چولہ بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ
یہی پاک چولا ہے سکھوں کا تاج
یہی کابلی مل کے گھر میں ہے آج
یہی ہے کہ نوروں سے معمور ہے
جو دور اِس سے اُس سے خدا دور ہے
یہی جنم ساکھی میں مذکور ہے
جو انگد سے اس وقت مشہور ہے
اسی پر وہ آیات ہیں بیّنات
کہ جن سے ملے جاودانی حیات
یہ نانک کو خلعت ملا سرفراز
خدا سے جو تھا درد کا چارہ ساز
اسی سے وہ سب راز حق پاگیا
اسی سے وہ حق کی طرف آگیا
اسی نے بلا سے بچایا اسے
ہر اک بد گہر سے چھوڑایا اسے
ذرا سوچو سکھو! یہ کیا چیز ہے
یہ اس مرد کے تن کا تعویذ ہے
یہ اس بھگت کا رہ گیا اک نشاں
نصیحت کی باتیں حقیقت کی جاں
گرنتھوں میں ہے شک کا اک احتمال
کہ انساں کے ہاتھوں سے ہیں دست مال
جو پیچھے سے لکھتے لکھاتےرہے
خدا جانے کیا کیا بناتے رہے
گماں ہے کہ نقلوں میں ہو کچھ خطا
کہ انساں نہ ہووے خطا سے جدا
مگر یہ تو محفوظ ہے بالیقیں
وہی ہے جو تھا اس میں کچھ شک نہیں
اسے سرپہ رکھتے تھے اہل صفا
تذلل سے جب پیش آتی بلا
جو نانک کی مدح و ثنا کرتے تھے
وہ ہر شخص کو یہ کہا کرتے تھے
کہ دیکھا نہ ہو جس نے وہ پارسا
وہ چولہ کو دیکھے کہ ہےرہنما
جسے اس کے مَتْ کی نہ ہووے خبر
وہ دیکھے اسی چولہ کو اک نظر
اسے چوم کر کرتے رو رو دعا
تو ہو جاتا تھا فضل قادر خدا
اسی کا تو تھا معجزانہ اثر
کہ نانک بچا جس سے وقت خطر
بچا آگ سے اور بچا آب سے
اسی کے اثر سے نہ اسباب سے
ذرہ دیکھو انگد کی تحریر کو
کہ لکھتا ہے اس ساری تقریر کو
یہ چولا ہے قدرت کا جلوہ نما
کلام خدا اس پہ ہے جابجا
جو شائق ہے نانک کے درشن کا آج
وہ دیکھے اسے چھوڑ کر کام و کاج
برس گذرے ہیں چار سو کے قریب
یہ ہے نو بہ نواک کرامت عجیب
یہ نانک سے کیوں رہ گیا اک نشاں
بھلا اس میں حکمت تھی کیا درنہاں
یہی تھی کہ اسلام کا ہو گواہ
بتادے وہ پچھلوں کو نانک کی راہ
خدا سے یہ تھا فضل اس مرد پر
ہوا اس کی دردوں کا اک چارہ گر
یہ مخفی امانت ہے کرتار کی
یہ تھی اک کلید اس کے اسرار کی
محبت میں صادق وہی ہوتے ہیں
کہ اس چولہ کو دیکھ کر روتے ہیں
سنو مجھ سے اے لوگو! نانک کا حال
سنو قصّۂِ قدرتِ ذوالجلال
وہ تھا آریہ قوم سے نیک ذات
خردمند خوش خو مبارک صفات
ابھی عمر سے تھوڑے گزرے تھے سال
کہ دل میں پڑا اس کے دیں کا خیال
اسی جستجو میں وہ رہتا مدام
کہ کس راہ سے سچ کو پاوے تمام
اُسے وید کی راہ نہ آئی پسند
کہ دیکھا بہت اس کی باتوں میں گند
جو دیکھا کہ یہ ہیں سڑے اورگلے
لگا ہونے دل اس کا اوپر تلے
کہا کیسے ہو یہ خدا کا کلام
ضلالت کی تعلیم ناپاک کام
ہوا پھر تو یہ دیکھ کر سخت غم
مگر دل میں رکھتا وہ رنج و الم
وہ رہتا تھا اس غم سے ہر دم اداس
زباں بند تھی دل میں سو سو ہراس
یہی فکر کھاتا اسے صبح و شام
نہ تھا کوئی ہمراز نے ہمکلام
کبھی باپ کی جبکہ پڑتی نظر
وہ کہتا کہ" اے میرے پیارے پسر!
میں حیراں ہوں تیرا یہ کیا حال ہے
وہ غم کیا ہے جس سے تو پامال ہے
نہ وہ تیری صورت نہ وہ رنگ ہے
کہو کس سبب تیرا دل تنگ ہے
مجھے سچ بتا کھول کر اپنا حال
کہ کیوں غم میں رہتا ہے اےمیرے لال
وہ رو دیتا کہہ کر کہ سب خیر ہے
مگر دل میں اک خواہش سیر ہے
پھر آخر کو نکلا وہ دیوانہ وار
نہ دیکھے بیاباں نہ دیکھا پہاڑ
اوتار اپنے موہنڈوں سے دنیا کا بار
طلب میں سفر کرلیا اختیار
خدا کے لئے ہوگیا دردمند
تنعم کی راہیں نہ آئیں پسند
طلب میں چلا بیخود و بیحواس
خدا کی عنایات کی کر کے آس
جو پوچھا کسی نے چلے ہو کدھر
غرض کیاہے جس سے کیا یہ سفر؟
کہا رو کے حق کا طلب گار ہوں
نثار رہ پاک کرتار ہوں
سفر میں وہ رو رو کے کرتا دعا
کہ اے میرے کرتار مشکل کشا
میں عاجز ہوں کچھ بھی نہیں خاک ہوں
مگر بندۂِ درگہِ پاک ہوں
میں قرباں ہوں دل سے تیری راہ کا
نشاں دے مجھےمردِ آگاہ کا
نشاں تیرا پا کر وہیں جاؤنگا
جو تیرا ہو وہ اپنا ٹھہراؤنگا
کرم کر کے وہ راہ اپنی بتا
کہ جس میں ہو اے میرے تیری رضا
بتایا گیا اس کو الہام میں
کہ پائیگا تو مجھ کو اسلام میں
مگر مرد عارف فلاں مرد ہے
وہ اسلام کے راہ میں فرد ہے
ملا تب خدا سے اسے ایک پیر
کہ چشتی طریقہ میں تھا دستگیر
وہ بیعت سے اس کے ہوا فیضیاب
سنا شیخ سے ذکر راہِ صواب
پھر آیا وطن کی طرف اس کے بعد
ملے پیر کے فیض سے بخت سعد
کوئی دن تو پردہ میں مستور تھا
زبان چپ تھی اور سینہ میں نور تھا
نہاں دل میں تھا درد و سوز و نیاز
شریروں سے چھپ چھپ کے پڑھتا نماز
پھر آخر کو مارا صداقت نے جوش
تعشق سے جاتے رہے اس کے ہوش
ہوا پھر تو حق کے چھپانے سے تنگ
محبت نے بڑھ بڑھ کے دکھلائےرنگ
کہا یہ تو مجھ سے ہوا اک گناہ
کہ پوشیدہ رکھی سچائی کی راہ
یہ صدق و وفا سے بہت دور تھا
کہ غیروں کے خوفوں سے دل چور تھا
تصور سے اس بات کے ہو کے زار
کہاروکے اے میرے پروردگار
ترے نام کا مجھ کو اقرار ہے
ترا نام غفّار و ستّار ہے
بلا ریب تو حیّ و قدّ وس ہے
ترے بن ہر اک راہ سالوس ہے
مجھے بخش اے خالق العالمین
تو سُبّوح وَإِنّی من الظالمین
میں تیرا ہوں اے میرے کرتار پاک
نہیں تیری راہوں میں خوف ہلاک
تیرے در پہ جاں میری قربان ہے
محبت تیری خود مری جان ہے
وہ طاقت کہ ملتی ہے ابرار کو
وہ دے مجھ کو دکھلا کے اسرار کو
خطاوار ہوں مجھ کو وہ رہ بتا
کہ حاصل ہو جس رہ سے تیری رضا
اسی عجز میں تھا تذلل کے ساتھ
کہ پکڑا خدا کی عنایت نے ہاتھ
ہوا غیب سے ایک چولہ عیاں
خدا کا کلام اس پہ تھا بے گماں
شہادت تھی اسلام کی جابجا
کہ سچاوہی دین ہے اور رہنما
یہ لکھا تھا اس میں بخطَِِّّ جلی
کہ اللہ ہے اک اور محمدنبی صلی اللہ علیہ وسلم
ہوا حکم پہن اس کو اے نیک مرد
اتر جائیگی اس سے وہ ساری گرد
جو پوشیدہ رکھنے کی تھی اک خطا
یہ کفارہ اس کا ہے اے باوفا
یہ ممکن ہے کشفی ہو یہ ماجرا
دکھایا گیا ہو بہ حکم خدا
پھر اُس طرز پر یہ بنایا گیا
بحکم خدا پھر لکھایا گیا
مگر یہ بھی ممکن ہے اے پختہ کار
کہ خود غیب سے ہو یہ سب کاروبار
کہ پردے میں قادر کے اسرار ہیں
کہ عقلیں وہاں ہیچ و بیکار ہیں
تویک قطرہ داری زعقل و خرد
مگر قدرتش بحربے حدّ و عدّ
اگر بشنوی قصّۂِصادقان
مجنبان سر خود چو مستہزیان
تو خود را خردمند فہمیدۂ
مقامات مردان کجا دیدۂ
غرض اس نے پہنا وہ فرخ لباس
نہ رکھتا تھا مخلوق سے کچھ ہراس
وہ پھرتا تھا کوچوں میں چولہ کیساتھ
دکھاتا تھا لوگوں کو قدرت کے ہاتھ
کوئی دیکھتا جب اسے دور سے
تو ملتی خبر اس کو اس نور سے
جسے دور سے وہ نظر آتا تھا
اسے چولہ خود بھید سمجھاتا تھا
وہ ہرلحظہ چولے کو دکھلاتا تھا
اسی میں وہ ساری خوشی پاتا تھا
غرض یہ تھی تا یار خورسند ہو
خطا دور ہو پختہ پیوند ہو
جوؔ عشاق اس ذات کے ہوتے ہیں
وہ ایسے ہی ڈر ڈر کے جاں کھوتے ہیں
وہ اس یار کو صدق دکھلاتے ہیں
اسی غم میں دیوانہ بن جاتے ہیں
وہ جاں اس کی رہ میں فدا کرتے ہیں
وہ ہر لحظہ سو سو طرح مرتے ہیں
وہ کھوتے ہیں سب کچھ بصدق و صفا
مگر اس کی ہو جائے حاصل رضا
یہ دیوانگی عشق کا ہے نشان
نہ سمجھے کوئی اس کو جز عاشقان
غرض جوش الفت سے مجذوب وار
یہ نانک نے چولا بنایا شعار
مگر اس سے راضی ہو وہ دلستان
کہ اس بن نہیں دل کو تاب و تواں
خدا کے جو ہیں وہ یہی کرتے ہیں
وہ *** سے لوگوں کی کب ڈرتے ہیں
وہ ہو جاتے ہیں سارے دلدار کے
نہیں کوئی ان کا بجز یار کے
وہ جاں دینے سے بھی نہ گھبراتے ہیں
کہ سب کچھ وہ کھو کر اسے پاتے ہیں
وہ دلبر کی آواز بن جاتے ہیں
وہ اس جاں کے ہمراز بن جاتے ہیں
وہ ناداں جو کہتا ہے دربند ہے
نہ الہام ہے اور نہ پیوند ہے
نہیں عقل اس کو نہ کچھ غورہے
اگر وید ہے یا کوئی اور ہے
یہ سچ ہے کہ جو پاک ہو جاتے ہیں
خدا سے خدا کی خبر لاتے ہیں
اگر اس طرف سے نہ آوے خبر
تو ہو جائے یہ راہ زیر و زبر
طلبگار ہو جائیں اس کے تباہ
وہ مر جائیں دیکھیں اگر بند راہ
مگر کوئی معشوق ایسا نہیں
کہ عاشق سے رکھتا ہو یہ بغض و کیں
خدا پر تو پھر یہ گماں عیب ہے
کہ وہ راحم و عالم الغیب ہے
اگر وہ نہ بولے تو کیوں کر کوئی
یقیں کر کے جانے کہ ہے مختفی
وہ کرتا ہے خود اپنے بھگتوں کو یاد
کوئی اس کے رہ میں نہیں نامراد
مگر وید کو اس سے انکار ہے
اسی سے تو بے خیر و بیکارہے
کرے کوئی کیا ایسے طومار کو
بلا کر دکھاوے نہ جو یار کو
وہ ویدوں کا ایشر ہے یا اک حجر
کہ بولے نہیں جیسے اک گنگ و کر
تو پھر ایسے ویدوں سے حاصل ہی کیا
ذرہ سوچو اے یارو بہر خدا
وہ انکار کرتے ہیں الہام سے
کہ ممکن نہیں خاص اور عام سے
یہی سالکوں کا تو تھا مدعا
اسی سے تو کھلتی تھیں آنکھیں ذرا
اگر یہ نہیں پھر تو وہ مرگئے
کہ بے سود جاں کو فدا کر گئے
یہ ویدوں کا دعویٰ سنا ہے ابھی
کہ بعد ان کے ملہم نہ ہوگا کبھی
وہ کہتے ہیں یہ کوچہ مسدود ہے
تلاش اس کی عارف کو بے سود ہے
وہ غافل ہیں رحماں کے اس داب سے
کہ رکھتا ہے وہ اپنے احباب سے
اگر ان کو اس رہ سے ہوتی خبر
اگر صدق کا کچھ بھی رکھتےاثر
تو انکار کو جانتے جائے شرم
یہ کیا کہہ دیا وید نے ہائے شرم
نہ جانا کہ الہام ہے کیمیا
اسی سے تو ملتا ہے گنج لقا
اسی سے تو عارف ہوئے بادہ نوش
اسی سے تو آنکھیں کھلیں اور گوش
یہی ہے کہ نائب ہے دیدار کا
یہی ایک چشمہ ہے اسرار کا
اسی سے ملے ان کو نازک علوم
اسی سے تو ان کی ہوئی جگ میں دھوم
خدا پر خدا سے یقیں آتا ہے
وہ باتوں سےذات اپنی سمجھاتا ہے
کوئی یار سے جب لگاتا ہے دل
تو باتوں سے لذت اٹھاتا ہے دل
کہ دلدار کی بات ہے اک غذا
مگر تو ہے منکر تجھے اس سے کیا
نہیں تجھ کو اس رہ کی کچھ بھی خبر
تو واقف نہیں اس سے اے بے ہنر
وہ ہے مہربان و کریم و قدیر
قسم اس کی۔ اس کی نہیں ہے نظیر
جو ہوں دل سے قربان ربّ جلیل
نہ نقصاں اٹھاویں نہ ہوویں ذلیل
اسی سے تو نانک ہوا کامیاب
کہ دل سے تھا قربان عالی جناب
بتایا گیا اس کو الہام میں
کہ پائے گا تو مجھ کو اسلام میں
یقین ہے کہ نانک تھا ملہم ضرور
نہ کر وید کا پاس اےپُرغرور
دیا اس کو کرتار نے وہ گیان
کہ ویدوں میں اس کا نہیں کچھ نشان
اکیلا وہ بھاگا ہنودوں کو چھوڑ
چلامکہ کو ہندسے منہ کو موڑ
گیا خانہ کعبہ کا کرنے طواف
مسلماں بنا پاک دل بے خلاف
لیا اس کو فضل خدا نے اٹھا
ملی دونوں عالم میں عزت کی جا
اگر تو بھی چھوڑے یہ ملک ہوا
تجھے بھی یہ رتبہ کرے وہ عطا
تو رکھتا نہیں ایک دم بھی روا
جو بیوی سے اور بچوں سے ہو جدا
مگر وہ تو پھرتا تھا دیوانہ وار
نہ جی کو تھا چین اور نہ دل کو قرار
ہر اک کہتا تھا دیکھ کر اک نظر
کہ ہے اس کی آنکھوں میں کچھ جلوہ گر
محبت کی تھی سینہ میں اک خلش
لئے پھرتی تھی اس کو دل کی تپش
کبھی شرق میں اور کبھی غرب میں
رہا گھومتا قلق اور کرب میں
پرندے بھی آرام کرلیتے ہیں
مجانیں بھی یہ کام کر لیتے ہیں
مگر وہ تو اک دم نہ کرتا قرار
ادا کر دیا عشق کا کاروبار
کسی نے یہ پوچھی تھی عاشق سے بات
وہ نسخہ بتا جس سے جاگےتو رات
کہا نیند کی ہے دوا سوز و درد
کہاں نیند جب غم کرے چہرہ زرد
وہ آنکھیں نہیں جو کہ گریاں نہیں
وہ خود دل نہیں جو کہ بریاں نہیں
تو انکار سے وقت کھوتا ہے کیا
تجھےکیا خبر عشق ہوتا ہے کیا
مجھے پوچھو اور میرے دل سے یہ راز
مگر کون پوچھے بجز عشق باز
جو برباد ہونا کرے اختیار
خدا کے لئے ہے وہی بختیار
جواس کیلئے کھوتے ہیں پاتے ہیں
جو مرتے ہیں وہ ز دہ ہو جاتے ہیں
وہی وحدہ لا شریک اور عزیز
ہیں اس کی ما نندکوئی بھی چیز
اگر جاں کروں اس کی راہ میں فدا
تو پھر بھی ہ ہو شکر اس کا ادا
میں چولے کا کرتا ہوں پھر کچھ بیاں
کہ ہے یہ پیارا مجھے جیسے جاں
ذرا ج م ساکھی کو پڑھ اےجواں
کہ ا گد ے لکھا ہے اس میں عیاں
کہ قدرت کے ہاتھوں کے تھے وہ رقم
خدا ہی ے لکھا بہ فضل و کرم
وہ کیا ہے یہی ہے کہ اللہ ہے ایک
محمد بی اس کا پاک اور یک
بغیر اس کےدل کی صفائی نہیں
بجز اس کے غم سے رہائی نہیں
یہ معیار ہے دیں کے تحقیق کا
کھلا فرق دجال و صدیق کا
ذرہ سوچو یارو گر انصاف ہے
یہ سب کشمکش اس گھڑی صاف ہے
یہ نانک سے کرنے لگے جب جدا
رہے زور کر کر کے بے مدعا
کہا دور ہو جاؤ تم ہار کے
یہ خلعت ہے ہاتھوں سے کرتار کے
بشر سے نہیں تا اتارے بشر
خدا کا کلام اس پہ ہے جلوہ گر
دعا کی تھی اس نے کہ اے کردگار
بتا مجھ کو رہ اپنی خود کر کے پیار
یہ چولہ تھا اس کی دعا کا اثر
یہ قدرت کے ہاتھوں کا تھا سربسر
یہی چھوڑ کر وہ ولی مرگیا
نصیحت تھی مقصدادا کر گیا
اسے مردہ کہنا خطا ہے خطا
کہ زندوں میں وہ زندہ دل جا ملا
وہ تن گم ہوا یہ نشاں رہ گیا
ذرا دیکھ کر اس کو آنسو بہا
کہاں ہے محبت کہاں ہے وفا
پیاروں کا چولا ہوا کیوں برا
وفادار عاشق کا ہے یہ نشاں
کہ دلبر کا خط دیکھ کر ناگہاں
لگاتا ہے آنکھوں سے ہوکر فدا
یہی دیں ہے دلدادگاں کا سدا
مگرجس کے دل میں محبت نہیں
اسے ایسی باتوں سے رغبت نہیں
اٹھو جلد تر لاؤ فوٹوگراف
ذرا کھینچو تصویرچولے کی صاف
کہ دنیا کو ہرگز نہیں ہے بقا
فنا سب کا انجام ہے جز خدا
سو لو عکس جلدی کہ اب ہے ہراس
مگر اس کی تصویر رہ جائے پاس
یہ چولا کہ قدرت کی تحریر ہے
یہی رہنما اور یہی پیر ہے
یہ انگد نے خود لکھدیا صاف صاف
کہ ہے وہ کلام خدا بے گزاف
وہ لکھا ہے خود پاک کرتار نے
اسی حیّ و قیّوم و غفّار نے
خدا نے جو لکھا وہ کب ہو خطا
وہی ہے خدا کا کلام صفا
یہی راہ ہے جس کو بھولے ہو تم
اٹھو یارو اب مت کرو راہ گم
یہ نور خدا ہے خدا سے ملا
ارے جلد آنکھوں سے اپنے لگا
ارے لوگو تم کو نہیں کچھ خبر
جو کہتاہوں میں اس پہ رکھنا نظر
زمانہ تعصب سے رکھتا ہے رنگ
کریں حق کی تکذیب سب بے درنگ
وہی دین کے راہوں کی سنتا ہے بات
کہ ہو متقی مرد اور نیک ذات
مگر دوسرے سارے ہیں پرعناد
پیارا ہے ان کو غرور اور فساد
بناتے ہیں باتیں سراسر دروغ
نہیں بات میں ان کے کچھ بھی فروغ
بھلا بعد چولے کے اےُ پرغرور
وہ کیا کسر باقی ہے جس سے تو دور
تو ڈرتاہے لوگوں سے اے بے ہنر
خدا سے تجھے کیوں نہیں ہے خطر؟
یہ تحریر چولہ کی ہے اک زبان
سنو وہ زباں سے کرے کیا بیان
کہ دین خدا دین اسلام ہے
جو ہو منکر اس کا بد انجام ہے
محمد وہ نبیوں کا سردار ہے
کہ جس کا عدو مثل مردار ہے
تجھے چولے سے کچھ تو آوے حیا
ذرا دیکھ ظالم کہ کرتا ہے کیا
کہو جو رضا ہو مگر سن لو بات
وہ کہنا کہ جس میں نہیں پکش پات
کہ حق جو سے کرتار کرتا ہے پیار
وہ انساں نہیں جو نہیں حق گذار
کہو جبکہ پوچھے گا مولیٰ حساب
تو بھائیو بتاؤ کہ کیا ہے جواب؟
میں کہتا ہوں اک بات اے نیک نام
ذرہ غور سے اس کو سنیو تمام
کہ بیشک یہ چولہ ُ پر از نورہے
تمرّد ،وفا سے بہت دور ہے
دکھائیں گے چولہ تمہیں کھول کر
کہ دو اُس کا اُتّر ذرا بول کر
یہی پاک چولہ رہا اک نشاں
گرو سے کہ تھا خلق پر مہربان
اسی پر دوشالے چڑھے اورزر
یہی فخر سکھوں کا ہے سربسر
یہی ملک و دولت کا تھا اک ستوں
عمل بد کئے ہوگئے سرنگوں
خدا کے لئے چھوڑو اب بغض و کیں
ذرا سوچو باتوں کو ہو کر امیں
وہ صدق و محبت وہ مہر و وفا
جو نانک سے رکھتے تھے تم برملا
دکھاؤ ذرا آج اس کا اثر
اگر صدق ہے جلد دوڑو ادھر
گرو نے تو کر کے دکھایا تمہیں
وہ رستہ چلو جو بتایا تمہیں
کہاں ہیں جو نانک کے ہیں خاک پا
جو کرتے ہیں اس کے لئے جاں فدا
کہاں ہیں جو اس کے لئے مرتے ہیں
جو ہے واک اس کا وہی کرتے ہیں
کہاں ہیں جو ہوتے ہیں اس پر نثار
جھکاتے ہیں سر اپنے کو کر کے پیار
کہاں ہیں جو رکھتے ہیں صدق و ثبات
گرو سے ملے جیسے شیر و نبات
کہاں ہیں کہ جب اس سے کچھ پاتے ہیں
تعشق سے قرباں ہوئے جاتے ہیں
کہاں ہیں جو الفت سے سرشارہیں
جو مرنے کو بھی دل سے تیار ہیں
کہاں ہیں جو وہ بخل سے دور ہیں
محبت سے نانک کی معمور ہیں
کہاں ہیں جو اس رہ میں ُ پرجوش ہیں
گرو کے تعشق میں مدہوش ہیں
کہاں ہیں وہ نانک کے عاشق کہاں
کہ آیا ہے نزدیک اب امتحاں
گرو جس کے اس رہ پہ ہوویں فدا
وہ چیلہ نہیں جو نہ دے سرجھکا
اگر ہاتھ سے وقت جاوے نکل
تو پھر ہاتھ مل مل کر رونا ہے کل
نہ مردی ہے تیر اور تلوار سے
بنو مرد مردوں کے کردار سے
سنو آتی ہے ہر طرف سے صدا
کہ باطل ہے ہر چیز حق کے سوا
کوئی دن کے مہمان ہیں ہم سبھی
خبر کیا کہ پیغام آوے ابھی
گرو نے یہ چولا بنایا شعار
دکھایا کہ اس رہ پہ ہوں میں نثار
وہ کیونکر ہو ان ناسعیدوں سے شاد
جو رکھتے نہیں اس سے کچھ اعتقاد
اگر مان لو گےگرو کا یہ واک
تو راضی کرو گے اسے ہو کے پاک
وہ احمق ہیں جو حق کی راہ کھوتے ہیں
عبث ننگ و ناموس کو روتے ہیں
وہ سوچیں کہ کیا لکھ گیا پیشوا
وصیت میں کیا کہہ گیا برملا
کہ اسلام ہم اپنا دیں رکھتے ہیں
محمد کی رہ پر یقیں رکھتے ہیں
اٹھو سونے والو کہ وقت آگیا
تمہارا گرو تم کو سمجھا گیا
نہ سمجھے تو آخر کو پچھتاؤ گے
گرو کے سراپوں کاپھل پاؤ گے
ست بچن صفحہ41مطبوعہ 1895ء
یہی پاک چولا ہے سکھوں کا تاج
یہی کابلی مل کے گھر میں ہے آج
یہی ہے کہ نوروں سے معمور ہے
جو دور اِس سے اُس سے خدا دور ہے
یہی جنم ساکھی میں مذکور ہے
جو انگد سے اس وقت مشہور ہے
اسی پر وہ آیات ہیں بیّنات
کہ جن سے ملے جاودانی حیات
یہ نانک کو خلعت ملا سرفراز
خدا سے جو تھا درد کا چارہ ساز
اسی سے وہ سب راز حق پاگیا
اسی سے وہ حق کی طرف آگیا
اسی نے بلا سے بچایا اسے
ہر اک بد گہر سے چھوڑایا اسے
ذرا سوچو سکھو! یہ کیا چیز ہے
یہ اس مرد کے تن کا تعویذ ہے
یہ اس بھگت کا رہ گیا اک نشاں
نصیحت کی باتیں حقیقت کی جاں
گرنتھوں میں ہے شک کا اک احتمال
کہ انساں کے ہاتھوں سے ہیں دست مال
جو پیچھے سے لکھتے لکھاتےرہے
خدا جانے کیا کیا بناتے رہے
گماں ہے کہ نقلوں میں ہو کچھ خطا
کہ انساں نہ ہووے خطا سے جدا
مگر یہ تو محفوظ ہے بالیقیں
وہی ہے جو تھا اس میں کچھ شک نہیں
اسے سرپہ رکھتے تھے اہل صفا
تذلل سے جب پیش آتی بلا
جو نانک کی مدح و ثنا کرتے تھے
وہ ہر شخص کو یہ کہا کرتے تھے
کہ دیکھا نہ ہو جس نے وہ پارسا
وہ چولہ کو دیکھے کہ ہےرہنما
جسے اس کے مَتْ کی نہ ہووے خبر
وہ دیکھے اسی چولہ کو اک نظر
اسے چوم کر کرتے رو رو دعا
تو ہو جاتا تھا فضل قادر خدا
اسی کا تو تھا معجزانہ اثر
کہ نانک بچا جس سے وقت خطر
بچا آگ سے اور بچا آب سے
اسی کے اثر سے نہ اسباب سے
ذرہ دیکھو انگد کی تحریر کو
کہ لکھتا ہے اس ساری تقریر کو
یہ چولا ہے قدرت کا جلوہ نما
کلام خدا اس پہ ہے جابجا
جو شائق ہے نانک کے درشن کا آج
وہ دیکھے اسے چھوڑ کر کام و کاج
برس گذرے ہیں چار سو کے قریب
یہ ہے نو بہ نواک کرامت عجیب
یہ نانک سے کیوں رہ گیا اک نشاں
بھلا اس میں حکمت تھی کیا درنہاں
یہی تھی کہ اسلام کا ہو گواہ
بتادے وہ پچھلوں کو نانک کی راہ
خدا سے یہ تھا فضل اس مرد پر
ہوا اس کی دردوں کا اک چارہ گر
یہ مخفی امانت ہے کرتار کی
یہ تھی اک کلید اس کے اسرار کی
محبت میں صادق وہی ہوتے ہیں
کہ اس چولہ کو دیکھ کر روتے ہیں
سنو مجھ سے اے لوگو! نانک کا حال
سنو قصّۂِ قدرتِ ذوالجلال
وہ تھا آریہ قوم سے نیک ذات
خردمند خوش خو مبارک صفات
ابھی عمر سے تھوڑے گزرے تھے سال
کہ دل میں پڑا اس کے دیں کا خیال
اسی جستجو میں وہ رہتا مدام
کہ کس راہ سے سچ کو پاوے تمام
اُسے وید کی راہ نہ آئی پسند
کہ دیکھا بہت اس کی باتوں میں گند
جو دیکھا کہ یہ ہیں سڑے اورگلے
لگا ہونے دل اس کا اوپر تلے
کہا کیسے ہو یہ خدا کا کلام
ضلالت کی تعلیم ناپاک کام
ہوا پھر تو یہ دیکھ کر سخت غم
مگر دل میں رکھتا وہ رنج و الم
وہ رہتا تھا اس غم سے ہر دم اداس
زباں بند تھی دل میں سو سو ہراس
یہی فکر کھاتا اسے صبح و شام
نہ تھا کوئی ہمراز نے ہمکلام
کبھی باپ کی جبکہ پڑتی نظر
وہ کہتا کہ" اے میرے پیارے پسر!
میں حیراں ہوں تیرا یہ کیا حال ہے
وہ غم کیا ہے جس سے تو پامال ہے
نہ وہ تیری صورت نہ وہ رنگ ہے
کہو کس سبب تیرا دل تنگ ہے
مجھے سچ بتا کھول کر اپنا حال
کہ کیوں غم میں رہتا ہے اےمیرے لال
وہ رو دیتا کہہ کر کہ سب خیر ہے
مگر دل میں اک خواہش سیر ہے
پھر آخر کو نکلا وہ دیوانہ وار
نہ دیکھے بیاباں نہ دیکھا پہاڑ
اوتار اپنے موہنڈوں سے دنیا کا بار
طلب میں سفر کرلیا اختیار
خدا کے لئے ہوگیا دردمند
تنعم کی راہیں نہ آئیں پسند
طلب میں چلا بیخود و بیحواس
خدا کی عنایات کی کر کے آس
جو پوچھا کسی نے چلے ہو کدھر
غرض کیاہے جس سے کیا یہ سفر؟
کہا رو کے حق کا طلب گار ہوں
نثار رہ پاک کرتار ہوں
سفر میں وہ رو رو کے کرتا دعا
کہ اے میرے کرتار مشکل کشا
میں عاجز ہوں کچھ بھی نہیں خاک ہوں
مگر بندۂِ درگہِ پاک ہوں
میں قرباں ہوں دل سے تیری راہ کا
نشاں دے مجھےمردِ آگاہ کا
نشاں تیرا پا کر وہیں جاؤنگا
جو تیرا ہو وہ اپنا ٹھہراؤنگا
کرم کر کے وہ راہ اپنی بتا
کہ جس میں ہو اے میرے تیری رضا
بتایا گیا اس کو الہام میں
کہ پائیگا تو مجھ کو اسلام میں
مگر مرد عارف فلاں مرد ہے
وہ اسلام کے راہ میں فرد ہے
ملا تب خدا سے اسے ایک پیر
کہ چشتی طریقہ میں تھا دستگیر
وہ بیعت سے اس کے ہوا فیضیاب
سنا شیخ سے ذکر راہِ صواب
پھر آیا وطن کی طرف اس کے بعد
ملے پیر کے فیض سے بخت سعد
کوئی دن تو پردہ میں مستور تھا
زبان چپ تھی اور سینہ میں نور تھا
نہاں دل میں تھا درد و سوز و نیاز
شریروں سے چھپ چھپ کے پڑھتا نماز
پھر آخر کو مارا صداقت نے جوش
تعشق سے جاتے رہے اس کے ہوش
ہوا پھر تو حق کے چھپانے سے تنگ
محبت نے بڑھ بڑھ کے دکھلائےرنگ
کہا یہ تو مجھ سے ہوا اک گناہ
کہ پوشیدہ رکھی سچائی کی راہ
یہ صدق و وفا سے بہت دور تھا
کہ غیروں کے خوفوں سے دل چور تھا
تصور سے اس بات کے ہو کے زار
کہاروکے اے میرے پروردگار
ترے نام کا مجھ کو اقرار ہے
ترا نام غفّار و ستّار ہے
بلا ریب تو حیّ و قدّ وس ہے
ترے بن ہر اک راہ سالوس ہے
مجھے بخش اے خالق العالمین
تو سُبّوح وَإِنّی من الظالمین
میں تیرا ہوں اے میرے کرتار پاک
نہیں تیری راہوں میں خوف ہلاک
تیرے در پہ جاں میری قربان ہے
محبت تیری خود مری جان ہے
وہ طاقت کہ ملتی ہے ابرار کو
وہ دے مجھ کو دکھلا کے اسرار کو
خطاوار ہوں مجھ کو وہ رہ بتا
کہ حاصل ہو جس رہ سے تیری رضا
اسی عجز میں تھا تذلل کے ساتھ
کہ پکڑا خدا کی عنایت نے ہاتھ
ہوا غیب سے ایک چولہ عیاں
خدا کا کلام اس پہ تھا بے گماں
شہادت تھی اسلام کی جابجا
کہ سچاوہی دین ہے اور رہنما
یہ لکھا تھا اس میں بخطَِِّّ جلی
کہ اللہ ہے اک اور محمدنبی صلی اللہ علیہ وسلم
ہوا حکم پہن اس کو اے نیک مرد
اتر جائیگی اس سے وہ ساری گرد
جو پوشیدہ رکھنے کی تھی اک خطا
یہ کفارہ اس کا ہے اے باوفا
یہ ممکن ہے کشفی ہو یہ ماجرا
دکھایا گیا ہو بہ حکم خدا
پھر اُس طرز پر یہ بنایا گیا
بحکم خدا پھر لکھایا گیا
مگر یہ بھی ممکن ہے اے پختہ کار
کہ خود غیب سے ہو یہ سب کاروبار
کہ پردے میں قادر کے اسرار ہیں
کہ عقلیں وہاں ہیچ و بیکار ہیں
تویک قطرہ داری زعقل و خرد
مگر قدرتش بحربے حدّ و عدّ
اگر بشنوی قصّۂِصادقان
مجنبان سر خود چو مستہزیان
تو خود را خردمند فہمیدۂ
مقامات مردان کجا دیدۂ
غرض اس نے پہنا وہ فرخ لباس
نہ رکھتا تھا مخلوق سے کچھ ہراس
وہ پھرتا تھا کوچوں میں چولہ کیساتھ
دکھاتا تھا لوگوں کو قدرت کے ہاتھ
کوئی دیکھتا جب اسے دور سے
تو ملتی خبر اس کو اس نور سے
جسے دور سے وہ نظر آتا تھا
اسے چولہ خود بھید سمجھاتا تھا
وہ ہرلحظہ چولے کو دکھلاتا تھا
اسی میں وہ ساری خوشی پاتا تھا
غرض یہ تھی تا یار خورسند ہو
خطا دور ہو پختہ پیوند ہو
جوؔ عشاق اس ذات کے ہوتے ہیں
وہ ایسے ہی ڈر ڈر کے جاں کھوتے ہیں
وہ اس یار کو صدق دکھلاتے ہیں
اسی غم میں دیوانہ بن جاتے ہیں
وہ جاں اس کی رہ میں فدا کرتے ہیں
وہ ہر لحظہ سو سو طرح مرتے ہیں
وہ کھوتے ہیں سب کچھ بصدق و صفا
مگر اس کی ہو جائے حاصل رضا
یہ دیوانگی عشق کا ہے نشان
نہ سمجھے کوئی اس کو جز عاشقان
غرض جوش الفت سے مجذوب وار
یہ نانک نے چولا بنایا شعار
مگر اس سے راضی ہو وہ دلستان
کہ اس بن نہیں دل کو تاب و تواں
خدا کے جو ہیں وہ یہی کرتے ہیں
وہ *** سے لوگوں کی کب ڈرتے ہیں
وہ ہو جاتے ہیں سارے دلدار کے
نہیں کوئی ان کا بجز یار کے
وہ جاں دینے سے بھی نہ گھبراتے ہیں
کہ سب کچھ وہ کھو کر اسے پاتے ہیں
وہ دلبر کی آواز بن جاتے ہیں
وہ اس جاں کے ہمراز بن جاتے ہیں
وہ ناداں جو کہتا ہے دربند ہے
نہ الہام ہے اور نہ پیوند ہے
نہیں عقل اس کو نہ کچھ غورہے
اگر وید ہے یا کوئی اور ہے
یہ سچ ہے کہ جو پاک ہو جاتے ہیں
خدا سے خدا کی خبر لاتے ہیں
اگر اس طرف سے نہ آوے خبر
تو ہو جائے یہ راہ زیر و زبر
طلبگار ہو جائیں اس کے تباہ
وہ مر جائیں دیکھیں اگر بند راہ
مگر کوئی معشوق ایسا نہیں
کہ عاشق سے رکھتا ہو یہ بغض و کیں
خدا پر تو پھر یہ گماں عیب ہے
کہ وہ راحم و عالم الغیب ہے
اگر وہ نہ بولے تو کیوں کر کوئی
یقیں کر کے جانے کہ ہے مختفی
وہ کرتا ہے خود اپنے بھگتوں کو یاد
کوئی اس کے رہ میں نہیں نامراد
مگر وید کو اس سے انکار ہے
اسی سے تو بے خیر و بیکارہے
کرے کوئی کیا ایسے طومار کو
بلا کر دکھاوے نہ جو یار کو
وہ ویدوں کا ایشر ہے یا اک حجر
کہ بولے نہیں جیسے اک گنگ و کر
تو پھر ایسے ویدوں سے حاصل ہی کیا
ذرہ سوچو اے یارو بہر خدا
وہ انکار کرتے ہیں الہام سے
کہ ممکن نہیں خاص اور عام سے
یہی سالکوں کا تو تھا مدعا
اسی سے تو کھلتی تھیں آنکھیں ذرا
اگر یہ نہیں پھر تو وہ مرگئے
کہ بے سود جاں کو فدا کر گئے
یہ ویدوں کا دعویٰ سنا ہے ابھی
کہ بعد ان کے ملہم نہ ہوگا کبھی
وہ کہتے ہیں یہ کوچہ مسدود ہے
تلاش اس کی عارف کو بے سود ہے
وہ غافل ہیں رحماں کے اس داب سے
کہ رکھتا ہے وہ اپنے احباب سے
اگر ان کو اس رہ سے ہوتی خبر
اگر صدق کا کچھ بھی رکھتےاثر
تو انکار کو جانتے جائے شرم
یہ کیا کہہ دیا وید نے ہائے شرم
نہ جانا کہ الہام ہے کیمیا
اسی سے تو ملتا ہے گنج لقا
اسی سے تو عارف ہوئے بادہ نوش
اسی سے تو آنکھیں کھلیں اور گوش
یہی ہے کہ نائب ہے دیدار کا
یہی ایک چشمہ ہے اسرار کا
اسی سے ملے ان کو نازک علوم
اسی سے تو ان کی ہوئی جگ میں دھوم
خدا پر خدا سے یقیں آتا ہے
وہ باتوں سےذات اپنی سمجھاتا ہے
کوئی یار سے جب لگاتا ہے دل
تو باتوں سے لذت اٹھاتا ہے دل
کہ دلدار کی بات ہے اک غذا
مگر تو ہے منکر تجھے اس سے کیا
نہیں تجھ کو اس رہ کی کچھ بھی خبر
تو واقف نہیں اس سے اے بے ہنر
وہ ہے مہربان و کریم و قدیر
قسم اس کی۔ اس کی نہیں ہے نظیر
جو ہوں دل سے قربان ربّ جلیل
نہ نقصاں اٹھاویں نہ ہوویں ذلیل
اسی سے تو نانک ہوا کامیاب
کہ دل سے تھا قربان عالی جناب
بتایا گیا اس کو الہام میں
کہ پائے گا تو مجھ کو اسلام میں
یقین ہے کہ نانک تھا ملہم ضرور
نہ کر وید کا پاس اےپُرغرور
دیا اس کو کرتار نے وہ گیان
کہ ویدوں میں اس کا نہیں کچھ نشان
اکیلا وہ بھاگا ہنودوں کو چھوڑ
چلامکہ کو ہندسے منہ کو موڑ
گیا خانہ کعبہ کا کرنے طواف
مسلماں بنا پاک دل بے خلاف
لیا اس کو فضل خدا نے اٹھا
ملی دونوں عالم میں عزت کی جا
اگر تو بھی چھوڑے یہ ملک ہوا
تجھے بھی یہ رتبہ کرے وہ عطا
تو رکھتا نہیں ایک دم بھی روا
جو بیوی سے اور بچوں سے ہو جدا
مگر وہ تو پھرتا تھا دیوانہ وار
نہ جی کو تھا چین اور نہ دل کو قرار
ہر اک کہتا تھا دیکھ کر اک نظر
کہ ہے اس کی آنکھوں میں کچھ جلوہ گر
محبت کی تھی سینہ میں اک خلش
لئے پھرتی تھی اس کو دل کی تپش
کبھی شرق میں اور کبھی غرب میں
رہا گھومتا قلق اور کرب میں
پرندے بھی آرام کرلیتے ہیں
مجانیں بھی یہ کام کر لیتے ہیں
مگر وہ تو اک دم نہ کرتا قرار
ادا کر دیا عشق کا کاروبار
کسی نے یہ پوچھی تھی عاشق سے بات
وہ نسخہ بتا جس سے جاگےتو رات
کہا نیند کی ہے دوا سوز و درد
کہاں نیند جب غم کرے چہرہ زرد
وہ آنکھیں نہیں جو کہ گریاں نہیں
وہ خود دل نہیں جو کہ بریاں نہیں
تو انکار سے وقت کھوتا ہے کیا
تجھےکیا خبر عشق ہوتا ہے کیا
مجھے پوچھو اور میرے دل سے یہ راز
مگر کون پوچھے بجز عشق باز
جو برباد ہونا کرے اختیار
خدا کے لئے ہے وہی بختیار
جواس کیلئے کھوتے ہیں پاتے ہیں
جو مرتے ہیں وہ ز دہ ہو جاتے ہیں
وہی وحدہ لا شریک اور عزیز
ہیں اس کی ما نندکوئی بھی چیز
اگر جاں کروں اس کی راہ میں فدا
تو پھر بھی ہ ہو شکر اس کا ادا
میں چولے کا کرتا ہوں پھر کچھ بیاں
کہ ہے یہ پیارا مجھے جیسے جاں
ذرا ج م ساکھی کو پڑھ اےجواں
کہ ا گد ے لکھا ہے اس میں عیاں
کہ قدرت کے ہاتھوں کے تھے وہ رقم
خدا ہی ے لکھا بہ فضل و کرم
وہ کیا ہے یہی ہے کہ اللہ ہے ایک
محمد بی اس کا پاک اور یک
بغیر اس کےدل کی صفائی نہیں
بجز اس کے غم سے رہائی نہیں
یہ معیار ہے دیں کے تحقیق کا
کھلا فرق دجال و صدیق کا
ذرہ سوچو یارو گر انصاف ہے
یہ سب کشمکش اس گھڑی صاف ہے
یہ نانک سے کرنے لگے جب جدا
رہے زور کر کر کے بے مدعا
کہا دور ہو جاؤ تم ہار کے
یہ خلعت ہے ہاتھوں سے کرتار کے
بشر سے نہیں تا اتارے بشر
خدا کا کلام اس پہ ہے جلوہ گر
دعا کی تھی اس نے کہ اے کردگار
بتا مجھ کو رہ اپنی خود کر کے پیار
یہ چولہ تھا اس کی دعا کا اثر
یہ قدرت کے ہاتھوں کا تھا سربسر
یہی چھوڑ کر وہ ولی مرگیا
نصیحت تھی مقصدادا کر گیا
اسے مردہ کہنا خطا ہے خطا
کہ زندوں میں وہ زندہ دل جا ملا
وہ تن گم ہوا یہ نشاں رہ گیا
ذرا دیکھ کر اس کو آنسو بہا
کہاں ہے محبت کہاں ہے وفا
پیاروں کا چولا ہوا کیوں برا
وفادار عاشق کا ہے یہ نشاں
کہ دلبر کا خط دیکھ کر ناگہاں
لگاتا ہے آنکھوں سے ہوکر فدا
یہی دیں ہے دلدادگاں کا سدا
مگرجس کے دل میں محبت نہیں
اسے ایسی باتوں سے رغبت نہیں
اٹھو جلد تر لاؤ فوٹوگراف
ذرا کھینچو تصویرچولے کی صاف
کہ دنیا کو ہرگز نہیں ہے بقا
فنا سب کا انجام ہے جز خدا
سو لو عکس جلدی کہ اب ہے ہراس
مگر اس کی تصویر رہ جائے پاس
یہ چولا کہ قدرت کی تحریر ہے
یہی رہنما اور یہی پیر ہے
یہ انگد نے خود لکھدیا صاف صاف
کہ ہے وہ کلام خدا بے گزاف
وہ لکھا ہے خود پاک کرتار نے
اسی حیّ و قیّوم و غفّار نے
خدا نے جو لکھا وہ کب ہو خطا
وہی ہے خدا کا کلام صفا
یہی راہ ہے جس کو بھولے ہو تم
اٹھو یارو اب مت کرو راہ گم
یہ نور خدا ہے خدا سے ملا
ارے جلد آنکھوں سے اپنے لگا
ارے لوگو تم کو نہیں کچھ خبر
جو کہتاہوں میں اس پہ رکھنا نظر
زمانہ تعصب سے رکھتا ہے رنگ
کریں حق کی تکذیب سب بے درنگ
وہی دین کے راہوں کی سنتا ہے بات
کہ ہو متقی مرد اور نیک ذات
مگر دوسرے سارے ہیں پرعناد
پیارا ہے ان کو غرور اور فساد
بناتے ہیں باتیں سراسر دروغ
نہیں بات میں ان کے کچھ بھی فروغ
بھلا بعد چولے کے اےُ پرغرور
وہ کیا کسر باقی ہے جس سے تو دور
تو ڈرتاہے لوگوں سے اے بے ہنر
خدا سے تجھے کیوں نہیں ہے خطر؟
یہ تحریر چولہ کی ہے اک زبان
سنو وہ زباں سے کرے کیا بیان
کہ دین خدا دین اسلام ہے
جو ہو منکر اس کا بد انجام ہے
محمد وہ نبیوں کا سردار ہے
کہ جس کا عدو مثل مردار ہے
تجھے چولے سے کچھ تو آوے حیا
ذرا دیکھ ظالم کہ کرتا ہے کیا
کہو جو رضا ہو مگر سن لو بات
وہ کہنا کہ جس میں نہیں پکش پات
کہ حق جو سے کرتار کرتا ہے پیار
وہ انساں نہیں جو نہیں حق گذار
کہو جبکہ پوچھے گا مولیٰ حساب
تو بھائیو بتاؤ کہ کیا ہے جواب؟
میں کہتا ہوں اک بات اے نیک نام
ذرہ غور سے اس کو سنیو تمام
کہ بیشک یہ چولہ ُ پر از نورہے
تمرّد ،وفا سے بہت دور ہے
دکھائیں گے چولہ تمہیں کھول کر
کہ دو اُس کا اُتّر ذرا بول کر
یہی پاک چولہ رہا اک نشاں
گرو سے کہ تھا خلق پر مہربان
اسی پر دوشالے چڑھے اورزر
یہی فخر سکھوں کا ہے سربسر
یہی ملک و دولت کا تھا اک ستوں
عمل بد کئے ہوگئے سرنگوں
خدا کے لئے چھوڑو اب بغض و کیں
ذرا سوچو باتوں کو ہو کر امیں
وہ صدق و محبت وہ مہر و وفا
جو نانک سے رکھتے تھے تم برملا
دکھاؤ ذرا آج اس کا اثر
اگر صدق ہے جلد دوڑو ادھر
گرو نے تو کر کے دکھایا تمہیں
وہ رستہ چلو جو بتایا تمہیں
کہاں ہیں جو نانک کے ہیں خاک پا
جو کرتے ہیں اس کے لئے جاں فدا
کہاں ہیں جو اس کے لئے مرتے ہیں
جو ہے واک اس کا وہی کرتے ہیں
کہاں ہیں جو ہوتے ہیں اس پر نثار
جھکاتے ہیں سر اپنے کو کر کے پیار
کہاں ہیں جو رکھتے ہیں صدق و ثبات
گرو سے ملے جیسے شیر و نبات
کہاں ہیں کہ جب اس سے کچھ پاتے ہیں
تعشق سے قرباں ہوئے جاتے ہیں
کہاں ہیں جو الفت سے سرشارہیں
جو مرنے کو بھی دل سے تیار ہیں
کہاں ہیں جو وہ بخل سے دور ہیں
محبت سے نانک کی معمور ہیں
کہاں ہیں جو اس رہ میں ُ پرجوش ہیں
گرو کے تعشق میں مدہوش ہیں
کہاں ہیں وہ نانک کے عاشق کہاں
کہ آیا ہے نزدیک اب امتحاں
گرو جس کے اس رہ پہ ہوویں فدا
وہ چیلہ نہیں جو نہ دے سرجھکا
اگر ہاتھ سے وقت جاوے نکل
تو پھر ہاتھ مل مل کر رونا ہے کل
نہ مردی ہے تیر اور تلوار سے
بنو مرد مردوں کے کردار سے
سنو آتی ہے ہر طرف سے صدا
کہ باطل ہے ہر چیز حق کے سوا
کوئی دن کے مہمان ہیں ہم سبھی
خبر کیا کہ پیغام آوے ابھی
گرو نے یہ چولا بنایا شعار
دکھایا کہ اس رہ پہ ہوں میں نثار
وہ کیونکر ہو ان ناسعیدوں سے شاد
جو رکھتے نہیں اس سے کچھ اعتقاد
اگر مان لو گےگرو کا یہ واک
تو راضی کرو گے اسے ہو کے پاک
وہ احمق ہیں جو حق کی راہ کھوتے ہیں
عبث ننگ و ناموس کو روتے ہیں
وہ سوچیں کہ کیا لکھ گیا پیشوا
وصیت میں کیا کہہ گیا برملا
کہ اسلام ہم اپنا دیں رکھتے ہیں
محمد کی رہ پر یقیں رکھتے ہیں
اٹھو سونے والو کہ وقت آگیا
تمہارا گرو تم کو سمجھا گیا
نہ سمجھے تو آخر کو پچھتاؤ گے
گرو کے سراپوں کاپھل پاؤ گے
ست بچن صفحہ41مطبوعہ 1895ء