر وہ دل سے نہیں مانتا تو وہ مومن نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جو شخص دل میں کہتا ہے کہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ وہ بھی ہر گز مومن نہیں ہو سکتا۔
مَیں نے تحریک جدید کےپہلے دَور میں بھی یہ بات بیان کی تھی کہ کام آدمیوں سے چل سکتا ہے روپیہ سے نہیں۔ روپیہ تو ایک ضمنی چیز ہے۔ اور پھر روپیہ کے لحاظ سے تو ہم دنیا کا مقابلہ کر بھی نہیں سکتے۔ ہم خوش ہیں کہ ہم نے تحریک جدید کے پہلے دَور کے دس سالوں میں 14 لاکھ روپیہ جمع کر لیا۔ مگر دوسروں کے مقابلہ میں 14لاکھ روپیہ کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہندوستان ایک گھٹیا قسم کا ملک سمجھا جاتا ہے۔ اور صوبہ پنجاب کا ہندوستان کے گھٹیا صوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ گویا پنجاب دولت کے لحاظ سے بہت گھٹیا درجہ کا ہے۔ لیکن اس صوبہ کے ایک ہندو سر گنگا رام نے ایک کروڑ روپیہ وقف کر دیا تھا اور جب ایک گھٹیا ملک کے گھٹیا صوبہ کے ایک فرد نے ایک کروڑ روپیہ وقف کر دیا تو ہمارا 14 لاکھ روپیہ دس سالوں میں جمع کر دینا اور روپیہ کے لحاظ سے کون سی بڑی بات ہے۔ ہم اس قربانی پر خوش ہیں تو اس لئے کہ یہ ایک غریب جماعت کی جیبوں سےنکلا ۔اور یہ ہماری جماعت کے اخلاص کا ثبوت ہے ورنہ دنیا کے روپیہ کے مقابلہ میں چودہ لاکھ روپیہ کی کوئی حقیقت نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہندوستان کے ہندو اخلاص سے کوئی رقم جمع کرنا چاہیں تو چودہ ارب جمع کر سکتے ہیں۔ صرف ایک ہندو نے اعلان کیا ہے کہ مَیں نے پچاس کروڑ روپیہ جنگ کے بعد موٹروں کا کارخانہ جاری کرنے کے لئے الگ کر دیا ہے۔ مَیں نے کمپنی نہیں بنائی اس لئے کہ اگر نقصان ہؤا تو کم سرمایہ والے لوگوں کو نقصان نہ ہو۔ اس نے اپنی جائداد کا صرف ایک حصہ الگ کیا ہے جو پچاس کروڑ ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے پاس دو تین ارب روپیہ ہو گا۔ اور یہ تو صرف ایک ہندو کی دولت کا حال ہے۔ ایسے اور بھی کئی ہیں اور میں سمجھتا ہوں صر ف سَو دو سَو بڑے بڑے ہندو اگر چاہیں تو چودہ ارب روپیہ جمع کر سکتے ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ ہزار آدمی مل کر دے سکتے ہیں۔ تو جہاں تک روپیہ کا سوال ہے چودہ لاکھ کی رقم اتنی حقیر رقم ہے کہ دوسروں کے روپیہ کے سامنے اس کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا۔ یورپ اور امریکہ میں اگر کوئی احمدی اپنی چودہ لاکھ روپیہ کی رقم کو اپنی قربانی کی مثال کے طور پر پیش کرے تو سننے والے ہنسیں گے۔ کیونکہ وہاں تو دوستوں کی تفریح کے لئے کوئی فلم وغیرہ بنانے پر لوگ لاکھوں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں۔پس ہماری اِس قربانی کی عظمت چودہ لاکھ روپیہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ یہ روپیہ غریبوں کی جیبوں سے آیا ہے۔ اور دوسرے اس لئے کہ یہ خدا تعالیٰ کی خاطر جمع کیا گیا ہے۔ پس جہاں تک روپیہ کے مقابلہ کا سوال ہے ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ دنیا اس سے بہت بڑھ کر یہ چیز پیش کر سکتی ہے۔ لیکن ایک ایسی چیز ہے کہ دنیا اس سے بڑھ کر پیش نہیں کر سکتی اور وہ جان ہے۔جان دینے میں وہ ہم سے بڑھ نہیں سکتی۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا ہے کہ جان کے مقابلہ میں جان پیش کر دے اس سے زیادہ نہیں کر سکتی۔ ہمارے ایک روپیہ کے مقابلہ میں تو بے شک امریکہ کا کوئی کروڑ پتی یا ہندوستان کا کوئی کروڑ پتی ایک کروڑ روپیہ دے سکتا ہے۔ مگر جان کے مقابلہ میں وہ زیادہ سے زیادہ جان ہی دے سکے گا ہم سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پس یہ وہ چیز ہے جس میں جماعت نمونہ دکھا سکتی تھی مگر افسوس ہے کہ اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی۔ تبلیغ کے کام کے لئے ہزاروں آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اگر کم سے کم تعداد رکھی جائے اور ایک ہزار مبلغ سے کام چلانے کی سکیم سامنے رکھی جائے تو بھی موجودہ رفتار کے لحاظ سے اتنے آدمی اڑھائی سَو سال میں ہمیں مل سکتے ہیں۔
تحریک جدید کے پہلے دَور میں مَیں نے صرف اِس کا اعلان کیا تھا مگر اب میں جماعت کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاص کا ثبوت دے اور نوجوان زندگیاں وقف کریں۔ ہر احمدی گھر سے ایک نوجوان ضرور اِس کام کے لئے پیش کیا جائے۔ مگر ہمارے مشورہ سے پیش کیا جائے۔ کیونکہ سب کو فورًا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ہم باری باری لیں گے۔ اس سال پچاس دیہاتی مبلغ لئے جائیں گے یوں تو صرف پنجاب کے لئے موجودہ حالات میں کم سے کم دو سَو دیہاتی مبلغین کی ضرورت ہے مگر اس سال صرف پچاس لئے جائیں گے۔ بیس سے تیس سال تک عمر کے دوست جو کم سے کم مڈل تک تعلیم رکھتے ہوں اپنے نام پیش کریں۔ چالیس سال عمر کے موزوں آدمی بھی لئے جا سکتے ہیں۔ انہیں سال ڈیڑھ سال تک ضروری تعلیم دینے کے بعد مختلف دیہات میں مقرر کر دیا جائے گا۔ اور اسی طرح مدرسہ احمدیہ میں بھی داخلہ کے لئے ہر سال کم سے کم پچاس طالبعلم آنے چاہئیں۔ سَو ہوں تو بہت بہتر ہے۔ ان کی تعلیم آٹھ سال میں ختم ہو گی۔ اگر پچاس طالب علم ہر سال داخل ہوں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ آٹھ سال کے بعد ہمیں 25 آدمی کام کے لئے مل سکیں گے۔ گویا اٹھارہ سال کے بعد 250 آدمی مل سکیں گے۔ اور اگر ہر سال سَو طالب علم داخل ہوں تو 18 سال کے بعد پانچ سو حاصل ہوں گے۔ یہ کتنا لمبا عرصہ ہے پھر اتنے لمبے عرصہ کےبعد بھی جو آدمی ملیں گے وہ بالکل ناکافی ہوں گے۔ کیونکہ دنیا میں تبلیغ کے علاوہ نئے آنے والوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بھی آدمیوں کی ضرورت ہے۔ پس دوست اپنے لڑکوں کو اس تحریک کے ماتحت پیش کریں اور جن کے ہاں اولاد نہ ہو یا ہو مگر بڑی عمر کی ہو۔ یا جن کے ہاں لڑکیاں ہی ہوں لڑکے نہ ہوں تو وہ ایک دیہاتی مبلغ یا مدرسہ احمدیہ کے ایک طالب علم کا ماہوار خرچ دیں۔ یا چند دوست مل کر ایک طالب علم کا خرچ برداشت کریں٭ جو آج کل کے لحاظ سے بیس روپیہ ماہوار سے کم نہیں ہو گا تا غرباء کے بچوں کو تعلیم دلائی جا سکے۔ لیکن اصل قربانی تو جان کی ہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ بھی رکھا ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے دوستوں کو اسماعیلؑ جیسی قربانیاں کرنی ہوں گی۔ ہر سال عید آتی ہے اور ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔ آپ لوگ عید کے موقع پر بکرے ذبح کرتے ہیں مگر یہ اصل قربانی نہیں یہ تو صرف علامت ہوتی ہے اس بات کی کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آئے گا آپ اپنی جانیں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مگر اب جانی قربانی کا وقت آگیا ہے لیکن دوست ابھی بکرے ہی پیش کرتے ہیں جانیں پیش نہیں کرتے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ نےفرمایا تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ کتَابَ اللہِ وَ عِتْرَتِیْ5۔ کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں یعنی قرآن کریم اور عترت۔ شیعہ لوگ عترت سے مراد حضرت علیؓ لیتے ہیں مگریہ صحیح نہیں۔ عترت کے معنے ہیں وہ مخلص لوگ جو دین کی خاطر اپنے آپ کو ذبح کر دینے کے لئے تیار ہوں۔ الْعَتِیْرَۃُ اُس قربانی کا نام ہے جو بتوں کے آگے پیش کی جاتی تھی۔ عربی میں محاورہ ہے عَتَرَ الْعَتِیْرَۃَ۔ اس نے بت کے آگے بکری کی قربانی پیش کی۔ پس رسول کریم ﷺ کے قول کا یہ مطلب ہے کہ میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں ایک قرآن کریم اور دوسرے ایسے لوگ جو اپنی زندگیاں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جب تک یہ دونوں چیزیں باقی رہیں گی اسلام مٹ نہیں سکتا۔ شیعوں نے عِتْرَتِیْ کے معنے حضرت علیؓ اور اہلِ بیت کے کئے ہیں اور وہ اس سے ان کی فضیلت ثابت کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ بھی عترت تھے۔ مگر دنیوی رشتہ داری کے لحاظ سے نہیں۔ بلکہ اس لئے کہ انہوں نے خدا کی راہ میں جان کی قربانی کر دی۔ ہم ان کے عترت ہونے کا انکار نہیں کرتے۔ صرف اُس وجہ کا انکار کرتے ہیں جو شیعہ پیش کرتے ہیں۔ وہ ضرور عترت تھے مگر اس لئے تھے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاطر اپنی جان قربانی کے لئے پیش کر دی۔ جب کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
٭ اس خطبہ کے بعد تین وظائف تین طالب علموں کے لئے میرے پاس آچکے ہیں۔
کو مار دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ6۔ کیونکہ میں خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق ہجرت کر کے جارہا ہوں7 اور حضرت علیؓ نے اس قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ اگر کفار بغیر دیکھے حملہ کردیتے تو آپ ضرور مارے جاتے۔ مگر ان کو شک پیدا ہوا کہ یہ جسم تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا معلوم نہیں ہوتا۔ اور انہوں نے شکل دیکھی تو معلوم ہوگیا کہ علیؓ ہیں اس لئے انہوں نے نہ مارا۔ تو اس میں شک نہیں کہ حضرت علیؓ عترت تھے مگر کسی دنیوی تعلق کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ انہوں نے دین کی خاطر اپنے آپ کو ذبح ہونے کے لئے پیش کر دیا۔
پس ہر وہ شخص جو دنیا پر لات مار کر دین کی خاطر اپنی زندگی کو وقف کرتا ہے اور ہر باپ جو اپنی اولاد کو تعلیم دلا کر دین کے لئے وقف کرتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عترت ہے جس سے اسلام زندہ رہ سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دو چیزیں چھوڑیں۔ ایک قرآن اور ایک عترت۔ قرآن تو ہمیشہ وہی رہے گا مگر عترت ہمیشہ بدلتی رہے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضر ت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت سعدؓ، حضرت سعیدؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور دوسرے ایسے ہی صحابہ عترت تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَہْلَ الْبَیْتِ 8 کہ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ اور یہ کہہ کر بتا دیا کہ میری عترت سے مراد صرف وہ لوگ نہیں جو صلب سے ہیں بلکہ وہ ہیں جو دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں ا پنی جانیں ذبح کئے جانے کے لئے پیش کر دیتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی انہی لوگوں کو اپنی عترت قرار دیا ہے۔ چنانچہ بائبل میں آتا ہے کہ ‘‘جب وہ بِھیڑ سے یہ کہہ ہی رہا تھا تو دیکھو اُس کی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اُس سے باتیں کرنی چاہتے تھے۔ کسی نے اس سے کہا دیکھ ! تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے ہیں اور تجھ سےباتیں کرنی چاہتے ہیں۔ اس نے خبر دینے والے کے جواب میں کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی۔ اور اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا دیکھو! میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں۔ کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی بہن اور ماں ہے۔’’9
اور صحیح بات بھی یہی ہے کہ آپ جس کام کے لئے مبعوث ہوئے تھے وہ انہی سے وابستہ تھا جن کو وہ اس وقت تعلیم دے رہے تھے۔ اسی طرح جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کام کے چلانے والے ہیں وہی آپ کی عترت ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں دو چیزیں اپنے پیچھے چھوڑ رہا ہوں۔ جو ثَقَلَان ہیں یعنی بوجھ ہیں۔ ایسے بوجھ کہ جب تک وہ رہیں گے دین آسمان پر نہ جائے گا۔ یہ دو بوجھ ہوں گے جو دین کو زمین پر رکھیں گے جب یہ دونوں بوجھ اُٹھ جائیں گے اسلام بھی آسمان پر چلا جائے گا۔ جب مسلمانوں میں سے قرآن کریم کا مفہوم اُڑ گیا اور جب عترت اُڑ گئی تو اسلام بھی اُڑ کر آسمان پر چلا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے دوبارہ دنیا میں لائے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا کہ لَوْ کَانَ الْاِیْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالَہٗ رِجَالٌ مِّنْ ہٰٓؤُلَآءِ۔10 اس کا مطلب بھی یہی تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب مسلمانوں میں نہ قرآن رہے گا اور نہ میری عترت۔ یہ دونوں ایسے بوجھ ہیں جن کی وجہ سے ایمان زمین پر رہ سکتا ہے ورنہ ایمان ایسی ہلکی چیز ہے کہ جب یہ بوجھ نہ رہیں گے تو وہ بھی نہ رہ سکے گا۔ جب یہ بوجھ اُٹھ جائیں گے اسلام بھی اُٹھ جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوبارہ اسے دنیا میں لائے ہیں۔ مگر جو پہلے اُڑ کر آسمان پر چلا گیا تھا اب بھی جا سکتا ہے اور جن دو چیزوں نے پہلے اسے دبایا تھا وہی اب بھی دبا کر رکھ سکتی ہیں اور وہ دو چیزیں قرآن کریم اور عترت ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کا مفہوم دوبارہ سمجھایا ہے اور اس کی تفسیر بیان فرما دی ہے۔ مگر قرآن کریم عترت کے دل میں ہی رہ سکتا ہے۔ اگر باہر رہ سکتا تو پہلے اُڑ کیوں جاتا۔ اصل قرآن وہ نہیں جو اَوراق پر لکھا ہوتا ہے بلکہ وہ ہے جو عترت کے دل میں ہوتا ہے۔ اور جب عترت اُڑے گی تو وہ بھی اُڑ جائے گا۔ پس ہر وہ خاندان جو خدمت سلسلہ کے لئے کسی کو وقف نہیں کرتا وہ قرآن کریم کے دنیا سے اُڑنے میں مدد دیتا ہے۔ اور وہ ایمان کے دنیا سے اٹھ جانے میں مدد دیتا ہے کیونکہ جب تک قرآن کریم اور عترت دنیا میں قائم نہ ہو گی ایمان قائم نہیں رہ سکتا۔
پس میں جماعت کے دوستوں کو اس نہایت ہی ضروری امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ تحریک جدید کے پہلے دَور میں مَیں نے اس کی تمہید باندھی تھی۔ مگر اب دوسری تحریک کے موقع پر میں مستقل طور پر دعوت دیتا ہوں کہ جس طرح ہر احمدی اپنے اوپر چندہ دینا لازم کرتاہے اِسی طرح ہر احمدی خاندان اپنے لئے لازم کرے کہ وہ کسی نہ کسی کو دین کے لئے وقف کرے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ سب دوست جلد سے جلد اس بلاوا پر لبیک کہیں گے تااحمدیت کی تبلیغ ہماری زندگیوں میں ہی دور دور تک پہنچ سکے۔ اگر ہم نےز یادہ سے زیادہ آدمی دین کے سکھلانے کے لئےجلد از جلد پیدا نہ کر دیئے تو دین کے قیام میں خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ ہمیں آدمیوں کا فکر نہیں بلکہ یہ فکر ہے کہ دین اپنی اصل شکل میں دنیا میں قائم ہو جائے۔
اِس وقت دو قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے ایک تو دیہاتی مبلغ ان کی تعلیم کم سے کم مڈل تک ہونی چاہیے اور انہیں سال ڈیڑھ سال تک تعلیم دے کر دیہات میں لگا دیا جائے گا۔ دوسرے ایسے مڈل پاس طالب علم جو مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو کر تعلیم حاصل کریں۔ ابھی داخلہ میں تین ماہ کا عرصہ ہے۔ اس لئے ابھی سے اس کے لئے دوست تیاری کریں۔ زیادہ نہیں تو فِی الحال ہر ضلع سے چار پانچ طالب علم ضرور آنے چاہئیں۔ اور بنگال اور بہار وغیرہ صوبوں سے جہاں جماعتیں کم ہیں صوبہ بھر میں سے ہی چار پانچ آنے چاہئیں۔ ہم انشاء اللہ جلد تبلیغ کے کام کو وسیع کرنے والے ہیں۔ جس کے لئے مبلغ درکار ہیں اور معلّم بھی جو نئے آنے والوں کو دین سکھائیں۔
کل ہی میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں کابل گیا ہوں جس کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ وہاں بھی انشاء اللہ احمدیت کی اشاعت کی کوئی صورت پیدا ہو گی۔ میں نے دیکھا کہ مَیں وہاں گیا ہوں اور وہاں بادشاہ، وزراء اور بڑے سرکاری حکام اور بڑے بڑے آدمیوں سے مل چکا ہوں۔ مجھے وہاں گئے دو تین روز ہو چکے ہیں اور اب میں واپس آنا چاہتا ہوں۔ اور موٹر میں یہ سفر میں نے کیا ہے۔ جب میں واپسی کا ارادہ کر رہا ہوں تو کسی نے مجھے کہا کہ یہاں دو طرح سے پٹرول ملتا ہے ایک تو دکانوں میں ملتا ہےا ور ایک پٹرول پمپ پر۔ پمپ پر زیادہ مل سکتا ہے مگر قیمت زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ اور میں کہتا ہوں کہ بطور احتیاط پٹرول زیادہ ہی ہونا چاہیے بیس پچیس روپے زیادہ خرچ ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اور اس خواب سے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ وہاں بھی تبلیغ کا راستہ کھولے گا اور ان علاقوں میں تبلیغ کے لئے فارسی اور پشتو زبانیں جاننے والوں کی ضرورت ہے۔ پس صوبہ سرحد کو بھی توجہ کرنی چاہیے اور وہاں سے بھی نوجوان آنے چاہئیں۔ اب تک اس صوبہ سے بہت کم آئے ہیں اور جو آئے بھی ہیں وہ تعلیم پانے کےبعد دوسرے کاموں میں لگ گئے ہیں۔ سوائے ایک کے کہ وہ مبلغ بنے ہیں۔ اور وہ اگر اس صوبہ کی جماعتوں میں تحریک کر کے نوجوانوں کو تعلیم کے لئے یہاں بھجوائیں تو میں سمجھتا ہوں ان کا یہی کام بڑا کام ہو گا۔
خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی تبلیغ کے نئے رستے جلد کھولنے والا ہے اور ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہو گی۔ اور اگر آج تیاری شروع کی جائے تو آٹھ سال کے بعد پہلا پھل مل سکے گا اور اُس وقت تک ہم تبلیغ وسیع پیمانے پر نہ کر سکیں گے۔ اس لئے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ گریجوایٹ اور مولوی فاضل نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں تا انہیں جلد سے جلد کام پر لگایا جا سکے۔ ایسے نوجوان دو سے چار سال تک کے عرصہ میں کام کے قابل ہو سکیں گے۔ اور ان سے وقتی ضرورت کو پورا کیا جا سکے گا۔ مگر اصل چیز تو یہ ہے کہ ہر سال مدرسہ احمدیہ میں سو دو سو طالب علم داخل ہوتے رہیں۔
اِس کا دوسرا قدم یہ ہو گا کہ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ہم ایسے ہی مدرسے جاری کریں گے۔ اور پھر مختلف ملکوں میں عرب، مصر، فلسطین، شام اور دیگر ممالک میں اِسی طرز پر اور اِسی کورس پر مدرسے جاری کئے جائیں گے۔ یہاں سےتعلیم مکمل کرنے کے بعد آدمی جائیں گے اور وہاں ایسے مدرسے چلائیں گے۔ تا ان ممالک کی تبلیغی اور تعلیمی ضرورت کےلئے آدمی تیار ہو سکیں۔ تمام ممالک میں ایسے مدرسے ہمیں جاری کرنے ہوں گے۔ حتّٰی کہ یورپ اور امریکہ میں بھی۔ پھر ان میں سے چند منتخب طالب علم یہاں آکر رہیں گے اور مکمل تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہاں جا کر کام کریں گے۔ اور اس طرح مرکز سے گہرا تعلق ان ملکوں کو پیدا ہوتا رہے گا۔ مگر ابھی تو ہندوستان میں بھی ہم انتظام نہیں کر سکتے بلکہ پنجاب کے لئے بھی ہمارے پاس سامان نہیں۔ پنجاب میں ساٹھ ہزار دیہات ہیں۔ اگر اوسطاً ساٹھ دیہات کے لئے ایک آدمی رکھا جائے جو بالکل بے معنی سی بات ہے تب بھی ایک ہزار آدمی چاہیے۔ اور اگر ہر گاؤں کے لئے ایک آدمی رکھا جائےتو ساٹھ ہزار آدمیوں کی ضرورت ہو گی۔ میں تو حیران ہوں کہ جماعت کیا سمجھتی ہے کہ یہ اتنا بڑا کام کس طرح ہو سکے گا۔ کیا دوست سمجھتے ہیں کہ صرف چندے دے دینے سے یہ کام ہو سکے گا؟ جو ایسا خیال کرتا ہے وہ سخت غلطی پر ہے۔ جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے دو چیزوں کے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کی اور عترت کی۔ قرآن کریم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زندہ کر دیا اور عترت کا پیدا کرنا ہمارا کام ہے۔ پس میں قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر والوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے لڑکوں کو دین کے کاموں کے لئے وقف کریں۔
وہ دن عنقریب آنے والا ہے جب ہر قسم کی عزت احمدیت سے وابستہ ہو گی۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے دو سری قومیں چوہڑے چماروں کی طرح کمزور اور تھوڑی رہ جائیں گی۔ اور جو آج قربانی کرے گا وہ کل عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور جو آج غداری کرے گا وہ کوئی عزت نہ حاصل کر سکے گا۔ یہ بات میں نے ایسے لوگوں کے لئے کہی ہے جو دینی امور کو بھی دُنیوی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ورنہ مومن کو دُنیوی عزت کی کوئی پروا نہیں۔ وہ تو اُس چیز کو قبول کرتا ہے جس سے دین کو تقویت حاصل ہو اور اس کی خدمت ہو سکے۔ خواہ اس کے ساتھ دنیا کی ہزار لعنتیں کیوں نہ ہوں اسے دنیا کی لعنتوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ تو خداتعالیٰ کی رضاء کا طالب ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا ایک پیار دنیا کی سب لعنتوں کو دھو دیتا ہے۔
پس میں پھر قادیان کے دوستوں کو بھی اور باہر کے دوستوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ایک تو وہ دیہاتی مبلغوں کے لئے ایسے آدمی دیں جو کم از کم مڈل تک تعلیم رکھتے ہوں۔ اور بیس سے تیس سال تک کی عمر کے ہوں۔ اگر موزوں ہوں تو چالیس سال کی عمر تک کے بھی لئے جا سکتے ہیں۔ دوسرے اپنے مڈل پاس لڑکوں کو مدرسہ احمدیہ میں تعلیم کے لئے بھیجیں۔ اور چونکہ ان سے کام آٹھ سال کے بعد لیا جا سکے گا اس لئے فِی الحال گریجوایٹ اور مولوی فاضل نوجوان آگے آئیں۔ تا ان کو دینی تعلیم دے کر جس قدر جلد ممکن ہو کام شروع کیا جا سکے۔ پس دوست جلد سے جلد اس طرف توجہ کریں تا ہمیں ایسے مبلغ مل سکیں جو دنیا کے کناروں تک احمدیت کو پھیلا دیں اور سلسلہ میں داخل ہونے والے نئے لوگوں کو دینی تعلیم دے سکیں۔ اے میرے رب! تُو لوگوں کے دل کھول دے کہ وہ اس بات کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اور پھر ان کے اندر قربانی کی روح پیدا کر کہ وہ آگے بڑھ کر دین کے لئے اپنی جانیں فدا کریں۔ آمین۔’’ (الفضل مورخہ 10جنوری 1945ء)
1: البیومنریا: (ALBUMINURIA) گُردوں کی بیماری
2: تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ67
3: بخاری کتاب فضائل اَصْحَابِ النّبی ﷺ باب فضائل اَصْحَابِ النبی ﷺ
4: المائدۃ:25
5: کنزالعمال جلد 1صفحہ186 مطبوعہ حلب میں‘‘ اِنِّیْ تَارِکٌ ’’ کے الفاظ ہیں۔
6: سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ126۔ مطبوعہ مصر 1936ء
7: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ129۔ مطبوعہ مصر 1936ء
8: مستدرک حاکم ۔ کتاب معرفۃ الصحابہ رضی اللہ عنہم ذکر سلمان فارسی
جزنمبر3صفحہ691۔ مطبوعہ بیروت 1990ء
9: متی باب 12 آیت 46تا50
10: بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ وآخرین منہم میں ‘‘عِنْدَ الثُّرَیَّا’’ کے الفاظ ہیں۔
2
وقت آگیا ہے کہ انگلستان اور ہندوستان آپس میں صلح کر لیں
(فرمودہ 12جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں نے سالانہ جلسہ کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ آئندہ آنے والے دن دنیا کے لئے نہایت ہی نازک اور سخت معلوم ہوتے ہیں اور جیسا کہ میں اڑھائی سال کا عرصہ ہوا اِس منبر پر ایک خطبہ پڑھ چکا ہوں اور اپنے بعض خواب سنا چکا ہوں دنیا میں ایک اَور جنگ کی بنیاد پڑ رہی ہے۔ میں اُس خطبہ میں کسی ملک کے نام کا اظہار تو نہ کرنا چاہتا تھا مگر غلطی سے بعض نام میرے منہ سے نکل گئے تھے۔ دنیا میں جنگوں کا سلسلہ ابھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ بعض عظیم الشان تغیرات اُن پیشگوئیوں کے مطابق جو بعض سابق انبیاء کی موجود ہیں اور جو رسول کریم ﷺ نے کیں اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی ہیں اور جو شائع شدہ موجود ہیں ابھی دنیا کے لئےاَور فتنے بھی مقدر ہیں۔ میں نے ان خیالات کے ماتحت انگلستان اور ہندوستان دونوں کو نصیحت کی تھی کہ دونوں اپنے سابقہ اختلافات کو بُھلا کر باہم سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں شبہ نہیں کہ میرا ایسی نصیحت کرنا اِس زمانہ میں جبکہ ہماری جماعت ایک نہایت قلیل جماعت ہے بالکل ایک بے معنی سی چیز نظر آتی ہے۔ میری
آواز کا نہ ہندوستان پر اثر ہو سکتا ہے اور نہ انگلستان پر اثرہو سکتا ہے۔ہندوستان تک تو ایک حد تک میری یہ آواز پہنچ بھی سکتی ہے۔ گو زبردست طاقتیں اور زبردست قوتیں اسے سن کر ہنس دیں گی اور کہیں گی کہ لو جی مینڈکی کو بھی زکام ہو گیا۔ یہ چھوٹی سی جماعت جس کی تعداد چند لاکھ سے زیادہ نہیں ہندوستان کو نصیحت کرنے نکلی ہے۔ لیکن انگلستان تک تو میری آواز شاید پہنچنی بھی مشکل ہے۔ سوائے اس کے کہ ہمارے انگلستان کے مبلغ کے ذریعہ کسی حد تک پہنچ سکے۔ مگر میں نے یہ باتیں اس لئے بیان کر دی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ارشاد فرمایا ہے کہ تو اپنی باتیں لوگوں کو سنا دے1 اِس سے اَور نہیں تو ان پر حجت تمام ہو جائے گی۔ سو میں نے بھی یہ باتیں اس لئے بیان کر دیں تا خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا پر حجت تمام ہو جائے اور لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ انہیں وقت پر خطرات سے آگاہ نہیں کیا گیا اور وقت پر صحیح طریق اختیار کرنے کی نصیحت نہیں کی گئی۔ اور دوسرے یہ باتیں میں نے اس لئے بیان کر دی تھیں کہ قرآن کریم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ 2بعض دفعہ کمزور آوازیں بھی اثر پیدا کر دیا کرتی ہیں اور بعض دفعہ اس سے بھی لوگ نصیحت حاصل کر لیا کرتے ہیں۔ خدائی جماعتیں تبلیغی جماعتیں ہوتی ہیں۔ پس اگر ہماری جماعت کے لوگ بیعت کے صحیح مفہوم کو سمجھیں اور اپنے فرائض کو ادا کرنے کا خیال رکھیں تو ضروری ہے کہ امام کی آواز کو ہر احمدی خواہ وہ ہندوستان کا رہنے والا ہو یا انگلستان کا یا امریکہ کا یا افریقہ کا اور یا کسی اَور ملک کا دہرانے لگے گا اور اپنے اپنے حلقہ میں اسے پھیلانے کی پوری کوشش کرے گا اور جب ہر احمدی ایسا کرے گا تو لازمی بات ہے کہ وہ آواز ہزاروں لاکھوں سے گزر کر کروڑوں انسانوں کے کانوں تک پہنچے گی۔ اور ہماری جماعت ہندوستان میں بھی ہے، پنجاب کے اضلاع میں بھی کثرت سے ہے، سندھ میں بھی ہے، صوبہ سرحد میں بھی ہے، یوپی، بہار، سی۔پی، بمبئی، مدراس میں بھی ہے، اڑیسہ میں بھی ہے، بنگال میں بھی ہے اور آسام میں بھی ہے، مختلف ریاستوں میں بھی ہے۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ اور میری آواز کا اثر اگر غیروں پر نہیں ہو سکتا تو اپنی جماعت کے لوگوں پر تو ہو سکتا ہے اور جب جماعت کے لوگ جو ملک کے مختلف صوبوں اور ریاستوں میں پھیلے ہوئے ہیں اگر دیانتداری سے اپنے فرضِ بیعت کو ادا کرنے والے ہوں۔ اگر ان کے تعلقات مخلصانہ ہوں اور وہ وہی آواز دہرائیں جو میرے منہ سے نکلے تو وہ آواز یقیناً لاکھوں انسانوں سے گزر کر کروڑوں کے کانوں تک پہنچ سکتی ہے۔
پھر ہمارے مبلغ اور ہماری جماعت انگلستان میں بھی ہے اور یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ میں بھی مبلغ اور جماعت ہے۔ جنوبی امریکہ میں مبلغ بھی اور جماعت بھی ہے۔ فلسطین میں بھی ، شام میں بھی اور مصر میں بھی ہماری جماعت ہے۔ عراق میں بھی جماعت ہے، سوڈان میں بھی ہماری جماعت ہے۔ مغربی افریقہ کے تین اہم ملکوں میں بھی ہے اور مشرقی افریقہ کے تین اہم ملکوں میں بھی جماعت ہے۔ اور مختلف جزیروں میں بھی ہماری جماعتیں قائم ہیں۔ اور اگر یہ مبلغ اور یہ جماعتیں اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کرنے والے ہوں تو میری آواز دنیا کے ہر ملک میں پہنچ سکتی ہے۔ مبلغ دراصل امام کا لاؤڈ سپیکر ہوتا ہے۔ جس طرح میری یہ آواز دور دور بیٹھے ہوئے لوگوں تک یوں تو نہیں پہنچ سکتی مگر یہ آلہ پہنچا دیتا ہے اِسی طرح مبلغ بھی امام کی آواز کو اُن لوگوں تک پہنچانے والا ہوتا ہے جن تک وہ براہ راست نہیں پہنچ سکتی۔ اور اگر ہمارے مبلغ اپنے فرض کو سمجھیں اور یہ محسوس کریں کہ مبلغ ہونے کی حیثیت سے ہم پر یہ ذمہ داری ہے کہ امام جماعت کے منہ سے جو الفاظ نکلیں ان کو ہر چھوٹے بڑے تک پہنچا دیں اور اس میں زیادہ سے زیادہ اثر پیدا کرنے کی کوشش کریں تو میری آواز کا ہر جگہ پہنچنا آسان ہو جاتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ انگلستان، برٹش ایمپائر کے دوسرے ممالک بالخصوص ہندوستان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ میل جول رکھنے اور اس کے ساتھ صلح کرنے کے لئے پرانے جھگڑوں کو بُھلا دے اور دونوں مل کر دنیا میں آئندہ ترقیات اور امن کی بنیادوں کو مضبوط کریں اور اسی وجہ سے میں نے یہ اعلان کیا تھا۔ نہ اس لئے کہ ایک قلیل جماعت کا امام ہونے کے باوجود مجھے یہ خیال تھا کہ لوگ مجھے بڑا آدمی سمجھتے ہوئے میری نصیحت کی طرف توجہ کریں گے اور آج پھر میں اِسی مضمون کی طرف ان دونوں ممالک کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون بار بار دہرائے جانے کے قابل ہے کیونکہ دنیا کی آئندہ بہتری کا بڑا انحصار اِسی بات پر ہے۔ جہاں تک ہماری جماعت کے انگریزوں سے تعلقات کا سوال ہے لوگ ہمیں انگریزوں کا خوشامدی کہتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہم ایسے نہیں۔ مگر ہم اللہ تعالیٰ کے خوشامدی ضرور ہیں۔ اور جب خداتعالیٰ کی حکمتیں اس کی مقتضی ہوں اور دنیا کی ترقیات اور دنیا کا امن انگریزوں سے وابستہ ہو اور جب خداتعالیٰ نے اس قوم کی کمزوریوں کے باوجود اس میں بہت سی خوبیاں رکھی ہوں تو ہم خداتعالیٰ کی باتوں کو کیسے ردّ کر دیں اور ان کی طرف سے اندھے کس طرح بن جائیں۔ ہماری جماعت کا تعاون ہمیشہ حکومتوں کو حاصل رہا ہے خصوصاً انگلستان کو۔ کیونکہ ہم نے قرآن کریم کی تعلیم سے یہی سمجھا ہے کہ اپنے ملک کی حکومت سے تعاون کرنا چاہیے۔ اس کی راہ میں ہمارے لئے مشکلات بھی پیدا ہوئیں، ہمیں نقصان بھی پہنچے مگر جماعت نے بالعموم ہر حکومت سے تعاون ہی کیا ہے۔
پس ہماری جماعت کا سوال نہیں۔ دوسروں کے جذبات اور احساسات کو مدنظر رکھتے ہوئے مَیں انگلستان کو یہ نصیحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں خواہ میری یہ نصیحت ہوا میں ہی اُڑ جائے۔ اور اب تو ہوا میں اُڑنے والی آواز کو بھی پکڑنے کے سامان پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ ریڈیو ہوا میں سے ہی آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے۔ پس مجھے اس صورت میں اپنی آواز کے ہوا میں اُڑ جانے کا بھی کیا خوف ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے۔ پس میں انگلستان کو نصیحت کرتا ہوں کہ اے انگلستان!تیرا فائدہ ہندوستان سے صلح کرنے میں ہے۔ خداتعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ تم دونوں مل کر کام کرو اور دونوں مل کر دنیا میں امن قائم کرو، دونوں مل کر دنیا میں صحیح آزادی کو قائم کرو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بِلا وجہ ہندوستان میں نہیں بھیجا بلکہ اس لئے بھیجا ہے کہ وہ اس ملک سے بڑے بڑے کام لینا چاہتا ہے۔ بے شک یہ ملک ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحانی غلامی سے محروم ہے اور مذہبی طور پر ہمارے مخالف اس میں کثرت سے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بِلا وجہ اس ملک میں نہیں بھیجا۔ یہ ملک جلد یا بدیر، آج نہیں تو کل ضرور آپ کی غلامی میں آنے والا ہے۔ اس ملک کے لوگ خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان یا کسی اَور قوم و مذہب کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف آنے والے ہیں۔ اور ضرور آکر رہیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جدا نہیں رکھ سکے گی ۔ یہ ملک ایک عظیم الشان مرتبہ کو پہنچنے والا ہے اور اسے ایسی عزت ملنے والی ہے جو ہندوستانیوں کو خواب میں بھی اس سے پہلے نصیب نہیں ہوئی بلکہ یہ ملک ایسی ترقیات حاصل کرنے والا ہے جسے کسی اَور قوم نے خواب میں بھی نہیں دیکھا۔دنیا کی آئندہ ترقیات اس ملک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پس اے انگلستان! تجھے خداتعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ تُو اس ملک کے ساتھ صلح کر لے اور ان ترقیات میں حصہ لے اور برکات کا وارث ہو۔ تجھ پر صدیوں اللہ تعالیٰ نے رحمتیں کی ہیں۔ مگر گزشتہ صدیاں تو خواب ہو جایا کرتی ہیں۔ تیرے لئے موقع ہے کہ تُو آئندہ صدیوں میں اپنے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے کی بنیاد رکھ لے تا تجھ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔ ایک خوش ہندوستان انگلستان کے لئے بہت بڑی برکت اور بہت بڑی طاقت کا موجب ہے۔ خوش ہندوستان میں انگلستان کے لئے امن کے زمانہ میں ایسی وسیع منڈیاں ہیں کہ اسے کہیں اَور ایسی وسیع منڈیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اور جنگ کے زمانہ میں انگلستان کو اتنی بڑی فوج کہیں سے بھی نہیں مل سکتی جتنی خوش ہندوستان دے سکتا ہے۔
عام طور پر کسی ملک کی فوجی طاقت دس بارہ فیصدی سمجھی جاتی ہے۔ مگر ہندوستان چونکہ مدتوں اسلحہ سے محروم رہا ہے اور فوجی روح عام طور پر یہاں مفقود ہے اس لئے اگر 12 فیصدی نہیں چھ فیصدی ہی سمجھیں تو اگر ہندوستان خوشی کے ساتھ تعاون کرے اور اپنے فوائد انگلستان کے فوائد کے ساتھ اور اپنی امنگیں اس کی امنگوں کے ساتھ وابستہ سمجھے تو چالیس کروڑ کی آبادی میں سے دو کروڑ چالیس لاکھ سپاہی دے سکتا ہے۔ اور اتنے سپاہی دنیا کا اور کوئی ملک نہیں دے سکتا اور کوئی حکومت اتنی بڑی فوج بہم نہیں پہنچا سکتی۔ پس ہندوستان بے شک انگلستان کے بادشاہ کے تاج کا کوہ نور ہیرا ہے مگر انگلستان کو چاہیے کہ وقت سے پہلے پہلے اس ہیرے پر پوری طرح قبضہ کر لے مگر محبت اور صلح کے ساتھ اور ہندوستان کو خوش کرکے۔
دوسری طرف میں ہندوستان کو بھی یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی انگلستان کے ساتھ اپنے پرانے اختلافات کو بُھلا دے۔ لوگ ہمیں خواہ انگریزوں کا خوشامدی کہیں خواہ چاپلوسی کرنے والے کہیں مگر اس امر کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور یہ ایک سچائی ہے کہ انگلستان جیسا نرمی کا معاملہ اپنے ساتھ والے ملک سے کرتا ہےاس کی مثال سوائے امریکہ کے اَور کہیں نہیں مل سکتی۔ ہم نے اَور ملکوں کو پھر کر دیکھا ہے اور ہمارے مبلغوں نے دوسری حکومتوں کو دیکھا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ سوائے امریکہ کے کوئی اَور حکومت ایسی نہیں جس کے ماتحت لوگوں کو ایسے آرام اور سُکھ کے سامان میسر ہوں جیسے برطانیہ کے ماتحت ہیں۔ پس میں ہندوستان کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اے ہندوستان! پیشتر اس کے کہ تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں، تُو ظالم بھیڑیوں کا شکار ہو جائے یا تیرے کُھلے دروازوں میں سے غنیم3 اندر گھس آئے تُو انگلستان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھا کہ یہی ملک ہے جو تیری سب سے زیادہ مدد کر سکتا ہے۔ تیری آزادی اور تیری حفاظت کے لئے اتنی قربانی کر سکتا ہے جتنی اس سے دُگنی آبادی رکھنے والے ممالک بھی کبھی کرنے کو تیار نہیں ہو سکتے۔ تاریخ میں اس کی بہت ہی کم مثالیں ہیں کہ انگلستان نے کبھی اپنے ساتھیوں کو چھوڑا ہو۔ کہا جاتاہے کہ وہ فوائد اُٹھاتا ہے مگر دنیا میں کون ہے جو فائدہ نہیں اٹھاتا؟ کیا دوست دوست سے فوائد نہیں حاصل کرتے؟ کیا مائیں اپنے بچوں سے فوائد حاصل نہیں کرتیں؟ کیا باپ اپنے بیٹوں سے اور بھائی بھائیوں سے فوائد حاصل نہیں کرتے؟ اور جب دوست دوست سے، ماں باپ اولاد سے اور بھائی بھائیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو اگر انگلستان نے ایمپائر کے دوسرے ممالک سے فوائد حاصل کرلئے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے۔ اگر ہر قوم اور ہر ملت میں دوست دوست سے، ماں باپ اولاد سے اور بھائی بھائی سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اگر انگلستان اپنے ساتھ والے ملکوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس پر اس وجہ سے کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک وہ فائدہ اٹھاتا ہے مگر فائدہ پہنچاتا بھی تو ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خطرہ کی حالت میں جس قسم کی مدد اپنے ساتھ والے ملکوں کی انگلستان نے کی ہے کبھی کسی نے نہیں کی۔ انگلستان ہر دفعہ ایسی ہی جنگ میں کُودا ہے کہ جس میں سے اس کے بچ نکلنے کے امکانات بہت کم ہوتے تھے۔ مگرہمیشہ خداتعالیٰ نے غیر معمولی طاقتوں سے اس کی مدد کی ہے اور اسے بچا لیا ہے۔
میں نے انگریزوں کے بعض مخالفوں کے سامنے یہ بات پیش کی ہے کہ اَور باتوں کو جانے دو صرف اِتنی ہی بات بتاؤ کہ اس کی وجہ کیا ہے کہ گزشتہ کئی صدیوں میں جب بھی انگلستان کسی جنگ میں کُودا وہ ایسے خطرات میں مبتلا ہو گیا کہ اس کے مارے جانے میں بہت کم شبہ باقی رہا مگر پھر ایسے غیر معمولی حوادث پیدا ہوئے کہ وہ بچ گیا۔ اگر اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہیں کرتا تو یہ غیر معمولی حوادث کیونکر پیش آجاتے رہے ہیں۔ اسی لڑائی میں دیکھ لو۔ فرانس کے کُچلے جانے کے بعد اگر ہٹلر انگلستان پر حملہ کر دیتا تو انگلستان کے پاس اپنی حفاظت کا کوئی سامان نہ تھا حتّٰی کہ رائفلیں بھی پوری نہ تھیں۔ اور جس طرح انگریزی فوج کی پرانی رائفلیں بعض اوقات حکومت ریاستی فوجوں کو دے دیتی ہے یا پٹھانوں کے پاس فروخت کر دی جاتی ہیں اسی طرح اس انگلستان نے جو اسلحہ میں دنیا کی رہبری کر رہا تھا امریکہ سے پرانی مستعمل اور متروک رائفلیں قرض مانگیں۔ اور اس قسم کا نظارہ تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظر نہیں آتا۔ اور اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آسکتی کہ ہٹلر نے اس وقت کیوں انگلستان پر حملہ نہ کیا۔ وہ کس چیز سے ڈر رہا تھا کہ حملہ نہیں کرتا تھا۔ کہتے ہیں وہ برطانوی بحری بیڑے سے ڈرتا تھا مگر یہ بیڑا خود اس کے بعد جن حالات سے گزرا ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ جرمنوں کو روکنے کے لئے کافی طاقتور نہ تھا۔ یہ صرف وہ رعب اور ڈر تھا جو خداتعالیٰ نے ہٹلر کے دل میں پیدا کر دیا اور جس کی وجہ سے اس نے انگلستان پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انگلستان سے ایک بہت بڑا کام لینا ہے۔ جب تک یہ اس کام کو نہ کرلے گا خداتعالیٰ اسے کمزور نہ ہونے دے گا۔ الٰہی نوشتوں نے ازل سے اس کے ذمہ ایک اتنا بڑا کام لگایا ہے کہ جتنا بڑا کام آج تک اس نے نہیں کیا۔ اور جب تک وہ اس کام کو نہ کر لے گا کوئی طاقت اسے تباہ نہیں کر سکتی۔ اور اس کام کے کر لینے کے بعد امید ہے کہ اللہ تعالیٰ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعائیں کی ہیں اور آپ کی پیشگوئیاں بھی ہیں اسے سچا مذہب اختیار کرنے کی توفیق دے دے گا۔ اور پھر آئندہ صدیوں تک اس طرح اسے ایک نئی زندگی مل جائے گی۔
پس یہ خیال کہ انگلستان اپنے ساتھی ممالک کے ساتھ خود غرضی کے ماتحت سلوک کرتا ہے غلط ہے۔ بے شک وہ ان ممالک سے فائدہ اٹھاتا ہے مگر کون ہے جو فائدہ نہیں اٹھاتا۔ اپنے فائدہ کو تو ہر کوئی مدنظر رکھتا ہے۔ اگر ہندوستان کا تاجر انگلستان کے کسی تاجر سے کوئی چیز منگواتا ہے تو کیا اس لئے منگواتا ہے کہ نقصان اٹھائے؟ وہ اس لئے منگواتا ہے کہ اسے فائدہ حاصل ہو۔اور انگلستان کا تاجر اگر بھیجتا ہے تو اس لئے کہ اُسے فائدہ ہو۔ دونوں کے مدنظر فائدہ ہوتا ہے۔ پس یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں دونوں کو چاہیے کہ اس امر کو یاد رکھیں کہ صلح اور جنگ دونوں صورتوں میں جو فوائد انگلستان کو ہندوستان سے پہنچ سکتے ہیں وہ کسی اَور ملک سے نہیں پہنچ سکتے۔ اور ہندوستان کو جو مدد انگلستان سے مل سکتی ہے وہ کسی اَور ملک سے نہیں مل سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان بغیر ایک زبردست طاقت کی مدد کے ابھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ابھی اسے دسیوں سال چاہئیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے۔
پس مَیں پھر دونوں کو نصیحت کرتا ہوں باوجود یہ جاننے کے کہ اس معاملہ میں میری نصیحت ہوا میں اُڑنے والی چیز ہے۔ مگر اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ کبھی ایک کمزور آواز بھی اثر پیدا کر دیا کرتی ہے۔ اور پھر اس بات پر یقین رکھتے ہوئے کہ سچی بات کا پہنچانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ تا قوموں پر حُجت تمام ہو سکے۔ اور بعد میں ان کے دلوں میں ندامت اور شرمندگی پیدا ہو کہ وقت پر ہم نے نصیحت کو کیوں نہ مانا۔ میں پھر یہ آواز اٹھاتا ہوں کہ انگلستان اور ہندوستان اپنے اختلافات بُھلا کر آپس میں جلد از جلد صلح کر لیں۔ یہ صحیح ہے کہ ہماری جماعت کو سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں مگر یہ بات جو میں اب کہنے لگا ہوں سیاسی نہیں بلکہ اخلاقی ہے۔ اور دنیا میں صلح اور امن کی بنیادوں کے قائم ہونے کا موجب ہے۔ دنیا میں صلح کی سکیم اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک کہ ہندوستان کی مختلف قومیں آپس میں صلح نہ کر لیں۔ اگر انگلستان ہندوستان سے صلح کرنا بھی چاہے تو موجودہ صورت میں کس سے کرے۔ کیا ہندوؤں سے وہ صلح کرے؟ مگر کیا مسلمان ہندوستان کے باشندے نہیں ہیں؟ پھر کیا وہ مسلمانوں سے صلح کرے؟ تو کیا ہندو اس ملک میں نہیں رہتے؟
پس ضروری ہے کہ ہندوستان کی مختلف قومیں آپس میں صلح کریں۔مسلمان و ہندو، کانگرس و مسلم لیگ اور دوسری سیاسی پارٹیاں پہلے آپس میں صلح کریں۔ موجودہ حالات میں ہندوستان کی قوموں کے آپس میں اختلافات ایسی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ دماغوں کو سکون نصیب نہیں اور جب صلح کے سوال پر غور کرنے کے لئے بیٹھتے ہیں تو غصہ میں آجاتے ہیں۔ اختلافات اتنے شدید ہیں کہ ان کو دور کرنا ہر قوم کو موت نظر آتا ہے۔ مگر بعض اہم زندگیاں بعض اعلیٰ درجہ کی زندگیاں اور بعض پائیدار زندگیاں موت سے گزرنے کے بعد ہی حاصل ہوا کرتی ہیں۔ یعنی جب تک ہندوستان کی مختلف قومیں اس موت کو قبول نہ کریں گی انہیں دائمی اور پائیدار زندگی حاصل نہیں ہو سکتی۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہندوستان کے رہنے والے یہ محسوس کریں کہ خداتعالیٰ نے ان کے لئے ترقی کے رستے کھول دیئے ہیں۔ اگر وہ آج ان سے فائدہ اٹھائے تو اسے ایسی قوت حاصل ہو سکتی ہےکہ اس کی آواز دنیا میں زیادہ سے زیادہ وزنی قرار دی جانے والی آواز بن سکتی ہے۔ وہ موقع ترقیات کا جو آج ہندوستان کو مل رہا ہے وہ اس ملک کے پہلے لوگوں کو کبھی نصیب نہیں ہوا۔ صرف ہاتھ لمبا کرنے کی دیر ہے اور اس امر کی ضرورت ہے کہ ہاتھ کی وہ انگلیاں جو ٹوٹی ہوئی ہیں ایک دوسری کےساتھ جڑ جائیں۔ اِس وقت تو یہ حالت ہے کہ اگر ہندوستان کو ایک ہاتھ قرار دیا جائے تو اس کی انگلیاں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ ہندو، مسلمان ، سکھ، عیسائی اور دوسری قومیں اس ہاتھ کی انگلیاں ہیں جو ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اور تم کسی چیز کو انگلیوں کے بغیر نہیں پکڑ سکتے۔ انگلیوں پر بغیر کسی دوسرے کی مدد سے تم کسی چیز پر بوجھ تو ڈال سکتے ہو مگر کسی چیز کو پکڑ نہیں سکتے۔ پکڑنا اور گرفت کرنا انگلیوں کے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک تمام انگلیاں ہتھیلی کے ساتھ جڑ نہ جائیں اِس ملک کو وہ عظیم الشان کامیابیاں حاصل نہیں ہو سکتیں جو سامنے دکھائی دے رہی ہیں اور صرف ہاتھ بڑھانے سے حاصل ہو سکتی ہیں۔ اِس وقت ہندوستان میں جو سیاسی فساد پھیلا ہوا ہے وہ ہم پر بھی اثر انداز ہوتا ہے گو ہماری جماعت سیاسی جماعت نہیں ہے اِس وقت پنجاب میں ہندو مسلم اختلافات کے علاوہ مسلمانوں میں آپس میں بھی اختلافات ہیں۔ مسلم لیگ اور زمیندارہ لیگ کا ایک نیا جھگڑا شروع ہو گیا ہے گویا پہلے جو اختلافات تھے وہ کافی نہ تھے۔ اتحاد کا جامہ جتنا چاک تھا اب اس کی دھجیاں اَور بھی اڑائی جا رہی ہیں۔ وہ دھجیاں ہماری تسلی کا موجب نہیں ہو سکتی تھیں۔ جب تک کہ جامہ کی تار تار الگ نہ ہو جائے اور اتحاد کے سُوت کا ہر دھاگا علیحدہ علیحدہ نہ ہو جائے اُس وقت تک چین نہیں آسکتا تھا۔ زمانہ تو یہ تھا کہ ہندو مسلمان اور دوسری قومیں بھی ایک دوسرے سے صلح کر لیتیں۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ مسلمان مسلمان آپس میں لڑ رہے ہیں اور اسی طرح خواہ اوپر سے نظر نہ آئے ہندو ہندو بھی آپس میں پھٹ رہے ہیں۔ اور اتحاد کی طرف قدم اٹھانے کے بجائے اختلافات کو بڑھایا جار ہا ہے۔
ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے اور ہمارا کام سیاسی خیالات کو تقویت دینا نہیں بلکہ یہ ہے کہ اگر سیاست کے خیالات ہمارے دل میں پیدا ہوں تو ان کو کُچل دیں۔ مگر ہم پر بھی یہ اختلافات اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ ایک طرف سے مجھے خط آتا ہے کہ بعض لوگ آتے اور ہم پر زور دیتے ہیں کہ مسلم لیگ میں شامل ہو جاؤ۔ بتائیں ہم کیا جواب دیں؟ اور دوسری طرف سے خط آتا ہے کہ سرکاری افسر بلاتے ہیں وزراء آتے ہیں اور زور دیتے ہیں کہ زمیندارہ لیگ میں شامل ہو جاؤ۔ ہم ان کو کیا جواب دیں؟ گویا ہم سیاسیات سے بھاگتے ہیں اور سیاسیات ہماری طرف بھاگی آتی ہیں۔ بعض دفعہ انگریز حکام نے مجھ سے کہا ہے کہ آپ کی جماعت کو سیاسیات سے کیا واسطہ؟ کشمیر کی تحریک کے دنوں میں لارڈ ولنگڈن نے خو دمجھے کہا کہ آپ کی جماعت مذہبی ہے آپ کو سیاسیات سے کیا واسطہ ہے؟ اور اس میں شک نہیں کہ ہماری جماعت مذہبی جماعت ہے اور خدا کرے کہ ہماری توجہات اور کسی طرف نہ پھریں۔ ہم اگر کسی اَور طرف متوجہ ہوں تو یہ بہت بڑی کمزوری ہو گی۔ بلکہ بڑی غداری اور بے ایمانی ہو گی اگر ہم اپنی توجہات کو کسی اَور طرف پھیریں۔ مگر ہم اس بات کا کیا علاج کریں کہ ہم بھی اِسی دنیا میں رہتے ہیں۔ اور ہماری مثال وہی ہے جو کہتے ہیں کہ دو آدمی نہر کے کنارے جا رہے تھے ایک نے کہا وہ دیکھو کسی کا کمبل نہر میں گر گیا ہے اور بہتا جارہا ہے۔ دوسرے نے اسے پکڑنے کے لئے نہر میں چھلانگ لگا دی کہ اسے لے آئے۔ مگر اس کی بدقسمتی سے وہ کمبل نہ تھا بلکہ سردی سے ٹھٹھرا ہوا ریچھ تھا جو بہا جارہا تھا اور اس کی کھال تھی جسے کمبل سمجھ لیا گیا۔ اس آدمی نے جب اسے پکڑ کر کھینچنا چاہا تو بجائے اِس کے کہ وہ اُس کی طرف کھنچتا ریچھ نے اسے اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ جب دیر ہو گئی تو اس کے ساتھی نے آواز دی کہ اگر کمبل نہیں کھینچا جاتا تو اسے چھوڑ دو اور واپس آجاؤ سفر خراب ہوتا ہے۔ اس پر اس ساتھی نے کہا کہ میں تو کمبل کو چھوڑتا ہوں مگر کمبل مجھے نہیں چھوڑتا۔ یہی حالت ہماری ہے ہم تو سیاسیات کو چھوڑتے ہیں مگر وہ ہمیں نہیں چھوڑتیں۔ ہمارے آدمی مختلف مقامات پر رہتے ہیں کبھی مسلم لیگ والے آکر ان کی گردن پکڑتے اور کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل جاؤ اور کبھی زمیندارہ لیگ والے آکر ان کو کھینچتے ہیں کہ ہم میں شامل ہو جاؤ۔ اور اس کا علاج یہی ہے کہ ان میں باہم صلح ہو جائے اور ہم کہیں کہ تم اپنے گھر میں خوش رہو اور ہمیں آرام سے تبلیغ کا کام کرنے دو۔ جب تک یہ صلح نہ ہو گی ہمارے دوستوں کے لئے جو مختلف دیہات و قصبات اور شہروں میں رہتے ہیں مصیبت ہی مصیبت ہے۔ اِس وقت تو یہ حالت ہے کہ ہم تو کمبل کو چھوڑتے ہیں مگر کمبل ہمیں نہیں چھوڑتا۔
پس میں نے جو آواز بلند کی ہے اگر کوئی احمدی اپنے حلقہ میں کوئی رسوخ رکھتا ہے تو اسے یہی کام کرنا چاہیے کہ اِسی آواز کو بلند کرے اور ہر ایک سے کہے کہ آپس میں صلح کر لو یہ لڑائی کے دن نہیں ہیں۔ اور خوش قسمت ہے وہ شخص جسے کوئی رسوخ حاصل ہو اور وہ اس سے کام لے کر صلح کرانے کی کوشش کرے۔ جو کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالے گا میری دعائیں اُس کے ساتھ ہوں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا وارث ہو گا۔ ہمیں خود بھی ملک میں ایسی فضا کی ضرورت ہے جو سکون کی فضا ہو اور جو ہماری تبلیغی سکیم کی کامیابی میں مُمد ہو سکے۔ وہ زمانہ اب گزر گیا جب مذہبی جماعتیں ہمیں اپنی طرف متوجہ کرتی تھیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے ہمارے تبلیغ کے دائرہ کو اتنا وسیع کر دیا ہے کہ دشمن کے ہاتھ وہاں تک نہیں پہنچ سکتے۔ اب اللہ تعالیٰ نے سب جگہ تبلیغ کے رستے کھول دیئے ہیں اور ہم اب ایک سمجھدار جرنیل کی طرح جو جب دیکھتا ہے کہ ایک محاذ پر دشمن کا مقابلہ شدت اختیار کر گیا ہے تو دوسری طرف اپنا حملہ تیز کر دیتا ہے کام کر سکتے ہیں۔ جب ایک جگہ دشمن حملہ کرے تو ہم رُخ دوسری طرف بدل سکتے ہیں تو یوں ہمیں تبلیغی لحاظ سے مشکلات نہیں ہیں۔ اب نئی قسم کی مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اور وہ یہ کہ ہر ایک ہم کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور جب ہم اس کی طرف نہیں جاتے تو وہ ناراض ہوتا اور ہم کوکمّی قرا دیتا ہے۔ حالانکہ مذہبی لحاظ سے اس میں کوئی شرم کی بات نہیں اور کوئی ہتک نہیں کہ ہم کہیں ہم تو ہر ایک کے کمّی ہیں اور ہر ایک کی خدمت کرنا ہمارا کام ہے۔ ہم زمیندارہ لیگ کے بھی کمّی ہیں اور مسلم لیگ کے بھی کمّی ہیں۔ ہم کانگرس والوں کے بھی کمّی ہیں اور ہندو مہاسبھا والوں کے بھی اور سکھوں و عیسائیوں کے بھی۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے ہمیں سب کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس میں ہمارے لئے عزت ہے کہ سب کی خدمت کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک پرانے صحابی جو ایک زمانہ دیکھے ہوئے تھے اور زمانہ شناس تھے یعنی مولوی برہان الدین صاحب ایک دفعہ گاڑی میں سوار ہونے لگے۔ وہ سادہ طریق کے آدمی تھے معمولی تہہ بند باندھا کرتے تھے اور پھٹا سا کُرتہ اور اوپر معمولی سی لوئی اوڑھے ہوتے تھے۔ گاڑی میں بھیڑ بہت تھی وہ سوار ہونے لگے تو لوگوں نے روکا۔ انہوں نے کہا کہ تھوڑی دور جانا ہے جلدی اُتر جاؤں گا سوار ہو لینے دو۔ آخر لوگوں نے انہیں سوار ہونے دیا۔ جب وہ سوار ہو گئے تو کسی نے ان سےپوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا ہم تو سب کے کمّی ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ تھا کہ ہم احمدی ہیں اور ہمارا کام یہ ہے کہ ہر ایک کی خدمت کریں۔ مگر لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ شخص چوہڑا ہے اور ہندؤوں کو چوہڑوں وغیرہ ادنیٰ درجہ کے لوگوں سے جو نفرت ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سب ہندو یہ لفظ سنتے ہی دُور دُور کِھسک گئے اور تمام بنچ خالی ہو گیا اور مولوی برہان الدین صاحب بڑے مزے سے سوتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ گئے۔ تو یہ حقیقت ہے کہ ہماری عزت اور ہماری ترقی دنیا کی خدمت میں ہی ہے۔ ہمیں روحانی طور پر دنیا کی خدمت کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو بھی اور دنیا کے دوسرے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملا دیں تا دنیا کے لوگوں کے دلوں سےظلم اور تاریکی دور ہو اور ہمارے اپنے دلوں سے بھی دور ہو۔ ہماری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ اپنی بھی اصلاح ہو، ہمسایہ کی بھی اصلاح ہو اور اپنے وطن اور اپنے براعظم اور تمام دنیا کے لوگوں کی اصلاح ہو۔ دنیا کے سب انسانوں کا گند اُٹھانا اور میل کو دُور کرنا ہمارا کام ہے۔ اگر دنیا ہمیں اس کام میں مشغول رہنے دے اور حکومتیں اور بادشاہتیں اپنے پاس رکھے تو ہم سمجھیں گے کہ اس خدمت کا موقع دے کر اس نے ہمیں بادشاہت اور حکومت دے دی ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کی تعلیم کے پھیلے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی ہیں اصل حکومت انہی کی ہے۔ وہ قلعہ جس میں دنیا کو امن مل سکتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو صرف اس کا دروازہ کھولنے والے ہیں۔ دنیا اس امن کے قلعہ سے ناواقف تھی اور ا س امن کے حصار سے باہر تھی اور اسی جگہ کھڑی تھی جہاں اسے درندے کھانے والے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اس حصارِ امن کے دروازے کھول دیئے۔ پس بادشاہت اسی آقا کی ہے جو قرآن کریم دنیا میں لایا اور ہم سب بشمولیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی آقا کے خادم ہیں۔ اگر ہم اپنے حقِ خدمت کو دیانتداری سے ادا کریں اور وہ فرض سرانجام دیں جو خداتعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگایا ہے تو خداتعالیٰ کے حضور عزت کے مستحق ہوں گے۔ لیکن اگر ہم اسے ادا نہ کر سکیں تو خداتعالیٰ ہم پر رحم کرے۔ کیونکہ دنیا نے تو ہمیں دھتکار دیا اگر خداتعالیٰ بھی دھتکار دے تو ہمارا ٹھکانا کہاں ہو گا۔
پس یہ نیا سال جو شروع ہوا ہے اس میں مَیں نے صلح کی آواز بلند کی ہے۔ ہر احمدی کا فرض ہے کہ اسے ہر ملک ہر شہر ہر گاؤں ہر گھر بلکہ ہر ایک کمرہ اور ہر ایک آدمی تک اسے پہنچائے تا یہ دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچ جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صلح کا شہزادہ قرا دیا ہے۔ اور ہم بھی جو آپ کی روحانی اولاد ہیں صلح کے شہزادے ہیں۔ جو اولاد باپ کی صورت پر نہ ہو وہ اس کے نطفہ سے نہیں سمجھی جاتی۔ پس ہر احمدی جو صلح کا شہزادہ بننے کی کوش نہیں کرتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سچا خادم نہیں۔اور آپ کی روحانی اولاد نہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ صلح سے میری مراد وہ صلح نہیں جو عقائد کو قربان کر کے کی جائے۔ جو خداتعالیٰ نے سمجھایا ہے اس پر قائم رہنا ہر ایک کا فرض ہے۔ گو ہم کمزور ہیں، گو ہم میں سے بعض کے لئے دکھوں کی برداشت مشکل ہوتی ہے مگر ہم خداتعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسا ایمان بخشے کہ اگر ہمارا ذرہ ذرہ آروں سے چِیر دیا جائے اور ہماری ہڈیاں ہتھوڑوں سے توڑ دی جائیں پھر بھی ہم ایمان کو نہ چھوڑیں اور ہماری زبانوں پر اُسی کا نام ہو۔ پس ہم وہ صلح چاہتے ہیں جو امن و اطمینان کا موجب ہو مگر جس میں حریتِ ضمیر قائم رہے۔
مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک دفعہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی میرے پاس آئے اور کہا کہ خواجہ کمال الدین صاحب صلح کرنا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لئے انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپس میں صلح ہو جائے۔ یہ خلیفہ اول کا زمانہ تھا۔ خواجہ صاحب ابھی ولایت نہ گئے تھے اور مسئلہ خلافت کے بارہ میں اختلاف پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ شیخ صاحب نے مجھے کہا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے اور صلح کا عمدہ موقع ہے ان کے اپنے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے ضرور صلح کر لینی چاہیے۔ میں نے کہا شیخ صاحب! صلح واقعی بہت اچھی چیز ہے میں بھی بہت خوش ہوں گا اگر جھگڑا مٹ جائے۔ مگر شیخ صاحب اگر تو جھگڑا کسی دنیوی امر کے بارہ میں ہے تو آپ خواجہ صاحب کو جا کر کہیں کہ وہ جو کچھ بھی لکھ دیں گے میں اُس پر دستخط کر دوں گا اور مان لوں گا۔ لیکن اگر اختلاف مذہبی عقائد کا ہے تو چاہے زمین و آسمان ٹل جائیں میں جب تک ایک عقیدہ کو درست سمجھتا ہوں اُسے ہرگز چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں گا۔ تو صلح وہی ہے جو خداتعالیٰ سے صلح کرا دے۔ یوں تو ہمارے پاس کوئی ریاست بھی نہیں لیکن اگر بادشاہتیں بھی ہوں تو ہم ان کو بڑی خوشی سے چھوڑ دیں گے لیکن وہ عقیدہ ہرگز نہ چھوڑیں گے جس پر خداتعالیٰ نے ہمیں قائم کیا ہو۔
پس میں اپنی طرف سے دنیا کو صلح کا پیغام دیتا ہوں۔ میں انگلستان کو دعوت دیتا ہوں کہ آؤ اور ہندوستان سے صلح کر لو۔ اور میں ہندوستان کو دعوت دیتا ہوں کہ جاؤ اور انگلستان سے صلح کر لو۔ اور میں ہندوستان کی ہر قوم کو دعوت دیتا ہوں اور پورے ادب و احترام کے ساتھ دعوت دیتا ہوں بلکہ لجاجت اور خوشامد سے ہر ایک کو دعوت دیتا ہوں کہ آپس میں صلح کر لو۔ اور میں ہر قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ جہاں تک دنیوی تعاون کا تعلق ہے ہم ان کی باہمی صلح اور محبت کے لئے تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ اور میں دنیا کی ہر قوم کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ہم کسی کے دشمن نہیں۔ ہم کانگرس کے بھی دشمن نہیں۔ ہم ہندو مہا سبھا والوں کے بھی دشمن نہیں۔ مسلم لیگ والوں کے بھی دشمن نہیں۔اور زمیندارہ لیگ والوں کے بھی نہیں اور خاکساروں کے بھی دشمن نہیں۔ اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ ہم تو احراریوں کے بھی دشمن نہیں ہیں۔ ہم ہر ایک کے خیر خواہ ہیں اور ہم صرف ان کی ان باتوں کو برا مناتے ہیں جو دین میں دخل اندازی کرنے والی ہوتی ہیں ورنہ ہم کسی کے دشمن نہیں ہیں۔ اور ہم سب سےکہتے ہیں کہ ہمیں چھوڑ دو کہ ہم خداتعالیٰ کی اور اس کی مخلوق کی خدمت کریں۔ ساری دنیا سیاسیات میں اُلجھی ہوئی ہے اگر ہم چند لوگ اس سے علیحدہ رہیں اور مذہب کی تبلیغ کا کام کریں تو دنیا کا کیا نقصان ہو جائے گا۔ ہم سیاسیات میں ہرگز دخل دینا نہیں چاہتے۔ احرار سے ہمارے اختلاف کی بنیاد تحریکِ کشمیر ہی تھی۔ مگر اس میں مَیں نے صرف اس لئے حصہ لیا تھا کہ اہلِ کشمیر انسانی حقوق سے محروم تھے۔ لارڈ ولنگڈن نے مجھے کہا کہ آپ کی جماعت مذہبی ہے آپ سیاسیات میں کیوں حصہ لیتے ہیں؟ تو مَیں نے ان سے کہا کہ ہم سیاسیات میں حصہ نہیں لیتے جب تک اہلِ کشمیر کا مطالبہ انسانی حقوق حاصل کرنے کا ہے میں اس تحریک میں حصہ لوں گا۔ اور جب یہ حقوق ان کو مل گئے تو میں اس میں حصہ لینا چھوڑ دوں گا۔ میرے پاس بعض اور ریاستوں کی طرف سے بھی آدمی آئے۔ بعض رؤساء کے آپس میں جھگڑے تھے۔ بعض کی طرف سے میرے پاس آدمی آئے کہ ہمارے پاس فلاں فلاں سامان موجود ہیں جو ہم آپ کو دیں گے آپ کے کام کرنے والے آدمیوں کےاخراجات بھی دیں گے آپ تحریک چلائیں۔ مگر میں نے انہیں یہی جواب دیا کہ میں تو کفر مار ہوں ریاست مار نہیں ہوں۔ میں نے تو کشمیر کی تحریک میں اگر ہاتھ ڈالا ہے تو صرف اس لئے کہ اہلِ کشمیر ابتدائی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ جب یہ حقوق ان کو مل گئے تو کسی سیاسی تحریک سے میرا کوئی واسطہ نہ ہو گا۔ مگر بعض لوگوں نے سمجھا کہ شاید یہ سیاسیات کے میدان میں آگئے ہیں اور ان کی لیڈریاں خطرہ میں ہیں۔ حالانکہ یہ بات نہ تھی۔ ہمارا سیاسیات سے کوئی واسطہ نہیں یہ تو صرف ابتدائی انسانی حقوق کے حصول کا سوال تھا جس کے لئے میں نے کشمیر کی تحریک میں حصہ لیا۔ اور اہلِ کشمیر کو بہت سے حقوق مل بھی گئے اور ابھی باقی ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ بغیر اس کے کہ اللہ تعالیٰ کوئی اَور رَو چلائے مہاراجہ صاحب خود ہی انصاف سے کام لیتے ہوئے یہ حقوق اپنی رعایا کو دے دیں گے۔ ایک تو مذہب کی تبدیلی کا حق ہے جو ملنا چاہیے۔یہ بعض اور ریاستوں میں بھی نہیں۔ مگر یہ بہت ہی ناواجب بات ہے یہ گویا حریتِ ضمیر میں دخل اندازی ہے اور انسانیت کو کچلنے والی بات ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ مہاراجہ صاحب کشمیر خود ہی اپنی نیکی اور صلاحیت کو استعمال میں لاتے ہوئے یہ حق اپنی رعایا کو دے دیں گے۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ وہاں ذبیحہ گاؤ پر بہت شدید سزا دی جاتی ہے اس جرم کی جو سزا وہاں مقرر ہے وہ حد سے زیادہ ہے۔ اس میں بھی اول تو منسوخی ورنہ کم سے کم نرمی کا پہلو انہیں اختیار کرنا چاہیے۔ تا جولوگ بعض دفعہ مجبوریوں کے ماتحت ایسا کرتے ہیں سخت سزا پانے سے محفوظ رہیں۔
بہرحال یہ احرار کی غلطی تھی کہ انہوں نے سمجھا کہ میں سیاسیات کے میدان میں آنا چاہتا ہوں۔ ہمارا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ کام کانگرس، احرار، مسلم لیگ، زمیندارہ لیگ، خاکساروں اور دوسری جماعتوں کو مبارک ہو۔ ہم اپنے حال میں خوش ہیں اورسوائے تبلیغی کام کے ہمیں کسی اور طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ پس میں ہر ایک قوم سے یہی کہتا ہوں کہ ہمیں کسی سے کوئی عِناد نہیں، کوئی دشمنی نہیں اور کوئی بُغض نہیں۔ میں نے بارہا کہا ہے اور اب پھر کہتا ہوں کہ میں نے اپنے دل کو کئی بار ٹٹولا ہے اور دیکھا ہے کہ ہمارے سلسلہ کے سب سے دیرینہ مخالف مولوی ثناء اللہ صاحب ہیں۔ کیا میرے دل میں ان کی عداوت ہے؟ مگر خداتعالیٰ جانتا ہے کہ مَیں نے اپنے دل میں ان کے لئے بھی کوئی عداوت محسوس نہیں کی۔ میں نے آج تک ہر ایک کی عداوت سے اپنے آپ کو بچایا ہے۔ میں کسی کابھی دشمن نہیں گو ساری دنیا میری دشمن ہے۔ مگر مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ اس میں میرے لئے خداتعالیٰ کے عفو اور غفران کی علامت ہے کیونکہ جو کسی کا دشمن نہ ہو پھر بھی اُس سے دشمنی کی جائے تو خداتعالیٰ اس کے گناہوں کے بخشنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔
تو میں نے کہا ہے کہ سیاسیات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں مگر صلح کی بات سیاسیات سے نہیں بلکہ اخلاقیات سے تعلق رکھتی ہے اور ہر احمدی کا فرض ہے کہ مختلف اقوام میں صلح کرانے کی کوشش کرے اور جو لوگ ایسے مقام پر ہیں کہ ان کو کوئی عزت حاصل ہے وہ اگر سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کی عزتیں جاتی رہیں گی تو میں ان سے کہوں گا کہ خدا کے لئے ان عزتوں کو جانےدو۔ جب تک تم ان عزتوں کو نہ چھوڑ و گے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کھوئی ہوئی عزت واپس نہیں آسکتی۔ اگر تم بھی دنیا کے کاموں میں لگ گئے تو یہ کام کون کرے گا ۔ اگر تم میں سے کوئی ڈسٹرکٹ مسلم لیگ کا صدر نہ بنے تو اور ہزاروں ہیں جو بڑے شوق سے بن جائیں گے۔ اگر تم میں سے کوئی زمیندارہ لیگ کا سیکرٹری نہ بنے تو اور ہزاروں لوگ ہوں گے جو اس پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہیں گے اور اس میں اپنے لئے بہت بڑی عزت اور فخر محسوس کریں گے۔ لیکن اگر تم ان کاموں میں لگ گئے تو خداورسول( ﷺ) کا کام کون کرے گا۔ پس ان عزتوں کو جو دنیا کی چند روزہ عزتیں ہیں جانے دو۔ تا محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) کی کھوئی ہوئی عزت واپس آئے۔ آخر اِس دنیا کی زندگی اگلے جہان کی زندگی کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا رکھتی ہے کہ کوئی خیال کرے کہ اگر اس دنیا میں مجھے عزت نہ ملی تو میری زندگی برباد ہو جائے گی۔ اِس دنیا کی زندگی اور اگلے جہان کی زندگی میں اتنی نسبت بھی تونہیں جتنی کہ ایک آدمی اپنی پچاس ساٹھ سالہ عمر میں ایک دفعہ پاخانہ جاتا ہے اوروہاں پاخانہ پونچھتا اور اسے دھوتا ہے ۔کیا یہ وقت جو پاخانہ صاف کرنے اور دھونے پر لگاتا ہے اس کی وجہ سے وہ کہہ سکتا ہے اس کی زندگی برباد ہو گئی؟ اس دنیا کی زندگی آخرت کی غیر محدود زندگی کے مقابلہ میں اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتی جتنی کہ ایک آدمی کی زندگی میں ایک دفعہ پاخانہ جانے میں جو وقت صَرف ہوتا ہے۔ پس اگر اس زندگی میں خداتعالیٰ کے لئے کسی کو کسی عزت سے محروم بھی رہنا پڑے تو اس میں گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں۔ گھبراہٹ اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ اگلی زندگی پر ایمان نہیں ہوتا۔ اس غیر محدودزندگی کے مقابلہ میں چالیس یا پچاس سال کی زندگی کی حیثیت تو اتنی بھی نہیں جتنا کہ ایک دفعہ آدمی کا طہارت کرنے پر وقت صَرف ہوتا ہے۔ اور یہ وقت بادشاہ بھی صَرف کرتے ہیں اور غلام بھی۔ پھر اگر اس دنیا میں عزتیں نہ ملیں تو کیوں کوئی یہ خیال کرے کہ اس کی زندگی برباد ہو گئی۔
میں خدام الاحمدیہ سے بھی اور انصار اللہ سے بھی یہ کہتا ہوں کہ میں نے ان کو سیاسیات سے الگ رہنے کا حکم دیا ہوا ہے مگر یہ آواز جو میں نے بلند کی ہے اس کا سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اخلاقیات سے ہے۔پس وہ جہاں بھی جائیں اور جہاں بھی انہیں موقع ملےاس آواز کو دہرائیں اور ہر قوم کے لوگوں سے یہی کہیں کہ صلح کر لو۔ محبت کےساتھ اپنےاختلافات طے کر لو۔ کانگرس، مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا، زمیندارہ لیگ، اکالی، خاکسار سب کے لئے ان کے پاس یہی الفاظ ہوں اور وہ سب کو یہی کہیں کہ آپس کے جھگڑے محبت کےساتھ طے کر لو۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ صلح کر لو اور پھر ہمیں چھوڑ دو کہ ہم تبلیغ دین کا کام کریں۔ اس مضمون کا دوسرا حصہ بھی ہے مگر اب وقت اتنا ہو گیا ہے کہ اگر میں نے فورًا نماز نہ پڑھائی تو عصر کا وقت ہو جائے گا اس لئے میں اس خطبہ کو اسی پر ختم کرتا ہوں۔ اس کا دوسرا حصہ ا گر خداتعالیٰ نے توفیق دی اور زندہ رہا تو انشاء اللہ اگلے جمعہ میں بیان کروں گا’’۔
(الفضل مورخہ 17جنوری 1945ء)
1: يٰۤاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ )المائدۃ: 68 (
2: القصص:47
3:غنیم: لٹیرا ، ڈاکو،دشمن
3
اپنی اولادیں خدمت دین کےلئے خدا کے سپرد کردو
(فرمودہ 19جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ سیاسی حالات کے لحاظ سے یہ وقت ایسا ہےکہ ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی آپس میں صلح کر لینی چاہیے۔ اور ہندوستان اور انگلستان کو بھی باہمی سمجھوتہ کر لینا چاہیے۔ اور میں نے بتایا تھا کہ ہماری جماعت کو چونکہ سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں اس لئے جہاں میں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہندوستان کی سیاسی پارٹیاں آپس میں سمجھوتہ کرنے کی کوئی صورت نکالیں وہاں میں ان سیاسی پارٹیوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کو وہ سیاسیات سے الگ رہنے دیں۔ کیونکہ ہمارا کام مذہبی ہے اور ہم اپنی زندگیاں اس مطمح نظر کے لئے وقف کر چکے ہیں جو مطمح نظر ہمارے ایمان اور ہمارے یقین کےمطابق خداتعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ دشمن ہمارے عقیدہ اور ہمارے خیال کو تسلیم کرے یا نہ کرے، لوگ ہماری باتوں کو مانیں یا نہ مانیں بہرحال اس بات کو تو وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہر انسان اپنےعقیدہ کے مطابق عمل کرتا ہے۔ پس جبکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی روحانی اور اخلاقی زندگی کا کام ہمارے سپرد کیا ہے تو سیاسی پارٹیوں کو ہماری جماعت پر زور نہیں ڈالنا چاہیے کہ ہم اپنے اس مقصد کو بُھلا کر جو خداتعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے اپنی توجہ کسی اَور طرف پھیردیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت کے لوگ ملازمتیں بھی کرتے ہیں، ہماری جماعت کے لوگ تجارتیں بھی کرتے ہیں،ہماری جماعت لوگ صنعت وحرفت بھی کرتے ہیں، ہماری جماعت کے لوگ زمینداریاں بھی کرتے ہیں اور ہماری جماعت کے لوگ مزدوریاں بھی کرتے ہیں۔ سب کچھ کرتے ہیں لیکن دنیا میں اگر ایک کام مجبوری کےطور پر اور گزارے کے لئے کیا جائے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ چونکہ اصل مقصد کے سوا تم اپنے گزارے کے لئے کام کرتے ہو اس لئے کوئی اَور کام بھی کرو۔ انسان صرف ایک حد تک ہی اپنے اوقات اور اپنی قوتیں خرچ کر سکتا ہے۔ ایک شخص اگر اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے گزارہ کے لئے اپنے اوقات کا ایک حصہ دنیا کمانے پر صَرف کرتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ دنیا کے اَور بھی تمام کام کر سکتا ہے۔ یہ بات ہی غلط ہے کہ ہر انسان، ہر ڈاکٹر،ہر طبیب، ہر صناع، ہر تاجر، ہر زمیندار اور ہر مزدور اپنے گزارہ کے لئے کام کرنے کے علاوہ دوسرے سارے کام بھی کر سکتا ہے۔ پس کسی ایک کام کو معیشت کمانے کے لئے اختیار کرنا اَور بات ہے لیکن یہ کہ ہر شخص دنیا کے سارے کاموں میں حصہ لے یہ بالکل اَور بات ہے۔
پس ہماری جماعت کے سامنے جو مقصد ہے اس کو پورا کرنے کے لئے اسے سیاسیات اور اس قسم کے دوسرے تمام کاموں سے الگ رہنا چاہیے۔ جو کام انسان کے اوقات کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور اسے اہم کام کے قابل نہیں رہنے دیتے۔ سیاسی لوگ سیاسیات میں ہی حصہ لے سکتے ہیں، تعلیم والے تعلیم دینے پر ہی اپنے اوقات صَرف کر سکتے ہیں۔ اور پیشہ ور اپنے پیشہ میں ہی وقت لگا سکتے ہیں اور کسی دوسرے کام کے لئے وقت نکالنا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ اگرممکن ہو سکتا تو ہماری جماعت کو پورے طور پر دین کے کاموں میں لگ جانا چاہیے تھا۔ لیکن چونکہ یہ ناممکن ہے اور ہمارے پاس ایسے ذرائع نہیں کہ ہر انسان کے کھانے پینے اور اس کے گزارہ کا ہم انتظام کر سکیں اور اپنی اس کمزوری کا ہمیں اقرار ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی وہ ایمان پید انہیں ہوا کہ ہر شخص کھانے پینے اور اپنی دوسری دنیوی ضروریات سے بے نیاز ہو کر دین کے کاموں میں لگ جائے۔ اس لئے مجبورً اہماری جماعت کے لوگوں کو کچھ اس کمزوری کی وجہ سے اور کچھ خدائی قانون کے ماتحت اپنے گزارہ کے لئے کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اس کے علاوہ وہ سارے کے سارے اَور کاموں میں بھی لگ جائیں تو اتنی وسیع دنیا میں تبلیغ کا کام کس طرح ہو سکے گا۔ اگر ہم ایمان میں پختہ ہیں، اگر ہمارے اندر یقین اور وثوق ہے، اگر ہم نے دین کا کام کرنا ہے جس کا ہم منہ سے دعویٰ کرتے ہیں تو لازمی بات ہے کہ جب تک ہم اپنے اوقات دین کی خدمت کے لئے نہ لگائیں گے اُس وقت تک ہمارے منہ کے کہنے سے کچھ نہیں بن سکتا اور ہم اس کام سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے ۔
کسی شخص کا ہماری جماعت سے یہ خواہش کرنا کہ ہم سیاسیات میں دخل دیں اور کسی احمدی کا یہ خیال کرنا کہ علاوہ اپنی روزی کمانے کے اور دین کا کام کرنے کے وہ سیاسیات اور دوسرے کاموں کے لئے بھی وقت نکال سکتاہے یہ بالکل غلط ہے۔ اگر واقع میں ایک احمدی سنجیدگی سے غور کرے تو اس کو اپنے تمام اوقات ضرورت کے مطابق اپنی روزی کمانے کے لئے اور باقی دین کے کاموں کے لئے صَرف کرنے چاہئیں۔ آج کل تو کام اتنے ہیں کہ انسان اپنے دنیوی کاموں سے ہی فارغ نہیں ہوتا اور اسے اپنے کام میں اتنی محنت کرنی پڑتی ہے کہ اس کی جان نکل رہی ہوتی ہے۔ پہلے زمانہ میں اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی تھی۔ لیکن اِس زمانہ میں ہر کام میں مقابلہ ہے۔ پہلے زمانہ میں دکاندار دکان پر بیٹھے مکھیاں مارتے تھے لیکن اِس زمانہ میں دکاندار کو اتنی محنت سے کام کرنا پڑتا ہے کہ شام کو جب وہ اپنے کام سے واپس آتا ہے تو تھک کر نڈھال ہو چکا ہوتا ہے۔ اسی طرح پہلے زمانہ میں ملازمین دفتروں میں بیٹھے قلمیں گھڑتے رہتے تھے لیکن اب یہ بات نہیں بلکہ اب ایک ملازم کو مسلسل چھ سات گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے اور جب وہ واپس آتا ہے تو کام کی وجہ سے اتنا چُور ہو چکا ہوتا ہے کہ اسے کچھ دیر آرام کی ضرورت ہوتی ہے اور کچھ وقت اسے گھر کےلیے سَودا سلف لانے پر بھی صَرف کرنا پڑتا ہے۔ پھر اگر دین کے لئے کوئی کام کرنے کی بجائے وہ کسی اَور کام کے لئے چلا جاتا ہے تو وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا کیوں ہے۔ آخر اس نے دین کو کیا فائدہ پہنچایا ہے کہ وہ اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے۔ اگر یہ نوکری کرتاہے تو اس کی طاقت تو اس کی نوکری نے سلب کر لی، اگر یہ پیشہ ور ہے تو اس کی طاقت تو اس کے پیشہ نے سلب کر لی، اگریہ مزدور ہے تو اس کی طاقت تو اس کی مزدوری نے سلب کر لی اور اگر یہ زمیندار ہے تو اس کی طاقت تو اس کی زمینداری اور اس کے ہل چلانے نے سلب کر لی۔ اور یہ اپنے کام سے چُور ہو کر تھکا ماندہ گھر آتا ہے۔ اب اگر کھانے پینے ، آرام کرنے اور سونے کے بعد اس کے پاس گھنٹہ دو گھنٹے نہایت قلیل وقت بچتا ہے جس میں یہ دین کا کوئی کام کر سکے۔ لیکن یہ اُس وقت کو بھی کسی اَور کام میں صَرف کر دیتا ہے تو پھر اسکا اپنے آپ کو احمدی کہنا کیا معنے رکھتا ہے۔ جب اس کے اوقات میں خداتعالیٰ کا کوئی خانہ خالی ہی نہیں تو پھر اس کو خدا کے سپاہیوں میں داخل ہونے کی ضرورت کیا ہے۔
میں دیکھتا ہوں کہ احمدیوں میں ابھی کئی ہیں جن کا ایمان راسخ نہیں کہ وہ اپنے اوقات دین کے لئے صَرف کریں۔ اگران سے پوچھا جائے کہ آپ نے دین کا کیا کام کیا ہے تو ان میں سے بمشکل پانچ فیصدی یا دو فیصدی ایسے ہوں گے جو یہ کہیں کہ ہم نے دین کا فلاں کام کیا ہے۔ باقی سارے کے سارے ایسے ہوں گے جویہ کہیں گے کہ جی فرصت ہی نہیں ملتی کہ کوئی کام کریں۔ پس اول تو یہی حالت نہایت خطرناک ہے کہ جماعت کےا کثر افراد ایسے ہیں جو دین کی خدمت کے لئے وقت نہیں نکال رہے۔ لیکن جو اپنا کچھ وقت دین کی خدمت کے لئے نکال رہے ہیں وہ بھی اگر اپنی توجہ اَور کاموں کی طرف پھیر دیں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ جماعت میں دین کا کام کرنے والا کوئی نہ رہے اور اس کام کے لئے صرف مبلغ رہ جائیں۔ اور جو شخص یہ خیال کرتاہے کہ دین کا کام صرف مبلغوں کے ذریعہ سے ہو سکتا ہے اُس کا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ مبلغ تبلیغ نہیں کرتا تبلیغ کے لئے رستہ صاف کرتاہے۔ مبلغ تبلیغ نہیں کرتا بلکہ تبلیغ کے لئے مصالحہ بہم پہنچاتا ہے۔ تبلیغ کرنے والا جماعت کا ہر فرد ہے۔ رشتہ دار اپنے رشتہ دار کو تبلیغ کر سکتا ہے۔ ہمسایہ اپنے ہمسایہ کو تبلیغ کر سکتا ہے۔ دوست اپنے دوست کو تبلیغ کرسکتاہے لیکن ایک اجنبی دوسرے اجنبی کو کیا تبلیغ کرے گا۔
میں نے بارہا جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے پاس جا کر بیٹھ جائیں اور ان سے جا کر کہیں کہ ہم یہاں سے اُس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک ہم آپ کو اپنی جماعت میں داخل نہ کر لیں اور آپ کو ہدایت نصیب نہ ہو جائے اور یا آپ ہم پر ثابت نہ کر دیں کہ ہم غلط راستہ پر جارہے ہیں۔ اور وہ اپنے اوپر کھانا پینا حرام کر لیتے اور اپنے رشتہ داروں سے جا کر کہتے کہ یا ہم مر جائیں گے اور یا آپ کو ہدایت منوا کر رہیں گے۔ مگر جماعت میں کتنے افراد ہیں جنہوں نے یہ کام کیا ہے؟ بہت ہی کم ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ کی ہے۔ اگر وہ اس طرف توجہ کرتے اور اس طریق پر عمل کرتے تو بہت اچھے نتائج پید اہو سکتے تھے۔ آج ہی مجھے ایک احمدی کا خط آیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ آپ کی بات پر عمل کرتے ہوئے میں اپنے رشتہ داروں کے پاس چلا گیا جو دو میاں بیوی تھے۔ اور ان سے جاکر کہا کہ میں یہاں سے اُس وقت تک نہیں ہِلوں گا جب تک آپ کو ہدایت نہ منوا لوں۔ اب میں یہاں سے تب جاؤں گا کہ یا تو آپ مجھ پر واضح کر دیں کہ میں غلط راستہ پر جا رہا ہوں یا پھر آپ میرے مذہب میں داخل ہو جائیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آخر دونوں نے تیسرے دن بیعت کا خط ارسال کر دیا۔ پس جب آپ لوگوں کے اندر سنجیدگی پائی جائے گی اور آپ کا رشتہ دار یہ سمجھے گا کہ آپ روحانی طور پر مرنے مارنے پر تُلے بیٹھے ہیں تو لازمی بات ہے کہ وہ آپ کی باتوں کو ہنسی مذاق میں ٹالنے کی بجائے ان پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔ اب تو ایک شخص اپنے رشتہ دار کو تبلیغ کرتا ہے تو تھوڑی دیر اس کی باتیں سننے کے بعد اسے کہہ دیتا ہے کہ اچھا جی جاؤ۔ آپ کے لئے آپ کا مذہب اچھا ہے اور ہمارے لئے ہمارا مذہب اچھا ہے۔ اور اس کے بعد یہ شخص واپس آکر اپنے گھر میں بیٹھ جاتاہے۔ لیکن اگر یہ اپنے رشتہ داروں کے پاس جا کر بیٹھ جاتا اور انہیں کہتا کہ میں کس طرح برداشت کر لوں کہ آپ میری آنکھوں کے سامنے جہنم میں جا رہے ہوں اور میں آپ کو بچانے کی کوشش نہ کروں۔ یا میں غلط راستہ پر جارہا ہوں اور آپ مجھے بچانے کی کوشش نہ کریں۔ پس میرے ساتھ فیصلہ کرو تاکہ جو بھی صحیح راستہ ہے اسے دونوں مل کر اختیار کریں۔ اگراس طرح کیا جاتا تو لازمی بات ہے کہ اس کے رشتہ دار اس کی باتوں پر سنجیدگی سے غور کرتے اور ان باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ اور اس کے بعد یقینی بات ہے کہ انہیں ہدایت نصیب ہو جاتی۔
پس ابھی ہماری جماعت میں اس کام کے لئے بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ اور اس بیداری پیدا نہ ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنےمبلغ نہیں جو جماعت کو بیدار کریں اور جو تبلیغ کے لئے نئے نئے رستے تلاش کریں۔ اس کے لئے میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہر ایک جماعت اپنا ایک ایک آدمی قرآن شریف پڑھنے کے لئے یہاں بھیجے۔ مگرمجھے افسوس ہےکہ جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ حقیقی تبلیغ تو قرآن مجید جاننے سے ہی ہو سکتی ہے۔ خداتعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا 1۔یعنی عظیم الشان جہاد قرآن مجید کے ذریعہ سے ہی ہو سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہی نہیں کہ قرآن مجید میں کیا لکھا ہے تو وہ تبلیغ کیا کرے گا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت میں قرآن مجید سیکھنے کا شوق ہے۔ اس دفعہ جلسہ سالانہ کے موقع پر عورتوں میں تقریر کرتے وقت میں نے کہا کہ جو عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہیں وہ کھڑی ہو جائیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کتنی عورتیں ہیں جنہیں قرآن مجید کا ترجمہ آتا ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ ایک دو فیصدی عورتیں قرآن مجید کا ترجمہ جانتی ہوں گی۔مگرمیری حیرت کی حد نہ رہی کہ آٹھ دس فیصدی عورتیں کھڑی ہو گئیں جو قرآن مجید کا ترجمہ جانتی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں قرآن مجید سیکھنے کی خواہش تو ہے مگر جب تک وہ خواہش عملی جامہ نہ پہن لے اُس وقت تک صحیح تبلیغ کس طرح ہو سکتی ہے اور اپنا ایمان کس طرح مضبوط ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید کے معنے ہیں ایمان۔ اور ایمان کے معنے ہیں قرآن مجید۔ بِسْمِ اللّٰہِ سے لے کر وَالنَّاسِ تک سارے قرآن میں ایمان کی تشریح ہے۔ اگر کسی شخص کو قرآن مجید کا پتہ ہی نہیں تو وہ کس طرح کہتاہے کہ اس کے اندر ایمان پایا جاتا ہے۔ ایمان تو قرآن مجید کے مضمون کو ماننے کا نام ہے۔ اگر ایک شخص اپنے کسی دوست سے کہے کہ میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں تم وہ بات مان لو۔ اور وہ اس بات کو سُنے بغیر ہی کہہ دے کہ بہت اچھا میں نے تمہاری بات مان لی ہے تو وہ یقینا معقول آدمی نہ کہلا سکے گا کیونکہ جب اُس نے اس کی بات کو سنا ہی نہیں کہ وہ ہے کیا تو پھر یہ مانتا کس چیز کو ہے۔اِسی طرح اگر ایک شخص قرآن مجید کو پڑھتا نہیں، اس کے مضامین کو اپنے ذہن میں مستحضر نہیں کرتا اور ان پر غور نہیں کرتا تو پھر یہ ایمان کس چیز پر لاتا ہے۔ پس درحقیقت قرآن مجید کو ماننے کا نام ایمان ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر خداتعالیٰ کی طرف سے جو وحی نازل ہوئی۔ اس کو ماننے کا نام ایمان ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے تو اس کے یہی معنے ہیں کہ جو باتیں خداتعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے کہیں اور ان کے متعلق جو تفصیلات رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیان فرمائیں ان سب باتوں کو ہم مانتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں ان تمام باتوں کو مانتا ہوں لیکن وہ ان باتوں کو پڑھتا نہیں اور اسے معلوم نہیں کہ وہ کیا باتیں ہیں جنہیں وہ مانتا ہے۔
پس ہماری جماعت اگر صحیح معنوں میں تبلیغ کرنا چاہتی ہے، اگر ہماری جماعت اپنے نفس کی اصلاح کرنا چاہتی ہے اور اگر ہماری جماعت اپنی روحانیت کو درست رکھنا چاہتی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کا قریب ترین مقصد یہ ہو کہ سو فیصدی احمدی قرآن مجید جانتے ہوں۔ جب ہم اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے تب یہ امید ہو سکے گی کہ ہم اپنی اور اپنے گرد و پیش کی اصلاح کر سکیں۔ جب تک ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے اُس وقت تک نہ ہم اپنے شیطان کو قتل کر سکتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کے کفر کو دور کر سکتے ہیں۔ اس کے لئے میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہر ایک جماعت میں سے ایک ایک آدمی یہاں آئے اور یہاں سے قرآن مجید پڑھ کر واپس جائے اور جا کر دوسروں کو پڑھائے ۔مجھے افسوس ہے کہ اس طرف توجہ پیدا نہیں ہوئی۔ میں نے کہا ہوا ہے کہ ہر ناظر کا کام ہے کہ جب مَیں خطبہ میں کسی کام کی طرف توجہ دلاؤں تو جس صیغہ کے ساتھ اُس کام کا تعلق ہو اُس صیغہ کا ناظر اس کے مطابق کام شروع کر دے۔ لیکن محکمہ تعلیم نے سُستی کی ہے اور اِس کام کو شروع کرنے کا کوئی انتظام نہیں کیا۔ پس نظارت تعلیم کو چاہیے کہ اس کام کے لئے وہ ایک مہینہ مقرر کرے۔ اور پھر جماعتوں میں اخبار کے ذریعہ اور مبلغوں اور انسپکٹروں کے ذریعہ تحریک کریں کہ اس مہینہ میں ہر ایک جماعت اپنا ایک ایک آدمی قرآن مجید پڑھنے کے لئے یہاں بھیجے۔ جو یہاں سے سارا قرآن مجید یا آدھا یا دس پارے پڑھ کر واپس چلے جائیں اور اپنے اپنے ہاں واپس جا کر دوسروں کو پڑھائیں اور ہر سال یہ سلسلہ جاری رہے۔ پھر مبلغوں اور بیت المال کے انسپکٹروں کا یہ کام ہو کہ جس جس جماعت میں وہ جائیں وہاں جا کر دیکھیں کہ جو آدمی یہاں سےپڑھ کر گئے تھے انہوں نے آگے کتنے آدمیوں کو قرآن مجید پڑھایا ہے۔ اگراس سکیم پر عمل کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ چند سالوں کے اندر اندر ہماری جماعت کے لوگ قرآن مجید جاننے لگ جائیں گے اور جب وہ قرآن مجید جاننے لگ جائیں گے تو پھر ان کی تبلیغ بھی مؤثر ہو سکے گی اور ان کے اپنے ایمان بھی کامل ہو سکیں گے۔
دوسری چیز جس کے متعلق مَیں نے اس جلسہ پر بھی اعلان کیا تھا اور بعد میں خطبہ جمعہ میں بھی جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ علماء پیدا کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ کثرت کے ساتھ طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں۔ اور میں نے بتایا تھا کہ یہ کام بہت اہم اور بہت لمبا ہے۔ اگر ایک مڈل پاس طالب علم آج مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہے تو دس سال میں اس کی تعلیم مکمل ہو گی۔ گویا اگر ہم آج درخت لگائیں تو دس سال کے بعد ہمیں پہلا پھل ملے گا۔ اگر آج تین طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو اس کے معنے ہیں کہ دس سال کے بعد ہمیں تین مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے۔ یہ کتنا ڈرنے کا مقام ہے اُس قوم کے لئے جو دس سال کے بعد تین مبلغ تیار کرے۔ وہ قوم تبلیغ نہیں کرتی بلکہ سُستی کر کے اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودتی ہے۔ اگر آج دس طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو دس سال کے بعد دس مبلغوں کے تیار ہونے کی امید ہو سکتی ہے اور آج سے بیس سال بعد سَو مبلغوں کے تیار ہونے کی امیدہو سکتی ہے۔ مگر ہمیں تو ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے۔ بیس سال کے بعد سَو مبلغوں سے کام کس طرح ہو سکتا ہے۔ ہماری تو جماعتیں ہی کئی ہزار ہیں۔ ہندوستان میں آٹھ سَو سے اوپر تو ہماری انجمنیں ہی ہیں۔ اور ایک ایک انجمن میں کئی کئی گاؤں شامل ہیں۔ بعض انجمنیں ایسی ہیں جن میں پندرہ پندرہ بیس بیس گاؤں شامل ہیں۔ تو اگر ہم صرف احمدی گاؤں میں ہی مبلغ رکھیں تو ہزارہا گاؤں میں احمدی ہیں جن کے لئے ہمارے پاس ہزاروں مبلغ ہونے چاہئیں۔ اور پھر اس تعداد سے بہت زیادہ علاقے ہماری تبلیغ سے باہر رہ جائیں گے جہاں کوئی احمدی نہیں۔ تو یہ ہزاروں مبلغ تبھی پیدا ہو سکتے ہیں اگر ہم سو یا دو سو طالب علم ہر سال مدرسہ احمدیہ میں داخل کریں۔ اگر ایک سو طالب علم ہر سال مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں اور ان میں سے کوئی فیل نہ ہو، کوئی بیمار نہ ہو، کوئی تعلیم نہ چھوڑے اور سارے کے سارے پاس ہو جائیں تو پھر دس سال کے بعد ہمیں سَو مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے۔ اور بیس سال کے بعد ایک ہزار مبلغوں کی امید ہو سکتی ہے۔ میرا دل تو یہ قیاس کر کے بھی کانپ جاتا ہے کہ بیس سال کے بعد صرف ایک ہزار مبلغ تیار ہوں۔ کیونکہ بیس سال میں تو دنیا تہہ و بالا ہو جانے والی ہے۔ اور ایسے ایسے عظیم الشان تغیرات پیدا ہونے والے ہیں کہ ہم میں سے جو اُس وقت زندہ ہوں گے وہ دیکھیں گے کہ آج سے بیس سال بعد دنیا بالکل بدلی ہوئی ہو گی۔ خدا اور خدا کے فرشتے ایک طرف ہیں اور شیطان اور شیطان کے لشکر دوسری طرف ہیں اور ان کے درمیان جنگ ہو رہی ہے۔ اور آج سے بیس سال بعد یا اسلام کی داغ بیل ڈالی جا چکی ہو گی (اِنْشَاءَ اللہ) اور یا کفر اسلام کی جڑوں کو اکھاڑ کر پھینک چکا ہو گا (اَلْعِیَاذُ بِاللہ) دہریت دوڑتی ہوئی دنیا میں پھیلتی جارہی ہے اور اس کے مقابلہ میں جس طرح ربڑ کو کھینچ کر چھوڑ دیں تو وہ سمٹ جاتی ہے اسلام پیچھے ہٹ رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ اصل چیز تو آخری فیصلہ ہے اور آخری فیصلہ کے لئے لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر جب کسی انسان پر غرغرہ اور نزع کی حالت طاری ہو جائے اور وہ اشاروں سے باتیں کرنے پر آجائے تو پھر اس کی زندگی قابلِ اعتبار نہیں ہوتی۔ پھر تو وہ آگے موت کی طرف ہی جاتا ہے۔ پس آخری فیصلہ کو جانے دو۔ اُس وقت تو تمام امیدیں ختم ہو جاتی ہیں اور تمام کوششیں بے کار ہوتی ہیں۔ انسان کی کوششیں تو اسی حالت میں کارآمد ہو سکتی ہیں جب اُسے حیات کی امید ہو اور وہ یہ سمجھ کر کام کرے کہ یا تو مَیں زندگی حاصل کر کے رہوں گا اور یا پھر مجھ پر موت آجائے گی۔
پس موت و حیات کی کشمکش میں کی ہوئی کوششیں ہی کار آمد ہو سکتی ہیں۔ اور وہ یہی چند سال ہیں اور ان چند سالوں کےاندر ایسے ایسے عظیم الشان تغیرات ہونے والے ہیں کہ اگر اس عرصہ کے اندر اندر ہماری طرف سے اسلام کو دنیا پر غالب کرنے کی پوری پوری کوشش نہ کی گئی تو اس کا نتیجہ ہمارے حق میں نہایت خطرناک ہو گا اور ہم آپ اپنی موت کو بلانے والے ہوں گے۔ پس اگر ہر سال ایک سو طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تو بیس سال کے بعد ہمیں ایک ہزار مبلغ ملنے کی امید ہو سکتی ہے جو قلیل ترین تعداد ہے۔ کیونکہ ساری دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے۔ اور پھر یہ اندازے بھی تو صرف خیالی ہیں واقع میں تو ہمارے پاس ایک سومبلغ بھی موجود نہیں۔ پچھلے سے پچھلے سال صرف تین طالب علم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے اور پچھلے سال سات طالب علم داخل ہوئے تھے۔ ان تین تین اور سات سات لڑکوں کے داخل ہونے سے کیا بن سکتا ہے۔ اور تین تین یا سات سات مبلغوں کے تیار ہونے سے ہم ساری دنیا میں کیا تبلیغ کر سکتے ہیں۔ اس سے تومعلوم ہوتاہے کہ ہماری جماعت کا بیشتر حصہ تبلیغ کوگداگروں، بھک منگوں اور بھوکوں کا کام سمجھتا ہے جن کو اور کوئی کام نہ ہو۔ اگر یہی سُستی رہی، اگر یہی غفلت رہی، اگر یہی افکار رہے کہ دین کے کام کرنا غریبوں کا کام ہے اور امراء دین کے کاموں سے غافل رہے تو یہ چیز خداتعالیٰ کے عذاب کوبلانے کا موجب ہو گی۔ اور دنیا ختم نہیں ہو گی کہ کفار کو مارنے کی بجائے خداتعالیٰ کے فرشتے پہلے ایسے لوگوں کو چُن چُن کر ماریں گے جو دین میں داخل ہوئے مگر پھر دین کی کوئی پرواہ نہ کی اور دین کی خدمت کے لئے کوئی کام نہ کیا۔
آخر تم کیا سمجھتے ہو کہ دین کی خدمت کا کام کس نے کرنا ہے۔ اگر تم اپنی آمدنی کا سولہواں حصہ دے کر یا دسواں حصہ دے کر یا پانچواں حصہ دے کر یہ سمجھتے ہو کہ تم نے دین کی خدمت کر لی تو یہ غلط خیال ہے۔ دین کے لئے تمہیں یہ چیز بھی دینی ہو گی اور اپنی جانیں بھی دینی ہوں گی۔ اور جانیں دینے کا بہترین طریق یہ ہے کہ اپنی اولادوں کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرو۔ کیا یہ خدا سے مذاق نہیں کہ تم اس کے دین میں داخل ہو کر پھر دین کی خدمت سے جی چُراتے ہو اور پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہو۔ کیا تم خدا سے مذاق کر کے اس کے عذاب سے محفوظ رہ سکتے ہو؟ جب تم دنیا کے کسی بادشاہ سے مذاق کر کے اس کی سزا سے محفوظ نہیں رہ سکتے تو خداتعالیٰ سے مذاق کر کے پھر تم اس کے عذاب سے کس طرح محفوظ رہ سکتے ہو۔ مگر یہ کتنا مذاق ہے کہ تم خدا کے دین میں داخل ہوتے ہو اور اس کے بعد دین کی خدمت سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے ہو۔
میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سےکئی ایسے ہیں جو پہلے اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں اور پھر بھاگ جاتے ہیں اورکہتےہیں کہ جی !ہم نے غلط سمجھا تھا۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ وقف کیا ہے۔ رات کومیرے پاس ایک شخص کا خط آیا جس میں اس نے لکھا ہے کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ وقف کرنے میں اتنی تنگی ہو گی۔ میں نے اس کا غلط مفہوم سمجھا تھا میں اپنا وقف واپس لیتا ہوں۔ حالانکہ وقف کرتے وقت جس فارم پر دستخط کئے جاتے ہیں اُس میں یہ سب باتیں لکھی ہوتی ہیں کہ میں ہر قسم کی تنگی اور ہر قسم کی تکلیف برداشت کروں گا اور گزارہ کے لئے جو کچھ مجھے دیا جائے گا اسے میں انعام سمجھوں گا اور اسی میں گزارہ کروں گا۔ اور گزارہ نہ بھی ملے تب بھی اپنا پیٹ پالنے کے لئے خود کوئی انتظام کروں گا۔ اب یہ ایمان ہے یا بے ایمانی اور کفر ہے کہ پہلے ایک شخص اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ میں دین کی خاطر ہر طرح کی تکلیف برداشت کروں گا مگر پھر پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ اور پھر یہ بھی کتنے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے ان کی تعداد بھی تو تسلی بخش نہیں۔ ظفر کا ایک شعر ہے۔
عجب طرح کی ہوئی تسلی جو بار اپنا گدھوں پہ ڈالا
میں تو سمجھتا ہوں کہ یہی حال ہماری جماعت کے ایک حصہ کا ہے کہ وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کرنا مبلغوں کا کام ہے۔ ہم اس کام سے آزاد ہیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ خداتعالیٰ تم سے تمہاری جانوں کا مطالبہ کرتا ہے اور وہ اس صورت میں کہ اپنی اولادیں دین کی خاطر وقف کرو۔ اگر تم دین کے لئے اپنی اولادیں دینے کے لئے تیار نہیں ہو گے تو خداتعالیٰ تمہاری اولادیں شیطان کو دے دے گا۔ یاد رکھو دنیا میں کسی کی اولاد اُس کے پاس نہیں رہتی۔ اگر تمہاری اولاد خدا کی ہو کر نہیں رہے گی تو وہ شیطان کی ہو جائے گی، اگرتمہاری اولاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے رستہ میں اپنی جانیں نہیں دے گی تو وہ ابلیس کے رستہ میں مرے گی (اَلْعِیَاذُ بِاللہ) مگر موت بہرحال ہر ایک پر آتی ہے۔
پس اب وقت آگیا ہے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک فرد حالات پر غور کرے اور اس بات کی طرف توجہ کرے کہ ان میں سے جو بڑی عمر کے لوگ ہیں اور وہ نئے سرے سے تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ کمائیں ان کے لئے جو پڑھتے ہیں۔ اور دوسرے جو پڑھے ہوئے ہیں وہ آگے آئیں اور اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ہر سال کم از کم ایک سَو طالبعلم مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں تاکہ ہمیں ہزاروں کی تعداد میں مبلغ مل سکیں۔
میں نے اپنے خطبات میں بتایا ہے کہ ہمیں کئی قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں ضرورت ہے عربی یا انگریزی کے گریجوایٹوں کی جو اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر یں اور دو تین سال میں ہم انہیں سلسلہ کے کاموں یا بیرونی تبلیغ کے لئے تیار کر سکیں۔ ہمیں ضرورت ہے مڈل پاس یا انٹرنس پاس طالب علموں کی جو فورًا سینکڑوں کی تعداد میں آکر مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوں اور پھر آٹھ نو سال تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور مبلغ کام کر سکیں۔ ہمیں ضرورت ہے ایسے نوجوانوں کی جو پرائمری پاس یا مڈل پاس ہوں اور ہم انہیں ایک دو سال میں موٹی موٹی تعلیم دے کر بطور دیہاتی مبلغ گاؤں میں مقرر کر سکیں۔ پس تین قسم کے آدمیوں کی ہمیں ضرورت ہے ۔ ایک مڈل پاس طالب علموں کی جو کثرت سے آکر مدسہ احمدیہ میں داخل ہوں۔ جن کا کام یہ ہو گا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے عربی ممالک میں جا کر تبلیغ کریں گے۔ یا جہاں علمی لوگوں سے مقابلہ ہو گا وہاں جائیں گے۔ یا قادیان میں درس دیں گے اور نئی پود تیار کرنے کا کام کریں گے۔ دوسرے مڈل یا پرائمری پاس نوجوانوں کی ضرورت ہے جو ایک دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد بطور دیہاتی مبلغ کام کریں۔ اور تیسرے بعض جگہوں پر فوری طور پر مشن کھولنے کے لئے عربی اور انگریزی گریجوایٹوں کی ضرورت ہے کیونکہ اِس وقت لوگوں کے دل مصائب اور مشکلات کی وجہ سے غمزدہ ہیں اور وہ خداتعالیٰ کی باتیں سُننے اور خدا کے دین کی طرف متوجہ ہونے کے لے تیار ہیں۔ اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان جگہوں پر ہم فوری طور پر مشن کھولیں اوران کی اِس غم اور مصیبت کی حالت سے فائدہ اٹھائیں۔ اگر ہم نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو ہم خداتعالیٰ کے جاں نثار سپاہی نہیں کہلا سکتے۔ غم اور مصیبت کی حالت میں ہی انسان خداتعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اور یہ غم کی حالت چار پانچ سال تک رہے گی۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد لوگ غم کو بھول جایا کرتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام انگریزی حکومت کی خوبیاں بیان فرماتے تو اس پر بعض معترضین اعتراض کیا کرتے تھے۔ اس کے جواب میں آپ فرمایا کرتے تھے کہ تم نے سکھا شاہی کے زمانہ کا قریب سے مطالعہ نہیں کیاکہ اس میں کس قسم کی مشکلات تھیں لیکن ہم نے اس زمانہ کے آثار کو دیکھا ہے گو اصل کو نہیں اس لئے ہمارے دل میں انگریزی حکومت کی قدر ہے۔ پس جن لوگوں نے موجودہ مشکلات اور غم نہیں دیکھے ہوں گے وہ اِس قسم کا درد اپنے اندر نہیں رکھتے ہوں گے جس قسم کا درد ان لوگوں کے دلوں میں ہو سکتا ہے جنہوں نے ان مشکلات اور ان مصائب کو دیکھا ہے۔ پھر ان مصائب اور مشکلات دیکھنے والوں میں بھی بہت تھوڑا طبقہ ہوتا ہے جن کو وہ غم یاد رہتے ہیں۔ ہم نے کئی عورتوں کو اپنے خاوندوں کی وفات پر روتے اور سر پیٹتے بھی دیکھا ہے۔ اور پھر انہیں سنگار 2کر کے خوشی خوشی دوسرے مرد کے گھر جاتے بھی دیکھا ہے۔ ہم نے عورتوں کو اپنے بچوں کی وفات پر پچھاڑیں 3 کھا کھا کر گرتے اور دیواروں کے ساتھ سر پٹکتے بھی دیکھا ہے اور پھر سال دو سال بعد ان کی یاد محو ہوتے بھی دیکھا ہے۔ ہم نے خاوندوں کو اپنی بیویوں کی وفات پر تڑپتے بھی دیکھا ہے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد انہیں عیش کے دوسرے سامان کرتے بھی دیکھا ہے۔ پس کچھ عرصہ کے بعد غم کی تصویریں دھندلی پڑ جاتی ہیں اور اس کے نقش مٹ جاتے ہیں۔ اگر ہم نے بھی اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا یا جبکہ لوگ غم اور مصیبت میں مبتلا ہیں تو پھر چار پانچ سال کے بعد اس قسم کے نقش دھندلے پڑ جائیں گے اور مصائب کی یاد ان کے دلوں سے محو ہو جائے گی۔
پس ضروری ہے کہ ہمارے پاس کافی آدمی تیار ہوں جن کے ذریعے ہم غیر ممالک میں فورًا تبلیغ پھیلا سکیں۔ اس کے لئے مولوی فاضلوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم انہیں فورًا باہر بھجوا سکیں۔ اور پھر ہماری جماعت کا سب سے مقدم فرض تو یہ ہے۔ اپنے ہمسایوں سے ہمدردی کریں اور اپنے ملک میں تبلیغ کو وسیع کریں۔ اس کے لئے بڑی تعداد میں دیہاتی مبلغین کی ضرورت ہے۔ اور پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ جماعت ہر سال ایک سو طالب علم مدرسہ احمدیہ کے لئے دے۔ اور جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس خیال کو زندہ رکھے ۔میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں یہ کمزوری پائی جاتی ہےکہ روپیہ کے مقابلہ میں بھی اگر تعہد نہ کیا جائے تو ہماری جماعت کے لوگ سُستی کر جاتے ہیں۔ مثلاً تحریک جدید کے دس سالوں میں چندہ دینے کے بعد بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے پہلے سالوں سے بھی زیادہ چندہ دینے کے وعدے کئے ہیں۔ اور کئی ایسے ہیں جو دس سال چندہ دینے کے بعد اب تھک کر حصہ لینا چھوڑ چکے ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ دراصل تو دس سالوں میں حصہ لینا ضروری تھا اب ضروری نہیں۔ حالانکہ خدا کے ہاں تو دس کا سوال ہی نہیں وہاں تو ضرورت کا سوال ہے۔ اگر ضرورت باقی ہے تو تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ
دیکھئے سرکار اس میں شرط یہ لکھی نہیں
اگر کوئی شخص خدا کے ساتھ شرطیں باندھتا ہے تو وہ عقل سے کام لیتا ہے عشق سے کام نہیں لیتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کےپاس جب مدینہ سے وفد آیا کہ وہ آپ کو اپنے ہاں لےجائے تو حضرت عباسؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چچا تھے لیکن عمر کے لحاظ سے کوئی زیادہ فرق نہیں تھا وہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ایک سال بڑے تھے مگر دنیوی تجربہ رکھتے تھے جب وہ وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس آپ کو مدینہ لے جانے کے لئے آیا تو حضرت عباسؓ نے کہا۔ بھتیجے! تمہیں دنیا کا تجربہ نہیں مجھے ساتھ لے چلو اور ان لوگوں سے شرط طے کر لو کہ وہ تمہاری حفاظت کریں گے۔ چنانچہ وہ آپ کے ساتھ گئے اور اس وفد سےکہنے لگے کہ تم اِن کو یہاں سے لے جاتے ہو تو ان کے ساتھ عہد کرو کہ تم وہاں ان کی حفاظت کرو گے۔ اور اگر کوئی مدینہ میں ان پر حملہ کرے گا تو تم اس کا مقابلہ کرو گے۔ یہاں تو خواہ کچھ بھی ہو اور لوگ کتنی مخالفت کریں پھر بھی ہم ان کے چچے تو ہیں۔ اگر کسی کے دل میں ان پر حملہ کرنے کا خیال آتا ہے تو وہ ان کو بالکل اکیلا نہیں سمجھتا بلکہ اسے اس کے دس پندرہ رشتہ دار بھی نظر آتے ہیں مگر تمہارے علاقے میں تو یہ بالکل غیر ہو گا اس لئے تم عہد کرو اگر کوئی مدینہ میں اِن پر حملہ آور ہو گا تو تم اس کے ذمہ دار ہو گے اور دشمن کا مقابلہ کرو گے۔ چنانچہ انہوں نےعہد کیا کہ اگر کوئی مدینہ میں آپ پر حملہ کرے گا تو ہم مدینہ کے لوگ اپنی جانیں قربان کر کے آپ کی حفاظت کریں گے۔ اس معاہدہ کے بعد آپ خداتعالیٰ کے حکم کے مطابق مدینہ تشریف لے گئے۔4
اس کے کچھ عرصہ بعد جب آپ کو خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع ملی۔ اور خداتعالیٰ نے حکم دیا کہ تم اپنے ساتھیوں کو لے کر مدینہ سے باہر جاؤ۔ تمہارے لئے ایک کام مقدر کیا ہے۔ چاہے کفار کا قافلہ تمہارے سامنے آئے اور چاہے کفار کے لشکر سے مقابلہ ہو۔ چونکہ کفار کے لشکر کے متعلق کمزور روایات تھیں جن کی بنا پر لشکر سے مقابلہ قطعی نہیں تھا اس لئے بیشتر صحابہؓ نے یہی سمجھا کہ قافلہ سے مقابلہ ہوگا جو کوئی مشکل نہیں اور جس کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت نہیں۔ اس لئے تھوڑے سے صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ باہر آئے۔ مختلف روایتوں میں ان کی مختلف تعدادیں بیان ہوئی ہیں جو تین ساڑھے تین سو تک کی ہیں۔ ان میں سے جو مشہور روایت ہے وہ تین سو تیرہ کی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینہ سے نکل کر تھوڑے فاصلہ پر گئے تو خداتعالیٰ نے آپ کو قطعی علم دے دیا کہ مقابلہ لشکر سے ہی ہو گا قافلہ سے نہیں ہو گا۔ اور یہ علم خداتعالیٰ نے مدینہ میں اس لئے نہ دیا تاکہ وہ مومنوں کی آزمائش کرے۔ تب آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان تمام صحابہؓ کو جمع کیا جو آپ کے ساتھ تھے اور آپ نے فرمایااے لوگو !مجھے مشورہ دو کہ کیا کرنا چاہیے کیونکہ اب مقابلہ قافلہ سے نہیں ہو گا بلکہ دشمن کی فوج سامنے آئے گی۔ صحابہؓ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا یہ مشورہ دے رہے تھے کہ یا رسول اللہ! اور کیا کرنا ہے ہم دشمن کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن جب ایک شخص مشورہ دےکر بیٹھتا تو آپؐ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیا کرنا چاہیے؟ جب دوسرا شخص مشورہ دے کر بیٹھتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیا کرنا چاہیے؟ اور جب تیسرا شخص مشورہ دے کر بیٹھتا تو آپ پھر فرماتے اے لوگو! مجھے مشورہ دو کیا کرنا چاہیے؟ اس پر ایک انصاری اٹھے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مشورہ تو آپ کو دیر سے مل رہا ہے لیکن آپ پھر بھی اس بات کو دُہرا رہے ہیں کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو میں کیا کروں۔ شاید اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ انصار مشورہ دیں۔ آپ نےفرمایا ہاں میری یہی مراد ہے، میں آپ سے مشورہ لینا چاہتا ہوں کہ کیا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم اس مصلحت کی بناء پر خاموش تھے کہ مکہ والے جن کےساتھ مقابلہ ہے مہاجرین کے رشتہ دار ہیں ہمیں نہیں بولنا چاہیے شاید مہاجرین کو یہ بات بُری لگے۔ اس لئے یہ ان کا حق تھا کہ وہ مشورہ دیتے اور جو بھی وہ مشورہ دیں ہم تو آپ کےساتھ ہی ہیں۔ پھر اس نے کہا یا رسول اللہ ! شاید آپ اُس معاہدہ کی وجہ سے ہم سے مشورہ پوچھ رہے ہیں جو مکہ کی وادی میں ہم نے آپ سے کیا تھا کہ اگر آپ پر مدینہ میں حملہ ہو گا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گےاور مدینہ سے باہر کے ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ لیکن یا رسول اللہ ! اُس وقت ہمیں پتہ نہیں تھا کہ آپ کیا چیز ہیں اور ابھی آپ کی شان کا ہمیں علم نہیں ہوا تھا اور آپ کا مقام ہم پر نہیں کُھلا تھا۔ اس کے بعد جب آپ ہمارے اندر تشریف لائے تو پھر ہمیں آپ کے مقام اور آپ کی شان کا علم ہوا تو یا رسول اللہ! اب وہ معاہدہ ختم ہو چکا ۔ اب تو یہ سامنے سمندر ہے آپ حکم دیجئے کہ اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دو ہم بغیر چون و چرا کے اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے۔5 اور یارسول اللہ! اگر دشمن مقابلہ پر آئے گا تو ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے۔ اور دشمن اگر آپ تک پہنچے گا تو ہماری لاشوں کو روندتا ہوا ہی پہنچے گا اس کے بغیر نہیں پہنچ سکے گا۔ 6
تو دیکھو جہاں عشق ہوتا ہے وہاں اس بات کو نہیں دیکھا جاتا کہ ہم نے کیا شرط کی تھی بلکہ اِس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ ہم نے وہ کام کر لیا ہے یا نہیں جو ہمارے سپرد کیا گیا تھا۔ پس کیا ان دس سالوں میں ہم نے روپیہ کے لحاظ سے یا آدمیوں کے لحاظ سے کام کر لیا ہے؟ ہم نے معمولی سی تبلیغ کے لئے جس میں چند سو مبلغ ہوں تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کا اندازہ بتایا تھا اور ان دس سالوں میں کُل تیرہ چودہ لاکھ روپیہ چندہ جمع کیا ہے جس میں سے کچھ ساتھ کے ساتھ خرچ ہو چکا ہے۔ تو جہاں چند لاکھ روپیہ کا کُل ریزرو فنڈ ہو وہاں تبلیغ کی معمولی سے معمولی سکیم پر عمل کرنے کے لئے تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کہاں سے آئے گا؟ اگر پانچ فیصدی منافع کا اندازہ لگا لیا جائے جو زیادہ سے زیادہ اندازہ ہے گورنمنٹ تو اپنے کاموں میں عام طور پر اڑھائی فیصدی منافع کا اندازہ لگایا کرتی ہے۔ لیکن اگر پانچ فیصدی منافع کا ہی اندازہ لگا لیا جائے تو عام کاروباری اندازہ کے مطابق تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ کے لئے پانچ کروڑ بیس لاکھ روپیہ کا ریزرو فنڈ ہو تو اس سے تیرہ لاکھ روپیہ سالانہ کی آمدنی ہو سکتی ہے۔ اور پانچ فیصدی آمد رکھی جائے تب بھی اڑھائی کروڑ روپیہ سے یہ آمد پیدا ہو سکتی ہے۔ پس جب تک ہماری جماعت دین کی ہر ضرورت کے موقع پر اپنا روپیہ اور اپنی جانیں پیش نہیں کرتی اُس وقت تک اس کو کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ خداتعالیٰ کا کام تو ہو جائے گالیکن ہم دین کی خدمت کا ثواب حاصل کرنے اور اپنے ایمانوں کا ثبوت دینے سے قاصر رہیں گے۔ پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کو سمجھے۔ اور دین کے لئے جہاں مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کا سوال ہو وہاں آگے بڑھ بڑھ کر اپنے اموال پیش کریں۔اور جہاں جانی قربانی کا سوال ہو وہاں آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں اور اپنی اولادیں دین کے لئے پیش کریں۔
میں نے گزشتہ سے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں یہ تحریک کی تھی کہ جن کے ہاں کوئی اولاد نہ ہو یا ان کی اولاد چھوٹی ہو یا صر ف لڑکیاں ہی ہوں لڑکے نہ ہوں وہ کم از کم اتنا ہی کریں کہ تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے وظائف مقرر کریں۔ اس تحریک میں اِس وقت تک تین وظائف کے وعدے آچکے ہیں۔ بعض لوگوں نے دریافت کیا ہے کہ اگر کوئی غریب ہو اور وہ اکیلا وظیفہ کے لئے رقم نہ دے سکے تو کیا وہ اور لوگوں کے ساتھ مل کر دے سکتا ہے؟ تو اس کے متعلق بھی میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ ہاں اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص اکیلا وظیفہ مقرر کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ دوسروں کے ساتھ مل کر اس میں حصہ لے سکتا ہے۔
اِس وقت تک تین وظائف کے وعدے آچکے ہیں۔ ایک تو میاں محمد احمدخاں صاحب جو میرے بھانجے ہیں انہوں نے ایک وظیفہ کے لئے نقد رقم جمع کرا دی ہے اور ایک وظیفہ دینے کے لئے چودھری ظفراللہ خاں صاحب نے وعدہ کیا ہے اور انہوں نے دفتر محاسب کو لکھ دیا ہے کہ میری امانت میں سے یہ رقم ادا کر دی جائے۔ اور ایک میری بیٹی اور ان کے خاوند نے وعدہ کیا ہے وہ مجھے کہتے تھے کہ ہم اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ اور میں نے انہیں کہا تھا کہ دفتر میں لکھوا دو۔ غالبًا انہوں نے لکھوا دیا ہو گا۔ میں نے یہ نیت کی ہے کہ اگر خداتعالیٰ زیادہ کی توفیق دے گا تو اس سے زیادہ دوں گا لیکن انشاء اللہ دس سال تک کم از کم پانچ طالبعلموں کا مَیں سالانہ وظیفہ دوں گا اور میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں زندہ رہوں تو میں اس وعدہ کو پورا کرنے کا خود پابند رہوں گا اور اگر میں مر جاؤں تو میری جائیداد میں سے پہلے اِس رقم کو پورا کر لیا جائے اور بعد میں پھر وہ میرے ورثاء میں تقسیم ہو۔
میرا منشاء ہے کہ ہر سال چھ ہزار روپیہ مَیں داخل کرتا چلا جاؤں تا پہلے سالوں کی تعلیم پر جو کم رقم خرچ ہو گی اور بعد میں زیادہ خرچ ہو گی۔ پہلے وقت کا بچا ہوا روپیہ دوسرے وقت میں کام دے۔ یہ وعدہ دس سال میں پچاس طالبعلموں کو تعلیم دلانے کا ہوتا ہے جس پر قریباً ایک لاکھ روپیہ خرچ ہو گا۔ باقی میں نے اپنی اولاد اپنی طرف سے دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے۔ آگے کام کا ثواب تو انہوں نے خدا سے ہی لینا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو دین کی خدمت کا موقع ملے اور کس کو نہ ملے۔ میں نے بہرحال اپنی طرف سے انہیں دین کے لئے ہی وقف کیا ہوا ہےاور ان کو تعلیم دلانے میں بھی میں نے ہمیشہ اسی چیز کو مدنظر رکھا ہے۔ میں نے اپنی اولاد میں سے کبھی ایک بیٹے کو بھی خالصۃً اپنے لئے رکھنے کی خداتعالیٰ سے درخواست نہیں کی۔ یہ سب اُسی کے دیئے ہوئے ہیں اور اُسی کی چیز ہیں۔ اُس کی مہربانی اور اُس کا احسان ہو گا تو ان کو اپنے دین کی خدمت کے لئے قبول فرمالے گا۔ لیکن اگر وہ کسی کو اس کی غفلت کی وجہ سے رد کر دے تو میں بری الذّمہ ہوں۔ میں نے اپنے لئے ان کو لینے کی کبھی ضرورت نہیں سمجھی سوائے اس کے کہ اپنے گزارہ کے لئے باری باری کچھ عرصہ وہ جائیداد کا انتظام کریں تادوسرے دین کا کام کر سکیں۔ اور وہ بھی دوسرے وقت میں دین کا کام کر سکیں۔
میرا تو عقیدہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باقی اولاد بھی اگر اس پر غور کرے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے احسان کے بعد کہ شدید ترین گمراہی کے وقت میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے خاندان میں سے مبعوث فرمایا۔ اس احسان کے بعد بھی اگر ہمارے اندر دنیا طلبی اور دین سے بے رغبتی پائی جائے تو ہم سے زیادہ بدقسمت اور کون ہو سکتا ہے۔ اس ایک احسان کے بدلہ اگر ہمارا سر قیامت تک خداتعالیٰ کے آگے جھکا رہے تو ہم اس احسان کا بدلہ نہیں اُتار سکتے۔ یہ خداتعالیٰ کا اتنا بڑا احسان ہے کہ اس سے بڑھ کر احسان ممکن ہی نہیں۔ میں سمجھتا ہوں اس احسان کو دیکھ کراگر ہمارے خاندان کے لوگ ہی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو چونکہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا ہے کہ تَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا۔7 یعنی تیری نسل دور دور تک پھیل جائے گی۔ اور جس طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا اسی طرح تیری نسل بھی اتنی زیادہ ہو گی کہ وہ گنی نہیں جائے گی۔ پس ہمارے خاندان ہی کے افراد اگر دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کووقف کر دیں تو تبلیغ اور مبلغوں کا سوال حل ہو جاتا ہے۔ مگر بہرحال کسی ایک شخص کے اپنے آپ کو پیش کر دینے سے دوسرے لوگ بری الذّمہ نہیں ہو سکتے۔ جب تک ساری جماعت اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش نہیں کرتی اُس وقت تک جماعت بری الذّمہ نہیں ہو سکتی۔ اور جب تک کوئی فرد اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش نہیں کرتا۔ اُس وقت تک وہ فرد ہونے کے لحاظ سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ اگر جماعت کی اکثریت اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کرتی ہے تو وہ بلحاظ جماعت خداتعالیٰ کے فضل کو جذب نہیں کر سکتی۔ اور اگرایک فرد اپنی ذمہ داریاں اور اپنے فرائض نہیں سمجھتا تو وہ منفرد طور پر سزا کا مستحق ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو کھول دے اور ہمارے ایمانوں کو مضبوط کر دے۔ اور ہمیں اُس مقام پر کھڑا نہ کرے جہاں مجرم کو سزا دینے کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔ بلکہ خداتعالیٰ ہمیں اُس مقام پر کھڑا کرے جہاں خدمت گزار اور وفادار غلام کو انعام کے لئے کھڑا کیا جاتاہے۔ آمین’’ (الفضل 23 جنوری 1945 ء )
1: الفرقان:53
2: سنگار: سنگھار۔ زیب و زینت
3: پچھاڑیں کھانا: تڑپنا، صدمے اُٹھانا
4: سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ84،85۔ مطبوعہ مصر1936ء
5: سیرت ابن ہشام جلد 2صفحہ266،267
6: بخاری کتاب المغازی باب قول اللہ تعالیٰ اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ
7: تذکرہ صفحہ185 ایڈیشن چہارم
4
تحریک جدید کے وعدے جلد سے جلد کئے جائیں
(فرمودہ 26جنوری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مَیں آج زیادہ بول نہیں سکتا۔ کیونکہ دو تین گھنٹے سے میری طبیعت خراب ہے اور بخار کے آثار بھی معلوم ہوتے ہیں ۔ چونکہ تحریک جدید کے وعدوں کا وقت چند دنوں (7فروری) تک ختم ہونے والا ہے اس لئے میں پھر ایک دفعہ جماعت کو اس کے فرض کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ شروع میں جن لوگوں نے اس سال وعدے لکھوائے ان میں ایک خاص جوش اور اخلاص پایا جاتا تھا۔ مگر ان کے بعد جماعت کا جو بقیہ حصہ رہ جاتا ہے انہوں نے وعدے بھجوانے میں سُستی کی ہے۔ ممکن ہے وہ کوشش کر رہے ہوں اور میعاد ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ اپنے وعدے بھجوا دیں مگر جس رفتار میں ہر سال ان ایام میں وعدے آیا کرتے تھے اُس رفتار میں اس سال فرق معلوم ہوتا ہے۔ گویا پہلا حصہ تو اخلاص میں بڑھا ہوا تھا اور بہت ہی نمایاں حصہ لینے والا تھا اور یہ لوگ کُل حصہ لینے والوں کے ساٹھ فیصدی تھے۔ انہوں نے نہایت اخلاص سے حصہ لیا ہے۔ ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنی حیثیت سے بھی زیادہ حصہ لینے کی کوشش کی ہے لیکن بقیہ چالیس فیصدی لوگ جن کے وعدے دسمبر میں نہ آئے تھے ان میں سے ایک حصہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سُستی دکھا رہا ہے۔ چونکہ ابھی وعدہ کی آخری میعاد ختم نہیں ہوئی اس لئے جیسا کہ میں نے بتایا ہے ممکن ہے بقیہ جماعتیں کوشش کر رہی ہوں اور وقت ختم ہونے کے قریب یکدم اپنے وعدے بھجوا دیں۔ لیکن گزشتہ سالوں میں جس رفتار سے وعدے ہوا کرتےتھے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہی قیاس ہوتا ہے کہ جماعت کا ایک حصہ کچھ تھکا ہوا سا ہے۔ میں نے اس کے متعلق ایک نوٹ الفضل میں بھی شائع کرایا ہے۔ اور آج خطبہ میں بھی جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے سامنے جو کام ہے بغیر قربانی کے ہم اس کام میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہر کام ان ذرائع سے ہوتا ہے جو ذرائع اس کام کےلئے مقرر ہوتے ہیں۔ جب تک اس کام کے لئے وہ ذرائع اور وہ سامان مہیا نہ کئے جائیں اُس وقت تک انسان کا یہ امید کرنا کہ میں اس کام میں ان ذرائع کی مدد کے بغیر اور ان سامانوں کے مہیا کرنے کے بغیر کامیاب ہو جاؤں گا سراسر خلافِ عقل ہے۔ ہم نے بہت بڑا کام کرنا ہے۔ اتنا بڑا کام کہ ہمارے جیسی کسی کمزور جماعت نے کبھی اتنا بڑا کام نہیں کیا۔ پہلے انبیاء کی جماعتیں ایسے زمانہ میں ہوئی ہیں جب ساری دنیا کا تمدن اس قسم کا تھا کہ اس میں روپیہ خرچ نہیں ہؤا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ زمانہ نہیں۔ اب بسا اوقات روپیہ خرچ نہ کرنا انسان کے ایمان میں سستی اور غفلت پیدا کرنے کا موجب ہو جاتاہے۔ مثلاً حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے ساتھی پیدل سفر کر کے تبلیغ کیا کرتے تھے مگر اُس زمانہ میں چونکہ ساری دنیا ہی پیدل سفر کیا کرتی تھی اس لئے ان کا تبلیغ کے لئے پیدل سفر کرنا دشمن کے مقابلہ میں کمزوری نہیں تھی۔ لیکن آج جبکہ سفر کے لئے ریلیں اور ہوائی جہاز تیار ہو چکے ہیں اگرہم دشمن کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم کو ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر کرنا ہو گا۔ اگر ہم ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر نہیں کرتے تو ہم دشمن کے مقابلہ میں ہر میدان میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پس اگر دشمن کا ہر میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے مبلغوں کا ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر کرنا ضروری ہے تو یہ کام ان کے اخلاص اور ان کی قربانی سے نہیں ہو سکتا بلکہ روپیہ سے ہو سکتا ہے۔ اگر ہمارا کوئی مبلغ سٹیشن پر جا کر کہے کہ میں نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے مجھے ریل میں بیٹھنے دیجئے، اگر ہمارا کوئی مبلغ جہاز کے دروازہ پر جا کر کہے کہ میں نے اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کی ہوئی ہے مجھے جہاز میں سفر کرنے دیجئے تو وہ کہیں گے کرایہ کے لئے پیسے لاؤ۔ پس جس واقفِ زندگی کو ہم یہ کہیں کہ پیدل پھر کر دنیا میں تبلیغ کرو کیا یہ پیدل پھر کر اپنے اُس دشمن کا مقابلہ کر سکتا ہےجس کے مبلغ ریلوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعہ سفر کرتے ہیں ؟وہ اگر ایک دن میں دس جگہوں پر پہنچ کر تبلیغ کرے گا یا ایک ماہ میں سارے ملک کا چکر لگا لے گا تو یہ پیدل سفر کر کے ساری عمر میں اُس ملک کا چکر لگا سکے گا۔ تو اُس کا اور اِس کا مقابلہ کہاں ہو سکتا ہے۔ ایک یورپین پادری یا کسی دوسرے مذہب کا مبلغ ہندوستان میں تبلیغ کرنے کے لئے کھڑا ہوتاہے اور وہ ایک مہینہ کے اندر بمبئی، مدراس، بنگال اور پنجاب کے علاقوں کا دورہ کر کے لیکچر دیتا ہے۔ اس کے مقابلہ کے لئے اگر ہم اپنے مبلغ کو یہ کہتے ہیں کہ پیدل سفر کر کے تبلیغ کرو تو وہ تو پیدل سفر کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا مگر سوال یہ ہے کہ اتنی جگہوں پر وہ کتنی دیر میں پہنچے گا۔ اس کی قربانی اسلام کے لئے مفید نہیں ہو گی بلکہ اسلام کے لئے مُضِر ہو گی۔ پس یہ وہ زمانہ ہے جبکہ جانی قربانی کے علاوہ مالی قربانی کی اہمیت بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ پس مَیں اس خطبہ میں جو وقت پر پہنچنے کے لحاظ سے آخری خطبہ ہے گو 7 فروری سے پہلے ابھی ایک اَور جمعہ آئے گا مگر اُس جمعہ کا خطبہ وقت پر جماعتوں تک نہیں پہنچ سکے گا۔ وقت پر پہنچنے کے لحاظ سے یہ آخری خطبہ ہے۔ پھر جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنہوں نے اس سال تحریک جدید کے وعدوں کی طرف ابھی تک توجہ نہیں کی وہ توجہ کریں اور جنہوں نے کم توجہ کی ہے وہ پوری توجہ کریں۔ اور وہ لوگ جو تحریک جدید کے دفتر اول میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ اب دفتر ثانی میں شامل ہوں۔ اور جن کو خداتعالیٰ شامل ہونے کی توفیق دے اُنہیں چاہیے کہ وہ دوسرے ایسے لوگوں کو بھی شامل ہونے کی تحریک کریں جنہوں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا۔
اس کے علاوہ میں پھر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تبلیغ کے لئے واقفین کے تین گروہ ضروری ہیں۔ ان کےبغیر خالی روپیہ ہمیں کام نہیں دے سکتا۔ ہمیں ضرورت ہے گریجوایٹ اور مولوی فاضلوں کی جو اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور انہیں ایک دو سال میں ضروری تعلیم دے کر مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے بھیجا جائے۔ یا ہندوستان میں تبلیغ کے لئے یا سلسلہ کے اداروں میں ان کو کام پر لگایا جائے۔
ہمیں ضرورت ہے مڈل پاس طالبعلموں کی جو اس سال مارچ میں مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو کر اور ہر سال داخل ہو کر اور اتنی کثرت سے داخل ہو کر مبلغین کی تعداد کو بڑھائیں کہ چند سالوں میں سینکڑوں اورہزاروں مبلغ تیار ہو جائیں۔ اور ہمیں ضرورت ہے ایسے مڈل پاس یا کم از کم پرائمری پاس نوجوانوں کی جو ایک دو سال ٹریننگ لینے کے بعد دیہاتی مبلغین کا کام دے سکیں۔ اس سال ہمیں پچاس دیہاتی مبلغوں کی ضرورت ہے اور اِس وقت تک پینتیس آئے ہیں۔ پس میں اَور نوجوانوں کو جنہوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ دیہاتی مبلغین میں شامل ہوں۔ یہ وہ ہوں جو واقفین کی طرح ہر قسم کی تکلیف اٹھا کر تبلیغ کے لئے تیار ہوں۔ ایسے لوگ جو قربانی نہ کر سکیں تبلیغ کا کام نہیں کر سکتے۔ ہم ان کو کچھ طب بھی پڑھا دیں گے اور سلسلہ کی طرف سے گزارہ کےلئے ماہوار کچھ رقم بھی دیں گے ۔ اس رقم سے اور طب کے ذریعہ سے وہ اپنی روزی کا سامان کر سکیں گے۔ گو میری سکیم یہی ہے کہ ہمارے واقفین جس علاقہ میں جائیں وہ اُس علاقہ کو اتنا منظم کر لیں کہ وہاں کی جماعتیں اس مبلغ کا بوجھ اٹھا سکیں تاکہ نئے مبلغین تیار کرنے میں ہمیں سہولت ہو۔ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ پنجاب میں صحیح طور پر تبلیغ کرنے کے لئے ایک ہزار مبلغ ہونے چاہئیں۔ پنجاب میں ساٹھ ہزار گاؤں ہیں۔ ان ساٹھ ہزار گاؤں کے لئے اگر ہم ایک ہزار مبلغ رکھیں تو اس کے معنے ہیں ساٹھ گاؤں کے لئے ایک مبلغ۔ اگر ہم اس سکیم پر عمل کریں اور ساٹھ ہزار گاؤں کے لئے ایک ہزار مبلغ رکھیں تو خط و کتابت، سٹیشنری، سفر اور گزارہ کی رقم ملا کر ایک ہزار مبلغ کے لئے تمام خرچ چھ لاکھ روپیہ سالانہ کم از کم ہونا چاہیے۔ اور اگر بافراغت خرچ کیا جائے تو آٹھ لاکھ روپیہ سالانہ ہونا چاہیے۔ گویا ساٹھ دیہات کے لئے اگر ہم ایک مبلغ رکھیں تو چھ لاکھ سے لے کر آٹھ لاکھ روپیہ تک سالانہ خرچ کی ضرورت ہے۔ مگر ہم یہ بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارا تو صدر انجمن کا چندہ والا سالانہ بجٹ سارا چھ لاکھ روپیہ کا ہوتاہے۔ اگر ہم وہ سارا بھی اس کام کے لئے لگا دیں تو پھر بھی گزارہ نہیں ہو سکتا۔ گزارہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جو مبلغ یہاں سے تیار ہو کر جائیں وہ جا کر وہاں کی جماعتوں کو منظم کریں اور وہاں کی جماعتوں کا چندہ اور افراد اتنے بڑھ جائیں کہ اس مبلغ کا خرچ وہ خود برداشت کر سکیں تاکہ ہم اَور مبلغ بھجوائیں۔ اور جب وہ بھی باہر جا کر وہاں کی جماعتوں کو منظم کر لیں اور وہ جماعتیں ان مبلغوں کا بوجھ خود اٹھا لیں تو ہم اَور مبلغ بھجوائیں۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے ہر علاقہ میں ہماری تبلیغ پھیل جائے۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو وہ اخلاص عطا فرمائے کہ جس کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق پائے۔ اور اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کی سستیوں اور غفلتوں کو معاف فرمائے۔ اور دین کے لئے اور اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لئے جن سامانوں کی ضرورت ہے وہ سامان اپنے فضل سے مہیا فرما دے۔ اور آسمان سے اپنے فرشتوں کو نازل فرمائے جو جماعت کے نوجوانوں کے دلوں میں دین کی ایسی محبت اور ایسا اخلاص پیدا فرمائیں کہ وہ پروانوں کی طرح آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جانیں دین کی خدمت کے لئے پیش کریں۔ اور اللہ تعالیٰ ان کےد لوں میں اور جماعت کے دوسرے لوگوں کےد لوں میں آخرت کی ایسی محبت پیدا فرمائے کہ وہ آخرت کو دنیا پر مقدم کریں۔ آمین
میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے یہ نماز بھی میں نہیں پڑھاؤں گا۔ مولوی سرور شاہ صاحب پڑھا دیں گے مجھے نماز بیٹھ کر پڑھنی پڑے گی۔ ’’
(الفضل 29جنوری 1945ء)
5
ستیارتھ پرکاش کا جواب۔ آخری پارہ کی تفسیر
(فرمودہ 2 فروری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں نے جلسہ سالانہ پر آج سے ایک مہینہ پہلے اس سال کے متعلق بعض کاموں کا اعلان کیا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل سےا س وقت تک وہ کام اپنے پروگرام کے مطابق ہو رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے چاہا تو پروگرام کے مطابق وہ ہو جائیں گے۔ ایک تو میں نے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ اس کا جواب قریباً سات آٹھ بابوں کا ہو چکا ہے اور بقیہ تیار ہو رہا ہے۔ جو نوجوان اس کام کو کر رہے ہیں مجھے خوشی ہے کہ وہ محنت کے ساتھ کر رہے ہیں۔ اور مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ہماری جماعت میں ایسے نوجوان پیدا ہو رہے ہیں جو ہندو لٹریچر کو اس کی اپنی زبان میں پڑھ کر غور کر سکتے ہیں۔ اس کام کے لئے میں نے مولوی ناصر الدین صاحب عبداللہ اور مہاشہ محمد عمر صاحب اور مہاشہ فضل حسین صاحب کو مقرر کیا ہؤا ہے۔ اور یہ تینوں بہت جانفشانی سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اور مَیں سرِدست ایڈیٹنگ(Editing) کرتا ہوں۔ وہ نوٹ لکھ کر مجھے دے دیتے ہیں اور میں جرح کرکے واپس بھیج دیتا ہوں۔ پھر وہ اصل مضمون لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور میں اسے دیکھ لیتا ہوں۔ اس میں میرا اپنا کام صرف اتنا ہی ہے کہ جو دلائل کمزور ہوں ان کی طرف انہیں توجہ دلا دیتا ہوں کہ یہ یہ دلائل کمزور ہیں۔ یا تمہارا یہ اعتراض ان معنوں پر پڑتا ہے اور ان معنوںپر نہیں پڑتا۔ یا یہ کہ
بعض دفعہ ان کی عبارتوں میں جوش ہوتا ہے۔ کیونکہ ستیارتھ پرکاش میں سخت سخت حملے کئے گئے ہیں اس لئے اس کا جواب دیتے وقت جذبات کو روکنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے میں اس بات کی بھی نگرانی کرتا ہوں کہ ایسے سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں جن سے کسی کی دل شکنی ہو یا اس بات کو بھی مَیں مدنظر رکھتا ہوں کہ یہ کتاب آریہ سماج کی ہے۔ لیکن ہمارے نوجوان بعض دفعہ ناتجربہ کاری کی وجہ سے اس بات کو بھول کر کہ ہمارے مخاطب تمام ہندو نہیں بلکہ صرف آریہ سماجی ہیں مضمون زیر بحث میں سناتن دھرم کی بعض باتوں کی بھی تردید شروع کر دیتے ہیں۔ تو میں اس بات میں بھی ان کی نگرانی کرتا ہوں کہ وہ صرف آریہ سماج کو ہی مخاطب کریں اور ایسی باتوں کا ذکر نہ کریں جو براہِ راست ویدوں یا سناتن دھرم کے لٹریچر کے متعلق ہوں۔ جس حد تک میرے پاس مضمون آچکا ہے اور غالباً اکثر آچکا ہے اس کو دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا ہے کہ بہت محنت اور جانفشانی سے لکھا گیا ہے۔ انشاء اللہ جب یہ جواب شائع ہو گا تو اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک تو آریہ سماج کا پرانا قرضہ جو ہمارے ذمہ تھا وہ اتر جائے گا۔ اور دوسرا فائدہ یہ ہو گا کہ اس قسم کی اہم کتاب کا جواب دینے کی آریہ سماج ضرور کوشش کرے گی۔ اور جب اس کی طرف سے اس کا جواب دیا جائے گا تو ہمیں پتہ لگ جائے گا کہ ہمارے نوجوانوں کی ہندی جاننے کی ذاتی قابلیت کہاں تک ہے۔ اس وقت ہم پورے طور پر فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ہمارے نوجوان کس حد تک ہندی یا سنسکرت جانتے ہیں۔ لیکن جب آریہ سماج کی طرف سے اس کا جواب دیا جائے گا کہ تمہارا فلاں ترجمہ غلط ہے فلاں معنے لغت کے خلاف ہیں تو پھر ہم کو بھی صحیح طور پر موازنہ کرنے کا موقع مل جائے گا۔ اور ہمیں آئندہ سنسکرت کے علماء پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ دراصل ہندو علم اتنا مخفی ہے اور ہمیں اس کے متعلق اتنی ناواقفیت ہے کہ ہم پورے طور پر ہندو مذہب کےعالم بھی پیدا کرنے کے قابل نہیں۔ بعض علوم ایسے ہیں جن کا اندازہ ہم کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے جاننے والے ہمیں کثرت سے ملتے ہیں مگر ویدوں کا علم اس قسم کا ہے کہ خود ہندوؤں میں بھی اس علم کو جاننے والے بہت کم ہیں۔ بلکہ بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ سارے ہندوستان میں کُل تین آدمی ویدوں کا علم جاننے والے ہیں۔ تو جہاں سارے ہندوستان میں ویدوں کے جاننے والے کُل تین آدمی ہوں وہاں ہمیں کہاں توفیق مل سکتی ہے کہ ہم یہ پتہ لگائیں کہ ہمارے نوجوان اس علم کو جان گئے ہیں یا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں ایسے مقابلہ میں آکر ہمیں صحیح طور پرپتہ لگ جائے گا کہ ہمارے نوجوانوں کے علم میں خامیاں ہیں یا نہیں۔ اگر خامیاں ہوں گی توہم سوچ سکیں گے کہ کس رنگ میں ان کی اصلاح ہو سکتی ہے اور اگر خامیاں نہیں ہوں گی تو پھر اسی طریق پر ہندو مذہب کے نئے علماء پیدا کرنے میں ہمیں سہولت ہو گی۔ اس وقت تک ہماری یہ کمزوری ہے کہ ہم ہندوؤں اور سکھوں کو صرف اردو میں ہی تبلیغ کرتے ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوؤں اور سکھوں میں بھی اردو جاننے والے موجود ہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ خواہ وہ اردو جانتے ہوں مگر وہ مانوس ہندی اور گورمکھی سے ہیں۔ اور یہ قدرتی بات ہے کہ جس زبان سے انسان مانوس ہو اُس کی طبیعت پر زیادہ اثر اسی زبان میں ہی تبلیغ کرنے سے ہو سکتا ہے۔ مثلاً اردو کو ہی لے لو ۔ اردو میں بعض چیزوں کے دو دو لفظ ہوتے ہیں۔ ایک لفظ عربی یا فارسی کا ہوتا ہے اور دوسرا لفظ ہندی یا بھاشا کا ہوتا ہے۔ اگر کوئی مقرر کھڑا ہو اور اپنی تقریر میں چُن چُن کر ہندی یا بھاشا کے الفاظ استعمال کرنے شروع کر دے تو ہماری مجلس اس بات کو عجیب سا سمجھے گی اور اس کی باتوں سے اتنا متاثر نہیں ہو گی جتنا کہ عام اردو زبان سے متاثر ہو سکتی ہے۔ مثلاً ایک لفظ ہے ابر آیا، برکھا آئی۔ ایک لفظ فارسی ہے اور ایک ہندی، گو دونوں لفظ ہم سمجھتے ہیں مگر ایک مقرر اگر کھڑا ہو کر چُن چُن کر ایسے ہندی الفاظ استعمال کرنا شروع کر دے تو گو وہ بولے اور سمجھے بھی جاتے ہوں گے مگر جب وہ ان الفاظ کو جمع کر کے لے آئے گا تو گو ان کا سمجھنا تو مشکل نہیں ہو گا مگر وہ الفاظ ہمارے اندر وہ کیفیتِ جذب پیدا نہیں کر سکیں گے جو کیفیت عام اردو الفاظ سے ہمارے اندر پیدا ہو سکتی ہے۔ ہم صرف اسی خیال میں رہیں گے کہ کیسے کیسے انوکھے الفاظ استعمال کر رہا ہے۔ اسی طرح ایک ہندو یا ایک سکھ گو اردو سمجھتا ہے بالعموم شہری طبقہ مگر دیہات کا بھاری طبقہ ایسا ہے جن کی اردو اپنی ہی قسم کی ہوتی ہے۔ چنانچہ میں نےد یکھا ہے کہ کئی دفعہ ایسے لوگوں سےبات کرتے وقت ان کو ٹوک ٹوک کر پوچھنا پڑتا ہے کہ آپ کے اس فقرہ کا مطلب ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ کیونکہ ان کی زبان میں ہندی اور گورمکھی کے ایسے پرانے الفاظ ہوتے ہیں جنہوں نے اردو کی شکل اختیار نہیں کی۔ پس ہم اُس وقت تک اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک ہماری جماعت میں ایسے لوگوں کی کافی تعداد موجود نہ ہو جو ہندی، گورمکھی اور بنگالی، مرہٹی، تاملی وغیرہ جاننے والے ہوں۔ کیونکہ ہندوؤں میں تبلیغ کرنے کے لئے ہندی زبان اسی طرح ہے جس طرح مسلمانوں کے لئے اردو ۔ گویا ہندی اور اردو کے دو الگ الگ دریا بہتے ہیں جو آپس میں ملتے نہیں۔ قرآن مجید میں آتا ہے ۔ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیٰنِ1 کہ دو دریا پاس پاس بہتے ہیں لیکن ان کے درمیان برزخ ہے اور وہ آپس میں ملتے نہیں۔ اسی طرح ہندی اور اردو بھی دو الگ الگ دریا ہیں جو سارے ہندوستان پر چھائے ہوئے ہیں۔ مگر اردو کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ جو ہندی جاننے والے ہیں ان میں سے اکثر اردو بھی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ مگر مسلمان جو اردو جاننے والے ہیں ان میں بہت کم لوگ ہیں جو ہندی جانتے ہیں۔ گویا اردو کا دریا ہندی پر بھی چھایا ہوا ہے۔ لیکن ہندوؤں میں سے بعض لوگ جو گاؤں کے رہنے والے ہیں وہ ہندی کے ذریعہ تو باتیں سمجھ سکتے ہیں مگر اردو کے ذریعہ سے ان کے اندر وہ اثر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو مؤثر طور پر تبلیغ کرنے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر ہندی اور سنسکرت جاننے والے ہوں۔ اِس وقت تک جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ بہت کم لوگ ہیں جو ہندی جانتے ہیں۔
پس جہاں میں جماعت کو یہ اطلاع دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ستیارتھ پرکاش کا جواب شائع کرنے کا کام جلد جلد ہو رہا ہے وہاں میں جماعت کو اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہندوؤں اور سکھوں میں مؤثر طور پر تبلیغ کرنے کے لئے کثرت سے ہندی اور گورمکھی وغیرہ جاننے والے ہونے چاہئیں۔ یہ تو ایک ضمنی بات تھی اصل بات میں یہ کہہ رہا تھا کہ ستیارتھ پرکاش کا جواب لکھا جا رہا ہے اور اس میں تین باتوں میں میرا حصہ ہے۔ اول یہ کہ کوئی دلیل کمزور نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ عام ہندوؤں کی طرف خطاب نہ ہو بلکہ صرف آریہ سماج مخاطب ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی سخت کلامی نہ ہو۔ اور ان تینوں باتوں کے لحاظ سے میں اس مضمون کو دیکھ چکا ہوں جو اِس وقت تک تیار ہو چکا ہے۔
دوسرا کامقرآن مجید کی تفسیر شائع کرنے کا تھا۔ چنانچہ روزانہ جماعت کے چھ سات سَو کے قریب آدمی جمع ہوتے ہیں اور میں ان کے سامنے قرآن مجید کے نوٹ لکھا رہاہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِس وقت تک دو سو پچھتر صفحات کے قریب کا مضمون جنوری میں لکھوایا جاچکا ہے۔ اس سے پہلے ڈلہوزی میں ساڑھےتین سو صفحات کا مضمون میں لکھوا چکا ہوں۔ اس طرح گویا سَوا چھ سَو صفحہ کا مضمون ہو چکا ہے۔ یوں تو ہزار بارہ سو صفحات جنوری میں لکھے جا چکے ہیں۔ مگر چھپوائی میں چونکہ باریک اور گنجان الفاظ لکھے جاتے ہیں اور تھوڑی جگہ لیتے ہیں اس لئے ہزار بارہ سو صفحات کا مضمون تفسیرکے دو سو پچھتر صفحات میں آتا ہے۔ تو اتنا کام ہو چکا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ایک مہینہ میں آخری پارہ کی تفسیر ختم ہو جائے گی ۔آخری پارہ اس لحاظ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں چھوٹے چھوٹے فاصلہ پر سورۃ بدلتی ہے۔ اگر انسان بڑی بڑی عمارتوں کو دیکھے جو دو دو تین تین فرلانگ تک لمبی چلتی چلی جائیں تو وہ شخص اپنی ساری سیر میں تین چار عمارتوں کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی طبیعت پر اَور قسم کا اثر ہوتا ہے ۔ مگر جب وہ ایسی عمارتوں کے پاس سے گزرے جو ایک مکان کے بعد دوسرا مکان اور دوسرے مکان کے بعد تیسرا مکان اور تیسرے مکان کے بعد چوتھا مکان سامنے لاتی ہوں اور تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر مکان بدلتے چلے جائیں تو اس کی طبیعت پر اَور قسم کا اثر ہوتا ہے۔ چلتا تو وہ اُتنا ہی ہے مگر وہاں بڑی بڑی عمارتوں کے پاس سےگزرتے وقت وہ اتنے عرصہ میں تین یا چار نظارے دیکھتا ہے۔ اور یہاں اتنے ہی عرصہ میں سینکڑوں نظارے اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر جاتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کی تفسیر ہے پہلے پاروں کی سورتیں لمبی ہیں۔ سورۃ بقرۃ میں پہلا پارہ سارا ختم ہو جاتا ہے۔ پھر دوسرا پارہ بھی ختم ہو جاتا ہے اور تیسرا بھی آدھا گزر جاتا ہے اور پھر جا کر یہ سورۃ ختم ہوتی ہے۔ اور اڑھائی پاروں تک ایک ہی سورۃ چلتی چلی جاتی ہے۔ پھر آگے چل کر ڈیڑھ ڈیڑھ پارہ میں ایک ایک سورۃ آجاتی ہے۔ پھر پارے پارے میں اور پھر ایک ایک پارے میں دو دو سورتیں آجاتی ہیں۔ پھر ایک ایک پارے میں تین تین چار چار سورتیں آجاتی ہیں اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخری پارہ میں جا کر سینتیس سورتیں آگئی ہیں۔ گویا پہلی سورتیں لمبی لمبی عمارتیں تھیں جو دُور تک چلتی چلی جاتی ہیں اور آخری سورتیں چھوٹی چھوٹی عمارتیں ہیں جو ایک کے بعد دوسری اور دوسری کےبعد تیسری بدلتی چلی جاتی ہیں۔ وہاں سورۃ بقرۃ میں پہلا پارہ گزر کر بھی ایک ہی مضمون تھا اور وہی مضمون پھر دوسرے پارے میں بھی چلتا چلا جاتا ہے اور تیسرے پارہ کے نصف میں جا کر ختم ہوتا ہے۔ مگر یہاں قدم قدم پر مضمون بدلتا ہے۔ یورپین مصنفین کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی سورتوں کی ترتیب مضمون کے لحاظ سے نہیں بلکہ جو لمبی سورتیں ہیں وہ پہلے رکھ دی گئی ہیں اور جو چھوٹی سورتیں ہیں وہ آخر میں رکھ دی گئی ہیں۔ یہ بات غلط ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کی سورتوں میں مضمون کے لحاظ سے ترتیب پائی جاتی ہے اور اس ترتیب کے مطابق سورتیں رکھی گئی ہیں۔ اور اس دعویٰ کی وجہ سے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم وہ ترتیب ثابت کریں۔ اور یہ ترتیب کا مضمون اتنا مشکل ہے کہ آج تک اس پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جس میں بِالاستیعاب یہ بحث کی گئی ہو کہ قرآن مجید کی تمام سورتوں میں کُلی طور پر کس طرح ترتیب پائی جاتی ہے۔ یہ اتنا مشکل مضمون ہے کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب جیسے آدمی جو زمانہ آخر کے چوٹی کے عالم تھے اور جنہوں نے قرآن مجید کی بڑی خدمت کی ہے انہوں نے بھی آخر لکھ دیا کہ قرآن مجید کے مضامین ایسے ہیں جیسے نمائش میں مختلف اشیاء جمع کر کے رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ گویا مکمل ترتیب ثابت کرنے سے وہ بھی قاصر رہے۔پس چونکہ آج تک اس قسم کی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جس میں قرآن مجید کی ترتیب کے متعلق مکمل بحث کی گئی ہو اور ہمارے عقیدہ کی رو سے چونکہ قرآن مجید میں کُلّی ترتیب پائی جاتی ہے اس لحاظ سے آخری پارہ کی تفسیر سب سے اہم اور سب سے مشکل ہے۔ کیونکہ پہلے حصہ میں تو کہیں اڑھائی پاروں یا دو پاروں یا ڈیڑھ پارہ کے بعد جا کر سوچنا پڑتا تھا کہ اب اس سورۃ کی پہلی سورۃ سے کیا ترتیب ہے گویا مضمون کی یگانگت ہمیں سوچنے سے بے نیاز کر دیتی تھی او راڑھائی پارہ تک یا ڈیڑھ پارہ تک یا ایک پارہ تک یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ اب اس مضمون کی ترتیب کیا ہے۔ کیونکہ ایک ہی مضمون چلتا چلا جاتاتھا۔ مگر یہاں نام کو تو ایک پارہ ہے مگر سینتیس دفعہ ٹھہر کر دیکھنا پڑتا ہے کہ اس سورۃ کا تعلق پہلی سورۃ سے کیا ہےاور مضمون کے لحاظ سے کیا ترتیب پائی جاتی ہے۔ اور اس سورۃ کو اس سے پہلی سورۃ کے بعد کیوں رکھا ہے۔
پس اس لحاظ سے آخری پارہ کی تفسیر سب سے زیادہ اہم اور سب سےز یادہ مشکل ہے یہ تفسیر اگر خداتعالیٰ توفیق دے دے تو ایک مہینہ تک ہو جائے گی اور پھر اس کی وجہ سے ترتیب کے متعلق ذہنوں میں جو مشکل پید اہوتی ہے وہ حل ہو جائے گی۔ اس سے پہلے مسلمان قرآن مجید پڑھتے تھے مگر ان کے ذہن میں کبھی یہ شبہ پیدا ہی نہیں ہوتا تھا کہ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے کیا تعلق ہے اور مضمون کے لحاظ سے ان دونوں میں کیا ترتیب ہے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ عَمَّ يَتَسَآءَلُوْنَ۠الگ ہے، سورۃ النازعات الگ ہے، سورۂ عبس الگ ہے، ہر ایک سورۃ پہلی سورۃ سے الگ ہے اور ان میں کوئی جوڑ اور کوئی ترتیب نہیں بلکہ الگ الگ مضامین ہیں۔ اس لئے ان کو اس بات کے متعلق سوچنے کی کوفت نہیں ہوتی تھی کہ ایک سورۃ کی دوسری سورۃ سے ترتیب معلوم کریں۔ مگر ہم نے جہاں دنیا کے سامنے قرآن مجید کی ترتیب کا دعویٰ پیش کیا ہے وہاں لوگوں کاجھوٹا امن جو اُن کو حاصل تھا وہ بھی ساتھ ہی برباد کر دیا ہے۔ پہلے تو ایک مسلمان قرآن مجید پڑھتا تھا تو یہ سمجھ کر پڑھتا تھا کہ اس کے مضامین میں کوئی ترتیب نہیں اس لئے وہ بغیر کسی شُبہ کے پڑھتا چلا جاتا تھا۔ خواہ یہ اس کی کمزوری تھی، خواہ یہ علم کا نقص تھا، خواہ یہ قرآن مجید کی ہتک تھی کہ کہا جائے کہ قرآن مجید کی سورتوں میں کوئی جوڑ نہیں کوئی ترتیب نہیں۔ یونہی پہلے لمبی لمبی سورتیں جمع کر دی ہیں اور آخر میں چھوٹی چھوٹی سورتیں رکھ دی ہیں۔ کچھ بھی ہو بہرحال اس خیال کی وجہ سے وہ شبہات سے بچا ہوا تھا۔ سب مسلمان اس خیال سے قرآن مجید پڑھتے تھے کہ اس کی سورتوں میں کوئی جوڑ نہیں اس لئے وہ اس کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی ترتیب اور جوڑ معلوم کرنے کی کوشش کریں۔ اور ان کو مضمون کی ترتیب نکالنے کے متعلق کوئی تشویش پیدا نہیں ہوتی تھی۔ جب کوئی نئی سورۃ شروع ہوتی تو وہ یہی سمجھتے کہ اب ایک نیا مضمون شروع ہوا ہے جس کا پہلی سورۃ کے مضمون سے کوئی تعلق اور جوڑ نہیں۔ مگر جب ہماری طرف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ سارا قرآن مجید باترتیب ہے اور ہر ایک سورۃ اپنے سے پہلی سورۃ کے ساتھ ملتی ہے اور ان کے اندر ایک فلسفیانہ اور عقلی جوڑ پایا جاتا ہے تو ہمارے اس دعویٰ سے وہ جو جھوٹا امن حاصل تھا کہ قرآن مجید کی ترتیب نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں وہ جھوٹا امن بھی جاتا رہا۔ اب ایک احمدی یہ نہیں کہہ سکتا کہ چلو سورۃالنَّبَاء کے بعد سورۃ النازعات آگئی اور اب ایک نیا مضمون شروع ہو گیا جس کا پہلی سورۃکے مضمون سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کو تو جب تک پتہ نہیں لگتا کہ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے کیا جوڑ ہے اور مضمون کے لحاظ سے ان میں کیا ترتیب پائی جاتی ہے اُس وقت تک اس کی تشویش دور نہیں ہوتی اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے قرآن مجید کو سمجھا ہی نہیں۔ کیونکہ مجھے بتایا گیا ہے کہ تمام سورتوں کا آپس میں جوڑ ہے اور اس کے مضامین میں زنجیر کی طرح ایک تسلسل اور ایک تعلق پایا جاتا ہے۔ مگر مجھے وہ ترتیب اور وہ جوڑ معلوم نہیں اس لئے میں نے قرآن مجید کو نہیں سمجھا اور یہ بے کلی اس کے دل کے اطمینان کو ضائع کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس تفسیر کے ذریعہ جو لوگ درس میں شامل نہیں ہو سکتے یا جو باہر رہتے ہیں ان کی یہ تشویش اور یہ بے کلی دور ہو جائے گی۔ اور جو لوگ درس میں شامل ہوتے ہیں ان کو تو ساتھ ہی ساتھ معلوم ہو جاتا ہے کہ کس طرح خاص حکمت اور خاص غرض کے ماتحت سورتوں کو ایک دوسری کے بعد رکھا گیا ہے اور ان کےمضامین میں کیا ترتیب اور کیا جوڑپایا جاتا ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی آخری پارہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اور اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں کثرت کے ساتھ زمانہ حاضرہ کے متعلق پیشگوئیاں اور حالات بیان کئے گئے ہیں۔ زمانہ حاضرہ کے متعلق جتنی باتیں اور جتنی خبریں اس پارہ میں بیان کی گئی ہیں شاید سارے قرآن مجید میں بھی اس زمانہ کے متعلق اتنی خبریں اور اتنے حالات بیان نہیں کئے گئے۔ بعض جگہوں پر تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اِس زمانہ کا گویا تمام نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے۔ پس اِس زمانہ کے حالات کا جس رنگ میں اس پارہ میں ذکر کیا گیا ہے اور جو نقشہ خداتعالیٰ کے اس زمانہ میں ظاہر ہونے والے افعال کا اس بارہ میں کھینچا گیا ہے ہر آدمی جو چاہے احمدی نہ ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کا مطالعہ کرے اور معلوم کرے کہ قرآن مجید میں آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے کس طرح اس زمانہ کا نقشہ پیش کیا گیا ہے اور اِس زمانہ میں پیدا ہونے والے مفاسد کا کیا علاج بتایا گیا ہے اور کس رنگ میں آئندہ ترقی کرنے کی صورت کو پیش کیا گیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اگر حالات مساعد ہوں تو آخری پارہ فروری کے آخر تک یا مارچ کے شروع تک ختم ہو جائے گا۔ آگے پھر چھپنے کا سوال ہے اس کا میرے ساتھ تعلق نہیں۔ اس کا تعلق دفاتر کے ساتھ ہے اور یہ ان کا کام ہے۔ جنگ کی وجہ سے مشکلات اور قدم قدم پر روکیں پیدا ہو رہیں ہیں۔ کاغذ تو موجود ہے باقی کاموں کے متعلق کوشش ہو رہی ہے۔ امید ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اپریل، مئی یا حد جون تک یہ جلد شائع ہو جائے گی۔ اس کے بعد جیسا کہ میں نے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا تھا میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اسی سال پہلی جلد بھی جو آدھی باقی ہے مکمل کرکے شائع کر دی جائے۔
اس کے بعد میں جماعت کوتحریک جدید کی طرف پھر توجہ دلاتا ہوں گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ اب جو جمعہ آئے گا اس جمعہ کے خطبہ میں تحریک جدید کی تحریک کرنا بے فائدہ ہو گا کیونکہ وہ خطبہ وقت پر نہیں پہنچ سکے گا۔ پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو اپنے آئندہ فرائض معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ میں یہ بتا دوں کہ جو کام ہمارے سامنے ہے وہ بہت بڑی قربانی چاہتا ہے۔ وہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے ابتدائی اخراجات کے لئے بھی ہمارے پاس سامان موجود نہیں۔ اب جبکہ جنگ کے خاتمہ کے آثار نظر آرہے ہیں اور جبکہ ہمیں جلد سے جلد تبلیغ کرنے کا موقع ملنے والاہے میں نے پھر ایک دفعہ اس سارے مضمون کو اپنے دماغ میں دہرانا شروع کیا اور ساتھ ساتھ اس میں سے کچھ باتیں کاغذ پر نوٹ کرتا گیا۔ میں نے غور کیا کہ تبلیغ کے لئے ہم پہلا قدم کیا اٹھائیں اور اس کے لئے کس قدر اخراجات کی ضرورت ہے۔ چنانچہ میں غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ اگرہم صحیح طور پر تبلیغ کرنا چاہیں تو فی مرکز میں چھ چھ مبلغوں کی ضرورت ہے۔ اور مرکز سے مراد وہ علاقہ نہیں ہے جس میں ہم تبلیغ وسیع کرنا چاہتے ہیں اور جہاں آدمی کامیاب طور پر تبلیغ کر سکتا ہے۔ مثلاً انگلستان کو ہی لے لیں۔ تو اسے ہم ایک مرکز قرار نہیں دے سکتے۔ کیونکہ انگلستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ کی ہے۔ اس ساڑھے چار کروڑ کی آبادی کو چھ آدمی ایک جگہ بیٹھ کر تبلیغ نہیں کر سکتے۔ انگلستان کو جانے دو۔ لندن کو ہی لے لیا جائے تو لندن میں بھی چھ آدمی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ لندن کی آبادی اسّی لاکھ کی ہے اور یہ شہر ستّر اسّی میل تک پھیلا ہؤا ہے اور اس کے باشندے اپنے کاموں میں اتنے مشغول رہتے ہیں کہ ان کو سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہوتی۔ شاذ ہی کوئی ہو گا جو اپنے کام سےوقت بچا کر کسی دوسرے کام کے لئے دے سکے اور اس طرف توجہ کر سکے۔ تو انگلستان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ چھ مبلغ وہاں مؤثر طور پر تبلیغ کر سکتے ہیں یہ خیال ہی غلط ہے۔ اگر لندن کے دس دس لاکھ کے حصے کر لئے جائیں تو تب بھی سات آٹھ مبلغ ہونے چاہئیں مگر یہ تو ساری دور کی خوابیں ہیں۔ بے شک دور کی خوابیں بھی اللہ تعالیٰ نزدیک کر دیا کرتاہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مکی زندگی میں کس کو یہ خیال آسکتا تھا کہ آج سے سات سال کے اند رمسلمان سارے عرب پر غالب آجائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ دور کی خوابیں بھی حقیقت میں بدل دیا کرتاہے۔ مگریہ تو اس کا فعل ہے اس کو وہی جانتا ہے کہ کب ہو گا۔ ہم نے تو اپنے ماحول کو ہی دیکھنا ہے۔ تو موجودہ حالات کے لحاظ سے اگر ہم یہی کریں کہ سارے انگلینڈ کو ایک مرکز قرار دیں تو ہے تو یہ عجیب بات کہ چار ساڑھے چار کروڑ کی آبادی کو تبلیغ کرنے کے لئے جو کئی ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے ہم یہ فیصلہ کریں کہ اس کو ایک مرکز قرار دیں اور چھ مبلغ وہاں رکھیں۔ کیونکہ چھ آدمی اتنی آبادی میں تبلیغ کا کام پوری طرح نہیں کر سکتے۔ بہرحال اگر موجودہ مشکلات کے لحاظ سے ایک مرکز انگلستان کو قرار دیں اور ایک ایک مرکز جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین اور شمالی یورپ اور مشرقی یورپ میں رکھیں تو یہ سارے دس کے قریب مرکز ہوتے ہیں۔ اور پھر اس کے علاوہ شمالی اور جنوبی امریکہ کے حصے ہیں۔ پھر عرب ممالک کے پانچ اور ایران کا ایک اور افریقہ کے دس کُل اٹھائیس مراکز، ممالک اور براعظموں کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ اور ان میں ایک ایک ملک میں صرف چھ چھ مبلغ مقرر کریں تو کُل ایک سَو اَڑسٹھ مبلغوں کی ضرورت بنتی ہے۔ اور چونکہ ہر مبلغ، اس کے قائمقام ، سفر خرچ ، لٹریچر اور نگرانی کا خرچ کم سے کم سات سو ماہوار فی مبلغ ہوتا ہے۔ اس تعداد کا کُل خرچ گیارہ لاکھ روپیہ سالانہ کے قریب ہوتا ہے۔ جب میں نے اس پر غور کیا تو میں نے کہا ابھی جتنی چادر ہے اُتنے پاؤں پھیلاؤ۔ کیونکہ یہ کام ابھی ہماری طاقت سے باہر ہے اور ہمارے پاس اتنے سامان نہیں کہ ان تمام جگہوں پر مرکز قائم کر سکیں۔ لیکن یہ بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا کہ کسی ایک ملک کو چُن کر وہاں تبلیغ شروع کر دی جائے۔ کیونکہ حالات کے لحاظ سے یہ تمام ممالک ایسے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ اس زمانہ میں خطرناک تغیرات کسی ایک ملک میں رونما نہیں ہو رہے بلکہ یہ تغیرات عالمگیر ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ عالمگیر تبلیغ کے سامان مہیا فرمائے۔ اگر خداتعالیٰ کا ارادہ عالمگیر تبلیغ کے لئے سامان مہیا فرمانے کا نہ ہوتا تو خطرناک تغیرات صرف اٹلی میں رونما ہوتے یا صرف فرانس میں رونما ہوتے یا صرف جرمنی میں رونما ہوتے یا صرف انگلستان میں رونما ہوتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یورپ کے ایک سرے سے لے کر دوسرے تک اس قسم کے تغیرات رونما ہوئے ہیں اور خصوصاً مغربی یورپ میں تو اتنے خطرناک تغیرات پیدا ہو چکے ہیں کہ وہاں نہ کوئی حکو مت باقی رہی ہے اور نہ سرحدیں باقی رہی ہیں اور جس طرح لوہے کو گلا دیا جاتا ہے اِسی طرح سارے کا سارا یورپ گل گیا ہے۔ کوئی قومیت باقی نہیں رہی اور کوئی ملک نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا ہونے والاہے۔ فرانس اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا کہ کل کو کیا بننے والا ہے، اٹلی اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا ،سپین اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا، یوگوسلاویہ اپنے مستقبل کے متعلق نہیں جانتا۔ اسی طرح ہنگری اور دوسرے یورپین ممالک بھی نہیں جانتے کہ کیا بننے والا ہے اور مستقبل میں ہمارا کیا حال ہو گا۔ شاید روس اپنے مستقبل کے متعلق سمجھتا ہو لیکن درحقیقت اس کی بھی ناواقفیت ہے۔ خود انگلستان میں بھی گھبراہٹ ہے کہ ہماری کامن ویلتھ کا کیا بنے گا۔ اخبارات میں اس قسم کے حالات نہیں آتے۔ میں انگلستان سے ایک رسالہ منگواتا ہوں جو پارلیمنٹ کی طرف سے شائع ہوتاہے۔ قانونی طور پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے کچھ ممبر مل کر اسے شائع کرتے ہیں۔ جس میں اس قسم کی ساری اہم باتوں کے متعلق بحث ہوتی ہے کہ ہماری کامن ویلتھ کا کیا بننے والا ہے۔ اسی طرح یورپ اور امریکہ کے ممالک کی پالیٹکس کے متعلق بحث ہوتی ہے کہ کیا کیا تغیرات رونما ہونے والے ہیں اور کس قسم کے خطرات پیش آنے والے ہیں۔ اس رسالہ سے پتہ لگتا ہے کہ خود انگلستان کے لوگ بھی گھبرا رہے ہیں کہ ہماری کامن ویلتھ کا کیا ہونے والا ہے۔
پس ان حالات میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ خدا کی آواز ہمیں بلا کر کہہ رہی ہے کہ ہماری تبلیغ کسی ایک ملک کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ ان تمام ممالک میں تبلیغ کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ جب میں نے ان حالات پر غور کیا تو میں نے سوچا کہ انگلستان، جرمنی، فرانس، اٹلی، سپین کم سے کم یورپ کے یہ ممالک تو ایسے ہیں جن کو کسی طرح بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ روس کو بھی چھوڑا نہیں جا سکتا۔ مگر وہاں چونکہ تبلیغ کی اجاز ت نہیں اس لئے مجبوری ہے۔ روس میں آزادی کا ڈھول تو بہت پیٹا جاتا ہے مگر اس کے متعلق ہمارا نہایت تلخ تجربہ ہے۔ ہمارے آدمی وہاں کے قید خانوں سے نکل نکل کر آئے ہیں اور ایک کو تو کئی سال قید میں رکھا اور اسے بڑی بڑی سخت تکالیف دی گئیں۔ پس اس میں تبلیغ کا ابھی انتظام نہیں کیا جا سکتا۔ باقی یورپ کے ہر ملک کے دروازے ہمارے لئے کُھلے ہیں اور ہم انہیں اپنی تبلیغ میں لا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ امریکہ میں بھی شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ دو الگ الگ براعظم ہیں۔ اول تو جنوبی امریکہ میں ہی تیرہ چودہ وسیع حکومتیں ہیں۔ پھر بھی اگر ہم سارے جنوبی امریکہ کو ایک مرکز قرار دے لیں کہ وہ لوگ متحدُ الْقوم اور متحدُ الِّلسان ہیں اور اسی طرح شمالی امریکہ کو بھی ایک مرکز قرار دیں تو پانچ وہ (یعنی انگلستان جرمنی، فرانس، اٹلی اور سپین) اور دو یہ ۔ کُل سات مرکز ہو گئے۔ گویا بیالیس مبلغ ہوں تو ان سات مراکز میں تبلیغ ہو سکتی ہے۔ مگر میں نے اندازہ لگایا کہ بیالیس مبلغوں کا بھی اتنا بوجھ ہے کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے اسے برداشت کرنا ناممکن ہے یعنی جہاں تک جماعت کی قابلیت کے معیار کا سوال ہے اس کے لحاظ سے تو یہ ناممکن نہیں۔ مگر جس قربانی کے معیار پر جماعت اِس وقت کھڑی ہے اس کے لحاظ سے یہ مشکل ہے۔ ورنہ جماعت کی حالت تو ایسی ہے کہ اگر وہ قربانی کے صحیح معیار کو قائم رکھے تو پھر یہ ناممکن نہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت قربانی کے صحیح معیار پر قائم رہے تو اس سے زیادہ کام بھی ہو تو وہ بھی ہو سکتا ہے۔
خیر تو مَیں نے سوچا کہ اگر ہم ان مرکزوں میں سے ہر ایک میں چھ چھ مبلغ رکھیں تو سات مراکز کا خرچ ساڑھے تین لاکھ روپیہ سالانہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ ساڑھے تین لاکھ روپیہ سالانہ کا بار ایسا ہے کہ تحریک جدید کا فنڈ اسے اٹھا نہیں سکتا۔ مگر عرب، ایران یہ پھر بھی اس سے باہر رہ جاتے ہیں اور یہ دونوں ملک ایسے ہیں کہ ان کو بھی خالی نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر ان ممالک کو بھی ملا لیں، افریقہ کو بھی ملا لیں اور پھر اس رقم کو بھی ملا لیں جو مبلغین کے جانے پر کرایہ کے لئے خرچ ہو گی اور پھر ان مبلغین کے جو قائمقام یہاں رکھے جائیں گے ان کے اخراجات کو بھی ملا لیں تو اس لحاظ سے یہ سکیم ناقابلِ عمل نظر آتی ہے۔ اور یہ اتنا بار ہے کہ موجودہ حالات کے لحاظ سے ناممکن ہے کہ تحریک جدید اس بار کو اٹھا سکے۔ یہ سوچنے کے بعد پھر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر ایک مرکز میں مبلغین کی تعداد کم کر دی جائے۔ اور میں نے یہ تجویز کیا کہ انگلستان میں بجائے پورا مرکز رکھنے کے آدھا مرکز رکھا جائے یعنی چھ کی بجائے تین مبلغ رکھے جائیں۔ اور اسی طرح امریکہ میں بھی آدھا مرکز رکھا جائے اور تین مبلغ وہاں رکھے جائیں۔ اور باقی جتنے مراکز ہیں ان میں دو دو مبلغ رکھے جائیں۔ گویا ایک مرکز کا ایک تہائی حصہ وہاں رکھیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک ایک مرکز میں د ودو مبلغ رکھنا کوئی مؤثر تبلیغ نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ یہ ممالک ہیں شہر نہیں۔ لیکن بہرحال کام چلانے کے لئے موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ تین مبلغ انگلستان میں، دو فرانس میں، دو جرمنی میں اور اگر ایک زائد کا انتظام ہو گیا تو جرمنی میں تین کر دیئے جائیں گے اور ہالینڈ کو بھی اس کے ساتھ ملا دیا جائے گا۔ گویا دو جرمنی کے لئے اور ایک ہالینڈ کے لئے اور دو مبلغ اٹلی میں اور دو سپین میں۔یہ گویا قلیل سے قلیل دائرہ تبلیغ ہے۔ اور پھر ادھر فلسطین اور شام اور ایران ہیں۔ فلسطین اور شام میں ہمارا صرف ایک مشنری کام کر رہا ہے۔ مگر خدا کے فضل سےان لوگوں میں بیداری پائی جاتی ہے اور یہ لوگ جلد صداقت قبول کرتے معلوم ہوتے ہیں اور یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا ہم پر بڑا احسان ہے۔ اگر عرب، فلسطین، شام، عراق اور مصر کے لوگ دور دور دنیا کے کناروں تک اسلام نہ پہنچاتے تو ہم تک یہ نعمت نہ پہنچتی۔ ہم میں سے ہر ایک کی گردن ان ملکوں کے احسان کےنیچے جُھکی ہوئی ہے۔ کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ہمیں انہوں نے پڑھایا۔ اب ہمارا بھی حق ہے کہ اگر وہ اس لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے اصلی معنوں کو بھول گئے ہیں توہم دوبارہ ان کو یاد کرائیں۔ ایک شریف آدمی جب تک ایک معمولی سے معمولی احسان کا بدلہ بھی اتار نہیں لیتا اُس وقت تک اسے چَین نہیں آتا۔ اور یہ تو اتنا بڑا احسان ہے کہ اگر ہم اتنے بڑے احسان کا بدلہ نہ اتاریں تو حد درجہ کی بے حیائی کہلائے گا۔ تو یہاں مشن قائم کرنے بھی ضروری ہیں اس کے لئے اگر ہم قلیل سے قلیل تعداد میں مبلغ رکھیں تو کم از کم تین عرب میں اور دو ایران میں ہونے چاہئیں۔ ا س سے کم تعداد میں کام ہو سکتا ہی نہیں۔ دراصل تو بیسیوں مبلغ عربی ممالک میں اور درجنوں ایران میں ہونےچاہئیں۔ پھر افریقہ ہے جہاں خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت بڑھ رہی ہے اور نہایت سُرعت کے ساتھ ہماری تبلیغ پھیل رہی ہے۔
میں نے ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو قلیل سے قلیل اندازہ لگایا ہے تاکہ میں اس کے مطابق کام شروع کر دوں وہ یہ ہے کہ میں نے تجویز کیا ہے کہ تین مبلغ عربی ممالک میں، دو ایران میں، دو سپین میں، دو فرانس میں، دو اٹلی میں، تین جرمنی میں (جس میں ہالینڈ بھی شامل ہو گا) تین انگلستان میں، تین شمالی امریکہ میں اور دو جنوبی امریکہ میں رکھے جائیں۔ یہ سارے بائیس مبلّغ بنتے ہیں اور یہ قلیل سے قلیل تعداد ہے جس سے کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ اور اس سے کم تعداد میں کسی صور ت میں بھی کام نہیں کیا جا سکتا۔ جب میں نے ان کے اخراجات کا اندازہ لگایا تو تین مبلغ انگلستان میں، تین جرمنی میں، دو فرانس میں، دو اٹلی میں، دو سپین میں، دو ایران میں، تین عرب میں، تین شمالی امریکہ میں اور دو جنوبی امریکہ میں، بائیس مبلغ تو یہ ہو گئے۔ اور پندرہ مبلغ افریقہ میں۔ یہ کُل سینتیس مبلغ ہو گئے۔ اور سینتیس مبلغ ان کو فارغ کرنے کے لئے مرکز میں رکھے جانے چاہئیں۔ ان 74مبلغوں کے لئے میں نے دو لاکھ پچاس ہزار روپیہ سالانہ کا اندازہ لگایا ہے۔ ہمارا تحریک جدید کا دسویں سال کا جو چندہ تھا اگر جماعت کی قربانی کا معیار گیارھویں سال میں اس کے مطابق ہوتا تو اس سے یہ کام چل سکتا تھا۔ دسویں سال تحریک جدید کے تین لاکھ تیس ہزار سے کچھ زائد کے وعدے تھے اور ان میں سے تین لاکھ ا ٹھائیس ہزار روپیہ وصول ہو چکا ہے۔ اگر جماعت کی قربانی اس معیار پر قائم رہتی تو یہ ایسی رقم تھی کہ اس سے ان سینتیس مبلغوں کے اخراجات کا انتظام ہو سکتا تھا۔ اور پھر اتنے ہی آدمی یہاں قادیان میں بھی رکھے جا سکتے تھے جو مدرسہ کو جاری رکھیں۔ اور پہلے مبلغوں کو جو باہر گئے ہوئے ہوں جب ان کو واپس بلایا جائے(تاکہ ان کی نسل اور ان کی بیویاں تباہ نہ ہوں اور یوں بھی پہلوں کا واقفیت کے لئے بار بار قادیان آنا ضروری ہے) تو ان لوگوں کوان کی جگہ بھجوایا جائے۔
پس اگر جماعت کی قربانی کا وہی معیار قائم رہتا جو دسویں سال میں تھا تو اس سکیم کو جاری کرنا مشکل نہیں تھا۔ تین لاکھ تیس ہزر روپیہ کی آمد سے دو لاکھ پچاس ہزار کا خرچ سینتیس مبلغوں کا کام چلانے کے لئے کافی ہو جاتا۔ اور باقی کو ریزرو فنڈ کے طور پر جمع رکھا جاتا تا فوری ضرورتوں کے وقت اس سے کام لیا جا سکے۔ اسی وجہ سے میں نے گیارھویں سال کے لئے یہ تجویز کی تھی کہ جن لوگوں نے دس سال حصہ لیا ہے وہ اپنی قربانی کو اور نو سال تک جاری رکھیں اور کم سے کم نویں سال کے برابر حصہ لیں۔ اس طرح اس قدر رقم کا پورا کرنا ممکن ہو جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اِسی خیال سے کہ اس کام نے ہمیشہ جاری رہنا ہے میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ ایک اَور جماعت پانچ ہزاری فوج کی تیار کی جائے جو آئندہ انیس سال تک اپنی ایک ماہ کی آمد ہر سال دیا کرے تاکہ نو سال کے بعد جب پہلی پانچ ہزاری فوج اپنے کام سے فارغ ہو تو یہ دوسری پانچ ہزاری فوج بوجھ اٹھالے اور اسی طرح ہر دس سال بعد ایک نئی پانچ ہزاری فوج۔ اور اگر خداتعالیٰ چاہے تو ائندہ دس ہزاری اور پھر اس سے بڑی فوج تیار ہوتی چلی جائے۔ کیونکہ آخر اس انیس سال کے عرصہ میں بعض بچے جوان ہو چکے ہوں گے اور بعض نئے احمدی بھی ہوں گے۔ تو جب پہلے دَور کے لوگ اپنے انیس سال پورے کریں گے تو ان کے بعد نئے احمدی ہونے والے اور نئے پیدا ہونے والے ان کے قائم مقام پیدا ہو چکے ہوں گے اور اس طرح ہمیشہ ہمیش تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ جو لڑکا اس دَور کے پہلے سال میں پیدا ہو گا انیس سال کے بعد وہ جوان ہو کر برسرِروزگار ہو چکا ہو گا اور اس قابل ہو گا کہ دین کی خاطر قربانیوں میں حصہ لے سکے۔ اور جو اس دَور کے پہلے سال میں تین چار سال کا ہو گا انیس سال کے بعد وہ بائیس تئیس سال کا ہو چکا ہو گا۔ گویا انیس سال کا دَور ہونے کے لحاظ سے نئی پود تیار کرنے کا ایسا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے جو قیامت تک اپنی قربانی کو جاری رکھے۔ انیس سال کے بعد پہلے لوگوں پر سے یہ بوجھ اُتر چکا ہو گا۔ اور ان کے بعد ایک نئی پَود اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہو گی جنہوں نے پہلے سالوں میں حصہ نہیں لیا ہو گا۔ یا جو نئے احمدی ہوں گے یا جو بچے تھے اور انیس سا ل کے بعد جوان ہو کر برسرِروزگارہو چکے ہوں گے اب ان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے باپ دادوں اور بھائیوں کی قربانی کا بوجھ اپنے ذمہ اٹھائیں۔ اور جب ان لوگوں کے بھی انیس سال ختم ہوں گے تو پھر اَور نئی پَود تیار ہو چکی ہو گی جوان کا بوجھ اٹھائے گی۔ اور اس طرح جماعت کی قربانی کا سلسلہ ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری رہے گا۔ غرض انیس سال کاعرصہ اتنا کافی عرصہ ہے کہ اس کے بعد نئی نسل آجاتی ہے اور پھر بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی آجاتی ہے جو ہزاروں کی تعداد میں نئے احمدی ہوتے ہیں۔ ان کا بھی فرض ہو گا کہ اس قربانی میں حصہ لیں۔
پس اس سکیم سے میرا منشاء یہ تھا کہ یہ سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے اور جوں جوں ہماری تبلیغ بڑھتی جائے اور کام وسیع ہوتا جائے ساتھ ہی ساتھ اس کام کو چلانے کےلئے بھی سامان بھی پیدا ہوتے چلے جائیں۔ چنانچہ اس سکیم کے ماتحت میں نے تحریک کی تھی کہ جو لوگ پچھلے دس سالوں میں حصہ لیتے رہے ہیں وہ آئندہ نو سال تک حصہ لیں اور انیس سال کا دور پورا کریں۔ اور گیارھویں سال کا چندہ کم از کم نویں سال کے برابر ضرور دیں۔ میں سمجھتا تھا کہ کچھ لوگ تو ایسے ہوں گے کہ اگر ان کے حالات اجازت نہ دیں تو وہ کم از کم نویں سال کے برابر تو ضرور دیں گے اور کچھ مخلصین ایسے بھی ہوں گے جو دسویں سال کے برابر یا ا س سے زیادہ دیں گے اور اس طرح ہمارا سلسلہ تحریک جدید کی اتنی رقم پیدا کرتا رہے گا کہ جو رقم تبلیغ کی اس سکیم کے بوجھ کو اٹھا لے گی۔ کیونکہ نویں سال دو لاکھ کے قریب کے وعدے وصول ہوئے تھے۔ تو اگر گیارہویں سال اڑھائی لاکھ کی آمد ہو تو تبلیغ کی سکیم پر جو اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی رقم خرچ ہو گی وہ اس سے نکل آئے گی۔ اور اگر کسی وقت کچھ کمی رہی تو وہ نئی پانچ ہزاری فوج کی رقم سے ادا کی جا سکے گی۔ پھر جس وقت دفتر اول والوں کے انیس سال پورے ہو جائیں گے تو دفتر دوم والوں کے ابھی دس سال باقی ہوں گے اور وہ منظم ہو کر اس بوجھ کو اٹھا لیں گے۔اور جو کمی رہ جائے گی اس کو پورا کرنے کے لئے دفتر سوئم والے آجائیں گے۔ اور پھر جب دفتر دوئم والوں کے انیس سال پورے ہو جائیں گے تو اُس وقت دفتر سوئم والوں کے ابھی دس سال باقی ہوں گے وہ اس بوجھ کو اٹھا لیں گے۔ اور جو کمی رہ جائے گی اس کو پورا کرنے کے لئے دفتر چہارم والے آجائیں گے اور اس طرح جماعت کی قربانی کا سلسلہ قیامت تک چلتا جائے گا۔
یہ سکیم میرے ذہن میں تھی جہاں تک ابتدائی حصہ نے حصہ لیا ہے واقع میں ان کی قربانی بہت شاندار تھی۔ ان ابتدائی حصہ لینے والوں میں بالعموم ایسے تھے جنہوں نےد سویں سال سے بڑھا کر وعدے کئے۔ اور تھوڑے ایسے تھے جنہوں نے نویں سال کے برابر وعدے کئے۔ پھر ان وعدہ کرنے والوں میں سے چونکہ بعض فوت بھی ہو جاتے ہیں، بعض کی پنشن ہو جاتی ہے اس بات کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اس وجہ سے بھی وصولی کے وقت آٹھ دس فیصدی رقم خطرہ میں رہتی ہے۔ مگر جو حصہ باقی رہ گیا تھا انہوں نے قربانی کرنے میں کوتاہی کی ہے اور انہوں نے ابتدائی حصہ لینے والوں کے برابر اخلاص کا نمونہ پیش نہیں کیا۔ اس وقت تک دفتر اول کے گیارھویں سال میں صرف ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ کےوعدے آئے ہیں۔٭ لیکن یہ وعدے صرف ہندوستان کے ہیں۔ ہندوستان سے باہر کے وعدے ابھی باقی ہیں۔ اور ابھی ہندوستان کے وعدوں میں بھی آٹھ دس دن باقی ہیں۔ سات دن (7فروری) تک تو وعدے لکھوائے جا سکتے ہیں اور کچھ وقت ڈاک میں خطوط آنے پر بھی صَرف ہو گا۔ اس کو ملا کر قریباً دس دن ابھی باقی ہیں۔ میرا اندازہ ہے کہ اس سال دو لاکھ سے اوپر کے وعدے ہو جائیں گے۔ لیکن یہ دو لاکھ کی رقم تبلیغ کے اس بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان مشنوں کو جاری رکھنے کے لئے اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی کم سے کم ضرورت ہے اور جو نئی تحریک (دفتر دوم) کی میں نے جاری کی تھی مجھے افسوس ہے کہ اب تک وہ پوری طرح منظم نہیں ہو سکی۔ اس کے وعدے اِس وقت تک صرف پچیس ہزار سالانہ کے ہوئے ہیں۔ اگر دفتر دوم کو منظم کر کے پانچ ہزار نئے آدمی تیار کر لئے جائیں توامید ہے دفتر دوم کے ذریعہ سے بھی ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو سکتی ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو دفتر اول والوں کی قربانی کا وقت ختم ہونے کے بعد یہ لوگ اس بوجھ کو اٹھا سکیں گے۔ مگرجو وقفہ پڑا ہے اور اس سے جو کمی واقع ہوئی ہے اس کمی کودور کرنے کے لئے جماعت کو اس کام کی اہمیت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو کام ہمارے سامنے ہے اس کے لئے کتنی بڑی قربانی درکار ہے۔
بعض لوگوں کے دلوں میں یہ بھی خیال پیدا ہو سکتاہے کہ جائیدادوں کی آمدنی کہاں جائے گی۔ یہ بھی میں واضح کر دیتا ہوں کہ بڑے کاموں کے لئے ہمیشہ بڑی تیاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے نہ تو تبلیغ کا یہ دائرہ وسیع ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور نہ ہی اتنے مبلغ کافی ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ہر ملک میں اس سے آٹھ دس گُنا زیادہ مبلغ رکھنے پڑیں گے اور علاقوں کے لحاظ سے گویا ساٹھ ستّر گُنا زیادہ علاقوں میں تبلیغ کو وسیع کرنا پڑے گا۔ اور پھر بھی ابھی بہت سی دنیا ہماری تبلیغ سے باہر رہ جائے گی۔ اگر موجودہ حالت سے ساٹھ گُنا زیادہ علاقوں میں تبلیغ کو وسیع کریں تو موجودہ اندازہ مَیں نے اڑھائی لاکھ بتایا ہے اس کو اگر ساٹھ سے ضرب دیں تو یہ ایک کروڑ پچاس لاکھ روپیہ ہو جاتا ہے۔ بہرحال جب وہ زمانہ آئے گا تو اُس وقت خداتعالیٰ ایسے سامان بھی پیدا کر دے گا کہ ایک کروڑ پچاس لاکھ تو کیا اگر ایک ارب روپیہ کا مطالبہ کیا جائے گا تو لوگ کہیں گے یہ تھوڑا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ زمانہ کب آئے گا ۔ہماری زندگی میں آئے یا ہماری زندگی کے بعد آئے، مگر آئے گا ضرور۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں مگر خداتعالیٰ کے وعدے نہیں ٹل سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیّت فیصلہ کر چکی ہے کہ ساری دنیا پر اسلام اور احمدیت کی تبلیغ پھیلا دی جائے۔ اور اس کے لئے غیر معمولی سامان پیدا ہو رہے ہیں، آسمان سے فرشتے نازل ہو رہے ہیں کہ لوگوں کے دلوں کی اصلاح کرلیں اور روحانی توپیں مادیت کے قلعوں کو مسمار کرنے کے لئے گاڑی جارہی ہیں۔
یہ کام تو ہو گا جب ہو گا مگر جہاں تک انسانی تدابیر کا سوال ہے اس کے لحاظ سے بھی اب ایسا زمانہ آرہا ہے کہ ہمیں اپنے کاموں کو بڑھانا پڑے گا۔ اگر کسی شخص کے ہاں آج بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کے لئے ایک گز کپڑا درکار ہوتاہے تو کوئی احمق ہی ہو گا جو یہ کہے کہ اگلے سال بھی اتنے کپڑے میں ہی کام چل جائے گا۔ کیونکہ اگلے سال اس کے لئے دو گز کپڑا درکار ہو گا۔ اور کوئی نادان ہی ہو گا جو یہ خیال کرے کہ پانچ چھ سال کے بعد بھی دو گز میں ہی کام چل جائے گا کیونکہ پانچ چھ سال کے بعد پھر اسے تین چار گز کپڑا درکار ہو گا۔ اسی طرح جوں جوں وہ بچہ بڑھتا چلا جائے گا اس کے لئے زیادہ سے زیادہ کپڑا درکار ہو گا۔ پس ہم نے اگر آج ایک کام شروع کیا ہے تو کل اس کام میں جو زیادتی پیدا ہونے والی ہے ہمیں اس کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔ اگر آج ہم اڑھائی لاکھ روپے سے کام شروع کرتے ہیں تو آج سے پانچ سال بعد ہمیں پانچ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہو گی اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں آج سے ہی سامان کرنا ہو گا۔ اس لئے میں نے جائیداد کی آمد کو اس وقت بالکل مدنظر نہیں رکھا۔ اول تو اِس جائیداد پر پانچ لاکھ روپے کا قرضہ ہے۔ اس عرصہ میں اس سے جو آمد ہو گی اس سے یہ قرضہ اتاریں گے۔ اس کے بعد جو آمد ہو گی اس کو ریزرو فنڈ میں جمع کریں گے۔ اور پھر اس سے اَور آمدنی پیدا کرنے کے ذرائع سوچیں گے اور کام میں جووسعت پیدا ہو گی وہ اس آمدنی سے پوری کریں گے۔ پس جہاں تک موجودہ اڑھائی لاکھ روپے کا بوجھ اٹھانے کا سوال ہے یہ بوجھ تحریک جدید کے چندوں پر ڈالا جائے اور جب دفتر اول کے انیس سال پورے ہوں تو دفترثانی اس بوجھ کو اٹھائے۔ مگر اُس وقت تک کام میں جو وسعت پیدا ہو چکی ہو گی اور اس کام کو چلانے کےلئے جو ضرورت بڑھ جائےگی وہ ضرورت اس ریزرو فنڈ کی آمد سے پوری کی جائے۔ میں اس کے متعلق بتانا نہیں چاہتا تھا مگر شاید یہ خیال کیا جائے کہ جائیداد کی آمد بے کار پڑی رہے گی اس لئے میں نے بتا دیا ہے کہ وہ بے کار نہیں پڑی رہے گی بلکہ اس کے آمدنی کےنئے ذرائع پیدا کئے جائیں گے جو کام کی وسعت کو سنبھال سکیں۔ اِس وقت اس جائیداد کی قیمت پنجاب کی قیمتوں کےلحاظ سے اسّی لاکھ روپیہ کی ہے اور وہاں (سندھ) کی قیمتوں کے لحاظ سے ستائیس لاکھ روپے کی ہے اور گورنمنٹ کو اس پر کوئی سترہ لاکھ روپے کے قریب اس کی قیمت دی گئی ہے۔ اس رقم میں سے چھ سات لاکھ روپیہ چندوں سے بچا کر دیا گیا ہے۔ باقی وہیں کی آمدنی سے یا قرض لے کر ادا کیا گیا ہے۔ کُل سترہ لاکھ روپیہ دے کر اب یہ جائیداد آزاد کرائی جا چکی ہے جس کی قیمت اب ستائیس لاکھ روپیہ ہے۔ تین چار لاکھ وہاں کی آمدنی سے، پانچ لاکھ قرض لے کر اور چھ سات لاکھ چندہ میں سے ادا کیا گیا ہے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ ان جائیدادوں کو منظم کر کے ان کی آمدنی سے آہستہ آہستہ بیس پچیس لاکھ کا ایک اَور ریزرو فنڈ قائم کر دیا جائے۔
پس میری اِس سکیم کے ماتحت جائیداد کی آمدنی کو اُس وقت تک چُھؤ انہیں جا سکتا۔ ورنہ کچھ سال کے بعد کام کے بڑھنے پر سلسلہ کو سخت نقصان پہنچے گا۔ ضرورت ہے کہ اس کی آمدن سے مزید آمد پیدا کی جائے تاکہ کام میں جو وسعت پیدا ہو اس کے لئے ابھی سے سامان مہیا کرنا شروع کر دیا جائے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہمارے چھوٹے سے چھوٹے کام کے لئے ڈیڑھ کروڑ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ہم بیس پچیس لاکھ روپیہ سالانہ بھی خرچ کریں تو اس بیس پچیس لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد پیدا کرنے کے لئے بھی ابھی سے سامان پید اکرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ جماعت کو کس قدر بڑھا دے گا کہ وہ اِس بوجھ کو اٹھا لے۔ ہماری امیدیں تو یہی ہیں اور کل مَیں نے جب مبلغین بلائے کہ باہر جانے کے لئے تیاری شروع کردیں تو میں نے ان سے یہی کہا کہ ہمارے پاس اتنے سامان بھی نہیں لیکن کام کو وسیع کرنے کے بغیر بھی چارہ نہیں۔ آپ اس نیت سے باہر جائیں اور وہاں جاکر یہ کوشش کریں کہ اس ملک کے اتنے افراد احمدی ہو جائیں کہ اُن کا چندہ اُس ملک کی تبلیغ کے بوجھ کو اٹھائے تاکہ مرکز پر سے جلد اُن مشنوں کا بوجھ اُتر جائے۔ اور وہ فارغ شدہ رقوم سے اَور مبلغ بھجوا سکے۔ پس یہ تین باتیں میں جماعت کے سامنے رکھتا ہوں۔
اول یہ کہ جماعت کے دوست تحریک جدید کے چندہ میں اس رنگ میں حصہ لیں کہ ہر گروپ انیس سال تک اس بوجھ کو اٹھائے۔ اور جب انیس سال کے بعد ان کی قربانی ختم ہو جائے تو پھر دوسرا گروپ آگے آئے اور وہ اس بوجھ کو اٹھائے اور اس طرح قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے۔ اس طرح ہر فرد پر اس کا ہمیشہ بوجھ نہیں رہے گا۔ کیونکہ انیس سال کے بعد نئی نسل آجائے گی اور وہ اس بوجھ کو اٹھا لے گی اور اس طرح یہ تبلیغ ہمیشہ تک جاری رہے گی۔
دوسرے یہ کہ ہمارے مبلغ اس محنت اور دیانتداری سے کام کریں کہ وہ جس ملک میں جائیں وہ ملک دو تین سال کے بعد وہاں کی تبلیغ کا بوجھ خود اٹھائے۔
تیسرے یہ کہ جائیداد کی آمدنی ریزرو فنڈمیں جمع ہوتی رہے۔ ان تینوں ذرائع کو ملا کر امید ہے کہ اگر ہم اس کے مطابق چلیں اور گناہ کی شامت ہمارےرستہ میں حائل نہ ہو تو دس بارہ سال کے بعد بیس پچیس لاکھ روپیہ سالانہ کی آمدنی ان تینوں ذرائع سے پیدا ہو سکے۔ بہرحال اصل نتیجہ تو دس بارہ دن کے بعد ہی معلوم ہو گا کہ تحریک جدید میں دوستوں نے کس حد تک حصہ لیا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ میرے الفاظ کےظاہری معنوں سےجو کچھ نکلتا تھا کہ کم از کم نویں سال کے برابر چندہ ہو یہ تو ہو جائے گا ۔)اور جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے اِس وقت تک ہو چکا ہے( مگر جو سکیم ہمارے مدنظر ہے اس کے لحاظ سے وہ رقم کافی نہیں۔ کیونکہ گیارھویں سال کے چندوں کا موجودہ اندازہ دو لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ مگر میں نے بتایا ہے کہ ہمیں اپنی اس تبلیغی سکیم کو جاری کرنے کے لئے اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ مگر اس اڑھائی لاکھ میں ابھی ایک چیز مَیں نے شامل نہیں کی۔ اور وہ یہ کہ جو مبلغین باہر جائیں گے ان کے سفر خرچ پر بھی چالیس پچاس ہزار روپیہ خرچ ہو گا بلکہ اس بھی زیادہ۔
اِس وقت تک چار مبلغ افریقہ جا چکے ہیں اور دو تیاری کر رہے ہیں۔ باقی ہر ملک کے لئے میں نے مبلغ مقرر کر دیئے ہیں جو ممالک قریب ہیں اُن کا کرایہ کم ہے اور جو دور ہیں اُن کا زیادہ ہے۔ مثلاً افریقہ جانے کے لئے ڈیڑھ ہزار روپیہ کرایہ خرچ ہوتا ہے۔ اور جو ممالک دور ہیں وہاں کے لئے اڑھائی تین ہزار روپیہ کرایہ خرچ ہوتاہے۔ اگر ڈیڑھ ہزار روپیہ ہی اوسط لگالی جائے تواس لحاظ سےسینتیس مبلغوں کا پچپن چھپن ہزار روپیہ تو صرف کرایہ کا خرچ ہے۔ اور یہ بھی تھرڈ کلاس کا کرایہ ہے یہ نہیں کہ وہ بڑے آرام سے سفر کریں گے۔ آخر جو کرایہ مقرر ہے وہی دینا پڑے گا اِس میں کفایت کرنا تو ہمارے اختیار کی بات نہیں۔ تو یہ رقم ابھی میرے اس حساب سے باہر ہے۔ بہرحال اگر اس کو بھی شامل کر لیا جائے تو تین لاکھ روپیہ کی اس سال ضرورت ہو گی۔
اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دے کہ وہ ان تینوں باتوں کی اہمیت کو سمجھے اور دوسروں پر ان کی اہمیت اور معقولیت واضح کرے اور اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے کہ وہ خوشی خوشی ان بوجھوں کو اپنے سروں پر اٹھا لیں اور خداتعالیٰ کی رضا حاصل کریں۔ اور اللہ تعالیٰ نئے نئے لوگوں کو پیدا کرے کچھ ہمارے گھروں میں اور کچھ باہر سے لا کر جو اس بوجھ کو ہم سے بھی زیادہ اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ اور اس قسم کی قربانی کی روح اپنے ساتھ لائیں کہ یہ کام بجائے گھٹنے کے ہر سال بڑھتا چلا جائے اور ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ لیں کہ ہر ملک میں اسلام کی تبلیغ پھیل چکی ہو۔ ہمارے مبلغ ہزاروں کی تعداد میں تبلیغ کر رہے ہوں اور لاکھوں لاکھ آدمی ہر ملک میں احمدیت میں داخل ہو چکے ہوں۔ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیں کہ دشمن بھی اقرار کرے کہ اب اسلام پھیل چکا اور اب احمدیت دنیا پر غالب آگئی۔ اب اس کا مقابلہ کرنا فضول ہے۔ یہ خدا کی بات تھی جو پوری ہو گئی۔ آمین ’’ (الفضل مورخہ 8فروری 1945ء)
1: الرحمٰن: 20،21
6
دفتردوم کے مجاہدین کے وعدوں کی میعاد میں اضافہ
(فرمودہ 9فروری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘تحریک جدید دفتر اول کے وعدوں کا وقت تو گزر چکا ہے اور اردو بولنے والوں کے لئے وعدوں کی جو میعاد مقرر تھی وہ میعاد ختم ہو چکی ہے۔ سوائے ایسے لوگوں کے وعدوں کے جو کسی وجہ سے اس تحریک کے گیارھویں سال کا علم ہی حاصل نہیں کر سکے۔ یا ان ممالک کے جن کی اصلی زبان اردو نہیں ہے جیسے بنگال ،مدراس وغیرہ۔یافوجی لوگ جن تک نہ تو اخبار پہنچتے ہیں اور نہ ان کو ڈاک کے ذریعہ خطوط پہنچتے ہیں کیونکہ ان کی ڈاک بھی بہت کچھ ضائع ہو جاتی ہے۔ گورنمنٹ نے انتظام تو بہت اعلیٰ کیا ہے جس کی غرض یہ ہے کہ سپاہیوں کی ڈاک اُن تک پہنچتی رہے اور وہ مطمئن رہیں لیکن پچھلے چار پانچ ماہ سے کثرت سے سپاہیوں کو شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ ان کو خطوط نہیں ملتے۔ کئی ایسے خطوط آئے ہیں جن میں ان لوگوں نے شکوہ کیا ہے کہ ہم نے کثرت سے خطوط لکھے ہیں لیکن ہمیں ان کا جواب نہیں ملا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے خط و کتابت ہوتی رہی ہے لیکن نہ ان کے خطوط ان کے ماں باپ یا رشتہ داروں تک پہنچے ہیں اور نہ ہی ان کے ماں باپ یا رشتہ داروں کے یا ہمارے خطوط ان تک پہنچ سکے ہیں۔ نہ معلوم اس کی کیا وجہ ہے۔ شاید سپاہیوں کے دو ردو رپھیل جانے کی وجہ سے ایسا ہؤا ہے یا اِس وجہ سے کہ وہ ڈاک کے مرکز سے یعنی جہاں اُن کا بیس (Base) ہے اس سے دور چلے گئےہیں۔ یا دہلی کے ڈاکخانہ میں کوئی نقص ہے یا کوئی اَور وجہ ہے ۔ بہرحال پہلے یہ نقص نہیں تھا لیکن اب چار پانچ ماہ سے کثرت سے یہ شکایت پیدا ہو رہی ہے کہ سپاہیوں کے خطوط ان کے بال بچوں کو نہیں مل رہے۔ اور اگر مل جاتے ہیں تو فوجیوں کو ان کا جواب نہیں ملتا حالانکہ جواب لکھا جاتاہے۔ پس ایسے حالات میں فوجیوں کو کم از کم اپریل تک وعدہ بھجوانے کی اجازت ہو گی۔ اور اگر یہ ثابت ہوا کہ اُن تک خطوط پہنچنے میں دقت پیدا ہو رہی ہے تو پھر بعد میں بھی اجازت ہو گی۔ یا غیر ممالک کے لوگ ہیں جن کے وعدوں کی میعاد گزشتہ سالوں میں بھی جون تک مقرر ہوتی تھی۔ اس سال بھی ان کے لئے جون تک میعاد مقرر ہے۔ وہ جون کے آخر تک اپنے وعدے بھیج سکتے ہیں۔ کیونکہ وہاں کے لوگوں تک اطلاعات پہنچنا اور پھر ہمارے سلسلہ کے کارکنوں کا ہر جگہ یہ اطلاع پہنچا کر لوگوں سے وعدے لینا مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ امریکہ کے نویں سال کے وعدے جولائی کے چلے ہوئے ہمیں یہاں اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں آکر ملے تھے۔ پس ان لوگوں کے سوا باقی لوگوں کےوعدوں کی میعاد ختم ہو چکی ہے۔ مگر دفتر دوم کے متعلق چونکہ ہم نے نئے سرے سے ایک اَورپانچ ہزاری فوج قائم کرنی ہے اس لئے اس کی میعاد کو ابھی ختم نہیں کیا جاتا۔
جیسا کہ میں نے بیان کیاہے اللہ تعالیٰ نے آہستہ آہستہ اس تحریک کی بنیاد ایسے رنگ میں رکھ دی ہے کہ اس کے ذریعہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تبلیغی مشنوں کی جڑیں مضبوط کر دی جائیں۔ جماعت کے وہ دوست جنہوں نے پہلے دس سالوں میں حصہ لیا تھا ان میں سے اکثر 19 سال کی سکیم میں شامل ہو چکے ہیں اور انہوں نے گیارہویں سال کے وعدے لکھوا دیئے ہیں۔ اور جو باقی ہیں وہ ایسے ہیں جو دوسرے ممالک میں ہیں یا جو فوج میں ہیں یا ایسے صوبوں میں ہیں جن کی زبان اردو نہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو غالباً دس سال کے بعدحصہ لینا چھوڑ بیٹھے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دس سال حصہ لینے کےبعد اب ضروری نہیں رہا کہ گیارہویں سال میں بھی ہم حصہ لیں۔ اول تو پہلے دس سالوں میں حصہ لینا بھی فرض نہیں تھا۔ بار بار میں بتا چکا ہوں کہ یہ تو طوعی چندہ ہے جس کی مرضی ہو اس میں شامل ہو اور جس کی مرضی نہ ہو وہ شامل نہ ہو تو بقیہ نو سال حصہ لینا تو اَور بھی طوعی ہے کیونکہ جو دس سال میعاد مقرر کی گئی تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔ باقی جیسے میں نے بتایا تھا اگر کوئی صاحبِ توفیق ہے اور اس کے دل میں خداتعالیٰ کی محبت اور اسلام کی خدمت کا جذبہ پایا جاتا ہے تو طوعی کہنا تو الگ رہا اگر لوگ اس کے رستہ میں روک بن کر کھڑے ہو جائیں تب بھی وہ راستہ نکال کر ضرور اس میں حصہ لے گا۔ کیونکہ اس کے دل میں جو محبت خداتعالیٰ کی پائی جاتی ہو گی اس محبت کی وجہ سے کوئی چیز اُس کو اسلام کی خدمت کا کام کرنے سے روک نہیں سکے گی۔ دنیا میں مختلف قسم کے کام ہوتے ہیں۔ کوئی کام جبری ہوتا ہے لیکن وہ جبری، سیاسی جبری نہیں ہوتا جیسے ماں باپ اپنے بچوں سے کام لیتے ہیں۔ کوئی کام طاقت سے کروایاجاتا ہے جیسے کسی کو مار پیٹ کر اس سے کام کرایا جائے۔ کوئی کام سیاسی جبری ہوتا ہے کہ اگر کوئی اس کام کو کرنے سے انکار کرے تو اسے قید میں ڈالا جاتا ہے۔ لیکن دینی کام تو ہمیشہ طوعی ہی رہے ہیں اور طوعی ہی رہیں گے۔ اور طوعی کاموں میں ہی برکتیں ہوتی ہیں۔ مار مار کر کسی کو نماز پڑھانا نماز پڑھنے والے کے لئے فائدہ مند نہیں ہوتا۔ وہ نماز جس میں کھڑےہو کر وہ یہ سوچتا رہے کہ مجھے فلاں نے مار کر نماز پڑھائی ہے ورنہ میں کیوں پڑھتا تو اس کی نماز نماز نہیں ہو گی۔
حضرت بابا نانکؒ کے متعلق ایک بات مشہور ہے نامعلوم وہ کہاں تک سچی ہے لیکن وہ بڑی اچھی بات ہے۔ غالباً پشاور کی کسی مسجد میں بابا صاحبؒ نے امام کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد نماز توڑ کر الگ پڑھنی شروع کر دی۔ سلام پھیرنے کے بعد امام نے پوچھا کہ آپ نے جماعت کے ساتھ نماز توڑ کر الگ نماز کیوں شروع کر دی؟ یہ تو آپ نے نہایت نادرست اور تقویٰ کے خلاف کام کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں کمزور آدمی ہوں آپ کے پیچھے نماز کس طرح پڑھ سکتا تھا۔ بات یہ تھی کہ نماز پڑھاتے وقت امام کے دل میں جو خیالات گزر رہے تھے وہ بابا صاحبؒ پر کشف میں ظاہر ہو گئے۔ امام جب نماز پڑھانے کے لئے گھر سے آیا تو وہ یہ سوچ رہا تھا کہ میرا گزارہ امامت سے نہیں ہوتا کوئی اَور کام کرنا چاہیے۔ اس نے سوچا کہ جو قافلہ تجارت کرنے کے لئے یہاں سے بخارا جا رہا ہے کسی سے کچھ روپیہ قرض لے کر اس کا سامان خرید کر بخار ابھیج دوں۔ اس سامان کو فروخت کر کے وہاں سے کوئی اَور سامان خرید لائیں گے۔ اسے یہاں فروخت کر کے اس کا پھر اَور سامان خرید کر بخارا بھیجوں گا۔ اور پھر وہاں سے اس کا اَور سامان اور قالین وغیرہ منگواؤں گا۔ اورپھر کچھ سامان بنگال وغیرہ کی طرف بھیجوں گا اور اس طرح تجارت کر کے بہت سا روپیہ کماؤں گا۔ تو یہ خیالی سکیم بناتا ہؤا وہ گھر سے آیا اور جب نماز میں کھڑا ہؤا تو وہی خیالات دماغ میں جاری رہے۔ منہ سے کہہ رہا تھا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ1 اور دماغ کبھی قالین خریدنے بخارا جا رہا تھا اور کبھی بنگال کی طرف تجارت کرنے جا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کشف میں یہ نظارہ بابا صاحبؒ کو دکھا دیا اور انہوں نےامام کے پیچھے نماز چھوڑ کر الگ پڑھنی شروع کر دی۔ اور جب امام نے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ تو انہوں نےجواب دیا کہ حضرت! آپ تو قوی آدمی ہیں آپ نے لمبے لمبے سفر شروع کر دیئے میں کمزور آدمی ہوں آپ کے پیچھے پیچھے مجھ سے بخارا اور بنگال نہیں جایا جاتا۔ اس لئے میں نے الگ نماز پڑھ لی۔
تو انسان اپنے جذبات میں اسی طرح بہنے کا عادی ہوتا ہے۔ جس کو مار پیٹ کر نماز پڑھائی جائے گی اُس کے دل میں خداتعالیٰ کا خیال آئے گا کس طرح۔ اُس کے دل میں تو شکوے گِلے چلتے چلے جائیں گے کہ فلاں شخص نے مجھے مار کر نماز پڑھائی ورنہ میں کیوں پڑھتا۔ نماز تو اُسی کی ہو گی جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے پڑھے گا۔ جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے نماز پڑھے گا اس کے دل میں الٰہی محبت کے خیالات پیدا ہوں گے اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی خواہش اس کے دل میں سوز و گداز پیدا کرے گی۔ اور اس کی وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ خداتعالیٰ کی طرف جھکے گا۔ ورنہ یہ چیز اگر اس کے دل میں نہیں ہو گی تو اس کے دل میں جس قسم کے خیالات ہوں گے نماز میں بھی وہ خیالات اُسے اپنی طرف کھینچ لیں گے۔ امام بے شک اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اور مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ 2 پڑھ رہا ہو گا مگر یہ اس کے پیچھے کھڑا اپنے خیالات کی دنیا میں بہتا چلا جائے گااور اس کی نماز صرف ظاہری نماز ہو گی باطنی نہیں ہو گی۔
پس دین کے ایسے کام جو جبر سے کرائے جائیں وہ کبھی بھی نفع رساں نہیں ہوتے۔ بچوں پر جبر کرنا بے شک جائز ہوتا ہے تاکہ انہیں عادت ڈالی جائے۔ بچے کے ماں باپ اگر اس پر جبر کر کے نماز پڑھاتے ہیں یا بورڈنگ کا سپرنٹنڈنٹ جبر کر کے نماز پڑھاتا ہے تو وہ نماز بچے کی نماز نہیں ہوتی بلکہ اُ س کے ماں باپ یا بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کی ہوتی ہے۔ جب تک بچے کےد ل میں یہ احساس پید انہیں ہوتا کہ میں خدا کے لئے نماز پڑھتا ہوں اُس وقت تک اگر اس کے ماں باپ اُس کو نماز پڑھاتے ہیں تو اُس کا ثواب اُس کے ماں باپ کو ملے گا۔ اور اگر بورڈنگ کا سپرنٹنڈنٹ نماز پڑھاتا ہے تو اس نماز کا ثواب سپرنٹنڈنٹ کو ملے گا۔ اور اگر اس بچے کے ماں باپ اس کو نماز پڑھانے میں کوتاہی کرتے ہیں یا سپرنٹنڈنٹ نماز پڑھانے میں کوتاہی کرتا ہے تو بچے سے پُرسش نہیں ہوگی کہ تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی۔ بلکہ اُس کے ماں باپ یا سپرنٹنڈنٹ سے پُرسش ہو گی کہ کیوں تم نے نماز نہیں پڑھی۔ یعنی کیوں تم نے بچے سے نماز نہیں پڑھوائی۔ لیکن جس وقت بچے کے دل میں احساس پیدا ہو جائے کہ میرا ایک مالک اور آقا ہے اور میں نے اس کی عبادت کرنی ہے اور اس سے اپنے تعلقات بڑھانے ہیں اور اس کی محبت کو اپنے دل میں پیدا کرنا ہے اُس وقت سے اس کی نماز اس کی ہو جاتی ہے خواہ اس کی عمر چار پانچ سال کی ہویا دس سال کی ہو یا بارہ سال کی ہو۔جس وقت یہ احساس پیدا ہو جائے گا اُس وقت سے اُس کی نماز ہو گی۔ اُس سے پہلی اس کی نماز نہیں بلکہ اس کے ماں باپ یا بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کی نماز ہو گی۔
یہ مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ اِس وقت بچے میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ یہ میں تعیین نہیں کرتا کہ بچے کی نماز کس وقت سے شروع ہوتی ہے کیونکہ بعض بچے بڑے ذہین ہوتے ہیں اور بعض کم ذہین ہوتے ہیں۔ بعض بچے چودہ پندرہ سال کے ہو کر بھی ایسے ہوتے ہیں جیسے پانچ چھ سال کا بچہ اور بعض پانچ چھ سال کے بچے ایسے ذہین ہوتے ہیں جیسے چودہ پندرہ سال کا نوجوان۔ اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو چھ سات سال کی عمر میں اٹھارہ انیس سال کی عمر والوں سے بھی زیادہ ذہین اور زیادہ عقلمند ہوتے ہیں۔
امام شافعیؒ کی نسبت آتا ہے وہ کہتے تھے میں چھ سات سال کی عمر کا تھا جبکہ اچھی طرح قرآن مجید سمجھنے لگ گیا تھا۔ اور وہ نو سال کے تھے جب انہوں نے گھر کی تعلیم ساری حاصل کر لی۔ اور بارہ تیرہ سال کی عمر میں امام مالکؒ کے پاس جا کر ان کے شاگرد ہو گئے۔ امام مالکؒ نے اپنے شاگردوں کو حکم دے رکھا تھا کہ جب وہ مجلس میں سبق پڑھنے کے لئے آئیں تو کاپیاں اور قلم دوات لے کر آئیں اور جو سبق میں انہیں پڑھاؤں اسے لکھیں۔ جب امام شافعیؒ وہاں پہنچے تو سینکڑوں شاگرد امام مالکؒ کے گرد گھیرا ڈال کر بیٹھے تھے۔ یہ ان میں سے گزر کر آگے آکر بیٹھ گئے۔ کسی نے انہیں بچہ ہونے کے لحاظ سے کچھ نہ کہا کہ بچہ ہے جہاں چاہے بیٹھ جائے۔ دو تین دن بیٹھے رہے امام مالکؒ کی نظر ان پر پڑی تو انہوں نے کہا بچے! تم یہاں کیا کرتے ہو؟ کہنے لگے میں آپ کا شاگرد بنا ہوں اور سبق پڑھتا ہوں۔ امام مالکؒ نے کہا سبق، تم نے سبق کیا پڑھنا ہے یہ دوسرے لوگ جو سبق پڑھ رہے ہیں قلم دوات اور کاپیاں ان کے پاس ہیں اور وہ سبق ساتھ کے ساتھ لکھتے جا رہے ہیں مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لکھتے لکھاتے کچھ نہیں تم کیا سبق پڑھو گے۔ امام شافعیؒ نے جواب دیا کہ ان کو لکھنے کی حاجت ہو گی اس لئے یہ لکھتے ہیں مجھے لکھنے کی حاجت نہیں۔ امام مالکؒ نے سمجھا بچپن کی شوخی کی وجہ سے ایسی بات کرتا ہے۔ لیکن امام شافعیؒ نے ان سے کہا کہ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو تجربہ کر لیجئے۔ ابھی جب آپ اپنے شاگردوں سے سبق سنیں گے تو میں آپ کو بتاتا جاؤں گا۔ امام مالکؒ باقاعدہ اپنے شاگردوں سے سبق سنا کرتے تھے کہ کل میں نے کیا بیان کیا تھا۔ جب انہوں نے ایک شاگرد سے سننا شروع کیا تو امام شافعیؒ نے اس کو ٹوکنا شروع کیا۔ پیشتر اس کے کہ امام صاحب اُس شاگرد کی غلطی نکالتے امام شافعیؒ اُسے ٹوک دیتے کہ یوں نہیں امام صاحب نے یوں بتایا تھا اور وہ ٹھیک ہوتا۔ یہ دیکھ کر امام مالکؒ نے کہہ دیا کہ تم کو یہ شرط معاف ہے۔ تم کو کاپی اور قلم دوات کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہر آدمی تو شافعی نہیں بن جاتا۔ہر شخص الگ الگ ذہن کا مالک ہوتاہے۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ کونسی عمر میں بچہ کی نماز اس کی نماز ہوتی ہے۔ اگر اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ میں خدا کی نماز پڑھتا ہوں، اگر اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ نماز کاچھوڑ دینا اس سے زیادہ خطرناک ہے جتنا کہ مر جانا، اگر اس کے دل میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ نماز کے ذریعہ میں خداتعالیٰ کا قرب حاصل کروں تو جس عمر میں بھی یہ احساس پیدا ہو جائے اُس عمر میں اُس کی نماز اس کی ہو جاتی ہے ماں باپ یا سپرنٹنڈنٹ کی نماز نہیں رہنی چاہیے۔ چار پانچ سال کے بچے کے دل میں یہ احساس پیدا ہو جائے تو یہ بات اس کے متعلق نہیں کہ اس کی نماز اپنی نماز نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کے متعلق ہے جس کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہؤا کہ میں خدا کی نماز پڑھتا ہوں بلکہ ماں باپ نے کہا کہ نماز پڑھ تو میں نے نماز پڑھی۔ جس کی حالت یہ ہو کہ اگر کوئی اسے روکے کہ نماز نہیں پڑھنی اور خواہ اس پر سختی کی جائے اور اس کو زخمی کر دیا جائے اور اسے گِھسٹ کر جا کر نماز پڑھنی پڑے تو بھی وہ نماز نہ ترک کرے تو اس کی نماز اس کی نماز ہے۔ خواہ یہ خیال تین چار سال کے بچہ میں پید اہو جائے۔ بہرحال میں بتارہا تھا کہ دینی کام ہمیشہ طوعی ہی ہوتے ہیں۔ جب عبادت میں بھی وہی عبادت فائدہ مند ہوتی ہے جو طوعی ہو اور دل کی محبت کےساتھ کی جائے تو یہ چندے تو اس سے زیادہ طوعی ہیں۔ پس تحریک جدید کا ابتدائی دَور بھی طوعی تھا اور یہ دَور بھی طوعی ہے۔ ہر شخص جو خداتعالیٰ کی محبت اور اسلام کی خدمت کے لئے اس میں حصہ لیتا ہے خداتعالیٰ اس کی قربانی کو قبول کرے گا اور اسے اپنی طرف بڑھنے کا موقع دے گا۔ اور ہر وہ شخص جو کسی مجبوری کی وجہ سے حصہ نہیں لیتا مگر اُس کا دل چاہتا ہے کہ حصہ لے تو خداتعالیٰ اس کی دلی خواہش اور کوشش کو ضائع نہیں کرے گا اور اس کے لئے ان برکتوں میں حصہ لینے کے سامان پید کر دے گا۔ لیکن ہر وہ شخص جس کے دل میں اسلام کی محبت نہیں رہی اور باوجود طاقت رکھنے کے اوردیکھنے کے کہ مجھ سے زیادہ غریب آدمی حصہ لے رہے ہیں وہ حصہ نہیں لیتا اور سمجھتا ہے کہ اس میں حصہ لینا طوعی ہے اور ہمیں کوئی مجبور نہیں کرتاکہ ہم اس میں ضرور حصہ لیں تو وہ شخص اپنی عاقبت کا خود ذمہ دار ہے۔ ہم نہ اس کے ٹھیکیدار ہیں اور نہ ذمہ دار۔ اگر وہ سمجھتا ہے کہ خدا کے پاس اس کے اعمال کا بڑا ذخیرہ پڑا ہے اور زیادہ اعمال کی مجھے ضرورت نہیں تو وہ بے شک مطمئن ہو۔ لیکن اگر خداکے سامنے اس کے ذخیرۂ اعمال میں سے بہت سے اعمال کھوٹے بھی ہیں تو پھر اگر یہ طوعی اعمال کو ضائع کرتا ہے تو اس سے زیادہ قابلِ افسوس اور قابلِ حسرت حالت میں اور کون ہو سکتا ہے۔
تو یہ جو طوعی چندوں کا سلسلہ ہے اس میں اکثر دوستوں نے حصہ لے لیا ہے گو اِس وقت تک اس رقم کی مقدار اُتنی تو نہیں جتنی ایک سال کے لئے ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا تھا تبلیغی مشنوں کو چلانے کے لئے ہمیں اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے۔ لیکن کل تک جو رپورٹ میرے پاس آچکی ہے اس کے حساب سے دو لاکھ پندرہ ہزار کے وعدے آچکے ہیں۔ چونکہ ابھی بیرونجات سے وعدے آنے ہیں اور فوجیوں کی طرف سے بھی اور ان علاقوں کی طرف سے بھی ابھی وعدے آنے ہیں جن کی اصلی زبان اردو نہیں ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ غالبًا دو لاکھ تیس ہزار روپیہ سے لے کر دو لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ تک کوئی رقم ان وعدوں کی ہو جائے گی۔ اور اللہ تعالیٰ کےفضل سے نویں سال تک تبلیغی سکیم کے چلانے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔ اس عرصہ میں ہم نے تحریک جدید دفتر دوم کی دوسری پانچ ہزاری فوج کا انتظام کرنا ہے۔ پہلی فوج کا انتظام زیادہ مشکل نہیں تھا اس لئے کہ جماعت ساری کی ساری خالی پڑی تھی اور اس میں سے لوگ چُننے تھے۔ جیسے پہلی دفعہ بھرتی ہوتی ہے تو آسانی سے آدمی مل جاتے ہیں۔ لیکن دوسری دفعہ بھرتی مشکل ہوتی ہے کیونکہ بہت سارے آدمی بھرتی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اِسی طرح تحریک جدید کی پہلی پانچ ہزاری فوج کا تیار کرنا آسان تھا کیونکہ جماعت کے سب آسودہ حال آدمی بار سے خالی تھے۔ لیکن اب دوسری پانچ ہزاری فوج کا تیار کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ اب اکثر مالدار اور بہت سارے درمیانہ طبقہ کے لوگ پہلی تحریک میں شامل ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ سے اب دوسری نئی فوج بنانا پہلی فوج کی طرح آسان نہیں مشکل ہے۔ لیکن اس عرصہ میں کئی نئے احمدی بھی آئے ہیں اور کئی بچے بھی جوان ہو چکے ہیں اور ابھی نو سال تک پہلی پانچ ہزاری فوج نے بوجھ اٹھانا ہے۔ اور نو سال کے بعد اس دوسری پانچ ہزاری فوج نے بوجھ اٹھانا ہو گا۔ تو یہ نو سال کا عرصہ اس دوسری فوج کو منظم کرنے کے لئے پڑا ہے۔
پس ہمیں چاہیے کہ کوشش کر کے اس نئی پانچ ہزاری فوج کو تیار کریں۔ کئی نئے احمدی ہوئے ہیں، کئی بچے تھے جو اَب جوان ہو چکے ہیں یا بعض کمزور آدمی جو پہلی تحریک میں شامل نہیں ہوئے تھے وہ اب اس دَور میں شامل ہوں ۔جب انسان کے دل میں نیکی ہوتی ہے تو وہ نیکی انسان سے بعض دفعہ کمزوری کے بعد طاقت کے زمانہ سے بھی زیادہ کام کرا دیتی ہے۔ چنانچہ میں نے دیکھا ہے کہ اس دوسری پانچ ہزاری فوج میں بعض ایسے آدمی شامل ہوئے ہیں جن کی مالی حیثیت پہلے سے خراب ہے وہ پہلے دَور میں پانچ روپے دے کر شامل ہو سکتے تھے لیکن وہ اُس وقت شامل نہ ہوئے اور اب ان کے دل میں افسوس پیدا ہوا کہ ہم نے پہلے دَور کا وقت گزار دیا اور ہم سے سستی ہوئی کہ ہم اُس میں شامل نہ ہوئے۔ اب ہم ایک ماہ کی آمد دے کر نئے دَور میں شامل ہوتے ہیں۔ جب ان سے پانچ روپے مانگے گئے تو انہوں نے نہیں دیئے۔ لیکن اب پچاس روپے کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے دے دیئے حالانکہ ان کی مالی حالت پہلے سے خراب ہے۔ اب ان کے دل میں افسوس پیدا ہوا کہ کاش! ہم پہلے دَور میں شامل ہو جاتے اور اُس میں ہمارا نام آجاتا۔ مگر ہم پہلے دَور میں شامل نہ ہوئے۔ اب اس کا کفارہ یہ ہے کہ زیادہ روپےدےکر اس دوسرے دور میں شامل ہوں۔ اسی طرح اب جو دوسرے دَور میں شامل نہیں ہوں گے ان میں سے کئی ہوں گے جو تیسرے دَور میں شامل ہوں گے اور ان کے دل میں افسوس پیدا ہو گا کہ ہم دوسرے دَور میں کیوں شامل نہ ہوئے۔ اور اُس وقت اگر ان سے اِس سے بھی زیادہ رقم کا مطالبہ کیا جائے گا تو وہ زیادہ دے کر تیسرے دور میں شامل ہو جائیں گے۔ اور اس تحریک کو آہستہ آہستہ خداتعالیٰ ایسی شکل دے دے گا کہ جب تک ہماری جماعت زندہ ہے خداتعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے ذریعہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تبلیغ کا راستہ کھلتا چلا جائے گا۔ کیونکہ ہر نو سال کے بعد دوسری پانچ ہزاری فوج پہلی فوج کی جگہ لینے کے لئے آجائے گی۔ دس سال تک ہر پانچ ہزاری فوج تبلیغ کے اخراجات کا بوجھ اٹھائے گی اور نو سال تک اس کا چندہ ریزرو فنڈ میں جمع ہوتا رہے گا۔ آج جس دوسری پانچ ہزاری فوج کا میں نے اعلان کیا ہے اس نے نو سال کے بعد کام شروع کرنا ہے اور اس کے بعد دس سال تک بوجھ اٹھانا ہے نو سال تک اس کا جو چندہ ہو گا وہ ریزرو فنڈ میں جمع ہوتا رہے گا۔ جس کی غرض یہ ہو گی کہ اگر نو سال کے بعد اس دوسری فوج نے پورا بوجھ اٹھا لیا تو پھر اس رقم سے ریزرو فنڈ کو اَور مضبوط کیا جائے گا۔ اور اگر خدانخواستہ اس کی رقم اڑھائی لاکھ کی نہ بنتی ہو تو پھر اس جمع شدہ رقم سے اس کمی کو پورا کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر اَور بچے جوان ہو جائیں گے اور کئی نئے احمدی بھی ہوں گے اور ان کے لئے دینی کاموں کے لئے قربانی میں حصہ لینا اُسی طرح ضروری ہو گا جیسے ہمارے لئے ضروری ہے۔ جس طرح جومبلغین آج تبلیغ کے لئے جائیں گے آج سے کچھ سال بعد اَور نوجوان مبلغین کی ضرورت ہو گی جو ان کی جگہ لیں۔ اسی طرح دوسری پانچ ہزاری فوج نو سال کے بعد روپے کا بوجھ اٹھائے گی اور دس سال تک اٹھاتی چلی جائے گی۔ اور آج سے نو سال کے بعد جب یہ فوج بوجھ اٹھا لے گی تو پھر تیسری فوج آگے آئے گی جو نو سال تک اپنا چندہ ریزرو فنڈ میں جمع کرے گی۔ اور جب دوسری فوج کی قربانی کی میعاد ختم ہو جائے گی تو پھر دس سال تک یہ تیسری فوج اس بوجھ کو اٹھائے گی اور اللہ تعالیٰ چاہے تو اس صورت میں یہ سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے گا۔
پس یہ ایک ایسی تحریک ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے ذریعہ تبلیغ کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قائم کر دی گئی ہیں ۔آج سے دس سوا دس سال پہلے جب میں نے اسی ممبر سے تحریک جدید کا اعلان کیا تھا اُس وقت میرے وہم و گمان میں بھی یہ سکیم نہیں تھی جو آج میرے ذہن میں ہے۔ اسی طرح جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس سکیم کےلئے اگر آج اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کا بجٹ ہے تو کچھ عرصہ کےبعد پانچ لاکھ۔ پھر دس لاکھ، پھر بیس لاکھ، پھر چالیس لاکھ، پھر اسّی لاکھ، پھر کروڑ اور پھر دو کروڑ اور پھر چار کروڑ روپیہ سالانہ بجٹ کی ضرورت ہو گی (کیونکہ پانچ ہزاری مبلغوں کی فوج کا خرچ چار کروڑ ہوتا ہے) کیونکہ ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انگلستان کی ایک مشنری انجمن کابجٹ ایک کروڑ روپیہ سالانہ ہے اور باقی ممالک کی انجمنیں اس کے علاوہ ہیں۔ جب ہم نے ان سب کا مقابلہ کرنا ہے تو ہم کو بھی ہزاروں مبلغ اور کروڑوں روپے کے بجٹ کی ضرورت ہو گی۔ گو ابھی وہ وقت نہیں آیا مگر تحریک جدید نے اس کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے تین قسم کی آمدنیاں تبلیغ کے لئے پیدا ہوں گی۔ ایک آمدن جائیداد کی جو اس طرح محفوظ رکھی جائے گی کہ تبلیغی سلسلہ کو وسیع کرنے میں کام آئے۔ دوسرا حصہ آمدن کا وہ ہے جو ہر پانچ ہزاری فوج دس سال تک مہیا کرے گی جو ساتھ کےساتھ خرچ ہو گا ۔اور تیسرا حصہ آمدن کا وہ ہے جو ہر پانچ ہزاری فوج نو سال تک ایسے زمانہ میں پیدا کرے گی جبکہ پہلی پانچ ہزاری فوج بوجھ اٹھائے ہوئے ہو گی جو یا تو ریزرو فنڈ میں جائے گا یا اگر خدانخواستہ کوئی پانچ ہزاری فوج دس سال پورا بوجھ نہ اٹھا سکی تو کمی پوری کرنے میں خرچ ہو گا۔
پس یہ تین ذرائع آمدنی کے ہیں اور تینوں کو ہم نے پورا کرنا ہے۔ ہماری پہلی پانچ ہزاری فوج نے خداتعالیٰ کے فضل سے دس سالہ دَور کو کامیابی سے نبھایا ہے میں امید کرتا ہوں اور دعا بھی کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ان کی دس سالہ قربانی کے بدلہ ان کو توفیق دے کہ آئندہ نو سال میں اپنے اخلاص اور محبت اسلام کے جذبہ کو اعلیٰ دکھاتے ہوئے اس دور کو کامیابی کے ساتھ ختم کریں۔ اس کے بعد دوسری پانچ ہزاری فوج کو خداتعالیٰ کھڑا کر دے اور لاکھوں لاکھ آدمی نئے جماعت میں داخل ہو کر اور ہزاروں ہزار بچے جوان ہو کر اس بوجھ کو اٹھا لیں۔ اِس وقت تک دفتر دوم کے تیس ہزار سے زیادہ کے وعدے آچکے ہیں۔ مگر میں نے بتایاہے کہ اس سکیم کو چلانے کے لئے اڑھائی لاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے اس لئے میں تحریک جدید کے دورِ ثانی یعنی دفتر دوم والوں کے وعدوں کی میعاد کو ختم نہیں کرتا۔ دفتر اول والوں کی میعاد تو ختم ہو چکی ہے لیکن دفتر دوم والوں کے لئے دو ماہ کی میعاد اَور بڑھاتا ہوں یعنی سات اپریل تک وہ اپنے وعدے بھجوا سکتے ہیں۔ اس عرصہ میں دفتر اول والوں کو بھی چاہیے کہ جہاں انہوں نے انیس سال تک قربانی کرنے میں حصہ لیا ہے وہاں اس رنگ میں بھی وہ دائمی ثواب حاصل کریں کہ دفتر اول کا ہر مجاہد یہ کوشش کرے کہ دفتر دوم میں حصہ لینے والا ایک مجاہد کھڑا کرے۔ اس طرح دفتر دوم والوں کا ثواب دفتر اول والوں کو بھی ملتا رہے گا۔ پھر دفتر دوم والے آگے دفتر سوم والوں کو کھڑا کریں گے اور اس طرح دفتر اول والوں کے ثواب کا سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ اور جہاں ان کو اپنے روپے کا ثواب ملے گا ساتھ ہی دفتر دوم اور دفتر سوم والوں کے روپیہ کا ثواب بھی ملتا رہے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی دوسرے کو نیکی کی تحریک کرکے اُسے نیکی پر قائم کرتا ہے تو اس نیکی کا ثواب تحریک کرنے والے کوبھی ہوتا ہے۔3 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس فتویٰ کے مطابق جب دفتر اول والے کوشش کر کے دفتر دوم کے لئے آدمی تیار کریں گے تو خداتعالیٰ دفترِاول والوں کو دفتر دوم والوں کے ثواب میں بھی شامل کرے گا۔ تو یہ دو ماہ کی مہلت میں اس لئے دیتا ہوں کہ ہر دفتر اول والے کو چاہیے کہ وہ تحریک کر کے کم از کم ایک آدمی دفتر دوم میں حصہ لینے کے لئے کھڑا کرے۔ اسی طرح جو لوگ دفتر دوم میں شامل ہو چکے ہیں اُن کو چاہیے کہ دوسرے لوگوں میں تحریک کر کے اِس تعداد کو بڑھائیں۔ اور اُن کو کوشش کرنی چاہیے کہ یہ پانچ ہزار کی تعداد پوری ہو جائے۔ پہلے بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں تھا کہ اُس نے دَورِ اول کی تکمیل کے لئے رستہ کھول دیا اور اب بھی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے فضل سے لوگوں کے دلوں کوکھول دے اور دَو ر ثانی کی تکمیل کے سامان پیدا کر دے۔
میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ ہمارے نئے آنے والے بھائیوں اور پچھلی نسلوں کو جنہوں نے پہلے دو رمیں حصہ نہیں لیا یا جن کو توفیق نہیں ملی کہ وہ دَور اول میں حصہ لیں توفیق دے کہ وہ اب دَورِ ثانی میں حصہ لیں۔اور خداتعالیٰ جماعت کی بیداری کو قائم رکھے کہ پہلی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی پانچ ہزاری فوج آگے آکر اس بوجھ کو اٹھاتی رہے اور قیامت تک یہ سلسلہ چلتا چلا جائے۔ بلکہ پانچ ہزاری کی بجائے پھر یہ تعداد بڑھتی چلی جائے اور پانچ ہزار کے بعد دس ہزار اور دس ہزار کے بعد بیس ہزار اور بیس ہزار کے بعد پچاس ہزار کی فوج آگے آئے اور اس بوجھ کو اٹھاتی چلی جائے۔ یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعا مانگی ہے کہ ایک لاکھ سپاہی مجھے دیا جائے خدا کرے کہ ایک لاکھ نہیں بلکہ کئی لاکھ سپاہی ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلام کی خدمت کے لئے احمدیت میں پیداہوتے رہیں جو تبلیغِ اسلام کا بوجھ اُٹھاتے چلے جائیں۔ ہم کمزور ہیں، ہمارے ارادے بھی کمزور ہیں اور ہماری تمام کوششیں اُس وقت تک بیکار ہیں جب تک کہ خداتعالیٰ کی طرف سے مدد اور نصرت نہ آئے۔ ہماری غریب جماعت میں سے پانچ ہزار آدمیوں کا نکلنا اور اسلام کی خدمت کے لئے مشقت اٹھا کر اور اپنے بیوی بچوں کو تکلیف میں رکھ کر سال بسال محنت کر کے اور پیسہ پیسہ جوڑ کر ایسے سامان پیدا کرنا جس سے تبلیغِ اسلام جاری رہےخداتعالیٰ کے نزدیک یہ اتنی مقبول قربانی ہے کہ خداتعالیٰ نے ان کے مال میں اتنی برکت دے دی کہ اُس کے فضل و کرم سے اس روپیہ سے چار سو مربع زمین پیدا کرنے کی طاقت مل گئی۔ جس کی آمدنی سے ہمیشہ ہمیش کے لئے دین کی خدمت ہو سکے۔ اُس خدا سے میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری اس حقیر اور کمزور قربانی میں مزید برکت دے دے اور ہمارا یہ روپیہ قیامت تک دین کی خدمت میں لگا رہے ۔اور خداتعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں اور عزیزوں اور دوستوں کے دلوں میں یہ تحریک جاری رکھیں اور کم از کم اتنی ہی تعداد دوسرے دور میں حصہ لینے والوں کی پیدا کر سکیں اور یہ تعداد بڑھتی چلی جائے۔ اور ہماری اس حقیر قربانی کے ذریعہ ایسا بیج بویا جائے جس میں سے ایسا درخت اُگےکہ ساری دنیا اس کے سایہ تلے آرام کرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نام روشن ہو اور خداتعالیٰ کی بادشاہت جیسی کہ آسمان پر ہے زمین پر بھی قائم ہو۔ آمین’’ (الفضل مورخہ 17 فروری 1945ء)
1: الفاتحۃ: 2
2: الفاتحۃ: 4
3: مسند احمد بن حنبل جلد 5صفحہ274 مطبوعہ بیروت 1313ھ
7
کسی بددیانت اور دروغ گو کو جماعت احمدیہ میں نہیں رہنے دیا جائے گا
(فرمودہ 16فروری 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مذہب صرف عقیدہ کا ہی نام نہیں عمل کا بھی نام ہے اور اعمال کچھ شخصی ہوتے ہیں اور کچھ قومی ہوتے ہیں۔ یعنی کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر افراد پر یا ان افراد کے اہل و عیال پر پڑتا ہے اور کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کا اثر جا کے قوم پر پڑتا ہے۔ بعض جرائم ایسے ہیں کہ ان کو لوگوں نے ناواجب طور پر سب سے بڑا گناہ کہنا شروع کر دیا ہے۔ ناواجب سے میری مراد یہ نہیں کہ وہ بُرے نہیں بلکہ میری مراد یہ ہے کہ وہ افعال سب سے بُرے نہیں۔ اور ان کی بُرائی بعض لحاظ سے اتنی خطرناک نہیں ہوتی جتنی کہ بعض اَور قسم کے افعال کی برائی خطرناک ہوتی ہے۔ مثلاً لوگوں میں قتل کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اور جہاں تک قتل کی برائی کا سوال ہے یہ صحیح ہے کہ یہ بہت بُرا فعل ہے لیکن قتل کے مقابلہ میں جھوٹ اور بددیانتی کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ حالانکہ جھوٹ اور بددیانتی ایسے افعال ہیں جو قتل سے کم نہیں۔
ہزاروں آدمی ایسے ہوں گے جو کہ ایک قاتل سزا یافتہ کے ساتھ جو اپنی سزا بھگت کر آیا ہو مثلاً اسے پھانسی کی سزانہیں ملی بلکہ اور کوئی سزا قید و غیرہ بُھگت کر آیا ہے تو لوگ اس کے ساتھ بیٹھنے اور اس کے ساتھ کھانے پینے میں کراہت محسوس کریں گے۔ حالانکہ اس سے پہلے اُسی منٹ میں ایک جھوٹ بولنے والے اور بددیانتی کرنے والے انسان کے گلے میں باہیں ڈالے اُس سے پیار اور محبت کا اظہار کر رہے ہوں گے۔ حالانکہ قاتل تو صرف ظالم ہے۔ مگرجھوٹا اور بددیانت آدمی ظالم بھی ہے اور کمینہ بھی ہے۔ اور پھر قتل ایسا جرم نہیں جو عام ہوتا ہے کیونکہ قتل میں آخر دوسرا انسان بھی تو اپنی حفاظت کرتا ہے سوائے اس کے کہ کوئی دھوکا سے قتل کرد ے۔ دھوکا کے ساتھ کسی کو قتل کر دینا بہت کم ہوتا ہے۔ مثلاً زہر دے کر مار دینا یا حیلہ بہانہ سے قتل کر دینا۔ اس قسم کے قتل کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر اس قسم کےقتل ہوتے ہیں کہ دو آدمیوں میں لڑائی ہو گئی دونوں نے ایک دوسرے کو مارنے کے لئے لٹھ اٹھایا اور بسا اوقات دونوں کا منشاء نہیں ہوتا کہ دوسرے کو جان سے مار دیا جائے۔ بلکہ اکثر دفعہ دیکھا گیا ہے کہ جب اس کے ہاتھ سے دوسرا مارا جائے تو یہ خود گھبرا جاتا ہے مگر باوجود اس کے طبائع اس کو زیادہ برا محسوس کرتی ہیں۔ حالانکہ نیت کے لحاظ سے بھی یہ صاف نیت تھا اس کا منشاء نہیں تھا کہ کسی کو قتل کر دے۔ لڑائی ہوئی اور اتفاقی طور پر اس سے قتل ہو گیا۔ مگر چونکہ اس کا لڑنا ثابت ہوتا ہے چونکہ اس کا لٹھ اٹھانا ثابت ہوتاہے اور چونکہ اس کا مقابلہ کرنا اور مارنا ثابت ہوتا ہے اس لئے بنی نوع انسان یہ سمجھتے ہیں کہ اگر چہ اس نے دفاعی لڑائی لڑی لیکن یہ اس قتل کا ذمہ دار ہے۔ اس لئے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں اور اس کے اس فعل کو بُرا مناتے ہیں۔ اس سے بھاگتے ہیں اور اس کے ساتھ مجلس میں بیٹھنے سے گھبراتے ہیں۔ سوائے ان چند لوگوں کے جو اسی ماحول میں پلتے ہیں یا خود قاتل ہوتے ہیں یا قاتل کے ساتھی ہوتے ہیں۔ ان کو چھوڑ کر باقی عام لوگ قاتل سے گھبراتے ہیں۔ ذرا مجلس میں کسی کے متعلق کہہ دو کہ یہ شخص قاتل ہے اُس نے بِالارادہ قتل کیا یا لڑائی لڑی اور اس لڑائی میں فلاں کو قتل کر دیا۔ تو تمام انگلیاں اس کی طرف اٹھنی شروع ہو جائیں گی اور کانوں میں کُھسر پُھسر شروع ہو جائے گی کہ اس نے قتل کیا تھا۔ اور ہر شخص اپنے آپ کو سمٹانے لگ جائے گا تاکہ وہ اس قاتل کےساتھ چُھو کر گندہ نہ ہو جائے۔ مگر اس سے زیادہ مجرم وہ ہے جو جھوٹا ہے۔ اس سے زیادہ مجرم وہ ہے جو بد دیانت ہے جو اس کی مجلس میں بیٹھتا ہے۔ اور یہ نہ صرف اس کی مجلس میں اس کے ساتھ بیٹھتا اور اس کے ساتھ محبت اور پیار کرتاہے بلکہ بسا اوقات اس کی مدد کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اسے کیا کہو گے؟ میں اگر اس کو زیادہ عام کروں تو تم میں سےبُہتوں کے لئے اس کا جواب دینا مشکل ہو جائے۔ مگرجو اِس وقت یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے بیسیوں اور سینکڑوں ایسے ہوں گے جن کے دوست جھوٹ بولتے ہیں اوریہ ان کو برا نہیں مناتے بلکہ ان کو اگر اپنے دوست کے جھوٹ کا پتہ لگ جائے تو اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ خصوصاً لڑکوں میں یہ مرض بہت زیادہ ہوتاہے۔ میں نے دیکھا ہےکہ بظاہر بڑے بڑے دیانتدار نظر آنے والے آدمی جب اپنے دوست کے متعلق گواہی دینے آئیں تو آئیں بائیں شائیں کر کے بات کوٹالنے اور پردہ ڈالنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ ‘‘جی بات دراصل یوں ہے’’۔اصل سوال کا جواب نہیں دیں گے اور کہیں گے پہلے آپ میری بات سن لیں۔ بات دراصل یوں ہےاور ‘‘بات یوں ہے’’ کہنے سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصل بات معلوم نہ ہو سکے اور وہ ایک کہانی کے ریت کے میدان میں حقیقت کے دریا کو خشک کریں۔ براہ راست اور بِلاواسطہ سیدھے طور پر وہ ہاں یا نہ میں جواب نہیں دیں گے۔ پہلا فقرہ ان کا یہی ہو گا کہ ‘‘جی میں تہانوں گل دساں’’ (یعنی میں آپ کو اصل بات بتاؤں) یہ نہیں کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ کیا فلاں شخص نے فلاں کو مارا؟ تو وہ اس کے جواب میں ہاں یا نہ کہے بلکہ اپنی گواہی کو ان الفاظ سے شروع کرے گاکہ ‘‘پہلے میرے کولوں گل سنو’’۔(یعنی پہلے میری بات سن لیں) اور یہ کہہ کر پھر لمبا قصہ شروع کر دے گا تاکہ اس لمبے قصہ میں اصل بات کو ضائع کر دے۔ وہ سیدھا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہو گا کہ ہاں یوں ہے یا یوں نہیں ہے۔ یہ تو سچے کا حال ہوتاہے۔ اور جو جھوٹ بولنے والا ہوتا ہے وہ تو صاف جھوٹ بول دیتا ہے۔ حالانکہ کوئی قوم اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کے اندر سچائی پیدا نہ ہو اور جب تک اس کے اندر دیانت پیدا نہ ہو۔ سچائی اور دیانت کے بغیر ہرگز کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے ہزاروں عیبوں میں سے جو عیب چُنا ہے وہ یہ ہے کہ یہ لوگ بددیانت ہیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے اگر تم کسی یہودی کے پاس اپنا روپیہ رکھو تو جب تک تم اُس کے سر پر کھڑے رہو اُس وقت تک وہ اقرار کرے گا کہ ہاں تمہارا روپیہ میرے پاس ہے۔ ذرا تم اُس سے جدا ہوئے تو وہ اس کا انکار کر دے گا۔1 تو یہودیوں کے ہزاروں عیوب میں سے یہ عیب سب سے زیادہ نمایاں ہے کہ ان کے اندر بددیانتی پائی جاتی ہے۔ باقی تمام عیوب اس کے ماتحت آجاتے ہیں۔
پس جب کسی قوم میں بد دیانت لوگ پیدا ہو جائیں تو اُس قوم پر کبھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بد دیانتی ہی کی وجہ سے ہے کہ ہر قوم یہودیوں سے آنکھ چُراتی ہے۔انگریز بظاہر یہودیوں کی جلاوطنی سے چِڑتے ہیں مگر خود انگلستان میں زبردست سوسائیٹیاں بنی ہوئی ہیں کہ یہودیوں کو ملک سے نکال دینا چاہئے۔ کیونکہ یہ بددیانت اور جھوٹ بولنے والے لوگ ہیں۔ تو یہ بد دیانتی اور جھوٹ ہی ہے جس کی وجہ سے قوم مغلوب ہوتی ہے۔ ہندوستان کی ساری بدقسمتی اور خرابی کی وجہ یہی ہے کہ ہندوستان کے لوگوں میں سچ نہیں پایا جاتا، دیانت اور امانت نہیں پائی جاتی۔ کسی ہندوستانی کے ہاتھ اگر کچھ روپیہ آجائے تو وہ یہی کوشش کرے گا کہ کسی طرح اسے کھا جاؤں اور یہ روپیہ واپس نہ جانے پائے۔ اکثر ہندوستانی گواہی میں جھوٹ بول جاتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ منافق کی علامت یہ ہے کہ اِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے۔ وَ اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔2 تو جو قوم منافق ہو وہ کبھی غالب ہو ہی نہیں سکتی۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق کو دوزخ کے ذلیل ترین مقام میں رکھا جائے گا۔ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ 3 فرمایا کہ دوزخ میں بھی جو سب سے نچلا درجہ ہے۔ منافق کو وہاں رکھا جائے گا۔ گویا خداتعالیٰ منافقوں کے ساتھ کفار سے بھی سخت معاملہ کرے گا اور ان کو ذلیل ترین عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اس لئے کہ کافر کی وجہ سے تو کافر کو ہی نقصان پہنچتا ہے مگر منافق کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ ہندوستان کے لوگ شور مچاتے ہیں کہ انگریزوں نے ہمیں یہ نقصان پہنچایا اور وہ نقصان پہنچایا۔ انگریزوں نے بھلا ان کو کیا نقصان پہنچانا تھا ۔واقع یہ ہے کہ ہندوستان کی بڑی بھاری بدقسمتی یہی ہے کہ یہاں کے لوگوں کے اندر جھوٹ اور بددیانتی پائی جاتی ہے۔ یہاں کی کوئی ایک چیز بھی معیار کے مطابق نہیں ہر چیز بے معیاری اور ہر چیز میں پردہ ہے۔ اگر کسی انگریز کی فرم میں چلے جاؤ تو وہ ناقص چیز نکال کر الگ پھینک دے گا اور اچھی چیز آپ کےسامنے رکھے گا۔ اور بعض تو ایسے ہیں کہ سال کے بعد ناقص اور خراب چیزوں کو نکال کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ مگر ایک ہندوستانی کٹے ہوئے تھان کو بڑے اہتمام سے لپیٹ لپاٹ کر ناقص حصہ چُھپا دے گا اور اچھا حصہ آپ کے سامنے رکھے گا۔ اور جب آپ اس کو گھر لا کر دیکھیں کہ وہ خراب ہے اور آپ اسے واپس کرنے جائیں تو وہ صاف انکار کر دے گا کہ میں نے تو آپ کو یہ نہیں دیا آپ کو غلطی لگتی ہے۔ شاید آپ نے کسی اور دکان سے خریدا ہو گا۔ اور اس بد دیانتی کی وجہ سے خوش ہو گا کہ میں نے اپنا ناقص مال چلا دیا۔
پس قومی تنزل کی بنیاد جھوٹ اور بددیانتی ہے۔ جو قوم جھوٹ اور بددیانتی کو مٹا نہیں سکتی اور اس کے باوجود وہ یہ سمجھتی ہے کہ اسے ترقی اور عزت حاصل ہو جائے گی تو اس کا یہ خیال ایسا خام خیال ہے جیسے ایک بچہ کا یہ خیال کہ وہ چاند کے پاس پہنچ جائے گا یا ستاروں کے پاس پہنچ جائے گا۔ جس طرح ایک بچہ کی چاند یا ستاروں تک پہنچنے کی خواہش ناکام رہتی ہے اور اس کی یہ مراد پوری نہیں ہو سکتی اِسی طرح وہ قوم جس کے اندر جھوٹ اور بددیانتی پائی جاتی ہے اور اس کے باوجود وہ یہ امید رکھتی ہے کہ اسے ترقی اور عزت حاصل ہو گی اس کی یہ امید کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی اور کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منافق کی یہ دو علامتیں بیان فرمائی ہیں کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ بددیانتی کرتا ہے اور جب بات کرے تو جھوٹ بولتا ہے۔ مگر ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ حال تھا کہ آپ کا دشمن بھی اقرار کرتا تھا کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے۔ ایک تو کسی کے متعلق یہ کہا جاتاہے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا اور ایک یہ کہ وہ سچائی کے لئے مشہور ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق یہی نہیں کہ دشمن یہ اقرار کرتا تھا کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے بلکہ آپ سچائی کے لئے مشہور تھے اور یہ اُس وقت کی بات ہے جب آپ پر وحی نازل ہونا شروع نہیں ہوئی تھی۔ لوگوں کو آپ کی سچائی پر اِس قدر اعتبار تھا کہ جب آپ پر وحی نازل ہوئی کہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلاؤ تو آپ نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر مکہ کے لوگوں کو بلانا شروع کیا۔ اونچا پہاڑ تو نہیں تھا پہاڑ تو اُس علاقہ میں ہوتے ہی نہیں۔ ایک ٹیلہ تھا جس کا نام ابو قبیس ہے۔ اُس پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مکہ کے لوگوں کو بلانا شروع کیا کہ اے فلاں قبیلہ کے لوگو! ادھر آؤ اور اے فلاں قبیلہ کے لوگو! تم بھی ادھر آؤ ۔جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا دشمن تم پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ اب بظاہر یہ بات ناممکن تھی اس لئے کہ اس ٹیلہ کے پیچھے میدان تھا جس میں کھڑی ہونے والی فوج نظر آ سکتی تھی اور ہر دیکھنے والا شخص آکر بتا سکتا تھا کہ وہاں فوج کھڑی ہے۔ پھر یہ کس طرح ممکن تھا کہ اتنی بڑی فوج وہاں جمع ہوجہاں پانی وغیرہ کا بھی کوئی انتظام نہیں اور کسی کو نظر بھی نہ آئے۔ پس بظاہر یہ ناممکن تھا کہ اتنی بڑی فوج وہاں جمع ہو اور مکہ والوں کو اس کا علم نہ ہو۔ جیسے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لشکر کا مکہ والوں کو پتہ لگ گیا تھا۔ اور پھر مکہ پر کسی کے حملہ کرنے کا خیال بھی ان لوگوں کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ مکہ تمام عرب کے نزدیک ایک متبرک مقام تھا اور مذہبی طور پر لوگ اس کا احترام کرتے تھے اس لئے مکہ پر حملہ کرنے کا خیال بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لئے تیار کھڑا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے ؟تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم مان لیں گے۔ گویا ان کو آپ کی سچائی پر اتنا اعتبار اور اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے کہا کہ اگر آپ اس قسم کی ناممکن بات بھی کہیں تو ہم اس کو رد نہیں کریں گے اور اسے مان لیں گے۔ مگر جس وقت آپ نے فرمایا کہ اگر تم کو مجھ پر اتنا اعتبار اور اتنا اعتماد ہے تو میں تم کو خبر دیتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے مجھے اس کام کے لئے مقرر فرمایا ہے کہ میں تمہیں متنبہ کر دوں کہ خداتعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اگر تم باز نہیں آؤ گے اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ گےتو وہ تمہیں عذاب دے گا۔ تو یہ سن کر وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ بے چارہ پاگل ہو گیا ہے۔4 تو جہاں تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا سوال تھا مکہ والے باوجود اِس کے کہ وہ آپ کے دشمن تھے پھر بھی وہ آپ کی سچائی کا یہاں تک اقرار کرتے تھے کہ آپ کی طرف سے پیش ہونے والی ایک فرضی اور بظاہر ناممکن بات ماننے کے لئے بھی آمادگی کا اظہار کرتے تھے کہ ہم ایسی ناممکن بات بھی مان لیں گے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ آپ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔
اِسی طرح قیصر روما نے جب ابوسفیان کو اپنے دربار میں بلا کر اُس سے پوچھا کہ کیا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اور اس کے ساتھی جھوٹ بولتے ہیں اور کیا انہوں نے تمہارے ساتھ کبھی جھوٹا معاہدہ کیا ہے؟ تو ابوسفیان نے کہا کہ ان کے پچھلےافعال کے متعلق تو میں کوئی گرفت نہیں کر سکتا اب انہوں نے ایک معاہدہ کیا ہے دیکھیں وہ عہد شکنی کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔5 تو قیصر نے کہا آئندہ کا جانے دو۔ جب اس نے پیچھے تمہارے ساتھ عہد شکنی نہیں کی تو یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آئندہ بھی نہیں کرے گا۔
تو شدید سے شدید دشمن کو بھی جو آپ سے لڑائی کر رہا تھا یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ آپ کے متعلق یہ کہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ بولا۔ یا کوئی معاہدہ کیا اور اس میں عہد شکنی کی۔ یہی وہ چیز تھی کہ مسلمان جب کسی ملک میں بھی جاتے تو وہاں کے لوگ اُن کا اِس طرح استقبال کرتے کہ اپنےر شتہ داروں کا بھی اُس طرح استقبال نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ وہ قوم ہے جوجھوٹ نہیں بولتی، یہ وہ قوم ہے جو دیانتدار ہے اور یہ وہ قوم ہے کہ جب معاہدہ کرے تو اسے پورا کرتی ہے۔ دنیا تو آخر امن چاہتی ہے۔ اگر اسے حقیقی امن نصیب ہو جائے تو جس کے ذریعہ سے اسے امن نصیب ہو گا خواہ وہ اُس کا دشمن ہی ہو دنیا اُس کو مان لے گی۔
احمدی اپنے اپنے رنگ میں اخلاص دکھاتے رہے ہیں۔ ایک احمدی مغلا نام تھا۔ شروع شروع میں یہاں آکر بھی رہا ہے۔ نوجوان احمدی تھا۔ غالباً حضرت خلیفہ اول کے آخری زمانہ میں یا میرے شروع زمانہ میں احمدی ہوا تھا۔ جھنگ کا رہنے والا تھا۔ جب وہ احمدی ہو کر واپس گیا تو اس کے بھائیوں اور باپ نے اُس کی بہت مخالفت کی اور اسے مارا پیٹا ۔سارے علاقے نے کہہ دیا کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔ مدتوں تک اُس پر ظلم ہوتے رہے۔ اس علاقہ میں جانوروں کی چوری کا عام رواج ہے۔ جیسے گوجرانوالہ اور گجرات میں بھی جانوروں کی چوری کو فن سمجھا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں ایسی ایسی قومیں بھی ہیں جن میں یہ رواج ہے کہ اُس وقت تک لڑکے کے سر پر پگڑی نہیں پہنائی جاتی جب تک بھینس چُرا کر بہن کو نہ دے۔ گویا یہ بھی ان کے شرفاء کے اعلیٰ اخلاق میں سے ہے کہ وہ چوری کا فن جانتا ہو۔ چنانچہ گوجرانوالہ کے ایک ڈپٹی کمشنر نے گورنمنٹ کو رپورٹ کی تھی کہ اس علاقہ میں ہر شخص چوری کرتا ہے اس لئے اس کو چوری کہنا درست ہی نہیں۔ ان لوگوں میں چوری کرنا ایک قومی رسم اور کھیل سمجھا جاتا ہے۔ جیسے کبڈی کھیلتے ہیں اور ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ان علاقوں میں چوری بھی ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ہوتی ہے اور اس کو ذلیل نہیں سمجھا جاتا۔ اگر کوئی بھینس چُرا لائے تو کہتے ہیں بہت اچھا کیا بڑی بہادری دکھائی۔ بہن کو جب تک بھائی چوری کی بھینس لا کر نہ دے اُس وقت تک اس کے سر پر پگڑی نہیں باندھتے۔ پھر دوسرے اس چوری کا پتہ بھی لگاتے ہیں اور کھوج کا ملکہ بھی ان میں پایا جاتا ہے۔ تو مغلا کے بھائی بھی ان امراض میں مبتلا تھے اور جانور چوری کر کے لاتے تھے۔ جن کی چوری ہوتی وہ بھی کھوج لگا کر وہاں پہنچ جاتے۔ لوگ ان کو جمع کر کے پوچھتے کہ یہ تمہارے پیچھے کھوج لائے ہیں کہ تم جانور چُرا کر لائے ہو۔ وہ قسمیں کھا دیتے کہ ہم تو نہیں لائے۔ اِس پر وہ کہتے کہ اچھا پھر مغلے سے پوچھو۔ اگر وہ کہہ دے کہ تم نہیں لائے تو ہم مان لیں گے ۔باپ اور بھائی مغلے سے کہتے کہ دیکھو! اگر تم سچی گواہی دو گے تو ہماری بہت ذلت ہو گی۔ تم ہماری خاطر کہہ دو کہ نہیں لائے ورنہ ہم تمہیں ماریں گے۔ وہ کہتا تم لائے تو تھے پھر میں کس طرح کہہ دوں کہ تم نہیں لائے۔ وہ کہتے لانے کا سوال نہیں، تم ہماری خاطر کہہ دو کہ نہیں لائے۔ وہ کہتا یہ تو میں نہیں کہوں گا۔ جب تمہیں معلوم ہے کہ میں سچی گواہی دوں گا تو پھر تم میری گواہی کیوں دلواتے ہو۔ وہ کہتے تمہارے بغیر وہ مانتے نہیں اور اسے مجبور کر کے لے جاتے۔ مجلس میں جا کر جب اُسے گواہی کے لئے پیش کرتے تو وہ کہہ دیتا کہ میں تو تمہارے نزدیک کافر ہوں تم کافر سے کیوں گواہی لیتے ہو؟ وہ کہتے ہو تو تم کافر لیکن بولتے سچ ہو اِس لئے اگر تم کہہ دو گے کہ تمہارے بھائی جانور چُرا کر نہیں لائے تو ہم واپس چلے جائیں گے۔ اور اگر کہہ دو گے کہ لائے ہیں تو پھر ان کو دینے پڑیں گے۔ پھر وہ جواب دیتا کہ میں تو تمہارے نزدیک کافر ہوں میں گواہی نہیں دینا چاہتا۔ آخر جب دونوں طرف سے اصرار ہوتا تو یہ کہہ دیتا کہ ہاں لائے تو تھے۔ بھینس والوں کو اُن کی بھینس مل جاتی اور اِس کو ڈنڈے پڑتے۔ یہ وہ نمونہ ہے جس کے ذریعہ غیر قوم بھی مرعوب ہو جاتی ہے۔ اب خواہ وہ اِس کو مارتے تھے لیکن جس مجلس میں یہ ذکر ہوتا ہو گا کہ مغلا ہے تو کافر پر ہے بڑا سچا۔ تو اُس مجلس میں جتنی صادق روحیں اور نیک فطرتیں ہوں گی وہ یہی کہتی ہوں گی کہ کاش! یہ کفر ہمیں بھی نصیب ہو جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں
بعد از خدا بعشقِ محمّد مخمرم
گر کفر ایں بَوَدْ بخدا سخت کافرم 6
کہ لوگ مجھے کافر کافر کہتے ہیں میرا قصور کیا ہے جس کی وجہ سے وہ مجھے کافر کہتے ہیں۔ مجھے تو یہی نظر آتا ہے کہ خدا کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بے انتہا طور پر میرے اندر پائی جاتی ہے۔اگر وہ اِس کی وجہ سے مجھے کافر کہتے ہیں تو خدا کی قسم! میں سب سے بڑا کافر ہوں۔ اب جو راستباز اور صادق روحیں ہوں گی وہ تو یہی کہیں گی کہ اگر یہ کفر ہے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عاشق کافر ہے تو خدایا! ہمیں بھی ایسا کافر بنا دے۔ کیونکہ سعید الفطرت انسان سمجھتے ہیں کہ روح کی صفائی اور پاکیزگی اور روحانی ترقی جب اسی میں ہے تو یہی چیز ہم چاہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ گندی چیز ہمیں ملے۔ تو جب کسی انسان کےا ندر سچائی اور دیانت پائی جائے تو دنیا خواہ اُس کے ساتھ کتنا ہی تعصب اور بُغض رکھے مگر اُس کو کوئی حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا اور کتنا ہی شدید سے شدید دشمن کیوں نہ ہو وہ اس چیز سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے اندر ایسا اخلاص اور ایسا تقویٰ پیدا کر دیا تھا کہ ابتدائی ایام میں شدید سے شدید دشمن بھی اِس بات کو تسلیم کرتا تھا کہ اگر احمدی کسی بات کے متعلق گواہی دے گا تو ہم مان لیں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اور اگر ہم احمدی کے پاس امانت رکھیں گے تو وہ کبھی ضائع نہیں ہو گی۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ کبھی خیانت نہیں کرے گا۔
دلّی کا ایک مشہور خاندان ہے جو طب کی وجہ سے بہت مشہور ہے لیکن حق یہ ہے کہ اِتنی عزت انہوں نے اپنے شہر میں اس فن کی وجہ سے حاصل نہیں کی جتنی عزت کہ دیانت کی وجہ سے اس کو حاصل ہوئی۔ حکیم اجمل خان صاحب اسی خاندان میں سے تھے۔ یہ خاندان دیانت کی وجہ سے اتنا مشہور تھا کہ غدر کے موقع پر جب سخت گڑبڑ ہوئی تو لوگ وہاں سے بھاگ گئے۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ انگریزوں نے ظلم نہیں کیا لیکن حق یہ ہے کہ اُس وقت انگریزی فوج نے لُوٹ مار اور قتل و غارت میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے ہندوستانیوں نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا اور ان پر ظلم کئے جس کے بدلہ میں پھر انگریزوں نے کئی قسم کے مظالم توڑے۔ انہوں نے ضرور بدلہ لیا اور سخت لیا۔ ہم نے خود سنا ہے۔ غیروں سے کیا ہماری اپنی نانی جان مرحومہ سنایا کرتی تھیں کہ میری عمر اُس وقت آٹھ نو سال کی تھی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے سپاہی ہمارے مکان کے اندر گھسے۔ اُس مکان کے اندر ہمارے والد کئی ماہ کے بیمار لیٹے ہوئے تھے جو غدر میں گھر سے بھی نہ نکلے تھے اور نہ نکل سکتے تھے۔ ایک شخص نے اُن کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ بھی غدر میں شامل تھا اور اس پر سپاہیوں نے ان کو مار دیا۔ پھر یہ بھی ہم نے سنا ہے کہ بعض بچوں کو ان کی ماؤں کے سامنے کِرَچِیں 7اور برچھے مار مار کر مار دیا گیا۔ بے شک ابتدا میں ہندوستانیوں نے بھی انگریزوں سے ایسا ہی سلوک کیا تھا لیکن یہ کہ انگریزوں نے ان کے مقابلہ میں محبت کا نظارہ دکھایا یہ بالکل غلط ہے۔ انگریزی فوج نے بھی اس کے مقابلہ میں وہ وہ مظالم توڑے کہ ان واقعات کو سن کر دل بیٹھنے لگ جاتا ہے۔ بے تحاشا لوگ مارے جاتے تھے اور کُھلے بندوں لُوٹے جاتے تھے۔ سپاہی گھروں کےا ندر گھس جاتے اور عورتوں کی بے حرمتی کرتے۔ اس لئے لوگ اپنی عورتیں اور بچے لے کر بھاگ رہے تھے کہ کسی طرح شہر سے نکل کر گاؤں میں پہنچ جائیں اور چُھپ جائیں۔ اُس وقت طبیبوں کا یہ خاندان جو دیانت میں مشہور ہے اس کے بزرگ اُس وقت مہاراجہ پٹیالہ کے طبیب تھے۔ چونکہ مہاراجہ پٹیالہ انگریزوں کےساتھ تھے اس لئے انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ یہ ہمارے طبیب ہیں، ان کی ہمارے دل میں عزت ہے ان کے گھر کو نہ لُوٹا جائے۔ چنانچہ پٹیالہ کی فوج ان کے گھر کے پہرہ پر مقرر کر دی گئی تھی۔ اُس وقت جو لوگ بھاگ رہے تھے وہ ان کےدروازے کے آگے سے گزرتے تھے اور اپنے زیور اور روپوں کی پوٹلیاں ان کی ڈیوڑھی میں پھینک جاتے تھے۔ سینکڑوں لوگ ایسے تھے جنہوں نے دس دس سال بعد روپوں اور زیورات کی تھیلیاں ان کے ہاں سے آکر لیں۔ وہ پوٹلیاں جن کا کوئی گواہ نہ تھا، وہ پوٹلیاں جو کسی کے ہاتھ میں نہیں دی گئی تھیں دس دس سال بعد آکر ویسی کی ویسی لے گئے۔ اس قسم کی امانت ہے جو لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ آج تک اس خاندان کی جو عظمت دلّی کے لوگوں کے دلوں میں ہے اور اس خاندان کا جو ادب و احترم لوگوں میں پایا جاتا ہےیہ خالی اِس بات کی وجہ سے نہیں کہ یہ بڑے طبیب ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ ادب واحترام اس بات کی وجہ سے بھی ہے کہ ان کے خاندان نے ایک وقت دیانت کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھایا تھا۔ پس اعلیٰ درجہ کی دیانت کا جو نمونہ اِس خاندان نے دکھایا ہے اس کی وجہ سے اس خاندان کی عزت اور عظمت کم از کم پوتوں تک تو جائے گی۔ چاہے دیسی طب کا کوئی مخالف ہو اور چاہے ڈاکٹری علاج کرائے مگر دلّی کا رہنے والا اِس خاندان کی عظمت کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ اس نے اس خاندان کی دیانت اور شرافت کا حال سنا ہوا ہے۔ کچھ مدت کے بعد پھر خرابیاں شروع ہو جاتی ہیں اور لوگ بھول جاتے ہیں وہ اور بات ہے۔ کم از کم یہ اثر ان کے پوتوں تک تو جائے گا۔
پس دیانت اور سچائی ایسی چیزیں ہیں کہ ان کے بغیر کسی قوم کا رعب قائم نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں میں امانت اور قول کی پاسداری اتنی شاندار تھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک قتل کا مقدمہ پیش ہوا اور قاتل کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ جب اسے قتل کرنے لگے تو اُس نے کہا میرے پاس یتیموں کی امانتیں ہیں اگر میں مارا گیا تو بے چارے یتیم جن کی امانتیں میرے پاس جمع ہیں ساری عمر بھوکے مریں گے۔ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان کی امانتیں ان کے سپرد کر آؤں۔ تھا وہ بادیہ کا رہنے والا۔ قاضی نے کہا کہ تمہارا کوئی ضامن ہے کہ تم وقت پر پہنچ جاؤ گے اور اگر نہ آؤ تو ہم اسے پکڑیں؟ غالباً خود حضرت عمرؓ ہی کی مجلس تھی۔ اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا اور حضرت ابوذر غفاریؓ پر اُس کی نظر پڑی اور کہا کہ یہ میرے ضامن ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اس کی ضمانت دیتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ چنانچہ اُس کو تاریخ دے دی گئی اور وہ چلا گیا۔ جب مقررہ دن آیا توپھر مدعی بدلہ لینے کےلئے آموجود ہوئے۔ دوسرے لوگ بھی جمع ہو گئے۔ سزا کا جو وقت مقرر تھا وہ وقت قریب ہو رہا تھا۔ لیکن اس شخص کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ تب صحابہؓ میں گھبراہٹ شروع ہوئی کہ ایک مخلص صحابی مارا جائے گا کیونکہ وہ ضامن تھا۔ بعض نے پوچھا ابوذر ؓ !جانتے ہو وہ تھا کون؟ اتنی دیر ہو گئی ابھی تک وہ آیا نہیں۔ انہوں نے جواب دیا مجھے نہیں پتہ کون تھا۔ لوگوں نے حیران ہو کر پوچھا کہ تمہیں پتہ نہیں تھا کہ وہ کون ہے تو پھر تم نے ضمانت کیوں دی؟ ابوذرؓ نے کہا اس نے جو اتنے آدمیوں کا منہ دیکھ کر ان میں سے اپنی ضمانت کے لئے مجھے چُنا تو کیا میں اُس پر بے اعتباری کرتا؟ اُس نے مجھ پر اعتبار کیا میں نے بھی اُس پر اعتبار کیا۔ جب اس نے میرے متعلق یہ سمجھا کہ یہ وہ شخص ہے جو ایک اجنبی کی خاطر جان دے دے گا تو میں کس طرح اس کی بات کو رد کرتا۔ مَیں نے بھی ضمانت دے دی۔ جب مقررہ وقت آگیا اور لوگ سمجھنے لگے کہ ضامن کو سزا دینے کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سوار گھوڑا دَوڑاتا ہوا اتنا تیز آرہا ہے کہ گَرد میں سوار کا پتہ نہ لگتا۔ وہ گرد قریب ہوتی گئی اور مجمع کے قریب آکر سوار گھوڑے پر سے اُترا۔ وہ اتنی تیزی سے گھوڑا دوڑاتا ہوا آرہا تھا کہ جونہی اُس نے گھوڑے پر سے چھلانگ لگائی گھوڑا زمین پر گِرا اور گِرتے ہی دم توڑ دیا۔ یہ وہی شخص تھا جس کے لئے یہ دن قصاص کے لئے مقرر تھا۔ لوگوں کو یہ اطمینان ہو گیا کہ ابوذرؓ کی جان بچ گئی۔ کسی شخص نے اُس شخص سے پوچھا میاں! تم آکس طرح گئے تمہارے متعلق تو معلوم ہوا ہے کہ یہاں کوئی تمہارا واقف ہی نہیں۔ ابوذرؓ جس نے تمہاری ضمانت دی تھی اِس کو بھی پتہ نہیں تھا کہ تم کون ہو۔ دوستی اور تعلقات کا آخر لحاظ اور شرم ہوتی ہے کہ کسی دن پکڑ لیں گے لیکن تمہیں تو کوئی جانتا ہی نہیں تھا تم کس طرح آگئے؟ اُس نے آگے سے جواب دیا کہ ایک شخص جو مجھے جانتا ہی نہیں تھا اُس نے جب میری خاطر اپنی جان کی پروا نہ کی اور میری ضمانت دے دی تو کیا میں اتنا ہی بے حیا تھا کہ نہ آتا اور اس کی جان کی پروا نہ کرتا۔ مجھے آنے میں کچھ دیر ہو گئی اس لئے میں اتنی تیزی سے گھوڑا دَوڑاتا آرہا تھا کہ مجھے اس کی پروا نہیں تھی کہ گھوڑا بچتا ہے یا مرتا ہے۔ جب دونوں طرف کی شرافت کا یہ نظارہ مدعیوں نے دیکھا تو انہوں نے بھی آگے بڑھ کر کہہ دیا کہ ہم اپنا قصاص معاف کرتے ہیں، ہم بدلہ لینا نہیں چاہتے اِس کو معاف کیا جائے۔
یہ وہ شرافت تھی، یہ وہ ایمان تھا، یہ وہ سچائی اور یہ وہ دیانت تھی جس نے مسلمانوں کے نام کو بلند کیا اور ہمیشہ کے لئے دنیا میں ان کی عزت قائم کر دی۔ جو لوگ یہ نمونہ دکھاتے ہیں وہ قوم کو چار چاند لگا دیتے ہیں اور جو لوگ یہ نمونہ نہیں دکھاتے وہ قوم کا گلا کاٹنے والے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ لوگوں کو یہ شبہ ہو گا کہ جماعت کو ترقی کس طرح ہو گی اور اموال کس طرح آئیں گےلیکن مجھے یہ شبہ نہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ خداتعالیٰ کا کام ہے اور خداتعالیٰ ہی تبلیغ کے لئے جن جن سامانوں کی ضرورت ہے وہ سامان مہیا فرمائے گا۔ پس مجھے یہ فکر نہیں کہ اموال کہاں سے آئیں گے بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ کیا جماعت میں وہ لوگ ہوں گے یا نہیں ہوں گے جو دیانتداری سے اموال استعمال کریں۔ مجھے اس کے متعلق تو شبہ ہی نہیں کہ اموال کہاں سے آئیں گے۔ اموال بھیجنا خدا کا کام ہےاور خدا یہ کام ضرور کرے گا۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ جماعت اپنے فرض کو ادا نہیں کر سکے گی۔ کیونکہ ان اموال کو سنبھالنے کے لئے سچے اور دیانتدار آدمیوں کی ضرورت ہے جو ان اموال کو صحیح رنگ میں استعمال کرنے والے ہوں۔ 8 اور میں دیکھتا ہوں کہ آج جبکہ خداتعالیٰ کے فضل سے اموال بڑھ رہے ہیں یہ کوڑھ کا مرض جماعت میں پیدا ہو رہا ہے۔ یہ ذلیل ترین مرض میں مبتلا کر دینے والے کیڑے جماعت میں پیدا ہو رہے ہیں۔ اور دیانت کا وہ معیار اب بعض شخصوں میں نہیں رہا جو پہلے تھا۔ وہ معیار نہیں رہاجو ہونا چاہئے تھا۔ وہ معیار نہیں رہاجس سے قومی شرافت اور عزت پیدا ہوتی ہے اور وہ معیار نہیں رہا جس سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔
بعض نوجوانوں کے ہاتھ میں اگر سلسلہ کا روپیہ آجائے جو سلسلہ کے ملازم ہیں تو وہ اس روپیہ کو بجائے سلسلہ کے کاموں پر خرچ کرنے کے اسے کھانے کی طرف دَوڑ پڑتے ہیں۔ سلسلہ کے ملازموں میں بھی بعض ایسے غداروں کا ثبوت ملا ہے۔ اور چندہ لینےو الوں میں بھی بعض ایسے آدمیوں کا ثبوت ملا ہے جو دیانتداری سےکام نہیں لیتے۔ اگر طاعون کسی کے گھر کےپاس آجائے یا اُس کے گھر میں آجائے اور اس کے کسی عزیز کو طاعون ہو جائے تو جتنی گھبراہٹ اور جتنا خطرہ اُس سے ہوتا ہے اُس سے ہزاروں گُنا زیادہ اِس ذلیل ترین مرض سے خطرہ اور گھبراہٹ ہونی چاہیے۔ وہ طاعون تو ایک آدمی یا ایک گھر کو تباہ کرتی ہے لیکن یہ طاعون اتنی خطرناک ہے کہ ساری قوم کو تباہ کر دیتی ہے۔ جس طرح اُس طاعون کے چُوہوں کو بِلوں میں مارا جاتاہے اِسی طرح جب تک تم اِس طاعون کے چُوہوں کو ان کے بِلوں میں روحانی طور پر نہیں ماردو گے اُس وقت تک یہ امید رکھنا کہ تم اس خطرناک اور ذلیل ترین مرض سے بچ جاؤ گے اور اُس وقت تک تمہارا یہ امید رکھنا کہ تم ترقی حاصل کر سکو گے اور کامیاب ہو جاؤ گے ایک موہوم امر ہے۔
پس ہماری جماعت کا کوئی فرد ایسا نہیں ہونا چاہیے جو جھوٹی گواہی دے اور جماعت کا کوئی فرد ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کے متعلق یہ کہا جائے کہ وہ بددیانت ہے۔ میں نے اس پر غور کیا ہے اور غور کرنے کے بعد میں نے قطعی طور پر فیصلہ کیا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو گیا کہ جماعت میں کوئی بددیانت ہے تو ایسے شخص کو جماعت میں نہیں رہنے دیا جائے گا۔ اور جس شخص کی بددیانتی ثابت ہو جائے گی اسے جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ اور اگر آئندہ کے لئے توبہ کرنے کی وجہ سے اُسے معاف کیا جائے گا تو اُسے سلسلہ کے کسی کام کا موقع ہر گز نہیں دیا جائے گا۔ اور جس طرح قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والے کی گواہی نہ لی جائے9 ایسے شخص کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اور سلسلہ اسے مجرم اور غدار تسلیم کرےگا۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ ہمارا رحم بعض دفعہ ایسے شخص کو پولیس کے حوالے نہ کرے اور اس کے متعلق انجمن میں ہی کارروائی کی جائے۔ مگر ایک شخص کے ساتھ رحم کرنے کے یہ معنے نہیں کہ قوم کی گردن پر چُھری پھیر دی جائے۔ اگر اُس پر ہمارا رحم اُسے پولیس کے حوالہ نہ کرنے سے گریز کرے گا تو ہمارا قوم پر رحم اسے جماعت سے خارج کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔
پس اگر کوئی شخص بددیانتی کرے گا یا اس کا جھوٹ ثابت ہو جائےگا بچوں کی عقل چونکہ کم ہوتی ہے اس لئے ان کے بارہ میں یہ قاعدہ ہو گا کہ ان کا جو اہم جھوٹ پکڑا جائے۔ اس دونوں قسم کے لوگوں کو جماعت سے خارج کر دیا جائے گا۔ لیکن یہ ضروری ہو گا کہ اگر کوئی شخص کسی پر بددیانتی یا جھوٹ کا الزام لگاتا ہےتو اُس کو اپنا یہ دعویٰ قضاء میں ثابت کرنا پڑے گا۔ یہ نہیں کہ یونہی کسی کے متعلق کہہ دیا جائے کہ یہ بددیانت یا جھوٹا ہے بلکہ اس الزام کو ثابت کرنا ہو گا۔ مثلاً ایک شخص زید کا ملازم ہے اور زید آکر کہتا ہے کہ میرا یہ ملازم بددیانت ہے۔ تو اس کو قضاء میں اس کا بددیانت ہونا ثابت کرنا ہو گا۔ یا ایک شخص آکر کسی کے متعلق کہتا ہے کہ اس نے فلاں جھوٹ بولا۔ تو اس کو قضاء میں وہ جھوٹ ثابت کرنا ہوگا۔ اور جب قضائی طور پر اُس کا بددیانت یا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے گا تو پھر سلسلہ اُس کو یہ سزا دے گا کہ اسے جماعت سے خارج کر دے گا۔ اور اگر سزا کے بعد اسے معافی بھی دی جائے گی تو بعض شرطوں کےساتھ دی جائے گی تاکہ ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ احمدی جھوٹ اور بددیانتی کو برداشت نہیں کرتے اور کہ احمدی جھوٹ بولنے والے نہیں ہوتے۔ سچے احمدی بددیانت نہیں ہوتے۔ اگر ان میں سے کوئی ایسا فعل کرتا ہے تو وہ ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ جماعت انہیں ایسی سزا دیتی ہے جس سے وہ ہمیشہ کےلئے مشہور ہو جاتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جماعت کے نوجوان اپنے اخلاق کو درست کرنے کی کوشش کریں گے اور میں امید کرتا ہوں کہ تم میں سے ہر فرد جھوٹ اور بددیانتی کو مٹانے کی کوشش کرے گا۔جب تک ہم جھوٹ اور بددیانتی کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوں گے اُس وقت تک جماعت معیاری سکّہ پر پوری نہیں اُتر سکتی۔ معیاری سکّہ پر جماعت تبھی پوری اُتر سکتی ہے جب ساری کی ساری جماعت سچائی کے ساتھ مشہور ہو اور جب ساری کی ساری جماعت بددیانتی سے بکلی پاک ہو۔
خدام الاحمدیہ کا دعویٰ ہے کہ ہم خدمتِ خلق کرتے ہیں۔ الفضل میں چھپتا ہے کہ ہم نے خدمتِ خلق کا یہ کام کیا، فلاں کے کھیت کی منڈیر بنائی، فلاں کے کھیت کو پانی دیا اور فلاں کا کھیت کاٹا۔ بے شک وہ بھی خدمتِ خلق ہے لیکن یہ خدمتِ خلق نہایت ہی ضروری ہے۔ آیا خدام نے کبھی یہ خدمتِ خلق بھی کی ہے؟ میں ان کو اس خدمتِ خلق کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو غیر کی بھی خدمت ہے اور اپنی بھی خدمت ہے کہ سچائی اور دیانت قائم کی۔ میں نے بار بار خدام الاحمدیہ کو توجہ دلائی ہے مگر اِس وقت تک باوجود توجہ دلانے کے انہوں نے اخلاق کی درستی کی طرف توجہ نہیں کی۔ یہ کہ کسی کے کھیت کو پانی دے دیا یا منڈیریں بنا دیں اس سے کیا بنتا ہے۔ اصل کام تو قوم کے اندر سچائی اور دیانت کو قائم کرنا ہے۔ جب وہ اس چیز کو قائم کریں گے تو نہ صرف وہ ایک کھیت کوتباہ ہونے سے بچائیں گے بلکہ ہزاروں ہزار آدمیوں کو بچائیں گے جنہوں نے ان مکّاروں کا شکار ہونا تھا۔ آخر بددیانت آدمی اپنا روپیہ نہیں کھاتا دوسروں کا کھاتا ہے۔ اپنی بدنامی نہیں کرتا بلکہ ساری قوم کی بدنامی کا موجب ہوتا ہے۔
پس قومی ترقیات تمام کی تمام دیانت اور سچائی کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس قوم میں یہ دونوں چیزیں نہیں پائی جاتیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ایک شخص کسی انگریزی فرم کو آرڈر دے کر گھر آجاتا ہے اور اُسے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہوتا۔ اور اگر وہ کسی ہندوستانی فرم کو آرڈر دے کر واپس آتا ہے تو اُس کا دل گھٹتا رہتا ہے کہ خبر نہیں پتھر یا کیا چیز بھیج دیں۔ اسی بددیانتی کی وجہ سے ہندوستان کی ترقی رُکی ہوئی ہے۔جو دکاندار دیانتدار ہو گا اُس پر لوگ اعتبار کریں گے اور بغیر کسی فکر اور ہچکچاہٹ کے اس کو آرڈر دے آئیں گے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کبھی ناقص چیز نہیں دے گا۔ پس قومی ترقی امانت اور دیانت کی شہرت کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگر تمام احمدی دیانتدار ہوں گے تو جہاں بھی کوئی احمدی دکاندار ہو گا لو گ اُس کے پاس جائیں گے کہ اس سے سودا اچھا ملتا ہے چلو اس کے پاس چلیں۔ اور کہیں گے کہ ہےتو کافر پر ہے دیانتدار۔ اور سب سودا لوگ اس سے خریدیں گے۔ لیکن اگر قادیان کا احمدی دکاندار بھی ایک من آٹے میں سیر بھر مٹی ملا دیتا ہے تو اس کے اندر وہ کونسی چیز ہے جس کی وجہ سے لوگ احمدیت کی طرف توجہ کریں گے اور جو چیز اس کو دوسرے دکانداروں سے ممتاز کرنے والی ہے۔
میں نے خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر خدام کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ اس کی نگرانی کریں۔ انہوں نے کچھ دن کام بھی کیا تھا مگر انہوں نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی۔ اگر ہر خادم اس بات کا فیصلہ کر لے کہ میں نے بددیانتی کو مٹانا ہے، اگر اس کا باپ دکاندار ہے تو باپ سے کہہ دے کہ تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا، اگر اس کے بھائی دکاندار ہیں تو بھائیوں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا، اگراس کے دوست اور رشتہ دار دکاندار ہیں تو دوستوں اور رشتہ داروں سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا،اگر اس کی بیوی دکان کرتی ہے تو بیوی سے کہہ دے کہ میں تمہیں بددیانتی نہیں کرنے دوں گا اور اگر تم باز نہ آئے اور اصلاح نہ کی تو میں تمہارے خلاف گواہی دوں گا۔ تو مجھے امید ہے کہ اگر ہر خادم یہ فیصلہ کر لے تو ایک گھنٹہ کے اندر اندر اس عیب کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اگر تمہار ابھائی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے، اگر تمہارا باپ تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتا ہے، اگر تمہاری ماں تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے ، اگر تمہاری بیوی تاجر ہے اور وہ بددیانتی کرتی ہے تو یہ بددیانتی اُسی وقت تک ہے جب تک ان کو یقین ہے کہ تم ان کی محبت کی خاطر ان کی رپورٹ نہیں کرو گے۔ لیکن جب ان کو معلوم ہو جائے گا کہ تم ان کی محبت کی پروا نہیں کرو گے۔ اور تم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر وہ بددیانتی سے باز نہ آئے تو تم اس کی رپورٹ کرو گے تو کیا ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے منٹ میں بددیانتی کریں؟ باپ کہے گا بیٹا پچھلا جانے دو آئندہ میں کبھی بددیانتی نہیں کروں گا۔ بھائی کہے گا پچھلا معاف کر دو آج سے میں باز آیا۔ بیوی کہے گی یہ قصور معاف کر دو آئندہ یہ حرکت نہیں کروں گی۔ پس جب تم یہ تنبیہہ کر دو گے اور ایسے موقع پر ان کی محبت کو قربان کر دو گے تو تم دیکھوگے کہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر بددیانتی مٹ جائے گی۔
پس قوم کی اصلاح تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ بیٹے کی اصلاح باپ کے ہاتھ میں ہے۔ باپ کی اصلاح بیٹے کے ہاتھ میں ہے۔ بھائی کی اصلاح بھائی کے ہاتھ میں ہے۔ بیوی کی اصلاح خاوند کے ہاتھ میں ہے اور ماں کی اصلاح بیٹوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگرتم اس طریق کو استعمال کرو تو چند دن نہیں بلکہ ایک گھنٹہ کے اندر ساری قوم کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر تمہارا دوست دیکھتا ہے کہ وہ بددیانتی کرے گا تو تم اس پر پردہ ڈالو گے اورجھوٹ بولو گے تو تم اُس کو بھی غرق کرتے ہو اور آپ بھی غرق ہوتے ہو۔ کیا تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اس کی بددیانتی پکڑی جائے اور اس کی سزا میں اسے پانچ دس گالیاں یا دو چار تھپڑ پڑیں؟ یا تم اس کو پسند کرتے ہو کہ اس کو لاکھ سال تک جلتی ہوئی جہنم میں ڈال دیا جائے؟ اگر تم پسند نہیں کرتے کہ اس کو جہنم میں ڈالا جائے تو تمہارا دوست ان پانچ دس گالیوں یا دو چار تھپڑوں سے اگر بچنا بھی چاہتا ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم اس کو گھسیٹ کر لاؤ اور اسے تھپڑ اور گالیاں دلاؤ تاکہ اس کی سزا اسی دنیا میں ختم ہو جائے اور وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی سے بچ جائے۔ ہاں اگر تمہیں خدا پر ایمان نہیں، اگر تمہیں جزا سزا اور دوزخ پر اعتبار نہیں تو پھر بے شک تم اس شخص کو انسانوں کی سزا سے بچاؤ۔ کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ خدا کی کوئی سزا نہیں۔ اس سے بچنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسان کی سزا ہے اس سے میں بچاتا ہوں۔پس ایسی بے ایمانی کی صور ت میں ہی ہو سکتا ہے کہ تم اس کو سزا سے بچانے کی کوشش کرو۔ ورنہ قومی جرائم میں کسی کی رعایت کرنا خطرناک چیز ہے۔ ہاں فردی خرابی میں پردہ پوشی کرنابے شک اعلیٰ صفت ہے۔ ایک ایسا جُرم ہے جس کا زید یا بکر سے تعلق ہے مثلاً زید سے کوئی غلطی ہوئی یا بکر سے کوئی غلطی ہوئی جس کا صرف ان کےساتھ ہی تعلق ہے تو ہمارا فرض ہے کہ پردہ پوشی سے کام لیں۔ خداتعالیٰ ان کے گناہ بھی معاف کرے اور ہمارے گناہ بھی معاف کرے۔ مگر ایسا جرم جو قوم کے اخلاق بگاڑنے والا ہے اور جس کا اثر ساری قوم پر پڑتا ہے۔ ہر شخص جو اس کاارتکاب کرتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے اور ہر شخص جو اُس پر پردہ ڈالتا ہے وہ بھی قوم کا دشمن ہے اور ہر وہ شخص جس کے دل میں اس جرم کو دور کرنے کی خواہش نہیں وہ بھی قوم کا دشمن ہے۔ پس آج سے تم یہ فیصلہ کر لو کہ جھوٹ اور بددیانتی کو مٹانا ہے۔ تم یہ کر کے دیکھ لو۔ اگر یہ دونوں چیزیں تم اپنے اندر پیدا کر لو گے تو تم دیکھو گے کہ شدید سے شدید دشمن بھی تمہاری تعریف کرنے پر مجبور ہو گا اور اپنی ضرورتوں کے موقع پر وہ تم پر اعتبار اور اعتماد کرے گا۔
پس میں جماعت کو آنے والے خطرہ سے جس کی الوصیت میں خبر دی گئی تھی آگاہ کرتا ہوں اوریہ نہیں کہ آگاہ کر دینے سے میں اپنے آپ کو اپنی ذمہ داری سے آزادسمجھتا ہوں بلکہ جب تک مجھے خدا تعالیٰ توفیق دے میں اپنی اس ذمہ داری کو پورے طور پر ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ اور میرا ہی نہیں بلکہ تم میں سے ہر شخص کا فرض ہو گا کہ اس خطرہ سے آگاہ رہے جس کے متعلق آج سے سینتیس سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خبردار کیا تھا۔ اگر پھر بھی وہ چور تمہارے گھر میں گھس آئے تو تم سے زیادہ اَبْلَہ 10کون ہو گا کہ خدا کے مامور نے سینتیس سال پہلے بتا دیا تھا کہ شیطان فلاں طرف سے آئے گا مگر پھر بھی تم نے احتیاط نہ کی اور اسے گھر میں گھسنے دیا ۔ پس اب بھی تمہارا فرض ہے کہ ہو شیار ہو جاؤ اور کمریں کَس لو اور قومی عزت کو بچانے اور قومی ناک کو بچانے کے لئے مجرموں اور غداروں کو نکال باہر کرو۔ خواہ وہ تمہارا باپ ہو، خواہ وہ تمہارا بھائی ہو، خواہ وہ تمہاری ماں ہو، خواہ وہ تمہاری بیوی ہو اور خواہ وہ تمہارا دوست ہو۔ اور کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ کا سلسلہ نیک نامی اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ ترقی کرے۔ یاد رکھو قومی اخلاق اُسی وقت غالب ہو سکتے ہیں جب قوم غالب ہو۔ اور جب احمدیت غالب آئے گی تو اُس وقت ہمارے یہ اخلاق کام نہیں آئیں گے جو آج میرے اندر یا تمہارے اندر پائے جاتے ہیں بلکہ وہ اخلاق کام آئیں گے اور اُن سے دنیا کی اصلاح ہو گی جو اُس وقت جماعت کے اندر پائے جاتے ہوں گے۔ میرے اندر جو اخلاق پائے جاتے ہیں اُس وقت یہ کام نہیں آئیں گے بلکہ اُس شخص کے اخلاق کام آئیں گے جو اُس وقت جماعت کے سر پر ہو گا۔ جب جماعت میں حکومت آئے گی کیونکہ یہ کام اُس نے کرنا ہے کہ ان اخلاق کو تمام دنیا پر غالب کرے۔ میں تو واعظ ہوں سیاست میرے پاس نہیں، غلبہ مجھے حاصل نہیں، میرے پاس تو اتنی بھی طاقت نہیں جتنی کم سے کم اقلیّت کو حاصل ہے۔ ہندوستان میں سب سے چھوٹی مینارٹی(Minority) سکھوں کی ہے مجھے تو اتنی بھی طاقت حاصل نہیں جتنی کہ سکھوں کو حاصل ہے۔ تو میرے اندر کتنے ہی بلند اخلاق ہوں وہ دنیا کی اصلاح میں کام نہیں آ سکتے۔ ہاں اس شخص کے اخلاق کام آئیں گے جو اُس وقت جماعت کے سر پر ہو گا جب جماعت کو غلبہ حاصل ہو گا۔ میں تو وعظ کرتا ہوں لیکن وعظ کیا قرآن مجید میں کم ہے؟ اچھے سے اچھا وعظ قرآن مجید میں موجود ہے، اچھے سے اچھا وعظ حدیث میں موجود ہے۔ اگر قرآن مجید اور حدیث کے وعظ نے کام نہ دیا تو میرا وعظ کیا کام دے گا۔ پس وہی اخلاق کام دیں گے جو اُس وقت جماعت میں ہوں گے جب جماعت کو غلبہ حاصل ہو گا اور جو اُس شخص میں پائے جائیں گے جو جماعت کے سر پر ہو گا۔ اس لئے اُس وقت تک اخلاق کی درستی کا کام کرتے جاؤ جب تک کہ جماعت کو غلبہ حاصل ہو۔ اگراُس وقت تک تم برابر اخلاق کو درست رکھتے گئے تو جب غلبہ ملے گا وہ غلبہ نیکی کا ہو گا۔ پس جماعت کی حالت کم از کم اس وقت تک نیک ہونی چاہیے۔ جب تک یہ حالت قائم رہے گی اُس وقت تک جماعت بڑھتی جائے گی۔ اور جب یہ حالت نہ رہے اور خرابی پھیل جائے تو پھر ترقی رُک جاتی ہے۔ پھر کسی مامور کے ذریعہ سے ترقی حاصل ہو تو ہو اس جماعت کے اخلاق سے نہیں ہو سکتی۔ پس ہمارا فرض ہے کہ ان اخلاق کو کم از کم اُس دن تک جاری رکھیں جس دن کہ احمدیت کو غلبہ حاصل ہو، تاکہ یہ اخلاق ساری دنیا میں جاری ہو جائیں اور دنیا تسلیم کرلے کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر ان اخلاق کو جاری کیا۔ اگر آج ہم نے ان اخلاق کو مار دیا تو کل کو خراب اخلاق دنیا میں جاری ہوں گے اور جب جماعت میں حکومت آئے گی تو وہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حکومت نہیں ہو گی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حکومت نہیں ہو گی بلکہ وہ شیطان کی حکومت ہو گی۔ اور اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی جماعت کو اس لئے تو پیدا نہیں کیا کہ ان کے ذریعہ انسانوں کی گردنیں شیطان کے قبضہ میں چلی جائیں۔
پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی قوم کےا خلاق کو درست رکھیں، اپنی اولادوں کے اخلاق کو درست رکھیں، اور وہ آگے اپنی اولادوں کے اخلاق کو درست کرتے چلے جائیں۔ یہاں تک کہ یہ اخلاق رواج پا جائیں۔ اور جب احمدیت کا غلبہ ہو اور دنیا کی اصلاح کا کام احمدیت کے سپرد ہو تو احمدیت دنیا کےاخلاق درست کردے۔ اور دنیا تسلیم کر لے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر شیطان کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کام کے لئے اگر ہماری راتوں کی نیندیں حرام ہو جائیں، ہمارے دنوں کا آرام اُڑ جائے اور ہمارے دلوں کا چین اور سکینت کھویا جائے تو یہ کوئی بڑی تکلیف نہیں بلکہ عین حق ہو گا جو ہم نےا دا کیا۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور ان بلاؤں سے ہمیں اس سے زیادہ نجات دے جتنی کہ طاعون اور ہیضہ سے بچنے کی بندے تمنا رکھتے ہیں۔اٰمین’’ (الفضل مورخہ 22فروری 1945ء)
1: وَ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُّؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْهُ بِدِيْنَارٍ
لَّا يُؤَدِّهٖۤ اِلَيْكَ اِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَآىِٕمًا(آل عمران: 76)
2: بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق
3: النساء: 146
4: بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الشعراء باب وَاَنْذِرْ (الخ)
5: بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ﷺ (الخ)
6: درثمین فارسی صفحہ112 شائع کردہ سید عبدالحی شاہ صاحب
7: کِرَچِیں: ایک قسم کی لمبی تلوار
8: الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ319(مفہوماً)
9: لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا(النور:5)
10: اَبْلَہ: نادان۔ بیوقوف
8
خدا تعالیٰ کی ساری کی ساری صفات کو ظاہر کرنے والے بنو
(فرمودہ 23فروری 1945ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ انبیاء کی آمد ایک بادل سے مشابہت رکھتی ہے جس طرح بادل اور وہ بادل جو کہ ضرورت کے مطابق اور لمبے انتظار کے بعد دنیا میں آتا ہے جب لوگ گرمی کی شدت اور حبس کی تکلیف کی وجہ سے بے کل ہو رہے ہوتے ہیں، جب انسان اور جانور تازہ اور اچھے پانی کے لئے تڑپ رہے ہوتے ہیں، جب کھیت اپنی روئیدگی کو نکالنے اور سبزہ کو اُبھارنے کے لئے پانی کے چھینٹوں کو ترس رہے ہوتے ہیں تب اُس تاریکی کے زمانہ میں اور تکلیف کے زمانہ میں ایک لمبے عرصہ اور لمبے انتظار کے بعد آسمان پر بادل نظر آتا ہے اور اسے دیکھ کردنیا خوش ہوتی ہے کہ اب ہماری امیدیں پوری ہوں گی۔
اِسی طرح تکلیف اور دکھ کے بعد اور ایک لمبے انتظار کے بعد انبیاء علیہم السلام کا ظہور ہؤا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی خدا کی طرف سے صادق اور راستباز انبیاء علیہم السلام ظاہر ہوتے ہیں تو ان کے ظاہر ہونے سے پہلے اور پیچھے ایک گروہ غلطی خوردہ اور حقیقت سے دور مدعیوں کا بھی پیدا ہو جاتاہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد سے پہلے بھی اور پیچھے بھی ایسے لوگ ظاہر ہوئے جو اپنے آپ کو خدا کا فرستادہ اور رسول قرار دیتے تھے۔ لیکن وہ خدا کی طرف سے سچے اور راستباز نہیں تھے۔ ان کے دلوں میں رسول بننے کی خواہش پہلے تو ان پیشگوئیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی جو ایک آنے والے نبی اور رسول کے متعلق گزشتہ انبیاء علیہم السلام کی طرف سے کی گئی تھیں۔ جب ان کے باپ دادوں نے سنا کہ ایک آنے والے کی خبر دی گئی ہے جس کا نام یہودیوں کی بعض کتابوں میں محمد بتایا گیا ہے تو انہوں نے بھی اپنے بچوں کے نام محمد رکھنا شروع کر دیئے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش سے پہلے محمد نام بہت کم بلکہ قریباً نہیں تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش کے قریب پانچ نام محمد ثابت ہیں۔ اور اپنے بچوں کے یہ نام رکھنے والے ماں باپ وہی تھے جنہوں نے یہودیوں سے یہ خبر سنی ہوئی تھی کہ آنے والے نبی کا نام محمد(ﷺ) ہو گا۔ تو کچھ لوگوں نے تو نام ایسے رکھے جس کا یہودیوں کی کتب میں ذکر تھا کہ آنے والے کا یہ نام ہو گا۔ اور اس کے بعد جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والا ظاہر ہؤا اور لوگوں نے دیکھا کہ پروانہ وار لوگ اس کے گرد جمع ہو رہے اور اس کے دین میں داخل ہو رہے ہیں اور اس کو فتح نصیب ہو رہی ہے۔ تو اس فتح اور کامیابی کو دیکھ کر بعض جھوٹے لوگوں نے بھی نبی اور رسول ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ جب تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کامیابی نہیں ہوئی اُس وقت تک ان جھوٹے مدعیوں کو دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اور جب آپ کو کامیابی اور فتح ہونا شروع ہوئی تو آپ کی کامیابی کو دیکھ کر ان جھوٹے مدعیوں نے بھی دعویٰ کر دیا۔ اور یہی ثبوت تھا اِس بات کا کہ دعویٰ کرنے والے جھوٹے تھے اور وہ آپ کی کامیابی کا نمونہ دیکھ کر لُوٹ کا مال سمجھ کر آگے آئے تھے ورنہ اگر وہ واقع میں خداتعالیٰ کی طرف سے اصلاح کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے تو پھر ان مدعیوں کا زمانہ فتح مکہ سے پہلے بلکہ ہجرت سے پہلے ہونا چاہیےتھا۔
ہجرت سے پہلے عرب ایک تاریک ملک تھا جو گناہ اور غفلت میں ڈوباہوا تھا اور جس کی جہالت انتہا تک پہنچ چکی تھی۔ کیونکہ اگر بنی نوع انسان کی محبت نے اُن کو اِس دعویٰ پر آمادہ کیا تب بھی ان کو اُس زمانہ میں کھڑا ہونا چاہیے تھا اور اگر ان مدعیوں کو خدا نے بھیجا تھا تب بھی ان کو ایسے زمانہ میں آنا چاہیے تھا جبکہ جہالت اور گمراہی پھیلی ہوئی تھی۔ کیا کوئی شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ خداتعالیٰ نے نعوذ باللہ ایک جھوٹے آدمی کو کھڑا کر دیا تاکہ وہ عرب سے شرک کو دور کر دے، تاکہ وہ جہالت اور گمراہی کو دور کر دے، تاکہ وہ فساد کو دور کر دے، تاکہ وہ عرب سےعورتوں پر جو ظلم ہوتے ہیں اُن کو مٹا دے، تاکہ وہ عرب سے بچوں کے قتل کو مٹا دے، تاکہ وہ عرب سے دوسری بد رسوم کو دور کر دے۔ اور جب نَعُوْذُ بِاللہ جھوٹا مدعی یہ تمام کام کر چکا تو پھر خدا تعالیٰ نے اپنے سچے نبیوں مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی وغیرہ کو بھیجنا شروع کر دیا۔ جب ملک میں بغاوت ہوتی ہے تو اُسی وقت بادشاہ کی طرف سے جرنیل آیا کرتے ہیں۔ شاہی جرنیل اُس وقت نہیں آیا کرتے جب بغاوت فرو ہو چکی ہو اور امن قائم ہو چکا ہو۔ تو کسی مدعی کی طرف سے اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ابتدائی زمانہ میں دعویٰ کیا جاتا تو ایک انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید یہ سچا ہو، شاید خداتعالیٰ نے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے اسی کو بھیجا ہو ۔ مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وہ کام کر لیا جو کام خدا چاہتا تھا اور اس کے دین کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قائم کر دیں تو کچھ اَور لوگ اٹھے کہ ہم کو بھی خداتعالیٰ نے بھیجا ہے۔ کوئی پوچھے تم کو کس لئے بھیجا ہے؟ کام تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کر چکے ہیں اب وہ کونسی کمی رہ گئی تھی جس کو پورا کرنے کےلئے خداتعالیٰ نے تم کو بھیجا ہے۔ تو ان کااُس ابتدائی زمانہ میں ظاہر نہ ہونا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں تھے۔ یا تو یہ ہوتا کہ کوئی مدعی کھڑا ہو کر یہ بتاتا کہ اسلام نے یہ یہ خرابیاں پیدا کر دی ہیں اور وہ یہ ثابت کرتا کہ عرب کی حالت اسلام سےپہلے اچھی تھی محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے ظاہر ہونے سے خراب ہو گئی۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ عرب کی حالت پہلے سے بہت زیادہ خراب ہو گئی ہے اس لئے خدا نے مسیلمہ کو یا اسود عنسی کو یا کسی اور کو بھیجا تاکہ وہ اس خرابی کی اصلاح کرے مگر جب وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عرب کی حالت کیا سیاسی لحاظ سے اور کیا علمی لحاظ سے اور کیا اخلا قی لحاظ سے اور کیا روحانی لحاظ سے پہلے سے بہتر ہو چکی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے سچے نبی کو بھیجنے کے لئے انتظار کیوں کیا؟ پس وقت کے لحاظ سے ان کا دعویٰ بالبداہت جھوٹا تھا۔ اگر کسی اَور نے آنا ہوتا تو وہ آتا اور آکر یہ کہتا کہ یہ جھوٹا ہے میں سچا ہوں۔ اس نے آکر خرابی پیدا کر دی میں اب اصلاح کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اور پھر وہ اصلاح کرتا۔ لیکن ایسا نہیں ہؤا۔ پس وقت کے لحاظ سے ان کا ایسے زمانہ میں ظاہر ہونا جبکہ کام ہو چکا تھا جہاں یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جھوٹے تھے وہاں اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ گزشتہ خبروں کی وجہ سے ایک آنے والے کا انتظار قلوب میں پیدا ہو چکا تھا جس سے ان لوگوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی مگرغلطی یہ کی کہ انتظار کے بعد جب آنےو الا آگیا اور قلوب کو سیری ہو چکی تو اُس وقت انہوں نےبھی دعویٰ کر دیا۔
ان کی مثال ایسی ہے کہ ہمارے گھرمیں ایک عورت ہؤا کرتی تھی اس نے قرآن شریف پڑھنا شروع کیا۔ وہ ایسی کند ذہن تھی کہ اُس نے اپنی استانی سے کہا کہ صبح مجھے ایک آیت بتا دیا کرو میں شام تک اُسے دہراتی رہا کروں گی اس طرح مجھے وہ آیت یاد ہو جائے گی اور اگلے دن دوسری آیت یاد کر لوں گی۔ ایک دن صبح کے وقت ایک آیت جو اسے پڑھائی گئی تو عصر کے قریب لوگوں نے سنا کہ وہ آٹا گوندھ رہی تھی اور یہ فقرہ بار بار دُہرا رہی تھی۔ ‘‘جا بھانوں آبھیناں جا بھانوں آبھیناں‘‘۔کسی نے پوچھا یہ کیا کر رہی ہو؟کہنے لگی آیت یاد کر رہی ہوں۔ اس نے کہا قرآن مجید میں تو اِس قسم کی کوئی آیت نہیں۔ کہنے لگی کیوں نہیں صبح مَیں نے یہ آیت سیکھی تھی اور اب تک میں اِسے دُہرا رہی ہوں۔ آخر معلوم ہوا کہ صبح اُس کو يَعْلَمُ مَا بَيْنَ سکھایا گیا تھا جو بگڑتے بگڑتے ‘‘جا بھانوں آبھیناں’’ بن گیا۔ اس عورت کو یہ بھی عادت تھی کہ مجلس میں جب دوسری عورتیں ہنستی تھیں اور تھوڑی دیر کے بعد ہنس کے خاموش ہو جاتیں اور کوئی سنجیدہ بات شروع ہو جاتی تو دو منٹ کے بعد یہ عورت زور سے قہقہہ لگا کر ہنسنا شروع کر دیتی تھی۔ دوسری عورتوں نے ایک دفعہ اس سے پوچھا کہ تم کس بات پر ہنس رہی ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ فلاں بات کی وجہ سے۔ انہوں نے کہا کہ وہ بات تو دو منٹ ہوئے ختم ہو چکی اُس وقت تو تم ہنسی نہیں اب کیوں ہنس رہی ہو؟ اس نے جواب دیا کہ ‘‘ساڈا ہاسا دوسریاں دے ہاسے وچہ مل جائے!!’’۔یعنی میری ہنسی کیا دوسروں کی ہنسی میں مل کر ضائع ہو جائے۔ تو یہ مدعی بھی اِسی رنگ کے ہوتے ہیں۔ اگر یہ اُس وقت دعویٰ کرتے جب اصلاح کی ضرورت تھی تو لوگ بجائے ان کو پاگل سمجھنے کے یہ خیال کرتے کہ شاید یہ سچے ہوں۔ مگر جب کام ہو چکا اور پھر انہوں نے دعویٰ کیا تو اب تو ان کے پاگل ہونے میں شبہ ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا کے دین کو قائم کر دیا اور لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کر دیا اور ایسی جماعت تیار کی اور ایسے شاگرد پیدا کئے جنہوں نے آپ کی تعلیم کو پھیلانا شروع کر دیا تو پھر جھوٹے مدعی بھی کھڑے ہو گئے کہ شاید ہم بھی اِسی طرح کامیاب ہو جائیں گے جس طرح محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ فعل ایسا ہی تھا جیسا کہ منافق مدینہ میں کیا کرتے تھے کہ جب مسلمان لڑائی میں فتح حاصل کر کے آتے تو مدینہ سے آگے نکل کر اُن سے جاملتے اور کہتے کہ ہم بھی آپ کے بھائی ہیں۔ ان کا مطلب دراصل یہ تھا کہ ہم بھی تمہاری فتح اور کامیابی میں شریک ہیں ۔ بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ اتنے جھوٹے آدمیوں کا ظاہر ہونا اس وجہ سے تھا کہ دنیا ایک آنے والے نبی کی منتظر تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ چونکہ وہ جھوٹےتھے اس لئے جب قربانی اور تکالیف کا وقت تھا اُس وقت وہ شامل نہ ہوئے اورجب کامیابی کا زمانہ آیا اُس وقت شامل ہوئے۔
ایسے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی دنیا ایک مسیح اور مہدی کی منتظر تھی اور اس انتظار کا بڑا بھاری ثبوت یہ ہے کہ آپ کے آنے سے پہلے بھی کئی مدعی ظاہر ہوئے جنہوں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا۔ ایران میں باب کی طرف سے باب مہدی ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔ اس لئے وہ آنے والے مہدی کے لئے بطور دروازہ کے ہے اور اس کے بعد مہدی ظاہر ہو گا۔ سوڈان میں بھی ایک مہدی ظاہر ہوا۔ اَور ملکوں میں بھی کئی جھوٹے مہدی ظاہر ہوئے۔ ان سب جھوٹے مدعیوں کا دعوی کرنا اِس بات کی علامت تھی کہ آنے والے مہدی کے متعلق لوگوں میں یہ احساس پیدا ہونے لگ گیا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ وہ موعود مہدی ظاہر ہو۔ اِس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ظاہر ہوئے اور آپ نے ایک جماعت بنائی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ مگر آپ سے پہلے جن لوگوں نے دعویٰ کیا اور جن کا دعویٰ کرنا صرف اس بات کی علامت تھی کہ اب وقت آگیا ہے کہ سچا مدعی پیدا ہو جس کی وجہ سے وہ سمجھے تھے کہ شاید وہ ہم ہی ہوں وہ سب ناکام رہے اور ان کی ناکامی نے بتا دیا کہ یہ لوگ اپنے خیالات میں غلطی کرنے والے تھے اور ان کا یہ خیال غلطی کی وجہ سے یا افتراء کی وجہ سے درست نہیں تھا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے اور آپ نے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کر لی۔ کامیابی کے یہ معنے نہیں کہ وہ ساری دنیا پر غالب آگئے بلکہ یہ مطلب ہے کہ آپ نے اسلام کی فتح کی ایسی داغ بیل ڈال دی اور ایسی جماعت پیدا کی کہ دنیا بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ یہی وہ جماعت ہے جس کے ذریعہ اسلام کو فتح حاصل ہو گی۔ اس کے بعد پھر ہم دیکھتے ہیں کہ چونکہ انتظار کا اثر بہت سی طبائع میں پایاجاتا تھا اس لئے اس کامیابی کو دیکھ کر کئی اَور جھوٹے مدعی کھڑے ہو گئے کہ ہم بھی ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے ہیں جو ایک آنے والے کے متعلق پائی جاتی ہیں۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ شاید دنیا کو فتح کر لینا آسان کام ہے اور شاید ہم بھی اس میں کامیاب ہو جائیں گے مگر پہلے بھی ناکام رہے تھے اوریہ بعد والے بھی ناکام رہے۔
اِسی قسم کے مدعیوں میں سے کچھ دن ہوئے ایک کے خطوط میرے پاس روزانہ آتے تھے۔ میں نے آخر ایک دن دفتر کو ہدایت کی کہ اسے یہ خط لکھیں کہ تم مجھے کیوں لکھتے ہو؟ اس سے تمہاری غرض کیا ہے؟ اگر تمہارا میری طرف خط لکھنے سے مطلب یہ ہے کہ تم میرے ذریعہ سے جماعت کو فتح کر لو گےتو جماعت کی خوبی کو تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ یہی وہ جماعت ہے جو کام کرنے والی ہے اور تم یہ خواہش رکھتے ہو کہ بنی بنائی جماعت تمہیں مل جائے۔ ورنہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ جماعت خراب ہے اور اس کے اندر نقص پایا جاتا ہے تو پھر تم بھی کوشش کر کے ایک جماعت بنا لو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ جماعت بناناکہاں تک آسان کام ہے۔ اور اگر تمہارے دل میں یہ خیال ہے کہ پکی پکائی چیز تمہیں مل جائے تو یہ خیال غلط ہے۔ اس کو تو جس کے لئے خدا نے پکایا ہے وہی استعمال کرے گا خدا کسی دوسرے کو نہیں دے گا۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد بھی ایسا گروہ جھوٹے مدعیوں کا کھڑا ہوا اور انہوں نے سمجھا کہ جو جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بنائی ہے اسے ہم اُچک کر لے جائیں گے۔ حالانکہ اگر جماعت بنا لینا انسانوں ہی کا کام ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے ہی کیوں نہ بنا لیتے۔ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے جو مہدی ہونے کے جھوٹے مدعی کھڑے ہوئے تھے انہوں نے جماعت کیوں نہ بنالی۔ یا بعد میں جھوٹے مدعی اس طرف کیوں راغب ہوئے کہ بنی بنائی جماعت ہمیں مل جائے۔ کیوں نئی جماعت نہ بنا لی۔ تو جہاں ان جھوٹے مدعیوں کا وجود غلطی خوردہ یا افترا کرنے والا ثابت ہوتا ہے وہاں ساتھ ہی یہ بھی ضرور ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے زمانہ میں بنی نوع انسان کویہ امید ہوتی ہے کہ اب خداتعالیٰ ضرور روحانی بادل بھیجے گا۔ اور سچے نبی کی بعثت سے قبل ان جھوٹے مدعیوں کا دعویٰ اس بات کاثبوت ہے کہ لوگوں کو ایک سچے نبی کی امید اور آس ہے۔ پھر جب خداتعالیٰ کی طرف سے بارش آتی ہے توہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح مادی بادل برستے ہیں تو طریق یہ ہے کہ وہ ہر جگہ پر برستے ہیں اور ان کے برسنے سے ہر قسم کی روئیدگی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بارش ایک ہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اسی بارش سے ایک طرف میٹھے پھل پیدا ہوتے ہیں اور دوسری طرف اسی بارش سے کڑوے پھلوں کو بھی نشو ونماحاصل ہوتا ہے۔1 ایک ہی قطرہ بارش کا جہاں انگور کو زیادہ شیریں بنا دیتا ہے، جہاں آم کو زیادہ شیریں بنا دیتا ہے، جہاں اَور مختلف قسم کے میٹھے پھلوں کو زیادہ شیریں بنا دیتا ہے وہاں بارش کا وہی قطرہ کیکر کو اور حنظل کو زیادہ تلخ بنا دیتا ہے اور کھٹی چیزوں کو زیادہ ترش بنا دیتا ہے۔ وہی بارش کا قطرہ جو انسان کے اندر گوشت پیدا کر دیتا ہے وہی قطرہ گھاس کے اندر روئیدگی پید اکر دیتاہے۔ جنگل میں اُگی ہوئی مختلف قسم کی جھاڑیاں اور جڑی بُوٹیاں جن کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں اور پہاڑوں کی وادیوں میں پیدا ہونے والی بُوٹیاں بھی اِسی بارش سے اپنی روئیدگی کو ابھارنا شروع کردیتی ہیں۔ تو بارش کا وہی قطرہ جہاں انسان کے اندر تر وتازگی اور نمو پیدا کر دیتاہے وہاں وہ جنگل میں اُگنے والی ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیوں میں بھی روئیدگی پیدا کر دیتا ہے۔ یہی حال انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں ہوتاہے یعنی جب روحانی بارش آسمان سے آتی ہے تو دونوں قسم کی روئیدگی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک طرف سویا ہؤا کفربھی بیدار ہو جاتا ہے اور دوسری طرف ایمان بھی تر و تازہ ہو جاتا ہے۔ کفر بھی اُس زمانہ میں اپنی شان دکھانا شروع کردیتا ہے اور مخالف لوگوں کے اندر بھی بیداری پیدا ہو جاتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے آخر مکہ بھی وہی تھا اور عرب بھی وہی تھا لیکن آپ کی بعثت سے قبل عرب کے سرداروں کا کوئی نظام معلوم نہیں ہوتا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد ہم کفار کو بھی منظّم اور مشہور عمل پاتے ہیں۔ اور وہ سارے کے سارے اس کام کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں کہ کسی طرح محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے دین کو پھیلنے سے روکیں اور سارے متحد ہو کر اس دین کو مٹانے کے لئے کوشش کریں۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ یہ تنظیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے قبل نہیں تھی؟ اس کی یہی وجہ ہے کہ جب آسمان سے بارش آتی ہے تو ہر قسم کی چیزوں میں روئیدگی پید اہو جاتی ہے۔ اس معاملہ میں بھی جھوٹے اور سچے میں بڑا فرق ہے۔ جب جھوٹےمدعی کھڑے ہوتے ہیں تو لوگ اُن سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ کیونکہ بکری بکری سے کبھی نہیں ڈرتی بلکہ بکری شیر سے ڈرتی ہے۔ اس لئے جب کوئی جھوٹا مدعی کھڑا ہوتاہے تو لوگ اُس سے نہیں ڈرتے۔ لیکن جب کبھی فطرتِ انسانی یہ سمجھتی ہے کہ سچا موعود آگیا ہے تو اُس وقت کافر بھی بیدار ہوجاتا ہے کہ یہ ہے سچا خطرہ۔ اس کو دور کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔ جو مخالفت اور جس قسم کی منظم مخالفت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ہوئی ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوئی ہے ایسی مخالفت اور کسی کے زمانہ میں نہیں ہوئی۔ باب کے زمانہ میں بے شک شورش اور فساد پیدا ہوا لیکن یہ فساد بابیوں کے اپنے افعال کے نتیجہ میں تھا۔ پہلے بابیوں نے بعض لوگوں کو قتل کیا ان قتلوں کے نتیجہ میں حکومت نے ان کو مارا۔ لیکن پبلک خاموش رہی اور اس نے کوئی خاص مقابلہ نہیں کیا۔ مگرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تمام غیر قوموں میں آپ کے مقابلہ کا جوش پایا جاتاہے۔ غیر احمدی علماء کی تنظیم پہلے سے زیادہ ہے ۔ کیا تعلیمی لحاظ سے اور کیا دوسرے لحاظ سے۔ سارے کےسارے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ احمدیت کو کُچلا جائے۔ یہ چیز دنیا کے پردہ پر اور کسی مدعی کے مقابلہ میں نظر نہیں آتی۔ بہائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شریعت کو منسوخ قرا ر دیتے ہیں۔ لیکن ایک مسلمان کہلانے والا ایک بہائی کی باہوں میں باہیں ڈالتا ہے اور کہتا ہے چھوڑو اِن باتوں کو تم بھی سچے اور ہم بھی سچے، چلو دونوں مل کر احمدیت کا مقابلہ کریں۔ بہائیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے دل میں کوئی جوش پید انہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی وجہ سے کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ ہے تو احمدیت کی وجہ سے ہے۔
تو جس طرح بارش کا پانی گرنے سے ہر قسم کی روئیدگی پیدا ہوتی ہے اسی طرح روحانی بارش کے وقت کفر بھی بیدار ہو جاتا ہے اور ایمان بھی تر وتازہ ہو جاتا ہے۔ ادھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے ایک جماعت قائم ہوئی۔ وہ جماعت کہ اس کے اندر اخلاص اور تقویٰ پایا جاتا ہے اور اس کے ایمان کے اندر ایک بیداری اور بلندی کی امنگ پائی جاتی ہے۔ خواہ وہ اس درجہ تک نہ ہو جس کی امید کی جاتی ہے، خواہ وہ ابھی تربیت کی محتاج ہو۔ مگر ایک لُولہ لنگڑا اور کمزو رآدمی اگر صحیح راستہ پر جا رہا ہو تو ہر دیکھنے والا یہی کہے گا کہ ہے تو یہ لنگڑا پر چلتا ٹھیک راستہ پر ہے۔ آخر یہ ایک دن اپنی منزل پر پہنچ ہی جائے گا۔ اسی طرح ہماری جماعت کے متعلق خدائی قانون کے مطابق دیکھ کر ہرشخص یہی کہے گا کہ خواہ یہ جماعت سُست ہو یا چُست ہو، کمزور ہو یا طاقتور ہو مگر چلتی ٹھیک راستہ پر ہے۔ ایک دن آخر اپنی منزل پر پہنچ ہی جائے گی۔ تو ادھر آپ کی آمد سے اس قسم کی ایک جماعت قائم ہوئی اور اُدھر آپ کے آنے سے کفر میں بھی بیداری پیدا ہو گئی۔ یہ دونوں قسم کی جماعتیں ہیں اور دونوں اپنے اندر بیداری اور اُبھار پیدا کر رہی ہیں۔ جس طرح تلخ بُوٹیاں جو آپ ہی آپ اُگ آتی ہیں وہ اپنا جوش اور ابھار دکھا رہی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت سے بھی امید رکھتا ہے کہ ان تلخ بُوٹیوں کےمقابل میں اُسی طرح بلکہ اس سے زیادہ اپنا ابھار دکھائے اور اپنی روئیدگی کو ظاہر کرے۔ دنیا ساری کی ساری اپنا ابھار اور اپنا جوش دکھانا چاہتی ہے اور اپنے حسن اور اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ گویا شیطان اپنی پوری زینت کے ساتھ ظاہر ہو اہے تاکہ وہ لوگوں کو خد اکے دین سے موڑے۔ تو اس کے بالمقابل خدا کے بیٹوں کا بھی یہ کام ہے٭ کہ وہ اپنے اندرونی اور روحانی حسن کو ظاہر کرنے کی اس رنگ میں کوشش کریں کہ شیطان کا حسن ماند پڑ جائے۔ اور اس کی خرابی تمام دنیا کو نظر آجائے، ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا اپنے کاموں میں اس قدر چستی سے آگے بڑھ رہی ہے کہ اس کے مقابلہ میں پچھلے کام ہیچ نظر آتے ہیں۔ مجھےحیرت آتی ہے اور میں جرمن قوم کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا خواہ وہ ہمارے دشمن ہیں، خواہ ہمیں ان کے ساتھ اختلاف ہے مگر جب میں جرمن فوجوں کی قربانی کو دیکھتا ہوں تو میں ان کی بہادری کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چھ سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں۔ چھ سال سے ان لوگوں نے نہ تو آرام کیاہے اور نہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے۔ رات اور دن لڑتے رہے ہیں۔ بعض دن تو ایسے آئے ہیں اور روسیوں نے بھی ان کی بہادری کو تسلیم کیا ہے کہ سٹالن گراڈ سے ہٹتے وقت لاکھوں کی جرمن فوج متواتر سات دن تک لڑتی رہی اور اس نے آرام نہیں کیا۔ سارا دن لڑتے اور رات کو پیچھے ہٹتے۔ ساتویں دن جا کر اس فوج کو آرام کرنے کا موقع ملا۔ اور وہ جگہ اتنی تنگ تھی کہ سپاہیوں نے کھڑے کھڑے ایک دوسرے سے ٹیک لگا کر آرام کیا۔ یہ کتنی ہمت اور کتنی بہادری ہے۔ لیکن یہ ہمت ہمارے آدمیوں میں ابھی کہاں ہے۔ حالانکہ اگر ہم نے ان سب کا مقابلہ کرنا ہے تو ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ ہم اِس زمانے کے حالات کو دیکھیں اور سمجھیں کہ کفر کی بُوٹیوں نے اس پانی سے کتنا فائدہ اٹھایا ہے۔
کیا یہ شرم کا مقام نہیں کہ ایمان کے درخت تو اس پانی سے فائدہ نہ اٹھائیں حالانکہ یہ پانی ان کے لئے اتارا گیا تھا۔ مگر کفر کی بُوٹیاں اس سے فائدہ اٹھائیں۔ جب باغ کو پانی دیا جاتا ہے تو اس کا مقصد یہی ہوتاہے کہ باغ کے درختوں کو سیراب کیا جائے لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اس پانی سے باغ کے کناروں کا گھاس تو اُگ آئے اور اس میں روئیدگی پیدا ہو جائے لیکن باغ کا درخت سُوکھ جائے۔ حالانکہ وہ پانی کنارے کے گھاس کو نہیں دیا گیا تھا بلکہ ان درختوں کو دیا گیا تھا جو اس باغ کے درمیان میں ہیں۔پس اللہ تعالیٰ نے یہ روحانی بارش اس لئے بھیجی ہے کہ مومن اپنے ایمان کو مضبوط کریں۔ اور اپنے اندر ترو تازگی اور جوش اور نئی زندگی پیدا کریں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جن کے لئے یہ پانی نہیں اتارا گیا وہ گھاس پھونس تو اِس پانی سے فائدہ اٹھا کر سرسبز و شاداب ہو رہا ہے لیکن باغ کے وہ درخت جن کے لئےیہ پانی اتارا گیا تھا وہ ابھی اس بات کے محتاج ہیں کہ ان کےا ندر بیداری اور ہوشیاری پیدا کی جائے۔
پس میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ وقت کو پہچاننے اور ضرورتِ زمانہ کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ ایک نئی دنیا پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس کام کے لئے پہلا موقع اُس نے ہم کو دیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پہلے ہونے کی وجہ سے ہمارے لئے آسانیاں ہیں۔ مگر خداتعالیٰ کے ساتھ ہمارا معاہدہ نہیں کہ ہم اس کے ساتھ اپنے عہد کو توڑتے چلے جائیں اور پھر بھی یہ کام وہ ہمارے ذریعہ سے ہی کرائے۔ یہ تو اس کا احسان اور اس کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ اس نے ہم کو موقع دے دیا ہے۔ اب ہماری شرافت ہو گی، ہماری ایمانداری ہو گی ، ہماری دیانت ہو گی اور ہماری ہوشیاری ہو گی اگر ہم اس انعام سے فائدہ اٹھا کر خداتعالیٰ کی برکتوں کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیں اپنی عادات اور اپنے افعال کی نگرانی کرنا چاہیے۔ ہمارا سونا ضرورت سے زیادہ نہ ہو۔ ہمارا کھانا ضرورت سے زیادہ نہ ہو۔ جب تک ہر چیز اس طرح ہمارے قابو میں نہ ہو اور ہمارے زائد اوقات، ہماری عقل اور ہمارا علم خدا اور اس کے دین کی خاطر صَرف نہ ہو اُس وقت تک ہماری مثال اُس برتن کی ہو گی جو ٹوٹا ہوا ہو اور جب اس میں پانی بھرا جائے تو وہ پانی دوسرے سوراخ کے رستہ نکل جائے۔ پس ٹوٹا ہوا برتن کسی کام نہیں آتا اور میلا شیشہ کوئی اپنے پاس نہیں رکھتا۔
میں جب بچہ تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تقریر کر رہا ہوں اور میرے ہاتھ میں ایک آئینہ ہے اور میں کہتا ہوں کہ دیکھو انسان کا دل خدا کے سامنے آئینہ کی مانند ہے۔ جس طرح انسان اپنا حسن آئینہ میں دیکھتا ہے اسی طرح خدا بھی اپنے حسن کو اور اپنی صفات کو انسان کے قلب میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے اگر انسان کا دل خدا تعالیٰ کی صفات کو اعلیٰ درجہ کا ظاہر کرنے والا ہو تو خداتعالیٰ اُس کو قیمتی قرار دیتا ہے اور اسے اپنے پاس رکھتا ہے۔ لیکن اگر انسان کا قلب داغدار اور میلا ہو اور شفاف نہ ہو اور اس میں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ غلط نظر آتا ہو تو اتنا کہہ کر میں نے رؤیا میں اس آئینہ کو جو میرے ہاتھ میں تھا زور سے زمین پر دے مارا اور کہا کہ ایسے دل کو خداتعالیٰ بھی اٹھا کر اِسی طرح دے مارتا ہے۔ تو انسان کو اور خصوصاً انبیاء کے زمانہ کے انسان کو خداتعالیٰ نے چُنا تو ہے مگر اس لئے کہ وہ خداتعالیٰ کا چہرہ دکھائے اور اس کے ذریعہ خداتعالیٰ کی صفات کا ظہورہو۔ پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ رب ہو، وہ رحمٰن ہو، وہ رحیم ہو، وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ہو،2 وہ مُحیٖ ہو، وہ مُمِیت ہو وہ رزّاق ہو، وہ جبّار ہو، وہ علیم ہو، وہ شکور ہو، وہ ستّار ہو، وہ غفّار ہو، اور وہ رشید و حمید ہو۔ غرض خداتعالیٰ کی ساری کی ساری صفات کو ظاہر کرنے والا ہو جن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ننانوے ہیں مگر ہیں اس سے بھی زیادہ۔ وہ ساری کی ساری صفات مومن اپنے اندر دکھائے اور ان کو صحیح طور پر استعمال کرے اور ان سے اچھے پھل پھول پیدا کرے۔ تبھی یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اُس مقصد کو پورا کرنے والاہے جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا اور اس مقصد کو پورا کرنے والا نہیں تو وہ ایسا آئینہ ہے جو میلا ہے اور جو شفاف نہیں اور اس میں سے خدا تعالیٰ کا چہرہ نظر نہیں آتا۔ خداتعالیٰ ایسے آئینہ کو توڑ دے گا۔ کیا ہی بدقسمت ہے وہ آئینہ جو پہلے خدا کے ہاتھ میں اور خدا کی آنکھوں کے سامنے اس کے حسن کو ظاہر کرنے کے لئے آیا مگر جب میلا ہونے کی وجہ سے وہ خدا کے حسن کو ظاہر نہ کر سکا تو بعد میں خدا کے حکم کے مطابق اُسے توڑ دیا گیا۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمْ رَبِّيْ لَوْ لَا دُعَآؤُكُمْ 3یعنی ان کو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تم اس مقصد کو پورا نہیں کرتے جس کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو تو خداتعالیٰ کو تمہاری کیا پرواہ ہے۔ اگر تم اس بچہ کی طرح جو ماں کی طرف دَوڑ کر جاتا ہے میری طرف دَوڑ کر آنے والے نہیں۔ اگر تم میرے حضور اپنی اصلاح کے لئے نہیں آتے تو پھر میں بھی تمہاری کوئی پروا نہیں کرتا۔ اُس وقت انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ وہ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ یعنی دوزخ کے اس مقام میں جا گرتا ہے جس کے نیچے اور کوئی مقام نہیں۔
پس ہماری جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر بیداری پیدا کریں اور اپنے فرض کو سمجھیں اور اپنے آپ کو ایسا بدقسمت نہ بنائیں کہ جو بارش خداتعالیٰ نے ان کے لئے نازل کی ہے کافر تو اس سے فائدہ اٹھائیں او ر وہ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ خداتعالیٰ نے دنیا کا مستقبل ان ہی کے ہاتھ میں دے دیا ہے؟ اگر وہ خداتعالیٰ کے وعدوں پر قائم رہے اورانہوں نےاپنے عہد کو نباہا تو جس طرح آج لوگ ابراہیم ؑ اور موسیٰؑ اور دوسرے نبیوں کی جماعتوں کو یاد کرتے ہیں اسی طرح آنے والی نسلیں انہیں بھی یاد کریں گی اور خواہش کریں گی کہ کاش! اُس وقت ہم بھی ہوتے اور مل کر دین کی خدمت کرتے۔ لیکن جو صحیح طور پر دین کی خدمت نہیں کرتا اور اپنے اوقات اور اپنی طاقتوں کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتا اُس کا نام اسی طرح لیا جائے گا جس طرح اُبی بن سلول کا نام لیا جاتاہے۔ آج ہر شخص کراہت سے اس کا نام لیتا ہے اور حیران ہوتا ہے کہ یہ بھی کیا شخص تھا کہ خداتعالیٰ نے اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب عطا کیا اور پھر بھی یہ ایمان سے محروم رہا اور خداتعالیٰ کی نعمت اسے نصیب نہ ہوئی۔ اور وہ ایک ایسی بُوٹی ثابت ہوا جو ایک اچھے باغ میں پیدا ہوئی مگر اس نے تلخ اور بدمزہ پھل دیا۔ پس تم اپنے آپ کو شکور بناؤ اور اپنے علوم اور اپنے اوقات کو ضائع کرنے کی بجائے ان کو دین کے لئے صَرف کرو تا کہ خدا بھی تم سے خوش ہو اور خداتعالیٰ کے بندے بھی دعاؤں کے ساتھ تمہیں یاد کریں۔’’ (الفضل مورخہ 2مارچ 1945ء)
1: وَ فِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَيْرُ صِنْوَانٍ
يُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ١۫ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ
يَّعْقِلُوْنَ۔ (الرعد:5)
2: الفاتحۃ:4
3: الفرقان:78
9
جماعت احمدیہ لاہور کو بہت زیادہ ترقی اور حرکت کی ضرورت ہے
(فرمودہ 2 مارچ 1945ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘پچھلے دنوں میں نے اخباروں میں پڑھا تھا کہ لاہور کی آبادی جس کے لئے راشن مہیا کرنے کی ذمہ د اری گورنمنٹ نے اٹھائی ہے نو لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ پڑھ کر جہاں میں نے پنجابی لوگوں کے ترقی کے جذبہ کی تعریف کی وہاں میرے دل میں یہ احساس اور تکلیف دہ احساس بھی پیدا ہؤا کہ جس نسبت سے لاہور کی آبادی بڑھی ہے اُس نسبت سے یہاں کی احمدی جماعت نہیں بڑھی۔ پہلے میں یہ خیال کرکے اپنے ذہن میں خوش تھا کہ لاہور کی آبادی تو وہیں چار پانچ لاکھ پر کھڑی ہے اور ہماری جماعت بڑھ رہی ہے۔ لیکن جب لاہور کی آبادی چار پانچ لاکھ سے بڑھ کر نو لاکھ تک ہو گئی ہے تو ہماری لاہور کی جماعت کی ترقی تبھی تسلی بخش ہو سکتی تھی کہ یہاں کی جماعت چار ہزار سے بڑھ کر دس ہزار ہو جاتی۔ گو لاہور کی جماعت نے ترقی کی ہے۔ اولاد کے ذریعہ بھی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کچھ نئے آدمی بھی جماعت میں داخل ہوئے ہیں۔ مگر پھر بھی اس نسبت سے ترقی نہیں کی جس سے لاہور کی آبادی بڑھی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ متمدن ملک کے رہنے والے دنیا دار لوگوں کی توجہ زیادہ تر شہروں کی طرف ہوتی ہے۔ جس ملک کی صنعت و حرفت ترقی کرتی ہے اس ملک کے شہر بھی بڑے ہوتے ہیں۔ کیونکہ صنعت و حرفت کی ترقی کا اصل مقام شہر ہی ہوتے ہیں۔ کیا بلحاظ اس کے کہ کارخانوں وغیرہ کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ مزدور شہروں میں رہ سکتے ہیں اور کیا بلحاظ اس کے کہ شہروں میں بوجہ کمپنیوں کے مرکز ہونے کے مشینیں اور صنعت و حرفت کے دوسرے سامان آسانی سے میسر آجاتے ہیں۔ اور کیا بلحاظ اس کے کہ روپیہ کمانے والےلوگ جن کےدل میں خدا کا خوف نہیں ہوتا ایسی جگہوں میں رہنا پسند کرتے ہیں جہاں کھانے پینے اور پہننے کے سامانوں کے علاوہ سینما (Cinema)تھیٹر(Theatre) اور سرکس(Circus) وغیرہ کا انتظام ہو۔ وہ کہتے ہیں روپیہ کمانے کی غرض تو یہ ہے کہ انسان عیش اور راحت سے زندگی بسر کرسکے۔ اگر روپیہ کے بدلہ میں راحت اور عیش میسر نہیں ہو سکتا تو روپیہ کمانے سے کیا فائدہ۔
پس ریلوں کی سہولتوں کی وجہ سے اور کارخانوں کی وجہ سے اور رہائش اور دوسرے سامانوں کے میسر آنے کی وجہ سے اور پھر بینکوں کی وجہ سے صنعت جب شہروں میں پھیلتی ہے تو اردگرد کے علاقہ کے لوگ شہروں کی طرف دوڑتے ہیں۔ لیکن ہماری جماعت کے لوگ بجائے اِدھر اُدھر جانے کے قادیان کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس لئے جہاں تک امیگریشن (Immigration) یعنی نقل مکانی کا سوال ہے ہماری جماعت کو دوسری اقوام کے ساتھ مشابہت نہیں۔ دوسرے لوگ خالص طور پر بڑے بڑے شہروں کی طرف خصوصًا دارالحکومت کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں کیونکہ بینکوں کی وجہ سے اور سرکاری امداد میسر ہوسکنے کی وجہ سے جو سہولتیں وہاں حاصل ہوتی ہیں دوسرے چھوٹے شہروں میں اتنی سہولتیں صنعتی اور تجارتی ترقی کی حاصل نہیں ہوتیں۔ مگر جماعت احمدیہ کا بیشتر حصہ جب اپنے علاقہ کو چھوڑنا چاہتا ہے تو بجائے دوسرے شہروں کی طرف جانے کے وہ قادیان کی طرف دوڑتا ہے۔ لیکن قادیان کی آبادی کی ترقی اور لاہور کی جماعت کی معمولی ترقی کو ملا کر بھی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ باوجود قادیان کی طرف میلان ہونے کے لاہور کی جماعت میں ایسی حرکت پیدا نہیں ہوئی جس کی قومی ترقی کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔
میں جب ایک مذہبی تقریب پر انگلستان گیا تو راستہ میں فسلطین، شام اور لبنان کو بھی دیکھا۔ لبنان جانا تو خیال ہی تھا کیونکہ لبنان میں داخل ہونے سے پہلے میں شدید بیمار ہو گیا تھا اور اسی حالت میں تھا جبکہ لبنان کو چھوڑا۔ اس لئے لبنان کو میر ادیکھنا نہ دیکھنے کے برابر تھا۔ لیکن فلسطین اور شام کو میں نے دیکھا۔ فلسطین میں یہودیوں کی اصل آبادی تو دو تین فیصدی تھی۔ مگر نقل مکانی کی وجہ سے جس کی غرض یہ ہے کہ چاروں طرف سے یہودیوں کو جمع کر کے لایا جائے اور ان کے آبائی وطن میں ان کو آباد کیا جائے اس کی وجہ سے دو تین فیصدی سے فلسطین میں یہودیوں کی آبادی دس فیصدی ہو گئی۔ اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی کچھ تو یہودیوں کے کثرت سے آجانے سے اور ہم سمجھتے ہیں کہ کچھ طبقہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا ایسا بھی تھا جو فلسطین کے جھگڑے سے ڈر کر شام یا دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہو گیا تھا اس لئے یہودیوں کی آبادی دس فیصدی ہو گئی اور مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی نوے فیصدی رہ گئی تھی۔ بہرحال عیسائی اور مسلمان جو اُس وقت متحد تھے اور آج تک بھی متحد ہیں ٭فلسطین میں ان دونوں کی آبادی نوے فیصدی تھی اور یہودیوں کی آبادی دس فیصدی تھی۔
قوموں کی حرکت دیکھنے کا ذریعہ اسٹیشن ہوتے ہیں۔ جہاں پر لوگ آنے جانے کے لئے جمع ہوتے ہیں۔ اورجہاں پر پتہ لگ جاتا ہے کہ قوم کے اندر کیسی حرکت پائی جاتی ہے۔ تجارتیں کرنے والوں کو اِدھر اُدھر آنا جانا پڑتا ہے۔ ملازمتوں والے بھی اِدھر اُدھر دورے کرتے ہیں۔ صنعت و حرفت والوں کو بھی اپنے کام کے لئے دورے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اسٹیشنوں اور ریلوں کے ذریعہ پتہ لگ جاتا ہے کہ کسی قوم میں آبادی کے لحاظ سے حرکت پائی جاتی ہے یا نہیں۔ فلسطین کے ریلوے اسٹیشنوں پر مجھے اس بات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور میں نے آبادی کے لحاظ سے دس فیصدی یہودیوں کو اسٹیشنوں پر نوے فیصدی کی تعداد میں دیکھا۔ اور آبادی کے لحاظ سے نوے فیصدی مسلمان اور عیسائی اسٹیشنوں پر دس فیصدی نظر آئے۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں بلکہ ایسا فرق ہے کہ شاید خطۂ زمین پر اور کسی جگہ نظر نہیں آسکتا۔
٭یہ عجیب بات ہے کہ باقی تمام دنیا میں یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنے آپ کو ایک سمجھتے ہیں۔ لیکن فلسطین کے عیسائی کُلّی طور پر مسلمانوں کے ساتھ اس بات میں متفق ہیں۔ اور وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہودیوں کو یہاں آباد نہ ہونے دیا جائے۔
پس قوموں میں حرکت بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں سفر کرنے اور سیر فی الارض کا بار بار ذکر آتا ہے۔ بعض مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید نے خالی سیر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ پہاڑوں، دریاؤں اور سمندروں کی سیر کیا کرو۔ رات کے وقت آسمان پر نظر ڈال کر ستارے دیکھ لیا کرو۔ اس سے زیادہ قرآن مجید کا اور کوئی مطلب نہیں۔ اور یہ سمجھنے والے بھی صرف ایک فیصدی ہیں باقی ننانوے فیصدی ایسے ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ قرآن مجید میں لکھا کیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ آسمان کو دیکھنے اور ستاروں پر غور کرنے کا ذکر آتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ پہاڑوں کو دیکھنے اور دریاؤں اور سمندروں کو دیکھنے اور ان پر غور کرنے کا ذکرآتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ اس بات کا ذکر آتا ہے کہ جاؤ اور دنیا میں پھر کر دنیا کے حالات کا مطالعہ کرو۔ مگر مسلمانوں میں کتنے ہیں جنہوں نے کبھی آسمان پر اور ستاروں پر غور کیا ہے؟ ہزار میں سے ایک بھی نہیں بلکہ لاکھ میں سے ایک بھی نہیں۔ کتنے ہیں جنہوں نےپہاڑوں اور دریاؤں اور سمندروں پر کبھی غور کیا ہے؟ کتنے ہیں جنہوں نے دنیا میں پھر کر دنیا کے حالات کا مطالعہ کیا ہے؟ قرآ ن مجید میں اِس قسم کی آیات پڑھ کر اکثر مسلمان تو یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں یہ باتیں محض حُسنِ کلام کے طور پر ہیں۔ اس سے زیادہ اس کا اور کوئی مطلب نہیں۔ جس طرح غالب کے کلام میں یا ذوق کے کلام میں یا سودا کے کلام میں یا میرتقی کے کلام میں بعض باتیں محض تزئینِ کلام کے طور پر ہیں اور اس سے زیادہ اُن کی اور کوئی غرض نہیں اسی طرح اللہ میاں نے بھی قرآن مجید میں اِس قسم کی باتیں کہ جاؤاور پہاڑوں کو دیکھو، جاؤ اور دریاؤں اور سمندروں کی سیر کرو اور ان پر غور کرو، آسمان اور آسمان کے ستاروں پر غور کرو محض کلام کو مزیدار بنانے کے لئے بیان کر دی ہیں ورنہ خدا کا یہ منشاء نہیں کہ آسمان اور آسمان کے ستاروں پر سچ مچ غور کیا جائے۔ یا پہاڑوں اور دریاؤں اور سمندروں پر غور کرو۔ پس جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی باتیں محض حُسنِ کلام کے طور پر بیان کی گئی ہیں اس سے زیادہ اس کی اور کوئی غرض نہیں تو انہوں نے ان باتوں پر عمل کیا کرنا ہے۔ اور جب انہوں نے عمل نہیں کرنا تو قرآ ن کریم کی تعلیم سے انہوں نے فائدہ کیا اٹھانا ہے۔
تھوڑے دن ہوئے میں نے ایک فرانسیسی شخص کے لکھے ہوئے مضمون کا ایک اقتباس پڑھا۔ یہ شخص جہازوں کا افسر ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میری ساری عمر جہازوں میں گزری۔ مجھے قرآن مجید دیکھنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ایک دن اتفاقاً سفر میں مجھے ایک شخص ملا جس کےپاس فرانسیسی یا ڈچ زبان میں قرآن مجید کی ایک کاپی تھی۔ اُسے لے کر میں نے کھولا تو اس میں سے پہلی جگہ جس پر میری نظر پڑی وہ یہ تھی کہ کافر کی زندگی ایسی ہوتی ہے جیسے رات کی تاریکی میں کوئی شخص سمندر میں سفر کر رہا ہو۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے ہوں اور سخت تاریکی ہو۔ گہرے سمندر میں ایک لہر کے بعد دوسری لہر اُٹھ رہی ہو اور بچاؤ کا کوئی سامان نظر نہ آتا ہو۔ بالکل یہی حالت کافرکی ہوتی ہے۔ وہ شخص لکھتا ہے کہ میں نے اسے بہت پسند کیا اور میں نے کہا کہ کسی اچھے تجربہ کار بحری نے نہایت عمدگی سے سمندر کے خطرات کو تھوڑے سے تھوڑے الفاظ میں بیان کر دیا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد جب مجھے معلوم ہوا کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو سمندر کا سفر کرنے کا موقع ملنا تو الگ رہا آپ نے کبھی کسی چھوٹی کشتی میں بھی پاؤں نہ رکھا تو پھر میں نے کہا کہ یہ بات کہنے والی کوئی اَور ذات ہے۔ یعنی خدا جو سمندروں کے رازوں سے بھی واقف ہے اور میں نے اسلام کا مزید مطالعہ کیا اور میں مسلمان ہو گیا۔
پس یہ خیال کرنا جیسا کہ بعض مسلمان سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں اس قسم کی باتیں محض شاعرانہ رنگ میں حُسنِ کلام کے طور پر بیان کی گئی ہیں کہ پہاڑوں کو دیکھو، سمندروں اور دریاؤں کو دیکھو اور آسمان کے ستاروں کو دیکھو بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں اس قسم کی باتیں محض حُسنِ کلام کے طور پر بیان نہیں کی گئیں بلکہ دنیا کی ہر ایک چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ان کو دیکھو اور ان پر غور کرو۔ اور ان سے سبق حاصل کرو۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو ان باتوں پر غور کرتے ہیں؟ بہت کم لوگ ہیں جو ان باتوں پر غور کرتے ہیں اکثر لوگ کنویں کے مینڈک کی طرح اپنے ماحول سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اگر کوئی چیز انگشتانہ1 میں رہ سکے۔ تو وہ اس انگشتانہ میں رہنے والی چیز ہیں۔ قرآن مجید ہمیں کسی ایک چیز پر بس نہیں کراتا بلکہ وہ ہمیں دنیا کے سارے علوم کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ میرے پاس بعض آدمی آتے ہیں اور باتیں سننے کے بعد وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ اچھا صاحب آپ نے یہ علم کہاں سے پڑھا ہے؟ جب میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ میں نے سب کچھ قرآن مجید سے پڑھا ہے تو وہ حیران ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میں نے جھوٹ بولا ہے۔ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اُس سے زیادہ نادان دنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتا جس کو یہ بھی پتہ نہیں کہ قرآن مجید میں دنیا کے سارے علوم پائے جاتے ہیں۔ اور جس طرح پودوں میں خداتعالیٰ نے یہ طاقت رکھی ہے کہ وہ سورج کی روشنی میں سے کیمیائی مادے کھینچ لیتے ہیں جن سے ان کی نشو و نما ہوتی رہتی ہے اور آپ ہی آپ بڑھتے رہتے ہیں اِسی طرح قرآن مجید کے علوم میں بھی خداتعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ اس کو پڑھ کر انسان دنیا کا ہر علم حاصل کر سکتا ہے۔
لاہور میں ایک دفعہ میرے پاس ایک عورت آئی وہ ایم اے میں فلاسفی پڑھتی تھی۔ مرد تو اس قسم کے بیہودہ سوال بہت کم کرتے ہیں مگر عورتیں ایسے سوال کر لیا کرتی ہیں۔ کم از کم مجھ سے سوائے ایک شخص کے کبھی کسی مرد نے ایسا سوال نہیں کیا۔ مگر اس عورت نے چُھوٹتے ہی مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ میں نے کہا کہ میں دین کی خدمت کرتا ہوں۔ کہنے لگی آپ کی تعلیم کہاں تک ہے؟ میں نے کہا میں تو پرائمری فیل ہوں۔ پھر اور باتیں شروع ہوئیں۔ میں اُس پر کوئی سوال کرتا جب وہ اُس کا جواب دیتی تو میں اُس پر جرح کرتا۔ تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگی۔ کیا آپ انگلستان اور امریکہ رہے ہیں؟ میں نے کہا میں صرف دو ماہ کے لئے انگلستان گیا تھا اور امریکہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ پھر اَور باتیں شروع ہوئیں۔ پھر شاید اُسے یاد آگیا کہ باہر اس نے شیخ بشیر احمد صاحب کا بورڈ دیکھا تھا۔ اس پر کہنے لگی اچھا آپ ایڈووکیٹ ہیں؟ میں نے کہا میں کچھ بھی نہیں میں تو صرف قرآن مجید پڑھا ہؤا ہوں۔
پس حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہر سچائی موجود ہے۔ اگر ہم قرآن مجید پر غور اور تدبر کریں تو کوئی ایسی ضرورت نہیں جو قرآن مجید میں پوری نہ ہوتی ہو۔ اگر ہم دنیوی علوم کے لحاظ سے جاہل مطلق بھی ہوں تب بھی قرآن مجید پر غور کرنے کےبعد اتنا علم ہمیں ضرور حاصل ہو جائے گا کہ ہم کسی مجلس میں شرمندہ نہیں ہوں گے۔ اور اگر ہم قرآن مجید پر غور اور تدبر کرنے کےعادی ہوں گے تو ہم اس کے علوم سے فائدہ اٹھائیں گے۔ مگر جیساکہ میں نے بتایا ہے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو اس قسم کی باتیں بیان کی گئی ہیں کہ دنیا میں پھرو اور دنیا کے حالات کا مطالعہ کرو اور دریاؤں اور سمندروں اور پہاڑوں پر غور کرو یہ باتیں محض کلام کو زور دار بنانے کے لئے بیان کی گئی ہیں اس سے زیادہ ان کی اور کوئی غرض نہیں۔ حالانکہ قرآن مجید نے ان باتوں کو یونہی بیان نہیں کیا بلکہ قرآن مجید ہر مسلمان کو وہی پوزیشن دیتا ہے جو آجکل مسٹر چرچل یا روز ویلٹ یا سٹالن کی ہے۔ اور فرماتا ہے کہ تم دنیا کی قوموں کی کامیابی پر نگاہ ڈالو اور غور کرو کہ ان کو وہ کامیابیاں کس طرح حاصل ہوئیں۔ اور جو قومیں دنیا میں گری ہیں ان کے گرنے کی وجوہ تلاش کرو اور سوچو کہ ان کے تنزل کے کیا اسباب تھے۔ جن قوموں نے ترقی حاصل کی ہے ان کو کون کونسی سہولتیں میسر تھیں جن کی وجہ سے انہوں نے ترقی کی۔ تم بھی وہ سہولتیں اور وہ سامان مہیا کرنے کی کوشش کرو۔ اور جو قومیں گر گئی ہیں ان کےگر جانے کے کیا اسباب تھے۔ اور کونسی خرابیاں تھیں جن کی وجہ سے ان کا تنزل ہوا۔ تم ان باتوں سے بچنے کی کوشش کرو۔ اسی طرح قرآن مجید علمِ جغرافیہ اور علم ِہیئت کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تم زمین و آسمان کو دیکھو اور ان پر غور کرو۔ ستاروں کو دیکھو اور ان پر غور کرو۔ تمہیں ان کے پیچھے اَور بہت سارے جہان نظر آئیں گے۔ یہ وہ چیز ہے جو قرآن مجید ہمیں سکھاتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر ایک چیز پر زیادہ سے زیادہ غور کرو۔ اِدھر تو قران مجید یہ کہتا ہے کہ لغو چیزوں سے پرہیز کرو اور اُدھر فرماتا ہے کہ آسمان اور ستاروں کو دیکھا کرو۔ اِس سے صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ آسمان اور ستاروں پر غور کرنا لغو نہیں بلکہ ان پر غور کرنے سے بہت سے علوم کھلتے ہیں۔ اِسی طرح اِدھر تو قرآن مجید فرماتا ہے کہ لغو کاموں سے پرہیز کرو اور اُدھر یہ فرماتا ہے کہ کھنڈرات کو دیکھو۔ تو صاف معلوم ہوا کہ کھنڈرات کو دیکھنا لغو نہیں بلکہ اس سے سبق حاصل ہوتا ہے اور معلومات وسیع ہوتے ہیں۔ اسی طرح اِدھر تو قرآن مجید یہ فرماتا ہے کہ لغو کاموں سے پرہیز کرو اور اُدھر فرماتا ہے کہ گزشتہ لوگوں کی تاریخوں پر غور کرو۔ اِدھر فرماتا ہے لغو کاموں سے پرہیز کرو اور اُدھر فرماتا ہے کہ قوموں کی ترقی اور تنزل کے اسباب پر غور کرو۔ تو معلوم ہؤا کہ یہ ساری باتیں جن کے دیکھنے اور جن پر غور کرنے کا قرآن مجید نے حکم دیا ہے یہ لغو نہیں بلکہ ان کو دیکھنا اور ان پر غور کرنا ضروری ہے۔
بعض لوگ جہالت کے جوش میں آکر کہہ دیا کرتے ہیں کہ سیاحت کرنا لغو اور بے ہودہ ہے حالانکہ قرآن مجید نے ایک طرف لغو کاموں سے اِعراض کرنے کا حکم دیا ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا ہے کہ دنیا میں چلو، پھرو اور دنیا کے حالات کو دیکھو۔ تو صاف معلوم ہوگیا کہ قرآن مجید ہر کام کی حد بندی کرتا ہے۔ وہی چیز جو اپنے دائرہ کے اندر مفید ہوتی ہے اپنے دائرہ سے باہر لغو ہو جاتی ہے۔کیا اس صورت میں دین کا علم حاصل کرنا بھی لغونہیں بن جاتا جب مولوی ساٹھ ساٹھ سال تک اپنی عمر پڑھنے میں گزار دیتے ہیں؟ جب میں عربی مدارس کا دورہ کرتے ہوئے رام پور گیا تو وہاں میں نے ایک افغانی طالب علم کو دیکھا جس کی عمر پچاس پچپن سال کی تھی اور بال سفید ہو رہے تھے۔ وہ بیٹھا بخاری پڑھ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا آپ کیوں پڑھ رہے ہیں؟ اُس وقت تو سب کے سامنے اُس نے یہی جواب دیا کہ علم کو علم کی خاطر حاصل کرنا نیکی ہے لیکن میں بھی سمجھتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے اور وہ بھی جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ جب ہم وہاں سے باہر آئے تو وہ بھی ہمارے پیچھے باہر آگیا اورباہر آکر کہنے لگا کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ علم جو ہم پڑھ رہے ہیں اِس کا دنیا میں کیا فائدہ ہے۔ اسے پڑھ کر کونسی نوکری مل جانی ہے۔ مجھے پڑھائی ختم کئے تو پندرہ بیس سال ہو گئے ہیں لیکن میں ہر سال عمدًا فیل ہو جاتا ہوں کیونکہ میں اس انتظار میں ہوں کہ یہاں کے بڑے مدرِّس صاحب فوت ہوں۔ جب وہ فوت ہو جائیں گے تو مَیں بھی پاس ہو جاؤں گا اور مجھے ان کی جگہ نوکری مل جائے گی۔ اب اس زندگی کا کیا فائدہ؟ بظاہر وہ دین کی کتابیں پڑھتا تھا، بخاری پڑھتا تھا ،فقہ کی کتابیں پڑھتا تھا لیکن وہ یہ ساری کتابیں محض اس لئے پڑھتا تھا کہ اُس کا وقت کسی کام میں لگا رہے اور انتظار کرنا اُس پر شاق نہ گزرے۔یہاں تک کہ استاد فوت ہو جائے اور اُس کی جگہ اُسے مل جائے۔ اب یہ کام ایسا ہی لغو تھا جیسا کہ سینما یا سرکس میں وقت گزارنا لغو ہے۔ بلکہ اس سے زیادہ لغو تھا کیونکہ ایک شخص سینما یا سرکس دیکھنے کے بعد آکر اَور کام شروع کر دیتا ہے مگر اس نے تو اپنی ساری عمر ہی سینما میں گزار دی۔ ساری عمر ہی سرکس میں گزار دی اور ساری عمر ہی عملی میدان میں قدم نہ رکھا۔ مرنے کے بعد جب خداتعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ تم نے دنیا میں کیا کام کیا؟ تو وہ سوائے اس کے اور کیا جواب دے گا کہ حضور! میں نے اپنی ساری عمر اس انتظار میں گزار دی کہ کب استاد مرے اور مجھے اس کی جگہ ملے۔
پس قرآ ن مجید نے عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ 2 کہہ کر ایک طرف یہ اشارہ فرمایا ہے کہ جس کام کا کوئی نتیجہ اور کوئی فائدہ نہ ہو وہ لغو ہے اُس سے مومن کو اعراض کرنا چاہیے اور دوسری طرف یہ ارشادفرمایا ہے کہ سمندروں اور دریاؤں کی سیر کرو، صحراؤں اور میدانوں کو دیکھو اور دنیا کے حالات پر غور کرو جس سے معلوم ہوا کہ یہ کام لغو نہیں بلکہ ان کو دیکھنے سے علوم حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں یہ ذکر آتا ہے کہ قافلے صحراؤں میں رستہ بھول جاتے ہیں اور صحرا میں چلتے چلتے انسان اپنے سامنے دیکھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ سامنے جھیل ہے اور چمکتا ہوا پانی اسے نظر آتا ہے مگرجب وہاں پہنچتا ہے تو اسے معلوم ہوتاہے کہ وہ جھیل نہیں بلکہ سفید ریت ہے۔ اور چمکتا ہوا پانی نہیں بلکہ سورج کی شعاعیں ہیں جو ریت کے اوپر تپ رہی تھیں۔ اور ایسے رنگ میں ریت پر روشنی ڈال رہی تھیں کہ دور سے دیکھنے والا اسے پانی سمجھتا تھا۔ ایسا ہی ان لوگوں کا حال ہوتا ہے جو جھوٹی دنیا اپنے دل میں بساتے ہیں اور جھوٹی امیدیں اور جھوٹی امنگیں اور جھوٹے مقاصد کو اپنے سامنے رکھ کر ان کو حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی عمر کا زمانہ ختم ہو جاتاہے اور ان کی امیدیں اور امنگیں سراب کی طرح ثابت ہوتی ہیں۔ جس طرح سراب کو دور سے پانی سمجھنے والا جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو پانی کی بجائے چمکتی ہوئی ریت پاتا ہے اسی طرح وہ شخص جو جھوٹی امیدوں اورجھوٹی امنگوں میں اپنی ساری عمر گزار دیتا ہے زندگی کے خاتمہ پر مایوسی کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔ اور ا س کی تمام امیدیں اسے سراب معلوم ہوتی ہیں جسے وہ پانی سمجھ رہا تھا۔ اب یہ نظارہ ایک لاہور میں رہنے والا کس طرح قیاس میں لا سکتا ہے جس نے کبھی سراب دیکھا ہی نہیں کہ کس طرح صحرا کی ریت دور سے شفاف پانی نظر آتی ہے جس کو دیکھ کر پیاسا آدمی اس کی طرف دوڑنے لگتا ہے۔ جب اس نے یہ نظارہ دیکھا ہی نہیں تو وہ قرآن مجید کے اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش میں ناکام رہے گا اور خیال کرے گا کہ قرآن مجید کوئی ایسی بولی بول رہا ہے جسے میں نہیں سمجھ سکتا ۔اسی طرح قرآن مجید میں کافر کی زندگی کو جو سمندر کے طوفان سے مشابہت دی گئی ہے اس مثال کو وہ شخص کس طرح سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی سمندر نہ دیکھا ہو کہ اس میں طوفان اٹھ رہا ہو، بجلیاں چمک رہی ہوں، سمندر کا پانی جہاز کے اوپر سے کُود کُود کر اسے اپنی گود میں لے رہا ہو۔ جہاز ڈوب جائے اور یہ شخص سمندر میں غوطے کھاتا ہوا بچنے کی کوشش کررہا ہو۔ لیکن نہ دائیں اور نہ بائیں، نہ آگے اور نہ پیچھے بچاؤ کا کوئی سامان نظر نہ آتا ہو۔ اس کے دائیں بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اُٹھ رہی ہو اور بائیں بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اٹھ رہی ہو۔ اس کے سامنے بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اٹھ رہی ہو اور پیچھے بھی پہاڑ کی سی ایک لہر اٹھ رہی ہو۔ اور یہ سمجھ رہا ہو کہ اس کے ساتھیوں کو سمندر کھا گیا ہے اور ان میں سے کوئی باقی نہیں بچا۔ حالانکہ واقع یہ ہو کہ اس سے دس فٹ کے فاصلہ پر یہی جذبات اُس کے ساتھی کے دل میں پیدا ہو رہے ہوں گے اور اِن دونوں کو ایک دوسرے کا پتہ نہیں ہو گاکیونکہ ان کے درمیان پہاڑ کی سی ایک لہر حائل ہو گی۔ یہ تمام نظارے جب تک کسی شخص نے سمندر کا سفر نہ کیا ہو اُس وقت تک اس کے قیاس میں بھی نہیں آ سکتے۔ اِسی طرح بہت سے انسان آسمان کی طرف اِس طرح دیکھتے ہیں جس طرح مُقَیش 3 والے دوپٹہ کی طرف دیکھتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ آسمان ایک نیلی چادر ہے جس میں سفید سفید مُقَیش لگی ہوئی ہے اور وہ اس کی بیک گراؤنڈ (Background)پر نظر نہیں کرتے۔ اور اس احساس سے آسمان پر غور نہیں کرتے کہ اس کے پیچھے کیا ہے۔ اور غورنہیں کرتے کہ درحقیقت اَن گِنت میلوں وسیع علاقہ میں یہ ستارے پھیلے ہوئے ہیں اور آسمان میں اس طرح تیرتے پھرتے ہیں جس طرح ایک پھدڑ 4 ایک وسیع سمندر میں تیرتی پھرتی ہو۔ پس جب تک کوئی شخص ان تمام باتوں پر غور نہ کرے وہ خداتعالیٰ کی قدرتوں کا اندازہ کس طرح لگا سکتا ہے۔
آجکل کے مسلمانوں نے ان باتوں پر غور کرنا چھوڑ دیا ہے لیکن اس زمانہ میں جب کہ نہ تاریں تھیں اور نہ ریلیں ایک مسلمان عرب سے اٹھتا تھا اور بغیر روپیہ اور بغیر سامانوں کے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھر جاتا تھا۔ ابن بطوطہ سپین سے چلا اور افریقہ کا دَورہ کرتاہوا مڈل اِیسٹ میں سے ہوتاہوا ایران آیا ۔ ایران سے افغانستان اور افغانستان سے ہندوستان اور ہندوستان سے پھر چین پہنچا اور پھر اپنے ملک واپس جا کر ایک کتاب لکھی اور اُس زمانہ کے حالات کا حیرت انگیز نقشہ کھینچا۔ گو بعض باتیں اس نے ایسی بھی لکھی ہیں کہ اُن میں مبالغہ معلوم ہوتاہے۔ اور بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو بظاہر اُس زمانہ کے لحاظ سے صحیح معلوم نہیں ہوتیں۔ لیکن ممکن ہے اس قسم کی باتیں اُس زمانہ میں ہوتی ہوں۔ تو مسلمان نکلتے تھے اور دنیا کے کونوں میں پھیل جاتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو لاہور کی جماعت کی ترقی بالکل محدود اور کیلے سے بندھی ہوئی نظر آتی ہے۔ حالانکہ ہماری مثال تو اُس بادل کی ہے جوکبھی ایک جگہ پر نہیں ٹھہرتا۔ کبھی تم نے دیکھا ہے کہ بادل کیلے سے بندھا ہؤا ہو؟ لیکن وہ شخص جو اپنے ماحول سے باہر نہیں نکلتا اور کیلے سے بندھا رہتا ہے۔ گھر سے دفتر چلے جانا اور دفتر سے گھر آجانا یہی اُس کی زندگی ہے۔ وہ ہر جگہ برسنے والا بادل نہیں بلکہ پنجرے کا قیدی ہے۔ وہ طوطا یا بَیَّا 5 ہے جو کبھی اپنے قفس سے باہر نہیں نکلا۔ حالانکہ مومن تو ان بادلوں کی طرح ہوتاہے جو ایک وقت کلکتہ پر برس رہے ہوں تو دوسرے وقت کراچی پر موسلا دھار بارش برسا رہے ہوں۔ پس جب تک یہ بیداری پیدا نہ ہو، جب تک مومن کی یہ حالت نہ ہو کہ اُس کو ایک جگہ پر بیٹھنا دوبھر معلوم ہو اُس وقت تک صحیح رنگ میں تبلیغ بھی نہیں ہو سکتی۔
صحیح تبلیغ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مومن کے اندر ایسا مادہ پایا جائے جو اسے کبھی نچلا نہ بیٹھنے دے۔ اور وہ یہ سمجھے کہ اگر ایک منٹ کے لئے بھی میری حرکت بند ہو گئی اور میں بیٹھ گیا تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے بھی تھے تو چل پھر کر۔ آپ دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کمرے کے اندر چلتے جاتے تھے اور لکھتے جاتے تھے۔ مولوی برہان الدین صاحب ذکر کیا کرتے تھے کہ جوانی میں ہم نے سنا کہ قادیان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو قرآنی علوم کا بڑا ماہر ہے اور اُس نے آریوں اور عیسائیوں کو ان کے اعتراضات کے خوب جواب دیئے ہیں۔ اُس وقت ابھی حضور علیہ السلام نے دعویٰ نہیں فرمایا تھا۔ جب ہم نے آپ کا ذکر سنا تو خواہش پیدا ہوئی کہ اس شخص کی زیارت ضرور کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں جہلم سے چل پڑا اور قادیان پہنچا۔ قادیان آکر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی کام کی وجہ سے گورداسپور تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی گورداسپور چلا گیا اور پوچھ پاچھ کر اُس مکان پر پہنچا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہرے ہوئے تھے۔ کمرے کے دروازے پر چِک لٹک رہی تھی اور باہر شیخ حامد علی صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اُن سے ذکر کیا کہ میں حضرت صاحب کی زیارت کے لئے آیا ہوں۔ وہ کہنے لگے کہ اندر جانے کی اجازت نہیں حضور کتاب لکھ رہے ہیں۔ اور حضور نے منع فرمایا ہؤا ہے کہ کوئی شخص اِس وقت میرے پاس نہ آئے۔ مولوی برہان الدین صاحب سنایا کرتے تھے کہ میں نے بہت لجاجت سے حامد علی صاحب سے کہا کہ صرف اتنی اجازت دے دو کہ چِک اٹھا کر جھانک لوں۔ مگر انہوں نے اس کی بھی اجازت نہ دی اور کہا کہ حضور ایک کتاب کا مسودہ لکھ رہے ہیں ان کا حکم ہے کہ کسی کو اندر نہ جانے دیا جائے۔ میں نے بہت منت سماجت کی کہ میں صرف حضور کی زیارت کے لئے بڑی دور سےآیا ہوں مجھے صرف ایک نظر اندر جھانک کر دیکھ لینے دو تمہاری بڑی مہربانی ہو گی۔ مگر انہوں نے ایک نہ مانی۔ آخر میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور سوچ رہا تھا کہ اِتنی دور سے آیا ہوں اب زیارت کئے بغیر جانا ٹھیک نہیں۔ میں اِس تاڑ میں بیٹھا رہا کہ حامد علی صاحب ذرا اِدھر اُدھر ہوں تو میں اندر جھانک کر حضور کی زیارت کر لوں۔ اتفاقاً کسی شخص نے اُن کو آواز دی اور وہ اُدھر چلے گئے۔ میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر چِک اٹھا کر اندر جھانکا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کمرے کے اندر جلدی جلدی چل رہے تھے اور ساتھ ساتھ لکھتے بھی جاتے تھے۔ جس وقت میں نے آپ کودیکھا اُس وقت دروازے کی طرف آپ کی پیٹھ تھی۔ لیکن پیشتر اِس کے کہ میں اچھی طرح سے آپ کو دیکھوں اتنی دیر میں آپ واپس لَوٹ چکے تھے۔ میں ڈر کے مارے بھاگا کہ کہیں آپ دیکھ نہ لیں۔ اُس وقت میں نے آپ کو دیکھ کر یہی نتیجہ نکالا کہ جو شخص اتنا تیز تیز چلتا ہے اس نے بہت دور جانا ہے۔ یہ اُس زمانہ کی بات ہے جب کہ آپ نے ابھی دعویٰ نہیں کیا تھا صرف آپ کے مضامین اور آپ کی کتابیں شائع ہوئی تھیں۔ آپ کو ایک عالم اور بزرگ مانا جاتا تھا۔ اُس زمانہ میں مولوی برہان الدین صاحب پر آپ کے تیز تیز چلنے کا یہ اثر تھا کہ اِس شخص نے کسی بڑی منزل پر جانا ہے۔ اب بظاہر یہ بچوں والی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ صحیح ہے کہ جس شخص کے اندر بڑھنے اور ترقی کرنے کا مادہ ہو گا اُس کے اندر بے کلی بھی ضرور پیدا ہو گی۔ اور ہو نہیں سکتا کہ وہ اطمینان سے ایک جگہ بیٹھا رہے۔وہ کبھی نچلا نہیں بیٹھے گا۔ وہ کبھی اِدھر حرکت کرے گا اور کبھی اُدھر حرکت کرے گا۔ اور بیٹھا ہوا بھی ہو گا تو اپنے بڑھنے کی ہزاروں تدبیریں سوچتا رہے گا اور کسی وقت خالی نہیں بیٹھےگا۔ وہ شخص جو نچلا ہو کر بیٹھ رہتا ہے۔ اس کی حالت اسی طرح ہے جس طرح کچی سڑکوں پر چلنے والا چھکڑا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ چھکڑے پر بیٹھا ہوا مالک سو جاتا ہے اور چھکڑا چلتا جاتاہے۔ اور بعض دفعہ بیل بھی سو جاتے ہیں اور چھکڑا کھڑا ہو جاتا ہے۔ جن افراد کی حالت اس قسم کی ہو وہ کبھی کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پس لاہور کی جماعت کو احمدیت کے لحاظ سے بہت زیادہ ترقی کی ضرورت ہے اور بہت زیادہ حرکت کی ضرورت ہے۔ ایسی حرکت جو اس کے گِرد وپیش والوں کو بھی ہِلا دے۔ جس شخص کے اندر حرکت پائی جائے اُس کے گِرد و پیش کی چیزیں بھی ضرور ہلتی رہتی ہیں اور ہِل کر بیداری اور جوش پیدا کر دیتی ہیں۔ پس اپنے اندر ایسی زندگی اور ایسی بیداری پیدا کرو کہ لاہور کے جس کُوچے اور جس محلہ میں سے تم گزرو لوگ یہ محسوس کریں کہ یہ زندہ انسان ہے جو دوسروں کو ہِلا دے گا اور سوتوں کو جگا دے گا۔ پس میں اپنے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اندر بیداری پیدا کریں۔ وہ بیداری جو قرآن مجید تمہارے اند رپیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ بیداری جو کبھی ایک جگہ نہیں رہنے دیتی بلکہ اٹھائے اٹھائے آسمان پر لے جاتی ہے۔ اس سے بھی آگے جہاں جیالوجی (Geology)اور طبقاتُ الارض والوں کی تھیوریاں ختم ہو جاتی ہیں جو فلسفی کی طرح ذروں پر تسلی نہیں پاتی۔ بلکہ کہتی ہے اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰىهَا6 اَور آگے چل ۔ ان ذروں سے آگے اور غیر محدود ہستی ہے۔
میرے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا۔ کہنے لگا میں پیر ہوں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا فرمائیے ۔کہنے لگا اگر کوئی شخص اپنے دوست سے ملنے کے لئے جائے اور دوست کے دروازے پر پہنچ کر بھی سواری پر ہی بیٹھا رہے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اُس کو سواری پر بیٹھا رہنا چاہیے یا نیچے اتر آنا چاہیے؟ یا ایک شخص کشتی میں بیٹھ کر دریا پار کر رہا ہو تو کیا کنارے پر پہنچ کر اُس کو کشتی میں بیٹھا رہنا چاہیے یا نیچے اترآئے؟ اللہ تعالیٰ کی میرے ساتھ یہ سنت ہے کہ وہ مجھے سوال کرنے والے کا مطلب سمجھا دیا کرتاہے کہ اِس سوال کی تہہ میں اصل غرض کیا ہے میں اُس کے سوال کا مطلب سمجھ گیا کہ وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ عبادت تو ایک قسم کی سواری ہے جو شخص خدا تک پہنچ جائے اُس کو عبادت کی ضرورت نہیں ۔ میں نے اس کو جواب دیا کہ اگر اُس دریا کا کوئی کنارہ ہے اور کنارہ پر پہنچ کر بھی یہ شخص کشتی میں بیٹھا رہے گا تو بے وقوف ہو گا لیکن اگر یہ ایسے دریا میں سفر کر رہا ہے جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں تو جہاں اُترا وہیں ڈوبا۔ وہ شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا اچھا ! یہ بات ہے۔ جھوٹے صوفیا کا یہ خیال ہے کہ نماز ایک سواری ہے جب تک خدا نہ ملے اُس وقت تک نماز پڑھنے کی ضرورت ہے اور جب خدا مل گیا پھر نماز کی کوئی ضرورت نہیں۔ ان کے نزدیک بزرگی کی یہ علامت ہے کہ فلاں بزرگ نے نماز چھوڑ دی مگر ہمارے نزدیک وہ کافر ہو گیا اور ان کے نزدیک نماز چھوڑ دینے سے وہ بزرگ ہو گیا۔
پس مومن کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی ایک مقام پر کھڑا ہو جائے۔ وہ دائیں بھی دیکھتا ہے اور بائیں بھی دیکھتا ہے، آگے بھی دیکھتا ہے اور پیچھے بھی دیکھتا ہے مگر آخری نقطہ اپنے رب کو سمجھتا ہے۔ وہ کسی ذرے پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ ان کے پیچھے ایک غیر محدود ہستی کو دیکھتا ہے۔ پس انسان کے لئے خداتعالیٰ نے کوئی ایسا مقام تجویز نہیں کیا جہاں وہ ٹھہر جائے۔ مومن وہی ہے جس میں دائمی حرکت پائی جائے ۔جس میں دائمی حرکت نہ پائی جائے وہ مسلمان نہیں۔ اور جو مسلمان نہیں وہ خدا کو بھی پسند نہیں۔ ’’ (الفضل 12 مارچ 1945 ء)
1: انگشتانہ: اُس آلہ کو کہتے ہیں جسے کپڑا سینے کے وقت درزی اپنی انگلی میں پہن لیتے ہیں۔
2: المومنون:4
3: مُقَیش: سونے چاندی کے تاروں کا بنا ہوا کپڑا جیسے زری۔
4: پِھدڑ: چھوٹی سی مچھلی کو پنجابی میں پِھدڑ کہتے ہیں۔
5: بَیّا: چِڑیا کی طرح کا ایک پرندہ جس کا گھر بنانا بڑا مشہور ہے۔
6: عبس:45
10
ہر فردِ جماعت اپنے آپ کو غیر معمولی قربانیوں کےلئے تیار کرے
(فرمودہ 9مارچ 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘میں آج کا خطبہ تو ایک اَور اہم امر کےمتعلق پڑھنا چاہتا تھا لیکن آج مجھے ایک خط ملا ہے اُس کی بناء پر میں اصل مضمون سے پہلے چند باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ آج رات ہی مَیں نے اُن جلسوں کے متعلق خیالات کا اظہار کیا تھا جو یہاں احرار اور آریہ سماج کے ہوئے اور جن کے جواب ہماری جماعت نے اِسی مسجد میں دیئے ہیں۔ میں نے رات کو کہا تھا کہ قادیان کی آبادی ایک خاص رنگ اختیار کر رہی ہے۔ یہاں کچھ احمدی ہیں کچھ غیر احمدی۔ اور کچھ ہندو ہیں بعض حالات کی وجہ سے جن کی تفاصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ یہاں کے غیر احمدی قریباً احراری ہیں۔ اور یہاں کے ہندو قریباً آریہ سماجی ہیں۔ اوریہ دونوں گروہ ایسے ہیں کہ ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہمارے دلائل کو سُنیں گے اور ان سے متأثر ہوں گے خصوصاً ایسے موقع پر کہ جب جذبات اُبھرے ہوئے ہوں ایک غلط خیال ہے۔ باہر حالت بالکل اور ہے۔ باہر اکثر حصہ مسلمانوں کا اور اتنا کثیر حصہ کہ کوئی نسبت قائم کرنی بھی مشکل ہے احراری نہیں اور معقول پسند شریف الطبع اور بات پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور کرنے والا ہے۔ جب بھی کوئی معقول بات اس کے سامنے پیش کی جائے اُس پر غور کرتاہے۔ مگرجو معاند بن کر سامنے کھڑا ہو اُس سے یہ امید رکھنا کہ اُس پر کسی نصیحت کا اثر ہو گا خصوصاً اشتعال کے موقع پر ایک بالکل غلط خیال ہے۔ اِسی طرح باہر کے آریہ سماجیوں کی حالت بھی بالکل مختلف ہے۔ ان میں بھی جہاں تک مجھے ان سے ملنے کا موقع ملا ہے شریف الطبع اور بات پر سنجیدگی سے غور کرنےوالوں کی کثرت ہے اور وہ معقول بات پرغور کرتے ہیں۔ لیکن قادیان کے آریوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ ہمارے دلائل پر غور کریں گے صحیح نہیں۔ جیسے محاذِ جنگ پر جو سپاہی کھڑے ہوں وہ گولی چلانا ہی جانتے ہیں اِسی طرح یہ لوگ ہماری مخالفت میں ایسے بڑھے ہوئے ہیں کہ ان کے سامنے دلائل پیش کرنا چنداں مفید نہیں ہو سکتا۔ وہ خود بھی جب ہمارے خلاف تقریر کرتے ہیں تو یہ سمجھ کر نہیں کرتے کہ ان کی تقریروں کو سن کر یہاں کےاحمدی، احراری یا آریہ ہو جائیں گے بلکہ محض ہمیں اشتعال دلانے کے لئے کرتے ہیں اَور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اور کچھ نہیں کر سکتے تو ان کو غصہ تو دلائیں۔ اِسی طرح ہماری طرف سے ان کےجواب میں جو جلسے کئے جاتے ہیں اُن سے بھی وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ احمدی خواہ اپنی تقریروں میں کیسا نرم لہجہ کیوں نہ اختیار کریں اور نرمی سے کام کیوں نہ لیں۔ہماری ترقی اور کامیابیوں کو دیکھ کر چونکہ ان کے دل جَلتے ہیں اس لئے وہ صرف غصہ میں آکر گالیاں دیتے ہیں۔ جیسا کہ قاعدہ ہے۔ پس ایسے موقع پر ہمارے جلسوں کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو سکتا۔
پھر رات مَیں نے کہا تھا کہ ہمارے دوستوں کو خیال نہیں کرنا چاہیے کہ وہ پروٹیسٹ(Protest) کرتے ہیں اور حکومت اِس پر توجہ کرے گی۔ ایسا خیال کرنے والے شاید سمجھتے ہیں کہ یہاں ابوبکرؓ اور عمرؓ کی حکومت ہے مگر یہاں ابوبکرؓ اور عمرؓ حکومت نہیں کرتے۔ بلکہ سیاسی لوگ کرتے ہیں اور سیاسی لوگ ہمیشہ اکثریت کا خیال رکھتے ہیں۔ امرتسر میں ہمارا جلسہ ہوا۔ وہاں کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے پہلے اجازت دے دی مگر جب احرار نے فساد انگیزی شروع کی تو اس نے جلسہ کو روک دیا۔ حالانکہ اُسے کوئی مذہبی تعصب نہ تھا۔ ہمارے آدمی جب اُس سے ملے تو اس نے صاف کہا کہ میں اپنے ضلع میں فساد برداشت نہیں کر سکتا خواہ وہ دوسروں کی طرف سے ہی پیدا ہو۔ تو افسر اکثریت کو ناراض کرنے کی جرأت نہیں کرتے۔ ہمارے دوستوں کاخیال ہے کہ قادیان میں ہماری اکثریت ہے۔ مگریہ خیال غلط ہے۔قادیان کوئی ایسا جزیرہ نہیں جو دنیا سے الگ تھلگ ہو۔ یہ تو ضلع کے دو ہزار گاؤں میں سےایک گاؤں ہے۔ یہاں ایک جگہ پر ہماری اکثریت اگرہو بھی تو حکام اسے نہ دیکھیں گے بلکہ یہ دیکھیں گے کہ اردگرد کے علاقہ میں کس کی کثرت ہے۔ اور چونکہ اردگرد کے علاقہ میں ہماری اکثریت نہیں اِس لئے قادیان میں جو اکثریت ہے اس کی حکام کوئی پروا نہیں کرتے، اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم نے احمدیوں کی تائید کی تو تمام علاقہ میں جوش پیدا ہو جائے گا اور پھر اس کی وجہ سے ہمیں تکلیف اٹھانی پڑے گی۔ اس لئے وہ سارا غصہ اقلیت پر نکالتے ہیں۔ ان حالات میں ہماری جماعت کی طرف سے پروٹیسٹ کا کوئی فائدہ نہیں۔اور اب تک ایسے پروٹیسٹوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ میں سمجھتا ہوں یہ بھی انگریزوں کی خوش قسمتی ہے کہ لوگوں کے قلوب میں ان کی نیک نامی اتنی جاگزیں ہے کہ ہماری جماعت متواتر بیس سال سے ان کی حکومت کے افسروں کی طرف سے سوتیلے پن کا سلوک دیکھنے کے باوجود یہی خیال کرتی ہے کہ وہ اس کے پروٹیسٹوں سے متأثر ہو جائیں گے۔ جب بیس سال سے حکام پر ہمارے کسی پروٹیسٹ کا اثر نہیں ہؤا تو کیا اب کوئی نئے افسر آگئے ہیں۔ جو وہ پروٹیسٹ سے متاثر ہو جائیں گے؟ بے شک بعض افسر زیادہ عقلمند اور انصاف سے زیادہ کام لینے والے بھی ہوتے ہیں مگر وہ سیاسیات کو نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ان کو حکومت کی طرف سے قیامِ امن کے لئے مقرر کیا جاتا ہے اور اگر وہ انصاف سے کام لیتے ہوئے امن قائم نہیں کر سکتے تو پھروہ اقلّیت کو دبا کر امن قائم کرتے ہیں۔ اور مجھے حیرت ہوتی ہے جب ہمارے دوست گزشتہ سالہا سال کی تاریخ کو بھلا کر حکام کے پاس پروٹیسٹ کے لئےجاتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ بندۂ خدا! کس کے پاس پروٹیسٹ کرتے ہو اور اس پروٹیسٹ کا اثر کیا ہو سکتا ہے جبکہ تم اقلیت میں ہو۔ میں 1934ء سے جماعت کویہ بتا رہا ہوں کہ تم چونکہ اقلیت میں ہو اس لئے تمہاری آواز کا حکام پر اثر نہیں ہو سکتا۔ اور جو لوگ سمجھتے ہیں کہ قادیان میں ہماری اکثریت ہے وہ بھی غلطی پر ہیں۔ قادیان کوئی الگ تھلگ جزیرہ نہیں بلکہ وسیع علاقہ کا ایک ٹکڑہ ہے۔ اس لئے جب تک اردگرد ہماری اکثریت نہ ہو یہاں کی اکثریت کا حکام پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔
رات مَیں نے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ ایسی فضول باتوں کا کوئی فائدہ نہیں اور ان میں وقت ضائع نہ کرنا چاہیے۔ معاندین کی گالیاں سن کر اگر واقعی کسی کو اشتعال آتا ہے، اگر غیرت آتی ہے، اگر واقعی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قدر دل میں ہے تو اِس کے اظہار کا یہ طریق درست نہیں۔ بلکہ اس کا طریق دوسرا ہے۔ جب کسی کےبیٹے کو ٹائیفائیڈ ہو جاتا ہے تو وہ کس طرح بیس بیس دن اورمہینہ مہینہ دکان کوبند کر کے اور کاروبار ترک کر کے اُس کی تیمارداری میں لگ جاتا ہے۔ اسی طرح جسے گالیاں سن کر غصہ آتا ہے، اشتعال پیدا ہوتا ہے، اگر غیرت جوش میں آتی ہے تو چاہیے کہ وہ دفتر تبلیغ میں جائے اور کہے کہ میں نے قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں ملتی سنی ہیں جس سے مجھے بہت غصہ آیا ہے اس لئے میں پندرہ دن یا بیس دن تبلیغ کے لئے دیتا ہوں۔ اگر قادیان کے احمدی یہ طریق اختیار کریں تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ قادیان میں دس ہزار احمدی ہیں اگران میں سے دو ہزار بھی تبلیغ کے لئے پندرہ پندرہ دن دیں تو یہ تیس ہزار بنتے ہیں۔ سال کے 360 دن ہوتے ہیں اور اس کے یہ معنے ہوں گے کہ گویا دس آدمی روزانہ تبلیغ میں لگے رہیں گے دس نہیں تو نو ہی سہی، اور اس طرح سلسلہ کو مفت کے نو مبلغ مل سکتے ہیں۔ اور ایسے نو آدمی جن کے دلوں پر زخم ہوں۔ جن کی غیرت جوش میں آئی ہوئی ہو وہ تو پہاڑوں کو گِرا سکتے ہیں۔ پس یہ طریق درست نہیں کہ مسجد میں جمع ہوئے اور اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے لگاتے رہے۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ تو روزانہ اذان دیتے ہوئے پانچ بار مسلمان کرتے ہیں پھر اس سے کتنے لوگ مسلمان ہو جاتے ہیں۔ پس مسجد میں جمع ہو کر اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے لگانا اور ‘‘زندہ باد’’ کا شور مچانا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ یہ تو عورتوں کی گریۂ و زاری سا طریق ہے۔ جب تم اَللّٰہُ اَکْبَرُ کے نعرے لگاتے ہو تو ان کے پیچھے کوئی طاقت نہیں ہوتی اور یہ بالکل ایسی ہی بات ہوتی ہے جیسے بچے جمع ہو کر ہاہُو کرتے اور شور مچاتے پھرتے ہیں۔ صحیح طریق یہی ہے کہ اردگرد کے علاقہ کو احمدی کر لو۔ پھر اگر آج کے حکام کی نسبت بہت زیادہ بد تر حکام بھی آئیں گے تو وہ یہی کہیں گے کہ جماعت احمدیہ ہرگز ظلم نہیں کر سکتی۔ کیونکہ وہ سمجھیں گے کہ سارے علاقہ میں ان کی اکثریت ہے اس لئے ان کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ پس یہ صحیح طریق ہے جو ہمارے دوستوں کو اختیار کرنا چاہیے۔ رات مَیں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور میں سمجھتا تھا یہ کافی ہے مگر آج صبح مجھے وہ خط ملا جس کا میں نے ذکر کیا ہے اور وہ بھی میرے ان خیالات کی تصدیق میں ہے۔
ایک دوست نے لکھا ہے کہ وہ ریل میں ایک سرکاری افسر کے ہم سفر تھے جو پہلے سے ان کا واقف تھا۔ انہوں نے اُس افسر سے کہا کہ دیکھئے احمدیوں پر یہ کتنا ظلم ہے کہ ان کے صدر مقام میں ان کو گالیاں دی گئی ہیں۔ مگر اُس افسر نے کہا کہ احمدیوں کو کوئی گالیاں نہیں دی گئیں۔ میں نے سنا ہے کہ گالیاں احمدی دیتے ہیں۔ مثلاً احمدی لیکھو کہتے ہیں، مرزا صاحب کو کرشن جی کا مثیل کہا جاتاہے ، باوا نانک علیہ الرحمۃ کو مسلمان کہا جاتا ہے اور احمدیوں کے جلسہ میں لاؤڈ سپیکر مینار پر لگایا گیا۔ اُس دوست نے کہا لاؤڈ سپیکر تو احراریوں نے اور آریوں نے بھی لگایا ہؤ اتھا۔ تو اُس افسر نے کہا کہ تمہارا لاؤڈ سپیکر زیادہ طاقتور تھا۔ اب دیکھ لو یہ ایک ایسے افسر کے اعتراض ہیں جس کا کام انصاف قائم کرنا ہے۔ اور یہ باتیں ایسی ہیں کہ اگر لوگ انہیں سنیں تو یا تو وہ کہیں گے کہ یہ ایک سرکاری افسر پر الزام ہے اور یا یہ کہیں گے کہ یہ بھی عجیب افسر ہے جو یکطرفہ رائے قائم کر رہا ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ جب موقع کے افسروں کی یہ رائے ہو تو افسرانِ بالا کی کیا رائے ہو گی جو خود موقع پر موجود نہ تھے اور جو ماتحت افسروں کی رپورٹوں کی بناء پر ہی رائے قائم کرتے ہیں۔ اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر مجھے مل چکے ہیں اور سلسلہ کے افسر بھی اُن سے کئی بار ملے ہیں اور ان کے متعلق یہ سمجھا جاتاہے کہ وہ بہت ذہین آدمی ہیں۔ مگر انگریز حکام عام طور پر اِس ذہنیت کے ہوتے ہیں جسے انگریزی میں Least Resistance کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو کم سے کم جھگڑوں میں ڈالنا چاہتے ہیں اور بالعموم اپنےماتحت افسروں کی بات کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ توسرکاری افسر ہے اس لئے بے تعلق آدمی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر افسر کا ایک اپنا مذہب بھی تو ہوتا ہے۔ انگریز افسر بے شک مذہب کے بارہ میں مساوات قائم رکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس لئے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہندوستانی افسر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یورپ کا عیسائی افسر تو اپنے مذہبی جذبات کو دبا سکتا ہے مگر ہندوستان کا افسر بالعموم ایسا نہیں کرسکتا۔ یہاں تویہ حالت ہوتی ہے کہ مثلاً احرار کا جلسہ ہورہا ہے اور ڈپٹی صاحب یا تھانیدار صاحب بیٹھے سر دھن رہے ہیں کہ کیا اچھی باتیں بیان کی جا رہی ہیں۔ حالانکہ انہیں حکومت کی طرف سے قیامِ امن کے لئے وہاں بھیجا گیا ہوتا ہے مگر وہ اس منصب کو بھول جاتا اور سمجھتا ہے کہ میرے پیر صاحب یا میرے بزرگ تقریر کر رہے ہیں۔ اور ایسا افسر جس قسم کی رپورٹ افسرانِ بالا کے پیش کرے گا وہ ظاہر ہے کہ کہاں تک صحیح ہو سکتی ہے۔ مگر افسرانِ بالا ایسے افسروں کی رپورٹوں کو صحیح سمجھ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو افسرتھا اس کی رپورٹ کیونکر غلط ہو سکتی ہے۔ اور وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ بے شک وہ افسر تو تھا مگر آریہ تھا یااحراری تھا۔ ہندوستان کا افسر افسر کم ہوتا ہے اور آریہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ افسر کم ہوتاہے اور سکھ زیادہ ہوتاہے۔ وہ افسر کم ہوتا ہے اور مسلمان زیادہ ہوتا ہے۔ ہاں انگریز افسر، افسرزیادہ اور عیسائی کم ہوتاہے۔
انگریزوں کا کیریکٹر یہ ہے کہ وہ افسر زیادہ اور عیسائی کم ہوتے ہیں۔ اور ہمارے سامنے تو اس کی ایک بہت ہی واضح مثال ہے۔ کیپٹن ڈگلس جب اس ضلع میں تبدیل ہو کر آئے تو اُن کا اپنا بیان ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سنا ہے اس ضلع میں ایک شخص ہے جو حضرت عیسیٰ کی ہتک کرتا ہے اب تک کسی نے اسے پکڑا کیوں نہیں۔ مگر جب خود انہی کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقدمہ پیش ہؤا تو اُن کی افسریت غالب آگئی اور عیسائیت دَب گئی۔ اور اب تک ہماری جماعت سے اُن کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ ابھی چند روز ہوئے مجھے شمس صاحب کا خط آیا تھا کہ وہ انہیں ملے اور کہا کہ مجھے معلوم ہؤا ہے فلاں شخص نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں احمدیت کے متعلق بعض غلط باتیں درج کر دی ہیں۔ آپ مجھے وہ نوٹ کرا دیں میں ان کی تردید کروں گا۔ تو انگریز افسر، افسر زیادہ اور عیسائی کم ہوتا ہے۔ مگر ہندوستانی افسر، افسر کم اور آریہ زیادہ ہوتا ہے۔ افسر کم اور سکھ زیادہ ہوتا ہے۔ افسر کم اور مسلمان زیادہ ہوتا ہے۔ ایک غیر احمدی پولیس افسر اگر مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری کی تقریر نوٹ کرنے کے لئے آتا ہے تو یہ کہنا کہ ایک افسر نے اس تقریر کے نوٹ لئے غلط بات ہو گی۔ کیونکہ نوٹ کرنے والا اُن کا ایک مرید یا عقیدت مند تھا۔ اور یہ گفتگو جو ایک احمدی دوست سے ہوئی بتاتی ہے کہ ان سے ایک سرکاری افسر گفتگو نہیں کر رہا تھا بلکہ ایک آریہ بول رہا تھا مگر مجبوری یہ ہے کہ وہ آریہ بیٹھا ہؤا افسر کی کُرسی پر تھا اس لئے جب وہ کوئی رپورٹ دے گا تو بالا افسر اسے غلط نہیں کہیں گے۔ اور سمجھیں گے کہ یہ سرکاری افسر ہے اور اس لئے بے تعلق آدمی ہے اس کی رپورٹ کیونکر غلط ہو سکتی ہے۔ پھر اس افسر کے انصاف اور دیانت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ اُس نے اس احمدی دوست سے کہا کہ اگر تمہارے مرزا کو لیکھو کہا جائے تو تم کیا محسوس کرو گے؟ اور جب اس احمدی دوست نے کہا کہ مجھے افسوس ہے آپ بدتہذیبی سے کام لے رہے ہیں تو اُس نے کہا کہ تم نے بھی تو کرشن کہا تھا۔ اور جب اس احمدی دوست نے جواب دیا کہ میں نے تو حضرت کرشن جی کہا تھا۔ تو اُس افسر نے کہا کہ اچھا میں بھی مرزا جی کہہ دیتا ہوں۔ اور کیا ہمارے دوست ایسے افسروں کے سامنے پروٹیسٹ کرتے ہیں؟ ایسے افسروں کے سامنے پروٹیسٹ کا کوئی فائدہ نہیں۔ بلکہ ایسے افسروں کے سامنے پروٹیسٹ جن پر کوئی اثر نہ ہو ذلّت اور خواری ہے۔ ٭ ایسے افسروں کے سامنے تو تم منتیں بھی کرو تو بھی کوئی شنوائی نہ ہو گی۔ بلکہ وہ تمہارے خلاف قدم اٹھانے کے لئے بہانے تلاش کرتے ہیں۔
مثل مشہور ہے کہ ایک دریا پر بھیڑیا پانی پی رہا تھا ۔اُس سے نیچے کی طرف بکری کا ایک بچہ بھی پانی پی رہا تھا۔ بھیڑیے کا دل چاہا کہ اسے کھا جائے۔ اُس نے اُسے ڈانٹ کر کہا کہ تم میرے پینے کا پانی گدلا کیوں کر رہے ہو اس بکری کے بچے نے کہا کہ حضور! آپ تو اوپر کی طرف ہیں آپ کی طرف سے پانی میری طرف آرہا ہے نہ کہ میری طرف سے آپ کی طرف جاتا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ اُس پر جھپٹا اور پنجہ مارتے ہوئے کہا کہ نالائق! آگے سے جواب دیتے ہو۔!!
مومن کا طریق یہ ہے کہ وہ طاقت کو صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اس لئے ہمارے دوستوں کو چاہیے کہ ایسے مواقع پر جلسے کرنے اور نعرے لگانے کی بجائے تبلیغ پر زور دیا کریں۔ اسی راستہ سے ہمیں پہلے کامیابی ہوئی ہے اور اسی سے آئندہ ہو گی۔ مجھے اس افسر کی اس
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب پھر کہہ دیتا ہوں کہ اگر آئندہ اس قسم کے کوئی مقدمات ہوں گے تو ان کا بوجھ جماعت پر نہیں ڈالا جائے گا۔
بات پر حیرت ہوتی ہے کہ چونکہ مرزا صاحب کو کرشن کا مثیل کہا جاتا ہے اس لئے کرشن کی
ہتک کی جاتی ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت ہے جو عیسائی ہیں۔ جتنی دفعہ آپ کو ایک دن میں مسیح موعود کہا جاتا ہے شاید سال بھر میں اتنی دفعہ کرشن نہ کہا جاتا ہو گا۔ مگر انگریز کو کبھی اِس بات پر غصہ نہیں آیا او رکسی انگریز افسر نے اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہتک نہیں سمجھا۔ اور اسے ہتک سمجھنا دراصل غلام ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ اس میں ہتک کی کونسی بات ہے۔ کیا ہم حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو معمولی شان کا سمجھتے ہیں؟ ہم تو انہیں تمام مذاہب کا موعود یقین کرتے ہیں اور اس لئے ہم جب آپؑ کو حضرت کرشن کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں تو حضرت کرشن کی عزت کو بڑھاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مشابہت حاصل کرنے سے سب انبیاء جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے گزر چکے ہیں عزت پاتے ہیں۔ کیونکہ آپ موعود کُل اَدیان ہیں اور یہ انبیاء ایک ایک دین کے موعود تھے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مثیلِ کرشن ہونے کا اعلان 1904 ء میں کیا تھا۔ اور اِس دعویٰ پر چالیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر یہ ہتک کا سوال پانچ سال قبل سے ہی کیوں پیدا ہؤا ہے۔ پہلے 35 سال تک کیوں پیدا نہیں ہؤا۔ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ یہ سیاسی اغراض کے ماتحت شور مچایا جاتا ہے۔
اور پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر یہ بات کسی عدالت میں گئی اور وہاں کسی احمدی نے یہ پیش کیا کہ ہندو لٹریچر میں حضرت کرشن کو خدانخواستہ چور وغیرہ کہا گیا ہے اور لکھا ہے کہ وہ مکھن چُرا لیا کرتے تھے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان کے ساتھ مماثلت کو ان کی ہتک سمجھنے والے ان کی طرف ایسا گند منسوب کرتے ہیں اور ہم کو جو انہیں چور کہنے والوں کو چور اور خبیث سمجھتے ہیں ان کی ہتک کرنے والا کہا جاتا ہے۔ یہ ان کو چور کہہ کر پھر بھی ان کی عزت کرنے کے دعویدار ہیں۔ اور ہم جو انہیں پرہیز گار اور نیک یقین کرتے ہیں اِن کے خیال میں اُن کی ہتک کرنے والے ہیں۔ اگر کسی ایسی بات کے متعلق حکومت کی طرف سے کوئی ایسا مقدمہ چلایا گیا اور اس میں اس قسم کے تمام حوالے پیش کئے گئے تو اِس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ اگر کوئی آریہ ہم پر حضرت کرشن کی ہتک کا الزام لگاتا ہے تو وہ بھی غلطی کرتاہے کیونکہ آریہ تو خود ان کو جھوٹا سمجھتے ہیں۔ ان کے عقیدہ کے مطابق تو ویدوں کے بعد اور کوئی صداقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور الہام آ ہی نہیں سکتی۔ اگر کسی عدالت میں کوئی مقدمہ چلا اور آریوں کے اس عقیدہ کو احمدی زیر بحث لائے اور انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ آریہ ان کو کیا کہتے ہیں اور ہم کیا کہتے ہیں۔ ہم تو ان کو بنی نوع انسان کے لئے نمونہ اور استاد سمجھتے ہیں۔ اور ہم اس افسر کی شکل دیکھنا چاہتے ہیں جو اسے بھی ہتک قرار دیتا ہو۔ تو سوچو کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔
ایک دفعہ یہاں سکھوں کے لیڈر بابا کھڑک سنگھ صاحب آئے۔ قادیان کے پاس ہی ایک جگہ سکھوں نے جلسہ کیا اور بابا صاحب نے اس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ گورو نانک صاحبؒ کو مسلمان کہہ کر ان کی ہتک کی جاتی ہے۔ میں نے دوسرے دن ایک اشتہار شائع کرایا جس میں لکھا کہ ہم تو ان کو مسلمان کہتے ہیں مگر دوسرے مسلمان جو آپ کو ہمارے خلاف اُکساتے ہیں ان سے پوچھیں وہ ان کو کیا سمجھتے ہیں۔ وہ تو کافر سمجھتے ہیں۔ کیونکہ اسلام کی یہی دونوں اصطلاحیں ہیں۔ مسلمان یا کافر۔ اور جو کسی کو مسلمان نہیں سمجھتا وہ گویا اُسے کافر سمجھتا ہے۔ ہم تو بابا نانک صاحبؒ کو مسلمان یعنی نیک بزرگ اور خداتعالیٰ کا برگزیدہ سمجھتے ہیں۔ مگر یہ لوگ انہیں کافر کہتے ہیں جس کے معنے ہیں جہنمی۔ پس آپ کو اُن پر غصہ کرنا چاہیے نہ کہ ہم پر۔ دوسرے دن میرے اشتہار کو پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے مجھے خواہ مخواہ ورغلایا۔ ہم تو باوا نانک صاحبؒ کو مسلمان، متقی، پرہیزگار اور ولی اللہ سمجھتے ہیں۔ مگر جو مسلمان انہیں مسلمان نہیں سمجھتے وہ تو مجبور ہیں کہ انہیں کافر سمجھیں۔ اور اگر کسی عدالت کے سامنے یہ سوال آیا تو لازماً ایک فریق غیر احمدی علماء کو پیش کرنے کا مطالبہ کرے گا اور پوچھے گا کہ وہ باوا نانک صاحبؒ کو کیا سمجھتے ہیں۔ اور پھر پوچھے گا کہ حکومت اور سکھ کیا پسند کرتے ہیں ۔ یہ کہ باوا نانک صاحبؒ کو خدا کا برگزیدہ اور ولی اللہ کہا جائے یا نعوذ باللہ کافر ۔ پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں۔ 45،46 سال پہلے یہ بات لکھی گئی تھی آج اس پر کسی کو اشتعال آنے کے کوئی معنے نہیں۔ میں نے تو دیکھا ہے کہ عقلمند سکھ اس بات کو سن کر خوش ہوتے ہیں۔ وہ یہ تو کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ خیال صحیح نہیں کہ باوا نانک صاحب ؒ مسلمان تھے مگر اِس بات کو وہ مانتے ہیں کہ ہم انہیں مسلمان کہہ کر اپنے نزدیک ان کی عزت کرتے ہیں۔
یہ جو باتیں ہیں مجھے علم نہیں کہ یہ ہمارے جلسوں میں کہی بھی گئی ہیں یا نہیں۔ یہ تو میں اُس افسر کے بیان کا ذکر کر رہا ہوں کہ اُس نے یہ یہ باتیں کہیں۔ ورنہ مجھے یہ علم نہیں کہ ان جلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مثیلِ کرشن کہا گیا یا نہیں۔ اور باوا نانک صاحب ؒ کو مسلمان کہا گیا یا نہیں۔ اور لیکھرام کو لیکھو کہا گیا یا نہیں۔ لیکن اگر کہا بھی گیا ہو تو اُن گالیوں کے مقابلے میں جو اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیں یہ لفظ کیا حقیقت رکھتا ہے۔ اگر چہ میری تعلیم یہی ہے کہ نرمی سے کام لینا چاہیے اور ہمارے دوست اس رنگ میں نام نہ لیا کریں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لیا ہے تو اُن کا مقام اَور ہے اور ہمارا اَور ہے۔ وہ جج کے مقام پر تھے اور ہم لوگ اس مقام پر نہیں ہیں۔ لیکن اگر کسی نے کہہ بھی دیا ہو تو اُن گالیوں کے مقابلہ میں جو اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیں اور حضرت مسیح موعو علیہ السلام کو دیں یہ لفظ کیا حقیقت رکھتا ہے۔ اگر کوئی موقع آیا تو یہ سب گالیاں دنیا کے سامنے پیش کی جائیں گی اور ہر شخص دیکھ لے گا کہ اگر کسی احمدی نے لیکھو کہہ بھی دیا تو یہ تو اُس کی گالیوں کے مقابلہ میں ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ 999 حصے تو سارے کے سارے بے جواب باقی ہیں۔
باقی رہا اس افسر کا یہ کہنا کہ اگر مرزا صاحب کو لیکھو کہا جائے تو احمدی کیا کہیں گے؟ تو مَیں اس کے جواب میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کو الہام ہوتا ہے۔ اگر آریہ سماجی اعلان کر دیں کہ لیکھرام کو بھی الہام ہوتا تھا اور کہ وید کا الہام آخری الہام نہیں تو گو ہم یہ کہیں گے کہ اُن کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ لیکھرام کو الہام ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اُن کے لیکھو کہنے کو ہم آپ کی ہتک نہیں سمجھیں گے۔
آخری بات لاؤڈ سپیکر کی ہے۔ پانچ سال سے معاندینِ سلسلہ بازاروں اور گلیوں میں لاؤڈ سپیکر لگا کر جماعت احمدیہ اور اِس کے بزرگوں کو گالیاں دیتے چلے آرہے ہیں اور ہم نے بارہا حکام کو توجہ دلائی ہے کہ اس سلسلہ کو روکا جائے۔ ڈپٹی کمشنر تک ہی نہیں بلکہ کمشنرکے پاس بھی ہمارا ایک وفد گیا اور مسٹر کنگ سے یہ بات کہی کہ اس سلسلہ کو روکا جائے اس سے احمدیوں کی سخت دلآزاری ہوتی ہے۔ اور پھر یہ بھی کہا کہ اگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ہم بھی لاؤڈ سپیکر لگا کر ان کا جواب دیں گے۔ یہ بات سن کر مسٹرکنگ بہت ہنسے اور کہا کہ اچھی بات ہے جب وہ لوگ لگاتے ہیں تو آپ بھی اگر لگائیں گے تو کسی کو اس پر اعتراض کا کوئی حق نہ ہو گا۔ اور یہ سوال بھی اگر گورنمنٹ نے اٹھایا تو جماعت احمدیہ ان سرکاری افسروں کو بطور گواہ بلوائے گی اور ثابت کرے گی کہ ہم نے پانچ سال متواتر صبر کرنے کے بعد ایسا کیا ہے۔ اور اگر کسی عدالت میں یہ سوال پیش ہوا اور اُس نے کسی قانونی روک کی وجہ سے ان افسروں کو بطور گواہ طلب کرنے سے انکار کیا تو ہم اشتہاروں کے ذریعہ ان افسروں سے اِس کا جواب دریافت کریں گے۔ اور اگر وہ جواب نہ دیں گے تو دنیا کے سامنے بات واضح ہو جائے گی اور اس صورت میں بھی فتح ہماری ہی ہو گی۔
بہرحال مجھے یہ معلوم نہیں کہ وہ باتیں جو اس افسر نے بیان کیں وہ ہمارے جلسوں میں کہی گئیں یا نہیں یا کس رنگ میں کہی گئیں۔ مجھے جو خط ملا ہے اس میں اس افسر کے جو اعتراض نکلے ہیں میں نے ان کے بارہ میں یہ باتیں کہہ دی ہیں اور ایک بار پھر جماعت کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ صحیح طریق یہی ہے کہ وہ تبلیغ کو وسیع کریں۔ باہر سے جو لوگ ہمیں گالیاں ہی دینے کے لئے آتے ہیں اُن پر ہماری تقریروں کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا اس لئے جن کو مخالفوں کی گالیاں سن کر غصہ آئے اور غیرت جوش مارے وہ تبلیغ کے لئے اپنا کچھ وقت وقف کریں اور اردگرد کے دیہات میں جا کر تبلیغ کریں جو مولوی اور پنڈت صاحبان یہاں آتے ہی اِس لئے ہیں کہ ہمیں غصہ دلائیں اُن پر ہماری تبلیغ کا اثر کیا ہو سکتا ہے۔ اور جب اثر نہیں ہو سکتا تو پھر یونہی گلا پھاڑنے کا کیا فائدہ۔ مومن کو جب علم ہو جائے کہ اس کی تبلیغ کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تو وہ پھر وہاں تبلیغ نہیں کرتا کیونکہ وہاں تو تبلیغ کرنا ایک لغو فعل ہو جاتا ہے اور مومن لغو فعل نہیں کیا کرتا۔
اس کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں۔ انگریزی میں زیرو آور (Zero Hour) ایک محاورہ ہے جو کچھ عرصہ سے جنگی اور فوجی کارروائیوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جب فوجی تیاری کرتے کرتے یعنی حملہ کر دینے کا وقت آجائے تو اسے zero hour کہتے ہیں۔ مثلًا اتحادی فوج، جرمن فوج کے مقابل کھڑی ہے اور اس پر حملہ کرنے کی زبردست تیاریاں کر رہی ہے۔ جب اس کی تمام تیاریاں پوری ہو جائیں، وہ گولہ بارود کا کافی سٹاک مہیا کر لے، کافی ہوائی طاقت جمع کر لے، ٹینک اور توپیں وغیرہ اچھی طرح درست کر لے اور جرمن فوج پر حملہ کا وقت آجائے تو اسے zero hour کہا جائے گا اور انگریزی اخبار لکھیں گے کہ حملہ کا zero hour آگیا ہے۔ میں بھی جماعت کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ الٰہی سامانوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے لئے zero hour آپہنچا ہے۔قدم قدم پر بعض ایسے واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں کہ جن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ وقت عنقریب آنےوالا ہے جب ہمیں اپنا سب کچھ تبلیغ میں لگا دینا ہو گا۔ اور جماعت کے ہر فرد کے لئے لازم ہےکہ اُس وقت کے لئے تیاری کرے۔ میں نے پہلے کئی دفعہ کہا ہے کہ جب وہ وقت آئے گا میں اطلاع دوں گا۔ سو میں اطلاع دیتا ہوں کہ یا وہ وقت آگیا ہے یا آنے والا ہے اور اس لئے بھی میں نے یہ نصیحت کی ہے کہ دوستوں کو بے فائدہ باتوں پر وقت نہ ضائع کرنا چاہیے۔ یہ بالکل معمولی اور مقامی باتیں ہیں۔ تم نے ایک وسیع تبلیغی حملہ کرناہے۔ دشمن تمہیں مقامی باتوں میں اُلجھانا چاہتے ہیں مگر تمہیں ان میں نہ الجھنا چاہیے۔ تمہارا ایسی باتوں میں اُلجھ جانا دشمن کی فتح ہے اور کوئی نادان ہی اپنے ہاتھ سے دشمن کی فتح کا سامان دے سکتا ہے۔
اِس جلسہ سالانہ کے بعد ایسے جلدی جلدی حالات بدل رہے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے وہ وقت جبکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ زور سے تبلیغ کی جائے اور چاروں طرف تبلیغ کے کام کو وسیع کر دیا جائے وہ اب بالکل قریب آگیا ہے۔ اور ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں کہ معلوم ہوتاہے ہمارے لئے zero hourآنے والا ہے یا آچکا ہے۔ جلسہ سالانہ کے بعد حیرت انگیز طور پر اور بڑی سرعت کے ساتھ ایسے سامان پیدا ہو رہے ہیں جو پہلے سال سال میں نہیں ہوتے تھے۔ اور وہ باتیں جو پہلے سال سال میں بھی نہ ہوتی تھیں وہ ان دو ماہ میں اللہ تعالیٰ کےفضل سے ظاہر ہونے لگی ہیں۔
(الف)اس سلسلہ میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مَیں نے 12 جنوری 1945ء کو اِسی سٹیج پر ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں انگلستان او رہندوستان دونوں کو نصیحت کی تھی کہ دونوں اپنے سابقہ اختلافات کو بُھلا کر باہم سمجھوتہ کرنے کی کوشش کریں۔ مَیں نے انگلستان کو نصیحت کی تھی کہ ‘‘اے انگلستان! تیرا فائدہ ہندوستان سے صلح کرنے میں ہے۔ خداتعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ تم دونوں مل کر کام کرو اور دونوں مل کر دنیا میں امن قائم کرو’’۔ پھر میں نے کہا تھا کہ ‘‘میں انگلستان کو دعوت دیتا ہوں کہ آؤ اور ہندوستان سے صلح کر لو’’۔ اور پھر میں نے ہندوستان کو بھی نصیحت کی تھی کہ ‘‘وہ بھی انگلستان کے ساتھ اپنے پرانے اختلافات کو بُھلا دے۔’’ اور میں نے کہا تھا کہ ‘‘میں ہندوستان کو دعوت دیتا ہوں کہ جاؤ انگلستان سے صلح کر لو۔ ’’ او رپھر میں نے کہا تھا کہ ‘‘میں ہندوستان کی ہر قوم کو دعوت دیتا ہوں کہ آپس میں صلح کر لو۔’’ پھر میں نے یہ بھی کہا تھا کہ میں جانتا ہوں کہ ‘‘میری آواز کا نہ ہندوستان پر اثر ہو سکتا ہے اور نہ انگلستان پر اثرہو سکتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ میری یہ نصیحت ہوا میں اُڑ جائے مگر اب تو ہوا میں اُڑنے والی آواز کو بھی پکڑنے کے سامان پیدا ہو چکے ہیں۔ یہ ریڈیو ہوا میں سےہی آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے۔ پس مجھے اس صورت میں اپنی آواز کے ہوا میں اُڑ جانے کا بھی کیا خوف ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہو سکتا ہےکہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے۔’’اور اب دیکھ لو! اللہ تعالیٰ نے ایک قلیل عرصہ کے اندر ہی کس طرح اُس آواز کے بلند ہونے کے سامان بہم پہنچا دیئے۔ انگلستان میں کامن ویلتھ ریلیشنز کانفرنس میں چودھری سر ظفراللہ خان صاحب ہندوستانی ڈیلیگیشن(Delegation) کے لیڈر بنا کر بھیجے گئے اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں میری اس آواز کو وہاں بلند کرنے کی توفیق دی۔ اور اب یہی آواز کہ برطانیہ کو چاہیے ہندوستان کو آزاد کر دے اور اس سے صلح کر لے سارے انگلستان میں بلند ہو رہی ہے۔ ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہ تھا جس سے ہم اس آواز کو انگلستان میں بلند کر سکتے۔ ہم تو دس سال میں بھی ایسا نہ کر سکتے تھے۔ مگر دیکھو اللہ تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اِدھر میں نے یہ اعلان کیا اور اُدھر چودھری صاحب کو جلدی ہی انگلستان جانا پڑا اور انہوں نے وہاں جاتے ہی اس آواز کو بلند کیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سعادت کے لئے منتخب کر لیا کہ وہ انگلستان میں میری اس آواز کو بلند کر سکیں۔
ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
میں نے اُس خطبہ میں کہا تھا کہ خوش قسمت ہے وہ شخص جسے کوئی رسوخ حاصل ہو اور وہ اس سے کام لے کر صلح کرانے کی کوشش کرے۔ جو کوئی اس کام میں ہاتھ ڈالے گا میری دعائیں اُس کے ساتھ ہوں گی اور وہ اللہ تعالیٰ کی برکتوں کا وارث ہو گا۔اللہ تعالیٰ نے چودھری صاحب کو میری یہ آواز انگلستان میں بلند کرنے کی توفیق دی اور انہوں نے اسے ایسے رنگ میں پیش کیا کہ نہ صرف انگلستان بلکہ امریکن اخبارات میں بھی یہی آواز بلند ہو رہی ہے۔ حتّٰی کہ ٹائمز جیسے وقیع اخبار نے بھی اس کی تائید میں نوٹ لکھا ہے۔ اور لکھا ہے کہ چودھری صاحب کی آواز کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اور اب ہندوستان میں بھی یہی آواز اٹھنے لگی ہے۔ اسمبلی میں کئ ممبروں نے تقریریں کی ہیں کہ چودھری صاحب کی یہ آواز ان کی اکیلی آواز نہیں بلکہ یہ سارے ہندوستان کی آواز ہے۔ حال میں تاجروں کی سب سے بڑی ایسوسی ایشن نے بھی اپنے اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ یہ آواز اکیلے ظفراللہ خاں کی آواز نہیں بلکہ ہم تاجر سَو فیصدی ان کی اس آواز میں ان کے شریک ہیں۔ تو دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے جلد سے جلد ایک پسماندہ صوبہ کے ایک گوشہ کے قصبہ سے اُٹھی ہوئی آواز کو پکڑ کر ریڈیو اور تاروں کے ذریعہ سے ساری دنیا میں پھیلا دیا۔
جماعت کے دوسرے دوستوں کو چاہیے کہ اس آواز کے دوسرے حصہ کو بھی بلند کریں۔ اس آواز کے دو حصے تھے۔ ایک تو انگلستان کے لئے نصیحت تھی کہ وہ ہندوستان کو آزادی دے دے اور اس کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے اور دوسرے حصہ میں ہندوستان کو میں نے دعوت دی تھی کہ وہ انگلستان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے اور پرانے اختلافات کو بُھلا کر اس سے صلح کر لے۔ میری اس آواز کے دوسرے حصہ کو اب ہندوستان میں بلند کرنے کی کوشش جماعت کے دوسرے دوستوں کو کرنی چاہیے۔ اور تمام ملک میں اس آواز کو پوری طرح پہنچانا چاہیے۔ کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے انگلستان کے ساتھ لڑنا جھگڑنا ہندوستان کے لئے فائدہ کا موجب نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان اگر آزاد زندگی کا متمنی ہے تو ضروری ہے کہ وہ انگلستان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھائے۔ اگر اس نے ایسا نہ کیا تو بعد میں اسے پچھتانا پڑے گا اور آئندہ نسلیں اپنے باپ دادوں پر لعنتیں کریں گی۔ اور یہ ملک غلامی کی ایسی زنجیروں میں جکڑا جائے گا کہ سینکڑوں سالوں کی قربانیاں بھی اس سے رہائی کے لئے کافی نہ ہوں گی۔
پس میں اپنی اس آواز کے جو میں نے 12 جنوری 1945ء کو بلند کی تھی دوسرے حصہ کی طرف دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں۔ چودھری ظفراللہ خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور انہوں نے اس کے پہلے حصہ کو انگلستان میں بلند کیا۔ پنجاب، بنگال، بمبئی، مدراس، یو پی، سی پی، اڑیسہ، بہار، صوبہ سرحد، صوبہ سندھ اور ریاستوں کے احمدیوں کو چاہیے کہ وہ میری اِس آواز کے دوسرے حصہ کو اب ہندوستان میں ہر جگہ بلند کریں کہ ہندوستان کو چاہیے انگلستان کے ساتھ صلح کر لے۔ انگلستان کا پچھلا سلوک ہندوستان کے ساتھ اچھا تھا یا بُرا ہندوستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ اُسے بُھول جائے اور آپس میں صلح کر کے دونوں ایک مشترکہ محاذ قائم کریں کہ انسانیت اور حُریت پر کوئی ضَرب نہ لگ سکے۔ اور وہ دونوں مل کر دنیا میں آزادی، حُریت اور امن قائم کر سکیں۔
(ب) دوسری بات اس سلسہ میں یہ ہے کہ میں نے جلسہ سالانہ سے قبل اور جلسہ پر بھی دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ ہمیں کمیونسٹ تحریک کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ اس کے بعد 17 فروری کے قریب میں نے خواب دیکھا کہ ‘‘اخبار انقلاب’’ لاہور کا ایک پرچہ میرے ہاتھ میں ہے۔ میں اسے پڑھتا ہوں۔ اس کے ایک صفحہ پر میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ کچھ سطریں لکھی ہوئی ہیں۔ پھر کچھ سطریں اُڑی ہوئی ہیں اور پھر ڈیڑھ سطر لکھی ہوئی ہے۔ اس کے بعد پھر کچھ سطریں اُڑی ہوئی ہیں۔ جس طرح کسی مضمون کے بعض حصے سنسر نے کاٹ دیئے ہوں۔ درمیان میں جو سطر لکھی ہے میں اسے پڑھتا ہوں تو اُس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ‘‘امام جماعت احمدیہ نے پنجاب یونیورسٹی کا انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا ہے۔’’یہ خبر پڑھ کر مجھے اپنے نفس پر بہت غصہ آیااور میں نے دل میں کہا کہ میں نے یہ امتحان کیوں دیا۔ جب مجھے اللہ تعالیٰ نے اتنا علم دیا ہے اور اتنا بلند مقام عطا کیا ہے تو مجھے انٹرنس(Entrance) کا امتحان دینے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اور میں نے یہ امتحان کیوں دیا۔ ایک دو منٹ کے بعد میری یہ غصہ اور انقباض کی حالت دو رہوئی تو میں نے خیال کیا کہ میں نے جب یہ امتحان دیا ہے تو یہ کوئی بے ہودہ حرکت نہیں کی اس میں بھی ضرور اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت مخفی ہو گی۔ اور پھر میں اپنے دل میں کہتا ہوں کہ جب انٹرنس کا امتحان پاس کیا ہے تو اب بی اے کا امتحان بھی دے دوں۔ پھر مجھے خیال آتا ہے کہ بی اے کا امتحان تو ایف اے کا امتحان پاس کئے بغیر نہیں دیا جا سکتا۔ مگر خود ہی دل میں کہتا ہوں کہ یونیورسٹی مجھے بی اے کا امتحان دینے کی اجازت دے دے گی۔
میں نے یہ خواب دیکھا اور حیران تھا کہ یہ کیا بات ہے۔ دوسرے تیسرے روز جب میں مسجد میں اپنے بعض رؤیا بیان کرنے لگا تو یہ رؤیا مجھے بھول گئی۔ یہ یاد تھا کہ ایک اَور اہم رؤیا ہے مگر دوسرے رؤیا بیان کرتے کرتے یہ بھول گئی۔ اب جو لاہور میں کمیونزم کے متعلق میرا لیکچر ہوا تو اس کے بعد ایک دن اخبار دیکھتے ہوئے امتحان کا لفظ جو سامنے آیا تو معاً یہ رؤیا یاد آگئی اور ساتھ ہی اس کی تعبیر بھی سمجھ میں آگئی۔ انٹرنس کے معنے ہیں دروازہ کے ۔ کسی بڑی جلسہ گاہ یا تماشہ گاہ کے بڑے دروازہ کو انٹرنس کہتے ہیں۔ اور میں نے کمیونزم کے متعلق جو لیکچر دیا اس میں پنجاب یونیورسٹی کے طلباء اور پروفیسر کثرت سے شامل ہوئے۔ اور اس طرح ہم گویا پنجاب یونیورسٹی کے علمی حلقوں میں داخلہ میں کامیاب ہو گئے اور اپنے خیالات کامیابی سے ان تک پہنچا دیئے۔ بہت سے طالب علم اور پروفیسر میری اس تقریر کے نوٹ لیتے رہےاور بعض لوگوں نے سنایا کہ ایک پروفیسر پر تو اتنا اثر ہوا کہ وہ رو پڑا اور تمام کالجوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔ بعد میں پروفیسر اور طلباء آ آکر ملتے رہے۔ اور بعض طالب علموں نے سنایا کہ بعض چوٹی کے پروفیسروں نے معذرتیں کیں اور اِس امر پر افسوس کیا کہ وہ بعض دوسری مصروفیتوں کی وجہ سے لیکچر نہ سن سکے۔ اور اس طرح میری وہ رؤیا پوری ہوگئی کہ ‘‘امام جماعت احمدیہ نے پنجاب یونیورسٹی کا انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا۔ ’’اور رؤیا کا یہ حصہ جو ہے کہ میں کہتا ہوں اب بی اے کا امتحان بھی دے دوں تو اس میں اِس طرف اشارہ ہے کہ اگر ہم اس کوشش کو جاری رکھیں کہ تعلیم یافتہ طبقہ پر سے کمیونزم کا اثر دور ہو جائے تو اس میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس کے بعد میں نے ایک اَور لیکچر کمیونزم اور مذہب کے موضوع پر دینے کا ارادہ کیا ہے۔ اور ایک رات بیٹھ کر اس کے نوٹ بھی لکھ لئے ہیں۔ پہلا مضمون تو ‘‘اسلام کا اقتصادی نظام بہ نظر کمیونزم’’ تھا۔ مگر دوسرا لیکچر ‘‘کمیونزم اور مذہب’’ کے موضوع پردینے کا ہے۔ اس کے نوٹ لکھ لئے گئے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو قریب عرصہ میں ہی یعنی دو تین ماہ تک لاہور میں یہ دوسرا لیکچر بھی ہو گا۔ پہلا لیکچر اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیرمعمولی طور کامیاب ہوا ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ میں اسے سمجھنے اور یاد کرنے کا خاص جوش اور رغبت پیدا ہو گئی۔ بیسیوں تعلیم یافتہ اصحاب نے بہ اصرار کہا کہ یہ لیکچر بہت جلد شائع ہونا چاہیے۔ اسے بہت سے اعلیٰ سرکاری حکام، پروفیسران، وکلاء، بیرسٹران اور رؤساء نے بڑے شوق سے سنا اور اپنے اپنے حلقوں میں اسے پھیلایا۔ یہ جو دیکھا کہ یہ خبر ‘‘انقلاب’’ میں شائع ہوئی ہے اِس سے اِس طرف اشارہ ہے کہ انشاء اللہ یہ لیکچر خیالات میں انقلاب پیدا کرنےکا موجب ہو گا۔
(ج) تیسری بات اس سلسلہ میں یہ ہے کہ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کے نئے نئےراستے خود بخود کھل رہے ہیں۔ مثلاً ان دو ماہ میں سلسلہ کی تبلیغ اتنی اوپر پہنچ گئی ہے کہ پچھلے سارے سال میں جتنے احمدی ہوئے تھے اس سال جنوری فروری صرف دو مہینوں میں اُس کے نصف سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی حالت قائم رہے تو پچھلے سال کی نسبت چار گنے سے بھی زیادہ کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔
(د) پھر ان دو ماہ میں ایک عجیب بات یہ ہوئی ہے کہ عورتوں کے طبقہ میں حیرت انگیز طور پر تبلیغی رستہ کھلا ہے۔ اور ان دو ماہ میں مسلمانوں کے ایک چوٹی کے خاندان کی جسے تمام ہندوستان میں علمی اور تجارتی رُعب حاصل ہے ایک خاتون احمدی ہوئی ہیں۔ پھر ایک اَور خاتون جو انگریز ہیں اور انگلستان کے ایک ڈیوک(Duke) کی رشتہ دار اور ہندوستان کے ایک بہت بڑے انگریز افسر کی بیوی ہیں مسلمان ہوئی ہیں اور بیعت کی ہے۔ جو ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مثال ہے۔
(ہ) انہی دو ماہ میں دو نواب خاندانوں کے افراد نے بیعت قبول کی ہے۔
(و) ہماری تبلیغ کا رُخ زیادہ تر اسلامی ممالک کی طرف ہے۔ گو ہم مغربی ممالک میں بھی تبلیغ کرتے ہیں مگر زیادہ خیال ہمیں اسلامی ممالک کا ہی ہے۔ کیونکہ ان کا حق ہم پر بہت زیادہ ہے۔ ان ممالک میں احمدیت کی ترقی کے سامان اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہونے لگے ہیں۔ اٹلی کی حکومت میں لیبیا کا ایک علاقہ تھا جسے تھوڑا عرصہ ہؤا اتحادیوں نے فتح کر لیا ہے۔ یہ علاقہ مصر کے ساتھ لگتا ہے۔ اور وہاں بہت عرصہ تک اُسی طرح لڑائی ہوتی رہی ہے جیسا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے رؤیا میں دکھایا تھا۔ اس علاقہ کا ایک مشہور شہر بن غازی ہے جس کا ذکر بار بار خبروں میں آتا رہا ہے۔ اس علاقہ کے ایک حصہ کا صدر مقام طبروق اور دوسرے حصہ کا بن غازی ہے۔ اور یہ شہر لڑائی کا گویا ایک بیس(Base) تھا۔ بن غازی اس لئے بھی زیادہ مشہور ہے کہ دینی تحریک یہاں طبروق کی نسبت زیادہ زبردست ہے۔ جیسے مثلاً ہندوستان میں دیوبند وغیرہ مقام ہیں۔ بن غازی کے چیف امام جو عرب ممالک کی آزادی کی تحریک کے ایک لیڈر بھی تھے اور اس وجہ سے اٹلی کی حکومت ان کی مخالف تھی اور انہیں اطالوی حکام نے اٹلی کے کسی مقام پر قید کررکھا تھا اطالوی حکومت نے ان کو جنگ کا تمام عرصہ قید رکھا اور واپس اپنے ملک میں نہ آنے دیا کیونکہ وہ ڈرتی تھی کہ وہ ملک کو آزادی کی تحریک کی طرف لائیں گے۔ امریکنوں اور انگریزوں کے داخلہ پر وہ آزاد ہوئے ہیں۔ چند روز ہوئے ان کی بیعت کا خط اٹلی سے آیا ہے۔ یہ بیعت گو ہے تو جلسہ سالانہ سے پہلے کی مگرچونکہ خط ملا بعد میں ہے اس لئے اِنہی دو ماہ میں اس کا شمار ہو گا۔ گویا اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان علاقوں میں تبلیغ کا ایک نیا رستہ کھول دیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم صاحبہ ان دنوں بیما رہیں۔ کل میں ان سے ملنے گیاتو اُن کو اِس بات کا کوئی علم نہ تھا۔ میرے وہاں پہنچتے ہی اُنہوں نے کہا کہ جب سے نواب صاحب فوت ہوئے ہیں میں نے اُن کو خواب میں نہ دیکھا تھا۔ آج رات پہلی دفعہ میں نے اُنہیں خواب میں دیکھا ہے۔ اور انہوں نے جو خواب سنایا وہ بھی اسی واقعہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ نواب صاحب مرحوم اپنے خاندان کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب میں بیمار تھا تو بیماری کی حالت میں بھی ان کو تبلیغ کرتا رہا اور جب میری زبان بند ہو گئی تو میں اشاروں سے اُن کو تبلیغ کرتا رہا۔ یہ بات کہتے کہتے آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہا کہ بڑی خوشی کی خبر آئی ہے۔ بڑی خوشی کی خبر آئی ہے۔ مصر اور لیبیا وغیرہ عربی ممالک میں احمدیت خوب پھیل گئی ہے۔ یہاں تک کہ اب الفضل کا ایک عربی ایڈیشن بھی شائع ہونے لگا ہے اورعربی ممالک کے بادشاہ اور بڑے بڑے لوگوں کو اُس وقت تک چَین نہیں آتا تھا جب تک کہ وہ اسے پڑھ نہ لیں۔ تو ایک ایسے سیاسی لیڈر کو جس سے اطالوی حکومت ڈرتی تھی اور قید کر کے اٹلی لے گئی تھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ احمدیت کو قبول کرے۔ اور انہوں نے وعدہ کیا ہےکہ میں اپنے وطن میں واپس جا کر احمدیت کی اشاعت کی کوشش کروں گا۔
اسی سلسلہ میں ایک اَور نوجوان کا ذکر کر دینا بھی ضروری ہے جو مدینہ منورہ سے حال ہی میں یہاں اتفاق سے آئے ہیں۔ اور ممکن ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو وہی نوجوان ان علاقوں میں احمدیت کی اشاعت کا موجب بن جائے۔ وہ طالب علم ہیں ان کو تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حج کے لئے مکہ میں آیا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں مزید تعلیم بھی حاصل کروں گا مگر وہاں مجھے خیال آیا کہ میں حنفی ہوں اس لئے اہلحدیث علماء سے نہ پڑھنا چاہیے اور میں نے ہندوستان آکر تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ جدہ پہنچے اور وہاں کے برطانوی قنصل سے کہا کہ ہندوستان پہنچنے کا کوئی انتظام کر دے۔ چنانچہ اس نے اپنے پاس سے بمبئی تک کا ٹکٹ لے دیا۔ بمبئی سے انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ علم پڑھنا ہے تو لاہور جاؤ۔ وہ لاہور آئے تو وہاں کسی نے انہیں پیر جماعت علی شاہ صاحب کے پاس علی پور سیداں جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ وہ وہاں گئے مگر پیر صاحب وہاں نہ تھے۔ وہ حیران تھے کہ اب کیا کریں۔ اور اس افسردگی کی حالت میں وہ ریلوے سٹیشن پر بیٹھے تھے کہ کوئی احمدی دوست وہاں آگئے۔ ان سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ علم حاصل کرنا ہے تو میرے ساتھ قادیان چلو اور وہ ان کو قادیان لے آئے۔ ان کو احمدیت کا کوئی علم نہ تھا۔ جب علم ہوا تو انہوں نے کہا مجھے یاد آیا میرے والد کے نام ایک عربی رسالہ البشریٰ آیا کرتا تھا۔ وہ اسے مطالعہ کیا کرتے تھے اورا ن کی خواہش تھی کہ ہندوستان جا کر اس تحریک کے متعلق علم حاصل کروں۔ مگر وہ فوت ہو گئےاور یہاں نہ آسکے۔ اب شاید اللہ تعالیٰ اُن کی خواہش کو ہی پورا کرنے کے لئے مجھے یہاں لے آیا ہے۔ وہ کل مجھ سے ملے اور بیعت بھی کرنا چاہتے تھے مگر میں نے کہا اس طرح بیعت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بیعت تو اُس وقت کرنی چاہیے جب اپنے نفس کو ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار کر لیا جائے۔
(ز) پھر انہی دنوں اٹلی سے اطلاع ملی ہے کہ البانیہ کے چودہ پندرہ طلباء احمدیت کی طرف متوجہ ہیں اور لٹریچر کا مطالعہ کر رہے ہیں اور تحقیقات کر رہے ہیں۔ اِدھر اٹلی سے یہ اطلاع ملی اور اُدھر شملہ سے ریڈ کراس سوسائٹی نے اطلاع دی ہے کہ البانیہ کا ایک فوجی لفٹیننٹ جو جرمنی قید میں ہے اس نے لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات کی کتاب اسے بھجوائی جائے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ البانیہ میں احمدیت کی رَو چلنے والی ہے۔ اس کے ساتھ جب یہ بات ملائی جائے کہ بادشاہ البانیہ کنگ زوغو 1نے شمس صاحب سے خواہش کی ہے کہ ان کی واپسی پر وہ وہاں آئیں اور ان کے مہمان ٹھہریں تو اس تحریک کی اہمیت اَور بھی بڑھ جاتی ہے۔
(ح) انگلستان میں بھی ان دو ماہ میں چار انگریزوں نے اسلام قبول کیا ہے جو تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
(ط) ان دو ماہ میں فوج سے بھی کافی بیعت کے خطوط موصول ہوئے ہیں جن میں سے بعض کنگز کمیشنڈ آفیسر ہیں اور بعض دوسرے عہدیدار ہیں۔
(ی) اسی طرح کی بعض اور تحریکات بھی ہیں جن کو مَیں اِس وقت بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ تھوڑے دنوں میں جب وہ باتیں پختہ ہو جائیں گی تو ان کا اظہار کیا جا سکے گا۔ اسی سلسلہ میں ایک اَور بات یہ ہے کہ انہی دنوں ہمارے چار مبلغ ہندوستان سے باہر جا چکے ہیں۔ اور چھبیس اَور مبلغ باہر مختلف ممالک میں جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تبلیغی حملہ ہونے ہی والا ہے۔ جوں جوں پاسپورٹ ملتے جائیں گے یہ لوگ روانہ ہوتے جائیں گے۔ اور اس طرح انشاء اللہ کئی ہزار میلوں میں تبلیغ کا میدان وسیع ہو جائے گا۔
گویا ایسے آثار ظاہر ہو رہے ہیں کہ فوجی محاورہ کے مطابق ہمارے لئے zero hour بالکل قریب ہے۔ جبکہ ہم لوگوں کے دلوں پر وسیع پیمانہ پر ایک تبلیغی حملہ کرنے والے ہیں۔ اِسی لئے میں نے جماعت کو نصیحت کی ہے کہ وہ اپنی طاقتوں کو ضائع نہ کرے اور انہیں سمیٹ کر رکھے تا وہ زیادہ سے زیادہ کارآمد ہو سکے۔ جیسا کہ گزشتہ سال اللہ تعالیٰ نے مجھے الہام کیا تھا کہ‘‘ روزِ جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے۔’’ یہ تغیرات ایسے ہیں کہ پہلے بعض سال سال میں بھی نہ ہوتے تھے۔ اور بعض تو دو دو چار چار سال میں نہ ہوتے تھے مگر اب اللہ تعالیٰ نے دو ماہ میں وہ تکمیل تک پہنچا دیے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی تغیرات پیدا کئے جار ہے ہیں۔ پس ہمارا بھی فرض ہے کہ غیر معمولی قربانیوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کر یں۔ ایک دن تھا جب ہم تحریک جدید کی قربانیوں کو بڑا کہتے تھے مگر اب وہ وقت آنے والا ہے جب یہ قربانیاں ہیچ نظر آئیں گی۔
پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک طرف تو تحریک جدید کے دفتر دوئم کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کریں۔ اِس وقت تک صرف چالیس ہزار روپیہ سالانہ کے وعدے آئے ہیں حالانکہ ضرورت اڑھائی لاکھ کی ہے۔ پس دوست زیادہ سے زیادہ اس دفتر میں شامل ہوں۔ بعض لوگ چھوٹے چھوٹے بچوں کی طرف سے دو دو چار چار آنے یا آٹھ آنہ یا روپیہ دے کر ان کو شامل کرتے ہیں۔ مگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بارہ سال سے کم عمر کے بچہ کو اس میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اس سے کم عمر کے بچوں کو شامل کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ پورے انیس سال میں اُس کی طرف سے اُس کے والدین معمولی سی رقم داخل کرتے رہیں گے اور اسے خود آخر تک قربانی کرنے کا موقع نہ مل سکے گا۔ اگربارہ سال کے کسی لڑکے کو والدین شامل کریں تو پھر اگر وہ 21 سال کی عمر کاہو کر بھی خود کمانے لگے تو دس سال تک خود بھی حصہ لینے کا موقع پا سکے گا۔ پس میں نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ 12 سال سے کم عمر کے کسی بچہ کو شامل نہ کیا جائے۔ ہاں ثواب کےطور پر والدین چاہیں تو اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دے سکتے ہیں مگر تحریک جدید کے سپاہیوں میں ان کا شمار نہ ہو سکے گا۔ ہاں بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو باقاعدہ شامل کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ دس سال کا عرصہ خود قربانی کرنے کا پا سکتے ہیں۔ اگر چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہی چند آنے لے کر شامل کر لیا جائے اورپانچ ہزار میں سے دو تین ہزار ایسے بچے ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ تحریک بالکل بے حیثیت ہو جائے گی۔ اور ان بچوں کی طرف سے دو دو چار چار آنہ چندہ دوسروں کی قربانیوں کو بھی چُھپا دے گا۔
تحریک جدید کے بعد وقف فنڈ کی تحریک ہے۔ اس میں اب تک ایک کروڑ چودہ لاکھ روپے کے وعدے آچکے ہیں۔ چار سو کے قریب اَور وعدے بھی ہیں جن کی تفصیلات اب تک نہیں ملیں۔ ان کو ملا کر شاید ڈیڑھ کروڑ کے وعدے ہو جائیں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ اس تحریک کو کم سے کم پانچ کروڑ تک پہنچایا جائے۔ اگر کسی وقت دو فیصدی کا بھی مطالبہ کیا جائے تو بھی آٹھ ، دس لاکھ روپیہ وصول ہو سکے۔ بہرحال جماعت کے ہر دوست کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ امتحان کا وقت آگیا ہے اس لئے اپنے کو تیار رکھو۔ خدا ہی جانتا ہے کہ کب تم میں سے ہر ایک کو بلایا جائے گا خواہ کوئی وقف ہو یا نہ ہو۔ جو وقف نہ ہوں گے اُنہیں اُن کی بیعت کی وجہ سے بلایا جائے گا کہ آگے آؤ۔ پس اپنے آپ کو اُس وقت کے لئے تیار کر لو ایسا نہ ہو کہ جب آواز بلند ہو تو کوئی شخص ایسا بھی ہو کہ امتحان میں پورا نہ اُتر سکے اور ارتداد یا منافقت کے گڑھے میں جاگر ے۔
پس اچھی طرح سن لو کہ بلاوے کا وقت آرہا ہے بلکہ شاید آچکا ہے۔ گو قطعی طور پر تو میں نہیں کہہ سکتا کہ آچکا ہے۔ مگر ایسے سامان ظاہر ہو رہے ہیں کہ جن سے یہ گمان غالب ہے کہ وہ وقت آچکا ہے یا بالکل قریب آرہا ہے۔ جب تمام مذاہب پر اسلام اور احمدیت کی طرف سے عام دھاوا بول دیا جائے گا اورشیطان اور خداتعالیٰ کے فرشتوں میں آخری فیصلہ کُن لڑائی ہو گی۔ خوش قسمت ہوں گے وہ جن کواِس لڑائی میں اپنی جان اور اپنا مال قربان کرنے کا موقع ملے اور وہ خداتعالیٰ کے حضور قُرب کے اعلیٰ مقام حاصل کر سکیں۔ اور بدقسمت ہے وہ جو اِس نایاب اور نادر موقع کو کھودے اور اعلیٰ درجہ کے قُرب کا مقام پانے سے محروم رہے۔ جس کے انتظار میں اس دنیا کے صلحاء ہزاروں سال سے بیتاب تھے۔’’
(الفضل مورخہ 14 مارچ 1945ء)
1:کنگ زوغو : احمد زوغو (1895ء1961-ء) شاہ البانیا 1922 ء تا 1924ء البانیا کے
وزیرِ اعظم بنے اور 1925ء میں آمر مطلق کا منصب حاصل کرلیا ۔1928ء میں بادشاہی کا
اعلان کیا (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحہ 73 شیخ غلام علی اینڈ سنز چوک انار کلی لاہور)
11
خصوصیت سے دعائیں کرنے کا ارشاد
(فرمودہ 30مارچ1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘چونکہ نماز کو دیر ہو گئی ہے اور اب نماز کے بعد جبکہ میں عصر کی نماز بھی جمعہ کی نماز کے ساتھ جمع کر کے پڑھاؤں گا مجلس شوریٰ ہونے والی ہے اس لئے آج میں کوئی لمبا خطبہ نہیں پڑھوں گا۔ صرف جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان ایام میں جو ہمارے لئے نہایت ہی اہم ایام ہیں یعنی ہم سال بھرکا پروگرام بنانے والے ہیں خصوصیت سے دعائیں کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور عجز اور انکسار سے درخواست کریں کہ وہ اپنے فضل سے ترقی کی طرف ہماری راہنمائی فرمائے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم صحیح لائحہ عمل تیار کریں۔ اور باقی جماعت کو اِس بات کی توفیق دے کہ وہ اس پروگرام کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں اور ہر قسم کی قربانی کر کے اس پروگرام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی بھی توفیق دے۔
قوم کا بگاڑ یا سُدھار قوم کے اپنے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جس طرح ہر شخص جیسا عمل کرتا ہے ویسا ہی پھل پاتا ہے اسی طرح ہر قوم جیسا عمل کرتی ہے ویسا ہی پھل پاتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی قومی زندگی کو علاوہ فردی زندگی کے ایسا بنائے کہ تفرقہ اور فساد اور قومی ترقی کے راستہ میں روک پید انہ ہو۔ چونکہ ہمارے اعمال محدود ہیں اور اسلامی ترقی کے لئے جس قسم کے سامانوں کی ضرورت ہے چونکہ ان سامانوں اور ان حالات کا پیدا ہونا ہمارے اعمال کے مطابق ممکن نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور اپنے احسان سے ہمارے اعمال سے زائد انعام ہمیں دے۔ اتنا زائد کہ ہماری حقیر اور ذلیل قسم کی کوششیں نتائج کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی ثابت ہوں اور ان کے ذریعہ احمدیت اور اسلام کو غلبہ حاصل ہو۔ اب میں اسی پر بس کرتا ہوں۔ اور پھر یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ جمعہ کی نماز کے ساتھ ہی عصر کی نماز بھی جمع ہو گی۔ اس کے بعد مجلس شوریٰ کی کارروائی حسبِ قاعدہ پہلے وہ سکول تھا اب کالج ہے، کالج کے ہال میں شروع ہو گی۔ ’’ (الفضل 5؍اپریل1945ء)
12
جماعت احمدیہ لاہور کو تبلیغ کے متعلق ضروری ہدایات
(فرمودہ 13اپریل 1945ء بمقام لاہور)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘جس دن میں قادیان سے چلا تھا اُس سے ایک دن پہلے مجھ پر نزلہ کا شدید حملہ ہؤا اور دوسرے دن سفر کی وجہ سے جو مجھے مجبوراً کرنا پڑا یہ تکلیف زیادہ بڑھ گئی جس کی وجہ سے میں پچھلا جمعہ نہ پڑھا سکا۔ اب گو پہلے سے آرام ہے لیکن اب تک بھی اس کا اثر گلے اور سینہ پرباقی ہے جس کی وجہ سے میں بلند آواز سے تو بالکل نہیں بول سکتا۔ لیکن درحقیقت آہستہ بولنا بھی میری صحت کے لئے مُضِر ہے۔ اس لئے میں صرف چند منٹ ہی بولنا چاہتا ہوں اور وہ بھی نہایت آہستہ آواز سے ہی بول سکتا ہوں۔
کل میں نے یہاں کی جماعت کے عہدہ داروں کی ایک میٹنگ بلائی تھی اور ان کو تبلیغ کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی تھی اور اس کے بعض اہم پہلوؤں کو خاص طور پر مدنظر رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ لیکن تبلیغ ایک ایسا کام ہے جس کو صر ف عہدہ دار ہی نہیں کر سکتے بلکہ اس کام کے لئے جماعت کے ہر مرد و عورت، بچے، جوان اور بوڑھے سب کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نہیں جانتا میری کل کی نصیحت سے یہاں کی جماعت کے عہدہ داروں نے کیا اثر قبول کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم میں سے ہر ایک جو حاضر ہے وہ میری باتیں غائب کو سنا دے۔ 1کیونکہ کئی غائب ایسے ہیں جو زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں بہ نسبت حاضر کے۔ پس میں نہیں جانتا جماعت کے عہدہ داروں نے میری اس نصیحت سے کیا فائدہ اٹھایا۔ میں اس بات کو پھر تمام جماعت کے سامنے دہرا دینا چاہتا ہوں تاکہ سب جماعت اپنی ذمہ داری اور اپنے فرض کو سمجھ سکے۔ میں نے کچھ عرصہ سے بار بار خدا تعالیٰ سے علم اور آگاہی حاصل کر کے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دنیا کے سامنے بہت بُرے دن آنے والے ہیں اور اسلام ایسے خطرناک مرحلہ سے گزرنے والا ہے کہ اس قسم کا مرحلہ اسلام کو کبھی پیش نہیں آیا۔ وہ پیشگوئیاں جو اس قسم کے خطرات کے متعلق قرآن مجید اور احادیث میں بیان کی گئی ہیں اُن کے پورا ہونے کا زمانہ آنے والا ہے۔ اس کے آنے سے پہلے ہمیں اپنی طاقت اور قوت کو مجتمع کرلینا چاہیے اور ان خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ سامان مہیا کر لینے چاہئیں تاکہ ہم اسلام کی حفاظت کر سکیں۔ جیسا کہ پہلے اعلان کیا جا چکا ہے ہندوستان میں سات مقامات پر خصوصیت سے تبلیغی مراکز قائم کرنے کی ضرورت ہے اور یہ سات مقامات ایسے ہیں جو ہندوستان اور بیرونی ممالک کو مدنظر رکھتے ہوئے خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاہور ہے جو اس صوبہ کا سیاسی صدر مقام ہونے کی وجہ سے جس میں قادیان واقع ہے دوسرے صدر مقامات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ دوسرا دلّی ہے جو ہندوستان کا صدر مقام ہے۔ تیسرا پشاور ہے جو ہندوستان کی شمال مغربی سرحد کا صدر مقام اور اسلامی ممالک کا راستہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ چوتھا کراچی ہے جو عرب کا دروازہ ہونے اور عراق اور ایران وغیرہ کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ پانچواں بمبئی ہے جو افریقہ کے اکثر ممالک کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اور ان جزائر کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے جو ہندوستانی سمندر میں پائے جاتے ہیں اہمیت رکھتا ہے۔ چھٹا مدراس ہے جو سیلون سٹریٹسیٹلمنٹ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ ساتواں کلکتہ ہے جو ہندوستان کا اتنہائی مشرقی مقام ہے او ربرما، چین، جاپان، ملایا، سماٹرا اور جاوا کا دروازہ ہونے کے لحاظ سے اہمیت رکھتاہے۔ یہ سات مقامات ہیں جو خصوصیت سے ہندوستان اور بیرونی ممالک میں تبلیغ کرنے کے لئے اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک لاہور بھی ہے۔ اگر اس مقام پر ہماری جماعت کو مضبوطی حاصل ہو جائے تو پنجاب میں احمدیت پھیلانا ہمارے لئے آسان ہو جائے۔ قادیان تو وہی جاتا ہے جس کو احمدیت سے دلچسپی ہو۔ لیکن لاہور میں پنجاب کا ہر شخص آتا ہے۔ اگر احمدیت لاہور میں مضبوط ہو جائے تو بیرونجات سے لاہور میں آنے والا ہر شخص خواہ اسے احمدیت سے دلچسپی ہو یا نہ ہو وہ یہاں کی جماعت کے ذریعہ احمدیت سے متأثر ہو گا۔ اور لاہور میں احمدیت کو طاقت اور قوت حاصل ہو جانے سے سارے علاقہ میں اُسی طرح اثر ڈالا جا سکے گا جس طرح گھڑیال بجانے سے میلوں میل تک آواز سنی جاتی ہے۔
میں نے کل عہدہ داروں کی میٹنگ میں بتا یا تھا کہ یہ تبلیغ جو اِس وقت تک ہو رہی ہے یہ کوئی چیز نہیں۔ اِس میں بہت سی خامیاں ہیں۔ اور میں نے ہدایت کی تھی کہ جلد سے جلد لاہور کا سروے کر کے ایک نقشہ تیار کیا جائے جس میں ہر محلے، ہر گلی اور ہر کُوچے پر نشان ہو۔ اورر وہ میرے پاس بھیج دیں اور ایک نقل اپنے پاس بھی رکھیں تاکہ اس کے مطابق تبلیغ کی جائے۔ خالی بڑے بڑے حلقے بنا دینا کہ یہ حلقہ نیلا گنبد کا ہے، یہ حلقہ مال روڈ کا ہے، یہ حلقہ دہلی دروازہ کا ہے، یہ حلقہ سول لائن کا ہے یہ کوئی معنے نہیں رکھتا۔ یہ تبلیغ اور یہ کوشش تو ایسی ہی ہے جیسے لاکھوں کے مجمع میں کوئی شخص کھڑا ہو کر کہے کہ بھئی! پانی لانا۔ اس پر بعض دفعہ تو پانی کا ایک گلاس لانے کے لئے ہزار آدمی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور بعض دفعہ ایک آدمی بھی نہ اُٹھے گا۔ کیونکہ ہر شخص یہی سمجھ رہا ہو گا کہ اتنے بڑے مجمع میں سے کوئی نہ کوئی جا کر پانی کا گلاس لے آئے گا میرے اٹھنے کی کیا ضرورت ہے۔ پس یہ تبلیغ جو اِس وقت تک ہو رہی ہے یہ صحیح طریق پر نہیں ہو رہی۔ اس کے لئے سب سے پہلا طریق یہی ہے کہ سارے لاہور کا سروے کر کے نقشہ تیار کیا جائے جس میں ہر محلے، ہر گلی، ہر کُوچے اور ہر چھتے پر نشان لگاہؤا ہو۔ اور اُُس کی ایک نقل یہاں کی انجمن کے پاس رہے اور ایک مجھے بھیج دی جائے تاکہ اس کو سامنے رکھ کر میں بھی سوال کر سکوں کہ فلاں گلی میں کتنے غیر احمدی ہیں جن کے ساتھ ہمارے احمدیوں کی دوستی ہے۔ اور اس گلی میں کتنی دفعہ تبلیغ کی گئی۔ یہ بات گو بظاہر معمولی نظر آتی ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے بہت شاندار ہے۔ اگر اس طریق کو استعمال کیا جائے تو یہ طریق تبلیغ کے لئے بہت بڑا دروازہ کھول دینے والا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر جماعت کوشش کرے تو ایک مہینہ کے اندر اندر یہ نقشہ تیار ہو سکتا ہے۔ پس میں جماعت کے دوستوں سے چاہتا ہوں کہ وہ کارکنوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں تاکہ یہ نقشہ جلدی مکمل ہو جائے اور کام شروع ہو سکے۔
دوسری بات جو میں کل نہیں بتا سکا تھا کیونکہ درحقیقت مَیں گلے کی تکلیف کی وجہ سے بول نہیں سکتا تھا اُس کا اعلان مختصر ًا آج کر دیتا ہوں۔ جماعت کے کارکن بھی یہاں موجود ہیں اور جماعت کے دوسرے دوست بھی اسے توجہ سے سن لیں کہ اگلے مہینے یعنی مئی کی پندرہ تاریخ تک مجھے لاہور کے احمدیوں کی فہرست پہنچ جانی چاہیے جس میں جماعت کے پندرہ سال اور پندرہ سال سے اوپر کے ہر فرد کے متعلق یہ لکھا ہوا ہو کہ یہ آدمی کوئی کام کرتا ہے یا بیکار ہے۔ اگر کام کرتا ہے تو وہ کام کیا ہے اور آیا وہ کام اس کی لیاقت کے مطابق ہے یا وہ اس سے زیادہ کام کی لیاقت رکھتا ہے مگر مجبوری کی وجہ سے اس کام کو اختیار کئے ہوئے ہے جو اس کی لیاقت سے کم ہے۔ اور اگر بیکار ہے تو کس قسم کا کام کر سکتا ہے اور اُس کی کیا مدد کی جا سکتی ہے۔ آیا اُس کو کام پر لگانے کی کوئی صورت کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ پھر اِسی طرح اس فہرست میں سوائے سرکاری ملازموں کے اور سوائے اُن لوگوں کے جو پہلے سے تاجر ہیں ایسے نوجوانوں کے متعلق بھی لکھا جائے جو تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں یا تجارت کے شائق ہیں مگر یا تو ان کو تجارتی واقفیت نہیں یا ہے مگر سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔ اور کتنے نوجوان ہیں بیکاروں میں سے یا کام کرنے والوں میں سے جن کے لئے ترقی کے مواقع بہم پہنچا کر اُن کو تبلیغ کے لئے زیادہ مفید بنایا جا سکتا ہے۔
اِس کے بعد میرا منشاء ہے کہ لاہور میں تبلیغ کا کام شروع کر دیا جائے۔ لاہور تبلیغی مرکز تو منظور ہو چکا ہے گو مجھے ڈر ہے کہ لاہور کے لئے فوری طور پر قابل مبلغ کا ملنا مشکل ہو گا۔ مگر کوشش کی جائے گی کہ جلدی مبلغ کا انتظام ہو جائے اور یہاں پر کام شروع کر دیا جائے۔ اس کے علاوہ تبلیغ کے اَور ذرائع بھی میرے ذہن میں ہیں مگر ابھی میں اُن کو بیان کرنا نہیں چاہتا۔ جس وقت فہرست مکمل ہو کر میرے پاس آجائے گی اُس وقت میں وہ آسان طریق بتاؤں گا جس سے قلیل عرصہ میں جماعت کو زیادہ سے زیادہ منظم اور مضبوط کر کے اس کے ذریعہ سے پنجاب میں اور پنجاب سے باہر دائرہ تبلیغ کو وسیع کیا جا سکے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہاں کی جماعت کے تعلیم یافتہ دوست وقت کے مطابق کارکنوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اس کام کو جلد سے جلد کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور اگر کارکن سُست ہوں تو خود زور دے کر ان کے اندر چستی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ میں جماعت سے یہ بھی امید کرتا ہوں کہ اگر جماعت کا کوئی کارکن کام کا اہل نہ ہو تو اُس کی جگہ بغیر کسی لحاظ کے دوسرا آدمی مقرر کیا جائے۔ قومی اور دینی کاموں میں کسی انسان کا لحاظ کرنا انسان کو ایمان سے خارج کر دیتا ہے۔ وہی قوم ایماندار کہلا سکتی ہے جو دین کی ضروریات کو مقدم رکھے اور دینی اور قومی فرض کے مقابلہ میں ذاتی تعلقات کی پروا نہ کرے۔ میں سمجھتا ہوں لاہور کی جماعت کا کام اَور منظم ہو سکتا تھا۔ اگر جماعت کے بعض اَور افراد کو بھی کام کا موقع دیا جاتا۔ میں نے یہاں کے سکرٹریوں کو دیکھا ہے وہ ایک خاص ٹائپ کے آدمی ہیں اور وہی کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ حالانکہ لاہور میں بعض اَور ٹائپ کے آدمی بھی ہیں جن کو اگر کام کرنے کا موقع دیا جاتا تو وہ کام کے اہل اور جماعت کے لئے مفید ثابت ہو سکتے تھے مگر بوجہ کام کرنے کا موقع نہ ملنے کے وہ اپنے آپ کو جماعت کے لئے مفید ثابت نہیں کر سکے۔ ایک نوجوان کے متعلق جو اچھا کام کرنے والا تھا میں نے دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ داڑھی نہ رکھنے کی وجہ سے اُس کو کام سے الگ کر دیا گیا ہے۔ مجھے اس نوجوان پر بھی افسوس ہوا کہ اُس نے اِس رنگ میں اپنی اصلاح نہ کی کہ وہ دین کی خدمت کر سکے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں یہ قانون ان عہدوں کے متعلق ہے جو مرکز کا حصہ ہوں اس کے علاوہ مقامی طور پر کام کرنے کے بعض ایسے مواقع ہوتے ہیں جن پر اِس قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس لئے اِس قسم کے کاموں پر بعض فعّال نوجوانوں کو لگانا چاہیے۔ اس سے ہمارا جماعتی قانون بھی قائم رہے گا کہ جو نوجوان اس اسلامی شعار کی پابندی کرنے والے نہ ہوں ان کو کوئی ایسا عُہدہ نہ دیا جائے جس کا تعلق مرکز سے ہو۔ اور مقامی ضرورت کے مطابق کام کرنے والے نوجوانوں کو موقع بھی مل جائے گا کیونکہ مقامی طور پر جو کام ان کے سپرد کیاجائے گا وہ قومی عُہدہ یا سلسلہ کا عُہدہ نہیں ہو گا۔ اس طرح ہمارا قانون بھی نہیں ٹُوٹے گا اور نوجوانوں میں کام کرنے کی روح اور بیداری بھی پیدا ہو جائے گی۔ ایسے نوجوانوں کے رات دن کان بھرنے چاہئیں کہ وہ اسلامی تعلیم کی پابندی نہ کر کے کیوں جماعت کے اندر تفرقہ اور شِقاق کا موجب بنتے ہیں۔ اور جماعت کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا جائے کہ کیوں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہدایت کو وہ قیمت دینے کے لئے تیار نہیں جو قیمت وہ فیشن کو دے رہے ہیں۔ اگر نوجوانوں پر متواتر یہ زور ڈالا جائے تو کچھ عرصہ کے اندر اُن کی اصلاح بھی ہو جائے اور پھر مقامی کاموں پر جو مرکز کا حصہ نہ ہوں اُن کو مقرر کر کے ان کی دلچسپی کو بھی قائم رکھا جا سکتا ہے اور ان کی فعّال روح کو مرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس طرح ہماری دونوں باتیں پوری ہو جائیں گی۔ یہ قانون بھی پورا ہو جائے گا کہ جو نوجوان عَلَی الْاِعْلان شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے ہوں اُن کو کسی ملّی عُہدہ پر مقرر نہ کیاجائے اور یہ بات بھی پوری ہو جائے گی کہ ایسے نوجوانوں کو اپنے اِردگِرد رکھا جائے تاکہ خود اُن کی بھی اصلاح ہو اور وہ آگے دوسروں کی اصلاح کا موجب ہوں۔
پس میں امید کرتا ہوں کہ لاہور کی جماعت جلد سے جلد اِن دو باتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرے گی اور اپنے نظام کو اِس رنگ میں چلائے گی کہ نئے نوجوانوں کو آگے لانے کی کوشش کی جائے اور ان کو مقامی عُہدوں پر مقرر کر کے ان کی فعّال روح کو ابھارا جائے۔ میں نے بتایا ہے کہ مجھے یہاں کئی قسم کی طبائع اور کئی قسم کی لیاقتوں کے نوجوان نظر آئے ہیں جو کام کرنے کے لحاظ سے نہایت مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ مگر وہ ایسے ہی پڑے ہیں جیسے دو پہاڑوں کی وادیوں میں پُھول نکلتے بھی ہیں اور لہلاتے بھی ہیں اور سُوکھ بھی جاتے ہیں۔ لیکن اُن کو نہ نکلتے وقت کوئی دیکھتا ہے، نہ لہلہاتے وقت کوئی دیکھتا ہےاورنہ ہی ان کے سُوکھنے پر کسی کو افسوس پیدا ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ کا ان وادیوں میں سے دوبارہ پھول نکالنا خدائی طاقت میں ہے۔ اس کی طاقتیں غیر متناہی ہیں وہ اسی لئے بعض چیزوں کو ضائع کر دیتا ہے اور ان کی پروا نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میں جب چاہوں اور جو کچھ چاہوں پیدا کر سکتا ہوں۔ لیکن یہ مقام ہمارا نہیں ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے جو چیزیں ہمارے ہاتھ میں دی ہیں ہمیں اُن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور ان چیزوں کو بیج کے طور پر استعمال کرنا چاہیے تاکہ ہمارے لئے پہلے سے بھی زیادہ آسانیاں پیدا ہو جائیں اور پہلے سے بھی زیادہ سامان ہمیں مل جائیں۔
خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جماعت کے لوگوں کو صحیح طور پر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور جو ہدایات میں نے دی ہیں اُن پر عمدگی سے عمل کرنے کی جماعت کو توفیق بخشے۔ تاکہ میں اپنی نگرانی کے ساتھ لاہور میں احمدیت کی مضبوطی سے عُہدہ برآ ہو کر سارے پنجاب کی تبلیغ کی تکمیل میں کامیاب ہو سکوں۔اَللّٰہُمَّ اٰمِیْنَ ۔’’
(الفضل مورخہ19؍اپریل1945ء)
1: بخاری کتاب العلم باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ رُبَّ مُبَلَّغٍ
اَوْعیٰ مِنْ سَامِعٍ
13
احمدیت کی ترقی کے سامان۔ ہال اور اس کے لوازمات کے اخراجات کا سرسری تخمینہ
(فرمودہ 20 ؍اپریل 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘گو مجھے کل سے بخار تو نہیں لیکن پیچش کی تکلیف ہے اور کھانسی بھی باقی ہے۔ اس کے باوجود مَیں جمعہ کے لئے اِس لئے آگیا ہوں کہ دو جمعے ہو گئے میں نے قادیان میں جمعہ نہیں پڑھایا۔
مَیں نے گزشتہ ایک خطبہ میں بیان کیا تھا کہ خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی کے سامان پیدا ہو رہے ہیں۔ چنانچہ پچھلے مہینہ کی بیعت جو ہے وہ بھی گزشتہ مہینوں سے زیادہ رہی ہے۔ اس مہینہ میں کچھ کمی معلوم ہوتی ہے لیکن چونکہ میں اِس دفعہ سفر پر رہا ہوں اور ساری دفتری ڈاک ابھی میرے سامنے نہیں آئی اس لئے ممکن ہے یہ کمی اِس وجہ سے نظر آتی ہو کہ ابھی مَیں ساری ڈاک نہیں دیکھ سکا۔ بہرحال جماعت کی ترقی کے سامان خداتعالیٰ کے فضل سے نمایاں طور پر پیدا ہو رہے ہیں۔ چنانچہ میرے اعلان کے بعد تین فوجی لفٹیننٹوں نے بیعت کی ہے جن میں ایک انگریز بھی ہے۔ اور اس انگریز کے اخلاص کا اس سے پتہ لگتا ہے کہ مجھے بیت المال والوں نے بتایا ہے کہ اس نے دو سو روپیہ زکوٰۃ کا بھیجا ہے اور اس کے علاوہ
چندہ بھی بھیجا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پیغامی لوگ جو ہمارے مقابلہ میں اپنے ذریعہ مسلمان ہونے والوں کا شور مچایا کرتے ہیں وہ کوئی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتے کہ ان کے ذریعہ ہونے والے نو مسلموں نے ایسی قربانی کا ثبوت دیا ہو اور زکوٰۃ کی عظمت رکھنے والے نو مسلم ان میں ہوں۔ اسی طرح افریقہ میں جو تبلیغ کے خاص سامان پیدا ہورہے ہیں ان میں سے ایک خاص بات جو خوشی کا موجب ہے یہ ہے کہ لندن سے شمس صاحب کا تار آیا ہے کہ افریقہ کے ایک پیرامونٹ چیف کا لڑکا جو ولایت میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا ہوا ہے وہ احمدی ہو گیا ہے اور اُس نے اپنے باپ کو بھی احمدیت قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس کے علاوہ ایک اَور خوشی کی بات ہے جو میں پہلے بیان نہیں کر سکا یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے لندن میں ہم نے ایک اَور مکان تبلیغ کے لئے خرید لیا ہے جو ہماری مسجد کے ساتھ ملحق ہے۔ یہ مکان لندن کی عام قیمتوں کے لحاظ سے ہمیں بہت سستا مل گیا ہے کیونکہ لوگ ڈرتے ہیں کہ بموں وغیرہ کے گرنے سے نقصان نہ ہو۔ جس وقت یہ مکان خریدا گیا ہے اُس وقت بم گر رہے تھے ۔ لیکن خدا کے فضل سے خریدنے کے بعد بم گرنے بند ہو گئے ہیں ۔ یہ مکان اکتیس ہزار روپیہ میں آیا ہے اور نو ہزار روپیہ اِس کی مرمت پر خرچ ہو گا۔ گویا چالیس ہزار میں یہ جائیداد مل گئی ہے۔ یہ مکان مسجد کے ساتھ ہی ہے۔ درحقیقت یہ مکان اور پہلا مکان ایک ہی زمین میں بنے ہوئے تھے۔ ایک حصہ جو ہم نے مسجد کے لئے خرید لیا تھااُس میں مکان چھوٹا تھا اور زمین زیادہ تھی اور دوسرے حصہ میں مکان زیادہ تھا اور زمین تھوڑی تھی۔ اور مکان والامتعصب آدمی تھا جو اکثر یہ کہا کرتا تھا کہ میں خواہ اپنا مکان اور کسی کو دے دوں مگر احمدیوں کو ہرگز نہیں دوں گا۔ لیکن آخر خداتعالیٰ نے اُس کے دل سے بُغض نکال دیا اور کچھ بموں کے ڈر سے اور کچھ اِس وجہ سے کہ اُس کے لڑکے کسی دوسری جگہ چلے گئے اُس نے یہ مکان ساڑھے بائیس سَو پونڈ میں ہمارے پاس فروخت کر دیا۔ میں سمجھتا ہوں اِس میں سات آٹھ مبلغ آسانی سے رہ سکتے ہیں۔ ہمارا پہلا مکان بھی سہ منزلہ ہے اور یہ بھی سہ منزلہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے مکان سے زیادہ وسیع ہے اور اس کے کمرے زیادہ ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے لئے اس طرح نیا سامان پیدا کر دیا ہے کیونکہ اب ہمارے مبلغوں کے لئے جو وہاں جائیں گے اکٹھے رہنا آسان ہو گا۔ میں صرف اس مکان کو نہیں دیکھتا بلکہ میری نظر اس بات پر بھی ہے کہ یہ ایک خداتعالیٰ کا نشان ہے۔ اور خداتعالیٰ کے اشارے اس کے عمل سے معلوم ہو رہے ہیں کہ وہ ہمارے جانے والے مبلغوں کے لئے جگہ بنا رہا ہے۔ ایک عرصہ تک جبکہ ہماری سکیم میں نئے مبلغ بھجوانے کا کوئی امکان نہیں تھا صاحبِ مکان مکان نہ دینے پر اڑا رہا حالانکہ اُس وقت ہم اِس سے زیادہ قیمت دینے پر تیار تھے۔ لیکن جونہی کہ ہم نے یہ سکیم تیار کی کہ انگلستان میں پانچ چھ مبلغ بھیجے جائیں وہ شخص اپنا مکان پہلی پیش کردہ قیمتوں سے کم قیمت پر دینے پر آمادہ ہو گیا۔ چنانچہ اِس مکان کا سَودا ہوچکا ہے، قیمت کا کچھ حصہ ادا کیا جا چکا ہے۔ اور باقی حصہ چند دنوں تک ادا کر دیا جائے گا۔
اس کے بعد میں اُس ہال کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کی تحریک پہلے کسی سوچی ہوئی تجویز کے مطابق نہیں تھی بلکہ مجلس شوریٰ میں پیش ہونے والی تجویز کے سلسلہ میں تھی۔ جن لوگوں نے وہ نظارہ دیکھا ہے غالباً وہ اب تک مزا اٹھا رہے ہوں گے کہ کس طرح خداتعالیٰ نے مجلس شوریٰ کے موقع پر جماعت کے دلوں میں جوش اور اخلاص پیدا کر دیا کہ اِس غرض کے لئے اُس وقت جو اندازہ کیا گیا تھا اس سے بھی زیادہ چندہ نقد اور وعدوں کی صورت میں جمع ہوگیا۔ اور ابھی باہر سے اَور لوگوں کی طرف سے بھی چندے آرہے ہیں اور یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ وہی لوگ اس ثواب میں شامل ہوں جو اُس موقع پر حاضر تھے اور ہم شامل نہ ہوں؟ اِس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ہر شخص جو ایسے موقع پر جاتا ہے قربانی کر کے جاتا ہے اور جو قربانی کر کے جاتا ہے یقیناً اُس کو دوسروں کی نسبت ثواب کا زیادہ موقع ملتا ہے اس لئے یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم نے کوئی اعلان نہیں کیا کہ آئندہ اس بارہ میں چندہ نہیں لیا جائے گا۔ جماعت کا ہر فرد جو اِس مد میں چندہ لکھوانا چاہے وہ لکھوا سکتا ہے اور پانچ سال کے عرصہ میں ادا کر سکتا ہے۔ اگر جلدی ادا کر دے تو زیادہ اچھا ہے ورنہ پانچ سال کے اندر کسی وقت یا قسط وار ادا کر سکتا ہے۔ جو تحریک مجلس شوریٰ کے موقع پر کی گئی تھی وہ تحریک ایک وقتی اندازے کے مطابق کی گئی تھی اور اس میں کام کا ایک بڑا حصہ نظر انداز ہو گیا تھا یعنی میں نے شیڈ کا اندازہ لگایا تھا۔ لیکن بعد میں غور کرنے سے معلوم ہوا کہ خالی شیڈ(Shed) سے اس قسم کی جلسہ گاہ کا کام نہیں لیا جا سکتا جس میں ایک لاکھ آدمی بیٹھ سکیں۔ کیونکہ جس جگہ ایک لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا جائے گا اُس جگہ کو ایسے رنگ میں بنایا جائے گا کہ ہر ایک شخص تک آواز پہنچ سکے۔ اس کے لئے بہترین طریقہ وہی ہے جو اٹلی وغیرہ میں رائج ہے جس کو غالباً ایمفی تھیٹر (Amphitheatre) 1 کہتے ہیں۔ یہ اس رنگ میں ہوتا ہے کہ لیکچرار کے کھڑے ہونے کی جگہ کے پاس سے ہی عمارت شروع ہو جاتی ہے اور سیڑھیاں نیچے سے اوپر چڑھتی چلی جاتی ہیں۔ جیسے ہماری جلسہ گاہ میں گیلریاں ہوتی ہیں اسی طرح یہ سیڑھیاں ہوتی ہیں۔ فرق یہ ہوتا ہے کہ ہماری جلسہ گاہ میں گیلریاں کناروں پر جا کر شروع ہوتی ہیں لیکن یہ سیڑھیاں لیکچرار کے کھڑے ہونے کی جگہ کے پاس سے ہی اٹھائی جانی شروع ہو جاتی ہیں اور ہر پچھلی سیڑھی پہلی سیڑھی سے بلند ہوتی چلی جاتی ہے۔ جہاں تک عام اندازہ ہے اگر ایک آدمی کے بیٹھنے کے لئے تین فٹ جگہ رکھی جائے تو ایک لاکھ آدمیوں کے بیٹھنے کے لئے تین لاکھ فٹ جگہ کی ضرورت ہے۔ تین لاکھ فٹ جگہ کے معنے یہ بنتے ہیں کہ اگر گیلریوں کی جگہ پختہ نہ بنائیں بلکہ لکڑی کی گَیلیاں 2 لگائی جائیں تو اگر چہ مَیں انجینئر تو نہیں ہوں لیکن اس کے متعلق مَیں نے موٹا اندازہ لگایا ہے کہ اس پر چھبیس ستائیس ہزار گَیلیاں لگیں گی۔ اگر لکڑی کی گَیلیاں لگائی جائیں جو پچیس تیس سال تک کام دیں گی تو اُس وقت کی قیمتوں کے لحاظ سے تو نہیں۔ جنگ سے پہلے جو قیمتیں تھیں اُن قیمتوں کے لحاظ سے چھبیس ستائیس ہزار چِیل کی گَیلیوں پر د و لاکھ روپیہ خرچ ہو گا اور ان گَیلیوں کے رکھنے کے لئے لوہے کے گارڈروں پر تین لاکھ روپے کا اندازہ ہے۔ اور دو لاکھ روپیہ کم از کم چھت پر خرچ ہو گا۔ یہ سات لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ اور چونکہ اندازہ میں غلطیاں بھی ہو جاتی ہیں ایک لاکھ روپیہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے رکھیں تو کم سے کم آٹھ لاکھ روپیہ میں یہ عمارت بنے گی۔ اور اگر پختہ یعنی اینٹوں اور سیمنٹ کی عمارت بنائی جائے جو کئی سَو سال تک کام دے تو ایسی عمارت پر پچیس لاکھ روپیہ صَرف کرنا ہو گا۔ اتنی بڑی جگہ دس ایکڑ زمین میں بنے گی۔ اور دس ایکڑ زمین میں اِس قسم کی سیڑھیاں بناتے چلے جانے کایہ مطلب ہے کہ اگر پچھلی اونچائی پچاس فٹ اور اگلی ڈیڑھ فٹ ہوتو دس ایکڑ زمین میں پچیس فٹ اونچی دیواریں ایک دوسرے کے ساتھ لگی ہوئی اٹھائی جائیں۔ یہ عمارت ہمارے سکول اور بورڈنگ دونوں کے مجموعے سے کوئی دو سو گنے بڑی ہو جاتی ہے۔ پس اگر پکی عمارت یعنی اینٹوں اور سیمنٹ وغیرہ سے جلسہ گاہ بنائی جائے تو کم سے کم پچیس لاکھ میں بنے گی اور اگر لکڑی کی گَیلیاں یا لوہے کی تختیاں وغیرہ لگائی جائیں تو وہ آٹھ لاکھ روپیہ میں بنے گی۔ پس جو لوگ شوریٰ کے موقع پر اس تحریک میں شامل نہیں ہو سکے ان کے لئے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور پھر پانچ سال کا لمبا عرصہ ہے اس میں وہ سہولت کے ساتھ اس رقم کو پورا کر سکتے ہیں اور جماعت کے کسی فرد کے لئے بھی امکان نہیں کہ وہ اس تحریک میں شامل ہونے سے محروم رہ جائے بلکہ ہر فرد شوق سے اس میں حصہ لے سکتا ہے۔
لیکن ایک اَور بات جس کو اُس وقت میں نے پیش نہیں کیا تھا لیکن اس کے بغیر یہ سکیم نامکمل رہ جاتی ہے اور جس کی وجہ سے جلسہ گاہ کے علاوہ بھی ابھی بہت سے روپے کی ضرورت ہے اتنے روپے کی کہ شاید جماعت کی موجودہ حالت کے لحاظ سے لوگ سمجھیں کہ جماعت کے لئے اتنا روپیہ جمع کرنا بہت بڑا بار ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب ہال کی تجویز فرمائی تھی تو اس قسم کا ہال تیار کرنے سے آپ کا اصل مقصد یہی تھا کہ اسلام کو دوسرے مذاہب کے لوگوں سے روشناس کرایا جائے۔ اور اُس وقت کے لحاظ سے آپ نے سمجھا تھا کہ ایک سَو آدمیوں کے لئے ہال بنانا بڑی بات ہے۔ لیکن آج ہمارے حوصلے خدا کے فضل سے بڑھے ہوئے ہیں اور ہم کہتے ہیں سَو کیا لاکھ آدمیوں کا ہال بناؤ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس ہال کے ذریعہ سے دنیا بھر کو اسلام سے روشناس کر اسکیں گے؟ ہال تو بن گیا لیکن اس ہال کی جو غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی تھی کیا ہم اس غرض کو پورا کرنے کیلئے ہر مذہب کے ایک لاکھ آدمیوں کو دعوت دے کر ان کو یہاں بلانے میں بھی کامیاب ہو سکیں گے؟ ظاہر ہے کہ ہماری موجودہ حیثیت ایسی نہیں کہ ایک لاکھ تو کُجا دس ہزار آدمیوں کو بھی یہاں بلانے میں کامیاب ہو سکیں۔ جو اپنے مذہب اور اپنی قوم میں اہمیت اور اثر و رسوخ رکھتے ہوں۔ ہمارے جلسہ سالانہ پر دو تین سو غیر مذاہب کا آدمی باہر سے آجاتا ہے۔ لیکن ان دو تین سو میں سے ہر ایک کی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی قوم اور اپنے مذہب میں اثر و رسوخ رکھتا ہو۔ وہ جو اثر و رسوخ والے ہوتے ہیں ان کی تعداد دس بیس سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پس ہماری موجودہ حالت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ اگر ہم کوشش کریں تو یہ کر سکتے ہیں کہ ایسے سو آدمیوں کو جمع کر لیں مگر ہم ہال بنا رہے ہیں لاکھ آدمیوں کا۔ ظاہر ہے کہ اس میں زیادہ تر ہماری اپنی جماعت کے لوگ ہی آئیں گے۔ مگر کیا احمدیوں کے سن لینے سے اسلام ساری دنیا میں روشناس ہو جائے گا؟ پس اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کے بعد ہمیں ایسی صورت سوچنی چاہیے کہ جس سے ہم اس ہال کو اسلام کی تبلیغ کا مرکز بنا دیں۔ اس کے متعلق میں نے جو تجویز سوچی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جہاں یہ ہال بنائیں اُس کے ساتھ ایک بہت بڑی لائبریری بنائیں جس لائبریری میں دنیا کے تمام مذاہب کی کتب جمع کی جائیں۔ اگر ساری نہیں تو تمام مذاہب کی اہم کتب اور اسلام کی قریباً ساری کتب جمع کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ دنیا کے مذاہب کا مقابلہ ان کی کتب اور اپنی کتب کے مطالعہ سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہم جاہلوں کو تو موٹی موٹی باتوں کے ذریعہ سے سمجھا سکتے ہیں لیکن قوم کے علماء کو جب تک ہم ہر میدان میں اُن کے مذہب کی کمزوری اُن پر ثابت نہ کرد یں ان کے مذہب سے بدظن نہیں کر سکتے۔ اِسی طرح ہمارے مبلغ جو کام کرتے ہیں ہم اُن سے امید تو کرتے ہیں کہ وہ مخالف مذہب کی کتب کا مطالعہ کریں لیکن ایک انسان تبلیغ بھی کرے، تربیت کا کام بھی کرے، عبادت بھی کرے اور پھر ایسا مطالعہ بھی کرے کہ ہر مذہب کی کتب کا واقف ہو سکے یہ ناممکن بات ہے۔ اور اگر ہمارے مبلغین کا علمی مقام اتنا بلند نہ ہو کہ وہ ہر مذہب کے مقابلہ میں کامیاب طور پر کھڑے ہو سکیں تو ہماری تعلیم اور تبلیغ اتنی مؤثر نہیں ہو سکتی۔ اس لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم پہلے تو ہر مذہب کے لٹریچر کو اپنے یہاں جمع کریں۔ اس کے لئے میرا اندازہ یہ ہے کہ تین لاکھ روپے کی ضرورت ہو گی جس سے عمارت تیار کی جائے گی۔ عمارت تیار کرنے کے بعد ہر مذہب کی کتابیں جمع کرنے کا کام ہے۔ جو لوگ کتابیں جمع کرنے کا شوق رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ کتابیں جمع کرنا کتنا مشکل کام ہے۔ میری اپنی چھوٹی سی لائبریری ہے۔ میں سمجھتا ہوں وہ بھی پچیس تیس ہزار کی ہو گی۔ اور وہ اِس وقت کامل لائبریری کا ہزارواں حصہ بھی نہیں بلکہ دس ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ ہمیں ایک مکمل لائبریری کے لئے تین چار لاکھ جلدوں کی ضرورت ہے اور یہ تین چار لاکھ جلدیں پچاس ساٹھ لاکھ روپے میں خریدی جا سکتی ہیں۔ لیکن اگر ابتدا میں ساری کتب نہ خریدیں بلکہ اہم کتب جمع کی جائیں تو میرے خیال میں ابتدائی کام کے لئے پانچ لاکھ خرچ کرنا ہو گا۔ کیونکہ شروع میں ہی یہ کام مکمل نہیں ہو سکتا۔ پانچ لاکھ روپے کی رقم سے تمام مذاہب کی اہم کتابیں خرید کر لائبریری کی ابتدا کی جا سکتی ہے۔ تین لاکھ کی بلڈنگ اور پانچ لاکھ کی کتابیں یہ آٹھ لاکھ بنا۔ آٹھ لاکھ یہ اور آٹھ لاکھ ہال کے لئے یہ سولہ لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ یوں تو لائبریری پڑھنے ہی کے لئے ہوتی ہے لیکن ہماری غرض چونکہ یہ ہو گی کہ اسلام کی تبلیغ کو ساری دنیا میں پھیلائیں اس لئے ساری دنیا میں تبلیغ پھیلانے کے لئے ضروری ہو گا کہ ہم ایسے آدمی تیار کریں جو ہر زبان جاننے والے ہوں۔ یا اگر ہر ایک زبان نہیں تو نہایت اہم زبانیں جاننے والے ہوں جن زبانوں میں ان مذاہب کی کتابیں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً یونانی ہے، عبرانی ہے تاکہ عیسائیت اور یہودیت کا لٹریچر پڑھ سکیں اور عربی جاننے والے بھی ہوں تاکہ اسلام کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ فارسی جاننے والے بھی ہوں تاکہ اسلام کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ سنسکرت اور تامل زبان جاننے والے بھی ہوں تاکہ ہندو اور ڈریوڈینز 3 (Dravidians) کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ پالی زبان جاننے والے بھی ہوں تاکہ بدھوں کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ چینی زبان جاننے والے ہوں تا کہ کنفیوشس کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ اور پہلوی زبان جاننے والے بھی ہوں تاکہ زرتشتیوں کا لٹریچر پڑھ سکیں۔ اسی طرح پرانی دو تہذیبیں ایسی ہیں کہ گو اَب وہ تہذیبیں مٹ چکی ہیں لیکن اُن کا لٹریچر ملتا ہے۔ اُن میں سے ایک پرانی تہذیب بغداد میں تھی اور ایک مصر میں تھی۔ ان کا لٹریچر پڑھنے کے لئے بابلی زبان اور ببلیوگرافی(Bibliography) جاننے والے چاہئیں تاکہ ان کے لٹریچر کو پڑھ کر اسلام کی تائید میں جو حوالے مل سکیں ان کو جمع کریں۔ اور ان کے ذریعہ اسلام پر جو حملے ہوتے ہیں ان حملوں کا جواب دے سکیں۔ جب تک ہم یہ کام نہیں کرتے ہم دشمن کا اُس کے ہی تجویز کردہ میدان میں مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
مقابلے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک اجمالی مقابلہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے معجزات، نشانات اور دعا کے ذریعہ کیا۔ لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ ان معجزات اور نشانات کی طرف رُخ نہیں کرتا بلکہ وہ اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ دوسری چیزوں اور دوسرے علوم کے ذریعہ اسے قائل کیا جائے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ‘‘مسیح ہندوستان میں’’ لکھ کر دشمنوں کا مقابلہ کیا۔ اس کتاب میں آپ نے معجزات یا نشانات پیش کر کے دشمن کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ ان کا مقابلہ تاریخی حوالوں کو پیش کر کے کیا گیا ہے۔ اور آپ نے ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام زندہ کشمیر میں آئے اوریہاں آکر فوت ہوئے۔ یہیں ان کی قبرہے۔ اسی طرح ‘‘ست بچن’’ ہے۔ اس کی بنیاد بھی دعا یا معجزات اور الہامات پر نہیں ہے بلکہ سکھ لٹریچر سے ہی ثابت کیا گیا ہے کہ بابا نانک مسلمان تھے۔ تو ‘‘مسیح ہندوستان میں’’ یا ‘‘ست بچن’’ میں جو باتیں ثابت کی گئی ہیں ان باتوں کے ثابت کرنے سے آپ کی یہی غرض تھی کہ آپ جانتے تھے کہ ایک طبقہ بنی نوع انسان کا ایسا بھی ہے جو دعا اور معجزات وغیرہ سے فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ اُن علوم کے ذریعہ قائل ہونا چاہتا ہے جس کو وہ علوم سمجھتا ہے۔
پس ہمارے لئے ضروری ہو گا کہ ہم اس قسم کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے والے لوگ پیدا کریں اور اُن کو اِس کام کے لئے وقف کریں کہ وہ لائبریری میں بیٹھ کر کتابیں پڑھیں اور معلومات جمع کرکے مدوّن صورت میں مبلغوں کو دیں تا وہ انہیں استعمال کریں۔ اسی طرح وہ اہم مسائل کے متعلق تصنیفات تیار کریں۔ اگر ان لوگوں کی رہائش اور گزارہ کے لئے دو لاکھ روپیہ وقف کریں تو یہ اٹھارہ لاکھ روپیہ بنتا ہے۔ پھر ان کی کتب کو شائع کرنے کے لئے ایک مطبع کی ضرورت ہے جس کے لئے ادنیٰ اندازہ دو لاکھ کا ہے۔ اس کے علاوہ پانچ لاکھ روپیہ اندازًا اس بات کے لئے چاہئے کہ جو تصنیفات وہ تیار کریں اُن کو شائع کیا جائے۔ اور پھر ایسا انتظام کیا جائے کہ نفع کے ساتھ وہ سرمایہ واپس آتا جائے اور دار المصنفین کا گزارہ اس کی آمد پر ہو۔ یہ وہ صحیح طریقہ ہے جس کے ذریعہ سے ہم علمی دنیا میں ہیجان پیدا کر سکتے ہیں اور اس کام کے لئے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ اِس وقت مَیں تحریک نہیں کر رہا میں صرف باہر کے لوگوں کو بتا رہا ہوں کہ یہ ایک بڑا وسیع میدان ہمارے سامنے ہے جس کی طرف ہم نے آہستہ آہستہ قدم اٹھاناہے۔ اس لئے جماعت کا کوئی فرد یہ خیال نہ کرے کہ جو لوگ ہال کے چندہ میں نہیں آ سکے اُن پر کوئی ذمہ واری نہیں یا ان کے لئے ثواب حاصل کرنے کا کوئی موقع نہیں۔ ابھی ثواب کا موقع پڑا ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آٹھ لاکھ روپیہ تو ہال کی ادنیٰ سے ادنیٰ عمارت کے لئے چاہیے۔ اس لئے بیرونی دوستوں کے لئے بھی بڑا موقع ہے کہ وہ بڑھ بڑھ کر حصہ لیں اور ثواب حاصل کریں۔ ابھی پانچ سال کا عرصہ پڑا ہے۔ خدا نے چاہا تو اِس عرصہ میں جماعت بھی بڑھ جائے گی اور اموال بھی بڑھ جائیں گے۔ اگر خداتعالیٰ کامنشاء ہو تو پانچ سال میں اوراگر خدا تعالیٰ کا منشاء اِس کو لمباکرنے کا ہو تو اِس سے زیادہ عرصہ میں ہم اس پچیس لاکھ روپیہ والی سکیم کو مکمل کر سکتے ہیں۔ ورنہ خالی زمین میں کرسیاں بچھا دینے سے دنیا ہنسے گی کہ تم نے آٹھ لاکھ روپیہ یونہی خرچ کر دیا۔ پس ہم آٹھ لاکھ روپیہ کویونہی خرچ کرنا نہیں چاہتے بلکہ اس کے ساتھ سترہ لاکھ روپیہ اَورلگانا چاہتے ہیں تاکہ اس کے ساتھ ہم ساری دنیا کو ہلِا سکیں اور علمی دنیا میں ہیجان پیدا کر سکیں۔ اور چین، جاپان، فرانس، اٹلی، سپین، جرمنی، روس، امریکہ، انگلستان، شام، فلسطین، ترکی ، ایران، افغانستان کے لوگوں کو یہ کتابیں پڑھ کر خود بخود تحریک ہو کہ اس جلسہ گاہ میں چل کر ان کتابوں کے لکھنے والے لوگوں کے خیالات اور اسلام کی خوبیاں اپنے کانوں سے سنیں۔ پس ہم نے ایک لاکھ آدمی کے لئے ہال بنا کر اس کو غیرمذاہب کے آدمیوں سے بھر دینے کا سامان نہیں کرنا ورنہ اس ہال کی ایک ایک اینٹ ہم کو بد دعائیں دے گی کہ ہال بنا کر بغیر کام کے اسے خالی چھوڑ دیا۔ پس یہ مت سمجھو کہ ہم نے صرف یہ ہال بنانا ہے۔ بلکہ ہم نے اس ہال کو غیر قوموں اور غیر مذاہب کے لوگوں سے پُر کرنے کے سامان بھی کرنے ہیں۔ اور ایک ایسا علمی میدانِ جنگ تیار کرنا ہےجس کے ذریعہ سے دنیا کی چاروں اطراف سے لوگ کھنچے چلے آئیں اور اس ہال میں بیٹھ کر ہماری باتیں سنیں۔ پس ہم نے صرف ہال ہی نہیں بنانا بلکہ ہال کو آباد کرنے کے سامان بھی مہیا کرنے ہیں۔ لوگ کہیں گے کہاں سے؟ اور کس طرح؟ میں کہتا ہوں جس طرح ہمارے تمام کام پہلے ہوئے اُسی طرح انشاء اللہ یہ بھی ہو گا۔ دنیا باتیں بناتی ہی رہے گی اور ہم اپنے کام کرتے ہی چلے جائیں گے۔ ’’ (الفضل مورخہ یکم مئی 1945ء)
1: ایمفی تھیٹر: (Amphitheatre)(قدیم رومی) مُدوَّر تماشہ گاہ
2: گَیلیاں: گَیلی کی جمع: تنے کی کاٹی ہوئی گول لکڑی جس سے شہتیر نکلتے ہیں۔
3: ڈریوڈینز: (Dravidians)(i) جنوبی ہندوستان اور سری لنکا کے قدیم باشندوں کی زبان
(ii)آسٹریلیا کے ابتدائی سیاہ فام باشندوں کی زبان
14
آئندہ کے حالات کےمتعلق چند رؤیا
(فرمودہ 27 ؍اپریل1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بعض باتیں بتائی جاتی ہیں اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان اس سے فائدہ اٹھائے۔ لیکن بعض دفعہ لوگ ان باتوں کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کرتے یا پوری طرح ذہن اس طرف نہیں جاتا پھر وہ وقت آنے پر تکلیف اٹھاتے ہیں۔ ان دنوں مَیں دیکھتا ہوں کہ کپڑے کی تکلیف لوگوں کے لئے بہت بڑھ رہی ہے۔ یہاں قادیان میں تو شاید لوگوں کو صبر کی عادت پید اہو چکی ہے اس لئے یہاں اتنا شور اور واویلا نہیں۔ لیکن بیرونجات میں کپڑے کے متعلق اِس قدر تکلیف پیدا ہو چکی ہے کہ بعض جگہ پر گورنمنٹ کے افسروں نے تسلیم کیا ہے کہ مُردے بغیر کفن کے دفن کئے گئے ہیں۔ گورنمنٹ اپنے کنٹرول کے ماتحت بہت کچھ انتطام تو کرتی ہے اور وہ انتظام ایک حد تک سہولت کا موجب بھی ہوتا ہے لیکن جب کوئی چیز استعمال کرنے والوں سے کم ہوجائے تو پھر مشکلات کا بڑھنا ایک قدرتی امر ہے۔
بنگال کے متعلق خبریں شائع ہوئی ہیں کہ کپڑے کی دِقّت کی وجہ سے بعض عورتوں نے خودکشی کر لی کیونکہ ان کے پہلے کپڑے پھٹ گئے اور ستر ڈھانکنے کے لئے اَور کپڑے میسر نہیں آسکے۔ اور بعض گھرانوں کے متعلق یہ اطلاعات شائع ہوئی ہیں کہ آٹھ آٹھ دس دس افراد کے پاس ایک ہی چادر ہے۔ باری باری جو باہر جاتا ہے اُسے اوڑھ لیتا ہے اور باقی افراد کو گھر میں ننگا ہی بیٹھنا پڑتا ہے۔ اور بنگال کے بعض گھرانوں کے متعلق یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ ان کی عورتیں سال سال بھر سے گھر سے باہرنہیں نکلیں۔ کیونکہ ان کے پاس کپڑے نہیں جنہیں پہن کر وہ باہرجا سکیں۔ ان حالات کے پیدا ہونےسے پہلے اللہ تعالیٰ نے مجھے ان حالات کی خبر دے دی تھی جو میں نے متفرق مواقع پر جماعت کے سامنے بیان کر دی تھی۔ ایک موقع پر تو ایک دوست نے بتایا ہے کہ جب سلطان محمود صاحب کی شادی ہوئی اور ان کے ولیمہ کی دعوت مدرسہ احمدیہ میں ہوئی تو اُس موقع پر میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ہر گھر میں چرخے رکھے جائیں اور وہ سُوت کات کر اس کے کپڑے بنوا کر پہنا کریں۔ یہ واقعہ1943ء کا ہے۔ اِسی طرح 1942ء یا 1943ء کے جلسہ کے موقع پر بھی میں نے اپنا رؤیا تمام دوستوں کے سامنے سنا دیا تھا کہ میں نے دیکھا کہ میں نے کھدر کی قمیص پہنی ہوئی ہے اور رؤیا میں مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کھدر کی قمیص پہننا کسی کانگرسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے۔ اور اُس وقت میں نے دوستوں کو اِس طرف توجہ دلائی تھی کہ کپڑ ابہت کم ہونے والا ہےجہاں تک ہو سکے گھروں میں سُوت کاتنے اور کپڑا بنوانے کا کام کیا جائے تاکہ اگر خود تمہارے لئے دقّت نہ ہو تو تمہارا بچا ہوا دوسرے غریبوں کے کام آسکے۔ بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ایسی توفیق دی ہوئی ہے کہ وہ جس قیمت پر بھی چیز میسر آسکے خرید لیتے ہیں۔ چنانچہ ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ کا مجھ پر ایسا فضل ہوا ہے کہ جو چیز ہم جنگ سے پہلے استعمال نہیں کر سکتے تھے اب اُس کو استعمال کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی حالانکہ قیمتیں پہلے سے بہت بڑھ چکی ہیں تو بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کو جنگ کے حالات کی وجہ سے سہولت میسر آگئی ہے اور خداتعالیٰ نے اُن کے روپیہ میں فراوانی بخش دی ہے۔ مگر بہت سا طبقہ ملک کا ایسا بھی ہے جس کی حالت اس قسم کی نہیں کہ وہ ہر قیمت پر کپڑے خرید کر استعمال کر سکے۔
پس جہاں میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان کا اظہار کرتا ہوں کہ اس نے قبل از وقت اپنے فضل سے اس غیب کی خبر سے مجھے اطلاع دے دی کہ کپڑے کا فقدان ملک میں ہونے والا ہے وہاں میں جماعت کا شکوہ تو نہیں کرتا لیکن افسوس ضرور ہے کہ اس خواب سے پورا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ شکوہ میں اِس لئے نہیں کرتا کہ خود میرا ذہن بھی اس قسم کی کمی کی طرف نہیں گیا تھا کہ کپڑے کی دِقّت اِس قسم کی ہونے والی ہے کہ بعض علاقوں میں مُردے بغیر کفن کے دفن کئے جائیں گے۔ بہرحال میں نے جماعت کو توجہ دلا دی تھی اور میں نے اپنے گھروں میں بھی کہا تھا کہ چرخے منگوا کر رکھواور سُوت کات کر کپڑا بنوایا کرو۔ تاکہ اگر تمہیں دقّت پیش نہ آئے تو کم از کم غرباء کے لئے ہی کپڑا مہیا کر سکو۔ لیکن میں افسوس سے کہتا ہوں کہ ہمارے گھر میں بھی پوری طرح اس پر عمل نہیں کیا گیا گو چرخے تو منگوا لیے مگر سُوت کاتنے کا کام اُس وقت رؤیا کے ماتحت شروع نہیں ہوا بلکہ اب آکر شروع ہوا ہے۔ جب یہ کام رؤیا کے ماتحت نہیں کہلا سکتا بلکہ عملاً کپڑے کی کمی ہو جانےکی وجہ سے ہے۔ چونکہ یہ زمانہ بظاہر ابھی چھ ماہ یا سال دو سال تک ممتد معلوم ہوتاہے اس لئے اب بھی جن کو خداتعالیٰ توفیق دے ان کو چاہیے کہ عورتیں گھروں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے چرخے رکھیں اور سُوت کات کر جلاہوں سے کپڑے بنوا لیں۔
ہمارے علاقہ ضلع گورداسپور میں سُوت کا کپڑا بُننے کا رواج کم ہے۔ حالانکہ ایسی کھڈیاں نکل آئی ہیں جن سے اچھے سے اچھا کپڑا بُنا جا سکتاہے۔ اگر ہمارے کسی دوست کو خداتعالیٰ توفیق دے تو ہمارے ضلع کا سُوت کا کوٹہ جو رائیگاں چلا جاتا ہے یا دوسرے ضلع والے اِس سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں یایہاں کے لوگ دوسرے ضلعوں کے پاس مہنگے بھاؤ فروخت کردیتے ہیں یا لوگوں کی بے پرواہی کی وجہ سے ہمارا ضلع اپنے حق کا مطالبہ ہی نہیں کرتا تو اگر ہمارے دوستوں میں سے کسی کو توفیق ملے تو یہ بھی اچھی تجارت ہے کہ کپڑا بُننے کی کھڈیاں لگا لی جائیں اور سُوت کا جو کوٹہ ملتا ہے اُس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کر دیا ہؤا ہے کہ ضلع وار سُوت تقسیم کیا جائے۔ میں نہیں جانتا ہمارے ضلع کو کیا ملتا ہے یا ہمارا ضلع لیتا بھی ہے یا نہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ضلع کا حق نامنظور کیا جائے۔ اگر اس قسم کے کارخانے والے زور دیں تو بہرحال پہلے اگر نہیں بھی ملتا تو آئندہ اس ضلع کا حق دینے سے گورنمنٹ انکار نہیں کرے گی۔
انہی دنوں میں میرا ایک رؤیا اَور رنگ میں بھی پورا ہوا ہے۔ اس کا بھی اظہار کر دینا چاہتا ہوں۔ جس وقت امریکہ میں مسٹر روز ویلٹ کا انتخاب ہورہا تھا میں نے خواب میں دیکھا کہ الیکشن ہو رہا ہے اور مسٹر روز ویلٹ کے ساتھ ایک اَور شخص کا نام لیا جا رہا ہے۔ او رجب ووٹ گِنے گئے تو پہلے تو مسٹر روز ویلٹ کے ووٹ زیادہ ہوتے گئے لیکن آخر میں جا کر دوسرے شخص کے ووٹ بڑھ گئے۔ میں نے اِس کی تعبیر یہ بتائی تھی کہ چونکہ میں اِن دنوں یہ دعا کر رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ امریکہ اور انگلستان کے لوگوں کی توجہات اِس طرف پھیر دے کہ وہ اپنے مفتوح دشمنوں کے ساتھ ظالمانہ سلوک نہ کریں کیونکہ آئندہ دنیا کا امن اِسی بات پر مبنی ہے کہ قوموں میں صلح اور امن قائم رکھا جائے اور کسی قوم کو سختی سے دبایا نہ جائے۔ اس لئے اس خواب کی تعبیر غالباً یہ نہیں کہ مسٹر ڈیوی جیت جائیں بلکہ یہ ہے کہ ان کی پارٹی کی تجویز کہ جرمنی پر زیادہ سختی نہ کی جائے آخر کامیاب ہو جائے گی۔ چنانچہ ایسے حالات بھی پیدا ہو رہے ہیں اور ایسی رَو چل رہی ہے کہ مختلف ملکوں کےمختلف افراد اِس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ رؤیا اِس رنگ میں بھی پورا ہوا کہ مسٹر روز ویلٹ بر سر اقتدار آنے کے بعد جنوری 1945ء میں اپنے نئے عُہدہ پر بیٹھے اور اپریل 1945ء کے شروع میں فوت ہو گئے۔ اور خدا تعالیٰ نے اس رؤیا کو اِس رنگ میں بھی پورا کر دیا کہ دوسرا شخص اُن کی جگہ پریذیڈنٹ بن گیا۔ گو وہ مسٹر ٹرومین ہیں مسٹر ڈیو ی نہیں۔
عجیب بات ہے میں لاہور میں تھا جب یہ خبر آئی۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے مجھے یہ خبر سنائی تھی۔نماز کے بعد اس کے متعلق باتیں شروع ہوئیں تو ایک نوجوان جو واقف زندگی ہیں اور فورمین کرسچن کالج میں پڑھتے ہیں انہوں نے ذکر کیا کہ میں نےیہ ڈائری جس میں آپ کا یہ رؤیا شائع ہو ابعض لڑکوں کو پڑھنے کے لئے دی تھی اور جب مسٹر روز ویلٹ پریذیڈنٹ ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ یہ خواب تو غلط نکلا۔ میں نے کہا ساتھ ہی اس کی تعبیر بھی بتائی ہوئی ہے اس کی طرف کیوں توجہ نہیں کرتے صرف ظاہر کی طرف کیوں جاتے ہو۔ خواب بین نے بتایا ہے کہ دعا وہ ایک اَور امر کے لئے کر رہا تھا اُس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے ظاہر کی طرف اشارہ معلوم نہیں ہوتا۔ اس پر اُن میں سے ایک نوجوان نے کہا میں یہ نہیں مانتا۔ اب اگر خواب پورا کرنا ہے تو روز ویلٹ کو مار دو۔ گویا اس کے لئے خواب کو پورا کرنے کی ایک ہی صورت تھی کہ مسٹر روز ویلٹ فوت ہو جائے۔ اور یہ عجیب بات تھی کہ اُس کے منہ سے ایسا لفظ نکلا جو قدرت کی طرف سے ایک دوسرے رنگ میں خواب کو پورا کرنے کا ذریعہ بننے والا تھا۔
اِسی تسلسل میں مجھے اپنا ایک رؤیا یاد آ گیا جو 1941ء کے شروع کا ہے۔ مجلس شوریٰ کے موقع پر دوسرے دن شام کو باہر سیر کرتے وقت میں نے یہ رؤیا چودھری ظفراللہ خان صاحب کو سنا دیا تھا اور اُمِّ طاہر مرحومہ کو بھی سنایا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ خواب مجھے بُھول گیا۔ ایک دن ٹہلتے ٹہلتے مجھے اس کا خیال آیا اور اس پرمیں نے سوچنا شروع کیا کہ وہ خواب کیا تھا۔ میں نے اُمِّ طاہر مرحومہ سے کہا کہ مجھے ایک خواب بُھول گیا ہے اِس وقت وہ ذہن میں نہیں آتا وہ اہم خواب تھا۔ انہوں نے کہا ایک خواب آپ نے مجھے بھی سنایا تھا وہی تو نہیں۔ پھر انہوں نے وہ خواب سنایا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ آپ نے مجھے خواب سناتے وقت یہ بتایا تھا کہ یہ خواب آپ نے چودھری ظفراللہ خانصاحب کو بھی سنایا تھا۔ وہ خواب بھی آئندہ کے حالات کی طرف اشارہ کرتا ہؤا معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ترکوں کے علاقہ میں ہوں اور ایک بڑی بھاری عمارت ہے اس میں ٹھہرا ہؤا ہوں۔ کسی نے میری دعوت کی ہے اور میں اُس دعوت میں گیا ہوں۔ جب میں دعوت سے واپس آیا تو اس وقت مَیں اکیلا ہوں۔ ساتھ والے دوست جو ہیں اُن میں سے کوئی بھی اُس وقت ساتھ معلوم نہیں ہوتا۔ عمارت جس میں ہم ٹھہرے ہوئے ہیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ صرف اُمِّ طاہر مرحومہ میرے ساتھ ہیں اور وہ اوپر کے کمرے میں سو رہی ہیں۔ جب میں اس عمارت کے پہلے کمرے میں داخل ہوا ہوں تو مجھے پیچھے سے آہٹ سنائی دی اورمجھے شبہ ہوا کہ کوئی شخص کمرے کے اندر آنا چاہتا ہے۔ میں نے روشندان میں سے باہر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ایک شخص فوجی وردی پہنے ہوئے کمرے کے اندر جھانک رہا ہے۔ میں نے کھڑکی کے پاس سے آکر باہر کی طرف جھانکا تو مجھے معلوم ہؤا کہ چند فوجی افسر باہر کھڑے آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور ان کا منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ حملہ کر کے عمارت کے اندر گھس جائیں۔ پہرے دار اور دوسرے ساتھی اُس وقت تک نہیں پہنچے ۔ میں نے جلدی جلدی اوپر چڑھنا شروع کر دیا تا کہ اُمِّ طاہر کو بیدار کر دوں۔ بہت اونچا جا کر عمارت ایسی ہے کہ ایک طرف شیڈ(Shed) سا بنا ہوا ہے اور ساتھ صحن ہے۔ وہاں اُمِّ طاہر سو رہی ہیں اور ایک بچہ ان کے پاس سو رہا ہے۔ میں نے جس وقت یہ خواب دیکھا 1940ء کی بات ہے۔ اُس وقت ہماری لڑکی امۃ الجمیل ساڑھے تین سال کی تھی تو میں نے دیکھا کہ اُمِّ طاہر وہاں سو رہی ہیں اور ان کے ساتھ ایک بچہ سو رہا ہے۔ میں نے اُمِّ طاہر کو جگانا شروع کیا لیکن وہ میرے جگانے پر جلدی نہ اٹھیں۔ میں کہتا ہوں کہ خطرہ ہے اٹھو اور بچہ کو لے لو مگر انہوں نے اٹھنے میں دیر کی تو میں نے وہ بچہ اٹھا لیا۔ اُس وقت وہ بچہ لڑکا بن گیا ممکن ہے اللہ تعالیٰ اُمِّ طاہر مرحومہ کی بچیوں یا بچوں کو مبارک لڑکا دے یا امۃ الجمیل جو لڑکے کی صورت میں دکھائی گئی ہے ممکن ہے جیسےحضرت مریم علیہا السلام کے متعلق آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ہی مردوں کے کام کی توفیق دے دے۔ بہرحال میں نے بچہ کو اٹھا لیا اور میں نے کہا لو میں بچہ لے کر چلتا ہوں تم جلدی جلدی میرے پیچھے آؤ۔ وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے مٹی ڈال کر کسی اونچی جگہ پر رستہ بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے پہاڑوں پر مکان ہوتے ہیں اور ایک منزل نیچے اور ایک اوپر ہوتی ہے اور اوپر کی منزل کےساتھ بھی گو وہ اونچی ہوتی ہے پہاڑ پر رستہ مل جاتا ہے۔ اِسی طرح اس مکان کی بھی دوسری یا تیسری منزل ہے اور وہاں سے بھی ایک سڑک نیچے کی طرف جاتی ہے۔ اُس پر میں تیز تیز چلتا ہوں اور پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا جاتا ہوں اور اُمِّ طاہر کو اشارہ کرتا چلا جاتا ہوں کہ جلدی جلدی چلو۔ دور جانے کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ جھونپڑیاں ہیں جن کی پھوس کی دیواریں اور پھوس کی چھتیں ہیں۔ وہاں ایک کٹہرے کے ساتھ جو سڑک پر بنا ہوا ہے مجھے ایک عورت نظر آئی۔ میں نے اسے کہا کہ کیا یہاں کوئی ٹھہرنے کی جگہ مل سکتی ہے؟ اُس نے کہاہاں مل سکتی ہے۔ اتنے میں اُمِ طاہر بھی قریب آگئیں اور میں نے اُس عورت سے کہا کہ بتاؤ کونسی جگہ ہے؟ وہ ہمیں گاؤں میں لےگئی۔ جیسے گاؤں میں جگہیں ہوتی ہیں کہیں اُپلے پڑے ہیں اور کہیں کوڑا کرکٹ پڑا ہے۔ ایسی جگہوں سے چلتے چلتے ایک چھوٹی سی پھوس کی دیواروں والی جھونپڑی آئی۔ وہ ہمیں وہاں لے گئی۔ کچھ لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ میں نے ان سے حالات پوچھنے شروع کئے۔ حالات پوچھتے ہوئے مذہب کی باتیں شروع ہو گئیں۔ اُس وقت میں ان سے دریافت کرتا ہوں کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟ تو ان میں سے ایک مرد پہلے تو ہچکچاتا ہے۔ اس کے بعد اُس نے کہا کہ ہم ایک نئے مذہب کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ میں نے کہا وہ کونسا فرقہ ہے؟ تو پھر وہ ایسے رنگ میں جیسے کوئی شخص خیال کرتا ہے کہ مخاطب اس کے متعلق نہیں جانتا اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ اس کو بتانا فضول ہے کہتا ہے کہ ہندوستان کا ایک فرقہ ہے۔ میں نے کہا ہندوستان کا کونسا فرقہ ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہندوستان میں ایک شخص نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے ہم اسکے مرید ہیں۔ پھر وہ کچھ خلافت کا بھی ذکر کرتاہے کہ وہاں ہمارا خلیفہ ہے۔ مجھے اس پر خواب میں خوشی ہوتی ہے اور میں اسے بتانا چاہتا ہوں کہ جس کے متعلق تم کہتے ہو وہ خلیفہ مَیں ہی ہوں۔ وہ میری بات فورًا سمجھ کر اشارہ کرتا ہے کہ آپ بولیں نہیں۔ اوراس کے بعد اُس نے الگ یا کان میں مجھے بتایا کہ ہم چند لوگ احمدی ہیں اور باقی لوگ دہریہ ہیں۔ میں پوچھتا ہوں یہ کونسا علاقہ ہے؟ تو وہ کہتا ہے یہ روس کا علاقہ ہے۔ اور کہتا ہے کہ میں مناسب نہیں سمجھتا کہ ان لوگوں کو آپ کا پتہ لگ جائے۔ اسکے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ رؤیا بھی اس امر کی خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو روس میں احمدیت کی تبلیغ کے ذرائع کھول دے۔ ممکن ہے ترکی کے علاقہ کی طرف سے یا ایران کے علاقہ کی طرف سے اللہ تعالیٰ روس میں تبلیغ اسلام کا رستہ کھول دے۔
آخرمیں مَیں اپنا ایک تازہ رؤیا جو اہم ہے اور جس کا بیان کرنا میرا اصل مقصود تھا اسے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ میں قادیان کے شمال مشرق کی طرف ہوں کچھ اور لوگ بھی میرے ساتھ ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ساتھ ہیں۔ میں نے وہاں بڑی بڑی عمارتیں دیکھی ہیں جیسے پرانے زمانہ کے محلات ہوتے تھے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ گویا پرانے زمانہ کا نقشہ میرے سامنے آگیا ہے جو ہمارے باپ دادا کے زمانہ میں تھا۔ اُس وقت جبکہ قادیان کی ریاست تباہ نہیں ہوئی تھی اور ہمارے باپ دادا برسرِاقتدار تھے وہ نقشہ میرے سامنے ہے۔ ان گھروں کے رہنے والوں کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ہمارے جدّی رشتہ دار ہیں۔ اُس وقت مجھے کسی نے بتایا کہ ان لوگوں نے ہمارے پڑدادا کو پیغام دیا ہے کہ آپ پوری طرح کفار کا مقابلہ نہیں کرتے۔ اگر یہ غفلت جاری رہی تو اس کے نتیجہ میں ریاست جاتی رہے گی اس لئے ہم خود ریاست پر قبضہ کر لیں گے تاکہ ہم دشمن کا مقابلہ کریں اور وہ ہم پر غالب نہ آجائے۔ ممکن ہے ہمارے کسی پڑدادا کے زمانہ میں جب ریاست میں کمزوری پیدا ہوئی ہو کسی رشتہ دار نے ایسا کہا بھی ہو۔ بہرحال یہ بات میں نے پرانے زمانہ کے متعلق وہاں سنی ہے۔ پھر میں وہاں سے چل پڑا۔ اُس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دشمن ہمارے نقصان کی فکر میں ہے۔ میں آگے آگے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میرے پیچھے پیچھے ہیں اور آپ کے پیچھے جماعت کے لوگ ہیں۔
یہ خواب کا نقشہ ایسا ہی ہے جیسے شیخ احمد صاحب سرہندی نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں آگے آگے ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے پیچھے ہیں۔ جب انہوں نے اپنا یہ خواب لوگوں کے سامنے بیان کیا تو جہانگیر کے پاس اُس کی شکایت ہوئی اور اس نے سرہندی صاحب کو گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا کہ یہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہتک کرتاہے۔ لیکن آخر اللہ تعالیٰ نے اُس کو توجہ دلائی اور اس نے سید صاحب سے پوچھاکہ اس خواب کا مطلب کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ جرنیل ہمیشہ بادشاہ کے آگے ہی چلا کرتا ہے۔ جو جرنیل مقرر ہوتا ہے کیا وہ بادشاہ کو لڑائی میں آگے کیا کرتا ہے یا خود آگے ہو کر لڑا کرتا ہے؟ اسی طرح مجھے خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کی حفاظت کے لئے تجھے جرنیل مقرر کیا گیا ہے۔ تو سرہندی صاحب کے خواب کی طرح میں رؤیا میں دیکھتا ہوں کہ میں آگے ہوں میرے پیچھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور آپ کے پیچھے جماعت کےا فراد ہیں۔ چلتے چلتے ایک جگہ ایسی ہے جیسے حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے مکانات ہیں۔ ان کے مکانات کے پاس سے ہم مکانات میں جانے کے لئے داخل ہوئے ہیں۔ اس جگہ سے معلوم ہوتا ہے کہ چوک تک جانے کے لئے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ کی طرف میں گیا ہوں تو وہ بند ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن نے شرارت کی وجہ سے اسے بند کیا ہے تاکہ ہمیں راستہ نہ ملے اور وہ حملہ کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ جب دیکھا کہ راستہ بند ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فکر کی آواز سے کہا کہ یہ راستہ تو بند ہے۔ اُس وقت میں نے دوسری طرف دیکھ کر کہا یہ راستہ کھلا ہے۔ وہ راستہ اس قسم کا ہے جیسے پرانے زمانہ میں مکانوں کے آگے پردہ کے لئے ایک دیوار بنائی ہوئی ہوتی تھی تاکہ باہر سے مکان کے اندر نظر نہ پڑسکے۔ خواب میں اسی طرح کی ایک دیوار ہے اور اس کے ساتھ راستہ ہے۔ میں اس میں داخل ہو کر پہلے جنوب کی طرف اور پھر مڑ کر مغرب کی طرف گیا ہوں۔ وہاں بھی دروازہ بند معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل وہ بند نہیں بلکہ کھلا ہے۔ اور جس طرح سپرنگ والا دروازہ ہوتا ہے کہ کھولیں تو کھل جاتا ہے اور چھوڑ دیں تو آپ ہی آپ بند ہو جاتا ہے اس قسم کا وہ دروازہ ہے۔ میں نے اُس کو سوٹی سے دھکّا دیا تو وہ کھل گیا۔ اس میں سے گزر کر ہم چوک میں آگئے ہیں۔ چوک میں ایک کمرہ ہے جو بہت وسیع ہے اور اس میں بیس پچیس کے قریب چارپائیاں آسکتی ہیں اور کچھ چارپائیاں وہاں بچھی ہوئی بھی ہیں۔ ان میں سے دو چارپائیاں شمالاً جنوباً بچھی ہوئی ہیں اور باقی شرقاً غرباً بچھی ہوئی ہیں۔ جو چارپائیاں شمالاً جنوباً بچھی ہوئی ہیں اُن کی پائینتی کی طرف دوسری چارپائیاں ہیں جو شرقاً غرباً بچھی ہوئی ہیں۔ ان دو میں سے ایک پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیٹھ گئے ہیں اور ایک پر مَیں بیٹھ گیا ہوں اور باقی جماعت کے افراد دوسری چارپائیوں پر بیٹھ گئے ہیں جو شرقاً غرباً بچھی ہوئی ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے چارپائی پر بیٹھ کر یا کھڑے ہو کر جہاں تک یاد پڑتا ہے کھڑے ہو کر بڑے جوش سے تقریر شروع کی۔ تقریر میں مَیں نے ایک خاص بات بتائی ہے جس کا اظہار خطبہ میں کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میں نے جماعت کے جن دوستوں کو بتانا مناسب سمجھا تھا اُن کو بُلا کر اُسی دن وہ بات بتا دی تھی۔ بہرحال میں نے ایک چیز کی طرف توجہ دلائی ہے جو جماعت کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور بار بار میں اُس کی اہمیت بیان کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اگر تم یہ کام نہیں کرو گے تو احمدیت کو نقصان پہنچے گا اور آئندہ اس نقصان کا مٹانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ دیکھو سب کے سب لوگ اس مقصد کو اپنے سامنے رکھ لو اور اس کو سامنے رکھ کر کام کرو۔ اُس وقت میں جوش میں آکر یہ آیت پڑھتا ہوں کہ دیکھو خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ 1 کہ اس مقصد کو سامنے رکھ کر تم جدھر بھی منہ کرو گے وہیں اللہ تعالیٰ کا چہرہ ہو گا۔ اُس وقت میں نے اس آیت کی ایک ایسی تفسیر بیا ن کی جو جاگتے ہوئے کبھی میرے ذہن میں نہیں آئی۔ میں نے اس آیت کو پڑھنے کے بعد اسے دہرانا شروع کیا اور تُوَلُّوْا کے لفظ پر زور دیا اور جماعت کو توجہ دلائی کہ دیکھو تُوَلُّوْا جمع کا لفظ ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مسلمانو! تم بحیثیت جماعت جدھر بھی پھرو گے اُدھر ہی اللہ تعالیٰ کا منہ ہو گا۔ اور میں کہتا ہوں دیکھو فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر جماعت کا مقصد ایک ہو تو اس ایک مقصد کو سامنے رکھ کر پھر خواہ اس کے افراد مختلف جہات کی طرف جائیں اِن میں تفرقہ پیدا نہیں ہو گا بلکہ وہ بحیثیت قوم کام کرنے والے ہوں گے۔ اور اگر کسی مقصد کے بغیر جماعت ایک طرف بھی چلے تب بھی وہ پراگندہ اور متفرق ہوں گے کیونکہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں۔ جیسے ہمارے جلسہ سالانہ کے موقع پر کسیر جمع کرتے ہیں اب اگر کسیر جمع کرنے کے لئے کوئی مشرق کی طرف چلا جائے اور کوئی مغرب کی طرف چلا جائے اور کوئی شمال کی طرف چلا جائے اور کوئی جنوب کی طرف چلا جائے تو باوجود مختلف جہات کی طرف جانے کے یہ متفرق نہیں ہوں گے بلکہ ایک ہی ہوں گے کیونکہ گو ان کی جہات مختلف ہیں مگر مقصد ایک ہی ہے۔ اور اس متحدہ مقصد کے لئے بظاہر مختلف جہات میں کام کر رہے ہیں مگر خدا کے نزدیک وہ سب ایک ہی ہیں۔ لیکن اگر وہی دس پندرہ یا بیس آدمی اکٹھے مشرق کی طرف جا رہے ہوں مگر ان کے سامنے کوئی بھی مقصد نہ ہو اور کچھ بھی ذہن میں نہ ہو کہ کہاں کیوں اور کس کام کے لئے جا رہے ہیں تو بظاہروہ اکٹھے نظر آئیں گے لیکن حقیقت میں وہ پراگندہ اور متفرق ہوں گے کیونکہ ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں۔ تو مَیں خواب میں کہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ تم سب کا ایک جہت میں جانا ہی ضروری ہے بلکہ اگر تم مختلف جہات کی طرف ایک ہی مقصد لے کر جاؤ گے تو خداتعالیٰ کے نزدیک تم اکٹھے ہی سمجھے جاؤ گے اور خداتعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا اور تمہیں اپنا چہرہ دکھا دے گا۔ پھر مَیں اس کا م کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہوں کہ یہ کام بظاہر دنیوی نظر آتا ہے لیکن یہ دنیوی نہیں۔ جو بھی اس کا م کو کرے گا جس طرف بھی وہ پھرے گا اور جس جہت کو بھی وہ نکلے گا وہاں وہ خداتعالیٰ کا چہرہ دیکھ لے گا اور خداتعالیٰ اپنے آپ کو اُس پر ظاہر کر دے گا۔ جب میں یہ تفسیر بیان کر رہا ہوں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ خوشی سے چمک رہا ہے۔ اس کے بعد میں بیٹھ گیا اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ میں لیٹ گیا اور میں نے کہا کہ اب دوست چلے جائیں۔ جب میں نے کہا کہ اب دوست چلے جائیں تو کچھ دوست جلدی سے اٹھ کر چل پڑے اور کچھ آہستہ آہستہ اٹھنے لگے اور کچھ بیٹھے رہے۔ اس موقع پر ایک نوجوان کھڑا ہؤا اچھی طرح معلوم نہیں کہ کون ہے یا ناصر احمد ہے یا میر محمد اسحاق صاحب مرحوم ہیں جو اٹھ کر لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ جب کہا گیا ہے کہ چلے جاؤ تو پھر تم کیوں نہیں جاتے؟ اور جو بیٹھے ہیں ان کو اٹھار ہے ہیں۔ اُس وقت میری چارپائی پر دائیں طرف ایک نوجوان بیٹھا ہے جو رشتہ دار معلوم ہوتاہے۔ غالباً دامادوں میں سے کوئی ہے۔ رشتہ پوری طرح ذہن میں نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے گھر کا کوئی فرد ہے۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بات کو دیکھ کر کہ لوگوں نے پوری طرح میری فرمانبرداری نہیں کی چارپائی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اُس نوجوان کے پاس آکر اور اُس کا بازو پکڑکرفرمایا کہ جانا ہے تو جاؤاور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا۔ اُس وقت میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ خیال نہیں کہ اُس نے نافرمانی کی ہے بلکہ آپ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ تعلق کی وجہ سے سمجھتا ہے کہ میرا پاس رہنا ضروری ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھتے ہیں کہ اگریہ بغیر استثناء کے بیٹھا رہا تو دوسرے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ حکم کا ماننا ضروری نہیں تو آپ یہ بتانے کے لئے اور یہ احساس پیدا کرانے کے لئے کہ حکم کی پوری فرمانبرداری کرنی چاہیے اور اس وسوسہ کو دور کرنے کے لئے جو اُس نوجوان کے بیٹھنے سے لوگوں کےد لوں میں پیدا ہو سکتا ہے اُس نوجوان سے فرماتے ہیں کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا۔ دوسرے میرا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اس نوجوان نے بیٹھنا ہو اور نکالنے والے اس کو باہر نکال دیں اور اس کی ہتک ہو۔ تو یہ دونوں باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقصود تھیں کہ نکالنے والے اس کو نکالیں نہیں اور اس کے بیٹھے رہنے کی وجہ سے کسی کو ٹھوکربھی نہ لگے۔ اور یہ نہ سمجھا جائے کہ حکم کا ماننا ضروری نہیں کیونکہ یہ نوجوان حکم کے باوجود بیٹھا ہے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ فرمایا کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا اُس وقت میری آنکھ کھل گئی۔
اس رؤیا میں ایک اہم بات وہ ہے جس کو میں نے ظاہر نہیں کیا۔ وہ بات سلسلہ کی ترقی کےساتھ تعلق رکھتی ہے۔ میں نے اُس کو اِس لئے ظاہر نہیں کیا کہ اگر ایسی باتیں ظاہر کر دی جائیں تو پھر دشمن بھی مقابلہ میں تیاری شروع کر دیتا ہے اور پھر وہ مقصد حل تو ہو جاتا ہے مگر دقتیں پیش آ جاتی ہیں۔ اس لئے بعض لوگوں کو جن کو بتانا میں نے مناسب سمجھا یا جو اس کام کے اہل تھے اُن کو بلا کر وہ بات میں نے بتا دی تھی۔ بعض اَور لوگ جو میرے نزدیک اس کام کے اہل ہوں گے اُن کو بھی بتا دوں گا۔ گو وہ بات تو معمولی ہے کوئی خاص بات نہیں مگر بہرحال وہ ایسی ہے کہ اگر دشمن کو اُس کا پتہ لگ جائے تو وہ ہمارے کام میں روڑے اٹکا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس بات کے علاوہ بھی اس رؤیا میں بڑے بڑے اہم معاملات بتائے گئے ہیں۔
ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ میرے پیچھے چل رہے ہیں۔ جس میں خداتعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اِس زمانہ میں خداتعالیٰ نے احمدیت کی ترقی کو میرے ساتھ وابستہ کر دیا ہے۔ گو یا جدھرمیں ہوں گااُدھر ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوں گے اور اُدھر ہی خداتعالیٰ ہو گا۔
دوسرے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے کہنے پر کہ اب دوست چلے جائیں اور جب بعض لوگوں نےسستی دکھائی تو اس پر آپ کا جوش میں آجانا کہ لوگوں نے کیوں فرمانبرداری نہیں کی اور اس جوش میں چارپائی سے اٹھ کر اُس نوجوان کے بازو کو پکڑ کر کہنا کہ جانا ہے تو جاؤ اور اگر نہیں جانا تو کہہ دو کہ میں نے نہیں جانا بتاتا ہے کہ امام کے چھوٹے سے چھوٹے حکم کو ماننا بھی ضروری ہے اور جو لوگ اس حکم کو ماننے سے انکار کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتے ہیں۔
تیسرے اس رؤیا میں اللہ تعالیٰ نے اَيْنَمَا تُوَلُّوْا کے ماتحت اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جماعت کو چاہیے کہ ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کام کرے۔ اگر جماعت ہمیشہ ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کام کرے گی تو خداتعالیٰ ہماری جماعت کو اپنا چہرہ دکھانے میں بخل نہیں کرے گا۔ لوگ ساری ساری عمر وظیفے کرنے میں گزار دیتے ہیں اور ساری عمر اندھے ہی رہتے ہیں اور اندھے ہی مر جاتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ اگر جماعت ایک مقصد کو سامنے رکھ کر چلے گی اور دین کی ترقی اور شوکت کے لئے کوشش کرے گی تو جدھر بھی وہ منہ کرے گی اور جہاں بھی جائے گی جب یہ وہاں پہنچے گی تو دیکھے گی کہ اللہ تعالیٰ اس کے انتظار میں پہلے سے وہاں کھڑا ہے۔
پس اس رؤیا میں بشارتوں والی کئی شِقیں ہیں۔ خداتعالیٰ ہماری جماعت کو اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جن لوگوں پر میں نے اس بات کا اظہار کیا ہے خداتعالیٰ اُن کو توفیق دے کہ وہ اپنا فرض سمجھیں۔ اور دوسرے حصہ کو بھی جس پر میں نے یہ بات ظاہر نہیں کی عمدگی سےاس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ اور بار بار اور ہر جگہ پر عمدگی سے اپنی چہرہ نمائی فرمائے تاکہ ہم اگلے جہان میں اُس کا چہرہ دیکھنے کے انتظار میں نہ رہیں بلکہ اِسی دنیا میں ہمیں اُس کا چہرہ نظر آجائے۔ آمین۔ ’’ (الفضل مورخہ 7 مئی 1945ء)
1: البقرۃ:116
15
آئندہ نسلوں میں قربانی، محنت، اور بروقت کام کرنے کی روح کس طرح پیدا کی جائے
(فرمودہ 4مئی 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘تین دن کی بات ہے ڈلہوزی میں مَیں نے ایک رؤیا دیکھا کہ کوئی شخص ماریسن نامی انگریز ہیں وہ کہتے ہیں کہ چالیس سال کے عرصہ تک کانگڑہ کے ضلع میں میرے جیسا اور عقلمند آدمی پیدا نہیں ہوگا یا شاید یہ کہا ہے کہ پایانہیں جائے گا۔ میں اُس وقت رؤیا میں سمجھتا ہوں کہ ماریسن سے وہ وزیر مراد ہے جو لیبر پارٹی کی طرف سے وزارت میں شامل ہیں۔ یہ فقرہ سن کر میرے دل میں فوراً یہ بات گزری کہ ‘‘انشاء اللہ’’ انہوں نے نہیں کہا۔ اگر یہ ‘‘انشاء اللہ’’ کہہ لیتے تو اچھا تھا۔ پھر ساتھ ہی میرے دل میں یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کانگڑے کے ساتھ ان کا کیا تعلق ہے۔ کانگڑہ ہندوستان کا علاقہ ہے اور یہ انگلستان کے رہنے والے ہیں۔ اس سوال کے پیدا ہوتے ہی میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ کانگڑے کا لفظ استعارۃً انگلستان کے لئے بولا گیا ہے۔ اور کانگڑے میں چونکہ آتش فشاں پہاڑ ہیں اس لفظ میں انگلستان کی آئندہ حالت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ انگلستان میں بھی بہت کچھ ردّ و بدل اور اُتار چڑھاؤ کا زمانہ آرہا ہے اور جس طرح آتش فشاں علاقے میں زلزلے آتے رہتے ہیں اِسی طرح انگلستان میں بھی سیاسی اور اقتصادی اُتار چڑھاؤ رونما ہونے والے ہیں۔ اور مسٹر ماریسن کے قول کا مطلب یہ معلوم ہوتاہے کہ ایسے تغیرات اور فساد کے وقت مَیں سب سے اچھا کام کرنے والا ثابت ہوں گا۔
اس رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ جو بظاہر اب ختم ہو رہی ہے اس کو ختم نہیں سمجھنا چاہیے۔ بلکہ اس جنگ کے نتائج میں بعض اَور ایسی باتیں پیدا ہونے والی ہیں جن کی وجہ سے شورش اور جھگڑے، اختلافات اور مناقشات کا سلسلہ جاری ہو جائے گا۔ اور نہ صرف یہ کہ یہ جھگڑے اور فسادات جیسا کہ پہلی بعض رؤیا میں بتایا جا چکا ہے انگلستان سے باہر رونما ہوں گے بلکہ خود انگلستان میں بھی مناقشات اور اختلافات کا دروازہ زیادہ وسیع ہو جائے گا۔ اور انگلستان کانگڑے کے علاقہ کی طرح ایک آتش فشاں مادہ رکھنے والا ملک ثابت ہوگا۔ مگر ساتھ ہی اِس میں اِس بات کی خبر معلوم ہوتی ہے کہ انگلستان ان جھگڑوں اور فسادات کے نتیجہ میں تباہ نہیں ہو گا کیونکہ رؤیا میں ایک شخص کی زبانی یہ کہا گیا ہے کہ میرے جیسا دانا اور سمجھ دار آدمی اتنے سالوں میں کوئی نہیں ہو گا۔ ایسا فقرہ وہی کہا کرتاہے جو ان مناقشات اور فسادات کو کم کرنے یا دور کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ لیبر پارٹی کی وجہ سے جن خطرات کا امکان پایا جاتا ہے وہ خطرات مسٹر ماریسن کے اثر کے نتیجہ میں دور ہو جائیں یا کم ہو جائیں یا ممکن ہے کہ مسٹر ماریسن اپنی پارٹی کو بدل کر کسی اَور پارٹی میں شامل ہو جائیں اور ان کو ایسا کام کرنے کا موقع مل جائے۔ بعض دفعہ ناموں کی تعبیر بھی ہوتی ہے۔ ممکن ہے اس نام کی بھی تعبیر ہو۔ مجھے اِس وقت اِس نام کے معنے معلوم نہیں۔ اور اگر ظاہر مراد ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ مسٹر ماریسن کو کوئی بڑا کام کرنے کا موقع ملے گا۔
میں اس سے پہلے مسٹر ماریسن کے متعلق ذاتی طور پر کوئی واقفیت نہیں رکھتا۔ مجھے ان کے متعلق بہت ہی کم ذاتی واقفیت ہے جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن اخباری لحاظ سے بھی مسٹر ماریسن کے متعلق کوئی ایسی معلومات حاصل نہیں جن کی وجہ سے ان سے کوئی لگاؤ ہو۔ بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ خوابیں دماغی خیالات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اگر ایسا ہوتاتو میری خواب میں ان لوگوں میں سے کسی کا نام آنا چاہیے تھا جن کےسا تھ ہمارے ذاتی تعلقات رہے ہیں یا جو سیاسی لحا ظ سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں یا جن سے ہماری جماعت کو کام پڑے ہیں۔ اگر اس بناء پر کوئی نام آتا تو سیاسی لحاظ سے مسٹر چرچل(Mr.Churchill)کا نام آنا چاہیے تھا یا ہندوستان کے تعلقات کے لحاظ سے مسٹر ایمری کا نام آنا چاہیے تھا۔ یا پرانے تعلقات کے لحاظ سے ارل ونٹرسن، سرٹیلر Sir Taylor) (یا لارڈ ہیلی فیکس(Lord Halifax) کا نام آنا چاہئے تھا۔ یا کشمیر کے معاملہ کے وقت کے میل جول کے لحاظ سے لارڈ ٹسپٹن کا نام آنا چاہئے تھا جو پہلے سموئیل ہوم(Samuel Holme) کہلاتے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے بعض کے ساتھ ہمارے تعلقات جماعتی طور پر رہے ہیں اور ہم نے ان سے کوئی کام لیا ہے۔ اور بعض وہ ہیں جن سے چودھری ظفراللہ خان صاحب کو ملنے کا موقع ملا ہے۔ یا بعض لوگ ایسے ہیں جن سے براہِ راست ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن سیاسی لحاظ سے وہ انگلستان کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں۔
پس یہ الٰہی خواب ہونے کا ایک نشان اور ثبوت ہے کہ ایسے شخص کے متعلق خبر دی گئی ہے جن کے ساتھ گزشتہ زمانہ میں ہمارا کوئی تعلق نہیں رہا اور عقل باور نہیں کر سکتی کہ ایسے شخص کو چننے کی دماغ کوئی خاص مناسبت رکھتا تھا۔ دماغ تو ایسے ہی آدمیوں کو چُن سکتا ہے جن کے ساتھ سابق میں کوئی تعلق رہا ہو۔ لیکن ایسا شخص جس کے ساتھ نہ ہمارے دوستوں کا کوئی تعلق ہے نہ ہی ہمارا اس سے کوئی واسطہ ہے اور نہ ہی اس نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس کی وجہ سے وہ نمایاں حیثیت سے آگے آیا ہو اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔ اس کا نام بتایا جانا اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ یہ خواب دماغی نہیں بلکہ خدائی ہے۔
اِس کے بعد میں آج کے خطبہ کا مضمون لیتا ہوں۔ میں نے بار بار جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ قومیں اگلی نسل سے بنا کرتی ہیں کوئی قوم اپنی زندگی کا اعتبار نہیں کر سکتی۔ اگر اس کی اگلی نسل کارآمد، نیک اور محنتی نہ ہو۔ جب کبھی قوم پر زوال آتا ہے تو آئندہ نسلوں سے آتا ہے اور جب بھی ترقی ہوتی ہے تو وہ بھی آئندہ نسلوں سے ہوتی ہے۔ دوام بخشنے والی چیز اولاد ہی ہے۔ اگر اولاد انسان کو حاصل ہوتی ہے تو اُس خاندان کا نام رہتا ہے اور اگر اچھی اولاد حاصل ہوتی ہے تو اس کے مذہب اور اس کی قوم کا نام رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو انسان کے اندر اولاد کی خواہش رکھی ہے یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو دوام بخشنا چاہتا ہے۔ ہر ماں اور ہر باپ ایک لڑکے یا لڑکی کی جستجو میں رہتے ہیں۔ جن گھروں میں اولاد نہیں ہوتی باپ بھی اور مائیں بھی سخت غمزدہ ہوتی ہیں۔ کبھی طبیبوں سے علاج کراتے ہیں، کبھی دائیوں سے
مشورے لیتے ہیں، کبھی دعائیں کرتے اور دعائیں کراتے ہیں کہ ہمارے ہاں اولاد نہیں،اولاد ہو جائے۔ حالانکہ اولاد کیا فائدہ پہنچاتی ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ ہزاروں ہزار انسان دنیا میں ایسے ہیں پچاس ساٹھ یا ستر فیصدی نہیں بلکہ نوے فیصدی لوگ ایسےہیں جنہوں نے اپنی اولاد سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اگر تو نوے فیصدی لوگ ایسے ہوتے کہ ان کی اولاد انہیں فائدہ پہنچاتی اور اُن کی خبر گیری کرتی تو ہم سمجھتے کہ اولاد کی خواہش انسان کے اندر اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اولاد سے فائدہ اٹھائے مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ اِدھر اولاد جوان ہوتی ہے اور اُدھر وہ اپنے بیوی بچوں کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے۔ سینکڑوں بوڑھے میرے ذاتی علم میں ایسے ہیں جو اس بات کے محتاج تھے کہ اُن کی خبر گیری کی جاتی مگر اُن کے لڑکوں یا لڑکیوں نے اُن کی طرف توجہ نہیں کی۔ کیونکہ وہ لڑکیاں اپنےخاوندوں یا لڑکے اپنی بیویوں کے چونچلوں میں مشغول ہوگئے۔ یہ نظارہ عام طور پر دنیا میں نظر آتا ہے کہ گھروں میں ماں باپ کی قدر نہیں کی جاتی۔ گو بعض قدر کرنے والے بھی ہوتے ہیں مگر وہ خدمت سے قاصر رہتے ہیں اِدھر وہ جوان ہوئے اور اُدھر اُن کے ماں باپ دنیا سے چل بسے تو جب بالعموم یہ با ت دنیا میں نظر آتی ہے تو ان حالات میں یہ شدید خواہش جو انسان کے دل میں اولاد کے متعلق پائی جاتی ہے وہ دماغی تأثرات کا نتیجہ نہیں قرار پا سکتی۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض طبعی خواہش ہے۔ عقلی خواہش کی بنیاد ہمیشہ دلیل اور تجربہ پر ہوتی ہے لیکن طبعی خواہش کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں ہوتی۔ پس جب دنیا میں اِس بات کی کوئی دلیل نظر نہیں آتی تو معلوم ہؤا کہ یہ طبعی خواہش ہے جو خداتعالیٰ نے بنی نوع انسان میں تسلسل قائم رکھنے کے لئے رکھی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں کہ اولاد سے نام قائم رہتا ہے مگر نام کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو کہاں قائم رہتا ہے؟ کوئی پوچھے کہ تمہارے پڑدادا کا نام کیا ہے؟ تو لوگ کہہ دیتےہیں پتہ نہیں حالانکہ پڑدادا قریب کی چیزہے۔ پڑدادا کے معنے ہیں باپ کا دادا۔ تو دنیا میں ہزاروں لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو اپنےپڑدادا کا نام نہیں جانتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اِس مسجد کے دروازہ پر کھڑا ہو جائے اور وہ ہر گزرنے والے سے پوچھے کہ تمہارے پڑدادا کا کیا نام ہے؟ تو
مجھے یقین ہےکہ پچاس فیصدی لوگ یہ کہیں گے کہ ہمیں پتہ نہیں۔٭ جب اتنی جلدی لوگ اپنے باپ دادوں کا نام بھول جاتے ہیں تو پھر اس دلیل کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے کہ اولاد ہو گی تو ہمارا نام قائم رہے گا۔ نام کہاں قائم رہتا ہے؟ کتنے لوگوں کی اولاد ہے جو اپنے ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کا ذکر کرتی ہے؟ ان لوگوں کو دیکھ لو جن کے والدین فوت ہو چکے ہیں اور سوچو تو سہی کہ وہ کتنی دفعہ اپنے ماں باپ کا ذکر خیر کرتے ہیں؟ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے والدین کو یاد رکھتے ہیں۔ تحریک جدید سے اِس بات کا پتہ لگ جاتا ہے۔ تحریک جدید میں حصہ لینے والوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہے۔مگر یہ لوگ دس فیصدی بھی نہیں بلکہ پانچ فیصدی بھی نہیں۔ پانچ فیصدی کے حساب سے پانچ ہزار میں سے اڑھائی سو بنتے ہیں۔ مگر میرے خیال میں تو اڑھائی سوبھی ایسے نہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہو۔ ٭٭ تو ماں باپ کا تعلق بالکل قریب کا تعلق ہے مگر لوگ ان کو بھی یاد نہیں رکھتے۔ ماں باپ کس طرح تکلیف اٹھا کر اور اپنی ضرورت کو پیچھے ڈال ڈال کر بچوں کی پرورش کرتے اور ان کو پڑھاتے لکھاتے ہیں۔ لیکن وہی بچے جب بڑے ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے والدین پر ایک پیسہ خرچ کرنے میں بھی دریغ محسوس کرتے ہیں۔ میرے پاس کئی ایسے جھگڑے آتے ہیں اور ماں باپ آکر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہم ضعیف ہو گئے ہیں اور ہمارے لڑکے ہماری خدمت نہیں کرتے۔ جب لڑکوں سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں تنخواہ تھوڑی ہے دو اڑھائی سو روپیہ تو ملتا ہے مشکل سے اپنا گزارہ ہوتا ہے ا ن کی خدمت کہاں سے کریں؟ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے باپ کا گزارہ ان سے بھی کم تھا لیکن اِس کے باوجود ان پر خرچ کرتے تھے۔ غرض ہر نسل کی نظر آگے کی طرف جارہی ہے جس سےپتہ لگتا
٭جب میں خطبہ کے بعد گھر آیا تو مجھے ایک خاتون نے بتایا کہ ہم پانچ عورتیں اکٹھی بیٹھی ہوئی تھیں۔ خطبہ کے بعد ہم نے ایک دوسرے سے اس کے پڑدادا کا نام پوچھا تو پانچ میں سے صرف ایک کو پڑدادا کا نام معلوم تھا۔
٭ ٭ بعد میں اندازہ لگوایا گیا تو وہ لوگ جنہوں نے ماں باپ کی طرف سے حصہ لیا ہے صرف دو سو کے قریب ہیں۔
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر اولاد کی خواہش کا مادہ اِس لئے رکھا ہے تاکہ بنی نوع انسان کے تسلسل کو جاری رکھے اگر یہ خواہش نہ ہوتی تو دنیا کے واقعات کو دیکھ کر اکثر ماں باپ اولاد پیدا کرنے کے مخالف ہوتے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ماں باپ مصیبتیں اٹھاتے ہیں، دکھ سہتے ہیں، بھوکے رہتے ہیں، بچہ جننے کی وجہ سے ماؤں کو ہزاروں قسم کی بیماریاں لگ جاتی ہیں پھر بھی ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ہو جائیں۔ حالانکہ بچوں سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا سوائے نیک اور وفا شعار اولاد کے۔ پھر بھی چھ چھ سات سات بچے ہونے پر بھی اگر درمیان میں وقفہ پڑ جائے تو عورتیں کہتی ہیں مدت سے بچہ نہیں ہوا ایک بچہ اَور ہو جائے۔ ساری عمر عورت کا خون اولاد کے پیدا کرنے میں بہتا چلا جاتا ہے مگر وہ پروا نہیں کرتی۔ کئی عورتیں منہ سے تو کہتی ہیں کہ ہمیں اولاد کی خواہش نہیں مگر ان کی باتوں سے عیاں ہو جاتا ہے کہ وہ صرف شرم و حیا کی وجہ سےا یسا کہہ رہی ہیں ورنہ اُن کا دل اولاد نہ ہونے کی وجہ سے زخمی ہوتا ہے۔
پس اولاد کی خواہش ایک طبعی خواہش ہے اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ اس کے پیچھے جو جذبہ خداتعالیٰ نے رکھا ہے وہ یہی ہے کہ نسلِ انسانی قائم رہے۔ گو انسان اس کو شکل یہ دیتا ہے کہ نام قائم رہے۔ گو نام بھی کچھ مدت تک قائم رہتا ہے۔ باپ کا نام بیٹے نے یاد رکھا یا دادا کا نام پوتے نے یاد رکھا۔ اور بعض خاندانوں میں چار چار پانچ پانچ پُشت تک بھی نام قائم رہتا ہے۔ لیکن بعض جگہ نام بالکل قائم نہیں رہتا۔ بیٹے باپ کا نام لینا اور یہ کہنا کہ ہمارے باپ کا یہ نام تھا پسند نہیں کرتے بلکہ وہ جگہیں چھوڑ دیتے ہیں جہاں ان کے باپ نے غربت میں زندگی گزاری ہو کیونکہ اُس جگہ رہنا وہ ہتک سمجھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی ہندو کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اُس نے مصیبت اٹھا کر اور تکلیف برداشت کر کے اپنے لڑکے کو پڑھایا لکھایا اور اسے گریجوایٹ کرایا۔ اُس وقت گریجوایٹ ہونا بھی بڑی بات تھی اس لئے وہ ای۔اے۔سی ہو گیا۔ باپ اِس بات کو سن کر کہ میرا لڑکا ڈپٹی ہو گیا ہے بہت خوش ہؤا۔ اُس وقت بڑے سے بڑا درجہ یہی سمجھا جاتا تھا کہ کوئی ہندوستانی ای۔ اے۔سی ہو جائے۔ اُس وقت اسے گورنری کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے وہ بڑے شوق سے اپنے بیٹے سے ملنے کے لئے گیا کہ ذرا میں بھی جا کر اس کی عزت میں شریک ہوں۔ اور میں بھی لوگوں سے سلام کراؤں کہ میرا بیٹا ڈپٹی ہے۔ جب یہ وہاں پہنچا تو ڈپٹی صاحب کرسیاں بچھا کر بیٹھے ہوئے تھے اور اس کے دوست ای۔اے۔سی۔ تحصیلدار، رؤساء اس کے پاس بیٹھے تھے۔ وہ تمام سُوٹڈ بُوٹڈ اور عمدہ لباس میں تھے۔ یہ بھی اپنی دھوتی اور جنیوُّ 1پہنے ایک کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔ اس کے لباس سے غربت ٹپکتی تھی۔ پہلے بھی غریب تھا پھر لڑکےکی تعلیم اور پڑھانے لکھانے پر جو کچھ تھا وہ سب خرچ ہو چکا تھا اب اُس کا سارا اثاثہ دھوتی اور جنیوُّ ہی رہ گیا تھا۔ یہ بڑے فخر سے جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اول تو اسے امید تھی کہ میر ابیٹا آگے آکر گلے ملے گا جیسا پہلے ملا کرتا تھا۔ مگر بیٹے نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اب تو اِس بات میں کچھ کمی آگئی ہے مگرپہلے زمانہ میں چونکہ ہندوستانیوں کو اعزاز بہت کم ملتا تھا اس لئے ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو بہت حقیر سمجھتے تھے۔ چنانچہ اس مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے بھی ایک شخص کو جو اِس قسم کا گندا لباس، میلی سی دھوتی اور جنیوُّ لٹکائے ہوئے تھا کُرسی پر بیٹھے دیکھا تو اس امر کو بُرا منایا اور حقارت سے کہنے لگے کہ یہ کون بدتہذیب ہے جوبایں ہیئت ہماری مجلس میں آبیٹھا ہے؟ اس نالائق بیٹے نے بھی اپنی عزت جتانے کے لئے جسے وہ عزت سمجھتا تھا کہا ‘‘ایہہ ساڈے گھر دے ٹہلئے نے’’ یعنی ہمارا پرانا نوکرہے اس لئے گستاخ ہو گیا ہے۔ باپ نے سنا اور حقیقت سمجھ لی کہ میرے بیٹے کے دماغ میں تغیر آچکا ہے۔ وہ غصہ سے کھڑا ہو گیا اور ان لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا۔ کہ ‘‘جی میں اینہا دا ٹہلیا نہیں اینہا دی ماں دا ٹہلیا ہاں’’ یعنی میں ان کا نوکر نہیں ان کی ماں کا نوکر ہوں۔ اس فقرہ سے وہ لوگ حقیقت سمجھ گئے۔ ان کے اندر کچھ حیا تھی وہ اس کے بیٹے کو ملامت کرنے لگے اور کہا کہ بڑا افسوس ہے آپ کو چاہیے تھا کہ آپ ہمیں اِن سے ملواتے اور ان سے انٹروڈیوس کراتے۔ لاعلمی میں اِن کی شان میں ہم سے ایسےالفاظ نکل گئے جو نامناسب تھے۔ تو ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے ماں باپ کی کمزوری اور اُن کی ادنیٰ حالت کو دیکھ کر اپنی جگہیں چھوڑ دیتے ہیں، ملک بدل لیتے ہیں،و طن جانا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ پتہ نہ لگ سکے کہ ان کے ماں باپ غریب تھے اور تاکہ وہ غریب والدین کی اولاد ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں ذلیل نہ ہو جائیں۔ پس دونوں قسم کے گروہ پائے جاتے ہیں۔ اور جو گروہ ماں باپ کا نام قائم رکھنے والا ہے وہ بھی لمبے عرصہ تک نام قائم نہیں رکھ سکتا۔ اگر ماں باپ کا نام لمبے عرصہ تک قائم رکھنا ممکن ہوتا تو ہمارے ملک میں میراثیوں کو جو شجرۂ نسب یا د کرایا جاتا ہے یہ نہ کرایا جاتا۔ کسی نے شعر کہا ہے
عجب طرح کی ہوئی فراغت جو بار اپنا گدھوں پہ ڈالا
تو جس طرح گدھوں پر بوجھ ڈال کر فراغت حاصل کی جاتی ہے یہ بھی اسی طرح کی فراغت ہے کہ میراثیوں کو اپنے باپ دادوں کے نام یاد کرا دیئے جاتے ہیں اور کہہ دیا جاتا ہے کہ چلو چھٹی ہوئی اب باپ دادا کا نام یاد رکھنے کی زحمت سے آزادی حاصل ہو گئی ہے۔ پس انسان کے اندر اولاد کی خواہش پیدا کرنے میں اصل حکمت یہ نہیں کہ باپ دادا کا نام قائم رکھا جائے بلکہ اصل میں تو خداتعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ بنی نوع انسان کے تسلسل کو اس حکمت کے ماتحت قائم رکھا جائےاور اس حکمت کے ماتحت اُس نے ماؤں اور باپوں کےدلوں میں اولاد کی خواہش پیدا کر دی ہے۔ اور سب مرد اور سب عورت اِلَّا مَا شَاءَ اللہُجس کی فطرت مسخ ہو چکی ہو یا جو اپنی قوتِ مردمی کھو چکا ہو اس خواہش کے ماتحت ہی اولاد پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہوتا، فاقے کررہے ہوتے ہیں مگر پھر بھی قبروں پر جا کر منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ اولاد ہو جائے۔ بھلا کوئی پوچھے ایک روٹی میں تم گزارہ کرتے ہو اگر ایک اَور آگیا تو تم نصف کھاؤ گے۔ اگر ان کو یہ سمجھاؤ تو کہتے ہیں ہاں جی ہم آدھی ہی کھا لیں گے مگربچہ ہو جائے۔
تو یہ انسانی فطرت کا ایک تقاضا ہے او رنسلِ انسانی کے قائم رکھنے کے لئے خدا نے اولاد کی خواہش پید اکر دی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دین اور تقویٰ کو قائم رکھنے کے لئے اچھی نسل کا تقاضا ہوتا ہے۔ جس طرح نسلِ انسانی کے قائم رکھنے کے لئے اولاد کا تقاضا ہوتا ہے۔ اِسی طرح نیک اور متقی نسل قائم رکھنے کے لئے اچھی اولاد کا تقاضا ہوتا ہے۔ جس طرح وہ تقاضا اگر ماں باپ کے دماغوں میں کمزور ہو جائے تو نوع انسانی تباہ ہوجائے اِسی طرح اگر یہ تقاضا کمزور ہو جائے کہ دین اور تقویٰ کو قائم رکھنے کے لئے نیک اولاد پیدا کریں جو کام کرنے والی اور محنتی ہو تو قوم تباہ ہو جائے۔ ذرا ایک منٹ کے لئے اس بات کا خیال کر کے تو دیکھو کہ اگر عورتوں اور مردوں کے دل سے اولاد پیدا کرنے کی خواہش مٹ جائے تو کیا نسلِ انسانی مٹ نہ جائےگی؟ اور دس پندرہ یا بیس سال کے اندر نئی اولاد کا ملنا مشکل ہو جائے گا کہ نہیں ؟اِسی طرح سوچ لو کہ اگر نیک اور محنتی نسل پیدا کرنے کی خواہش مٹ جائے تو پندرہ بیس سال تک مذہب تباہ ہو جائے گا۔ کیونکہ جب نیک نسل پیدا کرنے کی خواہش نہ ہو گی تو وہ تدابیر بھی اختیار نہیں کی جائیں گی جن سے آئندہ نسل نیک،متقی، دیندار اور محنتی ہو۔ جس طرح محض اولاد پیدا کرنے کے لئے لوگ دعائیں کرتے اور دعائیں کراتے ہیں اور وہمی لوگ تو ٹونے ٹوٹکے کرتے ہیں، قبروں پر جاتے ہیں، چڑھاوے چڑھاتےہیں۔ اسی طرح ایک مذہبی انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر اچھی نسل پیدا کرنے کی خواہش ہو۔ اور وہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایسے ذرائع استعمال کرے جن سے اولاد نیک، متقی، دیندار اور محنتی ہو۔
میں نے بارہا جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ سلسلہ اچھے نام کے ساتھ اور حقیقی معنوں میں قائم رہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو ایک متقی اور محنتی بنائیں۔ آج دنیا میں مسلمان کہلانے والے بھی موجود ہیں، عیسائی کہلانے والے بھی موجود ہیں، ہندو کہلانے والے بھی موجود ہیں۔ آخر یہ سب مذاہب شیطان کی طرف سے تو نہیں تھے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی کرشنؑ کو بھیجا تھا اللہ تعالیٰ نے ہی رامچندرؑ کو بھیجا تھا، اللہ تعالیٰ نے ہی حضرت مسیحؑ کو بھیجا تھا۔ یہ نہیں کہ چونکہ ان کو نَعُوْذُ بِاللہِشیطان نے بھیجا تھا اس لئے ان کی قومیں شیطان کے قبضہ میں چلی گئیں۔ بلکہ جس خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اُسی خدا نے آپ کے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ اُسی خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت عیسیٰ ؑ کو بھیجا۔ اُسی خدا نے حضرت موسیٰ ؑ کو بھیجا۔ اُسی خدا نے حضرت کرشنؑ کو بھیجا اور اُسی خدا نے حضرت رام چندرؑ کو بھیجا تھا۔ اور جن معجزات اور جن کرامات کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو قائم کیا اِن سے بڑھ کر معجزات اور کرامات کے ساتھ خداتعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کو قائم کیا۔ اور گو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جو معجزات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملے تھے سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو آپ سے بہرحال بلند مرتبت تھےاَور کسی نبی کو ایسے معجزات نہیں ملے۔ مگربہرحال خدا کی قدرتوں سے ہی عیسیٰؑ کی جماعت قائم ہوئی۔ خدا کی قدرتوں کے ساتھ ہی موسیٰؑ کی جماعت قائم ہوئی۔ خدا کی قدرتوں کے ساتھ ہی کرشنؑ کی جماعت قائم ہوئی اور خدا کی قدرتوں کےساتھ ہی رامچندرؑ کی جماعت قائم ہوئی۔ مگر کہاں ہیں اب وہ نشانات اور کہاں ہیں اب وہ معجزات جو دلوں کو پِگھلا دیتے تھے اور جو حیوانوں کو انسان اور انسان کو فرشتے اور فرشتہ خصلت انسانوں کو خدا کے مقرب اور عرش نشین بنا دیتے تھے۔ کہاں ہیں وہ کرامتیں اور وہ معجزات جو رامچندرؑ اور کرشن ؑنے دکھائے جنہوں نے ہندوؤں کی کایا پلٹ دی تھی۔ کہاں ہیں وہ نشانات جو قرآن مجید میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ نو بڑے بڑے نشانات حضرت موسیٰؑ کو دیئے گئے تھے۔ کیا ان نشانات میں سے نصف یا ان کا چوتھا حصہ یا ان کا کوئی حصہ بھی اب دنیا میں باقی ہے؟ حضرت عیسیٰ ؑ کی نسبت عیسائی تو بیان کرتے ہی ہیں مسلمان بھی اُن کو ایسا بڑھا چڑھا کر دکھاتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ کو تمام انبیاء سے بڑھا دیتے ہیں۔ ان کے معجزات میں سے علمِ غیب ، جانوروں کا پیدا کرنا، مُردوں کو زندہ کرنا، بیماروں کو پُھونک مار کر شفا دینا بہت کچھ بیان کرتے ہیں۔ لیکن جو معجزات بھی تھے بڑے یا چھوٹے وہ انبیاء کی سنت کے مطابق تھے۔ کیا آج ان معجزات میں سے کوئی بھی باقی ہے؟ حضرت مسیحؑ نے کہا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو گا اور تم پہاڑوں کو حکم دو گے کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں تو تمہارے حکم سے پہاڑ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جائیں گے۔ 2مگر کیا ان معجزات میں سے کچھ بھی اب باقی ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جیسا انسان دنیا نے کہاں جنا اور کب جن سکتی ہے۔ وہ جو تمام بنی نوع انسان کا مقصود اور مدعا تھا،جس کی خاطر دنیا پیدا کی گئی، جو کرامتیں آپؐ نے دکھائیں اور جو معجزات آپ سے ظاہر ہوئے صحابہ کرام کی قوتِ عملیہ ،تقویٰ اور اخلاص سے پتہ لگتا ہے کہ ان کا سکھانے والا کتنا بڑا انسان تھا۔ مگر کیا وہ کرامتیں آج مسلمانوں میں نظر آتی ہیں؟ آج وہ کرامتیں اور وہ نشانات مسلمانوں کے دلوں میں بھی گُدگُدی اور اُن کے دماغ میں بھی ہیجان پیدا کرتے ہیں مگر ایک ذرہ بھرحرکت بھی تو ان میں نہیں پائی جاتی۔ آخر یہ کیوں ہے؟ صرف اس لئے کہ بعد میں آنے والی نسلوں نے نشانات دکھانے والے سے تعلق قطع کر لیا۔ ورنہ خداتعالیٰ میں نشان دکھانے کی قدرت تو پھر بھی موجود تھی۔ اور نسل بھی موجود تھی۔ مگر اس زنجیر کے ٹوٹ جانےاور تسلسل کے کٹ جانے کی وجہ سے وہ ان نشانات سے فائدہ حاصل نہ کر سکی۔ پس جو پہلوں سے ہؤا وہی ہمارے ساتھ بھی ہو گا۔ کیونکہ جو قانون پہلے تھا وہی اب بھی جاری ہے۔ ابھی تو ہماری ابتدائی حالت ہے۔ ابھی تو ہماری حالت ایسی ہی ہے جیسے کونپل نکلتی ہے۔ اگر اس حالت میں بھی ایثار کا مادہ کم ہو جائے، قربانی کا مادہ کم ہو جائے، عقل اور محنت سے کام کرنے کا مادہ کم ہو جائے اور دنیا داری بڑھ جائے تو یقینا ہمیں مستقبل کے آنے سے پہلے ہی موت کے لئے تیار ہو جانا چاہیے۔ میں نے بار بار اس بات کی طرف جماعت کو توجہ دلائی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی اِس طرف پوری توجہ نہیں کی گئی۔
ہمارے نوجوان جو آگے آرہے ہیں ان کے اندر محنت کی عادت کم ہے۔ کام سے جی چُراتے ہیں، ذکر الٰہی کا مادہ ان میں کم ہے۔ میں نے خدام کو کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ نوجوانوں کے اندر وہ یہ مادہ پیدا کریں مگر جہاں انہوں نے کچھ کام کیا ہے وہاں یہ حقیقی کام صفر کے برابر نظر آتا ہے۔ مجھے سب سے زیادہ جماعت کے لوگوں سے کام پڑتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ حقیقی قربانی اور محنت نوجوانوں میں کم نظر آتی ہے۔ اَور تو اَور یہ واقفین جو کہتے ہیں ہم نے زندگی قربان کر دی ہے اِن واقفین میں سے بھی بعض غیر معقول دماغ کے ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم نے کام کی ڈائری اِس لئے نہیں دی کہ وقت زیادہ ہو گیا تھا۔ ایک طرف وہ قوم ہے جسے ہم کافر اور بے دین کہتے ہیں جو چھ چھ سات سات دن بغیر آرام کرنے کے متواتر میدانِ جنگ میں لڑتے ہیں اور دوسری طرف یہ نوجوان ہیں جنہوں نےا پنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کی ہیں لیکن یہ کہتے ہیں کہ چونکہ چھ بجے تک کام کیا تھا اور وقت زیادہ ہو گیا تھا اِس لئے ڈائری لکھنی مشکل تھی۔ اگر ایک دن زیادہ پڑھنا پڑ جائے تو کہتے ہیں آج زیادہ پڑھنا پڑ گیا تھا اس لئے باقی کام نہیں کیا۔ اگران کا یہ حال ہے جو واقفین ہیں اور جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے لئے ہم سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں تو غیر واقفین کا کیا حال ہو گا۔ ان کے اندر بھی ابھی وہ بیداری اور وہ روح نظر نہیں آتی اور ان کے اندر بھی ابھی وہ ارادہ پیدا نہیں ہوا کہ ان میں سے کسی کے سپرد کوئی کام ہو تو وہ کہے کہ میں مر جاؤں گا مگر اپنے کام کو پورا کر کے چھوڑوں گا۔ اگر ان کے اندر عام مومن کے ایمان کا کروڑواں حصہ بلکہ دس کروڑواں حصہ بھی ہوتا تو اگر سارا دن کام کرنے کے بعد بارہ گھنٹے اَور لگتے تھے تو اِن کے اندر یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہیے تھا کہ انہوں نے بارہ گھنٹے یا بیس گھنٹے یا چوبیس گھنٹے کام کیا ہے اس لئے اب کام ختم کرنے سے پہلےآرام کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا کہ یہ کام کرتے کرتے مر جاتے اور کیا ہوتا؟ پاگل ہی ہیں جو کہا کرتے ہیں کہ مرنے سے بڑھ کر کوئی اور مصیبت ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کسی مجسٹریٹ نے ایک ملزم کو یہ سزا سنائی کہ اُس کو پھانسی دے دی جائے۔ تو وہ کہنے لگا کہ اس سے تو بہتر ہے کہ مجھے مروا ہی دیں۔ تو اس قسم کی باتیں جاہلوں اور پاگلوں کی طرف تو منسوب کی جا سکتی ہیں مگر ایک واقف جو یہ کہہ کر آتا ہے کہ میں مرنے کے لئے آیا ہوں کیا اس کے منہ سے اس قسم کے لفظ بیہودہ اور پوچ عذر نکلنے زیب دیتے ہیں؟ ایک شخص کو جو واقفِ زندگی تھا میں نے کام کے لئے سندھ بھیجا۔ چار دن کے بعد وہ بھاگ آیا اور آکر خط لکھ دیا کہ وہاں کام سخت تھا اس لئے میں اس کام کو چھوڑ کر بھاگ آیا ہوں اور اب روزانہ معافی کے خطوط لکھتا رہتا ہے۔ حالانکہ دینی جنگ کے میدان سے بھاگنے والے کو قرآن کریم جہنمی قرار دیتا ہے۔ اس کے لئے معافی کیسی؟
یہ تحریک جدید کے واقفِ زندگی ہیں۔ ان کی مثال کشمیریوں کی سی ہے۔ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ راجہ نے ان کو بلایا اور کہا کہ سرکارکو لڑائی پیش آ گئی ہے سرکار نے ہم سے بھی مدد کے لئے فوج مانگی ہے۔ میں تمہیں حکم د یتاہوں کہ تم بھی لڑنے کے لئے جاؤ۔ جو افسر راجہ سے بات کرنے کے لئے آیا تھا اُس نے کہا حضور! آپ کا نمک کھاتے رہے ہیں، آپ کا حکم سر آنکھوں پر، ساری عمر آپ کا نمک اِسی لئے تو کھاتے رہے ہیں کہ لڑائی کریں۔ اگر مہاراج اجازت دیں تو میں ذرا فوجیوں سے بات کر آؤں؟ مہاراج نے اجازت دے دی۔ جب فوجیوں سے بات کر کے واپس آیا تو عرض کیا مہاراج! فوج تیار ہے ان کو کوئی عذر نہیں مگر وہ ایک عرض کرتے ہیں۔ راجہ نے کہا کیا؟ کہنے لگا حضور! سنا ہے پٹھانوں کے ساتھ لڑائی ہے۔ پٹھان بہت سخت ہوتے ہیں اگر ہمارے ساتھ پہرہ کا انتظام ہو جائے تو ہم لڑائی کے لئے تیار ہیں۔ تو ایسے ہی ہمارے نوجوان پیدا ہو رہے ہیں۔ وہ قربانیوں کے موقع سے ڈرتے ہیں، محنت سے کام کرنے سے ڈرتے ہیں اور پھر وہ اپنے آپ کو واقفِ زندگی اور مجاہد کہتے ہیں۔ اور ہر شخص اپنے نام کے ساتھ واقف اور مجاہد لکھنے کے لئے تیار ہے مگر کام کرنے کے وقت ان کی جان نکلتی ہے۔ مگر بہرحال یہ لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے کچھ نہ کچھ تو قربانی کی ہے ان میں بعض ایسے ہیں جو دنیوی طور پر اس سے زیادہ کما سکتے تھے جتنا ان کو یہاں گزارہ ملتا ہے۔ لیکن دوسرے نوجوانوں کی حالت تو اَو ربھی بد تر ہے۔
میں نے بار بار توجہ دلائی ہے مگر خدام نے کوئی ایسا رستہ نہیں نکالا جس کے ساتھ نوجوانوں کو باقاعدہ اور متواتر کام کرنے کی عادت ہو اور وہ یہ نہ کہیں کہ وقت زیادہ ہو گیا تھا اس لئے کام رہ گیا۔ بلکہ ان کےد ل میں یہ احساس ہو کہ جو کام ہمارے سپرد کیا جائے ہم نے اسے ضرور کرنا ہے اور اسے ختم کر کے چھوڑنا ہے چاہے ڈیسک پر بیٹھے بیٹھے یامیز پر بیٹھے بیٹھے یا فرش پر بیٹھے بیٹھے یا چلتے چلتے یا کام کرتے کرتے میری جان ہی کیوں نہ نکل جائے۔ جب تک یہ مادہ اور یہ حِسّ پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے اور کبھی ہم تسلی اور اطمینان کے ساتھ یہ امانت اگلی نسل کے سپرد نہیں کر سکتے۔
احمدیت کی محبت، اخلاص اور تربیت جھگڑوں سے روکتی ہے۔ مگرلوگ معمولی معمولی بات پر جھگڑتے ہیں، عُہدوں پر جھگڑ کر ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ سارا نقص اِس وجہ سے ہے کہ احمدیت کی محبت دل میں نہیں۔ اگر احمدیت کی محبت ہوتی تو کچھ بھی ہو جاتا وہ اس کی پروا نہ کرتے۔ یہ لوگ ہسپتالوں میں جاتے ہیں، عدالتوں میں جاتے ہیں۔ کہیں ان کو چپڑاسی تنگ کرتے ہیں، کہیں ان کو کمپاؤنڈر (Compounder) دِق کرتے ہیں۔ یہ ان ساری ذلتوں کو برداشت کرتے ہیں اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ ہمارے عزیز کی جان یا ہماری عزت خطرے میں ہے۔ اگر اسلام کی جان اور اسلام کی عزت کی قدر ان کے دل میں ہوتی تو یہ آپس میں ذرا ذرا سی بات پر کیوں جھگڑتے۔ تو فرق یہی ہے کہ اپنے عزیز کی جان یا اپنی عزت ان کو زیادہ پیاری ہے اس لئے کچہریوں یا ہسپتالوں میں مجسٹریٹوں یا ڈاکٹروں کی جھڑکیاں کھاتے ہیں اور ان کو برداشت کرتے ہیں۔ ان سے گالیاں سنتے ہیں اور ہنستے ہوئے کہتے چلے جاتے ہیں کہ حضور! ہمارے مائی باپ ہیں جو چاہیں کہہ لیں۔ مگر خدا کے سلسلہ اور خدا کے نظام میں معمولی بات سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے۔ وہاں ہسپتالوں میں دائیاں اور نرسیں اِن کو جھڑکتی ہیں، ڈاکٹر حقارت سے کہتا ہے چلے جاؤ۔ تو یہ دروازہ کے پاس جا کر چُھپ کر کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اس کو ناراض کیا تو میرے عزیز کی جان خطرہ میں پڑ جائے گی۔ لیکن ان کو احمدیت عزیز نہیں ہوتی، اسلام عزیز نہیں ہوتا اس لئے سلسلہ اور نظام کی خاطر ادنیٰ سا بُرا کلمہ سننے کی تاب نہیں رکھتے۔
دوسری چیز محنت ہے۔ اگر واقع میں احمدیت کی محبت ہوتی تو ضرور نوجوانوں کے اندر محنت کی بھی عادت ہوتی۔ مگر ان کے کاموں میں محنت اور باقاعدگی سے کام کرنے کی عادت بالکل نہیں۔ اور اگرکوئی کسی کو اچھی بات بھی کہہ دے تو وہ چِڑ جاتا ہے کہ اس نے مجھے ایسی بات کیوں کہی۔ پس میں پھر ایک دفعہ خدام کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مشورہ کر کے میرے سامنے تجاویز پیش کریں۔ میں نے بھی اس پر غور کیا ہے اور بعض تجاویز میرے ذہن میں بھی ہیں۔ لیکن پہلے میں جماعت کے سامنے اس بات کو پیش کرتا ہوں کہ وہ مشورہ دیں کہ آئندہ نسلوں میں قربانی اور محنت اور کام کو بروقت کرنے کی روح پیدا کرنے کے لئے ان کی کیا تجاویز ہیں۔ مگر یہ شرط ہے کہ جو شخص تجویز پیش کرے وہ اپنی اولاد کو پہلے پیش کرے۔ بعض لوگ لکھنے کو تو لکھ دیتے ہیں کہ اس طرح سلوک کیا جائے، اس طرح نوجوانوں پر سختی کی جائے مگر جب خود اُن کے بیٹوں کے ساتھ سختی کی جائے تو شور مچانے لگ جاتے ہیں۔ تو جو شخص اپنی تجاویز لکھے وہ ساتھ یہ بھی لکھے کہ میں اپنی اولاد کے متعلق سلسلہ کو اختیار دیتا ہوں کہ وہ جو قانون بھی بنائیں میں اپنی اولاد کے ساتھ اس سلوک کوجائز سمجھوں گا۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ آپس میں مشورہ کر کے مجھے بتائیں کہ نوجوانوں کے اندر محنت اور استقلال سے کام کرنے کی عادت پید اکرنے کے لئے اُن کی کیا تجاویز ہیں۔ نوجوان کام کے موقع پر سو فیصدی فیل ہو جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں یہ مشکل پیش آ گئی اس لئے کام نہیں ہو سکا۔ وہ نوے فیصدی بہانہ اور دس فیصدی کام کرتے ہیں۔ یہ حالت نہایت خطرناک ہے اس کو دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
پس خدام مجھے بتائیں کہ نوجوانوں کے اندر محنت سے کام کرنے اور فرائض کو ادا کرنے میں ہر قسم کے بہانوں کو چھوڑنے کی عادت کس طرح پید اکی جائے۔ مشورہ کے بعد ان تجاویز پر غور کر کے پھر میں تجاویز کروں گا اور جماعت کے نوجوانوں کو اِن کا پابند بنایا جائے گا۔ پہلے اسے اختیاری رکھیں گے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون کونسے ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو سلسلہ کی تعلیم دلانا اور ان کی تربیت کرانا چاہتے ہیں۔ اور جس وقت ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے اور ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا طریق درست ہے تو پھر دوسرا قدم ہم یہ اٹھائیں گے کہ اسے لازمی کر دیا جائے ۔
بہرحال یہ کام ضروری ہے اگر ہم نے یہ کام نہ کیا تو احمدیت کی مثال اس دریا کی ہو گی جو ریت کے میدان میں جا کر خشک ہو جائے۔ اور جس طرح بعض بڑے بڑے دریا صحراؤں میں جا کر اپنا پانی خشک کر دیتے ہیں پانی تو ان میں اُسی طرح آتا ہے مگر صحرا میں جا کر خشک ہو جاتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی نالیاں پہاڑوں سے گزرتی ہوئی مِیلوں مِیل تک چلی جاتی ہیں مگر بڑے بڑے دریا ریت کے میدانوں میں جا کر خشک ہو جاتے ہیں۔ پس یہ مت خیال کرو کہ تمہارے اند رمعرفت کا دریا بہہ رہا ہے۔ اگر تم میں سستی، کم محنتی اور غفلت کا صحرا پیدا ہو گیا تو یہ دریا اس کے اندر خشک ہو کر رہ جائے گا۔ چھوٹی چھوٹی ندیاں مبارک ہوں گی جو پہاڑوں کی وادیوں میں سے گزر کر مِیلوں مِیل تک چلتی چلی جاتی ہیں مگر تمہارا دریا نہ تمہارے لئے مفید ہو گا اور نہ دنیا کے لئے مفید ہو گا۔
پس یہ آفت اور مصیبت ہے جس کو ٹلانا ضروری ہے۔ اس آفت کو دور کرنے کے لئے پہلے میں جماعت کے دوستوں سے فرداً فرداً اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ سے بحیثیت جماعت مشورہ چاہتا ہوں۔ انصار اللہ سے اِس لئے کہ وہ باپ ہیں اور خدام الاحمدیہ سے بحیثیت نوجوانوں کی جماعت ہونے کے کہ ان پر ہی اِس سکیم کا اثر پڑنے والا ہے۔ اور ہر فرد سے جس کے ذہن میں کوئی نئی یا مفید تجویز ہو پوچھتا ہوں کہ وہ مجھے مشورہ دے۔ پھر میں ان سب پر غور کر کے فیصلہ کروں گا کہ آئندہ نسل کی اصلاح کے لئے ہمیں کونسا قد م اٹھانا چاہیے۔ ’’
(الفضل مورخہ 11 مئی 1945ء)
1: جَنیوُّ: وہ بٹا ہوا دھاگا جسے ہندو لوگ بدھی کی طرح گلے میں ڈالے رہتے ہیں۔
2: متی باب 17 آیت 20
16
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا ایک
عظیم الشان نشان
(فرمودہ 11 مئی 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘رات سے مجھے نقرس کا دورہ ہے اور درد کی وجہ سے میرا پاؤں سُوجا ہؤا ہے جس کی وجہ سے جمعہ کے لئے آنا بھی مشکل تھا۔ لیکن میں آتو گیا ہوں مگر کھڑا ہو کر خطبہ نہیں پڑھ سکتا۔ اس ہفتے خداتعالیٰ نےا پنے فضل اوراپنی رحمت کا نشان اِس رنگ میں دکھایا ہے کہ یورپ کی جو ابتدائی اور اصلی جنگ تھی وہ ختم ہو چکی ہے۔ اس جنگ کے متعلق میں نے بارہا بیان کیا تھا کہ قرآن مجیدسے اور خداتعالیٰ کے فعل سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ جنگ 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی یعنی اپریل 1945ء یا جون 1945ء تک۔ یہ بات خداتعالیٰ نے ایسے عجیب رنگ میں پوری کی ہے کہ اِس پرحیرت آتی ہے۔ آج ہی لاہور سے ایک طالب علم نے لکھا ہے گزشتہ سال میڈیکل کالج لاہور کے کچھ طالب علم جب آپ سے ملنے آئے تھے تو ان میں سے ایک نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ اور آپ نے اُسے یہ جواب دیا تھا کہ جو کچھ میں قرآن مجید سے اور خداتعالیٰ کے کلام اور اس کے فعل سے سمجھتا ہوں یہ جنگ اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات اُسی وقت نوٹ کر لی تھی۔ اور اب میں نے وہ تحریر اُس لڑکے کو جس نے یہ سوال کیا تھا دکھا دی ہے کہ تمہارے ساتھ یہ گفتگو ہوئی تھی دیکھ لو اب وہ بات پوری ہو گئی ہے۔
عجیب بات یہ ہے جو نہایت حیرت انگیز ہے کہ گزشتہ الہامات تو الگ رہے میرے اس استدلال کی بنیاد کہ جنگ اپریل 1945 میں ختم ہو جائے گی اِس بات پر تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحریک جدید کے بواعث کے نتیجہ میں یہ جنگ پیدا کی گئی ہے۔ چنانچہ اس مضمون کے متعلق کثرت سے میرے خطبات موجود ہیں کہ گورنمنٹ کی طرف سے ہماری جماعت کو جو تکالیف دی گئی ہیں اُن کے نتیجہ میں اُسے یہ ابتلاء پیش آیا ہے اور تحریک جدید کے ساتھ اس کی وابستگی ہے۔ چنانچہ میں نے جو یہ کہا تھا کہ جنگ اپریل 1945ء کے آخر میں ختم ہو جائے گی یہ اِسی بناء پر کہا تھا کہ تحریک جدید کاآخری سال وعدوں کے لحاظ سے تو 1944ء میں ختم ہوتا ہے لیکن جہاں تک سارے ہندوستان کے لئے چندوں کی ادائیگی کا تعلق ہے اِس لحاظ سے یہ مدت اپریل 1945ء میں ختم ہوتی ہے اور جون یا جولائی اس لحاظ سے کہا تھا کہ بیرونجات کے چندوں کی ادائیگی کی آخری میعاد جون یا جولائی میں جا کر ختم ہونی ہے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ جو مقرر ہے وہ سات ہوتی ہے۔ یعنی اگر ہندوستان کے اُن علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے 31 جنوری مقرر ہے تو یہ میعاد 7 فروری کو جا کر ختم ہوتی ہے۔ اور اگر ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی نہیں جاتی 30 اپریل مقرر ہے تو یہ میعاد 7 مئی کو جا کر ختم ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اگر وعدہ لکھوانے کی تاریخ 30 اپریل تک رکھی جائے تو چونکہ بعض جگہ ہفتہ میں ایک دفعہ ڈاک آتی ہے اس وعدہ کے روانہ ہونے کی آخری تاریخ اگلے مہینہ کی 7 ہونی چاہیے۔ اس اصل کے مطابق ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے آخری میعاد 7فروری مقرر ہے۔ اور ہندوستان کے ان علاقوں کے لئے جہاں اردو بولی اور سمجھی نہیں جاتی وعدوں کی ادائیگی کی آخری میعاد7 مئی مقرر ہے۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ جس دلیل پر میری بنیاد تھی کہ تحریک جدید کے آخری سال کے اختتام پر یہ جنگ ختم ہو گی میری وہ بات اِسی رنگ میں پوری ہوئی کہ جنگ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں ختم ہوئی جو میں نے بتایا تھا بلکہ عین 7 مئی کو آکر سپردگی کے کاغذات پر دستخط ہوئے۔ چونکہ وعدوں کی ادائیگی کے لئے ایک سال مقرر ہے اس لئے دس سالہ دَور تحریک کے چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ حسب قاعدہ 7 مئی 1945ء ہوتی ہے۔ اور اسی تاریخ کو سپردگی کے کاغذات پر جرمنی کےنمائندوں نے دستخط کئے۔ گویا قانونی طور پر عین اُسی تاریخ کوآکر جنگ ختم ہوئی جو تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے سارے ہندوستان کے لئے آخری تاریخ ہے اور جس کے بارہ میں مَیں بار بار اور متواتر اڑھائی سال سے اعلا ن کر رہا تھا۔
خداتعالیٰ کی قدرت کا یہ کتنا بڑا نشان ہے۔ صوفیاء لکھتے ہیں کہ بعض بندوں کی زبان اور ہاتھ خداتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں۔ قرآ ن مجید میں بھی خداتعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے۔ مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى1 کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) بدر کے موقع پر جب تُو نے مٹھی بھر کر کنکر پھینکے تھے بظاہر تو وہ تُو نے ہی دعائیہ رنگ میں پھینکے تھے لیکن ہم نے تیرے ہاتھ کو اپنا ہاتھ بنا لیا اور اسے کفار کی تباہی کا موجب بنا دیا۔ تو اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے یہ سلوک رہا ہے کہ وہ ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ اور ان کی زبان کو اپنی زبان بنا لیتا ہے۔ مَیں نے متواتر بیان کیا ہےکہ میں جو کہتا ہوں کہ جنگ 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی مَیں یہ کسی الہام کی بناء پر نہیں کہتا بلکہ میرے استدلال کی بنیاد اِس بات پر ہے کہ چونکہ تحریک جدید کا آخری سال چندوں کی ادائیگی کے لحاظ سے 1945ء کے شروع میں یعنی اپریل میں جا کر ختم ہوتا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ جنگ 1945ء کے شروع یعنی اپریل میں ختم ہو جائے گی۔ خداتعالیٰ نے میری اس بات کو لفظاً لفظاً پورا کیا اور نہ صرف سال اور مہینہ کے لحاظ سے بلکہ تاریخ اور دن کے لحاظ سے بھی یہ بات لفظاً لفظاً پوری ہوئی۔ (اَلْحَمْدُ للہِ)
یہ ایک ایسا عظیم الشان نشان ہے جو نہ صرف احمدیوں بلکہ غیراحمدیوں کی مجلسوں میں بھی مَیں نے اس کو متواتر بیان کیا تھا۔ 1943ء میں دہلی میں جب مجھ سے ایک مجلس میں جس میں کئی غیر احمدی معززین موجود تھے یہ پوچھا گیا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ تو میں نے بتایا تھا کہ اپریل 1945ء سے جون 1945ء تک ختم ہو جائے گی۔ اور اب ایک دوست نے یاد کرایا ہے کہ 1944ء کے شروع میں جب میڈیکل کالج کے غیر احمدی طلباء آپ سے ملنے کے لئے آئے تھے اُن میں سے ایک نے آپ سے یہ سوال کیا تھا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ تو آپ نے تعیین کر دی تھی کہ جنگ اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی۔ اور وہ لکھتے ہیں کہ میں نے آپکی یہ بات اُسی وقت لکھ لی تھی۔ چنانچہ وہی ہؤا اور جنگ ٹھیک اُسی وقت پر آکر ختم ہوئی۔ اپریل کی میعاد اِس لحاظ سے درست ثابت ہوئی کہ کہا جاتا ہے کہ ہٹلر 28؍ اپریل کو مارا گیا۔ اور آخری تاریخ تحریک کے لحاظ سے اس لحاظ سے یہ بات پوری ہوئی کہ قانونی طور پر جنگ 7 مئی کو ختم ہوئی اور 7 مئی ہی تحریک جدید کے چندوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ تھی۔
پس یہ اللہ تعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے کہ وہ نہ صرف اپنے الہام کے ذریعہ رحمت کا نشان دکھاتا ہے بلکہ بعض دفعہ اپنے بندہ کے منہ سے نکلی ہوئی بات ایسے عجیب رنگ میں پوری کر دیتا ہے کہ وہ بات نہ صرف سالوں اور مہینوں کے لحاظ سے پوری ہوتی ہے بلکہ دنوں کے لحاظ سے بھی پوری ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اس نے یہ نشان دکھایا ہے کہ نہ صرف اسی سال اور اسی مہینہ میں جنگ ختم ہوئی بلکہ عین اُسی تاریخ اور اُسی دن جنگ ختم ہوئی جو تحریک جدید کے آخری سال کا بلحاظ چندوں کی ادائیگی کے آخری دن تھا۔ اور میں بارہا بیان کر چکا ہوں کہ تحریک جدید کے ساتھ اِس جنگ کی وابستگی ہے۔ جب تحریک جدید کا آخری سال ختم ہو گا جنگ بھی اُسی وقت ختم ہو گی۔
پس یہ خداتعالیٰ کا عظیم الشان نشان ہے کہ عین اسی تاریخ اور اسی دن جنگ ختم ہوئی۔ حالانکہ ابھی ستمبر یا اکتوبر 1944ء میں مسٹر چرچل کی تقریر شائع ہوئی تھی کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی لیکن میں وعدہ نہیں کرتا کہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی۔ ہو سکتا ہے کہ جنگ 1945ء کے آخر تک چلی جائے۔ پس عین سرے پر پہنچ کر بھی وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں اِس جنگ کی باگ ڈور تھی اُن کا تو یہ حال تھا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم وعدہ نہیں کرتے کہ جنگ جلدی ختم ہو جائے گی۔ ٭ لیکن خدا تعالیٰ نے 1942ء
٭یہ بات اس تقریب پر کہی گئی تھی کہ بعض لوگ کہہ رہے تھے کہ دسمبر1944ء میں برلن فتح ہو جائے گا۔
سے ہی میرے منہ سے یہ بات کہلوانی شروع کر دی تھی کہ جنگ 1945ء کے شروع میں ختم ہو جائے گی۔ مجھے افسوس ہے کہ 1942ء کا یہ خطبہ لکھنے والے نے میرا خطبہ عمدگی سے نہیں لکھا ورنہ یہ بات اَور بھی زیادہ شاندار ہو جاتی۔ کیونکہ میں نے مہینہ تک بتا دیا تھا کہ 1944ء کے آخر میں یا اپریل 1945ء یا جولائی 1945ء میں جنگ ختم ہو گی۔ مگر خطبہ نویس نے مہینوں کا حوالہ اُڑا دیا۔ اِسی طرح 1942ء کے جلسہ سالانہ پر میں نے جماعت کے تمام دوستوں کے سامنے بیان کیا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں نے کھدر کی قمیص پہنی ہوئی ہے اور خواب میں مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ کھدر کی قمیص پہننا کسی کانگرسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے۔ اب جبکہ کپڑے کی تنگی ہوئی اور اس خواب کی تلاش کی گئی تو مجھے حیرت ہوئی کہ وہ خواب ملتا نہیں۔ آخر مولوی محمد یعقوب صاحب نے بتایا کہ 1942ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر تو چھپی ہے مگر تقریر نویس صاحب نے درمیان میں سے وہ خواب اُڑا دیا ہے۔ حالانکہ سینکڑوں ہزاروں لوگوں کو یاد ہو گا کہ میں نے یہ خواب اُس موقع پر بیان کیا تھا کہ میں نے کھدر کی قمیص پہنی ہوئی ہے۔ اور میں خواب میں سمجھتا ہوں کہ یہ کسی کانگرسی قسم کی تحریک کے ماتحت نہیں بلکہ اقتصادی حالات کے نتیجہ میں ہے۔ اور اس کے بعد میں نے تحریک کی تھی کہ دوست اپنے گھروں میں سُوت کاتنے اور کپڑے بنوانے شروع کریں۔ کیونکہ کپڑے کے متعلق دقّت پیدا ہونے والی ہے۔ تقریر نویس نے اِس مضمون کو تو لے لیا مگر درمیان میں سے خواب کو اُڑا دیا۔ اِسی طرح مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے 4 ستمبر 1942ء کے خطبہ جمعہ میں جو 12 ستمبر 1942ء کے ‘‘ الفضل’’ میں چھپا یہی بیان کیا تھا کہ جنگ تحریکِ جدید کے آخری سال کےختم ہونے پر یعنی اپریل 1945ء میں ختم ہو جائے گی مگر وہاں بھی خطبہ نویس نے اتنا ہی لکھ دیا کہ جنگ 1944ء یا 1945ء میں ختم ہو جائے گی اور مہینہ درمیان میں سے اُڑا دیا۔ گو خطبات مَیں دیکھتا ہوں او رمیرے دیکھنے کےبعد ہی وہ شائع ہوتے ہیں مگر چونکہ دیکھتے وقت جلدی جلدی گزرنا پڑتا ہے اِس لئے میری نظر سے بھی وہ بات رہ گئی۔ حالانکہ مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے اس خطبہ میں اپریل کا مہینہ بتایا تھا کہ اس مہینہ میں جنگ ختم ہو گی۔ اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دہلی میں بھی ایک مجلس میں جب مجھ سے سوال کیا گیا کہ جنگ کب ختم ہو گی؟ تو وہاں بھی میں نے اپریل 1945ء یا جون 1945ء کا وقت بتایا تھا۔ اپریل 1945ء اس لحاظ سے کہ ہندوستان کے لئے تحریک جدید کے آخری سال کے چندوں کی ادائیگی کی آخری میعاد اپریل 1945ء مقرر ہے۔ اور جون 1945ء اس لحاظ سے کہ بیرونجات کے چندوں کی ادائیگی کے لئے آخری میعاد جون 1945ء مقرر ہے۔ اور اب لاہور سے گواہی ملی ہے کہ معیّن طورپر میں نے اپریل 1945ء کا مہینہ بتایا تھا کہ اس مہینہ میں جنگ ختم ہوجائے گی۔ تو جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے وہاں میں جماعت کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کی طرف توجہ کرے اور اس بات کو سمجھے کہ یہ عظیم الشان نشان پیش خیمہ ہے آنے والی اور بڑی بڑی خبروں کا۔ جب کوئی بہت بڑا امر ظاہر ہونےو الا ہو تو خدا تعالیٰ کا یہ طریق ہے کہ پہلے وہ گزشتہ انبیاء کے ذریعہ اس کے متعلق پیشگوئیاں کراتا ہے اور پھر جب وہ زمانہ قریب آجاتا ہے تو اُس زمانہ کے مامور کے ذریعہ سےزیادہ تفصیلات اُس کی دیتا ہے۔ اور بعض دفعہ عین موقع پر پہنچ کر وہ اپنے کسی بندہ کے ذریعہ سے سہ بارہ اس کی خبر دیتا ہے۔
اِس زمانہ کے مفاسد کے متعلق پہلے خداتعالیٰ نے گزشتہ انبیاء سے مجملاً پیشگوئیاں کرائیں۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تفصیلاً پیشگوئیاں کرائیں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ان پیشگوئیوں کے پورا ہونے کےوقت کی تعیین کرائی۔ اور پھر جب وہ وقت اَور زیادہ قریب آگیا تو خداتعالیٰ نے کثرت سے نشانات ظاہر کر کے مجھے بتایا۔ میں سمجھتا ہوں اس جنگ کے متعلق دو درجن سے اوپر نشانات خداتعالیٰ نے میرے ذریعہ ظاہر فرمائے ہیں جن کو میں نے قبل از وقت بیان کر دیا تھا۔ اور پھر وہ نشانات اسی رنگ میں پورے ہوئے مثلاً یہ کہ خداتعالیٰ نے مجھے خواب میں بتایاکہ امریکہ کی فوجیں ہندوستان میں آئیں گی پھر بتایا گیا تھا کہ یونان لڑائی میں شامل ہو گا۔ پھر یہ کہ فرانس کُچلا جائے گا اورانگلستان والے اس کے سامنے متحدہ قومیت کی تجویز پیش کریں گے۔ پھر یہ کہ اس واقعہ کے چھ ماہ بعد حالات نسبتاً خوشکن ہو جائیں گے۔ پھر یہ کہ امریکہ اٹھائیس سو ہوائی جہاز انگلستان کو دے گا۔ اور یہ بات لفظاً لفظاً اُسی طرح پوری ہوئی جس طرح میں نے بیان کی تھی۔ پھر یہ بتایا گیا تھا کہ پٹیان گورنمنٹ2 نازیوں کا ساتھ دینا شروع کر دے گی۔ اور اس کی اس شرارت کے ایک سال کے اندر اندر اس کے ضرر کو مٹا دیا جائے گا۔ چنانچہ پٹیان حکومت نے جب جرمنی کا کھلے بندوں ساتھ دینا شروع کیا تو ایک سال کے اندر حکومت برطانیہ کو شام میں کامیابی حاصل ہوئی اور پٹیان حکومت کی شرارت سے نجات مل گئی۔ اِسی طرح یہ بھی بتایا گیا تھا کہ لیبیا میں کئی دفعہ انگریزی فوجیں آگے بڑھیں گی اور کئی دفعہ پیچھے ہٹیں گی مگر آخری دفعہ دشمن کی فوجوں کو شکست ہو گی۔ پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اٹلی میں انگریزی فوجیں اُتریں گی۔ پھر یہ بھی بتایا گیا تھا جو اُسی وقت اخبار میں شائع بھی ہو گیا تھا کہ یہ جنگ جلد ختم نہ ہو گی بلکہ بہت سخت ہوگی۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ جن کے ہاتھ میں لڑائی کی باگ ڈور تھی وہ تو یہ سمجھ رہے تھے کہ اٹلی جلد فتح ہو جائے گا یہ لڑائی لمبی ہو گئی اور اٹلی اب آکر اپریل کے آخر میں فتح ہؤا ہے۔
اِسی طرح جنگ کے متعلق اَور بہت سارے واقعات کی خبریں خداتعالیٰ نے مجھے قبل از وقت بتائیں اور اسی طرح وہ واقعات رونما ہوئے مثلاً ہرہیس 3 کا انگلستان میں اُترنا اور جاپان کا حملہ کرنا اور جاپانی فوجوں کا ہندوستان میں داخل ہو جانا۔جاپان کے حملہ کے متعلق ابھی کوئی خبر نہیں آئی تھی کہ اُسی رات مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا اور اگلے دن صبح ریڈیو پر خبر آئی کہ جاپان نے حملہ کر دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں اِس جنگ کے متعلق دو درجن سے بھی زیادہ واقعات ہیں جن کی خبر خداتعالیٰ نے قبل از وقت مجھے دے دی تھی۔
پس کثر ت کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف سے جو یہ خبریں بتائی گئیں اس کے معنے یہ ہیں کہ فیصلہ کا وقت اب قریب ہے۔ مگر جیسا کہ اَور بہت ساری پیشگوئیوں اور الہامات سے معلوم ہوتا ہے اِس زمانہ کے فیصلہ کُن حالات اِس لڑائی سے ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ فیصلہ کُن حالات اَور ہیں جو تھوڑے دنوں تک رونما ہونے والے ہیں۔ تھوڑے عرصہ سے مراد یہ ضروری نہیں کہ ایک دو سال تک بلکہ ممکن ہے دس پندرہ یا بیس سال تک وہ واقعات ظاہر ہوں۔ بہرحال دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر اَور آنے والا ہے کہ اگر خداتعالیٰ کا فضل نہ ہو تو شاید وہ لڑائی جھگڑے دنیا کے لئے تباہی اور بربادی کا موجب ہو جائیں۔ اس لئے ہمیں اُس خطرےکے وقت سے پہلے اپنی جماعت کو انتہائی طور پر مضبوط کر لینا چاہیے۔ اور اُس وقت سے پہلے اپنے اعمال کو اور اپنے نوجوانوں کے اخلاق کو درست کر لینا چاہیے۔ اور اُس وقت سے پہلے ہمارے تبلیغی مشن جو پہلے قائم ہیں اور جو نئے قائم ہوں وہ مضبوط اور تنظیم میں جکڑے ہوئے ہوں۔ اور اُس وقت سے پہلے ہندوستان میں ہماری جماعت اتنی پھیل جائے کہ وہ ایک مینارٹی(Minority) نہ کہلائے بلکہ ایک میجارٹی ہو۔ اور اگر میجارٹی نہیں تو کم از کم ایک زبردست مینارٹی ہو۔ اور اُن مصائب اور اُس خطرہ کے وقت سے پہلے ہماری جماعت یورپ کے تمام ممالک انگلستان، فرانس، جرمنی، اٹلی اور سپین وغیرہ میں اور افریقہ اور امریکہ کے تمام ممالک میں اتنا اثر و نفوذ پیدا کر لے کہ آنے والی مصیبت اور خطرہ میں ہماری آواز بیکار نہ ہو بلکہ وہ ایسی وزنی ہو کہ قومیں اسے سننے پر مجبور ہوں۔ اگر ہم یہ کام کر لیں تو آنےو الے فتنے ہمارے لئے بشارتوں اور خوشخبریوں کا موجب ہوں گے۔ اور اگر ہم اس میں ناکام رہے تو آنے والے فتنے ہمارے لئے نہ معلوم کتنے تاریک سال پیدا کر دیں گے۔ اور کتنی مشکلات اور مصائب ہمارے رستہ میں حائل کر دیں گے۔ رستہ تو طے ہونا ہی ہے اور فتح تو ہمارے لئے مقدر ہے ہی۔ مگر ایک راستہ ایسا ہوتا ہے جو آسانی سے طے ہو جاتا ہے اور ایک راستہ ایسا ہوتا ہے جو مصائب اور مشکلات کے بعد طے ہوتا ہے ۔اور ہر عقلمندر آدمی دنیوی لحاظ سے بھی اور دینی لحاظ سے بھی یہ کوشش کرتا ہے کہ جو کام اللہ تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے وہ آسان طریق سے اور سہل اور قریب طریق سے اور جلدی حاصل ہو جائے۔ پس جو جماعت اس کام کوجو خداتعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے جلدی اور آسان طریق سے کرنے کی کوشش کرتی ہے وہ زیادہ سے زیادہ انعامات کی مستحق ہوتی ہے۔ اور جو جماعت اس کام کو جلدی اور آسان طریق سے نہیں کرتی یا تو اُس کا انعام کم ہو جاتا ہے اور یا وہ ملامت کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ پس چونکہ یہ اہم موقع تھا اس لئے باوجود اس کے کہ میں زیادہ بول نہیں سکتا اور باوجود اس کے کہ پاؤں میں درد کی وجہ سے میرے لئے چلنا مشکل تھا یہاں تک کہ راستہ میں جب میں نے زیادہ تکلیف محسوس کی تو میں نے خیال کیا کہ میں واپس ہی چلا جاؤں مگر بوجہ اس موقع کی اہمیت کے میں آگیا۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اب وقت غفلتوں اور سُستیوں کا نہیں۔ کمرِ ہمت باندھ لو اور مقصود تک پہنچے کے لئےسارا زور لگا دو۔ جن اخلاق کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس تنظیم کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس علم کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس عرفان کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، جس دعا اور جس التجا کے بغیر فتوحات حاصل نہیں ہو سکتیں، ان سب کو حاصل کرنے کی کوشش کرو تا کہ جلد سے جلد خداتعالیٰ کا فضل ہماری دستگیری فرمائے۔ اور جلدسے جلدرسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کا جھنڈا دنیا پر لہرانے لگے۔ آمین ’’ (الفضل مورخہ 14 مئی 1945ء)
1: الانفال: 8
2: پٹیان گورنمنٹ: (Petain Government) 1940ء سے 1942ء تک فرانس میں
مارشل ہنری فلپ پٹیان (1856ء1951-ء) کی سربراہی میں قائم گورنمنٹ۔
(Wikipedia,The free encyclopedia under “Philippe Petain”)
3: ہر ہیس: (Rudolf Hess) (26؍ اپریل 1894 ء تا 17؍ اگست1987ء )جرمنی کا ایک
نازی رہنما ، ہٹلر نے اسے 1930ء تا 1940ء کے دوران نازی پارٹی میں ڈپٹی فورر
(Deputy Fuhrer)مقرر کیا ۔ 1941ء میں سوویت یونین کے ساتھ جنگ سے تھوڑا
عرصہ قبل ہیس برطانیہ کے ساتھ امن قائم کرنے کی بات چیت کے لئےخفیہ طور پر پرواز
کرکے سکاٹ لینڈ گیا جہاں اسے گرفتار کرلیا گیا اور وہ جنگی قیدی بنا۔
(Wikipedia,The free encyclopedia under “Rudolf Hess”)
17
جماعت اپنی حالت پر غور کرے
(فرمودہ یکم جون 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘ابھی تک میری بیماری میں ایسا افاقہ نہیں ہوا کہ میں کھڑے ہو کر خطبہ پڑھ سکوں بلکہ ابھی تک مرض کا کچھ حصہ باقی ہے۔ آج سے دو ہفتہ پہلے جب مَیں نے بیٹھ کر خطبہ پڑھا تو گو میں نے یہاں بیٹھ کر خطبہ پڑھا لیکن میرےمرض کے بڑھنے میں اُس کا دخل تھا۔ اگر میں اس دن لیٹا رہتا تو شاید مرض زیادہ شدت اختیار نہ کرتا۔ خطبہ کے بعد خون کا دباؤ لیا گیا تو ستّر نوے تھا یعنی ایک سَو تیس کی جگہ نوّے۔ اور دونوں کا فرق بجائے چالیس کے بیس۔ جو اس بات کی علامت ہے کہ دل اپنا کام ٹھیک طرح نہیں کرتا۔ ڈاکٹری مشورہ یہ ہے کہ فورًا پہاڑ پر چلے جانا چاہیے تا خون کا دباؤ بہتر ہو جائے اور خون کےسرخ ذرات میں ترقی ہو۔ مگر ابھی مشکل یہ ہے کہ مکان زیر تعمیر ہے اس لئے میرا رادہ ہے کہ فی الحال دو تین دن کے لئے ہو آؤں۔ پھر مکان کی تکمیل کے بعدڈلہوزی لمبے عرصہ کے لئے جلد جاؤں یا جس طرح خداتعالیٰ چاہے۔
آج میں خصوصیت سے اس غرض کے لئے جمعہ پر آیا ہوں کہ میں دیکھتا ہوں ایک طرف تو ہمارے لئے کام کے دروازے کُھل رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر رہا ہے کہ جن سامانوں کی موجودگی میں ہمیں تبلیغِ اسلام اور تبلیغِ احمدیت کی سہولتیں میسر آنے کے امکانات ہیں۔ لیکن دوسری طرف مجھے یہ بھی نظر آرہا ہے کہ جماعت میں نہ معلوم ان سہولتوں کے پیدا ہو جانے کی وجہ سے یا نہ معلوم ایک لمبے عرصہ کی قربانی کی وجہ سے کسی قدر سُستی کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اس موقع پر جبکہ روحانی جنگ شروع ہونے والی تھی ہمارے حوصلے آگے سے زیادہ بڑھ جاتے اورہماری قربانیاں آگے سے زیادہ ترقی کر جاتیں۔ ہمارا جوش آگے سے بہت اونچا چلا جاتا ہمارے لئے وہ اطمینان اور سکون جو غافلوں اور جاہلوں کو حاصل ہوتا ہے ناممکن ہو جاتا۔ اور جیسے کام کرنےو الوں کےدلوں میں ایک بے کلی سی پائی جاتی ہے وہ حالت ہماری ہو جاتی جماعت میں ایک رنگ میں سُستی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ جیسے بخار دیکھنے کے لئے تھرمامیٹر ہوتا ہے اور تھرمامیٹر سےپتہ لگ جاتا ہے کہ انسانی خون کے دوران میں کتنی تیزی یا کمی ہے اسی طرح جماعت کے قلوب کی حالت کا اندازہ اُس کے چندوں کی ادائیگی سے لگایا جاتا ہے۔
تحریک جدید کے گزشتہ سالوں کے حالات اس بات پر شاہد ہیں کہ بالعموم مئی کے آخر تک 60،65بلکہ 70فیصدی تک رقوم وصول ہو جایا کرتی تھیں۔ لیکن اس دفعہ بجائے 60،65 یا 70 فیصدی کے بمشکل 40فیصدی چندہ اِس وقت تک ادا ہؤا ہے۔ حالانکہ چھ مہینے گزر چکے ہیں اور زیادہ تر چھ مہینوں میں ہی رقمیں زیادہ آیا کرتی ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ جلدی چندہ دینے والے وہی ہوتے ہیں جن کے اندر اخلاص زیادہ ہوتا ہے۔ اور جن کے اندر اخلاص زیادہ ہوتا ہے وہی قربانی زیادہ کیا کرتے ہیں۔ اور جو قربانی زیادہ کرتے ہیں وہی وقت پر اپنے فرائض کو ادا کیا کرتے ہیں۔ تو پہلے چھ مہینوں میں چندہ ادا کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہؤا کرتی تھی۔ کیونکہ ہماری جماعت میں سَابِق رہنے والوں کی خواہش کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔اسی طرح پہلے چھ مہینوں میں ادا شدہ رقوم بھی زیادہ ہوتی تھیں اس لئے کہ وہ لوگ جن کے اندر اخلاص ہوتا ہے وہ زیادہ سے زیادہ رقوم قلیل سے قلیل عرصہ میں ادا کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ لیکن اس سال بجائے اس کے کہ اس نئے دور میں ایک نئی زندگی پائی جاتی بجائے اس کے کہ اب جبکہ عملی تبلیغ کا دروازہ کُھل رہا ہےاور جبکہ کچھ مبلغ بیرونِ ہند میں جا بھی چکے ہیں اور دوسرے پاسپورٹ لینے کی فکر میں ہیں اورجلد ہی غیر ممالک میں چلے جائیں گے۔ا ور اس طرح تبلیغی بوجھ پہلے سے کئی گُنے زیادہ ہو جائے گا۔ ہماری جماعت بجائے اس کے کہ 60،65 فیصدی کو 70،80 فیصدی بنا دیتی اس سال ابھی تک صرف 40فیصدی رقوم اس نے ادا کی ہیں۔ اور چونکہ عام طور پر پیچھے رہ جانے والے سست یا کمزور ہوتے ہیں یا ان کے ذرائع محدود ہوتے ہیں اگر اسی اندازہ کے مطابق جس طرح پہلے رقوم وصول ہوتی تھیں اندازہ لگایا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس سال بجائے 100 فیصدی وصول ہونے کے 60،65فیصدی چندہ وصول ہو گا۔ اسی طرح قرآن شریف کے چندہ کے متعلق بھی مَیں دیکھتا ہوں کہ جماعت پورے جوش کے ساتھ کام نہیں کر رہی۔ جہاں تک چندہ لکھوانے کا سوال تھا یہ چندہ مطلوبہ رقم سے زیادہ آگیا ہے۔ یعنی بجائے دو لاکھ کے دو لاکھ پچاس ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ یہ وعدے خداتعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہوئے ہیں۔ کیونکہ اس عرصہ میں یورپین تبلیغ جس کے ساتھ قرآن شریف کے تراجم کا زیادہ تر تعلق ہے وسیع ہو گئی ہے۔ اور اس کی وسعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ضرورت تھی کہ ہم انگلستان میں اپنے دارالتبلیغ کو بڑھاتے۔ چنانچہ اس کے لئے ہمیں اکتیس ہزار روپے میں ایک مکان مسجد کے پاس ہی مل گیا ہے جس کی مرمت پر تودس ہزار روپیہ خرچ ہو گا۔ اس طرح چالیس ہزار وپے کا ایک اَور خرچ تبلیغِ یورپ کے لئے پیدا ہو گیا ہے۔ پس یہ وعدے جو زیادہ ہوئے خداتعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہیں جو قریب عرصہ میں تبلیغ اور اس کی وسعت کے لئے پیدا ہونے والی ہیں۔ جہاں تک وصولی کا سوال ہےیہ چندہ بھی آٹھ مہینے کے اندر اُتنا وصول نہیں ہؤا جتنا وصول ہو جانا چاہیے تھا۔ اِس وقت تک اس چندہ میں سے صرف ساٹھ فیصدی وصول ہوا ہے۔ ابھی تین مہینے باقی ہیں اور اس عرصہ میں چالیس فیصدی چندہ وصول ہونا ضروری ہے۔ پس میں جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اپنے وعدے جلد سے جلد پورا کرنے کی کوشش کرے۔
تحریک جدید دفتر دوم کے وعدے بھی بہت کم ہیں۔ ہمارے خرچ کا سالانہ اندازہ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا تین لاکھ کے قریب ہے۔ لیکن تحریک جدید دفتر دوم کے وعدے اِس وقت تک پچاس ہزار ہوئے ہیں۔ گویا ہماری آئندہ نسل بجائے سارا بوجھ اٹھانے کے صرف 1/6 حصہ اُٹھانے کے قابل ہو سکی ہے۔ اس کے متعلق بھی مَیں جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ جو لوگ پہلے دَور میں شامل نہیں ہوئے اُن کو اپنی اپنی جگہ پر دوست تحریک کریں۔ میں نے اس کی میعاد تو بڑھا دی ہے اور اگر ضرورت ہوئی تو میعاد اَور بھی بڑھا دی جائے گی۔ کیونکہ سال دو سال کے اندر ہمیں اِس تعداد کو اتنا بڑھا دینا چاہیے کہ پہلے انیس سالہ دَور کے خاتمہ پر نئی پود اِس بوجھ کو پوری طرح اٹھا سکے۔
اگر ہماری جماعت کی ترقی اولاد کی وسعت کے لحاظ سے، اگر ہماری جماعت کی ترقی بیکاروں کے کام پر لگ جانے کے لحاظ سے اور اگرہماری جماعت کی ترقی تبلیغ کی وسعت کے لحاظ سے اِتنی نہیں ہوتی کہ ہر دس سال کے بعد ہم کو ایک نیا دَور جاری کرنے کے لئے اتنی جماعت مہیا ہو سکے جو اپنی قربانی سے اس حصہ کے اخراجات کو اٹھا سکے تو یقینا یہ بات ہماری کمزوری پر دلالت کرنے والی اور ہماری کامیابی کو پیچھے ڈالنے والی ہو گی۔ پس ہمارا فرض ہے کہ جس طرح بھی ہو سکے ہم آئندہ نسل اور آئندہ آنے والے نئے احمدیوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ایک جماعت پانچ ہزاری فوج کی ہر دفعہ کھڑی کرتے رہیں جو پہلے دو رکے بعد دوسرے دور کے بوجھ کو اٹھانے والی ہو۔ اور دوسرے دور کے بعد تیسرے دور کے بوجھ اٹھانے والی ہو۔ اور تیسرے دور کے بعد چوتھے دور کے بوجھ کو اٹھانے والی ہو۔ کیونکہ تبلیغ ایسا کام نہیں جو ایک دو دن میں ختم ہو جانے والا ہو۔
میں نے بار ہا جماعت کو بتایا ہے کہ کوئی قوم قربانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی او رجو شخص یہ کہتا ہے کہ یہ قربانی کب ختم ہونے والی ہے دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتا ہے کہ خداتعالیٰ ہماری قوم کو مارنے کا فیصلہ کس دن کرے گا۔ جو شخص قربانی کے متعلق یہ امید رکھتا ہے کہ وہ ختم ہو جائے گی یا ختم ہو جانی چاہیے وہ دشمن ہے اپنا۔ وہ دشمن ہے اپنے خاندان کا۔ وہ دشمن ہے اپنی قوم کا۔ کیونکہ قربانی قوموں کی زندگی کا معیار ہے۔ اور جس دن کسی قوم میں سے قربانی مٹ جاتی ہے اُسی دن اِس دنیا سے اُس قوم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ گو اُس قوم کے وجود اِس دنیا میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ بیکار وجود ہوتے ہیں۔ غلام اور محکوم اور ذلیل اور ناکام وجود اگر دنیا میں آرام سے زندگی گزارتے ہیں تو یہ ان کے لئے انعام نہیں ہوتا بلکہ ایک سزا ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے بہتر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندہ دفن کر دیں اور مٹ جائیں۔ کیونکہ ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہوتی ہے۔ سلطان حیدر الدین ٹیپو ہندوستان کے بادشاہوں میں سے ایک مشہور بادشاہ گزرے ہیں۔ جس وقت انگریزوں سے ان کی جنگ ہوئی اور اس جنگ میں آخری موقع پر انہیں شکست ہوئی تو ان کے متعلق ایک عجیب واقعہ تاریخوں میں آتا ہے جو انسان کے دل پر اثر ڈالنے والا ہے اور انسان کی شرافت کے معیار کی حقیقت کوظاہر کرنے والا ہے۔ جس وقت بعض غداروں نے انگریزوں سے روپیہ لے کر قلعہ کے بعض دروازے کھول دئیے اُس وقت سلطان حیدر الدین ایک خندق میں کھڑے ہوئے اپنی فوج کی کمان کر رہے تھے۔ عین اُس وقت جبکہ وہ اپنی فوج کو حملہ کے لئے تیار کر رہے تھے ایک جرنیل دَوڑتا ہؤا آیا اور اُس نے کہا بادشاہ سلامت! دروازہ کسی غدار نے کھول دیا ہے اور انگریزی فوج قلعہ میں داخل ہو گئی ہے اور عنقریب یہاں پہنچنے والی ہے۔ آپ بھاگ چلیں تا آپ ان کے ہاتھ نہ پڑ جائیں۔ اُس وقت سلطان حیدر الدین نے جو فقرہ کہا وہ ہر شریف آدمی کے لئے مشعل راہ کا کام دیتا ہے۔ سلطان حیدر الدین نے کہا تم مجھے بھاگنے کی تعلیم دیتے ہو!! تم چاہتے ہو کہ میں چُھپ کر اپنی جان بچا لوں لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شیر کی ایک گھنٹے کی زندگی لومڑی کی سَو سال کی زندگی سے بہتر ہوتی ہے۔ میں شیروں کی طرح لڑوں گا لومڑیوں کی طرح نہیں بھاگوں گا۔ وہ اُسی جگہ مارا گیا اور اِس شدت کے ساتھ لڑتا ہوا کہ فصیل کی مختلف جگہوں پر اُس کی لاش کے ٹکڑے پڑے ہوئے ملے۔
تو ہر شریف انسان کو ذلت اور ناکامی کی زندگی سے موت ہزار درجے بہتر معلوم ہوتی ہے۔ ایک مسلمان کہلانے والا اگر احمدی نہیں تب بھی ہرگزوہ اپنی سابق عزت و عظمت اور شوکت کو دیکھتے ہوئے اس قربانی کے لئے تیار نہیں جو قوم کو نئی زندگی بخشنے والی ہو تو یقینا وہ نہایت ہی بے حیا اور نہایت ہی بے شرم انسان ہے۔ اور اس کی زندگی سے اس کی موت ہزار درجے بہتر ہے۔ ہمیں غور کرنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے ساتھیوں کےذریعہ سے اسلام نے وہ شوکت حاصل کی تھی کہ یہ بڑی بڑی حکومتیں اور طاقتیں جو آج نظر آتی ہیں غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑی رہتی تھیں۔ لیکن آج مسلمانوں کی اولاد یورپین لوگوں کی جُوتیوں کی مار کھانے پر بھی اُف نہیں کر سکتی اور کوئی احتجاج نہیں کر سکتی۔ اس حالت کو دیکھنے کے بعد اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دنیا میں نہ آئے ہوتے، اگرحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نئی امیدیں اور نئی ترقی کی راہیں نہ دکھلا گئے ہوتے تب بھی میں سمجھتا ہوں ایک غیرت مند انسان جب تک ان حالات کوبدل نہ لیتا ایک منٹ کے لئے بھی آرام نہ کر سکتا۔ مگر اب تو ہماری ذمہ داریاں بہت زیادہ ہو گئی ہیں۔ ایک طرف ہمارے اَسلاف کے کارناموں کے متعلق ہماری غیرت مطالبہ کرتی ہے اور دوسری طرف ہمارے خدا کی آواز ہم سے مطالبہ کرتی ہے۔ گویا دو رسیاں ہیں جو ہمیں آگے کی طرف کھینچ رہی ہیں۔ ہمارے اَسلاف بھی پکارتے ہیں کہ کوئی ہماری ذلت اور بدنامی کے دھبے دھوئے اور ہمارا خدا بھی بلاتا ہے کہ آؤ اور دین کی خدمت کر کے انعام پاؤ۔ اگران کششوں کے باوجود ہمارے اندر قربانی کی روح پیدا نہیں ہوتی، اگر ان دو کششوں کے باوجود ہمارے قدم آگے نہیں اٹھتے، اگر ان دو کششوں کے باوجود ہم اپنی موت کوشیریں خیال نہیں کرتےاور اپنی موت سب سے میٹھا پھل نہیں سمجھتے تو یقینا ہم اِس دنیا میں اور اگلے جہان میں رہنے کے قابل نہیں اور ذلت و رسوائی ہی ہماری حقیقی جزا کہلا سکتی ہے۔ پس چاہیے کہ جماعت اپنی حالت پر غور کرے اور اپنی کوتاہیوں کو دو رکرنے کا فیصلہ کرے۔
اب زمانہ خاموشی کا نہیں اب زمانہ ٹھہرنے کا نہیں۔ جو شخص کھڑا ہو گا وہ مارا جائے گا اور تباہ و برباد کر دیا جائے گا۔ یہ زمانہ ایسا ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو پُلِ صراط پر چلنا پڑے گا۔ ان کے دائیں بھی جہنم ہو گا اور ان کے بائیں بھی جہنم ہو گا۔ وہ ذرا سا اِدھر اُدھر ہوں گے تو تباہ ہو جائیں گے1 یہی ہماری حالت ہے۔ اگر ہم اپنے قدموں کو روک کر کھڑے ہوں گے تو اگر اپنے دائیں طرف گریں گے تو جہنم ہو گا بائیں طرف گریں گے تو جہنم ہو گا۔ ہمارے لئے ایک ہی راستہ ہے اور وہی سیدھا راستہ ہے کہ ہم آفات کی پروا نہ کرتے ہوئے سیدھے چلے جائیں اور ہمارے سامنے ہر وقت ہماری منزلِ مقصود ہو۔ اگر ہم منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں تو وہاں ہمارا سب سے بڑا انعام اللہ وہاں کھڑا ہو گا۔ اور اگر ہم ٹھہرتے ہیں اور گرتے ہیں تو دائیں طرف بھی شیطان کی گود میں گرتے ہیں اور بائیں طرف بھی شیطان کی گود میں گرتے ہیں۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے دلوں کو تقویت دے اور اللہ تعالیٰ کے راستہ میں موت ان کو سب سے پیاری چیز نظر آنے لگے۔ اور وہ چیزیں جن کے لئے دنیا دوڑتی ہے اور ان کی خواہش رکھتی ہے اللہ تعالیٰ کے لئے وہ انہیں بُری نظر آنے لگیں تا کہ ہمارا اصلی بدلہ اور ہماری حقیقی جزا ہمیں اس دنیا میں بھی ملے اور اگلے جہان میں بھی مل جائے۔’’
(الفضل مورخہ 4 جون 1945ء)
1: مسلم کتاب الْاِیْمَان باب اَدْنٰی اَہل الْجَنَّۃِ مَنْزِلَـۃً فِیْہَا
18
خاص طور پر دعائیں کریں کہ ایک اَور جنگ شروع ہونے سے قبل ہمیں تراجم قرآن شائع کرنے اور مبلغ بھیجنے کے لئے وقفہ مل جائے
(فرمودہ 8جون 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مَیں نے جماعت کو بارہا اِس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنگ کے بعد جہاں مذہبی جنگ شروع ہونے والی ہے وہاں ہمارے لئے اسلام کی تبلیغ اور احمدیت کی ترقی کے راستے بھی کھلنے والے ہیں۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ اس جنگ کے بعد ایک اَور جنگ آنےو الی ہے۔ میرا خیال تھا کہ موجودہ جنگ اور آئندہ آنے والی جنگ میں کچھ وقفہ ہو گا لیکن حالات اتنی سُرعت سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ تیسری جنگ کے خطرہ کے آثار ابھی سے نظر آر ہے ہیں۔ ہمیں موجودہ جنگ کے ختم ہونے کی خوشی تبھی ہو سکتی تھی جب اس جنگ اور آئندہ آنےو الی جنگ میں اتنا وقفہ ہوتا کہ ہم اپنے تبلیغی پروگرام کو مکمل کر سکتے۔ اگرکچھ وقفہ ہمیں میسر آجاتا تو ہمیں امید تھی کہ ہم مختلف ممالک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے مراکز قائم کر لیتے۔ لیکن آنے والے خطرات سے مزید مشکلات پیدا ہوتی نظر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ حالات جو خراب نظر آرہے ہیں عارضی ہیں یا مستقل طور پر لمبے عرصہ تک چلے جائیں گے۔ بہرحال ان حالات کا جلدی سُدھرنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر اس جنگ کے خاتمہ اور اگلی جنگ کے ابتدا میں لمبا فاصلہ نہ ہؤا تو ہم اپنی تبلیغی سکیموں میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ ہماری تبلیغی سکیمیں اُس وقت تک بار آور نہیں ہو سکتیں جب تک ان مشکلات کا خاتمہ نہ ہو جائے جو اِس وقت نظر آرہی ہیں۔ ابھی تک مختلف ممالک کے راستے نہیں کھلے۔ گو ہمارے مبلغین تیار ہیں اور بعض کے پاسپورٹ بھی بن چکے ہیں۔ لیکن سفر کے لئے پریئرٹی سرٹیفکیٹ (Priority Certificate) منظور نہیں ہوئے۔ اور بعض کے ابھی تک پاسپورٹ بھی تیار نہیں ہوئے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک پاسپورٹ نہیں ملیں گے ہمارے مبلغ مختلف ممالک میں تبلیغ کے لئے نہیں جا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ حالات کب سازگار ہوں گے اور یہ نئی پیچیدگیاں کب دور ہوں گی۔ بہرحال ہماری طرف سے انشاء اللہ پہلا تبلیغی جتھا تیار ہے اور اگر پاسپورٹ اور اجازتِ سفر مل جائے تو مبلغین جانے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں۔ اپنے کام کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے لئے ضروری تھا کہ ہم تبلیغ کے لئے پوری طرح تیاری کرتے اور مبلغین کو بھی تیار کر لیتے۔ چنانچہ جہاں تک ہماری کوششوں کا سوال تھا ہم نے اس کے لئے پوری جدوجہد کی۔ اِس وقت مغربی ممالک میں سے آٹھ ملک ہمارے مدنظر ہیں جہاں ہم اپنے مبلغین بھیجنے والے ہیں۔ یعنی انگلستان، شمالی امریکہ، جنوبی امریکہ، فرانس، ہسپانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور اٹلی۔ مغربی ممالک میں سے فی الحال انہی ممالک میں مبلغ بھیجنے کا ارادہ ہے۔ مشرقی ممالک میں سے ایران، شام، فلسطین، مصر اور افریقہ کے مختلف ممالک ہیں جہاں ہم نے مبلغ بھجوانے ہیں۔ ہماری طاقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بہت بڑی سکیم ہے۔ ایک ہی وقت میں بیس پچیس ممالک میں پچاس ساٹھ مشنریوں کا بھیجنا آسان کام نہیں۔ ان کو بیرونِ ہند بھیجنے کے لئے بہت سے اخراجات درکار ہوں گے۔ اگر باقی سب اخراجات کو چھوڑ دیا جائے اور صرف کرایہ کا اندازہ لگایا جائےجو اِن مبلغوں کے جانے اور واپس آنے اور آنے جانے کی تیاری پر خرچ ہو گا تو وہی تقریباً تین لاکھ روپیہ بن جاتا ہے۔ اگر ان مبلغوں کے جانے اور واپس آنے میں چار سال لگ جائیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر سال پچہتّر ہزار روپیہ خرچ کرنا پڑے گا۔ تبلیغ اور لٹریچر کی اشاعت کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں مخلصینِ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی طاقت سےبڑھ کر قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس لحاظ سے جو چیز ہماری طاقت میں تھی اُس کے لئے ہم نے پوری طرح تیاری کر لی ہے۔ مگرجو چیز ہماری طاقت سے باہر ہے اُس کے لئے ہم مجبور ہیں۔ حکومتیں ہماری طاقت سے باہر ہیں۔ غیرممالک میں داخلے کی اجازت ہمارے اختیار میں نہیں۔ بلکہ ان حکومتوں کےا ختیار میں ہے جن سے ہماری روحانی جنگ جاری ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہمارےراستے میں مشکلات پیش آئیں۔ اب جنگ کے خاتمہ کےساتھ مزیدسیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اِدھر جنگِ یورپ کا خاتمہ ہؤااُدھر سیاسی حالات خراب ہو گئے ہیں۔ اِس سے قبل ہم نے متواتر پانچ چھ سال غیر ممالک کے راستوں کے کھلنے کا انتظار کیا۔ لیکن اب دوبارہ ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے تبلیغ میں رکاوٹیں ہوتی نظر آتی ہیں۔ ہمارے دلوں کی حالت بالکل ویسی ہی ہے جیسے کسی شاعر نے کہا ہے۔
قسمت تو دیکھئے کہ کہاں ٹوٹی ہے کمند
دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا1
پانچ چھ سال کا لمبا عرصہ ہم نے انتظار کرتے کرتے گزار دیا اور اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ہم نے ایک مضبوط تبلیغی فنڈ قائم کر لیا۔ اس فنڈ کو قائم کرنے کے لئے جماعت نے بڑھ چڑھ کر قربانیاں کیں۔ انتظار کے یہ سال ہمارے لئے نہایت تلخ اور تکلیف دِہ سال تھے۔ لیکن اگر پھر سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہو جائیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مزید پانچ چھ سال تک ہمیں اپنی تبلیغی سکیموں کو جاری کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑے گا۔
جہاں جماعت کے سامنے یہ مشکلات اور خطرات ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ معلوم
ہوتا ہے کہ جماعت کو مزید قربانیوں کی طرف بلائے۔ ہماری مشکلات کی زیادتی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا جتھا کم ہے۔ دنیا آج جتھا کو دیکھتی اور اس سے مرعوب ہوتی ہے۔ اگر ہمارے مبلغین کے پاسپورٹوں کا سوال ہو تو گورنمنٹ کہہ دیتی ہے ابھی راستے نہیں کھلے بہت مشکلات ہیں لیکن پادری ساری دنیا میں تبلیغ کر رہے ہیں۔ گورنمنٹ کے انتظام کے ماتحت ان کو دورانِ جنگ میں بھی اٹلی، روس، فرانس، سپین، چین، آسٹریلیا اور دوسرے ملکوں میں بھیجا گیا اور ان کے لئے پاسپورٹ مہیا کئے گئے۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ کیا جاپان والے دوسرے جہازوں پر تو گولہ باری کرتے ہیں اور ان جہازوں پر گولہ باری نہیں کرتے جن میں پادری سفر کر رہے ہوں۔ پس اصل بات یہ نہیں کہ جنگ کی وجہ سے ہمیں تو مشکلات پیش آتی ہیں لیکن پادریوں کو مشکلات پیش نہیں آتیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ پادریوں کا ایک ایسی قوم کے ساتھ تعلق ہے جو اپنی طاقت اور حکومت کی وجہ سے ان کو راجوں مہاراجوں کی طرح لئے پھرتی ہے۔ چونکہ ہماری جماعت سیاسی لحاظ سے ان کی نظر میں کچھ وقعت نہیں رکھتی اس لئے ہمارے مبلغین کی ضروریات کو اُتنی بھی وقعت نہیں دی جاتی جتنی ان گورنمنٹوں کے چپڑاسیوں کو وقعت دی جاتی اور ان کے لئے ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ ان مشکلات کو دیکھ کر ہمیں اپنی کوششوں اور قربانیوں کو پہلے سے بہت زیادہ بڑھا دینا چاہیے۔ کیونکہ ان مشکلات کا ایک حصہ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس قسم کے حالات پیدا ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے ہمارا کام بڑھ رہا ہے وہاں ہماری یہ کمزوری کہ سیاسی لحاظ سے ہماری جمعیت اور جتھا کم ہے ہماری مشکلات کو اَور بھی بڑھا دیتی ہے۔ اگر ہماری جماعت بیس پچیس گُنا زیادہ ہو جائے تو جس قسم کی تنظیم ہماری جماعت کی ہے اور جس قسم کی قربانیاں ہماری جماعت کرتی ہے ان کے لحاظ سے اس قسم کی مشکلات آپ ہی آپ دور ہو جائیں۔
خداتعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت ایسی قربانیاں کرتی ہے کہ دوسری قومیں اس رنگ میں قربانیاں نہیں کر سکتیں۔ اور درحقیقت قوم کی عزت اُس کی قربانیوں کی وجہ سے اس کی تعداد سے کئی گُنے زیادہ ہو جاتی ہے۔ پس ایک طرف میں جماعت کے افراد کو مزید قربانیوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور دوسری طرف یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دوستوں کو دعاؤں پر خاص طور سے زور دینا چاہیے۔ تا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اتنا وقفہ مل جائے کہ ہم قرآن مجید کے تراجم شائع کر سکیں اور بیرونی ممالک میں اپنے مبلغین بھیج سکیں۔ اس کے بعد اگر جنگ شروع بھی ہو جائے تو ہمارے مبلغین اپنی اپنی جگہوں پر جہاں بھی وہ ہوں گے تبلیغی کام کرتے رہیں گے۔ اور ہماری روحانی جنگ جاری رہے گی اور ہم مطمئن ہوں گے کہ ہمارا روحانی گولہ وبارود ان کے پاس موجود ہے۔ اگر ہمیں اپنے مبلغین کو باہر بھیجنے کے لئے وقفہ نہ ملا تو یہ بات ہم سب کو خصوصیت کے ساتھ غمگین کرنے والی ہو گی۔ اگر حالات سازگار نہ ہوئے اور پیشتر اس کے کہ ہمارے مبلغین غیر ممالک میں پہنچ جائیں جنگ شروع ہو گئی تو ہم میں سے کئی ایسے ہیں جن کی طاقتِ صبر جواب دے جائے گی۔ کیونکہ بعض ہم میں سے ایسے ہیں جو دنیوی لحاظ سے کام کرنے کی عمر سے نکل چکے ہوں گے۔ اور ان کے لئے یہ بات نہایت تلخ اور تکلیف دہ ہو گی کہ وہ اس کامیابی کی سکیم کا نتیجہ باوجود تیاری میں پورا حصہ لینے کے نہ دیکھ سکے۔
پس حالات سخت نازک ہیں۔ زمانہ انتہائی سرعت کے ساتھ بدل رہا ہے۔ دوست دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل جلد از جلد نازل ہو۔ کیونکہ اُس کےفضل کا دیر سے آنا ہمارے لئے مُہلک اور خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو ہماری کوششوں اور قربانیوں کے رائیگاں جانے سے بچائے اور ہماری حقیر کوششوں کو اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کا موجب بنائے۔ اَللّٰہُمَّ آمِیْنَ’’
(الفضل مورخہ 14 جون 1945ء)
1: کلیات قائم از قائم چاند پوری جلد اول غزلیات ردیف الف غزل نمبر 5 صفحہ نمبر 4
مرتبہ اقتدا حسن مجلس ترقی ادب لاہور میں یہ الفاظ ہیں
‘‘قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جاکر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا’’
19
ہندوستان کے سیاسی لیڈروں کے نام پیغام
(فرمودہ 22جون 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘قریباً ساڑھے پانچ ماہ کا عرصہ ہوا کہ اِسی مقام پر مَیں نے ایک خطبہ پڑھا تھا جس میں انگلستان اور ہندوستان کو میں نے اِس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ انہیں آپس میں صلح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ خدائی تقدیر میں بعض ایسے حادثات مقدر ہیں جن کا علم اُس نے متعدد بار مجھ کو دیا ہے جو آئندہ نہایت ہی خطرناک فتنے پیدا کرنے کا موجب ہونے والے ہیں۔ اور نہ صرف خداتعالیٰ نے مجھے ان حادثات کا علم دیا ہے بلکہ ان کے متعلق بعض تفاصیل بھی اُس نے مجھے بتائی ہیں۔ وہ خطبہ گو الہام کی بناء پر نہیں تھا لیکن مختلف الہاموں اور کشوف اور رؤیا کے نتیجہ میں تھا اور اُن کو پورا کرنے کی تحریک کے طور پر ہی میں نے پڑھا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی زبان کو بسا اوقات اپنی زبان بنا لیتا ہے۔ جس وقت مَیں نے وہ خطبہ دیا تھا اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ہندوستان اور انگلستان کے درمیان سمجھوتہ کی کوئی صور ت پیدا ہونے والی ہے۔ بلکہ ہندوستانی اور انگریز دونوں مایوس نظر آتے تھے اور اس بارہ میں کوئی نیا قدم اٹھانے کے لئے کوئی جہت تیا رنہیں تھی۔ اُس زمانہ کے قریب قریب عرصہ میں بلکہ غالباً اس کے بعد بھی پارلیمنٹ میں جو سوالات ہوئے ان کے جوابات بھی نہایت مایوس کُن تھے اور ہندوستان کےلوگ بھی آئندہ کسی نیک تغیر کے متعلق
اپنے دلوں میں کوئی امیدیں نہیں رکھتے تھے۔ لارڈ ویول جو اِس وقت ہندوستان کے وائسرائے ہیں ان کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ ہندوستان کے مطالبات کے خلاف ہیں۔ چنانچہ جب یہ ہندوستان میں افواج کے کمانڈر انچیف تھے اور سر کرپس یہاں آئے اُس وقت عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ سر کرپس کی تحریک اگر ناکام رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ لارڈ ویول کی مخالفت ہی تھی۔ گویا لارڈ ویول وہ شخص ہیں جن کے متعلق لوگوں میں یہ خیال تھا خواہ یہ خیال غلط ہی کیوں نہ تھا کہ وہ ہندوستان کی آزادی اور ہندوستان کے حقوق کے خلاف ہیں۔ مگر ایسے وقت میں جبکہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہندوستان کو آزاد کرنے کا سوال اب ایک عملی پالیٹکس کے طور پر انگلستان کے سیاسی مدبروں کے سامنے نہیں آسکتا۔ اور ایسے وقت میں جب ہندوستان کے مدبر بھی کسی تبدیلی کے متعلق امید رکھنے سے مایوس ہو چکے تھے اللہ تعالیٰ نے مجھے اس بات کی تحریک فرمائی کہ میں انگلستان اور ہندوستان کو سمجھوتہ کی دعوت دوں۔
میں نے اپنے اُس خطبہ میں بیان کیا تھا کہ میری آواز ایک ایسی چھوٹی سی جماعت کے امام کی آواز ہے جو سیاسی طور پر کسی گنتی اور شمار میں نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی میں نے کہا تھا کہ باوجود اِس بات کے جاننے کے ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ اِس دنیا کا ایک زندہ خدا ہے اور اُس میں یہ طاقت ہے کہ وہ میری آواز کو بلند کر دے۔ یہ خطبہ چَھپا ہوا موجود ہے دوستوں اور دشمنوں نے اُس کو پڑھا ہے بلکہ ولایت میں شمس صاحب نے اس کا ترجمہ پارلیمنٹ کے بہت سے ممبروں کے پاس بھی بھجوا دیا تھا جس کے جواب میں بہت سے ممبروں نے شکریہ کے خطوط لکھے۔ ان میں سے بعض ‘‘الفضل’’ میں شائع بھی ہو چکے ہیں۔ میرے اُس خطبہ کے معاً بعد اللہ تعالیٰ نے اِس قسم کے سامان پیدا کر دیئے کہ چودھری ظفراللہ خان صاحب کو گورنمنٹ نے کسی کام کے لئے انگلستان بھجوایا اور باوجود اس کے کہ وہ برطانوی گورنمنٹ کے نمائندہ تھے اُس نے انگلستان میں ان سے اِس قسم کی تقریر کروائی جس میں انہوں نے میرے خطبہ کے بیان کردہ مطالب کو اپنی زبان میں انگلستان کے لوگوں کے سامنے رکھا۔ سیاسی طور پر چودھری ظفراللہ خان صاحب سے بھی بڑی پوزیشن رکھنے والے آدمی وہاں جاتے ہیں لیکن کبھی کسی کی تقریر کی طرف اُتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی کہ اِس تقریر کی طرف۔ متواتر کئی دن تک انگلستان کے سر برآوردہ اخبارات میں بڑے بڑے لیڈروں نے چودھری صاحب کی آواز کے خلاف یا اس کی تائید میں مضامین لکھے اور اِس طرح وہ آواز جو میں نے قادیان سے بلند کی تھی سارے انگلستان میں پہنچ گئی۔ انگلستان سے امریکہ کے نمائندوں نے تاروں کے ذریعہ اِس کو امریکہ میں پھیلایا اور رائٹر کے نمائندوں نے اس آواز کو ہندوستان میں پہنچایا اور پھر ہندوستان کے مختلف گوشوں میں اس کی تائید میں آوازیں بلند ہونی شروع ہو گئیں۔ اس طرح وہ بات جو میں نے اپنے اُس خطبہ میں بیان کی تھی پوری ہو گئی کہ مجھے اپنی آوا زکے ہوا میں اُڑ جانے کا کیا خوف ہو سکتا ہے۔ جبکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ہوا میں اُڑنے والی آواز کو بھی لوگوں کے کانوں تک پہنچا دے۔ یہ ریڈیو آخر ہوا میں سے ہر آواز کو پکڑنے کا آلہ ہے۔ اگر ریڈیو کے ذریعہ آوازیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکتی ہیں تو ہمارے خدا میں بھی یہ طاقت ہے کہ وہ ریڈیو سے کام لیتے ہوئے میری آواز کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے۔ خدا نے میری اس بات کو پورا کیا اور ہندوستان اور انگلستان کے مفاد کے لئے میں نے جس آواز کو بلند کیا تھا وہ ہندوستان اور انگلستان اور امریکہ میں تھوڑے ہی دنوں میں گونجنے لگ گئی۔ لیکن یہ آواز بلند ہوئی تھی اُس کی تکمیل کے لئے ابھی ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو ان معاملات میں صاحبِ اقتدار ہو ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس غرض کے لئے وہ شخص پکڑاجن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ انہیں ہندوستان کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ ہندوستان کی آزادی کے حق میں نہیں۔ بلکہ یہاں تک کہا جاتا تھا کہ سر کرپس جو ہندوستان میں آزادی کی تجاویز لائے تھے ان کی تجاویز میں اگر کسی نے رخنہ ڈالا تو وہ لارڈ ویول ہی تھے۔
غرض وہی شخص جس پر یہ بدظنی اور بدگمانی کی جاتی تھی اِس تقریر پر دو تین مہینہ گزرنے کے بعد ہی اللہ تعالیٰ نے اُس کے دل میں ایسی تحریک پیدا کی کہ وہ ہندوستان سے انگلستان پہنچا تاکہ وہ وزارت سے یہ مطالبہ کرے کہ وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کو آزاد کر دیا جائے۔ اور جیسا کہ انگلستان کے اخبارات سے پتہ لگتا ہے وزارت کےا یک حصہ نے سختی سے ان کی تجاویز کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ اخبارات میں شائع ہؤا کہ لارڈ ویول استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہندوستان کی آزادی کے متعلق میری بات نہ مانی گئی تو میں اپنے عُہدہ سےمستعفی ہو جاؤں گا۔چنانچہ برابر چھ ہفتے تک اِس قسم کی خبریں آتی رہیں۔ بعض وزراء پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ لارڈ ویول کی تجاویز کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اورلارڈ ویول کی طرف یہ بات منسوب کی گئی کہ وہ سختی کے ساتھ اپنی تجاویز پر مُصِر ہیں اور کہتے ہیں کہ میں اپنی باتیں منوا کر چھوڑوں گا ورنہ اپنے عُہدے سے الگ ہو جاؤں گا۔ اور حق یہ ہے کہ اگر غیرمعمولی سامان خداتعالیٰ کی طرف سے پیدا نہ ہوتے توغالباً لارڈ ویول مایوس ہونے کی حالت میں ہی ہندوستان واپس آتے۔ یا اگر ان کے مستعفی ہونے کی خبر سچی تھی تو بجائے مایوس واپس آنے کے وہ استعفیٰ دے کر الگ ہو جاتے۔ لیکن اِس دوران میں خداتعالیٰ نے یہ سامان کیا کہ لیبر پارٹی نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم مشترک وزارت سے علیحدہ ہونا چاہتے ہیں۔ لیبر پارٹی کے اس فیصلہ پر مسٹر چرچل وزیر اعظم نے فورًا نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔ باوجود اس کے کہ لیبر پارٹی نے زور دیا کہ ابھی ایسا نہ کیا جائے اور باوجود اِس کے کہ لیبر پارٹی کی تعداد پارلیمنٹ میں تھوڑی تھی اور اس کے الگ ہونے سے گورنمنٹ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا مسٹر چرچل نے اصرار کیا کہ ہم نیا انتخاب کرائیں گے۔ جب انہوں نے اس بات پر اصرار کیا اور لیبر پارٹی نے سمجھ لیا کہ اسے اب بہرحال مقابلہ کرنا پڑے گا تو اس نے اپنا آئندہ پروگرام تیار کیا جس میں ایک تجویز یہ رکھی کہ ہندوستان کو آزادی کا حق دے دیا جائے۔ لارڈ ویول کی تجاویز پر بے شک گورنمنٹ نے مشورہ کیا تھا اور اس میں لیبر پارٹی کےممبر بھی شامل تھے لیکن وزارت جس میں کثرت کنزرویٹو پارٹی کی تھی وہ ابھی اِس فیصلہ کو شائع کرنے کے لئے تیار نہیں تھی۔ اور باوجود فیصلہ کے وہ اس کے راستہ میں روکیں پیدا کر رہی تھی لیکن خدا نے ان روکوں کو دور کرنے کایہ سامان کیا کہ لیبر پارٹی نے اعلان کر دیا کہ ہم آئندہ الیکشن میں ہندوستان کی آزادی کا سوال اُٹھائیں گے اور ملک کے سامنے یہ بات رکھیں گے کہ کنزرویٹو ہندوستان کو آزادی دینا نہیں چاہتے اور اس طرح وہ حکومت کو کمزور کر رہے ہیں۔ اگر تم نے ہم کو حکومت میں بھیج دیا اور لیبر پارٹی برسرِ اقتدار آگئی تو ہم ہندوستان کو آزاد کر دیں گے اور اس طرح انگلستان اور ہندوستان کے درمیان جو ایک پُرانا جھگڑا چلا آرہا ہے وہ دور ہو جائے گا۔ اور برطانوی حکومت پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جائے گی۔ جب لیبر پارٹی کی طرف سے یہ اعلان ہوا تو کنزرویٹو پارٹی مجبور ہو گئی کہ وہ بھی ہندوستان کی آزادی کا سوال اٹھائے۔ اگر کنزرویٹو پارٹی یہ سوال نہ اٹھاتی تو آئندہ الیکشن میں اس کو سخت مشکلات پیش آنے کا خطرہ تھا۔ یہ تیسری غیر معمولی بات تھی جو پیدا ہوئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ کنزرویٹو پارٹی اپنے فیصلے کو جلد تر نافذ کرنے پر مجبو رہو گئی۔ ورنہ نئے انتخابات میں اس کے لئے کامیابی کا حاصل کرنا بہت مشکل ہوجاتا۔ کیونکہ انگلستان کی عام رائے اِس بات کے حق میں ہے کہ اب ہندوستان کو کسی نہ کسی طرح خوش کرنا چاہیے ورنہ برطانوی حکومت کمزور ہو جائے گی۔
اس تغیر کے نتیجہ میں وہ بات جس کے لئے لارڈ ویول چھ ہفتہ سے انگلستان میں مقیم تھے اور جس کے اکثر حصے کا گو تصفیہ ہو چکا تھا مگر اعلان میں بعض روکیں حائل تھیں اس کا دو تین دنوں میں ہی اعلان ہو گیا۔ وہ انگلستان سے ہندوستان واپس آئے اور انہوں نے ہندوستان کے سامنے آزادی کی سکیم پیش کر دی۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ اس سکیم میں قریباً وہی فقرات درج ہیں جو میرے خطبہ میں تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ انگلستان ہندوستان کی طرف اپنا صلح کا ہاتھ بڑھاتا ہے کیونکہ آئندہ سخت خطرات پیش آنےو الے ہیں۔ ہندوستان کو اپنے جائز مقام اور جائز حق کے حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ہندوستان کا کام ہے کہ وہ اس پیشکش کو قبول کرے اور پرانے زخموں کو تازہ نہ کرے۔ یہ ویسا ہی فقرہ ہے جیسے میں نے کہا تھا کہ نئے سمجھوتہ میں پرانی باتیں بُھول جانی چاہئیں۔ یہ وہ پیشکش ہے جو اِس وقت ہندوستان کے سامنے ہے۔ اور چونکہ یہ غیر معمولی آسمانی سا مانوں کے ساتھ پیش ہوئی ہے اِس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدائی پیشکش ہے اور ہندوستان کی نہایت ہی بدقسمتی ہو گی کہ اگر اس نے اس پیش کش کو رد کر دیا۔
میں تو سمجھ ہی نہیں سکتا کہ ہندوستانی لیڈر باوجود اِس کے کہ ان میں بعض بڑے بڑے سمجھدار اور بڑے بڑے عقلمند ہیں کس طرح اس بات کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ انگریزوں کےہاتھ میں سو فیصدی اختیارات کے ہوتے ہوئے اگر وہ آزادی کی امید رکھتے ہیں تو نوے فیصدی اختیارات اگر ان کے اپنے ہاتھ میں آجائیں تو کیوں وہ آزادی کی امید نہیں رکھ سکتے۔ اگر انگریزوں کو دشمن سمجھ لیا جائے تو بھی یہ غور کرنا چاہیے کہ اگر کسی دشمن کے پاس سوبندوقیں ہوں لیکن دوسرے شخص کے پاس کوئی ایک بندوق بھی نہ ہو اور اس حالت میں بھی وہ سمجھتا ہو کہ میں اپنے دشمن کا مقابلہ کر کے جیت جاؤں گا تو اگر فرض کرو اُس کا دشمن اُسے کہے کہ نوّے بندوقیں تم مجھ سے لے لو اور دس میرے پاس رہنے دو۔ تو ایسی حالت میں اگر وہ کہے کہ میں نوّے نہیں لوں گا جب دو گے سَو ہی لوں گا تو کیا ایسے شخص کو کوئی بھی عقلمند کہہ سکتا ہے؟ یقینا ہر شخص اُسے نادان اور ناسمجھ ہی قرار دے گا۔ اِسی طرح خواہ کچھ کہہ لو اِس میں کچھ شبہ نہیں کہ ہندوستان کو جو بھی اختیارات ملیں، زیادہ ملیں تب بھی اور کم ملیں تب بھی وہ اختیارات بہرحال ہندوستان کے لئے مفید اور بابرکت ہوں گے اور وہ ہندوستان کو پہلے کی نسبت آزادی کے زیادہ قریب کر دیں گے۔ پس میرے نزدیک ہندوستان کو اِس پیشکش کو قبول کرنا انگریزوں سے صلح کرنا نہیں بلکہ اپنے آپ پر اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں پر احسان عظیم کرنا ہے۔ دو سَو سال سے ہندوستان غلامی کی زندگی بسر کرتا چلا آیا ہے اور یہ ایک ایسی خطرناک بات ہے جو انسانی جسم کو کپکپا دیتی ہے۔ بے شک بعض لوگ ایسے اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں کہ خواہ انہیں قید خانوں کے اندر رکھاجائے تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں غلامی اُن کے قریب بھی نہیں آتی۔ مگربیشتر حصہ بنی نوع انسان کا ایسا ہی ہوتا ہے جو ظاہری غلامی کے ساتھ دلی غلام بھی بن جاتا ہے۔ ہم ہندوستان میں روزانہ اِس قسم کے نظارے دیکھتے ہیں جو اِس غلامی کا ثبوت ہوتے ہیں جو ہندوستانیوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے۔ ان واقعات کو دیکھنے کے بعد کون شخص ہندوستانیوں کی غلامی سے انکار کر سکتا ہے۔
اِسی ضلع کی بات ہے یہاں ایک دفعہ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر آئے ان کو شکار کا شوق تھا۔ یہ میرے ابتدائی ایامِ خلافت کا واقعہ ہے یا حضرت خلیفہ اول کی وفات کے قریب کی بات ہے۔ بہرحال وہ ایک د ن شکار کے لئے نکلے تو ایک جوہڑ میں جو کسی گاؤں کے پاس تھا نمبردار کی بطخیں تیر رہی تھیں۔ کسی نے غلطی سے اُنہیں کہہ دیا کہ مگھ آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے فائر کر دیا۔ فائر کے بعد جب وہ قریب گئے تو سمجھ گئے یہ تو بطخیں تھیں جن کو غلطی سے مگھ سمجھ کر فائر کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے نمبردار کو بلایا اور پانچ روپے کا نوٹ اپنی جیب سے نکال کر اسے دیا کہ لو یہ روپے میں تمہیں دیتا ہوں۔ مگر وہ اِس ذہنیت کی وجہ سے کہ کہیں ڈپٹی کمشنر کو یہ احساس نہ ہو جائے کہ میں نے ان کے فعل کو بُرا سمجھا ہے کہنے لگا صاحب! شکار تو آپ نے مارا ہے مجھے کیسا انعام دے رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا بے شک شکار ہم نے مارا لیکن تم یہ روپے لے لو۔ مطلب یہ تھا کہ یہ تمہاری بطخوں کی قیمت ہے میں نے غلطی سے ان کو مار ڈالا ہے اب یہ روپے ان کی قیمت کے طور پر لے لو۔ مگر وہ یہی کہتا رہا کہ آپ مجھے کیوں انعام دیتے ہیں شکار تو آپ نے کیا ہے۔ یہ ذہنیت اَور کسی ملک میں نظر نہیں آ سکتی۔ یہاں اگر انگریز کسی کو مارتا بھی چلا جائے تو اُس میں جرأت نہیں ہوتی کہ وہ اُس کے مقابلہ میں اپنی زبان ہِلا سکے۔ اب تو پھر بھی لوگوں میں کچھ آزادی کی روح پیدا ہو گئی ہے لیکن آج سے چند سال پہلے یہ حال تھا کہ کسی انگریز کے ساتھ لوگ ریل کےا یک کمرہ میں بھی سوار نہیں ہو سکتے تھے۔ اگر کسی ڈبہ میں انگریز بیٹھا ہوتاتھا تو بڑے بڑے ہندوستانی افسر وہاں سے ٹل جاتے تھے کہ صاحب بہادر اندر بیٹھے ہیں۔ خواہ صاحب بہادر ان کے نوکروں سے بھی ادنیٰ ہوں۔
ہندوستان کے لوگوں کی یہ حالت جو بیان کی گئی ہے اس میں اعلیٰ اخلاق کے لوگ شامل نہیں۔ ان لوگوں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ خواہ وہ صلیب پر لٹک رہےہوں یا جیل خانوں میں بند ہوں تب بھی وہ آزاد ہوتے ہیں۔ کیونکہ اصل آزادی جسم کی آزادی نہیں بلکہ دل کی آزادی ہے۔ آزاد قوموں کے جرنیل جب لڑائی میں پکڑے جاتے ہیں تو کیا تم سمجھتے ہو کہ وہ غلام بن جاتے ہیں؟ وہ غلام نہیں بلکہ آزاد ہوتے ہیں۔ بے شک انہیں بند جگہوں میں رکھا جاتا ہے لیکن بند جگہوں میں رہنے کے باوجود وہ آزاد ہوتے ہیں۔ مگر ہندوستان وہ ملک ہے جس کا بیشتر حصہ بلکہ ننانوے فیصدی حصہ یقینا غلام ہو چکا ہے۔ اس قسم کی حالت کو اگر لمبا کیا جائے تو اس سے زیادہ اپنی قوم کے ساتھ اور کوئی دشمنی نہیں ہو سکتی۔ میں تو کہتا ہوں ایک ویٹو کیا اگر وائسرائے کو دس ویٹو بھی دے دیئے جائیں تب بھی اس تغیر کی وجہ سے ہندوستان میں جو آزادی کی روح پیدا ہو گی وہ اس قابل ہے کہ اُس کو خوشی سے قبول کیا جائے۔ جب تک ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ نہیں نکل جائے گا۔ (اور ہندوستانیوں سے مراد جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں عوام الناس ہیں نہ کہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ) کہ وہ انگریزوں کے غلام ہیں اُس وقت تک ہندوستان سے کسی بہتری یا کسی بڑے کام کی امید رکھنا بالکل فضول اور عبث ہے۔ لیڈر ہونا اَور بات ہے لیکن کام عوام الناس کیا کرتے ہیں۔ ہٹلر نے انگلستان سے لڑائی کی اور بے شک بڑی جرأت اور بہادری دکھلائی مگر لڑا ہٹلر نہیں بلکہ جرمن قوم لڑی۔ سٹالن نے بے شک ایک اعلیٰ مہارت جرنیل کی دکھائی اور لوگ سٹالن کی تعریف کرتے ہیں لیکن سٹالن، سٹالن نہیں بن سکتا تھا جب تک روس کا ہر آدمی بہادر اور دلیر نہ ہوتا۔ انگلستان میں مسٹر چرچل نے بے شک بڑا کام کیا ہے لیکن مسٹر چرچل کیا کام کر سکتے تھے اگر ہر انگریز اپنے اندر وہ اخلاق نہ رکھتا جو عام طور پر انگریزوں میں پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح مسٹر روز ویلٹ کو بھی بڑی عزت اور شُہرت حاصل ہوئی۔ مگر ان کوعزت اور شُہرت اِسی وجہ سے حاصل ہوئی کہ امریکن لوگوں نے قربانی کی ایک بے نظیر روح دکھائی۔ہندوستان میں بھی بے شک گاندھی جی کو اونچا کرنے کے لئے لوگ کتابیں لکھتے اور تقریریں کرتے ہیں لیکن کوئی اکیلا گاندھی یا دو درجن گاندھی یا بیس درجن گاندھی یا ہزار گاندھی بھی ہندوستان کو آزاد نہیں کرا سکتا جب تک عوام الناس میں آزادی کی روح پید انہ ہو۔ پس صرف گاندھی اور نہرو کو دیکھ کر یہ خیال کر لینا کہ ہندوستان ترقی کر رہا ہے محض حماقت ہے۔ چند بڑے بڑے لیڈروں کی وجہ سے یہ سمجھ لینا کہ ہندوستان میں آزادی کی روح پیدا ہو گئی ہے ویسی ہی جہالت کی بات ہے جیسے بلی کبوتر پر حملہ کرتی ہے تو وہ اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں امن میں آگیا ہوں۔ جب تک ہندوستان کے عوام الناس کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے، جب تک ہندوستان کے مزدوروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے، جب تک ہندوستان کے زمینداروں کو ہم آزادی کی روح سے آشنا نہیں کر لیتے اور جب تک ہم ان میں بیداری اور حرکت پیدا نہیں کر لیتے اُس وقت تک نہ ہندوستان آزاد ہو سکتا ہے نہ ہندوستان حقیقی معنوں میں کوئی کام کر سکتا ہے۔ اور یہ آزادی پیدا نہیں ہو سکتی جب تک موجودہ دَور بدل نہ جائے۔ جب تک ہندوستانیوں کے ذہن سے یہ نکل نہ جائے کہ ہم غلام ہیں۔ جس دن ہندوستانیوں کے ذہن سے غلامی کا احساس نکل جائے گا اُس دن ان میں تعلیم بھی آجائے گی، ان میں جرأت اور دلیری بھی پیدا ہو جائے گی اور ان میں قربانی اور ایثار کی روح بھی رونما ہو جائے گی۔ جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں کسی کا غلام ہوں تو وہ کہتا ہے مجھے کیا زمین اُلٹی ہو یا سیدھی، آسمان گرے یا قائم رہے فائدہ تو مالک کو ہے میں کیوں تکلیف اٹھاؤں۔ میں سمجھتا ہوں وہ لیڈر، لیڈر نہیں ہوں گے بلکہ اپنی قوم کے دشمن ہوں گے جو ان حالات کے بدلنے کے امکان پیدا ہونے پر بھی چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ضد کر کے بیٹھ جائیں۔ اور ان معمولی معمولی باتوں میں اس اہم ترین موقع کو ضائع کر دیں کہ فلاں کو کانفرنس میں کیوں لیا گیا اور فلاں کو کیوں نہیں لیا گیا۔ لوگ تو اپنے جسم کو بچانے کے لئے اپنے اور اپنے بچوں کے اعضا تک کٹوا دیتے ہیں لیکن یہاں یہ سوال پیدا کئے جار ہے ہیں کہ فلاں کو نمائندہ سمجھا جائے اور فلاں کو نہ سمجھا جائے، فلاں کو شامل کیا جائے اور فلاں کو شامل نہ کیا جائے۔ حالانکہ جس شخص کے دل میں حقیقی درد ہوتا ہے وہ ہر قسم کی قربانی کر کے اپنی قیمتی چیز کو بچانے کی کوشش کیا کرتاہے۔
یہودی تاریخ میں ایک مشہور واقعہ آتا ہے۔ لکھاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے والد کی زندگی میں ایک موقع پر جج کے طور پر کام کر رہے تھے کہ دو عورتیں ان کے پاس اپنا مقدمہ لے کر آئیں۔ وہ دونوں ایک شخص کی بیویاں تھیں۔ اور دونوں اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے کے لئے اکٹھی روانہ ہوئیں۔ دونوں کا ایک ایک بیٹا تھا۔ راستہ میں وہ جنگل میں سے گزر رہی تھیں کہ ایک مقام پر بھیڑیا حملہ کر کے ان میں سے ایک کا بیٹا اٹھا کر لے گیا۔ جس عورت کا بیٹا بھیڑیا اٹھا کر لے گیا تھا اُسے جب یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے فورًا دوسری عورت کا بیٹا اٹھا لیا اور کہا یہ میرا بچہ ہے۔ چونکہ خاوند سفر پر گیا ہوا تھا اور سال دو سال اسے گزر چکے تھے وہ سمجھتی تھی کہ اگر خاوند واپس آیا تو وہ پہچان نہیں سکے گا کہ یہ بیٹا اُس کا نہیں بلکہ دوسری کا ہے۔ اسے یہ بھی خیال تھا کہ اگر میرا بیٹا نہ ہوا تو خاوند میری سوت سے محبت کرنے لگ جائے گا اور میری طرف اِس کی توجہ کم ہو جائے گی اِس وجہ سے اُس نے اپنی سَوت کا بچہ اٹھا لیا اور کہا کہ یہ میرا ہے۔ اِس پر دونوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔ ایک کہتی یہ میرا بچہ ہے اور دوسری کہتی کہ یہ میرا بچہ ہے۔ مقدمہ کئی قاضیوں کے پاس گیا مگر سب حیران تھے کہ ہم کیا کریں۔ دو گواہ ہیں تیسرا آدمی کوئی گواہی دینے والا نہیں اور دونوں آپس میں لڑ رہی ہیں۔ اب اس جھگڑے کا کس طرح فیصلہ کیا جائے۔ آخر یہ معاملہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچا۔ انہوں نے سنتے ہی پتہ لگا لیا کہ اس مقدمہ کا دلائل سے ثابت کرنا بالکل ناممکن ہے۔ انہوں نے بھولے پن سے جیسے کوئی بالکل ناواقف ہوتا ہے یہ کہا کہ اس میں لڑائی کی کونسی بات ہے خوامخواہ تم جھگڑ رہی ہو، سیدھی بات ہے میں ابھی چُھری منگوا کر اِس بچے کو آدھا آدھا کر دیتا ہوں اور تم دونوں میں بانٹ دیتا ہوں۔ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اِس طرح فیصلہ دیا تو وہ جو سوتیلی ماں تھی اُس نے سمجھا کہ میرا لڑکا تو مر ہی چکا ہے اگریہ بھی مر گیا تو ہم دونوں برابر ہو جائیں گی اُس نے کہا ہاں یہی انصاف ہے۔ مگر جو اصلی ماں تھی اُس نے کہا حضور! مَیں جھوٹ بول رہی تھی یہ اِس کا بچہ ہےمیرا نہیں آپ اِسی کو دے دیں اور اسے ذبح نہ کریں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اِس پر وہ بچہ اصلی ماں کے حوالے کر دیا اور کہا یہ تیرا ہی بچہ ہے اس عورت کا نہیں جو اسے کاٹنے پر خوش ہو رہی تھی۔ 1
تو دیکھو سچی محبت میں انسان اپنی چیز بچانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ یہاں چالیس کروڑ انسان غلامی میں مبتلا ہے، چالیس کروڑ انسان کی ذہنیت نہایت خطرناک حالت میں بدل چکی ہے۔ نسلاً بعد نسلٍ وہ ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ انگریز جس نے ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ ہندوستان کو آزادی دینے کا اعلان کر رہا ہے۔ لیکن سیاسی لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیں کہ تمہارے اتنے ممبر ہونے چاہئیں اور ہمارے اتنے۔ اگر ہندوستان کی سچی محبت ان کے دلوں میں ہوتی تو مَیں سمجھتا ہوں ان میں سے ہر شخص کہتا کہ کسی طرح ہندوستان آزاد ہو جائے۔ کسی طرح چالیس کروڑ انسان غلامی کے گڑھے سے نکل آئے۔ چلو تم ہی سب کچھ لے لو مگر ہندوستان کی آزادی کی راہ میں روڑے مت اٹکاؤ۔ لیکن بجائے اِس کے کہ انہیں ہندوستان کی آزادی کا فکر ہو، انہیں چالیس کروڑ انسانوں کی غلامی کی زنجیریں کاٹنے کا احساس ہو، وہ معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑ رہے ہیں۔
پس ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان دنوں میں خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے، ان کی بینائی کو تیز کرے اور وہ خدائی تحریک جو میرے خطبہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے اُس سے اِنہیں فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی غفلت اور کوتاہی سے اِس اہم موقع کو ضائع کر دیں اور وہ مزید بیس یا پچاس یا سو سال تک ہندوستان کو غلامی کے گڑھے میں دھکیلنے والے بن جائیں۔ بے شک ایسی حالت میں ان کی لیڈریاں ہی قائم رہیں گی مگر ملک غلام کا غلام بنا رہے گا۔ اور میں تو کہتا ہوں ہر شریف انسان اپنی لیڈری پر *** بھیجنے سے بھی زیادہ کے لئے تیار ہو گا اگر اس کا ملک غلامی میں پڑا رہےاور وہ اپنی لیڈری کے خیال میں مست رہے۔ ہم ایک قلیل جماعت ہیں اور ہم ان حالات کو دیکھنے کے باوجود کچھ کر نہیں سکتے۔ لیکن ہماری جماعت یہ دعا ضرور کر سکتی ہے کہ اے خدا! خواہ مسلمان لیڈر ہوں یا ہندو تُو اِن کی آنکھیں کھول اور انہیں اِس بات کی توفیق عطا فرما کہ وہ ہندوستان کے چالیس کروڑ غلاموں کی زنجیریں کاٹنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ کیونکہ یہ نہ صرف ہمارے لئے مفید ہےبلکہ آئندہ دنیا کے امن کے لئے بھی مفید ہے۔ اگر اِس موقع پر لڑنا جائز ہوتا تو انگریزکو لڑنا چاہیے تھا۔ مگر خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ وائسرائے جو انگلستان کی طرف سے ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے آیا ہوا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرتا ہوں۔ انگلستان کا صنّاع جو ہندوستان کو لُوٹ کر اپنی صنعت کو فروغ دے رہا ہے وہ کہتا ہے کہ میں ہندوستان کو آزاد کرنے کے لئے تیار ہوں۔ انگلستان کی وہ ٹوری گورنمنٹ (Tory Governament) جو ہندوستان پر ہمیشہ جبری حکومت کے لئے کوشش کرتی چلی آئی ہے وہ کہتی ہے کہ میں ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہوں۔ انگلستان کی لیبر پارٹی جو نئی پارٹی ہے اور جسے برسرِاقتدار آنے کا پہلا موقع ملنے والا ہے یا ممکن ہے کچھ دیر کے بعد ملنے والا ہو وہ بھی اعلان کر رہی ہے کہ ہم ہندوستان کو آزادی دینے کے لئے تیار ہیں۔ انگلستان کے پریس کا بیشتر حصہ خواہ ٹوری ہو یا لیبر ہو یا لبرل (Liberal) ہو شور مچا رہا ہے کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے۔ امریکہ اور فرانس اور دوسرے ممالک جن کا براہِ راست ہندوستان سے کوئی واسطہ نہیں وہ بھی شور مچا رہے ہیں کہ ہندوستان کو آزادی دے دی جائے۔ لیکن اگر انگلستان ہندوستان کو آزادی دینے کےلئے تیار ہے تو ہندوستان کے اپنے بعض سپوت آزادی لینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پس اِن دنوں میں اللہ تعالیٰ سے خاص طو رپر دعائیں کرو کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں یہ معاملات ہیں اللہ تعالیٰ اُنہیں اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ راہِ راست پر آجائیں اور ہندوستانی غلاموں کی زنجیروں کو کاٹ کر وہ ہندوستان کو اعلیٰ مقام پر پہنچانے والے ثابت ہوں۔
اسی سلسلہ میں مَیں اپنے ایک رؤیا کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو نہایت عظیم الشان طور پر پورا ہوا ہے۔ غالباً 8 یا 9۔اپریل کی بات ہے میں اُن دنوں لاہور میں تھا کہ میں نے یہ رؤیا دیکھا اور میں نے لاہور میں ہی جماعت کے کئی دوستوں کو سنا دیا۔ اس کے بعدیہاں بھی اپنی مجلس میں مَیں نے اس رؤیا کا ذکر کیا۔ تین چار سَو کا مجمع تھا جس میں مَیں نے اپنے اس خواب کو بیان کیا۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جیسے ہمارے ہندوستانی لوگوں پر کام کرتے وقت عام طور پر نحوست اور سستی چھا جاتی ہے یہی نقص ہماری جماعت کے بعض لوگوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ دس بارہ دن کے بعد جب میں نے دریافت کیا کہ اُس دن کی خوابوں والی ڈائری میرے پاس کیوں نہیں آئی؟ تو ڈائری نویسی کے محکمہ نے اطلاع دی کہ ہمارے ڈائری نویس صاحب معذرت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ دو دن پہلے آپ بیمار تھے اور مسجد میں تشریف نہیں لائے تھے اس لئے اُنہوں نے فرض کر لیا کہ آپ تیسرے دن بھی تشریف نہیں لائیں گے اور اس طرح وہ ڈائری قلمبند ہونے سے رہ گئی۔ بہرحال تین چار سو کے مجمع میں مَیں نے اپنے اس خواب کو بیان کر دیا تھا اور لاہور میں بھی کئی دوستوں کے سامنے اس کا ذکر کیا تھا۔ وہ رؤیا یہ تھا کہ ابو الکلام صاحب آزاد کے متعلق مجھے بتایا گیا کہ قریب عرصہ میں ان کی ذات کے متعلق ایک عظیم الشان واقعہ ہونے والا ہے۔ مَیں نے اس رؤیا کی تعبیر یہ بتائی تھی کہ انسانی زندگی میں دو ہی واقعات عظیم الشان ہوتے ہیں یا تو اس کا مرجانا اور یا جس کام میں وہ مشغول ہو اُس میں اُسے کسی عظیم الشان خدمت کا موقع مل جانا۔ پس میں نے کہا تھا کہ یا تو اس خواب میں ان کی موت کی طرف اشارہ ہے یا آزاد ہو جانے پر کسی بڑے کام کا موقع پانے کی طرف۔ اس رؤیا کے دو ماہ کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے کہ لارڈ ویول کی طرف سے ہندوستان کی آزادی کا سوال پیش کیا گیا اور چونکہ خدا نے اس رؤیا کو پورا کرنا تھا اس لئے اس نے اس رؤیا کو نمایاں طور پر پورا کرنے کے سامان اس طرح پیدا کئے کہ لارڈ ویول نے جن کو دعوت نامے بھیجے اُن میں ابو الکلام صاحب آزاد کا نام نہیں تھا۔ گاندھی جی کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے شمولیت سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ میں کانگرس کا نمائندہ نہیں۔ کانگرس کے صدر مولانا ابو الکلام آزاد ہیں۔ آپ مجھے ایک غیر جانبدار شخص کے طور پر بلا سکتے ہیں مگر کانگرس کی نمائندگی کے لئے آپ ابو الکلام صاحب آزاد کو بلائیں۔ چنانچہ اس کے بعد لارڈ ویول کی طرف سے ابو الکلام صاحب آزاد کو بھی دعوت دی گئی۔ اب چاہیں تو وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا لیں اور چاہیں تو اس کو ضائع کر دیں۔ بہرحال اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی سیاسی زندگی میں یہ سب سے اہم موقع ہے جو مولانا ابوالکلام صاحب آزاد کو ملا ہے۔ اِس وقت ہندوستان کی آزادی کا سوال پیش ہے اگر وہ اس کو رد کر دیں تب بھی یہ ایک بڑا واقعہ ہے جو ان کی طرف منسوب ہو گا۔ اور اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا کر ہندوستان کو آزاد کرا دیں تب بھی یہ ایک بڑا واقعہ ہے جو ان کی طرف منسوب ہو گا۔ اور اگر وہ اس کو رد کر دیں گے تو آئندہ آنے والی نسلیں ہمیشہ ان پر *** کریں گی کہ ہندوستان کو آزادی حاصل ہونے والی تھی مگر ابوالکلام آزاد کی وجہ سے آزادی نہ ملی۔ اور اگر وہ اس کوشش میں کامیاب ہو گئے اور انہوں نے سمجھوتہ کرا دیا تو آئندہ آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کریں گی کہ خدا ابو الکلام پر رحمت کرے کہ جب ہندوستان کی آزادی کا سوال آیا تو انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسی طرز پر کام کیا کہ ہندوستان کو آزادی نصیب ہو گئی۔
ہمارے ہاں مشہور ہے کہ کوئی شخص حج کے لئے گیا تو چشمۂ زمزم میں پیشاب کرنے بیٹھ گیا۔ لوگوں نے یہ دیکھ کر اُسے مارا پیٹا اور کہا کہ نامعقول! تُو نے یہ کیا حرکت کی ہے؟اس نے جواب دیا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ کوئی ایسا کام کروں جس سے میری شُہرت ہو جائے۔ جو بھی لیاقت کا کام ہوتا میں دیکھتا کہ ہزاروں آدمی مجھ سے زیادہ لائق ہیں اور میں ان کے مقابلہ میں کوئی شہرت حاصل نہیں کر سکتا۔ آخر مَیں یہاں حج کرنے کے لئے آیا تو مجھے خیال آیا یہ کام آج تک کسی نے نہیں کیا ہو گا اگرمیں ایسا کروں تو میری دنیا میں خوب شہرت ہو جائے گی۔ تو بڑے کام بُرے بھی ہوتے ہیں اور اچھے بھی۔
بہرحال یہ ایک ایسا موقع ابوالکلام صاحب کو ملا ہے کہ اگر وہ اس کو رد کر دیں تب بھی اتنا بُرا کام اور کسی نے نہیں کیا ہو گا اور اگر وہ اس سے فائدہ ا ٹھائیں اور اس تحریک کو قبول کر لیں تب بھی اتنا اچھا کام پچھلی کئی صدیوں میں کسی نے نہیں کیا ہو گا۔ پس وہ رؤیا اِس صورت میں پورا ہو چکا ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ ڈائری نویسوں کی سُستی کی وجہ سے وہ رؤیا شائع نہیں ہوا۔ بہرحال اُس روز قادیان کے تین چار سَو افراد شام کی مجلس میں موجود تھے جنہوں نے یہ رؤیا میری زبان سے سنا اور وہ اس رؤیا کی صداقت کے گواہ ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی بھاری حکمت معلوم ہوتی ہے کہ اول میں نے ہندوستان کی آزادی کے متعلق خطبہ پڑھا۔ پھر میری آواز چودھری ظفراللہ خان صاحب کے ذریعہ انگلستان پہنچی اور پریس میں ایک شور مچ گیا۔ اس کے بعد لارڈ ویول ہندوستان کی آزادی کے متعلق تجاویز لے کر انگلستان گئے اور وزارت سے دیر تک بحث کرتے رہے۔ اِسی دوران میں پارلیمنٹ کے نئے انتخابات کا سوال آگیا اور آخر کنزرویٹو پارٹی اِس بات پر مجبور ہو گئی کہ وہ جلد سے جلد اِس سوال کو اٹھائے۔ پھر خدا تعالیٰ نے مجھے قبل از وقت خبر دے دی کہ ابو الکلام صاحب آزاد کی زندگی سے ایک بہت بڑا کام وابستہ ہے۔ چنانچہ اِنہی کی پریذیڈنٹی میں یہ سوال اٹھا حالانکہ اگر وہ فوت ہو جاتے یا پریذیڈنٹ بدل جاتا تو یہ کام ان کی طرف منسوب نہ ہو سکتا۔ پس یہ تمام واقعات خدائی مشیّت کے ماتحت ہوئے ہیں۔ اور اس کے نشانات میں سے یہ ایک عظیم الشان نشان ہے جو ظاہر ہؤا ہے۔ یہ نشانات جو متواتر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہو رہے ہیں ہماری جماعت کے مخلصین کے ایمانوں میں زیادتی کا موجب ہونے چاہئیں اور انہیں دیکھنا چاہیے کہ کس طرح یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ ان کے لئے ایسے نشانات ظاہر کر رہا ہے جو انسانی طاقت و قوت سے بالکل بالا ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ہماری جماعت کو اپنے اخلاص اور اپنے ایمان اور اپنی قربانیوں میں نمایاں طور پر ترقی کرنی چاہئے۔
مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ بے شک جماعت مالی قربانی کر رہی ہے مگرجہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے اِس میں جماعت نے سُستی سے کام لیا ہے۔ اب بھی باوجود میرے خطبہ کے جماعت میں شائع ہونے کے جماعت میں سُستی کے آثار نظر آتے ہیں۔ سات مہینے تحریک جدید کے گیارہویں سال پر گزر چکے ہیں لیکن ابھی چالیس فیصدی چندہ بھی وصول نہیں ہوا۔ میں سمجھتا ہوں اِس میں زیادہ تر جماعت کی سُستی نہیں کیونکہ انجمن کے چندے باقاعدہ وصول ہو رہے ہیں۔ اس میں زیادہ تر غفلت تحریک جدید کے دفتر کی ہے۔ اگر لوگوں کے اخلاص اور ان کی قربانی میں کمی آجاتی تو چاہیے تھا کہ دوسرے چندوں میں بھی کمی آجاتی۔ لیکن صدر انجمن احمدیہ کے چندوں میں کمی نہیں آئی بلکہ زیادتی ہو رہی ہے۔ایک دو ہفتوں میں مجھے کمی نظر آئی تھی مگر انہوں نے ثابت کیا ہے کہ بعد کے ہفتوں میں یہ کمی پوری ہو کر پہلے سے بھی زیادہ چندہ وصول ہو گیا ہے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ یا تو جو میں نے کہا تھا کہ ہر انجمن میں اس غرض کے لئے ایک سیکرٹری تحریک جدید ہونا چاہیے دفتر نے اِس نشہ میں کہ میرے خطبات کی وجہ سے جماعت میں ایک عام بیداری پیدا تھی جماعتوں میں سیکرٹریوں کے مقر ر کرنے میں کوتاہی سے کام لیا ہے۔ اور یا پھر جو سیکرٹری مقرر ہیں وہ سُست ہیں دفتر نے ان کی نگرانی نہیں کی اور ان کو ہوشیار اور بیدار کرنے کے لئے کوئی جدوجہد نہیں کی۔ بجائے اس کے کہ وہ سیکرٹریوں کو چُست کرتے وہ ہمیشہ اخبار میں یہ اعلان کرتے رہتے ہیں کہ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ میں شامل ہونے کا وقت آگیا۔ یہ ایک فقرہ ہے جو انہوں نے سیکھا ہوا ہے اور اِسی ایک فقرہ کو وہ بار بار دہراتے چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ کوئی ایک فقرہ خواہ کتنا ہی بیدار کرنے والا ہو ہمیشہ کے لئے کام نہیں آسکتا۔ تیز سے تیز چُھری بھی تھوڑی دیر چلنے کے بعد کُند ہو جاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اسے تیز کیا جائے۔
حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ بھوپال میں ایک بزرگ تھے جن سے مَیں عموماً ملنے کے لئے جاتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ کچھ دیر کے بعد ملا تو آپ نےفرمایا میاں! کبھی قصاب کی دکان پر بھی گئے ہو؟ میں نے کہا ہاں جناب! کئی دفعہ جاتا ہوں۔ کہنے لگے کیا تم نے دیکھا کہ قصاب کچھ دیر گوشت کاٹنے کے بعد چُھریوں کوآپس میں رگڑ لیتا ہے؟ آپ فرماتے تھے میں نے کہا میں نے ایسا کئی بار دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا جانتے ہو وہ چُھریاں آپس میں کیوں رگڑتا ہے؟ اِس لئے رگڑتا ہے کہ چربی میں جب بار بار چُھری جاتی ہے تو کُند ہو جاتی ہے اور ضرورت ہوتی ہے کہ اُسے تیز کیا جائے۔ چنانچہ جب دو چُھریاں آپس میں رگڑی جاتی ہیں تو وہ دونوں تیز ہو جاتی ہیں۔ یہ مثال دے کر فرمانے لگے ہمارا دماغ بھی دُنیوی کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے کُند ہو جاتا ہے اور تمہارا دماغ بھی کُند ہو جاتا ہو گا۔ کبھی کبھی آجایا کرو تاکہ ہم بھی اپنی چُھریاں آپس میں رگڑ لیا کریں اور میرا اور تمہارا ذہن دونوں تیز ہوتے رہیں۔ تو متواتر السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے الفاظ کو اخبار میں دہراتے رہنا اثر کو کم کر دیتا ہے اور آخر کثرتِ استعمال کی وجہ سے السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے معنے جاتے رہتے ہیں۔ کام کرنے کا طریق یہ ہوتا ہے کہ تنظیم کی جائے۔ مگر انہوں نے جماعتوں میں اپنے سیکرٹری مقرر نہیں کئے۔ اور اگر کئے ہیں تو وہ سُست ہیں۔ چاہیے تھا کہ ان کو ہوشیار کیا جاتا یا بدلوایا جاتا مگر ان کو بدلوانے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ آٹھ سو جماعتوں میں صدر انجمن احمدیہ کے آدمی کام کرتے ہیں اور وہ اپنے چندوں میں برابر ترقی کر رہے ہیں۔ بے شک ان کے انسپکٹر بھی ہیں لیکن سیکرٹریانِ تحریک جدید کو بھی انسپکٹروں کے ذریعہ چُست کیا جا سکتا تھا۔ مگر دفتر والوں نے اِس بارہ میں اپنی ذمہ داری کو قطعاً محسوس نہیں کیا۔ پس اِس چندہ کی عدمِ وصولی میں زیادہ تر دفتر والوں کی کوتاہی ہے۔ اگر جماعت کی کوتا ہی ہوتی تو صدر انجمن احمدیہ کے چندوں پر بھی اس کا اثر پڑتا مگر ان کے چندوں پر اس کا اثر نہیں پڑا۔
پس میں اس کا الزام دفتر والوں کو دیتا ہوں مگر میں سمجھتا ہوں جماعت بھی اپنی ذمہ داری سے پوری طرح بَری نہیں۔ میں نے بتایا تھا کہ کام کرنے کا وقت اب آیا ہے اور یہی وہ سال ہے جس میں اخراجات پہلے سے کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ کچھ مبلغ باہر جا چکے ہیں اور کچھ مبلغ تیار ہیں جو عنقریب تبلیغ کے لئے غیر ممالک میں روانہ ہونے والے ہیں۔ اگرایسے وقت میں جماعت اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نہ سمجھے تو کس قدر افسوس کا مقام ہو گا یہ بالکل ویسی ہی بات ہو گی جیسے کوئی شخص اپنے معشوق سے ملنے کے لئے ایک لمبے فاصلہ سے دوڑتا چلا آئے مگر جب اس کے دروازہ پر پہنچ جائے تو ڈیوڑھی میں ہی بیٹھ جائے اور اندر داخل ہونے کی کوشش نہ کرے۔ جو افسوس ایسے شخص کو ہو گا وہی حال ان لوگوں کا ہے جنہوں نے دس سال قربانی کی مگر جب عملی طور پر کام کرنے کا وقت آیا اور خدا تعالیٰ کے سپاہی میدانِ جنگ میں کام کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے تو وہ ہمت ہار کر بیٹھ گئے۔ کیا خدا تعالیٰ کے نشانات، اُس کے تازہ بتازہ معجزات اور اس کی تائید اور نصرت کے متواتر واقعات سے مومنوں کو اسی طرح فائدہ اٹھانا چاہیے؟
یاد رکھو! خداتعالیٰ کے نشانات جہاں بہت بڑی رحمت کا موجب ہوتے ہیں وہاں بہت بڑے ابتلا کا بھی موجب ہوتے ہیں۔ اگر انسان ان نشانات کی قدر کرے تو اس کا ایمان زمین سے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ اور اگر وہ ان نشانات کی قدر نہ کرے اور ان سے فائدہ نہ اٹھائے تو اُس کا ایمان آسمان سے زمین پر آگرتا ہے۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان نشانات سے فائدہ اٹھائے، اپنے ایمانوں کو مضبوط بنائے اور پہلے سے زیادہ قربانیاں کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکہ اب اس کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت بڑھ گئی ہیں اور خدا نے اس پر حُجت تمام کر دی ہے۔ اگر اب بھی کوئی شخص توجہ نہیں کرے گا تو وہ گھڑا گھڑایا اور بنا بنایا مجرم خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا۔
وہ لوگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات نہیں دیکھے وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کیا کریں ہم نے تو اپنی آنکھ سے خدا تعالیٰ کا کوئی نشان نہیں دیکھا۔ وہ لوگ جن پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور گو کسی پہلے زمانہ میں انہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھا ہو مگر اب ایک لمبے زمانہ سے انہوں نے کسی نشان کو نہیں دیکھا وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات پر ایک عرصۂ دراز گزر چکا ہے۔ اب ہمارے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے اور ہم میں قربانی کرنے کی روح نہیں رہی۔ لیکن وہ جماعت جس کے سامنے خدا تعالیٰ نے اپنے تازہ بتازہ نشانات دکھائے ہیں اور اب بھی دکھا رہا ہے وہ خداتعالیٰ کو کیا جواب دے سکتی ہے۔ اس کے ایمان میں تو اتنی تیزی اور شدت ہونی چاہیے کہ کوئی بات اس کو سست کرنے والی نہ ہو۔ ہر قدم اس کا آگے بڑھے اور اِس طرح دیوانہ وار وہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہو جائے کہ اسے اپنی زندگی اور اپنی موت دونوں یکساں معلوم ہوں بلکہ موت اسے زندگی سے زیادہ شیریں اور لذیذ معلوم ہو۔ کیونکہ موت میں مومن اپنے یار کے دیدار کو دیکھتا ہے۔
صحابہؓ کی طرف دیکھو اُنہوں نےد ین کے لئے کیسی کیسی قربانیاں کیں۔ حضرت ضرارؓ بن اسود ایک مخالف جرنیل کے مقابلہ میں اُس سے لڑنے کے لئے نکلے۔ وہ کئی مسلمانوں کو شہید کر چکا تھا۔ جب یہ اُس کے سامنے ہوئے تو فورًا بھاگے اور دَوڑتے ہوئے اپنے خیمہ کی طرف چلے گئے۔ یہ دیکھ کر صحابہؓ میں سخت بے کلی اور بے چینی کی لہر دَوڑ گئی کہ اب عیسائیوں کے سامنے ہماری کیا عزت رہ جائے گی۔ کمانڈر انچیف نے فوراً ان کے پیچھے اپنا آدمی دوڑایا اور کہا کہ پتہ لو ضرارؓ کیوں بھاگے ہیں؟ وہ گیا تو اُس وقت ضرارؓ اپنے خیمہ سے باہر نکل رہے تھے اس شخص نے کہا ضرارؓ !آج تم نے کیا کیا؟ تمہارے اس فعل کے نتیجہ میں آج سارے اسلامی لشکر کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں کہ اسلام کا سپاہی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا صحابی میدانِ جنگ سے بھاگ گیا۔ حضرت ضرارؓ نے کہا ہاں تم نے یہی سمجھا ہو گا مگر بات یہ ہے کہ جب کئی مسلمان یکے بعد دیگرے اِس جرنیل کے ہاتھ سے مارے گئے تو میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس کے مقابلہ میں نکلوں گا۔ مگرجب میں اس کے سامنے کھڑا ہوا تو مجھے یاد آگیا کہ میں نے کُرتے کے نیچے لوہے کی زِرہ پہنی ہوئی ہے۔ اُس وقت میرے دل نے مجھ سے کہا کہ ضرار! کیا یہ زِرہ تو نے اِس لئے پہن رکھی ہے کہ یہ بڑا بھاری جرنیل ہے ایسا نہ ہو کہ تُو اس کے ہاتھ سے مارا جائے؟ کیا خدا کے ملنے سے تُو ڈرتا ہے کہ زِرہ پہن کر لڑنے کے لئے آیا ہے؟ جب میرے دل نے مجھ سے یہ کہا تو میں نے سمجھا اگر مَیں اِس وقت مارا گیا تو مَیں جہنم میں جاؤں گا کیونکہ اللہ تعالیٰ مجھے کہے گا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تجھے ہم سے ملنے کی خواہش نہیں تھی۔ چنانچہ میں دوڑتا ہوا واپس چلا گیا تا کہ میں زِرہ اُتا رآؤں اور اس کے بغیر اس کا مقابلہ کروں۔ چنانچہ انہوں نے اپنا کُرتا اٹھا کر بتایا کہ دیکھ لو میں زِرہ اُتار کر آیا ہوں۔ اس کے بعد وہ اس کے مقابلہ کے لئے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اِنہوں نے اُسے مار لیا۔ تو مومن موت کو اپنی زندگی سے بھی پیارا سمجھتا ہے۔ جس چیز کو لوگ ہلاکت سمجھتے ہیں مومن اسے اپنے لئے برکت کا باعث سمجھتے ہیں اور جس چیز کو لوگ تباہی کا موجب سمجھتے ہیں مومن اسے اپنی ترقی کا موجب سمجھتے ہیں۔
پس جہاں مَیں مرکز کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں اور ان کی غفلت اور کوتاہی پر انہیں ملامت کرتے ہوئے انہیں صحیح طور پر کام کرنے کی نصیحت کرتا ہوں وہاں مَیں جماعتوں کو بھی ملامت کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا۔ اور عین اُس موقع پر جبکہ ہم لڑائی کے لئے تیاری کر رہے تھے انہوں نے ہماری طبیعتوں کو مُشَوَّش2 کر دیا اور ہمارے وقتوں کو اس عظیم الشان کام کی بجائے اور کاموں کے لئے خرچ کروانے لگیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں کو دور کرے اور خدا تعالیٰ کے تازہ نشانات جو اس کے سامنے ظاہر ہو رہے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اپنے ایمان اور اپنے اخلاص کو بڑھاتی چلی جائے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ ہمارے کارکنوں کو اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ سُستی اور غفلت کو چھوڑ کر صحیح طریقوں پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو اُس کی صحیح بنیادوں پر قائم کر دیں تاکہ دونوں گروہ اُس کے حضور سُرخرو ہوں اور دونوں گروہ اُس کے حضور ثواب کے مستحق ہوں۔ ’’
(الفضل مورخہ 23 ،25 جون 1945ء )
1: بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ وَ وَہَبْنَا لِدَاوٗدَ…الخ
2: مشوّش: پریشان۔ مضطرب
20
کمیونزم موجودہ زمانہ کے سب سے بڑے فتنوں میں سے ایک فتنہ ہے
(فرمودہ 29جون 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘مَیں نے اس سال جلسہ سالانہ پر بعض کتابوں کےشائع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یعنی تفسیر کبیر کی ایک جلد بلکہ ہو سکے تو دو جلدیں۔ ستیارتھ پرکاش کا جواب اور ایک احادیث کا انتخاب۔ مجھے افسوس ہے کہ اِس سال کی پہلی ششماہی کے آخری حصہ میں ایک لمبی بیماری کی وجہ سے تفسیر کے کام میں بہت حد تک روک رہی ہے کیونکہ مئی اور جون کا اکثر حصہ میری بیماری میں گزرا ہے۔ لیکن آخری ایام میں بیماری کی تخفیف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے جو مجھے توفیق دی اس کی امداد سے تفسیر کی پہلی جلد کا بہت سا کام خدا تعالیٰ کے فضل سے میں نے ختم کر لیا ہے۔ اور سَوا چار سو صفحے کا مضمون چھ سو صفحات کی جلد میں سے یا تو میں دے چکا ہوں یا میرے پاس تیار پڑا ہے۔ امید ہے کہ بقیہ حصہ بھی ہفتہ عشرہ تک تیار ہو کر مکمل ہو جائے گا۔ اور اگر پریس کی دقّت پیش نہ آئی تو جولائی کے مہینہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ کام تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ دو سو ساٹھ صفحات تک مضمون پریس میں جا چکا ہے اور دو سو تک غالباً چَھپ بھی چکے ہیں۔
ہمارے لئے اس زمانہ میں پریس کی بہت دقتیں ہیں بڑے شہروں میں تو بہت سے پریس ہوتے ہیں اگر ایک خراب ہو جائے تو دوسرے پریس میں کتاب چَھپ سکتی ہے۔ دوسرا خراب ہو جائے تو تیسرے پریس میں کتاب چَھپ سکتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس سامان بہت کم ہیں۔ صرف ایک دو پریس ہیں اور وہ بھی اس قابل نہیں کہ سب کا سب تفسیر کا کام کر سکیں۔
جیسا کہ اعلان کیا جا چکا ہے آخری پارہ دو حصوں میں شائع ہو گا۔ کیونکہ مضمون کے متعلق اندازہ کیا گیا ہے کہ وہ غالباً ہزار صفحہ سےزیادہ ہو جائے گا۔ اس صور ت میں اس کا ایک جلد میں شائع کرنا مناسب نہیں تھا۔ کیونکہ تفسیر کبیر کی پہلی جلد جو شائع ہو چکی ہے اور جو ایک ہزار صفحہ کی کتاب ہے۔ وہ بھی بہت بھاری سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری دقّت ہمیں یہ پیش آئی کہ آجکل کاغذ نہیں ملتا۔ اس لئے موجودہ جلد کے لئے جو کاغذ مہیا کیا گیا ہے اور وہ پہلے کی نسبت زیادہ بھاری اور موٹا ہے۔ اس کی وجہ سے خطرہ تھا کہ یہ جلد ایسی بھاری ہو جائے گی کہ اس کا استعمال کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ جِلد بندی ہو کر اگست میں یہ کتاب لوگوں تک پہنچ جائے گی یا نہیں۔ بہرحال یہ امید کی جاتی ہے اور ہدایتیں یہی ہیں کہ جولائی میں یہ کتاب اللہ تعالیٰ کے فضل سے شائع ہو جائے۔ جو میرے کام کا حصہ ہے وہ اکثر ختم ہو چکا ہے باقی کام آٹھ دس دن میں انشاء اللہ ختم ہو جائے گا۔ اِس کے بعد میرا ارادہ ہے کہ اسکے دوسرے حصہ کی بھی جلد سے جلد تکمیل کر لی جائے تاکہ اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو حسبِ وعدہ دوسری جلد بھی جلسہ سالانہ سے قبل شائع ہو سکے۔اِس وقت دوسری جلد کے مضمون کا بھی ایک حصہ تیار ہے اور ایک حصہ ابھی تیار ہونے والا ہے جس کو ہمارے زود نویس لکھ رہے ہیں۔ اور غالباً پندرہ بیس دن تک وہ اس کام سے فارغ ہو جائیں گے۔ اس حصہ کو بھی درست کر کے میں انشاء اللہ کاتبوں کو دے دوں گا تاکہ دوسری جلد کی کتابت بھی جلد سے جلد شروع ہو جائے۔ صرف ایک ربع کا مضمون ابھی باقی ہے جس کے متعلق میرا منشاء یہ ہے کہ اس دفعہ ڈلہوزی میں درس دے کر وہ مضمون بھی لکھوا دوں۔ ستیارتھ پرکاش کے جواب کا بھی بہت سا کام ہو چکا ہے اور اب مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں اس پر نظرثانی کر کے مضمون کو انشاء اللہ درست کیا جائے گا۔ صرف ایک باب باقی ہے جو انشاء اللہ اگلے ایک دو ماہ کے اندر اندر لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس دوران میں میرا ایک لیکچر جو اسلام کے اقتصادی نظام پر لاہور میں ہوا تھا اور جس میں اسلامی اقتصادیات کا سوویٹ اقتصادی نظام کے ساتھ مقابلہ کر کے اسلامی نظامِ اقتصاد کی فوقیت کو ثابت کیا گیا تھا اس پر نظر ثانی کر کے اور آخری حصہ جو لیکچر میں پورے طور پر بیان نہیں ہو سکا تھا اُس کی مزید تشریح کر کے تحریک جدید والوں کو پانچ چھ دن ہوئے میں اپنی طرف سے مکمل طور پر دے چکا ہوں اور امید ہے کہ جولائی کے مہینہ میں یہ کتاب بھی انشاء اللہ شائع ہو جائے گی۔
میں نےد وستوں کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ کمیونزم اس زمانہ کے اہم ترین فتنوں میں سے ہے۔ یہ لوگ بظاہر تو کہتے ہیں کہ مذہب سے ہمارا کوئی ٹکراؤ نہیں لیکن ان کا تمام طوروطریق مذہب سے ٹکراؤ کا ہی ہے۔ درحقیقت اس اقتصادی نظام کے ماتحت جس کو سوویٹ سسٹم دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اسلام کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں۔ اب چند دن ہوئے روس کے کسی مسلمان امام کی طرف سے ایک اعلان شائع ہو اہے کہ یہ خبر بالکل غلط ہے کہ اس ملک میں اسلام کو کسی قسم کا ضُعف پہنچا ہے۔ ہم تو ہر طرح خوش و خرم ہیں لیکن ہمیں مولویوں کے اِس قسم کے اعلانات کی حقیقت اچھی طرح معلوم ہے۔ کیونکہ ہندوستان میں روزانہ اس قسم کے اعلان ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے ہندوستان کے بعض مولوی ہندوؤں کو خوش کرنے کے لئے اعلان کرتے رہتے ہیں کہ گاؤ کشی اسلام میں بھی حرام ہے اور درحقیقت اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی۔ تجارتی لوگوں کو خوش کرنے کے لئے مسلمانوں میں وہ علماء بھی ہیں جو سُود کی ایسی تعریف کرتے ہیں جس کے ماتحت بنکوں کا سُود سُود ہی نہیں رہتا بلکہ اس کا استعمال جائز ہو جاتا ہے۔ پھر ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ کوئی سیاسی مسئلہ جو لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف پھیر رہا ہوتا ہے اُس کے متعلق علماء کی ایک جماعت اعلان کر دیتی ہے کہ خالص اسلام یہی ہے۔ کبھی خالص اسلام انگریزوں کی تائید ہوتا ہے اور کبھی خالص اسلام ہندوستان سے ہجرت کرنا ہوتا ہے۔ کبھی خالص اسلام کانگرس کی مخالفت کرنا ہوتا ہے اور کبھی خالص اسلام گاندھی جی کی کامل اتباع ہوتا ہے۔ یہ خالص اسلام،اسلام نہیں بلکہ درحقیقت موم کی ناک ہے جسے مولوی اپنی مرضی کے مطابق ہمیشہ موڑتے رہتے ہیں۔ کبھی وہ اسے دائیں طرف کر دیتے ہیں اور کبھی بائیں طرف۔ ایسا ہی وہ اعلان بھی ہے جو بالشویک(Bolshevik) نظام کے متعلق ایک مسلمان امام نے کیا۔ اگر مسلمان اس ملک میں پوری طرح آزادی رکھتے ہیں، اگر عیسائیت وہاں پوری آزادی کے ساتھ اپنے عقائد کو پھیلا رہی اور لوگوں سے اپنے دین پر عمل کر ارہی ہے تو آخر وجہ کیا ہے کہ سوویٹ نظام غیر ممالک کے لوگوں کو اپنے ملک میں آنے کی اُسی طرح کھلی اجازت نہیں دیتا جس طرح ساری دنیا کے ممالک میں لوگوں کو آنے جانے کی اجازت ہے۔ آخر یہ چُھپانا اور لوگوں کو اپنے ملک میں داخلہ کی اجازت نہ دینا کس غرض کے لئے ہے۔ امریکہ میں ساری دنیا کے سیاح اور تاجر اور پیشہ ور جاتے ہیں مگر امریکہ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ انگلستان میں ساری دنیا کے سیاح اور تاجر اور پیشہ ور جاتے ہیں مگر انگلستان کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ فرانس میں ساری دنیا کے سیاح اور تاجر اور پیشہ ور جاتے ہیں مگر فرانس کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ حتّٰی کہ ہٹلر کی جرمنی کو بھی کوئی نقصا ن نہیں پہنچتا تھا۔ مسولینی کی اٹلی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا تھا اور وہاں سب لوگ آسانی سے آجا سکتے تھے۔ فرانکو کے سپین کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور وہاں سب لوگ آسانی سے آجا سکتے ہیں۔ ایشیائی حکومتیں جن کے متعلق مشہور ہے کہ وہ سختی سے کام لیتی ہیں وہ بھی اِس قسم کی رکاوٹیں حائل نہیں کرتیں اور نہ ان ممالک میں لوگوں کے آنے جانے میں کسی قسم کی دقتیں ہیں۔ ایران میں بھی لوگ جاتے ہیں، عراق میں بھی جاتے ہیں، شام میں بھی جاتے ہیں،مصر میں بھی جاتے ہیں۔ جاپانی لوگ نہایت قدامت پسند مشہور ہیں مگر جاپان میں بھی لوگوں کے آنے جانے میں کوئی روک نہیں تھی۔ چین ایک نہایت پیچھے رہا ہؤا ملک ہے مگر اس میں بھی لوگوں کےآنے جانے میں کوئی روک نہیں۔ پس آخر وہ کیا چیز ہے جس کو چُھپانے کے لئے روس میں کثرت سے اور بِلانگرانی لوگوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں۔ یہاں تک کہ روس کی سیر کے لئے جو بیرونی ممالک کے نمائندے جاتے ہیں ان کے ساتھ بھی ہر وقت ایک روسی افسر رہتا ہے۔ بظاہر تو یہ غرض ہوتی ہے کہ ان کو روس دکھایا جائے لیکن باہر آکر وہ بتاتے ہیں کہ ان کی اصل غرض یہ تھی کہ ہمیں پوری طرح روس دیکھنے نہ دیں۔ صرف وہی حصہ د یکھنے دیں جس کے متعلق وہ چاہتے ہیں کہ ہم دیکھیں۔ وہ حصہ ہمیں نہ دیکھنے دیں جس کے متعلق ہم چاہتے ہیں کہ دیکھیں۔
پس اس قسم کے اعلانات قطعاً کوئی حقیقت نہیں رکھتے ان تحریروں کے مقابلہ میں جو روس کے لیڈروں کی ہیں اور جن میں مذہب کی شدید مخالفت پائی جاتی ہے۔ بلکہ یہاں تک الفاظ پائے جاتے ہیں کہ مذہب کی موجودگی میں ہمارا طریق کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ لینن لکھتا ہے ہمارا پہلا فرض یہ ہے کہ ہم مذہب کو کچل دیں اور اسے دنیا سے مٹا کر رکھ دیں۔ یہ کہنا کہ مذہب سے ہمیں کوئی واسطہ نہیں لینن کہتا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے۔ ہمارا واسطہ ہے اور ضرور ہے اور وہ واسطہ یہ ہے کہ ہم مذہب کو دنیا سے مٹا دیں۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ جب تک خدا کا خیال دنیا میں باقی ہے۔ جب تک دنیا اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتی ہے اُس وقت تک ہمارے اصول دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اب بتاؤ جب کمیونزم کے بانی اپنی تحریرات میں یہ امر کھلے طور پر واضح کر چکے ہیں کہ دنیا سے مذہب کو مٹانا ان کا اولین فرض ہے تو ہم اس قسم کے ملّانوں کے اعلانات کو کیا کریں۔ ملّا نے تو ہمارے ملک میں بھی موجود ہیں اور وہ جو چاہیں اعلان کر دیتے ہیں۔ اس تجربہ کے بعد کسی مولوی کی ایسی تحریر سے متأثر ہو جانا قابلِ تعجب بات ہے۔
غرض اسلام کے لئے بلکہ دنیا کے تمام مذاہب کے لئے کمیونزم کا اقتصادی نظام ایک خطرناک چیز ہے کیونکہ وہ مذہب کی جڑ پر تبر رکھتا ہے اور مذہب کی اشاعت اور اس کی تبلیغ کے راستہ میں روک بنتا ہے۔ پس ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ کمیونزم کے متعلق جو لٹریچر شائع ہو اُس کی دنیا میں اچھی طرح اشاعت کرے۔ مَیں نے تحریک جدید والوں کو حکم دے دیا ہے کہ وہ اس کتاب میں کسی نفع کا خیال نہ رکھیں بلکہ لاگت کے قریب قریب قیمت پر اس کو تقسیم کریں۔ چنانچہ اس لحاظ سے کہ کچھ کتابیں مفت بھی دینی پڑتی ہیں۔ جو جماعتیں کثرت سے یہ کتاب خریدیں ان کے لئے ایسی قیمت مقرر کی گئی ہے جو لاگت سے بھی کم ہے کیونکہ انہیں کثرت کے ساتھ لوگوں میں مفت کتابیں تقسیم کرنی پڑیں گی اور پھر کچھ کتابیں یوں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ میں نے ان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس کی پہلی اشاعت پانچ ہزار کریں۔
میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعتیں ہر جگہ اس کتاب کو نہ صرف جماعت کے تمام افراد تک پہنچانے کی کوشش کریں گی بلکہ ہر جماعت یہ بھی کوشش کرے گی کہ اپنی جماعت کےا فراد سے دُگنی بلکہ تگنی تعداد میں اس کتاب کی مفت اشاعت اپنےا پنے علاقہ میں کرے۔ گاؤں میں چونکہ کتابوں کی تقسیم زیادہ نہیں ہو سکتی اس لئے شہری جماعتوں کو اس طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہیے اور انہیں شہری آبادی میں یہ کتاب زیادہ سے زیادہ تقسیم کرنی چاہیے۔ اگر بڑی بڑی جماعتیں اس کی طرف توجہ کریں جیسے امرتسر، لاہور، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، جہلم، فیروز پور، راولپنڈی، ملتان، منٹگمری، کراچی، پشاور ہیں۔ اسی طرح دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد، سکندرآباد،بمبئی اور کلکتہ وغیرہ کی جماعتیں مل کر کوشش کریں تو وہ بہت آسانی سے پندرہ بیس ہزار کتابیں اپنے اپنے علاقہ میں شائع کر سکتی ہیں۔
بعض علاقوں میں چونکہ ہماری جماعتیں تھوڑی ہیں اس لئے دوسری جماعتوں کو چاہیے کہ وہاں اپنی طرف سے یہ کتاب بھجوا دیں کیونکہ کمیونزم کا وہاں بہت زور پایا جاتا ہے۔ مثلاً کانپور کا شہر اس بات کے لئے مشہور ہے کہ سارے ہندوستان میں وہاں کمیونسٹ پارٹی طاقت رکھنے والی ہے۔ مگر ہماری جماعت وہاں بہت محدود ہے۔ اس لئے ہر جماعت کو یہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ کتابیں خریدتے وقت اپنے نسخوں میں سے پچاس یا سو کاپیاں کانپور کی جماعت کو بھی مفت بھیج دے تاکہ کانپور کی جماعت کمیونسٹ لوگوں میں اس کتاب کو مفت تقسیم کر سکے۔
ہمارے سامنے کمیونزم کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف عقلی لحاظ سے اسلام کے لئے خطرناک ہے بلکہ مذہبی لحاظ سے بھی بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ گزشتہ انبیاء نے ہزاروں سال سے اس فتنہ کے متعلق خبر دی ہوئی ہے۔ مسیح موعود کے زمانہ کے متعلق احادیث میں بھی آتا ہے اورپہلی کتب میں بھی کہ تمام گزشتہ انبیاء نے اِس زمانہ کے فتنوں کی خبر دی تھی۔ اور جب ہم فِتن کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں سب سے زیادہ اس فتنہ کی خبر معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ حزقیل نبی نے اپنی کتاب میں روس کے ایک فتنہ کے متعلق پیشگوئی کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ آخری زمانہ میں اس کے ذریعہ دین پر حملہ کیا جائے گا۔ گویا وہ فتنے جن کی تمام انبیاء نے خبر دی ہے ان میں اگر نام لے کر کسی فتنہ کی خبر دی گئی ہے۔ تو وہ یہی فتنہ ہے اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ فتنہ کتنا اہم ہے کہ اس نے آج سے ہزاروں سال پہلے اس کے متعلق خبر دے دی تھی تاکہ آخری زمانہ میں کمزور ایمان والے لوگ یہ نہ کہہ دیں کہ یہ خطرہ محض خیالی ہے۔ ہر نئی تبدیلی سے لوگ ڈر جاتے اور بغیر سوچے سمجھے اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ چونکہ اس نظام کے ذریعہ تمدن میں ایک تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس لئے اس نئی تبدیلی سے ڈر کر سوویٹ نظام کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ورنہ درحقیقت اس میں خطرہ کی کوئی بات نہیں۔
بے شک جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ حکومت سے تعلق رکھنے والی چیز ہے اور حکومت سے تعلق رکھنے والی عملی سیاست خواہ روس کی ہو یا کسی اور ملک کی ہمارا اُس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ لیکن جہاں تک سیاسیات کے فلسفہ کا سوال ہے ہمارا تعلق فلسفۂ سیاست سے ضرور ہے۔ کیونکہ فلسفہ ایسی چیز ہے جو ہر انسان سے تعلق رکھتا ہے۔ پس عملی سیاسیات سے بے شک ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔ اسے روس جانے، فرانس جانے، انگلستان جانے یا امریکہ جانے۔ لیکن جہاں تک اس کے ان مُضِر عقائد کا سوال ہے جن کا مذہب پر بُرا اثر پڑتا ہے تو ہر مذہب والا جس کے خلاف بات پڑتی ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرے اور اِس زہرکا ازالہ کرنے کی پوری کوشش کرے۔ مگر کمیونسٹوں کی طرف سے چونکہ ظاہر یہ کیا جاتاہے کہ ہم غرباء کی تائید اور ان کی مدد کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس لئے عام طور پر خواہ مسلمان ہوں یا ہندو اِس عقیدہ کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ بلکہ ہندوستان میں بعض مولوی ایسے موجود ہیں جو عام طور پر کمیونزم کی تائید کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض مسلمان اخبارات کے ایڈیٹر ہیں جو اس کی تائید میں زور و شور سے مضامین لکھتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ان اقتصادیات کا ہمارے ملک سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ وہ اقتصادیات خالص روس کی ترقی کے لئے ہیں اور روس ہی ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مگر بعض دفعہ ایک چیز ایسی خوشنما معلوم ہوتی ہے کہ انسان اسے لینے کی کوشش کرتا ہے خواہ وہ کتنی ہی مُضِر کیوں نہ ہو۔
مثنوی رومی والے لکھتے ہیں۔ ایک سپیرا تھا جسے ایک دفعہ نئی قسم کا سانپ مل گیا۔ اُس نے سمجھا کہ مجھے ایک عجیب چیز مل گئی ہے میں اس کا تماشہ دکھا دکھا کر لوگوں سے بہت روپے کمالوں گا۔ رات کو اُس نے وہ سانپ ایک گھڑے میں بند کیا اور خود کسی کام میں مشغول ہو گیا۔ چونکہ وہ نئی قسم کا سانپ تھا اس لئے تھوڑی دیر کے بعد اسے پھر شوق پیدا ہؤا کہ میں اِس کو دیکھوں۔ جب اُس نے ڈھکنا اٹھایا تو سانپ اندر سے غائب تھا۔ معلوم ہوتا ہے کسی نے غلطی سے ڈھکنا کھول دیا۔ اور سانپ اندر سے نکل گیا۔ وہ سمجھتا رہا کہ میرا سانپ محفوظ ہے مگر جب اُس نے برتن کو کھولا تو اُس میں سانپ نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر اسے شدید صدمہ ہوا کہ مجھے ایک ہی چیز ملی تھی جس سے میں اپنے لئے بڑی آمدنی پیدا کر سکتا اور اپنے سپیرے بھائیوں پر فخر کر سکتا تھا مگر افسوس کہ وہ چیز گُم ہو گئی۔ اِس کا اُسے ایسا صدمہ ہوا کہ وہ ساری رات دعائیں کرتا رہا کہ یا اللہ! یہ کیا ہو گیا ہے؟ مجھے ایسا عجیب سانپ ملا تھا اور وہ کہیں غائب ہو گیا ہے الٰہی! میرا سانپ مجھے مل جائے۔ الٰہی! میرا سانپ مجھے مل جائے۔ کچھ دیر دعا کرنے کے بعد وہ اٹھتا اور اِدھر اُدھر دیکھتا کہ مکان کے کسی گوشہ میں تو وہ نہیں بیٹھا۔ مگر جب سانپ دکھائی نہ دیتا تو پھر دعائیں شروع کر دیتا یہاں تک کہ ساری رات وہ دعاؤں میں مشغول رہا۔ آخر اُس کے دل میں مایوسی پیدا ہوئی کہ میں نےساری رات دعا بھی کی اور سانپ بھی مجھے نہ ملا۔ جب صبح ہوئی تو ایک شخص آیا اور اس نے دروازہ پر دستک دے کر کہا کہ فلاں گھر میں تمہیں بلاتے ہیں وہاں ایک موت واقع ہو گئی ہے۔ وہ اس کا ایک رشتہ دار سپیرا تھا۔ جب یہ وہاں گیا تو اس نے دیکھا کہ وہی سانپ جس کے لئے وہ ساری رات دعائیں کرتا رہا تھا انہوں نے مار کر رکھا ہوا ہے اور پاس ہی ایک لاش پڑی ہے۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ سانپ رات کو اتفاقاً یہاں سے گزر رہا تھا کہ اس شخص نے پکڑ لیا سانپ نے اسے کاٹا اور یہ مرگیا کیونکہ یہ نئی قسم کا سانپ تھا جس کے زہر کا علاج ہمیں معلوم نہیں۔ وہ یہ دیکھتے ہی سجدہ میں گر گیا اور اس نے خدا تعالیٰ سے کہا یا اللہ! میں نے یونہی بدظنی کی تھی کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی۔ اگر میری دعا قبول ہو جاتی اور یہ سانپ مجھے مل جاتا تو اس شخص کی بجائے آج میری لاش پڑی ہوتی۔ تو بعض دفعہ انسان ایک چیز کو اچھا اور خوشنما سمجھتا اور اسے لینے کی خواہش کرتا ہے مگر وہ ہوتی بری ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کونسی چیز انسان کے لئے اچھی ہے اور کون سی بُری۔
وہ خدا جس نے آج سے اڑھائی ہزار سال پہلے حزقیل نبی کے ذریعہ اس فتنہ کی خبر دی تھی اُس خدا کایہ فعل ظاہر کر رہا ہے کہ اس فتنہ کو معمولی سمجھنا یا اس کے خطرناک نتائج سے اپنی آنکھیں بند کر لینا نادانی اور حماقت ہے۔ آجکل کے لوگوں کے متعلق تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہیں کمیونزم سے حسد ہے، بُغض اور کینہ ہے جو ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے۔ یا وہ پرانی لکیر کے فقیرہیں یا ایسے جاہل ہیں کہ اقتصادیات کے فلسفہ کو نہیں سمجھ سکتے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آج سے پچیس سَو سال پہلے حزقیل نبی کو کس نے اس فریب اور دغا میں شامل کر لیا تھا؟ آخر یہ کیا بات ہے کہ حزقیل نبی نے آج سے پچیس سو سال پہلے یہ خبر دی جو آج تک بائبل میں لکھی ہوئی موجود ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ حزقیل نبی کو آجکل کے زمانہ کے لوگوں نے اس فریب میں شامل کر لیا تھا؟ کیا اینٹی کمیونزم پالیسی کو اختیار کرتے وقت ہٹلر نے حزقیل سے منصوبہ کیا تھا؟ یا کیا مسولینی نے کمیونزم کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے لئے حزقیل سے منصوبہ کر لیا تھا؟ یا کیا انگلستان کی کسی اینٹی کمیونزم پارٹی نے حزقیل سے منصوبہ کر لیا تھا؟ یاامریکہ کے رہنے والوں میں سے کسی شخص میں یہ طاقت تھی کہ وہ آج سے پچیس سو سال پہلے کے کسی نبی سے اپنی تائید میں کوئی خبر لکھوا سکتا؟ اور اگر کسی آدمی میں یہ طاقت ہو سکتی ہے کہ وہ پچیس سَو سال پہلے اپنے متعلق کوئی خبر لکھوا دے تو وہ آجکل کے لوگوں سے کیا ڈر سکتا ہے؟ جو شخص ایسا کر سکتا ہے اس کے متعلق یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کو بھی ملیامیٹ کر سکتا ہے۔
پس یہ وہ فتنہ ہے جس کا حزقیل نبی کی پیشگوئی میں ذکر آتا ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جو بہت بڑے فِتن پیدا ہونے والے ہیں ان کی سب نبیوں نے خبر دی ہے۔ گویا آپؐ نے بھی اس رنگ میں حزقیل نبی کی پیشگوئی کی تائید کر دی۔ یہ امر بتاتا ہے کہ جہاں تک عملی سیاست کا تعلق ہے گو ہمارا کسی حکومت سے کوئی لگاؤ نہیں۔ مگر جہاں تک اس فلسفۂ سیاست کا تعلق ہے خدا اس نظام کا دشمن ہے۔ اور آج سے ہزاروں سال پہلے خدا نے اپنے انبیاء کے ذریعہ اس فتنہ کی اسی لئے خبر دی تاکہ مومنوں کا ایمان مضبوط رہے اور کمزور لوگ مذہب کے خلاف اِس تحریک کو قبول کرنے کےلئے تیار نہ ہو جائیں۔
پس ہماری جماعت کو اس فتنہ کے مقابلہ کے لئے پوری طرح تیار ہو جانا چاہیے۔ میں نے تحریک کی تھی کہ کالجوں کے پروفیسر اس طرف خصوصیت سے توجہ کریں اور وہ لڑکوں کے سامنے اس پر تقریریں کرتے رہیں۔ میں نے کہا تھا کہ ہمارے ماہرِ فن جو اقتصادیات یا مذہب میں مہارت رکھتے ہیں وہ کمیونزم کے ان اثرات پر روشنی ڈالیں جو اقتصاد اور مذہب پر پڑتے ہیں۔ اسی طرح میں نے کہا تھا کہ ہمارے مبلغ اپنے تبلیغ کے دائرہ کو کمیونسٹ پارٹی کی طرف وسیع کریں۔ غرض میں نے جماعت کو اِس فتنہ کی اہمیت بتاتے ہوئے انہیں نصیحت کی تھی کہ وہ اس فتنہ کو مٹانے کے لئے پوری طرح تیار ہو جائیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ میری اس نصیحت کا کسی قدر اثر بھی ہوا ہے خصوصاً کانپور جو کمیونزم کا گڑھ ہے وہاں ہماری جماعت کے بعض افراد نے کوشش کی۔ چنانچہ ایک آدمی جو کمیونزم کی طرف مائل تھا احمدی ہو گیا ہے اور مزید تبلیغ جاری ہے۔ اسی طرح اس موضوع پر قادیان میں بھی کچھ لیکچر ہوئے ہیں اور باہر سے بھی ‘‘الفضل’’ میں بعض مضامین شائع ہوئے ہیں۔ جن میں سے بعض مضمون اچھے تھے اور ان میں مفید معلومات لوگوں کے سامنے پیش کئے گئے تھے۔ مگر یہ کام اِس قسم کا نہیں کہ میں نے خطبہ پڑھا، لوگوں نے دو چار دن توجہ کی اور پھر خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ یہ کام تو ایسا ہے کہ اِس میں ہزاروں ہزار آدمی مشغول ہو جانے چاہئیں تب دنیا میں کچھ حرکت پیدا ہو سکتی ہے۔ جو تنظیم ان لوگوں میں پائی جاتی ہے وہ ایسی ہے کہ ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور ان کے لاکھوں مبلغ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں امریکہ کے ایک اخبار میں شائع ہوا تھا کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات کی اشاعت کے لئے بارہ ہزار مبلغ روس میں تیار کئے جا رہے ہیں۔ اس سے تم سمجھ لو کہ اگر بارہ ہزار مبلغ ایک وقت میں روس کے ایک مدرسہ میں تیار کئے جا رہے ہیں تو پندرہ بیس سال میں وہ مختلف ممالک میں اپنے کس قدر مبلغ پھیلا چکے ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں ان کے مبلغ چار پانچ لاکھ سے کم نہیں ہو سکتے۔ اب بتاؤ وہ کام جو دنیا میں چار پانچ لاکھ باقاعدہ مبلغ علاوہ لاکھوں دوسرے آدمیوں کے کر رہا ہے اگر اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پانچ دس آدمی پندرہ بیس دن کام کر کے خاموش ہو جائیں تو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ پس ضرورت ہے کہ تقریر کے ذریعہ سے، تحریر کے ذریعہ سے، گفتگو کے ذریعہ سے، طلباء کے ذریعہ سے، وکلاء کے ذریعہ سے، ڈاکٹروں کے ذریعہ سے، مزدوروں کے ذریعہ سے، پیشہ وروں کے ذریعہ سے، صنّاعوں کے ذریعہ سے، سیاحوں کے ذریعہ سے، تاجروں کےذریعہ سے اِس تحریک کے وہ تمام پہلو جو مذہب سے ٹکراؤ رکھتے ہیں بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بتایا جائے کہ درحقیقت یہ اسلامی اقتصاد کی ایک بُری شکل ہے جو کمیونزم کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کی جار ہی ہے۔ اسلام نے جو چاہا تھا کہ امیر اور غریب کے فرق کو مٹا کر دنیا میں مساوات قائم کی جائے غرباء کو آگے بڑھنے کے مواقع بہم پہنچائے جائیں دولت کو چند محدود ہاتھوں میں نہ رہنے دیا جائے اور امراء کو نسلاً بعد نسلٍ اپنی دولت پر قابض نہ رہنے دیا جائےاس نظام کی کمیونسٹ نظام نے ایک نقل اتاری ہے۔ مگر ایسے بھونڈے طریق پر کہ اِس نے انسانی آزادی کو کچل دیا ہے اور وہ بِلاوجہ مذہب کے خلاف کھڑا ہو گیا ہے۔ جب اس رنگ میں ہر مذہب اور ہر قوم اور ہر فرقہ اور ہر پیشہ اور ہر حرفہ والے کو ہم اپنے خیالات پہنچائیں گے اور متواتر اور مسلسل پہنچائیں گے تب اس کے نتیجہ میں انہیں کمیونزم سے نفرت ہو گی اور تبھی ہماری جدوجہد صحیح نتائج کی حامل ہو گی۔
یاد رکھو کہ جن فتنوں کے متعلق خدا اور اس کے رسول نے خبر دی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا ہے کہ ان سے بڑے فتنے پہلے کبھی نہیں ہوئے اور اِسی وجہ سے شروع سے لے کراب تک تمام انبیاء ان کی خبر دیتے چلے آئے ہیں ان کے متعلق وہ جدوجہد جو ہماری جماعت اِس وقت کر رہی ہے کچھ بھی حقیقت اور وقعت نہیں رکھتی۔ معمولی معمولی لڑائیوں میں گاؤں کا گاؤں باہر نکل آتا ہے ایک چھوٹے سے کھیت کے کنارے پر جھگڑا ہوتا ہے۔ بعض دفعہ ایک مینڈ1 پر لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو پچاس پچاس ، سو سو آدمی ایک طرف سے اور پچاس پچاس، سو سو آدمی دوسری طرف سے مقابلہ کے لئے نکل آتے ہیں۔ حالانکہ اس جھگڑے کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہوتی۔ مگر یہ وہ فتنہ ہے جس کے متعلق تمام انبیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں۔ آدمؑ سے لے کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے لوگوں کو اس فتنہ سے نہ ڈرایا۔ اتنے عظیم الشان فتنہ کے متعلق جس کی تمام انبیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں اگر ہماری جدوجہد کو دیکھا جائے تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ یا تو سارے انبیاء سے خدا نے مذاق کیا ہے اور یا یہ کہنا پڑے گا کہ انہوں نے ہم سے مذاق کیا ہے۔ فتنہ تو صرف اتنا تھا کہ ایک یا دو آدمیوں کی تقریروں سے یا ایک یا دو مضمون ‘‘الفضل’’ میں شائع کرا دینے سے دور ہو سکتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آدم سے لے کر اب تک تمام انبیاء کے ذریعہ اس کی خبر دینی شروع کر دی۔ اور کہنا شروع کر دیا کہ ایک بہت بڑا فتنہ ہے، بہت بڑا خطرہ ہے جو تمہارے سامنے آنے والا ہے۔ حالانکہ وہ خطرہ ایسا تھا جس کے لئے ‘‘الفضل’’ کے ایک یا دو مضمون کافی تھے، جس کے لئے ہمارے کالج کے کسی پروفیسر کےا یک یا دو لیکچر کافی تھے، اس کے لئے ہمارے کسی مبلغ کی ایک یا دو تقریریں بھی کافی تھیں۔ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے اسے اِس قدر اہمیت کیوں دی۔ اُس نے آدمؑ کے وقت سے کہنا شروع کر دیا کہ لوگو! ایک بہت بڑ افتنہ آنے والا ہے اس سے ڈر جاؤ اور ابھی سےاس کے متعلق دعائیں کرنا شروع کر دو۔ پس یا تو اللہ تعالیٰ نے مذاق کیا ہے نبیوں سے اور یا نبیوں نے مذاق کیا ہے ہم سے۔ اور اگر یہ باتیں ہماری عقل میں نہیں آسکتیں اور نہیں آنی چاہئیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ نہ خدا نے اپنے نبیوں سے مذاق کیا اور نہ نبیوں نے ہم سے مذاق کیا۔ بلکہ ہم مذاق کر رہے ہیں اپنے ایمان سے، ہم مذاق کر رہے ہیں اپنی عقل سے اور ہم مذاق کر رہے ہیں اپنے مذہب سے۔ ان دو صورتوں کے علاوہ اَور کوئی صورت نہیں ہو سکتی کہ یا تو خدا اور اس کے رسول نے ہم سے مذاق کیا ہے اور یا ہم ان سے مذاق کر رہے ہیں۔ اگر وہ فتنہ اتنا اہم نہیں تھا جتنا انہوں نے بتایا اور ہماری موجودہ جدو جہد اس فتنہ کو مٹانے کے لئے کافی ہے تو پھر خدا نے ہم سے مذاق کیا ہے۔ اور اگر یہ فتنہ اُتنا ہی بڑا ہے جتنا خدا اور اس کے رسولوں نے ظاہر کیا تو ہم مذاق کر رہے ہیں خدا سے۔ ہم مذاق کر رہے ہیں خدا کے رسولوں سے۔ اور ہم مذاق کر رہے ہیں اپنے ایمان سے ۔ پہلی بات تو ممکن نہیں مگر دوسری بات ممکن ہے۔ مگرجہاں یہ بات ممکن ہے وہاں ہمارے لئے سخت حسرت اور اندوہ کا مقام بھی ہے کہ جس بات کے لئے ہمیں قبل از وقت ہوشیار کردیا گیا تھا اس کی خبر سن کر بھی ہم ہوشیار نہ ہوئے اور غفلت میں اپنےقیمتی اوقات کو ضائع کرتے رہے۔
کمیونسٹوں کی طرف سے بار بار مجھے اطلاعات مل رہی ہیں کہ آپ تو باہر کے لوگوں کو درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہم قادیان میں ہی فتنہ پیدا کرنے کی تدابیر سوچ رہے ہیں۔ اور ہم نے اپنے ایجنٹ بھی وہاں بھیج دیئے ہیں تا کہ اندر ہی اندر آہستہ آہستہ فتنہ پیدا کریں۔ یہ بات تو الگ ہے کہ جماعت نے اُس فتنہ کی اہمیت کو ابھی تک نہیں سمجھا۔ یہ بات بھی الگ ہے کہ ہماری جماعت نے اس آواز پر لبیک نہیں کہا جو میں نے بلند کی تھی۔ لیکن کمیونسٹ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب میں اپنی جماعت کو امداد کے لئے بلاتا ہوں تو میرا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اُن کی مدد کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ میں صرف ان کو ثواب میں شریک کرنے کے لئے بلاتا ہوں۔ ورنہ جب خدا نے مجھے اِس کام کے لئے کھڑا کیا ہے تو اگر لاکھوں کی جماعت میں سے کوئی ایک شخص بھی میرا ساتھ نہیں دیتا تب بھی کمیونسٹ میرے مقابلہ میں جیت نہیں سکتے بلکہ ان کا ہی منہ کالا ہو گا۔ کیونکہ میری آواز میری نہیں بلکہ میری زبان سے خدا اپنی آواز دنیا میں پھیلا رہا ہے۔ اور خد اکا مقابلہ کرنے کی ان کمیونسٹوں میں تو کیا ان کے سرداروں میں بھی طاقت نہیں ہے۔ میں اگر اپنی جماعت کو کسی نیکی کی طرف توجہ دلاتا ہوں تو میرا ان کو توجہ دلانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کسی ملک میں سونا برس رہا ہو تو وہ شخص جس کے رشتہ دار غفلت میں سوئے پڑے ہوں وہ اُن کو آواز دینے لگ جائے کہ آؤ اور اِس لُوٹ میں تم بھی شامل ہو جاؤ۔ وہ اگر بلاتا ہے تو اِس لئے نہیں کہ اُسے فائدہ پہنچے بلکہ اس لئے کہ ان غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے حصہ نہ لینا انسان کی بہت بڑی محرومی ہوتی ہے۔
تفسیروں میں ایک روایت آتی ہے گو وہ کمزور روایت ہے اور تمثیلی زبان اس میں اختیار کی گئی ہے مگر بہرحال اس روایت میں سبق موجود ہے۔ گو اس وجہ سے کہ اس کی زبان تمثیلی ہے لوگوں نے غلطی سے اس واقعہ کو ظاہر پر محمول کر لیا ہے۔ بعض دفعہ ایک خواب ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھایا جاتا ہے مگر لوگ اسے ظاہری واقعہ سمجھ لیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ بھی ایک خواب تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیان کیا مگر لوگوں نے اسے ایک ظاہری واقعہ سمجھ لیا۔ یہ روایت یوں بیان کی جاتی ہے کہ حضرت ایوبؑ ایک دفعہ نہا رہے تھے کہ اُن پر سونے کی مچھلیوں کی بارش شروع ہو گئی۔ حضرت ایوبؑ نے نہانا چھوڑ دیا اور جلدی جلدی اُن مچھلیوں کو چُننا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دیکھا تو حضرت ایوب علیہ السلام سے کہا اے ایوب! کیا تجھے میں نے اتنی دولت نہیں دی تھی جو تیرے لئے کافی ہوتی؟ اور کیا میں نے تیرے اہل و عیال میں برکت نہیں رکھ دی تھی؟ پھر تُو نے یہ کیا حرص کا کام کیا کہ نہانا چھوڑ کر مچھلیاں چننے میں مشغول ہو گیا؟ حضرت ایوب علیہ السلام نے جواب دیا۔ اےمیرے اللہ! وہ دولت جو تُو نے مجھے دی ہے میرے لئے کافی ہے مگر تیرا فضل تو کسی کے لئے کافی نہیں ہو سکتا۔ میں سونے کی مچھلیاں نہیں چُن رہا تھا بلکہ میں تیرے فضل کو چُن رہا تھا کیونکہ تیرے فضل سے کوئی انسان مستغنی نہیں ہو سکتا۔
پس ایک مومن خواہ کتنا کام کرے وہ ثواب کے نئے سے نئے مواقع تلاش کرتارہتاہے۔ اور مومنوں کے استاد اور راہبر کا فرض ہوتاہے کہ وہ ان سب کو ثواب میں حصہ لینے کے لئے بلائے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ سمجھتاہے کہ ان کی مدد کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ خدا کے کام بہرحال ہو کر رہتے ہیں خواہ بنی نوع انسان ان کی طرف توجہ کریں یا نہ کریں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے کہا۔ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ 2۔ مگر اس کے باوجود موسیٰ ؑ جیت ہی گئے۔ یہ نہیں ہوا کہ موسیٰ ؑ ہار گئے ہوں اور دشمن کامیاب ہو گیا ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم صرف تجھے مخاطب کرتے ہیں، تیرا فرض ہے کہ تُو دشمن سے لڑے۔ مسلمان اگر تیرے ساتھ شامل ہو نا چاہیں تو ہو جائیں ورنہ اصل ذمہ داری صرف تجھ پر ہے۔ اور تجھ اکیلے کو ہمارا حکم ہےکہ تُو اس کام کو سر انجام دے۔ چنانچہ کون کہہ سکتا ہے کہ صحابہؓ اگر آپؐ کے ساتھ نہ جاتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نَعُوْذُ بِاللہِ مارے جاتے۔ اگر ایک صحابی بھی آپؐ کے ساتھ نہ جاتا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ والوں کو مار کر ہی آتے ان سے شکست کھا کر واپس نہ آتے۔
پس خدا کے کام ہو کر رہیں گے دشمن ناکام ہو گا اور اس فتنہ کے پیدا کرنے میں اسے ذلت و رسوائی کا سامنا کر نا پڑے گا۔ بے شک جماعت میں کچھ لوگ منافق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے پہلے بھی ایسے فتنے پیدا ہوتے رہے ہیں مگرنہ پہلے کوئی فتنہ کامیاب ہوا اور نہ یہ فتنہ کامیاب ہو گا۔ خدا کی مشیّت بہرحال پوری ہو کر رہے گی اور اِس قسم کے لوگ ہمیشہ ناکام و نامراد رہیں گے۔ لیکن میرا یہ فرض ہے اور ہمیشہ رہے گا کہ میں جماعت کے لوگوں کو بار بار توجہ دلاتا رہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ثواب کے کاموں میں حصہ لینے کی کوشش کریں، زیادہ سے زیادہ الٰہی تحریک کو پھیلانے کی کوشش کریں اور زیادہ سے زیادہ شیطانی تحریک کو کچلنے کی کوشش کریں۔ ’’
(الفضل مورخہ 5 جولائی 1945ء)
1: مینڈ: کھیت کی منڈیر، باڑ،پشتہ، حد ،گھاٹ
2: المائدۃ:25
21
اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ
کی لطیف تفسیر
(فرمودہ 6 جولائی 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی )
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سورۃ آل عمران کی درج ذیل آیت تلاوت کی:
‘‘اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ١ؕ خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ۔1 ‘‘یہ آیت قرآن مجید میں سورۂ آل عمران میں عیسائیوں کے مباحثہ کےذکر میں آتی ہے اور مختلف رنگ میں لوگوں نے اس کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس کے الفاظ اور اس کی عربی پر پورا غور نہ کرنے کی وجہ سے اس کے صحیح معنی نہیں سمجھ سکے۔ غالباً غور تو کیا ہو گا۔ لیکن غور کےباوجود اصل مضمون کی طرف نہیں گئے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک چیز ذہن پر غالب ہوتی ہے اور وہ انسان کو الفاظ کے صحیح مضمون کی طرف جانے سے روک دیتی ہے۔ اور غالباً اِسی وجہ سے مفسرین کا ذہن اس طرف نہیں گیا۔ اس آیت کے معنے یہ کئے جاتے ہیں کہ عیسیٰؑ کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدمؑ کی طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا پھر اسے کہا ہو جا۔ اگلے الفاظ کے معنی بِلاساختہ بغیر الفاظ کی طرف نظر کئے یہ کر دیئے جاتے ہیں۔ پھر وہ ہو گیا۔ حالانکہ عربی زبان میں يَكُوْنُ کے معنی
‘‘ہو گیا’’ کے نہیں ہوتے۔ مضارع جب امر کے مقابلے میں آئے تو اس کے دو معنے ہوتے ہیں ہوتا ہے یا ہو جائے گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے لفظ کُنْ کہا یعنی ہو جا۔ تو اس کے نتیجہ میں فَیَكُوْنُآیا ہے۔ پس يَكُوْنُ کے یا تو یہ معنے ہیں کہ پھر خدا تعالیٰ کے حکم کے نتیجہ میں ویسا ہی ہوتا جا رہا ہے اور ہوتا جائے گا۔ اور یا پھر یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کُنْ کہا اس لئے اب وہ امر جس کے بارہ میں ایسا کہا تھا ضرور ہو کر رہے گا۔ یہی معنی ماضی اور امر کے بعد کے مضارع کے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں۔ ان دونوں معنوں کےسوا عربی زبان میں اس کے اور کوئی معنے نہیں ہوتے اور نہ عقلاً ہو سکتے ہیں۔ اردو زبان ہی کو لے لو اگر کوئی شخص یہ فقرہ کہے کہ میں نے زید سے کہا کہ چلا جا سو وہ چلا جائے گا۔ تو اس کے معنے کبھی بھی کوئی شخص یہ کر سکتا ہے کہ وہ چلا گیا یا یہ کہے کہ میں نے زید سے کہا پڑھ سو وہ پڑھ رہا ہے۔ تو اس کے کبھی بھی یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ کسی سابق زمانہ میں پڑھ چکا ہے۔ مضارع حال یا استقبال کے لئے آتا ہے۔ اور حال جب ماضی کے جواب میں آئے تو اس کے معنے استمرار کے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ فعل زمانۂ ماضی سے شروع ہؤا اور اب تک جاری ہے۔ جب یہ ذکر ہو کہ زمانہ ماضی میں کسی نے حکم دیا تھا اور اس کے نتیجۂ امر کے جواب میں فعل مضارع آئے تو اس فعل مضارع کو استعارۃً بھی ماضی کے معنوں میں استعمال نہیں کرسکتے۔ بلکہ وہ صرف حالِ استمراریہ یا مستقبل کے معنے دے گا۔ لیکن گزشتہ لوگ اس جگہ يَكُوْنُ کے معنی ماضی کے کرتے چلے آئے ہیں۔ اور یہ مطلب لیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ ہو جا سو وہ ہو گیا۔ حالانکہ ماضی میں دیئے جانے والے أمر کے جواب میں جو مضارع آئے اس کے معنے ماضی کے کبھی نہیں کئے جا سکتے۔ اگر اللہ تعالیٰ ماضی کا واقعہ بیان فرماتا تو یوں فرماتا کہ قَالَ اللّٰہُ کُنْ فَکَانَ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ ہو جا سو وہ ہو گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے فَیَكُوْنُ ۔ پس وہ ہو جائے گا یا ہوتا چلا آرہا ہے۔ اب ان معنوں کو مدنظر رکھ کر آیت کے وہ معنے کرو جو مفسرین نے کئے ہیں۔ یعنی اس آیت کو آدمؑ اور مسیحؑ کی محض پیدائش کے متعلق سمجھو تو آیت کا یوں ترجمہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسیح کی مثال آدمؑ کی طرح ہے۔ اسے اس نے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر اسے کہا ہو جا سو وہ ہو جائے گایا یہ کہ ہوتا چلا آرہا ہے اور ہوتا چلا جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ معنے بالکل بے جوڑ ہیں۔ آدمؑ اور مسیحؑ دونوں ہزاروں سال پہلے پیدا ہو چکے ہیں۔ پس آیت کے یہ معنے کرنے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا پیدا ہو جا چنانچہ وہ پیدا ہو جائے گایا پیدا ہوتا چلا جائے گا ایک بِالبداہت طور پر غلط بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ہے۔ اس مشکل کا حل دو ہی طرح ہو سکتا ہے۔ یا تو ہم یہ سمجھیں کہ یَکُوْنُ کے اس جگہ معنے ماضی کے ہیں۔ یا یہ سمجھیں کہ اس آیت میں پیدائشِ جسمانی کا ذکر نہیں بلکہ کسی اَور قسم کی پیدائش کا ذکر ہے۔ سو میں یہ پہلے ثابت کر چکا ہوں کہ اس موقع پر کسی طرح بھی یَکُوْنُ کے معنے ماضی کے نہیں کئے جا سکتے۔ پس یہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم اس آیت میں پیدائشِ جسمانی کے معنے نہ لیں بلکہ کوئی اَور معنے لیں۔ اور وہ معنے ہوں بھی ایسے جو ایک طرف تو تواتر پر دلالت کریں اور دوسری طرف ان کی رو سے مسیح ؑ کی الوہیت پر بھی زد پڑتی ہو۔ مگر ان معنوں میں سے جو مفسرین نے بیان کئےہیں کوئی بھی اِن شرائط کو پورا نہیں کرتا۔
مگر مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک معنے سمجھائے ہیں جو اِن دونوں شرطوں کو پورا کرتے ہیں ان معنوں کے رو سے مضارع کے معنے ماضی کے بھی نہیں کرنے پڑتے اور عیسائیوں کے سب سے بڑے عقیدہ الوہیتِ مسیح ؑ کی تردید بھی ان سے ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسیٰ ؑ کے متعلق عیسائی لوگ یہ خیال پیدا کر رہے ہیں کہ عیسیٰ ؑ کسی غیر قسم یا غیر جِنس کے تھے۔ نہ پہلے کوئی ایسا وجود ظاہر ہؤا اور نہ آئندہ ایسا وجود ظاہر ہو گا۔ اور سمجھتے ہیں کہ مسیح ؑ خدا کا بیٹا ان معنوں میں نہیں جن معنوں میں پہلے انبیاء خدا کے بٹیے تھے بلکہ ان کے اندر فِی الْحقیقت الوہیت کی صفات پائی جاتی ہیں۔ پہلے انبیاء کے لئے استعارۃً ‘‘خدا کا بیٹا’’ کے الفاظ استعمال کئے جاتے تھے مگر مسیح ؑ کے لئے یہ لفظ حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ مسیح الٰہی صفات کا مالک ہے کہ نہ پہلے کسی میں وہ صفات پائی گئیں اور نہ آئندہ کسی میں پائی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ہم بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ جو شخص اپنی جنس کے لحاظ سے منفرد ہو اور کوئی اُس کا مثیل نہ ہو وہ الوہیت کی صفات اپنے اندر رکھتا ہے۔ پس اگر مسیح ؑ واقع میں ابنُ اللہ ہے اور جیسا کہ تم کہتے ہو خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ تو اکلوتے بیٹے کئی نہیں ہو سکتے۔ ہاں اگر استعارہ کے طور پر کسی کو اکلوتا بیٹا کہا جائے تو ایسے اکلوتے بیٹے متعدد ہو سکتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے اکلوتے بیٹے کے محض یہ معنے ہوں گے کہ جیسے کسی انسان کو اکلوتا بیٹا پیارا ہوتا ہے ایسا ہی وہ شخص خداتعالیٰ کو پیارا ہے۔ اِس لحاظ سے اس لفظ کا استعمال ایک سے زیادہ وجودوں کی نسبت درست اور جائز ہو گا۔ چنانچہ بائبل میں یہود کی نسبت بھی آتا ہے کہ وہ خدا کے بیٹے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ جس کے اَور بیتے ہوں اُس کے کسی بیٹے کو اکلوتا بیٹا نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر کہیں گے تو اس کے معنے صرف یہ ہوں گے کہ جس طرح ماں باپ کو اپنا اکلوتا بیٹا پیارا ہوتا ہے اُسی طرح وہ شخص خدا تعالیٰ کو پیارا ہے۔ اور باوجود اکلوتا بیٹا کہنے کے اس کے معنے یہ نہ ہوں گے کہ وہ اپنی اس صفت میں منفرد ہے۔ اور جب منفرد نہ رہا تو الوہیت کا سوال خود حل ہو گیا۔
غرض اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ عیسیٰ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے آدم کی مثال۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مٹی سے پیدا کیا۔ پھر کہا اب تُو ہوتا رہ یعنی تیرے جیسے اَور وجود پیدا ہوتے چلے جائیں۔ چنانچہ اُس کی نسل چل رہی ہے۔ آدم کے بعد اَور آدم اس کے بعد اَور آدم اور اس کے بعد اَور آدم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ پس یَکُوْنُ کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہو گیا۔ یہ معنے عربی زبان کے خلاف ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ اے آدم! ہو جا یعنی نسلِ آدم دنیا میں چلے۔ فَیَکُوْنُ پس آدم کا ظہور ہوتا جا رہا ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آدم کسی اور جنس کا تھا اور بیٹا کسی اور جنس کا ہے۔ جس طرح کا پہلا آدم تھا اُسی طرح اس کے بعد کا آدم تھا۔ اور اُسی طرح کا آدم اب بھی ہے۔ اس تعدّد اور تواتر کی وجہ سے کسی کو شبہ پیدا نہیں ہوتا کہ آدمؑ منفرد وجود تھا اور وہ اپنے اندر خدائی صفات رکھتا تھا۔ خواہ وہ بِن باپ اور بِن ماں کے پیدا ہوا۔ لیکن چونکہ اس کی نسل چل رہی ہے اور اس کے مثیل پیدا ہوتے جا رہے ہیں جو اس کی جنس سے ہیں اس لئے کسی کو آدمؑ پر خدائی کا شبہ نہ ہؤا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسیٰ ؑ کے متعلق بھی ہم نے یہی طریق جاری کیا ہے۔ یعنی عیسیٰ کو پیدا کر کے کہا کہ تُو ہو جا پس وہ ہوتا جا رہا ہے۔ یعنی عیسویؑ وجود بار بار پیدا ہو رہے ہیں اور ہوتے چلے جائیں گے۔ پھر اِس میں اِس طرف بھی اشارہ ہے کہ آدم باوجود دوسرے آدمیوں کا باپ ہونے کے ان سب سے درجہ میں بڑا نہیں۔ حضرت آدمؑ سے حضرت نوحؑ درجہ میں بڑے تھے، حضرت ابراہیمؑ حضرت آدمؑ سے بڑے تھے۔ اِسی طرح حضرت موسیٰؑ حضرت آدم سے بڑے تھے۔ اور آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے جو سب سے بڑے تھے۔ اسی طرح مسیحؑ کا حال ہے کہ عیسویت کے مقام کی ابتداء کرنے کی وجہ سے وہ سب سے بڑے مسیحؑ نہیں بلکہ جس طرح آدمیت کا کمال بعد میں ہؤا اسی طرح عیسویت کا کمال بھی بعد میں آنے والے بعض وجودوں سے ہو گا۔ حضرت آدمؑ پہلے آدمی ہونے کی وجہ سے تقدمِ زمانی رکھتے ہیں۔ لیکن مقام کے لحاظ سے کیا نسبت ہے حضرت آدمؑ کو حضرت نوحؑ سے ،کیا نسبت ہے حضرت ابراہیمؑ سے، کیا نسبت ہے حضرت موسیٰ ؑ سے اور کیا نسبت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِسی طرح ہم نے مقامِ مسیحیت کو کُنْ کہا ہے۔ اب اِس سے مسیحؑ پیدا ہوتے جائیں گے۔ اور بعض ان میں سےایسے ہوں گے جو پہلے مسیح ؑ سے بڑھ جائیں گے آدم کے بعد آنے والے سب آدم سے چھوٹے اور ادنیٰ نہیں تھے بلکہ آدم سے ادنیٰ بھی تھے اور آدم سےبڑھ کر بھی۔ اِسی طرح مسیحؑ کے بعد آنے والے مسیح سے ادنیٰ درجہ کے بھی ہوں گے اور اعلیٰ درجہ کے بھی ہوں گے۔ جیسے ہم نے آدم کو پیدا کر کے کہا کہ اب تیری نسل چلے ایسا ہی ہم نے مقامِ عیسویت کو پیدا کر کے کہا کُنْ فَیَکُوْنُ کہ اب عیسوی صفات رکھنے والے پیدا ہوتے چلے جائیں۔
حضرت آدمؑ کے متعلق بھی خدا ئی کا شبہ ہو سکتا تھا کیونکہ وہ بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے لیکن آگے ان کی نسل کے چلنے کی وجہ سے یہ شُبہ جاتا رہا۔ ایسے ہی مسیحؑ بے شک بِن باپ کے پیدا ہوئے لیکن اگر ایک وجود بھی ایسا ہو جائے جو مثیلِ مسیحؑ ہو بلکہ مسیحؑ سے بڑھ کر ہو تو مسیحؑ کی الوہیت باطل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے مثیلوں کا ایک سلسلہ چل پڑا جس طرح آدمؑ کی نسل سے بعض چھوٹے آدم ہوئے اور بعض بڑے آدم ہوئے اسی طرح مسیح کے بعد بعض چھوٹے عیسیٰ ہوئے اور بعض بڑے ہوئے۔حضرت معین الدین چشتی فرماتے ہیں:
دم بدم روح القدس اندر معینے مے دمد
من نمے گویم مگر من عیسیٰ ثانی شدم 2
یعنی روح القدس ہر وقت میرے کان میں یہ بات کہہ رہا ہے کہ تُو عیسیٰ ثانی ہے۔ پس معین الدین صاحب چشتیؒ عیسوی مقام پر تھے اور عیسیٰؑ کی الوہیت کو ردّ کرنے والے تھے کہ چھوٹے عیسیٰؑ تھے۔ جس طرح آدم کی نسل کے ہزاروں آدمی گو آدمؑ سے چھوٹے ہیں مگر آدمؑ کی الوہیت کو ردّکررہے ہیں۔ مگر جس طرح آدمؑ سے بڑے آدم بھی ان کی نسل سے پیدا ہوئے اسی طرح مسیحؑ سے بڑے مسیح بھی پیدا ہونے والے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے 3
جسمانی لحاظ سے چونکہ مسیح کو تقدم حاصل ہے اس لئے اُن کی عزت اور ادب ضرور کیا جائے گا جیسا کہ لوگ باپ دادا کی عزت کرتے ہیں۔ اگر ایک چرواہے کا بیٹا بادشاہ ہو جائے جیسے نادر خان ایرانی تھا اور اس کا باپ اُس کے سامنے آئے تو وہ ضرور اُس کی عزت کرے گا اور یہ عزت اور ادب بوجہ تقدمِ زمانی کے ہو گا نہ اُس سے درجہ میں بڑا ہونے کے سبب سے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں میں مسیح کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ خدا نے مجھے اُس کا نام دیا ہے۔ 4
غرض اِنَّ مَثَلَ عِيْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَ میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عیسیٰؑ کی مثال آدمؑ کی طرح ہے۔ آدم بے باپ تھا اور عیسیٰ بھی بے باپ کے پیدا ہؤا ۔ آدمؑ کو بعض خصوصیات حاصل تھیں ایسے ہی عیسیٰ کو بھی بعض خصوصیات حاصل تھیں۔ لیکن آدمؑ کی نسل کے تواتر نے اسے الوہیت کے مقام سے عبودیت کے مقام پر لا کھڑا کیا اورکوئی شخص بھی آدمؑ کو خدا نہیں سمجھتا۔ ایسے ہی اگر کوئی فرد ایسا ہو جو عیسویت میں عیسیٰؑ کے ساتھ روحانی مشابہت رکھتا ہو بلکہ مقام کے لحاظ سے اُن سے بڑھ جائے تو پھر بھی نہیں کہہ سکتے کہ عیسیٰؑ اپنے اندر منفردانہ حیثیت رکھتا ہے۔ اور جب آدمؑ کی طرح عیسیٰؑ کے بعد آنے والے روحانی لحاظ سے اُس سے بڑھ جائیں تو پھر کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ عیسیٰؑ خدا تھا۔ اگر مسیح خدا کا بیٹا تھا تو اس سے بڑھ جانا کیونکر ممکن ہے۔ خدا نے آدمؑ کو مٹی کی حالت سے پیدا کیا۔ پھر اسے بڑھایا اور کہا اب تم اپنے آپ کو بار بار ظاہر کرو تا خدا تعالیٰ کی صفات جو تمہارے ذریعہ اس دنیا میں ظاہر ہوئیں وہ ختم نہ ہو جائیں۔ بلکہ وہ آئندہ زمانوں میں جاری رہیں اور بار بار ان کا ظہور ہوتا رہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے مقامِ عیسویت کو پیدا کیا اور پھر اس کا بار بار مختلف وجودوں کے ذریعہ ظہور کیا۔ بعض ان میں سے مسیحؑ سے مقام کے لحاظ سے چھوٹے تھے۔ جیسے معین الدین صاحب چشتی اور بعض مسیحؑ سے بڑھ گئے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ تو ابتدائی حالات میں بعض چیزوں کو ایک منفردانہ حیثیت حاصل ہوتی ہے لیکن جب وہی چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار تواتر کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں تو پھر ان کی وہ حیثیت نہیں رہتی۔
پس کُنْ فَیَکُوْنُ تعدّد اور تواتر پر دلالت کرتا ہے۔ خدا نے کہا ہو جا چنانچہ دیکھ لو کہ ہو رہا ہے۔ ایک آدمؑ، کے بعد دوسرا آدمؑ دوسرے کے بعد تیسرا آدمؑ اور اِسی طرح یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے عیسوی مقام کے متعلق کہا کُنْ یعنی ہو جا اور پھر فرمایا فَیَکُوْنُ پھر ویسا ہی ہوتا چلا جارہا ہے اور دیکھ لو کہ بار بار عیسوی مقام ظاہر ہو رہا ہے۔ اور ہوتا رہے گا اور اس میں تعدّد اور تواتر پایا جائے گا۔ اور جب تعدّد پایا گیا تو مسیحؑ حقیقی معنوں میں خدا کا اکلوتا بیٹا نہ رہا کیونکہ اکلوتا بیٹا تو ایک ہی ہؤا کرتا ہے۔
اِس مثال کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے اِس طرف اشارہ کیا کہ تم ابنِ مریم کو خدا نہ کہنا جبکہ اس کے مثیل کو تم دیکھ رہے ہو۔ اِسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا
ابن مریم کےذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے
غرض اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ کی مثال آدمؑ کے ساتھ اس لئے دی کہ آدمؑ سے صفاتِ الٰہیہ کا ظہور شروع ہؤا۔ لیکن آدمؑ کے بعد آنے والے آدمؑ سے بڑھ گئے۔ اِسی طرح عیسیٰ ؑ سے مسیحیت کا دَور شروع ہؤا مگر بعد میں آنے والے اُن سے بھی بڑھ گئے۔ آدمؑ کی پیدائش کی غرض بے شک یہ تھی کہ ان کے ذریعہ صفات الٰہیہ کا ظہور ہو۔ مگر الٰہی منشاء یہ نہ تھا کہ پہلا آدم ؑپیدائشِ آدمؑ کے مقصود کو اَتَمّ صور ت میں ظاہر کرنے والا ہو بلکہ مقصود یہ تھا کہ اس کی نسل میں سے اور اُس کی اولاد میں سے آدمؑ کی صفت کو ظاہر کرنے والے اَتَمّ وجود پیدا ہوں۔ اِسی طرح عیسیٰؑ کے ذریعہ مقامِ عیسویت کا ظہور ہوا۔ مگر اِس ظہور کا یہ مقصد نہ تھا کہ اس کے ذریعہ مقامِ عیسویت اَتَمّ صورت میں ظاہر ہو بلکہ آئندہ زمانہ میں مقام عیسویت کا اَتَمّ صورت میں ظہورمقصود تھا۔ اگر عیسیٰ اَتَمّ صورت میں آتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ نہ کہتے کہ
ابن مریمؑ کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد ہے
پس کُنْ فَیَکُوْنُ تواتر اور تعدّد پر دلالت کرتا ہے اور صحیح معنی یہی ہیں جو میں نے بیان کئے ہیں۔ اس میں آدمؑ اور مسیحؑ کی پیدائش کا تطابق بھی ہو جاتا ہے اور عقیدہ الوہیتِ مسیح کی بھی تردید ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جب تعدّد اور تواتر پایا گیا تو مسیحؑ اکلوتا بیٹا کہلانے کا حقدار نہ رہا جس کی وجہ سے اسے حقیقی بیٹا قرار دیا جاتا ہے۔ ’’
حضور نے نماز جمعہ پڑھانے کے بعد فرمایا کہ :
‘‘یَکُوْنُ کے معنی اس جگہ محض مستقبل کے بھی اس آیت میں کئے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ یَکُوْنُ کا لفظ اگر حضرت آدم ؑ کی نسبت سمجھا جائے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے آدمؑ کو پیدا کیا مگر ساتھ ہی کہا کہ کُنْ تو صفتِ آدمیت کو بدرجۂ اَتَمّ ظاہر کیا۔ چنانچہ ایسا ہو کر رہے گا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ سے آدمؑ کی پیدائش کا مقصد بدرجہاَتَمّ ظاہر ہو گا۔ اور اسی طرح مسیح علیہ السلام کے متعلق ہو گا۔ ان کو بھی پیدا کر کے ہم نے کہا کہ گو تجھے ایک روحانی مقام کا ابتدائی نقطہ ہم قرار دیتے ہیں۔ مگر تُو اِس کا اَتَمّ اور اکمل ظہور نہیں۔ بلکہ تجھے ہم کہتے ہیں کہ ہو۔ یعنی تیری روح اپنا پَرتَو دنیا پر ڈالتی رہے۔ جس طرح آدمؑ کی روح پَرتَو ڈالتی رہی یہاں تک کہ درجۂ اَتَمّ پر پہنچا ہؤا وجود ظاہر ہو جائے۔ اور ایسا ہی مسیحؑ کے بارہ میں بھی ہو گا۔ یعنی عیسویت کے مقام کا انتہائی درجہ کا ظہور ایک زمانہ میں ظاہر ہو کر رہے گا۔ اور اس کا ظہور مسیح کے خدائی کے عقیدہ کو باطل اور پاش پاش کرنے والا ہو گا۔ پس یَکُوْنُ کی نسبت اگر حضر ت آدم علیہ السلام کی طرف کریں تو اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظہور ہے۔ اور اگر یَکُوْنُ کی نسبت مسیح علیہ السلام کی طرف ہو تو اِس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ظہور ہے۔ ’’
(روزنامہ الفضل قادیان مورخہ 18 جولائی 1945ء)
1: آل عمران:60
2: دیوان حضرت خواجہ معین الدین چشتی صفحہ 56 مطبوعہ نولکشور 1868ء
3: درثمین اردو صفحہ 58
4: کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 17 (مفہوماً)
22
زندگی کے تین اَدوار بچپن، جوانی اور بڑھاپا
(فرمودہ 13جولائی 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کے لئے ایک عمر مقرر کی ہے اور پھر اس عمر کے کئی حصے بنائے ہیں۔ پہلے کمزوری کا دَور ہوتا ہے پھر طاقت کا دَور ہوتاہے اور پھر ضُعف کا دَور ہوتا ہے۔ قوتِ نامیہ1 رکھنےو الی چیزیں ہمیشہ سے اِسی قانون کے ماتحت چل رہی ہیں۔ اور اگر وہ اپنی حیاتِ طبعی کے نیچے چلیں تو ان پر یہ تینوں اَدوار گزرتے ہیں۔ بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو حیاتِ طبعی کو حاصل نہیں کرتیں۔اور بعض وجود دنیا میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی حقیقی شکل اختیار کرنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتے ہیں۔ جیسے انسانوں میں عورتوں کے اور دوسرے جانوروں میں ماداؤں کے حمل ضائع ہو جاتے ہیں۔ ابھی پیدا ہونے والی چیز اپنا حقیقی وجود حاصل نہیں کرتی کہ تلف ہو جاتی ہے۔ پھر بعض ایسے وجود بھی ہوتے ہیں جو حقیقی وجود حاصل کرنے کے بعد اور اپنی کامل شکل اختیار کرنے کے بعد اپنے قویٰ اور اپنی طاقتوں کو ظاہر نہیں کر سکتے۔ جیسے بعض بچے پورے حمل میں ضائع ہو جاتے ہیں یا مُردہ بچے پیدا ہو جاتے ہیں یا پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ پھر کچھ وجود ایسے بھی ہوتے ہیں جو کامل وجود کو حاصل کر لینے کے بعد اُن قویٰ اور طاقتوں کو ظاہر بھی کرنے لگتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے ان کے اندر پیدا کی ہوتی ہیں۔ لیکن ابھی کمزوری ہی کا دَور ہوتا ہے کہ وہ مر جاتے ہیں۔ خواہ وہ وجود انسانوں میں سے ہوں یا جانوروں میں سے۔ جیسا کہ بعض لوگوں کے بچے چھوٹی عمر میں فوت ہو جاتے ہیں۔ پھر کچھ وجود ایسے ہوتے ہیں جو اِس عمر سے ترقی کر کے جوانی کو پہنچتے ہیں لیکن پیشتر اس کے کہ جوانی اپنے کمال کو پہنچے وہ جوانی کے ابتدا میں یا درمیان میں ہی مر جاتے ہیں۔ لیکن کچھ طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے جو زندگی کے اِن تینوں دَوروں میں سے گزرتا ہے۔ یعنی بچپن سے بھی گزر جاتا ہے، جوانی سے بھی گزر جاتا ہے اور بڑھاپے کا زمانہ بھی اُس پر آتا ہے۔ اور وہ بڑھاپے میں اپنی زندگی کا کچھ حصہ جو اُس کے لئے مقدر ہوتاہے گزارتا ہے۔ یہ تینوں دَور اپنے اندر الگ الگ رنگ رکھتے ہیں۔ اور یہ تینوں دور ایسے ہیں جو اپنے اندر خوبیاں بھی رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ خرابیاں بھی ہیں۔
بچپن کی خرابیاں ہمیشہ جہالت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ چونکہ اِس عمر میں انسان کو علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اس لئے ایسی حرکات کر بیٹھتا ہے جو اُس کی ذات کے لئے بھی مُضِر ہوتی ہیں اور دوسروں کے لئے بھی۔ اِسی طرح علم نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات وہ جہالت کی باتوں کو سن کر انہیں علم سمجھ لیتا ہے۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَـاَبَـوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ۔2 یعنی بچہ تو فطرتاً اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ یہودیت، نصرانیت اور مجوسیت کی غلط باتیں اس کے کان میں ڈالتے رہتے ہیں۔ اور بچپن کی وجہ سے چونکہ اُس کے اندر امتیاز کرنے کا مادہ نہیں ہوتا اِس لئے وہ ان باتوں کو قبول کر لیتا ہے۔ خواہ وہ باتیں فطرت کے خلاف ہوں، خواہ عقل کے خلاف ہوں اور خواہ دیانت کے خلاف ہوں۔ تو یہ بچپن کی کمزوری ہے۔ بچپن میں تجربہ نہیں ہوتا اور تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے بچہ غلط اور صحیح بات میں امتیاز کرنےکی قابلیت کم رکھتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی بچپن کی عمر میں بعض خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ بچپن کی عمر کا موجودات کے ساتھ پہلا تعلق ہوتا ہے اس لئے بچے جو علم بچپن میں سیکھ سکتے ہیں وہ بڑے ہو کر نہیں سیکھ سکتے۔ اِس کا تجربہ یوں ہو سکتا ہے کہ دو آدمیوں کو لے کر شہر میں سے گزرو۔ ان میں سے ایک ایسا ہو جو اُسی جگہ پیدا ہوا ہو اور دوسرا ایسا ہو جو باہر سے آیا ہو۔ تو تم دیکھو گے کہ باہر سے آنے والا کئی ایسے سوالات کرے گا جو اُس جگہ کے رہنے والے کے دل میں کبھی پیدا نہیں ہوتے۔ کیونکہ وہ ان چیزوں کو شروع سے دیکھتا آیا ہے اور دیکھتے چلے آنے کی وجہ سے تجسس کا مادہ اس میں نہیں رہا۔ لیکن جو نیا نیا آتا ہے وہ ہر چیز کو غور سے دیکھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ یہ اس طرح کیوں ہے؟ اِسی طرح جو لوگ بڑی عمر کے ہو جاتے ہیں وہ اس دنیا کی زندگی کے عادی ہو جاتے ہیں اور اپنے لمبے تجربہ کی بناء پر اور لمبے تجسس کی وجہ سے اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ دنیا کی بعض چیزیں سمجھ میں آسکتی ہیں اور بعض نہیں آ سکتیں۔ اور جو چیزیں اُن کی سمجھ میں نہیں آ تیں اُن کے متعلق وہ خیال کرلیتے ہیں کہ یہ سمجھ میں آنے کے قابل ہی نہیں۔ حالانکہ جو چیزیں اُن کی سمجھ میں نہیں آتیں ان میں سےا یک بڑا حصہ ہوتا ہے جو دوسروں کی سمجھ میں آسکتا ہے مگرجب وہ اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ یہ چیزیں ہماری سمجھ میں آہی نہیں سکتیں تو ان کی طرف سے توجہ ہٹا لیتے اور ان کے متعلق تجسس چھوڑ دیتے ہیں۔ مگر بچے کے اندر یہ مادہ ہوتا ہے کہ جب وہ کوئی نئی چیز دیکھتا ہے تو اُس کے متعلق سوالات شروع کر دیتا ہے۔ اگر بادلوں کو دیکھتا ہے تو پوچھتا ہے کہ بادل کیا چیز ہیں؟ کیوں آتے ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ کیونکر برستے ہیں؟غرض وہ سوالات جو ایک سائنسدان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں یا ایک حساب دان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں یا ایک تاریخ دان کےدل میں پیدا ہوتے ہیں وہی سوالات اس بچے کے دل میں بھی پیدا ہوتے ہیں بلکہ درمیانہ درجہ کے سائنسدان، درمیانہ درجہ کے حساب دان اور درمیانہ درجہ کے تاریخ دان کے دل میں وہ سوالات پیدا ہی نہیں ہوتے جو ایک بچے کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہ سوالات ان کے دلوں میں اِس لئے پیدا نہیں ہوتے کہ وہ دنیا میں ایک لمبا عرصہ رہنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ ہر چیز جس کا وجود دنیا میں ہے ہم اس کی کُنہ اور حقیقت کو حل نہیں کر سکتے۔ لیکن بچے نے ابھی یہ سوال حل نہیں کیا ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ میرا فرض ہے کہ میں ہر چیز کو غور سے دیکھو ں اور اس کے متعلق پوچھوں۔ اِس لئے وہ ہر چیز کے متعلق سوال کرتا چلا جاتا ہے اور اُس کا دماغ بھی ان باتوں کو اخذ کرنے کے لئے زیادہ آمادہ ہوتاہے۔یہ کتنا بڑا فائدہ ہے۔ اگر بچپن کا زمانہ انسان پر نہ آتا، اگر بچپن کی خصوصیات نہ ہوتیں تو دنیا میں علوم کا قیام بھی نہ ہوتا کیونکہ علوم کا قیام بچپن کےساتھ وابستہ ہے۔
پھر جوانی آتی ہے، جوانی کام کرنے کے دن ہوتے ہیں۔ ان کام کے دنوں میں انسان قسم قسم کی قربانی کرتا ہے اور قسم قسم کی جرأت کے نظارے دکھاتا ہے۔ اور اپنے عمل کےساتھ دنیا میں تغیر پیدا کرنا چاہتا ہے۔ بچپن کے علوم اور بچپن کے سوالات کی وجہ سے وہ یہ سمجھتا ہے کہ دنیا نے کچھ بھی نہیں کیا لیکن مَیں بہت کچھ کر سکتا ہوں۔ اور یہ انسانی فطرت ہے کہ جسے تجربہ نہیں ہوتا وہ یہ نتیجہ نکالا کرتا ہے کہ لوگوں نے اس کام کو پوری طرح سمجھا ہی نہیں۔ اِس لئے وہ اس میں غلطی کر گئے ہیں مگر میں اِس کام کو زیادہ بہتر صورت میں کر سکتا ہوں۔ اس خیال کی وجہ سے وہ لازمی طور پر دنیا میں تغیر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور چونکہ حرکت میں برکت ہوتی ہے اس لئے وہ اپنی اِس کوشش میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ اور بسااوقات اس کے ذریعہ ایسا تغیر ہوتا ہے جو دنیا کے لئے بہت ہی مفید اور دنیا کو ایک قدم آگے بڑھا دینے والا ہوتا ہے۔ اور یہ کامیابی اُس کو اُس قوتِ عملی کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے جو بچپن نے اُس کے اندر پیدا کی۔ بچپن میں بچے کو اگر کھلونا دیا جائے تو وہ اُس کو توڑ دیتا ہے۔ وہ کھلونے کو اِس لئے توڑتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میں اِس سے اچھا بنا سکتا ہوں۔ لیکن بوجہ بچپن کے اُس کو توڑ کر بنانے پر قادر نہیں ہوتا۔ مگر جب وہ جوان ہوتا ہے اور اُس میں تخلیق کی قوت پیدا ہو جاتی ہے وہ اِس کھلونے کو بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور گو بسا اوقات وہ غلطی بھی کرتا ہے لیکن بعض اوقات کامیاب بھی ہو جاتا ہے بلکہ اُس سے بھی اچھا بنا لیتا ہے۔
مگر جہاں جوانی میں خوبیاں ہیں وہاں بعض نقائص بھی ہیں۔ کہتے ہیں جوانی دیوانی۔ انسان جوانی میں کہتا ہے کہ جو بھی میری بات کا انکار کرے اُسے مار دوں اور جو مقابلہ کرے اسے کُچل دوں۔ لیکن ایک لمبے تجربہ کے بعد وہ اِس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ انکار اور مقابلہ کرنے والے وجود بعض دفعہ بہت مخلص ثابت ہوتے ہیں۔ جوانی کہتی ہے کہ جو مقابلہ کرتا ہے اُسے مار دو، اُسے نکال دو لیکن تجربہ انسان کو بتاتا ہے کہ جنہیں وہ مارنا چاہتا ہے یا جن کو وہ نکالنا چاہتا ہے یا جن کو وہ توڑنا چاہتا ہے وہی کل کو بڑے کام کے وجود ثابت ہوں گے۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی رکھنے والے بعد میں کتنے مخلص وجود ثابت ہوئے۔ صرف حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ایسے تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے ہر ایک نے میرا انکار کیا مگر ابوبکرؓ ایسا تھا جس میں مَیں نے کوئی کجی نہیں دیکھی۔ مگر دوسرے خلیفہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلے تھے۔ اب جوانی میں انسان کے جو خیالات ہوتے ہیں اگر ان کے مطابق حضرت عمر ؓسے سلوک کیا جاتا اور فرض کرو کہ اُس وقت مسلمانوں کے پاس طاقت ہوتی اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں کام ہوتا اور حضرت عمر ؓ کو مار ڈالتے تو حضرت عمرؓ کو مارنا صرف عمرؓ کا مارنا نہ ہوتا بلکہ ساری دنیا کو مار دینے کے مترادف ہوتا۔ کیونکہ جس قسم کے تغیرات حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ہوئے اور جس قسم کا کام حضرت عمر ؓنے کیا ایسا کام دنیا میں بہت کم انسانوں نے کیا ہے۔ پس اگر یہی فیصلہ ہوتا کہ چونکہ حضرت عمرؓنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی ہے اِس لئے اُن کو قتل کر دیا جائے تو دنیاایک نہایت ہی قیمتی وجودسے محروم ہوجاتی ۔
اِسی طرح حضرت خالدؓ بن ولید جو اسلامی فتوحات کے بڑے بھاری موجب ہیں اور انہوں نے اسلام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور سالہا سال تک رات دن اپنے آپ کو موت میں ڈال کر اسلام کی خدمت کی یقینا ًان کو بھی نوجوانوں کے فیصلہ کے ماتحت مار دیا جاتا۔ حضرت عمروؓ بن العاص کی موت کا فتویٰ بھی صادر کیا جاتا۔ عکرمہؓ بن ابی جہل جس نے بعد کی قربانیوں کی وجہ سے دنیا کے لئے ایثار کی ایک بہترین مثال قائم کر دی اسے بھی قتل کر دیا جاتا۔ اور اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ جنہوں نے اسلام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور جو اسلام کی تاریخ میں روشن ستاروں کی طرح نظرآتے ہیں اور جن پر مسلمان آج بجا طور پر فخر کرتے ہیں نہ اسلام کے لئے قربانیاں کر تےاور نہ مسلمان اِن ہستیوں پر فخر کر سکتے۔ تو جوانی میں جہاں قوتِ عملیہ پائی جاتی ہے وہاں بوجہ اِس خیال کے کہ دنیا غلطی کر رہی ہے میں اِس غلطی کو درست کروں گا۔ اور بوجہ اس کے کہ اِس درست کرنے کے ساتھ دوسرا پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ جو چیز بگڑی ہوئی ہے اُسے توڑ ڈالوں بعض نوجوان دیوانگی کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور دنیا کو بڑے بڑے فوائد سے محروم کر دیتے ہیں۔
اِس کے بعد بڑھاپا آتا ہے۔ بعض دفعہ بڑھاپا ایسا ہوتاہے کہ انسان سیکھا سکھایا سب کچھ بُھول جاتاہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفّٰىكُمْ١ۙ۫ وَ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرَدُّ اِلٰۤى اَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ مِنْۢ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْـًٔا 3۔اس حالت میں انسان کو کچھ علم نہیں ہوتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ میں نے بعض بُڈھوں کو بچوں کی طرح روتے دیکھا ہے۔ محض اِس لئے کہ مجھے فلاں چیز نہیں ملی یا فلاں نے میری خبرگیری نہیں کی۔
مجھے یاد ہے مولوی محمد احسن صاحب امروہی مرحوم قادیان آئے اور ان سے مختلف باتیں ہوئیں۔ آخر میں انہوں نے علیحدگی میں میرے ساتھ گفتگو کی اور صاف طور پر اقرار کیا کہ وہ پوری طرح سمجھ گئے ہیں کہ راستی اور سچائی قادیان میں ہے لیکن ساتھ ہی روپڑے اور کہا کہ میں مجبور ہوں ۔ میری بیوی میری طہارت کرتی ہے اور وہی میری خدمت کرتی ہے اِس لئے میں اُس کا محتاج ہوں۔ پیغامیوں نے میرے بیوی بچوں کو لالچ دیا ہوا ہے اِس لئے وہ انہیں نہیں چھوڑتے اور میں اُن کےساتھ جانے پر مجبور ہوں۔ اب یہ بھی بڑھاپے کی ایک مجبوری تھی۔ لیکن بڑھاپا اپنے ساتھ تجارب بھی لاتا ہے۔ بچپن اور جوانی کے تجارب کے بعد جو خلاصہ نکلتا ہے بڑھاپا اُس خلاصے کا برتن ہے۔ جیسے بھینس چارہ کھاتی ہے، اُس کو حمل ہوتاہے ،حمل سے بچہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اسکے تھنوں میں دودھ پیدا ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح وہ برتن جس میں دودھ دوہا جاتا ہے وہ بڑھاپا ہے جو تمام زندگی کا خلاصہ اپنےا ندر رکھتا ہے۔ اگر انسان کی اعصابی طاقتیں ماری جائیں تو یہ عمر انسان کے لئے دکھ اور تکلیف کی عمر ہوتی ہے۔ لیکن اگر دماغی طاقتیں قائم رہیں اور جسمانی طاقتیں بھی ایسی کمزور نہ ہوں کہ انسان بے کار ہو جائے تو یہ عمر زندگی کے تجارب کا بہترین خلاصہ ہوتی ہے۔ جس کے بغیر دنیا صحیح طو رپر آگے نہیں بڑھ سکتی۔
غرض ہر دَور اپنے اندر خوبیاں بھی رکھتا ہے اور نقائص بھی۔ جس طرح انسانی زندگی ہے اِسی طرح قومی زندگی بھی ہوتی ہے۔ جس طرح ایک فرد پیدا ہوتا ہے اِسی طرح قوم پیدا ہوتی ہے۔ اور جو اَدوار افراد پر گزرتے ہیں وہی قوموں پر بھی گزرتے ہیں۔ قومیں بھی افراد کی طرح پیدا ہوتی ہیں۔ اور وہ بچوں کی طرح بچپن کی غلطیاں بھی کرتی ہیں۔ بچپن کی قسم کی بیوقوفیاں بھی کرتی ہیں اور بچوں کی طرح سوال و جواب بھی کرتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں سوالات صحابہؓ کی طرف سے اور مستورات کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کئے گئے۔ اور جب آپ نے اُن کے جوابات دیئے تو اُن کا علم ترقی کر گیا اور آنے والے لوگوں کے لئے ترقی کا ایک نیا باب کھل گیا۔
تاریخوں میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک یہودی حضرت عمرؓ کی مجلس میں آیا۔ اور کہنے لگا کہ ہمیں توآپ کی شریعت پر رشک آتا ہے۔ پیشاب، پاخانہ، نہانا، دھونا، کھانا، پینا، کپڑے پہننا۔ غرض ہر چیز کاذکر اس میں تفصیل کےساتھ موجود ہے۔ یہ رشک اسےاُنہی سوالات کی وجہ سے پیدا ہوا جو صحابہؓ فرداً فرداً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے۔ اگر اُن سوالات کو الگ الگ کرکے دیکھا جائے تو بچوں کے سے سوالات معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اُنہیں یکجائی طور پر دیکھا جائے تو کہنا پڑتا ہے کہ اگر یہ سوالات نہ ہوتے تو اسلام کی عمارت نامکمل رہ جاتی۔ اِس کے مقابلہ میں جن قوموں کی بچپن کی عمر نامکمل رہ جاتی ہے وہ احکام کی تفاصیل سے محروم رہتی ہیں۔ اور جب اُن سےاخلاقی یا تمدنی احکام کی تفصیلات کے متعلق سوال کیا جائے تو وہ کہہ دیتی ہیں کہ اس کے متعلق تو ہماری شریعت میں کچھ نہیں لکھا۔ لیکن قرآن کریم نے تمام امور پر روشنی ڈالی ہے اور کسی اہم امر کو نظر اندا ز نہیں کیا۔ گو تمام مضامین کی تفصیل اِس کے اندر نہیں۔ اور نہ اتنے مضامین کی تفصیل محدود صفحات میں آسکتی تھی۔ اگر قرآن کریم میں سب مضامین اِس تفصیل کے ساتھ لکھے جاتے اور ہر آدمی سب مسائل کا جواب اِسی میں سے نکال سکتا بلکہ ہر سوال اس میں حل کیا ہوا ہوتاتو قرآن کریم چار پانچ سَو صفحے کی کتاب نہ ہوتی بلکہ دس بیس لاکھ صفحے کی کتاب ہوتی اور کوئی بھی اسے پوری طرح پڑھ نہ سکتا۔ اور بجائے ہر رمضان میں پورا قرآن مجید تلاوت کرلینے کے لوگ ساری عمر پڑھتے رہتے اور پھر بھی پورا نہ پڑھ سکتے۔ کوئی پندرھویں پارے تک پہنچتا اور مر جاتا، کوئی بیسویں پارے تک پہنچتا اور مر جاتا اور کوئی ایک آدمی زیارت کے قابل ایسا نہ ملتا جس نے پورا قرآن مجید پڑھا ہوتا۔ تو عوام الناس کو فائدہ پہنچانے کے لئے ضروری تھا کہ خدائی کلام مختصر ہو اور اُس میں اشارتاً سارے علوم موجود ہوں۔ اور ان اشارات کی تفصیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ظاہر ہو۔ یہ تفصیل اِسی صور ت میں ظاہر ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو یہ شوق عطا فرمایا کہ جیسے بچہ سوال کرتا چلا جاتا ہے اور کہتا ہے اماں! یہ کیا ہے؟ وہ کیا ہے؟ اِسی طرح صحابہؓ سوال کرتے چلے جاتے تھے۔ آخر یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ4 یعنی اے مومنو! تم ان باتوں کے متعلق سوال نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہارے لئے تکلیف کا موجب بن جائیں۔ تو کیا اِس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ صحابہ کرامؓ کثرت سے سوال کیا کرتے تھے؟ لیکن جیسے بچہ جب سوال کرنے میں حد سے بڑھ جاتا ہے تو اُس کو روکا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو سوالات کی زیادتی سے روکا۔ لیکن اِس بات سے پتہ لگتا ہے کہ بچپن کا زمانہ صحابہؓ پر پوری طرح آیا اور انہوں نے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اموال کو خرچ کرنے کا سوال آیا تو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ ہم اسکے متعلق سب کچھ جانتے ہیں بلکہ وہ فوراً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور پوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! ہم اپنے اموال کو کس طرح خرچ کریں؟ ساری دنیا کھانا کھاتی ہے مگر صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللہ ! کونسی چیز حلال اور کون سی حرام ہے؟ دنیا میں یتیم پائے جاتے ہیں مگر صحابہؓ کو اُن کا بھی احساس ہوا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کیا کہ یتامیٰ کے بارے میں کیا احکام ہیں؟ غرض صحابہؓ سوالات پوچھتے چلے گئے۔ اور جو پوچھنے کے عادی نہ تھے وہ پوچھنے والوں کےسا تھ چمٹ گئے۔ جیسے حضرت ابوہریرہؓ خود نہیں پوچھتے تھے لیکن سارا دن مسجد میں پڑے رہتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنتے رہتے تھے۔
پھر شباب کا دَور آیا تو ہم دیکھتے ہیں کہ اِس دَور میں بھی صحابہ کرامؓ نے وہ قوتِ عملیہ دکھائی کہ دوسری اقوام میں اِس کی مثال نہیں ملتی۔ اِس چھوٹی سی قوم نے تھوڑے عرصہ میں ہی بڑی بڑی سرکش حکومتوں کو کچل کر رکھ دیا۔ عرب کی آبادی اِس وقت پچاس ساٹھ لاکھ کے قریب ہے اور میرا اندازہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ دس لاکھ کے معنے یہ ہیں کہ اِتنی آبادی تھی جتنی آبادی اِس وقت لاہور شہر کی ہے۔ مگر کیا کوئی قیاس کر سکتا ہے کہ لاہور کی آبادی اُٹھے اور امریکہ کی حکومت کو یا انگلستان کی حکومت کو یا روس کی حکومت کو یا جرمنی کی حکومت کو یا جاپان کی حکومت کو توڑ کر رکھ دے؟ بلکہ لاہور تو پھر بھی متمدن شہر ہے اور یوں سمجھو کہ جھنگ کا ضلع اُٹھ کھڑا ہو یا ڈیرہ غازیخان کے لوگ اُٹھ کھڑے ہوں اور ان کے اُٹھتے ہی روس سے خبر آ رہی ہو کہ ماسکو فتح ہو گیا ہے، انگلستان سے خبر آرہی ہو کہ لندن فتح ہو گیا ہے، امریکہ سے خبر آرہی ہو کہ واشنگٹن اور نیویارک فتح ہو گیا ہے، جاپان سے خبر آرہی ہو کہ ٹوکیو فتح ہو گیا ہے۔ یہ بات کسی انسان کے وہم میں بھی نہیں آسکتی۔ اور پھر یہ کامیابی کسی لمبے عرصہ میں نہیں بلکہ ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں ہوئی۔حضرت ابوبکرؓ کی خلافت پونے تین سال اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا زمانہ نو سال ہے۔ اس بارہ سال کے عرصہ میں قریباً تمام ملک فتح ہو گئے تھے۔ اور حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں کوئی ملک ایسا نہ تھا جو فتح نہ ہؤا ہو۔ پس صحابہؓ پر شباب بھی آیا تو ایسا کہ دنیا اِس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
پھر بڑھاپے کا زمانہ آیا تو وہ بھی کمال کا۔ بڑھاپے کے معنے عقل اور تجربہ کے ہیں۔ عقل اور تجربے کے لحاظ سے جس طرح صحابہؓ نے حدیث کی تدوین کی یا قرآن مجید کے معارف اور اس کے نکات کو اَخذ کیا ہے کسی اَور قوم نے اتنے قریب زمانہ میں اَخذ نہیں کیا ۔ اور نہ ہی کسی قوم نے اس قدر قریب زمانہ میں تصوف اور فقہ کی تدوین کی جتنے قریب زمانہ میں صحابہؓ نے کی۔ یہودیوں میں فقہ اور تصوف کی بے شک تدوین ہوئی مگر ایک ہزار سال کے بعد۔ یعنی حضرت عیسیٰؑ کے زمانہ سے چار سو سال پہلے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اور تابعین نے ان علوم کی تدوین میں کمال کر دیا۔ تو بڑھاپا بھی آیا مگر کمال درجے کا۔ گویا صحابہؓ نے تینوں اَدوار کا اعلیٰ ترین نمونہ باقی دنیا کے لئے قائم کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی تاریخ پڑھ کر انسان کے دل پر ایسا گہرا اثر پڑتا ہے کہ کسی قوم کے حالات پڑھ کر وہ اثر محسوس نہیں ہوتا۔
اب اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اِسی کام کے سر انجام دینے کے لئے کھڑا کیا ہے جو صحابہؓ نے کیا تھا۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمارا بچپن کیسا تھا؟ اور ہماری جوانی کیسی ہے؟ اگر بچپن اچھا نہ ہو تو انسان گھبراتا ہے کہ فلاں بات نہیں پوچھی، فلاں بات باقی رہ گئی۔ لیکن اگر بچپن کمال کا ہو تو تسلی ہوتی ہے کہ ہم نے جو کچھ پوچھنا تھا پوچھ لیا۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ صرف دو باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حل کرانی رہ گئی تھیں حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ وہ دوباتیں بھی حل ہو چکی تھیں۔ لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کے دلوں کو تسلی تھی کہ ہم نے باقی سب باتیں پوچھ لی ہیں صرف دو باتیں حل کرانی رہ گئی ہیں۔ مگر کیا کوئی دوسری قوم ایسی ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہم نے جو کچھ پوچھنا تھا پوچھ لیا؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم نے جو کچھ حل کروانا تھا کروا لیا؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم کہہ سکتی ہے کہ ہم نے جو کچھ حل کروانا تھا کروا لیا؟ اگر اب ان پر کوئی سوال پڑے تو وہ اِس کے لئے عقل دَوڑاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ خدائی کتاب کی طرف رجوع کریں اور اُس سے جواب حاصل کریں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دشمنوں کےخلاف یہی حربہ استعمال کیا ہے۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ یہ لغو بات ہے کہ انسان اپنے پاس سے کوئی دعویٰ کرے یا کسی دعویٰ کی دلیل پیش کرے۔ بلکہ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ دعویٰ بھی اُسی کتاب سے پیش کرے جسے وہ مانتا ہے۔ دلیل بھی اُسی کتاب سے دے۔ لیکن اسلام کے سوا تمہیں کوئی مذہب ایسا نظر نہیں آئے گا جو دعویٰ بھی اُسی کتاب سے پیش کرے جس کو وہ مانتا ہے اور دلیل بھی اُسی کتاب سے دے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہماری جماعت میں صحابہؓ کا رنگ پایا جاتا ہے یا نہیں اور عملی طور پر ہماری جماعت صحابہؓ سے مشابہت رکھتی ہے یا نہیں؟ مخالف تو اعتراض کیا ہی کرتا ہے لیکن ہم جو ایک دوسرے کے خیر خواہ اور مُحِب ہیں کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم وہی کام کر رہے ہیں جو انبیاء علیہم السلام کی جماعتیں کیا کرتی ہیں اور جس کا اعلیٰ نمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ نے دکھایا؟ اگر دیانت داری کے ساتھ ہمارا جواب ہو‘‘ ہاں!’’ تو ہم سے زیادہ خوش قسمت اَور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اور اگر دیانت داری سے جواب ہو ۔ ‘‘نہیں’’ تو ہماری زمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں اور ہمیں بہت جلد اپنی اصلاح اور جماعت کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور ہمیں اپنی موجودہ قربانیوں کو بہت زیادہ بڑھا دینا چاہیے۔ ہم میں بہت سے ایسے ہیں جن کی زندگیاں شریف انسانوں کی طرح تو بسر ہو رہی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا ان کی زندگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ یا تابعین کی طرح ہو رہی ہے یا نہیں۔ مجھے جب کوئی کہتا ہے کہ فلاں شخص بڑا نیک ہے اُس سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی تو وہ یہ فقرہ کہہ کر مجھے اس کے متعلق خوش کرنا چاہتا ہے۔ مگر میرا دل جل جاتا ہے کہ یہ تو ایسا ہی ذلیل درجہ ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ فلاں شخص بدمعاش نہیں۔ فلاں شخص خبیث نہیں۔ یہ بھی کوئی تعریف ہے۔ اگر کوئی آدمی بادشاہ کے دربار میں جائے اور کہے اے بادشاہ! تُو خبیث نہیں۔ اے بادشاہ! تُو بدمعاش نہیں۔ اے بادشاہ! تُو لُچّا نہیں! تو بتاؤ وہ وہاں سے انعام لے کر نکلے گا یا مار کھا کر ۔
یہ چیزیں تو ساری سلبی ہیں یہ نفی کرتی ہیں اس کی خباثت کی۔ یہ نفی کرتی ہیں اس کی بدمعاشی کی۔اور نفی تعریف نہیں ہوا کرتی۔ بلکہ شریف انسان اس کو گالی سمجھتا ہے۔ سینکڑوں بلکہ ہزاروں احمدی ایسے ہیں جن کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے اندر وہ عیوب نہیں رکھتے جو اوباش لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ مگر کتنے ہیں جو دین کے لئے جوش اور اخلاص رکھتے ہیں اور رات دن اُن کو یہی دُھن لگی ہوئی ہو کہ دنیا میں اسلام اور احمدیت جلد پھیلے۔ وہ لوگوں سے حُسنِ سلوک سے پیش آتے ہوں۔ کمزوروں کی مدد کرتے ہوں۔ ضعیفوں کی طاقت کا موجب بنتے ہوں۔ گرے ہوئے کو اٹھاتے ہوں۔ بیواؤں کی خبر گیری کرتے ہوں۔ اور دنیا کو یہ محسوس ہوتا ہو کہ وہ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے فائدہ کے لئے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم میں یہ بات ہو یا نہ ہو لیکن صحابہ کی زندگی میں تو ہمیں یہی نظر آتا ہے۔ پس جب تک ہم میں یہ رنگ نہیں پایا جاتا اُس وقت تک ہماری جوانی صحیح معنوں میں جوانی نہیں کہلا سکتی۔ بچپن کا زمانہ گزر گیا۔ بچپن میں اگر ہم نے اپنے فرائض ادا نہیں کئے تو یہ بہت بڑا نقص تھا۔ لیکن بچپن تو گزر گیا۔ اس کے بعد اب اگر ہماری جوانی بھی بے کار جائے تو بڑھاپا بہرحال خطرہ سے خالی نہیں ہوتا۔ اور ہماری مثال اُس شخص کی سی ہو گی جس پر جوانی آنے سےپہلے ہی بڑھاپا آجائے۔
پس قوم کی جوانی کی اپنی جوانی سے بڑھ کر حفاظت کرو ۔ہم دنیا کے سامنے دعویٰ تو پیش کرتے ہیں کہ ہم دنیا کی حفاظت کے لئے آئے ہیں، ہم دنیا کو امن دینے کے لئے آئے ہیں لیکن ہم کو دیکھنا چاہیےکہ کیا ہم اس قسم کے حالات پیدا کر رہے ہیں جن سے دنیا کو امن ملے؟ ہم کہتے تو یہ ہیں ہم دنیا میں اس لئے آئے ہیں کہ ہم غرباء کی کمزوریوں کو دور کریں اور انہیں ترقی کی راہوں پر چلائیں۔ لیکن سوچو تو کیا ہمیں غرباء کی کمزوریوں کو دور کرنے کی فکر دامنگیر رہتی ہے؟ میری نگاہ تو یہ دیکھ رہی ہے کہ صرف مرکز کے غرباء کے لئے بھی غلہ کا انتظام نہیں ہوتا۔ حالانکہ غرباء کی موجودگی میں جو فاقے کر رہے ہیں ہزاروں احمدی ایسے موجود ہیں جن کے بچے آٹے سے کھیلتے ہیں اور غرباء کے گھروں میں بچے ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہوتے ہیں۔ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ ہماری جوانی کے ایام ایسے ہیں جن پر ہم فخر کر سکیں۔ جب تک حقیقی جوانی کے حالات پیدا نہیں ہوتے ہم فخر نہیں کر سکتے۔ اگر ہم اپنے منہ سے فخر کی باتیں کریں گے تو وہ ہماری ذلت کا موجب ہوں گی۔ ہم جتنا فخر کریں گے، جتنے دعوے کریں گے وہ سب ہمارے لئے گالیاں ہوں گی، وہ ہمارے لئے جُوتیاں ہوں گی جو ہم ریشم کے رومال میں لپیٹ کر اپنے سر پر مار رہے ہوں گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب کوئی مرتا ہے اور اُس کے رشتہ دار اس پر نوحہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں تُو بڑا بہادر تھا، تُو بہت سخی تھا تو فرشے اُس کو نیزے کی ہُک مارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بول تُو تھا بہادر؟ پھر نیزے کی ہُک مارتے ہیں اور کہتے ہیں بول تُو تھا سخی؟ اِس کا مفہوم یہی ہے کہ انسانی فطرت اگر زندہ اور صحیح ہو تو وہ ایسی تعریفوں پر شرمندہ ہوجاتی ہے۔ ایک انسان جو لالچ اور بخل سے بھرا ہوا ہو، اگر اسے کوئی کہے کہ یہ ہمارے اَن داتا ہیں، یہ ہمارے بڑے محسن ہیں اور یہ بہت ہی سخی ہیں تو اگراُس کی فطرت مُردہ ہو تو اَور بات ہے لیکن اگر اُس کی فطرت زندہ ہے تو اُس کا نفس یہ نہیں سمجھے گا کہ میری تعریف ہو رہی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص گھوڑے سے گِر پڑے اور لوگ کہیں کہ یہ بڑا شاہ سوار ہے تو وہ خوب سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میری تعریف نہیں کی جا رہی بلکہ مجھے طعنہ دیاجا رہا ہے۔ تو محض تقریروں سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا، محض جوش و خروش ظاہر کرنے سے کچھ نہیں بنتا جب تک ہم حقیقی طور پر تبلیغ کی طرف متوجہ نہ ہوں، جب تک ہم حقیقی طور پر سوچ سمجھ کر کام نہ کریں، جب تک ہم حقیقی طور پر غریبوں کی فکر نہ کریں، جب تک ہم حقیقی طور پر بنی نوع انسان کے اندر امن پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں۔ تب تک ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہماری قوم جوانی کے دن دیکھ رہی ہے۔ اگر اسلام ترقی نہیں کر رہا اور ہماری کوششوں کے باوجود دنیا میں اس رنگ میں مساوات پیدا نہیں ہو رہی جس رنگ میں اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ جوانی سے پہلے ہم پر بڑھاپا آگیا ہے۔
پس جماعت کو اپنی عملی حالت کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ وقت سُرعت کے ساتھ گزر رہا ہے اور کئی کام ایسے ہیں جو ابھی تک روز اول میں سے گزر رہے ہیں۔ ’’
(الفضل مورخہ 23 ستمبر 1959ء)
1: قوتِ نامیہ: بڑھنے والی قوت
2: بخاری کتاب الجَنَائز باب مَا قِیْلَ فِی اَوْلَادِ الْمُشْرِکِیْنَ
3: الحج:6
4: المائدہ: 102
23
ہندوستانی لیڈر اپنی ہمسایہ قوم کو ایک انچ دینے کے لئے تیار نہیں
(فرمودہ 20 جولائی 1945ء)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کےبعدفرمایا:
‘‘گزشتہ دنوں ہندوستان کے سیاسی لیڈر شملہ میں جمع ہوئے اور پھر اپنی ناکامی کا اقرا ر کرتے ہوئے منتشر ہو گئے۔ جہاں تک اختلاف کا سوال ہے وہاں تک تو خیر ایک انسان معذور بھی خیال کیا جا سکتا ہے اور سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ بعض اصول کی پچ رکھنے کی وجہ سے اپنے مدمقابل سے صلح نہیں کر سکا گوخالی ان لوگوں کا بغیر کسی کامیابی کے پراگندہ ہو جانا بھی ایک تشویشناک امر تھا۔ اور ہندوستان کی بدقسمتی پر دلالت کرتا تھا کہ اس کے چوٹی کے لیڈر ایسے وقت میں جبکہ آزادی دروازے پر کھڑی تھی چھوٹے چھوٹے اختلافات کی وجہ سے آپس میں اتحاد نہ کر سکے اور ہندوستان بدستور غلامی کے گڑھے میں گر رہا۔ لیکن اس ‘‘صلح کانفرنس ’’کے بعد جس قسم کے اخلاق کا مظاہرہ کیا گیا ہے وہ اس ناکامی سے بھی زیادہ تکلیف دِہ ہے۔ اِس اِس رنگ میں ایک دوسرے کے خلاف پھبتیاں اُڑائی گئی ہیں،خصوصاً ہندو پریس نے مسٹر جناح اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایسی باتیں کہی ہیں کہ جن کے ہوتے ہوئے آپس میں صلح اور محبت کے ساتھ مل بیٹھنا ایک ناممکن خیال معلوم ہوتاہے۔
بعض مسلمان اخبارات نے بھی اِسی حربہ سے کام لیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کو پسِ پُشت ڈال کر اپنے لئے ندامت اور شرمندگی کا سامان مہیا کیا ہے۔ مثلاً ایک اخبار گاندھی جی کا وہ لفظ جو ان کے نام کےساتھ ہوتا ہے یعنی ‘‘مہاتما’’ اس کو بدل کر ‘‘مہاطمع’’ لکھتا ہے۔ یعنی بڑی طمع اور بڑی حرص۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان ہتھیاروں کے استعمال کے بعد آپس میں کسی سمجھوتہ پر پہنچ جانے کی امید کس طرح کی جا سکتی ہے۔ ان باتوں سے تو معلوم ہوتا ہے کہ دلوں میں اختلاف کو جاری رکھنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ ورنہ چاہیے تو یہ تھا کہ اس ناکامی کے بعد افسوس اور ندامت کی ایک ایسی رَو چل جاتی کہ ہر شخص یہ محسوس کرتا کہ ہندوستان آزادی لینے کے لئے بے تاب نظر آتا ہے مگر بجائے اِس کے کہ اصل معاملہ کے متعلق کسی قسم کا افسوس دل میں پیدا ہوتا، بجائے اس کے کہ اصل معاملہ کے متعلق کسی قسم کی تکلیف دل میں پیدا ہوتی، بجائے اس کے کہ یہ احساس پیدا ہوتا کہ ہم کامیاب نہیں ہوئے اور اہم مقاصد کو اپنے سامنے رکھنے کی بجائے ہم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اُلجھ کر رہ گئے وہ ایک دوسرے پر گند اُچھالنے لگ گئے ہیں۔ اور اس طرح آئندہ کے لئے بھی اِس راستہ کو مسدود کر رہے ہیں۔
ملک کی یہ اخلاقی حالت جو ہندوؤں اور مسلمانوں نے دکھائی ہے نہایت افسوسناک ہے۔ مگر ایسے وقت میں ہم سوائے اِس کے کیا کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمارے ملک کی اس مصیبت کو دور کرے۔ سب سے بڑی مصیبت تو اخلاق کی خرابی ہے۔ اور دوسری مصیبت یہ ہے کہ عظیم الشان مطالب کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے بھی لوگ اس قسم کی قربانیاں نہیں کرتے جس قسم کی قربانیاں انہیں کرنی چاہئیں۔ جہاں تک مَیں نے غور کیا ہے اس اختلاف میں دونوں طرف سے متضاد باتیں پیش کی جاتی رہی ہیں۔ یعنی کانگرس اپنے مسلّمہ اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ باتیں نہیں کہہ سکتی تھی جو اس نے کہیں اور بعض باتیں جو مسلم لیگ نے اس موقع پر پیش کیں وہ بھی اصول کے خلاف تھیں۔ اسی طرح وہ دعویٰ جو درمیان میں وزیر اعظم پنجاب نے پیش کیا اس دعویٰ کو بھی وہ اپنے مسلّمہ اصول کے مطابق پیش نہیں کر سکتے تھے۔ یہ تضاد بتاتا ہے کہ حقیقتاً ابھی تک سچی خواہش آزادی کی پیدا نہیں ہوئی۔ یا یہ بتاتا ہے کہ ہر شخص کے ذہن کے پیچھے کوئی ایسی بات ہے کہ وہ سمجھتا ہے میں اپنے مخالف کے دعووں کو رد کر کے بھی اپنے مقصد کو حاصل کر سکوں گا مجھے صلح کی طرف اپنا قدم اٹھانے کی ضرورت نہیں ۔
میں نے جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے آئندہ زمانہ میں ایسے حالات پیش آنے والے ہیں کہ ہندوستان کی آزادی تو الگ رہی جو کچھ حقوق اسے حاصل ہیں ان کے بھی کھوئے جانے کا امکان نظر آتا ہے۔ اور جہاں تک میں لیڈروں کی تقریروں سے سمجھا ہوں ان کو بھی یہ احساس پیدا ہو چکا ہے کہ خطرات آنے والے ہیں مگر باوجود خطرات کا احساس رکھنے کے وہ اس بات کے لئے تیار نہیں کہ ایک انچ اپنی ہمسایہ قوم کو دے دیں۔ لیکن وہ اس بات پر آمادہ ہیں کہ سارا ملک غیر قوموں کے ہاتھ میں چلا جائے۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان نازک حالات میں زیادہ سے زیادہ دعاؤں سے کام لیں۔ جہاں تک سیاسیات کا تعلق ہے ہمیں ان سے کوئی زیادہ دلچسپی نہیں۔ مگر آنے والے واقعات صرف سیاست پر ہی اثر انداز نہیں ہوں گے بلکہ مذہب پر بھی اثر ڈالنے والے ہوں گے اس لئے ہمیں ان سیاسی معاملات سے جن سے براہ راست ہمارا کوئی تعلق نہیں صرف اس لئے دلچسپی ہے کہ ان کا اثر لَوٹ کر مذہب پر پڑنے والا ہے۔
پس ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خصوصیت سے اِن دنوں دعاؤں میں مشغول ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عجز اور انکسار سے یہ عرض کرے کہ اے خدا! آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنا ہماری طاقت سے باہر ہے۔ کیونکہ وہ سیاسیات سے وابستہ ہیں۔ اور سیاسیات میں ہمارا دخل نہیں بلکہ اور لوگوں کا دخل ہے اور جن کا ان معاملات میں دخل ہے وہ کچھ ایسے سخت دل ہو گئے ہیں کہ عظیم الشان امور کو چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے قربان کر رہے ہیں۔ الٰہی! یا تو ان لوگوں کےد لوں کو تُو بدل دے یا پھر ان کی جگہ تُو دوسرے لیڈروں کو لا جوملک کو امن اور صلح کی طرف لے جانے والے ہوں۔
اب صلح دو ہی طرح ہو سکتی ہے یا تو اس طرح صلح ہو سکتی ہے کہ دلوں کی صفائی ہوجائے۔ اور اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایسی توفیق عطا فرمائے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں کی بجائے اہم مقاصد کو اپنے سامنے رکھیں اور اس بات کے لئے آمادہ ہو جائیں کہ ہم پیار اور محبت سے رہیں گے۔ اور یا پھر صلح اس طرح ہو سکتی ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں لیڈری کی باگ ڈور ہے اللہ تعالیٰ ان کو بدل دے اور ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لے آئے جو صلح اور امن کے خواہاں ہوں اور اس اہم مقصد کے لئے وہ ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ پہلے توہمیں یہی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کوجنہوں نےاپنے ملک کی ایک حد تک خدمت کی ہے توفیق عطا فرمائے کہ وہ صلح اور امن کی صورت پیدا کریں۔ اور چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ملک کو آزادی سے محروم نہ کریں۔ لیکن اگر ان کے دلوں کی اصلاح نہ ہو تو ملک کی آزادی بہرحال مقدم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے ان کے کسی مخفی گناہ کی وجہ سے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور اب ان کی اصلاح ناممکن ہو چکی ہے تو اللہ تعالیٰ سے ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ ان کی بجائے ایسے لیڈر کھڑے کر دے جو خداتعالیٰ کے کسی عذاب کے ماتحت نہ ہوں بلکہ ملک میں صلح اور امن پیدا کرنے کا موجب ہوں۔
اس کے بعد میں ایک مقامی بات کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔ کچھ دن ہوئے میرے پاس ایک شکایت پہنچی ہے۔ غالباً دارالبرکات غربی کے خدام الاحمدیہ کی طرف سے ان کے صدر کے پاس ایک شکایت کی گئی جس کی ایک نقل شکایت کنندہ نے میرے پاس بھی بھیج دی ہے۔ وہ شکایت یہ ہے کہ خدام الاحمدیہ کے چندہ کے لئے جب نوجوان انصار اللہ کے پاس گئے تو انہوں نے نہ صرف چندہ دینے سے انکار کیا بلکہ قسم قسم کے طعنے بھی دیئے کہ تمہارا ہمارے ساتھ کیا واسطہ ہے۔ تم خدام ہو اور ہم انصار ہیں۔ تم خدام ہمارا کیا کام کرتے ہو کہ جس کے بدلہ میں ہم تمہیں چندہ دیں۔ اگر یہ رپورٹ درست ہے تو جہاں تک چندہ کا سوال ہے میں خدام سے یہ کہوں گا کہ ان کے لئے اِس بات پر بُرا منانے کی وجہ ہی کیا تھی۔ خدام سب کے سب اطفال تو نہیں ہیں۔ اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ میں فرق ہے۔ خدام الاحمدیہ سے مراد وہ تمام نوجوان ہیں جو پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کے ہیں اور یہ ظاہر بات ہے کہ چالیس سال کی عمر تک نوجوان بیکار نہیں رہتے۔ بالعموم اٹھارہ، انیس یا بیس سال کی عمر میں وہ کام پر لگ جاتے ہیں گویا 15 سال کی عمر سے خدام الاحمدیہ کی جماعت کے ممبر شروع ہوتے ہیں۔ بیس سال کی عمر تک وہ کسی نہ کسی کام پر لگ جاتے ہیں۔ اور 25سال تک وہ اس جماعت میں شامل رہتے ہیں۔ ان میں سے پانچواں حصہ ایسے خدام کا لیا جا سکتا ہے جو برسرِکار نہیں۔ لیکن باقی 5/4 یعنی اسّی فیصدی حصہ ایسے نوجوانوں کا بھی ہے جو کام پر لگے ہوئے ہیں۔ اگر تو خدام الاحمدیہ کی جماعت پندرہ سولہ یا سترہ اٹھارہ سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہوتی تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم تو کماتے نہیں ہم اپنے لئے روپیہ کہاں سے لائیں۔ ہم نے تو بہرحال بڑوں سے مانگنا ہے۔ مگر جبکہ خدام الاحمدیہ کے ممبر وہ تمام نوجوان ہیں جو پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کے ہیں اور ان میں سے اسّی فیصدی نوجوان ایسے ہیں جو ملازمتیں رکھتے ہیں یا تجارتی کاروبار میں مصروف ہیں تو انہیں اپنے کاموں کے لئے دوسروں سے مانگنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ اگرمرکزی دفاتر کے کارکنوں اور قادیان کے دکانداروں کو ہی دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں ان میں سینکڑوں کی تعداد ایسے لوگوں کی نکلے گی جو اپنی عمر کے لحاظ سے خدام الاحمدیہ میں شامل ہیں۔ اور جب اس کثرت کے ساتھ برسرکار افراد خدام الاحمدیہ کی تنظیم میں شامل ہیں تو میرے نزدیک نوجوانوں کو اپنا بوجھ خود اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آخرکیا وجہ ہے کہ وہ انصار کے پاس جائیں اور اُن سے اپنے لئے چندہ مانگیں۔ ہر شخص کے اندر غیرت ہونی چاہیے اور ہر جماعت کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی ضروریات اپنے افراد کے ذریعہ پوری کرے۔ سوائے اس کے کہ کوئی ایسا کام پیش آجائے جس کا بوجھ وہ خود نہ اٹھا سکتی ہو اور جس کے لئے دوسروں کی امداد کے بغیر گزارہ نہ ہو ورنہ عام دفتری ضرورتوں کے لئے جو چندے کرنے پڑتے ہیں وہ بہرحال جماعت کی طاقت کے اندر ہوتے ہیں اور ان کو پورا کرنا ہر جماعت کا اپنا فرض ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ باوجود اِس کے کہ قادیان میں سے پندرہ سَو بلکہ اِس سے بھی کچھ زیادہ رنگروٹ (Recruit)باہر جا چکا ہے۔ اگر اب بھی گنا جائے تو قادیان میں نوجوانوں کی تعداد بہت کافی نکل آئے گی۔ اگر وہ معمولی رقوم بھی چندہ میں ادا نہ کر سکیں تو یہ ان کا اپنے منہ سے اپنی شکست کا اقرار کرنا ہو گا۔ پس میرے نزدیک اول تو ان کو انصار اللہ کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے۔ اور اگر گئے تھے تو ان کے انکار پر برا نہیں منانا چاہیے تھا۔ جو شخص اپنی حد سے آگے نکل جائے اسے لازماً اِس قسم کا تلخ جواب سننا پڑتاہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے کے پاس جائے اور اُسے کہے کہ اپنا مکان میرے لئے خالی کر دو اور وہ آگے سے انکار کر دے تو بجائے اِس کے کہ کوئی مکان والے کو ملامت کرے ہر شخص اِسی قسم کا مطالبہ کرنے والے سے کہے گا کہ تم گئے ہی کیوں تھے؟ اور کیوں تم نے اس سے یہ مطالبہ کیاکہ اپنا مکان خالی کر دو؟ اور اگر اُس نے انکار کر دیا ہے تو بہرحال برا منانے کی کوئی وجہ نہیں۔ اس کا حق تھا کہ وہ تمہیں کہے کہ تم اپنے گھر بیٹھو میں تمہاری اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔
پس میرے نزدیک انصاراللہ سے چندہ مانگ کر خدام الاحمدیہ نے غلطی کی۔ خدام الاحمدیہ کی جو عمر میں نے مقرر کی تھی وہ ایسی نہیں کہ ان کے پاس برسرکار نوجوانوں کی کمی ہو اور اس بات پر مجبور ہوں کہ چالیس سال سے بڑی عمر والوں سے بھی اپنی ضروریات کے لئے چندہ کا مطالبہ کریں۔ چالیس سال ایسی عمر ہے کہ جس میں ایک ملازم شخص اپنی ملازمت کی اکثر عمر گزار چکا ہوتا ہے۔ بیس سال کی عمر میں عموماً ملازمت اختیار کی جاتی ہے اور پچپن سال کی عمر میں پنشن ہو جاتی ہے۔ گویا ملازمت والی عمر میں سے بیس سال میں نے خدام الاحمدیہ کو دیئے ہیں اور پندرہ سال انصار کو دیئے ہیں۔ لوگوں کی بیس سالہ ملازمت سے خدام فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور لوگوں کی پندرہ سالہ ملازمت سے انصار فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور جبکہ چالیس سال تک کی عمر کے تمام نوجوان خدام الاحمدیہ میں شامل ہیں اور جبکہ نوجوانوں کی بیس سالہ ملازمت سے وہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور اس کے مقابل میں انصار کو عمر کا صرف وہ حصہ دیا گیا ہے جس میں وہ پندرہ سال تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اپنے اخراجات کے لئے انصار اللہ کے پاس جاتے اور اُن سے چندے کا مطالبہ کرتے۔ لیکن اگر وہ گئے ہی تھے تو انصار کا جواب بھی مجھے اُس کشمیری کا واقعہ یاد دلاتا ہے جو ہمارے ملک میں ایک مشہور مثال کے طور پر بیان کیا جاتاہے۔ خدام الاحمدیہ کوہ قاف سے آنے والی پریوں کانام نہیں۔ بلکہ خدام الاحمدیہ نام ہے ہمارے اپنے بچوں کا۔ اور خدام الاحمدیہ کے سپرد یہ کام ہے کہ وہ بچوں کو محنت کی عادت ڈالیں اور ان میں قومی روح پیدا کریں، ان کے سپرد یہ کام نہیں گو اخلاقاً یہ بھی ہونا چاہیئے کہ وہ بحیثیت خدا م کے بھی لوکل انجمن کے ساتھ مل کر کام کریں کیونکہ خدام الاحمدیہ کا ہر ممبر مقامی انجمن کا بھی ممبر ہوتا ہے۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے کی وجہ سے لوکل انجمن کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا۔ ہر احمدی جو چالیس سال سے کم عمر کا ہے وہ خدام الاحمدیہ کا ممبر ہے۔ ہر احمدی جو چالیس سال سے اوپر ہے وہ انصار اللہ کا ممبر ہے۔ اور ہر احمدی جو چالیس سال سے نیچے یا چالیس سے اوپر ہے وہ مقامی انجمن کا بھی ممبر ہے۔ اس سے کوئی علیحدہ چیز نہیں۔ پس خدام الاحمدیہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ جماعت احمدیہ مقامی کے ممبر نہیں ہیں یا انصار اللہ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ جماعت احمدیہ مقامی کے ممبر نہیں ہیں۔ بلکہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مجموعے کا نام مقامی انجمن ہے۔ مثلاً لاہور کی انجمن ہے یا دہلی کی انجمن ہے۔ یا پشاور، گجرات اور سیالکوٹ کی انجمن ہے یا امرتسر کی انجمن ہے۔ ان انجمنوں کے کیا معنے ہیں؟ ان انجمنوں کے معنے یہ ہیں کہ فرداً فرداً ہر شخص جو چالیس سال سے کم عمر کا ہے وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہے اور فرداً فرداً ہر شخص جو چالیس سال سے زیادہ عمر کا ہے وہ انصار اللہ میں شامل ہے۔ مگر ان خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے مجموعے کا نام ہے جماعت احمدیہ لاہور یا جماعت احمدیہ دہلی یا جماعت احمدیہ پشاور یا جماعت احمدیہ گجرات یا جماعت احمدیہ سیالکوٹ یا جماعت احمدیہ امرتسر۔پس میں تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ اِس میں اختلاف کی کونسی بات ہے یا کس بناء پر خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ آپس میں اتحاد نہیں کر سکتے۔
خدام الاحمدیہ کے معنے صرف اتنے ہیں کہ وہ نوجوانوں کو آوارہ گردی سے بچائیں اور انہیں کام کی عادت ڈالیں۔ بے شک ان میں نقائص بھی ہیں مگرجہاں تک میرا تجربہ ہے اور جو روایتیں میں نے سُنی ہیں اُن کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ خدام الاحمدیہ میں صحیح طور پر شامل ہوتے ہیں ان میں کام کرنے کی عادت ضرور پیدا ہو جاتی ہے۔ ذاتی طور پر بھی مَیں نے دیکھا ہے کہ خدام الاحمدیہ میں جن نوجوانوں کو کام کرنے کا موقع ملا ہے وہ بہت زیادہ ذہین اور بہت زیادہ تجربہ کار ہو گئے ہیں اور اب بڑے بڑے کام ان کے سپرد کئے جا سکتے ہیں۔ مجھے ایک کارخانہ والوں نے بتایا کہ انہوں نے خدام الاحمدیہ کے ایک کارکن کو ملازم رکھا تو وہ کام کا اتنا عادی ثابت ہوا کہ نہ وہ رات کو رات سمجھتا اور نہ دن کو دن بلکہ دوسرے انسانوں سے علیحدہ معلوم ہوتا۔ یہی خدام الاحمدیہ کی غرض ہے کہ وہ نوجوانوں میں کام کرنے کی عادت پیدا کریں۔ پس یہ تو نہیں کہ دارالبرکات کے خدام کوہِ قاف سے آئے ہوئے ہیں جو دوسروں سے الگ ہیں اور یہ بھی نہیں کہ دارالبرکات کے خدام دارالفضل یا دارالرحمت سے آئے ہوئے ہوں کہ لوگ کہہ سکیں ہمیں ان سے کیا غرض ہے۔ پس وہ جنہوں نے کہا کہ ہم انصار کو تم خدام سے کیا غرض ہے اُنہیں سوچنا چاہیے تھا کہ خدام الاحمدیہ کوئی الگ چیز نہیں بلکہ خدام الاحمدیہ ان کے اپنے بیٹوں کا نام ہے۔ پس جب انہوں نے کہا کہ ہمیں خدام الاحمدیہ سے کیا غرض ہے تو دوسرے الفاظ میں انہوں نے یہ کہا کہ ہمیں اس سے کیا غرض ہے کہ ہمارے بیٹے جیتے ہیں یا مرتے ہیں۔ مگرکیا کوئی بھی معقول انسان ایسی بات کر سکتا ہے؟ خدام الاحمدیہ کی جماعت تو صرف نوجوانوں کی اصلاح کے لئے قائم کی گئی ہے۔ ایسی صورت میں وہ کونسے ماں باپ ہیں جو یہ کہہ سکیں کہ ہم اپنے بیٹوں کی اصلاح ضروری نہیں سمجھتے، ہم نہیں چاہتے کہ ان میں قومی روح پیدا ہو، ہم نہیں چاہتے کہ ان میں کام کرنے کی عادت پید اہو، یا ہم نہیں چاہتے کہ ایک تنظیم میں شامل ہونے کی وجہ سے ان میں اطاعت کا مادہ پیدا ہو۔
میں نے بتایا ہے کہ مجھے انصار اللہ کے جواب پر ایک کشمیری کی مثال یاد آگئی۔ کہتے ہیں ایک کشمیری پنجاب میں آیا، گرمی کا موسم تھا جیٹھ ہاڑ کے دن تھے کہ ایک دن وہ چلچلاتی دھوپ میں بیٹھ گیا۔ کوئی مسافر پاس سے گزرا تو اُس نے یہ دیکھ کر کہ ایسی سخت گرمی میں یہ شخص دھوپ میں بیٹھا ہے حالانکہ پاس ہی ایک دیوار کا سایہ موجود ہے کشمیری سے کہا کہ میاں کشمیری! تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ تمہارے پاس ہی فلاں جگہ سایہ ہے اس کے نیچے بیٹھ جاؤ۔ کشمیری صاحب نے یہ سنتے ہی اپنا ہاتھ پھیلا دیا اور کہا کہ اگر میں وہاں جا بیٹھوں تو تم مجھے کیا دو گے؟ یہی دارالبرکات کے انصار کا حال ہے۔ان سے کہا گیا کہ آؤ ہم تمہارے بیٹوں کی اصلاح کی طرف توجہ کریں۔ انہوں نے جواب میں کہا تم ہمیں دیتے کیا ہو کہ ہم تمہیں چندہ دیں۔ یہ کہنا کہ خدام الاحمدیہ کیا کام کرتے ہیں؟ میرے نزدیک درست نہیں کیونکہ جہاں تک میرا تجربہ ہے اِس وقت تک انصار نے بہت کم کام کیا لیکن خدام نے ان سے زیادہ کیا ہے۔ گو وہ اپنے کام کے لحاظ سے اُس حد تک نہیں پہنچے جس حد تک میں انہیں پہنچانا چاہتا ہوں۔ مگر بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انصار نے خدام الاحمدیہ کی تنظیم اور ان کے کام کے مقابلہ میں دس فیصدی کام بھی نہیں کیا۔ گو اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انصار کی تنظیم خدام کے کئی سال بعد شروع ہوئی ہے۔ میں نے ان کو بھی بار بار توجہ دلائی ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے ابھی تک اپنے فرائض کو نہیں سمجھا۔ میں نے کہا تھا کہ چونکہ بوڑھے آدمی زیادہ کام نہیں کر سکتے اس لئے بڑی عمر والوں کے ساتھ ایسے سیکرٹری مقرر کر دینے چاہئیں جو اکتالیس یا بیالیس سال کے ہوں تا کہ ان کے کام میں بھی تیزی پیدا ہو۔ کچھ دن ہوئے میں نے انصار اللہ کے ایک ممبر سے پوچھا کہ میری اس تجویز کے بعد بھی انصار اللہ میں بیداری پیدا نہیں ہوئی اس کی کیا وجہ ہے؟ اس نے بتایا کہ سیکرٹری تو مقرر کر دیئے گئے ہیں مگر ابھی ان کے سپرد کام نہیں کیا گیا۔ بہرحال انصار اللہ کا وجود اپنی جگہ نہایت ضروری ہے کیونکہ تجربہ جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ اسی طرح امنگ اور جوش جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ خدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے اور انصاراللہ نمائندے ہیں تجربہ اور حکمت کے۔ اور جوش اور امنگ اور تجربہ اور حکمت کے بغیر کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پس مجھے تعجب ہے انصار اللہ کے اِس جواب پر اور مجھے تعجب ہے خدام الاحمدیہ کی اس کم ہمتی پر۔ اور میں حیران ہوں کہ وہ ان کے پاس مانگنے ہی کیوں گئے تھے اور اگر انہوں نے کچھ دینے سے انکار کیا تھا تو کیوں انہوں نے اس انکار کو خوشی سے برداشت نہ کرلیااور سارے اخراجات کو اپنے اوپر نہ لے لیا۔ میں تو سمجھتا ہوں اگر وہ نوجوانوں سے اپنی ضروریات کے لئے ہزارہا روپیہ بھی جمع کرنا چاہیں تو آسانی سے جمع کر سکتے ہیں۔ اِس وقت ان کے سارے سال کا خرچ چار پانچ ہزار روپیہ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ کیا اتنی معمولی رقم بھی وہ جمع نہیں کر سکتے؟ میں تو سمجھتا ہوں اگر وہ صحیح طور پر کام کریں تو چوبیس پچیس ہزار روپیہ سالانہ بہ سہولت جمع کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان پر کوئی مشکل آئی بھی تھی تو انہیں ایسے لوگوں کو مخاطب کرنا چاہیےتھا جو بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ کام کرتے۔ اور اگر بِالفرض روپیہ کی کمی کی وجہ سے ان کے کام بالکل ہی رُک جاتے تب بھی ان کے لئے گلے اور شکوہ کی کوئی بات نہیں تھی۔ بچے مصائب اور مشکلات کے وقت ہمیشہ اپنے ماں باپ کے پاس جاتے ہیں۔ اگرخدام الاحمدیہ جماعت کی حقیقت کو سمجھتے تو اگر ان کے جسمانی ماں باپ نے یہ کہہ دیا تھا کہ ہمیں اپنے بچوں کی کوئی پروا نہیں، ہم ان کی ضروریات کے لئے کوئی چندہ نہیں دے سکتے تو خدا نے اِس جماعت کو یتیم نہیں بنایا تھا وہ اپنے روحانی باپ کے پاس جاتے اور اسے کہتے کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں رہا۔ اور میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ اپنے روحانی باپ کے پاس جاتے تو اس کی طرف سے انہیں وہ جواب نہ ملتا جو انہیں اپنے جسمانی ماں باپ سے ملا۔ وہ محبت اور پیار کے ساتھ تمہاری ضرورتوں کو پورا کرتا اور تمہیں یہ شکوہ پیدا نہ ہوتا کہ ہم اپنے کاموں کو کس طرح چلائیں یا اپنی ضروریات کو کس طرح پورا کریں۔ مجھے جہاں اس بات پر خوشی ہوتی ہے کہ خدام عمدہ سکیمیں تیار کرتے رہتے ہیں وہاں میں نے بارہا اس امر پر تعجب کا اظہار کیا ہے کہ خدام الاحمدیہ کو جتنا مشورہ مجھ سے لینا چاہیے اُتنا مشورہ وہ نہیں لیتے۔ اگرلیتے تو وہ زیادہ اچھا کام کر سکتے اور زیادہ عمدگی سے اپنی ضرورتوں کو پورا کر سکتے۔
پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو مشترک طور پر یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں۔ چونکہ بعض دفعہ باہر بھی ایسے جھگڑے پیدا ہوئے ہیں اس لئے میں خدام کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ صرف خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں بلکہ مقامی جماعت کے بھی ممبر ہیں۔ خدام الاحمدیہ کا کام لوکل انجمن کے کام کے علاوہ زائد طور پر ان کے سپرد کیا گیا ہے۔ پس مقامی انجمن کے جو عہدیدار ہوں خواہ وہ سیکرٹری ہوں یا پریذیڈنٹ ان کے احکام کی پیروی ہر خادم کے لئے ضروری ہے۔ البتہ کوئی سیکرٹری یا کوئی پریذیڈنٹ جماعتی طو رپر خدام الاحمدیہ کو کسی کام کا حکم دینے کا مجاز نہیں۔ وہ فرداً فرداً تو انہیں کہہ سکتا ہے کہ آؤ اور فلاں کام کرو مگر لوکل انجمن کا پریذیڈنٹ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ خدام کو بحیثیت خدام یہ کہے کہ آؤ اور فلاں کام کرو۔ اُس کو چاہیے کہ اگر خدام الاحمدیہ سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو اُن کے زعیم کو مخاطب کرے اور کہے کہ مجھے فلاں کام کے لئے خدام کی مدد کی ضرورت ہے۔ اور زعیم کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے پریذیڈنٹ کے احکام کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو خدام الاحمدیہ کو جماعت میں تفرقہ اور شقاق کا موجب بناتا ہے۔ اسی طرح انصار اللہ گو تنظیم کے لحاظ سے علیحدہ ہیں مگر بہرحال وہ لوکل انجمن کا ایک حصہ ہیں ان کو بھی کوئی پریذیڈنٹ بحیثیت جماعت حکم نہیں دے سکتا۔ ہاں فرداً فرداً وہ انصار اللہ کے ہر ممبر کو اپنی مد دکے لئے بلا سکتا ہے۔ اور انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے ہر پریذیڈنٹ کے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں۔
بہرحال کوئی پریذیڈنٹ انصار اللہ کو بحیثیت انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کو بحیثیت خدام الاحمدیہ کسی کام کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ یہ تو کہہ سکتاہے کہ چونکہ تم احمدی ہو اس لئے آؤ اور فلاں کام کرو۔ مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آؤ انصار! یہ کام کرو۔ یا آؤ خدام! یہ کام کرو۔ خدام کو خدام کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے اور انصار کو انصار کا زعیم مخاطب کر سکتا ہے۔ مگر چونکہ لوکل انجمن اِن دونوں پر مشتمل ہوتی ہے انصار بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور خدام بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اس لئے گو وہ بحیثیت جماعت خدام اور انصار کو کوئی حکم نہ دے سکے مگر وہ ہر خادم اور انصار اللہ کے ہر ممبر کو ایک احمدی کی حیثیت سے بلا سکتا ہے اور خدام اور انصار دونوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔
میں حیران ہوں کہ جہاں باقی مقامات پر آرام سے کام چل رہا ہے وہاں قادیان میں کیوں اختلاف پیدا ہو گیا۔ یہاں تو علاوہ محلّوں کی انجمنوں کے ایک لوکل انجمن بھی موجود ہے۔ اگر دارالبرکات کے انصار اپنے فرائض کو سمجھنے کے قابل نہیں تھے یادارالبرکات کے جو خدام ہیں ان میں سےبعض کے ساتھ وہ صلح اور محبت سے کام نہیں کر سکتے تھے۔ تو پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ وہ اس جھگڑے کو دور کرتا۔ درحقیقت اگر ایسے مواقع پیش آجائیں تو اُس وقت بہترین طریق یہ ہوتا ہے کہ پریذیڈنٹ جھگڑے کو نپٹانے کی کوشش کرے۔ مثلاً جب قادیان کےا یک محلہ میں یہ جھگڑا پیدا ہو گیا تھا تو اُس وقت لوکل انجمن کے پریذیڈنٹ کا فرض تھا کہ اس جھگڑے کو دور کر نے کی کوشش کرتا۔ وہ مقامی پریذیڈنٹ کو بھی بلاتا، انصار اور خدام کے زعماء کو بھی بلاتا۔ اور پھر اگر ضروری سمجھتا تو مرکز کو لکھ کر انصار اور خدام کا ایک ایک نمائندہ بلایا جاتا اور تحقیق کر کے فیصلہ کیا جاتا کہ قصور کس کا ہے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ نہ قادیان کی لوکل انجمن نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا، نہ خدام نے اس جھگڑے کو دور کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ انصار اللہ نے اس طرف کوئی توجہ کی۔ حالانکہ یہ جھگڑے اگر اِسی طرح بڑھتے چلے جائیں اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا وجود جماعت میں دو نئی جماعتیں پیدا کرنے کا موجب بن جائے تو یہ تنظیم بجائے انعام کے ہمارے لئے وبال بن جائے گی۔ اور بجائے اتحاد کو ترقی دینے کے ہم میں تفرقہ اور تنزل پیدا کر دے گی۔ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو دو علیحدہ علیحدہ وجود نہیں بنایا گیا بلکہ ایک کام اور ایک مقصد کے لئے ان کے سپرد دو علیحدہ علیحدہ فرائض کئے گئے ہیں۔ اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گھر میں سے کسی کے سپرد خدمت کا کوئی کام کر دیا جاتا ہے۔ اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اُس کا کوئی مستقل وجود گھر میں پیدا ہو گیا ہے بلکہ وہ بھی جانتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جانتے ہیں کہ وہ گھر کا ایک حصہ ہے۔ صرف کام کو عمدگی سے چلانے کے لئے اس کے سپرد کوئی ڈیوٹی کی گئی ہے۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں مقامی انجمن کے بازو ہیں۔ اور ہر شخص کو خواہ وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہو یا انصار اللہ میں اپنے آپ کو محلہ کی یا اپنے شہر کی یا اپنے ضلع کی انجمن کاایک فرد سمجھنا چاہیے۔ اور بجائے اس کے ساتھ ٹکرانے کے صلح اور آشتی سے کام لینا چاہیے۔ میں نے بتایا ہے کہ جب اِس قسم کا کوئی اختلاف پیدا ہواُس وقت پریذیڈنٹ پر اختلاف کو دور کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر ضلع میں جھگڑا ہو تو ضلع کے پریذیڈنٹ کا، شہر میں جھگڑا ہو تو شہر کے پریذیڈنٹ کا، محلہ میں جھگڑا ہو تو محلہ کے پریذیڈنٹ کا فرض ہے کہ وہ دونوں فریق کو جمع کرے اور ان کے شکوے سن کر باہمی اصلاح کی کوشش کرے۔ اور اگر اس سے اصلاح نہ ہو سکے تو وہ لوکل انجمن کے سامنے معاملہ رکھے۔ اور پھر لوکل انجمن کا فرض ہے کہ وہ لوکل مجلس انصار اللہ اور لوکل مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک ایک نمائندہ بلوائے اور اس طرح مل کر جھگڑے کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
درحقیقت ہماری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے قیام سے یہ ہے کہ جماعت کو ترقی حاصل ہو۔ یہ غرض نہیں کہ تفرقہ اور شقاق پیدا ہو۔ پس میرے نزدیک اس معاملہ میں خدام الاحمدیہ کی بھی غلطی ہے، انصار اللہ کی بھی غلطی ہے ،لوکل انجمن کی بھی غلطی ہے اور اگر اس رنگ میں یہ معاملہ لوکل انصار اللہ تک پہنچ گیا تھا تو پھر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی بھی غلطی ہے کہ اس نے اس جھگڑے کو دور نہ کیا۔ آخر جب کوئی نہ کوئی جھگڑا پیدا ہوتا ہے تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ بغیر کسی سبب کے ہی جھگڑا پیدا ہو جائے۔ جب کسی انسان کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کے اندر ضرور کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے۔ یا اس کی انتڑیوں میں نقص ہے یا معدہ میں نقص ہے یا جگر میں پھوڑا ہے یا پتہ میں پتھری ہے یا گُردہ میں پتھری ہے۔ بہرحال کوئی نہ کوئی پیٹ درد کی وجہ ہو گی۔ اِسی طرح جب لڑائی ہو جاتی ہے یا تفرقہ اور شقاق کی کوئی صورت رونما ہوتی ہے۔ تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بات ہوتی ہے۔ بعض دفعہ وہ بات اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ سننے والا حیران رہ جاتا ہے۔ مگر بہرحال چونکہ وجہ موجود ہوتی ہے اس لئے جب تک اس کا ازالہ نہ کیا جائے تفرقہ اور شقاق دور نہیں ہوتا۔
میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو میں مکمل کر دوں۔ ایک دیوار انصار اللہ ہیں۔ دوسری دیوار خدام الاحمدیہ ہیں اور تیسری دیوار اطفال الاحمدیہ ہیں اور چوتھی دیوار لجنات اماء اللہ ہیں۔ اگر یہ چاروں دیواریں ایک دوسری سے علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی۔ عمارت اُس وقت مکمل ہوتی ہے جب اُس کی چاروں دیواریں آپس میں جُڑی ہوئی ہوں۔ اگر وہ علیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چار دیواریں ایک دیوار جتنی قیمت بھی نہیں رکھتیں۔ کیونکہ اگر ایک دیوار ہو تو اُس کے ساتھ ستون کھڑا کر کے چھت ڈالی جا سکتی ہے لیکن اگر ہوں تو چار دیواریں لیکن چاروں علیحدہ علیحدہ کھڑی ہوں تو اُن پر چھت نہیں ڈالی جا سکے گی۔ اور اگر اپنی حماقت کی وجہ سے کوئی شخص چھت ڈالے گا تو وہ گر جائے گی کیونکہ کوئی دیوار کسی طرف ہو گی اور کوئی دیوار کسی طرف۔ ایسی حالت میں ایک دیوار کا ہونا زیادہ مفید ہوتا ہے بجائے اس کے کہ چار دیواریں ہوں اور چاروں علیحدہ علیحدہ ہوں۔
پس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہئے۔ اگر کسی حصہ میں شقاق پیدا ہوا تو خدا تعالیٰ کے سامنے تو وہ جواب دہ ہوں گے ہی۔ میرے سامنے بھی وہ جواب دہ ہوں گے یا جو بھی امام ہو گا اس کے سامنے انہیں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل کرنے کے لئے مہیا کئے ہیں۔ اس لئے مہیا نہیں کئے کہ جماعت کو جو طاقت پہلے سے حاصل ہے اُس کو بھی ضائع کر دیا جائے۔ ’’ (الفضل 30 جولائی 1945ء)
24
جماعت احمدیہ کی فتح اور کامیابی کے لئے ایک نیا قدم اور نئی قربانیوں کا وقت
(فرمودہ 27 جولائی 1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘اللہ تعالیٰ کی بعض باتیں اپنے اندر لطیفے کا رنگ رکھتی ہیں۔ یعنی گو وہ واقعات کے لحاظ سے تو اہمیت نہیں رکھتیں لیکن ان میں ایک قافیے اور تلازمہ کا رنگ پایا جاتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں جہاں تک اس کے مضامین اور مطالب کا تعلق ہے اس میں کسی رِدَم (Rhythm) یا وزن کا پایاجانا ضروری نہیں۔ جس سے ہمیں معلوم ہو کہ اس کی نثر اپنے اندر شاعرانہ رنگ رکھتی ہے۔ لیکن اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نہ صرف ان اندرونی حکمتوں سے پُر کیا ہے جو انسان کی سمجھ اور عقل کو جِلا بخشتی ہیں اور انسان کے فہم و فراست کو قوت دیتی ہیں بلکہ اس کے ساتھ ظاہر میں بھی ایک ایسا توازن قائم کیا ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ مضامین آپس میں وابستہ اور ہم رشتہ ہیں اور اُچھلتے کُودتے آگے کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری باتوں میں بھی بسا اوقات ایک تلازمہ کا رنگ پایا جاتا ہے۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ ایک چھوٹی سی چیز کو اللہ تعالیٰ نے انسانی دماغ کو راحت اور خوشی پہنچانے کے لئے دوسری چیز کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ گو اس جوڑ میں کوئی معنوی حکمت نظر نہیں آتی لیکن اس کے ساتھ ایک قسم کی لذت اور راحت ضرور محسوس ہوتی ہے۔
مجھے اللہ تعالیٰ نے کچھ عرصہ ہوا رؤیا میں بتایا کہ مسٹر ماریسن جو انگلستان کی لیبر پارٹی کے ممبر ہیں وہ کہتے ہیں کہ جیسا کام کرنے کی مجھے توفیق ملی ہے چالیس سال کے عرصہ میں ایسی توفیق کسی کو نہیں ملی۔ اور گویا وہ ضلع کانگڑہ کے متعلق کہتے ہیں۔ اور میں حیران ہوتا ہوں کہ انگلستان کے افسر کو کانگڑہ سے کیا تعلق۔ پھر اس کی یہ تعبیر ذہن میں آئی کہ انگلستان میں بھی کانگڑہ کے ضلع کی قسم کے آتش فشانی مادے ظاہر ہونے والے ہیں یعنی عظیم الشان تغیرات ہونے والے ہیں۔ یہ رؤیا مجھے ڈلہوزی کے پچھلے سفر میں دکھایا گیا۔ اُس وقت ابھی پارلیمنٹ کے ٹوٹنے کا کوئی ذکر نہ تھا اور نہ ہی پارلیمنٹ کے ٹوٹنے کا کوئی امکان تھا۔ چودھری ظفراللہ خان صاحب اُس وقت انگلستان جا رہے تھے۔ میں نے یہ رؤیا لکھ کر ان کو بھجوا دیا تا وہ لندن میں شمس صاحب کو اشاعت کے لئے دے دیں۔ آگے شمس صاحب نے فورًا ہی وہ رؤیا 22 مئی کو مسٹر ماریسن تک پہنچا دیا۔ مسٹر ماریسن لیبر پارٹی کے ممبر ہیں اور اگر انہیں کوئی خاص کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے تو وہ لیبر پارٹی کے ذریعہ سے ہی مل سکتا ہے۔ کیونکہ ڈیموکریٹک ملکوں میں کوئی شخص اپنی ذات میں کوئی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ اس کو اپنی پارٹی کےساتھ مل کر ہی پوزیشن حاصل ہوتی ہے اور وہ اپنی پارٹی کےساتھ مل کر ہی کوئی بڑا کام کر سکتا ہے۔ پس اس رؤیا میں یہ اشارہ تھا کہ قریب میں ہی مسٹر ماریسن کی پارٹی برسراقتدار آنے والی ہے۔ اس رؤیا کے بعد جب میں واپس قادیان گیا تو کچھ دنوں کے بعد یہ ہلچل مچ گئی کہ لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی (Conservative Party)میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا ہے اور لیبر پارٹی یہ چاہتی ہے کہ دونوں پارٹیاں الگ الگ اور جدا جدا کام کریں۔ لیکن کنزرویٹو پارٹی (Conservative Party) اصرار کرتی ہے کہ ابھی کولیشن گورنمنٹ (Collision Govt.) رہے تا وقتیکہ جاپان کی جنگ کا خاتمہ ہو جائے۔ لیکن لیبر پارٹی نے اسے تسلیم نہ کیا اور آخر باوجود لیبر پارٹی کے اس اصرار کے کہ ابھی کسی نئے انتخاب کی ضرورت نہیں مسٹر چرچل نے اِس خیال کے ماتحت کہ اگر اِس وقت مَیں نیا انتخاب کراؤں گا تو میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا، کیونکہ ابھی میری جنگی خدمات کا گہرا اثر لوگوں کے دل پر ہے اور جاپان کی جنگ جاری ہے۔ اگر جاپان کی لڑائی کا خاتمہ ہو گیا تو ملک والے سمجھیں گے کہ اب لڑنے والے آدمی کی ضرورت نہیں اب صلح کے کاموں والے آدمی کی ضرورت ہے اِس لئے اِس وقت میرے جیتنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ اس طرح مجھے اور میری پارٹی کو پانچ سال کا عرصہ پھر حکومت کے لئے مل جائے گا۔ مسٹر چرچل نے اپنی طرف سے ہوشیاری اور چالاکی کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا کہ اب تو مسٹر ماریسن کو کوئی بڑا کام کرنے کا موقع ملنے والا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف کنزرویٹو پارٹی کو یہ اصرار تھا کہ اگر انتخاب ہونا ہے تو اِسی وقت ہو لیکن دوسری طرف لیبر پارٹی اِس بات پر مُصِر تھی کہ یہ انتخاب ابھی نہ ہو۔ جس کے معنے یہ تھے کہ کنزرویٹو پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ اگر اب انتخاب ہو جائے تو اس کے لئے جیتنے کا زیادہ موقع ہے۔ اسی طرح لیبر پارٹی کا بھی یہی خیال تھا کہ اگر اِس وقت انتخاب ہوا تو وہ کنزرویٹو پارٹی کے حق میں اچھا ہو گا۔ مگر باوجود لیبر پارٹی کے کہنے کے کہ ابھی انتخاب میں دیر کی جائے مسٹر چرچل یہی کہتے رہے کہ ہمیں ابھی انتخاب کے لئے پبلک کے سامنے جانا چاہئے۔ ان کا اصرار کرنا یہ بتاتا ہے کہ ان کے نزدیک ان کے جیتنے کے لئے یہ بہترین موقع تھا اور لیبر پارٹی کا اِس بات پر اصرار کرنا کہ ابھی انتخاب نہ کیا جائے اور کچھ دیر پیچھے ڈالا جائے فوری طور پر نئے انتخاب کی ضرورت نہیں چھ ماہ یا سال کے بعد کر لیا جائے گا اِس بات کا ثبوت ہے کہ لیبر پارٹی یہ سمجھتی تھی کہ ابھی پبلک کے سامنے جانا ان کے لئے اچھا نہیں۔ اگر ابھی پبلک کے سامنے جائیں گے تو ہار جائیں گے۔ لیکن یہ دونوں رائیں خدائی فیصلہ کے خلاف تھیں۔ مسٹر چرچل نے انتخاب پر زور اسی لئے دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہمارے لئے جیتنے کا زیادہ موقع ہے۔ اور لیبر پارٹی نے انتخابات میں تأخیر پر اِس لئے زور دیا کہ اس کے نزدیک یہ وقت ان کے لئے مناسب نہ تھا۔ مگر آخر لیبر پارٹی نے یہ سمجھ کر کہ اب جو ہمارے سر پر پڑنا تھا پڑ گیا انتخاب کی مُہم شروع کر دی۔ اُس وقت مسٹر چرچل کو اپنی کامیابی پر اس قدر یقین تھا میں حیران ہوں کہ وہ اب اِس فقرے کو پڑھ کر جو انہوں نے انتخاب کے دوران میں کہا دل میں کیا محسوس کرتے ہوں گے۔ انتخاب کے دنوں میں جب وہ لندن کی ایک انتخاب کی چوکی پر پہنچے تو وہاں ہزارہا آدمی قطاریں باندھے کھڑے تھے۔ مسٹر چرچل کی جنگی خدمات کی وجہ سے لوگوں نے ان کے آنے پر خوش آمدید کہا اور اپنے طریق کے مطابق تالیاں پیٹیں اور نعرے لگائے۔ اُس وقت مسٹر چرچل نے یہ فقرہ کہا کہ میں تمہیں گورنمنٹ کا ایک راز بتانے آیا ہوں۔ اور پھر مذاقاًکہا کہ تم یہ راز کسی دوسرے کو نہ بتانا۔ وہ راز یہ ہے کہ کنزرویٹو پارٹی اِس انتخاب میں جیت گئی ہے۔ گویا وہ اپنی کوششوں اور اپنی طاقت کے اندازہ کے مطابق یہ خیال کرتے تھے کہ یہ ناممکن بات ہے کہ ہم ہار جائیں۔ ایک بچہ ایسی بات کہے تو اَور بات ہے لیکن ایک ایسا آدمی جو ایک اہم پارٹی کا لیڈر ہے اور ایسے وقت میں جبکہ وہ دنیا میں غیر معمولی حیثیت حاصل کر چکا ہے اور ایسے وقت میں جبکہ وہ اپنے دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہے اُس وقت اُس کا یہ کہنا کہ میں تمہیں گورنمنٹ کا یہ راز بتانے آیا ہوں کہ کنزرویٹو پارٹی جیت گئی ہے بتاتا ہے کہ مسٹر چرچل کو اپنی فتح پر سو فیصدی یقین تھا۔ لیکن مسٹر چرچل کے اِس اعلان سے دو مہینے پہلے اللہ تعالیٰ مجھے یہ اطلاع دے چکا تھا کہ اب مسٹر ماریسن جیسے لوگوں کے کام کرنے کا وقت آیا ہے۔ آج الیکشن کے نتیجہ کا اعلان ہو گیا ہے لیبر پارٹی انتخاب سے پہلے اپنے متعلق جو ناکامی کا خطرہ محسوس کرتی تھی وہ بھی غلط ثابت ہوا ہے اور کنزرویٹو پارٹی جو کامیابی کا یقین رکھتی تھی وہ بھی غلط ثابت ہوا ہے۔ اور الیکشن میں 640 ممبروں میں سے 390 ممبر لیبر پارٹی کی طرف سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اور مسٹر چرچل کی پارٹی جس کے متعلق مسٹرچرچل نے کہا تھا کہ میں تمہیں گورنمنٹ کاراز بتاتا ہوں کہ کنزرویٹو پارٹی جیت چکی ہے اُس کے گزشتہ ممبروں میں سے نصف کے قریب ممبر آئے ہیں۔ پچھلی دفعہ 350 ممبر تھے اور اِس دفعہ 185 ممبر آئے ہیں۔
اِس خبر میں عجیب تلازمہ 1ہے ۔میں حیران ہوں اللہ تعالیٰ نے اس خبر کو روکے رکھا اور یہ خبر اِس سفر سے نہ دس دن پہلے اور نہ دس دن بعد بتائی بلکہ ڈلہوزی میں ہی بتائی ۔اِس میں یہ اشارہ تھا کہ ڈلہوزی میں اِس خبر کی اطلاع دی گئی ہے اور ڈلہوزی میں ہی اس کے پورا ہونے کی خبر آئے گی۔ یہ ایک قسم کا تلازمہ ہے۔ جیسے قرآن مجید میں مُؤْمِنُوْنَ یا یُوْقِنُوْنَ آتا ہے۔ مُؤْمِنُوْنَ یا یُوْقِنُوْنَ کو ایک د وسرے کے بعد لانے میں بظاہر کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا لیکن اِس میں ایک رِدم اور توازن اور شعریت ہے۔ اسی طرح حادثات میں بھی بسااوقات شعریت اور توازن پایا جاتا ہے۔ اس تلازم میں اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ اے ڈلہوزی میں آئے ہوئے شخص !وہ خبر ڈلہوزی میں ہی پوری ہو گی جو ڈلہوزی میں دی گئی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ نےایک قاضی کو معزولی کا حکم بھجوایا۔ اس میں لکھا یَا قَاضِی الْقُمِّ عَزَلْتُکَ فَقُمْ۔ اے قُم کے قاضی! میں نے تجھے معزول کر دیا ہے اب اُٹھ اور اپنے گھر جا۔ اُس نے پڑھا تو ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا مجھے تو اس قافیہ نے ڈبویا۔ کسی نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے اُس نے کہا کہ بادشاہ یہاں سے گزرا اُس کو معلوم ہوا یہ قُم قصبہ ہےاور یہاں کوئی قاضی بھی ہے۔ تو بادشاہ کو خیال آیا کہ لطیفہ بنانا چاہیے اور بادشاہ کو یہ قافیہ پسند آیا۔ اس لئے اُس نے میری معزولی کا حکم دے دیا۔ تو قوافی بھی اپنے اندر دلکشی اور دلچسپی رکھتے ہیں۔ بعض دفعہ جب اللہ تعالیٰ آئندہ کی خبریں دیتا ہے تو ان میں اس قسم کا تلازمہ رکھ دیتا ہے۔کبھی وزن کے ذریعہ اور کبھی شعر کے ذریعہ اور بعض دفعہ خاص حالات میں ہونے والے واقعات کو اُسی قسم کے مناسب حالات میں بیان کر دیتا ہے۔ جیسے ترازو کے دو پلڑے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی بھی ڈلہوزی میں اور پوری ہوئی بھی ڈلہوزی میں۔ یہ تلازمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اِس خبر میں رکھا تھا۔
چونکہ خبروں میں بعض دفعہ اوقات کی تعیین نہیں ہوتی اِس لئے ڈلہوزی میں خبر دینے سے اس طرف اشارہ کر دیا کہ اس خبر کو پورا ہونے میں لمبا وقت مقدر نہیں بلکہ یہ خبر قریب میں ہی پوری ہونے والی ہے۔ اس کے بعد کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ خود انگلستان کے نزدیک بھی لیبر پارٹی کی یہ کامیابی غیرمعمولی ہے۔ ایک کنزرویٹو پارٹی کے اخبار نے لکھا ہے کہ یہ نتیجۂ انتخاب زلزلہ پیدا کر دینے والا ہے (میری خواب کے الفاظ کو یاد کرو) ٹائمز آف لنڈن نے لکھا ہے کہ انگلستان کی ساری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی کہ اس وقت کہ انگلستان ایک لیڈر کی فتوحات اور کارناموں سے گونج رہا ہو اس نے اُس لیڈر کو کام سے ہٹا دیا ہو۔ اِسی طرح بعد کی خبروں سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مسٹر ایٹلی2 نئے وزیر اعظم نے مسٹر ماریسن کو نائب وزیر اعظم مقرر کیا ہے۔ بلکہ تازہ اطلاع ریڈیو کی تو یہاں تک ہے کہ پارٹی کے اجلاس میں یہ تجویز پیش کی ہے کہ مسٹر ماریسن کو ہی پارٹی کا لیڈر بنایا جائے۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ سیاسی طور پر لیبر پارٹی یہ فیصلہ کرے کہ وزیر اعظم بجائے مسٹر ایٹلی کے مسٹر ماریسن بنے۔ خواب کے بعد تین ماہ کے اندر ان حالات کا ظاہر ہونا کتنا عظیم الشان نشان ہے۔ اور دشمنانِ اسلام اور احمدیت اور پیغامیوں پر کتنی زبردست حجت ہے۔ اور ابھی تو اس عظیم الشان پیشگوئی کے اَور بہت سے پہلو ہیں جو اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے۔ موجودہ سیاسیات میں ان کا ظاہر کرنا مناسب نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ خبر ایک اَور خواب کے پورا ہونے کے لئے بھی راستہ کھولنے والی ہے۔ وہ خواب میں بیان کر چکا ہوں اور شائع بھی ہو چکا ہے۔ وہ خواب میں نے لاہور میں دیکھا تھا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کے ہاتھ سے کوئی بہت اہم کام ہونے والا ہے۔ شملہ کانفرنس میں یہ سامان پیدا ہوئے لیکن بعض وجوہ سے رُک گئے۔ اب لیبر پارٹی برسراقتدار آئی اور وہ ہندوستان کی آزادی کے حق میں ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ہندوستان کو جلد سے جلد آزاد کیا جائے۔ ان حالات میں مَیں سمجھتا ہوں کہ شاید پھر کانگرس اور مسلم لیگ کو اِس بات کا موقع مل جائے کہ وہ آپس میں فیصلہ کر لیں اور کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں۔ اور وہ خواب اس صورت میں پورا ہو جائے ۔
جہاں تک اہمیت کا تعلق ہے کسی کام میں ناکامی بھی انسان کے اہم واقعات میں سے ہوتی ہے۔ بادشاہوں کی زندگی کے اہم واقعات بڑی فتوحات بھی کہلاتی ہیں اور بڑی بڑی شکستیں بھی۔ محمد شاہ رنگیلا بہت سے بادشاہوں سے زیادہ مشہور ہےاِس کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے ایک خطرناک شکست کھائی جس سے ہندوستان کی طاقت ٹوٹ گئی۔ تو جیسے بڑی بڑی فتوحات اہمیت رکھتی ہیں ایسے ہی بڑی بڑی شکستیں بھی اہمیت رکھتی ہیں اور ممکن ہے مولانا ابوالکلام آزاد کی ناکامی وہ اہم کام ہو جس کی نسبت خواب میں اشارہ تھا۔ لیکن چونکہ کامیابی زیادہ اہمیت رکھنے والی شے ہے پس جب اس خواب کے نتیجہ میں یہ حالات پیدا ہو رہے ہیں تو یہ قیاس کرنا عقل کے خلاف نہیں کہ یہ خواب ابھی پوری طرح پورا نہیں ہوا اور آئندہ کامیابی کی صورت میں بھی پورا ہونے والا ہے۔ کیونکہ قریب ترین مفہوم کسی چیز کی اہمیت کا اس کی کامیابی سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا نمبر ناکامی کا ہوتا ہے۔ شملہ کانفرنس کے بعد اب بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ یہ ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ دیر تک پڑا رہے گا اور شاید اس کا نتیجہ اچھا نہ نکلے اور ہندوستان دیر تک تکلیف میں رہے۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو پورا کرنے کے سامان کر دیئے ہیں۔
یہ ساری باتیں چھ ماہ کے اندر اندر ظاہر ہوئی ہیں۔ یہ کتنی عظیم الشان بات ہے کہ اِسی سال اللہ تعالیٰ نے مجھ سے یہ اعلان کرایا کہ ہندوستان اور انگلستان آپس میں صلح کر لیں اور اِسی سال یہ خبر دی۔ کہ مولانا ابو الکلام کے ذریعہ کوئی بڑا کام ہونے والا ہے۔ اسی سال مسٹر ماریسن کے متعلق بھی خبر دی اسی سال وہ خبریں جو جرمن قوم کی شکست کے متعلق میں نے دی تھیں پوری ہوئیں۔ یہ مجموعہ خبروں کا ایسا ہے جو نہایت اہم علمِ غیب پر مشتمل اور ان میں سے ہر ایک واقعہ ایسا ہے جو غیر معمولی ہے۔ اگر کوئی شخص بتائے کہ فلاں کے گھر لڑکا پیدا ہو گا یا فلاں مر جائے گا اور ایسے پچاس ساٹھ واقعات پورے ہو جائیں تو ان کی اتنی اہمیت نہیں ہو گی جتنی ان اہم واقعات کی ہے۔ اِس سال ایسے اہم واقعات اور ایسی اہم باتیں پوری ہوئی ہیں جو سب دنیا کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ متواتر پوری ہوئی ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس سال کو اہمیت اور خصوصیت کا مقام دینا چاہتا ہے۔ میں نے اِس کے متعلق تین سال پہلے بتایا تھا کہ الٰہی اشارہ اِس طرف معلوم ہوتا ہے کہ 1945ء بہت اہمیت رکھنے والا سال ہو گا۔ اور وہ ہمارے لئے ایک کامیابی کی وادی کے مشابہ ہو گا۔ اِس میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی شاندار بنیاد پڑے گی۔ اگر کوئی پوچھے کہ کونسی بنیاد پڑی ہے تو میں کہتا ہوں اول تو صلح ہو جانے کی وجہ سے ہمارے مبلغ باہر جانے شروع ہو گئے ہیں اور آٹھ نو مبلغ غیر ممالک میں جاچکے ہیں اور باقی جانے کو تیار ہیں۔ دوسرے اس سے بڑھ کر ترقی اور فتح کی بنیاد اور کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس سلسلہ کے ہاتھوں یہ ثبوت دے کہ اس سلسلہ کا میرے ساتھ تعلق ہے اور میں اس سلسلہ کے ذریعہ غیب کی خبریں دنیا کو بتاتا ہوں۔ یہ بہت بڑی بنیاد ہے فتح اور کامیابی کی۔ اگر ایک خبر بھی ایسی ہو جو دوسرے لوگوں سے تعلق رکھتی ہو اور وہ پوری ہو جائے تو لوگوں کے نزدیک اس کی بہت بڑی اہمیت ہوتی ہے چہ جائیکہ متواتر غیب کی خبروں کا پورا ہونا۔ جیسے جرمن قوم کی شکست، مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق رؤیا کہ ان کےذریعہ کوئی اہم کام ہونے والا ہے، مسٹر ماریسن کے متعلق رؤیا،ہندوستان اور انگلستان کی صلح کے متعلق اعلان۔ یہ متواتر واقعات سارے کے سارے اِسی سال میں پورے ہوئے ۔ جس کے متعلق تین سال قبل اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا تھا کہ یہ سال بہت اہمیت رکھنے والا سال ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک ایسا نشان ہے کہ اگر جماعت صحیح طور پر اسے دہریہ دشمن کے سامنے بھی پیش کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا انکار نہیں کر سکے گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ اگر صحیح طور پر نشان کو پیش کیا جائے تو لوگوں سے اس کا جواب نہیں بنتا۔ اور انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے یہ چیز ضرور ایسی ہے جو اپنے اندر اہمیت رکھتی ہے اور اس پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے۔ یوں تو خدا تعالیٰ نے مجھے کئی بین الاقوامی واقعات کے متعلق جو کروڑوں کروڑ انسانوں کی زندگیوں سے تعلق رکھتے تھے کشوف کے ذریعہ خبر دی ہے اور وہ پورے ہوئے ہیں لیکن اِس سال میں تو صرف تین ماہ کے عرصہ میں پانچ عظیم الشان واقعات جو دنیا کی عظیم الشان قوموں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں پورے ہوئے ہیں۔
ا ول:اللہ تعالیٰ نے مجھ سے جو متواتر اعلان کروایا تھا کہ جرمن قوم کی شکست اور جنگ کا خاتمہ تحریک جدید کے دَور کے خاتمہ کے ساتھ ہو گا۔ سو یہ بات اسی طرح مئی میں پوری ہو گئی۔
دوم :بعض رؤیا کے نتیجہ میں مجھ سے اُس نے اعلان کروایا کہ انگلستان اور ہندوستان کے سمجھوتے کا اب وقت آگیا ہے۔
سوم:مولانا ابو الکلام آزاد کے متعلق مارچ کے مہینہ میں مجھے خبر دی کہ عنقریب اِن کی زندگی کا کوئی اہم امر ظاہر ہونے والا ہے۔
چہارم :مسٹر ماریسن کے متعلق خواب کہ اِن کو اب کوئی اہم کام کرنے کا موقع ملنے والا ہے۔
پنجم:شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد مسٹر ماریسن کی پارٹی کی کامیابی کے ساتھ میرے اعلان نمبر دوم و خواب نمبر سوم کے پورا ہونے کے سامان کا پیدا ہو جانا۔ اور ابھی کئی حصے خوابوں کے پورے ہونے والے ہیں اور آسمان پر ان کے لئے سامان تیار ہو رہے ہیں۔ یہ باتیں ایسی ہیں کہ کوئی شخص ان کو حادثات قرار نہیں دے سکتا۔ ایک کو حادثہ کہہ لو، دو کو حادثات کہہ لو، تین کو حادثات کہہ لو مگر کون کہہ سکتا ہے کہ تین ماہ میں یکے بعد یگرے پورے ہونے والے یہ پانچ اہم اور بینَ الاقوامی واقعات محض حادثات ہیں۔ اور ابھی تو اس تسلسل کے بعض حصے باقی ہیں۔ اگر باقی حصے بھی پورے ہو جائیں تواللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ زنجیر مکمل ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اِس سال ہمارے لئے عظیم الشان بنیادیں قائم کر دی ہیں۔ اگر جماعت صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے اور اپنی قربانیوں میں ترقی کرے، اپنے کام میں ترقی کرے، اپنے معاملات میں ترقی کرے تو اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی ترقی کی ایک اَور بنیاد اِس سال ڈال دے گا۔
بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ترقی کی ایک اَوربنیاد کا کیا مطلب ہے؟اس بارہ میں مَیں ایک مثال دیتا ہوں۔ بعض دفعہ لوگ مجھ سے یہ بھی پوچھا کرتے ہیں کہ آپ نے جو فلاں تقریر کی تھی اُس میں قومی کیریکٹر کے لئے فلاں فلاں چیز ضروری قرار دی تھی۔ پھر دوسری تقریر میں آپ نے فلاں فلاں اخلاق قومی کیریکٹر کے لئے ضروری قرار دیئے۔ ان دونوں میں اختلاف ہے۔ میں انہیں جواب دیا کرتا ہوں کہ دونوں تقریروں میں کوئی اختلاف نہیں۔ مختلف اخلاق مختلف اوقات اور مختلف حالات میں ضروری ہوتے ہیں۔ بعض اخلاق ایسے ہیں جو لڑائی کے وقت ضروری ہوتے ہیں جیسے بہادری اور شجاعت۔ اگر صنعت و حرفت کا سوال ہو تو کہا جائے گا کہ اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ اگر تجارت کا سوال ہو تو کہا جائے گا کہ تجارت کو ترقی دینے کے لئے سچائی اور دیانت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اس موقع پر جبکہ علموں کا مقابلہ ہو اور ایک قوم علم اور سائنس کے ذریعہ دوسری قوم پر حملہ کر رہی ہو تو مظلوم قوم سے کہا جائے گا کہ قومی ترقی کے لئے علم کی بڑی ضرورت ہے۔ تو اس کے یہ معنے نہیں کہ یہ نصیحت دوسری سے مختلف ہے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ مختلف چیزیں مختلف مواقع پر الگ الگ حیثیت حاصل کر لیتی ہیں۔ ایک نقطہ نگاہ سے ایک موقع پر ایک چیز اہمیت رکھتی ہے اور دوسرے موقع پر دوسری۔ جیسا کہ ایک لالٹین چار طرف روشنی دینے والی ہو یعنی اُس کے چاروں طرف شیشے لگے ہوئے ہوں اب ہر جہت کو اس کے ایک شیشہ سے تعلق ہے۔ ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ دوسری طرف والا کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ تیسری طرف والا کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ چوتھی طرف والا کہہ سکتا ہے کہ اس شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی۔ وہ سارے ہی اپنی اپنی جگہ پر درست کہہ رہے ہوں گے کیونکہ مثلاً اگر پہلے نے یہ کہا تھا کہ شمالی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی یا دوسرے نے کہا تھا کہ جنوبی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی یا تیسرے نے کہا تھا کہ مشرقی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی یا چوتھے نے کہا تھا کہ مغربی شیشہ کے بغیر روشنی نہیں آسکتی تو یہ چاروں باتیں درست تھیں۔ ان میں نہ اختلاف تھا اور نہ جھوٹ۔ کیونکہ اگر مشرق کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو مشرق والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اگر مغرب کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو مغرب والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اگر شمال کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو شمال والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اگر جنوب کی طرف کا شیشہ روشن نہیں تو جنوب والوں کو روشنی نہیں پہنچے گی۔ اِسی طرح قومی کیریکٹر بھی مختلف جہات سے اہمیت رکھتے ہیں۔ جب تبلیغ کا موقع آئے گا تو ہم کہیں گے کہ تبلیغ کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ جب نوجوانوں کے اخلاق کی درستی کا سوال آئے گا تو ہم کہیں گے کہ نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ جب صنعت و حرفت کی کمزوری کا سوال ہو گا تو ہم کہیں گے کہ قومی ترقی کے لئے صنعت و حرفت بہت ضروری چیز ہے۔ چونکہ انسانی زندگی اپنے اندر مختلف جہات رکھتی ہے اس لئے ان جہات کے لحاظ سے مختلف اخلاق مختلف مواقع پر ضروری ہو جاتے ہیں۔ جیسے نمازیں بھی ضروری ہیں، روزے بھی ضروری ہیں، زکوٰۃ بھی ضروری ہے، حج بھی ضروری ہے۔ لیکن ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ سب سے اہم کام کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ سب سے اہم کام جہاد ہے۔3 جب دوسرے موقع پر ایک شخص نے پوچھا کہ مجھے سب سے اہم کام بتایئے تو آپ نے فرمایا کہ سب سے اہم کام ماں کی خدمت ہے۔4 اور جب تیسرے نے آپ سے پوچھا کہ اہم کام کیا ہے؟ تو آپ نے نماز یا سچائی کا ذکر فرمایا۔5 تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ (نعوذباللہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کلام میں اختلاف تھا بلکہ ان اشخاص کے لحاظ سے ان احکام کی اہمیت مختلف تھی۔ آپ نے پہلے شخص کے لئے جہاد کو سب سے اہم اس لئے قرار دیا کہ وہ اپنے اندر بزدلی رکھتا تھا۔ باقی احکام وہ بجا لاتا تھا۔ وہ ماں کی خدمت کرتا تھا اس لئے اُس کو ماں کی خدمت کی اہمیت بتانے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کے لحاظ سے جہاد ہی سب سے بڑی چیز تھی۔ دوسرا شخص جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ماں کی خدمت سب سے اہم کام ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ماں کی خدمت کرنے میں کمزور تھا۔ اِس لئے اُس کو ماں کی خدمت سب سے اہم کام بتایا۔ ورنہ آپ کی بات کا یہ مطلب نہ تھا کہ اُس کے لئے جہاد کرنا ضروری نہ تھا۔ اِس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کسی کی مشرقی دیوار میں سوراخ ہوجائے اور وہ انجینئر سے پوچھے کہ اسے مکان کی حفاظت کے لئے کیا کرنا چاہیے؟ تو انجینئر اسے کہے گا کہ مشرقی دیوار کے سوراخ کو بند کردو۔ اور اگر کسی کا مغربی دیوار میں سوراخ ہو جائے اور وہ انجینئر سے پوچھے گا کہ مکان کی حفاظت کے لئے کیا کرنا چاہیے تو وہ کہے گا مغربی سوراخ کو بند کر دیا جائے۔ اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس انجینئر کے کلام میں اختلاف ہے کہ پہلے شخص سے اس نے مشرقی سوراخ کے بند کرنے کے لئے کہا اور دوسرے سے مغربی سوراخ کے بند کرنے کے لئے کہتا ہے۔
پس اشخاص کی نوعیت کے بدل جانے سے، اوقات کی نوعیت بدل جانے سے اور مقامات کی نوعیت بدل جانے سےا حکام کی نوعیت بھی بدل جایا کرتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اِس سال کو اہمیت دی ہے۔ اگر کوئی شخص کہے کہ پہلے آپ نے فلاں وقت کو بڑا کہا تھا اور فلاں وقت کو آپ نے اہم قرار دیا تھا اور اب آپ اِس سال کو اہم قرار دے رہے ہیں۔ تو اس کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کوئی آدمی کسی سے راستہ پوچھے تو راستہ بتانے والا اُسے کہے کہ اس راستہ پر چلے جاؤ۔ آگے جا کر دائیں طرف مڑ جانا۔ پھر بائیں طرف مڑ جانا ۔اور کچھ دُور آگے جا کر فلاں جگہ پر دائیں طرف مڑ جانا۔ تو اِس پر وہ شخص جسے راستہ بتایا گیا ہے اگر کہے کہ آپ عجیب آدمی ہیں پہلے کہتے ہیں دائیں طرف مڑ جانا پھر کہتے ہیں بائیں طرف مڑ جانا پھر کہتے ہیں دائیں طرف مڑ جانا۔ آپ کے کلام میں توبہت اختلاف پایا جاتا ہے تو معترض عجیب دماغ کا ہو گا نہ کہ راستہ بتانے والا۔
جس طرح انسانی زندگی میں مختلف موڑ ہوتے ہیں اِسی طرح قومی زندگی میں بھی موڑ ہوتے ہیں اور ہر موڑ کو اپنے وقت میں اہمیت حاصل ہوتی ہے اور ہر موڑ انسان کو نئے رخ پر ڈال دیتا ہے۔ وہ رُخ کئی ہو سکتے ہیں ۔ہماری جماعت کے لئے ا ن نئے رُخوں میں سے ایک اہم رُخ 1945ء بھی ہے اب ہم اِس نئے موڑ پر ہیں۔ خداتعالیٰ نے اِس سال متواتر نئے نئے نشانات دکھائے ہیں اور وہ نشانات ایسے ہیں جو دنیا کی عظیم الشان قوموں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہ سال بنیاد ہے ہمارے حملہ کی جوہم دنیا پر کرنے والے ہیں۔ نتائج خواہ کتنے شاندار ہوں مگر بنیاد اپنی جگہ پر بہت اہمیت رکھتی ہے۔ بیٹا خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو جائے باپ کی عزت اُس پر واجب ہوتی ہے۔ اِسی طرح جس سال میں کسی چیز کی بنیاد رکھی جاتی ہے وہ سال بہت اہم ہوتاہے۔ اور جس سال نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ سال بھی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر وہ بنیاد ہونے کے لحاظ سے خصوصیت رکھتا ہے تو یہ نتائج کے ظاہر ہونے کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔ ایک بنیاد آج سے تین سال پہلے ڈالی گئی تھی اور وہ مخفی تھی اُس سال میں جمعے جمع کر دیئے گئے تھے۔ پھر دوسرا سال آیا جو میری پیدائش کے دن سے شروع ہوتا تھا اُس میں میرے مصلح موعود ہونے کی خبر دی گئی تھی۔ اب تیسرے سال میں مختلف عظیم الشان پیشگوئیاں یکے بعدد یگرے پوری ہوئی ہیں اور اس سال میں ایسے رستے کھولے گئے ہیں جو جماعت کو ترقی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ یہ سال ہمارے لئے ٹرننگ پوائنٹ (Turning Point)ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک نیا زاویہ پیدا کر دیا ہے جس سے ہم دنیا کو نئے رنگ اور نئے پیرائے میں مخاطب کریں گے۔ اور نئے رنگ اور نئے پیرائے میں دنیا پر حملہ کریں گے۔ اور یہ سال اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت کی فتح اور کامیابی کے لئے ایک نیا قدم ہے۔
پس جہاں اللہ تعالیٰ نے ان نشانات کے ذریعہ اپنا ظہور فرمایا ہے وہاں ہمارا فرض ہے کہ ہم اسکے ظہور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ قربانی اور زیادہ سے زیادہ ایثار کو کام میں لائیں اور اس کے فضلوں کو جذب کریں۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ اپنی برکتوں اور اپنی رحمتوں کو نازل فرماتا ہے تو بندے کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ انہی مواقع کے متعلق کہا گیا ہے کہ کبھی تو بادشاہ گالی پر بھی خوش ہو جاتے ہیں اور کبھی ثناء پر بھی ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ مواقع بہت نازک ہوتے ہیں۔ اُس وقت انسان کے لئے نادر موقع ہوتا ہے۔ تھوڑی سی بات سے خداتعالیٰ کا بے انتہا قُرب حاصل کر سکتا ہے۔ مگر اس موقع پر تھوڑی سی بات سے خداتعالیٰ کی نظروں سے گِر بھی سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کے فضل کے دنوں میں اُس کے رحم اور اُس کی بخشش کو حاصل کریں۔ اور اپنے کسی فعل کی وجہ سےاُس کی ناراضگی اور اُس کی خفگی کا مَورِد نہ بن جائیں۔ اٰمِیْنَ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ۔’’
(الفضل یکم اگست 1945ء)
1: تلازمہ: مضمون کی رعایت الفاظ کا استعمال کرنا۔ رعایتِ لفظ
2:ایٹلیClement Attlee) 1883ء میں پیدا ہوئے ۔1967ء میں وفات پائی۔لیبر پارٹی
سے تعلق تھا۔1945ء تا1951ء برطانیہ کے وزیراعظم رہے۔
3: بخاری کتاب العتق باب اَیُّ الرِّقَابِ اَفْضَل
4: بخاری کتاب الادب باب مَنْ اَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَۃِ
5: بخاری کتاب الادب باب الْبِرِّ وَالصِّلَۃ
25
ہم اٹامک (Atomic) بم ایسے مہلک حربے استعمال کرنا جائز نہیں سمجھتے
(فرمودہ 10 اگست1945ء بمقام بیت الفضل ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘یہ خبریں کئی سال سے آرہی تھیں کہ جرمنی میں اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ ایٹم (Atom) یعنی وہ ذرہ جس سے مادہ بنتا ہے اور جو خوردبینی ذرہ ہوتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں کہ اگر سائنسدان اس کو توڑنے اور اس کی طاقت کو محفوظ کرنے اور اس کو استعمال کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کے اندر ایسی طاقتیں ہیں کہ ایک ذرہ کے توڑنے اور اس کی طاقت کو محفوظ رکھنے سے ایک شہر کو ایک لمبے عرصہ تک بجلی مہیا کی جا سکتی ہے۔ ان خبروں پر بعض لوگ ہنس دیتے تھے اور بعض لوگ تعجب کرتے تھے اور حیران ہوتے تھے کہ ایک خوردبینی ذرے میں اتنی طاقتیں کس طرح جمع ہو سکتی ہیں۔ لیکن یہ خیال سائنسدانوں کے دلوں میں تقویت پکڑتا چلا گیا اور بیسیوں سائنسدانوں نے اپنی زندگیاں اس تحقیق میں لگانی شروع کر دیں۔ جنگ کے دوران میں خصوصاً انگلستان، امریکہ اور جرمنی تینوں نے اپنے اپنے طور پر اِس طاقت کو حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ جنگی مفاد کے لحاظ سے یہ بات بہت اہم سمجھی جاتی تھی کہ وہ باریک ذرہ جو اپنے اندر اتنی عظیم الشان طاقتیں رکھتا ہے۔
اگر اِس کو بم کے طور پر استعمال کیا جا سکے تو وہ بہت کچھ اس جنگ کے سوال کو حل کر دے گا۔ جہاں تک سائنس کا سوال ہے میں تو سائنس جانتا نہیں اس لئے میں اس کی تفصیلات کو سمجھ نہیں سکتا لیکن یہ معلوم ہوا ہے کہ عملی طو رپر جرمنی کی جنگ کے بعد اب ستائیس اٹھائیس دن ہوئے کہ امریکہ اور انگلستان کے سائنس دان اِس بات میں کامیاب ہو گئے ہیں کہ ایٹم کو پھاڑ کر اِس سے طاقت حاصل کر سکیں۔ اور انہوں نے اس سے بم بنانا شروع کر دیا ہے۔ کوئی پانچ دن کی بات ہے کہ ایٹم سے حاصل کردہ طاقت کا پہلا بم جاپان کے ایک شہر ہیروشیما پر استعمال کیا گیا جو کہ ایک چھاؤنی ہے اور بندرگاہ بھی ہے جہاں جاپانی بیڑا کھڑا ہوتا ہے یا تیار کیا جاتا ہے۔ یہ شہر کوئی سات مربع میل کا ہے۔ یعنی قریباً سَوا دو میل چوڑا اور تین میل لمبا ہے۔ اور بوجہ اس کے کہ یہ صنعتی شہر ہے سمجھا جا سکتا ہے کہ اِس کی آبادی گنجان ہو گی کیونکہ صنعتی شہروں میں بجائے پھیلاؤ کے بڑے بڑے بلاکس بنا دیئے جاتے ہیں جن میں ایک ایک بلاک میں کئی کئی سَو بلکہ کئی کئی ہزار آدمی بستے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس شہر کی آبادی چھ سات لاکھ کے قریب ہے۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ چھ سات لاکھ کے قریب تھی۔ اور جب یہ بم جو پھینکا گیا ہے تو اس شہر کے متعلق آخری رپورٹ یہ ہے کہ ساٹھ فیصدی حصہ شہر کا یا یہ کہہ لو کہ چھ لاکھ کی آبادی میں سے پونے چار لاکھ آدمی ایک بم سے ہلاک ہو گئے۔ اور شہر کی 60 فیصدی عمارتیں ایک بم سے تباہ ہو گئیں۔ جاپانی لوگوں کا بیان ہے کہ اس بم کے گرنے کے بعد شدید گرمی پیدا ہوئی۔ اور اس بم کے دھماکے اور نقصان کے علاوہ وہ گرمی اتنی شدید تھی کہ اُس کی شدت کے دائرہ کے اندر کوئی ذِی روح چیز زندہ نہیں رہی۔ کیا انسان اور کیا حیوان، کیا چرند اور کیا پرند سب کےسب جُھلس کر خاک ہو گئے ہیں۔ یہ ایک ایسی تباہی ہے جو جنگی نقطۂ نگاہ سے خواہ تسلی کے قابل سمجھی جائے لیکن جہاں تک انسانیت کا سوال ہے اِس قسم کی بمباری کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمیشہ سے جنگیں ہوتی چلی آئی ہیں اور ہمیشہ سے عداوتیں بھی رہی ہیں لیکن باوجود ان عداوتوں کے اور باوجود ان جنگوں کے ایک حد بندی بھی مقرر کی گئی تھی جس سے تجاوز نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن اب کوئی حد بندی نہیں رہی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ شہر جس پر اس قسم کی بمباری کی گئی ہے وہاں عورتیں اور بچے نہیں رہتے تھے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ لڑائی کی ذمہ داری میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔اگر جوان عورتوں کو شامل بھی سمجھا جائے تو کم از کم بلوغت سے پہلے کے لڑکے اور لڑکیاں لڑائی کے کبھی بھی ذمہ دار نہیں سمجھے جا سکتے۔
پس گو ہماری آواز بالکل بیکار ہو لیکن ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اعلان کر دیں کہ ہم اس قسم کی خونریزی کو جائز نہیں سمجھتے خواہ حکومتوں کو ہمارا یہ اعلان بُرا لگے یا اچھا۔ ہمارے نزدیک جاپان کا قصور ہے اور ہم نے ہزارہا آدمی اس جنگ کی بھرتی میں دیئے ہیں۔ اور ہمارے نزدیک جرمنی اور اٹلی کا بھی قصور تھا اور ہماری جماعت کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں آدمی اٹلی اور جرمنی میں جا کر لڑے اور ان میں سے کئی قید ہوئے جواَب واپس آئے ہیں۔ ہم نے مال کے ساتھ بھی ،آدمیوں کے ساتھ بھی اور اخلاقی طور پر بھی غرض ہر رنگ میں اتحادیوں کو مدد دی ہے اور اگر اس جنگ کے فتح کرنے میں کوئی مطالبہ ابھی باقی ہو تو ہمیں اس سے بھی انکار نہیں ہو گا بلکہ ہم دوسروں سے بڑھ کر قربانی کر نے کے لئے تیار ہوں گے۔ مگر اس کے ہرگز یہ معنے نہیں کہ ہم جنگی افسروں کے ہر فعل کو خواہ وہ انسانیت کے کتنا ہی خلاف ہو، خواہ وہ شریعت کے کتنا ہی خلا ف ہو جائز قرار دیں۔ اگر اس قسم کی جنگ کا راستہ کُھل گیا تو وہ دنیا کے لئے نہایت ہی خطرناک ہو گا۔ پہلے زمانہ کے لوگوں نے لمبے تجربہ کے بعد کچھ حدبندیاں مقرر کر دی تھیں جن کی وجہ سے جنگیں خواہ کتنی ہی خطرناک ہوتی تھیں ایک حد پر جا کر اُن کا خطرہ رُک جاتا تھا۔ لیکن اب تو یہ سوال پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے کہ جس قوم نے ہم سے جنگ کی ہے اِس جنگ کے ذمہ داروں کو پھانسی کی سزا دی جائے۔ اس قانون نے میں سمجھتا ہوں حالات کو بہت زیادہ بھیانک صورت دے دی ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فتوحات کسی ایک قوم کے حق میں رہن نہیں ہوتیں کہ وہ ایک ہی قوم کے پاس رہیں۔ اور اگر یہ طریق جاری کر دیا جائے کہ فاتح قوم مفتوح قوم کے لیڈروں کو اِس لئے پھانسی دے دے کہ وہ اپنی قوم کی طرف سے لڑے تھے تو پھر اگر کل کو کوئی اَور قوم فاتح ہوئی اور اتحادیوں میں سے کوئی قوم مفتوح ہوئی تو ان کے لئے بھی وہی چیز مقدر سمجھی جانی چاہیے جو آج مفتوح قوم کے لئے جائز قرار دی گئی تھی۔ اگر انگلستان، امریکہ اور فرانس کو یہ حقوق حاصل ہوں کہ وہ مفتوح جرمنی اور مفتوح اٹلی کے لوگوں کو محض اِس وجہ سے کہ انہوں نے ان کے خلاف جنگ کی پھانسی کی سزا دیں تو اِس قانون کو غلط کہو یا صحیح (جب ایک قانون بنا دیا جائے تو غلط اور صحیح کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے) اگر اس جنگ کے بعد کوئی اَور ملک فاتح ہوا اور انگلستان یا امریکہ یا روس اِن تینوں میں سے کوئی مفتوح ہوا تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ فاتح قوم ان کے آدمیوں کو بھی پکڑ پکڑ کر پھانسی دینے لگ جائے٭ گو اس میں شبہ نہیں کہ جرمنی، اٹلی اور جاپان کا قصور ہے لیکن میرے نزدیک یہ طریق بھی پسندیدہ نہیں کہلا سکتا کہ بغیر کسی خاص دلیل کے جس کی وجہ سے عقل و انصاف ایک جنگیقیدی کو بھی سزاد ینے کا فیصلہ کریں۔ ٭٭جنگی قیدیوں کو سزادی جائے اگر ایسا ہو تو آئندہ بہت سے خطرات کا رستہ کھلنے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ نیز اس سے مزید جنگوں کا رستہ کھل جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی جنگ کے بند ہونے سے لوگ یہ نہیں سمجھیں گے کہ خونریزی بند ہو گئی ہے بلکہ یہ سمجھیں گے کہ ایک قسم کی خونریزی تو بند ہو ئی ہے لیکن دوسری قسم کی خونریزی شروع ہو گئی ہے۔ جرمنی کے لوگوں کا یہ جُرم قرار دیا جاتا ہے کہ انہوں نے لندن کے نہتّے آدمیوں پر گولے پھینکے۔ جرمنوں نے یقینا ظلم کیا، انسانیت کے خلاف حرکت کی اور ان کے اس فعل کو جس قدر بھی بُرا کہا جائے کم ہے اور خداتعالیٰ نے ان کے جرم کی سزا بھی اُن کو دے دی کہ اُن کا غرور خاک میں مل گیا۔ لیکن یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جرمنوں نے جو گولےپھینکے وہ سَو سَو گز یا اِس سے کچھ زیادہ تک اثر رکھتے تھے اب اگر اتحادی ان کے مقابل پر اس سے زیادہ مار کرنے والے بم ان پر پھینکیں اور ان کی طرح ہی ان آدمیوں پر پھینکیں جو نہتّے ہوتے ہیں تو یہ فعل بھی ویسا ہی بُرا سمجھا جائے گا جیسا کہ ان کاتھا۔
اسی طرح جنگی قیدیوں کا سوال ہے دنیا میں یہ تسلیم شدہ قاعدہ ہے کہ انسان ان لوگوں
٭اس خطبہ کے بعد ایک اعلان شائع ہوا ہے جس میں ان مجرموں کی اقسام بیان کی گئی ہیں جن کو سزا دی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگی مجرم کی خاص تعریف کی گئی ہے۔ گو مجھے اس تعریف سے پوری طرح اتفاق نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ایسی تعریف سے اکثر وہی سزا پائیں گے جن کو عقل اور انصاف سزا دینا چاہتے ہیں۔
٭٭ اور یقیناً جنگی قیدی بھی ایسے ہو سکتے ہیں کہ جو سزا کے مستحق ہوں۔ اس امر کی صحت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
کو جُرم کی سزا دے سکتا ہے جو اس کے اپنے ملک میں رہتے ہوں یا وہ جُرم جو جنگ کے علاوہ ہوں۔ یعنی ان کا جنگ کےساتھ کوئی تعلق نہ ہو۔ جیسے کوئی قوم جنگ میں آدمیوں کو پکڑ کر ان کے ناک کان کاٹے۔ اب یہ فعل ایسا ہے جو جنگ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔ تو ایسے جرائم کی سزا دینا جائز تسلیم کیا گیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اس قانون کو وسیع کرنا گویا آئندہ کے لئے خطرات کو بڑھا دینے والی بات ہے۔ اور ان باتوں کے نتیجہ میں مجھے نظر آرہا ہے کہ آئندہ زمانہ میں جنگیں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی۔اور وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اٹامک سے بڑی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہو جائیں گے اور ان کے مقابلہ میں کوئی جنگی طاقت حاصل نہیں کرسکے گا یہ لغو اور بچوں کا سا خیال ہے۔ یہ خیال صرف اٹامک بم کے ایجاد ہونے پر ہی لوگوں کے دلوں میں پیدا نہیں ہوا۔ بلکہ جب بندوق ایجاد ہوئی تھی تو لوگ سمجھتے تھے کہ بندوق والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ اور جب توپ ایجاد ہوئی تو لوگ سمجھتے تھے کہ توپ والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ جب ہوائی جہاز ایجاد ہوئے تھے تو لوگوں نے گمان کیا تھا کہ ہوائی جہاز والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ جب گیس ایجاد ہوئی تھی تو لوگوں نے خیال کیا تھا کہ گیس والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ لیکن پھر وی۔ون 1(V.One) اور وی۔ٹو2 (V.Two) نکل آئے۔ تو لوگ سمجھے کہ وی ون اور وی ٹو والے ہی دنیا میں غالب ہوں گے۔ اس کے بعد اب اٹامک بم نکل آئے ہیں۔ یاد رکھو! خدا کی بادشاہت غیر محدود ہے اور خدا کے لشکروں کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ مَایَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ہُوَ3 یعنی تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا۔ اگر بعض کو اٹامک بم مل گیا ہے تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی سائنس دان کو کسی اَور نکتہ کی طرف توجہ دلا دے اور وہ ایسی چیز تیار کر لے جس کے تیار کرنے کے لئے بڑی بڑی لیبارٹری کی بھی ضرورت نہ ہو۔ بلکہ ایک شخص گھر میں بیٹھے بیٹھے اُس کو تیار کر لے اور اُس کے ساتھ دنیا پر تباہی لے آئے اور اس طرح وہ اٹامک بم کا بدلہ لینے لگ جائے۔
پس جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان مہلک چیزوں کو کم کیا جائے نہ کہ انہیں بڑھایا جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کتنا لطیف نکتہ بیان فرمایا ہے کہ آگ کا عذاب دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ مسلمانوں کو نہیں چاہئے کہ وہ اپنے دشمن کو آگ سے تعذیب و تکلیف دیں۔4 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے تھے کہ آگ جنگ کو روکنے کا موجب نہیں ہو گی بلکہ بڑھانے کا موجب ہو گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ اگر جنگ میں دشمن نئی نئی ایجادوں کو اسلامی حکومت کے خلاف استعمال کرے تو اسلامی حکومت کو بھی اجازت ہے کہ اس کا اُسی رنگ میں جواب دے لیکن غلو سے کام نہ لے۔ یعنی مسلمانوں کو آگ کی ایسی ایجادوں کی طرف رغبت رکھنی منع ہے جن سےکسی کو عذاب دینا مقصود ہو۔ دنیا میں جتنے تغیرات ہوتے ہیں وہ سب کے سب خیالات کے ماتحت پیدا ہوتے ہیں۔ ان تغیرات کے پیچھے ایک جذبہ اور ایک محرک ہوتا ہے جس کے ماتحت لوگ سکیمیں بناتے ہیں۔ اگر کسی قوم کے دماغ کے پیچھے جذبہ اور محرک یہ ہو کہ ہم نے آگ کو بطور عذاب استعمال نہیں کرنا تو یقینا وہ ایسی ایجادیں نہیں کرے گی جن میں آگ کا استعمال ہو۔ لیکن اگر کسی قوم کے دماغ کے پیچھے جذبہ اور محرک یہ ہو کہ آگ کا عذاب دینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ جتنا کسی کو نقصان پہنچایا جا سکے اُتنا ہی اچھا ہے تو وہ ضرور اس کی طرف راغب ہو گی۔ تیرہ سو سال پہلے دنیا کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لڑائیوں کے کم کرنے کا ایک راستہ بتایا تھا جب تک دنیا اِس راستہ پر نہیں چلے گی لڑائیاں کم نہیں ہوں گی بلکہ بڑھیں گی۔ امریکہ اور یورپ والے امن نہیں پائیں گے جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس تعلیم کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے۔ وہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ نہ کہیں گے کہ ہمیں اِن آگ کی چیزوں کو ناجائز قرار دینا چاہیے اُس وقت تک حقیقی امن ان کو نصیب نہیں ہو گا۔ وہ ان چیزوں کو ناجائز قرار دیں اور پھر اُتنی ہی سختی کریں جتنی دشمن نے کی تو پھر دنیا میں یقینا امن قائم ہو جائے گا۔ کیونکہ دشمن محسوس کرے گا کہ اگرچہ ان کے پاس زیادہ سخت سزا دینے کی طاقت تھی لیکن اخلاقی تعلیم کے ماتحت انہوں نے ہم سے نرمی کی ہے اور جو سلوک ہمارے ساتھ کیا گیا ہے وہ محض جوش، غصہ اور بدلہ کے جذبہ کے ماتحت نہیں۔ لیکن اگر ہم بوجہ اس کے کہ ہمارے پاس تباہی کے سامان زیادہ ہیں ایسے سخت ہتھیار استعمال کریں کہ دشمن کے بچے اور عورتیں تباہ کر دیں تو پھر دنیا اِسی کو اخلاق سمجھے گی کہ جتنی طاقت میسر آئے اُسے استعمال کرو یہی قانون ہے۔ اور جب دنیا کے خیالات اِس طرف مائل ہوں گے کہ جنتے زیادہ سے زیادہ خطرناک ہتھیار ملتے جائیں اُن کو استعمال کرو تو لازماً دنیا میں فساد، جنگ اور خونریزی بڑھے گی۔
پس میر ایہ مذہبی فرض ہے کہ میں اس کے متعلق اعلان کردوں گو حکومت اسے بُرا سمجھے گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امن کے رستے میں یہ خطرناک روک ہے۔ اس لئے میں نے بیان کر دیا ہے کہ ہمیں دشمن کے خلاف ایسے مہلک حربے استعمال نہیں کرنے چاہئیں جو اِس قسم کی تباہی لانے والے ہوں۔ ہمیں صرف وہی حربے استعمال کرنے چاہئیں جو جنگ کے لئے ضروری ہوں۔لیکن ایسے حربوں کو ترقی دینا اور ایسے حربوں کو استعمال کرنا جن سے عورتوں، بچوں اور اُن لوگوں کو جن کا جنگ کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تکلیف پہنچے ہمارے لئے جائز نہیں۔ اور ہمارا فرض ہے کہ خواہ ہماری آواز میں اثر ہو یا نہ ہو حکومت سے کہہ دیں کہ ہم آپ کی خیر خواہی کے جذبہ کی وجہ سے مجبور ہیں کہ اِس امر کا اظہار کر دیں کہ ہم آپ کے اس فعل سے متفق نہیں۔ اور مجبور ہیں کہ آپ کو ایسا مشورہ دیں جس کے نتیجہ میں آئندہ جنگیں اور فنتے بند ہو جائیں۔
جہاں مَیں اس قسم کے حربوں کے استعمال کے خلاف ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اخلاقی طو رپر ہمارا فرض ہے کہ ہم حکومت کو بتائیں کہ یہ کام اچھا نہیں وہاں میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک عظیم الشان پیشگوئی اس بم کی ایجاد سے پوری ہوئی ہے اور آئندہ اَور بھی شدت سے اس کے پورا ہونے کا احتمال ہے۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہماری آواز میں اثر تو ہے نہیں کیونکہ نہ ہم سیاست میں بڑے سمجھے جاتے ہیں اور نہ ہم جتھے میں اتنے بڑے ہیں کہ کوئی ہماری آواز کی طرف توجہ کرے اور نہ مذہبی طور پر ان قوموں کا ہم پر ایمان ہے کہ وہ سمجھیں کہ ہمیں اِن کی بات ماننی چاہیے۔ ہم نے تو صرف ایک فرض ادا کیا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا اور نہ ہی ہم کر سکتے ہیں۔ مگر دوسری طرف ہم اِس بات کو بھی نہیں بھول سکتے کہ خدائی فیصلہ کس طرح اپنے اپنے زمانہ میں پورا ہوتا چلا آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ ‘‘شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا۔’’5 پچھلی بمباریاں جو ہوئی ہیں وہ اتنی عظیم الشان نہ تھیں جنہیں دیکھ کر رونا آتا ہو لیکن اٹامک بم سے جو بمباری کی گئی ہے اخبارات والے لکھتے ہیں کہ اِس بمباری کی تباہی کو دیکھ کر واقع میں رونا آتا ہے۔ اِس بم کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چالیس چالیس میل تک کے علاقہ کو تباہ کر سکتا ہے۔ یہ صاف بات ہے کہ جہاں یہ بم گِرے گا اُن جگہوں کو دیکھ کر رونا آئے گا۔ مگر جن جن علاقوں پر وہ گِرے گا جہاں وہ اپنی تباہی کی طاقت پر شہادت دے رہا ہو گا اور اپنے بنانے والوں کے ہنر کی توصیف کر رہا ہو گا وہاں ہر تباہ شدہ علاقہ اور ہر تباہ شدہ ملک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کی گواہی بھی ساتھ دے رہا ہو گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہوائی جہاز بھی نہ تھے کہ ان کے ذریعہ بمباری کی جاتی۔ آپ کے بعد ہی ہوائی جہاز نکلے۔ پھر اس کے بعد ہوائی جہازوں سے گرانے والے بم نکلے۔ اور اس کے بعد اب یہ اٹامک بم نکل آئے ہیں جو حجم میں بالکل چھوٹے ہوتے ہیں لیکن دو ہزار سُپر فورٹرس (Super Fortress)6 کی بمباری کے برابرایک بم کا اثر ہوتا ہے۔ دو ہزار سُپر فورٹرس کی بمباری بیس ہزار ٹن کےبرابر ہوتی ہے یا ہمارے ملک کے حساب سے پانچ لاکھ ساٹھ ہزار من ڈائنامیٹ پھینکنے کے برابر اس ایک بم کا پھینکنا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جہاں جہاں یہ بم گریں گے وہاں اللہ تعالیٰ کی قدرت ظاہر ہو گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ پیشگوئی عظیم الشان طور پر پوری ہو گی کہ ‘‘شہروں کو دیکھ کر رونا آئے گا۔ ’’
جب کبھی مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ غم کا پہلو نکالتا ہے تو ساتھ ہی خوشی کا پہلو بھی پیدا کر دیتا ہے۔ ہمیں غم ہے کہ دنیا اُس رستے پر چل رہی ہے جو اسے تباہی اور ہلاکت کی طرف لے جانے والا ہے۔ لیکن ساتھ ہی خوشی بھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی پوری ہو کر ہمارے لئے زیادتیٔ ایمان کا موجب ہوئی۔ اور ہمیں مزید یقین دلاتی ہے کہ جس طرح یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے ویسے ہی وہ پیشگوئیاں بھی اپنے وقت پر پوری ہوں گی جن میں اسلام اور سلسلہ کے غلبہ کی خبر دی گئی ہے۔ اور ایک زمانہ اسلام پر ضرور آئے گا جب وہ تمام دنیا پر غالب ہو گا۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کے بعد دنیا تباہ ہو گی یا باقی رہے گی لیکن اسلام کے غلبہ سے پہلے دنیا تباہ نہیں ہو گی۔ لوگ ایک دوسرے کو مارنے اور تباہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن انسان ان تباہیو ں اور بربادیوں میں سے کسی نہ کسی طرح بچ ہی نکلے گا۔ یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی میں اور آپ کے جھنڈے کےنیچے ایک دفعہ پھر دنیا میں امن قائم کیا جائے گا۔ اور خدا کا کلام پورا ہو کر دنیا کو اِن خطرناک عذابوں اور بلاؤں سے بچا لے گا۔ اس کے بعد اگر قیامت جلد آنی ہے تو آجائے گی مگر اس سے پہلے نہیں اور ہرگز نہیں۔ ’’ (الفضل 16 ؍اگست 1945ء)
1: وِی وَن (V.One): ہوائی بم جو 1944ء، 1945ء کے دوران ہٹلر نے انگلستان پر حملہ
کرنے کے لئے ایجاد اور استعمال کیا۔
2: وِی ٹو(V.Two): ہوائی بم جو 1944ء، 1945ء کے دوران ہٹلر نے انگلستان پر حملہ
کرنے کے لئے ایجاد اور استعمال کیا۔
3: المدثر: 32
4: بخاری کتاب الْجِہَاد باب لَا یُعَذَّبُ بِعَذَابِ اللہِ
5: تذکرۃ صفحہ 719 ایڈیشن چہارم
6:سُپر فورٹرس (B-29 Super Fortress) : یہ چار انجنوں والا ہیوی بمبار طیارہ تھا جس
کو امریکہ نے دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے قریب استعمال کیا ۔ یہ دوسری جنگ عظیم
میں استعمال کیا جانے والا سب سے بڑا اور سب سے ایڈوانس بمبار جہاز تھا۔اس جہاز کے
ذریعے سے ہی ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا گیا تھا۔
( Wikipedia , The Free Encyclopedia )
26
جسمانی جنگ ختم ہوئی آؤ ہم روحانی جنگ کی تیاری کریں
(فرمودہ 17 اگست1945ءبمقام ڈلہوزی)
تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
‘‘دنیا میں انسانی زندگی اور قوموں کی زندگی پر مختلف دَور آتے رہتے ہیں اور ہر دَور کے مطابق کچھ اعمال ہوتے ہیں۔ جب کوئی انسان ان اعمال کو اپنے وقت پر بجا لاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں وہ تعریف و توصیف کا مستحق ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے موقع پرجب کام کا معیّن وقت گزر جائے تو اس کی ادائیگی صحیح تصور نہیں کی جا سکتی۔ سوائے اِس کے کہ کوئی مجبوری یا معذوری ہو۔ مثلاً جب ظہر کی نماز کا وقت آتا ہے تو اس نماز کو جو شخص وقت پر ادا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے انعام اور اس کی رضا کا مستحق ہوتا ہے۔ یا معذوری اور مجبوری کی حالت میں دو نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں جیسے ظہر و عصر، مغرب و عشاء کی نمازیں ہم یہاں جمع کر لیتے ہیں کیونکہ عام طور پر بارش ہوتی رہتی ہے۔ اور پھر چڑھائی کی وجہ سے نہ صرف دُور رہنےو الے نماز میں شامل نہیں ہو س