محاسنِ قرآن کریم
ہے شکر ربِّ عزّوجل خارج از بیان
جس کی کلام سے ہمیں اُس کا ملا نشاں
وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں
ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں
اُس سے ہمارا پاک دل و سینہ ہوگیا
وہ اپنے منہ کا آپ ہی آئینہ ہوگیا
اُس نے درختِ دل کو معارف کا پھل دیا
ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا
اُس سے خدا کا چہرہ نموار ہوگیا
شیطاں کا مکرو وسوسہ بیکار ہوگیا
وہ رہ ذاتِ عزّوجل کو دکھاتی ہے
وہ رہ جو دل کو پاک و مطہرّ بناتی ہے
وہ رہ جو یارگم شدہ کو کھینچ لاتی ہے
وہ راہ جو جامِ پاک یقیں کا پلاتی ہے
وہ رہ جو اُس کے ہونے پہ محکم دلیل ہے
وہ رہ جو اُس کے پانے کی کامل سبیل ہے
اُس نے ہر ایک کو وہی رستہ دکھا دیا
جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا
افسردگی جو سینوں میں تھی دُور ہوگئی
ظلمت جو تھی دلوں میں وہ سب نور ہوگئی
جو دَور تھا خزاں کا وہ بدلا بہار سے
چلنے لگی نسیم عنایات یار سے
جاڑے کی رُت ظہور سے اُسکے پلٹ گئی
عشقِ خدا کی آگ ہر ایک دل میں اٹ گئی
جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے
پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے
موجوں سے اُس کی پردے وساوس کے پھٹ گئے
جو کُفر اور فسق کے ٹیلے تھے کٹ گئے
قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے
بے اُس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے
جو لوگ شک کی سردیوں سے تھرتھراتے ہیں
اس آفتاب سے وہ عجب دُھوپ پاتے ہیں
دنیا میں جس قدر ہے مذاہب کا شور و شر
سب قصہ گو ہیں نور نہیں ایک ذرّہ بھر
پر یہ کلام نورِ خدا کو دکھاتا ہے
اسکی طرف نشانوں کے جلوہ سے لاتا ہے
جس دیں کا صرف قصوّں پہ سارا مدار ہے
وہ دیں نہیں ہے ایک فسانہ گزار ہے
سچ پوچھئے تو قصوں کا کیا اعتبار ہے
قصوں میں جھوٹ اور خطا بے شمار ہے
ہے دیں وہی کہ صرف وہ اک قصہ گو نہیں
زندہ نشانوں سے ہے دکھاتا رہِ یقیں
ہے دیں وہی کہ جس کا خدا آپ ہوعیاں
خود اپنی قدرتوں سے دکھاوے کہ ہے کہاں
جو معجزات سنتے ہو قصوں کے رنگ میں
اُنکو تو پیش کرتے ہیں سب بحث و جنگ میں
جتنے ہیں فرقے سب کا یہی کاروبارہے
قصوّں میں معجزوں کا بیاں بار بار ہے
پر اپنے دیں کا کچھ بھی دکھاتے نہیں نشاں
گویا وہ ربِّ ارض و سما اب ہے ناتواں
گویا اب اُس میں طاقت و قدرت نہیں رہی
وہ سلطنت وہ زور وہ شوکت نہیں رہی
یا یہ کہ اب خدا میں وہ رحمت نہیں رہی
نیّت بدل گئی ہے وہ شفقت نہیں رہی
ایسا گماں خطا ہے کہ وہ ذات پاک ہے
ایسے گماں کی نوبت آخر ہلاک ہے
سچ ہے یہی کہ ایسے مذاہب ہی مرگئے
اَب اُن میں کچھ نہیں ہے کہ جاں سے گذر گئے
پابند ایسے دنیوں کے دنیا پرست ہیں
غافل ہیں ذوقِ یار سے دنیا میں مست ہیں
مقصود اُن کا جینے سے دنیا کمانا ہے
مومن نہیں ہیں وہ کہ قدم فاسقانہ ہے
تم دیکھتے ہو کیسے دلوں پر ہیں اُن کے زنگ
دنیا ہی ہوگئی ہے غرض دین سے آئے تنگ
وہ دیں ہی چیز کیا ہے کہ جو رہنما نہیں
ایسا خدا ہے اُس کا کہ گویا خدا نہیں
پھر اُس سے سچی راہ کی عظمت ہی کیا رہی
اور خاص وجہ صفوتِ ملّت ہی کیا رہی
نُور خدا کی اُس میں علامت ہی کیارہی
توحید خشک رہ گئی نعمت ہی کیا رہی
لوگو ! سنو! کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں
جس میں ہمیشہ عادتِ قدرت نما نہیں
مُردہ پرست ہیں وہ جو قصہ پرست ہیں
پس اس لئے وہ موردِ ذِل و شکست ہیں
بن دیکھے دل کو دوستو !پڑتی نہیں ہے کل
قصوں سے کیسے پاک ہو یہ نفس پرخلل
کچھ کم نہیں یہودیوں میں یہ کہانیاں
پر دیکھو کیسے ہوگئے شیطاں سے ہم عناں
ہر دم نشانِ تازہ کا محتاج ہے بشر
قصوں کے معجزات کا ہوتا ہے کب اثر
کیونکر ملے فسانوں سے وہ دلبر ازل
گر اِک نشاں ہو ملتا ہے سب زندگی کا پھل
قصوں کا یہ اثر ہے کہ دل پر فساد ہے
ایماں زباں پہ سینہ میں حق سے عناد ہے
دُنیا کی حرص و آز میں یہ دل ہیں مرگئے
غفلت میں ساری عمر بسر اپنی کر گئے
اے سونے والو !جاگو کہ وقتِ بہار ہے
اب دیکھو آکے درپہ ہمارے وہ یار ہے
کیا زندگی کا ذوق اگر وہ نہیں ملا
*** ہے ایسے جینے پہ گر اُس سے ہیں جدا
اُس رُخ کو دیکھنا ہی تو ہے اصل مدّعا
جنّت بھی ہے یہی کہ مل یارِ آشنا
اَے حُبِّ جاہ والو یہ رہنے کی جا نہیں
اِس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں
دیکھو تو جاکے اُن کے مقابر کو اِک نظر
سوچو کہ اب سلف ہیں تمہارے گئے کدھر
اِک دن وہی مقام تمہارا مقام ہے
اِک دن یہ صبح زندگی کی تم پہ شام ہے
اِک دن تمہارا لوگ جنازہ اُٹھائیں گے
پھر دفن کرکے گھر میں تاسف سے آئیں گے
اے لوگو! عیشِ دنیا کو ہرگز وفا نہیں
کیا تم کو خوفِ مرگ و خیال فنا نہیں
سوچو کہ باپ دادے تمہارے کدھر گئے
کس نے بلا لیا وہ سبھی کیوں گذر گئے
وہ دن بھی ایک دن تمہیں یارو نصیب ہے
خوش مت رہو کہ کوچ کی نوبت قریب ہے
ڈھونڈو وہ راہ جس سے دل و سینہ پاک ہو
نفس دنی خدا کی اطاعت میں خاک ہو
ملتی نہیں عزیزو! فقط قصوّں سے یہ راہ
وہ روشنی نشانوں سے آتی ہے گاہ گاہ
وہ لغو دیں ہے جس میں فقط قصہ جات ہیں
اُن سے رہیں الگ جو سعید الصفات ہیں
صد حیف اِس زمانہ میں قصوں پہ ہے مدار
قصوں پہ سارا دیں کی سچائی کا انحصار
پر نقدِ معجزات کا کچھ بھی نشاں نہیں
پس یہ خدائے قصہ خدائے جہاں نہیں
دنیا کو ایسے قصوں نے یکسر تبہ کیا
مُشرک بناکے کُفر دیا روسیہ کیا
جس کو تلاش ہے کہ ملے اُس کو کردگار
اُس کیلئے حرام جو قصّوں پہ ہو نثار
اُس کا تو فرض ہے کہ وہ ڈھونڈے خدا کا نور
تا ہووے شک و شبہ سبھی اُسکے دِل سے دُور
تا اُس کے دل پہ نور یقیں کانزول ہو
تا وہ جنابِ عزّوجل میں قبول ہو
قِصّوں سے پاک ہونا کبھی کیا مجال ہے
سچ جانو یہ طریق سراسر محال ہے
قِصّوں سے کب نجات ملے ہے گناہ سے
ممکن نہیں وصالِ خدا ایسی راہ سے
مُردہ سے کب اُمید کہ وہ زندہ کرسکے
اُس سے تو خود محال کہ رہ بھی گذرسکے
وہ رہ جو ذاتِ عزّوجل کو دکھاتی ہے
وہ رہ جو دل کو پاک و مطہّر بناتی ہے
وہ راہ جو یارِ گم شدہ کو ڈھونڈلاتی ہے
وہ رہ جو جامِ پاک یقین کا پلاتی ہے
وہ تازہ قدرتیں جو خدا پر دلیل ہیں
وہ زندہ طاقتیں جو یقیں کی سبیل ہیں
ظاہر ہے یہ کہ قصوں میں اُن کا اثر نہیں
افسانہ گو کو راہِ خدا کی خبر نہیں
اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی نشاں سے ہے
سچ ہے کہ سب ثبوت خدائی نشاں سے ہے
کوئی بنائے ہم کو کہ غیروں میں یہ کہاں
قصوں کی چاشنی میں حلاوت کا کیا نشاں
یہ ایسے مذہبوں میں کہاں ہے دکھایئے
ورنہ گزاف قصوں پہ ہرگز نہ جایئے
جب سے کہ قصےّ ہوگئے مقصود راہ میں
آگے قدم ہے قوم کا ہردم گناہ میں
تم دیکھتے ہو قوم میں عِفّت نہیں رہی
وہ صدق وہ صفا وہ طہارت نہیں رہی
مومن کے جو نشاں ہیں وہ حالت نہیں رہی
اُس یار بے نشاں کی محبت نہیں رہی
اِک سیل چل رہا ہے گناہوں کا زور سے
سنتے نہیں ہیں کچھ بھی معاصی کے شور سے
کیوں بڑھ گئے زمیں پہ بُرے کام اسقدر
کیوں ہوگئے عزیزو! یہ سب لوگ کور وکر
کیوں اب تمہارے دل میں وہ صدق و صفا نہیں
کیوں اسقدر ہے فسق کہ خوف و حیا نہیں
کیوں زندگی کی چال سبھی فاسقانہ ہے
کچھ اِک نظر کرو کہ یہ کیسا زمانہ ہے
اِس کا سبب یہی ہے کہ غفلت ہی چھاگئی
دُنیائے دُوں کی دل میں محبت سما گئی
تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہوگئے
جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہوگئے
ہر دم کے خبث و فسق سے دل پر چڑے حجاب
آنکھوں سے اُن کی چھپ گیا ایماں کا آفتاب
جس کو خدائے عزوجل پر یقیں نہیں
اُس بدنصیب شخص کا کوئی بھی دیں نہیں
پر وہ سعید جوکہ نشانوں کو پاتے ہیں
وہ اُس سے مل کے دل کو اُسی سے ملاتے ہیں
وہ اُس کے ہوگئے ہیں اُسی سے وہ جیتے ہیں
ہر دم اُسی کے ہاتھ سے اِک جام پیتے ہیں
جس مے کو پی لیا ہے وہ اُس مے سے مست ہیں
سب دشمن اُن کے اُن کے مقابل میں پست ہیں
جس مے کو پی لیا ہے وہ اُس مے سے مست ہیں
سب دشمن اُن کے اُن کے مقابل پر پست ہیں
کچھ ایسے مست ہیں وہ رُخ خوبِ یار سے
ڈرتے کبھی نہیں ہیں وہ دشمن کے وار سے
اُن سے خدا کے کام سبھی معجزانہ ہیں
یہ اس لئے کہ عاشقِ یار یگانہ ہیں
اُنکو خدانے غیروں سے بخشی ہے امتیاز
اُن کیلئے نشاں کو دکھاتا ہے کارساز
جس دشمنوں کے ہاتھ سے وہ تنگ آتے ہیں
جب بدشعار لوگ اُنہیں کچھ ستاتے ہیں
جب اُن کے مارنے کیلئے چال چلتے ہیں
جب اُس سے جنگ کرنے کو باہر نکلتے ہیں
تب وہ خدائے پاک نشاں کو دکھاتا ہے
غیروں پہ اپنا رُعب نشاں سے جماتا ہے
کہتا ہے "یہ تو بندہ ءعالی جناب ہے
مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے"
اُس ذات پاک سے جو کوئی دل لگاتا ہے
آخر وہ اُس کے رحم کو ایسا ہی پاتا ہے
جن کو نشانِ حضرت باری ہوا نصیب
وہ اُس جناب پاک سے ہردم ہوئے قریب
کھینچے گئے کچھ ایسے کہ دنیا سے سو گئے
کچھ ایسا نور دیکھا کہ اُس کے ہی ہوگئے
بن دیکھے کیسے پاک ہو انساں گناہ سے
اِس چاہ سے نکلتے ہیں لوگ اُس کی چاہ سے
تصویر شیر سے نہ ڈرے کوئی گو سپند
نے مارِ مُردہ سے ہے کچھ اندیشہء گزند
پھر وہ خدا جو مُردہ کی مانند ہے پڑا
پس کیا امید ایسے سے اور خوف اُس سے کیا
ایسے خدا کے خوف سے دل کیسے پاک ہو
سینہ میں اُسکے عشق سے کیونکر تپاک ہو
بن دیکھے کس طرح کسی مہ رُخ پہ آئے دل
کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل
دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی
حُسن و جمالِ یار کے آثار ہی سہی
جب تک خدائے زندہ کی تم کو خبر نہیں
بے قید اور دلیر ہو کچھ دل میں ڈر نہیں
سوروگ کی دوا یہی وصلِ الٰہی ہے
اِس قید میں ہر ایک گناہ سے رہائی ہے
پر جس خدا کے ہونے کا کچھ بھی نہیں نشاں
کیونکر نثار ایسے پہ ہو جائے کوئی جاں
ہر چیز میں خدا کی ضیاء کا ظہور ہے
پر پھر بھی غافلوں سے وہ دلدار دُور ہے
جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے! یہ نسخہ بھی آزما
عاشق جو ہیں وہ یار کو مرمرکے پاتے ہیں
جب مرگئے تو اُسکی طرف کھینچے جاتے ہیں
یہ راہ تنگ ہے پہ یہی ایک راہ ہے
دلب کی مرنے والوں پہ ہردم نگاہ ہے
ناپاک زندگی ہے جو دوری میں کٹ گئی
دیوار زہد خشک کی آخر کوپھٹ گئی
زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں
مقبول بن کے اُس کے عزیزو حبیب ہیں
وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں
ہر دم اسیرِ نخوت و کبرو غرور ہیں
تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو
کبرو غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو
اس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو
اُس یاد کیلئے رہ عشرت کو چھوڑ دو
*** کی ہے یہ راہ سو *** کو چھوڑ دو
ورنہ خیالِ حضرتِ عزّت کو چھوڑ دو
تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول
تاتم پہ ہو ملائکہ ءعرش کا نزول
اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کیلئے فنا
ترکِ رضائے خویش پئے مرضیء خدا
جو مرگئے اُنہی کے نصیبوں میں ہے حیات
اِس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجزممات
شوخی و کبر دیو لعلیں کا شعار ہے
آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے
اے کرمِ خاک !چھوڑ دے کبروغرور کو
زیبا ہے کبر حضرتِ ربِّ غیور کو
بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے
ہو جاؤ خاک مرضی ءمولیٰ اِسی میں ہے
تقویٰ کی جڑ خدا کے لئے خاکساری ہے
عفّت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے
جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں
تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں
بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی ہے
اِک دم میں اُس علیم کو بیزار کرتی ہے
اِک بات کہہ کے اپنے عمل سارے کھوتے ہیں
پھر شوخیوں کا بیج ہر اک وقت بوتے ہیں
کچھ ایسے سوگئے ہیں ہمارے یہ ہم وطن
اُٹھتے نہیں ہیں ہم نے تو سوسوکئے جتن
سب عضو سست ہوگئے غفلت ہی چھاگئی
قوت تمام نوکِ زباں میں ہی آگئی
یا بدزباں دکھاتے ہیں یا ہیں وہ بدگماں
باقی خبر نہیں ہے کہ اسلام ہے کہاں
تم دیکھ کر بھی بدکو بچوں بدگمان سے
ڈرتے رہو عقابِ خدائے جہان سے
شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا
شاید وہ بد نہ ہو ۔جو تمھیں ہے وہ بدنما
شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو
شاید وہ آزمائشِ ربّ غفور ہو
پھر تم تو بدگمانی سے اپنی ہوئے ہلاک
خود سرپہ اپنے لے لیا خشم خدائے پاک
گر ایسے تم دلیریوں میں بے حیا ہوئے
پھر اِتّقا کے سوچو کہ معنے ہی کیا ہوئے
موسیٰ بھی بدگمانی سے شرمندہ ہوگیا
قرآن میں خضر نے جو کیا تھا پڑھو ذرا
بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار
تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار
پس تم تو ایک بات کے کہنے سے مرگئے
یہ کیسی عقل تھی کہ براہِ خطر گئے
بدبخت تر تمام جہاں سے وہی ہوا
جو ایک بات کہہ کے ہی دوزخ میں جاگرا
پس تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے
ڈرتے رہو عقوبت ربّ العباد سے
"دو عفو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا
سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا
وہ اِک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا"
یہ ہے حدیث سیدنا سید الوریٰ
پر وہ جو مجھ کو کاذب و مکارّ کہتے ہیں
اور مفتری و کافر و بدکار کہتے ہیں
اُن کیلئے تو بس ہے خدا کا یہی نشاں
یعنی وہ فضل اُس کے جو مجھ پر ہیں ہرزماں
دیکھو !خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا
گمنام پاکے شہرہ ءعالم بنا دیا
جو کچھ میری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا
میں اِک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا
دنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی
جو اُس نے مجھ کو اپنی عنایات سے نہ دی
ایسے بدوں سے اُس کے ہوں ایسے معاملات
کیا یہ نہیں کرامت و عادت سے بڑھ کے بات
جو مفتری ہے اُس سے یہ کیوں اتحاد ہے
کس کو نظیر ایسی عنایت کی یاد ہے
مجھ پر ہر اک نے وار کیا اپنے رنگ میں
آخر ذلیل ہوگئے انجام جنگ میں
اِن کینوں میں کسی کو بھی ارماں نہیں رہا
سب کی مراد تھی کہ میں دیکھوں رہِ فنا
تھے چاہتے کہ مجھ کو دکھائیں عدم کی راہ
یا حاکموں سے پھانسی دلا کر، کریں تباہ
یا کم سے کم یہ ہو کہ میں زنداں میں جاپڑوں
یا یہ کہ ذلتوں سے میں ہو جاؤں سرنگوں
یا مخبری سے ان کی کوئی اور ہی بلا
آجائے مجھ پہ یا کوئی مقبول ہو دُعا
پس ایسے ہی ارادوں سے کرکے مقدمات
چاہا گیا کہ دن مرا ہوجائے مجھ پہ رات
کوشش بھی وہ ہوئی کہ جہاں میں نہ ہو کبھی
پھر اتفاق وہ کہ پہ وہ سب نیک ہوگئے
مجھ کو ہلاک کرنے کو سب ایک ہوگئے
سمجھا گیا میں بد،پہ وہ سب نیک ہوگئے
آخر کو وہ خدا جو کریم و قدیر ہے
جو عالم القلوب و علیم و خبیر ہے
اُترا مری مدد کے لئے کرکے عہد یار
پس رہ گئے وہ سارے سیہ رُو و نامراد
کچھ ایسا فضل حضرتِ ربّ الوریٰ ہوا
سب دشمنوں کے دیکھ کے اوساں ہوئے خطا
اِک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا
میں خاک تھا اُسی نے ثریاّ بنا دیا
میں تھا غریب و بیکس و گمنام بے ہنر
کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر
لوگوں کی اِس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی
میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی
اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا
اِک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا
پر پھر بھی جن کی آنکھ تعصب سے بند ہے
اُن کی نظر میں حال مراناپسند ہے
میں مفتری ہوں اُن کی نگاہ و خیال میں
دنیا کی خیر ہے مری موت وزوال میں
*** ہے مفتری پہ خدا کی کتاب میں
عزّت نہیں ہے ذرّہ بھی اُس کی جناب میں
توریت میں بھی نیز کلام مجید میں
لکھا گیا ہے رنگِ وعیدِ شدید میں
کوئی اگر خدا پہ کرے کچھ بھی افترا
ہوگا وہ قتل ہے یہی اس جرم کی سزا
پھر یہ عجیب غفلت ربِّ قدیر ہے
دیکھے ہے ایک کو کہ وہ ایسا شریر ہے
پچیس سال سے ہے وہ مشغولِ افترا
ہر دن ہر ایک رات یہی کام ہے رہا
ہر روز اپنے دل سے بناتا ہے ایک بات
کہتا ہے "یہ خدا نے کہا مجھ کو آج رات"
پھر بھی وہ ایسے شوخ کو دیتا نہیں سزا
گویا نہیں ہے یاد جو پہلے سے کہہ چکا
پھر یہ عجیب تر ہے کہ جب حامیانِ دیں
ایسے کے قتل کرنے کو فاعل ہوں یامعیں
کرتا نہیں ہے اُن کی مدد وقتِ انتظام
تا مفتری کے قتل سے قصہ ہی ہو تمام
اپنا تو اُس کا وعدہ رہا سارا طاق پر
اوروں کی سعی و جہد پہ بھی کچھ نہیں نظر
کیاوہ خدا نہیں ہے جو فرقاں کا ہے خدا
پھر کیوں وہ مفتری سے کرے اس قدر وفا
آخر یہ بات کیا ہے کہ ہے ایک مفتری
کرتا ہے ہر مقام میں اُس کو خدا بری
جب دشمن اُس کوپیچ میں کوشش سے لاتے ہیں
کوشش بھی اسقدر کہ وہ بس مر ہی جاتے ہیں
اِک اتفاق کرکے وہ باتیں بناتے ہیں
سو جھوٹ اور فریب کی تہمت لگاتے ہیں
پھر بھی وہ نامراد مقاصد میں رہتے ہیں
جاتا ہے بے اثر وہ جو سو بار کہتے ہیں
ذلّت ہیں چاہتے یہاں اِکرام ہوتا ہے
کیا مفتری کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے
اے قوم کے سرآمدہ !اے حامیانِ دیں!
سوچو کہ کیوں خدا تمہیں دیتا مدد نہیں
تم میں نہ رحم ہے نہ عدالت نہ اتقا
پس اس سبب سے ساتھ تمہارے نہیں خدا
ہوگا تمہیں کلارک کا بھی وقت خوب یاد
جب مجھ پہ کی تھی تہمت خوں ازرہِ فساد
جب آپ لوگ اُس سے ملے تھے بدیں خیال
تا آپ کی مدد سے اُسے سہل ہو جدال
پروہ خدا جو عاجز و مسکیں کا ہے خدا
حاکم کے دل کو میری طرف اُس نے کردیا
تم نے تو مجھ کو قتل کرانے کی ٹھانی تھی
یہ بات اپنے دل میں بہت سہل جانی تھی
تھے چاہتے صلیب پہ یہ شخص کھینچا جائے
تاتم کو ایک فخر سے یہ بات ہاتھ آئے
"جھوٹا تھا مفتری تھا تبھی یہ ملی سزا"
آخر مری مدد کیلئے خود اُٹھا خدا
ڈگلس پہ سارا حال بریت کا کھل گیا
عزت کے ساتھ تب میں وہاں سے بری ہوا
الزام مجھ پہ قتل کا تھا سخت تھا یہ کام
تھا ایک پادری کی طرف سے یہ اتہام
جتنے گواہ تھے وہ تھے سب میرے برخلاف
اِک مولوی بھی تھا جو یہی مارتا تھا لاف
دیکھو یہ شخص اب تو سزا اپنی پائے گا
اب بن سزائے سخت یہ بچ کر نہ جائے گا
اتنی شہادتیں ہیں کہ اب کھل گیا قصور
اب قیدیا صلیب ہے اک بات ہے ضرور
بعضوں کو بددُعا میں بھی تھا ایک انہماک
اِتنی دُعا کہ گھس گئی سجدے میں اُن کی ناک
القصہ جہد کی نہ رہی کچھ بھی انتہا
اِک سو تھا مکر ایک طرف سجدہ و دُعا
آخر خدا نے دی مجھے اِس آگ سے نجات
دُشمن تھے جتنے اُن کی طرف کی نہ اتفات
کیسا یہ فضل اُس سے نمودار ہوگیا
اِک مفتری کا وہ بھی مددگار ہوگیا
اُس کا تو فرض تھا کہ وہ وعدہ کو کرکے یاد
خود مارتا وہ گردن کذاّب بدنہاد
گر اُس سے رہ گیا تھا کہ وہ خود دکھائے ہاتھ
اتنا تو سہل تھا کہ تمہارا بٹائے ہاتھ
یہ بات کیا ہوئی کہ وہ تم سے الگ رہا
کچھ بھی مدد نہ کی نہ سنی کوئی بھی دُعا
جو مفتری تھا اُس کو تو آزاد کردیا
سب کام اپنی قوم کا برباد کردیا
سب جدوجہد وسعی اکارت چلی گئی
کوشش تھی جسقدر وہ بغارت چلی گئی
کیا "راستی کی فتح" نہیں وعدہ خدا
دیکھو تو کھول کر سخنِ پاک کبریا
پھر کیوں یہ بات میری ہی نسبت پلٹ گئی
یا خود تمہاری چادرِ تقویٰ ہی پھٹ گئی
کیا یہ عجب نہیں ہے کہ جب تم ہی یار ہو
پھر میرے فائدہ کا ہی سب کاروبار ہو
پھر یہ نہیں کہ ہوگئی ہے صرف ایک بات
پاتا ہوں ہر قدم میں خدا کے تفضلات
دیکھو وہ بھیں کا شخص کرم دیں ہے جس کا نام
لڑنے میں جس نے نیند بھی اپنے پہ کی حرام
جس کی مدد کے واسطے لوگوں میں جوش تھا
جس کا ہر ایک دشمن حق عیب پوش تھا
جس کا رفیق ہوگیا ہر ظالم و غوی
جس کی مدد کے واسطے آئے تھے مولوی
اُن میں سے ایسے تھے کہ جو بڑھ بڑھ کے آتے تھے
اپنا بیاں لکھانے میں کرتب دکھاتے تھے
ہشیاری مستغیث بھی اپنی دکھاتا تھا
سو سو خلاف واقعہ باتیں بناتا تھا
پر اپنے بدعمل کی سزا کو وہ پاگیا
ساتھ اُس کے یہ کہ نام بھی کاذب رکھا گیا
کذاّب نام اس کادفاتر میں رہ گیا
چالاکیوں کا فخر جو رکھتا تھا بہ گیا
اے ہوش و عقل والو! یہ عبرت کا ہے مقام
چالاکیاں تو ہیچ ہیں تقویٰ سے ہوویں کام
جو متقی ہے اُس کا خدا خود نصیر ہے
انجام فاسقوں کا عذاب سعیر ہے
جڑ ہے ہر ایک خیروسعادت کی اتقا
جس کی یہ جڑ رہی ہے عمل اُس کا سب رہا
مومن ہی فتح پاتے ہیں انجام کار میں
ایسا ہی پاؤگے سخن کردگار میں
کوئی بھی مفتری ہمیں دنیا میں اب دکھا
جس پر یہ فضل ہو یہ عنایات یہ عطا
اِس بدعمل کی قتل سزا ہے نہ یہ کہ پیت
پس کس طرح خدا کو پسند آگئی یہ ریت
کیا تھا یہی معاملہ پاداشِ افترا
کیا مفتری کے بارے میں وعدہ یہی ہوا
کیوں ایک مفتری کا وہ ایسا ہے آشنا
یا بے خبر ہے عیب سے دھوکے میں آگیا
آخر کوئی تو بات ہے جس سے ہوا وہ یار
بدکار سے تو کوئی بھی کرتا نہیں ہے پیار
تم بدبنا کے پھر بھی گرفتار ہوگئے
یہ بھی تو ہیں نشاں جو نمودار ہوگئے
تاہم وہ دوسرے بھی نشاں ہیں ہمارے پاس
لکھتے ہیں اب خدا کی عنایت سے بے ہراس
جس دل میں رچ گیا ہے محبت سے اُس کا نام
وہ خود نشاں ہے نیز نشاں سارے اس کے کام
کیا کیا نہ ہم نے نام رکھائے زمانہ سے
مُردوں سے نیز فرقہ ء ناداں زنانہ سے
اُس کے گمان میں ہم بدوبدحال ہوگئے
اُن کی نظر میں کافر و دجاّل ہوگئے
ہم مفتری بھی بن گئے اُن کی نگاہ میں
بے دیں ہوئے فساد کیا حق کی راہ میں
پر ایسے کفر پر تو خدا ہے ہماری جاں
جس سے ملے خدائے جہان و جہانیاں
*** ہے ایسے دیں پہ کہ اس کفر سے ہے کم
سو شکر ہے کہ ہوگئے غالب کے یار ہم
ہوتا ہے کردگار اسی راہ سے دستگیر
کیاجانے قدر اس کا جو قصوں میں ہے اسیر
وحی خدا اِسی رہِ فرخ سے پاتے ہیں
دلبر کا بانکپن بھی اسی سے دکھاتے ہیں
اے مدعی نہیں ہے تیرے ساتھ کردگا
یہ کُفر تیرے دیں سے ہے بہتر ہزار بار
براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ11نصرۃ الحق مطبوعہ 1908ء