درس القرآن ۔ خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد رح ۔ 1994
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ۔ یکم رمضان المبارک
12 فروری 1994ء
(ابتدا کے چند جملے نشریاتی رابطے میں خرابی کے باعث ریکارڈ نہیں ہوسکے۔ ان کے لئے جگہ چھوڑی جارہی ہے)
… امسال پاکستان سے خصوصیت سے اور بعض دوسرے ممالک سے یہ اصرار ہوا ہے کہ ہم پورا رمضان درس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اور چونکہ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے ہاں جو وقت درس سننے کا ہے وہ رخصت ہی کا وقت ہے۔ سب فارغ ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس لئے اسے مسلسل جاری رکھا جائے۔ بہرحال ان درسوں کے بعد جو سورۃ فاتحہ سے تعلق رکھتے تھے پھر ہم نے آل عمران کا درس شروع کیا۔ کیونکہ اس کے متعلق بھی باہر ہی سے یہ تجاویز آرہی تھیں کہ درس وہاں سے شروع کیا جائے۔ جہاں تفسیر کبیر کا پہلا حصہ ختم ہوتا ہے۔ اور وہ سارا قرآن کریم کا وہ حصہ تمام تر حصہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی مجبوری سے یا کسی حکمت کے پیش نظر بعد میںدرس کیلئے رکھا ہوا تھا اور ایک حصہ چھوڑ کر پھر بعد کے حصے سے نئے درس کا آغاز کردیا تھا۔ تو ہمارے احمدی دوستوں کا یہ اصرارتھا کہ اس حصے پر میں اگر درس دینا شروع کروں تو یہ تو پورا ہوجائیگا۔ چنانچہ اس مشورے کے پیش نظر جو سورۃ فاتحہ کے بعد کے درس تھے۔ وہ سورۃ آل عمران سے ہی شروع ہوئے اور اب تک آل عمران ہی جاری ہے۔ پہلے یہ درس انگریزی میں ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ زیادہ تر مخاطب احباب اور خواتین یورپ کے رہنے والے تھے جو براہ راست انگریزی میں درس سننا پسند کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے یہ خیال کیا کہ اردو میں شروع کئے جائیں تو بہت احتجاج ہوا۔ اورجو دوست انگریزی درس کے عادی تھے (امریکہ سے لیکر یورپ کے ممالک تک) سب نے اصرار کیا کہ آپ یہ خیال چھوڑ دیں اور ہمیں بھی کچھ ہماری زبان میں براہ راست خطاب چاہئے اور ترجموں میں وہ بات نہیں رہتی جو براہ راست خطاب میں ہوتی ہے۔ اس لئے انگریزی کا درس کا سلسلہ شروع ہوا لیکن اب جبکہ عالمی ٹیلی ویژن ٹرانسمیشن کے ذریعے وہ تمام علاقے جو زیادہ تر اردوسمجھنے والے ہیں اور ان کی بھاری اکثریت انگریزی میں اگر کچھ شدھ بدھ رکھتی بھی ہے تو اتنی دسترس نہیں رکھتی کہ درس کے مضمون کو انگریزی زبان میں سمجھ سکیں۔ ان کی خاطر اور اس خاطر بھی کہ جرمنی سے بارہا یہ اصرار ہوتا رہا کہ اگرچہ ہم مغربی ملک میں بس رہے ہیں۔ لیکن ابھی ہمارا یہاں بسنا اتنا لمبا نہیں ہوا کہ ہم اپنی زبان بھول کر دوسری زبانیں سیکھ چکے ہوں۔ اس لئے ہماری بھاری اکثریت ایسی ہے جو ابھی تک اردو ہی کو بہتر سمجھتی ہے۔تو آپ اگر اردو درس دیں تو ہم میں مرد عورتیں بچے بہت سی خواتین ایسی ہیں جوایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں جانتے تو ان کی خاطر آپ اردو درس شروع کردیں۔تو اب آج سے یا غالباً پچھلے سال سے بھی شروع ہو گیا تھا؟ یا پچھلے سال سے گزشتہ سال ہی سے اردو میں درس شروع ہوگیا تھا۔ لیکن امسال یہ اضافہ ہوا ہے کہ اس درس کا عرصہ بڑھا کر دو دن کے بجائے تمام دنوں پر پھیل جائیگا۔ سوائے جمعہ کے دن کے۔ جمعے کے دن کی معذرت ہے کیونکہ جمعے سے پہلے جو مصروفیتں ہیں، خاص جمعہ کے دن کی تعلق رکھنے والی مصروفیتیں ہیں وہ مانع ہیں کہ اس دن درس بھی دیا جائے۔ اس لئے جمعہ کے دن کی رخصت ہوا کرے گی۔ باقی دنوں میں انشاء اللہ ہم اکٹھے بیٹھیں گے۔
پہلے یہ بھی دستور تھا کہ اتوار کے دن سوال و جواب کا وقفہ رکھا جاتا تھا یعنی ڈیڑھ گھنٹے میں سے ایک گھنٹہ درس اور نصف گھنٹہ سوال و جواب کیلئے اور بعض دفعہ اس وقفے کو بڑھا بھی دیا جاتا تھا۔ کیونکہ سوال و جواب زیادہ ہوجاتے تھے۔ اس لئے یہ فیصلہ ابھی مشکل ہے کہ امسال سوال و جواب کیلئے کتنا وقفہ مناسب رہے گا۔ یہ بات منحصر اس بات پر ہے کہ دوستوں کے جو سوال اب آئیں گے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اندازہ لگایا جائیگا کہ کتنے عرصے میں ان سوالات کا جواب دیا جاسکتا ہے تو پھر انشاء اللہ اور آئندہ اس کے متعلق اعلان کردیا جائیگا۔
رمضان المبارک میں چونکہ دوسری مصروفیات بہت زیادہ ہوتی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی اعلان کردیا تھا انشاء اللہ رمضان المبارک میں یا تو درس کا پروگرام ہوگا یا پھر تلاوت قرآن کریم کا پروگرام ہوگا جس کومختلف زبانوں میں ترجمے کے ساتھ پیش کیا جائیگا۔ یہ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے اور ابتداء ً نسبتاً تھوڑی یعنی چند زبانیں ہی ترجمے کے ساتھ پیش کی جائینگی۔ چند زبانوں کا ہی ترجمہ تلاوت کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ بعد میں جوں جوں تیاری مکمل ہوگی انشاء اللہ اور زبانوںکو بھی داخل کیا جائیگا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قرآن کریم کا 20 وا ںحصہ 118 زبانوںمیں ترجمہ ہوچکا ہے اور ان حصوں کو اگر ترجمے کے ساتھ پیش کیا جائے تو ہر پارے کو 118 مرتبہ پڑھنا ہوگا۔ اور یہ اتنا زیادہ وقت ہے کہ ہمارا وقت اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے جو تیاری ابھی تک مکمل نہیں ہوئی اس میںایک فائدہ بھی مضمر ہے۔ ابھی ہمارے پاس ایشیا کیلئے متبادل چینلز یعنی بیک وقت مختلف صوتی پروگرام پیش کرنے کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ وڈیو میں اس وقت تک ایشیا کیلئے دو پروگرا م پیش کرنے کی سہولت ہے۔یعنی ایک تو وہ پروگرام ہے جو نظر آرہا ہے سب کو۔ اور اس کے ساتھ جو زبان چلتی ہے۔ یہ ایک پروگرام ہے۔ دوسرا پروگرام جو نظر آرہا ہے ۔ وہ تو وہی مشترک ہے لیکن آپ چاہیں تو زبان دوسری بھر دیں۔ یہ سہولت ابھی تک مہیا ہے۔ اس لئے غالباً آپ کو شروع میں 2 زبانوں پر مشتمل پروگرام ہی دکھائے جائیں گے۔ لیکن جیساکہ میں نے بیان کیا تھا وہ کمپنی جس کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے انہوں نے وعد ہ کیا ہے کہ ہم مارچ تک آپ کو بیک وقت 8زبانوں کی سہولت مہیا کردیں گے۔ اور یورپ میں بھی بیک وقت آٹھ زبانوں کی سہولت مہیا ہے تو جب بھی یہ پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ بیک وقت یورپ میں آٹھ یورپین زبانیں پیش کی جارہی ہونگی۔ اس لئے اگر مکمل ترجمہ قرآن مختلف زبانوں میں پیش کرنا ہو تو 52 زبانوںمیں ہوچکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سورۃ کو اگر 6.5 مرتبہ پڑھا جائے تو 52 زبانیں جن کے ترجمے ہم شائع کرچکے ہیں وہ ساری پیش ہوجایا کرینگی۔ لیکن ان 52 میں سے بہت سی ایسی ہیں جن کا تعلق یورپ سے نہیں ہے۔ یورپین زبانیں غالباً 16 ہیں یا کچھ زائد 18 ہیں شاید۔ جن میں ترجمے ہوچکے ہیں تو ان کے لئے ہر سورۃ کی 2 دفعہ کی تکرار کافی ہوگی۔
یعنی ایک دفعہ ایک سورۃ کو پڑھیں تو ساتھ آٹھ زبانوں میں ترجمہ ہورہا ہوگا۔ دوسری دفعہ اسی حصہ کو پڑھیں تو آٹھ مزیدزبانوں میں ترجمہ ہورہا ہوگا اور پھر 2 باقی رہ جائینگی۔ ان کو بیچ میں کہیں پھر شامل کرلیں گے بعد کے پروگراموں میں۔ تو یہ ہے آئندہ کیلئے پروگرام ۔ لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس میں بھی ابھی بہت محنت کرنی ہے۔ بہت ہی توجہ طلب کام ہے۔ اچھے قاری کی تلاش۔ اس کی تلاوت کی نوک پلک درست ہوں اور تمام قواعد جو تلاوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر پوری اترنے والی قراء ت ہو۔ پھردل پر گہرا اثر کرنے والی ہو۔ پر شوکت آواز ہو جو ٹیلی ویژن کی لہروں پر پھیلے تو جہاں جہاں پہنچے روح پر وجد طاری کردے۔ یہ ایک الگ مرحلہ ہے۔ پھر اس کے مطابق ہر زبان میں ایسا پڑھنے والا ڈھونڈنا جو اس زبان میں قرآن پڑھنے کا حق ادا کرسکے۔یہ ایک بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ اب تک جو تاخیر ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوئی ہے کہ بہت سے ایسے تراجم جو ساتھ پڑھے گئے تھے۔ہم نے انہیں منظور نہیں کیا ، قبول نہیں کیا۔ وہ قبول نہیں ہوئے کیونکہ طبیعت نے ان کو قبول نہیں کیا تھا اور مشوروں کے بعد یہی سوچا کہ کسی اور تلاش کیا جائے۔ پھر اگر وہ بھی پورا نہ اترے تو پھر کوئی اور تلاش کیا جائے۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح تلاوت سے دلوںپر اثر پڑ رہا ہے دوسری زبان میں وہ اثر بیچ میں ہی نہ گر جائے اور وہ پھسپھسی نہ دکھائی دے نہ سنائی دے۔ پس اس پہلو سے چونکہ بہت دقت طلب تو نہیں مگرمحنت طلب کام ہے اور صبر آزما ہے۔ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے احباب جماعت کو میںیہ بایتں سنا رہا ہوں تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے وعدہ کیا اور پورا نہیں کررہے اور دیر ہوگئی۔ بہت لمبی محنت اور احتیاطوں کا کام ہے۔ پھر بعض تراجمہ کی از سر نونگرانی بھی ہورہی ہے۔ بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن میں تراجم ہوئے۔ شائع کردیئے گئے انہوں نے زیادہ تر انحصارحضرت مولوی شیر علی صاحب کے ترجمہ پر رکھا۔ یا پھر ملک غلام فرید صاحب کے ترجمے پر انحصار رکھا۔ بعض دوسرے تراجم جووہ سمجھتے تھے ان کو بھی ساتھ شامل کیا۔ یہ ایک لمبا سلسلہ تھا۔ جس میں ہم نے حتی المقدور ایسے احمدی سکالرز کو داخل کیا جو عربی کا علم بھی رکھتے تھے اور ان زبانوںکا بھی۔ لیکن اس معیار کی زبان نہیں تھی کہ وہ از خود ترجمہ کرسکیں۔ لیکن سمجھتے ضرور تھے کہ یہ جو ترجمہ ہورہا ہے۔ یہ قرآن کے مطابق ہے یا نہیں ہے۔ ان تمام احتیاطوں کے باوجود میں نے محسوس کیا کہ بہت سی جگہ خلا رہ گئے ہیں اور اگر ہم دنیا کے سامنے صوتی طریق پر تراجم پیش کرینگے تو ہوسکتا ہے کہ پوری طرح قرآن کا حق ادا کئے بغیر بعض مضامین ہم بیان کردیں جن کو ترجمہ کرنے والا اچھے طریق پر بیان نہیں کرسکتا تو اس کے دو حل تجویز ہوئے جو زیر عمل ہیں۔ ایک یہ کہ تمام ایسی آیات جن میں قاری کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے بلکہ اس قاری کو بھی بعض دفعہ جو عربی اچھی طرح جانتا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اردو تراجم میں ان آیات کے سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے اور وہ ایسی غلطی ہے کہ اگر اس کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ لوگ جو اس مترجم کو اچھا بھی سمجھتے ہوں وہ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرینگے بلکہ سمجھ جائیں گے کہ ہاںیہاں کچھ تھوڑی سی کمی رہ گئی ہے۔ کچھ سقم پیدا ہوگیا ہے۔پس ایسی تمام جگہوں کا از سر نو ترجمہ ضروری تھا۔ تو ہم نے دوسری زبانوں کے ترجمے کی حقیقت سمجھنے کیلئے ان تمام آیات کا انتخاب کرکے اور یہ کافی بڑا انتخاب تھا۔ احتیاط کے طور پر جہاں بھی خیال پیدا ہوا کہ ایک براہ راست عربی نہ جاننے والا کوئی غلطی کرسکتا ہے۔ ان کا دوبارہ انگریزی میں ترجمہ کروایا اور اگر وہ انگریزی ترجمہ اس زبان سے بالکل درست تھا تو پھر ہمیں کسی فکر کی ضرورت نہیں رہتی اور اگر اس ترجمے میں ابہام تھا تو یا تو ترجمہ کرنے والے نے اس زبان سے صحیح ترجمہ نہیں کیا یا پہلا ترجمہ ہی غلط ہوگا تو اس پہلو سے پوری احتیاط کرنے کے بعد اس پر کام شروع ہوا اور جو جو انگریزی ترجمے میں غلطی نظر آئی اس کو درست کرکے اہل زبان کے سامنے وہ آیات وہ ترجمے دونوں رکھے گئے اور پوچھا گیا کہ بتائو جو پہلا ترجمہ ہے وہ اس کے عین مطابق ہے یا نہیں ہے؟ اور جو سقم سامنے آیا ہے۔ اس نئے ترجمے میں وہ دور ہوا ہے کہ نہیں؟ پس اس تسلی کے بعد ان کو مختلف ملکوں میں بھجوادیا گیا ۔ ان تصحیح شدہ تراجم کو اور تراجم کے اوپر ان کی چیپیاں وہاں لگادی گئیں کہ اصل یہ ترجمہ درست تھا یا زیادہ واضح تھا اور اس کے مطابق اب تمام دنیا کی زبانوں کے تراجم یک رنگ ہورہے ہیں۔ بعض تراجم میں اگر غلطی نہیں بھی تھی تو ایک ترجمے میں ایک طرز اختیار کی گئی ہے ۔ دوسرے میں دوسری اختیار کی گئی ہے بعد میں محققین کہیں گے کہ جماعت احمدیہ نے جو ترجمہ پیش کیا یہاں کچھ اور کیا وہاں کچھ اورکیا۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ عربی زبان میں یہ تمام امکانات موجود رہتے ہیں۔یعنی اس میں وہ گنجائش ہے وہ لچک ہے کہ بعض مترجم اگر ایک ترجمے کو پسند کریں وہ کرلیں بعض دوسرے کو پسند کریں وہ کرلیں اور ان میں تضاد نہیں ہے۔ بلکہ دو پہلو ہیں تاہم ہم نے کوشش یہی کی ہے کہ تمام دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں۔ ان میں تضاد کا تو سوال ہی نہیں ہے لیکن مضمون پیش کرنے میں جہاں تک ممکن ہو ایک ہی طرز اختیار کی جائے اور ایک ہی ترجمے کو اختیار کیا جائے جو سب سے زیادہ واضح اولیت رکھنے والا ترجمہ ہے۔ اب اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جب آپ کے سامنے بعض ترجمے پیش کئے جاتے ہیں یعنی اب کئے جارہے ہیں (انشاء اللہ) آج شروع ہوچکے ہونگے اب تو اس میں۔ اس کے پس منظر میں کتنی محنت‘ کتنی توجہ اور کتنے لمبے گہرے وقت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب خداتعالیٰ بات میں برکت دیتا ہے تو یہ کام ہوتے رہتے ہیں۔ اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ جب باقی سب دنیا کی جماعتیں بھی اس مضمون کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے دعا سے مدد کرینگی تو انشاء اللہ کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور بھی زیادہ سہولت نصیب ہوگی۔
تراجم کے سلسلے میں یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم نے ایک الگ ٹیم بنادی ہے نوجوانوں کی‘ جو خاص طور پر مترجم تلاش کرنے اور تراجم کے سلسلے میں مرکزی کارکنان کی مدد کررہی ہے۔ یہ مخلص نوجوان ہیں جو یہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھے ہوئے یا پڑھ رہے ہیں اور ان کویہ جو ظاہری تحقیق کی جو احتیاطیں ہیں۔ اتنا علم بہرحال ضرور ہے۔ ہمارے ہاں نفس مضمون پر تو بہت زور دیا جاتا ہے۔ لیکن بعض تکنیکی احتیاطیں ہیں وہ ہم اختیار نہیں کرتے۔ اس کی وجہ سے مغرب کی نظر میں ہماری تحقیق کا معیار کمزور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ جو طلباء جن کی میں بات کررہا ہوں جن کی ٹیم یہاں بنائی گئی ہے ان کو ہم اسلامی نقطہ نگاہ سے تمام باتیں بتاتے ہیں جو زیر نظر رہنی چاہئیں اور مغربی طریقہ تحقیق سے وہ کچھ پہلے واقف ہیں کچھ اور ان کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ ان کے سپرد مختلف زبانوں کے کام کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے اور وہ باقاعدہ اپنی رپورٹیں لیکر مجھ سے ملتے ہیں اور اس وقت کی صورت حال بیان کرتے ہیں۔ ایک دقت جو سردست پیش آرہی ہے جس کا ابھی تک پوری طرح حل نہیں ہوا۔ وہ یہ ہے کہ مختلف مترجمین کی قیمتیں الگ الگ ہیں وہ اجرتیں جو طلب کرتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے ناں ! کہ ہر ملک میں الگ الگ ہو ہی جایا کرتی ہے لیکن میں یہ بات کررہا ہوں کہ بعض ملکوں میں اگر 100 ہے تو بعض میں 5 ہے ۔ اور اتنا زیادہ فرق ہے کہ ہم آنکھیں بندکرکے 100 والے کی آفر کو قبول نہیں کرسکتے۔ اس کی پیشکش لینے کے بعد پھر تلاش کرتے ہیں کہ شاید اس سے اچھی پیشکش کسی اور جگہ سے مل جائے اور یہاں معیار کے فرق کی وجہ سے نہیں ہے یعنی علم کے معیار میں کمی کی وجہ سے قیمت نہیں گرتی بلکہ اقتصادی نظام میں قیمتوں کے گرنے سے یہ قیمت گرتی ہے۔ پس وہ ایسے تمام علاقے جہاں مغرب کے مقابل پر اقتصادی نظام ہے وہ نسبتاً ادنیٰ مقام پر ہے۔ اور اس کے مطابق پر قیمتیں بھی کم ہیں ۔ ان علاقوں میں ایسے علماء کی تلاش کرنی چاہئے اگر موجود ہوں اور یہ علماء جو ہیںاس قسم کے ہر جگہ پھیلے پڑے ہیں۔ اب روس سے یا روس نہیں کہنا چاہئے جو رشین ریپلک کی تھی USSRکی، جس میں روسی غیر روسی سب قومیں شامل ہیں ان میں موجودہ زمانے میںبہت حد تک باہر جاکربہتر ذرائع معیشت ڈھونڈنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔وہ پاکستان بھی پہنچ گئے۔ انڈیا بھی پہنچ گئے ہیں اور دوسرے ممالک میں بھی جارہے ہیں اور ان میں بڑے صاحب علم لوگ ہیں۔ علم کا معیار اللہ کے فضل کے ساتھ USSR میں بہت اونچا ہے۔ کیونکہ ان کوگویا جس طرح کیڑیاںکام پہ لگی رہتی ہیں۔ اس طرح مختلف علمی اداروں میں جھونک دیا گیا اور کسی چیز کو ہوش ہی نہیں رہی۔ چنانچہ بہت بڑی تعداد ایسے علماء کی آپ کوروس میں ملتی ہے جو اپنے اپنے مضمون میں بڑے ماہر ہیں بلکہ اس کے علاوہ دوسرے مضامین میں بھی بڑی قدرت رکھتے ہیں۔ زبانوں کے بڑے بڑے ماہر وہاں موجود ہیں اور وہاں ان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ روس میں اگر ان تک پہنچا جاسکے تو ٹھیک ہے۔ لیکن آج کل روس میں مقیم باشندوں کو امریکن ڈالر بہت دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے جب کوئی باہر والا ان سے پوچھتا ہے تو اپنی موجودہ قیمت سے 50 ۔ 100 گنا بڑھا کر بتاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں جو بھی باہر سے آتا ہے امریکن ڈالر لے کے آتا ہے۔
اس لئے یہ جو باہر جاچکے ہیں ان ملکوںمیں انہوں نے جو اپنے نئے معیار ذھنی طور پر قائم کرلئے ہیں کہ ہماری محنت کا یہ پھل ملنا چاہئے۔ وہاں اچھے لوگ مل سکتے ہیں۔ اس لئے ان پر نظر رکھیں۔ اسی طرح عرب دنیا میں ہر طرف پھیلے پڑے ہیں۔ ہمیں اچھے عربی دانوں کی بھی ضرورت ہے۔ ترکی زبان کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن ہر زبان کے ماہرین میں شرط یہ ہے کہ انہیں ایک دوسری زبان اچھی طرح ضرور آتی ہو۔ یا عربی یا اردو یا انگریزی کیونکہ زیادہ تر ہمارے تراجم یا ہماری کتب انہیں زبانوںمیں ہیں۔ اسی طرح اس وقت French میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی تیاری ہوچکی ہے۔ جرمن زبان میں بھی ہے تو اگر دوسری زبانیں نہ آتی ہوں تو یورپ کی بعض دوسری زبانوں سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ تو قرآن کریم کے تراجم پر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے از سر نو بہت احتیاط کی نظر ڈالنے کی خاطر ہمیں ان ماہرین کی ضرورت پیش آرہی ہے اور یہ ضرورت بڑھے گی اور اس کا تعلق صرف یورپ سے نہیں افریقہ میںبھی بہت سی غلطیاں،بہت سی نہیں تو کئی جگہ غلطیاں راہ پا گئی ہیں اور ان کی درستی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ جب میں نے قرآن کریم طبع ہونے کے بعد دوبارہ نگرانی کروائی ۔ پیشتر اس کے کہ ان کی اشاعت کی جائے تو بعض تراجم ایسے تھے کہ جن کے متعلق یہی فیصلہ کیا گیا کہ ان کو نہ تقسیم کیا جائے جو اشاعت طباعت کا نقصان ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے مقابل پر کہ نعوذ باللہ قرآن کریم کا کسی جگہ غلط تاثر پیدا ہوجائے۔ اس کے بدلے پھر نئے تراجم بھی کرائے گئے ہیں۔ پھر بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ بعض علماء جلدی سے جماعت احمدیہ کے تراجم پر حملے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں آپکو بتادوں کہ جہاں تک اس قسم کی انسانی کمزوری کی غلطیا ںہیں وہ ہمارے تراجم میں بہت کم ہیں میں جب انہیں بڑھا کر بیان کررہا ہوں تو آپ یہ نہ سمجھ لیںکہ دیگر تراجم ان باتوں سے پاک ہیں اور ہمارے تراجم میںیہ غلطیاں ہیں۔ دیگر تراجم اس قسم کی بے اختیار غلطیوں سے بھی پُر ہیں اور دانستہ غلطیوں سے بھی پُر ہیں۔ یعنی قران کریم کی بعض آیات کا ایسا خوفناک ترجمہ کیا جاتا ہے کہ جس سے جوغیر مسلم ہیں۔وہ قرآن کی طرف مائل ہونے کے بجائے اس سے بِدکتے ہیں اور اسلامی تعلیم سے متاثر ہونے کے بجائے اس سے بھاگتے اور متنفر ہوتے ہیں اور بعض تراجم ایسے ہیں کہ جس کی کچھ سمجھ نہیں آئی کسی کو کہ یہ ہے کیا ہیں لیکن آنکھیں بند کرکے اسی طرح کردیئے گئے ہیں۔ بعض تراجم ایسے ہیں جو اس زمانے کی غلطیوں کی طرف لے جاتے ہیں جو بائبل کا زمانہ تھا اور بائبل کے زمانے کے بگڑے ہوئے عالمی تصور کو قرآن کی طرف منسوب کرکے نعوذ باللہ من ذالک اس کواس زمانے میں لے آئے ہیں۔ جبکہ بائبل پر تنقید ہونی چاہئے تھی نہ کہ قرآن پر۔ لیکن بائبل سے ایک مضمون اٹھایا ہے جسکو قرآن نے بیان ہی نہیں کیا اور زبردستی قرآن کی بعض آیتوں کی طرف منسوب کردیا ۔تو یہ چیز ناقابل برداشت ہے۔ اس لئے جب میں اپنے اوپر تنقید کررہا ہوں تو یہ تنقید خالصتاً تقویٰ پرمبنی ہے۔ اپنی ذات کے اوپر اگر آپ تنقید نہ کریں اور صرف دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنائیں توکبھی آپ ترقی نہیں کرسکتے۔ آپ کی اصلاح نہیں ہوسکتی مگر اس تنقید سے کوئی دشمن غلط معنی نہ نکالے۔ یہ نہ سمجھ لے کہ ہم نے اقرار کرلیا ہے کہ ان کے تراجم تو بہترین ہیں۔ ہمارے تراجم میں غلطیاں ہیں۔ اول تو مقابلہ اس لئے نہیں ہوسکتا کہ جتنے تراجم ہم کر بیٹھے ہیںاللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ گزشتہ چودہ سو سال میں تمام دنیا کے مسلمانوں کو مل کر بھی اتنے تراجم کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ اس لئے بہت سارے حصے تو ہیں ہی بغیر مقابلے کے۔ لیکن جہاں مقابلہ ہے وہاں ہر پڑھنے والا جانتا ہے اور تمام اہل علم ابھی تک ہمارے ترجموں پر یہ تبصرے کرچکے ہیں کہ ہم نے جو موازانہ کرکے دیکھا ہے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔بہت واضح ہے مثلاً چینی زبان میں جو ترجمہ ہے اس میں بہت سے علماء نے ایسے مثبت تبصرے لکھے ہیں وہ کہتے ہیں اب ہم پر قرآن کی شان روشن ہوئی ہے۔ تو یہ جو میرا اقرار ہے اور اعتراف ہے کمزوری کا، یہ تو ویسا ہے جیسے قرآن کریم کا حکم ہے اور انبیاء بھی ہمیشہ اعتراف گناہ کرتے رہے جبکہ گناہ نہیں بھی کیا تھا۔ مگر ہم سے تو کمزوریاں ظاہر ہوئی ہیں اس لئے یہ اعتراف ہم پر لازم ہے اور اس اعتراف کے نتیجے میں حسن عطا ہوگا اور ہمارا کام بہتر ہوگا جیسا کہ اُن آیات میں اس مضمون کا ذکر ملتا ہے جو اب میں آپ کے اب سامنے پیش کرنے لگا ہوں۔
مَا کَانَ قَوْلَھُم ْاِلَّا اَنْ قَالُوْا رَبَّناَ اغْفِرْ لَناَ ذُنُوْبَناَ وَ اِسْرَافَناَ فی اَمْرِناَ وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَناَ وَانْصُرْناَ عَلیَ الْقَوْمِ الکٰفِرِیْنَ O سورۃ اٰلِ عمران 148 آیت
اُن کا قول اس کے سوال کچھ نہیں تھا کہ انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہمیں بخش دے۔ کیا بخش دے؟ ’’ذُنُوْبَناَ‘‘ ہمارے ذُنُوْب بخش دے۔ ذنوب کیا ہوتے ہیں اس کی گفتگو میں ابھی کروں گا۔ اس پر میں ابھی گفتگو کروں گا عام طور پر اس کا ترجمہ گناہ کیا جاتا ہے مگر یہ لفظ بڑا وسیع ہے گناہ عمد پر بھی اطلاق پاتا ہے اور انسانی بشری کمزوریوں پربھی اطلاع پاتا ہے اور ایک انسان کی بے بسی پر بھی اطلاق پاتا ہے اگر وہ اس کا مرتبہ بے اختیاری کی حالت میں بھی ردّی مرتبہ ہے۔ وہ ایسی جگہ سے قوم سے آیا ہے جسے کوئی فضیلت حاصل نہیں تو اس پر بھی یہ لفظ اطلاق پاتا ہے۔ پس ہمارے ذنوب ہمیں بخش دے۔ ’’ وَ اِسْرَافَناَ فی اَمْرِناَ ‘‘ اور ہمارے معاملات میں ہماری زیادتیاں ہمیں معاف فرما۔ وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَناَ اور ہمارے قدمو ںکو ثبات بخش۔ وَانْصُرْناَ عَلیَ الْقَوْمِ الکٰفِرِیْن۔ اور ہمیںکافروں کی قوم پر نصرت عطا فرما۔
اس میں سب سے پہلے تو لغت کے حوالے سے بعض الفاظ کے زیادہ وسیع معنے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔تاکہ آپ کو علم ہو کہ قرآن کریم کی زبان میں جو لفظ مستعمل ہیں ان کا دائرہ اثر کتنا وسیع ہے۔ اور ان سب معانی کو پیش نظر رکھا جائے جو ترجمے کے علاوہ معانی پائے جاتے ہیں جو سیدھا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ تو قرآن کریم کے مضمون میں بہت وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ وسعت تو ہے پہلے ہی۔ قرآن کریم کے مضمون کو سمجھنے میں بہت وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔
ذَنْب’‘ : سب سے پہلے اس کا سادہ ترجمہ میں مفردات راغب کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جب اس لفظ کا ’’ن‘‘ ساکن ہو تو اس کے معنے گناہ کے ہوتے ہیں اور اس کی جمع ذُنُوْب آتی ہے ’’ذال‘‘ کی پیش کے ساتھ۔ذَنوب نہیں بلکہ ذُنوب مفردات امام راغب میں ’’ یُسْتَعْمَلْ فِی کُلّ فِعْلٍ یْسْتَوخَمُ عُقْبَاہُ‘‘
بیان ہوا ہے یعنی ہر وہ فعل جس کا نتیجہ خراب ہو ذَنْب’‘کہلاتا ہے۔ یعنی قطع نظر اس کے کہ وہ گناہِ عمد ہے کہ نہیں ہے۔ ہر وہ فعل جو نتیجہ کے لحاظ سے ناقص ہو۔ اور کوئی نقصان ظاہر کرنے والا ہو ہر اس فعل کو ذَنْب کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا
’’فَاَخَذَھُمْ اللّٰہُ بِذُنُوْبِھِمْ وَ اللّٰہُ شَدِیدُ الْعِقَابِ‘‘ (آل عمران آیت نمبر ۱۲)
پھر فرمایا
فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ (العنکبوت آیت نمبر 41)
ذنب ان کا ترجمہ یہ ہے اَخَذَھُمُ اللّٰہُ بِذُنُوبِھِمْ ......کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑ لیا ان کے ذنوب کے سبب سے۔
’’ وَ اللّٰہُ شَدِیدُ الْعِقَاب‘‘ اور اللہ پکڑ میں بہت سخت ہے۔ میں نے کہا کہ یہ آیت نکالیں۔ آل عمران آیت۱۲
پھر عنکبوت آیت 41 میں فرمایا ہے۔پھر اللہ نے ان کو ان کے ذنوب کی وجہ سے پکڑ لیا نہ دوسری جگہ فکلا اخذنا بذنبہ
’’ ہم نے سب کو ان کے ذَنْب کی وجہ سے پکڑ لیا‘‘
امام راغب لکھتے ہیں کہ ’’ذَنَب’‘ ‘‘ یعنی نون کے اوپر زبر کے ساتھ جب پڑھا جائے تو اس کے معنے دُم کے ہوتے ہیں اور پیچھے رہنے والا اور ذلیل کے بھی ہوتے ہیں ۔ اس کی جمع ’’اَذْناَب‘‘ آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’ھُمْ اَذْنَابُ القومِ‘‘
یعنی وہ قوم کے نوکر اور ذلیل لوگ ہیں۔استعارہ کے طور پر ’’مَذَانِبُ الطّلاَئِ‘‘
ٹیلوں سے پانی بہنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور دم کی گیلی جگہ کو کہتے ہیں۔ یعنی وہ نچلا حصہ جہاں پانی کا اثر دیر تک رہتا ہے اس کا اثر۔ اور نمی اوپر کے حصوں سے بہتے بہتے نچلی راہوں پر اکٹھی ہوجاتی ہے جہاں سے پانی بہہ کر گزرتا ہے۔ اور وہ آخر تک گیلا رہتا ہے۔ تو کسی اثر کے لمبا ہونے کو اور اس کے آخری حصے کو گویا ’’ذَنَب‘‘ کہا جاتا ہے۔کہاں ہے وہ آیت؟
٭کَدَابِ آلِ فِرْعَوْنَ والَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کَذَّبُواْ بِآیٰتِنَا۔
٭’’فَاَخَذَھُمْ اللّٰہُ بِذُنُوْبِھِمْ وَ اللّٰہُ شَدِیدُ الْعِقَابِ‘‘
یہاں فرمایا گیا ہے ’’اسی طرح فرعو ن کی قوم کے طریق پر جو انہوں نے اختیار کیا بدی کا اور گناہ کا۔ والذین من قبلھم اور اُن لوگوںکے طریق پر جو اس سے پہلے تھے۔ ’’ کَذَّبُواْ بِآیٰتِنَا‘‘ ان لوگوں نے بھی ہمارے نشانات کو جھٹلادیا ہے۔ یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو مخاطب ہیں انہوں نے فرعون کی پیروی کی ہے اور آلِ فرعون کی یا ان بدوں کی جو ان سے پہلے گزرے تھے۔ پس ان کو تو اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا تھا۔ ان کو کیوں چھوڑے گا؟
جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار میں ان بدکرداروں کے کردار کی پیروی کرتے ہیں۔ پس یہاں ذَنْب سے مراد ہر قسم کے وہ گناہ جو انبیاء کے مخالفین کرتے ہیںوہ ہیں وہ اس لفظ کے اندر داخل ہیں اس لئے ذَنْب کا یہ ترجمہ کرنا کہ ’’ہماری انسانی کمزوریاں‘‘ یہ درست نہیں ہے۔ صرف اس موقع پر درست ثابت ہوتا ہے جب ایک ایسے شخص پرذَنْب کا لفظ بولا جائے جس کا معصوم ہونا دیگر دلائل سے قطعی طور پر ثابت ہو۔ جس کے متعلق قرآن دوسری جگہ گواہی دیتا ہو کہ یہ شخص معصوم ہے۔ جیسا کہ انبیاء علیھم السلام پس وہاں ذَنْب کا سب سے ہلکا معنیٰ لینا ہوگا اور ذنب کا سب سے ہلکا معنی یہ ہے کہ وہ کمزوریاں جو انسان کے ساتھ لگی رہتی ہیں۔ گناہ تو نکل گیا اس کی دُم ضرور باقی رہ جاتی ہے۔
پس وہ دم جو آخر پر پیچھے رہ جائے اس کو ذَنْب کہا جاسکتا ہے۔ پس ایک نبی کیسا ہی پاک ہو۔ کچھ نہ کچھ بشری کمزوری کچھ ’’ذھول‘‘ اس میں ضرور داخل ہوتا ہے۔ پس جب حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ’’اَسْتَغْفِرْاللّٰہَ رَبّیِ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ‘‘ فرمایا کرتے تھے یا خداکے حضور عرض کرتے تھے تو نعوذ باللہ یہ مطلب تو نہیں کہ ایک عام گناہ گار انسان اپنے گناہ یاد کررہا ہے جن کا دائرہ ہی بہت وسیع ہے۔ اکثر بھول بھی چکا ہوتا ہے پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں گناہ کربیٹھاہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب آتا ہے تو وہ باریک ترین پہلو ذنب کے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر ہوسکتے ہیں۔ جن پر غیر کی نظر تو نہیں مگر آپ کی اپنی نظر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھتے ہیں کہ اس سے بہتر نتیجہ فلاں صورت میں نکل سکتا تھا۔ معصومیت کا یہ مطلب نہیں کہ انسان ایسی کمزوریوں سے جو بغیر گناہ کے ہیں جن میں عدم اطاعت کا کوئی شائبہ بھی نہیں ان سے بھی پاک ہے۔ پس معصومیت کا معنیٰ سمجھ جائیں تو ذنب کا معنیٰ زیادہ واضح ہوجائے گا۔ مثلا" حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض دفعہ نماز کی رکعت میں بھول جاتے تھے اور بعض دفعہ صحابہ کو یاد دلانا پڑتا تھا۔ ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کے۔ ثابت ہے کہ بعض دفعہ نماز کے بعد بیٹھ کر مُڑ کے پوچھتے تھے کہ کیا غلطی ہوئی تھی بتائو؟ وہ بتاتے تو پھر اس کو قبول فرماتے یا رد فرماتے جیسی بھی صورت تھی۔اور اس کی تصحیح فرمادیتے۔ تو اسی طرح کے معاملات ذھول کے اور اس سے ملتے جلتے ……
(نوٹ: یہاں پھر رابطے میں خرابی کے باعث چند جملے Miss ہیں)
پس جب انبیاء کی بات کرتے ہیں تو ان کی شان کے مطابق بات ہوتی ہے اور موقعہ اور محل کے مطابق ترجمہ ہونا چاہئے۔ پس اس پہلو سے یہ جوآیت زیر نظرہے اس میں ذَنْب کا وہ معنیٰ جو شدید ہے ان لوگوںکے متعلق لیاجائیگا۔ کیونکہ سارے اعتراف کررہے ہیںجنہوں نے واقعی گناہ کئے تھے اور وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔ اور سب سے ہلکا معنیٰ ان لوگوں کے متعلق لیا جائیگا جو اپنی معمولی بشری کمزوریوںکو بھی جو خدا کی نظر میں ہرگز گناہ نہیں ہیں۔ انکو بھی گناہ سمجھ کر پیش کئے جارہے ہیں اور عرض کرتے ہیں ۔ اے اللہ ! ہمیں معاف فرمادے اور اس بھُول چُوک کے نتیجے میں اگر کچھ غلط اثرات ظاہر ہوجائیں تو ان کے لئے بخشش مانگنا ضروری ہے محض انکسارکی بات نہیں ہے۔
ایک ڈرائیور ہے وہ جان بوجھ کر تو ایکسیڈینٹ نہیں کرتا، غلطی ہوسکتی ہے اور اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہوسکتا ہے۔ اتنا بھیانک کہ بعض دفعہ بالعمد غلطی کرنے والے سے بھی بعض دفعہ ایسا خطرناک نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا۔ جو ایک معصوم غلطی کرنے والے سے ہوجاتا ہے۔ اس لئے یہ بھی کہنا درست نہیں کہ وہ محض انکساری کے طور پر ایک بے ضرورت بات کرتے ہیں کیونکہ انبیاء کی طرف بے ضرورت بات بھی منسوب نہیں ہوسکتی۔ یہ بات توارادے کے ساتھ کررہے ہیں۔ اس لئے اس میں حکمت ہے۔ اور حکمت یہ ہے کہ بغیر گناہ کے انسانی غلطیاں بعض خطرناک نتائج پر منتج ہوسکتی ہیں۔ ان کا نتیجہ خطرناک نکل سکتاہے۔ اس لئے انبیاء کا اپنے لئے بخشش طلب کرنا۔ جاہل لوگ نہیں سمجھتے کہ ساری قوم کیلئے بھلائی مانگنے کے مترادف ہے۔ اپنے آپ کو خدا کے حضور گرا کر بعض جاہلوں کی نظر میں اپنے آپ کو بہت کمزور اور غلطیوں سے پُر دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جانتے ہیںکہ اس کے نتیجے میں لوگ طرح طرح کی باتیں بھی بنائیں گے۔ قرآن آگے اس بات کو خوب کھول رہا ہے۔ لیکن جانتے ہیں یہ بھی جانتے ہیںکہ اگر ہم خدا کے حضور گریں گے اوران غلطیوں کے متعلق معافیاںمانگیں گے جو ہم نے جان کرنہیں کیں۔ تو وہ قادر مطلق ہے اسکے اختیار میں ہے کہ اس کے بدنتائج سے اس قوم کو محفوظ رکھے جو ہمارے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ پس یہ ایک محض انکساری کا معاملہ یاایک ذاتی معاملہ نہیں رہتا۔ایک قومی فریضہ بن جاتا ہے جو ہر لیڈر کیلئے لازم ہے۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں ہرشخص ایک لیڈر بھی ہے اور جواب دہ بھی ہے۔
’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّ کُلُّکُمْ مَسْئُوْل’‘ عَنْ رَعِیَتِہٖ‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ’’تم میں سے ہر شخص ایک گڈرئیے کی طرح ہے جس کے سپرد کسی کی بھیڑیں کی گئی ہوںاور ان بھیڑوںکا حساب طلب کیا جائیگا۔ ایک تو مالک ہے اس کی بھیڑیں ہیں وہ کوئی کھاجائے نہ کھائے وہ خود جانتا ہے کسی کو جواب نہیں دیتا۔ لیکن یہاں جو ہم مالک ہیں یہ عارضی ہیں۔ اس لئے ہر وہ چیز جو ہمارے سپرد ہے ہمارے پاس امانت ہے وہ اللہ کی امانت ہے۔ اس سلسلے میں جواب دہ ہونگے۔ پس یہ مضمون ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم نے فلاح حاصل کرنی ہے اور عظیم الشان کامیابیاں حاصل کرنی ہیں تو جس جس دائرے میں خواہ وہ چھوٹا دائرہ ہی کیوں نہ ہوہمارے سپرد کوئی ذمہ داریاں کی گئی ہیں وہاں یہ نہ دیکھیںکہ ہم سے تو کوئی ایسی غلطی نہیں ہوئی کہ ہم پکڑے جائیں یا ہم سے کوئی پوچھے۔ اور بہت سے دنیا کے لوگ ہیں بھاری اکثریت جو اسی خیال میں مگن زندگی گزار دیتے ہیں کہ ہم نے کونسی غلطی کی ہے۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ لیکن قرآن کا مضمون بہت ہی لطیف ہے۔ انبیاء سے استغفار کا معنیٰ سیکھیں گے تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ آپ سے جو غلطیاں ہوتی ہیں اگر استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے بد نتائج کو ٹال دے گا اور اس برکت سے محرومی کی حالت میں بدنصیب دنیا کی اکثریت اپنی عمریں ضائع کردیتی ہے اور اپنے گرد و پیش اپنے ماحول اور ان لوگوں کو جو انکے پیچھے چلتے ہیں ان کو طرح طرح کے نقصانات پہنچانے کا موجب بن جاتے ہیں۔ جبکہ ارادہ نہیں تھا۔ پس یہ ہے ذَنْب کا معنی جو قرآن کے مطالعہ سے اور انسانی فطرت کے مطالعہ سے اُبھرتا ہے۔
اب میں بعض دوسرے مفسرین کا مختصر ذکر کرتا ہوں۔ یا عربی لغت کے حوالے سے بات بڑھاتا ہوں۔ ’’غریب القرآن فی لغات الفرقان‘‘ میں بنو ھندیل کے متعلق لکھا ہے کہ انکی لغت میں ذَنُوْب بمعنیٰ عذاب مستعمل ہے۔ لفظ ذُنوب نہیں بلکہ ذَنوب دُموں کی بجائے ذَنُوب عذاب کو کہتے ہیں۔ مگر اس کا یہاں سرِدست کوئی تعلق نہیںہے۔اس کا اطلاق نہیں ہوتا
اِسراف’‘:اسراف سے کیا مراد ہے ؟ دعا میں یہ آتا ہے کہ
’’ربَّنا اغفرلنا ذنوبنا ذنوب کے بعد آتا ہے و اسرافنا فی امرنا ‘‘
اور ہمارے اپنے معاملات میں ہم نے جو اسراف کیا ہے۔ اگر ذنب کا وہ معنیٰ یہاں نہ لگتا ہو جو میں نے بیان کیا تھا تو اسراف یہاں بے محل اپنی Position کے لحاظ سے بے محل دکھائی دیتا ہے۔ اسراف کا مطلب ہے ہم نے زیادتی کی ہے اور عدل سے ذرا ہٹ گئے ہیں۔ یہ جو دعا ہے ’’اسرافنا فی امرنا‘‘ اس میں بھی دو پہلو ہیں۔ ایک معصومیت کا اور ایک بلارادہ عدل سے ہٹنے کا۔ قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ والہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تو یہ ضمانت دی ہے کہ وہ عدل سے کبھی نہیں ہٹے۔ کیونکہ آپ کو ایک ایسے رسول کے طور پر پیش کیا ہے جس کے متعلق فرمایا ہے۔ ’’لاَعِوَجَ لَہُ‘‘ اور عدل سے ہٹنے کا مضمون عِوَجْ کا مضمون ہے۔کوئی ٹیڑھا پن داخل ہوجائے تو عدل سے ہٹ جاتا ہے اور عدل دراصل صراط مستقیم ہی کا دوسرا نام ہے۔ یعنی ایسی راہ اختیار کی جائے جو ہر قسم کے بل اور فریب سے کلیتہً پاک ہو۔ پس اس معنیٰ میں تو یہ لفظ انبیاء پر اطلاق پا ہی نہیں سکتا۔ خصوصاً حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیونکہ آپ کے متعلق قرآن کریم گواہی دیتا ہے ’’لا عِوَج لہُ‘‘ وہ ایسا رسول ہے جس میں کوئی عدل سے ہٹی ہوئی بات تم نہیں دیکھو گے پھر دوسری جگہ فرماتا ہے ۔ ’’لَا شَرْقِیَّۃً وَّلَا غَرْبِیَّۃ‘‘اس میں تو اتنا بھی عدل سے ہٹا ہوا میلان نہیں کہ کچھ زائد مشرقیوںکی طرف ہوجائے۔ یا کچھ مغرب سے متاثر ہوکر مغرب کی طرف جھک جائے۔ وہ ایسا نور ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان اسی طرح یکتا ہے اور دونوں کے درمیان اسی طرح مشترک ہے جیسے سورج چمکتا ہے۔ تو مشرق پر بھی ویسا ہی چمکتا ہے جیسا مغرب پر چمکتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کا نور ہے اس لئے اللہ کا نور سمتوں میں تفریق نہیں کیا کرتا۔ پس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ والہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جب بھی ان دعائوں پر غور کریں گے تو آنحضرت صلی اللہ والہ علیہ وآلہ وسلم پر اطلاق پانے والا وہ معنیٰ لیا جائیگا جو قرآن کی دوسری آیات کے مطابق ہو۔ ان سے ہٹ کر نہ ہو۔ ہر معنیٰ محل کے مطابق ہونا چاہئے اور اس کی گنجائش ہوتی ہیں۔ اب میںپہلے اسراف کی بات کرلوں پھرآگے چلتا ہوں۔قرآن کریم نے اس لفظ کو انہی معنوں میں استعمال کیا ہے جو میں بیان کرچکا ہوں یعنی عدل سے ہٹی ہوئی بات یا ایک ہوجانا یا دوسری طرف ہوجانا۔
’’ والذین اذا انفقوا لم یسرفوا‘‘
جب وہ لوگ خرچ کرتے ہیں مومن تو اسراف نہیں کرتے یعنی وہ حد سے زیادہ بے محل خرچ نہیں کرتے۔
’’ولا تاکلوھا اسرافا و بدارا‘‘
یہاں بھی لفظ اسراف انہی معنوں میں آیا ہے کہ اسے حد سے زیادہ ضرورت سے زیادہ‘ جواز سے زیادہ طریق پر نہ کھائو۔
’’ما انفقت فی غیر طاعۃ اللّہ‘‘
یہ ترجمہ بھی مفردات راغب میں ملتا ہے کہ سفیان نے کہا ہے کہ اس کاحقیقی معنیٰ یہ ہے کہ
ما انفقت فی غیر طاعۃ اللّہ فھو سرف و ان کان قلیلاً
کہ جو کچھ بھی اللہ کی اطاعت سے ہٹ کر خرچ کیا جائے چاہے وہ خواہ تھوڑا بھی ہو اسراف کہلاتا ہے۔
ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین
اور تم اسراف نہ کرو۔اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔
فلا یسرف فی القتل ۔ (یہ بنی اسرائیل کی آیت 34)
اس میں عام طور پر مفسرین اس کا معنی یہ لیتے ہیںکہ اس میں ایک عرب جاہلانہ رسم کی طرف اشارہ تھا طریق کی طرف اشارہ تھا کہ جب ان کی قوم کو کسی اور کا کوئی آدمی قتل کردیا کرتا تھا تو بجائے اس کے کہ وہ قاتل کے قتل کا مطالبہ کریں وہ ا ن میں سے شریف آدمی پر انگلی رکھتے تھے کہ یہ ہے ہمارا قاتل۔ تو اس کو اسراف فی القتل بیان فرمایا گیا ہے۔ یہ وہ بے ہودہ رسم ہے جو عرب سے نہیں بلکہ جہالت سے تعلق رکھتی ہے۔ آج جو تیسری دنیا کے ممالک ہیں ان میں خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں تو یہ روزمرہ کا دستور ہے کہ کہیںکوئی قتل ہوا تو نام مشوروں کے بعد لکھوائے جاتے ہیں کہ جی اب موقعہ ہے اب اپنے مخالف سے بدلے اتار لو بعض دفعہ عمداً قاتل کو جانتے ہوئے اس کو چھوڑ کر اپنے ایسے دشمنوں کا نام لکھوایا جاتا ہے۔ جو انکے نزدیک زیادہ اس بات کا اہل ہے کہ اسے برباد کیا جائے۔چنانچہ چوٹی کے ان لوگوں کے شرفاء کے نام اور جہاں ان کا بس چلے احمدیوں کے نام بھی بیچ میں داخل کردیتے ہیں کہ اچھا چلو اس… میں وہ بھی ساتھ ہی نکل جائیں ۔ یہ جہالت کی رسمیں ہیں اور قرآن کریم اس کی شدت سے مناہی فرماتا ہے۔
ولا تسرفوا فی القتل
اگر تم مومن ہو۔ اگر حقیقت میں اسلام سے تعلق ہے تو ہر گز قتل کے معاملے میں کوئی اسراف نہ کیا کرو۔
یہ دونوں باتیں امام راغب کے نزدیک عربوںمیں رائج تھیں پس آج کی دنیا خواہ وہ کسی مذہب کی طرف منسوب ہورہی ہو۔ دراصل اس مشترک مذہب کی طرف لوٹ رہی ہے جسے جہالت کا مذہب کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ وہ یہودی ہوں خواہ وہ ہندو ہوں جب بھی وہ ان رسموں کی طرف لوٹتے ہیں تو یہ ایک مشترکہ مذہب ہے جس کو قرآن کریم جاہلیت کہتا ہے اور جہالت کا مذہب سب سے گندا مذہب ہے اور اس کے نام مختلف ہوجاتے ہیں۔ اب پاکستان میں مسلمان کہلاتے ہیںلیکن کرتے وہ ہیں جو بھاری تعداد سب نہیں ،مفردات غریب القرآن کے اس بیان کے مطابق ہیں۔
وہ جاہل عرب شریف کو قتل کیاکرتے تھے یا قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کرتے تھے۔
یعنی یا قوم کا شریف آدمی مانگتے تھے اپنے قتل کے مقابل پر ۔ یا بالکل کسی اور کا نام لے لیا کرتے تھے جس کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ یہ بظاہر ایک ہی بات ہے لیکن ایک بات نہیں ہے۔ جب کہتے تھے ’’شریف‘‘ تو پتہ ہوتا تھا کہ قاتل کون ہے اور مطالبہ کرتے تھے سب سے اونچے آدمی کا اور بعض دفعہ پتہ نہیں ہوتا تھا تو پھر کسی کا نام لے دیتے تھے کہ کچھ تو ملے گا اور اس بیچارے کو خوامخواہ بے گناہ قتل کروادیا کرتے تھے۔
اَسْرَفَ فِی کَذَا کے معنی ہیں جَاوَزَ الْحَدَّ : اس نے حد اعتدال سے تجاوز کیا۔ اَخْطَاَئَ ۔ جَھِلَ۔ غَفَلَ یہ اقرب الموارد میں مختلف معنی لکھے ہیں۔
سُرْفَۃ’‘ : سرخ جسم ‘ سیاہ سر والا کیڑا جو درخت کے پتے کھاتا ہے اس کو ’’سُرْفَہ‘‘ کہتے ہیں۔اور عام طور پر عربی میں لفظ کو خواہ کسی صورت میں ڈھالا جائے اس میں بنیادی معنے شامل رہتے ہیں۔پس وہ درخت کے ساتھ اسراف کرتا ہے۔ اس کی ساری شان و شوکت اور بہار کو کھا جاتا ہے اور اسے پھل کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ اس لئے اس کیڑے کو جس کا کام ہی پتے چرنا ہے اس کو اس درخت کا سُرفہ کہتے ہیں۔
’’اَسْرَفَ عَلیٰ ‘‘کسی فعل میں حد سے گزر جانا۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے۔
قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللّٰہ
تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
یہاں وہ دوسرا معنیٰ ہمارے سامنے آیا ہے جس کا تعلق دوسروں سے اسراف سے نہیں ہے جو گناہ ہے۔ بعض لوگ اپنے نفس سے اسراف کرتے ہیں اور ان معنوںمیں ان کا اسراف ایک نیکی بن جاتا ہے لیکن اس کے بداثرات کچھ نہ کچھ نفس پر ضرور ظاہر ہوتے ہیں۔ بہت سی اس سے تکلیفیں نکلتی ہیں۔ اس لئے وہ لوگ جو خداکے پاک بندے ہیں جو گناہ کی خاطر اسراف نہیں کرتے بلکہ نیکی کی خاطر اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ان کے لئے بھی قرآن کریم میں لفظ اسراف استعمال ہوا ہے۔
قُل یعبادی الذین کتنے پیار سے اپنی طرف ان کو منسوب فرمایا ہے۔
بارے میں اپنے کہہ دے اے میرے بندو ! الذین اسرفوا علی انفسھم جنہوں نے اپنے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی سختی کی راہ اختیار کی کہ گویا اپنے نفس کے ساتھ عدل نہیں کرسکے۔ ان سے کہہ دو کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور یہ تم سختیاں جس کی خاطر کرتے ہو وہ ان کو بخشنے والا ہے۔ دوسرا معنیٰ گناہ کا بھی اس میں شامل ہے۔ اور عام طور پر مترجمین یا مفسرین کی نظر اس دوسرے معنے کی طرف ہے وہ کہتے ہیں کہ اپنے نفس کے خلاف اسراف کا مطلب ہے گناہ کرنا اور گناہ کرکر کے اس مقام تک پہنچ جانا جہاں بخشش کا کوئی سوال باقی نہ رہے یا باقی دکھائی نہ دے۔ اس معنے کی رو سے یہی لفظ اسراف بجائے اس کے کہ انسان کی نیکی بنے وہ انسان کا گناہ بن جاتا ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ معنے نہیں ہیں کیونکہ جو اصل غور طلب بات ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے۔
اول : جو پہلی آیات تھیں ان میں اسراف اور ذنوب کا اعتراف جمع کے صیغے میں کیا گیا ہے اور جمع کے صیغے میں قوم کا لیڈر بھی اور اسکے متبعین سب شامل ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہمیں دعا سکھائی گئی ۔ ’’ایاک نعبدو و ایا ک نستعین‘‘ اھدنا الصراط المستقیم O صراط الذین انعمت علیھم O غیرالمغضوب علیھم والالضالین O
یہ مغضوب علیھم اور والضالین کا احتمال انبیاء اور بزرگوں کے حق میں کیسے ہوسکتا تھا۔ پس جو جمع کی دعا ہے وہ بتاتی ہے کہ اس جمع کی دعا کا اطلاق متفرق قسم کے لوگوں پر ہورہا ہے اور وہ شخص جو سب کی بخشش چاہتا ہے جو سب کی مدد چاہتا ہے۔ جب وہ کچھ بات طلب کرتا ہے تو یہ مرادنہیںکہ پہلے وہ اس کا مصداق ہے پھر دوسرے ہیں بلکہ ہر قسم کی قوم کے لوگ اس کی دعا کی وسعت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اور انہی معنوں میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرار دیا گیا۔ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں۔پس اگر سب جہانوں کیلئے بخسش کی دعا نہیں کرتے تھے تو رحمت کیسے ہوگئے سب کیلئے۔
فرشتے جو معصوم ہوتے ہیں انکے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ عرش پر خداکے ان بندوں کیلئے دعائیں کرتے رہتے ہیں جو دنیا میںکمزوری دکھا رہے ہیں۔ کئی قسم کی ان سے غلطیاں سرزد ہورہی ہیں تو کیا فرشتے نعوذ باللہ اس کے نتیجے میں گناہ گار ہوجاتے ہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استغفار خواہ اسکے بعد کے الفاظ اس استغفار کا تعلق بڑے گناہوںسے بھی دکھانے والے ہوں۔ ایک ایسے رہنما کا استغفار ہے جسے تمام دنیا کا رہنما بنایا گیا ہے۔ اولین اور آخرین کا سردار بنایا گیا ہے۔ اس پر فرض ہے اور اس کے حسن خلق کا ویسے بھی تقاضاہے کہ وہ ان سب کیلئے دعا میںمصروف رہے۔ جو اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں بلکہ منکرین کے حق میں بھی وہ غم فکر محسوس کرے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو کردار ہمارے سامنے قرآن میں ابھرتا ہے اور قرآن میں ابھرنے والا کردار وہی ہے بعینہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا کردار تھا۔ یہاں تک کہ گندے سے گندے دشمن بھی اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ جب قرآن ایک کردار پیش کرتا ہے تو چونکہ اس پر سارے گواہ تھے اپنے بھی اور غیر بھی مومن بھی اور غیر مومن بھی۔ اس لئے ناممکن تھا قران کیلئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کردار پیش کرے اور وہ آپ کی ذات پر اطلاق نہ پارہا ہو۔ پس اس پہلو سے میں یہ آپ کے سامنے گذارش کررہا ہوں کیونکہ دشمن اسلام، لفظ ذنب پر اور لفظ اسراف وغیرہ کے اوپر طرح طرح کی زبانیں دراز کرتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انبیاء کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بناتا ہے۔ اسلئے آپ کے لئے لازم ہے کہ اس مفہوم کی تمام وسعت پر حاوی ہوں اور اسے اس وسیع دائرے میںدیکھیں جس وسیع دائرے میں اس مضمون کو سمجھنے کا حق ہے۔ میں مثال دیتا ہوں جو :-
So Called Rev. E.M. Wherry
ہیں جن کو میں کہا کرتا ہوں کہ یہ ویری یا بیری ہیں۔ دونوں معنوں میں اسلام کے دشمن ہیں یہ
A Comprehensive Commentry on the Quran
میں لکھتے ہیں:-
" This verse clearly disproves the popular doctrine that the Prophets were sinless."
کہتا ہے کہ یہ تو اب قطعی طور پربات ثابت ہوگئی کہ یہ جو خیال ہے مسلمانوں کا کہ انبیاء گنہ گار نہیں تھے۔ یہ 100 فیصد غلط ثابت ہوگیا۔ اصل میں ان عیسائیوں کویہ شوق ہے کہ ہر دوسرے انسان میں کیڑے ڈالیں۔ سوائے مسیح کے۔ اور مسیح خود جو اپنی کمزوریوںکا اعتراف کرتا ہے اس سے یہ صرف نظر کرجاتے ہیں۔مسیح کی اپنی کمزوریاں جو بائبل میں دکھائی دیتی ہیں اور موجود ہیں لکھی ہوئی۔ اس سے آنکھیں بند کرکے یہ کہتے ہیں کہ دیکھو ! ہر شخص گناہ گار ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اس لئے وہ گنہ گار ہے۔ اور چونکہ وہ گنہ گار ہے اس لئے دوسرے کی بخشش کا حق دار ہی نہیں ہے۔ اس بخشش کی خواہش بھی رکھے تواپنی بخشش پہلے کروالے۔ جو آپ گنہ گار ہے اس نے دوسرے کا بوجھ کیا اٹھانا ہے۔ کہتے ہیں اس لئے کوئی نبی دنیا میں کسی کی مغفرت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ مسیح ذریعہ بن سکتا ہے کیونکہ سب نبی گنہ گار ایک مسیح تھا جو بے داغ کردار کا مالک تھا اور جس سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ اس پر وہ دو دلیلیں قائم کرتے ہیں۔ اول وہ دلیل جو گناہ کے آغاز کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ آدم سے جو غلطی ہوئی تھی جسے اللہ نے معاف فرمادیا تھا وہ ایسی پکی سیاہی سے اس کے کردار میں لکھی گئی کہ کروڑہا ارب ہا انسان بعد میںپیدا ہوئے اورہزاروں ہزار، ہزارہا سال کے بعد وہ پیدا ہوئے لیکن وہ سیاہی نہیں مٹی۔
وہ مسلسل نقش ہے اور ہر انسان بے اختیار ہے۔ اپنی پیدائش کے معاملے میں۔ اور لازماً گناہوںکا رجحان لیکر پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ قرآن کا مضمون یہ ہے کہ ’’کل مولود یولد علی الفطرۃ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی مضمون پر روشنی ڈالی ہے قرآن کا یہ واضح بیان ہے کہ ہر بچہ معصوم اور پاک پیدا ہوتا ہے اور اس فطرت پر پیدا ہوتا ہے جو اللہ کی فطرت ہے۔ بائیبل خود، مسیح خود اس بات کا اقرار کر رہے ہیں۔ جب یہ بیان کیا جاتا ہے عیسائیوں کی طرف سے کہ انسان کو اللہ کی شکل پر پیدا کیا گیا ہے تو ان کا وہ عقیدہ کہاں باقی رہ گیا کہ ہر انسان گنہ گار پیدا ہوتا ہے۔ اگر اللہ کی شکل پر پیدا کیا گیا ہے تو پھر اس بات کا اطلاق کہ وہ گنہ گار پیدا ہوتا ہے مسیح پراول طور پر ہوگا۔ کیونکہ مسیح اللہ کی شکل پر پیدا ہوا اور و ہ آدم کے بچے جو آدم سے گناہ لیکر اللہ کی شکل پر پیدا ہوئے وہ سارے ہی گنہ گار ہیں۔ مسیح کو الگ کیسے کرلیں گے اس گنہ گاری سے۔
دوسری بات غور طلب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ہم معصوم سمجھتے ہیں۔ اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ نعوذ باللہ مسیح کے گناہ تلاش کررہے ہیں اور اسے داغدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمارا تو عقیدہ ہی یہی ہے کہ ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور پاک صاف وجود لیکر دنیا میں آتا ہے۔ جیسا کہ کل جمعے میں بھی میں نے آنحضرت صلی اللہ ولی وآلہ وسلم کی وہ حدیث پیش کی تھی کہ وہ شخص جو گناہ سے تائب ہوجاتا ہے اور سچی توبہ کرتا ہے اور رمضان کا حق ادا کرتے ہوئے رمضان میں سے گزرتا ہے وہ رمضان کے آخر تک اس طرح گناہوں سے پاک صاف ہوچکا ہوتا ہے جیسے نوزائیدہ بچہ۔ تو نوزائیدہ بچے کا معصوم ہونا تو ہر پہلو سے قطعی طور پر ثابت ہے۔ انکو جو شوق ہے مسیح کو معصوم بنانے کا وہ کفارہ کے عقیدے کے سہارے کی خاطر ہے۔ پس یہ کہتے ہیں کہ چونکہ آدم نے گناہ کیا اور وہ بہت پکی سیاہی کے ساتھاس کے خلیوں میں ہمیشہ کیلئے لکھ دیا گیا۔ جو قطعاً سائنس کے شواہد کے خلاف دعویٰ ہے۔ کلیۃً جھوٹ ہے۔ اس کا اس فطرت سے کوئی بھی تعلق نہیں جسے خود ان عیسائیوں نے پڑھا اور سمجھا اور اپنی تحقیقات میں ثابت کیا کہ آج آپ کوئی غلطی کرتے ہیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ آپ کی نسل میں داخل ہوجائے۔
نسل میں داخل ہونے کا جو طریق ہے وہ بہت ہی لمبا اور بہت ہی گہرا ہے اور اس مضمون پر ابھی سائنس احاطہ نہیں کرسکی۔لیکن یہ بات تو قطعی ہے کہ آج آپ نے کچھ کیا تو وہ آپ کے خلیوں میںداخل نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو استغفار کیوں داخل نہیں ہوگا۔ گناہ داخل ہوگا تو جو گناہ کے بعد کا پانی جو داغ کو دھونے والا تھا اس کو بھی داخل ہونا چاہئے۔ پس خدا کی بخشش کو بھی داخل ہونا چاہئے ۔ اس لئے یہ عقیدہ ہے ہی نہایت جاہلانہ اس کا کوئی بھی نہ عقل سے تعلق ہے نہ ان سائنسزسے یہ سچا ثابت ہوتا ہے ان علوم سے سچا ثابت ہوتا ہے جو خود عیسائی دنیا نے بہت گہری تحقیق کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں۔ مگر بہرحال ان کا یہ شوق ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خون میں گناہ لکھا گیا۔ تو بائبل تو کہتی ہے کہ اول گناہ اس نے، حوا نے کیا تھا۔ آدم بے چارہ تو اس کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ شیطان نے پہلا شکار حوا کو کیا تھا۔ تو دوسرا پہلو ان کا یہ ہے مسیح کے متعلق کہ چونکہ وہ انسانی باپ کا بیٹا نہیں اس لئے اس نے گناہ ورثے میں نہیں پایا لیکن اس کا جسم کلیتہً انسانی تھا۔ اور انسانی ماں سے وہ وجود میں آیا اور گناہ میں اولیت عورت نے کی ہے پہلا کام عورت نے کیا ہے تو حضرت مریم کا گناہ پھر مسیحؑ کی طرف کیوں منتقل نہ ہوا۔ اور اس کی انسانی حیثیت تو بہرحال گنہ گار ثابت ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ان کا یہ تصور ہے روح خدا کی گویا اتری ہے اور دو قسم کی کا ملغوبہ ہے مسیح دوچیزوں کا۔ ایک جیسے کسی پر جن آکر بیٹھ جائے اور اس کا اپنا بھی ایک ضمیر سا رہتا ہے اور جن اس پر قبضہ کرکے بھولتا ہے۔ تو دو صورتوں میں سے ایک عیسائی تصور ہے۔ بہر حال۔ یا تو یہ کہ اس بچے کی اپنی روح ہی کوئی نہیں تھی وہ Still Birth تھی۔ اور جسم انسان کا اور شعور خدا کا تھا۔ جب یہ ترجمہ کیا جائے تو کچھ ا نکو فائدہ دیتا ہے مگر پھر وہ مشکل میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ جب ہم مسیح کی بعض غلطیاں دکھاتے ہیں مثلاً انجیر کے درخت پر اس وقت ہاتھ مارنا جبکہ انجیر کا موسم ہی نہیں ہے۔ اور جب اس نے پھل نہیں دیا بے چارے درخت نے، اس بے چارے کا کیا قصور تھا، اس پر *** ڈالی کہ *** پڑے تجھ پر مجھے انجیر کی ضرورت تھی ۔ میں نے ہاتھ بڑھا دیا۔ تونے انجیر نہیں دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہم یہ غلطی دکھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو وہ ایک پہلو سے بشر تھا اور دوسرے پہلو سے خدا تھا۔ اس وقت اس کا بشر بول رہا تھا۔ پس اگر بشر بول رہا تھا تو بشر کا شعور اسے حاصل تھا۔ اور یہ کہنا غلط ہے کہ بشر کا شعور نہیں تھا۔ پس اس صورت میں مسیح کی ذات ایک ایساملغوبہ بن کے دکھائی دیگی جس پر دو روحوں کا قبضہ ہے۔ ایک اس کی بشر کی روح موجود ہے۔ کبھی کبھی جب اس کا زور لگے وہ کوئی نہ کوئی شرارت کرجاتی ہے۔
یعنی ان کے عیسائیوں کے قول کے مطابق ۔ اور جب خدا کی روح غالب آجائے تو پھر وہ پاکی کی باتیں کرتا ہے۔ اس لئے یہ بگڑا ہوا تصور ہے۔ اس کا مسیح کے پاک وجود سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ مسیح پاک تھا اور خدا کے سارے انبیاء پاک ہوتے ہیں۔ ان جاہلوںکو نہ عربی کا مضمون معلوم۔ نہ عرفان ہے کسی بات کا۔ روحانیت سے پوری طرح کورے ہیں۔ یہ خشک خالی بجنے والے برتن ہیں۔ عربی کا ایک ظاہری سا علم سیکھ لیا ہے اور پھر اس ارادے سے داخل ہوتے ہیں قرآن کی دنیا میں کہ جہاں تک ممکن ہوسکے اس میں فساد کیا جائے۔ اس کے مضمونوں کو بگاڑا جائے۔ اسے دنیا کی نظر میں متہم اور ملزم کرکے دکھایا جائے۔ پس یہ ویری صاحب ہیں جن کوپتہ ہی کوئی نہیں ہے کہ گناہ کیا ہوتا ہے۔ بخشش کس کو کہتے ہیں اور انکسار کیا ہوتا ہے۔ انبیاء کی دنیا کیا ہے اور گنہ گاروں کی دنیا کیا ہے۔ ان دونوں دائروں میں کتنا فرق ہے۔ ان ساری نفسیاتی کیفیتوں سے نا آشنا اس بات پر تُلے بیٹھے کہ جب تک جہاں تک زور لگے قرآن میںکوئی نہ کوئی رخنہ نکال کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور انبیا ء میں کیڑے ڈالے جائیں۔ یہ ان کی زندگی کا ماحاصل تھا۔ پس یہ کہنا کہ پوری طرح یہ ثابت ہوگیا کہ انبیاء گنہ گار ہی تھے یہ محض جھوٹ اور افتراء ہے۔
قرآن یہ بیان نہیں فرما رہا۔ قرآن اسراف کے معنوں میں بھی جہاںحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ بات منسوب کرتا ہے اورجبکہ الگ نہیں پیش کرتا بلکہ سارے انبیاء کو شامل کرکے کہتا ہے۔
ویری صاحب کو یہ بات نہیںبھولنی چاہئے کہ اس فہرست میں حضرت مسیح ؑ شامل ہیں۔ جو اعتراف کی فہرست ہے۔ اس میں حضرت مسیح بھی شامل ہیں۔ پس ان کو نکال کر وہ کیسے ثابت کچھ کرینگے۔ پس اگریہ غلط ہے کہ انبیاء معصوم تھے قرآن سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ معصوم نہیں تھے تو اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی قطعاً ثابت ہوجاتی ہے کہ مسیحؑ بھی معصوم نہیں تھے پھر تم اپنا مقصد پھر بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ لیکن جیسا کہ میں نے اس مضمون کو کھول کر بیان کیا ہے۔ انبیاء قوم کے رہنما ہوتے ہیں وہ اپنی ا ن غلطیوں کی بھی بخشش مانگتے ہیں جن کی طرف عام انسان کی غلطی کے طور پر نظر ہی نہیں پڑتی۔اس کوپتہ ہی نہیںہوتا کہ مجھ میں کیا کمزوریاں ہیں۔اور ان غلطیوں کی بخشش طلب کرتے ہیں جو انہوں نے کبھی بالارادہ خدا کے کسی حکم کے خلاف نہیںکی ہوتیں بلکہ حکم کی پیروی کے نتیجے میں ہورہی ہیں۔ اگر قوم کی طرف سے یہ حکم ملے کہ فلاں جگہ جانا ہے ۔ فلاں مہم پر سارے جتنے بھی قابل لوگ ہیں وہ اکٹھے ہوجائیں ۔ ان میں کمزور بھی آجاتے ہیں ان میںہر قسم کے ہوتے ہیں اور وہ جو ٹھوکریں کھاتے ہیں یا ان کی غلطی کی سے بعض دفعہ اگر مہم میں کوئی نقصان پہنچے تو وہ بالارادہ ان کی طرف سے نقصان نہیں بلکہ ان کی قربانی ہے۔ کمزوری کے باوجودجو کچھ تھا لیکر حاضر ہوگئے۔ اسلئے ان کو مُتہّم نہیںکیا جاسکتا۔ ان پر اعتراض نہیں کیا جاسکتے۔ یہ ان کی شرافت تھی کہ جو کچھ تھا لیکر حاضر ہوگئے۔ پھر اسی کے مطابق ان سے معاملات سرزد ہونے تھے۔ جو ان کو توفیق تھی۔ تو اس مضمون کے پیش نظر انبیاء جو قوم کا بہترین حصہ ہیں۔ وہ ہر وقت اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ ہم سے کہیں کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو۔ اورا ن کا اسراف اپنے نفس کے خلاف ان معنوں میں بھی ہے جو میں نے بیان کئے ہیں۔کہ وہ اپنے نفس پر بہت ظلم کرنے والے ہیں۔ چنانچہ اس مضمون کو خصوصیت سے حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات میں قرآن کریم نے اطلاق کرکے دکھایا ہے۔ وہ آیت جس میں یہ بیان فرمایا گیا کہ دنیا کی بڑی اور چھوٹی بالائی اور نچلی‘ سب طاقتوں نے اس امانت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جو آخری اور کامل امانت تھی یعنی قران کی وحی۔ اس کے لئے کون آگے آیا۔ فرماتا ہے۔
انا عرضنا الامانۃعلی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھا۔
ہم نے اس عظیم امانت کو جو قرآن ہے آسمانوں کے سامنے بھی پیش کیا اور زمین کے سامنے بھی پیش کیا اورپہاڑوں کے سامنے بھی یعنی وہ جو روحانی رفعتیں رکھنے کے دعویدار تھے۔ ان کے سامنے بھی پیش کیا گیا وہ جو زمینی علوم کے دعویدار تھے۔ انکے لئے بھی یہ موقعہ تھا۔ کہ وہ اس کا بوجھ اٹھاتے۔ پھر ان میں جو بڑے بڑے پہاڑ قائم ہوئے ہیں۔ جو اپنے آپ کو علم و عرفان کا دنیاوی اور روحانی پہاڑ سمجھتے ہیں۔ انکو بھی دعوت تھی کہ چاہو تو قبول کرو۔ اب انہوں نے انکار کردیا۔
’’ ان یحملنھا ‘‘
کہ وہ اس کو اٹھالیں اور وہ ڈر گئے۔ پھر کون آگے آیا۔
’’ حملھا الانسان‘‘
یہ ہے انسان یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی انسان ہے تو یہ ہے واشفقن ہاں وہ ڈر گئے (وہ حصہ کہتے ہیں) واشفقن منھا اور وہ اس سے ڈر گئے اس امانت سے فحملھا الانسان اسے اس انسان نے انسان کامل نے اس نے اٹھایا۔ جو حقیقت میں انسان ہے تو وہی ہے۔ انسان کا مضمون اپنے کمال کے ساتھ اگر کسی پر اطلاق پاتا ہے تو وہ یہ وجود ہے۔ آگے پھر تعریف کیا فرمائی۔
انہ کانا ظلوما جھولا ‘‘
بڑا سخت ظلم کرنے وال ہے اور نعوذ باللہ بڑا جاہل ہے جو عام ، عرف عام میں معنی کریں تو جاہل ہے۔ اب سوچیں ذرا کہ اتنی عظیم تمہید باندھی اور نتیجہ کیا نکالا۔ ظلوماً جھولاً ۔ جو دنیاوی علم رکھنے والے یا دنیا کا رجحان رکھنے والے مولوی ہیں وہ تویہاں بیچ میں ایک سکتہ ڈال دیتے ہیں کہتے ہیںکہ اس آیت کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔وہ بعدوالے حصے سے تعلق ہے۔ یعنی یہ بات بے نتیجہ چھوڑ دی گئی اور اس آیت کے آخر پر داخل کردی گئی کہ قرآن میں نعوذ باللہ ایک نقص داخل ہے۔ پس وہاں ان کے قران کریم میںلکھا ہوگا کہ یہاں رکنا لازم ہے۔ اس آیت کو دوسری آیت کے ساتھ پڑھو۔ اور ان کے قاری بغیر رکے فٹافٹ ۔ جس طرح ریل گاڑی پر بیٹھے ہوں آگے نکل جاتے ہیں۔ اور اگر رکیں بھی تو پھر دوبارہ اسے ملا کراگلی آیت سے ملا کر پڑھتے ہیں۔
انہ کان ظلوما جھولا O لیعذب اللّہ المنفقین والمنفقت و المشرکین و المشرکت.....
تاکہ ظلم اور جہالت کا منافقین اور مشرکین سے تعلق قائم ہوجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر کیا خراج تحسین پیش کیا گیا …آپ کا کونسا حسن اورآپ کا کونسا کمال ہمیں دکھایا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اس مضمون سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا۔ ظلوم یہاں یہ معنے رکھتا ہے جیسے ’’اسرفوا علی انفسہم‘‘ محمدﷺرسول اللہ نفس پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ ظلم کرنے والے تھے۔ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر۔ اتنی قربانی کرنے والے تھے۔ اپنی جان پر اتنا ظلم کرنے والے تھے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ
لعلک باخئع نفسک علی آثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفاO
اور دوسری جگہ آتا ہے۔
’’لعلک باخئع نفسک الا یکونوا مومنین ‘‘
تو وہ لوگ جو ایمان نہیں لارہے ۔ آپ ان کو دیکھتے ہیں۔ آپ کی بھی تبلیغیں ہوتی ہیں۔ کتنے ہیں جو اس غم میںاپنے آپ کوہلاک کرلیتے ہیں۔ نفس پرظلم اس کو کہتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ جو مومن نہیں ہے اس پر غصے کرو اس کو کافراور جہنمی اور برے سے برے نام سے یاد کرو۔ کہو جائو جہنم میں‘ تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل کا یہ عالم تھا کہ اپنے نفس کو انکے غم میں ہلاک کرتے تھے ۔ اگر یہ ظلوماً نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے۔ اتنا ظلم اپنے نفس پر کہ ظالموں کے غم میں خود ہلاک ہورہے ہیں۔ اور جہولاً کا مطلب ہے عواقب سے بے پرواہ جو سر پہ گزرے گزر جائے اس کام سے میں نے پیچھے نہیں ہٹنا اور یہ وہی مضمون ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوجب روکا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔ اس وقت بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔
یہاں تک کہ اپنے چچا نے بھی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو چاہو کرو۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں ہے کہ کوئی میرے ساتھ رہتا ہے یا نہیں رہتا یا قوم مجھ سے کیا بدسلوکی کریگا۔ میں تو جس رستے پر چل پڑا ہوں یہ توحید کا رستہ ہے۔ اس ایک قدم میں نہ پیچھے ہٹوں گا نہ اس رستے کو بدلوں گا۔
اسی راہ پر قائم ثبات قدم کے ساتھ آگے بڑھتا رہوں گا۔ تو یہ ہے جہولاً کا مطلب۔ پس اس لئے اَسْرَفَ کا لفظ جو وہاں استعمال ہوا ہے۔ اس کو موقع اور محل کے مطابق استعمال کرنا چاہئے۔ اگر اس کا معنی صرف ’’ بالعمد گناہ‘‘ بھی لینے والے موجود ہوںتو ان کا جواب یہ ہے کہ یہ جمع کا صیغہ ہے اور ساری قوم کی طرف سے قوم کا رہنما بخشش طلب کررہا ہے حالانکہ خود اس سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بالعمد غلطی کبھی نہیں ہوئی۔ مگر جو بالعمد غلطی کرنے والے ہیں انکی طرف سے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرتا ہے جھکتا ہے۔ روتا ہے راتوں کو اٹھتا ہے کہ اے اللہ ہم میں سے جن سے بھی اسراف ہوا ان سب کو معاف فرما اور اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کا اسراف بعض دفعہ قوم پر وبال بن جاتا ہے۔ اور یہ موقعہ اور محل ہے ہی وہی۔ جبکہ جنگ احد میں (یہ مضمون وہاں سے چل رہا ہے) بعض مسلمانوں کی غلطی سے جن سے اسراف ہوا تھا۔ ساری قوم نے سزا پائی اور دکھ میں مبتلا ہوئی۔ بعد میں اس کے بہت ہی پاکیزہ اور پیارے نتیجے اللہ تعالیٰ نے نکالے۔
لیکن یہ الگ مضمون ہے مگر موقعہ اور محل یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو غلطی نہیں ہوئی تھی ۔ اگر وہ اس دعا میں شامل تھے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسرو ںکی غلطی اپنے سر منڈھ رہے ہوں۔ غلطی تو ان سے ہوئی تھی جنہوں نے آپ کے حکم کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کی اور اس بات پہ جھگڑا کیا۔ پس ان جھگڑنے والوں کی طرف اس مضمون کا خصوصیت سے اشارہ ہے۔ جو اس درے پر قائم کئے گئے تھے جو مسلمانوں کی پشت پر میدان جنگ میںایک گھاٹی کے طور پر تھا۔ دو پہاڑوں کے درمیان ایک ایسا رستہ تھا کہ اگر دشمن اس طرف سے حملہ آور ہوتا تو مسلمانوں کی پشت محفوظ نہ رہتی۔ چونکہ وہ گروہ جن کورسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر اس ہدایت کے ساتھ وہاں مقرر فرمایا تھاکہ تم کچھ بھی دیکھو ! تم نے جگہ نہیں چھوڑنی۔ جو کچھ ہوناہے ہوجائے۔اگر تم دیکھو ! کہ ہم لوگ وہاں بری طرح ذبح کئے جارہے ہیں۔اور بظاہر شکست کھا رہے ہیں۔ یہ دیکھو کہ ہم غالب آگئے ہیں کسی صورت میں جب تک میں نہ بلائوں تم نے اس جگہ کو نہیں چھوڑنا جب غلبہ عطا ہوگیا۔ خدا نے وعدہ پورا فرمادیا۔ دشمن کے پائوں اکھڑے دشمن کو انکی عورتوں کو سراسیمگی کی حالت میں درے والوں نے دوڑتے ہوئے دیکھا تو بعض لوگوں نے ان میں سے بلکہ اکثر نے کہا کہ اس حکم کا اطلاق اس وقت تک تھا جب کہ جنگ پوری طرح ختم نہ ہوجاتی اس لئے ہمارے نزدیک یہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور حکم کا دائرہ کار جنگ تک ہی ہے۔ انکے سردار نے کہا : کہ سوال ہی پیدا نہیںہوتا ۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ظاہری الفاظ جو ہیں میں ان کے پیچھے چلوں گا۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ تم جنگ ختم سمجھ رہے ہو یا نہیں سمجھ رہے ہو۔ اس لئے میں اپنے آقا کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرونگا۔ آپکے ساتھ کچھ اور دوست بھی شامل ہوگئے۔ اور جب عقب سے خالد بن ولید کے سواروں نے حملہ کیا ہے تو وہ وہیں شہید ہوگئے اور اپنے عہد پر پورا اترے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے حکم کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں غلطی کی تھی اور قران کریم فرماتاہے انہوں نے اس بارے میں اختلاف کرتے ہوئے بحث کی تھی۔ ان کا وبال دیکھو ! کیسا قوم پر پڑا ہے۔ اور کس طرح معصوم وہاں شہید کئے گئے۔ وہ جن سے نصرت کا وعدہ تھا ان کی نصرت کا وعدے کا ایک حصہ پورا ہوچکا تھا دوسرے حصہ میں تاخیر پڑ گئی۔ اور بہت ہی خطرناک حالات پیدا ہوگئے۔ پس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم شان ہے کہ ان کے اسراف کے متعلق اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ رہے ہیں تاکہ قوم کو ان کے بد اثرات سے بچائیں۔ وہ بداثرات جن کا آگے ذکرملے گا کچھ اس وقت پیدا ہوئے کچھ آئندہ پیدا ہوسکتے تھے۔ پس اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ اپنے آپ کو کہہ رہے ہیں کہ اے خدا ! میں نے تیرے حکموں کی نافرمانی کی ہے۔ اس لئے ہمیں بخش دے۔ عرض کررہے ہیں جنہوں نے نافرمانی کی اور یہ دعا سب مومنوں کی دعا ہے۔ بلکہ تمام انبیاء شامل ہیں اس دعا میں۔یہ سب نیک لوگ اسی طرح دعائیںکیا کرتے تھے تو اسراف کرنے والے اور ہیں اور انکی طرف سے بخشش طلب کرنے والے اور ہیں۔
وثبت اقدامنا : اور ہمارے قدم پیوست کردے۔یہ قدموں کا پیوست ہونا ظاہری طور پر ایک درخت کا منظر دکھاتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں گہری ہوں۔ کلمہ طیبہ کی مثال قرآن کریم نے دی ہے۔ ’’کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء ‘‘ ایسا درخت جس کی جڑیں بہت گہری زمین میں پیوستہ ہوں اور شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہوں۔ یہ اس میں مفہوم بتایا گیا ہے۔ (پہلے بھی ایک دفعہ میں جماعت کو بتا چکا ہوں لیکن چونکہ نئے شامل ہونے والے ہوتے رہتے ہین اس لئے بعض باتوں کو دہرانا مفید رہتا ہے) ۔
مراد یہ ہے کہ اگر تم رفعتیں چاہتے ہو تو ثبات اتنا ہی زیادہ ضروری ہے جتنی گہری زمین میں پیوست ہوگے اتنا ہی زیادہ بلندی اختیارکرسکتے ہو۔ اگر زمین میںپیوستگی نہیں ہوگی یعنی انکسار نہیں ہوگا اور اپنے عقائد پر گہرائی سے قائم نہیں ہوگے۔ مضبوطی سے قائم نہیں ہوگے تو اسی نسبت تمھیں رفعتیں بھی کم ملیں گی۔ ذرا اپنے …سے گئے تو کوئی آندھی بھی تمہیں گرا سکتی ہے۔ پس یہاں مضبوطی ارادے کی ہے نہ کہ ایک جگہ کھڑا ہونا مراد ہے۔ ثبات قدم سے جو نقشہ بظاہرابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک درخت زمین میں پیوستہ ہے۔ جیسا کہ قران کریم کی آیت میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے۔
مگر یہاں ارادے کی ایسی مضبوطی ہے جس سے ہر قدم جو اُٹھتا ہے وہ ثبات قدم کہلاتا ہے۔ آگے بڑھنا اس میں شامل ہے۔ اور ثبات قدم بلندیوںکی طرف محو پرواز ہونے کو بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایک سمت میں ایک قبلے کی طرف مسلسل آگے بڑھنے کو بھی ثبات قدم کہا جاسکتا ہے ۔ اپنے ارادے پر ہمیشہ غیر متزلزل طورپر قائم رہنے کو بھی ثبات قدم کہا جاتا ہے۔ پس فرمایا:-
وثبت اقدامنا : پھر تم یہ دعا کرو کہ اے خدا ! ہمارے قدموں کو ثبات بخش۔ یعنی وہ تمام طاقت عطا کر جو اس سفر میںہمارے قدموں کیلئے ضروری ہے ۔ پھر فرمایا:-
وانصرنا علی القوم الکفرین : اور ہمیںکافروں پر نصرت عطا فرما۔یہ کافروں پر نصرت سب سے آخر پر رکھی ہے اور مختلف مفسرین نے اس کے بہت سے معانی کئے ہیں مگر جو بنیادی بات ہے جو سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ ترتیب ظاہر و باھر ہے اس ترتیب کو کوئی بدل سکتا ہی نہیں۔ جو مرضی زور لگالیں اس سے بہتر ترتیب ہو ہی نہیں سکتی۔
ذنوب سے بات شروع ہوئی۔ یعنی وہ غلطیاں جو ارادہ رکھتی ہی نہیں۔ وہ بھی شامل ہیں۔ ذنوب کے اندر۔ پھر بالارادہ غلطیوںکا ذکر ہوا جن کا براہ راست تعلق اس واقعہ سے تھا جو میں بیان کرچکا ہوں۔ پھر فرمایا گیا کہ ہمیں ثبات قدم عطا کر۔ اگر ذنوب سے بخشش مل جائے تو ثبات قدم ملا کرتا ہے ورنہ مل ہی نہیں سکتا۔ ورنہ آپ کی جو سابقہ غلطیاں ہیں وہ اگلی غلطیوں میں ممد ہوتی ہیں ان کو آگے بڑھاتی ہیں۔ ایک بچہ بھی جب سکول میں بچپن میںایک مضمون میں غلطی کرجاتا ہے۔ اسے نہیں سمجھ سکتا پوری طرح تو آگے جتنا مرضی ترقی کرجائے۔ وہ خلا اس کا ہمیشہ اس کے لئے ایک الجھن کا موجب بنا رہتا ہے اور اس کی مزید ترقی کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ پس ثبات قدم سے پہلے ان کمزوریوں کا دور کرنا ضروری تھا ان خلائوں کا بھرنا ضروری تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ دعا کے ذریے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ ان کمزوریوںکو خلائوں کو بھر لو پھر تمہارے لئے ثبات قدم کی دعا برمحل ہوگی۔ پھر تم حق رکھتے ہوگے کہ اب اللہ سے دعا مانگو کہ ’’اب ہمیں ثبات قدم عطا فرما۔ اور ثبات قدم ہو تو پھر نصرت ملتی ہے۔ بلکہ نصرت اس کا طبعی نتیجہ ہے۔ یہ نصرت کی دعا یہ مضمون ظاہر کررہی ہے کہ ہم اب نصرت کے مضمون میں داخل ہوگئے ہیں۔ نصرت تو ملنی ہی چاہئے مگر اے ہمارے خدا۔ ہمیں اس دھوکے میں مبتلانہیں رہنا چاہئے کہ ہماری نصرت تھی۔ یہ نصرت تجھ سے ہی عطا ہوئی ہے اور تجھ سے ہی عطا ہوگی۔فانصرنا علی القوم الکفرین : پس ہمیں کافروں کی قوم پر نصرت عطا فرما۔
(السلام علیکم ورحمۃ اللّہ)
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن10 رمضان المبارک
21 فروری 1994 ء
ماشاء اللہ یہ عالمی مجلس درس لگ گئی ہے ۔اس وقت جاپان میں بھی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اس وقت پاکستان کے مختلف دیہات میں۔ربوہ‘ کراچی ‘ لاہور اور سارے یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں ان کو دیکھ بھی رہا ہوں اور دیکھتا بھی ہوں کبھی کبھی۔ویسے تو خیالات میں دوسرے کاموں میں لگ کر ذہن ادھر چلا جاتا ہے مصروف ہوجاتا ہے لیکن خیال آتا رہتا ہے کہ اس وقت کون بیٹھا کس طرح دیکھ رہا ہوگا مجھے آج صبح یہ خیال آرہا تھا کہ عجیب اللہ کی شان ہے ہم نے پوری طرح سے ابھی تک اس عظیم اعجاز کو پوری گہرائی سے محسوس نہیں کیا ۔ یعنی محسوس کر رہے ہیں لوگ لکھ رہے ہیں کہ عجیب خواب کی سی کیفیت ہوگئی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے قرآن کریم کا عالمی درس پہلی دفعہ جاری ہواہے کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا ۔اور یہ جو پیشگوئی ہے لیظھرہ علی الدین کلہ‘‘اس کی بنیاد اللہ نے احمدیوں کے ذریعے رکھوائی ہے یہاں آج یعنی اس زمانے میں ۔اور ثابت کردیا کہ کن غلاموں سے کام لینا ہے محمدؐ کے دین کو پھیلانے کیلئے ورنہ اتنی دنیا بستی تھی کسی کو توفیق نہیں ملی ۔اور پھر قرآن کا عالمی ہونا ثابت ہوگیا قطعی طور پر کوئی دنیا کی کتاب نہیں ہے جسکا عالمی درس دیا گیا ہو نہ بائبل کا نہ کسی اور کتاب کا ۔اتنی بڑی بڑی قومیں ۔ اتنی دولتوں کی بھرمار ۔پہاڑ لگے بیٹھے ہیں لیکن کسی کو توفیق نہیں ملی تو اس لئے یہ جو دن ہیں گہرے شکر کے دن ہیں ۔کیونکہ جب تکلیفیں پہنچتی ہیں تو انسان کی توجہ تکلیفوں کی طرف مبذول ہو جاتی ہے لیکن شکر سے ذرا نظر ہٹ جاتی ہے یہ دور ایسا ہے کہ اس میں صبر تو بہت نیچی سطح پر بیٹھا ہوا ہے اس وقت اصل تو شکر کا مضمون ہے جو اس وقت ساری جماعت پر ایک عالمی کیفیت کے طور پر طاری ہو چکا ہے تو میں امید رکھتا ہوں احباب اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دعا بھی کریں گے فتنے بھی پیدا ہو رہے ہیں ۔ حسد جگہ جگہ پھوٹ رہے ہیں بڑے پیمانے پر بعض کوششیں ہو رہی ہیں کہ اس پروگرام کو بند کروایا جائے۔ مگر اللہ نے جاری فرمایا ہے کون بند کر سکتا ہے ؟انشاء اللہ آپ دعائیں کرتے رہیں خدا تعالی کے فضل سے یہ سلسلہ جاری رہے گا وہ جو کل میں نے ’’سردار دست نہ دار ‘‘ کی بات کی تھی یہ شیعہ محاورہ ہے اور بڑے جائز فخر کے ساتھ حضرت حسین ؓکے متعلق وہ یہ پیش کرتے ہیں شعروں میں بھی ذکر ہے اور نثر میں بھی ۔ تو کل جب یہ بات سن رہے تھے تو عبیداللہ علیم صاحب چھپا کر کچھ کر رہے تھے ۔مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا کر رہے ہیں بعد میں مجھے عزیزم لقمان نے بتایا کہ وہ شعر یاد آرہا تھا ان کو اور پوری طرح آ نہیں رہا تھا تو لکھ رہے تھے جس میں یہ درج ہے ۔اب انہوں نے مجھے لکھ کے بھیجا ہے
شاہ ھست حسین بادشاہ ھست حسین
دیں ھست حسین دیں پناہ ھست حسین
سردار نہ دار دست در دست یزید
حقًا کہ بنائے لا الہ ھست حسین
حق یہی ہے سچ یہی ہے کہ لاالہ الااللہ کی بنیاد حسین ؓہیں اور یہ روح ہے کہ غیر اللہ کے سامنے نہیں جھکنا ۔یہ مبالغہ نہیں ہے بالکل سچی بات ہے یہ جو روح ہے کہ کسی قیمت پر غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہے سب کچھ جاتا رہے وہ سر کاٹا جاسکتا ہے جھک نہیں سکتا ۔یہ کربلا کی روح ہے اسی لئے میں نے کل شاید بار بار یہ ذکر کیا تھا کہ خدا کے واسطے !روح کربلا کو کیوں بھول رہے ہو؟ اسی میں تمہاری ساری عظمت اور شان ہے ۔اس روح کو زندہ رکھنے میں پس یہ وہ شعر ہے جس میں یہ حوالہ موجود ہے جو میں نے کل پیش کیا تھا ۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ بما تعملون بصیر o
(آل عمران 156-157)
کل اس آیت پر گفتگو ہورہی تھی پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ پھریاد دیانی کے طور پر پیش کرتا ہوں۔یقینا وہ لوگ جو اس وقت پیٹھ دکھا گئے جبکہ دو لشکروں کا ٹکرائو ہوا۔ انما استزلھم الشیطن : بلاشبہ اس وقت ان کو شیطان نے کوشش کرکے پھسلایا تھا۔ اور جو حربے اس کے پاس تھے وہ حربے استعمال کرتے ہوئے بڑی کوشش سے آخر ان کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ ببعض ماکسبوا : اس لئے نہیں کہ نعوذ باللہ وہ کافر تھے یا بے دین تھے بلکہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو ان کے اندر تھیں ۔ شیطان اس حربے میںکامیاب ہوا لیکن وہ ایسی کمزوریاں نہیں تھیں ۔۔۔۔۔جن سے اللہ تعالیٰ صرف نظر نہ فرماتا۔ اور وہ ایسی کمزوریاں نہیں تھیں جو ان کے وجود کا دائمی حصہ بن چکی تھیں۔ اس لئے ولقد عفا اللہ عنھم : اور سن لو کہ اللہ ضرور ان سے صرف نظر فرما چکا ہے۔ ان کو معاف فرما چکا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ایک تو اللہ ’’غفور‘‘ بہت بخشنے والا ہے۔ دوسرے حلیم ہے۔ اور حلیم تحمل کے ساتھ اس غلطی کو نظر انداز کردیا کرتا ہے جس کے بعد اصلاح کی توقع ہو۔اور فیصلے میں جلدی نہیں کرتا۔ تو اس میں ان لوگوں کے نیک انجام کی طرف خوشخبری کا اشارہ ملتا ہے کہ یہ لوگ جن سے غلطی ہوئی ان غلطیوں کو خواہ مخواہ اچھالتے نہ پھرنا۔ورنہ اپنی عاقبت خراب کرو گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما چکا ہے بوجہ غفور ہونے کے اور بوجہ حلیم ہونے کے۔
کل جب یہ درس ختم ہوا تو بعض ایسے بچے ملے جو یہاں پیدا ہوئے ہیں اردو دان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اردو ان کی کچھ سطحی اور کمزور سی ہے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ کچھ پتہ چل رہا تھا درس کا ؟ تو بڑے دلچسپ جواب ملے۔ بعضوں نے صاف یہ کہا کہ بعض جو اصطلاحیں آپ نے استعمال کی تھیں۔ انکی سمجھ نہیں آئی۔ اس لئے بہتر ہو کہ کچھ ان پر تھوڑی سی روشنی ڈال دیں اور ایک نے کہا کہ ایک کان میں مَیں نے انگریزی والی ٹوٹی لگائی ہوئی ہے اور دوسرے کان میں اردو والی ٹوٹی لگائی ہوئی ہے۔ میں نے کہا یہ کیوں ؟
کہتا : اس لئے کہ مجھے اردو کچھ سمجھ آتی ہے اور جب نہیں آئے تو میں انگریزی کی ٹوٹی والے کان کی طرف توجہ کرلیتا ہوں۔ میں نے کہا : بیک وقت کیوں ؟
کہتا ہے : جو ترجمہ ہے اس کا مزہ نہیں ہے۔ کہتے ہیں بہت کوشش کرتے ہیں محنت کرتے ہیں لیکن جو اصل کی بات ہے وہ ترجمے میں پیدا ہو نہیں سکتی ان کی مجبوری ہے۔ اس لئے میں اکثر وقت تو ذہن اس کان پر رکھتا ہوں جہاں اردو کی ٹوٹی لگی ہوئی ہے اورجب وہ سمجھ نہ آئے بات تو پھر میں اس طرف توجہ کرلیتا ہوں۔ تو بڑے بڑے دلچسپ تجربے آرہے ہیں یہ یہیں کا پلا بڑھا نوجوان ہے تو ان کی خاطر میں بعض اصطلاحوں کا ذکر نسبتاً تفصیل سے کرتاہوں کہ وہ کیا چیز ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ تقیہ کیا ہوتا ہے؟ اور پھر تبرا کس کو کہتے ہیں؟ اور اس کے بعد انشاء اللہ اس مضمون کو وہاں سے شروع کریں گے جہاں ہم نے چھوڑا ہے۔
تقیہ کی ایک اصطلاح تو وہ ہے جو بہت اچھی ہے اور اس پہ تقویٰ کے ساتھ اگرغور کیا جائے تو اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا= اورایک وہ معنیٰ ہے جو عملاًاس وقت ساری شیعہ قوم میں رائج اور نافذ ہوچکا ہے اور اس معنے کے حوالے بھی مختلف کتب میں ملتے ہیں۔
وہ تعریف جو میں بیان کررہا ہوں جس پر کوئی وجہ اعتراض نظر نہیں آتی وہ یہ ہے کہ
جو مومن باطمینان قلب موافق شرع کے رہ کر بخوف دشمن دین فقط ظاہرمیں موافقت کرے دشمن دین کی تو وہ دین دار رہے گا۔
یہ حصہ تو ایسا ہے جس پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ایک ایسا شخص جو کسی دشمن دین کے خوف سے اپنی کمزوری اور مجبوری کی حالتمیں یہ طاقت نہ پائے کہ کھل کر اس کی مخالفت کرسکے یا اپنے حق کا اظہار کرسکے۔ مگر شرط یہ ہے کہ شرع کے اندررہتے ہوئے ایسا کرے قانون شریعت سے باہر نہ نکلے اور شریعت کے خلاف کوئی بات نہ کرے۔ اگر یہ معنیٰ ہیں تقیہ کے تو درست ہے۔ مگر یہ ادنیٰ ایمان کی تعریف ہے یاد رکھئے ! کیونکہ جو حوالے آگے یہ دیں گے اپنی تائید میں اس میں وہی آیت پیش نظر زیادہ تر رکھتے ہیں۔ جس میں ایک ادنیٰ ایمان والے مومن کی مثال دی گئی ہے نہ کہ اعلیٰ ایمان والے کی۔لیکن آگے سنئے تقیہ کو پھر کیا بنا لیا گیا اور حضرت امام جعفر صادق کی طرف بعض ایسی باتیں منسوب ہوئیں اور بعض دوسرے ائمہ کی طرف کہ اس سے سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ طبیعت میں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بلند مرتبہ والے ائمہ اور اتنے مقدس وجود ایسی باتیں کرتے ہوں جو آج کل کے شیعوں کے مزاج کے زیادہ موافق ہیں بنسبت ان کے مزاج کے۔
اس آیت کی تفسیر میں
اولئک یوتون اجرھم مرتین بما صبروا : قال بما صبرو علی التقیتہ ویدرء ون بالحسنتہ السیتہ : قال الحسنتہ : التقیتہ و السیتہ الاضاعہ
قال ابوعبداللہ علیہ السلام یا ابا عمیر ان نسعتہ اعشار الذین فی التقیتہ ولا دین لمن لا تقیتہ لہ و التقیتہ فی کل شی ئٍ الا فی النبیذ و المس علی الخفین۔
(الاصول من الجامع الکافی۔ کتاب الایمان و الکفر)
کہتے ہیں کہ آیت کریمہ
اولئک یوتون اجرھم مرتین بما صبروا
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں کہ یہ دو دفعہ اپنا اجر دیئے جائینگے۔ ان کا اجر ان کو دو مرتبہ دیا جاتا ہے یادیا جائیگا کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دو دفعہ ان کواس لئے جزا دی جائیگی کہ انہوں نے تقیہ پر صبر کیا ہے۔
بما صبروا کا مطلب یہ ہے کہ تقیہ اختیار کیا اور پھر اس تقیہ کو چمٹ کر بیٹھ رہے۔ اور کسی حالت میں تقیہ کو نہیں چھوڑا۔ کہتے ہیں اس لئے ان کو دہری جزا دی جائیگی یعنی کمزور ایمان کا مظاہرہ کیا اور اس کو پکڑ کر بیٹھ رہے۔ اگلی منزل کی طرف قدم نہ بڑھایا۔ یہ صبر ہے ! کیونکہ صبر کی تو یہی تعریف ہے کہ کسی حالت پر انسان جم کر بیٹھ جائے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اتنی یہ بات پسند آتی ہے کہ فرماتا ہے کہ میں ان کو دہرا اجر دوں گا لیکن آگے لکھتے ہیں کہ دیکھو اے ابو عمیر ! دین کے اگر دس حصے کئے جائیں تو نو حصے دین کا تقیہ ہے۔ ایک حصہ باقی دین ہے۔ اور اس کا کوئی دین نہیں جو تقیہ پر عمل نہیں کرتا۔
یہ تقیہ ہے۔ تقیہ کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے خوف سے انسان حق کا اظہار نہ کرسکے تو اسے یہ اجازت ہے کہ خاموش رہے مگر شریعت کی خلاف ورزی نہ کرے یہ تقیہ کی تعریف ہے اور وہ مجبور ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے معاف فرمادے۔ اس سے زیادہ اس کا کوئی مضمون نہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ تقیہ تو اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جو تقیہ کرے اور پھر اس کو چمٹ کر بیٹھ رہے اس کا ساتھ نہ چھوڑے عمر بھر تقیہ پر قائم رہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ دہرا اجر عطا فرمائے گا عام مومنوں سے جو کھل کر اپنے ایمان کو ظاہر کرتے اور قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ اسکی خاطر عمر بھر تکلیفوں میں مبتلا کئے جاتے ہیں ان کو ایک اجر اور تقیہ کرنے والے کو دو اجر۔ اور پھر فرمایا گیا نو حصے دین کے تقیہ ہے ایک حصہ باقی ساری باتیں۔تقیہ کرتے رہو بس۔ یہی کافی ہے۔ باقی ایک حصہ باقی عبادتیں وغیرہ حقوق العباد یہ ساری چیزیں۔ یہ سب اس دس میں سے ا یک حصے کے اندر شامل ہیں۔ آگے پھرلکھتے ہیں:
قال ابوعبداللہ علیہ السلام التَّـقیّۃُ من دین اللہ
کہ ابو عبداللہ جعفر صادق کہتے ہیں کہ تقیہ دین کا حصہ ہے اور اس کے فضائل میں یہ لکھا ہے۔
واللہ ما علی وجہ الارض شی ئ’‘ احب الی من التقیتہ (انا للہ) اب یہ ایسی خبریں اپنے آئمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ کوئی ان کو حیا نہیں آتی۔ کوئی شرم نہیں آتی کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں؟اور اتنے بزرگ ائمہ جن کی بزرگی اور تقویٰ کے متعلق کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ بہت ہی خدا رسیدہ لوگ تھے ان کی طرف ایسی لغفو باتیں منسوب کرنے سے کوئی پرہیز نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ ہمارے امام جعفر صادق نے فرمایا کہ
خدا کی قسم ! روئے زمین پہ مجھے تقیہ سے یادہ اور کوئی چیز پیاری نہیں ہے۔ تمام روئے زمین پر اپنے ایمان کو چھپا لینے سے زیادہ مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔
پھر فرمایا ! اے حبیب ! جو تقیہ کرے گا خدا اس کو بلند مرتبہ دے گا۔ اور اے حبیب ! جو تقیہ نہ کرے گا۔ اللہ اس کو پست کرے گا۔ جو تقیہ سے کام نہ لے گا۔ یعنی کھُل کر اپنے ایمان کو ظاہر کرے گا وہ ذلیل اور رسوا کردیا جائیگا۔ اے حبیب ! اس زمانے میں مخالفین سکون فراغت میں ہیں۔ ہاں جب ظہور حضرت حجت ہوگا تو اس وقت تقیہ ترک ہوگا۔اگر اتنی اعلیٰ چیز ہے تو اس وقت ترک کیوں ہوگا؟ عجیب بات ہے ! اتنی عظیم الشان چیز امام مہدی کے وقت میں ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ اب دو کشتیوں میں سے ایک پہ پائوں رکھو ! یا تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قرآن کریم کے حکم کے مطابق سب سے اعلیٰ چیز جو تمہیں دی گئی وہ تقیہ تھی جو دین کے دس حصوں میں سے نو حصہ تھا۔ جس پر عمل کرنے سے درجات کی بلندی نصیب ہوتی تھی۔ جس کو ترک کرنے سے تم ادنیٰ کی طرف لوٹائے جاتے تھے۔ یہ وہ شاندار چیز تھی جو تمہیں نعمت ملی اور امام مہدی تشریف لائے اور تقیہ کا قلع قمع کردیا۔
عجیب بات ہے اتنا عظیم الشان امام جو ظاہر ہو۔مگر کیا کرنے آئے گا؟ تقیہ کو منسوخ کرنے۔ جو اتنی عظیم الشان چیز۔ یعنی دین کے نو حصے منسوخ کردے گا اورایک حصہ رہنے دے گا۔ عجیب تصور ہے !
یا دوسری صورت میں یہ ادنیٰ حالت تھی۔اعلیٰ حالت وہی ہے جو کھلے ایمان کی بات ہے اور ابھی تک وہ زمانہ نہیں آیا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لیکر امام مہدی تک تو اسلام اپنی ادنیٰ حالت میں تھا اور جب وہ امام ظاہر ہوگا تو پھر اصل شان اسلام کی ظاہر ہوگی۔ یعنی وہ ایک جو ہے۔ وہ دس میں سے ایک وہ باقی تمام دین کے حصوں پر غالب آجائیگا اور وہ ہے تقویٰ اور خدا ترسی اور کھل کر خدا کی خاطر دنیا کے خوف سے بے نیاز ہوکر اپنے عقائد کا اظہار۔ تو یہ اب جو نئی نسل ہے اس کے لئے مجھے لفظ تو آسان نہیں ملے مگر امید ہے سمجھ گئے ہونگے۔ کیونکہ وہ کہتے تھے کہ آپ جب دو تین دفعہ بات کو دہراتے تھے تو ہمیں پتہ لگ جاتا تھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ لفظوں کے ترجمے ہم بعد میں گھر جاکر پوچھ لیتے ہیں۔ اب سنئے ! اور اس ضمن میں حوالے۔
ابو عبداللہ علیہ السلام کہتے ہیں۔ علیہ السلام کی اصطلاح یہ اپنے تمام ائمہ کے متعلق بلکہ بعض دوسرے بزرگوں کے متعلق بھی استعمال کرتے ہیں ) اپنے دین میں پختگی اختیار کرو اور تقیہ کے ذریعے اس کو چھپائو کیونکہ جو شخص تقیہ نہیں کرتا وہ مومن نہیں رہتا‘‘
تقیہ کے بغیر تم مومن رہ نہیں سکتے۔ پھر
ابی جعفر من قول اللہ عزوجل لا تستوی الحسنتہ ولا السیتہ قال الحسنتہ : التقیتہ ۔ والسیئتہ الاضاعتہ ۔
آیت کریمہ لا تستوی الحسنتہ ولا السیتہ کی نسبت ابوجعفر کا قول ہے کہ حسنہ سے مراد تقیہ ہے اور سیہ سے مراد اس کا افشا کرنا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
’’لاتستوی الحسنتہ ولا السیئتہ‘‘
کہ نیکی اور بدی برابر نہیںہوسکتی۔ تو کہتے ہیں نیکی سے مراد تقیہ ہے اپنے ایمان کو چھپانا ہے اوربدی سے مراد اس کو ظاہر کرنا ہے۔ تو کہتے ہیں کیسے برابر ہوسکتی ہیں دو باتیں۔ یہ نہیں ہوسکتا۔
پھر جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک نیکی کے ذریعے دوسری بدی کو دھکیل کہ باہر کردو تو وہ کیا بات ہے؟ کہتے ہیں
’’ادفع بالتی ھی احسن السئتہ‘‘
اس میں احسن سے مراد تقیہ ہے
’’و ابی اللہ عزوجل لنا ولکم فی دینہٖ الا التقیتہ ‘‘
(الاصول من الجامع الکافی کتاب الایمان و الکفر صہ 483)
کہ اللہ عزوجل نے ہمارے دین میں تقیہ کے سوا ہر دوسری چیز کو ناپسند فرمایاہے۔ وہ جو ایک حصہ رہ گیا تھا وہ بھی گیا۔ دس میں سے ایک رہ گیا تھا وہ بھی گیا۔ چھٹی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ۔ نہیں ! مجھے تقیہ ہی پسند ہے۔ کیا بات ہے تقیہ کی ! تو امام مہدی جب آکر تقیہ کا ہی قلع قمع کردے گا تو ایک بھی گیا۔ کچھ بھی رہا باقی دین میں پھر۔ بڑی ناپسندیدہ باتیں کریگا ۔ (نعوذ باللہ من ذلک) امام مہدی ایسی باتیں کرے گا جو خدا کو بہت ناپسند ہیں (بقول ان کے نعوذ باللہ یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی ایسی بات کرے)
تقیہ کے دلائل سُن لیجئے اب !
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقیہ کیا۔ پہلی دلیل۔ کیسے کیا؟ صلح حدیبیہ میں رسول اللہ اور بسم اللہ کا لفظ کاٹ دیا ۔ یہ تقیہ تھا۔ اگر یہ تقیہ ہے تو تقیہ جائز ہے 100 فیصدی ہم اس سے متفق ہیں۔ اگرچہ یہ دین کے نو حصے نہیں ہے بلکہ ایک ایسا حصہ ہے جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسندیدگی سے جس کو قبول کیا۔اور ایسی مجبوری تھی جس قرآنی تعلیمات کے پیش نظر کوئی جس کا کوئی اور حل نہیں تھا۔ قرآن عدل کی تعلیم دیتا ہے دین چھپانے کی نہیں۔ یہاں دین چھپانے کی کوئی بحث ہی نہیں ہے بالکل جھوٹ ہے۔ بحث یہ تھی کہ دشمن کی طرف سے ایک وفد آیا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معاہدہ کرنے کیلئے۔ اس معاہدے کے اوپر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر لکھا جارہا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی تھی اورلا الہ اللہ کی شھادت بھی تھی اللہ کے رسول ہیں ’’محمد رسول اللہ‘‘ کی شہادت تھی دشمن نے کہا کہ ہم تو اس سے یہ دستخط نہیں کرینگے کیونکہ جب دونوں نے دستخط کئے تو دونوں نے معاہدے کے ہر لفظ کی تصدیق کردی۔ تو یہ کیسا انصاف ہے کہ تم اپنے دین کو ہماری طرف منسوب کرکے ہمیں مجبور کررہے ہو کہ اس کی تصدیق ساتھ کردیں۔ یہ نہیں ہوگا !
حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے عدل کا مقام دیکھیں صحابہ ناراض تھے کہتے تھے یہ نہیں ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا نہیں ! یہی ہوگا۔ اس کو عدل کہتے ہیں۔ جب دشمن کے عقائد اپنے ہیں تم اپنے عقائد اپنے پاس رکھو۔انکا اعلان کرو۔ اعلان سے منع نہیں فرمایا۔ یہ تو نہیں کہا کہ ہم توبہ کرتے ہیں اس اقرار سے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ یہ تو نہیں فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا مضمون غلط ہے۔ فرمایا ان کا عقیدہ یہ نہیں ہے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں۔اور چونکہ دونوں نے دستخط کرنے ہیں اس لئے اس کو کاٹ دیا جائے۔ اب دیکھیں اس میں وہ تقیہ کہاں سے آگیا جو ان کا تصور ہے یہ تو ایک عظیم الشان عدل کی تعلیم کا ایک نمونہ دکھایا جارہا ہے۔ اور اپنی خاطر دشمن کی قربانی نہیں لی جارہی۔ یہ ہے مراد۔الٹ مضمون ہے۔ اپنی قربانی نہیںدے رہے۔ اپنی خاطر دشمن کی قربانی نہیں لے رہے۔
پھر یہ کہتے ہیں دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن میں ہے۔
’’من کفر باللہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان‘‘
کہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ جو بھی من کفر باللہ من بعد ایمانہاللہ کا انکار کردے ایمان لانے کے بعد وہ کیا ہے جہنمی ہے سوائے اسکے کہ کسی کو مجبور کردیا جائے اور وہ بے بس ہوجائے۔ جبکہ اس دل پوری طرح ایمان پر مطمئن ہو۔
ایسے صحابہ بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میںبھی پیدا ہوئے اور ان کی مثالیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایمان کا پہلا حصہ ہے یا ادنیٰ ،سب سے آخری حصہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان کا سب سے ادنیٰ حصہ ہے جس کی بحث ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم ان کے دل میں پورا اطمینان نہ دیکھیں اور اکراہ کی وجہ نہ دیکھیں یہ قطعی طور پر ثابت نہ ہو وہ لوگ بے اختیار تھے۔ انکی نفسیاتی کمزوری۔ ا نکی جسمانی کمزوری، ان کے دل کی کمزور حالت یہ چیزیں ایسی تھیں جو ان بے چاروں کی برداشت سے باہر تھیں جس طرح ٹارچر کرکے کسی سے کوئی بیان لیا جاتا ہے یہ اس کی بحث ہورہی ہے۔ اُکرہ کا مطلب یہاں یہ بنے گا۔ ان کو ٹارچر (Torcher) کیا گیا۔ ان سے زبردستی بیان لیا گیا۔ جس طرح بعض احمدی آج بھی میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ مسجدوں میں جاکر ہار پہن لیتے ہیں۔ ہار پہننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بات کردیتے ہیں کہ چلو مجھے معاف کرو۔ تو وہ لوگ جوپہلے جوتیاں مار رہے ہوتے ہیں ان کو وہ پھر ہار پہنا دیتے ہیں وہ بعد میں آکر روتے ہیں۔ سالہا سال تک معافیوں کے خط لکھتے ہیں۔ کہتے ہیں دعا کرو اللہ ہمیں معاف فرما دے۔ یہ ہے اکرہ کی مثال۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی ایک صحابی ؓ نے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے سخت مجبور کیا گیا۔ بہت تکلیف پہنچائی گئی تھی یہاں تک کہ آپ کی ذات کے خلاف مجھے سے کوئی ناپاک کلمات کہے گئے۔ کہتے ہیں میری زندگی جہنم بنی ہوئی اس وقت سے۔ ایک عذاب میں مبتلا ہوں۔ میری کوئی بخشش کی صورت ہوسکتی ہے؟ یہ ہے اس آیت کا مطلب کہ مجبور کردیئے گئے ہوں۔ اور بے اختیارہوں۔ ان کی جسمانی طاقتوں سے باہر کی بات ہو۔ اس جبر کو برداشت کرنا۔ لیکن دل پوری طرح ایمان پر قائم ہو۔ اطمینان پکڑ چکا ہو۔ اس کے متعلق اللہ فرماتا ہے میں اس کو سزا نہیںدونگا۔ جزا دینے کاوہاں بھی کوئی ذکر نہیں۔ سزا کی بحث ہے سزا دے گا یا نہیں دے گا۔ کہتے ہیں یہ دیکھو تقیہ ثابت ہوگیا۔ جو تقیہ ثابت ہوا وہ ٹھیک ہے لیکن ایمان کا بہت ہی ادنیٰ حصہ ہے اور ایسا جہاں خطرہ ہے کہ ذرا بھی انسان ایک ذرا بھی زیادہ کمزوری دکھادے تو وہ جہنم میں بھی جا پڑ سکتا ہے یہ اللہ نے فیصلہ کرنا ہے کہ حقیقت میں مجبوری پوری تھی بھی کہ نہیں ! اور اطمینان قلب نصیب تھا بھی کہ نہیں۔
پھر اس کی ایک اور مثال یہ دیتے ہیں
قال رجل مومن من آل فرون یکتم ایمانہ اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ وقد جاء کم بالبینت من ربکم و ان یک کاذبا فعلیہ کذبہ و ان یک صادقا یصبکم بعض الذی یعدکم ان اللہ لا یھدی من ھو مسرف کذاب۔ (المومن ۲۹)
کہ آل فرعون میں سے ایک ایسا شخص بھی تھا جو ایمان لے آیا مگر ایمان کو چھپاتا پھرتا تھا۔ (یہ کہتے ہیں دیکھو تقیہ ثابت ہوگیا) اس نے کہاکہ اے لوگو ! کیا تم ایک آدمی کو صرف اس لئے مارتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ ’’اللہ میرا رب ہے‘‘ اور تمہارے رب کی طرف سے نشانات بھی لایا ہے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا۔ (یہ وہی آیت ہے جس پر میں کل گفتگو کرچکا ہوں)
تو سوال یہ ہے کہ اگر یہی مثال ہے تقیہ کی تو یہ ایسی مثال تو نہیں ہے کہ جس میں اس کے ایمان چھپانے کو اللہ تعالیٰ نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہو۔ تحسین کی بات تو وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ دیکھو اتنا با غیرت تھا کہ ایمان چھپانے کے باوجود وہ خطرہ مول لے لیا۔ اور جس پر ایمان لایا تھا اس کو تکلیف دینے کا جو پروگرام بنایا جارہا تھا اس پر برداشت نہ کرسکا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اور کیسی عقل کی بات کی ہے تو ادنیٰ ایمان والے کا بھی اس کا ذکر فرمایا جو ابتلاء کے وقت پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے آگیا اور جو کچھ چھپایا ہوا تھا اسکو ظاہر کردیا۔ لیکن یہ ایمان کی ادنیٰ حالت ہے۔ اعلیٰ حالت نہیں ہے۔ وہ مومن جو اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے بنانا چاہتا ہے ان کی مثال قرآن کریم میں یہ نہیںدی گئی۔ یہ سابقہ مومنوں کی مثالیں ہیں۔ وہ مومن جو محمد رسول اللہ کی امت کے مومن ہیں۔ ان کی مثالیں دو عورتوں سے دی گئی ہیں۔ ایک فرعون کی بیوی سے اور ایک مریم سے۔ فرعون کی بیوی کی مثال یہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا جابر بادشاہ جو اپنے زمانے میں جبر و استبدار میں کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔ کوئی مثال نہیں تھی۔ اس کے گھر میں ہوتے ہوئے ایمان ظاہر کردیا اور ایمان پر قائم رہی۔ اللہ سے دعائیں مانگتی رہی کہ اے اللہ ! تو مجھے توفیق بخش! اور جنت میں مجھے گھر عطا کر۔ یہ ایمان کی ادنیٰ مثال ہے یعنی مومن کے ایمان کی جو محمد رسول اللہ ؐ پرایمان لانے والا ہے۔ اتنی کمزور حالت۔ ایک ایسے جابر بادشاہ کے گھر بے اختیار پڑی ہو اورپھر موسیٰ ؑ پر ایمان ے آئے اور کھل کر اظہار کرے کہ ہاں میں مومن ہوں یہ سچا ہے۔ اس طرف کیوں نہیں جاتی شیعوں کی نظر؟ وہ دوسرا آدمی پکڑ لیا ہے جوایمان چھپائے پھرتا تھا۔ مگر اس کا بھی اتنا کمزور نہیں تھا کہ جب وقت آیا تواس کو چھپا گیااور حضرت موسیٰؑ پر زیادتی برداشت کر گیا۔ اٹھ کھڑا ہوا۔ اور کہا بالکل غلط کہہ رہے ہو تم میں اس کی تائید کبھی نہیں کرسکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کوئی بڑے بااثر لوگوں میں سے شخص تھا جو فرعون کے عزیزوں میں یا قریبوں میں سے ہوگا اور حضڑت آسیہ فرعون کی اہلیہ جن کا قرآن میں ذکر ملتا ہے ان کے زیر اثر وہ ایمان لے آیا ہوگا۔ اس عورت میں جرائت تھی مگر اس میں اتنی جرائت نہیں تھی مگر آخر اللہ تعالیٰ نے ایمان کی برکت کے طور پر وہ جرأت بھی بخش دی تواس کی مثال کیوں نہ دی قرآن کریم نے اس آدمی کی۔ آسیہ کی کیوں دی؟
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ محمد رسول اللہؐ کی امت سے کم سے کم اتنی توقع تو رکھتا ہوں کہ موسیٰ کی امت کی ایک کمزور عورت سے آگے ہوں پیچھے نہ ہوں کسی طرح بھی۔ اور اپنی کمزوری کے باوجود وہ اپنے ایمان کی حفاظت کررہی تھی اور دعائیں کررہی تھی۔
دوسری مثال مریم کی دی ہے۔ وہ بھی عورت کی مثال ہے۔ عجیب لگتا ہے کہ امت میں دو مثالیں اللہ تعالیٰ نے دیں۔ وہ بھی عورتوں کی دیں۔ کیونکہ عورتیں کمزور ہوتی ہیں۔ جذبات سے بھی اور خواہشات سے بھی مغلوب ہوجاتی ہیں اور خوف سے بھی مغلوب ہوجاتی ہیں تو فرمایا ایک عورت بھی اگر مجھ پر ایمان لانے یا اپنے وقت کے نبی پرایمان لانے کے معاملے میں کمزوریاں نہیں دکھاتی تو محمد رسول اللہ کے مردوں کی شان کے خلاف ہے کہ وہ اپنے مقام کو اتنا گرادیں۔
دوسرا نفسانی خواہشات کے نتیجے میںبہت سے لوگ اپنے مراتب بنانے لگ جاتے ہیں اور بڑی بڑی اپنے زعم میں اپنے اعلیٰ روحانی مقامات کی باتیں سوچتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کو بعض دفعہ خوابیں بھی آجاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میںان کو بعض دفعہ بظاہر ایسے تجربات ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مرتبہ واقعی بڑا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مریم کی مثال ہے۔ مریم کی سوچ ہر ناپاکی سے پاک تھی۔ ہر نفسانی تمنا سے آزاد تھی۔ وہ خالصتاً اللہ کیلئے وقف تھی۔ پس جو بیٹا خدا نے اس کو عطا کیا۔ وہ اس کی ذاتی تمنائوں کے نتیجے میں نہیں تھا ۔ وہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھا۔
کیوں ؟
اس لئے کہ ماں کی تمنائیں‘ اس کے خیالات ‘ اس کے جذبات۔ وہ اپنی نفسانی مجبوریوں سے کلیتاً آزاد اور ان سے باہر تھے۔ اور خالصتہً اللہ کیلئے ہوچکے تھے۔ پس فرمایا : پھر ہم نے اس میں روح پھونکی اور یہاں اس آیت کریمہ میں اس عورت میں روح پھونکی نہیں فرمایا ! ہم نے اس بچے میں روح پھونکی جو اس عورت کے پیٹ میں تھا۔ اور وہاں مرد کی مثال دی گئی ہے۔ تو فرمایا کہ ادنیٰ سے ادنیٰ مثال تو تمہاری آسیہ کی سی ہے۔ اپنے ایمان کی ہر حالت میں حفاظت کرو۔ اوراگر تم ایسا کرو گے تو آخری مرتبہ ایک اور عورت کا حاصل ہوسکتا ہے کہ اللہ تمہیں جو بھی بلند مرتبے عطا کرے بلند مقامات بخشے تمہارے نفس کی خاطر نہیں ہوگا۔ تمہاری نفسانی تمنائیں تمہارے سامنے تمہارے مراتب کے روپ نہیں ڈھالیں گی‘ بلکہ یہ محض اللہ کے فضل کے ساتھ تمہیں نئے درجے عطا ہونگے۔ جیساکہ مریم کو ایک اور مرتبہ جو مسیحی مرتبہ ہے وہ عطا کیا گیا ۔ مسیح کی مثال کیوں نہ دی مریم کی کیوں دی؟
اس لئے کہ مریم سے مسیحیت کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ مریمی حالت ہی ہے جو ترقی کرتے ہوئے مسیحی حالت میں تبدیل ہوتی ہے۔یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے متعلق جب فرمایا کہ میری پہلی حالت مریمی حالت تھی۔ یہ بڑے دکھوں اور تکلیف کی حالت اور بے اختیاری کی حالت ہے۔ پھر اسی حالت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے عیسوی روح عطا کی۔ تو۔یہ لوگ ہنستے ہیں۔ یہ آج کل کے جہلاء تمسخر کرتے ہیں کہ دیکھو جی ! پہلے وہ عورت بن گئے تھے اورپھر بعد میں مرد بنے۔ تو قرآن کیوں نہیں پڑھتے؟ قرآن تو کہتا ہے کہ ہر مومن کو پہلے عورت بننا پڑا ہوگا اگر یہی عورت ہے تو ! دو ہی عورتیں ہیں۔ ان کا رستہ اختیار کئے بغیر تم امت محمدیہؐ کے مومن نہیں بن سکتے۔ یا تمہیں اپنے ایمان کی کم از کم اتنی حفاظت کرنی ہوگی جتنی آسیہ نے کردکھائی۔ یا پھراپنی خواہشات اور تمنائوں کو کلیتاً نفس کی آلودگی سے ویسے پاک کرنا ہوگا جیسے مریم نے پاک کیا۔ پھر تمہیں وہ روحانی مرتبے عطا ہونگے جو اللہ کی طرف سے آتے ہیں اور خدا کی طرف سے روح پھونکی جاتی ہے۔ تو یہ ہے قرآن کا حقیقی معنیٰ جو روح کی پہنائیوں تک اتر جاتا ہے اور ہرایک وجود میں سرایت کر جاتا ہے۔ اور کہاں یہ دیکھئے ! تقیہ نکالنا اس سے کہ چونکہ ایک مثال اس کی آگئی ہے اس لئے ہم اپنے سب سے بزرگ اور بہادر اور متقی بزرگوں کی طرف جن کے مراتب بہت بلند ہیں ان کی طرف یہ ادنیٰ ایمان منسوب کرتے ہیں۔ بڑی گستاخی ہے حضرت علیؓ کی۔ ایسی گستاخی کہ میں حیران ہوجاتا ہوں سوچ کے۔ دل کانپنے لگتا ہے کہ کوئی ان کو خدا کا خوف ذرا بھی نہیں آتا۔ ایمان چھپانے والے مومن کی مثال حضرت علیؓ پر لگاتے ہیں۔ کہتے ہیں دیکھو ! کیسا شاندار تقیہ کیا اور پہلے پھرکیا کرتے تھے؟ جب وہ میدان جنگ میں اور ہر میدان جنگ میں ۔ جہاںموت کی چکی بڑی شدت سے گھوم رہی ہوتی تھی وہاں جاتے تھے اور موت کے دانت کھٹے کردیا کرتے تھے ۔ ان کی تلواریں توڑ دیتے تھے جو تلواریں اٹھتی تھیں اور علیؓ کی تلوار کے قصے تم بھول چکے ہو۔ وہ کیا کیا جوہر دکھاتی رہی ہے ! اس وقت کیوں نہ تقیہ کرلیا۔ ساری زندگی کی گواہی کو بھی حضرت علیؓ کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے بعض صورتوں میں ایمان کو چھپانے کی خدا اجازت دیتا ہے مگر بعض شرائط کے ساتھ۔ اور ایک ناپسندیدہ حالت ہے۔ جس کے متعلق خطرہ رہتا ہے کہ اللہ چاہے توپکڑ بھی لے اور اگر چاہے تو معاف بھی فرما دے۔ یہ ناپسندیدہ حالت اپنے بزرگوں کی طرف منسوب کررہے ہو؟
یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو بھیجا تجارت کیلئے کیونکہ وہ دنیا میںدلچسپی نہیں لیتا تھا خاص۔ تو انہوں نے کہاکہ تجارت کا ایک قافلہ جارہا ہے اس سے اسے تجربہ ہوجائے گا‘ شوق پیدا ہوگا۔ تو کچھ مال و دولت دیا اور تجارتی قافلے کے ساتھ بھیج دیا۔اس تجارتی قافلے کا ایک جنگل میں پڑائو ہوا اور یہ بھی ایک درخت کے نیچے آرام کررہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک شیر آیا ہے جس نے کسی جانور کا شکار کیا ہوا ہے اور اس کو گھسیٹتا ہوا ایک جھاڑی میں لے آتا ہے اور یہ اس کو دیکھتا رہا۔ اس نے خوب اس کو اپنی چاہت کے مطابق اپنی پسند کے مطابق کھایا دل نکالا جگر کھایا۔ دوسری چیزیں اور بقیہ جانور کو آئندہ کیلئے بچا کر جھاڑی کے ایک کونے میں چھپا دیا اور آپ چلا گیا۔ جب وہ چلا گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک بیمار لگڑ بھگڑ اپنی ٹانگیں گھسیٹتا اور اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا وہاں پہنچا اور شیر کا پس خوردہ جو بچا ہوا وہاں پڑا تھا اس سے اس نے بھی اپنا پیٹ بھر لیا۔
یہ واقعہ دیکھا تو یہ حیران رہ گیا۔ اس نے کہا۔ واہ ! اللہ کی شان دیکھو۔ وہ تو سب کا رازق ہے۔ میں خواہ مخواہ اس مصیبت میں مبتلا ہوں۔ یہ دنیا کمانے کیلئے اتنی محنتیں کروں۔ جب خدا نے ذمہ لے لیا ہے رزق کا تو چھوڑو اس کو۔ وہاں سے واپس آیا۔ جو پیسہ تھا غریبوں میں تقسیم کیا۔ گھر اکیلا خالی ہاتھ آکر بیٹھ رہا۔ باپ نے جب دیکھا تواس نے کہا یہ کیا کیا تم نے؟ میں نے تو تمہیں تجارت پر بھیجا تھا۔ اس نے کہا گیا تو تھا تجارت پر ‘ پر یہ واقعہ دیکھا ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے۔ باپ نے کہا تم سچ کہتے ہوگے لیکن میری خواہش اور تھی۔ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ تم وہ لگڑ بھگڑ بنو جو شیروں کے پس خوردہ کھا کر زندہ رہو۔ میں چاہتا تھا تم وہ شیر بنو جس کے پس خوردہ لگڑ بھگڑ کھایاکریں۔ تو حضرت علیؓ تو شیر خدا ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں وہ شیر خدا تھے۔ ان کو لگڑ بگھڑ کی مثال دیتے ہو؟ کوئی حیا نہیں آتی؟ تمہارا ایمان کہاں جاتا ہے؟ کچھ خدا کا خوف کیوںنہیں کرتے؟
جسے خدا نے شیر بنایا تھا جس کا پس خوردہ دنیا کھاتی تھی تم اسے دنیا ک یپس خوردہ کھانے والا بنا بیٹھے ہو۔ اور عملاً یہی کرلیا ہے۔ کہتے ہوکہ اپنا حق ‘ حق خلافت غصب ہوتے دیکھا۔ خدا نے جو حق میں وصیت کی تھی اس وصیت کو چاک ہوتے دیکھا۔ تمام روحانی مراتب آپ سے غصب کرکے چھین کر۔ ایک ظالم ان کی کرسی پر جا بیٹھا اور دنیا کی منفعفت کیلئے اس کے دربار میں حاضری دیتے رہے۔ باغ کیلئے التجائیں کرتے رہے مگر اپنے منصب کا مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ایک دفعہ بھی نہیں۔ ساری شیعہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ان کی اپنی تحریریں مطالعہ کرلیں۔ میں کسی سنی حوالے کی بات نہیں کررہا کسی شیعہ تاریخ میںیہ ذکر نہیں ہے۔ کسی کتاب میں‘ کسی ان کی حدیث میں کہ حضرت علیؓ کو اچانک خیال آیا ہو اور وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہوں اور کاہ ہو کہ اے ابوبکر ؓ ! پہلے میرا حق تو مجھے دے جو خدا نے عطا کیا ہے۔ پھر باقی باتیں بعد میںدیکھیں گے۔ تو یہ ہے شیر خدا کو (نعوذ باللہ من ذلک) اس سے بالکل برعکس حالت میںتبدیل کردینا اور ان کا جو مرید ہیں جو محبت کے دعویدار ہیں جو عشق کے دعویدار ہیں۔ جن کے دعوے یہ ہیں بعض جگہ بعض شیعوں کے کہ وہ علیؓ خدا تھے اور محمدؐ اس کے بندہ تھے (نعوذ باللہ من ذالک) یہ ہیں انکے عقیدے۔
اس سے بھی بھیانک عقیدے دنیا میں موجود ہیں ہمیں اس سے بحث نہیں ہے یہ جاہلانہ بات ہے کہ ان باتوں کو بیان کرکے طبیعتوں میں اشتعال پیدا کیا جائے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو بھی تو خدا کا بیٹا بنایا ہوا ہے اور کرشن کو خدا بنایا ہوا ہے۔ کس کس سے تم دنیا میں لڑتے پھرو گے؟ اس لئے جو تمہارے اختیار میں چیزیں نہیں ہیں ان کو اپنے اختیارمیں نہ لو۔ یہ اللہ کے معاملے ہیں۔ پس میں جب یہ باتیں بیان کرتا ہوں تو شیعوں کے خلاف نعوذ باللہ کسی اشتعال انگیزی میں مبتلا نہیں ہوتا نہ میں اسے جائز سمجھتا ہوں۔ یہ بے چارے راہ سے بھٹکے ہوئے بھائی ہیں ان کو سمجھائو۔ عقلی دلیلیں دو۔ جسطرح بن سکے ان کو ان گمراہیوں سے بچانے کی کوشش کرو۔ یہی ہے جو ہمیں اختیار ہے۔
’’انما انت مذکر لست علیھم بمصیطر‘‘
یہی وہ مرتبہ ہے جو محمد رسول اللہ کا مرتبہ ہے اس سے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمارا کام نصیحت کرنا ہے ہم ان پر داروغہ نہیں بنائے گئے کہ ہم انہیںپکڑیں اورسزائیں دیں اور قیدوں میں مبتلا کریں یا پھانسیوں پر چڑھائیں پس یہ تعلیم غلط ہے جو آج کل پاکستان میں دی جارہی ہے۔ مگر یہ درست ہے کہ شیعہ عقائد ایسے ہیںکہ جس کے نتیجے میں ایک مومن کا دل لرزنے لگتا ہے۔ طبیعت میں ایک ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ یہ کیا کررہے ہیں۔یہ ہے تقیہ۔جس کی میں بات کررہا تھا۔ اب تبرا کی بات سُن لیجئے !
تبرا کس چیز کو کہتے ہیں؟
اس کے متعلق بہت سے حوالے ہیں۔ میں ایک چُن کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ کل انہوں نے میر احمد علی صاحب نے Revilde کے لفظ کے اندر (جو میں نے کل حوالہ پڑھا تھا) تبرا کا ہی ذکر کیا ہے کیونکہ Revile کرنا اور تبرا کرنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
کہتے ہیں تبرا ہم پر لازم نہ تھا اگر صرف محمد رسول اللہ ؐ کے ساتھ بے وفائی کرتے اور یہ سب کچھ کرتے۔ بھاگے پھرتے بکریوں کی طرح پہاڑوں پر پتھر سے پتھر پر اور چٹان سے چٹان پر چھلانگیں مارتے پھرتے۔ کوئی فرق نہیں تھا۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ علیؓ کی خلافت پر قابض ہوگئے پھر ناقابل برداشت ہے پھر تو ہم پر تبرا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ اور تبرا ہے کیا؟ یہ سنئے ! حق الیقین مصنفہ محمد باقر مجلسی فصل نمبر 18 صہ 519 مطبوعہ ایران اس کا ترجمہ ہے۔ یعنی اصل عبارت بھی موجود ہے مگر میں ترجمہ پڑھ کر سناتا ہوں۔
برأت کے بارے میں ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ چار بتوں سے بیزاری برأت کا بنیادی حصہ ہے؟ وہ یہ ہیں) ابوبکرؓ ‘ عمر ؓ ‘ عثمانؓ اور معاویہ ؓ۔
کہتے ہیں یہ چار بت ہیں جن سے بیزاری کا اظہار دین کا بنیادی حصہ ہے اور اسی کا نام تبرا ہے اور چار عورتوں سے بیزاری یعنی عائشہ ‘ حفضہ ‘ ہندہ اور ام حکم اور ان کے تمام ساتھیوں اور متبعین سے بیزاری چاہیں۔
چار مردوں سے حضرت ابوبکر ؓ ‘ حضرت عمرؓ ‘ حضرت عثمان ؓ ‘ اور معاویہ سے اور چار عورتوںسے حضرت عائشہ صدیقہؓ ‘ حضرت حفصہ ؓ ‘ ہندہ اور ام حکم سے بیزاری کریں۔ اور ان سے نہیں ان کے تمام ساتھیوں سے۔
حضرت عائشہ ؓ کے ساتھی کون تھے؟
حضرت حفصہ ؓ کے ساتھی کون تھے؟
کوئی حیا نہیں۔ کوئی سوچتے نہیں کہ کیا بات کہہ رہے ہیں۔ یہ تلوار کی زد کہاں تک جا پہنچتی ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ یہ یقین رکھتے ہیں
’’نیز ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ لوگ خدا کی بدترین مخلوق ہیں‘‘
یہ مسلمان ہیں۔ ہم نہیں ہیں جن کا دل خون ہوتا ہے ۔ ان باتوں کو سن کر۔ جو عشق صحابہؓ میں سر تاپا لبریز ہیں۔ یہ غیر مسلم ہیں پاکستان کی تعریف کے مطابے اور یہ مسلمان ہیں۔ جن کا اعتقاد یہ ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک۔ یہ خداکی بدترین مخلوق ہیں۔
’’اور ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ جب تک خدا‘ رسول اور ائمہ کے دشمنوں سے بیزاری نہ کی جائے۔ اس وقت تک خدا رسول اور آئمہ کی سچائی کا اقدار مکمل نہیں ہوسکتا۔‘‘
(اردو ترجمہ از فارسی عبارت حق القین مصنفہ محمد باقر مجلسی)
فصل نمبر 18‘ صہ 519‘ مطبوعہ ایران
پھر اس موضوع پر مختلف حوالے ہیں مگر چونکہ درس قرآن میں ضمناً یہ معاملہ زیر بحث آیا ہے۔ اس لئے میں مستقل اسے شیعہ سنی debate میں یا مناظرے میں تو تبدیل نہیں کرسکتا مگر چونکہ یہ باتیں قرآن کی طرف منسوب کررہے ہیں اور جو آیتیں زیر بحث ہیں ان سے استنباط کررہے ہیں۔ اس لئے بالکل مجبوری ہے۔ انکے غلط عقائد یا قرآن کریم کی آیت کے ۔۔۔۔بطلان کو نظر انداز کرکے کیسے میں آگے بڑھ سکتا ہوں۔
شیعہ عقیدہ کیا ہے۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ پنجتن پاک اور چھ دیگر صحابہ کے سوا آنحضرت صیل اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ بشمولیت خلفاء راشدین ثلاثہ ابوبکر‘ عمر اورعثمان (ہم جن کو رضوان اللہ علیھم کہتے ہیں) سب کے سب اسلام سے برگشتہ ہوچکے تھے۔ اور عیاذاً باللہ منافق کا درجہ رکھتے تھے۔ نیز یہ عقیدہ کہ پہلے تین خلفاء غاصب تھے ان پر تبرا کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔
یہ خلاصہ ہے شیعہ مذہب کا۔ جو اسلام کا ایک لازمی ستون ہے۔ ان 72 فرقوں میں سے ایک ہے جن کے اسلام پر حکومت پاکستان نے اور پاکستان کو Constituion نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔۔۔۔اب بتائیے کہ یہ ایک لازمی منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ نہیں؟ کہ پاکستان کی Constituion کے مطابق یہ تمام عقائد رکھنا اسلام کے دائرے کے اندر ہے اور کوئی نہیں جو ان عقائد کے رکھنے والوں کو غیرمسلم قرار دے سکے۔ بتائیے اس نتیجے سے مفر کسے ہوسکتا ہے۔ Constituion کی مہر لگی ہوئی ہے۔
تمام شیعہ اپنے تمام عقائد سمیت دائرہ اسلام میں داخل اور اسلام کا ایک اہم ستون ہیں۔ یعنی ایک ستون اگر اہل سنت ہیں تو دوسرا ستون شیعہ ہیں۔ کون ہے جو انکو اسلام سے باہر قرار دے سکے۔ پس انکے تمام عقائد اس حد تک قابل قبول ہیں کہ انکو رکھنے کے باوجود انسان غیر مسلم نہیں بن سکتا اور اسلام کے دائرے سے باہر نہیں جا سکتا تو تمام سنّیوں نے پاکستان کے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھنے کے نعوذ باللہ من ذالک چار مرد وہ جن کا بیان ہوا ہے اور چار عورتیں یہ کلیتاً فاسق فاجر دین سے باہر اورخدا تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بدترین مخلوق ہیں۔ یہ اسلام ہے۔ کون ہے جو ان کو یہ کہ سکے کہ نہیں ہے۔
اور یہ عقیدہ رکھے کے اگر ہم یہ عقیدے نہ رکھیں تو ہمارا اسلام نہیں بن سکتا ۔ اور ہم پر لازم ہے ان سب کو گالیاں دیں اور بد ترین زبان انکے خلاف استعمال کریں۔ یہ جائز ہی نہیں بلکہ دین کا حصّہ اور فرض ہے۔ جو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ جو ان کا حق ہے جو تسلیم کرتا ہے سو بسم اللہ۔ وہ 72 کے تھیلے میں آرام سے زندگی گزارے ۔ کون ہے جو اسکو میلی آ نکھ سے دیکھ سکے؟ لیکن جو ان کے عقیدوںکے خلاف آواز اُٹھائے گا وہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔ اسلام کے اندر۔
اب یہ تبّرا کی مثالیں بہت ہی مکروہ مثالیں ہیں میں صرف چند مجبوری کی حالت میں پیش کرتا ہوں۔ ایک تو ایسی خبیثانہ بات ہے کہ آدمی کے تصور میں بھی نہیں آسکتی کہ کوئی مسلمان یہ بات لکھے اور دوسرے مسلمان آرام سے کہیں کہ ٹھیک ہے کوئی بات نہیں تم ہو تو مسلمان ہی ناں ! جو مرضی کہتے پھرو تو نعوذ باللہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ (ناقابل بیان بات ہے) کسی سے عشق ہوگیا تھا۔ اور اسکی رقابت میں حضرت علیؓ سے دشمنی ہوئی اتنی ناپاک بات ہے اتنی خبیثانہ بات۔ ایسے قابل احترام وجود پر جو خاتونِ جنت ہیں جو تمام عورتوں کی سردار ہیں جنّت میں ۔ اپنی دشمنی میں بھول جاتے ہیں کہ یہ بکواس کر کیا رہے ہیں؟
(کتاب کامل بھائی اور کتاب خلافت شیخین 41ـ؎ پھر حضرت عمر ایسے ناپاک مرض میں مبتلا تھے کہ جسکے بغیر انہیں چین نہیں آتا تھا ( یعنی روحانی بیماری ۔ وہ مرض بھی اپنا بیان نہیں کر سکتا )
(الزھراء بحوالہ شیعہ سنی اتحاد ص 4سے یہ حوالہ لیا گیا ہے)
کہتے ہیں حضرت ابوبکرؓ سے منبرنبویؐ پر مسجد نبویؐ میں سب سے اول بیعت خلافت شیطان نے کی تھی۔
حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پہ منبر نبوی پر پہنچ کر شیطان پہلے پیش ہوا ۔ ہاتھ بڑھایا کہ حضور پہلے میری بیعت لے لیجئے۔ پھر باقی صحابہؓ نے ۔ پھر حضرت علیؓ نے دیکھا کہ سب کر بیٹھے ہیں میں بھی کرلوں۔ اب کیا باقی رہنا ہے تو نعوذ باللہ سب شیطان کے چیلے بن گئے۔ اور اس کے پیچھے قدم رکھتے ہوئے۔
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے اے شیطان !
حضرت علیؓ نے کہا کہ میں اکیلا بیٹھا باہر کیا کرونگا۔ یہ دین ہے۔ لیکن اسلام ہے۔ پاکستان کی Constituion اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ لکھا ہوا ہے۔ مہر لگی ہوئی ہے اوپر۔ حکومت کی مہر ہے ، ہے یہ اسلام !
کوئی تقویٰ کا اشارہ بھی ملتا ہے ا ن باتوں میں ؟
یہ سیاستیں ہیں جن کو دنیا میں مشتہر کررہے ہیںکہ دیکھو پاکستان حکومت نے۔ پاکستان کی Constituion نے‘ پاکستان کے دانشوروں اور علماء نے مل کر کچھ دیکھا تھا تو یہ فتویٰ دیا کہ احمدی کافر ہوگئے ہیں کیونکہ یہ کہتے ہیں کہ امام مہدی آگیا۔
یہ جرم ہے۔ اور کہتے ہیں کہ امام مہدی کا منصب امتی نبی کا منصب ہے جو قرآن کے پوری طرح اور کامل طور پر تابع ہوگا۔ اور محمد رسول اللہ ؐ کا غلام ہوگا۔ یہ کہتے ہیں۔ ایسی گستاخی کی جرأت۔ یہ تو نبوت پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ امام مہدی امتی نبی: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اسلام میں یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں یہ بے شک برداشت کرلو کہ وہ چار کون ہیں؟ اور وہ چار کون تھیں؟ اور ان سے خدا کا کیا سلوک ہوگا؟ اور دنیا کی بدترین مخلوق کس کو کہتے ہیں؟ اورکن پر تبرا دین میں فرض ہے۔ اور شیطان نے سب سے پہلے بیعت کس کی کی تھی؟
کہتے ہیں یہ سب اسلام کے اندر ہے۔ اس سے تمہیں کیا تکلیف پہنچتی ہے؟ ہمارا اپنا معاملہ ہے۔ ہم جو مرضی کریں اسلام کا۔ اسلام تو ہمارے گھر کی لونڈی ہے نعوذ باللہ من ذالک۔
قرآن مجید میں جہاں جہاں شیطان کا ذکر آتا ہے۔
وقال الشیطن: وہاں وہی ثانی مراد ہے۔ اب یہ تقیہ کیا گیا ہے۔ مراد حضرت عمرؓ ہیں اور تمام شیعہ جانتے ہیں کہ کیا مراد ہے؟ کہتے ہیں وہاں خلیفہ ثانی مراد ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
توجہاںجہاں یہ آتا ہے قرآن میں وقال الشیطا ن : وہاں حضرت عمرؓ مراد ہیں اور یہی ہمارا دین ہے۔
(بحوالہ القرآن امامیہ صہ 512)
حضرت ابوبکرؓ‘ عثمانؓ اور عمر کافر فاسق تھے۔
(حیات القلوب مجلسی باب 51)
سوائے چھ (6) اصحاب کے باقی جمیع اصحاب رسول مرتداور منافق تھے ۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف چھ صحابہ باقی بچے تھے۔ باقی تمام مرتد اور منافق ہوچکے تھے۔ یہ تبرا کی تعلیم ہے کن پر تبرا بھیجنا ضروری ہے ۔ وہ یہ لوگ ہیں۔
اب پہلے تو حضرت علی ؓ کے منصب کے متعلق بات کی تھی پھر بھی دہرا رہا ہوں کہ حضرت علیؓ کا کیا باقی رہنے دیا ان لوگوں نے۔ جو سب سے شجاع تھا۔ جو سب سے دین میں بہادر تھا اسے نعوذ باللہ من ذلک سب سے بزدل کے طور پر پیش کرکے اور پھر منافق کے طور پر پیش کرنا۔ اس سے تو زیادہ ظلم حضرت علیؓپر ہو ہی نہیں سکتا۔
سر بچالیا اور ہاتھ نعوذ باللہ من ذلک فاسق فاجر دنیا کی بدترین مخلوق والے آدمی کے ہاتھ میں دے دیا۔ ان کے ہاتھ میں جن کے ہاتھ پر شیطان ان سے پہلے سبقت لے جاچکا تھا اور پہلے بیعت کر بیٹھا تھا‘ کیا باقی رہا حضرت علی ؓ کا؟
وہ علیؓ قرآن میں جس کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ وہ اور علی ؓ ہے۔ وہ علیؓ جو محمد رسول اللہ ؐ کا وفادار تھا اور اسلام کا وفادار تھا اور ظاہر و باطن میں ہر طرح سے سچا تھا۔ نہ اس کا ظاہر جھوٹا تھا نہ اس کا باطن جھوٹا تھا۔ جو ظاہر تھا وہی اسکا باطن تھا۔ وہ علی ؓ تھا جس نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ نہ کہ وہ علی جس کی تم نے ایسے ناپاک الزام لگا لگا کر شکل بگاڑ دی ہے۔ پہچانی نہیں جاسکتی۔
اور حضرت محمد ؐ رسول اللہ کا تصور ۔ پہلے کہا کرتے تھے مسلمان۔ عیسیٰ علیہ السلام آئے ساری زندگی زور لگایا۔ صرف 30 ہی چھوڑے ناں پیچھے ماننے والے؟ ان میں سے بھی دو (2) نے *** کردی یا ایک نے *** کی اور دوسرا ویسے پھر گیا تو محمد رسول اللہؐ کا بڑا شور تھا۔ خاتم الانبیائؐ آنے والا ہے۔ ایسا آنے والا ہے جس کے متعلق فرمایا۔
’’یتلو علیھم آیاتہ ویزکیھم ‘‘
وہ ان پر آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا چلا جاتا ہے۔دلائل بعد میں آتے ہیں۔
لیکن ایسا پاک وجود ہے کہ فوراً ان کا تزکیہ کرتا چلا جاتا ہے۔
و یعلمھم الکتب والحکمتہ و ان کانوا من قبل یفی ضلال مبین
اور پھر تزکیہ کرنے کے بعد پاک دلوں کو تعلیم دیتا ہے۔ وہ کیا تزکیہ تھا؟ ساری عمر کی کمائی 6 مومن! اور لاکھوں منافق!! جن میں سے ان کے کہنے کے مطابق ہر دل ناپاک تھا اور دنیا کی بدترین مخلوق ان کی سرداری کررہی تھی۔ محمد رسول اللہؐ کا کیا باقی چھوڑا؟ جو تمام دنیا کا نبی بن کے آیا۔ اس کی زندگی کا ماحصل تو بس یہ منافق ہی رہ گئے لیکن بدنصیبی اور ہے ابھی ختم نہیں ہوئی! جو 6 باقی رہ گئے تھے وہ بھی پھر منافق بن گئے نعوذ باللہ من ذلک‘ انہوں نے بھی بیعتیں کرلیں۔ ان کی جو منافقوں کے سردار تھے۔ گویا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ محمد رسول اللہؐ کی زندگی کا ماحصل ایک منافق گروہ کے بعد ایک دوسرا منافق گروہ پیدا کرنا بن گیا۔ یہ ہے اسلام کا خلاصہ جو ان شیعہ عقائد سے ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تمام دلائل کو ایک جگہ بیان فرمایا ہے۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صہ ۱۸۹۲
اور بڑی شان کے ساتھ اور بڑی قوت کے ساتھ حضرت علیؓ کی سچائی کا دفاع فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ ساری باتیں اور وہی سارے دلائل جو میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔ الحمد للہ کے میری نظر جب حضرت مسیح موعودؑ کے اس اقتباس پر پڑی تو میں حیران رہ گیا کہ ایک بھی بات نہیں ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہو اور مسیح موعودؑ نے بیان نہ فرمائی ہو۔ ہر دلیل مسیح موعود علیہ السلام نے خود دی ہے اور آخر پر حضرت علیؓ کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ نعوذ باللہ وہ ان صحابہ سے جا ملا جو مرتد ہوگئے تھے۔ اس نے کیوں اپنی فصاحت و بلاغت کو استعمال نہ کیا۔ کیوں ان کو نہ سمجھایا ؟ کہتے ہیں کہ وہ تو بڑا قادر الکلام انسا ن تھا، بہادر بھی تھا۔ بہادری پر تم نے ضرب لگادی۔ اب اسے گنگ کردیاکہ وہ تین خلافتوں پہ خاموش بیٹھا رہا۔ اور کچھ کسی کو نہ سمجھایا کہ حقیقت حال کیا ہے؟
فرماتے ہیں
’’پس اُس پر یہ بلا کیا نازل ہوئی کہ اس نے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میںبلاغت اور فصاحت سے کام نہ لیا اور دلوں کو اپنی طرف پھیرنے میں اپنے حسن بیان کو نہ دکھلایا بلکہ نفاق اور تقیہ کی طرف جھک گیا اور نفاق کو دشمنوںکیلئے مثل افسوں کے سمجھا۔ کیا یہ فعل شیر خدا کا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ یہ تو اے کاذبوں کے گروہ تمہارا افترا ء ہے علی ؓ تو جامع فضائل تھا اور ا یمانی قوتوں کے ساتھ توام تھا۔ پس اس نے کسی جگہ ------- نفاق کو اختیار نہیں کیا۔‘‘
یہ ہیں حضرت علی ؓ ‘ وہ مقدس وجود جن کے نام سے دشمن کا پتہ پانی ہوا کرتا تھا جن کو حیدر جرار اور حیدر کرار کہا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود کی زبان سے سنیں۔ میں آئندہ اور بھی بعض حوالے ایک اور موقع پر آپ کے سامنے رکھوں گا۔ کیسا پیارا کلام ہے۔ کیسا عمدہ حضرت علیؓ کا تعارف کراویا گیا ہے۔
’’یہ فعل شیر خدا کا ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ تو اے کاذبوں کے گروہ تمہارا افتراء ہے۔ علیؓ تو جامع فضائل تھا‘‘ تمام خوبیاں‘ تمام نیکیاں جو اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہوں۔ فضائل اُن نیکیوںکو نہیں کہتے جو ادنیٰ حالتیں ہوںپس ایمان کی ادنیٰ حالت فضیلت سے نیچے قابل قبول بھی ہو تو وہ علیؓ کی شان نہیں تھی علیؓ کے حصے میں تو فضائل اپنے درجہ کمال تک پہنچی ہوئی نیکیوں کی صورت میں موجود تھے۔ پھر فرمایا اور ایمانی قوتوں کے ساتھ توام تھا۔ بہت ہی پیارا کلام ہے۔ حضرت علیؓ کو ایسا خراج تحسین میرا خیال ہے کبھی کسی نے نہیں دیا ہوگا۔ ایمانی قوتوں کے ساتھ توام تھا۔ جس طرح ہم شکل جڑواں پیدا ہوتے ہیں۔ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور پہنچانا نہیں جاتا ایک ‘ دوسرے سے الگ۔ تو کہتے ہیں تم علیؓ کے ایمان کی بات کررہے ہو۔ وہ تو ایمانی قوتو ںکے ساتھ توام پیدا ہوا تھا۔ ایک کو دوسرے سے الگ دکھایا ہی نہیں جاسکتا۔
پس اس نے کسی جگہ نفاق کو اختیار نہیں کیا!
اب یہ سوال ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت علیؓ اور دیگر ائمہ کی طرف جو یہ باتیں منسوب کرتے ہیں۔ انہیں پیش کرنے کا اب کوئی فائدہ باقی رہے گا یا نہیں !
یہ کہ دیںگے کہ جی تقیہ ہورہا تھا۔ ہم جب ان کے حوالے اب دینگے تو ان حوالوں کو شیعہ کس طرح دیکھیں گے؟ جہاں تک عامۃ الناس کا تعلق ہے ان میں تو اکثر لاعلم ہیں انہیں تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارا دین ہے کیا۔ یہ دین تو ایک خاص گروہ ہے شیعہ علماء کا انکے قبضے میں ہے۔ وہ ان کو عوام کو بتاتے رہتے ہیں۔ سالانہ مجلسوں کے وقت یا بعد ازاں کبھی کبھی کہ تمہارا دین ہے کیا؟ انکو کچھ پتہ نہیں بیچاروں کو۔
شیعہ دین کے متعلق میں اپ کو ایک بات سمجھا دوں پھر شاید بھول نہ جائوںبعد میں۔ شیعہ دین کی بنیاد بہت پیاری ہے۔ یعنی اہل بیت کی محبت۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ایک محبت کے جذبے کو بعض ظالموں نے ہانک کر غلط رستے پر ڈال دیا اور غلط نتائج پیدا کئے یہ ظلم ہے! پس جہاں تک اہل بیعت کی محبت کا تعلق ہے اس پر کسی شریف انسان کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو۔ اعتراض کا کوئی حق نہیں بلکہ اسے میدان میں شیعوں سے آگے بڑھ کر اہل بیت سے محبت کرنی چاہئے۔ حضرت محمدؐ رسول اللہ کے اہل بیت وہ تھے جو ایماناً بھی اہل بیت تھے اور جسمانی طور پر بھی اہل بیت تھے۔ ان میں آپ کی روحانیت کا خون بھی دوڑ رہا تھا اور آپ کی جسم کا خون بھی دوڑ رہا تھا۔
پس نور’‘ علیٰ نورٍ کی سی کیفیت تھی۔ ان کو نظر انداز کردینا اور ان پر ظلم کو برداشت کرلینا۔ یہ بے دینی کی بات ہے یہی احمدیت کا عقیدہ ہے۔ ان سے محبت کرنا ایمان کے اعلیٰ مراتب کو چھونا ہے۔ لیکن یہاں تک بات رہے۔ پاکوں کی محبت میں پاکوں پر ظلم کرنا۔ یہ ایسا خوفناک تصور ہے جس کو عقل بھی رد کرتی ہے اور نقل بھی رد کرتی ہے۔ نہ اس کی کوئی مثال سچوں کے کلام میں ملتی ہے نہ سچوں کے اعمال میں ملتی ہے۔ نہ عقل اسے قبول کرسکتی ہے کہ ایک سچائی کی خاطر دوسری سچائی کا منہ کالا کرتے پھرو۔ اور جب تم ایسا کرتے ہو تو اپنی سچائی کا گلا گھونٹتے ہو۔ اپنی سچائی کو داغدار کرتے ہو۔ اگر محمد رسول اللہؐ کی محبت کی وجہ سے یہ سب کچھ تھا تو محمد رسول اللہ ؐ کے غلاموں پر اس طرح زبان طعن دراز کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ صرف 6 پیچھے چھوڑے باقی سب منافق چھوڑ گئے۔ اور جو 6 تھے وہ بھی نعوذ باللہ من ذلک بعد میں انہوں نے کہا کہ ہم نے کیا باہر رہنا ہے۔ ہم بھی بن جاتے ہیں۔
یہ کوئی دین نہیںہے۔ خدا کا خوف کرو۔ تقویٰ اختیار کرو۔ اہل بیت کی محبت میں ان پر درود و سلام بھیجو۔ ان کے لئے دعائیں کرو۔ ان کے لئے جو غم ہوتا ہے مصنوعی طور پر اسے ابھار کر سینہ کوبی میں تبدیل نہ کرو ۔ انبیاء کی سنت کے مطابق راتوں کو کھڑے ہوکر ان پر درود و سلام بھیجو ۔ ان کے لئے روئو۔یہ نیکی ہے۔ لیکن اس کے برعکس بعض دوسرے نیکوںپر گند اچھالنا۔ خبیثانہ زبانیں استعمال کرنا۔ یہ پہلی نیکی کو کاٹ دینے والی بات ہے کیونکہ دو تضاد اکٹھے نہیں رہ سکتے یہ ناممکن ہے۔ مگر بہرحال وہ حوالے موجود ہیں جو میں آپ کے سامنے ابھی کچھ رکھتا ہوں تفسیر قمی میں سورۃ التحریم کی تفسیر کے ضمن میں یہ درج ہے اور یاد رکھئے کہ تفسیر قمی شیعہ تفسیر ہے۔ اس لئے یہاں کسی تقیہ کی بحث نہیں ہونی چاہئے۔ جب انہوں نے ایک تفسیر لکھی ہے اور خود اپنے ائمہ کے کلام کو نکالا ہے اور اجاگر کرکے سامنے پیش کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک سچی بات تھی جو وہ کررہے تھے کیونکہ کسی آیت کا جو مفہوم یہ سمجھ رہے ہیں اس کی تائید میں حوالے دے رہے ہیں۔ اس کی تائید میں نعوذ باللہ من ذلک منافقانہ حوالے تو نہیں پیش کرسکتے پھر۔ تفسیر قمی میں لکھا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ سے فرمایا میرے بعد ابوبکر ؓ خلافت پر متمکن ہونگے اور ان کے بعد تیرے والد (یعنی عمرؓ) اس پر حضرت حفصہؓ نے آنحضرتؐ سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی ہے؟ توآپؐ نے فرمایا مجھے علیم و خبیر ذات نے یہ خبر دی ہے۔
یہ خبر دی تھی کہ نعوذ باللہ منافقوں کے سردار‘ بدترین مخلوق میرے بعد دین پر قابض ہونے والی ہے۔
شرح نہج البلاغہ (یہ شیعہ تفسیر کی کتاب ہے) جز 6 ‘ صہ 293 یعنی حضرت علیؓ کے کلمات کی اس میں تشریح کی گئی ہے بہت حد تک اس میں لکھا ہے۔
فلما صلی ابو بکر الظھر اقبل علی الناس ثم قام علی فعظم من حق ابی بکر وزکر فضلہ و سابقتہ ثم مضیٰ الی ابی بکر فبایعہ فاقبل الناس الی علی وقالوا احسنت۔
پس جب حضرت ابوبکر ؓ ظہر کی نماز پڑھ چکے تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ کی فضیلت اور اسلام میں مسابقت کا ذکر فرمایا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کی طرف گئے اور ان کی بیعت کی اس پر لوگوں نے آپ سے کہا کہ درست فعل کیا ہے اور احسن کام اچھا کام کیا ہے۔پھر شرح نہج البلاغہ ہی میں دو حوالے درج ہیں۔ یہ دراصل ایک ہی عبارت ہے جس کے دو حوالے دیئے گئے ہیں۔
ایک شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید جلد 2‘ صہ 219
اور دوسری شرح نہج البلاغہ ابن ہشیم مطبوعہ تہران جلد 3
ان دونوں کتب میں وہی حوالہ درج ہے جس کی عبارت میں ابھی آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں ۔
وکان افضلھم فی الاسلام کما زعمت و انسہم للہ و رسولہ الخلیفتہ الصدیق و خلیفتہ الخلیفتہ الفاروق ‘‘
حضرت علیؓ نے فرمایا اور جیسے کہ تیرا دعویٰ ہے ان میں سے اسلام میں افضل اور اللہ اور رسول کے سب سے زیادہ خیر خواہ خلیفہ صدیق ہیں اور پھر خلیفۃ الخلیفۃالفاروق ہیں ۔ میری عمر کی قسم ! ان دونوں کا مرتبہ اسلا م میں عظیم الشان ہے۔ اور بے شک ان دونوں کی موت سے اسلام کو سخت زخم پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں پر رحم فرمائے اور ان دونوں کو ان کے اچھے اعمال کی جزا عطا فرمائے۔ اس میں ایک نقطہ قابل غور ہے۔ وہ یہ کہ حضرت ابوبکر ؓ صدیق کو تو خلیفتہ الرسول فرمایا گیا ہے اور حضرت عمرؓ کو خلیفتہ ابی بکر فرمایا گیا ہے اس حساب سے جب حضرت علیؓ کی باری آئے گی تو آپ کو کیا کہا جائیگا ؟ خلیفتہ عثمان ؓ ! اس پہ بھی تو شیعہ غور کریں کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ جواب میں بتا دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ کی مراد یہ نہیں ہے کہ حضرت رسول اکرمؐ کے خلیفہ نہیں تھے بلکہ ابوبکرؓ کے خلیفہ تھے۔
اگر یہ مراد ہو تو پھر آپ کی خلافت بھی کاٹی جاتی ہے۔ مراد صرف یہ ہے بعد میں آنے والا کیونکہ خلیفہ کا ایک معنیٰ یہ ہے ان کے بعد منصب پر بیٹھنے والا تو فرمایا تاریخی نقطہ نگاہ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد پہلے ابوبکرؓ منصب خلافت پر بیٹھے۔ پھر آپ کے بعد منصب خلافت پر بیٹھنے والے عمرؓ تھے۔ یہ مراد ہے۔ اس لئے وہ جو میں نے اعتراض اٹھایا ہے شیعوں کی طرف اس کا جواب بھی خود دے رہا ہوں کہ یہ اصل جواب ہے۔ ورنہ اگر تمہیں یہ جواب تسلیم نہیں تو پھر حضرت علیؓ رسول اکرمؐ کے خلیفہ نہیں رہتے بلکہ عثمان ؓ کے خلیفہ بن جاتے ہیں۔
اب حضرت علیؓ کی ایک اور روایت سن لیجئے !کترالعمال جلد ۱۳ ‘ صہ ۱۰۔۹ از علامہ علی المتقی متوفی ۹۷۵ھ -- ۱۵۶۷ء المطبعتہ العربیۃ حلب ۔
اس میں حضرت علیؓ کی یہ روایت درج ہے۔ اس امت کے نبی کے بعد اس کے افضل ترین لوگ ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں۔ اور اگر تم چاہو کہ تمہارے لئے تیسرے کا نام بھی بیان کروں تو میں اس کا نام بھی بتاتا ہوں۔ اور کہاکوئی مجھے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر ترجیح نہ دے ورنہ میں اسے سخت کوڑے ماروں گا۔
یہ اس زمانے کی روایت ہے جب آپ خلیفہ ہوچکے تھے۔ منصب خلافت پر فائز ہوچکے تھے۔ جبکہ خود شیعہ تشریح کے مطابق تقیہ کی کوئی بھی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ اگر نعوذ باللہ پہلے تھی۔ ہم تو اس کا بھی انکار کرتے ہیں۔ تو جب خود منصب خلافت پر بیٹھ چکے تھے پھر تقیے کا کونسا موقعہ تھا؟
فرماتے ہیں افضل ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں۔ اور کوئی مجھے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر فضیلت نہ دے ورنہ میں اسے سخت کوڑے ماروں گا۔ اب یہ بھی ہمارے میر صاحب (Mir Ahmad Ali) شکر کریں کہ اس زمانے میں نہیں پیدا ہوگئے۔ پتہ نہیں کیا حال ہونا تھا۔ جو یہ باتیں کہہ چکے ہیںان پر تو چمڑی ادھیڑ دی جاتی ساری اور حضرت علیؓ کے ہاتھوں۔ پھر فرماتے ہیں’’آخری زمانے میںایک قوم ایسی بھی ہوگی جو ہماری محبت کا دعویٰ کرینگے اور ہمارا گروہ ہونگے لیکن وہ اللہ کے شدید بندے ہونگے جو ابوبکرؓ اور عمرؓ کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ تو وہ شیر خدا نے کیسا الٹایا ہے؟ اور حضرت علیؓ کی زبان سے الٹا دیا۔وہ حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کو ’’شرالناس‘‘ کہتے تھے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ تم شر الناس ہو۔ جو ان خدا کے پاک بندوں کو شرالناس کہہ رہے ہو۔
پھر حضرت علیؓ فرماتے ہیں۔ یہ منار الھدیٰ صہ۲۷۳ سے روایت لی گئی ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا۔
’’جب ابوبکرؓ کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے حضرت عمرؓ کو بلا کر انہیں خلیفہ مقرر کیا۔ پس ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اور خیر خواہی کی۔ اور حضرت عمرؓ امر خلافت کے والی ہوئے۔ پس آپ کی سیرت نہایت پسندیدہ اور آپ کی خلافت حد درجہ بابرکت تھی۔‘‘
یہ ہیں خدا کے متقی لوگ آپس میں ایک دوسرے سے بغض نہیں کرتے بلکہ محبت کرتے ہیں۔ اور حضرت علیؓ کی زبان سے آپ کسی شیعہ کتاب میں آپ کوئی حوالہ نہیں پڑھیں گے کہ انہوں نے نعوذ باللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے خلاف تبرا کیا ہو۔ یہ بدبخت رسم اس زمانے کی ہے ہی نہیں۔ یہ بعد کی باتیںہیں۔ شیعہ عوام الناس بے چاروں کو پتہ ہی نہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے ہمارے ساتھ۔یہ مجلسی لوگ آپس میں بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں اور اپنا دین تو ناپاک بناتے ہی ہیں ۔عوام الناس کا بوجھ بھی ان پر پڑے گا۔ یہ بار بھی ان کی گردنوں پر ہوگا جب یہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونگے۔کشف الغمہ کا اب ایک حوالہ سنئے ! بڑا فیصلہ کن حوالہ ہے۔ اوریہ چوتھے امام ہیں۔ حضرت امام زین العابدینؒ۔
حضرت علیؓ پہلے امام۔ حضرت امام حسن ؓ دوسرے امام حضرت امام حسینؓ شہید کربلا تیسرے امام اور چوتھے امام جن کا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ شیعہ عقائد میںحضرت امام زین ؒ العابدین ہیں۔ کشف الغمہ میں ہے۔
سعید بن مرجانہ نے کہا کہ میں ایک دن علی بن حسین امام زین العابدین کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ لوگ اہل عراق مین سے آپ کے پاس آئے ۔ تو انہوں نے ابوبکرؓ ‘ عمر ؓ ‘ اور عثمان کی شان میں کچھ ناشائستہ باتیں کہیں (یعنی حضرت امام زین ؒ العابدینکے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے حضرت ابوبکرؓ ‘ عمر ؓ اور عثمان کی شان میں کچھ ناشائستہ باتیں کہیں ) جب وہ اپنی بات سے فارغ ہوگئے تو امام زمین العابدین نے فرمایا:کیا تم مجھے نہیں بتائو گے کہ آیا قرآن میں جو لکھاہے کہ تم وہ مہاجرین اولین ہو جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکالے گئے۔ وہ اللہ کی بخشش اور رضامندی چاہتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے رہے اور یہی لوگ سچے ہیں۔ کیا تم وہی ہو ؟ باتیں بنانے والے۔ کیا تم اس گروہ سے تعلق رکھتے ہو جو اس طرح خدا کی خاطر اولین مہاجرین میں سے پیدا ہوئے جنہوں نے رسولؐ کا ساتھ دیا جن کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ وہ ان سے راضی ہوا۔ ان کے ساتھ یہ سلوک فرمائے گا۔ تم وہ تو نہیں ہو ناں؟ انہوں نے کہا نہ نہ ہم تو نہیں ! ہم تو بعد کے پیدا ہونے والے لوگ ہیں وہ کیسے ہوگئے۔ انہوں نے جواب دیاکہ ایسا نہیںہے ہم تو ان مہاجروں میں سے نہیں ہیں۔کہا: اچھا تو کیا تم ا ن لوگوں میں سے ہو جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں آگے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ مدینہ میں یعنی مہاجرین کے آنے سے پہلے رہتے تھے اور ان کے آنے سے پہلے ایمان لاچکے تھے اور وہ ان سے محبت رکھتے تھے۔ جو ان کے پاس ہجرت کرکے آئے اور اپنے دلوں میں اس مال کی نہ رکھتے تھے جس سے ان کو دیا گیا۔ اور اپنے نفسوں پر مہاجرین کو ترجیح دیتے تھے خواہ خود ان پر تنگی ہو۔
پوچھا : کیا تم وہ انصار ہو۔ جنہوں نے آنے والوں کیلئے ایسی ایسی قربانیاں پیش کی تھیں۔ کہ بعض حاضر ہوئے رسول اللہؐ کی خدمت میں کہ ہمارے بعض بھائی غیر شادی ہیں ہماری ایک سے زائد بیویاں ہیں اگر حکم ہو تو ہم ان کو طلاقیں دے دیتے ہیں تاکہ ان کی ان سے شادیاں کروادیں۔ اور ہم اپنے گھر پیش کرتے ہیں اور اپنے مال پیش کرتے ہیں۔ نصف نصف کردیں ان کو جہاں سے چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے بھائی ہیں۔ خدا کی خاطر ان کے مال لوٹے گئے۔
امام صاحبؒ نے فرمایا : بتائو کہ تم وہ انصارؓ ہو جن کا قرآن میں ذکر ملتا ہے یا کچھ اور لوگ ہو؟
انہوں نے کہا : نہیں نہیں ہم وہ تو نہیں ہیں۔
پھر حضرت امام زین ؒ العابدین نے فرمایا : آگاہ رہو تم نے دونوں گروہوں میں سے ہونے کی برأت کردی ہے۔ یعنی قرار کرلیا ہے کہ ان دونوں گروہوں مین سے تم نہیںہو مان بیٹھے ہو۔ اپنے اوپر فرد جرم قائم کرلی ہے۔ اب اگلی بات سن لو اور میںیہ گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخری حصہ میں فرمایاکہ جو لوگ ان کے زمانے کے بعد آئے وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے۔ ان مہاجرینؓ کو بھی بخش دے۔ ان انصارؓ کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں مومنوں کاکینہ نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے رب! توبہت مہربان اوربے انتہا کرم کرنے والاہے۔ کتنی عظیم الشان دلیل ہے اور کیسے علم کیساتھ ان بدبختوں کو جواب دیا گیا ہے۔ پہلے پوچھا تم مہاجرینؓ تو نہیں ہو ناں؟ کہا نہیں نہیں۔ انصارؓ؟ نہیں نہیں انصارؓ ہم کیسے ہوگئے۔ کہا تم نے دو گواہیاں دے دیں۔ اب میری گواہی سن لو کہ اس آیت میں جن نیک لوگوں کا ذکر ہے کہ ان پہلوںپر سلامتیاںبھیجتے اور دعائیں کرتے تھے اوریہ عرض کیا کرتے تھے اللہ سے ،خدا سے کہ اے خدا ! کبھی ان کا کینہ نہ ہمارے دل میں پیدا ہونے دینا۔ میں گواہی دیتا ہوں تم وہ نہیں ہو۔ تم کینہ ور لوگ ہو۔ اٹھ جائو اور میری مجلس سے الگ ہوجائو۔ یہ کونسا تقیہ کا موقع تھا اس وقت ؟ اور دلیل اتنی مضبوط ہے کہ تقیہ اور غیر تقیہ کا سایہ بھی اس آیت پہ نہیں پڑ سکتا کوئی۔ اپنی ذات میں ایک عظیم الشان چڑھا ہواسورج ہے،
٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 11 رمضان المبارک
آج 157 آیت سے شروع کرنا ہے نا۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھا الذین اٰمنوا لا تکونوا کالذین کفروا ……… و استغفرلھم و شاور ھم فی الامر ج فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ط ان اللہ یحب المتوکلین O (ال عمران160-157)
اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو ان کی طرح نہ ہوجائو جنہوں نے انکار کیا اور اپنے بھائیوں سے کہا اذا ضربوا فی الارض جب وہ زمین میں سفر پر نکلے یا غزوے کے لئے سفر اختیار کیا‘ او کانوا غزی۔ لوکانوا عندنا ماماتوا۔ اگر یہ لوگ ہمارے ساتھ ہوتے تو کبھی نہ مرتے وما قتلوااور نہ قتل کیے جاتے لیجعل اللہ ذٰلک حسرۃفی قلوبھم یہ اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ یہ بات ان کے دلوں میں یہ ہمیشہ حسرت بنائے رکھے واللہ یحی و یمیت جبکہ اللہ ہی ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے واللہ بما تعملون بصیر اور اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔ سورہ آل عمران آیت 157۔
کل جو بحث گذری تھی جس میں میں نے حضرت امام زین العابدین کی ایک روایت بیان کی تھی کہ ایک آیت کے حوالے سے انہوں نے بعض ایسے بد زبانی کرنے والوں کی سرزنش کی جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما وغیرہ کے خلاف بد زبانی کرنے والے تھے۔ اس میں وہ پوری آیت یکجائی صورت میںپڑھ کرنہیں سنائی تھی۔ تو اب میں آپ کو سنا دیتا ہوں۔ وہ تین حصوں میں جو گفتگو ہوئی ہے وہ تینوں ایک ہی آیت سے تعلق رکھنے والے مختلف حصے ہیں جن سے حضرت امام زین العابدین نے استنباط فرمایا۔ والسبقون الاولون من المھجرین والانصار و الذین اتبعو ھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ واعدلھم جنت تجری تحتھا الانھر خلدین فیھا ابدا ذلک الفوز العظیم O لیکن اس میں اگلی جو دعائیہ تھی؟ دوسری آیت؟ نہیں یہ۔ وہ کہاں ہے یہ تو وہ نہیں ہے۔ اکٹھی کیوں نہیں رکھی؟ پھر یہ بات ہے ناظاہر کرنے والی اسی لئے میں نے کہا تھا کھول کر بیان ہوجانا چاہئے ریفرنس ایک ہی آیت کا دے رہے ہیں یا دو آیتوںکا دے رہے ہیں۔ دو آیتوں کا الگ الگ دے رہے ہیں۔ یہ آیت …والی نکالیں ناں وہ جو دوسری آیت ہے حشر کی۔یہ پوری لکھی ہوئی ہے؟ پوری ہے اچھا۔ ایک آیت سے دو استنباط انہوں نے فرمائے۔ دو حصوں میں۔ ایک مہاجرین سے متعلق اور ایک انصار سے متعلق اور وہ یہ آیت تھی جس کی میں نے تلاوت کی ہے۔ تیسرا حصہ جو استنباط کا ہے اس کا اس آیت سے تعلق نہیں بلکہ ایک اور آیت سے وہ استنباط فرمایا۔ وہ آیت سورہ حشر کی نویںاور پھر گیارھویں لکھا ہوا ہے؟ ایک آیت نو اور گیارہ کس طرح ہوگئی۔ نو دو گیارہ تو ہوسکتا ہے ۔ مجھے یاد تھا کہ ایک ہی آیت میںسارامضمون ہے۔ یہ اس میں سارا نہیں آجاتا اس آیت میں،میں ابھی آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں۔ پھر دیکھیں گے کہ آیا دوالگ الگ آیتوں سے مضمون لیا گیا تھا یا کہ ایک ہی آیت کے مختلف حصے ہیں یا اوپرتلے آنے والی آیات سے۔ کونسا ہے یہ؟ یہ تین آیتیں ہیں اوپر تلے ایک ہی سورۃ کی، اس سے تین استنباط فرمائے گئے ہیں۔ اس ایک آیت میں دو جگہ دو باتیںاکٹھی ہوگئیں اس لئے غلطی سے وہ آیت پیش کردی گئی ہے ۔اصل جو تین آیات ہیں جو اوپر تلے مسلسل چل رہی ہیں ان کو چھوڑ کر دو الگ الگ جگہوں سے آیتیں ڈھونڈنے کا مطلب ہی کوئی نہیں۔ یہ ہے اصل۔ جہاں سے میں پڑھ کے سناتا ہوں۔
للفقراء المھجرین الذین ……………… ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلاللذین امنوا ربنا انک رؤف’‘ رحیم O
اس کا مطلب یہ ہے۔ مضمون یہ چل رہا ہے۔جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو کبھی غنیمت حاصل ہوتی ہے یا اور اس قسم کے فوائد پہنچتے ہیں ان کے مصارف میں ایک مصرف یہ ہے کہ مہاجرین پر بھی اس کو خرچ کیا جائے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد جو پانچواں حصہ کیا جاتا تھا۔ یہ خیال بالکل جھوٹا اور باطل ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات پر استعمال کرکے اس حصے کو خالصتہً اپنے لئے وقف کرلیتے تھے۔ بلکہ اس کے مختلف مصارف تھے جن میں سے اپنے اوپر کم سے کم تھا اور زیادہ سے زیادہ ضرورت مندوں اور محتاجوںکے لئے جن کی فہرست قرآن کریم نے خود مرتب فرمائی ہے۔ اس ذکر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ للفقرآء المھاجرین الذین ساخرجوا من دیارھم ان مہاجروں کے لئے بھی ہیں جو فقراء ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔ اخرجوا من دیارھم جو اپنے گھروں سے نکالے گئے واموالھم اور اپنے مالوں سے جدا کئے گئے۔ان سے اموال چھین لئے گئے یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا ً لیکن ایسے فقیر نہیں ہیں کہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔ باوجود اس کے کہ انکے پاس کچھ بھی نہیں رہا صرف اللہ سے مانگتے ہیں۔ اسی سے دنیاکے فضل بھی طلب کرتے ہیں اور اسی سے اس کی رضا بھی چاہتے ہیں۔ وینصرون اللہ و رسولہ اولئک ھم الصادقون اور جو کچھ بھی ان کے پاس ہے یا نہیں ہے‘ جس حالت میں بھی وہ ہیں وہ ہمہ وقت اللہ اور اس کے رسول کی مدد پر تیار رہتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو صادق کہلاتے ہیں جو سچے لوگ ہیں یہ ہیں وہ مہاجرین جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یا بعد میں آئے اور ان سب میں وہ سب بزرگ شامل ہیں جن کے اوپر میر احمد علی صاحب نے زبان دراز کی ہے اور دیگر شیعہ بھی بہت سے ‘ اللہ کرے کہ سب نہ ہوں ا نکو گالیاںدینا اوران پر لعنتیں ڈالنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اور قرآن یہ فرما رہا ہے اسی طرف حضرت زین العابدین نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے ۔ ان آیات کی طرف کہ پڑھو یہ آیت کہ تم خود وہ مہاجرہو ایسی باتیں کررہے ہو بیہودہ۔ جن کے متعلق خدا نے یہ فرمایا تھا۔ یہ بہت ہی فصیح و بلیغ کلام ہے مطلب یہ ہے کہ تم وہ نہیں ہو جن سے خدا راضی ہوا تھا۔ تم وہ ہوکہ جن سے خدا راضی ہوا ان کے متعلق بکواس کررہے ہو پھر دوسری آیت یہ ہے۔
والذین تبوء و ا الدار و الایمان من قبلھم وہ لوگ جو تبؤ و الدار والایمان جنہوں نے اپنے گھر تیارکئے والایمان اور ایمان من قبلھم ان سے پہلے ہی۔مطلب یہ ہے کہ ان کے آنے سے پہلے۔ مہاجرین کے مدینہ پہنچنے سے پہلے کچھ ایسے نیک لوگ مدینے میں تھے جنہوں نے ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے اپنے گھر بھی تیار کئے اور اپنے ایمانوں کو بھی سجایا اور بہت خوبصورت اندازمیں ان کی مہمان نوازی کے لئے تیار ہوئے یحبون من ھاجر الیھم وہ ہراس شخص کو جو ان کی طرف ہجرت کرکے آتا تھا اس کووہ محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس سے بہت پیار کرتے تھے اپنے اوپر چٹی نہیں سمجھتے تھے۔ ولا یجدون فی صدور ھم حاجۃًمما اوتوا اور کبھی ان کے دل میں اس چیز کی تمنا پیدا نہیں ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی۔ یعنی مہاجرین پرجو خدا نے فضل نازل فرمائے بعد میں کئی طرح کے ان کو بھی خداتعالیٰ نے تجارتوں کے موقعے دیئے دولتمند ہوئے۔ اپنا سب کچھ ان کیلئے حاضر کردیا لیکن ان کے مال میں کبھی حرص کی نظر نہیں ڈالی۔ نہ دل میں تنگی محسوس کی کہ یہ لوگ کیوں اتنے امیر ہورہے ہیں اور اتنے اللہ تعالیٰ ان پر فضل نازل فرما رہا ہے۔ مما اوتوا میں یہ بھی مراد ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی ان کے لئے کچھ مال الگ کیا ان پر کچھ خرچ کیا اس وجہ سے کہ وہ سب کچھ گنوا بیٹھے تھے اس پر ان کے دل میں کوئی جلن پیدا نہیں ہوئی یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ فرماتا ہے ۔ ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃکہ ایسے پاک باز لوگ ہیں کہ باوجود سخت تنگی کے خود بھی شدید مالی بحران کا شکار ہوں۔ تب بھی دوسروں کو اپنے نفسوںپر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی خاطر ان پر خرچ کرنے والے ہیں۔ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون اور سچ بات تو یہی ہے کہ جو دل کی کنجوسی سے بچایا جائے وہی ہے جو کامیاب ہونے والا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہوا کرتے ہیں۔
والذین جاء وا من بعدھم ۔ یہ آیت پڑھ کر یعنی اس آیت کا مضمون بیان کرکے حضرت زین العابدین یہ دوسرا حصہ بیان کرکے فرماتے ہیں۔ اعتراض کرنے والوںسے پوچھتے ہیں کہ تم وہی ہو جن کی یہ کیفیت تھی کہ مہاجرین پر جانیں نچھاور کرنے والے مال لٹانے والے ان کو جو خدا نے فضل دیئے ان سے قطعاً دل میں کوئی بوجھ محسوس نہ کرنے والے اورباوجود سخت تنگی پھر ان کی خاطر کے اپنے نفسوںکا حق مار کر ان پر اموال خرچ کرنے والے کیا تم وہی لوگ ہو؟ انہوں نے کہا نہ نہ ہم تو وہ لوگ نہیں۔ مطلب یہ تھا کہ تم ان پر بھی زبانیںدراز کررہے ہو۔ جنہوں نے یہ قربانیاں کی تھیں پھر ایسے لوگ بھی تھے جو بعدمیں آئے ان کی تعریف کیا بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے۔ و ہ کیسے پاک لوگ تھے جو ان کے بعد آئے۔ لیکن پھر بھی خدا کے ہاں پاک بازوں کی فہرست میںلکھے گئے۔ وہ ہیں والذین جاء وا من بعدھم پھروہ لوگ جو ان کے بعد آئے یقولون ربنا اغفرلنا و لاخواننا وہ تو یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے الذین سبقونا بالایمان جو ہم سے ایمان میں سبقت لے گئے وہ پہلے لوگ جوپہلی نسل سے تعلق رکھنے والے ہم سے ایمان میں سبقت لے گئے ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین امنوا اور اے خدا ان ایمان لانے والوں کے خلاف ہمارے دل میں کبھی کوئی کینہ نہ داخل ہونے دینا۔عجیب پاک تعلیم ہے۔ کبھی ہمارے دل میں کوئی کینہ ان کے متعلق داخل نہ ہونے دینا۔ ربنا انک رؤف رحیم ۔ اے اے خداتو تو بہت ہی مہربان اور بار بار رحم فرمانے والا ہے۔ حضرت زین العابدین نے ان ظالموں کو مخاطب کرکے پوچھا آخر پہ کہ تم تو وہ تو نہیں تھے بہرحال وہ صحابہؓ تھے پہلے کے۔ تم ان میں ہو؟ تم تو ان میں بھی نہیں ہو۔ لیکن یہ کہنے کی بجائے فرماتے ہیں پہلی دو گواہیاں تو تم نے دیدیں کہ نہ تم مہاجرین میں سے ہو نہ انصار میں سے ہو۔ اب میں گواہی دیتا ہوں کہ اے بدبختو ! تم ان میں سے بھی نہیں ہو۔ کیونکہ تم نے ان کے خلاف زبانیں دراز کیں اور اپنے دلوں میں کینے پالے۔ یہ پاک مسلک ہے جس کے اوپر امت محمدیہ آج اکٹھی ہوسکتی ہے اس کے سوا کوئی مسلک نہیں ہے جس پر امت محمدیہ اکٹھی ہوسکے پس جو پہلے بزرگ گزر گئے ہیں ان کے متعلق یہ بحثیںبیہودہ اور لغو ہیں چھوڑ دو ان بحثوں کو کہ کس کا کیا قصورتھا۔مجھ سے تو جماعت احمدیہ میںکئی دفعہ سوال جواب کی مجالس میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا ہے مجالس میں‘ میں ان کو یہ کہتا ہوں کہ تم ان لغو باتوں میں پڑو ہی نہ۔ کبھی اچھا لگتا ہے کہ بچے بیٹھ کے ماں باپ کے متعلق باتیں کررہے ہوں کسی کی کیا غلطی تھی‘ کسی نے کیابیہودہ بات کی تھی‘ نعوذ باللہ من ذلک۔ یہ وہ بزرگ ہیں سارے جو خدا کے حضور حاضر ہوچکے ہیں‘ اورقیامت کے دن فیصلہ اللہ نے دینا ہے نہ کہ تم نے یا میں نے۔ ہم میں سے تو کوئی نہیں بلایا جائے گا ۔ پھر تاریخ کے ایک ایک صدی کا ایک پردہ حائل ہے جس میں کئی پردے اور بھی ایسے ہیں‘ جن سے باتیں مشتبہ ہوگئی ہیں تو چودہ سو سال کے ایسے پردے ہمارے اور ان کے درمیان حائل ہیں‘ اس میں کئی قسم کی مشتبہہ روایات ہیں‘کئی قسم کی‘ کے شبہات ارادۃً بھی داخل کئے گئے‘ کئی ایسے ہیں جو بغیر ارادے کے داخل ہوگئے۔ تو ساری تاریخ کے پردوں میں سے گزر کر ہم آج عالم الغیب و الشہادۃ بنتے ہوئے یہ فتوے دینا شروع کریں ان لوگوں کے متعلق ‘ جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے کہ انہوں نے یہ ظلم کیا انہوں نے وہ ظلم کیا‘ ان کو گالیا ں دینا‘ ان پر لعنتیں ڈالنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ یا کسی کے ایمان کا حصہ ہے ‘ یہ حد سے بڑی جہالت اور ایمانی خود کشی ہے۔پس اخلاقاً بھی یہ بات زیب ہی نہیں دیتی قطع نظر اس کے کہ کوئی غلطی تھی کہ نہیں تھی۔ ان بزرگوں کے معاملات اللہ کے سپرد کردیں‘ اور ابتدائی اختلافات کو اس طرح نہ چھیڑیں کہ آپ حکم بن کر لوگوں کے خلاف فتوے دینے شروع کریں۔ کئی لوگ فتویٰ مانگتے ہیں جنگ صفین میں کیا ہوا؟ جنگ جمل میں کیا ہوا؟ کس کو تم کیا کہو گے؟ میں کہتا ہوں میں کسی کو کچھ نہیں کہوںگا۔ میرے نزدیک تو وہ ان گروہوں میں سے تھے جن کا ان تین آیات میں ذکر ملتا ہے۔ اللہ مالک ہے وہ جس سے چاہے بخشش کا سلوک فرمائے گا۔ جس سے چاہے اس سے سرزنش فرمائے گا مگر ہمارا نہ کام ہے نہ ہم اس بات کے اہل ہیں‘ نہ ہماری مجال ہے کہ ان بزرگوں کے متعلق آج بیٹھ کر فتوے دینا شروع کریں اور عدالت کی کرسی جمائیں اور ان کو اپنے سامنے فریقین بنا کرحاضر کریں۔ پس یہ وہ معصوم موقف ہے جو میں جماعت احمدیہ کو سمجھاتا ہوں کہ اس کو چمٹے رہنا چاہئے۔ ہاں جب گفتگو بحثوں میں چل پڑتی ہے‘ ایک دوسرے کے جواب دینے کے لئے‘ جب بعض ظالم بعض پاک لوگوں پر حملہ کرتے ہیں‘ تو ان کے دفاع کی خاطر محض دفاعی حد تک جہاد کرنا فرض ہے۔ مگر دفاع سے آگے بڑھ کر دوسرے بزرگوں کو کے اوپر ‘ کو حرف تنقید کا نشانہ بنانا یہ درست نہیں وہاں رک جایا کریں۔ جہاں دفاع ہوا وہاں بات ختم ہوگئی۔ کبھی انسان جذبات سے مجبور ہوکر کوئی غلطی کر بھی بیٹھے تو استغفار کرنا چاہئے ۔ مگر دفاع تک ہمارا حق بھی ہے‘ فرض بھی ہے۔ اس سے زیادہ آگے بات کو بڑھانا جائز نہیں۔ یا بعض لوگ بڑی جلدی کردیتے ہیں‘ ہاں پھر اس صورت میں حضرت عائشہؓ نے یہ کیا ہوگا پھر‘ یہ فتویٰ لگے گا ان کے اوپر‘ یا حضرت علیؓ کے اوپر یہ فتویٰ لگے گا نعوذ باللہ من ذلک‘ کیونکہ ان کے مقابل‘ خارجیوں کے مقابل پر نعوذ باللہ من ذلک ‘ یہ غلطی کر بیٹھے‘ یہ غلطی کر بیٹھے بعد میں حضرت عثمانؓ کے قاتلوںکو سزا دینے کی بجائے‘ یعنی کئی قسم کے الزامات لوگ لگاتے رہتے ہیں یہ سب بے ہودہ‘ لغو بحثیں ہیں‘ جماعت احمدیہ کو ان سے اجتناب کرنا چاہئے‘ سوائے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض دفاعی لوازم کے پیش نظر جو ہم پر فرض ہوجاتے ہیں‘ ہمیں کچھ نہ کچھ اب بزرگوں کا دفاع کرنا پڑے گا‘ اپنے بزرگوں پر حملہ نہیں کرنا۔ یہ تھی وہ ‘ وہ تین آیات تھیں‘ جن کے حوالے سے حضرت امام زین العابدین نے بات فرمائی اور حضرت امام باقرکے متعلق بھی ایسی ہی روایت ملتی ہے کہ آپ نے بھی انہی سے استنباط کرتے ہوئے بعض مخالفین کے دانت کھٹے کئے تھے۔
اب میں اس آیت کی طرف واپس آتا ہوں۔لیجعل اللہ ذلکیہ پورا پڑھ چکا ہوں میں۔اذا ضربوا فی الارض اوکانو ا غزیجہاں تک لفظ ضرب کا تعلق ہے یہ خاص طور پر قابل ذکر بات ہے کہ جو عیسائی مستشرقین ضرب کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اس کے معنے لکھتے ہیں۔جو ایسا سفر جو تجارت کی غرض سے کیا جائے اور دوسرے سفر معنیٰ نہیںدیتے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے سفر صرف دو تھے اور کوئی غرض ہی نہیں تھی یا وہ تجارت کے لئے نکلتے تھے یعنی مال و دولت کے لئے یا لوٹ مار کے لئے جہاد کرنے کیلئے‘ تیسری کوئی ان کی غرض نہیں تھی اور اس کا لغوی معنیٰ ضرب کا صرف یہی دیتے ہیں کہ مالی اغراض کے لئے سفر اختیار کرنا۔ویری صاحب کہاں گئے؟ Bell ہیاعر یہ ہیں۔ یہ نہیںہیں اس میں کہاں ہیں حوالے؟ اچھا وہ دوسری آیت میں دکھادئیے ہیں میں نے‘ پہلے کیوں نہیں بتایا؟ ساری جگہیں پھول بیٹھا تب آپ کو یاد آیا۔
Watt کہتا ہے منٹگمری واٹ
When the journey for trade is probebly implied just as expeditions or race for booty.
کہتا ہے جس طرح ظاہر ہے غزوات سارے bootyکی خاطر تھے یعنی لوٹ مار کے لئے۔ اسی طرح یہ Trade کا مطلب بھی بالکل واضح ہے کہ صرف اموال کی مال و دولت کی خاطر سفر رہا‘ اور کوئی سفر مراد نہیںہوسکتا۔ یہ Watt صاحب ہیں جن سے عرب شہزادے بڑے فخر سے پڑھنے آتے ہیں اور ان کا یہ بڑا شہرہ ہے کہ وہ منصف مزاج نئی generation کے مستشرق ہیں۔
اور ویری صاحب جو ہیں یہ کہتے ہیںwith a view to merchandiseیہ ترجمہ ہے اس کے سوا کوئی ترجمہ ہی نہیں۔اب ایک اور دلچسپ بات ظاہر ہوئی اس تحقیق میں۔ میں نے جب عربی لغات کا مطالعہ کیا تو مجھے‘ جن کے سپرد میں نے کیا تھا انہوں نے کہاکہ اب ڈکشنریاں تو یہی دیتی ہیں کہ trade کی غرض سے سفر۔ میںنے کہا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا یہ ناممکن ہے۔ کون سی ڈکشنریاں دیتی ہیں‘پتہ لگا دونوں عیسائی ڈکشنریاں ہیں۔ Lane اور منجد دونوں عیسائیوں کی ڈکشنریاں ہیں اور عجیب ظلم ہے کہ یہ اپنے مستشرقین کو تقویت دینے کے لئے باوجود اس کے کہ بڑے مستند سمجھے جاتے ہیں‘ ان معنوں کوغائب کرجاتے ہیں جن معنوں کو انہوں نے عمداً غائب کیا ہے اور جو مسلمان مصنفین اور بڑے بڑے چوٹی کے علماء کی ڈکشنریاں ہیں ان میں کھل کر سارے معنے بیان کئے جاتے ہیں۔ ایک یہ بھی ہے اور دوسری اغراض بھی ہیں سب۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ منجد اور lane دونوں ان معنوں کو کھا جاتے ہیں یعنی ان معنوں کو پیش کرتے ہیں کہ تجارت کی غرض سے سفر ہے اور دوسرے معنوں کو کھا جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری ڈکشنریاں جن میں سب سے نمایاں حضرت امام راغبؒ ہیں مفردات راغب‘ وہ بڑی تفصیل سے بحث کرتے ہیں کہ ضرب کا مطلب کسی قسم کا سفر بھی ہے۔ بلکہ ایک بہت ہی عمدہ نکتہ اس سلسلے میں حضرت امام رازیؒ نے بھی اٹھایا ہے وہ میں آپ کو بعد میں بتائوں گا اور اقرب الموارد ہے وہ لکھتی ہے
ضرب فی الارض ضربا و ضربانا ای خرج تاجرا او غاز یا او ا سرع او ذھب۔ اسرع الذھاب فی الارض: فراراً من الفتنکہتا ہے کہ سفر جو ہے ضرب کے تابع سفر کا مضمون اس میں تاجر کی‘ تجارت کی غرض سے سفر بھی شامل ہے۔اور جہاد کی غرض سے سفر بھی شامل ہے اور اسرع اور تیزی سے کسی طرف روانہ ہوا او ذھب یا ویسے ہی چلا گیا ۔اور اسرع الذھاب جب کہتے ہیں تو مراد ہے فتنوں سے بچنے کے لئے تیزی سے اپنی جگہ چھوڑی اور دوسری جگہ چلا گیا ۔ پس وہ تمام مہاجرین جنہوں نے سفر اختیار کیا ‘فتنے سے بچنے کے لئے ‘وہ بھی ذھاب ہے کسی مال ودولت کی خاطر تو نہیں ‘مال و دولت قربان کرکے سفر اختیار کیا ہے ۔مال و دولت تو گھر چھوڑ آئے تھے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی آپس میں Cliqueان کے یعنی دشمنان اسلام کی جو سازش ہے بہت گہری ہے ۔اس کو اب مسلمان اب پتا نہیں کیوں سمجھتے نہیں ۔آرام سے گھر بیٹھے ہوئے ہیں ۔اس ضمن میں میں نے ایک دفعہ غور کیا تو میں حیران رہ گیا یہ دیکھ کر کہ آج تک کبھی کسی مسلمان کو یہ توفیق نہیں ملی کہ بائبل کی Commentary لکھے جب کہ انہوں نے قرآن کی Commentaryکے اوپر بغض کی وجہ سے ٹھیکہ لیا ہوا ہے اور ان کی Commentaries کو ہر جگہ Quoteبھی کیا جاتا ہے لیکن کوئی مسلمان مفسر ان کا جواب نہیں لکھتا پھر ۔بڑی دردناک حالت ہے اسلام کی ۔اسلام کے دفاع کے لئے خداتعالی نے احمدیوں کو چنا ہے ‘اور احمدی ہی ہیں جو جواب دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے ہمیشہ انشاء اللہ ۔ اس پر جب میں نے جائزہ لیا تو عجیب بات لگی کہ کسی نے کبھی نہ ہندو نے نہ بدھ نے نہ زرتشی نے نہ کنفیوشس کے ماننے والے نے ان کی کتابوںپر کمنٹریاں لکھی ہیں اور انھوں نے ان کی کتابوں پر لکھی ہیں یعنی یہ جو ایک خاص دور تھا کالونی ازم کا ‘ Imperialismجب دنیا پر غالب ہوا تھا تو یہ اس کا ‘اس کیPlan کا ‘اسکی سکیم کا ایک حصہ تھا کہ جن جن علاقوں میں جاتے ہو ‘ان کے مذاہب پر حملے کرو اور ان کو عیسائیت کا غلام بنائو ۔اس غرض سے ان لوگوں نے بہت محنتیں کی ہیں ۔مگر نیتیں گندی تھیں ہر جگہ نیتیں Imperialismکو تقویت دینا تھا اور عیسائیت کا فروغ ‘ اس لئے تاکہ ان کے سیاسی عروج کو تقویت حاصل ہو ۔اور مسلمانوں نے خصوصًا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کس قدر بے حسی کا نمونہ دکھایا ہے کہ مقابل پر آگے بڑھ کر ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو یہ ہم سے کر رہے تھے جب کہ بہت زیادہ گنجائش ہے ۔اس لئے میں نے یہاں ایک ٹیم تیار کرنی شروع کی ہے احمدی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ‘جن سے میں ریسرچ کے کام لے رہا ہوں اس وقت ۔بہت سے حوالے جو مختلف مستشرقین کے ملتے ہیں وہ ان بچوں اور بچیوں نے تیار کر کے مجھے دیے ہیں اور بہت سی پروجیکٹس شروع کی ہوئی ہیں اور ‘ اور Bible Study Projectsبہت سی ایسی ہیں جن میں یہ بہت اخلاص سے حصہ لے رہے ہیں ۔بیسیوںاحمدی لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو تیار ہو رہے ہیں ان کو میں نے یہ بتایا ہے کے بالآخر میں نے تمہیں بائبل کی Commentaryلکھنے کے لئے تیار کیا ہے ۔میں Specialiseکروں گا مختلف حصوں میں اور اگر خدا کے کے نزدیک میرا یہاں کچھ عرصہ اور ٹھرنا مقدر ہو تو انشاء اللہ اپنی نگرانی میں یہ کام شروع کروا دوں گا ۔ جہاں تک بائبل کی Commentaryکا تعلق ہے یہ خیال آج کا نہیں ہے بلکہ پارٹیشن کے بعد جب ہم ربوہ آئے تو شروع دنوں ہی میں ‘میں نے یہ کام شروع کردیا تھا ۔وقف جدید میں ‘میں ان دنوں میں ہوتا تھا وہ خالد مسعود جو آجکل ناظر صاحب امور عامہ ہیں ‘ان سے بھی مدد لیتا رہا ہوں دوسرے علماء سے بھی ‘مولوی بشیر صاحب قادیانی کو بھی ایک دفعہ اس کام پر لگایا تھا تو ان سب سے مدد لیتے ہوئے وہ آیتیں اکٹھی کرواتا رہا جن کے مقابل پر کچھ بائبل کے بیان ہیں اور ان کو آمنے سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔اور جو بات سامنے ابھری ہے بڑی کھل کر ‘جس کو آئندہ تمام تحقیقات انشاء اللہ ہمیشہ تقویت دے گی وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جہاں بھی بائبل کے کسی حوالے کو گویا سامنے رکھتے ہوئے بات کی ہے کبھی بھی وہاںنقل نہیں اتاری ۔بلکہ بائبل کے حوالے میں جہاں تائید کی ہے وہ صرف وہی ‘اتنی جگہ ہے جس کو عقل تسلیم کرتی ہے ۔اور جس حصے کو چھوڑ دیا ہے اس کو قابل ذکر ہی نہیں سمجھا اور ہر معقول آدمی سمجھے گا کہ ہاں یہ قابل ذکر بات ہی نہیں ۔اور جہاں اختلاف کیا ہے وہاں ہمیشہ نامعقول بات پر اختلاف کیا ہے ۔اور نامعقول بات کو اللہ کی طرف منسوب نہیں فرمایابلکہ بائبل پر روشنی ڈالی ہے کہ یہ ہے اللہ کا کلام ‘جس کی ہم تصدیق کرتے ہیں ۔جس کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے اور تاریخ بھی اس کے حق میں گواہی دیتی ہے ۔یہ ہے ناقابل ذکر فضول باتیں جو لوگوں نے بیچ میں داخل کر دیں ‘لیکن کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں ۔اور یہ وہ بات ہے جس کی درستی ضروری ہے اللہ نے یہ کہا تھا یہ نہیں کہا تھا ۔اور بعض لکھنے والوں نے یا بعد میں باتیں بنانے والوں نے یہ باتیں بائبل کی طرف منسوب کردیں ‘تو بائبل کی تائید کی یہ مراد ہے ۔اس کے حق کی تائید نہ کہ اس کے ناحق کی تائید ۔اس کے طرف جو جھوٹے الزام لگائے گئے ہیں ان سے بائبل کی صفائی کرنا یہ ایک عظیم الشان خدمت ہے جو بائبل کی کی گئی ہے اور اس پہلو سے جب تحقیق کو میں نے آگے بڑھایا تو جہاں تک میں پہنچ سکا ‘ہمیشہ بلا استثناء ان تینوں محرکات میں سے ایک موجود پایا ۔اور اس بناء پر یہ تحقیق لازم ہے ان کو دکھایا تو جائے کہ تم ہو کون لوگ ۔تم کیا ظلم کرتے آئے ہو اپنی کتابوں سے ۔اور بائبل کی حقیقت کیا ہے اسے قرآن بہتر سمجھتا ہے تم سے اور ایسا بہتر سمجھتا ہے کہ روز روشن کی طرح قرآنی بیان ظاہر اور کھل جاتا ہے اور خود بخود دلوں کو تسلیم کراتاہے ۔تو اس پہلو سے یہ سٹڈی ہوگی ۔میں یہ اعلان یہاں اس لئے کرنا چاہتا ہوںاس غرض سے کررہا ہوں دراصل کہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جن تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ جہاں عیسائیوں نے بہت کام کئے ہوئے ہیں اور بائبل پر جب سٹڈی ہوگی تو ان سب کی‘ بڑا وسیع کام ہے‘ ان سب کی جو بائبل کی تحقیق ہے اس کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جس طرح ان لوگوں نے مسلمانوں ‘ مفسرین کی بھی بڑی سٹڈی کی ہے‘ ان کا مطالعہ کیا ہے۔ لیکن ایک فرق ہے اور اس فرق کی طرف بھی میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے جو مسلمان تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے اس میں بلا استثناء ہمیشہ ان کو چنا ہے جو خواہ اعتماد میں کچھ بھی حیثیت نہ رکھتی ہوں مگر اسلام کی طرف عجیب و غریب اوٹ پٹانگ خیالات منسوب کرنے میں پیش پیش ہوں‘اور تواریخ میں سے ان کو چنا ہے جن میں ہر قسم کا رطب و یا بس مل جاتا ہے‘ اچھی باتیں بھی ہیں اور لغو اور بے ثبوت باتیں بھی جیسے واقدی ہے۔ اور وہاں آپ پہنچ کر یہ پھر اپنی مرضی سے جو چاہیں اس پٹار خانے سے نکال لیں۔ یہ ان کا طریق ہے۔ احمدی محققین کو تقویٰ کا طریق اختیار کرنا پڑے گا پوری طرح تحقیق کریں اور جو سچ بات ہو اس کو پکڑیں اور بے ہودہ لغو اعتراضات میں اپنا وقت اور ایمان ضائع نہ کریں۔ اس لئے ان کو یہ بھی سکھانا ہے کہ تحقیق ہوتی کیا ہے۔ یہ نہیں کہ ان سے ان کی تحقیق کے رنگ سیکھ کر‘ خواہ وہ بے ہودہ اور خبیث رنگ ہوں‘ انہیں ہم بھی اختیارکرلیں۔ اور دوسرا ‘دوسری وجہ جو بات جو میںیہاں تمام دنیا کے احمدیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس ضمن میں جیسا کہ میں نے کہا تھا‘ مختلف ممالک میں مختلف ادوار میں مستشرقین پیدا ہوئے ہیں۔ اور ان میں عرب ممالک بھی داخل ہیں۔ Egypt میں بہت بڑا کام ہوچکا ہے۔اور عیسائیوںنے وہاں اڈے بنانے کیلئے غیر معمولی‘ گہری سوچ کے ساتھ مہم جاری کی تھی‘ پھر فلسطین کے علاقے میںبھی اور Syria میں بھی‘ انہوں نے بہت کام کئے ہیں۔ ہندوستان کے بعد اگر وہ دو جگہیں جہاں غیر معمولی طور پر عیسائیت کو تقویت دینے کے لئے اسلام کے خلاف تحقیق ہوئی ہے یا عیسائیت کے متعلق تحقیق ہوئی ہے وہ یہ جگہیں ہیں نمایاں طور پر ۔ مصر ہے فلسطین ا ور شام اور یہ ایک زمانے میں ایک ہی چیز کے دو نام تھے‘ اس لئے جب Greater Syria کہا جائے اس میں فلسطین شامل ہوجاتا ہے یا Greater Palestine کہہ دیں تو Syria داخل ہوجائے گا۔ یہاں جو احمدی بستے ہیں‘ ان کو بھی اپنی ٹیمیں بنانی چاہئیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان خواہ ان کا یہ مضمون ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ یہاں جو میں نے دوست چُنے ہیں‘ رفیق حیات صاحب ماشاء اللہ اس معاملے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں ٹیمیں بنانے میں اور اب وہ صدر تو نہیں لیکن کیونکہ تجربہ ان کو کافی ہوچکا تھا اس لئے ان سے میں نے فائدہ اٹھایا اور ان کے ذریعے سے ٹیمیں حاصل کیں اور لڑکیوں میں نویدہ شاہ ہیں‘ انکو اللہ نے خاص ملکہ عطا فرمایا ہے کہ وہ بچیوں کا دل موہ لیتی ہیں۔ان کو اپنے ساتھ دینی کاموں میں شامل کرتی ہیں۔ اس طرح یہ ٹیمیں بنائی گئی ہیں اور ٹیمیں صرف ان لوگوں سے نہیں چنی گئیں جو دینی علوم کی‘ دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں کسی قسم کی‘ یا عربی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں‘ کوئی Scientist ہے ‘کوئی کمپیوٹر کا Specialist ہے کوئی کسی اور دنیا کی سائنس میں ماہر ہے کوئی Accounts کاماہر ہے۔مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ ہیں۔ ان کو تربیت دی جاتی ہے خاص Projects دے کر کہ تم نے اس Project پر سٹڈی کرنی ہے۔ بائبل کی Authenticity کیا ہے ۔ کب یہ تحریرمیں آئی اور خود ان لوگوں نے کیا ثابت کیا ہے کہ کس حد تک ہم اس پر اعتماد کرسکتے ہیں‘ ان کی Sources دیکھتے جائو۔ چنانچہ عجیب و غریب دلچسپ چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ یہ اور بہت سی اور Projects ہیں جو ہم قریباً دو سال سے ان کے اوپر محنت کررہے ہیں اور بعض دفعہ تو ہر ہفتے دو تین ملاقاتیں ان گروپوں سے ضرور ہوتی ہیں اور جو کچھ وہ Projects پیش کرتے ہیں پھر ان کے اوپر گفتگو ہوتی ہے ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ ا ب یہ راستہ اختیارکرو‘ یہ راستہ اختیار کرو وغیرہ وغیرہ۔ تو اس طرح کی Projects اکثر بڑے بڑے ملکوں میں جہاں ان کو چلاناممکن ہے‘ شروع کردینی چاہئیں‘ یورپ میںخصوصیت سے ہمیں دقت یہ پیش آتی ہے کہ جرمن محققین نے عیسائیت پر بھی بہت تحقیق کی ہوئی ہے اور اسلام پر بھی بعضوں نے‘ اور بعضوں نے نہایت معاندانہ رویہ بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ جب تک اصل جرمن زبان میں وہ کتابیں پڑھنے کی اہلیت نہ ہو‘ حقیقت میں تحقیق کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ تو جرمن احمدی نوجوان جو خدام کے تابع ہوں اور بچیاں جو لجنہ کے تابع ہوں‘ اس قسم کی ٹیمیں بنا کر ریسرچ ورک شروع کردیں اور وقتاً فوقتاً ان کے خلاصے مجھے بھجواتے رہیں۔ تاکہ میں ان کو شروع سے ہی بتادوں کہ تم صحیح نہج پہ چل رہے ہو یا غلط یا یہاں یہ بہتری کی گنجائش ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح فرنچ میںبہت کام ہوا ہے اور اسلام کے خلاف انتہائی خبیثانہ حملے کرنے والوں میں بھی فرانسیسی مصنفین پیش پیش ہیں اور اسی طرح ان میں نسبتاً نیک مزاج لوگ بھی ہیں‘ اچھے محقق بھی ہیں اور عیسائیت پر بھی بڑی گہری تحقیق ہوئی ہے فرانس میں اور اس پر اسلام پر بھی لکھا گیا ہے۔ اسی طرح اٹلی ہے‘ اٹلی میں بھی بہت بڑے کام ہوئے ہیں۔ پھر روس کی لائبریری ماسکو کی‘ ساری دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ جو ابتدائی اہم کلاسیکل کتابیں ہیں علمی‘ ان میں غالباً ماسکو کی لائبریری کا کوئی جواب نہیں ہے دنیا میں۔ وہاں جو ہمارے احمدی ہوئے ہیں یا اس وقت باہر سے آکر زبانیں سیکھ رہے ہیں‘ ان کا فرض ہے کہ جہاں تک ہوسکے وہاں جائیں اور تحقیق کریں‘ بہت سے تحقیقات کے شعبے ہیں مثلاًبہائیت پر جو تحقیق ہوئی ۔ اس میں یہ بات سامنے آئی کہ بہائیت کا آغاز روسی انٹیلی جینس کی نگرانی میں ہوا ہے اور اس کا تعلق مغرب سے نہیں تھا یا روس کے علاوہ دوسرے مغربی یورپ سے نہیں تھا بلکہ وہاں ایک ایمبیسی میںایک شخص Posted تھا باقاعدہ اس غرض سے‘ اور مسلسل اس کی رہنمائی اور اس کی ہدایت میں یہ تحریک آگے بڑھتی رہی ہے اور اس میں جو شروع ہی میںہی افتراق پیدا ہوا ہے‘ اس میں بھی اس روسی نمائندہ کے افتراق کے نتیجے میں پھر دو گروہ بن گئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ یحیی جس کو نقطہ کہا جاتا ہے اور بہاء اللہ جسے اللہ کی بہاء کہا جاتا ہے‘ خدا کا دوسرا نام بہاء کہا جاتا ہے‘ ان دونوں میں جو بہائیوںمیں جو اختلاف ہوا ہے‘ اس میں اس نے بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ پھر اس نے روس جاکر روسی زبان میں اپنی ایک رپورٹ بھی پیش کی‘ جو اس زمانے میں ان کے رسالوں میں شائع ہوگئی اور وہ اب ہمارے علم میں آئی ہے‘ تحقیق کے دوران‘ اسی ‘ انہی گروہوں نے تحقیق جب شروع کی‘ تو بعض پرانے مقالے نکالے‘ ان میں بعض حوالے دیکھے‘ ان میں اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے پس روس میں جو ان لائبریریوں تک دسترس رکھتے ہیں ہم نے مربی کو بعض حوالے بھجوادیئے ہیں‘ ان کا فرض ہے وہ ان خاص امور کی طرف بھی توجہ کریں اور خصوصی تحقیق کریں۔ کیونکہ محض الزام کافی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جائز نہیں ہے کہ محض الزام پر بناء کرتے ہوئے کسی کو کچھ‘ کسی پہلو سے رد کردیا جائے۔ دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر الزام کی پوری تحقیق ہو۔ یہاں تک کہ آخر تک پہنچا جائے اور استنباط اس کوکہتے ہیں۔ قرآن کریم جو فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس کیوں نہیں وہ معاملہ پیش کرتے‘ جنہیں خدا نے اس بات کی صلاحیت بخشی ہے کہ تقویٰ اور عقل کے ساتھ کسی چیز کا استنباط کریں۔ تو وہ آپ کو میںدیکھنا چاہتا ہوں جو قرآن نے مومنوں کا تصور پیش کیا ہے۔ اس پہلو سے جو لوگ روس میں میری بات سن رہے ہوں گے ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں لائبریریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تحقیق کو آگے بڑھائیں۔ Spanish میں بھی مل جائے گا لیکن کم۔ کیونکہ Spanish نے تو اسلام کا اپنی طرف سے صفایا کرکے چھٹی کردی تھی ۔ لیکن زیادہ تر جو بعدمیں علمی کام ہوئے ہیں‘ وہ اس دور کی پیداوار ہیں جب کہ سپین سے بھاگنے والے یہودی اسلامی دور کے علوم لے کر مغرب میں پہنچے ہیں اور Sale بھی اسی دور کی پیداوار ہے۔ سولہویں صدی کے آخر پر‘ یہ انخلائ‘ سولہویں صدی کے آخر پر بڑا انخلاء ہوا ہے یہود کا۔ 1692ء میں جب کہ کثرت کے ساتھ ان کو وہاں سے نکال دیا گیا‘ اس سے پہلے مظالم تو جاری تھے لیکن رفتہ رفتہ نکلتے رہے۔ وہ ایک قسم کا Exodus ہوا ہے ان کا وہاں سے۔ اس کے بعد اسلام کی روشنی یعنی جو مسلمان علماء نے روشنی حاصل کی تھی قرآن سے اور دیگر علوم کے مطالعہ سے ‘ وہ ان یہودیوں اور دیگر بھاگنے والوں کے ذریعے فرانس میں داخل ہوئی ہے۔ پھر فرانس سے انگلستان اور جرمنی وغیرہ‘ یہ آہستہ آہستہ اس کا انتشار ہوا ہے۔ اسی دور میں اسلام کے ساتھ شدید عناد رکھنے والے مستشرقین پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ ان کو یہ خطرہ تھا کہ جس سے ہم نے روشنی پائی ہے‘ پہلے تو ہم ان کو ‘ جاہل انگریزوں کی پیداوار سمجھتے تھے‘ یہ تو بڑی‘ بڑے قابل لوگ ہیں۔ اور ان کا کہیں یورپ پر اچھا اثر نہ پڑ جائے۔ پس اس شدید ردعمل کے اظہار پر‘ کے طور پر پادریوں نے پھر اسلام کے خلاف سازشیں بنائی ہیں اور جو بھی مستشرق اس دور میں پیدا ہوئے ہیں‘ وہ چرچ کے پیدا کردہ تھے۔ تو یہ ساری باتیں ابھی تحقیق طلب ہیں مزید۔ تو اس ضمن میں چونکہ یہ ذکر چل رہا تھا‘ میں نے کہا میں اس وقت یہ بھی نصیحت کردوں کہ آپ لوگ اب ہر جگہ کمر ہمت کس لیں‘ وہ جوابی حملے جو ہم نے کرنے ہیں جو مقدر ہیں کہ ہمارے ذریعے ہونگے ‘ ان کا وقت آگیا ہے کہ پوری شدت سے کئے جائیں۔
آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اور تن تنہا کیا‘ حیرت انگیز۔ اتنا مقابلہ کیا ہے غیروں کا کہ یقین نہیں آتا کہ ایک انسان کی زندگی اتنا کچھ پیدا کرسکتی ہے۔انت المسیح الذی لا یضاع وقتہیہ الہام ہے‘ اس کا معنیٰ اب سمجھ آتا ہے کہ تو وہـــ‘ اچھاانت الشیخ المسیح الذی لا یضاع و قتاے‘ تو وہ بزرگ مسیحؑ ہے جس کا کوئی وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ ایک ایک لمحہ خدمت میںخرچ تھا‘ پس اس بزرگ ‘ بزرگ مسیح کے غلام ہو۔ان تحریکات کو جس کو اس نے اکیلے آگے بڑھایا تھا‘ اب چھوڑنا نہیں بلکہ اس نئے دور میں داخل کردینا ہے جہاں بڑی کثرت سے وسیع پیمانے پر ان تمام ملکوںمیں جہاں اسلام کے خلاف سازشیں ہوئی ہیں‘ ان کی جوابی کارروائیاں شروع کی جائیں اور ہماری نئی نسلیں ان میں جھونک دی جائیں اور ہمارے تربیتی مسائل کا بھی یہی حل ہے۔ کیونکہ یہ توسب بچے اور بچیاں ہیں اگر ان کو اس طرح سنبھالا نہ جاتا تو وہ خود کہتے ہمیں پتہ نہیں ہم نے کیا کرنا تھا اور کیا ہوتے۔ لیکن اب تو ایک نشہ سوار ہوگیا ہے تربیت کا۔ یہاں جب دوسرے اس عمر کے نسل کے لڑکے اور لڑکیاں وہ Drugs سے نشے لے رہے ہیں‘ اور وہ خدمت دین کے نشے میں غرق ہورہے ہیں اور عملاً حالت یہ ہے کہ وہ سب دوسرے کام چھوڑ کر صرف یہ کہہ دیا کرتی ہیں کبھی کبھی بعض بچیاں کہ ہمارے پاس ہونے کی دعا ساتھ کرتے رہنا‘ کیونکہ ہمیںاپنی تعلیم کی کوئی ہوش نہیں رہی۔ تو وہ جذبہ ہے جو خدا کے فضل سے انگلستان کے نوجوانوں نے دکھایاہے اور اس میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ کے نوجوانوں کو بھی چاہئے وہاں بہت گنجائش ہے۔ یہ ویری صاحب جو ہیں‘ جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہ امریکہ کے ہیں۔ ان کا میں یہاں کھوج لگاتا رہا خواہ مخواہ ‘ ہر طرف دیکھا کہیں ان کا نشان نہیں ملتا تھا‘ بعدمیںپتہ چلا کہ امریکہ نے اس زمانے میں بھیجے تھے اور تقریباً 45 سال وہاں رہ کر ہندوستان میں مختلف علاقوں میں رہ کر انہوں نے اسلام کے خلاف سازشیں کی ہیں اور نہایت ناپاک حملے کئے ہیں۔ تو یہ لوگ اس زمانے سے یہ کام کررہے ہیں۔انہوں نے اسلام کے خلاف سازشیں کی ہیں اورنہایت ناپاک حملے کئے ہیں۔ تو یہ لوگ اس زمانے سے یہ کام کررہے ہیں ۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عظیم جہاد اسلام کی تائید میں شروع کیا ہے‘ اب اسے بڑی قوت کے ساتھ آگے بڑھانے کا وقت آگیا ہے۔ اور میں امید رکھتا ہوںکہ انشاء اللہ تعالیٰ تمام جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ فرمائیں گے۔ خواہ ان کاکوئی بھی علم ہو‘ ہم نے دیکھا تھاجامعہ میںعیسائیت کے متعلق مواد وغیرہ‘ وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کی پیداوار تھی بس اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بڑھا کام۔ بہت ہے تو معمولی شیخ عبدالقادر صاحب نے اپنے طورپر کوئی تحقیق کرلی لیکن یہ ایسی تحقیق نہیں ہے جسمیں ایک آدمی کی تحقیق کافی ہوجائے۔
بے شمار ایسے ایونیوز (avenues) ہیں۔ ایوان ہیں جن میں ٹیموں کی ٹیمیں ہر وقت مصروف کار رہنی چاہئیں۔پس جرمن محققین کو جرمن احمدی سنبھال لیں‘ فرنچ محققین کوفرنچ احمدی سنبھال لیں یعنی عیسائی محققین کو ‘ اور دونوں پہلوئوںسے کام کرنا ہے۔ ایک بائبل کی Study کے متعلق‘جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ ہم ان کو ان کی زبان میں سمجھائیں کہ تفسیر ہوتی کیا ہے اور دوسرے قرآن پر جہاں حملے ہوئے ہیں ان کو نوٹ کریں۔ اس ضمن میں مجھ سے رابطے کریںاورمیںپھر ان کو بتائوں گا۔ انشاء اللہ کہ ان کا جواب کس نہج کا دینا چاہئے۔اور کس کس جگہ سے اس جواب کی جستجو ہونی چاہئے یعنی ان میں تحقیق کرو گے تو وہاںجواب مل جائے گا۔
اب یہ بات کہاں سے شروع ہوگئی تھی کہاں چل پڑی ‘ کہاںپہنچی مگر ضروری تھی بہرحال۔ یہ بھی ضرب ہے ایک قسم کی ‘ سفر ہے۔ لیکن مالی اغراض کی خاطر نہیں۔ اسی دروازے سے میں باہر نکلا تھا‘ آپ کویہ بتاتے ہوئے کہ جھوٹے ہیں‘ سازشی ہیں۔ ان کے بغض والے بھی شامل ہوجاتے ہیں‘ ان کے محققین بھی ایکا کرلیتے ہیں اور ایک لفظ کا ایک ہی معنیٰ بیان کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کے متعلق یہ تاثر بڑھتا رہے کہ یہ سوائے لٹیرنے کے‘ یا اموال کی غرض رکھنے والے کے‘ رکھنے کے اور کچھ بھی نہیں تھے انکے سب سفر ‘ یا لوٹ مار کی غرض سے تھے یا تجارت کی غرض سے تھے‘ اورکوئی مقصد نہیں تھا‘ اور قرآن اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہسیرو افی الارض
تحقیق کرو دنیا میں‘ تاریخ کا مطالعہ کرو‘ کائنات کا مطالعہ کرو ‘ کس طرح زمین و آسمان پیدا کیا گیا ہے۔ زندگی کس طرح پیدا ہوئی ہے۔ اس کو سمجھنا ہے تو دنیا میں سیر کرو اور پھرو۔ قرآن کی یہ تعلیم ہے اور یہ منسوب کیا باتیں کررہے ہیں قرآن کی طرف۔بہرحال یہ میںنے بتایا تھا کہ ضرب کی بحث میں (کہاں گئے وہ ‘ ہیں..... I,m sorry‘ یہ بعد میں آئے گی۔)
غزی‘ غزوًا‘ ضرب کا معاملہ تو حل ہوا۔ غزی غزوًا‘ کسی چیز کا ارادہ کیا‘ کسی چیز کا قصدکیا‘ اسے طلب کیا۔ اس کے بنیادی معنے قصد اور طلب کے ہیں۔ اور جب اسلامی اصطلاحوں میں اس پر غور کیا جائے تو اس سے مراد وہ جہاد ہے جس میں حضرت اقدس محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود شرکت فرمائی۔ اسے غزوہ کہا جاتا ہے اور وہ جہاد جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایماء اور ہدایت پر کیا گیا‘ مگرحضورؐ خود شامل نہ ہوئے‘ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ اس کو سریہ کہا جاتا ہے۔ پس سرایا سے مراد صحابہ رضوان اللہ علیہم کی وہ جہادی کوششیں ہیں یا دشمن سے قتال ہے۔ جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود شامل نہیں تھے اور قصد سے مراد کیا ہے۔ قصد سے مراد ‘ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہے۔ جہاد ہے ہی وہ جو طلب رضا کے لئے کیا جاتا ہے اور یہ رضا جوئی خواہ تم غالب آئو خواہ بظاہر مغلوب ہوجائو‘ قتل کئے جائو‘ ہر صورت میںاس خالص نیت سے ‘ پر مبنی ہے کہ تم نے سفر کیوں کیا تھا۔ ہر سفر کاآغاز نیت پر مبنی ہے اور غزوہ سے مراد حصول رضائے باری تعالیٰ ہے ‘ اس کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں۔
مفردات راغب قتل کی بحث میں لکھتے ہیں۔ قتل کے مختلف معانی ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے ‘ کسی کو کسی ذریعے سے مار دینا‘ اس پر موت وارد کردینا۔ موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ قتل ایسی موت کو کہتے ہیں جو انسان کے ہاتھوں واقع ہوئی ہو۔ اور اس کے علاوہ موت کی جتنی بھی قسمیں ہیں۔ انہیں قتل نہیں کہا جاتا‘ موت کہا جاتا ہے ۔ مگر قتل کے اور بھی استعمال ہیں‘ قتلت الخمر‘ خمر المائ‘ میں نے شراب کو پانی ملا ملا کر قتل کردیا۔ مطلب یہ ہے کہ بہت پانی ملایا کہ شراب کی بات جاتی رہی۔ یہ ہمارے ہاں بعض لوگ چائے میں بھی پانی ملا کر اسے قتل کرتے ہیں تو کہتے ہیں بڑھالو ‘ اور مہمان زیادہ آجائیں تو شوربے کو بھی قتل کردیا جاتا ہے اورذلیل کرنے کو بھی قتل کرنا کہتے ہیں ۔ قتلت فلانا قتّلتہ کہ میں نے اسے ‘ اس کا ستیاناس کردیا‘ بہت ذلیل و رسوا کیا۔ پھرایک بہت دلچسپ معنیٰ یہ پیش فرماتے ہیں۔وما قتلوہ یقیناوہ آیت جو ہمارے اور غیرازجماعت علماء کے درمیان مبحث ہے‘ اس کے ‘ اس میںآخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وما قتلوہ یقینااور انہوں نے اسے یقینا قتل نہیں کیا۔اس کا ایک معنیٰ یہ ہے کہ یہ یقینی بات ہے کہ انہوںنے اس کو قتل نہیں کیا۔ لیکن آیت کے سیاق و سباق میں چونکہ شک کی بات ہورہی ہے کہ وہ شک میں مبتلا تھے۔ اس لئے یقینا کو اس انداز میں پیش فرمایا ہے کہ جس سے وہ معنیٰ بھی لازماً نکلتے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام راغب نے اس معنے کو اس طرح پیش کیا ہے۔وما قتلوہ یقینایعنی انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام یقینا قتل نہیں کیا‘ انہیںمسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا یقین نہیں تھا‘ یہ مطلب بنتا ہے کہ جو کچھ بھی تھا‘ وہ ہمیشہ شک میں ہی رہے کہ پتہ نہیں و اقعتا مار بھی سکے کہ نہیں۔ اور یہی قرآن ثابت کرنا چاہتا ہے کہ تم جسکو سمجھتے ہو کہ یہ مر گیا ہے‘ جھوٹ ہے یہ‘ جو موقعے کے گواہ تھے ‘ ان کو تو پتہ نہیں کہ مر گیا ہے‘تمہیںکس طرح پتہ چلا کہ مر گیا ہے۔ وہ تو شک ہی میں پڑے رہے۔ اور فریقین شک میں پڑے رہے۔ قرآن نے یہ صرف یہود کی طرف منسوب نہیں فرمایا۔
ان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ
یعنی یہود اور عیسائی دونوںموقعے کے گواہ اس بارے میں شک میں تھے مسیح علیہ السلام کے اوپر کیا گزری۔ پس باقی جتنی باتیں ہیں وہ خیالات ہیں ڈھکوسلے ہیں‘ یقینی اور قطعی علم تمہیں نہیںہے۔ حسرۃ ً کا لفظ ایک استعمال ہوا ہے اس آیت میں‘ حسرت سے مراد ‘ حسر ننگا کرنے کو بھی کہتے ہیں اور پردہ ہٹانے کو بھی کہتے ہیں۔ عملاً ایک ہی مضمون ہے۔ حسرت عن الزراع میں نے بازو سے کپڑا ہٹایا‘ اٹھایا‘ جس طرح ٹیکہ لگانے کے لئے‘ ڈاکٹر ودود صاحب خاص طور پرسر مار رہے ہیں یہاں‘ میں کرتا ہوں اس طرح ہی‘ ڈاکٹر صاحب ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ہیں آپکے ڈاکٹر مسعود صاحب امریکہ سے آئے ہوئے‘ اتفاق سے دونوںاکٹھے ہوگئے ہیں۔تو ٹیکہ لگانے کے لئے ڈاکٹر جب وہ اٹھاتے ہیں نایوں کپڑا‘ اس کو بھی حسر کرنا کہتے ہیں۔ حسرت کے معنے بھی پائے جاتے ہیں‘ وہ بیچارہ جس کو ٹیکہ لگ جائے دیکھتا رہ جاتا ہے‘ میرے غریب سے کیا ہورہا ہے‘ ہیں؟ اور ننگے سر والے کو بھی حاسر کہتے ہیں۔ خدا کے فضل سے یہاں اب رواج اٹھ گیا ہے سوائے ایک کے‘ ان کی ٹوپی بھی ہے ویسے اب انہوں نے رکھ لی ہے سر پہ۔ اب تو یہاں اللہ کے فضل سے بچے بھی چھوٹے چھوٹے مسجدوں میں آتے ہیں تو سر ڈھانپ کے آتے ہیں تو کوئی ان میں حسرت والا نہیں رہا۔ایک حسر کا معنیٰ ہے تھکاوٹ کا۔ بہت تھکا ماندہ ہوجائے کوئی انسان۔ اس کو حاسر کہتے ہیں۔ یہاں جو قرآن کریم میں سورۃ مُلک میں جو بیان فرمایا ہے وہ ینقلب الیک البصر خاسئًا و ھو حسیرo ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خاسئا و ھو حسیرo
کہ تم کائنات پر دوبارہ نظر ڈال کر دیکھ لو‘ کہیں کوئی فتور‘ کہیں کوئی رخنہ دکھائی دیتا ہے۔ پھر ڈال لو نظر‘ تمہاری نظر تمہارے پاس تھکی ماندی حسرت زدہ ہوکے لوٹ آئے گی۔ تو حسرت کا معنیٰ جو ہم عام‘ ہمارے ہاں رائج ہے‘ یہ کسی چیز نہ کرسکنے کے نتیجے میں تکلیف ‘ کچھ حاصل نہ کرنے کے نتیجے میں تکلیف‘ اس کا اس تھکاوٹ سے تعلق ہے۔ انسان کی کچھ پیش نہ جائے۔تھکا ہارامایوس ہوکر بیٹھ رہے‘اور اپنے مطلب کو نہ پاسکے۔ تو جو دل کی کیفیت ہوتی ہے اسے حسرت کہا جاتا ہے۔قالوا الاخوانھم والے مضمون کی طرف آنے سے پہلے اب میں ان مضامین کی روشنی میں دوباہر اس آیت کو پڑھتا ہوں۔ اور اس کے بعض مطالب پر روشنی ڈالتا ہوں۔
یایھاالذین امنو ا لاتکونوا کالذین کفروا وقالوا لاخوانھم اذا ضربوا فی الارض اوکانوا غزی لو کانوا عندنا ماما توا وما قتلوا لیجعل اللہ ذلک حسرۃ فی قلوبھم واللہ یحییٖ و یمیت ط واللہ بما تعلمون بصیر O
اس میں جو قابل غور باتیں ہیں جو ‘ جو زیر بحث لائی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو‘ ان لوگوں کی طرح نہ ہو‘ جنہوں نے کفر کیا۔وقالو ا الاخوانھم اور اپنے بھائیوں سے کہا
پہلی بحث تو مفسرین نے یہ اٹھائی ہے کہ کفر کیا سے مراد صرف منافقین ہیں یا کافر بھی ہیں اور منافقین بھی ہیں یا خاص منافقین ہیں اور عام منافقین نہیں۔ یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول کے ساتھی۔ جہاں تک کفر والا حصہ ہے‘ میرے نزدیک سیاق و سباق یہ بتاتا ہے یہاں کافر‘ دوسرے کافر مراد نہیں ہیں۔ بلکہ منافقین ہی ہیں۔ کیونکہ کافر یہ نہیں کہا کرتے تھے ان کوکہ تم ہمارے ساتھ بیٹھے ہوتے تو امن میںرہتے۔ مسلمانوں میں بد دلی پھیلانے اور اپنے مقصد‘ میں بے یقینی پیدا کرنے کے لئے جو ہتھیار منافق استعمال کرسکتے تھے‘ وہ اگر کافر کرتے تھے تو منافق بن کر کرتے تھے‘ یعنی بحیثیت کافر کے باہر رہتے ہوئے باتیں نہیں کیا کرتے تھے‘ اس لئے کافر تو ہیں ہی وہ‘ منافق بھی تو کافر ہی ہے۔ مگر کافر کی ایک خطرناک صورت ہے جو اندر آکر مختلف قسم کے وساوس پھیلاتا ہے اور اس کواندر سے وار کرنے کا ایک موقعہ مل جاتا ہے ۔پسکالذین کفروا وقالو ا لاخوانھم میں ایک معنیٰ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اخوان سے مراد ان کے ساتھی ہیں‘ لیکن یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ جو ان کے ساتھی ہوں یا ہیں‘ وہ تو شہید نہیں ہوئے‘ وہ تو قتل نہیں ہوئے ان معنوںمیں جن معنوں میں ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں‘ تو پھر یہ معنے کرنے پڑیں گے نعوذ باللہ من ذلک کہ جو قتل ہونے والے تھے اور شہید ہونے والے تھے‘ وہ انہی کے بھائی… تھے۔ یہ معنے درست نہیں ہیں ۔
بعض مفسرین نے اس وسیع معنے کو اختیار کیا ہے‘ یہی درست ہے کہ یہاں اخوان سے مراد دینی بھائی یا طینت کے بھائی نہیں ہیں۔ سرشت کے لحاظ سے ان میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے بھائی نہیںکہا جارہا۔ بلکہ وہ بھائی بنتے ہیں اور بھائی اس لئے بنتے ہیں کہ قبیلہ یا گروہ کے طور پر وہ ان کے بھائی ہیں۔ قران کریم میں اس کی مثال ملتی ہے‘ اور وہ میںآپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جیسا کہ حضرت ہودؑ کے متعلق آتا ہے۔
والی عاد اخاھم ھوداًاور ہم نے عاد قوم کی طرف اس کا بھائی ہودعلیہ السلام بھیجاو الی ثمود اخاھم صالحااور ثمود قوم کی طرف اس کا بھائی صالح علیہ السلام بھیجا۔پس بھائی سے مراد اگر دینی بھائی مراد لیا جائے تو نعوذ باللہ من ذلک یہ تو ہمارے بزرگ انبیاء پر بڑا حرف آتا ہے۔ مراد قومی بھائی ہے اور اس پہلو سے یہ لوگ جن لوگو ںمیں باتیں کرتے تھے ان کو‘ انکی واضح نشان دہی فرما دی گئی ہے۔ کیونکہ قومی بھائی کے طور پر یہ مہاجرین کے بھائی نہیں تھے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے ساتھی مہاجرین کو اپنا بھائی نہیں کہہ سکتے‘ ان سے تو یہ بغض رکھتے تھے ان سے حسد رکھتے تھے‘ تکلیف تھی کہ وہ باہر سے آکر ہمارے شہر کی سیاست پر قابو ہوئے بیٹھے ہیں۔ اس لئے اپنے بھائیوں سے مراد اہل مدینہ ہیں۔ مدینہ میں جو انصار تھے‘ خالص انصار‘ انکے اوپر تو ان کا کوئی زور نہیں تھا ‘وہ تو اللہ کے بندے تھے ‘شیطان کا ان پر کوئی عمل دخل نہیں تھا ‘مگر وہاں کچھ کمزور ایمان والے بھی تھے کچھ ایسے تھے جو معاہدے کے لحاظ سے پابند تھے مسلمانوں کی تائید کرنے پر ‘تو ان سب میں بد دلی پھیلانے کے لئے جو باتیں کرتے تھے ان کے متعلق فرمایا گیا
وقالو الا خوانھم وہ اپنے بھائیوں سے یہ کہتے تھے اذاضربو افی الارض اوکانو اغزی او کانو عند نا ماما توا یہاں میں نے استنباط کیا تھا ‘پہلے ایک مستشرق کے حملے کے جواب میں کہ یہ خیال کہ میدان جنگ میں یہ باتیں ہو رہی تھیں اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ ان کے خلاف ‘ان سے بغاوت کا خطرہ تھا ‘یہ بالکل درست نہیں ہے میدان جنگ میں کچھ شامل تھے ضرور ‘جنہوں نے باتیں کی ہیں مگر اس وقت جب وہ واپس پہنچے ہیں اور ان منافقوں کے سردار وں کی باتوں سے متاثر ہو کر ان کمزور ایمانداروں نے بھی ان کی ہاں میںہاںملائی ہے ۔ لیکن موقعہ اس کا میدان احد نہیں ہے موقعہ اس کا مدینے کی گلیاں ہی ہیں ۔ پس یہ آیت یہ کہہ رہی ہے۔
وقالوا لاخوانھم اذا ضربوا فی الارض او کانوا غزی
یہاں اَوْ جس طرح وائو کے قریب لکھا ہوا ہے‘ پہلے بھی ایک دفعہ غلطی سے لو پڑھ گیا تھا‘ لیکن پھر فوراً سمجھ آجاتی ہے کہ غلط ہے۔اذا ضربوا فی الارض اوکانو ا غزیجب وہ سفر اختیارکرتے ہیں زمین میں‘یا غزوہ پر نکلتے ہیں لوکانو اعندنا ماما توااگر یہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے۔وہ تو یہ نہیںکہہ سکتے تھے میدان جنگ میں کہ اگر ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے‘ وہ تو میدان میں موجود تھے۔ اس لئے اس آیت میں تو قطعاً وہ شامل ہی نہیں ہیں لیکن دوسری آیت میں وہ شامل ہوجاتے ہیں۔ مگر ان کا وہ قول مدینے میں جاکرہے‘ مدینے میں جاکر انہوں نے کہا‘ یہ بات کہی ہے نہ کہ میدان جنگ میں۔قل ان الامر کلہ للہ یخفون فی انفسھم مالا یبدون لک یقولون لوکان لنا من الامر شییء ماقتلنا ھہنا قل لوکنتم فی بیوتکم لبرزالذین کتب علیھم القتل الی مضا جعھم ظاہر یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے میدان جنگ میں یہ کہا ہم یہاں نہ مارے جاتے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے۔تو کہہ دے کہ تمام تر فیصلے اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ یخفون فی انفسھم مالا یبدون لک ‘ یہ اپنے سینوںمیںچھپا رہے ہیں۔ وہ بات جو تجھ پر ظاہر نہیں کررہے‘ یعنی میدان جنگ میں اگر کچھ وساوس تھے بھی تو مخفی حالت میں تھے اور ان کو کھل کر انہوںنے پیش نہیں کیا۔جب مدینے میں لوٹے ہیں تو ان سرداروںکی وجہ سے جو وہاں یہ باتیں کیاکرتے تھے‘ وہ یہ کہنے لگ گئے لو کان لنامن الامر شی ء ما قتلنا ھہنا پھر کہا ہے لیکن وہاں واپس جانے کے بعد کہا ہے۔ ’’ہم یہاں‘‘ سے مراد میدان جنگ ہی یہاں ہے لیکن وہاں موقعے پر نہیں کہا گیا یہ محاورۃً ہے۔ ’’یہاں‘‘ سے مراد وہاں ہے دراصل۔ کیونکہ وہاں شامل بھی تھے اس لئے یہاں بھی کہہ سکتے تھے وہ اس کوما قتلنا ھہنا قل لو کنتم فی بیوتکمکہہ دے کہ تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو وہ جن پر قتل کے ذریعے موت مقدر ہوچکی ہے وہ اپنے بچھونے سے اٹھ کھڑے ہوتے اور اپنے مقاتل کی طرف آگے بڑھ جاتے‘ مقاتل کی طرف خود چل پڑتے۔
اب میں واپس اسی آیت پہ آیا ہوں جو اس وقت زیر نظر ہے۔ آیت ۱۵۷۔یایھا الذین امنو ا لاتکونوا کالذین کفروا وقالوا لااخوانھم انہوں نے اپنے بھائی بند سے کہا‘ ترجمہ کیا جاتا ہے‘بعض دفعہ‘ یہ مراد نہیں ہے بلکہ اپنی ہم قوم لوگوں سے کہا۔جیسا کہ انبیاء کی مثال میں میں بیان کرچکا ہوں۔ ثمود کی قوم کے تھے حضرت صالحؑ‘ انکے دین میں بھائی نہیں تھے۔اذا ضربوا فی الارضجب انہوںنے کوئی سفر اختیار کیا۔او کانوا غزییا غزوہ میںگئے ۔
میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا محاورۃً غزوہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی شرکت سے کہلاتا ہے مگر یہ عام عربی معنیٰ نہیں ہے۔ عربی معنی صرف کسی مقصد کے لئے نکلنا ہے۔ پس یہاں یہ وہ اصطلاح مراد نہیں ہے۔ بلکہ غُزًی سے مراد سفر اور جہاد کی غرض سے سفر ہے۔ لیکن امام رازی ؒ نے ایک بہت عمدہ بات پیش فرمائی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ضرب بھی اللہ کی خاطر جہاد کی نیت سے ہوسکتا ہے۔ضرب فی الارض ۔ اور اس میں اور غزوہ میں فرق یہ ہے کہ غزی چھوٹے سفر کو کہتے ہیں ‘ یا ‘ غزی چھوٹے سفر کو نہیں‘ غزی تو وہ سفر ہے جو خالصتہً جہاد کی نیت سے کیا گیا ہے۔ لیکن ضرب چھوٹے سفر کو نہیں کہتے ہیں۔ بلکہ لمبے سفرکو کہتے ہیں۔ تو وہ ہی امام رازیؒ سمجھتے ہیںکہ قرآن کریم نے ایک ہی مضمون کو دو لفظوں میں بیان فرمایا ہے‘ گویا یہ مطلب ہے کہ خواہ تمہارا جہاد تھوڑے سفر کا ہو جیسا کہ احد کا جہاد تھا‘ یا لمبے سفر کا ہو جیسا کہ تبوک کی طرف تم روانہ ہوئے۔ دونوں صورتوں میں جہاد ہی کی نیت ہے‘ خدا ہی کی خاطر گھر سے نکلے ہو۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو مرتے اورقتل ہوتے ہیں ۔ ورنہ تاجر کہاں قتل کئے جاتے ہیں۔ تو یہ بات نہایت معقول ہے اور برمحل ہے کہ مراد دونوں طرح غازی ہی ہیں جو خداکی خاطر غزوہ پر نکلے ہیں‘ خواہ وہ چھوٹے سفر پرہوں یا لمبے سفر پرہوں۔ ان کے متعلق کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ وہ مرتے نہ وہ قتل ہوتے۔ اب مرنے کو جوڑا گیا ہے ضرب فی الاض سے اور قتل کو جوڑا گیا ہے غزوہ سے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس میں موت کے ذکر کو اسکے ساتھ کیوںباندھا ہے۔ کیا ان کا یہ خیال تھاکہ وہ جب سفر پہ نکلتے ہیں تو کبھی نہیںمرتے۔ مراد اس کی یہ ہے کہ لمبے تھکا دینے والے مصیبت کے سفرجب یہ اختیار کرتے ہیں تو بیچ میںمارے جاتے ہیں۔ شدید دقتیں پیش آتی ہیں ۔ اسلامی جہاد کے سفروں میں ‘ اور جیسا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفروں کی تاریخ پر غور کرتے ہیں‘ بہت شدید مصیبتوں میں مبتلا ہوئے‘ بڑی لمبی بھوکوں سے آزمائے گئے‘ بغیر پانی کے ان کو گرمیوں میں سفر کرنے پڑے تو مراد یہ ہے کہ ان کی کہ وہ اگرچہ لڑائی میں نہ بھی مارے گئے‘ لیکن ان سفروں کی مشقتوں نے ان کو مار دیا۔اگر گھر پر آرام سے بیٹھے رہتے تو نہ مرتے۔لیجعل اللہ ذلک حسرۃ فی قلوبھم یہ اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کو ان کے دلوں میں حسرت بنادے۔ اب مفسرین پر میں نے نظر ڈالی ہے اور سارے اس مسئلے میں الجھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ حسرت کا کیا تعلق بنائیں یہاں۔ یہ بات جو وہ کہتے ہیں یہ کیسے حسرت بن جائے اور میرے علم میں کوئی اب تک ایسی توجہیہ نہیں آئی جو قابل قبول ہو اس پہلو سے۔ دراصل حسرت ا نکو اس بات کی رہے گی کہ ان کی یہ کوششیں ناکام رہیں گی۔ اللہ انکو کہنے دیتا ہے ‘ کہتے رہو‘ پھیلاتے رہوا فواہیں جو زور لگتا ہے لگالو‘ لیکن جو خدا کے بندے اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہیں‘ ان کو تم نہ غزوہ سے روک سکو گے نہ خدا کی خاطر سفر اختیار کرنے سے روک سکو گے۔ یہ حسرت تھی ان کے دل میں‘ اسی لئے تو کہتے تھے۔ بس یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم ان کو یہ چھٹی دیتے ہیں‘ ان باتوں ‘ ایسی باتیں کرنے کی‘ تاکہ ہمیشہ حسرت سے دیکھتے وہ جائیں اور ان کا کوئی بھی وار خدا کے بندے پر نہ چلے۔ اور جہاںتک ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ نہ مرتے نہ زندہ رہتے وغیرہ اس کا جواب دیتا ہے۔واللہ یحییٖ و یمیتاللہ ہی ہے جو زندہ بھی رکھتا ہے ‘ مارتا بھی ہے۔واللہ بما تعملون بصیراور اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے باخبر ہے ان پر نظر رکھتا ہے جو تم کرتے ہو۔اس کے علاوہ کوئی ایسی بات مجھے نظر نہیں آئی جو مفسرین نے کہی ہو اور خاص طور پر قابل ذکر ہو‘ زیادہ تروہ لفظی بحثوںمیں ہی پڑے ہیں‘ غزی کا کیامطلب ہے‘ قتل سے کیامراد ہے؟ حسرۃ کے متعلق مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ حسرت سے مراد یہاں یہ ہے کہ مقتول کے رشتے دار جب اس کلام کو سنتے ہیں تو ان کے دلوں میں حسرت پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہرایک اعتقاد رکھتا ہے کہ اگر وہ اسے سفر کرنے یا غزوہ پر جانے سے منع کردیتا ہے تو وہ ضرور بچ جاتا‘ یہ بالکل غلط ہے۔ بالکل بے بنیاد بات ہے اس کا کوئی بھی سچائی سے تعلق نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھی جو غزوہ پر نکلے اور شہید ہوئے‘ ان کے تو پس ماندگان توبڑے فخر سے ہمیشہ نسلاً بعد نسلٍ یہ ذکر کیا کرتے تھے کہ ہمارے آبائو اجداد تھے جنہوں نے یہ کام کئے۔ ان منافقوں کے کہنے پہ ان کے دلوں میں کہاں سے حسرت پیدا ہوجاتی تھی۔ نامراد رہے ہیں ان باتوں میں۔ اور وہ جو جھوٹے … بہانے والے پہنچا کرتے تھے۔ ان کو وہ رد کر کے مردود کرکے دور پھینک دیا کرتے تھے۔ کبھی ان کی باتوں میں نہیں آئے۔ بلکہ جو اسلام کی طرف سے ان سے ہمدردی کرتے تھے ان کو بھی یہ سمجھاتے تھے اور صبرکی تعلیم دیتے تھے‘ کہتے تھے ہم خوش ہیں اور یہ وہ تاریخ ہے جو آج بھی دہرائی جارہی ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کو ماضی میں جاکر کھوج لگائو۔ آج جماعت احمدیہ میں جو شہید ہورہے ہیں ان کے بزرگوں اور ان کے ساتھیوں‘ ان کے تعلق والوں کا بعینہٖ یہ حال ہے۔ ایک بھی ایسا نہیں جس پر ا ن بدبخت وساوس نے اثر کردیا ہو۔
مجھے کل ہی چٹھی ملی ہے پاکستان سے اپنی ایک عزیزہ‘ بہن کی۔ کہ جب ہم شہداء کی تعزیت کے لئے لاہور گئے۔ کہتی ہیں ناقابل بیان ہے‘ میں بیان نہیں کرسکتی‘ جو ہمارے دل کی کیفیت ہوئی۔ ہم اس والدہ کو تسلی دے رہے تھے جن کا بیٹا شہید ہوا ہے۔اور وہ ہمارے آنسوپونچھ رہی تھی۔ کہتی تھی کیاہوگیا ہے بی بی آپ کو‘ آپ کیوں غم کرتی ہیں۔ ہمارا غم کرنے والا خلیفہ موجود‘ ہمارا خداموجود جو ہم پر پیارکی نظرکر رہا ہے۔ آپ کو کیاہوگیا ہے میں تو بہت خوش ہوں۔ میرے پانچ بیٹے ہیں‘ سارے خدا کی خاطر ذبح ہوجائیں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ یہ ان کا ردعمل ہے۔ انکے متعلق یہ کہنا نعوذباللہ من ذلک کہ وہ شہادت کے بعد اپنے عزیزوں کے متعلق یہ کہتے تھے کہ یہاں‘یہ ہوتا تو یوں نہ ہوتا‘ یوںنہ ہوسکتا‘ یوں ہوتا تو کہتے ۔ یوںنہ ہوتا۔ یہ ساری باتیں لغو‘ بے معنی ہیں اور شہداء کے عزیزوںپر الزام ہے جس میں کوئی حقیقت نہیںہے۔ میں نے اپنی زندگی میںجتنے شہداء احمدیت میں دیکھے ہیں‘ خلافت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی‘ ان میں سے کسی ایک عزیز کا بھی یہ ردعمل نہیں جو صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرف منسوب کیا جارہا ہے۔ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہم نے تو ان سے سیکھی ہیںیہ باتیں۔ ہم تو ان کے چلائے ہوئے رستوں پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ پس آج ہم گواہ ہیں اور خدا کی قسم ہم گواہ ہیں کہ صحابہؓ پر یہ الزام جھوٹ ہے۔ انکے اعزّہ اور اقرباء ہر گز یہ سوچیں نہیںسوچا نہیں کرتے تھے۔
حسر ت ان منافقوں کے دلوں میں تھی کہ ہم زور لگا بیٹھتے ‘ جو چاہیں کر لیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ان میں سے کوئی شخص ٹوٹ کر ہماری طرف آئے اور ہاں میں ہاں ملائے کہ ہاں ہمارے عزیز نہ مارے جاتے اگر یہ ہوتا تو۔ لیکن اس ضمن میں ایک بات میں بطور وضاحت کے کردینا چاہتا ہوں۔ بعض دفعہ منافق بھی مارے گئے ہیں۔ میں نے کل یہ جو کہا تھا کہ کوئی منافق نہیں مارا گیا۔ جنگ احد میں‘ تو اس تاریخ پر نظر ڈال کر جوہمارے سامنے ہے‘ میرے علم میں کسی منافق کا ذکر نہیں ملتا کہ جو جنگ احد میں مارا گیا ہو اور وہ ‘ وجہ اس کی یہ ہے کہ 300 بڑے منافقین جو عبداللہ بن ابی ابن سلول کے ساتھ چلے تھے وہ تو پہلے ہی رستے میں سے واپس جاچکے تھے۔ دوسرے بعض منافقین اس حد تک نہیں تھے جس حد تک خدا ان سے ناراض ہوکر انہیں منافقین کے زمروں میں شمار کرکے باہر پھینک دے۔ ان کے دل کی کمزوریاں تھیں کچھ وہ باہر نکلی ہیں اور اللہ نے ان کو معاف فرمادیا۔ پس منافق تو وہاں کوئی حقیقت میں موجود ہی نہیںرہا تھا تووہ شہید کیسے ہوتا۔ اورمنافق تو شہید ہوا بھی نہیں کرتا۔ میں نے جو یہ کہا تھا اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ کبھی بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ کوئی غیر مومن اسلامی جنگ میں نہ مارا گیا ہو۔ قطعی شہادت اس بات کی موجود ہے کہ ایک دفعہ ایک بہت بڑا ایک پہلوان ایک جری انسان اسلامی جہاد میں چپکے سے داخل ہوگیا اور شامل ہوگیا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ایسے شخص کو اجازت ہی نہیں دیا کرتے تھے جو ‘ جس کے متعلق قطعی علم ہو کہ وہ غیر مسلم ہے یا مشرک ہے۔ ہاںجو کہہ دیتا تھا کہ میں ہوں‘ اس کی بات مان لیتے تھے‘ دل میں نہیں اترا کرتے تھے خود بخود۔ جیساکہ آج کا مولوی اترتاہے‘کہتا ہے نہیں تم منہ سے جھوٹ بول رہے ہو‘ اندر سے تم یہ کہہ رہے ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عجیب اسوہ ہے کہ کوئی کہتا تھا کہ میں کافر ہوں‘ میں شامل ہونا چاہتا ہوں جہادمیں‘ فرماتے نہیں سوال ہی نہیں۔ تو مشرک ہے مجھے کسی مشرک کی ضرورت نہیں ہے مدد کی۔ شدید ضرورت کے وقت اور بحران کے وقت بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رد فرمادیاہے۔ اس نے کہا میں مومن ہوتا ہوں ۔ کہنے لگے ہوجائو۔ ٹھیک ہے آجائو شامل ہوجائو۔ یہ نہیں کہا کہ تم دھوکہ دے رہے ہو۔ ایک منٹ میں تم کس طرح مومن ہوگئے۔ یہ ہے پاک صداقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ منہ سے جس نے کہا‘ اس حد تک اس کو تسلیم کرلیا‘ یہ نہیںکہا کہ دل میں تم کچھ اور کہتے ہو۔ لیکن ایسے لوگوں کو بعض دفعہ آزمایا جاتا تھا۔ لیکن ان کے اسلام کا انکار کرکے نہیں‘ تسلیم کرکے۔ وہ ایک الگ مضمون ہے۔ دیکھا جاتا تھا کہ کس حد تک یہ لوگ درست ہیں۔ مگر اپنے اعمال سے وہ پہچانے جاتے تھے۔ پس ایسا ہی واقعہ ایک تاریخ میں درج ہے‘ قطعی طور پر ثابت ہے کہ ایک مشرک بہت زبردست پہلوان اسلام کی طرف سے‘ یا مشرک تھا تو پتہ نہیں تھا اس طرح۔ ایک منافق حالت میں تھا‘ اس نے اسلام کی طرف سے جنگ میں شمولیت کی اور بہت ہی غیر معمولی طور پر عظیم کارنامے دکھائے۔ یہاں تک کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھے۔ اور اسکے تذکرے ہونے لگے کہ وہ ہے اصل مجاہد اس طرح وہ اس لڑائی میں شہید ہوا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں‘ وہ شہید نہیں ہوا۔ وہ تو اپنا ایک‘ اپنے ایک مرے ہوئے کا انتقام لینے کی خاطر ہماری طرف سے شامل ہوا تھا‘ کیونکہ جس قبیلے نے اس کے بھائی یا کسی عزیز کو مارا تھا‘ وہ ہمارا مخالف ہوکر آج‘ ہم سے لڑنے آیا تھا۔ پس اس ذاتی بدلے کی خاطر وہ مارا گیا‘ وہ شہید تو نہیں ہوا۔ پس یہ فیصلہ اللہ اوراس کا رسول ہی کرسکتے ہیں‘ جب خدا اپنے رسول کو بتاد ے۔ اس کے علاوہ یہ کہہ دینا بھی غلط ہے کہ کسی اسلامی جنگ میں کوئی منافق نہیں مارا جاسکتا۔ اس کی اس سے بڑی اور کیا شہادت ہوگی کہ مارا گیا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے اس کے بارے میں دھوکے میں نہیں رکھا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنازے پڑھنے تھے‘ دعائیں دینی تھیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع فرمادیا اور جنگ احد کے متعلق ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملتی کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہو کہ یہ شخص منافق تھا‘ بحیثیت منافق کے اس جنگ میں مارا گیا ہو۔واللہ بما تعملون بصیراس کے متعلق کوئی نہ لغت میں نہ کسی تفسیری بحث میں کوئی ایسی بات نظر آئی ہے جو میں تبصرے کیساتھ آپ کے سامنے پیش کرسکوں۔ صرف ایک عمومی اظہار ہے ۔ اوروہ ہماری روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔فرماتا ہے
واللہ یحیی و یمیت واللہ بما تعملون بصیر
اللہ ہی ہے جو موت بھی دیتا ہے اور زندہ بھی کرتا ہے۔ موت بھی دیتا ہے‘ یحییٖ و یمیت‘ زندہ بھی رکھتا ہے اور مارتا بھی ہے۔واللہ بما تعملون بصیراور اللہ تعالیٰ ا ن اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔یہ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ جو منافق کہتے تھے کہ ہمارے ساتھ ہوتے تو نہ مرتے نہ قتل ہوتے‘ ا ن کو توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ End All نہیں ہے۔انسان خواہ مرے یا قتل ہو‘ یہ کیا‘ کس بحث میں تم پڑ گئے ہو اگر نہ بھی ہوتے قتل تو اس وقت کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کی موت کا وقت نہیں دیکھتا اس کے نیک اعمال یا بد اعمال پر نظر رکھتا ہے۔ پس یہ دعا مانگنی چاہئے اور یہ خواہش کرنی چاہئے کہ ہم چاہے مارے جائیں یا قتل ہوں ہم اللہ رضا پر مارے جائیں اور اللہ کی رضا پر قتل ہوں کیونکہ اگرہمارے بد اعمال ہوں اور عمر لمبی ہو جائے تو وہ عمر لمبی ہماری ہلاکت کا موجب ہو گی۔ کسی فائدے کے موجب نہیںہو سکتی پس واللہ بما تعملون بصیر میں یہ اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بحث لغو اور بے معنی سمجھتا ہے…… کب مارا اور کس طرح مارا گیا۔ یہ بحث ہے… بد اعمال مارا گیا۔ پس اپنے اعمال کی فکر کرو۔ یہ End all نہیں ہے ۔ یہ انجام آخری نہیں ہے ۔ یہ مرنے کے بعد پھر محاسبہ ہوگا۔ اس وقت اللہ تمھیں بتائے گاکہ تم کیسے اعمال کیا کرتے تھے۔ اس آیت اور کچھ باقی ہوا تو شامل کرلوں گا۔ ورنہ دوسری آیت شروع کرنے کا وقت نہیں ہے گھڑی دیکھ رہو ہوں دو منٹ رہ گئے ہیں۔بہرحال میں نے آپ کو خوب اچھی طرح دیکھا رہا ہے کہ یہ مستشرقین ہیں۔ یہ کس طرح ظلم کرتے ہیں اور ایکا کرتے ہیں سازش کر کرکے ایک دوسرے کے ساتھ۔ یعنی لفظاً بول کر کر سازش نہ بھی کریں اندر سے ان کے مزاج سازشی ہیں جہاں دیکھے کہ ایک مستشرق نے ایک بات ایک خاص طور پر اسلام پرحملہ کرنے کے لئے کی ہے اس کی تائید میںویسے ہی ترجمے شروع کر دیتے ہیں۔ ویسی ہی لغت کی کتابیں بنا کر شروع کردیتے ہیں۔ پس merchandise والی جوبحث ہے ان کی۔ اس کا تعلق اس پہلے الزام سے ہے کہ جنگ میں ہمیشہ لوٹ مار کی خاطر نکلتے رہے۔ اور booty ان کی زندگی کیا مقصد تھا اس حصہ کو میں ابھی نہیں چھیڑتاکیونکہ میں نے اس کے متعلق بعد میں گفتگو کرنی ہے مختلف حوالوں سے ثابت کروں کہ بہت جھوٹے اور لغو بے معنی الزام ہیں…ان کے بغض کے اور کسی چیز کی نشان دہی نہیں کرتے بہرحال ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ اس عظیم جہاد میںتقویت دے۔ ہمارے نصرت فرمائے اور کثرت سے احمدی اس جہادکے لئے آگے آئیں کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ اس صدی میں عیسائیت کے لئے حملے کو کلیۃً پسپا کر دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 12 رمضان المبارک
23 فروری 1994ء
ان الذین تولوا منکم ............ا ن اللہ یحب المتوکلین O (ال عمران 156تا160)
یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیںان میں سے اکثر آیات تو ایسی ہیں جن کا ترجمہ بھی پہلے پیش کیا جاچکا ہے اور تفسیر بھی ہوچکی ہے۔مجھے بتایا گیا ہے کہ آج آیت ایک سو انسٹھ (159) پر پہلے گفتگو ہوگی۔ پھر بعد میں ایک سو ساٹھ پر ‘ ولئن قتلتم فی سبیل اللہ او متم لمغفرۃ من اللہ و رحمۃ خیر مما یجمعون O
اور اگر تم اللہ کے راستے میں قتل کیے جائو یا مر جائو لمغفرۃ من اللہ تو اللہ کی طرف سے مغفرت بھی ہے اور رحمت بھی ہے۔ جو بہتر ہے اس سے جو یہ جمع کرتے ہیں۔ ولئن متم او قتلتم اور یاد رکھواگر تم مرجائو یا قتل کئے جائو لالی اللہ تحشرون۔ تو ہر صورت میں اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائو گے یا اکٹھے کئے جائو گے۔ فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم اوریہ اللہ کی خاص رحمت کے سبب سے ہے کہ تو ا ن پر مہربان ہے۔ ان کیلئے نرم گوشتہ رکھتا ہے ولو کنت فظا غلیظ القلب‘ اگر تو بد اخلاق ہوتا‘ بد مزاج ہوتا اور سخت دل ہوتا۔ لا نفضوا من حولک ‘ یہ تجھے چھوڑ کر بکھر جاتے۔ فاعف عنھم پس ان سے عفو کا سلوک کر۔ درگذر فرما۔ واستغفر لھم اور انہیں بخش دے۔ وشاورھم فی الامر‘ اوران سے اہم معاملات میں مشورہ کیا کر۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ‘ پس جب تو فیصلہ کرلے (یعنی مشورہ کے باوجود فیصلہ تیرا ہوگا) تو پھر اللہ پر توکل کر۔ ان اللہ یحب المتوکلین ۔ یقینا اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس آج کی گفتگو سے پہلے ایک مجھے حوالہ دیا گیا ہے۔ کل میں نے ذکر کیا تھا کہ حسرت کا معنے جس پر میرا دل اٹکا ہے۔ وہ میرے ذہن میں نہیں کہ باقی مفسرین میں سے کسی نے یہ بات کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ لوگ جتنا چاہیں زور لگائیں۔ مومنوں کے دل پھیرنے کی کوشش کریں اُن کو اللہ اور رسول سے بدظن کرنے کی کوشش کریں۔ مگر ہر صورت میں ناکام رہیں گے۔ اور ہمیشہ یہ حسرت ان کے دل میں رہے گی کہ کاش کوئی تو ہماری بات مانتا۔ کوئی تو ایسا ہوتا جسکا ایمان ہماری باتیںسن کر کمزور ہوجاتا۔ اس پر مجھے عبدالمومن صاحب نے تفسیر کبیر رازی کا یہ حوالہ پیش کیا ہے کہ امام رازی کا بھی یہی خیال ہے کہ حسرت کااصل معنے یہی ہے۔ یہ لوگ اپنے ناپاک ارادوں میں ناکام رہیں گے اور ہمیشہ اس بات کی حسرت ان کے دل میں رہے گی۔ لئن قتلتم فی سبیل اللہ او متم لمغفرۃ من اللہ ورحمۃ خیر مما یجمعون۔ اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہو۔ یا مر جائو لمغفرۃ من اللہ ور رحمۃ خیر مما یجمعون۔ تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور اس کی رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو لفظی بحثیں ہیں۔ ان کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ساری پہلے گزر چکی ہیں۔بار ہاگزر چکی ہیں۔
لفظقتلکے متعلق کل بھی گفتگو ہوچکی ہے اورصرف جو قابل توجہ امر ہے بعض مفسرین نے اٹھایا ہے وہ یہ ہے۔ یہاں قتلتم پہلے رکھا ہے اور متم بعد میں رکھا ہے۔لمغفرۃ من اللہ و رحمۃ خیر مما یجمعون۔ اس میں قتل کو پہلے کیوں کیا گیا ہے اور موت کو بعد میں کیوں رکھا گیا ہے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ خداکی راہ میں شہید ہونا چونکہ زیادہ بڑا مرتبہ ہے۔ اور مرتبے کی فضیلت کے اعتبار سے قتل کو پہلے کرلیا گیا ہے اور موت کو بعدمیں رکھا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ بھی پیش نظر ہوسکتا ہے۔ لیکن اصل وجہ اور ہے۔ وہ یہ ہے کہ جنگ میں طبعی موت مرنا تو ایک بہت بعیدکی بات ہے۔ اور شہادت بدرجہ اولی میسر آتی ہے۔ اس لئے جو اہمیت ہے وہ واقعاتی اہمیت ہے کہ جب خدا کی راہ میں جہاد کیلئے نکلے ہو تو ظاہر ہے کہ قتل کیلئے تیار ہوکر جارہے ہو۔ اس لئے موت کا کوئی سوال نہیں ہے بظاہر۔ لیکن پھر موت کا ذکر کیوں کردیا۔ اس لئے کہ اس سے پہلے ضربتم فی الارض میں دونوں صورتیں پیش فرمائی جاچکی ہیں اور پچھلی آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب تم خداکی راہ میں نکلتے ہو سفر پر۔ اور متم کا الزام کہ اس غلطی کی وجہ سے تم نے موت قبول کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلے۔ جو دشمنوں نے لگایا تھا۔ جسکامطلب یہ ہے کہ بعض سفر میں شامل لوگ لڑائی کے بغیر بھی سفر کی مشقتوں کی برداشت نہ لا کر مشقتوں سے مغلوب ہوکر دم توڑتے رہے اور بڑے بڑے سخت حالات مسلمانوں کو ان سفروں میں پیش آئے ہیں۔ پس اسی پہلو سے ان کا بھی مرتبہ دراصل شہید ہی کا ہے اور ان شہداء کے بعد جن کو قتل کے ذریعہ شہیدکیا گیا۔ ان شہداء کا ذکر فرمایا گیا ہے جو اللہ کی خاطر سفر میں کسی وجہ سے مارے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان مربیان اور واقفین زندگی کو بھی ایک قسم کا شہید شمار کرتے ہیں۔ جو قتل نہ بھی کئے گئے ہوں۔ مگر اللہ کی راہ میں جب اس کی خاطر جہاد کیلئے دوسرے ملکوں میں گئے ہوں۔ لمبے سفرپر گئے ہوں۔ وہاںموت آجائے تو اسی آیت سے استنباط کرتے ہوئے۔ ان کو بھی ایک گو نہ شہادت کا درجہ دیا جاتا ہے اصل اجر تو اللہ تعالیٰ نے دینا ہے۔ مگر ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ ان شہداء میں شمار فرمائے گا۔ جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں ملتا ہے۔ ولئن قتلتم فی سبیل اللہ او متم لمغفرۃ من اللہ ورحمۃخیر مما یجمعون۔ اللہ کی طرف سے مغفرت اور رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ یہاں مفسرین اکثر جمع کی بحث کی طرف زیادہ توجہ کررہے ہیں اور یہ بھی بحث اٹھائی گئی ہے کہ مغفرت کو پہلے رکھا گیا ہے اور رحمت کو بعد میں رکھا گیا ہے۔ ان کا کیا جوڑ ہے۔ کس معاملہ میں مغفرت ہے کس بارہ میں رحمت ہے۔ یہ جو بحثیں ہیں ان کو تفاسیر کے حوالے سے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ علامہ رازی اس آیت پر مجموعی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس میں منافقوں کے شبہ کا جواب دیا گیا ہے۔ موت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انسان کیلئے موت یا قتل کے سوا کوئی جائے فرار نہیںیعنی اس نے لازماً یا قتل ہونا ہے یامرنا ہے۔ جب یہ موت یا قتل اللہ کی راہ میں میسر آجائے۔ تو اس سے بہتر ہے کہ اسے دنیا کی لذات طلب کرتے ہوئے حاصل کیا جائے۔ پس وہ موت بھی شہادت ہی ہے۔ کیونکہ خدا کی راہ میں میسر آئی۔ یہ وہ لذات ہیں جن کا اس دنیا کے بعد کوئی فائدہ نہیں۔ اس جواب میں قوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان جہاد کی طرف توجہ کرتا ہے۔ تواس کا دل دنیا سے اعراض کرنے والا اور آخرت کی طرف مائل ہوتا ہے۔ جب مارا جاتا ہے تو گویا اس نے دشمن سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ اور اسے محبوب وصال میسر آیا۔ اور وہ دوسرا شخص جب گھر میں بیٹھا ہے۔ اسے مرنے کا خوف اور دنیا کی تڑپ فکرمند کئے ہوئے ہیں۔ جب وہ مرجاتا ہے تو گویا وہ اپنے معشوق سے دور کرلیا جاتا ہے (یعنی دنیا اور دنیا کی لذتیں) گوشئہ گمنامی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اب کچھ شک نہیں کہ پہلا شخص سعادت میں کامل اور دوسرا شخص شقاوۃ میں یعنی بدبختی میں کامل ہے۔ نافع حمزہ کسائی نے متم کو میم کی کسرہ کے ساتھ بھی پڑھا ہے۔ یعنی مِتُم اور دوسروں نے میم کی ضمہ سے بھی جیسے مُتُماس پر ایک ضمنی گفتگو ہے وہ توجہ کے لائق نہیں
لمغفرۃ ابن عطیہ نے کہا ہے۔ لمغفرۃ کے لفظ سے اشارہ ہے۔ موت یا قتل کی طرف۔ اس موت اور قتل کو مغفرت اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ دونوں مغفرت سے وابستہ ہیں۔ امام رازی نے کہا ہے کہ مغفرت سے اس کی سزا کے خوف سے عبادت کرنامراد ہے۔ اور رحمت سے حصول ثواب کی خاطر عبادت کی طرف اشارہ ہے۔ ابن عطیہ نے جویہ فرمایا ہے کہ لمغفرۃ کے لفظ سے موت اور قتل دونوں کی طرف اشارہ ہے۔ یہ اس طرح نہیں کہ مغفرت کا قتل سے تعلق ہو۔ اور رحمت کا موت سے۔ بلکہ دونوں لفظوں کا قتل سے بھی تعلق ہے اور موت سے بھی تعلق ہے اکٹھے۔ اور مغفرت کا قتل اور موت سے بھی تعلق ہے گو پوری وضاحت نہیں کی۔ لیکن بات یہ وہ بیان فرما رہے ہیں کہ جب انسان قتل ہو یا مرے تو سب سے پہلا سوال اس کے لئے مغفرت کا اٹھتا ہے اگر مغفرت ہی نہ ہو تو پھر رحمت کا کیا سوال ہے؟ اور سب سے زیادہ اہم مسئلہ مرنے کے بعد مغفرت کا اٹھے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کی مغفرت کا وعدہ فرمادیا۔ کہ اس راہ میں خواہ تم قتل کے ذریعے مرو یا طبعی موت مر جائو۔ دونوں صورتوں میں میں تم سے مغفرت کا وعدہ کرتاہوں۔ تمہارے گناہ بخشے جائیں گے۔ لیکن اس سے زیادہ رحمت ہے اس کے بعد پھر رحمت کا لامتناہی مضمون ہے اس کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔امام رازی نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ مغفرت کا ذکر سزا کے خوف سے عبادت کرنامراد ہے۔ بظاہر اس آیت میںیہ مضمون پیش نظر دکھائی نہیں دے رہا۔ یہاں عبادت کی بحث ہی نہیں ہے۔ یہاں تو جہاد کی بات ہورہی ہے۔ وہ کہتے ہیں دو ہی قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو عبادت مغفرت کے خوف سے کرتے ہیں ان کی جزاء مغفرت ہے اور کچھ وہ ہیںجو رضاء الہی کے حصول کیلئے عبادت کرتے ہیں ان کی جزاء رحمت ہے۔ یہ اپنی جگہ مضمون اچھا ہے مگر یہ دراصل امام رازی نہیں ہیںمیں حیران تھا امام رازی ..... مگر منسوب امام رازی کی طرف کیاگیا ہے تفسیر بحر محیط ابو الحیان اندسی کا حوالہ ہے بہرحال کسی تفسیر سے لیا گیا ہو انہوں نے منسوب امام رازی کی طرف کیا ہے۔ یہ سمجھ نہیں آئی کہ پھر امام رازی کی اپنی تفسیر میں کیوں اس کا ذکر نہیں یہ حوالہ نکالنے والے نے کچھ کہیں کوئی کوتاہی کی ہے۔ ہمارے پاس ہے امام رازی کی تفسیر آج ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ چیک کریںاس کو دوبارہ اس آیت کے متعلق تفسیر القاسمی میں لکھا ہے۔ پہلی آیت میں قتل کو موت پر مقدم رکھا کیونکہ یہ زیادہ ثواب والا اور اللہ کے نزدیک زیادہ عظیم مرتبہ رکھتا ہے اور مغفرت اور رحمت کا اس پر زیادہ انحصار ہے۔ دوسری آیت میں موت کو مقدم کیا۔ کیونکہ یہ کثرت سے ہوتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی ہے کہ حکم الٰہی اور جنگ سے تم مت فرار ہو۔ بلکہ اس کی پکڑ اور اس کے عذاب سے فرار اختیار کرو۔ اب ا ن باتو ںکے متعلق جو ابھی آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ قتل کا ذکر پہلے اور موت کا بعد میں۔ یہ تو میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ مغفرت کا تعلق قتل سے ہے اور رحمت کا تعلق بھی قتل سے ہے۔ اسی طرح موت سے بھی ان دونوں کا تعلق ہے۔ یہ بات بھی کھل گئی ۔ لیکن دوسری آیت میں ولئن متم او قتلتم میں فوت کو پہلے کیوں کردیا۔ اور قتل کو بعد میں کیوں کردیا۔ اس لئے کہ پہلی آیت خاص ہے شہداء کیلئے۔ اللہ کی خاطر جہاد میں شرکت کی غرض سے سفر کرنے والے یا جہاد میں شرکت کے نتیجہ میں شہید ہوجانے والوں کا ذکر ہے۔ ولئن قتلتم فی سبیل اللہ۔ اور دوسری آیت میں سبیل اللہ کاذکر نہیں ہے وہ عام ہے اور عام حالات میں موت کا وارد ہونا ایک طبعی امر ہے۔ جو غیر معمولی طور پر زیادہ لوگوں پر چسپاں ہوتی ہے اور قتل شاذ ہوتا ہے۔ تو جہادمیں قتل اکثر ہوتا ہے اور موت شاذ ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس نسبت سے بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اس ترتیب کو دوسرے موقعہ پر بدل دیا۔ جہاں عام انسانوں کا ذکر چل رہا ہے۔فرمایا ولئن متم او قتلم یہاں سب انسان بحیثیت انسان مخاطب ہیں۔وہ جوموت سے ڈرتے اور ڈراتے تھے ان کو کہا جارہا ہے کہ خواہ کسی طرح بھی تم مرو قتل ہو یا مارے جائو۔ یہ یاد رکھنا کہ پہنچو گے وہیں جہاں تم نے بالآخر پہنچنا ہے تو اللہ ہی کے حضورسب اکٹھے کئے جائو گے۔ مما یجمعون کی بحث میں تفسیر بحر محیط میں لکھا ہے کہ یجمعون کی طرف اشارہ اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ جو دنیا میں رہنا چاہتے ہیں۔ دراصل دنیا کی حرص و ہوا کی خاطر رہتے ہیں اور یہاں جمع کرنا شروع کردیتے ہیں مال و دولت۔ اور دنیا کی نعمتوں کو تو ان کو بتایا گیا ہے کہ تم آخریہ چھوڑ کر جانے والے ہو۔ الیٰ اللہ تحشرون ۔ اس سارے اندوختے کا کیا فائدہ۔جو کچھ بھی جمع کرو گے بہر حال ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اس لئے جلد یا بدیر ان سے جدا ہونا مقدر ہے اور وہاں تم خالی ہاتھ جائو گے۔ سوائے اس کے کہ نیک اعمال تمہارے دامن میں ہوں۔ وہی تمہارا ذخیرہ ہے جو تمہیں آخرت میں کام آسکتا ہے۔ پس یہ معنی ہے یجمعون کا۔اب میں آیت ایک سو ساٹھ (160) یہ تو میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے۔ ان دونوں آیات کا مضمون بالکل واضح اور کھلا ہوا ہے۔ جو دو تین باتیں قابل ذکر تھیں۔ ان پر میں گفتگو کرچکا ہوں۔)
اب آیت ایک سو ساٹھ (160) میں ہم داخل ہوتے ہیں۔
فبما رحمۃٍمن اللّٰہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک‘
پس یہ اللہ کی عظیم رحمت ہے۔ بما رحمۃ کا مطلب ہے غیر معمولی اور عظیم رحمت یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمۃللعلمین ہونا ظاہر فرمایا گیا ہے اور یہ آپ کی ایک مستقل جاری حالت تھی۔یہ کسی حادثے کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوئی۔ قرآن کریم فرماتا ہے ہم نے تجھے نہیں بنایا الا رحمۃ للعلمین۔ مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت۔ صرف مومنوں کیلئے نہیں‘صرف عربوں کیلئے نہیں۔ بلکہ دنیا کی ہر قوم کیلئے اور ہر زمانے کیلئے اور ہر جہان کیلئے۔ عالمین میں یہ سارے مضمون داخل ہیں۔ پس کوئی بہت ہی جاہل ہوگا جو اس لفظ ’’رحمت‘‘ کو جنگ احد کے موقعے سے خاص کردے گا اور ایسے جاھل موجود ہیں دنیامیں یا مرچکے ہیں۔ ان کا میں ذکر کرنے والا ہوں۔ اس رحمت کی وجہ سے جو غیر معمولی رحمت تجھے عطا ہوئی تو ان پر مہربان ہے۔ اب رحمت کے ساتھ لنت کا لفظ جوجوڑا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں صرف مومنوں پرمہربانی کا ذکر نہیں۔ منافقوں پر بھی کافروں پر بھی سب پر مہربان ہے ۔ کیونکہ رحمۃ للعلمین کا مضمون سارے جہان پر ہر کس و ناکس پر حاوی ہے۔ اس پہلو سے لنت کا جو مفعول ہے وہ یہ سب لوگ شامل ہیں اس میں۔ تو ہر ایک سے نرمی کا سلوک فرماتا ہے یہ تیری عادت ہے یہ ‘تیری فطرت میں داخل ہے۔ ولو کنت فظاً غلیظ القلب لا نفضوا من حولک۔ اگر تو بداخلاق ہوتا‘ بد مزاج ہوتا۔ ’’فظ‘‘ کہتے ہیں اس کھاری پانی کو جس میں بو بھی ہوتی ہے اور کچھ معدے کا گند بھی ملا ہوا ہوتا ہے۔جو اونٹ کی اوجڑی میں اس وقت تک رہتا ہے کہ جب سب پانی کسی مسافر کے ختم ہوچکے ہوں اور کوئی رستہ نہ ہو زندگی بچانے کیلئے کہیں سے پانی ڈھونڈنے کا۔ تو وہ پانی جو اونٹ کی اوجڑی میں خدا تعالیٰ نے انتظام فرما رکھا ہے۔ آخر وقت تک محفوظ رہتا ہے۔ اس وقت پھر مجبور ہوکر یہ اونٹ کی اوجڑی سے وہ پانی نکالتے تھے اور وہ دیر کا جما ہوا پانی اور اس اوجڑی میں پھر جما ہوا پانی‘ اس میں بدبو بھی ہوتی تھی۔ اس میں کئی قسم کی تیزابتیں پائی جاتی تھیں۔ وہ آخری زندگی بچانے کا ذریعہ تو تھا مگر پسندیدہ ذریعہ نہیں تھا۔ پس اس رکے ہوئے تیزابی پانی کی مثال اخلاق سے دی جاتی ہے عرب میں۔ جس شخص کا خلق ایسا ہو‘ جس سے وہ سڑا بسہ اور تیزابی اور جس کا مارا ہوا پانی جو اونٹ کی اوجڑی سے نکلتا ہے جان تو بچا دیتا ہے۔ کچھ گذارا ایسے آدمیوں کاچلتا ہے گرد و پیش باتوں میں۔ لیکن لوگ اس سے بھاگتے ہیں۔ اور وہ پانی جس طرح جب تک اشد ضرورت پیش نہ آئے۔ کوئی آدمی پینے پر تیار نہیں ہوا۔اس طرح اس آدمی سے معاملے پر سوائے اس کے کہ کوئی بچارا گیا گذرا مجبور ہی ہو کوئی آمادہ نہیں ہوتا۔ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں اس بداخلاق سے کہ جہاں مجبوری ہو وہاںپیش آگئے بس اس کے بعد اس سے زیادہ نہیں۔صاحب سلامت دور کی اچھی ہے ان سے اور بہت ہی مجبوری ہو تو پھر ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ فرمایا ! اگر تونعوذباللہ من ذلک اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمت کے بدلے یہ ہوتا یعنی دو الگ الگ کنارے دکھائے گئے ہیں۔ ایک رحمت کا کنارہ ہے جو اپنے انتہا میںایک طرف پہنچا ہوا ہے۔ دوسرا ہے فظاً کا کنارہ جو بد اخلاقی میں دوسری انتہا کو ہے۔ اگر تو فظا غلیظ القلب ہوتا۔ اور سخت دل ہوتا۔ غلیظ قلب سخت دل جو فرمایا گیا ہے اس کا بداخلاقی سے ایک فرق ہے۔ بعض قومیں مزاج کی سخت ہوتی ہیں۔ ان کے با اخلاق بھی سخت دل ہوتے ہیں اور بعض قومیںمزاج کی نرم ہوتی ہیں اور ان میں بعض سخت دل بھی‘ بد اخلاق بھی مل جاتے ہیں۔ دل کی نرم ہوتی ہیں قومیں مگر ۔ اور خوش اخلاق بھی اکثر ملتے ہیں۔ تو آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں کئی قومیں ہیں جو پتھریلے علاقے میں رہنے والی ۔ اور اسی طرح ریگستانوں میں سخت زندگی بسر کرنے والی‘ جن کے دلوںمیں سختی موجود ہے‘ فرمایا اگر تویا بد اخلاق ہوتا یا دل کی سختی تجھ میں پائی جاتی باوجود اس کے کہ بظاہر ایک سخت دل قوم سے تیرا تعلق ہے۔ یعنی اہل عرب شدید تھے اپنی دشمنیوں میں بھی‘ اپنے جذبات میں بھی‘ ان کے دلوں میںایک خاص قسم کی سختی پائی جاتی تھی تو پھریہ تجھ سے دور بھاگ جاتے۔ اب سوال ایک یہ اٹھتا ہے کہ رحمت کے مقابل پر اتنی دور کی بات کیوں فرمائی گئی۔ یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ اگر رحمت تجھ میں نہ ہوتی۔ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کی وجہ محض اخلاق نہیں تھی۔ بلکہ آپ میں دوسری خوبیاں‘ انسانی خوبیاں اور علمی خوبیاں اور تقویٰ کی دوسری خوبیاں اتنی زیادہ اور کثرت سے پائی جاتی تھیں کہ کوئی اتنا ہی بد اخلاق ہوتا کہ لوگ اس سے بھاگتے ورنہ نہیں بھاگ سکتے۔ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جو جاذبیت پائی جاتی تھی۔ ہر طرف سے وہ اتنی شدید تھی کہ کسی کے بھاگنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ فرمایا ایک ہی صورت بھاگنے کی ہوسکتی تھی کہ تو اخلاق میں اتنا سخت ہوتا اور کہ لوگ جس عام آدمی سے متاثر ہوکر دور ہٹ جاتے اور پھر دل بھی تیرا سخت ہوتا تب جاکر کہیں یہ بچارے تجھ سے الگ ہوتے۔ مگر اس کے برعکس تو تو رحمت کا مجسم ہے۔ کل عالم کے لئے رحمت ہے اور ہمیشہ ان پرجھکا رہتا ہے۔ اسلئے تجھ سے یہ بھاگ کیسے سکتے ہیں۔ یہ مضمون بعض بدبختوں نے بالکل اورطرح سمجھا ہے ۔میں اس کا ذکر بعد میں کرونگا۔ مگر پہلے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار آپ پر کرنے کے لئے کتنی عظیم شان یہاں بیان ہورہی ہے یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ موقعہ ہے ان لوگو ںکے ذکر کا جو آپ کو چھوڑکر چلے گئے تھے۔ کیسے ہوا یہ واقعہ ؟ یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ کوئی شدید مجبوری پیش آئی ہے۔ کوئی بے اختیاری کی صورت ہے۔ ورنہ تجھے چھوڑ کر بھاگ کہاں سکتے ہیں۔ تو مجسم رحمت تو مجسم خُلق۔ تم میں ادنیٰ اخلاق کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ اور دل کا ہمیشہ سے نرم۔ کہ تجھ جیسے انسان کو چھوڑنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اُن کی بے اختیاری کا نقشہ ہے جو کھینچا جارہا ہے۔ فاعف عنہم و استغفرلھم اس کے بعد طبعا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پس ان سے بخشش کا سلوک فرما۔ کوئی بہت بڑی بدبختی نہیں کی گئی۔ حالات ایسے پیش آگئے تھے کہ مجبوراً بچاروں کے پائوں اکھڑے ہیں اور ریلوں میں ایسا ہوجایا کرتا ہے بعض دفعہ۔تجھ سے بے رغبتی کا کوئی سوال نہیں تھا۔ تیری ناقدری کا کوئی سوال نہیں تھا۔ اگر یہ ہوتا تو اس تمہید کے بعد یہ آ ہی نہیں سکتا تھا۔ فاعف عنہم و استغفرلھم کتنا تضاد ہے ان دو باتوں میںیہ نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا۔ ایک طرف یہ فرمایا جارہا ہو کہ تو ایسا ہے۔ اور اس کے بعد یہ کہا جارہا ہو کہ انہوں نے تیری قدر نہیں کی۔ تجھے نہیںپہچانا۔ ان سب باتوں کے باوجود عمداً تجھے چھوڑا ہے۔ اس لئے تو ا ن سے مغفرت کر یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسی نامعقول بات کسی شیعہ مصنف کے دماغ میں تو آسکتی ہے۔ یا عیسائی Wherry کے دماغ میں تو آسکتی ہے۔ کسی شریف النفس معقول انسان کے ذہن میں اس بات کے داخل ہونے کی گنجائش ہی نہیں اس آیت نے چھوڑی۔ مگر آیت پر غور نہیں کرتے۔ اپنے نفس کے بغض اچھالنے کیلئے ان آیتوں کو بہانہ بنا رکھا ہے۔ اب میں بعد میں اس طرف پھر آئوں گا۔ مزیداس آیت کے ذکر میں بتاتا ہوں۔ فاعف عنہم و استغفرلھم۔ فاعف کا ایک مطلب ہے۔ بالکل تختی صاف کردے دھوڈال کہ نشان باقی نہ رکھ۔
عفت الدیار محلھا و مقامھا
جس طرح بعض شہر مٹ جاتے ہیں۔ ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔ اس لئے ان کے متعلق کسی قسم کی رنجش کا کوئی پہلو بھی نہیں۔اللہ سے ان کی بخشش طلب کر۔ واستغفرلھم یعنی تونے تو معاف کردیا۔ اللہ سے بھی بخشش مانگ۔ آخر کار واقعہ بڑا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلے چھوڑ دینا۔ خواہ کتنی ہی مجبوری کے پیش نظر۔اپنی ذات میں بہت بڑا واقعہ ہے اور جن پر یہ گزرا ہے ان کے دل جانتے ہوں گے مدت تک ترستے ہونگے اس بات پر کہ کاش ہم نہ ہوتے تو ان کی تسلی کیلئے یہ آیت رکھی گئی ہے کہ تیرا دل تو صاف ہوجائے گا۔ تو تو کردے گا۔ تیری تو عادت ہی یہ ہے۔ لیکن اللہ سے بخشش طلب کر ورنہ ا ن کے دل کو سکو ن نصیب نہیں ہوگا اور پھر فرمایا ! وشاورھم فی الامر۔ اور ان سے مشورہ جاری رکھ۔ ان کو دور نہ پھینکنا۔ تمام اہم امور میں ان سے مشورہ کرتا رہ۔ جاری رکھ کا معنی میں اس لئے کررہا ہوں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہمیشہ سے دستور تھا۔ ہمیشہ مشورہ کیا کرتے تھے۔ یہ بات بالکل جھوٹ ہے کہ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ وہ جو باغی ہوئے جاتے ہیں اور تونے انکا مشورہ نہیں مانا اس لئے آئندہ سے میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ ان سے ضروری مشورہ کرلیا کرو۔ ورنہ یہ تمہیں چھوڑ کے چلے جائیں گے۔ یہ بعض بدبختوں نے معنے کیا ہوا ہے۔ اسکے پیش نظر میں آپ کو سمجھا رہا ہوں۔ اس معنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ جنگ احد کا آغاز ہی مشورہ سے ہوا ہے اور ان کا مشورہ ماننے کے نتیجہ میں تکلیف پہنچی ہے۔ پس یہاں یہ نہیں فرمایا جارہا کہ آئندہ سے مشورہ کیا کر۔ یہاںیہ فرمایا جارہا ہے کہ آئندہ سے مشورہ کر تو اپنی مانا کرنا۔ ضروری نہیں کہ ان کا مشورہ مان۔ فرمایا ہے فاذا عزمت فتوکل علی اللہ جواس جنگ واقعہ گزرا تھا۔ وہ تو یہ تھا یہ نہیں تھا کہ مشورہ نہیں کیا تھا۔ مشورہ کیا تھا اور اس مشورہ کو دل نے پسند نہیں کیا اور اس کے خلاف اظہار فرمایا اور جب ان لوگوں نے اصرار کیا جو مشورہ دینے والے تھے۔ تو ان کی خاطر اتنا نرم دل ہے لنت لھم میں یہ مضمون ہے رحمت میں دل سے مجبور ہوگئے کہ اچھا یہ میرے خدام‘ عشاق اتنا زور دے رہے ہیں۔ تو میں مان ہی لیتا ہوں۔ یہ پس منطر ہے جو آپ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ جو لوگ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور بہت سے نوجوان ایسے تھے جو بعد میں ابھرے ہیں اور باہر سے آکے شامل ہوئے ہیں نئے مسلمان ہوئے ہیں وہ جنگ بدر کے واقعات سنتے تھے تو سخت دل ان کا چاہتا تھا کہ ہم بھی لڑیں۔ جب احد کی لڑائی ہوئی ہے اس سے پہلی رات مشورے ہورہے تھے کہ ہم مدینہ میں قلعہ بند ہوکر لڑیں یا مدینہ سے باہر نکل کر احد کے میدان میں دشمن سے ٹکرائیں۔ اس وقت بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ زور دیتے تھے کہ باہر نکل کر لڑیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اس کے خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ اس موقعہ پر بہترین دفاع قلعہ بند ہونے میں ہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس صورت میں مدینہ والے پابند ہوجاتے معاہدے کی رو سے کہ وہ بھی مسلمانوں کی مدد کریں۔ یہ کوئی احسان نہ ہوتا۔ پھر اپنے گھر بھی بچانے تھے انہوں نے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کا بھی یہی مشورہ تھا کہ مدینہ میں ہم لڑیں تو ہمارے عورتیں بچے سارے ہمارا پرانا تاریخی مسلک یہی رہا ہے کہ ہم شہر کے اندر لڑتے ہیں۔ تاکہ پھر عورتیں‘ بچے ‘ مرد سب شامل ہوتے ہیں۔ پتھر اوپر اکٹھے کرلیتے ہیں اور کئی قسم کے ہتھیار اور گھروں کی چھتوں سے گلیوں میں داخل ہونے والوںکو مارتے ہیں اور عبداللہ بن سلول کہتا تھا کہ کبھی مدینے کو شکست نہیںہوئی۔جب اہل مدینہ نے مدینہ کے اندر لڑائی کی ہے کبھی آج تک تاریخ میں ان کو شکست نہیںہوئی۔پس یہ الگ بات ہے کہ اس کا بھی یہی مشورہ تھا۔ مگر یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صائب الرائے ہونے کا اشارہ فرمایا گیا ہے۔ واضح کیا گیا ہے اس بات کو کہ تونے مشورہ کیا ٹھیک ہے اور ان کی بات مان لی نرم دلی سے لیکن اس واقعہ کے بعد ہم تجھے حکم دیتے ہیں۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ۔ فیصلہ تونے خود کرنا ہے آخر پر اور جب تو فیصلہ کرلے تو لوگوں پر نہیں بلکہ اللہ پر توکل ہوگا۔ کیونکہ اللہ کے حکم کے تابع تو فیصلہ کررہا ہے اور یہ جو ہے امر کا معاملہ یہ یہاں حل ہوگیا۔ یہ اس سے پہلے ذکر ہورہا تھا۔ ہمارے پاس کوئی امر ہے کہ نہیںجواب تھا تو کہہ دے الامر کلہ للہ امر تو سارے کا سارا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔تو یہ اس کے منافی بات نہیں ہو رہی۔ فرمایا ! اللہ کے ہاتھ میں امر ہے تو عوامی فیصلے میں کیسے ہم لازماً اللہ کی پسند شامل کرلیں گے۔ امکان ہے کہ عوامی فیصلہ درست ہو۔ لیکن اللہ کے امر کا فیصلہ اسے یقینا نہیں کہا جاسکتا۔ وہ تبھی ممکن ہے کہ اللہ کا رسول اس فیصلے میں بدل و جان شامل ہو۔ اور اس کا دماغ بھی یہ کہہ رہا ہو کہ ہاں یہی فیصلہ درست ہے۔ اس فیصلے کو اللہ کا فیصلہ کہا جاتا ہے۔ پس اگر سارے ایک طرف رہ جائیں اور رسول کا فیصلہ دوسری طرف ہو۔ تو اللہ فرماتا ہے امراللہ کی خاطر کیونکہ امر اللہ کا ہے اور تو مجاز بنایا گیا ہے ان کے فیصلے کو ترک کردے اور کوئی پرواہ نہ کر۔ پھر اللہ پر توکل کر۔ یہ تیرے کسی کام نہیں آئیں گے مگر اللہ تیرے کام آئے گا۔ اور اسکی خاطر جو تو فیصلے کرے گا وہ لازماً ان کی تائید میں تیری پشت پر کھڑا ہوگا۔ یہ ہے مضمون جو بالکل واضح اور عین آیات کے سیاق و سباق کے مطابق ہے اور بعد میں اس کا حلیہ کیا بگاڑا گیا تھا۔ وہ میں بتاتا ہوں آپ کو۔ ان اللہ یحب المتوکلین O اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ یعنی صرف ایک معاہدے کی بات نہیںہے۔ اقرار کی بات نہیں ہے۔ یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ توکل کا حکم دیا گیاہے اس لئے محبت کا مضمون بطور خاص اول طور پر ان کے حق میں صادق آتا ہے۔ فرمایا ہے تو جب فیصلہ کرنے والے ہو اللہ کی خاطر‘ اور جب تو توکل کرے تو پھر صرف یہ بات نہیں ہے کہ تونے ایک ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کام کیا ہے۔ تو تو میرا محبوب ہے۔ محبوب کو کو ن چھوڑا کرتا ہے۔ اس لئے صرف توکل کی بحث نہیںہے ۔اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔ خاص طور پر توکل کرنے والوں کے سردار سے محبت کرتا ہے کیونکہ یہاں پہلے واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔’’ توکلوا ‘‘ نہیں فرمایا گیا۔ اس لئے اگرچہ جماعت کا ذکر ہے مگر اول طور پر متوکل ہی مراد ہے حس کو یہ فرمایا گیا۔ ’’فاذا عزمت فتوکل علی اللہ‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو جب یہ فیصلہ کرے کوئی‘ مشورہ سُن لے ‘ درست ہے۔ فیصلہ تیرا ہوگا۔ جب تو فیصلہ کرلے تو تو اللہ پر توکل کر۔ اس لئے متوکلین کی محبت میں سرفہرست وہ وجود ہے جس کو واحد کے صیغہ میں توکل کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اب ہم اس آیت کی تفسیر میں داخل ہوتے ہیں۔کتنا ڈیڑھ گھنٹہ وقت کے لحاظ سے آج بھی کچھ منٹ زیادہ رکھے گئے ہیں یا اتنا ہی ہے جتنا روز ہوتا ہے۔ ٹائم زائد ہے ناں۔ چند منٹ یہ لیٹ آئے تھے۔ اس کی کسر نکل جائے گی۔ انشاء اللہ
’’لنت‘‘ اقرب الموارد اور منجد سے اس کی جو لغاتی بحث ہے وہ یہ ہے۔ لان لہ ولا طفہ یقال لئن اصابک ولا تخا شمھمکہ تو نرم گوشہ رکھ اپنے دل میں کسی کیلئے‘ اپنے ساتھیوں کیلئے ‘ پس لان کا مفہوم مختلف طریق پر انہوں نے چھیڑا ہے سب کا قدر مشترک وہی ہے کہ کسی سے نرمی کا سلوک کرنا۔ ملاطفت کا سلوک کرنا‘ نرم گیری سے پیش آنا۔ فظاً بدمزاج شخص کو۔ یہ فِظاًّسے مستعار ہے۔جس کے معنے اونٹ کی اوجڑی میں جمع رہنے والا پانی ہے جو سخت ضرورت کے وقت بادل نخواستہ پیا جاتا ہے۔ ’’مفردات امام راغب‘‘ اس کا میں پہلے ذکر کرچکا ہوں۔ غلظ علی سخت ہونا‘ مضبوط ہونا۔یایھا النبی جاھدا الکفار و المنافقین واغلظ علیھم توبہ آیت نمبر 73 میں اس کی مثال ہے۔ غلیظ القلب کا مطلب ہے‘ سخت دل‘ شقی القلب‘ غلظہسختی کو کہتے ہیں۔ استغلظ جب پودا مضبوط ہو جائے اس وقت لفظ استغلظ استعمال ہوتا ہے۔باقی سب یہی معنے ہیں۔ ایک لفظ تھا فظ جو ’’ظ‘‘ کے ساتھ ہے جس کی پہلی بحث گزر چکی ہے۔
’’لانفضوا من حولک‘‘ ’’ض‘‘ کے ساتھ ہے۔ اس لئے جب ہم اس کو انفضکہیں گے تو ’’د‘‘ سے نہیں ہے ’’ض‘‘ سے ہے اور بعض لوگ اس کو ’’ظ‘‘ کی طرح پڑھتے ہیں۔ اس لئے میں فرق بتانا چاہتا ہوں کوئی۔ پہلے ہے۔ ’’فبما رحمت من اللہ لنت لھم و لو کنت فظْا غلیظ القلب‘‘ ’’ظ‘‘ کو جب ادا کیا جاتا ہے تو زبان تھوڑی سی دانتوں سے آگے نکلتی ہے اور اس طرح ’’ظ‘‘ کی آواز صحیح مخرج سے ادا ہوتی ہے اور ’’ض‘‘ میں زبان زرا سابل کھا کر بائیں طرف ہٹتی ہے اور ’’د‘‘ اور ’’ذ‘‘ کے درمیان کی آواز نکلتی ہے۔ ’’دواد‘‘ حس طرح یہ کہا جاتا ہے ۔ اس پر پوری طرح مجھے عبور نہیں ہے ۔ اس لئے عرب جب یہ سنیں تو میں ان سے معافی چاہتا ہوں۔ مگر قریب ترین جو میں آواز نکال سکتا ہوں وہ یہ ہے۔ آپ کو سمجھانے کیلئے۔ یہاں ’’ض‘‘ آیا ہے۔ انفض ‘ ینفض کسی چیز کو توڑنا اور ریزہ ریزہ کرنا۔ فض ختم الکتاب۔ خط کی مہر کو توڑنا کہ وہ پارہ پارہ ہوکر بکھر جائے اور فضۃ چاندی کو بھی کہتے ہیں۔انفض القوم کا محاورہ چلا ہے۔ امام راغب کے مطابق جس کے معنے ہیں متفرق اور منتشر ہوجانا۔ لیکن یہی مضمو ن جب صلہ بدل جائے تو اور معنے پیدا کردیتا ہے۔ واذا را وا تجارۃ اولھو ا انفضوا الیھا و ترکو ک قائما۔ سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ لوگ جب تجارت کو دیکھتے ہیں یا کسی کھیل کود کی بات کو تو تجھے چھوڑ دیتے ہیں ۔کھڑا ہوا خدا کے حضور یا خطبہ دیتے ہوئے جو بھی شکل ہے۔ اصل میں عبادت کے وقت نہیںہے خطبہ کے وقت مراد ہے۔ یہ روایات ملتی ہیں‘ لا نفضوا من حولک‘ او رمن حولک تجھ سے فضو ہوجاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تجھ سے بکھر کر دوسری طرف دوڑ پڑتے ہیں تجھ سے جدا ہوکر دوسری طرف دوڑنا۔ حالانکہ وہاں مجتمع ہورہے ہیں تو بظاہر فض کا اصل بنیادی مفہوم وہاں شامل نظر نہیں آتا۔ اس کا تو مطلب ہے بکھر جانا۔ تو جب منہ کہا جائے تو اس سے بکھر جاناتو مراد یہ ہے کہ اس سے پراگندہ ہوجاتے ہیں۔ اس اجتماع کو چھوڑ دیتے ہیںاور کسی اور جگہ جاکر جمیعت اختیار کرلیتے ہیں۔
شاور کا جو بنیادی لفظ ہے وہ ہے شہد نچوڑنا۔’’ شاورھم فی الامر ‘‘ شاور کا لفظ چھتے سے شہد کو نکالنا اور پھر شہد کو صاف کرکے اسے موم وغیرہ سے جدا کرکے خالص کردینا ہے۔یہ بہت ہی پیارا اور بامعنی عجیب معنے رکھنے والا لفظ ہے۔ جس کا استعمال قرآن کریم نے اس کے معنے کی تہہ تک اتر کر کیا ہے۔ ایک شہد کی مکھی بھی ایک قسم کا مشورہ لے رہی ہوتی ہے۔ جب وہ اپنی زبان پر کسی پھول کا عرق اٹھاتی ہے۔ تو وہ صرف اس کو اسی طرح جمع نہیں کرتی۔ بلکہ اپنے لعاب سے اس میں کچھ تبدیلیاں کرکے اس کی خاصیتوں میں اضافہ کرتی ہے پھر وہ شہد بنتا ہے۔ اس کے بغیر نہیں بنتا۔ تو جس کو مشورہ دیا جاتا ہے اگر وہ من و عن اسی طرح آنکھیں بند کرکے چلنے والا ہوتو اس پر درحقیقت لفظ شاور اطلاق ہی نہیں پاتا۔ اس میں مشورہ لینے والے کا عمل دخل لازماًہونا چاہئے۔ پھر جو شہد نچوڑتے ہیں وہ بھی ہر دوسری چیز چھوڑتے ہیں اس میں سے اچھی چیز عرق اور خاص جوہر کو تلاش کرکے اس کونکالتے ہیں اور جب نچوڑ لیا جاتا ہے تو ایک دفعہ پھر اس کی صفائی ہوتی ہے۔ تو مشورہ کا مطلب ہے کسی سے کچھ اس کی رائے معلوم کرنا۔ لیکن من و عن قبول نہ کرنا۔ اس کو اپنی عقل کے ساتھ پرکھنا اور اسکے بہترین حصہ کو قبول کرلینا اورپھر اسکے بعد اس کی جگالی کرتے رہنا اور آخر پر جب وہ تیار ہوجائے تو پھر بھی اس کی صفائی کی طرف توجہ دینا اور ایسی صورت میں اس کو استعمال کرنا کہ اس میں غیر کی ملونی باقی نہ رہے۔ اس مضمون میں جو شہد اکٹھا کرنے والا ہے خواہ وہ پھولوں سے لینے والا ہو پہلے یا بعد میں بنے ہوئے شہد کو اپنے لئے اختیار کرنے والا ہو۔ وہ اصل میں سب سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ تو شاور ھم فی الامرمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا ہے ۔ ان آخری معنوں میں۔ اس لئے میں کہہ رہا ہوںکہ یہ وہ معنی ہیں جو اپنے انتہا تک اطلاق پا رہے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی رائے ہر طرف سے تجربے کے بعد اہمیت تو رکھتی ہے لیکن جب تک تیری رائے شامل نہ ہو تو وہ فیصلے میں شفاء شامل نہیںہوگی۔جب تک ترا اختیار بیچ میں شامل نہ ہوجائے اس وقت تک اس مشورے کو وہ اہمیت حاصل نہیںہوسکتی۔ اس لئے ’’شفاء للناس‘‘ کہا جاسکے۔ ایک غیر معمولی شان اس میں پیدا ہوجائے پس ہم تجھے کہتے ہیں کہ تو یہ عمل کر اور ان سب مشوروں کو سننے کے بعد اپنے ذہن میں ان کو دہرا اور غور کر اور پرکھ اور پھر فیصلہ وہ کر جس پر تیرا دل راضی ہو‘ اور پھر اس فیصلے پر عمل دلیری سے کر۔ کوئی پرواہ نہ کر۔ کہ کوئی کیا کہتا ہے اور یقین رکھ کہ تیرا فیصلہ درست ہوگا۔ کیونکہ اللہ پر توکل کیاہے تونے۔ پس اللہ پر توکل کیا جائے تو وہ فیصلہ رائیگاں نہیں جاتا۔ اور پھر تجھ سے محبت بھی ہے تو کل کے بعد محبت بھی تو ہے۔ اب بتا تجھے کیا خوف ہے کیوں تو خواہ مخواہ لوگوں کی خاطر‘ ان کی دلداری کی خاطر بعض امور میں ضرورت سے زیادہ ان کی طرف جھک جاتا ہے۔ ’’شاورھم‘‘ کے متعلق ایک ’’نور العرفان‘‘ کتاب صفحہ111پر لکھا ہے کہ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں نازل ہوئی۔ یہ اس طرح ہی ہے جیسے بعض شیعہ روایتیں اپنے متعلق بنائے جاتے ہیںکہ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق نازل ہوئی۔ یہ فلاں کے متعلق نازل ہوئی یہ قرآن کو بے وجہ محدود کرنے والی باتیں ہیں۔ یہ سب اختلافی باتیں ہیں۔ اصل قرآن کو سمجھنا ہے تو اس کے سیاق و سباق کو سمجھیں۔ اور آیات خود ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح گہرا ربط رکھتی ہیں۔ ایک مضمون کو چلاتی ہیں اور دوسری آیت اگلا لفظ اس کو مزید اٹھاتا ہے اور نکھارتا ہے یہاں تک کہ ایک بار بط مضمون اس طرح کھلتا ہے جیسے پھول کھل رہا ہو اور اس میں کوئی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے اور کوئی آیت بھی اپنے سمجھنے کے لحاظ سے کسی مزیدشان نزول کی محتاج نہیں۔ سوائے ان آیات کے جن کا تعلق کسی اہم معروف تاریخی واقعہ سے ہو۔ اس صورت میںضرور ہے کہ شان نزول کی تحقیق کی جائے مگر یہ جو ہے مضمون یہ تو ضرورت سے زیادہ کھینچا گیا ہے اور محل کے مطابق نہیں ہے محل تو میں نے بیان کردیا۔ اس سے تو بات خوب کھل گئی کہ مشورہ کیوں ہوگا اور آخری صورت میں مشورہ کی کیا شکل نکلے گی۔ اس میںحضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کیا ذکر ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض سنیوں نے بدلہ اتارنے کیلئے شیعوں کو کہا اچھا تم روایتیں بناتے ہو ہم بھی بنا سکتے ہیں‘ ’’عزم‘‘ عزم کس کو کہتے ہیں لفظ ہے عزم جدفی امرہٖ اپنے کام میں جیت گیا اور کوشش کی۔ قرء العزائم دم کرنے والوںنے منتر پھونکے۔ گویا عزم فلان علی رجل ‘ اقسم علیہ و فی الکتاب الجامع ای اقسمت علیک۔ کسی پر قسم کھا کر کوئی بات کرنا۔ وہ ضرور یہ کام کرے گا۔’’فاذا عزمت‘‘ کا اس لغوی معنے سے کیا تعلق ہے۔ یہ بحث ہے مراد یہ ہے کہ جس طرح قسم کھانے والا اپنے فیصلے کو قوی بتاتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں کسی قیمت پر اس کو توڑنے والا نہیں تو ایسا فیصلہ پھر کر کہ گویا تو قسم کھا بیٹھا ہے اور کسی طرح وہ ٹوٹنے والا نہیں۔ ایک تو فیصلہ رسول کا اور پھر یہ بھی ایسا جیسے قسم کھا بیٹھا ہو۔اس کے کسی ٹوٹنے یا بدلنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔تو بعد میں پھر جو مرضی کرنا۔ بعد میں پھر متردد نہیں ہونا۔ جو فیصلہ کرلے توکل کر اور پھر پوری قوت سے اس فیصلے پر عملدرآمد کرا۔ باقی ساری جو ہیں بحثیں وہ انہیں مضامین کے گرد گھوم رہی ہیں جو میںبیان کرچکا ہوں۔ اگر کوئی خاص بات اس مطالعہ کے دوران نظر آئی تو میں آپ کو بتادوں گا۔ بعض کہتے ہیں کہ شاورھم کی ضرورت کیا ہے۔ جب نبی کا خدا سے تعلق ہے اور اس سے راہنمائی حاصل کرتا ہے تو شاور ھم کی ضرورت ہی کیا تھی۔اس بحث کوکیوں چھیڑ اگیا ہے۔ تو اس پر ایک دلچسپ بات امام شافعیؒ نے یہ لکھی ہے۔ ان کے مسلک میں کنواری سے مشورہ لینا اس کی شادی کے متعلق یہ دلداری کی خاطر ہے۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو انہوں نے یہ فقہی مسئلہ بھی ساتھ حل کرلیا۔ کہتے ہیں یہاں بھی ویسا ہی معاملہ ہے کہ جس کو پنجابی میں ’’پوچا پاچی‘‘ کہتے ہیں۔ اوپر اوپر سے دلداری کیلئے بات کرلے۔ ویسے مشورہ کی ضرورت کوئی نہیں ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا مشورے کامضمون آپ غور سے دیکھیں۔ تومراد ہے کہ یہ تیری شہد کی مکھیاں‘ یہ تیری عاشق‘ یہ تیری تابع فرمان جگہ جگہ سے اپنے تجربوں سے حکمت کے موتی چنتی ہیں اور جوہر اکٹھی کرتی ہیں۔ ان سے لے لیاکر‘ لیکن پر کھاتو خود کر‘ اور اچھی طرح جب ترا دل اطمینان پاجائے۔ جب تیری رائے پوری طرح شامل ہوجائے تب یہ قابل قبول بات ہوگی اور ایک دفعہ ایسا ہو تو پھر توکل کر۔ اس لئے مشورے کا اگر صرف یہ مراد ہو۔ اگر کسی کو پتہ ہو کہ ’’کچی میٹی ہے۔ تو لوگ توویسے ہی بد دل ہوجائیں۔ مضمون تو ان کواکٹھا کرنے کا ہے۔ وہ تو لوگ بھاگ جائیں گے کہ یہ اچھا ہے‘ ہم جب چھوٹے ہوتے کھیلا کرتے تھے‘ ’’کچی میٹی‘‘ کا مضمون مجھے یاد آتا ہے۔ بعض بچوں کوجو چھوٹے ہوتے تھے ناں۔ ا نکو کہتے تھے کہ تمہیں کھیل میں شامل نہیں کریں گے اور جب ضد کرتے تھے تو کہتے تھے اچھا بھئی آجائو۔ ’’کچی میٹی‘‘ اگر ہار بھی گئے توکوئی شکایت نہیں۔ ہاتھ لگ جائے اسکو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ مرے نہ مرے ایک ہی برابر ہے۔ یہ عجیب مشورہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو ہی نہیں سکتا۔ اور پھر خدا کہہ رہا ہے کہ کوئی بات نہیں ’’کچی میٹی‘‘ ہیں یہ ان سے بات کرلے۔ پرواہ نہ کر۔ مقصد یہ نہیں ہے صرف پہنچانا مراد ہے۔ پہنچانے کی کیا ضرورت ہے؟ فرماتا ہے کہ تو اللہ کی رحمت سے ان کی طرف نرمی کرنے والا‘ شفقت کرنے والا ہے۔ وہ تیرے عشاق ہیں۔ اور شاور میں بھی شہد کی مکھیوں کا مضمون انسان کے سامنے ابھر آیا ہے اس لئے یہ سب باتیں یونہی چٹکلے ہیں۔ ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کہتے ہیں مکاتب وقتادہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ عمل عربو ں کی وجہ سے تھا۔ کیونکہ عرب سرداروں سے جب مشورہ نہیں لیا جاتا تھا یہ امر ان پر گراں گذرتا تھا۔ تو ان کی دلجوئی کی خاطر یہ فیصلہ ہوا۔ تعجب ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا کب تھا۔ موقعہ کونسا ہے یہ کہنے کا۔ آپ نے تو مشورہ کیا اور بار بار مشورہ کیا اور مشورہ قبول کرلیا اور اس قبول کرنے میں کچھ ایسے خطرات شامل ہوگئے جن کی پیش بندی آپ نے فرمائی لیکن بعض لوگوں کی غلطی سے وہ جو اس میدان میں جانے کے خطرے تھے وہ حقیقی بن گئے ۔ یعنی اگر وہ درے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پچاس سوار اور تیر اندازوں کو مامور نہ فرماتے تو باہر نکلنے کا فیصلہ بڑا غلط تھا پھر۔ وہ خطرے کا مقام تھا۔ آپ نے اپنی عظیم فراست سے پہچان لیا اور اس خطرے کو بند کردیا۔ اس کی راہ بند کردی۔ تو جو نقصان پہنچا وہ مشورہ مان کر ہوا ہے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کیسے فرما سکتا ہے کہ پھر بھی مشورہ کر۔ پوری طرح نہیں نقصان ہوا ’’نعوذ باللہ‘‘مزید مشورے کر۔ یہ معنی ہے کہ مشورے کر لیکن مان اپنی۔ غور کے بعد اچھی بات مل جائے تو بے شک قبول کر۔ لیکن نرمی اور شفقت اور رحمت کی وجہ سے دلداری کی خاطر ان لوگوں کی بات مان لینا۔ آئندہ سے تو اس سے پرہیز فرما۔ یہ کام نہیں پھر کرنا۔ اختیار آپ سے لے کر دوسروں کو نہیں دیا جارہا۔ دوسروں سے لے کر آپ کو دیا جارہا ہے۔ جس کا بالکل برعکس مضمون بعض مستشرقین ا ور بعض دوسرے ظالم سمجھے ہیں۔ باقی سب وہی
امام رازی کہتے ہیں فض اور غلیظ القلب میں فرق کیا ہے۔ کہتے ہیں فض جو ہے وہ بداخلاقی کو ظاہر کرتا ہے۔غلیظ القلب دل کی ایک مستقل سختی کی حالت کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ میں پہلے ہی گفتگو کرچکا ہوں۔ ایک نیا نقطہ تفسیر روح المعانی نے بیان کیا ہے جس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ کہ فضاً سے مراد وہ بداخلاقی ہے جو ظاہری اقوال اور افعال میں کی جاتی ہے جبکہ غلیظ القلب میں باطنی امور میں بد اخلاقی مراد ہے یہ درست نہیںہے۔ یہ زبردستی کی تقسیم ہے۔ حضرت امام رازی والی بات ہی درست ہے کہ دل کی سختی ایک مستقل حالت کا نام ہے اور بعض قوموں میں پائی جاتی ہے اور جو اخلاق کی خرابی اور بد مزاجی جو ہے یہ ایک عام حالت ہے جو کسی جگہ بھی پائی جاسکتی ہے ۔ عارضی بھی ہے اور مستقل بھی بن سکتی ہے۔ بحر محیط نے ایک عمدہ معنی یہ پیداکیا ہے یا معلوم کیا ہے جو موجود تھا وہ کہتے ہیں فاعف عنھم و استغفرلھم کے بعد شاور ھم بہت ہی برمحل کلام ہے کیوں کہ وہ لوگ جن سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل پوری طرح صاف ہوچکا ہو۔ اور ان کے لئے بخشش کی دعا مانگ چکے ہوں۔ ان میں مشورہ دینے کی اہلیت پیدا ہوجاتی ہے یعنی وہ متقی لوگ ہیں جو خدا کی رضاء کے تابع ہوگئے ہیں اس لئے اب وہ اس لائق ہیں کہ ان سے مشورہ کیا جائے۔ یعنی مراد یہ ہے کہ دوسروں سے مشورہ نہ کر۔ ا ن پاک لوگوں سے مشورہ کر جن کے متعلق تیرے دل میں کوئی کدورت نہ ہو۔ اور جن کے متعلق توخدا سے ان کیلئے بخشش طلب کرتاہو۔ یہی اس بات کے اہل ہیں کہ ان سے مشورہ کیا جائے ۔ یہ بحر محیط میں درج ہے بہت ہی پیارا معنی ہے۔ جو انہوں نے پیش کیا ہے۔بعض لوگوں نے فی الامر سے مراد صرف جنگ لی ہے کہ جنگ کے معاملات میں یہ درست نہیں ہے یہ وہی شان نزول کے ساتھ بہت دیر سے باندھنے والی ہے مضمون کو۔ یہ ہمیشہ جاری مضمون ہے قرآن کریم کا اور ساری دنیا کی مختلف صورتوں پر اطلاق پانے والا ہے۔ اس لئے اس کو صرف ایک شان نزول سے باندھ دینا۔ یہ درست نہیں ہے۔بعض کہتے ہیں کہ یہاں صرف دین کے معاملات میں مشورہ مراد ہے۔
چنانچہ محاسن التاویل از محمد جمال الدین قاسمی میں یہ درج ہے کہ دین کے معاملے میں مشورہ اس لئے ہم مراد لے رہے ہیں کہ آپ نے صحابہ کو ایک موقعہ پر فرمایا۔ ’’انتم اعلم بامور دنیا کم‘‘ دنیا کے معاملات میں تم زیادہ جانتے ہو۔ یہ غالباً اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ جبکہ کھجوروں کے جن کی نرسری تیار کی گئی تھی۔ بعض صحابہ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کررہے تھے۔ جو دستور ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ۔ بڑے پیارے پیارے خوبصورت دکھائی دینے والے پودے تھے آپ نے فرمایا کیا ضرورت ہے یہاں سے اٹھا کے کیوں وہاں بدل رہے ہو اور انہوںنے سمجھا کہ بس اسی میں کوئی برکت ہے۔ اور چھوڑ دیا اور یہ تھوڑی سی جگہ ہے۔ اتنے پودے پل ہی نہیں سکتے تھے۔ جب بڑے ہوئے تو قلت ہوا قلت غذا‘ قلت آب کی وجہ سے جل گئے۔ تو وہ شکایت لے کر آئے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا فیصلہ تھا۔ ہم نے مان لیا یہ نتیجہ نکلا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ میں تو رسول ہوں اللہ کا۔ دین کیلئے بھیجا گیا ہوں۔ یہ زراعت کے معاملات تمہارے ہیں۔ تم بہتر جانتے ہو۔ مطلب تمہیں کہہ دینا چاہئے تھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات یوں نہیں یوں ہے۔ بعض احمدیوں کو بھی میں نے دیکھا ہے اس معاملے میں بعض دفعہ غلو کرجاتے ہیں۔ بعض دفعہ کسی بات کے سارے پہلو سامنے نہیںہوتے۔ دنیاوی ایک مشورہ مانگ رہے ہوتے ہیں اور ان کو میں ان حالات کے مطابق مشورہ دے دیتا ہوں بجائے اس کے کہ مجھے یہ بتائیں بعد میں کہ یہ حالات بدل گئے ہیں یا ان میں یہ وسعت تھی۔ جو ہم نے پیش نہیں کی۔تو اس طرح رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں اور بعض دفعہ نقصان پہنچ جاتا ہے۔ ایسا شاذ ہوا ہے مگر ہوا ہے۔تو میں ان سب کو یہ کہتا ہوں کہ جب مشورہ کیا کرو۔ تو سارے پہلو سامنے رکھا کرو اور دنیاوی امورمیں جو مشورہ ہے۔ اگر اس کو ماننے پر طبیعت آمادہ نہ ہو اور کوئی دلیل اس کے خلاف موجود ہو توپیش کرنی چاہئے۔ باوجود دل میں ایک الجھن کے کہ غالباً یہ بات درست نہیں۔ فلاں امر کو نظر انداز کرکے کی گئی ہے اورپھرچُپ کرکے اُس پر بیٹھ رہنا درست نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مستقل حکم انجمن میں لکھوایا ہے اس بات پر کہ بعض دفعہ میں ایک فیصلہ کرتا ہوں یعنی یہاں دنیاوی نہیں بلکہ دینی امور میں بھی یہ مضمون کسی حد تک صادق آتا ہے اور مجھے اس وقت یاد نہیں ہوتا کہ اس سے ملتے جلتے حالات میں میں نے ایک اور فیصلہ کیا تھا جو مختلف تھا اور اس کی کوئی وجہ تھی اور تمہیں علم بھی ہوتا ہے کہ ایسا ہوا ہے اور تم بغیر اس کے کہ مجھے بتائو کہ پہلے ایسی بات گذر چکی ہے تم چپ کرکے یہ بات مان لیتے ہو۔ اورپھر ایک تضاد کی شکل ہوجاتی ہے۔ اس لئے میں مستقلاً حکم دیتا ہوں کہ جب بھی میرا کوئی حُکم ایسا ہو ۔ جس میں تم یہ سمجھو کہ کسی وجہ سے یہ نظر ثانی کا محتاج ہے تو وہ وجہ پیش کرکے دوبارہ مجھ تک پہنچائو۔ جب تک میں دوبارہ فیصلہ نہ کردوں۔ اس وقت تک آنکھیں بند کرکے اس پر فوری عمل نہ کرو۔سوائے اس کے کہ بعض احکامات میں زیادہ تاخیر سے عمل کرنا ضائع کرناہوتاہے ایسی صورت میں عملدرامد اگر مجبوری ہے تو شروع کردیا جائے اور جلد از جلد رابطہ کرکے صورت حال پیش کردی جائے تویہی مضمون ہے جو ’’انتم اعلم بامور دنیا کم‘‘ میں ہے۔ مگر یہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک انکسار کا اندازہے۔ یہ جو امور دنیا ہیں ان میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے عظیم الشان حکمت پر مبنی ہوا کرتے تھے۔ اس لئے جہاں بظاہر مقابلہ ہے کہ مستشرق امور دنیا میں زیادہ عالم ہو۔ یہ مراد نہیں ہے۔ فیکٹس (Facts)کا علم ہے مراد۔ یعنی تمہیں بعض حقائق زراعت کے معلوم ہیں روزمرہ کے تجربات کی وجہ سے۔ اور و ہ حقائق میرے علم میں نہیں ہیں اس لئے یہ فیصلہ غلط ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر حقائق ایک جیسے سامنے ہوں تو ناممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مقابل پر کسی اہل دنیا کا فیصلہ دنیاوی امور میں بھی آپ سے بہتر ہو۔ پس حقائق کا علم نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے اور یہاں اعلم سے مراد صرف یہی ہے۔بعض نے کہا ہے کہ ان لوگوں نے جنہوں نے تجھ سے اعراض کیا ہے شکست کھانے کے بعد تیرے پاس آئے ان کے لئے ہے کہ تو ان سے نفرت کا سلوک کر ۔ یہ درست نہیں ہے۔ خواہ مخواہ آیت کے وسیع اطلاق کو محدود کرنے والی بات ہے۔ محمد جمال الدین قاسمی ناسخ التاریخ میں یہی بات لکھتے ہیں جو میں بیان کرچکا ہوں کہ نئے طورپر مشورے کا مضمون شروع ہی نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں آپ تو ہمیشہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ جنگ بدر میں مشورے کئے۔ ہر دوسرے اہم امر میں مشورہ فرماتے تھے اوراپنی ازواج سے بھی مشورہ کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں بدر کے موقعہ پر مشورہ کیا وہ حوالہ دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں تمہیں یاد نہیں کہ جب بدر کے موقعہ پر مشورہ کیا تھا تو مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُٹھ کریہ کہا تھا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم وہ لوگ نہیں ہیں جیسے موسیٰ کی قوم کے لوگ تھے۔ انہوں نے موسیٰ سے کہا تھا اذھب انت و ربک فقاتلا ‘‘ جا توُ اور تیرا رب لڑتے پھرو ’’وانا ھھنا قاعدون‘‘ ہم تو یہیں بیٹھ رہیں گے۔ بلکہ ہم تو وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بھی لڑیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں بھی لڑیں گے۔ اور دشمن کی مجال نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچے مگر اس صورت میں کہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آئے۔ وہ کہتے ہیں دیکھو وہ مشورہ ہی تو تھا۔ مشورے کے نتیجے میں یعنی یہ بات تو نہیں لکھی۔ لیکن ایک برکت مزید حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے ’’امرھم شوریٰ بینھم‘‘ کا جو حکم ہے۔ اس میں اس حکمت کی طرف اشارہ ہے۔ایک تو فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی حکم اور ایک یہ بتانے کیلئے کہ یہ دائمی امر ہے۔ امت محمدیہ میں مشورہ کا نظام ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہ عارضی بات نہیں ہے۔ مشورے سے یہ تقویت ملتی ہے کہ دلوں کے وہم نکلتے ہیں۔ غلط خیالات میں سے باطل نکال دیئے پاک ہوجاتے ہیں۔ ایک انسان کمزور رائے رکھتا ہے۔ اس کو کھنگالنے کا موقعہ نہیں ملا۔ جب مجلس میں مشورہ کیا جاتا ہے تو ایک آدمی کہتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ وجہ ہے دوسرا کہتا ہے کہ نہیں یہ پہلو بھی ہے۔ اس کو بھی دیکھ لیا جائے تو سب لوگو ںکے دلوں سے جو انفرادی وہم ہیں وہ نکل جاتے ہیں اور ایک اجتماعی سوچ بڑی قوت کے ساتھ ابھرتی اور اس سے لوگوں کو قوت عمل ملتی ہے۔مزید طاقت نصیب ہوتی ہے۔ مزید یقین ہوتا ہے اپنے مطلب کا۔ پس یہ جو واقعہ گذرا ہے جنگ بدر میں اسے ایک مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا۔ اس سے عجیب دلوں کی کیفیت پیدا ہوگئی ہوگی۔ اندازہ کریں اس سے ان کے عزم میں کیسی مزید قوت پیدا ہوگئی تھی اور کسطرح یقین پریقین دل پر جم گیا ہوگا۔ اس میں دلوں میں جا گزیں ہوچکا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک اور کہنے والے نے یہ کہا‘ کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ان سے مشورہ مانگتے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں کہیں تو ہم سمندروں میں گھوڑے دوڑا دیں گے اور کوئی جان کی پرواہ نہیں کریں گے یہ میں اس لئے بیان کررہا ہوں کہ بعض بدبخت بعد میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوپر یہ بھی الزام لگائیں گے کہ بکھرنے والے کمزور‘ ڈرپوک ‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر جانے والے تھے۔ یہ بالکل جھوٹے الزام ہیں۔ یہ سارے لوگ جن کے اوپر یہ الزام گندے لگائے ہیں جنگ بدر میں شامل تھے۔ اس وقت ان کو جان پیاری نہیں تھی؟ اگر جان پیاری ہونے کی وجہ سے بھاگتے تو اس سے پہلے تو آزمائے جاچکے ہیں۔ اس لئے یہ سب بدبختی کے الزام ہیں۔ ان میں کوئی حقیقت بھی نہیں ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ ترجمہ اس کا یہ فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی رحمت ہے کہ تو اُن پر نرم ہوا‘ اگر تو سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے۔ تجھ سے الگ ہوجاتے۔ اس ضمن میں ایک بات یہ فرمائی ہے آپ نے بہت ہی اہم ’’ توکل ایک طرف سے توڑ اور ایک طرف جوڑ کا نام ہے۔ فاذا عزمت فتوکل ‘ مراد یہ ہے کہ مشورے کی حد تک تیرا جوڑ انسانوں سے تھا جب فیصلہ کرلیا تو تیرا انسانوں سے تعلق خداکی طرف منتقل ہوگیا اور توکل کے یہ معنی ہیں۔ ایک طرف سے جوڑ کاٹ کر دوسری طرف جوڑ باندھ دیا۔ یہ بہت ہی پیارا معنے ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے توکل پر اپنے کمال کے ساتھ صادق آتا ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توکل کے مضمون پر بہت پیاری لمبی گفتگو فرمائی ہے اور اس میں اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال بھی دی ہے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ملنے آیا اور باہر گلی میں اونٹ چھوڑکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور جب باہر نکلا تو اونٹ جا چکا تھا۔ وہ واپس آیا یہ شکوہ کرتے ہوئے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ سے ملنے آیا اور توکل کیا کہ اس مقدس زیارت کی برکت سے میرا اونٹ وہیں کھڑا رہے گا توپھر بھی چلا گیا۔ آپؐ نے فرمایا یہ توکل نہیں ہے۔توکل یہ ہے کہ اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر توکل کرو۔ یعنی سبب کو اپنے آخری مقام تک پہنچا دو۔ اسباب کو ترک کرنا توکل نہیں ہے۔ اور اس کے بعد وہموں میں مبتلا ہونا یہ بھی توکل نہیں ہے۔ کہ یہ نفس کی الجھنیں ہیں ان میں کوئی بھی توکل کہنا ہی اس کو غلط بات ہے۔ خدا نے جو توفیق دی وہ کرلو۔اس کے بعد پھر معاملہ خدا پہ چھوڑ دے۔ اور خدا پر چھوڑنے کے بعد اگر کوئی نقصان پہنچے تو پھر اس کو اس طرح برداشت کرو جیسے مالک کا فیصلہ ہے۔ توکل سے یہ نیا مضمون ابھرتا ہے اور اس سے دلوں کو بہت تسکین ملتی ہے۔ آپ کا کوئی عزیز بیمار ہو اس کیلئے جو چارے ہیں وہ ضرورکریں لیکن اگر توکل چاروں پر نہیں ہوگا اور خداپر ہوگا تو چاروں سے جوڑ کٹ جائے گا اور اللہ سے جوڑ بندھ جائے گا۔ جو نقصان پہنچتا ہے تو اللہ سے کس طرح شکوہ کرسکتے ہیں آپ۔ وہ تو مالک ہے۔لیکن جن کا توکل بندوں پر ہو اور اسباب سے جڑے رہیں ان کا یہ جوڑ کٹتا نہیں ہے اور اس کا جو یقینی اثر بعد میں ظاہر ہوتا ہے کہ جب ان کی مرضی کے خلاف فیصلہ ہوجائے تو روتے اور پیٹتے اور بے صبری دکھاتے اورکہتے ہائے ہم پر یہ کیا ہوگیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ توکل ان کا اسباب پر ہی تھا۔ اسباب سے مایوس ہوگئے ۔ تو شکووں کا حق ہے۔ مگر اللہ سے تو شکووں کا کوئی حق نہیں ۔ مومن کو جو تعلیم دی گئی ہے اس میں ہر قسم کے نقصان پر صبر کا ایک سلیقہ سکھا دیا گیا ہے اور صبر حاصل کرنے کا ایک گُر بتادیا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ایک چھوٹے سے فقرے میں مضمون بیان فرمایا ۔ عظیم الشان مضمون ہے۔ توکل کہتے ہیں ایک طرف سے جوڑ کاٹنا اور دوسری طرف منتقل کرکے وہا ںجوڑ باندھ دینا۔
اُحد کے میدان میں جنگ کا مشورہ دینے والوں میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب بھی شامل تھے۔ اس لئے شیعوں کو یہ بات بھولنی نہیں چاہئے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ حضرت نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک بھی اور قبیلہ اوس اور قبیلہ خزرج کے بعض اکابر نے بھی مشورہ دیا تھا۔ (شروع الحرب ترجمہ فتوح العرب صہ ۸۸۲ مولفہ محمد بن عمرو اقدی)
اس میں سے لیا گیا حوالہ
اب آئیے مستشرقین کی طرف : Richard Bell لکھتا ہے۔
Can hardly has beenmeant for publication.
160 کی آیت جو ہے۔ عجیب ہی پاگل آدمی ہے میںنے Wherry سے زیادہ خبیث دشمن اور جھوٹا اور مکار اور نہیں دیکھا مستشرقین میں اور Bell سے بڑا گدھا نہیں دیکھا۔یہ ایسے لگا جیسے گدھے کے گلے میں bell باندھ دو۔ کہ گدھا چل رہا ہے اور ٹن ٹن کی آواز میں پتہ لگے کہ گدھا آرہا ہے بڑا ہی بے وقوف آدمی ہے کہتا ہے۔ Hardly meant for publication
غلطی سے آگئے مراد یہ تھی کہ مختص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کو بتا کر اپنے پاس ہی رکھتے۔
‘‘it suare how delicate the situation was after defeat at Ohad. It is address to the Prophet. His first impulse had been to speak roughly to his followers.
آیت کچھ اور کہہ رہی ہے۔ کہتے ہیں جو صاف ظاہر ہے اس آیت سے کہ آپ کی پہلی impulse یہ تھی پہلا ردعمل کہ خود سختی کریں ان لوگوں پر ڈانٹ ڈپٹ کریں۔ کہتا ہے۔
First followers but by the Mercy of Allah he has been and spoken milaly.
اللہ کی رحمت ہوگئی جو بولے۔ ورنہ دل کے تو سخت تھے۔ مزاج میں سختی پرانی تھی۔ یہ مراد لے رہا ہے۔ آیت بالکل برعکس بات کہہ رہی ہے۔ عجیب ہی پاگل قوم ہے یہ جن سے ہمیں واسطہ پڑا ہے۔
He is now consult to forgive them.
کہتا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ ان کو (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم) مشورہ دے رہا ہے کہ معاف کردے۔
and even to promise to cunsult them in future operation.
کہتا بڑی غلطی ہوگئی کہ ان سے مشورہ نہیں کیا۔ اس لئے سارا نقصان پہنچا۔ کہتا اس لئے promise کر ان سے کہ آئندہ میں تجھ سے مشورہ کیا کروں گا۔ یہ میں نے آپ کے سامنے حالات کھول دیئے ہیں۔ اس کے بعد دیکھیں کس قدربکواس ہے۔ جھوٹ اوربہتان ہے اور جہالت کتنی ٹپک رہی اس شخص سے۔ اس لئے دشمنی میں اول نمبر Wherry اور حماقت میں اول نمبر Bell ۔ ان کی مثال ہی اور کہیں مستشرقین میں نظر نہیں آتی۔ Wherry کو سُن لیجئے۔
اس سے پہلے والے gentle بات کرنے والے صاحب جو ابھی زندہ ہیں۔ مسٹر منٹگمری واٹ
وہ نسبتاً اپنے آپ کو gentle ناقدین میں شمار کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔gentle address to Muhammad Personly. یعنی یہ جو gentle کا لفظ ہے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو Personaly مخاطب کرکے کہا گیا ہے۔
But the exact refrence is not clear.
سمجھ نہیں آتی کیا بات ہورہی ہے۔
Perhaps it was his attitude to the hypocirates.
ہوسکتا ہے hypocirates کی طرف ان کے attitude کی طرف اشارہ ہو۔ اوربات کچھ clear نہیں۔ بات کو آگے چھوڑجاتا ہے۔ اس سے زیادہ واضح کیا بات ہوگی۔ فبما رحمۃٍ من اللہ لنت لھم‘ مستشرق بنے ہوئے ہیں عربی کے ماہر۔کئی سال وہاں فلسطین میں یہودیوں کے ساتھ بیٹھ کے اس نے عربی سیکھی ہے اور کہتا ہے مجھ پر بات واضح نہیںہوئی۔ قرآن فرماتا ہے۔ فبما رحمتہ من اللہ لنت لھم ‘ تجھے تو اللہ تعالیٰ نے رحمت عطا فرمائی ہوئی ہے۔ تجھے رحمۃٍ للعلمین ‘ بنایا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے تو ان سے ہمیشہ نرم رہتا ہے اور اب بھی نرم ہوا ان سے۔ ولو کنت فظا غلیظ القلب‘ اگر تو سخت دل ہوتا‘ بد مزاج ہوتا تو پھر یہ ہوجانا تھا۔ وہ کہتے پتہ نہیںلگ رہا کیا کہہ رہے ہیں (پتہ نہیں لگ رہا تو ہم کیا بتائیں تجھے) بیوقوف بڑے ہیںیہ لوگ۔
اب Wherry کو سُن لیجئے۔
The policy of Muhammad in dealing with his followers is here distinctly announced.
کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے ماننے والوں سے جو حکمت عملی ہوسکتی تھی ۔ وہ یہاں خوب کھل کر کھلے لفظوں میں بیان کی جارہی ہے۔ آئندہ کے لئے گویا کہ ایک حکمت عملی ہے۔
They had certainly merited severe punishment.
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ان کو بڑی سخت سزا ملنی چاہئے تھی اور اس کا تمام جواز موجود تھا۔
But there were powerful adversaries in Madina.
یعنی اس کا کیا کیاجاتا مدینے میں بہت بڑے سخت مخالف‘ بڑے طاقت ور مخالف موجو د تھے۔ یہ مدینے کی تاریخ انہوںنے پڑھی نہیں۔ جو طاقت ور مخالف تھے وہ سارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھکنے پر مجبو ر ہوچکے تھے۔ اس سے پہلے میثاق مدینہ لکھا جاچکا تھا۔ اس پر سب نے متفق طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سردار مان لیا تھا۔ دنیا کے امور میں بھی اور اگر ان کی ایسی طاقت تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر تو پھر منافق پھر کیوں تسلیم کرتا کوئی۔ بار بار کہتا وہ منافقین تھے۔ تو منافق تو ہوتا ہی وہ ہے جو ڈر کر چھپاتا ہے اپنے آپ کو۔ بہادر اور بے خوف آدمی جس کو اپنے غلبے کا یقین ہو وہ منافق کیوں خواہ مخواہ بنتا پھرے گا۔ اس لئے یہ نہایت ہی بے وقوفوں والا تبصرہ ہے۔لیکن آگے چلیں ابھی تو اور آگے آتے ہیں۔ کہ
but there were powerful adversaries in Madina. Who would have taken advantage of any attempt to enforce punishment of a severe nature.
کہتا اگر سختی کرتے تو بڑا سخت انہوں نے ردعمل دکھانا تھا۔ کیسے برداشت کرتا۔
Besides, no slight shock to the new faith had been felt owing to the defeat, and it became a matter of the utmost importance to establish that faith. Hence the mild words, and the forgiveness so freely bestowed.
کہتا بات یہ ہے کہ اپنے دین کو انہوں نے وہاں نافذ کرنا تھا اور کوئی معمولی shock نہیں پہنچا تھا اس دین کو۔ ان کو جنگ اُحد میں اتنا شدید صدمہ پہنچ چکا تھا۔ دین کو گویا سارے منحرف ہونے کو پھرتے تھے ایسے وقت میں اس کے سوا پالیسی ہوکیا سکتی تھی کہ انکو کہا گیاکہ دیکھو دیکھو ! نرمی کرنا ‘ آہستہ بولنا ‘ آئندہ سے۔ کوئی سختی کا کلام ان سے نہیں کرنا۔ گویا کہ پہلے تو ہمیشہ سے سخت ہوکر آیا ہے اور حالات تھے اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب سے پالیسی یہ ہے تو نرم ہو۔اب جس نے قرآن کریم کی آیت پڑھی ہو۔ وہ جانتا ہو اس کا ترجمہ جیسے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے کیا کہے گا ایسے بدبخت آدمی کے متعلق ۔ صرف لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ جھوٹ بول رہا ہے یا آگ میں جل رہا ہے۔ اصل میں جنگ احد کے اوپر بڑے لوگوں کو آگ لگی ہے کچھ لوگوں کی آگ کا میں کل ذکر کرچکا ہوں۔ کچھ کا اب پھر بھی کروں گا۔ ان میں آگ لگنے والوں بھی یہ بھی ہیں۔ بڑی شاندار فتح ہوئی دشمنوں کو عرب۔ وہ کہتے ہیں مکے کے شہزادوں کو۔ اور ہوا کیا کچھ بھی نقصان نہ ہوا۔ اور عالم اسلام اسی طرح دندناتا رہا۔ اور اس کے نتیجے میں پھر دوسری عظیم فتوحات کی بنیادیں رکھی گئیں۔ یہ ہے تکلیف کہ مٹا کیوں نہ دیا۔ ایک ہی تو موقعہ ہاتھ آیا ساری تاریخ میں ۔جبکہ معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کو ملیامیٹ کر دیا جائے گا ۔وہ پاگل اسی طرح مڑ گئے کچھ بھی نہ ہوا اس پر مزا صرف لوٹتے ہیں اس کو عظیم فتح کہہ کر اور کچھ بھی ہاتھ میں نہیں ہے عظیم فتح کے بعد میں جو رونما ہو نے والے فضائل ہیں ان سے وہ سارے کلیۃًمحروم رہتے ہیں لیکن کہتا ہے ۔
Let it be observed that all these mild words and expression of forgiveness are set forth as coming from the mouth of God and yet the same divinity commends the mildness of the Prophet اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے حالانکہ وہ دوسری بات جو ہے وہ ہے ہی نہیںاس میں ایک ہی بات ہے اب آئیے میر احمد علی صاحب ؎غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں ۔اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
The deserters in Ohad actually deserved to be punished but even in view of the grant of parden to them there remains no room for the recipients of the parden to say that they actually deserved it or that they had been honourably acquitted of the changes against them. It is only that the punishment has been offered to be condoned and not the wiping out of the charge. The blot of conviction remains there.
کہتا دیکھو معافی تو مل گئی ہے۔ لیکن اس کے نتیجہ میں ان کو یہ سمجھنے کا کوئی حق نہیں ملا کہ ہمارے دل سے ہر قسم کے لغزش کے اثرات صاف ہوچکے ہیں۔ کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے معافی تو دی ہے لیکن وہ داغ جو دل پر لگایا گیا ہے۔ اس کو قائم رکھا ہے اور اس کو کوئی دنیا میں مٹا نہیں سکتا۔ وہ کہاں سے داغ لیا ہے انہوں نے۔ ان کے اپنے دل کا داغ ہے۔ نفرت اور بغض کا داغ ہے۔ جو ابھر رہا ہے۔ اور بالکل یوں لگتا ہے جس طرح ایک طرف عیسائی اس موقعے پر شدید بے چین ہیں کہ فتح ہوئی بھی دشمن کو لیکن فوائد سے محروم رہا۔ یہ کہتے ہیںیہ موقعہ تھا ۔ جب خدا کی طرف سے ان سب کو کلیتہً ہمیشہ کیلئے دائرہ اسلام سے خارج کرکے باہر پھینک دینا چاہئے تھا۔ اس سے غلطی ہوگئی یہ نہیں ہوا۔ اس کو پیٹ رہے ہیں۔ اتنا غصہ کس بات کا معافی پر۔ اس بات کا غصہ ہے کہ یہ موقعہ تھا ا نکو باہر نکال کر اللہ تعالیٰ باہر پھینک دیتا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پیچھا چھوٹنا۔ اور پہلی خلافت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مل جاتی۔ یہ ترکیب ہمیں تو آئی ہے اور اللہ کو نہ آئی اور ہم مجبور ہیں بچارے ہم کیا کریں اب اس لئے ایک ہی رستہ کہ گالیاں دے کر بغض نکالو۔ اور کیا رستہ رہ گیا ہے۔ جتنی گالیاں دے سکتے ہو دیتے چلے جائو۔ تاکہ کسی طرح دل کا بوجھ کچھ ٹھنڈا ہو۔ دل کی آگ کچھ ٹھنڈی ہو۔ لیکن یہ ٹھنڈی ہونے میں آ نہیں رہی۔ آگے سنئیے۔
The people certainly deserved other treatment, but owing to the mercy of God which does not want to leave the sinner till all has been done for him, the Prophet was made lean-hearted towards them.
یعنی یہ بھی یہ مانتے اس وقت گویا کہ بنایا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی حالت نہیں ہے۔ کہتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ تمام کرنے کی خاطر معافی دی گئی ہے اور بھی ان سے گناہ سرزد ہونے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے معاف کیا ہے اور اس وقت اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ان کیلئے نرم دل بنایا گیا۔ تاکہ کچھ اور موقعہ دے دیا جائے۔ اصلاح کرلی تو ٹھیک ورنہ ہم ان کو پکڑ لیں۔ یہ مضمون ہے جو بیان ہورہا ہے۔
else the people would not have cared to stay around him and the whole scheme of guidance and salvation of mankind would have come to an end.
ساتھ یہ بھی ساتھ لگادیا کہ نرم دل بتایا ہے اگر یہ نہ ہوتے تو سب دنیا بھاگ جاتی اور ٹیم جو تھی خداتعالیٰ کی طرف سے مانگ تانگ کیلئے وہ ہاتھ سے نکل جاتی۔ تو اب اس پر غور کریں اس کا مطلب کیا بنایا ہے انہوں نے۔ مطلب ان کے ذہن میں یہ ابھرا ہے کہ منافقوں سے بخشش اس کے باوجود کہ وہ منافق رہیں گے اس لئے تھی کہ مجبوری تھی خدا کی۔ اگر وہ یہ نہ کرتا تو ان سب نے بھاگ جانا تھا۔ اور پیچھے کتنے رہ جاتے؟ چھ۔ تو یہ سکیم کیسے پوری ہوتی۔ تو دنیا کی سب سے عظیم الشان رحمت اور پاکیزہ کرنے کی سکیم ۔ تزکیہ نفس کرنے کی سکیم منافقوں کے بل پر چلائی گئی ہے۔ ان کے بل بوتے پر آگے بڑھائی گئی ہے۔ اس سے بڑی جہالت ہوسکتی ہے کوئی؟ ایسی جاھلانہ سکیم اللہ کی طرف سے تو آ نہیں سکتی۔ ناممکن ہے یہ ا نکے دلوں کی بے وقوفیاں اور جہالتیں ہیں۔ جو یہ بہانے ڈھونڈتے رہے۔ کیوں آخر ہوا کوئی سچا بہانہ ملتا نہیں۔ یونہی اس قسم کی جاھلانہ باتیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجبور تھا۔ دیکھتے نہیں تم کہ یہ چھوڑتے تو پیچھے رہ کیا جاتا۔ گنتی کے چھ آدمی؟ ان سے اتنی عظیم الشان دنیا کی اصلاح کی سکیم کیسے چلائی جاتی۔ اللہ نے یہ کہا مجبوری ہے۔ میںبھی کیا کروں۔ پھر منافقوں سے ہی کام لے لیتے ہیں۔ کہتا ہے۔
the verse in important as showing that the general kind behaviour of the Prophet to the ``sahabas,,. (the word sahabas is mentioned here) in spite of their most vicious conduct, as in the case of Khalid and others his words of encouragement to them and the like, can not be regarded as due to any real spiritual worth about them, but they were sought to be reclaimed in the long run is another matter whcih history alone can decide and of which this offers no guarantee whatever.
عجیب سا فقرہ ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے وہ کہتے ہیں۔
the verse is important کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا behaviour دکھایا گیا ہے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف۔
in spite of there most vicious conduct.
باوجود اس کے کہ نہایت ہی بدکرداری کا عمل ان سے ظاہر ہوا اور نہایت ہی ناپاک معاملہ انہوں نے کیا۔ in the case of Khalid and Others, جیسا کہ Khalid and others کے کیس میں ہوا اور Khalid and Others کے کیس سے مراد یہ مطلب ہی ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو موقع مل گیا اور وہ حملہ اور وہ اورپھر توجہ ان کی طرف نہیں رہنے دی۔ جن کی وجہ سے خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو موقعہ ملا۔ بلکہ ضمناً ذکر کرکے توجہ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی طرف پھیر دیتا ہے۔
his words of encouragement to them and the like, can not be regarded as due to any real spiritual worth.
٭٭٭٭٭٭٭
درس القرآن 24-2-94
بمطابق 13 رمضان المبارک
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھا الذین امنو ا لاتکونوا کالذین کفروا وقالو الاخوانھم اذا ضربوا فی الارض او کانوا غزے لو کانوا عندنا ماما توا…………… افمن اتبع رضوان اللہ کمن با ء بسخط من اللہ … ھم درجت عند اللہ ط واللہ بصیر بما یعملون O (آل عمران 157 تا 164)
یہ آیات جن کی تلاوت کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ گذر چکی ہیں۔کچھ آنے والی ہیں۔ سردست ہم جس آیت پر گفتگو کررہے ہیں وہ ایک سو ساٹھ ہے جس کا ترجمہ ایک دفعہ پھر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت ہے کہ تو ان پر مہربان ہوا کہ تو ان کے لئے مہربان اور نرم گوشہ رکھتا ہے اور اگر تو بدمزاج ہوتا اور شقی القلب ہوتا (سخت دل ہوتا) تولوگ تجھے چھوڑ کر ادھر ادھر بکھر جاتے۔ پس ان سے عفو کا سلوک کر اوران کے لئے اللہ سے بخشش طلب کرتا رہ۔ اور اہم معاملات میں ’’الامر‘‘ یا قومی معاملات میں ان سے مشورہ بھی کر۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ لیکن جب تو فیصلہ کرلے تو اللہ ہی پر توکل کر۔ ان اللہ یحب المتوکلین۔ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ اس آیت پر اکثر جو اہم حصے تھے ان پر گفتگو ہوچکی ہے لیکن کچھ حصہ ابھی شیعہ مفسر میر احمد علی صاحب کے الزامات کاباقی ہے۔ جس سے متعلق میں آج کچھ معروضات پیش کروں گا اور کچھ حوالے نئے آپ کے سامنے رکھوں گا۔ یہ مفسر لکھتے ہیں۔
consider the position those who turned their back against the enemies at Ohad and ran away diverting Holy Prophet in the midst of the overwhelning forces of the enemy. And disapeared for days together. These authorties like (Tabree, Tareehk-ul-Khamees, Tafseer-i-Kabeer, Minhaj Nabuwah), Early history of Islam) by S.Hussain.
Which say, the compainions like Abu Bakar, Omar, Osman, and Abu-Ubaidah were also among those who took flighy at Ohad and Hunain.
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے حال کا اندازہ کرو جنہوں نے احد کے میدان میں پیٹھ دکھائی اور حضرت Holy Prophet کو یعنی رسول اللہ صلعم کو عین جنگ کے دوران دشمنوںکے درمیان گھرا ہوا چھوڑکر بھاگ گئے۔ اور دنوں تک غائب رہے۔ اس سلسلے میں اہم تاریخی اسناد جو تمہارے پیش نظر رہنی چاہئیں۔ ان میںطبری کی گواہی ہے‘ تاریخ الخمیس کی گواہی ہے۔ تفسیر کبیر امام رازی کی گواہی ہے‘ منہاج نبوۃ کی اور اسی طرح early history of Islam میں کوئی صاحب S.Hussain ہیں جنہوں نے یہی بات لکھی ہے اور وہ کہتے ہیں یہ الزام ہے اور یہ سب کہہ رہے ہیں۔
the compainion like Abu Bakar, Omer, Osman, and Abu abaidah, were also among those who took flight at Ohad and Hunain.
یہ بالکل جھوٹ ہے۔ بالکل جھوٹ۔ایسے خبیثانہ بات کا دعوی کیا ہے جو کہیں ہمیں نہیں ملتی انہوں نے لکھا کہ یہ دونوں بھاگ گئے تھے اس کے برعکس دوسرے حوالے ملتے ہیں اور جس طرح یہ حوالے دیتے ہیں اور جس طرح ان کا جھوٹ حوالوں کے تتبّع سے ثابت ہوجاتا ہے اس کے مَیں چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں بات یہ ہے کہ اس وقت جب کہ بہت سخت ہنگامہ پیدا ہوا تھا اور افراتفری کا عالم تھا اس وقت جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے ناممکن ہے کہ کسی ایک راوی نے سب جہاد کرنے والوں کو اکٹھا دیکھ لیا ہو ۔اسی لئے روایتوں کا اختلاف ہے جو روائتیں بھاگنے والوں کا ذکر کرتی ہیں معین طور ۔ان میں ایک ایسی روایت ہے جس نے معین طور پرکہا ہے کہ پانچ بھاگے تھے وہ میں آپ کے سامنے پہلے رکھ چکا ہوں ۔باقی روایتیں ہیں کسی روایت میں کسی ایک کا ذکر نہیں ہے کسی میں دوسرے کا ذکر نہیں ہے ان سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ وہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ بھاگ گئے تھے جن کا ذکر نہیں ہے ۔یہ جھوٹ ہے ۔ اور یہی دھوکہ ہے۔ جسے یہ شیعہ مفسرین استعمال کرتے ہیں اور پھر جنگ احد میں تو بعض ایسے عظیم الشان شہداء کا ذکر ملتا ہے۔ جو اسی ہنگامے کے دوران لڑتے لڑتے شہید ہورہے تھے اور وہ تیس نام یا چودہ نام یا متفرق نام جو تاریخ میں ملتے ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جو نہیں بھاگے۔ ان میں اُن کا ذکر نہیں۔ حالانکہ الگ قطعی شواہد سے ثابت ہے کہ اس جنگ میں شہید ہوئے۔ اور اس موقعہ پر شہید ہوئے۔ تو اس لئے کسی روایت میں کسی کا ذکر نہ ملنا ہر گز یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ بھاگ گیا تھا۔ مگر اس کے علاوہ انہی کتابوں میں جہاں یہ کہتے ہیں کہ ثابت ہے کہ بھاگ گئے تھے۔ ان کے نہ بھاگنے کا ذکر ملتا ہے۔ اب بتائیے کیا جواز ان کے پاس رہ جاتا ہے۔ یہ حوالے دینے کا ۔ غزوہ احد سے ہم بات شروع کرتے ہیں۔ حنین سے بھی بات آئے گی۔ میر احمد علی صاحب نے طبری کا بھی ذکر کیا ہے کہ دیکھ لو طبری پڑھ لو۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ دونوں جنگوں سے یہ سب بھاگ گئے تھے۔ طبری نے روایت یہ لکھی ہوئی ہے۔ غزوہ احد کے باب کے نیچے۔ گھاٹی کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب ‘ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبید اللہ ‘ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن العوا م اور حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن اسمہ کھڑے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس کا ترجمہ انہوں نے کس طرح وہ کیا مجھے سمجھ نہیں آسکتی۔
یہ روایت ہے طبری کی۔ اتنا جھوٹ اور جو بچارے نادان معصوم اس جھوٹ سے متاثر ہوکر دل میں ان پاک لوگوں کے متعلق بدخیالات پیدا کریں گے۔ اس میں ان کو بھی تو پورا حصہ ملے گا۔ ’’میر صاحب کو‘‘ اور اس کے برعکس۔ ان کے اس دعویٰ کے برعکس جو قطعی بخاری کی شہادت ہے اس کو یہ پیش نہیں کرتے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بخاری کی حدیث ہے کہ نہ صرف یہ نعوذ باللہ وہ بھاگے نہیں بلکہ وہ صحابہ کی ایک جماعت جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنگ احد کے معاً بعد تیار کیا کہ دشمن کا پیچھا کرکے دیکھے کہ ان کے کیا ارادے ہیں۔ اس ستر کی جماعت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے شامل فرمایا۔ یہ ہیں جو دنوں بھاگے رہے تھے۔ مُڑ کے شکل نہیں دکھائی۔ حدیث ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواحد کے دن جو صدمہ پہنچنا تھا۔ پہنچ چکا۔ اور مشرکین مکہ میدان جنگ کو چھوڑ کر چلے گئے تو آنحضرت کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں یہ پھر واپس نہ آجائیں۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ کافروں کا تعاقب کون کرے گا۔ اس ارشادکی تعمیل جن ستر صحابہ نے کی ان میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدیق اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اب یہ دیکھ لیں۔ نہ صرف یہ کہ کامل وفادار رہے بلکہ وفاداروں میں بھی سرفہرست ۔ کہ اس حالت میں محض ستر کی ایک جماعت اتنے بڑے لشکر جرار کا تعاقب کررہی ہے دیکھنے کے لئے۔ اگر ان کو پتہ لگ جاتا کہ ہمارے پیچھے کوئی آرہا ہے تو ان کے بچنے کے شاذ کے طور پر ہی امکان تھے۔ مگر یہ بخاری کی یہ روایت یہ سب روایتیں نظر انداز کردیتے ہیں اب آگے دیکھئے۔
شرح مواہب الدینۃ میں لکھا ہے علامہ محمد بن عبدالباقی تحریر کرتے ہیں کہ محمد بن سعد نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چودہ اصحاب تھے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا مختلف روایتیں ہیں۔ مختلف تعداد بیان کی جارہی ہیں ان میں سات مہاجرین میں سے تھے جن کے نام یہ ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوف‘ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو عبید ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اب دیکھیں اس میں جو سات مہاجرین تھے۔ ان میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام تو ہے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نہیں ہے۔ تو کیا یہ ثابت ہوا کوئی کہہ سکتا ہے میر صاحب نے یہ کیوں نہیں کہا کہ شرح مواھب الدنیہ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے تھے۔ کیونکہ یہاں ان کا نام نہیں ہے۔ اس روایت میں۔ کسی روایت میںہے کسی میں نہیں کہ آپ جہاد میں اس وقت مصروف ہونگے۔ دیکھنے والے نے نہیںدیکھا۔ تو میر صاحب کی طرح‘ اپنی طرف سے کیسے بات بنا لیتا وہ پاک باز لوگ تھے۔ جو دیکھا وہی بیان کیا جو نہیں دیکھا کہانی نہیں گھڑی۔ آگے صحیح بخاری کی دوسری روایت سُن لیجئے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن نصر شہید احد کے آخری کلمات۔ اب یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن نصر کا ذکر ان میں نہیں ہے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور ان کے متعلق بخاری گواہی دیتی ہے کہ جب احد کے دن ہوا اور مسلمان بھاگے تو انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن نصر کہنے لگے یا اللہ میں تیری درگاہ میں اس کا عذر کرتا ہوں۔ جو مسلمانوں نے کیا اور جو مشرکوں نے کیا۔ اس سے بھی میں بے زار ہوں۔ اس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ واقعہ اس فرار والے واقعہ کے معاً بعد کا ہے ۔ اُن صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرف سے خدا کے حضور یہ عذر پیش کررہے ہیں یہ کہہ کہ تلوار لے کر آگے بڑے۔ راستہ میں انہیں سعدؓ بن معاذ ملے۔ انس نے کہا کیوں سعد کہاں جاتے ہو۔ ’’انی اجد ریح الجنۃ دون احد‘‘ مجھے تو اس احد پہاڑ کے پرے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔یہ کہہ کر انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان میں گئے اور شہید ہوگئے۔ ان کو اتنے زخم تھے کہ ان کی لاش پہچانی نہ جاتی تھی۔ ان کی بہن نے ایک تل یا انگلی کی پور دیکھ کر ان کو پہچانا ۔ اسّی (80)سے کچھ زائد زخم بھالے‘ تلواروں اور تیروں کے ان کے جسم پر لگے تھے۔ اب ان کا ذکر ان چودہ میں نہیں ہے‘ کیا کہیں گے میر صاحب کہ قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ان میں نہیں ملتا۔ اور ان کے متعلق یہ روایت ہے جب اچانک جنگ کی حالت بدلی‘یہ بھی یہی وقت ہے جس وقت وہ کہتے ہیں۔ کہ سب چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ تو یہ بھی کفار کے نرغے میںپھنس گئے۔ اس وقت مشرکین کے شہسوار ابن قمیّہ نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا۔ جس سے ان کا داہنا ہاتھ شہید ہوگیا۔ لیکن فوراً بائیں ہاتھ سے علم کو پکڑ لیا۔ یہ وہ تھے جن کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم اسلامی کہنا چاہئے یا اسلام کا جھنڈا خود سپرد فرمایا تھا۔ لیکن فوراً بائیں ہاتھ سے علم کو پکڑ لیا۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی۔
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل‘ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ وقت ہے جبکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہاد ت کی خبر اڑائی جاچکی تھی اور اس وقت یہ آیت ان کو یاد آئی۔ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔ ابن قمیہ نے دوسرا وار کیا تو بایاں ہاتھ بھی قلم ہوگیا۔ آپ نے دونوں بازوئوں کا حلقہ بنا کر علم کو سینے سے چمٹا لیا۔ اس نے تلوار پھینک دی اور زور سے نیزہ مارا۔ اس کی انّی ٹوٹ کے سینے میں رہ گئی اور اسلام کا یہ فدائی اس وار سے اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگیا۔ طبقات الکبریٰ لابن سعد۔ اب ان میں ان کا ذکر اُس میںنہیں ہے تویہ جہالت کی حد ہے۔تمام صحابہ جن کا نا م بنام ذکر کسی ایک روایت میں نہ ہو ان کے متعلق یہ لکھنا کہ دیکھ لو وہاں ثابت ہوگیا قطعاً کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ بے وقوفی کی بھی حد ہے اور ظلم اور تعصب کی حد ہے۔ یہ محض شرارۃً ان کے بھاگنے کا مضمون ثابت کرنے کی خاطر ان باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ربیع کا کوئی ذکر اس میں نہیں ہے۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ربیع کے متعلق خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی خبر لائو وہ کہاں ہیں۔ وہ کہاں ملے تھے۔ میر صاحب کہیں گے صاف پتہ چلا بھاگ گئے تھے۔ اب سنئے ملتے کہاں ہیں۔ایک شخص نے کہا حضور کہ میں حاضر ہوں۔ پھر وہ مقتولین میں چکر لگانے لگے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا بات ہے۔ انہوں نے کہا حضور نے مجھے آپ کی خبر لانے کے لئے بھیجا ہے۔مقتولین کی بجائے زخمیوں میں وہ ملے۔ یعنی مقتولین کے ڈھیر میں کہیں ملے ہیں۔ تو انہوں نے دیکھا ان کو گھومتے ہوئے اور پوچھاکیا بات ہے۔ تو انہوں نے کہا مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی خبر لانے کے لئے بھیجا ہے۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا حضور کے پاس جائو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرو اور بتائو کہ مجھے بارہ نیزے کے زخم آئے ہیں اورمیرا خیا ل ہے کہ میری اجل آگئی ہے اور تم اپنی قوم کو بتانا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے اور تم میں سے ایک بھی زندہ رہا ۔ تو خدا کے حضور تمہارا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا‘ اوراپنی قوم سے یہ بھی کہنا کہ خدا کا واسطہ دے کر تمہیں کہتا ہوں کہ تم نے رسول اللہ سے عقبہ کی رات جو عہد باندھا تھا ’’ہم آپ کی حفاظت کریں گے‘‘ خدا کی قسم اگر حضور کوکچھ ہوگیا تو تمہارا کوئی عذر قبول نہیںہوگا جبکہ تم میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہا۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جو تلاش کیلئے نکلے تھے۔ اس کے فوراً بعدہی انہوںنے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ میں حضور کے پاس آیا اور آپ کو ساری بات بتائی۔ آپ نے فرمایا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خدا رحم کرے۔ وہ جیتے جی اور مرتے ہوئے بھی اللہ اور اس کے رسول کا مخلص اور وفادار رہا۔ یہ ہیں بھاگنے والے۔ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بکریوں کی طرح چھلانگیں مارتے ہوئے چٹان پر سے چٹان پر سے ہوتے ہوئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے ان مخلصین کی طرف کوئی نظر نہیں ہے۔ صاف پتہ چل رہا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا روایتوں میں ذکر ہی نہیں ہے ۔ میں نے موازانہ کرکے دیکھا ہے۔ ان روایتوں میں جو پیش کی جارہی ہیں۔ ان میں ان کا نام نہیں ہے کہ یہ بھی ان میں موجود تھے جو پیچھے رہے پس جنگ کے ہنگامے میں کیسے ممکن ہے کہ وہ راوی ہرطرف نظر ڈال کر یہ دیکھ لے آرام سے کھڑا کہ کون کہاں ہے اور کون کہاں ہے۔اس نے جن کو لڑتے ہوئے دیکھا یا قریب دیکھا ا نکا ذکر کردیا۔ جو نظر نہیں آئے ان کا ذکر بعد میں تاریخ نے دوسری روایتوں میں محفوظ کردیا۔ حضرت امام رازی کا ذکر بھی ملتاہے کہ امام رازی نے یہ روایت کی ہے کہ یہ سارے بھاگ گئے تھے‘ حضرت امام رازی کی روایت بھی یہ ہے کہ جو سات آدمی جن کے مہاجرین میں سے تھے جن کے متعلق ایک روایت ہے۔ اس روایت میں جو نام امام رازی کو پہنچے۔ بھاگنے والے نہیں رہنے والے جو پیچھے موجود تھے ۔ چودہ آدمی جیسے روایت پہلے گزر چکی ہے۔ اس میں سے سات مہاجرین بھی تھے۔ امام رازی کو جو روایت ملی ہے‘ اس میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام شامل ہیں اس لئے یہ کہنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام اس میں نہیں ہے اس روایت میں اس لئے اول تو یہ کہنے کا کوئی حق نہیںکہ چونکہ اس راوی نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان نہیں کیا اس لئے ثابت ہوگیا کہ امام رازی کے نزدیک وہ بھاگ گئے تھے۔ یہ جھوٹ ہے ۔ حضرت امام رازی تو مختلف روایتیں اکٹھی کردیتے ہیں اور یہی مفسرین کا حال ہے۔ یہاں سے پکڑی وہاں سے پکڑی۔ یہ اب کسی متقی کا کام ہے کہ وہ سب روایات کا جائزہ لے کر۔ پھر صحیح صورت حال کا اندازہ لگائے مگریہ تو قطعاً جھوٹ ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بھی ان میں شامل ہے جو امام رازی کے نزدیک بھاگ گئے تھے۔ اب سنئے قطعی طور پر اس کے برعکس بھی شہادت موجود ہے
وہ روایتیں کہاںہیںدوسری جن میں جنگ احد والی۔ وہ کہیں غائب کردی وہ جن میں تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اورعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے‘ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ ایک سے زیادہ روایتیں ہیں؟ زیادہ پسند آگئیں ہیں آپ کو معلوم ہوتا ہے
بعض نے ستر صحابہ کی روایت پیش کی ہے۔ بخاری میں ہی۔ یہ روایت ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پیچھے رہنے والے ستر تھے۔ کہیں تیس آیا ہے کہیں چودہ آیا ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ روایت قطعی یہ شاید میں پہلے پڑھ چکا ہوں۔
علامہ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری کی روایت میں پہلے پڑھ چکا ہوں کہ گھاٹی میں یہ سب موجود تھے یہ دیکھ لوں گایہ تو ان کے جھوٹ کے نمونے ہیں صرف اچھا جی غزوہ حنین کے متعلق بھی یہ الزام لگایا گیا ہے کہ یہ غزوہ حنین میں بھی بھاگ گئے تھے۔ میر صاحب کا استنباط یہ ہے کہ ایک دفعہ تو ہم معاف کرسکتے ہیں مگر دوسری دفعہ کا گناہ معاف نہیں کرسکتے۔ ان پر لازماً اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر اسطرح تم بھاگو گے تو تمہارا انجام جہنم ہے وہ کہتے ہیں ان کے نعوذ باللہ من ذلک۔ جو پہلے تین خلفاء ہیں ان کا جہنمی ہونا قرآن سے ثابت ہوگیا۔ یہ استنباط ہے اس کے متعلق جو وہ جنگ حنین کی روایات درج کرتے ہیں۔ ان کا حال سن لیجئے۔ جو جو ساتھ رہے اور نہیں بھاگے۔ ان کا ذکر میں بتاتا ہوں قطعی طور پر۔ ایک ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے ایک روایت میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے خچرّ کی لگام پکڑی ہوئی تھی۔اور ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے قدم تھامے ہوئے تھے۔ اس وقت ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ فتح الباری میں روایت ہے۔ پھر جن چار صحابہ کا ذکرہے کہ وہ خدمت میں حاضر رہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ان کے علاوہ بھی سو افراد ایسے تھے جو ساتھ رہے ہیں۔ ویسی صورت نہیں تھی جیسے جنگ احد میں ہوئی تھی بلکہ سو کی جماعت ایسی تھی جو آپ کے اردگرد تھی ۔ ترمذی ابواب الجہاد کا یہ حوالہ ہے۔ پھر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابن مسعود کا چشم دید واقعہ بیان ہوا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً اسی 80 صحابہ اس وقت موجود تھے۔ فتح الباری جلد نمبر 8 صفحہ1
بیہقی نے حارثہ بن نعمان سے روایت کی ہے کہ سو (100) آدمی تھے ۔ زرقانی جلد 3 صفحہ 22 ابو نعیم نے دلائل میں لکھا ہے کہ ان سو میں سے تیس سے کچھ زائد انصار تھے۔ فتح الباری جلد نمبر 8 صفحہ23 بعض کے نزدیک یہ تعداد300 سیرۃ النبی جلد اول صفحہ 317تا 332جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ جن کو یقینا دیکھا گیا ہے ساتھ اب ان کا ذکر میں بتاتا ہوں مہاجرین میں سے جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ ان میں سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور آپ کے اہل بیعت ہیں جو لوگ ثابت قدم رہے وہ یہ ہیں۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب اہل بیت میں سے ۔جو لوگ ثابت قدم رہے وہ ہیں علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ عباس بن عبدالمطلب ‘ ابوسفیا ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث ،ابوسفیان کو بھی اہل بیت میں داخل کیا گیا ہے۔ یا اصل میں ان کے بیٹے کا ذکر ہے۔ غالباً ابوسفیان تو تھے ہی۔ ابوسفیان بن حارث ہاں اور ان کے بیٹے فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دونوں۔لکھنے والے نے ابن ہشام نے اہل بیت کے ذکرمیں ان کو داخل کرکے لکھا ہے۔ ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث‘ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زید اورایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ جو اسی روز شہید ہوئے۔ ایک دوسری روایت میں ہے۔ ’’طبقات ابن سعد ‘‘میں کہ آپ کے ہمراہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب‘ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عباس‘ ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ‘ ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث بن عبدالمطلب ‘ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ اور اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مسلسل ثابت قدم رہے اور وہ جنگ حنین سے بھاگے نہیں۔ اب یاد رکھیں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام کس صفائی اور وضاحت کے ساتھ بار بار یہاں لیا جارہا ہے اور کسی ڈھٹائی سے وہ لکھتے ہیں کہ ان کتب سے ثابت ہے کہ وہ ان دونوں جنگوں میں برابر دونوں بھاگ گئے تھے۔ پھر یہ طبری کی طرف روایت منسوب کرتے ہیں۔ جنگ حنین کے متعلق بھی۔ لکھا ہے کہ طبری پڑھ کے دیکھ لو۔جنگ اُحد میں بھی یہ کہتی ہے۔ بھاگ گئے دونوں۔ یہ سب ۔ اور جنگ حنین میں بھی بھاگ گئے۔ طبری کا جنگ احد کا حوالہ میں پڑھ چکا ہوں اس میں بھاگنے کی بجائے ان کے ثابت قدم ہونے کی گواہی موجود ہے اور حنین کے متعلق طبری یہ گواہی دیتا ہے۔ ’’قد بقی مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفر من المھاجرین والانصار و اھل بیتہ ممن سبق معہ من المہاجرین ابی بکر و عمر و من اھل بیتہ علی بن ابی طالب وغیرہ وغیرہ کہتا ہے کہ طبری (جلد سوئم صفحہ نمبر 128) کہ وہ لوگ جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور باقی رہے نفر من المھاجرین والانصار وہ مہاجرین کی بھی ایک جماعت تھی اور انصار کی بھی ایک جماعت تھی اور اہل بیت بھی اس میں شامل تھے ان میں سرفہرست جو نام لکھتا ہے۔ طبری‘ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ا ب بتائیے کتنا واضح جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ تفسیر قرآن کے نام پر بیٹھے جھوٹ بنا رہے ہیں اور روایتیں یہ ایسی ایسی عجیب گھڑتے ہیں پھر کہ میں آپ کوایک روایت سنائوں گا۔اب سمجھ نہیں آئی کہ اس پر آدمی روئے یا ہنسے کچھ اور کرے وہاں بیٹھ کے یا پیٹے ان کے دماغ کو۔
اب دیکھئے تاریخ الاسلام کا حوالہ ہے۔ حافظ شمس الدین زہری کی کتاب ہے۔ اس میں وہ جنگ حنین کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ مہاجرین میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آخر تک ثابت قدم رہے ہیں ان میں ابوبکرؓ اور عمر ؓ بھی تھے۔ ابن خلدون مشہور مؤرخ ہیں یہ لکھتے ہیں جلد نمبر ۲ صفحہ ۴۶
ناشر موسسہ جمال للطباعۃ و النشر بیروت 1989ئ
وثبت معہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ‘ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ و علی رضی اللہ تعالٰی عنہ و عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہنے والوں میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں شامل تھے اور ان سب کا نام ان دونوں کا نام ان سب روایتوں میں سرفہرست ہے۔ ھذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الیمین و معہ نفر قلیل منہ ابوبکر و عمر و علی و عباس۔ یہ روایت ہے السیرۃ الحلبیۃ سے اس میں صاف طور پر اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ان مخلصین میں سرفہرست درج ہے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ حنین میں وفا کرتے رہے۔ وفا دکھاتے رہے۔ آخر وقت تک ثابت قدم رہے۔ اس کے برعکس شیعوں نے بعض روایتیں گھڑی ہوئی ہیں وہ میں آپ کوابھی سناتا ہوں۔پہلے تو میں آپ کو نمونے بتاتا ہوں۔ کہ یہ لوگ کس طرح روایتوں کا حلیہ بگاڑتے ہیں اور اگر یہی ان کا تقیہ ہے تو یہ ایک بڑا ملعون طریق ہے اس کو کسی دنیا کے سچے مذہب میں قبول نہیں کیا جاسکتا بلکہ ناممکن ہے کہ کسی سچائی کے ساتھ بھی تقیہ کا یہ تصور اکٹھا قائم رہ سکے۔ مذہب تومذہب عام دنیا کے سچائی کے معیار کے مطابق بھی یہ تقیہ ،تقیہ نہیںجھوٹ ہے جو یہ اختیار کرتے ہیں۔ اب نمونے دیکھیں ان کی روایتوں کے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ جب بھی آپ شیعہ کتب میں کچھ روایتیں دیکھتے ہیں ۔ حوالے دیکھتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ اصل کتاب کا تتبع کریں اور مطالعہ کرکے خود معلوم کریں کہ کیا لکھا گیا ہے ورنہ ایک سرسری قاری جس طرح بہت سے انگریزی پڑھنے والے اس روایت سے گذر جائیں گے۔ ا نکو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم کس جھوٹ کا مطالعہ سندوں کے حوالے سے کررہے ہیں۔ ان اسناد میں تو ا ن باتوں کا کوئی ذکر نہیں جو بیان کی جارہی ہے۔ نمونہ آغا محمد سلطان مرزا محمد دہلوی صدر شیعہ مجلس اوقاف دہلی‘ اپنی کتاب البلاغ المبین صفحہ166 پر یہ درج کرتے ہیں۔ حدیث جس کا اَخرجہ الترمذی کہتے ہیں یہ جو ہم حدیث بیان کررہے ہیں اس کو ترمذی نے نکالا ہے۔ اخرج کا مطلب ہے اس نے درج کیا۔ وہاں سے لی ہے میں نے۔ حدیث ہے عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرتضیٰ میں چار صفات ایسی ہیں جو ان کے سوا کسی اور میں نہیں ہیں۔ وہ عرب و عجم میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی نماز اسلام کی پڑھی۔ دوسری یہ کہ ہر ایک جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ا ن کے ہاتھ میں تھا ۔ ہر ایک جنگ میںحالانکہ ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کسی اور کو دیا تھا وہاں اُحد میں۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے کسی جنگ میں فرار نہیں کیا۔حالانکہ تمام صحابہ اکثر جنگ سے بھاگ گئے۔ اب احد اور حنین کا قصہ ہی نہیں رہا باقی۔ترمذی کی حدیث یہ ساتھ لکھ رہے ہیں ثابت کررہی ہے کہ علی کی خصوصیات میںیہ ہے کہ کسی میں نہیںبھاگے۔ ہر جنگ میں علم ہاتھ میں تھا اور جبکہ اکثر صحابہ تمام جنگوں سے بھاگ گئے۔ چوتھی یہ کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا اور قبر میں اتارا۔ ان کی کتاب کا حوالہ ہے۔ البلاغ المبین حصہ اول صفحہ ۱۶۶ ناشر امامیہ کتب خانہ موچی دروازہ لاہور۔ یہ موچی دروازے سے ہی چھپی ہوئی سجتی ہے ۔یہ کتاب۔ اب اصل حدیث ملاحظہ ہو کہ ترمذ ی میں صرف یہ الفاظ ہیں۔ یہ تو ترمذی کی حدیث وہ دیکھ لی ہے ساری۔چھان بین کے بعد بتا رہا ہوں۔
ترمذی میں جو حدیث ہے وہ یہ ہے عن ابن عباس قال اول من صلی علی ابن عباس سے روایت ہے کہ جو پہلا شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مراد ہے نماز پڑھی تھ وہ علی تھے بس ۔یہ ساری باقی روایت جو اپنی طرف سے گھڑ کے داخل کی گئی۔ یہ ان کی روایتوں کا حال ہے بیٹھے بنائے جارہے ہیں تاویلیں کرتے چلے جاتے ہیں اور تقیہ میں پناہ مانگ رہے ہیں غالباً اپنے لئے ۔ پھر دوسرا نمونہ ان کے دجل اور فریب کا دیکھ لیجئے۔ ایک صاحب ہیں علامہ کہلاتے ہیں علامہ سید غلام علی شاہ صاحب ان کے ساتھ مناظرہ ہوا تھا۔ جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں1923ء میں۔ حضرت عمر کے مزعومہ فرار غزوہ احد کے ثبوت میں۔انہوں نے علی اعلان در منثور للسیوطی جلد نمبر2صفحہ28 اور صفحہ80 کا ذکر کیا کہ دیکھووہاں تو صاف لکھا ہوا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مان رہا ہے کہ میں بھاگ گیا تھا اور تم لوگ ابھی ضد کررہے ہو کہ نہیں بھاگے۔ وہ کہتا ہے میں بھاگ گیا تم کہتے ہو نہیںبھاگے۔ اب جو اصل عبارت ہے وہاں وہ یہ ہے۔ روایت کرنے والا کہتا ہے اصل الفاظ میںبتاتا ہوں تفرقنا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم احد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ایک موقعہ آیا کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بچھڑ گئے۔ یعنی ہلہ اتنا تیز تھاکہ اس میں صحابہ بکھر گئے ہیں ادھر ادھر۔ اب یہاں فرار کا کہاں ذکر ہے کہ میں بھاگ گیا چھوڑ کر۔ یہ اپنی طرف سے بات بنالی اور اس طرح ان کی روایتیں چلتی ہیں۔ کوئی اصل کوئی بنیاد ہوتی نہیں وہاں اور اپنی طرف سے قصے گھڑ گھڑ کر روایتیں منسوب کرتے اور پھر پوری روایت لکھتے نہیں ہیں صرف اشارہ کردیتے ہیں۔ یا لکھتے وہ ہیں جیسے کہ میں نے بیان کیا سب فرضی کہانی۔ کوئی اس کا وجود نہیں ہے۔تفرقنا کا معنی فرار آپ دنیا کی ڈکشنریاں اٹھا کے دیکھ لیں۔ کہیں نہیں ملے گا آپ کو۔کسی شیعہ نے کوئی ڈکشنری لکھی ہے کہ نہیں۔ دیکھنے والی ہوگی۔
تیسرا نمونہ شیعہ لیڈر ابو عرفان سید عاشق حسین صاحب نقوی اپنی کتاب اصحاب رسول کی کہانی میں لکھتے ہیں۔ ابوبکر جنگ احد کو یاد کرکے رو پڑتے تھے کہتے تھے کہ غزوہ احد سے جب میں بھاگا تھا تو سب سے پہلے لوٹ کر بھی میں ہی آیا تھا۔ کیسی کیسی کہانیاں گھڑتے ہیں یہ مجلسی لوگ۔ جو سُنی ہیں ان کے دل نرم کرنے کیلئے وہ بھی مجلس میں نہ آئے بیٹھے ہوں۔کسی طرح ادب سے ذکر کرتے ہیں۔ اوہو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیچارے ذکر کرتے ہوئے رو پڑے تھے کہ جب میں بھاگا تھا ناں تو پھر میں واپس بھی میں ہی آیا تھا پہلے اور حوالہ تاریخ الخمیس کا دیا ہے۔ یہ وہی حوالہ ہے جو میر صاحب نے بھی دیا ہے کہ کتاب الخمیس سے بھی ثابت ہوگیا کہ یہ احد میں بھی بھاگ گئے اور حنین میںبھی بھاگ گئے وہ روایت یہ ہے ’’قال ابوبکر لما صرف الناس یوم احد عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کنت اول من جاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فجعلت انظر الی رجل خلفی بین یدیہ یقاتل عنہ و یحمیہ وجعلت اقول کن طلحۃ فداک ابی و امی مرتین۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہیں وہی بات کہ جب اچانک جنگ احد میں لوگ بکھرے ہیں صرف الناس اپنے بھاگنے کا کوئی ذکر اشارہ بھی نہیں ہے۔تو میں جو پہلا آدمی جولپکا ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف وہ میں تھا۔ جب لوگ بھاگ رہے تھے تو میں آنحضور کی طرف دوڑ رہا تھا۔ اور اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کے سامنے ایک شخص بڑے اخلاص اور فدائیت کے ساتھ آپ کا دفاع کررہا ہے۔آپ کو بچا رہا ہے میں نے کہا کن طلحۃ میں جانتا تھا کہ طلحہ میںیہ جذبہ ہے میں نے کہا اے تو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہو جا۔ یعنی تو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہو۔ دیکھا تو وہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھا۔ یہ روایت ہے یہ میر صاحب اور یہ مجلسی لوگ حسین نقوی وغیرہ کہتے ہیں۔دیکھ لو اصحاب رسو ل کی کہانی میں لکھتے ہیں کہ ابوبکر یاد کرتے تھے رو پڑتے تھے۔ کہتے جب میں بھاگ گیا تھا توپھر لوٹ کے بھی تو میں ہی پہلے آیا تھا۔ بڑا ہی جھوٹ بولتے ہیں اللہ ہی رحم کرے۔
چوتھا نمونہ جلال پور جٹاں کے مناظرے میںہی سید غلام علی شاہ صاحب کہتے ہیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو اپنے بھاگنے کا اقرار کرلیا۔ کہتے ہیں راوی کا بیان کہتے ہیں۔
فلحقت عمر فقلت مابعض الناس قال امر اللہ عز و جل ثم رھبوا وجلس۔ یہ ہے اصل روایت جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنے فرار ہونے کا اقرار کر لیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق جو روایت ہے و ہ صرف اتنی ہے کہ کسی نے ۔کون ہے وہ راوی ؟اس میں میں دیکھ کے بتاتا ہوں آپ کو۔بہرحال جو بھی راوی ہے ۔ اس کے الفاظ صرف اتنے ہیں کہ میں نے عمر کو میں ایک دفعہ عمر سے ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ لوگوں کا کیاحال ہے کیا ہو رہا ہے یا کیا ہوا۔ قال امر اللہ عزو جل ثم رھبوا وجلس النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ النبی صلی اللہ علیہ وسلم رھبوا کی طرف ضمیر ہے اور جلس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی ہوگی جلس النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا ان سے پوچھا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے انہوں نے فرمایا ! اللہ کا حکم ہے اللہ کی تقدیر تھی ویسا ہی ہوگیا۔ اس کے بعد لوگ لوٹ آئے پھر وہ واپس بھی آئے ہیں۔ پھر جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔ یہ روایت ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بس۔ اب چونکہ روایت کوئی نہیں ملتی تھی انہوں نے ایک عجیب و غریب روایت خود گھڑ لی۔ جس کی نہ کوئی بنیاد بتاتے ہیں نہ موجود ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھاگنے کا قصہ ثابت کرنے کیلئے جو یہ ایک نصیبہ کی روایت انہوں نے بتائی ہے۔ عجیب دلچسپ روایت ہے سننے کے لائق ہے۔ کہتے ہیں کعب کی بیٹی نصیبہ وہاں ایک طرف کھڑی تھی اور جنگ حنین سے صحابہ بھگدڑ دوڑے چلے جارہے تھے۔ بھاگتے ہوئے ان کو ہوش نہیں تھی۔ اور وہ رستے میں کھڑی ان پر مٹی پھینکتی جاتی تھی۔ منہ پر کہ خاک پڑے تم پر کہ تم کیا کررہے ہو خاک پڑے تم پر اور وہاں ہی جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہاں سے گذر ہوا بھاگتے ہوئے۔ تو نصیبہ نے آپ کے منہ پر بھی مٹی ڈالی۔ اور کہا کیا ہوگیا ہے۔ کہنے لگے اللہ کی تقدیر ہے اب میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کوئی بنیاد نہیں۔ سر سے پائوں تک جھوٹا حوالہ بھی نہیں دیا اس لئے۔ اگر دیا ہے تو اپنی کسی تفسیر صافی وغیرہ کا دیا ہے ۔ جس کی آگے کوئی اصل نہیں ہے۔ کوئی آگے روایت نہیں ۔کہاں سے پکڑی گئی ۔ کسی مصنف نے لکھتے لکھتے ایک آیت لکھ دی ہے۔ یہ ہے ان کا مبلغ علم اور یہ ہے ان کی سچائی کا معیار۔ یہ کیا ہے۔ ہاں۔ اب دیکھئے آخری بات اس ضمن میں قطعی طور پر جو قابل ذکر ہے جس کو نہ شیعہ بیان کرتے ہیں نہ ہی مستشرقین بیان کرتے ہیں۔ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں۔ لیکن دراصل تان اس پر ٹوٹتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق یہ الزام کہ وہ جان بچانے کیلئے عمداً بزدلی سے بھاگے تھے اور پھر یہ مستشرقین کے دعوے کہ یہ جنگ جو تھی یہ آخری طور پر دشمنوں کی فتح پر منتج ہوئی ہے اوروہ فتح مند لوٹے ہیں ان دونوں باتوں کو جھٹلانے کیلئے حمراء الاسد۔ کا واقعہ ہمیشہ ہمیش کیلئے تاریخ میں ان الزام لگانے والوں کو جھوٹا ثابت کرتا رہے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے دوسرے روز ہی صبح ہی دوبارہ دشمن کے تعاقب میں چل پڑتے ہیں۔ اور تمام ان صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو شرکت کررہے تھے۔ وہ بھاگے یا نہ بھاگے ان سب کو ارشاد ہے کہ میرے ساتھ چلو۔ اور اس وقت کوئی احد کا پہاڑ ان کے پیچھے نہیں تھا۔ ان کی حفاظت کیلئے۔ مدینے سے آٹھ میل دور جہاں دشمن نے پڑائو کیا ہوا تھا۔ اور یہ ارادے باندھ رہا تھا کہ اب واپس جا کر مدینہ پرحملہ کریں اور اپنی فتح سے وہ فوائد حاصل کریں جو ہم حاصل نہ کرسکے۔ ایسے دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے یہ زخمی اور تھکاوٹ سے چور صحابہ رضی اللہ عنھم کی جماعت تھی جس کو لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ان سب کو ساتھ رہنے کا حکم ہے اور یہ حکم ہے کوئی اور شخص نہیں جائے گا۔ جس نے اس پہلی جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
مستشرقین کہتے ہیں کہ لوگ بغاوت پر تیار بیٹھے تھے اسلئے اللہ نے حکم دے دیا کہ نرمی کرو رنہ بڑی سخت بغاوت ہو جائے گی اسلام کا کچھ باقی نہیںرہے گا۔ اور یہ نعوذ باللہ من ذٰلک یہ باغی تھے۔ ان کے ساتھ چلنے کا عالم جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں اور میرا بھائی دونوں اتنے زخمی تھے اور ہمارے پاس سواری کوئی نہیں تھی کہ ہم نے سوچا کہ ہم کیسے چلیں تومیں چونکہ نسبتاً کم زخمی تھا میںنے فیصلہ کیا کہ کبھی کبھی میں اس کو پیٹھ پر اٹھ لیا کرونگا۔ یہ سواری بنے اوروہ زخمی بھائی پیٹھ پر تھے۔ یہ ہیں وہ بزدل صحابہ نعوذ باللہ من ذلک جو بکریوں کی طرح چٹانوں سے چٹانوں پر ہوتے ہوئے چھلانگیں مارتے جارہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرمایا ہے۔ یا اللہ نے معاف فرمایا ہے۔ اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ عمداً جرم کے طور پرنہیںبھاگے۔ مجرم بنتے ہوئے نہیں بھاگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیوفائی کرتے ہوئے نہیںبھاگے۔ بعض دفعہ جنگ کے ریلوں میں ہوجاتا ہے اور انسان کا بس نہیں رہتا۔ اس سے بڑا ثبوت ان کے اخلاص کی تائید میں اور تاریخ عالم میں کہیں آ پکو دکھائی نہیں دے گا۔ کہ کبھی کسی قوم کے اخلاص کے حق میں ایسا ثبوت پیش کیا گیا ہو ۔ یہ گئے ہیں اور وہاں جاکر تین دن تک پڑائو کرکے بیٹھے رہے ہیں۔ انہی زخموںکی حالت میں اورایک بھی ایسا نہیں جس نے نافرمانی کی ہو۔ اور وہ پیچھے ہٹا ہو۔ اور دشمن سامنے پڑائوکئے ہوئے بیٹھا تھا قریب ہی وہ ایک دوسرے کی رات کو جلتی ہوئی آگیں دیکھتے تھے اور دشمن کو یہ موقعہ نہیں ملا۔ یہ جرأت نصیب نہیںہوئی۔ کہ باہر آئے ہوئے قریب پہنچے ہوئے۔ ان کمزوروں کے اوپر دوبارہ ہلہ بول کر ان سب کو ملیا میٹ کردیتا۔ یہ وہ رعب والا واقعہ ہے جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا تھا کہ میں اپنے اس مضمون کے آخر پر بیان کروں گا۔ قرآن کریم نے وہاں جو رعب کی وجوہات بیان فرمائی ہیں ۔ یہ بات خاص میں نے کہا تھا تعجب کے لائق ہے یا قابل غور ہے کہ یہاں مومنوں کی شان بیان نہیں کی رعب کیلئے بلکہ شرک کی اندرونی کمزوریاں بیان فرمائی ہیں کہ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیںکہ تمہیں ایک اور بھی نمونہ رعب کا دکھائیں گے۔ اور وہ نمونہ یہ ہوگا کہ تمہاری طاقت سے مرعوب نہیں ہوگا دشمن۔ لیکن شرک کے اندر اندرونی انکی تعمیر میںجو خرابی مضمر ہے وہ خرابی ان کے اوپر خوف طاری کردے گی اور وہ ڈر جائیں گے اور ثابت ہوگا کہ توحید کے بغیر کوئی قوم دنیا میں سچی بہادر نہیںہوا کرتی۔ پس وہ جو رعب کا وعدہ تھا وہ اب پورا ہورہا ہے حمراء الاسد کے حوالے کے بغیر وہ بات ہی نہیں بنتی۔ تبھی مستشرقین کہتے ہیں۔ آگے ہوگئی ہوگی پیچھے ہوگئی ہوگی۔ سمجھ نہیں آتی وہ کونسا رعب تھا وہاں تو ان پہ رعب پڑتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اور وہ وعدہ ہے مستقبل کا ماضی کی بات ہی نہیں ہے۔اس وعدے کے معاً بعد یہ فرما رہا ہے اس سے پہلے یہ سب کچھ گذر چکا ہے۔ تو جب فرما چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ اس سے پہلے جنگ احد میں جو واردات گذریں سب گذر چکی تھی تو ظاہر ہے کہ اس کے اوپر اس رعب کے وعدے کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔وہ یہ موقعہ ہے تین دن رات وہاں پڑائو کرکے بیٹھے رہے ہیں۔ دشمن کی فوج پوری طرح تازہ دم تھی کل 9 توان میں سے مارے گئے تھے ان میں بڑے بڑے سوار موجود تھے خالدبن ولید جیسے کہنہ مشق۔ اس وقت توکہنہ مشق نہیںہونگے۔ مگر ابھرتے ہوئے ایک فوجی جرنیل تھے وہ بھی ان میں موجود تھے اور ان کو جرأت نہیں ہوئی تاریخ دانوں نے بہت سی روایتوں کی طرف توجہ دی ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ کیوں رعب پڑا۔ ایک ایسے قبیلے کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جن کے سردار وہاں سے گذرے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حمراء الاسد میں پڑائو ڈالے ہوئے تھے۔ رئیس مبعد خزاعی چونکہ قبیلہ خزاء کا سردار تھا کہتے ہیں وہ گذرا تھا اور وہ وہاں سے ہوکر پھر وہ ابوسفیان کے پاس گیا ہے اور اس کو اس نے ڈرایا اور اس لئے وہ ڈر گیا یہ عجیب بات ہے کہ قران کریم کی واضح گواہی کو چھوڑ کر ان روایتوں پر انحصار کیا جارہا ہے سبب خدا نے جو بھی پیدا کیا۔ اس سے بحث نہیں ہے۔ قرآن کھلا کھلا صاف بتا رہا ہے کہ اس روک کی وجہ شرک کی اندرونی کمزوری ہے۔ بت پرستی میں ایک بزدلی نہاں ہے جو اس موقعہ پر ابھرے گی اور ہم تمہارا رعب ان کے شرک کی وجہ سے ان پر ڈالیں گے۔ پس آخری جو فیصلہ کن بات جنگ احد کی ہے وہ یہ ہے کہ فتح مسلمانوں کی ہوئی ہے۔ ورنہ تاریخ عالم میں کوئی مثال نکال کے دکھائو۔ مشرق و مغرب شمال و جنوب جو چاہو مطالعہ کرلو۔ ایک مثال ایسے واقعہ کی دکھائو۔ اس طرح فوج بظاہر مار کھا کر بدکی ہوئی دوڑتی پھرتی ہو اور دشمن اور معاندیہ آوازیں کس کس کے چسکے لے رہا ہو کہ بکریوں کی طرح چٹانوں پر سے ہوتے ہوئے دوسری چٹانوں پر چھلانگیں مارتے ہوئے بھاگ رہے تھے۔ سب نے بے وفائی کی سب نے پیٹھ دکھا دی۔ صرف ایک علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جن کا ایک رعب باقی رہا اور کوئی رعب والا باقی نہیں تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں لیتے وہاں۔ اور وہ رعب کیا تھا وہ میں نے بتادیا ہے وہ کھڑے اسی طرح دندنا رہے تھے کسی نے کوئی اس رعب کا ذکر نہیں کیا اور عجیب بات یہ ہے ۔ جومجھے تعجب میں ڈالتی ہے کہ مورخین نے بعد میں خالد بن ولید سے کیوں نہیں پوچھا کسی پوچھنے والے نے۔ ابوسفیان جو حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے کھڑا تھا اس سے کیوںنہیں پوچھا۔ وہ تو لشکر کا سردار تھا۔تویہ شیعہ ان کی روایات کیوں نہیں بیان کرتے۔اگر یہ روایت سچی ہوتی کہ آسمان سے آواز آئی تھی۔ جبرائیل کی کہ ’’لاسیف الا ذوالفقار ولا فتی الا علی‘‘ تو ان لوگوں کو سنانے کیلئے ڈرانے کے لئے تو آواز آئی تھی حضرت خالد بن ولید نے کہیں اشارۃً بھی اس کا ذکر نہیں کیا ۔ اتنی عمر زندہ رہے۔ اتنی دیر اسلام کی خدمت کی۔ اتنے لشکروں کی کامیاب جرنیلی کے فرائض کامیاب قیادت کی اور سیادت کی۔ اس حال میں بستر پر جان دی کہ اپنے بدن سے کپڑا اٹھایا اور رو رہے تھے کہ دیکھو کوئی ایک انگلی رکھنے کی جگہ نہیںہے جہاں مجھے خدا کی خاطر زخم نہ پہنچے ہوں۔ مگر افسوس میری شہادت کی تمنا پوری نہ ہوئی۔ اور آج میںبستر پر جان دے رہا ہوں۔ اس گواہی تک ایک بھی گواہی نہیں۔ کہ ہم جنگ احد میں کامیاب ہونے کے باوجود جنگ کے فوائد سے فائدہ اٹھائے بغیر کیوں واپس لوٹ گئے۔ فتح کے جو طبعی فوائد ہیں وہ ہم نے کیوں حاصل نہ کئے۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ اس روایت کی کوئی بنیادہی نہیں۔ بالکل جھوٹ ہے اور نہ ان کی ادائیں رعب والی نظر آتی ہیں۔ اگر رعب ایسا تھا تو جیسا کہ احمد علی صاحب نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ وہاں رکے بغیر سیدھا مکے پہنچ کے کیوں نہیں دم لیا۔ میر صاحب تو کہتے ہیں کہ وہ بھاگے ایسا بھاگے وہاں سے یہ آواز سن کر حضرت جبریل کی کہ سیدھا پھر جا کے مکے پہنچ کے دم لیا ہے۔ اس آواز کو سن کر وہ مسلمان کیوں نہیں ہوگئے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ سہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلیتے۔ پھر یہ جنگ احزاب کا واقع کیوں پیش آیا۔ عجیب و غریب روایت ہے اور رعب کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنے کی کوئی تک کوئی بنیاد ہی نہیں بنتی۔ لیکن یہ رعب ہے جو میںبتا رہا ہوں۔ حمراء الاسد پھر پہنچتے ہیں۔ یہی زخمیوں والا قافلہ آتا ہے۔ وہاں تین دن تک پڑائو پکڑتا ہے۔ انتظار کرتا ہے کہ دشمن واپس لوٹے۔ ہم پھر اس کا مقابلہ کریں اور وہ بغیر حملہ کئے واپس چلا جاتا ہے۔ یہ وہ رعب کی فتح تھی جس رعب کا اس آیت میں وعدہ دیا گیا تھا اور ان تمام صحابہ کے اوپر جو بزدلی اور فرار کے داغ لگے تھے۔ اس واقعہ نے ان کو دھو دیا ہے۔ کوئی نشان باقی نہیں چھوڑتا۔ ورنہ یہ ہمیشہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہتے۔ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھیں۔ کتنے عظیم الشان جرنیل ہیں۔ خدا سے جو فتح و نصرت کے وعدے تھے وہ تو اپنی جگہ لیکن آپ کی جو سیادت اور قیادت کی شان ہے وہ عجیب شان ہے۔ اگر جرنیلی کے طور پر بھی دیکھا جائے تو دنیا کے پردے میں ایسے جرنیل آپ کو دکھائی نہیں دے گا۔ ایسے عظیم الشان آپ نے جنگی حربے استعمال کئے ہیں۔ ایسی عمدگی سے میدان جنگ کو سجایا ہے اور بتایا کہ کہاںکس نے ٹھہرنا ہے۔ ایک ایک آدمی کو ساتھ جاکے بٹھایا کرتے تھے۔تم نے یہاں رہنا ہے تم نے وہاں رہنا ہے یہ تاریخ حرب آپ پڑھ کے دیکھ لیں دنیاکی آپ کو کوئی مثال دکھائی نہیں دے گی اس نے کارلائل (Carlyle) نے تو لکھا ہے He was the prophet یعنی Hero and Hero worship میں وہ مختلف مثالیں چنتا ہے اور نبی کی مثال کے طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولیتا ہے۔ مگر میں نے غور جو کیا ہے ہر اعلیٰ انسانی خوبی میں اگر کوئی کتاب Hero and Heroes worship کی لکھی جائے تو ہر فہرست میں سر فہرست حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہوگا۔ ایک دانش ور کے طور پر۔ ایک عظیم سیاست کی فہم رکھنے والے کے طور پر۔ حربی فنون میںایک بے مثل جرنیل کے طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کرکبھی دنیا میں کوئی پیدا نہیں ہوا۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو شیعہ الزام ہے۔ وہ بہت ہی خوفناک ہے اور اس کا ذکر میں بعد میں کرکے اس کا جواب دونگا۔جہاں وہ روایت ہے کہ اہل بیت بس یہی تھے اور ان کے سوا کوئی پاک نہیں رہا تھا۔ اب میں اس کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بعض تحریرات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقام کا حقیقی مقام کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کے عشق کا جیسا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میںہے۔ اس کی اور آپ کو مثال کہیں دکھائی نہیں دے گی۔ لیکن شیعہ یہ شرارت کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات کو پیش کرتے ہیں۔ تاکہ شیعوں میں احمدیت کے خلاف بغض و عناد پھیلے اور یہ ثابت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی بڑی سخت ہتک کی ہے اس میں جو ان کے الزام میں سب سے نمایاں طور پر جو شعر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے۔ (دیکھتا ہوں‘ بتاتا ہوں‘ اچھا ٹھیک ہے)
فھذا علی الالسلام احدی المصائب
لدی نفحات المسک قزر المقنطر
شعر کا ترجمہ یہ ہے پس اسلام کے اوپر مصیبتیں ٹوٹ پڑی ہیں۔ اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کستوری کی خوشبوکے پاس گندگی کا ڈھیر لگا دیتے ہیں یہ سارا قصیدہ توحید کی تائید میں شرک کے خلاف ایک جہاد پر مشتمل ہے اور اس ضمن میں ذکر فرماتے ہیں کہ دیکھو تم نے بھی بہت بڑے پاک لوگوں ‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ وغیرہ وغیرہ پر۔ دراصل شرک کا بہتان باندھ دیا ہے۔ جب تم ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہو۔ ان سے منتیں مانگتے ہو۔ تو شرک میں مبتلاء کرتے ہو۔ اور نعوذ باللہ ان کو جھوٹا خدا بنا لیتے ہو۔ اب یہ بہت بڑا ظلم ہے ان کی پاک ذات پر اور اسلام پر یہ بڑا بھاری ظلم ہے۔ کہ ایک طرف توحید اور ایک طرف شرک ۔ توحید کی خوشبو کو مشک کی خوشبو سے تشبیہ دی ہے۔ اور شرک کو گندگی سے۔ کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہوئے جانتے ہوئے کیوں کہ اس قصیدے میں اس کی کوئی گنجائش بنتی ہی نہیں ہے جو یہ بات بنا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ حضرت حسین علیہ السلام کوگندگی سے تشبیہ دی ہے۔ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں آپ کی زندگی میں آئی ہے اور اس کے رد میں جو آپ نے فرمایا ہے میں آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں۔ اس کے باوجود ان کا طریقہ یہ ہے ۔بعض ایسی روایات ملتی ہیں کہ جہاںکسی شیعہ کے پاس احمدی کا کیس ہو۔ تواس کو پیچھے پیچھے کان میں جا کر پھونکتے ہیں کہ ان کے حق میںفیصلہ کرو گے یہ دیکھو یہ کیا لکھا ہوا ہے۔ اب اس کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اصل حقیقت کیا ہے اس سے تعصب میں مبتلا ہوکر بعض دفعہ وہ ظالمانہ فیصلے کردیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الزام کے جواب میں فرمایا ! میں نے اس قصیدے میںجو امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے۔ دونوں وہی مضمون ہیںکہ وہاں بھی شرک کرتے ہوئے ان دونوں پاک بزرگوں پر تم نے معبود ان باطلہ بننے کا الزام لگادیا ہے گویا وہ بھی اس بات میں شریک ہیں یہ ہے طرز استدلال۔ فرماتے ہیں ’’ میں نے اس قصیدہ میں جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے یہ انسانی کارروائی نہیں ہے۔ خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے راستباز پر بد زبانی کرکے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ (مطلب ہے روحانی موت ہے اس کے لئے) اور وعید من عادی ولیا لی دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے (یہ جو وعید ہے کہ جو میرے ولی کا دشمن ہو میں اسکا دشمن بن جاتا ہوں) پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے۔‘‘
ضمیمہ نزول المسیح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۹ صفحہ ۱۴۹
یہ ہے اس کا جواب اس جھوٹے الزام کا۔ اور کئی دفعہ آج کل اس زمانے میں بھی پاکستان سے بعض بچے بچارے مجھے خط لکھتے ہیں کہ یہ ہمارے متعلق دیواروں پہ لکھا جار ہا ہے سکول میں ہمیں تکلیف دینے کیلئے یہ مشہور کرتے ہیں کہ دیکھو انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ لکھ دیا اور لوگ ہمیں طعنے دیتے اور مارتے اور گالیاں دیتے ہیں تو یہ سب اُن کے افتراء کی باتیں ہیں اس کا حقیقت سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں فرماتے ہیں! ملفوظات جلد نمبر ۶صفحہ ۲۸۲ ’’حضرت عیسیٰ اور امام حسین کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ امام حسین کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا لیں مگر ان کے اصل رتبہ اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز تحقیر نہیں کرتے۔ یہ جھوٹا الزام ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا وہ بلا شبہ دونوں معنوں کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل تھے لیکن کلام اس بات میں ہے کہ کیوں آل کی اعلیٰ قسم کو چھوڑا گیا ہے اور ادنیٰ پر فخر کیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں ہم تو صرف یہ گفتگو کرتے ہیں کہ تم آل کی اعلیٰ قسم کو نظر انداز کردیتے ہو۔ جو روحانی آل ہے اور محض جسمانی آل پر زور دیتے ہو اور روحانی آل والوں کو اس مضمون سے ہی باہر نکال پھینکتے ہو۔ تعجب کہ وہ اعلیٰ قسم امام حسن اور حسین کے آل ہونے کی یا اور کسی کے آل ہونے کی۔ جس کی رو سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی مال کے وارث ٹھہرتے ہیں اور بہشت کے سردار کہلاتے ہیں یہ لوگ اس کا تو کوئی ذکر ہی نہیں کرتے اور ایک فانی رشتے کو بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ جس کے ساتھ روحانی وراثت لازم و ملزوم نہیں ہے۔
یہ ہے گفتگو جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے ان معنوں میں اٹھایا ہے۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے مرتبہ اور مقام کی بات میں بتا رہا ہوں۔ یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ شیعوںنے نعوذ باللہ پہلے تین خلفاء پر الزامات عائد کئے ہیں اور ظلم توڑے ہیں۔ اس لئے کس طرح بھی نعوذ باللہ من ذلک حضرت علی کیلئے دل میں کہیں کوئی میل کا ایک معمولی سا شائبہ بھی آپ کے دل پہ طاری ہوجائے۔ اگر اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آپ کے دل پر میل آئے تو یہ ہلاکت کی نشانی ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قطعاً کوئی ادنیٰ بھی حصہ اس میں نہیں ہے کہ پہلے تین خلفاء کے اوپر بدزبانی کی جائے‘ گالیاں دی جائیں۔ آپ نے جب بھی ذکر فرمایا محبت اور احترام سے ذکر فرمایا‘ جب تک ان کی بیعت میں رہے اور ہمیشہ رہے۔ آخر دم تک رہے ان کے ساتھ کامل وفا کی ہے۔ ان کے ہر اشارے پر لبیک کہا ہے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ پر الزام ہے اور ہر گز ان پر کوئی حرف کسی قسم کا نہیں ہے۔ بعض سنی بعض دفعہ زیادتی کرتے ہوئے۔ بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب الزامات کو بھی پیش کرنا شروع کردیتے ہیں کہ آپ سے اس طرح رسول اللہ صلعم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچا۔ آپ پر شادی کے معاملہ میں یہ الزام لگا وہ ہوا یہ ناپاک طریق ہیں۔ میں اس کو جماعت میں بالکل پسند نہیں کرتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاک وجود پر کسی قسم کا اتہام دوسرے کی روایت کے طورپر بھی پیش کرنا۔ مناسب نہیںہے۔ ورنہ آپ کے دل میں آہستہ آہستہ ایک بغض کا اثر پڑناشروع ہوجائے گا۔ اور آپ دور ہونا شروع ہوجائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو الفاظ ہیں سُنیے!۔
’’آپ بڑے تقوی شعار پاک باز تھے۔ ان لوگوں میں سے تھے جو رحمان خدا کو سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں قوم کے چنیدہ لوگوں میں سے اور سادات میں سے تھے‘ خدا کے غالب شیر اور اس کے مہربان دردمند جوان تھے بڑے سخی اور پاک دل تھے‘ بے مثل شجاع تھے میدان میں جس جگہ جم جاتے اس جگہ سے ہر گز نہ ٹلتے خواہ دشمن کی فوجیں مقابل پر آجائیں۔ تمام عمر پر مشقت زندگی بسر کی۔ زہد میں نقطہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ مال و دولت دینے حاجت و تکلیف کو دور کرنے‘ یتیموں‘مسکینوں اور ہمسائیوںکی خبر گیری میں اول درجے کے انسان تھے اور معرکوں میں بہادری کے ابواب رقم کیا کرتے تھے۔ (کیسا خوبصورت کلام ہے اور معرکوں میں بہادری کے ابواب رقم کیا کرتے تھے) نئے نئے ابواب کا اضافہ ہوتا تھا۔ معرکوں کی تاریخ میں اور تیر و تلوار کی جنگ میں مظہر عجائب تھے۔ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ‘ شیریں بیان فصیح اللسان تھے۔ آپ کی بات سننے والے کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی تھی۔ اپنی گفتگو سے دلوں کا زنگ دور کردیتے تھے اور اپنی تقریر کو نور برہان سے منور کرتے تھے۔ ہر طرح کے انداز بیان پر قادر تھے اور جو اس میدان میں آپ کا مقابلہ کرتا تھا وہ اسی طرح اپنی بے بسی کا اور شکست کا اعتراف کرتا جس طرح ایک مغلوب شخص کرتا ہے۔ یعنی جس کو شکست نصیب ہوجائے ۔ آخر ماننا پڑتا ہے ہر خیر میں اور فصاحت و بلاغت کے میدان میں فرد کامل تھے۔ اب یہاں فرد کامل ایک عظیم داد تحسین ہے میں نہیں جانتا مرد کامل تھا یا فرد کامل۔ یہاں فرد کامل لکھا ہے۔ دونوں مضمون اپنی جگہ اپنی شان رکھتے ہیں۔ مرد کامل کہا جائے تو ایسے موقع پر اس کی بہادری اور جواں مردی کی ایک بہت ہی پیاری تصویر ہے اور فرد کامل کا مطلب ہے اس کی کوئی مثال اور نہیں۔ جو آپ کے کمالات کا انکاری ہو تو جان لو کہ اس نے بے حیائی کی طرز اختیار کی۔ مصیبت زدہ اور لاچار کی ہمدردی کی ترغیب دیتے تھے تنگ دستی پر قانع اور پریشان حال افراد کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے۔ اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ اور ان باتوں کے ساتھ ساتھ فرقان مجید کے معارف کے دودھ کا پیالہ پینے میں۔ سابقین میں سے تھے۔ دقائق قرآنیہ کے ادراک میں آپ کو فہم عجیب عطا کیا گیا تھا۔ میں نے آپ کو عین بیداری کی حالت میں دیکھا نہ کہ نیندمیں۔ آپ نے مجھے خدائے علام کی کتاب کی تفسیر عنایت فرمائی اور فرمایا کہ یہ میری تفسیر ہے۔ جو اب تمہیں عطا کی جاتی ہے۔ پس میں اس تفسیر کے ملنے پر خوش ہوا۔ تب میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی۔ اور خدائے وھاب و کبیر کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو نہایت مضبوط جسم والا اور گہرے اعلیٰ اخلاق والا‘ عاجز منکسر المزاج روشن اور پر نور چہرے والا پایا اور میں حلفاً کہتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محبت اور الفت کے ساتھ مجھ سے ملاقات کی۔ سر الخلافۃ صفحہ ۴۴ یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق تصور۔ تصور نہیںایسا بیان جو لفظاً لفظاً حقیقت پر مبنی ہے کوئی مبالغہ آمیزی نہیں۔ کوئی تحریر کی سجاوٹ کا خیال شامل نہیں۔ یہ آپ کے مقدس ‘ مطہر دل نے محسوس کیا۔ جو جانا جو علم آپ کو کشفاً عطا کیا گیا۔ اس کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ تصویر کھینچی ہے پس اس جہالت میں کبھی مبتلا نہ ہوں کہ اگر کسی خلیفہ پر شیعہ زبان طعن دراز کرے تو مقابل پر آپ نعوذ باللہ من ذلک۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کمزوریاں ڈھونڈ کر اپنی دلیل کو طاقت دینے کی کوشش کریں۔ یہ ایسا موقعہ ہے جہاں جیسا کہ میں نے پہلے آیت قرآنیہ کے حوالے سے آپ کو سمجھایا تھا۔وہاں زبان دراز کرنے کی اجازت نہیں ہے۔یہ سب بزرگ خدا کے پاک بندے تھے۔ خدا کے حضور حاضر ہوگئے۔ ان کے متعلق قرآنی گواہی یہ ہے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری دم تک یہ گواہی ہے کہ یہ پاک لوگ ہیں۔ ورنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز کی امامت پہ کیسے کھڑا کردیتے۔پس ایسے موقعے پر اگر تکلیف بھی ہے تو برداشت کرلو‘ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ یا آپ کے صحابہ اور ساتھی اور آل کے متعلق کوئی میلا خیال دل میں نہ آنے دو۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ طاہر اور مطہر تھا یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہے جو میں پڑھ کر سنا رہا ہوں۔ حسین رضی اللہ عنہ طاہر و مطہر تھا۔ اور بلا شبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے‘جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کردیتا ہے اور بلا شبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اورایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے۔ اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے او ر ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق تو شاذ اشارے ملتے ہیں۔ مناظروںمیں۔ مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق تو بعض شیعوں نے بعض سنیوں نے ایسا ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہے کہ ان کے مقابل پر یزید کو حضرت یزید کرکے لکھا گیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی غلطیاں ظاہر کی گئیں اور یہ بتایا گیاکہ ایسی صورت میں نعوذ باللہ من ذلک حضرت یزیدکے پاس اس کے سوا چارہ نہیں تھا جو انہوں نے کرکے دکھایا۔ یہ نہایت ہی خبیثانہ حرکت ہے۔ اور جماعت احمدیہ کا اس سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ ہم سنی العقیدہ ہونے کے باوجود ایک امتیاز رکھتے ہیں۔ ہمیں وقت کے امام نے ایک روشن دماغ او ر روشن دل عطا کیا ہے اور ہمارے دل کوحقیقی‘ سچ کے نور سے بھر دیا ہے۔ اس نور سے جو خدا سے آپ نے پایا پس شیعوں کے مقابل پر جو ہمارا موقف تھا۔ میں نے کھول کر بیان کردیا۔ کوئی اس میںبات لپٹی نہیں۔ کھول کر بتایا کہ یہ موقف ہے جو سچا ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم ان سنیوں کے ساتھ شامل ہیں جو جواباً نعوذ باللہ من ذلک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر بھی حملے کردیتے ہیں اور آپ کے دشمنوں کی تعریف کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں۔ ’’ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے۔ جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش ہو۔ یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نقوش کو اسی طرح اپنے دل پر قبول کریں کہ وہ آپ کے دل میں جلوہ گر ہوجائیں۔ جیسے ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کرسکتی۔ کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی۔ کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین رضی اللہ عنہ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیرکرتا ہے اور کوئی کلمہ استخفاف کا ان کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ جلشانہ اس شخص کا دشمن ہوجاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروںکا دشمن ہے۔
مجموعہ اشتہارات جلد نمبر ۳ صفحہ ۵۴۳
’’افاضۂ انوار الہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ (افاضہ انوار الٰہی میں ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوروں کے پہنچنے میں۔ یعنی نوروں کو تم تک پہنچایا جاتا ہے۔ جو اس میں کون کونسے محرکات و موجبات شامل ہوتے ہیں) فرمایا! محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میںایک تھوڑی سی غیبت حس سے جو خفیف سے نشہ سے مشابہہ تھی جیسے ہلکا سا طبیعت میں ایک نشہ سا آجائے ۔یعنی اس میں لطف بھی تھا ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی۔ جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پائوں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ او رمقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنھم اجمعین۔ اور ایک نے اُن میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادرمہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر بعد اسکے ایک کتاب مجھ کودی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی (رضی اللہ عنہ) نے تالیف کیا ہے اور اب علی (رضی اللہ عنہ) وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے۔ فالحمد اللہ علی ذالک۔
(براھین احمدیہ ہر چہار حصص حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ص ۵۹۸‘ ص ۵۹۹)
یہ روایت میں نے خاص طور پر اس لئے یہاں چنی ہے کہ احمدیوں پر جو ظلم کئے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اُن میں بعض خبیث فطرت لوگ اس روایت کو بھی بگاڑ کر عوام الناس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق گندے الزامات لگاتے ہیں اور یہ الزام دراصل ان پر ہی الٹتا ہے۔ ان کا خبث باطن ہے جو ایسی ناپاک بات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہیں جس کااس روایت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیںہے۔ کوئی وہم و گمان بھی کوئی شریف انسان نہیںکرسکتا کہ اس روایت میں کوئی ایسا مضمون بیان ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ کھڑے ہی حالت میں ایک کشفی نظارہ ہے۔ جن پانچ بزرگوں کے آنے کا ذکر ہے اس میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود ہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے بیٹے موجود ہیں۔ اور آپ کو ایک بچے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ورنہ اگر اپنے زانوں سے سر لگاتیں تو ایک بڑے آدمی کا سر تو زانوں کے ساتھ نہیں لگ سکتا ہے۔ صاف پتہ چلا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفی حالت میں ان سب بزرگوں کو قد آور دیکھا ہے اوراپنے آپ کو ان کے مقابل پر ایک چھوٹا بچہ دیکھا ہے اور تبھی جس طرح ماں بچے کا سر اپنی ران کے ساتھ لگاتی ہے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کشف میں جب آپ کا سر اپنی ران کے ساتھ لگایا تو وہ ران کے برابر تھا۔ یہ تو نہیں کہ دوہرا کر ہے الٹا کر نیچے لے جایا گیا۔ ایسا کوئی نقشہ تو اس عبارت سے ظاہر نہیں ہورہا ۔ ایک نہایت پاکیزہ کشف ہے مادر مہربان کا لفظ موجود ہے۔ ایک مادر مہربان کی طرح اور منظر کیا ہے باپ موجود ہے خاوند موجود ہے بچے موجود ہیں اور یہ ناپاک اور کمینے لوگ یہ گند اچھالتے ہیں اور حیاء نہیں کرتے کہ حضرت فاطمہ ؓ کے اوپر یہ بکواس کررہے ہیں۔ جب یہ ایسا گنداخیال اس سے نکالتے ہیں جو نکالتے ہیں تو الزام لگانے والے یہ ہیں اور بے حرمتی کرنے والے یہ ہیں۔ اس عالم کشف میں تو اس کا دور کا بھی اشارہ موجود نہیں۔ جو یہ بکواس حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرنے کی خاطر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر کرتے ہیں اسلئے میں یہ کھول کر بتا رہا ہوں کہ یہ جو پاکستان کی دیواریں اس قسم کی گندگیوں سے کالی کی جاتی ہیں یہ ان مولویوں کے دل کے گند ہیں۔ اور یہاں شیعہ سنی سب اکٹھے ہوجاتے ہیں یہ گند اچھالنے میں اورحیاء نہیں کرتے کہ کس کے متعلق کیا بات کررہے ہیں۔ پھر یہ کہ جان کر حوالہ وہ دیتے ہیں جومختصر حوالہ ہے۔
جب ۱۹۸۴ئ میں جماعت احمدیہ کو موقعہ ملا اور ان کو زبردستی بلایا گیا کہ نیشنل اسمبلی کے سامنے پیش ہوں اور ہم تم پر الزام لگائیں اور تم ان کو جواب دو ۔ (تو ۱۹۷۴ئ میں ۸۴ء میں نہیں) حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ اور مجھے یاد ہے یہ الزام بھی ان الزامات میں شامل تھا۔ لیکن حوالہ براہین احمدیہ کا دینے کی بجائے ایک بعد کی کتاب کا دیا جس میں مختصر ذکر تھا اس کا۔ حالانکہ ان کی انہوںنے باقاعدہ علماء کی ٹیمیں بٹھا رکھی تھیں اور نہ صرف مذہبی امور کی وزارت بلکہ امور قانون کی وزارت بھی کئی مہینوں سے دن رات کام کررہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے کوئی قابل اعتراض بات نکالی جائے۔ اوربراہین احمدیہ بھی ان کے مطالعہ میں تھی ۔ جان کے اس کو چھوڑ کر جس میں پوری تشریح موجود ہے اس مختصر حوالے کو لے لیا تاکہ لوگوں کو پتہ نہ لگے کہ کیا بات کہی جارہی ہے۔ یہ ہے مادر مہربان والا حوالہ جس سے انہوںنے سارا طوفان کھڑا کیا اور جب وہاں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ نے براہین احمدیہ سے پڑھ کر دکھایا سنایاکہ یہ ہے تو مولویوں کے منہ دیکھنے والے تھے۔ اور سارا حال جو دوسرا تھا ان کی طرف دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ یہ تھا حوالہ۔ وہ ریکارڈ تو ہوگئی ہے ساری کارروائی۔ لیکن افسوس ہے کہ وڈیو نہیں ہوسکی ۔ ورنہ آپ دیکھتے مولویوںکے چہرے اور دیکھتے کس طرح ہال میں موجود ممبران کی اکثریت اس موقعہ پر مولویوںکی طرف دیکھ دیکھ کے ہنس رہی تھی۔ لو جی آگیا جواب آپ کا۔ لیکن حیاء نہیں۔ پھر وہی بات کئے چلے جاتے ہیں۔
ازالہ اوہام میں ائمہ اثنا عشری کے متعلق لکھاہوا ہے۔ آئمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راستباز اور ا ن لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موقف تو یہ ہے کہ نہ صرف اہل بیت جسمانی اہل بیت تھے بلکہ روحانی اہل بیت بھی تھے اور اس پہلو کو زیادہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس سے دوسروں کے دل میں بھی اہل بیت بننے کی طمع پیدا ہوگی۔ ورنہ جو جسمانی اہل بیت ہیں۔ ان کا لاکھ ذکر کرتے رہو کوئی دوسرا بن ہی نہیں سکتا۔ وہ بے چارہ بیٹھا کیا سنتا رہے گا۔ فرمایااس طرف بلائو جس طرف لوگ بھی آسکتے ہیں اور جیسا بنانے کیلئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ پھر اہل بیت کی محبت میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمام ائمہ کے متعلق آپ نے ایک نہایت ہی پاک کلام میں ان کی محبت اور ان کے تقویٰ کے اوپر مہر ان کی محبت میں سرشار ہوکر ان کے تقویٰ پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ ہمارے نزدیک یہ سارے ائمہ صاف اور پاک لوگ تھے اسی لئے میں نے آئمہ کا حوالہ دیا تھا۔ کہ ائمہ خود ان باتوں کو ناپسند کرتے اور مردود قرار دیتے ہیںجو یہ الزام لگاتے ہیں ۔ اب آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ عرض کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں ۔
جان و دلم فدائے جمال محمد است
خاکم نثار کوچہ آل محمد است
دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش
در ہر مکان ندائے جلال محمد است
ایں چشمۂ رواں کہ بخلق خدا دھم
یک قطرئہ ز بحر کمال محمد است
ایں آتشم ‘ ز آتش مہر محمدی ست
ویں آب من ز آب زلال محمد است
اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم۔
٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 15 رمضان المبارک
26 فروری 1994ء
جاپان سے ایک ہمارے دوست ہیں ملک رفیع احمد انہوں نے دیکھ کر کہ کس طرح بیٹھا جاتا ہے یہاں تو ایک جاپانی کرسی بھیجی ہے جو زمین پہ بیٹھنے والی کرسی ہے۔ مجھے ان کی Fax ملی تو میں نے ان کو Fax کی کہ آپ بالکل نہ بھیجیں فوراً روک لیں۔ لیکن پھر Fax آئی کہ میں بھیج چکا ہوں۔ میں نے کہا پھر جو آئی ہے تو ضرور استعمال کرنی پڑے گی۔حضورنے حاضرین میں سے کسی دوست سے پوچھا کہ کوئی خاص چیز ہے یہ ؟ انہوں نے کہا کہ : حضور یہ جاپان میں استعمال ہوتی ہے۔ حضور نے پوچھا: آپ استعمال کرتے رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ بڑی آرام دہ ہے اس سے کمر کو تھکان نہیں ہوتی ۔
حضور نے فرمایا :مر کی تھکان کی تو میں نے کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ صرف ٹانگ کے سونے کا تھا۔ تو ٹانگ نہیں سوتی اس سے؟
انہوں نے کہا : پتہ نہیں یہ تو دیکھنے کی بات ہے۔
حضور نے فرمایا :آپ کی تو ویسے ہی نہیں سوتی میرا خیال ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان ینصرکم اللہ فلا غالب ....................واللہ بصیر’ بما یعملون O
اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرسکے گا یا مدد کرے گا۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون : پس چاہئے کہ مومن اللہ ہی پر توکل کریں اور یہ ممکن نہیں کسی نبی کیلئے کہ وہ خیانت سے کام لے اور جو بھی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اس چیز کو ظاہر کردے یا لے آئے گا جس سے متعلق اس نے خیانت کی تھی۔ پھر ہر شخص کو پورا پورا بدلہ اس کا دیا جائیگا جو اس نے کمایا اور وہ وہاں ہر گز ظلم نہیں کئے جائینگے۔جو بھی اللہ کی رضا کی پیروی کرے کیا وہ اس جیسا ہوسکتا ہے جو اللہ کی ناراضگی اور غضب کے ساتھ لوٹے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو اور کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔ھم درجٰت عنداللہ : یہ لوگ مختلف مراتب مختلف درجوں سے تعلق رکھنے والے ہیں اللہ کے حضور۔واللہ بصیر’‘ بما یعملون : اور اللہ تعالیٰ خوب اچھی طرح دیکھ رہا ہے جو یہ کام کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔
یہ آیات ہیں جن میں سے جہاں تک ہوسکا آج کے درس میں ان کے متعلق گفتگو ہوگی۔پہلی آیت ہے ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم : اگر اللہ تمہاری مددفرمائے تو کوئی نہیں جو تم پر غالب آسکے۔
خذل کا معنی ہے چھوڑ دینا خذلہ ای ترک نصرتہ و اعانتہ یعنی اس کی اعانت اور مدد چھوڑ دی پس خذولاً کے معنے ہونگے۔ مدد اور نصرت کو چھوڑ دینے والا۔ یہ اقرب الموارد میں لکھا ہے۔ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم : اس میں استفہام انکاری ہے استفہام انکاری اسکو کہتے ہیں کہ سوال کیا جائے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے تو اس کا طبعی قدرتی جواب ہے کہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔اور یہ جواب اتنا طاہر و باہر ہو کہ سوال کے اندریہ تو ظاہر بات ہے اس سوال کا انکار شامل سمجھا جائے۔ اس کو کہتے ہیں استفہام انکاری تو یہ لکھتے ہیں ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم من ذالذی ینصرکم من بعدہ یہ جو حصہ ہے آیت کا کہ کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرسکے یہ سوال ‘ جواب پوچھنے کی خاطر نہیں بلکہ اس کا جواب اس میں مضمر ہے کہ کوئی بھی نہیں جو ایسا کرسکے۔باقی سب مفسرین نے توکل کامضمون اس آیت کے ساتھ جوڑ کر وہی باتیں کہی ہیں جو پہلے بھی بیان ہوچکی ہیں کوئی ایسی خاص قابل ذکر بات تفسیروں میں نظر نہیںآتی۔ جس کو آج گفتگو کیلئے اختیار کیا جائے اس لئے عمومی طورمیںپر اس آیت سے متعلق بعض دوسری باتیں رکھ کر جو روایات ہیں ۔ بددیانتی اور خیانت والی ان پر میں خصوصیت سے توجہ دونگا۔
ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم : کہ اللہ اگر تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔
وان یخدلکم : یہاںیہ جو ’’چھوڑنے‘‘ کے معنے لئے گئے ہیں بعض مفسرین کی طرف سے تجویز ہوئے ہیںاس سے مراد کہ یہاں مدد چھوڑنا ہے یہ درست نہیں ہے۔ یعنی ’’مدد چھوڑنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے ان معنوں میںیہ یہ غلط نہیں ہے لیکن یہاں کسی کو چھوڑ دینا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چھوڑ دے اسی کی مدد چھوڑا کرتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کو چھوڑا نہ ہو اور پھر خالی مدد چھوڑ دے تو مراد یہ ہے کہ اصل جو بات ہے قابل غور وہ یہ ہے کہ تمہیں خدا نے چھوڑ تو نہیں دیا۔ اگر تمہیں خدا نے چھوڑ دیا تو پھر کوئی نہیں ہے جو تمہاری مدد کرسکے اور پھر ہر دوسرے کو تم پر غلبہ نصیب ہوجائے گا۔ پس وقتی طور پر جو نقصان پہنچا ہے یہاں یہ آیت جہاں انذار کے پہلو رکھتی ہے وہاں ایک خوشخبری کا پہلو بھی رکھتی ہے کہ بظاہر تمہیں مدد نہیں ملی اس وقت لیکن تم چھوڑے ہوئے لوگوں میں سے نہیں اور جس کو خدا نہ چھوڑے اس کے لئے کوئی غم نہیں ہے۔ چنانچہ اس مضمون کو بعد کا حصہ تقویت دیتا ہے’’وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ‘‘ان کو اللہ پر توکل رکھنا چاہئے۔ ا ن کو علم ہونا چاہئے کہ وہ ایسی جماعت نہیں ہیں جنہیں خدا ترک کردے کیونکہ اگر اللہ ترک فرمادے تو پھر کوئی نہیں ہے جو ایسی جماعت کی مدد کرسکے۔ یہاں ’’بعد‘‘ کا لفظ بھی قابل غور ہے۔ یہ لفظ اکثر ہمارے علم کلام میں بھی استعمال ہوا ہے۔ ’’بعد‘‘ سے مراد محض زمانہ نہیں ہوا کرتا بلکہ اور بھی معنے ہیں اور جب بھی اللہ کے تعلق میں لفظ ’’بعد‘‘ آتا ہے تو اس کا معنیٰ زمانے کے لحاظ سے لیا جانا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ خدا کے بعد تو کوئی نہیں ہے۔ تو جب قرآن کریم فرماتا ہے کہمن ذاالذی ینصرکم من بعدہ کہ اللہ کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد فرماسکے ؟ اس کا مطلب اگر زمانی بعد لیا جائے تو مومنوں کو چھوڑنے کی بحث نہیں ہوگی خدا کے گویا گزر جانے کی گفتگو شروع ہوگی کہ جب اللہ چلا جائیگا۔ اللہ ہی نہیں رہے گا۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔ اس کے بعد پھر کون تمہاری مدد کرے گا؟ اس لئے ’’بعد‘‘ کا جو عربی محاورہ ہے اس سے مراد ہے اس کو چھوڑ کر۔ اس کے علاوہ اس کے سوا۔ اس سے باہر‘ اس کی مخالفت میں‘ چنانچہ مختلف اہل علم نے ان تمام معانی کو پیش نظر رکھ کر مختلف مواقع پر بعد کے معنی کئے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ حدیث ’’لانبی بعدی‘‘ کے حوالے سے مُلاَّ علی قاری نے بھی یہ بحث اٹھائی ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی ۔مجھے اس وقت قطعی یاد نہیں لیکن وہ حوالے دیکھ لیں نکال دیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں بعد سے مراد محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ان کو چھوڑ کر۔ ان کی مخالفت میں ان کی شریعت سے باہر۔یہ مراد ہے اور یہ حدیث آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں ہے۔ یہ میں ضمناً آپ کو بتا رہا ہوں کہ بعد کا لفظ اللہ کے متعلق صرف یہیں نہیں بعض اور آیات میںبھی استعمال ہوا ہے اور ایک دوسری آیت کے حوالے سے مُلاَّ علی قاری نے یہ استنباط فرمایا ہے کہ دیکھ لو اللہ کا بعد تو زمانی لحاظ سے ممکن ہی نہیں ہے۔مگر اللہ کو چھوڑ کر اس کے علاوہ اس کی مخالفت کے معنے یہ ہر ایسی جگہ استعمال ہوسکتے ہیں جہاں ’’بعد اللہ‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون‘‘ میں وہ شیعہ مفسر کے الزام کا جواب بھی آگیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ مومن علیؓ پر توکل کرتے ہیں۔ یہ فرمایا ہے مومن اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں اور وہ جو پہلا حوالہ گزر چکا ہے اس پر بحث ہوچکی ہے۔ اس میں تو وہ کہتے تھے صرف علیؓ تھے جن پر صرف عام مومنوں کا ہی نہیں محمد رسول اللہؐ کا بھی توکل تھا۔ اگر علیؓ نہ بچاتے تو پھر کوئی بچانے والا نہیں تھا۔ اور یہ اعلان ہوا ہے اُس وقت ’لافتی الا علی ‘۔
آج کے دن مومنوں کی حفاظت کرنے والا محمد رسول اللہؐ کو بچانے والا علیؓ کے سوا کوئی باقی نہیں رہا اور جبرئیل اس وقت تک بیٹھے رہے ہیں جب تک بچا نہیں لیا۔ دخل نہیں دیا کوئی۔ غالباً ان کے نزدیک جبرئیل کو وہاں پر چلانے کی مجال نہیں تھی۔ وہ دیکھتے رہے محمد رسول اللہ ؐ کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ جب حضرت علی ؓ نے بچا لیا تو پھر دیکھیں آکے کتنی ہمدردی کی ہے کہ یا رسول اللہ ؐ! دیکھا آپ نے اس کو کہتے ہیں ہمدردی۔ اس کو کہتے ہیں مواسات۔ یعنی اُنس اور قربت کا اظہار۔ تو جبرئیل بیٹھے کیا کررہے تھے اُس وقت؟
یہ علماء لکھتے ہیں کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکا گیا تو حضرت جبرئیل کے متعلق ان کا جو تصور ہے مکانی وہ عجیب و غریب ہے۔ فرشتوں کا وہ لاہوتی تصور نہیں مانتے۔ وہ مکان کے ساتھاس طرح ان کو پابند کردیتے ہیں جس طرح انسانی وجود یا مادی وجود مکانوں کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ تو اس پہلو سے ان کا تصور بھی فرشتوں کا یہی ہے اور حضرت جبرئیل کے متعلق کہتے ہیں اُس وقت ساتویں آسمان پر تھے۔ اب یہ مجھے علم نہیں کہ کس کتاب میںلکھا ہے لیکن مجھ سے خود ایک بڑے عالم دین نے جو کراچی سے تعلق رکھتے تھے اور لاہو رجاتے ہوئے میرے سفر میں ہمراہ تھے۔ انہوں نے گفتگو کے درمیان یہ فرمایا کہ تم آج کل کی سائنس کی کیا بات کرتے ہو۔ یہ تیز رفتاریاں وغیرہ جو ایجاد ہورہی ہیں سب کچھ ان کی حیثیت ہی کوئی نہیں۔ تم یہ دیکھو ! کہ جب حضرت یوسف ؑ کوبھائیوں نے پھینکا ہے اندھے کنویں میں تو جبرئیل علیہ السلام ساتویں آسمان پر تھے اور پیشتر اس کے کہ وہ زمین کو چھُوتے۔ اللہ نے حکم دیا وہ نیچے اترے اور اپنے پروں پر ان کو لے لیا۔ اور اس طرح چوٹ نہیں لگی۔ تو میںیہ کہہ سکتا ہوں یہ ہے مواسات۔ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ محمد رسول اللہ ؐ سے کوئی مواسات نہیں جبرئیل کی۔ یہ کیسی باتیں کرتے ہو؟ کوئی انصاف ! کوئی خدا کا خوف کرو !!
اللہ تعالیٰ گویا کہ حضرت علی ؓ کے بغیر کلیتاً بے اختیار ہو بیٹھا تھا۔ نہ وہ کچھ کرسکتا تھا نہ جبرئیل کچھ کرسکتے تھے۔ دیکھتے رہے کہ کیا ہورہا ہے ۔ جب سب کچھ ہوگیا تو پھر حضرت جبرئیل اتر آئے اور فرمانے لگے کہ دیکھو ! یہ ہوتی ہے مواسات۔ مگرخدا اس کو جھٹلا رہا ہے اس سارے مضمون کی تردید فرما رہا ہے۔ فرماتا ہے۔’’وعلی اللہ فلیتوکل المومنون‘‘اگر تم مومن ہو تو پھر صرف اللہ پر توکل کرنا ہے اور توکل کے مضمون میں محمد رسول اللہ ؐ کو بھی شامل نہیں فرمایا کیونکہ محمد رسول اللہؐ کا توکل بھی اللہ پر ہی تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہ انسان پر توکل کرتے تھے نہ فرشتوں پر توکل کرتے تھے۔ یہ جو نصرت کی باتیں ہیں فرشتوں کے ذریعے۔ اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے دوسری جگہ جنگ بدر کے حوالیمیں کھول دیا ہے۔ وہ بحث آگر کوئی موقعہ بعد میں ہوا تو اُس وقت میں بیان کروں گا۔ اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ توکل کی جب بات ہورہی ہو تو اللہ کے سوا کسی کا کوئی تصور بیچ میں نہیں آنا چاہئیے اور یہی توحید کامل ہے۔پس ’’وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ‘‘ میں یہ فرمایا گیا ہے اللہ پر توکل کرو۔
اب جنگ احد کے حوالے سے اس توکل کے یہ معنے بنیں گے کہ تم یہ خیال بھی نہ کرو کہ خدا نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ جو چھوڑ دے اس پر تو توکل نہیں کیا جاتا۔جس کے متعلق کامل یقین ہو کہ کبھی نہیں چھوڑے گا اس پر توکل کیا جاتا ہے۔ تو عارصی طورپر جو نقصان پہنچا ہے اس سے خدا تعالیٰ نے کس طرح صرف نظر فرمایا۔ کس طرح بخشش فرمائی۔ اس کا مزید بیان ہے گویا کہ یہ کہ دیکھو ! خدا نے تمہیں کیسا معاف فرمادیا۔ کیسا تمہاری غلطی کو کالعدم قرار دے دیا کہ اب تمہیں بُلا رہا ہے کہ مجھ پر کامل توکل رکھو !میں تمہیں چھوڑنے والا نہیں ہوں !! یہ مضمون ہے جو دراصل اس آیت میں بیان ہورہا ہے۔وما کان لنبی ان یغل و من یغلل یات بما غل یوم القیامتہ ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون O
کسی نبی کے شایان شان نہیں کہ وہ خیانت کرے اور جو بھی خیانت کرے گا (نبی تو کر ہی نہیں سکتا ) وہ قیامت کے دن اس خیانت کا بوجھ اٹھائے ہوئے آئے گا پھر ہرشخص کو جو اس نے کمایا ہے اس کے مطابق بدلہ دیا جائیگا اور وہ ظلم نہیں کئے جائینگے۔
یہاں غَلَّ کے جو مختلف معنی ہیں وہ پیش نظر رکھنے چاہئیں۔ کیونکہ ہر لفظ کا اطلاق موقعہ اور محل کے مطابق ہونا چاہئے اور ہر لفظ کے مختلف معنے تمام تر نہ اکٹھے ایک جگہ چسپاں ہوسکتے ہیں ۔اور نہ ہر معنیٰ ہر جگہ چسپاں ہوسکتا ہے۔ مثلاً ’’اتر گیا ہے‘‘
اس سے دل اتر گیا ہے۔
کوئی پہاڑ سے اتر گیا ہے۔
اور کسی کی عزت اتر گئی۔
مختلف اترنے کے معنے ہیں۔ دلوںپر اللہ اترتا ہے۔کلام الٰہی اترتا ہے۔ بارش اترتی ہے۔ لوہا اتارا گیاہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے مضمون اترنے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر جگہ الگ الگ معنے ہیں اور نہ ہر جگہ یہ سارے معنے مراد لئے جاسکتے ہیں نہ ہر معنیٰ ہر جگہ چسپاں ہوسکتا ہے الگ الگ بھی۔ اس لئے غَلَّ کے مختلف معنے دیکھئے جہاں رسول کے متعلق لفظ غَلَّ استعمال ہوگا وہاں رسول کے شایان شان معانی ہونگے۔ جہاں دوسرے انسانوں کے متعلق غَلَّ کا لفظ استعمال ہوگا وہاں ان کی حیثیت کے مطابق معنے چسپاں ہونگے۔ لیکن معنے وہی ہونے چاہئیں جن کو لغت اور قرآن کریم کا استعمال دوسری جگہوں سے ان کو تقویت دے ان کو سہارا دے۔ ان کے حق میں گواہی دے۔ اس کے بغیر اپنی طرف سے معنے نہیں بنا سکتے آپ۔
چنانچہ غریب القرآن لغات الفرقان میں جو مختلف آیتیں غَلَّ کے ساتھ دی گئی ہیں ان سے ان کے معنے خود بخودظاہر ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے میں آپ کو سناتا ہوں۔غَلّ کے معنے خیانت کرنا۔ یہاں غریب القرآن نے یہی آیت دی ہے۔
’’ماکان لنبی ان یغل ‘‘
مگر یہ تشریح نہیں کی نہ ہوسکتی تھی کہ خیانت سے مراد مال میں خیانت ہے یا کسی اور چیز میں پس غَلَّ کا یہ اطلاق عمومی ہے مراد ہے کوئی امانت کسی کے سپرد کی جائے اور وہ اس کا حق ادا نہ کرے یہ عام معنے ہیں اور نبی کے تعلق میں یہ وسیع تر معنے پیش نظر رہیں گے۔ یہاں کسی ایک چوری کے الزام کی طرف اشارہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ نبی کی شان سے یہ بات بہت بلند ہے۔ ہاں جو ذمہ داریاں اس کو سونپی جاتی ہیں ان ذمہ داریوں میں ادنیٰ سی کوتاہی بھی نہیں کرتا یہ مراد ہے۔ اور اس مضمون کو قرآن کریم کی وہ آیت تقویت دیتی ہے۔ بہت زور کے ساتھ کھول کر بیان کرتی ہے کہ یہاں نبی کی امانت میں عام روزمرہ کی چوری چکاری کی کوئی بحث ہی نہیں ہے۔ امانت سے مراد قرآن کریم اور پوری شریعت ہے اور ان معنوں میں وسیع تر معنے غَلَّ کے استعمال ہوں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ امانت سے سب جب ڈر گئے جب ہم نے امانت پیش کی تو سب لوگ ڈر گئے۔
’’فابین ان یحملنھا و اشفقن منھا ‘‘
انہوں نے اس امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکا رکردیا اور ڈر گئے ’’فحملھا الانسان ‘‘ تب یہ انسان کامل آگے بڑھا اور اس نے اس امانت کو اٹھا لیا تو نبی کے متعلق جب کہا جاتا ہے کہ وہ خیانت نہیں کرتا اس سے مراد اس کی وہ امانت ہے جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہوتی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ نہ ادنیٰ میں خیانت کرتا ہے نہ اعلیٰ میں خیانت کرتا ہے۔ کسی حالت میں‘ خواہ ابتلا کتنا ہی بڑھ چکا ہو۔ جو امانت خدا نبی کے سپردکرتا ہے کبھی بھی وہ اس امانت میں خیانت نہیں کرتا اور اس میں تمام انبیاء شامل فرمادئیے گئے ہیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔ کیونکہ ’’لِنبیٍ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ان معنوں کو نظر انداز کرکے بعد میں ہم دیکھیں گے کہ بہت سے مفسرین بھی اور دشمنان اسلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگنے والے ایک نہایت ذلیل اور بے ہودہ اور لغو الزام کی بحث میں پڑ جاتے ہیں گویا کہ وہ مراد ہے حالانکہ یہاں ہر نبی سے خیانت کی نفی فرمائی گئی ہے۔
دوسرے معنے ہیں باندھنا ۔ غَلَّ کا مطلب باندھنا بھی ہے۔
’’ خذوہ فغلوہ ثم الجحیم صلوہ ‘‘ (الحاقہ ۳۲۔۳۱)
کہ اس کو پکڑو اور اس کو خوب باندھو۔ یعنی جہنم کے فرشتوں کو حکم ہے کہ ان گنہ گاروں کے ساتھ جو ظالم لوگ ہیںیہ سلوک کرو۔
ثم الجحیم صلوہ پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔یعنی جکڑ کر ان کو وہاں پھینکا جائے۔
غِلُّ : چھپی دشمنی کو بھی کہتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے۔
’’و نزعنا ما فی صدورھم من غل تجری من تحتھم الانھار‘‘ ہم نے ان کے سینوں میں چھپے ہوئے غلوں کو نکال کر باہر پھینک دیا۔ پس یہ وہ مثال ہے جس کے پیش نظر میں نے آپ کو توجہ دلائی کہ ہر معنیٰ ہر شخص پر اطلاق نہیںپاتا۔ کسی نبی کے متعلق یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا کہ اس کے سینے میں کچھ کینے چھپے ہوئے ہوں اور ان کو نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہو۔ اس لئے وہ معنے غِلّ کے نبی پر اطلاق نہیں پا سکتے کینے کے لحاظ سے اور ذمہ داری کے مضمون میں کینوں کی بحث ہے ہی نہیں ! کینے کا مضمون تو بہت ادنیٰ ہے۔ کینہ تو گھٹیا لوگ رکھتے ہیں دل میں اس لئے غلّ کے تصور میں غِلّ کے اس تصور کے ساتھ اس مضمون کو نہیں باندھا جاسکتا کہ
’’ما کان لنبی ‘‘
اور غُلّ کہتے ہیں جس کی جمع اغلال ہے طوق۔گردن کا طوق تو گردن کے طوق کی بھی کوئی بحث ہی نہیں ہے اس مضمون کا اطلاق دوسرے ادنیٰ آدمیوں پر ہوسکتا ہے لیکن نبی کی بحث میں اس کا ذکر بھی جائز نہیں ہے۔ پھر ہاتھوں کا بندھا ہوا ہونابمعنیٰ کنجوسی کے۔ یہ مضمون بھی مغلول میں شامل ہے۔
’’وقالت الیھود ید اللہ مغلولتہ‘‘ (المائدۃ آیت ۶۵)
یہود نے کہا کہ اللہ کے دونوں ہاتھ جو ہیں مغلول ہیں۔ بندھے ہوئے ہیں ۔ (یہاں Single واحدمیں استعمال ہوا ہے کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے) ہاتھ بندھا ہونے کا کیا مطلب لیتے تھے یہود۔ یہاں صرف یہ مراد نہیں ہے کہ وہ کچھ خرچ نہیں کرسکتا کچھ دے نہیں سکتا۔ مراد یہ ہے کہ جو نبوت اس نے کسی کو دینی تھی وہ دے چکا ہے اور آئندہ کسی کو نہیں دے گا۔ یہ ہے اللہ کے ہاتھ باندھے ہونے کے معنے۔ چنانچہ قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد ان کی قوم نے یہ عقیدہ گھڑ لیا تھا کہ آپ کے بعد کبھی کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تو یہاں یداللہ مغلولتہ میں یہود کا اشارہ اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اب آئندہ روحانی نعمتیں کسی کو نہیں دے سکتا کیونکہ اس کا ہاتھ باندھا گیا ہے۔ خواہ اس نے خود باندھ لیا ہو یا ویسے ہی ہاتھ میں کوئی نقص پیدا ہوگیا ہو۔ دونوں صورتوں میں وہ اپنی عطا سے عاری ہوگیا ہے اور پابند ہے کہ اب کسی کو وہ نعمت عطا نہ کرے۔ یہ معنے جو ہیں۔ یہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہیں اسی طرح نبی کی شان کے بھی خلاف ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو اسی طرح اس غَلّ کا کوئی تعلق نہیں جس طرح خدا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اگر اللہ کے ہاتھ نہیں بندھ سکتے اوراس کی عطا ہمیشہ کیلئے جاری ہے تو اس رسولؐ کے ہاتھ بھی باندھے نہیں جاسکتے جس کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور اس کے بعد کسی اور کا کوئی زمانہ نہیں مگر اُسی کا اور اُسی کے تابع۔پس محمد ؐ رسول اللہ کا فیض بھی اُسی طرح جاری رہے گا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فیض ہمیشہ کیلئے جاری ہے۔ کیونکہ آپ کی ذات میں خدا نے ایک جاری فیض فرمادیا ہے۔
’’ ولا تجعل یدک مغلولتہ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط ‘‘
یہ نبی اسرائیل میں تمام مومنوں کو مخاطب فرمایا گیا ہے مگر واحد کے صیغے میں ہے اصل میں۔ نصیحت ہے۔ یہ اھل علم اور اہل عقل کی وہ نصیحت ہے جس کو خدا تعالیٰ Quote کرتا ہے اور تمام مومنوں کیلئے یہ ایک نصیحت بن جاتی ہے۔ یہ جو ہے کہ اپنے ہاتھ کو
’’ لا تجعل یدک مغلولتہ الی عنقک‘‘
یعنی اپنی گردن کے ساتھ یوں سمیٹ نہ لیا کر
’’ ولا تبسطھا کل البسط ‘‘
اور یوں کرکے پورا کھول بھی نہ دے ان کے درمیان کی راہ اختیار کر ! ہاتھ کو سمیٹ کر گردن کے ساتھ چمٹا لینے کا مطلب یہ ہے کہ فیض نہ پہنچے اور اتفاقاً بھی کوئی ہاتھ سے چیز لے نہ سکے۔ اور دوسرے کھول دینے کا مطلب ہے کہ اتنا دور رکھو کہ تمہارا کوئی اختیار ہی نہ ہو۔ جو چاہے اس میںسے جو چیز اچک لے یا خود تم پھینکتے چلے جائو۔ تو ایک طرف سخاوت کے نام پر حد سے زیادہ اسراف جائز نہیں اور دوسری طرف احتیاط کے نام پر لوگوں کو اپنے فیض سے کلیتاً محروم کرنا بھی جائز نہیں۔
یہ مختلف استعمالات قرآن کریم میں ملتے ہیں۔ یہ ایک بات میں آپ کو بتائوں کہ بعض دفعہ ایک ہی منظر ہے لیکن برعکس معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ہاتھ کو اپنے گردن کے ساتھ ملا دینا اور سینے کے ساتھ چمٹا دینا کنجوسی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مگر قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ یہ روحانی عطا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اگرچہ عموماً اس طرف عموماً لوگوں کی نظرنہیں جاتی۔ حضرت موسیٰ ؑ کا جو معجزہ ہے اس میں یہ فرمایا گیا آپ کو کہ اپنے ہاتھ کو سمیٹ کر اپنی جیب میں ڈال لے کہیں اپنے ساتھ چمٹا لے اپنے بدن کے ساتھ چمٹا لے اس کو۔ کئی طرح کے محاورے استعمال ہوئے ہیں۔ اور پھر وہ روشن ہوجائیگا اس سے کیا مراد ہے ؟ایک تو ظاہری معجزہ لوگ سمجھتے ہیں اور اسی پر بات ٹھہر جاتی ہے حالانکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ نبی کے قریب آتے ہیں نبی کے دست و بازو اس کے صحابہ۔ اس کے خدام اس کے ساتھ رہنے والے لوگ ہیں جن کو وہ اپنے ساتھ چمٹاتا ہے وہ روشن ہوجاتے ہیں اور نبی کے نور سے نور پا جاتے ہیں اور اس کے فیض سے فیض حاصل کرتے ہیںپس وہی مضمون جو ایک جگہ تو انتہائی کنجوسی کے اظہار کیلئے بیان ہوا ہے وہی نقشہ۔ وہی نقشہ ایک اور موقعے پر نبی کے ساتھ تعلق رکھنے کے سلسلے میں فیض اورعطا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے اظہار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ پس نبی کا قرب ہے جو روشنی بخشتا ہے اور اس سے دُوری اس روشنی کو ہٹا دیتی ہے پس وہ جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چمٹ جائو مضبوطی سے اس کو چھوڑنا نہیں۔ عروہ و ثقی ٰ پہ ہاتھ پڑ گیا ہے تمہارا۔ اس کو یاد رکھنا چاہئے ہمیشہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظاہری قرب تو ہم لوگوں کیلئے ممکن نہیں۔ جسمانی دوری اور زمانے کے فاصلے کے لحاظ سے مگر اگر ہم روشنی چاہتے ہیں تو آپ کے ساتھ اس طرح چمٹ جائیں جس طرح موسیٰ ؑ کا ہاتھ خدا کے ارشاد پر ان کی گردن کے ساتھ حمائل ہوجایا کرتا تھا یا سینے میں ساتھ پیوستہ ہوجایا کرتا تھا اور اس سے پھر وہ روشنی پاتا تھا۔ پس مثال کے طور پر ایک معجزہ ظاہری صورت میں بھی دکھایا گیا لیکن حقیقی معنوں کو نظر انداز نہیں کرنا مراد یہ تھی کہ ایک مری ہوئی قوم جس میں کوئی نور نہیں ہے وہ موسیٰ ؑ سے نور پاجائے گی اور موسیٰ ؑ سے اُن کے اندھیرے روشن کردیئے جائیں گے پس دیکھیں وہاں عطا کا مضمون ہے اور یہاں خصاصت اور کنجوسی کا مضمون ہے اور نقشہ ایک جیسا ہی کھینچا گیا ہے۔
امام رازی ؒ لکھتے ہیں الغلول ھوا الخیانتہ ۔ غلول خیانت کو کہتے ہیں و اصلہ اخذ الشی ء فی الخفیۃ : اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز دوسروں سے چھپا کر لی جائے۔
یقال اغل الجزر و السالق : اذا ابقی ٰ فی الجلد شی ء ’‘ من اللحم علیٰ طریق الخیانۃ (یعنی) جب کہیں اغل الجازر تو مطلب ہے قصاب یا چمڑی اتارنے والے نے کسی کی بھیڑ بکری ذبح کی مگر جلد اتارتے وقت مالک سے چھپا کر کچھ گوشت جلد کے ساتھ چمٹا رہنے دیا تاکہ جلد کے ساتھ اپنے گھر لے جائے۔
الغل : الحقد :
تو پورا نقشہ کھینچ کے ‘ کہ کسی طریق پر بھی اگر نبی کے ساتھ اس مضمون کا تعلق جوڑا جائے تو مراد یہ ہے کہ نبی اتنی بھی خیانت نہیں کرتا۔ جتنا ایک قصاب بے احتیاطی کے ساتھ یا بدنیتی کے ساتھ جب کھال کو بکری کے جسم سے الگ کرتا ہے تو کوئی چربی اس کے ساتھ لگی رہ جاتی ہے اور ہم نے دیکھا ہے عموماً ۔ قصاب اس زمانے میںپتہ نہیں کیسے تھے۔ ہم نے تو اپنے ہاں کئی دفعہ قربانیاں کی ہیں ربوہ میں ہمیشہ ہوتی رہیں۔ کبھی ایسا قصاب نہیں دیکھا جواس طرح بکری کے گوشت اور چربیوں کو ساتھ جوڑتا ہو۔ کھال کے ساتھ لگا رہنے دیتا ہو۔ اور کھال تو ایسی صاف ہوتی ہے کہ اس میں کوئی اشارہ بھی نہیں ہوتا کسی گوشت کا کسی جگہ۔ کہیں کوئی قصاب کا بچہ آجائے بعض دفعہ جس کو کوئی مہارت نہیں ہوتی تو بعض دفعہ کہیں کہیں تھوڑاتھوڑاگوشت کا چھچڑا چپٹا رہ جاتا ہے ورنہ بالکل صاف کھال ہوتی ہے تو اس لحاظ سے معنے یہ ہونگے کہ اتنا بھی نبی کے ساتھ غیر کا مال وابستہ نہیں رہتا جتنا غلطی سے ایک غیر مشاق قصاب جب جانور کی کھال کو اس کے جسم سے الگ کرتا ہے تو اس کی غلطی سے کچھ حصہ گوشت کا یا چربی کا لگا لگا ساتھ کھال کے ساتھ چلا جاتا ہے۔
الغل : الحقد : الکامن فی الصدر وہ کینہ جو سینے میں چھپا ہوا ہو۔
غلالہ اس کپڑے کو بھی کہتے ہیں جس کو ہم انگریزی میں under wear کہتے ہیں۔ وہ کپڑے جو کپڑوں کے اندر پہنے جائیں ان کو غلالہ کہتے ہیں۔ بنیان وغیرہ۔ یہ سب اس میں آجاتے ہیں۔
غلہ فلان کا مطلب ہے خاموشی سے اٹھایا اور اپنے سامان میںچھپا لیا۔
باقی سارے وہی معنے ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں۔
غل البعیر غلۃ میں کہے ہیں اونٹ کی پیاس کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اونٹ جس کی پیاس نہ بجھے اس کے لئے کہتے ہیں غَلَّ کہ پیاتو ہے اُس نے لیکن اس کی پیاس نہیں بجھ سکی۔ یعنی سینے میں کوئی چیز کھولتی ہوئی باقی رہ گئی ہے۔ جب پیاس نہ بجھے تو سینے میں ایک تھوڑی سی آگ سی بھڑکی رہ جاتی ہے۔ انسان کا دل چاہتا ہے کہ بجھ جائے لیکن نہیں بجھتی۔ تو اونٹ کی پیاس کے متعلق کہتے ہیں کہ عرب استعمال کرتے ہیں جب وہ پانی پی لے لیکن ابھی اس کو مزید کی طلب ہو تو کہتے ہیں غَلَّ ہوا ہے اس کے ساتھ۔ یعنی غَلَّ کا مضمون اس پہ صادق آتا ہے۔
اب سنئے ! یہ مضمون عام تھا جس کا ذکر یہاں چلا کہ کسی نبی کیلئے ممکن ہی نہیں ہے کہ اس امانت میں خیانت کرے جو اللہ نے اس کو سونپی ہے۔ جنگ احد کے دوران اس کے ذکر کی کیا ضرورت پیش آئی۔ عام مفسرین یہ بات اٹھاتے ہیںکہ دراصل یہ آیت جنگ بدر کے بعد اُس موقعے پر اتری تھی جبکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی بدبخت منافق نے یہ الزام لگایا تھاکہ آپ نے ایک سرخ رنگ کا ریشمی کپڑا جسے بعض روایتوں میں چادر کہاگیا ہے۔ مگر مستشرقین نے کہیں سے روایت اٹھائی ہے اور اُسے ریشمی دمشقی قالین کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھا لیا تھا تو مفسرین بالعموم ان روایتوں سے متاثر ہوکر ایک تو اس کی شان نزول یہ بتاتے ہیں۔ اس آیت کی کہ اس کا بدر سے تعلق تھا وہاں یہ واقعہ ہوا تھا۔ پھر وہاں سے اٹھا کر جنگ احد کے واقعہ میں کیوں جڑی گئی ؟
اس کا عذر تلاش کرنے کیلئے ایسی دُور کی کوڑی لاتے ہیں کہ کہتے ہیں دراصل وہ جو درہ چھوڑ کر بھاگنے والے تھے ان کو یہ بات یا دآگئی ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تو یہ الزام لگ چکا ہے پہلے ہی اور ایک اور بات بھی یاد آگئی کہ ایک موقعے پر آپ ؐ نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت کو کسی مقصد کیلئے باہر بھجوا دیا۔ اس عرصے میں پیچھے لڑائی ہوئی اور جب وہ آئے تو ان کو مال غنیمت میں سے حصہ نہیں دیا جو غازیوں نے میدان جنگ میں جیتا تھا۔ تو اُن کو یہ شبہ بھی پڑ گیا کہ یہ نہ ہو کہ کہیں ہمارا حصہ مارا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ تم تو درے پر بیٹھے ہوئے تھے اس لئے تمہیں حصہ نہیں ملے گا۔ یہ ساری روایتیں اور اس پر جس طرح مستشرقین نے اپنے کینے کا اظہار کیا ہے اُن پر یہ لفظ غَلَّ خوب لگتا ہے۔ اب کس طرح ایسے موقعوں پر ان کے چھپے ہوئے کینے سینوں سے باہر آجاتے ہیں۔ وہ میں بعد میں ذکر کرونگا۔پہلے میں اس فرضی روایت اور اس فرضی کہانی کے متعلق مختصر عقلی بحث کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جنگ احد میں جب وہ چھوڑ کر جانے والے اپنی جگہ چھوڑ کر آئے ہیں تو اس سے پہلے ایک لمبی بحث کا قرآن ذکر فرماتا ہے اور تنازع کہتے ہیں ایسی بحث کوجو کھینچا جائے جو طُول پکڑے۔ کافی عرصہ تو وہ اپنے امید سے بحث میں پڑے رہے ہیں اور پھر اس کا فاصلہ کتنا تھا میدان جنگ سے ان کے درے کا فاصلہ کتنا تھا ؟ یہ کسی نے نہیں دیکھا اور ان کو اتنی جلدی تھی کہ سارا مال غنیمت لُوٹا جائے گا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ کہہ دیں گے کہ تم وہاں نہیں تھے۔ ایسے خبیثانہ خیالات ہیں کہ اسلام کا دشمن Wherry بھی ان کو رد کررہا ہے۔ کہتا ہے یہ بہت دور کی کوڑی ہے یہ نہیں مان سکتا میں کہ اس وقت ان درے والوں کو یہ خیال آگیا ہو کہ اوہو ! یہ نہ ہوجائے کہ ہم اسطرح مارے جائیں۔ یہ ایک طبعی ایک بے اختیار کیفیت تھی۔ کہتا ہے ‘ دوڑے وہ ضرور مال غنیمت کیلئے ہی ہیں لیکن اس وقت یہ سوچنا ان کا بیٹھے کہ اوہو !! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو پہلے بھی الزام لگے ہیں نعوذ باللہ من ذلک اور پھر یہ بعض اموال غنیمت سے باہر رہنے والوں کو محروم کردیا کرتے تھے۔ یہ سوچ قابل اعتنا نہیں قابل توجہ نہیں بالکل رد کرنے کے لائق ہے۔
اور اب آگے سنئے ! وہاں پہلے کچھ بحث کرتے رہے اوربحث کے دوران جتنا مال تھا وہ لوٹا جاچکا ہوگا اور پھر کتنا لمبا انہوں نے فاصلہ طے کیا ہے اور جب وہاں پہنچے ہیں تو یہ Scenario یعنی یہ منظر۔ تناظر یہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس وقت تک ابھی دشمن نے پلٹا نہیں کھایا تھا اور جوابی حملہ انہوں نے شروع نہیں کیا تھا۔ اتنی دیر لگ چکی ہے۔ اور جب وہاں پہنچے ہیں اور امن کی حالت ہے تو ایسی کوئی روایت کیوں نہیں ملتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ڈانٹ کے واپس بھیجا ہو کہ تم یہاں کیا کرنے آگئے ہو؟ اور پھر یہ ذکر ہو کہ پھر انہوں نے کچھ مال لوُٹ لیا اور کچھ شامل ہوئے اور باقی سب نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ کوئی روایت نہیں۔ اور جب دشمن نے پلٹ کر حملہ کیا ہے تو اس وقت تو پھر کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا تھا ان کا کسی قسم کا۔ اسلئے یہ ساری فرضی باتیں ہیں کہانیاں بنائی جاتے ہیں لوگ۔ ایک روایت کہیں سے مل گئی ہے اس سے خود بخود کہانی بُنتے چلے جاتے ہیں کہ یہ ہُوا ہوگا۔ یہ ہُوا ہوگا۔ یہ ہُواگا ہوگا۔ قرآن کریم جو مضمون بیان فرماتا ہے جس کے متعلق بات کرتا ہے اس کی شان کے مطابق بر محل بر موقع بات ہونی چاہئے جو وہاں چسپاں ہوتی ہو اس شخص کی شان کے خلاف نہ ہو۔
سب یہاں نبی ٍ کا لفظ ایک عام لفظ ہے
صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد نہیں ہیں۔ دفاع رسول اللہ کا نہیں صرف بلکہ تمام انبیاء کا دفاع ہے۔ اور موقعہ ہے جنگ احد کا۔ مطلب یہ ہے کہ دیکھو ! خدا جس کے سپرد امانت کرتا ہے وہ اس کا ایسا حق دار ہوتا ہے کہ کسی دبائو کے تحت بھی۔ ادنیٰ بھی اُس امانت میں خیانت نہیں کرتا۔ یہ خراج تحسین ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ثبات قدم کو اور یہ بتاتا ہے کہ یہ محمدؐ رسول اللہ کے ثبات قدم کا فیض تھا کہ ایک ہاری ہوئی جنگ ایک جیتی ہوئی جنگ میں تبدیل ہوئی ہے۔ آپ نے خیانت نہیں کی۔ تم میں سے بعض لوگ اپنی ذمہ داری کو نبھا نہیں سکے۔ اگر کچھ خیانت ہوئی ہے تو ان کی طرف سے ہوئی ہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہر گز کسی پہلو سے بھی اس موقعے پر کوئی خیانت نہیں ہوئی۔ آپؐ کی نیت بھی پاک رہی مسلسل آپ کا عمل بھی۔ آپؐ کا عزم محکم متزلزل نہیں ہوا ایک ذرہ بھی اور عظمت کا پہاڑ بنے ہوئے آپؐ وہاں کھڑے رہے ہیں اور یہ جو امانت کا حق آپ نے ادا فرمایا ہے۔ اسکے بعد فرماتا ہے۔
’’ومن یغلل یات بما غل یوم القیامۃ ‘‘
کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی رسول بھی ‘ محمد رسول اللہ کا مقام تو بہت بلند ہے۔ فرماتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی رسول بھی اس بات سے بے خبر ہو کہ قیامت کے دن اس سے کیا ہوگی۔ وہ تو سب سے زیادہ خدا کی طرف سے محاسبے سے ڈرتا ہے اور محمد رسول اللہ کے اوپر تویہ مضمون سب سے زیادہ روشن تھا پس ان کے پیش نظر تو ہمیشہ خدا کے حضور جواب دہی رہتی تھی۔ قیامت تو بعد کی بات ہے زندگی بھر ہر نبی اسی خوف میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اسی کا نام تقویٰ ہے۔
تو فرمایا کہ نبی کی طرف خیانت کا تصور منسوب کرنا بھی جہالت ہے۔ کسی قسم کی خیانت کا تصور۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ امانت اُسی کے سپردکرتا ہے جو امانت کا حقدار ہو اور یہاں تمام انبیاء کی معصومیت کا اعلان ہے۔
اور Wherry صاحب یا ان کے ساتھی جو یہ استنباط کرنے کی کوشش کرتے ہیںکہ انبیاء کے گنہ گار ہونے کو تسلیم کیا گیا ہے یہ آیت اس کو رد کرتی ہے۔ کیونکہ نبی کا گنہ گار ہونا اس امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہے جو اس کے سپرد ہوتی ہے اور وہ امانت بہت وسیع ہے۔ اس کی ساری شریعت سے اس کے تمام اوامر سے اس کے تمام نواھی سے تعلق رکھتی ہے۔ تو جو شخص اللہ کا نبی ہو اور عمداًکسی امر کی اطاعت سے انکار نہ کرے کسی نہی کی طرف منہ نہ مارے تو ایسا شخص امین کہلائے گا اور سب انبیاء اس سے پاک ہیں۔ ایک نبی ایک ایسا رہ جاتا ہے۔جس کے متعلق یہ بات محل نظر دکھائی دیتی ہے یعنی سرسری طورپر ۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ اُن کے متعلق یہ سوال اٹھایا جاسکتا تھا کہ ان کو شجرہ ممنوعہ کی طرف جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر وہ امین تھے اور کوئی نبی بھی ایسا نہیں جو امانت میں خیانت کرے تو پھر انہوں نے کیوں ایسا کیا؟
جہاں تک خطا کا تعلق ہے وہ عصمت کے خلاف نہیں ہے اور خیانت میں ارادہ شامل ہوتا ہے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے۔
ولم نجد لہ عزما
ہم نے ان کو معاف فرمایا ہے تو بے وجہ نہیں معاف کیا۔ اس گناہ میں جو بھی جس کو تم گناہ کہتے ہو۔ اُس میں آدم کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ اس سے بلا ارادہ غلطی ہوئی ہے۔ اور نیکی کے نام پر بعض دفعہ ایک انسان ایک قدم نیک کام سمجھ کر اٹھا لیتا ہے بعد میں ثابت ہوتا ہے کہ وہ نیک کام نہیں تھا تو ایسا شخص خیانت کرنے والا تو نہیں شمار ہوگا لیکن غلطی خوردہ ضرور ہوگا۔ اور نیکی کے نام پر بھی دیانت داری سے جو غلطی ہو اس کے بعد بھی ایک شریف النفس انسان ضرور پچھتاتا ہے۔ اب غلطی سے گولی لگ جائے آپ کسی کو شکار سمجھ رہے ہوں وہ انسان نکلے اور ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں تو کثرت سے یہ باتیں ہوتی ہیں۔ ہر سال ہی کہ ہرن سمجھ کے مار دیا وہ آدمی تھا کوئی اور بعد میں جب عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہ ان کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں کہتے ہیں کوئی غلطی نہیں ہے یعنی کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس کی سزا دی جائے اور ایسے موقعے پر Man Slaughter کا کیس بھی نہیں چلتا سوائے اس کے کہ قطعی طورپر بالارادہ بے احتیاطی ہو۔ تو گناہ بھی بالارادہ ہو اوربے احتیاطی بھی بالارادہ ہو تب ایک شخص پکڑ کے نیچے آتا ہے ورنہ کوئی پکڑ نہیں۔ مگر جس سےآدمی مارا جائے وہ تو پچھتاتا رہتا ہے عمر بھر۔ اگر وہ شریف النفس ہے تو وہ توبہ کرے گا استغفار کرے گا یہی حالت حضرت آدمؑ کی ہوئی تھی اُن سے اللہ فرماتا ہے نادانستہ غلطی ہوئی مگر انکا ضمیر ان کو چھوڑتا نہیں تھا اوروہ چھپتے پھرتے تھے حیا سے استغفار میں چھپتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور پھر ان کو فرمایاکہ میں تجھے معاف کرتا ہوں اوران کی بریت فرما دی کہ ان کے عمل کے پیچھے کوئی بد ارادہ شامل نہیں تھا۔ پس عیسائیوں کا اگر کوئی اعتراض تھا جس کا کوئی جواز ہو تو وہ یہاں پڑتا تھا یعنی حضرت آدم ؑ پر اور اس کی نفی قرآن کریم نے فرما دی ہے۔ پس یہ آیت عام ہے اس میں کوئی استثناء نہیں۔
کسی نبی کیلئے یہ ممکن نہیںکہ وہ کسی طرح کی بددیانتی سے کام لے۔
ابن عباس ؓ کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے جسکے اوپر یہ سارا طُوفان بے تمیزی کھڑا کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ من ذلک کسی مال میں بددیانتی یعنی آپ کے اوپر الزام لگا تھا کہ آپؐ نے کسی چیز میں بددیانتی کی ہے۔ اس ذکر کوجس طرح مفسرین نے یہاں باندھ دیا ناحق‘ بڑا بھاری ظلم ہے۔ ایک وسیع عام مضمون تھا اور یہ بات ہی عجیب لگتی ہے کہ بدر کی آیت اٹھا کر وہاں نہ رہنے دی۔ یہاں لاکر رکھ دی۔ عجیب طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم نازل فرما رہا ہے۔ جس موقعے کی بات ہے ۔ وہاں رہنے ہی نہیں دیتا اور ایک دوسرے موقعے پر جہاں اطلاق نہیں پاتی وہاں رکھ دی۔ اور اطلاق ڈھونڈنے کی خاطر ان بے چارے بھاگنے والوں کی طرف نیتیں منسوب کی جانے لگیں کہ ضرور انہوں نے سوچا ہوگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فلاں وقت بھی الزام لگا تھا اس لئے وہ بھاگے ہونگے۔ اتنی جاہلانہ بات ہے کہ کوئی معقول انسان اس کو کسی پہلو سے قبول نہیں کرسکتا۔ سوچنے کے لئے بھی انسان اس کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر غو ر کیا جائے‘ مگر چونکہ دشمن نے الزام لگائے ہیں اس لئے ہمیںغور کرنا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں۔ ایک ابن عباس ؓ کی روایت ہے۔
’’ماکان لنبی ان یغل ‘‘ یہ ایک سرخ چادر کے بارے میں نازل ہوئی جو بدرکے دن گُم ہوگئی تھی ‘‘
یہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت لی گئی ہے۔بعض لوگوں نے کہا کہ شاید یہ چادر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘
یہ روایت ترمذی کتاب التفسیر میں ہے اور خود امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو ’’حسن غریب‘‘ کہا ہے۔ اور ایک سند میں یہ ’’غیر مرفوع‘‘ ہے۔ اور ابن عباس ؓ کا نام ہی اُس میں شامل نہیں بلکہ خسیف نے مقسم سے روایت کی ہے پس یہ غریب ہی نہیں ناقابل قبول ہے۔
ابودائود ‘ عبد ابن حمید‘ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بھی یہی روایت کی ہے۔ ان تمام روایتوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بعض منافقین کی طرف یہ الزام منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ انہوں نے الزام لگایا تھا ۔ یہ سارے ان بحثوں میں مفسرین الجھے ہوئے ہیں۔ کہ تھا تو پھر یہاں اٹھا کے کیوں رکھ دیا اور وہاں ضرور کوئی ایسی بات کسی کے دل میں آئی ہوگی کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح امین نہیں ہیں۔
تفسیر قُمی جو شیعہ تفسیر ہے وہ ایک ایسی تفسیر ہے جو اس روایت کے اوپر ایک اور روایت رکھتی ہے۔
تفسیر قمی میں لکھا ہے ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بتایا کہ فلاں شخص نے وہ چادر چُرائی ہے۔ یعنی چادر چُرانے کے واقعہ کو ماننے کے بعد ایک اور روایت پیش کرتی ہے۔ تفسیر قمی کہ یہ واقعہ ختم ہوچکا کیونکہ وہ چور پکڑا بھی گیا تھا۔ پس اگر چور پکڑا گیا تھا اور بات ختم ہوگئی تو پھر اس آیت کوخواہ مخواہ ایک الزام کے سائے کے طور پر باقی رکھنا یہ ویسے ہی قرین قیاس نہیں ہوسکتا ۔ ایک فرضی بات ہے مگریہ روایت بھی تفسیر قیمی کی ہے اورکوئی ایسی مرفوع روایت نہیں ہے جسے انسان قابل غور سمجھے مگر روایت بڑی تفصیلی ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ جب یہ پتہ لگا تو پھر اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجے جہاں اس نے یہ چھپائی ہوئی تھی تو کھودا اس کو تو وہاں سے نکل آئی۔ اب تعجب ہے کہ اس روایت کا تمام دوسرے مفسرین کو جو اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں انکو علم ہی نہیں ہے مگر بہرحال ایک کوشش انہوں نے ضرور کی ہے اس بات کو ختم کرنے کیلئے اور اس بحث کو چکانے کیلئے۔
اب ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ یہ الزام منافقین نے لگایا تھا طبرانی اور ابو یعلیٰ بھی اس کی روایت کرتے ہیں۔
ساری تفسیریں اس بحث سے بھری پڑی ہوئی ہیں۔
تفسیر بیصاوی ‘ تفسیر جلالین‘ اور Wherry نے جو حوالہ دیا ہے وہ تفسیر جلالین کا دیا ہے اور ایک اور تفسیر کا ذکر ہے ’’رو ئوفی وہ ہمیں نہیں مل سکی۔
’’و نزلت لما فقدت قطیفۃ ‘‘
جب وہ چادر قطیفہ اس چادر کو کہتے ہیں جو بدن پر اوڑھ لی جاتی ہے۔ وہ غائب ہوگئی یعنی فاعل اس فعل کا وہ قطیفہ بنتی ہے
قطیفۃ حمراء یوم بدر فقال بعض الناس
لعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اخذھا
تو بعض لوگوں نے کہاکہ ہوسکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لے لی ہو۔ یہ روایت بہت ہی غیر محتاط الفاظ میں پیش کی گئی ہے۔ حالانکہ جو تفسیر بیضاوی کی روایت ہے اس میں واضح طور پر منافقین کا ذکر ہے اور ’’بعض الناس‘‘ سے یوں لگتا ہے جیسے گویا مسلمانوں میں یہ عام نعوذ باللہ چرچا ہوگیا تھا۔
پس Wherry نے ان روایتوں کو جو تفسیر بیضاوی اور دوسری تفاسیر میں منافقین کی طرف اس بات کو منسوب کرتی ہیں وہ چھوڑ کر ’’جلالین‘‘ اور ’’روئوفی ‘‘ کو چنا ہے جس میں یہ عمومی ذکر ہے کہ بعض لوگوں نے کہا۔ اس سے وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ بات اتنی ہلکی پھلکی نہیں کہ آسانی سے اسے رد کردو یہ عام چرچا ہوگیا تھا کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کو اٹھالیا ہے اور پھر وہ چادر ہمیشہ کیلئے نظر سے غائب ہوگئی۔
تمام تفاسیر تعجب ہوتا ہے اس بات کو لئے ہی چلی جاتی ہیں او رکہتی چلی جاتی ہیں۔ کان پک جاتے ہیں آدمی کے یہ سنتے سنتے اور آنکھیں دُکھنے آجاتی ہیں دیکھ دیکھ کر کہ کیوں اس بات کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں خواہ مخواہ۔ اور ایک آیت کو جس کا تعلق ہی وہاں نہیںہے۔ کسی اور جگہ کسی اور مضمون میں بیان ہورہی ہے اس کو سواری بنادیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف الزام لے جانے والی اُس پر سوار کرکے یہ الزام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا رہے ہیں نعوذ باللہ من ذلک تفسیر روح المعانی میں لکھا ہوا ہے:-
یہ آیت تیر اندازوں کے اس خدشہ کو دور کرنے کیلئے کہ شاید ہمیں حصہ نہ ملے یہ جنگ بدر کے بجائے اُس موقعے پر وہاں رکھ دی گئی۔
اب عجیب بات ہے خدا تعالیٰ تیر اندازوں کے خدشہ کو دور کرنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام کا شبہ قائم فرما دیتا ہے اور وہ خدشہ جو تیر اندازوں کو تھا ہی نہیں ۔ ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔
آگے تفسیر کبیر رازی نے بھی اس کا ذکرکیا ہے کہ تیر اندازوں کو یہ خدشہ ہوا تھا ۔ مگر ساتھ ہی امام رازی دوسری روایات بھی بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ
جنگ حنین کے روز جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوازن کے غنائم رکھے گئے تو ایک آدمی نے سوئی اٹھالی۔ تب یہ آیت نازل ہوئی کہ تم نے سوئی کیوں اٹھائی ہے؟ جبکہ خدا کے رسول کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ادنیٰ سی بھی خیانت کرے۔ تووہ سوئی اٹھانا جو ہے یہ بھی مرکوز ہے تو جب روایتیں اسی قسم کی آرہی ہیں تو ان روایتوںکا اعتماد ہی کوئی نہیں رہتا۔
امام رازی صرف اتنا ضرور لکھتے ہیں کہ یہ نفی اگر یہ اُس الزام سے تعلق ہے تو مبالغہ کی حد تک الزام کو دُور کررہی ہے۔ مبالغہ کے معنے کیا ہیں یہاں ؟ غالباً ان کی مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام انبیاء کو شامل کرکے ان معنوں میںمبالغہ کیا ہے کہ اگرایک عام نبی کی شان کے بھی خلاف ہے تو محمد رسول اللہ کی شان کے کیوں نہ خلاف ہوگا۔ بدرجہ اولیٰ آپ کی شان کے خلاف ہے۔ پس اگر یہ کسی طرح بھی کسی الزام سے تعلق رکھتی ہے یہ آیت تو اس کی نفی بھی پھر پوری شان سے کررہی ہے۔ یہ معنیٰ حضرت امام رازی نے کیا ہے اور اگر اس تعلق میں رکھنا ہے تو پھر یہ سب سے اچھا معنیٰ ہے۔ کہتے ہیں یہ ایسی ہی نفی ہے جیسے فرمایا:-
’’ماکان للہ ان یتخذ ولداً‘‘
بہت سے مفسرین نے اس آیت کے حوالے کے ساتھ ایک حدیث پیش کی ہے جو صحیحین میں ہے اور صحیحین سے مراد ہے حضرت امام بخاری اور حضرت امام مسلم دونوں اس کو درج کرتے ہیں۔ ایسی حدیث جو ان دونوں کتب میں ہو اس کی صحت کا مرتبہ کافی بلند ہوجاتا ہے۔ پس یہ کہتے ہیں اس حدیث میں جو تفصیل سے یہ بیا ن کرتی ہے کہ قیامت کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعض ایسے لوگوں کو دیکھیں گے کسی نے گردن پر اونٹ اٹھایا ہوگا۔ کسی نے بکری۔ کسی نے بھیڑ‘ کسی نے کچھ اورچیزیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کیلئے پکاریں گے اور آپ فرمائیں گے کہ نہیں ! تمہارے لئے آج کوئی مدد نہیں کیونکہ نبی نہ خیانت کرتا ہے نہ خائن کی مدد کرتا ہے تو یہ وہ خیانتیں ہونگی جو وہ اپنی گردنوں پر اٹھائے ہوئے اس دن حاضر ہوجائینگے۔ یہ روایت ابو ھریرہ ؓ کی ہے۔ اول تو اس روایت کوظاہری طور پر چسپاں کرنا کہ اونٹ اٹھائے ہونگے اور چیزیں اٹھائی ہونگی۔ یہ اُس جنت اور جہنم کے اور حساب کتاب کے تصور سے متناقض ہے اور متصادم ہے۔ جس کا قرآن کریم کی مختلف آیات میں مجموعی طور پر نقشہ کھینچا گیا ہے۔وہا ںان بھیڑ بکریوں کا وہاں پہنچ جانا اور اُن جسموں سمیت اٹھا کر اُن روحوں کا اپنی گردنو ںپر اٹھانا یہ تصور بعض معافی رکھتا ہے اور ظاہری حقیقت نہیں رکھتا۔
معانی صرف اس کے یہ ہیں کہ اُن کا بوجھ اُن کے ضمیرپر پڑے گا اور تصویری زبان میں ان کو دکھایا گیا ہے اور پھر یہ ان کی بددیانتیاں علامتی طور پر خدا ظاہر فرمادے گا اور ہر بددیانت کی بددیانتی اس کے اوپر ظاہر ہوگی اور وہ دیکھ لے گا۔ اب اگر اٹھانے کی بات ہے تو جو لوگ روز مرہ کسی کی ایکٹر زمین دبا جاتے ہیں یا بعض دفعہ غاصب ہوتے ہیں تو لاکھوں ایکٹر کے اوپر بھی قابض ہوجاتے ہیں۔ تو یہ نقشہ بھی پھر ذہن میں آنا چاہئے کہ لاکھوں ایکٹر زمین سر پہ اٹھائی ہوئی ہو اس لئے جو لوگ ظاہری معنوں پر جاتے ہیں ان کے لئے بڑی مشکل پیش آئے گی۔ امر واقعہ ہے کہ یہ تمثیلات ہیں اور ان کے معنے اُسی طرح سمجھنے چاہئیں۔ یعنی قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ قیامت کے دن ان کی بددیانتیاں ظاہر کردی جائینگی اور ان کے لئے ایک عام ذلت اور رسوائی لکھ دی جائے گی۔
اس آیت کے ساتھ اس حدیث کو باندھا گیا ہے اور مفسرین اس حدیث کی طرف بکثرت اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اُس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن یہ ہوتا ہے اگر کوئی بددیانتی کرے گا پس اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بددیانتی ممکن نہیں کہ آپ کو یہ پتہ تھا کہ یہ ہونا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بچپن سے ہی امین تھے۔ جب آپ چھوٹے سے بچے تھے اس وقت سے امین کہلاتے تھے اور نبوت تک سارا عرب جو بھی آپ کو جانتا تھا امین ہی کہتا تھا تو تعجب ہے کہ مسلمان مفسرین اس کی طرف کیوں اشارہ نہیں کرتے۔ اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا امانت دار ہو اور امین ہو۔اس کے اوپر ایسے الزام کا ذکر کردینا اور اس کی صفات حسنہ کا بیان نہ کرنا جو اس پر عائدہونے والے الزام کو کلیتاً رد اور پارہ پارہ کردیتی ہیں ان کا کوئی وجود پیچھے نہیں چھوڑتیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بددیانتی ہے۔ یہ وہ امانت جوہمارے سپرد ہے اُس میں خیانت ہے۔ محمد رسول اللہ ؐ ہم سب پر امین ہیں لیکن آپ کے تقدس کی ایک امانت ہم پر بھی ہے اگر ہم ایسے ذکر کرتے ہیں اور اس کا موثر جواب نہیں دیتے تو اس امانت میں خیانت کرنے والے ہونگے۔ اب میں آپ کو مفسرین میں سے جو مستشرقین ہیں ان کے بعض حوالے دکھاتا ہوں کہ ان باتوں میں کس طرح وہ مزے لے لے کر باتیں بیان کرتے اور کیا کیا لکھتے ہیں !
وقت بچانے کیلئے ترجمہ کردوں یا اصل الفاظ بھی پڑھ دیتا ہوں ۔
Sale لکھتا ہے
This Passage was revealed as some say on the division of the spoils at Badr and Some other soldiers suspected Muhammadؐ of having privately taken a searlet carpet, made all of silk, and very rich, which was missing.
(Al Bedhawi- Jalalud Din)
آپ نے بیضاوی بھی دیکھ لی ہے میں نے حوالہ پڑھا ہے
(نوٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔نیچے سے کٹ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۳۹)
اس میں تو یہ کسی Carpetکا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ذکر اُس چادر کا ہے اور پھر یہ کہتا ہے۔
Other Suppose the archers who occassion the loss of the battle of Uhad left their station because they imagined Muhammadؐ will not give them the due share in the booty etc.
اور پھر یہ یہاں بیضاوی کا حوالہ دیتا ہے اس جگہ ۔ رئووفی کا حوالہ اُس نے دیا تھا Wherry نے۔
Bell صاحب لکھتے ہیں
Traditions says that Muhammadؐ was accused of having concealed for himself cloak from the spoils of Badar.
یہ ترجمہ نسبتاً بہتر ہے۔ قریب تر ہے کہ اپنے لئے ایک کلوک (Cloak) لے لیا تھا۔
کیا کہتا ہے
BD(شاید بیضاوی کا مخفف ہوگا )
BD takes this as repudiation of the charges or as a prohibition of--- what he did on an other occasion when those who were absent on duty were leftout of the distribution.
یہاں دیکھیں ایک شرارت کہتا ہے یہاں تو بیضاوی کے نزدیک یہ repudiation ہے یعنی اس الزام کی نفی کی ہے "Or As A ProhibitionOf What he did on Another Occasion ,,
Prohibition میں نفی مراد نہیں ہوتی۔ مطلب ہے کہ ایک دفعہ پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ من ذلک ایک حڑکت کرچکے تھے۔ اُس سے منع فرمایا ہے گویاکہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرنی۔
As enlighted played its part in the defeat it might possibly be another self reproach on his part.
کہتا ہے جنگ احد میں جو شکست کے بعد نفسیاتی حالت تھی اُس وقت پرانے زخم بھی یاد آجاتے ہیں اور اس حالت میںہوسکتا ہے کہ اپنا ضمیر جاگ اٹھا ہو اوریاد آرہا ہو کہ اوہو ! میں ایک دفعہ پہلے بھی ایسی غلطی کر بیٹھا ہوں۔ تو اس لئے آپ نے یہ آیت بنالی۔ اب یہ ہیں Bell صاحب ! میں بتائوں گا کہ میں ابھی ان کے متعلق کیوں نہیں کچھ کہہ رہا آگے جاکے بتائونگا۔
واٹ صاحب لکھتے ہیں منٹگمری واٹ ۔ 162
In the context of the dishonesty which is mentioned here, fraudulent, some accusation of unfair treatment had been made against Muhammad, it is said but it isnot likely that the archers left their places because they suppose.
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام بڑی زور سے لگادیتا ہے اور نفی Archers کے بہتان کی کرتا ہے۔ محمد رسول اللہ ؐ کے الزام کی نہیں کرتا۔ جو لوگ یہ پڑھتے ہیں ان لوگوں سے آپ اندازہ کریں کس طرح ان کے دلوں میں زہر بھرتے ہیں اور کانوں میں زہر پھونکتے ہیں۔ جو ان کے رگ و ریشے میں سرایت کر جاتا ہے اور بڑی چالاکی کے ساتھ دفاع کیا ہے تو جس کا دفاع ہونا چاہئے اس کا دفاع نہیں کرتابلکہ Archers کا دفاع کرکے گویا یہ ہمدرد اور اسلام کا ساتھی ہے کہتا ہے یہ بات لغو ہے یہ نہیں میں مان سکتا کہ Archers نے سوچا ہو لیکن یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہو یہ تو خیر ہوسکتا ہے اس لئے میں اس کادفاع نہیں کرونگا۔مودودی صاحب بھی اس کا ذکر کرتے ہیں اور کچھ نہیں بولتے۔ بڑے آرام سے حوالہ دے جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریہ الزام لگا تھا اور بس آگے نکل گئے۔
Rodwell کہتا ہے اس کا ترجمہ کہتا ہے غَلَّ کا کہ
`` To act dishonestly, it is not the Prophet who will defraud you, Muhammadؐ have been accuses of having secretly approvpriated a portion of the Spoil.
یہاں یہ بھی اس سے دھوکہ دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ تھا الزام۔
The Holy Quran Version of the Ahle Bait میں آغا حاجی مرزا مہدی پویا یزدی صاحب اسی طرح اس الزام کا ذکر کرکے آگے نکل جاتے ہیں۔
Rev. Wherry اپنی Comprehensive Commentary میں لکھتا ہے
``It is not the part of Prophet to defrand.
یعنی ما کان لنبی کا ترجمہ کرتا ہے کہ
It is not the part of a Prophet to defraud, Sale says on the authority of Bedhawi and Jalal ud din that this Passage was revealed as some say on the divisionof the spoils of Badr when some of the soldier suspected Muhammadؐ of having Privately taken a searlet carpet made all of silk and very rich which was missing.
Other suppose the ardchers who occassion the loss of the battle of Uhad left their station because they imagined Muhammadؐ will not give them their share of the plunder because as it was related he once sent out a party as an advanced guards and in the mean time attacking the enemy took some spoils which he divided among those who were with him in the action and gave nothing to the party that was absent on duty.
ترجمہ اس کا لفظاً لفظاً توکرنے کی ضرورت نہیں وہی بے ہودہ سرائی ہے جو پہلے ذکر گزر چکا ہے۔ Sale کی طرف منسوب کرکے بات کو اور بھی زیادہ بڑھا کر پیش کرتا ہے کہ ایک نہایت ہی عالیشان ریشمی Carpet تھا جو بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے نعوذ باللہ غصب کے طورپر رکھ لیا تھا اور اس کی طرف اشارہ ہے اور پھر اس طرف بھی کہ جو Archers تھے وہ اس لئے بھاگے تھے کہ جانتے تھے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قابل اعتماد نہیں ہیں اور پہلی جنگ میں ایسی باتیں کرچکے ہیں۔ اس لئے اگر ہم نے دیر کردی تو یہ ہمارا مال ہاتھ سے جاتا رہے گا اور جس بحث کا قرآن کریم میں اشارہ ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ وہ تنازعہ اگر یہ تھا تو یہ بحث کیوں نہ وہاں چلی ؟
کسی روایت میں یہ ذکر نہیں ہے۔ روایت موجود ہے کہ یہ گفتگو تھی۔ عبداللہ کے ساتھ جو جھگڑا چلا ہے ان لوگوں کا۔
قرآن کریم نے اس کو ایک نزاع کے طور پر پیش فرمایا اور تاریخ نے اس کو محفوظ کیا ہے۔ اس میں اشارۃً اور کنایتہ بھی یہ بات نہیں ہے کہ انہوں نے نعوذ باللہ من ذلک ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بدظنی کی ہو۔ اب یہ محققین جوبنتے ہیں انکے علم میں ہیں ساری باتیں۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عمداً حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کو داغدار دکھانے کی خاطر بڑے مزے مزے لے کر یہ ذکر کرتے ہیں اور مسلمان مفسرین ان کے بیان میں اس طرح شامل ہوجاتے ہیں کہ بات کرتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں۔
Wherry پھر لکھتا ہے۔
The Tafseer e Raufi Says the passage was occasioned by certain of the companions desiring a larger share of the booty than their weaker brethren. God here signifies that all are to be treated alike, and that partiality in the division of booty would be dishonest.
اب میں آپ سے اس سلسلے میں کچھ اور گفتگو کروں گا۔ جس رسول پر یہ اس طرح اشارۃً الزام لگا رہے ہیں اس کا ایک ایسا کردار ہے جو نبوت سے پہلے کا بھی ہے اور نبوت سے بعد کا بھی ہے اور اُس کردار کو نظر انداز کرکے یہ بحث چلانا اور اُس کا ذکر نہ کرنا یہ بددیانت ہے جو قیامت کے دن ان پر بوجھ بنے گی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرضی بددیانت کی بات کرتے ہیں اور بھول رہے ہیں کہ عین اس وقت جب یہ گفتگو کررہے ہوتے ہیں یہ بددیانتی کررہے ہیں اور خیانت کرتے ہیں اور ایک ایسے پاک وجود کے متعلق دفاع میںوہ نہیں کہتے جو ان کو سب کو معلوم ہے اور ادنیٰ معمولی عقل کا انسان بھی ایسے وجود کے متعلق اس الزام کو جسکو کہتے ہیں Entertain کرنا۔ کسی طرح بھی در خود اعتنا نہیں سمجھتا اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر کسی طرح غور ہی کیا جائے اس پر توجہ دی جائے۔ اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو میں یہ کہتا ہوں کہ جہاں الزام کی بات ہورہی ہے وہاں یہ جب حضرت مسیح ؑ کے متعلق Commentary لکھتے ہیں تو وہاں یہ کیوں نہیں کہتے کہ ان کی ماں پر یہ الزام لگا تھا اور یہ یہ الزام لگائے گئے اور یہود نے یہ کہا اور بعض عیسائی محققین نے جنہوں نے اس الزام کی تائید کی ہے ان کے حوالے پھرکیوں نہیں دیتے اور آج کل تو نئی کتابیں ایسے شائع ہورہی ہیں جیسے نیوزی لینڈ کے ایک پادری نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں کھلم کھلا حضرت مسیح ؑ پر لگنے والے اس الزام کی تائید بھی کی ہے۔ یہ نئی generation میں ایسے پاگل پیدا ہورہے ہیں لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی یہ ذکر کرتا چلا جائے اور الزام کی نفی نہ کرے تو بڑی بے حیائی ہوگی۔ یہ الزام لگانے والے اس قدر ناشکرے اور بے حیائی سے کام لینے والے ہیں کہ قرآن جب اس الزام کا ذکر کرتا ہے تو سلیقہ بتاتا ہے کہ جب پاکوں پر الزام لگیں تو فرض ہے کہ اُس وقت اُس کی نفی کی جائے۔
قرآن فرماتا ہے
’’وقولھم علی ٰ مریم بھتاناعظیما‘‘
کہ یہود پر ہم نے *** کی اس لئے کہ انہوں نے ایک بہت ہی ظالمانہ الزام مسیح ؑ کی پاک ماں پر لگا دیا تھا اور اس ما ںکے متعلق فرمایا کہ وہ صدیقہ تھی۔
’’و امہ صدیقتہ ‘‘
تم کہتے ہو وہ ناپاک تھی ! ہم کہتے ہیں کہ پاک عورتوں میں بھی اس کا ایک عظیم عالیشان مقام تھا۔ تو قرآن کا تو یہ رویہ ہے ان لوگوں کے بزرگوں سے۔
اگر قرآن یہ طریق اختیار نہ کرتا تو مسلمانوں کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس الزام کی نفی کرتے۔ حالانکہ ان کے پاس ہے۔مسلمانوں کے پاس اس لئے وجہ نہیں تھی کہ حضرت مریم ؑ کے کردار کا انہیں کیا پتہ ؟ ساری زندگی نظر سے اوجھل ہے۔ وہ قوم الزام لگا رہی ہے جس میں آپ نے زندگی بسر کی تھی۔ جب بچے کو اٹھا کر لاتی ہیں تو وہ قوم آپ کے گرد وپیش میں بسنے والی۔ ابھی بچہ نبوت کا دعویدار بھی نہیںہوا اس لئے نبوت کی دشمنی شامل نہیں ہے۔ عام تاثر ہے۔ اور ساری قوم متفقہ طور پر الزام لگاتی ہے اور ملزم گردانتی ہے۔ اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟
اگر اسلام حضرت مریم ؑ کی بریت نہ کرتا تو کسی مسلمان‘ کسی صاحبِ ہوش انسان کیلئے کوئی وجہ ہی نہیں تھی کہ اس الزام کو درست تسلیم نہ کرتا کیونکہ اس کا نتیجہ عجیب و غریب بظاہر خلاف قدرت ہے۔ یعنی الزام قبول کرنے کے جتنے بھی مواجع ہوسکتے ہیں۔ جتنے بھی موجبات ہوسکتے ہیں وہ تمام تر موجود ہیں اور وہ قرآن جو محمد رسول اللہ ؐ کے دل پر نازل ہوا ہے اس کی عظمت کو دیکھیں اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دیکھیں کہ آپ نے کس شان کے ساتھ اُس الزام کی نفی فرمائی اور اُن الزام لگانے والوں کو مردود اور ملعون قرار دیا۔ حالانکہ ظاہری صورت میں اگر ایسا واقعہ آج بھی ہوجائے تو ایک آدمی یہ الزام لگا سکتا ہے۔ اُن کو ملعون قرار دینے کے اندر ہی دراصل یہ بریت فرما دی گئی ہے کہ جس مریم ؑ کو وہ جانتے تھے اس مریم ؑ پر الزام کا ان کو حق نہیں بنتا کیونکہ اُس مریم کا کردار پاک تھا۔اور ’’اُمہ صدیقتہً‘‘ کہہ کر بتادیا کہ ہم *** کیوں ڈال رہے ہیں ! یہ کوئی جبری فیصلہ نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس مریم ؑکا کردار جس نے اُن میں پل کے زندگی گزاری تھی وہ کردار ایسا عظیم الشان تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے ان کوالزام کا کوئی حق نہیں تھا پس قرآن کریم نے ایک ایک لفظ کے اندر وہ ساری کہانی‘ وہ پس منظر بیان فرما دیا ہے اور ان لوگوں کو عقل نہیں آتی۔ وہ کردار تو ہماری نظر کے سامنے نہیں ہے نہ ان کی نظر کے سامنے ہے کوئی عیسائی اس کردارکی تائید میں‘ اس کی پاکی کی تائید میں کوئی تاریخی گواہیاں پیش نہیں کرسکتا کہ مریم ؑ اس طرح پاک صاف تھی جبکہ ساری قوم الزام لگانے والی ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ایسا ہے جو دشمن کے سامنے بھی کھُلا تھا اور ماننے والوں کے سامنے تو ایسا کھُلا تھا جیسے دل کے نور کے اوپر آسمان کا نور اتر چکا ہو اور سارے ماحول کو منور کردیاہو۔ پس جب تک آپ ؐ نے دعویٰ نبوت نہیں فرمایا تمام قوم آپ کو امین کہتی رہی اور جب دعویٔ نبوت فرمادیا تو پھربھی کسی نے غیر امین ہونے کا الزام نہیںلگایا۔ اب یہ دیکھیں کتنی عظیم الشان کردار کی گواہی ہے۔ اُس وقت کہہ دیتے کہ غیر امین ہے۔
(کیوں جی وقت ختم ہوگیا ہے ؟ اتنی جلدی ! اچھا کل سہی پھر۔ اچھا السلام علیکم ! خدا حافظ ۔
باقی انشاء اللہ کل ۔ یہاں سے ہی شروع کریں گے )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 16 رمضان المبارک
27 فروری1994 ء
وما کان لنبی…… واللہ بصیر بمایعملون O (آل عمران 162-164)
ابھی ہم کل جس آیت پہ گفتگو کررہے تھے اس کا کچھ حصہ باقی تھا اس لئے میں وہیں سے شروع کرتا ہوں۔
یہ اسلام کے دشمن جو نقشہ جنگ احد کی مختلف آیات کے حوالے میں کھینچتے ہیں اس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ ایک لٹیروں کی جماعت ہے جسے دنیاوی مال و دولت کی حرص کے سوا اور کوئی غرض نہیں ہے اور ان میںحضرت اقدس محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے بار بار اس الزام کو دہراتے ہیں جس کے متعلق بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ کبھی منافقین نے کوئی الزام لگایا تھا۔اور یہ تاثر قائم کرتے چلے جاتے ہیں اور اس کو مزید تقویت دیتے چلے جاتے ہیں کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ لڑنے والے دنیاوی مال و متاع کے حریص تھے۔ کوئی روحانی اور کوئی خدا کی رضاکی غرض اس میں شامل نہیں تھی ان کے جہاد میں یا غزوات وغیرہ وغیرہ میں۔
اس ضمن میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر الزام دہرایا جارہا ہے میںبیان کررہا تھا کہ اس میں کوئی بھی ایک ذرہ اس بات کا بھی جواز نہیں ملتا کہ یہ بدبخت لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کُشی کی کوشش بھی کریں کیونکہ آپ کے کردار کا آغاز نبوت سے بہت پہلے سے بچپن سے اس زمانے سے ہوچکا ہے۔ جس پر تمام دشمن گواہ بیٹھے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحدی کے ساتھ یہ چیلنج دینے کا ارشاد فرمایا۔
فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون
کہ میں تو تم سے پہلے پوری عمر تم میں گزار چکا ہو ںکیوں عقل نہیں کرتے۔ اور اس کے جواب میںکبھی ایک دشمن نے بھی۔ شدید سے شدید معاند نے بھی یہ نہیں بتایا کہ نبوت سے پہلے تیرے کردار میں یہ داغ تھا یا وہ داغ تھا۔ اس لئے 40 سال تک جس کا عرصہ بچپن اور جوانی کا اس وقت تک جب وہ بڑھاپے میں قدم رکھتا ہے ۔ کلیتاً بے داغ رہا ہو۔ اس کے متعلق کسی الزام کو Entertain کرنا یعنی اس کو قابل توجہ سمجھنا۔ یہ اس کا نام جو مرضی رکھ دیں۔ میں سخت لفظ بولوں گا تو بعض لوگ کہیں گے کہ زیادہ سختی کی ہے مگر بغیر سخت لفظ کے اس کا نام رکھا جا نہیں سکتا۔ جو چاہیں سوچ لیں مگر شرافت کی حدود میں ایسے شخص پر الزام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی اجازت نہیں ہے۔جہاں تک اموال کی محبت کا تعلق ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ سے جب شادی ہوئی تو وہ عرب کی متمول ترین خواتین میں سے تھیں بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ قریش میں سب سے امیر خاتون تھیں اور پہلی رات ہی آپ نے جب حضرت خدیجہؓ نے اپنا سب مال و دولت آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔کہ اب یہ آپ کا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اچھا یہ میرا ہے۔میرا ہے تو ہاں پھر میں اسے خود تقسیم کرونگا اوروہ تمام مال دولت غرباء میں تقسیم کردیا۔ یہ ہے اس شخص کا کردار جس نے جنگ بدر کے موقعے پر ان کے کہنے کے مطابق ایک چادر چھپالی تھی اور چادر بھی ریشمی تھی جس کے متعلق حکم تھا کہ کوئی نہیںپہنے گا۔ اور بعض نے اس کو پھر قالین بنایا۔ ایک عظیم الشان قالین ۔ اور وہ چھپائے پھرتے تھے۔ یہ ایسی حیرت انگیز کہانی ایسی ظالمانہ کہانی ہے کہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ وہ کن قالینوں پہ سونے والا انسان تھا۔ یہ ذکر سنیے۔
حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ بن خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؐ بیمار تھے۔ حضورؐ ایک قطوانی چادر پر لیٹے ہوئے تھے اور تکیہ ایسا تھا جسمیں اذخر گھاس بھری ہوئی ہے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی۔ حضو ر! میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔ قیصر و کسریٰ تو ریشمی گدوں پر آرام کریں اور حضور اس حالت میں ہوں۔ یہ سُن کر حضور نے فرمایا۔اے عمر ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ اُن کے لئے یہ چیزیں اس دنیا میں ہیں اور تم لوگوں کیلئے آخرت میں ہوں گی۔یہاں جہاںپہلے لفظ چادر استعمال کیا گیا ہے دوسری روایت میں اس کا زیادہ تفصیل کے ساتھ نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ یہ ہے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر سو رہے تھے۔ جب اٹھے تو چٹائی کے نشان پہلوئے مبارک پر نظر آئے۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کے لئے ایک نرم سا گدیلا نہ بنادیں ؟ یا گدیلا بنادیں تو کیا یہ اچھا نہ ہو؟آپؐ نے فرمایا : مجھے دنیا اور اس کے آراموں سے کیا تعلق۔ میں اس دنیا میں اُس سوار کی طرح ہوں جو ایک درخت کے نیچے سستانے کیلئے اُترا اور پھر شام کے وقت اس کو چھوڑ کر آگے چل کھڑا ہوا۔ یہ ہے حضرت اقدس محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار۔ترمذی کتاب الزہد صفحہ 60
جہاں تک بیت المال کے اموال کا تعلق ہے۔جہاں تک قومی اموال کا تعلق ہے۔ ان کے متعلق آپ ؐکا رویہ کیا تھا؟ محمد بن زیاد سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا : حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما نے صدقہ کی کھجور میں سے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کخ کخ ! یعنی تھُو تھُو ! تاکہ وہ اس کھجور کو پھینک دے۔پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے ! پھرایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بخاری کتاب الزکوۃ باب من احب …الصدقۃ من یومھا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز عموماً ٹھہر ٹھہر کر پڑھایا کرتے تھے لیکن ایک نماز ذرا جلدی میں پڑھائی اور بڑی تیزی کے ساتھ نماز کے بعد گھر میں داخل ہوئے تو بعد میں صحابہ ؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ !یہ کیا بات تھی ؟ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے یاد آگیا نماز کے دوران کہ جو مال میں نے غرباء میں تقسیم کرنا تھایعنی قومی مال اس میں سے ایک سونے کی ڈلی ابھی گھر پڑی ہوئی تھی تو میں نے یہ پسند نہ کیا کہ میں اسے رات بھر گھر میں رکھوں اس لئے میں جلدی سے گھر واپس گیا ہوں۔ اور پھر وہ ڈلی باہر لے کے آئے اور اُسے تقسیم فرمادیا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھاکے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف ہوگئی تھی اور گٹے پڑ گئے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ مل سکے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ے پاس پیغام بھیج دیا کہ میرے لئے میرے باپ ؐ سے یہ سفارش کروکہ میرے لئے کچھ اس کا انتظام کریں۔یعنی کچھ مال آئے ہوئے تھے باہر سے۔ ان میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اس کا ذکر کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر آئے اس کے جواب میں۔ ہم بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ حضور کے تشریف لانے پر ہم اٹھنے لگے۔ آپ نے فرمایا نہیں ! لیٹے رہو حضورؐ ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ یہاں تک کہ قدموں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے پر محسوس کی۔ پھر آپؐ نے فرمایا : میں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتائوں؟ جب تم بستروں پر لیٹنے لگو تو 34 دفعہ اللہ اکبر کہو۔ 33 بار سبحان اللہ اور 33 بار الحمداللہ کہو۔ یہ تمہارے لئے نوکر سے بہتر ہے۔
مطالبہ یہ تھا کہ جو غلام آئے ہیں ان میں سے ایک غلام ہمیں دے دیا جائے تاکہ وہ پیسا کرے۔ وہ چکیاں کیسی ہوتی تھیں۔ وہ نعمتیں کیا تھیں؟ اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ کے متعلق روایت ہے کہ آنحضورؐ کے وصال کے بعد جب ایران کی فتوحات وغیرہ کے زمانے میں باہر سے نرم آٹا آیا تووہ آٹا لونڈی نے اس کی روٹی بنا کر پیش کیا تو حضرت عائشہ ؓ کے گلے سے وہ لقمہ اترتا نہیں تھا۔ سخت تکلیف میں تھیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ لونڈی نے تعجب سے پوچھا کہ میںکیا دیکھ رہی ہوں۔ یہ تو بہت ہی اچھا آٹا ہے۔کیوں انکے گلے سے لقمہ اتر نہیں رہا۔آپ نے فرمایا کہ میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جو آٹا کھایا کرتے تھے اس زمانے کی چکیاں ایسی تھیں کہ موٹے موٹے اس کے دانے ہوتے تھے اور جنگ اُحد کے تعلق ہی کی یہ بات ہے کہ آپ ؐکے دانت شہید ہوچکے تھے اور اس کی وجہ سے تکلیف باقی تھی۔ اور آپ ؐ سے وہ آٹا چبایانہیں جاتا تھا۔ اب ہم نرم آٹے کھا رہے ہیں۔
یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ہے۔ جن کے متعلق یہ بدبخت لوگ کس طرح زبانیں دراز کرتے ہیں۔ پس کوئی حیا نہیںہے یا تو یہ بالکل ایسے جاہل مطلق ہوں کہ اسلام کی تاریخ پر ا نکی کوئی نظر نہ ہو۔ بڑی تفصیل سے انہوں نے کریدا ہے۔ ہر قسم کی کتب کا مطالعہ کیا ہے مگر نظر چونکہ محض اعتراض ڈھونڈنے پر وقف رہی ہے۔ اس لئے کوئی اچھی بات کہیں بھی ان کو نظر آتی ہے تو تکلیف پہنچتی ہے۔ اس سے صرف نظر کرکے آگے گزرتے ہیں ۔ پتہ نہیں کیسے کھوج ان لوگوں نے لگائے۔ کیسی کیسی راتوں کو چراغ انہوں نے جلائے۔ اس لئے کہ اپنے ذہن اور اپنی روح کو اور بھی زیادہ تاریک کرلیں۔ اس کے سوا ان کی تاریخ دانی کا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔ جہاں تک جنگی اموال اور ان پر قبضہ کرنے کا تعلق ہے۔ آپ کو کتنی حرص تھی اس کی۔ اس کے متعلق سنئے ! وہ بنو ہوازن جنہوں نے جنگ حنین میں سب سے زیادہ تکلیف آنحضرت ؐ اور آپ کے غلاموں کیلئے پیدا کی۔ ان کے متعلق جب مفتوحین قیدیوں کی صورت میں وہاں حاضر ہوئے تو چونکہ حضرت حلیمہ‘ آپ کی دائی بنو ہوازن میں سے تھیں انہوں نے بنو ہوازن نے حلیمہ دائی کا واسطہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کھلانے والی Dry Nurse یا Wet Nurse،Wet nurseہی تھیں غالبا،ہاں دودھ پلانے والی تھی وہ تو ہمارے قبیلے سے تھیں تو کیا آپ اس کے نتیجے میں ہم پر احسان نہیں فرمائیں گے۔ آپ ؐنے یہ جواب نہیں دیا کہ تم جب تیر برسا رہے تھے ہمارے سینوں پر اس وقت وہ رشتہ کہاں تھا؟لیکن آپ ؐ نے فرمایا کہ اچھا میں اور یہ جو ہمارا خاندان ہے بنو ہاشم کا ہم اس کو آزاد کرتے ہیںاپنے حصے کے غلاموں کو۔ ابوطالب اور ان کی اولاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور سارے جتنے بھی اس خاندان سے خونی رشتہ رکھتے تھے جس خاندان پر حلیمہ دائی کا احسان تھا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم فراست بھی دیکھیں کہ اس موقعے پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ اہل ایمان پر اس کا احسان ہے ۔ اسلام پر کوئی احسان ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے جو اس نے بچے کے طور پرجوپالا تھا۔ اس خاندان کے بچے کے طور پر پالا تھا تو زیادہ سے زیادہ حق ان کا ہم پر بنتا ہے۔ میں باقی مسلمانوں کے قیدی کیسے آزاد کرسکتا ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لے جاؤہمارے حق کے جو غلام ہیں وہ سب آزاد ہیں۔ جب یہ خبر صحابہ رضوان اللہ علیھم کو پہنچی تو انہوں نے بے اختیار کہا کہ اے ہمارے آقا ما کان لنا فھو لرسول اللہ جو کچھ ہمارا ہے وہ بھی تو آپ ہی کا ہے۔ اس لئے سارے قیدی آزاد ہوگئے۔ یہ وہ حریص ڈاکہ ڈالنے والے ۔ مال غنیمت کے خواہاں لوگ ہیں جن کا نقشہ یہ Wherry اور اس کے ساتھی کھینچتے ہیں کیا اُن کی ان حالات پر نظر نہیں تھی؟ یقینا تھی ! لیکن بددیانت لوگ ہیں۔ تقویٰ سے کلیتاً عاری۔ ایک غلط تصور اسلام اور رسول ؐ اسلام کا پیش کرنے کی خاطر ہر بہانہ تلاش کرتے ہیں اور جہاں جواز نہ بھی ہو وہاں بھی حملے کرتے ہیں۔ وہ جگہ جہاں حملے کے جواز کی گنجائش ہی نہیں ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ہے اور آپکے صحابہ کا کردار ہے لیکن اس کو یہ ترک کردیتے ہیں اس سے صرف نظر کر جاتے ہیں۔
لیکن ایک اور واقعہ یہ گزراکہ بنو طئی کے قیدیوں کو بھی آپ نے آزادفرمانے کا حکم دیا۔ عرب کاایک مشہور سخی حاتم طائی کے نام سے مشہور ہے۔ جس کے متعلق آتا ہے کہ اس نے سارے اہل عرب پر احسان کے ہوئے تھے۔ کسی نہ کسی رنگ میں عرب کا کوئی نہ کوئی قبیلہ اس کے زیر احسان آگیا تھا۔ حاتم طائی کی بیٹی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تو آپ ؐ نے فرمایا کہ میںاس کومیں آزاد کرتا ہوں یہ حاتم طائی کی بیٹی ہے۔ بہت بڑا محسن تھا اس کے خیر کا بدلہ اس طرح ہم دیتے ہیں تو حاتم طائی کی بیٹی نے کہا کہ میں تو نہیں آزاد ہونگی جب تک میرا سارا قبیلہ آزاد نہ ہو۔ آخروہ اسی باپ کی بیٹی تھی جس کے سب پر احسان تھے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہاں بنو عبدالمطلب کی کوئی شرط نہیں رکھی جہاں پہلے بنو عبد المطلب اور ابو طالب وغیرہ کی اولاد کی شرط تھی۔ سب کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔اب یہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فیصلے اور پہلے فیصلے میں جو لطیف فرق ہے وہ ظاہر ہوتا ہے۔ پہلے محسن صرف آپ کے خاندان کا محسن تھا۔ اب ایسے محسن کی بات ہورہی ہے جو سارے عرب کامحسن تھا۔ تو وہاں آپ نے فرمایا ھل جزاء الاحسان الا الاحسان یعنی یہ مضمون ہے۔ اب تم سب پر فرض ہے کہ اس احسان کا بدلہ اتارو۔یہ ہیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ ناپاک لوگ ناپاک حملے کرتے ہیں۔
جہاں تک نعوذ باللہ من ذلک لٹیرے صحابہ کا حال ہے۔ وہ تو وہ تھے جو گھروں سے نکالے گئے۔ جن پر تلوار پہلے اٹھائی گئی۔اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا و ان اللہ علی نصرھم لقدیر الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حقیہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق یہ سارے مستشرقین جانتے ہیں کہ قطعاًکوئی ایک بھی وجہ ان کے مال چھیننے اور ان کو گھروں سے نکالنے کی موجود نہیں تھی اور ایک بھی اگر ان میں سے اپنے دین سے تائب ہوجاتا تو نہ صرف یہ کہ اس کو اپنے اموال اور گھروں سے محروم نہ کیا جاتا بلکہ اس پر اور بھی مال نچھاور کرنے پر تیار بیٹھے تھے تو یہ سارے وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی کمائیوںپر بلکہ عمر بھر کے اندوختوں پر لات ماری ا ور ایک پائوں کی ٹھوکر سے انہیں دھتکار دیا اور خدا کی خاطر ننگے ہاتھ ہوکر وہاں سے چل پڑے۔ کیسی بدبختی ہے کہ ان پر یہ الزام ہے کہ یہ Marauders ہیں۔ یہ لوٹ مار کرنے والے لوگ ہیں۔ ان کو تو صرف مال غنیمت سے غرض تھی اور کسی چیز سے غرض نہیں تھی۔ ایسے لوٹ مار کرنے والے کہیں نکال کے دکھائو تو سہی تاریخ میں جن سے محض خدا سے ان کے خدا سے تعلق کے نتیجے میں ان کے گھربار لوٹ لئے گئے۔ انکو مارا گیا۔ ان کو قتل کیا گیا۔ انکو اپنے وطنوں سے بے وطن کیا گیا اور پھر ان پر حملہ کرنے کیلئے دشمن چڑھ دوڑا اور ان کا ذکر پتہ ہے کس طرح کرتا ہے جنگ اُحد کے ذکر ہیں؟ کہتا ہے ’’Makkan Princes‘‘ یہ مکے کے شہزادے تھے۔ جو حملہ کررہے تھے۔ ان ڈاکوئوں اور لٹیروں پر۔ اس سے زیادہ بدبختی کیا ہوسکتی ہے۔ اور اب میں کچھ کہہ نہیں سکتا کیونکہ ایک احمدی خاتون نے بڑا احتجاج کیا ہے کہ تم بعض دفعہ اتنا سخت لفظ بول جاتے ہو ان لوگوں کے متعلق کہ زیب نہیں دیتا خلیفہ وقت کو ایسی زبان استعمال کرنا میں اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالوں گا کہ یہ قصہ کیا ہے؟وہ کہاں گیا موادسارا؟تو یہ تو ہے جہاں تک صحابہ یہ رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کا تعلق ہے
جہاں تک جواب میں سختی کا تعلق ہے اس سلسلے میں جب مجھے یہ نصیحت پہنچی تو میرا ذہن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃو السلام کی اُن تحریرات کی طرف منتقل ہوا۔ جن میں بعض دفعہ پڑھتے ہوئے ہمیں خود بھی بچپن میں لگتا تھا کہ بہت زیادہ سختی کی گئی ہے۔ بڑا سخت جوابی حملہ ہے۔ اور انہی سختیوں کو لیکر آج کے علماء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف مسلمانوں کو اس طرح بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں تو نبیوں کی عزت ہی کوئی نہیں۔ دیکھو ! حضرت عیسیٰؑ پر ایسا جوابی حملہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور ایسی سخت زبان عیسائیو کے متعلق یا جو پادری کے متعلق جو ہندوستان میںیلغار کررہے تھے۔ انکے متعلق استعمال ہوئی ہے اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ میں اس وقت اُس مضمون کو تفصیل سے نہیں لے سکتا مگر یہ درست ہے کہ بعض جگہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلامکے کلام میں جواباً سختی ملتی ہے۔ مگر کن باتوں کے جواب میں؟ اگر یہ اُن پادریوںکی تحریریں پڑھیں جو Wherry کے زمانے ہندوستان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف لکھ رہے تھے تو کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا اس کو پڑھنا۔ یعنی خون بھی کھولنے لگ جاتا ہے غصے سے ۔ اور انسان غم سے پگھل بھی جاتا ہے۔ پوری طرح دل گداز ہوجاتا ہے اور آستانہ الوہیت میںبہتا ہے کہ اے خدا ! یہ کیا ظلم ہورہا ہے ؟ یہ وہ لوگ ہیں۔ یہ Wherry کے پالے ہوئے لوگ یا اس قسم کے دوسرے پادری جو اس زمانے میں وہاں پہنچے تھے۔ انہوں نے دراصل کالوں کو عیسائی بنا کر انکو پھونکیں دے دے کر پاگل بنایا ہوا تھا۔ان کو کہتے تھے کہ تم بادشاہ کے بھائی بن گئے ہو۔ محاورہ بنا ہوا تھا ’’عیسائی بادشاہ کے بھائی‘‘۔اب تم ہم میں سے ہوگئے ہو گویا کہ ۔ اور پھر ان پر خرچ کئے ان کی تربیت کیلئے انہوں نے بہت سے وہاں اسکول کھولے اور باہر بیٹھے آپ تو جیسی بھی تہذیب تھی وہ خود ا نکی زبانوں سے بھی پھُوٹ رہی ہے مگر پھر بھی کسی حد تک تہذیب کے پردے میں پیچھے بیٹھے رہے اور ان دیسیوں سے وہ وہ گند اچھالا ہے۔ جن میں سے کچھ پہلے مسلمان مولوی تھے پھر وہ عیسائی ہوئے۔ کچھ ہندوئوں میں سے آئے کوئی دوسرے لوگوں میں سے اور نہایت ہی غلیظ اسلام کے خلاف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کردار کُشی کی مہم شروع کی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے وہ سب باتیں تھیں وہ پڑھتے تھے تو آپؑ کا دل خون ہوتا تھا۔ آپؑ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسی زبان استعمال کی جائے اس سے زیادہ میں یہ برداشت کرسکتا ہوں کہ میرے بچے میرے عزیز ایک ایک کرکے میرے سامنے ذبح کردیئے جائیں مگر جو تکلیف مجھے محمد رسول اللہ ؐ کی کردار کُشی سے پہنچتی ہے تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔یسی صورت میں انسان بے اختیار ہوجاتا ہے وہاں منصب کی بحث نہیں رہتی۔ قرآن کریم فرماتا ہے۔لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم وکان اللہ سمیعا علیما O ان تبدوا خیراً او تخفوہ او تعفوا عن سُوئٍ فان اللہ کان عفواً قدیراً۔ (نساء آیت ۱۵۰ ۔ ۱۴۹)
لایحب اللہ الجھر بالسوئاللہ تعالیٰ سخت کلامی کا پبلک اظہار پسند نہیں فرماتا
جھر بالسوء : یعنی سخت کلامی کو کھلے بندوں کیا جائے بازاروں میں یا عوام کے سامنے سخت کلامی کی جائے یہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔
الا من ظلم : مگر جس پر ظلم کیا جائے اس کو اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ سمجھتا ہے۔
وکان اللہ سمیعا علیما : اور اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃو السلام پر یا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق پر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانیاںکی جائیں اور کوئی جواز ادنیٰ بھی اس کا موجود نہ ہو۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ ایک موقعے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مسلک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور پھر صبر کی تلقین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یعنی یہ بظاہر ایک عجیب سا تضادنکلتا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
گالیاں سُن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
دوسری طرف یہ جو سخت کلامی ہے بعض موقعو ںپر اس میں کیا جوڑ ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ بدکلامی اپنے متعلق برداشت کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق برداشت ہوتی نہیں تھی۔ یہ ایک بے اختیاری کا معاملہ ہے پس اپنے متعلق جب بھی کوئی شخص سختی کرتا تھا جواب میں تواس کو روک دیا کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک صاحب تھے جو پروفیسر کہلاتے تھے۔ وہ خاص عقل کی باتیں اس قسم کی کیا کرتے تھے۔ کالج میں پروفیسر نہیں تھے مگر اپنی دانشوری کی وجہ سے پروفیسر کہلاتے تھے اور بہت مخلص اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق تھے۔ ایک موقعے پر ایک شخص جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کے خلاف بدزبانی کی اس کو انہوں نے بہت سنائیں۔کھری کھری سنائیں آگے سے۔ خواجہ صاحب اس وقت یہ دیکھ رہے تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام سے یہ شکایت کی کہ دیکھیں آپؑ تو منع فرماتے ہیں ایسی بدکلامی سختی نہیں کرنی چاہئے اور ایک شخص نے آپ کے متعلق بد زبانی کی تھی تو پروفیسر صاحب نے آگے سے اس کو کھری کھری سنائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پروفیسر صاحب کو بلایا اور فرمایا۔ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ نرمی اختیار کرو۔ خدا تعالیٰ کی یہی تعلیم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام سمجھا رہے تھے اور پروفیسر صاحب کا چہرہ برداشت کرتے کرتے سُرخ ہورہا تھا۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالی عنہ لکھتے ہیں کہ بظاہر تو گستاخی کی بات تھی لیکن وہ عشق کا معاملہ تھا۔ آخر وہ برداشت نہ کرسکے اور پھوٹ پڑے۔
آپ کے پیر محمد رسول اللہ کو کوئی کہے تو آپ مباہلوں کیلئے تیار ہوجاتے ہیں اور کتابیں لکھ دیتے ہیں۔ ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارے پیر کو کوئی گالیاںدے تو چپ رہو۔ یہ عشق کے قصے ہیں۔ یہاں جاکر تعلیمیں پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ ناقابل برداشت کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں جہاں جا کے وہ آیت عمل دکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم کہ اللہ تعالیٰ سخت کلامی کے عام اظہار کو پسند نہیں فرماتا کھلے بندوں اظہار کو پسند نہیں فرماتا مگروہ جو ظلم کیا گیا ہو اس پر کوئی حرف نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
دیکھو ! جو آل رسول ؐ کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسولؐ بن گئے۔یہ ان کے پروردہ لوگ ہیں۔ Wherry اور اس کے ساتھیوں کے۔
’’جو آلِ رسولؐ کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسولؐ بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کرلیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دُکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دکھا ہے۔ پس کیا ابھی اُس آخری مصیبت کا وقت نہیں آیا جو اسلام کیلئے دنیا کے آخری دنوں میں مقدر تھا۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا ہے جو قرآن کریم اور احادیث کی رو سے ان موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہوگا۔ تو بھائیو ! تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو !! اور خوب سوچ لو کہ وقت آگیا اوربیرونی اوراندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔‘‘
یہ ہے جواب اُس نصیحت کا جو مجھے کی گئی لیکن اس کے باوجود جہاں تک قوت برداشت کو بڑھانے کا تعلق ہے یہ اچھی بات ہے۔ جو کچھ بھی گزرے انسان کو اپنی زبان پر جہاں تک مقدور ہو ضبط کرنا چاہئے اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے اگرچہ انسان کو تکلیف زیادہ ہوتی ہے لیکن فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والے جن کے سامنے وہ تحریریں نہیں ہیں جن سے مجبور ہوکر ایک آدمی سخت کلامی پر اتر آتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی طرف سے ہی زیادتی ہوئی ہے اور یہ نہیں کرنا چاہئے تھا اور بعض دوسرے لوگ جن کو ہم تبلیغ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی بعض دفعہ ہوسکتا ہے اس سے بداثر لیکر بدک جائیں تو اس غرض سے میں نے یہی فیصلہ کیا ہے اگرچہ مجھے اس بات کی پرواہ نہیں جس طرح مجھے لکھا گیا ہے کہ دنیا والے کیا کہیں گے۔ قطعاً مجھے پرواہ نہیں ہے۔ مجھے صرف اس بات کی پرواہ ہے کہ اللہ کی نظر میں مجھ سے ایسی غلطی نہ ہوگئی ہو جو خدا کو ناپسندیدہ ہو۔ اور اگرچہ وہ آیت کریمہ مجھے سہارا دے رہی ہے مگر پھر بھی یہ صرف ایک خوف ہے اس کے سوا کوئی خوف نہیں ہے۔ نہ ان کے جوابی حملے کا خوف۔ نہ کہ دنیا کیا سمجھے گی میری زبان کیسی تھی۔ ایک ذرہ بھی پرواہ نہیںہے کیونکہ وہ ایک بے اختیاری کا معاملہ تھا جو بے اختیار زبان سے دل کے جذبات پھوٹے ہیں اور کوئی صورت اور نظر نہیں آتی تھی ۔ مجھے کوئی لفظ ملتے نہیں تھے۔ تاہم جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس حکمت کے پیش نظر میرا فیصلہ یہی ہے کہ آئندہ جب یہ دوبارہ یہ درس دکھائے جائیں گے۔ Video میںاتنے حصے میں تھوڑا سا خلا ڈال دیا جائے اور یہ ظاہر کردیا جائے کہ یہاں کچھ زیادہ سخت لفظ تھے اور درس دینے والے کی ہدایت کے مطابق اس حصے کو کاٹ دیا گیا ہے اور جب وہ چھپے گا تو پھر چھپتے وقت بھی یہ آجائے کیونکہ ورنہ پھر یہ تاریخ بدلنے والی بات ہوگی۔ جو نکل چکا ہے منہ سے۔ اسے اب واپس تو نہیں لے سکتے مگر اس کے متعلق یہ اصلاحی کارروائی کرسکتے ہیں کہ دوسرے ایڈیشن میں اس کو نہ ظاہر کریں مگر ذکر کردیں کہ یہاں کچھ سخت کلامی تھی جسے بعد میں یہاں سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔میں نے کہا وقت ! کل کی طرح نہ ہو بتا دیں مجھے ابھی کافی وقت ہے۔
ہاں ! تہمینہ قریشی نے جو چوہدری اعجاز احمد صاحب کی بیٹی ہیں انہوں نے توجہ دلائی ہے کہتی ہیں میں پرانا جو درس تھا جس میں مختصر بہائیت کا بھی ذکر آیا تھا تحقیق کے سلسلے میں وہ کیسٹ سے سن رہی تھی کیونکہ میں اس دن موجود نہیں تھی تو وہاں آپ نے لفظ ’’نقطہ‘‘ کو مرزا یحییٰ کی طرف منسوب کیا ہے جو بہاء اللہ کا بڑا بھائی تھا ۔ تو یہ درست ہے ؟وہ دراصل یہ یاد دلانا چاہتی ہیں کہ درست نہیں ہے۔ بات ہے کہ نقطہ کا جو لقب ہے یہ خود بہاء اللہ کا لقب تھا اس کے بھائی کا نہیں تھا اور نقطہ سے مراد ان کی یہ ہے کہ ساری کائنات کے مقاصد سمٹ کر اس ایک ذات میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔ یہی تمام سچائیوں کا مرکز ہے۔ اس لحاظ سے بہاء اللہ کو نقطہ کہا جاتا تھا یہ بھی ریکارڈ ہوجانا چاہئے کہ غلطی سے میںنے کسی اور کے متعلق کہہ گیا تھا لفظ نقطہ۔
افمن اتبع رضوان اللہ ……واللہ بصیر بما یعملون O (آل عمران 163-164)
یہ دو آیتیں ہیں مگر مضمون اس طرح ملا جلا ہے کہ ان کو الگ الگ آیت کے طور پر لینے کے بجائے دونوں کا اکٹھا درس ہوگا۔لفظ بئس کے متعلق لغوی بحث ہے میرا خیال ہے اس کی یہاں ضرورت نہیں ہے کہ جب استعمال ہوتا ہے تو مخصوص بالذم کس کو کہتے ہیں ۔ فاعل کیا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اتنی سی بات سمجھنی کافی ہے کہ بس چیز کے متعلق ’’بئس ‘‘ کہا جائے اس کے متعلق یہ اظہار ہے کہ ’’کیا ہی برا ہے‘‘۔ ’’کیسی بُری چیز ہے‘‘۔ناپسندیدگی کے اظہار کیلئے اور متوجہ کرنے کیلئے یہ چیز خصوصیت کے ساتھ برائی رکھتی ہے بئس کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
المصیر: اس کا ہم نے کہیں ٹھکانہ ترجمہ کردیا کہیںلوٹنے کی جگہ وغیرہ وغیرہ۔ میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ مختلف معانی جو اس ایک لفظ میں موجود ہیں ان کی رو سے یہ سب قسم کے ترجمے جائز ٹھہرتے ہیں۔ اس لئے میں تفصیل سے سمجھا دوںکہ ’’مصیر‘‘ کس کو کہتے ہیں۔صار کسی چیز کے کسی خاص حالت تک پہنچنے کو کہاجاتا ہے۔ صار الرجل فلانافلاں شخص یہ ہوگیا۔ تو ایک کیفیت سے کسی دوسری کیفیت کی طرف منتقل ہونے کیلئے لفظ ’’صار‘‘ استعمال ہوتاہے۔
(نوٹ: یہاں پر دو تین جملے نشریاتی رابطہ میں خرابی کی وجہ سے Miss ہوگئے ہیں)
........ اسی لئے تاج العروس اورمحیط نے اس کا ترجمہ جمع ہونے کی جگہ بھی کردیا ہے ۔اس نسبت سے کہ وہاں سب پانی اکٹھے ہوگئے یعنی سب چیزیں وہاں جمع ہوگئیں۔ابن فارس نے کہا ہے کہ اس کے بنیادی معنے مآل اور مرجع کے ہیں یعنی لوٹنا اور انجام۔ پس جب ہم کہتے ہیں بہت ہی بری لوٹنے کی جگہ ہے تو یہ بھی درست ہے۔ یعنی مرجع یہ ہے آخر کار وہاں پہنچنا ہے۔
راغب نے کہا ہے اور یہ بڑی تفصیل گہرائی سے اس مــضمون کی نوعیت اس کی کنہ بتاتے ہوے سمجھاتے ہیں کہ یہ کیوں استعمال ہوتا ہے اور اس میں کیا حقیقت ہے۔ فرماتے ہیں ۔ صار سے مراد چونکہ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونا ہے اس لئے المصیراس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز انتقال حرکت کے بعد پہنچ کے ختم ہوجاتی ہے۔ آگے پھر کوئی حرکت نہیں ہے۔ پس جب کہتے ہیں بئس المصیرتومراد ہے۔ جس کا انجام کار آخری رخ جہنم کی طرف ہو اور اس کے بعد پھر آگے کوئی اور چلنے کی جگہ باقی نہ رہے۔ وہاں پہنچ کر ٹھہر جانا جس کے مقدر میں ہو وہ بڑا ہی بدنصیب انسان ہے۔ پس وہ آخری مقام ان لوگوں کا مصیر کے طور پر بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد پھر کوئی اور رخ نہیں۔ ان کے تمام رخ ایسی جہنم کی طرف ہیں جو ان کی آخری منزل ہے۔ اس سے آگے پھر کوئی منزل نہیں ہے۔
شان نزول کی بحث جیساکہ میں نے دیکھا ہے اکثربہت اس کا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم کی شان نزول تو ساری انسانیت ہے اور انسانی مسائل ہیں۔ اور وہ مسائل دنیا کے کسی وقت ‘ کسی زمانے‘ کسی مقا م اور کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں وہ قدر مشترک ہے انسانیت کی۔ اس لئے قرآن کریم کی شان نزول پر ایسا زور دینا کہ بعض خاص واقعات سے باندھ دینا یہ مناسب نہیں ہے۔ قرآن کی شان کے خلاف ہے۔ یہ تو سب دنیا کیلئے کتاب ہے اور ہرزمانے کیلئے ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض دفعہ اگر یہ قطعی طور پر علم ہو کہ آیت ایسے وقت نازل ہوئی جب ایک واقعہ رونما ہوا تھا تو اس واقعہ کی تشریح میں ہمیں مدد ملے گی لیکن واقعہ قرآن کی تشریح کو محدود نہیں کرسکتا۔ اس احتیاط کو پیش نظر رکھتے ہوئے بے شک شان نزول کی بات کیا کریں۔ یعنی شان نزول سے مرادیہ صرف قرآن کے تعلق میں لی جائے گی کہ اگر کوئی واقعہ اس وقت ایسا ہوا ہے جس کے متعلق آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کی حقیقت کیا تھی تو جو آیات اس عرصے میں نازل ہوئی ہیں ان کی روشنی میں اس واقعہ کی حقیقت کو پرکھیں۔ درست ہے لیکن آیت کے معنی کو یا آیات کے معانی کو اس واقعہ سے باندھ کر محدود کردینا یقینا غلط ہے۔ اور نہ ہی اس واقعہ کا ترتیب پر کوئی اثر ہے۔ اور یہ خصوصیت سے پیش نظر رکھنے والی بات ہے کہ آنحضرت ﷺ پر مختلف اوقات میں آیات نازل ہوئی ہیں لیکن آپ نے اس ترتیب کو آخری ترتیب قرار نہیں دیا بلکہ جبرئیل علیہ السلام جب تشریف لاتے تھے حاضر ہوتے تھے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں تو بتاتے تھے کہ اس آیت کو فلاں جگہ رکھنا ہے اوراس آیت کو فلاں جگہ رکھنا ہے اور جب قرآن کریم کو مرتب کیا گیا آخری صورت میں تو ہر آیت کے متعلق گواہیاں لی گئی ہیں۔ حضرت عثمان ؓ جن کے متعلق یہ شیعہ نعوذ باللہ بڑی سخت بد کلامی کرتے ہیں۔ ان کا یہی احسان امت پر ایک عظیم الشان احسان ہے اور اُس کی ان کو تکلیف بھی بڑی ہے۔ کہتے ہیں یہ وہ قرآن نہیں ہے نعوذ باللہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا بعینہٖ وہ نہیں ہےTruth but not the whole truthکہتے ہیں ہے تو سہی Truth لیکن Whole Truth نہیں ہے اور بہت سی آیتیں عمداً نکالی گئیں تاکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں گواہی نہ ہو۔تو وہ کلام جس کے متعلق فرمایا لاریب فیہاس کو ان ذاتی اختلافات کے پیش نظر ایسی کتاب بنا دیا جس میں ریب کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ کوئی پتہ نہیں کہاں سے کوئی آیت نکالی گئی کہاں سے اٹھائی گئی اور اسی لئے دشمنان اسلام کو یہ موقعہ ملا جیساکہ Bell کوملا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ جو قرآن کریم کی ترتیب ہوئی ہے۔ یہ توبالکل انسان نے اپنے طورپر جو چاہا اٹھا کر ادھر سے وہاں رکھ دیا اور وہاں سے اٹھا کر ادھر رکھ دیا۔ اور اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ کوئی وحی نہیں۔ یہاں تک کہ وہ آگے بڑھتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرے نزدیک تو قرآن مکے میں نازل ہی نہیں ہوا۔ کہتا ہے اس کا آغاز ہی مدینہ سے شروع ہوتا ہے۔ اب یہ اتنی بڑی جہالت کی بات جس کو سارے مستشرقین رد کررہے ہیں اس کی وجہ کیا بنی؟ اسکی وجہ یہ شان نزول اور تفسیر میں بعض آیات کے غلط معنی ہیں مثلاً
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآنرمضان میں قرآن اتارا گیا اور یہ کہتا ہے کہ رمضان شروع ہوا ہے مدینے میں اس لئے جب مدینے میں رمضان شروع ہوا تو قرآن بھی رمضان ہی میں شروع ہوا تو یہ جتنے بھی اعتراض کرتے ہیں اس کی کوئی نہ کوئی بنیاد مفسرین کی بے احتیاطیوں میں ہے اس لئے آپ کو بڑی ہوشمندی کے ساتھ ان باتوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ قرآن کریم نے جہاں خود اپنی شان کو بیان فرمایا ہے اس کا کسی شان نزول سے ان معنوں میں کوئی تعلق نہیں ہے کہ اُس قرآنی آیت کے مفہوم کو پابند کررہی ہو۔’’فیہ‘‘ کا مطلب یہ بھی تو ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ رمضان کی برکات جتنی بھی ہیں وہ تمام تر قرآن سے تعلق رکھتی ہیں اور قرآن جو تزکیہ نفس کا پروگرام آپ کے سامنے رکھتا ہے وہ سارا پروگرام رمضان میں دہرایا جاتا ہے۔اس لئے تاریخی حقائق کو نظر انداز کر کے............
بہرحال اب میں شان نزول کی باتیں ان کی شروع کرتا ہوں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوںکو احد کے دن باہر نکلنے کا حکم دیا تو ایک جماعت منافقین کی بیٹھ گئی اور بعض مومنوں نے ان کی پیروی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔یہاں پر ذکر یہ ہے کہ خدا کی ناراضگی حاصل کرنے والا جہنمی ہے خدا کی راۃ میں جب آیت پر واپس جاؤں گاپھر میں نارضگی کی بات کروں گا بتاؤں گا اب تفصیلی بحث سے پہلے میں اس کا عام ترجمہ جیسا کہ پیش کیا ہے اس کی روشنی میں اس مضمون کی حقیقت بیان کرتا ہوں۔یہ آیت واقع ہوئی ہے اس آیت کے معاً بعد جہاں نبی کے بددیانتی نہ کرسکنے کا ذکر ہے یعنی اس بات کا کوئی دور کا بھی احتمال نہیں کہ محمد رسول اللہ تو محمد رسول اللہؐ‘ کوئی اور نبی بھی امانت میں خیانت کرے اور وہ اس امانت میں خیانت کرے جو اللہ نے اس کے سپرد فرمائی اور وہ امانت تمام امور دینیہ سے تعلق رکھتی ہے خواہ وہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے ہوں۔ اس کے بعد اس کا اگلا قدم اٹھایا گیا ہے۔افمن اتبع رضوان اللہوہ وجود جس کی ساری زندگی اللہ کی رضا جوئی میں صرف ہوئی ہو۔ اسے کوئی دنیا کی طلب نہ ہو اس کا اٹھنابیٹھنا۔ جاگنا سونا اس کا زندہ رہنا اس کا مرناسب کچھ خدا تعالیٰ کیلئے ہوچکا ہو۔ کیا اس کو ایسے شخص سے برابر کرتے ہو۔کمن باء بسخط من اللہ ‘‘جو خدا کی ناراضگی لیکر لوٹنے والا ہو۔ یہ مضمون وہی دیانت اور بددیانتی کا مضمون چل رہا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے مدارج کا ذکر ہے۔ پہلے نفی ہے جو سبحان کا رنگ رکھتی ہے اور دوسری آیت حمد سے تعلق رکھتی ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کے اندر نقصان تلاش کرو گے ‘ خرابیاں ڈھونڈو گے تو تمہاری نظریں تھکی ہوئی واپس لوٹ آئیں گی۔ تمہیں اس پاک ذات میں خیانت کا کوئی شائبہ بھی کہیں دکھائی نہیں دے گا۔ لیکن آگے چلو اس کی ساری زندگی تو رضا جوئی میں صرف ہوئی ہے اللہ کی رضا ڈھونڈتے گزری ہے۔ اس کا اُس سے کیا تعلق‘ اس شخص سے جو خدا کے غضب لیکر لوٹنے والا ہو۔ یعنی بددیانت ہو اور خیانت کرنے والاماوٰہ جھنماور ایسے شخص کا ٹھکانہ تو جہنم ہے۔وبئس المصیر اور بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ یا بہت بُری لوٹنے کی جگہ ہے۔ بہت برا مقام ہے جہاں جب تم پہنچو گے تو اس کے بعد اور تمہارا کوئی مقام نہیں ہے۔ پھر وہیں ٹھہر جائو گے۔ھم درجٰت عنداللہیہ دونوں گروہ ایسے ہیں جن کے اپنے اپنے درجے ہیں۔واللہ بصیر بما یعملوناور اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے اس کو جو وہ کرتے ہیں۔یہاں درجات کے متعلق مختلف مفسرین نے مختلف توجیہات پیش کی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی درجات کی بحث کی ہے اپنے نوٹس میں۔ درجات کے متعلق فرماتے ہیں کہ درجہ سے مراد اہل درجہ بھی ہوتا ہے ........ کوئی چیز اگر مجسم ہوجائے تو اس کا اسم بنانے کی بجائے اسم مصدر پیش کیا جاتا ہے یعنی وہ صفت پیش کردی جاتی ہے جیسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا ذکراً رسولاًیعنی مجسم ذکر الٰہی ۔ مراد ہے ذکر کرنے والا۔ تو ھم درجاتسے مراد ہے وہ لوگ مختلف درجوں والے ہیں۔ایک معنٰی تو یہ ہے ۔ دوسرا ٰ یہ ہے کہ مختلف درجوں میں تقسیم لوگ ہیں۔ ان کے مختلف مراتب ہیں۔ ایک جیسے نہیں ہیں۔ پہلے انبیاء کا ذکر تھا کہ انبیاء ہر طرح سیغل کے ظلم سے اور اس کی ناپاکی سے پاک اور بری ہیں۔جہاںسبحان کا تعلق ہے وہ سب میں قدر مشترک بن گئی ہر نبی پاک ہے۔ جہاں رضوان کی بات ہورہی ہے۔ کیا سارے برابر اللہ کی رضوان والے ہیں؟ تو فرمایا نہیں یہاں فرق ہے۔ھم درجاتکوئی اس درجے پر ہے کوئی اس درجے پر ہے۔ اور محمد رسول اللہﷺ ان سب سے اعلیٰ اور افضل درجے پر فائز ہیں تو وہاں ان کو برابر نہ سمجھنا ہر ایک اپنا اپنا درجہ رکھتا ہے اور اسی حوالے سے ظلی طور پر یہ مضمون صحابہؓ پر بھی صادق آتا ہے کہ صحابہ کرام بھی اپنے اپنے درجے کی رضوان طلب کرتے رہے اپنی اپنی توفیق کے مطابق اللہ کی رضا جوئی کرتے رہے اور پھر ان کے بھی پھر آپس میں درجے ہیں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی نمازکے ظاہر سے اس کو نہ پہنچانو کیونکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ پڑھتا کیسے ہے اور اس کے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔پس اس کی ایک نماز دوسروں کی 70 نمازوں سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ تویہ مراد ہے درجات سے۔ اور یہ درجات جو ہیں یہ اللہ کے علم میں ہوتے ہیں یا اللہ والوں کے علم میں ہوتے ہیں۔ پھر درجات کا تعلق ان لوگوں سے بھی ہے جوباء بسخط من اللہ وماونہ جھنمایسے شخص کے درجات بھی ہوتے ہیں مختلف جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لیکر لوٹا ہو اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو۔و بئس المصیر ‘‘اور کیا ہی بُری لوٹ کر ٹھہر جانے کی جگہ ہے۔
اب میں مفسرین کی طرف پھر واپس آتا ہوں۔ ان سب نے الا ماشاء اللہ میرے علم میں تو جتنے ہیں انہوں نے اس مضمون کو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے رجحان ہے شان نزول ہی سے باندھ رکھا ہے۔ آگے نہیں بڑھتے۔ اور کہتے ہیں کہ یہاں جنگ میں شامل ہوکر دیانت داری کرنے والے اور جنگ میں شامل ہوکر بددیانتی سے کام لینے والے والے مراد ہیں۔
قرطبی کہتا ہے افمن اتبع رضوان اللہ کمن باء بسخط من اللہ ۔۔۔۔الایۃیعنی خیانت ترک کرنے والے اور جنگ میں ثابت قدمی دکھانے والے اور کافر خائن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنگ کے دوران ساتھ چھوڑ دینے والا برابر نہیں ہوسکتا۔ یعنی یہ لوگ برابر نہیں ہوسکتے۔ نہیں بلکہ دوسری قسم کے لوگ اگر توبہ نہ کریں تو ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ یہ انہوں نے توبہ کی شرط اس لئے لگادی کہ خود قرطبی کو یہ یقین ہی نہیں آسکتا تھا کہ وہ صحابہؓ جن کے پائوں اُکھڑے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ میں بخش چکا ہوں۔ان کا ترجمعہ اگر درست ہو ان کی تفسیر اگر درست ہو تو وہ سارے جہنمی بنتے ہیں تو ان کو جہنم سے بچانے کیلئے یہ نہیں کہتے کہ اگر یہ وہی ہیں تو ان کے متعلق تو خدا فرما چکا ہے کہ میں معاف کرچکا ہوں ‘ یہ ہو ہی نہیں سکتے وہ ! یہ کہتے ہیں کہ توبہ کی شرط ہے کہ ابھی خطرے میں ہیں اگر توبہ نہ کی تو پھر ٹھکانہ جہنم ہوگا۔اب یہ جو تفسیر ہے یہ وہی تفسیر ہے جو آگے شیعہ علماء کرتے ہیں اور اس میں پھر بڑی شدت اختیار کرجاتے ہیں۔
جہاں تک Wherry کا تعلق ہے وہ لکھتا ہے۔کہThere should be degrees this explain ....of Verse163:God will reward his servants in accordance with their works. The brave companions See note Verse 162 need not be troubled by an equal division of the booty. God will reward, for "God seethwhat he do."
ابھی تک دماغ میںbootyسوارہے اس شخص کے بوٹ کا ایک مطلب جوتی بھی ہوتا ہے۔ پر میں یہ کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ ہماری جو خاتون ہیں ان کی دلآزاری ہوگی۔ یہ Booty ایسی دماغ پر سوار ہے کہ کہتا ہے کہ اس آیت میں بھی Booty کا ہی ذکر چل رہا ہے سارا۔ کہتا ہے جو Booty والے ہیں وہ برابر نہیں ہوسکتے ان کے جو بغیر Booty والے ہیں۔ لیکن کہتا یہ ہے کہ ان کو تسلی دلائی گئی ہے کہتا ہے۔Bootyوالے ایسے تھے رسول اللہﷺنے جب سب برابرتقسیم کردیایہ بھی مان گیا ہے کہ وہ جو شبہ تھا اوپر والوں کا وہ جھوٹا نکلا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو برابر مال تقسیم کردیا۔ اب جب برابر تقسیم کردیا تو پھر جنہوں نے زیادہ جنگ میںحصہ لیا تھا ان کے دل میں شکوہ ہوسکتا تھا کہ لڑے تو ہم ہیں اور مال سب کو برابر جارہا ہے۔ تو ان کی تسلی کیلئے یہ اللہ تعالیٰ نے کہا یعنی ساری توجہ اس طرف ہے کہ کوئی بات نہیں ہم آگے جاکے تمہیں دے دیں گے۔ گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ اب سنئے !
The Holy Quran version of the Ahlul Bait and Special comments from Aayatuallh Agha Haji Mirza Mahdi Poya Yazdi.
1998 ء میں یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ٹائٹل یہ بتاتا ہے Tehrik-e-Tarsil-e-Quran Incorporated کی طرف سے ۔ سورۃ آل عمرا ن152 سے لیکر 172 آیات تک کہتا ہے ان کا ایک ہی ٹائیٹل ہوگ
The faithful identified from the hypocrates of the battle of Uhad,
کہ جو وفادار تھے جنگ احد میں وہ منافقین سے ممتاز کرکے الگ دکھا دئیے گئے اور وہ کتنے تھے اور کون تھے ان کی تفصیل بیان کرتا ہے۔
ترجمہ پہلے یہ ہے 163 کا
Is he who follow the pleasure of Allah like him who draws on himself the wrath of Allah and whose abode is hell and an evil retreat it is, the one who stood by the Holy Prophet fighting in the cause of God to the end, and he who has made himself deserving ofthe wrath of God must naturally be those who flud away from the battle field.
کہتا ہے وہ ایک شخص جو رسول اللہ ﷺکے ساتھ رہا آخر تک ایک شخص کا تو میں نے حال کھول دیا ہے۔ بتادیا ہے کہ ہے ہی جھوٹ۔ اور جن صحابہ کو کہتا ہے کہ بھاگ گئے تھے خلفاء وغیرہ۔ وہ موجود تھے قطعی گواہیاں موجود ہیں۔ لیکن میں اس بحث کو دوبارہ نہیں چھیڑتا۔ میں ان کی ذرا سوچ آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ کہتا ہے۔
The one who stood by the Holy Prophetیہاں "The one" کا مطلب کوئی بھی ہوسکتا ہے مگر ان کے One سے مراد ایک ہے صرف۔ کہتے ہیں۔
It is quite abvious that this verse intends clearing the unique position of Ali in context to that of others who claim to be superior to him.
تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ خلافت دوسروں کو کیوں مل گئی؟ اور یہ جو جرم ہے یہ تو معاف ہو ہی نہیں سکتاکسی قیمت پر۔ تو "One" سے مراد وہ لیتا ہے ایک علیؓ محمد رسول اللہ ؐ کو تمام صحابہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اور ایک علیؓ باقی رہا اور ان تمام صحابہ کے متعلق فتویٰ ہے کہ وہ جہنمی ہیں۔بئس المصیر : اور ان کا وہ ٹھکانہ ہے جس سے آگے پھر ان کا نکلنے کا کوئی رستہ نہیں ہے۔قطعی گواہی یہ قرآن کریم کی پیش کررہے ہیں کہ اب بتائو ان کو کس طرح بچائو گے؟ نعوذ باللہ من ذلک تمہارے بغض کی جہنم سے؟ اس کے متعلق میں بعد میں بات کرتا ہوں لیکن قطعاً جھوٹ۔ بہتان قرآن کریم کی آیات کو توڑ مروڑ کر فرضی معنے بیان کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔ سیاق و سباق سے جو مضمون بنتا ہے وہ میں نے نکال کے دکھا دیا ہے اور اس پر ایسی بات منسوب کرنا اور پھر اس کے متعلق تمہیں حق کیسا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔عفا اللہ عنھماللہ فرماتا ہے میں نے معاف کردیا ہے شیعہ کہتے ہیں ہم نے نہیں کیا اس لئے جہنم میں ڈال کے دکھائیںگے۔ تم کہاں سے ڈال سکتے ہو جہنم میں؟ تمہیں تو اپنی فکر کرنی چاہئے کہ تم کہاں کے انسان ہو۔ وہ تین آیات جن کا میں نے ذکر کیا تھا اُن تین آیات میں تو تم لوگوں کا ذکر نہیں ہے۔ تبرا کرنے والوں کا۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے نجات کی خوشخبری دی ہے۔اس لئے صحابہ کرام کو جہنم میں جھونکنے کی بجائے اپنی فکر کرو۔ اور اس سے زیادہ میں اور کیا کہہ سکتا ہوں ۔ لیکن آگے جاکے میں ان کی دلیلیں لیتا ہوں اور ان کا جواب دیتا ہوں۔
There could be little or no purpose at all in calling attention to a most abvious thing unless it is precautionary measure or a warning before hand against those who have earned the wrath of God being prefered to the personality so abviously superior to the others.
کہتا ہے : یہ تو کھلی کھلی بات ہے کہ حضرت علی ؓ کے سوا سب صحابہ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے تھے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی ایک بھی نہیں رہا تھا اور نرغے میں گھرے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کیلئے حضرت علی ؓ کبھی ایک طرف چلے جاتے تھے اور دشمن انتظار کرتا رہتا تھا کہ واپس آئیں تو پھر ہم رسول اللہ ﷺپر حملہ شروع کریں اور پھر جب وہاں سے فارغ ہوکے واپس آتے تھے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اب یہ آ رہے ہیں ان کو پکڑہ تو پھر ان کی طرف نکل جاتے تھے، اور باقی انتظار کرتے تماشا دیکھ رہے ہوتے تھے کہ علیؓ واپس آجائے گا تو پھر ہم حملے کی کوشش کریں گے۔ لیکن پھر ایک اور طرف سے خطرہ پیش آجاتا وہاں چلے جاتے تھے علیؓ ۔ موقعہ ہی نہیں ملا دشمن کو کہ کب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوں اورحملہ کرسکیں ہم۔ یہ ہے ان کا تناظر جس میں یہ جنگ احد کو دیکھ رہے ہیں۔ اس سے بڑی جہالت ہو ہی نہیں سکتی۔دنیا کی باتیں چھوڑو کوئی دنیا کا کم سے کم فہم والا انسان بھی اگر تعصب کے ساتھ بالکل پاگل نہ ہوچکا ہو۔ یہ تصور باندھ ہی نہیں سکتا۔ لیکن خیر ! یہ انہوں نے تصور باندھا کہتے ہیں ۔ ہوا کیوں ؟ یہ تو ظاہر بات تھی ایک ہی تھا۔ تو خدا کو توجہ دلانے کی ضرورت کیا تھی؟کہتے ہیں یہ وارننگ (Warning ) تھی کہ دیکھو ! اگر کوئی خلافت کا حق دار ہے تو علیؓ ہے ! اور یہ سارے نعوذ باللہ من ذلک جہنمی لوگ ہیں جن کے متعلق ہم نے فیصلہ دے دیا ہے کہ جہنم میں جانے والے ہیں تم ان کو اپنا سردار نہ بنا بیٹھنا۔ یہ نصیحت تھی۔لیکن ظلم کی حد ہے۔ جس کے حق میں یہ نصیحت تھی اس کو سمجھ نہیں آئی۔ Pooya صاحب کو سمجھ آگئی۔ حضرت علیؓ نے انہی کے ہاتھ پہ جاکے بیعت کرلی۔
وہ سب سے بڑا جو نعوذ باللہ من ذلک۔ نعوذ باللہ من ذلک جہنم کا سردار تھا۔ پہلے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا پھر کہا کہ ابھی پوری گرمی نہیں ائی پھر دوسرے نعوذ باللہ جہنمی کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ دیا ۔ پھر کہا ابھی بھی پوری تسلی نہیں ہوئی تیسرے کے نیچے ہاتھ رکھ دیا۔ یہ حضرت علیؓ کا کردار ہے تمہارے نزدیک۔ پہلے آقا بھی وہ چُنے جن کے متعلق تمہارا فتویٰ ہے کہ وہ جہنمی تھے اور مرید بھی وہ اختیار کرلیا جو سارے جہنمی تھے تمہارے نزدیک۔قرآن نے دعا سکھائی تھی۔ حضرت علیؓ قرآن کے مفسر ۔ عظیم الشان اور گہرا علم رکھنے والے۔ ان کو یہ پتہ نہیں تھاکہ قرآن کہتا ہے یہ دعا کیا کرو۔واجعلنا للمتقین امامااے ہمارے رب ہمیں متقیوں کا امام بنا نا! فاسقوں فاجروں‘ منافقوں کا امام نہ بنانا ۔ تو اگر حضرت علیؓ متقی تھے واقعتاجیسا کہ ہم سب مانتے ہیں تو ابوبکرؓ کی دعا تو سنی گئی۔ عمرؓ کی دعا سنی گئی۔ عثمانؓ کی دعا سنی گئی کہ اس متقی نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کی امامت کا مرتبہ بلند کرکے دکھا دیا اور انہیں متقیوں کا امام ثابت کردیا نہ کہ منافقوں کا امام۔ اور علیؓ کن کے امام بن بیٹھے جو سارے منافقوں کے گروہ تھے۔ ان سب کو کہا آئو میری بیعت کرلو۔ اب ٹھیک ہے۔ اور انہوں نے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ جو اول تھے۔ ان کو اول کہتے رہے۔ اب یہ ہے مضمون جس کو یہ پتہ نہیں سوچتے نہیں غور نہیں کرتے یا تعصب کی راہ سے دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے فرضی کہانیاں گھڑتے چلے جاتے ہیں۔
اب ایک اور بہت اہم سوال ہے جس پر میں ابھی آتا ہوں۔ عام بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے بڑے بہانے‘ بڑے طریق اختیار کر رکھے ہیں عامۃ الناس مسلمانوں کو دھوکے میں مبتلا کرنے کیلئے اور مولوی بھی اتنا بے وقوف ہے بے چارہ اس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہم سے ہو کیا رہا ہے۔ سپاہ صحابہ بنائی تو وہ بھی غلط رستے پر جس کی قرآن اجازت نہیں دیتا۔ اختلاف مذھب ہو اس میں گالی گلوچ ہو۔ قرآن تو یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس نے نعوذ باللہ سب سے ذلیل قرار دیا تھا۔ اس کے خلاف بھی تم خود سزا کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ کے دیکھیں۔ اس کا جواب صرف اتنا خدا تعالیٰ دیتا ہے کہ عزت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمہارے کہنے سے نہیں بنے گا۔ اس نے جس کو عزت دینی تھی اللہ نے وہ دے دی ہے۔ تم جو مرضی منہ سے بکواس کرتے رہو کوئی فرق نہیں پڑتایہ جواب ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ قتل و غارت کردو اس کو۔ لیکن ان لوگوں نے مسلک بھی پکڑا تو وہ بھی غلط کہ صحابہ پر جو بدکلامی کرتے ہیں ان کو قتل و غارت کرو۔ لیکن وہ جب ان سے ہوشیاری سے کام لیتے ہیں ان کو پتہ ہی نہیں لگتا کہ کیا ہوشیاری ہوگئی ہے۔
ایک زمانہ تھا پاکستان میں بڑا چرچا تھا اس گانے کا ’’دمادم مست قلندر‘ علیؓ دا پہلانمبر‘‘گلی گلی بچے گاتے پھرتے تھے۔ان پاگلوں کو پتہ ہی لگا لفظ پاگل پھر غلطی ہو گئی معاف کرنا۔ ا ن سادہ مزاج لوگوں کو پتہ ہی نہیں لگا کہ کہہ کیا رہے ہیں؟ یہ کہہ رہے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کا پہلا نمبر نہیں تھا۔ عمر ؓ کا پہلا نمبر نہیں تھا۔ عثمانؓ کا پہلا نمبر نہیں تھا۔ علی ؓ کا پہلا نمبر تھا۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں گھر میں آیا تو میری بچیاں چھوٹی چھوٹی تھیں ۔ اتنا اس کا چرچہ تھا اس زمانے میں کہ انہوں نے کہا۔’’دمادم مست قلندر علیؓ دا پہلا نمبر‘‘میں نے کہا۔ ناں ! تم یہ کہا کرو۔’’ علی ؓ دا چوتھا نمبر‘‘پھر پڑھو ! پھر انہوں نے یہی پڑھنا شروع کردیا۔
’’دمادم مست قلندر علیؓ دا چوتھا نمبر‘‘
میں نے کہا اس عام جو ہردلعزیز رو ہے اس سے میں ہٹا کر تو ان کو نہیں الگ کرسکتا تو درست کرکے اسی رو پر چلنے دیتا ہوں۔ بے شک گانے گاتی پھریں۔تو یہ حال ہے۔یہ کہتے ہیں کہ جب تک حضرت علیؓ خلیفہ نہیں بنے۔ اس سے پہلے تمام تر جہالت کا دور تھا اور منافقین اور منافقین کے سردار جہنمی وہ امور خلافت پر قابض ہوئے بیٹھے تھے۔
ایک دفعہ ایک شیعہ دوست سے میری گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا یہ تو ہمیں پتہ ہے کہ بیعت کی تھی لیکن بیعت کی تھی تقیہ کے طور پر۔ مجبوری تھی۔ اس کا میں جواب دے چکا ہوں۔ ایک اور بات میں نے ان سے پوچھی۔ میں نے کہا آپ نے یہ بھی سنا ہے کہ جو شخص امام وقت کو نہ پہچانے۔من لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ الجاھلیۃ۔کہ وہ جہالت کی موت مرتا ہے۔ کہا : ہاں یہ درست ہے۔ میں نے کہا : پھر حضرت علیؓ نے اپنا ہاتھ تو نعوذ باللہ من ذلک کسی منافق کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اور اپنا ہاتھ بیعت کیلئے آگے نہیں بڑھایا اور امام وہ تھے۔ تو وہ بے چارے جو مر گئے اس عرصے میں اُن کا کیا قصور؟ ان کی جاہلیت کی موت مرنے میں کس کا قصور ہے؟ جن کو خدا تعالیٰ نے زندہ رکھا چوتھی خلافت تک وہ ہم سمجھ گئے کہ چلو خدا تعالیٰ نے بچالیاان کو۔ لیکن جو پہلے گئے ان کا کیا حال ہوا؟ کوئی ہاتھ تھا ہی نہیں۔ امام موجود تھا اور غائب رہا۔ تو ان کا غیبت امام کا مضمون جو ہے اس وقت سے چلا ہوا ہے۔ یعنی موجود امام بھی غائب تھا جو ویسے ہی غائب تھا اس بے چارے نے کہاں حاضر ہونا تھا۔
اب سنئے ! میر احمد علی صاحب فرماتے ہیں۔
He who tenaciously follows the pleasure of God must necessarily in all arguments of logic be the one described in Chapter 2-208.و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ و اللہ رؤف بالعباد۔ and a mankind is he who sell himself seeking the pleasure of God and God hath compassion on his born men. 228.
COMMENTRY ON 228.The Sunni commentators suc has the Thalib, Ghazali and the authors of and all the sheeaah.
Commentators are unanimous saying that this verse was revealed in the Praise of Ali, when he readily slept in the bed of the Holy Prophet Muhammad when the letter in response to the will of the Lord had to suddenly migrate from Makka to Madina.
اس کے بعد میں بتاؤں گا کہ کیا کہتا ہے کہتا ہے کہ یہ جو Verse ہے 163 جس پر ہم گفتگو کررہے ہیں اس میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ افمن اتبع رضوان اللہوہ جس نے اللہ کی رضا کی ہر حالت میںپیروی کی ہے۔ اس سے مراد حضرت علیؓ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں گویا کہ اور اس کے ثبوت میں یہ وہ ایک آیت پیش کرتا ہے جس میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ بعض سُنّی تفاسیر سے ایک دو حوالے اٹھاتا ہے اور اب میں بتائونگا آپ کو کہ کیا حال کرتے ہیں ان تفاسیر کا اور کتنی بددیانتی سے کام لیتے ہیں اُن تفسیر کے حوالوں میں یہ ابھی بعد میں چلے گا مضمون۔ اور اس کے بعد Unanimous کا لفظ اس طرح بولتا ہے گویا سب Unanimous ہیں۔ اور شیعہ تفاسیر سب Unanimous ہیں۔
شیعہ تفاسیر Unanimous ہیں اس آیت کے متعلق جو دوسری سورت کی 208 آیت ہے۔ لیکن دلیل اس کی کیا ہے؟ کوئی دلیل نہیں۔ ایک تفسیر ہے۔ اور جو عام کلام ہے۔ اللہ کا اس کو ایک شخص پر محدود کردیا۔ کسی انسان کو کیا حق ہے رحمتہ للعالمین کی رحمت کو جس کا اظہار قرآن کریم میں ہوا ہے۔ کسی ایک شخص سے باندھ دینا اور کہنا کہ کسی اور پر اس رحمت کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ۔عام مضمون ہے۔ معمولی سی عقل والے آدمی کو بھی سمجھ آجاتی ہے کہ یہاں یہ مراد ہورہی ہے کہ جو شخص بھییشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ اللہ کی مرضی کی خاطر اپنے آپ کو بیچ دیتا ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو بیعت کے تعلق میں قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے۔
ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم و اموالھم بان لھم الجنۃ۔
اب بتائیے یہ وہ ہے کہ نہیںمضمون۔اس آیت کا اس سے تعلق دکھائی دیتا ہے کہ نہیں؟ کتنا صاف صاف دکھائی دینے لگا ہے یہاں فرمایا ہے۔من یشری نفسہجو اپنا نفس بیچتا ہے۔ وہ آیت کہتی ہے کہ وہ سارے مومنین جو ایمان لائے ہیں وہ اپنی جانیں بھی بیچ دیتے ہیں اور مال بھی بیچ دیتے ہیں۔’’بان لھم الجنتہ‘‘ کیونکہ اس کے بدلے میں اللہ کی طرف سے انہیںجنت عطا ہوگی۔تو یہ عام سودا ہے بیعت کا سودا ۔ اسے صرف حضرت علیؓ سے خاص کرنے کے شوق میں اس آیت کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اور اس بحث میں اس کو لانے کے بعد پھر کہتے ہیں کہ
Revealed in the praise of Ali when he readily slept in the bed of the Holy Prophetؐ Muahmmad when the letter in response to the will of the Lord had to suddenly Migrate from Mecca to Madina.
اب آگے سنئے !خیال آتا ہے کہ ہجرت کے وقت تو حضرت ابوبکرؓ ساتھ تھے اور ابوبکرؓ پہ حملہ کئے بغیر حضرت علیؓ کی فضیلت بیان ہو نہیں سکتی۔ تو بڑے مخمصے میں پھنس جاتے ہیں کہ حضرت علیؓ تو بستر پر لیٹے تھے اور سفر پہ ساتھ کون گیا تھا؟ وہ خطرات کس نے مول لئے تھے؟ اور سب سے بڑا خطرہ تو تھا ہی وہی۔اگر آپ اس بات کو یاد رکھیں کہ حضرت علیؓ کا بستر پر لٹانا اس لئے نہیں تھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں یہ تھا کہ میری جگہ یہ قتل ہوجائے۔ آپ کو کامل یقین تھا کہ دشمنی مجھ سے ہے اور جب میری جگہ یہ علیؓ کو دیکھیں گے تو چھوڑ دیں گے اور یہی ہوا۔ کوئی گزند نہیں پہنچی۔ کسی نے ایک چٹکی بھی نہیں کاٹی حضرت علیؓ کو۔ کہتے ہیں کہ دیکھو ! یہ اتنا عظیم الشان خطرہ علیؓ نے اپنے ذمے لے لیا۔ اگر خطرہ تھا بھی یعنی بعید نہیں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست نے وہ خطرہ محسوس نہیں کیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست اگر یہ نتیجہ نکالتی کہ علیؓ کو قتل کر دیں گے تو کبھی ایسا نہ ہونے دیتے۔ ویسے ڈمی بنا کے بھی تو چھوڑی جاسکتی تھی مگر بہرحال دور سے دیکھتے تھے کہ کوئی سویا جب انہوں نے جاکر دیکھا تو علیؓتھے رسول اللہ ﷺ نہیں تھے ان کوتے تو چھوڑ دیا۔ پیچھے پڑے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور وہ اس خطرے میں حضرت ابوبکرؓ ساتھ رہے ہیں یہ تکلیف ہے چونکہ اس لئے اس کو اپنے رنگ میں پیش کرنے کیلئے لکھتے ہیں۔
After leaving his residence the Holy Prophet proceeded out of the township to take his way to Madina when he found Abu Bakr Standing.......
اتفاقاً وہاں کھڑے نظر آگئے حالانکہ پہلے سے پروگرام طے شدہ تھا حضرت ابوبکرؓ کو نصیحت تھی کہاں پہنچیں۔ کس طرح آئیں۔ کیا لیکر آئیں۔ اور اس ساری بات کا ذکر کرنے کے بغیر یہ کہتے ہیں کہ رستہ چلتے جارہے تھے کہ راستے میں ابوبکرؓ کھڑے مل گئے۔ وہ اس آدھی رات کو وہاں کھڑے کر کیا رہے تھے؟
کہتے ہیں
Leter the second caliph who according to the order issued by the Holy Prophet to all his followers had not have left his residence.
اب یہ کنفیوژن ہے ابوبکرؓ تو پہلے خلیفہ ہیں۔ یہاںLater the Second Caliphکہہ دیا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کیا اس میں غلطی ہے۔ Type کرنے والے نے کیا ہے یا یہ حضرت عمرؓ کے ذکر کو بیچ میں داخل کر بیٹھے ہیں۔
However the Holy Prophetؐ took Abu Bakr with him ....
یہ مانتے ہیں۔
and took refuge into a cave in a mountain. When the enemy approached the mouth of the cave and their voices were heard, into the cave Abu Bakr got frightened and began to cry aloud saying that they were lost.
کہتے ہیں یہ تو خطرے کا موجب بن گیا ۔ اونچی آواز سے بولا جس کی آواز باہر چلی گئی۔ یہ ظاہر کررہے ہیں۔ کیسا ناپاک جھوٹا ‘ کمینہ حملہ ہے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ وہ کھڑے باتیں کرتے رہے ان کی آواز پہنچ رہی تھی نیچے سے کوئی آواز نہیں آئی۔اگر آواز آئی ہوتی تو وہ پاگل تھے واپس چلے جاتے وہاں سے؟ انہوں نے تو وہ کبوتری کا انڈہ دیکھا ایک تنے ہوئے جالے کے اوپر اور کہا کہ کہ وہ غار میں گئے ہوں پھر جالا بھی تنا جائے اور کبوتری انڈہ بھی دے دے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔اور یہ فیصلہ دے رہے تھے اور جو کھوجی تھا وہ کہہ رہا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اس کے سوا کہیں اور ہوں۔ میں جانتا ہوں۔ میں ماہر ہوں اس فن کا۔ یا تو یہاں ہیں یا پھر آسمان اٹھا کر لے گیا ہے اور کہیں نہیں ہوسکتے۔ اس وقت آواز بھی سُن لی انہوں نے ابوبکرؓ کی۔ کافی اونچی بولے ہیں چیخ کے۔ کہ مارے گئے ہم تو پکڑے گئے! کہتے ہیں یہ حال ہے ابوبکرؓ کا۔ یہ ساتھی چنا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیکن آگے سنئے !
Got frightened and began to cry aloud saying that they were lost. The Holy Prophet had to console him saying.لاتحزن ان اللہ معنا fear not God is with usپھرکہتے ہیں A bu Bakr is being mentioned as one of two occupants of the cave and not with any other identity but what is worthy of being noted with surprose here is that he was not included as a recipient of tranguility from God while in the other places where Holy Quran mentions the transquillity of God includes the belivers along with the Holy Prophetؐ.
It is obvious that those of the belivers are meant who use to remain with the Holy Prophetؐ even in the worst of the circumstances calm and undistubed in the fighting for the cause of God and well coming or longing to be martyred for it.
یہ نکتہ اٹھا رہے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو خدا تعالیٰ نے اس تسکین میں شامل نہیں فرمایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری۔ اس سے پتہ چلا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ابوبکرؓ ان میں سے نہیں تھا اور باہر کا تھا۔ اور جو آیت خود quote کرچکے ہیں وہ عمداً بھُلا رہے ہیں۔
حضرت موسیٰؑ نے تو یہ کہا تھا کہ ان معی ربی سیھدین کہ میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضرور ہدایت دے گا۔وہ باقی نہیں بچائے گئے تھے؟ نبی جب اپنے متعلق ایک کلام کرتا ہے تو اس کے ساتھ شامل سب لوگ اس برکت سے فائدہ اٹھانے والے ہوتے ہیں اور یہ طرز کلام یہ بتاتی ہے کہ اصل برکت اس کی ہے اور اس وجود کے فیض سے دوسرے بھی حصہ پائیں گے تو یہ بات بھول گئے قرآن کریم کا استعمال کہ حضرت موسیٰؐ جب فرعون کی قوم کے پیچھے سے بچتے ہوئے پیچھا کرتی ہوئی قوم سے بچتے ہوئے جب Fiord میں داخل ہوئے ہیں تو اس وقت جب قوم نے بے قراری کا اظہار کیا۔ جب دیکھا پیچھے سے فرعون کا لشکر داخل ہورہا ہے تو حضرت موسیٰؑ نے یہ جواب دیا ۔ میرے رب میرے ساتھ ہے اور مجھے ضرور صحیح رستے کی ہدایت دے گا۔تو اس میں وہ سارے شامل تھے لیکن برکت موسیٰ علیہ السلام کی تھی۔ اس لئے تسکین رسول پر اتاری تو اس کا مطلب ہے کہ رسول کی برکت سے ابوبکر کو تسکین ملی ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔لاتحزن ان اللہ معنا تو معلوم ہوتا ہے وہ تسکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوچکی تھی۔ یہ مضمون ہے۔ ابوبکرؓ نے بے چینی کا اظہار فرمایا ہے۔ اللہ نے تسکین کی خوشخبری دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ لاتحزن ان اللہ معنا‘‘
لیکن ’’معنا‘‘ فرمایا ہے معی نہیں فرمایا۔ موسیٰؑ کی طرح یہ نہیں کہا کہ میرا رب میرے ساتھ ہے۔ فرمایا۔ ہمارے ساتھ ہے۔ تو جس کا ساتھ ہمیشہ ہمیش کیلئے خدا تعالیٰ نے محمدؐ رسول اللہ کے ساتھ کردیا ہے۔ یہ شیعہ اس کو کاٹ کر الگ کیسے کرسکتے ہیں؟ قیامت تک یہ آیت ان کے جھوٹ پر گواہ کھڑی رہے گی!یہ کہیں گے محمد رسول اللہ ؐ کے ساتھ نہیں تھے یہ آیت کہے گی۔لا تحزن ان اللہ معنا‘‘محمد رسول اللہ ﷺفرما رہے تھے کہ ہر گز غم نہ کر۔اللہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اول طور پر شامل ہیں متکلم کے صیغے میں۔
ہاں ! یہ چیک کرلیا ہے ۔ کہتے ہیں یہ میراحمد علی صاحب ہی نے لکھا ہے۔ ہم نے دوبارہ تحقیق کرلی ہے۔ یہ جو یہاں تحقیق کیلئے تیار کئے ہیں لڑکوں اور لڑکیوں کے تو میر احمد علی کے پیچھے لڑکیوں کو ڈالا ہوا ہے کہ میں نے کہا یہ ان کا کھوج نکالیں۔ تو وہ بچی جو تحقیق کررہی ہے وہ لکھتی ہے کہ میںنے دوبارہ چیک کیا ہے۔ "2nd Caliph" یہ میری غلطی نہیں ہے تحریر کی بلکہ میر احمد علی ہی کا فقرہ ہے۔ اب وہ کیوں لکھتا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارے بس کی بات تو نہیں۔اچھا : کہتا ہے۔
Abu Bakr is being mentioned as one one of two occupants of the cave and not with any other identity but what is worthy of being noted with surprise here is that he was not included as a recipient of tranquillity from God while in the other places جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں پہلے۔ آگے کہتا ہے اول تو یہ کہ Surprise کیسی ؟ تم تو ہر وقت تاک میں بیٹھے رہتے ہو کہ حضرت ابوبکرؓ کے خلاف کوئی چیز ملے تو Surprise کا ذکر کر دیا یہ بھی جھوٹ ہے۔ جہاں Surprise ملنی چاہئے وہ بات نوٹ ہی نہیں کی کہ ان اللہ معناSurprise والی وہ جگہ تھی۔ جہاں خدا نے تمہیں Surprise دی۔ وہ تم نے نظر انداز کردی۔یہاں Surprise کی بات نہیں ہے ایک طرز کلام ہے جیسا کہ موسی نے بھی کی تھی اور مراد یہ ہے کہ اس برکت میں سارے ساتھی شامل ہونگے۔ وہاں تمہیں۔ Surprise مل جاتی ہے۔
کہتے ہیں۔
ٍ کہتا ہے وہ جنہوں نے desert کیا تھا وہ خدا تعالیٰ کی معیت کی خوشخبری میں ہر گز شامل نہیں کئے جائیں گے۔
though for accepting the honour abu Bakr had, in being the only occupant in the cave with the Holy Prophet he had not the honour of having the tranquillity, while Ali on that event full night sleeping in the Holy Prophet's bed had the same tranquillity which the Holy Prophet had in the cave which was appriciated and honoured by God in Chapter 2,195.
وہاں حضرت علیؓ کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ یعنی اس تمام ہجرت کے دور میں جو خدا تعالیٰ قابل ذکر واقعہ بیان فرماتا ہے جو نام لیتا ہے وہ صرف ایک صحابی کا ہے۔ حضرت ابوبکرؓکا۔ عمومی Tranquillity کی ایک آیت ہے۔ جس میں سارے مومن ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ اس کا ذکر کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے وہاں علیؓ کا ذکر فرمایا تھا۔ اپنی طرف سے جو مرضی کہتے پھرو !جو موقع تھا وہاں تو نہیں فرمایا۔ابوبکرؓ کا نام لے دیا تھا علیؓ کا بھی ساتھ نام لے دیتا کیا فرق پڑنا تھا؟لیکن اس واقعہ کا اشارہ بھی نہیں فرماتا کہ خدا کا رسول پیچھے کس کو چھوڑ کے آیا تھا۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل یقین کے ساتھ حضرت علیؓ کو پیچھے چھوڑا تھا کہ ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے ان لوگوں کو اور ان سے کسی قسم کا تعارض نہیں کریں گے۔ مگر یہ کہتا ہے کہ اُس آیت میں ذکر ہے۔ وہ آیت کونسی ہے؟نکالیں جی وہ آیت 2-195وہاں حضرت علی کا کیا ذکر ہے
سورۃ بقرہ کی آیت 194 میں ہے۔وقاتلو ھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ ۔حضرت علی کا یہ ذکر ہے کہ وہاں لیٹے ہوئے تھے۔ مطلب سمجھ آگئی ؟اکثر کو مطلب نہیں شاید پتہ لگا !
اس آیت میں لکھا ہے اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک یہ جبر کا فتنہ ختم نہ ہو۔ یہ جو دین میں مداخلت کررہے ہیں۔ تمہارے خلاف تلوار اٹھا رہے ہیں۔ جب تک یہ ختم نہ ہو۔ویکون الدین للہاور دن خالصتاً اللہ کی خاطر رہ جائے۔کسی انسان کے جبر یا اس کے خوش کرنے یا اس کے خوف کے نتیجے میں دین پر کوئی اثر واقع نہ ہو۔ یہ وہ آیت ہے۔ 194لیکن آگے ہے اگلی 195 194- اس لئے لی ہے میں نے وہ بھی ساتھ شامل کر لی ہے کہ چونکہ ہم ’’بسم اللہ‘‘ کو شمار کرتے ہیں اس لئے ہوسکتا ہے انہوں نے 195 کو 194 لکھ دیا ہو۔ لیکن دراصل 195 آیت پیش نظر ہے۔195 میں لکھا ہوا ہے جہاں حضرت علی ؓ کا ذکر ملتا ہے ان کے نزدیک الشھر الحرام بالشھر الحرام و الحرمات قصاصکہ جو پاک مہینے ہیں عزت والے جن میںخون خرابہ وغیرہ حرام قرار دے دیا گیا ہے ان کی اگر یہ بے حرمتی کریں گے تو پاک مہینوں میں تم بھی ویسے اقدام کرسکتے ہو۔ شھر حرام کی بے حرمتی کے نتیجے میں تم ان سے ویسا ہی بدلہ شہر حرام میں لے سکتے ہو۔ والحرمات قصاص : اور اس طرح حرمات قصاص کا مضمون حاصل کرلیتے ہیں۔ قصاص سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایک قوم نے کسی قوم کا ایک آدمی مار دیا اور قتل کرنے والا پکڑا نہ گیا۔ اس طرح کوئی قوم جو کسی رستے پر قابض ہو آدمی مارتی چلی جائے گی۔ اس کو کوئی بھی پرواہ نہیں ہوگی۔تو قصاص کہا جاتا ہے ایسے طریق کو جس میں ذمہ داری قوم پر ڈالی جاتی ہے جیسا کہ انگریزوں نے یہاں آزاد قبائل میں اسی قسم کا قصاص جاری کیا تھا اور انہوں نے رستے کے امن کا ان سے وعدہ کیا ہوا تھا۔ پس کابل جاتے ہوئے افغانستان جاتے ہوئے جو انگریزی عملداری سے لوگ اُس غیر علاقے سے گزرتے تھے اگر وہاں کسی کو نقصان پہنچے کوئی مارا جائے تو اس کا تاوان اس پر ڈالا جاتا تھا۔ یہ ہے قصاص۔
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حرمات کی حفاطت کی خاطر قصاص ضروری ہے۔ اگرچہ حرمات کی حفاظت ‘مہینوں کی عزت اور قیام کی خاطرتم ان مہینوںمیں لڑو تو بظاہر عجیب بات لگتی ہے۔ مگر ان کو سمجھانے کی خاطر کہ اگر ان مہینوں سے Surprise کا فائدہ اٹھا کر تم اچانک ہم پر حملے کرسکتے ہو تو ہم بھی انہی مہینوں میں تمہیں ویسا ہی مزہ چکھا سکتے ہیں۔یہ مراد ہے۔فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہجو بھی تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کرو مگربمثل ما اعتدیٰ علیکم انصاف سے کام لینا۔ اتنی ہی کرو جتنی تم پر کی گئی ہے۔واتقو اللہ واعلموا ان اللہ مع المتقیناور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جان لو کہ اللہ تقویٰ کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔اور اگلی سن لیجییو انفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ و احسنوا ان اللہ یحب المحسنین Oاور خدا کی راہ میں جو کچھ خدا نے عطا فرمایا ہے خرچ کرو۔ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔واحسنوا : احسان کا سلوک کروان اللہ یحب المحسنین یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
کہتے ہیں دیکھ لو کتنا واضح ذکر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا۔ وہاں لیٹے ہوئے تھے اور بڑی قربانی دی۔ اور ابوبکرؓ کے ذکر میں تو اس کو رد کردیا ناں کہ اس پر سکینت نہیں اتاری۔ اور قرآن کہتاہے بالکل واضح لکھا ہوا ہے کہ حضرت علیؓ بڑی سکینت کے ساتھ وہاں آرام سے لیٹے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سکینت اتاری گئی وہ آپؓ پر بھی اتاری جارہی تھی۔عجیب بات ہے اس کو کیا کوئی کہے گا؟کیسے حضرت علیؓ کا ذکر ہوا اس میں اور کسی طرح انہوں نے مطلب نکالا اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس بحث کو میرا خیال ہے طول دیئے بغیر ہی چھوڑ دیتا ہوں میں یہاں۔
پھر میر احمد علی صاحب آخر فرماتے ہیں۔
But what a pitty that such unsurpassed merits of Ali the praise of which even providence thank of no awail to the message of the muslims in guiding them to the right man for them, to follow after the departure of the Holy Prophet Muhammad and the ignorant world refer to Ali, those who have not the courage or the faith to stand by the Holy Prophet in the Prime timeof the battle fought for the faith and fled to their own lieve leaving the Holy Prophet amidst his blood thirsty enemies, and Ali.
کہتا ہے کتنا جاہل ہے زمانہ۔ اتنی کھلی کھلی نصیحتیں قرآن نے فرمائیں۔ سب کچھ سمجھا دیا مگر سارے کے سارے مسلمان بلا استثناء انہی کوخلیفہ بنا بیٹھے جن کے خلاف خدا تعالیٰ نے گواہی دی تھی کہ نعوذ باللہ یہ جہنمی لوگ ہیں ایسا نہ کرنا۔اور ایک علیؓ جس کے حق میں سب گواہیاں تھیں کہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے جو بچا ہو۔ اور یہاں جوش میں آکر اہل بیت جن کو وہ خود معصوم مانتے ہیں ان کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ صرف علیؓ کا ذکر ہے۔ اس کی خاطر کائنات بنی تھی۔ اس کو چھوڑ دیا اور ان کو خلیفہ بنالیا جن کے متعلق قرآن فرماتا ہے۔ یہ تو جہنمی لوگ ہیں نعوذ باللہ من ذلک اور انہوں نے بڑے سخت ظلم کمائے ہوئے ہیں۔ ان کے قریب نہ جانا اس کو چُننا۔ اس کو چھوڑ دیا۔
اب سوال یہ ہے آخری بات جو اس سلسلے میں۔ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتاہوں کہ پہلے میں نے آپ سے بیان کیا تھا کہ کوئی ایسا مضمون جو ایک ثابت شدہ حقیقت کے خلاف ہو وہ اگر قرآن سے توڑ مروڑ کر نکالنے کی کوشش کی جائے یا حدیثوں سے نکالنے کی کوشش کی جائے قابل رد ہے۔ مثلاً قرآن سے کوئی اگر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ توحید غلط ہے اور شرک درست ہے جیسا کہ بعض بدبخت قرآن سے شرک بھی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ ایک دفعہ ایک مجلس میں… نے مجھے کہا کہ تم کیا بات کر رہے ہو قران میں تو اللہ تعالی !بہاء اللہ کے متعلق جب میں نے کہا کہ دیکھو یہ تو شرک ہے۔ تم کہتے ہو کہ بہاء اللہ مجسم خدا تھا تو کہتا ہے کہ دیکھو قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہ
وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی انما یبایعون اللہ‘‘دوسری جگہ آتا ہے۔
تو وہی شرک ہے۔ حالانکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز اشارۃًبھی یہ دعویٰ نہیں فرمایا جو اس بدنصیب کے حصے میں آیا بہاء اللہ کے حصہ میں ۔ وہ یہ کہتا ہے کہ میں قبول ہی نہیں کرتا کہ مجھ پر وحی نازل ہورہی ہے کہتا ہے میں خدا جو ہوں میں جو بول رہا ہوں تمہارے اندر بیٹھا ہوا اور یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے کہا لفظاً لفظاً خدا کا کلام تھا۔ یہاں تک وہ خدا بنایا گیا کہ کہتے ہیں جب قبلہ پوچھا گیا۔ قبلہ کونسا ہے؟ تو بہاء اللہ کہتا ہے : میں قبلہ ہوں۔ جہاں جہاں میں جائوں وہاں وہاں اس طرف منہ کرلیا کرو۔ اور اس لئے زندگی بھر جہاں جہاں بہاء اللہ مارا مارا پھرتا رہا وہ قبلہ اس طرف مڑتا رہا اور یہ بھی مانتے ہیں وہ بیوی کے پاس بھی گیا بچے بھی پیداکئے۔ اجابت کیلئے غسل خانے میں بھی جایا کرتا تھا۔ تو بے چارے اُن مومنین کا قبلہ کدھر کدھر رسوا ہوا ہے؟کیا کیا رخ اختیار کرتا رہا؟اللہ رحم کرے ان عقل سے عاری لوگو ںپر۔ پھر جب مر گیا تو اس قبر کو قبلہ بنالیا۔ یعنی خدا قبلہ نہیں خدا کی قبر قبلہ ہے۔اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا۔ اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوسکتی ہے؟
یہ ایک اور اصلاح آگئی ہے کہتے ہیں نقطہ وہ بھی نہیں تھا نقطہ باب تھا علی محمد باب ۔لیکن اس نقطے کو چھوڑیں جس نکتے میں ہم لگے ہوئے ہیں وہ زیادہ اہم ہے
ہاںتو یہ جو شرک ہے اس کو قرآن سے ثابت کرنا بالکل جہالت ہے۔ ظاہر ہے اس کو ہر معقول آدمی رد کردیگا۔ معمولی عقل والا بھی پھینک دے گا ایک طرف۔ محمد رسول اللہ ﷺکی طرف کوئی ظالمانہ بددیانتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے ہی ثابت کرچکا ہوں۔ جس کا کردار اس کو دھکے دے رہا ہے۔ کوئی توڑ مروڑ آپ کا عقلی نکتوں کا اس کو قابل قبول بنا سکتا ہی نہیں ہے۔ جتنی مرضی آیتیں پڑھ جائیں۔ جتنی مرضی حدیثیں پڑھ جائیں۔ کردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹکرا کر وہ تمہارے غلط معنے پار ہ پارہ ہوکر گر پڑیں گے۔ کوئی ان کی حیثیت نہیں رہتی۔ حضرت علیؓ کا کردار میں نے پیش کیا تھا۔ ایک کردار علیؓ ہے اس کی طرف ایسی منافقت منسوب کرنا کہ نعوذ باللہ من ذالک سب سے پہلے شیطان نے بیعت کی تھی اور پھر اس کے کچھ عرصہ بعد اُس نے بھی اُسی شخص کی بیعت کرلی جو منافقوں کا سرادر تھا اور مسلسل ایک کے بعد دوسری مرتبہ یہ غلطی کرتا چلا گیا۔ جو نفاق سے پاک تھا وہ نفاق کا بیج بونے والا بن گیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے عقیدے میں داخل کردیا کہ نفاق عین ثواب ہے اور مجبوری کی خاطر جھوٹ بولنا جائز بلکہ ضروری ہے اور اس کے بڑے بڑے مراتب بیان ہوئے ہیں۔ کسی وقت اگر موقع ملا آئندہ تو آپ کو بتائوں گا تقیہ کے جو مراتب ہیں بعض جگہ تو ایسے عظیم الشان مراتب ہیں کہ عمر بھر کی نیکیاں اور حج اور دعائیں ایک طرف اور دشمن کے خوف سے جھوٹ بول دینا اس کے مقابل پر۔ میں اس سے پہلے بتا چکاہوں دین کے 9 حصے اس جھوٹ میں ہے اور ایک حصہ باقی سارا دین ہے۔ اس لئے اس کو جو مرضی کر لیںجہاں سے مرضی آیتیں توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطلب نکالیں کوئی انسان بھی جس میں ادنیٰ بھی شائبہ عقل کا ہے۔ علی ؓ کے کردار کے خلاف اس پر الزام لگانے والوں کی بات کو قبول نہیں کرسکتا اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺکے کردار کے خلاف اب دیکھئے یہ جو باتیں کہہ رہے ہیں کیا بنتی ہیں !ہم بڑے فخر کے ساتھ اور شیعہ اس میں شامل ہیں۔ تمام دنیا کے سامنے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ مختلف زمانوں میں مختلف جگہوں میں ایسے نبی آئے جو زمانی بھی تھے اور قومی بھی تھے اور ایک نبی آخر پیدا ہوا جو تمام جہان کیلئے رحمت تھا۔ یہ ہے شان مصطفویؐ۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا بنیادی نکتہ یہ ہے۔ اور قرآن کریم فرماتا ہے۔لا شرقیۃ ولا غربیۃعظیم الشان نبی تھا۔ اس کا رحم اس کا فیض نہ مشرق کیلئے رہا نہ مغرب کیلئے۔ سب جہان کیلئے جیسے سورج برابر چمکتا ہے اس طرح اس کا فیض تمام جہانوں پر برابر چمکتا رہا۔پہلے نبی کیا تھے جو محدود وقت کیلئے آئے۔ محدود وقت کیلئے آئے ہونگے محدود قوموں کیلئے ! مگر محض اپنے خاندان کیلئے نہیں آئے تھے۔ ان کے ہاں رحمتہ اللعالمین کا تصور یہ ہے کہ یہ ’’رحمتہ للعالمین‘‘ جو تمام جہانوں کیلئے رحمت تھا۔ آج تک کبھی دنیا کے کسی نبی نے منافقوں کی اتنی بڑی جماعت پیچھے نہیں چھوڑی جتنی اس شخص نے چھوڑی ! یہ حاصل میر احمد علی صاحب اور Pooya صاحب کا۔
کہتے ہیں دیکھو کس شان کا نبی آیا ہے۔ سارے جہانوں کیلئے رحمت لیکن کر کیا گیا ؟ ایک علیؓ کے سوا اور چند دوسرے اُس کے عزیزوں کے سوا سارے جہانوں کیلئے منافقین کی ایک جماعت تیار کر گیا۔ اور سارے کے سارے جہنمی !یہ جہنم پیدا کرنے کیلئے نبی آیا تھا؟اس کو رحمتہ للعالمین کہتے ہو؟اور یہ رحمت ایسی ہے جو سارے جہانوں کیلئے عام لیکن اپنے ایمان لانے والو ںکو بھی حصہ نہیں لینے دیا۔ ان سے بھی چھین لی۔ اور کہایہ ’’رحمۃ اللعالمین‘‘کا مطلب ہے صرف میرے بچوں کے لئے عزیزوں کیلئے صرف میرے بچوں کیلئے اور میرے داماد کیلئے خاص ہے۔ باقیوں کو نہیں دینی۔ یہ ہے ان کا رحمتہ للعالمین کا تصور !تو اب بتائیں قرآن محمد رسول اللہ کے جس کردار کو پیش کرتا ہے ۔اس کردار کُشی کیلئے جتنے چاہیں بہانے بنالیں۔ ہزار آیتیں اکٹھی کردیں لیکن محمد رسول اللہ ؐ کی ذات ان معنوں کو رد کریگی اور دھتکار دے گی۔ اور ان معنوں کے پیش کرنے والوں کو مردود قرار دے گی۔ پس محمد رسول اللہ رحمتہ للعالمین ہی تھے۔ آپؐ نے جتنے پاک لوگوں کی جماعت پیچھے چھوڑی ہے۔ ایسی کبھی کسی نبی نے ایسی پاک جماعت نہیں چھوڑی۔ اور قرآن جگہ جگہ ان کے حق میں گواہیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایک کے بعد دوسری آیت بتاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق اور فدائی خالص تھے اور پاک لوگ تھے اور مومنین کی تعریف کثرت کے ساتھ قرآن کریم میں ملتی ہے۔
ان سب آیتوں سے منہ موڑ کے یہ آپ کو یہ یقین دلانے کی کوسش کرتے ہیں۔کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے چار آدمیوں کیلئے تھے۔ اور اگلی آیت میں جب اس کی بحث آئے گی پھر میں آپ کو بتائوں گا کہ اس کے حق میں جو دلیلیں دیتے ہیں اس کا کیا جوا ب ہے۔ صرف یہ دلیل نہیں جو میں پیش کررہا ہوں کہ کردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی دلیلوں کو توڑ کر پارہ پارہ کررہا ہے۔ قرآن سے بھی میں ایسی قطعی دلیلیںان کے خلاف میں آپ کے سامنے رکھوں گا اور احادیث سے اور تاریخ سے اور عقل سے کہ ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔یہ ذوالفقار علی ؓ کی بات کرتے ہیں۔
آج اللہ تعالیٰ نے قرآن کی عظمت کی خاطر قرآنی دلائل کی تلوار میرے ہاتھوں میں تھمائی ہے اور میں قرآن پر حملہ نہیں ہونے دوں گا۔محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں پر حملہ نہیں ہونے دوں گا!! جس طرف سے آئیں۔ جس بھیس میںآئیں ان کے مقدار میں شکست اور نامرادی لکھی جاچکی ہے!!!
کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دوبارہ قرآن کریم کی عظمت کے گیت گانے کے جو دن آئے ہیں آج یہ ذمہ داری مسیح موعود ؑ کی غلامی میں میرے سپرد ہے۔ اس لئے جب تک میںحق ادا نہ کروں ان آیات پہ ٹھہرا رہوں گا۔ یہاں تک کہ آپ پر اور سب پر ‘ ہر ذی عقل پر ثابت ہوجائیگا کہ یہ جھوٹے عقیدے ہیں ان کا قرآن اور حدیث اور تاریخ اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 17 رمضان المبارک
28 فروری 1994ء
لقد من اللہ علی المومنین ………اللہ ولیعلم المومنین O(ال عمران 165تا167)
یہ تین آیات جنکی میں نے تلاوت کی ہے ۔شاید آج پہلی آیت پر گفتگو ختم ہو جائے مگراحتیاطاً میں نے دو آیات کو بھی شامل کر لیا ہے۔ لقد من اللّہ علی المومنین یقینا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بہت احسان فرمایا ہے اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم جب اس نے انہیں میں سے ایک رسول بنا کر بھیجا جو ان پر اس کی یعنی اللہ کی آیات کی تلاوت کرتا ہے۔ اور انہیں پاک کردیتا ہے اور ان کی تمام خوبیوں کو نشوونما عطا کرتا ہے اور انہیں کتاب سکھاتا ہے اور حکمت بھی۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اولما اصابتکم مصیبۃ تو پھرکیاجب کبھی بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچے گی اور ایسی مصیبت جو اس سے پہلے تم دوسروںپر ڈال بھی چکے ہو۔یعنی ایسی تکلیف جو اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا۔ تم کہتے رہو گے کہ یہ کیوں ایسا ہوا ؟مراد یہ ہے کہ جنگ بدر کے موقعے پر جتنا نقصان مسلمانوں کے ہاتھوں کفار مکہ کو ہوا تھا تقریباً اسی قدر نقصان جنگ احد میں فتح کے بعدجب تبدیلی واقع ہوئی تواس وقت صحابہ کو پہنچا۔ مراد یہ ہے کہ اس سے پہلے تم خود بھاری نقصان دوسروں کو پہنچا چکے ہو۔ جب اپنے آپ کو پہنچا تو تم نے کہا یہ کہاں سے آگیا۔ اس کا جواب یہ ہے قص ہو من عند انفسکم یہ تمھاری طرف سے تھا ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر لیکن اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ چاہتا تو نہ نقصان پہنچتا۔ اللہ چاہتا تو اس تقدیر کو بدل دیتا۔ مگر اس میں کچھ حکمت تھی جس کی وجہ سے ایسا ہونے دیا گیا۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ ولیعلم المومنین۔ اور جو نقصان تمہیں اس وقت پہنچا جب کہ دو گروہوں میں تصادم ہوا تو اللہ کے حکم سے تھا ولیعلم المومنین اور تاکہ مومن حقیقت حال کو جان لیں (نقل مطابق اصل) اب بظاہر ان دو باتوں میں‘ اول اور دوسری آیت کے دعاوی میں ایک تضاد ہے اسے دور کرنے کے لئے بیچ میں میں نے ایک چھوٹی سی بات داخل کی تھی جس کے کوئی تضاد نظر نہیں آتا اور نہ ہے۔ تضاد یہ ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی دکھائی دینے والا تضاد یہ ہے کہ قُل ھومن عندانفسکم تو کہہ دے کہ یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے۔ جو بھی تمہیں نقصان پہنچا تم ذمہ دار ہو۔ اور اگلی آیت کہتی ہے کہ اللہ نے اجازت دی تھی۔ اللہ کے حکم سے ایسا ہواہے تو پھر من عندانفسکم اور باذن اللہ میں جو بظاہر ایک تصادم دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ بیچ میں جو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹا سا آیت کا ٹکڑا رکھ دیا۔ ان اللہ علی کل شئی قدیر اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمہاری غلطیوں کے باوجود تمہیں نقصان نہ پہنچتا۔ مگر کسی حکمت کے پیش نظرخدا نے ایسا ہونے دیا۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہونے دیا پس اسے اللہ ٰ کی طرف بھی منسوب کیا جاسکتا ہے۔ یعنی جہاں تک نقصان اور تکلیف کا پہلو ہے‘ اس کے تم خود ذمہ دار ہو۔جہاں تک اس میں مخفی حکمتوں کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ نے کسی خاص حکمت کے پیش نظر ایسا ہونے دیا۔ اور تم جان لو گے ولیعلم المومنین مومنوں پر وہ حکمت ظاہر ہوجائیگی۔ اس کے بہت سے فوائد بھی ہیں جو بعد میں ظاہر ہونگے۔یہ ہیں وہ تین آیات جن کی میں نے تلاوت کی تھی۔ اب میں اول آیت سے شروع کرکے تفسیر شروع کرتا ہوں۔ من اللہ علی المومنین۔ من کہتے ہیںانعام کو اور احسان کو بھی۔ عدلہ مافعلہ۔ اور بدلہ دینے کو بھی من کہتے ہیں۔یہ اقرب الموارد میں ہے۔ یہاں جو لفظ من ہے یہ عام طور پر تو محض‘ جیسا کہ میں نے بیان کیا انعام کے طور پر یا احسان کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اھل لغت یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایسا احسان جو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو۔ اس میں کسی رشتے کا کوئی دخل نہ ہو۔ کسی عصبیت کا کوئی دخل نہ ہو۔ تعصب ان معنوں میں نہیں کہ کسی کے خلاف بغض ہو۔ بلکہ تعصب یہاں ان معنوں میں ہے کہ کسی رشتے داری کے لحاظ کی وجہ سے احسان ہو۔ یہ نہیں ہے بلکہ خالص احسان جو ہر قسم کے دوسرے تعلق سے آزاد ہو۔ چنانچہ قرآن کریم نے لفظ من کو انہیں معنوں م میں استعمال فرمایا ہے۔ ولا تمنن تستکثر۔ کہ ہر گز اس نیت سے احسان نہ کیا کرو کہ تم اپنے مال بڑھالو اس کے نتیجے میں۔ یا جس پر احسان کررہے ہو۔ اس سے فائدہ اٹھا کر خدمتیں لو اور اپنی قوت کو بڑھاؤ تو من میں ہر قسم کا دوسرا تصور ممنوع ہے احسان کے تصور کے سوا وہ ایک ہے جو من کو من رہنے دیتا ہے۔ باقی سب جگہ مٹ جاتا ہے۔ چنانچہ من کا لفظ قرآن کریم میں جہاں جہاں استعمال ہوا ہے۔ مختلف احتمالی صورتوں کی نفی کرتا ہے۔ اس لئے نہیںمن کرنا‘ اس لئے نہیںمن کرنا۔ اس لئے نہیں کرنا اسی لئے نہیں کرنا وغیرہ وغیرہ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ رسول اللہ علیہ وسلم کو جو لوگ کہتے ہیںکہ ہم اسلام لے آئے‘ احسان جتاتے ہیں تو ان سے کہہ لاتمنوا علی اسلامکم تم ہم پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو کیونکہ یہ اللہ کا احسان ہے تم پر اور وہ بغیر کسی اجرت کے بغیر کسی رشتہ داری قرابت کے خدا نے احسان فرمایا ہے۔ اس لئے یکطرفہ احسان کا رخ ہماری طرف سے تمہاری طرف ہے۔ یہ تم آگے سے کیا کہہ رہے ہو اپنے اسلام کا احسان ........
یہ من کا پہلو ۔ آگے ہے لفظ یزکی۔ یزکی بھی قابل توجہ لفظ ہے زکا۔ زکی یزکی وغیرہ وغیرہ اس میں جو مختلف معانی اہل لغت بیان کرتے ہیں وہ یہ ہیں۔ عمدہ نشوونما پاتا۔ زکا میں عمدہ نشوونما شامل ہے اور اسی طرح وہ پھل جو تیار ہوجائے اس کا وہ رس جو نچوڑ کر پیا جاتا ہے۔ اس کا بہترین حصہ جو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس کے نکالنے کو بھی لفظ یزکی سے ظاہر کرتے ہیں۔ ارض زکیہ طیبتہ یعنی پاکیزہ زرخیز زمین۔زکی کا مطلب یہ ہوگا اصلح اس کو درست کردیا اصلاح فرمائی۔ منجد میں اس کا معنی ہے ۔ بڑھنا‘ زیادہ ہونا‘ بڑھانا‘ پاک کرنا‘ اصلاح کرنا۔ پس یہاں یہ مطلب ہوگا کہ تم پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا۔ مومنوں پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا جبکہ ان میں ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جو انہیں میں سے ہے۔ یتلو علیھم ایتہ یزکیھم وہ اللہ کی آیات کی ان پر تلاوت فرماتا ہے۔ اور انہیں پاک کرتا ہے۔ ان کی اصلاح کرتا ہے۔ ان کی نشوونما کا موجب بنتا ہے اور ہر قسم کی برکات ان کو عطا کرتا ہے۔ جس سے ان کی اعلیٰ صلاحیتیں بڑھیں اور نشوونما پاجائیں۔ کیونکہ لفظ ذکیٰ غلط چیزوں کی نشوونما کیلئے استعمال نہیں ہوتا۔ جب کھیتی اور پھلوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے تو مراد ہے کہ ان کی بہترین صلاحیتیں اجاگر ہوکر ابھر آئیں اور ان کو قوت ملے۔ ویعلمھم الکتاب و الحکمۃ یہاں تعلیم کتاب اور حکمت کا بیان ہے۔ یہ بارہا گفتگو ہوچکی ہے۔ اس کی لغت میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جب آیات نازل ہوں تو ان کا تین طرح سے اُن لوگوں سے تعلق ہے۔ جن کی خاطر ‘ جن کی اصلاح کیلئے آیات کا نزول ہوتا ہے۔ پہلا جو مقصد ہے وہ اس قوم کی اصلاح ہے اور دوسرا مقصد اس کی تعلیم ہے اور تیسرا مقصد تعلیم کی حکمتیں بیان کرنا یعنی مذہب کا فلسفہ ان کے سامنے رکھنا اور تعلیم کے ہر پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالنا کہ اس کا یہ مقصد ہے۔ محض اس لئے نہ مانو کہ خدا کا حکم ہے بلکہ اس یقین کے ساتھ مانو کہ اللہ کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہے۔ اور جہاں جہاں تمھیں اس معاملے میں تمہاری اپنی عقل کی رسائی نہیں یہ رسول وہ حکمت کی باتیں تمہارے سامنے کھول کر بیان کرے گا اور تمہیں کامل یقین ہوجائے گا کہ یہ ایک حکمت والے خدا کا کلام تھا جو رسول پر نازل ہوا۔
و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین۔ جبکہ اس سے پہلے وہ کھلی کھلی گمراہی یا جہالت کی حالت میں تھے۔ یہ مضمون جو تزکیہ کا ہے یہ علم کتاب اور حکمت کتاب سے پہلے رکھ دیا گیا ہے اور یہ بات بارہا میں پہلے بھی پیش کرچکا ہوں اور یہاں خصوصیت سے اس کا دہرانا اس لئے ضروری ہے کہ آئندہ تھوڑی دیر بعد جب مختلف مفسرین کی تفسیریں آپ کے سامنے آئیں گی تو پتہ لگے گا کہ یہاں وہ حکمت کیا ہے جس کی وجہ سے تزکیہ کو پہلے رکھا گیا ہے اور باقی باتو ںکو بعد میں۔ اور بہت سی غلط تفسیریں اس کی روشنی میں خود اپنے آپ کو اپنی کمزوری کو طاہر کردیں گی یعنی قرآن کریم کی طرف ایک ایسی بات منسوب کرنے کی کوشش کی جائے گی‘میں دکھائوں گاآپ کو جو قرآن کا مقصود نہیں ہے اور یہاں جب اچھی طرح آپ اس آیت کو سمجھ لیں گے تو ذہنی طور پر ان غلط تفسیرات کو رد کرنے کے لئے تیار ہونگے۔ خاص طور پر قابل توجہ امر یہاں یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے بہت قبل حضرت ابراہیم کے زمانے میں آپ کی بعثت کا سب سے پہلے ذکر واضح طور پر قرآن میں ملتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکے کو آباد کرنے کا آغاز کیا یعنی بیت اللہ کے گرد تعمیر شروع کی تو اس وقت اللہ سے ایک دعا کی اور اس دعا کے الفاظ یہ تھے۔
وابعث فیھم رسولاً منھم یاد رکھیں کتنی ملتی جلتی دعا ہے۔وہی الفاظ ہیں۔ اے خدا ان میں ایک رسول مبعوث فرما جو انہیں میں سے ہو۔ یتلو ا علیھم ایتہ وہ تیری ان پر ’’اٰیاتک‘‘یہاں مخاطب اللہ تعالیٰ ہے آیات کی تلاوت کرے۔ اب یزکیھم یہاں سے غائب ہے۔اس دعا میں یزکی کے ذکر کے بغیر یہ بات شروع ہوتی ہے۔ ویعلمھم الکتاب والحکمۃ اور وہ انہیں تلاوت کے بعد کتاب سکھائے یعنی کتاب کا علم دے اور پھر ان کی حکمتیں بھی سمجھائے ویزکیھم اور پھر ان کا تزکیہ کرے۔ یہ نہ صرف انسانی سوچ کے مطابق دعا ہے بلکہ ایک انتہائی سلجھی ہوئی نبی کی سوچ کے مطابق ہے جس نے اپنی عمر بھر کے تجربے میںیہی دیکھا کہ اللہ کی طرف سے جب تعلیم ملتی ہے۔ عطا ہوجاتی ہے پھر نبی اس تعلیم کو عام کرتے ہیں۔ اس کی حکمتیں سکھاتے ہیں تو ساتھ ساتھ تزکیئہ نفس بھی جاری رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں عطا ہوتا ہے۔ پس انہوں نے تزکیہ کو پہلے نہیں رکھا بلکہ بعد میں رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں جب یہ بتاتا ہے کہ ہم نے اس دعا کو قبول کرلیا تو اس ترتیب کو بدل دیتا ہے چنانچہ وہ ترتیب جو قرآن کریم میں ملتی ہے۔ سورہ جمعہ میں بھی اور یہاں بھی۔ یہ وہ بدلی ہوئی ترتیب ہے جس کی طرف میں آپ کو پھر متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھوالذی بعث فی الامیین رسولا یہاں مومنین کی بات تھی وہاں امیین کی بات ہے۔ ان دونوں باتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اس لئے میں وہ آیت پہلے پڑھوں گا پھر دوبارہ اس کی طرف واپس آئوں گا۔ فرمایا ھوالذی فی بعث الامین رسولا وہی اللہ ہے وہی ذات ہے جس نے امیین میں رسول بھیجا۔ امیین سے مراد حقیقت میں تمام دنیا کے جہلاء ہیں جو دینی علوم سے بے بہرہ ہیں اور محض ظاہری تعلیم کی بحث نہیں ہورہی تو فرمایا کہ ایسا وجود آیا ہے جس نے نہ کوئی دینی تعلیم خود حاصل کی نہ ان لوگوں میں آیا جہاں دینی تعلیم کے چرچے تھے بلکہ ایسے لوگوں میں نازل فرمایا جو دینی تعلیم سے بے بہرہ تھے اور یہ خود بھی انہیں میں سے تھا۔ یتلوا علیھم ایتہ اس کی شان دیکھوکہ یہ تلاوت قرآن کرتا ہے جو آیات نازل ہوتی ہیں وہ بیان کرتا ہے اور پھر تعلیم سے پہلے ان کو پاک کرنا شروع کردیتا ہے۔ ویزکیھم۔ پس حضرت ابراہیم والی ترتیب جس ترتیب سے وہ دعا مانگی گئی تھی اسے قبولیت کے وقت تبدیل کرکے اس میں ایک عظیم مضمون داخل کردیا گیا ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی بالاتر حقیقت بلند تر حقیقت دکھانے والا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ابراہیم کے علم میں بھی اس دعا کے وقت محمد رسول اللہ ؐ کی شان پوری طرح روشن نہیں تھی۔ اس کو کیا پتہ تھا کہ وہ کیا مانگ رہا ہے۔ اس نے تو ایسا رسول مانگا تھا جو باقی رسولوں کی طرح جیسا کہ ہمیشہ سے دنیا کا تجربہ ہے پہلے تلاوت کرے گا پھر علم دے گا پھر حکمتیں سکھائے گا۔ پھر وہ تعلیم اور حکمت مل کر ان کا تزکیہ کریں گے۔ فرمایا یہ رسول ایسا نہیں ہے۔ اس کا سارا وجود مزکی ہے۔ ایسا پاک کرنے والا انسان ہے کہ اس کی تلاوت کے ساتھ ہی تزکیہ شروع ہوجاتا ہے اور علم و حکمت ان لوگوں پر یہ ظاہر کرتا ہے۔ان لوگوں کو دیتا ہے جو پاک نفس ہوچکے ہیں۔ نفس زکیہ بن چکے ہوتے ہیں۔ اب کہاں علم و حکمت کا عمل ان فطرتوں پر جن میں کجیاں باقی ہوں‘ جن میں ٹیڑھے پن ہوں۔ جو ابھی پاک نہ بنائے گئے ہوں۔ اور زور لگا کر علم و حکمت کے بل بوتے پر ا نکو پاک کیا جارہا ہو۔ کہاں علم و حکمت ان لوگوں پر اثر دکھاتا ہے جو پاک ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان پر جب علم و حکمت کی بارش ہوتی ہے تو ایک نئی قسم کی نباتات اس سے وجود میں آتی ہے۔ نئی قسم کی نشوونما پانے والی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور یہ مضمون ہے جس کا قرآن کریم کے آغاز سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ ذلک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔تومتقی ہونا پہلے شرط رکھ دی پھر ہدایت ہے۔یعنی یہ مضمون اس مضمون سے بالا ہے جو پہلے دنیا نے نبوت کے تعلق میں دیکھا تھا۔ نبی آتے تھے اور براہ راست اپنی صحبت سے یک دفعہ لوگوں میں پاک تبدیلی نہیں پیدا کیا کرتے تھے بلکہ تعلیم و محنت کے ساتھ رفتہ رفتہ بالآخر ان کو پاک کیا کرتے تھے اور یہ پاک بناتا ہے اور یہاں سے اس کا مضمون شروع ہوتا ہے۔ یہاں سے اس مدرسے کے اگلے مراحل آئیں گے۔ یعنی ایسا ہی ہے جیسے سکول سے یونیورسٹی کا مضمون شروع ہوجائے ۔ پہلے یہ تزکیہ کرتا ہے اور پاک لوگ ہی ہوتے ہیں جو ہدایت پاسکتے ہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جس کو قرآن کریم دوسری جگہ یوں فرماتا ہے۔ لایمسہ الا المطھرون کہ یہ وہ کلام ہے جسے مطھرین کے سوا کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔یعنی ایسا پاک کلام ہے جسے سمجھنے کے لئے مطھر ہونا ضروری ہے تو اگر آیات نازل ہوجائیں اور مطھر نہ بنایا جائے تو علم و حکمت لاکھ بیان کرتے رہو ان کو سمجھ ہی کچھ نہیں آئے گی۔ اور آج کل بھی آپ دیکھ لیں ان لوگوں کے سامنے لاکھ قرآن کریم کی حکمتیں پیش کریں کچھ پلے نہیں پڑتا چکنے گھڑے کی طرح ۔ سارا علم ساری حکمت باہر ہی پڑا رہ جاتا ہے۔ ساری مغربی دنیا کا یہ حال ہے۔ دنیا کے اور بظاہر دانشور کہلانے والے خود مسلمانوں میں ایسے ہیں کہ قرآن کریم کی علم و حکمت سے عملاً بے بہرہ ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کے ساتھ یہ شرط رکھ دی گئی ہے کہ مطھر کے بغیر کسی کو اس کے معانی تک رسائی نہیں ہوگی اور تقویٰ کے بغیر کوئی اس سے ہدایت نہیں پائے گا اور جب تک محمد رسول اللہ سے تزکیہ حاصل نہیں کرتا اس تزکیہ کے بغیر علم و حکمت کے مفاہیم اس کی دسترس سے باہررہیں گے۔
بیان بھی کرتے رہو تب بھی وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ پس حضرت ابراہیم ہی کی دعا ہے جسے ان مختلف آیات میں پیش نظر رکھ کر اس میں کچھ ترمیمات فرمائی گئی ہیں۔قبولیت کی ترمیمات ہیں اور یہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ بن مانگے دینے والا بھی ہے اور جب دعائیں قبول فرماتا ہے تو یہ طریق ہے اس کی دعا قبولیت کا۔ آپ بعض دفعہ اپنے لئے نسبتاً ادنیٰ چیز مانگ رہے ہوتے ہیں اور اس صورت میں آپ کو نہیں ملتی آپ کہتے ہیں دیکھو قبول نہیں ہوئی ۔ حالانکہ اللہ کیونکہ بے انتہا احسان کرنے والا اور فضل اور رحم کرنے والا ہے۔ وہ اگر قبول کرتا ہے تودعائوں کی نوعیت میں پہلے تبدیلی پیدا کرتا ہے ان کو بہتر بنادیتا ہے گویا یہ مانگا گیا تھا۔ اور پھر جو مانگا جانا چاہئے اس کے مطابق عطا کرتا ہے۔ وہاں ذکر تھا امیین کا اور اکثر مفسرین کا ذہن عرب کے امیین کی طرف گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو رحمۃ للعلمین ہو اسے عرب کے امیین سے کیوںباندھ دیا گیا۔ اسکا تو تعلق تمام دنیا کے امیین سے ہونا چاہئے اور اس آیت میں عرب کے امیین کا ذکر بھی کہیں نہیں ملتا۔ منھم آتا ہے۔ تو چونکہ عرب قوم سے تعلق رکھتے تھے اس لئے طبعی طور پر تمام مفسرین کا ذہن اس طرف گیا کہ یہاں عرب مراد ہیں اور انہی میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے حالانکہ قرآن کریم میں عرب لفظ کا اشارہ بھی یہاں نہیں ملتا۔ فرمایا امیین کی طرف آیا امیین ہی میں سے تھا۔ تو امی لفظ تو ساری دنیا کے لئے عام ہے۔ تمام دنیا کے انسان جو دینی علوم سے بے بہرہ ہوں وہ امیین کہلاتے ہیں۔ اب اس آیت میں اس مضمون کو اور زیادہ روشن اور واضح فرمادیا اور بتادیا کہ امیین سے کوئی قوم مراد نہیں تھی ۔ فرمایا لقد من اللّہ علی المومنین اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا ہے۔ اب مومنین تو عرب عجم کے سب برابر ہیں اور ہر زمانہ کے مومن ایک جیسے ہیں مومن مومن ہی ہے خواہ وہ افریقہ میں پیدا ہو یا انگلستان میں پیدا ہو یا جرمنی میں پیدا ہو یا جاپان میں یا چین میں۔ جہاں مرضی ہو اس کا عرب ہونا تو ضروری نہیں۔ اس لئے مومن کے لفظ نے واضح کردیا کہ حضرت اقدس ،محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں میں سے ہیں وہ کون ہیں۔ ایک تو یہ تخصیص فرمائی کہ امیین سے ہونے کا مطلب متقی امیین ہے غیر متقی مراد نہیں کیونکہ مومنین نے ظاہر کردیا کہ وہ امیین جو ایمان لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پہلے تو ایمان نہیں لائے تھے پھر ان میں سے کیسے ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو وہ ایمان لائے۔ پیغام سنا تو ایمان لائے تو یہاں مومنین Potential کے اعتبار سے مزکور ہے۔ وہ امیین جن میں ایمان لانے کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ جن کے اندر یہ استعدادیں تھیں اور یہ سعادت تھی کہ جب بھی وہ حق کی آوازکو سنیں گے تو وہ لبیک کہیں گے ایسے مومنین میں سے محمد رسول اللہ ؐ بھی ہیں۔ چنانچہ اس مضمو ن کو قرآن کریم کی ایک اور آیت مزید تقویت دیتی ہے۔ امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون۔ پہلے رسول ایمان لاتا ہے۔امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ دیکھو یہ رسول اس پر ایمان لے آیا۔ جو اس کے رب کی طرف سے اس پر اتارا گیا۔ والمومنون پھر مومنین کا سلسلہ شروع ہواہے۔ اول المومنین محمد رسول اللہ ہیں۔ پس یہ مضمون ہے لقد من اللہ علی المومنین۔ مومنین پر کتنا بڑا احسان ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اب یہ رسول ؐ ا ن کی طرف منسوب ہورہا ہے اور یہاں کسی عرب عجم کسی قوم کی طرف کوئی ادنیٰ بھی اشارہ نہیں۔ کسی خاندان کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔ عظمتیں ایمان میں ہیں اور ایمان میں اول محمد رسول اللہ ہیں۔ منھم ہونے کے باوجود ان میں افضل ان میں سب سے پہلے ہیں اور باقی علامتیں وہی بیان فرمائیں یعنی ترتیب کو درست فرما کر فرمایا۔ من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ اس کو پہلے رکھ دیاہے۔ ویزکیھم۔ وہ تلاوت کرتا ہے اور پھر تعلیم کا انتظار کئے بغیر اس تلاوت پاک سے اور اپنے وجود کی برکت سے ان کو پاک کردیتا ہے اور پھر ان پاکیزہ نفوس پر جب تعلیم اور حکمت اثر دکھاتے ہیں تو نور علی نور کا منظر پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ الٰہی عرفان کے شربت پیتے ہیں اور ساری دنیا کو پھر الٰہی عرفان کے شربت سے سیراب کرتے اور الٰہی رموز سے ان کو آگاہ کرتے ہیں۔ یہ وہ مضمون ہے و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر اللہ کے پاس سے ہدایت نہ آتی تو دینی علوم وغیرہ سے وہ بے بہرہ تھے۔ یہ آیت اس بات کی بھی نفی کرتی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفروں کے دوران شام سے یا کسی اور علاقے سے عیسائیوں سے کچھ تعلیم حاصل کی کچھ یہود مذھب کے متعلق واقفیت حاصل کی اور پھر یہ مذھب گھڑ لیا ۔ یہ ایک جھوٹا الزام مستشرقین کی طرف سے عائد کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بالکل جھوٹ ہے۔ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین وہ سارے ایمان لانے والے ‘ محمد رسول اللہ بھی انہیں میں سے تھے‘ اس سے پہلے دینی علوم سے بے بہرہ تھے۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو آیات مکی دور میں نازل ہوئی ہیں۔ ان میں تو عیسائیت وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اسی لئے بعض مستشرقین یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ مدنی دور میں جاکر جب عیسائیوں سے واسطہ ہوا پھر سیکھا اور اس سے پہلے چونکہ قرآن کریم میں بنیادی طور پر اس تعلیم کا بیج موجود ہے جو مکے میں نازل ہوا تھا جو بعد میں ظاہر ہونے والی تھی اس میں تمام آئندہ کے دعاوی کی بنیادیں ڈالی جاچکی ہیں۔ وہ جب ان کے سامنے آتی ہیں تو پھر بہت بے چینی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دو طرح سے ان کا رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض تو ان آیات کو مکی آیات مانتے ہی نہیں۔ کہتے ہیں ہو ہی نہیں سکتا۔ چونکہ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ نے خود تعلیم دی تھی۔ یہ کتاب بنائی تھی۔اس لئے کہتے ہیں یہ ضرور مدنی آیات ہونگی اور جب ماننا پڑتا ہے‘ جب کوئی چارہ نہیں رہتا تو کہتے ہیں یہ وہی تعلیم ہے جومحمد رسول اللہ نے بچپن کے زمانے میں‘ آغاز جوانی میں وہاں کے سیریا وغیرہ کی طرف شام کی طرف تجارتی دورے کرتے ہوئے وہاں سے سیکھی تھی۔ اول تو ویسی ہی بڑی جاہلانہ بات ہے۔ جو سیکھی تھی اس کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ کسی سے آکے بات ہی کوئی نہیں کی۔ خاموش رہے ہیں۔ اور پھر جب تک اہل کتاب سے تصادم نہیں ہوا۔ اور ان کی اصلاح براہ راست درپیش نہ ہوئی۔ اس وقت تک قرآن کریم میں تفصیل سے وہ مضامین بیان نہیں ہوئے۔ تو وہ یادداشت میں چھپائے رکھے رہے ہیںاس وقت تک ۔ اور تیرہ سال مکی زندگی میں خاموش رہتے ہیں ان کے نزدیک‘ اور ہمارے نزدیک بھی تفصیل سے بیان نہیں کرتے لیکن بنیادیں اس کی ضرور موجود ہیں۔ تو باشعور طور پر ایک انسان جب کسی دوسرے سے ایک تعلیم سیکھتا ہے اور اس پر اپنی تعلیم کی بناء رکھتا ہے تو وہ آغاز ہی میں بڑی کھل کھل کر باتیں کرتا ہے اور جتنا دور ہٹتا ہے پھر وہ مدھم پڑتا جاتا ہے۔ یہاں الٹ مضمون ہے اور پھر مدنی دور میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم نہ حاصل کرنے کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہے کہ تیرہ سال سے وہ چیلنج ہوچکا تھا۔ ایک دعویدار یہ دعویٰ کررہا تھا کہ میں خدا سے علم پاکر پھر بیان کرتا ہوں۔ اور اس میں کسی بندے کا کوئی دخل نہیں۔ جب مدینے میں داخل ہوئے ہیں تو اہل کتاب تو آپ کے پہلے ہی دشمن ہوچکے تھے۔ ان سے سیکھتے تھے؟ قرآن کریم تو کہتا ہے لائو اپنی کتاب دیکھو اس میں یہ موجود ہے۔ تم جھوٹ کہتے ہو کہ نہیںہے وہ تو چھپاتے پھرتے تھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں بارہا ان کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اللہ نے مجھے خبر دی ہے ۔ یہ موجود ہے۔ جیسا کہ اسرائیل کا اپنے اوپر حرام کردینے والا واقعہ۔ وہاں شاید مجھے کسی نے مجھے بتایا تھا کہ میں نے غلطی سے بنی اسرائیل کا لفظ بول دیا تھا۔ اصل میں قرآن کریم کی آیت بتاتی ہے کہ تورات کے نزول سے پہلے اسرائیل نے جو کھانے اپنے اوپر حرام خود کئے تھے۔ ممنوع کردیئے تھے وہ کھانے جو تم پر ممنوع رہے اسرائیل کی وجہ سے ۔ یہاں حضرت اسحاق مراد ہیں اسرائیل سے اور بنی اسرائیل نہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے میرے منہ سے اس وقت غلطی سے لفظ نبی نکل گیا تھا۔ مگر بہرحال میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت اسحاق کے متعلق یہ دعویٰ کرنے کے بعد قرآن کریم فرماتا ہے کہ دیکھو۔ پڑھو اپنی تورات تمہیں ملے گا۔ وہاں یہ مضمون اب محمد رسول اللہ کو کس نے وہاں یہ سکھایا تھا۔ وہ تمام حوالے جو مدنی آیات میں ملتے ہیں ان سے قطعی طور پر اندرونی شہادت بتا رہی ہے۔ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونہ کسی نے سکھایا نہ کوئی سکھانے والا وہاں موجودتھا۔ اور نہ کوئی ایسا سکھانے والا قریب آتا تھا۔ بلکہ قرآن سے یہ ثابت ہے کہ یہودپہلے آپس میں مشورے کیا کرتے تھے کہ یہ بات نہ کرنا اس سے ان کوپتہ لگ جائے گا۔ یہ بات نہ کرنا اس سے وہ یہ سمجھ جائیں گے اور تمہارے رب کے سامنے تم سے جھگڑیں گے بحثیں ہونگی۔ اس لئے بہت احتیاط سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سوال تیار کیا کرتے تھے کہ اشارہ بھی نہ ہوسکے پھر یہ لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارۃً بھی یہ علم نہ ہو کہ اصل میں بائیبل کیا کہتی ہے۔ بعض دفعہ جب وہ بائبل لاکر پیش کیا کرتے تھے تو بعض حصوں پر ہاتھ رکھ لیا کرتے تھے اور لفظاً بھی ایسا ہوتا تھا صرف معناً نہیں۔ چنانچہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہاتھ اٹھائو اور اس کے نیچے سے پھر وہی آیت نکلی جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کرتی تھی۔ تو ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین میںجیساکہ پہلی آیت میں بالکل واضح ہے ھوا الذی بعث فی الامیین رسولا منھم ۔ امیین میں سے تھا خود بھی امی تھا۔یہ مراد ہے کہ امی ان معنوں میں کہ کسی سے کوئی دینی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور ان امور سے جو دنیا کی دی ہوئی تعریف ہے۔ کلیۃبے بہرہ تھا جس طرح دوسرے سب لوگ تھے۔ اس کے باوجود یہ تلاوت آیات کرتا ہے اور تزکیہ کرتا ہے اور کتاب کا علم سکھاتا ہے اور اس کی حکمت بھی وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین یہ مراد ہے۔پس یہ آیت ہے آج زیر بحث اس سلسلے میں جو متفرق مفسرین نے باتیں کی ہیں ان میں ایک دو بحثیں ایسی ہیں جو قابل توجہ ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ ہے کہ بعث فیھم رسولا من انفسھم سے بعض لوگوں نے یہ مراد لی ہے کہ یہاں اھل مکہ اھل عرب مراد ہیں۔ یہ بالکل غلط اور اس آیت کے منطوق کے بالکل مخالف معنی ہے کیونکہ لقدمن اللہ علی العرب نہیں فرمایانہ عجم۔ فرمایا علی المومنین اور مومن تو سب دنیا میں ایک قدر مشترک سے تعلق رکھنے والی قوم ہیں۔ ایمان اور کسی قومی یا عصبی تعلق کا کوئی دور کا بھی اشارہ لفظ المومنین میں نہیں ملتا۔ پس فرمایا کہ یہ تم مومنین کا آدمی ہے یہ نہ سمجھنا کہ اھل عرب میں سے ہے یا قریش خاندان میں سے ہے یا بنوھاشم کی اولاد میں سے۔ ان سے تعلق نہیں ہے اس کا۔ اس کا ایمانی رشتہ ہے اور ہر مومن سے تعلق ہے المومنون اخوۃ مومن سب بھائی بھائی ہیں۔ ایک نئی قوم دنیا میں پیدا ہورہی ہے جس کا عصبیتی رشتوں سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ صرف ایمان کے رشتے ہیں جن کے نتیجے میں ایک ملت وجود میں آرہی ہے اور محمد رسول اللہ اس ایمانی ملت کے اول ہیں۔ اس کا آغاز کرنے والے اور سب سے افضل۔ دوسری بات یہ بیان کی جاتی ہے کہ بعض روایات میں انفسھم کی بجائے انفسھم آتا ہے اور یہ سیل نے بھی بیان کیا ہے اور حوالہ دیا ہے بیضاوی کا۔ اب دیکھیں قرآن کریم جو کھلا کھلا ایک مضمون خود پیش فرما رہا ہے اس کی آیات کے ساتھ اس طرح کھیل کرنا کہ کسی کو روایت یہ بھی ملتی ہے یہ درست نہیں ہے۔ بالکل قرآن کریم کے معانی اور مضمون بگاڑنے والی بات ہے۔ اور یہاں تک یہ بات عجیب ہے کہ ویری کہتا ہے کہ میں نے تحقیق کی ہے۔ وہ اسلام کا دشمن ہے وہ بھی مانتا ہے۔ کہتا ہے میں نے خود تحقیق کی ہے اور مجھے ایک بھی نسخہ ایسا کہیں دکھائی نہیں دیا جس میں انفسھم کی بجائے انفسھم بیان کیا گیا ہو یعنی ’’ف‘‘پر پیش کی بجائے زبر ڈالی گئی ہو اگر اسے انفسھم پڑھا جائے تو یہ مطلب بنے گا کہ ان میں سے من انفسھم ایسا رسول بھیجا ہے جو ان میں سے سب سے زیادہ اعلیٰ لوگوں میں سے ہے اگر تو مومنین کی طرف یہ ضمیر جاتی ہے تو پھر تو مضائقہ کوئی نہیں اگرچہ درست طریق نہیں ہے۔ قرآن کریم کا واضح طور پر جو متن ہمارے سامنے ہے وہی کافی ہے۔ کسی اور چیز کی احتیاج نہیں ہے کیونکہ اس طرح پھر رفتہ رفتہ شکوک کے رستے کھلتے ہیں اور یہ طریق درست نہیں۔ قرآن کریم سے وفاکا تقاضا ہے کہ ان باتوں میں نہ الجھا جائے سوائے اس کے کہ کوئی ایسی روایت ہو جو اس مضمون کو تقویت دیتی ہو جو متن میں موجود ہے۔ ان دو باتوں کا فرق ہے۔ میں ابھی آپ کے سامنے یہ مضمون اس حوالے سے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں تاکہ آ ئندہ جب آپ کے سامنے اس قسم کی الجھنیں آئیں تو ایک واضح کھلے روشن اصول کے تابع اپنے لئے فیصلہ کرسکیں۔ مختلف قسم کی روایات ملتی ہیں جن میں ملتا ہے کہ یہاں پیش کے ساتھ تلاوت متن میںلکھی ہوئی ہے لیکن بعض روایتوں میں زبر کے ساتھ بھی ہے۔ یہاں زبر کے ساتھ لکھی گئی ہے لیکن بعض روایتوں میں زیر کے ساتھ بھی ہے۔ جیسا کہ خاتَم النبیین کے مضمون میں بعض علماء یہ حوالہ دیتے ہیں کہ خاتم کے ساتھ ایک ’’ت‘‘ کی زیر کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ ’’خاتِم‘‘ اور اس پر جماعت احمدیہ نے بھی گفتگو کی ہوئی ہے لیکن اسی حد تک قابل قبول ہونگی یہ روایتیں جس حد تک متن میں ظاہر کئے ہوئے لفظ کے مضمون کو تقویت دیتی ہوں ان سے ٹکراتی نہ ہوں۔ جہاں ٹکرا ئیں گی وہاں یا وہ روایات جھوٹی یا تمہارا استنباط جھوٹا۔ اس واضح اصول کے تابع اب دوبارہ اس آیت کی طرف آتے ہیں تو انفسھم کا صرف یہ ترجمہ جائز ہے کہ مومنین کی طرف اس کی ضمیر جائے اور مراد یہ ہو کہ مومنین میں سے جو بہترین ہیں۔ The noblest among them کیونکہ انفس سے مراد Noble ہیں تو پھر تو کوئی حرج نہیں بے شک اور روایتیں ہوں ہمیںان پہ کوئی اعتراض نہیں مگر اگر اس کا مضمون قابل قبول نہیں ۔ وہ کہتے ہیں انفسھم سے مراد قریش مکہ ہیں اور ان میں سے بھی Noblest House اب کیسا لغو مضمون بدلا جائے جیسا کہ مفسرین بعض بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو کسی طرح بن جاتا ہے۔ قرآن محمد رسول اللہ کو عصبیتوں سے نکال کر کلیۃً الگ دکھا کر تمام جہانوں کے مومنین میں شامل فرما رہا ہے اور ہر زمانے کے مومنین میں شامل فرما رہا ہے اور یہ فقط ڈھونڈ رہے ہیں مکے کے ان نعوذ باللہ من ذلک معززین سے جن پر قرآن لعنتیں ڈالتا ہے کہ انہوں نے انکار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچائے‘ ہر طرح کے عذاب مومنین پر وارد کئے اور خدا کی ناراضگی کا موجب بنے۔ قرآن گویا یہ فخر کررہا ہے کہ دیکھو محمد رسول اللہ ؐ ان شرفاء میں سے ہیں پس نہایت جاہلانہ خیال ہے چاہے بزرگ مفسرین نے بھی لکھا ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض دفعہ ایک بزرگ سے بھی ایسی کوتاہی ہوجاتی ہے جس سے قرآن پر حرف آتا ہے اوروہ قابل قبول نہیں ہے‘ کسی قیمت پر۔ جو قرآن کو عزت دیتا ہے وہی ہے جو عزت پائے گا۔ پس قطع نظر اس کے کہ کس نے کیا کہا ہے‘ جہاں قرآن کی عظمت اور اس کی طہارت پر حرف آتا ہو وہاں آپ کو وہ معنی قبول کرنے کی کوئی خدا کی طرف سے اجازت نہیں ہیں۔ پس انفسھم اگر ہے تو صرف یہ معنی ہیں کہ مومنین میں سے‘ عام النفس نہیں بلکہ ان کے بہترین میں سے یہ وجود تعلق رکھتا ہے۔ ان میں سے ہے۔ یتلوا علیھم ویزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین ۔ یہ جو معنی ہیں مومنین کے تعلق میں کہ یہ عام ہوا ہے۔ مجھے یہ خیال تھا کہ جو میں نے تفسیریں دیکھی ہیں ان میں کہیں اس عمومیت کا اس طرح ذکر نہیں کہ اس کا عربوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ساری دنیا میں سے ہے اور دماغ میں انسان کے بعض دفعہ ایک چھوٹا سا کیڑا پیدا ہوجاتا ہے کہ دیکھو یہ تفسیر جو تھی یہ پہلی دفعہ سمجھ میں آئی۔ تو پھر میں نے دیکھا کہ تفسیر سروری میں حضرت مولانا سرور شاہؒ نے بعینہٖ یہ بات لکھی ہوئی ہے اور بہت مجھے لطف آیا۔ تفسیر سروری میں نے ساری تو نہیں پڑھی۔ کبھی کبھی اس کے جو حوالے سامنے آتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مولوی سرور شاہ ؒ کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فہم قرآن عطا فرمایا تھا اور بہت سی باتیں جو دیگر مفسرین نہیں پیش کرسکے حضرت مولوی سرور شاہؒ کا ذہن اس طرف جاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ ٹھیک لکھا ہے‘ اگر میں کہوں تو غلط ہوتا ہے کہ مجھ سے پہلے کسی نے یہ بات نہیں سوچی۔ کیونکہ حضرت مولوی سرور شاہؒ سوچ چکے ہیں ۔ لیکن مولوی سرور شاہؒ نے بجا لکھا ہے کہ مجھ سے پہلے یہ اللہ کا خاص احسان ہے کہ کسی کا اس مضمون کی طرف خیال نہیں گیا جو ہے ہی ایک ہی مضمون قابل قبول‘ اور کوئی مضمون قابل قبول ہی نہیں ہے۔ کیونکہ عربوں کی بحث میں مبتلا رہے اسی لئے وہ مومنین کا ترجمہ بھی عرب کرلیا حالانکہ اس کا وہ ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ آج کے مومن بھی اس میں شامل ہیں کل کے مومن بھی شامل ہونگے۔ امریکہ افریقہ جاپان سب مومن شامل ہیں۔ اور سب پر یہ اللہ کا احسان ہے۔ ورنہ رحمۃ للعالمین کیسے ہوگئے۔ اگر صرف عربوں پر احسان ہے کہ محمد رسول اللہ ان میں سے تھے تو پھر رحمۃ للعالمین کس طرح ہوئے رحمۃ العرب ہوگئے۔ لیکن ظلم کی بات یہ ہے کہ شیعہ مفسرین اس سے بھی دائرے کو تنگ کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں مومنین پر احسان سے مراد اھل بیت پر احسان ہے بس اور کسی پر نہیں۔ اور اھل بیت صرف ان پر نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون سے آگے چلے ہیں۔ آپ کی اولاد میں سے یعنی بیٹی کی طرف سے آپ کی اولاد میں سے ہیں۔ بلکہ مفسرین اس عظمت کو عبدالمطلب کے گھر کی طرف منسوب کرتے ہیں‘ ابو طالب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ ہیں اصل میں شان والے لوگ جن میں سے محمد رسول اللہ تھے اور انفس کے اوپر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں انفس سے مراد معزز اور شرفاء ہیں۔ مومنین میں کہاں سے مل سکتے ہیں۔ معزز اور شریف لوگ تو کفار مکہ میں ملیں گے۔ اس لئے وہاں سے بات چلانی چاہئے اور کہتے ہیں وہ دیکھو House of Abu Hashim‘ House of Abu Talib, House of Abu Muttelib یہ وہ انفس ہیں جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ انفس من المومنین؟ وہ مومنین کہاں سے تھے؟ ان میں سے انفس کیسا ہوگیا؟ یعنی اتنا واضح تضاد ہے آیت کے مضمون میں اور ان کے دعاوی میں کہ کوئی معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی اس کو فوراً پہچان سکتا ہے۔ لیکن مفسرین کی عادت ہے کہ وہ نئے نکتے کوئی نظر آئیں بغیر سوچے بعض دفعہ صرف لطف کے طور پر کہ ذوقی نکتہ یہ بھی ہے وہ سب رائیں اکٹھی کرلیتے ہیں اور ضروری نہیں ہوتا کہ ہر رائے سے وہ متفق ہوں ۔ اس سے بعض دوسرے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو مستشرقین ہیں انہوں نے اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ امام رازیؒ کہہ دیا یا کسی اور کی طرف حوالہ دے دیا۔ جلا لین میں یوں لکھا ہوا ہے۔واقدی نے یہ لکھا حالانکہ وہ لوگ ہر قسم کی بعض دفعہ روایات اکٹھی کرلیا کرتے تھے۔ تاریخ میں واقدی کو اس فن میں کمال حاصل ہے کہ زیادہ سے زیادہ امکانی روایات جو ایک مضمون سے تعلق رکھتی ہیں وہ ایک جگہ اکٹھی کرلیتا ہے اور بعض دفعہ کھل بتادیتا ہے کہ میرے نزدیک یہ قابل قبول ہیں اور یہ سب باتیں قابل رد ہیں۔ اس حصے کو چھوڑ دیتے ہیں مستشرقین اور جو سب سے زیادہ اسلام پر حملہ کرنے کے لئے ممد روایت ہو اسے اختیار کرلیتے ہیں ۔ کہتے ہیں واقدی۔ بالکل یہی طریق شیعوں کا ہے آگے جاکے میں آپ کو دکھائوں گا حوالے دیتے ہیں۔ بعض کتب کے کہ اس سے ثابت ہوگیا دیکھ لوہم جو کہہ رہے ہیں۔ بالکل قطعی طور پر ثابت ہوگیا۔ اسی کتاب میں اس کے رد میں زیادہ قوی حدیثیں موجود ہوتی ہیں۔ ان کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ تو یہ جو طریق ہے۔ یہ جائز نہیں ہے۔ یہ عقل کے بھی خلاف ہے اور تحقیق کے جو مسلمہ تقاضے ہیں ان کے خلاف ہے۔ روایات میں سے دونوں پہلوئوں کا ذکر کرنا چاہئے اور بتانا چاہئے کہ اگر ہم رد کرتے ہیں ایک کو تو کیوں کرتے ہیں۔ اس کی دلیل کیا ہے۔ اب میں بتاتا ہوں آپ کو۔ شیعہ روایات نے تو انفس کا زیادہ تر معنی وہی لیا ہے جو میں بیان کرچکا ہوں۔ اور یہ روایت جو ہے روح المعانی میں علامہ الوسی نے پیش کی تھی کہ انفس کی بھی ایک قرأت ملتی ہے۔ امام رازی نے ایک یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ یہاں اس آیت کا اسیاق و سباق سے ایک تعلق ہے۔ اس پہلو سے بھی حضرت امام رازی کو اللہ تعالیٰ نے ایک غیر معمولی ذہنی اور قلبی روشنی عطا کی تھی۔ باقی مفسرین اس طرح سیاق و سباق کی بحث میں نہیں پڑتے جس طرح حضرت امام رازی بیان کرتے ہیں اور اکثر حکمت کی بات بیان فرماتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کا سیاق و سباق سے یہ تعلق ہے کہ اس سے پہلے‘ میں ان کے الفاظ میں بتاتا ہوں۔ غلول اور خیانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی تھی اور اس آیت میں زور دیا گیا ہے اس بات پر کہ تم میں سے ہے تم جانتے ہو اس کو۔ یعنی وہ بات جو میں پہلے عقلی دلائل کے طورپر میں بیان کرچکا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس بات کو رد کرتی ہے۔ امام رازی کہتے ہیں کہ یہ مضمون اس آیت میں ہے کہ محمد رسول اللہ کو دیکھو تم لوگوں میں سے تھا اور تم اس کو اچھی طرح جانتے ہو پھر اس کا بددیانتی اور خیانت کا تصور بھی کیسے تم اس کی طرف منسوب کرسکتے ہو۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کہتے ہیں کہ اس کے بعد نعمت کا ذکر فرمایا کہ خائن تو بہت ہی نقصان کا موجب بنا کرتا ہے۔ تمہارا سردار تو ایسا ہے جوتم پر سراسر احسان ہی احسان ہے۔ من اللہ میں یہ مزید بات پیدا کی ہے اللہ تعالیٰ نے کہ تم بڑے جاہل لوگ ہو۔ اس رسول کو جس تم جانتے ہو۔ کیسا امین تھا اور امین ہے۔ اس کی طرف ایسے بے ہودہ خیالات منسوب کرتے ہو لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ یہ تو سراسرتم پراحسان ہے۔ ایسا رسول ہے حقیقت میں۔ جو قوموں کے لئے شرف کا موجب بنتا ہے اور اس پر اس قسم کے ناپاک الزام کا کوئی حق نہیں بنتا۔ اب آیات کے سیاق و سباق کے لحاظ سے دوبارہ دیکھتے ہیں کہ یہ آیت یہاں پہلی سے کیا تعلق رکھتی ہے۔یہ پہلے دو درجے میں کل بیان کرچکا ہوں۔ پہلے تھا ماکان لنبی ان یغلکہ کسی نبی کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی قسم کی خیانت کرے۔ اس میں محمد رسول اللہ کی تخصیص نہیں بلکہ نبوت کے منصب کے خلاف بات ہے۔ اس لئے جب ادنیٰ نبی بھی خیانت سے مبرا ہیں تو نبیوں کا سردار کیسے خیانت میں ملوث ہوسکتا ہے۔ یہ مضمون ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ اور پاکیزہ دلیل ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت کے حق میں۔ پھر دوسری آیت آئی۔ افمن اتبع رضوان اللہ تم نے دیکھا عمر بھر تو یہ اللہ کی رضا جوئی کرتا رہا ہے۔ اس کو چادر ہی ایک چاہئے تھی وہ بھی اس کپڑے کی جو منع کرچکا ہے اور پہن کے پھرتا کیسے باہر؟ ایک طرف یہ مشہور کردیا کہ چوری ہوگئی دوسری طرف چادر لیکے نکلتے اور وہ توجبہ کہتے ہیں۔ تو جبہ پہن کے کہیں نکلنا تو تھا لوگ پہچان نہ لیتے۔ یہ ایسی جاہلانہ بات ہے جس کو قرآن کریم اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ اس پر تفصیل سے بات کرے۔ لیکن اصولی باتیں جو کلیتہً ہر قسم کے الزام کو دھتکار رہی ہیں ان کی بات کررہا ہے۔ کہتا ہے اس کی تو رضوان باری تعالیٰ کی جستجو میں زندگی کئی اس کو کیسے تم ان لوگوں میں ملاتے ہو جو خدا کی ناراضگی لیکر لوٹا کرتے ہیں؟ وہ بھی کئی درجوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور خدا کی رضاجوئی حاصل کرنے والے بھی بڑے مختلف مدارج سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور ان میں یہ سرفہرست ہے اور خاتم النبین ہے۔ تو جو پاک لوگوں میں رضا جوئی کرنے والے لوگوں میں خدا کے نزدیک سب سے بلند مرتبے پر فائز ہو۔ اس پر ایک دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں والا ایک گھٹیا الزام تم لگا رہے ہو۔ کوئی اس بات کا کسی قسم کا کسی پہلو سے جواز دکھائی نہیں دیتا پھر فرمایا۔ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم۔ کہتے ہیں تم اس بات کو بھول نہ جائو کہ اللہ نے تم پر اس رسول کے ذریعہ ایک خاص احسان فرمایا ہے۔ پہلے رسول تو تعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے تزکیہ کیا کرتے تھے۔ اس کا وجود پاک کرنے والا ہے۔ پس جس کا وجود پاک کرنے والا ہو اس پر یہ الزام نعوذ باللہ من ذلک۔ اس کا تو کوئی کسی پہلو سے دور و نزدیک کے کسی پہلو سے بھی ایک ادنیٰ بھی جواز نہیں ہے۔ پھر اپنے محسن پر تم ایسی باتیں کرتے ہو؟ کتنا بڑا احسان ہے کہ خدا نے تم لوگو کی طرف اے مومنو! اے محمد ؐ رسول اللہ کے زمانے کے مومنین تم پر احسان فرمایا کہ ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جس کو تمہاری طرف منسوب کردیا۔ یہ تمہارا رسول ہے جب کہ پہلے انبیاء ترستے رہے کہ ہم ان میں سے ہوں جو محمد رسول اللہ پر ایمان لانے والے ہوں۔ اسی مضمون کی ایک روایت ملتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے یہ دعا کی اور خدا سے تمنا کی ‘ جب پتہ لگا مقام محمدؐ آپ پر روشن فرمایا گیا کسی حد تک جس حد تک سمجھ سکتے تھے تو انہوں نے کہا اے خدا مجھے اس کی امت کا رسول بنادے۔ یعنی یہ حضرت موسیٰ کو بھی پتہ تھا کہ اس امت میں کوئی رسول آنے والا ہے۔ مجھے اس کی امت کا رسول بنادے۔ اس کا جواب خدا یہ نہیں دیتا۔ حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ الفاظ مختلف ہونگے مگر مضمون بعینہٖ وہی ہے جو میں بیان کررہا ہوں۔ خدا یہ نہیں جواب دیتا کہ وہ تو خاتم النبین ہے۔ اس کی امت میں تو رسول آنا ہی کوئی نہیں تو میں تمہیں ایسے کیسے بنادوں۔ فرمایا نہیں۔ اس کی امت ان کا رسول انہی میں سے ہوگا۔ منھم۔ تم ان میں سے نہیں ۔ تمہیں کیسے بنایا جائے تو حضرت موسیٰ ؑ رسالت چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں یہ عرض کریں گے پھر کہ مجھے اس کے مومنین میں سے بنادے۔ ان لوگوں میں سے بنادے جو اس کے امتی ہیں۔ اس امت میں شامل فرمادے۔ اللہ فرماتا ہے تم پہلے ہو وہ بعد میں آئیں گے۔ یہ ممکن نہیں۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانی آغاز جب تک شروع نہیں ہوتا۔ اس وقت سے پہلے کے مومنین آپ کی امت میں شمار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ایمان کا مرتبہ بڑھ گیا ہے۔ ایمان کے تقاضے بلند ہوگئے ہیں۔ اور تزکیہ کامضمون ایک نئی شان سے ایک نئی منزل میں داخل ہوچکا ہے۔ وہاںپہلے تزکیہ ہوگا پھر تعلیم کتاب اور حکمت کتاب ہوگی۔ تو فرماتا ہے کہ یہ اللہ نے تم پر اتنا بڑا احسان کیا کہ تم مومنین جو محمدؐ کے مومنین ہو جو محمدؐ رسول اللہ کے زمانے کے بعد کے آنے والے ہو۔ ان کی طرف منسوب فرمادیا کہ یہ ان میں سے ہی ہے۔ بڑی بے حیائی ہے کہ اتنے بڑے محسن کے متعلق ایسی ادنیٰ بات سوچ رہے ہو۔ دراصل یہ مومنین کی طرف تو تنبیہہ ہے مگر اشارہ منافقین کی طرف ہے۔ مومنین کو سمجھایا گیا ہے کہ تم ایسے ناپاک خیال کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ اور مومنین شامل نہیں ہوا کرتے تھے۔ کسی ایک بدبخت کی بات ہوتی تھی اس کو اٹھا کر پھیلا دیتے ہیں یہ لوگ حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو مومنین تھے ان کی بالکل مختلف شان تھی چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے لوٹ رہے تھے مدینے کی طرف فتح مکہ کے بعد کچھ عرصہ قیام فرما کر تو جو کچھ اس وقت تک مال غنیمت ہاتھ آیا تھایا پہلی جنگوں میں بھی جو کچھ ملا تھا آپ نے جاتے ہوئے تمام تر مہاجرین میں تقسیم کردیا اور انصار کے ایک شخص نے جس کے متعلق نقشہ بھی بڑا بھیانک سا ہے بڑی مکروہ صورت اورایک منافق مزاج کا آدمی تھا اس نے یہ کہہ دیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال و دولت اپنے عزیزوں کو دے دیا۔ اس وقت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ اے انصار سنو ! تم نے یہ کہا ہے۔ جب یہ فرمایا تو اس طرح ان کی حالت زار ہوئی کہ جیسے بکریاں ذبح ہوگئی ہوں۔ وہ روتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ یا رسول اللہ ہم نے نہیں کہا۔ ہم میں سے کسی بدبخت نے کہا ہے۔ لیکن آپ ان کی بات سن کر اس کو نظر انداز فرماتے اور یہ کہتے تھے ساتھ فرمایا دیکھو تم یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے اس رسول نے بھیڑ بکریاں اور دنیا کا اموال تو اپنے رشتہ داروں کو دے دیئے اور خود مدینے والوں کے ساتھ واپس لوٹ گیا اور اپنے گھروں کی کوئی پرواہ نہ کی اپنے شہر کی کوئی پرواہ نہ کی۔ یہ بھی تو سوچ سکتے تھے؟ یہ بات جب بیان فرمائی تو راوی کہتے ہیں اس طرح صحابہ ؓ کی خاص طور پر انصار کی حالت تھی کہ وہ دیکھی نہیں جاسکتی تھی بیان کے لائق نہیں۔ اور وہ انہوں نے یہ نہیں کیا تھا۔ یہ ہے شان ان مومنین کی جن کے متعلق یہ دشمنان اسلام خواہ باہر کے ہوں یا اندر کے ہوں زبانیں دراز کرتے اور بڑھ بڑھ کے حملے کرتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے محمد رسول اللہ ان مومنین میں سے تھے۔ جو یہ بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ پس یہاں مومنین کو مہتم نہیں کیا جارہا یہ دماغ سے خیال نکال دیں کہ یہاں مومنین کو کہہ کر ان کو تنبیہہ کی جارہی ہے۔ مومنین کو ا نسے پاک کرکے الگ دکھایا جارہا ہے یہ۔ مومنین مطلب ہے سوچ بھی نہیں۔ جہاں تک مومنین کا تعلق ہے ان کو پتہ ہے محمد رسول اللہ کا‘ اللہ کا احسان ہے ان پر محمدؐ کو انہیں سے پیدا کیا انہیں میں شامل کردیا۔ ان کے ذکر میں محمدؐ کا ذکر چلادیا۔ اتنا بڑا احسان ہے وہ کیسے سوچ سکتے ہیں ان باتوں کو۔ اس لئے اگر کوئی سوچتا ہے تو یقینا وہ دوسرے لوگوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جو منافقین کا اور مکروہ باتیں سوچنے والوں کا گروہ ہے۔ اب تفسیر کے دوسرے حصوں کی طرف آتا ہوں۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ اسماعیل کا نام اسرائیل تھا؟ جب ہم کہتے ہیں بنو اسرائیل تو بنو اسماعیل اور بنو اسرائیل دوالگ الگ ہیں بالکل۔ پتہ نہیں ان کے دماغ کو کیا سوجھی ہے۔ کسی حوالے میں یہ نکلتا ہوگا۔ مگر اسرائیل سے مراد بائیبل میں واضح،اسحاق ہیں (نقل بمطابق اصل)
جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے بیٹے تھے۔ اسرائیل سے مراد اصل میں پہلوان ہے۔ ان کے متعلق بائیبل میں آتا ہے کہ ساری رات خدا سے کشتی کی تھی اور کشتی میں ہارے نہیں اللہ سے نعوذ باللہ من ذلک۔ اور وہ پہلوان ہے جس سے ان کا نام اسرائیل پڑا اور بنو اسرائیل سے مراد حضرت اسحاق کی اولاد ہے۔ وہ خود تو اسرائیل تھے آپ کی اولاد اسرائیل ہے، اب انہوں نے ایک روایت بھیجی ہے پیدائش باب 35 کو اسماعیلؑ کا نام اسرائیل تھا۔ یہ پتہ نہیں کونسی بحث ہے مجھے اس سے غرض نہیں ہے یہ مسلمہ بات ہے ایک حقیقت ہے کہ جب ہم بنی اسرائیل کہتے ہیں تو بنی اسماعیل سے الگ ان کو دیکھتے ہیں اور جب کہتے ہیں کہ ان کے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کیا تو وہاں بنی اسماعیل کی بات شروع ہوجاتی ہے اور حضرت محمد ؐرسول اللہ کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے بھائیوں میں سے یعنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے……
وہ آیت جو میں نے کل پڑھی تھی شاید اس میں پڑھنے میں کوئی غلطی ہوئی تھی؟ کہتے ہیں کلا ان معی ربی سیھدین یہ لفظ ہیں ہوسکتا ہے مجھ سے آگے پیچھے ہوگیا ہویہ ۔ یاد رکھ لیں کل جو میں نے ایک آیت کی طرف حوالہ دیا تھا۔ حضرت موسیٰ کے متعلق۔ تو کسی نے بہت اچھا کیا ہے۔ جرمنی سے حافظ محمد سلیمانؐ نے لکھ کر بھیجا ہے کہ اس کی درستی کروادیںوہ۔ یادداشت میں بعض دفعہ غلطی ہوجاتی ہے۔ اصل قران کریم کے الفاظ ہیں کلا ان معی ربی سیھدین۔ ایسے موقعوں پہ وصل میںفوراً قرآن کریم دیکھ لیا کریں تاکہ بجائے اس کے کہ کل یا پرسوں کوئی درستی ہو فوراً درستی ہوجایا کرے۔ اچھا اب دیکھتے ہیں۔ ہم دوسرے مفسرین کی بات۔ Bell نے ایک کمنٹری کی ہے۔ اب بتائیں اگر میں اس کو گدھا نہ کہوں تو کیا کہوں۔ کہتا ہے کہ اس Verse سے ثابت ہوگیا کہ
The muslims had not yet been quite forgiven۔ اللہ تعالیٰ احسان کا ذکر فرما رہا ہے کہ کبھی کسی قوم پر اتنا بڑا احسان نہیں کیا۔ جیسا تم پر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے صاف پتہ لگا Muslims were not quite followers۔ ا ب دوسری بات بیان کردوں میں۔ کل تو میں نے غلطی سے توبہ کرلی تھی۔ ایک خاتون نے مجھے لکھا تھا کہ آپ زیادہ سخت لفظ بول جاتے ہیں اور یہ ٹھیک نہیں اور یہ نہیں اور وہ نہیں تو اصولاً تو یہ بات درست ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے اور خواہ کیسا ہی کسی کے جذبات کو کچلا جائے حتی المقدور زبان سے کوئی سخت بات نہیں کہنی چاہئے لیکن جہاںعشق کے مضامین ہوں وہاں بے اختیاری ہوجاتی ہے اور جہاں جہاں بھی میرے منہ سے سخت لفظ نکلے ہیں بے انتہا اور اچانک کچلے ہوئے آدمی کے دل سے جس طرح بات نکلتی ہے۔ کسی کے پائوں میں کون (Corn) ہو اس پہ کسی کا پائوںپڑے وہ یہ نہیںدیکھتا کہ ابا کا پڑا ہے یا امی کا۔ پہلے دھکا ہی دیتا ہے اس کو۔ بے اختیار ہوتا ہے۔ بعد میں کہتا ہے اوھو معاف کرنا آپ تھے‘ تو پھر پتہ چلتا ہے کہ کس کو دھکا دے دیا تھا۔ تو یہاں تو دشمن نے ارادۃً پائوں کچلنے کے لئے پائوں رکھا ہے اور پائوں کچلنے کے لئے نہیں دل کچلنے کے لئے دل پر قدم رکھا ہے۔ اس کو اگر دھکا دے دے کوئی آدمی تو کسی دوسرے کی دل آزاری ہوجائے کہ اوھو یہ تو بڑی سختی ہوگئی۔ یہ جائز نہیں ہے۔ میں نے یہ بات اس لئے بیان کی ہے کہ ایک احتجاج وہ آیا تھا اور واپس آکے رات گئے تک دوسرے احتجاج ملنے شروع ہوئے جو سب متفق تھے کہ آپ نے کیا کہہ دیا۔ خدا کے واسطے جس طرح آپ دیتے ہیں اسی طرح دیں درس جاری رکھیں۔ آپ کا ایک قدرتی ردعمل ہے۔ جس طرح ظاہر ہو ہمیں منظور ہے اور آپ جب کوئی سخت کلامی کرتے ہیں تو ہم سب کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ ہمیں زبان دیتے ہیںتو کسی اور کا کیا حق ہے کہ وہ ہماری زبان نوچ لے اس لئے آپ ہماری زبان بنے رہیں اور۔ اسی طرح بات کریں جیسے دل سے آپ کی آواز اٹھتی ہے۔ اس لئے میں نے کہا۔ بچپن میں ہم کھیلتے ہوئے تھوماری کیا کرتے تھے۔ کھیل میں کوئی بات پہلے طے ہوئی اور اب یہ کہ نہیں یہ ٹھیک نہیں تو تھوماری کردیتا ہے۔ تو میری تھو ماری۔ وہ خاتون اپنا مشورہ اپنے گھر رکھیں اور باقی ساری جماعت نے جس بات کا اظہار کیا ہے میں ان کے ساتھ ہی رہوں گا اور آپ بھی اس میں تھے اس لئے یہ جزاک اللہ میں جو خاص شوکت دی نا وہ اس لئے ہے کہ ۔ احتجاج کرنے والوں میں عبید اللہ علیم صاحب بھی شامل تھے۔ باقاعدہ رات ملاقات کا وقت لے کر آئے اور کہا کہ بس یہ کام نہیں کرنا۔ دوسرے یہ کہ جو ان لوگوں نے بغض کا اظہار کیا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے حقیقت میں۔ چند باتیں ہم بیان کردیتے ہیں۔ جو باتیں نہیں بیان کرتے یا کرسکتے۔ اتنے ظالمانہ حملے ہیں قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور مومنین پرشیعوں کی طرف سے کہ بعض جگہ وہ الفاظ برداشت ہی نہیں ہوسکتے اور ان کو زبان پر لانا ہی ممکن نہیں انسان کے لئے۔ جس طرح حضرت عمرؓ کے اوپر تبرا کیا گیا ہے حضرت ابوبکرؓ پر تبرا کیا گیا ہے۔ ان کے اوپر جس جس طرح نعوذ باللہ من ذلک لعنتیں ڈالی گئی ہیں۔ ان کی تصویریں بڑی خوفناک بنا کر دکھائی گئی ہیں۔ یہ ایسے امور ہیں جن کا ذکر ایسی مجلسوں میں زیب ہی نہیں دیتا کہ ان کو کھل کر بیان کیا جائے۔ اشارۃً ذکر ٹھیک ہے۔ تو وہ جس نے پڑھا ہو اس کا دل تو کچلا ہوا ہے۔ اس سے ایک بات نکل جائے تو کیا ہے کبھی اللہ معاف فرمائے گا۔ لیکن بے اختیاری کا حال ہے۔ ایک شعر ہے الٹ مضمون کا۔ اس میں لفظ بدلنا پڑے گا۔ لیکن ہے دلچسپ کہ مقدور بھر تو ضبط کروں…… اور کیا ہے آگے؟ تو کیا ہے آگے ایک لفظ مجھے یاد تھا بھول گیا ہے۔ منہ سے نکل ہی جائے ہے بات پیار کی۔ مقدور بھر تو ضبط کروں ہوں پر۔ کیا کروں نہیں کچھ اور لفظ ہے۔ کہ میں وعدے پہ قائم ہوں ضبط کرتا ہوں مقدور بھر لیکن کبھی بے اختیاری میں پیار کی بات نکل ہی جاتی ہے۔ تو احتجاج کا کلمہ بے اختیار نکل ہی جاتا ہے کبھی۔ جذبات پر جو اختیار ہے اس کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ اس مضمون کو ایک اور شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔ جو اس مضمون سے براہ راست تعلق نہیں۔ کہ روکے ہوئے ہیں ضبط و تحمل کی قوتیں دلائیں رگ رگ پھڑک رہی ہے دل ناصبور کی۔ تو جو کچھ میں نے کہا ہے روکے روکے کہا ہے جو اندر رگ پھڑک رہی ہوتی ہے۔ اس کا پورا بیان نہیں کرتا۔ اس لئے جو کل کہا تھا وہ ٹیپیں اسی طرح رہیں گی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ ساری جماعت کو میں جنہوں نے احتجاج بعد میں بھی کرنے ہیں کچھ رستے میں ہوگے۔ ان کو میںتسلی دلا رہا ہوں۔اب سنیئے وہ باتیں جو دل کہنے کو نہیں چاہتا مگر کرنی پڑتی ہیں۔ The Holy Quran Version of Ahlul bait. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی طرف منسوب کرنا ان باتوں کو بڑا ظلم ہے۔اول تو یہی بڑی تکلیف دہ ہے۔ دیکھتے ہی کو غصہ آجاتا ہے کہ تم کو ن ہو ۔ اہل البیت کے دل کی باتیں کرنے والے اور اہل بیت کے قرآنی فہم کا دعویٰ کرنے والے کہ ہم ہیں نمائندہ ان کے اور ہم بتاتے ہیں کہ اہل بیت کی سوچ کیا ہے ان باتوں میں۔ اوربالکل جھوٹ ہے۔ لیتے ہیں یہ ہے پویا صاحب کی کمنٹری ۔ آغا حاجی مرزا مہدی پویا یزدی 1988ء پبلشرز تحریک ترسیل قرآن (Incorporated) سورہ آل عمران 165۔ اس کا ترجمہ ہے ہاں اس عنوان میں نے پہلے بھی بتایا تھا 157سے 172تک اکٹھا تبصرہ کیا ہے انہوں نے اور اس مضمون کاعنوان یہ رکھا ہے۔ The faithful Identified from the hypocrates at the battle of Uhad. ۔ احد کے میدان میں احد کی جنگ کے دوران مومن غیر مومنوں سے الگ کرکے امتیازی شان کے ساتھ دکھا دیئے گئے اور اس تقسیم کے وقت ایک طرف حضرت علیؓ رہ گئے اور باقی طرف سب دوسرے چلے گئے۔ تمام صحابہ جو جنگ احد میں رسول ﷺ کے ساتھ تھے وہ منافقین کی صف میں جا کھڑے ہوئے اور حضرت علیؓ اکیلے ایک طرف رہ گئے یہ ہے جو مضمون کا عنوان باندھا گیا ہے۔ اب اس پرسنئے۔لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا۔
Indeed God has confered his favour upon the believers when he raised up an apostle Muhammad among them from their ownselves to rehearsen to them his signs to purify them (see foot note). And to teach them the book Quran and Wisdom though before this they were in manifest error (foot note).
آیت میں جو باتیں ہیں ترجمہ اس میں وہ فٹ نوٹ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ فٹ نوٹ پڑھو گے تو بات سمجھ آئے گی۔ کہتا ہے۔Ahlul bait not Included for they peurified by God Himself.
کہتا ہے یہاں جو فرمایا ہے کہ خدا نے ایک رسول مبعوث کیا جو مومنین ہی میں سے تھا وہ ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ کہتا ہے۔ یہاں غلطی سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اھل بیت بھی محمد رسول اللہؐ کے زیر احسان ہیں۔ ان پر کوئی احسان نہیں محمدؐ کا۔ان کا خدا نے براہ راست تزکیہ کیا ہے۔ اس لئے اہل البیت اگنرامپٹڈ (Exampted) اس آیت سے جب Exampt ہونگے تو مومنین سے بھی تو Exampt ہوجائیں گے۔ یہ نہیں سوچا انہوں نے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنین میں سے محمد رسول اللہﷺ ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے تو مومنین میں اگر شامل ہیں تو تزکیہ کے نیچے آپ ہی آجائیں گے۔ اگر نہیں تو مومنوں کی فہرست سے ہی باہر نکل جائیں گے۔ مگر وہ اس کا یہ جواب دیدیں گے کہ مومنین میں سے ایک استثناء کیا گیا ہے اگرچہ اس آیت نے کوئی ذکر نہیں فرمایا۔ استثناء کا حق بھی شیعہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے استثناء نہ فرمایا ہو اور جہاں استثناء بیان کرنے کیا موقعہ ہے وہاں کوئی استثناء بیان کیا ہو تو شیعہ کہتے ہیں۔ ہمیں حق ہے جس طرح اہل بیت کی نمائندگی کرتے ہیں خدا کی بھی نمائندگی کریں اور دنیاکو بتائیں یہاں استثناء موجود ہے اگرچہ مذکور نہ ہو۔ یہ آیت اس کی مثال ہے اور ایک اور آیت اس بات کی مثال ہے جس میں وہ شیعہ مفسر احمدیوں پر حملہ کرتے ہیں وہ جو آیت ہے وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔ اس آیت پر بحث کرتے ہوئے شیعہ مفسر جن کی یہی ذہنیت ہے۔ میر احمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ اس آیت سے یہ تو ثابت ہے اور واضح طور پر ثابت ہے کہ محمد رسول اللہ سے پہلے تمام انبیاء گذر چکے ہیں۔ مرچکے ہیں۔ یہ بات مانتا ہے۔ لیکن احمدی مفسرین کی عقلیں دیکھو کہ وہ اس میں استثناء نہیں مانتے جبکہ عیسیٰؑ کا واضح استثناء موجود ہے۔ اور وہ کہاں ہے؟ اس کا ذکر نہیں۔ اور چونکہ اس بات کی کوئی دلیل پاس نہیں ہے کہ استثناء ہے اس لئے کہتے ہیں کہ احمدی اس لئے استثناء نہیں مانتے کہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ کسی کو غیر طبعی عمر تک زندہ رکھ سکے۔ اب جہالت کی حد ہے۔ نہیں ہے ا نکو عادت ہے‘ جھوٹ دوسروں کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ ہم اس لئے نہیں مانتے کہ جس نے بیان فرمایا وہ استثناء کرتا تم کون ہوتے ہو استثناء کرنے والے اس کی طرف سے؟ اللہ تعالیٰ نے کوئی استثناء نہیں رکھا۔ مامحمد الا رسول قد خلت من قلہ الرسل۔ اور اتنا ماننا پڑا ہے۔ اس مفسر کو کہ الرسل چونکہ جواز کوئی نہیں۔ اس لئے احمدیوں کی طرف ایک غلط بات منسوب کردی اور دلیل کا رخ موڑ دیا۔ کیونکہ اس بات کو بھی مسلمان کبھی قبول نہیں کریں گے کہتا ہے کہ خدا کو قادر مطلق نہیں سمجھتے۔ احمدی خدا کو قادر مطلق سمجھتے ہیں اور بات پر بھی قادر سمجھتے ہیں کہ جہاں استثناء بیان کرنا ہو وہاں استثناء بیان فرما دیا کرتے اور تمھیں قادر مطلق نہیں سمجھتے کہ جہاں اللہ نے استثناء بیان کیا ہو وہاں تم قادر مطلق بن کر اس کی طرف سے استثناء بیان کردیا کرو۔ یہ بیت ان مومنین میں شامل نہیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کیونکہ اہل بیت کو تو خود خدا نے پاک کیا تھا اور خود پاک کرنا تھا۔ محمد رسول اللہ کا ان پر کیا احسان ہے تو اب ایک اور بات سوچئے ۔ جنگ احد میں کیا واقعہ ہوا ہے علیؓ کے سوا باقی سارے تو منافق ثابت ہوگئے نا۔ ایک علیؓ تھا اس کو محمد رسول اللہ ؐ نے پاک نہیں کیا وہ بھی ہاتھ سے گیا پیچھے کیا چھوڑا۔ جہاں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے اس خبیث عقیدے کے مطابق وہ سب سے بڑا پاک کرنے والا وجود ایک بھی وجود کو بھی پاک نہیں کرسکا۔ کیونکہ ان کے نزدیک اہل بیت کے سوا کوئی پاک رہا ہی نہیں۔ جو محمد کے سپرد کام تھا صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ایسا ناکام رہا کہ کبھی کوئی نبی اس طرح ناکام نہیں ہوا اور جو چند پاک مل گئے وہ پاک وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے خود کرلیا۔ اس نے کہا محمد رسول اللہؐ تو میں نے بھیجا تھا تزکیہ کرے اور نعوذ باللہ غلطی سے میں کہہ بھی بیٹھا ہوں کہ تزکیہ کرتا ہے۔ لیکن جنگ احد نے تو ثابت کردیا کہ بالکل غلط خیال تھا۔ نہ تونے تزکیہ کیا نہ ہم نے صحیح سمجھا‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے‘ جوایک آدمی پاک نکلا وہ توتیرا پاک کیا ہوا ہے ہی نہیں۔ وہ تو ہم نے براہ راست پاک کیا تھا۔ اور اہل بیت دوسرے بھی سارے اللہ نے براہ راست پاک کئے تھے تو حضرت محمد رسول اللہ کے کھاتے میں کیا رہ گیا باقی؟ نعوذ باللہ من ذلک۔ منافقین کے سوا اور کون رہے؟ اور یہ ہے نبیوں کا سردارؐ ‘ خاتم النبین‘ رحمۃ للعلمین۔ تمام نبیوں سے بالا اور افضل اور ایسا کہ نبی اس کی غلامی میںفخر کریں وہ اپنی نبوتوں کو الگ پھینکنے پر آمادہ ہوجائیں اور کہیں کہ اے خدا ہمیں ان کی امت میں سے بنادے۔ کس امت میں سے؟ منافقین کی امت میں سے؟ یہ موسیٰؑ کی دعا تھی؟ اتنا ناپاک حملہ ہے کہ مسلمانوں کو ہوش ہی نہیں‘ عقل ہی کوئی نہیں۔ پاکستان میں بیٹھے احمدیوں کے متعلق فتوے دیئے جارہے ہیں۔ نعوذ بالہ من ذلک۔
حالانکہ حضرت محمد رسول اللہ کے عشاق میں احمدیت نے جو عشاق پیدا کئے ہیں اس شان کے نکال کے تو دکھائو اور کہیںسے۔ ساری دنیا میں حضرت محمد رسول اللہؐ کے عشق میں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اور خدا کی محبت میں سارے کام جاری ہیں جو احمدیت کی طرف سے چل رہے ہیںدنیا بھر میں۔ محمد رسول اللہؐ کے عشق میں میں نے پہلے کہہ دیا پہلے کیوںکہنا چاہئے تھا۔ اللہ کے عشق میں اور اس کے محبوب محمد رسول اللہﷺ کے عشق میں یہ سارے کام جاری ہیں۔ ان کے متعلق تو ظلم یہ ہے کہ اگر یہ حضرت محمد رسول اللہ کی حقانیت کا اعلان کردیں تو ان پر پاکستان میں فتوے دیئے جاتے ہیں کہ انہوں نے گستاخی کی ہے محمد رسول اللہؐ کی۔ ان کو سچا کہہ دیا اور ان کی سزا قتل ہے اور مرتد کی سزا۔ مرتد نہیں۔ یہاں ہتک رسول کرنے والے کی سزا موت کے سوااور کچھ نہیں اس لئے ان کو تختئہ دار پر چڑھا دو۔حال ہی میں اب تک 112 آدمیوں کے خلاف محمد رسول اللہؐ کی تائید میں کلمات کہنے کے جرم میں موت کی سزا کے مقدمے درج کئے جاچکے ہیں۔ 112 نہیں 120 اور یہ تو ہر وقت بڑھ رہا ہے یہ معاملہ اور ان لوگوں کو جو جیل میں بیٹھے ہوئے ہیں قرآن کی تلاوت سے روکا جارہاہے۔ ان کے ہاتھوں سے قرآن چھین کے لے لئے گئے ہیں۔ وہ روزے دار یہ بھی مجاز نہیں کہ قرآن پڑھیں جبکہ ساری دنیا میں دشمن عیسائی‘ ہندو ‘ سکھ ہر قسم کے مذھب کے آدمی کو یہ اختیار ہے وہ قرآن پڑھے جہاں مرضی بیٹھ کر پڑھے۔ یہ جو دشمنی ہے یہ آج تک تاریخ عالم میں ایسی جہالت کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی۔ عصبیت اپنی انتہاء کو پہنچی ہے اور اتنے پاگل ہوئے ہیں لوگ۔ یہ ملاں جو یہ سب کچھ کروا رہا ہے اس کی شان اب سمجھ آئی ہے کہ اس کی شان میںخدا تعالیٰ کے رسول نے یہ فرمایا تھا۔
شر من تحت ادیم السماء کہ آسمان کی جلد کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے۔اس سے زیادہ بدترین مخلوق کا تصور اور کیا ہوسکتا ہے کہ محمد رسول اللہ کی تائید کرو اس پہ غصہ آجائے ہے۔ محمد رسول اللہ کو سچا کہو تمہیں غصہ آجائے۔ اگر تم دشمن اسلام ہوتے اور جیسا کہ ہو‘ ظاہر کررہے ہو تو پھر یہ ٹھیک تھا۔ بلال پر غصہ آتا تھا کہ لا الہ الا اللہ کا اعلان کیوں کرتا۔ مگر کفار کو آتا تھا۔ مومنوں کو تو نہیں آیا کرتا تھا۔ تو یہ مضمون بہرحال آج تو ختم نہیں ہوسکے گا۔ کل ان شاء اللہ اس کو ختم کریں گے…!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن یکم مارچ 1994ء
18رمضان المبارک
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ ج و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین ………… واللہ اعلم بما یکتمون O (سورہ آل عمران رکوع 17 آیت نمبر 165 تا نمبر 168)
اللہ تعالیٰ نے مومنوںپر احسان فرمایا جبکہ ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا۔ یتلوا علیھم ایاتہٖ جو ا ن پر اپنے اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا چلا جاتا ہے اور ان کو کتاب کی تعلیم بھی دیتا ہے اور اس کی حکمتیں بھی سکھلاتا ہے۔
و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین۔ جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میںیا لاعلمی کی حالت میں تھے۔
اولما اصابتکم مصیبۃ ۔ کیا جب کبھی بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچے جبکہ اس سے پہلے تم اس سے دگنی مصیبت دشمن پر ڈال چکے ہو۔
قلتم انی ھذا۔ تم یہ کہہ دو گے کہ یہ کیسے آئی یہ کہاں سے آئی۔
قل ھو من عند انفسکم کہہ دے کہ یہ تمہاری ہی طرف سے ہے۔
ان اللہ علی کل شئی قدیر اور اللہ تعالیٰ یقینا ہر چیز پر قادر ہے۔
وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ و لیعلم المومنین۔ اور جو تمہیں اس د ن تکلیف پہنچی جس دن دو بڑے گروہوں میں تصادم ہوا تو یہ اللہ کے اذن سے ایسا ہوا تاکہ وہ مومنوں کو جان لے۔
ولیعلم الذین نافقوا اور ان کو بھی پہچان لے جنہوں نے نفاق کیا وقیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا۔ اور ان سے کہا گیا تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ ا واد فعوا ۔ آئو خدا کی راہ میں قتال کرو اور یا دفاع کرو۔ قالوا لو نعلم قتالا لا تبعنکم اگر ہمیں قتال کرنے کا فن آتا‘ ہمیں علم ہوتا کہ قتال کیسے کیا جاتا ہے ہم ضرور تمہاری پیروی کرتے تمہارے پیچھے پیچھے آتے۔
ھم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان۔ وہ اس دن ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے۔
یقولون بافواھھم ما لیس فی قلوبھم ۔ وہ اپنے مونہوں سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔
واللہ اعلم بما یکتمون۔ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے‘ سب سے زیادہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔ ان آیات کی تلاوت بھی پہلے ہوچکی ہے۔ پہلی آیت پر درس جاری ہے۔
اس ضمن میں مجھے بتایا گیا ہے کہ کل کے ترجمہ میں میں نے لیعلم المومنین کا ترجمہ یہ کردیا تھا تاکہ مومن جان لیںیہ ایسی سہو ہے جو بعض دفعہ نظر کی سہوہو جاتی ہے بعض دفعہ زبان سے بھی سہواً ایک کلمہ نکلتا ہے جو علم میں مختلف ہوتا ہے۔ علم کے اعتبار سے ذہن میں مختلف ہوتا ہے لیکن زبان سے مختلف ادا ہوجاتا ہے تو اسی لئے میں نے دوبارہ اس کا ترجمہ کردیا ہے۔ مومنین مفعول بہ ہے ظاہر بات ہے اس کا ترجمہ یہ ہونا چاہئے تھا تاکہ وہ مومنوںکو جان لے یعنی اللہ تعالیٰ جان لے تو اس وقت دوبارہ نظر لفظ مومن پر نہیں پڑی۔ ترجمہ زبانی جب میں کررہا تھا تو اس میں یوں ترجمہ ہوا گویا کہ مومنین لکھا ہوا ہے۔ اگر المومنون لکھا ہوتا تو پھر اس کا یہ ترجمہ بنتا ہے تاکہ مومن جان لیں کہ اس کے نیتجہ میں کیا کیا اثرات ظاہر ہوئے ہیں لیکن یہاں مومنین ہے اس لئے میں وضاحت سے بتا رہا ہوں دوبارہ تاکہ کل کا ترجمہ وہ دوبارہ اسی طرح سناجائے گا تو اس کی اچھی طرح وضاحت درج ہوجائے۔ بات یہ ہے کہ یہ درس جو جاری ہیں یہ کوئی ایسے درس نہیں ہیں جو اتفاقاً اسی زمانے میں رہ جائیں گے یہ آئندہ تاریخ کا حصہ بننے والے ہیں۔ آئندہ آنے والی نسلوں کی امانت ہیں۔ اس لئے کوتاہی خواہ سرسری ہو خواہ گہری ہو خواہ علمی ہو یا زبان کی لغزش کے نتیجہ میں ہو ہر قسم کی ایسی بات جو خطا کے نتیجہ میں ان درسوں میں راہ پاجائے لازم ہے کہ اس کی درستی کی جائے۔اس ضمن میں ایک اور درستی بھی ضروری ہے وہ بھی ایسی بات ہے جس میں عمداً یا علمی غلطی کے نتیجہ میں ایسا نہیں ہو ا بلکہ بعض دفعہ میری زبان ایک ایسا نام ادا کررہی ہوتی ہے جو ذہن میں نہیں ہوتا۔ذہن میں ایک اورشخص ہے اور نام کسی اور کا میں لے لیتا ہوں اور یہ غلطیاں مجھ سے کئی دفعہ سرزد ہوچکی ہیں۔ میں نے جب غور کیا ہے تو پتہ چلا ہے کہ اس کی کوئی ایسوسی ایشن کی غلطی ہے۔ میں جہاں تک مضامین کا تعلق ہے ان کو تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسوسی ایشن کے ذریعہ یاد رکھتا ہوں۔ ابھی کل ہی ایک حوالہ جاحظ کا مجھے یاد تھا وہ میں نے نکلوایا۔ پنتالیس سال پہلے ایک کتاب پڑھی تھی لیکن پتہ تھا کہ فلاں جگہ یہ حوالہ موجود ہے لیکن ناموں میں مجھے بچپن سے ہی کمزوری ہے یاد رکھنے میں۔ جبکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ناموں کی یادداشت اور اسی طرح چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ناموں کی یادداشت حیرت انگیز تھی لیکن یہاں جو غلطی سرزد ہوئی ہے وہ ایسوسی ایشن کی وجہ سے ہوئی ہے۔ حضرت اسماعیل کے مقابل پر ذہن میں سب سے پہلے حضرت اسحاق کا نام آتا ہے اور بعض دفعہ حضرت یعقوب کی بجائے میرے منہ سے اسحاق لفظ منہ سے نکل جاتا ہے حالانکہ ذہن میں حضرت یعقوب ہی ہوتے ہیں۔ کل میں نے جس لڑائی کا ذکر کیا تھا کہ خدا سے کشتی ہوتی رہی وہ حضرت یعقوب کی تھی اور یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے سب اہل علم کو یا سرسری علم رکھنے والوں کو بھی علم ہے کہ حضرت یعقوب سے یہ سلسلہ بنی اسرائیل کا چلا ہے آپ کے بارہ بیٹے بارہ قبیلوں کے سردار بنے اور ان کی بنیادیں قائم ہوئیں تو ذہن میں واقعہ یعقوب کا تھا اور منہ سے میں اسحاق کہہ رہا تھا اور یہ ایسی غلطی ہے ایک دفعہ پہلے بھی سوال و جواب کی مجلس میں سرزد ہوچکی ہے ذہن میں یعقوب تھے اور منہ سے میں اسحاق کہہ رہا تھا کیونکہ حضرت اسماعیل کے مقابل پر میرا ذہن ہمیشہ پہلے اسحاق پر پہنچتا ہے کیونکہ سلسلہ پھر شروع ہوا ہے تو یعقوب کے نام کی بجائے اسحاق کا نام ادا ہوجاتا ہے بہرحال یہ میں اپنی وضاحت آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ یہ ایسی غلطی نہیں تھی جو علمی لحاظ سے مجھ سے سرزد ہوئی ہو میں واقعتا حضرت اسحاق ہی کو اسرائیل سمجھتا ہوں یہ درست نہیں ہے یعقوب ہی اسرائیل تھے اور یعقوب کی اولاد ہی بنی اسرائیل کہلاتی ہے مگر یہ حضرت اسحاق سے پھوٹنے والا درخت ہے جو آگے جاکے بہت سی شاخوں میں تبدیل ہوا ہے ایک اور چھوٹی سی بات کی طرف دوبارہ توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اپنی ذات میں کوئی اہم نہیں ہے لیکن جس وجہ سے میں نے یہ درستیاں کی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ درستی بھی لازم ہے میںنے مرزا یحي کو جو اس کاباب کے بعد ان کا جانشین بنا اس کونقطہ کہا تھا اور بعد میں اس کی درستی کردی تھی کہ وہ نقطہ نہیں تھا نقطہ خود باب کہلاتا تھا لیکن میں نے تحقیق کی ہے کہ کیوں آخر مجھ سے یہ غلطی ہوئی نقطہ اس کو کیوں کہا گیا تو اس ضمن میں ایک دلچسپ بات جو سامنے آئی ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں اور اس پہلو سے جو کچھ بھی کہا گیا ہے اس کو درست کرلیجئے۔ باب نے پہلا ٹائٹل اپنا باپ بنایا یعنی دروازہ وہ دروازہ جس کے متعلق کہا گیا کہ اس لئے باب بنا کہ اس سے ایک نئے دین کا رستہ کھلے گا اور نعوذ باللہ من ذلک اسلام دین اس دروازے سے پیچھے رہ جائے گا اس کے بعد اپنی زندگی ہی میں باب نے سب سے پہلے نقطہ کا ٹائٹل اختیار کرلیا اور کہا کہ میں وہ نقطہ ہوں جس پر ساری پیشگوئیاں جمع ہوتی ہیں اور جس نقطہ سے از نسر نو ایک نئی روحانی کائنات کا آغاز ہونے والا ہے۔ جب اس نے نقطہ ٹائٹل اختیار کرلیا تو اس کے پہلے مرید ملاں حسین نے باب اپنے لئے لے لیا اس طرح ا ن کے ٹائٹل تقسیم ہوتے تھے اس نے کہا باب کو خالی کردیا انہوں نے نقطہ پرجاپہنچے ہیں تو اس لئے میں باب بن گیا ہوں اب۔ تو وہ باب ہوگئے اور یہ باب صاحب خود جن کا نام ہے علی محمد باب یہ نقطہ بن گئے۔ اب ان کی وفات کے بعد جو ان کو شوٹ کیا گیا تھا Execution ہوئی تھی باقاعدہ۔ اس کے بعد سب سے پہلے ان کے جو جانشین بنے ہیں وہ مرزا یحیٰی ہیں اس لئے مرزا یحییٰ کو میں نے نقطہ کہا ہے کہ جب یہ باب کی execution ہوگئی تو اس کے بعد ان کے جانشین مرزا یحییٰ بنے تو اس سے پہلے باب کا ٹائٹل تو ان سے جھڑ کر ان کے مرید ملاں حسین کے قبضے میں جاچکا تھا۔ اس لئے دراصل ان کو نقطہ ہی کہنا چاہئے کیونکہ جس حالت میں باب مرا ہے جس ٹائٹل کو چھوڑ کر مرا ہے وہ نقطہ کا ٹائٹل تھا مگر یہ بھی درست ہے کہ ان کے مرید لازم ان کو باب ہی کہتے رہے ہیں باب ہی کا جانشین قرار دیتے رہے ہیں لیکن ٹائٹل کیا تھا؟ یہ تفصیلاً مجھے معلوم نہیں نقطہ والی بحث کو میں یہاں ختم کرتا ہوں کیونکہ یہ ذکر چل پڑا تھا اس لئے لازمی سمجھا کہ اس کا پس منطر بتادوں اس سے زیادہ اس موقعہ پر اس کی ضرورت نہیں ہے اگر آئندہ کبھی موقعہ ملا۔ بہاء اللہ اور با ب وغیرہ پہ گفتگو کا وہاں انشاء اللہ میں تفصیل سے ان تمام امور پر روشنی ڈالوں گا۔
اب میں واپس ان آیات کے درس کی طرف آتا ہوں ہم اس آیت پر گفتگو کررہے تھے کہ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیھم ایاتہ و یزکیھم ویعلھم الکتاب والحکمۃ و ان کانوا من قبل ضلل مبین۔ اس ضمن میں شیعہ مفسرین نے جو کچھ کہا ہے وہ اس وقت زیر نظر ہے شعبہ مفسرین نے جو کچھ کہا پہلے میں وہ پڑھ کر سناتا ہوں۔ اس کے نکات جتنے بھی ہیں ایک ایک لے کر کے ان کے متعلق میں آپ کو بتائوں گا کہ کیوں وہ غلط کہہ رہے ہیں ان کے پاس قطعاً کوئی جواز نہیں ہے ان دعاوی کا جو اس میں کررہے ہیں اور قرآن اور سنت اور تاریخ کی رو سے عقل و حکمت کی رو سے ان کی باتیں زیادہ بے حقیقت ہیں۔ 165- Continues میر احمد علی صاحب اس Commentry میں لکھتے ہیں۔
Since in the mercy and the bounty of God offered in this verse applies to the people of the house of Abraham and Sarah, the wife of Abraham, happens to be the probable person included inthe address of Ahlul bait.
Some commentators in their anxiety to find some argument for the counting the wives of the Holy Prophet in the term of Ahlul bait have said that since Sarah, the wife of Abraham included in the term Ahlulbait use in this verse all the wives of the prophet are included in the verse 33:34 relating to the purity and the excellence of the word Ahlulbait of the Holy Prophet Mohammad Sallalaho Alaihay Wasllum.
ایک یہ پوائنٹ ہے جو انہوں نے اٹھایا ہے اس کا جواب میں باقاعدہ الگ اکٹھا دونگا دوسرا اس کا ترجمہ یہ ہے یا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم اہل بیت کی اصطلاح کو محدود کرتے ہیں حضرت علیؓ‘ حضرت فاطمہؓ‘ حضرت حسن ؓ ‘ حضرت حسین ؓ پر تو بعض سنی اس شوق میں کہ کسی طرح جیسے بھی بن پڑے ازواج النبیؐ کو بھی اہل بیت میں شامل کرلیں اس کے جواب میں ہماری توجہ ایک ایسی آیت کی طرف پھیرتے ہیں جس آیت میں قرآن کریم ہمیںبتلاتا ہے کہ فرشتوں نے حضرت سائرہ کو مخاطب کرتے ہوئے اہل بیت کے لفظ سے مخاطب کیا وہ کہتا ہے یہ ان کی ایک بے کار کوشش ہے اس سے وہ بات ثابت نہیں ہوگی جو وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں پھر اس کے خلاف وہ دلیلیں دیتا ہے اس کو میں الگ زیر بحث لائوں گا اس کے بعد وہ کہتے ہیں ایک اور آیت کا حوالہ دیتے ہیں وہ حضرت نوح والی آیت ہے۔ وہ آیات یہ ہیں۔ ونادیٰ نوح ربہ فقال رب ان بنی من اھلی و ان وعدک الحق و انت احکم الحاکمین O قال ینوح انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح فلا تسئلن مالیس لک بہ علم انی اعظک ان تکون من الجاھلین ۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے اور جب نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا اے میرے رب میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے ہے اور ان وعدک الحق اور تیرا وعدہ سچا ہے یعنی حضرت نوح ؑ کو یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ تیرے اہل بیت کی میں حفاظت کرو ں گا تو کہتے ہیں مجھے تعجب ہے یہ بات بھی درست ہے کہ تیرا وعدہ سچا ہے یہ بات بھی درست ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے اور میرے اہل میں شامل ہے۔ وانت احکم الحاکمین اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ میں نے تو صرف ایک خیال عرض کردیا ہے کوئی بحث نہیں یہ تضاد مجھے دکھائی دے رہا ہے لیکن فیصلہ تونے ہی کرنا ہے۔ قال ینوح انہ لیس من اھلک اللہ نے فرمایا کہ اے نوح ؑ وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ انہ عمل غیر صالح کیونکہ وہ بداعمال انسان ہے اور کوئی بدعمل شخص نبی کا اہل بیت نہیں کہلا سکتا فلا تسئلن مالیس لک ایک خط میں لکھ دیں مجھ سے ایسی باتوں میں سوال نہ کر جن کا تجھے کوئی علم نہیں۔ ضمناً میں بتادوں پہلے بھی گفتگو ہوچکی ہے کہ یہاں بظاہر ایک عجیب بات دکھائی دے رہی ہے کہ جس بات کا علم نہیں اس پر سوال نہ کر حالانکہ سوال کیا ہی ا ن باتوں پر جاتا ہے جن کا علم نہ ہو تو مراد یہ ہے کہ یہ جو دائرہ گفتگو ہے یہ ایسا ہے جس کی گہرائی پر تیری نظر نہیں ہے۔ میں اہل بیت کیسے بناتا ہوں اس کو مبحث نہ بنائو تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بداعمال شخص ہے۔ اس لئے تیرے اہل بیت کی فہرست سے خارج ہے۔ انی اعظک ان تکون من الجاھلین میں تجھے یہ نصیحت کرتا ہوں اس لئے تجھے یہ نصیحت کررہا ہوں تاکہ تو جاہلین میں سے نہ ہوجائے یعنی ایک طرف یہ فرمایا ہے کہ تجھے علم نہیں جب بات کا اس میں سوال نہ کیا کر دوسری طرف یہ کہ تو جاہلین میں سے نہ ہوجائے حضرت نوحؑ کے حوالے سے یہ چھوٹا سا جو ایک الجھن والا سوال اٹھتا ہے اس کا مختصر جواب دے کر پھر میں مضمون کی طرف لوٹوں گا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے ایک واقعہ دیکھا۔ اپنی آنکھوں سے بیٹا ا ن سے جدا ہوکر اور قریب تھا کہ غرق ہوجائے اور پھر ایک لہر آتی ہے اور ان کے اور بیٹے کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اور ا ن کے ذہن میں یہ خدا کا وعدہ تھا کہ تیرے اہل بیت بچالئے جائیں گے تبھی وہ حضرت نوحؑ اس کو اپنی طرف بار بار بلا رہے تھے۔ کیونکہ اپنے ذہن میں وہ اس کو شامل سمجھتے تھے جب درمیان میں موج حائل ہوگئی اور وہ غرق ہوگیا۔ تب وہ خدا کی طرف متوجہ ہوئے اب یہاں علم اور لاعلمی کی کیا بحث ہے یہ ہے سوال جس کو میں پیش نظر رکھتے ہوئے آپ سے بات کررہا ہوں ۔ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کا بحیثیت نبی یہ فرض تھا کہ خدا کی تقدیر کے تابع اس مسئلے پر غور کرتے اور خدا سے یہ سوال نہ اٹھاتے کیونکہ ایسے سوال کے جوابات بعض دفعہ اور بھی زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں اور کئی قسم کے احتمالات ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے معاملات میں سوال نہیں کرنا چاہئے جن کے نتائج بعض بدتر بھی نکل سکتے ہیں اس لئے خاموشی بہتر تھی۔ تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ خدا کی تقدیر کو خاموشی سے قبول کرلیا جاتا اگرچہ نبی متقی ہوتا ہے لیکن بہت ہی بعض باریک ایسے رستے آتے ہیں جہاں وہ تقویٰ میں لغزش سی دکھائی جھول دکھائی دے رہا ہوتا ہے لیکن نبی ٹھوکر نہیں کھاتا تو بعد میں جب یہ فرما دیا کہ تاکہ تو جاہلوںمیں سے نہ ہوجائے۔ صاف بتا رہا ہے کہ اس موقعہ پر حضرت نوح ؑ کے ذہن میں جو سوال اٹھا تھا وہ خطرے کے مقام پر تو تھا لیکن ٹھوکر نہیں کھائی جاہلین میں سے نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تجھے اس لئے نصیحت کررہا ہوں کہ اگر اس قسم کے سوالات میں تو آگے بڑھ جاتا یا کوئی شخص آگے بڑھ جائے تو اس کا انجام یہ ہونا تھا کہ وہ اہل علم سے نکل کر جہلا میں شمار ہوجاتا پس بہت ہی باریک ٹھوکر تھی اس کا اشارہ کرکے حضرت نوح ؑ کی بریت بھی خود ہی فرمادی کہ میں نے دیکھ لیا تھا تو کیا کہہ رہا ہے میں تجھے نصیحت کررہا ہوں تاکہ آئندہ ایسی بات نہ کرنا ورنہ خطرہ ہے کہ تو جاہلوں میں سے نہ ہوجائے یعنی حضرت نوح ؑ کا شمار اس سوال کے نتیجہ میں ا ن لوگوں میں نہیں ہوا جو ٹھوکر کھا گئے ہیں ان لوگوں میں ہوا جو ایسی جگہ قدم رکھ رہے تھے جہاں ٹھوکر کا احتمال تھا یہ وضاحت حضرت نوح ؑ کی بریت کے لئے ضروری تھی اس لئے میں نے کی ہے اب یہاں ان کا تبصرہ سنئے۔ فرماتے ہیں۔
The supplication of Noah aimed to clear the doubt in the mind of the followers of subsequent ages that the mere birth of any other without the spiritual offinity with the prophets would not justify the application of the term which precise the relationship implies the merit. Therefore the term Ahlul bait is restricted only to the deserving member of the house of the Holy Prophet and the same restriction is applicable to the terms of relatives which does not mean relationship in blood or in matrimoney. Besides this means close affinity and the chracter and spiritual attainment.
یہاں بات تو انہوں نے سیدھی سادھی وہی کہی ہے جو نتیجہ نکلنا چاہئے کہ اہل بیت محض خون کے تعلق سے نہیں بنا کرتے بلکہ اس کے لئے روحانی رشتہ ہونا بھی ضروری ہے اور یہ کہنے کے بعد بیچ میں یہ فساد کا جملہ داخل کردیا کہ (Relatives) سے بھی نہیں بنا کرتے اہل بیت Which does not mean relationship in blood or in matrimoney اس لئے یہ جو ازدواجی رشتے ہیں ان کے ذریعہ انسان اہل بیت میں داخل نہیں ہوا کرتا۔ بات یہ ہورہی ہے کہ رشتہ ہو اور کوئی بدکردار ہو تو نکلتا ہے نتیجہ یہ نکال رہے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ رشتوں کااہل بیت بنانے میںکوئی تعلق نہیں یعنی ازدواجی رشتے سے بھی انسان خواہ نیک ہو اہل بیت نہیں بنتا۔ یہ اس سے کیسے نتیجہ نکلتا ہے بحث تو نیکی اور بدی کی ہے۔ اب اس کا جواب میں آگے پھر دوں گا لیکن میں صرف نقطہ بنقطہ بتا رہا ہوں آپ کو کہ یہ چیزیں ہیں جو بحثیں آج اٹھائی جائیں گی۔ آگے پھر یہ میر صاحب فرماتے ہیں۔
Indeed God hath conferred his favour upon the belivers when he raired up an …… Muhammadؐ among them from their own selves to reherse unto them their sign.
یہ میں پہلے پڑھ چکا ہوں۔ کہتا ہے-
Ahlul bait not included for they were purified by God Himself
یہ کل سوال اٹھایا جاچکا تھا اس پر بھی گفتگو ہوگی۔ پھر یہ کہتے-
It is reported that one day the Holy Prophetؐ was lying under his mantle therein entered Aliؓ, Hassanؓ, Hussainؓ, and Fatimaؓ. This verse was rerealed. Verily God intendeth but to keep off from you every kind of uncleanliness Oye people of the house and purify you with a through purification. (Surah 33 Verse 34).
اس کے پھر وہ حوالے دیتے ہیں بہت سے پھر مزید اس بات میں لکھتے ہیں۔
Ummulmomineen Ayesha says that the verse was revealed when the above five were under the mantle.
ایک روایت حضرت عائشہؓ کی دیتے ہیں اور وہاں ا نکو ام المومنین لکھ رہے ہیں۔ یاد رکھئے اب اس موقعہ پر حضرت عائشہ ؓ صدیقہ چونکہ انکو اپنے حق میں بات کرتی دکھائی دے رہی ہیں اسلئے ام المومنین بن گئیںآخر اور اگر مومن حضرت علیؓ ہی تھے اور یہ چند بزرگ تھے۔ جن کا ذکر ہے تو ان کی ماں بن جاتی ہیں تو اس ماں کے متعلق کیا کیا گستاخیاں کرتے ہیں وہ میں بعد میں سنائوں گا آپ کو۔
When Hazrat Ayeshaؓ herself says that only the above five holy ones were there under the mantle and she was out of it. Some of our brothern not knowing her actual position unwarrented claim her inclusion in the Ahla bait interpreting the verse of the Holy Quran in their own way. Hazrat Ummay Salmaؓ reports that on the above occasion she was there and desired hereself to join the holy five but the Holy Prophetؐ refused her entry saying thou art of my wires and thou art rightous but this is not the place for thee. Thou are not of my Ahlul bait.
پھر کہتے ہیں:
There is no loophole left for anyone olse besides the decleared personnel to be counted among the Ahulbait i.e. beside the holy ones the Holy Prophetؐ, Aliؓ, Fatimaؓ, Hassanؓ, Hussain and the mine imams in the …… of Hussainؓ.
اب میں باری باری ان تمام امور کو لیتا ہوں تاکہ ایک دفعہ اہل البیت کا مضمون خوب واضح ہوجائے اور کھل جائے اور قرآن اور حدیث کے حوالے سے بات پتہ لگے کہ اہل البیت ہوتے کیا ہیں کن کو کہا جاتا ہے ان میں کون کون لوگ داخل تھے اور شیعوں نے اپنی مطلب براری کی خاطر کیا کیا ظلم کئے ہیں روایات کے ساتھ سب سے پہلے تو یہ جو چادر والا قصہ ہے یہ بیان کرتا ہوں مگر اس سے پہلے وہ آیت پوری تلاوت کرکے بتانا چاہئے جس سے یہ نکال رہے ہیں۔ میرا خیال ہے پہلے وہ لانی چاہئے۔ وہ کہاں ہے آیت؟ (اس کے نیچے......) کیونکہ جب تک یہاں سے بات شروع نہ ہو۔ اس وقت تک یہ مضمو ن سننے والوں پہ پوری طرح روشن نہیں ہوگا۔ ابھی تک اکثر آپ میں سے نہیں سمجھ سکے ہونگے کہ بات ہے کیا کسی آیت کی گفتگو ہے کیا کھینچا تانی ہورہی ہے۔ اس لئے میںپوری وضاحت سے اس کا پس منظر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ قرآن کریم میں سورہ الاحزاب آیت 32 تا 35 حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات مخاطب ہیں۔ ان کے متعلق ذکر چل رہا ہے۔ ا ن کا مضمون بیان ہورہا ہے۔ ومن یقنت منکن للہ و رسولہ وتعمل صالحانوتیھا اجرھا مرتین و اعتد نا لھا رزقا کریما O کہ تم میں سے اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جو بھی خدا کی خاطر اپنے یقنت کا مطلب ہے اپنے آپ کو روک کر عاجزی کے ساتھ گزارا کرے گی (لفظی ترجمہ کیا ہے.فرمانبرداریکے ساتھ عاجزی شامل نہیں خیر چھوڑ دیں) منکن للہ ورسولہ جو اللہ اور رسول کے سامنے کامل اطاعت اور میں سمجھتا ہوں عاجزی کا مضمون بھی اس میں شامل ہے اور عجز کے ساتھ معاملہ کریں گی جو ان کی فرمانبردار رہیں گی اور ادب کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمانبردار رہیں گی اور ونعمل صالحا اور جو ان میں سے نیک اعمال کرے گی نوتھا اجرھا مرتین ہم اس کا اجر دہرا دیں گے۔ عام مومنوںکے اجر کے مقابل پر دگنا اجر دیں گے یہ مرتبہ بیان ہورہا ہے۔ ازواج النبیؐ کا۔ واعتدنا لھا رزقا کریما اور ہر ایسی زوجہ کے لئے ہم نے بہت ہی معزز رزق تیار کر رکھا ہے۔ ینساء النبی اے نبی کی بیویو ! لستن کاحد من النساء تم عورتوں میں سے عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ تمہارا بہت بڑا مرتبہ اور مقام ہے۔ ان اتقیتن اگر تم اختیار کرو فلا تخضعن بالقول اور اپنے قول میں ایسی طرز اختیار نہ کرو جس سے کشش جس میں کشش پائی جائے لوگوں کے لئے۔ فیطمع الذی فی قلبہ مرض جس سے خطرہ ہو کہ اس لحن میں ایسی نرمی ایسی دلکشی پائی جائے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہیں ان میں کسی قسم کی دلوں میں طمع پیدا ہوجائے۔ وقلن قولا معروفا اور ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم نے ایسا نہیں کرنا۔ لاتخضعن کا مطلب ہے ہر گز قول میں ایسی طرز اختیار نہ کرو جس کے نتیجہ میں بیمار دلوں میں طمع کا خطرہ پیدا ہو ۔ طمع پیدا ہونے کا خطرہ ہو وقلن قولا معروفا لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ سخت کلامی کرتی پھرو۔ قول معروف اختیار کرو۔ برمحل موقعہ پر جو نرم گفتگو‘ مہذب گفتگو ہونی چاہئے اس سے احتراز نہیں کرنا۔ مگر قول میں ایسی طرز اختیار نہ کرنا جس سے غیر معمولی کشش پیدا ہوجائے وقرن فی بیوتکن اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ اور جاہلیت کے زمانے میں عورتیں جیسے سنگھار پٹار کرتی تھیں ویسا سنگھار پٹار نہ کرو۔ جاھلیۃ اولیٰ یعنی اسلام سے پہلے کی جو جاہلیت کا زمانہ تھا۔ واقمن الصلوۃ اور نماز کو قائم کرو واتین الزکوۃ اور زکوۃ ادا کرو واطعن اللہ ورسولہ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو ۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا۔ یقینا اللہ تعالیٰ چاھتا ہے تاکہ تم سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور کردے۔ اے اہل بیت ! ویطھرکم تطھیرا اور تمہیں بہت پاک و صاف کردے۔ واذ کر ن مایتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ اور یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں تلاوت کیا جاتا ہے۔ اللہ کا کلام من ایات اللہ۔ اللہ کی آیت میں سے جو کچھ تمہارے ہاں تلاوت کی جاتی ہے۔ والحکمۃ اور جو حکمت کی باتیں وہاں پڑھی جاتی ہیں۔ ان اللہ کان لطیفا خبیرا O یقینا اللہ تعالیٰ بہت ہی لطیف اور بہت ہی خبر رکھنے والا ہے۔ یہاں لطیف کا تعلق خبیر سے ایک طبعی اور گہرا تعلق ہے۔ جو چیز جتنی لطیف ہو اتنا سرائت کرنے کا مادہ رکھتی ہے جو سب سے زیادہ لطیف ہو وہ ہر جگہ ہوگی۔ چنانچہ سائنسدان بھی جب یہ بحث اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں نیوٹرینوں سے نجات نہیں مل سکتی وہ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں سب سے زیادہ لطیف ہیں اور کثیف سے کثیف مادے سے بھی نکل جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا لطافت کا تصور اس کائنات کے تصور سے پرے کا تصور ہے۔ وہ ایسا لطیف ہے کہ کوئی چیز اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی اور جو لطافت کی وجہ سے ہر جگہ پہنچتا ہو ہر جگہ موجود ہو اس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔ اس لئے فرمایا وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔ اب یہ ہیں آیات کریمہ جن کے حوالے بار بار آپ کو شیعہ لٹریچر میںوہ ملیں گے اور جن سے وہ استنباط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہاں اہل بیت سے مراد حضرت علی‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت امام حسن اور حسین رضوان اللہ علیہم ہیں اور اور کوئی نہیں ہے اب آپ نے یہ آیات سن لی ہیں کتنا واضح ہے ان کا منطوق کہ ایک لمحہ کے لئے بھی انسان اس مضمون کو ازواج نبی کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کر ہی نہیں سکتا۔ آیت میں جس کا ذکر ہورہا ہے اسی کی بات ہورہی ہے بیچ میں اور کوئی کہاں سے آگیا۔ وقرن فی بیوتکن اے ازواج نبی ؐ ! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہا کرو۔بے وجہ لوگوں کے گھروں میں چکر نہ لگایا کرو۔ ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ اور جاھلیت کے طریق کے سنگھار نہ کیا کرو۔ جو پہلے گزر گیا گزر گیا۔ واقمن الصلوۃ اور نماز کو قائم کرو ۔ اے نبی کی بیویو ! واتین الزکوۃ اور زکوۃ ادا کرو۔ واطعن اللہ و رسولہ ۔ اللہ کی اطاعت کرو اس کے رسول کی اور آیت جاری ہے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس۔ اللہ نے فیصلہ فرمالیا ہے۔ ارادہ کرلیا ہے کہ تم سے ہر قسم کی گندگی کو دور کردے گا۔ یہ خطاب کہتے ہیں ازواج نبیؐ سے ہٹ گیا اور اچانک اس میں دوسرے بیچ میں مخاطب ہوگئے۔ یہ طرز تخاطب تو ایک عام انسان کو بھی زیب نہیں دیتا بلکہ یقینا اس کے متعلق کہا جائے گا کہ اس کو کلام کا سلیقہ ہی نہیں ہے۔ بات کسی اور کی چل رہی ہے۔ پہلی آیت سے ہی چل رہی ہے اور بات کرتے کرتے جب پوری طرح مضمون واضح کردیا اور مضمون کا تعلق ہی تطھیر سے ہے ان کی روحانی پاکیزگی سے اس مضمون کا تعلق ہے جب یہ آخری نقطہ تک پہنچتا ہے۔ مضمون اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جو تم پر اتنی پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان کی وجہ کیا ہے عام لوگوں پر تو ایسی پابندیاں نہیں اس لئے کہ ہم چاہتے ہیں تم کو خو ب پاک و صاف کریں تو کہتے ہیں یہاں اچانک بیویاں نظر سے غائب اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ اور دو صاحبزادے آجاتے ہیں بیچ میں۔ اتنی حیرت انگیز یہ ان کا منطق ہے کہ کوئی معقول آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کی بنیاد انہوں نے ایک حدیث پر رکھی ہوئی ہے۔ اور وہ حدیث من گھڑت حدیث ہے۔ حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ اپنی ایک کتاب میں اس کے خوب پرخچے اڑائے تھے کہ مسلمان علماء پتہ نہیں کیوں خواہ مخواہ اس کو قابل توجہ سمجھتے ہیں اس کی تو حیثیت ہی کوئی نہیں جو حدیثیں وہ پیش کررہے ہیں ان کا اندرونی تضاد بتا رہاہے کہ یہ من گھڑت قصہ ہے کساء والی ایک بات پیش کرتے ہیں کہ یہ ایک چادر تطہیر ہے نہ قرآن میں کسی چادر کا ذکر نہ چادر تطہیر کا کوئی تصور سارے قرآن میں ملتا ہے۔ جو تصورہے تطہیر کا وہ بالکل واضح ہے۔ ان آیات میں اس چادر کو کہاں سے یہ گھسیڑ لائے ہیں وہ کہتے ہیں اس کی روایت حضرت عائشہ ؓ ام المومنین کی روایت ہے اور دوسری حضرت ام سلمہؓ کی ہے۔ اب میںآپکو بتاتا ہوں ان روایات کا قصہ ! درمنثور وغیرہ درمنثور فی التفسیر بالماثور از جلال الدین سیوطی کا حوالہ ہے اور پھر ام سلمہؓ کی روایات چل رہی ہیں پھر تفسیر در منثور از جلال الدین سیوطی میں ام سلمہؓ کی روایت پھر آتی ہے پھر کچھ روایتیں ہیں جن کو یہ شیعہ چھوڑ دیتے ہیں اور در منثور ہی میں موجود ہیں۔ ان روایات کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ ان روایات کی رو سے حضرت ام سلمہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ یہ آیت جو پڑھی جاچکی ہے۔ یہ میرے گھر میں نازل ہوئی تھی اور اس وقت میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی تھے اور آپ نے مجھے بھیجا ۔ حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ وغیرہ کو بلانے کے لئے یہ آیت نازل ہوچکی ہے۔ اس لئے میں اپنی چادر میں ان کو لے لوں جن کی تطہیر کا وعدہ ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے بھی اپنا سر بیچ میں داخل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے نے روک دیا۔ یہ روایت کے مطابق اور کہا دو دفعہ کہا تو نیک ہے پہلے ہی نیک ہے تجھے ضرورت نہیں تو باہر ہی ٹھہر۔ اب یہ روایتیں ایک طرف ہیں دوسری طرف یہی شیعہ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت بیان کرتے ہیں جس میں یہ درج ہے کہ یہ آیات میرے گھر نازل ہوئی تھیں۔ ام سلمہ ؓ کے گھر نازل ہی نہیں ہوئیں اور میں تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے پھر ایک روایت اوربھی انہوں نے گھڑی ہوئی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا یہ فرما رہی ہیں کہ گویا اس وقت رات کو یہ اہل بیت جن کو یہ بیان کررہے ہیں یہ سارے وہاں موجود تھے اور اگر موجود نہیں تھے تو بلائے گئے اس وقت حضرت عائشہ ؓ کے گھر اب ان روایات کا تضاد تو دیکھیں۔ کہاں ام سلمہ ؓ کی طرف منسوب بات کہ میرے گھر نازل ہوئیں۔ کہاں حضرت عائشہ ؓ کی روایت کہ میرے گھر نازل ہوئیں۔ کہاں ام سلمہ ؓ کا جاکر بلا لانا اور کہاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا بلا لانا اول تو یہ بھی ثابت نہیں کہ آپ بلانے گئیں یا نہیں گئیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ آیات نازل ہی ہوئی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں تھے اور آپ نے سب کو اکٹھا کرلیا۔یہ ہے روایات کا حال اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا والی روایت جو ہے۔ اس کے متعلق شیعوں نے ایک روایت کے لفظ صحیح درج کئے ہیں لیکن وہ بھی بنی ہوئی گھڑی ہوئی ہے۔ لیکن ان کو الفاظ پسند نہیں آئے۔ اس کا ترجمہ انہوں نے اپنی طرف سے پھر مناسب حال کیا ہے۔آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ عائشہ ؓ نے کہا کہ میں بھی اپنا سر داخل کرلوں۔ وہی بات۔ جو ام سلمہ ؓ نے کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ تمہیں ضرورت نہیں ہے۔ تم نیک ہو تم بھلی ہو تم بھلی ہو۔ تو کیا مطلب نکلتا ہے کہ پھر ان کو ضرورت تھی۔ جن میں نیکی نہیں تھی؟ اس سے تویہی نتیجہ نکلتا ہے۔ لیکن ترجمہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ عائشہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی سے کہا ہٹ پرے ہٹ تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اتنا جھوٹ گھڑتے ہیں۔اول اگر جھوٹی روایت تو اس کا ترجمہ مزید جھوٹا یعنی کریلے کو بھی نیم پر چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔ یہ ہے ان کی روایات کا حال متضاد روایتیں۔ ایک دوسرے سے ٹکرانے والی کوئی ان کی روایت کو بیان کر رہاہے کہ یہ تو مباھلہ سے تعلق رکھنے والی روایات ہیں۔ نہ سر نہ پیر۔ ایسا پودا جس کو جڑیں ہی قائم نہیں ہیں اس پر بناء کرتے ہوئے قرآن کریم میں یہ تصرف کرنا چاہتے ہیں ۔ کیسے ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم تو کسی قیمت پہ تصرف کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ فرمارہا ہے۔ وقرن فی بیوتکن ایک ہی آیت ہے دو آیتیں نہیں ہیں۔ غور سے سُن لیجئے۔ تم اے نبی کی بیویو ! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ قبل از وقت کی پہلے دور کی جاہلیت کے سنگھار نہ کیا کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ۔ اے اہل بیت اللہ تم سے رجس کو دور کرنا چاہتا ہے ۔ اس کا ترجمہ یہ فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ اے محمدؐ تجھ سے یہ پاک نہیں ہوں گے۔ جو اہل بیت ہیں میرے ان کو میں خود پاک کروں گا۔ تیرے سپرد باقی مومن اور میرے سپرد یہ اہل بیت۔ اس لئے ان کو میں پاک کروں گا اور جب یہ کہا جاتا ہے پاک کروں گا اور ان میں کوئی برائی نہیں رہنے دوں گا تو اس سے یہ بھی تو نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت تک پاک نہیں تھے اور کچھ برائیاں موجود تھیں۔ ورنہ پاک کو پاک کیسے کرے گا اور خود شیعہ عقیدہ یہ بھی ہے کہ یہ پیدائشی پاک ہیں۔ پس وہ لوگ جو پیدائشی پاک ہیں ان کو خدا دوبارہ کیسے پاک کرے گا۔ یہ تو وہی بات ہے کہ ایک کاٹھی گھوڑے پر ڈال دی جائے توکہے دوبارہ ڈال دو۔ دوسری کاٹھی کیسے پڑ جائے گی۔ جو لوگ پاک و صاف ہوں ان کے متعلق یہ وعدہ کہ میں کروں گا اور پھر ایسا پاک کرو ںگا کہ کوئی برا پہلو کسی قسم کا کوئی داغ ا نکے جسم پر ان کے روحانی جسم پر باقی نہ رہے۔ یہ صاف بتا رہا ہے کہ کمزوریاں دور کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ جو کمزوریاں پرانے زمانے سے چلی آرہی ہیں۔ جاہلیت کا مضمون ہے۔ فرمایا ہے کہ تم نے بہت سی رسمیں پرانے زمانوں میں سیکھی تھیں۔ اس طرح عورتیں سنگھار پٹار کیا کرتی تھیں۔ اس طرح نخرے سے کلام کیا کرتی تھیں۔ ان باتوں کو چھوڑ دو۔ تمہیں زیب نہیں دیتا کیونکہ یہ تم محمد رسول اللہ کے عقد میں آگئی ہو اور اس گھر کی پاکیزگی کے تقاضے ہیں۔ ان تقاضوں پر تمہیں چلنا پڑے گا اور اس کے نتیجہ میں تم عام اہل بیت نہیں رہو گی تمہارا مرتبہ خدا کے نزدیک اتنا بڑا ہوجائے گا کہ عام مومنوں کے مقابل پر تمہیں دگنے اجر دیئے جائیں گے اور شرط وہی ہے کہ نیکی۔ تو حضرت نوح ؑ والی آیت سے اس آیت کا ٹکرائو کہاں سے ہوگیا کوئی یعنی اس مضمون کا جو حضرت امہات المومنین ؓ کے تعلق میں یہاں بیان ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ مزید تقویت ملتی ہے۔ اس بات کو کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو اہل بیت کے طور پر مخاطب فرمایا ہے اور پرانی رسمیں ترک کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ نیک بننے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ساتھ ہی یہ وعدہ فرمادیا کہ اگر تمہارے بس میں یہ کام نہ ہو تو ہم وعدہ کرتے ہیں ہم کرکے دکھائیں گے اس سے بڑا پختہ وعدہ کسی کی تطہیر کا اور کیا ہوسکتا ہے اگر وہ ارادہ ظاہر کرتیں اور کہتیں ہاں سرتسلیم خم ہم کرلیں گی تو شک کیا جاسکتا تھا۔ شیعہ کہہ دیتے کہ نیک ارادہ ہوگا۔ لیکن کر نہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں اس کام میں تمہاری مدد کروں گاا ور ایسا پاک صاف کروں گا کہ اس کی مثال نظر نہ آئے کوئی داغ کسی قسم کا تمہارے چہروں پر تمہارے جسم پر باقی رہنے نہیں دوں گا یعنی روحانی چہرہ اور روحانی جسم۔ اب میں باقی اور بعض باتیں یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں یہ جو استنباط کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کا ذمہ خود لے لیا اور باقی رسول اللہ صلعم کے سپرد کردیئے اس ضمن میں ایک اور آیت کا حوالہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تمام صحابہ ؓ کے متعلق اللہ نے خود تطہیر کا وعدہ فرمایا ہے۔ مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج یہ آیت کا ٹکڑا ہے جس میں وضوء وغیرہ کے احکام ہیں اور پاک بازی کے احکام ہیں اس کے آخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج اللہ تمہیں کسی تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔ جیسا کہ بعینہ وہی مضمون ہے جو امہات المومنین ؓ کے والی آیات میں درج ہے کہ بظاہر بڑی سختی کی تعلیم ہے یہ کرو وہ کرو اس سے باز رہو مگر مقصد تم پر مزید احسان کرنا ہے تمہیں تنگی میں ڈالنا نہیں تو جہاں تطہیر کے احکامات عام مسلمانوں کے لئے ہر مسلمان کے لئے تھے وہاں خدا نے یہ وضاحت فرمادی۔ مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج۔ یہاں بھی لفظ یرید استعمال ہوا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ ہر گز نہیں کہ تم پر کسی قسم کی تنگی وارد فرمائے۔ ولکن یرید لیکن اللہ یہ چاہتا ہے لیطھر کم تاکہ وہ تمہاری تطہیر فرمائے۔ ولیتم نعمتہ تطہیر ہی نہیں ولیتم نعمتہ اور تم پر اپنی نعمت کو کمال تک پہنچا دے علیکم یعنی مخاطب ہیں تمام صحابہ ؓ اور متبعین لعلکم تشکرون تاکہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ یہی مراد ہے کہ میرا شکرادا کرو۔ تو اللہ کی بات ہو رہی ہے اس لئے میں نے کہہ دیا اللہ کا شکر ادا رکرو لعلکم تشکرون تاکہ تم شکر کرو اصل میں یہاں ن کے اوپر زبر لکھی ہوئی ہے زیر نہیں ہے۔ اگر زیر ہوتی تو ’نی‘ سے کی طرف اشارہ ہوتا اس لئے یہاں محض شکر ہے کسی کی طرف اشارہ نہیں ہے میں نے غور سے دیکھا ہے تو یہ مطلب بنتا ہے لعلکم تشکرون تاکہ تم شکر کرنے والے ہوجائوا ور شکر نعمتوں کے نتیجہ میں ہونا چاہئے۔ یہ لازم ہے مطلب یہ ہے کہ خدا کا یہ وعدہ ہے جو تمہارے حق میں پورا ہوگا۔ وہ پورا فرمائے گا۔ وہی تمہیں پاک و صاف کرے گا۔ اس لئے وہ جو تقسیمیں تھیںدو انکا تو کوئی وجود باقی نہ رہا ہ کچھ رسول کریم ؐ کے سپرد تطہیر کے لئے کئے گئے کچھ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھ لئے یہ آیت بتا رہی ہے کہ سارے ہی اللہ کے ہاتھ میں تھے اور محمد ؐ کا ہاتھ بھی تو اللہ ہی کا ہاتھ تھا۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس ہاتھ کے نیچے ہاتھ پڑے ہوئے تھے اور بیعتیں ہی بیعتیں ہورہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہاتھ کے متعلق فرمایا یداللہ فوق ایدیھم اللہ کا ہاتھ تھا جو ان کے ہاتھ پر ہے تو تطہیر محمدؐ تطہیر خدا ہے یعنی وہ تطہیر جو محمدؐ سے رونما ہوتی ہے۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ اللہ ہی کی تطہیر ہے۔ جو وہ خود فرما رہا ہے۔ اس لئے اللہ اور رسول میں جو لوگ تفریق کرتے ہیں ان کے متعلق قرآن کریم میں الگ بڑا سخت انداز موجود ہے کہ تم میرے رسول ؐ کو مجھ سے کاٹ کر الگ نہ کرنا اور وہ آیات اس وقت میرے ذہن میں مضمون کے طور پر ہیں۔ میں ان کو لفظاً نہیں دھرا سکتا لیکن بہت سختی سے اس رجحان کو خدا تعالیٰ نے رد فرمایا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ہر گز ایسی جہالت میں مبتلاء نہ ہونا کہ خدا اور رسولؐ میں تفریق کردو۔ الگ الگ کردو۔ پس یہ شیعہ علماء خدا اور رسول ؐ میں اس طرح تفریق کرتے ہیں کہ ایک تطہیر اللہ کی ایک تطہیر رسول کی اور آیات قرآنی اس مضمون کو کلیتہً رد اور مردود قرار دیتی ہیں۔ پھر آیت تطہیر کے تعلق میں یہی خدا کی طرف ضمیر کا جانا کہ میں نے پاک کرنا ہے۔ میں نے یہ کرنا ہے ایک اور آیت ہے جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی ایک آیت کا حصہ ہے۔ آل عمران آیت 195,196‘ ہے یہ فالذین ھاجروا واخرجوا من دیارھم و اوذوا فی سبیلی وقاتلوا وقتلوا لا کفرن عنھم سیاتھم ولا دخلنھم جنت تجری من تحتھا الانھار ثوابامن عنداللہ و اللہ و عندہ حسن الثوابO کہ یاد رکھو وہ لوگ یعنی کثرت سے (ایک ہجرت کرنے والے کا ذکر نہیں ہے) وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی واخرجوا من دیارھم اور اپنے گھروں سے نکالے گئے واوذوا فی سبیلی اور جن کو میری راہ میں تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ یہ ہیں صحابہ ؓ کرام جن کے اوپر نفاق کا فتویٰ عائد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان سے کیا ہوگا وقاتلوا وقتلوا انہوں نے قتال کیا اور شہید کئے گئے۔ لاکفرن عنھم سیاتھم میں خود لازما ضرور بالضرور ا ن کی برائیاں دور کردوں گا۔ ایک تاکید کا حکم ہے یہ جب کسی فعل سے پہلے آئے تو اس سے تاکید پیدا ہوجاتی ہے اور نون خفیفہ بھی تاکید کے لئے آتا ہے۔ اگر اکفر کی بجائے اکفرن ہوتا تو اسے نون خفیفہ کہتے ہیں اس کا مطلب ہے مزید تاکید پیدا ہوگئی۔ اور نون ثقیلہ اس نون کو کہتے ہیں جو یہاں استعمال ہوا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ لازماً ہر صورت میں یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو کوئی دنیا کی طاقت تبدیل کر ہی نہیں سکتی۔ ایسا فیصلہ میں نے پختہ کر رکھا ہے کہ ان صحابہ ؓ اور ان قربانی کرنے والوں سے ان کی برائیاں ضرور دور کروں گا ولا دخلنھم اور ضرو ران کو جنات میں داخل کروں گا۔ جن کویہ بدبخت جہنمی کہہ رہے ہیں ان کو خدا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھ لیجئے اور ضمیر اپنی طرف لے کے جارہا ہے ہر بات کی ۔ ایسی جنات میں لازماً داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ ثواباً من عنداللہ یہ اللہ کی طرف سے ثواب ہے۔ واللہ عندہ حسن الثواب اور اللہ کے پاس تو بہت ہی حسین بہت دلکش ثواب ہے یعنی صرف ثواب کی بات نہیں بہت پیارے پیارے اجران کے لئے مقدر ہوچکے ہیں۔ یہ ہے اس آیت کا مضمون جو قرآن کریم کی دوسری آیات سے قطعی طور پر کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اب میں ا ن کی بعض دوسرے دلائل کی بات کرتا ہوں۔ ایک شیعہ مفسر صاحب مولوی فرمان علی صاحب نے غور کیا ہے معلوم ہوتا ہے ان کو یہ تکلیف ہے کہ ایک ہی آیت کے اندر یہ مضمون آگیا ہے۔ اور صاف پتہ لگ رہا ہے کہ جن کا ذکر چل رہا ہے۔ انہی کے متعلق ہوگا تو اس مشکل سے وہ کس طرح باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے والا معاملہ ہے۔ نام ہے ا نکا مولوی فرمان علی صاحب ۔ یہ کہتے ہیں اس عذر انہوں نے یہ تراشا ہے اگر ازواج مقصود ہوتے تو جس طرح ماقبل اور مابعد کی آیت میں ضمیر جمع مونث حاضر تھی اس میں باقی رہتی کہتے ہیں پہلاسمندر تو یہ ہے کہ اگر ازواج مطہرات پیش نظر ہوتیں تو ضمیر مونث کی بجائے ضمیر مذکر میں ان کو مخاطب نہ کیا جاتا اور آیت کا یہ جو ٹکڑا ہے۔ یہ تانیث کا صیغہ چھوڑ کر اچانک تذکیر کے صیغے میں داخل ہوجاتا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ وہ جن کا ذکر چل رہا ہے وہ نہیں کوئی اور لوگ آگئے ہیں بیچ میں اچانک۔ اس کے متعلق آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اہل بیت کا لفظ ہمیشہ مذکر ہی استعمال ہوتا ہے اور حضرت سائرہ کے متعلق جب اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا تو وہ بھی مذکر ہی استعمال ہوا ہے اور ایک عورت کو مخاطب کرتے ہوئے اہل البیت کہا گیا ہے مذکر کہا گیا ہے تین جگہ یہ آیت قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے ایک یہی آیت تطہیر ہے جس میں فرماتاہے لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا کہ اے اہل بیت اللہ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے۔ ’’یرید اللہ ‘ وہی ’’یرید‘‘ کا لفظ آیا ہے کہ فیصلہ فرما چکاہے۔ اللہ تعالیٰ اور یہ ارادہ رکھتا ہے کہ ضرور تم سے و ہ ہر قسم کی برائی کو دور فرمادے گا۔ ہر قسم کے داغ دھو دے گا۔ دوسری جگہ فرماتا ہے۔ وحرمنا علیہ المراضع من قبل فقالت ھل ادلکم علی اھل بیت یکفلونہ ۔ حضرت موسیٰؑ کی بہن حضرت موسیٰ کے ساتھ ساتھ جب وہ بہتے ہوئے جارہے تھے دریا میں کنارے پر چلتی رہیں دیکھ لیا کہ کنہوں نے پکڑ لیا ہے وہ بچہ اور جب پتہ چل گیا تو ان کو انہوں نے ان سے یہ سوال کیا ہے مشورے کے طور پر کہ کیا میں تمہیں ایسے اہل بیت کی خبر نہ دوں جو اس کی پرورش کریں۔ دودھ دودھ پلائیں اور خیال رکھیں تو کس مذکرکا وہاں ذکر تھا؟ لیکن صیغہ مذکر ہی کا استعمال ہوا ہے۔ اہل بیت اور مراد حضرت موسیٰؑ کی والدہ ہیں تو دو عورتیں واحد کے ایک ایک عورت ہے جن کی طرف اشارہ جارہا ہے اور اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے اور قالو اتعجبین یہ دوسری نہ وہ پہلے تو تھا نہ جمع جمع کا صیغہ نساء النبیؐ ہیں مراد اور میں نے کہا آپ ذرا ایک طرف ہی ہٹ جائیں کیونکہ ان کی جو بدلتی کروٹیں ہیں وہ آپ کو بار بار مجبور کررہی ہیں آگے آجائیں ہاں ٹھیک ہے اس سے آپ کو تو کوئی تکلیف نہیں آپ کی ورزش ہو رہی ہے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ میں جب بار بار نظر پھیراتا ہوں نا الجھن پیدا ہوتی ۔ تین آیات میں دومیں ایک ایک عورت پیش نظر قالوا اتعجبین من امراللہ سورہ ھود کی آیت 74‘ فرشتوں نے کہا اے مخاطب اے ایک خاتون تعجبین کیا تو اللہ کے معاملات میں تعجب کرتی ہے۔ اللہ کے فیصلوں پر تعجب کرتی ہے۔ رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم یہاں مخاطب بھی مردوں والے صیغے میں لیا گیا ہے علیکم تم پر رحمت ہو اللہ کی اور اس کی برکات اہل البیت ‘ اے اہل بیت یعنی سائرہ۔ تو اس لئے ایک واحد خاتون سامنے ہے اور مذکر کا صیغہ استعمال ہورہا ہے تو جہاں جمع کی صورت میں خواتین موجود ہیں وہاں اس میں کیا اعتراض ہے شیعہ صاحبان کو۔ یہ طرز کلام ہے قرآن کریم میں ہر جگہ اہل بیت کو مذکر ہی استعمال کیا ہے اس پر کوئی گنجائش نہیں ہے کسی اعتراض کی۔
اس کے بعد ایک اور اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہتے ہیںیہ تو ہے ہی آیت یہاںکی ہے نہیں ۔ دل میں اس مولوی صاحب کو پھر بھی کسی تھوڑی سی جو کوئی نیکی رہ گئی تھی اس نے چٹکی لی ہے۔ ایسی چٹکی بھری ہے تکلیف ہوئی ہے کہ میں کہہ تو دیا ہے مگر پتہ ہوگا کہ ہر جگہ اہل بیت مذکر ہی استعمال ہوتا ہے پھر کیا کروں۔ یہاں تو صاف نظر آرہا ہے کہ امہات المومنین مراد ہیں اور ان کے سوا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ کہتے ہیں بات یہ ہے اس آیت کو درمیان سے نکال دو او رماقبل اور مابعد کو ملا کر پڑھو تو کوئی خرابی نہیں ہوتی یہ ٹکڑا جو بیچ میں آیا ہے اس نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے بلکہ اور ربط بڑھ جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آیت اس مقام کی نہیں بلکہ خواہ مخواہ کسی خاص غرض سے داخل کی گئی ہے۔ ان اللہ ۔ قرآن ہاتھ سے چلا جائے مگر اپنی بیہودہ سرائی ہاتھ سے نہ جائے ۔ اپنے لغو تصورات کو ثابت کرنا ہے چاہے قرآن کا کچھ بھی باقی نہ چھوڑا جائے۔ اس حد تک یہ لو گ متعصب اور غالی لوگ ہیں اور اس قدر دشمنی ہے۔ ازواج مطہراتؓ سے کہ وہ دشمنی جگہ جگہ اگلتی چلی جاتی ہے۔ جس طرح زہرا گلتا ہے سانپ اس طرح یہ زہر اگلتے ہیں ازواج نبی ؐ پر اور ابھی یہ متقیوں میں شمار ہورہے ہیں۔ قرآن کا متعلق کہتے ہیں یہ تحریف ہوگئی ہے۔ ہم مانتے نہیں۔ اس آواز نے ثابت کردیاکہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سارے دلائل جھوٹے اور بے معنی ہیں۔ اگر کوئی وزن ہوتا تو یہ آخری بات نہ کہتے۔ سب کچھ کہنے کے بعد سب کچھ سننے کے بعد دل نے پھر یہی فیصلہ دیا کہ یہ بات بنتی نہیں ہے۔ جو مرضی کرلو۔ یہاں ازواج ؓ نبی ؐ کے سوا کوئی مخاطب ہو ہی نہیں سکتا تو اس ٹکڑے کو نکال دو۔ پھر مضمون صاف ہوگا۔ اس کا کیا تعلق ہے یہاں؟ یہ تحریف ہوگئی ہے اور پھر اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہیں کہتے ہیں اگر ازواج نبیؐ شامل ہوتیں تو ان کی تعداد نو تھی اور ان حضرات کی چار۔ ان میں بھی ایک عورت ہی ہے پس مجموعاً تیرہ ہوئے۔ دس عورتیں تین مرد پھربھی غلبہ عورتوں ہی کا رہا۔ کہتا ہے غلبہ عورتوں کا رہا اس لئے مخاطب مذکر کے صیغے میں بھی کیا جاسکتا تھا۔ حالانکہ جو آیت میں نے حضرت سائرہ والی پیش کی ہے اس میں دو دفعہ ایک خاتون کو مذکر کے صیغے میں استعمال کیا۔ پہلے علیکم کے طورپر رحمت اور برکات کی خوش خبری دی اور پھر اہل بیت قرار دیتے ہوئے۔ تو قرآن کے اسلوب کو یہ کیسے بدل دیں گے؟ اللہ تعالیٰ کو عربی سکھا رہے ہیں؟ پھر آگے ایک سوال اٹھایا ہے۔ اہل بیت کیسے کہتا ہے ہوسکتے ہیں یہ تو آج ہیں کل طلاق دی الگ ہوگئیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جن کو خدا نے صدقہ حرام کیا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ صدقہ کن کن پر حرام ہوا تھا۔ اس میں حضرت ابوطالب کی اولاد بھی شامل ہے تو اس طرح پھر اہل بیت کا دائرہ ا ن پر بھی ممتد کرنا پڑے گا۔ جنہوں نے ایک حصہ اسلام سے باہر صرف کیا اور جنگ بدر میں اس لشکر میں شامل ہوئے جو اسلام پر حملہ آور ہوا۔ جن میں حضرت عباسؓ بھی تھے ا ن کو ساری رات ایک ستون سے باندھا گیا مشکیں کس کے اور ا نکے کراہنے کی آواز ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اوریعنی کراہنے کی آواز بند ہونے پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان دیکھیں عدل و انصاف کی۔ ان کے کراہنے کی آواز سے نیند نہیں آرہی تھی تکلیف سے جب کراہنے کی آواز بند ہوئی تو بے چینی کم نہیں بڑھ گئی پہلے ذاتی رشتے کی تکلیف تھی اب عدل کے مقام پر حرف آرہا تھا اس لئے اس خطرہ سے ایک دم گھبراہٹ سے باہر نکل آئے کہ کسی نے میرے رشتے کے تعلق سے آپ کی مشکیں ڈھیلی نہ کردی ہوں۔ وہی بات تھی۔ حضرت عباسؓ کے متعلق اس خیال سے کہ ان کی آواز سے تکلیف نہ پہنچے۔ بعض صحابہ ؓ نے مشکیں ڈھیلی کردیں آپ نے فرمایا کہ اگر یہی کیا ہے تو سب کی کرو تمام قیدیوں کو آرام کی نیند سلا کر پھر جاکے سوئے ہیں۔ پس یہ کہتے ہیں کہ صدقہ حرام جن پر ہے۔ وہ اہل بیت ہیں۔ پہلے وہ چادر والے کے لئے جب وہاں بات نہیں بنتی تو صدقہ حرام کی طرف چلے گئے اور وہاں حضرت ابوطالب سے پھر یہ ساری برکتیں شروع ہوتی ہیں۔ محمد رسول اللہ سے شروع ہی نہیں ہوتیں۔ ابو طالب کی اولاد ہی ہے جو خدا کے نزدیک اہل بیت ہے اور وہ اگر اہل بیت ہیں تو ان میں کبھی کوئی خرابی نہیں آئی تھی اس سے پہلے جو کفر کی حالت میں موجود رہے اور اس لشکر میں شامل ہوئے جس میں پکڑے گئے اور قیدی بنائے گئے۔ تو ان ساری باتوں کی طرف ان کا دھیان نہیں جاتا۔ بالکل لغو قصے بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی کوئی بنیادنہیں۔ قرآن کریم کے واضح احکامات سے مقابل پر کچھ حدیثیں گھڑتے ہیں جب ان حدیثوں سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ان میں تضاد‘ الجھنیں کوئی حقیقت نہیں ‘ کوئی سند نہیں تو پھر قرآن پر حملہ کر بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں یہاں تحریف ہوچکی ہے۔ اب کہتے ہیں اب یہاں ام سلمہ کی تعریف سنئے۔ چونکہ اپنے حق میں ایک روایت ان کی طرف منسوب ہوئی ہوئی ہے او را نکی طرف منسوب کرنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ سنی مانتے ہی نہ اگر کوئی اور روایت ہوتی تو وہ کہتے ہیں اب سنئے ! جس وقت حضرت ام سلمہؓ نے جن کے گھر میں یہ آیت نازل ہوئی وہ خود نہایت ممدوح اور پکی ایماندار بی بی تھیں جب چادر کا کونہ اٹھا کر ا نمیں داخل ہونا چاہا تو حضرت رسول ؐ نے کونہ ہاتھ سے کھینچ لیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ تم نیکی پر ہو مگر اہل بیت میں شامل نہیں ہو بلکہ ازواج میں ہو۔ یہ روایت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خود گھڑی ہوئی ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ان کی دوسری روایات سے کھلم کھلا ٹکراتی ہے اور اس کے برعکس کچھ ایسی روایات ہیں جن کو یہ نظر انداز کرتے ہیں حالانکہ در منثور میں ہی موجود ہیں۔ میں وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تفسیر در منثور جلد 5 صفحہ 198 از علامہ جلال الدین سیوطی۔ ابن عباس سے روایت ہے۔ یہ روایت جوبھلاا دیتے ہیں ذکر بھی نہیںکرتے۔ ابن عباس سے راویت ہے کہ آیت قرآنی انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس خاص طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے بارہ میں اتری ۔ عکرمہ کے نزدیک یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں اتری عکرمہ فرماتے ہیں کہ آیت قرآنی انما یرید اللہ لیذھب عنکم والرجس اھل البیت سے وہ مراد نہیں جو تم گمان کرتے ہو بعض لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ یہاں کچھ اور مراد ہیں۔ اس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج ہیں حضرت عروہ سے روایت ہے کہ آیت یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت سے مرادحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج ہیں اور یہ آیات حضرت عائشہ ؓ کے گھر نازل ہوئی تھیں اور حضرت عائشہؓ کی روایت خود ام المومنین کے حوالے سے جو پیش کررہے ہیں وہاں بھی یہ بات ہے کہ وہاں نازل ہوئی تھیں تو اپنی باتوں کو تو ایک دوسرے سے کاٹ لیا۔ ان کا کچھ باقی نہیں چھوڑا جو روایات باقی رہ گئی ہی جن میں تضاد نہیں وہ پیش نہیں کرتے وہ یہ ہیں۔
ابن جریر اور ابن مردویہ کے حوالے سے عکرمہ کا بیان ہے اور طبقات ابن سعد کے حوالے سے عروہ کی روایت ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج النبی ؐ ہیں اور یہ آیت حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں نازل ہوئی اور ابن عسا کرنے‘ ابن ابی حاتم‘ ابن عسا کرنے عکرمہ کے حوالے سے حضرت ابن عباس کی یہ روایت بیان کی ہے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ؓ سے نازل ہوئی وقال عکرمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ من شاء باھلتہ انھا نزلت فی ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ اتنی قطعی بات ہے کہ جو اس کے خلاف چاہتا ہے میں اس سے مباہلہ کرنے کیلئے تیار ہوں وہ مباہلہ کیوں نہ قبول کیا پھر سامنے آکے ایسے مباھلے کی باتیں کرتے ہیں جس کی روایات کو خود تم نے مشکوک کر رکھا ہے وہ عکرمہ نے جب مباھلہ کا چیلنج دیا تھا تو تم لوگ اس وقت کہاں تھے۔ وہ کہتے ہیں بالکل قطعی بات ہے جیسے جیسا کہ میں نے تلاوت کی ہے آیات کی ترجمہ سنایا ہے۔ اس کے سوا معنی بن ہی نہیں سکتا۔ ناممکن ہے صرف وہی ایک شیعہ مولوی کی بات ہے کہ اتنی قطعی بات ہے کہ جب تک اس آیت کے ٹوٹے کو نکالا نہ جائے شیعوں کی بات بنتی نہیں اور وہ کون ہے جو نکال سکے۔ اب سنئے آگے مزید یہ جو ہمارے مہربان لوگ ہیںمفسرین یہ آیت تطہیر نہ حضرت سارہ کے متعلق کہ سارہ کے متعلق یہ جو کہا گیا ہے کہ اہل بیت ہو اس کا جواب لکھتے ہیں۔
Since in the mercy and the bounty of God offered in this verse applies
اول تو انگریزی in the mercy سمجھ ہی نہیں آتی بات غلط ہے۔ in شاید زائد لکھا گیا ہے۔the mercy مراد ہے۔
applies to the people of the house of Abraham and Sarah, the wife of Abraham happens to be the probable person included in the address Ahlulbait happens to be the probable person.
ایک یہاں سے بھی ایک نجات کا رستہ نکالنے کی کوشش کی ہے احتیاطاً۔ کہتے ہیں غالباً مراد ہے ہوسکتا ہے قطعی طور پر مراد نہیں ہے۔
Some commentators in their anxiety to find some argument for the counting the wivesؓ of the Holy Prophetؐ in the term of Ahlulbait have said that since Sarah the wife of Abraham included in the term Ahlulbait use in this verse all the wives of the prophet are included in the verse 33,34 relating to the purity etc.
کہتے ہیں اس سے بعض سنیوںCommentators نے بہت کوشش کی ہے یہ ثابت کرنے کی کہ اگر ایک نبی کی بیوی کے لئے اہل بیت کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے تو دوسرے نبی محمد رسول اللہ ؐ کی ازواج کے لئے کیوں استعمال نہیںہوسکتا۔ کہتا ہے۔
The Commentators intentionally or un-intentionally ignore the fact and the significance of the address by the angles. If Sarah was one of the addressees of the angels it was not as the wife of Abraham but as she was going to be the mother of Issac.
کہتے ہیں اس لئے نہیں تھا کہ ابراہیم کی بیوی تھی اس لئے کہ اسحاق کی ماں بننے والی تھی اور یہ وہ مضمون ہے اس نے ان کو ایک اور جہالت کے صحرا میں بھٹکتا چھوڑ دیا ہے یعنی حضرت محمد رسول اللہ کی جو جدہ امجد بننے والی والدہ ماجدہ اوپر کی سیڑھی کی بننے والی تھی۔ حضرت ھاجرہ ان کو تو مخاطب کرکے کہیں نہیں ملتا۔ ذکر کیا فرشتوں نے اہل البیت قرار دیا ہو۔ اس لئے کہتے ہیں کہ دراصل ابراہیم کی بیوی کے طور پر ان کو اہل بیت نہیں قرار دیا گیا بلکہ اسحاق کی بیوی کے طور پر اسحاق کی ماں کے طور پر وہی غلطی اسی قسم کی دوبارہ ہوئی ہے۔ اسحاق کی ماں کے طور پر اس کا مطلب ہے کہ جو عیسائی دعویٰ کرتے ہیں کہ متبرک نسل جس کے ساتھ برکتوں کا وعدہ ہے وہ اسحاق کی ماں کی نسل ہے۔ جو اسحاق کی ماں سائرہ کی نسل آگے چلی ہے وہی متبرک ہے۔ یہ اپنا مضمون ثابت کرنے کیلئے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ یعنی آخری صورت میں حضرت ہاجرہؓ سے برکتوں کا سامان اٹھا لیتے ہیں اور عیسائیوں کی تائید کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ بات تھی اور اس پہلو سے عیسائی سچے نکلتے ہیں۔ محمد رسول اللہ کی والدہ تو ایسی نہیں تھی جن کو فرشتے کہتے کیونکہ وہ صرف ابراہیم ؑ کی بیوی تھی یہ مضمون ہے۔ ابراہیم کی بیوی سے ا نکو کیا فرق پڑ جانا تھا۔ آج ہیں کل نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک مضمون باندھا گیا ہے۔ ازواج تو لکھتے ہیں آج اس کی کل کسی اور کی، لیکن اس میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ حضرت علی جس وجہ سے برکت پانے والے ہیں وہ محمد رسول اللہ صلعم کی اولاد کے والد کہلاتے ہیں۔ وہ بھی تو حضرت فاطمہ سے شادی کے نتیجہ میں ہوئے تھے۔ محمد رسول اللہ صلعم کی بیویوں کے ذکر میں تو یہ کہہ دیتے ہیں آج اس کی اور کل اس کی اور شدید گستاخی کاکلمہ ہے ہم یہ حضرت فاطمہ ؓ کے متعلق نہیں کہہ سکتے مگر ان بے حیائوں کو سوچنا تو چاہئے کہ کہہ کیا رہے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا عواقب سے بے خبر جہالت کی باتیں پتہ ہی نہیں کہ کس گڑھے میں گرنے والے ہیں اور ایسی دلیل دیتے ہیں جو آگے ان کے گڑھا کھودیتی ہے اور اس میں لازماً گرنا پڑتا ہے ان کو۔مگر ان کو سوچنا چاہئے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگلی بات حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق مزید یہ کہتے ہیں اور یہ سننے والی بات ہے یہ اس کا حوالہ میں پڑھ کر سنادوں۔
It is only circumstantial which can at any moment be given up. A wife would be with one and after a moment be given up. A wife would be with one and after a divorce would go to another.
یہ بیہودہ سرائی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی کے حوالے سے یہ پیش کررہے ہیں اپنے مضمون کو ثابت کرنے کیلئے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی اور نبی کے متعلق تو کہا گیا یا نہ کہا گیا۔ ازواج مطہرات حضرت محمد رسول اللہ کے متعلق قرآن نے واضح فرما دیا ہے کہ اس نبی کے بعد اب دوبار ہ کسی سے شادی نہیں کرنی اور ان کو امہات المومنینؓ کہہ کر ہمیشہ ہمیش کیلئے ان کا ایک ایسا رشتہ خدا نے قائم فرمادیا ماں اور بچوں کا جس کے بعد شادی کا تصور کسی کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ بات بھول جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر میں یہ نہیں ملتا اسیلئے اس گستاخی کا ان کو موقعہ مل گیا ہے وہاں۔ اب چلیں ایک دلیل تو ان کی کافی نہیںہوئی۔ ان کو دل میں چور ہے کہ یہ بات پوری بنتی نہیں ہے۔ ابراہیم کی Wife تھی معزز تھی اس پہلو سے۔ اور نبی سے ہی عورتیں برکت پاتی ہیں۔ اپنے رشتے کی مگر یہ کہتے ہیں نہیں۔ Besides Sarah the wife of Abraham was a cousin of Abraham خاص طور پر یہ بات پیش نظر رکھو علاوہ ازیں ابراہیم ؑ کی بیوی سارہ اس کی کزن تھی اور
being a daughter of his uncle
اس کے چچا کی بیٹی تھی اس لئے کتنی معزز عورت تھی اس چچا سے برکتیں پانے والی ہے ابراہیمؑ
سے نہیں۔ سن لی دلیل آپ نے اور کس طرح بچاری حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نکال کے باہر کردی گئیں وہی بدبخت عقیدہ جو عیسائی محمد رسول اللہ پر حملے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ وہی باتیں اپنی تائید میں اپنے بے ہودہ خیال کو تقویت دینے کی خاطر پوری طرح عیسائی عقیدوں سے متفق ہوجاتے ہیں اورپھر ان سے آگے بڑھ جاتے ہیں عیسائی یہ نہیں کہتے تھے کہ سارہ نے تارح سے برکت پائی ہے یا آذر سے برکت پائی یہ کہتے ہیں نہ ۔ نہ۔ ابراہیم ؑ سے کیسے برکت مل گئی اس کو تو اپنے باپ سے برکت ملی تھی جو ابراہیم ؑ کے چچا تھے اور جہاں تک بائبل گواہ ہے وہ تو چچا تھا ہی نہیں وہ تو باپ تھے خود۔ بائبل تو عجیب و غریب بات بیان کرتی ہے۔ قرآن کریم چچا کا ذکر کرتا ہے لیکن باپ کے تابع لفظ کے تابع اور مراد چچا ہے نام دوسرا ہے آذر نام ان کے باپ کا نہیں تھا یہ مسئلہ بھی میں آپ کو سمجھا دوں کہ یہ کیا ہے تاکہ اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
بائبل کے نزدیک حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بہن سے شادی کی تھی جو دوسری ماں سے تھیں مگر ایک ہی باپ سے تھیں۔ بائبل کہتی ہے اور یہ تارح کا نسب نامہ ہے ہم تو حضرت سارہ کو آذر کی بیٹی یا کسی اور کی بیٹی سمجھتے ہیں واضح طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ آذر کی بیٹی تھیں مگر آذر حضرت ابراہیم کے چچا تھے اور جو خباثت اور مخالفت میں اور انتہائی اس دشمنی میں پیش پیش تھے وہ وہی تھے لیکن ان کی طرف قرآن کریم اب کے لفظ سے حوالہ دیتا ہے اس لئے یہ امکانات موجود ہیں۔ یہ سارے میں آپ کے سامنے امکانات کے طور پر رکھتا ہوں کہ قرآن کریم نے چچا کے لئے بھی لفظ اب استعمال کیا ہے چونکہ عربی میں ایسا ممکن ہے۔ بعض دفعہ اپنے چچا کو ہم بھی یہاں ابا کہہ دیتے ہیں مگر ایک اور مراد بھی ہوسکتی ہے کہ بائبل کی غلطی کی اصلاح اس طرح فرمائی گئی ہو کہ تارح کی بیٹی یہ تو ہیں یعنی حضرت سارہ لیکن ابراہیم تارح کے بیٹے نہیں تھے وہ آذر کے بیٹے تھے تو دونوں امکانات ہیں جو کھلتے ہیں اور دونوں پر کوئی اعتراض وارد نہیںہوتا ۔ بائبل کہتی ہے ’’اور یہ تاریح کا نسب نامہ ہے تاریخ سے ابراھام اورنحور اور حاران پیدا ہوئے اور ابراھام کی بیوی کا نام سارہ ہے اور نحور کی بیوی کا نام ملکہ تھا جو حاران کی بیٹی تھی اور سارہ بانجھ تھی اس کے کوئی بال بچہ نہ تھا اور خدا نے ابراھام سے کہا کہ سارہ جو تیری بیوی ہے سو اس کو ساری نہ پکارنا اس کا نام سارہ ہوگا اور میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یعنی اسے برکت دوں گا کہ قومیں اس کی نسل سے ہوں گی اور عالم کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے۔ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سارہ کے متعلق فرمایا اور فی الحقیقت یہ جو پیدائش باب ۲۰ آیت ۱۲‘۱۳ اور فی الحقیقت وہ میری بہن بھی ہے کیونکہ وہ میرے باپ کی بیٹی ہے اگرچہ میری ماں کی بیٹی نہیں پھر وہ میری بیوی ہوئی۔‘‘ تو بائبل کاجو جاھلانہ تصور ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اور سارہ کے متعلق وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم بھی تار ح کے بیٹے تھے حضرت سائرہ بھی تارح کی بیٹی تھیں اور انہوں نے اپنی بہن سے جو باپ سے بہن تھی اور ماں سے الگ الگ تھی شادی کی اور اس لئے بہن کہا۔ قرآن اس عقیدہ کو رد کرتا ہے اور حضرت ابراہیم کے باپ کے نام کے طور پر آذر کا نام پیش کرتا ہے اس سے پتہ چلا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ بھی مفسرین یہ لکھتے ہیں عام طور پر ایک دفاعی طور پر اور میرے نزدیک اس دفاع کے مقابل پر جو میں مسلک پیش کرتا ہوں زیادہ معقول اور مضبوط ہے اس سے دونوں مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔
مفسرین یہ کہتے ہیں کہ باپ کا لفظ چونکہ چچا کے لئے بھی استعمال ہوجاتا ہے اس لئے جو بائبل یعنی اہل کتاب کے گروہ جو اسلام پر حملے کرتے ہیں دیکھو غلط بات کہہ دی یہ ہے تو تاریح کے بیٹے ہی لیکن محاوۃً آذر کا بیٹا قرار دے دیا اگر یہ مانو تو پھر تارح کی بیٹی اپنی بہن سے شادی بھی لازماً ماننی پڑے گی۔ اس کے برعکس جو دوسرا پہلو ہے بائبل غلط کہتی ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں ناموں وغیرہ کی اور جو فیملی فیز بیان ہوئے ہیں۔ شجرہ نسب بیان ہوا ہے اس میں بے شمار غلطیاں ہیں اور اس پر جو ہمارا ریسرچ گروپ ہے۔ انشاء اللہ جب وہ بائبل کی Commentory لکھے گا تو اس مضمون کو خوب وضاحت سے دنیا کے سامنے کھولا جائے گا ۔ سردست میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کے بیان کو لفظاً کیوں نہ قبول کریں۔ آذر کے بیٹے تھے۔ کیونکہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہوں نے یہ عہد کہا تھا وعدہ کیا تھا اپنے باپ سے کہ میں تیرے لئے بخشش کی دعا طلب کروں گا۔ اے اللہ تو انہیں بخش دے مغفرت کی دعا کروں گا یا استغفار کروں گا تیرے حق میں اس لئے آپ نے دعا کی لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ یہ دشمن ہے اور خدا کا دشمن ہے تو ابراہیم ؑ نے اس کے بعد توبہ کی اور کہا اب میں کبھی دعا نہیں کروں گا یعنی یہ خدا نے روک دیا ا نکو کہ وہ دعا نہ کریں یہ ہے پہلو پیش نظر اس سے آپ اندازہ کریں کہ سارہ نے برکت کہاں سے حاصل کی ہے وہ تار ح کی بیٹی تھی یا آذر کی بیٹی تھی جسکی بھی تھی مشرکین کے سردار کی بیٹی تھی اس کی بیٹی تھی جو خدا کا دشمن تھا اور ان لوگوں کی بیٹی تھی جس ساری قوم کو خدا نے رد کرکے ان پر *** ڈالی اوران کے لئے دعائوں سے بھی منع کردیا گیا۔ اہل تشیع کے یہ امام یہ بزرگ فرماتے ہیں کہ مسلمان Commentator ازواج النبی ؐ کو اہل بیت میں داخل کرنے کے شوق میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سارہ کی عظمت اس خاندان سے وابستہ تھی۔ جس میں آذرپیدا ہوئے جس کے بڑوں میں تارح کا شمار ہوتا تھا۔ سارہ کی عظمت ان لوگوں میں تھی جنہوں نے ابراہیم ؑ کے لئے آگ جلائی جو سر تاپا مشرک ہوتا تھا۔اور ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈال کر اپنے خود اپنے نسل کے بچے کو اپنے بیٹے یا اپنے بھتیجے کو آگ میں پھینک کر ان کو دل کا سکون ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے اس آگ کو ٹھنڈا کردیا۔ یہ جاہل مسلمان سنی مفسرپاگلوں کو پتہ ہی کچھ نہیں کہ سارہ کی عظمت تو ان کے ساتھ تھی۔ ابراہیم ؑ سے کہاں سے عظمت ہوگئی۔ وابستہ اتنی دشمنی ہے۔ ازواج النبی ؐ سے۔ ایسے خبیثانہ بغض ہیں کہ وہ جب گندا پھوڑا پھٹتا ہے اس طرح پھٹتے ہیں اور ساری فضاء کو عفو نت سے بھر دیتے ہیں یہاں جاکر اہل بیت کا مضمون بالکل ہی بگاڑ کے اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا اور یہ بات ان کو فائدہ دیتی ہے کیونکہ بعد میں اہل بیت میں انہوں نے ابو طالب کی اولاد کو بھی داخل کرنا ہے اور برکتیں وہاں سے لینی ہیں چنانچہ ابو طالب علیہ السلام لکھتے ہیں۔ حالانکہ ابو طالب کے متعلق کوئی قطعی روایت ایسی نہیں ملتی کہ انہوں نے بیعت کی ہو اور رسول اللہ صلعم کے ہاتھ پر مشرک با سلام ہوئے ہوں۔ ان کے متعلق یہ تو ملتا ہے کہ پناہ سے ہاتھ کھینچنے کی بات کی کہ اے محمد ؐ ! بس اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا کہ میں اپنی قوم کا دبائو برداشت کروں۔ میں اپنی پناہ کا ہاتھ اٹھانے والا ہوں۔تجھ سے آپ نے فرمایا جو چاہے کر مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ ان سے بزرگی شروع ہوتی ہے اہل بیت کی۔ پس یہ ہے اصل راز ا ن کی سوچ فکرو ںکے بگاڑ کا کہ کفر اور شرک سے عزتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلعم سے عزتیں حاصل کرنا ان کے نزدیک حرام ہے اور بیویوں کو بھی کوئی برکت نہیں مل سکتی۔
٭٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 19 رمضان المبارک
2 مارچ1994 ء
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہٖ و یزکیھم و یعلمھم الکتب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین O اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انیٰ ھذا قل ھوا من عند انفسکم ان اللہ علیٰ کل شیئٍ قدیر O وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ ولیعلم المومنین O
(آل عمران 165تا 168)
ا ن آیات کی پچھلے دو تین روز سے تلاوت ہورہی ہے۔ لیکن ابھی تک ہم پہلی آیت نمبر ۱۶۵ پر ہی گفتگو ختم نہیں کرسکے۔ آج اس مضمون کا بقیہ حصہ بیان کرنا ہے۔ جو شیعہ مفسرین نے بحث چھیڑی ہے اور اُن کا نقطہ بہ نقطہ میرے آگے رہا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کل مجھے عزیزم لقمان احمد نے بتایا کہ ان کا بھی یہی تاثر ہے اور بعض دوسروں کا بھی کہ وہ جو آذر اور تارح والی بحث اٹھائی گئی تھی وہ اکثر سننے والوں کیلئے اتنی اجنبی تھی کہ وہ سمجھ نہیں سکے۔ کیونکہ اُن کو اس کا تاریخی پس منظر معلوم نہیں اس لئے مزید وضاحت کردیں کہ قرآن کیا کہتا ہے بائبل کیا کہتی ہے اور مفسرین کے نظریے کیا ہیں؟ اور آپ کا اپنا نظریہ کیا ہے؟ یہ چار باتیں ایسی ہیں جن پر کچھ مزید روشنی چاہئے۔ کیونکہ اکثر ذہنوں میں یہ الجھائو نظر آتا ہے۔ اُن کے اپنے ذہن میں تو تھا بہرحال جب میں نے اُن سے بات کی اس لئے مختصراً میں اسی بات کو دوبارہ لیتا ہوں۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر میں آپ کے والد کا نام آذر بتایا ہے۔ اور ایک موقعہ پر آپ نے اپنے والد کیلئے جو دعا کی ہے اس کا ذکر ملتا ہے۔ اور ایک دوسرے موقعہ پر یہ ذکر ملتا ہے کہ ابراہیم نے یہ دعا اس لئے کی تھی کہ اس نے اپنے باپ سے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ میں تیری مغفرت کیلئے ضرور دعا کروں گا۔ لیکن جب خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر یہ بات کھول دی کہ تیرا باپ خدا کا دشمن تھا تو وہ اس بات سے تائب ہوگیا۔ اورپھر کبھی گویا کہ طرز بیان سے لگتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل سے یہ خیال ہی نکل گیا۔ لیکن وہ وعدہ پورا کرچکے تھے۔ اس سے مختلف مفسرین کو کچھ الجھائو بھی پیدا ہوا ہے۔ لیکن میں نے ایک دفعہ عید کے موقعہ پر خطبہ میں بیان کیا تھا کہ حضرت اقدس ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا خاص پیار کا تعلق ہے۔ جس کا اظہار ہورہا ہے۔ اللہ پہلے بھی روک سکتا تھا۔ خدا کو علم تھا کہ یہ ہوگا۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ دعا اس وقت کی ہے۔ جب وہ فوت ہوچکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دعا میں کافی تاخیر ہے یہ خانہ کعبہ کے تعمیر کے وقت کی دعا لگتی ہے اور اس سے پہلے وہ اُن کو ’’پچھلوںکو‘‘ چھوڑ آئے تھے اور بہت بڑے ابتلاء برپا ہوچکے تھے اور دعا مشرک کیلئے زندگی میں تو ہے ہی جائز۔ کیونکہ تمام مشرقین کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے۔ ’’اللہ ان کو ہدایت دے‘‘ دعا ہی تو تھی جس نے یہ انقلاب برپا کیا۔ تو جس دعا کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے ذکر مل رہا ہے۔ وہ وفات کے بعد کی دعا ہے کیونکہ مشرکین کے متعلق زندگی میں دعا کرنا کہیں ممنوع نہیں ہے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں قطعی طور پر ثابت شدہ دعائیں ہیں۔ اُن لوگوں کے حق میں۔ جیسے ابوجہل کہ ’’اللہ اس کو ہدایت دے‘‘ یہ ثابت ہے ساری قوم کیلئے دعا کرتے تھے اور اس وقت طائف کے موقع پر مشہور دعا جو وہ کی کہ ’’اللھم اھد قومی فانھم لایعلمون۔پھر یہی دعا دوبارہ پھر ثابت ہے آپ کی طرف سے انہیں الفاظ میں۔ پس مشرکوں کیلئے دعا کرنے سے مناہی ان کی زندگی تک نہیں۔ زندگی کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اور مرنے کے بعد ہدایت کی دعا کر ہی نہیںسکتے آپ۔ اس لئے ایک ہی دعا رہ جاتی ہے۔وہ مغفرت کی دعا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ میرے حضور حاضر ہوچکے ہوں مشرک ۔اور زندگی بھر اُن کو توبہ کی توفیق نہ ملے۔ تو پھر تم اُن کیلئے دعا نہ کرو۔ اللہ کا معاملہ ہے اپنے بندوں سے جو چاہے فیصلہ کرے۔ یہ وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعا کی تھی اپنے باپ کیلئے۔ جس کو قرآن کریم آپ کا باپ قرار دیتا ہے وہ انکے مرنے کے بعد کی دعا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی آپ کے ساتھ خاص رحمت اور شفقت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے۔ کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کو تو علم تھا کہ وہ دشمن تھا۔ اور خدا تعالیٰ اپنے دشمنوں کیلئے اور دوسرے مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا کو پسند نہیں فرماتا۔ اس کے باوجود انتظار فرمایا یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام اپنا وعدہ پورا کرچکے۔ جب وعدہ پورا کرلیا تو پھر کہا کہ وہ تو دشمن تھا۔ یہ ہے سارا مضمون جو میں تفصیل سے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ اس بحث کا پس منظر معلوم ہوجائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دعا کے تعلق میں باپ کے حوالے سے ذکر کرتا ہے۔ اور آذر کا نام بطور باپ کے معین طور پر بیان فرمایا گیا ہے۔ یہ بات یاد رکھئے۔
بائیبل میں جو کل میں نے حوالہ آپ کے سامنے رکھا تھا۔ اس میں آذر کی بجائے تارح نام بتایا گیا کہ آپ کے باپ کا نام تارح تھا اور تارح کے اس ذکر کے ساتھ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شادی اپنی ہی سوتیلی بہن سے ہوئی یعنی باپ کیطرف سے وہ تارح کی بیٹی تھی۔ لیکن ماں کی طرف سے دوسری ماں کی بیٹی تھی۔ یہ ہے سارا الجھائو جس کو دور کرنے کیلئے میں نے مختلف باتیں آپ کے سامنے رکھی تھیں۔ مفسرین کا تو یہی رجحان ہے کہ بائیبل کا جو تارح والا بیاں ہے۔ وہ درست ہے اور ابراہیم تارح کے ہی بیٹے تھے۔ اور حضرت سارا کے متعلق یہ اندازے پیش کئے جاتے ہیں کہ وہ ماموں کی بیٹی تھیں لیکن یا صرف کزن کہہ دیا جاتا ہے۔ مگر اس کیلئے کوئی قطعی شہادت پیش نہیں کی جاتی۔ جہاں تک بائیبل کا تعلق ہے۔ یہ کہہ کر خاموش ہوجاتی ہے کہ وہ اُن کی دوسری والدہ سے بہن تھیں۔ اور باپ کی طرف سے ایک تھی۔ اب اس کا حل کیا ممکن ہے؟ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تفسیر کبیر میں بھی میں نے مختلف جگہوں سے یہ ذکر دیکھا ہے۔ حضرت مصلح موعود بعض جگہ ایک امکان پیش کرتے ہیں۔ بعض جگہ دوسرا امکان پیش کرتے ہیں۔ لیکن طرز سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری تسلی نہیں ہوئی اور رحجان آخر یہی ہے کہ تارح ہی نام تھا۔ جس کا بگڑا ہوا عربی نام آذر بنا۔ اور اس میں مشکل یہ درپیش ہے کہ آذر کا تارح کے بھائیوں میں کوئی ذکر نہیں ملتا اور تارح کا ذکر ہے اور اس کے بعد نہ بہن بھائیوں کا کہیں اس حوالہ میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اس لئے ہمارے مفسرین کیلئے یہ دقت پیش آئی کہ اور کسی کو تلاش کریں۔ ایک حل یہ بھی پیش کیا گیا۔ حضرت مصلح موعود کی طرف سے کہ باپ تارح ہی ہوگا لیکن بچپن میں فوت ہوگیا ہوگا اور بطور یتیم کے آذر نے آپ کی پرورش کی ہوگی۔ اس لئے اس کو باپ کہنا دوہرے رنگ میں جائز ہے۔ ایک تو چچا کو باپ کہہ دیا جاتا ہے۔ دوسرے اگر اس کے گھر میں پرورش ہوئی تو پھر وہ باپ کہلا سکتا ہے۔
لیکن بائبل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تارح زندہ رہا ہے بہت بعد تک۔ یہاں تک کہ پہلی ہجرت میں جو اُور سے کی گئی ’’تارح‘‘ ساتھ تھا۔ اس لئے یہ بات تو پھر ٹکرا رہی ہے بائیبل سے۔ اگر بائیبل سے تصادم دور کرنے کیلئے ہی یہ عذر تلاش کیا جائے تو ایک اور جگہ تصادم ہوجائے گا۔ تصادم سے تو بچ نہیں سکتے۔ اس لئے میں نے جو نظریہ پیش کیاتھا۔ میں ابھی بھی اس پر بڑی شدت سے قائم ہوں اور میرے دل میں کامل یقین ہے کہ قرآن نے جو بات بیان فرمائی ہے۔ بعینہٖ اُسی طرح درست ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آذر تھا۔ تارح نہیں تھا اور تارح کے اور بھی بہت سے بھائی تھے۔ وہ بھائی جو تھے ان میں آذر بھی ایک بھائی تھا۔ اسکا ثبوت کیااور بھائی تھے؟ وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ تارح کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جانا تو ثابت ہے ۔ آذر کا ساتھ جانا ثابت نہیں۔ اور جہاں تک آذر نام کا تعلق ہے خود Sale یہ تسلیم کرتا ہے کہ ایک نام آذر کا بھی ملتا ہے۔ جو ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے طورپر اور ایک مشہور مؤرخ جو مؤرخین میں سے بہت ہی قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ اس کا نام Jose Phus ہے یا Eusebius کہتے ہیں لیکن Jose Phus نام بھی اسی کانام ہے The father of ecciesiatical history Eusbius gives
"Athar" as the name of Abrahams father. (Sale)
کہتا ہے کہ تارح کی بجائے Ecclesiatical History اس کا وہ سب سے بڑا جد امجد سمجھا جاتا ہے مورخین میں۔ Sale اس کے حوالے سے لکھتا ہے کہ :۔
"Gives Ather as the name of Abrahams father''
* جو زیفنس یہودی مورخ ہے قریباً حضرت مسیحؑ کا ہم عصر۔ یو سیبیس عیسائی مورخ ہے چوتھی صدی عیسوی کا )۔۔۔۔۔
جو کہ آذر کے بالکل مشابہہ ہے۔ اس پر میں مزید تحقیق کروا رہا ہوں۔ اصل مل جائے۔ یہ حوالہ ہم نے لیا ہے ملک غلام فرید صاحب کی یہ جو Commentary نوٹس "Commentated Quran Kareem,, ہے۔
گویا تفصیلی تو نہیں لیکن نوٹ بڑے اچھے ہیں۔ ان میں یہ ذکر ملا ہے۔ جو میں نے تلاش کرایا۔ ابھی تک مجھے Sale کا اصل حوالہ نہیں ملا۔ لیکن میں انشاء اللہ Sale کا بھی اصل حوالہ دیکھوں گا۔ اور اس کتاب میں سے History کا جو اصل جہاں ذکر موجود ہے۔ وہ پڑھ کے پھر انشاء اللہ آپ کے سامنے دوبارہ رکھ دوں گا بات۔ ایک بات تو بہرحال قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ مستشرقین جو قرآن پر اعتراض کرتے ہیں۔ خود انہوں نے ہی مسلمانوں کی مدد کردی ہے۔ یہ حوالہ تلاش کرکے اور قرآن کا بیان آذر والا سچا ثابت ہوتا ہے۔ پس کیا وجہ ہے کہ اسے ہم تبدیل کریں اور اسے چچا کے حکم میں شمار کریں۔ اس طرح دونوں مسائل حل ہوجاتے ہیں ، حضرت سارہ کیلئے الگ باپ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ تارح کی بیٹی بنی رہے اور پھر تارح کا آپ کے ساتھ سفر کرنا۔ اپنی بیٹی کی نسبت سے زیادہ معقول دکھائی دیتا ہے اور آذر چونکہ حد سے زیادہ دشمن تھا۔ اس لئے اس نے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ آپ کے ساتھ سفر کرے۔ یا اس وقت تک مرچکا ہوگا۔ مگرجب دعا کی گئی ہے اس وقت تارح زندہ تھا اور آذر مرچکا تھا۔ یہ بات قطعی طور پر یاد رکھیے۔ اب دیکھیں کہ تارح کی عمر کتنی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جب پیدا ہوئے اُن کی عمر کتنی تھی اور اُن کے دادا کی عمر کتنی تھی۔ بائیبل سے یہ حوالے اب میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تارح کی پیدائش کے وقت نحور کی عمر ۲۹ سال تھی۔ نحور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دادا کا نام ہے اور بھائی کا نام بھی ہے وہاں یہ نام کثرت سے آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ آج کل بھی رواج ہے۔ دادا کے نام پر پوتے کا نام رکھ دیا جاتا ہے۔ تو بائیبل کہتی ہے کہ نحور کی عمر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کی پیدائش کے وقت 29 سال تھی۔ گویا نحور کی کل عمر اس حساب سے ایک سو اڑتالیس سال بنتی ہے۔
یاد رکھیں ہم نے حساب بائیبل سے کرلیا ہے۔ نحور کی عمر ایک سو اڑتالیس سال ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کی پیدائش کے وقت انتیس سال تھی۔ یعنی تارح کی عمر ستر سال تھی جب ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے واضح ہوگئی بات تارح ستر سال کا تھا جب ابراہیم پیداہوئے ہیں۔ ان کے قول کے مطابق اور ابراہیم کے پیدا ہونے کے اٹھتر سال بعد دادا فوت ہوتا ہے۔ جب ہجرت کرچکے ہیں۔ پچھتر سال کی عمر میں آپ نے ہجرت کرلی تھی۔ تو چھوڑ چھاڑ کے چلے گئے تھے۔ ابھی دادا زندہ تھا۔ اس وقت ان کے دادا اگر ’’تارح کے باپ کی بات میں کررہا ہوں‘‘ اگر تارح کے بیٹے نہیںبھی تھے۔ کسی اور کے ہی بیٹے تھے۔ تارح کے بھائی کے بھی تھے تو دادا بہرحال بائیبل کے بیان کے مطابق ایک سو اڑتالیس سال کی عمر میں فوت ہوا۔ اور وہ ہجرت کے بعد تک زندہ رہا۔ یہ حوالہ ہے پیدائش باب نمبر 11 آیت نمبر 22 تا 32۔
اب سنیئے ایک اور روایت جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ بائیبل میں کتنے Confusions ہیں۔ اورکتنا زیادہ الجھائو ہے بعض بیانات میں۔ اور بہت سے نام محض عموماً ذکر میں ملتے ہیں۔ تفصیل سے نہیں ملتے۔ اس لئے یہ سمجھ لینا کہ تارح ایک ہی تھا۔ اور اس کے بھائی بند فوت ہوچکے تھے یہ درست نہیں ہے۔ اس کے متعلق غورسے سنیئے حوالہ کہ تارح کے اور بہن بھائی کتنے تھے؟ اور ا نکی کیا کیفیت تھی؟ بائیبل میں لکھا ہے اور سروج تیس برس کا تھا جب اس سے نحور پیدا ہوا۔ اور نحور کی پیدائش کے سروج دوسو برس اور جیتا رہا۔ اب پڑدادا بھی زندہ بنتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑدادا بھی ہجرت تک زندہ بنتے ہیں۔ اتنی لمبی لمبی عمریں بائیبل میںبیان کردہ ۔سروج تیس برس کا تھا جب نحور پیدا ہوا۔ اور نحور انتیس برس کا تھا جب تارح پیدا ہوا۔ تو اگر تارح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ ہیں تو Fifty nine برس کا تھا پڑدادا اور دادا انتیس برس کا تھا۔ سمجھ گئے ہیں؟ Just a minute میں دوبارہ بتاتا ہوں۔
ابراہیم علیہ السلام تو بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی عمر تو ستر سال کی تھی۔ میں آپ کو تارح کے متعلق بتانے لگا ہوں۔ نحور کی عمر ایک سو اڑتالیس بنتی ہے۔ جو تارح کا باپ بتایا گیا۔ ٹھیک ہے؟ اور نحور کے باپ کا نام سروج تھا جو تارح کا دادا تھا۔ یہ بات واضح ہوگئی۔ اب دوبارہ چلتے ہیں اس اعداد و شمار میں۔ سروج تیس برس کا تھا جب اس سے نحور پیدا ہوا۔نحور کی پیدائش کے بعد سروج دو سو برس اور جیتا رہا۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام کے پڑدادا کی بات ہورہی ہے۔ سروج حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پڑدادا تھا۔ نحور دادا تھا۔ جب دادا پیدا ہوئے تو سروج تیس برس کا تھا اور اس کے بعددو سو سال مزید زندہ رہا۔ تو اب نحور کی عمر کے ساتھ ہم اس کو ملا لیں۔ دو سو سال کو تو پتہ چلا کہ نحور اگر ایک سو اڑتالیس ہی زندہ رہا جیسا کہ لکھا ہے تو اس کے Fifty two سال ’’باون سال بعد‘‘ تک نحور کا باپ بھی زندہ رہا۔یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دادا بالآخر ایک سو اڑتالیس سال کی عمر کو پہنچ کے فوت ہوتے ہیں تو اس کے بعد مزید باون سال تک آپ کے پردادا زندہ رہتے ہیں۔ یہ بائیبل کے بیانات ہیں جن کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے۔ دو سو انتیس سال کا دادا ساتھ پھر رہا ہے۔ اس زمانے میں۔ اور یہ ابھی تعجب کی بات نہیں۔ آٹھ آٹھ سو سال عمریں ہزار ہزار سال کی عمریں بھی بائیبل میں لکھی ہوئی ہیں ۔ اگر ان سب باتوں کو مان جائیں تو ایک جگہ میں نے حساب کرکے دیکھا تھا کہ حضرت نوح کے زمانہ میں بڑے پرانے انبیاء سب زندہ موجود نظر آتے ہیں۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت نوح زندہ ہیں۔ جب ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ۔دادا پہ کیا تعجب کرتے ہیں آپ؟ جب نوح کی عمر پہ آئیں گے تو آپ حیران ہونگے یہ پڑدادا صاحب ہی نہیں بلکہ حضرت نوح بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد زندہ رہتے ہیں اور بچپن سال بعد تک زندہ رہتے ہیں یا پچاس سال بعد تک (تھوڑا سا روایات کا اختلاف ہے) یہ بائیبل ہے جس پر اتنا اعتماد کیا جارہا ہے کہ قرآن کریم کے مضمون کیلئے تاویلیں ڈھونڈی جارہی ہیں۔ اس کی کوئی عقلی گنجائش نہیں۔ اب آگے Confusion دیکھیں کتنا ہے۔ نحور انتیس برس کا تھا جب اس سے تارح پیدا ہوا اور تار ح کی پیدائش کے بعد نحور ایک سو انیس برس اور جیتا رہا اور اس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ تارح کی پیدائش کے بعد ایک سو انیس برس تک یہ زندہ رہا۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس وقت پیدا ہوئے جب تارح ستر برس کا تھا۔ اب دیکھنا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد اور بھی بچے پیدا ہوتے رہے ہیں اور پہلے بھی مسلسل ہوتے رہے ہیں تو ان کو صرف تارح تک محدود کرلینا بالکل بائیبل کی اپنی گواہی کے خلاف ہے۔ تارح کی پیدائش کے بعد ایک سو انیس برس تک مسلسل ان کے والد کے اولاد ہوتی رہی ہے اور بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی۔ اس لئے خواہ مخواہ یہ جھگڑا شروع کردینا کہ آذر کا نام ملتا ہے کہ نہیں ملتا۔ آذر کا اگر نام ملتا ہے تو باپ کے طور پر ملتا ہے بائیبل میں۔ اور تارح والی روایت کو وہ روایت جھٹلا رہی ہے اس لئے ہر گز بعید نہیں کہ تارح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خُسر باپ ہوں اور حضرت سارہ کے والد ہوں۔ ان کے متعلق اس شدت سے بُت پرستی کی حمایت نظر نہیں آتی۔ لیکن آذر نام کے ساتھ بڑی شدت کے ساتھ بُت پرستی کی حمایت نظر آتی ہے اور اس کا پتہ چلتا ہے اس کی اپنی بتو ںکی دکان بھی تھی۔ تو ابراہیم علیہ السلام کو اگر قرآن آذر کا بیٹا قرار دیتا ہے توکوئی عقلی وجہ اس بات کی نظر نہیں مجھے آتی کہ اس آیت کی تاویل کرکے تارح کو باپ بنایا جائے یا کوئی اور باپ ڈھونڈا جائے۔ اور آذر کافی دیر تک زندہ رہا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کیلئے دعا ہوئی ہے اور تارح اس کے بعد پھر زندہ رہا۔ اور تارح کے مرنے کے بعد اس کا دادا بھی زندہ رہا۔ یہ ہے سارا خلاصہ بائیبل کا اور یہ تارح کا نسب نامہ ہے۔ تارح سے ابرام اور نحور اور ہرام پیدا ہوئے۔ اور ہرام سے لوط پیدا ہوا۔ اب انہوں نے باقی سب بچوں کا ذکر چھوڑ دیا۔ حالانکہ دوسری جگہ میں نے بتایا ہے ۔ پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ بڑی کثرت سے اور بچے تھے۔ اس لئے نام اگر تفصیل سے نہ بھی لیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
Sale کا حوالہ ہماری جو Research team کی بچیاں ہیں انہوں نے ڈھونڈ لیا ہے۔ ماشاء اللہ ۔ صوفیہ صفی لکھ رہی ہیں کہ:۔
Abrahams fath is also called "Zarah" in the Talmud. And Ather by eusebius. (Page 136 Sale)
تو Sale نے دو نام بتائے ہیں ایک Atherجو آذر سے ملتا ہے اور ایک Zarah اس لئے شاید تارح کا شبہ پڑا ہے۔ ’’ذر‘‘ نام بیچ میں پایا جات ہے اور اس کا ایک Pronunciation Zarah Azar کی بجائے Zarea بھی بیان ہوا ہے۔ تو تارح سے Zarear اتنا قریب ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے پھر خود بائیبل لکھنے والوں کو دھوکہ لگ گیا۔ اور انہوں نے تارح نام کے حوالہ سے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تین ذکر ملتے ہیں جو مستشرقین کو بھی تسلیم ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اس بحث پہ۔ شیعہ مفسرین کے میں کچھ حوالے پہلے پیش کرچکا ہوں۔وہ یہ ثابت کرنے کی پرزور کوشش کررہے ہیں۔ وہ آیت قرآنی جس میں کھلم کھلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو اہل بیت قرار دیا گیا ہے۔ ان کو وہاں سے نکال دیں کسی طرح۔آیت سے نہیں نکلتے تو اور بہانے تلاش کریں اور یہ ثابت کریں کہ اہل بیت میں سے آپ نہیں تھے۔کچھ روایات دُرِ منثور کی میں نے آپ کے سامنے رکھیں۔ اُن کا سہارا لے کر گویا خود حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کے اقرار نامے کو پیش کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں۔ہم اہل بیت میں سے نہیں ہیں۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شمار نہیں کیا۔ اور وہ چادر کی فرضی روایت ہے۔ اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور جوش میں ایک سے زیادہ روایتیں بنا بیٹھے ہیں اور جب جوش میں آکر زیادہ روایتیں بنا بیٹھے تو اُن کا تضاد ہوگیا۔ اور جب تضاد ہوگیا تو بغیر تضاد کے بھی قرآن سے کوئی روایت نہیں ٹکرا سکتی۔ تضاد والی روایت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسلمہ اصول ہے تمام اہل اللہ کا۔ تمام سچے‘ صادق مفسرین کا کہ قرآن سے اگر کوئی حدیث ٹکراتی ہے۔ خواہ کتنی بڑی اس کی سند ہو۔ یا تو اس کا معقول حل پیش کرو۔ جس سے ثابت کرسکو کہ یہ ٹکراتی نہیں ہے۔ ورنہ پھر اس حدیث کو چھوڑ دو۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ پس ٹکراتی بھی وہ حدیثیں ہیں جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لئے اس کو مزید قابل توجہ سمجھنا ہی بالکل لغو بے معنی بات ہے۔ دوسرے انہوں نے سہارے ڈھونڈے ہیں۔ ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روایات کے تعلق میں کہ قرآن کریم نے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ حضرت سارہ کو اہل بیت قرار دیا۔ اس پر میںبات ختم کرچکا ہوں۔ اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے۔ کسی کو طاقت نہیں ہے کہ وہاں سے حضرت سارہ کو اہل بیت کہتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کے طور پر اہل بیت نہ مانیں۔ اس سے سوا اور کوئی معنے بنتے ہی نہیں۔ تارح کی بحث اس لئے چلی تھی۔ اب میں دوبارہ یاد دہانی کرادوں کہ وہاں سے اتنے سارے حوالے کے انحراف کیلئے۔ ان کو بہت سی بنیادی باتوں سے انحراف کرنا پڑا۔ اول یہ کہ حضرت سارہ کو اہل بیت قرار دیتے ہیں۔ تارح کی برکت سے نہ کہ ابراہیم علیہ السلام کی برکت سے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے وہ اتنی عزت پا گئی ہو۔ وہ تو خاندان بڑا معزز تھا۔ آذر کا خاندان‘ تارح کا خاندان۔ اس کی بیٹی تھی اس لئے اہل بیت ہے‘ اور پھر آگے اتر گئے کہ ابراہیم کو بیچ میں سے چھوڑ دیا۔ چھلانگ لگا کے اگلی نسل میں چلے گئے۔ توپھردیکھو اسحاق کی ماں وہ تھی۔ تو حضرت ہاجرہ کا کیا قصور تھا۔ وہ کیوں اہل بیت نہ بنی۔ وہ آذر کی اولاد تو نہیں تھیں۔ الحمد اللہ۔ نہ تارح کی اولاد تھیں مگر وہ اسماعیل علیہ السلام کی ما ںتھیں کہ نہیں۔ انہیں کیوں چھوڑ دیا خدا نے پھر۔ اہل بیت اگر اولاد سے بنتے ہیں تو پھر حضرت ہاجرہ کا بھی تو حق تھا اور سب سے زیادہ حق تھا۔ کیونکہ اس اولاد سے انسانیت کا مقصود پیدا ہونا تھا۔ جس کی خاطر کائنات کو پیدا کیا گیا۔ وہ آخری پھل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہاجرہ کی اولاد سے پیدا ہونا تھا۔ پھر بھی وہ ام المومنین نہ بن سکیں۔ اور ابراہیم علیہ السلام کی برکت سے تو سوال ہی نہیں کہ کوئی ام المومنین بن سکے۔ نبی کی برکت کیا ہوتی ہے۔ نبی کی ! بیٹے کی ہوسکتی ہے۔ اگر اس اصول کو تسلیم کیا جائے تو پھر تمام انبیاء کی مائوں کو اہل بیت ماننا پڑے گا۔ اور اس میں پھر آگے مضمون میں کئی قسم کی الجھنیں بھی پیدا ہونگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں اور پھر حضرت نوح بھی ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا تو خیر خراب ہوگیا۔ (اولاد کی خرابی کا تو کوئی ذکر نہیں) لیکن اُن کی ماں کو پھر اہل بیت ماننا پڑے گا۔ اور اس کے رستے میں کچھ دقتیں پیدا ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نے ان کی مثال اچھی نہیں دی۔ اسی طرح اور بھی ایسی دقتیں ہیں اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ اصول بنیادی طور پر ویسے بھی رد کے لائق ہے کہ مائوں کے حوالے سے اہل بیت بنتے ہیں* اہل بیت ہوتے ہیں وہ جو اس گھر کی مالکہ ہو۔ جس گھر میں کوئی مالک بستا ہے۔ خاوند ہے اس کے حوالے سے اہل بیت بنتے ہیں۔ یا پھر اس کی اولاد ‘ اہل بیت بنتی ہے۔ بیٹوں کے حوالے سے تو سراسر شرارۃً اور عناد کے طور پر حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت صفیہ وغیرہ وغیرہ ان کو اہل بیت کی فہرست سے نکالنے کی خاطر ایک بہانہ بنایا گیا کہ کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بحث گذر چکی ہے۔ مزید اس پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ان کے سامنے ایک دقت بھی آکھڑی ہوئی۔انہوں نے آخری نتیجہ یہ نکالنے کی کوشش کی کہ خونی رشتہ تو بہرحال ضروری ہے۔ اگر ساتھ ایمانی رشتہ ہوجائے تو پھر اہل بیت بن سکتا ہے۔ لیکن خونی رشتے میں چونکہ بیویاں شامل نہیں اس لئے وی بیویاں اس فہرست سے نکل جائیں گی۔ اور خونی رشتے میں وہی بیویاں شامل ہونگی۔ اگرشامل ہوں۔ جن کا باپ کی طرف سے خونی رشتہ ثابت ہو۔ یہ تمام کہانی انہوں نے بنالی اب تک۔ آگے ایک اور دقت آکھڑی ہوئی۔ حضرت سلمان فارسی کی بحث۔ حضرت سلمان فارسی کو جنگ خندق کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف بلایا۔ اور اہل بیت میں کھڑا کردیا۔ اور فرمایا ! سلمان منا اھل البیت‘‘ سلمان ہمارا ہے اہل بیت ہے۔ اب شیعوں نے اس روایت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ سو فیصدی متفق ہیں کہ یہ بات درست ہے اور مصیبت میں پڑ گئے کہ ہم تو کہتے تھے کہ روحانی رشتہ کافی نہیں۔ خونی رشتہ ضروری ہے۔ سلمانؓ بیچ میں کہاں سے آگئے۔ وہ کیسے اہل بیت بن گئے۔اگر وہ ثابت ہوجائے تو پھر ازواج والی بحث ختم ہوجاتی ہے کلیۃً۔اب اس پر ان کو جو مصیبت ہے۔ اس کا میں بتاتا ہوں کہ
( * نہ اولاد کے حوالے سے اہل بیت بنتے ہیں)
کس کس طریقہ سے انہوں نے بچنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے تو میں تفسیر صافی سے یہ حوالہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ کاشانی کی کتاب ہے الصافی تفسیر القرآن جلد اول صفحہ ۸۹۰ عیاشی کی روایت ہے۔ اور ترجمہ اس کا یہ ہے۔ عیاشی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے۔ شیعہ تاریخ یہ ہے کہ اگر کسی امام تک روایت کو پہنچا دیں تو اس کو مرفوع سمجھتے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ آگے امام کا مرتبہ اتنا بلند ہے۔ اسے یہ ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ میں نے کس سے سُنا۔ اور اس نے کس سے سُنا۔ امام تک بات پہنچا دو۔ خواہ وہ دو سو سال بعد پیدا ہوا ہو۔ اس کی روایت ویسی سمجھی جائے گی جیسے کوئی روایت متصل ہوتے ہوتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچے۔ تو اس لئے امام صادق کا جب ذکر آگیا۔ وہاں روایت ختم۔ لیکن اس کی سند انتہائی قطعی اور یقینی ہوگئی۔ کہتے ہیں عیاشی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے۔ ’’آپ نے فرمایا۔ جس نے تم میں سے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی وہ ہم اہل بیت میں سے ہے۔‘‘
آئمہ بہت ہی پاکباز اور بہت ہی بزرگ وجود تھے۔ شیعوںکے عقائد جتنے مرضی بگڑ جائیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون جن نسلوں میں جاری رہا ہے۔ وہ مدتوں تک ایسا پاکیزہ جوہر دکھاتا رہا ہے کہ ان کے آئمہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے تھے۔ اُن کے متعلق جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے‘ بہت ہی پاکباز‘ متقی اور مرد صادق تھے۔ اُن کی طرف جھوٹی روایات اگر کوئی منسوب کردے تو اُن کا قصور نہیں۔ ایسی روایتوں کی چھان بین ضروری ہے۔ اور وہ آسانی سے پہچانی جاتی ہے۔ کیونکہ دوسری قطعی روایتیں ان کو جھٹلا رہی ہیں۔ لیکن آئمہ کے متعلق یہ وہم بھی نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کسی قسم کی نفسانی خواہشات کے پیش نظر اپنے مؤقف کی تائید میں کوئی بات گھڑ سکتے تھے۔ تقویٰ سے مرد میدان بن کر مخالفانہ جب مؤقف کو بھی سُنا اگر وہ درست تھا تو اُسے قبول کیا ہے۔ اور قطعاً پرواہ نہیں کہ کہ ان کے مرید اس سے کیا نتیجہ نکالیں گے۔ یہاں حضرت امام باقر کے متعلق روایت ہے یا امام جعفر صادق کے متعلق۔ آپ نے فرمایا !
’’جس نے تم میں سے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی۔ وہ ہم اھل بیت میں سے ہے۔ کہا گیا کہ آپ اھل بیت میں سے؟ فرمایا ! ہاں ہم اہل بیت میں سے۔‘‘
امام باقر سے مروی ہے ’’کہ جس نے ہم سے محبت کی۔ وہ اہل بیت میں سے ہے کہا گیا آپ میں سے؟ فرمایا ہاں ہم میں سے۔ خدا کی قسم کیا تم نے قول ابراہیم نہیں سُنا کہ ’’ جس نے میری اتباع کی وہ مجھ سے ہے۔‘‘
اور حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے ’’کہ جس نے میری نافرمانی کی تو توُ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یہ روایت ہے آئمہ کا مسلک کہ اہل بیت کیلئے کسی خونی رشتے کی ضرورت نہیں۔تقویٰ کا رشتہ سب سے اہم ہے۔ اور جو متقی ہو اور نیک لوگوں سے تعلق رکھنے والا ہو۔ اس کا شمار اہل بیت میں ہوگا۔
تفسیر مجمع البیان شیعہ تفسیر میں لکھا ہے۔
’’ان المراد بقولہ ’’لیس من اھلک ‘‘ ای انہ لیس علیٰ دینک‘‘
کہتے ہیں کہ جس طرح حضرت نوح کے بیٹے کے متعلق جب یہ فرمایا گیا کہ ’’لیس من اھلک‘‘ سے صرف اتنی مراد ہے کہ تیرے دین پر نہیں ہے‘‘ وہ تو حضرت نوح کو بھی پتہ تھا میرے دین پر نہیں ہے۔ جھگڑا تو تھا ہی اہل بیت کا۔ وعدہ تو اہل بیت کی حفاظت کا تھا۔ اس تعلق سے حضرت نوح کو یہ خیال تھا کہ اس میںدینی اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دو وعدے ہیں۔ ایک وہ جو نوح کے ساتھ ہیں اور آپ کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لازماً بچائے جانا تھا۔ وہ سب کشتی میں تھے ایک وعدہ تھا اور وہ بلا استثناء پورا ہوا۔ ایک وعدہ تھا کہ تیرے اہل کو میں بچائوں گا اس لئے حضرت نوح کے وہم میں تو کوئی شائبہ بھی اس بات کا نہیں تھا کہ دین والے تو بچانے ہی جانے ہیں۔ دین سے باہر ہوتے ہوئے بھی ان کو خیال تھاکہ اہل کے اندر میری اولاد آسکتی ہے تو بحث دین کی ہے ہی نہیں۔ بحث اہل کی ہے یہاں۔ یہ کہتے ہیں کہ نہیں انہ لیس من اھلک سے مراد ہے کہ حضرت نوح کو یہ بتایا گیا کہ وہ تیرے دین پر نہیں ہے۔ ان کو پتہ ہی نہیں ہے۔ وہ چھوڑ کے باہر بیٹھا ہوا۔ دوڑے پھرتا تھا۔ حضرت نوح کو نہیں پتہ لگا کہ وہ میرے دین پر نہیں ہے۔ یہ شیعوں کو پتہ چل گیا کہ خدا نے یہ کہا تھا۔ لغوبات ہے بالکل اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ وہاں جچتی ہی نہیں یہ بات۔ لیکن بہرحال یہ کہتے ہیں۔
انہ لیس علی دینک فکان کفرہ اخرجہ ان یکون لہ احکام اھلہ عن جماعۃ من المفسرین و ھذا کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم
’’سلمان منا اھل اللبیت ‘‘ اب یہاں آکے بات درست کی ہے۔ کہتے ہیں دراصل سلمان کو بھی جو اہل بیت قرار دیا گیا ہے۔ وہ دینی رشتے کے لحاظ سے قرار دیا گیا ہے۔ آپ اہل بیت میں سے نہیں ہیں آپ یہ یاد رکھیے یہ بات۔ آگے میںبتاتا ہوں۔
مجمع البیان جلد نمبر ۱۲ صفحہ ۱۷۰ ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ شیعہ تفسیر منھج الصادقین کے مصنف فتح اللہ کا سانی لکھتے ہیں۔
’’مراد بقولہ انہ لیس من اھلک۔ انہ لیس علی دینک اس سے زیادہ اس کی کوئی مراد نہیں۔
کہ یہ مراد ہے یعنی حضرت نوح کے حوالے سے کہتے ہیں۔ انہ لیس من اھلک انہ لیس علی دینک ۔ کہ تیرے دین پر نہیں ہے بس۔
’’ایں کفر او را بیرون کردد۔۔۔ ۔ زود ازآں کہ احکام اھل تو برو جاری شود و این قول جمیع المفسران است‘‘
وھذا کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ! سلمان منا اھل البیت ۔ ای علی دینا۔ صرف اتنا مطلب ہے کہ ہمارے دین پر ہے۔ اب سنیئے اگلی روایت۔
’’حدثنا مصعب ابن عبداللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ ۔ اس کی تفصیل کیا ہے اس کا پس منظر کیا ہے؟ سیرت ابن ہشام نے اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہتے ہیںکہ جنگ خندق کے موقعہ پر مہاجرین نے کہا ’’سلمان منا‘‘ اور انصار نے کہا کہ ’’سلمان منا‘‘۔
حضرت سلمان فارسی قومی لحاظ سے نہ مہاجرین میں شمارہوسکتے تھے اور نہ انصار میں شمار ہوسکتے تھے۔ عرب تھے ہی نہیں فارس کے رہنے والے تھے۔وہاں سے ہجرت کرکے آئے تھے تو کس کے ساتھ کھڑا کیا ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پارٹیاں تقسیم فرمادیں۔ انصار ایک طرف کردئیے مہاجرین ایک طرف کردئیے اور اپنے خاندان کے افراد کو ایک طرف کھڑا کردیا۔ اس وقت کیا جھگڑا ہوا۔ سب نے اپنی طرف بلانے کی کوشش کی۔ مہاجرین نے کہا کہ سلمان تو ہمارا ہے۔ ہمارے ساتھ آجائے۔ انصار نے کہا سلمان ہمارا ہے ہمارے ساتھ آجائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قول کے مطابق کیا فرمایا ! ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ یعنی سلمان ہمارا ہمارے دین پر ہے تمہارے دین پر نہیں۔ نہ انصار کے دین پر نہ مہاجرین کے دین پر صرف ہمارے دین پر۔اس سے زیادہ احمقانہ تشریح کوئی سوچی جاسکتی ہے؟ بتائیے ؟ کہاں کا موقعہ اور کہاں کی بات ان کو سوجھی ہے۔ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھتی ہے ان کو اس سے بھی پرے کی سوجھی ہے ’’دو قدم آگے! موقعہ یہ ہے کہ انصار کہتے ہیں ہمارا ہے۔ مہاجرین کہتے ہیں ہمارا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں ہمارا ہے اہل بیت میں سے ہے۔ اور شیعہ کہتے ہیں مراد صرف دین ہے کہ جھگڑا سارا دین کا تھا۔ مہاجرین کے دین پر یا انصار کے دین پر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔ یہ نتیجہ نکلا اس بحث کا۔ اور آگے چلئے سید محمدباقر مجلسی صاحب آخر حق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اسی لئے کہ شیعہ ائمہ بہت صادق القول ہیں۔ بہت متقی بزرگ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسائل الدرجات میں فضل بن عیسیٰ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد یعنی عیسیٰ اور فضل دونوں فضل کے والد عیسیٰ تھے۔ حضرت صادقؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میرے پیر بزرگوار نے عرض کی کہ کیا یہ صحیح ہے کہ جناب رسول خدا تعالیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ حضرت نے فرمایا ! ہاں۔ میرے والد صاحب نے کہا کیا وہ عبدالمطلب کی اولاد سے ہیں؟ وہی جو ذہن میں کھٹکا سا تھا اس کو دور کرنے کے لئے توجہ دلائی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔کیا اہل بیت سے یہ مراد ہے۔ حضرت نے فرمایا ! وہ اہل بیت میں سے ہیں۔ بس اتنا ہی کہوں گا ۔ اس کے اعتراض کو قطعاً نظر انداز کردیا۔ میرے والد نے عرض کی۔ کیا ابو طالب کی اولاد سے ہیں۔ حضرت نے فرمایا ! وہ اہل بیت میں سے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں ’’تقویٰ‘‘ کیسے بڑے بڑے بزرگ تھے ان کے آئمہ‘‘ اور ا ن موجودہ مولویوں نے کیا بدبختی اختیار کرلی ہے۔ حضرت نے فرمایا وہ اہل بیت میں سے ہیں۔ میرے پدر نے عرض کی۔ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا ! پھر یہ سمجھ لو کہ وہ ہم اہل بیت میں سے ہیں اس سے زیادہ نہیں حیاۃ القلوب از علامہ سید محمد باقر مجلسی جلد دوئم صہ ۹۵۴ ناشر امامیہ کتب خانہ لاہور۔
اس سے سارا مضمون کھل جاتا ہے۔ قطعی طور پر قرآنی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت کے لئے یہ شرط لازم نہیں کہ خونی رشتہ ہو اور صلب سے کوئی ہو۔ دو باتیں ہیں جو ان کو مجبوراً ماننی پڑرہی ہیں صلب سے ۔ اس لئے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اور بعد میں آپ کی نسل کو شامل کرلیں۔ خونی رشتہ اس لئے کہ حضرت علیؓ کو شامل کرنا لازم ہے۔ ورنہ داماد کے طور پر خالی نہیں ہوسکیں گے اور اس کے علاوہ بعض جن پر صدقہ حرام والی اصطلاح ہے۔ اس میں حضرت عقیل اور عباس وغیرہ سب کو شامل کرنا پڑتا ہے۔ تو اس میں خونی رشتہ آگیا۔ پھر دین کی شرط ہوگئی کہ دین پر ہونا بھی ضروری ہے۔یہ دونوں تصورات ایک طرف اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ کو خدا تعالیٰ کے فرشتوں کا اہل بیت کے طور پر مخاطب کرنا دوسری طرف۔ ثابت ہوا کہ زوجہ نبی اہل بیت ہوسکتی ہے۔ لیکن خونی رشتے کی بحث ابھی بھی انہوں نے اٹھا دی۔ کہ خونی رشتہ تھا۔ ا ب آیت زیر نظر پر آجاتے ہیں وہاں ازواج النبی ؐ کا ذکر چل رہا ہے۔ اس سے کھلا ازواج نبیؐ کا ذکر اور کہیں تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ ساری بات ان کی ہورہی ہے۔ ان کو نصیحت کی جارہی ہے۔ ان کی پاکی کی باتیں ہورہی ہیں۔ تم یہ کرو تو خدا کے ہاں مرتبے پائو گی۔ دوہرے اجر حاصل کروگی اور پھر وعدہ ہے کہ ہم تمہاری مدد کریں گے اور کسی تیسرے کا ذکر بھی کوئی نہیں۔ تو خونی رشتے کی شرط یہ ہوئی ساتھ۔ اور نبی کی پاک صحبت اور دینی تعلق کی شرط قائم ہوگئی۔ اس شرط کو مزید تقویت ملی سلمان والی روایت میں۔ جو تمام شیعوںکو مسلم ہے۔ وہاں کسی خونی رشتے کا سوال ہی کوئی نہیں ۔ ہم قوم بھی نہیں تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اہل بیت قرار دے دیا۔ یعنی قطعی طور پر یہ ثابت فرمادیا کہ اہل بیت کے لئے خونی رشتہ بھی ضروری نہیں۔ باہر سے آکر بھی کوئی اگر تقویٰ اختیار کرے اور میرے دین پر میرا ہم مزاج بننے کی کوشش کرے۔ اور مجھ سے محبت رکھتا ہو۔ وہ اہل بیت میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ جو حدیث ہے اس کا تعلق اس پیش گوئی سے بھی ہے۔ جس میں آنے والے امام کو حضرت سلمان فارسیؓ کے لوگوں میں سے شمار فرمایا گیا۔ وہ ایک اور موقعہ تھا۔ جب سورۃ جمعہ نازل ہوئی ہے تو اس کی آیات کی تشریح کے سلسلہ میں لمبی بحث ہے۔ پہلے میں کئی دفعہ ذکر کرچکا ہوں۔ اشارۃً آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب تمام عرب بیٹھے ہوئے تھے پاس۔ بحث یہ تھی کہ وہ آنے والا کون ہوگا۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں مل رہا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلما ن فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا !
لوکان الایمان عندالثریا لنا لہ رجل یا بعض روایتوں میں ہے رجال من ھؤلاء ۔ ایک عظیم انسان یا بعض عظیم انسان اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ان لوگوں میں سے ہونگے۔ ان کی نسل نہیں فرمایا۔ یہ عجیب بات ہے۔
من ھؤلاء ان لوگوں میں سے ہونگے۔جو آسمان سے اُس نور کو دوبارہ کھینچ لائیں گے۔ اور بعض جگہ اہل بیت ہونا کا ذکر ملتا ہے کہ آنے والا اہل بیت میں سے ہوگا۔ تو حضرت سلمان کو اہل بیت میں داخل کرکے جبکہ کسی اور غیر رشتہ دار کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل بیت میں داخل کرنا ثابت نہیں بتاتاہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات ہر فعل انتہائی گہری روحانی فراست پر مبنی تھا۔ اور اس کو سرسری طور پر الگ الگ آپ کی باتوں کو نہیں دیکھنا چاہئے۔ آپس میں مربوط ہیں۔ ایک دوسرے سے گہرا تعلقات ہیں۔ پس سلمان ہی کو چننا اہل بیت کیلئے بتاتا ہے کہ وہ چاہے میرا رشتہ دار ہو یا نہ ہو۔ خونی تعلق یا قومی تعلق ہو یا نہ ہو۔ جس شخض کو میں کہتا ہوںکہ اہل بیت میں سے ہے۔ تو جو میرا ہے وہ اہل بیت میں سے ہوگا۔ یہ بحث اٹھانے کا تمہیں کوئی حق نہیں کہ اس کا جسمانی رشتہ کیا ہے۔ یہ مضمو ن ہے جو قطعی طور پر اس سے ثابت ہوتا ہے۔ اس سے مجھے وہ روایت یادآجاتی ہے‘ جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے پہلی دفعہ میں نے آپ کے خطبے کے دوران سُنی تھی۔ کہتے ہیں کہ روس کا ایک بادشاہ زار زَارْ Title تھا اُن کا روس کے بادشاہوں کا۔ وہ ایک دفعہ بیٹھا کسی نہایت ہی اہم کام میں مصروف تھا‘ اس نے اپنے سپاہی کو یا فوجی افسر کو یہ ہدایت دی ۔یہ سپاہی تھا فوجی افسر نہیں تھا۔ آگے روایت سے پتہ چلتا ہے‘ یہ سپاہی تھاکہ دروازے کے باہر کھڑے ہوجائو اور کسی شخص کو کسی قیمت پر اندر نہیں آنے دینا۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی دخل انداز ہو اس وقت۔ اس کا ،زار کا اپنا بیٹا آگیا ۔ شہزادہ۔ اُس نے کہا آگے سے ہٹو میں اندر جانا چاہتا ہوں۔ اُس نے کہا نہیں۔ زار کا حکم ہے کہ کسی کو اندر نہیں آنے دینا۔ اُس نے کہا۔ میں بیٹا ہوں۔ اس نے کہا مجھے کوئی استثناء کا علم نہیں۔ مجھے اتنا حکم ہے کہ کسی کو نہیں جانے دینا۔ اس نے سانٹا نکالا اور مارنا شروع کیا۔ جب مارچکا پھر اس نے پوچھا اب بتائو ؟ اس نے کہا نہیں اندر نہیں جانے دینا۔ بار بار ایسا ہوا۔ مارتے مارتے ہلکان کردیا۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ضبط کرتا رہا ہے۔ کیونکہ آخر زار تک بھی کوئی اس کی آواز جا پہنچی۔ وہ باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ یہ حال ہورہا ہے۔ اس نے پوچھا کیا بات ہے۔ کیوں مار رہے ہو اس کو۔ اُس نے کہا مجھے اندر نہیں جانے دیتا۔ بدتمیزی کررہا ہے۔ اس نے کہا کیوں نہیں اندر آنے دیتا تھا۔ کہتا تھا کہ یہ آپ کا حکم ہے۔ پھر تم کیوں اندر آنے کی کوشش کررہے تھے۔ جب میرا حکم تھا تو۔ اس کو کہا ’’سپاہی کو‘‘کہ یہی سانٹا پکڑو۔ اور میرے بیٹے کو مارو۔ اس بیچارے کے اطاعت کا غلام تھا دل تو نہیں چاہتا ہوگامگر اس نے اٹھا لیا۔ تو بیٹے نے آگے سے جواب دیا کہ سلطنت روس میں یہ پرانا قانون چلا آرہا ہے کہ کوئی سپاہی اپنے سے بلند عہدے کے آدمی پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا اور میرا یہ مرتبہ ہے اور یہ ایک عام سپاہی ہے۔ اس لئے اس قانو ن کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ زار نے کہا ٹھیک ہے یہ قانون ہے اس کا احترام ہوگا۔لیکن اس نے کہا اس کو مخاطب کرکے اس کے رینک کا جرنیل بناتے ہوئے اُسی وقت کہ اے جرنیل فلاں یہ کوڑا اٹھا اور میرے بیٹے کو مار۔ اس پر شہزادے نے کہا۔ کہ ایک اور بھی قانون ہے کہ کوئی غیر شہزادہ خواہ کتنا بڑا افسر ہو کسی شہزادے پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا ہے تو اس نے اس کو کہا۔ مخاطب کرکے کہ اے شہزادے اُٹھ‘ اُٹھا یہ کوڑا اور میرے بیٹے کو مار۔ تب اس نے کوڑے مارے۔ تو ایک زار کو ایک دنیا کے ادنیٰ بادشاہ کو تو یہ اختیار ہے کہ جسے چاہے بادشاہ بنادے۔ جس کو چاہے شاہی خاندان کا فرد بنادے۔ ان بدبختوں کے نزدیک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ حق نہیں ہے اور آپ کے ساتھ ساری زندگی کی صحبت میںبھی کوئی شہزادی نہیں بن سکتی۔حد سے زیادہ جہالت ہے۔ ساری دنیا کی زمام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں تھمائی گئی ہے اور آپ کے اس قول سے کہ ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ با اختیار تھے۔ جس کو چاہیں اھل بیت قرار دیں۔ جس کو چاہیں نہ قرار دیں۔ اور اہل بیت کیلئے شرائط کیا مقرر ہیں۔اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے جو شرائط سامنے رکھی ہیں۔ کسی طرح وہ شیعوں کی ساری دلیلوں کو پارہ پارہ کردیتی ہیں۔ فرماتا ہے!
یا یھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی و جعلنکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ط ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ان اللہ علیم خبیر O ’’الحجرات آیت نمبر۱۴‘‘
اے بنی نوع انسان ہم نے تمہیں پیدا کیا۔ ایک مرد اور ایک عورت سے۔ وجعلناکم شعوباً وقبائل۔ ہم نے تمہیں مختلف قبیلوں اور گروہوں میں تفریق کردیا۔ پھیلا دیا۔ بانٹ دیا۔ محض اس غرض سے تاکہ تم ان قبائل اور ان قوموں کے حوالے سے ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ جہاں تک عزتوں کا تعلق ہے۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ۔ یاد رکھو تم میں سے سب سے معزز وہی ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ متقی ہے۔ کسی خاندان کا تعلق کسی کو معزز نہیں بنا سکتا۔ اور کسی خاندان سے عدم تعلق اس کو ذلیل نہیں کرسکتے۔ یہ دونوں باتیں بیان ہیں۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۔ یہ قانون جاری و ساری ہے۔ ہمیشہ سے یہی رہے گا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کہ معزز وہی ہے اور سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے‘ تو جس حوالے سے عزتیں ڈھونڈ رہے ہیں وہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ ہے۔ سب سے زیادہ متقی تو خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور اس لئے نہیں ہوئے کہ وہ ابوہاشم کی اولاد تھے۔ اس لئے ہوئے کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز متقی ہونے کی وجہ سے بنے۔ ان اللہ علیم خبیرتمہیں کیا پتہ ہے ان باتو ںکا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ متقی کون ہے اور معزز کون ہے۔ تو عزتوں کے حوالے سے اگر اہل بیت کی گفتگو ہورہی ہے تو قرآن نے تو اس مضمون کو ہمیشہ کیلئے صاف کردیا ہے ‘ پاک کردیا ہے‘ یہ جھگڑا ہی چکا دیا ہے۔ امامت ہو‘ نبوت ہو جس پر مرضی آپ بات کرلیں۔ اس کا آخری فیصلہ کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کہاں سے اس نے رسالت کو ڈھونڈنا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو فضل عطا کرنا ہے۔ جسکو چاہتا ہے اپنا فضل عطا فرماتا ہے اور کوئی نہیں ہے جو اس کے ہاتھ روک سکے۔ پس یہ جھگڑے ہی نہایت جاھلانہ اور لغو اور اسلام سے قبل کی جاہلیت کے تعصبات ہیں جن کو تم لے کر اب اسلام میں آگے بڑھ رہے ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہ باتیں شروع کیوں ہوئیں۔ اب میں آپ کو مختصراً بتاتا ہوں کہ دراصل پرانے‘ ایرانی شاہی تصورات ہیں اور وراثتی تصورات ہیں جن کو اسلام میں کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور اس پہلو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا اسلام سے انتقام ہے۔ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک مسلسل ان کی شہنشاہی جاری رہی ہے۔ وہاں سے میں بتاتا ہوں۔ حضرت عمرؓ کے زمانے تک جب پے درپے ایران کو شکستیں ملی ہیں۔ تقریباً تیرہ سو سال تک مسلسل ان کی بادشاہت بغیر انقطاع کے جاری رہی ہے۔ کبھی ایک خاندان آیا کبھی دوسرا خاندان آیا مگر ان کے شاہی تسلسل میں کوئی روک نہیں پیدا ہوئی۔ اسی بات کو Neitzscueلکھتے ہوئے بیان کرتا ہے ۔ جس نے وہ مشہور کتاب اپنی لکھی "Thus Spake Zarathust" کہ مجھے ۔۔۔۔سے محبت اس لئے پیدا ہوئی کہ میں نے دیکھا کہ ایرانی تہذیب اور ایرانی شہنشاہیت سالم حالت میں جو ہمیں ملتی ہیں یہ قدیم ترین ہے۔ اس کے بعد اسلام نے ان کی حکومت کو پارہ پارہ کردیا۔ اور یہ حضرت عمرؓ کے دور میں ہواہے۔ تمام عظیم فتوحات جو ایران کے خلاف مسلمانوں کو نصیب ہوئیں ہیں یہ حضرت عمرؓ کے دور میں ہیں۔ ایسے حیرت انگیز معرکے ہوئے ہیں کہ آج تک مورخین کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ہوکیسے سکتا ہے۔
چھ چھ لاکھ کی خوب تربیت یافتہ فوج اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح نئی قسم کی ایجادات سے آراستہ اور سامنے سے صرف ساٹھ ہزار مسلمان عرب نکلتے ہیں اور فوج کے چھکے چھڑا دیتے ہیں نہ رستم کی کچھ پیش جاتی ہے اور نہ سہراب کی۔ اور بڑے بڑے سورما ان کے میدان میں آکے مارے جاتے ہیں۔ یہ جو دور ہے تاریخ کا۔ آج تک کوئی مورخ اس کا حل پیش نہیں کرسکا۔ یہ کیسے ہوا ہے اور یہ سب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا ہے۔ پس ایران کے لئے سب سے زیادہ قابل نفرت وجود آکر بن سکتا تھا تو حضرت عمرؓ بن سکتے تھے اور یہی ہواہے۔ ان کیلئے انتقام لینے کا اس کے سوا اور کوئی بہانہ نہیں تھا کہ آپ کو خلفاء کو اس لئے غاصب قرار دیا جائے کہ ایرانی تصور کے مطابق بادشاہت نسلاً بعد نسل وراثت میں منتقل ہواکرتی ہے۔ اس لئے روحانیت کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ وہ تعصبات ہیں جو ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے اور بھیس مذہبی اوڑھ رکھا ہے (بنا رکھا ہے) لبادہ مذھبی اوڑھ رکھا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر یہ قدیم تاریخی انسانی تعصبات ہیں جو اس سارے عمل میں کارفرما ہیں۔ اس لئے حضرت سارہ کے متعلق عزت ڈھونڈی ہے تو تارح سے جاکے ڈھونڈی ہے۔ ابراہیم سے عزت نہیں ملی ان کو۔ اگران کی نظر ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم پر ہوتی تو یہ کہتے کہ سارہ کی ساری عزت ابراہیم علیہ السلام کی صحبت سے تھی۔ اور اسی طرح یہی عزت ہاجرہ کی قسمت میں بھی لکھی گئی۔ کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ پھر سارا مضمون صاف ہوجاتا ہے۔ تو میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ سے جو ان کی دشمنیاں ہیں۔ آج کل کے شیعہ سمجھتے نہیں ان باتوں کو۔ یہ تعصبات ہیں جنہوں نے اس وقت عمل دکھایا ہے جبکہ معاویہ کی حکومت تھی اور ایران میں یہ ساری سازشیں پلیں۔ اور انہوں نے جو Strategy اختیار کی۔ وہ یہی تھی جو اب شیعہ مذھب کا بنیادی جزوبن گئی ہے کہ ورثہ خون سے چلتا ہے۔ نسل سے چلتا ہے روحانیت سے نہیں چلتا۔ قرآن سے مجبور ہوکر یہ بھی بیچ میں شرطیں لگا دیں۔ بعض دفعہ کہ خون تو لازم ہے۔ لیکن روحانیت ہو تو پھر خون سے رشتہ چلے گا ورنہ نہیں۔ ان دو شرطوں پر محدود کرکے اہل بیت کا چشمہ ہے اس کو محدود پیمانے پر آگے چلایا ہے اور آگے بڑھایا ہے اور اس حوالے سے عربوں میں جو اشتعال انگیزیاں پیدا کی گئیں۔ اور بعض فتنے پھیلانے گئے ہیں یہ مرکز سے پھوٹ کر باہر جاتے ہوئے نظر نہیں آتے کہیں بھی۔ آپ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں۔ باہر سے مرکز کی طرف حرکت کررہے ہیں۔ پس یہ فتنے اس اسلامی حکومت کے Bordery پر جنم لیتے رہے، وہیں پرورش پاتے رہے ۔ جس طرح ٹڈی دَل آبادیوں سے دور صحرائوں میں پرورش پاتی ہے۔ پھر جب حملہ کرتی ہے تو پھر کوئی سبزی باقی نہیں چھوڑتی۔ اسی طرح ان فتنوں نے ایران کی سر زمین میں جو مرکز اسلام سے دور تھی۔ وہاں پرورش پائی اور بالآخر اپنا انتقام لیا۔ لیکن جن کے نام پر یہ تحریک شروع ہوئی ان کو پھر بھی کچھ نہ ملا۔ علویوں کی حکومت قائم نہ ہوسکی۔ حضرت علیؓ کے مقدس نام پر اور آپ کے اہل بیت کے مقدس نام پر یہ حکومت کا تختہ الٹانے کی جو سازشیں کی گئیں۔ ان کا فائدہ عباس کی اولاد اٹھا گئی۔ اور عباسی سلطنت پر فائز ہوگئے۔ اب بتائیے جن کے حق میں Propaganda تھا۔ ان کا تو کچھ بھی نہ بنا اور اسکے بعد جب ایران نے اپنی حکومت واپس لی ہے اور دو سو سال کے تعطل کے بعد عربوں سے آخر ایران نے آزادی حاصل کی تو اگر ان کا مسلک تقویٰ پر مبنی ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کو ایران کے بادشاہ بنادیتے۔ وہ تھا ہی جھوٹ۔ محبت نہیں تھی۔ ایرانی عصبیت تھی۔ جو کارفرما تھی۔ پرانی dynastics دوبارہ بحال ہوئیں ہیں ایرانیوں نے پھر ایران پر حکومت کی ہے یا دوسروں نے۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد کو انہوں نے دعوت نہیں دی۔ اور ان کو اپنے اوپر بادشاہ بنا کر نہیں بٹھایا۔ پس یہ سارا پس منظر ہے اس جھگڑے کا جو آپ کے سامنے رکھا گیا ہے۔ لیکن چونکہ اس سورۃ کی تفسیر کے دوران یہ ضمنی سوال اٹھا تھا اور مجبور ہوکر چونکہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ؓ پر اور صحابہ ؓ پر حملے کئے ۔ میں نے یہ بحث چھیڑ دی۔ ورنہ اصل جو دھارا ہے سورۃ احد کا وہ اور طرح سے رواں دواں ہے میں اس میں واپس جانے لگا ہوں۔ لیکن ایک حوالہ پڑھنے کے بعد۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے متعلق آپ نے مصنف تفسیر اہل بیت جوکہ (کیا نام ہے اس کا) (کہا گیا دوسرا حوالہ۔ غائب ہوگیا ۔ نہیں نہیں وہ تو یہیں اس کے بعد رکھنا تھا۔ لے آئیں اس تعلق میں ہے۔ حوالہ میں آپ کو بعد میں لکھوادوں گا۔ بات اب بیان کرتا ہوں۔ میں نے کہا تھا۔شیعہ مصنف میر احمد علی صاحب نے جہاں حضرت عائشہ کی طرف یہ روایت منسوب کی ہے۔ وہ بھی غلط منسوب کی ہے وہ میں آپ کو دوبارہ دکھائوں گا۔ اصل حوالوں سے وہاں ان کو حضرت ام المومنین لکھ دیاکہ حضرت ام المومنین نے یہ فرمایا اور ام المومنین کا مرتبہ اور مقام کیا سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ان ازواج کو تم اہل بیت میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہو؟ جن میں وہ بھی تھی جس کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مہینہ سخت اذیت کا منہ دیکھنا پڑا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا وہ الزام کتنا خبیثانہ ملحدانہ الزام ہے۔ ایسا ناپاک الزام ایسی معصوم عورت پر۔ صرف ایک دفعہ پہلے لگایا گیا تھا اور وہ حضرت مریم علیہا السلام پر تھا۔ اس کی نفی کرنے والا تو موجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)تھے اور خدا نے وحی کے ذریعہ آپ کی بریت فرمائی۔ اور عیسائی بدبخت ان پر یہ حملے کررہے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ واقعہ دوہرایا گیا ہے اور آپ کی زوجہ محترمہ پر ایسا ہی ناپاک الزام لگایا گیا۔ اور پھر خدا نے بریت فرمائی۔ اور یہ کہتے ہیں مصنف صاحب کہ دیکھو ان کو تم ازواج مطہرات لکھتے ہو؟ یہ اہل بیت میں سے ہوسکتی ہیں؟ جنہوں نے نعوذ باللہ من ذلک اپنی کسی حرکت کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مہینہ اتنی اذیت دی ہے۔ یہاں تک کہ وہ سورۃ نازل ہوگئی۔ سورۃ میں کیا بتایا؟ یہ بتایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں ہیں۔ سورۃ نے کچھ اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیکاٹ کی وجہ سے اور اس بات کو اتنی اہمیت دینے کی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنھا تکلیف میں ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کے بعد حضرت عائشہ کے گھر میں پہنچے ہیں تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے یہ شکریہ نہیں ادا کیا کہ شکرہے آپ مان گئے ہیں۔ اب کیا فائدہ۔ اب میرے خدا نے میری بریت کی ہے تو آپ آئے ہیں چل کے اور اس عرصے میںتو عذاب میں مبتلا رہی ہوں۔ اس کی معافی کاآپ سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے اللہ نے بریت فرمائی ہے۔ یہ ہے مضمون جو قرآن کے حوالے سے اور حدیث کے حوالے سے ہمیں حقیقت کے طور پر دکھائی دے رہا ہے اور یہ ام المومنین کہنے والے مائوں کا یہ نقشہ کھینچ رہاہے ۔ بڑے ہی ناپاک حملے ہیں۔ خون کھولنے لگتا ہے۔ مگر کیا کریں۔ صبر کی تعلیم ہے۔ اللہ ان کو ہدایت دے۔ مجھے رحم آتا ہے۔ ان بچارے شیعہ معصوم لوگوں پر جن کو کچھ پتہ نہیں دین ہے کیا ہم نہ ان کو قرآن کا علم نہ حدیث کا علم ۔ وہ اپنے ان مولویوں کو ہر سال سنتے ہیں تبرا کرتے ہوئے اور کئی قسم کی باتوں میں انہیں کو خدا کا نمائندہ سمجھے بیٹھے ہیں اورسر دھنتے اور اپنی چھاتیاں پیٹتے۔ لیکن یہ پتہ نہیں کہ پیٹنا کس بات پر چاہیے۔ یہ باتیں ہیں سر پیٹنے والی اور چھتیاں پیٹنے والی۔ یہ ظلم ہیں جو ان لوگوں نے توڑے ہیں ایک روحانی کربلا کو انہوں نے وجود دیا ہے۔ پس جہاں اس جسمانی کربلا کو پیٹتے ہیں۔ زیادہ حقدار ہو اس بات کے کہ اس روحانی کربلا پربھی تم ماتم کروکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں اور آپکے انبیاء پر کس قسم کے ظلم توڑے ہیں اور آپ کے صحابہؓ پر کیسے کیسے ظلم توڑے گئے ہیں۔ ’’میںنے وہ کہا تھا ہے تفصیلی بحث ازواج ؓ والی۔ ہے ناں۔ وہ بعدمیں کریں گے حوالے اکٹھے کرکے۔ آپ کو غلط فہمی ہوگئی مگر کہا میں نے ہی تھا لیکن سمجھے نہیں۔‘‘ اب جو حوالہ میں نے بتایا ہے میر احمد علی صاحب "Verse no.165 Sura Hud verse no.74"‘
کا حوالہ دے کر اس پر بحث کررہے ہیں کہتے ہیں:۔
The conduct of the some of wives of Holly Prophet is well recorded in Islamic history.
یعنی اسلامک ہسٹری میں وہ خبیثانہ الزام کی بات نہیں کررہے ان بدبختوں کا ذکر ملتا ہے۔ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دکھ پہنچایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی۔ کہتے ہیں:-
The conduct of some of the wives of Holly Prophet is well recorded in Islamic history. As to who were ----those of his wives with whom the Holly Prophet was pleased and who were those who teased him and used to give him the headache by their behaviour with him. Which necessitated their being discaraou for about a month until sura 16 was revealed.
اس میں دیکھنے والی بات (ایک بات ابھی تحقیق طلب ہے شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے اس حوالہ کو الگ الگ لکھوادیا۔
اس سورۃ میں دو واقعات ملتے ہیں۔ (مجھے ابھی تک قطعی طور پر اس حوالے کے متعلق یہ یقین نہیں ہے یہ احتمال تھا جس کا میں نے ذکر کیا تھا)
ایک واقعہ یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان کا دنیا کی تنگی کا شکوہ ہے تو تم ان سے یہ کہہ دو (اپنی بیویوں سے) کہ تمہارے لئے اختیار ہے۔ چاہو تو میں تمہیں ہر قسم کے آرام اور نعمتیں دے کر رخصت کردیتا ہوں۔ میرے گھر سے چلی جائو۔ اور چاہو تو اس تنگی کے ساتھ رہو۔ جس تنگی کو میں نے اپنے لئے گوارا کیا۔ اور خدا کی خاطر صبر سے برداشت کرو اس کے بعد آپ کچھ دیر الگ رہے۔ لیکن میں اس سے اس لئے دوسری باتوں کی طرف جارہا ہوں کہ کسی صورت کے نتیجہ میں آپ واپس نہیں آئے ہیں۔بلکہ آپ کی تمام ازواج مطہرات نے خوب غور کے بعد خود عرض کردیا تھا کہ یا رسول اللہ کہ ہمیں آپ کے ساتھ رہنا منظور ہے۔ خواہ کیسی ہی تنگی ہو۔ کیسی ہی تکلیف ہو۔ ہمیں دنیا کی نعمتیں نہیں چاہئیں۔ اگر اس واقعہ کی طرف (مجھے یہ وہم پیدا ہوا یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ نہ کیا گیا ہو۔ لیکن میں دوبارہ چیک کرکے آپ کو بتادونگا) اس واقعہ کی طر ف اشارہ ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں ان کی بریت میں تو کوئی سورۃ نازل نہیں ہوئی۔ وہ تو خود ازواج مطہرات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور عرض کرتی ہیں کہ ہمیں یہ زندگی منظور ہے آپ کے ساتھ اور دوسری زندگی منظور نہیں۔ توآپ نے دوبارہ اپنے تعلقات کو بحال فرمالیا۔
اس لئے یہ اشارہ اب جب سورۃ دیکھیںگے (سورۃ نکالیں نہ ذرا) اس سے پتہ چلے گا کہ کس طرف اشارہ ہے۔ ابھی چیک کرلیں اس کو۔ اب میں تب تک اگلی آیات شروع کرتا ہوں۔
’’اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا۔ قلتم انی ھذاقل ھو من عند انفسکم۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر O وما اصابکم یوم التقے الجمعن فباذن اللہ ولیعلم المومنین O
اس کے ساتھ اگلی آیت ہے۔ ولیعلم الذین نافقوا۔ کیونکہ اس کا اس سے تعلق ہے اس لئے میں یہ بھی شامل کردیتا ہوں۔ وقیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا۔ سوال ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں؟ کیا یہ واقعہ درست نہیں؟ کہ جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچی جس سے دوگنی مصیبت تم ان کو ڈال چکے تھے۔ خود قلتم ۔ تم نے یہ کہا انیٰ ھذا۔ یہ کیسے ہوگیا۔ ایک تو یہ معنے بن سکتے ہیں۔ اور ایک وہ طرز بیان ہے جو میں نے پہلے اختیار کی تھی۔ کہ کیا ہمیشہ جب بھی تمہیں ایسی مصیبت پہنچے جو تم اس سے زیادہ ڈال چکے ہو۔ اس واقعہ کے بعد تم یہ کہہ دو گے کہ یہ کہاں سے آگئی۔ یہ استمرار کا مضمون ضمناً نکلتا ہے حقیقۃ ً جو معنے ہیں وہ یہی ہیں۔ دوسرے معنے لفظاً درست بیٹھتے ہیں۔ مگر یہ طرز بیان ایسی ہے جس سے میرے ذہن میں ضمناًکے مضمون کا جواز بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ مطلب ہے ایسے جب بھی کبھی مواقع پیش آئیں کہ جب تمہارے سے کسی دشمن کو تکلیف پہنچ چکی ہو۔ تو تمہیں بھی پہنچ جائے تو کیا تم یہی کہتے رہو گے ہمیشہ کہ ہمیں کیوں پہنچی۔ یہ بنیاد ہے نفسیاتی لحاظ سے جو اس مضمون کو جاری کردیتی ہے۔ ورنہ مثلیھا کا واقعہ تو ایک ہی دفعہ ہوا تھا۔ اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کا ترجمہ ایک ہی دفعہ کی صورت میں کیا ہے۔ کہ کیا یہ واقعہ درست نہیں ہے کہ جب تم خود دوسروں کو دوہری تکلیف پہنچا چکے تھے۔ پھر جب تمہیں پہنچی تو تم نے یہ کہا ’’قل ھو من عند انفسکم‘‘ اس کا جواب یہ دے دے کہ یہ تمہارے اپنی طرف سے پہنچی ہے۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر O یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اب میں اس کی حل لغات میں پہلے داخل ہوجائوں۔ اور پھر میں واپس تفسیر کی طرف آئو ںگا۔
صاب یصوب صوبا و مصابا۔ صاب المطر ای انصب و نزل یعنی بارش برسی یا نازل ہوئی۔ صاب میں نازل ہونا‘ گرنا وغیرہ کے مفہوم داخل ہیں۔ اس لئے مصیبت اس کو کہتے ہیں جو اچانک آپڑے ۔ٹوٹ پڑے‘ بنیادی طور پر یہ معنی اوپر سے اترنے یا گرنے کے ہیں۔
وہاں سے لیا گیا ہے۔ صاب السھم نحو الرمیۃ۔ اس کا مطلب ہے تیر سیدھا جاکر نشانے پر لگا۔ اصابتکم اصاب السھم تیر کا ٹھیک نشانے پر لگنا۔المصیبۃ البیۃ و الداعیۃ و الشدۃ و کل امر مکروہ۔ مصیبت بلائ‘ صدمے‘ ناگہانی آفت‘ شدت۔ اور ہرناپسندیدہ بات کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ التقیٰ سے مراد ہے جنگ میں مڈبھیڑ، ایک دوسرے سے ٹکرا جانا۔ جہاں تک شان نزول کی بحث آئی ہے وہ تو مفسرین اٹھاتے ہیں شان نزول کی بحث میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا ! ’’جنگ احد کے دن جو مصیبت مسلمانوں پر آئی اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بدر میں فدیہ لیا تھا۔‘‘
(کیوں جی‘ نکالی‘ کونسی آیت؟ وہ آیت یا ایھا النبی قل لازواجک )وہی جو میں نے دوسری آیت میں بیان کیا تھا۔ لیکن اس میں۔ دوسری آیت کونسی ہے وہ کہاں ہے۔ یہ تو حوالہ ہی نہیں دے رہا۔ حوالہ یہ دے رہا ہے۔ کہ حضرت عائشہ کے ضمن میں ایک نہایت ذلیل الزام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذکر میں کہتا ہے کہ ان کی حمایت تم کررہے ہو جن کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی اور ان کے ایک غلط Behaviour کی وجہ سے یہ لفظ ہے یہاں تک کہ قرآن میں بعد میں ایک مہینہ کے بعد ایک ذکر آیا ہے تو پھر یہ قصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دورہوئی۔ اس کا اس دوسرے واقعہ سے تعلق ہی کوئی نہیں ہے۔ میں نے چونکہ اس سورۃ کا حوالہ دیکھا نہیںتھا۔ اس لئے احتیاطاً کہہ دیا تھا کہ شاید کہیں اس کے دماغ میں یہ بات آگئی ہو۔ وہ نہیں ہے۔ جس آیت کا حوالہ دے رہے ہیں وہاں ذکر ہی کوئی نہیں۔ (وہ کونسی آیت ،نکالیں،ابھی پتہ لگ جائے گا)
کہتا ہے یہاں تک کہ Sura sixteen نازل ہوئی۔
(وہ تو توبہ میں ہے۔ وہ سورۃ نور میں ہے۔ سورۃ نور کا نمبر کیا ہے۔ ٹھیک ہے دیکھیں اس کے لکھنے میں کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو) مہینے کے بعد خدا کی طرف سے حضرت عائشہ کی بریت قرآن سے ثابت ہے۔ اور یہ مہینے کے بعد کسی سورۃ کا ذکر کررہاہے جہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہی کوئی نہیں۔ پہلے بھی ایسا واقعہ ہوچکا ہے۔ آپ کو میں نے دکھائی تھی آیت۔ جس آیت کا حوالہ دیتے ہیں وہاں کوئی دور کا بھی ذکر نہیں ملتا۔بیٹھے بیٹھے حوالے بنائے جارہے ہیں (وہ چوبیس ۲۴ ہے سورۃ نور۔ لیکن وہ حوالہ اپنی ذات میں ظاہر و باہر ہے۔ خلاصہ اس کا یہی بنتا ہے جب تک خدا تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺکا دکھ دور نہیں کیا عائشہ رضی اللہ عنہا کی حرکت کی وجہ سے نعوذ باللہ من ذلک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھ میں مبتلا رہے۔ اور اگر وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حرکت تھی ہی نہیں۔ اور خدا نے یہی فرمایا ہے تو تمہیں اس بدبختی کا کیا حق؟ کہ اشارۃً یا کنایتہ بھی اس بات کو قبول کرنے کی طرف مائل ہوں یہ حال ہے بغض میں پڑرہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں۔ اور میں پھر کہتا ہوں کہ عوام الناس شیعہ پر بڑا سخت ظلم ہے۔ ان کو چاہئے کہ یہ ساری باتوں کو سنیں غور سے اور سمجھیں کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہورہا ہے ان کے پاک معصوم آئمہ کے اور ان کے درمیان یہ مولوی حائل ہیں اور یہی مولویوںکا کردار سنیوں میں بھی چل رہا ہے۔ صداقت کے بیچ میں آکے کھڑا ہوجاتے ہیں اور ایسے تاریک ہیں کہ آگے سے روشنی گزرنے ہی نہیں دیتے۔ اب آگے (بچارے) روشنی پہنچے کہاں سے عوام الناس میں۔ عوام الناس کے متعلق میرا تجربہ ہے کہ انہیں اگر روشنی پہنچے تو ان کا مزاج مولویانہ نہیں ہے۔ جاھل ہوتے ہیں لیکن مولوی نہیں۔ بلکہ میں نے دیکھا۔ پڑھے لکھوں سے زیادہ روشن دماغ ہے عوام الناس کیونکہ سادہ مزاج ہے اور پڑھائی کے چکر میں پڑے کے ان کو ایچ پیچ نہیں آتے۔ اور مسائل جب بھی ہمارے زیر بحث آئے ہیں مختلف پاکستان میں مجالس میں مَیں شامل ہوتا رہا ہوں۔ بہت چکر لگائے ہیں پاکستان کے جگہ جگہ سوال و جواب کی مجالس لگا کرتی تھیں۔ بڑے بڑے انکے مولوی بھی آتے تھے اور عوام بھی۔ اور میرا تجربہ ہے کہ بات سن کر مولوی اپنی جگہ اٹکارہتا تھا اور عوام تائید میں کھڑے ہوجایاکرتے تھے۔ یہ ٹھیک ہے بالکل درست کہہ رہے ہیں آپ۔ تو ہمیں عوام الناس تک پہنچنا ہے۔ ایک طرف اس نور کے آغاز اور عوام کے درمیان یہ حائل ہیں۔ دوسری طرف نور کی تکرار جو اس دور میں ہوئی ہے اس کے اور عوام کے درمیان حائل کھڑے ہیں اور ہمارے پیغام رسانی کے سارے رستے بند کر بیٹھے تھے۔ اب اگر اللہ نے آسمان سے فضل نازل نہ کیا ہوتا تو ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا عوام الناس تک پہنچنے کا۔ اب پہنچ رہے ہیں اللہ کے فضل سے۔ اور اتنی جلدی جلدی اس اثر پڑتا ہے کہ پرسوں ایک احمدی دوست یہاں اپنے ایک غیر احمدی دوست کو یہاں درس میں لے آئے۔ اور پرسوں والے درس سننے کے بعد فوراً بعد انہوں نے کہا میری ابھی بیعت لو۔ میں نہیں باہر رہ سکتا۔ یہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم عوام الناس تک پہنچیں۔ بنیادی طور پر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کے نناوے 99 فیصدی لوگ شریف ہیں۔ ایک فیصد ہے جنہوں نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے۔ مگر شریف تو ہیں مگر ساتھ جاہل بھی تو ہیں۔ وہ ہاں اگر پتہ چلے جاہل آدمی کو مصیبت یہ ہوتی ہے ۔ شرافت کے باوجود اگر کوئی بات دل میں گڑ جائے تو چاہے وہ غلط ہی ہو لاعلمی کی وجہ سے اسکی خاطر جان دے دیتے ہیں اور پڑھے لکھوں کو یہ توفیق نہیں ہے۔اس لئے فساد ہمیشہ عوام الناس کی طرف سے ہوتے ہیں۔ پڑھے لکھو ںکی طرف سے نہیں ہوتے۔ اور ایک رنگ میں ان کی شرافت کی دلیل ہے۔ وہ بیچارے ہیں سچے۔ جھوٹی بات بھی ان کے دماغ میں ڈالی جائے گی۔ تو اس کی خاطر جان دینے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔ ملک کے امراء اور تعلیم یافتہ لوگ آرام سے گھروں میں بیٹھے ہوئے یہ آگیںلگا کر جلنے کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ اس لئے اب میں امید رکھتا ہوں کہ کثرت سے شیعہ عوام تک احمدی ان باتوں کو پہنچائیں گے تو دیکھیں اللہ کے فضل سے ا نکا ردعمل یقینا صحابہ ؓ اور ازواج مطہرات کے حق میں ہوگا۔ اور بڑی شدت کے ساتھ وہ غلطی کو محسوس کرکے ان بزرگوں کی توہین سے باز آئیں گے۔ اور ان کی عزت و شرف کے قائل ہونگے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
اچھا اب میں پھر دوبارہ واپس آرہا ہوں اسی آیت کی طرف " 166-167 شان نزول: فرمایا ! کہ جنگ احد کے دن جو مصیبت مسلمانوںپر آئی اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بدر میں فدیہ لیا تھا۔ اب یہ عجیب سی روایت ہے۔ اسباب نزول میںیہ کسی تفسیر نے یہ بات پیش کی ہے۔ اور اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے اس سے۔ میں مان ہی نہیں سکتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کریں جو قران کے واضح بیان کے خلاف ہو۔ قرآن یہ فرما رہا ہے کہ مصیبت اس لئے ٹوٹی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمائی ہوئی اور ایک وقت پر تم نے وہ بات نہیں مانی اور اس کے نتیجہ میں ساری مصیبت ٹوٹی ہے۔ اس کو بدر کے ساتھ جاکے منسلک کردینا اور یہ کہنا کہ فدیہ لیا تھا۔ فدیہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا۔ تو نافرمانی کرنے والوں سے الزام اتار کر خدا کے کامل فرمانبردار بندے کی طرف منتقل کرنا ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔ نام جو مرضی ہے دیدیں۔ یہ روایت جھوٹی ہے کیونکہ قرآن سے ٹکرا رہی ہے۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے ٹکرا رہی ہے۔
اصابتکم مصیبۃ اصبتم مثلیھا کی بحث میں مستشرقین نے بھی یہ بات لکھی ہے اور مسلمان مفسرین نے بھی کہ جنگ بدر میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے ’’دشمن کے‘‘ ۔ جنگ احدمیں ستر صحابہ شہید ہوئے ہیں تو مثلیھم سے کیا مراد ہے کہ دوہرا نقصان کیسے پہنچایا۔ وہ تو مثل بہ مثل نقصان ہے۔ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا کوئی قیدی نہیں بنایا گیا یہاں۔ ایک بھی قیدی نہیں بنا۔ جب کہ ان کے ستر مارے گئے اور ستر قیدی بنالئے۔ تووہ ستر بھی تمہارے رحم و کرم پرآگئے یعنی ایک سو چالیس کو تم نے زک پہنچائی ہے۔ اس کے مقابل پر تمہارے صرف ستر کو بظاہر نقصان پہنچا۔ لیکن وہ بھی شہادت کی عظمت پاگئے اور سعادت پاگئے۔ تو یہ مراد ہے ’’مثلیھا ‘‘سے۔
اذن کا معنے ان مفسرین نے عموماً قضاء الہی لے لیا ہے۔ جس میں ایک قسم کا جبر کا تصور پایا جاتا ہے۔ اذن کا مطلب اجازت بھی ہوتا ہے۔’’اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا‘‘ میں اجازت کا مفہوم ہے اور دوسری جگہ بھی اذن کا لفظ اجازت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے وہاں اگر سورۃ حج میں قتال کے تعلق میں اگر اذن سے مراد حکم بھی لے لیا جائے تو یہ معروف ہے اس کا استعمال۔ اذن کے معنے اجازت دینا بھی ہوتا ہے ۔ کسی کی اذن سے انسان داخل ہوتا ہے۔ کسی کے کمرے میں بغیر اجازت کے داخل نہیں ہوتا یہ وہی معنے ہیں پس میں اس بات پر ہی مصر ہوں کہ یہاں باذن اللہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پہلے سے فیصلہ کر رکھا تھا۔ ایک جبری تقدیر تھی جو ضرور پوری ہوتی تھی۔ بلکہ اس واقعہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قدیر ہونے کا ذکر ہے۔ علی کل شیئٍ قدیر۔ فرماتا ہے اس کا بد نتیجہ ہوسکتا تھا تمہیں نہ پہنچے۔ اگر اللہ ایسا فیصلہ کردیتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت کے پیش نظر اجازت دی کہ تمہاری غلطی کا تم خمیازہ بھگتو۔ اور اس کے نتیجہ میں کئی اور بہت سے ایسے مصالح تھے جو پیش نظر تھے فلما اصابتکم مصیبۃ میں یہ میں سارے مفسرین پر نظر ڈال رہا ہوں۔ وہی بحث ہے ستر مسلمانوں کو شہید کیا گیا‘ ستر مشرکوں کو قتل کیا ستر کو قیدی بنایا گیا۔ اور سارے ہی اسی بات کو دوہرا رہے ہیں۔
امام رازی اس بات کو رد کرتے ہیں کہ بدر کی وجہ سے تھی۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ پہلی آیت میں ذکر ہے کہ مصیبت ان کے گناہ اور خود ان کے اپنے نفوس کے باعث پہنچی۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ یہ مصیبت انہیں اور وجہ سے پہنچی اور وہ یہ کہ مومن اور منافق کے درمیان تمیز قائم ہو۔ یہاں امام رازی جو بیان فرما رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے ذہن میں تضاد نہیں ہے ۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ مراد یہ ہے کہ زائد حکمت اس میں یہ بات تھی اور اس کا اس مضمون سے تعلق ہے جو اذن کے معنے اجازت لینے سے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے بے حکمت یہ تکلیف نہیں پہنچنے دی۔ اس کا ایک مقصد تھا۔ اور وہ مقصد تھا کہ اس موقعہ پر سچے مومن اور منافق میں تفریق ہوجائے۔ لیکن اس مضمون کا براہ راست تعلق اس واقعہ سے نہیں ہے صرف ۔ یہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ محض تکلیف سے ہے۔ تکلیف کیوں پہنچی۔ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔ کیونکہ آگے جاکر قران کریم اس بات کو خوب کھول رہا ہے کہ تکلیف نہ پہنچانے کے نتیجہ میں جو مومنوں اور منافقوں میںتفریق ہوئی ہے اس تفریق میں وہ منافق شامل ہیں جو جنگ احدمیں شامل ہی نہیں ہوئے تھے۔ وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور قرآن خود آگے بتائے گا۔ جب وہاں پہنچیں گے پھر میں آپ پر وضاحت کردونگا کہ کیوں میں اس بات کو سختی کے ساتھ درے والے واقعہ سے نہیں باندھنا چاہتا۔ کیونکہ جنگ احد میں جو کچھ ہوا۔ اس میں ایک اور حکمت بھی پیش نظر تھی۔ اس میں حکمت ایک پیش نظر یہ تھی کہ اس جنگ کے بعد منافق مومنوں سے الگ ہوکر ممتاز دکھائی دینے لگیں۔ یہ اصل مضمون ہے جومیں سمجھتا ہوں درست ہے اور میں اس کی تائید میں آگے بات کروں گا۔ اس لئے امام رازی اذن کا معنے حکم نہیں لیتے بلکہ بعلمہلیتے ہیں جیسا کہ فرمایا! و اذان من اللہ یہ اعلان ہے اللہ کی طرف سے اور وہ اجازت والی بات یہ علم کہتے ہیں لیکن مفہوم امام رازی بھی اجازت والا بیان فرما رہے ہیں اور اذان تو اس سے اجازت تو نہیں ہوتی وہاں اعلان ہے مگر حکم نہیں ہے۔ اس لئے یہ درست نہیں کہ وہاں معنے اجازت کے لئے جاسکیں۔ سورۃ توبہ میں یہ جو اعلان ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے لفظ اذن ہے اور اذان بھی اسی سے نکلی ہے اعلان کے معنوں میں۔ ایک اعلان عام ہے چاہو تو قبول کرو چاہو تو نہ کر۔ اس لئے اختیار کی بات اس میں شامل رہتی۔ اور پھر کہتے ہیں جیسے فرمایا۔ ’’اذناک مامنا عن شہید اور پھر فرمایا ! فاذنوا بحرب من اللہ۔ ان سب سے مراد علم ہے فاذنوا بحرب من اللہ پس حکم نہیںہے کہ تم ضروراللہ سے لڑائی کرو۔ اللہ سے لڑائی کیلئے تیار ہوجائو۔ تمہیں اختیار ہے چاہو تو لڑائی کا طریق اختیار کرو۔ چاہو تو توبہ کرلو۔ تو اختیار کے معنے یہاں ایک رنگ میں ضرور پائے جاتے ہیں۔
ابن عباس کہتے ہیں اذن سے مراد اللہ کی قضا ء اور اس کا حکم ہے کہتے ہیں یہ معنے اس لحاظ سے زیادہ مناسب ہیں ۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اگر یہ کہہ دیا جائے تو پھر مسلمان تسلی پاجاتے ہیں کہ چلو گویا تقدیر ہی سہی چلو ٹھیک ہے۔ مگر یہاںمیں امام رازی سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ قرآن کریم اس قسم کی باتوں سے تسلی نہیں دیا کرتا۔ بہت گہری حکمت کی باتیں بیان فرماتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قضاء کے موقعہ پر آکے انسان سر تسلیم خم کردے مگر دل کے وسوسے تو قائم رہتے ہیں اور تکلیف پھر بھی رہتی ہے۔اب یہ چلو اللہ کی رضا تھی تو ہم مان جاتے ہیں۔ مگر اگر حکمت بیان کی جائے کہ کیوں ایسا واقعہ ہوا تھا۔ پھر سچی تسلی ملتی ہے۔ اس لئے یہاں تقدیر کا معنے کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ جبکہ آگے وجہ خود اور بیان فرما رہا ہے اللہ تعالیٰ۔
اذن کہہ کے حکمت اور بیان فرما رہاہے تو اذن کا معنی اگر تقدیر لیا جائے تو اس سے حکمت کی بحث کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔یہ کہتے ہیں۔ تفسیر محاسن میں علامہ محمد جلال الدین القاسمی لکھتے ہیں کہ قدرت کے ذکر میں یعنی قدیر کے ذکر میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ یہ معاملہ جو گذرا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے اور اس کی تقدیر کے ماتحت ہوا ہے۔ یعنی اگر وہ چاہتا تو اس کو تم سے ہٹا دیتا ہے۔ پس تم اس قسم کے مصائب قبول کرنے کے لئے کسی غیر پر بھروسہ نہ کرو۔ اور کسی غیر سے مدد نہ مانگو۔ تو یہاں وہی معنے بیان کررہے ہیں اس کے قریب تر جو میں نے بیان کیا تھا کہ قدیر کہنے میںحکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قدرت تھی کہ چاہتا تو ہٹا دیتا اور کسی جبری تقدیر کے نتیجہ میں یہ نہیں ہوا۔ تمہاری غلطی سے ہوا۔اور خدا نے ہونے دیا یہ معنی بنے گا۔
یہ کہتے ہیں کہ شیعہ تفسیر میں تو یہ لکھا ہواہے۔بالآخر میر احمد علی صاحب بھی یہ بات کھول کر بیان کرتے ہیں۔ سارا خلاصہ ان کی بات کا یہ بنتا ہے کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے اور اس سے پہلی آیات سے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ احد کی تکلیفوںکو مومن اور منافق کی پہچان کے لئے۔ خود وارد فرمایاعائد فرمایا اور یہ مصیبت اس لئے مسلمانوں پر توڑی گئی تاکہ مومن (سچوں) اور منافقین میں ایسی تفریق ہوجائے کہ اس کے بعد پھر کبھی کوئی شبہ نہ رہے۔ کہتے ہیں وہ تفریق ہوگئی اور حضرت علیؓ اکیلے مومن کے طور پر ابھرے ہیں اور باقی تمام کیلئے جنگ احد منافقوں کا مقبرہ بن گئی اور ہمیشہ ہمیش کیلئے یہ کلیہ طے ہوگیا کہ مو من کون تھے اور مانفق کون تھے۔یہ اس آیت کا اور اس سے پہلے سارے مضمون کا منطوق ہے جو شیعہ مفسرین پیش کررہے ہیں۔ اس کے برعکس قرآن کریم کیا بیان فرما رہا ہے۔ وہ سُنئیے! لیعلم الذین نافقواسے اگلی آیت میں ہے۔و قیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا۔ قالوا لو نعلم قتالاً لا تبعناکم۔تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو بھی پہچان لے اور منافقوں کو بھی پہچان لے۔ اور خدا نے منافقوں کو کیسے پہچانا۔ یہ ذکر بھی ہے۔ و قل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ۔ ان کو کہا گیا تھا آؤ اللہ کی راہ میں قتال کرویا دفاع کرو۔ قالوا لو نعلم قتالا لاتبعناکم۔اگر ہمیںلڑائی کرنی آتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔ یہ سارے جنگ احد میں شامل ہونے والے یہ لوگ تھے۔ خدا تو خود بتا رہا ہے یہ کون لوگ تھے۔ ہم نے مومنین کو بھی پہچان لیا اور منافقین کو بھی پہچان لیا اور تفریق کی علامت یہ ہے کہ یہ بدبخت منافق وہ تھے جو آئے نہیں اور واپس مڑ گئے اور کہتے۔ ہمیں نہیں آتا لڑنا۔ یہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے ساتھی ہیں۔ جن کا واضح ذکر ہے قالوا لونعلم قتالاً لا تبعناکم ھم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان۔ یہ آج ایمان کے مقابل پر کفر کے زیادہ نزدیک ہیں۔ یقولون بافوھھم ما لیس فی قلوبھم۔ یہ اپنے منہ سے وہ باتیں کررہے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں۔ واللہ اعلم بما یکتمون۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا چھپاتے ہیں۔ پھر ان کا ذکر آتا ہے اس کے بعد اگلی آیت میں۔وہ خدا کے حضور جنگ احد میں مارے گئے ہیں۔ ان کو فرمایا گیا۔
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء عندربھم یرزقون۔ لیکن یہ بحثیں انشاء للہ بعد میں اٹھائیں گے۔
(میں دیکھ رہا ہوں) میں ضمناً اشارۃً کررہا ہوں مجھے پتہ ہے وقت ختم ہونے میں ابھی شاید آدھا منٹ باقی ہے صرف۔ اس لئے انشاء اللہ کل جم کر ان آیات پر گفتگو ہوگی تو پھر ساری باقی باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔۰۰۰۰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللّہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ۔ 2 رمضان المبارک
13) فروری 1994ئ(
اعوذ باللّہ من الشیطن الرجیم Oبسم اللّہ الرحمن الرحیم O
وما کان قولھم الا ان قالوا........... واللّہ یحب المحسنین O (آل عمران 148‘149)
کل ہم نے پہلی آیت کی تفسیر تقریباً مکمل کرلی تھی۔ جب میں یہ کہتا ہوں اور آئندہ جب بھی کہوں گا تو مراد یہ نہیں ہے کہ کسی آیت کی تفسیر مکمل ہوسکتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جتنا حصہ میں نے اپنے لئے تیار کیا تھا وہ تقریباً ختم کرلیا تھا لیکن کچھ حصے ابھی باقی ہیں۔تو ان سے میں آج ....
دوبارہ ترجمہ آپ کو سنادوں تاکہ وہ جن کوترجمہ نہیں آتا وہ بار بار ترجمہ سنیں تو کچھ ان کے ذہن میں ترجمعہ ذہن نشین ہوتا چلاجائے۔
وما کان قولھم الا ان قالوا ربنا اغفرلنا ذنوبنااور ان کا قول اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا کہ انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہمیں ہمارے گناہ یعنی ذنوب جنکی تشریح پہلے ہوچکی ہے وہ بخش دے۔
و اسرافنا فی امرنا :اور اپنے نفس پر جو زیادتیاں ہم کرچکے ہیں وہ بھی معاف فرمایا۔
وثبت اقدامنا : اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش۔
وانصرنا علی القوم الکفرین : اور ہمیں کافروں کی قوم پر نصرت دے۔وانصرنا پر علیٰ‘‘ کا جب آتا ہے صلہ ۔ تو مراد ہے فتح۔ ویسے تو نصرسے مراد نصرت ہے لیکن ’’نصر علیہ‘‘ اسکے خلاف مدددے یعنی ان پر فتح مند فرما۔یہاں لفظ قدم کی بحث ہے تھوڑی سی جو باقی تھی۔القدم : الْرِّجْلُ : قدم پائوں کو کہتے ہیں اور اس پائوں کی نسبت سے پھر اس کے اور بھی معنی رائج ہوجاتے ہیں۔ ایک قدم ‘ دو قدم جیسے اردو میں کہا جاتا ہے یعنی پورا ایک قدم سے دوسرے قدم کے فاصلے کو بھی ہم قدم کہہ دیتے ہیں اور بہت سے مضامین ہیں جو بنیادی طور پر قدم کے معنوںسے جڑے ہوئے ہیںان سے وابستہ ہیں اور پھر آگے اورمضامین پیداکردیتے ہیں۔ السابقۃ فی الامر خیراً کان اؤُ شرًاً : کسی چیز میں کمال حاصل کرلینا۔ اس کو بھی السابقۃکہتے ہیں۔ یعنی کمال حاصل کرنے کیلئے بھی لفظ قدم استعمال ہوتا ہے اور اس لحاظ سے قدم معززین کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جو قوم کے بڑے لوگ ہیں چنانچہ آگے اس کی تشریح پھرچندفقروںکے بعدآئے گی۔کہتے ہیں لفلان فی کذا قدم صدق او قدم سوئٍ
کہ فلاں شخص کو اس بات میں کمال حاصل ہے یایہ کہناہوتو اگر اچھی بات میں کہنا ہو مثلاً سچائی میں تو کہیں گے اسے قدم صدق حاصل ہے۔ اُسے اس معاملے میں سچائی کا قدم حاصل ہے۔ اور اگر بری بات میں کہنا ہو تب بھی لفظ قدم استعمال ہوگا کہ اُسے اس معاملے میں برائی کا قدم حاصل ہے۔ الرجل لہ مرتبۃً فی الخیر : قدم اس شخص کو بھی کہتے ہیں جسے کسی بھلائی میںایک بڑا مرتبہ حاصل ہو
الشجاع : قدم بہادر کو کہا جاتا ہے۔ اور یہاں مرد اور عورت کی تفریق نہیں کی جاتی۔ اگرچہ لفظ قدم بظاہر مذکر ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن اس میں جب تعریف کے رنگ میں کہا جائے تو مرد ہو یا عورت دونوں کیلئے قدم کا لفظ استعمال ہوگا۔
وضع القدم فی امرہ۔ یعنی اس نے اس میں پائوں رکھ دیا اردو میں بھی اس کا ہم محاورہ بعینہ یہی ترجمہ ہے اس نے اس مضمون میں پاؤں رکھ دیا۔ اس عمر میں پائوں رکھ دیا۔ یعنی ابھی اس نے آغاز کیا ہے کسی چیز کا۔ اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور ایک اور مفسر نے بھی یہ مضمون بیان کیا ہے کہ اس آیت کا پہلی آیت سے ایک تعلق ہے۔ پہلی آیت میں جو تین باتیںکمزوریاں ایسے گروہ کی طرف منسوب کی گئی تھیں جو دشمن کے سامنے کمزور ہو اور عاجز آجائے لیکن مومنوں سے ان کی نفی فرمائی گئی تھی کہ مومنوں میں یہ بات نہیں ہوتی۔ اس کے بعد یہ دعا رکھ دی گئی ہے۔ پس وہ تین کمزوریاں جن کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے مقابل پرجب ہم اس آیت میں مذکور دعا کو لفظاً بہ لفظاً پہلے لفظوں کے ساتھ باندھیں گے تو اس کو لفّ و نشرمرتب کہتے ہیں یعنی جس ترتیب سے پہلی آیت میں جولفظ ہیں اسی ترتیب سے بعد میں آنے والی آیت کے الفاظ کا تعلق بنتا جائیگا۔ تو بات یوں بنے گی۔
قرآن کریم مومنوں کو نصیحت فرماتا ہے۔
وکاین من نبی قاتل معہ ربیون کثیر
اور کتنے ہی نبی ہیں جن کے ساتھ مل کر اللہ والوں نے مل کر قتال کیا فما وھنوا : انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی۔
وھن کی تفسیر پہلے بیان ہوچکی ہے۔ کس قسم کی کمزوری اس میں مراد ہے۔ اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ سال کے درس میں تفصیل سے میں نے وھن کے لفظ پر روشنی ڈالی تھی۔ مثلاً ایک پرندہ جب بہت کھالے اور بوجھل ہوجائے تو اس وقت بھی لفظ وھن اس پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے گدھیں مردار کھا کر بوجھل ہوجاتی ہیں۔ تو وھنوا کا معنی بہت وسیع ہے۔مراد یہ ہے کہ مومن اپنے اندر اندرونی کمزوری کوئی نہیں رکھتے۔ یعنی ایسی کمزوری جو …پید ہو ان کی ذات کے اندر مخفی ہو۔ ان کے اندر اس کمزوری کا خمیر داخل ہو۔ ان سب چیزوں سے مومن پاک ہوتا ہے۔ تو فرمایا۔ وہ خدا کے پاک نبی جن کے ساتھ بڑے خداوالوں نے جہاد کئے اور قتال کئے۔ ان کے اندر کوئی اندرونی کمزوری نہیں تھی۔ پس ایمان کی ادنیٰ کمزوری بھی ایسے موقع پر ایک ظاہری کمزوری میں تبدیل ہوجایا کرتی ہے۔ پس وھن کا تعلق ان سب کمزوریوں سے ہے جو انسان کی ذات میں یا اس کے جسم میں یا اس کے تصورات میں یا اس کے عقاید میں داخل ہوں لیکن اس کے علم میں نہ بعض دفعہ علم میں بھی ہوسکتی ہیں مگربہت سی مخفی بھی رہتی ہیں۔
لما اصابھم : یعنی کمزوری ایسی کمزوری جو نفس کی اندرونی کمزوری ہے وہ اکثر تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انسان سے چھپی رہتی ہے لیکن جب مصائب کے وقت آتے ہیں جب آزمائش کا دور شروع ہوتا ہے۔ پھر یہ کمزوریاںاچھل اچھل کر باہر آنے لگتی ہیں۔ مثلاً جنگ احزاب سے پہلے جو لوگ مومن ہی سمجھے جاتے تھے لیکن اندر انکے ایمان کی کمزوری تھی۔ جب خطرے کے وقت آئے تو ان کی آنکھیں پھرنے لگیں۔ جیسے موت کی غشی طاری ہوگئی ہو۔ تو جب زلازل کا وقت آئے اس وقت پتہ چلتا ہے کہ کوئی عمارت مضبوطی سے زمین میں گڑی ہوئی ہے کہ نہیں۔ پس وھن کا تعلق ’’اصاب‘‘ کے ساتھ باندھ کر اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اندرونی کمزوریاں ہوتی ہیں۔ تمہیں کیا پتہ ! جب تک آزمائش میں پڑ کر تم یہ ثابت نہ کردو کہ تمہارے اندر تک مضبوطی ہے اور تمہارے ایمان میں کوئی مخفی کمزوری بھی نہیں ہے۔ اس وقت تک تمہارا صدق ثابت نہیں ہوسکتا۔ پھر فرمایا : وما ضعفوا : اور انہوں نے کوئی ضعف نہیں دکھایا۔ اس کے متعلق عموماًمیں نے پہلے تفصیل سے بیان کیا تھا۔ اب میں اشارۃً دوبارہ بیان کررہا ہوں پھر۔وما ضعفوا : جسمانی کمزوری کیلئے پر زیادہ تر استعمال ہوتا ہے۔ اور بشری کمزوریاں بھی اس میں داخل ہیں مثلاً بوڑھے آدمی کو ضعیف کہا جاتا ہے ۔ اور وہ ایسی کمزوری ہے جس میں اُس کا کوئی اختیار نہیں ہے بیچارا۔
تو پھر وماضعفوا میں بالارادہ کمزوری سے کیا مراد ہے؟
مراد یہاںیہ ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ کمزور تھے بھی۔ ظاہری طور پر ان میں بوڑھے کمزوربچے بھی تھے۔ لیکن دشمن کے مقابل پر انہوں نے ایسی ہمت سے کام لیا ہے کہ ان کی کمزوری کوئی ظاہر نہیںہوئی اور اگر تھی تو اپنی ذات پر لے لی ہے۔ لیکن غیر معمولی جوش کے ساتھ انہوں نے اپنی کمزوری پر غلبہ پالیا ہے۔ یہ مضمون ویسا ہی جیسے بعض دفعہ پاگل آدمی کو بعض دفعہ اپنی طاقت سے بہت زیادہ طاقت مل جاتی ہے۔ اور بعض کمزور بھی ہوں تو وہ لوگ جو پاگلوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ ایک معمولی طاقت کا پاگل بعض دفعہ بڑے بڑے طاقتوروں پر غالب آجاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض کمزوریاں انسان کے اندر مخفی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض طاقتیں بھی انسان کے اندر مخفی رکھی ہیں اور ان کا علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان ان سے استفادہ نہیںکرتا۔ لیکن اگر اعتماد اور یقین ہو اور اس کا تعلق اعتماد اور یقین سے ہے عقل سے نہیں ہے۔ عقل اگر استعمال کرے گا تو پتہ لگے گا کہ میں تو کمزور ہوں میں تو اتنا بوجھ اٹھا ہی نہیں سکتا۔ جیسے روزوں میں لوگ بہانے بنا لیتے ہیں مگر اگر ایمان اور یقین ہو تو یہ ساری مخفی طاقتیں ابھر کر باہر آجاتی ہیں۔ تو وھن کے مقابل پر ضعف میں یہ ایک نمایاںمقابل کا مضمون پایا جاتا ہے۔
وما ضعفوا : اگرچہ وہ کمزور بھی تھے لیکن انہوں نے حیرت انگیز ہمت سے کام لیتے ہوئے ایک مجنونانہ طاقت حاصل کرلی اور کوئی کمزوری دشمن پر ظاہر نہیںہوئی۔ یہ مضمون گہرا نفسیاتی مضمون ہے اور اس کا ایمان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس کے بغیر انسان کی مخفی طاقتیں ابھرا نہیں کرتیں۔
وما استکانوا : اور دشمن کے سامنے ذلیل اور رسوا نہیں ہوگئے۔ گھٹنے نہیں ٹیک دیئے۔ سر نہیں جھکایا۔ اور ضعفوا سے اگلا قدم یہ ہے ۔ اگر کمزور آدمی اپنی انتہا تک اپنے طاقت کے خزائن کو استعمال کرلے اور کچھ باقی نہ رہے۔ توپھر بھی وہ سر نہیں جھکائے گا۔ یہ مومن کا آخری مقام اور مرتبہ ظاہر فرمایا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود کسی قیمت پر کسی حال میں انہوں نے دشمن کے سامنے سر نہیں جھکایا اور گرے نہیں اور عاجزی اختیار نہیں کی۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دوسری آیت جو اب ہمارے زیر غور ہے اس کے ساتھ اس کا تعلق اس طرح باندھا ہے کہ ہر دعا کے ساتھ پہلے لفظ کا تعلق جو وہاں ظاہر کیا گیا تھااور دوسری کے ساتھ دوسرے کا۔ اب اس پہلو سے دوبارہ ہم اس کو دیکھتے ہیں کہ کیا مضمون سامنے آتا ہے۔
قالو ا ربنا اغفرلنا ذنوبنا : اے اللہ ! ہمارے ذنوب ہمیں بخش دے۔ اب وہ کمزوریاں جو اندرونی ہیں اور ہمیں علم نہیں۔ اور مومن کی شانکے خلاف ہیں۔ جیسا کہ پہلے بزرگوں نے اور مومنوں نے ابتلاء کے موقع پر کوئی کمزوری ظاہر نہیں کی۔ اس لئے اگر ہمارے اندر کوئی کمزوری تھی اور ہمیں علم نہیں ہے تو ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اپنی ستاری فرما اور بخشش کا ستاری سے بہت گہرا تعلق ہے۔ بخشش کا مضمون محض کردہ گناہوں کو معاف کرنے سے تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ ستاری سے اس کا اول تعلق ہے۔ کیونکہ غَفَر کا مطلب ہوتا ہے ڈھانپ دینا۔ استغفر کا مطلب ہے اپنے آپ کو چھپانے کی دعا کرنا۔یا استدعا کرنا۔ کہ اے اللہ ! اگر کچھ ہے بھی تو ڈھانپ دے۔ جیسے ایک جانور مٹی میں گھس جاتا ہے اور چھپ جاتا ہے۔ یہ مضمون ہے مغفرت کا اور آدم کا پتے سے اپنے آپ کو ڈھانپنا بھی اسی مضمون سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت آدمؑ نے بخشش طلب کی تھی اور اللہ تعالیٰ سے وہ ستاری مانگی تھی جس کے بغیر اس کے عیوب چھپ نہیں سکتے تھے۔ پس یہاں اس مضمون کا تعلق یوں ہوگا۔
واغفرلنا ذنوبنا : ہمارے اندر اگر کوئی مخفی چھپی ہوئی اندرونی کمزوریاں ہیں جو ابتلا کے موقع پر ظاہر ہوجایا کرتی ہیں اور اب بڑی آزمائش کے دن ہیں۔ پس تیری مدد کے بغیر ہم پر پردہ نہیںپڑ سکتا۔ ہماری ستاری نہیں ہوسکتی۔ آج ہو سکتا ہے ہمارا ننگے ہونے کادن ہو۔ پس اے خدا ! ہماری کمزوریاں ڈھانپ لے۔ اور ہمیں دشمن کے سامنے ننگا نہ ہونے دے۔ دوسرا مضمون ہے ’’و اسرافنا فی امرنا ‘‘ اور ہم نے اپنے اوپر جو زیادتیاں کی ہیں۔ اگر کی ہیں تو وہ بھی ہمیں بخش دے اور معاف فرمادے۔ اپنے خلاف۔ اپنے مفاد کے خلاف انسان بعض دفعہ ایسی باتیں کرتا ہے مثلاً زندگی کی روزمرہ، روزمرہ کی طرز میں انسان اگرسستی اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ غفلت کرتا ہے۔ تو وہ طاقتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو عطا ہوئی ہیں۔ وہ کمزور پڑتی چلی جاتی ہیں اور بہت سی بدنی کمزوریاں روزمرہ کی زندگی کے سہل دستور سے تعلق رکھتی ہیں۔ تن آسانیوںسے تعلق رکھتی ہیں۔ پس بہت سی ایسی طاقتیں خدا نے انسان کو عطا فرمائی ہیں۔ جو اس کے اندر موجود ہیں۔ جیسے کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے اول تو ان کاپورا استعمال ‘ پورے یقین اور خدا کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ دوسرے اپنی بعض کمزوریوں کی وجہ سے اپنے مفاد کے خلاف ہم نے جو سابق میںحرکتیں کی ہیں۔ گزشتہ زندگی میں۔ اس کا ہماری بدنی طاقتوں پر یا ہماری ذہنی طاقتوں پر جو بد اثر پڑا ہے۔ ہم اس کے خلاف تجھ سے مدد مانگ رہے ہیں۔ اور بخشش کی تمنا رکھتے ہیںالتجا کرتے ہیں۔
تیسرا مضمون ہے۔ ’’وثبت اقدامنا‘‘ اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش۔ اس کا ’’وما استکانوا ‘‘ سے تعلق ہے۔ ’’استکانوا‘‘ میں دشمن کے سامنے گر جانا ہے۔ اور ثبات قدم کا بعینہٖ اس کے برعکس معنیٰ ہے۔ کہ کسی قیمت پر بھی قدموںمیں لغزش نہ ائے۔ اور مرو تو سربلند مرو۔ لیکن جھک کر نہیں مرنا۔ ویسا ہی مضمون ہے جیسے سلطان ٹیپو کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ آخر اکیلا انگریزوں کی فوج سے لڑنے کیلئے چل پڑا تو اس کے ساتھیوں نے اسکو سمجھایا۔ روکا۔ اس نے اس کے جواب میںکہا جو آج تک ہمیشہ سلطان ٹیپو پر اور ہندوستان کی تاریخ پر لکھنے والے بڑے نمایاں قلم سے لکھتے ہیں۔ جلی قلم سے کہ’’ شیر کی آدھے گھنٹے کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ اس لئے میں اکیلا ہوں۔ مجھے پتہ ہے میں مارا جائوں گا۔ ان میں ضعف ہوچکا ہے۔ ہماری فوج ضعیف ہوگئی ہے لیکن ’’استکانت‘‘ نہیں دکھائونگا۔میں مرونگا تو سربلند مروں گا۔ چنانچہ اس چیز کو قرآن کریم نے ’’مااستکانوا‘‘ سے ظاہر فرمایا یہ جو انبیاء اور ان کے ساتھ بزرگ اور خدا والے لوگ لڑنے والے تھے انہوں نے کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔دشمن کے مقابل پر جھکے نہیں اوران کی عزت نفس اسی طرح قائم رہی۔ اگر یہ ہوجائے تو ایسا شخص کبھی شکست نہیں کھایا کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی موت بھی فتح بن جاتی ہے۔ یہ و ہ لوگ ہیں جن کو بعد میں دشمنوں کے مورخین بھی سر سے ٹوپی اتار کے داد تحسین پیش کرتے ہیں کہ تھا تو دشمن مگر کمال کا ایک شخص تھا۔ اسی طرح وہ جرنیل جس نے سپین (Spain) میں آخری دم تک لڑ کر پھر سفید گھوڑے پر چھلانگ لگائی۔ دریا میں اور غرق ہوگیا۔ اس کے متعلق بھی دشمن سے دشمن مورخ اسطرح ذکر کرتا ہے کہ ہمیشہ اس کی عزت قائم و دائم اور زندہ رہے گی اور اس پر کوئی حرف نہیںآئے گا۔ تو اصل غلبہ یہ غلبہ ہے کہ جس حالت میں کوئی مرے اپنے سر کو بلند رکھتے ہوئے عزت کے ساتھ دشمن کے سامنے نہ جھکتے ہوئے اور اپنی عظمت کردار کو قائم رکھتے ہوئے مرے۔ یہ ثبات قدم ہے۔ ثبات قدم کا یہ مطلب نہیں کہ انسان مار ہی نہ کھائے۔ ثبات قدم دکھانے والے کئی دفعہ میدان جنگ میں بہت بری طرح ذلیل ورسوا تو نہیں مگر ناکام اس طرح کردیئے جاتے ہیں کہ ان کو صفحہء ہستی سے مٹادیا جاتا ہے۔ وہ قدموں پر قائم رہتے ہوئے مرتے ہیں۔ گھٹنوںکے بل نہیں مرتے۔ یہ مضمون ہے استکانوا کا۔
تو فرمایا ہے کہ ہمیں ثبات قدم عطا فرما ! ہمیں ظاہری طور پر بھی مضبوط قدم رکھ اور ہمارے نفس کے لحاظ سے، عزت نفس کے لحاظ سے بھی ہمارا سربلند رکھنا۔ یہ چیزیں جب کسی چیز، کسی قوم میں آجائیں تو نصرت اس کا طبعی نتیجہ بن جاتی ہے۔ وانصرنا علی القوم الکفرین اور ہمیں کافروں پر نصرت عطا فرما۔ تو یہ ایک طبعی نتیجہ ہے اور یہ دعا ان ساری باتوں کے بعد اگر قبول ہوجائے پہلی باتوں میں یہ دعا قبول ہو جائے تو پھر نصرت کا مانگنا گویا کہ ایک منطقی نتیجہ ہے۔ پھر تو نصرت آنی ہی آنی ہے اور غلبہ جب اللہ کی طرف سے آئے یعنی نصرت جب اللہ کی طرف سے آئے تو اسی کو غلبہ کہا جاتا ہے۔ پس میں نے جب اس کا ترجمہ کیا کہ ’’غیروںپر ہمیں غلبہ عطا فرما‘‘ تو ظاہراً تو نصرت سے مراد غلبہ نہیں ہے۔ ایک کمزور کی نصرت حاصل بھی ہوجائے تو غلبہ نہیں ہواکرتا۔ لیکن جب اللہ سے نصرت آتی ہے تووہ لازماً غلبے میں تبدیل ہوتی ہے۔یہ جو آثار تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کے چہروں پر یہی آثار دیکھ کر جنگ بدر میں اس شخص نے جو جائزہ لینے کیلئے آیا تھا واپس جاکر جب بیان کیا کہ کتنا لشکر تھا کس قسم کے لوگ تھے۔ وہ ایک ہزار سوار جوان جو ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھے وہ بڑی دلچسپی سے یہ سن رہے تھے اور بڑی تحقیر سے دشمن کو دیکھ رہے تھے کہ ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آناً فاناً ہم ان کو نیست و نابود کردیں گے۔ جب ساری باتیں وہ ختم کرچکا کہ ان میں اتنی کمزوری ہے۔ اس قسم کے لوگ ہیں اور ظاہری طور پر کچھ بھی حیثیت نہیں۔ بعضوںکے پاس ہتھیار بھی نہیں ہیں تو پھر اس نے آخر پر کہا ’’لیکن ایک بات میں تمہیںبتادیتا ہوں کہ جیتیں گے وہ اور ہارو گے تم !‘‘ وہ حیران رہ گئے۔ یہ کیا مطلب ہے۔ تم نقشے کھینچ رہے ہو حد سے زیادہ کمزوری کے: اور نتیجہ ایسا بے معنی اور لغو نکال رہے ہو۔ اس نے کہا تم سمجھتے نہیں۔ میں 313 زندہ آدمی نہیں دیکھ کے آیا۔ میں 313 موتیںدیکھ کے آیا ہوں ۔ ان میں سے ہر ایک اس عزم کے ساتھ آیا ہے کہ جو کچھ گزر جائے ہم دشمن کے سامنے جھکیں گے نہیں اور کوئی ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ تو اسکے جواب میں اس نے کہا کہ دیکھو ! زندوں کو لوگ مارا کرتے ہیں۔ موتوں کو نہیں مارا کرتے ۔ پس میرا نتیجہ عقلی اور طبعی ہے کہ تمہیں آج ان پر غلبہ نہیں نصیب ہوسکتا۔
اور یہی ہوا۔ پس یہ وہ مضمون ہے اور اس مضمون کا دعا کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جتنی انسان میں دشمن کے مقابل پر کمزوری ہو۔ ظاہری طور پر۔ اتنا ہی دعا کے ذریعے ساتھ ان تینوں کمزوریوں کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مددمانگنی چاہئے۔ اورپھر نصرت غیب سے آتی ہے۔ اس کے جواب میں آگے جو آیت ہے وہ ذکر کرنے سے پہلے ’’قدم‘‘ کے لفظ پرکچھ اور ایک دو پہلو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
وثبت اقدامنا : کی دعا میں ایک مضمون یہ بھی ہے کہ قدم صدق انسان کو نصیب ہونا چاہئے۔ وہی لوگ یہ دعا کرنے کے مجاز ہیں جن کا قدم سچائی پہ پڑتا ہو۔ اور سچائی پر قدم پڑے بغیر انسان نہ یہ دعا دل سے مانگ سکتا ہے۔ نہ اسکی یہ دعا قبول ہوسکتی ہے۔ پس وہ جو قدم صدق کا مضمون عربی میں اس تعلق میں بیان کیا جاتا ہے۔ وہ بعینہ حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں پر صادق آتا تھا۔ یہاں قدم قوم کے سردار کو بھی کہتے ہیں لیکن میں ایک اور معنیٰ بھی اس میں پاتا ہوں۔ جو میں آپ کے سامنے آج رکھنا چاہتا ہوں۔ سردار تو کہتے ہیں سر والے کو اور سید کہتے ہیں اس کو جو سب بلند اور اونچا ہو۔ تو قدم کے اصل معنے کیا بنیں گے پھر۔ قدم اور سر ایک چیز کے نام تو نہیںہیں۔ دراصل قدم سے مراد قوم کا نچلا حصہ ہے۔ اور قوم کا نچلا حصہ جسے لوگ معمولی سمجھتے ہیں یعنی عوام الناس ۔ اگر اُن میں سچائی آجائے۔ اگر وہ ثبات اختیار کرجائیں تو پھر ایسی قوم کو دنیا میں کوئی طاقت مغلوب نہیںکرسکتی۔ پس میں اس سے یہ سبق سمجھا ہوںکہ اپنے عوام کی طرف توجہ کرو۔ اگر تم میںسے کچھ سردار نیک بھی ہوں بزرگ بھی ہوں۔ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل بھی ہوں تو تب بھی تم اس بات پر راضی نہیں ہوسکتے اور تمہاری فتح کی کوئی ضمانت نہیں جب تک کہ تمہارے ’’عامۃ الناس‘‘ کا معیار بلند نہ ہو اور وہ صدق نہ بن جائیں۔ ان کے سچے ہوئے بغیر تمہیں قدم صدق نصیب ہو ہی نہیں سکتا۔ پس اسی مضمون کو قران کریم نے امامت کی دعا کے ساتھ باندھتے ہوئے یوںفرمایا ہے کہ
’’و اجعلنا للمتقین اماما ‘‘
اے خدا ! امامت جب تک متقیوںکی نہ ہو بے معنی اور بے حقیقت ہے۔ پس ہمیں امامت کا کوئی شوق نہیں: متقیوں کی امامت ہو تو پھر ہم اس لائق ٹھہریں گے کہ ہم تجھ سے بھلائی کی توقع رکھیں اور عظمتیں ہمیں نصیب ہوں اور رفعتیںعطا ہوں۔ یہ سب کچھ امامت کی باتیں ہیں۔مگربشرطیکہ وہ لوگ جو امام کے پیچھے چلنے والے ہیں وہ متقی ہوں۔ پس قدم کا تعلق اس سے ہے اور قدم سے سر کو عزت ملتی ہے۔ یہ مضمون ہے۔ اگر عوام متقی ہیں تو امام کے تقویٰ کو تقویت ملے گی۔ اور وہ سربلند ہوگا۔ اور امام کی رفعتیں۔ عوام کی رفعتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ الٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ امام کی سربلندی سے عوام کو رفعت ملتی ہے لیکن یہ دونوں ایسے مضمون ہیں جن کو ہم لازم ملزوم کہہ سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جو عظمت ملی اس عظمت سے آپ کے غلاموں نے حصہ پایا۔ اور جب غلاموں نے حصہ پایا تو آپ کا قدم ’’قدم صدق‘‘ کہلایا۔ ایسا پائوں جو سچائی کا پائوں تھا۔ اور اس کے نتیجے میں پھر اسلام کیلئے کوئی لغزش کا سوال نہیں تھا۔ پس دونوں طرف یہ مضمون چلتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو ایسے بیان فرمایا ہے کہ
ہم ہوئے خیرِ ُامم تجھ سے ہی اے خیر رُسل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
یہ وہی قدم ہے جو امت کا قدم ہے۔ لیکن امت کا قدم آگے بڑھا تو شان ِ مصطفویؐ زیادہ شوکت کے ساتھ اُبھری ہے۔ اور سب دنیا کے سامنے وہ نمایاں ہوئی ہے۔ پس اس قوم کے سردار کو عزت نہیں ملا کرتی۔ جو قوم سردار کو چھوڑ دے اور پیچھے رہ جائے۔ پس یہ مضمون لازم و ملزوم ہے۔
اب حضرت موسٰیؑ کو دیکھیں۔حضرت موسیٰ کی قوم نے جب ان سے یہ کہا
’’اذھب انت و ربک فقاتلا وانا ھھنا قاعدون ‘‘
جا تو اور تیرا رب لڑتے پھرو۔ ہم تو یہیںبیٹھ رہیں گے۔
تو حضرت موسیٰؑ کو کون سی سروری نصیب ہوگئی۔ کونسی عزت عطا ہوئی۔ وہ تو 40 سال بعد میں بھی ان کیساتھ بھٹکتے رہے۔ پس اس مضمون کو جماعت احمدیہ کو خوب ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ یہاں ثبات قدم سے اول مراد میرے نزدیک کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہیں ہورہی وہ تو ثبات قدم کا ایک مجسمہ تھے یہاں ا ن اصحابہ کی بات زیادہ ہورہی ہے جن میں سے بعض نے کمزوری دکھائی تھی۔ اور وہ مضمون چل رہا ہے۔ تو اس لئے اگرآپ کمزوری، عوام الناس کمزوری دکھائیں گے تو امام کا اس دکھ میں شامل ہونا ضرور ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے متعلق جو حسن ظن ظاہر فرمایا ہے وہ ان الفاظ میں ہے کہ:-
’’میں ساری دنیا کو اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں۔‘‘
اپنی سچائی کے قدم کے نیچے تمام دنیا کو دیکھتا ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا پر جو غلبہ ہے وہ سچائی کا غلبہ ہوگا۔ اور وہ محض ظاہری غلبہ نہیں ہوگا۔ ورنہ ظاہری غلبے کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ اور یہ غلبہ تب نصیب ہوگا اگر ساری جماعت کا قدم صدق پر ہو۔ اور عامۃ الناس کا معیار تقویٰ کا بلند ہو۔
پھر آپ دیکھیں کہ کس قدر تیزی سے اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو فتوحات عطا فرماتا ہے۔ تفسیر رازی میں یہی مضمون اپنے رنگ میں یوں بیان ہوا ہے کہ اس آیت کا موقع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے مقابل پر تو مومنوں کو غلبے کے وعدے دیتا ہے اس لئے ظاہری طور پر جو جنگ اُحد میںایک شکست کی صورت پیدا ہوئی وہ چونکہ غلطی کے نتیجے میںہوسکتی ہے اللہ کی طرف سے نہیں ہوسکتی۔ اس لئے خصوصیت سے اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
علامہ محمد بن یوسف الحیان نے بھی تفسیر بحر المحیط میں بھی پہلی آیت کے ساتھ ان تین دعائوں کا تعلق باندھا ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے نوٹس میں لکھا ہوا ہے یہاں وہیری کا ایک حوالہ قابل ذکر ہے۔ وہ اسی آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
Victory over the infidels. The marked difference between the teaching of the Quran and the Bible as to the condition of the people of the Lord in this world is worthy of note. The Quran evereywhere teaches that though they had trials similar to those endured by Muhammad and the Muslims of Makkah and Madina, yet in the end they were manifestly triumphant over the infields in this world. The Christain need not be told that this is very far from the teadhing of the Bible. Final time is certain, but is may be wrought out on the cross or admidst the laggots and instruments of persecution and death.
یہ جو ان کا تبصرہ ہے یہ بتارہا ہے کہ اس آیت کی سّچائی پر کیسے کیسے بَل کھاتا رہا ہے دشمن ؛ اور کیسا کیسا اندر کھولتا رہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ جو فتح کے وعدے تھے یہ کیوں پورے ہوئے اور کیوںہر دفعہ اور بالآخر لا زمًا اُنہیںفتح نصیب ہوئی اگر ہر دفعہ ان معنوں میں نہیں کہ وقتی طور پر کوئی کمزوری ظاہر ہو گئی جیسا کہ بات ہو رہی ہے اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ یہ بات سّچی ہے کہ آخری فتح مومنوں ہی کی ہوئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوںکی ہوئی ہے اس کے اس complex احساس کمتری میںمبتلاہو کر وہ عیسائیوںکو تسلّی دلا رہا ہے کہتا ہے دیکھو ہمارے اور ان کے تصوّرات میں فرق ہے جو ہمارا تصوّر ہے وہ بہت بلند تر ہے اور ان کا ادنی تصوّر ہے ۔یہ سمجھتے ہیں کہ دشمن کے مقابل پر آخری فتح نصیب ہو جائے تویہی اللہ کی رحمت کی نشانی ہے ۔ یہی عظمت ہے اور بائبل جس فتح کو پیش کرتی ہے وہ سولی پر چڑھ جانے کی فتح ہے اور مختلف قسم کی اذیتوں میں مبتلا ہونے کی فتح ہے۔جیسا کہ عیسائیوں کو مختلف اذیتیں پہنچائی گئیں اگر باقی باتوںکو چھوڑئیے تو صاف ظاہر ہے کہ اسلام کے فلسفے کے مقابل پر اس کو کوئی نہیں رکھ سکتا اگر ادنیٰ سا بھی اُس میں شعور ہو تقویٰ ہو تو ایسی بیہودہ بات نہیں کرسکتا۔ کیونکہ قرآن کریم تو شہادت کو ایک عظیم فتح کے طورپر پیش کرتا ہے اور محض ظاہری فتح پر مومنوں کے غلبے کی بناء نہیں رکھتا بلکہ ایسے شہید تھے جو جب شہید ہوتے تھے تو کہتے تھے فزت برب الکعبۃ یا فزتُکہ میں خدا کی قسم کامیاب ہوگیا ،رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ تمام شہداء کا تذکرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قرآن کی تعلیم کی روشنی میں ایک عظیم کامیابی کے طورپر ہوا ہے۔ پس یہ بات ہی جھوٹی ہے کہ گویا اسلام اس قربانی کو جو عیسائیت بھی پیش کرتی ہے قبول نہیں کرتا اور اسے رد کردیتا ہے اور محض ظاہری فتح کو قبول کرتا ہے۔ اسلام یہ پیش کرتا ہے کہ جہاں تک انفرادی معاملے کا تعلق ہے ہر وہ شخص جو اس عظیم جہاد میں مارا جاتا ہے فتح سے پہلے وہ بھی فتح مند ہے لیکن اس کا انجام بد نہیں۔ بحیثیت قوم یہ ہو نہیں سکتاکہ کوئی خدا کی خاطر کوئی یہ قربانیاںدکھائے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے آخری فتح نصیب نہ کرے۔ یہ مضمون ہے جسے وہ سمجھتا نہیں ہے۔ یا جان کے اس سے آنکھیں بند کرتا ہے یا اس عذاب میں مبتلا ہوکر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ وعدے سب سچے نکلے تو ہم عیسائیوں کوکیا منہ دکھلائیں کیا کہیں کہ ہمارا انجام کیا ہوا سولی پہ چڑھ جانا تو کہتے ہیں کہ دراصل سولی پر چڑھنا ہی فتح تھی اور یہ عیسائی نظریہ ہے جو قرآن کے مقابل ہے۔اگر یہ فتح تھی تو حضرت مسیحؑ کی یہ دعا کیا تھی کہ ’’ایلی ایلی لماشبقتانی‘‘ اے خدا مجھے کیوں فتح دے رہا ہے۔ اٹھالے اس فتح کو مجھ سے اور وہ دعا کیا تھی کہ یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے مجھ سے ٹال دے یعنی خدا فتح کی طرف لے جارہا تھا اور بتا رہا تھا کہ ہمارے نزدیک یہ فتح ہے اورحضرت مسیح کہتے تھے کہ خدا اب تو تیری خاطر میں عرض کرتا ہوں ۔ اے باپ آسمانی باپ مجھے فتح نہیں چاہئے۔مجھے شکست دے دے اور فتح کو ٹال دے۔ یہ ایسے جاہل لوگ ہیں نہ ان کو قرآن کا پتا نہ اپنی کتاب کاپتا نہ اپنے امام کا پتا کہ وہ کیا تھا اورکیا چاہتا تھا لیکن غیظ و غضب میں گھلتے کھولتے ہوئے جہاں موقع ملے اسلام پر اعتراض ضرور کرتے ہیں۔ اس درس کے دوران یعنی ان درسوں کے دوران میں انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو عیسائی محققین یا so called محققین، نام نہاد محققین ان کے متعلق میں آپ کو تفصیل سے بتائونگا کہ یہ کیسے شروع ہوئے کون لوگ تھے۔ کس علم کے ساتھ اس میدان میں کُودے ہیں کیا ارادے تھے کس طرح ان کی Cliques بنی ہوئی ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کو ناحق تقویت دیتے ہیں اور عربی معنوں کو یا سمجھتے نہیں یا عمداً بگاڑتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنے دین سے منحرف کرنے کیلئے یہ ساری یونیورسٹیاں قائم ہیں جن میں مسلمانوں کویہ عیسائی لوگ اسلام سکھاتے ہیں۔ اور مسلمان سادہ لوح بیچارے وہ ان سے اسلام سیکھنے کیلئے ہزار ہا پائونڈ ہر سال خرچ کرکے اور ان پر قربان کرکے اپنا دین ان پر نچھاور کررہے ہوتے ہیں۔ یہ بہت دلچسپ لمبی کہانی ہے اس سے پردہ اٹھنا چاہئے اور میں نے پچھلی مرتبہ منٹگمری واٹ کے متعلق بتایا تھا کہ ان کا علمی آغاز کیسے شروع ہوا آخر ایک مُلاں ہی تھے وہ۔ ایک پادری تھے اورباقاعدہ اسلام کے خلاف ڈسنے کی تربیت حاصل کی ہے اور لمبے عرصے تک اُن یہود علماء میں بھی جاتے رہے ہیں جن کا بظاہر عیسائیت کے ساتھ ایک مقابلے کا تعلق ہے معاندانہ تعلق ہونا چاہئے۔ دوستی کا تعلق تو نہیں تھا لیکن اسلام کے خلاف بغض سیکھنے کیلئے یا مزید حربے حاصل کرنے کیلئے ایک لمبا عرصہ یروشلم میں بھی جاکر رہے۔ مگر یہ باتیں میں پچھلے درس میں بیان کرچکا ہوں۔ آئندہ آپ کو وہیری صاحب کے متعلق بھی بتائونگا۔ سیل صاحب کے متعلق بھی بتائوں گا۔ ان کی حقیقت کیا ہے؟ اور موجودہ دور کے جو علماء ہیں ان کا طرز عمل۔ اور S.O.S میں کیا ہورہا ہے کیا تعلیم دی جاتی ہے۔ بے چارے مسلمانوں کو۔ ان باتوں پر خود ان کی بیان کردہ تاریخ کے حوالے سے میںمزید وضاحت سے روشنی ڈالوں گا۔ تو سردست میں اس کو چھوڑتا ہوں کیونکہ ابھی کچھ مضمون کے پہلو تشنہء تکمیل ہیں۔
BELL ہے۔ بیل کے متعلق میں نے کچھ حوالے اکٹھے کرلئے ہیں۔ یہ منٹگمری واٹ کے استاد ہیں اور زہر فشانی میں اور جہالت میں ان کا کوئی ثانی مستشرقین میں دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن جب میں بعدمیں حوالے پیش کرکے یہ ثابت کرونگا کہ یہ بات جو میں دعویٰ کررہا ہوں یہ درست ہے۔ اس وقت یہ سجے گی۔ اس لئے سردست میں اس کو چھوڑتا ہوں۔
فاتھم اللّہ ثواب الدنیا و حسن ثواب الآخرۃ واللّہ یحب المحسنین O
تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جن کی دعا کا ذکر ابھی گزرا ہے۔ ثواب الدنیا دیا۔ وحسن ثواب الاخرۃ ‘‘ اور آخرت کا بہترین ثواب عطا کیا۔ واللّہ یحب المحسنین اور اللہ تعالیٰ محسنوں سے محبت کیا کرتا ہے۔ محبت کرنے والا ہے۔ یا محبت رکھتا ہے جس طرح بھی چاہیں ترجمہ کرلیں۔
آل عمران آیت 149
لفظ احسن کا مطلب ہے کسی چیز کو اچھا کیا۔ یا کسی چیز سے بھلائی کی۔ دونوں مضمون بنیادی ہیں اور اس سے اسم فاعل بنا ہے۔المحسن : یعنی کسی سے بھلائی کرنے والا یا کسی کو اچھا بنانے والا احسن الیہ و بہٖ کے معنی ہیں عمل حسنا و اتاہ الحسنۃکسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ نیز اتیٰ بالحسن یعنی نیکی کے ساتھ اس سے معاملہ کیا۔
امام راغب فرماتے ہیںکہ احسان کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے (جیسا کہ میں نے ابھی ظاہر کیا ہے خود بھی) اول یہ کہ دوسروں پر انعام کرنا۔ کسی قسم کے احسانات کرنا۔ اسی سے لفظ احسان ہماری اردو میں بھی رائج ہے اور دوسرا یہ کہ اپنے کاموں میں حسن پیدا کرنا اور یہ حسن حسن علم اور حسن عمل دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ پس محسنین کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک غیروں کا تعلق ہے وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں۔ اور ان پر انعام کرتے ہیں۔ ان سے نرمی کا برتائو کرتے ہیں۔ جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے وہ اپنے اعمال سنوارتے ہیں اور یہ نرمی کا برعکس مضمون ہے۔ پس جیسے ظلم میںایک حسن کا پہلو تھا جیسے کہ میں نے کل بیان کیا یہاں اس حسن میں ایک ظلم کاپہلو بھی ہے۔ کوئی شخص جو اپنی ذات پر رحم کرنے والا ہو۔ اوراپنی کمزوریوں سے پردہ پوشی کرنے والا ہو۔ وہ اپنے اعمال سنوار نہیںسکتا۔ وہ تو دن بدن بگڑتا ہی چلا جائیگا۔ پہلی جرائت یہ چاہئے کہ انسان اپنی کمزوریوں کو دیکھے اور شناخت کرے۔ اور پہلا ظلم نفس پر وہ ہوتا ہے۔ جب انسان کہتا ہے ’’ہاں میں بُرا ہوں‘‘۔ اور پھر اس ظلم کے بعد ایک ظلموں کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ اس غرض سے پہچاننا ہے کہ ڈھٹائی نہ آئے۔ اس غرض سے کمزوری کو پہچاننا ہے کہ اس کو دور کرنا ہے۔ تو سب دنیا جانتی ہے کہ ایک کمزوری کو دور کرنے کیلئے کتنی محنت درکار ہوتی ہے۔ بعض دفعہ کمزوری انسانی ذات کے ساتھ پیوستہ ہوکر اس کا حصہ بن چکی ہوتی ہے اور اسے اکھیڑ کر باہر نکالنا بڑا ظلم چاہتا ہے۔ پس یہاں حسن ظلم کے معنوں میں ہے اگر اپنی ذات کے ساتھ تعلق رکھتا ہو۔ تو اپنی کمزوریوں کو پہنچانتے چلے جاتے ہیں۔ان کا کھوج لگاتے ہیں اور پھر انہیں اکھیڑ پھینکتے ہیں۔ اور کوئی کمزوری قرآنی فلسفے کے مطابق اکھیڑی نہیں جاسکتی۔ جب تک اس سے بہتر چیز اس جگہ لگانے کیلئے موجود نہ ہو۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے۔
’’ ادفع بالتی ھی احسن السیّۃ ‘‘
یہ وہی مضمون ہے کہ اپنی ذات میں وہ محسن کیسے بنتے ہیں۔ خوبصورت چیزیں ہی ایسی چیزیں ہیں جو بدیوں کو اکھیڑنے میں مدد ہوسکتیںہیں اور حسن وہ ہے جس کی طرف طبیعت از خود مائل ہوتی ہے۔
پس فرمایا کہ تم اپنی ذات کو حسین بنا ہی نہیں سکتے۔ جب تک کہ پہلے بدیوں کو اکھیڑنے کیلئے کسی حسن کے گرویدہ نہ ہو۔ کسی حسن پر تمہارا دل مائل ہوگا تو پھر تمہیں اپنی بدی نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے گی۔ ورنہ دکھائی بھی نہیں دیتی۔ پھر تم اس حسن کی مدد سے اپنی بدی کو اکھاڑ کر پھینک دو گے۔ اور اسکی جگہ خوبصورت چیز لگا دوگے۔ اگر غریب کے گھر ٹاٹ بچھا ہو اور قالین میسر نہ ہو تو وہ پاگل ہوا ہے کہ ٹاٹ کو اٹھا کر باھر پھینک دے۔ اس کو خیال بھی نہیں آئے گا۔ کوئی کہے کہ میاں گندا ٹاٹ ہے پھینکو۔ وہ کہے گا جائو اپنے گھر جائو ! ہمیں یہی بہت ہے۔ لیکن اگر قالین مل جائے خوبصورت سا تو پھر اس کا سر تو نہیں پھرا ہوا کہ اس ٹاٹ کو گھر میں رکھے۔ پس قرآن کریم نے یہ گہرا نکتہ بیان فرمایا ہے بدیوںکو دور کرنے کا کہ پہلے ایک حسن پر نظر رکھو۔ وہ اگر تمہارے قلب کو واقعتہً گرویدہ کرلے۔ تمہیں سچا عاشق بنالے۔ پھر بدیاں دور کرنا معمولی بات ہوجائیگی۔ پس احسن کا مضمون یہاں یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے اس کے حسن کو مستعار لیتے ہیں۔ اس کی خوبیوں پر نظر رکھتے ہیں اور اس کے عاشق ہوتے چلے جاتے ہیں اور ایک ایک خوبی کے مقابل پر جب ایک بدی اپنے اندر پاتے ہیں تو چونکہ وہ خوبی اوروہ بد ی بیک وقت انسانی ذات میں اکھٹے نہیں ہو سکتے اس لئے اس بدی کو اس حسن کی طاقت سے دھکیل کر باہر پھینک دیتے ہیں اور جو لوگ یہ کرتے ہیں وہ محسن ہیں۔
’’واللّہ یحب المحسنین ‘‘ : وہ لوگ خواہ کسی بھی منزل تک پہنچے ہوں ضروری نہیں ہے کہ وہ آخری منزل تک پہنچ ہوں کیونکہ اس سفر کی آخری منزل ہے ہی کوئی نہیں۔ احسان کا مضمون تو جاری و ساری مضمون ہے۔
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
والی بات ہے۔ اور وہ جو میں نے پہلے ایک دفعہ اس مضمون میں بیان کیا تھا کہ
’’اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں ‘‘
تو جہاں اللہ کے حسن سے مستعار لینا ہو۔ اس کی نقل اتارنی ہو۔ وہاں آخری منزل ہے ہی کوئی نہیں۔ تو جو لوگ بھی مریں گے وہ اپنی منزل سے پہلے مر جائیںگے۔ وہ اس مضمون میں کمال حاصل نہیں کرسکتے۔ تو محسنین سے مراد یہ نہیں ہے کہ جنہوں نے حسن تام حاصل کرلیا ہو۔ محسنین سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو حسین تر بنانے کی جدوجہد میں زندگی گزار رہے ہوں۔ پس جس لمحہ بھی ان پر موت آئے گی خدا کے نزدیک وہ محسن کہلائیں گے۔ اب دیکھئے اس آیت کا کتنا گہرا تعلق گزشتہ آیت سے ہے۔ اور ان الزامات کو کیسے رد کرتی ہے جو جنگ احد میں مومنوںپرکئے گئے تھے۔ بعض …سے کمزوریاں سرزد ہوئیں۔ لیکن ان کے دل کی کیفیتیں وہی تھیں جو اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرما رہا ہے۔
پس ان دعائوں کے ساتھ انہوں نے ان کمزوریوں کو دور فرمایا اور بعض قلبی کیفیات ایسی ہونگی جن کا بیان ہمیں نظر نہیں آتا۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو معاف فرمادیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ بغیر کسی قلبی درد کے یونہی تو معاف نہیں فرماتا۔ مضطر کی دعا قبول کرتا ہے اور مضطر وہ ہوتا ہے جو مجبور اور بے اختیار ہو۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ وہ قدم جن کے لئے اکھڑے ہیں ایسی حالت میں اکھڑے ہیںکہ وہ بے اختیار اور مجبور تھے۔ اور دعائیں کرتے تھے۔ خدا سے کہ انہیں طاقت نصیب ہو۔ ان کی یہ کمزوریاں دور ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ ان اعتراف جرم کرنے والوں کو جنکا بظاہر یہی نظر آتا ہے ہم نے یہ کیا اپنے اوپر ہم نے یہ ظلم کیا۔ ہم نے یہ ظلم کیا ۔ ہمیں تومعاف فرمادے۔ بغیرجرم کے تو معافی نہیں فرمایا کرتا کوئی۔ جنہوں نے ظلم نہیں کیا تھا وہ بھی معافیاں مانگ رہے تھے۔ یہ وہ دعا ہے جو انبیاء کی اور انکے ساتھیوں کی مشترکہ دعا ہے۔ ہمیشہ سے یہی ان کا اسلوب رہا ہے۔ ہمیشہ ایسی دعائیں کرتے آئے ہیں تو اس دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انہیں محسن قرار دیتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو اپنے آپ کو بدترین کہہ رہے ہیں۔ ان کو اللہ محسن کہہ رہا ہے۔ تومحسن بننے کا راز سکھادیا گیا۔ محسن وہ نہیں ہوا کرتا جو اپنے آپکو خوبصورت بناکر دکھائے۔ محسن وہ ہوا کرتا ہے جو اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے اور احتیاطاً اپنی بعض کیفیتوں کو کمزوریاں ہی سمجھے۔ بعض دفعہ احتیاطاً کہا جاتا ہے بعض دفعہ اس لئے کہ درحقیقت وہ اندرونی کیفیات جن کو آج ہم کمزوری نہیں سمجھ رہے کل ایسی کیفیت میں داخل ہوسکتے ہیں کہ انہیں کمزوریاں سمجھنے لگیں۔ کیونکہ آج کے ماحول میں اور آج کے شعور میں بعض باتیں ہمیں کمزوریاں دکھائی نہیں دیتیں۔
مثلاً گندے ماحول میںپلنے والے لوگ ہیں گندے معاشروں میںپلنے والے لوگ ہیں۔ انکو جب ماں باپ سمجھاتے ہیں تو وہ پلٹ کے کہتے ہیں کہ کیا بات کررہے ہو یہ تو کوئی کمزوری نہیں۔ ٹھیک ٹھاک ہے۔ بالکل اچھی بات ہے۔ توان کو حسن نہیں عطا ہوسکتا۔ وہ محسن بن ہی نہیں سکتے۔ پس کمزوریوں کی پہچان ان کو بعد میں ہو بھی جاتی ہے۔ ایسے لوگ ہیں جو پھر میں عملاً جانتا ہوں کہ ان سے کمزوریاں سرزد ہوئیں اور بعد میں بڑی گریہ و زاری سے خط لکھتے ہیں کہ ہمیں نظر نہیں آیا ۔ ہم اندھے ہوگئے ۔ ہم سے یہ غلطی ہوگئی۔ ہمیں معاف کیا جائے۔ جماعت میں پھر داخل کیا جائے۔ اور اس قسم کے مضمون۔ تو یہ کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں۔ پس ہر انسان کا کمزوری کا احساس اس کے شعور کی لطافت سے تعلق رکھتا ہے۔ جوں جوں معیار بلند ہوگا جوں جوں شعور لطیف ہوگا۔ جوںجوں ذوق لطیف ہوگا۔ وہ چیزیں جو پہلے حسن دکھائی دیتی تھیں وہ بدیاں دکھائی دینے لگیں گی۔ پس اس لحاظ سے یہ آیت ہمارے لئے بہت ہی اہمیت رکھتی ہے کہ ان لوگوں میں جو دعائیں کرتے تھے ایسے بھی شامل تھے۔ جن سے کوئی غلطیاں سرزد نہیں ہوئی تھیں۔ اور کسی جاہل کا یہ کہنا کہ یہ اعتراف ہے اس بات کا کہ سارے انبیاء گنہ گار تھے یہ بالکل ایک جہالت کی بات ہے۔اس میں محض ایک ظالم کی بڑ ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اتنے لطیف اور اعلیٰ مضامین اس آیت میں بیان ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو دکھائی دیتا تو عاشق ہوجاتا۔
اندھے نے کیا عشق کرنا ہے۔ اندھا تو اپنے تعصب سے سنی سنائی بات کو مانتا ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو سنی سنائی نفرتوں کو اپنے دلوں میںپال رہے ہیں۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ مسلسل ایک ایسی جدوجہدمیں مشغول ہیں کہ کمزوریاں ان کو ایک کے بعد دوسری دکھائی دیتی چلی جارہی ہیں اور وہ محسن ہونے سے ہٹتے ہی نہیں کبھی۔ یعنی جاری و ساری مضمون ہے۔ جو انکی زندگی پر اطلاق پا رہا ہے۔ ایک کمزوری کو دور کرتے ہیں دوسری سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ دوسری کو دور کرتے ہیں تیسری سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ جسے اچھا کرکے ایک طرف رکھ دیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد دیکھتے ہیں اوہو ! یہ تو کمزوری ہے۔ جیسے بعض لوگ داغ دور کرتے ہیں کپڑوں سے تو جس جگہ سے داغ دور کرتے ہیں وہ صاف ہو جاتی ہے باقی جگہ ساری داغدار دکھائی دینے لگتی ہے اس کو صاف کریں تو کہیں کوئی اور داغ دکھائی دینے لگتا ہے۔ تو محسن کا مضمون ساری زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس کے لئے شعورکی لطافت لازم ہے۔
’’ثواب الدنیا ‘‘ کیلئے حسن کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ ثواب الآخرۃ کیلئے ’’حسن ثواب الآخرۃ‘‘ فرمایا ہے۔اس میںمتفرق مفسرین نے مختلف وضاحتیں کی ہیں۔قاضی مثلاً لکھتے ہیںیہ
علامہ رازی کی تفسیر میں سے ہی لیا گیا ہے حوالہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ شاید محسنین یا ’’حسن ثواب‘‘ جو ہے اس کا تعلق شہداء سے ہو اور یہ آیت عام نہ ہو۔ ثواب الدنیا کا تعلق عام سے ہو اور دوسرا شہداء سے ہو یہ مضمون قابل قبول نہیں ہے بلکہ یقیناً رد کرنے کے لائق ہے۔ وجہ یہ ہے جو دوسرے تھے شہیدنہیں ہوئے اور غازی بنے۔ ان کا کیا قصور تھا کہ ان کو صرف دنیا کا ثواب دیا جائے اور حسن ثواب الآخرۃ سے وہ محروم کئے جائیں۔ پس اس میں دراصل لامتناہی ترقیات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی ہر جزا آگے حسین تر ہوتی چلی جائیگی۔
حسن ثواب الآخرۃ سے مراد یہ ہے جیسے اس آیت میں آنحضرت ﷺکو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ۔
’’ وللآخرۃ خیر لک من الاولیٰ‘‘
جب آخرت پہلی سے بہتر ہوگی تو اس کے مقابل پر اسے حسین تر قرار دیا جائیگا۔ پس وہی مضمون ہے کہ ان لوگوں کو جو جزائیں ملیں گی وہ ان کو جو پہلے پہلی جزائیں ملی ہیں ویسی ہی نہیں ملیں گی پھر۔ ان کو بہتر سے بہتر جزا ملتی چلی جائیگی۔ اس رنگ میں اس مضمون کو سمجھیں تو دیکھئے محسنین کے مضمون کے ساتھ کس طرح انطباق پاتا ہے۔ اس پر کس طرح صادق آتا ہے۔ محسن سے مراد یہ ہے کہ ہر لحظہ وہ اپنے حسن میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اپنی خوبیوں کو بڑھاتا جاتا ہے۔ اور خدا اگر صرف ثواب الدنیا ہی دے دے ان کو پہلا ثواب جوانکو ملنا چاہئے اور آخرت میں بھی ثواب ہی ہو صرف ویسا ہی ثواب جیسا دنیا میں ملا ہے اس کو یا پہلے مل گیا۔ تو مومن کا دن بدن حسین تر ہونے کیساتھ تو اس ثواب کا کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ یہ تو تبھی بنے گا کہ اگر جس طرح مومن حسین سے حسین تر ہورہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ثواب کو بھی حسین سے حسین تر بناتا چلا جارہا ہے۔ تو آخرۃ سے مراد صرف بعد کی زندگی کا ثواب نہیں ہے یہ غلط فہمی ہے۔ قران کریم نے لفظ ’’آخرۃ‘‘ کو دنیا کے نیک انجام سے بھی جوڑا ہے۔ پس آنحضرتﷺکے متعلق جب فرمایا۔
’’وللآخرۃ خیر لک من الاولی‘‘
تو من الدنیاکا لفظ عمداً استعمال نہیں فرمایا۔ ’’اولی‘‘ فرمایا ہے۔ تاکہ جیسا کہ بعض مولوی یہ سمجھتے ہیں کہ آخرت سے مراد صرف یوم آخرت ہے۔ یہ ان کی غلط فہمی دور ہوجائے۔ آخرت سے مراد انجام ہے یا بعد میںآنے والی ہر گھڑی کو ہم آخرت کہہ سکتے ہیں۔ پس جس طرح اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد؛ تیرا ہر لمحہ پہلے لمحے سے بہتر ہوتا چلا جائیگا۔ اور یہ ہمارا وعدہ ہے۔ اسی طرح ’’حسن ثواب الآخرۃ‘‘ سے مراد یہ ہوگی کہ ’’وہ میرے بندے جو میری خاطر دن بدن بہتر سے بہتر ہورہے ہیں ۔ ان سے میرا وعدہ یہ ہے کہ ان کی ہر گھڑی پچھلی سے بہتر ہوگی۔ پس ثواب دنیا اور ثواب آخرت سے مراد دنیا اور آخرت کا موازنہ نہیں۔ وہ بھی ہوسکتا ہے ! لیکن اول موازنہ جو میرے ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو اس دنیا میں جو ثواب ملیں گے وہ وہاں رکیں گے نہیں۔ بعد میں آنے والے ثواب پہلوں سے بڑھتے چلے جائیں گے۔ اسکے بعد آنے والے اور بڑھتے چلے جائیں گے۔ اب اس مضمون کو پیش نظر رکھیں تو اسلام کے اس دور کی فتوحات کی سمجھ آنے لگتی ہے۔ اس کے بغیر نہیں آتی۔
بعد ازاں مسلمانوں میں لشکروں میں ایسے لشکر تھے جن کے مقابلے بڑی بڑی سلطنتوں کے لشکروں سے ہوئے ہیں۔اسلام کی جنگیں تو عربوںکے درمیان ہی تھیں ناں ! یعنی آغاز میں جو خالصتہً دفاعی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ جن کو اعلیٰ درجے کا جہاد کہا جاسکتا ہے۔ وہ وہ تھیں جن میں آنحضرتﷺکے دین کو جبراً تبدیل کرنے کے لئے تلوار اٹھائی گئی۔ اور ان لوگوں نے نہایت کمزوری کی حالت میں مقابلے کئے ہیں۔ اور ثبات قدم ان کو نصیب ہوا۔ ان سے وعدہ یہ ہے کہ تم نے جو دعائیں ابھی کی ہیں یہ دعائوںکا سلسلہ اس فتح پر رکے گا نہیں جو ہم نے تم کو عطا کردی ہے بلکہ یہ جاری و ساری مضمون ہے۔ یہ کبھی ختم نہ ہونے والی قبولیت دعا ہے جس کے نظارے آئندہ تمہاری نسلیں دیکھیں گی۔ اور ان کا ان دعائوں کے نتیجے میں تمہارے اعمال کے حسین تر ہوتے چلے جانے کے نتیجے میں آئندہ نسلوںمیں بھی بڑی سے بڑی عظیم الشان سے عظیم الشان تر فتوحات نصیب ہوتی چلی جائینگی۔
اب اس مضمون کو دیکھیں تو سمجھ آجاتی ہے کہ بعد میں جب ایران کی فوجوں سے ٹکر ہوئی ہے تو بعض ایسے مواقع بھی آئے کہ چھ سات لاکھ کی فوج کے مقابل پر 20 ہزار کی فوج کو غلبہ نصیب ہوگیا۔ یا 30 ہزار کی فوج کو غلبہ نصیب ہوگیا۔
ایسے دن بھی ان لڑائیوں کے دوران آئے کہ 60 ہزار کے لشکر کے مقابل پر عمداً مسلمانوں کے جرنیل نے صرف 60 سوار بھیجے۔ اور وہ چوٹی کے سوار چُن کر بھیجے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صبح سے شام تک وہ جس طرف بھی جاتے تھے وہاں مقتولین کے انبار لگادیتے تھے۔لیکن ان تک ‘ اُن میں سے بہت کم لوگ تھے جو پہنچ سکے۔ اور الا ما شاء اللہ زخمی تو ہوئے مگرشہید بہت کم ہوئے۔ اور اکثر خیر و عافیت سے رات کو واپس لوٹے۔ اسکے نتیجے میں ایک رعب طاری ہوا دشمن پر اور بعد میں جب عام جنگ کا طبل بجایا گیا ہے تو یہ یادیں تھیں جن یادوں نے ان کو مرغوب اور مبہوت کردیا تھا۔ جس کے نتیجے میں وہ بڑا بھاری لشکر بھی شکست کھانے پر مجبور ہوا۔ تو حسن ثواب الآخرۃ جو ہمیں وہاں دکھائی دے رہا ہے۔ یہ انکی اپنی خوبیوں سے اتنا تعلق نہیں رکھتا۔ جتنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھیوں کی دعائوں کی قبولیت سے تعلق رکھتا ہے۔
پس یہ وعدہ جو حسن آخرت کا ہے اگرچہ حسین تر ہونے کا وعدہ ہے یہ صرف آخرت سے نہیں بلکہ اس دنیا سے بھی گہرا بلکہ لازم تعلق رکھتا ہے۔
بعض مفسرین نے اس کو اس طرف جوڑا ہے کہ من یرد ثواب الدنیا نوتیہ منھا۔ ومن یرد ثواب الآخرۃ نوتہ منھا۔
یہ بالکل بے محل بات ہے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ اس آیت کے حوالے سے وہ یہ بیان کرنا چاہتے ہیںکہ وہ چند تیر انداز جن کو درے پر مقرر فرمایا گیا تھا کہ وہ کسی قیمت پر بھی درے کو نہ چھوڑیں۔ انہوں نے ثواب الدنیا کی خاطر یعنی لالچ اور حرص میںکہ مال غنیمت لوٹا جارہا ہے دوڑ کر جلدی کرکے۔ نافرمانی کرتے ہوئے اس مال میں حصہ لے لیا۔ تو ان کو ثواب الدنیا بتایا گیا ہے کہ انہوں نے دنیا چاہی انکو نے دنیا مل گئی اور باقی جو لوگ تھے ان کو حسن ثواب الآخرۃ ملے گا۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔
ان لوگوں نے اگر کچھ مال حاصل کیا تو اس کو ثواب کے تابع قرار دینا ہی بے وقوفی ہے۔ اگر بے وقوفی سخت لفظ ہے تو سادگی کہہ لیں۔ لیکن اس کا ثواب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ مضمون ہی الگ ہے وہ مضمون ہی الگ ہے۔
یہ جو مضمون ہے کہ وہ کمزوریاں بیان کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو محسن قرار دے رہا ہے ۔ اس کا امام رازی نے بھی یہی تعلق باندھا ہے کہ اس میں ایک لطیف نکتہ ہے۔ کہ انہوں نے ربنا اغفرلنافی امرناکہہ کر اپنے خطاکار ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ تو جب انہوں نے یہ اعتراف کرلیا تو خدا نے ان کا نام محسن رکھ دیا۔ پس کمزوریوں کے اعتراف سے انسان گنہ گار ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ محسن بننے کیلئے اس رستے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور یہی وہ رستہ ہے جو تکبر کے برعکس ہے اور جس رستے سے لوگ جنت میں داخل ہونگے۔ یہ چھوٹا ہونے کا رستہ ہے۔ حضرت مسیح ؑ نے بھی کہا تھا۔ اور Wherry کو شاید مسیح کے کلمات یاد نہیں رہے کہ ایسے لوگ جو متکبر ہوں۔ دولت مند ہوں۔ وہ جب تک اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزر ہوجائے جنت میں داخل نہیںہوسکتے۔ پس کون ہے جو اعتراف گناہ کے بغیر جنت میں داخل ہوسکتا ہے کیونکہ یہی وہ آخری عجزہے اور انکساری ہے جس کے نتیجے میں آدمی محسن قرار پاتا ہے۔ پس سب انبیاء نے اگر اعتراف کیا ہے تو یہ ان کی شان ہے۔ اور اس رستے سے وہ جنت میں داخل ہونے کے اہل قرار پائے ہیں۔ ورنہ باقی سارے جو سمجھتے ہیں کہ ہم گنہ گار ہی نہیں ہیں۔ ان کا معاملہ اللہ سے ہے ۔
اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ تکبر کی راہ سے ایسا کیا گیا یا کسی اور وجہ سے مگر جہاں تک حضرت مسیح ؑ کا تعلق ہے۔ Wherry کا یہ کہنا کہ مسیح ؑ نے اعترافِ گناہ نہیں کیا۔ ایک جھوٹا الزام ہے۔ ایسا واضح جھوٹ ہے۔ جو کھل کر اس پر بولا گیا جسے وہ خدا کا بیٹا اور اپنا آقا کہتا ہے۔ کیونکہ جب مسیح کو نیک کہا گیا تو مسیح نے بڑی شدت اور سختی سے انکار کیا۔ مجھے نیک مت کہو۔ ایک ہی ہے وہ نیک جو آسمان پر ہے۔ اور اعتراف گناہ کیا ہوتا ہے؟ یعنی میں نیک ویک کوئی نہیں ہوں۔ میری کمزوریوں پر اللہ نے پردہ ڈالاہوا ہے۔ تمہیں کیا پتہ؟ اس لئے خدا کے سوا کوئی پاک نہیںہے۔ مجھے پاک قرار نہ دو۔ اگر اسے اعتراف گناہ نہیں کہا جاتا تو پھر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس کے لئے لغت میں اور کونسا لفظ ہوگا۔ باقی سب تفاسیر میں جو مختلف باتیں ہیں وہ عام مضامین ہیں جن کا کوئی خاص ایسا مرتبہ نہیں ہے کہ انہیں بیان کیا جائے۔(یہ سب ہو چکا ہے یہ رکھیں شاید ضرورت پڑ جائے )
____ _____ ____
یا ایھا الذین امنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردوکم علیٰ اعقابکم فتنقلبوا خسرین O بل اللّہ مولکم وھو خیر النصرین O (آل عمران 150-151)
یہ دونوں آیات اکٹھی کرلی گئی ہیں کیونکہ دراصل دوسری آیت میں پہلی آیت کا نتیجہ ہی نکالا گیا ہے اور چھوٹی چھوٹی ہیں ان کو ایک ہی جگہ میں اکٹھا کر کے انشاء اللہ اکٹھا اس پر گفتگوکروں گا۔
اس میں ایک لفظ آیا ہے۔ رَدَّ۔ یردوکم علی اعقابکم ۔ لیکن پہلے تو ترجمہ کرلوں۔ میں ترجمہ کرنا بھول گیا تھا۔
’’اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو۔ اگر تم ان لوگوں کی پیروی کروگے جنہو ںنے کفر کیا ہے۔ تمہیں وہ اپنی ایڑیوں کے بل لوٹادیں گے۔ فتنقلبوا خسرین O تو تم نقصان اٹھانے والوں میںسے ہو جائو گے۔بل اللّہ مولکم :دیکھو ! اللہ تمہارا مولاہے۔ سچ بات یہی ہے۔ ’’بل‘‘ اس لئے آتا ہے کہ تم ہر دوسرے خیال کو ردکردو۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ اگر حقیقت ہے تو اس بات میں ہے کہ تمہارا مولا اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی مولا نہیں۔ ’’وھو خیر الناصرین ‘‘ اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔ یعنی اس کی ہر مدد فتح پر منتج ہوتی ہے۔
رَدَّہ‘۔ یَرُدُّ ۔ردًّا ۔و مَرْدُا و مَرْدُوْدًا : اس کے معنیٰ ہیں رَدَّہ‘۔ یَرُدُّ ۔ردًّا ۔و مَرْدُا عن کذا: جب عن کا صیغہ استعمال ہوگا اس کے ساتھ عن کا لفظ تو مطلب یہ بنے گا کہ کسی چیز سے رخ موڑ لیا۔
رَدّ عَنْہ‘ : کا مطلب ہے پیٹھ پھیر لی۔ یا منہ موڑ لیا۔ دوسری طرف ہوگیا۔ اسکو چھوڑ کر کسی اور طرف چلا گیا۔ یا اسے واپس کردیا۔ کوئی چیز کسی کو پیش کی جائے تو وہ اسے رد کردے۔ اور یہ اچھے مفہوم میں بھی ہوتا ہے اور برے مفہوم میں بھی۔ اچھے مفہوم میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر کوئی تمہیں تحفہ دے۔ تو اگر تم اس سے بہتر نہیں دے سکتے اس سے بہتر چیز اس کو پیش نہیں کرسکتے تو اس جیسی ہی اس کو دے دواور یہاں واپس کرنے کا مفہوم بھی ہے۔ جو بعض صورتوں میں بعض معاشروں پر صادق آتا ہے بعض صورتوں میں نہیں آتا۔ لیکن وسیع مضمون ہے اس وقت میں اس کی گفتگو نہیں کرتا۔ کسی چیز کو واپس کردینا بھی رَدَّ کے اندر داخل ہے۔ کسی کی حالت بدل دینا۔ یعنی کیفیت بدل دی جائے کسی چیز کی اس کے لئے بھی رَدَّ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک عرب شاعر لکھتا ہے۔
’’فَرَدَّ شعور ھن السُّود بیضاً ‘‘
کہ ان عورتوں بے چاریوں کے اس غم نے کالے بال سفید کردیئے۔ تو ضمیر غم کی طرف ہے جس کا پہلے مصرعے میں ذکر ہے کہ یہ ایسا غم تھا کہ جس سے ان عورتوں کے کالے بال سفید ہوگئے یعنی غم نے رد کردیا اس کو۔ تو ردَّ معنیٰ حالت میں تبدیلی، حالت میں انقلابی تبدیلی۔ سیاہ سفید ہوجائے۔ اسی مضمون کا تعلق لفظ مرتد سے ہے۔
اِرْتَدّ الشیء : رَدَّہ ‘ طَلَبَ رَدَّہ‘ عَلَیْہِ وَ اسْتَرْھَبَہ‘
اس نے چیز کو واپس کردیا۔ دوسرے معنے ہیں اس نے کہا اس کی چیز واپس کردی جائے۔ کسی کو دے کر کوئی چیز مانگی جائے تو اس کے لئے بھی لفظ ارتدَّ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی میرا دین مجھے واپس کردو۔ چنانچہ ایک جاہل عرب بے چارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوا۔ اور مسلمان ہوگیا تو جاتے جاتے کہنے لگا آخر پر کہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ میرا واپس کردو دَین۔ وہ گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضے میں رکھا ہوا تھا۔ تو کہنے لگا کہ بس ہوگئی۔ مجھے واپس چاہئے۔ تو آپ نے اسے رخصت کیا تم پہ کوئی جبر نہیں کہ تم اپنا دین لیکر نکلو یہاں سے۔ تو ارتد کا معنیٰ اسی طرح کسی چیز کو دے کر واپس لے لینا بھی ہے۔
اِرْتَدَّ عَلیٰ اَثْرِہٖ او عن طریقہ : رجع
و ارتَدَّ عَنْ دینہ : رجع و حاد
ارتد علی اثرہ اوعن طریقہ کا مطلب ہے وہ اپنے سابقہ رستے سے واپس آگیا۔
وہ اپنے سابقہ رستے سے واپس آگیا یہ کچھ عجیب وغریب سا مفہوم ابھر رہا ہے ۔ ارتد عن دینہ۔ سے مراد ہے وہ اپنے سابقہ دین سے منحرف ہوگیا۔
یہ دونوں ترجمے بعض ڈکشنریوں نے اس طرح ہی کئے ہوئے ہیں مگر امام راغب نے اس مضمون کو بڑے واضح طور پر یوں بیان فرمایا ہے کہ
اِلارتداد او الرِدَّۃ :۔ کا بنیادی معنیٰ ہے کہ جس طریق سے آیا ہو اسی طریق سے پھر واپس چلا جائے۔ یہ معنیٰ ہیں اصل۔ پس وہ دوسری لغات نے جو معنے کئے ہیں وہ بے معنی سے معنے ہیں۔امام راغب جو معنے بیان کررہے ہیں انہی معنوں میں یہ لفظ ساری امت میں معروف ہے اور یہی معقول معنے دکھائی دیتے ہیں کہ جس رستے سے آیا اسی رستے پہ واپس چلا گیا اور سابقہ مگر اس کا تعلق ......................
------ ------ -------
ضروری نوٹ : اس سے آگے کچھ دیر کا درس باقی ہے لیکن نشریاتی رابطہ منقطع ہوجانے کی وجہ سے وہ ریکارڈ پر نہیں آیا۔ اور باقی ہے۔
٭٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 20 رمضان المبارک
3 مارچ 1994ء
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا قل ھو من عندانفسکم ان اللہ علی کل شی قدیرO ……………یستبشرون بنعمۃ من اللہ و فضل و ان اللہ لا یضیع اجر المؤمنینO
(آل عمران آیات 166 تا 172)
اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا : پس جب تم پر کوئی ایسی مصیبت ٹوٹی جس سے دوگنی تم دشمن کو پہنچا چکے تھے تم نے کہہ دیا یا تم کہنے لگے انی ھذا یہ کیسے ہوگیا ؟ کہاں سے آئی قل ھو من عندانفسکم کہہ دے یہ تمہارے اپنے ہی نفوس کی طرف سے ہے۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر ہاں اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یعنی تمہارے نفوس کی تکلیف سے بھی تمہیںبچا سکتا تھا۔ اگر چاہتا تو۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ و لیعلم المومنین۔ پس جو مصیبت اس دن جب کہ دو گروہوں کا تصادم ہوا تمہیں پہنچی یہ اس پہلو سے اللہ کے حکم سے بن جاتی ہے کہ اس نے وہ مصیبت پہنچنے دی۔ چاہتا تو اسے روک سکتا تھا۔ ولیلعم المومنین اور یہ بھی مقصد تھا کہ وہ مومنوں کو پہنچان لے اور جانچ لے۔ و لیعلم الذین نافقوا اور ساتھ ہی منافقوں کو بھی پہچان لے۔ وقیل لھم تعالوا قاتلو فی سبیل اللہ۔ یہ جو ہے و لیعلم الذین نافقوا یہاں سے آگے پھر نفاق کی علامتوں کا ذکر چلتا ہے۔ جو اگلی چند آیات تک ممتد ہے۔ یعنی یہ فرمانے کے بعد کہ منافقوں کو بھی پہچان لے پھر لوگوں کی قیاس آرائیوں پر بات نہیں چھوڑی کہ وہ کہیں کہ فلاں صحابی نعوذ باللہ منافق تھا۔ فلاں مخلص‘ فدائی‘ منافق تھا‘ اللہ نے پھر منافقوں کے حالات خوب کھول کر بیان کردیئے ہیں تاکہ ایک ادنیٰ بھی گنجائش کسی بدنصیب کو پاک صحابہ رضی اللہ عنہم پر حملہ کرنے کی نہ ملے۔ و لیعلم الذین نفقوا و قیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ۔ ان سے جب کہا گیا کہ آئو اللہ کی راہ میں قتال کرو یا دفاع کرو قالوا لو نعلم قتالا لا اتبعنکم اگر ہمیںقتال آتا تو ہم تمہاری پیروی نہ کرتے۔ اس کی طرف میں دوبارہ واپس آئوں گا۔ اس ترجمہ کی طرف‘ اس کے دو اور بعض نے تین ترجمے بھی امکاناً پیش کئے ہیں۔ عام طور پر مفسرین کا رجحان اس ترجمہ کی طرف ہے کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ لڑائی ہوگی تو ہم ضرور شامل رہتے۔ لیکن ہمارا خیال تو تھا کہ لڑائی ہونی کوئی نہیں اور یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منافقین کے ایک الزام کا ذکر بعض روایات میں ملتا ہے۔ اس لئے مفسرین نے اس ترجمہ کو ترجیح دی ہے۔ یعنی بہت سے مفسرین نے ۔ وہ کہتے ہیں وہ یہ بات کہا کرتے تھے ‘ وہ یہ بات پھیلا رہے تھے کہ ہیں تو رشتے دار ہی اپنے‘ مکے سے آنے والے بھی تو اپنے رشتے دار ہیں اور عزیز ہیں اور ان سے رعایت کا سلوک کریں گے۔ اس لئے لڑائی وڑائی کوئی نہیں ہونی ۔ اور یہ عجیب بات ہے اس دلیل میں کوئی منطق مجھے تو کوئی دکھائی نہیں دے رہی کہ وہ مکے سے آنے والے تین ہزار ہیں اور یہاں سے جانے والے ہزار ہیں جن میں سے تین سو واپس آجاتے ہیں اور اس لئے واپس آتے ہیں کہ یہ ان تین ہزار پر رحم کر جائیں گے اور ان سے نرمی کا سلوک کرکے نہیں لڑیں گے۔ یہ تو الٹ ہونا چاہئے تھا۔ وہ جو مکہ سے رشتہ داری کے باوجود حملہ کرنے کیلئے چڑھ دوڑے تھے ان کا کام تھا وہ طاقت ور تھے وہ بڑی دور سے بڑے بد ارادے لیکر نکلے تھے ان کو چاہئے تھا کہ خون کا خیال کرتے اور رشتہ داریوں کا خیال کرتے۔ یہ منافقوں کی بات اگر یہ درست ہے روایت تو عجیب سی ہے لیکن اسے قبول کرتے ہوئے اس کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے جو میں بتا رہا ہوں کہ نعلم قتالا سے مراد ہے کہ اگر ہمارے علم میں یہ ہوتا کہ لڑائی ہوگی تو پھر ہم ضرور لڑتے۔ لا تبعنکم ھم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان جس دن وہ یہ باتیں کررہے تھے وہ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے۔ اپنے مونہوں سے ایسی باتیں کرتے ہیں یا کرتے تھے۔ مالیس فی قلوبھم جو ان کے دلوں میں نہیں واللہ اعلم بما یکتمون اور اللہ خوب جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو۔ یہ باقی ترجمہ انشاء اللہ اس موقعہ پر پہنچیں گے تو شروع کریں گے۔ اب میں باقاعدہ ایک ایک آیت کرکے اس مضمون کو لیتا ہوں۔
یہ جو پہلی تین آیات ہیں ان تینوں پر اکٹھے نوٹس میں نے رکھے ہیں ان پر تفسیری گفتگو اکٹھی چلے گی۔ اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا۔ یہ بات پہلے چل رہی تھی (جب ہمارا درس ختم ہوا ہے) میں نے یہ کہا تھا کہ بہت سے مفسرین کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ جنگ بدر میں چونکہ ستر ۷۰ ہی کفار مقتول ہوئے تھے اور ستر کو قیدی بنایا گیا تھا اس لئے دوگنے کا مضمون آگیا۔ بعض مفسرین نے یہ نکتہ اٹھایا ہے اور امام رازی نے بھی اس کا تحسین سے ذکر کیا ہے کہ دراصل مثلیھا سے مراد یہ ہے کہ پہلے تم بدر میں بھی شکست دے چکے تھے ایک ان کو اور پھر احد میں بھی ایک شکست دے چکے تھے اور دو شکستیں اوپر تلے دے بیٹھے تھے پھر اپنی غلطی سے اس شکست کو جو دشمن کی شکست تھی اپنی شکست بنا بیٹھے اور ابھی شکوہ ہے‘ ابھی باتیں یہ ہورہی ہیں کہ اللہ نے ہماری مدد نہیں کی۔ کیوں ہمیں دشمن کے ہاتھوں گزند پہنچی۔ تو ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر قلتم انی ھذا یہ کہہ دیا قل ھو من عندانفسکم کہہ دو کہ یہ دوسری بات جو ہے تمہاری تکلیف کی‘ یہ تمہیں اپنی طرف سے پہنچی تھی۔ لیکن اس کا برعکس جو ہے وہ کیا ہے؟ دونوں فتوحات اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں۔ یہ پہلو ہے جس کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ یہاں من انفسکم کہہ کے فی الحقیقت فتوحات کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہ جو تم نے دشمن کو تکلیف پہنچائی وہ تمہاری طرف سے نہیں تھی۔ تمہارے بس کی بات نہیں تھی، تمہاری طاقت نہیں تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے تھی۔ اس لئے خداکی مدد کے وعدے پر تم کیا بات کرسکتے ہو۔ یہ منافقین مراد ہیں یہاں۔ کیا باتیں کرتے ہو؟ تمہاری کوئی حیثیت تھی دشمن کو شکست دینے والی؟ اس کے باوجود دو مرتبہ تمہیںدیکھ لیا اور حیرت انگیز طور پر ایک طاقتور دشمن کے تم نے چھکے چھڑا دئیے۔ پس وہ تمہاری وجہ سے نہیں تھا۔ ہاں جب مار پڑی ہے وہ تمہاری وجہ سے تھا۔ تم خدا کے اس وعدے کی امان سے باہر نکل آئے جس میں یہ وعدہ تھا کہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کرو تو پھر اللہ تعالیٰ تمہاری نصرت فرمائے گا وہاں جودرے پر فائز لوگ تھے انہوں نے نہ تقویٰ سے کام لیا نہ صبر سے کام لیا۔ اس کے نتیجہ میں یہ تکلیف پہنچی ہے۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ۔ اب یہاں اُسی مضمون کو اللہ کی طرف منسوب فرمادیا۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ چاہتا تو اُس تکلیف کو بھی تم سے دور کرسکتا تھا۔ لیکن اللہ کے اذن سے ایسا ہوا ہے جیسا کہ میں نے امام رازی کے حوالے پیش کئے تھے‘ وہ یہاں اذن سے مراد علم لیتے ہیں اور کئی روایات میں سے یہ ملتا ہے مضمون۔ لیکن اللہ کے علم سے ہی میں اجازت کے معنی نکالتا ہوں۔ علم سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں‘ ایک واقعہ میری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور میں اسے روکتا نہیں ہوں ل
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ۔ یکم رمضان المبارک
12 فروری 1994ء
(ابتدا کے چند جملے نشریاتی رابطے میں خرابی کے باعث ریکارڈ نہیں ہوسکے۔ ان کے لئے جگہ چھوڑی جارہی ہے)
… امسال پاکستان سے خصوصیت سے اور بعض دوسرے ممالک سے یہ اصرار ہوا ہے کہ ہم پورا رمضان درس میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اور چونکہ انہوں نے لکھا ہے کہ ہمارے ہاں جو وقت درس سننے کا ہے وہ رخصت ہی کا وقت ہے۔ سب فارغ ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس لئے اسے مسلسل جاری رکھا جائے۔ بہرحال ان درسوں کے بعد جو سورۃ فاتحہ سے تعلق رکھتے تھے پھر ہم نے آل عمران کا درس شروع کیا۔ کیونکہ اس کے متعلق بھی باہر ہی سے یہ تجاویز آرہی تھیں کہ درس وہاں سے شروع کیا جائے۔ جہاں تفسیر کبیر کا پہلا حصہ ختم ہوتا ہے۔ اور وہ سارا قرآن کریم کا وہ حصہ تمام تر حصہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی مجبوری سے یا کسی حکمت کے پیش نظر بعد میںدرس کیلئے رکھا ہوا تھا اور ایک حصہ چھوڑ کر پھر بعد کے حصے سے نئے درس کا آغاز کردیا تھا۔ تو ہمارے احمدی دوستوں کا یہ اصرارتھا کہ اس حصے پر میں اگر درس دینا شروع کروں تو یہ تو پورا ہوجائیگا۔ چنانچہ اس مشورے کے پیش نظر جو سورۃ فاتحہ کے بعد کے درس تھے۔ وہ سورۃ آل عمران سے ہی شروع ہوئے اور اب تک آل عمران ہی جاری ہے۔ پہلے یہ درس انگریزی میں ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ زیادہ تر مخاطب احباب اور خواتین یورپ کے رہنے والے تھے جو براہ راست انگریزی میں درس سننا پسند کرتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے یہ خیال کیا کہ اردو میں شروع کئے جائیں تو بہت احتجاج ہوا۔ اورجو دوست انگریزی درس کے عادی تھے (امریکہ سے لیکر یورپ کے ممالک تک) سب نے اصرار کیا کہ آپ یہ خیال چھوڑ دیں اور ہمیں بھی کچھ ہماری زبان میں براہ راست خطاب چاہئے اور ترجموں میں وہ بات نہیں رہتی جو براہ راست خطاب میں ہوتی ہے۔ اس لئے انگریزی کا درس کا سلسلہ شروع ہوا لیکن اب جبکہ عالمی ٹیلی ویژن ٹرانسمیشن کے ذریعے وہ تمام علاقے جو زیادہ تر اردوسمجھنے والے ہیں اور ان کی بھاری اکثریت انگریزی میں اگر کچھ شدھ بدھ رکھتی بھی ہے تو اتنی دسترس نہیں رکھتی کہ درس کے مضمون کو انگریزی زبان میں سمجھ سکیں۔ ان کی خاطر اور اس خاطر بھی کہ جرمنی سے بارہا یہ اصرار ہوتا رہا کہ اگرچہ ہم مغربی ملک میں بس رہے ہیں۔ لیکن ابھی ہمارا یہاں بسنا اتنا لمبا نہیں ہوا کہ ہم اپنی زبان بھول کر دوسری زبانیں سیکھ چکے ہوں۔ اس لئے ہماری بھاری اکثریت ایسی ہے جو ابھی تک اردو ہی کو بہتر سمجھتی ہے۔تو آپ اگر اردو درس دیں تو ہم میں مرد عورتیں بچے بہت سی خواتین ایسی ہیں جوایک لفظ بھی انگریزی کا نہیں جانتے تو ان کی خاطر آپ اردو درس شروع کردیں۔تو اب آج سے یا غالباً پچھلے سال سے بھی شروع ہو گیا تھا؟ یا پچھلے سال سے گزشتہ سال ہی سے اردو میں درس شروع ہوگیا تھا۔ لیکن امسال یہ اضافہ ہوا ہے کہ اس درس کا عرصہ بڑھا کر دو دن کے بجائے تمام دنوں پر پھیل جائیگا۔ سوائے جمعہ کے دن کے۔ جمعے کے دن کی معذرت ہے کیونکہ جمعے سے پہلے جو مصروفیتں ہیں، خاص جمعہ کے دن کی تعلق رکھنے والی مصروفیتیں ہیں وہ مانع ہیں کہ اس دن درس بھی دیا جائے۔ اس لئے جمعہ کے دن کی رخصت ہوا کرے گی۔ باقی دنوں میں انشاء اللہ ہم اکٹھے بیٹھیں گے۔
پہلے یہ بھی دستور تھا کہ اتوار کے دن سوال و جواب کا وقفہ رکھا جاتا تھا یعنی ڈیڑھ گھنٹے میں سے ایک گھنٹہ درس اور نصف گھنٹہ سوال و جواب کیلئے اور بعض دفعہ اس وقفے کو بڑھا بھی دیا جاتا تھا۔ کیونکہ سوال و جواب زیادہ ہوجاتے تھے۔ اس لئے یہ فیصلہ ابھی مشکل ہے کہ امسال سوال و جواب کیلئے کتنا وقفہ مناسب رہے گا۔ یہ بات منحصر اس بات پر ہے کہ دوستوں کے جو سوال اب آئیں گے ان کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک اندازہ لگایا جائیگا کہ کتنے عرصے میں ان سوالات کا جواب دیا جاسکتا ہے تو پھر انشاء اللہ اور آئندہ اس کے متعلق اعلان کردیا جائیگا۔
رمضان المبارک میں چونکہ دوسری مصروفیات بہت زیادہ ہوتی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی اعلان کردیا تھا انشاء اللہ رمضان المبارک میں یا تو درس کا پروگرام ہوگا یا پھر تلاوت قرآن کریم کا پروگرام ہوگا جس کومختلف زبانوں میں ترجمے کے ساتھ پیش کیا جائیگا۔ یہ ابھی تیاری کے مراحل میں ہے اور ابتداء ً نسبتاً تھوڑی یعنی چند زبانیں ہی ترجمے کے ساتھ پیش کی جائینگی۔ چند زبانوں کا ہی ترجمہ تلاوت کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔ بعد میں جوں جوں تیاری مکمل ہوگی انشاء اللہ اور زبانوںکو بھی داخل کیا جائیگا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ قرآن کریم کا 20 وا ںحصہ 118 زبانوںمیں ترجمہ ہوچکا ہے اور ان حصوں کو اگر ترجمے کے ساتھ پیش کیا جائے تو ہر پارے کو 118 مرتبہ پڑھنا ہوگا۔ اور یہ اتنا زیادہ وقت ہے کہ ہمارا وقت اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے جو تیاری ابھی تک مکمل نہیں ہوئی اس میںایک فائدہ بھی مضمر ہے۔ ابھی ہمارے پاس ایشیا کیلئے متبادل چینلز یعنی بیک وقت مختلف صوتی پروگرام پیش کرنے کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ وڈیو میں اس وقت تک ایشیا کیلئے دو پروگرا م پیش کرنے کی سہولت ہے۔یعنی ایک تو وہ پروگرام ہے جو نظر آرہا ہے سب کو۔ اور اس کے ساتھ جو زبان چلتی ہے۔ یہ ایک پروگرام ہے۔ دوسرا پروگرام جو نظر آرہا ہے ۔ وہ تو وہی مشترک ہے لیکن آپ چاہیں تو زبان دوسری بھر دیں۔ یہ سہولت ابھی تک مہیا ہے۔ اس لئے غالباً آپ کو شروع میں 2 زبانوں پر مشتمل پروگرام ہی دکھائے جائیں گے۔ لیکن جیساکہ میں نے بیان کیا تھا وہ کمپنی جس کے ساتھ ہمارا رابطہ ہے انہوں نے وعد ہ کیا ہے کہ ہم مارچ تک آپ کو بیک وقت 8زبانوں کی سہولت مہیا کردیں گے۔ اور یورپ میں بھی بیک وقت آٹھ زبانوں کی سہولت مہیا ہے تو جب بھی یہ پروگرام پایہ تکمیل کو پہنچے گا تو انشاء اللہ تعالیٰ بیک وقت یورپ میں آٹھ یورپین زبانیں پیش کی جارہی ہونگی۔ اس لئے اگر مکمل ترجمہ قرآن مختلف زبانوں میں پیش کرنا ہو تو 52 زبانوںمیں ہوچکا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سورۃ کو اگر 6.5 مرتبہ پڑھا جائے تو 52 زبانیں جن کے ترجمے ہم شائع کرچکے ہیں وہ ساری پیش ہوجایا کرینگی۔ لیکن ان 52 میں سے بہت سی ایسی ہیں جن کا تعلق یورپ سے نہیں ہے۔ یورپین زبانیں غالباً 16 ہیں یا کچھ زائد 18 ہیں شاید۔ جن میں ترجمے ہوچکے ہیں تو ان کے لئے ہر سورۃ کی 2 دفعہ کی تکرار کافی ہوگی۔
یعنی ایک دفعہ ایک سورۃ کو پڑھیں تو ساتھ آٹھ زبانوں میں ترجمہ ہورہا ہوگا۔ دوسری دفعہ اسی حصہ کو پڑھیں تو آٹھ مزیدزبانوں میں ترجمہ ہورہا ہوگا اور پھر 2 باقی رہ جائینگی۔ ان کو بیچ میں کہیں پھر شامل کرلیں گے بعد کے پروگراموں میں۔ تو یہ ہے آئندہ کیلئے پروگرام ۔ لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس میں بھی ابھی بہت محنت کرنی ہے۔ بہت ہی توجہ طلب کام ہے۔ اچھے قاری کی تلاش۔ اس کی تلاوت کی نوک پلک درست ہوں اور تمام قواعد جو تلاوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پر پوری اترنے والی قراء ت ہو۔ پھردل پر گہرا اثر کرنے والی ہو۔ پر شوکت آواز ہو جو ٹیلی ویژن کی لہروں پر پھیلے تو جہاں جہاں پہنچے روح پر وجد طاری کردے۔ یہ ایک الگ مرحلہ ہے۔ پھر اس کے مطابق ہر زبان میں ایسا پڑھنے والا ڈھونڈنا جو اس زبان میں قرآن پڑھنے کا حق ادا کرسکے۔یہ ایک بہت ہی مشکل مرحلہ ہے۔ اب تک جو تاخیر ہوئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوئی ہے کہ بہت سے ایسے تراجم جو ساتھ پڑھے گئے تھے۔ہم نے انہیں منظور نہیں کیا ، قبول نہیں کیا۔ وہ قبول نہیں ہوئے کیونکہ طبیعت نے ان کو قبول نہیں کیا تھا اور مشوروں کے بعد یہی سوچا کہ کسی اور تلاش کیا جائے۔ پھر اگر وہ بھی پورا نہ اترے تو پھر کوئی اور تلاش کیا جائے۔ مراد یہ ہے کہ جس طرح تلاوت سے دلوںپر اثر پڑ رہا ہے دوسری زبان میں وہ اثر بیچ میں ہی نہ گر جائے اور وہ پھسپھسی نہ دکھائی دے نہ سنائی دے۔ پس اس پہلو سے چونکہ بہت دقت طلب تو نہیں مگرمحنت طلب کام ہے اور صبر آزما ہے۔ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے احباب جماعت کو میںیہ بایتں سنا رہا ہوں تاکہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے وعدہ کیا اور پورا نہیں کررہے اور دیر ہوگئی۔ بہت لمبی محنت اور احتیاطوں کا کام ہے۔ پھر بعض تراجمہ کی از سر نونگرانی بھی ہورہی ہے۔ بہت سی ایسی زبانیں ہیں جن میں تراجم ہوئے۔ شائع کردیئے گئے انہوں نے زیادہ تر انحصارحضرت مولوی شیر علی صاحب کے ترجمہ پر رکھا۔ یا پھر ملک غلام فرید صاحب کے ترجمے پر انحصار رکھا۔ بعض دوسرے تراجم جووہ سمجھتے تھے ان کو بھی ساتھ شامل کیا۔ یہ ایک لمبا سلسلہ تھا۔ جس میں ہم نے حتی المقدور ایسے احمدی سکالرز کو داخل کیا جو عربی کا علم بھی رکھتے تھے اور ان زبانوںکا بھی۔ لیکن اس معیار کی زبان نہیں تھی کہ وہ از خود ترجمہ کرسکیں۔ لیکن سمجھتے ضرور تھے کہ یہ جو ترجمہ ہورہا ہے۔ یہ قرآن کے مطابق ہے یا نہیں ہے۔ ان تمام احتیاطوں کے باوجود میں نے محسوس کیا کہ بہت سی جگہ خلا رہ گئے ہیں اور اگر ہم دنیا کے سامنے صوتی طریق پر تراجم پیش کرینگے تو ہوسکتا ہے کہ پوری طرح قرآن کا حق ادا کئے بغیر بعض مضامین ہم بیان کردیں جن کو ترجمہ کرنے والا اچھے طریق پر بیان نہیں کرسکتا تو اس کے دو حل تجویز ہوئے جو زیر عمل ہیں۔ ایک یہ کہ تمام ایسی آیات جن میں قاری کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے بلکہ اس قاری کو بھی بعض دفعہ جو عربی اچھی طرح جانتا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اردو تراجم میں ان آیات کے سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے اور وہ ایسی غلطی ہے کہ اگر اس کی طرف توجہ دلائی جائے تو وہ لوگ جو اس مترجم کو اچھا بھی سمجھتے ہوں وہ اس پر ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کرینگے بلکہ سمجھ جائیں گے کہ ہاںیہاں کچھ تھوڑی سی کمی رہ گئی ہے۔ کچھ سقم پیدا ہوگیا ہے۔پس ایسی تمام جگہوں کا از سر نو ترجمہ ضروری تھا۔ تو ہم نے دوسری زبانوں کے ترجمے کی حقیقت سمجھنے کیلئے ان تمام آیات کا انتخاب کرکے اور یہ کافی بڑا انتخاب تھا۔ احتیاط کے طور پر جہاں بھی خیال پیدا ہوا کہ ایک براہ راست عربی نہ جاننے والا کوئی غلطی کرسکتا ہے۔ ان کا دوبارہ انگریزی میں ترجمہ کروایا اور اگر وہ انگریزی ترجمہ اس زبان سے بالکل درست تھا تو پھر ہمیں کسی فکر کی ضرورت نہیں رہتی اور اگر اس ترجمے میں ابہام تھا تو یا تو ترجمہ کرنے والے نے اس زبان سے صحیح ترجمہ نہیں کیا یا پہلا ترجمہ ہی غلط ہوگا تو اس پہلو سے پوری احتیاط کرنے کے بعد اس پر کام شروع ہوا اور جو جو انگریزی ترجمے میں غلطی نظر آئی اس کو درست کرکے اہل زبان کے سامنے وہ آیات وہ ترجمے دونوں رکھے گئے اور پوچھا گیا کہ بتائو جو پہلا ترجمہ ہے وہ اس کے عین مطابق ہے یا نہیں ہے؟ اور جو سقم سامنے آیا ہے۔ اس نئے ترجمے میں وہ دور ہوا ہے کہ نہیں؟ پس اس تسلی کے بعد ان کو مختلف ملکوں میں بھجوادیا گیا ۔ ان تصحیح شدہ تراجم کو اور تراجم کے اوپر ان کی چیپیاں وہاں لگادی گئیں کہ اصل یہ ترجمہ درست تھا یا زیادہ واضح تھا اور اس کے مطابق اب تمام دنیا کی زبانوں کے تراجم یک رنگ ہورہے ہیں۔ بعض تراجم میں اگر غلطی نہیں بھی تھی تو ایک ترجمے میں ایک طرز اختیار کی گئی ہے ۔ دوسرے میں دوسری اختیار کی گئی ہے بعد میں محققین کہیں گے کہ جماعت احمدیہ نے جو ترجمہ پیش کیا یہاں کچھ اور کیا وہاں کچھ اورکیا۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ عربی زبان میں یہ تمام امکانات موجود رہتے ہیں۔یعنی اس میں وہ گنجائش ہے وہ لچک ہے کہ بعض مترجم اگر ایک ترجمے کو پسند کریں وہ کرلیں بعض دوسرے کو پسند کریں وہ کرلیں اور ان میں تضاد نہیں ہے۔ بلکہ دو پہلو ہیں تاہم ہم نے کوشش یہی کی ہے کہ تمام دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں۔ ان میں تضاد کا تو سوال ہی نہیں ہے لیکن مضمون پیش کرنے میں جہاں تک ممکن ہو ایک ہی طرز اختیار کی جائے اور ایک ہی ترجمے کو اختیار کیا جائے جو سب سے زیادہ واضح اولیت رکھنے والا ترجمہ ہے۔ اب اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ جب آپ کے سامنے بعض ترجمے پیش کئے جاتے ہیں یعنی اب کئے جارہے ہیں (انشاء اللہ) آج شروع ہوچکے ہونگے اب تو اس میں۔ اس کے پس منظر میں کتنی محنت‘ کتنی توجہ اور کتنے لمبے گہرے وقت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جب خداتعالیٰ بات میں برکت دیتا ہے تو یہ کام ہوتے رہتے ہیں۔ اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ جب باقی سب دنیا کی جماعتیں بھی اس مضمون کی اہمیت کوسمجھتے ہوئے دعا سے مدد کرینگی تو انشاء اللہ کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور بھی زیادہ سہولت نصیب ہوگی۔
تراجم کے سلسلے میں یہ بھی یاد رکھیں کہ ہم نے ایک الگ ٹیم بنادی ہے نوجوانوں کی‘ جو خاص طور پر مترجم تلاش کرنے اور تراجم کے سلسلے میں مرکزی کارکنان کی مدد کررہی ہے۔ یہ مخلص نوجوان ہیں جو یہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھے ہوئے یا پڑھ رہے ہیں اور ان کویہ جو ظاہری تحقیق کی جو احتیاطیں ہیں۔ اتنا علم بہرحال ضرور ہے۔ ہمارے ہاں نفس مضمون پر تو بہت زور دیا جاتا ہے۔ لیکن بعض تکنیکی احتیاطیں ہیں وہ ہم اختیار نہیں کرتے۔ اس کی وجہ سے مغرب کی نظر میں ہماری تحقیق کا معیار کمزور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ جو طلباء جن کی میں بات کررہا ہوں جن کی ٹیم یہاں بنائی گئی ہے ان کو ہم اسلامی نقطہ نگاہ سے تمام باتیں بتاتے ہیں جو زیر نظر رہنی چاہئیں اور مغربی طریقہ تحقیق سے وہ کچھ پہلے واقف ہیں کچھ اور ان کی تیاری کروائی جاتی ہے۔ ان کے سپرد مختلف زبانوں کے کام کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری ڈال دی گئی ہے اور وہ باقاعدہ اپنی رپورٹیں لیکر مجھ سے ملتے ہیں اور اس وقت کی صورت حال بیان کرتے ہیں۔ ایک دقت جو سردست پیش آرہی ہے جس کا ابھی تک پوری طرح حل نہیں ہوا۔ وہ یہ ہے کہ مختلف مترجمین کی قیمتیں الگ الگ ہیں وہ اجرتیں جو طلب کرتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے ناں ! کہ ہر ملک میں الگ الگ ہو ہی جایا کرتی ہے لیکن میں یہ بات کررہا ہوں کہ بعض ملکوں میں اگر 100 ہے تو بعض میں 5 ہے ۔ اور اتنا زیادہ فرق ہے کہ ہم آنکھیں بندکرکے 100 والے کی آفر کو قبول نہیں کرسکتے۔ اس کی پیشکش لینے کے بعد پھر تلاش کرتے ہیں کہ شاید اس سے اچھی پیشکش کسی اور جگہ سے مل جائے اور یہاں معیار کے فرق کی وجہ سے نہیں ہے یعنی علم کے معیار میں کمی کی وجہ سے قیمت نہیں گرتی بلکہ اقتصادی نظام میں قیمتوں کے گرنے سے یہ قیمت گرتی ہے۔ پس وہ ایسے تمام علاقے جہاں مغرب کے مقابل پر اقتصادی نظام ہے وہ نسبتاً ادنیٰ مقام پر ہے۔ اور اس کے مطابق پر قیمتیں بھی کم ہیں ۔ ان علاقوں میں ایسے علماء کی تلاش کرنی چاہئے اگر موجود ہوں اور یہ علماء جو ہیںاس قسم کے ہر جگہ پھیلے پڑے ہیں۔ اب روس سے یا روس نہیں کہنا چاہئے جو رشین ریپلک کی تھی USSRکی، جس میں روسی غیر روسی سب قومیں شامل ہیں ان میں موجودہ زمانے میںبہت حد تک باہر جاکربہتر ذرائع معیشت ڈھونڈنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔وہ پاکستان بھی پہنچ گئے۔ انڈیا بھی پہنچ گئے ہیں اور دوسرے ممالک میں بھی جارہے ہیں اور ان میں بڑے صاحب علم لوگ ہیں۔ علم کا معیار اللہ کے فضل کے ساتھ USSR میں بہت اونچا ہے۔ کیونکہ ان کوگویا جس طرح کیڑیاںکام پہ لگی رہتی ہیں۔ اس طرح مختلف علمی اداروں میں جھونک دیا گیا اور کسی چیز کو ہوش ہی نہیں رہی۔ چنانچہ بہت بڑی تعداد ایسے علماء کی آپ کوروس میں ملتی ہے جو اپنے اپنے مضمون میں بڑے ماہر ہیں بلکہ اس کے علاوہ دوسرے مضامین میں بھی بڑی قدرت رکھتے ہیں۔ زبانوں کے بڑے بڑے ماہر وہاں موجود ہیں اور وہاں ان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ روس میں اگر ان تک پہنچا جاسکے تو ٹھیک ہے۔ لیکن آج کل روس میں مقیم باشندوں کو امریکن ڈالر بہت دکھائی دینے لگ گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے جب کوئی باہر والا ان سے پوچھتا ہے تو اپنی موجودہ قیمت سے 50 ۔ 100 گنا بڑھا کر بتاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں جو بھی باہر سے آتا ہے امریکن ڈالر لے کے آتا ہے۔
اس لئے یہ جو باہر جاچکے ہیں ان ملکوںمیں انہوں نے جو اپنے نئے معیار ذھنی طور پر قائم کرلئے ہیں کہ ہماری محنت کا یہ پھل ملنا چاہئے۔ وہاں اچھے لوگ مل سکتے ہیں۔ اس لئے ان پر نظر رکھیں۔ اسی طرح عرب دنیا میں ہر طرف پھیلے پڑے ہیں۔ ہمیں اچھے عربی دانوں کی بھی ضرورت ہے۔ ترکی زبان کے ماہرین کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن ہر زبان کے ماہرین میں شرط یہ ہے کہ انہیں ایک دوسری زبان اچھی طرح ضرور آتی ہو۔ یا عربی یا اردو یا انگریزی کیونکہ زیادہ تر ہمارے تراجم یا ہماری کتب انہیں زبانوںمیں ہیں۔ اسی طرح اس وقت French میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی تیاری ہوچکی ہے۔ جرمن زبان میں بھی ہے تو اگر دوسری زبانیں نہ آتی ہوں تو یورپ کی بعض دوسری زبانوں سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ تو قرآن کریم کے تراجم پر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے از سر نو بہت احتیاط کی نظر ڈالنے کی خاطر ہمیں ان ماہرین کی ضرورت پیش آرہی ہے اور یہ ضرورت بڑھے گی اور اس کا تعلق صرف یورپ سے نہیں افریقہ میںبھی بہت سی غلطیاں،بہت سی نہیں تو کئی جگہ غلطیاں راہ پا گئی ہیں اور ان کی درستی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ جب میں نے قرآن کریم طبع ہونے کے بعد دوبارہ نگرانی کروائی ۔ پیشتر اس کے کہ ان کی اشاعت کی جائے تو بعض تراجم ایسے تھے کہ جن کے متعلق یہی فیصلہ کیا گیا کہ ان کو نہ تقسیم کیا جائے جو اشاعت طباعت کا نقصان ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کے مقابل پر کہ نعوذ باللہ قرآن کریم کا کسی جگہ غلط تاثر پیدا ہوجائے۔ اس کے بدلے پھر نئے تراجم بھی کرائے گئے ہیں۔ پھر بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ بعض علماء جلدی سے جماعت احمدیہ کے تراجم پر حملے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں آپکو بتادوں کہ جہاں تک اس قسم کی انسانی کمزوری کی غلطیا ںہیں وہ ہمارے تراجم میں بہت کم ہیں میں جب انہیں بڑھا کر بیان کررہا ہوں تو آپ یہ نہ سمجھ لیںکہ دیگر تراجم ان باتوں سے پاک ہیں اور ہمارے تراجم میںیہ غلطیاں ہیں۔ دیگر تراجم اس قسم کی بے اختیار غلطیوں سے بھی پُر ہیں اور دانستہ غلطیوں سے بھی پُر ہیں۔ یعنی قران کریم کی بعض آیات کا ایسا خوفناک ترجمہ کیا جاتا ہے کہ جس سے جوغیر مسلم ہیں۔وہ قرآن کی طرف مائل ہونے کے بجائے اس سے بِدکتے ہیں اور اسلامی تعلیم سے متاثر ہونے کے بجائے اس سے بھاگتے اور متنفر ہوتے ہیں اور بعض تراجم ایسے ہیں کہ جس کی کچھ سمجھ نہیں آئی کسی کو کہ یہ ہے کیا ہیں لیکن آنکھیں بند کرکے اسی طرح کردیئے گئے ہیں۔ بعض تراجم ایسے ہیں جو اس زمانے کی غلطیوں کی طرف لے جاتے ہیں جو بائبل کا زمانہ تھا اور بائبل کے زمانے کے بگڑے ہوئے عالمی تصور کو قرآن کی طرف منسوب کرکے نعوذ باللہ من ذالک اس کواس زمانے میں لے آئے ہیں۔ جبکہ بائبل پر تنقید ہونی چاہئے تھی نہ کہ قرآن پر۔ لیکن بائبل سے ایک مضمون اٹھایا ہے جسکو قرآن نے بیان ہی نہیں کیا اور زبردستی قرآن کی بعض آیتوں کی طرف منسوب کردیا ۔تو یہ چیز ناقابل برداشت ہے۔ اس لئے جب میں اپنے اوپر تنقید کررہا ہوں تو یہ تنقید خالصتاً تقویٰ پرمبنی ہے۔ اپنی ذات کے اوپر اگر آپ تنقید نہ کریں اور صرف دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنائیں توکبھی آپ ترقی نہیں کرسکتے۔ آپ کی اصلاح نہیں ہوسکتی مگر اس تنقید سے کوئی دشمن غلط معنی نہ نکالے۔ یہ نہ سمجھ لے کہ ہم نے اقرار کرلیا ہے کہ ان کے تراجم تو بہترین ہیں۔ ہمارے تراجم میں غلطیاں ہیں۔ اول تو مقابلہ اس لئے نہیں ہوسکتا کہ جتنے تراجم ہم کر بیٹھے ہیںاللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ گزشتہ چودہ سو سال میں تمام دنیا کے مسلمانوں کو مل کر بھی اتنے تراجم کرنے کی توفیق نہیں ملی۔ اس لئے بہت سارے حصے تو ہیں ہی بغیر مقابلے کے۔ لیکن جہاں مقابلہ ہے وہاں ہر پڑھنے والا جانتا ہے اور تمام اہل علم ابھی تک ہمارے ترجموں پر یہ تبصرے کرچکے ہیں کہ ہم نے جو موازانہ کرکے دیکھا ہے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔بہت واضح ہے مثلاً چینی زبان میں جو ترجمہ ہے اس میں بہت سے علماء نے ایسے مثبت تبصرے لکھے ہیں وہ کہتے ہیں اب ہم پر قرآن کی شان روشن ہوئی ہے۔ تو یہ جو میرا اقرار ہے اور اعتراف ہے کمزوری کا، یہ تو ویسا ہے جیسے قرآن کریم کا حکم ہے اور انبیاء بھی ہمیشہ اعتراف گناہ کرتے رہے جبکہ گناہ نہیں بھی کیا تھا۔ مگر ہم سے تو کمزوریاں ظاہر ہوئی ہیں اس لئے یہ اعتراف ہم پر لازم ہے اور اس اعتراف کے نتیجے میں حسن عطا ہوگا اور ہمارا کام بہتر ہوگا جیسا کہ اُن آیات میں اس مضمون کا ذکر ملتا ہے جو اب میں آپ کے اب سامنے پیش کرنے لگا ہوں۔
مَا کَانَ قَوْلَھُم ْاِلَّا اَنْ قَالُوْا رَبَّناَ اغْفِرْ لَناَ ذُنُوْبَناَ وَ اِسْرَافَناَ فی اَمْرِناَ وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَناَ وَانْصُرْناَ عَلیَ الْقَوْمِ الکٰفِرِیْنَ O سورۃ اٰلِ عمران 148 آیت
اُن کا قول اس کے سوال کچھ نہیں تھا کہ انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہمیں بخش دے۔ کیا بخش دے؟ ’’ذُنُوْبَناَ‘‘ ہمارے ذُنُوْب بخش دے۔ ذنوب کیا ہوتے ہیں اس کی گفتگو میں ابھی کروں گا۔ اس پر میں ابھی گفتگو کروں گا عام طور پر اس کا ترجمہ گناہ کیا جاتا ہے مگر یہ لفظ بڑا وسیع ہے گناہ عمد پر بھی اطلاق پاتا ہے اور انسانی بشری کمزوریوں پربھی اطلاع پاتا ہے اور ایک انسان کی بے بسی پر بھی اطلاق پاتا ہے اگر وہ اس کا مرتبہ بے اختیاری کی حالت میں بھی ردّی مرتبہ ہے۔ وہ ایسی جگہ سے قوم سے آیا ہے جسے کوئی فضیلت حاصل نہیں تو اس پر بھی یہ لفظ اطلاق پاتا ہے۔ پس ہمارے ذنوب ہمیں بخش دے۔ ’’ وَ اِسْرَافَناَ فی اَمْرِناَ ‘‘ اور ہمارے معاملات میں ہماری زیادتیاں ہمیں معاف فرما۔ وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَناَ اور ہمارے قدمو ںکو ثبات بخش۔ وَانْصُرْناَ عَلیَ الْقَوْمِ الکٰفِرِیْن۔ اور ہمیںکافروں کی قوم پر نصرت عطا فرما۔
اس میں سب سے پہلے تو لغت کے حوالے سے بعض الفاظ کے زیادہ وسیع معنے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔تاکہ آپ کو علم ہو کہ قرآن کریم کی زبان میں جو لفظ مستعمل ہیں ان کا دائرہ اثر کتنا وسیع ہے۔ اور ان سب معانی کو پیش نظر رکھا جائے جو ترجمے کے علاوہ معانی پائے جاتے ہیں جو سیدھا ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ تو قرآن کریم کے مضمون میں بہت وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔ وسعت تو ہے پہلے ہی۔ قرآن کریم کے مضمون کو سمجھنے میں بہت وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔
ذَنْب’‘ : سب سے پہلے اس کا سادہ ترجمہ میں مفردات راغب کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جب اس لفظ کا ’’ن‘‘ ساکن ہو تو اس کے معنے گناہ کے ہوتے ہیں اور اس کی جمع ذُنُوْب آتی ہے ’’ذال‘‘ کی پیش کے ساتھ۔ذَنوب نہیں بلکہ ذُنوب مفردات امام راغب میں ’’ یُسْتَعْمَلْ فِی کُلّ فِعْلٍ یْسْتَوخَمُ عُقْبَاہُ‘‘
بیان ہوا ہے یعنی ہر وہ فعل جس کا نتیجہ خراب ہو ذَنْب’‘کہلاتا ہے۔ یعنی قطع نظر اس کے کہ وہ گناہِ عمد ہے کہ نہیں ہے۔ ہر وہ فعل جو نتیجہ کے لحاظ سے ناقص ہو۔ اور کوئی نقصان ظاہر کرنے والا ہو ہر اس فعل کو ذَنْب کہا جاتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا
’’فَاَخَذَھُمْ اللّٰہُ بِذُنُوْبِھِمْ وَ اللّٰہُ شَدِیدُ الْعِقَابِ‘‘ (آل عمران آیت نمبر ۱۲)
پھر فرمایا
فَکُلاًّ اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ (العنکبوت آیت نمبر 41)
ذنب ان کا ترجمہ یہ ہے اَخَذَھُمُ اللّٰہُ بِذُنُوبِھِمْ ......کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو پکڑ لیا ان کے ذنوب کے سبب سے۔
’’ وَ اللّٰہُ شَدِیدُ الْعِقَاب‘‘ اور اللہ پکڑ میں بہت سخت ہے۔ میں نے کہا کہ یہ آیت نکالیں۔ آل عمران آیت۱۲
پھر عنکبوت آیت 41 میں فرمایا ہے۔پھر اللہ نے ان کو ان کے ذنوب کی وجہ سے پکڑ لیا نہ دوسری جگہ فکلا اخذنا بذنبہ
’’ ہم نے سب کو ان کے ذَنْب کی وجہ سے پکڑ لیا‘‘
امام راغب لکھتے ہیں کہ ’’ذَنَب’‘ ‘‘ یعنی نون کے اوپر زبر کے ساتھ جب پڑھا جائے تو اس کے معنے دُم کے ہوتے ہیں اور پیچھے رہنے والا اور ذلیل کے بھی ہوتے ہیں ۔ اس کی جمع ’’اَذْناَب‘‘ آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’ھُمْ اَذْنَابُ القومِ‘‘
یعنی وہ قوم کے نوکر اور ذلیل لوگ ہیں۔استعارہ کے طور پر ’’مَذَانِبُ الطّلاَئِ‘‘
ٹیلوں سے پانی بہنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور دم کی گیلی جگہ کو کہتے ہیں۔ یعنی وہ نچلا حصہ جہاں پانی کا اثر دیر تک رہتا ہے اس کا اثر۔ اور نمی اوپر کے حصوں سے بہتے بہتے نچلی راہوں پر اکٹھی ہوجاتی ہے جہاں سے پانی بہہ کر گزرتا ہے۔ اور وہ آخر تک گیلا رہتا ہے۔ تو کسی اثر کے لمبا ہونے کو اور اس کے آخری حصے کو گویا ’’ذَنَب‘‘ کہا جاتا ہے۔کہاں ہے وہ آیت؟
٭کَدَابِ آلِ فِرْعَوْنَ والَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کَذَّبُواْ بِآیٰتِنَا۔
٭’’فَاَخَذَھُمْ اللّٰہُ بِذُنُوْبِھِمْ وَ اللّٰہُ شَدِیدُ الْعِقَابِ‘‘
یہاں فرمایا گیا ہے ’’اسی طرح فرعو ن کی قوم کے طریق پر جو انہوں نے اختیار کیا بدی کا اور گناہ کا۔ والذین من قبلھم اور اُن لوگوںکے طریق پر جو اس سے پہلے تھے۔ ’’ کَذَّبُواْ بِآیٰتِنَا‘‘ ان لوگوں نے بھی ہمارے نشانات کو جھٹلادیا ہے۔ یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو مخاطب ہیں انہوں نے فرعون کی پیروی کی ہے اور آلِ فرعون کی یا ان بدوں کی جو ان سے پہلے گزرے تھے۔ پس ان کو تو اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیا تھا۔ ان کو کیوں چھوڑے گا؟
جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انکار میں ان بدکرداروں کے کردار کی پیروی کرتے ہیں۔ پس یہاں ذَنْب سے مراد ہر قسم کے وہ گناہ جو انبیاء کے مخالفین کرتے ہیںوہ ہیں وہ اس لفظ کے اندر داخل ہیں اس لئے ذَنْب کا یہ ترجمہ کرنا کہ ’’ہماری انسانی کمزوریاں‘‘ یہ درست نہیں ہے۔ صرف اس موقع پر درست ثابت ہوتا ہے جب ایک ایسے شخص پرذَنْب کا لفظ بولا جائے جس کا معصوم ہونا دیگر دلائل سے قطعی طور پر ثابت ہو۔ جس کے متعلق قرآن دوسری جگہ گواہی دیتا ہو کہ یہ شخص معصوم ہے۔ جیسا کہ انبیاء علیھم السلام پس وہاں ذَنْب کا سب سے ہلکا معنیٰ لینا ہوگا اور ذنب کا سب سے ہلکا معنی یہ ہے کہ وہ کمزوریاں جو انسان کے ساتھ لگی رہتی ہیں۔ گناہ تو نکل گیا اس کی دُم ضرور باقی رہ جاتی ہے۔
پس وہ دم جو آخر پر پیچھے رہ جائے اس کو ذَنْب کہا جاسکتا ہے۔ پس ایک نبی کیسا ہی پاک ہو۔ کچھ نہ کچھ بشری کمزوری کچھ ’’ذھول‘‘ اس میں ضرور داخل ہوتا ہے۔ پس جب حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ’’اَسْتَغْفِرْاللّٰہَ رَبّیِ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اَتُوْبُ اِلَیْہِ‘‘ فرمایا کرتے تھے یا خداکے حضور عرض کرتے تھے تو نعوذ باللہ یہ مطلب تو نہیں کہ ایک عام گناہ گار انسان اپنے گناہ یاد کررہا ہے جن کا دائرہ ہی بہت وسیع ہے۔ اکثر بھول بھی چکا ہوتا ہے پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں گناہ کربیٹھاہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جب آتا ہے تو وہ باریک ترین پہلو ذنب کے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیش نظر ہوسکتے ہیں۔ جن پر غیر کی نظر تو نہیں مگر آپ کی اپنی نظر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھتے ہیں کہ اس سے بہتر نتیجہ فلاں صورت میں نکل سکتا تھا۔ معصومیت کا یہ مطلب نہیں کہ انسان ایسی کمزوریوں سے جو بغیر گناہ کے ہیں جن میں عدم اطاعت کا کوئی شائبہ بھی نہیں ان سے بھی پاک ہے۔ پس معصومیت کا معنیٰ سمجھ جائیں تو ذنب کا معنیٰ زیادہ واضح ہوجائے گا۔ مثلا" حضرت اقدس محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض دفعہ نماز کی رکعت میں بھول جاتے تھے اور بعض دفعہ صحابہ کو یاد دلانا پڑتا تھا۔ ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کے۔ ثابت ہے کہ بعض دفعہ نماز کے بعد بیٹھ کر مُڑ کے پوچھتے تھے کہ کیا غلطی ہوئی تھی بتائو؟ وہ بتاتے تو پھر اس کو قبول فرماتے یا رد فرماتے جیسی بھی صورت تھی۔اور اس کی تصحیح فرمادیتے۔ تو اسی طرح کے معاملات ذھول کے اور اس سے ملتے جلتے ……
(نوٹ: یہاں پھر رابطے میں خرابی کے باعث چند جملے Miss ہیں)
پس جب انبیاء کی بات کرتے ہیں تو ان کی شان کے مطابق بات ہوتی ہے اور موقعہ اور محل کے مطابق ترجمہ ہونا چاہئے۔ پس اس پہلو سے یہ جوآیت زیر نظرہے اس میں ذَنْب کا وہ معنیٰ جو شدید ہے ان لوگوںکے متعلق لیاجائیگا۔ کیونکہ سارے اعتراف کررہے ہیںجنہوں نے واقعی گناہ کئے تھے اور وہ بخشش مانگ رہے ہیں۔ اور سب سے ہلکا معنیٰ ان لوگوں کے متعلق لیا جائیگا جو اپنی معمولی بشری کمزوریوںکو بھی جو خدا کی نظر میں ہرگز گناہ نہیں ہیں۔ انکو بھی گناہ سمجھ کر پیش کئے جارہے ہیں اور عرض کرتے ہیں ۔ اے اللہ ! ہمیں معاف فرمادے اور اس بھُول چُوک کے نتیجے میں اگر کچھ غلط اثرات ظاہر ہوجائیں تو ان کے لئے بخشش مانگنا ضروری ہے محض انکسارکی بات نہیں ہے۔
ایک ڈرائیور ہے وہ جان بوجھ کر تو ایکسیڈینٹ نہیں کرتا، غلطی ہوسکتی ہے اور اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہوسکتا ہے۔ اتنا بھیانک کہ بعض دفعہ بالعمد غلطی کرنے والے سے بھی بعض دفعہ ایسا خطرناک نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا۔ جو ایک معصوم غلطی کرنے والے سے ہوجاتا ہے۔ اس لئے یہ بھی کہنا درست نہیں کہ وہ محض انکساری کے طور پر ایک بے ضرورت بات کرتے ہیں کیونکہ انبیاء کی طرف بے ضرورت بات بھی منسوب نہیں ہوسکتی۔ یہ بات توارادے کے ساتھ کررہے ہیں۔ اس لئے اس میں حکمت ہے۔ اور حکمت یہ ہے کہ بغیر گناہ کے انسانی غلطیاں بعض خطرناک نتائج پر منتج ہوسکتی ہیں۔ ان کا نتیجہ خطرناک نکل سکتاہے۔ اس لئے انبیاء کا اپنے لئے بخشش طلب کرنا۔ جاہل لوگ نہیں سمجھتے کہ ساری قوم کیلئے بھلائی مانگنے کے مترادف ہے۔ اپنے آپ کو خدا کے حضور گرا کر بعض جاہلوں کی نظر میں اپنے آپ کو بہت کمزور اور غلطیوں سے پُر دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جانتے ہیںکہ اس کے نتیجے میں لوگ طرح طرح کی باتیں بھی بنائیں گے۔ قرآن آگے اس بات کو خوب کھول رہا ہے۔ لیکن جانتے ہیں یہ بھی جانتے ہیںکہ اگر ہم خدا کے حضور گریں گے اوران غلطیوں کے متعلق معافیاںمانگیں گے جو ہم نے جان کرنہیں کیں۔ تو وہ قادر مطلق ہے اسکے اختیار میں ہے کہ اس کے بدنتائج سے اس قوم کو محفوظ رکھے جو ہمارے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ پس یہ ایک محض انکساری کا معاملہ یاایک ذاتی معاملہ نہیں رہتا۔ایک قومی فریضہ بن جاتا ہے جو ہر لیڈر کیلئے لازم ہے۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں ہرشخص ایک لیڈر بھی ہے اور جواب دہ بھی ہے۔
’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّ کُلُّکُمْ مَسْئُوْل’‘ عَنْ رَعِیَتِہٖ‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ’’تم میں سے ہر شخص ایک گڈرئیے کی طرح ہے جس کے سپرد کسی کی بھیڑیں کی گئی ہوںاور ان بھیڑوںکا حساب طلب کیا جائیگا۔ ایک تو مالک ہے اس کی بھیڑیں ہیں وہ کوئی کھاجائے نہ کھائے وہ خود جانتا ہے کسی کو جواب نہیں دیتا۔ لیکن یہاں جو ہم مالک ہیں یہ عارضی ہیں۔ اس لئے ہر وہ چیز جو ہمارے سپرد ہے ہمارے پاس امانت ہے وہ اللہ کی امانت ہے۔ اس سلسلے میں جواب دہ ہونگے۔ پس یہ مضمون ہمیں بتاتا ہے کہ اگر ہم نے فلاح حاصل کرنی ہے اور عظیم الشان کامیابیاں حاصل کرنی ہیں تو جس جس دائرے میں خواہ وہ چھوٹا دائرہ ہی کیوں نہ ہوہمارے سپرد کوئی ذمہ داریاں کی گئی ہیں وہاں یہ نہ دیکھیںکہ ہم سے تو کوئی ایسی غلطی نہیں ہوئی کہ ہم پکڑے جائیں یا ہم سے کوئی پوچھے۔ اور بہت سے دنیا کے لوگ ہیں بھاری اکثریت جو اسی خیال میں مگن زندگی گزار دیتے ہیں کہ ہم نے کونسی غلطی کی ہے۔ یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ لیکن قرآن کا مضمون بہت ہی لطیف ہے۔ انبیاء سے استغفار کا معنیٰ سیکھیں گے تو آپ کو سمجھ آئے گی کہ آپ سے جو غلطیاں ہوتی ہیں اگر استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے بد نتائج کو ٹال دے گا اور اس برکت سے محرومی کی حالت میں بدنصیب دنیا کی اکثریت اپنی عمریں ضائع کردیتی ہے اور اپنے گرد و پیش اپنے ماحول اور ان لوگوں کو جو انکے پیچھے چلتے ہیں ان کو طرح طرح کے نقصانات پہنچانے کا موجب بن جاتے ہیں۔ جبکہ ارادہ نہیں تھا۔ پس یہ ہے ذَنْب کا معنی جو قرآن کے مطالعہ سے اور انسانی فطرت کے مطالعہ سے اُبھرتا ہے۔
اب میں بعض دوسرے مفسرین کا مختصر ذکر کرتا ہوں۔ یا عربی لغت کے حوالے سے بات بڑھاتا ہوں۔ ’’غریب القرآن فی لغات الفرقان‘‘ میں بنو ھندیل کے متعلق لکھا ہے کہ انکی لغت میں ذَنُوْب بمعنیٰ عذاب مستعمل ہے۔ لفظ ذُنوب نہیں بلکہ ذَنوب دُموں کی بجائے ذَنُوب عذاب کو کہتے ہیں۔ مگر اس کا یہاں سرِدست کوئی تعلق نہیںہے۔اس کا اطلاق نہیں ہوتا
اِسراف’‘:اسراف سے کیا مراد ہے ؟ دعا میں یہ آتا ہے کہ
’’ربَّنا اغفرلنا ذنوبنا ذنوب کے بعد آتا ہے و اسرافنا فی امرنا ‘‘
اور ہمارے اپنے معاملات میں ہم نے جو اسراف کیا ہے۔ اگر ذنب کا وہ معنیٰ یہاں نہ لگتا ہو جو میں نے بیان کیا تھا تو اسراف یہاں بے محل اپنی Position کے لحاظ سے بے محل دکھائی دیتا ہے۔ اسراف کا مطلب ہے ہم نے زیادتی کی ہے اور عدل سے ذرا ہٹ گئے ہیں۔ یہ جو دعا ہے ’’اسرافنا فی امرنا‘‘ اس میں بھی دو پہلو ہیں۔ ایک معصومیت کا اور ایک بلارادہ عدل سے ہٹنے کا۔ قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ والہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تو یہ ضمانت دی ہے کہ وہ عدل سے کبھی نہیں ہٹے۔ کیونکہ آپ کو ایک ایسے رسول کے طور پر پیش کیا ہے جس کے متعلق فرمایا ہے۔ ’’لاَعِوَجَ لَہُ‘‘ اور عدل سے ہٹنے کا مضمون عِوَجْ کا مضمون ہے۔کوئی ٹیڑھا پن داخل ہوجائے تو عدل سے ہٹ جاتا ہے اور عدل دراصل صراط مستقیم ہی کا دوسرا نام ہے۔ یعنی ایسی راہ اختیار کی جائے جو ہر قسم کے بل اور فریب سے کلیتہً پاک ہو۔ پس اس معنیٰ میں تو یہ لفظ انبیاء پر اطلاق پا ہی نہیں سکتا۔ خصوصاً حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیونکہ آپ کے متعلق قرآن کریم گواہی دیتا ہے ’’لا عِوَج لہُ‘‘ وہ ایسا رسول ہے جس میں کوئی عدل سے ہٹی ہوئی بات تم نہیں دیکھو گے پھر دوسری جگہ فرماتا ہے ۔ ’’لَا شَرْقِیَّۃً وَّلَا غَرْبِیَّۃ‘‘اس میں تو اتنا بھی عدل سے ہٹا ہوا میلان نہیں کہ کچھ زائد مشرقیوںکی طرف ہوجائے۔ یا کچھ مغرب سے متاثر ہوکر مغرب کی طرف جھک جائے۔ وہ ایسا نور ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان اسی طرح یکتا ہے اور دونوں کے درمیان اسی طرح مشترک ہے جیسے سورج چمکتا ہے۔ تو مشرق پر بھی ویسا ہی چمکتا ہے جیسا مغرب پر چمکتا ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کا نور ہے اس لئے اللہ کا نور سمتوں میں تفریق نہیں کیا کرتا۔ پس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ والہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جب بھی ان دعائوں پر غور کریں گے تو آنحضرت صلی اللہ والہ علیہ وآلہ وسلم پر اطلاق پانے والا وہ معنیٰ لیا جائیگا جو قرآن کی دوسری آیات کے مطابق ہو۔ ان سے ہٹ کر نہ ہو۔ ہر معنیٰ محل کے مطابق ہونا چاہئے اور اس کی گنجائش ہوتی ہیں۔ اب میںپہلے اسراف کی بات کرلوں پھرآگے چلتا ہوں۔قرآن کریم نے اس لفظ کو انہی معنوں میں استعمال کیا ہے جو میں بیان کرچکا ہوں یعنی عدل سے ہٹی ہوئی بات یا ایک ہوجانا یا دوسری طرف ہوجانا۔
’’ والذین اذا انفقوا لم یسرفوا‘‘
جب وہ لوگ خرچ کرتے ہیں مومن تو اسراف نہیں کرتے یعنی وہ حد سے زیادہ بے محل خرچ نہیں کرتے۔
’’ولا تاکلوھا اسرافا و بدارا‘‘
یہاں بھی لفظ اسراف انہی معنوں میں آیا ہے کہ اسے حد سے زیادہ ضرورت سے زیادہ‘ جواز سے زیادہ طریق پر نہ کھائو۔
’’ما انفقت فی غیر طاعۃ اللّہ‘‘
یہ ترجمہ بھی مفردات راغب میں ملتا ہے کہ سفیان نے کہا ہے کہ اس کاحقیقی معنیٰ یہ ہے کہ
ما انفقت فی غیر طاعۃ اللّہ فھو سرف و ان کان قلیلاً
کہ جو کچھ بھی اللہ کی اطاعت سے ہٹ کر خرچ کیا جائے چاہے وہ خواہ تھوڑا بھی ہو اسراف کہلاتا ہے۔
ولا تسرفوا انہ لا یحب المسرفین
اور تم اسراف نہ کرو۔اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں سے محبت نہیں رکھتا۔
فلا یسرف فی القتل ۔ (یہ بنی اسرائیل کی آیت 34)
اس میں عام طور پر مفسرین اس کا معنی یہ لیتے ہیںکہ اس میں ایک عرب جاہلانہ رسم کی طرف اشارہ تھا طریق کی طرف اشارہ تھا کہ جب ان کی قوم کو کسی اور کا کوئی آدمی قتل کردیا کرتا تھا تو بجائے اس کے کہ وہ قاتل کے قتل کا مطالبہ کریں وہ ا ن میں سے شریف آدمی پر انگلی رکھتے تھے کہ یہ ہے ہمارا قاتل۔ تو اس کو اسراف فی القتل بیان فرمایا گیا ہے۔ یہ وہ بے ہودہ رسم ہے جو عرب سے نہیں بلکہ جہالت سے تعلق رکھتی ہے۔ آج جو تیسری دنیا کے ممالک ہیں ان میں خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں تو یہ روزمرہ کا دستور ہے کہ کہیںکوئی قتل ہوا تو نام مشوروں کے بعد لکھوائے جاتے ہیں کہ جی اب موقعہ ہے اب اپنے مخالف سے بدلے اتار لو بعض دفعہ عمداً قاتل کو جانتے ہوئے اس کو چھوڑ کر اپنے ایسے دشمنوں کا نام لکھوایا جاتا ہے۔ جو انکے نزدیک زیادہ اس بات کا اہل ہے کہ اسے برباد کیا جائے۔چنانچہ چوٹی کے ان لوگوں کے شرفاء کے نام اور جہاں ان کا بس چلے احمدیوں کے نام بھی بیچ میں داخل کردیتے ہیں کہ اچھا چلو اس… میں وہ بھی ساتھ ہی نکل جائیں ۔ یہ جہالت کی رسمیں ہیں اور قرآن کریم اس کی شدت سے مناہی فرماتا ہے۔
ولا تسرفوا فی القتل
اگر تم مومن ہو۔ اگر حقیقت میں اسلام سے تعلق ہے تو ہر گز قتل کے معاملے میں کوئی اسراف نہ کیا کرو۔
یہ دونوں باتیں امام راغب کے نزدیک عربوںمیں رائج تھیں پس آج کی دنیا خواہ وہ کسی مذہب کی طرف منسوب ہورہی ہو۔ دراصل اس مشترک مذہب کی طرف لوٹ رہی ہے جسے جہالت کا مذہب کہا جاتا ہے۔ خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ وہ یہودی ہوں خواہ وہ ہندو ہوں جب بھی وہ ان رسموں کی طرف لوٹتے ہیں تو یہ ایک مشترکہ مذہب ہے جس کو قرآن کریم جاہلیت کہتا ہے اور جہالت کا مذہب سب سے گندا مذہب ہے اور اس کے نام مختلف ہوجاتے ہیں۔ اب پاکستان میں مسلمان کہلاتے ہیںلیکن کرتے وہ ہیں جو بھاری تعداد سب نہیں ،مفردات غریب القرآن کے اس بیان کے مطابق ہیں۔
وہ جاہل عرب شریف کو قتل کیاکرتے تھے یا قاتل کے سوا کسی اور کو قتل کرتے تھے۔
یعنی یا قوم کا شریف آدمی مانگتے تھے اپنے قتل کے مقابل پر ۔ یا بالکل کسی اور کا نام لے لیا کرتے تھے جس کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا تھا۔ یہ بظاہر ایک ہی بات ہے لیکن ایک بات نہیں ہے۔ جب کہتے تھے ’’شریف‘‘ تو پتہ ہوتا تھا کہ قاتل کون ہے اور مطالبہ کرتے تھے سب سے اونچے آدمی کا اور بعض دفعہ پتہ نہیں ہوتا تھا تو پھر کسی کا نام لے دیتے تھے کہ کچھ تو ملے گا اور اس بیچارے کو خوامخواہ بے گناہ قتل کروادیا کرتے تھے۔
اَسْرَفَ فِی کَذَا کے معنی ہیں جَاوَزَ الْحَدَّ : اس نے حد اعتدال سے تجاوز کیا۔ اَخْطَاَئَ ۔ جَھِلَ۔ غَفَلَ یہ اقرب الموارد میں مختلف معنی لکھے ہیں۔
سُرْفَۃ’‘ : سرخ جسم ‘ سیاہ سر والا کیڑا جو درخت کے پتے کھاتا ہے اس کو ’’سُرْفَہ‘‘ کہتے ہیں۔اور عام طور پر عربی میں لفظ کو خواہ کسی صورت میں ڈھالا جائے اس میں بنیادی معنے شامل رہتے ہیں۔پس وہ درخت کے ساتھ اسراف کرتا ہے۔ اس کی ساری شان و شوکت اور بہار کو کھا جاتا ہے اور اسے پھل کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ اس لئے اس کیڑے کو جس کا کام ہی پتے چرنا ہے اس کو اس درخت کا سُرفہ کہتے ہیں۔
’’اَسْرَفَ عَلیٰ ‘‘کسی فعل میں حد سے گزر جانا۔ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے۔
قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسھم لا تقنطوا من رحمۃ اللّٰہ
تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
یہاں وہ دوسرا معنیٰ ہمارے سامنے آیا ہے جس کا تعلق دوسروں سے اسراف سے نہیں ہے جو گناہ ہے۔ بعض لوگ اپنے نفس سے اسراف کرتے ہیں اور ان معنوںمیں ان کا اسراف ایک نیکی بن جاتا ہے لیکن اس کے بداثرات کچھ نہ کچھ نفس پر ضرور ظاہر ہوتے ہیں۔ بہت سی اس سے تکلیفیں نکلتی ہیں۔ اس لئے وہ لوگ جو خداکے پاک بندے ہیں جو گناہ کی خاطر اسراف نہیں کرتے بلکہ نیکی کی خاطر اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ان کے لئے بھی قرآن کریم میں لفظ اسراف استعمال ہوا ہے۔
قُل یعبادی الذین کتنے پیار سے اپنی طرف ان کو منسوب فرمایا ہے۔
بارے میں اپنے کہہ دے اے میرے بندو ! الذین اسرفوا علی انفسھم جنہوں نے اپنے مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسی سختی کی راہ اختیار کی کہ گویا اپنے نفس کے ساتھ عدل نہیں کرسکے۔ ان سے کہہ دو کہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور یہ تم سختیاں جس کی خاطر کرتے ہو وہ ان کو بخشنے والا ہے۔ دوسرا معنیٰ گناہ کا بھی اس میں شامل ہے۔ اور عام طور پر مترجمین یا مفسرین کی نظر اس دوسرے معنے کی طرف ہے وہ کہتے ہیں کہ اپنے نفس کے خلاف اسراف کا مطلب ہے گناہ کرنا اور گناہ کرکر کے اس مقام تک پہنچ جانا جہاں بخشش کا کوئی سوال باقی نہ رہے یا باقی دکھائی نہ دے۔ اس معنے کی رو سے یہی لفظ اسراف بجائے اس کے کہ انسان کی نیکی بنے وہ انسان کا گناہ بن جاتا ہے اور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ معنے نہیں ہیں کیونکہ جو اصل غور طلب بات ہے جس کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے۔
اول : جو پہلی آیات تھیں ان میں اسراف اور ذنوب کا اعتراف جمع کے صیغے میں کیا گیا ہے اور جمع کے صیغے میں قوم کا لیڈر بھی اور اسکے متبعین سب شامل ہوتے ہیں۔
جیسا کہ ہمیں دعا سکھائی گئی ۔ ’’ایاک نعبدو و ایا ک نستعین‘‘ اھدنا الصراط المستقیم O صراط الذین انعمت علیھم O غیرالمغضوب علیھم والالضالین O
یہ مغضوب علیھم اور والضالین کا احتمال انبیاء اور بزرگوں کے حق میں کیسے ہوسکتا تھا۔ پس جو جمع کی دعا ہے وہ بتاتی ہے کہ اس جمع کی دعا کا اطلاق متفرق قسم کے لوگوں پر ہورہا ہے اور وہ شخص جو سب کی بخشش چاہتا ہے جو سب کی مدد چاہتا ہے۔ جب وہ کچھ بات طلب کرتا ہے تو یہ مرادنہیںکہ پہلے وہ اس کا مصداق ہے پھر دوسرے ہیں بلکہ ہر قسم کی قوم کے لوگ اس کی دعا کی وسعت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اور انہی معنوں میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرار دیا گیا۔ تمام جہانوں کیلئے رحمت ہیں۔پس اگر سب جہانوں کیلئے بخسش کی دعا نہیں کرتے تھے تو رحمت کیسے ہوگئے سب کیلئے۔
فرشتے جو معصوم ہوتے ہیں انکے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ عرش پر خداکے ان بندوں کیلئے دعائیں کرتے رہتے ہیں جو دنیا میںکمزوری دکھا رہے ہیں۔ کئی قسم کی ان سے غلطیاں سرزد ہورہی ہیں تو کیا فرشتے نعوذ باللہ اس کے نتیجے میں گناہ گار ہوجاتے ہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استغفار خواہ اسکے بعد کے الفاظ اس استغفار کا تعلق بڑے گناہوںسے بھی دکھانے والے ہوں۔ ایک ایسے رہنما کا استغفار ہے جسے تمام دنیا کا رہنما بنایا گیا ہے۔ اولین اور آخرین کا سردار بنایا گیا ہے۔ اس پر فرض ہے اور اس کے حسن خلق کا ویسے بھی تقاضاہے کہ وہ ان سب کیلئے دعا میںمصروف رہے۔ جو اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں بلکہ منکرین کے حق میں بھی وہ غم فکر محسوس کرے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو کردار ہمارے سامنے قرآن میں ابھرتا ہے اور قرآن میں ابھرنے والا کردار وہی ہے بعینہ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا کردار تھا۔ یہاں تک کہ گندے سے گندے دشمن بھی اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہیں کہ جب قرآن ایک کردار پیش کرتا ہے تو چونکہ اس پر سارے گواہ تھے اپنے بھی اور غیر بھی مومن بھی اور غیر مومن بھی۔ اس لئے ناممکن تھا قران کیلئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی کردار پیش کرے اور وہ آپ کی ذات پر اطلاق نہ پارہا ہو۔ پس اس پہلو سے میں یہ آپ کے سامنے گذارش کررہا ہوں کیونکہ دشمن اسلام، لفظ ذنب پر اور لفظ اسراف وغیرہ کے اوپر طرح طرح کی زبانیں دراز کرتا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انبیاء کو اپنے اعتراضات کا نشانہ بناتا ہے۔ اسلئے آپ کے لئے لازم ہے کہ اس مفہوم کی تمام وسعت پر حاوی ہوں اور اسے اس وسیع دائرے میںدیکھیں جس وسیع دائرے میں اس مضمون کو سمجھنے کا حق ہے۔ میں مثال دیتا ہوں جو :-
So Called Rev. E.M. Wherry
ہیں جن کو میں کہا کرتا ہوں کہ یہ ویری یا بیری ہیں۔ دونوں معنوں میں اسلام کے دشمن ہیں یہ
A Comprehensive Commentry on the Quran
میں لکھتے ہیں:-
" This verse clearly disproves the popular doctrine that the Prophets were sinless."
کہتا ہے کہ یہ تو اب قطعی طور پربات ثابت ہوگئی کہ یہ جو خیال ہے مسلمانوں کا کہ انبیاء گنہ گار نہیں تھے۔ یہ 100 فیصد غلط ثابت ہوگیا۔ اصل میں ان عیسائیوں کویہ شوق ہے کہ ہر دوسرے انسان میں کیڑے ڈالیں۔ سوائے مسیح کے۔ اور مسیح خود جو اپنی کمزوریوںکا اعتراف کرتا ہے اس سے یہ صرف نظر کرجاتے ہیں۔مسیح کی اپنی کمزوریاں جو بائبل میں دکھائی دیتی ہیں اور موجود ہیں لکھی ہوئی۔ اس سے آنکھیں بند کرکے یہ کہتے ہیں کہ دیکھو ! ہر شخص گناہ گار ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ اس لئے وہ گنہ گار ہے۔ اور چونکہ وہ گنہ گار ہے اس لئے دوسرے کی بخشش کا حق دار ہی نہیں ہے۔ اس بخشش کی خواہش بھی رکھے تواپنی بخشش پہلے کروالے۔ جو آپ گنہ گار ہے اس نے دوسرے کا بوجھ کیا اٹھانا ہے۔ کہتے ہیں اس لئے کوئی نبی دنیا میں کسی کی مغفرت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ مسیح ذریعہ بن سکتا ہے کیونکہ سب نبی گنہ گار ایک مسیح تھا جو بے داغ کردار کا مالک تھا اور جس سے کبھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ اس پر وہ دو دلیلیں قائم کرتے ہیں۔ اول وہ دلیل جو گناہ کے آغاز کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ ان کا یہ خیال ہے کہ آدم سے جو غلطی ہوئی تھی جسے اللہ نے معاف فرمادیا تھا وہ ایسی پکی سیاہی سے اس کے کردار میں لکھی گئی کہ کروڑہا ارب ہا انسان بعد میںپیدا ہوئے اورہزاروں ہزار، ہزارہا سال کے بعد وہ پیدا ہوئے لیکن وہ سیاہی نہیں مٹی۔
وہ مسلسل نقش ہے اور ہر انسان بے اختیار ہے۔ اپنی پیدائش کے معاملے میں۔ اور لازماً گناہوںکا رجحان لیکر پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ قرآن کا مضمون یہ ہے کہ ’’کل مولود یولد علی الفطرۃ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی مضمون پر روشنی ڈالی ہے قرآن کا یہ واضح بیان ہے کہ ہر بچہ معصوم اور پاک پیدا ہوتا ہے اور اس فطرت پر پیدا ہوتا ہے جو اللہ کی فطرت ہے۔ بائیبل خود، مسیح خود اس بات کا اقرار کر رہے ہیں۔ جب یہ بیان کیا جاتا ہے عیسائیوں کی طرف سے کہ انسان کو اللہ کی شکل پر پیدا کیا گیا ہے تو ان کا وہ عقیدہ کہاں باقی رہ گیا کہ ہر انسان گنہ گار پیدا ہوتا ہے۔ اگر اللہ کی شکل پر پیدا کیا گیا ہے تو پھر اس بات کا اطلاق کہ وہ گنہ گار پیدا ہوتا ہے مسیح پراول طور پر ہوگا۔ کیونکہ مسیح اللہ کی شکل پر پیدا ہوا اور و ہ آدم کے بچے جو آدم سے گناہ لیکر اللہ کی شکل پر پیدا ہوئے وہ سارے ہی گنہ گار ہیں۔ مسیح کو الگ کیسے کرلیں گے اس گنہ گاری سے۔
دوسری بات غور طلب یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو ہم معصوم سمجھتے ہیں۔ اس لئے کوئی یہ نہ سمجھے کہ نعوذ باللہ مسیح کے گناہ تلاش کررہے ہیں اور اسے داغدار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمارا تو عقیدہ ہی یہی ہے کہ ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے اور پاک صاف وجود لیکر دنیا میں آتا ہے۔ جیسا کہ کل جمعے میں بھی میں نے آنحضرت صلی اللہ ولی وآلہ وسلم کی وہ حدیث پیش کی تھی کہ وہ شخص جو گناہ سے تائب ہوجاتا ہے اور سچی توبہ کرتا ہے اور رمضان کا حق ادا کرتے ہوئے رمضان میں سے گزرتا ہے وہ رمضان کے آخر تک اس طرح گناہوں سے پاک صاف ہوچکا ہوتا ہے جیسے نوزائیدہ بچہ۔ تو نوزائیدہ بچے کا معصوم ہونا تو ہر پہلو سے قطعی طور پر ثابت ہے۔ انکو جو شوق ہے مسیح کو معصوم بنانے کا وہ کفارہ کے عقیدے کے سہارے کی خاطر ہے۔ پس یہ کہتے ہیں کہ چونکہ آدم نے گناہ کیا اور وہ بہت پکی سیاہی کے ساتھاس کے خلیوں میں ہمیشہ کیلئے لکھ دیا گیا۔ جو قطعاً سائنس کے شواہد کے خلاف دعویٰ ہے۔ کلیۃً جھوٹ ہے۔ اس کا اس فطرت سے کوئی بھی تعلق نہیں جسے خود ان عیسائیوں نے پڑھا اور سمجھا اور اپنی تحقیقات میں ثابت کیا کہ آج آپ کوئی غلطی کرتے ہیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ آپ کی نسل میں داخل ہوجائے۔
نسل میں داخل ہونے کا جو طریق ہے وہ بہت ہی لمبا اور بہت ہی گہرا ہے اور اس مضمون پر ابھی سائنس احاطہ نہیں کرسکی۔لیکن یہ بات تو قطعی ہے کہ آج آپ نے کچھ کیا تو وہ آپ کے خلیوں میںداخل نہیں ہوگا اور اگر ہوگا تو استغفار کیوں داخل نہیں ہوگا۔ گناہ داخل ہوگا تو جو گناہ کے بعد کا پانی جو داغ کو دھونے والا تھا اس کو بھی داخل ہونا چاہئے۔ پس خدا کی بخشش کو بھی داخل ہونا چاہئے ۔ اس لئے یہ عقیدہ ہے ہی نہایت جاہلانہ اس کا کوئی بھی نہ عقل سے تعلق ہے نہ ان سائنسزسے یہ سچا ثابت ہوتا ہے ان علوم سے سچا ثابت ہوتا ہے جو خود عیسائی دنیا نے بہت گہری تحقیق کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کئے ہیں۔ مگر بہرحال ان کا یہ شوق ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خون میں گناہ لکھا گیا۔ تو بائبل تو کہتی ہے کہ اول گناہ اس نے، حوا نے کیا تھا۔ آدم بے چارہ تو اس کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ شیطان نے پہلا شکار حوا کو کیا تھا۔ تو دوسرا پہلو ان کا یہ ہے مسیح کے متعلق کہ چونکہ وہ انسانی باپ کا بیٹا نہیں اس لئے اس نے گناہ ورثے میں نہیں پایا لیکن اس کا جسم کلیتہً انسانی تھا۔ اور انسانی ماں سے وہ وجود میں آیا اور گناہ میں اولیت عورت نے کی ہے پہلا کام عورت نے کیا ہے تو حضرت مریم کا گناہ پھر مسیحؑ کی طرف کیوں منتقل نہ ہوا۔ اور اس کی انسانی حیثیت تو بہرحال گنہ گار ثابت ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ان کا یہ تصور ہے روح خدا کی گویا اتری ہے اور دو قسم کی کا ملغوبہ ہے مسیح دوچیزوں کا۔ ایک جیسے کسی پر جن آکر بیٹھ جائے اور اس کا اپنا بھی ایک ضمیر سا رہتا ہے اور جن اس پر قبضہ کرکے بھولتا ہے۔ تو دو صورتوں میں سے ایک عیسائی تصور ہے۔ بہر حال۔ یا تو یہ کہ اس بچے کی اپنی روح ہی کوئی نہیں تھی وہ Still Birth تھی۔ اور جسم انسان کا اور شعور خدا کا تھا۔ جب یہ ترجمہ کیا جائے تو کچھ ا نکو فائدہ دیتا ہے مگر پھر وہ مشکل میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ جب ہم مسیح کی بعض غلطیاں دکھاتے ہیں مثلاً انجیر کے درخت پر اس وقت ہاتھ مارنا جبکہ انجیر کا موسم ہی نہیں ہے۔ اور جب اس نے پھل نہیں دیا بے چارے درخت نے، اس بے چارے کا کیا قصور تھا، اس پر *** ڈالی کہ *** پڑے تجھ پر مجھے انجیر کی ضرورت تھی ۔ میں نے ہاتھ بڑھا دیا۔ تونے انجیر نہیں دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب ہم یہ غلطی دکھاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو وہ ایک پہلو سے بشر تھا اور دوسرے پہلو سے خدا تھا۔ اس وقت اس کا بشر بول رہا تھا۔ پس اگر بشر بول رہا تھا تو بشر کا شعور اسے حاصل تھا۔ اور یہ کہنا غلط ہے کہ بشر کا شعور نہیں تھا۔ پس اس صورت میں مسیح کی ذات ایک ایساملغوبہ بن کے دکھائی دیگی جس پر دو روحوں کا قبضہ ہے۔ ایک اس کی بشر کی روح موجود ہے۔ کبھی کبھی جب اس کا زور لگے وہ کوئی نہ کوئی شرارت کرجاتی ہے۔
یعنی ان کے عیسائیوں کے قول کے مطابق ۔ اور جب خدا کی روح غالب آجائے تو پھر وہ پاکی کی باتیں کرتا ہے۔ اس لئے یہ بگڑا ہوا تصور ہے۔ اس کا مسیح کے پاک وجود سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ مسیح پاک تھا اور خدا کے سارے انبیاء پاک ہوتے ہیں۔ ان جاہلوںکو نہ عربی کا مضمون معلوم۔ نہ عرفان ہے کسی بات کا۔ روحانیت سے پوری طرح کورے ہیں۔ یہ خشک خالی بجنے والے برتن ہیں۔ عربی کا ایک ظاہری سا علم سیکھ لیا ہے اور پھر اس ارادے سے داخل ہوتے ہیں قرآن کی دنیا میں کہ جہاں تک ممکن ہوسکے اس میں فساد کیا جائے۔ اس کے مضمونوں کو بگاڑا جائے۔ اسے دنیا کی نظر میں متہم اور ملزم کرکے دکھایا جائے۔ پس یہ ویری صاحب ہیں جن کوپتہ ہی کوئی نہیں ہے کہ گناہ کیا ہوتا ہے۔ بخشش کس کو کہتے ہیں اور انکسار کیا ہوتا ہے۔ انبیاء کی دنیا کیا ہے اور گنہ گاروں کی دنیا کیا ہے۔ ان دونوں دائروں میں کتنا فرق ہے۔ ان ساری نفسیاتی کیفیتوں سے نا آشنا اس بات پر تُلے بیٹھے کہ جب تک جہاں تک زور لگے قرآن میںکوئی نہ کوئی رخنہ نکال کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور انبیا ء میں کیڑے ڈالے جائیں۔ یہ ان کی زندگی کا ماحاصل تھا۔ پس یہ کہنا کہ پوری طرح یہ ثابت ہوگیا کہ انبیاء گنہ گار ہی تھے یہ محض جھوٹ اور افتراء ہے۔
قرآن یہ بیان نہیں فرما رہا۔ قرآن اسراف کے معنوں میں بھی جہاںحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ بات منسوب کرتا ہے اورجبکہ الگ نہیں پیش کرتا بلکہ سارے انبیاء کو شامل کرکے کہتا ہے۔
ویری صاحب کو یہ بات نہیںبھولنی چاہئے کہ اس فہرست میں حضرت مسیح ؑ شامل ہیں۔ جو اعتراف کی فہرست ہے۔ اس میں حضرت مسیح بھی شامل ہیں۔ پس ان کو نکال کر وہ کیسے ثابت کچھ کرینگے۔ پس اگریہ غلط ہے کہ انبیاء معصوم تھے قرآن سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ معصوم نہیں تھے تو اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی قطعاً ثابت ہوجاتی ہے کہ مسیحؑ بھی معصوم نہیں تھے پھر تم اپنا مقصد پھر بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ لیکن جیسا کہ میں نے اس مضمون کو کھول کر بیان کیا ہے۔ انبیاء قوم کے رہنما ہوتے ہیں وہ اپنی ا ن غلطیوں کی بھی بخشش مانگتے ہیں جن کی طرف عام انسان کی غلطی کے طور پر نظر ہی نہیں پڑتی۔اس کوپتہ ہی نہیںہوتا کہ مجھ میں کیا کمزوریاں ہیں۔اور ان غلطیوں کی بخشش طلب کرتے ہیں جو انہوں نے کبھی بالارادہ خدا کے کسی حکم کے خلاف نہیںکی ہوتیں بلکہ حکم کی پیروی کے نتیجے میں ہورہی ہیں۔ اگر قوم کی طرف سے یہ حکم ملے کہ فلاں جگہ جانا ہے ۔ فلاں مہم پر سارے جتنے بھی قابل لوگ ہیں وہ اکٹھے ہوجائیں ۔ ان میں کمزور بھی آجاتے ہیں ان میںہر قسم کے ہوتے ہیں اور وہ جو ٹھوکریں کھاتے ہیں یا ان کی غلطی کی سے بعض دفعہ اگر مہم میں کوئی نقصان پہنچے تو وہ بالارادہ ان کی طرف سے نقصان نہیں بلکہ ان کی قربانی ہے۔ کمزوری کے باوجودجو کچھ تھا لیکر حاضر ہوگئے۔ اسلئے ان کو مُتہّم نہیںکیا جاسکتا۔ ان پر اعتراض نہیں کیا جاسکتے۔ یہ ان کی شرافت تھی کہ جو کچھ تھا لیکر حاضر ہوگئے۔ پھر اسی کے مطابق ان سے معاملات سرزد ہونے تھے۔ جو ان کو توفیق تھی۔ تو اس مضمون کے پیش نظر انبیاء جو قوم کا بہترین حصہ ہیں۔ وہ ہر وقت اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ ہم سے کہیں کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو۔ اورا ن کا اسراف اپنے نفس کے خلاف ان معنوں میں بھی ہے جو میں نے بیان کئے ہیں۔کہ وہ اپنے نفس پر بہت ظلم کرنے والے ہیں۔ چنانچہ اس مضمون کو خصوصیت سے حضرت محمد مصطفیﷺ کی ذات میں قرآن کریم نے اطلاق کرکے دکھایا ہے۔ وہ آیت جس میں یہ بیان فرمایا گیا کہ دنیا کی بڑی اور چھوٹی بالائی اور نچلی‘ سب طاقتوں نے اس امانت کو قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ جو آخری اور کامل امانت تھی یعنی قران کی وحی۔ اس کے لئے کون آگے آیا۔ فرماتا ہے۔
انا عرضنا الامانۃعلی السموت والارض والجبال فابین ان یحملنھا۔
ہم نے اس عظیم امانت کو جو قرآن ہے آسمانوں کے سامنے بھی پیش کیا اور زمین کے سامنے بھی پیش کیا اورپہاڑوں کے سامنے بھی یعنی وہ جو روحانی رفعتیں رکھنے کے دعویدار تھے۔ ان کے سامنے بھی پیش کیا گیا وہ جو زمینی علوم کے دعویدار تھے۔ انکے لئے بھی یہ موقعہ تھا۔ کہ وہ اس کا بوجھ اٹھاتے۔ پھر ان میں جو بڑے بڑے پہاڑ قائم ہوئے ہیں۔ جو اپنے آپ کو علم و عرفان کا دنیاوی اور روحانی پہاڑ سمجھتے ہیں۔ انکو بھی دعوت تھی کہ چاہو تو قبول کرو۔ اب انہوں نے انکار کردیا۔
’’ ان یحملنھا ‘‘
کہ وہ اس کو اٹھالیں اور وہ ڈر گئے۔ پھر کون آگے آیا۔
’’ حملھا الانسان‘‘
یہ ہے انسان یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کوئی انسان ہے تو یہ ہے واشفقن ہاں وہ ڈر گئے (وہ حصہ کہتے ہیں) واشفقن منھا اور وہ اس سے ڈر گئے اس امانت سے فحملھا الانسان اسے اس انسان نے انسان کامل نے اس نے اٹھایا۔ جو حقیقت میں انسان ہے تو وہی ہے۔ انسان کا مضمون اپنے کمال کے ساتھ اگر کسی پر اطلاق پاتا ہے تو وہ یہ وجود ہے۔ آگے پھر تعریف کیا فرمائی۔
انہ کانا ظلوما جھولا ‘‘
بڑا سخت ظلم کرنے وال ہے اور نعوذ باللہ بڑا جاہل ہے جو عام ، عرف عام میں معنی کریں تو جاہل ہے۔ اب سوچیں ذرا کہ اتنی عظیم تمہید باندھی اور نتیجہ کیا نکالا۔ ظلوماً جھولاً ۔ جو دنیاوی علم رکھنے والے یا دنیا کا رجحان رکھنے والے مولوی ہیں وہ تویہاں بیچ میں ایک سکتہ ڈال دیتے ہیں کہتے ہیںکہ اس آیت کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔وہ بعدوالے حصے سے تعلق ہے۔ یعنی یہ بات بے نتیجہ چھوڑ دی گئی اور اس آیت کے آخر پر داخل کردی گئی کہ قرآن میں نعوذ باللہ ایک نقص داخل ہے۔ پس وہاں ان کے قران کریم میںلکھا ہوگا کہ یہاں رکنا لازم ہے۔ اس آیت کو دوسری آیت کے ساتھ پڑھو۔ اور ان کے قاری بغیر رکے فٹافٹ ۔ جس طرح ریل گاڑی پر بیٹھے ہوں آگے نکل جاتے ہیں۔ اور اگر رکیں بھی تو پھر دوبارہ اسے ملا کراگلی آیت سے ملا کر پڑھتے ہیں۔
انہ کان ظلوما جھولا O لیعذب اللّہ المنفقین والمنفقت و المشرکین و المشرکت.....
تاکہ ظلم اور جہالت کا منافقین اور مشرکین سے تعلق قائم ہوجائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر کیا خراج تحسین پیش کیا گیا …آپ کا کونسا حسن اورآپ کا کونسا کمال ہمیں دکھایا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اس مضمون سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرمایا۔ ظلوم یہاں یہ معنے رکھتا ہے جیسے ’’اسرفوا علی انفسہم‘‘ محمدﷺرسول اللہ نفس پر ساری کائنات میں سب سے زیادہ ظلم کرنے والے تھے۔ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر۔ اتنی قربانی کرنے والے تھے۔ اپنی جان پر اتنا ظلم کرنے والے تھے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے کہ
لعلک باخئع نفسک علی آثارھم ان لم یومنوا بھذا الحدیث اسفاO
اور دوسری جگہ آتا ہے۔
’’لعلک باخئع نفسک الا یکونوا مومنین ‘‘
تو وہ لوگ جو ایمان نہیں لارہے ۔ آپ ان کو دیکھتے ہیں۔ آپ کی بھی تبلیغیں ہوتی ہیں۔ کتنے ہیں جو اس غم میںاپنے آپ کوہلاک کرلیتے ہیں۔ نفس پرظلم اس کو کہتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ جو مومن نہیں ہے اس پر غصے کرو اس کو کافراور جہنمی اور برے سے برے نام سے یاد کرو۔ کہو جائو جہنم میں‘ تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل کا یہ عالم تھا کہ اپنے نفس کو انکے غم میں ہلاک کرتے تھے ۔ اگر یہ ظلوماً نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے۔ اتنا ظلم اپنے نفس پر کہ ظالموں کے غم میں خود ہلاک ہورہے ہیں۔ اور جہولاً کا مطلب ہے عواقب سے بے پرواہ جو سر پہ گزرے گزر جائے اس کام سے میں نے پیچھے نہیں ہٹنا اور یہ وہی مضمون ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوجب روکا گیا اور دھمکیاں دی گئیں۔ اس وقت بڑی شان کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔
یہاں تک کہ اپنے چچا نے بھی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو چاہو کرو۔ مجھے کچھ پرواہ نہیں ہے کہ کوئی میرے ساتھ رہتا ہے یا نہیں رہتا یا قوم مجھ سے کیا بدسلوکی کریگا۔ میں تو جس رستے پر چل پڑا ہوں یہ توحید کا رستہ ہے۔ اس ایک قدم میں نہ پیچھے ہٹوں گا نہ اس رستے کو بدلوں گا۔
اسی راہ پر قائم ثبات قدم کے ساتھ آگے بڑھتا رہوں گا۔ تو یہ ہے جہولاً کا مطلب۔ پس اس لئے اَسْرَفَ کا لفظ جو وہاں استعمال ہوا ہے۔ اس کو موقع اور محل کے مطابق استعمال کرنا چاہئے۔ اگر اس کا معنی صرف ’’ بالعمد گناہ‘‘ بھی لینے والے موجود ہوںتو ان کا جواب یہ ہے کہ یہ جمع کا صیغہ ہے اور ساری قوم کی طرف سے قوم کا رہنما بخشش طلب کررہا ہے حالانکہ خود اس سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ بالعمد غلطی کبھی نہیں ہوئی۔ مگر جو بالعمد غلطی کرنے والے ہیں انکی طرف سے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرتا ہے جھکتا ہے۔ روتا ہے راتوں کو اٹھتا ہے کہ اے اللہ ہم میں سے جن سے بھی اسراف ہوا ان سب کو معاف فرما اور اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کا اسراف بعض دفعہ قوم پر وبال بن جاتا ہے۔ اور یہ موقعہ اور محل ہے ہی وہی۔ جبکہ جنگ احد میں (یہ مضمون وہاں سے چل رہا ہے) بعض مسلمانوں کی غلطی سے جن سے اسراف ہوا تھا۔ ساری قوم نے سزا پائی اور دکھ میں مبتلا ہوئی۔ بعد میں اس کے بہت ہی پاکیزہ اور پیارے نتیجے اللہ تعالیٰ نے نکالے۔
لیکن یہ الگ مضمون ہے مگر موقعہ اور محل یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو غلطی نہیں ہوئی تھی ۔ اگر وہ اس دعا میں شامل تھے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسرو ںکی غلطی اپنے سر منڈھ رہے ہوں۔ غلطی تو ان سے ہوئی تھی جنہوں نے آپ کے حکم کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کی اور اس بات پہ جھگڑا کیا۔ پس ان جھگڑنے والوں کی طرف اس مضمون کا خصوصیت سے اشارہ ہے۔ جو اس درے پر قائم کئے گئے تھے جو مسلمانوں کی پشت پر میدان جنگ میںایک گھاٹی کے طور پر تھا۔ دو پہاڑوں کے درمیان ایک ایسا رستہ تھا کہ اگر دشمن اس طرف سے حملہ آور ہوتا تو مسلمانوں کی پشت محفوظ نہ رہتی۔ چونکہ وہ گروہ جن کورسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر اس ہدایت کے ساتھ وہاں مقرر فرمایا تھاکہ تم کچھ بھی دیکھو ! تم نے جگہ نہیں چھوڑنی۔ جو کچھ ہوناہے ہوجائے۔اگر تم دیکھو ! کہ ہم لوگ وہاں بری طرح ذبح کئے جارہے ہیں۔اور بظاہر شکست کھا رہے ہیں۔ یہ دیکھو کہ ہم غالب آگئے ہیں کسی صورت میں جب تک میں نہ بلائوں تم نے اس جگہ کو نہیں چھوڑنا جب غلبہ عطا ہوگیا۔ خدا نے وعدہ پورا فرمادیا۔ دشمن کے پائوں اکھڑے دشمن کو انکی عورتوں کو سراسیمگی کی حالت میں درے والوں نے دوڑتے ہوئے دیکھا تو بعض لوگوں نے ان میں سے بلکہ اکثر نے کہا کہ اس حکم کا اطلاق اس وقت تک تھا جب کہ جنگ پوری طرح ختم نہ ہوجاتی اس لئے ہمارے نزدیک یہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور حکم کا دائرہ کار جنگ تک ہی ہے۔ انکے سردار نے کہا : کہ سوال ہی پیدا نہیںہوتا ۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ظاہری الفاظ جو ہیں میں ان کے پیچھے چلوں گا۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ تم جنگ ختم سمجھ رہے ہو یا نہیں سمجھ رہے ہو۔ اس لئے میں اپنے آقا کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرونگا۔ آپکے ساتھ کچھ اور دوست بھی شامل ہوگئے۔ اور جب عقب سے خالد بن ولید کے سواروں نے حملہ کیا ہے تو وہ وہیں شہید ہوگئے اور اپنے عہد پر پورا اترے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے حکم کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں غلطی کی تھی اور قران کریم فرماتاہے انہوں نے اس بارے میں اختلاف کرتے ہوئے بحث کی تھی۔ ان کا وبال دیکھو ! کیسا قوم پر پڑا ہے۔ اور کس طرح معصوم وہاں شہید کئے گئے۔ وہ جن سے نصرت کا وعدہ تھا ان کی نصرت کا وعدے کا ایک حصہ پورا ہوچکا تھا دوسرے حصہ میں تاخیر پڑ گئی۔ اور بہت ہی خطرناک حالات پیدا ہوگئے۔ پس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظیم شان ہے کہ ان کے اسراف کے متعلق اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ رہے ہیں تاکہ قوم کو ان کے بد اثرات سے بچائیں۔ وہ بداثرات جن کا آگے ذکرملے گا کچھ اس وقت پیدا ہوئے کچھ آئندہ پیدا ہوسکتے تھے۔ پس اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ اپنے آپ کو کہہ رہے ہیں کہ اے خدا ! میں نے تیرے حکموں کی نافرمانی کی ہے۔ اس لئے ہمیں بخش دے۔ عرض کررہے ہیں جنہوں نے نافرمانی کی اور یہ دعا سب مومنوں کی دعا ہے۔ بلکہ تمام انبیاء شامل ہیں اس دعا میں۔یہ سب نیک لوگ اسی طرح دعائیںکیا کرتے تھے تو اسراف کرنے والے اور ہیں اور انکی طرف سے بخشش طلب کرنے والے اور ہیں۔
وثبت اقدامنا : اور ہمارے قدم پیوست کردے۔یہ قدموں کا پیوست ہونا ظاہری طور پر ایک درخت کا منظر دکھاتا ہے۔ جس کی جڑیں زمین میں گہری ہوں۔ کلمہ طیبہ کی مثال قرآن کریم نے دی ہے۔ ’’کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء ‘‘ ایسا درخت جس کی جڑیں بہت گہری زمین میں پیوستہ ہوں اور شاخیں آسمان سے باتیں کرتی ہوں۔ یہ اس میں مفہوم بتایا گیا ہے۔ (پہلے بھی ایک دفعہ میں جماعت کو بتا چکا ہوں لیکن چونکہ نئے شامل ہونے والے ہوتے رہتے ہین اس لئے بعض باتوں کو دہرانا مفید رہتا ہے) ۔
مراد یہ ہے کہ اگر تم رفعتیں چاہتے ہو تو ثبات اتنا ہی زیادہ ضروری ہے جتنی گہری زمین میں پیوست ہوگے اتنا ہی زیادہ بلندی اختیارکرسکتے ہو۔ اگر زمین میںپیوستگی نہیں ہوگی یعنی انکسار نہیں ہوگا اور اپنے عقائد پر گہرائی سے قائم نہیں ہوگے۔ مضبوطی سے قائم نہیں ہوگے تو اسی نسبت تمھیں رفعتیں بھی کم ملیں گی۔ ذرا اپنے …سے گئے تو کوئی آندھی بھی تمہیں گرا سکتی ہے۔ پس یہاں مضبوطی ارادے کی ہے نہ کہ ایک جگہ کھڑا ہونا مراد ہے۔ ثبات قدم سے جو نقشہ بظاہرابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک درخت زمین میں پیوستہ ہے۔ جیسا کہ قران کریم کی آیت میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے۔
مگر یہاں ارادے کی ایسی مضبوطی ہے جس سے ہر قدم جو اُٹھتا ہے وہ ثبات قدم کہلاتا ہے۔ آگے بڑھنا اس میں شامل ہے۔ اور ثبات قدم بلندیوںکی طرف محو پرواز ہونے کو بھی کہا جاسکتا ہے۔ ایک سمت میں ایک قبلے کی طرف مسلسل آگے بڑھنے کو بھی ثبات قدم کہا جاسکتا ہے ۔ اپنے ارادے پر ہمیشہ غیر متزلزل طورپر قائم رہنے کو بھی ثبات قدم کہا جاتا ہے۔ پس فرمایا:-
وثبت اقدامنا : پھر تم یہ دعا کرو کہ اے خدا ! ہمارے قدموں کو ثبات بخش۔ یعنی وہ تمام طاقت عطا کر جو اس سفر میںہمارے قدموں کیلئے ضروری ہے ۔ پھر فرمایا:-
وانصرنا علی القوم الکفرین : اور ہمیںکافروں پر نصرت عطا فرما۔یہ کافروں پر نصرت سب سے آخر پر رکھی ہے اور مختلف مفسرین نے اس کے بہت سے معانی کئے ہیں مگر جو بنیادی بات ہے جو سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ ترتیب ظاہر و باھر ہے اس ترتیب کو کوئی بدل سکتا ہی نہیں۔ جو مرضی زور لگالیں اس سے بہتر ترتیب ہو ہی نہیں سکتی۔
ذنوب سے بات شروع ہوئی۔ یعنی وہ غلطیاں جو ارادہ رکھتی ہی نہیں۔ وہ بھی شامل ہیں۔ ذنوب کے اندر۔ پھر بالارادہ غلطیوںکا ذکر ہوا جن کا براہ راست تعلق اس واقعہ سے تھا جو میں بیان کرچکا ہوں۔ پھر فرمایا گیا کہ ہمیں ثبات قدم عطا کر۔ اگر ذنوب سے بخشش مل جائے تو ثبات قدم ملا کرتا ہے ورنہ مل ہی نہیں سکتا۔ ورنہ آپ کی جو سابقہ غلطیاں ہیں وہ اگلی غلطیوں میں ممد ہوتی ہیں ان کو آگے بڑھاتی ہیں۔ ایک بچہ بھی جب سکول میں بچپن میںایک مضمون میں غلطی کرجاتا ہے۔ اسے نہیں سمجھ سکتا پوری طرح تو آگے جتنا مرضی ترقی کرجائے۔ وہ خلا اس کا ہمیشہ اس کے لئے ایک الجھن کا موجب بنا رہتا ہے اور اس کی مزید ترقی کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ پس ثبات قدم سے پہلے ان کمزوریوں کا دور کرنا ضروری تھا ان خلائوں کا بھرنا ضروری تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ دعا کے ذریے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ ان کمزوریوںکو خلائوں کو بھر لو پھر تمہارے لئے ثبات قدم کی دعا برمحل ہوگی۔ پھر تم حق رکھتے ہوگے کہ اب اللہ سے دعا مانگو کہ ’’اب ہمیں ثبات قدم عطا فرما۔ اور ثبات قدم ہو تو پھر نصرت ملتی ہے۔ بلکہ نصرت اس کا طبعی نتیجہ ہے۔ یہ نصرت کی دعا یہ مضمون ظاہر کررہی ہے کہ ہم اب نصرت کے مضمون میں داخل ہوگئے ہیں۔ نصرت تو ملنی ہی چاہئے مگر اے ہمارے خدا۔ ہمیں اس دھوکے میں مبتلانہیں رہنا چاہئے کہ ہماری نصرت تھی۔ یہ نصرت تجھ سے ہی عطا ہوئی ہے اور تجھ سے ہی عطا ہوگی۔فانصرنا علی القوم الکفرین : پس ہمیں کافروں کی قوم پر نصرت عطا فرما۔
(السلام علیکم ورحمۃ اللّہ)
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن10 رمضان المبارک
21 فروری 1994 ء
ماشاء اللہ یہ عالمی مجلس درس لگ گئی ہے ۔اس وقت جاپان میں بھی لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اس وقت پاکستان کے مختلف دیہات میں۔ربوہ‘ کراچی ‘ لاہور اور سارے یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں ان کو دیکھ بھی رہا ہوں اور دیکھتا بھی ہوں کبھی کبھی۔ویسے تو خیالات میں دوسرے کاموں میں لگ کر ذہن ادھر چلا جاتا ہے مصروف ہوجاتا ہے لیکن خیال آتا رہتا ہے کہ اس وقت کون بیٹھا کس طرح دیکھ رہا ہوگا مجھے آج صبح یہ خیال آرہا تھا کہ عجیب اللہ کی شان ہے ہم نے پوری طرح سے ابھی تک اس عظیم اعجاز کو پوری گہرائی سے محسوس نہیں کیا ۔ یعنی محسوس کر رہے ہیں لوگ لکھ رہے ہیں کہ عجیب خواب کی سی کیفیت ہوگئی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے قرآن کریم کا عالمی درس پہلی دفعہ جاری ہواہے کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا ۔اور یہ جو پیشگوئی ہے لیظھرہ علی الدین کلہ‘‘اس کی بنیاد اللہ نے احمدیوں کے ذریعے رکھوائی ہے یہاں آج یعنی اس زمانے میں ۔اور ثابت کردیا کہ کن غلاموں سے کام لینا ہے محمدؐ کے دین کو پھیلانے کیلئے ورنہ اتنی دنیا بستی تھی کسی کو توفیق نہیں ملی ۔اور پھر قرآن کا عالمی ہونا ثابت ہوگیا قطعی طور پر کوئی دنیا کی کتاب نہیں ہے جسکا عالمی درس دیا گیا ہو نہ بائبل کا نہ کسی اور کتاب کا ۔اتنی بڑی بڑی قومیں ۔ اتنی دولتوں کی بھرمار ۔پہاڑ لگے بیٹھے ہیں لیکن کسی کو توفیق نہیں ملی تو اس لئے یہ جو دن ہیں گہرے شکر کے دن ہیں ۔کیونکہ جب تکلیفیں پہنچتی ہیں تو انسان کی توجہ تکلیفوں کی طرف مبذول ہو جاتی ہے لیکن شکر سے ذرا نظر ہٹ جاتی ہے یہ دور ایسا ہے کہ اس میں صبر تو بہت نیچی سطح پر بیٹھا ہوا ہے اس وقت اصل تو شکر کا مضمون ہے جو اس وقت ساری جماعت پر ایک عالمی کیفیت کے طور پر طاری ہو چکا ہے تو میں امید رکھتا ہوں احباب اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دعا بھی کریں گے فتنے بھی پیدا ہو رہے ہیں ۔ حسد جگہ جگہ پھوٹ رہے ہیں بڑے پیمانے پر بعض کوششیں ہو رہی ہیں کہ اس پروگرام کو بند کروایا جائے۔ مگر اللہ نے جاری فرمایا ہے کون بند کر سکتا ہے ؟انشاء اللہ آپ دعائیں کرتے رہیں خدا تعالی کے فضل سے یہ سلسلہ جاری رہے گا وہ جو کل میں نے ’’سردار دست نہ دار ‘‘ کی بات کی تھی یہ شیعہ محاورہ ہے اور بڑے جائز فخر کے ساتھ حضرت حسین ؓکے متعلق وہ یہ پیش کرتے ہیں شعروں میں بھی ذکر ہے اور نثر میں بھی ۔ تو کل جب یہ بات سن رہے تھے تو عبیداللہ علیم صاحب چھپا کر کچھ کر رہے تھے ۔مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیا کر رہے ہیں بعد میں مجھے عزیزم لقمان نے بتایا کہ وہ شعر یاد آرہا تھا ان کو اور پوری طرح آ نہیں رہا تھا تو لکھ رہے تھے جس میں یہ درج ہے ۔اب انہوں نے مجھے لکھ کے بھیجا ہے
شاہ ھست حسین بادشاہ ھست حسین
دیں ھست حسین دیں پناہ ھست حسین
سردار نہ دار دست در دست یزید
حقًا کہ بنائے لا الہ ھست حسین
حق یہی ہے سچ یہی ہے کہ لاالہ الااللہ کی بنیاد حسین ؓہیں اور یہ روح ہے کہ غیر اللہ کے سامنے نہیں جھکنا ۔یہ مبالغہ نہیں ہے بالکل سچی بات ہے یہ جو روح ہے کہ کسی قیمت پر غیر اللہ کے سامنے سر نہیں جھکانا چاہے سب کچھ جاتا رہے وہ سر کاٹا جاسکتا ہے جھک نہیں سکتا ۔یہ کربلا کی روح ہے اسی لئے میں نے کل شاید بار بار یہ ذکر کیا تھا کہ خدا کے واسطے !روح کربلا کو کیوں بھول رہے ہو؟ اسی میں تمہاری ساری عظمت اور شان ہے ۔اس روح کو زندہ رکھنے میں پس یہ وہ شعر ہے جس میں یہ حوالہ موجود ہے جو میں نے کل پیش کیا تھا ۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان الذین تولوا منکم یوم التقی الجمعن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ بما تعملون بصیر o
(آل عمران 156-157)
کل اس آیت پر گفتگو ہورہی تھی پہلی آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ پھریاد دیانی کے طور پر پیش کرتا ہوں۔یقینا وہ لوگ جو اس وقت پیٹھ دکھا گئے جبکہ دو لشکروں کا ٹکرائو ہوا۔ انما استزلھم الشیطن : بلاشبہ اس وقت ان کو شیطان نے کوشش کرکے پھسلایا تھا۔ اور جو حربے اس کے پاس تھے وہ حربے استعمال کرتے ہوئے بڑی کوشش سے آخر ان کو پھسلانے میں کامیاب ہوگیا۔ ببعض ماکسبوا : اس لئے نہیں کہ نعوذ باللہ وہ کافر تھے یا بے دین تھے بلکہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جو ان کے اندر تھیں ۔ شیطان اس حربے میںکامیاب ہوا لیکن وہ ایسی کمزوریاں نہیں تھیں ۔۔۔۔۔جن سے اللہ تعالیٰ صرف نظر نہ فرماتا۔ اور وہ ایسی کمزوریاں نہیں تھیں جو ان کے وجود کا دائمی حصہ بن چکی تھیں۔ اس لئے ولقد عفا اللہ عنھم : اور سن لو کہ اللہ ضرور ان سے صرف نظر فرما چکا ہے۔ ان کو معاف فرما چکا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ایک تو اللہ ’’غفور‘‘ بہت بخشنے والا ہے۔ دوسرے حلیم ہے۔ اور حلیم تحمل کے ساتھ اس غلطی کو نظر انداز کردیا کرتا ہے جس کے بعد اصلاح کی توقع ہو۔اور فیصلے میں جلدی نہیں کرتا۔ تو اس میں ان لوگوں کے نیک انجام کی طرف خوشخبری کا اشارہ ملتا ہے کہ یہ لوگ جن سے غلطی ہوئی ان غلطیوں کو خواہ مخواہ اچھالتے نہ پھرنا۔ورنہ اپنی عاقبت خراب کرو گے۔ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما چکا ہے بوجہ غفور ہونے کے اور بوجہ حلیم ہونے کے۔
کل جب یہ درس ختم ہوا تو بعض ایسے بچے ملے جو یہاں پیدا ہوئے ہیں اردو دان خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن اردو ان کی کچھ سطحی اور کمزور سی ہے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ کچھ پتہ چل رہا تھا درس کا ؟ تو بڑے دلچسپ جواب ملے۔ بعضوں نے صاف یہ کہا کہ بعض جو اصطلاحیں آپ نے استعمال کی تھیں۔ انکی سمجھ نہیں آئی۔ اس لئے بہتر ہو کہ کچھ ان پر تھوڑی سی روشنی ڈال دیں اور ایک نے کہا کہ ایک کان میں مَیں نے انگریزی والی ٹوٹی لگائی ہوئی ہے اور دوسرے کان میں اردو والی ٹوٹی لگائی ہوئی ہے۔ میں نے کہا یہ کیوں ؟
کہتا : اس لئے کہ مجھے اردو کچھ سمجھ آتی ہے اور جب نہیں آئے تو میں انگریزی کی ٹوٹی والے کان کی طرف توجہ کرلیتا ہوں۔ میں نے کہا : بیک وقت کیوں ؟
کہتا ہے : جو ترجمہ ہے اس کا مزہ نہیں ہے۔ کہتے ہیں بہت کوشش کرتے ہیں محنت کرتے ہیں لیکن جو اصل کی بات ہے وہ ترجمے میں پیدا ہو نہیں سکتی ان کی مجبوری ہے۔ اس لئے میں اکثر وقت تو ذہن اس کان پر رکھتا ہوں جہاں اردو کی ٹوٹی لگی ہوئی ہے اورجب وہ سمجھ نہ آئے بات تو پھر میں اس طرف توجہ کرلیتا ہوں۔ تو بڑے بڑے دلچسپ تجربے آرہے ہیں یہ یہیں کا پلا بڑھا نوجوان ہے تو ان کی خاطر میں بعض اصطلاحوں کا ذکر نسبتاً تفصیل سے کرتاہوں کہ وہ کیا چیز ہے ؟ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ تقیہ کیا ہوتا ہے؟ اور پھر تبرا کس کو کہتے ہیں؟ اور اس کے بعد انشاء اللہ اس مضمون کو وہاں سے شروع کریں گے جہاں ہم نے چھوڑا ہے۔
تقیہ کی ایک اصطلاح تو وہ ہے جو بہت اچھی ہے اور اس پہ تقویٰ کے ساتھ اگرغور کیا جائے تو اس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا= اورایک وہ معنیٰ ہے جو عملاًاس وقت ساری شیعہ قوم میں رائج اور نافذ ہوچکا ہے اور اس معنے کے حوالے بھی مختلف کتب میں ملتے ہیں۔
وہ تعریف جو میں بیان کررہا ہوں جس پر کوئی وجہ اعتراض نظر نہیں آتی وہ یہ ہے کہ
جو مومن باطمینان قلب موافق شرع کے رہ کر بخوف دشمن دین فقط ظاہرمیں موافقت کرے دشمن دین کی تو وہ دین دار رہے گا۔
یہ حصہ تو ایسا ہے جس پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ایک ایسا شخص جو کسی دشمن دین کے خوف سے اپنی کمزوری اور مجبوری کی حالتمیں یہ طاقت نہ پائے کہ کھل کر اس کی مخالفت کرسکے یا اپنے حق کا اظہار کرسکے۔ مگر شرط یہ ہے کہ شرع کے اندررہتے ہوئے ایسا کرے قانون شریعت سے باہر نہ نکلے اور شریعت کے خلاف کوئی بات نہ کرے۔ اگر یہ معنیٰ ہیں تقیہ کے تو درست ہے۔ مگر یہ ادنیٰ ایمان کی تعریف ہے یاد رکھئے ! کیونکہ جو حوالے آگے یہ دیں گے اپنی تائید میں اس میں وہی آیت پیش نظر زیادہ تر رکھتے ہیں۔ جس میں ایک ادنیٰ ایمان والے مومن کی مثال دی گئی ہے نہ کہ اعلیٰ ایمان والے کی۔لیکن آگے سنئے تقیہ کو پھر کیا بنا لیا گیا اور حضرت امام جعفر صادق کی طرف بعض ایسی باتیں منسوب ہوئیں اور بعض دوسرے ائمہ کی طرف کہ اس سے سخت تکلیف پہنچتی ہے۔ طبیعت میں ہیجان پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنے بلند مرتبہ والے ائمہ اور اتنے مقدس وجود ایسی باتیں کرتے ہوں جو آج کل کے شیعوں کے مزاج کے زیادہ موافق ہیں بنسبت ان کے مزاج کے۔
اس آیت کی تفسیر میں
اولئک یوتون اجرھم مرتین بما صبروا : قال بما صبرو علی التقیتہ ویدرء ون بالحسنتہ السیتہ : قال الحسنتہ : التقیتہ و السیتہ الاضاعہ
قال ابوعبداللہ علیہ السلام یا ابا عمیر ان نسعتہ اعشار الذین فی التقیتہ ولا دین لمن لا تقیتہ لہ و التقیتہ فی کل شی ئٍ الا فی النبیذ و المس علی الخفین۔
(الاصول من الجامع الکافی۔ کتاب الایمان و الکفر)
کہتے ہیں کہ آیت کریمہ
اولئک یوتون اجرھم مرتین بما صبروا
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں کہ یہ دو دفعہ اپنا اجر دیئے جائینگے۔ ان کا اجر ان کو دو مرتبہ دیا جاتا ہے یادیا جائیگا کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا ہے۔
کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دو دفعہ ان کواس لئے جزا دی جائیگی کہ انہوں نے تقیہ پر صبر کیا ہے۔
بما صبروا کا مطلب یہ ہے کہ تقیہ اختیار کیا اور پھر اس تقیہ کو چمٹ کر بیٹھ رہے۔ اور کسی حالت میں تقیہ کو نہیں چھوڑا۔ کہتے ہیں اس لئے ان کو دہری جزا دی جائیگی یعنی کمزور ایمان کا مظاہرہ کیا اور اس کو پکڑ کر بیٹھ رہے۔ اگلی منزل کی طرف قدم نہ بڑھایا۔ یہ صبر ہے ! کیونکہ صبر کی تو یہی تعریف ہے کہ کسی حالت پر انسان جم کر بیٹھ جائے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اتنی یہ بات پسند آتی ہے کہ فرماتا ہے کہ میں ان کو دہرا اجر دوں گا لیکن آگے لکھتے ہیں کہ دیکھو اے ابو عمیر ! دین کے اگر دس حصے کئے جائیں تو نو حصے دین کا تقیہ ہے۔ ایک حصہ باقی دین ہے۔ اور اس کا کوئی دین نہیں جو تقیہ پر عمل نہیں کرتا۔
یہ تقیہ ہے۔ تقیہ کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے خوف سے انسان حق کا اظہار نہ کرسکے تو اسے یہ اجازت ہے کہ خاموش رہے مگر شریعت کی خلاف ورزی نہ کرے یہ تقیہ کی تعریف ہے اور وہ مجبور ہے اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے معاف فرمادے۔ اس سے زیادہ اس کا کوئی مضمون نہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ تقیہ تو اتنی اہم چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ جو تقیہ کرے اور پھر اس کو چمٹ کر بیٹھ رہے اس کا ساتھ نہ چھوڑے عمر بھر تقیہ پر قائم رہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ دہرا اجر عطا فرمائے گا عام مومنوں سے جو کھل کر اپنے ایمان کو ظاہر کرتے اور قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ اسکی خاطر عمر بھر تکلیفوں میں مبتلا کئے جاتے ہیں ان کو ایک اجر اور تقیہ کرنے والے کو دو اجر۔ اور پھر فرمایا گیا نو حصے دین کے تقیہ ہے ایک حصہ باقی ساری باتیں۔تقیہ کرتے رہو بس۔ یہی کافی ہے۔ باقی ایک حصہ باقی عبادتیں وغیرہ حقوق العباد یہ ساری چیزیں۔ یہ سب اس دس میں سے ا یک حصے کے اندر شامل ہیں۔ آگے پھرلکھتے ہیں:
قال ابوعبداللہ علیہ السلام التَّـقیّۃُ من دین اللہ
کہ ابو عبداللہ جعفر صادق کہتے ہیں کہ تقیہ دین کا حصہ ہے اور اس کے فضائل میں یہ لکھا ہے۔
واللہ ما علی وجہ الارض شی ئ’‘ احب الی من التقیتہ (انا للہ) اب یہ ایسی خبریں اپنے آئمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ کوئی ان کو حیا نہیں آتی۔ کوئی شرم نہیں آتی کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں؟اور اتنے بزرگ ائمہ جن کی بزرگی اور تقویٰ کے متعلق کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ بہت ہی خدا رسیدہ لوگ تھے ان کی طرف ایسی لغفو باتیں منسوب کرنے سے کوئی پرہیز نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ ہمارے امام جعفر صادق نے فرمایا کہ
خدا کی قسم ! روئے زمین پہ مجھے تقیہ سے یادہ اور کوئی چیز پیاری نہیں ہے۔ تمام روئے زمین پر اپنے ایمان کو چھپا لینے سے زیادہ مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔
پھر فرمایا ! اے حبیب ! جو تقیہ کرے گا خدا اس کو بلند مرتبہ دے گا۔ اور اے حبیب ! جو تقیہ نہ کرے گا۔ اللہ اس کو پست کرے گا۔ جو تقیہ سے کام نہ لے گا۔ یعنی کھُل کر اپنے ایمان کو ظاہر کرے گا وہ ذلیل اور رسوا کردیا جائیگا۔ اے حبیب ! اس زمانے میں مخالفین سکون فراغت میں ہیں۔ ہاں جب ظہور حضرت حجت ہوگا تو اس وقت تقیہ ترک ہوگا۔اگر اتنی اعلیٰ چیز ہے تو اس وقت ترک کیوں ہوگا؟ عجیب بات ہے ! اتنی عظیم الشان چیز امام مہدی کے وقت میں ہاتھ سے جاتی رہے گی۔ اب دو کشتیوں میں سے ایک پہ پائوں رکھو ! یا تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے قرآن کریم کے حکم کے مطابق سب سے اعلیٰ چیز جو تمہیں دی گئی وہ تقیہ تھی جو دین کے دس حصوں میں سے نو حصہ تھا۔ جس پر عمل کرنے سے درجات کی بلندی نصیب ہوتی تھی۔ جس کو ترک کرنے سے تم ادنیٰ کی طرف لوٹائے جاتے تھے۔ یہ وہ شاندار چیز تھی جو تمہیں نعمت ملی اور امام مہدی تشریف لائے اور تقیہ کا قلع قمع کردیا۔
عجیب بات ہے اتنا عظیم الشان امام جو ظاہر ہو۔مگر کیا کرنے آئے گا؟ تقیہ کو منسوخ کرنے۔ جو اتنی عظیم الشان چیز۔ یعنی دین کے نو حصے منسوخ کردے گا اورایک حصہ رہنے دے گا۔ عجیب تصور ہے !
یا دوسری صورت میں یہ ادنیٰ حالت تھی۔اعلیٰ حالت وہی ہے جو کھلے ایمان کی بات ہے اور ابھی تک وہ زمانہ نہیں آیا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لیکر امام مہدی تک تو اسلام اپنی ادنیٰ حالت میں تھا اور جب وہ امام ظاہر ہوگا تو پھر اصل شان اسلام کی ظاہر ہوگی۔ یعنی وہ ایک جو ہے۔ وہ دس میں سے ایک وہ باقی تمام دین کے حصوں پر غالب آجائیگا اور وہ ہے تقویٰ اور خدا ترسی اور کھل کر خدا کی خاطر دنیا کے خوف سے بے نیاز ہوکر اپنے عقائد کا اظہار۔ تو یہ اب جو نئی نسل ہے اس کے لئے مجھے لفظ تو آسان نہیں ملے مگر امید ہے سمجھ گئے ہونگے۔ کیونکہ وہ کہتے تھے کہ آپ جب دو تین دفعہ بات کو دہراتے تھے تو ہمیں پتہ لگ جاتا تھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ لفظوں کے ترجمے ہم بعد میں گھر جاکر پوچھ لیتے ہیں۔ اب سنئے ! اور اس ضمن میں حوالے۔
ابو عبداللہ علیہ السلام کہتے ہیں۔ علیہ السلام کی اصطلاح یہ اپنے تمام ائمہ کے متعلق بلکہ بعض دوسرے بزرگوں کے متعلق بھی استعمال کرتے ہیں ) اپنے دین میں پختگی اختیار کرو اور تقیہ کے ذریعے اس کو چھپائو کیونکہ جو شخص تقیہ نہیں کرتا وہ مومن نہیں رہتا‘‘
تقیہ کے بغیر تم مومن رہ نہیں سکتے۔ پھر
ابی جعفر من قول اللہ عزوجل لا تستوی الحسنتہ ولا السیتہ قال الحسنتہ : التقیتہ ۔ والسیئتہ الاضاعتہ ۔
آیت کریمہ لا تستوی الحسنتہ ولا السیتہ کی نسبت ابوجعفر کا قول ہے کہ حسنہ سے مراد تقیہ ہے اور سیہ سے مراد اس کا افشا کرنا ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
’’لاتستوی الحسنتہ ولا السیئتہ‘‘
کہ نیکی اور بدی برابر نہیںہوسکتی۔ تو کہتے ہیں نیکی سے مراد تقیہ ہے اپنے ایمان کو چھپانا ہے اوربدی سے مراد اس کو ظاہر کرنا ہے۔ تو کہتے ہیں کیسے برابر ہوسکتی ہیں دو باتیں۔ یہ نہیں ہوسکتا۔
پھر جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایک نیکی کے ذریعے دوسری بدی کو دھکیل کہ باہر کردو تو وہ کیا بات ہے؟ کہتے ہیں
’’ادفع بالتی ھی احسن السئتہ‘‘
اس میں احسن سے مراد تقیہ ہے
’’و ابی اللہ عزوجل لنا ولکم فی دینہٖ الا التقیتہ ‘‘
(الاصول من الجامع الکافی کتاب الایمان و الکفر صہ 483)
کہ اللہ عزوجل نے ہمارے دین میں تقیہ کے سوا ہر دوسری چیز کو ناپسند فرمایاہے۔ وہ جو ایک حصہ رہ گیا تھا وہ بھی گیا۔ دس میں سے ایک رہ گیا تھا وہ بھی گیا۔ چھٹی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ۔ نہیں ! مجھے تقیہ ہی پسند ہے۔ کیا بات ہے تقیہ کی ! تو امام مہدی جب آکر تقیہ کا ہی قلع قمع کردے گا تو ایک بھی گیا۔ کچھ بھی رہا باقی دین میں پھر۔ بڑی ناپسندیدہ باتیں کریگا ۔ (نعوذ باللہ من ذلک) امام مہدی ایسی باتیں کرے گا جو خدا کو بہت ناپسند ہیں (بقول ان کے نعوذ باللہ یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ کوئی ایسی بات کرے)
تقیہ کے دلائل سُن لیجئے اب !
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقیہ کیا۔ پہلی دلیل۔ کیسے کیا؟ صلح حدیبیہ میں رسول اللہ اور بسم اللہ کا لفظ کاٹ دیا ۔ یہ تقیہ تھا۔ اگر یہ تقیہ ہے تو تقیہ جائز ہے 100 فیصدی ہم اس سے متفق ہیں۔ اگرچہ یہ دین کے نو حصے نہیں ہے بلکہ ایک ایسا حصہ ہے جس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسندیدگی سے جس کو قبول کیا۔اور ایسی مجبوری تھی جس قرآنی تعلیمات کے پیش نظر کوئی جس کا کوئی اور حل نہیں تھا۔ قرآن عدل کی تعلیم دیتا ہے دین چھپانے کی نہیں۔ یہاں دین چھپانے کی کوئی بحث ہی نہیں ہے بالکل جھوٹ ہے۔ بحث یہ تھی کہ دشمن کی طرف سے ایک وفد آیا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معاہدہ کرنے کیلئے۔ اس معاہدے کے اوپر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر لکھا جارہا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی تھی اورلا الہ اللہ کی شھادت بھی تھی اللہ کے رسول ہیں ’’محمد رسول اللہ‘‘ کی شہادت تھی دشمن نے کہا کہ ہم تو اس سے یہ دستخط نہیں کرینگے کیونکہ جب دونوں نے دستخط کئے تو دونوں نے معاہدے کے ہر لفظ کی تصدیق کردی۔ تو یہ کیسا انصاف ہے کہ تم اپنے دین کو ہماری طرف منسوب کرکے ہمیں مجبور کررہے ہو کہ اس کی تصدیق ساتھ کردیں۔ یہ نہیں ہوگا !
حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کے عدل کا مقام دیکھیں صحابہ ناراض تھے کہتے تھے یہ نہیں ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا نہیں ! یہی ہوگا۔ اس کو عدل کہتے ہیں۔ جب دشمن کے عقائد اپنے ہیں تم اپنے عقائد اپنے پاس رکھو۔انکا اعلان کرو۔ اعلان سے منع نہیں فرمایا۔ یہ تو نہیں کہا کہ ہم توبہ کرتے ہیں اس اقرار سے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ یہ تو نہیں فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا مضمون غلط ہے۔ فرمایا ان کا عقیدہ یہ نہیں ہے ہم یہ تسلیم کرتے ہیں۔اور چونکہ دونوں نے دستخط کرنے ہیں اس لئے اس کو کاٹ دیا جائے۔ اب دیکھیں اس میں وہ تقیہ کہاں سے آگیا جو ان کا تصور ہے یہ تو ایک عظیم الشان عدل کی تعلیم کا ایک نمونہ دکھایا جارہا ہے۔ اور اپنی خاطر دشمن کی قربانی نہیں لی جارہی۔ یہ ہے مراد۔الٹ مضمون ہے۔ اپنی قربانی نہیںدے رہے۔ اپنی خاطر دشمن کی قربانی نہیں لے رہے۔
پھر یہ کہتے ہیں دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن میں ہے۔
’’من کفر باللہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان‘‘
کہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ جو بھی من کفر باللہ من بعد ایمانہاللہ کا انکار کردے ایمان لانے کے بعد وہ کیا ہے جہنمی ہے سوائے اسکے کہ کسی کو مجبور کردیا جائے اور وہ بے بس ہوجائے۔ جبکہ اس دل پوری طرح ایمان پر مطمئن ہو۔
ایسے صحابہ بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میںبھی پیدا ہوئے اور ان کی مثالیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ایمان کا پہلا حصہ ہے یا ادنیٰ ،سب سے آخری حصہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمان کا سب سے ادنیٰ حصہ ہے جس کی بحث ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم ان کے دل میں پورا اطمینان نہ دیکھیں اور اکراہ کی وجہ نہ دیکھیں یہ قطعی طور پر ثابت نہ ہو وہ لوگ بے اختیار تھے۔ انکی نفسیاتی کمزوری۔ ا نکی جسمانی کمزوری، ان کے دل کی کمزور حالت یہ چیزیں ایسی تھیں جو ان بے چاروں کی برداشت سے باہر تھیں جس طرح ٹارچر کرکے کسی سے کوئی بیان لیا جاتا ہے یہ اس کی بحث ہورہی ہے۔ اُکرہ کا مطلب یہاں یہ بنے گا۔ ان کو ٹارچر (Torcher) کیا گیا۔ ان سے زبردستی بیان لیا گیا۔ جس طرح بعض احمدی آج بھی میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ مسجدوں میں جاکر ہار پہن لیتے ہیں۔ ہار پہننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بات کردیتے ہیں کہ چلو مجھے معاف کرو۔ تو وہ لوگ جوپہلے جوتیاں مار رہے ہوتے ہیں ان کو وہ پھر ہار پہنا دیتے ہیں وہ بعد میں آکر روتے ہیں۔ سالہا سال تک معافیوں کے خط لکھتے ہیں۔ کہتے ہیں دعا کرو اللہ ہمیں معاف فرما دے۔ یہ ہے اکرہ کی مثال۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی ایک صحابی ؓ نے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے سخت مجبور کیا گیا۔ بہت تکلیف پہنچائی گئی تھی یہاں تک کہ آپ کی ذات کے خلاف مجھے سے کوئی ناپاک کلمات کہے گئے۔ کہتے ہیں میری زندگی جہنم بنی ہوئی اس وقت سے۔ ایک عذاب میں مبتلا ہوں۔ میری کوئی بخشش کی صورت ہوسکتی ہے؟ یہ ہے اس آیت کا مطلب کہ مجبور کردیئے گئے ہوں۔ اور بے اختیارہوں۔ ان کی جسمانی طاقتوں سے باہر کی بات ہو۔ اس جبر کو برداشت کرنا۔ لیکن دل پوری طرح ایمان پر قائم ہو۔ اطمینان پکڑ چکا ہو۔ اس کے متعلق اللہ فرماتا ہے میں اس کو سزا نہیںدونگا۔ جزا دینے کاوہاں بھی کوئی ذکر نہیں۔ سزا کی بحث ہے سزا دے گا یا نہیں دے گا۔ کہتے ہیں یہ دیکھو تقیہ ثابت ہوگیا۔ جو تقیہ ثابت ہوا وہ ٹھیک ہے لیکن ایمان کا بہت ہی ادنیٰ حصہ ہے اور ایسا جہاں خطرہ ہے کہ ذرا بھی انسان ایک ذرا بھی زیادہ کمزوری دکھادے تو وہ جہنم میں بھی جا پڑ سکتا ہے یہ اللہ نے فیصلہ کرنا ہے کہ حقیقت میں مجبوری پوری تھی بھی کہ نہیں ! اور اطمینان قلب نصیب تھا بھی کہ نہیں۔
پھر اس کی ایک اور مثال یہ دیتے ہیں
قال رجل مومن من آل فرون یکتم ایمانہ اتقتلون رجلا ان یقول ربی اللہ وقد جاء کم بالبینت من ربکم و ان یک کاذبا فعلیہ کذبہ و ان یک صادقا یصبکم بعض الذی یعدکم ان اللہ لا یھدی من ھو مسرف کذاب۔ (المومن ۲۹)
کہ آل فرعون میں سے ایک ایسا شخص بھی تھا جو ایمان لے آیا مگر ایمان کو چھپاتا پھرتا تھا۔ (یہ کہتے ہیں دیکھو تقیہ ثابت ہوگیا) اس نے کہاکہ اے لوگو ! کیا تم ایک آدمی کو صرف اس لئے مارتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ ’’اللہ میرا رب ہے‘‘ اور تمہارے رب کی طرف سے نشانات بھی لایا ہے۔ اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا وبال اسی پر پڑے گا۔ (یہ وہی آیت ہے جس پر میں کل گفتگو کرچکا ہوں)
تو سوال یہ ہے کہ اگر یہی مثال ہے تقیہ کی تو یہ ایسی مثال تو نہیں ہے کہ جس میں اس کے ایمان چھپانے کو اللہ تعالیٰ نے تحسین کی نظر سے دیکھا ہو۔ تحسین کی بات تو وہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ دیکھو اتنا با غیرت تھا کہ ایمان چھپانے کے باوجود وہ خطرہ مول لے لیا۔ اور جس پر ایمان لایا تھا اس کو تکلیف دینے کا جو پروگرام بنایا جارہا تھا اس پر برداشت نہ کرسکا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اور کیسی عقل کی بات کی ہے تو ادنیٰ ایمان والے کا بھی اس کا ذکر فرمایا جو ابتلاء کے وقت پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے آگیا اور جو کچھ چھپایا ہوا تھا اسکو ظاہر کردیا۔ لیکن یہ ایمان کی ادنیٰ حالت ہے۔ اعلیٰ حالت نہیں ہے۔ وہ مومن جو اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے بنانا چاہتا ہے ان کی مثال قرآن کریم میں یہ نہیںدی گئی۔ یہ سابقہ مومنوں کی مثالیں ہیں۔ وہ مومن جو محمد رسول اللہ کی امت کے مومن ہیں۔ ان کی مثالیں دو عورتوں سے دی گئی ہیں۔ ایک فرعون کی بیوی سے اور ایک مریم سے۔ فرعون کی بیوی کی مثال یہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا جابر بادشاہ جو اپنے زمانے میں جبر و استبدار میں کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔ کوئی مثال نہیں تھی۔ اس کے گھر میں ہوتے ہوئے ایمان ظاہر کردیا اور ایمان پر قائم رہی۔ اللہ سے دعائیں مانگتی رہی کہ اے اللہ ! تو مجھے توفیق بخش! اور جنت میں مجھے گھر عطا کر۔ یہ ایمان کی ادنیٰ مثال ہے یعنی مومن کے ایمان کی جو محمد رسول اللہ ؐ پرایمان لانے والا ہے۔ اتنی کمزور حالت۔ ایک ایسے جابر بادشاہ کے گھر بے اختیار پڑی ہو اورپھر موسیٰ ؑ پر ایمان ے آئے اور کھل کر اظہار کرے کہ ہاں میں مومن ہوں یہ سچا ہے۔ اس طرف کیوں نہیں جاتی شیعوں کی نظر؟ وہ دوسرا آدمی پکڑ لیا ہے جوایمان چھپائے پھرتا تھا۔ مگر اس کا بھی اتنا کمزور نہیں تھا کہ جب وقت آیا تواس کو چھپا گیااور حضرت موسیٰؑ پر زیادتی برداشت کر گیا۔ اٹھ کھڑا ہوا۔ اور کہا بالکل غلط کہہ رہے ہو تم میں اس کی تائید کبھی نہیں کرسکتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کوئی بڑے بااثر لوگوں میں سے شخص تھا جو فرعون کے عزیزوں میں یا قریبوں میں سے ہوگا اور حضڑت آسیہ فرعون کی اہلیہ جن کا قرآن میں ذکر ملتا ہے ان کے زیر اثر وہ ایمان لے آیا ہوگا۔ اس عورت میں جرائت تھی مگر اس میں اتنی جرائت نہیں تھی مگر آخر اللہ تعالیٰ نے ایمان کی برکت کے طور پر وہ جرأت بھی بخش دی تواس کی مثال کیوں نہ دی قرآن کریم نے اس آدمی کی۔ آسیہ کی کیوں دی؟
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ محمد رسول اللہؐ کی امت سے کم سے کم اتنی توقع تو رکھتا ہوں کہ موسیٰ کی امت کی ایک کمزور عورت سے آگے ہوں پیچھے نہ ہوں کسی طرح بھی۔ اور اپنی کمزوری کے باوجود وہ اپنے ایمان کی حفاظت کررہی تھی اور دعائیں کررہی تھی۔
دوسری مثال مریم کی دی ہے۔ وہ بھی عورت کی مثال ہے۔ عجیب لگتا ہے کہ امت میں دو مثالیں اللہ تعالیٰ نے دیں۔ وہ بھی عورتوں کی دیں۔ کیونکہ عورتیں کمزور ہوتی ہیں۔ جذبات سے بھی اور خواہشات سے بھی مغلوب ہوجاتی ہیں اور خوف سے بھی مغلوب ہوجاتی ہیں تو فرمایا ایک عورت بھی اگر مجھ پر ایمان لانے یا اپنے وقت کے نبی پرایمان لانے کے معاملے میں کمزوریاں نہیں دکھاتی تو محمد رسول اللہ کے مردوں کی شان کے خلاف ہے کہ وہ اپنے مقام کو اتنا گرادیں۔
دوسرا نفسانی خواہشات کے نتیجے میںبہت سے لوگ اپنے مراتب بنانے لگ جاتے ہیں اور بڑی بڑی اپنے زعم میں اپنے اعلیٰ روحانی مقامات کی باتیں سوچتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کو بعض دفعہ خوابیں بھی آجاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میںان کو بعض دفعہ بظاہر ایسے تجربات ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مرتبہ واقعی بڑا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مریم کی مثال ہے۔ مریم کی سوچ ہر ناپاکی سے پاک تھی۔ ہر نفسانی تمنا سے آزاد تھی۔ وہ خالصتاً اللہ کیلئے وقف تھی۔ پس جو بیٹا خدا نے اس کو عطا کیا۔ وہ اس کی ذاتی تمنائوں کے نتیجے میں نہیں تھا ۔ وہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھا۔
کیوں ؟
اس لئے کہ ماں کی تمنائیں‘ اس کے خیالات ‘ اس کے جذبات۔ وہ اپنی نفسانی مجبوریوں سے کلیتاً آزاد اور ان سے باہر تھے۔ اور خالصتہً اللہ کیلئے ہوچکے تھے۔ پس فرمایا : پھر ہم نے اس میں روح پھونکی اور یہاں اس آیت کریمہ میں اس عورت میں روح پھونکی نہیں فرمایا ! ہم نے اس بچے میں روح پھونکی جو اس عورت کے پیٹ میں تھا۔ اور وہاں مرد کی مثال دی گئی ہے۔ تو فرمایا کہ ادنیٰ سے ادنیٰ مثال تو تمہاری آسیہ کی سی ہے۔ اپنے ایمان کی ہر حالت میں حفاظت کرو۔ اوراگر تم ایسا کرو گے تو آخری مرتبہ ایک اور عورت کا حاصل ہوسکتا ہے کہ اللہ تمہیں جو بھی بلند مرتبے عطا کرے بلند مقامات بخشے تمہارے نفس کی خاطر نہیں ہوگا۔ تمہاری نفسانی تمنائیں تمہارے سامنے تمہارے مراتب کے روپ نہیں ڈھالیں گی‘ بلکہ یہ محض اللہ کے فضل کے ساتھ تمہیں نئے درجے عطا ہونگے۔ جیساکہ مریم کو ایک اور مرتبہ جو مسیحی مرتبہ ہے وہ عطا کیا گیا ۔ مسیح کی مثال کیوں نہ دی مریم کی کیوں دی؟
اس لئے کہ مریم سے مسیحیت کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ مریمی حالت ہی ہے جو ترقی کرتے ہوئے مسیحی حالت میں تبدیل ہوتی ہے۔یہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے متعلق جب فرمایا کہ میری پہلی حالت مریمی حالت تھی۔ یہ بڑے دکھوں اور تکلیف کی حالت اور بے اختیاری کی حالت ہے۔ پھر اسی حالت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے عیسوی روح عطا کی۔ تو۔یہ لوگ ہنستے ہیں۔ یہ آج کل کے جہلاء تمسخر کرتے ہیں کہ دیکھو جی ! پہلے وہ عورت بن گئے تھے اورپھر بعد میں مرد بنے۔ تو قرآن کیوں نہیں پڑھتے؟ قرآن تو کہتا ہے کہ ہر مومن کو پہلے عورت بننا پڑا ہوگا اگر یہی عورت ہے تو ! دو ہی عورتیں ہیں۔ ان کا رستہ اختیار کئے بغیر تم امت محمدیہؐ کے مومن نہیں بن سکتے۔ یا تمہیں اپنے ایمان کی کم از کم اتنی حفاظت کرنی ہوگی جتنی آسیہ نے کردکھائی۔ یا پھراپنی خواہشات اور تمنائوں کو کلیتاً نفس کی آلودگی سے ویسے پاک کرنا ہوگا جیسے مریم نے پاک کیا۔ پھر تمہیں وہ روحانی مرتبے عطا ہونگے جو اللہ کی طرف سے آتے ہیں اور خدا کی طرف سے روح پھونکی جاتی ہے۔ تو یہ ہے قرآن کا حقیقی معنیٰ جو روح کی پہنائیوں تک اتر جاتا ہے اور ہرایک وجود میں سرایت کر جاتا ہے۔ اور کہاں یہ دیکھئے ! تقیہ نکالنا اس سے کہ چونکہ ایک مثال اس کی آگئی ہے اس لئے ہم اپنے سب سے بزرگ اور بہادر اور متقی بزرگوں کی طرف جن کے مراتب بہت بلند ہیں ان کی طرف یہ ادنیٰ ایمان منسوب کرتے ہیں۔ بڑی گستاخی ہے حضرت علیؓ کی۔ ایسی گستاخی کہ میں حیران ہوجاتا ہوں سوچ کے۔ دل کانپنے لگتا ہے کہ کوئی ان کو خدا کا خوف ذرا بھی نہیں آتا۔ ایمان چھپانے والے مومن کی مثال حضرت علیؓ پر لگاتے ہیں۔ کہتے ہیں دیکھو ! کیسا شاندار تقیہ کیا اور پہلے پھرکیا کرتے تھے؟ جب وہ میدان جنگ میں اور ہر میدان جنگ میں ۔ جہاںموت کی چکی بڑی شدت سے گھوم رہی ہوتی تھی وہاں جاتے تھے اور موت کے دانت کھٹے کردیا کرتے تھے ۔ ان کی تلواریں توڑ دیتے تھے جو تلواریں اٹھتی تھیں اور علیؓ کی تلوار کے قصے تم بھول چکے ہو۔ وہ کیا کیا جوہر دکھاتی رہی ہے ! اس وقت کیوں نہ تقیہ کرلیا۔ ساری زندگی کی گواہی کو بھی حضرت علیؓ کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے بعض صورتوں میں ایمان کو چھپانے کی خدا اجازت دیتا ہے مگر بعض شرائط کے ساتھ۔ اور ایک ناپسندیدہ حالت ہے۔ جس کے متعلق خطرہ رہتا ہے کہ اللہ چاہے توپکڑ بھی لے اور اگر چاہے تو معاف بھی فرما دے۔ یہ ناپسندیدہ حالت اپنے بزرگوں کی طرف منسوب کررہے ہو؟
یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی بزرگ نے اپنے بیٹے کو بھیجا تجارت کیلئے کیونکہ وہ دنیا میںدلچسپی نہیں لیتا تھا خاص۔ تو انہوں نے کہاکہ تجارت کا ایک قافلہ جارہا ہے اس سے اسے تجربہ ہوجائے گا‘ شوق پیدا ہوگا۔ تو کچھ مال و دولت دیا اور تجارتی قافلے کے ساتھ بھیج دیا۔اس تجارتی قافلے کا ایک جنگل میں پڑائو ہوا اور یہ بھی ایک درخت کے نیچے آرام کررہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک شیر آیا ہے جس نے کسی جانور کا شکار کیا ہوا ہے اور اس کو گھسیٹتا ہوا ایک جھاڑی میں لے آتا ہے اور یہ اس کو دیکھتا رہا۔ اس نے خوب اس کو اپنی چاہت کے مطابق اپنی پسند کے مطابق کھایا دل نکالا جگر کھایا۔ دوسری چیزیں اور بقیہ جانور کو آئندہ کیلئے بچا کر جھاڑی کے ایک کونے میں چھپا دیا اور آپ چلا گیا۔ جب وہ چلا گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک بیمار لگڑ بھگڑ اپنی ٹانگیں گھسیٹتا اور اپنے جسم کو گھسیٹتا ہوا وہاں پہنچا اور شیر کا پس خوردہ جو بچا ہوا وہاں پڑا تھا اس سے اس نے بھی اپنا پیٹ بھر لیا۔
یہ واقعہ دیکھا تو یہ حیران رہ گیا۔ اس نے کہا۔ واہ ! اللہ کی شان دیکھو۔ وہ تو سب کا رازق ہے۔ میں خواہ مخواہ اس مصیبت میں مبتلا ہوں۔ یہ دنیا کمانے کیلئے اتنی محنتیں کروں۔ جب خدا نے ذمہ لے لیا ہے رزق کا تو چھوڑو اس کو۔ وہاں سے واپس آیا۔ جو پیسہ تھا غریبوں میں تقسیم کیا۔ گھر اکیلا خالی ہاتھ آکر بیٹھ رہا۔ باپ نے جب دیکھا تواس نے کہا یہ کیا کیا تم نے؟ میں نے تو تمہیں تجارت پر بھیجا تھا۔ اس نے کہا گیا تو تھا تجارت پر ‘ پر یہ واقعہ دیکھا ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے۔ باپ نے کہا تم سچ کہتے ہوگے لیکن میری خواہش اور تھی۔ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ تم وہ لگڑ بھگڑ بنو جو شیروں کے پس خوردہ کھا کر زندہ رہو۔ میں چاہتا تھا تم وہ شیر بنو جس کے پس خوردہ لگڑ بھگڑ کھایاکریں۔ تو حضرت علیؓ تو شیر خدا ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں وہ شیر خدا تھے۔ ان کو لگڑ بگھڑ کی مثال دیتے ہو؟ کوئی حیا نہیں آتی؟ تمہارا ایمان کہاں جاتا ہے؟ کچھ خدا کا خوف کیوںنہیں کرتے؟
جسے خدا نے شیر بنایا تھا جس کا پس خوردہ دنیا کھاتی تھی تم اسے دنیا ک یپس خوردہ کھانے والا بنا بیٹھے ہو۔ اور عملاً یہی کرلیا ہے۔ کہتے ہوکہ اپنا حق ‘ حق خلافت غصب ہوتے دیکھا۔ خدا نے جو حق میں وصیت کی تھی اس وصیت کو چاک ہوتے دیکھا۔ تمام روحانی مراتب آپ سے غصب کرکے چھین کر۔ ایک ظالم ان کی کرسی پر جا بیٹھا اور دنیا کی منفعفت کیلئے اس کے دربار میں حاضری دیتے رہے۔ باغ کیلئے التجائیں کرتے رہے مگر اپنے منصب کا مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ایک دفعہ بھی نہیں۔ ساری شیعہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔ان کی اپنی تحریریں مطالعہ کرلیں۔ میں کسی سنی حوالے کی بات نہیں کررہا کسی شیعہ تاریخ میںیہ ذکر نہیں ہے۔ کسی کتاب میں‘ کسی ان کی حدیث میں کہ حضرت علیؓ کو اچانک خیال آیا ہو اور وہ اٹھ کھڑے ہوئے ہوں اور کاہ ہو کہ اے ابوبکر ؓ ! پہلے میرا حق تو مجھے دے جو خدا نے عطا کیا ہے۔ پھر باقی باتیں بعد میںدیکھیں گے۔ تو یہ ہے شیر خدا کو (نعوذ باللہ من ذلک) اس سے بالکل برعکس حالت میںتبدیل کردینا اور ان کا جو مرید ہیں جو محبت کے دعویدار ہیں جو عشق کے دعویدار ہیں۔ جن کے دعوے یہ ہیں بعض جگہ بعض شیعوں کے کہ وہ علیؓ خدا تھے اور محمدؐ اس کے بندہ تھے (نعوذ باللہ من ذالک) یہ ہیں انکے عقیدے۔
اس سے بھی بھیانک عقیدے دنیا میں موجود ہیں ہمیں اس سے بحث نہیں ہے یہ جاہلانہ بات ہے کہ ان باتوں کو بیان کرکے طبیعتوں میں اشتعال پیدا کیا جائے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کو بھی تو خدا کا بیٹا بنایا ہوا ہے اور کرشن کو خدا بنایا ہوا ہے۔ کس کس سے تم دنیا میں لڑتے پھرو گے؟ اس لئے جو تمہارے اختیار میں چیزیں نہیں ہیں ان کو اپنے اختیارمیں نہ لو۔ یہ اللہ کے معاملے ہیں۔ پس میں جب یہ باتیں بیان کرتا ہوں تو شیعوں کے خلاف نعوذ باللہ کسی اشتعال انگیزی میں مبتلا نہیں ہوتا نہ میں اسے جائز سمجھتا ہوں۔ یہ بے چارے راہ سے بھٹکے ہوئے بھائی ہیں ان کو سمجھائو۔ عقلی دلیلیں دو۔ جسطرح بن سکے ان کو ان گمراہیوں سے بچانے کی کوشش کرو۔ یہی ہے جو ہمیں اختیار ہے۔
’’انما انت مذکر لست علیھم بمصیطر‘‘
یہی وہ مرتبہ ہے جو محمد رسول اللہ کا مرتبہ ہے اس سے ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہمارا کام نصیحت کرنا ہے ہم ان پر داروغہ نہیں بنائے گئے کہ ہم انہیںپکڑیں اورسزائیں دیں اور قیدوں میں مبتلا کریں یا پھانسیوں پر چڑھائیں پس یہ تعلیم غلط ہے جو آج کل پاکستان میں دی جارہی ہے۔ مگر یہ درست ہے کہ شیعہ عقائد ایسے ہیںکہ جس کے نتیجے میں ایک مومن کا دل لرزنے لگتا ہے۔ طبیعت میں ایک ہیجان پیدا ہوجاتا ہے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ یہ کیا کررہے ہیں۔یہ ہے تقیہ۔جس کی میں بات کررہا تھا۔ اب تبرا کی بات سُن لیجئے !
تبرا کس چیز کو کہتے ہیں؟
اس کے متعلق بہت سے حوالے ہیں۔ میں ایک چُن کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ کل انہوں نے میر احمد علی صاحب نے Revilde کے لفظ کے اندر (جو میں نے کل حوالہ پڑھا تھا) تبرا کا ہی ذکر کیا ہے کیونکہ Revile کرنا اور تبرا کرنا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
کہتے ہیں تبرا ہم پر لازم نہ تھا اگر صرف محمد رسول اللہ ؐ کے ساتھ بے وفائی کرتے اور یہ سب کچھ کرتے۔ بھاگے پھرتے بکریوں کی طرح پہاڑوں پر پتھر سے پتھر پر اور چٹان سے چٹان پر چھلانگیں مارتے پھرتے۔ کوئی فرق نہیں تھا۔ لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ علیؓ کی خلافت پر قابض ہوگئے پھر ناقابل برداشت ہے پھر تو ہم پر تبرا کرنا فرض ہوجاتا ہے۔ اور تبرا ہے کیا؟ یہ سنئے ! حق الیقین مصنفہ محمد باقر مجلسی فصل نمبر 18 صہ 519 مطبوعہ ایران اس کا ترجمہ ہے۔ یعنی اصل عبارت بھی موجود ہے مگر میں ترجمہ پڑھ کر سناتا ہوں۔
برأت کے بارے میں ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ چار بتوں سے بیزاری برأت کا بنیادی حصہ ہے؟ وہ یہ ہیں) ابوبکرؓ ‘ عمر ؓ ‘ عثمانؓ اور معاویہ ؓ۔
کہتے ہیں یہ چار بت ہیں جن سے بیزاری کا اظہار دین کا بنیادی حصہ ہے اور اسی کا نام تبرا ہے اور چار عورتوں سے بیزاری یعنی عائشہ ‘ حفضہ ‘ ہندہ اور ام حکم اور ان کے تمام ساتھیوں اور متبعین سے بیزاری چاہیں۔
چار مردوں سے حضرت ابوبکر ؓ ‘ حضرت عمرؓ ‘ حضرت عثمان ؓ ‘ اور معاویہ سے اور چار عورتوںسے حضرت عائشہ صدیقہؓ ‘ حضرت حفصہ ؓ ‘ ہندہ اور ام حکم سے بیزاری کریں۔ اور ان سے نہیں ان کے تمام ساتھیوں سے۔
حضرت عائشہ ؓ کے ساتھی کون تھے؟
حضرت حفصہ ؓ کے ساتھی کون تھے؟
کوئی حیا نہیں۔ کوئی سوچتے نہیں کہ کیا بات کہہ رہے ہیں۔ یہ تلوار کی زد کہاں تک جا پہنچتی ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ یہ یقین رکھتے ہیں
’’نیز ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ لوگ خدا کی بدترین مخلوق ہیں‘‘
یہ مسلمان ہیں۔ ہم نہیں ہیں جن کا دل خون ہوتا ہے ۔ ان باتوں کو سن کر۔ جو عشق صحابہؓ میں سر تاپا لبریز ہیں۔ یہ غیر مسلم ہیں پاکستان کی تعریف کے مطابے اور یہ مسلمان ہیں۔ جن کا اعتقاد یہ ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک۔ یہ خداکی بدترین مخلوق ہیں۔
’’اور ہمارا یہ بھی اعتقاد ہے کہ جب تک خدا‘ رسول اور ائمہ کے دشمنوں سے بیزاری نہ کی جائے۔ اس وقت تک خدا رسول اور آئمہ کی سچائی کا اقدار مکمل نہیں ہوسکتا۔‘‘
(اردو ترجمہ از فارسی عبارت حق القین مصنفہ محمد باقر مجلسی)
فصل نمبر 18‘ صہ 519‘ مطبوعہ ایران
پھر اس موضوع پر مختلف حوالے ہیں مگر چونکہ درس قرآن میں ضمناً یہ معاملہ زیر بحث آیا ہے۔ اس لئے میں مستقل اسے شیعہ سنی debate میں یا مناظرے میں تو تبدیل نہیں کرسکتا مگر چونکہ یہ باتیں قرآن کی طرف منسوب کررہے ہیں اور جو آیتیں زیر بحث ہیں ان سے استنباط کررہے ہیں۔ اس لئے بالکل مجبوری ہے۔ انکے غلط عقائد یا قرآن کریم کی آیت کے ۔۔۔۔بطلان کو نظر انداز کرکے کیسے میں آگے بڑھ سکتا ہوں۔
شیعہ عقیدہ کیا ہے۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ پنجتن پاک اور چھ دیگر صحابہ کے سوا آنحضرت صیل اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ بشمولیت خلفاء راشدین ثلاثہ ابوبکر‘ عمر اورعثمان (ہم جن کو رضوان اللہ علیھم کہتے ہیں) سب کے سب اسلام سے برگشتہ ہوچکے تھے۔ اور عیاذاً باللہ منافق کا درجہ رکھتے تھے۔ نیز یہ عقیدہ کہ پہلے تین خلفاء غاصب تھے ان پر تبرا کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔
یہ خلاصہ ہے شیعہ مذہب کا۔ جو اسلام کا ایک لازمی ستون ہے۔ ان 72 فرقوں میں سے ایک ہے جن کے اسلام پر حکومت پاکستان نے اور پاکستان کو Constituion نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔۔۔۔اب بتائیے کہ یہ ایک لازمی منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ نہیں؟ کہ پاکستان کی Constituion کے مطابق یہ تمام عقائد رکھنا اسلام کے دائرے کے اندر ہے اور کوئی نہیں جو ان عقائد کے رکھنے والوں کو غیرمسلم قرار دے سکے۔ بتائیے اس نتیجے سے مفر کسے ہوسکتا ہے۔ Constituion کی مہر لگی ہوئی ہے۔
تمام شیعہ اپنے تمام عقائد سمیت دائرہ اسلام میں داخل اور اسلام کا ایک اہم ستون ہیں۔ یعنی ایک ستون اگر اہل سنت ہیں تو دوسرا ستون شیعہ ہیں۔ کون ہے جو انکو اسلام سے باہر قرار دے سکے۔ پس انکے تمام عقائد اس حد تک قابل قبول ہیں کہ انکو رکھنے کے باوجود انسان غیر مسلم نہیں بن سکتا اور اسلام کے دائرے سے باہر نہیں جا سکتا تو تمام سنّیوں نے پاکستان کے اس بات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے اور یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھنے کے نعوذ باللہ من ذالک چار مرد وہ جن کا بیان ہوا ہے اور چار عورتیں یہ کلیتاً فاسق فاجر دین سے باہر اورخدا تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بدترین مخلوق ہیں۔ یہ اسلام ہے۔ کون ہے جو ان کو یہ کہ سکے کہ نہیں ہے۔
اور یہ عقیدہ رکھے کے اگر ہم یہ عقیدے نہ رکھیں تو ہمارا اسلام نہیں بن سکتا ۔ اور ہم پر لازم ہے ان سب کو گالیاں دیں اور بد ترین زبان انکے خلاف استعمال کریں۔ یہ جائز ہی نہیں بلکہ دین کا حصّہ اور فرض ہے۔ جو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ جو ان کا حق ہے جو تسلیم کرتا ہے سو بسم اللہ۔ وہ 72 کے تھیلے میں آرام سے زندگی گزارے ۔ کون ہے جو اسکو میلی آ نکھ سے دیکھ سکے؟ لیکن جو ان کے عقیدوںکے خلاف آواز اُٹھائے گا وہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔ اسلام کے اندر۔
اب یہ تبّرا کی مثالیں بہت ہی مکروہ مثالیں ہیں میں صرف چند مجبوری کی حالت میں پیش کرتا ہوں۔ ایک تو ایسی خبیثانہ بات ہے کہ آدمی کے تصور میں بھی نہیں آسکتی کہ کوئی مسلمان یہ بات لکھے اور دوسرے مسلمان آرام سے کہیں کہ ٹھیک ہے کوئی بات نہیں تم ہو تو مسلمان ہی ناں ! جو مرضی کہتے پھرو تو نعوذ باللہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ (ناقابل بیان بات ہے) کسی سے عشق ہوگیا تھا۔ اور اسکی رقابت میں حضرت علیؓ سے دشمنی ہوئی اتنی ناپاک بات ہے اتنی خبیثانہ بات۔ ایسے قابل احترام وجود پر جو خاتونِ جنت ہیں جو تمام عورتوں کی سردار ہیں جنّت میں ۔ اپنی دشمنی میں بھول جاتے ہیں کہ یہ بکواس کر کیا رہے ہیں؟
(کتاب کامل بھائی اور کتاب خلافت شیخین 41ـ؎ پھر حضرت عمر ایسے ناپاک مرض میں مبتلا تھے کہ جسکے بغیر انہیں چین نہیں آتا تھا ( یعنی روحانی بیماری ۔ وہ مرض بھی اپنا بیان نہیں کر سکتا )
(الزھراء بحوالہ شیعہ سنی اتحاد ص 4سے یہ حوالہ لیا گیا ہے)
کہتے ہیں حضرت ابوبکرؓ سے منبرنبویؐ پر مسجد نبویؐ میں سب سے اول بیعت خلافت شیطان نے کی تھی۔
حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پہ منبر نبوی پر پہنچ کر شیطان پہلے پیش ہوا ۔ ہاتھ بڑھایا کہ حضور پہلے میری بیعت لے لیجئے۔ پھر باقی صحابہؓ نے ۔ پھر حضرت علیؓ نے دیکھا کہ سب کر بیٹھے ہیں میں بھی کرلوں۔ اب کیا باقی رہنا ہے تو نعوذ باللہ سب شیطان کے چیلے بن گئے۔ اور اس کے پیچھے قدم رکھتے ہوئے۔
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے اے شیطان !
حضرت علیؓ نے کہا کہ میں اکیلا بیٹھا باہر کیا کرونگا۔ یہ دین ہے۔ لیکن اسلام ہے۔ پاکستان کی Constituion اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ لکھا ہوا ہے۔ مہر لگی ہوئی ہے اوپر۔ حکومت کی مہر ہے ، ہے یہ اسلام !
کوئی تقویٰ کا اشارہ بھی ملتا ہے ا ن باتوں میں ؟
یہ سیاستیں ہیں جن کو دنیا میں مشتہر کررہے ہیںکہ دیکھو پاکستان حکومت نے۔ پاکستان کی Constituion نے‘ پاکستان کے دانشوروں اور علماء نے مل کر کچھ دیکھا تھا تو یہ فتویٰ دیا کہ احمدی کافر ہوگئے ہیں کیونکہ یہ کہتے ہیں کہ امام مہدی آگیا۔
یہ جرم ہے۔ اور کہتے ہیں کہ امام مہدی کا منصب امتی نبی کا منصب ہے جو قرآن کے پوری طرح اور کامل طور پر تابع ہوگا۔ اور محمد رسول اللہ ؐ کا غلام ہوگا۔ یہ کہتے ہیں۔ ایسی گستاخی کی جرأت۔ یہ تو نبوت پر ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ امام مہدی امتی نبی: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اسلام میں یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں یہ بے شک برداشت کرلو کہ وہ چار کون ہیں؟ اور وہ چار کون تھیں؟ اور ان سے خدا کا کیا سلوک ہوگا؟ اور دنیا کی بدترین مخلوق کس کو کہتے ہیں؟ اورکن پر تبرا دین میں فرض ہے۔ اور شیطان نے سب سے پہلے بیعت کس کی کی تھی؟
کہتے ہیں یہ سب اسلام کے اندر ہے۔ اس سے تمہیں کیا تکلیف پہنچتی ہے؟ ہمارا اپنا معاملہ ہے۔ ہم جو مرضی کریں اسلام کا۔ اسلام تو ہمارے گھر کی لونڈی ہے نعوذ باللہ من ذالک۔
قرآن مجید میں جہاں جہاں شیطان کا ذکر آتا ہے۔
وقال الشیطن: وہاں وہی ثانی مراد ہے۔ اب یہ تقیہ کیا گیا ہے۔ مراد حضرت عمرؓ ہیں اور تمام شیعہ جانتے ہیں کہ کیا مراد ہے؟ کہتے ہیں وہاں خلیفہ ثانی مراد ہے۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
توجہاںجہاں یہ آتا ہے قرآن میں وقال الشیطا ن : وہاں حضرت عمرؓ مراد ہیں اور یہی ہمارا دین ہے۔
(بحوالہ القرآن امامیہ صہ 512)
حضرت ابوبکرؓ‘ عثمانؓ اور عمر کافر فاسق تھے۔
(حیات القلوب مجلسی باب 51)
سوائے چھ (6) اصحاب کے باقی جمیع اصحاب رسول مرتداور منافق تھے ۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف چھ صحابہ باقی بچے تھے۔ باقی تمام مرتد اور منافق ہوچکے تھے۔ یہ تبرا کی تعلیم ہے کن پر تبرا بھیجنا ضروری ہے ۔ وہ یہ لوگ ہیں۔
اب پہلے تو حضرت علی ؓ کے منصب کے متعلق بات کی تھی پھر بھی دہرا رہا ہوں کہ حضرت علیؓ کا کیا باقی رہنے دیا ان لوگوں نے۔ جو سب سے شجاع تھا۔ جو سب سے دین میں بہادر تھا اسے نعوذ باللہ من ذلک سب سے بزدل کے طور پر پیش کرکے اور پھر منافق کے طور پر پیش کرنا۔ اس سے تو زیادہ ظلم حضرت علیؓپر ہو ہی نہیں سکتا۔
سر بچالیا اور ہاتھ نعوذ باللہ من ذلک فاسق فاجر دنیا کی بدترین مخلوق والے آدمی کے ہاتھ میں دے دیا۔ ان کے ہاتھ میں جن کے ہاتھ پر شیطان ان سے پہلے سبقت لے جاچکا تھا اور پہلے بیعت کر بیٹھا تھا‘ کیا باقی رہا حضرت علی ؓ کا؟
وہ علیؓ قرآن میں جس کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ وہ اور علی ؓ ہے۔ وہ علیؓ جو محمد رسول اللہ ؐ کا وفادار تھا اور اسلام کا وفادار تھا اور ظاہر و باطن میں ہر طرح سے سچا تھا۔ نہ اس کا ظاہر جھوٹا تھا نہ اس کا باطن جھوٹا تھا۔ جو ظاہر تھا وہی اسکا باطن تھا۔ وہ علی ؓ تھا جس نے حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ نہ کہ وہ علی جس کی تم نے ایسے ناپاک الزام لگا لگا کر شکل بگاڑ دی ہے۔ پہچانی نہیں جاسکتی۔
اور حضرت محمد ؐ رسول اللہ کا تصور ۔ پہلے کہا کرتے تھے مسلمان۔ عیسیٰ علیہ السلام آئے ساری زندگی زور لگایا۔ صرف 30 ہی چھوڑے ناں پیچھے ماننے والے؟ ان میں سے بھی دو (2) نے *** کردی یا ایک نے *** کی اور دوسرا ویسے پھر گیا تو محمد رسول اللہؐ کا بڑا شور تھا۔ خاتم الانبیائؐ آنے والا ہے۔ ایسا آنے والا ہے جس کے متعلق فرمایا۔
’’یتلو علیھم آیاتہ ویزکیھم ‘‘
وہ ان پر آیات کی تلاوت کرتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا چلا جاتا ہے۔دلائل بعد میں آتے ہیں۔
لیکن ایسا پاک وجود ہے کہ فوراً ان کا تزکیہ کرتا چلا جاتا ہے۔
و یعلمھم الکتب والحکمتہ و ان کانوا من قبل یفی ضلال مبین
اور پھر تزکیہ کرنے کے بعد پاک دلوں کو تعلیم دیتا ہے۔ وہ کیا تزکیہ تھا؟ ساری عمر کی کمائی 6 مومن! اور لاکھوں منافق!! جن میں سے ان کے کہنے کے مطابق ہر دل ناپاک تھا اور دنیا کی بدترین مخلوق ان کی سرداری کررہی تھی۔ محمد رسول اللہؐ کا کیا باقی چھوڑا؟ جو تمام دنیا کا نبی بن کے آیا۔ اس کی زندگی کا ماحصل تو بس یہ منافق ہی رہ گئے لیکن بدنصیبی اور ہے ابھی ختم نہیں ہوئی! جو 6 باقی رہ گئے تھے وہ بھی پھر منافق بن گئے نعوذ باللہ من ذلک‘ انہوں نے بھی بیعتیں کرلیں۔ ان کی جو منافقوں کے سردار تھے۔ گویا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا۔ محمد رسول اللہؐ کی زندگی کا ماحصل ایک منافق گروہ کے بعد ایک دوسرا منافق گروہ پیدا کرنا بن گیا۔ یہ ہے اسلام کا خلاصہ جو ان شیعہ عقائد سے ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان تمام دلائل کو ایک جگہ بیان فرمایا ہے۔ روحانی خزائن جلد ۱۲ صہ ۱۸۹۲
اور بڑی شان کے ساتھ اور بڑی قوت کے ساتھ حضرت علیؓ کی سچائی کا دفاع فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ یہ ساری باتیں اور وہی سارے دلائل جو میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔ الحمد للہ کے میری نظر جب حضرت مسیح موعودؑ کے اس اقتباس پر پڑی تو میں حیران رہ گیا کہ ایک بھی بات نہیں ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہو اور مسیح موعودؑ نے بیان نہ فرمائی ہو۔ ہر دلیل مسیح موعود علیہ السلام نے خود دی ہے اور آخر پر حضرت علیؓ کی تعریف میں فرماتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ نعوذ باللہ وہ ان صحابہ سے جا ملا جو مرتد ہوگئے تھے۔ اس نے کیوں اپنی فصاحت و بلاغت کو استعمال نہ کیا۔ کیوں ان کو نہ سمجھایا ؟ کہتے ہیں کہ وہ تو بڑا قادر الکلام انسا ن تھا، بہادر بھی تھا۔ بہادری پر تم نے ضرب لگادی۔ اب اسے گنگ کردیاکہ وہ تین خلافتوں پہ خاموش بیٹھا رہا۔ اور کچھ کسی کو نہ سمجھایا کہ حقیقت حال کیا ہے؟
فرماتے ہیں
’’پس اُس پر یہ بلا کیا نازل ہوئی کہ اس نے لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میںبلاغت اور فصاحت سے کام نہ لیا اور دلوں کو اپنی طرف پھیرنے میں اپنے حسن بیان کو نہ دکھلایا بلکہ نفاق اور تقیہ کی طرف جھک گیا اور نفاق کو دشمنوںکیلئے مثل افسوں کے سمجھا۔ کیا یہ فعل شیر خدا کا ہے؟ ہر گز نہیں بلکہ یہ تو اے کاذبوں کے گروہ تمہارا افترا ء ہے علی ؓ تو جامع فضائل تھا اور ا یمانی قوتوں کے ساتھ توام تھا۔ پس اس نے کسی جگہ ------- نفاق کو اختیار نہیں کیا۔‘‘
یہ ہیں حضرت علی ؓ ‘ وہ مقدس وجود جن کے نام سے دشمن کا پتہ پانی ہوا کرتا تھا جن کو حیدر جرار اور حیدر کرار کہا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود کی زبان سے سنیں۔ میں آئندہ اور بھی بعض حوالے ایک اور موقع پر آپ کے سامنے رکھوں گا۔ کیسا پیارا کلام ہے۔ کیسا عمدہ حضرت علیؓ کا تعارف کراویا گیا ہے۔
’’یہ فعل شیر خدا کا ہے؟ ہر گز نہیں۔ یہ تو اے کاذبوں کے گروہ تمہارا افتراء ہے۔ علیؓ تو جامع فضائل تھا‘‘ تمام خوبیاں‘ تمام نیکیاں جو اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہوں۔ فضائل اُن نیکیوںکو نہیں کہتے جو ادنیٰ حالتیں ہوںپس ایمان کی ادنیٰ حالت فضیلت سے نیچے قابل قبول بھی ہو تو وہ علیؓ کی شان نہیں تھی علیؓ کے حصے میں تو فضائل اپنے درجہ کمال تک پہنچی ہوئی نیکیوں کی صورت میں موجود تھے۔ پھر فرمایا اور ایمانی قوتوں کے ساتھ توام تھا۔ بہت ہی پیارا کلام ہے۔ حضرت علیؓ کو ایسا خراج تحسین میرا خیال ہے کبھی کسی نے نہیں دیا ہوگا۔ ایمانی قوتوں کے ساتھ توام تھا۔ جس طرح ہم شکل جڑواں پیدا ہوتے ہیں۔ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور پہنچانا نہیں جاتا ایک ‘ دوسرے سے الگ۔ تو کہتے ہیں تم علیؓ کے ایمان کی بات کررہے ہو۔ وہ تو ایمانی قوتو ںکے ساتھ توام پیدا ہوا تھا۔ ایک کو دوسرے سے الگ دکھایا ہی نہیں جاسکتا۔
پس اس نے کسی جگہ نفاق کو اختیار نہیں کیا!
اب یہ سوال ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت علیؓ اور دیگر ائمہ کی طرف جو یہ باتیں منسوب کرتے ہیں۔ انہیں پیش کرنے کا اب کوئی فائدہ باقی رہے گا یا نہیں !
یہ کہ دیںگے کہ جی تقیہ ہورہا تھا۔ ہم جب ان کے حوالے اب دینگے تو ان حوالوں کو شیعہ کس طرح دیکھیں گے؟ جہاں تک عامۃ الناس کا تعلق ہے ان میں تو اکثر لاعلم ہیں انہیں تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہمارا دین ہے کیا۔ یہ دین تو ایک خاص گروہ ہے شیعہ علماء کا انکے قبضے میں ہے۔ وہ ان کو عوام کو بتاتے رہتے ہیں۔ سالانہ مجلسوں کے وقت یا بعد ازاں کبھی کبھی کہ تمہارا دین ہے کیا؟ انکو کچھ پتہ نہیں بیچاروں کو۔
شیعہ دین کے متعلق میں اپ کو ایک بات سمجھا دوں پھر شاید بھول نہ جائوںبعد میں۔ شیعہ دین کی بنیاد بہت پیاری ہے۔ یعنی اہل بیت کی محبت۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ایک محبت کے جذبے کو بعض ظالموں نے ہانک کر غلط رستے پر ڈال دیا اور غلط نتائج پیدا کئے یہ ظلم ہے! پس جہاں تک اہل بیعت کی محبت کا تعلق ہے اس پر کسی شریف انسان کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہو۔ اعتراض کا کوئی حق نہیں بلکہ اسے میدان میں شیعوں سے آگے بڑھ کر اہل بیت سے محبت کرنی چاہئے۔ حضرت محمدؐ رسول اللہ کے اہل بیت وہ تھے جو ایماناً بھی اہل بیت تھے اور جسمانی طور پر بھی اہل بیت تھے۔ ان میں آپ کی روحانیت کا خون بھی دوڑ رہا تھا اور آپ کی جسم کا خون بھی دوڑ رہا تھا۔
پس نور’‘ علیٰ نورٍ کی سی کیفیت تھی۔ ان کو نظر انداز کردینا اور ان پر ظلم کو برداشت کرلینا۔ یہ بے دینی کی بات ہے یہی احمدیت کا عقیدہ ہے۔ ان سے محبت کرنا ایمان کے اعلیٰ مراتب کو چھونا ہے۔ لیکن یہاں تک بات رہے۔ پاکوں کی محبت میں پاکوں پر ظلم کرنا۔ یہ ایسا خوفناک تصور ہے جس کو عقل بھی رد کرتی ہے اور نقل بھی رد کرتی ہے۔ نہ اس کی کوئی مثال سچوں کے کلام میں ملتی ہے نہ سچوں کے اعمال میں ملتی ہے۔ نہ عقل اسے قبول کرسکتی ہے کہ ایک سچائی کی خاطر دوسری سچائی کا منہ کالا کرتے پھرو۔ اور جب تم ایسا کرتے ہو تو اپنی سچائی کا گلا گھونٹتے ہو۔ اپنی سچائی کو داغدار کرتے ہو۔ اگر محمد رسول اللہؐ کی محبت کی وجہ سے یہ سب کچھ تھا تو محمد رسول اللہ ؐ کے غلاموں پر اس طرح زبان طعن دراز کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں۔ صرف 6 پیچھے چھوڑے باقی سب منافق چھوڑ گئے۔ اور جو 6 تھے وہ بھی نعوذ باللہ من ذلک بعد میں انہوں نے کہا کہ ہم نے کیا باہر رہنا ہے۔ ہم بھی بن جاتے ہیں۔
یہ کوئی دین نہیںہے۔ خدا کا خوف کرو۔ تقویٰ اختیار کرو۔ اہل بیت کی محبت میں ان پر درود و سلام بھیجو۔ ان کے لئے دعائیں کرو۔ ان کے لئے جو غم ہوتا ہے مصنوعی طور پر اسے ابھار کر سینہ کوبی میں تبدیل نہ کرو ۔ انبیاء کی سنت کے مطابق راتوں کو کھڑے ہوکر ان پر درود و سلام بھیجو ۔ ان کے لئے روئو۔یہ نیکی ہے۔ لیکن اس کے برعکس بعض دوسرے نیکوںپر گند اچھالنا۔ خبیثانہ زبانیں استعمال کرنا۔ یہ پہلی نیکی کو کاٹ دینے والی بات ہے کیونکہ دو تضاد اکٹھے نہیں رہ سکتے یہ ناممکن ہے۔ مگر بہرحال وہ حوالے موجود ہیں جو میں آپ کے سامنے ابھی کچھ رکھتا ہوں تفسیر قمی میں سورۃ التحریم کی تفسیر کے ضمن میں یہ درج ہے اور یاد رکھئے کہ تفسیر قمی شیعہ تفسیر ہے۔ اس لئے یہاں کسی تقیہ کی بحث نہیں ہونی چاہئے۔ جب انہوں نے ایک تفسیر لکھی ہے اور خود اپنے ائمہ کے کلام کو نکالا ہے اور اجاگر کرکے سامنے پیش کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک سچی بات تھی جو وہ کررہے تھے کیونکہ کسی آیت کا جو مفہوم یہ سمجھ رہے ہیں اس کی تائید میں حوالے دے رہے ہیں۔ اس کی تائید میں نعوذ باللہ من ذلک منافقانہ حوالے تو نہیں پیش کرسکتے پھر۔ تفسیر قمی میں لکھا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہؓ سے فرمایا میرے بعد ابوبکر ؓ خلافت پر متمکن ہونگے اور ان کے بعد تیرے والد (یعنی عمرؓ) اس پر حضرت حفصہؓ نے آنحضرتؐ سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی ہے؟ توآپؐ نے فرمایا مجھے علیم و خبیر ذات نے یہ خبر دی ہے۔
یہ خبر دی تھی کہ نعوذ باللہ منافقوں کے سردار‘ بدترین مخلوق میرے بعد دین پر قابض ہونے والی ہے۔
شرح نہج البلاغہ (یہ شیعہ تفسیر کی کتاب ہے) جز 6 ‘ صہ 293 یعنی حضرت علیؓ کے کلمات کی اس میں تشریح کی گئی ہے بہت حد تک اس میں لکھا ہے۔
فلما صلی ابو بکر الظھر اقبل علی الناس ثم قام علی فعظم من حق ابی بکر وزکر فضلہ و سابقتہ ثم مضیٰ الی ابی بکر فبایعہ فاقبل الناس الی علی وقالوا احسنت۔
پس جب حضرت ابوبکر ؓ ظہر کی نماز پڑھ چکے تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ کی فضیلت اور اسلام میں مسابقت کا ذکر فرمایا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کی طرف گئے اور ان کی بیعت کی اس پر لوگوں نے آپ سے کہا کہ درست فعل کیا ہے اور احسن کام اچھا کام کیا ہے۔پھر شرح نہج البلاغہ ہی میں دو حوالے درج ہیں۔ یہ دراصل ایک ہی عبارت ہے جس کے دو حوالے دیئے گئے ہیں۔
ایک شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید جلد 2‘ صہ 219
اور دوسری شرح نہج البلاغہ ابن ہشیم مطبوعہ تہران جلد 3
ان دونوں کتب میں وہی حوالہ درج ہے جس کی عبارت میں ابھی آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں ۔
وکان افضلھم فی الاسلام کما زعمت و انسہم للہ و رسولہ الخلیفتہ الصدیق و خلیفتہ الخلیفتہ الفاروق ‘‘
حضرت علیؓ نے فرمایا اور جیسے کہ تیرا دعویٰ ہے ان میں سے اسلام میں افضل اور اللہ اور رسول کے سب سے زیادہ خیر خواہ خلیفہ صدیق ہیں اور پھر خلیفۃ الخلیفۃالفاروق ہیں ۔ میری عمر کی قسم ! ان دونوں کا مرتبہ اسلا م میں عظیم الشان ہے۔ اور بے شک ان دونوں کی موت سے اسلام کو سخت زخم پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں پر رحم فرمائے اور ان دونوں کو ان کے اچھے اعمال کی جزا عطا فرمائے۔ اس میں ایک نقطہ قابل غور ہے۔ وہ یہ کہ حضرت ابوبکر ؓ صدیق کو تو خلیفتہ الرسول فرمایا گیا ہے اور حضرت عمرؓ کو خلیفتہ ابی بکر فرمایا گیا ہے اس حساب سے جب حضرت علیؓ کی باری آئے گی تو آپ کو کیا کہا جائیگا ؟ خلیفتہ عثمان ؓ ! اس پہ بھی تو شیعہ غور کریں کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ جواب میں بتا دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ کی مراد یہ نہیں ہے کہ حضرت رسول اکرمؐ کے خلیفہ نہیں تھے بلکہ ابوبکرؓ کے خلیفہ تھے۔
اگر یہ مراد ہو تو پھر آپ کی خلافت بھی کاٹی جاتی ہے۔ مراد صرف یہ ہے بعد میں آنے والا کیونکہ خلیفہ کا ایک معنیٰ یہ ہے ان کے بعد منصب پر بیٹھنے والا تو فرمایا تاریخی نقطہ نگاہ سے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد پہلے ابوبکرؓ منصب خلافت پر بیٹھے۔ پھر آپ کے بعد منصب خلافت پر بیٹھنے والے عمرؓ تھے۔ یہ مراد ہے۔ اس لئے وہ جو میں نے اعتراض اٹھایا ہے شیعوں کی طرف اس کا جواب بھی خود دے رہا ہوں کہ یہ اصل جواب ہے۔ ورنہ اگر تمہیں یہ جواب تسلیم نہیں تو پھر حضرت علیؓ رسول اکرمؐ کے خلیفہ نہیں رہتے بلکہ عثمان ؓ کے خلیفہ بن جاتے ہیں۔
اب حضرت علیؓ کی ایک اور روایت سن لیجئے !کترالعمال جلد ۱۳ ‘ صہ ۱۰۔۹ از علامہ علی المتقی متوفی ۹۷۵ھ -- ۱۵۶۷ء المطبعتہ العربیۃ حلب ۔
اس میں حضرت علیؓ کی یہ روایت درج ہے۔ اس امت کے نبی کے بعد اس کے افضل ترین لوگ ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں۔ اور اگر تم چاہو کہ تمہارے لئے تیسرے کا نام بھی بیان کروں تو میں اس کا نام بھی بتاتا ہوں۔ اور کہاکوئی مجھے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر ترجیح نہ دے ورنہ میں اسے سخت کوڑے ماروں گا۔
یہ اس زمانے کی روایت ہے جب آپ خلیفہ ہوچکے تھے۔ منصب خلافت پر فائز ہوچکے تھے۔ جبکہ خود شیعہ تشریح کے مطابق تقیہ کی کوئی بھی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ اگر نعوذ باللہ پہلے تھی۔ ہم تو اس کا بھی انکار کرتے ہیں۔ تو جب خود منصب خلافت پر بیٹھ چکے تھے پھر تقیے کا کونسا موقعہ تھا؟
فرماتے ہیں افضل ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں۔ اور کوئی مجھے ابوبکرؓ اور عمرؓ پر فضیلت نہ دے ورنہ میں اسے سخت کوڑے ماروں گا۔ اب یہ بھی ہمارے میر صاحب (Mir Ahmad Ali) شکر کریں کہ اس زمانے میں نہیں پیدا ہوگئے۔ پتہ نہیں کیا حال ہونا تھا۔ جو یہ باتیں کہہ چکے ہیںان پر تو چمڑی ادھیڑ دی جاتی ساری اور حضرت علیؓ کے ہاتھوں۔ پھر فرماتے ہیں’’آخری زمانے میںایک قوم ایسی بھی ہوگی جو ہماری محبت کا دعویٰ کرینگے اور ہمارا گروہ ہونگے لیکن وہ اللہ کے شدید بندے ہونگے جو ابوبکرؓ اور عمرؓ کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ تو وہ شیر خدا نے کیسا الٹایا ہے؟ اور حضرت علیؓ کی زبان سے الٹا دیا۔وہ حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ کو ’’شرالناس‘‘ کہتے تھے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ تم شر الناس ہو۔ جو ان خدا کے پاک بندوں کو شرالناس کہہ رہے ہو۔
پھر حضرت علیؓ فرماتے ہیں۔ یہ منار الھدیٰ صہ۲۷۳ سے روایت لی گئی ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا۔
’’جب ابوبکرؓ کی وفات کا وقت آیا تو آپ نے حضرت عمرؓ کو بلا کر انہیں خلیفہ مقرر کیا۔ پس ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اور خیر خواہی کی۔ اور حضرت عمرؓ امر خلافت کے والی ہوئے۔ پس آپ کی سیرت نہایت پسندیدہ اور آپ کی خلافت حد درجہ بابرکت تھی۔‘‘
یہ ہیں خدا کے متقی لوگ آپس میں ایک دوسرے سے بغض نہیں کرتے بلکہ محبت کرتے ہیں۔ اور حضرت علیؓ کی زبان سے آپ کسی شیعہ کتاب میں آپ کوئی حوالہ نہیں پڑھیں گے کہ انہوں نے نعوذ باللہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے خلاف تبرا کیا ہو۔ یہ بدبخت رسم اس زمانے کی ہے ہی نہیں۔ یہ بعد کی باتیںہیں۔ شیعہ عوام الناس بے چاروں کو پتہ ہی نہیں کہ یہ کیا ہورہا ہے ہمارے ساتھ۔یہ مجلسی لوگ آپس میں بیٹھے باتیں کرتے رہتے ہیں اور اپنا دین تو ناپاک بناتے ہی ہیں ۔عوام الناس کا بوجھ بھی ان پر پڑے گا۔ یہ بار بھی ان کی گردنوں پر ہوگا جب یہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونگے۔کشف الغمہ کا اب ایک حوالہ سنئے ! بڑا فیصلہ کن حوالہ ہے۔ اوریہ چوتھے امام ہیں۔ حضرت امام زین العابدینؒ۔
حضرت علیؓ پہلے امام۔ حضرت امام حسن ؓ دوسرے امام حضرت امام حسینؓ شہید کربلا تیسرے امام اور چوتھے امام جن کا بہت بڑا مرتبہ ہے۔ شیعہ عقائد میںحضرت امام زین ؒ العابدین ہیں۔ کشف الغمہ میں ہے۔
سعید بن مرجانہ نے کہا کہ میں ایک دن علی بن حسین امام زین العابدین کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ لوگ اہل عراق مین سے آپ کے پاس آئے ۔ تو انہوں نے ابوبکرؓ ‘ عمر ؓ ‘ اور عثمان کی شان میں کچھ ناشائستہ باتیں کہیں (یعنی حضرت امام زین ؒ العابدینکے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے حضرت ابوبکرؓ ‘ عمر ؓ اور عثمان کی شان میں کچھ ناشائستہ باتیں کہیں ) جب وہ اپنی بات سے فارغ ہوگئے تو امام زمین العابدین نے فرمایا:کیا تم مجھے نہیں بتائو گے کہ آیا قرآن میں جو لکھاہے کہ تم وہ مہاجرین اولین ہو جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکالے گئے۔ وہ اللہ کی بخشش اور رضامندی چاہتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے رہے اور یہی لوگ سچے ہیں۔ کیا تم وہی ہو ؟ باتیں بنانے والے۔ کیا تم اس گروہ سے تعلق رکھتے ہو جو اس طرح خدا کی خاطر اولین مہاجرین میں سے پیدا ہوئے جنہوں نے رسولؐ کا ساتھ دیا جن کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ وہ ان سے راضی ہوا۔ ان کے ساتھ یہ سلوک فرمائے گا۔ تم وہ تو نہیں ہو ناں؟ انہوں نے کہا نہ نہ ہم تو نہیں ! ہم تو بعد کے پیدا ہونے والے لوگ ہیں وہ کیسے ہوگئے۔ انہوں نے جواب دیاکہ ایسا نہیںہے ہم تو ان مہاجروں میں سے نہیں ہیں۔کہا: اچھا تو کیا تم ا ن لوگوں میں سے ہو جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں آگے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ وہ مدینہ میں یعنی مہاجرین کے آنے سے پہلے رہتے تھے اور ان کے آنے سے پہلے ایمان لاچکے تھے اور وہ ان سے محبت رکھتے تھے۔ جو ان کے پاس ہجرت کرکے آئے اور اپنے دلوں میں اس مال کی نہ رکھتے تھے جس سے ان کو دیا گیا۔ اور اپنے نفسوں پر مہاجرین کو ترجیح دیتے تھے خواہ خود ان پر تنگی ہو۔
پوچھا : کیا تم وہ انصار ہو۔ جنہوں نے آنے والوں کیلئے ایسی ایسی قربانیاں پیش کی تھیں۔ کہ بعض حاضر ہوئے رسول اللہؐ کی خدمت میں کہ ہمارے بعض بھائی غیر شادی ہیں ہماری ایک سے زائد بیویاں ہیں اگر حکم ہو تو ہم ان کو طلاقیں دے دیتے ہیں تاکہ ان کی ان سے شادیاں کروادیں۔ اور ہم اپنے گھر پیش کرتے ہیں اور اپنے مال پیش کرتے ہیں۔ نصف نصف کردیں ان کو جہاں سے چاہتے ہیں۔ یہ ہمارے بھائی ہیں۔ خدا کی خاطر ان کے مال لوٹے گئے۔
امام صاحبؒ نے فرمایا : بتائو کہ تم وہ انصارؓ ہو جن کا قرآن میں ذکر ملتا ہے یا کچھ اور لوگ ہو؟
انہوں نے کہا : نہیں نہیں ہم وہ تو نہیں ہیں۔
پھر حضرت امام زین ؒ العابدین نے فرمایا : آگاہ رہو تم نے دونوں گروہوں میں سے ہونے کی برأت کردی ہے۔ یعنی قرار کرلیا ہے کہ ان دونوں گروہوں مین سے تم نہیںہو مان بیٹھے ہو۔ اپنے اوپر فرد جرم قائم کرلی ہے۔ اب اگلی بات سن لو اور میںیہ گواہی دیتا ہوں کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخری حصہ میں فرمایاکہ جو لوگ ان کے زمانے کے بعد آئے وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے۔ ان مہاجرینؓ کو بھی بخش دے۔ ان انصارؓ کو بھی بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ہمارے دلوں میں مومنوں کاکینہ نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے رب! توبہت مہربان اوربے انتہا کرم کرنے والاہے۔ کتنی عظیم الشان دلیل ہے اور کیسے علم کیساتھ ان بدبختوں کو جواب دیا گیا ہے۔ پہلے پوچھا تم مہاجرینؓ تو نہیں ہو ناں؟ کہا نہیں نہیں۔ انصارؓ؟ نہیں نہیں انصارؓ ہم کیسے ہوگئے۔ کہا تم نے دو گواہیاں دے دیں۔ اب میری گواہی سن لو کہ اس آیت میں جن نیک لوگوں کا ذکر ہے کہ ان پہلوںپر سلامتیاںبھیجتے اور دعائیں کرتے تھے اوریہ عرض کیا کرتے تھے اللہ سے ،خدا سے کہ اے خدا ! کبھی ان کا کینہ نہ ہمارے دل میں پیدا ہونے دینا۔ میں گواہی دیتا ہوں تم وہ نہیں ہو۔ تم کینہ ور لوگ ہو۔ اٹھ جائو اور میری مجلس سے الگ ہوجائو۔ یہ کونسا تقیہ کا موقع تھا اس وقت ؟ اور دلیل اتنی مضبوط ہے کہ تقیہ اور غیر تقیہ کا سایہ بھی اس آیت پہ نہیں پڑ سکتا کوئی۔ اپنی ذات میں ایک عظیم الشان چڑھا ہواسورج ہے،
٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 11 رمضان المبارک
آج 157 آیت سے شروع کرنا ہے نا۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھا الذین اٰمنوا لا تکونوا کالذین کفروا ……… و استغفرلھم و شاور ھم فی الامر ج فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ط ان اللہ یحب المتوکلین O (ال عمران160-157)
اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو ان کی طرح نہ ہوجائو جنہوں نے انکار کیا اور اپنے بھائیوں سے کہا اذا ضربوا فی الارض جب وہ زمین میں سفر پر نکلے یا غزوے کے لئے سفر اختیار کیا‘ او کانوا غزی۔ لوکانوا عندنا ماماتوا۔ اگر یہ لوگ ہمارے ساتھ ہوتے تو کبھی نہ مرتے وما قتلوااور نہ قتل کیے جاتے لیجعل اللہ ذٰلک حسرۃفی قلوبھم یہ اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ یہ بات ان کے دلوں میں یہ ہمیشہ حسرت بنائے رکھے واللہ یحی و یمیت جبکہ اللہ ہی ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے واللہ بما تعملون بصیر اور اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے جو تم کرتے ہو۔ سورہ آل عمران آیت 157۔
کل جو بحث گذری تھی جس میں میں نے حضرت امام زین العابدین کی ایک روایت بیان کی تھی کہ ایک آیت کے حوالے سے انہوں نے بعض ایسے بد زبانی کرنے والوں کی سرزنش کی جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما وغیرہ کے خلاف بد زبانی کرنے والے تھے۔ اس میں وہ پوری آیت یکجائی صورت میںپڑھ کرنہیں سنائی تھی۔ تو اب میں آپ کو سنا دیتا ہوں۔ وہ تین حصوں میں جو گفتگو ہوئی ہے وہ تینوں ایک ہی آیت سے تعلق رکھنے والے مختلف حصے ہیں جن سے حضرت امام زین العابدین نے استنباط فرمایا۔ والسبقون الاولون من المھجرین والانصار و الذین اتبعو ھم باحسان رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ واعدلھم جنت تجری تحتھا الانھر خلدین فیھا ابدا ذلک الفوز العظیم O لیکن اس میں اگلی جو دعائیہ تھی؟ دوسری آیت؟ نہیں یہ۔ وہ کہاں ہے یہ تو وہ نہیں ہے۔ اکٹھی کیوں نہیں رکھی؟ پھر یہ بات ہے ناظاہر کرنے والی اسی لئے میں نے کہا تھا کھول کر بیان ہوجانا چاہئے ریفرنس ایک ہی آیت کا دے رہے ہیں یا دو آیتوںکا دے رہے ہیں۔ دو آیتوں کا الگ الگ دے رہے ہیں۔ یہ آیت …والی نکالیں ناں وہ جو دوسری آیت ہے حشر کی۔یہ پوری لکھی ہوئی ہے؟ پوری ہے اچھا۔ ایک آیت سے دو استنباط انہوں نے فرمائے۔ دو حصوں میں۔ ایک مہاجرین سے متعلق اور ایک انصار سے متعلق اور وہ یہ آیت تھی جس کی میں نے تلاوت کی ہے۔ تیسرا حصہ جو استنباط کا ہے اس کا اس آیت سے تعلق نہیں بلکہ ایک اور آیت سے وہ استنباط فرمایا۔ وہ آیت سورہ حشر کی نویںاور پھر گیارھویں لکھا ہوا ہے؟ ایک آیت نو اور گیارہ کس طرح ہوگئی۔ نو دو گیارہ تو ہوسکتا ہے ۔ مجھے یاد تھا کہ ایک ہی آیت میںسارامضمون ہے۔ یہ اس میں سارا نہیں آجاتا اس آیت میں،میں ابھی آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں۔ پھر دیکھیں گے کہ آیا دوالگ الگ آیتوں سے مضمون لیا گیا تھا یا کہ ایک ہی آیت کے مختلف حصے ہیں یا اوپرتلے آنے والی آیات سے۔ کونسا ہے یہ؟ یہ تین آیتیں ہیں اوپر تلے ایک ہی سورۃ کی، اس سے تین استنباط فرمائے گئے ہیں۔ اس ایک آیت میں دو جگہ دو باتیںاکٹھی ہوگئیں اس لئے غلطی سے وہ آیت پیش کردی گئی ہے ۔اصل جو تین آیات ہیں جو اوپر تلے مسلسل چل رہی ہیں ان کو چھوڑ کر دو الگ الگ جگہوں سے آیتیں ڈھونڈنے کا مطلب ہی کوئی نہیں۔ یہ ہے اصل۔ جہاں سے میں پڑھ کے سناتا ہوں۔
للفقراء المھجرین الذین ……………… ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلاللذین امنوا ربنا انک رؤف’‘ رحیم O
اس کا مطلب یہ ہے۔ مضمون یہ چل رہا ہے۔جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو کبھی غنیمت حاصل ہوتی ہے یا اور اس قسم کے فوائد پہنچتے ہیں ان کے مصارف میں ایک مصرف یہ ہے کہ مہاجرین پر بھی اس کو خرچ کیا جائے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد جو پانچواں حصہ کیا جاتا تھا۔ یہ خیال بالکل جھوٹا اور باطل ہے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات پر استعمال کرکے اس حصے کو خالصتہً اپنے لئے وقف کرلیتے تھے۔ بلکہ اس کے مختلف مصارف تھے جن میں سے اپنے اوپر کم سے کم تھا اور زیادہ سے زیادہ ضرورت مندوں اور محتاجوںکے لئے جن کی فہرست قرآن کریم نے خود مرتب فرمائی ہے۔ اس ذکر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ للفقرآء المھاجرین الذین ساخرجوا من دیارھم ان مہاجروں کے لئے بھی ہیں جو فقراء ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔ اخرجوا من دیارھم جو اپنے گھروں سے نکالے گئے واموالھم اور اپنے مالوں سے جدا کئے گئے۔ان سے اموال چھین لئے گئے یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا ً لیکن ایسے فقیر نہیں ہیں کہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔ باوجود اس کے کہ انکے پاس کچھ بھی نہیں رہا صرف اللہ سے مانگتے ہیں۔ اسی سے دنیاکے فضل بھی طلب کرتے ہیں اور اسی سے اس کی رضا بھی چاہتے ہیں۔ وینصرون اللہ و رسولہ اولئک ھم الصادقون اور جو کچھ بھی ان کے پاس ہے یا نہیں ہے‘ جس حالت میں بھی وہ ہیں وہ ہمہ وقت اللہ اور اس کے رسول کی مدد پر تیار رہتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو صادق کہلاتے ہیں جو سچے لوگ ہیں یہ ہیں وہ مہاجرین جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یا بعد میں آئے اور ان سب میں وہ سب بزرگ شامل ہیں جن کے اوپر میر احمد علی صاحب نے زبان دراز کی ہے اور دیگر شیعہ بھی بہت سے ‘ اللہ کرے کہ سب نہ ہوں ا نکو گالیاںدینا اوران پر لعنتیں ڈالنا اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اور قرآن یہ فرما رہا ہے اسی طرف حضرت زین العابدین نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے ۔ ان آیات کی طرف کہ پڑھو یہ آیت کہ تم خود وہ مہاجرہو ایسی باتیں کررہے ہو بیہودہ۔ جن کے متعلق خدا نے یہ فرمایا تھا۔ یہ بہت ہی فصیح و بلیغ کلام ہے مطلب یہ ہے کہ تم وہ نہیں ہو جن سے خدا راضی ہوا تھا۔ تم وہ ہوکہ جن سے خدا راضی ہوا ان کے متعلق بکواس کررہے ہو پھر دوسری آیت یہ ہے۔
والذین تبوء و ا الدار و الایمان من قبلھم وہ لوگ جو تبؤ و الدار والایمان جنہوں نے اپنے گھر تیارکئے والایمان اور ایمان من قبلھم ان سے پہلے ہی۔مطلب یہ ہے کہ ان کے آنے سے پہلے۔ مہاجرین کے مدینہ پہنچنے سے پہلے کچھ ایسے نیک لوگ مدینے میں تھے جنہوں نے ان کو خوش آمدید کہنے کے لئے اپنے گھر بھی تیار کئے اور اپنے ایمانوں کو بھی سجایا اور بہت خوبصورت اندازمیں ان کی مہمان نوازی کے لئے تیار ہوئے یحبون من ھاجر الیھم وہ ہراس شخص کو جو ان کی طرف ہجرت کرکے آتا تھا اس کووہ محبت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اس سے بہت پیار کرتے تھے اپنے اوپر چٹی نہیں سمجھتے تھے۔ ولا یجدون فی صدور ھم حاجۃًمما اوتوا اور کبھی ان کے دل میں اس چیز کی تمنا پیدا نہیں ہوئی جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی۔ یعنی مہاجرین پرجو خدا نے فضل نازل فرمائے بعد میں کئی طرح کے ان کو بھی خداتعالیٰ نے تجارتوں کے موقعے دیئے دولتمند ہوئے۔ اپنا سب کچھ ان کیلئے حاضر کردیا لیکن ان کے مال میں کبھی حرص کی نظر نہیں ڈالی۔ نہ دل میں تنگی محسوس کی کہ یہ لوگ کیوں اتنے امیر ہورہے ہیں اور اتنے اللہ تعالیٰ ان پر فضل نازل فرما رہا ہے۔ مما اوتوا میں یہ بھی مراد ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی ان کے لئے کچھ مال الگ کیا ان پر کچھ خرچ کیا اس وجہ سے کہ وہ سب کچھ گنوا بیٹھے تھے اس پر ان کے دل میں کوئی جلن پیدا نہیں ہوئی یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ فرماتا ہے ۔ ویوثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃکہ ایسے پاک باز لوگ ہیں کہ باوجود سخت تنگی کے خود بھی شدید مالی بحران کا شکار ہوں۔ تب بھی دوسروں کو اپنے نفسوںپر ترجیح دیتے ہیں اور اللہ کی خاطر ان پر خرچ کرنے والے ہیں۔ ومن یوق شح نفسہ فاولئک ھم المفلحون اور سچ بات تو یہی ہے کہ جو دل کی کنجوسی سے بچایا جائے وہی ہے جو کامیاب ہونے والا ہے۔ وہی لوگ ہیں جو کامیاب ہوا کرتے ہیں۔
والذین جاء وا من بعدھم ۔ یہ آیت پڑھ کر یعنی اس آیت کا مضمون بیان کرکے حضرت زین العابدین یہ دوسرا حصہ بیان کرکے فرماتے ہیں۔ اعتراض کرنے والوںسے پوچھتے ہیں کہ تم وہی ہو جن کی یہ کیفیت تھی کہ مہاجرین پر جانیں نچھاور کرنے والے مال لٹانے والے ان کو جو خدا نے فضل دیئے ان سے قطعاً دل میں کوئی بوجھ محسوس نہ کرنے والے اورباوجود سخت تنگی پھر ان کی خاطر کے اپنے نفسوںکا حق مار کر ان پر اموال خرچ کرنے والے کیا تم وہی لوگ ہو؟ انہوں نے کہا نہ نہ ہم تو وہ لوگ نہیں۔ مطلب یہ تھا کہ تم ان پر بھی زبانیںدراز کررہے ہو۔ جنہوں نے یہ قربانیاں کی تھیں پھر ایسے لوگ بھی تھے جو بعدمیں آئے ان کی تعریف کیا بیان کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے۔ و ہ کیسے پاک لوگ تھے جو ان کے بعد آئے۔ لیکن پھر بھی خدا کے ہاں پاک بازوں کی فہرست میںلکھے گئے۔ وہ ہیں والذین جاء وا من بعدھم پھروہ لوگ جو ان کے بعد آئے یقولون ربنا اغفرلنا و لاخواننا وہ تو یہ کہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے الذین سبقونا بالایمان جو ہم سے ایمان میں سبقت لے گئے وہ پہلے لوگ جوپہلی نسل سے تعلق رکھنے والے ہم سے ایمان میں سبقت لے گئے ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین امنوا اور اے خدا ان ایمان لانے والوں کے خلاف ہمارے دل میں کبھی کوئی کینہ نہ داخل ہونے دینا۔عجیب پاک تعلیم ہے۔ کبھی ہمارے دل میں کوئی کینہ ان کے متعلق داخل نہ ہونے دینا۔ ربنا انک رؤف رحیم ۔ اے اے خداتو تو بہت ہی مہربان اور بار بار رحم فرمانے والا ہے۔ حضرت زین العابدین نے ان ظالموں کو مخاطب کرکے پوچھا آخر پہ کہ تم تو وہ تو نہیں تھے بہرحال وہ صحابہؓ تھے پہلے کے۔ تم ان میں ہو؟ تم تو ان میں بھی نہیں ہو۔ لیکن یہ کہنے کی بجائے فرماتے ہیں پہلی دو گواہیاں تو تم نے دیدیں کہ نہ تم مہاجرین میں سے ہو نہ انصار میں سے ہو۔ اب میں گواہی دیتا ہوں کہ اے بدبختو ! تم ان میں سے بھی نہیں ہو۔ کیونکہ تم نے ان کے خلاف زبانیں دراز کیں اور اپنے دلوں میں کینے پالے۔ یہ پاک مسلک ہے جس کے اوپر امت محمدیہ آج اکٹھی ہوسکتی ہے اس کے سوا کوئی مسلک نہیں ہے جس پر امت محمدیہ اکٹھی ہوسکے پس جو پہلے بزرگ گزر گئے ہیں ان کے متعلق یہ بحثیںبیہودہ اور لغو ہیں چھوڑ دو ان بحثوں کو کہ کس کا کیا قصورتھا۔مجھ سے تو جماعت احمدیہ میںکئی دفعہ سوال جواب کی مجالس میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا ہے مجالس میں‘ میں ان کو یہ کہتا ہوں کہ تم ان لغو باتوں میں پڑو ہی نہ۔ کبھی اچھا لگتا ہے کہ بچے بیٹھ کے ماں باپ کے متعلق باتیں کررہے ہوں کسی کی کیا غلطی تھی‘ کسی نے کیابیہودہ بات کی تھی‘ نعوذ باللہ من ذلک۔ یہ وہ بزرگ ہیں سارے جو خدا کے حضور حاضر ہوچکے ہیں‘ اورقیامت کے دن فیصلہ اللہ نے دینا ہے نہ کہ تم نے یا میں نے۔ ہم میں سے تو کوئی نہیں بلایا جائے گا ۔ پھر تاریخ کے ایک ایک صدی کا ایک پردہ حائل ہے جس میں کئی پردے اور بھی ایسے ہیں‘ جن سے باتیں مشتبہ ہوگئی ہیں تو چودہ سو سال کے ایسے پردے ہمارے اور ان کے درمیان حائل ہیں‘ اس میں کئی قسم کی مشتبہہ روایات ہیں‘کئی قسم کی‘ کے شبہات ارادۃً بھی داخل کئے گئے‘ کئی ایسے ہیں جو بغیر ارادے کے داخل ہوگئے۔ تو ساری تاریخ کے پردوں میں سے گزر کر ہم آج عالم الغیب و الشہادۃ بنتے ہوئے یہ فتوے دینا شروع کریں ان لوگوں کے متعلق ‘ جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے کہ انہوں نے یہ ظلم کیا انہوں نے وہ ظلم کیا‘ ان کو گالیا ں دینا‘ ان پر لعنتیں ڈالنا ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ یا کسی کے ایمان کا حصہ ہے ‘ یہ حد سے بڑی جہالت اور ایمانی خود کشی ہے۔پس اخلاقاً بھی یہ بات زیب ہی نہیں دیتی قطع نظر اس کے کہ کوئی غلطی تھی کہ نہیں تھی۔ ان بزرگوں کے معاملات اللہ کے سپرد کردیں‘ اور ابتدائی اختلافات کو اس طرح نہ چھیڑیں کہ آپ حکم بن کر لوگوں کے خلاف فتوے دینے شروع کریں۔ کئی لوگ فتویٰ مانگتے ہیں جنگ صفین میں کیا ہوا؟ جنگ جمل میں کیا ہوا؟ کس کو تم کیا کہو گے؟ میں کہتا ہوں میں کسی کو کچھ نہیں کہوںگا۔ میرے نزدیک تو وہ ان گروہوں میں سے تھے جن کا ان تین آیات میں ذکر ملتا ہے۔ اللہ مالک ہے وہ جس سے چاہے بخشش کا سلوک فرمائے گا۔ جس سے چاہے اس سے سرزنش فرمائے گا مگر ہمارا نہ کام ہے نہ ہم اس بات کے اہل ہیں‘ نہ ہماری مجال ہے کہ ان بزرگوں کے متعلق آج بیٹھ کر فتوے دینا شروع کریں اور عدالت کی کرسی جمائیں اور ان کو اپنے سامنے فریقین بنا کرحاضر کریں۔ پس یہ وہ معصوم موقف ہے جو میں جماعت احمدیہ کو سمجھاتا ہوں کہ اس کو چمٹے رہنا چاہئے۔ ہاں جب گفتگو بحثوں میں چل پڑتی ہے‘ ایک دوسرے کے جواب دینے کے لئے‘ جب بعض ظالم بعض پاک لوگوں پر حملہ کرتے ہیں‘ تو ان کے دفاع کی خاطر محض دفاعی حد تک جہاد کرنا فرض ہے۔ مگر دفاع سے آگے بڑھ کر دوسرے بزرگوں کو کے اوپر ‘ کو حرف تنقید کا نشانہ بنانا یہ درست نہیں وہاں رک جایا کریں۔ جہاں دفاع ہوا وہاں بات ختم ہوگئی۔ کبھی انسان جذبات سے مجبور ہوکر کوئی غلطی کر بھی بیٹھے تو استغفار کرنا چاہئے ۔ مگر دفاع تک ہمارا حق بھی ہے‘ فرض بھی ہے۔ اس سے زیادہ آگے بات کو بڑھانا جائز نہیں۔ یا بعض لوگ بڑی جلدی کردیتے ہیں‘ ہاں پھر اس صورت میں حضرت عائشہؓ نے یہ کیا ہوگا پھر‘ یہ فتویٰ لگے گا ان کے اوپر‘ یا حضرت علیؓ کے اوپر یہ فتویٰ لگے گا نعوذ باللہ من ذلک‘ کیونکہ ان کے مقابل‘ خارجیوں کے مقابل پر نعوذ باللہ من ذلک ‘ یہ غلطی کر بیٹھے‘ یہ غلطی کر بیٹھے بعد میں حضرت عثمانؓ کے قاتلوںکو سزا دینے کی بجائے‘ یعنی کئی قسم کے الزامات لوگ لگاتے رہتے ہیں یہ سب بے ہودہ‘ لغو بحثیں ہیں‘ جماعت احمدیہ کو ان سے اجتناب کرنا چاہئے‘ سوائے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض دفاعی لوازم کے پیش نظر جو ہم پر فرض ہوجاتے ہیں‘ ہمیں کچھ نہ کچھ اب بزرگوں کا دفاع کرنا پڑے گا‘ اپنے بزرگوں پر حملہ نہیں کرنا۔ یہ تھی وہ ‘ وہ تین آیات تھیں‘ جن کے حوالے سے حضرت امام زین العابدین نے بات فرمائی اور حضرت امام باقرکے متعلق بھی ایسی ہی روایت ملتی ہے کہ آپ نے بھی انہی سے استنباط کرتے ہوئے بعض مخالفین کے دانت کھٹے کئے تھے۔
اب میں اس آیت کی طرف واپس آتا ہوں۔لیجعل اللہ ذلکیہ پورا پڑھ چکا ہوں میں۔اذا ضربوا فی الارض اوکانو ا غزیجہاں تک لفظ ضرب کا تعلق ہے یہ خاص طور پر قابل ذکر بات ہے کہ جو عیسائی مستشرقین ضرب کا لفظ استعمال کرتے ہوئے اس کے معنے لکھتے ہیں۔جو ایسا سفر جو تجارت کی غرض سے کیا جائے اور دوسرے سفر معنیٰ نہیںدیتے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے سفر صرف دو تھے اور کوئی غرض ہی نہیں تھی یا وہ تجارت کے لئے نکلتے تھے یعنی مال و دولت کے لئے یا لوٹ مار کے لئے جہاد کرنے کیلئے‘ تیسری کوئی ان کی غرض نہیں تھی اور اس کا لغوی معنیٰ ضرب کا صرف یہی دیتے ہیں کہ مالی اغراض کے لئے سفر اختیار کرنا۔ویری صاحب کہاں گئے؟ Bell ہیاعر یہ ہیں۔ یہ نہیںہیں اس میں کہاں ہیں حوالے؟ اچھا وہ دوسری آیت میں دکھادئیے ہیں میں نے‘ پہلے کیوں نہیں بتایا؟ ساری جگہیں پھول بیٹھا تب آپ کو یاد آیا۔
Watt کہتا ہے منٹگمری واٹ
When the journey for trade is probebly implied just as expeditions or race for booty.
کہتا ہے جس طرح ظاہر ہے غزوات سارے bootyکی خاطر تھے یعنی لوٹ مار کے لئے۔ اسی طرح یہ Trade کا مطلب بھی بالکل واضح ہے کہ صرف اموال کی مال و دولت کی خاطر سفر رہا‘ اور کوئی سفر مراد نہیںہوسکتا۔ یہ Watt صاحب ہیں جن سے عرب شہزادے بڑے فخر سے پڑھنے آتے ہیں اور ان کا یہ بڑا شہرہ ہے کہ وہ منصف مزاج نئی generation کے مستشرق ہیں۔
اور ویری صاحب جو ہیں یہ کہتے ہیںwith a view to merchandiseیہ ترجمہ ہے اس کے سوا کوئی ترجمہ ہی نہیں۔اب ایک اور دلچسپ بات ظاہر ہوئی اس تحقیق میں۔ میں نے جب عربی لغات کا مطالعہ کیا تو مجھے‘ جن کے سپرد میں نے کیا تھا انہوں نے کہاکہ اب ڈکشنریاں تو یہی دیتی ہیں کہ trade کی غرض سے سفر۔ میںنے کہا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا یہ ناممکن ہے۔ کون سی ڈکشنریاں دیتی ہیں‘پتہ لگا دونوں عیسائی ڈکشنریاں ہیں۔ Lane اور منجد دونوں عیسائیوں کی ڈکشنریاں ہیں اور عجیب ظلم ہے کہ یہ اپنے مستشرقین کو تقویت دینے کے لئے باوجود اس کے کہ بڑے مستند سمجھے جاتے ہیں‘ ان معنوں کوغائب کرجاتے ہیں جن معنوں کو انہوں نے عمداً غائب کیا ہے اور جو مسلمان مصنفین اور بڑے بڑے چوٹی کے علماء کی ڈکشنریاں ہیں ان میں کھل کر سارے معنے بیان کئے جاتے ہیں۔ ایک یہ بھی ہے اور دوسری اغراض بھی ہیں سب۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں کہ منجد اور lane دونوں ان معنوں کو کھا جاتے ہیں یعنی ان معنوں کو پیش کرتے ہیں کہ تجارت کی غرض سے سفر ہے اور دوسرے معنوں کو کھا جاتے ہیں۔ جب کہ دوسری ڈکشنریاں جن میں سب سے نمایاں حضرت امام راغبؒ ہیں مفردات راغب‘ وہ بڑی تفصیل سے بحث کرتے ہیں کہ ضرب کا مطلب کسی قسم کا سفر بھی ہے۔ بلکہ ایک بہت ہی عمدہ نکتہ اس سلسلے میں حضرت امام رازیؒ نے بھی اٹھایا ہے وہ میں آپ کو بعد میں بتائوں گا اور اقرب الموارد ہے وہ لکھتی ہے
ضرب فی الارض ضربا و ضربانا ای خرج تاجرا او غاز یا او ا سرع او ذھب۔ اسرع الذھاب فی الارض: فراراً من الفتنکہتا ہے کہ سفر جو ہے ضرب کے تابع سفر کا مضمون اس میں تاجر کی‘ تجارت کی غرض سے سفر بھی شامل ہے۔اور جہاد کی غرض سے سفر بھی شامل ہے اور اسرع اور تیزی سے کسی طرف روانہ ہوا او ذھب یا ویسے ہی چلا گیا ۔اور اسرع الذھاب جب کہتے ہیں تو مراد ہے فتنوں سے بچنے کے لئے تیزی سے اپنی جگہ چھوڑی اور دوسری جگہ چلا گیا ۔ پس وہ تمام مہاجرین جنہوں نے سفر اختیار کیا ‘فتنے سے بچنے کے لئے ‘وہ بھی ذھاب ہے کسی مال ودولت کی خاطر تو نہیں ‘مال و دولت قربان کرکے سفر اختیار کیا ہے ۔مال و دولت تو گھر چھوڑ آئے تھے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی آپس میں Cliqueان کے یعنی دشمنان اسلام کی جو سازش ہے بہت گہری ہے ۔اس کو اب مسلمان اب پتا نہیں کیوں سمجھتے نہیں ۔آرام سے گھر بیٹھے ہوئے ہیں ۔اس ضمن میں میں نے ایک دفعہ غور کیا تو میں حیران رہ گیا یہ دیکھ کر کہ آج تک کبھی کسی مسلمان کو یہ توفیق نہیں ملی کہ بائبل کی Commentary لکھے جب کہ انہوں نے قرآن کی Commentaryکے اوپر بغض کی وجہ سے ٹھیکہ لیا ہوا ہے اور ان کی Commentaries کو ہر جگہ Quoteبھی کیا جاتا ہے لیکن کوئی مسلمان مفسر ان کا جواب نہیں لکھتا پھر ۔بڑی دردناک حالت ہے اسلام کی ۔اسلام کے دفاع کے لئے خداتعالی نے احمدیوں کو چنا ہے ‘اور احمدی ہی ہیں جو جواب دے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے ہمیشہ انشاء اللہ ۔ اس پر جب میں نے جائزہ لیا تو عجیب بات لگی کہ کسی نے کبھی نہ ہندو نے نہ بدھ نے نہ زرتشی نے نہ کنفیوشس کے ماننے والے نے ان کی کتابوںپر کمنٹریاں لکھی ہیں اور انھوں نے ان کی کتابوں پر لکھی ہیں یعنی یہ جو ایک خاص دور تھا کالونی ازم کا ‘ Imperialismجب دنیا پر غالب ہوا تھا تو یہ اس کا ‘اس کیPlan کا ‘اسکی سکیم کا ایک حصہ تھا کہ جن جن علاقوں میں جاتے ہو ‘ان کے مذاہب پر حملے کرو اور ان کو عیسائیت کا غلام بنائو ۔اس غرض سے ان لوگوں نے بہت محنتیں کی ہیں ۔مگر نیتیں گندی تھیں ہر جگہ نیتیں Imperialismکو تقویت دینا تھا اور عیسائیت کا فروغ ‘ اس لئے تاکہ ان کے سیاسی عروج کو تقویت حاصل ہو ۔اور مسلمانوں نے خصوصًا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کس قدر بے حسی کا نمونہ دکھایا ہے کہ مقابل پر آگے بڑھ کر ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا جو یہ ہم سے کر رہے تھے جب کہ بہت زیادہ گنجائش ہے ۔اس لئے میں نے یہاں ایک ٹیم تیار کرنی شروع کی ہے احمدی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ‘جن سے میں ریسرچ کے کام لے رہا ہوں اس وقت ۔بہت سے حوالے جو مختلف مستشرقین کے ملتے ہیں وہ ان بچوں اور بچیوں نے تیار کر کے مجھے دیے ہیں اور بہت سی پروجیکٹس شروع کی ہوئی ہیں اور ‘ اور Bible Study Projectsبہت سی ایسی ہیں جن میں یہ بہت اخلاص سے حصہ لے رہے ہیں ۔بیسیوںاحمدی لڑکے اور لڑکیاں ہیں جو تیار ہو رہے ہیں ان کو میں نے یہ بتایا ہے کے بالآخر میں نے تمہیں بائبل کی Commentaryلکھنے کے لئے تیار کیا ہے ۔میں Specialiseکروں گا مختلف حصوں میں اور اگر خدا کے کے نزدیک میرا یہاں کچھ عرصہ اور ٹھرنا مقدر ہو تو انشاء اللہ اپنی نگرانی میں یہ کام شروع کروا دوں گا ۔ جہاں تک بائبل کی Commentaryکا تعلق ہے یہ خیال آج کا نہیں ہے بلکہ پارٹیشن کے بعد جب ہم ربوہ آئے تو شروع دنوں ہی میں ‘میں نے یہ کام شروع کردیا تھا ۔وقف جدید میں ‘میں ان دنوں میں ہوتا تھا وہ خالد مسعود جو آجکل ناظر صاحب امور عامہ ہیں ‘ان سے بھی مدد لیتا رہا ہوں دوسرے علماء سے بھی ‘مولوی بشیر صاحب قادیانی کو بھی ایک دفعہ اس کام پر لگایا تھا تو ان سب سے مدد لیتے ہوئے وہ آیتیں اکٹھی کرواتا رہا جن کے مقابل پر کچھ بائبل کے بیان ہیں اور ان کو آمنے سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔اور جو بات سامنے ابھری ہے بڑی کھل کر ‘جس کو آئندہ تمام تحقیقات انشاء اللہ ہمیشہ تقویت دے گی وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جہاں بھی بائبل کے کسی حوالے کو گویا سامنے رکھتے ہوئے بات کی ہے کبھی بھی وہاںنقل نہیں اتاری ۔بلکہ بائبل کے حوالے میں جہاں تائید کی ہے وہ صرف وہی ‘اتنی جگہ ہے جس کو عقل تسلیم کرتی ہے ۔اور جس حصے کو چھوڑ دیا ہے اس کو قابل ذکر ہی نہیں سمجھا اور ہر معقول آدمی سمجھے گا کہ ہاں یہ قابل ذکر بات ہی نہیں ۔اور جہاں اختلاف کیا ہے وہاں ہمیشہ نامعقول بات پر اختلاف کیا ہے ۔اور نامعقول بات کو اللہ کی طرف منسوب نہیں فرمایابلکہ بائبل پر روشنی ڈالی ہے کہ یہ ہے اللہ کا کلام ‘جس کی ہم تصدیق کرتے ہیں ۔جس کو عقل بھی تسلیم کرتی ہے اور تاریخ بھی اس کے حق میں گواہی دیتی ہے ۔یہ ہے ناقابل ذکر فضول باتیں جو لوگوں نے بیچ میں داخل کر دیں ‘لیکن کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتیں ۔اور یہ وہ بات ہے جس کی درستی ضروری ہے اللہ نے یہ کہا تھا یہ نہیں کہا تھا ۔اور بعض لکھنے والوں نے یا بعد میں باتیں بنانے والوں نے یہ باتیں بائبل کی طرف منسوب کردیں ‘تو بائبل کی تائید کی یہ مراد ہے ۔اس کے حق کی تائید نہ کہ اس کے ناحق کی تائید ۔اس کے طرف جو جھوٹے الزام لگائے گئے ہیں ان سے بائبل کی صفائی کرنا یہ ایک عظیم الشان خدمت ہے جو بائبل کی کی گئی ہے اور اس پہلو سے جب تحقیق کو میں نے آگے بڑھایا تو جہاں تک میں پہنچ سکا ‘ہمیشہ بلا استثناء ان تینوں محرکات میں سے ایک موجود پایا ۔اور اس بناء پر یہ تحقیق لازم ہے ان کو دکھایا تو جائے کہ تم ہو کون لوگ ۔تم کیا ظلم کرتے آئے ہو اپنی کتابوں سے ۔اور بائبل کی حقیقت کیا ہے اسے قرآن بہتر سمجھتا ہے تم سے اور ایسا بہتر سمجھتا ہے کہ روز روشن کی طرح قرآنی بیان ظاہر اور کھل جاتا ہے اور خود بخود دلوں کو تسلیم کراتاہے ۔تو اس پہلو سے یہ سٹڈی ہوگی ۔میں یہ اعلان یہاں اس لئے کرنا چاہتا ہوںاس غرض سے کررہا ہوں دراصل کہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جن تک ہماری رسائی نہیں ہے۔ جہاں عیسائیوں نے بہت کام کئے ہوئے ہیں اور بائبل پر جب سٹڈی ہوگی تو ان سب کی‘ بڑا وسیع کام ہے‘ ان سب کی جو بائبل کی تحقیق ہے اس کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔ جس طرح ان لوگوں نے مسلمانوں ‘ مفسرین کی بھی بڑی سٹڈی کی ہے‘ ان کا مطالعہ کیا ہے۔ لیکن ایک فرق ہے اور اس فرق کی طرف بھی میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے جو مسلمان تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے اس میں بلا استثناء ہمیشہ ان کو چنا ہے جو خواہ اعتماد میں کچھ بھی حیثیت نہ رکھتی ہوں مگر اسلام کی طرف عجیب و غریب اوٹ پٹانگ خیالات منسوب کرنے میں پیش پیش ہوں‘اور تواریخ میں سے ان کو چنا ہے جن میں ہر قسم کا رطب و یا بس مل جاتا ہے‘ اچھی باتیں بھی ہیں اور لغو اور بے ثبوت باتیں بھی جیسے واقدی ہے۔ اور وہاں آپ پہنچ کر یہ پھر اپنی مرضی سے جو چاہیں اس پٹار خانے سے نکال لیں۔ یہ ان کا طریق ہے۔ احمدی محققین کو تقویٰ کا طریق اختیار کرنا پڑے گا پوری طرح تحقیق کریں اور جو سچ بات ہو اس کو پکڑیں اور بے ہودہ لغو اعتراضات میں اپنا وقت اور ایمان ضائع نہ کریں۔ اس لئے ان کو یہ بھی سکھانا ہے کہ تحقیق ہوتی کیا ہے۔ یہ نہیں کہ ان سے ان کی تحقیق کے رنگ سیکھ کر‘ خواہ وہ بے ہودہ اور خبیث رنگ ہوں‘ انہیں ہم بھی اختیارکرلیں۔ اور دوسرا ‘دوسری وجہ جو بات جو میںیہاں تمام دنیا کے احمدیوں کو سمجھانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس ضمن میں جیسا کہ میں نے کہا تھا‘ مختلف ممالک میں مختلف ادوار میں مستشرقین پیدا ہوئے ہیں۔ اور ان میں عرب ممالک بھی داخل ہیں۔ Egypt میں بہت بڑا کام ہوچکا ہے۔اور عیسائیوںنے وہاں اڈے بنانے کیلئے غیر معمولی‘ گہری سوچ کے ساتھ مہم جاری کی تھی‘ پھر فلسطین کے علاقے میںبھی اور Syria میں بھی‘ انہوں نے بہت کام کئے ہیں۔ ہندوستان کے بعد اگر وہ دو جگہیں جہاں غیر معمولی طور پر عیسائیت کو تقویت دینے کے لئے اسلام کے خلاف تحقیق ہوئی ہے یا عیسائیت کے متعلق تحقیق ہوئی ہے وہ یہ جگہیں ہیں نمایاں طور پر ۔ مصر ہے فلسطین ا ور شام اور یہ ایک زمانے میں ایک ہی چیز کے دو نام تھے‘ اس لئے جب Greater Syria کہا جائے اس میں فلسطین شامل ہوجاتا ہے یا Greater Palestine کہہ دیں تو Syria داخل ہوجائے گا۔ یہاں جو احمدی بستے ہیں‘ ان کو بھی اپنی ٹیمیں بنانی چاہئیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان خواہ ان کا یہ مضمون ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ یہاں جو میں نے دوست چُنے ہیں‘ رفیق حیات صاحب ماشاء اللہ اس معاملے میں خاص ملکہ رکھتے ہیں ٹیمیں بنانے میں اور اب وہ صدر تو نہیں لیکن کیونکہ تجربہ ان کو کافی ہوچکا تھا اس لئے ان سے میں نے فائدہ اٹھایا اور ان کے ذریعے سے ٹیمیں حاصل کیں اور لڑکیوں میں نویدہ شاہ ہیں‘ انکو اللہ نے خاص ملکہ عطا فرمایا ہے کہ وہ بچیوں کا دل موہ لیتی ہیں۔ان کو اپنے ساتھ دینی کاموں میں شامل کرتی ہیں۔ اس طرح یہ ٹیمیں بنائی گئی ہیں اور ٹیمیں صرف ان لوگوں سے نہیں چنی گئیں جو دینی علوم کی‘ دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں کسی قسم کی‘ یا عربی کی تعلیم حاصل کررہے ہیں‘ کوئی Scientist ہے ‘کوئی کمپیوٹر کا Specialist ہے کوئی کسی اور دنیا کی سائنس میں ماہر ہے کوئی Accounts کاماہر ہے۔مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ ہیں۔ ان کو تربیت دی جاتی ہے خاص Projects دے کر کہ تم نے اس Project پر سٹڈی کرنی ہے۔ بائبل کی Authenticity کیا ہے ۔ کب یہ تحریرمیں آئی اور خود ان لوگوں نے کیا ثابت کیا ہے کہ کس حد تک ہم اس پر اعتماد کرسکتے ہیں‘ ان کی Sources دیکھتے جائو۔ چنانچہ عجیب و غریب دلچسپ چیزیں سامنے آرہی ہیں۔ یہ اور بہت سی اور Projects ہیں جو ہم قریباً دو سال سے ان کے اوپر محنت کررہے ہیں اور بعض دفعہ تو ہر ہفتے دو تین ملاقاتیں ان گروپوں سے ضرور ہوتی ہیں اور جو کچھ وہ Projects پیش کرتے ہیں پھر ان کے اوپر گفتگو ہوتی ہے ان کو میں سمجھاتا ہوں کہ ا ب یہ راستہ اختیارکرو‘ یہ راستہ اختیار کرو وغیرہ وغیرہ۔ تو اس طرح کی Projects اکثر بڑے بڑے ملکوں میں جہاں ان کو چلاناممکن ہے‘ شروع کردینی چاہئیں‘ یورپ میںخصوصیت سے ہمیں دقت یہ پیش آتی ہے کہ جرمن محققین نے عیسائیت پر بھی بہت تحقیق کی ہوئی ہے اور اسلام پر بھی بعضوں نے‘ اور بعضوں نے نہایت معاندانہ رویہ بھی اختیار کیا ہوا ہے۔ جب تک اصل جرمن زبان میں وہ کتابیں پڑھنے کی اہلیت نہ ہو‘ حقیقت میں تحقیق کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ تو جرمن احمدی نوجوان جو خدام کے تابع ہوں اور بچیاں جو لجنہ کے تابع ہوں‘ اس قسم کی ٹیمیں بنا کر ریسرچ ورک شروع کردیں اور وقتاً فوقتاً ان کے خلاصے مجھے بھجواتے رہیں۔ تاکہ میں ان کو شروع سے ہی بتادوں کہ تم صحیح نہج پہ چل رہے ہو یا غلط یا یہاں یہ بہتری کی گنجائش ہے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح فرنچ میںبہت کام ہوا ہے اور اسلام کے خلاف انتہائی خبیثانہ حملے کرنے والوں میں بھی فرانسیسی مصنفین پیش پیش ہیں اور اسی طرح ان میں نسبتاً نیک مزاج لوگ بھی ہیں‘ اچھے محقق بھی ہیں اور عیسائیت پر بھی بڑی گہری تحقیق ہوئی ہے فرانس میں اور اس پر اسلام پر بھی لکھا گیا ہے۔ اسی طرح اٹلی ہے‘ اٹلی میں بھی بہت بڑے کام ہوئے ہیں۔ پھر روس کی لائبریری ماسکو کی‘ ساری دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ جو ابتدائی اہم کلاسیکل کتابیں ہیں علمی‘ ان میں غالباً ماسکو کی لائبریری کا کوئی جواب نہیں ہے دنیا میں۔ وہاں جو ہمارے احمدی ہوئے ہیں یا اس وقت باہر سے آکر زبانیں سیکھ رہے ہیں‘ ان کا فرض ہے کہ جہاں تک ہوسکے وہاں جائیں اور تحقیق کریں‘ بہت سے تحقیقات کے شعبے ہیں مثلاًبہائیت پر جو تحقیق ہوئی ۔ اس میں یہ بات سامنے آئی کہ بہائیت کا آغاز روسی انٹیلی جینس کی نگرانی میں ہوا ہے اور اس کا تعلق مغرب سے نہیں تھا یا روس کے علاوہ دوسرے مغربی یورپ سے نہیں تھا بلکہ وہاں ایک ایمبیسی میںایک شخص Posted تھا باقاعدہ اس غرض سے‘ اور مسلسل اس کی رہنمائی اور اس کی ہدایت میں یہ تحریک آگے بڑھتی رہی ہے اور اس میں جو شروع ہی میںہی افتراق پیدا ہوا ہے‘ اس میں بھی اس روسی نمائندہ کے افتراق کے نتیجے میں پھر دو گروہ بن گئے تھے وغیرہ وغیرہ۔ یحیی جس کو نقطہ کہا جاتا ہے اور بہاء اللہ جسے اللہ کی بہاء کہا جاتا ہے‘ خدا کا دوسرا نام بہاء کہا جاتا ہے‘ ان دونوں میں جو بہائیوںمیں جو اختلاف ہوا ہے‘ اس میں اس نے بڑا اہم کردار ادا کیا ۔ پھر اس نے روس جاکر روسی زبان میں اپنی ایک رپورٹ بھی پیش کی‘ جو اس زمانے میں ان کے رسالوں میں شائع ہوگئی اور وہ اب ہمارے علم میں آئی ہے‘ تحقیق کے دوران‘ اسی ‘ انہی گروہوں نے تحقیق جب شروع کی‘ تو بعض پرانے مقالے نکالے‘ ان میں بعض حوالے دیکھے‘ ان میں اب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے پس روس میں جو ان لائبریریوں تک دسترس رکھتے ہیں ہم نے مربی کو بعض حوالے بھجوادیئے ہیں‘ ان کا فرض ہے وہ ان خاص امور کی طرف بھی توجہ کریں اور خصوصی تحقیق کریں۔ کیونکہ محض الزام کافی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ جائز نہیں ہے کہ محض الزام پر بناء کرتے ہوئے کسی کو کچھ‘ کسی پہلو سے رد کردیا جائے۔ دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر الزام کی پوری تحقیق ہو۔ یہاں تک کہ آخر تک پہنچا جائے اور استنباط اس کوکہتے ہیں۔ قرآن کریم جو فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے پاس کیوں نہیں وہ معاملہ پیش کرتے‘ جنہیں خدا نے اس بات کی صلاحیت بخشی ہے کہ تقویٰ اور عقل کے ساتھ کسی چیز کا استنباط کریں۔ تو وہ آپ کو میںدیکھنا چاہتا ہوں جو قرآن نے مومنوں کا تصور پیش کیا ہے۔ اس پہلو سے جو لوگ روس میں میری بات سن رہے ہوں گے ان کو چاہئے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں لائبریریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس تحقیق کو آگے بڑھائیں۔ Spanish میں بھی مل جائے گا لیکن کم۔ کیونکہ Spanish نے تو اسلام کا اپنی طرف سے صفایا کرکے چھٹی کردی تھی ۔ لیکن زیادہ تر جو بعدمیں علمی کام ہوئے ہیں‘ وہ اس دور کی پیداوار ہیں جب کہ سپین سے بھاگنے والے یہودی اسلامی دور کے علوم لے کر مغرب میں پہنچے ہیں اور Sale بھی اسی دور کی پیداوار ہے۔ سولہویں صدی کے آخر پر‘ یہ انخلائ‘ سولہویں صدی کے آخر پر بڑا انخلاء ہوا ہے یہود کا۔ 1692ء میں جب کہ کثرت کے ساتھ ان کو وہاں سے نکال دیا گیا‘ اس سے پہلے مظالم تو جاری تھے لیکن رفتہ رفتہ نکلتے رہے۔ وہ ایک قسم کا Exodus ہوا ہے ان کا وہاں سے۔ اس کے بعد اسلام کی روشنی یعنی جو مسلمان علماء نے روشنی حاصل کی تھی قرآن سے اور دیگر علوم کے مطالعہ سے ‘ وہ ان یہودیوں اور دیگر بھاگنے والوں کے ذریعے فرانس میں داخل ہوئی ہے۔ پھر فرانس سے انگلستان اور جرمنی وغیرہ‘ یہ آہستہ آہستہ اس کا انتشار ہوا ہے۔ اسی دور میں اسلام کے ساتھ شدید عناد رکھنے والے مستشرقین پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ ان کو یہ خطرہ تھا کہ جس سے ہم نے روشنی پائی ہے‘ پہلے تو ہم ان کو ‘ جاہل انگریزوں کی پیداوار سمجھتے تھے‘ یہ تو بڑی‘ بڑے قابل لوگ ہیں۔ اور ان کا کہیں یورپ پر اچھا اثر نہ پڑ جائے۔ پس اس شدید ردعمل کے اظہار پر‘ کے طور پر پادریوں نے پھر اسلام کے خلاف سازشیں بنائی ہیں اور جو بھی مستشرق اس دور میں پیدا ہوئے ہیں‘ وہ چرچ کے پیدا کردہ تھے۔ تو یہ ساری باتیں ابھی تحقیق طلب ہیں مزید۔ تو اس ضمن میں چونکہ یہ ذکر چل رہا تھا‘ میں نے کہا میں اس وقت یہ بھی نصیحت کردوں کہ آپ لوگ اب ہر جگہ کمر ہمت کس لیں‘ وہ جوابی حملے جو ہم نے کرنے ہیں جو مقدر ہیں کہ ہمارے ذریعے ہونگے ‘ ان کا وقت آگیا ہے کہ پوری شدت سے کئے جائیں۔
آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اور تن تنہا کیا‘ حیرت انگیز۔ اتنا مقابلہ کیا ہے غیروں کا کہ یقین نہیں آتا کہ ایک انسان کی زندگی اتنا کچھ پیدا کرسکتی ہے۔انت المسیح الذی لا یضاع وقتہیہ الہام ہے‘ اس کا معنیٰ اب سمجھ آتا ہے کہ تو وہـــ‘ اچھاانت الشیخ المسیح الذی لا یضاع و قتاے‘ تو وہ بزرگ مسیحؑ ہے جس کا کوئی وقت ضائع نہیں کیا جاتا۔ ایک ایک لمحہ خدمت میںخرچ تھا‘ پس اس بزرگ ‘ بزرگ مسیح کے غلام ہو۔ان تحریکات کو جس کو اس نے اکیلے آگے بڑھایا تھا‘ اب چھوڑنا نہیں بلکہ اس نئے دور میں داخل کردینا ہے جہاں بڑی کثرت سے وسیع پیمانے پر ان تمام ملکوںمیں جہاں اسلام کے خلاف سازشیں ہوئی ہیں‘ ان کی جوابی کارروائیاں شروع کی جائیں اور ہماری نئی نسلیں ان میں جھونک دی جائیں اور ہمارے تربیتی مسائل کا بھی یہی حل ہے۔ کیونکہ یہ توسب بچے اور بچیاں ہیں اگر ان کو اس طرح سنبھالا نہ جاتا تو وہ خود کہتے ہمیں پتہ نہیں ہم نے کیا کرنا تھا اور کیا ہوتے۔ لیکن اب تو ایک نشہ سوار ہوگیا ہے تربیت کا۔ یہاں جب دوسرے اس عمر کے نسل کے لڑکے اور لڑکیاں وہ Drugs سے نشے لے رہے ہیں‘ اور وہ خدمت دین کے نشے میں غرق ہورہے ہیں اور عملاً حالت یہ ہے کہ وہ سب دوسرے کام چھوڑ کر صرف یہ کہہ دیا کرتی ہیں کبھی کبھی بعض بچیاں کہ ہمارے پاس ہونے کی دعا ساتھ کرتے رہنا‘ کیونکہ ہمیںاپنی تعلیم کی کوئی ہوش نہیں رہی۔ تو وہ جذبہ ہے جو خدا کے فضل سے انگلستان کے نوجوانوں نے دکھایاہے اور اس میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ کے نوجوانوں کو بھی چاہئے وہاں بہت گنجائش ہے۔ یہ ویری صاحب جو ہیں‘ جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن یہ امریکہ کے ہیں۔ ان کا میں یہاں کھوج لگاتا رہا خواہ مخواہ ‘ ہر طرف دیکھا کہیں ان کا نشان نہیں ملتا تھا‘ بعدمیںپتہ چلا کہ امریکہ نے اس زمانے میں بھیجے تھے اور تقریباً 45 سال وہاں رہ کر ہندوستان میں مختلف علاقوں میں رہ کر انہوں نے اسلام کے خلاف سازشیں کی ہیں اور نہایت ناپاک حملے کئے ہیں۔ تو یہ لوگ اس زمانے سے یہ کام کررہے ہیں۔انہوں نے اسلام کے خلاف سازشیں کی ہیں اورنہایت ناپاک حملے کئے ہیں۔ تو یہ لوگ اس زمانے سے یہ کام کررہے ہیں ۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عظیم جہاد اسلام کی تائید میں شروع کیا ہے‘ اب اسے بڑی قوت کے ساتھ آگے بڑھانے کا وقت آگیا ہے۔ اور میں امید رکھتا ہوںکہ انشاء اللہ تعالیٰ تمام جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ فرمائیں گے۔ خواہ ان کاکوئی بھی علم ہو‘ ہم نے دیکھا تھاجامعہ میںعیسائیت کے متعلق مواد وغیرہ‘ وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کی پیداوار تھی بس اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں بڑھا کام۔ بہت ہے تو معمولی شیخ عبدالقادر صاحب نے اپنے طورپر کوئی تحقیق کرلی لیکن یہ ایسی تحقیق نہیں ہے جسمیں ایک آدمی کی تحقیق کافی ہوجائے۔
بے شمار ایسے ایونیوز (avenues) ہیں۔ ایوان ہیں جن میں ٹیموں کی ٹیمیں ہر وقت مصروف کار رہنی چاہئیں۔پس جرمن محققین کو جرمن احمدی سنبھال لیں‘ فرنچ محققین کوفرنچ احمدی سنبھال لیں یعنی عیسائی محققین کو ‘ اور دونوں پہلوئوںسے کام کرنا ہے۔ ایک بائبل کی Study کے متعلق‘جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ ہم ان کو ان کی زبان میں سمجھائیں کہ تفسیر ہوتی کیا ہے اور دوسرے قرآن پر جہاں حملے ہوئے ہیں ان کو نوٹ کریں۔ اس ضمن میں مجھ سے رابطے کریںاورمیںپھر ان کو بتائوں گا۔ انشاء اللہ کہ ان کا جواب کس نہج کا دینا چاہئے۔اور کس کس جگہ سے اس جواب کی جستجو ہونی چاہئے یعنی ان میں تحقیق کرو گے تو وہاںجواب مل جائے گا۔
اب یہ بات کہاں سے شروع ہوگئی تھی کہاں چل پڑی ‘ کہاںپہنچی مگر ضروری تھی بہرحال۔ یہ بھی ضرب ہے ایک قسم کی ‘ سفر ہے۔ لیکن مالی اغراض کی خاطر نہیں۔ اسی دروازے سے میں باہر نکلا تھا‘ آپ کویہ بتاتے ہوئے کہ جھوٹے ہیں‘ سازشی ہیں۔ ان کے بغض والے بھی شامل ہوجاتے ہیں‘ ان کے محققین بھی ایکا کرلیتے ہیں اور ایک لفظ کا ایک ہی معنیٰ بیان کیا جاتا ہے تاکہ مسلمانوں کے متعلق یہ تاثر بڑھتا رہے کہ یہ سوائے لٹیرنے کے‘ یا اموال کی غرض رکھنے والے کے‘ رکھنے کے اور کچھ بھی نہیں تھے انکے سب سفر ‘ یا لوٹ مار کی غرض سے تھے یا تجارت کی غرض سے تھے‘ اورکوئی مقصد نہیں تھا‘ اور قرآن اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہسیرو افی الارض
تحقیق کرو دنیا میں‘ تاریخ کا مطالعہ کرو‘ کائنات کا مطالعہ کرو ‘ کس طرح زمین و آسمان پیدا کیا گیا ہے۔ زندگی کس طرح پیدا ہوئی ہے۔ اس کو سمجھنا ہے تو دنیا میں سیر کرو اور پھرو۔ قرآن کی یہ تعلیم ہے اور یہ منسوب کیا باتیں کررہے ہیں قرآن کی طرف۔بہرحال یہ میںنے بتایا تھا کہ ضرب کی بحث میں (کہاں گئے وہ ‘ ہیں..... I,m sorry‘ یہ بعد میں آئے گی۔)
غزی‘ غزوًا‘ ضرب کا معاملہ تو حل ہوا۔ غزی غزوًا‘ کسی چیز کا ارادہ کیا‘ کسی چیز کا قصدکیا‘ اسے طلب کیا۔ اس کے بنیادی معنے قصد اور طلب کے ہیں۔ اور جب اسلامی اصطلاحوں میں اس پر غور کیا جائے تو اس سے مراد وہ جہاد ہے جس میں حضرت اقدس محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود شرکت فرمائی۔ اسے غزوہ کہا جاتا ہے اور وہ جہاد جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایماء اور ہدایت پر کیا گیا‘ مگرحضورؐ خود شامل نہ ہوئے‘ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ اس کو سریہ کہا جاتا ہے۔ پس سرایا سے مراد صحابہ رضوان اللہ علیہم کی وہ جہادی کوششیں ہیں یا دشمن سے قتال ہے۔ جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود شامل نہیں تھے اور قصد سے مراد کیا ہے۔ قصد سے مراد ‘ اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی ہے۔ جہاد ہے ہی وہ جو طلب رضا کے لئے کیا جاتا ہے اور یہ رضا جوئی خواہ تم غالب آئو خواہ بظاہر مغلوب ہوجائو‘ قتل کئے جائو‘ ہر صورت میںاس خالص نیت سے ‘ پر مبنی ہے کہ تم نے سفر کیوں کیا تھا۔ ہر سفر کاآغاز نیت پر مبنی ہے اور غزوہ سے مراد حصول رضائے باری تعالیٰ ہے ‘ اس کے سوا اس کا کوئی مقصد نہیں۔
مفردات راغب قتل کی بحث میں لکھتے ہیں۔ قتل کے مختلف معانی ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے ‘ کسی کو کسی ذریعے سے مار دینا‘ اس پر موت وارد کردینا۔ موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ قتل ایسی موت کو کہتے ہیں جو انسان کے ہاتھوں واقع ہوئی ہو۔ اور اس کے علاوہ موت کی جتنی بھی قسمیں ہیں۔ انہیں قتل نہیں کہا جاتا‘ موت کہا جاتا ہے ۔ مگر قتل کے اور بھی استعمال ہیں‘ قتلت الخمر‘ خمر المائ‘ میں نے شراب کو پانی ملا ملا کر قتل کردیا۔ مطلب یہ ہے کہ بہت پانی ملایا کہ شراب کی بات جاتی رہی۔ یہ ہمارے ہاں بعض لوگ چائے میں بھی پانی ملا کر اسے قتل کرتے ہیں تو کہتے ہیں بڑھالو ‘ اور مہمان زیادہ آجائیں تو شوربے کو بھی قتل کردیا جاتا ہے اورذلیل کرنے کو بھی قتل کرنا کہتے ہیں ۔ قتلت فلانا قتّلتہ کہ میں نے اسے ‘ اس کا ستیاناس کردیا‘ بہت ذلیل و رسوا کیا۔ پھرایک بہت دلچسپ معنیٰ یہ پیش فرماتے ہیں۔وما قتلوہ یقیناوہ آیت جو ہمارے اور غیرازجماعت علماء کے درمیان مبحث ہے‘ اس کے ‘ اس میںآخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔وما قتلوہ یقینااور انہوں نے اسے یقینا قتل نہیں کیا۔اس کا ایک معنیٰ یہ ہے کہ یہ یقینی بات ہے کہ انہوںنے اس کو قتل نہیں کیا۔ لیکن آیت کے سیاق و سباق میں چونکہ شک کی بات ہورہی ہے کہ وہ شک میں مبتلا تھے۔ اس لئے یقینا کو اس انداز میں پیش فرمایا ہے کہ جس سے وہ معنیٰ بھی لازماً نکلتے ہیں۔ چنانچہ حضرت امام راغب نے اس معنے کو اس طرح پیش کیا ہے۔وما قتلوہ یقینایعنی انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام یقینا قتل نہیں کیا‘ انہیںمسیح علیہ السلام کے مصلوب ہونے کا یقین نہیں تھا‘ یہ مطلب بنتا ہے کہ جو کچھ بھی تھا‘ وہ ہمیشہ شک میں ہی رہے کہ پتہ نہیں و اقعتا مار بھی سکے کہ نہیں۔ اور یہی قرآن ثابت کرنا چاہتا ہے کہ تم جسکو سمجھتے ہو کہ یہ مر گیا ہے‘ جھوٹ ہے یہ‘ جو موقعے کے گواہ تھے ‘ ان کو تو پتہ نہیں کہ مر گیا ہے‘تمہیںکس طرح پتہ چلا کہ مر گیا ہے۔ وہ تو شک ہی میں پڑے رہے۔ اور فریقین شک میں پڑے رہے۔ قرآن نے یہ صرف یہود کی طرف منسوب نہیں فرمایا۔
ان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ
یعنی یہود اور عیسائی دونوںموقعے کے گواہ اس بارے میں شک میں تھے مسیح علیہ السلام کے اوپر کیا گزری۔ پس باقی جتنی باتیں ہیں وہ خیالات ہیں ڈھکوسلے ہیں‘ یقینی اور قطعی علم تمہیں نہیںہے۔ حسرۃ ً کا لفظ ایک استعمال ہوا ہے اس آیت میں‘ حسرت سے مراد ‘ حسر ننگا کرنے کو بھی کہتے ہیں اور پردہ ہٹانے کو بھی کہتے ہیں۔ عملاً ایک ہی مضمون ہے۔ حسرت عن الزراع میں نے بازو سے کپڑا ہٹایا‘ اٹھایا‘ جس طرح ٹیکہ لگانے کے لئے‘ ڈاکٹر ودود صاحب خاص طور پرسر مار رہے ہیں یہاں‘ میں کرتا ہوں اس طرح ہی‘ ڈاکٹر صاحب ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ہیں آپکے ڈاکٹر مسعود صاحب امریکہ سے آئے ہوئے‘ اتفاق سے دونوںاکٹھے ہوگئے ہیں۔تو ٹیکہ لگانے کے لئے ڈاکٹر جب وہ اٹھاتے ہیں نایوں کپڑا‘ اس کو بھی حسر کرنا کہتے ہیں۔ حسرت کے معنے بھی پائے جاتے ہیں‘ وہ بیچارہ جس کو ٹیکہ لگ جائے دیکھتا رہ جاتا ہے‘ میرے غریب سے کیا ہورہا ہے‘ ہیں؟ اور ننگے سر والے کو بھی حاسر کہتے ہیں۔ خدا کے فضل سے یہاں اب رواج اٹھ گیا ہے سوائے ایک کے‘ ان کی ٹوپی بھی ہے ویسے اب انہوں نے رکھ لی ہے سر پہ۔ اب تو یہاں اللہ کے فضل سے بچے بھی چھوٹے چھوٹے مسجدوں میں آتے ہیں تو سر ڈھانپ کے آتے ہیں تو کوئی ان میں حسرت والا نہیں رہا۔ایک حسر کا معنیٰ ہے تھکاوٹ کا۔ بہت تھکا ماندہ ہوجائے کوئی انسان۔ اس کو حاسر کہتے ہیں۔ یہاں جو قرآن کریم میں سورۃ مُلک میں جو بیان فرمایا ہے وہ ینقلب الیک البصر خاسئًا و ھو حسیرo ثم ارجع البصر کرتین ینقلب الیک البصر خاسئا و ھو حسیرo
کہ تم کائنات پر دوبارہ نظر ڈال کر دیکھ لو‘ کہیں کوئی فتور‘ کہیں کوئی رخنہ دکھائی دیتا ہے۔ پھر ڈال لو نظر‘ تمہاری نظر تمہارے پاس تھکی ماندی حسرت زدہ ہوکے لوٹ آئے گی۔ تو حسرت کا معنیٰ جو ہم عام‘ ہمارے ہاں رائج ہے‘ یہ کسی چیز نہ کرسکنے کے نتیجے میں تکلیف ‘ کچھ حاصل نہ کرنے کے نتیجے میں تکلیف‘ اس کا اس تھکاوٹ سے تعلق ہے۔ انسان کی کچھ پیش نہ جائے۔تھکا ہارامایوس ہوکر بیٹھ رہے‘اور اپنے مطلب کو نہ پاسکے۔ تو جو دل کی کیفیت ہوتی ہے اسے حسرت کہا جاتا ہے۔قالوا الاخوانھم والے مضمون کی طرف آنے سے پہلے اب میں ان مضامین کی روشنی میں دوباہر اس آیت کو پڑھتا ہوں۔ اور اس کے بعض مطالب پر روشنی ڈالتا ہوں۔
یایھاالذین امنو ا لاتکونوا کالذین کفروا وقالوا لاخوانھم اذا ضربوا فی الارض اوکانوا غزی لو کانوا عندنا ماما توا وما قتلوا لیجعل اللہ ذلک حسرۃ فی قلوبھم واللہ یحییٖ و یمیت ط واللہ بما تعلمون بصیر O
اس میں جو قابل غور باتیں ہیں جو ‘ جو زیر بحث لائی گئی ہیں وہ یہ ہیں کہ اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو‘ ان لوگوں کی طرح نہ ہو‘ جنہوں نے کفر کیا۔وقالو ا الاخوانھم اور اپنے بھائیوں سے کہا
پہلی بحث تو مفسرین نے یہ اٹھائی ہے کہ کفر کیا سے مراد صرف منافقین ہیں یا کافر بھی ہیں اور منافقین بھی ہیں یا خاص منافقین ہیں اور عام منافقین نہیں۔ یعنی عبداللہ بن ابی بن سلول کے ساتھی۔ جہاں تک کفر والا حصہ ہے‘ میرے نزدیک سیاق و سباق یہ بتاتا ہے یہاں کافر‘ دوسرے کافر مراد نہیں ہیں۔ بلکہ منافقین ہی ہیں۔ کیونکہ کافر یہ نہیں کہا کرتے تھے ان کوکہ تم ہمارے ساتھ بیٹھے ہوتے تو امن میںرہتے۔ مسلمانوں میں بد دلی پھیلانے اور اپنے مقصد‘ میں بے یقینی پیدا کرنے کے لئے جو ہتھیار منافق استعمال کرسکتے تھے‘ وہ اگر کافر کرتے تھے تو منافق بن کر کرتے تھے‘ یعنی بحیثیت کافر کے باہر رہتے ہوئے باتیں نہیں کیا کرتے تھے‘ اس لئے کافر تو ہیں ہی وہ‘ منافق بھی تو کافر ہی ہے۔ مگر کافر کی ایک خطرناک صورت ہے جو اندر آکر مختلف قسم کے وساوس پھیلاتا ہے اور اس کواندر سے وار کرنے کا ایک موقعہ مل جاتا ہے ۔پسکالذین کفروا وقالو ا لاخوانھم میں ایک معنیٰ یہ بھی کیا گیا ہے کہ اخوان سے مراد ان کے ساتھی ہیں‘ لیکن یہ درست نہیں ہے۔ کیونکہ جو ان کے ساتھی ہوں یا ہیں‘ وہ تو شہید نہیں ہوئے‘ وہ تو قتل نہیں ہوئے ان معنوںمیں جن معنوں میں ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں‘ تو پھر یہ معنے کرنے پڑیں گے نعوذ باللہ من ذلک کہ جو قتل ہونے والے تھے اور شہید ہونے والے تھے‘ وہ انہی کے بھائی… تھے۔ یہ معنے درست نہیں ہیں ۔
بعض مفسرین نے اس وسیع معنے کو اختیار کیا ہے‘ یہی درست ہے کہ یہاں اخوان سے مراد دینی بھائی یا طینت کے بھائی نہیں ہیں۔ سرشت کے لحاظ سے ان میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لئے بھائی نہیںکہا جارہا۔ بلکہ وہ بھائی بنتے ہیں اور بھائی اس لئے بنتے ہیں کہ قبیلہ یا گروہ کے طور پر وہ ان کے بھائی ہیں۔ قران کریم میں اس کی مثال ملتی ہے‘ اور وہ میںآپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جیسا کہ حضرت ہودؑ کے متعلق آتا ہے۔
والی عاد اخاھم ھوداًاور ہم نے عاد قوم کی طرف اس کا بھائی ہودعلیہ السلام بھیجاو الی ثمود اخاھم صالحااور ثمود قوم کی طرف اس کا بھائی صالح علیہ السلام بھیجا۔پس بھائی سے مراد اگر دینی بھائی مراد لیا جائے تو نعوذ باللہ من ذلک یہ تو ہمارے بزرگ انبیاء پر بڑا حرف آتا ہے۔ مراد قومی بھائی ہے اور اس پہلو سے یہ لوگ جن لوگو ںمیں باتیں کرتے تھے ان کو‘ انکی واضح نشان دہی فرما دی گئی ہے۔ کیونکہ قومی بھائی کے طور پر یہ مہاجرین کے بھائی نہیں تھے۔ عبداللہ بن ابی ابن سلول اور اس کے ساتھی مہاجرین کو اپنا بھائی نہیں کہہ سکتے‘ ان سے تو یہ بغض رکھتے تھے ان سے حسد رکھتے تھے‘ تکلیف تھی کہ وہ باہر سے آکر ہمارے شہر کی سیاست پر قابو ہوئے بیٹھے ہیں۔ اس لئے اپنے بھائیوں سے مراد اہل مدینہ ہیں۔ مدینہ میں جو انصار تھے‘ خالص انصار‘ انکے اوپر تو ان کا کوئی زور نہیں تھا ‘وہ تو اللہ کے بندے تھے ‘شیطان کا ان پر کوئی عمل دخل نہیں تھا ‘مگر وہاں کچھ کمزور ایمان والے بھی تھے کچھ ایسے تھے جو معاہدے کے لحاظ سے پابند تھے مسلمانوں کی تائید کرنے پر ‘تو ان سب میں بد دلی پھیلانے کے لئے جو باتیں کرتے تھے ان کے متعلق فرمایا گیا
وقالو الا خوانھم وہ اپنے بھائیوں سے یہ کہتے تھے اذاضربو افی الارض اوکانو اغزی او کانو عند نا ماما توا یہاں میں نے استنباط کیا تھا ‘پہلے ایک مستشرق کے حملے کے جواب میں کہ یہ خیال کہ میدان جنگ میں یہ باتیں ہو رہی تھیں اور اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ ان کے خلاف ‘ان سے بغاوت کا خطرہ تھا ‘یہ بالکل درست نہیں ہے میدان جنگ میں کچھ شامل تھے ضرور ‘جنہوں نے باتیں کی ہیں مگر اس وقت جب وہ واپس پہنچے ہیں اور ان منافقوں کے سردار وں کی باتوں سے متاثر ہو کر ان کمزور ایمانداروں نے بھی ان کی ہاں میںہاںملائی ہے ۔ لیکن موقعہ اس کا میدان احد نہیں ہے موقعہ اس کا مدینے کی گلیاں ہی ہیں ۔ پس یہ آیت یہ کہہ رہی ہے۔
وقالوا لاخوانھم اذا ضربوا فی الارض او کانوا غزی
یہاں اَوْ جس طرح وائو کے قریب لکھا ہوا ہے‘ پہلے بھی ایک دفعہ غلطی سے لو پڑھ گیا تھا‘ لیکن پھر فوراً سمجھ آجاتی ہے کہ غلط ہے۔اذا ضربوا فی الارض اوکانو ا غزیجب وہ سفر اختیارکرتے ہیں زمین میں‘یا غزوہ پر نکلتے ہیں لوکانو اعندنا ماما توااگر یہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے۔وہ تو یہ نہیںکہہ سکتے تھے میدان جنگ میں کہ اگر ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے‘ وہ تو میدان میں موجود تھے۔ اس لئے اس آیت میں تو قطعاً وہ شامل ہی نہیں ہیں لیکن دوسری آیت میں وہ شامل ہوجاتے ہیں۔ مگر ان کا وہ قول مدینے میں جاکرہے‘ مدینے میں جاکر انہوں نے کہا‘ یہ بات کہی ہے نہ کہ میدان جنگ میں۔قل ان الامر کلہ للہ یخفون فی انفسھم مالا یبدون لک یقولون لوکان لنا من الامر شییء ماقتلنا ھہنا قل لوکنتم فی بیوتکم لبرزالذین کتب علیھم القتل الی مضا جعھم ظاہر یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے میدان جنگ میں یہ کہا ہم یہاں نہ مارے جاتے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے۔تو کہہ دے کہ تمام تر فیصلے اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ یخفون فی انفسھم مالا یبدون لک ‘ یہ اپنے سینوںمیںچھپا رہے ہیں۔ وہ بات جو تجھ پر ظاہر نہیں کررہے‘ یعنی میدان جنگ میں اگر کچھ وساوس تھے بھی تو مخفی حالت میں تھے اور ان کو کھل کر انہوںنے پیش نہیں کیا۔جب مدینے میں لوٹے ہیں تو ان سرداروںکی وجہ سے جو وہاں یہ باتیں کیاکرتے تھے‘ وہ یہ کہنے لگ گئے لو کان لنامن الامر شی ء ما قتلنا ھہنا پھر کہا ہے لیکن وہاں واپس جانے کے بعد کہا ہے۔ ’’ہم یہاں‘‘ سے مراد میدان جنگ ہی یہاں ہے لیکن وہاں موقعے پر نہیں کہا گیا یہ محاورۃً ہے۔ ’’یہاں‘‘ سے مراد وہاں ہے دراصل۔ کیونکہ وہاں شامل بھی تھے اس لئے یہاں بھی کہہ سکتے تھے وہ اس کوما قتلنا ھہنا قل لو کنتم فی بیوتکمکہہ دے کہ تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو وہ جن پر قتل کے ذریعے موت مقدر ہوچکی ہے وہ اپنے بچھونے سے اٹھ کھڑے ہوتے اور اپنے مقاتل کی طرف آگے بڑھ جاتے‘ مقاتل کی طرف خود چل پڑتے۔
اب میں واپس اسی آیت پہ آیا ہوں جو اس وقت زیر نظر ہے۔ آیت ۱۵۷۔یایھا الذین امنو ا لاتکونوا کالذین کفروا وقالوا لااخوانھم انہوں نے اپنے بھائی بند سے کہا‘ ترجمہ کیا جاتا ہے‘بعض دفعہ‘ یہ مراد نہیں ہے بلکہ اپنی ہم قوم لوگوں سے کہا۔جیسا کہ انبیاء کی مثال میں میں بیان کرچکا ہوں۔ ثمود کی قوم کے تھے حضرت صالحؑ‘ انکے دین میں بھائی نہیں تھے۔اذا ضربوا فی الارضجب انہوںنے کوئی سفر اختیار کیا۔او کانوا غزییا غزوہ میںگئے ۔
میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا محاورۃً غزوہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم کی شرکت سے کہلاتا ہے مگر یہ عام عربی معنیٰ نہیں ہے۔ عربی معنی صرف کسی مقصد کے لئے نکلنا ہے۔ پس یہاں یہ وہ اصطلاح مراد نہیں ہے۔ بلکہ غُزًی سے مراد سفر اور جہاد کی غرض سے سفر ہے۔ لیکن امام رازی ؒ نے ایک بہت عمدہ بات پیش فرمائی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ضرب بھی اللہ کی خاطر جہاد کی نیت سے ہوسکتا ہے۔ضرب فی الارض ۔ اور اس میں اور غزوہ میں فرق یہ ہے کہ غزی چھوٹے سفر کو کہتے ہیں ‘ یا ‘ غزی چھوٹے سفر کو نہیں‘ غزی تو وہ سفر ہے جو خالصتہً جہاد کی نیت سے کیا گیا ہے۔ لیکن ضرب چھوٹے سفر کو نہیں کہتے ہیں۔ بلکہ لمبے سفرکو کہتے ہیں۔ تو وہ ہی امام رازیؒ سمجھتے ہیںکہ قرآن کریم نے ایک ہی مضمون کو دو لفظوں میں بیان فرمایا ہے‘ گویا یہ مطلب ہے کہ خواہ تمہارا جہاد تھوڑے سفر کا ہو جیسا کہ احد کا جہاد تھا‘ یا لمبے سفر کا ہو جیسا کہ تبوک کی طرف تم روانہ ہوئے۔ دونوں صورتوں میں جہاد ہی کی نیت ہے‘ خدا ہی کی خاطر گھر سے نکلے ہو۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو مرتے اورقتل ہوتے ہیں ۔ ورنہ تاجر کہاں قتل کئے جاتے ہیں۔ تو یہ بات نہایت معقول ہے اور برمحل ہے کہ مراد دونوں طرح غازی ہی ہیں جو خداکی خاطر غزوہ پر نکلے ہیں‘ خواہ وہ چھوٹے سفر پرہوں یا لمبے سفر پرہوں۔ ان کے متعلق کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ وہ مرتے نہ وہ قتل ہوتے۔ اب مرنے کو جوڑا گیا ہے ضرب فی الاض سے اور قتل کو جوڑا گیا ہے غزوہ سے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس میں موت کے ذکر کو اسکے ساتھ کیوںباندھا ہے۔ کیا ان کا یہ خیال تھاکہ وہ جب سفر پہ نکلتے ہیں تو کبھی نہیںمرتے۔ مراد اس کی یہ ہے کہ لمبے تھکا دینے والے مصیبت کے سفرجب یہ اختیار کرتے ہیں تو بیچ میںمارے جاتے ہیں۔ شدید دقتیں پیش آتی ہیں ۔ اسلامی جہاد کے سفروں میں ‘ اور جیسا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفروں کی تاریخ پر غور کرتے ہیں‘ بہت شدید مصیبتوں میں مبتلا ہوئے‘ بڑی لمبی بھوکوں سے آزمائے گئے‘ بغیر پانی کے ان کو گرمیوں میں سفر کرنے پڑے تو مراد یہ ہے کہ ان کی کہ وہ اگرچہ لڑائی میں نہ بھی مارے گئے‘ لیکن ان سفروں کی مشقتوں نے ان کو مار دیا۔اگر گھر پر آرام سے بیٹھے رہتے تو نہ مرتے۔لیجعل اللہ ذلک حسرۃ فی قلوبھم یہ اس لئے ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کو ان کے دلوں میں حسرت بنادے۔ اب مفسرین پر میں نے نظر ڈالی ہے اور سارے اس مسئلے میں الجھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ حسرت کا کیا تعلق بنائیں یہاں۔ یہ بات جو وہ کہتے ہیں یہ کیسے حسرت بن جائے اور میرے علم میں کوئی اب تک ایسی توجہیہ نہیں آئی جو قابل قبول ہو اس پہلو سے۔ دراصل حسرت ا نکو اس بات کی رہے گی کہ ان کی یہ کوششیں ناکام رہیں گی۔ اللہ انکو کہنے دیتا ہے ‘ کہتے رہو‘ پھیلاتے رہوا فواہیں جو زور لگتا ہے لگالو‘ لیکن جو خدا کے بندے اورمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق ہیں‘ ان کو تم نہ غزوہ سے روک سکو گے نہ خدا کی خاطر سفر اختیار کرنے سے روک سکو گے۔ یہ حسرت تھی ان کے دل میں‘ اسی لئے تو کہتے تھے۔ بس یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم ان کو یہ چھٹی دیتے ہیں‘ ان باتوں ‘ ایسی باتیں کرنے کی‘ تاکہ ہمیشہ حسرت سے دیکھتے وہ جائیں اور ان کا کوئی بھی وار خدا کے بندے پر نہ چلے۔ اور جہاںتک ان کا یہ کہنا ہے کہ یہ نہ مرتے نہ زندہ رہتے وغیرہ اس کا جواب دیتا ہے۔واللہ یحییٖ و یمیتاللہ ہی ہے جو زندہ بھی رکھتا ہے ‘ مارتا بھی ہے۔واللہ بما تعملون بصیراور اللہ تعالیٰ ان سب باتوں سے باخبر ہے ان پر نظر رکھتا ہے جو تم کرتے ہو۔اس کے علاوہ کوئی ایسی بات مجھے نظر نہیں آئی جو مفسرین نے کہی ہو اور خاص طور پر قابل ذکر ہو‘ زیادہ تروہ لفظی بحثوںمیں ہی پڑے ہیں‘ غزی کا کیامطلب ہے‘ قتل سے کیامراد ہے؟ حسرۃ کے متعلق مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ حسرت سے مراد یہاں یہ ہے کہ مقتول کے رشتے دار جب اس کلام کو سنتے ہیں تو ان کے دلوں میں حسرت پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہرایک اعتقاد رکھتا ہے کہ اگر وہ اسے سفر کرنے یا غزوہ پر جانے سے منع کردیتا ہے تو وہ ضرور بچ جاتا‘ یہ بالکل غلط ہے۔ بالکل بے بنیاد بات ہے اس کا کوئی بھی سچائی سے تعلق نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھی جو غزوہ پر نکلے اور شہید ہوئے‘ ان کے تو پس ماندگان توبڑے فخر سے ہمیشہ نسلاً بعد نسلٍ یہ ذکر کیا کرتے تھے کہ ہمارے آبائو اجداد تھے جنہوں نے یہ کام کئے۔ ان منافقوں کے کہنے پہ ان کے دلوں میں کہاں سے حسرت پیدا ہوجاتی تھی۔ نامراد رہے ہیں ان باتوں میں۔ اور وہ جو جھوٹے … بہانے والے پہنچا کرتے تھے۔ ان کو وہ رد کر کے مردود کرکے دور پھینک دیا کرتے تھے۔ کبھی ان کی باتوں میں نہیں آئے۔ بلکہ جو اسلام کی طرف سے ان سے ہمدردی کرتے تھے ان کو بھی یہ سمجھاتے تھے اور صبرکی تعلیم دیتے تھے‘ کہتے تھے ہم خوش ہیں اور یہ وہ تاریخ ہے جو آج بھی دہرائی جارہی ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس کو ماضی میں جاکر کھوج لگائو۔ آج جماعت احمدیہ میں جو شہید ہورہے ہیں ان کے بزرگوں اور ان کے ساتھیوں‘ ان کے تعلق والوں کا بعینہٖ یہ حال ہے۔ ایک بھی ایسا نہیں جس پر ا ن بدبخت وساوس نے اثر کردیا ہو۔
مجھے کل ہی چٹھی ملی ہے پاکستان سے اپنی ایک عزیزہ‘ بہن کی۔ کہ جب ہم شہداء کی تعزیت کے لئے لاہور گئے۔ کہتی ہیں ناقابل بیان ہے‘ میں بیان نہیں کرسکتی‘ جو ہمارے دل کی کیفیت ہوئی۔ ہم اس والدہ کو تسلی دے رہے تھے جن کا بیٹا شہید ہوا ہے۔اور وہ ہمارے آنسوپونچھ رہی تھی۔ کہتی تھی کیاہوگیا ہے بی بی آپ کو‘ آپ کیوں غم کرتی ہیں۔ ہمارا غم کرنے والا خلیفہ موجود‘ ہمارا خداموجود جو ہم پر پیارکی نظرکر رہا ہے۔ آپ کو کیاہوگیا ہے میں تو بہت خوش ہوں۔ میرے پانچ بیٹے ہیں‘ سارے خدا کی خاطر ذبح ہوجائیں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ یہ ان کا ردعمل ہے۔ انکے متعلق یہ کہنا نعوذباللہ من ذلک کہ وہ شہادت کے بعد اپنے عزیزوں کے متعلق یہ کہتے تھے کہ یہاں‘یہ ہوتا تو یوں نہ ہوتا‘ یوںنہ ہوسکتا‘ یوں ہوتا تو کہتے ۔ یوںنہ ہوتا۔ یہ ساری باتیں لغو‘ بے معنی ہیں اور شہداء کے عزیزوںپر الزام ہے جس میں کوئی حقیقت نہیںہے۔ میں نے اپنی زندگی میںجتنے شہداء احمدیت میں دیکھے ہیں‘ خلافت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی‘ ان میں سے کسی ایک عزیز کا بھی یہ ردعمل نہیں جو صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرف منسوب کیا جارہا ہے۔ کیسے ہوسکتا ہے۔ ہم نے تو ان سے سیکھی ہیںیہ باتیں۔ ہم تو ان کے چلائے ہوئے رستوں پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ پس آج ہم گواہ ہیں اور خدا کی قسم ہم گواہ ہیں کہ صحابہؓ پر یہ الزام جھوٹ ہے۔ انکے اعزّہ اور اقرباء ہر گز یہ سوچیں نہیںسوچا نہیں کرتے تھے۔
حسر ت ان منافقوں کے دلوں میں تھی کہ ہم زور لگا بیٹھتے ‘ جو چاہیں کر لیں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ ان میں سے کوئی شخص ٹوٹ کر ہماری طرف آئے اور ہاں میں ہاں ملائے کہ ہاں ہمارے عزیز نہ مارے جاتے اگر یہ ہوتا تو۔ لیکن اس ضمن میں ایک بات میں بطور وضاحت کے کردینا چاہتا ہوں۔ بعض دفعہ منافق بھی مارے گئے ہیں۔ میں نے کل یہ جو کہا تھا کہ کوئی منافق نہیں مارا گیا۔ جنگ احد میں‘ تو اس تاریخ پر نظر ڈال کر جوہمارے سامنے ہے‘ میرے علم میں کسی منافق کا ذکر نہیں ملتا کہ جو جنگ احد میں مارا گیا ہو اور وہ ‘ وجہ اس کی یہ ہے کہ 300 بڑے منافقین جو عبداللہ بن ابی ابن سلول کے ساتھ چلے تھے وہ تو پہلے ہی رستے میں سے واپس جاچکے تھے۔ دوسرے بعض منافقین اس حد تک نہیں تھے جس حد تک خدا ان سے ناراض ہوکر انہیں منافقین کے زمروں میں شمار کرکے باہر پھینک دے۔ ان کے دل کی کمزوریاں تھیں کچھ وہ باہر نکلی ہیں اور اللہ نے ان کو معاف فرمادیا۔ پس منافق تو وہاں کوئی حقیقت میں موجود ہی نہیںرہا تھا تووہ شہید کیسے ہوتا۔ اورمنافق تو شہید ہوا بھی نہیں کرتا۔ میں نے جو یہ کہا تھا اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ کبھی بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ کوئی غیر مومن اسلامی جنگ میں نہ مارا گیا ہو۔ قطعی شہادت اس بات کی موجود ہے کہ ایک دفعہ ایک بہت بڑا ایک پہلوان ایک جری انسان اسلامی جہاد میں چپکے سے داخل ہوگیا اور شامل ہوگیا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ایسے شخص کو اجازت ہی نہیں دیا کرتے تھے جو ‘ جس کے متعلق قطعی علم ہو کہ وہ غیر مسلم ہے یا مشرک ہے۔ ہاںجو کہہ دیتا تھا کہ میں ہوں‘ اس کی بات مان لیتے تھے‘ دل میں نہیں اترا کرتے تھے خود بخود۔ جیساکہ آج کا مولوی اترتاہے‘کہتا ہے نہیں تم منہ سے جھوٹ بول رہے ہو‘ اندر سے تم یہ کہہ رہے ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عجیب اسوہ ہے کہ کوئی کہتا تھا کہ میں کافر ہوں‘ میں شامل ہونا چاہتا ہوں جہادمیں‘ فرماتے نہیں سوال ہی نہیں۔ تو مشرک ہے مجھے کسی مشرک کی ضرورت نہیں ہے مدد کی۔ شدید ضرورت کے وقت اور بحران کے وقت بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رد فرمادیاہے۔ اس نے کہا میں مومن ہوتا ہوں ۔ کہنے لگے ہوجائو۔ ٹھیک ہے آجائو شامل ہوجائو۔ یہ نہیں کہا کہ تم دھوکہ دے رہے ہو۔ ایک منٹ میں تم کس طرح مومن ہوگئے۔ یہ ہے پاک صداقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ منہ سے جس نے کہا‘ اس حد تک اس کو تسلیم کرلیا‘ یہ نہیںکہا کہ دل میں تم کچھ اور کہتے ہو۔ لیکن ایسے لوگوں کو بعض دفعہ آزمایا جاتا تھا۔ لیکن ان کے اسلام کا انکار کرکے نہیں‘ تسلیم کرکے۔ وہ ایک الگ مضمون ہے۔ دیکھا جاتا تھا کہ کس حد تک یہ لوگ درست ہیں۔ مگر اپنے اعمال سے وہ پہچانے جاتے تھے۔ پس ایسا ہی واقعہ ایک تاریخ میں درج ہے‘ قطعی طور پر ثابت ہے کہ ایک مشرک بہت زبردست پہلوان اسلام کی طرف سے‘ یا مشرک تھا تو پتہ نہیں تھا اس طرح۔ ایک منافق حالت میں تھا‘ اس نے اسلام کی طرف سے جنگ میں شمولیت کی اور بہت ہی غیر معمولی طور پر عظیم کارنامے دکھائے۔ یہاں تک کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھے۔ اور اسکے تذکرے ہونے لگے کہ وہ ہے اصل مجاہد اس طرح وہ اس لڑائی میں شہید ہوا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں‘ وہ شہید نہیں ہوا۔ وہ تو اپنا ایک‘ اپنے ایک مرے ہوئے کا انتقام لینے کی خاطر ہماری طرف سے شامل ہوا تھا‘ کیونکہ جس قبیلے نے اس کے بھائی یا کسی عزیز کو مارا تھا‘ وہ ہمارا مخالف ہوکر آج‘ ہم سے لڑنے آیا تھا۔ پس اس ذاتی بدلے کی خاطر وہ مارا گیا‘ وہ شہید تو نہیں ہوا۔ پس یہ فیصلہ اللہ اوراس کا رسول ہی کرسکتے ہیں‘ جب خدا اپنے رسول کو بتاد ے۔ اس کے علاوہ یہ کہہ دینا بھی غلط ہے کہ کسی اسلامی جنگ میں کوئی منافق نہیں مارا جاسکتا۔ اس کی اس سے بڑی اور کیا شہادت ہوگی کہ مارا گیا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ نے اس کے بارے میں دھوکے میں نہیں رکھا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنازے پڑھنے تھے‘ دعائیں دینی تھیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع فرمادیا اور جنگ احد کے متعلق ہمیں کوئی ایسی روایت نہیں ملتی کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہو کہ یہ شخص منافق تھا‘ بحیثیت منافق کے اس جنگ میں مارا گیا ہو۔واللہ بما تعملون بصیراس کے متعلق کوئی نہ لغت میں نہ کسی تفسیری بحث میں کوئی ایسی بات نظر آئی ہے جو میں تبصرے کیساتھ آپ کے سامنے پیش کرسکوں۔ صرف ایک عمومی اظہار ہے ۔ اوروہ ہماری روزمرہ کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔فرماتا ہے
واللہ یحیی و یمیت واللہ بما تعملون بصیر
اللہ ہی ہے جو موت بھی دیتا ہے اور زندہ بھی کرتا ہے۔ موت بھی دیتا ہے‘ یحییٖ و یمیت‘ زندہ بھی رکھتا ہے اور مارتا بھی ہے۔واللہ بما تعملون بصیراور اللہ تعالیٰ ا ن اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔یہ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ جو منافق کہتے تھے کہ ہمارے ساتھ ہوتے تو نہ مرتے نہ قتل ہوتے‘ ا ن کو توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ End All نہیں ہے۔انسان خواہ مرے یا قتل ہو‘ یہ کیا‘ کس بحث میں تم پڑ گئے ہو اگر نہ بھی ہوتے قتل تو اس وقت کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کی موت کا وقت نہیں دیکھتا اس کے نیک اعمال یا بد اعمال پر نظر رکھتا ہے۔ پس یہ دعا مانگنی چاہئے اور یہ خواہش کرنی چاہئے کہ ہم چاہے مارے جائیں یا قتل ہوں ہم اللہ رضا پر مارے جائیں اور اللہ کی رضا پر قتل ہوں کیونکہ اگرہمارے بد اعمال ہوں اور عمر لمبی ہو جائے تو وہ عمر لمبی ہماری ہلاکت کا موجب ہو گی۔ کسی فائدے کے موجب نہیںہو سکتی پس واللہ بما تعملون بصیر میں یہ اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے بحث لغو اور بے معنی سمجھتا ہے…… کب مارا اور کس طرح مارا گیا۔ یہ بحث ہے… بد اعمال مارا گیا۔ پس اپنے اعمال کی فکر کرو۔ یہ End all نہیں ہے ۔ یہ انجام آخری نہیں ہے ۔ یہ مرنے کے بعد پھر محاسبہ ہوگا۔ اس وقت اللہ تمھیں بتائے گاکہ تم کیسے اعمال کیا کرتے تھے۔ اس آیت اور کچھ باقی ہوا تو شامل کرلوں گا۔ ورنہ دوسری آیت شروع کرنے کا وقت نہیں ہے گھڑی دیکھ رہو ہوں دو منٹ رہ گئے ہیں۔بہرحال میں نے آپ کو خوب اچھی طرح دیکھا رہا ہے کہ یہ مستشرقین ہیں۔ یہ کس طرح ظلم کرتے ہیں اور ایکا کرتے ہیں سازش کر کرکے ایک دوسرے کے ساتھ۔ یعنی لفظاً بول کر کر سازش نہ بھی کریں اندر سے ان کے مزاج سازشی ہیں جہاں دیکھے کہ ایک مستشرق نے ایک بات ایک خاص طور پر اسلام پرحملہ کرنے کے لئے کی ہے اس کی تائید میںویسے ہی ترجمے شروع کر دیتے ہیں۔ ویسی ہی لغت کی کتابیں بنا کر شروع کردیتے ہیں۔ پس merchandise والی جوبحث ہے ان کی۔ اس کا تعلق اس پہلے الزام سے ہے کہ جنگ میں ہمیشہ لوٹ مار کی خاطر نکلتے رہے۔ اور booty ان کی زندگی کیا مقصد تھا اس حصہ کو میں ابھی نہیں چھیڑتاکیونکہ میں نے اس کے متعلق بعد میں گفتگو کرنی ہے مختلف حوالوں سے ثابت کروں کہ بہت جھوٹے اور لغو بے معنی الزام ہیں…ان کے بغض کے اور کسی چیز کی نشان دہی نہیں کرتے بہرحال ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہیں کہ اس عظیم جہاد میںتقویت دے۔ ہمارے نصرت فرمائے اور کثرت سے احمدی اس جہادکے لئے آگے آئیں کیونکہ اب وقت آگیا ہے کہ اس صدی میں عیسائیت کے لئے حملے کو کلیۃً پسپا کر دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 12 رمضان المبارک
23 فروری 1994ء
ان الذین تولوا منکم ............ا ن اللہ یحب المتوکلین O (ال عمران 156تا160)
یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیںان میں سے اکثر آیات تو ایسی ہیں جن کا ترجمہ بھی پہلے پیش کیا جاچکا ہے اور تفسیر بھی ہوچکی ہے۔مجھے بتایا گیا ہے کہ آج آیت ایک سو انسٹھ (159) پر پہلے گفتگو ہوگی۔ پھر بعد میں ایک سو ساٹھ پر ‘ ولئن قتلتم فی سبیل اللہ او متم لمغفرۃ من اللہ و رحمۃ خیر مما یجمعون O
اور اگر تم اللہ کے راستے میں قتل کیے جائو یا مر جائو لمغفرۃ من اللہ تو اللہ کی طرف سے مغفرت بھی ہے اور رحمت بھی ہے۔ جو بہتر ہے اس سے جو یہ جمع کرتے ہیں۔ ولئن متم او قتلتم اور یاد رکھواگر تم مرجائو یا قتل کئے جائو لالی اللہ تحشرون۔ تو ہر صورت میں اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائو گے یا اکٹھے کئے جائو گے۔ فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم اوریہ اللہ کی خاص رحمت کے سبب سے ہے کہ تو ا ن پر مہربان ہے۔ ان کیلئے نرم گوشتہ رکھتا ہے ولو کنت فظا غلیظ القلب‘ اگر تو بد اخلاق ہوتا‘ بد مزاج ہوتا اور سخت دل ہوتا۔ لا نفضوا من حولک ‘ یہ تجھے چھوڑ کر بکھر جاتے۔ فاعف عنھم پس ان سے عفو کا سلوک کر۔ درگذر فرما۔ واستغفر لھم اور انہیں بخش دے۔ وشاورھم فی الامر‘ اوران سے اہم معاملات میں مشورہ کیا کر۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ‘ پس جب تو فیصلہ کرلے (یعنی مشورہ کے باوجود فیصلہ تیرا ہوگا) تو پھر اللہ پر توکل کر۔ ان اللہ یحب المتوکلین ۔ یقینا اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس آج کی گفتگو سے پہلے ایک مجھے حوالہ دیا گیا ہے۔ کل میں نے ذکر کیا تھا کہ حسرت کا معنے جس پر میرا دل اٹکا ہے۔ وہ میرے ذہن میں نہیں کہ باقی مفسرین میں سے کسی نے یہ بات کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ یہ لوگ جتنا چاہیں زور لگائیں۔ مومنوں کے دل پھیرنے کی کوشش کریں اُن کو اللہ اور رسول سے بدظن کرنے کی کوشش کریں۔ مگر ہر صورت میں ناکام رہیں گے۔ اور ہمیشہ یہ حسرت ان کے دل میں رہے گی کہ کاش کوئی تو ہماری بات مانتا۔ کوئی تو ایسا ہوتا جسکا ایمان ہماری باتیںسن کر کمزور ہوجاتا۔ اس پر مجھے عبدالمومن صاحب نے تفسیر کبیر رازی کا یہ حوالہ پیش کیا ہے کہ امام رازی کا بھی یہی خیال ہے کہ حسرت کااصل معنے یہی ہے۔ یہ لوگ اپنے ناپاک ارادوں میں ناکام رہیں گے اور ہمیشہ اس بات کی حسرت ان کے دل میں رہے گی۔ لئن قتلتم فی سبیل اللہ او متم لمغفرۃ من اللہ ورحمۃ خیر مما یجمعون۔ اگر تم اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہو۔ یا مر جائو لمغفرۃ من اللہ ور رحمۃ خیر مما یجمعون۔ تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور اس کی رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو لفظی بحثیں ہیں۔ ان کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ وہ ساری پہلے گزر چکی ہیں۔بار ہاگزر چکی ہیں۔
لفظقتلکے متعلق کل بھی گفتگو ہوچکی ہے اورصرف جو قابل توجہ امر ہے بعض مفسرین نے اٹھایا ہے وہ یہ ہے۔ یہاں قتلتم پہلے رکھا ہے اور متم بعد میں رکھا ہے۔لمغفرۃ من اللہ و رحمۃ خیر مما یجمعون۔ اس میں قتل کو پہلے کیوں کیا گیا ہے اور موت کو بعد میں کیوں رکھا گیا ہے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ خداکی راہ میں شہید ہونا چونکہ زیادہ بڑا مرتبہ ہے۔ اور مرتبے کی فضیلت کے اعتبار سے قتل کو پہلے کرلیا گیا ہے اور موت کو بعدمیں رکھا گیا ہے۔ میرے خیال میں یہ بھی پیش نظر ہوسکتا ہے۔ لیکن اصل وجہ اور ہے۔ وہ یہ ہے کہ جنگ میں طبعی موت مرنا تو ایک بہت بعیدکی بات ہے۔ اور شہادت بدرجہ اولی میسر آتی ہے۔ اس لئے جو اہمیت ہے وہ واقعاتی اہمیت ہے کہ جب خدا کی راہ میں جہاد کیلئے نکلے ہو تو ظاہر ہے کہ قتل کیلئے تیار ہوکر جارہے ہو۔ اس لئے موت کا کوئی سوال نہیں ہے بظاہر۔ لیکن پھر موت کا ذکر کیوں کردیا۔ اس لئے کہ اس سے پہلے ضربتم فی الارض میں دونوں صورتیں پیش فرمائی جاچکی ہیں اور پچھلی آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب تم خداکی راہ میں نکلتے ہو سفر پر۔ اور متم کا الزام کہ اس غلطی کی وجہ سے تم نے موت قبول کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر پر نکلے۔ جو دشمنوں نے لگایا تھا۔ جسکامطلب یہ ہے کہ بعض سفر میں شامل لوگ لڑائی کے بغیر بھی سفر کی مشقتوں کی برداشت نہ لا کر مشقتوں سے مغلوب ہوکر دم توڑتے رہے اور بڑے بڑے سخت حالات مسلمانوں کو ان سفروں میں پیش آئے ہیں۔ پس اسی پہلو سے ان کا بھی مرتبہ دراصل شہید ہی کا ہے اور ان شہداء کے بعد جن کو قتل کے ذریعہ شہیدکیا گیا۔ ان شہداء کا ذکر فرمایا گیا ہے جو اللہ کی خاطر سفر میں کسی وجہ سے مارے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم ان مربیان اور واقفین زندگی کو بھی ایک قسم کا شہید شمار کرتے ہیں۔ جو قتل نہ بھی کئے گئے ہوں۔ مگر اللہ کی راہ میں جب اس کی خاطر جہاد کیلئے دوسرے ملکوں میں گئے ہوں۔ لمبے سفرپر گئے ہوں۔ وہاںموت آجائے تو اسی آیت سے استنباط کرتے ہوئے۔ ان کو بھی ایک گو نہ شہادت کا درجہ دیا جاتا ہے اصل اجر تو اللہ تعالیٰ نے دینا ہے۔ مگر ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ ان شہداء میں شمار فرمائے گا۔ جن کا ذکر اس آیت کریمہ میں ملتا ہے۔ ولئن قتلتم فی سبیل اللہ او متم لمغفرۃ من اللہ ورحمۃخیر مما یجمعون۔ اللہ کی طرف سے مغفرت اور رحمت اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔ یہاں مفسرین اکثر جمع کی بحث کی طرف زیادہ توجہ کررہے ہیں اور یہ بھی بحث اٹھائی گئی ہے کہ مغفرت کو پہلے رکھا گیا ہے اور رحمت کو بعد میں رکھا گیا ہے۔ ان کا کیا جوڑ ہے۔ کس معاملہ میں مغفرت ہے کس بارہ میں رحمت ہے۔ یہ جو بحثیں ہیں ان کو تفاسیر کے حوالے سے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ علامہ رازی اس آیت پر مجموعی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس میں منافقوں کے شبہ کا جواب دیا گیا ہے۔ موت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ انسان کیلئے موت یا قتل کے سوا کوئی جائے فرار نہیںیعنی اس نے لازماً یا قتل ہونا ہے یامرنا ہے۔ جب یہ موت یا قتل اللہ کی راہ میں میسر آجائے۔ تو اس سے بہتر ہے کہ اسے دنیا کی لذات طلب کرتے ہوئے حاصل کیا جائے۔ پس وہ موت بھی شہادت ہی ہے۔ کیونکہ خدا کی راہ میں میسر آئی۔ یہ وہ لذات ہیں جن کا اس دنیا کے بعد کوئی فائدہ نہیں۔ اس جواب میں قوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان جہاد کی طرف توجہ کرتا ہے۔ تواس کا دل دنیا سے اعراض کرنے والا اور آخرت کی طرف مائل ہوتا ہے۔ جب مارا جاتا ہے تو گویا اس نے دشمن سے چھٹکارا حاصل کرلیا۔ اور اسے محبوب وصال میسر آیا۔ اور وہ دوسرا شخص جب گھر میں بیٹھا ہے۔ اسے مرنے کا خوف اور دنیا کی تڑپ فکرمند کئے ہوئے ہیں۔ جب وہ مرجاتا ہے تو گویا وہ اپنے معشوق سے دور کرلیا جاتا ہے (یعنی دنیا اور دنیا کی لذتیں) گوشئہ گمنامی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اب کچھ شک نہیں کہ پہلا شخص سعادت میں کامل اور دوسرا شخص شقاوۃ میں یعنی بدبختی میں کامل ہے۔ نافع حمزہ کسائی نے متم کو میم کی کسرہ کے ساتھ بھی پڑھا ہے۔ یعنی مِتُم اور دوسروں نے میم کی ضمہ سے بھی جیسے مُتُماس پر ایک ضمنی گفتگو ہے وہ توجہ کے لائق نہیں
لمغفرۃ ابن عطیہ نے کہا ہے۔ لمغفرۃ کے لفظ سے اشارہ ہے۔ موت یا قتل کی طرف۔ اس موت اور قتل کو مغفرت اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ دونوں مغفرت سے وابستہ ہیں۔ امام رازی نے کہا ہے کہ مغفرت سے اس کی سزا کے خوف سے عبادت کرنامراد ہے۔ اور رحمت سے حصول ثواب کی خاطر عبادت کی طرف اشارہ ہے۔ ابن عطیہ نے جویہ فرمایا ہے کہ لمغفرۃ کے لفظ سے موت اور قتل دونوں کی طرف اشارہ ہے۔ یہ اس طرح نہیں کہ مغفرت کا قتل سے تعلق ہو۔ اور رحمت کا موت سے۔ بلکہ دونوں لفظوں کا قتل سے بھی تعلق ہے اور موت سے بھی تعلق ہے اکٹھے۔ اور مغفرت کا قتل اور موت سے بھی تعلق ہے گو پوری وضاحت نہیں کی۔ لیکن بات یہ وہ بیان فرما رہے ہیں کہ جب انسان قتل ہو یا مرے تو سب سے پہلا سوال اس کے لئے مغفرت کا اٹھتا ہے اگر مغفرت ہی نہ ہو تو پھر رحمت کا کیا سوال ہے؟ اور سب سے زیادہ اہم مسئلہ مرنے کے بعد مغفرت کا اٹھے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے دونوں کی مغفرت کا وعدہ فرمادیا۔ کہ اس راہ میں خواہ تم قتل کے ذریعے مرو یا طبعی موت مر جائو۔ دونوں صورتوں میں میں تم سے مغفرت کا وعدہ کرتاہوں۔ تمہارے گناہ بخشے جائیں گے۔ لیکن اس سے زیادہ رحمت ہے اس کے بعد پھر رحمت کا لامتناہی مضمون ہے اس کی کوئی حد ہی نہیں ہے۔امام رازی نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ مغفرت کا ذکر سزا کے خوف سے عبادت کرنامراد ہے۔ بظاہر اس آیت میںیہ مضمون پیش نظر دکھائی نہیں دے رہا۔ یہاں عبادت کی بحث ہی نہیں ہے۔ یہاں تو جہاد کی بات ہورہی ہے۔ وہ کہتے ہیں دو ہی قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو عبادت مغفرت کے خوف سے کرتے ہیں ان کی جزاء مغفرت ہے اور کچھ وہ ہیںجو رضاء الہی کے حصول کیلئے عبادت کرتے ہیں ان کی جزاء رحمت ہے۔ یہ اپنی جگہ مضمون اچھا ہے مگر یہ دراصل امام رازی نہیں ہیںمیں حیران تھا امام رازی ..... مگر منسوب امام رازی کی طرف کیاگیا ہے تفسیر بحر محیط ابو الحیان اندسی کا حوالہ ہے بہرحال کسی تفسیر سے لیا گیا ہو انہوں نے منسوب امام رازی کی طرف کیا ہے۔ یہ سمجھ نہیں آئی کہ پھر امام رازی کی اپنی تفسیر میں کیوں اس کا ذکر نہیں یہ حوالہ نکالنے والے نے کچھ کہیں کوئی کوتاہی کی ہے۔ ہمارے پاس ہے امام رازی کی تفسیر آج ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ چیک کریںاس کو دوبارہ اس آیت کے متعلق تفسیر القاسمی میں لکھا ہے۔ پہلی آیت میں قتل کو موت پر مقدم رکھا کیونکہ یہ زیادہ ثواب والا اور اللہ کے نزدیک زیادہ عظیم مرتبہ رکھتا ہے اور مغفرت اور رحمت کا اس پر زیادہ انحصار ہے۔ دوسری آیت میں موت کو مقدم کیا۔ کیونکہ یہ کثرت سے ہوتی ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی ہے کہ حکم الٰہی اور جنگ سے تم مت فرار ہو۔ بلکہ اس کی پکڑ اور اس کے عذاب سے فرار اختیار کرو۔ اب ا ن باتو ںکے متعلق جو ابھی آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ قتل کا ذکر پہلے اور موت کا بعد میں۔ یہ تو میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ مغفرت کا تعلق قتل سے ہے اور رحمت کا تعلق بھی قتل سے ہے۔ اسی طرح موت سے بھی ان دونوں کا تعلق ہے۔ یہ بات بھی کھل گئی ۔ لیکن دوسری آیت میں ولئن متم او قتلتم میں فوت کو پہلے کیوں کردیا۔ اور قتل کو بعد میں کیوں کردیا۔ اس لئے کہ پہلی آیت خاص ہے شہداء کیلئے۔ اللہ کی خاطر جہاد میں شرکت کی غرض سے سفر کرنے والے یا جہاد میں شرکت کے نتیجہ میں شہید ہوجانے والوں کا ذکر ہے۔ ولئن قتلتم فی سبیل اللہ۔ اور دوسری آیت میں سبیل اللہ کاذکر نہیں ہے وہ عام ہے اور عام حالات میں موت کا وارد ہونا ایک طبعی امر ہے۔ جو غیر معمولی طور پر زیادہ لوگوں پر چسپاں ہوتی ہے اور قتل شاذ ہوتا ہے۔ تو جہادمیں قتل اکثر ہوتا ہے اور موت شاذ ہوتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس نسبت سے بڑی فصاحت و بلاغت کے ساتھ اس ترتیب کو دوسرے موقعہ پر بدل دیا۔ جہاں عام انسانوں کا ذکر چل رہا ہے۔فرمایا ولئن متم او قتلم یہاں سب انسان بحیثیت انسان مخاطب ہیں۔وہ جوموت سے ڈرتے اور ڈراتے تھے ان کو کہا جارہا ہے کہ خواہ کسی طرح بھی تم مرو قتل ہو یا مارے جائو۔ یہ یاد رکھنا کہ پہنچو گے وہیں جہاں تم نے بالآخر پہنچنا ہے تو اللہ ہی کے حضورسب اکٹھے کئے جائو گے۔ مما یجمعون کی بحث میں تفسیر بحر محیط میں لکھا ہے کہ یجمعون کی طرف اشارہ اس لئے کیا گیا ہے کہ وہ جو دنیا میں رہنا چاہتے ہیں۔ دراصل دنیا کی حرص و ہوا کی خاطر رہتے ہیں اور یہاں جمع کرنا شروع کردیتے ہیں مال و دولت۔ اور دنیا کی نعمتوں کو تو ان کو بتایا گیا ہے کہ تم آخریہ چھوڑ کر جانے والے ہو۔ الیٰ اللہ تحشرون ۔ اس سارے اندوختے کا کیا فائدہ۔جو کچھ بھی جمع کرو گے بہر حال ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ اس لئے جلد یا بدیر ان سے جدا ہونا مقدر ہے اور وہاں تم خالی ہاتھ جائو گے۔ سوائے اس کے کہ نیک اعمال تمہارے دامن میں ہوں۔ وہی تمہارا ذخیرہ ہے جو تمہیں آخرت میں کام آسکتا ہے۔ پس یہ معنی ہے یجمعون کا۔اب میں آیت ایک سو ساٹھ (160) یہ تو میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے۔ ان دونوں آیات کا مضمون بالکل واضح اور کھلا ہوا ہے۔ جو دو تین باتیں قابل ذکر تھیں۔ ان پر میں گفتگو کرچکا ہوں۔)
اب آیت ایک سو ساٹھ (160) میں ہم داخل ہوتے ہیں۔
فبما رحمۃٍمن اللّٰہ لنت لھم و لو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک‘
پس یہ اللہ کی عظیم رحمت ہے۔ بما رحمۃ کا مطلب ہے غیر معمولی اور عظیم رحمت یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمۃللعلمین ہونا ظاہر فرمایا گیا ہے اور یہ آپ کی ایک مستقل جاری حالت تھی۔یہ کسی حادثے کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوئی۔ قرآن کریم فرماتا ہے ہم نے تجھے نہیں بنایا الا رحمۃ للعلمین۔ مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت۔ صرف مومنوں کیلئے نہیں‘صرف عربوں کیلئے نہیں۔ بلکہ دنیا کی ہر قوم کیلئے اور ہر زمانے کیلئے اور ہر جہان کیلئے۔ عالمین میں یہ سارے مضمون داخل ہیں۔ پس کوئی بہت ہی جاہل ہوگا جو اس لفظ ’’رحمت‘‘ کو جنگ احد کے موقعے سے خاص کردے گا اور ایسے جاھل موجود ہیں دنیامیں یا مرچکے ہیں۔ ان کا میں ذکر کرنے والا ہوں۔ اس رحمت کی وجہ سے جو غیر معمولی رحمت تجھے عطا ہوئی تو ان پر مہربان ہے۔ اب رحمت کے ساتھ لنت کا لفظ جوجوڑا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں صرف مومنوں پرمہربانی کا ذکر نہیں۔ منافقوں پر بھی کافروں پر بھی سب پر مہربان ہے ۔ کیونکہ رحمۃ للعلمین کا مضمون سارے جہان پر ہر کس و ناکس پر حاوی ہے۔ اس پہلو سے لنت کا جو مفعول ہے وہ یہ سب لوگ شامل ہیں اس میں۔ تو ہر ایک سے نرمی کا سلوک فرماتا ہے یہ تیری عادت ہے یہ ‘تیری فطرت میں داخل ہے۔ ولو کنت فظاً غلیظ القلب لا نفضوا من حولک۔ اگر تو بداخلاق ہوتا‘ بد مزاج ہوتا۔ ’’فظ‘‘ کہتے ہیں اس کھاری پانی کو جس میں بو بھی ہوتی ہے اور کچھ معدے کا گند بھی ملا ہوا ہوتا ہے۔جو اونٹ کی اوجڑی میں اس وقت تک رہتا ہے کہ جب سب پانی کسی مسافر کے ختم ہوچکے ہوں اور کوئی رستہ نہ ہو زندگی بچانے کیلئے کہیں سے پانی ڈھونڈنے کا۔ تو وہ پانی جو اونٹ کی اوجڑی میں خدا تعالیٰ نے انتظام فرما رکھا ہے۔ آخر وقت تک محفوظ رہتا ہے۔ اس وقت پھر مجبور ہوکر یہ اونٹ کی اوجڑی سے وہ پانی نکالتے تھے اور وہ دیر کا جما ہوا پانی اور اس اوجڑی میں پھر جما ہوا پانی‘ اس میں بدبو بھی ہوتی تھی۔ اس میں کئی قسم کی تیزابتیں پائی جاتی تھیں۔ وہ آخری زندگی بچانے کا ذریعہ تو تھا مگر پسندیدہ ذریعہ نہیں تھا۔ پس اس رکے ہوئے تیزابی پانی کی مثال اخلاق سے دی جاتی ہے عرب میں۔ جس شخص کا خلق ایسا ہو‘ جس سے وہ سڑا بسہ اور تیزابی اور جس کا مارا ہوا پانی جو اونٹ کی اوجڑی سے نکلتا ہے جان تو بچا دیتا ہے۔ کچھ گذارا ایسے آدمیوں کاچلتا ہے گرد و پیش باتوں میں۔ لیکن لوگ اس سے بھاگتے ہیں۔ اور وہ پانی جس طرح جب تک اشد ضرورت پیش نہ آئے۔ کوئی آدمی پینے پر تیار نہیں ہوا۔اس طرح اس آدمی سے معاملے پر سوائے اس کے کہ کوئی بچارا گیا گذرا مجبور ہی ہو کوئی آمادہ نہیں ہوتا۔ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں اس بداخلاق سے کہ جہاں مجبوری ہو وہاںپیش آگئے بس اس کے بعد اس سے زیادہ نہیں۔صاحب سلامت دور کی اچھی ہے ان سے اور بہت ہی مجبوری ہو تو پھر ان سے واسطہ پڑتا ہے۔ فرمایا ! اگر تونعوذباللہ من ذلک اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمت کے بدلے یہ ہوتا یعنی دو الگ الگ کنارے دکھائے گئے ہیں۔ ایک رحمت کا کنارہ ہے جو اپنے انتہا میںایک طرف پہنچا ہوا ہے۔ دوسرا ہے فظاً کا کنارہ جو بد اخلاقی میں دوسری انتہا کو ہے۔ اگر تو فظا غلیظ القلب ہوتا۔ اور سخت دل ہوتا۔ غلیظ قلب سخت دل جو فرمایا گیا ہے اس کا بداخلاقی سے ایک فرق ہے۔ بعض قومیں مزاج کی سخت ہوتی ہیں۔ ان کے با اخلاق بھی سخت دل ہوتے ہیں اور بعض قومیںمزاج کی نرم ہوتی ہیں اور ان میں بعض سخت دل بھی‘ بد اخلاق بھی مل جاتے ہیں۔ دل کی نرم ہوتی ہیں قومیں مگر ۔ اور خوش اخلاق بھی اکثر ملتے ہیں۔ تو آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں کئی قومیں ہیں جو پتھریلے علاقے میں رہنے والی ۔ اور اسی طرح ریگستانوں میں سخت زندگی بسر کرنے والی‘ جن کے دلوںمیں سختی موجود ہے‘ فرمایا اگر تویا بد اخلاق ہوتا یا دل کی سختی تجھ میں پائی جاتی باوجود اس کے کہ بظاہر ایک سخت دل قوم سے تیرا تعلق ہے۔ یعنی اہل عرب شدید تھے اپنی دشمنیوں میں بھی‘ اپنے جذبات میں بھی‘ ان کے دلوں میںایک خاص قسم کی سختی پائی جاتی تھی تو پھریہ تجھ سے دور بھاگ جاتے۔ اب سوال ایک یہ اٹھتا ہے کہ رحمت کے مقابل پر اتنی دور کی بات کیوں فرمائی گئی۔ یہ کیوں نہ کہہ دیا کہ اگر رحمت تجھ میں نہ ہوتی۔ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق کی وجہ محض اخلاق نہیں تھی۔ بلکہ آپ میں دوسری خوبیاں‘ انسانی خوبیاں اور علمی خوبیاں اور تقویٰ کی دوسری خوبیاں اتنی زیادہ اور کثرت سے پائی جاتی تھیں کہ کوئی اتنا ہی بد اخلاق ہوتا کہ لوگ اس سے بھاگتے ورنہ نہیں بھاگ سکتے۔ یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں جو جاذبیت پائی جاتی تھی۔ ہر طرف سے وہ اتنی شدید تھی کہ کسی کے بھاگنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ فرمایا ایک ہی صورت بھاگنے کی ہوسکتی تھی کہ تو اخلاق میں اتنا سخت ہوتا اور کہ لوگ جس عام آدمی سے متاثر ہوکر دور ہٹ جاتے اور پھر دل بھی تیرا سخت ہوتا تب جاکر کہیں یہ بچارے تجھ سے الگ ہوتے۔ مگر اس کے برعکس تو تو رحمت کا مجسم ہے۔ کل عالم کے لئے رحمت ہے اور ہمیشہ ان پرجھکا رہتا ہے۔ اسلئے تجھ سے یہ بھاگ کیسے سکتے ہیں۔ یہ مضمون بعض بدبختوں نے بالکل اورطرح سمجھا ہے ۔میں اس کا ذکر بعد میں کرونگا۔ مگر پہلے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا اظہار آپ پر کرنے کے لئے کتنی عظیم شان یہاں بیان ہورہی ہے یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ موقعہ ہے ان لوگو ںکے ذکر کا جو آپ کو چھوڑکر چلے گئے تھے۔ کیسے ہوا یہ واقعہ ؟ یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ کوئی شدید مجبوری پیش آئی ہے۔ کوئی بے اختیاری کی صورت ہے۔ ورنہ تجھے چھوڑ کر بھاگ کہاں سکتے ہیں۔ تو مجسم رحمت تو مجسم خُلق۔ تم میں ادنیٰ اخلاق کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ اور دل کا ہمیشہ سے نرم۔ کہ تجھ جیسے انسان کو چھوڑنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ اُن کی بے اختیاری کا نقشہ ہے جو کھینچا جارہا ہے۔ فاعف عنہم و استغفرلھم اس کے بعد طبعا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پس ان سے بخشش کا سلوک فرما۔ کوئی بہت بڑی بدبختی نہیں کی گئی۔ حالات ایسے پیش آگئے تھے کہ مجبوراً بچاروں کے پائوں اکھڑے ہیں اور ریلوں میں ایسا ہوجایا کرتا ہے بعض دفعہ۔تجھ سے بے رغبتی کا کوئی سوال نہیں تھا۔ تیری ناقدری کا کوئی سوال نہیں تھا۔ اگر یہ ہوتا تو اس تمہید کے بعد یہ آ ہی نہیں سکتا تھا۔ فاعف عنہم و استغفرلھم کتنا تضاد ہے ان دو باتوں میںیہ نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا۔ ایک طرف یہ فرمایا جارہا ہو کہ تو ایسا ہے۔ اور اس کے بعد یہ کہا جارہا ہو کہ انہوں نے تیری قدر نہیں کی۔ تجھے نہیںپہچانا۔ ان سب باتوں کے باوجود عمداً تجھے چھوڑا ہے۔ اس لئے تو ا ن سے مغفرت کر یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ایسی نامعقول بات کسی شیعہ مصنف کے دماغ میں تو آسکتی ہے۔ یا عیسائی Wherry کے دماغ میں تو آسکتی ہے۔ کسی شریف النفس معقول انسان کے ذہن میں اس بات کے داخل ہونے کی گنجائش ہی نہیں اس آیت نے چھوڑی۔ مگر آیت پر غور نہیں کرتے۔ اپنے نفس کے بغض اچھالنے کیلئے ان آیتوں کو بہانہ بنا رکھا ہے۔ اب میں بعد میں اس طرف پھر آئوں گا۔ مزیداس آیت کے ذکر میں بتاتا ہوں۔ فاعف عنہم و استغفرلھم۔ فاعف کا ایک مطلب ہے۔ بالکل تختی صاف کردے دھوڈال کہ نشان باقی نہ رکھ۔
عفت الدیار محلھا و مقامھا
جس طرح بعض شہر مٹ جاتے ہیں۔ ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا۔ اس لئے ان کے متعلق کسی قسم کی رنجش کا کوئی پہلو بھی نہیں۔اللہ سے ان کی بخشش طلب کر۔ واستغفرلھم یعنی تونے تو معاف کردیا۔ اللہ سے بھی بخشش مانگ۔ آخر کار واقعہ بڑا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلے چھوڑ دینا۔ خواہ کتنی ہی مجبوری کے پیش نظر۔اپنی ذات میں بہت بڑا واقعہ ہے اور جن پر یہ گزرا ہے ان کے دل جانتے ہوں گے مدت تک ترستے ہونگے اس بات پر کہ کاش ہم نہ ہوتے تو ان کی تسلی کیلئے یہ آیت رکھی گئی ہے کہ تیرا دل تو صاف ہوجائے گا۔ تو تو کردے گا۔ تیری تو عادت ہی یہ ہے۔ لیکن اللہ سے بخشش طلب کر ورنہ ا ن کے دل کو سکو ن نصیب نہیں ہوگا اور پھر فرمایا ! وشاورھم فی الامر۔ اور ان سے مشورہ جاری رکھ۔ ان کو دور نہ پھینکنا۔ تمام اہم امور میں ان سے مشورہ کرتا رہ۔ جاری رکھ کا معنی میں اس لئے کررہا ہوں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ہمیشہ سے دستور تھا۔ ہمیشہ مشورہ کیا کرتے تھے۔ یہ بات بالکل جھوٹ ہے کہ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ وہ جو باغی ہوئے جاتے ہیں اور تونے انکا مشورہ نہیں مانا اس لئے آئندہ سے میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ ان سے ضروری مشورہ کرلیا کرو۔ ورنہ یہ تمہیں چھوڑ کے چلے جائیں گے۔ یہ بعض بدبختوں نے معنے کیا ہوا ہے۔ اسکے پیش نظر میں آپ کو سمجھا رہا ہوں۔ اس معنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کیونکہ جنگ احد کا آغاز ہی مشورہ سے ہوا ہے اور ان کا مشورہ ماننے کے نتیجہ میں تکلیف پہنچی ہے۔ پس یہاں یہ نہیں فرمایا جارہا کہ آئندہ سے مشورہ کیا کر۔ یہاںیہ فرمایا جارہا ہے کہ آئندہ سے مشورہ کر تو اپنی مانا کرنا۔ ضروری نہیں کہ ان کا مشورہ مان۔ فرمایا ہے فاذا عزمت فتوکل علی اللہ جواس جنگ واقعہ گزرا تھا۔ وہ تو یہ تھا یہ نہیں تھا کہ مشورہ نہیں کیا تھا۔ مشورہ کیا تھا اور اس مشورہ کو دل نے پسند نہیں کیا اور اس کے خلاف اظہار فرمایا اور جب ان لوگوں نے اصرار کیا جو مشورہ دینے والے تھے۔ تو ان کی خاطر اتنا نرم دل ہے لنت لھم میں یہ مضمون ہے رحمت میں دل سے مجبور ہوگئے کہ اچھا یہ میرے خدام‘ عشاق اتنا زور دے رہے ہیں۔ تو میں مان ہی لیتا ہوں۔ یہ پس منطر ہے جو آپ کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ جو لوگ جنگ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور بہت سے نوجوان ایسے تھے جو بعد میں ابھرے ہیں اور باہر سے آکے شامل ہوئے ہیں نئے مسلمان ہوئے ہیں وہ جنگ بدر کے واقعات سنتے تھے تو سخت دل ان کا چاہتا تھا کہ ہم بھی لڑیں۔ جب احد کی لڑائی ہوئی ہے اس سے پہلی رات مشورے ہورہے تھے کہ ہم مدینہ میں قلعہ بند ہوکر لڑیں یا مدینہ سے باہر نکل کر احد کے میدان میں دشمن سے ٹکرائیں۔ اس وقت بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ زور دیتے تھے کہ باہر نکل کر لڑیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اس کے خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ اس موقعہ پر بہترین دفاع قلعہ بند ہونے میں ہی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس صورت میں مدینہ والے پابند ہوجاتے معاہدے کی رو سے کہ وہ بھی مسلمانوں کی مدد کریں۔ یہ کوئی احسان نہ ہوتا۔ پھر اپنے گھر بھی بچانے تھے انہوں نے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کا بھی یہی مشورہ تھا کہ مدینہ میں ہم لڑیں تو ہمارے عورتیں بچے سارے ہمارا پرانا تاریخی مسلک یہی رہا ہے کہ ہم شہر کے اندر لڑتے ہیں۔ تاکہ پھر عورتیں‘ بچے ‘ مرد سب شامل ہوتے ہیں۔ پتھر اوپر اکٹھے کرلیتے ہیں اور کئی قسم کے ہتھیار اور گھروں کی چھتوں سے گلیوں میں داخل ہونے والوںکو مارتے ہیں اور عبداللہ بن سلول کہتا تھا کہ کبھی مدینے کو شکست نہیںہوئی۔جب اہل مدینہ نے مدینہ کے اندر لڑائی کی ہے کبھی آج تک تاریخ میں ان کو شکست نہیںہوئی۔پس یہ الگ بات ہے کہ اس کا بھی یہی مشورہ تھا۔ مگر یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صائب الرائے ہونے کا اشارہ فرمایا گیا ہے۔ واضح کیا گیا ہے اس بات کو کہ تونے مشورہ کیا ٹھیک ہے اور ان کی بات مان لی نرم دلی سے لیکن اس واقعہ کے بعد ہم تجھے حکم دیتے ہیں۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ۔ فیصلہ تونے خود کرنا ہے آخر پر اور جب تو فیصلہ کرلے تو لوگوں پر نہیں بلکہ اللہ پر توکل ہوگا۔ کیونکہ اللہ کے حکم کے تابع تو فیصلہ کررہا ہے اور یہ جو ہے امر کا معاملہ یہ یہاں حل ہوگیا۔ یہ اس سے پہلے ذکر ہورہا تھا۔ ہمارے پاس کوئی امر ہے کہ نہیںجواب تھا تو کہہ دے الامر کلہ للہ امر تو سارے کا سارا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔تو یہ اس کے منافی بات نہیں ہو رہی۔ فرمایا ! اللہ کے ہاتھ میں امر ہے تو عوامی فیصلے میں کیسے ہم لازماً اللہ کی پسند شامل کرلیں گے۔ امکان ہے کہ عوامی فیصلہ درست ہو۔ لیکن اللہ کے امر کا فیصلہ اسے یقینا نہیں کہا جاسکتا۔ وہ تبھی ممکن ہے کہ اللہ کا رسول اس فیصلے میں بدل و جان شامل ہو۔ اور اس کا دماغ بھی یہ کہہ رہا ہو کہ ہاں یہی فیصلہ درست ہے۔ اس فیصلے کو اللہ کا فیصلہ کہا جاتا ہے۔ پس اگر سارے ایک طرف رہ جائیں اور رسول کا فیصلہ دوسری طرف ہو۔ تو اللہ فرماتا ہے امراللہ کی خاطر کیونکہ امر اللہ کا ہے اور تو مجاز بنایا گیا ہے ان کے فیصلے کو ترک کردے اور کوئی پرواہ نہ کر۔ پھر اللہ پر توکل کر۔ یہ تیرے کسی کام نہیں آئیں گے مگر اللہ تیرے کام آئے گا۔ اور اسکی خاطر جو تو فیصلے کرے گا وہ لازماً ان کی تائید میں تیری پشت پر کھڑا ہوگا۔ یہ ہے مضمون جو بالکل واضح اور عین آیات کے سیاق و سباق کے مطابق ہے اور بعد میں اس کا حلیہ کیا بگاڑا گیا تھا۔ وہ میں بتاتا ہوں آپ کو۔ ان اللہ یحب المتوکلین O اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ یعنی صرف ایک معاہدے کی بات نہیںہے۔ اقرار کی بات نہیں ہے۔ یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ توکل کا حکم دیا گیاہے اس لئے محبت کا مضمون بطور خاص اول طور پر ان کے حق میں صادق آتا ہے۔ فرمایا ہے تو جب فیصلہ کرنے والے ہو اللہ کی خاطر‘ اور جب تو توکل کرے تو پھر صرف یہ بات نہیں ہے کہ تونے ایک ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کام کیا ہے۔ تو تو میرا محبوب ہے۔ محبوب کو کو ن چھوڑا کرتا ہے۔ اس لئے صرف توکل کی بحث نہیںہے ۔اللہ توکل کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔ خاص طور پر توکل کرنے والوں کے سردار سے محبت کرتا ہے کیونکہ یہاں پہلے واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔’’ توکلوا ‘‘ نہیں فرمایا گیا۔ اس لئے اگرچہ جماعت کا ذکر ہے مگر اول طور پر متوکل ہی مراد ہے حس کو یہ فرمایا گیا۔ ’’فاذا عزمت فتوکل علی اللہ‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو جب یہ فیصلہ کرے کوئی‘ مشورہ سُن لے ‘ درست ہے۔ فیصلہ تیرا ہوگا۔ جب تو فیصلہ کرلے تو تو اللہ پر توکل کر۔ اس لئے متوکلین کی محبت میں سرفہرست وہ وجود ہے جس کو واحد کے صیغہ میں توکل کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اب ہم اس آیت کی تفسیر میں داخل ہوتے ہیں۔کتنا ڈیڑھ گھنٹہ وقت کے لحاظ سے آج بھی کچھ منٹ زیادہ رکھے گئے ہیں یا اتنا ہی ہے جتنا روز ہوتا ہے۔ ٹائم زائد ہے ناں۔ چند منٹ یہ لیٹ آئے تھے۔ اس کی کسر نکل جائے گی۔ انشاء اللہ
’’لنت‘‘ اقرب الموارد اور منجد سے اس کی جو لغاتی بحث ہے وہ یہ ہے۔ لان لہ ولا طفہ یقال لئن اصابک ولا تخا شمھمکہ تو نرم گوشہ رکھ اپنے دل میں کسی کیلئے‘ اپنے ساتھیوں کیلئے ‘ پس لان کا مفہوم مختلف طریق پر انہوں نے چھیڑا ہے سب کا قدر مشترک وہی ہے کہ کسی سے نرمی کا سلوک کرنا۔ ملاطفت کا سلوک کرنا‘ نرم گیری سے پیش آنا۔ فظاً بدمزاج شخص کو۔ یہ فِظاًّسے مستعار ہے۔جس کے معنے اونٹ کی اوجڑی میں جمع رہنے والا پانی ہے جو سخت ضرورت کے وقت بادل نخواستہ پیا جاتا ہے۔ ’’مفردات امام راغب‘‘ اس کا میں پہلے ذکر کرچکا ہوں۔ غلظ علی سخت ہونا‘ مضبوط ہونا۔یایھا النبی جاھدا الکفار و المنافقین واغلظ علیھم توبہ آیت نمبر 73 میں اس کی مثال ہے۔ غلیظ القلب کا مطلب ہے‘ سخت دل‘ شقی القلب‘ غلظہسختی کو کہتے ہیں۔ استغلظ جب پودا مضبوط ہو جائے اس وقت لفظ استغلظ استعمال ہوتا ہے۔باقی سب یہی معنے ہیں۔ ایک لفظ تھا فظ جو ’’ظ‘‘ کے ساتھ ہے جس کی پہلی بحث گزر چکی ہے۔
’’لانفضوا من حولک‘‘ ’’ض‘‘ کے ساتھ ہے۔ اس لئے جب ہم اس کو انفضکہیں گے تو ’’د‘‘ سے نہیں ہے ’’ض‘‘ سے ہے اور بعض لوگ اس کو ’’ظ‘‘ کی طرح پڑھتے ہیں۔ اس لئے میں فرق بتانا چاہتا ہوں کوئی۔ پہلے ہے۔ ’’فبما رحمت من اللہ لنت لھم و لو کنت فظْا غلیظ القلب‘‘ ’’ظ‘‘ کو جب ادا کیا جاتا ہے تو زبان تھوڑی سی دانتوں سے آگے نکلتی ہے اور اس طرح ’’ظ‘‘ کی آواز صحیح مخرج سے ادا ہوتی ہے اور ’’ض‘‘ میں زبان زرا سابل کھا کر بائیں طرف ہٹتی ہے اور ’’د‘‘ اور ’’ذ‘‘ کے درمیان کی آواز نکلتی ہے۔ ’’دواد‘‘ حس طرح یہ کہا جاتا ہے ۔ اس پر پوری طرح مجھے عبور نہیں ہے ۔ اس لئے عرب جب یہ سنیں تو میں ان سے معافی چاہتا ہوں۔ مگر قریب ترین جو میں آواز نکال سکتا ہوں وہ یہ ہے۔ آپ کو سمجھانے کیلئے۔ یہاں ’’ض‘‘ آیا ہے۔ انفض ‘ ینفض کسی چیز کو توڑنا اور ریزہ ریزہ کرنا۔ فض ختم الکتاب۔ خط کی مہر کو توڑنا کہ وہ پارہ پارہ ہوکر بکھر جائے اور فضۃ چاندی کو بھی کہتے ہیں۔انفض القوم کا محاورہ چلا ہے۔ امام راغب کے مطابق جس کے معنے ہیں متفرق اور منتشر ہوجانا۔ لیکن یہی مضمو ن جب صلہ بدل جائے تو اور معنے پیدا کردیتا ہے۔ واذا را وا تجارۃ اولھو ا انفضوا الیھا و ترکو ک قائما۔ سورۃ جمعہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ لوگ جب تجارت کو دیکھتے ہیں یا کسی کھیل کود کی بات کو تو تجھے چھوڑ دیتے ہیں ۔کھڑا ہوا خدا کے حضور یا خطبہ دیتے ہوئے جو بھی شکل ہے۔ اصل میں عبادت کے وقت نہیںہے خطبہ کے وقت مراد ہے۔ یہ روایات ملتی ہیں‘ لا نفضوا من حولک‘ او رمن حولک تجھ سے فضو ہوجاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ تجھ سے بکھر کر دوسری طرف دوڑ پڑتے ہیں تجھ سے جدا ہوکر دوسری طرف دوڑنا۔ حالانکہ وہاں مجتمع ہورہے ہیں تو بظاہر فض کا اصل بنیادی مفہوم وہاں شامل نظر نہیں آتا۔ اس کا تو مطلب ہے بکھر جانا۔ تو جب منہ کہا جائے تو اس سے بکھر جاناتو مراد یہ ہے کہ اس سے پراگندہ ہوجاتے ہیں۔ اس اجتماع کو چھوڑ دیتے ہیںاور کسی اور جگہ جاکر جمیعت اختیار کرلیتے ہیں۔
شاور کا جو بنیادی لفظ ہے وہ ہے شہد نچوڑنا۔’’ شاورھم فی الامر ‘‘ شاور کا لفظ چھتے سے شہد کو نکالنا اور پھر شہد کو صاف کرکے اسے موم وغیرہ سے جدا کرکے خالص کردینا ہے۔یہ بہت ہی پیارا اور بامعنی عجیب معنے رکھنے والا لفظ ہے۔ جس کا استعمال قرآن کریم نے اس کے معنے کی تہہ تک اتر کر کیا ہے۔ ایک شہد کی مکھی بھی ایک قسم کا مشورہ لے رہی ہوتی ہے۔ جب وہ اپنی زبان پر کسی پھول کا عرق اٹھاتی ہے۔ تو وہ صرف اس کو اسی طرح جمع نہیں کرتی۔ بلکہ اپنے لعاب سے اس میں کچھ تبدیلیاں کرکے اس کی خاصیتوں میں اضافہ کرتی ہے پھر وہ شہد بنتا ہے۔ اس کے بغیر نہیں بنتا۔ تو جس کو مشورہ دیا جاتا ہے اگر وہ من و عن اسی طرح آنکھیں بند کرکے چلنے والا ہوتو اس پر درحقیقت لفظ شاور اطلاق ہی نہیں پاتا۔ اس میں مشورہ لینے والے کا عمل دخل لازماًہونا چاہئے۔ پھر جو شہد نچوڑتے ہیں وہ بھی ہر دوسری چیز چھوڑتے ہیں اس میں سے اچھی چیز عرق اور خاص جوہر کو تلاش کرکے اس کونکالتے ہیں اور جب نچوڑ لیا جاتا ہے تو ایک دفعہ پھر اس کی صفائی ہوتی ہے۔ تو مشورہ کا مطلب ہے کسی سے کچھ اس کی رائے معلوم کرنا۔ لیکن من و عن قبول نہ کرنا۔ اس کو اپنی عقل کے ساتھ پرکھنا اور اسکے بہترین حصہ کو قبول کرلینا اورپھر اسکے بعد اس کی جگالی کرتے رہنا اور آخر پر جب وہ تیار ہوجائے تو پھر بھی اس کی صفائی کی طرف توجہ دینا اور ایسی صورت میں اس کو استعمال کرنا کہ اس میں غیر کی ملونی باقی نہ رہے۔ اس مضمون میں جو شہد اکٹھا کرنے والا ہے خواہ وہ پھولوں سے لینے والا ہو پہلے یا بعد میں بنے ہوئے شہد کو اپنے لئے اختیار کرنے والا ہو۔ وہ اصل میں سب سے اہم کردار ادا کررہا ہے۔ تو شاور ھم فی الامرمیں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا ہے ۔ ان آخری معنوں میں۔ اس لئے میں کہہ رہا ہوںکہ یہ وہ معنی ہیں جو اپنے انتہا تک اطلاق پا رہے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی رائے ہر طرف سے تجربے کے بعد اہمیت تو رکھتی ہے لیکن جب تک تیری رائے شامل نہ ہو تو وہ فیصلے میں شفاء شامل نہیںہوگی۔جب تک ترا اختیار بیچ میں شامل نہ ہوجائے اس وقت تک اس مشورے کو وہ اہمیت حاصل نہیںہوسکتی۔ اس لئے ’’شفاء للناس‘‘ کہا جاسکے۔ ایک غیر معمولی شان اس میں پیدا ہوجائے پس ہم تجھے کہتے ہیں کہ تو یہ عمل کر اور ان سب مشوروں کو سننے کے بعد اپنے ذہن میں ان کو دہرا اور غور کر اور پرکھ اور پھر فیصلہ وہ کر جس پر تیرا دل راضی ہو‘ اور پھر اس فیصلے پر عمل دلیری سے کر۔ کوئی پرواہ نہ کر۔ کہ کوئی کیا کہتا ہے اور یقین رکھ کہ تیرا فیصلہ درست ہوگا۔ کیونکہ اللہ پر توکل کیاہے تونے۔ پس اللہ پر توکل کیا جائے تو وہ فیصلہ رائیگاں نہیں جاتا۔ اور پھر تجھ سے محبت بھی ہے تو کل کے بعد محبت بھی تو ہے۔ اب بتا تجھے کیا خوف ہے کیوں تو خواہ مخواہ لوگوں کی خاطر‘ ان کی دلداری کی خاطر بعض امور میں ضرورت سے زیادہ ان کی طرف جھک جاتا ہے۔ ’’شاورھم‘‘ کے متعلق ایک ’’نور العرفان‘‘ کتاب صفحہ111پر لکھا ہے کہ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں نازل ہوئی۔ یہ اس طرح ہی ہے جیسے بعض شیعہ روایتیں اپنے متعلق بنائے جاتے ہیںکہ یہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق نازل ہوئی۔ یہ فلاں کے متعلق نازل ہوئی یہ قرآن کو بے وجہ محدود کرنے والی باتیں ہیں۔ یہ سب اختلافی باتیں ہیں۔ اصل قرآن کو سمجھنا ہے تو اس کے سیاق و سباق کو سمجھیں۔ اور آیات خود ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح گہرا ربط رکھتی ہیں۔ ایک مضمون کو چلاتی ہیں اور دوسری آیت اگلا لفظ اس کو مزید اٹھاتا ہے اور نکھارتا ہے یہاں تک کہ ایک بار بط مضمون اس طرح کھلتا ہے جیسے پھول کھل رہا ہو اور اس میں کوئی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے اور کوئی آیت بھی اپنے سمجھنے کے لحاظ سے کسی مزیدشان نزول کی محتاج نہیں۔ سوائے ان آیات کے جن کا تعلق کسی اہم معروف تاریخی واقعہ سے ہو۔ اس صورت میںضرور ہے کہ شان نزول کی تحقیق کی جائے مگر یہ جو ہے مضمون یہ تو ضرورت سے زیادہ کھینچا گیا ہے اور محل کے مطابق نہیں ہے محل تو میں نے بیان کردیا۔ اس سے تو بات خوب کھل گئی کہ مشورہ کیوں ہوگا اور آخری صورت میں مشورہ کی کیا شکل نکلے گی۔ اس میںحضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کیا ذکر ہے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض سنیوں نے بدلہ اتارنے کیلئے شیعوں کو کہا اچھا تم روایتیں بناتے ہو ہم بھی بنا سکتے ہیں‘ ’’عزم‘‘ عزم کس کو کہتے ہیں لفظ ہے عزم جدفی امرہٖ اپنے کام میں جیت گیا اور کوشش کی۔ قرء العزائم دم کرنے والوںنے منتر پھونکے۔ گویا عزم فلان علی رجل ‘ اقسم علیہ و فی الکتاب الجامع ای اقسمت علیک۔ کسی پر قسم کھا کر کوئی بات کرنا۔ وہ ضرور یہ کام کرے گا۔’’فاذا عزمت‘‘ کا اس لغوی معنے سے کیا تعلق ہے۔ یہ بحث ہے مراد یہ ہے کہ جس طرح قسم کھانے والا اپنے فیصلے کو قوی بتاتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ میں کسی قیمت پر اس کو توڑنے والا نہیں تو ایسا فیصلہ پھر کر کہ گویا تو قسم کھا بیٹھا ہے اور کسی طرح وہ ٹوٹنے والا نہیں۔ ایک تو فیصلہ رسول کا اور پھر یہ بھی ایسا جیسے قسم کھا بیٹھا ہو۔اس کے کسی ٹوٹنے یا بدلنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔تو بعد میں پھر جو مرضی کرنا۔ بعد میں پھر متردد نہیں ہونا۔ جو فیصلہ کرلے توکل کر اور پھر پوری قوت سے اس فیصلے پر عملدرآمد کرا۔ باقی ساری جو ہیں بحثیں وہ انہیں مضامین کے گرد گھوم رہی ہیں جو میںبیان کرچکا ہوں۔ اگر کوئی خاص بات اس مطالعہ کے دوران نظر آئی تو میں آپ کو بتادوں گا۔ بعض کہتے ہیں کہ شاورھم کی ضرورت کیا ہے۔ جب نبی کا خدا سے تعلق ہے اور اس سے راہنمائی حاصل کرتا ہے تو شاور ھم کی ضرورت ہی کیا تھی۔اس بحث کوکیوں چھیڑ اگیا ہے۔ تو اس پر ایک دلچسپ بات امام شافعیؒ نے یہ لکھی ہے۔ ان کے مسلک میں کنواری سے مشورہ لینا اس کی شادی کے متعلق یہ دلداری کی خاطر ہے۔ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو انہوں نے یہ فقہی مسئلہ بھی ساتھ حل کرلیا۔ کہتے ہیں یہاں بھی ویسا ہی معاملہ ہے کہ جس کو پنجابی میں ’’پوچا پاچی‘‘ کہتے ہیں۔ اوپر اوپر سے دلداری کیلئے بات کرلے۔ ویسے مشورہ کی ضرورت کوئی نہیں ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا مشورے کامضمون آپ غور سے دیکھیں۔ تومراد ہے کہ یہ تیری شہد کی مکھیاں‘ یہ تیری عاشق‘ یہ تیری تابع فرمان جگہ جگہ سے اپنے تجربوں سے حکمت کے موتی چنتی ہیں اور جوہر اکٹھی کرتی ہیں۔ ان سے لے لیاکر‘ لیکن پر کھاتو خود کر‘ اور اچھی طرح جب ترا دل اطمینان پاجائے۔ جب تیری رائے پوری طرح شامل ہوجائے تب یہ قابل قبول بات ہوگی اور ایک دفعہ ایسا ہو تو پھر توکل کر۔ اس لئے مشورے کا اگر صرف یہ مراد ہو۔ اگر کسی کو پتہ ہو کہ ’’کچی میٹی ہے۔ تو لوگ توویسے ہی بد دل ہوجائیں۔ مضمون تو ان کواکٹھا کرنے کا ہے۔ وہ تو لوگ بھاگ جائیں گے کہ یہ اچھا ہے‘ ہم جب چھوٹے ہوتے کھیلا کرتے تھے‘ ’’کچی میٹی‘‘ کا مضمون مجھے یاد آتا ہے۔ بعض بچوں کوجو چھوٹے ہوتے تھے ناں۔ ا نکو کہتے تھے کہ تمہیں کھیل میں شامل نہیں کریں گے اور جب ضد کرتے تھے تو کہتے تھے اچھا بھئی آجائو۔ ’’کچی میٹی‘‘ اگر ہار بھی گئے توکوئی شکایت نہیں۔ ہاتھ لگ جائے اسکو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ مرے نہ مرے ایک ہی برابر ہے۔ یہ عجیب مشورہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو ہی نہیں سکتا۔ اور پھر خدا کہہ رہا ہے کہ کوئی بات نہیں ’’کچی میٹی‘‘ ہیں یہ ان سے بات کرلے۔ پرواہ نہ کر۔ مقصد یہ نہیں ہے صرف پہنچانا مراد ہے۔ پہنچانے کی کیا ضرورت ہے؟ فرماتا ہے کہ تو اللہ کی رحمت سے ان کی طرف نرمی کرنے والا‘ شفقت کرنے والا ہے۔ وہ تیرے عشاق ہیں۔ اور شاور میں بھی شہد کی مکھیوں کا مضمون انسان کے سامنے ابھر آیا ہے اس لئے یہ سب باتیں یونہی چٹکلے ہیں۔ ان میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ کہتے ہیں مکاتب وقتادہ صاحب فرماتے ہیں کہ یہ عمل عربو ں کی وجہ سے تھا۔ کیونکہ عرب سرداروں سے جب مشورہ نہیں لیا جاتا تھا یہ امر ان پر گراں گذرتا تھا۔ تو ان کی دلجوئی کی خاطر یہ فیصلہ ہوا۔ تعجب ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑا کب تھا۔ موقعہ کونسا ہے یہ کہنے کا۔ آپ نے تو مشورہ کیا اور بار بار مشورہ کیا اور مشورہ قبول کرلیا اور اس قبول کرنے میں کچھ ایسے خطرات شامل ہوگئے جن کی پیش بندی آپ نے فرمائی لیکن بعض لوگوں کی غلطی سے وہ جو اس میدان میں جانے کے خطرے تھے وہ حقیقی بن گئے ۔ یعنی اگر وہ درے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پچاس سوار اور تیر اندازوں کو مامور نہ فرماتے تو باہر نکلنے کا فیصلہ بڑا غلط تھا پھر۔ وہ خطرے کا مقام تھا۔ آپ نے اپنی عظیم فراست سے پہچان لیا اور اس خطرے کو بند کردیا۔ اس کی راہ بند کردی۔ تو جو نقصان پہنچا وہ مشورہ مان کر ہوا ہے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کیسے فرما سکتا ہے کہ پھر بھی مشورہ کر۔ پوری طرح نہیں نقصان ہوا ’’نعوذ باللہ‘‘مزید مشورے کر۔ یہ معنی ہے کہ مشورے کر لیکن مان اپنی۔ غور کے بعد اچھی بات مل جائے تو بے شک قبول کر۔ لیکن نرمی اور شفقت اور رحمت کی وجہ سے دلداری کی خاطر ان لوگوں کی بات مان لینا۔ آئندہ سے تو اس سے پرہیز فرما۔ یہ کام نہیں پھر کرنا۔ اختیار آپ سے لے کر دوسروں کو نہیں دیا جارہا۔ دوسروں سے لے کر آپ کو دیا جارہا ہے۔ جس کا بالکل برعکس مضمون بعض مستشرقین ا ور بعض دوسرے ظالم سمجھے ہیں۔ باقی سب وہی
امام رازی کہتے ہیں فض اور غلیظ القلب میں فرق کیا ہے۔ کہتے ہیں فض جو ہے وہ بداخلاقی کو ظاہر کرتا ہے۔غلیظ القلب دل کی ایک مستقل سختی کی حالت کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ میں پہلے ہی گفتگو کرچکا ہوں۔ ایک نیا نقطہ تفسیر روح المعانی نے بیان کیا ہے جس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ کہ فضاً سے مراد وہ بداخلاقی ہے جو ظاہری اقوال اور افعال میں کی جاتی ہے جبکہ غلیظ القلب میں باطنی امور میں بد اخلاقی مراد ہے یہ درست نہیںہے۔ یہ زبردستی کی تقسیم ہے۔ حضرت امام رازی والی بات ہی درست ہے کہ دل کی سختی ایک مستقل حالت کا نام ہے اور بعض قوموں میں پائی جاتی ہے اور جو اخلاق کی خرابی اور بد مزاجی جو ہے یہ ایک عام حالت ہے جو کسی جگہ بھی پائی جاسکتی ہے ۔ عارضی بھی ہے اور مستقل بھی بن سکتی ہے۔ بحر محیط نے ایک عمدہ معنی یہ پیداکیا ہے یا معلوم کیا ہے جو موجود تھا وہ کہتے ہیں فاعف عنھم و استغفرلھم کے بعد شاور ھم بہت ہی برمحل کلام ہے کیوں کہ وہ لوگ جن سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل پوری طرح صاف ہوچکا ہو۔ اور ان کے لئے بخشش کی دعا مانگ چکے ہوں۔ ان میں مشورہ دینے کی اہلیت پیدا ہوجاتی ہے یعنی وہ متقی لوگ ہیں جو خدا کی رضاء کے تابع ہوگئے ہیں اس لئے اب وہ اس لائق ہیں کہ ان سے مشورہ کیا جائے۔ یعنی مراد یہ ہے کہ دوسروں سے مشورہ نہ کر۔ ا ن پاک لوگوں سے مشورہ کر جن کے متعلق تیرے دل میں کوئی کدورت نہ ہو۔ اور جن کے متعلق توخدا سے ان کیلئے بخشش طلب کرتاہو۔ یہی اس بات کے اہل ہیں کہ ان سے مشورہ کیا جائے ۔ یہ بحر محیط میں درج ہے بہت ہی پیارا معنی ہے۔ جو انہوں نے پیش کیا ہے۔بعض لوگوں نے فی الامر سے مراد صرف جنگ لی ہے کہ جنگ کے معاملات میں یہ درست نہیں ہے یہ وہی شان نزول کے ساتھ بہت دیر سے باندھنے والی ہے مضمون کو۔ یہ ہمیشہ جاری مضمون ہے قرآن کریم کا اور ساری دنیا کی مختلف صورتوں پر اطلاق پانے والا ہے۔ اس لئے اس کو صرف ایک شان نزول سے باندھ دینا۔ یہ درست نہیں ہے۔بعض کہتے ہیں کہ یہاں صرف دین کے معاملات میں مشورہ مراد ہے۔
چنانچہ محاسن التاویل از محمد جمال الدین قاسمی میں یہ درج ہے کہ دین کے معاملے میں مشورہ اس لئے ہم مراد لے رہے ہیں کہ آپ نے صحابہ کو ایک موقعہ پر فرمایا۔ ’’انتم اعلم بامور دنیا کم‘‘ دنیا کے معاملات میں تم زیادہ جانتے ہو۔ یہ غالباً اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ جبکہ کھجوروں کے جن کی نرسری تیار کی گئی تھی۔ بعض صحابہ ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ منتقل کررہے تھے۔ جو دستور ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ۔ بڑے پیارے پیارے خوبصورت دکھائی دینے والے پودے تھے آپ نے فرمایا کیا ضرورت ہے یہاں سے اٹھا کے کیوں وہاں بدل رہے ہو اور انہوںنے سمجھا کہ بس اسی میں کوئی برکت ہے۔ اور چھوڑ دیا اور یہ تھوڑی سی جگہ ہے۔ اتنے پودے پل ہی نہیں سکتے تھے۔ جب بڑے ہوئے تو قلت ہوا قلت غذا‘ قلت آب کی وجہ سے جل گئے۔ تو وہ شکایت لے کر آئے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا فیصلہ تھا۔ ہم نے مان لیا یہ نتیجہ نکلا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ میں تو رسول ہوں اللہ کا۔ دین کیلئے بھیجا گیا ہوں۔ یہ زراعت کے معاملات تمہارے ہیں۔ تم بہتر جانتے ہو۔ مطلب تمہیں کہہ دینا چاہئے تھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بات یوں نہیں یوں ہے۔ بعض احمدیوں کو بھی میں نے دیکھا ہے اس معاملے میں بعض دفعہ غلو کرجاتے ہیں۔ بعض دفعہ کسی بات کے سارے پہلو سامنے نہیںہوتے۔ دنیاوی ایک مشورہ مانگ رہے ہوتے ہیں اور ان کو میں ان حالات کے مطابق مشورہ دے دیتا ہوں بجائے اس کے کہ مجھے یہ بتائیں بعد میں کہ یہ حالات بدل گئے ہیں یا ان میں یہ وسعت تھی۔ جو ہم نے پیش نہیں کی۔تو اس طرح رکھ کے بیٹھ جاتے ہیں اور بعض دفعہ نقصان پہنچ جاتا ہے۔ ایسا شاذ ہوا ہے مگر ہوا ہے۔تو میں ان سب کو یہ کہتا ہوں کہ جب مشورہ کیا کرو۔ تو سارے پہلو سامنے رکھا کرو اور دنیاوی امورمیں جو مشورہ ہے۔ اگر اس کو ماننے پر طبیعت آمادہ نہ ہو اور کوئی دلیل اس کے خلاف موجود ہو توپیش کرنی چاہئے۔ باوجود دل میں ایک الجھن کے کہ غالباً یہ بات درست نہیں۔ فلاں امر کو نظر انداز کرکے کی گئی ہے اورپھرچُپ کرکے اُس پر بیٹھ رہنا درست نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مستقل حکم انجمن میں لکھوایا ہے اس بات پر کہ بعض دفعہ میں ایک فیصلہ کرتا ہوں یعنی یہاں دنیاوی نہیں بلکہ دینی امور میں بھی یہ مضمون کسی حد تک صادق آتا ہے اور مجھے اس وقت یاد نہیں ہوتا کہ اس سے ملتے جلتے حالات میں میں نے ایک اور فیصلہ کیا تھا جو مختلف تھا اور اس کی کوئی وجہ تھی اور تمہیں علم بھی ہوتا ہے کہ ایسا ہوا ہے اور تم بغیر اس کے کہ مجھے بتائو کہ پہلے ایسی بات گذر چکی ہے تم چپ کرکے یہ بات مان لیتے ہو۔ اورپھر ایک تضاد کی شکل ہوجاتی ہے۔ اس لئے میں مستقلاً حکم دیتا ہوں کہ جب بھی میرا کوئی حُکم ایسا ہو ۔ جس میں تم یہ سمجھو کہ کسی وجہ سے یہ نظر ثانی کا محتاج ہے تو وہ وجہ پیش کرکے دوبارہ مجھ تک پہنچائو۔ جب تک میں دوبارہ فیصلہ نہ کردوں۔ اس وقت تک آنکھیں بند کرکے اس پر فوری عمل نہ کرو۔سوائے اس کے کہ بعض احکامات میں زیادہ تاخیر سے عمل کرنا ضائع کرناہوتاہے ایسی صورت میں عملدرامد اگر مجبوری ہے تو شروع کردیا جائے اور جلد از جلد رابطہ کرکے صورت حال پیش کردی جائے تویہی مضمون ہے جو ’’انتم اعلم بامور دنیا کم‘‘ میں ہے۔ مگر یہ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک انکسار کا اندازہے۔ یہ جو امور دنیا ہیں ان میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلے عظیم الشان حکمت پر مبنی ہوا کرتے تھے۔ اس لئے جہاں بظاہر مقابلہ ہے کہ مستشرق امور دنیا میں زیادہ عالم ہو۔ یہ مراد نہیں ہے۔ فیکٹس (Facts)کا علم ہے مراد۔ یعنی تمہیں بعض حقائق زراعت کے معلوم ہیں روزمرہ کے تجربات کی وجہ سے۔ اور و ہ حقائق میرے علم میں نہیں ہیں اس لئے یہ فیصلہ غلط ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر حقائق ایک جیسے سامنے ہوں تو ناممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے مقابل پر کسی اہل دنیا کا فیصلہ دنیاوی امور میں بھی آپ سے بہتر ہو۔ پس حقائق کا علم نہ ہونا ایک الگ مسئلہ ہے اور یہاں اعلم سے مراد صرف یہی ہے۔بعض نے کہا ہے کہ ان لوگوں نے جنہوں نے تجھ سے اعراض کیا ہے شکست کھانے کے بعد تیرے پاس آئے ان کے لئے ہے کہ تو ان سے نفرت کا سلوک کر ۔ یہ درست نہیں ہے۔ خواہ مخواہ آیت کے وسیع اطلاق کو محدود کرنے والی بات ہے۔ محمد جمال الدین قاسمی ناسخ التاریخ میں یہی بات لکھتے ہیں جو میں بیان کرچکا ہوں کہ نئے طورپر مشورے کا مضمون شروع ہی نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں آپ تو ہمیشہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ جنگ بدر میں مشورے کئے۔ ہر دوسرے اہم امر میں مشورہ فرماتے تھے اوراپنی ازواج سے بھی مشورہ کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں بدر کے موقعہ پر مشورہ کیا وہ حوالہ دے رہے ہیں۔ کہتے ہیں تمہیں یاد نہیں کہ جب بدر کے موقعہ پر مشورہ کیا تھا تو مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُٹھ کریہ کہا تھا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم وہ لوگ نہیں ہیں جیسے موسیٰ کی قوم کے لوگ تھے۔ انہوں نے موسیٰ سے کہا تھا اذھب انت و ربک فقاتلا ‘‘ جا توُ اور تیرا رب لڑتے پھرو ’’وانا ھھنا قاعدون‘‘ ہم تو یہیں بیٹھ رہیں گے۔ بلکہ ہم تو وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے بھی لڑیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بائیں بھی لڑیں گے۔ اور دشمن کی مجال نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچے مگر اس صورت میں کہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آئے۔ وہ کہتے ہیں دیکھو وہ مشورہ ہی تو تھا۔ مشورے کے نتیجے میں یعنی یہ بات تو نہیں لکھی۔ لیکن ایک برکت مزید حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے ’’امرھم شوریٰ بینھم‘‘ کا جو حکم ہے۔ اس میں اس حکمت کی طرف اشارہ ہے۔ایک تو فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خصوصی حکم اور ایک یہ بتانے کیلئے کہ یہ دائمی امر ہے۔ امت محمدیہ میں مشورہ کا نظام ہمیشہ جاری رہے گا۔ یہ عارضی بات نہیں ہے۔ مشورے سے یہ تقویت ملتی ہے کہ دلوں کے وہم نکلتے ہیں۔ غلط خیالات میں سے باطل نکال دیئے پاک ہوجاتے ہیں۔ ایک انسان کمزور رائے رکھتا ہے۔ اس کو کھنگالنے کا موقعہ نہیں ملا۔ جب مجلس میں مشورہ کیا جاتا ہے تو ایک آدمی کہتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ وجہ ہے دوسرا کہتا ہے کہ نہیں یہ پہلو بھی ہے۔ اس کو بھی دیکھ لیا جائے تو سب لوگو ںکے دلوں سے جو انفرادی وہم ہیں وہ نکل جاتے ہیں اور ایک اجتماعی سوچ بڑی قوت کے ساتھ ابھرتی اور اس سے لوگوں کو قوت عمل ملتی ہے۔مزید طاقت نصیب ہوتی ہے۔ مزید یقین ہوتا ہے اپنے مطلب کا۔ پس یہ جو واقعہ گذرا ہے جنگ بدر میں اسے ایک مقداد بن اسود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ کہنا۔ اس سے عجیب دلوں کی کیفیت پیدا ہوگئی ہوگی۔ اندازہ کریں اس سے ان کے عزم میں کیسی مزید قوت پیدا ہوگئی تھی اور کسطرح یقین پریقین دل پر جم گیا ہوگا۔ اس میں دلوں میں جا گزیں ہوچکا ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک اور کہنے والے نے یہ کہا‘ کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ان سے مشورہ مانگتے ہیں۔ ہمارا تو یہ حال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں کہیں تو ہم سمندروں میں گھوڑے دوڑا دیں گے اور کوئی جان کی پرواہ نہیں کریں گے یہ میں اس لئے بیان کررہا ہوں کہ بعض بدبخت بعد میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوپر یہ بھی الزام لگائیں گے کہ بکھرنے والے کمزور‘ ڈرپوک ‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر جانے والے تھے۔ یہ بالکل جھوٹے الزام ہیں۔ یہ سارے لوگ جن کے اوپر یہ الزام گندے لگائے ہیں جنگ بدر میں شامل تھے۔ اس وقت ان کو جان پیاری نہیں تھی؟ اگر جان پیاری ہونے کی وجہ سے بھاگتے تو اس سے پہلے تو آزمائے جاچکے ہیں۔ اس لئے یہ سب بدبختی کے الزام ہیں۔ ان میں کوئی حقیقت بھی نہیں ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔ ترجمہ اس کا یہ فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی رحمت ہے کہ تو اُن پر نرم ہوا‘ اگر تو سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے۔ تجھ سے الگ ہوجاتے۔ اس ضمن میں ایک بات یہ فرمائی ہے آپ نے بہت ہی اہم ’’ توکل ایک طرف سے توڑ اور ایک طرف جوڑ کا نام ہے۔ فاذا عزمت فتوکل ‘ مراد یہ ہے کہ مشورے کی حد تک تیرا جوڑ انسانوں سے تھا جب فیصلہ کرلیا تو تیرا انسانوں سے تعلق خداکی طرف منتقل ہوگیا اور توکل کے یہ معنی ہیں۔ ایک طرف سے جوڑ کاٹ کر دوسری طرف جوڑ باندھ دیا۔ یہ بہت ہی پیارا معنے ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے توکل پر اپنے کمال کے ساتھ صادق آتا ہے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توکل کے مضمون پر بہت پیاری لمبی گفتگو فرمائی ہے اور اس میں اس صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال بھی دی ہے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ملنے آیا اور باہر گلی میں اونٹ چھوڑکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا اور جب باہر نکلا تو اونٹ جا چکا تھا۔ وہ واپس آیا یہ شکوہ کرتے ہوئے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ سے ملنے آیا اور توکل کیا کہ اس مقدس زیارت کی برکت سے میرا اونٹ وہیں کھڑا رہے گا توپھر بھی چلا گیا۔ آپؐ نے فرمایا یہ توکل نہیں ہے۔توکل یہ ہے کہ اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر توکل کرو۔ یعنی سبب کو اپنے آخری مقام تک پہنچا دو۔ اسباب کو ترک کرنا توکل نہیں ہے۔ اور اس کے بعد وہموں میں مبتلا ہونا یہ بھی توکل نہیں ہے۔ کہ یہ نفس کی الجھنیں ہیں ان میں کوئی بھی توکل کہنا ہی اس کو غلط بات ہے۔ خدا نے جو توفیق دی وہ کرلو۔اس کے بعد پھر معاملہ خدا پہ چھوڑ دے۔ اور خدا پر چھوڑنے کے بعد اگر کوئی نقصان پہنچے تو پھر اس کو اس طرح برداشت کرو جیسے مالک کا فیصلہ ہے۔ توکل سے یہ نیا مضمون ابھرتا ہے اور اس سے دلوں کو بہت تسکین ملتی ہے۔ آپ کا کوئی عزیز بیمار ہو اس کیلئے جو چارے ہیں وہ ضرورکریں لیکن اگر توکل چاروں پر نہیں ہوگا اور خداپر ہوگا تو چاروں سے جوڑ کٹ جائے گا اور اللہ سے جوڑ بندھ جائے گا۔ جو نقصان پہنچتا ہے تو اللہ سے کس طرح شکوہ کرسکتے ہیں آپ۔ وہ تو مالک ہے۔لیکن جن کا توکل بندوں پر ہو اور اسباب سے جڑے رہیں ان کا یہ جوڑ کٹتا نہیں ہے اور اس کا جو یقینی اثر بعد میں ظاہر ہوتا ہے کہ جب ان کی مرضی کے خلاف فیصلہ ہوجائے تو روتے اور پیٹتے اور بے صبری دکھاتے اورکہتے ہائے ہم پر یہ کیا ہوگیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ توکل ان کا اسباب پر ہی تھا۔ اسباب سے مایوس ہوگئے ۔ تو شکووں کا حق ہے۔ مگر اللہ سے تو شکووں کا کوئی حق نہیں ۔ مومن کو جو تعلیم دی گئی ہے اس میں ہر قسم کے نقصان پر صبر کا ایک سلیقہ سکھا دیا گیا ہے اور صبر حاصل کرنے کا ایک گُر بتادیا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو ایک چھوٹے سے فقرے میں مضمون بیان فرمایا ۔ عظیم الشان مضمون ہے۔ توکل کہتے ہیں ایک طرف سے جوڑ کاٹنا اور دوسری طرف منتقل کرکے وہا ںجوڑ باندھ دینا۔
اُحد کے میدان میں جنگ کا مشورہ دینے والوں میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب بھی شامل تھے۔ اس لئے شیعوں کو یہ بات بھولنی نہیں چاہئے۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے۔ حضرت نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک بھی اور قبیلہ اوس اور قبیلہ خزرج کے بعض اکابر نے بھی مشورہ دیا تھا۔ (شروع الحرب ترجمہ فتوح العرب صہ ۸۸۲ مولفہ محمد بن عمرو اقدی)
اس میں سے لیا گیا حوالہ
اب آئیے مستشرقین کی طرف : Richard Bell لکھتا ہے۔
Can hardly has beenmeant for publication.
160 کی آیت جو ہے۔ عجیب ہی پاگل آدمی ہے میںنے Wherry سے زیادہ خبیث دشمن اور جھوٹا اور مکار اور نہیں دیکھا مستشرقین میں اور Bell سے بڑا گدھا نہیں دیکھا۔یہ ایسے لگا جیسے گدھے کے گلے میں bell باندھ دو۔ کہ گدھا چل رہا ہے اور ٹن ٹن کی آواز میں پتہ لگے کہ گدھا آرہا ہے بڑا ہی بے وقوف آدمی ہے کہتا ہے۔ Hardly meant for publication
غلطی سے آگئے مراد یہ تھی کہ مختص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کو بتا کر اپنے پاس ہی رکھتے۔
‘‘it suare how delicate the situation was after defeat at Ohad. It is address to the Prophet. His first impulse had been to speak roughly to his followers.
آیت کچھ اور کہہ رہی ہے۔ کہتے ہیں جو صاف ظاہر ہے اس آیت سے کہ آپ کی پہلی impulse یہ تھی پہلا ردعمل کہ خود سختی کریں ان لوگوں پر ڈانٹ ڈپٹ کریں۔ کہتا ہے۔
First followers but by the Mercy of Allah he has been and spoken milaly.
اللہ کی رحمت ہوگئی جو بولے۔ ورنہ دل کے تو سخت تھے۔ مزاج میں سختی پرانی تھی۔ یہ مراد لے رہا ہے۔ آیت بالکل برعکس بات کہہ رہی ہے۔ عجیب ہی پاگل قوم ہے یہ جن سے ہمیں واسطہ پڑا ہے۔
He is now consult to forgive them.
کہتا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ ان کو (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم) مشورہ دے رہا ہے کہ معاف کردے۔
and even to promise to cunsult them in future operation.
کہتا بڑی غلطی ہوگئی کہ ان سے مشورہ نہیں کیا۔ اس لئے سارا نقصان پہنچا۔ کہتا اس لئے promise کر ان سے کہ آئندہ میں تجھ سے مشورہ کیا کروں گا۔ یہ میں نے آپ کے سامنے حالات کھول دیئے ہیں۔ اس کے بعد دیکھیں کس قدربکواس ہے۔ جھوٹ اوربہتان ہے اور جہالت کتنی ٹپک رہی اس شخص سے۔ اس لئے دشمنی میں اول نمبر Wherry اور حماقت میں اول نمبر Bell ۔ ان کی مثال ہی اور کہیں مستشرقین میں نظر نہیں آتی۔ Wherry کو سُن لیجئے۔
اس سے پہلے والے gentle بات کرنے والے صاحب جو ابھی زندہ ہیں۔ مسٹر منٹگمری واٹ
وہ نسبتاً اپنے آپ کو gentle ناقدین میں شمار کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔gentle address to Muhammad Personly. یعنی یہ جو gentle کا لفظ ہے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو Personaly مخاطب کرکے کہا گیا ہے۔
But the exact refrence is not clear.
سمجھ نہیں آتی کیا بات ہورہی ہے۔
Perhaps it was his attitude to the hypocirates.
ہوسکتا ہے hypocirates کی طرف ان کے attitude کی طرف اشارہ ہو۔ اوربات کچھ clear نہیں۔ بات کو آگے چھوڑجاتا ہے۔ اس سے زیادہ واضح کیا بات ہوگی۔ فبما رحمۃٍ من اللہ لنت لھم‘ مستشرق بنے ہوئے ہیں عربی کے ماہر۔کئی سال وہاں فلسطین میں یہودیوں کے ساتھ بیٹھ کے اس نے عربی سیکھی ہے اور کہتا ہے مجھ پر بات واضح نہیںہوئی۔ قرآن فرماتا ہے۔ فبما رحمتہ من اللہ لنت لھم ‘ تجھے تو اللہ تعالیٰ نے رحمت عطا فرمائی ہوئی ہے۔ تجھے رحمۃٍ للعلمین ‘ بنایا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے تو ان سے ہمیشہ نرم رہتا ہے اور اب بھی نرم ہوا ان سے۔ ولو کنت فظا غلیظ القلب‘ اگر تو سخت دل ہوتا‘ بد مزاج ہوتا تو پھر یہ ہوجانا تھا۔ وہ کہتے پتہ نہیںلگ رہا کیا کہہ رہے ہیں (پتہ نہیں لگ رہا تو ہم کیا بتائیں تجھے) بیوقوف بڑے ہیںیہ لوگ۔
اب Wherry کو سُن لیجئے۔
The policy of Muhammad in dealing with his followers is here distinctly announced.
کہتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے ماننے والوں سے جو حکمت عملی ہوسکتی تھی ۔ وہ یہاں خوب کھل کر کھلے لفظوں میں بیان کی جارہی ہے۔ آئندہ کے لئے گویا کہ ایک حکمت عملی ہے۔
They had certainly merited severe punishment.
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ان کو بڑی سخت سزا ملنی چاہئے تھی اور اس کا تمام جواز موجود تھا۔
But there were powerful adversaries in Madina.
یعنی اس کا کیا کیاجاتا مدینے میں بہت بڑے سخت مخالف‘ بڑے طاقت ور مخالف موجو د تھے۔ یہ مدینے کی تاریخ انہوںنے پڑھی نہیں۔ جو طاقت ور مخالف تھے وہ سارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھکنے پر مجبو ر ہوچکے تھے۔ اس سے پہلے میثاق مدینہ لکھا جاچکا تھا۔ اس پر سب نے متفق طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سردار مان لیا تھا۔ دنیا کے امور میں بھی اور اگر ان کی ایسی طاقت تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر تو پھر منافق پھر کیوں تسلیم کرتا کوئی۔ بار بار کہتا وہ منافقین تھے۔ تو منافق تو ہوتا ہی وہ ہے جو ڈر کر چھپاتا ہے اپنے آپ کو۔ بہادر اور بے خوف آدمی جس کو اپنے غلبے کا یقین ہو وہ منافق کیوں خواہ مخواہ بنتا پھرے گا۔ اس لئے یہ نہایت ہی بے وقوفوں والا تبصرہ ہے۔لیکن آگے چلیں ابھی تو اور آگے آتے ہیں۔ کہ
but there were powerful adversaries in Madina. Who would have taken advantage of any attempt to enforce punishment of a severe nature.
کہتا اگر سختی کرتے تو بڑا سخت انہوں نے ردعمل دکھانا تھا۔ کیسے برداشت کرتا۔
Besides, no slight shock to the new faith had been felt owing to the defeat, and it became a matter of the utmost importance to establish that faith. Hence the mild words, and the forgiveness so freely bestowed.
کہتا بات یہ ہے کہ اپنے دین کو انہوں نے وہاں نافذ کرنا تھا اور کوئی معمولی shock نہیں پہنچا تھا اس دین کو۔ ان کو جنگ اُحد میں اتنا شدید صدمہ پہنچ چکا تھا۔ دین کو گویا سارے منحرف ہونے کو پھرتے تھے ایسے وقت میں اس کے سوا پالیسی ہوکیا سکتی تھی کہ انکو کہا گیاکہ دیکھو دیکھو ! نرمی کرنا ‘ آہستہ بولنا ‘ آئندہ سے۔ کوئی سختی کا کلام ان سے نہیں کرنا۔ گویا کہ پہلے تو ہمیشہ سے سخت ہوکر آیا ہے اور حالات تھے اب حالات بدل گئے ہیں۔ اب سے پالیسی یہ ہے تو نرم ہو۔اب جس نے قرآن کریم کی آیت پڑھی ہو۔ وہ جانتا ہو اس کا ترجمہ جیسے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے کیا کہے گا ایسے بدبخت آدمی کے متعلق ۔ صرف لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ جھوٹ بول رہا ہے یا آگ میں جل رہا ہے۔ اصل میں جنگ احد کے اوپر بڑے لوگوں کو آگ لگی ہے کچھ لوگوں کی آگ کا میں کل ذکر کرچکا ہوں۔ کچھ کا اب پھر بھی کروں گا۔ ان میں آگ لگنے والوں بھی یہ بھی ہیں۔ بڑی شاندار فتح ہوئی دشمنوں کو عرب۔ وہ کہتے ہیں مکے کے شہزادوں کو۔ اور ہوا کیا کچھ بھی نقصان نہ ہوا۔ اور عالم اسلام اسی طرح دندناتا رہا۔ اور اس کے نتیجے میں پھر دوسری عظیم فتوحات کی بنیادیں رکھی گئیں۔ یہ ہے تکلیف کہ مٹا کیوں نہ دیا۔ ایک ہی تو موقعہ ہاتھ آیا ساری تاریخ میں ۔جبکہ معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کو ملیامیٹ کر دیا جائے گا ۔وہ پاگل اسی طرح مڑ گئے کچھ بھی نہ ہوا اس پر مزا صرف لوٹتے ہیں اس کو عظیم فتح کہہ کر اور کچھ بھی ہاتھ میں نہیں ہے عظیم فتح کے بعد میں جو رونما ہو نے والے فضائل ہیں ان سے وہ سارے کلیۃًمحروم رہتے ہیں لیکن کہتا ہے ۔
Let it be observed that all these mild words and expression of forgiveness are set forth as coming from the mouth of God and yet the same divinity commends the mildness of the Prophet اپنے آپ کو اللہ کی طرف سے حالانکہ وہ دوسری بات جو ہے وہ ہے ہی نہیںاس میں ایک ہی بات ہے اب آئیے میر احمد علی صاحب ؎غم اپنے دوستوں کا بھی کھانا پڑے ہمیں ۔اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
The deserters in Ohad actually deserved to be punished but even in view of the grant of parden to them there remains no room for the recipients of the parden to say that they actually deserved it or that they had been honourably acquitted of the changes against them. It is only that the punishment has been offered to be condoned and not the wiping out of the charge. The blot of conviction remains there.
کہتا دیکھو معافی تو مل گئی ہے۔ لیکن اس کے نتیجہ میں ان کو یہ سمجھنے کا کوئی حق نہیں ملا کہ ہمارے دل سے ہر قسم کے لغزش کے اثرات صاف ہوچکے ہیں۔ کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے معافی تو دی ہے لیکن وہ داغ جو دل پر لگایا گیا ہے۔ اس کو قائم رکھا ہے اور اس کو کوئی دنیا میں مٹا نہیں سکتا۔ وہ کہاں سے داغ لیا ہے انہوں نے۔ ان کے اپنے دل کا داغ ہے۔ نفرت اور بغض کا داغ ہے۔ جو ابھر رہا ہے۔ اور بالکل یوں لگتا ہے جس طرح ایک طرف عیسائی اس موقعے پر شدید بے چین ہیں کہ فتح ہوئی بھی دشمن کو لیکن فوائد سے محروم رہا۔ یہ کہتے ہیںیہ موقعہ تھا ۔ جب خدا کی طرف سے ان سب کو کلیتہً ہمیشہ کیلئے دائرہ اسلام سے خارج کرکے باہر پھینک دینا چاہئے تھا۔ اس سے غلطی ہوگئی یہ نہیں ہوا۔ اس کو پیٹ رہے ہیں۔ اتنا غصہ کس بات کا معافی پر۔ اس بات کا غصہ ہے کہ یہ موقعہ تھا ا نکو باہر نکال کر اللہ تعالیٰ باہر پھینک دیتا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پیچھا چھوٹنا۔ اور پہلی خلافت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مل جاتی۔ یہ ترکیب ہمیں تو آئی ہے اور اللہ کو نہ آئی اور ہم مجبور ہیں بچارے ہم کیا کریں اب اس لئے ایک ہی رستہ کہ گالیاں دے کر بغض نکالو۔ اور کیا رستہ رہ گیا ہے۔ جتنی گالیاں دے سکتے ہو دیتے چلے جائو۔ تاکہ کسی طرح دل کا بوجھ کچھ ٹھنڈا ہو۔ دل کی آگ کچھ ٹھنڈی ہو۔ لیکن یہ ٹھنڈی ہونے میں آ نہیں رہی۔ آگے سنئیے۔
The people certainly deserved other treatment, but owing to the mercy of God which does not want to leave the sinner till all has been done for him, the Prophet was made lean-hearted towards them.
یعنی یہ بھی یہ مانتے اس وقت گویا کہ بنایا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی حالت نہیں ہے۔ کہتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ تمام کرنے کی خاطر معافی دی گئی ہے اور بھی ان سے گناہ سرزد ہونے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے معاف کیا ہے اور اس وقت اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت ان کیلئے نرم دل بنایا گیا۔ تاکہ کچھ اور موقعہ دے دیا جائے۔ اصلاح کرلی تو ٹھیک ورنہ ہم ان کو پکڑ لیں۔ یہ مضمون ہے جو بیان ہورہا ہے۔
else the people would not have cared to stay around him and the whole scheme of guidance and salvation of mankind would have come to an end.
ساتھ یہ بھی ساتھ لگادیا کہ نرم دل بتایا ہے اگر یہ نہ ہوتے تو سب دنیا بھاگ جاتی اور ٹیم جو تھی خداتعالیٰ کی طرف سے مانگ تانگ کیلئے وہ ہاتھ سے نکل جاتی۔ تو اب اس پر غور کریں اس کا مطلب کیا بنایا ہے انہوں نے۔ مطلب ان کے ذہن میں یہ ابھرا ہے کہ منافقوں سے بخشش اس کے باوجود کہ وہ منافق رہیں گے اس لئے تھی کہ مجبوری تھی خدا کی۔ اگر وہ یہ نہ کرتا تو ان سب نے بھاگ جانا تھا۔ اور پیچھے کتنے رہ جاتے؟ چھ۔ تو یہ سکیم کیسے پوری ہوتی۔ تو دنیا کی سب سے عظیم الشان رحمت اور پاکیزہ کرنے کی سکیم ۔ تزکیہ نفس کرنے کی سکیم منافقوں کے بل پر چلائی گئی ہے۔ ان کے بل بوتے پر آگے بڑھائی گئی ہے۔ اس سے بڑی جہالت ہوسکتی ہے کوئی؟ ایسی جاھلانہ سکیم اللہ کی طرف سے تو آ نہیں سکتی۔ ناممکن ہے یہ ا نکے دلوں کی بے وقوفیاں اور جہالتیں ہیں۔ جو یہ بہانے ڈھونڈتے رہے۔ کیوں آخر ہوا کوئی سچا بہانہ ملتا نہیں۔ یونہی اس قسم کی جاھلانہ باتیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مجبور تھا۔ دیکھتے نہیں تم کہ یہ چھوڑتے تو پیچھے رہ کیا جاتا۔ گنتی کے چھ آدمی؟ ان سے اتنی عظیم الشان دنیا کی اصلاح کی سکیم کیسے چلائی جاتی۔ اللہ نے یہ کہا مجبوری ہے۔ میںبھی کیا کروں۔ پھر منافقوں سے ہی کام لے لیتے ہیں۔ کہتا ہے۔
the verse in important as showing that the general kind behaviour of the Prophet to the ``sahabas,,. (the word sahabas is mentioned here) in spite of their most vicious conduct, as in the case of Khalid and others his words of encouragement to them and the like, can not be regarded as due to any real spiritual worth about them, but they were sought to be reclaimed in the long run is another matter whcih history alone can decide and of which this offers no guarantee whatever.
عجیب سا فقرہ ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے وہ کہتے ہیں۔
the verse is important کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا behaviour دکھایا گیا ہے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف۔
in spite of there most vicious conduct.
باوجود اس کے کہ نہایت ہی بدکرداری کا عمل ان سے ظاہر ہوا اور نہایت ہی ناپاک معاملہ انہوں نے کیا۔ in the case of Khalid and Others, جیسا کہ Khalid and others کے کیس میں ہوا اور Khalid and Others کے کیس سے مراد یہ مطلب ہی ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو موقع مل گیا اور وہ حملہ اور وہ اورپھر توجہ ان کی طرف نہیں رہنے دی۔ جن کی وجہ سے خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو موقعہ ملا۔ بلکہ ضمناً ذکر کرکے توجہ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اوردیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم کی طرف پھیر دیتا ہے۔
his words of encouragement to them and the like, can not be regarded as due to any real spiritual worth.
٭٭٭٭٭٭٭
درس القرآن 24-2-94
بمطابق 13 رمضان المبارک
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
یایھا الذین امنو ا لاتکونوا کالذین کفروا وقالو الاخوانھم اذا ضربوا فی الارض او کانوا غزے لو کانوا عندنا ماما توا…………… افمن اتبع رضوان اللہ کمن با ء بسخط من اللہ … ھم درجت عند اللہ ط واللہ بصیر بما یعملون O (آل عمران 157 تا 164)
یہ آیات جن کی تلاوت کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ گذر چکی ہیں۔کچھ آنے والی ہیں۔ سردست ہم جس آیت پر گفتگو کررہے ہیں وہ ایک سو ساٹھ ہے جس کا ترجمہ ایک دفعہ پھر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی عظیم رحمت ہے کہ تو ان پر مہربان ہوا کہ تو ان کے لئے مہربان اور نرم گوشہ رکھتا ہے اور اگر تو بدمزاج ہوتا اور شقی القلب ہوتا (سخت دل ہوتا) تولوگ تجھے چھوڑ کر ادھر ادھر بکھر جاتے۔ پس ان سے عفو کا سلوک کر اوران کے لئے اللہ سے بخشش طلب کرتا رہ۔ اور اہم معاملات میں ’’الامر‘‘ یا قومی معاملات میں ان سے مشورہ بھی کر۔ فاذا عزمت فتوکل علی اللہ لیکن جب تو فیصلہ کرلے تو اللہ ہی پر توکل کر۔ ان اللہ یحب المتوکلین۔ اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ اس آیت پر اکثر جو اہم حصے تھے ان پر گفتگو ہوچکی ہے لیکن کچھ حصہ ابھی شیعہ مفسر میر احمد علی صاحب کے الزامات کاباقی ہے۔ جس سے متعلق میں آج کچھ معروضات پیش کروں گا اور کچھ حوالے نئے آپ کے سامنے رکھوں گا۔ یہ مفسر لکھتے ہیں۔
consider the position those who turned their back against the enemies at Ohad and ran away diverting Holy Prophet in the midst of the overwhelning forces of the enemy. And disapeared for days together. These authorties like (Tabree, Tareehk-ul-Khamees, Tafseer-i-Kabeer, Minhaj Nabuwah), Early history of Islam) by S.Hussain.
Which say, the compainions like Abu Bakar, Omar, Osman, and Abu-Ubaidah were also among those who took flighy at Ohad and Hunain.
اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے حال کا اندازہ کرو جنہوں نے احد کے میدان میں پیٹھ دکھائی اور حضرت Holy Prophet کو یعنی رسول اللہ صلعم کو عین جنگ کے دوران دشمنوںکے درمیان گھرا ہوا چھوڑکر بھاگ گئے۔ اور دنوں تک غائب رہے۔ اس سلسلے میں اہم تاریخی اسناد جو تمہارے پیش نظر رہنی چاہئیں۔ ان میںطبری کی گواہی ہے‘ تاریخ الخمیس کی گواہی ہے۔ تفسیر کبیر امام رازی کی گواہی ہے‘ منہاج نبوۃ کی اور اسی طرح early history of Islam میں کوئی صاحب S.Hussain ہیں جنہوں نے یہی بات لکھی ہے اور وہ کہتے ہیں یہ الزام ہے اور یہ سب کہہ رہے ہیں۔
the compainion like Abu Bakar, Omer, Osman, and Abu abaidah, were also among those who took flight at Ohad and Hunain.
یہ بالکل جھوٹ ہے۔ بالکل جھوٹ۔ایسے خبیثانہ بات کا دعوی کیا ہے جو کہیں ہمیں نہیں ملتی انہوں نے لکھا کہ یہ دونوں بھاگ گئے تھے اس کے برعکس دوسرے حوالے ملتے ہیں اور جس طرح یہ حوالے دیتے ہیں اور جس طرح ان کا جھوٹ حوالوں کے تتبّع سے ثابت ہوجاتا ہے اس کے مَیں چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں بات یہ ہے کہ اس وقت جب کہ بہت سخت ہنگامہ پیدا ہوا تھا اور افراتفری کا عالم تھا اس وقت جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے ناممکن ہے کہ کسی ایک راوی نے سب جہاد کرنے والوں کو اکٹھا دیکھ لیا ہو ۔اسی لئے روایتوں کا اختلاف ہے جو روائتیں بھاگنے والوں کا ذکر کرتی ہیں معین طور ۔ان میں ایک ایسی روایت ہے جس نے معین طور پرکہا ہے کہ پانچ بھاگے تھے وہ میں آپ کے سامنے پہلے رکھ چکا ہوں ۔باقی روایتیں ہیں کسی روایت میں کسی ایک کا ذکر نہیں ہے کسی میں دوسرے کا ذکر نہیں ہے ان سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ وہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ بھاگ گئے تھے جن کا ذکر نہیں ہے ۔یہ جھوٹ ہے ۔ اور یہی دھوکہ ہے۔ جسے یہ شیعہ مفسرین استعمال کرتے ہیں اور پھر جنگ احد میں تو بعض ایسے عظیم الشان شہداء کا ذکر ملتا ہے۔ جو اسی ہنگامے کے دوران لڑتے لڑتے شہید ہورہے تھے اور وہ تیس نام یا چودہ نام یا متفرق نام جو تاریخ میں ملتے ہیں کہ یہ وہ لوگ تھے جو نہیں بھاگے۔ ان میں اُن کا ذکر نہیں۔ حالانکہ الگ قطعی شواہد سے ثابت ہے کہ اس جنگ میں شہید ہوئے۔ اور اس موقعہ پر شہید ہوئے۔ تو اس لئے کسی روایت میں کسی کا ذکر نہ ملنا ہر گز یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ بھاگ گیا تھا۔ مگر اس کے علاوہ انہی کتابوں میں جہاں یہ کہتے ہیں کہ ثابت ہے کہ بھاگ گئے تھے۔ ان کے نہ بھاگنے کا ذکر ملتا ہے۔ اب بتائیے کیا جواز ان کے پاس رہ جاتا ہے۔ یہ حوالے دینے کا ۔ غزوہ احد سے ہم بات شروع کرتے ہیں۔ حنین سے بھی بات آئے گی۔ میر احمد علی صاحب نے طبری کا بھی ذکر کیا ہے کہ دیکھ لو طبری پڑھ لو۔ اس میں لکھا ہوا ہے کہ دونوں جنگوں سے یہ سب بھاگ گئے تھے۔ طبری نے روایت یہ لکھی ہوئی ہے۔ غزوہ احد کے باب کے نیچے۔ گھاٹی کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب ‘ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبید اللہ ‘ زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن العوا م اور حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن اسمہ کھڑے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔ اس کا ترجمہ انہوں نے کس طرح وہ کیا مجھے سمجھ نہیں آسکتی۔
یہ روایت ہے طبری کی۔ اتنا جھوٹ اور جو بچارے نادان معصوم اس جھوٹ سے متاثر ہوکر دل میں ان پاک لوگوں کے متعلق بدخیالات پیدا کریں گے۔ اس میں ان کو بھی تو پورا حصہ ملے گا۔ ’’میر صاحب کو‘‘ اور اس کے برعکس۔ ان کے اس دعویٰ کے برعکس جو قطعی بخاری کی شہادت ہے اس کو یہ پیش نہیں کرتے۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بخاری کی حدیث ہے کہ نہ صرف یہ نعوذ باللہ وہ بھاگے نہیں بلکہ وہ صحابہ کی ایک جماعت جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جنگ احد کے معاً بعد تیار کیا کہ دشمن کا پیچھا کرکے دیکھے کہ ان کے کیا ارادے ہیں۔ اس ستر کی جماعت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ نے شامل فرمایا۔ یہ ہیں جو دنوں بھاگے رہے تھے۔ مُڑ کے شکل نہیں دکھائی۔ حدیث ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواحد کے دن جو صدمہ پہنچنا تھا۔ پہنچ چکا۔ اور مشرکین مکہ میدان جنگ کو چھوڑ کر چلے گئے تو آنحضرت کو یہ خدشہ ہوا کہ کہیں یہ پھر واپس نہ آجائیں۔اس پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ کافروں کا تعاقب کون کرے گا۔ اس ارشادکی تعمیل جن ستر صحابہ نے کی ان میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدیق اور زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اب یہ دیکھ لیں۔ نہ صرف یہ کہ کامل وفادار رہے بلکہ وفاداروں میں بھی سرفہرست ۔ کہ اس حالت میں محض ستر کی ایک جماعت اتنے بڑے لشکر جرار کا تعاقب کررہی ہے دیکھنے کے لئے۔ اگر ان کو پتہ لگ جاتا کہ ہمارے پیچھے کوئی آرہا ہے تو ان کے بچنے کے شاذ کے طور پر ہی امکان تھے۔ مگر یہ بخاری کی یہ روایت یہ سب روایتیں نظر انداز کردیتے ہیں اب آگے دیکھئے۔
شرح مواہب الدینۃ میں لکھا ہے علامہ محمد بن عبدالباقی تحریر کرتے ہیں کہ محمد بن سعد نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چودہ اصحاب تھے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا مختلف روایتیں ہیں۔ مختلف تعداد بیان کی جارہی ہیں ان میں سات مہاجرین میں سے تھے جن کے نام یہ ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عوف‘ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو عبید ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اب دیکھیں اس میں جو سات مہاجرین تھے۔ ان میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام تو ہے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام نہیں ہے۔ تو کیا یہ ثابت ہوا کوئی کہہ سکتا ہے میر صاحب نے یہ کیوں نہیں کہا کہ شرح مواھب الدنیہ سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے تھے۔ کیونکہ یہاں ان کا نام نہیں ہے۔ اس روایت میں۔ کسی روایت میںہے کسی میں نہیں کہ آپ جہاد میں اس وقت مصروف ہونگے۔ دیکھنے والے نے نہیںدیکھا۔ تو میر صاحب کی طرح‘ اپنی طرف سے کیسے بات بنا لیتا وہ پاک باز لوگ تھے۔ جو دیکھا وہی بیان کیا جو نہیں دیکھا کہانی نہیں گھڑی۔ آگے صحیح بخاری کی دوسری روایت سُن لیجئے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن نصر شہید احد کے آخری کلمات۔ اب یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن نصر کا ذکر ان میں نہیں ہے جو پیچھے رہ گئے ہیں اور ان کے متعلق بخاری گواہی دیتی ہے کہ جب احد کے دن ہوا اور مسلمان بھاگے تو انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن نصر کہنے لگے یا اللہ میں تیری درگاہ میں اس کا عذر کرتا ہوں۔ جو مسلمانوں نے کیا اور جو مشرکوں نے کیا۔ اس سے بھی میں بے زار ہوں۔ اس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ واقعہ اس فرار والے واقعہ کے معاً بعد کا ہے ۔ اُن صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرف سے خدا کے حضور یہ عذر پیش کررہے ہیں یہ کہہ کہ تلوار لے کر آگے بڑے۔ راستہ میں انہیں سعدؓ بن معاذ ملے۔ انس نے کہا کیوں سعد کہاں جاتے ہو۔ ’’انی اجد ریح الجنۃ دون احد‘‘ مجھے تو اس احد پہاڑ کے پرے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔یہ کہہ کر انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ میدان میں گئے اور شہید ہوگئے۔ ان کو اتنے زخم تھے کہ ان کی لاش پہچانی نہ جاتی تھی۔ ان کی بہن نے ایک تل یا انگلی کی پور دیکھ کر ان کو پہچانا ۔ اسّی (80)سے کچھ زائد زخم بھالے‘ تلواروں اور تیروں کے ان کے جسم پر لگے تھے۔ اب ان کا ذکر ان چودہ میں نہیں ہے‘ کیا کہیں گے میر صاحب کہ قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر ان میں نہیں ملتا۔ اور ان کے متعلق یہ روایت ہے جب اچانک جنگ کی حالت بدلی‘یہ بھی یہی وقت ہے جس وقت وہ کہتے ہیں۔ کہ سب چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ تو یہ بھی کفار کے نرغے میںپھنس گئے۔ اس وقت مشرکین کے شہسوار ابن قمیّہ نے بڑھ کر تلوار کا وار کیا۔ جس سے ان کا داہنا ہاتھ شہید ہوگیا۔ لیکن فوراً بائیں ہاتھ سے علم کو پکڑ لیا۔ یہ وہ تھے جن کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم اسلامی کہنا چاہئے یا اسلام کا جھنڈا خود سپرد فرمایا تھا۔ لیکن فوراً بائیں ہاتھ سے علم کو پکڑ لیا۔ اس وقت ان کی زبان پر یہ آیت جاری تھی۔
وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل‘ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ وقت ہے جبکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہاد ت کی خبر اڑائی جاچکی تھی اور اس وقت یہ آیت ان کو یاد آئی۔ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔ ابن قمیہ نے دوسرا وار کیا تو بایاں ہاتھ بھی قلم ہوگیا۔ آپ نے دونوں بازوئوں کا حلقہ بنا کر علم کو سینے سے چمٹا لیا۔ اس نے تلوار پھینک دی اور زور سے نیزہ مارا۔ اس کی انّی ٹوٹ کے سینے میں رہ گئی اور اسلام کا یہ فدائی اس وار سے اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگیا۔ طبقات الکبریٰ لابن سعد۔ اب ان میں ان کا ذکر اُس میںنہیں ہے تویہ جہالت کی حد ہے۔تمام صحابہ جن کا نا م بنام ذکر کسی ایک روایت میں نہ ہو ان کے متعلق یہ لکھنا کہ دیکھ لو وہاں ثابت ہوگیا قطعاً کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔ بے وقوفی کی بھی حد ہے اور ظلم اور تعصب کی حد ہے۔ یہ محض شرارۃً ان کے بھاگنے کا مضمون ثابت کرنے کی خاطر ان باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ربیع کا کوئی ذکر اس میں نہیں ہے۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ربیع کے متعلق خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کی خبر لائو وہ کہاں ہیں۔ وہ کہاں ملے تھے۔ میر صاحب کہیں گے صاف پتہ چلا بھاگ گئے تھے۔ اب سنئے ملتے کہاں ہیں۔ایک شخص نے کہا حضور کہ میں حاضر ہوں۔ پھر وہ مقتولین میں چکر لگانے لگے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کیا بات ہے۔ انہوں نے کہا حضور نے مجھے آپ کی خبر لانے کے لئے بھیجا ہے۔مقتولین کی بجائے زخمیوں میں وہ ملے۔ یعنی مقتولین کے ڈھیر میں کہیں ملے ہیں۔ تو انہوں نے دیکھا ان کو گھومتے ہوئے اور پوچھاکیا بات ہے۔ تو انہوں نے کہا مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی خبر لانے کے لئے بھیجا ہے۔ سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا حضور کے پاس جائو اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میرا سلام عرض کرو اور بتائو کہ مجھے بارہ نیزے کے زخم آئے ہیں اورمیرا خیا ل ہے کہ میری اجل آگئی ہے اور تم اپنی قوم کو بتانا کہ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے اور تم میں سے ایک بھی زندہ رہا ۔ تو خدا کے حضور تمہارا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا‘ اوراپنی قوم سے یہ بھی کہنا کہ خدا کا واسطہ دے کر تمہیں کہتا ہوں کہ تم نے رسول اللہ سے عقبہ کی رات جو عہد باندھا تھا ’’ہم آپ کی حفاظت کریں گے‘‘ خدا کی قسم اگر حضور کوکچھ ہوگیا تو تمہارا کوئی عذر قبول نہیںہوگا جبکہ تم میں سے کوئی ایک بھی زندہ رہا۔ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں جو تلاش کیلئے نکلے تھے۔ اس کے فوراً بعدہی انہوںنے جان جان آفریں کے سپرد کردی۔ میں حضور کے پاس آیا اور آپ کو ساری بات بتائی۔ آپ نے فرمایا سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر خدا رحم کرے۔ وہ جیتے جی اور مرتے ہوئے بھی اللہ اور اس کے رسول کا مخلص اور وفادار رہا۔ یہ ہیں بھاگنے والے۔ جن کے متعلق کہتے ہیں کہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین بکریوں کی طرح چھلانگیں مارتے ہوئے چٹان پر سے چٹان پر سے ہوتے ہوئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر چلے گئے تھے ان مخلصین کی طرف کوئی نظر نہیں ہے۔ صاف پتہ چل رہا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا روایتوں میں ذکر ہی نہیں ہے ۔ میں نے موازانہ کرکے دیکھا ہے۔ ان روایتوں میں جو پیش کی جارہی ہیں۔ ان میں ان کا نام نہیں ہے کہ یہ بھی ان میں موجود تھے جو پیچھے رہے پس جنگ کے ہنگامے میں کیسے ممکن ہے کہ وہ راوی ہرطرف نظر ڈال کر یہ دیکھ لے آرام سے کھڑا کہ کون کہاں ہے اور کون کہاں ہے۔اس نے جن کو لڑتے ہوئے دیکھا یا قریب دیکھا ا نکا ذکر کردیا۔ جو نظر نہیں آئے ان کا ذکر بعد میں تاریخ نے دوسری روایتوں میں محفوظ کردیا۔ حضرت امام رازی کا ذکر بھی ملتاہے کہ امام رازی نے یہ روایت کی ہے کہ یہ سارے بھاگ گئے تھے‘ حضرت امام رازی کی روایت بھی یہ ہے کہ جو سات آدمی جن کے مہاجرین میں سے تھے جن کے متعلق ایک روایت ہے۔ اس روایت میں جو نام امام رازی کو پہنچے۔ بھاگنے والے نہیں رہنے والے جو پیچھے موجود تھے ۔ چودہ آدمی جیسے روایت پہلے گزر چکی ہے۔ اس میں سے سات مہاجرین بھی تھے۔ امام رازی کو جو روایت ملی ہے‘ اس میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام شامل ہیں اس لئے یہ کہنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام اس میں نہیں ہے اس روایت میں اس لئے اول تو یہ کہنے کا کوئی حق نہیںکہ چونکہ اس راوی نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیان نہیں کیا اس لئے ثابت ہوگیا کہ امام رازی کے نزدیک وہ بھاگ گئے تھے۔ یہ جھوٹ ہے ۔ حضرت امام رازی تو مختلف روایتیں اکٹھی کردیتے ہیں اور یہی مفسرین کا حال ہے۔ یہاں سے پکڑی وہاں سے پکڑی۔ یہ اب کسی متقی کا کام ہے کہ وہ سب روایات کا جائزہ لے کر۔ پھر صحیح صورت حال کا اندازہ لگائے مگریہ تو قطعاً جھوٹ ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام بھی ان میں شامل ہے جو امام رازی کے نزدیک بھاگ گئے تھے۔ اب سنئے قطعی طور پر اس کے برعکس بھی شہادت موجود ہے
وہ روایتیں کہاںہیںدوسری جن میں جنگ احد والی۔ وہ کہیں غائب کردی وہ جن میں تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اورعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے‘ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ ایک سے زیادہ روایتیں ہیں؟ زیادہ پسند آگئیں ہیں آپ کو معلوم ہوتا ہے
بعض نے ستر صحابہ کی روایت پیش کی ہے۔ بخاری میں ہی۔ یہ روایت ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ پیچھے رہنے والے ستر تھے۔ کہیں تیس آیا ہے کہیں چودہ آیا ہے۔ اور یہ دیکھیں یہ روایت قطعی یہ شاید میں پہلے پڑھ چکا ہوں۔
علامہ ابو جعفر محمد بن جریر الطبری کی روایت میں پہلے پڑھ چکا ہوں کہ گھاٹی میں یہ سب موجود تھے یہ دیکھ لوں گایہ تو ان کے جھوٹ کے نمونے ہیں صرف اچھا جی غزوہ حنین کے متعلق بھی یہ الزام لگایا گیا ہے کہ یہ غزوہ حنین میں بھی بھاگ گئے تھے۔ میر صاحب کا استنباط یہ ہے کہ ایک دفعہ تو ہم معاف کرسکتے ہیں مگر دوسری دفعہ کا گناہ معاف نہیں کرسکتے۔ ان پر لازماً اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ اگر اسطرح تم بھاگو گے تو تمہارا انجام جہنم ہے وہ کہتے ہیں ان کے نعوذ باللہ من ذلک۔ جو پہلے تین خلفاء ہیں ان کا جہنمی ہونا قرآن سے ثابت ہوگیا۔ یہ استنباط ہے اس کے متعلق جو وہ جنگ حنین کی روایات درج کرتے ہیں۔ ان کا حال سن لیجئے۔ جو جو ساتھ رہے اور نہیں بھاگے۔ ان کا ذکر میں بتاتا ہوں قطعی طور پر۔ ایک ابوسفیان رضی اللہ عنہ تھے ایک روایت میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے خچرّ کی لگام پکڑی ہوئی تھی۔اور ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کے قدم تھامے ہوئے تھے۔ اس وقت ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ فتح الباری میں روایت ہے۔ پھر جن چار صحابہ کا ذکرہے کہ وہ خدمت میں حاضر رہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ان کے علاوہ بھی سو افراد ایسے تھے جو ساتھ رہے ہیں۔ ویسی صورت نہیں تھی جیسے جنگ احد میں ہوئی تھی بلکہ سو کی جماعت ایسی تھی جو آپ کے اردگرد تھی ۔ ترمذی ابواب الجہاد کا یہ حوالہ ہے۔ پھر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابن مسعود کا چشم دید واقعہ بیان ہوا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً اسی 80 صحابہ اس وقت موجود تھے۔ فتح الباری جلد نمبر 8 صفحہ1
بیہقی نے حارثہ بن نعمان سے روایت کی ہے کہ سو (100) آدمی تھے ۔ زرقانی جلد 3 صفحہ 22 ابو نعیم نے دلائل میں لکھا ہے کہ ان سو میں سے تیس سے کچھ زائد انصار تھے۔ فتح الباری جلد نمبر 8 صفحہ23 بعض کے نزدیک یہ تعداد300 سیرۃ النبی جلد اول صفحہ 317تا 332جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ جن کو یقینا دیکھا گیا ہے ساتھ اب ان کا ذکر میں بتاتا ہوں مہاجرین میں سے جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے۔ ان میں سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور آپ کے اہل بیعت ہیں جو لوگ ثابت قدم رہے وہ یہ ہیں۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ابی طالب اہل بیت میں سے ۔جو لوگ ثابت قدم رہے وہ ہیں علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ عباس بن عبدالمطلب ‘ ابوسفیا ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث ،ابوسفیان کو بھی اہل بیت میں داخل کیا گیا ہے۔ یا اصل میں ان کے بیٹے کا ذکر ہے۔ غالباً ابوسفیان تو تھے ہی۔ ابوسفیان بن حارث ہاں اور ان کے بیٹے فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دونوں۔لکھنے والے نے ابن ہشام نے اہل بیت کے ذکرمیں ان کو داخل کرکے لکھا ہے۔ ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث‘ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زید اورایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبداللہ جو اسی روز شہید ہوئے۔ ایک دوسری روایت میں ہے۔ ’’طبقات ابن سعد ‘‘میں کہ آپ کے ہمراہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب‘ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عباس‘ ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب ‘ ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حارث بن عبدالمطلب ‘ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ اور اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن زید اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مسلسل ثابت قدم رہے اور وہ جنگ حنین سے بھاگے نہیں۔ اب یاد رکھیں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام کس صفائی اور وضاحت کے ساتھ بار بار یہاں لیا جارہا ہے اور کسی ڈھٹائی سے وہ لکھتے ہیں کہ ان کتب سے ثابت ہے کہ وہ ان دونوں جنگوں میں برابر دونوں بھاگ گئے تھے۔ پھر یہ طبری کی طرف روایت منسوب کرتے ہیں۔ جنگ حنین کے متعلق بھی۔ لکھا ہے کہ طبری پڑھ کے دیکھ لو۔جنگ اُحد میں بھی یہ کہتی ہے۔ بھاگ گئے دونوں۔ یہ سب ۔ اور جنگ حنین میں بھی بھاگ گئے۔ طبری کا جنگ احد کا حوالہ میں پڑھ چکا ہوں اس میں بھاگنے کی بجائے ان کے ثابت قدم ہونے کی گواہی موجود ہے اور حنین کے متعلق طبری یہ گواہی دیتا ہے۔ ’’قد بقی مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفر من المھاجرین والانصار و اھل بیتہ ممن سبق معہ من المہاجرین ابی بکر و عمر و من اھل بیتہ علی بن ابی طالب وغیرہ وغیرہ کہتا ہے کہ طبری (جلد سوئم صفحہ نمبر 128) کہ وہ لوگ جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے اور باقی رہے نفر من المھاجرین والانصار وہ مہاجرین کی بھی ایک جماعت تھی اور انصار کی بھی ایک جماعت تھی اور اہل بیت بھی اس میں شامل تھے ان میں سرفہرست جو نام لکھتا ہے۔ طبری‘ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ا ب بتائیے کتنا واضح جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ تفسیر قرآن کے نام پر بیٹھے جھوٹ بنا رہے ہیں اور روایتیں یہ ایسی ایسی عجیب گھڑتے ہیں پھر کہ میں آپ کوایک روایت سنائوں گا۔اب سمجھ نہیں آئی کہ اس پر آدمی روئے یا ہنسے کچھ اور کرے وہاں بیٹھ کے یا پیٹے ان کے دماغ کو۔
اب دیکھئے تاریخ الاسلام کا حوالہ ہے۔ حافظ شمس الدین زہری کی کتاب ہے۔ اس میں وہ جنگ حنین کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ مہاجرین میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آخر تک ثابت قدم رہے ہیں ان میں ابوبکرؓ اور عمر ؓ بھی تھے۔ ابن خلدون مشہور مؤرخ ہیں یہ لکھتے ہیں جلد نمبر ۲ صفحہ ۴۶
ناشر موسسہ جمال للطباعۃ و النشر بیروت 1989ئ
وثبت معہ ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ‘ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ و علی رضی اللہ تعالٰی عنہ و عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہنے والوں میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں شامل تھے اور ان سب کا نام ان دونوں کا نام ان سب روایتوں میں سرفہرست ہے۔ ھذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الیمین و معہ نفر قلیل منہ ابوبکر و عمر و علی و عباس۔ یہ روایت ہے السیرۃ الحلبیۃ سے اس میں صاف طور پر اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ان مخلصین میں سرفہرست درج ہے۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ حنین میں وفا کرتے رہے۔ وفا دکھاتے رہے۔ آخر وقت تک ثابت قدم رہے۔ اس کے برعکس شیعوں نے بعض روایتیں گھڑی ہوئی ہیں وہ میں آپ کوابھی سناتا ہوں۔پہلے تو میں آپ کو نمونے بتاتا ہوں۔ کہ یہ لوگ کس طرح روایتوں کا حلیہ بگاڑتے ہیں اور اگر یہی ان کا تقیہ ہے تو یہ ایک بڑا ملعون طریق ہے اس کو کسی دنیا کے سچے مذہب میں قبول نہیں کیا جاسکتا بلکہ ناممکن ہے کہ کسی سچائی کے ساتھ بھی تقیہ کا یہ تصور اکٹھا قائم رہ سکے۔ مذہب تومذہب عام دنیا کے سچائی کے معیار کے مطابق بھی یہ تقیہ ،تقیہ نہیںجھوٹ ہے جو یہ اختیار کرتے ہیں۔ اب نمونے دیکھیں ان کی روایتوں کے۔ اس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ جب بھی آپ شیعہ کتب میں کچھ روایتیں دیکھتے ہیں ۔ حوالے دیکھتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ اصل کتاب کا تتبع کریں اور مطالعہ کرکے خود معلوم کریں کہ کیا لکھا گیا ہے ورنہ ایک سرسری قاری جس طرح بہت سے انگریزی پڑھنے والے اس روایت سے گذر جائیں گے۔ ا نکو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم کس جھوٹ کا مطالعہ سندوں کے حوالے سے کررہے ہیں۔ ان اسناد میں تو ا ن باتوں کا کوئی ذکر نہیں جو بیان کی جارہی ہے۔ نمونہ آغا محمد سلطان مرزا محمد دہلوی صدر شیعہ مجلس اوقاف دہلی‘ اپنی کتاب البلاغ المبین صفحہ166 پر یہ درج کرتے ہیں۔ حدیث جس کا اَخرجہ الترمذی کہتے ہیں یہ جو ہم حدیث بیان کررہے ہیں اس کو ترمذی نے نکالا ہے۔ اخرج کا مطلب ہے اس نے درج کیا۔ وہاں سے لی ہے میں نے۔ حدیث ہے عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرتضیٰ میں چار صفات ایسی ہیں جو ان کے سوا کسی اور میں نہیں ہیں۔ وہ عرب و عجم میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی نماز اسلام کی پڑھی۔ دوسری یہ کہ ہر ایک جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ا ن کے ہاتھ میں تھا ۔ ہر ایک جنگ میںحالانکہ ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کسی اور کو دیا تھا وہاں اُحد میں۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے کسی جنگ میں فرار نہیں کیا۔حالانکہ تمام صحابہ اکثر جنگ سے بھاگ گئے۔ اب احد اور حنین کا قصہ ہی نہیں رہا باقی۔ترمذی کی حدیث یہ ساتھ لکھ رہے ہیں ثابت کررہی ہے کہ علی کی خصوصیات میںیہ ہے کہ کسی میں نہیںبھاگے۔ ہر جنگ میں علم ہاتھ میں تھا اور جبکہ اکثر صحابہ تمام جنگوں سے بھاگ گئے۔ چوتھی یہ کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا اور قبر میں اتارا۔ ان کی کتاب کا حوالہ ہے۔ البلاغ المبین حصہ اول صفحہ ۱۶۶ ناشر امامیہ کتب خانہ موچی دروازہ لاہور۔ یہ موچی دروازے سے ہی چھپی ہوئی سجتی ہے ۔یہ کتاب۔ اب اصل حدیث ملاحظہ ہو کہ ترمذ ی میں صرف یہ الفاظ ہیں۔ یہ تو ترمذی کی حدیث وہ دیکھ لی ہے ساری۔چھان بین کے بعد بتا رہا ہوں۔
ترمذی میں جو حدیث ہے وہ یہ ہے عن ابن عباس قال اول من صلی علی ابن عباس سے روایت ہے کہ جو پہلا شخص جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مراد ہے نماز پڑھی تھ وہ علی تھے بس ۔یہ ساری باقی روایت جو اپنی طرف سے گھڑ کے داخل کی گئی۔ یہ ان کی روایتوں کا حال ہے بیٹھے بنائے جارہے ہیں تاویلیں کرتے چلے جاتے ہیں اور تقیہ میں پناہ مانگ رہے ہیں غالباً اپنے لئے ۔ پھر دوسرا نمونہ ان کے دجل اور فریب کا دیکھ لیجئے۔ ایک صاحب ہیں علامہ کہلاتے ہیں علامہ سید غلام علی شاہ صاحب ان کے ساتھ مناظرہ ہوا تھا۔ جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں1923ء میں۔ حضرت عمر کے مزعومہ فرار غزوہ احد کے ثبوت میں۔انہوں نے علی اعلان در منثور للسیوطی جلد نمبر2صفحہ28 اور صفحہ80 کا ذکر کیا کہ دیکھووہاں تو صاف لکھا ہوا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مان رہا ہے کہ میں بھاگ گیا تھا اور تم لوگ ابھی ضد کررہے ہو کہ نہیں بھاگے۔ وہ کہتا ہے میں بھاگ گیا تم کہتے ہو نہیںبھاگے۔ اب جو اصل عبارت ہے وہاں وہ یہ ہے۔ روایت کرنے والا کہتا ہے اصل الفاظ میںبتاتا ہوں تفرقنا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم احد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ایک موقعہ آیا کہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بچھڑ گئے۔ یعنی ہلہ اتنا تیز تھاکہ اس میں صحابہ بکھر گئے ہیں ادھر ادھر۔ اب یہاں فرار کا کہاں ذکر ہے کہ میں بھاگ گیا چھوڑ کر۔ یہ اپنی طرف سے بات بنالی اور اس طرح ان کی روایتیں چلتی ہیں۔ کوئی اصل کوئی بنیاد ہوتی نہیں وہاں اور اپنی طرف سے قصے گھڑ گھڑ کر روایتیں منسوب کرتے اور پھر پوری روایت لکھتے نہیں ہیں صرف اشارہ کردیتے ہیں۔ یا لکھتے وہ ہیں جیسے کہ میں نے بیان کیا سب فرضی کہانی۔ کوئی اس کا وجود نہیں ہے۔تفرقنا کا معنی فرار آپ دنیا کی ڈکشنریاں اٹھا کے دیکھ لیں۔ کہیں نہیں ملے گا آپ کو۔کسی شیعہ نے کوئی ڈکشنری لکھی ہے کہ نہیں۔ دیکھنے والی ہوگی۔
تیسرا نمونہ شیعہ لیڈر ابو عرفان سید عاشق حسین صاحب نقوی اپنی کتاب اصحاب رسول کی کہانی میں لکھتے ہیں۔ ابوبکر جنگ احد کو یاد کرکے رو پڑتے تھے کہتے تھے کہ غزوہ احد سے جب میں بھاگا تھا تو سب سے پہلے لوٹ کر بھی میں ہی آیا تھا۔ کیسی کیسی کہانیاں گھڑتے ہیں یہ مجلسی لوگ۔ جو سُنی ہیں ان کے دل نرم کرنے کیلئے وہ بھی مجلس میں نہ آئے بیٹھے ہوں۔کسی طرح ادب سے ذکر کرتے ہیں۔ اوہو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیچارے ذکر کرتے ہوئے رو پڑے تھے کہ جب میں بھاگا تھا ناں تو پھر میں واپس بھی میں ہی آیا تھا پہلے اور حوالہ تاریخ الخمیس کا دیا ہے۔ یہ وہی حوالہ ہے جو میر صاحب نے بھی دیا ہے کہ کتاب الخمیس سے بھی ثابت ہوگیا کہ یہ احد میں بھی بھاگ گئے اور حنین میںبھی بھاگ گئے وہ روایت یہ ہے ’’قال ابوبکر لما صرف الناس یوم احد عن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کنت اول من جاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فجعلت انظر الی رجل خلفی بین یدیہ یقاتل عنہ و یحمیہ وجعلت اقول کن طلحۃ فداک ابی و امی مرتین۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہیں وہی بات کہ جب اچانک جنگ احد میں لوگ بکھرے ہیں صرف الناس اپنے بھاگنے کا کوئی ذکر اشارہ بھی نہیں ہے۔تو میں جو پہلا آدمی جولپکا ہے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف وہ میں تھا۔ جب لوگ بھاگ رہے تھے تو میں آنحضور کی طرف دوڑ رہا تھا۔ اور اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کے سامنے ایک شخص بڑے اخلاص اور فدائیت کے ساتھ آپ کا دفاع کررہا ہے۔آپ کو بچا رہا ہے میں نے کہا کن طلحۃ میں جانتا تھا کہ طلحہ میںیہ جذبہ ہے میں نے کہا اے تو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہو جا۔ یعنی تو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہو۔ دیکھا تو وہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی تھا۔ یہ روایت ہے یہ میر صاحب اور یہ مجلسی لوگ حسین نقوی وغیرہ کہتے ہیں۔دیکھ لو اصحاب رسو ل کی کہانی میں لکھتے ہیں کہ ابوبکر یاد کرتے تھے رو پڑتے تھے۔ کہتے جب میں بھاگ گیا تھا توپھر لوٹ کے بھی تو میں ہی پہلے آیا تھا۔ بڑا ہی جھوٹ بولتے ہیں اللہ ہی رحم کرے۔
چوتھا نمونہ جلال پور جٹاں کے مناظرے میںہی سید غلام علی شاہ صاحب کہتے ہیں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو اپنے بھاگنے کا اقرار کرلیا۔ کہتے ہیں راوی کا بیان کہتے ہیں۔
فلحقت عمر فقلت مابعض الناس قال امر اللہ عز و جل ثم رھبوا وجلس۔ یہ ہے اصل روایت جس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنے فرار ہونے کا اقرار کر لیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق جو روایت ہے و ہ صرف اتنی ہے کہ کسی نے ۔کون ہے وہ راوی ؟اس میں میں دیکھ کے بتاتا ہوں آپ کو۔بہرحال جو بھی راوی ہے ۔ اس کے الفاظ صرف اتنے ہیں کہ میں نے عمر کو میں ایک دفعہ عمر سے ملا تو میں نے اس سے پوچھا کہ لوگوں کا کیاحال ہے کیا ہو رہا ہے یا کیا ہوا۔ قال امر اللہ عزو جل ثم رھبوا وجلس النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ النبی صلی اللہ علیہ وسلم رھبوا کی طرف ضمیر ہے اور جلس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی ہوگی جلس النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا ان سے پوچھا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے انہوں نے فرمایا ! اللہ کا حکم ہے اللہ کی تقدیر تھی ویسا ہی ہوگیا۔ اس کے بعد لوگ لوٹ آئے پھر وہ واپس بھی آئے ہیں۔ پھر جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔ یہ روایت ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بس۔ اب چونکہ روایت کوئی نہیں ملتی تھی انہوں نے ایک عجیب و غریب روایت خود گھڑ لی۔ جس کی نہ کوئی بنیاد بتاتے ہیں نہ موجود ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھاگنے کا قصہ ثابت کرنے کیلئے جو یہ ایک نصیبہ کی روایت انہوں نے بتائی ہے۔ عجیب دلچسپ روایت ہے سننے کے لائق ہے۔ کہتے ہیں کعب کی بیٹی نصیبہ وہاں ایک طرف کھڑی تھی اور جنگ حنین سے صحابہ بھگدڑ دوڑے چلے جارہے تھے۔ بھاگتے ہوئے ان کو ہوش نہیں تھی۔ اور وہ رستے میں کھڑی ان پر مٹی پھینکتی جاتی تھی۔ منہ پر کہ خاک پڑے تم پر کہ تم کیا کررہے ہو خاک پڑے تم پر اور وہاں ہی جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہاں سے گذر ہوا بھاگتے ہوئے۔ تو نصیبہ نے آپ کے منہ پر بھی مٹی ڈالی۔ اور کہا کیا ہوگیا ہے۔ کہنے لگے اللہ کی تقدیر ہے اب میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کوئی بنیاد نہیں۔ سر سے پائوں تک جھوٹا حوالہ بھی نہیں دیا اس لئے۔ اگر دیا ہے تو اپنی کسی تفسیر صافی وغیرہ کا دیا ہے ۔ جس کی آگے کوئی اصل نہیں ہے۔ کوئی آگے روایت نہیں ۔کہاں سے پکڑی گئی ۔ کسی مصنف نے لکھتے لکھتے ایک آیت لکھ دی ہے۔ یہ ہے ان کا مبلغ علم اور یہ ہے ان کی سچائی کا معیار۔ یہ کیا ہے۔ ہاں۔ اب دیکھئے آخری بات اس ضمن میں قطعی طور پر جو قابل ذکر ہے جس کو نہ شیعہ بیان کرتے ہیں نہ ہی مستشرقین بیان کرتے ہیں۔ میں پہلے بھی بیان کرچکا ہوں۔ لیکن دراصل تان اس پر ٹوٹتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق یہ الزام کہ وہ جان بچانے کیلئے عمداً بزدلی سے بھاگے تھے اور پھر یہ مستشرقین کے دعوے کہ یہ جنگ جو تھی یہ آخری طور پر دشمنوں کی فتح پر منتج ہوئی ہے اوروہ فتح مند لوٹے ہیں ان دونوں باتوں کو جھٹلانے کیلئے حمراء الاسد۔ کا واقعہ ہمیشہ ہمیش کیلئے تاریخ میں ان الزام لگانے والوں کو جھوٹا ثابت کرتا رہے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے دوسرے روز ہی صبح ہی دوبارہ دشمن کے تعاقب میں چل پڑتے ہیں۔ اور تمام ان صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو شرکت کررہے تھے۔ وہ بھاگے یا نہ بھاگے ان سب کو ارشاد ہے کہ میرے ساتھ چلو۔ اور اس وقت کوئی احد کا پہاڑ ان کے پیچھے نہیں تھا۔ ان کی حفاظت کیلئے۔ مدینے سے آٹھ میل دور جہاں دشمن نے پڑائو کیا ہوا تھا۔ اور یہ ارادے باندھ رہا تھا کہ اب واپس جا کر مدینہ پرحملہ کریں اور اپنی فتح سے وہ فوائد حاصل کریں جو ہم حاصل نہ کرسکے۔ ایسے دشمن کا تعاقب کرتے ہوئے یہ زخمی اور تھکاوٹ سے چور صحابہ رضی اللہ عنھم کی جماعت تھی جس کو لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ان سب کو ساتھ رہنے کا حکم ہے اور یہ حکم ہے کوئی اور شخص نہیں جائے گا۔ جس نے اس پہلی جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
مستشرقین کہتے ہیں کہ لوگ بغاوت پر تیار بیٹھے تھے اسلئے اللہ نے حکم دے دیا کہ نرمی کرو رنہ بڑی سخت بغاوت ہو جائے گی اسلام کا کچھ باقی نہیںرہے گا۔ اور یہ نعوذ باللہ من ذٰلک یہ باغی تھے۔ ان کے ساتھ چلنے کا عالم جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میں اور میرا بھائی دونوں اتنے زخمی تھے اور ہمارے پاس سواری کوئی نہیں تھی کہ ہم نے سوچا کہ ہم کیسے چلیں تومیں چونکہ نسبتاً کم زخمی تھا میںنے فیصلہ کیا کہ کبھی کبھی میں اس کو پیٹھ پر اٹھ لیا کرونگا۔ یہ سواری بنے اوروہ زخمی بھائی پیٹھ پر تھے۔ یہ ہیں وہ بزدل صحابہ نعوذ باللہ من ذلک جو بکریوں کی طرح چٹانوں سے چٹانوں پر ہوتے ہوئے چھلانگیں مارتے جارہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرمایا ہے۔ یا اللہ نے معاف فرمایا ہے۔ اس لئے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ لوگ عمداً جرم کے طور پرنہیںبھاگے۔ مجرم بنتے ہوئے نہیں بھاگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیوفائی کرتے ہوئے نہیںبھاگے۔ بعض دفعہ جنگ کے ریلوں میں ہوجاتا ہے اور انسان کا بس نہیں رہتا۔ اس سے بڑا ثبوت ان کے اخلاص کی تائید میں اور تاریخ عالم میں کہیں آ پکو دکھائی نہیں دے گا۔ کہ کبھی کسی قوم کے اخلاص کے حق میں ایسا ثبوت پیش کیا گیا ہو ۔ یہ گئے ہیں اور وہاں جاکر تین دن تک پڑائو کرکے بیٹھے رہے ہیں۔ انہی زخموںکی حالت میں اورایک بھی ایسا نہیں جس نے نافرمانی کی ہو۔ اور وہ پیچھے ہٹا ہو۔ اور دشمن سامنے پڑائوکئے ہوئے بیٹھا تھا قریب ہی وہ ایک دوسرے کی رات کو جلتی ہوئی آگیں دیکھتے تھے اور دشمن کو یہ موقعہ نہیں ملا۔ یہ جرأت نصیب نہیںہوئی۔ کہ باہر آئے ہوئے قریب پہنچے ہوئے۔ ان کمزوروں کے اوپر دوبارہ ہلہ بول کر ان سب کو ملیا میٹ کردیتا۔ یہ وہ رعب والا واقعہ ہے جس کی طرف میں نے پہلے اشارہ کیا تھا کہ میں اپنے اس مضمون کے آخر پر بیان کروں گا۔ قرآن کریم نے وہاں جو رعب کی وجوہات بیان فرمائی ہیں ۔ یہ بات خاص میں نے کہا تھا تعجب کے لائق ہے یا قابل غور ہے کہ یہاں مومنوں کی شان بیان نہیں کی رعب کیلئے بلکہ شرک کی اندرونی کمزوریاں بیان فرمائی ہیں کہ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیںکہ تمہیں ایک اور بھی نمونہ رعب کا دکھائیں گے۔ اور وہ نمونہ یہ ہوگا کہ تمہاری طاقت سے مرعوب نہیں ہوگا دشمن۔ لیکن شرک کے اندر اندرونی انکی تعمیر میںجو خرابی مضمر ہے وہ خرابی ان کے اوپر خوف طاری کردے گی اور وہ ڈر جائیں گے اور ثابت ہوگا کہ توحید کے بغیر کوئی قوم دنیا میں سچی بہادر نہیںہوا کرتی۔ پس وہ جو رعب کا وعدہ تھا وہ اب پورا ہورہا ہے حمراء الاسد کے حوالے کے بغیر وہ بات ہی نہیں بنتی۔ تبھی مستشرقین کہتے ہیں۔ آگے ہوگئی ہوگی پیچھے ہوگئی ہوگی۔ سمجھ نہیں آتی وہ کونسا رعب تھا وہاں تو ان پہ رعب پڑتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اور وہ وعدہ ہے مستقبل کا ماضی کی بات ہی نہیں ہے۔اس وعدے کے معاً بعد یہ فرما رہا ہے اس سے پہلے یہ سب کچھ گذر چکا ہے۔ تو جب فرما چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ اس سے پہلے جنگ احد میں جو واردات گذریں سب گذر چکی تھی تو ظاہر ہے کہ اس کے اوپر اس رعب کے وعدے کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔وہ یہ موقعہ ہے تین دن رات وہاں پڑائو کرکے بیٹھے رہے ہیں۔ دشمن کی فوج پوری طرح تازہ دم تھی کل 9 توان میں سے مارے گئے تھے ان میں بڑے بڑے سوار موجود تھے خالدبن ولید جیسے کہنہ مشق۔ اس وقت توکہنہ مشق نہیںہونگے۔ مگر ابھرتے ہوئے ایک فوجی جرنیل تھے وہ بھی ان میں موجود تھے اور ان کو جرأت نہیں ہوئی تاریخ دانوں نے بہت سی روایتوں کی طرف توجہ دی ہے۔ یہ بتانے کے لئے کہ کیوں رعب پڑا۔ ایک ایسے قبیلے کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ جن کے سردار وہاں سے گذرے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حمراء الاسد میں پڑائو ڈالے ہوئے تھے۔ رئیس مبعد خزاعی چونکہ قبیلہ خزاء کا سردار تھا کہتے ہیں وہ گذرا تھا اور وہ وہاں سے ہوکر پھر وہ ابوسفیان کے پاس گیا ہے اور اس کو اس نے ڈرایا اور اس لئے وہ ڈر گیا یہ عجیب بات ہے کہ قران کریم کی واضح گواہی کو چھوڑ کر ان روایتوں پر انحصار کیا جارہا ہے سبب خدا نے جو بھی پیدا کیا۔ اس سے بحث نہیں ہے۔ قرآن کھلا کھلا صاف بتا رہا ہے کہ اس روک کی وجہ شرک کی اندرونی کمزوری ہے۔ بت پرستی میں ایک بزدلی نہاں ہے جو اس موقعہ پر ابھرے گی اور ہم تمہارا رعب ان کے شرک کی وجہ سے ان پر ڈالیں گے۔ پس آخری جو فیصلہ کن بات جنگ احد کی ہے وہ یہ ہے کہ فتح مسلمانوں کی ہوئی ہے۔ ورنہ تاریخ عالم میں کوئی مثال نکال کے دکھائو۔ مشرق و مغرب شمال و جنوب جو چاہو مطالعہ کرلو۔ ایک مثال ایسے واقعہ کی دکھائو۔ اس طرح فوج بظاہر مار کھا کر بدکی ہوئی دوڑتی پھرتی ہو اور دشمن اور معاندیہ آوازیں کس کس کے چسکے لے رہا ہو کہ بکریوں کی طرح چٹانوں پر سے ہوتے ہوئے دوسری چٹانوں پر چھلانگیں مارتے ہوئے بھاگ رہے تھے۔ سب نے بے وفائی کی سب نے پیٹھ دکھا دی۔ صرف ایک علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جن کا ایک رعب باقی رہا اور کوئی رعب والا باقی نہیں تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں لیتے وہاں۔ اور وہ رعب کیا تھا وہ میں نے بتادیا ہے وہ کھڑے اسی طرح دندنا رہے تھے کسی نے کوئی اس رعب کا ذکر نہیں کیا اور عجیب بات یہ ہے ۔ جومجھے تعجب میں ڈالتی ہے کہ مورخین نے بعد میں خالد بن ولید سے کیوں نہیں پوچھا کسی پوچھنے والے نے۔ ابوسفیان جو حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے کھڑا تھا اس سے کیوںنہیں پوچھا۔ وہ تو لشکر کا سردار تھا۔تویہ شیعہ ان کی روایات کیوں نہیں بیان کرتے۔اگر یہ روایت سچی ہوتی کہ آسمان سے آواز آئی تھی۔ جبرائیل کی کہ ’’لاسیف الا ذوالفقار ولا فتی الا علی‘‘ تو ان لوگوں کو سنانے کیلئے ڈرانے کے لئے تو آواز آئی تھی حضرت خالد بن ولید نے کہیں اشارۃً بھی اس کا ذکر نہیں کیا ۔ اتنی عمر زندہ رہے۔ اتنی دیر اسلام کی خدمت کی۔ اتنے لشکروں کی کامیاب جرنیلی کے فرائض کامیاب قیادت کی اور سیادت کی۔ اس حال میں بستر پر جان دی کہ اپنے بدن سے کپڑا اٹھایا اور رو رہے تھے کہ دیکھو کوئی ایک انگلی رکھنے کی جگہ نہیںہے جہاں مجھے خدا کی خاطر زخم نہ پہنچے ہوں۔ مگر افسوس میری شہادت کی تمنا پوری نہ ہوئی۔ اور آج میںبستر پر جان دے رہا ہوں۔ اس گواہی تک ایک بھی گواہی نہیں۔ کہ ہم جنگ احد میں کامیاب ہونے کے باوجود جنگ کے فوائد سے فائدہ اٹھائے بغیر کیوں واپس لوٹ گئے۔ فتح کے جو طبعی فوائد ہیں وہ ہم نے کیوں حاصل نہ کئے۔ صاف پتہ لگتا ہے کہ اس روایت کی کوئی بنیادہی نہیں۔ بالکل جھوٹ ہے اور نہ ان کی ادائیں رعب والی نظر آتی ہیں۔ اگر رعب ایسا تھا تو جیسا کہ احمد علی صاحب نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ وہاں رکے بغیر سیدھا مکے پہنچ کے کیوں نہیں دم لیا۔ میر صاحب تو کہتے ہیں کہ وہ بھاگے ایسا بھاگے وہاں سے یہ آواز سن کر حضرت جبریل کی کہ سیدھا پھر جا کے مکے پہنچ کے دم لیا ہے۔ اس آواز کو سن کر وہ مسلمان کیوں نہیں ہوگئے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ سہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کرلیتے۔ پھر یہ جنگ احزاب کا واقع کیوں پیش آیا۔ عجیب و غریب روایت ہے اور رعب کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنے کی کوئی تک کوئی بنیاد ہی نہیں بنتی۔ لیکن یہ رعب ہے جو میںبتا رہا ہوں۔ حمراء الاسد پھر پہنچتے ہیں۔ یہی زخمیوں والا قافلہ آتا ہے۔ وہاں تین دن تک پڑائو پکڑتا ہے۔ انتظار کرتا ہے کہ دشمن واپس لوٹے۔ ہم پھر اس کا مقابلہ کریں اور وہ بغیر حملہ کئے واپس چلا جاتا ہے۔ یہ وہ رعب کی فتح تھی جس رعب کا اس آیت میں وعدہ دیا گیا تھا اور ان تمام صحابہ کے اوپر جو بزدلی اور فرار کے داغ لگے تھے۔ اس واقعہ نے ان کو دھو دیا ہے۔ کوئی نشان باقی نہیں چھوڑتا۔ ورنہ یہ ہمیشہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہتے۔ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھیں۔ کتنے عظیم الشان جرنیل ہیں۔ خدا سے جو فتح و نصرت کے وعدے تھے وہ تو اپنی جگہ لیکن آپ کی جو سیادت اور قیادت کی شان ہے وہ عجیب شان ہے۔ اگر جرنیلی کے طور پر بھی دیکھا جائے تو دنیا کے پردے میں ایسے جرنیل آپ کو دکھائی نہیں دے گا۔ ایسے عظیم الشان آپ نے جنگی حربے استعمال کئے ہیں۔ ایسی عمدگی سے میدان جنگ کو سجایا ہے اور بتایا کہ کہاںکس نے ٹھہرنا ہے۔ ایک ایک آدمی کو ساتھ جاکے بٹھایا کرتے تھے۔تم نے یہاں رہنا ہے تم نے وہاں رہنا ہے یہ تاریخ حرب آپ پڑھ کے دیکھ لیں دنیاکی آپ کو کوئی مثال دکھائی نہیں دے گی اس نے کارلائل (Carlyle) نے تو لکھا ہے He was the prophet یعنی Hero and Hero worship میں وہ مختلف مثالیں چنتا ہے اور نبی کی مثال کے طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولیتا ہے۔ مگر میں نے غور جو کیا ہے ہر اعلیٰ انسانی خوبی میں اگر کوئی کتاب Hero and Heroes worship کی لکھی جائے تو ہر فہرست میں سر فہرست حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہوگا۔ ایک دانش ور کے طور پر۔ ایک عظیم سیاست کی فہم رکھنے والے کے طور پر۔ حربی فنون میںایک بے مثل جرنیل کے طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کرکبھی دنیا میں کوئی پیدا نہیں ہوا۔ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو شیعہ الزام ہے۔ وہ بہت ہی خوفناک ہے اور اس کا ذکر میں بعد میں کرکے اس کا جواب دونگا۔جہاں وہ روایت ہے کہ اہل بیت بس یہی تھے اور ان کے سوا کوئی پاک نہیں رہا تھا۔ اب میں اس کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی بعض تحریرات آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقام کا حقیقی مقام کا کوئی علم ہی نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کے عشق کا جیسا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میںہے۔ اس کی اور آپ کو مثال کہیں دکھائی نہیں دے گی۔ لیکن شیعہ یہ شرارت کے طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات کو پیش کرتے ہیں۔ تاکہ شیعوں میں احمدیت کے خلاف بغض و عناد پھیلے اور یہ ثابت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نعوذ باللہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی بڑی سخت ہتک کی ہے اس میں جو ان کے الزام میں سب سے نمایاں طور پر جو شعر پیش کیا جاتا ہے۔ وہ یہ ہے۔ (دیکھتا ہوں‘ بتاتا ہوں‘ اچھا ٹھیک ہے)
فھذا علی الالسلام احدی المصائب
لدی نفحات المسک قزر المقنطر
شعر کا ترجمہ یہ ہے پس اسلام کے اوپر مصیبتیں ٹوٹ پڑی ہیں۔ اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کستوری کی خوشبوکے پاس گندگی کا ڈھیر لگا دیتے ہیں یہ سارا قصیدہ توحید کی تائید میں شرک کے خلاف ایک جہاد پر مشتمل ہے اور اس ضمن میں ذکر فرماتے ہیں کہ دیکھو تم نے بھی بہت بڑے پاک لوگوں ‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ وغیرہ وغیرہ پر۔ دراصل شرک کا بہتان باندھ دیا ہے۔ جب تم ان کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہو۔ ان سے منتیں مانگتے ہو۔ تو شرک میں مبتلاء کرتے ہو۔ اور نعوذ باللہ ان کو جھوٹا خدا بنا لیتے ہو۔ اب یہ بہت بڑا ظلم ہے ان کی پاک ذات پر اور اسلام پر یہ بڑا بھاری ظلم ہے۔ کہ ایک طرف توحید اور ایک طرف شرک ۔ توحید کی خوشبو کو مشک کی خوشبو سے تشبیہ دی ہے۔ اور شرک کو گندگی سے۔ کہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہوئے جانتے ہوئے کیوں کہ اس قصیدے میں اس کی کوئی گنجائش بنتی ہی نہیں ہے جو یہ بات بنا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ حضرت حسین علیہ السلام کوگندگی سے تشبیہ دی ہے۔ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں آپ کی زندگی میں آئی ہے اور اس کے رد میں جو آپ نے فرمایا ہے میں آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں۔ اس کے باوجود ان کا طریقہ یہ ہے ۔بعض ایسی روایات ملتی ہیں کہ جہاںکسی شیعہ کے پاس احمدی کا کیس ہو۔ تواس کو پیچھے پیچھے کان میں جا کر پھونکتے ہیں کہ ان کے حق میںفیصلہ کرو گے یہ دیکھو یہ کیا لکھا ہوا ہے۔ اب اس کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ اصل حقیقت کیا ہے اس سے تعصب میں مبتلا ہوکر بعض دفعہ وہ ظالمانہ فیصلے کردیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس الزام کے جواب میں فرمایا ! میں نے اس قصیدے میںجو امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے۔ دونوں وہی مضمون ہیںکہ وہاں بھی شرک کرتے ہوئے ان دونوں پاک بزرگوں پر تم نے معبود ان باطلہ بننے کا الزام لگادیا ہے گویا وہ بھی اس بات میں شریک ہیں یہ ہے طرز استدلال۔ فرماتے ہیں ’’ میں نے اس قصیدہ میں جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے یہ انسانی کارروائی نہیں ہے۔ خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے راستباز پر بد زبانی کرکے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ (مطلب ہے روحانی موت ہے اس کے لئے) اور وعید من عادی ولیا لی دست بدست اس کو پکڑ لیتا ہے (یہ جو وعید ہے کہ جو میرے ولی کا دشمن ہو میں اسکا دشمن بن جاتا ہوں) پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے۔‘‘
ضمیمہ نزول المسیح روحانی خزائن جلد نمبر ۱۹ صفحہ ۱۴۹
یہ ہے اس کا جواب اس جھوٹے الزام کا۔ اور کئی دفعہ آج کل اس زمانے میں بھی پاکستان سے بعض بچے بچارے مجھے خط لکھتے ہیں کہ یہ ہمارے متعلق دیواروں پہ لکھا جار ہا ہے سکول میں ہمیں تکلیف دینے کیلئے یہ مشہور کرتے ہیں کہ دیکھو انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق یہ لکھ دیا اور لوگ ہمیں طعنے دیتے اور مارتے اور گالیاں دیتے ہیں تو یہ سب اُن کے افتراء کی باتیں ہیں اس کا حقیقت سے کوئی بھی تعلق نہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ میںحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں فرماتے ہیں! ملفوظات جلد نمبر ۶صفحہ ۲۸۲ ’’حضرت عیسیٰ اور امام حسین کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کو علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جوہری ہی جوہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے۔ اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ امام حسین کو سجدہ کریں مگر وہ ان کے رتبہ اور مقام سے محض ناواقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا یا خدا جو چاہیں بنا لیں مگر ان کے اصل رتبہ اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہر گز تحقیر نہیں کرتے۔ یہ جھوٹا الزام ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا وہ بلا شبہ دونوں معنوں کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل تھے لیکن کلام اس بات میں ہے کہ کیوں آل کی اعلیٰ قسم کو چھوڑا گیا ہے اور ادنیٰ پر فخر کیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں ہم تو صرف یہ گفتگو کرتے ہیں کہ تم آل کی اعلیٰ قسم کو نظر انداز کردیتے ہو۔ جو روحانی آل ہے اور محض جسمانی آل پر زور دیتے ہو اور روحانی آل والوں کو اس مضمون سے ہی باہر نکال پھینکتے ہو۔ تعجب کہ وہ اعلیٰ قسم امام حسن اور حسین کے آل ہونے کی یا اور کسی کے آل ہونے کی۔ جس کی رو سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی مال کے وارث ٹھہرتے ہیں اور بہشت کے سردار کہلاتے ہیں یہ لوگ اس کا تو کوئی ذکر ہی نہیں کرتے اور ایک فانی رشتے کو بار بار پیش کیا جاتا ہے۔ جس کے ساتھ روحانی وراثت لازم و ملزوم نہیں ہے۔
یہ ہے گفتگو جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے ان معنوں میں اٹھایا ہے۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے مرتبہ اور مقام کی بات میں بتا رہا ہوں۔ یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ شیعوںنے نعوذ باللہ پہلے تین خلفاء پر الزامات عائد کئے ہیں اور ظلم توڑے ہیں۔ اس لئے کس طرح بھی نعوذ باللہ من ذلک حضرت علی کیلئے دل میں کہیں کوئی میل کا ایک معمولی سا شائبہ بھی آپ کے دل پہ طاری ہوجائے۔ اگر اس کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق آپ کے دل پر میل آئے تو یہ ہلاکت کی نشانی ہے۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قطعاً کوئی ادنیٰ بھی حصہ اس میں نہیں ہے کہ پہلے تین خلفاء کے اوپر بدزبانی کی جائے‘ گالیاں دی جائیں۔ آپ نے جب بھی ذکر فرمایا محبت اور احترام سے ذکر فرمایا‘ جب تک ان کی بیعت میں رہے اور ہمیشہ رہے۔ آخر دم تک رہے ان کے ساتھ کامل وفا کی ہے۔ ان کے ہر اشارے پر لبیک کہا ہے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ پر الزام ہے اور ہر گز ان پر کوئی حرف کسی قسم کا نہیں ہے۔ بعض سنی بعض دفعہ زیادتی کرتے ہوئے۔ بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب الزامات کو بھی پیش کرنا شروع کردیتے ہیں کہ آپ سے اس طرح رسول اللہ صلعم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچا۔ آپ پر شادی کے معاملہ میں یہ الزام لگا وہ ہوا یہ ناپاک طریق ہیں۔ میں اس کو جماعت میں بالکل پسند نہیں کرتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاک وجود پر کسی قسم کا اتہام دوسرے کی روایت کے طورپر بھی پیش کرنا۔ مناسب نہیںہے۔ ورنہ آپ کے دل میں آہستہ آہستہ ایک بغض کا اثر پڑناشروع ہوجائے گا۔ اور آپ دور ہونا شروع ہوجائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو الفاظ ہیں سُنیے!۔
’’آپ بڑے تقوی شعار پاک باز تھے۔ ان لوگوں میں سے تھے جو رحمان خدا کو سب سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں قوم کے چنیدہ لوگوں میں سے اور سادات میں سے تھے‘ خدا کے غالب شیر اور اس کے مہربان دردمند جوان تھے بڑے سخی اور پاک دل تھے‘ بے مثل شجاع تھے میدان میں جس جگہ جم جاتے اس جگہ سے ہر گز نہ ٹلتے خواہ دشمن کی فوجیں مقابل پر آجائیں۔ تمام عمر پر مشقت زندگی بسر کی۔ زہد میں نقطہ کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ مال و دولت دینے حاجت و تکلیف کو دور کرنے‘ یتیموں‘مسکینوں اور ہمسائیوںکی خبر گیری میں اول درجے کے انسان تھے اور معرکوں میں بہادری کے ابواب رقم کیا کرتے تھے۔ (کیسا خوبصورت کلام ہے اور معرکوں میں بہادری کے ابواب رقم کیا کرتے تھے) نئے نئے ابواب کا اضافہ ہوتا تھا۔ معرکوں کی تاریخ میں اور تیر و تلوار کی جنگ میں مظہر عجائب تھے۔ ان سب باتوں کے ساتھ ساتھ‘ شیریں بیان فصیح اللسان تھے۔ آپ کی بات سننے والے کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتی تھی۔ اپنی گفتگو سے دلوں کا زنگ دور کردیتے تھے اور اپنی تقریر کو نور برہان سے منور کرتے تھے۔ ہر طرح کے انداز بیان پر قادر تھے اور جو اس میدان میں آپ کا مقابلہ کرتا تھا وہ اسی طرح اپنی بے بسی کا اور شکست کا اعتراف کرتا جس طرح ایک مغلوب شخص کرتا ہے۔ یعنی جس کو شکست نصیب ہوجائے ۔ آخر ماننا پڑتا ہے ہر خیر میں اور فصاحت و بلاغت کے میدان میں فرد کامل تھے۔ اب یہاں فرد کامل ایک عظیم داد تحسین ہے میں نہیں جانتا مرد کامل تھا یا فرد کامل۔ یہاں فرد کامل لکھا ہے۔ دونوں مضمون اپنی جگہ اپنی شان رکھتے ہیں۔ مرد کامل کہا جائے تو ایسے موقع پر اس کی بہادری اور جواں مردی کی ایک بہت ہی پیاری تصویر ہے اور فرد کامل کا مطلب ہے اس کی کوئی مثال اور نہیں۔ جو آپ کے کمالات کا انکاری ہو تو جان لو کہ اس نے بے حیائی کی طرز اختیار کی۔ مصیبت زدہ اور لاچار کی ہمدردی کی ترغیب دیتے تھے تنگ دستی پر قانع اور پریشان حال افراد کو کھانا کھلانے کا حکم دیتے تھے۔ اور اللہ کے مقرب بندوں میں سے تھے۔ اور ان باتوں کے ساتھ ساتھ فرقان مجید کے معارف کے دودھ کا پیالہ پینے میں۔ سابقین میں سے تھے۔ دقائق قرآنیہ کے ادراک میں آپ کو فہم عجیب عطا کیا گیا تھا۔ میں نے آپ کو عین بیداری کی حالت میں دیکھا نہ کہ نیندمیں۔ آپ نے مجھے خدائے علام کی کتاب کی تفسیر عنایت فرمائی اور فرمایا کہ یہ میری تفسیر ہے۔ جو اب تمہیں عطا کی جاتی ہے۔ پس میں اس تفسیر کے ملنے پر خوش ہوا۔ تب میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور وہ تفسیر لے لی۔ اور خدائے وھاب و کبیر کا شکر ادا کیا۔ میں نے آپ کو نہایت مضبوط جسم والا اور گہرے اعلیٰ اخلاق والا‘ عاجز منکسر المزاج روشن اور پر نور چہرے والا پایا اور میں حلفاً کہتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محبت اور الفت کے ساتھ مجھ سے ملاقات کی۔ سر الخلافۃ صفحہ ۴۴ یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق تصور۔ تصور نہیںایسا بیان جو لفظاً لفظاً حقیقت پر مبنی ہے کوئی مبالغہ آمیزی نہیں۔ کوئی تحریر کی سجاوٹ کا خیال شامل نہیں۔ یہ آپ کے مقدس ‘ مطہر دل نے محسوس کیا۔ جو جانا جو علم آپ کو کشفاً عطا کیا گیا۔ اس کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یہ تصویر کھینچی ہے پس اس جہالت میں کبھی مبتلا نہ ہوں کہ اگر کسی خلیفہ پر شیعہ زبان طعن دراز کرے تو مقابل پر آپ نعوذ باللہ من ذلک۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کمزوریاں ڈھونڈ کر اپنی دلیل کو طاقت دینے کی کوشش کریں۔ یہ ایسا موقعہ ہے جہاں جیسا کہ میں نے پہلے آیت قرآنیہ کے حوالے سے آپ کو سمجھایا تھا۔وہاں زبان دراز کرنے کی اجازت نہیں ہے۔یہ سب بزرگ خدا کے پاک بندے تھے۔ خدا کے حضور حاضر ہوگئے۔ ان کے متعلق قرآنی گواہی یہ ہے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری دم تک یہ گواہی ہے کہ یہ پاک لوگ ہیں۔ ورنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز کی امامت پہ کیسے کھڑا کردیتے۔پس ایسے موقعے پر اگر تکلیف بھی ہے تو برداشت کرلو‘ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ یا آپ کے صحابہ اور ساتھی اور آل کے متعلق کوئی میلا خیال دل میں نہ آنے دو۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ طاہر اور مطہر تھا یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ہے جو میں پڑھ کر سنا رہا ہوں۔ حسین رضی اللہ عنہ طاہر و مطہر تھا۔ اور بلا شبہ وہ ان برگزیدوں میں سے ہے‘جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کردیتا ہے اور بلا شبہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے اورایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے۔ اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے او ر ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی۔ تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق تو شاذ اشارے ملتے ہیں۔ مناظروںمیں۔ مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق تو بعض شیعوں نے بعض سنیوں نے ایسا ظالمانہ رویہ اختیار کیا ہے کہ ان کے مقابل پر یزید کو حضرت یزید کرکے لکھا گیا اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی غلطیاں ظاہر کی گئیں اور یہ بتایا گیاکہ ایسی صورت میں نعوذ باللہ من ذلک حضرت یزیدکے پاس اس کے سوا چارہ نہیں تھا جو انہوں نے کرکے دکھایا۔ یہ نہایت ہی خبیثانہ حرکت ہے۔ اور جماعت احمدیہ کا اس سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ ہم سنی العقیدہ ہونے کے باوجود ایک امتیاز رکھتے ہیں۔ ہمیں وقت کے امام نے ایک روشن دماغ او ر روشن دل عطا کیا ہے اور ہمارے دل کوحقیقی‘ سچ کے نور سے بھر دیا ہے۔ اس نور سے جو خدا سے آپ نے پایا پس شیعوں کے مقابل پر جو ہمارا موقف تھا۔ میں نے کھول کر بیان کردیا۔ کوئی اس میںبات لپٹی نہیں۔ کھول کر بتایا کہ یہ موقف ہے جو سچا ہے۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم ان سنیوں کے ساتھ شامل ہیں جو جواباً نعوذ باللہ من ذلک حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر بھی حملے کردیتے ہیں اور آپ کے دشمنوں کی تعریف کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں۔ ’’ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اس کو ملی تھی تباہ ہوگیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے اور کامیاب ہوگیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے۔ جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش ہو۔ یعنی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے نقوش کو اسی طرح اپنے دل پر قبول کریں کہ وہ آپ کے دل میں جلوہ گر ہوجائیں۔ جیسے ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے ان کا قدر مگر وہی جو ان میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ ان کو شناخت نہیں کرسکتی۔ کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی تھی۔ کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اس کے زمانہ میں محبت کی تا حسین رضی اللہ عنہ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین رضی اللہ عنہ یا کسی اور بزرگ کی جو آئمہ مطہرین میں سے ہے تحقیرکرتا ہے اور کوئی کلمہ استخفاف کا ان کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ جلشانہ اس شخص کا دشمن ہوجاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروںکا دشمن ہے۔
مجموعہ اشتہارات جلد نمبر ۳ صفحہ ۵۴۳
’’افاضۂ انوار الہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ (افاضہ انوار الٰہی میں ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوروں کے پہنچنے میں۔ یعنی نوروں کو تم تک پہنچایا جاتا ہے۔ جو اس میں کون کونسے محرکات و موجبات شامل ہوتے ہیں) فرمایا! محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ نماز مغرب کے بعد عین بیداری میںایک تھوڑی سی غیبت حس سے جو خفیف سے نشہ سے مشابہہ تھی جیسے ہلکا سا طبیعت میں ایک نشہ سا آجائے ۔یعنی اس میں لطف بھی تھا ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی۔ جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پائوں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے۔ پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ او رمقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنھم اجمعین۔ اور ایک نے اُن میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادرمہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ پھر بعد اسکے ایک کتاب مجھ کودی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی (رضی اللہ عنہ) نے تالیف کیا ہے اور اب علی (رضی اللہ عنہ) وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے۔ فالحمد اللہ علی ذالک۔
(براھین احمدیہ ہر چہار حصص حاشیہ در حاشیہ نمبر۳ ص ۵۹۸‘ ص ۵۹۹)
یہ روایت میں نے خاص طور پر اس لئے یہاں چنی ہے کہ احمدیوں پر جو ظلم کئے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اُن میں بعض خبیث فطرت لوگ اس روایت کو بھی بگاڑ کر عوام الناس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق گندے الزامات لگاتے ہیں اور یہ الزام دراصل ان پر ہی الٹتا ہے۔ ان کا خبث باطن ہے جو ایسی ناپاک بات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہیں جس کااس روایت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیںہے۔ کوئی وہم و گمان بھی کوئی شریف انسان نہیںکرسکتا کہ اس روایت میں کوئی ایسا مضمون بیان ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ کھڑے ہی حالت میں ایک کشفی نظارہ ہے۔ جن پانچ بزرگوں کے آنے کا ذکر ہے اس میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ موجود ہیں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے بیٹے موجود ہیں۔ اور آپ کو ایک بچے کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ورنہ اگر اپنے زانوں سے سر لگاتیں تو ایک بڑے آدمی کا سر تو زانوں کے ساتھ نہیں لگ سکتا ہے۔ صاف پتہ چلا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفی حالت میں ان سب بزرگوں کو قد آور دیکھا ہے اوراپنے آپ کو ان کے مقابل پر ایک چھوٹا بچہ دیکھا ہے اور تبھی جس طرح ماں بچے کا سر اپنی ران کے ساتھ لگاتی ہے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس کشف میں جب آپ کا سر اپنی ران کے ساتھ لگایا تو وہ ران کے برابر تھا۔ یہ تو نہیں کہ دوہرا کر ہے الٹا کر نیچے لے جایا گیا۔ ایسا کوئی نقشہ تو اس عبارت سے ظاہر نہیں ہورہا ۔ ایک نہایت پاکیزہ کشف ہے مادر مہربان کا لفظ موجود ہے۔ ایک مادر مہربان کی طرح اور منظر کیا ہے باپ موجود ہے خاوند موجود ہے بچے موجود ہیں اور یہ ناپاک اور کمینے لوگ یہ گند اچھالتے ہیں اور حیاء نہیں کرتے کہ حضرت فاطمہ ؓ کے اوپر یہ بکواس کررہے ہیں۔ جب یہ ایسا گنداخیال اس سے نکالتے ہیں جو نکالتے ہیں تو الزام لگانے والے یہ ہیں اور بے حرمتی کرنے والے یہ ہیں۔ اس عالم کشف میں تو اس کا دور کا بھی اشارہ موجود نہیں۔ جو یہ بکواس حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرنے کی خاطر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پر کرتے ہیں اسلئے میں یہ کھول کر بتا رہا ہوں کہ یہ جو پاکستان کی دیواریں اس قسم کی گندگیوں سے کالی کی جاتی ہیں یہ ان مولویوں کے دل کے گند ہیں۔ اور یہاں شیعہ سنی سب اکٹھے ہوجاتے ہیں یہ گند اچھالنے میں اورحیاء نہیں کرتے کہ کس کے متعلق کیا بات کررہے ہیں۔ پھر یہ کہ جان کر حوالہ وہ دیتے ہیں جومختصر حوالہ ہے۔
جب ۱۹۸۴ئ میں جماعت احمدیہ کو موقعہ ملا اور ان کو زبردستی بلایا گیا کہ نیشنل اسمبلی کے سامنے پیش ہوں اور ہم تم پر الزام لگائیں اور تم ان کو جواب دو ۔ (تو ۱۹۷۴ئ میں ۸۴ء میں نہیں) حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔ اور مجھے یاد ہے یہ الزام بھی ان الزامات میں شامل تھا۔ لیکن حوالہ براہین احمدیہ کا دینے کی بجائے ایک بعد کی کتاب کا دیا جس میں مختصر ذکر تھا اس کا۔ حالانکہ ان کی انہوںنے باقاعدہ علماء کی ٹیمیں بٹھا رکھی تھیں اور نہ صرف مذہبی امور کی وزارت بلکہ امور قانون کی وزارت بھی کئی مہینوں سے دن رات کام کررہی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے کوئی قابل اعتراض بات نکالی جائے۔ اوربراہین احمدیہ بھی ان کے مطالعہ میں تھی ۔ جان کے اس کو چھوڑ کر جس میں پوری تشریح موجود ہے اس مختصر حوالے کو لے لیا تاکہ لوگوں کو پتہ نہ لگے کہ کیا بات کہی جارہی ہے۔ یہ ہے مادر مہربان والا حوالہ جس سے انہوںنے سارا طوفان کھڑا کیا اور جب وہاں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ علیہ نے براہین احمدیہ سے پڑھ کر دکھایا سنایاکہ یہ ہے تو مولویوں کے منہ دیکھنے والے تھے۔ اور سارا حال جو دوسرا تھا ان کی طرف دیکھ کر ہنس رہا تھا۔ یہ تھا حوالہ۔ وہ ریکارڈ تو ہوگئی ہے ساری کارروائی۔ لیکن افسوس ہے کہ وڈیو نہیں ہوسکی ۔ ورنہ آپ دیکھتے مولویوںکے چہرے اور دیکھتے کس طرح ہال میں موجود ممبران کی اکثریت اس موقعہ پر مولویوںکی طرف دیکھ دیکھ کے ہنس رہی تھی۔ لو جی آگیا جواب آپ کا۔ لیکن حیاء نہیں۔ پھر وہی بات کئے چلے جاتے ہیں۔
ازالہ اوہام میں ائمہ اثنا عشری کے متعلق لکھاہوا ہے۔ آئمہ اثنا عشر نہایت درجہ کے مقدس اور راستباز اور ا ن لوگوں میں سے تھے جن پر کشف صحیح کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موقف تو یہ ہے کہ نہ صرف اہل بیت جسمانی اہل بیت تھے بلکہ روحانی اہل بیت بھی تھے اور اس پہلو کو زیادہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس پر زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس سے دوسروں کے دل میں بھی اہل بیت بننے کی طمع پیدا ہوگی۔ ورنہ جو جسمانی اہل بیت ہیں۔ ان کا لاکھ ذکر کرتے رہو کوئی دوسرا بن ہی نہیں سکتا۔ وہ بے چارہ بیٹھا کیا سنتا رہے گا۔ فرمایااس طرف بلائو جس طرف لوگ بھی آسکتے ہیں اور جیسا بنانے کیلئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ پھر اہل بیت کی محبت میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمام ائمہ کے متعلق آپ نے ایک نہایت ہی پاک کلام میں ان کی محبت اور ان کے تقویٰ کے اوپر مہر ان کی محبت میں سرشار ہوکر ان کے تقویٰ پر مہر تصدیق ثبت کی ہے کہ ہمارے نزدیک یہ سارے ائمہ صاف اور پاک لوگ تھے اسی لئے میں نے آئمہ کا حوالہ دیا تھا۔ کہ ائمہ خود ان باتوں کو ناپسند کرتے اور مردود قرار دیتے ہیںجو یہ الزام لگاتے ہیں ۔ اب آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں یہ عرض کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں ۔
جان و دلم فدائے جمال محمد است
خاکم نثار کوچہ آل محمد است
دیدم بعین قلب و شنیدم بگوش ہوش
در ہر مکان ندائے جلال محمد است
ایں چشمۂ رواں کہ بخلق خدا دھم
یک قطرئہ ز بحر کمال محمد است
ایں آتشم ‘ ز آتش مہر محمدی ست
ویں آب من ز آب زلال محمد است
اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم۔
٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 15 رمضان المبارک
26 فروری 1994ء
جاپان سے ایک ہمارے دوست ہیں ملک رفیع احمد انہوں نے دیکھ کر کہ کس طرح بیٹھا جاتا ہے یہاں تو ایک جاپانی کرسی بھیجی ہے جو زمین پہ بیٹھنے والی کرسی ہے۔ مجھے ان کی Fax ملی تو میں نے ان کو Fax کی کہ آپ بالکل نہ بھیجیں فوراً روک لیں۔ لیکن پھر Fax آئی کہ میں بھیج چکا ہوں۔ میں نے کہا پھر جو آئی ہے تو ضرور استعمال کرنی پڑے گی۔حضورنے حاضرین میں سے کسی دوست سے پوچھا کہ کوئی خاص چیز ہے یہ ؟ انہوں نے کہا کہ : حضور یہ جاپان میں استعمال ہوتی ہے۔ حضور نے پوچھا: آپ استعمال کرتے رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ بڑی آرام دہ ہے اس سے کمر کو تھکان نہیں ہوتی ۔
حضور نے فرمایا :مر کی تھکان کی تو میں نے کوئی شکایت نہیں کی تھی۔ صرف ٹانگ کے سونے کا تھا۔ تو ٹانگ نہیں سوتی اس سے؟
انہوں نے کہا : پتہ نہیں یہ تو دیکھنے کی بات ہے۔
حضور نے فرمایا :آپ کی تو ویسے ہی نہیں سوتی میرا خیال ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان ینصرکم اللہ فلا غالب ....................واللہ بصیر’ بما یعملون O
اگر اللہ تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرسکے گا یا مدد کرے گا۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون : پس چاہئے کہ مومن اللہ ہی پر توکل کریں اور یہ ممکن نہیں کسی نبی کیلئے کہ وہ خیانت سے کام لے اور جو بھی خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اس چیز کو ظاہر کردے یا لے آئے گا جس سے متعلق اس نے خیانت کی تھی۔ پھر ہر شخص کو پورا پورا بدلہ اس کا دیا جائیگا جو اس نے کمایا اور وہ وہاں ہر گز ظلم نہیں کئے جائینگے۔جو بھی اللہ کی رضا کی پیروی کرے کیا وہ اس جیسا ہوسکتا ہے جو اللہ کی ناراضگی اور غضب کے ساتھ لوٹے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو اور کیا ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔ھم درجٰت عنداللہ : یہ لوگ مختلف مراتب مختلف درجوں سے تعلق رکھنے والے ہیں اللہ کے حضور۔واللہ بصیر’‘ بما یعملون : اور اللہ تعالیٰ خوب اچھی طرح دیکھ رہا ہے جو یہ کام کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں۔
یہ آیات ہیں جن میں سے جہاں تک ہوسکا آج کے درس میں ان کے متعلق گفتگو ہوگی۔پہلی آیت ہے ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم : اگر اللہ تمہاری مددفرمائے تو کوئی نہیں جو تم پر غالب آسکے۔
خذل کا معنی ہے چھوڑ دینا خذلہ ای ترک نصرتہ و اعانتہ یعنی اس کی اعانت اور مدد چھوڑ دی پس خذولاً کے معنے ہونگے۔ مدد اور نصرت کو چھوڑ دینے والا۔ یہ اقرب الموارد میں لکھا ہے۔ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم : اس میں استفہام انکاری ہے استفہام انکاری اسکو کہتے ہیں کہ سوال کیا جائے کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے تو اس کا طبعی قدرتی جواب ہے کہ ہر گز نہیں ہوسکتا۔اور یہ جواب اتنا طاہر و باہر ہو کہ سوال کے اندریہ تو ظاہر بات ہے اس سوال کا انکار شامل سمجھا جائے۔ اس کو کہتے ہیں استفہام انکاری تو یہ لکھتے ہیں ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم من ذالذی ینصرکم من بعدہ یہ جو حصہ ہے آیت کا کہ کون ہے جو اس کے بعد تمہاری مدد کرسکے یہ سوال ‘ جواب پوچھنے کی خاطر نہیں بلکہ اس کا جواب اس میں مضمر ہے کہ کوئی بھی نہیں جو ایسا کرسکے۔باقی سب مفسرین نے توکل کامضمون اس آیت کے ساتھ جوڑ کر وہی باتیں کہی ہیں جو پہلے بھی بیان ہوچکی ہیں کوئی ایسی خاص قابل ذکر بات تفسیروں میں نظر نہیںآتی۔ جس کو آج گفتگو کیلئے اختیار کیا جائے اس لئے عمومی طورمیںپر اس آیت سے متعلق بعض دوسری باتیں رکھ کر جو روایات ہیں ۔ بددیانتی اور خیانت والی ان پر میں خصوصیت سے توجہ دونگا۔
ان ینصرکم اللہ فلا غالب لکم : کہ اللہ اگر تمہاری مدد فرمائے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔
وان یخدلکم : یہاںیہ جو ’’چھوڑنے‘‘ کے معنے لئے گئے ہیں بعض مفسرین کی طرف سے تجویز ہوئے ہیںاس سے مراد کہ یہاں مدد چھوڑنا ہے یہ درست نہیں ہے۔ یعنی ’’مدد چھوڑنا‘‘ بھی ہوسکتا ہے ان معنوں میںیہ یہ غلط نہیں ہے لیکن یہاں کسی کو چھوڑ دینا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چھوڑ دے اسی کی مدد چھوڑا کرتا ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی کو چھوڑا نہ ہو اور پھر خالی مدد چھوڑ دے تو مراد یہ ہے کہ اصل جو بات ہے قابل غور وہ یہ ہے کہ تمہیں خدا نے چھوڑ تو نہیں دیا۔ اگر تمہیں خدا نے چھوڑ دیا تو پھر کوئی نہیں ہے جو تمہاری مدد کرسکے اور پھر ہر دوسرے کو تم پر غلبہ نصیب ہوجائے گا۔ پس وقتی طور پر جو نقصان پہنچا ہے یہاں یہ آیت جہاں انذار کے پہلو رکھتی ہے وہاں ایک خوشخبری کا پہلو بھی رکھتی ہے کہ بظاہر تمہیں مدد نہیں ملی اس وقت لیکن تم چھوڑے ہوئے لوگوں میں سے نہیں اور جس کو خدا نہ چھوڑے اس کے لئے کوئی غم نہیں ہے۔ چنانچہ اس مضمون کو بعد کا حصہ تقویت دیتا ہے’’وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ‘‘ان کو اللہ پر توکل رکھنا چاہئے۔ ا ن کو علم ہونا چاہئے کہ وہ ایسی جماعت نہیں ہیں جنہیں خدا ترک کردے کیونکہ اگر اللہ ترک فرمادے تو پھر کوئی نہیں ہے جو ایسی جماعت کی مدد کرسکے۔ یہاں ’’بعد‘‘ کا لفظ بھی قابل غور ہے۔ یہ لفظ اکثر ہمارے علم کلام میں بھی استعمال ہوا ہے۔ ’’بعد‘‘ سے مراد محض زمانہ نہیں ہوا کرتا بلکہ اور بھی معنے ہیں اور جب بھی اللہ کے تعلق میں لفظ ’’بعد‘‘ آتا ہے تو اس کا معنیٰ زمانے کے لحاظ سے لیا جانا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ خدا کے بعد تو کوئی نہیں ہے۔ تو جب قرآن کریم فرماتا ہے کہمن ذاالذی ینصرکم من بعدہ کہ اللہ کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد فرماسکے ؟ اس کا مطلب اگر زمانی بعد لیا جائے تو مومنوں کو چھوڑنے کی بحث نہیں ہوگی خدا کے گویا گزر جانے کی گفتگو شروع ہوگی کہ جب اللہ چلا جائیگا۔ اللہ ہی نہیں رہے گا۔ نعوذ باللہ من ذلک ۔ اس کے بعد پھر کون تمہاری مدد کرے گا؟ اس لئے ’’بعد‘‘ کا جو عربی محاورہ ہے اس سے مراد ہے اس کو چھوڑ کر۔ اس کے علاوہ اس کے سوا۔ اس سے باہر‘ اس کی مخالفت میں‘ چنانچہ مختلف اہل علم نے ان تمام معانی کو پیش نظر رکھ کر مختلف مواقع پر بعد کے معنی کئے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ حدیث ’’لانبی بعدی‘‘ کے حوالے سے مُلاَّ علی قاری نے بھی یہ بحث اٹھائی ہے اور بعض دیگر مفسرین نے بھی ۔مجھے اس وقت قطعی یاد نہیں لیکن وہ حوالے دیکھ لیں نکال دیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں بعد سے مراد محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ان کو چھوڑ کر۔ ان کی مخالفت میں ان کی شریعت سے باہر۔یہ مراد ہے اور یہ حدیث آیت خاتم النبیین کے منافی نہیں ہے۔ یہ میں ضمناً آپ کو بتا رہا ہوں کہ بعد کا لفظ اللہ کے متعلق صرف یہیں نہیں بعض اور آیات میںبھی استعمال ہوا ہے اور ایک دوسری آیت کے حوالے سے مُلاَّ علی قاری نے یہ استنباط فرمایا ہے کہ دیکھ لو اللہ کا بعد تو زمانی لحاظ سے ممکن ہی نہیں ہے۔مگر اللہ کو چھوڑ کر اس کے علاوہ اس کی مخالفت کے معنے یہ ہر ایسی جگہ استعمال ہوسکتے ہیں جہاں ’’بعد اللہ‘‘ کا ذکر ملتا ہے۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون‘‘ میں وہ شیعہ مفسر کے الزام کا جواب بھی آگیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ مومن علیؓ پر توکل کرتے ہیں۔ یہ فرمایا ہے مومن اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں اور وہ جو پہلا حوالہ گزر چکا ہے اس پر بحث ہوچکی ہے۔ اس میں تو وہ کہتے تھے صرف علیؓ تھے جن پر صرف عام مومنوں کا ہی نہیں محمد رسول اللہؐ کا بھی توکل تھا۔ اگر علیؓ نہ بچاتے تو پھر کوئی بچانے والا نہیں تھا۔ اور یہ اعلان ہوا ہے اُس وقت ’لافتی الا علی ‘۔
آج کے دن مومنوں کی حفاظت کرنے والا محمد رسول اللہؐ کو بچانے والا علیؓ کے سوا کوئی باقی نہیں رہا اور جبرئیل اس وقت تک بیٹھے رہے ہیں جب تک بچا نہیں لیا۔ دخل نہیں دیا کوئی۔ غالباً ان کے نزدیک جبرئیل کو وہاں پر چلانے کی مجال نہیں تھی۔ وہ دیکھتے رہے محمد رسول اللہ ؐ کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ جب حضرت علی ؓ نے بچا لیا تو پھر دیکھیں آکے کتنی ہمدردی کی ہے کہ یا رسول اللہ ؐ! دیکھا آپ نے اس کو کہتے ہیں ہمدردی۔ اس کو کہتے ہیں مواسات۔ یعنی اُنس اور قربت کا اظہار۔ تو جبرئیل بیٹھے کیا کررہے تھے اُس وقت؟
یہ علماء لکھتے ہیں کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینکا گیا تو حضرت جبرئیل کے متعلق ان کا جو تصور ہے مکانی وہ عجیب و غریب ہے۔ فرشتوں کا وہ لاہوتی تصور نہیں مانتے۔ وہ مکان کے ساتھاس طرح ان کو پابند کردیتے ہیں جس طرح انسانی وجود یا مادی وجود مکانوں کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ تو اس پہلو سے ان کا تصور بھی فرشتوں کا یہی ہے اور حضرت جبرئیل کے متعلق کہتے ہیں اُس وقت ساتویں آسمان پر تھے۔ اب یہ مجھے علم نہیں کہ کس کتاب میںلکھا ہے لیکن مجھ سے خود ایک بڑے عالم دین نے جو کراچی سے تعلق رکھتے تھے اور لاہو رجاتے ہوئے میرے سفر میں ہمراہ تھے۔ انہوں نے گفتگو کے درمیان یہ فرمایا کہ تم آج کل کی سائنس کی کیا بات کرتے ہو۔ یہ تیز رفتاریاں وغیرہ جو ایجاد ہورہی ہیں سب کچھ ان کی حیثیت ہی کوئی نہیں۔ تم یہ دیکھو ! کہ جب حضرت یوسف ؑ کوبھائیوں نے پھینکا ہے اندھے کنویں میں تو جبرئیل علیہ السلام ساتویں آسمان پر تھے اور پیشتر اس کے کہ وہ زمین کو چھُوتے۔ اللہ نے حکم دیا وہ نیچے اترے اور اپنے پروں پر ان کو لے لیا۔ اور اس طرح چوٹ نہیں لگی۔ تو میںیہ کہہ سکتا ہوں یہ ہے مواسات۔ عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ محمد رسول اللہ ؐ سے کوئی مواسات نہیں جبرئیل کی۔ یہ کیسی باتیں کرتے ہو؟ کوئی انصاف ! کوئی خدا کا خوف کرو !!
اللہ تعالیٰ گویا کہ حضرت علی ؓ کے بغیر کلیتاً بے اختیار ہو بیٹھا تھا۔ نہ وہ کچھ کرسکتا تھا نہ جبرئیل کچھ کرسکتے تھے۔ دیکھتے رہے کہ کیا ہورہا ہے ۔ جب سب کچھ ہوگیا تو پھر حضرت جبرئیل اتر آئے اور فرمانے لگے کہ دیکھو ! یہ ہوتی ہے مواسات۔ مگرخدا اس کو جھٹلا رہا ہے اس سارے مضمون کی تردید فرما رہا ہے۔ فرماتا ہے۔’’وعلی اللہ فلیتوکل المومنون‘‘اگر تم مومن ہو تو پھر صرف اللہ پر توکل کرنا ہے اور توکل کے مضمون میں محمد رسول اللہ ؐ کو بھی شامل نہیں فرمایا کیونکہ محمد رسول اللہؐ کا توکل بھی اللہ پر ہی تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہ انسان پر توکل کرتے تھے نہ فرشتوں پر توکل کرتے تھے۔ یہ جو نصرت کی باتیں ہیں فرشتوں کے ذریعے۔ اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے دوسری جگہ جنگ بدر کے حوالیمیں کھول دیا ہے۔ وہ بحث آگر کوئی موقعہ بعد میں ہوا تو اُس وقت میں بیان کروں گا۔ اس وقت میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ توکل کی جب بات ہورہی ہو تو اللہ کے سوا کسی کا کوئی تصور بیچ میں نہیں آنا چاہئیے اور یہی توحید کامل ہے۔پس ’’وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ‘‘ میں یہ فرمایا گیا ہے اللہ پر توکل کرو۔
اب جنگ احد کے حوالے سے اس توکل کے یہ معنے بنیں گے کہ تم یہ خیال بھی نہ کرو کہ خدا نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ جو چھوڑ دے اس پر تو توکل نہیں کیا جاتا۔جس کے متعلق کامل یقین ہو کہ کبھی نہیں چھوڑے گا اس پر توکل کیا جاتا ہے۔ تو عارصی طورپر جو نقصان پہنچا ہے اس سے خدا تعالیٰ نے کس طرح صرف نظر فرمایا۔ کس طرح بخشش فرمائی۔ اس کا مزید بیان ہے گویا کہ یہ کہ دیکھو ! خدا نے تمہیں کیسا معاف فرمادیا۔ کیسا تمہاری غلطی کو کالعدم قرار دے دیا کہ اب تمہیں بُلا رہا ہے کہ مجھ پر کامل توکل رکھو !میں تمہیں چھوڑنے والا نہیں ہوں !! یہ مضمون ہے جو دراصل اس آیت میں بیان ہورہا ہے۔وما کان لنبی ان یغل و من یغلل یات بما غل یوم القیامتہ ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون O
کسی نبی کے شایان شان نہیں کہ وہ خیانت کرے اور جو بھی خیانت کرے گا (نبی تو کر ہی نہیں سکتا ) وہ قیامت کے دن اس خیانت کا بوجھ اٹھائے ہوئے آئے گا پھر ہرشخص کو جو اس نے کمایا ہے اس کے مطابق بدلہ دیا جائیگا اور وہ ظلم نہیں کئے جائینگے۔
یہاں غَلَّ کے جو مختلف معنی ہیں وہ پیش نظر رکھنے چاہئیں۔ کیونکہ ہر لفظ کا اطلاق موقعہ اور محل کے مطابق ہونا چاہئے اور ہر لفظ کے مختلف معنے تمام تر نہ اکٹھے ایک جگہ چسپاں ہوسکتے ہیں ۔اور نہ ہر معنیٰ ہر جگہ چسپاں ہوسکتا ہے۔ مثلاً ’’اتر گیا ہے‘‘
اس سے دل اتر گیا ہے۔
کوئی پہاڑ سے اتر گیا ہے۔
اور کسی کی عزت اتر گئی۔
مختلف اترنے کے معنے ہیں۔ دلوںپر اللہ اترتا ہے۔کلام الٰہی اترتا ہے۔ بارش اترتی ہے۔ لوہا اتارا گیاہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے مضمون اترنے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر جگہ الگ الگ معنے ہیں اور نہ ہر جگہ یہ سارے معنے مراد لئے جاسکتے ہیں نہ ہر معنیٰ ہر جگہ چسپاں ہوسکتا ہے الگ الگ بھی۔ اس لئے غَلَّ کے مختلف معنے دیکھئے جہاں رسول کے متعلق لفظ غَلَّ استعمال ہوگا وہاں رسول کے شایان شان معانی ہونگے۔ جہاں دوسرے انسانوں کے متعلق غَلَّ کا لفظ استعمال ہوگا وہاں ان کی حیثیت کے مطابق معنے چسپاں ہونگے۔ لیکن معنے وہی ہونے چاہئیں جن کو لغت اور قرآن کریم کا استعمال دوسری جگہوں سے ان کو تقویت دے ان کو سہارا دے۔ ان کے حق میں گواہی دے۔ اس کے بغیر اپنی طرف سے معنے نہیں بنا سکتے آپ۔
چنانچہ غریب القرآن لغات الفرقان میں جو مختلف آیتیں غَلَّ کے ساتھ دی گئی ہیں ان سے ان کے معنے خود بخودظاہر ہورہے ہیں۔ اس حوالے سے میں آپ کو سناتا ہوں۔غَلّ کے معنے خیانت کرنا۔ یہاں غریب القرآن نے یہی آیت دی ہے۔
’’ماکان لنبی ان یغل ‘‘
مگر یہ تشریح نہیں کی نہ ہوسکتی تھی کہ خیانت سے مراد مال میں خیانت ہے یا کسی اور چیز میں پس غَلَّ کا یہ اطلاق عمومی ہے مراد ہے کوئی امانت کسی کے سپرد کی جائے اور وہ اس کا حق ادا نہ کرے یہ عام معنے ہیں اور نبی کے تعلق میں یہ وسیع تر معنے پیش نظر رہیں گے۔ یہاں کسی ایک چوری کے الزام کی طرف اشارہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ نبی کی شان سے یہ بات بہت بلند ہے۔ ہاں جو ذمہ داریاں اس کو سونپی جاتی ہیں ان ذمہ داریوں میں ادنیٰ سی کوتاہی بھی نہیں کرتا یہ مراد ہے۔ اور اس مضمون کو قرآن کریم کی وہ آیت تقویت دیتی ہے۔ بہت زور کے ساتھ کھول کر بیان کرتی ہے کہ یہاں نبی کی امانت میں عام روزمرہ کی چوری چکاری کی کوئی بحث ہی نہیں ہے۔ امانت سے مراد قرآن کریم اور پوری شریعت ہے اور ان معنوں میں وسیع تر معنے غَلَّ کے استعمال ہوں گے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وہ امانت سے سب جب ڈر گئے جب ہم نے امانت پیش کی تو سب لوگ ڈر گئے۔
’’فابین ان یحملنھا و اشفقن منھا ‘‘
انہوں نے اس امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکا رکردیا اور ڈر گئے ’’فحملھا الانسان ‘‘ تب یہ انسان کامل آگے بڑھا اور اس نے اس امانت کو اٹھا لیا تو نبی کے متعلق جب کہا جاتا ہے کہ وہ خیانت نہیں کرتا اس سے مراد اس کی وہ امانت ہے جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہوتی ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ نہ ادنیٰ میں خیانت کرتا ہے نہ اعلیٰ میں خیانت کرتا ہے۔ کسی حالت میں‘ خواہ ابتلا کتنا ہی بڑھ چکا ہو۔ جو امانت خدا نبی کے سپردکرتا ہے کبھی بھی وہ اس امانت میں خیانت نہیں کرتا اور اس میں تمام انبیاء شامل فرمادئیے گئے ہیں صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔ کیونکہ ’’لِنبیٍ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ان معنوں کو نظر انداز کرکے بعد میں ہم دیکھیں گے کہ بہت سے مفسرین بھی اور دشمنان اسلام بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لگنے والے ایک نہایت ذلیل اور بے ہودہ اور لغو الزام کی بحث میں پڑ جاتے ہیں گویا کہ وہ مراد ہے حالانکہ یہاں ہر نبی سے خیانت کی نفی فرمائی گئی ہے۔
دوسرے معنے ہیں باندھنا ۔ غَلَّ کا مطلب باندھنا بھی ہے۔
’’ خذوہ فغلوہ ثم الجحیم صلوہ ‘‘ (الحاقہ ۳۲۔۳۱)
کہ اس کو پکڑو اور اس کو خوب باندھو۔ یعنی جہنم کے فرشتوں کو حکم ہے کہ ان گنہ گاروں کے ساتھ جو ظالم لوگ ہیںیہ سلوک کرو۔
ثم الجحیم صلوہ پھر اسے جہنم میں جھونک دو۔یعنی جکڑ کر ان کو وہاں پھینکا جائے۔
غِلُّ : چھپی دشمنی کو بھی کہتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے۔
’’و نزعنا ما فی صدورھم من غل تجری من تحتھم الانھار‘‘ ہم نے ان کے سینوں میں چھپے ہوئے غلوں کو نکال کر باہر پھینک دیا۔ پس یہ وہ مثال ہے جس کے پیش نظر میں نے آپ کو توجہ دلائی کہ ہر معنیٰ ہر شخص پر اطلاق نہیںپاتا۔ کسی نبی کے متعلق یہ تصور بھی نہیں ہو سکتا کہ اس کے سینے میں کچھ کینے چھپے ہوئے ہوں اور ان کو نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہو۔ اس لئے وہ معنے غِلّ کے نبی پر اطلاق نہیں پا سکتے کینے کے لحاظ سے اور ذمہ داری کے مضمون میں کینوں کی بحث ہے ہی نہیں ! کینے کا مضمون تو بہت ادنیٰ ہے۔ کینہ تو گھٹیا لوگ رکھتے ہیں دل میں اس لئے غلّ کے تصور میں غِلّ کے اس تصور کے ساتھ اس مضمون کو نہیں باندھا جاسکتا کہ
’’ما کان لنبی ‘‘
اور غُلّ کہتے ہیں جس کی جمع اغلال ہے طوق۔گردن کا طوق تو گردن کے طوق کی بھی کوئی بحث ہی نہیں ہے اس مضمون کا اطلاق دوسرے ادنیٰ آدمیوں پر ہوسکتا ہے لیکن نبی کی بحث میں اس کا ذکر بھی جائز نہیں ہے۔ پھر ہاتھوں کا بندھا ہوا ہونابمعنیٰ کنجوسی کے۔ یہ مضمون بھی مغلول میں شامل ہے۔
’’وقالت الیھود ید اللہ مغلولتہ‘‘ (المائدۃ آیت ۶۵)
یہود نے کہا کہ اللہ کے دونوں ہاتھ جو ہیں مغلول ہیں۔ بندھے ہوئے ہیں ۔ (یہاں Single واحدمیں استعمال ہوا ہے کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے) ہاتھ بندھا ہونے کا کیا مطلب لیتے تھے یہود۔ یہاں صرف یہ مراد نہیں ہے کہ وہ کچھ خرچ نہیں کرسکتا کچھ دے نہیں سکتا۔ مراد یہ ہے کہ جو نبوت اس نے کسی کو دینی تھی وہ دے چکا ہے اور آئندہ کسی کو نہیں دے گا۔ یہ ہے اللہ کے ہاتھ باندھے ہونے کے معنے۔ چنانچہ قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد ان کی قوم نے یہ عقیدہ گھڑ لیا تھا کہ آپ کے بعد کبھی کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تو یہاں یداللہ مغلولتہ میں یہود کا اشارہ اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اب آئندہ روحانی نعمتیں کسی کو نہیں دے سکتا کیونکہ اس کا ہاتھ باندھا گیا ہے۔ خواہ اس نے خود باندھ لیا ہو یا ویسے ہی ہاتھ میں کوئی نقص پیدا ہوگیا ہو۔ دونوں صورتوں میں وہ اپنی عطا سے عاری ہوگیا ہے اور پابند ہے کہ اب کسی کو وہ نعمت عطا نہ کرے۔ یہ معنے جو ہیں۔ یہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہیں اسی طرح نبی کی شان کے بھی خلاف ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو اسی طرح اس غَلّ کا کوئی تعلق نہیں جس طرح خدا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اگر اللہ کے ہاتھ نہیں بندھ سکتے اوراس کی عطا ہمیشہ کیلئے جاری ہے تو اس رسولؐ کے ہاتھ بھی باندھے نہیں جاسکتے جس کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور اس کے بعد کسی اور کا کوئی زمانہ نہیں مگر اُسی کا اور اُسی کے تابع۔پس محمد ؐ رسول اللہ کا فیض بھی اُسی طرح جاری رہے گا جس طرح اللہ تعالیٰ کا فیض ہمیشہ کیلئے جاری ہے۔ کیونکہ آپ کی ذات میں خدا نے ایک جاری فیض فرمادیا ہے۔
’’ ولا تجعل یدک مغلولتہ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط ‘‘
یہ نبی اسرائیل میں تمام مومنوں کو مخاطب فرمایا گیا ہے مگر واحد کے صیغے میں ہے اصل میں۔ نصیحت ہے۔ یہ اھل علم اور اہل عقل کی وہ نصیحت ہے جس کو خدا تعالیٰ Quote کرتا ہے اور تمام مومنوں کیلئے یہ ایک نصیحت بن جاتی ہے۔ یہ جو ہے کہ اپنے ہاتھ کو
’’ لا تجعل یدک مغلولتہ الی عنقک‘‘
یعنی اپنی گردن کے ساتھ یوں سمیٹ نہ لیا کر
’’ ولا تبسطھا کل البسط ‘‘
اور یوں کرکے پورا کھول بھی نہ دے ان کے درمیان کی راہ اختیار کر ! ہاتھ کو سمیٹ کر گردن کے ساتھ چمٹا لینے کا مطلب یہ ہے کہ فیض نہ پہنچے اور اتفاقاً بھی کوئی ہاتھ سے چیز لے نہ سکے۔ اور دوسرے کھول دینے کا مطلب ہے کہ اتنا دور رکھو کہ تمہارا کوئی اختیار ہی نہ ہو۔ جو چاہے اس میںسے جو چیز اچک لے یا خود تم پھینکتے چلے جائو۔ تو ایک طرف سخاوت کے نام پر حد سے زیادہ اسراف جائز نہیں اور دوسری طرف احتیاط کے نام پر لوگوں کو اپنے فیض سے کلیتاً محروم کرنا بھی جائز نہیں۔
یہ مختلف استعمالات قرآن کریم میں ملتے ہیں۔ یہ ایک بات میں آپ کو بتائوں کہ بعض دفعہ ایک ہی منظر ہے لیکن برعکس معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ہاتھ کو اپنے گردن کے ساتھ ملا دینا اور سینے کے ساتھ چمٹا دینا کنجوسی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ مگر قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ یہ روحانی عطا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اگرچہ عموماً اس طرف عموماً لوگوں کی نظرنہیں جاتی۔ حضرت موسیٰ ؑ کا جو معجزہ ہے اس میں یہ فرمایا گیا آپ کو کہ اپنے ہاتھ کو سمیٹ کر اپنی جیب میں ڈال لے کہیں اپنے ساتھ چمٹا لے اپنے بدن کے ساتھ چمٹا لے اس کو۔ کئی طرح کے محاورے استعمال ہوئے ہیں۔ اور پھر وہ روشن ہوجائیگا اس سے کیا مراد ہے ؟ایک تو ظاہری معجزہ لوگ سمجھتے ہیں اور اسی پر بات ٹھہر جاتی ہے حالانکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو لوگ نبی کے قریب آتے ہیں نبی کے دست و بازو اس کے صحابہ۔ اس کے خدام اس کے ساتھ رہنے والے لوگ ہیں جن کو وہ اپنے ساتھ چمٹاتا ہے وہ روشن ہوجاتے ہیں اور نبی کے نور سے نور پا جاتے ہیں اور اس کے فیض سے فیض حاصل کرتے ہیںپس وہی مضمون جو ایک جگہ تو انتہائی کنجوسی کے اظہار کیلئے بیان ہوا ہے وہی نقشہ۔ وہی نقشہ ایک اور موقعے پر نبی کے ساتھ تعلق رکھنے کے سلسلے میں فیض اورعطا کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کے اظہار کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ پس نبی کا قرب ہے جو روشنی بخشتا ہے اور اس سے دُوری اس روشنی کو ہٹا دیتی ہے پس وہ جو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چمٹ جائو مضبوطی سے اس کو چھوڑنا نہیں۔ عروہ و ثقی ٰ پہ ہاتھ پڑ گیا ہے تمہارا۔ اس کو یاد رکھنا چاہئے ہمیشہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظاہری قرب تو ہم لوگوں کیلئے ممکن نہیں۔ جسمانی دوری اور زمانے کے فاصلے کے لحاظ سے مگر اگر ہم روشنی چاہتے ہیں تو آپ کے ساتھ اس طرح چمٹ جائیں جس طرح موسیٰ ؑ کا ہاتھ خدا کے ارشاد پر ان کی گردن کے ساتھ حمائل ہوجایا کرتا تھا یا سینے میں ساتھ پیوستہ ہوجایا کرتا تھا اور اس سے پھر وہ روشنی پاتا تھا۔ پس مثال کے طور پر ایک معجزہ ظاہری صورت میں بھی دکھایا گیا لیکن حقیقی معنوں کو نظر انداز نہیں کرنا مراد یہ تھی کہ ایک مری ہوئی قوم جس میں کوئی نور نہیں ہے وہ موسیٰ ؑ سے نور پاجائے گی اور موسیٰ ؑ سے اُن کے اندھیرے روشن کردیئے جائیں گے پس دیکھیں وہاں عطا کا مضمون ہے اور یہاں خصاصت اور کنجوسی کا مضمون ہے اور نقشہ ایک جیسا ہی کھینچا گیا ہے۔
امام رازی ؒ لکھتے ہیں الغلول ھوا الخیانتہ ۔ غلول خیانت کو کہتے ہیں و اصلہ اخذ الشی ء فی الخفیۃ : اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز دوسروں سے چھپا کر لی جائے۔
یقال اغل الجزر و السالق : اذا ابقی ٰ فی الجلد شی ء ’‘ من اللحم علیٰ طریق الخیانۃ (یعنی) جب کہیں اغل الجازر تو مطلب ہے قصاب یا چمڑی اتارنے والے نے کسی کی بھیڑ بکری ذبح کی مگر جلد اتارتے وقت مالک سے چھپا کر کچھ گوشت جلد کے ساتھ چمٹا رہنے دیا تاکہ جلد کے ساتھ اپنے گھر لے جائے۔
الغل : الحقد :
تو پورا نقشہ کھینچ کے ‘ کہ کسی طریق پر بھی اگر نبی کے ساتھ اس مضمون کا تعلق جوڑا جائے تو مراد یہ ہے کہ نبی اتنی بھی خیانت نہیں کرتا۔ جتنا ایک قصاب بے احتیاطی کے ساتھ یا بدنیتی کے ساتھ جب کھال کو بکری کے جسم سے الگ کرتا ہے تو کوئی چربی اس کے ساتھ لگی رہ جاتی ہے اور ہم نے دیکھا ہے عموماً ۔ قصاب اس زمانے میںپتہ نہیں کیسے تھے۔ ہم نے تو اپنے ہاں کئی دفعہ قربانیاں کی ہیں ربوہ میں ہمیشہ ہوتی رہیں۔ کبھی ایسا قصاب نہیں دیکھا جواس طرح بکری کے گوشت اور چربیوں کو ساتھ جوڑتا ہو۔ کھال کے ساتھ لگا رہنے دیتا ہو۔ اور کھال تو ایسی صاف ہوتی ہے کہ اس میں کوئی اشارہ بھی نہیں ہوتا کسی گوشت کا کسی جگہ۔ کہیں کوئی قصاب کا بچہ آجائے بعض دفعہ جس کو کوئی مہارت نہیں ہوتی تو بعض دفعہ کہیں کہیں تھوڑاتھوڑاگوشت کا چھچڑا چپٹا رہ جاتا ہے ورنہ بالکل صاف کھال ہوتی ہے تو اس لحاظ سے معنے یہ ہونگے کہ اتنا بھی نبی کے ساتھ غیر کا مال وابستہ نہیں رہتا جتنا غلطی سے ایک غیر مشاق قصاب جب جانور کی کھال کو اس کے جسم سے الگ کرتا ہے تو اس کی غلطی سے کچھ حصہ گوشت کا یا چربی کا لگا لگا ساتھ کھال کے ساتھ چلا جاتا ہے۔
الغل : الحقد : الکامن فی الصدر وہ کینہ جو سینے میں چھپا ہوا ہو۔
غلالہ اس کپڑے کو بھی کہتے ہیں جس کو ہم انگریزی میں under wear کہتے ہیں۔ وہ کپڑے جو کپڑوں کے اندر پہنے جائیں ان کو غلالہ کہتے ہیں۔ بنیان وغیرہ۔ یہ سب اس میں آجاتے ہیں۔
غلہ فلان کا مطلب ہے خاموشی سے اٹھایا اور اپنے سامان میںچھپا لیا۔
باقی سارے وہی معنے ہیں جو پہلے بیان ہوچکے ہیں۔
غل البعیر غلۃ میں کہے ہیں اونٹ کی پیاس کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اونٹ جس کی پیاس نہ بجھے اس کے لئے کہتے ہیں غَلَّ کہ پیاتو ہے اُس نے لیکن اس کی پیاس نہیں بجھ سکی۔ یعنی سینے میں کوئی چیز کھولتی ہوئی باقی رہ گئی ہے۔ جب پیاس نہ بجھے تو سینے میں ایک تھوڑی سی آگ سی بھڑکی رہ جاتی ہے۔ انسان کا دل چاہتا ہے کہ بجھ جائے لیکن نہیں بجھتی۔ تو اونٹ کی پیاس کے متعلق کہتے ہیں کہ عرب استعمال کرتے ہیں جب وہ پانی پی لے لیکن ابھی اس کو مزید کی طلب ہو تو کہتے ہیں غَلَّ ہوا ہے اس کے ساتھ۔ یعنی غَلَّ کا مضمون اس پہ صادق آتا ہے۔
اب سنئے ! یہ مضمون عام تھا جس کا ذکر یہاں چلا کہ کسی نبی کیلئے ممکن ہی نہیں ہے کہ اس امانت میں خیانت کرے جو اللہ نے اس کو سونپی ہے۔ جنگ احد کے دوران اس کے ذکر کی کیا ضرورت پیش آئی۔ عام مفسرین یہ بات اٹھاتے ہیںکہ دراصل یہ آیت جنگ بدر کے بعد اُس موقعے پر اتری تھی جبکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی بدبخت منافق نے یہ الزام لگایا تھاکہ آپ نے ایک سرخ رنگ کا ریشمی کپڑا جسے بعض روایتوں میں چادر کہاگیا ہے۔ مگر مستشرقین نے کہیں سے روایت اٹھائی ہے اور اُسے ریشمی دمشقی قالین کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ وہ نعوذ باللہ رسو ل اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھا لیا تھا تو مفسرین بالعموم ان روایتوں سے متاثر ہوکر ایک تو اس کی شان نزول یہ بتاتے ہیں۔ اس آیت کی کہ اس کا بدر سے تعلق تھا وہاں یہ واقعہ ہوا تھا۔ پھر وہاں سے اٹھا کر جنگ احد کے واقعہ میں کیوں جڑی گئی ؟
اس کا عذر تلاش کرنے کیلئے ایسی دُور کی کوڑی لاتے ہیں کہ کہتے ہیں دراصل وہ جو درہ چھوڑ کر بھاگنے والے تھے ان کو یہ بات یا دآگئی ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تو یہ الزام لگ چکا ہے پہلے ہی اور ایک اور بات بھی یاد آگئی کہ ایک موقعے پر آپ ؐ نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت کو کسی مقصد کیلئے باہر بھجوا دیا۔ اس عرصے میں پیچھے لڑائی ہوئی اور جب وہ آئے تو ان کو مال غنیمت میں سے حصہ نہیں دیا جو غازیوں نے میدان جنگ میں جیتا تھا۔ تو اُن کو یہ شبہ بھی پڑ گیا کہ یہ نہ ہو کہ کہیں ہمارا حصہ مارا جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ تم تو درے پر بیٹھے ہوئے تھے اس لئے تمہیں حصہ نہیں ملے گا۔ یہ ساری روایتیں اور اس پر جس طرح مستشرقین نے اپنے کینے کا اظہار کیا ہے اُن پر یہ لفظ غَلَّ خوب لگتا ہے۔ اب کس طرح ایسے موقعوں پر ان کے چھپے ہوئے کینے سینوں سے باہر آجاتے ہیں۔ وہ میں بعد میں ذکر کرونگا۔پہلے میں اس فرضی روایت اور اس فرضی کہانی کے متعلق مختصر عقلی بحث کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ جنگ احد میں جب وہ چھوڑ کر جانے والے اپنی جگہ چھوڑ کر آئے ہیں تو اس سے پہلے ایک لمبی بحث کا قرآن ذکر فرماتا ہے اور تنازع کہتے ہیں ایسی بحث کوجو کھینچا جائے جو طُول پکڑے۔ کافی عرصہ تو وہ اپنے امید سے بحث میں پڑے رہے ہیں اور پھر اس کا فاصلہ کتنا تھا میدان جنگ سے ان کے درے کا فاصلہ کتنا تھا ؟ یہ کسی نے نہیں دیکھا اور ان کو اتنی جلدی تھی کہ سارا مال غنیمت لُوٹا جائے گا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ کہہ دیں گے کہ تم وہاں نہیں تھے۔ ایسے خبیثانہ خیالات ہیں کہ اسلام کا دشمن Wherry بھی ان کو رد کررہا ہے۔ کہتا ہے یہ بہت دور کی کوڑی ہے یہ نہیں مان سکتا میں کہ اس وقت ان درے والوں کو یہ خیال آگیا ہو کہ اوہو ! یہ نہ ہوجائے کہ ہم اسطرح مارے جائیں۔ یہ ایک طبعی ایک بے اختیار کیفیت تھی۔ کہتا ہے ‘ دوڑے وہ ضرور مال غنیمت کیلئے ہی ہیں لیکن اس وقت یہ سوچنا ان کا بیٹھے کہ اوہو !! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو پہلے بھی الزام لگے ہیں نعوذ باللہ من ذلک اور پھر یہ بعض اموال غنیمت سے باہر رہنے والوں کو محروم کردیا کرتے تھے۔ یہ سوچ قابل اعتنا نہیں قابل توجہ نہیں بالکل رد کرنے کے لائق ہے۔
اور اب آگے سنئے ! وہاں پہلے کچھ بحث کرتے رہے اوربحث کے دوران جتنا مال تھا وہ لوٹا جاچکا ہوگا اور پھر کتنا لمبا انہوں نے فاصلہ طے کیا ہے اور جب وہاں پہنچے ہیں تو یہ Scenario یعنی یہ منظر۔ تناظر یہ ہمیں بتاتا ہے کہ اس وقت تک ابھی دشمن نے پلٹا نہیں کھایا تھا اور جوابی حملہ انہوں نے شروع نہیں کیا تھا۔ اتنی دیر لگ چکی ہے۔ اور جب وہاں پہنچے ہیں اور امن کی حالت ہے تو ایسی کوئی روایت کیوں نہیں ملتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ڈانٹ کے واپس بھیجا ہو کہ تم یہاں کیا کرنے آگئے ہو؟ اور پھر یہ ذکر ہو کہ پھر انہوں نے کچھ مال لوُٹ لیا اور کچھ شامل ہوئے اور باقی سب نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ کوئی روایت نہیں۔ اور جب دشمن نے پلٹ کر حملہ کیا ہے تو اس وقت تو پھر کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا تھا ان کا کسی قسم کا۔ اسلئے یہ ساری فرضی باتیں ہیں کہانیاں بنائی جاتے ہیں لوگ۔ ایک روایت کہیں سے مل گئی ہے اس سے خود بخود کہانی بُنتے چلے جاتے ہیں کہ یہ ہُوا ہوگا۔ یہ ہُوا ہوگا۔ یہ ہُواگا ہوگا۔ قرآن کریم جو مضمون بیان فرماتا ہے جس کے متعلق بات کرتا ہے اس کی شان کے مطابق بر محل بر موقع بات ہونی چاہئے جو وہاں چسپاں ہوتی ہو اس شخص کی شان کے خلاف نہ ہو۔
سب یہاں نبی ٍ کا لفظ ایک عام لفظ ہے
صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد نہیں ہیں۔ دفاع رسول اللہ کا نہیں صرف بلکہ تمام انبیاء کا دفاع ہے۔ اور موقعہ ہے جنگ احد کا۔ مطلب یہ ہے کہ دیکھو ! خدا جس کے سپرد امانت کرتا ہے وہ اس کا ایسا حق دار ہوتا ہے کہ کسی دبائو کے تحت بھی۔ ادنیٰ بھی اُس امانت میں خیانت نہیں کرتا۔ یہ خراج تحسین ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ثبات قدم کو اور یہ بتاتا ہے کہ یہ محمدؐ رسول اللہ کے ثبات قدم کا فیض تھا کہ ایک ہاری ہوئی جنگ ایک جیتی ہوئی جنگ میں تبدیل ہوئی ہے۔ آپ نے خیانت نہیں کی۔ تم میں سے بعض لوگ اپنی ذمہ داری کو نبھا نہیں سکے۔ اگر کچھ خیانت ہوئی ہے تو ان کی طرف سے ہوئی ہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہر گز کسی پہلو سے بھی اس موقعے پر کوئی خیانت نہیں ہوئی۔ آپؐ کی نیت بھی پاک رہی مسلسل آپ کا عمل بھی۔ آپؐ کا عزم محکم متزلزل نہیں ہوا ایک ذرہ بھی اور عظمت کا پہاڑ بنے ہوئے آپؐ وہاں کھڑے رہے ہیں اور یہ جو امانت کا حق آپ نے ادا فرمایا ہے۔ اسکے بعد فرماتا ہے۔
’’ومن یغلل یات بما غل یوم القیامۃ ‘‘
کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی رسول بھی ‘ محمد رسول اللہ کا مقام تو بہت بلند ہے۔ فرماتا ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی رسول بھی اس بات سے بے خبر ہو کہ قیامت کے دن اس سے کیا ہوگی۔ وہ تو سب سے زیادہ خدا کی طرف سے محاسبے سے ڈرتا ہے اور محمد رسول اللہ کے اوپر تویہ مضمون سب سے زیادہ روشن تھا پس ان کے پیش نظر تو ہمیشہ خدا کے حضور جواب دہی رہتی تھی۔ قیامت تو بعد کی بات ہے زندگی بھر ہر نبی اسی خوف میں زندگی بسر کرتا ہے۔ اسی کا نام تقویٰ ہے۔
تو فرمایا کہ نبی کی طرف خیانت کا تصور منسوب کرنا بھی جہالت ہے۔ کسی قسم کی خیانت کا تصور۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ امانت اُسی کے سپردکرتا ہے جو امانت کا حقدار ہو اور یہاں تمام انبیاء کی معصومیت کا اعلان ہے۔
اور Wherry صاحب یا ان کے ساتھی جو یہ استنباط کرنے کی کوشش کرتے ہیںکہ انبیاء کے گنہ گار ہونے کو تسلیم کیا گیا ہے یہ آیت اس کو رد کرتی ہے۔ کیونکہ نبی کا گنہ گار ہونا اس امانت میں خیانت کرنے کے مترادف ہے جو اس کے سپرد ہوتی ہے اور وہ امانت بہت وسیع ہے۔ اس کی ساری شریعت سے اس کے تمام اوامر سے اس کے تمام نواھی سے تعلق رکھتی ہے۔ تو جو شخص اللہ کا نبی ہو اور عمداًکسی امر کی اطاعت سے انکار نہ کرے کسی نہی کی طرف منہ نہ مارے تو ایسا شخص امین کہلائے گا اور سب انبیاء اس سے پاک ہیں۔ ایک نبی ایک ایسا رہ جاتا ہے۔جس کے متعلق یہ بات محل نظر دکھائی دیتی ہے یعنی سرسری طورپر ۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ اُن کے متعلق یہ سوال اٹھایا جاسکتا تھا کہ ان کو شجرہ ممنوعہ کی طرف جانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر وہ امین تھے اور کوئی نبی بھی ایسا نہیں جو امانت میں خیانت کرے تو پھر انہوں نے کیوں ایسا کیا؟
جہاں تک خطا کا تعلق ہے وہ عصمت کے خلاف نہیں ہے اور خیانت میں ارادہ شامل ہوتا ہے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے۔
ولم نجد لہ عزما
ہم نے ان کو معاف فرمایا ہے تو بے وجہ نہیں معاف کیا۔ اس گناہ میں جو بھی جس کو تم گناہ کہتے ہو۔ اُس میں آدم کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ اس سے بلا ارادہ غلطی ہوئی ہے۔ اور نیکی کے نام پر بعض دفعہ ایک انسان ایک قدم نیک کام سمجھ کر اٹھا لیتا ہے بعد میں ثابت ہوتا ہے کہ وہ نیک کام نہیں تھا تو ایسا شخص خیانت کرنے والا تو نہیں شمار ہوگا لیکن غلطی خوردہ ضرور ہوگا۔ اور نیکی کے نام پر بھی دیانت داری سے جو غلطی ہو اس کے بعد بھی ایک شریف النفس انسان ضرور پچھتاتا ہے۔ اب غلطی سے گولی لگ جائے آپ کسی کو شکار سمجھ رہے ہوں وہ انسان نکلے اور ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں تو کثرت سے یہ باتیں ہوتی ہیں۔ ہر سال ہی کہ ہرن سمجھ کے مار دیا وہ آدمی تھا کوئی اور بعد میں جب عدالتوں میں جاتے ہیں تو وہ ان کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں کہتے ہیں کوئی غلطی نہیں ہے یعنی کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس کی سزا دی جائے اور ایسے موقعے پر Man Slaughter کا کیس بھی نہیں چلتا سوائے اس کے کہ قطعی طورپر بالارادہ بے احتیاطی ہو۔ تو گناہ بھی بالارادہ ہو اوربے احتیاطی بھی بالارادہ ہو تب ایک شخص پکڑ کے نیچے آتا ہے ورنہ کوئی پکڑ نہیں۔ مگر جس سےآدمی مارا جائے وہ تو پچھتاتا رہتا ہے عمر بھر۔ اگر وہ شریف النفس ہے تو وہ توبہ کرے گا استغفار کرے گا یہی حالت حضرت آدمؑ کی ہوئی تھی اُن سے اللہ فرماتا ہے نادانستہ غلطی ہوئی مگر انکا ضمیر ان کو چھوڑتا نہیں تھا اوروہ چھپتے پھرتے تھے حیا سے استغفار میں چھپتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور پھر ان کو فرمایاکہ میں تجھے معاف کرتا ہوں اوران کی بریت فرما دی کہ ان کے عمل کے پیچھے کوئی بد ارادہ شامل نہیں تھا۔ پس عیسائیوں کا اگر کوئی اعتراض تھا جس کا کوئی جواز ہو تو وہ یہاں پڑتا تھا یعنی حضرت آدم ؑ پر اور اس کی نفی قرآن کریم نے فرما دی ہے۔ پس یہ آیت عام ہے اس میں کوئی استثناء نہیں۔
کسی نبی کیلئے یہ ممکن نہیںکہ وہ کسی طرح کی بددیانتی سے کام لے۔
ابن عباس ؓ کی ایک روایت بیان کی جاتی ہے جسکے اوپر یہ سارا طُوفان بے تمیزی کھڑا کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذ باللہ من ذلک کسی مال میں بددیانتی یعنی آپ کے اوپر الزام لگا تھا کہ آپؐ نے کسی چیز میں بددیانتی کی ہے۔ اس ذکر کوجس طرح مفسرین نے یہاں باندھ دیا ناحق‘ بڑا بھاری ظلم ہے۔ ایک وسیع عام مضمون تھا اور یہ بات ہی عجیب لگتی ہے کہ بدر کی آیت اٹھا کر وہاں نہ رہنے دی۔ یہاں لاکر رکھ دی۔ عجیب طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم نازل فرما رہا ہے۔ جس موقعے کی بات ہے ۔ وہاں رہنے ہی نہیں دیتا اور ایک دوسرے موقعے پر جہاں اطلاق نہیں پاتی وہاں رکھ دی۔ اور اطلاق ڈھونڈنے کی خاطر ان بے چارے بھاگنے والوں کی طرف نیتیں منسوب کی جانے لگیں کہ ضرور انہوں نے سوچا ہوگا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فلاں وقت بھی الزام لگا تھا اس لئے وہ بھاگے ہونگے۔ اتنی جاہلانہ بات ہے کہ کوئی معقول انسان اس کو کسی پہلو سے قبول نہیں کرسکتا۔ سوچنے کے لئے بھی انسان اس کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر غو ر کیا جائے‘ مگر چونکہ دشمن نے الزام لگائے ہیں اس لئے ہمیںغور کرنا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں۔ ایک ابن عباس ؓ کی روایت ہے۔
’’ماکان لنبی ان یغل ‘‘ یہ ایک سرخ چادر کے بارے میں نازل ہوئی جو بدرکے دن گُم ہوگئی تھی ‘‘
یہ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت لی گئی ہے۔بعض لوگوں نے کہا کہ شاید یہ چادر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘
یہ روایت ترمذی کتاب التفسیر میں ہے اور خود امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو ’’حسن غریب‘‘ کہا ہے۔ اور ایک سند میں یہ ’’غیر مرفوع‘‘ ہے۔ اور ابن عباس ؓ کا نام ہی اُس میں شامل نہیں بلکہ خسیف نے مقسم سے روایت کی ہے پس یہ غریب ہی نہیں ناقابل قبول ہے۔
ابودائود ‘ عبد ابن حمید‘ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے بھی یہی روایت کی ہے۔ ان تمام روایتوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بعض منافقین کی طرف یہ الزام منسوب کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ انہوں نے الزام لگایا تھا ۔ یہ سارے ان بحثوں میں مفسرین الجھے ہوئے ہیں۔ کہ تھا تو پھر یہاں اٹھا کے کیوں رکھ دیا اور وہاں ضرور کوئی ایسی بات کسی کے دل میں آئی ہوگی کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح امین نہیں ہیں۔
تفسیر قُمی جو شیعہ تفسیر ہے وہ ایک ایسی تفسیر ہے جو اس روایت کے اوپر ایک اور روایت رکھتی ہے۔
تفسیر قمی میں لکھا ہے ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بتایا کہ فلاں شخص نے وہ چادر چُرائی ہے۔ یعنی چادر چُرانے کے واقعہ کو ماننے کے بعد ایک اور روایت پیش کرتی ہے۔ تفسیر قمی کہ یہ واقعہ ختم ہوچکا کیونکہ وہ چور پکڑا بھی گیا تھا۔ پس اگر چور پکڑا گیا تھا اور بات ختم ہوگئی تو پھر اس آیت کوخواہ مخواہ ایک الزام کے سائے کے طور پر باقی رکھنا یہ ویسے ہی قرین قیاس نہیں ہوسکتا ۔ ایک فرضی بات ہے مگریہ روایت بھی تفسیر قیمی کی ہے اورکوئی ایسی مرفوع روایت نہیں ہے جسے انسان قابل غور سمجھے مگر روایت بڑی تفصیلی ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ جب یہ پتہ لگا تو پھر اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجے جہاں اس نے یہ چھپائی ہوئی تھی تو کھودا اس کو تو وہاں سے نکل آئی۔ اب تعجب ہے کہ اس روایت کا تمام دوسرے مفسرین کو جو اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں انکو علم ہی نہیں ہے مگر بہرحال ایک کوشش انہوں نے ضرور کی ہے اس بات کو ختم کرنے کیلئے اور اس بحث کو چکانے کیلئے۔
اب ابن مردویہ کی روایت میں ہے کہ یہ الزام منافقین نے لگایا تھا طبرانی اور ابو یعلیٰ بھی اس کی روایت کرتے ہیں۔
ساری تفسیریں اس بحث سے بھری پڑی ہوئی ہیں۔
تفسیر بیصاوی ‘ تفسیر جلالین‘ اور Wherry نے جو حوالہ دیا ہے وہ تفسیر جلالین کا دیا ہے اور ایک اور تفسیر کا ذکر ہے ’’رو ئوفی وہ ہمیں نہیں مل سکی۔
’’و نزلت لما فقدت قطیفۃ ‘‘
جب وہ چادر قطیفہ اس چادر کو کہتے ہیں جو بدن پر اوڑھ لی جاتی ہے۔ وہ غائب ہوگئی یعنی فاعل اس فعل کا وہ قطیفہ بنتی ہے
قطیفۃ حمراء یوم بدر فقال بعض الناس
لعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اخذھا
تو بعض لوگوں نے کہاکہ ہوسکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ لے لی ہو۔ یہ روایت بہت ہی غیر محتاط الفاظ میں پیش کی گئی ہے۔ حالانکہ جو تفسیر بیضاوی کی روایت ہے اس میں واضح طور پر منافقین کا ذکر ہے اور ’’بعض الناس‘‘ سے یوں لگتا ہے جیسے گویا مسلمانوں میں یہ عام نعوذ باللہ چرچا ہوگیا تھا۔
پس Wherry نے ان روایتوں کو جو تفسیر بیضاوی اور دوسری تفاسیر میں منافقین کی طرف اس بات کو منسوب کرتی ہیں وہ چھوڑ کر ’’جلالین‘‘ اور ’’روئوفی ‘‘ کو چنا ہے جس میں یہ عمومی ذکر ہے کہ بعض لوگوں نے کہا۔ اس سے وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ بات اتنی ہلکی پھلکی نہیں کہ آسانی سے اسے رد کردو یہ عام چرچا ہوگیا تھا کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کو اٹھالیا ہے اور پھر وہ چادر ہمیشہ کیلئے نظر سے غائب ہوگئی۔
تمام تفاسیر تعجب ہوتا ہے اس بات کو لئے ہی چلی جاتی ہیں او رکہتی چلی جاتی ہیں۔ کان پک جاتے ہیں آدمی کے یہ سنتے سنتے اور آنکھیں دُکھنے آجاتی ہیں دیکھ دیکھ کر کہ کیوں اس بات کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں خواہ مخواہ۔ اور ایک آیت کو جس کا تعلق ہی وہاں نہیںہے۔ کسی اور جگہ کسی اور مضمون میں بیان ہورہی ہے اس کو سواری بنادیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف الزام لے جانے والی اُس پر سوار کرکے یہ الزام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا رہے ہیں نعوذ باللہ من ذلک تفسیر روح المعانی میں لکھا ہوا ہے:-
یہ آیت تیر اندازوں کے اس خدشہ کو دور کرنے کیلئے کہ شاید ہمیں حصہ نہ ملے یہ جنگ بدر کے بجائے اُس موقعے پر وہاں رکھ دی گئی۔
اب عجیب بات ہے خدا تعالیٰ تیر اندازوں کے خدشہ کو دور کرنے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام کا شبہ قائم فرما دیتا ہے اور وہ خدشہ جو تیر اندازوں کو تھا ہی نہیں ۔ ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا۔
آگے تفسیر کبیر رازی نے بھی اس کا ذکرکیا ہے کہ تیر اندازوں کو یہ خدشہ ہوا تھا ۔ مگر ساتھ ہی امام رازی دوسری روایات بھی بیان کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ
جنگ حنین کے روز جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوازن کے غنائم رکھے گئے تو ایک آدمی نے سوئی اٹھالی۔ تب یہ آیت نازل ہوئی کہ تم نے سوئی کیوں اٹھائی ہے؟ جبکہ خدا کے رسول کی شان کے خلاف ہے کہ وہ ادنیٰ سی بھی خیانت کرے۔ تووہ سوئی اٹھانا جو ہے یہ بھی مرکوز ہے تو جب روایتیں اسی قسم کی آرہی ہیں تو ان روایتوںکا اعتماد ہی کوئی نہیں رہتا۔
امام رازی صرف اتنا ضرور لکھتے ہیں کہ یہ نفی اگر یہ اُس الزام سے تعلق ہے تو مبالغہ کی حد تک الزام کو دُور کررہی ہے۔ مبالغہ کے معنے کیا ہیں یہاں ؟ غالباً ان کی مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمام انبیاء کو شامل کرکے ان معنوں میںمبالغہ کیا ہے کہ اگرایک عام نبی کی شان کے بھی خلاف ہے تو محمد رسول اللہ کی شان کے کیوں نہ خلاف ہوگا۔ بدرجہ اولیٰ آپ کی شان کے خلاف ہے۔ پس اگر یہ کسی طرح بھی کسی الزام سے تعلق رکھتی ہے یہ آیت تو اس کی نفی بھی پھر پوری شان سے کررہی ہے۔ یہ معنیٰ حضرت امام رازی نے کیا ہے اور اگر اس تعلق میں رکھنا ہے تو پھر یہ سب سے اچھا معنیٰ ہے۔ کہتے ہیں یہ ایسی ہی نفی ہے جیسے فرمایا:-
’’ماکان للہ ان یتخذ ولداً‘‘
بہت سے مفسرین نے اس آیت کے حوالے کے ساتھ ایک حدیث پیش کی ہے جو صحیحین میں ہے اور صحیحین سے مراد ہے حضرت امام بخاری اور حضرت امام مسلم دونوں اس کو درج کرتے ہیں۔ ایسی حدیث جو ان دونوں کتب میں ہو اس کی صحت کا مرتبہ کافی بلند ہوجاتا ہے۔ پس یہ کہتے ہیں اس حدیث میں جو تفصیل سے یہ بیا ن کرتی ہے کہ قیامت کے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعض ایسے لوگوں کو دیکھیں گے کسی نے گردن پر اونٹ اٹھایا ہوگا۔ کسی نے بکری۔ کسی نے بھیڑ‘ کسی نے کچھ اورچیزیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کیلئے پکاریں گے اور آپ فرمائیں گے کہ نہیں ! تمہارے لئے آج کوئی مدد نہیں کیونکہ نبی نہ خیانت کرتا ہے نہ خائن کی مدد کرتا ہے تو یہ وہ خیانتیں ہونگی جو وہ اپنی گردنوں پر اٹھائے ہوئے اس دن حاضر ہوجائینگے۔ یہ روایت ابو ھریرہ ؓ کی ہے۔ اول تو اس روایت کوظاہری طور پر چسپاں کرنا کہ اونٹ اٹھائے ہونگے اور چیزیں اٹھائی ہونگی۔ یہ اُس جنت اور جہنم کے اور حساب کتاب کے تصور سے متناقض ہے اور متصادم ہے۔ جس کا قرآن کریم کی مختلف آیات میں مجموعی طور پر نقشہ کھینچا گیا ہے۔وہا ںان بھیڑ بکریوں کا وہاں پہنچ جانا اور اُن جسموں سمیت اٹھا کر اُن روحوں کا اپنی گردنو ںپر اٹھانا یہ تصور بعض معافی رکھتا ہے اور ظاہری حقیقت نہیں رکھتا۔
معانی صرف اس کے یہ ہیں کہ اُن کا بوجھ اُن کے ضمیرپر پڑے گا اور تصویری زبان میں ان کو دکھایا گیا ہے اور پھر یہ ان کی بددیانتیاں علامتی طور پر خدا ظاہر فرمادے گا اور ہر بددیانت کی بددیانتی اس کے اوپر ظاہر ہوگی اور وہ دیکھ لے گا۔ اب اگر اٹھانے کی بات ہے تو جو لوگ روز مرہ کسی کی ایکٹر زمین دبا جاتے ہیں یا بعض دفعہ غاصب ہوتے ہیں تو لاکھوں ایکٹر کے اوپر بھی قابض ہوجاتے ہیں۔ تو یہ نقشہ بھی پھر ذہن میں آنا چاہئے کہ لاکھوں ایکٹر زمین سر پہ اٹھائی ہوئی ہو اس لئے جو لوگ ظاہری معنوں پر جاتے ہیں ان کے لئے بڑی مشکل پیش آئے گی۔ امر واقعہ ہے کہ یہ تمثیلات ہیں اور ان کے معنے اُسی طرح سمجھنے چاہئیں۔ یعنی قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ قیامت کے دن ان کی بددیانتیاں ظاہر کردی جائینگی اور ان کے لئے ایک عام ذلت اور رسوائی لکھ دی جائے گی۔
اس آیت کے ساتھ اس حدیث کو باندھا گیا ہے اور مفسرین اس حدیث کی طرف بکثرت اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اُس طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے دن یہ ہوتا ہے اگر کوئی بددیانتی کرے گا پس اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بددیانتی ممکن نہیں کہ آپ کو یہ پتہ تھا کہ یہ ہونا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو بچپن سے ہی امین تھے۔ جب آپ چھوٹے سے بچے تھے اس وقت سے امین کہلاتے تھے اور نبوت تک سارا عرب جو بھی آپ کو جانتا تھا امین ہی کہتا تھا تو تعجب ہے کہ مسلمان مفسرین اس کی طرف کیوں اشارہ نہیں کرتے۔ اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا امانت دار ہو اور امین ہو۔اس کے اوپر ایسے الزام کا ذکر کردینا اور اس کی صفات حسنہ کا بیان نہ کرنا جو اس پر عائدہونے والے الزام کو کلیتاً رد اور پارہ پارہ کردیتی ہیں ان کا کوئی وجود پیچھے نہیں چھوڑتیں۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بددیانتی ہے۔ یہ وہ امانت جوہمارے سپرد ہے اُس میں خیانت ہے۔ محمد رسول اللہ ؐ ہم سب پر امین ہیں لیکن آپ کے تقدس کی ایک امانت ہم پر بھی ہے اگر ہم ایسے ذکر کرتے ہیں اور اس کا موثر جواب نہیں دیتے تو اس امانت میں خیانت کرنے والے ہونگے۔ اب میں آپ کو مفسرین میں سے جو مستشرقین ہیں ان کے بعض حوالے دکھاتا ہوں کہ ان باتوں میں کس طرح وہ مزے لے لے کر باتیں بیان کرتے اور کیا کیا لکھتے ہیں !
وقت بچانے کیلئے ترجمہ کردوں یا اصل الفاظ بھی پڑھ دیتا ہوں ۔
Sale لکھتا ہے
This Passage was revealed as some say on the division of the spoils at Badr and Some other soldiers suspected Muhammadؐ of having privately taken a searlet carpet, made all of silk, and very rich, which was missing.
(Al Bedhawi- Jalalud Din)
آپ نے بیضاوی بھی دیکھ لی ہے میں نے حوالہ پڑھا ہے
(نوٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔نیچے سے کٹ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۳۹)
اس میں تو یہ کسی Carpetکا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ذکر اُس چادر کا ہے اور پھر یہ کہتا ہے۔
Other Suppose the archers who occassion the loss of the battle of Uhad left their station because they imagined Muhammadؐ will not give them the due share in the booty etc.
اور پھر یہ یہاں بیضاوی کا حوالہ دیتا ہے اس جگہ ۔ رئووفی کا حوالہ اُس نے دیا تھا Wherry نے۔
Bell صاحب لکھتے ہیں
Traditions says that Muhammadؐ was accused of having concealed for himself cloak from the spoils of Badar.
یہ ترجمہ نسبتاً بہتر ہے۔ قریب تر ہے کہ اپنے لئے ایک کلوک (Cloak) لے لیا تھا۔
کیا کہتا ہے
BD(شاید بیضاوی کا مخفف ہوگا )
BD takes this as repudiation of the charges or as a prohibition of--- what he did on an other occasion when those who were absent on duty were leftout of the distribution.
یہاں دیکھیں ایک شرارت کہتا ہے یہاں تو بیضاوی کے نزدیک یہ repudiation ہے یعنی اس الزام کی نفی کی ہے "Or As A ProhibitionOf What he did on Another Occasion ,,
Prohibition میں نفی مراد نہیں ہوتی۔ مطلب ہے کہ ایک دفعہ پہلے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ من ذلک ایک حڑکت کرچکے تھے۔ اُس سے منع فرمایا ہے گویاکہ آئندہ ایسی حرکت نہیں کرنی۔
As enlighted played its part in the defeat it might possibly be another self reproach on his part.
کہتا ہے جنگ احد میں جو شکست کے بعد نفسیاتی حالت تھی اُس وقت پرانے زخم بھی یاد آجاتے ہیں اور اس حالت میںہوسکتا ہے کہ اپنا ضمیر جاگ اٹھا ہو اوریاد آرہا ہو کہ اوہو ! میں ایک دفعہ پہلے بھی ایسی غلطی کر بیٹھا ہوں۔ تو اس لئے آپ نے یہ آیت بنالی۔ اب یہ ہیں Bell صاحب ! میں بتائوں گا کہ میں ابھی ان کے متعلق کیوں نہیں کچھ کہہ رہا آگے جاکے بتائونگا۔
واٹ صاحب لکھتے ہیں منٹگمری واٹ ۔ 162
In the context of the dishonesty which is mentioned here, fraudulent, some accusation of unfair treatment had been made against Muhammad, it is said but it isnot likely that the archers left their places because they suppose.
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام بڑی زور سے لگادیتا ہے اور نفی Archers کے بہتان کی کرتا ہے۔ محمد رسول اللہ ؐ کے الزام کی نہیں کرتا۔ جو لوگ یہ پڑھتے ہیں ان لوگوں سے آپ اندازہ کریں کس طرح ان کے دلوں میں زہر بھرتے ہیں اور کانوں میں زہر پھونکتے ہیں۔ جو ان کے رگ و ریشے میں سرایت کر جاتا ہے اور بڑی چالاکی کے ساتھ دفاع کیا ہے تو جس کا دفاع ہونا چاہئے اس کا دفاع نہیں کرتابلکہ Archers کا دفاع کرکے گویا یہ ہمدرد اور اسلام کا ساتھی ہے کہتا ہے یہ بات لغو ہے یہ نہیں میں مان سکتا کہ Archers نے سوچا ہو لیکن یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہو یہ تو خیر ہوسکتا ہے اس لئے میں اس کادفاع نہیں کرونگا۔مودودی صاحب بھی اس کا ذکر کرتے ہیں اور کچھ نہیں بولتے۔ بڑے آرام سے حوالہ دے جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریہ الزام لگا تھا اور بس آگے نکل گئے۔
Rodwell کہتا ہے اس کا ترجمہ کہتا ہے غَلَّ کا کہ
`` To act dishonestly, it is not the Prophet who will defraud you, Muhammadؐ have been accuses of having secretly approvpriated a portion of the Spoil.
یہاں یہ بھی اس سے دھوکہ دیتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ تھا الزام۔
The Holy Quran Version of the Ahle Bait میں آغا حاجی مرزا مہدی پویا یزدی صاحب اسی طرح اس الزام کا ذکر کرکے آگے نکل جاتے ہیں۔
Rev. Wherry اپنی Comprehensive Commentary میں لکھتا ہے
``It is not the part of Prophet to defrand.
یعنی ما کان لنبی کا ترجمہ کرتا ہے کہ
It is not the part of a Prophet to defraud, Sale says on the authority of Bedhawi and Jalal ud din that this Passage was revealed as some say on the divisionof the spoils of Badr when some of the soldier suspected Muhammadؐ of having Privately taken a searlet carpet made all of silk and very rich which was missing.
Other suppose the ardchers who occassion the loss of the battle of Uhad left their station because they imagined Muhammadؐ will not give them their share of the plunder because as it was related he once sent out a party as an advanced guards and in the mean time attacking the enemy took some spoils which he divided among those who were with him in the action and gave nothing to the party that was absent on duty.
ترجمہ اس کا لفظاً لفظاً توکرنے کی ضرورت نہیں وہی بے ہودہ سرائی ہے جو پہلے ذکر گزر چکا ہے۔ Sale کی طرف منسوب کرکے بات کو اور بھی زیادہ بڑھا کر پیش کرتا ہے کہ ایک نہایت ہی عالیشان ریشمی Carpet تھا جو بیان کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے نعوذ باللہ غصب کے طورپر رکھ لیا تھا اور اس کی طرف اشارہ ہے اور پھر اس طرف بھی کہ جو Archers تھے وہ اس لئے بھاگے تھے کہ جانتے تھے کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قابل اعتماد نہیں ہیں اور پہلی جنگ میں ایسی باتیں کرچکے ہیں۔ اس لئے اگر ہم نے دیر کردی تو یہ ہمارا مال ہاتھ سے جاتا رہے گا اور جس بحث کا قرآن کریم میں اشارہ ہے اس کا کوئی ذکر نہیں کرتا۔ وہ تنازعہ اگر یہ تھا تو یہ بحث کیوں نہ وہاں چلی ؟
کسی روایت میں یہ ذکر نہیں ہے۔ روایت موجود ہے کہ یہ گفتگو تھی۔ عبداللہ کے ساتھ جو جھگڑا چلا ہے ان لوگوں کا۔
قرآن کریم نے اس کو ایک نزاع کے طور پر پیش فرمایا اور تاریخ نے اس کو محفوظ کیا ہے۔ اس میں اشارۃً اور کنایتہ بھی یہ بات نہیں ہے کہ انہوں نے نعوذ باللہ من ذلک ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بدظنی کی ہو۔ اب یہ محققین جوبنتے ہیں انکے علم میں ہیں ساری باتیں۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ عمداً حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کو داغدار دکھانے کی خاطر بڑے مزے مزے لے کر یہ ذکر کرتے ہیں اور مسلمان مفسرین ان کے بیان میں اس طرح شامل ہوجاتے ہیں کہ بات کرتے ہیں اور آگے نکل جاتے ہیں۔
Wherry پھر لکھتا ہے۔
The Tafseer e Raufi Says the passage was occasioned by certain of the companions desiring a larger share of the booty than their weaker brethren. God here signifies that all are to be treated alike, and that partiality in the division of booty would be dishonest.
اب میں آپ سے اس سلسلے میں کچھ اور گفتگو کروں گا۔ جس رسول پر یہ اس طرح اشارۃً الزام لگا رہے ہیں اس کا ایک ایسا کردار ہے جو نبوت سے پہلے کا بھی ہے اور نبوت سے بعد کا بھی ہے اور اُس کردار کو نظر انداز کرکے یہ بحث چلانا اور اُس کا ذکر نہ کرنا یہ بددیانت ہے جو قیامت کے دن ان پر بوجھ بنے گی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرضی بددیانت کی بات کرتے ہیں اور بھول رہے ہیں کہ عین اس وقت جب یہ گفتگو کررہے ہوتے ہیں یہ بددیانتی کررہے ہیں اور خیانت کرتے ہیں اور ایک ایسے پاک وجود کے متعلق دفاع میںوہ نہیں کہتے جو ان کو سب کو معلوم ہے اور ادنیٰ معمولی عقل کا انسان بھی ایسے وجود کے متعلق اس الزام کو جسکو کہتے ہیں Entertain کرنا۔ کسی طرح بھی در خود اعتنا نہیں سمجھتا اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس پر کسی طرح غور ہی کیا جائے اس پر توجہ دی جائے۔ اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو میں یہ کہتا ہوں کہ جہاں الزام کی بات ہورہی ہے وہاں یہ جب حضرت مسیح ؑ کے متعلق Commentary لکھتے ہیں تو وہاں یہ کیوں نہیں کہتے کہ ان کی ماں پر یہ الزام لگا تھا اور یہ یہ الزام لگائے گئے اور یہود نے یہ کہا اور بعض عیسائی محققین نے جنہوں نے اس الزام کی تائید کی ہے ان کے حوالے پھرکیوں نہیں دیتے اور آج کل تو نئی کتابیں ایسے شائع ہورہی ہیں جیسے نیوزی لینڈ کے ایک پادری نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں کھلم کھلا حضرت مسیح ؑ پر لگنے والے اس الزام کی تائید بھی کی ہے۔ یہ نئی generation میں ایسے پاگل پیدا ہورہے ہیں لیکن میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی یہ ذکر کرتا چلا جائے اور الزام کی نفی نہ کرے تو بڑی بے حیائی ہوگی۔ یہ الزام لگانے والے اس قدر ناشکرے اور بے حیائی سے کام لینے والے ہیں کہ قرآن جب اس الزام کا ذکر کرتا ہے تو سلیقہ بتاتا ہے کہ جب پاکوں پر الزام لگیں تو فرض ہے کہ اُس وقت اُس کی نفی کی جائے۔
قرآن فرماتا ہے
’’وقولھم علی ٰ مریم بھتاناعظیما‘‘
کہ یہود پر ہم نے *** کی اس لئے کہ انہوں نے ایک بہت ہی ظالمانہ الزام مسیح ؑ کی پاک ماں پر لگا دیا تھا اور اس ما ںکے متعلق فرمایا کہ وہ صدیقہ تھی۔
’’و امہ صدیقتہ ‘‘
تم کہتے ہو وہ ناپاک تھی ! ہم کہتے ہیں کہ پاک عورتوں میں بھی اس کا ایک عظیم عالیشان مقام تھا۔ تو قرآن کا تو یہ رویہ ہے ان لوگوں کے بزرگوں سے۔
اگر قرآن یہ طریق اختیار نہ کرتا تو مسلمانوں کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس الزام کی نفی کرتے۔ حالانکہ ان کے پاس ہے۔مسلمانوں کے پاس اس لئے وجہ نہیں تھی کہ حضرت مریم ؑ کے کردار کا انہیں کیا پتہ ؟ ساری زندگی نظر سے اوجھل ہے۔ وہ قوم الزام لگا رہی ہے جس میں آپ نے زندگی بسر کی تھی۔ جب بچے کو اٹھا کر لاتی ہیں تو وہ قوم آپ کے گرد وپیش میں بسنے والی۔ ابھی بچہ نبوت کا دعویدار بھی نہیںہوا اس لئے نبوت کی دشمنی شامل نہیں ہے۔ عام تاثر ہے۔ اور ساری قوم متفقہ طور پر الزام لگاتی ہے اور ملزم گردانتی ہے۔ اس کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟
اگر اسلام حضرت مریم ؑ کی بریت نہ کرتا تو کسی مسلمان‘ کسی صاحبِ ہوش انسان کیلئے کوئی وجہ ہی نہیں تھی کہ اس الزام کو درست تسلیم نہ کرتا کیونکہ اس کا نتیجہ عجیب و غریب بظاہر خلاف قدرت ہے۔ یعنی الزام قبول کرنے کے جتنے بھی مواجع ہوسکتے ہیں۔ جتنے بھی موجبات ہوسکتے ہیں وہ تمام تر موجود ہیں اور وہ قرآن جو محمد رسول اللہ ؐ کے دل پر نازل ہوا ہے اس کی عظمت کو دیکھیں اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو دیکھیں کہ آپ نے کس شان کے ساتھ اُس الزام کی نفی فرمائی اور اُن الزام لگانے والوں کو مردود اور ملعون قرار دیا۔ حالانکہ ظاہری صورت میں اگر ایسا واقعہ آج بھی ہوجائے تو ایک آدمی یہ الزام لگا سکتا ہے۔ اُن کو ملعون قرار دینے کے اندر ہی دراصل یہ بریت فرما دی گئی ہے کہ جس مریم ؑ کو وہ جانتے تھے اس مریم ؑ پر الزام کا ان کو حق نہیں بنتا کیونکہ اُس مریم کا کردار پاک تھا۔اور ’’اُمہ صدیقتہً‘‘ کہہ کر بتادیا کہ ہم *** کیوں ڈال رہے ہیں ! یہ کوئی جبری فیصلہ نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ اس مریم ؑکا کردار جس نے اُن میں پل کے زندگی گزاری تھی وہ کردار ایسا عظیم الشان تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے ان کوالزام کا کوئی حق نہیں تھا پس قرآن کریم نے ایک ایک لفظ کے اندر وہ ساری کہانی‘ وہ پس منظر بیان فرما دیا ہے اور ان لوگوں کو عقل نہیں آتی۔ وہ کردار تو ہماری نظر کے سامنے نہیں ہے نہ ان کی نظر کے سامنے ہے کوئی عیسائی اس کردارکی تائید میں‘ اس کی پاکی کی تائید میں کوئی تاریخی گواہیاں پیش نہیں کرسکتا کہ مریم ؑ اس طرح پاک صاف تھی جبکہ ساری قوم الزام لگانے والی ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ایسا ہے جو دشمن کے سامنے بھی کھُلا تھا اور ماننے والوں کے سامنے تو ایسا کھُلا تھا جیسے دل کے نور کے اوپر آسمان کا نور اتر چکا ہو اور سارے ماحول کو منور کردیاہو۔ پس جب تک آپ ؐ نے دعویٰ نبوت نہیں فرمایا تمام قوم آپ کو امین کہتی رہی اور جب دعویٔ نبوت فرمادیا تو پھربھی کسی نے غیر امین ہونے کا الزام نہیںلگایا۔ اب یہ دیکھیں کتنی عظیم الشان کردار کی گواہی ہے۔ اُس وقت کہہ دیتے کہ غیر امین ہے۔
(کیوں جی وقت ختم ہوگیا ہے ؟ اتنی جلدی ! اچھا کل سہی پھر۔ اچھا السلام علیکم ! خدا حافظ ۔
باقی انشاء اللہ کل ۔ یہاں سے ہی شروع کریں گے )
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 16 رمضان المبارک
27 فروری1994 ء
وما کان لنبی…… واللہ بصیر بمایعملون O (آل عمران 162-164)
ابھی ہم کل جس آیت پہ گفتگو کررہے تھے اس کا کچھ حصہ باقی تھا اس لئے میں وہیں سے شروع کرتا ہوں۔
یہ اسلام کے دشمن جو نقشہ جنگ احد کی مختلف آیات کے حوالے میں کھینچتے ہیں اس سے یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ ایک لٹیروں کی جماعت ہے جسے دنیاوی مال و دولت کی حرص کے سوا اور کوئی غرض نہیں ہے اور ان میںحضرت اقدس محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے بار بار اس الزام کو دہراتے ہیں جس کے متعلق بعض روایتوں میں ملتا ہے کہ کبھی منافقین نے کوئی الزام لگایا تھا۔اور یہ تاثر قائم کرتے چلے جاتے ہیں اور اس کو مزید تقویت دیتے چلے جاتے ہیں کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ لڑنے والے دنیاوی مال و متاع کے حریص تھے۔ کوئی روحانی اور کوئی خدا کی رضاکی غرض اس میں شامل نہیں تھی ان کے جہاد میں یا غزوات وغیرہ وغیرہ میں۔
اس ضمن میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر الزام دہرایا جارہا ہے میںبیان کررہا تھا کہ اس میں کوئی بھی ایک ذرہ اس بات کا بھی جواز نہیں ملتا کہ یہ بدبخت لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کُشی کی کوشش بھی کریں کیونکہ آپ کے کردار کا آغاز نبوت سے بہت پہلے سے بچپن سے اس زمانے سے ہوچکا ہے۔ جس پر تمام دشمن گواہ بیٹھے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو تحدی کے ساتھ یہ چیلنج دینے کا ارشاد فرمایا۔
فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ افلا تعقلون
کہ میں تو تم سے پہلے پوری عمر تم میں گزار چکا ہو ںکیوں عقل نہیں کرتے۔ اور اس کے جواب میںکبھی ایک دشمن نے بھی۔ شدید سے شدید معاند نے بھی یہ نہیں بتایا کہ نبوت سے پہلے تیرے کردار میں یہ داغ تھا یا وہ داغ تھا۔ اس لئے 40 سال تک جس کا عرصہ بچپن اور جوانی کا اس وقت تک جب وہ بڑھاپے میں قدم رکھتا ہے ۔ کلیتاً بے داغ رہا ہو۔ اس کے متعلق کسی الزام کو Entertain کرنا یعنی اس کو قابل توجہ سمجھنا۔ یہ اس کا نام جو مرضی رکھ دیں۔ میں سخت لفظ بولوں گا تو بعض لوگ کہیں گے کہ زیادہ سختی کی ہے مگر بغیر سخت لفظ کے اس کا نام رکھا جا نہیں سکتا۔ جو چاہیں سوچ لیں مگر شرافت کی حدود میں ایسے شخص پر الزام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ کوئی اجازت نہیں ہے۔جہاں تک اموال کی محبت کا تعلق ہے۔ حضرت خدیجہ ؓ سے جب شادی ہوئی تو وہ عرب کی متمول ترین خواتین میں سے تھیں بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ قریش میں سب سے امیر خاتون تھیں اور پہلی رات ہی آپ نے جب حضرت خدیجہؓ نے اپنا سب مال و دولت آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔کہ اب یہ آپ کا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ اچھا یہ میرا ہے۔میرا ہے تو ہاں پھر میں اسے خود تقسیم کرونگا اوروہ تمام مال دولت غرباء میں تقسیم کردیا۔ یہ ہے اس شخص کا کردار جس نے جنگ بدر کے موقعے پر ان کے کہنے کے مطابق ایک چادر چھپالی تھی اور چادر بھی ریشمی تھی جس کے متعلق حکم تھا کہ کوئی نہیںپہنے گا۔ اور بعض نے اس کو پھر قالین بنایا۔ ایک عظیم الشان قالین ۔ اور وہ چھپائے پھرتے تھے۔ یہ ایسی حیرت انگیز کہانی ایسی ظالمانہ کہانی ہے کہ تمام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اس کے خلاف گواہی دیتا ہے۔ وہ کن قالینوں پہ سونے والا انسان تھا۔ یہ ذکر سنیے۔
حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ بن خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؐ بیمار تھے۔ حضورؐ ایک قطوانی چادر پر لیٹے ہوئے تھے اور تکیہ ایسا تھا جسمیں اذخر گھاس بھری ہوئی ہے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی۔ حضو ر! میرے ماں باپ آپ پر قربان ۔ قیصر و کسریٰ تو ریشمی گدوں پر آرام کریں اور حضور اس حالت میں ہوں۔ یہ سُن کر حضور نے فرمایا۔اے عمر ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ اُن کے لئے یہ چیزیں اس دنیا میں ہیں اور تم لوگوں کیلئے آخرت میں ہوں گی۔یہاں جہاںپہلے لفظ چادر استعمال کیا گیا ہے دوسری روایت میں اس کا زیادہ تفصیل کے ساتھ نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ یہ ہے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چٹائی پر سو رہے تھے۔ جب اٹھے تو چٹائی کے نشان پہلوئے مبارک پر نظر آئے۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم آپ کے لئے ایک نرم سا گدیلا نہ بنادیں ؟ یا گدیلا بنادیں تو کیا یہ اچھا نہ ہو؟آپؐ نے فرمایا : مجھے دنیا اور اس کے آراموں سے کیا تعلق۔ میں اس دنیا میں اُس سوار کی طرح ہوں جو ایک درخت کے نیچے سستانے کیلئے اُترا اور پھر شام کے وقت اس کو چھوڑ کر آگے چل کھڑا ہوا۔ یہ ہے حضرت اقدس محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار۔ترمذی کتاب الزہد صفحہ 60
جہاں تک بیت المال کے اموال کا تعلق ہے۔جہاں تک قومی اموال کا تعلق ہے۔ ان کے متعلق آپ ؐکا رویہ کیا تھا؟ محمد بن زیاد سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا : حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالی عنہما نے صدقہ کی کھجور میں سے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کخ کخ ! یعنی تھُو تھُو ! تاکہ وہ اس کھجور کو پھینک دے۔پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے ! پھرایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بخاری کتاب الزکوۃ باب من احب …الصدقۃ من یومھا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز عموماً ٹھہر ٹھہر کر پڑھایا کرتے تھے لیکن ایک نماز ذرا جلدی میں پڑھائی اور بڑی تیزی کے ساتھ نماز کے بعد گھر میں داخل ہوئے تو بعد میں صحابہ ؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ !یہ کیا بات تھی ؟ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے یاد آگیا نماز کے دوران کہ جو مال میں نے غرباء میں تقسیم کرنا تھایعنی قومی مال اس میں سے ایک سونے کی ڈلی ابھی گھر پڑی ہوئی تھی تو میں نے یہ پسند نہ کیا کہ میں اسے رات بھر گھر میں رکھوں اس لئے میں جلدی سے گھر واپس گیا ہوں۔ اور پھر وہ ڈلی باہر لے کے آئے اور اُسے تقسیم فرمادیا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھاکے متعلق حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ چکی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں تکلیف ہوگئی تھی اور گٹے پڑ گئے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئیں مگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ مل سکے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ ے پاس پیغام بھیج دیا کہ میرے لئے میرے باپ ؐ سے یہ سفارش کروکہ میرے لئے کچھ اس کا انتظام کریں۔یعنی کچھ مال آئے ہوئے تھے باہر سے۔ ان میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ اس کا ذکر کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گھر آئے اس کے جواب میں۔ ہم بستروں میں لیٹ چکے تھے۔ حضور کے تشریف لانے پر ہم اٹھنے لگے۔ آپ نے فرمایا نہیں ! لیٹے رہو حضورؐ ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ یہاں تک کہ قدموں کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے پر محسوس کی۔ پھر آپؐ نے فرمایا : میں تمہارے سوال سے بہتر چیز نہ بتائوں؟ جب تم بستروں پر لیٹنے لگو تو 34 دفعہ اللہ اکبر کہو۔ 33 بار سبحان اللہ اور 33 بار الحمداللہ کہو۔ یہ تمہارے لئے نوکر سے بہتر ہے۔
مطالبہ یہ تھا کہ جو غلام آئے ہیں ان میں سے ایک غلام ہمیں دے دیا جائے تاکہ وہ پیسا کرے۔ وہ چکیاں کیسی ہوتی تھیں۔ وہ نعمتیں کیا تھیں؟ اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ کے متعلق روایت ہے کہ آنحضورؐ کے وصال کے بعد جب ایران کی فتوحات وغیرہ کے زمانے میں باہر سے نرم آٹا آیا تووہ آٹا لونڈی نے اس کی روٹی بنا کر پیش کیا تو حضرت عائشہ ؓ کے گلے سے وہ لقمہ اترتا نہیں تھا۔ سخت تکلیف میں تھیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ لونڈی نے تعجب سے پوچھا کہ میںکیا دیکھ رہی ہوں۔ یہ تو بہت ہی اچھا آٹا ہے۔کیوں انکے گلے سے لقمہ اتر نہیں رہا۔آپ نے فرمایا کہ میرے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جو آٹا کھایا کرتے تھے اس زمانے کی چکیاں ایسی تھیں کہ موٹے موٹے اس کے دانے ہوتے تھے اور جنگ اُحد کے تعلق ہی کی یہ بات ہے کہ آپ ؐکے دانت شہید ہوچکے تھے اور اس کی وجہ سے تکلیف باقی تھی۔ اور آپ ؐ سے وہ آٹا چبایانہیں جاتا تھا۔ اب ہم نرم آٹے کھا رہے ہیں۔
یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ہے۔ جن کے متعلق یہ بدبخت لوگ کس طرح زبانیں دراز کرتے ہیں۔ پس کوئی حیا نہیںہے یا تو یہ بالکل ایسے جاہل مطلق ہوں کہ اسلام کی تاریخ پر ا نکی کوئی نظر نہ ہو۔ بڑی تفصیل سے انہوں نے کریدا ہے۔ ہر قسم کی کتب کا مطالعہ کیا ہے مگر نظر چونکہ محض اعتراض ڈھونڈنے پر وقف رہی ہے۔ اس لئے کوئی اچھی بات کہیں بھی ان کو نظر آتی ہے تو تکلیف پہنچتی ہے۔ اس سے صرف نظر کرکے آگے گزرتے ہیں ۔ پتہ نہیں کیسے کھوج ان لوگوں نے لگائے۔ کیسی کیسی راتوں کو چراغ انہوں نے جلائے۔ اس لئے کہ اپنے ذہن اور اپنی روح کو اور بھی زیادہ تاریک کرلیں۔ اس کے سوا ان کی تاریخ دانی کا اور کوئی مقصد نہیں تھا۔ جہاں تک جنگی اموال اور ان پر قبضہ کرنے کا تعلق ہے۔ آپ کو کتنی حرص تھی اس کی۔ اس کے متعلق سنئے ! وہ بنو ہوازن جنہوں نے جنگ حنین میں سب سے زیادہ تکلیف آنحضرت ؐ اور آپ کے غلاموں کیلئے پیدا کی۔ ان کے متعلق جب مفتوحین قیدیوں کی صورت میں وہاں حاضر ہوئے تو چونکہ حضرت حلیمہ‘ آپ کی دائی بنو ہوازن میں سے تھیں انہوں نے بنو ہوازن نے حلیمہ دائی کا واسطہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کھلانے والی Dry Nurse یا Wet Nurse،Wet nurseہی تھیں غالبا،ہاں دودھ پلانے والی تھی وہ تو ہمارے قبیلے سے تھیں تو کیا آپ اس کے نتیجے میں ہم پر احسان نہیں فرمائیں گے۔ آپ ؐنے یہ جواب نہیں دیا کہ تم جب تیر برسا رہے تھے ہمارے سینوں پر اس وقت وہ رشتہ کہاں تھا؟لیکن آپ ؐ نے فرمایا کہ اچھا میں اور یہ جو ہمارا خاندان ہے بنو ہاشم کا ہم اس کو آزاد کرتے ہیںاپنے حصے کے غلاموں کو۔ ابوطالب اور ان کی اولاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور سارے جتنے بھی اس خاندان سے خونی رشتہ رکھتے تھے جس خاندان پر حلیمہ دائی کا احسان تھا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم فراست بھی دیکھیں کہ اس موقعے پر یہ تسلیم نہیں کیا کہ اہل ایمان پر اس کا احسان ہے ۔ اسلام پر کوئی احسان ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے جو اس نے بچے کے طور پرجوپالا تھا۔ اس خاندان کے بچے کے طور پر پالا تھا تو زیادہ سے زیادہ حق ان کا ہم پر بنتا ہے۔ میں باقی مسلمانوں کے قیدی کیسے آزاد کرسکتا ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے لے جاؤہمارے حق کے جو غلام ہیں وہ سب آزاد ہیں۔ جب یہ خبر صحابہ رضوان اللہ علیھم کو پہنچی تو انہوں نے بے اختیار کہا کہ اے ہمارے آقا ما کان لنا فھو لرسول اللہ جو کچھ ہمارا ہے وہ بھی تو آپ ہی کا ہے۔ اس لئے سارے قیدی آزاد ہوگئے۔ یہ وہ حریص ڈاکہ ڈالنے والے ۔ مال غنیمت کے خواہاں لوگ ہیں جن کا نقشہ یہ Wherry اور اس کے ساتھی کھینچتے ہیں کیا اُن کی ان حالات پر نظر نہیں تھی؟ یقینا تھی ! لیکن بددیانت لوگ ہیں۔ تقویٰ سے کلیتاً عاری۔ ایک غلط تصور اسلام اور رسول ؐ اسلام کا پیش کرنے کی خاطر ہر بہانہ تلاش کرتے ہیں اور جہاں جواز نہ بھی ہو وہاں بھی حملے کرتے ہیں۔ وہ جگہ جہاں حملے کے جواز کی گنجائش ہی نہیں ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار ہے اور آپکے صحابہ کا کردار ہے لیکن اس کو یہ ترک کردیتے ہیں اس سے صرف نظر کر جاتے ہیں۔
لیکن ایک اور واقعہ یہ گزراکہ بنو طئی کے قیدیوں کو بھی آپ نے آزادفرمانے کا حکم دیا۔ عرب کاایک مشہور سخی حاتم طائی کے نام سے مشہور ہے۔ جس کے متعلق آتا ہے کہ اس نے سارے اہل عرب پر احسان کے ہوئے تھے۔ کسی نہ کسی رنگ میں عرب کا کوئی نہ کوئی قبیلہ اس کے زیر احسان آگیا تھا۔ حاتم طائی کی بیٹی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تو آپ ؐ نے فرمایا کہ میںاس کومیں آزاد کرتا ہوں یہ حاتم طائی کی بیٹی ہے۔ بہت بڑا محسن تھا اس کے خیر کا بدلہ اس طرح ہم دیتے ہیں تو حاتم طائی کی بیٹی نے کہا کہ میں تو نہیں آزاد ہونگی جب تک میرا سارا قبیلہ آزاد نہ ہو۔ آخروہ اسی باپ کی بیٹی تھی جس کے سب پر احسان تھے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے وہاں بنو عبدالمطلب کی کوئی شرط نہیں رکھی جہاں پہلے بنو عبد المطلب اور ابو طالب وغیرہ کی اولاد کی شرط تھی۔ سب کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔اب یہاں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فیصلے اور پہلے فیصلے میں جو لطیف فرق ہے وہ ظاہر ہوتا ہے۔ پہلے محسن صرف آپ کے خاندان کا محسن تھا۔ اب ایسے محسن کی بات ہورہی ہے جو سارے عرب کامحسن تھا۔ تو وہاں آپ نے فرمایا ھل جزاء الاحسان الا الاحسان یعنی یہ مضمون ہے۔ اب تم سب پر فرض ہے کہ اس احسان کا بدلہ اتارو۔یہ ہیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ ناپاک لوگ ناپاک حملے کرتے ہیں۔
جہاں تک نعوذ باللہ من ذلک لٹیرے صحابہ کا حال ہے۔ وہ تو وہ تھے جو گھروں سے نکالے گئے۔ جن پر تلوار پہلے اٹھائی گئی۔اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا و ان اللہ علی نصرھم لقدیر الذین اخرجوا من دیارھم بغیر حقیہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق یہ سارے مستشرقین جانتے ہیں کہ قطعاًکوئی ایک بھی وجہ ان کے مال چھیننے اور ان کو گھروں سے نکالنے کی موجود نہیں تھی اور ایک بھی اگر ان میں سے اپنے دین سے تائب ہوجاتا تو نہ صرف یہ کہ اس کو اپنے اموال اور گھروں سے محروم نہ کیا جاتا بلکہ اس پر اور بھی مال نچھاور کرنے پر تیار بیٹھے تھے تو یہ سارے وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا کی کمائیوںپر بلکہ عمر بھر کے اندوختوں پر لات ماری ا ور ایک پائوں کی ٹھوکر سے انہیں دھتکار دیا اور خدا کی خاطر ننگے ہاتھ ہوکر وہاں سے چل پڑے۔ کیسی بدبختی ہے کہ ان پر یہ الزام ہے کہ یہ Marauders ہیں۔ یہ لوٹ مار کرنے والے لوگ ہیں۔ ان کو تو صرف مال غنیمت سے غرض تھی اور کسی چیز سے غرض نہیں تھی۔ ایسے لوٹ مار کرنے والے کہیں نکال کے دکھائو تو سہی تاریخ میں جن سے محض خدا سے ان کے خدا سے تعلق کے نتیجے میں ان کے گھربار لوٹ لئے گئے۔ انکو مارا گیا۔ ان کو قتل کیا گیا۔ انکو اپنے وطنوں سے بے وطن کیا گیا اور پھر ان پر حملہ کرنے کیلئے دشمن چڑھ دوڑا اور ان کا ذکر پتہ ہے کس طرح کرتا ہے جنگ اُحد کے ذکر ہیں؟ کہتا ہے ’’Makkan Princes‘‘ یہ مکے کے شہزادے تھے۔ جو حملہ کررہے تھے۔ ان ڈاکوئوں اور لٹیروں پر۔ اس سے زیادہ بدبختی کیا ہوسکتی ہے۔ اور اب میں کچھ کہہ نہیں سکتا کیونکہ ایک احمدی خاتون نے بڑا احتجاج کیا ہے کہ تم بعض دفعہ اتنا سخت لفظ بول جاتے ہو ان لوگوں کے متعلق کہ زیب نہیں دیتا خلیفہ وقت کو ایسی زبان استعمال کرنا میں اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالوں گا کہ یہ قصہ کیا ہے؟وہ کہاں گیا موادسارا؟تو یہ تو ہے جہاں تک صحابہ یہ رسول اللہ ﷺ پر اعتراض کا تعلق ہے
جہاں تک جواب میں سختی کا تعلق ہے اس سلسلے میں جب مجھے یہ نصیحت پہنچی تو میرا ذہن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃو السلام کی اُن تحریرات کی طرف منتقل ہوا۔ جن میں بعض دفعہ پڑھتے ہوئے ہمیں خود بھی بچپن میں لگتا تھا کہ بہت زیادہ سختی کی گئی ہے۔ بڑا سخت جوابی حملہ ہے۔ اور انہی سختیوں کو لیکر آج کے علماء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف مسلمانوں کو اس طرح بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے دلوں میں تو نبیوں کی عزت ہی کوئی نہیں۔ دیکھو ! حضرت عیسیٰؑ پر ایسا جوابی حملہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور ایسی سخت زبان عیسائیو کے متعلق یا جو پادری کے متعلق جو ہندوستان میںیلغار کررہے تھے۔ انکے متعلق استعمال ہوئی ہے اور بھی بہت سی باتیں ہیں۔ میں اس وقت اُس مضمون کو تفصیل سے نہیں لے سکتا مگر یہ درست ہے کہ بعض جگہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلامکے کلام میں جواباً سختی ملتی ہے۔ مگر کن باتوں کے جواب میں؟ اگر یہ اُن پادریوںکی تحریریں پڑھیں جو Wherry کے زمانے ہندوستان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف لکھ رہے تھے تو کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا اس کو پڑھنا۔ یعنی خون بھی کھولنے لگ جاتا ہے غصے سے ۔ اور انسان غم سے پگھل بھی جاتا ہے۔ پوری طرح دل گداز ہوجاتا ہے اور آستانہ الوہیت میںبہتا ہے کہ اے خدا ! یہ کیا ظلم ہورہا ہے ؟ یہ وہ لوگ ہیں۔ یہ Wherry کے پالے ہوئے لوگ یا اس قسم کے دوسرے پادری جو اس زمانے میں وہاں پہنچے تھے۔ انہوں نے دراصل کالوں کو عیسائی بنا کر انکو پھونکیں دے دے کر پاگل بنایا ہوا تھا۔ان کو کہتے تھے کہ تم بادشاہ کے بھائی بن گئے ہو۔ محاورہ بنا ہوا تھا ’’عیسائی بادشاہ کے بھائی‘‘۔اب تم ہم میں سے ہوگئے ہو گویا کہ ۔ اور پھر ان پر خرچ کئے ان کی تربیت کیلئے انہوں نے بہت سے وہاں اسکول کھولے اور باہر بیٹھے آپ تو جیسی بھی تہذیب تھی وہ خود ا نکی زبانوں سے بھی پھُوٹ رہی ہے مگر پھر بھی کسی حد تک تہذیب کے پردے میں پیچھے بیٹھے رہے اور ان دیسیوں سے وہ وہ گند اچھالا ہے۔ جن میں سے کچھ پہلے مسلمان مولوی تھے پھر وہ عیسائی ہوئے۔ کچھ ہندوئوں میں سے آئے کوئی دوسرے لوگوں میں سے اور نہایت ہی غلیظ اسلام کے خلاف اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کردار کُشی کی مہم شروع کی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے سامنے وہ سب باتیں تھیں وہ پڑھتے تھے تو آپؑ کا دل خون ہوتا تھا۔ آپؑ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسی زبان استعمال کی جائے اس سے زیادہ میں یہ برداشت کرسکتا ہوں کہ میرے بچے میرے عزیز ایک ایک کرکے میرے سامنے ذبح کردیئے جائیں مگر جو تکلیف مجھے محمد رسول اللہ ؐ کی کردار کُشی سے پہنچتی ہے تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔یسی صورت میں انسان بے اختیار ہوجاتا ہے وہاں منصب کی بحث نہیں رہتی۔ قرآن کریم فرماتا ہے۔لایحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم وکان اللہ سمیعا علیما O ان تبدوا خیراً او تخفوہ او تعفوا عن سُوئٍ فان اللہ کان عفواً قدیراً۔ (نساء آیت ۱۵۰ ۔ ۱۴۹)
لایحب اللہ الجھر بالسوئاللہ تعالیٰ سخت کلامی کا پبلک اظہار پسند نہیں فرماتا
جھر بالسوء : یعنی سخت کلامی کو کھلے بندوں کیا جائے بازاروں میں یا عوام کے سامنے سخت کلامی کی جائے یہ اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔
الا من ظلم : مگر جس پر ظلم کیا جائے اس کو اللہ تعالیٰ اس سے بری الذمہ سمجھتا ہے۔
وکان اللہ سمیعا علیما : اور اللہ تعالیٰ بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃو السلام پر یا ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق پر اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدزبانیاںکی جائیں اور کوئی جواز ادنیٰ بھی اس کا موجود نہ ہو۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ ایک موقعے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مسلک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور پھر صبر کی تلقین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یعنی یہ بظاہر ایک عجیب سا تضادنکلتا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
گالیاں سُن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
دوسری طرف یہ جو سخت کلامی ہے بعض موقعو ںپر اس میں کیا جوڑ ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ بدکلامی اپنے متعلق برداشت کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق برداشت ہوتی نہیں تھی۔ یہ ایک بے اختیاری کا معاملہ ہے پس اپنے متعلق جب بھی کوئی شخص سختی کرتا تھا جواب میں تواس کو روک دیا کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک صاحب تھے جو پروفیسر کہلاتے تھے۔ وہ خاص عقل کی باتیں اس قسم کی کیا کرتے تھے۔ کالج میں پروفیسر نہیں تھے مگر اپنی دانشوری کی وجہ سے پروفیسر کہلاتے تھے اور بہت مخلص اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق تھے۔ ایک موقعے پر ایک شخص جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کے خلاف بدزبانی کی اس کو انہوں نے بہت سنائیں۔کھری کھری سنائیں آگے سے۔ خواجہ صاحب اس وقت یہ دیکھ رہے تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام سے یہ شکایت کی کہ دیکھیں آپؑ تو منع فرماتے ہیں ایسی بدکلامی سختی نہیں کرنی چاہئے اور ایک شخص نے آپ کے متعلق بد زبانی کی تھی تو پروفیسر صاحب نے آگے سے اس کو کھری کھری سنائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پروفیسر صاحب کو بلایا اور فرمایا۔ ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ نرمی اختیار کرو۔ خدا تعالیٰ کی یہی تعلیم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام سمجھا رہے تھے اور پروفیسر صاحب کا چہرہ برداشت کرتے کرتے سُرخ ہورہا تھا۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالی عنہ لکھتے ہیں کہ بظاہر تو گستاخی کی بات تھی لیکن وہ عشق کا معاملہ تھا۔ آخر وہ برداشت نہ کرسکے اور پھوٹ پڑے۔
آپ کے پیر محمد رسول اللہ کو کوئی کہے تو آپ مباہلوں کیلئے تیار ہوجاتے ہیں اور کتابیں لکھ دیتے ہیں۔ ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارے پیر کو کوئی گالیاںدے تو چپ رہو۔ یہ عشق کے قصے ہیں۔ یہاں جاکر تعلیمیں پیچھے رہ جاتی ہیں ۔ ناقابل برداشت کیفیات پیدا ہوجاتی ہیں جہاں جا کے وہ آیت عمل دکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔لا یحب اللہ الجھر بالسوء من القول الا من ظلم کہ اللہ تعالیٰ سخت کلامی کے عام اظہار کو پسند نہیں فرماتا کھلے بندوں اظہار کو پسند نہیں فرماتا مگروہ جو ظلم کیا گیا ہو اس پر کوئی حرف نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں۔
دیکھو ! جو آل رسول ؐ کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسولؐ بن گئے۔یہ ان کے پروردہ لوگ ہیں۔ Wherry اور اس کے ساتھیوں کے۔
’’جو آلِ رسولؐ کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسولؐ بن گئے اور اس قدر بدگوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا ہے اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کرلیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دُکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی دکھا ہے۔ پس کیا ابھی اُس آخری مصیبت کا وقت نہیں آیا جو اسلام کیلئے دنیا کے آخری دنوں میں مقدر تھا۔ کیا کوئی ثابت کرسکتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور زمانہ بھی آنے والا ہے جو قرآن کریم اور احادیث کی رو سے ان موجودہ فتنوں سے کچھ زیادہ فتنے رکھتا ہوگا۔ تو بھائیو ! تم اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو !! اور خوب سوچ لو کہ وقت آگیا اوربیرونی اوراندرونی فتنے انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔‘‘
یہ ہے جواب اُس نصیحت کا جو مجھے کی گئی لیکن اس کے باوجود جہاں تک قوت برداشت کو بڑھانے کا تعلق ہے یہ اچھی بات ہے۔ جو کچھ بھی گزرے انسان کو اپنی زبان پر جہاں تک مقدور ہو ضبط کرنا چاہئے اور اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے اگرچہ انسان کو تکلیف زیادہ ہوتی ہے لیکن فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بعد میں آنے والے جن کے سامنے وہ تحریریں نہیں ہیں جن سے مجبور ہوکر ایک آدمی سخت کلامی پر اتر آتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کی طرف سے ہی زیادتی ہوئی ہے اور یہ نہیں کرنا چاہئے تھا اور بعض دوسرے لوگ جن کو ہم تبلیغ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی بعض دفعہ ہوسکتا ہے اس سے بداثر لیکر بدک جائیں تو اس غرض سے میں نے یہی فیصلہ کیا ہے اگرچہ مجھے اس بات کی پرواہ نہیں جس طرح مجھے لکھا گیا ہے کہ دنیا والے کیا کہیں گے۔ قطعاً مجھے پرواہ نہیں ہے۔ مجھے صرف اس بات کی پرواہ ہے کہ اللہ کی نظر میں مجھ سے ایسی غلطی نہ ہوگئی ہو جو خدا کو ناپسندیدہ ہو۔ اور اگرچہ وہ آیت کریمہ مجھے سہارا دے رہی ہے مگر پھر بھی یہ صرف ایک خوف ہے اس کے سوا کوئی خوف نہیں ہے۔ نہ ان کے جوابی حملے کا خوف۔ نہ کہ دنیا کیا سمجھے گی میری زبان کیسی تھی۔ ایک ذرہ بھی پرواہ نہیںہے کیونکہ وہ ایک بے اختیاری کا معاملہ تھا جو بے اختیار زبان سے دل کے جذبات پھوٹے ہیں اور کوئی صورت اور نظر نہیں آتی تھی ۔ مجھے کوئی لفظ ملتے نہیں تھے۔ تاہم جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس حکمت کے پیش نظر میرا فیصلہ یہی ہے کہ آئندہ جب یہ دوبارہ یہ درس دکھائے جائیں گے۔ Video میںاتنے حصے میں تھوڑا سا خلا ڈال دیا جائے اور یہ ظاہر کردیا جائے کہ یہاں کچھ زیادہ سخت لفظ تھے اور درس دینے والے کی ہدایت کے مطابق اس حصے کو کاٹ دیا گیا ہے اور جب وہ چھپے گا تو پھر چھپتے وقت بھی یہ آجائے کیونکہ ورنہ پھر یہ تاریخ بدلنے والی بات ہوگی۔ جو نکل چکا ہے منہ سے۔ اسے اب واپس تو نہیں لے سکتے مگر اس کے متعلق یہ اصلاحی کارروائی کرسکتے ہیں کہ دوسرے ایڈیشن میں اس کو نہ ظاہر کریں مگر ذکر کردیں کہ یہاں کچھ سخت کلامی تھی جسے بعد میں یہاں سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔میں نے کہا وقت ! کل کی طرح نہ ہو بتا دیں مجھے ابھی کافی وقت ہے۔
ہاں ! تہمینہ قریشی نے جو چوہدری اعجاز احمد صاحب کی بیٹی ہیں انہوں نے توجہ دلائی ہے کہتی ہیں میں پرانا جو درس تھا جس میں مختصر بہائیت کا بھی ذکر آیا تھا تحقیق کے سلسلے میں وہ کیسٹ سے سن رہی تھی کیونکہ میں اس دن موجود نہیں تھی تو وہاں آپ نے لفظ ’’نقطہ‘‘ کو مرزا یحییٰ کی طرف منسوب کیا ہے جو بہاء اللہ کا بڑا بھائی تھا ۔ تو یہ درست ہے ؟وہ دراصل یہ یاد دلانا چاہتی ہیں کہ درست نہیں ہے۔ بات ہے کہ نقطہ کا جو لقب ہے یہ خود بہاء اللہ کا لقب تھا اس کے بھائی کا نہیں تھا اور نقطہ سے مراد ان کی یہ ہے کہ ساری کائنات کے مقاصد سمٹ کر اس ایک ذات میں اکٹھے ہوگئے ہیں۔ یہی تمام سچائیوں کا مرکز ہے۔ اس لحاظ سے بہاء اللہ کو نقطہ کہا جاتا تھا یہ بھی ریکارڈ ہوجانا چاہئے کہ غلطی سے میںنے کسی اور کے متعلق کہہ گیا تھا لفظ نقطہ۔
افمن اتبع رضوان اللہ ……واللہ بصیر بما یعملون O (آل عمران 163-164)
یہ دو آیتیں ہیں مگر مضمون اس طرح ملا جلا ہے کہ ان کو الگ الگ آیت کے طور پر لینے کے بجائے دونوں کا اکٹھا درس ہوگا۔لفظ بئس کے متعلق لغوی بحث ہے میرا خیال ہے اس کی یہاں ضرورت نہیں ہے کہ جب استعمال ہوتا ہے تو مخصوص بالذم کس کو کہتے ہیں ۔ فاعل کیا ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اتنی سی بات سمجھنی کافی ہے کہ بس چیز کے متعلق ’’بئس ‘‘ کہا جائے اس کے متعلق یہ اظہار ہے کہ ’’کیا ہی برا ہے‘‘۔ ’’کیسی بُری چیز ہے‘‘۔ناپسندیدگی کے اظہار کیلئے اور متوجہ کرنے کیلئے یہ چیز خصوصیت کے ساتھ برائی رکھتی ہے بئس کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
المصیر: اس کا ہم نے کہیں ٹھکانہ ترجمہ کردیا کہیںلوٹنے کی جگہ وغیرہ وغیرہ۔ میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ مختلف معانی جو اس ایک لفظ میں موجود ہیں ان کی رو سے یہ سب قسم کے ترجمے جائز ٹھہرتے ہیں۔ اس لئے میں تفصیل سے سمجھا دوںکہ ’’مصیر‘‘ کس کو کہتے ہیں۔صار کسی چیز کے کسی خاص حالت تک پہنچنے کو کہاجاتا ہے۔ صار الرجل فلانافلاں شخص یہ ہوگیا۔ تو ایک کیفیت سے کسی دوسری کیفیت کی طرف منتقل ہونے کیلئے لفظ ’’صار‘‘ استعمال ہوتاہے۔
(نوٹ: یہاں پر دو تین جملے نشریاتی رابطہ میں خرابی کی وجہ سے Miss ہوگئے ہیں)
........ اسی لئے تاج العروس اورمحیط نے اس کا ترجمہ جمع ہونے کی جگہ بھی کردیا ہے ۔اس نسبت سے کہ وہاں سب پانی اکٹھے ہوگئے یعنی سب چیزیں وہاں جمع ہوگئیں۔ابن فارس نے کہا ہے کہ اس کے بنیادی معنے مآل اور مرجع کے ہیں یعنی لوٹنا اور انجام۔ پس جب ہم کہتے ہیں بہت ہی بری لوٹنے کی جگہ ہے تو یہ بھی درست ہے۔ یعنی مرجع یہ ہے آخر کار وہاں پہنچنا ہے۔
راغب نے کہا ہے اور یہ بڑی تفصیل گہرائی سے اس مــضمون کی نوعیت اس کی کنہ بتاتے ہوے سمجھاتے ہیں کہ یہ کیوں استعمال ہوتا ہے اور اس میں کیا حقیقت ہے۔ فرماتے ہیں ۔ صار سے مراد چونکہ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونا ہے اس لئے المصیراس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز انتقال حرکت کے بعد پہنچ کے ختم ہوجاتی ہے۔ آگے پھر کوئی حرکت نہیں ہے۔ پس جب کہتے ہیں بئس المصیرتومراد ہے۔ جس کا انجام کار آخری رخ جہنم کی طرف ہو اور اس کے بعد پھر آگے کوئی اور چلنے کی جگہ باقی نہ رہے۔ وہاں پہنچ کر ٹھہر جانا جس کے مقدر میں ہو وہ بڑا ہی بدنصیب انسان ہے۔ پس وہ آخری مقام ان لوگوں کا مصیر کے طور پر بتایا گیا ہے کہ اس کے بعد پھر کوئی اور رخ نہیں۔ ان کے تمام رخ ایسی جہنم کی طرف ہیں جو ان کی آخری منزل ہے۔ اس سے آگے پھر کوئی منزل نہیں ہے۔
شان نزول کی بحث جیساکہ میں نے دیکھا ہے اکثربہت اس کا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم کی شان نزول تو ساری انسانیت ہے اور انسانی مسائل ہیں۔ اور وہ مسائل دنیا کے کسی وقت ‘ کسی زمانے‘ کسی مقا م اور کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں وہ قدر مشترک ہے انسانیت کی۔ اس لئے قرآن کریم کی شان نزول پر ایسا زور دینا کہ بعض خاص واقعات سے باندھ دینا یہ مناسب نہیں ہے۔ قرآن کی شان کے خلاف ہے۔ یہ تو سب دنیا کیلئے کتاب ہے اور ہرزمانے کیلئے ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض دفعہ اگر یہ قطعی طور پر علم ہو کہ آیت ایسے وقت نازل ہوئی جب ایک واقعہ رونما ہوا تھا تو اس واقعہ کی تشریح میں ہمیں مدد ملے گی لیکن واقعہ قرآن کی تشریح کو محدود نہیں کرسکتا۔ اس احتیاط کو پیش نظر رکھتے ہوئے بے شک شان نزول کی بات کیا کریں۔ یعنی شان نزول سے مرادیہ صرف قرآن کے تعلق میں لی جائے گی کہ اگر کوئی واقعہ اس وقت ایسا ہوا ہے جس کے متعلق آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کی حقیقت کیا تھی تو جو آیات اس عرصے میں نازل ہوئی ہیں ان کی روشنی میں اس واقعہ کی حقیقت کو پرکھیں۔ درست ہے لیکن آیت کے معنی کو یا آیات کے معانی کو اس واقعہ سے باندھ کر محدود کردینا یقینا غلط ہے۔ اور نہ ہی اس واقعہ کا ترتیب پر کوئی اثر ہے۔ اور یہ خصوصیت سے پیش نظر رکھنے والی بات ہے کہ آنحضرت ﷺ پر مختلف اوقات میں آیات نازل ہوئی ہیں لیکن آپ نے اس ترتیب کو آخری ترتیب قرار نہیں دیا بلکہ جبرئیل علیہ السلام جب تشریف لاتے تھے حاضر ہوتے تھے رسول اللہ ﷺکی خدمت میں تو بتاتے تھے کہ اس آیت کو فلاں جگہ رکھنا ہے اوراس آیت کو فلاں جگہ رکھنا ہے اور جب قرآن کریم کو مرتب کیا گیا آخری صورت میں تو ہر آیت کے متعلق گواہیاں لی گئی ہیں۔ حضرت عثمان ؓ جن کے متعلق یہ شیعہ نعوذ باللہ بڑی سخت بد کلامی کرتے ہیں۔ ان کا یہی احسان امت پر ایک عظیم الشان احسان ہے اور اُس کی ان کو تکلیف بھی بڑی ہے۔ کہتے ہیں یہ وہ قرآن نہیں ہے نعوذ باللہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا بعینہٖ وہ نہیں ہےTruth but not the whole truthکہتے ہیں ہے تو سہی Truth لیکن Whole Truth نہیں ہے اور بہت سی آیتیں عمداً نکالی گئیں تاکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں گواہی نہ ہو۔تو وہ کلام جس کے متعلق فرمایا لاریب فیہاس کو ان ذاتی اختلافات کے پیش نظر ایسی کتاب بنا دیا جس میں ریب کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ کوئی پتہ نہیں کہاں سے کوئی آیت نکالی گئی کہاں سے اٹھائی گئی اور اسی لئے دشمنان اسلام کو یہ موقعہ ملا جیساکہ Bell کوملا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ جو قرآن کریم کی ترتیب ہوئی ہے۔ یہ توبالکل انسان نے اپنے طورپر جو چاہا اٹھا کر ادھر سے وہاں رکھ دیا اور وہاں سے اٹھا کر ادھر رکھ دیا۔ اور اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ کوئی وحی نہیں۔ یہاں تک کہ وہ آگے بڑھتا ہے۔ کہتا ہے کہ میرے نزدیک تو قرآن مکے میں نازل ہی نہیں ہوا۔ کہتا ہے اس کا آغاز ہی مدینہ سے شروع ہوتا ہے۔ اب یہ اتنی بڑی جہالت کی بات جس کو سارے مستشرقین رد کررہے ہیں اس کی وجہ کیا بنی؟ اسکی وجہ یہ شان نزول اور تفسیر میں بعض آیات کے غلط معنی ہیں مثلاً
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآنرمضان میں قرآن اتارا گیا اور یہ کہتا ہے کہ رمضان شروع ہوا ہے مدینے میں اس لئے جب مدینے میں رمضان شروع ہوا تو قرآن بھی رمضان ہی میں شروع ہوا تو یہ جتنے بھی اعتراض کرتے ہیں اس کی کوئی نہ کوئی بنیاد مفسرین کی بے احتیاطیوں میں ہے اس لئے آپ کو بڑی ہوشمندی کے ساتھ ان باتوں کا جائزہ لینا چاہئے۔ قرآن کریم نے جہاں خود اپنی شان کو بیان فرمایا ہے اس کا کسی شان نزول سے ان معنوں میں کوئی تعلق نہیں ہے کہ اُس قرآنی آیت کے مفہوم کو پابند کررہی ہو۔’’فیہ‘‘ کا مطلب یہ بھی تو ہے جیسا کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں کہ رمضان کی برکات جتنی بھی ہیں وہ تمام تر قرآن سے تعلق رکھتی ہیں اور قرآن جو تزکیہ نفس کا پروگرام آپ کے سامنے رکھتا ہے وہ سارا پروگرام رمضان میں دہرایا جاتا ہے۔اس لئے تاریخی حقائق کو نظر انداز کر کے............
بہرحال اب میں شان نزول کی باتیں ان کی شروع کرتا ہوں۔ جب رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوںکو احد کے دن باہر نکلنے کا حکم دیا تو ایک جماعت منافقین کی بیٹھ گئی اور بعض مومنوں نے ان کی پیروی کی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔یہاں پر ذکر یہ ہے کہ خدا کی ناراضگی حاصل کرنے والا جہنمی ہے خدا کی راۃ میں جب آیت پر واپس جاؤں گاپھر میں نارضگی کی بات کروں گا بتاؤں گا اب تفصیلی بحث سے پہلے میں اس کا عام ترجمہ جیسا کہ پیش کیا ہے اس کی روشنی میں اس مضمون کی حقیقت بیان کرتا ہوں۔یہ آیت واقع ہوئی ہے اس آیت کے معاً بعد جہاں نبی کے بددیانتی نہ کرسکنے کا ذکر ہے یعنی اس بات کا کوئی دور کا بھی احتمال نہیں کہ محمد رسول اللہ تو محمد رسول اللہؐ‘ کوئی اور نبی بھی امانت میں خیانت کرے اور وہ اس امانت میں خیانت کرے جو اللہ نے اس کے سپرد فرمائی اور وہ امانت تمام امور دینیہ سے تعلق رکھتی ہے خواہ وہ چھوٹے ہوں خواہ بڑے ہوں۔ اس کے بعد اس کا اگلا قدم اٹھایا گیا ہے۔افمن اتبع رضوان اللہوہ وجود جس کی ساری زندگی اللہ کی رضا جوئی میں صرف ہوئی ہو۔ اسے کوئی دنیا کی طلب نہ ہو اس کا اٹھنابیٹھنا۔ جاگنا سونا اس کا زندہ رہنا اس کا مرناسب کچھ خدا تعالیٰ کیلئے ہوچکا ہو۔ کیا اس کو ایسے شخص سے برابر کرتے ہو۔کمن باء بسخط من اللہ ‘‘جو خدا کی ناراضگی لیکر لوٹنے والا ہو۔ یہ مضمون وہی دیانت اور بددیانتی کا مضمون چل رہا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے مدارج کا ذکر ہے۔ پہلے نفی ہے جو سبحان کا رنگ رکھتی ہے اور دوسری آیت حمد سے تعلق رکھتی ہے کہ محمد رسول اللہﷺ کے اندر نقصان تلاش کرو گے ‘ خرابیاں ڈھونڈو گے تو تمہاری نظریں تھکی ہوئی واپس لوٹ آئیں گی۔ تمہیں اس پاک ذات میں خیانت کا کوئی شائبہ بھی کہیں دکھائی نہیں دے گا۔ لیکن آگے چلو اس کی ساری زندگی تو رضا جوئی میں صرف ہوئی ہے اللہ کی رضا ڈھونڈتے گزری ہے۔ اس کا اُس سے کیا تعلق‘ اس شخص سے جو خدا کے غضب لیکر لوٹنے والا ہو۔ یعنی بددیانت ہو اور خیانت کرنے والاماوٰہ جھنماور ایسے شخص کا ٹھکانہ تو جہنم ہے۔وبئس المصیر اور بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔ یا بہت بُری لوٹنے کی جگہ ہے۔ بہت برا مقام ہے جہاں جب تم پہنچو گے تو اس کے بعد اور تمہارا کوئی مقام نہیں ہے۔ پھر وہیں ٹھہر جائو گے۔ھم درجٰت عنداللہیہ دونوں گروہ ایسے ہیں جن کے اپنے اپنے درجے ہیں۔واللہ بصیر بما یعملوناور اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے اس کو جو وہ کرتے ہیں۔یہاں درجات کے متعلق مختلف مفسرین نے مختلف توجیہات پیش کی ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی درجات کی بحث کی ہے اپنے نوٹس میں۔ درجات کے متعلق فرماتے ہیں کہ درجہ سے مراد اہل درجہ بھی ہوتا ہے ........ کوئی چیز اگر مجسم ہوجائے تو اس کا اسم بنانے کی بجائے اسم مصدر پیش کیا جاتا ہے یعنی وہ صفت پیش کردی جاتی ہے جیسے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا ذکراً رسولاًیعنی مجسم ذکر الٰہی ۔ مراد ہے ذکر کرنے والا۔ تو ھم درجاتسے مراد ہے وہ لوگ مختلف درجوں والے ہیں۔ایک معنٰی تو یہ ہے ۔ دوسرا ٰ یہ ہے کہ مختلف درجوں میں تقسیم لوگ ہیں۔ ان کے مختلف مراتب ہیں۔ ایک جیسے نہیں ہیں۔ پہلے انبیاء کا ذکر تھا کہ انبیاء ہر طرح سیغل کے ظلم سے اور اس کی ناپاکی سے پاک اور بری ہیں۔جہاںسبحان کا تعلق ہے وہ سب میں قدر مشترک بن گئی ہر نبی پاک ہے۔ جہاں رضوان کی بات ہورہی ہے۔ کیا سارے برابر اللہ کی رضوان والے ہیں؟ تو فرمایا نہیں یہاں فرق ہے۔ھم درجاتکوئی اس درجے پر ہے کوئی اس درجے پر ہے۔ اور محمد رسول اللہﷺ ان سب سے اعلیٰ اور افضل درجے پر فائز ہیں تو وہاں ان کو برابر نہ سمجھنا ہر ایک اپنا اپنا درجہ رکھتا ہے اور اسی حوالے سے ظلی طور پر یہ مضمون صحابہؓ پر بھی صادق آتا ہے کہ صحابہ کرام بھی اپنے اپنے درجے کی رضوان طلب کرتے رہے اپنی اپنی توفیق کے مطابق اللہ کی رضا جوئی کرتے رہے اور پھر ان کے بھی پھر آپس میں درجے ہیں۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی نمازکے ظاہر سے اس کو نہ پہنچانو کیونکہ دیکھنے والی بات یہ ہے کہ پڑھتا کیسے ہے اور اس کے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔پس اس کی ایک نماز دوسروں کی 70 نمازوں سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ تویہ مراد ہے درجات سے۔ اور یہ درجات جو ہیں یہ اللہ کے علم میں ہوتے ہیں یا اللہ والوں کے علم میں ہوتے ہیں۔ پھر درجات کا تعلق ان لوگوں سے بھی ہے جوباء بسخط من اللہ وماونہ جھنمایسے شخص کے درجات بھی ہوتے ہیں مختلف جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی لیکر لوٹا ہو اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہو۔و بئس المصیر ‘‘اور کیا ہی بُری لوٹ کر ٹھہر جانے کی جگہ ہے۔
اب میں مفسرین کی طرف پھر واپس آتا ہوں۔ ان سب نے الا ماشاء اللہ میرے علم میں تو جتنے ہیں انہوں نے اس مضمون کو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے رجحان ہے شان نزول ہی سے باندھ رکھا ہے۔ آگے نہیں بڑھتے۔ اور کہتے ہیں کہ یہاں جنگ میں شامل ہوکر دیانت داری کرنے والے اور جنگ میں شامل ہوکر بددیانتی سے کام لینے والے والے مراد ہیں۔
قرطبی کہتا ہے افمن اتبع رضوان اللہ کمن باء بسخط من اللہ ۔۔۔۔الایۃیعنی خیانت ترک کرنے والے اور جنگ میں ثابت قدمی دکھانے والے اور کافر خائن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنگ کے دوران ساتھ چھوڑ دینے والا برابر نہیں ہوسکتا۔ یعنی یہ لوگ برابر نہیں ہوسکتے۔ نہیں بلکہ دوسری قسم کے لوگ اگر توبہ نہ کریں تو ان کا ٹھکانہ جہنم ہوگا۔ یہ انہوں نے توبہ کی شرط اس لئے لگادی کہ خود قرطبی کو یہ یقین ہی نہیں آسکتا تھا کہ وہ صحابہؓ جن کے پائوں اُکھڑے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما چکا ہے کہ میں بخش چکا ہوں۔ان کا ترجمعہ اگر درست ہو ان کی تفسیر اگر درست ہو تو وہ سارے جہنمی بنتے ہیں تو ان کو جہنم سے بچانے کیلئے یہ نہیں کہتے کہ اگر یہ وہی ہیں تو ان کے متعلق تو خدا فرما چکا ہے کہ میں معاف کرچکا ہوں ‘ یہ ہو ہی نہیں سکتے وہ ! یہ کہتے ہیں کہ توبہ کی شرط ہے کہ ابھی خطرے میں ہیں اگر توبہ نہ کی تو پھر ٹھکانہ جہنم ہوگا۔اب یہ جو تفسیر ہے یہ وہی تفسیر ہے جو آگے شیعہ علماء کرتے ہیں اور اس میں پھر بڑی شدت اختیار کرجاتے ہیں۔
جہاں تک Wherry کا تعلق ہے وہ لکھتا ہے۔کہThere should be degrees this explain ....of Verse163:God will reward his servants in accordance with their works. The brave companions See note Verse 162 need not be troubled by an equal division of the booty. God will reward, for "God seethwhat he do."
ابھی تک دماغ میںbootyسوارہے اس شخص کے بوٹ کا ایک مطلب جوتی بھی ہوتا ہے۔ پر میں یہ کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ ہماری جو خاتون ہیں ان کی دلآزاری ہوگی۔ یہ Booty ایسی دماغ پر سوار ہے کہ کہتا ہے کہ اس آیت میں بھی Booty کا ہی ذکر چل رہا ہے سارا۔ کہتا ہے جو Booty والے ہیں وہ برابر نہیں ہوسکتے ان کے جو بغیر Booty والے ہیں۔ لیکن کہتا یہ ہے کہ ان کو تسلی دلائی گئی ہے کہتا ہے۔Bootyوالے ایسے تھے رسول اللہﷺنے جب سب برابرتقسیم کردیایہ بھی مان گیا ہے کہ وہ جو شبہ تھا اوپر والوں کا وہ جھوٹا نکلا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو برابر مال تقسیم کردیا۔ اب جب برابر تقسیم کردیا تو پھر جنہوں نے زیادہ جنگ میںحصہ لیا تھا ان کے دل میں شکوہ ہوسکتا تھا کہ لڑے تو ہم ہیں اور مال سب کو برابر جارہا ہے۔ تو ان کی تسلی کیلئے یہ اللہ تعالیٰ نے کہا یعنی ساری توجہ اس طرف ہے کہ کوئی بات نہیں ہم آگے جاکے تمہیں دے دیں گے۔ گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ اب سنئے !
The Holy Quran version of the Ahlul Bait and Special comments from Aayatuallh Agha Haji Mirza Mahdi Poya Yazdi.
1998 ء میں یہ کتاب شائع ہوئی ہے۔ٹائٹل یہ بتاتا ہے Tehrik-e-Tarsil-e-Quran Incorporated کی طرف سے ۔ سورۃ آل عمرا ن152 سے لیکر 172 آیات تک کہتا ہے ان کا ایک ہی ٹائیٹل ہوگ
The faithful identified from the hypocrates of the battle of Uhad,
کہ جو وفادار تھے جنگ احد میں وہ منافقین سے ممتاز کرکے الگ دکھا دئیے گئے اور وہ کتنے تھے اور کون تھے ان کی تفصیل بیان کرتا ہے۔
ترجمہ پہلے یہ ہے 163 کا
Is he who follow the pleasure of Allah like him who draws on himself the wrath of Allah and whose abode is hell and an evil retreat it is, the one who stood by the Holy Prophet fighting in the cause of God to the end, and he who has made himself deserving ofthe wrath of God must naturally be those who flud away from the battle field.
کہتا ہے وہ ایک شخص جو رسول اللہ ﷺکے ساتھ رہا آخر تک ایک شخص کا تو میں نے حال کھول دیا ہے۔ بتادیا ہے کہ ہے ہی جھوٹ۔ اور جن صحابہ کو کہتا ہے کہ بھاگ گئے تھے خلفاء وغیرہ۔ وہ موجود تھے قطعی گواہیاں موجود ہیں۔ لیکن میں اس بحث کو دوبارہ نہیں چھیڑتا۔ میں ان کی ذرا سوچ آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ کہتا ہے۔
The one who stood by the Holy Prophetیہاں "The one" کا مطلب کوئی بھی ہوسکتا ہے مگر ان کے One سے مراد ایک ہے صرف۔ کہتے ہیں۔
It is quite abvious that this verse intends clearing the unique position of Ali in context to that of others who claim to be superior to him.
تان اسی بات پر ٹوٹتی ہے کہ خلافت دوسروں کو کیوں مل گئی؟ اور یہ جو جرم ہے یہ تو معاف ہو ہی نہیں سکتاکسی قیمت پر۔ تو "One" سے مراد وہ لیتا ہے ایک علیؓ محمد رسول اللہ ؐ کو تمام صحابہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اور ایک علیؓ باقی رہا اور ان تمام صحابہ کے متعلق فتویٰ ہے کہ وہ جہنمی ہیں۔بئس المصیر : اور ان کا وہ ٹھکانہ ہے جس سے آگے پھر ان کا نکلنے کا کوئی رستہ نہیں ہے۔قطعی گواہی یہ قرآن کریم کی پیش کررہے ہیں کہ اب بتائو ان کو کس طرح بچائو گے؟ نعوذ باللہ من ذلک تمہارے بغض کی جہنم سے؟ اس کے متعلق میں بعد میں بات کرتا ہوں لیکن قطعاً جھوٹ۔ بہتان قرآن کریم کی آیات کو توڑ مروڑ کر فرضی معنے بیان کرنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے۔ سیاق و سباق سے جو مضمون بنتا ہے وہ میں نے نکال کے دکھا دیا ہے اور اس پر ایسی بات منسوب کرنا اور پھر اس کے متعلق تمہیں حق کیسا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔عفا اللہ عنھماللہ فرماتا ہے میں نے معاف کردیا ہے شیعہ کہتے ہیں ہم نے نہیں کیا اس لئے جہنم میں ڈال کے دکھائیںگے۔ تم کہاں سے ڈال سکتے ہو جہنم میں؟ تمہیں تو اپنی فکر کرنی چاہئے کہ تم کہاں کے انسان ہو۔ وہ تین آیات جن کا میں نے ذکر کیا تھا اُن تین آیات میں تو تم لوگوں کا ذکر نہیں ہے۔ تبرا کرنے والوں کا۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے نجات کی خوشخبری دی ہے۔اس لئے صحابہ کرام کو جہنم میں جھونکنے کی بجائے اپنی فکر کرو۔ اور اس سے زیادہ میں اور کیا کہہ سکتا ہوں ۔ لیکن آگے جاکے میں ان کی دلیلیں لیتا ہوں اور ان کا جواب دیتا ہوں۔
There could be little or no purpose at all in calling attention to a most abvious thing unless it is precautionary measure or a warning before hand against those who have earned the wrath of God being prefered to the personality so abviously superior to the others.
کہتا ہے : یہ تو کھلی کھلی بات ہے کہ حضرت علی ؓ کے سوا سب صحابہ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے تھے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی ایک بھی نہیں رہا تھا اور نرغے میں گھرے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچانے کیلئے حضرت علی ؓ کبھی ایک طرف چلے جاتے تھے اور دشمن انتظار کرتا رہتا تھا کہ واپس آئیں تو پھر ہم رسول اللہ ﷺپر حملہ شروع کریں اور پھر جب وہاں سے فارغ ہوکے واپس آتے تھے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے اب یہ آ رہے ہیں ان کو پکڑہ تو پھر ان کی طرف نکل جاتے تھے، اور باقی انتظار کرتے تماشا دیکھ رہے ہوتے تھے کہ علیؓ واپس آجائے گا تو پھر ہم حملے کی کوشش کریں گے۔ لیکن پھر ایک اور طرف سے خطرہ پیش آجاتا وہاں چلے جاتے تھے علیؓ ۔ موقعہ ہی نہیں ملا دشمن کو کہ کب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوں اورحملہ کرسکیں ہم۔ یہ ہے ان کا تناظر جس میں یہ جنگ احد کو دیکھ رہے ہیں۔ اس سے بڑی جہالت ہو ہی نہیں سکتی۔دنیا کی باتیں چھوڑو کوئی دنیا کا کم سے کم فہم والا انسان بھی اگر تعصب کے ساتھ بالکل پاگل نہ ہوچکا ہو۔ یہ تصور باندھ ہی نہیں سکتا۔ لیکن خیر ! یہ انہوں نے تصور باندھا کہتے ہیں ۔ ہوا کیوں ؟ یہ تو ظاہر بات تھی ایک ہی تھا۔ تو خدا کو توجہ دلانے کی ضرورت کیا تھی؟کہتے ہیں یہ وارننگ (Warning ) تھی کہ دیکھو ! اگر کوئی خلافت کا حق دار ہے تو علیؓ ہے ! اور یہ سارے نعوذ باللہ من ذلک جہنمی لوگ ہیں جن کے متعلق ہم نے فیصلہ دے دیا ہے کہ جہنم میں جانے والے ہیں تم ان کو اپنا سردار نہ بنا بیٹھنا۔ یہ نصیحت تھی۔لیکن ظلم کی حد ہے۔ جس کے حق میں یہ نصیحت تھی اس کو سمجھ نہیں آئی۔ Pooya صاحب کو سمجھ آگئی۔ حضرت علیؓ نے انہی کے ہاتھ پہ جاکے بیعت کرلی۔
وہ سب سے بڑا جو نعوذ باللہ من ذلک۔ نعوذ باللہ من ذلک جہنم کا سردار تھا۔ پہلے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا پھر کہا کہ ابھی پوری گرمی نہیں ائی پھر دوسرے نعوذ باللہ جہنمی کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیا۔ہاتھ کے نیچے ہاتھ رکھ دیا ۔ پھر کہا ابھی بھی پوری تسلی نہیں ہوئی تیسرے کے نیچے ہاتھ رکھ دیا۔ یہ حضرت علیؓ کا کردار ہے تمہارے نزدیک۔ پہلے آقا بھی وہ چُنے جن کے متعلق تمہارا فتویٰ ہے کہ وہ جہنمی تھے اور مرید بھی وہ اختیار کرلیا جو سارے جہنمی تھے تمہارے نزدیک۔قرآن نے دعا سکھائی تھی۔ حضرت علیؓ قرآن کے مفسر ۔ عظیم الشان اور گہرا علم رکھنے والے۔ ان کو یہ پتہ نہیں تھاکہ قرآن کہتا ہے یہ دعا کیا کرو۔واجعلنا للمتقین امامااے ہمارے رب ہمیں متقیوں کا امام بنا نا! فاسقوں فاجروں‘ منافقوں کا امام نہ بنانا ۔ تو اگر حضرت علیؓ متقی تھے واقعتاجیسا کہ ہم سب مانتے ہیں تو ابوبکرؓ کی دعا تو سنی گئی۔ عمرؓ کی دعا سنی گئی۔ عثمانؓ کی دعا سنی گئی کہ اس متقی نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے ان کی امامت کا مرتبہ بلند کرکے دکھا دیا اور انہیں متقیوں کا امام ثابت کردیا نہ کہ منافقوں کا امام۔ اور علیؓ کن کے امام بن بیٹھے جو سارے منافقوں کے گروہ تھے۔ ان سب کو کہا آئو میری بیعت کرلو۔ اب ٹھیک ہے۔ اور انہوں نے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ جو اول تھے۔ ان کو اول کہتے رہے۔ اب یہ ہے مضمون جس کو یہ پتہ نہیں سوچتے نہیں غور نہیں کرتے یا تعصب کی راہ سے دنیا کو دھوکہ دینے کیلئے فرضی کہانیاں گھڑتے چلے جاتے ہیں۔
اب ایک اور بہت اہم سوال ہے جس پر میں ابھی آتا ہوں۔ عام بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے بڑے بہانے‘ بڑے طریق اختیار کر رکھے ہیں عامۃ الناس مسلمانوں کو دھوکے میں مبتلا کرنے کیلئے اور مولوی بھی اتنا بے وقوف ہے بے چارہ اس کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ ہم سے ہو کیا رہا ہے۔ سپاہ صحابہ بنائی تو وہ بھی غلط رستے پر جس کی قرآن اجازت نہیں دیتا۔ اختلاف مذھب ہو اس میں گالی گلوچ ہو۔ قرآن تو یہ بھی اجازت نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس نے نعوذ باللہ سب سے ذلیل قرار دیا تھا۔ اس کے خلاف بھی تم خود سزا کو اپنے ہاتھ میں لے لو۔ قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ کے دیکھیں۔ اس کا جواب صرف اتنا خدا تعالیٰ دیتا ہے کہ عزت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور تمہارے کہنے سے نہیں بنے گا۔ اس نے جس کو عزت دینی تھی اللہ نے وہ دے دی ہے۔ تم جو مرضی منہ سے بکواس کرتے رہو کوئی فرق نہیں پڑتایہ جواب ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ قتل و غارت کردو اس کو۔ لیکن ان لوگوں نے مسلک بھی پکڑا تو وہ بھی غلط کہ صحابہ پر جو بدکلامی کرتے ہیں ان کو قتل و غارت کرو۔ لیکن وہ جب ان سے ہوشیاری سے کام لیتے ہیں ان کو پتہ ہی نہیں لگتا کہ کیا ہوشیاری ہوگئی ہے۔
ایک زمانہ تھا پاکستان میں بڑا چرچا تھا اس گانے کا ’’دمادم مست قلندر‘ علیؓ دا پہلانمبر‘‘گلی گلی بچے گاتے پھرتے تھے۔ان پاگلوں کو پتہ ہی لگا لفظ پاگل پھر غلطی ہو گئی معاف کرنا۔ ا ن سادہ مزاج لوگوں کو پتہ ہی نہیں لگا کہ کہہ کیا رہے ہیں؟ یہ کہہ رہے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کا پہلا نمبر نہیں تھا۔ عمر ؓ کا پہلا نمبر نہیں تھا۔ عثمانؓ کا پہلا نمبر نہیں تھا۔ علی ؓ کا پہلا نمبر تھا۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں گھر میں آیا تو میری بچیاں چھوٹی چھوٹی تھیں ۔ اتنا اس کا چرچہ تھا اس زمانے میں کہ انہوں نے کہا۔’’دمادم مست قلندر علیؓ دا پہلا نمبر‘‘میں نے کہا۔ ناں ! تم یہ کہا کرو۔’’ علی ؓ دا چوتھا نمبر‘‘پھر پڑھو ! پھر انہوں نے یہی پڑھنا شروع کردیا۔
’’دمادم مست قلندر علیؓ دا چوتھا نمبر‘‘
میں نے کہا اس عام جو ہردلعزیز رو ہے اس سے میں ہٹا کر تو ان کو نہیں الگ کرسکتا تو درست کرکے اسی رو پر چلنے دیتا ہوں۔ بے شک گانے گاتی پھریں۔تو یہ حال ہے۔یہ کہتے ہیں کہ جب تک حضرت علیؓ خلیفہ نہیں بنے۔ اس سے پہلے تمام تر جہالت کا دور تھا اور منافقین اور منافقین کے سردار جہنمی وہ امور خلافت پر قابض ہوئے بیٹھے تھے۔
ایک دفعہ ایک شیعہ دوست سے میری گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا یہ تو ہمیں پتہ ہے کہ بیعت کی تھی لیکن بیعت کی تھی تقیہ کے طور پر۔ مجبوری تھی۔ اس کا میں جواب دے چکا ہوں۔ ایک اور بات میں نے ان سے پوچھی۔ میں نے کہا آپ نے یہ بھی سنا ہے کہ جو شخص امام وقت کو نہ پہچانے۔من لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ الجاھلیۃ۔کہ وہ جہالت کی موت مرتا ہے۔ کہا : ہاں یہ درست ہے۔ میں نے کہا : پھر حضرت علیؓ نے اپنا ہاتھ تو نعوذ باللہ من ذلک کسی منافق کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اور اپنا ہاتھ بیعت کیلئے آگے نہیں بڑھایا اور امام وہ تھے۔ تو وہ بے چارے جو مر گئے اس عرصے میں اُن کا کیا قصور؟ ان کی جاہلیت کی موت مرنے میں کس کا قصور ہے؟ جن کو خدا تعالیٰ نے زندہ رکھا چوتھی خلافت تک وہ ہم سمجھ گئے کہ چلو خدا تعالیٰ نے بچالیاان کو۔ لیکن جو پہلے گئے ان کا کیا حال ہوا؟ کوئی ہاتھ تھا ہی نہیں۔ امام موجود تھا اور غائب رہا۔ تو ان کا غیبت امام کا مضمون جو ہے اس وقت سے چلا ہوا ہے۔ یعنی موجود امام بھی غائب تھا جو ویسے ہی غائب تھا اس بے چارے نے کہاں حاضر ہونا تھا۔
اب سنئے ! میر احمد علی صاحب فرماتے ہیں۔
He who tenaciously follows the pleasure of God must necessarily in all arguments of logic be the one described in Chapter 2-208.و من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ و اللہ رؤف بالعباد۔ and a mankind is he who sell himself seeking the pleasure of God and God hath compassion on his born men. 228.
COMMENTRY ON 228.The Sunni commentators suc has the Thalib, Ghazali and the authors of and all the sheeaah.
Commentators are unanimous saying that this verse was revealed in the Praise of Ali, when he readily slept in the bed of the Holy Prophet Muhammad when the letter in response to the will of the Lord had to suddenly migrate from Makka to Madina.
اس کے بعد میں بتاؤں گا کہ کیا کہتا ہے کہتا ہے کہ یہ جو Verse ہے 163 جس پر ہم گفتگو کررہے ہیں اس میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ افمن اتبع رضوان اللہوہ جس نے اللہ کی رضا کی ہر حالت میںپیروی کی ہے۔ اس سے مراد حضرت علیؓ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہیں گویا کہ اور اس کے ثبوت میں یہ وہ ایک آیت پیش کرتا ہے جس میں بڑی ہوشیاری کے ساتھ بعض سُنّی تفاسیر سے ایک دو حوالے اٹھاتا ہے اور اب میں بتائونگا آپ کو کہ کیا حال کرتے ہیں ان تفاسیر کا اور کتنی بددیانتی سے کام لیتے ہیں اُن تفسیر کے حوالوں میں یہ ابھی بعد میں چلے گا مضمون۔ اور اس کے بعد Unanimous کا لفظ اس طرح بولتا ہے گویا سب Unanimous ہیں۔ اور شیعہ تفاسیر سب Unanimous ہیں۔
شیعہ تفاسیر Unanimous ہیں اس آیت کے متعلق جو دوسری سورت کی 208 آیت ہے۔ لیکن دلیل اس کی کیا ہے؟ کوئی دلیل نہیں۔ ایک تفسیر ہے۔ اور جو عام کلام ہے۔ اللہ کا اس کو ایک شخص پر محدود کردیا۔ کسی انسان کو کیا حق ہے رحمتہ للعالمین کی رحمت کو جس کا اظہار قرآن کریم میں ہوا ہے۔ کسی ایک شخص سے باندھ دینا اور کہنا کہ کسی اور پر اس رحمت کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ۔عام مضمون ہے۔ معمولی سی عقل والے آدمی کو بھی سمجھ آجاتی ہے کہ یہاں یہ مراد ہورہی ہے کہ جو شخص بھییشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ اللہ کی مرضی کی خاطر اپنے آپ کو بیچ دیتا ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو بیعت کے تعلق میں قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے۔
ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم و اموالھم بان لھم الجنۃ۔
اب بتائیے یہ وہ ہے کہ نہیںمضمون۔اس آیت کا اس سے تعلق دکھائی دیتا ہے کہ نہیں؟ کتنا صاف صاف دکھائی دینے لگا ہے یہاں فرمایا ہے۔من یشری نفسہجو اپنا نفس بیچتا ہے۔ وہ آیت کہتی ہے کہ وہ سارے مومنین جو ایمان لائے ہیں وہ اپنی جانیں بھی بیچ دیتے ہیں اور مال بھی بیچ دیتے ہیں۔’’بان لھم الجنتہ‘‘ کیونکہ اس کے بدلے میں اللہ کی طرف سے انہیںجنت عطا ہوگی۔تو یہ عام سودا ہے بیعت کا سودا ۔ اسے صرف حضرت علیؓ سے خاص کرنے کے شوق میں اس آیت کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اور اس بحث میں اس کو لانے کے بعد پھر کہتے ہیں کہ
Revealed in the praise of Ali when he readily slept in the bed of the Holy Prophetؐ Muahmmad when the letter in response to the will of the Lord had to suddenly Migrate from Mecca to Madina.
اب آگے سنئے !خیال آتا ہے کہ ہجرت کے وقت تو حضرت ابوبکرؓ ساتھ تھے اور ابوبکرؓ پہ حملہ کئے بغیر حضرت علیؓ کی فضیلت بیان ہو نہیں سکتی۔ تو بڑے مخمصے میں پھنس جاتے ہیں کہ حضرت علیؓ تو بستر پر لیٹے تھے اور سفر پہ ساتھ کون گیا تھا؟ وہ خطرات کس نے مول لئے تھے؟ اور سب سے بڑا خطرہ تو تھا ہی وہی۔اگر آپ اس بات کو یاد رکھیں کہ حضرت علیؓ کا بستر پر لٹانا اس لئے نہیں تھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن میں یہ تھا کہ میری جگہ یہ قتل ہوجائے۔ آپ کو کامل یقین تھا کہ دشمنی مجھ سے ہے اور جب میری جگہ یہ علیؓ کو دیکھیں گے تو چھوڑ دیں گے اور یہی ہوا۔ کوئی گزند نہیں پہنچی۔ کسی نے ایک چٹکی بھی نہیں کاٹی حضرت علیؓ کو۔ کہتے ہیں کہ دیکھو ! یہ اتنا عظیم الشان خطرہ علیؓ نے اپنے ذمے لے لیا۔ اگر خطرہ تھا بھی یعنی بعید نہیں۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست نے وہ خطرہ محسوس نہیں کیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست اگر یہ نتیجہ نکالتی کہ علیؓ کو قتل کر دیں گے تو کبھی ایسا نہ ہونے دیتے۔ ویسے ڈمی بنا کے بھی تو چھوڑی جاسکتی تھی مگر بہرحال دور سے دیکھتے تھے کہ کوئی سویا جب انہوں نے جاکر دیکھا تو علیؓتھے رسول اللہ ﷺ نہیں تھے ان کوتے تو چھوڑ دیا۔ پیچھے پڑے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور وہ اس خطرے میں حضرت ابوبکرؓ ساتھ رہے ہیں یہ تکلیف ہے چونکہ اس لئے اس کو اپنے رنگ میں پیش کرنے کیلئے لکھتے ہیں۔
After leaving his residence the Holy Prophet proceeded out of the township to take his way to Madina when he found Abu Bakr Standing.......
اتفاقاً وہاں کھڑے نظر آگئے حالانکہ پہلے سے پروگرام طے شدہ تھا حضرت ابوبکرؓ کو نصیحت تھی کہاں پہنچیں۔ کس طرح آئیں۔ کیا لیکر آئیں۔ اور اس ساری بات کا ذکر کرنے کے بغیر یہ کہتے ہیں کہ رستہ چلتے جارہے تھے کہ راستے میں ابوبکرؓ کھڑے مل گئے۔ وہ اس آدھی رات کو وہاں کھڑے کر کیا رہے تھے؟
کہتے ہیں
Leter the second caliph who according to the order issued by the Holy Prophet to all his followers had not have left his residence.
اب یہ کنفیوژن ہے ابوبکرؓ تو پہلے خلیفہ ہیں۔ یہاںLater the Second Caliphکہہ دیا ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کیا اس میں غلطی ہے۔ Type کرنے والے نے کیا ہے یا یہ حضرت عمرؓ کے ذکر کو بیچ میں داخل کر بیٹھے ہیں۔
However the Holy Prophetؐ took Abu Bakr with him ....
یہ مانتے ہیں۔
and took refuge into a cave in a mountain. When the enemy approached the mouth of the cave and their voices were heard, into the cave Abu Bakr got frightened and began to cry aloud saying that they were lost.
کہتے ہیں یہ تو خطرے کا موجب بن گیا ۔ اونچی آواز سے بولا جس کی آواز باہر چلی گئی۔ یہ ظاہر کررہے ہیں۔ کیسا ناپاک جھوٹا ‘ کمینہ حملہ ہے۔ قرآن تو کہتا ہے کہ وہ کھڑے باتیں کرتے رہے ان کی آواز پہنچ رہی تھی نیچے سے کوئی آواز نہیں آئی۔اگر آواز آئی ہوتی تو وہ پاگل تھے واپس چلے جاتے وہاں سے؟ انہوں نے تو وہ کبوتری کا انڈہ دیکھا ایک تنے ہوئے جالے کے اوپر اور کہا کہ کہ وہ غار میں گئے ہوں پھر جالا بھی تنا جائے اور کبوتری انڈہ بھی دے دے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔اور یہ فیصلہ دے رہے تھے اور جو کھوجی تھا وہ کہہ رہا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ اس کے سوا کہیں اور ہوں۔ میں جانتا ہوں۔ میں ماہر ہوں اس فن کا۔ یا تو یہاں ہیں یا پھر آسمان اٹھا کر لے گیا ہے اور کہیں نہیں ہوسکتے۔ اس وقت آواز بھی سُن لی انہوں نے ابوبکرؓ کی۔ کافی اونچی بولے ہیں چیخ کے۔ کہ مارے گئے ہم تو پکڑے گئے! کہتے ہیں یہ حال ہے ابوبکرؓ کا۔ یہ ساتھی چنا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیکن آگے سنئے !
Got frightened and began to cry aloud saying that they were lost. The Holy Prophet had to console him saying.لاتحزن ان اللہ معنا fear not God is with usپھرکہتے ہیں A bu Bakr is being mentioned as one of two occupants of the cave and not with any other identity but what is worthy of being noted with surprose here is that he was not included as a recipient of tranguility from God while in the other places where Holy Quran mentions the transquillity of God includes the belivers along with the Holy Prophetؐ.
It is obvious that those of the belivers are meant who use to remain with the Holy Prophetؐ even in the worst of the circumstances calm and undistubed in the fighting for the cause of God and well coming or longing to be martyred for it.
یہ نکتہ اٹھا رہے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو خدا تعالیٰ نے اس تسکین میں شامل نہیں فرمایا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری۔ اس سے پتہ چلا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ابوبکرؓ ان میں سے نہیں تھا اور باہر کا تھا۔ اور جو آیت خود quote کرچکے ہیں وہ عمداً بھُلا رہے ہیں۔
حضرت موسیٰؑ نے تو یہ کہا تھا کہ ان معی ربی سیھدین کہ میرا رب میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضرور ہدایت دے گا۔وہ باقی نہیں بچائے گئے تھے؟ نبی جب اپنے متعلق ایک کلام کرتا ہے تو اس کے ساتھ شامل سب لوگ اس برکت سے فائدہ اٹھانے والے ہوتے ہیں اور یہ طرز کلام یہ بتاتی ہے کہ اصل برکت اس کی ہے اور اس وجود کے فیض سے دوسرے بھی حصہ پائیں گے تو یہ بات بھول گئے قرآن کریم کا استعمال کہ حضرت موسیٰؐ جب فرعون کی قوم کے پیچھے سے بچتے ہوئے پیچھا کرتی ہوئی قوم سے بچتے ہوئے جب Fiord میں داخل ہوئے ہیں تو اس وقت جب قوم نے بے قراری کا اظہار کیا۔ جب دیکھا پیچھے سے فرعون کا لشکر داخل ہورہا ہے تو حضرت موسیٰؑ نے یہ جواب دیا ۔ میرے رب میرے ساتھ ہے اور مجھے ضرور صحیح رستے کی ہدایت دے گا۔تو اس میں وہ سارے شامل تھے لیکن برکت موسیٰ علیہ السلام کی تھی۔ اس لئے تسکین رسول پر اتاری تو اس کا مطلب ہے کہ رسول کی برکت سے ابوبکر کو تسکین ملی ہے کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔لاتحزن ان اللہ معنا تو معلوم ہوتا ہے وہ تسکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوچکی تھی۔ یہ مضمون ہے۔ ابوبکرؓ نے بے چینی کا اظہار فرمایا ہے۔ اللہ نے تسکین کی خوشخبری دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ لاتحزن ان اللہ معنا‘‘
لیکن ’’معنا‘‘ فرمایا ہے معی نہیں فرمایا۔ موسیٰؑ کی طرح یہ نہیں کہا کہ میرا رب میرے ساتھ ہے۔ فرمایا۔ ہمارے ساتھ ہے۔ تو جس کا ساتھ ہمیشہ ہمیش کیلئے خدا تعالیٰ نے محمدؐ رسول اللہ کے ساتھ کردیا ہے۔ یہ شیعہ اس کو کاٹ کر الگ کیسے کرسکتے ہیں؟ قیامت تک یہ آیت ان کے جھوٹ پر گواہ کھڑی رہے گی!یہ کہیں گے محمد رسول اللہ ؐ کے ساتھ نہیں تھے یہ آیت کہے گی۔لا تحزن ان اللہ معنا‘‘محمد رسول اللہ ﷺفرما رہے تھے کہ ہر گز غم نہ کر۔اللہ ہمارے ساتھ ہے اور ہم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اول طور پر شامل ہیں متکلم کے صیغے میں۔
ہاں ! یہ چیک کرلیا ہے ۔ کہتے ہیں یہ میراحمد علی صاحب ہی نے لکھا ہے۔ ہم نے دوبارہ تحقیق کرلی ہے۔ یہ جو یہاں تحقیق کیلئے تیار کئے ہیں لڑکوں اور لڑکیوں کے تو میر احمد علی کے پیچھے لڑکیوں کو ڈالا ہوا ہے کہ میں نے کہا یہ ان کا کھوج نکالیں۔ تو وہ بچی جو تحقیق کررہی ہے وہ لکھتی ہے کہ میںنے دوبارہ چیک کیا ہے۔ "2nd Caliph" یہ میری غلطی نہیں ہے تحریر کی بلکہ میر احمد علی ہی کا فقرہ ہے۔ اب وہ کیوں لکھتا ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارے بس کی بات تو نہیں۔اچھا : کہتا ہے۔
Abu Bakr is being mentioned as one one of two occupants of the cave and not with any other identity but what is worthy of being noted with surprise here is that he was not included as a recipient of tranquillity from God while in the other places جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں پہلے۔ آگے کہتا ہے اول تو یہ کہ Surprise کیسی ؟ تم تو ہر وقت تاک میں بیٹھے رہتے ہو کہ حضرت ابوبکرؓ کے خلاف کوئی چیز ملے تو Surprise کا ذکر کر دیا یہ بھی جھوٹ ہے۔ جہاں Surprise ملنی چاہئے وہ بات نوٹ ہی نہیں کی کہ ان اللہ معناSurprise والی وہ جگہ تھی۔ جہاں خدا نے تمہیں Surprise دی۔ وہ تم نے نظر انداز کردی۔یہاں Surprise کی بات نہیں ہے ایک طرز کلام ہے جیسا کہ موسی نے بھی کی تھی اور مراد یہ ہے کہ اس برکت میں سارے ساتھی شامل ہونگے۔ وہاں تمہیں۔ Surprise مل جاتی ہے۔
کہتے ہیں۔
ٍ کہتا ہے وہ جنہوں نے desert کیا تھا وہ خدا تعالیٰ کی معیت کی خوشخبری میں ہر گز شامل نہیں کئے جائیں گے۔
though for accepting the honour abu Bakr had, in being the only occupant in the cave with the Holy Prophet he had not the honour of having the tranquillity, while Ali on that event full night sleeping in the Holy Prophet's bed had the same tranquillity which the Holy Prophet had in the cave which was appriciated and honoured by God in Chapter 2,195.
وہاں حضرت علیؓ کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ یعنی اس تمام ہجرت کے دور میں جو خدا تعالیٰ قابل ذکر واقعہ بیان فرماتا ہے جو نام لیتا ہے وہ صرف ایک صحابی کا ہے۔ حضرت ابوبکرؓکا۔ عمومی Tranquillity کی ایک آیت ہے۔ جس میں سارے مومن ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ اس کا ذکر کرکے کہتے ہیں کہ دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے وہاں علیؓ کا ذکر فرمایا تھا۔ اپنی طرف سے جو مرضی کہتے پھرو !جو موقع تھا وہاں تو نہیں فرمایا۔ابوبکرؓ کا نام لے دیا تھا علیؓ کا بھی ساتھ نام لے دیتا کیا فرق پڑنا تھا؟لیکن اس واقعہ کا اشارہ بھی نہیں فرماتا کہ خدا کا رسول پیچھے کس کو چھوڑ کے آیا تھا۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل یقین کے ساتھ حضرت علیؓ کو پیچھے چھوڑا تھا کہ ان سے کوئی دشمنی نہیں ہے ان لوگوں کو اور ان سے کسی قسم کا تعارض نہیں کریں گے۔ مگر یہ کہتا ہے کہ اُس آیت میں ذکر ہے۔ وہ آیت کونسی ہے؟نکالیں جی وہ آیت 2-195وہاں حضرت علی کا کیا ذکر ہے
سورۃ بقرہ کی آیت 194 میں ہے۔وقاتلو ھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین للہ ۔حضرت علی کا یہ ذکر ہے کہ وہاں لیٹے ہوئے تھے۔ مطلب سمجھ آگئی ؟اکثر کو مطلب نہیں شاید پتہ لگا !
اس آیت میں لکھا ہے اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہو جب تک یہ جبر کا فتنہ ختم نہ ہو۔ یہ جو دین میں مداخلت کررہے ہیں۔ تمہارے خلاف تلوار اٹھا رہے ہیں۔ جب تک یہ ختم نہ ہو۔ویکون الدین للہاور دن خالصتاً اللہ کی خاطر رہ جائے۔کسی انسان کے جبر یا اس کے خوش کرنے یا اس کے خوف کے نتیجے میں دین پر کوئی اثر واقع نہ ہو۔ یہ وہ آیت ہے۔ 194لیکن آگے ہے اگلی 195 194- اس لئے لی ہے میں نے وہ بھی ساتھ شامل کر لی ہے کہ چونکہ ہم ’’بسم اللہ‘‘ کو شمار کرتے ہیں اس لئے ہوسکتا ہے انہوں نے 195 کو 194 لکھ دیا ہو۔ لیکن دراصل 195 آیت پیش نظر ہے۔195 میں لکھا ہوا ہے جہاں حضرت علی ؓ کا ذکر ملتا ہے ان کے نزدیک الشھر الحرام بالشھر الحرام و الحرمات قصاصکہ جو پاک مہینے ہیں عزت والے جن میںخون خرابہ وغیرہ حرام قرار دے دیا گیا ہے ان کی اگر یہ بے حرمتی کریں گے تو پاک مہینوں میں تم بھی ویسے اقدام کرسکتے ہو۔ شھر حرام کی بے حرمتی کے نتیجے میں تم ان سے ویسا ہی بدلہ شہر حرام میں لے سکتے ہو۔ والحرمات قصاص : اور اس طرح حرمات قصاص کا مضمون حاصل کرلیتے ہیں۔ قصاص سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایک قوم نے کسی قوم کا ایک آدمی مار دیا اور قتل کرنے والا پکڑا نہ گیا۔ اس طرح کوئی قوم جو کسی رستے پر قابض ہو آدمی مارتی چلی جائے گی۔ اس کو کوئی بھی پرواہ نہیں ہوگی۔تو قصاص کہا جاتا ہے ایسے طریق کو جس میں ذمہ داری قوم پر ڈالی جاتی ہے جیسا کہ انگریزوں نے یہاں آزاد قبائل میں اسی قسم کا قصاص جاری کیا تھا اور انہوں نے رستے کے امن کا ان سے وعدہ کیا ہوا تھا۔ پس کابل جاتے ہوئے افغانستان جاتے ہوئے جو انگریزی عملداری سے لوگ اُس غیر علاقے سے گزرتے تھے اگر وہاں کسی کو نقصان پہنچے کوئی مارا جائے تو اس کا تاوان اس پر ڈالا جاتا تھا۔ یہ ہے قصاص۔
تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حرمات کی حفاطت کی خاطر قصاص ضروری ہے۔ اگرچہ حرمات کی حفاظت ‘مہینوں کی عزت اور قیام کی خاطرتم ان مہینوںمیں لڑو تو بظاہر عجیب بات لگتی ہے۔ مگر ان کو سمجھانے کی خاطر کہ اگر ان مہینوں سے Surprise کا فائدہ اٹھا کر تم اچانک ہم پر حملے کرسکتے ہو تو ہم بھی انہی مہینوں میں تمہیں ویسا ہی مزہ چکھا سکتے ہیں۔یہ مراد ہے۔فمن اعتدیٰ علیکم فاعتدوا علیہجو بھی تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کرو مگربمثل ما اعتدیٰ علیکم انصاف سے کام لینا۔ اتنی ہی کرو جتنی تم پر کی گئی ہے۔واتقو اللہ واعلموا ان اللہ مع المتقیناور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور جان لو کہ اللہ تقویٰ کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔اور اگلی سن لیجییو انفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ و احسنوا ان اللہ یحب المحسنین Oاور خدا کی راہ میں جو کچھ خدا نے عطا فرمایا ہے خرچ کرو۔ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ اور خود اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔واحسنوا : احسان کا سلوک کروان اللہ یحب المحسنین یقینا اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
کہتے ہیں دیکھ لو کتنا واضح ذکر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا۔ وہاں لیٹے ہوئے تھے اور بڑی قربانی دی۔ اور ابوبکرؓ کے ذکر میں تو اس کو رد کردیا ناں کہ اس پر سکینت نہیں اتاری۔ اور قرآن کہتاہے بالکل واضح لکھا ہوا ہے کہ حضرت علیؓ بڑی سکینت کے ساتھ وہاں آرام سے لیٹے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سکینت اتاری گئی وہ آپؓ پر بھی اتاری جارہی تھی۔عجیب بات ہے اس کو کیا کوئی کہے گا؟کیسے حضرت علیؓ کا ذکر ہوا اس میں اور کسی طرح انہوں نے مطلب نکالا اللہ بہتر جانتا ہے۔ اس بحث کو میرا خیال ہے طول دیئے بغیر ہی چھوڑ دیتا ہوں میں یہاں۔
پھر میر احمد علی صاحب آخر فرماتے ہیں۔
But what a pitty that such unsurpassed merits of Ali the praise of which even providence thank of no awail to the message of the muslims in guiding them to the right man for them, to follow after the departure of the Holy Prophet Muhammad and the ignorant world refer to Ali, those who have not the courage or the faith to stand by the Holy Prophet in the Prime timeof the battle fought for the faith and fled to their own lieve leaving the Holy Prophet amidst his blood thirsty enemies, and Ali.
کہتا ہے کتنا جاہل ہے زمانہ۔ اتنی کھلی کھلی نصیحتیں قرآن نے فرمائیں۔ سب کچھ سمجھا دیا مگر سارے کے سارے مسلمان بلا استثناء انہی کوخلیفہ بنا بیٹھے جن کے خلاف خدا تعالیٰ نے گواہی دی تھی کہ نعوذ باللہ یہ جہنمی لوگ ہیں ایسا نہ کرنا۔اور ایک علیؓ جس کے حق میں سب گواہیاں تھیں کہ اس کے سوا کوئی نہیں ہے جو بچا ہو۔ اور یہاں جوش میں آکر اہل بیت جن کو وہ خود معصوم مانتے ہیں ان کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ صرف علیؓ کا ذکر ہے۔ اس کی خاطر کائنات بنی تھی۔ اس کو چھوڑ دیا اور ان کو خلیفہ بنالیا جن کے متعلق قرآن فرماتا ہے۔ یہ تو جہنمی لوگ ہیں نعوذ باللہ من ذلک اور انہوں نے بڑے سخت ظلم کمائے ہوئے ہیں۔ ان کے قریب نہ جانا اس کو چُننا۔ اس کو چھوڑ دیا۔
اب سوال یہ ہے آخری بات جو اس سلسلے میں۔ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتاہوں کہ پہلے میں نے آپ سے بیان کیا تھا کہ کوئی ایسا مضمون جو ایک ثابت شدہ حقیقت کے خلاف ہو وہ اگر قرآن سے توڑ مروڑ کر نکالنے کی کوشش کی جائے یا حدیثوں سے نکالنے کی کوشش کی جائے قابل رد ہے۔ مثلاً قرآن سے کوئی اگر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ توحید غلط ہے اور شرک درست ہے جیسا کہ بعض بدبخت قرآن سے شرک بھی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں چنانچہ ایک دفعہ ایک مجلس میں… نے مجھے کہا کہ تم کیا بات کر رہے ہو قران میں تو اللہ تعالی !بہاء اللہ کے متعلق جب میں نے کہا کہ دیکھو یہ تو شرک ہے۔ تم کہتے ہو کہ بہاء اللہ مجسم خدا تھا تو کہتا ہے کہ دیکھو قرآن کریم میں لکھا ہوا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہ
وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی انما یبایعون اللہ‘‘دوسری جگہ آتا ہے۔
تو وہی شرک ہے۔ حالانکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز اشارۃًبھی یہ دعویٰ نہیں فرمایا جو اس بدنصیب کے حصے میں آیا بہاء اللہ کے حصہ میں ۔ وہ یہ کہتا ہے کہ میں قبول ہی نہیں کرتا کہ مجھ پر وحی نازل ہورہی ہے کہتا ہے میں خدا جو ہوں میں جو بول رہا ہوں تمہارے اندر بیٹھا ہوا اور یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ اس نے کہا لفظاً لفظاً خدا کا کلام تھا۔ یہاں تک وہ خدا بنایا گیا کہ کہتے ہیں جب قبلہ پوچھا گیا۔ قبلہ کونسا ہے؟ تو بہاء اللہ کہتا ہے : میں قبلہ ہوں۔ جہاں جہاں میں جائوں وہاں وہاں اس طرف منہ کرلیا کرو۔ اور اس لئے زندگی بھر جہاں جہاں بہاء اللہ مارا مارا پھرتا رہا وہ قبلہ اس طرف مڑتا رہا اور یہ بھی مانتے ہیں وہ بیوی کے پاس بھی گیا بچے بھی پیداکئے۔ اجابت کیلئے غسل خانے میں بھی جایا کرتا تھا۔ تو بے چارے اُن مومنین کا قبلہ کدھر کدھر رسوا ہوا ہے؟کیا کیا رخ اختیار کرتا رہا؟اللہ رحم کرے ان عقل سے عاری لوگو ںپر۔ پھر جب مر گیا تو اس قبر کو قبلہ بنالیا۔ یعنی خدا قبلہ نہیں خدا کی قبر قبلہ ہے۔اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا۔ اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوسکتی ہے؟
یہ ایک اور اصلاح آگئی ہے کہتے ہیں نقطہ وہ بھی نہیں تھا نقطہ باب تھا علی محمد باب ۔لیکن اس نقطے کو چھوڑیں جس نکتے میں ہم لگے ہوئے ہیں وہ زیادہ اہم ہے
ہاںتو یہ جو شرک ہے اس کو قرآن سے ثابت کرنا بالکل جہالت ہے۔ ظاہر ہے اس کو ہر معقول آدمی رد کردیگا۔ معمولی عقل والا بھی پھینک دے گا ایک طرف۔ محمد رسول اللہ ﷺکی طرف کوئی ظالمانہ بددیانتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے ہی ثابت کرچکا ہوں۔ جس کا کردار اس کو دھکے دے رہا ہے۔ کوئی توڑ مروڑ آپ کا عقلی نکتوں کا اس کو قابل قبول بنا سکتا ہی نہیں ہے۔ جتنی مرضی آیتیں پڑھ جائیں۔ جتنی مرضی حدیثیں پڑھ جائیں۔ کردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹکرا کر وہ تمہارے غلط معنے پار ہ پارہ ہوکر گر پڑیں گے۔ کوئی ان کی حیثیت نہیں رہتی۔ حضرت علیؓ کا کردار میں نے پیش کیا تھا۔ ایک کردار علیؓ ہے اس کی طرف ایسی منافقت منسوب کرنا کہ نعوذ باللہ من ذالک سب سے پہلے شیطان نے بیعت کی تھی اور پھر اس کے کچھ عرصہ بعد اُس نے بھی اُسی شخص کی بیعت کرلی جو منافقوں کا سرادر تھا اور مسلسل ایک کے بعد دوسری مرتبہ یہ غلطی کرتا چلا گیا۔ جو نفاق سے پاک تھا وہ نفاق کا بیج بونے والا بن گیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے عقیدے میں داخل کردیا کہ نفاق عین ثواب ہے اور مجبوری کی خاطر جھوٹ بولنا جائز بلکہ ضروری ہے اور اس کے بڑے بڑے مراتب بیان ہوئے ہیں۔ کسی وقت اگر موقع ملا آئندہ تو آپ کو بتائوں گا تقیہ کے جو مراتب ہیں بعض جگہ تو ایسے عظیم الشان مراتب ہیں کہ عمر بھر کی نیکیاں اور حج اور دعائیں ایک طرف اور دشمن کے خوف سے جھوٹ بول دینا اس کے مقابل پر۔ میں اس سے پہلے بتا چکاہوں دین کے 9 حصے اس جھوٹ میں ہے اور ایک حصہ باقی سارا دین ہے۔ اس لئے اس کو جو مرضی کر لیںجہاں سے مرضی آیتیں توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطلب نکالیں کوئی انسان بھی جس میں ادنیٰ بھی شائبہ عقل کا ہے۔ علی ؓ کے کردار کے خلاف اس پر الزام لگانے والوں کی بات کو قبول نہیں کرسکتا اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺکے کردار کے خلاف اب دیکھئے یہ جو باتیں کہہ رہے ہیں کیا بنتی ہیں !ہم بڑے فخر کے ساتھ اور شیعہ اس میں شامل ہیں۔ تمام دنیا کے سامنے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ مختلف زمانوں میں مختلف جگہوں میں ایسے نبی آئے جو زمانی بھی تھے اور قومی بھی تھے اور ایک نبی آخر پیدا ہوا جو تمام جہان کیلئے رحمت تھا۔ یہ ہے شان مصطفویؐ۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا بنیادی نکتہ یہ ہے۔ اور قرآن کریم فرماتا ہے۔لا شرقیۃ ولا غربیۃعظیم الشان نبی تھا۔ اس کا رحم اس کا فیض نہ مشرق کیلئے رہا نہ مغرب کیلئے۔ سب جہان کیلئے جیسے سورج برابر چمکتا ہے اس طرح اس کا فیض تمام جہانوں پر برابر چمکتا رہا۔پہلے نبی کیا تھے جو محدود وقت کیلئے آئے۔ محدود وقت کیلئے آئے ہونگے محدود قوموں کیلئے ! مگر محض اپنے خاندان کیلئے نہیں آئے تھے۔ ان کے ہاں رحمتہ اللعالمین کا تصور یہ ہے کہ یہ ’’رحمتہ للعالمین‘‘ جو تمام جہانوں کیلئے رحمت تھا۔ آج تک کبھی دنیا کے کسی نبی نے منافقوں کی اتنی بڑی جماعت پیچھے نہیں چھوڑی جتنی اس شخص نے چھوڑی ! یہ حاصل میر احمد علی صاحب اور Pooya صاحب کا۔
کہتے ہیں دیکھو کس شان کا نبی آیا ہے۔ سارے جہانوں کیلئے رحمت لیکن کر کیا گیا ؟ ایک علیؓ کے سوا اور چند دوسرے اُس کے عزیزوں کے سوا سارے جہانوں کیلئے منافقین کی ایک جماعت تیار کر گیا۔ اور سارے کے سارے جہنمی !یہ جہنم پیدا کرنے کیلئے نبی آیا تھا؟اس کو رحمتہ للعالمین کہتے ہو؟اور یہ رحمت ایسی ہے جو سارے جہانوں کیلئے عام لیکن اپنے ایمان لانے والو ںکو بھی حصہ نہیں لینے دیا۔ ان سے بھی چھین لی۔ اور کہایہ ’’رحمۃ اللعالمین‘‘کا مطلب ہے صرف میرے بچوں کے لئے عزیزوں کیلئے صرف میرے بچوں کیلئے اور میرے داماد کیلئے خاص ہے۔ باقیوں کو نہیں دینی۔ یہ ہے ان کا رحمتہ للعالمین کا تصور !تو اب بتائیں قرآن محمد رسول اللہ کے جس کردار کو پیش کرتا ہے ۔اس کردار کُشی کیلئے جتنے چاہیں بہانے بنالیں۔ ہزار آیتیں اکٹھی کردیں لیکن محمد رسول اللہ ؐ کی ذات ان معنوں کو رد کریگی اور دھتکار دے گی۔ اور ان معنوں کے پیش کرنے والوں کو مردود قرار دے گی۔ پس محمد رسول اللہ رحمتہ للعالمین ہی تھے۔ آپؐ نے جتنے پاک لوگوں کی جماعت پیچھے چھوڑی ہے۔ ایسی کبھی کسی نبی نے ایسی پاک جماعت نہیں چھوڑی۔ اور قرآن جگہ جگہ ان کے حق میں گواہیوں سے بھرا پڑا ہے۔ ایک کے بعد دوسری آیت بتاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق اور فدائی خالص تھے اور پاک لوگ تھے اور مومنین کی تعریف کثرت کے ساتھ قرآن کریم میں ملتی ہے۔
ان سب آیتوں سے منہ موڑ کے یہ آپ کو یہ یقین دلانے کی کوسش کرتے ہیں۔کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے چار آدمیوں کیلئے تھے۔ اور اگلی آیت میں جب اس کی بحث آئے گی پھر میں آپ کو بتائوں گا کہ اس کے حق میں جو دلیلیں دیتے ہیں اس کا کیا جوا ب ہے۔ صرف یہ دلیل نہیں جو میں پیش کررہا ہوں کہ کردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی دلیلوں کو توڑ کر پارہ پارہ کررہا ہے۔ قرآن سے بھی میں ایسی قطعی دلیلیںان کے خلاف میں آپ کے سامنے رکھوں گا اور احادیث سے اور تاریخ سے اور عقل سے کہ ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔یہ ذوالفقار علی ؓ کی بات کرتے ہیں۔
آج اللہ تعالیٰ نے قرآن کی عظمت کی خاطر قرآنی دلائل کی تلوار میرے ہاتھوں میں تھمائی ہے اور میں قرآن پر حملہ نہیں ہونے دوں گا۔محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے ساتھیوں پر حملہ نہیں ہونے دوں گا!! جس طرف سے آئیں۔ جس بھیس میںآئیں ان کے مقدار میں شکست اور نامرادی لکھی جاچکی ہے!!!
کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دوبارہ قرآن کریم کی عظمت کے گیت گانے کے جو دن آئے ہیں آج یہ ذمہ داری مسیح موعود ؑ کی غلامی میں میرے سپرد ہے۔ اس لئے جب تک میںحق ادا نہ کروں ان آیات پہ ٹھہرا رہوں گا۔ یہاں تک کہ آپ پر اور سب پر ‘ ہر ذی عقل پر ثابت ہوجائیگا کہ یہ جھوٹے عقیدے ہیں ان کا قرآن اور حدیث اور تاریخ اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن 17 رمضان المبارک
28 فروری 1994ء
لقد من اللہ علی المومنین ………اللہ ولیعلم المومنین O(ال عمران 165تا167)
یہ تین آیات جنکی میں نے تلاوت کی ہے ۔شاید آج پہلی آیت پر گفتگو ختم ہو جائے مگراحتیاطاً میں نے دو آیات کو بھی شامل کر لیا ہے۔ لقد من اللّہ علی المومنین یقینا اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر بہت احسان فرمایا ہے اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم جب اس نے انہیں میں سے ایک رسول بنا کر بھیجا جو ان پر اس کی یعنی اللہ کی آیات کی تلاوت کرتا ہے۔ اور انہیں پاک کردیتا ہے اور ان کی تمام خوبیوں کو نشوونما عطا کرتا ہے اور انہیں کتاب سکھاتا ہے اور حکمت بھی۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اولما اصابتکم مصیبۃ تو پھرکیاجب کبھی بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچے گی اور ایسی مصیبت جو اس سے پہلے تم دوسروںپر ڈال بھی چکے ہو۔یعنی ایسی تکلیف جو اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا۔ تم کہتے رہو گے کہ یہ کیوں ایسا ہوا ؟مراد یہ ہے کہ جنگ بدر کے موقعے پر جتنا نقصان مسلمانوں کے ہاتھوں کفار مکہ کو ہوا تھا تقریباً اسی قدر نقصان جنگ احد میں فتح کے بعدجب تبدیلی واقع ہوئی تواس وقت صحابہ کو پہنچا۔ مراد یہ ہے کہ اس سے پہلے تم خود بھاری نقصان دوسروں کو پہنچا چکے ہو۔ جب اپنے آپ کو پہنچا تو تم نے کہا یہ کہاں سے آگیا۔ اس کا جواب یہ ہے قص ہو من عند انفسکم یہ تمھاری طرف سے تھا ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر لیکن اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ چاہتا تو نہ نقصان پہنچتا۔ اللہ چاہتا تو اس تقدیر کو بدل دیتا۔ مگر اس میں کچھ حکمت تھی جس کی وجہ سے ایسا ہونے دیا گیا۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ ولیعلم المومنین۔ اور جو نقصان تمہیں اس وقت پہنچا جب کہ دو گروہوں میں تصادم ہوا تو اللہ کے حکم سے تھا ولیعلم المومنین اور تاکہ مومن حقیقت حال کو جان لیں (نقل مطابق اصل) اب بظاہر ان دو باتوں میں‘ اول اور دوسری آیت کے دعاوی میں ایک تضاد ہے اسے دور کرنے کے لئے بیچ میں میں نے ایک چھوٹی سی بات داخل کی تھی جس کے کوئی تضاد نظر نہیں آتا اور نہ ہے۔ تضاد یہ ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی دکھائی دینے والا تضاد یہ ہے کہ قُل ھومن عندانفسکم تو کہہ دے کہ یہ تمہاری اپنی طرف سے ہے۔ جو بھی تمہیں نقصان پہنچا تم ذمہ دار ہو۔ اور اگلی آیت کہتی ہے کہ اللہ نے اجازت دی تھی۔ اللہ کے حکم سے ایسا ہواہے تو پھر من عندانفسکم اور باذن اللہ میں جو بظاہر ایک تصادم دکھائی دیتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ بیچ میں جو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹا سا آیت کا ٹکڑا رکھ دیا۔ ان اللہ علی کل شئی قدیر اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو تمہاری غلطیوں کے باوجود تمہیں نقصان نہ پہنچتا۔ مگر کسی حکمت کے پیش نظرخدا نے ایسا ہونے دیا۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہونے دیا پس اسے اللہ ٰ کی طرف بھی منسوب کیا جاسکتا ہے۔ یعنی جہاں تک نقصان اور تکلیف کا پہلو ہے‘ اس کے تم خود ذمہ دار ہو۔جہاں تک اس میں مخفی حکمتوں کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ نے کسی خاص حکمت کے پیش نظر ایسا ہونے دیا۔ اور تم جان لو گے ولیعلم المومنین مومنوں پر وہ حکمت ظاہر ہوجائیگی۔ اس کے بہت سے فوائد بھی ہیں جو بعد میں ظاہر ہونگے۔یہ ہیں وہ تین آیات جن کی میں نے تلاوت کی تھی۔ اب میں اول آیت سے شروع کرکے تفسیر شروع کرتا ہوں۔ من اللہ علی المومنین۔ من کہتے ہیںانعام کو اور احسان کو بھی۔ عدلہ مافعلہ۔ اور بدلہ دینے کو بھی من کہتے ہیں۔یہ اقرب الموارد میں ہے۔ یہاں جو لفظ من ہے یہ عام طور پر تو محض‘ جیسا کہ میں نے بیان کیا انعام کے طور پر یا احسان کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اھل لغت یہ بھی لکھتے ہیں کہ ایسا احسان جو ہر قسم کے تعصب سے پاک ہو۔ اس میں کسی رشتے کا کوئی دخل نہ ہو۔ کسی عصبیت کا کوئی دخل نہ ہو۔ تعصب ان معنوں میں نہیں کہ کسی کے خلاف بغض ہو۔ بلکہ تعصب یہاں ان معنوں میں ہے کہ کسی رشتے داری کے لحاظ کی وجہ سے احسان ہو۔ یہ نہیں ہے بلکہ خالص احسان جو ہر قسم کے دوسرے تعلق سے آزاد ہو۔ چنانچہ قرآن کریم نے لفظ من کو انہیں معنوں م میں استعمال فرمایا ہے۔ ولا تمنن تستکثر۔ کہ ہر گز اس نیت سے احسان نہ کیا کرو کہ تم اپنے مال بڑھالو اس کے نتیجے میں۔ یا جس پر احسان کررہے ہو۔ اس سے فائدہ اٹھا کر خدمتیں لو اور اپنی قوت کو بڑھاؤ تو من میں ہر قسم کا دوسرا تصور ممنوع ہے احسان کے تصور کے سوا وہ ایک ہے جو من کو من رہنے دیتا ہے۔ باقی سب جگہ مٹ جاتا ہے۔ چنانچہ من کا لفظ قرآن کریم میں جہاں جہاں استعمال ہوا ہے۔ مختلف احتمالی صورتوں کی نفی کرتا ہے۔ اس لئے نہیںمن کرنا‘ اس لئے نہیںمن کرنا۔ اس لئے نہیں کرنا اسی لئے نہیں کرنا وغیرہ وغیرہ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ رسول اللہ علیہ وسلم کو جو لوگ کہتے ہیںکہ ہم اسلام لے آئے‘ احسان جتاتے ہیں تو ان سے کہہ لاتمنوا علی اسلامکم تم ہم پر اپنے اسلام کا احسان نہ رکھو کیونکہ یہ اللہ کا احسان ہے تم پر اور وہ بغیر کسی اجرت کے بغیر کسی رشتہ داری قرابت کے خدا نے احسان فرمایا ہے۔ اس لئے یکطرفہ احسان کا رخ ہماری طرف سے تمہاری طرف ہے۔ یہ تم آگے سے کیا کہہ رہے ہو اپنے اسلام کا احسان ........
یہ من کا پہلو ۔ آگے ہے لفظ یزکی۔ یزکی بھی قابل توجہ لفظ ہے زکا۔ زکی یزکی وغیرہ وغیرہ اس میں جو مختلف معانی اہل لغت بیان کرتے ہیں وہ یہ ہیں۔ عمدہ نشوونما پاتا۔ زکا میں عمدہ نشوونما شامل ہے اور اسی طرح وہ پھل جو تیار ہوجائے اس کا وہ رس جو نچوڑ کر پیا جاتا ہے۔ اس کا بہترین حصہ جو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس کے نکالنے کو بھی لفظ یزکی سے ظاہر کرتے ہیں۔ ارض زکیہ طیبتہ یعنی پاکیزہ زرخیز زمین۔زکی کا مطلب یہ ہوگا اصلح اس کو درست کردیا اصلاح فرمائی۔ منجد میں اس کا معنی ہے ۔ بڑھنا‘ زیادہ ہونا‘ بڑھانا‘ پاک کرنا‘ اصلاح کرنا۔ پس یہاں یہ مطلب ہوگا کہ تم پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا۔ مومنوں پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا جبکہ ان میں ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جو انہیں میں سے ہے۔ یتلو علیھم ایتہ یزکیھم وہ اللہ کی آیات کی ان پر تلاوت فرماتا ہے۔ اور انہیں پاک کرتا ہے۔ ان کی اصلاح کرتا ہے۔ ان کی نشوونما کا موجب بنتا ہے اور ہر قسم کی برکات ان کو عطا کرتا ہے۔ جس سے ان کی اعلیٰ صلاحیتیں بڑھیں اور نشوونما پاجائیں۔ کیونکہ لفظ ذکیٰ غلط چیزوں کی نشوونما کیلئے استعمال نہیں ہوتا۔ جب کھیتی اور پھلوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے تو مراد ہے کہ ان کی بہترین صلاحیتیں اجاگر ہوکر ابھر آئیں اور ان کو قوت ملے۔ ویعلمھم الکتاب و الحکمۃ یہاں تعلیم کتاب اور حکمت کا بیان ہے۔ یہ بارہا گفتگو ہوچکی ہے۔ اس کی لغت میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جب آیات نازل ہوں تو ان کا تین طرح سے اُن لوگوں سے تعلق ہے۔ جن کی خاطر ‘ جن کی اصلاح کیلئے آیات کا نزول ہوتا ہے۔ پہلا جو مقصد ہے وہ اس قوم کی اصلاح ہے اور دوسرا مقصد اس کی تعلیم ہے اور تیسرا مقصد تعلیم کی حکمتیں بیان کرنا یعنی مذہب کا فلسفہ ان کے سامنے رکھنا اور تعلیم کے ہر پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالنا کہ اس کا یہ مقصد ہے۔ محض اس لئے نہ مانو کہ خدا کا حکم ہے بلکہ اس یقین کے ساتھ مانو کہ اللہ کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہے۔ اور جہاں جہاں تمھیں اس معاملے میں تمہاری اپنی عقل کی رسائی نہیں یہ رسول وہ حکمت کی باتیں تمہارے سامنے کھول کر بیان کرے گا اور تمہیں کامل یقین ہوجائے گا کہ یہ ایک حکمت والے خدا کا کلام تھا جو رسول پر نازل ہوا۔
و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین۔ جبکہ اس سے پہلے وہ کھلی کھلی گمراہی یا جہالت کی حالت میں تھے۔ یہ مضمون جو تزکیہ کا ہے یہ علم کتاب اور حکمت کتاب سے پہلے رکھ دیا گیا ہے اور یہ بات بارہا میں پہلے بھی پیش کرچکا ہوں اور یہاں خصوصیت سے اس کا دہرانا اس لئے ضروری ہے کہ آئندہ تھوڑی دیر بعد جب مختلف مفسرین کی تفسیریں آپ کے سامنے آئیں گی تو پتہ لگے گا کہ یہاں وہ حکمت کیا ہے جس کی وجہ سے تزکیہ کو پہلے رکھا گیا ہے اور باقی باتو ںکو بعد میں۔ اور بہت سی غلط تفسیریں اس کی روشنی میں خود اپنے آپ کو اپنی کمزوری کو طاہر کردیں گی یعنی قرآن کریم کی طرف ایک ایسی بات منسوب کرنے کی کوشش کی جائے گی‘میں دکھائوں گاآپ کو جو قرآن کا مقصود نہیں ہے اور یہاں جب اچھی طرح آپ اس آیت کو سمجھ لیں گے تو ذہنی طور پر ان غلط تفسیرات کو رد کرنے کے لئے تیار ہونگے۔ خاص طور پر قابل توجہ امر یہاں یہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے بہت قبل حضرت ابراہیم کے زمانے میں آپ کی بعثت کا سب سے پہلے ذکر واضح طور پر قرآن میں ملتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکے کو آباد کرنے کا آغاز کیا یعنی بیت اللہ کے گرد تعمیر شروع کی تو اس وقت اللہ سے ایک دعا کی اور اس دعا کے الفاظ یہ تھے۔
وابعث فیھم رسولاً منھم یاد رکھیں کتنی ملتی جلتی دعا ہے۔وہی الفاظ ہیں۔ اے خدا ان میں ایک رسول مبعوث فرما جو انہیں میں سے ہو۔ یتلو ا علیھم ایتہ وہ تیری ان پر ’’اٰیاتک‘‘یہاں مخاطب اللہ تعالیٰ ہے آیات کی تلاوت کرے۔ اب یزکیھم یہاں سے غائب ہے۔اس دعا میں یزکی کے ذکر کے بغیر یہ بات شروع ہوتی ہے۔ ویعلمھم الکتاب والحکمۃ اور وہ انہیں تلاوت کے بعد کتاب سکھائے یعنی کتاب کا علم دے اور پھر ان کی حکمتیں بھی سمجھائے ویزکیھم اور پھر ان کا تزکیہ کرے۔ یہ نہ صرف انسانی سوچ کے مطابق دعا ہے بلکہ ایک انتہائی سلجھی ہوئی نبی کی سوچ کے مطابق ہے جس نے اپنی عمر بھر کے تجربے میںیہی دیکھا کہ اللہ کی طرف سے جب تعلیم ملتی ہے۔ عطا ہوجاتی ہے پھر نبی اس تعلیم کو عام کرتے ہیں۔ اس کی حکمتیں سکھاتے ہیں تو ساتھ ساتھ تزکیئہ نفس بھی جاری رہتا ہے اور اس کے نتیجے میں عطا ہوتا ہے۔ پس انہوں نے تزکیہ کو پہلے نہیں رکھا بلکہ بعد میں رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں جب یہ بتاتا ہے کہ ہم نے اس دعا کو قبول کرلیا تو اس ترتیب کو بدل دیتا ہے چنانچہ وہ ترتیب جو قرآن کریم میں ملتی ہے۔ سورہ جمعہ میں بھی اور یہاں بھی۔ یہ وہ بدلی ہوئی ترتیب ہے جس کی طرف میں آپ کو پھر متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھوالذی بعث فی الامیین رسولا یہاں مومنین کی بات تھی وہاں امیین کی بات ہے۔ ان دونوں باتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے اس لئے میں وہ آیت پہلے پڑھوں گا پھر دوبارہ اس کی طرف واپس آئوں گا۔ فرمایا ھوالذی فی بعث الامین رسولا وہی اللہ ہے وہی ذات ہے جس نے امیین میں رسول بھیجا۔ امیین سے مراد حقیقت میں تمام دنیا کے جہلاء ہیں جو دینی علوم سے بے بہرہ ہیں اور محض ظاہری تعلیم کی بحث نہیں ہورہی تو فرمایا کہ ایسا وجود آیا ہے جس نے نہ کوئی دینی تعلیم خود حاصل کی نہ ان لوگوں میں آیا جہاں دینی تعلیم کے چرچے تھے بلکہ ایسے لوگوں میں نازل فرمایا جو دینی تعلیم سے بے بہرہ تھے اور یہ خود بھی انہیں میں سے تھا۔ یتلوا علیھم ایتہ اس کی شان دیکھوکہ یہ تلاوت قرآن کرتا ہے جو آیات نازل ہوتی ہیں وہ بیان کرتا ہے اور پھر تعلیم سے پہلے ان کو پاک کرنا شروع کردیتا ہے۔ ویزکیھم۔ پس حضرت ابراہیم والی ترتیب جس ترتیب سے وہ دعا مانگی گئی تھی اسے قبولیت کے وقت تبدیل کرکے اس میں ایک عظیم مضمون داخل کردیا گیا ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کی بالاتر حقیقت بلند تر حقیقت دکھانے والا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ابراہیم کے علم میں بھی اس دعا کے وقت محمد رسول اللہ ؐ کی شان پوری طرح روشن نہیں تھی۔ اس کو کیا پتہ تھا کہ وہ کیا مانگ رہا ہے۔ اس نے تو ایسا رسول مانگا تھا جو باقی رسولوں کی طرح جیسا کہ ہمیشہ سے دنیا کا تجربہ ہے پہلے تلاوت کرے گا پھر علم دے گا پھر حکمتیں سکھائے گا۔ پھر وہ تعلیم اور حکمت مل کر ان کا تزکیہ کریں گے۔ فرمایا یہ رسول ایسا نہیں ہے۔ اس کا سارا وجود مزکی ہے۔ ایسا پاک کرنے والا انسان ہے کہ اس کی تلاوت کے ساتھ ہی تزکیہ شروع ہوجاتا ہے اور علم و حکمت ان لوگوں پر یہ ظاہر کرتا ہے۔ان لوگوں کو دیتا ہے جو پاک نفس ہوچکے ہیں۔ نفس زکیہ بن چکے ہوتے ہیں۔ اب کہاں علم و حکمت کا عمل ان فطرتوں پر جن میں کجیاں باقی ہوں‘ جن میں ٹیڑھے پن ہوں۔ جو ابھی پاک نہ بنائے گئے ہوں۔ اور زور لگا کر علم و حکمت کے بل بوتے پر ا نکو پاک کیا جارہا ہو۔ کہاں علم و حکمت ان لوگوں پر اثر دکھاتا ہے جو پاک ہوچکے ہوتے ہیں۔ ان پر جب علم و حکمت کی بارش ہوتی ہے تو ایک نئی قسم کی نباتات اس سے وجود میں آتی ہے۔ نئی قسم کی نشوونما پانے والی صلاحیتیں ابھرتی ہیں اور یہ مضمون ہے جس کا قرآن کریم کے آغاز سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ ذلک الکتاب لاریب فیہ ھدی للمتقین۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔تومتقی ہونا پہلے شرط رکھ دی پھر ہدایت ہے۔یعنی یہ مضمون اس مضمون سے بالا ہے جو پہلے دنیا نے نبوت کے تعلق میں دیکھا تھا۔ نبی آتے تھے اور براہ راست اپنی صحبت سے یک دفعہ لوگوں میں پاک تبدیلی نہیں پیدا کیا کرتے تھے بلکہ تعلیم و محنت کے ساتھ رفتہ رفتہ بالآخر ان کو پاک کیا کرتے تھے اور یہ پاک بناتا ہے اور یہاں سے اس کا مضمون شروع ہوتا ہے۔ یہاں سے اس مدرسے کے اگلے مراحل آئیں گے۔ یعنی ایسا ہی ہے جیسے سکول سے یونیورسٹی کا مضمون شروع ہوجائے ۔ پہلے یہ تزکیہ کرتا ہے اور پاک لوگ ہی ہوتے ہیں جو ہدایت پاسکتے ہیں۔ یہ وہی مضمون ہے جس کو قرآن کریم دوسری جگہ یوں فرماتا ہے۔ لایمسہ الا المطھرون کہ یہ وہ کلام ہے جسے مطھرین کے سوا کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔یعنی ایسا پاک کلام ہے جسے سمجھنے کے لئے مطھر ہونا ضروری ہے تو اگر آیات نازل ہوجائیں اور مطھر نہ بنایا جائے تو علم و حکمت لاکھ بیان کرتے رہو ان کو سمجھ ہی کچھ نہیں آئے گی۔ اور آج کل بھی آپ دیکھ لیں ان لوگوں کے سامنے لاکھ قرآن کریم کی حکمتیں پیش کریں کچھ پلے نہیں پڑتا چکنے گھڑے کی طرح ۔ سارا علم ساری حکمت باہر ہی پڑا رہ جاتا ہے۔ ساری مغربی دنیا کا یہ حال ہے۔ دنیا کے اور بظاہر دانشور کہلانے والے خود مسلمانوں میں ایسے ہیں کہ قرآن کریم کی علم و حکمت سے عملاً بے بہرہ ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کے ساتھ یہ شرط رکھ دی گئی ہے کہ مطھر کے بغیر کسی کو اس کے معانی تک رسائی نہیں ہوگی اور تقویٰ کے بغیر کوئی اس سے ہدایت نہیں پائے گا اور جب تک محمد رسول اللہ سے تزکیہ حاصل نہیں کرتا اس تزکیہ کے بغیر علم و حکمت کے مفاہیم اس کی دسترس سے باہررہیں گے۔
بیان بھی کرتے رہو تب بھی وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ پس حضرت ابراہیم ہی کی دعا ہے جسے ان مختلف آیات میں پیش نظر رکھ کر اس میں کچھ ترمیمات فرمائی گئی ہیں۔قبولیت کی ترمیمات ہیں اور یہ عجیب اللہ کی شان ہے کہ بن مانگے دینے والا بھی ہے اور جب دعائیں قبول فرماتا ہے تو یہ طریق ہے اس کی دعا قبولیت کا۔ آپ بعض دفعہ اپنے لئے نسبتاً ادنیٰ چیز مانگ رہے ہوتے ہیں اور اس صورت میں آپ کو نہیں ملتی آپ کہتے ہیں دیکھو قبول نہیں ہوئی ۔ حالانکہ اللہ کیونکہ بے انتہا احسان کرنے والا اور فضل اور رحم کرنے والا ہے۔ وہ اگر قبول کرتا ہے تودعائوں کی نوعیت میں پہلے تبدیلی پیدا کرتا ہے ان کو بہتر بنادیتا ہے گویا یہ مانگا گیا تھا۔ اور پھر جو مانگا جانا چاہئے اس کے مطابق عطا کرتا ہے۔ وہاں ذکر تھا امیین کا اور اکثر مفسرین کا ذہن عرب کے امیین کی طرف گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو رحمۃ للعلمین ہو اسے عرب کے امیین سے کیوںباندھ دیا گیا۔ اسکا تو تعلق تمام دنیا کے امیین سے ہونا چاہئے اور اس آیت میں عرب کے امیین کا ذکر بھی کہیں نہیں ملتا۔ منھم آتا ہے۔ تو چونکہ عرب قوم سے تعلق رکھتے تھے اس لئے طبعی طور پر تمام مفسرین کا ذہن اس طرف گیا کہ یہاں عرب مراد ہیں اور انہی میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے حالانکہ قرآن کریم میں عرب لفظ کا اشارہ بھی یہاں نہیں ملتا۔ فرمایا امیین کی طرف آیا امیین ہی میں سے تھا۔ تو امی لفظ تو ساری دنیا کے لئے عام ہے۔ تمام دنیا کے انسان جو دینی علوم سے بے بہرہ ہوں وہ امیین کہلاتے ہیں۔ اب اس آیت میں اس مضمون کو اور زیادہ روشن اور واضح فرمادیا اور بتادیا کہ امیین سے کوئی قوم مراد نہیں تھی ۔ فرمایا لقد من اللّہ علی المومنین اللہ نے مومنوں پر احسان فرمایا ہے۔ اب مومنین تو عرب عجم کے سب برابر ہیں اور ہر زمانہ کے مومن ایک جیسے ہیں مومن مومن ہی ہے خواہ وہ افریقہ میں پیدا ہو یا انگلستان میں پیدا ہو یا جرمنی میں پیدا ہو یا جاپان میں یا چین میں۔ جہاں مرضی ہو اس کا عرب ہونا تو ضروری نہیں۔ اس لئے مومن کے لفظ نے واضح کردیا کہ حضرت اقدس ،محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم جن لوگوں میں سے ہیں وہ کون ہیں۔ ایک تو یہ تخصیص فرمائی کہ امیین سے ہونے کا مطلب متقی امیین ہے غیر متقی مراد نہیں کیونکہ مومنین نے ظاہر کردیا کہ وہ امیین جو ایمان لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پہلے تو ایمان نہیں لائے تھے پھر ان میں سے کیسے ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو وہ ایمان لائے۔ پیغام سنا تو ایمان لائے تو یہاں مومنین Potential کے اعتبار سے مزکور ہے۔ وہ امیین جن میں ایمان لانے کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ جن کے اندر یہ استعدادیں تھیں اور یہ سعادت تھی کہ جب بھی وہ حق کی آوازکو سنیں گے تو وہ لبیک کہیں گے ایسے مومنین میں سے محمد رسول اللہ ؐ بھی ہیں۔ چنانچہ اس مضمو ن کو قرآن کریم کی ایک اور آیت مزید تقویت دیتی ہے۔ امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون۔ پہلے رسول ایمان لاتا ہے۔امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ دیکھو یہ رسول اس پر ایمان لے آیا۔ جو اس کے رب کی طرف سے اس پر اتارا گیا۔ والمومنون پھر مومنین کا سلسلہ شروع ہواہے۔ اول المومنین محمد رسول اللہ ہیں۔ پس یہ مضمون ہے لقد من اللہ علی المومنین۔ مومنین پر کتنا بڑا احسان ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اب یہ رسول ؐ ا ن کی طرف منسوب ہورہا ہے اور یہاں کسی عرب عجم کسی قوم کی طرف کوئی ادنیٰ بھی اشارہ نہیں۔ کسی خاندان کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔ عظمتیں ایمان میں ہیں اور ایمان میں اول محمد رسول اللہ ہیں۔ منھم ہونے کے باوجود ان میں افضل ان میں سب سے پہلے ہیں اور باقی علامتیں وہی بیان فرمائیں یعنی ترتیب کو درست فرما کر فرمایا۔ من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ اس کو پہلے رکھ دیاہے۔ ویزکیھم۔ وہ تلاوت کرتا ہے اور پھر تعلیم کا انتظار کئے بغیر اس تلاوت پاک سے اور اپنے وجود کی برکت سے ان کو پاک کردیتا ہے اور پھر ان پاکیزہ نفوس پر جب تعلیم اور حکمت اثر دکھاتے ہیں تو نور علی نور کا منظر پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ الٰہی عرفان کے شربت پیتے ہیں اور ساری دنیا کو پھر الٰہی عرفان کے شربت سے سیراب کرتے اور الٰہی رموز سے ان کو آگاہ کرتے ہیں۔ یہ وہ مضمون ہے و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر اللہ کے پاس سے ہدایت نہ آتی تو دینی علوم وغیرہ سے وہ بے بہرہ تھے۔ یہ آیت اس بات کی بھی نفی کرتی ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سفروں کے دوران شام سے یا کسی اور علاقے سے عیسائیوں سے کچھ تعلیم حاصل کی کچھ یہود مذھب کے متعلق واقفیت حاصل کی اور پھر یہ مذھب گھڑ لیا ۔ یہ ایک جھوٹا الزام مستشرقین کی طرف سے عائد کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بالکل جھوٹ ہے۔ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین وہ سارے ایمان لانے والے ‘ محمد رسول اللہ بھی انہیں میں سے تھے‘ اس سے پہلے دینی علوم سے بے بہرہ تھے۔ اس کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو آیات مکی دور میں نازل ہوئی ہیں۔ ان میں تو عیسائیت وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اسی لئے بعض مستشرقین یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ مدنی دور میں جاکر جب عیسائیوں سے واسطہ ہوا پھر سیکھا اور اس سے پہلے چونکہ قرآن کریم میں بنیادی طور پر اس تعلیم کا بیج موجود ہے جو مکے میں نازل ہوا تھا جو بعد میں ظاہر ہونے والی تھی اس میں تمام آئندہ کے دعاوی کی بنیادیں ڈالی جاچکی ہیں۔ وہ جب ان کے سامنے آتی ہیں تو پھر بہت بے چینی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دو طرح سے ان کا رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض تو ان آیات کو مکی آیات مانتے ہی نہیں۔ کہتے ہیں ہو ہی نہیں سکتا۔ چونکہ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ نے خود تعلیم دی تھی۔ یہ کتاب بنائی تھی۔اس لئے کہتے ہیں یہ ضرور مدنی آیات ہونگی اور جب ماننا پڑتا ہے‘ جب کوئی چارہ نہیں رہتا تو کہتے ہیں یہ وہی تعلیم ہے جومحمد رسول اللہ نے بچپن کے زمانے میں‘ آغاز جوانی میں وہاں کے سیریا وغیرہ کی طرف شام کی طرف تجارتی دورے کرتے ہوئے وہاں سے سیکھی تھی۔ اول تو ویسی ہی بڑی جاہلانہ بات ہے۔ جو سیکھی تھی اس کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ کسی سے آکے بات ہی کوئی نہیں کی۔ خاموش رہے ہیں۔ اور پھر جب تک اہل کتاب سے تصادم نہیں ہوا۔ اور ان کی اصلاح براہ راست درپیش نہ ہوئی۔ اس وقت تک قرآن کریم میں تفصیل سے وہ مضامین بیان نہیں ہوئے۔ تو وہ یادداشت میں چھپائے رکھے رہے ہیںاس وقت تک ۔ اور تیرہ سال مکی زندگی میں خاموش رہتے ہیں ان کے نزدیک‘ اور ہمارے نزدیک بھی تفصیل سے بیان نہیں کرتے لیکن بنیادیں اس کی ضرور موجود ہیں۔ تو باشعور طور پر ایک انسان جب کسی دوسرے سے ایک تعلیم سیکھتا ہے اور اس پر اپنی تعلیم کی بناء رکھتا ہے تو وہ آغاز ہی میں بڑی کھل کھل کر باتیں کرتا ہے اور جتنا دور ہٹتا ہے پھر وہ مدھم پڑتا جاتا ہے۔ یہاں الٹ مضمون ہے اور پھر مدنی دور میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم نہ حاصل کرنے کا اس سے بڑا کیا ثبوت ہے کہ تیرہ سال سے وہ چیلنج ہوچکا تھا۔ ایک دعویدار یہ دعویٰ کررہا تھا کہ میں خدا سے علم پاکر پھر بیان کرتا ہوں۔ اور اس میں کسی بندے کا کوئی دخل نہیں۔ جب مدینے میں داخل ہوئے ہیں تو اہل کتاب تو آپ کے پہلے ہی دشمن ہوچکے تھے۔ ان سے سیکھتے تھے؟ قرآن کریم تو کہتا ہے لائو اپنی کتاب دیکھو اس میں یہ موجود ہے۔ تم جھوٹ کہتے ہو کہ نہیںہے وہ تو چھپاتے پھرتے تھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں بارہا ان کو چیلنج دیا گیا ہے کہ اللہ نے مجھے خبر دی ہے ۔ یہ موجود ہے۔ جیسا کہ اسرائیل کا اپنے اوپر حرام کردینے والا واقعہ۔ وہاں شاید مجھے کسی نے مجھے بتایا تھا کہ میں نے غلطی سے بنی اسرائیل کا لفظ بول دیا تھا۔ اصل میں قرآن کریم کی آیت بتاتی ہے کہ تورات کے نزول سے پہلے اسرائیل نے جو کھانے اپنے اوپر حرام خود کئے تھے۔ ممنوع کردیئے تھے وہ کھانے جو تم پر ممنوع رہے اسرائیل کی وجہ سے ۔ یہاں حضرت اسحاق مراد ہیں اسرائیل سے اور بنی اسرائیل نہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے میرے منہ سے اس وقت غلطی سے لفظ نبی نکل گیا تھا۔ مگر بہرحال میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت اسحاق کے متعلق یہ دعویٰ کرنے کے بعد قرآن کریم فرماتا ہے کہ دیکھو۔ پڑھو اپنی تورات تمہیں ملے گا۔ وہاں یہ مضمون اب محمد رسول اللہ کو کس نے وہاں یہ سکھایا تھا۔ وہ تمام حوالے جو مدنی آیات میں ملتے ہیں ان سے قطعی طور پر اندرونی شہادت بتا رہی ہے۔ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونہ کسی نے سکھایا نہ کوئی سکھانے والا وہاں موجودتھا۔ اور نہ کوئی ایسا سکھانے والا قریب آتا تھا۔ بلکہ قرآن سے یہ ثابت ہے کہ یہودپہلے آپس میں مشورے کیا کرتے تھے کہ یہ بات نہ کرنا اس سے ان کوپتہ لگ جائے گا۔ یہ بات نہ کرنا اس سے وہ یہ سمجھ جائیں گے اور تمہارے رب کے سامنے تم سے جھگڑیں گے بحثیں ہونگی۔ اس لئے بہت احتیاط سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سوال تیار کیا کرتے تھے کہ اشارہ بھی نہ ہوسکے پھر یہ لوگ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارۃً بھی یہ علم نہ ہو کہ اصل میں بائیبل کیا کہتی ہے۔ بعض دفعہ جب وہ بائبل لاکر پیش کیا کرتے تھے تو بعض حصوں پر ہاتھ رکھ لیا کرتے تھے اور لفظاً بھی ایسا ہوتا تھا صرف معناً نہیں۔ چنانچہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہاتھ اٹھائو اور اس کے نیچے سے پھر وہی آیت نکلی جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید کرتی تھی۔ تو ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین میںجیساکہ پہلی آیت میں بالکل واضح ہے ھوا الذی بعث فی الامیین رسولا منھم ۔ امیین میں سے تھا خود بھی امی تھا۔یہ مراد ہے کہ امی ان معنوں میں کہ کسی سے کوئی دینی تعلیم حاصل نہیں کی تھی اور ان امور سے جو دنیا کی دی ہوئی تعریف ہے۔ کلیۃبے بہرہ تھا جس طرح دوسرے سب لوگ تھے۔ اس کے باوجود یہ تلاوت آیات کرتا ہے اور تزکیہ کرتا ہے اور کتاب کا علم سکھاتا ہے اور اس کی حکمت بھی وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین یہ مراد ہے۔پس یہ آیت ہے آج زیر بحث اس سلسلے میں جو متفرق مفسرین نے باتیں کی ہیں ان میں ایک دو بحثیں ایسی ہیں جو قابل توجہ ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ ہے کہ بعث فیھم رسولا من انفسھم سے بعض لوگوں نے یہ مراد لی ہے کہ یہاں اھل مکہ اھل عرب مراد ہیں۔ یہ بالکل غلط اور اس آیت کے منطوق کے بالکل مخالف معنی ہے کیونکہ لقدمن اللہ علی العرب نہیں فرمایانہ عجم۔ فرمایا علی المومنین اور مومن تو سب دنیا میں ایک قدر مشترک سے تعلق رکھنے والی قوم ہیں۔ ایمان اور کسی قومی یا عصبی تعلق کا کوئی دور کا بھی اشارہ لفظ المومنین میں نہیں ملتا۔ پس فرمایا کہ یہ تم مومنین کا آدمی ہے یہ نہ سمجھنا کہ اھل عرب میں سے ہے یا قریش خاندان میں سے ہے یا بنوھاشم کی اولاد میں سے۔ ان سے تعلق نہیں ہے اس کا۔ اس کا ایمانی رشتہ ہے اور ہر مومن سے تعلق ہے المومنون اخوۃ مومن سب بھائی بھائی ہیں۔ ایک نئی قوم دنیا میں پیدا ہورہی ہے جس کا عصبیتی رشتوں سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں۔ صرف ایمان کے رشتے ہیں جن کے نتیجے میں ایک ملت وجود میں آرہی ہے اور محمد رسول اللہ اس ایمانی ملت کے اول ہیں۔ اس کا آغاز کرنے والے اور سب سے افضل۔ دوسری بات یہ بیان کی جاتی ہے کہ بعض روایات میں انفسھم کی بجائے انفسھم آتا ہے اور یہ سیل نے بھی بیان کیا ہے اور حوالہ دیا ہے بیضاوی کا۔ اب دیکھیں قرآن کریم جو کھلا کھلا ایک مضمون خود پیش فرما رہا ہے اس کی آیات کے ساتھ اس طرح کھیل کرنا کہ کسی کو روایت یہ بھی ملتی ہے یہ درست نہیں ہے۔ بالکل قرآن کریم کے معانی اور مضمون بگاڑنے والی بات ہے۔ اور یہاں تک یہ بات عجیب ہے کہ ویری کہتا ہے کہ میں نے تحقیق کی ہے۔ وہ اسلام کا دشمن ہے وہ بھی مانتا ہے۔ کہتا ہے میں نے خود تحقیق کی ہے اور مجھے ایک بھی نسخہ ایسا کہیں دکھائی نہیں دیا جس میں انفسھم کی بجائے انفسھم بیان کیا گیا ہو یعنی ’’ف‘‘پر پیش کی بجائے زبر ڈالی گئی ہو اگر اسے انفسھم پڑھا جائے تو یہ مطلب بنے گا کہ ان میں سے من انفسھم ایسا رسول بھیجا ہے جو ان میں سے سب سے زیادہ اعلیٰ لوگوں میں سے ہے اگر تو مومنین کی طرف یہ ضمیر جاتی ہے تو پھر تو مضائقہ کوئی نہیں اگرچہ درست طریق نہیں ہے۔ قرآن کریم کا واضح طور پر جو متن ہمارے سامنے ہے وہی کافی ہے۔ کسی اور چیز کی احتیاج نہیں ہے کیونکہ اس طرح پھر رفتہ رفتہ شکوک کے رستے کھلتے ہیں اور یہ طریق درست نہیں۔ قرآن کریم سے وفاکا تقاضا ہے کہ ان باتوں میں نہ الجھا جائے سوائے اس کے کہ کوئی ایسی روایت ہو جو اس مضمون کو تقویت دیتی ہو جو متن میں موجود ہے۔ ان دو باتوں کا فرق ہے۔ میں ابھی آپ کے سامنے یہ مضمون اس حوالے سے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں تاکہ آ ئندہ جب آپ کے سامنے اس قسم کی الجھنیں آئیں تو ایک واضح کھلے روشن اصول کے تابع اپنے لئے فیصلہ کرسکیں۔ مختلف قسم کی روایات ملتی ہیں جن میں ملتا ہے کہ یہاں پیش کے ساتھ تلاوت متن میںلکھی ہوئی ہے لیکن بعض روایتوں میں زبر کے ساتھ بھی ہے۔ یہاں زبر کے ساتھ لکھی گئی ہے لیکن بعض روایتوں میں زیر کے ساتھ بھی ہے۔ جیسا کہ خاتَم النبیین کے مضمون میں بعض علماء یہ حوالہ دیتے ہیں کہ خاتم کے ساتھ ایک ’’ت‘‘ کی زیر کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ ’’خاتِم‘‘ اور اس پر جماعت احمدیہ نے بھی گفتگو کی ہوئی ہے لیکن اسی حد تک قابل قبول ہونگی یہ روایتیں جس حد تک متن میں ظاہر کئے ہوئے لفظ کے مضمون کو تقویت دیتی ہوں ان سے ٹکراتی نہ ہوں۔ جہاں ٹکرا ئیں گی وہاں یا وہ روایات جھوٹی یا تمہارا استنباط جھوٹا۔ اس واضح اصول کے تابع اب دوبارہ اس آیت کی طرف آتے ہیں تو انفسھم کا صرف یہ ترجمہ جائز ہے کہ مومنین کی طرف اس کی ضمیر جائے اور مراد یہ ہو کہ مومنین میں سے جو بہترین ہیں۔ The noblest among them کیونکہ انفس سے مراد Noble ہیں تو پھر تو کوئی حرج نہیں بے شک اور روایتیں ہوں ہمیںان پہ کوئی اعتراض نہیں مگر اگر اس کا مضمون قابل قبول نہیں ۔ وہ کہتے ہیں انفسھم سے مراد قریش مکہ ہیں اور ان میں سے بھی Noblest House اب کیسا لغو مضمون بدلا جائے جیسا کہ مفسرین بعض بدلنے کی کوشش کرتے ہیں تو کسی طرح بن جاتا ہے۔ قرآن محمد رسول اللہ کو عصبیتوں سے نکال کر کلیۃً الگ دکھا کر تمام جہانوں کے مومنین میں شامل فرما رہا ہے اور ہر زمانے کے مومنین میں شامل فرما رہا ہے اور یہ فقط ڈھونڈ رہے ہیں مکے کے ان نعوذ باللہ من ذلک معززین سے جن پر قرآن لعنتیں ڈالتا ہے کہ انہوں نے انکار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھ پہنچائے‘ ہر طرح کے عذاب مومنین پر وارد کئے اور خدا کی ناراضگی کا موجب بنے۔ قرآن گویا یہ فخر کررہا ہے کہ دیکھو محمد رسول اللہ ؐ ان شرفاء میں سے ہیں پس نہایت جاہلانہ خیال ہے چاہے بزرگ مفسرین نے بھی لکھا ہو۔ افسوس کی بات ہے کہ بعض دفعہ ایک بزرگ سے بھی ایسی کوتاہی ہوجاتی ہے جس سے قرآن پر حرف آتا ہے اوروہ قابل قبول نہیں ہے‘ کسی قیمت پر۔ جو قرآن کو عزت دیتا ہے وہی ہے جو عزت پائے گا۔ پس قطع نظر اس کے کہ کس نے کیا کہا ہے‘ جہاں قرآن کی عظمت اور اس کی طہارت پر حرف آتا ہو وہاں آپ کو وہ معنی قبول کرنے کی کوئی خدا کی طرف سے اجازت نہیں ہیں۔ پس انفسھم اگر ہے تو صرف یہ معنی ہیں کہ مومنین میں سے‘ عام النفس نہیں بلکہ ان کے بہترین میں سے یہ وجود تعلق رکھتا ہے۔ ان میں سے ہے۔ یتلوا علیھم ویزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین ۔ یہ جو معنی ہیں مومنین کے تعلق میں کہ یہ عام ہوا ہے۔ مجھے یہ خیال تھا کہ جو میں نے تفسیریں دیکھی ہیں ان میں کہیں اس عمومیت کا اس طرح ذکر نہیں کہ اس کا عربوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ساری دنیا میں سے ہے اور دماغ میں انسان کے بعض دفعہ ایک چھوٹا سا کیڑا پیدا ہوجاتا ہے کہ دیکھو یہ تفسیر جو تھی یہ پہلی دفعہ سمجھ میں آئی۔ تو پھر میں نے دیکھا کہ تفسیر سروری میں حضرت مولانا سرور شاہؒ نے بعینہٖ یہ بات لکھی ہوئی ہے اور بہت مجھے لطف آیا۔ تفسیر سروری میں نے ساری تو نہیں پڑھی۔ کبھی کبھی اس کے جو حوالے سامنے آتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مولوی سرور شاہ ؒ کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فہم قرآن عطا فرمایا تھا اور بہت سی باتیں جو دیگر مفسرین نہیں پیش کرسکے حضرت مولوی سرور شاہؒ کا ذہن اس طرف جاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ ٹھیک لکھا ہے‘ اگر میں کہوں تو غلط ہوتا ہے کہ مجھ سے پہلے کسی نے یہ بات نہیں سوچی۔ کیونکہ حضرت مولوی سرور شاہؒ سوچ چکے ہیں ۔ لیکن مولوی سرور شاہؒ نے بجا لکھا ہے کہ مجھ سے پہلے یہ اللہ کا خاص احسان ہے کہ کسی کا اس مضمون کی طرف خیال نہیں گیا جو ہے ہی ایک ہی مضمون قابل قبول‘ اور کوئی مضمون قابل قبول ہی نہیں ہے۔ کیونکہ عربوں کی بحث میں مبتلا رہے اسی لئے وہ مومنین کا ترجمہ بھی عرب کرلیا حالانکہ اس کا وہ ترجمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ آج کے مومن بھی اس میں شامل ہیں کل کے مومن بھی شامل ہونگے۔ امریکہ افریقہ جاپان سب مومن شامل ہیں۔ اور سب پر یہ اللہ کا احسان ہے۔ ورنہ رحمۃ للعالمین کیسے ہوگئے۔ اگر صرف عربوں پر احسان ہے کہ محمد رسول اللہ ان میں سے تھے تو پھر رحمۃ للعالمین کس طرح ہوئے رحمۃ العرب ہوگئے۔ لیکن ظلم کی بات یہ ہے کہ شیعہ مفسرین اس سے بھی دائرے کو تنگ کردیتے ہیں۔ کہتے ہیں مومنین پر احسان سے مراد اھل بیت پر احسان ہے بس اور کسی پر نہیں۔ اور اھل بیت صرف ان پر نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون سے آگے چلے ہیں۔ آپ کی اولاد میں سے یعنی بیٹی کی طرف سے آپ کی اولاد میں سے ہیں۔ بلکہ مفسرین اس عظمت کو عبدالمطلب کے گھر کی طرف منسوب کرتے ہیں‘ ابو طالب کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ ہیں اصل میں شان والے لوگ جن میں سے محمد رسول اللہ تھے اور انفس کے اوپر زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں انفس سے مراد معزز اور شرفاء ہیں۔ مومنین میں کہاں سے مل سکتے ہیں۔ معزز اور شریف لوگ تو کفار مکہ میں ملیں گے۔ اس لئے وہاں سے بات چلانی چاہئے اور کہتے ہیں وہ دیکھو House of Abu Hashim‘ House of Abu Talib, House of Abu Muttelib یہ وہ انفس ہیں جس کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ انفس من المومنین؟ وہ مومنین کہاں سے تھے؟ ان میں سے انفس کیسا ہوگیا؟ یعنی اتنا واضح تضاد ہے آیت کے مضمون میں اور ان کے دعاوی میں کہ کوئی معمولی عقل رکھنے والا انسان بھی اس کو فوراً پہچان سکتا ہے۔ لیکن مفسرین کی عادت ہے کہ وہ نئے نکتے کوئی نظر آئیں بغیر سوچے بعض دفعہ صرف لطف کے طور پر کہ ذوقی نکتہ یہ بھی ہے وہ سب رائیں اکٹھی کرلیتے ہیں اور ضروری نہیں ہوتا کہ ہر رائے سے وہ متفق ہوں ۔ اس سے بعض دوسرے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جو مستشرقین ہیں انہوں نے اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ امام رازیؒ کہہ دیا یا کسی اور کی طرف حوالہ دے دیا۔ جلا لین میں یوں لکھا ہوا ہے۔واقدی نے یہ لکھا حالانکہ وہ لوگ ہر قسم کی بعض دفعہ روایات اکٹھی کرلیا کرتے تھے۔ تاریخ میں واقدی کو اس فن میں کمال حاصل ہے کہ زیادہ سے زیادہ امکانی روایات جو ایک مضمون سے تعلق رکھتی ہیں وہ ایک جگہ اکٹھی کرلیتا ہے اور بعض دفعہ کھل بتادیتا ہے کہ میرے نزدیک یہ قابل قبول ہیں اور یہ سب باتیں قابل رد ہیں۔ اس حصے کو چھوڑ دیتے ہیں مستشرقین اور جو سب سے زیادہ اسلام پر حملہ کرنے کے لئے ممد روایت ہو اسے اختیار کرلیتے ہیں ۔ کہتے ہیں واقدی۔ بالکل یہی طریق شیعوں کا ہے آگے جاکے میں آپ کو دکھائوں گا حوالے دیتے ہیں۔ بعض کتب کے کہ اس سے ثابت ہوگیا دیکھ لوہم جو کہہ رہے ہیں۔ بالکل قطعی طور پر ثابت ہوگیا۔ اسی کتاب میں اس کے رد میں زیادہ قوی حدیثیں موجود ہوتی ہیں۔ ان کا ذکر بھی نہیں کرتے۔ تو یہ جو طریق ہے۔ یہ جائز نہیں ہے۔ یہ عقل کے بھی خلاف ہے اور تحقیق کے جو مسلمہ تقاضے ہیں ان کے خلاف ہے۔ روایات میں سے دونوں پہلوئوں کا ذکر کرنا چاہئے اور بتانا چاہئے کہ اگر ہم رد کرتے ہیں ایک کو تو کیوں کرتے ہیں۔ اس کی دلیل کیا ہے۔ اب میں بتاتا ہوں آپ کو۔ شیعہ روایات نے تو انفس کا زیادہ تر معنی وہی لیا ہے جو میں بیان کرچکا ہوں۔ اور یہ روایت جو ہے روح المعانی میں علامہ الوسی نے پیش کی تھی کہ انفس کی بھی ایک قرأت ملتی ہے۔ امام رازی نے ایک یہ بھی اشارہ کیا ہے کہ یہاں اس آیت کا اسیاق و سباق سے ایک تعلق ہے۔ اس پہلو سے بھی حضرت امام رازی کو اللہ تعالیٰ نے ایک غیر معمولی ذہنی اور قلبی روشنی عطا کی تھی۔ باقی مفسرین اس طرح سیاق و سباق کی بحث میں نہیں پڑتے جس طرح حضرت امام رازی بیان کرتے ہیں اور اکثر حکمت کی بات بیان فرماتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس کا سیاق و سباق سے یہ تعلق ہے کہ اس سے پہلے‘ میں ان کے الفاظ میں بتاتا ہوں۔ غلول اور خیانت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی تھی اور اس آیت میں زور دیا گیا ہے اس بات پر کہ تم میں سے ہے تم جانتے ہو اس کو۔ یعنی وہ بات جو میں پہلے عقلی دلائل کے طورپر میں بیان کرچکا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اس بات کو رد کرتی ہے۔ امام رازی کہتے ہیں کہ یہ مضمون اس آیت میں ہے کہ محمد رسول اللہ کو دیکھو تم لوگوں میں سے تھا اور تم اس کو اچھی طرح جانتے ہو پھر اس کا بددیانتی اور خیانت کا تصور بھی کیسے تم اس کی طرف منسوب کرسکتے ہو۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر کہتے ہیں کہ اس کے بعد نعمت کا ذکر فرمایا کہ خائن تو بہت ہی نقصان کا موجب بنا کرتا ہے۔ تمہارا سردار تو ایسا ہے جوتم پر سراسر احسان ہی احسان ہے۔ من اللہ میں یہ مزید بات پیدا کی ہے اللہ تعالیٰ نے کہ تم بڑے جاہل لوگ ہو۔ اس رسول کو جس تم جانتے ہو۔ کیسا امین تھا اور امین ہے۔ اس کی طرف ایسے بے ہودہ خیالات منسوب کرتے ہو لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ یہ تو سراسرتم پراحسان ہے۔ ایسا رسول ہے حقیقت میں۔ جو قوموں کے لئے شرف کا موجب بنتا ہے اور اس پر اس قسم کے ناپاک الزام کا کوئی حق نہیں بنتا۔ اب آیات کے سیاق و سباق کے لحاظ سے دوبارہ دیکھتے ہیں کہ یہ آیت یہاں پہلی سے کیا تعلق رکھتی ہے۔یہ پہلے دو درجے میں کل بیان کرچکا ہوں۔ پہلے تھا ماکان لنبی ان یغلکہ کسی نبی کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی قسم کی خیانت کرے۔ اس میں محمد رسول اللہ کی تخصیص نہیں بلکہ نبوت کے منصب کے خلاف بات ہے۔ اس لئے جب ادنیٰ نبی بھی خیانت سے مبرا ہیں تو نبیوں کا سردار کیسے خیانت میں ملوث ہوسکتا ہے۔ یہ مضمون ہے۔ ایک بہت ہی اعلیٰ اور پاکیزہ دلیل ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت کے حق میں۔ پھر دوسری آیت آئی۔ افمن اتبع رضوان اللہ تم نے دیکھا عمر بھر تو یہ اللہ کی رضا جوئی کرتا رہا ہے۔ اس کو چادر ہی ایک چاہئے تھی وہ بھی اس کپڑے کی جو منع کرچکا ہے اور پہن کے پھرتا کیسے باہر؟ ایک طرف یہ مشہور کردیا کہ چوری ہوگئی دوسری طرف چادر لیکے نکلتے اور وہ توجبہ کہتے ہیں۔ تو جبہ پہن کے کہیں نکلنا تو تھا لوگ پہچان نہ لیتے۔ یہ ایسی جاہلانہ بات ہے جس کو قرآن کریم اس قابل ہی نہیں سمجھتا کہ اس پر تفصیل سے بات کرے۔ لیکن اصولی باتیں جو کلیتہً ہر قسم کے الزام کو دھتکار رہی ہیں ان کی بات کررہا ہے۔ کہتا ہے اس کی تو رضوان باری تعالیٰ کی جستجو میں زندگی کئی اس کو کیسے تم ان لوگوں میں ملاتے ہو جو خدا کی ناراضگی لیکر لوٹا کرتے ہیں؟ وہ بھی کئی درجوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور خدا کی رضاجوئی حاصل کرنے والے بھی بڑے مختلف مدارج سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور ان میں یہ سرفہرست ہے اور خاتم النبین ہے۔ تو جو پاک لوگوں میں رضا جوئی کرنے والے لوگوں میں خدا کے نزدیک سب سے بلند مرتبے پر فائز ہو۔ اس پر ایک دوسرے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں والا ایک گھٹیا الزام تم لگا رہے ہو۔ کوئی اس بات کا کسی قسم کا کسی پہلو سے جواز دکھائی نہیں دیتا پھر فرمایا۔ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم۔ کہتے ہیں تم اس بات کو بھول نہ جائو کہ اللہ نے تم پر اس رسول کے ذریعہ ایک خاص احسان فرمایا ہے۔ پہلے رسول تو تعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے تزکیہ کیا کرتے تھے۔ اس کا وجود پاک کرنے والا ہے۔ پس جس کا وجود پاک کرنے والا ہو اس پر یہ الزام نعوذ باللہ من ذلک۔ اس کا تو کوئی کسی پہلو سے دور و نزدیک کے کسی پہلو سے بھی ایک ادنیٰ بھی جواز نہیں ہے۔ پھر اپنے محسن پر تم ایسی باتیں کرتے ہو؟ کتنا بڑا احسان ہے کہ خدا نے تم لوگو کی طرف اے مومنو! اے محمد ؐ رسول اللہ کے زمانے کے مومنین تم پر احسان فرمایا کہ ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جس کو تمہاری طرف منسوب کردیا۔ یہ تمہارا رسول ہے جب کہ پہلے انبیاء ترستے رہے کہ ہم ان میں سے ہوں جو محمد رسول اللہ پر ایمان لانے والے ہوں۔ اسی مضمون کی ایک روایت ملتی ہے کہ حضرت موسیٰ نے یہ دعا کی اور خدا سے تمنا کی ‘ جب پتہ لگا مقام محمدؐ آپ پر روشن فرمایا گیا کسی حد تک جس حد تک سمجھ سکتے تھے تو انہوں نے کہا اے خدا مجھے اس کی امت کا رسول بنادے۔ یعنی یہ حضرت موسیٰ کو بھی پتہ تھا کہ اس امت میں کوئی رسول آنے والا ہے۔ مجھے اس کی امت کا رسول بنادے۔ اس کا جواب خدا یہ نہیں دیتا۔ حدیث میں جو الفاظ ہیں وہ الفاظ مختلف ہونگے مگر مضمون بعینہٖ وہی ہے جو میں بیان کررہا ہوں۔ خدا یہ نہیں جواب دیتا کہ وہ تو خاتم النبین ہے۔ اس کی امت میں تو رسول آنا ہی کوئی نہیں تو میں تمہیں ایسے کیسے بنادوں۔ فرمایا نہیں۔ اس کی امت ان کا رسول انہی میں سے ہوگا۔ منھم۔ تم ان میں سے نہیں ۔ تمہیں کیسے بنایا جائے تو حضرت موسیٰ ؑ رسالت چھوڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں یہ عرض کریں گے پھر کہ مجھے اس کے مومنین میں سے بنادے۔ ان لوگوں میں سے بنادے جو اس کے امتی ہیں۔ اس امت میں شامل فرمادے۔ اللہ فرماتا ہے تم پہلے ہو وہ بعد میں آئیں گے۔ یہ ممکن نہیں۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانی آغاز جب تک شروع نہیں ہوتا۔ اس وقت سے پہلے کے مومنین آپ کی امت میں شمار نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ ایمان کا مرتبہ بڑھ گیا ہے۔ ایمان کے تقاضے بلند ہوگئے ہیں۔ اور تزکیہ کامضمون ایک نئی شان سے ایک نئی منزل میں داخل ہوچکا ہے۔ وہاںپہلے تزکیہ ہوگا پھر تعلیم کتاب اور حکمت کتاب ہوگی۔ تو فرماتا ہے کہ یہ اللہ نے تم پر اتنا بڑا احسان کیا کہ تم مومنین جو محمدؐ کے مومنین ہو جو محمدؐ رسول اللہ کے زمانے کے بعد کے آنے والے ہو۔ ان کی طرف منسوب فرمادیا کہ یہ ان میں سے ہی ہے۔ بڑی بے حیائی ہے کہ اتنے بڑے محسن کے متعلق ایسی ادنیٰ بات سوچ رہے ہو۔ دراصل یہ مومنین کی طرف تو تنبیہہ ہے مگر اشارہ منافقین کی طرف ہے۔ مومنین کو سمجھایا گیا ہے کہ تم ایسے ناپاک خیال کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ اور مومنین شامل نہیں ہوا کرتے تھے۔ کسی ایک بدبخت کی بات ہوتی تھی اس کو اٹھا کر پھیلا دیتے ہیں یہ لوگ حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو مومنین تھے ان کی بالکل مختلف شان تھی چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے سے لوٹ رہے تھے مدینے کی طرف فتح مکہ کے بعد کچھ عرصہ قیام فرما کر تو جو کچھ اس وقت تک مال غنیمت ہاتھ آیا تھایا پہلی جنگوں میں بھی جو کچھ ملا تھا آپ نے جاتے ہوئے تمام تر مہاجرین میں تقسیم کردیا اور انصار کے ایک شخص نے جس کے متعلق نقشہ بھی بڑا بھیانک سا ہے بڑی مکروہ صورت اورایک منافق مزاج کا آدمی تھا اس نے یہ کہہ دیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال و دولت اپنے عزیزوں کو دے دیا۔ اس وقت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ اے انصار سنو ! تم نے یہ کہا ہے۔ جب یہ فرمایا تو اس طرح ان کی حالت زار ہوئی کہ جیسے بکریاں ذبح ہوگئی ہوں۔ وہ روتے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ یا رسول اللہ ہم نے نہیں کہا۔ ہم میں سے کسی بدبخت نے کہا ہے۔ لیکن آپ ان کی بات سن کر اس کو نظر انداز فرماتے اور یہ کہتے تھے ساتھ فرمایا دیکھو تم یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ کے اس رسول نے بھیڑ بکریاں اور دنیا کا اموال تو اپنے رشتہ داروں کو دے دیئے اور خود مدینے والوں کے ساتھ واپس لوٹ گیا اور اپنے گھروں کی کوئی پرواہ نہ کی اپنے شہر کی کوئی پرواہ نہ کی۔ یہ بھی تو سوچ سکتے تھے؟ یہ بات جب بیان فرمائی تو راوی کہتے ہیں اس طرح صحابہ ؓ کی خاص طور پر انصار کی حالت تھی کہ وہ دیکھی نہیں جاسکتی تھی بیان کے لائق نہیں۔ اور وہ انہوں نے یہ نہیں کیا تھا۔ یہ ہے شان ان مومنین کی جن کے متعلق یہ دشمنان اسلام خواہ باہر کے ہوں یا اندر کے ہوں زبانیں دراز کرتے اور بڑھ بڑھ کے حملے کرتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے محمد رسول اللہ ان مومنین میں سے تھے۔ جو یہ بات سوچ بھی نہیں سکتے۔ پس یہاں مومنین کو مہتم نہیں کیا جارہا یہ دماغ سے خیال نکال دیں کہ یہاں مومنین کو کہہ کر ان کو تنبیہہ کی جارہی ہے۔ مومنین کو ا نسے پاک کرکے الگ دکھایا جارہا ہے یہ۔ مومنین مطلب ہے سوچ بھی نہیں۔ جہاں تک مومنین کا تعلق ہے ان کو پتہ ہے محمد رسول اللہ کا‘ اللہ کا احسان ہے ان پر محمدؐ کو انہیں سے پیدا کیا انہیں میں شامل کردیا۔ ان کے ذکر میں محمدؐ کا ذکر چلادیا۔ اتنا بڑا احسان ہے وہ کیسے سوچ سکتے ہیں ان باتوں کو۔ اس لئے اگر کوئی سوچتا ہے تو یقینا وہ دوسرے لوگوں سے تعلق رکھتا ہے۔ جو منافقین کا اور مکروہ باتیں سوچنے والوں کا گروہ ہے۔ اب تفسیر کے دوسرے حصوں کی طرف آتا ہوں۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ اسماعیل کا نام اسرائیل تھا؟ جب ہم کہتے ہیں بنو اسرائیل تو بنو اسماعیل اور بنو اسرائیل دوالگ الگ ہیں بالکل۔ پتہ نہیں ان کے دماغ کو کیا سوجھی ہے۔ کسی حوالے میں یہ نکلتا ہوگا۔ مگر اسرائیل سے مراد بائیبل میں واضح،اسحاق ہیں (نقل بمطابق اصل)
جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے بیٹے تھے۔ اسرائیل سے مراد اصل میں پہلوان ہے۔ ان کے متعلق بائیبل میں آتا ہے کہ ساری رات خدا سے کشتی کی تھی اور کشتی میں ہارے نہیں اللہ سے نعوذ باللہ من ذلک۔ اور وہ پہلوان ہے جس سے ان کا نام اسرائیل پڑا اور بنو اسرائیل سے مراد حضرت اسحاق کی اولاد ہے۔ وہ خود تو اسرائیل تھے آپ کی اولاد اسرائیل ہے، اب انہوں نے ایک روایت بھیجی ہے پیدائش باب 35 کو اسماعیلؑ کا نام اسرائیل تھا۔ یہ پتہ نہیں کونسی بحث ہے مجھے اس سے غرض نہیں ہے یہ مسلمہ بات ہے ایک حقیقت ہے کہ جب ہم بنی اسرائیل کہتے ہیں تو بنی اسماعیل سے الگ ان کو دیکھتے ہیں اور جب کہتے ہیں کہ ان کے بھائیوں میں سے ایک نبی برپا کیا تو وہاں بنی اسماعیل کی بات شروع ہوجاتی ہے اور حضرت محمد ؐرسول اللہ کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے بھائیوں میں سے یعنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے……
وہ آیت جو میں نے کل پڑھی تھی شاید اس میں پڑھنے میں کوئی غلطی ہوئی تھی؟ کہتے ہیں کلا ان معی ربی سیھدین یہ لفظ ہیں ہوسکتا ہے مجھ سے آگے پیچھے ہوگیا ہویہ ۔ یاد رکھ لیں کل جو میں نے ایک آیت کی طرف حوالہ دیا تھا۔ حضرت موسیٰ کے متعلق۔ تو کسی نے بہت اچھا کیا ہے۔ جرمنی سے حافظ محمد سلیمانؐ نے لکھ کر بھیجا ہے کہ اس کی درستی کروادیںوہ۔ یادداشت میں بعض دفعہ غلطی ہوجاتی ہے۔ اصل قران کریم کے الفاظ ہیں کلا ان معی ربی سیھدین۔ ایسے موقعوں پہ وصل میںفوراً قرآن کریم دیکھ لیا کریں تاکہ بجائے اس کے کہ کل یا پرسوں کوئی درستی ہو فوراً درستی ہوجایا کرے۔ اچھا اب دیکھتے ہیں۔ ہم دوسرے مفسرین کی بات۔ Bell نے ایک کمنٹری کی ہے۔ اب بتائیں اگر میں اس کو گدھا نہ کہوں تو کیا کہوں۔ کہتا ہے کہ اس Verse سے ثابت ہوگیا کہ
The muslims had not yet been quite forgiven۔ اللہ تعالیٰ احسان کا ذکر فرما رہا ہے کہ کبھی کسی قوم پر اتنا بڑا احسان نہیں کیا۔ جیسا تم پر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے صاف پتہ لگا Muslims were not quite followers۔ ا ب دوسری بات بیان کردوں میں۔ کل تو میں نے غلطی سے توبہ کرلی تھی۔ ایک خاتون نے مجھے لکھا تھا کہ آپ زیادہ سخت لفظ بول جاتے ہیں اور یہ ٹھیک نہیں اور یہ نہیں اور وہ نہیں تو اصولاً تو یہ بات درست ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہئے اور خواہ کیسا ہی کسی کے جذبات کو کچلا جائے حتی المقدور زبان سے کوئی سخت بات نہیں کہنی چاہئے لیکن جہاںعشق کے مضامین ہوں وہاں بے اختیاری ہوجاتی ہے اور جہاں جہاں بھی میرے منہ سے سخت لفظ نکلے ہیں بے انتہا اور اچانک کچلے ہوئے آدمی کے دل سے جس طرح بات نکلتی ہے۔ کسی کے پائوں میں کون (Corn) ہو اس پہ کسی کا پائوںپڑے وہ یہ نہیںدیکھتا کہ ابا کا پڑا ہے یا امی کا۔ پہلے دھکا ہی دیتا ہے اس کو۔ بے اختیار ہوتا ہے۔ بعد میں کہتا ہے اوھو معاف کرنا آپ تھے‘ تو پھر پتہ چلتا ہے کہ کس کو دھکا دے دیا تھا۔ تو یہاں تو دشمن نے ارادۃً پائوں کچلنے کے لئے پائوں رکھا ہے اور پائوں کچلنے کے لئے نہیں دل کچلنے کے لئے دل پر قدم رکھا ہے۔ اس کو اگر دھکا دے دے کوئی آدمی تو کسی دوسرے کی دل آزاری ہوجائے کہ اوھو یہ تو بڑی سختی ہوگئی۔ یہ جائز نہیں ہے۔ میں نے یہ بات اس لئے بیان کی ہے کہ ایک احتجاج وہ آیا تھا اور واپس آکے رات گئے تک دوسرے احتجاج ملنے شروع ہوئے جو سب متفق تھے کہ آپ نے کیا کہہ دیا۔ خدا کے واسطے جس طرح آپ دیتے ہیں اسی طرح دیں درس جاری رکھیں۔ آپ کا ایک قدرتی ردعمل ہے۔ جس طرح ظاہر ہو ہمیں منظور ہے اور آپ جب کوئی سخت کلامی کرتے ہیں تو ہم سب کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ ہمیں زبان دیتے ہیںتو کسی اور کا کیا حق ہے کہ وہ ہماری زبان نوچ لے اس لئے آپ ہماری زبان بنے رہیں اور۔ اسی طرح بات کریں جیسے دل سے آپ کی آواز اٹھتی ہے۔ اس لئے میں نے کہا۔ بچپن میں ہم کھیلتے ہوئے تھوماری کیا کرتے تھے۔ کھیل میں کوئی بات پہلے طے ہوئی اور اب یہ کہ نہیں یہ ٹھیک نہیں تو تھوماری کردیتا ہے۔ تو میری تھو ماری۔ وہ خاتون اپنا مشورہ اپنے گھر رکھیں اور باقی ساری جماعت نے جس بات کا اظہار کیا ہے میں ان کے ساتھ ہی رہوں گا اور آپ بھی اس میں تھے اس لئے یہ جزاک اللہ میں جو خاص شوکت دی نا وہ اس لئے ہے کہ ۔ احتجاج کرنے والوں میں عبید اللہ علیم صاحب بھی شامل تھے۔ باقاعدہ رات ملاقات کا وقت لے کر آئے اور کہا کہ بس یہ کام نہیں کرنا۔ دوسرے یہ کہ جو ان لوگوں نے بغض کا اظہار کیا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے حقیقت میں۔ چند باتیں ہم بیان کردیتے ہیں۔ جو باتیں نہیں بیان کرتے یا کرسکتے۔ اتنے ظالمانہ حملے ہیں قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور مومنین پرشیعوں کی طرف سے کہ بعض جگہ وہ الفاظ برداشت ہی نہیں ہوسکتے اور ان کو زبان پر لانا ہی ممکن نہیں انسان کے لئے۔ جس طرح حضرت عمرؓ کے اوپر تبرا کیا گیا ہے حضرت ابوبکرؓ پر تبرا کیا گیا ہے۔ ان کے اوپر جس جس طرح نعوذ باللہ من ذلک لعنتیں ڈالی گئی ہیں۔ ان کی تصویریں بڑی خوفناک بنا کر دکھائی گئی ہیں۔ یہ ایسے امور ہیں جن کا ذکر ایسی مجلسوں میں زیب ہی نہیں دیتا کہ ان کو کھل کر بیان کیا جائے۔ اشارۃً ذکر ٹھیک ہے۔ تو وہ جس نے پڑھا ہو اس کا دل تو کچلا ہوا ہے۔ اس سے ایک بات نکل جائے تو کیا ہے کبھی اللہ معاف فرمائے گا۔ لیکن بے اختیاری کا حال ہے۔ ایک شعر ہے الٹ مضمون کا۔ اس میں لفظ بدلنا پڑے گا۔ لیکن ہے دلچسپ کہ مقدور بھر تو ضبط کروں…… اور کیا ہے آگے؟ تو کیا ہے آگے ایک لفظ مجھے یاد تھا بھول گیا ہے۔ منہ سے نکل ہی جائے ہے بات پیار کی۔ مقدور بھر تو ضبط کروں ہوں پر۔ کیا کروں نہیں کچھ اور لفظ ہے۔ کہ میں وعدے پہ قائم ہوں ضبط کرتا ہوں مقدور بھر لیکن کبھی بے اختیاری میں پیار کی بات نکل ہی جاتی ہے۔ تو احتجاج کا کلمہ بے اختیار نکل ہی جاتا ہے کبھی۔ جذبات پر جو اختیار ہے اس کی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ اس مضمون کو ایک اور شاعر نے یوں بیان کیا ہے۔ جو اس مضمون سے براہ راست تعلق نہیں۔ کہ روکے ہوئے ہیں ضبط و تحمل کی قوتیں دلائیں رگ رگ پھڑک رہی ہے دل ناصبور کی۔ تو جو کچھ میں نے کہا ہے روکے روکے کہا ہے جو اندر رگ پھڑک رہی ہوتی ہے۔ اس کا پورا بیان نہیں کرتا۔ اس لئے جو کل کہا تھا وہ ٹیپیں اسی طرح رہیں گی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ ساری جماعت کو میں جنہوں نے احتجاج بعد میں بھی کرنے ہیں کچھ رستے میں ہوگے۔ ان کو میںتسلی دلا رہا ہوں۔اب سنیئے وہ باتیں جو دل کہنے کو نہیں چاہتا مگر کرنی پڑتی ہیں۔ The Holy Quran Version of Ahlul bait. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی طرف منسوب کرنا ان باتوں کو بڑا ظلم ہے۔اول تو یہی بڑی تکلیف دہ ہے۔ دیکھتے ہی کو غصہ آجاتا ہے کہ تم کو ن ہو ۔ اہل البیت کے دل کی باتیں کرنے والے اور اہل بیت کے قرآنی فہم کا دعویٰ کرنے والے کہ ہم ہیں نمائندہ ان کے اور ہم بتاتے ہیں کہ اہل بیت کی سوچ کیا ہے ان باتوں میں۔ اوربالکل جھوٹ ہے۔ لیتے ہیں یہ ہے پویا صاحب کی کمنٹری ۔ آغا حاجی مرزا مہدی پویا یزدی 1988ء پبلشرز تحریک ترسیل قرآن (Incorporated) سورہ آل عمران 165۔ اس کا ترجمہ ہے ہاں اس عنوان میں نے پہلے بھی بتایا تھا 157سے 172تک اکٹھا تبصرہ کیا ہے انہوں نے اور اس مضمون کاعنوان یہ رکھا ہے۔ The faithful Identified from the hypocrates at the battle of Uhad. ۔ احد کے میدان میں احد کی جنگ کے دوران مومن غیر مومنوں سے الگ کرکے امتیازی شان کے ساتھ دکھا دیئے گئے اور اس تقسیم کے وقت ایک طرف حضرت علیؓ رہ گئے اور باقی طرف سب دوسرے چلے گئے۔ تمام صحابہ جو جنگ احد میں رسول ﷺ کے ساتھ تھے وہ منافقین کی صف میں جا کھڑے ہوئے اور حضرت علیؓ اکیلے ایک طرف رہ گئے یہ ہے جو مضمون کا عنوان باندھا گیا ہے۔ اب اس پرسنئے۔لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا۔
Indeed God has confered his favour upon the believers when he raised up an apostle Muhammad among them from their ownselves to rehearsen to them his signs to purify them (see foot note). And to teach them the book Quran and Wisdom though before this they were in manifest error (foot note).
آیت میں جو باتیں ہیں ترجمہ اس میں وہ فٹ نوٹ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ فٹ نوٹ پڑھو گے تو بات سمجھ آئے گی۔ کہتا ہے۔Ahlul bait not Included for they peurified by God Himself.
کہتا ہے یہاں جو فرمایا ہے کہ خدا نے ایک رسول مبعوث کیا جو مومنین ہی میں سے تھا وہ ان کا تزکیہ کرتا ہے۔ کہتا ہے۔ یہاں غلطی سے یہ نہ سمجھ لینا کہ اھل بیت بھی محمد رسول اللہؐ کے زیر احسان ہیں۔ ان پر کوئی احسان نہیں محمدؐ کا۔ان کا خدا نے براہ راست تزکیہ کیا ہے۔ اس لئے اہل البیت اگنرامپٹڈ (Exampted) اس آیت سے جب Exampt ہونگے تو مومنین سے بھی تو Exampt ہوجائیں گے۔ یہ نہیں سوچا انہوں نے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنین میں سے محمد رسول اللہﷺ ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہے تو مومنین میں اگر شامل ہیں تو تزکیہ کے نیچے آپ ہی آجائیں گے۔ اگر نہیں تو مومنوں کی فہرست سے ہی باہر نکل جائیں گے۔ مگر وہ اس کا یہ جواب دیدیں گے کہ مومنین میں سے ایک استثناء کیا گیا ہے اگرچہ اس آیت نے کوئی ذکر نہیں فرمایا۔ استثناء کا حق بھی شیعہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے استثناء نہ فرمایا ہو اور جہاں استثناء بیان کرنے کیا موقعہ ہے وہاں کوئی استثناء بیان کیا ہو تو شیعہ کہتے ہیں۔ ہمیں حق ہے جس طرح اہل بیت کی نمائندگی کرتے ہیں خدا کی بھی نمائندگی کریں اور دنیاکو بتائیں یہاں استثناء موجود ہے اگرچہ مذکور نہ ہو۔ یہ آیت اس کی مثال ہے اور ایک اور آیت اس بات کی مثال ہے جس میں وہ شیعہ مفسر احمدیوں پر حملہ کرتے ہیں وہ جو آیت ہے وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل۔ اس آیت پر بحث کرتے ہوئے شیعہ مفسر جن کی یہی ذہنیت ہے۔ میر احمد علی صاحب لکھتے ہیں کہ اس آیت سے یہ تو ثابت ہے اور واضح طور پر ثابت ہے کہ محمد رسول اللہ سے پہلے تمام انبیاء گذر چکے ہیں۔ مرچکے ہیں۔ یہ بات مانتا ہے۔ لیکن احمدی مفسرین کی عقلیں دیکھو کہ وہ اس میں استثناء نہیں مانتے جبکہ عیسیٰؑ کا واضح استثناء موجود ہے۔ اور وہ کہاں ہے؟ اس کا ذکر نہیں۔ اور چونکہ اس بات کی کوئی دلیل پاس نہیں ہے کہ استثناء ہے اس لئے کہتے ہیں کہ احمدی اس لئے استثناء نہیں مانتے کہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ کسی کو غیر طبعی عمر تک زندہ رکھ سکے۔ اب جہالت کی حد ہے۔ نہیں ہے ا نکو عادت ہے‘ جھوٹ دوسروں کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔ ہم اس لئے نہیں مانتے کہ جس نے بیان فرمایا وہ استثناء کرتا تم کون ہوتے ہو استثناء کرنے والے اس کی طرف سے؟ اللہ تعالیٰ نے کوئی استثناء نہیں رکھا۔ مامحمد الا رسول قد خلت من قلہ الرسل۔ اور اتنا ماننا پڑا ہے۔ اس مفسر کو کہ الرسل چونکہ جواز کوئی نہیں۔ اس لئے احمدیوں کی طرف ایک غلط بات منسوب کردی اور دلیل کا رخ موڑ دیا۔ کیونکہ اس بات کو بھی مسلمان کبھی قبول نہیں کریں گے کہتا ہے کہ خدا کو قادر مطلق نہیں سمجھتے۔ احمدی خدا کو قادر مطلق سمجھتے ہیں اور بات پر بھی قادر سمجھتے ہیں کہ جہاں استثناء بیان کرنا ہو وہاں استثناء بیان فرما دیا کرتے اور تمھیں قادر مطلق نہیں سمجھتے کہ جہاں اللہ نے استثناء بیان کیا ہو وہاں تم قادر مطلق بن کر اس کی طرف سے استثناء بیان کردیا کرو۔ یہ بیت ان مومنین میں شامل نہیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کیونکہ اہل بیت کو تو خود خدا نے پاک کیا تھا اور خود پاک کرنا تھا۔ محمد رسول اللہ کا ان پر کیا احسان ہے تو اب ایک اور بات سوچئے ۔ جنگ احد میں کیا واقعہ ہوا ہے علیؓ کے سوا باقی سارے تو منافق ثابت ہوگئے نا۔ ایک علیؓ تھا اس کو محمد رسول اللہ ؐ نے پاک نہیں کیا وہ بھی ہاتھ سے گیا پیچھے کیا چھوڑا۔ جہاں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق ہے اس خبیث عقیدے کے مطابق وہ سب سے بڑا پاک کرنے والا وجود ایک بھی وجود کو بھی پاک نہیں کرسکا۔ کیونکہ ان کے نزدیک اہل بیت کے سوا کوئی پاک رہا ہی نہیں۔ جو محمد کے سپرد کام تھا صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ایسا ناکام رہا کہ کبھی کوئی نبی اس طرح ناکام نہیں ہوا اور جو چند پاک مل گئے وہ پاک وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے خود کرلیا۔ اس نے کہا محمد رسول اللہؐ تو میں نے بھیجا تھا تزکیہ کرے اور نعوذ باللہ غلطی سے میں کہہ بھی بیٹھا ہوں کہ تزکیہ کرتا ہے۔ لیکن جنگ احد نے تو ثابت کردیا کہ بالکل غلط خیال تھا۔ نہ تونے تزکیہ کیا نہ ہم نے صحیح سمجھا‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے‘ جوایک آدمی پاک نکلا وہ توتیرا پاک کیا ہوا ہے ہی نہیں۔ وہ تو ہم نے براہ راست پاک کیا تھا۔ اور اہل بیت دوسرے بھی سارے اللہ نے براہ راست پاک کئے تھے تو حضرت محمد رسول اللہ کے کھاتے میں کیا رہ گیا باقی؟ نعوذ باللہ من ذلک۔ منافقین کے سوا اور کون رہے؟ اور یہ ہے نبیوں کا سردارؐ ‘ خاتم النبین‘ رحمۃ للعلمین۔ تمام نبیوں سے بالا اور افضل اور ایسا کہ نبی اس کی غلامی میںفخر کریں وہ اپنی نبوتوں کو الگ پھینکنے پر آمادہ ہوجائیں اور کہیں کہ اے خدا ہمیں ان کی امت میں سے بنادے۔ کس امت میں سے؟ منافقین کی امت میں سے؟ یہ موسیٰؑ کی دعا تھی؟ اتنا ناپاک حملہ ہے کہ مسلمانوں کو ہوش ہی نہیں‘ عقل ہی کوئی نہیں۔ پاکستان میں بیٹھے احمدیوں کے متعلق فتوے دیئے جارہے ہیں۔ نعوذ بالہ من ذلک۔
حالانکہ حضرت محمد رسول اللہ کے عشاق میں احمدیت نے جو عشاق پیدا کئے ہیں اس شان کے نکال کے تو دکھائو اور کہیںسے۔ ساری دنیا میں حضرت محمد رسول اللہؐ کے عشق میں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں اور خدا کی محبت میں سارے کام جاری ہیں جو احمدیت کی طرف سے چل رہے ہیںدنیا بھر میں۔ محمد رسول اللہؐ کے عشق میں میں نے پہلے کہہ دیا پہلے کیوںکہنا چاہئے تھا۔ اللہ کے عشق میں اور اس کے محبوب محمد رسول اللہﷺ کے عشق میں یہ سارے کام جاری ہیں۔ ان کے متعلق تو ظلم یہ ہے کہ اگر یہ حضرت محمد رسول اللہ کی حقانیت کا اعلان کردیں تو ان پر پاکستان میں فتوے دیئے جاتے ہیں کہ انہوں نے گستاخی کی ہے محمد رسول اللہؐ کی۔ ان کو سچا کہہ دیا اور ان کی سزا قتل ہے اور مرتد کی سزا۔ مرتد نہیں۔ یہاں ہتک رسول کرنے والے کی سزا موت کے سوااور کچھ نہیں اس لئے ان کو تختئہ دار پر چڑھا دو۔حال ہی میں اب تک 112 آدمیوں کے خلاف محمد رسول اللہؐ کی تائید میں کلمات کہنے کے جرم میں موت کی سزا کے مقدمے درج کئے جاچکے ہیں۔ 112 نہیں 120 اور یہ تو ہر وقت بڑھ رہا ہے یہ معاملہ اور ان لوگوں کو جو جیل میں بیٹھے ہوئے ہیں قرآن کی تلاوت سے روکا جارہاہے۔ ان کے ہاتھوں سے قرآن چھین کے لے لئے گئے ہیں۔ وہ روزے دار یہ بھی مجاز نہیں کہ قرآن پڑھیں جبکہ ساری دنیا میں دشمن عیسائی‘ ہندو ‘ سکھ ہر قسم کے مذھب کے آدمی کو یہ اختیار ہے وہ قرآن پڑھے جہاں مرضی بیٹھ کر پڑھے۔ یہ جو دشمنی ہے یہ آج تک تاریخ عالم میں ایسی جہالت کی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی۔ عصبیت اپنی انتہاء کو پہنچی ہے اور اتنے پاگل ہوئے ہیں لوگ۔ یہ ملاں جو یہ سب کچھ کروا رہا ہے اس کی شان اب سمجھ آئی ہے کہ اس کی شان میںخدا تعالیٰ کے رسول نے یہ فرمایا تھا۔
شر من تحت ادیم السماء کہ آسمان کی جلد کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے۔اس سے زیادہ بدترین مخلوق کا تصور اور کیا ہوسکتا ہے کہ محمد رسول اللہ کی تائید کرو اس پہ غصہ آجائے ہے۔ محمد رسول اللہ کو سچا کہو تمہیں غصہ آجائے۔ اگر تم دشمن اسلام ہوتے اور جیسا کہ ہو‘ ظاہر کررہے ہو تو پھر یہ ٹھیک تھا۔ بلال پر غصہ آتا تھا کہ لا الہ الا اللہ کا اعلان کیوں کرتا۔ مگر کفار کو آتا تھا۔ مومنوں کو تو نہیں آیا کرتا تھا۔ تو یہ مضمون بہرحال آج تو ختم نہیں ہوسکے گا۔ کل ان شاء اللہ اس کو ختم کریں گے…!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللہ الرحمن الرحیم
درس القرآن یکم مارچ 1994ء
18رمضان المبارک
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم و یعلمھم الکتاب والحکمۃ ج و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین ………… واللہ اعلم بما یکتمون O (سورہ آل عمران رکوع 17 آیت نمبر 165 تا نمبر 168)
اللہ تعالیٰ نے مومنوںپر احسان فرمایا جبکہ ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا۔ یتلوا علیھم ایاتہٖ جو ا ن پر اپنے اللہ کی آیات تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا چلا جاتا ہے اور ان کو کتاب کی تعلیم بھی دیتا ہے اور اس کی حکمتیں بھی سکھلاتا ہے۔
و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین۔ جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میںیا لاعلمی کی حالت میں تھے۔
اولما اصابتکم مصیبۃ ۔ کیا جب کبھی بھی تمہیں کوئی مصیبت پہنچے جبکہ اس سے پہلے تم اس سے دگنی مصیبت دشمن پر ڈال چکے ہو۔
قلتم انی ھذا۔ تم یہ کہہ دو گے کہ یہ کیسے آئی یہ کہاں سے آئی۔
قل ھو من عند انفسکم کہہ دے کہ یہ تمہاری ہی طرف سے ہے۔
ان اللہ علی کل شئی قدیر اور اللہ تعالیٰ یقینا ہر چیز پر قادر ہے۔
وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ و لیعلم المومنین۔ اور جو تمہیں اس د ن تکلیف پہنچی جس دن دو بڑے گروہوں میں تصادم ہوا تو یہ اللہ کے اذن سے ایسا ہوا تاکہ وہ مومنوں کو جان لے۔
ولیعلم الذین نافقوا اور ان کو بھی پہچان لے جنہوں نے نفاق کیا وقیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا۔ اور ان سے کہا گیا تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ ا واد فعوا ۔ آئو خدا کی راہ میں قتال کرو اور یا دفاع کرو۔ قالوا لو نعلم قتالا لا تبعنکم اگر ہمیں قتال کرنے کا فن آتا‘ ہمیں علم ہوتا کہ قتال کیسے کیا جاتا ہے ہم ضرور تمہاری پیروی کرتے تمہارے پیچھے پیچھے آتے۔
ھم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان۔ وہ اس دن ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے۔
یقولون بافواھھم ما لیس فی قلوبھم ۔ وہ اپنے مونہوں سے ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں۔
واللہ اعلم بما یکتمون۔ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے‘ سب سے زیادہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔ ان آیات کی تلاوت بھی پہلے ہوچکی ہے۔ پہلی آیت پر درس جاری ہے۔
اس ضمن میں مجھے بتایا گیا ہے کہ کل کے ترجمہ میں میں نے لیعلم المومنین کا ترجمہ یہ کردیا تھا تاکہ مومن جان لیںیہ ایسی سہو ہے جو بعض دفعہ نظر کی سہوہو جاتی ہے بعض دفعہ زبان سے بھی سہواً ایک کلمہ نکلتا ہے جو علم میں مختلف ہوتا ہے۔ علم کے اعتبار سے ذہن میں مختلف ہوتا ہے لیکن زبان سے مختلف ادا ہوجاتا ہے تو اسی لئے میں نے دوبارہ اس کا ترجمہ کردیا ہے۔ مومنین مفعول بہ ہے ظاہر بات ہے اس کا ترجمہ یہ ہونا چاہئے تھا تاکہ وہ مومنوںکو جان لے یعنی اللہ تعالیٰ جان لے تو اس وقت دوبارہ نظر لفظ مومن پر نہیں پڑی۔ ترجمہ زبانی جب میں کررہا تھا تو اس میں یوں ترجمہ ہوا گویا کہ مومنین لکھا ہوا ہے۔ اگر المومنون لکھا ہوتا تو پھر اس کا یہ ترجمہ بنتا ہے تاکہ مومن جان لیں کہ اس کے نیتجہ میں کیا کیا اثرات ظاہر ہوئے ہیں لیکن یہاں مومنین ہے اس لئے میں وضاحت سے بتا رہا ہوں دوبارہ تاکہ کل کا ترجمہ وہ دوبارہ اسی طرح سناجائے گا تو اس کی اچھی طرح وضاحت درج ہوجائے۔ بات یہ ہے کہ یہ درس جو جاری ہیں یہ کوئی ایسے درس نہیں ہیں جو اتفاقاً اسی زمانے میں رہ جائیں گے یہ آئندہ تاریخ کا حصہ بننے والے ہیں۔ آئندہ آنے والی نسلوں کی امانت ہیں۔ اس لئے کوتاہی خواہ سرسری ہو خواہ گہری ہو خواہ علمی ہو یا زبان کی لغزش کے نتیجہ میں ہو ہر قسم کی ایسی بات جو خطا کے نتیجہ میں ان درسوں میں راہ پاجائے لازم ہے کہ اس کی درستی کی جائے۔اس ضمن میں ایک اور درستی بھی ضروری ہے وہ بھی ایسی بات ہے جس میں عمداً یا علمی غلطی کے نتیجہ میں ایسا نہیں ہو ا بلکہ بعض دفعہ میری زبان ایک ایسا نام ادا کررہی ہوتی ہے جو ذہن میں نہیں ہوتا۔ذہن میں ایک اورشخص ہے اور نام کسی اور کا میں لے لیتا ہوں اور یہ غلطیاں مجھ سے کئی دفعہ سرزد ہوچکی ہیں۔ میں نے جب غور کیا ہے تو پتہ چلا ہے کہ اس کی کوئی ایسوسی ایشن کی غلطی ہے۔ میں جہاں تک مضامین کا تعلق ہے ان کو تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسوسی ایشن کے ذریعہ یاد رکھتا ہوں۔ ابھی کل ہی ایک حوالہ جاحظ کا مجھے یاد تھا وہ میں نے نکلوایا۔ پنتالیس سال پہلے ایک کتاب پڑھی تھی لیکن پتہ تھا کہ فلاں جگہ یہ حوالہ موجود ہے لیکن ناموں میں مجھے بچپن سے ہی کمزوری ہے یاد رکھنے میں۔ جبکہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ناموں کی یادداشت اور اسی طرح چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ناموں کی یادداشت حیرت انگیز تھی لیکن یہاں جو غلطی سرزد ہوئی ہے وہ ایسوسی ایشن کی وجہ سے ہوئی ہے۔ حضرت اسماعیل کے مقابل پر ذہن میں سب سے پہلے حضرت اسحاق کا نام آتا ہے اور بعض دفعہ حضرت یعقوب کی بجائے میرے منہ سے اسحاق لفظ منہ سے نکل جاتا ہے حالانکہ ذہن میں حضرت یعقوب ہی ہوتے ہیں۔ کل میں نے جس لڑائی کا ذکر کیا تھا کہ خدا سے کشتی ہوتی رہی وہ حضرت یعقوب کی تھی اور یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے سب اہل علم کو یا سرسری علم رکھنے والوں کو بھی علم ہے کہ حضرت یعقوب سے یہ سلسلہ بنی اسرائیل کا چلا ہے آپ کے بارہ بیٹے بارہ قبیلوں کے سردار بنے اور ان کی بنیادیں قائم ہوئیں تو ذہن میں واقعہ یعقوب کا تھا اور منہ سے میں اسحاق کہہ رہا تھا اور یہ ایسی غلطی ہے ایک دفعہ پہلے بھی سوال و جواب کی مجلس میں سرزد ہوچکی ہے ذہن میں یعقوب تھے اور منہ سے میں اسحاق کہہ رہا تھا کیونکہ حضرت اسماعیل کے مقابل پر میرا ذہن ہمیشہ پہلے اسحاق پر پہنچتا ہے کیونکہ سلسلہ پھر شروع ہوا ہے تو یعقوب کے نام کی بجائے اسحاق کا نام ادا ہوجاتا ہے بہرحال یہ میں اپنی وضاحت آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں۔ یہ ایسی غلطی نہیں تھی جو علمی لحاظ سے مجھ سے سرزد ہوئی ہو میں واقعتا حضرت اسحاق ہی کو اسرائیل سمجھتا ہوں یہ درست نہیں ہے یعقوب ہی اسرائیل تھے اور یعقوب کی اولاد ہی بنی اسرائیل کہلاتی ہے مگر یہ حضرت اسحاق سے پھوٹنے والا درخت ہے جو آگے جاکے بہت سی شاخوں میں تبدیل ہوا ہے ایک اور چھوٹی سی بات کی طرف دوبارہ توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اپنی ذات میں کوئی اہم نہیں ہے لیکن جس وجہ سے میں نے یہ درستیاں کی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ درستی بھی لازم ہے میںنے مرزا یحي کو جو اس کاباب کے بعد ان کا جانشین بنا اس کونقطہ کہا تھا اور بعد میں اس کی درستی کردی تھی کہ وہ نقطہ نہیں تھا نقطہ خود باب کہلاتا تھا لیکن میں نے تحقیق کی ہے کہ کیوں آخر مجھ سے یہ غلطی ہوئی نقطہ اس کو کیوں کہا گیا تو اس ضمن میں ایک دلچسپ بات جو سامنے آئی ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں اور اس پہلو سے جو کچھ بھی کہا گیا ہے اس کو درست کرلیجئے۔ باب نے پہلا ٹائٹل اپنا باپ بنایا یعنی دروازہ وہ دروازہ جس کے متعلق کہا گیا کہ اس لئے باب بنا کہ اس سے ایک نئے دین کا رستہ کھلے گا اور نعوذ باللہ من ذلک اسلام دین اس دروازے سے پیچھے رہ جائے گا اس کے بعد اپنی زندگی ہی میں باب نے سب سے پہلے نقطہ کا ٹائٹل اختیار کرلیا اور کہا کہ میں وہ نقطہ ہوں جس پر ساری پیشگوئیاں جمع ہوتی ہیں اور جس نقطہ سے از نسر نو ایک نئی روحانی کائنات کا آغاز ہونے والا ہے۔ جب اس نے نقطہ ٹائٹل اختیار کرلیا تو اس کے پہلے مرید ملاں حسین نے باب اپنے لئے لے لیا اس طرح ا ن کے ٹائٹل تقسیم ہوتے تھے اس نے کہا باب کو خالی کردیا انہوں نے نقطہ پرجاپہنچے ہیں تو اس لئے میں باب بن گیا ہوں اب۔ تو وہ باب ہوگئے اور یہ باب صاحب خود جن کا نام ہے علی محمد باب یہ نقطہ بن گئے۔ اب ان کی وفات کے بعد جو ان کو شوٹ کیا گیا تھا Execution ہوئی تھی باقاعدہ۔ اس کے بعد سب سے پہلے ان کے جو جانشین بنے ہیں وہ مرزا یحیٰی ہیں اس لئے مرزا یحییٰ کو میں نے نقطہ کہا ہے کہ جب یہ باب کی execution ہوگئی تو اس کے بعد ان کے جانشین مرزا یحییٰ بنے تو اس سے پہلے باب کا ٹائٹل تو ان سے جھڑ کر ان کے مرید ملاں حسین کے قبضے میں جاچکا تھا۔ اس لئے دراصل ان کو نقطہ ہی کہنا چاہئے کیونکہ جس حالت میں باب مرا ہے جس ٹائٹل کو چھوڑ کر مرا ہے وہ نقطہ کا ٹائٹل تھا مگر یہ بھی درست ہے کہ ان کے مرید لازم ان کو باب ہی کہتے رہے ہیں باب ہی کا جانشین قرار دیتے رہے ہیں لیکن ٹائٹل کیا تھا؟ یہ تفصیلاً مجھے معلوم نہیں نقطہ والی بحث کو میں یہاں ختم کرتا ہوں کیونکہ یہ ذکر چل پڑا تھا اس لئے لازمی سمجھا کہ اس کا پس منطر بتادوں اس سے زیادہ اس موقعہ پر اس کی ضرورت نہیں ہے اگر آئندہ کبھی موقعہ ملا۔ بہاء اللہ اور با ب وغیرہ پہ گفتگو کا وہاں انشاء اللہ میں تفصیل سے ان تمام امور پر روشنی ڈالوں گا۔
اب میں واپس ان آیات کے درس کی طرف آتا ہوں ہم اس آیت پر گفتگو کررہے تھے کہ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلوا علیھم ایاتہ و یزکیھم ویعلھم الکتاب والحکمۃ و ان کانوا من قبل ضلل مبین۔ اس ضمن میں شیعہ مفسرین نے جو کچھ کہا ہے وہ اس وقت زیر نظر ہے شعبہ مفسرین نے جو کچھ کہا پہلے میں وہ پڑھ کر سناتا ہوں۔ اس کے نکات جتنے بھی ہیں ایک ایک لے کر کے ان کے متعلق میں آپ کو بتائوں گا کہ کیوں وہ غلط کہہ رہے ہیں ان کے پاس قطعاً کوئی جواز نہیں ہے ان دعاوی کا جو اس میں کررہے ہیں اور قرآن اور سنت اور تاریخ کی رو سے عقل و حکمت کی رو سے ان کی باتیں زیادہ بے حقیقت ہیں۔ 165- Continues میر احمد علی صاحب اس Commentry میں لکھتے ہیں۔
Since in the mercy and the bounty of God offered in this verse applies to the people of the house of Abraham and Sarah, the wife of Abraham, happens to be the probable person included inthe address of Ahlul bait.
Some commentators in their anxiety to find some argument for the counting the wives of the Holy Prophet in the term of Ahlul bait have said that since Sarah, the wife of Abraham included in the term Ahlulbait use in this verse all the wives of the prophet are included in the verse 33:34 relating to the purity and the excellence of the word Ahlulbait of the Holy Prophet Mohammad Sallalaho Alaihay Wasllum.
ایک یہ پوائنٹ ہے جو انہوں نے اٹھایا ہے اس کا جواب میں باقاعدہ الگ اکٹھا دونگا دوسرا اس کا ترجمہ یہ ہے یا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم اہل بیت کی اصطلاح کو محدود کرتے ہیں حضرت علیؓ‘ حضرت فاطمہؓ‘ حضرت حسن ؓ ‘ حضرت حسین ؓ پر تو بعض سنی اس شوق میں کہ کسی طرح جیسے بھی بن پڑے ازواج النبیؐ کو بھی اہل بیت میں شامل کرلیں اس کے جواب میں ہماری توجہ ایک ایسی آیت کی طرف پھیرتے ہیں جس آیت میں قرآن کریم ہمیںبتلاتا ہے کہ فرشتوں نے حضرت سائرہ کو مخاطب کرتے ہوئے اہل بیت کے لفظ سے مخاطب کیا وہ کہتا ہے یہ ان کی ایک بے کار کوشش ہے اس سے وہ بات ثابت نہیں ہوگی جو وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں پھر اس کے خلاف وہ دلیلیں دیتا ہے اس کو میں الگ زیر بحث لائوں گا اس کے بعد وہ کہتے ہیں ایک اور آیت کا حوالہ دیتے ہیں وہ حضرت نوح والی آیت ہے۔ وہ آیات یہ ہیں۔ ونادیٰ نوح ربہ فقال رب ان بنی من اھلی و ان وعدک الحق و انت احکم الحاکمین O قال ینوح انہ لیس من اھلک انہ عمل غیر صالح فلا تسئلن مالیس لک بہ علم انی اعظک ان تکون من الجاھلین ۔ ان آیات کا ترجمہ یہ ہے اور جب نوح نے اپنے رب کو پکارا اور کہا اے میرے رب میرا بیٹا تو میرے اہل میں سے ہے اور ان وعدک الحق اور تیرا وعدہ سچا ہے یعنی حضرت نوح ؑ کو یہ وعدہ دیا گیا تھا کہ تیرے اہل بیت کی میں حفاظت کرو ں گا تو کہتے ہیں مجھے تعجب ہے یہ بات بھی درست ہے کہ تیرا وعدہ سچا ہے یہ بات بھی درست ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے اور میرے اہل میں شامل ہے۔ وانت احکم الحاکمین اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ میں نے تو صرف ایک خیال عرض کردیا ہے کوئی بحث نہیں یہ تضاد مجھے دکھائی دے رہا ہے لیکن فیصلہ تونے ہی کرنا ہے۔ قال ینوح انہ لیس من اھلک اللہ نے فرمایا کہ اے نوح ؑ وہ تیرے اہل میں سے نہیں ہے۔ انہ عمل غیر صالح کیونکہ وہ بداعمال انسان ہے اور کوئی بدعمل شخص نبی کا اہل بیت نہیں کہلا سکتا فلا تسئلن مالیس لک ایک خط میں لکھ دیں مجھ سے ایسی باتوں میں سوال نہ کر جن کا تجھے کوئی علم نہیں۔ ضمناً میں بتادوں پہلے بھی گفتگو ہوچکی ہے کہ یہاں بظاہر ایک عجیب بات دکھائی دے رہی ہے کہ جس بات کا علم نہیں اس پر سوال نہ کر حالانکہ سوال کیا ہی ا ن باتوں پر جاتا ہے جن کا علم نہ ہو تو مراد یہ ہے کہ یہ جو دائرہ گفتگو ہے یہ ایسا ہے جس کی گہرائی پر تیری نظر نہیں ہے۔ میں اہل بیت کیسے بناتا ہوں اس کو مبحث نہ بنائو تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بداعمال شخص ہے۔ اس لئے تیرے اہل بیت کی فہرست سے خارج ہے۔ انی اعظک ان تکون من الجاھلین میں تجھے یہ نصیحت کرتا ہوں اس لئے تجھے یہ نصیحت کررہا ہوں تاکہ تو جاہلین میں سے نہ ہوجائے یعنی ایک طرف یہ فرمایا ہے کہ تجھے علم نہیں جب بات کا اس میں سوال نہ کیا کر دوسری طرف یہ کہ تو جاہلین میں سے نہ ہوجائے حضرت نوحؑ کے حوالے سے یہ چھوٹا سا جو ایک الجھن والا سوال اٹھتا ہے اس کا مختصر جواب دے کر پھر میں مضمون کی طرف لوٹوں گا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے ایک واقعہ دیکھا۔ اپنی آنکھوں سے بیٹا ا ن سے جدا ہوکر اور قریب تھا کہ غرق ہوجائے اور پھر ایک لہر آتی ہے اور ان کے اور بیٹے کے درمیان حائل ہوجاتی ہے اور ا ن کے ذہن میں یہ خدا کا وعدہ تھا کہ تیرے اہل بیت بچالئے جائیں گے تبھی وہ حضرت نوحؑ اس کو اپنی طرف بار بار بلا رہے تھے۔ کیونکہ اپنے ذہن میں وہ اس کو شامل سمجھتے تھے جب درمیان میں موج حائل ہوگئی اور وہ غرق ہوگیا۔ تب وہ خدا کی طرف متوجہ ہوئے اب یہاں علم اور لاعلمی کی کیا بحث ہے یہ ہے سوال جس کو میں پیش نظر رکھتے ہوئے آپ سے بات کررہا ہوں ۔ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کا بحیثیت نبی یہ فرض تھا کہ خدا کی تقدیر کے تابع اس مسئلے پر غور کرتے اور خدا سے یہ سوال نہ اٹھاتے کیونکہ ایسے سوال کے جوابات بعض دفعہ اور بھی زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں اور کئی قسم کے احتمالات ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایسے معاملات میں سوال نہیں کرنا چاہئے جن کے نتائج بعض بدتر بھی نکل سکتے ہیں اس لئے خاموشی بہتر تھی۔ تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ خدا کی تقدیر کو خاموشی سے قبول کرلیا جاتا اگرچہ نبی متقی ہوتا ہے لیکن بہت ہی بعض باریک ایسے رستے آتے ہیں جہاں وہ تقویٰ میں لغزش سی دکھائی جھول دکھائی دے رہا ہوتا ہے لیکن نبی ٹھوکر نہیں کھاتا تو بعد میں جب یہ فرما دیا کہ تاکہ تو جاہلوںمیں سے نہ ہوجائے۔ صاف بتا رہا ہے کہ اس موقعہ پر حضرت نوح ؑ کے ذہن میں جو سوال اٹھا تھا وہ خطرے کے مقام پر تو تھا لیکن ٹھوکر نہیں کھائی جاہلین میں سے نہیں ہوئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تجھے اس لئے نصیحت کررہا ہوں کہ اگر اس قسم کے سوالات میں تو آگے بڑھ جاتا یا کوئی شخص آگے بڑھ جائے تو اس کا انجام یہ ہونا تھا کہ وہ اہل علم سے نکل کر جہلا میں شمار ہوجاتا پس بہت ہی باریک ٹھوکر تھی اس کا اشارہ کرکے حضرت نوح ؑ کی بریت بھی خود ہی فرمادی کہ میں نے دیکھ لیا تھا تو کیا کہہ رہا ہے میں تجھے نصیحت کررہا ہوں تاکہ آئندہ ایسی بات نہ کرنا ورنہ خطرہ ہے کہ تو جاہلوں میں سے نہ ہوجائے یعنی حضرت نوح ؑ کا شمار اس سوال کے نتیجہ میں ا ن لوگوں میں نہیں ہوا جو ٹھوکر کھا گئے ہیں ان لوگوں میں ہوا جو ایسی جگہ قدم رکھ رہے تھے جہاں ٹھوکر کا احتمال تھا یہ وضاحت حضرت نوح ؑ کی بریت کے لئے ضروری تھی اس لئے میں نے کی ہے اب یہاں ان کا تبصرہ سنئے۔ فرماتے ہیں۔
The supplication of Noah aimed to clear the doubt in the mind of the followers of subsequent ages that the mere birth of any other without the spiritual offinity with the prophets would not justify the application of the term which precise the relationship implies the merit. Therefore the term Ahlul bait is restricted only to the deserving member of the house of the Holy Prophet and the same restriction is applicable to the terms of relatives which does not mean relationship in blood or in matrimoney. Besides this means close affinity and the chracter and spiritual attainment.
یہاں بات تو انہوں نے سیدھی سادھی وہی کہی ہے جو نتیجہ نکلنا چاہئے کہ اہل بیت محض خون کے تعلق سے نہیں بنا کرتے بلکہ اس کے لئے روحانی رشتہ ہونا بھی ضروری ہے اور یہ کہنے کے بعد بیچ میں یہ فساد کا جملہ داخل کردیا کہ (Relatives) سے بھی نہیں بنا کرتے اہل بیت Which does not mean relationship in blood or in matrimoney اس لئے یہ جو ازدواجی رشتے ہیں ان کے ذریعہ انسان اہل بیت میں داخل نہیں ہوا کرتا۔ بات یہ ہورہی ہے کہ رشتہ ہو اور کوئی بدکردار ہو تو نکلتا ہے نتیجہ یہ نکال رہے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ رشتوں کااہل بیت بنانے میںکوئی تعلق نہیں یعنی ازدواجی رشتے سے بھی انسان خواہ نیک ہو اہل بیت نہیں بنتا۔ یہ اس سے کیسے نتیجہ نکلتا ہے بحث تو نیکی اور بدی کی ہے۔ اب اس کا جواب میں آگے پھر دوں گا لیکن میں صرف نقطہ بنقطہ بتا رہا ہوں آپ کو کہ یہ چیزیں ہیں جو بحثیں آج اٹھائی جائیں گی۔ آگے پھر یہ میر صاحب فرماتے ہیں۔
Indeed God hath conferred his favour upon the belivers when he raired up an …… Muhammadؐ among them from their own selves to reherse unto them their sign.
یہ میں پہلے پڑھ چکا ہوں۔ کہتا ہے-
Ahlul bait not included for they were purified by God Himself
یہ کل سوال اٹھایا جاچکا تھا اس پر بھی گفتگو ہوگی۔ پھر یہ کہتے-
It is reported that one day the Holy Prophetؐ was lying under his mantle therein entered Aliؓ, Hassanؓ, Hussainؓ, and Fatimaؓ. This verse was rerealed. Verily God intendeth but to keep off from you every kind of uncleanliness Oye people of the house and purify you with a through purification. (Surah 33 Verse 34).
اس کے پھر وہ حوالے دیتے ہیں بہت سے پھر مزید اس بات میں لکھتے ہیں۔
Ummulmomineen Ayesha says that the verse was revealed when the above five were under the mantle.
ایک روایت حضرت عائشہؓ کی دیتے ہیں اور وہاں ا نکو ام المومنین لکھ رہے ہیں۔ یاد رکھئے اب اس موقعہ پر حضرت عائشہ ؓ صدیقہ چونکہ انکو اپنے حق میں بات کرتی دکھائی دے رہی ہیں اسلئے ام المومنین بن گئیںآخر اور اگر مومن حضرت علیؓ ہی تھے اور یہ چند بزرگ تھے۔ جن کا ذکر ہے تو ان کی ماں بن جاتی ہیں تو اس ماں کے متعلق کیا کیا گستاخیاں کرتے ہیں وہ میں بعد میں سنائوں گا آپ کو۔
When Hazrat Ayeshaؓ herself says that only the above five holy ones were there under the mantle and she was out of it. Some of our brothern not knowing her actual position unwarrented claim her inclusion in the Ahla bait interpreting the verse of the Holy Quran in their own way. Hazrat Ummay Salmaؓ reports that on the above occasion she was there and desired hereself to join the holy five but the Holy Prophetؐ refused her entry saying thou art of my wires and thou art rightous but this is not the place for thee. Thou are not of my Ahlul bait.
پھر کہتے ہیں:
There is no loophole left for anyone olse besides the decleared personnel to be counted among the Ahulbait i.e. beside the holy ones the Holy Prophetؐ, Aliؓ, Fatimaؓ, Hassanؓ, Hussain and the mine imams in the …… of Hussainؓ.
اب میں باری باری ان تمام امور کو لیتا ہوں تاکہ ایک دفعہ اہل البیت کا مضمون خوب واضح ہوجائے اور کھل جائے اور قرآن اور حدیث کے حوالے سے بات پتہ لگے کہ اہل البیت ہوتے کیا ہیں کن کو کہا جاتا ہے ان میں کون کون لوگ داخل تھے اور شیعوں نے اپنی مطلب براری کی خاطر کیا کیا ظلم کئے ہیں روایات کے ساتھ سب سے پہلے تو یہ جو چادر والا قصہ ہے یہ بیان کرتا ہوں مگر اس سے پہلے وہ آیت پوری تلاوت کرکے بتانا چاہئے جس سے یہ نکال رہے ہیں۔ میرا خیال ہے پہلے وہ لانی چاہئے۔ وہ کہاں ہے آیت؟ (اس کے نیچے......) کیونکہ جب تک یہاں سے بات شروع نہ ہو۔ اس وقت تک یہ مضمو ن سننے والوں پہ پوری طرح روشن نہیں ہوگا۔ ابھی تک اکثر آپ میں سے نہیں سمجھ سکے ہونگے کہ بات ہے کیا کسی آیت کی گفتگو ہے کیا کھینچا تانی ہورہی ہے۔ اس لئے میںپوری وضاحت سے اس کا پس منظر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ قرآن کریم میں سورہ الاحزاب آیت 32 تا 35 حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات مخاطب ہیں۔ ان کے متعلق ذکر چل رہا ہے۔ ا ن کا مضمون بیان ہورہا ہے۔ ومن یقنت منکن للہ و رسولہ وتعمل صالحانوتیھا اجرھا مرتین و اعتد نا لھا رزقا کریما O کہ تم میں سے اے نبی کی بیویو ! تم میں سے جو بھی خدا کی خاطر اپنے یقنت کا مطلب ہے اپنے آپ کو روک کر عاجزی کے ساتھ گزارا کرے گی (لفظی ترجمہ کیا ہے.فرمانبرداریکے ساتھ عاجزی شامل نہیں خیر چھوڑ دیں) منکن للہ ورسولہ جو اللہ اور رسول کے سامنے کامل اطاعت اور میں سمجھتا ہوں عاجزی کا مضمون بھی اس میں شامل ہے اور عجز کے ساتھ معاملہ کریں گی جو ان کی فرمانبردار رہیں گی اور ادب کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمانبردار رہیں گی اور ونعمل صالحا اور جو ان میں سے نیک اعمال کرے گی نوتھا اجرھا مرتین ہم اس کا اجر دہرا دیں گے۔ عام مومنوںکے اجر کے مقابل پر دگنا اجر دیں گے یہ مرتبہ بیان ہورہا ہے۔ ازواج النبیؐ کا۔ واعتدنا لھا رزقا کریما اور ہر ایسی زوجہ کے لئے ہم نے بہت ہی معزز رزق تیار کر رکھا ہے۔ ینساء النبی اے نبی کی بیویو ! لستن کاحد من النساء تم عورتوں میں سے عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ تمہارا بہت بڑا مرتبہ اور مقام ہے۔ ان اتقیتن اگر تم اختیار کرو فلا تخضعن بالقول اور اپنے قول میں ایسی طرز اختیار نہ کرو جس سے کشش جس میں کشش پائی جائے لوگوں کے لئے۔ فیطمع الذی فی قلبہ مرض جس سے خطرہ ہو کہ اس لحن میں ایسی نرمی ایسی دلکشی پائی جائے کہ وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہیں ان میں کسی قسم کی دلوں میں طمع پیدا ہوجائے۔ وقلن قولا معروفا اور ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم نے ایسا نہیں کرنا۔ لاتخضعن کا مطلب ہے ہر گز قول میں ایسی طرز اختیار نہ کرو جس کے نتیجہ میں بیمار دلوں میں طمع کا خطرہ پیدا ہو ۔ طمع پیدا ہونے کا خطرہ ہو وقلن قولا معروفا لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ سخت کلامی کرتی پھرو۔ قول معروف اختیار کرو۔ برمحل موقعہ پر جو نرم گفتگو‘ مہذب گفتگو ہونی چاہئے اس سے احتراز نہیں کرنا۔ مگر قول میں ایسی طرز اختیار نہ کرنا جس سے غیر معمولی کشش پیدا ہوجائے وقرن فی بیوتکن اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ اور جاہلیت کے زمانے میں عورتیں جیسے سنگھار پٹار کرتی تھیں ویسا سنگھار پٹار نہ کرو۔ جاھلیۃ اولیٰ یعنی اسلام سے پہلے کی جو جاہلیت کا زمانہ تھا۔ واقمن الصلوۃ اور نماز کو قائم کرو واتین الزکوۃ اور زکوۃ ادا کرو واطعن اللہ ورسولہ اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو ۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا۔ یقینا اللہ تعالیٰ چاھتا ہے تاکہ تم سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور کردے۔ اے اہل بیت ! ویطھرکم تطھیرا اور تمہیں بہت پاک و صاف کردے۔ واذ کر ن مایتلی فی بیوتکن من ایت اللہ والحکمۃ اور یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں تلاوت کیا جاتا ہے۔ اللہ کا کلام من ایات اللہ۔ اللہ کی آیت میں سے جو کچھ تمہارے ہاں تلاوت کی جاتی ہے۔ والحکمۃ اور جو حکمت کی باتیں وہاں پڑھی جاتی ہیں۔ ان اللہ کان لطیفا خبیرا O یقینا اللہ تعالیٰ بہت ہی لطیف اور بہت ہی خبر رکھنے والا ہے۔ یہاں لطیف کا تعلق خبیر سے ایک طبعی اور گہرا تعلق ہے۔ جو چیز جتنی لطیف ہو اتنا سرائت کرنے کا مادہ رکھتی ہے جو سب سے زیادہ لطیف ہو وہ ہر جگہ ہوگی۔ چنانچہ سائنسدان بھی جب یہ بحث اٹھاتے ہیں تو کہتے ہیں نیوٹرینوں سے نجات نہیں مل سکتی وہ ہر جگہ پہنچ جاتے ہیں سب سے زیادہ لطیف ہیں اور کثیف سے کثیف مادے سے بھی نکل جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا لطافت کا تصور اس کائنات کے تصور سے پرے کا تصور ہے۔ وہ ایسا لطیف ہے کہ کوئی چیز اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتی اور جو لطافت کی وجہ سے ہر جگہ پہنچتا ہو ہر جگہ موجود ہو اس سے کوئی چیز چھپ نہیں سکتی۔ اس لئے فرمایا وہ لطیف بھی ہے اور خبیر بھی ہے۔ اب یہ ہیں آیات کریمہ جن کے حوالے بار بار آپ کو شیعہ لٹریچر میںوہ ملیں گے اور جن سے وہ استنباط کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہاں اہل بیت سے مراد حضرت علی‘ حضرت فاطمہ ‘ حضرت امام حسن اور حسین رضوان اللہ علیہم ہیں اور اور کوئی نہیں ہے اب آپ نے یہ آیات سن لی ہیں کتنا واضح ہے ان کا منطوق کہ ایک لمحہ کے لئے بھی انسان اس مضمون کو ازواج نبی کے سوا کسی اور کی طرف منسوب کر ہی نہیں سکتا۔ آیت میں جس کا ذکر ہورہا ہے اسی کی بات ہورہی ہے بیچ میں اور کوئی کہاں سے آگیا۔ وقرن فی بیوتکن اے ازواج نبی ؐ ! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہا کرو۔بے وجہ لوگوں کے گھروں میں چکر نہ لگایا کرو۔ ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ اور جاھلیت کے طریق کے سنگھار نہ کیا کرو۔ جو پہلے گزر گیا گزر گیا۔ واقمن الصلوۃ اور نماز کو قائم کرو ۔ اے نبی کی بیویو ! واتین الزکوۃ اور زکوۃ ادا کرو۔ واطعن اللہ و رسولہ ۔ اللہ کی اطاعت کرو اس کے رسول کی اور آیت جاری ہے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس۔ اللہ نے فیصلہ فرمالیا ہے۔ ارادہ کرلیا ہے کہ تم سے ہر قسم کی گندگی کو دور کردے گا۔ یہ خطاب کہتے ہیں ازواج نبیؐ سے ہٹ گیا اور اچانک اس میں دوسرے بیچ میں مخاطب ہوگئے۔ یہ طرز تخاطب تو ایک عام انسان کو بھی زیب نہیں دیتا بلکہ یقینا اس کے متعلق کہا جائے گا کہ اس کو کلام کا سلیقہ ہی نہیں ہے۔ بات کسی اور کی چل رہی ہے۔ پہلی آیت سے ہی چل رہی ہے اور بات کرتے کرتے جب پوری طرح مضمون واضح کردیا اور مضمون کا تعلق ہی تطھیر سے ہے ان کی روحانی پاکیزگی سے اس مضمون کا تعلق ہے جب یہ آخری نقطہ تک پہنچتا ہے۔ مضمون اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جو تم پر اتنی پابندیاں عائد کی ہیں۔ ان کی وجہ کیا ہے عام لوگوں پر تو ایسی پابندیاں نہیں اس لئے کہ ہم چاہتے ہیں تم کو خو ب پاک و صاف کریں تو کہتے ہیں یہاں اچانک بیویاں نظر سے غائب اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ اور دو صاحبزادے آجاتے ہیں بیچ میں۔ اتنی حیرت انگیز یہ ان کا منطق ہے کہ کوئی معقول آدمی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کی بنیاد انہوں نے ایک حدیث پر رکھی ہوئی ہے۔ اور وہ حدیث من گھڑت حدیث ہے۔ حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ اپنی ایک کتاب میں اس کے خوب پرخچے اڑائے تھے کہ مسلمان علماء پتہ نہیں کیوں خواہ مخواہ اس کو قابل توجہ سمجھتے ہیں اس کی تو حیثیت ہی کوئی نہیں جو حدیثیں وہ پیش کررہے ہیں ان کا اندرونی تضاد بتا رہاہے کہ یہ من گھڑت قصہ ہے کساء والی ایک بات پیش کرتے ہیں کہ یہ ایک چادر تطہیر ہے نہ قرآن میں کسی چادر کا ذکر نہ چادر تطہیر کا کوئی تصور سارے قرآن میں ملتا ہے۔ جو تصورہے تطہیر کا وہ بالکل واضح ہے۔ ان آیات میں اس چادر کو کہاں سے یہ گھسیڑ لائے ہیں وہ کہتے ہیں اس کی روایت حضرت عائشہ ؓ ام المومنین کی روایت ہے اور دوسری حضرت ام سلمہؓ کی ہے۔ اب میںآپکو بتاتا ہوں ان روایات کا قصہ ! درمنثور وغیرہ درمنثور فی التفسیر بالماثور از جلال الدین سیوطی کا حوالہ ہے اور پھر ام سلمہؓ کی روایات چل رہی ہیں پھر تفسیر در منثور از جلال الدین سیوطی میں ام سلمہؓ کی روایت پھر آتی ہے پھر کچھ روایتیں ہیں جن کو یہ شیعہ چھوڑ دیتے ہیں اور در منثور ہی میں موجود ہیں۔ ان روایات کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ ان روایات کی رو سے حضرت ام سلمہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ یہ آیت جو پڑھی جاچکی ہے۔ یہ میرے گھر میں نازل ہوئی تھی اور اس وقت میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے ہی تھے اور آپ نے مجھے بھیجا ۔ حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ وغیرہ کو بلانے کے لئے یہ آیت نازل ہوچکی ہے۔ اس لئے میں اپنی چادر میں ان کو لے لوں جن کی تطہیر کا وعدہ ہے۔ حضرت ام سلمہ ؓ نے بھی اپنا سر بیچ میں داخل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے نے روک دیا۔ یہ روایت کے مطابق اور کہا دو دفعہ کہا تو نیک ہے پہلے ہی نیک ہے تجھے ضرورت نہیں تو باہر ہی ٹھہر۔ اب یہ روایتیں ایک طرف ہیں دوسری طرف یہی شیعہ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت بیان کرتے ہیں جس میں یہ درج ہے کہ یہ آیات میرے گھر نازل ہوئی تھیں۔ ام سلمہ ؓ کے گھر نازل ہی نہیں ہوئیں اور میں تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے پھر ایک روایت اوربھی انہوں نے گھڑی ہوئی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا یہ فرما رہی ہیں کہ گویا اس وقت رات کو یہ اہل بیت جن کو یہ بیان کررہے ہیں یہ سارے وہاں موجود تھے اور اگر موجود نہیں تھے تو بلائے گئے اس وقت حضرت عائشہ ؓ کے گھر اب ان روایات کا تضاد تو دیکھیں۔ کہاں ام سلمہ ؓ کی طرف منسوب بات کہ میرے گھر نازل ہوئیں۔ کہاں حضرت عائشہ ؓ کی روایت کہ میرے گھر نازل ہوئیں۔ کہاں ام سلمہ ؓ کا جاکر بلا لانا اور کہاں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا بلا لانا اول تو یہ بھی ثابت نہیں کہ آپ بلانے گئیں یا نہیں گئیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ آیات نازل ہی ہوئی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں تھے اور آپ نے سب کو اکٹھا کرلیا۔یہ ہے روایات کا حال اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا والی روایت جو ہے۔ اس کے متعلق شیعوں نے ایک روایت کے لفظ صحیح درج کئے ہیں لیکن وہ بھی بنی ہوئی گھڑی ہوئی ہے۔ لیکن ان کو الفاظ پسند نہیں آئے۔ اس کا ترجمہ انہوں نے اپنی طرف سے پھر مناسب حال کیا ہے۔آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ عائشہ ؓ نے کہا کہ میں بھی اپنا سر داخل کرلوں۔ وہی بات۔ جو ام سلمہ ؓ نے کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ تمہیں ضرورت نہیں ہے۔ تم نیک ہو تم بھلی ہو تم بھلی ہو۔ تو کیا مطلب نکلتا ہے کہ پھر ان کو ضرورت تھی۔ جن میں نیکی نہیں تھی؟ اس سے تویہی نتیجہ نکلتا ہے۔ لیکن ترجمہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ عائشہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت ناراضگی سے کہا ہٹ پرے ہٹ تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اتنا جھوٹ گھڑتے ہیں۔اول اگر جھوٹی روایت تو اس کا ترجمہ مزید جھوٹا یعنی کریلے کو بھی نیم پر چڑھا کر پیش کررہے ہیں۔ یہ ہے ان کی روایات کا حال متضاد روایتیں۔ ایک دوسرے سے ٹکرانے والی کوئی ان کی روایت کو بیان کر رہاہے کہ یہ تو مباھلہ سے تعلق رکھنے والی روایات ہیں۔ نہ سر نہ پیر۔ ایسا پودا جس کو جڑیں ہی قائم نہیں ہیں اس پر بناء کرتے ہوئے قرآن کریم میں یہ تصرف کرنا چاہتے ہیں ۔ کیسے ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم تو کسی قیمت پہ تصرف کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ فرمارہا ہے۔ وقرن فی بیوتکن ایک ہی آیت ہے دو آیتیں نہیں ہیں۔ غور سے سُن لیجئے۔ تم اے نبی کی بیویو ! تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔ قبل از وقت کی پہلے دور کی جاہلیت کے سنگھار نہ کیا کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ۔ اے اہل بیت اللہ تم سے رجس کو دور کرنا چاہتا ہے ۔ اس کا ترجمہ یہ فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ اے محمدؐ تجھ سے یہ پاک نہیں ہوں گے۔ جو اہل بیت ہیں میرے ان کو میں خود پاک کروں گا۔ تیرے سپرد باقی مومن اور میرے سپرد یہ اہل بیت۔ اس لئے ان کو میں پاک کروں گا اور جب یہ کہا جاتا ہے پاک کروں گا اور ان میں کوئی برائی نہیں رہنے دوں گا تو اس سے یہ بھی تو نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت تک پاک نہیں تھے اور کچھ برائیاں موجود تھیں۔ ورنہ پاک کو پاک کیسے کرے گا اور خود شیعہ عقیدہ یہ بھی ہے کہ یہ پیدائشی پاک ہیں۔ پس وہ لوگ جو پیدائشی پاک ہیں ان کو خدا دوبارہ کیسے پاک کرے گا۔ یہ تو وہی بات ہے کہ ایک کاٹھی گھوڑے پر ڈال دی جائے توکہے دوبارہ ڈال دو۔ دوسری کاٹھی کیسے پڑ جائے گی۔ جو لوگ پاک و صاف ہوں ان کے متعلق یہ وعدہ کہ میں کروں گا اور پھر ایسا پاک کرو ںگا کہ کوئی برا پہلو کسی قسم کا کوئی داغ ا نکے جسم پر ان کے روحانی جسم پر باقی نہ رہے۔ یہ صاف بتا رہا ہے کہ کمزوریاں دور کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ جو کمزوریاں پرانے زمانے سے چلی آرہی ہیں۔ جاہلیت کا مضمون ہے۔ فرمایا ہے کہ تم نے بہت سی رسمیں پرانے زمانوں میں سیکھی تھیں۔ اس طرح عورتیں سنگھار پٹار کیا کرتی تھیں۔ اس طرح نخرے سے کلام کیا کرتی تھیں۔ ان باتوں کو چھوڑ دو۔ تمہیں زیب نہیں دیتا کیونکہ یہ تم محمد رسول اللہ کے عقد میں آگئی ہو اور اس گھر کی پاکیزگی کے تقاضے ہیں۔ ان تقاضوں پر تمہیں چلنا پڑے گا اور اس کے نتیجہ میں تم عام اہل بیت نہیں رہو گی تمہارا مرتبہ خدا کے نزدیک اتنا بڑا ہوجائے گا کہ عام مومنوں کے مقابل پر تمہیں دگنے اجر دیئے جائیں گے اور شرط وہی ہے کہ نیکی۔ تو حضرت نوح ؑ والی آیت سے اس آیت کا ٹکرائو کہاں سے ہوگیا کوئی یعنی اس مضمون کا جو حضرت امہات المومنین ؓ کے تعلق میں یہاں بیان ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ مزید تقویت ملتی ہے۔ اس بات کو کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو اہل بیت کے طور پر مخاطب فرمایا ہے اور پرانی رسمیں ترک کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ نیک بننے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ساتھ ہی یہ وعدہ فرمادیا کہ اگر تمہارے بس میں یہ کام نہ ہو تو ہم وعدہ کرتے ہیں ہم کرکے دکھائیں گے اس سے بڑا پختہ وعدہ کسی کی تطہیر کا اور کیا ہوسکتا ہے اگر وہ ارادہ ظاہر کرتیں اور کہتیں ہاں سرتسلیم خم ہم کرلیں گی تو شک کیا جاسکتا تھا۔ شیعہ کہہ دیتے کہ نیک ارادہ ہوگا۔ لیکن کر نہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ میں وعدہ کرتا ہوں۔ میں اس کام میں تمہاری مدد کروں گاا ور ایسا پاک صاف کروں گا کہ اس کی مثال نظر نہ آئے کوئی داغ کسی قسم کا تمہارے چہروں پر تمہارے جسم پر باقی رہنے نہیں دوں گا یعنی روحانی چہرہ اور روحانی جسم۔ اب میں باقی اور بعض باتیں یہاں پیش کرنا چاہتا ہوں یہ جو استنباط کرتے ہیں کہ اللہ نے ان کا ذمہ خود لے لیا اور باقی رسول اللہ صلعم کے سپرد کردیئے اس ضمن میں ایک اور آیت کا حوالہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تمام صحابہ ؓ کے متعلق اللہ نے خود تطہیر کا وعدہ فرمایا ہے۔ مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج یہ آیت کا ٹکڑا ہے جس میں وضوء وغیرہ کے احکام ہیں اور پاک بازی کے احکام ہیں اس کے آخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج اللہ تمہیں کسی تنگی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔ جیسا کہ بعینہ وہی مضمون ہے جو امہات المومنین ؓ کے والی آیات میں درج ہے کہ بظاہر بڑی سختی کی تعلیم ہے یہ کرو وہ کرو اس سے باز رہو مگر مقصد تم پر مزید احسان کرنا ہے تمہیں تنگی میں ڈالنا نہیں تو جہاں تطہیر کے احکامات عام مسلمانوں کے لئے ہر مسلمان کے لئے تھے وہاں خدا نے یہ وضاحت فرمادی۔ مایرید اللہ لیجعل علیکم من حرج۔ یہاں بھی لفظ یرید استعمال ہوا ہے۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارادہ ہر گز نہیں کہ تم پر کسی قسم کی تنگی وارد فرمائے۔ ولکن یرید لیکن اللہ یہ چاہتا ہے لیطھر کم تاکہ وہ تمہاری تطہیر فرمائے۔ ولیتم نعمتہ تطہیر ہی نہیں ولیتم نعمتہ اور تم پر اپنی نعمت کو کمال تک پہنچا دے علیکم یعنی مخاطب ہیں تمام صحابہ ؓ اور متبعین لعلکم تشکرون تاکہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ یہی مراد ہے کہ میرا شکرادا کرو۔ تو اللہ کی بات ہو رہی ہے اس لئے میں نے کہہ دیا اللہ کا شکر ادا رکرو لعلکم تشکرون تاکہ تم شکر کرو اصل میں یہاں ن کے اوپر زبر لکھی ہوئی ہے زیر نہیں ہے۔ اگر زیر ہوتی تو ’نی‘ سے کی طرف اشارہ ہوتا اس لئے یہاں محض شکر ہے کسی کی طرف اشارہ نہیں ہے میں نے غور سے دیکھا ہے تو یہ مطلب بنتا ہے لعلکم تشکرون تاکہ تم شکر کرنے والے ہوجائوا ور شکر نعمتوں کے نتیجہ میں ہونا چاہئے۔ یہ لازم ہے مطلب یہ ہے کہ خدا کا یہ وعدہ ہے جو تمہارے حق میں پورا ہوگا۔ وہ پورا فرمائے گا۔ وہی تمہیں پاک و صاف کرے گا۔ اس لئے وہ جو تقسیمیں تھیںدو انکا تو کوئی وجود باقی نہ رہا ہ کچھ رسول کریم ؐ کے سپرد تطہیر کے لئے کئے گئے کچھ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھ لئے یہ آیت بتا رہی ہے کہ سارے ہی اللہ کے ہاتھ میں تھے اور محمد ؐ کا ہاتھ بھی تو اللہ ہی کا ہاتھ تھا۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس ہاتھ کے نیچے ہاتھ پڑے ہوئے تھے اور بیعتیں ہی بیعتیں ہورہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہاتھ کے متعلق فرمایا یداللہ فوق ایدیھم اللہ کا ہاتھ تھا جو ان کے ہاتھ پر ہے تو تطہیر محمدؐ تطہیر خدا ہے یعنی وہ تطہیر جو محمدؐ سے رونما ہوتی ہے۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ اللہ ہی کی تطہیر ہے۔ جو وہ خود فرما رہا ہے۔ اس لئے اللہ اور رسول میں جو لوگ تفریق کرتے ہیں ان کے متعلق قرآن کریم میں الگ بڑا سخت انداز موجود ہے کہ تم میرے رسول ؐ کو مجھ سے کاٹ کر الگ نہ کرنا اور وہ آیات اس وقت میرے ذہن میں مضمون کے طور پر ہیں۔ میں ان کو لفظاً نہیں دھرا سکتا لیکن بہت سختی سے اس رجحان کو خدا تعالیٰ نے رد فرمایا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ہر گز ایسی جہالت میں مبتلاء نہ ہونا کہ خدا اور رسولؐ میں تفریق کردو۔ الگ الگ کردو۔ پس یہ شیعہ علماء خدا اور رسول ؐ میں اس طرح تفریق کرتے ہیں کہ ایک تطہیر اللہ کی ایک تطہیر رسول کی اور آیات قرآنی اس مضمون کو کلیتہً رد اور مردود قرار دیتی ہیں۔ پھر آیت تطہیر کے تعلق میں یہی خدا کی طرف ضمیر کا جانا کہ میں نے پاک کرنا ہے۔ میں نے یہ کرنا ہے ایک اور آیت ہے جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی ایک آیت کا حصہ ہے۔ آل عمران آیت 195,196‘ ہے یہ فالذین ھاجروا واخرجوا من دیارھم و اوذوا فی سبیلی وقاتلوا وقتلوا لا کفرن عنھم سیاتھم ولا دخلنھم جنت تجری من تحتھا الانھار ثوابامن عنداللہ و اللہ و عندہ حسن الثوابO کہ یاد رکھو وہ لوگ یعنی کثرت سے (ایک ہجرت کرنے والے کا ذکر نہیں ہے) وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی واخرجوا من دیارھم اور اپنے گھروں سے نکالے گئے واوذوا فی سبیلی اور جن کو میری راہ میں تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ یہ ہیں صحابہ ؓ کرام جن کے اوپر نفاق کا فتویٰ عائد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان سے کیا ہوگا وقاتلوا وقتلوا انہوں نے قتال کیا اور شہید کئے گئے۔ لاکفرن عنھم سیاتھم میں خود لازما ضرور بالضرور ا ن کی برائیاں دور کردوں گا۔ ایک تاکید کا حکم ہے یہ جب کسی فعل سے پہلے آئے تو اس سے تاکید پیدا ہوجاتی ہے اور نون خفیفہ بھی تاکید کے لئے آتا ہے۔ اگر اکفر کی بجائے اکفرن ہوتا تو اسے نون خفیفہ کہتے ہیں اس کا مطلب ہے مزید تاکید پیدا ہوگئی۔ اور نون ثقیلہ اس نون کو کہتے ہیں جو یہاں استعمال ہوا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ لازماً ہر صورت میں یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو کوئی دنیا کی طاقت تبدیل کر ہی نہیں سکتی۔ ایسا فیصلہ میں نے پختہ کر رکھا ہے کہ ان صحابہ ؓ اور ان قربانی کرنے والوں سے ان کی برائیاں ضرور دور کروں گا ولا دخلنھم اور ضرو ران کو جنات میں داخل کروں گا۔ جن کویہ بدبخت جہنمی کہہ رہے ہیں ان کو خدا کیا کہہ رہا ہے۔ یہ دیکھ لیجئے اور ضمیر اپنی طرف لے کے جارہا ہے ہر بات کی ۔ ایسی جنات میں لازماً داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ ثواباً من عنداللہ یہ اللہ کی طرف سے ثواب ہے۔ واللہ عندہ حسن الثواب اور اللہ کے پاس تو بہت ہی حسین بہت دلکش ثواب ہے یعنی صرف ثواب کی بات نہیں بہت پیارے پیارے اجران کے لئے مقدر ہوچکے ہیں۔ یہ ہے اس آیت کا مضمون جو قرآن کریم کی دوسری آیات سے قطعی طور پر کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ اب میں ا ن کی بعض دوسرے دلائل کی بات کرتا ہوں۔ ایک شیعہ مفسر صاحب مولوی فرمان علی صاحب نے غور کیا ہے معلوم ہوتا ہے ان کو یہ تکلیف ہے کہ ایک ہی آیت کے اندر یہ مضمون آگیا ہے۔ اور صاف پتہ لگ رہا ہے کہ جن کا ذکر چل رہا ہے۔ انہی کے متعلق ہوگا تو اس مشکل سے وہ کس طرح باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ دیکھنے والا معاملہ ہے۔ نام ہے ا نکا مولوی فرمان علی صاحب ۔ یہ کہتے ہیں اس عذر انہوں نے یہ تراشا ہے اگر ازواج مقصود ہوتے تو جس طرح ماقبل اور مابعد کی آیت میں ضمیر جمع مونث حاضر تھی اس میں باقی رہتی کہتے ہیں پہلاسمندر تو یہ ہے کہ اگر ازواج مطہرات پیش نظر ہوتیں تو ضمیر مونث کی بجائے ضمیر مذکر میں ان کو مخاطب نہ کیا جاتا اور آیت کا یہ جو ٹکڑا ہے۔ یہ تانیث کا صیغہ چھوڑ کر اچانک تذکیر کے صیغے میں داخل ہوجاتا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ وہ جن کا ذکر چل رہا ہے وہ نہیں کوئی اور لوگ آگئے ہیں بیچ میں اچانک۔ اس کے متعلق آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ اہل بیت کا لفظ ہمیشہ مذکر ہی استعمال ہوتا ہے اور حضرت سائرہ کے متعلق جب اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا تو وہ بھی مذکر ہی استعمال ہوا ہے اور ایک عورت کو مخاطب کرتے ہوئے اہل البیت کہا گیا ہے مذکر کہا گیا ہے تین جگہ یہ آیت قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے ایک یہی آیت تطہیر ہے جس میں فرماتاہے لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا کہ اے اہل بیت اللہ نے یہ فیصلہ کرلیا ہے۔ ’’یرید اللہ ‘ وہی ’’یرید‘‘ کا لفظ آیا ہے کہ فیصلہ فرما چکاہے۔ اللہ تعالیٰ اور یہ ارادہ رکھتا ہے کہ ضرور تم سے و ہ ہر قسم کی برائی کو دور فرمادے گا۔ ہر قسم کے داغ دھو دے گا۔ دوسری جگہ فرماتا ہے۔ وحرمنا علیہ المراضع من قبل فقالت ھل ادلکم علی اھل بیت یکفلونہ ۔ حضرت موسیٰؑ کی بہن حضرت موسیٰ کے ساتھ ساتھ جب وہ بہتے ہوئے جارہے تھے دریا میں کنارے پر چلتی رہیں دیکھ لیا کہ کنہوں نے پکڑ لیا ہے وہ بچہ اور جب پتہ چل گیا تو ان کو انہوں نے ان سے یہ سوال کیا ہے مشورے کے طور پر کہ کیا میں تمہیں ایسے اہل بیت کی خبر نہ دوں جو اس کی پرورش کریں۔ دودھ دودھ پلائیں اور خیال رکھیں تو کس مذکرکا وہاں ذکر تھا؟ لیکن صیغہ مذکر ہی کا استعمال ہوا ہے۔ اہل بیت اور مراد حضرت موسیٰؑ کی والدہ ہیں تو دو عورتیں واحد کے ایک ایک عورت ہے جن کی طرف اشارہ جارہا ہے اور اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے اور قالو اتعجبین یہ دوسری نہ وہ پہلے تو تھا نہ جمع جمع کا صیغہ نساء النبیؐ ہیں مراد اور میں نے کہا آپ ذرا ایک طرف ہی ہٹ جائیں کیونکہ ان کی جو بدلتی کروٹیں ہیں وہ آپ کو بار بار مجبور کررہی ہیں آگے آجائیں ہاں ٹھیک ہے اس سے آپ کو تو کوئی تکلیف نہیں آپ کی ورزش ہو رہی ہے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ میں جب بار بار نظر پھیراتا ہوں نا الجھن پیدا ہوتی ۔ تین آیات میں دومیں ایک ایک عورت پیش نظر قالوا اتعجبین من امراللہ سورہ ھود کی آیت 74‘ فرشتوں نے کہا اے مخاطب اے ایک خاتون تعجبین کیا تو اللہ کے معاملات میں تعجب کرتی ہے۔ اللہ کے فیصلوں پر تعجب کرتی ہے۔ رحمۃ اللہ وبرکاتہ علیکم یہاں مخاطب بھی مردوں والے صیغے میں لیا گیا ہے علیکم تم پر رحمت ہو اللہ کی اور اس کی برکات اہل البیت ‘ اے اہل بیت یعنی سائرہ۔ تو اس لئے ایک واحد خاتون سامنے ہے اور مذکر کا صیغہ استعمال ہورہا ہے تو جہاں جمع کی صورت میں خواتین موجود ہیں وہاں اس میں کیا اعتراض ہے شیعہ صاحبان کو۔ یہ طرز کلام ہے قرآن کریم میں ہر جگہ اہل بیت کو مذکر ہی استعمال کیا ہے اس پر کوئی گنجائش نہیں ہے کسی اعتراض کی۔
اس کے بعد ایک اور اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہتے ہیںیہ تو ہے ہی آیت یہاںکی ہے نہیں ۔ دل میں اس مولوی صاحب کو پھر بھی کسی تھوڑی سی جو کوئی نیکی رہ گئی تھی اس نے چٹکی لی ہے۔ ایسی چٹکی بھری ہے تکلیف ہوئی ہے کہ میں کہہ تو دیا ہے مگر پتہ ہوگا کہ ہر جگہ اہل بیت مذکر ہی استعمال ہوتا ہے پھر کیا کروں۔ یہاں تو صاف نظر آرہا ہے کہ امہات المومنین مراد ہیں اور ان کے سوا کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ کہتے ہیں بات یہ ہے اس آیت کو درمیان سے نکال دو او رماقبل اور مابعد کو ملا کر پڑھو تو کوئی خرابی نہیں ہوتی یہ ٹکڑا جو بیچ میں آیا ہے اس نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے بلکہ اور ربط بڑھ جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آیت اس مقام کی نہیں بلکہ خواہ مخواہ کسی خاص غرض سے داخل کی گئی ہے۔ ان اللہ ۔ قرآن ہاتھ سے چلا جائے مگر اپنی بیہودہ سرائی ہاتھ سے نہ جائے ۔ اپنے لغو تصورات کو ثابت کرنا ہے چاہے قرآن کا کچھ بھی باقی نہ چھوڑا جائے۔ اس حد تک یہ لو گ متعصب اور غالی لوگ ہیں اور اس قدر دشمنی ہے۔ ازواج مطہراتؓ سے کہ وہ دشمنی جگہ جگہ اگلتی چلی جاتی ہے۔ جس طرح زہرا گلتا ہے سانپ اس طرح یہ زہر اگلتے ہیں ازواج نبی ؐ پر اور ابھی یہ متقیوں میں شمار ہورہے ہیں۔ قرآن کا متعلق کہتے ہیں یہ تحریف ہوگئی ہے۔ ہم مانتے نہیں۔ اس آواز نے ثابت کردیاکہ ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سارے دلائل جھوٹے اور بے معنی ہیں۔ اگر کوئی وزن ہوتا تو یہ آخری بات نہ کہتے۔ سب کچھ کہنے کے بعد سب کچھ سننے کے بعد دل نے پھر یہی فیصلہ دیا کہ یہ بات بنتی نہیں ہے۔ جو مرضی کرلو۔ یہاں ازواج ؓ نبی ؐ کے سوا کوئی مخاطب ہو ہی نہیں سکتا تو اس ٹکڑے کو نکال دو۔ پھر مضمون صاف ہوگا۔ اس کا کیا تعلق ہے یہاں؟ یہ تحریف ہوگئی ہے اور پھر اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہیں کہتے ہیں اگر ازواج نبیؐ شامل ہوتیں تو ان کی تعداد نو تھی اور ان حضرات کی چار۔ ان میں بھی ایک عورت ہی ہے پس مجموعاً تیرہ ہوئے۔ دس عورتیں تین مرد پھربھی غلبہ عورتوں ہی کا رہا۔ کہتا ہے غلبہ عورتوں کا رہا اس لئے مخاطب مذکر کے صیغے میں بھی کیا جاسکتا تھا۔ حالانکہ جو آیت میں نے حضرت سائرہ والی پیش کی ہے اس میں دو دفعہ ایک خاتون کو مذکر کے صیغے میں استعمال کیا۔ پہلے علیکم کے طورپر رحمت اور برکات کی خوش خبری دی اور پھر اہل بیت قرار دیتے ہوئے۔ تو قرآن کے اسلوب کو یہ کیسے بدل دیں گے؟ اللہ تعالیٰ کو عربی سکھا رہے ہیں؟ پھر آگے ایک سوال اٹھایا ہے۔ اہل بیت کیسے کہتا ہے ہوسکتے ہیں یہ تو آج ہیں کل طلاق دی الگ ہوگئیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جن کو خدا نے صدقہ حرام کیا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ صدقہ کن کن پر حرام ہوا تھا۔ اس میں حضرت ابوطالب کی اولاد بھی شامل ہے تو اس طرح پھر اہل بیت کا دائرہ ا ن پر بھی ممتد کرنا پڑے گا۔ جنہوں نے ایک حصہ اسلام سے باہر صرف کیا اور جنگ بدر میں اس لشکر میں شامل ہوئے جو اسلام پر حملہ آور ہوا۔ جن میں حضرت عباسؓ بھی تھے ا ن کو ساری رات ایک ستون سے باندھا گیا مشکیں کس کے اور ا نکے کراہنے کی آواز ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اوریعنی کراہنے کی آواز بند ہونے پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان دیکھیں عدل و انصاف کی۔ ان کے کراہنے کی آواز سے نیند نہیں آرہی تھی تکلیف سے جب کراہنے کی آواز بند ہوئی تو بے چینی کم نہیں بڑھ گئی پہلے ذاتی رشتے کی تکلیف تھی اب عدل کے مقام پر حرف آرہا تھا اس لئے اس خطرہ سے ایک دم گھبراہٹ سے باہر نکل آئے کہ کسی نے میرے رشتے کے تعلق سے آپ کی مشکیں ڈھیلی نہ کردی ہوں۔ وہی بات تھی۔ حضرت عباسؓ کے متعلق اس خیال سے کہ ان کی آواز سے تکلیف نہ پہنچے۔ بعض صحابہ ؓ نے مشکیں ڈھیلی کردیں آپ نے فرمایا کہ اگر یہی کیا ہے تو سب کی کرو تمام قیدیوں کو آرام کی نیند سلا کر پھر جاکے سوئے ہیں۔ پس یہ کہتے ہیں کہ صدقہ حرام جن پر ہے۔ وہ اہل بیت ہیں۔ پہلے وہ چادر والے کے لئے جب وہاں بات نہیں بنتی تو صدقہ حرام کی طرف چلے گئے اور وہاں حضرت ابوطالب سے پھر یہ ساری برکتیں شروع ہوتی ہیں۔ محمد رسول اللہ سے شروع ہی نہیں ہوتیں۔ ابو طالب کی اولاد ہی ہے جو خدا کے نزدیک اہل بیت ہے اور وہ اگر اہل بیت ہیں تو ان میں کبھی کوئی خرابی نہیں آئی تھی اس سے پہلے جو کفر کی حالت میں موجود رہے اور اس لشکر میں شامل ہوئے جس میں پکڑے گئے اور قیدی بنائے گئے۔ تو ان ساری باتوں کی طرف ان کا دھیان نہیں جاتا۔ بالکل لغو قصے بنائے ہوئے ہیں۔ ان کی کوئی بنیادنہیں۔ قرآن کریم کے واضح احکامات سے مقابل پر کچھ حدیثیں گھڑتے ہیں جب ان حدیثوں سے ثابت ہوجاتا ہے کہ ان میں تضاد‘ الجھنیں کوئی حقیقت نہیں ‘ کوئی سند نہیں تو پھر قرآن پر حملہ کر بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں یہاں تحریف ہوچکی ہے۔ اب کہتے ہیں اب یہاں ام سلمہ کی تعریف سنئے۔ چونکہ اپنے حق میں ایک روایت ان کی طرف منسوب ہوئی ہوئی ہے او را نکی طرف منسوب کرنا اس لئے بھی ضروری تھا کہ سنی مانتے ہی نہ اگر کوئی اور روایت ہوتی تو وہ کہتے ہیں اب سنئے ! جس وقت حضرت ام سلمہؓ نے جن کے گھر میں یہ آیت نازل ہوئی وہ خود نہایت ممدوح اور پکی ایماندار بی بی تھیں جب چادر کا کونہ اٹھا کر ا نمیں داخل ہونا چاہا تو حضرت رسول ؐ نے کونہ ہاتھ سے کھینچ لیا اور صاف صاف کہہ دیا کہ تم نیکی پر ہو مگر اہل بیت میں شامل نہیں ہو بلکہ ازواج میں ہو۔ یہ روایت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خود گھڑی ہوئی ہے اس کی کوئی بنیاد نہیں ان کی دوسری روایات سے کھلم کھلا ٹکراتی ہے اور اس کے برعکس کچھ ایسی روایات ہیں جن کو یہ نظر انداز کرتے ہیں حالانکہ در منثور میں ہی موجود ہیں۔ میں وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تفسیر در منثور جلد 5 صفحہ 198 از علامہ جلال الدین سیوطی۔ ابن عباس سے روایت ہے۔ یہ روایت جوبھلاا دیتے ہیں ذکر بھی نہیںکرتے۔ ابن عباس سے راویت ہے کہ آیت قرآنی انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس خاص طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کے بارہ میں اتری ۔ عکرمہ کے نزدیک یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں اتری عکرمہ فرماتے ہیں کہ آیت قرآنی انما یرید اللہ لیذھب عنکم والرجس اھل البیت سے وہ مراد نہیں جو تم گمان کرتے ہو بعض لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ یہاں کچھ اور مراد ہیں۔ اس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج ہیں حضرت عروہ سے روایت ہے کہ آیت یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت سے مرادحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج ہیں اور یہ آیات حضرت عائشہ ؓ کے گھر نازل ہوئی تھیں اور حضرت عائشہؓ کی روایت خود ام المومنین کے حوالے سے جو پیش کررہے ہیں وہاں بھی یہ بات ہے کہ وہاں نازل ہوئی تھیں تو اپنی باتوں کو تو ایک دوسرے سے کاٹ لیا۔ ان کا کچھ باقی نہیں چھوڑا جو روایات باقی رہ گئی ہی جن میں تضاد نہیں وہ پیش نہیں کرتے وہ یہ ہیں۔
ابن جریر اور ابن مردویہ کے حوالے سے عکرمہ کا بیان ہے اور طبقات ابن سعد کے حوالے سے عروہ کی روایت ہے کہ اہل بیت سے مراد ازواج النبی ؐ ہیں اور یہ آیت حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں نازل ہوئی اور ابن عسا کرنے‘ ابن ابی حاتم‘ ابن عسا کرنے عکرمہ کے حوالے سے حضرت ابن عباس کی یہ روایت بیان کی ہے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ؓ سے نازل ہوئی وقال عکرمۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ من شاء باھلتہ انھا نزلت فی ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ اتنی قطعی بات ہے کہ جو اس کے خلاف چاہتا ہے میں اس سے مباہلہ کرنے کیلئے تیار ہوں وہ مباہلہ کیوں نہ قبول کیا پھر سامنے آکے ایسے مباھلے کی باتیں کرتے ہیں جس کی روایات کو خود تم نے مشکوک کر رکھا ہے وہ عکرمہ نے جب مباھلہ کا چیلنج دیا تھا تو تم لوگ اس وقت کہاں تھے۔ وہ کہتے ہیں بالکل قطعی بات ہے جیسے جیسا کہ میں نے تلاوت کی ہے آیات کی ترجمہ سنایا ہے۔ اس کے سوا معنی بن ہی نہیں سکتا۔ ناممکن ہے صرف وہی ایک شیعہ مولوی کی بات ہے کہ اتنی قطعی بات ہے کہ جب تک اس آیت کے ٹوٹے کو نکالا نہ جائے شیعوں کی بات بنتی نہیں اور وہ کون ہے جو نکال سکے۔ اب سنئے آگے مزید یہ جو ہمارے مہربان لوگ ہیںمفسرین یہ آیت تطہیر نہ حضرت سارہ کے متعلق کہ سارہ کے متعلق یہ جو کہا گیا ہے کہ اہل بیت ہو اس کا جواب لکھتے ہیں۔
Since in the mercy and the bounty of God offered in this verse applies
اول تو انگریزی in the mercy سمجھ ہی نہیں آتی بات غلط ہے۔ in شاید زائد لکھا گیا ہے۔the mercy مراد ہے۔
applies to the people of the house of Abraham and Sarah, the wife of Abraham happens to be the probable person included in the address Ahlulbait happens to be the probable person.
ایک یہاں سے بھی ایک نجات کا رستہ نکالنے کی کوشش کی ہے احتیاطاً۔ کہتے ہیں غالباً مراد ہے ہوسکتا ہے قطعی طور پر مراد نہیں ہے۔
Some commentators in their anxiety to find some argument for the counting the wivesؓ of the Holy Prophetؐ in the term of Ahlulbait have said that since Sarah the wife of Abraham included in the term Ahlulbait use in this verse all the wives of the prophet are included in the verse 33,34 relating to the purity etc.
کہتے ہیں اس سے بعض سنیوںCommentators نے بہت کوشش کی ہے یہ ثابت کرنے کی کہ اگر ایک نبی کی بیوی کے لئے اہل بیت کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے تو دوسرے نبی محمد رسول اللہ ؐ کی ازواج کے لئے کیوں استعمال نہیںہوسکتا۔ کہتا ہے۔
The Commentators intentionally or un-intentionally ignore the fact and the significance of the address by the angles. If Sarah was one of the addressees of the angels it was not as the wife of Abraham but as she was going to be the mother of Issac.
کہتے ہیں اس لئے نہیں تھا کہ ابراہیم کی بیوی تھی اس لئے کہ اسحاق کی ماں بننے والی تھی اور یہ وہ مضمون ہے اس نے ان کو ایک اور جہالت کے صحرا میں بھٹکتا چھوڑ دیا ہے یعنی حضرت محمد رسول اللہ کی جو جدہ امجد بننے والی والدہ ماجدہ اوپر کی سیڑھی کی بننے والی تھی۔ حضرت ھاجرہ ان کو تو مخاطب کرکے کہیں نہیں ملتا۔ ذکر کیا فرشتوں نے اہل البیت قرار دیا ہو۔ اس لئے کہتے ہیں کہ دراصل ابراہیم کی بیوی کے طور پر ان کو اہل بیت نہیں قرار دیا گیا بلکہ اسحاق کی بیوی کے طور پر اسحاق کی ماں کے طور پر وہی غلطی اسی قسم کی دوبارہ ہوئی ہے۔ اسحاق کی ماں کے طور پر اس کا مطلب ہے کہ جو عیسائی دعویٰ کرتے ہیں کہ متبرک نسل جس کے ساتھ برکتوں کا وعدہ ہے وہ اسحاق کی ماں کی نسل ہے۔ جو اسحاق کی ماں سائرہ کی نسل آگے چلی ہے وہی متبرک ہے۔ یہ اپنا مضمون ثابت کرنے کیلئے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ یعنی آخری صورت میں حضرت ہاجرہؓ سے برکتوں کا سامان اٹھا لیتے ہیں اور عیسائیوں کی تائید کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ بات تھی اور اس پہلو سے عیسائی سچے نکلتے ہیں۔ محمد رسول اللہ کی والدہ تو ایسی نہیں تھی جن کو فرشتے کہتے کیونکہ وہ صرف ابراہیم ؑ کی بیوی تھی یہ مضمون ہے۔ ابراہیم کی بیوی سے ا نکو کیا فرق پڑ جانا تھا۔ آج ہیں کل نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک مضمون باندھا گیا ہے۔ ازواج تو لکھتے ہیں آج اس کی کل کسی اور کی، لیکن اس میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ حضرت علی جس وجہ سے برکت پانے والے ہیں وہ محمد رسول اللہ صلعم کی اولاد کے والد کہلاتے ہیں۔ وہ بھی تو حضرت فاطمہ سے شادی کے نتیجہ میں ہوئے تھے۔ محمد رسول اللہ صلعم کی بیویوں کے ذکر میں تو یہ کہہ دیتے ہیں آج اس کی اور کل اس کی اور شدید گستاخی کاکلمہ ہے ہم یہ حضرت فاطمہ ؓ کے متعلق نہیں کہہ سکتے مگر ان بے حیائوں کو سوچنا تو چاہئے کہ کہہ کیا رہے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا نکلے گا عواقب سے بے خبر جہالت کی باتیں پتہ ہی نہیں کہ کس گڑھے میں گرنے والے ہیں اور ایسی دلیل دیتے ہیں جو آگے ان کے گڑھا کھودیتی ہے اور اس میں لازماً گرنا پڑتا ہے ان کو۔مگر ان کو سوچنا چاہئے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اگلی بات حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق مزید یہ کہتے ہیں اور یہ سننے والی بات ہے یہ اس کا حوالہ میں پڑھ کر سنادوں۔
It is only circumstantial which can at any moment be given up. A wife would be with one and after a moment be given up. A wife would be with one and after a divorce would go to another.
یہ بیہودہ سرائی ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کی بیوی کے حوالے سے یہ پیش کررہے ہیں اپنے مضمون کو ثابت کرنے کیلئے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی اور نبی کے متعلق تو کہا گیا یا نہ کہا گیا۔ ازواج مطہرات حضرت محمد رسول اللہ کے متعلق قرآن نے واضح فرما دیا ہے کہ اس نبی کے بعد اب دوبار ہ کسی سے شادی نہیں کرنی اور ان کو امہات المومنینؓ کہہ کر ہمیشہ ہمیش کیلئے ان کا ایک ایسا رشتہ خدا نے قائم فرمادیا ماں اور بچوں کا جس کے بعد شادی کا تصور کسی کے ذہن میں پیدا ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ بات بھول جاتے ہیں۔ لیکن چونکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر میں یہ نہیں ملتا اسیلئے اس گستاخی کا ان کو موقعہ مل گیا ہے وہاں۔ اب چلیں ایک دلیل تو ان کی کافی نہیںہوئی۔ ان کو دل میں چور ہے کہ یہ بات پوری بنتی نہیں ہے۔ ابراہیم کی Wife تھی معزز تھی اس پہلو سے۔ اور نبی سے ہی عورتیں برکت پاتی ہیں۔ اپنے رشتے کی مگر یہ کہتے ہیں نہیں۔ Besides Sarah the wife of Abraham was a cousin of Abraham خاص طور پر یہ بات پیش نظر رکھو علاوہ ازیں ابراہیم ؑ کی بیوی سارہ اس کی کزن تھی اور
being a daughter of his uncle
اس کے چچا کی بیٹی تھی اس لئے کتنی معزز عورت تھی اس چچا سے برکتیں پانے والی ہے ابراہیمؑ
سے نہیں۔ سن لی دلیل آپ نے اور کس طرح بچاری حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نکال کے باہر کردی گئیں وہی بدبخت عقیدہ جو عیسائی محمد رسول اللہ پر حملے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ وہی باتیں اپنی تائید میں اپنے بے ہودہ خیال کو تقویت دینے کی خاطر پوری طرح عیسائی عقیدوں سے متفق ہوجاتے ہیں اورپھر ان سے آگے بڑھ جاتے ہیں عیسائی یہ نہیں کہتے تھے کہ سارہ نے تارح سے برکت پائی ہے یا آذر سے برکت پائی یہ کہتے ہیں نہ ۔ نہ۔ ابراہیم ؑ سے کیسے برکت مل گئی اس کو تو اپنے باپ سے برکت ملی تھی جو ابراہیم ؑ کے چچا تھے اور جہاں تک بائبل گواہ ہے وہ تو چچا تھا ہی نہیں وہ تو باپ تھے خود۔ بائبل تو عجیب و غریب بات بیان کرتی ہے۔ قرآن کریم چچا کا ذکر کرتا ہے لیکن باپ کے تابع لفظ کے تابع اور مراد چچا ہے نام دوسرا ہے آذر نام ان کے باپ کا نہیں تھا یہ مسئلہ بھی میں آپ کو سمجھا دوں کہ یہ کیا ہے تاکہ اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھ سکیں۔
بائبل کے نزدیک حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی بہن سے شادی کی تھی جو دوسری ماں سے تھیں مگر ایک ہی باپ سے تھیں۔ بائبل کہتی ہے اور یہ تارح کا نسب نامہ ہے ہم تو حضرت سارہ کو آذر کی بیٹی یا کسی اور کی بیٹی سمجھتے ہیں واضح طور پر یہ نہیں کہا گیا کہ آذر کی بیٹی تھیں مگر آذر حضرت ابراہیم کے چچا تھے اور جو خباثت اور مخالفت میں اور انتہائی اس دشمنی میں پیش پیش تھے وہ وہی تھے لیکن ان کی طرف قرآن کریم اب کے لفظ سے حوالہ دیتا ہے اس لئے یہ امکانات موجود ہیں۔ یہ سارے میں آپ کے سامنے امکانات کے طور پر رکھتا ہوں کہ قرآن کریم نے چچا کے لئے بھی لفظ اب استعمال کیا ہے چونکہ عربی میں ایسا ممکن ہے۔ بعض دفعہ اپنے چچا کو ہم بھی یہاں ابا کہہ دیتے ہیں مگر ایک اور مراد بھی ہوسکتی ہے کہ بائبل کی غلطی کی اصلاح اس طرح فرمائی گئی ہو کہ تارح کی بیٹی یہ تو ہیں یعنی حضرت سارہ لیکن ابراہیم تارح کے بیٹے نہیں تھے وہ آذر کے بیٹے تھے تو دونوں امکانات ہیں جو کھلتے ہیں اور دونوں پر کوئی اعتراض وارد نہیںہوتا ۔ بائبل کہتی ہے ’’اور یہ تاریح کا نسب نامہ ہے تاریخ سے ابراھام اورنحور اور حاران پیدا ہوئے اور ابراھام کی بیوی کا نام سارہ ہے اور نحور کی بیوی کا نام ملکہ تھا جو حاران کی بیٹی تھی اور سارہ بانجھ تھی اس کے کوئی بال بچہ نہ تھا اور خدا نے ابراھام سے کہا کہ سارہ جو تیری بیوی ہے سو اس کو ساری نہ پکارنا اس کا نام سارہ ہوگا اور میں اسے برکت دوں گا اور اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یعنی اسے برکت دوں گا کہ قومیں اس کی نسل سے ہوں گی اور عالم کے بادشاہ اس سے پیدا ہوں گے۔ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سارہ کے متعلق فرمایا اور فی الحقیقت یہ جو پیدائش باب ۲۰ آیت ۱۲‘۱۳ اور فی الحقیقت وہ میری بہن بھی ہے کیونکہ وہ میرے باپ کی بیٹی ہے اگرچہ میری ماں کی بیٹی نہیں پھر وہ میری بیوی ہوئی۔‘‘ تو بائبل کاجو جاھلانہ تصور ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق اور سارہ کے متعلق وہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم بھی تار ح کے بیٹے تھے حضرت سائرہ بھی تارح کی بیٹی تھیں اور انہوں نے اپنی بہن سے جو باپ سے بہن تھی اور ماں سے الگ الگ تھی شادی کی اور اس لئے بہن کہا۔ قرآن اس عقیدہ کو رد کرتا ہے اور حضرت ابراہیم کے باپ کے نام کے طور پر آذر کا نام پیش کرتا ہے اس سے پتہ چلا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ بھی مفسرین یہ لکھتے ہیں عام طور پر ایک دفاعی طور پر اور میرے نزدیک اس دفاع کے مقابل پر جو میں مسلک پیش کرتا ہوں زیادہ معقول اور مضبوط ہے اس سے دونوں مسئلے حل ہوجاتے ہیں۔
مفسرین یہ کہتے ہیں کہ باپ کا لفظ چونکہ چچا کے لئے بھی استعمال ہوجاتا ہے اس لئے جو بائبل یعنی اہل کتاب کے گروہ جو اسلام پر حملے کرتے ہیں دیکھو غلط بات کہہ دی یہ ہے تو تاریح کے بیٹے ہی لیکن محاوۃً آذر کا بیٹا قرار دے دیا اگر یہ مانو تو پھر تارح کی بیٹی اپنی بہن سے شادی بھی لازماً ماننی پڑے گی۔ اس کے برعکس جو دوسرا پہلو ہے بائبل غلط کہتی ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں ناموں وغیرہ کی اور جو فیملی فیز بیان ہوئے ہیں۔ شجرہ نسب بیان ہوا ہے اس میں بے شمار غلطیاں ہیں اور اس پر جو ہمارا ریسرچ گروپ ہے۔ انشاء اللہ جب وہ بائبل کی Commentory لکھے گا تو اس مضمون کو خوب وضاحت سے دنیا کے سامنے کھولا جائے گا ۔ سردست میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کے بیان کو لفظاً کیوں نہ قبول کریں۔ آذر کے بیٹے تھے۔ کیونکہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہوں نے یہ عہد کہا تھا وعدہ کیا تھا اپنے باپ سے کہ میں تیرے لئے بخشش کی دعا طلب کروں گا۔ اے اللہ تو انہیں بخش دے مغفرت کی دعا کروں گا یا استغفار کروں گا تیرے حق میں اس لئے آپ نے دعا کی لیکن جب اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ یہ دشمن ہے اور خدا کا دشمن ہے تو ابراہیم ؑ نے اس کے بعد توبہ کی اور کہا اب میں کبھی دعا نہیں کروں گا یعنی یہ خدا نے روک دیا ا نکو کہ وہ دعا نہ کریں یہ ہے پہلو پیش نظر اس سے آپ اندازہ کریں کہ سارہ نے برکت کہاں سے حاصل کی ہے وہ تار ح کی بیٹی تھی یا آذر کی بیٹی تھی جسکی بھی تھی مشرکین کے سردار کی بیٹی تھی اس کی بیٹی تھی جو خدا کا دشمن تھا اور ان لوگوں کی بیٹی تھی جس ساری قوم کو خدا نے رد کرکے ان پر *** ڈالی اوران کے لئے دعائوں سے بھی منع کردیا گیا۔ اہل تشیع کے یہ امام یہ بزرگ فرماتے ہیں کہ مسلمان Commentator ازواج النبی ؐ کو اہل بیت میں داخل کرنے کے شوق میں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سارہ کی عظمت اس خاندان سے وابستہ تھی۔ جس میں آذرپیدا ہوئے جس کے بڑوں میں تارح کا شمار ہوتا تھا۔ سارہ کی عظمت ان لوگوں میں تھی جنہوں نے ابراہیم ؑ کے لئے آگ جلائی جو سر تاپا مشرک ہوتا تھا۔اور ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈال کر اپنے خود اپنے نسل کے بچے کو اپنے بیٹے یا اپنے بھتیجے کو آگ میں پھینک کر ان کو دل کا سکون ملا۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ نے اس آگ کو ٹھنڈا کردیا۔ یہ جاہل مسلمان سنی مفسرپاگلوں کو پتہ ہی کچھ نہیں کہ سارہ کی عظمت تو ان کے ساتھ تھی۔ ابراہیم ؑ سے کہاں سے عظمت ہوگئی۔ وابستہ اتنی دشمنی ہے۔ ازواج النبی ؐ سے۔ ایسے خبیثانہ بغض ہیں کہ وہ جب گندا پھوڑا پھٹتا ہے اس طرح پھٹتے ہیں اور ساری فضاء کو عفو نت سے بھر دیتے ہیں یہاں جاکر اہل بیت کا مضمون بالکل ہی بگاڑ کے اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا اور یہ بات ان کو فائدہ دیتی ہے کیونکہ بعد میں اہل بیت میں انہوں نے ابو طالب کی اولاد کو بھی داخل کرنا ہے اور برکتیں وہاں سے لینی ہیں چنانچہ ابو طالب علیہ السلام لکھتے ہیں۔ حالانکہ ابو طالب کے متعلق کوئی قطعی روایت ایسی نہیں ملتی کہ انہوں نے بیعت کی ہو اور رسول اللہ صلعم کے ہاتھ پر مشرک با سلام ہوئے ہوں۔ ان کے متعلق یہ تو ملتا ہے کہ پناہ سے ہاتھ کھینچنے کی بات کی کہ اے محمد ؐ ! بس اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا کہ میں اپنی قوم کا دبائو برداشت کروں۔ میں اپنی پناہ کا ہاتھ اٹھانے والا ہوں۔تجھ سے آپ نے فرمایا جو چاہے کر مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ ان سے بزرگی شروع ہوتی ہے اہل بیت کی۔ پس یہ ہے اصل راز ا ن کی سوچ فکرو ںکے بگاڑ کا کہ کفر اور شرک سے عزتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلعم سے عزتیں حاصل کرنا ان کے نزدیک حرام ہے اور بیویوں کو بھی کوئی برکت نہیں مل سکتی۔
٭٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 19 رمضان المبارک
2 مارچ1994 ء
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلوا علیھم ایتہٖ و یزکیھم و یعلمھم الکتب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلل مبین O اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انیٰ ھذا قل ھوا من عند انفسکم ان اللہ علیٰ کل شیئٍ قدیر O وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ ولیعلم المومنین O
(آل عمران 165تا 168)
ا ن آیات کی پچھلے دو تین روز سے تلاوت ہورہی ہے۔ لیکن ابھی تک ہم پہلی آیت نمبر ۱۶۵ پر ہی گفتگو ختم نہیں کرسکے۔ آج اس مضمون کا بقیہ حصہ بیان کرنا ہے۔ جو شیعہ مفسرین نے بحث چھیڑی ہے اور اُن کا نقطہ بہ نقطہ میرے آگے رہا تھا۔ لیکن اس سے پہلے کل مجھے عزیزم لقمان احمد نے بتایا کہ ان کا بھی یہی تاثر ہے اور بعض دوسروں کا بھی کہ وہ جو آذر اور تارح والی بحث اٹھائی گئی تھی وہ اکثر سننے والوں کیلئے اتنی اجنبی تھی کہ وہ سمجھ نہیں سکے۔ کیونکہ اُن کو اس کا تاریخی پس منظر معلوم نہیں اس لئے مزید وضاحت کردیں کہ قرآن کیا کہتا ہے بائبل کیا کہتی ہے اور مفسرین کے نظریے کیا ہیں؟ اور آپ کا اپنا نظریہ کیا ہے؟ یہ چار باتیں ایسی ہیں جن پر کچھ مزید روشنی چاہئے۔ کیونکہ اکثر ذہنوں میں یہ الجھائو نظر آتا ہے۔ اُن کے اپنے ذہن میں تو تھا بہرحال جب میں نے اُن سے بات کی اس لئے مختصراً میں اسی بات کو دوبارہ لیتا ہوں۔ قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ذکر میں آپ کے والد کا نام آذر بتایا ہے۔ اور ایک موقعہ پر آپ نے اپنے والد کیلئے جو دعا کی ہے اس کا ذکر ملتا ہے۔ اور ایک دوسرے موقعہ پر یہ ذکر ملتا ہے کہ ابراہیم نے یہ دعا اس لئے کی تھی کہ اس نے اپنے باپ سے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ میں تیری مغفرت کیلئے ضرور دعا کروں گا۔ لیکن جب خداتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر یہ بات کھول دی کہ تیرا باپ خدا کا دشمن تھا تو وہ اس بات سے تائب ہوگیا۔ اورپھر کبھی گویا کہ طرز بیان سے لگتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل سے یہ خیال ہی نکل گیا۔ لیکن وہ وعدہ پورا کرچکے تھے۔ اس سے مختلف مفسرین کو کچھ الجھائو بھی پیدا ہوا ہے۔ لیکن میں نے ایک دفعہ عید کے موقعہ پر خطبہ میں بیان کیا تھا کہ حضرت اقدس ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا خاص پیار کا تعلق ہے۔ جس کا اظہار ہورہا ہے۔ اللہ پہلے بھی روک سکتا تھا۔ خدا کو علم تھا کہ یہ ہوگا۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ دعا اس وقت کی ہے۔ جب وہ فوت ہوچکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دعا میں کافی تاخیر ہے یہ خانہ کعبہ کے تعمیر کے وقت کی دعا لگتی ہے اور اس سے پہلے وہ اُن کو ’’پچھلوںکو‘‘ چھوڑ آئے تھے اور بہت بڑے ابتلاء برپا ہوچکے تھے اور دعا مشرک کیلئے زندگی میں تو ہے ہی جائز۔ کیونکہ تمام مشرقین کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے۔ ’’اللہ ان کو ہدایت دے‘‘ دعا ہی تو تھی جس نے یہ انقلاب برپا کیا۔ تو جس دعا کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے ذکر مل رہا ہے۔ وہ وفات کے بعد کی دعا ہے کیونکہ مشرکین کے متعلق زندگی میں دعا کرنا کہیں ممنوع نہیں ہے۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں قطعی طور پر ثابت شدہ دعائیں ہیں۔ اُن لوگوں کے حق میں۔ جیسے ابوجہل کہ ’’اللہ اس کو ہدایت دے‘‘ یہ ثابت ہے ساری قوم کیلئے دعا کرتے تھے اور اس وقت طائف کے موقع پر مشہور دعا جو وہ کی کہ ’’اللھم اھد قومی فانھم لایعلمون۔پھر یہی دعا دوبارہ پھر ثابت ہے آپ کی طرف سے انہیں الفاظ میں۔ پس مشرکوں کیلئے دعا کرنے سے مناہی ان کی زندگی تک نہیں۔ زندگی کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اور مرنے کے بعد ہدایت کی دعا کر ہی نہیںسکتے آپ۔ اس لئے ایک ہی دعا رہ جاتی ہے۔وہ مغفرت کی دعا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ میرے حضور حاضر ہوچکے ہوں مشرک ۔اور زندگی بھر اُن کو توبہ کی توفیق نہ ملے۔ تو پھر تم اُن کیلئے دعا نہ کرو۔ اللہ کا معاملہ ہے اپنے بندوں سے جو چاہے فیصلہ کرے۔ یہ وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر میں سمجھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعا کی تھی اپنے باپ کیلئے۔ جس کو قرآن کریم آپ کا باپ قرار دیتا ہے وہ انکے مرنے کے بعد کی دعا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی آپ کے ساتھ خاص رحمت اور شفقت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے۔ کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کو تو علم تھا کہ وہ دشمن تھا۔ اور خدا تعالیٰ اپنے دشمنوں کیلئے اور دوسرے مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا کو پسند نہیں فرماتا۔ اس کے باوجود انتظار فرمایا یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السلام اپنا وعدہ پورا کرچکے۔ جب وعدہ پورا کرلیا تو پھر کہا کہ وہ تو دشمن تھا۔ یہ ہے سارا مضمون جو میں تفصیل سے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ اس بحث کا پس منظر معلوم ہوجائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دعا کے تعلق میں باپ کے حوالے سے ذکر کرتا ہے۔ اور آذر کا نام بطور باپ کے معین طور پر بیان فرمایا گیا ہے۔ یہ بات یاد رکھئے۔
بائیبل میں جو کل میں نے حوالہ آپ کے سامنے رکھا تھا۔ اس میں آذر کی بجائے تارح نام بتایا گیا کہ آپ کے باپ کا نام تارح تھا اور تارح کے اس ذکر کے ساتھ یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شادی اپنی ہی سوتیلی بہن سے ہوئی یعنی باپ کیطرف سے وہ تارح کی بیٹی تھی۔ لیکن ماں کی طرف سے دوسری ماں کی بیٹی تھی۔ یہ ہے سارا الجھائو جس کو دور کرنے کیلئے میں نے مختلف باتیں آپ کے سامنے رکھی تھیں۔ مفسرین کا تو یہی رجحان ہے کہ بائیبل کا جو تارح والا بیاں ہے۔ وہ درست ہے اور ابراہیم تارح کے ہی بیٹے تھے۔ اور حضرت سارا کے متعلق یہ اندازے پیش کئے جاتے ہیں کہ وہ ماموں کی بیٹی تھیں لیکن یا صرف کزن کہہ دیا جاتا ہے۔ مگر اس کیلئے کوئی قطعی شہادت پیش نہیں کی جاتی۔ جہاں تک بائیبل کا تعلق ہے۔ یہ کہہ کر خاموش ہوجاتی ہے کہ وہ اُن کی دوسری والدہ سے بہن تھیں۔ اور باپ کی طرف سے ایک تھی۔ اب اس کا حل کیا ممکن ہے؟ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تفسیر کبیر میں بھی میں نے مختلف جگہوں سے یہ ذکر دیکھا ہے۔ حضرت مصلح موعود بعض جگہ ایک امکان پیش کرتے ہیں۔ بعض جگہ دوسرا امکان پیش کرتے ہیں۔ لیکن طرز سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری تسلی نہیں ہوئی اور رحجان آخر یہی ہے کہ تارح ہی نام تھا۔ جس کا بگڑا ہوا عربی نام آذر بنا۔ اور اس میں مشکل یہ درپیش ہے کہ آذر کا تارح کے بھائیوں میں کوئی ذکر نہیں ملتا اور تارح کا ذکر ہے اور اس کے بعد نہ بہن بھائیوں کا کہیں اس حوالہ میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔ اس لئے ہمارے مفسرین کیلئے یہ دقت پیش آئی کہ اور کسی کو تلاش کریں۔ ایک حل یہ بھی پیش کیا گیا۔ حضرت مصلح موعود کی طرف سے کہ باپ تارح ہی ہوگا لیکن بچپن میں فوت ہوگیا ہوگا اور بطور یتیم کے آذر نے آپ کی پرورش کی ہوگی۔ اس لئے اس کو باپ کہنا دوہرے رنگ میں جائز ہے۔ ایک تو چچا کو باپ کہہ دیا جاتا ہے۔ دوسرے اگر اس کے گھر میں پرورش ہوئی تو پھر وہ باپ کہلا سکتا ہے۔
لیکن بائبل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تارح زندہ رہا ہے بہت بعد تک۔ یہاں تک کہ پہلی ہجرت میں جو اُور سے کی گئی ’’تارح‘‘ ساتھ تھا۔ اس لئے یہ بات تو پھر ٹکرا رہی ہے بائیبل سے۔ اگر بائیبل سے تصادم دور کرنے کیلئے ہی یہ عذر تلاش کیا جائے تو ایک اور جگہ تصادم ہوجائے گا۔ تصادم سے تو بچ نہیں سکتے۔ اس لئے میں نے جو نظریہ پیش کیاتھا۔ میں ابھی بھی اس پر بڑی شدت سے قائم ہوں اور میرے دل میں کامل یقین ہے کہ قرآن نے جو بات بیان فرمائی ہے۔ بعینہٖ اُسی طرح درست ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آذر تھا۔ تارح نہیں تھا اور تارح کے اور بھی بہت سے بھائی تھے۔ وہ بھائی جو تھے ان میں آذر بھی ایک بھائی تھا۔ اسکا ثبوت کیااور بھائی تھے؟ وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ تارح کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جانا تو ثابت ہے ۔ آذر کا ساتھ جانا ثابت نہیں۔ اور جہاں تک آذر نام کا تعلق ہے خود Sale یہ تسلیم کرتا ہے کہ ایک نام آذر کا بھی ملتا ہے۔ جو ابراہیم علیہ السلام کے باپ کے طورپر اور ایک مشہور مؤرخ جو مؤرخین میں سے بہت ہی قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ اس کا نام Jose Phus ہے یا Eusebius کہتے ہیں لیکن Jose Phus نام بھی اسی کانام ہے The father of ecciesiatical history Eusbius gives
"Athar" as the name of Abrahams father. (Sale)
کہتا ہے کہ تارح کی بجائے Ecclesiatical History اس کا وہ سب سے بڑا جد امجد سمجھا جاتا ہے مورخین میں۔ Sale اس کے حوالے سے لکھتا ہے کہ :۔
"Gives Ather as the name of Abrahams father''
* جو زیفنس یہودی مورخ ہے قریباً حضرت مسیحؑ کا ہم عصر۔ یو سیبیس عیسائی مورخ ہے چوتھی صدی عیسوی کا )۔۔۔۔۔
جو کہ آذر کے بالکل مشابہہ ہے۔ اس پر میں مزید تحقیق کروا رہا ہوں۔ اصل مل جائے۔ یہ حوالہ ہم نے لیا ہے ملک غلام فرید صاحب کی یہ جو Commentary نوٹس "Commentated Quran Kareem,, ہے۔
گویا تفصیلی تو نہیں لیکن نوٹ بڑے اچھے ہیں۔ ان میں یہ ذکر ملا ہے۔ جو میں نے تلاش کرایا۔ ابھی تک مجھے Sale کا اصل حوالہ نہیں ملا۔ لیکن میں انشاء اللہ Sale کا بھی اصل حوالہ دیکھوں گا۔ اور اس کتاب میں سے History کا جو اصل جہاں ذکر موجود ہے۔ وہ پڑھ کے پھر انشاء اللہ آپ کے سامنے دوبارہ رکھ دوں گا بات۔ ایک بات تو بہرحال قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ مستشرقین جو قرآن پر اعتراض کرتے ہیں۔ خود انہوں نے ہی مسلمانوں کی مدد کردی ہے۔ یہ حوالہ تلاش کرکے اور قرآن کا بیان آذر والا سچا ثابت ہوتا ہے۔ پس کیا وجہ ہے کہ اسے ہم تبدیل کریں اور اسے چچا کے حکم میں شمار کریں۔ اس طرح دونوں مسائل حل ہوجاتے ہیں ، حضرت سارہ کیلئے الگ باپ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ وہ تارح کی بیٹی بنی رہے اور پھر تارح کا آپ کے ساتھ سفر کرنا۔ اپنی بیٹی کی نسبت سے زیادہ معقول دکھائی دیتا ہے اور آذر چونکہ حد سے زیادہ دشمن تھا۔ اس لئے اس نے یہ بھی پسند نہیں کیا کہ آپ کے ساتھ سفر کرے۔ یا اس وقت تک مرچکا ہوگا۔ مگرجب دعا کی گئی ہے اس وقت تارح زندہ تھا اور آذر مرچکا تھا۔ یہ بات قطعی طور پر یاد رکھیے۔ اب دیکھیں کہ تارح کی عمر کتنی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جب پیدا ہوئے اُن کی عمر کتنی تھی اور اُن کے دادا کی عمر کتنی تھی۔ بائیبل سے یہ حوالے اب میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تارح کی پیدائش کے وقت نحور کی عمر ۲۹ سال تھی۔ نحور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دادا کا نام ہے اور بھائی کا نام بھی ہے وہاں یہ نام کثرت سے آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ آج کل بھی رواج ہے۔ دادا کے نام پر پوتے کا نام رکھ دیا جاتا ہے۔ تو بائیبل کہتی ہے کہ نحور کی عمر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کی پیدائش کے وقت 29 سال تھی۔ گویا نحور کی کل عمر اس حساب سے ایک سو اڑتالیس سال بنتی ہے۔
یاد رکھیں ہم نے حساب بائیبل سے کرلیا ہے۔ نحور کی عمر ایک سو اڑتالیس سال ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کی پیدائش کے وقت انتیس سال تھی۔ یعنی تارح کی عمر ستر سال تھی جب ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے واضح ہوگئی بات تارح ستر سال کا تھا جب ابراہیم پیداہوئے ہیں۔ ان کے قول کے مطابق اور ابراہیم کے پیدا ہونے کے اٹھتر سال بعد دادا فوت ہوتا ہے۔ جب ہجرت کرچکے ہیں۔ پچھتر سال کی عمر میں آپ نے ہجرت کرلی تھی۔ تو چھوڑ چھاڑ کے چلے گئے تھے۔ ابھی دادا زندہ تھا۔ اس وقت ان کے دادا اگر ’’تارح کے باپ کی بات میں کررہا ہوں‘‘ اگر تارح کے بیٹے نہیںبھی تھے۔ کسی اور کے ہی بیٹے تھے۔ تارح کے بھائی کے بھی تھے تو دادا بہرحال بائیبل کے بیان کے مطابق ایک سو اڑتالیس سال کی عمر میں فوت ہوا۔ اور وہ ہجرت کے بعد تک زندہ رہا۔ یہ حوالہ ہے پیدائش باب نمبر 11 آیت نمبر 22 تا 32۔
اب سنیئے ایک اور روایت جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ بائیبل میں کتنے Confusions ہیں۔ اورکتنا زیادہ الجھائو ہے بعض بیانات میں۔ اور بہت سے نام محض عموماً ذکر میں ملتے ہیں۔ تفصیل سے نہیں ملتے۔ اس لئے یہ سمجھ لینا کہ تارح ایک ہی تھا۔ اور اس کے بھائی بند فوت ہوچکے تھے یہ درست نہیں ہے۔ اس کے متعلق غورسے سنیئے حوالہ کہ تارح کے اور بہن بھائی کتنے تھے؟ اور ا نکی کیا کیفیت تھی؟ بائیبل میں لکھا ہے اور سروج تیس برس کا تھا جب اس سے نحور پیدا ہوا۔ اور نحور کی پیدائش کے سروج دوسو برس اور جیتا رہا۔ اب پڑدادا بھی زندہ بنتے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑدادا بھی ہجرت تک زندہ بنتے ہیں۔ اتنی لمبی لمبی عمریں بائیبل میںبیان کردہ ۔سروج تیس برس کا تھا جب نحور پیدا ہوا۔ اور نحور انتیس برس کا تھا جب تارح پیدا ہوا۔ تو اگر تارح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ ہیں تو Fifty nine برس کا تھا پڑدادا اور دادا انتیس برس کا تھا۔ سمجھ گئے ہیں؟ Just a minute میں دوبارہ بتاتا ہوں۔
ابراہیم علیہ السلام تو بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی عمر تو ستر سال کی تھی۔ میں آپ کو تارح کے متعلق بتانے لگا ہوں۔ نحور کی عمر ایک سو اڑتالیس بنتی ہے۔ جو تارح کا باپ بتایا گیا۔ ٹھیک ہے؟ اور نحور کے باپ کا نام سروج تھا جو تارح کا دادا تھا۔ یہ بات واضح ہوگئی۔ اب دوبارہ چلتے ہیں اس اعداد و شمار میں۔ سروج تیس برس کا تھا جب اس سے نحور پیدا ہوا۔نحور کی پیدائش کے بعد سروج دو سو برس اور جیتا رہا۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام کے پڑدادا کی بات ہورہی ہے۔ سروج حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پڑدادا تھا۔ نحور دادا تھا۔ جب دادا پیدا ہوئے تو سروج تیس برس کا تھا اور اس کے بعددو سو سال مزید زندہ رہا۔ تو اب نحور کی عمر کے ساتھ ہم اس کو ملا لیں۔ دو سو سال کو تو پتہ چلا کہ نحور اگر ایک سو اڑتالیس ہی زندہ رہا جیسا کہ لکھا ہے تو اس کے Fifty two سال ’’باون سال بعد‘‘ تک نحور کا باپ بھی زندہ رہا۔یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دادا بالآخر ایک سو اڑتالیس سال کی عمر کو پہنچ کے فوت ہوتے ہیں تو اس کے بعد مزید باون سال تک آپ کے پردادا زندہ رہتے ہیں۔ یہ بائیبل کے بیانات ہیں جن کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے۔ دو سو انتیس سال کا دادا ساتھ پھر رہا ہے۔ اس زمانے میں۔ اور یہ ابھی تعجب کی بات نہیں۔ آٹھ آٹھ سو سال عمریں ہزار ہزار سال کی عمریں بھی بائیبل میں لکھی ہوئی ہیں ۔ اگر ان سب باتوں کو مان جائیں تو ایک جگہ میں نے حساب کرکے دیکھا تھا کہ حضرت نوح کے زمانہ میں بڑے پرانے انبیاء سب زندہ موجود نظر آتے ہیں۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت نوح زندہ ہیں۔ جب ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے ۔دادا پہ کیا تعجب کرتے ہیں آپ؟ جب نوح کی عمر پہ آئیں گے تو آپ حیران ہونگے یہ پڑدادا صاحب ہی نہیں بلکہ حضرت نوح بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد زندہ رہتے ہیں اور بچپن سال بعد تک زندہ رہتے ہیں یا پچاس سال بعد تک (تھوڑا سا روایات کا اختلاف ہے) یہ بائیبل ہے جس پر اتنا اعتماد کیا جارہا ہے کہ قرآن کریم کے مضمون کیلئے تاویلیں ڈھونڈی جارہی ہیں۔ اس کی کوئی عقلی گنجائش نہیں۔ اب آگے Confusion دیکھیں کتنا ہے۔ نحور انتیس برس کا تھا جب اس سے تارح پیدا ہوا اور تار ح کی پیدائش کے بعد نحور ایک سو انیس برس اور جیتا رہا اور اس سے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ تارح کی پیدائش کے بعد ایک سو انیس برس تک یہ زندہ رہا۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس وقت پیدا ہوئے جب تارح ستر برس کا تھا۔ اب دیکھنا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد اور بھی بچے پیدا ہوتے رہے ہیں اور پہلے بھی مسلسل ہوتے رہے ہیں تو ان کو صرف تارح تک محدود کرلینا بالکل بائیبل کی اپنی گواہی کے خلاف ہے۔ تارح کی پیدائش کے بعد ایک سو انیس برس تک مسلسل ان کے والد کے اولاد ہوتی رہی ہے اور بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی۔ اس لئے خواہ مخواہ یہ جھگڑا شروع کردینا کہ آذر کا نام ملتا ہے کہ نہیں ملتا۔ آذر کا اگر نام ملتا ہے تو باپ کے طور پر ملتا ہے بائیبل میں۔ اور تارح والی روایت کو وہ روایت جھٹلا رہی ہے اس لئے ہر گز بعید نہیں کہ تارح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خُسر باپ ہوں اور حضرت سارہ کے والد ہوں۔ ان کے متعلق اس شدت سے بُت پرستی کی حمایت نظر نہیں آتی۔ لیکن آذر نام کے ساتھ بڑی شدت کے ساتھ بُت پرستی کی حمایت نظر آتی ہے اور اس کا پتہ چلتا ہے اس کی اپنی بتو ںکی دکان بھی تھی۔ تو ابراہیم علیہ السلام کو اگر قرآن آذر کا بیٹا قرار دیتا ہے توکوئی عقلی وجہ اس بات کی نظر نہیں مجھے آتی کہ اس آیت کی تاویل کرکے تارح کو باپ بنایا جائے یا کوئی اور باپ ڈھونڈا جائے۔ اور آذر کافی دیر تک زندہ رہا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کیلئے دعا ہوئی ہے اور تارح اس کے بعد پھر زندہ رہا۔ اور تارح کے مرنے کے بعد اس کا دادا بھی زندہ رہا۔ یہ ہے سارا خلاصہ بائیبل کا اور یہ تارح کا نسب نامہ ہے۔ تارح سے ابرام اور نحور اور ہرام پیدا ہوئے۔ اور ہرام سے لوط پیدا ہوا۔ اب انہوں نے باقی سب بچوں کا ذکر چھوڑ دیا۔ حالانکہ دوسری جگہ میں نے بتایا ہے ۔ پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔ بڑی کثرت سے اور بچے تھے۔ اس لئے نام اگر تفصیل سے نہ بھی لیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
Sale کا حوالہ ہماری جو Research team کی بچیاں ہیں انہوں نے ڈھونڈ لیا ہے۔ ماشاء اللہ ۔ صوفیہ صفی لکھ رہی ہیں کہ:۔
Abrahams fath is also called "Zarah" in the Talmud. And Ather by eusebius. (Page 136 Sale)
تو Sale نے دو نام بتائے ہیں ایک Atherجو آذر سے ملتا ہے اور ایک Zarah اس لئے شاید تارح کا شبہ پڑا ہے۔ ’’ذر‘‘ نام بیچ میں پایا جات ہے اور اس کا ایک Pronunciation Zarah Azar کی بجائے Zarea بھی بیان ہوا ہے۔ تو تارح سے Zarear اتنا قریب ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے پھر خود بائیبل لکھنے والوں کو دھوکہ لگ گیا۔ اور انہوں نے تارح نام کے حوالہ سے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باپ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تین ذکر ملتے ہیں جو مستشرقین کو بھی تسلیم ہیں۔
اب ہم آتے ہیں اس بحث پہ۔ شیعہ مفسرین کے میں کچھ حوالے پہلے پیش کرچکا ہوں۔وہ یہ ثابت کرنے کی پرزور کوشش کررہے ہیں۔ وہ آیت قرآنی جس میں کھلم کھلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو اہل بیت قرار دیا گیا ہے۔ ان کو وہاں سے نکال دیں کسی طرح۔آیت سے نہیں نکلتے تو اور بہانے تلاش کریں اور یہ ثابت کریں کہ اہل بیت میں سے آپ نہیں تھے۔کچھ روایات دُرِ منثور کی میں نے آپ کے سامنے رکھیں۔ اُن کا سہارا لے کر گویا خود حضرت عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کے اقرار نامے کو پیش کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں۔ہم اہل بیت میں سے نہیں ہیں۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شمار نہیں کیا۔ اور وہ چادر کی فرضی روایت ہے۔ اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور جوش میں ایک سے زیادہ روایتیں بنا بیٹھے ہیں اور جب جوش میں آکر زیادہ روایتیں بنا بیٹھے تو اُن کا تضاد ہوگیا۔ اور جب تضاد ہوگیا تو بغیر تضاد کے بھی قرآن سے کوئی روایت نہیں ٹکرا سکتی۔ تضاد والی روایت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسلمہ اصول ہے تمام اہل اللہ کا۔ تمام سچے‘ صادق مفسرین کا کہ قرآن سے اگر کوئی حدیث ٹکراتی ہے۔ خواہ کتنی بڑی اس کی سند ہو۔ یا تو اس کا معقول حل پیش کرو۔ جس سے ثابت کرسکو کہ یہ ٹکراتی نہیں ہے۔ ورنہ پھر اس حدیث کو چھوڑ دو۔ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ پس ٹکراتی بھی وہ حدیثیں ہیں جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لئے اس کو مزید قابل توجہ سمجھنا ہی بالکل لغو بے معنی بات ہے۔ دوسرے انہوں نے سہارے ڈھونڈے ہیں۔ ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روایات کے تعلق میں کہ قرآن کریم نے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ حضرت سارہ کو اہل بیت قرار دیا۔ اس پر میںبات ختم کرچکا ہوں۔ اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے۔ کسی کو طاقت نہیں ہے کہ وہاں سے حضرت سارہ کو اہل بیت کہتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کے طور پر اہل بیت نہ مانیں۔ اس سے سوا اور کوئی معنے بنتے ہی نہیں۔ تارح کی بحث اس لئے چلی تھی۔ اب میں دوبارہ یاد دہانی کرادوں کہ وہاں سے اتنے سارے حوالے کے انحراف کیلئے۔ ان کو بہت سی بنیادی باتوں سے انحراف کرنا پڑا۔ اول یہ کہ حضرت سارہ کو اہل بیت قرار دیتے ہیں۔ تارح کی برکت سے نہ کہ ابراہیم علیہ السلام کی برکت سے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی وجہ سے وہ اتنی عزت پا گئی ہو۔ وہ تو خاندان بڑا معزز تھا۔ آذر کا خاندان‘ تارح کا خاندان۔ اس کی بیٹی تھی اس لئے اہل بیت ہے‘ اور پھر آگے اتر گئے کہ ابراہیم کو بیچ میں سے چھوڑ دیا۔ چھلانگ لگا کے اگلی نسل میں چلے گئے۔ توپھردیکھو اسحاق کی ماں وہ تھی۔ تو حضرت ہاجرہ کا کیا قصور تھا۔ وہ کیوں اہل بیت نہ بنی۔ وہ آذر کی اولاد تو نہیں تھیں۔ الحمد اللہ۔ نہ تارح کی اولاد تھیں مگر وہ اسماعیل علیہ السلام کی ما ںتھیں کہ نہیں۔ انہیں کیوں چھوڑ دیا خدا نے پھر۔ اہل بیت اگر اولاد سے بنتے ہیں تو پھر حضرت ہاجرہ کا بھی تو حق تھا اور سب سے زیادہ حق تھا۔ کیونکہ اس اولاد سے انسانیت کا مقصود پیدا ہونا تھا۔ جس کی خاطر کائنات کو پیدا کیا گیا۔ وہ آخری پھل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہاجرہ کی اولاد سے پیدا ہونا تھا۔ پھر بھی وہ ام المومنین نہ بن سکیں۔ اور ابراہیم علیہ السلام کی برکت سے تو سوال ہی نہیں کہ کوئی ام المومنین بن سکے۔ نبی کی برکت کیا ہوتی ہے۔ نبی کی ! بیٹے کی ہوسکتی ہے۔ اگر اس اصول کو تسلیم کیا جائے تو پھر تمام انبیاء کی مائوں کو اہل بیت ماننا پڑے گا۔ اور اس میں پھر آگے مضمون میں کئی قسم کی الجھنیں بھی پیدا ہونگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت لوط علیہ السلام بھی ہیں اور پھر حضرت نوح بھی ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کا ایک بیٹا تو خیر خراب ہوگیا۔ (اولاد کی خرابی کا تو کوئی ذکر نہیں) لیکن اُن کی ماں کو پھر اہل بیت ماننا پڑے گا۔ اور اس کے رستے میں کچھ دقتیں پیدا ہوتی ہیں۔ قرآن کریم نے ان کی مثال اچھی نہیں دی۔ اسی طرح اور بھی ایسی دقتیں ہیں اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ اصول بنیادی طور پر ویسے بھی رد کے لائق ہے کہ مائوں کے حوالے سے اہل بیت بنتے ہیں* اہل بیت ہوتے ہیں وہ جو اس گھر کی مالکہ ہو۔ جس گھر میں کوئی مالک بستا ہے۔ خاوند ہے اس کے حوالے سے اہل بیت بنتے ہیں۔ یا پھر اس کی اولاد ‘ اہل بیت بنتی ہے۔ بیٹوں کے حوالے سے تو سراسر شرارۃً اور عناد کے طور پر حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت صفیہ وغیرہ وغیرہ ان کو اہل بیت کی فہرست سے نکالنے کی خاطر ایک بہانہ بنایا گیا کہ کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بحث گذر چکی ہے۔ مزید اس پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ان کے سامنے ایک دقت بھی آکھڑی ہوئی۔انہوں نے آخری نتیجہ یہ نکالنے کی کوشش کی کہ خونی رشتہ تو بہرحال ضروری ہے۔ اگر ساتھ ایمانی رشتہ ہوجائے تو پھر اہل بیت بن سکتا ہے۔ لیکن خونی رشتے میں چونکہ بیویاں شامل نہیں اس لئے وی بیویاں اس فہرست سے نکل جائیں گی۔ اور خونی رشتے میں وہی بیویاں شامل ہونگی۔ اگرشامل ہوں۔ جن کا باپ کی طرف سے خونی رشتہ ثابت ہو۔ یہ تمام کہانی انہوں نے بنالی اب تک۔ آگے ایک اور دقت آکھڑی ہوئی۔ حضرت سلمان فارسی کی بحث۔ حضرت سلمان فارسی کو جنگ خندق کے موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف بلایا۔ اور اہل بیت میں کھڑا کردیا۔ اور فرمایا ! سلمان منا اھل البیت‘‘ سلمان ہمارا ہے اہل بیت ہے۔ اب شیعوں نے اس روایت کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ سو فیصدی متفق ہیں کہ یہ بات درست ہے اور مصیبت میں پڑ گئے کہ ہم تو کہتے تھے کہ روحانی رشتہ کافی نہیں۔ خونی رشتہ ضروری ہے۔ سلمانؓ بیچ میں کہاں سے آگئے۔ وہ کیسے اہل بیت بن گئے۔اگر وہ ثابت ہوجائے تو پھر ازواج والی بحث ختم ہوجاتی ہے کلیۃً۔اب اس پر ان کو جو مصیبت ہے۔ اس کا میں بتاتا ہوں کہ
( * نہ اولاد کے حوالے سے اہل بیت بنتے ہیں)
کس کس طریقہ سے انہوں نے بچنے کی کوشش کی ہے۔ سب سے پہلے تو میں تفسیر صافی سے یہ حوالہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ کاشانی کی کتاب ہے الصافی تفسیر القرآن جلد اول صفحہ ۸۹۰ عیاشی کی روایت ہے۔ اور ترجمہ اس کا یہ ہے۔ عیاشی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے۔ شیعہ تاریخ یہ ہے کہ اگر کسی امام تک روایت کو پہنچا دیں تو اس کو مرفوع سمجھتے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ آگے امام کا مرتبہ اتنا بلند ہے۔ اسے یہ ثابت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ میں نے کس سے سُنا۔ اور اس نے کس سے سُنا۔ امام تک بات پہنچا دو۔ خواہ وہ دو سو سال بعد پیدا ہوا ہو۔ اس کی روایت ویسی سمجھی جائے گی جیسے کوئی روایت متصل ہوتے ہوتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچے۔ تو اس لئے امام صادق کا جب ذکر آگیا۔ وہاں روایت ختم۔ لیکن اس کی سند انتہائی قطعی اور یقینی ہوگئی۔ کہتے ہیں عیاشی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے۔ ’’آپ نے فرمایا۔ جس نے تم میں سے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی وہ ہم اہل بیت میں سے ہے۔‘‘
آئمہ بہت ہی پاکباز اور بہت ہی بزرگ وجود تھے۔ شیعوںکے عقائد جتنے مرضی بگڑ جائیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون جن نسلوں میں جاری رہا ہے۔ وہ مدتوں تک ایسا پاکیزہ جوہر دکھاتا رہا ہے کہ ان کے آئمہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے تھے۔ اُن کے متعلق جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے‘ بہت ہی پاکباز‘ متقی اور مرد صادق تھے۔ اُن کی طرف جھوٹی روایات اگر کوئی منسوب کردے تو اُن کا قصور نہیں۔ ایسی روایتوں کی چھان بین ضروری ہے۔ اور وہ آسانی سے پہچانی جاتی ہے۔ کیونکہ دوسری قطعی روایتیں ان کو جھٹلا رہی ہیں۔ لیکن آئمہ کے متعلق یہ وہم بھی نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کسی قسم کی نفسانی خواہشات کے پیش نظر اپنے مؤقف کی تائید میں کوئی بات گھڑ سکتے تھے۔ تقویٰ سے مرد میدان بن کر مخالفانہ جب مؤقف کو بھی سُنا اگر وہ درست تھا تو اُسے قبول کیا ہے۔ اور قطعاً پرواہ نہیں کہ کہ ان کے مرید اس سے کیا نتیجہ نکالیں گے۔ یہاں حضرت امام باقر کے متعلق روایت ہے یا امام جعفر صادق کے متعلق۔ آپ نے فرمایا !
’’جس نے تم میں سے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا اور اصلاح کی۔ وہ ہم اھل بیت میں سے ہے۔ کہا گیا کہ آپ اھل بیت میں سے؟ فرمایا ! ہاں ہم اہل بیت میں سے۔‘‘
امام باقر سے مروی ہے ’’کہ جس نے ہم سے محبت کی۔ وہ اہل بیت میں سے ہے کہا گیا آپ میں سے؟ فرمایا ہاں ہم میں سے۔ خدا کی قسم کیا تم نے قول ابراہیم نہیں سُنا کہ ’’ جس نے میری اتباع کی وہ مجھ سے ہے۔‘‘
اور حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے ’’کہ جس نے میری نافرمانی کی تو توُ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یہ روایت ہے آئمہ کا مسلک کہ اہل بیت کیلئے کسی خونی رشتے کی ضرورت نہیں۔تقویٰ کا رشتہ سب سے اہم ہے۔ اور جو متقی ہو اور نیک لوگوں سے تعلق رکھنے والا ہو۔ اس کا شمار اہل بیت میں ہوگا۔
تفسیر مجمع البیان شیعہ تفسیر میں لکھا ہے۔
’’ان المراد بقولہ ’’لیس من اھلک ‘‘ ای انہ لیس علیٰ دینک‘‘
کہتے ہیں کہ جس طرح حضرت نوح کے بیٹے کے متعلق جب یہ فرمایا گیا کہ ’’لیس من اھلک‘‘ سے صرف اتنی مراد ہے کہ تیرے دین پر نہیں ہے‘‘ وہ تو حضرت نوح کو بھی پتہ تھا میرے دین پر نہیں ہے۔ جھگڑا تو تھا ہی اہل بیت کا۔ وعدہ تو اہل بیت کی حفاظت کا تھا۔ اس تعلق سے حضرت نوح کو یہ خیال تھا کہ اس میںدینی اختلاف سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ دو وعدے ہیں۔ ایک وہ جو نوح کے ساتھ ہیں اور آپ کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لازماً بچائے جانا تھا۔ وہ سب کشتی میں تھے ایک وعدہ تھا اور وہ بلا استثناء پورا ہوا۔ ایک وعدہ تھا کہ تیرے اہل کو میں بچائوں گا اس لئے حضرت نوح کے وہم میں تو کوئی شائبہ بھی اس بات کا نہیں تھا کہ دین والے تو بچانے ہی جانے ہیں۔ دین سے باہر ہوتے ہوئے بھی ان کو خیال تھاکہ اہل کے اندر میری اولاد آسکتی ہے تو بحث دین کی ہے ہی نہیں۔ بحث اہل کی ہے یہاں۔ یہ کہتے ہیں کہ نہیں انہ لیس من اھلک سے مراد ہے کہ حضرت نوح کو یہ بتایا گیا کہ وہ تیرے دین پر نہیں ہے۔ ان کو پتہ ہی نہیں ہے۔ وہ چھوڑ کے باہر بیٹھا ہوا۔ دوڑے پھرتا تھا۔ حضرت نوح کو نہیں پتہ لگا کہ وہ میرے دین پر نہیں ہے۔ یہ شیعوں کو پتہ چل گیا کہ خدا نے یہ کہا تھا۔ لغوبات ہے بالکل اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ وہاں جچتی ہی نہیں یہ بات۔ لیکن بہرحال یہ کہتے ہیں۔
انہ لیس علی دینک فکان کفرہ اخرجہ ان یکون لہ احکام اھلہ عن جماعۃ من المفسرین و ھذا کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم
’’سلمان منا اھل اللبیت ‘‘ اب یہاں آکے بات درست کی ہے۔ کہتے ہیں دراصل سلمان کو بھی جو اہل بیت قرار دیا گیا ہے۔ وہ دینی رشتے کے لحاظ سے قرار دیا گیا ہے۔ آپ اہل بیت میں سے نہیں ہیں آپ یہ یاد رکھیے یہ بات۔ آگے میںبتاتا ہوں۔
مجمع البیان جلد نمبر ۱۲ صفحہ ۱۷۰ ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ شیعہ تفسیر منھج الصادقین کے مصنف فتح اللہ کا سانی لکھتے ہیں۔
’’مراد بقولہ انہ لیس من اھلک۔ انہ لیس علی دینک اس سے زیادہ اس کی کوئی مراد نہیں۔
کہ یہ مراد ہے یعنی حضرت نوح کے حوالے سے کہتے ہیں۔ انہ لیس من اھلک انہ لیس علی دینک ۔ کہ تیرے دین پر نہیں ہے بس۔
’’ایں کفر او را بیرون کردد۔۔۔ ۔ زود ازآں کہ احکام اھل تو برو جاری شود و این قول جمیع المفسران است‘‘
وھذا کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ! سلمان منا اھل البیت ۔ ای علی دینا۔ صرف اتنا مطلب ہے کہ ہمارے دین پر ہے۔ اب سنیئے اگلی روایت۔
’’حدثنا مصعب ابن عبداللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ ۔ اس کی تفصیل کیا ہے اس کا پس منظر کیا ہے؟ سیرت ابن ہشام نے اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے کہتے ہیںکہ جنگ خندق کے موقعہ پر مہاجرین نے کہا ’’سلمان منا‘‘ اور انصار نے کہا کہ ’’سلمان منا‘‘۔
حضرت سلمان فارسی قومی لحاظ سے نہ مہاجرین میں شمارہوسکتے تھے اور نہ انصار میں شمار ہوسکتے تھے۔ عرب تھے ہی نہیں فارس کے رہنے والے تھے۔وہاں سے ہجرت کرکے آئے تھے تو کس کے ساتھ کھڑا کیا ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پارٹیاں تقسیم فرمادیں۔ انصار ایک طرف کردئیے مہاجرین ایک طرف کردئیے اور اپنے خاندان کے افراد کو ایک طرف کھڑا کردیا۔ اس وقت کیا جھگڑا ہوا۔ سب نے اپنی طرف بلانے کی کوشش کی۔ مہاجرین نے کہا کہ سلمان تو ہمارا ہے۔ ہمارے ساتھ آجائے۔ انصار نے کہا سلمان ہمارا ہے ہمارے ساتھ آجائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قول کے مطابق کیا فرمایا ! ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ یعنی سلمان ہمارا ہمارے دین پر ہے تمہارے دین پر نہیں۔ نہ انصار کے دین پر نہ مہاجرین کے دین پر صرف ہمارے دین پر۔اس سے زیادہ احمقانہ تشریح کوئی سوچی جاسکتی ہے؟ بتائیے ؟ کہاں کا موقعہ اور کہاں کی بات ان کو سوجھی ہے۔ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھتی ہے ان کو اس سے بھی پرے کی سوجھی ہے ’’دو قدم آگے! موقعہ یہ ہے کہ انصار کہتے ہیں ہمارا ہے۔ مہاجرین کہتے ہیں ہمارا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں ہمارا ہے اہل بیت میں سے ہے۔ اور شیعہ کہتے ہیں مراد صرف دین ہے کہ جھگڑا سارا دین کا تھا۔ مہاجرین کے دین پر یا انصار کے دین پر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر۔ یہ نتیجہ نکلا اس بحث کا۔ اور آگے چلئے سید محمدباقر مجلسی صاحب آخر حق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور اسی لئے کہ شیعہ ائمہ بہت صادق القول ہیں۔ بہت متقی بزرگ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسائل الدرجات میں فضل بن عیسیٰ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد یعنی عیسیٰ اور فضل دونوں فضل کے والد عیسیٰ تھے۔ حضرت صادقؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میرے پیر بزرگوار نے عرض کی کہ کیا یہ صحیح ہے کہ جناب رسول خدا تعالیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ حضرت نے فرمایا ! ہاں۔ میرے والد صاحب نے کہا کیا وہ عبدالمطلب کی اولاد سے ہیں؟ وہی جو ذہن میں کھٹکا سا تھا اس کو دور کرنے کے لئے توجہ دلائی کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔کیا اہل بیت سے یہ مراد ہے۔ حضرت نے فرمایا ! وہ اہل بیت میں سے ہیں۔ بس اتنا ہی کہوں گا ۔ اس کے اعتراض کو قطعاً نظر انداز کردیا۔ میرے والد نے عرض کی۔ کیا ابو طالب کی اولاد سے ہیں۔ حضرت نے فرمایا ! وہ اہل بیت میں سے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں ’’تقویٰ‘‘ کیسے بڑے بڑے بزرگ تھے ان کے آئمہ‘‘ اور ا ن موجودہ مولویوں نے کیا بدبختی اختیار کرلی ہے۔ حضرت نے فرمایا وہ اہل بیت میں سے ہیں۔ میرے پدر نے عرض کی۔ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا ! پھر یہ سمجھ لو کہ وہ ہم اہل بیت میں سے ہیں اس سے زیادہ نہیں حیاۃ القلوب از علامہ سید محمد باقر مجلسی جلد دوئم صہ ۹۵۴ ناشر امامیہ کتب خانہ لاہور۔
اس سے سارا مضمون کھل جاتا ہے۔ قطعی طور پر قرآنی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ اہل بیت کے لئے یہ شرط لازم نہیں کہ خونی رشتہ ہو اور صلب سے کوئی ہو۔ دو باتیں ہیں جو ان کو مجبوراً ماننی پڑرہی ہیں صلب سے ۔ اس لئے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا اور بعد میں آپ کی نسل کو شامل کرلیں۔ خونی رشتہ اس لئے کہ حضرت علیؓ کو شامل کرنا لازم ہے۔ ورنہ داماد کے طور پر خالی نہیں ہوسکیں گے اور اس کے علاوہ بعض جن پر صدقہ حرام والی اصطلاح ہے۔ اس میں حضرت عقیل اور عباس وغیرہ سب کو شامل کرنا پڑتا ہے۔ تو اس میں خونی رشتہ آگیا۔ پھر دین کی شرط ہوگئی کہ دین پر ہونا بھی ضروری ہے۔یہ دونوں تصورات ایک طرف اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ کو خدا تعالیٰ کے فرشتوں کا اہل بیت کے طور پر مخاطب کرنا دوسری طرف۔ ثابت ہوا کہ زوجہ نبی اہل بیت ہوسکتی ہے۔ لیکن خونی رشتے کی بحث ابھی بھی انہوں نے اٹھا دی۔ کہ خونی رشتہ تھا۔ ا ب آیت زیر نظر پر آجاتے ہیں وہاں ازواج النبی ؐ کا ذکر چل رہا ہے۔ اس سے کھلا ازواج نبیؐ کا ذکر اور کہیں تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ ساری بات ان کی ہورہی ہے۔ ان کو نصیحت کی جارہی ہے۔ ان کی پاکی کی باتیں ہورہی ہیں۔ تم یہ کرو تو خدا کے ہاں مرتبے پائو گی۔ دوہرے اجر حاصل کروگی اور پھر وعدہ ہے کہ ہم تمہاری مدد کریں گے اور کسی تیسرے کا ذکر بھی کوئی نہیں۔ تو خونی رشتے کی شرط یہ ہوئی ساتھ۔ اور نبی کی پاک صحبت اور دینی تعلق کی شرط قائم ہوگئی۔ اس شرط کو مزید تقویت ملی سلمان والی روایت میں۔ جو تمام شیعوںکو مسلم ہے۔ وہاں کسی خونی رشتے کا سوال ہی کوئی نہیں ۔ ہم قوم بھی نہیں تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اہل بیت قرار دے دیا۔ یعنی قطعی طور پر یہ ثابت فرمادیا کہ اہل بیت کے لئے خونی رشتہ بھی ضروری نہیں۔ باہر سے آکر بھی کوئی اگر تقویٰ اختیار کرے اور میرے دین پر میرا ہم مزاج بننے کی کوشش کرے۔ اور مجھ سے محبت رکھتا ہو۔ وہ اہل بیت میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ جو حدیث ہے اس کا تعلق اس پیش گوئی سے بھی ہے۔ جس میں آنے والے امام کو حضرت سلمان فارسیؓ کے لوگوں میں سے شمار فرمایا گیا۔ وہ ایک اور موقعہ تھا۔ جب سورۃ جمعہ نازل ہوئی ہے تو اس کی آیات کی تشریح کے سلسلہ میں لمبی بحث ہے۔ پہلے میں کئی دفعہ ذکر کرچکا ہوں۔ اشارۃً آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب تمام عرب بیٹھے ہوئے تھے پاس۔ بحث یہ تھی کہ وہ آنے والا کون ہوگا۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں مل رہا ہے۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلما ن فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا !
لوکان الایمان عندالثریا لنا لہ رجل یا بعض روایتوں میں ہے رجال من ھؤلاء ۔ ایک عظیم انسان یا بعض عظیم انسان اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ان لوگوں میں سے ہونگے۔ ان کی نسل نہیں فرمایا۔ یہ عجیب بات ہے۔
من ھؤلاء ان لوگوں میں سے ہونگے۔جو آسمان سے اُس نور کو دوبارہ کھینچ لائیں گے۔ اور بعض جگہ اہل بیت ہونا کا ذکر ملتا ہے کہ آنے والا اہل بیت میں سے ہوگا۔ تو حضرت سلمان کو اہل بیت میں داخل کرکے جبکہ کسی اور غیر رشتہ دار کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل بیت میں داخل کرنا ثابت نہیں بتاتاہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات ہر فعل انتہائی گہری روحانی فراست پر مبنی تھا۔ اور اس کو سرسری طور پر الگ الگ آپ کی باتوں کو نہیں دیکھنا چاہئے۔ آپس میں مربوط ہیں۔ ایک دوسرے سے گہرا تعلقات ہیں۔ پس سلمان ہی کو چننا اہل بیت کیلئے بتاتا ہے کہ وہ چاہے میرا رشتہ دار ہو یا نہ ہو۔ خونی تعلق یا قومی تعلق ہو یا نہ ہو۔ جس شخض کو میں کہتا ہوںکہ اہل بیت میں سے ہے۔ تو جو میرا ہے وہ اہل بیت میں سے ہوگا۔ یہ بحث اٹھانے کا تمہیں کوئی حق نہیں کہ اس کا جسمانی رشتہ کیا ہے۔ یہ مضمو ن ہے جو قطعی طور پر اس سے ثابت ہوتا ہے۔ اس سے مجھے وہ روایت یادآجاتی ہے‘ جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے پہلی دفعہ میں نے آپ کے خطبے کے دوران سُنی تھی۔ کہتے ہیں کہ روس کا ایک بادشاہ زار زَارْ Title تھا اُن کا روس کے بادشاہوں کا۔ وہ ایک دفعہ بیٹھا کسی نہایت ہی اہم کام میں مصروف تھا‘ اس نے اپنے سپاہی کو یا فوجی افسر کو یہ ہدایت دی ۔یہ سپاہی تھا فوجی افسر نہیں تھا۔ آگے روایت سے پتہ چلتا ہے‘ یہ سپاہی تھاکہ دروازے کے باہر کھڑے ہوجائو اور کسی شخص کو کسی قیمت پر اندر نہیں آنے دینا۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی دخل انداز ہو اس وقت۔ اس کا ،زار کا اپنا بیٹا آگیا ۔ شہزادہ۔ اُس نے کہا آگے سے ہٹو میں اندر جانا چاہتا ہوں۔ اُس نے کہا نہیں۔ زار کا حکم ہے کہ کسی کو اندر نہیں آنے دینا۔ اُس نے کہا۔ میں بیٹا ہوں۔ اس نے کہا مجھے کوئی استثناء کا علم نہیں۔ مجھے اتنا حکم ہے کہ کسی کو نہیں جانے دینا۔ اس نے سانٹا نکالا اور مارنا شروع کیا۔ جب مارچکا پھر اس نے پوچھا اب بتائو ؟ اس نے کہا نہیں اندر نہیں جانے دینا۔ بار بار ایسا ہوا۔ مارتے مارتے ہلکان کردیا۔ اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ضبط کرتا رہا ہے۔ کیونکہ آخر زار تک بھی کوئی اس کی آواز جا پہنچی۔ وہ باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ یہ حال ہورہا ہے۔ اس نے پوچھا کیا بات ہے۔ کیوں مار رہے ہو اس کو۔ اُس نے کہا مجھے اندر نہیں جانے دیتا۔ بدتمیزی کررہا ہے۔ اس نے کہا کیوں نہیں اندر آنے دیتا تھا۔ کہتا تھا کہ یہ آپ کا حکم ہے۔ پھر تم کیوں اندر آنے کی کوشش کررہے تھے۔ جب میرا حکم تھا تو۔ اس کو کہا ’’سپاہی کو‘‘کہ یہی سانٹا پکڑو۔ اور میرے بیٹے کو مارو۔ اس بیچارے کے اطاعت کا غلام تھا دل تو نہیں چاہتا ہوگامگر اس نے اٹھا لیا۔ تو بیٹے نے آگے سے جواب دیا کہ سلطنت روس میں یہ پرانا قانون چلا آرہا ہے کہ کوئی سپاہی اپنے سے بلند عہدے کے آدمی پر ہاتھ نہیں اُٹھا سکتا اور میرا یہ مرتبہ ہے اور یہ ایک عام سپاہی ہے۔ اس لئے اس قانو ن کی خلاف ورزی نہیں ہوسکتی۔ زار نے کہا ٹھیک ہے یہ قانون ہے اس کا احترام ہوگا۔لیکن اس نے کہا اس کو مخاطب کرکے اس کے رینک کا جرنیل بناتے ہوئے اُسی وقت کہ اے جرنیل فلاں یہ کوڑا اٹھا اور میرے بیٹے کو مار۔ اس پر شہزادے نے کہا۔ کہ ایک اور بھی قانون ہے کہ کوئی غیر شہزادہ خواہ کتنا بڑا افسر ہو کسی شہزادے پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتا ہے تو اس نے اس کو کہا۔ مخاطب کرکے کہ اے شہزادے اُٹھ‘ اُٹھا یہ کوڑا اور میرے بیٹے کو مار۔ تب اس نے کوڑے مارے۔ تو ایک زار کو ایک دنیا کے ادنیٰ بادشاہ کو تو یہ اختیار ہے کہ جسے چاہے بادشاہ بنادے۔ جس کو چاہے شاہی خاندان کا فرد بنادے۔ ان بدبختوں کے نزدیک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ حق نہیں ہے اور آپ کے ساتھ ساری زندگی کی صحبت میںبھی کوئی شہزادی نہیں بن سکتی۔حد سے زیادہ جہالت ہے۔ ساری دنیا کی زمام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں تھمائی گئی ہے اور آپ کے اس قول سے کہ ’’سلمان منا اھل البیت‘‘ قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ آپ با اختیار تھے۔ جس کو چاہیں اھل بیت قرار دیں۔ جس کو چاہیں نہ قرار دیں۔ اور اہل بیت کیلئے شرائط کیا مقرر ہیں۔اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے جو شرائط سامنے رکھی ہیں۔ کسی طرح وہ شیعوں کی ساری دلیلوں کو پارہ پارہ کردیتی ہیں۔ فرماتا ہے!
یا یھا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی و جعلنکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ط ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ان اللہ علیم خبیر O ’’الحجرات آیت نمبر۱۴‘‘
اے بنی نوع انسان ہم نے تمہیں پیدا کیا۔ ایک مرد اور ایک عورت سے۔ وجعلناکم شعوباً وقبائل۔ ہم نے تمہیں مختلف قبیلوں اور گروہوں میں تفریق کردیا۔ پھیلا دیا۔ بانٹ دیا۔ محض اس غرض سے تاکہ تم ان قبائل اور ان قوموں کے حوالے سے ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ جہاں تک عزتوں کا تعلق ہے۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم ۔ یاد رکھو تم میں سے سب سے معزز وہی ہے جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ متقی ہے۔ کسی خاندان کا تعلق کسی کو معزز نہیں بنا سکتا۔ اور کسی خاندان سے عدم تعلق اس کو ذلیل نہیں کرسکتے۔ یہ دونوں باتیں بیان ہیں۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقکم ۔ یہ قانون جاری و ساری ہے۔ ہمیشہ سے یہی رہے گا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کہ معزز وہی ہے اور سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے‘ تو جس حوالے سے عزتیں ڈھونڈ رہے ہیں وہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ ہے۔ سب سے زیادہ متقی تو خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اور اس لئے نہیں ہوئے کہ وہ ابوہاشم کی اولاد تھے۔ اس لئے ہوئے کہ خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز متقی ہونے کی وجہ سے بنے۔ ان اللہ علیم خبیرتمہیں کیا پتہ ہے ان باتو ںکا۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ متقی کون ہے اور معزز کون ہے۔ تو عزتوں کے حوالے سے اگر اہل بیت کی گفتگو ہورہی ہے تو قرآن نے تو اس مضمون کو ہمیشہ کیلئے صاف کردیا ہے ‘ پاک کردیا ہے‘ یہ جھگڑا ہی چکا دیا ہے۔ امامت ہو‘ نبوت ہو جس پر مرضی آپ بات کرلیں۔ اس کا آخری فیصلہ کرنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جانتا ہے کہ کہاں سے اس نے رسالت کو ڈھونڈنا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو فضل عطا کرنا ہے۔ جسکو چاہتا ہے اپنا فضل عطا فرماتا ہے اور کوئی نہیں ہے جو اس کے ہاتھ روک سکے۔ پس یہ جھگڑے ہی نہایت جاھلانہ اور لغو اور اسلام سے قبل کی جاہلیت کے تعصبات ہیں جن کو تم لے کر اب اسلام میں آگے بڑھ رہے ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہ باتیں شروع کیوں ہوئیں۔ اب میں آپ کو مختصراً بتاتا ہوں کہ دراصل پرانے‘ ایرانی شاہی تصورات ہیں اور وراثتی تصورات ہیں جن کو اسلام میں کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اور اس پہلو سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران کا اسلام سے انتقام ہے۔ بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک مسلسل ان کی شہنشاہی جاری رہی ہے۔ وہاں سے میں بتاتا ہوں۔ حضرت عمرؓ کے زمانے تک جب پے درپے ایران کو شکستیں ملی ہیں۔ تقریباً تیرہ سو سال تک مسلسل ان کی بادشاہت بغیر انقطاع کے جاری رہی ہے۔ کبھی ایک خاندان آیا کبھی دوسرا خاندان آیا مگر ان کے شاہی تسلسل میں کوئی روک نہیں پیدا ہوئی۔ اسی بات کو Neitzscueلکھتے ہوئے بیان کرتا ہے ۔ جس نے وہ مشہور کتاب اپنی لکھی "Thus Spake Zarathust" کہ مجھے ۔۔۔۔سے محبت اس لئے پیدا ہوئی کہ میں نے دیکھا کہ ایرانی تہذیب اور ایرانی شہنشاہیت سالم حالت میں جو ہمیں ملتی ہیں یہ قدیم ترین ہے۔ اس کے بعد اسلام نے ان کی حکومت کو پارہ پارہ کردیا۔ اور یہ حضرت عمرؓ کے دور میں ہواہے۔ تمام عظیم فتوحات جو ایران کے خلاف مسلمانوں کو نصیب ہوئیں ہیں یہ حضرت عمرؓ کے دور میں ہیں۔ ایسے حیرت انگیز معرکے ہوئے ہیں کہ آج تک مورخین کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ہوکیسے سکتا ہے۔
چھ چھ لاکھ کی خوب تربیت یافتہ فوج اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح نئی قسم کی ایجادات سے آراستہ اور سامنے سے صرف ساٹھ ہزار مسلمان عرب نکلتے ہیں اور فوج کے چھکے چھڑا دیتے ہیں نہ رستم کی کچھ پیش جاتی ہے اور نہ سہراب کی۔ اور بڑے بڑے سورما ان کے میدان میں آکے مارے جاتے ہیں۔ یہ جو دور ہے تاریخ کا۔ آج تک کوئی مورخ اس کا حل پیش نہیں کرسکا۔ یہ کیسے ہوا ہے اور یہ سب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا ہے۔ پس ایران کے لئے سب سے زیادہ قابل نفرت وجود آکر بن سکتا تھا تو حضرت عمرؓ بن سکتے تھے اور یہی ہواہے۔ ان کیلئے انتقام لینے کا اس کے سوا اور کوئی بہانہ نہیں تھا کہ آپ کو خلفاء کو اس لئے غاصب قرار دیا جائے کہ ایرانی تصور کے مطابق بادشاہت نسلاً بعد نسل وراثت میں منتقل ہواکرتی ہے۔ اس لئے روحانیت کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ یہ وہ تعصبات ہیں جو ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے اور بھیس مذہبی اوڑھ رکھا ہے (بنا رکھا ہے) لبادہ مذھبی اوڑھ رکھا ہے۔ لیکن بنیادی طور پر یہ قدیم تاریخی انسانی تعصبات ہیں جو اس سارے عمل میں کارفرما ہیں۔ اس لئے حضرت سارہ کے متعلق عزت ڈھونڈی ہے تو تارح سے جاکے ڈھونڈی ہے۔ ابراہیم سے عزت نہیں ملی ان کو۔ اگران کی نظر ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم پر ہوتی تو یہ کہتے کہ سارہ کی ساری عزت ابراہیم علیہ السلام کی صحبت سے تھی۔ اور اسی طرح یہی عزت ہاجرہ کی قسمت میں بھی لکھی گئی۔ کوئی مسئلہ باقی نہیں رہتا۔ پھر سارا مضمون صاف ہوجاتا ہے۔ تو میں آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ حضرت عمر ؓ سے جو ان کی دشمنیاں ہیں۔ آج کل کے شیعہ سمجھتے نہیں ان باتوں کو۔ یہ تعصبات ہیں جنہوں نے اس وقت عمل دکھایا ہے جبکہ معاویہ کی حکومت تھی اور ایران میں یہ ساری سازشیں پلیں۔ اور انہوں نے جو Strategy اختیار کی۔ وہ یہی تھی جو اب شیعہ مذھب کا بنیادی جزوبن گئی ہے کہ ورثہ خون سے چلتا ہے۔ نسل سے چلتا ہے روحانیت سے نہیں چلتا۔ قرآن سے مجبور ہوکر یہ بھی بیچ میں شرطیں لگا دیں۔ بعض دفعہ کہ خون تو لازم ہے۔ لیکن روحانیت ہو تو پھر خون سے رشتہ چلے گا ورنہ نہیں۔ ان دو شرطوں پر محدود کرکے اہل بیت کا چشمہ ہے اس کو محدود پیمانے پر آگے چلایا ہے اور آگے بڑھایا ہے اور اس حوالے سے عربوں میں جو اشتعال انگیزیاں پیدا کی گئیں۔ اور بعض فتنے پھیلانے گئے ہیں یہ مرکز سے پھوٹ کر باہر جاتے ہوئے نظر نہیں آتے کہیں بھی۔ آپ تاریخ کا مطالعہ کرکے دیکھ لیں۔ باہر سے مرکز کی طرف حرکت کررہے ہیں۔ پس یہ فتنے اس اسلامی حکومت کے Bordery پر جنم لیتے رہے، وہیں پرورش پاتے رہے ۔ جس طرح ٹڈی دَل آبادیوں سے دور صحرائوں میں پرورش پاتی ہے۔ پھر جب حملہ کرتی ہے تو پھر کوئی سبزی باقی نہیں چھوڑتی۔ اسی طرح ان فتنوں نے ایران کی سر زمین میں جو مرکز اسلام سے دور تھی۔ وہاں پرورش پائی اور بالآخر اپنا انتقام لیا۔ لیکن جن کے نام پر یہ تحریک شروع ہوئی ان کو پھر بھی کچھ نہ ملا۔ علویوں کی حکومت قائم نہ ہوسکی۔ حضرت علیؓ کے مقدس نام پر اور آپ کے اہل بیت کے مقدس نام پر یہ حکومت کا تختہ الٹانے کی جو سازشیں کی گئیں۔ ان کا فائدہ عباس کی اولاد اٹھا گئی۔ اور عباسی سلطنت پر فائز ہوگئے۔ اب بتائیے جن کے حق میں Propaganda تھا۔ ان کا تو کچھ بھی نہ بنا اور اسکے بعد جب ایران نے اپنی حکومت واپس لی ہے اور دو سو سال کے تعطل کے بعد عربوں سے آخر ایران نے آزادی حاصل کی تو اگر ان کا مسلک تقویٰ پر مبنی ہوتا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کو ایران کے بادشاہ بنادیتے۔ وہ تھا ہی جھوٹ۔ محبت نہیں تھی۔ ایرانی عصبیت تھی۔ جو کارفرما تھی۔ پرانی dynastics دوبارہ بحال ہوئیں ہیں ایرانیوں نے پھر ایران پر حکومت کی ہے یا دوسروں نے۔ لیکن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد کو انہوں نے دعوت نہیں دی۔ اور ان کو اپنے اوپر بادشاہ بنا کر نہیں بٹھایا۔ پس یہ سارا پس منظر ہے اس جھگڑے کا جو آپ کے سامنے رکھا گیا ہے۔ لیکن چونکہ اس سورۃ کی تفسیر کے دوران یہ ضمنی سوال اٹھا تھا اور مجبور ہوکر چونکہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ؓ پر اور صحابہ ؓ پر حملے کئے ۔ میں نے یہ بحث چھیڑ دی۔ ورنہ اصل جو دھارا ہے سورۃ احد کا وہ اور طرح سے رواں دواں ہے میں اس میں واپس جانے لگا ہوں۔ لیکن ایک حوالہ پڑھنے کے بعد۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے متعلق آپ نے مصنف تفسیر اہل بیت جوکہ (کیا نام ہے اس کا) (کہا گیا دوسرا حوالہ۔ غائب ہوگیا ۔ نہیں نہیں وہ تو یہیں اس کے بعد رکھنا تھا۔ لے آئیں اس تعلق میں ہے۔ حوالہ میں آپ کو بعد میں لکھوادوں گا۔ بات اب بیان کرتا ہوں۔ میں نے کہا تھا۔شیعہ مصنف میر احمد علی صاحب نے جہاں حضرت عائشہ کی طرف یہ روایت منسوب کی ہے۔ وہ بھی غلط منسوب کی ہے وہ میں آپ کو دوبارہ دکھائوں گا۔ اصل حوالوں سے وہاں ان کو حضرت ام المومنین لکھ دیاکہ حضرت ام المومنین نے یہ فرمایا اور ام المومنین کا مرتبہ اور مقام کیا سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ان ازواج کو تم اہل بیت میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہو؟ جن میں وہ بھی تھی جس کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مہینہ سخت اذیت کا منہ دیکھنا پڑا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا وہ الزام کتنا خبیثانہ ملحدانہ الزام ہے۔ ایسا ناپاک الزام ایسی معصوم عورت پر۔ صرف ایک دفعہ پہلے لگایا گیا تھا اور وہ حضرت مریم علیہا السلام پر تھا۔ اس کی نفی کرنے والا تو موجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)تھے اور خدا نے وحی کے ذریعہ آپ کی بریت فرمائی۔ اور عیسائی بدبخت ان پر یہ حملے کررہے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ واقعہ دوہرایا گیا ہے اور آپ کی زوجہ محترمہ پر ایسا ہی ناپاک الزام لگایا گیا۔ اور پھر خدا نے بریت فرمائی۔ اور یہ کہتے ہیں مصنف صاحب کہ دیکھو ان کو تم ازواج مطہرات لکھتے ہو؟ یہ اہل بیت میں سے ہوسکتی ہیں؟ جنہوں نے نعوذ باللہ من ذلک اپنی کسی حرکت کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مہینہ اتنی اذیت دی ہے۔ یہاں تک کہ وہ سورۃ نازل ہوگئی۔ سورۃ میں کیا بتایا؟ یہ بتایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی غلطی کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں ہیں۔ سورۃ نے کچھ اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیکاٹ کی وجہ سے اور اس بات کو اتنی اہمیت دینے کی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنھا تکلیف میں ہیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس آیت کے بعد حضرت عائشہ کے گھر میں پہنچے ہیں تو عائشہ رضی اللہ عنھا نے یہ شکریہ نہیں ادا کیا کہ شکرہے آپ مان گئے ہیں۔ اب کیا فائدہ۔ اب میرے خدا نے میری بریت کی ہے تو آپ آئے ہیں چل کے اور اس عرصے میںتو عذاب میں مبتلا رہی ہوں۔ اس کی معافی کاآپ سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے اللہ نے بریت فرمائی ہے۔ یہ ہے مضمون جو قرآن کے حوالے سے اور حدیث کے حوالے سے ہمیں حقیقت کے طور پر دکھائی دے رہا ہے اور یہ ام المومنین کہنے والے مائوں کا یہ نقشہ کھینچ رہاہے ۔ بڑے ہی ناپاک حملے ہیں۔ خون کھولنے لگتا ہے۔ مگر کیا کریں۔ صبر کی تعلیم ہے۔ اللہ ان کو ہدایت دے۔ مجھے رحم آتا ہے۔ ان بچارے شیعہ معصوم لوگوں پر جن کو کچھ پتہ نہیں دین ہے کیا ہم نہ ان کو قرآن کا علم نہ حدیث کا علم ۔ وہ اپنے ان مولویوں کو ہر سال سنتے ہیں تبرا کرتے ہوئے اور کئی قسم کی باتوں میں انہیں کو خدا کا نمائندہ سمجھے بیٹھے ہیں اورسر دھنتے اور اپنی چھاتیاں پیٹتے۔ لیکن یہ پتہ نہیں کہ پیٹنا کس بات پر چاہیے۔ یہ باتیں ہیں سر پیٹنے والی اور چھتیاں پیٹنے والی۔ یہ ظلم ہیں جو ان لوگوں نے توڑے ہیں ایک روحانی کربلا کو انہوں نے وجود دیا ہے۔ پس جہاں اس جسمانی کربلا کو پیٹتے ہیں۔ زیادہ حقدار ہو اس بات کے کہ اس روحانی کربلا پربھی تم ماتم کروکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں اور آپکے انبیاء پر کس قسم کے ظلم توڑے ہیں اور آپ کے صحابہؓ پر کیسے کیسے ظلم توڑے گئے ہیں۔ ’’میںنے وہ کہا تھا ہے تفصیلی بحث ازواج ؓ والی۔ ہے ناں۔ وہ بعدمیں کریں گے حوالے اکٹھے کرکے۔ آپ کو غلط فہمی ہوگئی مگر کہا میں نے ہی تھا لیکن سمجھے نہیں۔‘‘ اب جو حوالہ میں نے بتایا ہے میر احمد علی صاحب "Verse no.165 Sura Hud verse no.74"‘
کا حوالہ دے کر اس پر بحث کررہے ہیں کہتے ہیں:۔
The conduct of the some of wives of Holly Prophet is well recorded in Islamic history.
یعنی اسلامک ہسٹری میں وہ خبیثانہ الزام کی بات نہیں کررہے ان بدبختوں کا ذکر ملتا ہے۔ جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دکھ پہنچایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی۔ کہتے ہیں:-
The conduct of some of the wives of Holly Prophet is well recorded in Islamic history. As to who were ----those of his wives with whom the Holly Prophet was pleased and who were those who teased him and used to give him the headache by their behaviour with him. Which necessitated their being discaraou for about a month until sura 16 was revealed.
اس میں دیکھنے والی بات (ایک بات ابھی تحقیق طلب ہے شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے اس حوالہ کو الگ الگ لکھوادیا۔
اس سورۃ میں دو واقعات ملتے ہیں۔ (مجھے ابھی تک قطعی طور پر اس حوالے کے متعلق یہ یقین نہیں ہے یہ احتمال تھا جس کا میں نے ذکر کیا تھا)
ایک واقعہ یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ان کا دنیا کی تنگی کا شکوہ ہے تو تم ان سے یہ کہہ دو (اپنی بیویوں سے) کہ تمہارے لئے اختیار ہے۔ چاہو تو میں تمہیں ہر قسم کے آرام اور نعمتیں دے کر رخصت کردیتا ہوں۔ میرے گھر سے چلی جائو۔ اور چاہو تو اس تنگی کے ساتھ رہو۔ جس تنگی کو میں نے اپنے لئے گوارا کیا۔ اور خدا کی خاطر صبر سے برداشت کرو اس کے بعد آپ کچھ دیر الگ رہے۔ لیکن میں اس سے اس لئے دوسری باتوں کی طرف جارہا ہوں کہ کسی صورت کے نتیجہ میں آپ واپس نہیں آئے ہیں۔بلکہ آپ کی تمام ازواج مطہرات نے خوب غور کے بعد خود عرض کردیا تھا کہ یا رسول اللہ کہ ہمیں آپ کے ساتھ رہنا منظور ہے۔ خواہ کیسی ہی تنگی ہو۔ کیسی ہی تکلیف ہو۔ ہمیں دنیا کی نعمتیں نہیں چاہئیں۔ اگر اس واقعہ کی طرف (مجھے یہ وہم پیدا ہوا یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ نہ کیا گیا ہو۔ لیکن میں دوبارہ چیک کرکے آپ کو بتادونگا) اس واقعہ کی طر ف اشارہ ممکن نہیں ہے کیونکہ وہاں ان کی بریت میں تو کوئی سورۃ نازل نہیں ہوئی۔ وہ تو خود ازواج مطہرات حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور عرض کرتی ہیں کہ ہمیں یہ زندگی منظور ہے آپ کے ساتھ اور دوسری زندگی منظور نہیں۔ توآپ نے دوبارہ اپنے تعلقات کو بحال فرمالیا۔
اس لئے یہ اشارہ اب جب سورۃ دیکھیںگے (سورۃ نکالیں نہ ذرا) اس سے پتہ چلے گا کہ کس طرف اشارہ ہے۔ ابھی چیک کرلیں اس کو۔ اب میں تب تک اگلی آیات شروع کرتا ہوں۔
’’اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا۔ قلتم انی ھذاقل ھو من عند انفسکم۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر O وما اصابکم یوم التقے الجمعن فباذن اللہ ولیعلم المومنین O
اس کے ساتھ اگلی آیت ہے۔ ولیعلم الذین نافقوا۔ کیونکہ اس کا اس سے تعلق ہے اس لئے میں یہ بھی شامل کردیتا ہوں۔ وقیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا۔ سوال ہے کہ کیا یہ حقیقت نہیں؟ کیا یہ واقعہ درست نہیں؟ کہ جب تمہیں کوئی مصیبت پہنچی جس سے دوگنی مصیبت تم ان کو ڈال چکے تھے۔ خود قلتم ۔ تم نے یہ کہا انیٰ ھذا۔ یہ کیسے ہوگیا۔ ایک تو یہ معنے بن سکتے ہیں۔ اور ایک وہ طرز بیان ہے جو میں نے پہلے اختیار کی تھی۔ کہ کیا ہمیشہ جب بھی تمہیں ایسی مصیبت پہنچے جو تم اس سے زیادہ ڈال چکے ہو۔ اس واقعہ کے بعد تم یہ کہہ دو گے کہ یہ کہاں سے آگئی۔ یہ استمرار کا مضمون ضمناً نکلتا ہے حقیقۃ ً جو معنے ہیں وہ یہی ہیں۔ دوسرے معنے لفظاً درست بیٹھتے ہیں۔ مگر یہ طرز بیان ایسی ہے جس سے میرے ذہن میں ضمناًکے مضمون کا جواز بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ مطلب ہے ایسے جب بھی کبھی مواقع پیش آئیں کہ جب تمہارے سے کسی دشمن کو تکلیف پہنچ چکی ہو۔ تو تمہیں بھی پہنچ جائے تو کیا تم یہی کہتے رہو گے ہمیشہ کہ ہمیں کیوں پہنچی۔ یہ بنیاد ہے نفسیاتی لحاظ سے جو اس مضمون کو جاری کردیتی ہے۔ ورنہ مثلیھا کا واقعہ تو ایک ہی دفعہ ہوا تھا۔ اس لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کا ترجمہ ایک ہی دفعہ کی صورت میں کیا ہے۔ کہ کیا یہ واقعہ درست نہیں ہے کہ جب تم خود دوسروں کو دوہری تکلیف پہنچا چکے تھے۔ پھر جب تمہیں پہنچی تو تم نے یہ کہا ’’قل ھو من عند انفسکم‘‘ اس کا جواب یہ دے دے کہ یہ تمہارے اپنی طرف سے پہنچی ہے۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر O یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اب میں اس کی حل لغات میں پہلے داخل ہوجائوں۔ اور پھر میں واپس تفسیر کی طرف آئو ںگا۔
صاب یصوب صوبا و مصابا۔ صاب المطر ای انصب و نزل یعنی بارش برسی یا نازل ہوئی۔ صاب میں نازل ہونا‘ گرنا وغیرہ کے مفہوم داخل ہیں۔ اس لئے مصیبت اس کو کہتے ہیں جو اچانک آپڑے ۔ٹوٹ پڑے‘ بنیادی طور پر یہ معنی اوپر سے اترنے یا گرنے کے ہیں۔
وہاں سے لیا گیا ہے۔ صاب السھم نحو الرمیۃ۔ اس کا مطلب ہے تیر سیدھا جاکر نشانے پر لگا۔ اصابتکم اصاب السھم تیر کا ٹھیک نشانے پر لگنا۔المصیبۃ البیۃ و الداعیۃ و الشدۃ و کل امر مکروہ۔ مصیبت بلائ‘ صدمے‘ ناگہانی آفت‘ شدت۔ اور ہرناپسندیدہ بات کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ التقیٰ سے مراد ہے جنگ میں مڈبھیڑ، ایک دوسرے سے ٹکرا جانا۔ جہاں تک شان نزول کی بحث آئی ہے وہ تو مفسرین اٹھاتے ہیں شان نزول کی بحث میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا ! ’’جنگ احد کے دن جو مصیبت مسلمانوں پر آئی اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بدر میں فدیہ لیا تھا۔‘‘
(کیوں جی‘ نکالی‘ کونسی آیت؟ وہ آیت یا ایھا النبی قل لازواجک )وہی جو میں نے دوسری آیت میں بیان کیا تھا۔ لیکن اس میں۔ دوسری آیت کونسی ہے وہ کہاں ہے۔ یہ تو حوالہ ہی نہیں دے رہا۔ حوالہ یہ دے رہا ہے۔ کہ حضرت عائشہ کے ضمن میں ایک نہایت ذلیل الزام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ذکر میں کہتا ہے کہ ان کی حمایت تم کررہے ہو جن کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی اور ان کے ایک غلط Behaviour کی وجہ سے یہ لفظ ہے یہاں تک کہ قرآن میں بعد میں ایک مہینہ کے بعد ایک ذکر آیا ہے تو پھر یہ قصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دورہوئی۔ اس کا اس دوسرے واقعہ سے تعلق ہی کوئی نہیں ہے۔ میں نے چونکہ اس سورۃ کا حوالہ دیکھا نہیںتھا۔ اس لئے احتیاطاً کہہ دیا تھا کہ شاید کہیں اس کے دماغ میں یہ بات آگئی ہو۔ وہ نہیں ہے۔ جس آیت کا حوالہ دے رہے ہیں وہاں ذکر ہی کوئی نہیں۔ (وہ کونسی آیت ،نکالیں،ابھی پتہ لگ جائے گا)
کہتا ہے یہاں تک کہ Sura sixteen نازل ہوئی۔
(وہ تو توبہ میں ہے۔ وہ سورۃ نور میں ہے۔ سورۃ نور کا نمبر کیا ہے۔ ٹھیک ہے دیکھیں اس کے لکھنے میں کوئی غلطی نہ ہوگئی ہو) مہینے کے بعد خدا کی طرف سے حضرت عائشہ کی بریت قرآن سے ثابت ہے۔ اور یہ مہینے کے بعد کسی سورۃ کا ذکر کررہاہے جہاں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہی کوئی نہیں۔ پہلے بھی ایسا واقعہ ہوچکا ہے۔ آپ کو میں نے دکھائی تھی آیت۔ جس آیت کا حوالہ دیتے ہیں وہاں کوئی دور کا بھی ذکر نہیں ملتا۔بیٹھے بیٹھے حوالے بنائے جارہے ہیں (وہ چوبیس ۲۴ ہے سورۃ نور۔ لیکن وہ حوالہ اپنی ذات میں ظاہر و باہر ہے۔ خلاصہ اس کا یہی بنتا ہے جب تک خدا تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ ﷺکا دکھ دور نہیں کیا عائشہ رضی اللہ عنہا کی حرکت کی وجہ سے نعوذ باللہ من ذلک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھ میں مبتلا رہے۔ اور اگر وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حرکت تھی ہی نہیں۔ اور خدا نے یہی فرمایا ہے تو تمہیں اس بدبختی کا کیا حق؟ کہ اشارۃً یا کنایتہ بھی اس بات کو قبول کرنے کی طرف مائل ہوں یہ حال ہے بغض میں پڑرہے ہیں۔ اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں۔ اور میں پھر کہتا ہوں کہ عوام الناس شیعہ پر بڑا سخت ظلم ہے۔ ان کو چاہئے کہ یہ ساری باتوں کو سنیں غور سے اور سمجھیں کہ ان کے ساتھ کیا ظلم ہورہا ہے ان کے پاک معصوم آئمہ کے اور ان کے درمیان یہ مولوی حائل ہیں اور یہی مولویوںکا کردار سنیوں میں بھی چل رہا ہے۔ صداقت کے بیچ میں آکے کھڑا ہوجاتے ہیں اور ایسے تاریک ہیں کہ آگے سے روشنی گزرنے ہی نہیں دیتے۔ اب آگے (بچارے) روشنی پہنچے کہاں سے عوام الناس میں۔ عوام الناس کے متعلق میرا تجربہ ہے کہ انہیں اگر روشنی پہنچے تو ان کا مزاج مولویانہ نہیں ہے۔ جاھل ہوتے ہیں لیکن مولوی نہیں۔ بلکہ میں نے دیکھا۔ پڑھے لکھوں سے زیادہ روشن دماغ ہے عوام الناس کیونکہ سادہ مزاج ہے اور پڑھائی کے چکر میں پڑے کے ان کو ایچ پیچ نہیں آتے۔ اور مسائل جب بھی ہمارے زیر بحث آئے ہیں مختلف پاکستان میں مجالس میں مَیں شامل ہوتا رہا ہوں۔ بہت چکر لگائے ہیں پاکستان کے جگہ جگہ سوال و جواب کی مجالس لگا کرتی تھیں۔ بڑے بڑے انکے مولوی بھی آتے تھے اور عوام بھی۔ اور میرا تجربہ ہے کہ بات سن کر مولوی اپنی جگہ اٹکارہتا تھا اور عوام تائید میں کھڑے ہوجایاکرتے تھے۔ یہ ٹھیک ہے بالکل درست کہہ رہے ہیں آپ۔ تو ہمیں عوام الناس تک پہنچنا ہے۔ ایک طرف اس نور کے آغاز اور عوام کے درمیان یہ حائل ہیں۔ دوسری طرف نور کی تکرار جو اس دور میں ہوئی ہے اس کے اور عوام کے درمیان حائل کھڑے ہیں اور ہمارے پیغام رسانی کے سارے رستے بند کر بیٹھے تھے۔ اب اگر اللہ نے آسمان سے فضل نازل نہ کیا ہوتا تو ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا عوام الناس تک پہنچنے کا۔ اب پہنچ رہے ہیں اللہ کے فضل سے۔ اور اتنی جلدی جلدی اس اثر پڑتا ہے کہ پرسوں ایک احمدی دوست یہاں اپنے ایک غیر احمدی دوست کو یہاں درس میں لے آئے۔ اور پرسوں والے درس سننے کے بعد فوراً بعد انہوں نے کہا میری ابھی بیعت لو۔ میں نہیں باہر رہ سکتا۔ یہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم عوام الناس تک پہنچیں۔ بنیادی طور پر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کے نناوے 99 فیصدی لوگ شریف ہیں۔ ایک فیصد ہے جنہوں نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے۔ مگر شریف تو ہیں مگر ساتھ جاہل بھی تو ہیں۔ وہ ہاں اگر پتہ چلے جاہل آدمی کو مصیبت یہ ہوتی ہے ۔ شرافت کے باوجود اگر کوئی بات دل میں گڑ جائے تو چاہے وہ غلط ہی ہو لاعلمی کی وجہ سے اسکی خاطر جان دے دیتے ہیں اور پڑھے لکھوں کو یہ توفیق نہیں ہے۔اس لئے فساد ہمیشہ عوام الناس کی طرف سے ہوتے ہیں۔ پڑھے لکھو ںکی طرف سے نہیں ہوتے۔ اور ایک رنگ میں ان کی شرافت کی دلیل ہے۔ وہ بیچارے ہیں سچے۔ جھوٹی بات بھی ان کے دماغ میں ڈالی جائے گی۔ تو اس کی خاطر جان دینے کیلئے تیار ہوجائیں گے۔ ملک کے امراء اور تعلیم یافتہ لوگ آرام سے گھروں میں بیٹھے ہوئے یہ آگیںلگا کر جلنے کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں۔ اس لئے اب میں امید رکھتا ہوں کہ کثرت سے شیعہ عوام تک احمدی ان باتوں کو پہنچائیں گے تو دیکھیں اللہ کے فضل سے ا نکا ردعمل یقینا صحابہ ؓ اور ازواج مطہرات کے حق میں ہوگا۔ اور بڑی شدت کے ساتھ وہ غلطی کو محسوس کرکے ان بزرگوں کی توہین سے باز آئیں گے۔ اور ان کی عزت و شرف کے قائل ہونگے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
اچھا اب میں پھر دوبارہ واپس آرہا ہوں اسی آیت کی طرف " 166-167 شان نزول: فرمایا ! کہ جنگ احد کے دن جو مصیبت مسلمانوںپر آئی اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بدر میں فدیہ لیا تھا۔ اب یہ عجیب سی روایت ہے۔ اسباب نزول میںیہ کسی تفسیر نے یہ بات پیش کی ہے۔ اور اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے اس سے۔ میں مان ہی نہیں سکتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایسی بات کریں جو قران کے واضح بیان کے خلاف ہو۔ قرآن یہ فرما رہا ہے کہ مصیبت اس لئے ٹوٹی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمائی ہوئی اور ایک وقت پر تم نے وہ بات نہیں مانی اور اس کے نتیجہ میں ساری مصیبت ٹوٹی ہے۔ اس کو بدر کے ساتھ جاکے منسلک کردینا اور یہ کہنا کہ فدیہ لیا تھا۔ فدیہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا۔ تو نافرمانی کرنے والوں سے الزام اتار کر خدا کے کامل فرمانبردار بندے کی طرف منتقل کرنا ہر گز قابل قبول نہیں ہے۔ نام جو مرضی ہے دیدیں۔ یہ روایت جھوٹی ہے کیونکہ قرآن سے ٹکرا رہی ہے۔ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار سے ٹکرا رہی ہے۔
اصابتکم مصیبۃ اصبتم مثلیھا کی بحث میں مستشرقین نے بھی یہ بات لکھی ہے اور مسلمان مفسرین نے بھی کہ جنگ بدر میں ان کے ستر آدمی مارے گئے تھے ’’دشمن کے‘‘ ۔ جنگ احدمیں ستر صحابہ شہید ہوئے ہیں تو مثلیھم سے کیا مراد ہے کہ دوہرا نقصان کیسے پہنچایا۔ وہ تو مثل بہ مثل نقصان ہے۔ اس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا کوئی قیدی نہیں بنایا گیا یہاں۔ ایک بھی قیدی نہیں بنا۔ جب کہ ان کے ستر مارے گئے اور ستر قیدی بنالئے۔ تووہ ستر بھی تمہارے رحم و کرم پرآگئے یعنی ایک سو چالیس کو تم نے زک پہنچائی ہے۔ اس کے مقابل پر تمہارے صرف ستر کو بظاہر نقصان پہنچا۔ لیکن وہ بھی شہادت کی عظمت پاگئے اور سعادت پاگئے۔ تو یہ مراد ہے ’’مثلیھا ‘‘سے۔
اذن کا معنے ان مفسرین نے عموماً قضاء الہی لے لیا ہے۔ جس میں ایک قسم کا جبر کا تصور پایا جاتا ہے۔ اذن کا مطلب اجازت بھی ہوتا ہے۔’’اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا‘‘ میں اجازت کا مفہوم ہے اور دوسری جگہ بھی اذن کا لفظ اجازت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس لئے وہاں اگر سورۃ حج میں قتال کے تعلق میں اگر اذن سے مراد حکم بھی لے لیا جائے تو یہ معروف ہے اس کا استعمال۔ اذن کے معنے اجازت دینا بھی ہوتا ہے ۔ کسی کی اذن سے انسان داخل ہوتا ہے۔ کسی کے کمرے میں بغیر اجازت کے داخل نہیں ہوتا یہ وہی معنے ہیں پس میں اس بات پر ہی مصر ہوں کہ یہاں باذن اللہ سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پہلے سے فیصلہ کر رکھا تھا۔ ایک جبری تقدیر تھی جو ضرور پوری ہوتی تھی۔ بلکہ اس واقعہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے قدیر ہونے کا ذکر ہے۔ علی کل شیئٍ قدیر۔ فرماتا ہے اس کا بد نتیجہ ہوسکتا تھا تمہیں نہ پہنچے۔ اگر اللہ ایسا فیصلہ کردیتا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت کے پیش نظر اجازت دی کہ تمہاری غلطی کا تم خمیازہ بھگتو۔ اور اس کے نتیجہ میں کئی اور بہت سے ایسے مصالح تھے جو پیش نظر تھے فلما اصابتکم مصیبۃ میں یہ میں سارے مفسرین پر نظر ڈال رہا ہوں۔ وہی بحث ہے ستر مسلمانوں کو شہید کیا گیا‘ ستر مشرکوں کو قتل کیا ستر کو قیدی بنایا گیا۔ اور سارے ہی اسی بات کو دوہرا رہے ہیں۔
امام رازی اس بات کو رد کرتے ہیں کہ بدر کی وجہ سے تھی۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ پہلی آیت میں ذکر ہے کہ مصیبت ان کے گناہ اور خود ان کے اپنے نفوس کے باعث پہنچی۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ یہ مصیبت انہیں اور وجہ سے پہنچی اور وہ یہ کہ مومن اور منافق کے درمیان تمیز قائم ہو۔ یہاں امام رازی جو بیان فرما رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے ذہن میں تضاد نہیں ہے ۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ مراد یہ ہے کہ زائد حکمت اس میں یہ بات تھی اور اس کا اس مضمون سے تعلق ہے جو اذن کے معنے اجازت لینے سے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے بے حکمت یہ تکلیف نہیں پہنچنے دی۔ اس کا ایک مقصد تھا۔ اور وہ مقصد تھا کہ اس موقعہ پر سچے مومن اور منافق میں تفریق ہوجائے۔ لیکن اس مضمون کا براہ راست تعلق اس واقعہ سے نہیں ہے صرف ۔ یہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ محض تکلیف سے ہے۔ تکلیف کیوں پہنچی۔ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔ کیونکہ آگے جاکر قران کریم اس بات کو خوب کھول رہا ہے کہ تکلیف نہ پہنچانے کے نتیجہ میں جو مومنوں اور منافقوں میںتفریق ہوئی ہے اس تفریق میں وہ منافق شامل ہیں جو جنگ احدمیں شامل ہی نہیں ہوئے تھے۔ وہ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اور قرآن خود آگے بتائے گا۔ جب وہاں پہنچیں گے پھر میں آپ پر وضاحت کردونگا کہ کیوں میں اس بات کو سختی کے ساتھ درے والے واقعہ سے نہیں باندھنا چاہتا۔ کیونکہ جنگ احد میں جو کچھ ہوا۔ اس میں ایک اور حکمت بھی پیش نظر تھی۔ اس میں حکمت ایک پیش نظر یہ تھی کہ اس جنگ کے بعد منافق مومنوں سے الگ ہوکر ممتاز دکھائی دینے لگیں۔ یہ اصل مضمون ہے جومیں سمجھتا ہوں درست ہے اور میں اس کی تائید میں آگے بات کروں گا۔ اس لئے امام رازی اذن کا معنے حکم نہیں لیتے بلکہ بعلمہلیتے ہیں جیسا کہ فرمایا! و اذان من اللہ یہ اعلان ہے اللہ کی طرف سے اور وہ اجازت والی بات یہ علم کہتے ہیں لیکن مفہوم امام رازی بھی اجازت والا بیان فرما رہے ہیں اور اذان تو اس سے اجازت تو نہیں ہوتی وہاں اعلان ہے مگر حکم نہیں ہے۔ اس لئے یہ درست نہیں کہ وہاں معنے اجازت کے لئے جاسکیں۔ سورۃ توبہ میں یہ جو اعلان ہوا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے لئے لفظ اذن ہے اور اذان بھی اسی سے نکلی ہے اعلان کے معنوں میں۔ ایک اعلان عام ہے چاہو تو قبول کرو چاہو تو نہ کر۔ اس لئے اختیار کی بات اس میں شامل رہتی۔ اور پھر کہتے ہیں جیسے فرمایا۔ ’’اذناک مامنا عن شہید اور پھر فرمایا ! فاذنوا بحرب من اللہ۔ ان سب سے مراد علم ہے فاذنوا بحرب من اللہ پس حکم نہیںہے کہ تم ضروراللہ سے لڑائی کرو۔ اللہ سے لڑائی کیلئے تیار ہوجائو۔ تمہیں اختیار ہے چاہو تو لڑائی کا طریق اختیار کرو۔ چاہو تو توبہ کرلو۔ تو اختیار کے معنے یہاں ایک رنگ میں ضرور پائے جاتے ہیں۔
ابن عباس کہتے ہیں اذن سے مراد اللہ کی قضا ء اور اس کا حکم ہے کہتے ہیں یہ معنے اس لحاظ سے زیادہ مناسب ہیں ۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اگر یہ کہہ دیا جائے تو پھر مسلمان تسلی پاجاتے ہیں کہ چلو گویا تقدیر ہی سہی چلو ٹھیک ہے۔ مگر یہاںمیں امام رازی سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ قرآن کریم اس قسم کی باتوں سے تسلی نہیں دیا کرتا۔ بہت گہری حکمت کی باتیں بیان فرماتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قضاء کے موقعہ پر آکے انسان سر تسلیم خم کردے مگر دل کے وسوسے تو قائم رہتے ہیں اور تکلیف پھر بھی رہتی ہے۔اب یہ چلو اللہ کی رضا تھی تو ہم مان جاتے ہیں۔ مگر اگر حکمت بیان کی جائے کہ کیوں ایسا واقعہ ہوا تھا۔ پھر سچی تسلی ملتی ہے۔ اس لئے یہاں تقدیر کا معنے کرنا میرے نزدیک درست نہیں۔ جبکہ آگے وجہ خود اور بیان فرما رہا ہے اللہ تعالیٰ۔
اذن کہہ کے حکمت اور بیان فرما رہاہے تو اذن کا معنی اگر تقدیر لیا جائے تو اس سے حکمت کی بحث کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔یہ کہتے ہیں۔ تفسیر محاسن میں علامہ محمد جلال الدین القاسمی لکھتے ہیں کہ قدرت کے ذکر میں یعنی قدیر کے ذکر میں ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ یہ معاملہ جو گذرا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے اور اس کی تقدیر کے ماتحت ہوا ہے۔ یعنی اگر وہ چاہتا تو اس کو تم سے ہٹا دیتا ہے۔ پس تم اس قسم کے مصائب قبول کرنے کے لئے کسی غیر پر بھروسہ نہ کرو۔ اور کسی غیر سے مدد نہ مانگو۔ تو یہاں وہی معنے بیان کررہے ہیں اس کے قریب تر جو میں نے بیان کیا تھا کہ قدیر کہنے میںحکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قدرت تھی کہ چاہتا تو ہٹا دیتا اور کسی جبری تقدیر کے نتیجہ میں یہ نہیں ہوا۔ تمہاری غلطی سے ہوا۔اور خدا نے ہونے دیا یہ معنی بنے گا۔
یہ کہتے ہیں کہ شیعہ تفسیر میں تو یہ لکھا ہواہے۔بالآخر میر احمد علی صاحب بھی یہ بات کھول کر بیان کرتے ہیں۔ سارا خلاصہ ان کی بات کا یہ بنتا ہے کہ اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے اور اس سے پہلی آیات سے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ احد کی تکلیفوںکو مومن اور منافق کی پہچان کے لئے۔ خود وارد فرمایاعائد فرمایا اور یہ مصیبت اس لئے مسلمانوں پر توڑی گئی تاکہ مومن (سچوں) اور منافقین میں ایسی تفریق ہوجائے کہ اس کے بعد پھر کبھی کوئی شبہ نہ رہے۔ کہتے ہیں وہ تفریق ہوگئی اور حضرت علیؓ اکیلے مومن کے طور پر ابھرے ہیں اور باقی تمام کیلئے جنگ احد منافقوں کا مقبرہ بن گئی اور ہمیشہ ہمیش کیلئے یہ کلیہ طے ہوگیا کہ مو من کون تھے اور مانفق کون تھے۔یہ اس آیت کا اور اس سے پہلے سارے مضمون کا منطوق ہے جو شیعہ مفسرین پیش کررہے ہیں۔ اس کے برعکس قرآن کریم کیا بیان فرما رہا ہے۔ وہ سُنئیے! لیعلم الذین نافقواسے اگلی آیت میں ہے۔و قیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ اوادفعوا۔ قالوا لو نعلم قتالاً لا تبعناکم۔تاکہ اللہ تعالیٰ مومنوں کو بھی پہچان لے اور منافقوں کو بھی پہچان لے۔ اور خدا نے منافقوں کو کیسے پہچانا۔ یہ ذکر بھی ہے۔ و قل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ۔ ان کو کہا گیا تھا آؤ اللہ کی راہ میں قتال کرویا دفاع کرو۔ قالوا لو نعلم قتالا لاتبعناکم۔اگر ہمیںلڑائی کرنی آتی تو ہم ضرور تمہارے ساتھ چلتے۔ یہ سارے جنگ احد میں شامل ہونے والے یہ لوگ تھے۔ خدا تو خود بتا رہا ہے یہ کون لوگ تھے۔ ہم نے مومنین کو بھی پہچان لیا اور منافقین کو بھی پہچان لیا اور تفریق کی علامت یہ ہے کہ یہ بدبخت منافق وہ تھے جو آئے نہیں اور واپس مڑ گئے اور کہتے۔ ہمیں نہیں آتا لڑنا۔ یہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے ساتھی ہیں۔ جن کا واضح ذکر ہے قالوا لونعلم قتالاً لا تبعناکم ھم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان۔ یہ آج ایمان کے مقابل پر کفر کے زیادہ نزدیک ہیں۔ یقولون بافوھھم ما لیس فی قلوبھم۔ یہ اپنے منہ سے وہ باتیں کررہے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں۔ واللہ اعلم بما یکتمون۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا چھپاتے ہیں۔ پھر ان کا ذکر آتا ہے اس کے بعد اگلی آیت میں۔وہ خدا کے حضور جنگ احد میں مارے گئے ہیں۔ ان کو فرمایا گیا۔
ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتاً بل احیاء عندربھم یرزقون۔ لیکن یہ بحثیں انشاء للہ بعد میں اٹھائیں گے۔
(میں دیکھ رہا ہوں) میں ضمناً اشارۃً کررہا ہوں مجھے پتہ ہے وقت ختم ہونے میں ابھی شاید آدھا منٹ باقی ہے صرف۔ اس لئے انشاء اللہ کل جم کر ان آیات پر گفتگو ہوگی تو پھر ساری باقی باتیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔۰۰۰۰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اللّہ الرحمن الرحیم
درس القرآن ۔ 2 رمضان المبارک
13) فروری 1994ئ(
اعوذ باللّہ من الشیطن الرجیم Oبسم اللّہ الرحمن الرحیم O
وما کان قولھم الا ان قالوا........... واللّہ یحب المحسنین O (آل عمران 148‘149)
کل ہم نے پہلی آیت کی تفسیر تقریباً مکمل کرلی تھی۔ جب میں یہ کہتا ہوں اور آئندہ جب بھی کہوں گا تو مراد یہ نہیں ہے کہ کسی آیت کی تفسیر مکمل ہوسکتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جتنا حصہ میں نے اپنے لئے تیار کیا تھا وہ تقریباً ختم کرلیا تھا لیکن کچھ حصے ابھی باقی ہیں۔تو ان سے میں آج ....
دوبارہ ترجمہ آپ کو سنادوں تاکہ وہ جن کوترجمہ نہیں آتا وہ بار بار ترجمہ سنیں تو کچھ ان کے ذہن میں ترجمعہ ذہن نشین ہوتا چلاجائے۔
وما کان قولھم الا ان قالوا ربنا اغفرلنا ذنوبنااور ان کا قول اس کے سوا اور کوئی نہیں تھا کہ انہوں نے کہا اے ہمارے رب ہمیں ہمارے گناہ یعنی ذنوب جنکی تشریح پہلے ہوچکی ہے وہ بخش دے۔
و اسرافنا فی امرنا :اور اپنے نفس پر جو زیادتیاں ہم کرچکے ہیں وہ بھی معاف فرمایا۔
وثبت اقدامنا : اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش۔
وانصرنا علی القوم الکفرین : اور ہمیں کافروں کی قوم پر نصرت دے۔وانصرنا پر علیٰ‘‘ کا جب آتا ہے صلہ ۔ تو مراد ہے فتح۔ ویسے تو نصرسے مراد نصرت ہے لیکن ’’نصر علیہ‘‘ اسکے خلاف مدددے یعنی ان پر فتح مند فرما۔یہاں لفظ قدم کی بحث ہے تھوڑی سی جو باقی تھی۔القدم : الْرِّجْلُ : قدم پائوں کو کہتے ہیں اور اس پائوں کی نسبت سے پھر اس کے اور بھی معنی رائج ہوجاتے ہیں۔ ایک قدم ‘ دو قدم جیسے اردو میں کہا جاتا ہے یعنی پورا ایک قدم سے دوسرے قدم کے فاصلے کو بھی ہم قدم کہہ دیتے ہیں اور بہت سے مضامین ہیں جو بنیادی طور پر قدم کے معنوںسے جڑے ہوئے ہیںان سے وابستہ ہیں اور پھر آگے اورمضامین پیداکردیتے ہیں۔ السابقۃ فی الامر خیراً کان اؤُ شرًاً : کسی چیز میں کمال حاصل کرلینا۔ اس کو بھی السابقۃکہتے ہیں۔ یعنی کمال حاصل کرنے کیلئے بھی لفظ قدم استعمال ہوتا ہے اور اس لحاظ سے قدم معززین کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جو قوم کے بڑے لوگ ہیں چنانچہ آگے اس کی تشریح پھرچندفقروںکے بعدآئے گی۔کہتے ہیں لفلان فی کذا قدم صدق او قدم سوئٍ
کہ فلاں شخص کو اس بات میں کمال حاصل ہے یایہ کہناہوتو اگر اچھی بات میں کہنا ہو مثلاً سچائی میں تو کہیں گے اسے قدم صدق حاصل ہے۔ اُسے اس معاملے میں سچائی کا قدم حاصل ہے۔ اور اگر بری بات میں کہنا ہو تب بھی لفظ قدم استعمال ہوگا کہ اُسے اس معاملے میں برائی کا قدم حاصل ہے۔ الرجل لہ مرتبۃً فی الخیر : قدم اس شخص کو بھی کہتے ہیں جسے کسی بھلائی میںایک بڑا مرتبہ حاصل ہو
الشجاع : قدم بہادر کو کہا جاتا ہے۔ اور یہاں مرد اور عورت کی تفریق نہیں کی جاتی۔ اگرچہ لفظ قدم بظاہر مذکر ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن اس میں جب تعریف کے رنگ میں کہا جائے تو مرد ہو یا عورت دونوں کیلئے قدم کا لفظ استعمال ہوگا۔
وضع القدم فی امرہ۔ یعنی اس نے اس میں پائوں رکھ دیا اردو میں بھی اس کا ہم محاورہ بعینہ یہی ترجمہ ہے اس نے اس مضمون میں پاؤں رکھ دیا۔ اس عمر میں پائوں رکھ دیا۔ یعنی ابھی اس نے آغاز کیا ہے کسی چیز کا۔ اس ضمن میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور ایک اور مفسر نے بھی یہ مضمون بیان کیا ہے کہ اس آیت کا پہلی آیت سے ایک تعلق ہے۔ پہلی آیت میں جو تین باتیںکمزوریاں ایسے گروہ کی طرف منسوب کی گئی تھیں جو دشمن کے سامنے کمزور ہو اور عاجز آجائے لیکن مومنوں سے ان کی نفی فرمائی گئی تھی کہ مومنوں میں یہ بات نہیں ہوتی۔ اس کے بعد یہ دعا رکھ دی گئی ہے۔ پس وہ تین کمزوریاں جن کا ذکر ملتا ہے۔ اس کے مقابل پرجب ہم اس آیت میں مذکور دعا کو لفظاً بہ لفظاً پہلے لفظوں کے ساتھ باندھیں گے تو اس کو لفّ و نشرمرتب کہتے ہیں یعنی جس ترتیب سے پہلی آیت میں جولفظ ہیں اسی ترتیب سے بعد میں آنے والی آیت کے الفاظ کا تعلق بنتا جائیگا۔ تو بات یوں بنے گی۔
قرآن کریم مومنوں کو نصیحت فرماتا ہے۔
وکاین من نبی قاتل معہ ربیون کثیر
اور کتنے ہی نبی ہیں جن کے ساتھ مل کر اللہ والوں نے مل کر قتال کیا فما وھنوا : انہوں نے کمزوری نہیں دکھائی۔
وھن کی تفسیر پہلے بیان ہوچکی ہے۔ کس قسم کی کمزوری اس میں مراد ہے۔ اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ گزشتہ سال کے درس میں تفصیل سے میں نے وھن کے لفظ پر روشنی ڈالی تھی۔ مثلاً ایک پرندہ جب بہت کھالے اور بوجھل ہوجائے تو اس وقت بھی لفظ وھن اس پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے گدھیں مردار کھا کر بوجھل ہوجاتی ہیں۔ تو وھنوا کا معنی بہت وسیع ہے۔مراد یہ ہے کہ مومن اپنے اندر اندرونی کمزوری کوئی نہیں رکھتے۔ یعنی ایسی کمزوری جو …پید ہو ان کی ذات کے اندر مخفی ہو۔ ان کے اندر اس کمزوری کا خمیر داخل ہو۔ ان سب چیزوں سے مومن پاک ہوتا ہے۔ تو فرمایا۔ وہ خدا کے پاک نبی جن کے ساتھ بڑے خداوالوں نے جہاد کئے اور قتال کئے۔ ان کے اندر کوئی اندرونی کمزوری نہیں تھی۔ پس ایمان کی ادنیٰ کمزوری بھی ایسے موقع پر ایک ظاہری کمزوری میں تبدیل ہوجایا کرتی ہے۔ پس وھن کا تعلق ان سب کمزوریوں سے ہے جو انسان کی ذات میں یا اس کے جسم میں یا اس کے تصورات میں یا اس کے عقاید میں داخل ہوں لیکن اس کے علم میں نہ بعض دفعہ علم میں بھی ہوسکتی ہیں مگربہت سی مخفی بھی رہتی ہیں۔
لما اصابھم : یعنی کمزوری ایسی کمزوری جو نفس کی اندرونی کمزوری ہے وہ اکثر تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انسان سے چھپی رہتی ہے لیکن جب مصائب کے وقت آتے ہیں جب آزمائش کا دور شروع ہوتا ہے۔ پھر یہ کمزوریاںاچھل اچھل کر باہر آنے لگتی ہیں۔ مثلاً جنگ احزاب سے پہلے جو لوگ مومن ہی سمجھے جاتے تھے لیکن اندر انکے ایمان کی کمزوری تھی۔ جب خطرے کے وقت آئے تو ان کی آنکھیں پھرنے لگیں۔ جیسے موت کی غشی طاری ہوگئی ہو۔ تو جب زلازل کا وقت آئے اس وقت پتہ چلتا ہے کہ کوئی عمارت مضبوطی سے زمین میں گڑی ہوئی ہے کہ نہیں۔ پس وھن کا تعلق ’’اصاب‘‘ کے ساتھ باندھ کر اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اندرونی کمزوریاں ہوتی ہیں۔ تمہیں کیا پتہ ! جب تک آزمائش میں پڑ کر تم یہ ثابت نہ کردو کہ تمہارے اندر تک مضبوطی ہے اور تمہارے ایمان میں کوئی مخفی کمزوری بھی نہیں ہے۔ اس وقت تک تمہارا صدق ثابت نہیں ہوسکتا۔ پھر فرمایا : وما ضعفوا : اور انہوں نے کوئی ضعف نہیں دکھایا۔ اس کے متعلق عموماًمیں نے پہلے تفصیل سے بیان کیا تھا۔ اب میں اشارۃً دوبارہ بیان کررہا ہوں پھر۔وما ضعفوا : جسمانی کمزوری کیلئے پر زیادہ تر استعمال ہوتا ہے۔ اور بشری کمزوریاں بھی اس میں داخل ہیں مثلاً بوڑھے آدمی کو ضعیف کہا جاتا ہے ۔ اور وہ ایسی کمزوری ہے جس میں اُس کا کوئی اختیار نہیں ہے بیچارا۔
تو پھر وماضعفوا میں بالارادہ کمزوری سے کیا مراد ہے؟
مراد یہاںیہ ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ کمزور تھے بھی۔ ظاہری طور پر ان میں بوڑھے کمزوربچے بھی تھے۔ لیکن دشمن کے مقابل پر انہوں نے ایسی ہمت سے کام لیا ہے کہ ان کی کمزوری کوئی ظاہر نہیںہوئی اور اگر تھی تو اپنی ذات پر لے لی ہے۔ لیکن غیر معمولی جوش کے ساتھ انہوں نے اپنی کمزوری پر غلبہ پالیا ہے۔ یہ مضمون ویسا ہی جیسے بعض دفعہ پاگل آدمی کو بعض دفعہ اپنی طاقت سے بہت زیادہ طاقت مل جاتی ہے۔ اور بعض کمزور بھی ہوں تو وہ لوگ جو پاگلوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ ایک معمولی طاقت کا پاگل بعض دفعہ بڑے بڑے طاقتوروں پر غالب آجاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض کمزوریاں انسان کے اندر مخفی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بعض طاقتیں بھی انسان کے اندر مخفی رکھی ہیں اور ان کا علم نہ ہونے کی وجہ سے انسان ان سے استفادہ نہیںکرتا۔ لیکن اگر اعتماد اور یقین ہو اور اس کا تعلق اعتماد اور یقین سے ہے عقل سے نہیں ہے۔ عقل اگر استعمال کرے گا تو پتہ لگے گا کہ میں تو کمزور ہوں میں تو اتنا بوجھ اٹھا ہی نہیں سکتا۔ جیسے روزوں میں لوگ بہانے بنا لیتے ہیں مگر اگر ایمان اور یقین ہو تو یہ ساری مخفی طاقتیں ابھر کر باہر آجاتی ہیں۔ تو وھن کے مقابل پر ضعف میں یہ ایک نمایاںمقابل کا مضمون پایا جاتا ہے۔
وما ضعفوا : اگرچہ وہ کمزور بھی تھے لیکن انہوں نے حیرت انگیز ہمت سے کام لیتے ہوئے ایک مجنونانہ طاقت حاصل کرلی اور کوئی کمزوری دشمن پر ظاہر نہیںہوئی۔ یہ مضمون گہرا نفسیاتی مضمون ہے اور اس کا ایمان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ اس کے بغیر انسان کی مخفی طاقتیں ابھرا نہیں کرتیں۔
وما استکانوا : اور دشمن کے سامنے ذلیل اور رسوا نہیں ہوگئے۔ گھٹنے نہیں ٹیک دیئے۔ سر نہیں جھکایا۔ اور ضعفوا سے اگلا قدم یہ ہے ۔ اگر کمزور آدمی اپنی انتہا تک اپنے طاقت کے خزائن کو استعمال کرلے اور کچھ باقی نہ رہے۔ توپھر بھی وہ سر نہیں جھکائے گا۔ یہ مومن کا آخری مقام اور مرتبہ ظاہر فرمایا گیا ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود کسی قیمت پر کسی حال میں انہوں نے دشمن کے سامنے سر نہیں جھکایا اور گرے نہیں اور عاجزی اختیار نہیں کی۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دوسری آیت جو اب ہمارے زیر غور ہے اس کے ساتھ اس کا تعلق اس طرح باندھا ہے کہ ہر دعا کے ساتھ پہلے لفظ کا تعلق جو وہاں ظاہر کیا گیا تھااور دوسری کے ساتھ دوسرے کا۔ اب اس پہلو سے دوبارہ ہم اس کو دیکھتے ہیں کہ کیا مضمون سامنے آتا ہے۔
قالو ا ربنا اغفرلنا ذنوبنا : اے اللہ ! ہمارے ذنوب ہمیں بخش دے۔ اب وہ کمزوریاں جو اندرونی ہیں اور ہمیں علم نہیں۔ اور مومن کی شانکے خلاف ہیں۔ جیسا کہ پہلے بزرگوں نے اور مومنوں نے ابتلاء کے موقع پر کوئی کمزوری ظاہر نہیں کی۔ اس لئے اگر ہمارے اندر کوئی کمزوری تھی اور ہمیں علم نہیں ہے تو ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اپنی ستاری فرما اور بخشش کا ستاری سے بہت گہرا تعلق ہے۔ بخشش کا مضمون محض کردہ گناہوں کو معاف کرنے سے تعلق نہیں رکھتا۔ بلکہ ستاری سے اس کا اول تعلق ہے۔ کیونکہ غَفَر کا مطلب ہوتا ہے ڈھانپ دینا۔ استغفر کا مطلب ہے اپنے آپ کو چھپانے کی دعا کرنا۔یا استدعا کرنا۔ کہ اے اللہ ! اگر کچھ ہے بھی تو ڈھانپ دے۔ جیسے ایک جانور مٹی میں گھس جاتا ہے اور چھپ جاتا ہے۔ یہ مضمون ہے مغفرت کا اور آدم کا پتے سے اپنے آپ کو ڈھانپنا بھی اسی مضمون سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت آدمؑ نے بخشش طلب کی تھی اور اللہ تعالیٰ سے وہ ستاری مانگی تھی جس کے بغیر اس کے عیوب چھپ نہیں سکتے تھے۔ پس یہاں اس مضمون کا تعلق یوں ہوگا۔
واغفرلنا ذنوبنا : ہمارے اندر اگر کوئی مخفی چھپی ہوئی اندرونی کمزوریاں ہیں جو ابتلا کے موقع پر ظاہر ہوجایا کرتی ہیں اور اب بڑی آزمائش کے دن ہیں۔ پس تیری مدد کے بغیر ہم پر پردہ نہیںپڑ سکتا۔ ہماری ستاری نہیں ہوسکتی۔ آج ہو سکتا ہے ہمارا ننگے ہونے کادن ہو۔ پس اے خدا ! ہماری کمزوریاں ڈھانپ لے۔ اور ہمیں دشمن کے سامنے ننگا نہ ہونے دے۔ دوسرا مضمون ہے ’’و اسرافنا فی امرنا ‘‘ اور ہم نے اپنے اوپر جو زیادتیاں کی ہیں۔ اگر کی ہیں تو وہ بھی ہمیں بخش دے اور معاف فرمادے۔ اپنے خلاف۔ اپنے مفاد کے خلاف انسان بعض دفعہ ایسی باتیں کرتا ہے مثلاً زندگی کی روزمرہ، روزمرہ کی طرز میں انسان اگرسستی اختیار کرتا چلا جاتا ہے۔ غفلت کرتا ہے۔ تو وہ طاقتیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو عطا ہوئی ہیں۔ وہ کمزور پڑتی چلی جاتی ہیں اور بہت سی بدنی کمزوریاں روزمرہ کی زندگی کے سہل دستور سے تعلق رکھتی ہیں۔ تن آسانیوںسے تعلق رکھتی ہیں۔ پس بہت سی ایسی طاقتیں خدا نے انسان کو عطا فرمائی ہیں۔ جو اس کے اندر موجود ہیں۔ جیسے کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے اول تو ان کاپورا استعمال ‘ پورے یقین اور خدا کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ دوسرے اپنی بعض کمزوریوں کی وجہ سے اپنے مفاد کے خلاف ہم نے جو سابق میںحرکتیں کی ہیں۔ گزشتہ زندگی میں۔ اس کا ہماری بدنی طاقتوں پر یا ہماری ذہنی طاقتوں پر جو بد اثر پڑا ہے۔ ہم اس کے خلاف تجھ سے مدد مانگ رہے ہیں۔ اور بخشش کی تمنا رکھتے ہیںالتجا کرتے ہیں۔
تیسرا مضمون ہے۔ ’’وثبت اقدامنا‘‘ اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش۔ اس کا ’’وما استکانوا ‘‘ سے تعلق ہے۔ ’’استکانوا‘‘ میں دشمن کے سامنے گر جانا ہے۔ اور ثبات قدم کا بعینہٖ اس کے برعکس معنیٰ ہے۔ کہ کسی قیمت پر بھی قدموںمیں لغزش نہ ائے۔ اور مرو تو سربلند مرو۔ لیکن جھک کر نہیں مرنا۔ ویسا ہی مضمون ہے جیسے سلطان ٹیپو کے متعلق آتا ہے کہ جب وہ آخر اکیلا انگریزوں کی فوج سے لڑنے کیلئے چل پڑا تو اس کے ساتھیوں نے اسکو سمجھایا۔ روکا۔ اس نے اس کے جواب میںکہا جو آج تک ہمیشہ سلطان ٹیپو پر اور ہندوستان کی تاریخ پر لکھنے والے بڑے نمایاں قلم سے لکھتے ہیں۔ جلی قلم سے کہ’’ شیر کی آدھے گھنٹے کی زندگی گیدڑ کی 100 سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ اس لئے میں اکیلا ہوں۔ مجھے پتہ ہے میں مارا جائوں گا۔ ان میں ضعف ہوچکا ہے۔ ہماری فوج ضعیف ہوگئی ہے لیکن ’’استکانت‘‘ نہیں دکھائونگا۔میں مرونگا تو سربلند مروں گا۔ چنانچہ اس چیز کو قرآن کریم نے ’’مااستکانوا‘‘ سے ظاہر فرمایا یہ جو انبیاء اور ان کے ساتھ بزرگ اور خدا والے لوگ لڑنے والے تھے انہوں نے کوئی کمزوری نہیں دکھائی۔دشمن کے مقابل پر جھکے نہیں اوران کی عزت نفس اسی طرح قائم رہی۔ اگر یہ ہوجائے تو ایسا شخص کبھی شکست نہیں کھایا کرتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی موت بھی فتح بن جاتی ہے۔ یہ و ہ لوگ ہیں جن کو بعد میں دشمنوں کے مورخین بھی سر سے ٹوپی اتار کے داد تحسین پیش کرتے ہیں کہ تھا تو دشمن مگر کمال کا ایک شخص تھا۔ اسی طرح وہ جرنیل جس نے سپین (Spain) میں آخری دم تک لڑ کر پھر سفید گھوڑے پر چھلانگ لگائی۔ دریا میں اور غرق ہوگیا۔ اس کے متعلق بھی دشمن سے دشمن مورخ اسطرح ذکر کرتا ہے کہ ہمیشہ اس کی عزت قائم و دائم اور زندہ رہے گی اور اس پر کوئی حرف نہیںآئے گا۔ تو اصل غلبہ یہ غلبہ ہے کہ جس حالت میں کوئی مرے اپنے سر کو بلند رکھتے ہوئے عزت کے ساتھ دشمن کے سامنے نہ جھکتے ہوئے اور اپنی عظمت کردار کو قائم رکھتے ہوئے مرے۔ یہ ثبات قدم ہے۔ ثبات قدم کا یہ مطلب نہیں کہ انسان مار ہی نہ کھائے۔ ثبات قدم دکھانے والے کئی دفعہ میدان جنگ میں بہت بری طرح ذلیل ورسوا تو نہیں مگر ناکام اس طرح کردیئے جاتے ہیں کہ ان کو صفحہء ہستی سے مٹادیا جاتا ہے۔ وہ قدموں پر قائم رہتے ہوئے مرتے ہیں۔ گھٹنوںکے بل نہیں مرتے۔ یہ مضمون ہے استکانوا کا۔
تو فرمایا ہے کہ ہمیں ثبات قدم عطا فرما ! ہمیں ظاہری طور پر بھی مضبوط قدم رکھ اور ہمارے نفس کے لحاظ سے، عزت نفس کے لحاظ سے بھی ہمارا سربلند رکھنا۔ یہ چیزیں جب کسی چیز، کسی قوم میں آجائیں تو نصرت اس کا طبعی نتیجہ بن جاتی ہے۔ وانصرنا علی القوم الکفرین اور ہمیں کافروں پر نصرت عطا فرما۔ تو یہ ایک طبعی نتیجہ ہے اور یہ دعا ان ساری باتوں کے بعد اگر قبول ہوجائے پہلی باتوں میں یہ دعا قبول ہو جائے تو پھر نصرت کا مانگنا گویا کہ ایک منطقی نتیجہ ہے۔ پھر تو نصرت آنی ہی آنی ہے اور غلبہ جب اللہ کی طرف سے آئے یعنی نصرت جب اللہ کی طرف سے آئے تو اسی کو غلبہ کہا جاتا ہے۔ پس میں نے جب اس کا ترجمہ کیا کہ ’’غیروںپر ہمیں غلبہ عطا فرما‘‘ تو ظاہراً تو نصرت سے مراد غلبہ نہیں ہے۔ ایک کمزور کی نصرت حاصل بھی ہوجائے تو غلبہ نہیں ہواکرتا۔ لیکن جب اللہ سے نصرت آتی ہے تووہ لازماً غلبے میں تبدیل ہوتی ہے۔یہ جو آثار تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کے چہروں پر یہی آثار دیکھ کر جنگ بدر میں اس شخص نے جو جائزہ لینے کیلئے آیا تھا واپس جاکر جب بیان کیا کہ کتنا لشکر تھا کس قسم کے لوگ تھے۔ وہ ایک ہزار سوار جوان جو ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس تھے وہ بڑی دلچسپی سے یہ سن رہے تھے اور بڑی تحقیر سے دشمن کو دیکھ رہے تھے کہ ان کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ آناً فاناً ہم ان کو نیست و نابود کردیں گے۔ جب ساری باتیں وہ ختم کرچکا کہ ان میں اتنی کمزوری ہے۔ اس قسم کے لوگ ہیں اور ظاہری طور پر کچھ بھی حیثیت نہیں۔ بعضوںکے پاس ہتھیار بھی نہیں ہیں تو پھر اس نے آخر پر کہا ’’لیکن ایک بات میں تمہیںبتادیتا ہوں کہ جیتیں گے وہ اور ہارو گے تم !‘‘ وہ حیران رہ گئے۔ یہ کیا مطلب ہے۔ تم نقشے کھینچ رہے ہو حد سے زیادہ کمزوری کے: اور نتیجہ ایسا بے معنی اور لغو نکال رہے ہو۔ اس نے کہا تم سمجھتے نہیں۔ میں 313 زندہ آدمی نہیں دیکھ کے آیا۔ میں 313 موتیںدیکھ کے آیا ہوں ۔ ان میں سے ہر ایک اس عزم کے ساتھ آیا ہے کہ جو کچھ گزر جائے ہم دشمن کے سامنے جھکیں گے نہیں اور کوئی ہتھیار نہیں ڈالے گا۔ تو اسکے جواب میں اس نے کہا کہ دیکھو ! زندوں کو لوگ مارا کرتے ہیں۔ موتوں کو نہیں مارا کرتے ۔ پس میرا نتیجہ عقلی اور طبعی ہے کہ تمہیں آج ان پر غلبہ نہیں نصیب ہوسکتا۔
اور یہی ہوا۔ پس یہ وہ مضمون ہے اور اس مضمون کا دعا کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ جتنی انسان میں دشمن کے مقابل پر کمزوری ہو۔ ظاہری طور پر۔ اتنا ہی دعا کے ذریعے ساتھ ان تینوں کمزوریوں کے خلاف اللہ تعالیٰ سے مددمانگنی چاہئے۔ اورپھر نصرت غیب سے آتی ہے۔ اس کے جواب میں آگے جو آیت ہے وہ ذکر کرنے سے پہلے ’’قدم‘‘ کے لفظ پرکچھ اور ایک دو پہلو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
وثبت اقدامنا : کی دعا میں ایک مضمون یہ بھی ہے کہ قدم صدق انسان کو نصیب ہونا چاہئے۔ وہی لوگ یہ دعا کرنے کے مجاز ہیں جن کا قدم سچائی پہ پڑتا ہو۔ اور سچائی پر قدم پڑے بغیر انسان نہ یہ دعا دل سے مانگ سکتا ہے۔ نہ اسکی یہ دعا قبول ہوسکتی ہے۔ پس وہ جو قدم صدق کا مضمون عربی میں اس تعلق میں بیان کیا جاتا ہے۔ وہ بعینہ حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلاموں پر صادق آتا تھا۔ یہاں قدم قوم کے سردار کو بھی کہتے ہیں لیکن میں ایک اور معنیٰ بھی اس میں پاتا ہوں۔ جو میں آپ کے سامنے آج رکھنا چاہتا ہوں۔ سردار تو کہتے ہیں سر والے کو اور سید کہتے ہیں اس کو جو سب بلند اور اونچا ہو۔ تو قدم کے اصل معنے کیا بنیں گے پھر۔ قدم اور سر ایک چیز کے نام تو نہیںہیں۔ دراصل قدم سے مراد قوم کا نچلا حصہ ہے۔ اور قوم کا نچلا حصہ جسے لوگ معمولی سمجھتے ہیں یعنی عوام الناس ۔ اگر اُن میں سچائی آجائے۔ اگر وہ ثبات اختیار کرجائیں تو پھر ایسی قوم کو دنیا میں کوئی طاقت مغلوب نہیںکرسکتی۔ پس میں اس سے یہ سبق سمجھا ہوںکہ اپنے عوام کی طرف توجہ کرو۔ اگر تم میںسے کچھ سردار نیک بھی ہوں بزرگ بھی ہوں۔ اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل بھی ہوں تو تب بھی تم اس بات پر راضی نہیں ہوسکتے اور تمہاری فتح کی کوئی ضمانت نہیں جب تک کہ تمہارے ’’عامۃ الناس‘‘ کا معیار بلند نہ ہو اور وہ صدق نہ بن جائیں۔ ان کے سچے ہوئے بغیر تمہیں قدم صدق نصیب ہو ہی نہیں سکتا۔ پس اسی مضمون کو قران کریم نے امامت کی دعا کے ساتھ باندھتے ہوئے یوںفرمایا ہے کہ
’’و اجعلنا للمتقین اماما ‘‘
اے خدا ! امامت جب تک متقیوںکی نہ ہو بے معنی اور بے حقیقت ہے۔ پس ہمیں امامت کا کوئی شوق نہیں: متقیوں کی امامت ہو تو پھر ہم اس لائق ٹھہریں گے کہ ہم تجھ سے بھلائی کی توقع رکھیں اور عظمتیں ہمیں نصیب ہوں اور رفعتیںعطا ہوں۔ یہ سب کچھ امامت کی باتیں ہیں۔مگربشرطیکہ وہ لوگ جو امام کے پیچھے چلنے والے ہیں وہ متقی ہوں۔ پس قدم کا تعلق اس سے ہے اور قدم سے سر کو عزت ملتی ہے۔ یہ مضمون ہے۔ اگر عوام متقی ہیں تو امام کے تقویٰ کو تقویت ملے گی۔ اور وہ سربلند ہوگا۔ اور امام کی رفعتیں۔ عوام کی رفعتوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ الٹ بھی کہا جاسکتا ہے۔ بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ امام کی سربلندی سے عوام کو رفعت ملتی ہے لیکن یہ دونوں ایسے مضمون ہیں جن کو ہم لازم ملزوم کہہ سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جو عظمت ملی اس عظمت سے آپ کے غلاموں نے حصہ پایا۔ اور جب غلاموں نے حصہ پایا تو آپ کا قدم ’’قدم صدق‘‘ کہلایا۔ ایسا پائوں جو سچائی کا پائوں تھا۔ اور اس کے نتیجے میں پھر اسلام کیلئے کوئی لغزش کا سوال نہیں تھا۔ پس دونوں طرف یہ مضمون چلتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو ایسے بیان فرمایا ہے کہ
ہم ہوئے خیرِ ُامم تجھ سے ہی اے خیر رُسل
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
یہ وہی قدم ہے جو امت کا قدم ہے۔ لیکن امت کا قدم آگے بڑھا تو شان ِ مصطفویؐ زیادہ شوکت کے ساتھ اُبھری ہے۔ اور سب دنیا کے سامنے وہ نمایاں ہوئی ہے۔ پس اس قوم کے سردار کو عزت نہیں ملا کرتی۔ جو قوم سردار کو چھوڑ دے اور پیچھے رہ جائے۔ پس یہ مضمون لازم و ملزوم ہے۔
اب حضرت موسٰیؑ کو دیکھیں۔حضرت موسیٰ کی قوم نے جب ان سے یہ کہا
’’اذھب انت و ربک فقاتلا وانا ھھنا قاعدون ‘‘
جا تو اور تیرا رب لڑتے پھرو۔ ہم تو یہیںبیٹھ رہیں گے۔
تو حضرت موسیٰؑ کو کون سی سروری نصیب ہوگئی۔ کونسی عزت عطا ہوئی۔ وہ تو 40 سال بعد میں بھی ان کیساتھ بھٹکتے رہے۔ پس اس مضمون کو جماعت احمدیہ کو خوب ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ یہاں ثبات قدم سے اول مراد میرے نزدیک کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہیں ہورہی وہ تو ثبات قدم کا ایک مجسمہ تھے یہاں ا ن اصحابہ کی بات زیادہ ہورہی ہے جن میں سے بعض نے کمزوری دکھائی تھی۔ اور وہ مضمون چل رہا ہے۔ تو اس لئے اگرآپ کمزوری، عوام الناس کمزوری دکھائیں گے تو امام کا اس دکھ میں شامل ہونا ضرور ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے متعلق جو حسن ظن ظاہر فرمایا ہے وہ ان الفاظ میں ہے کہ:-
’’میں ساری دنیا کو اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں۔‘‘
اپنی سچائی کے قدم کے نیچے تمام دنیا کو دیکھتا ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا پر جو غلبہ ہے وہ سچائی کا غلبہ ہوگا۔ اور وہ محض ظاہری غلبہ نہیں ہوگا۔ ورنہ ظاہری غلبے کی کوئی بھی حقیقت نہیں۔ اور یہ غلبہ تب نصیب ہوگا اگر ساری جماعت کا قدم صدق پر ہو۔ اور عامۃ الناس کا معیار تقویٰ کا بلند ہو۔
پھر آپ دیکھیں کہ کس قدر تیزی سے اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو فتوحات عطا فرماتا ہے۔ تفسیر رازی میں یہی مضمون اپنے رنگ میں یوں بیان ہوا ہے کہ اس آیت کا موقع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دشمن کے مقابل پر تو مومنوں کو غلبے کے وعدے دیتا ہے اس لئے ظاہری طور پر جو جنگ اُحد میںایک شکست کی صورت پیدا ہوئی وہ چونکہ غلطی کے نتیجے میںہوسکتی ہے اللہ کی طرف سے نہیں ہوسکتی۔ اس لئے خصوصیت سے اس طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
علامہ محمد بن یوسف الحیان نے بھی تفسیر بحر المحیط میں بھی پہلی آیت کے ساتھ ان تین دعائوں کا تعلق باندھا ہے جیسا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے نوٹس میں لکھا ہوا ہے یہاں وہیری کا ایک حوالہ قابل ذکر ہے۔ وہ اسی آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔
Victory over the infidels. The marked difference between the teaching of the Quran and the Bible as to the condition of the people of the Lord in this world is worthy of note. The Quran evereywhere teaches that though they had trials similar to those endured by Muhammad and the Muslims of Makkah and Madina, yet in the end they were manifestly triumphant over the infields in this world. The Christain need not be told that this is very far from the teadhing of the Bible. Final time is certain, but is may be wrought out on the cross or admidst the laggots and instruments of persecution and death.
یہ جو ان کا تبصرہ ہے یہ بتارہا ہے کہ اس آیت کی سّچائی پر کیسے کیسے بَل کھاتا رہا ہے دشمن ؛ اور کیسا کیسا اندر کھولتا رہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ جو فتح کے وعدے تھے یہ کیوں پورے ہوئے اور کیوںہر دفعہ اور بالآخر لا زمًا اُنہیںفتح نصیب ہوئی اگر ہر دفعہ ان معنوں میں نہیں کہ وقتی طور پر کوئی کمزوری ظاہر ہو گئی جیسا کہ بات ہو رہی ہے اس کا دل گواہی دیتا تھا کہ یہ بات سّچی ہے کہ آخری فتح مومنوں ہی کی ہوئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماننے والوںکی ہوئی ہے اس کے اس complex احساس کمتری میںمبتلاہو کر وہ عیسائیوںکو تسلّی دلا رہا ہے کہتا ہے دیکھو ہمارے اور ان کے تصوّرات میں فرق ہے جو ہمارا تصوّر ہے وہ بہت بلند تر ہے اور ان کا ادنی تصوّر ہے ۔یہ سمجھتے ہیں کہ دشمن کے مقابل پر آخری فتح نصیب ہو جائے تویہی اللہ کی رحمت کی نشانی ہے ۔ یہی عظمت ہے اور بائبل جس فتح کو پیش کرتی ہے وہ سولی پر چڑھ جانے کی فتح ہے اور مختلف قسم کی اذیتوں میں مبتلا ہونے کی فتح ہے۔جیسا کہ عیسائیوں کو مختلف اذیتیں پہنچائی گئیں اگر باقی باتوںکو چھوڑئیے تو صاف ظاہر ہے کہ اسلام کے فلسفے کے مقابل پر اس کو کوئی نہیں رکھ سکتا اگر ادنیٰ سا بھی اُس میں شعور ہو تقویٰ ہو تو ایسی بیہودہ بات نہیں کرسکتا۔ کیونکہ قرآن کریم تو شہادت کو ایک عظیم فتح کے طورپر پیش کرتا ہے اور محض ظاہری فتح پر مومنوں کے غلبے کی بناء نہیں رکھتا بلکہ ایسے شہید تھے جو جب شہید ہوتے تھے تو کہتے تھے فزت برب الکعبۃ یا فزتُکہ میں خدا کی قسم کامیاب ہوگیا ،رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ تمام شہداء کا تذکرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قرآن کی تعلیم کی روشنی میں ایک عظیم کامیابی کے طورپر ہوا ہے۔ پس یہ بات ہی جھوٹی ہے کہ گویا اسلام اس قربانی کو جو عیسائیت بھی پیش کرتی ہے قبول نہیں کرتا اور اسے رد کردیتا ہے اور محض ظاہری فتح کو قبول کرتا ہے۔ اسلام یہ پیش کرتا ہے کہ جہاں تک انفرادی معاملے کا تعلق ہے ہر وہ شخص جو اس عظیم جہاد میں مارا جاتا ہے فتح سے پہلے وہ بھی فتح مند ہے لیکن اس کا انجام بد نہیں۔ بحیثیت قوم یہ ہو نہیں سکتاکہ کوئی خدا کی خاطر کوئی یہ قربانیاںدکھائے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے آخری فتح نصیب نہ کرے۔ یہ مضمون ہے جسے وہ سمجھتا نہیں ہے۔ یا جان کے اس سے آنکھیں بند کرتا ہے یا اس عذاب میں مبتلا ہوکر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہ وعدے سب سچے نکلے تو ہم عیسائیوں کوکیا منہ دکھلائیں کیا کہیں کہ ہمارا انجام کیا ہوا سولی پہ چڑھ جانا تو کہتے ہیں کہ دراصل سولی پر چڑھنا ہی فتح تھی اور یہ عیسائی نظریہ ہے جو قرآن کے مقابل ہے۔اگر یہ فتح تھی تو حضرت مسیحؑ کی یہ دعا کیا تھی کہ ’’ایلی ایلی لماشبقتانی‘‘ اے خدا مجھے کیوں فتح دے رہا ہے۔ اٹھالے اس فتح کو مجھ سے اور وہ دعا کیا تھی کہ یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے مجھ سے ٹال دے یعنی خدا فتح کی طرف لے جارہا تھا اور بتا رہا تھا کہ ہمارے نزدیک یہ فتح ہے اورحضرت مسیح کہتے تھے کہ خدا اب تو تیری خاطر میں عرض کرتا ہوں ۔ اے باپ آسمانی باپ مجھے فتح نہیں چاہئے۔مجھے شکست دے دے اور فتح کو ٹال دے۔ یہ ایسے جاہل لوگ ہیں نہ ان کو قرآن کا پتا نہ اپنی کتاب کاپتا نہ اپنے امام کا پتا کہ وہ کیا تھا اورکیا چاہتا تھا لیکن غیظ و غضب میں گھلتے کھولتے ہوئے جہاں موقع ملے اسلام پر اعتراض ضرور کرتے ہیں۔ اس درس کے دوران یعنی ان درسوں کے دوران میں انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو عیسائی محققین یا so called محققین، نام نہاد محققین ان کے متعلق میں آپ کو تفصیل سے بتائونگا کہ یہ کیسے شروع ہوئے کون لوگ تھے۔ کس علم کے ساتھ اس میدان میں کُودے ہیں کیا ارادے تھے کس طرح ان کی Cliques بنی ہوئی ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کو ناحق تقویت دیتے ہیں اور عربی معنوں کو یا سمجھتے نہیں یا عمداً بگاڑتے ہیں اور مسلمانوں کو اپنے دین سے منحرف کرنے کیلئے یہ ساری یونیورسٹیاں قائم ہیں جن میں مسلمانوں کویہ عیسائی لوگ اسلام سکھاتے ہیں۔ اور مسلمان سادہ لوح بیچارے وہ ان سے اسلام سیکھنے کیلئے ہزار ہا پائونڈ ہر سال خرچ کرکے اور ان پر قربان کرکے اپنا دین ان پر نچھاور کررہے ہوتے ہیں۔ یہ بہت دلچسپ لمبی کہانی ہے اس سے پردہ اٹھنا چاہئے اور میں نے پچھلی مرتبہ منٹگمری واٹ کے متعلق بتایا تھا کہ ان کا علمی آغاز کیسے شروع ہوا آخر ایک مُلاں ہی تھے وہ۔ ایک پادری تھے اورباقاعدہ اسلام کے خلاف ڈسنے کی تربیت حاصل کی ہے اور لمبے عرصے تک اُن یہود علماء میں بھی جاتے رہے ہیں جن کا بظاہر عیسائیت کے ساتھ ایک مقابلے کا تعلق ہے معاندانہ تعلق ہونا چاہئے۔ دوستی کا تعلق تو نہیں تھا لیکن اسلام کے خلاف بغض سیکھنے کیلئے یا مزید حربے حاصل کرنے کیلئے ایک لمبا عرصہ یروشلم میں بھی جاکر رہے۔ مگر یہ باتیں میں پچھلے درس میں بیان کرچکا ہوں۔ آئندہ آپ کو وہیری صاحب کے متعلق بھی بتائونگا۔ سیل صاحب کے متعلق بھی بتائوں گا۔ ان کی حقیقت کیا ہے؟ اور موجودہ دور کے جو علماء ہیں ان کا طرز عمل۔ اور S.O.S میں کیا ہورہا ہے کیا تعلیم دی جاتی ہے۔ بے چارے مسلمانوں کو۔ ان باتوں پر خود ان کی بیان کردہ تاریخ کے حوالے سے میںمزید وضاحت سے روشنی ڈالوں گا۔ تو سردست میں اس کو چھوڑتا ہوں کیونکہ ابھی کچھ مضمون کے پہلو تشنہء تکمیل ہیں۔
BELL ہے۔ بیل کے متعلق میں نے کچھ حوالے اکٹھے کرلئے ہیں۔ یہ منٹگمری واٹ کے استاد ہیں اور زہر فشانی میں اور جہالت میں ان کا کوئی ثانی مستشرقین میں دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن جب میں بعدمیں حوالے پیش کرکے یہ ثابت کرونگا کہ یہ بات جو میں دعویٰ کررہا ہوں یہ درست ہے۔ اس وقت یہ سجے گی۔ اس لئے سردست میں اس کو چھوڑتا ہوں۔
فاتھم اللّہ ثواب الدنیا و حسن ثواب الآخرۃ واللّہ یحب المحسنین O
تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جن کی دعا کا ذکر ابھی گزرا ہے۔ ثواب الدنیا دیا۔ وحسن ثواب الاخرۃ ‘‘ اور آخرت کا بہترین ثواب عطا کیا۔ واللّہ یحب المحسنین اور اللہ تعالیٰ محسنوں سے محبت کیا کرتا ہے۔ محبت کرنے والا ہے۔ یا محبت رکھتا ہے جس طرح بھی چاہیں ترجمہ کرلیں۔
آل عمران آیت 149
لفظ احسن کا مطلب ہے کسی چیز کو اچھا کیا۔ یا کسی چیز سے بھلائی کی۔ دونوں مضمون بنیادی ہیں اور اس سے اسم فاعل بنا ہے۔المحسن : یعنی کسی سے بھلائی کرنے والا یا کسی کو اچھا بنانے والا احسن الیہ و بہٖ کے معنی ہیں عمل حسنا و اتاہ الحسنۃکسی کے ساتھ اچھا سلوک کیا۔ نیز اتیٰ بالحسن یعنی نیکی کے ساتھ اس سے معاملہ کیا۔
امام راغب فرماتے ہیںکہ احسان کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے (جیسا کہ میں نے ابھی ظاہر کیا ہے خود بھی) اول یہ کہ دوسروں پر انعام کرنا۔ کسی قسم کے احسانات کرنا۔ اسی سے لفظ احسان ہماری اردو میں بھی رائج ہے اور دوسرا یہ کہ اپنے کاموں میں حسن پیدا کرنا اور یہ حسن حسن علم اور حسن عمل دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ پس محسنین کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک غیروں کا تعلق ہے وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں۔ اور ان پر انعام کرتے ہیں۔ ان سے نرمی کا برتائو کرتے ہیں۔ جہاں تک اپنی ذات کا تعلق ہے وہ اپنے اعمال سنوارتے ہیں اور یہ نرمی کا برعکس مضمون ہے۔ پس جیسے ظلم میںایک حسن کا پہلو تھا جیسے کہ میں نے کل بیان کیا یہاں اس حسن میں ایک ظلم کاپہلو بھی ہے۔ کوئی شخص جو اپنی ذات پر رحم کرنے والا ہو۔ اوراپنی کمزوریوں سے پردہ پوشی کرنے والا ہو۔ وہ اپنے اعمال سنوار نہیںسکتا۔ وہ تو دن بدن بگڑتا ہی چلا جائیگا۔ پہلی جرائت یہ چاہئے کہ انسان اپنی کمزوریوں کو دیکھے اور شناخت کرے۔ اور پہلا ظلم نفس پر وہ ہوتا ہے۔ جب انسان کہتا ہے ’’ہاں میں بُرا ہوں‘‘۔ اور پھر اس ظلم کے بعد ایک ظلموں کا سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ اس غرض سے پہچاننا ہے کہ ڈھٹائی نہ آئے۔ اس غرض سے کمزوری کو پہچاننا ہے کہ اس کو دور کرنا ہے۔ تو سب دنیا جانتی ہے کہ ایک کمزوری کو دور کرنے کیلئے کتنی محنت درکار ہوتی ہے۔ بعض دفعہ کمزوری انسانی ذات کے ساتھ پیوستہ ہوکر اس کا حصہ بن چکی ہوتی ہے اور اسے اکھیڑ کر باہر نکالنا بڑا ظلم چاہتا ہے۔ پس یہاں حسن ظلم کے معنوں میں ہے اگر اپنی ذات کے ساتھ تعلق رکھتا ہو۔ تو اپنی کمزوریوں کو پہنچانتے چلے جاتے ہیں۔ان کا کھوج لگاتے ہیں اور پھر انہیں اکھیڑ پھینکتے ہیں۔ اور کوئی کمزوری قرآنی فلسفے کے مطابق اکھیڑی نہیں جاسکتی۔ جب تک اس سے بہتر چیز اس جگہ لگانے کیلئے موجود نہ ہو۔ چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے۔
’’ ادفع بالتی ھی احسن السیّۃ ‘‘
یہ وہی مضمون ہے کہ اپنی ذات میں وہ محسن کیسے بنتے ہیں۔ خوبصورت چیزیں ہی ایسی چیزیں ہیں جو بدیوں کو اکھیڑنے میں مدد ہوسکتیںہیں اور حسن وہ ہے جس کی طرف طبیعت از خود مائل ہوتی ہے۔
پس فرمایا کہ تم اپنی ذات کو حسین بنا ہی نہیں سکتے۔ جب تک کہ پہلے بدیوں کو اکھیڑنے کیلئے کسی حسن کے گرویدہ نہ ہو۔ کسی حسن پر تمہارا دل مائل ہوگا تو پھر تمہیں اپنی بدی نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے گی۔ ورنہ دکھائی بھی نہیں دیتی۔ پھر تم اس حسن کی مدد سے اپنی بدی کو اکھاڑ کر پھینک دو گے۔ اور اسکی جگہ خوبصورت چیز لگا دوگے۔ اگر غریب کے گھر ٹاٹ بچھا ہو اور قالین میسر نہ ہو تو وہ پاگل ہوا ہے کہ ٹاٹ کو اٹھا کر باھر پھینک دے۔ اس کو خیال بھی نہیں آئے گا۔ کوئی کہے کہ میاں گندا ٹاٹ ہے پھینکو۔ وہ کہے گا جائو اپنے گھر جائو ! ہمیں یہی بہت ہے۔ لیکن اگر قالین مل جائے خوبصورت سا تو پھر اس کا سر تو نہیں پھرا ہوا کہ اس ٹاٹ کو گھر میں رکھے۔ پس قرآن کریم نے یہ گہرا نکتہ بیان فرمایا ہے بدیوںکو دور کرنے کا کہ پہلے ایک حسن پر نظر رکھو۔ وہ اگر تمہارے قلب کو واقعتہً گرویدہ کرلے۔ تمہیں سچا عاشق بنالے۔ پھر بدیاں دور کرنا معمولی بات ہوجائیگی۔ پس احسن کا مضمون یہاں یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے اس کے حسن کو مستعار لیتے ہیں۔ اس کی خوبیوں پر نظر رکھتے ہیں اور اس کے عاشق ہوتے چلے جاتے ہیں اور ایک ایک خوبی کے مقابل پر جب ایک بدی اپنے اندر پاتے ہیں تو چونکہ وہ خوبی اوروہ بد ی بیک وقت انسانی ذات میں اکھٹے نہیں ہو سکتے اس لئے اس بدی کو اس حسن کی طاقت سے دھکیل کر باہر پھینک دیتے ہیں اور جو لوگ یہ کرتے ہیں وہ محسن ہیں۔
’’واللّہ یحب المحسنین ‘‘ : وہ لوگ خواہ کسی بھی منزل تک پہنچے ہوں ضروری نہیں ہے کہ وہ آخری منزل تک پہنچ ہوں کیونکہ اس سفر کی آخری منزل ہے ہی کوئی نہیں۔ احسان کا مضمون تو جاری و ساری مضمون ہے۔
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں
والی بات ہے۔ اور وہ جو میں نے پہلے ایک دفعہ اس مضمون میں بیان کیا تھا کہ
’’اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں ‘‘
تو جہاں اللہ کے حسن سے مستعار لینا ہو۔ اس کی نقل اتارنی ہو۔ وہاں آخری منزل ہے ہی کوئی نہیں۔ تو جو لوگ بھی مریں گے وہ اپنی منزل سے پہلے مر جائیںگے۔ وہ اس مضمون میں کمال حاصل نہیں کرسکتے۔ تو محسنین سے مراد یہ نہیں ہے کہ جنہوں نے حسن تام حاصل کرلیا ہو۔ محسنین سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو حسین تر بنانے کی جدوجہد میں زندگی گزار رہے ہوں۔ پس جس لمحہ بھی ان پر موت آئے گی خدا کے نزدیک وہ محسن کہلائیں گے۔ اب دیکھئے اس آیت کا کتنا گہرا تعلق گزشتہ آیت سے ہے۔ اور ان الزامات کو کیسے رد کرتی ہے جو جنگ احد میں مومنوںپرکئے گئے تھے۔ بعض …سے کمزوریاں سرزد ہوئیں۔ لیکن ان کے دل کی کیفیتیں وہی تھیں جو اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرما رہا ہے۔
پس ان دعائوں کے ساتھ انہوں نے ان کمزوریوں کو دور فرمایا اور بعض قلبی کیفیات ایسی ہونگی جن کا بیان ہمیں نظر نہیں آتا۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو معاف فرمادیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ بغیر کسی قلبی درد کے یونہی تو معاف نہیں فرماتا۔ مضطر کی دعا قبول کرتا ہے اور مضطر وہ ہوتا ہے جو مجبور اور بے اختیار ہو۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ وہ قدم جن کے لئے اکھڑے ہیں ایسی حالت میں اکھڑے ہیںکہ وہ بے اختیار اور مجبور تھے۔ اور دعائیں کرتے تھے۔ خدا سے کہ انہیں طاقت نصیب ہو۔ ان کی یہ کمزوریاں دور ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ ان اعتراف جرم کرنے والوں کو جنکا بظاہر یہی نظر آتا ہے ہم نے یہ کیا اپنے اوپر ہم نے یہ ظلم کیا۔ ہم نے یہ ظلم کیا ۔ ہمیں تومعاف فرمادے۔ بغیرجرم کے تو معافی نہیں فرمایا کرتا کوئی۔ جنہوں نے ظلم نہیں کیا تھا وہ بھی معافیاں مانگ رہے تھے۔ یہ وہ دعا ہے جو انبیاء کی اور انکے ساتھیوں کی مشترکہ دعا ہے۔ ہمیشہ سے یہی ان کا اسلوب رہا ہے۔ ہمیشہ ایسی دعائیں کرتے آئے ہیں تو اس دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ انہیں محسن قرار دیتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جو اپنے آپ کو بدترین کہہ رہے ہیں۔ ان کو اللہ محسن کہہ رہا ہے۔ تومحسن بننے کا راز سکھادیا گیا۔ محسن وہ نہیں ہوا کرتا جو اپنے آپکو خوبصورت بناکر دکھائے۔ محسن وہ ہوا کرتا ہے جو اپنی کمزوریوں پر نظر رکھے اور احتیاطاً اپنی بعض کیفیتوں کو کمزوریاں ہی سمجھے۔ بعض دفعہ احتیاطاً کہا جاتا ہے بعض دفعہ اس لئے کہ درحقیقت وہ اندرونی کیفیات جن کو آج ہم کمزوری نہیں سمجھ رہے کل ایسی کیفیت میں داخل ہوسکتے ہیں کہ انہیں کمزوریاں سمجھنے لگیں۔ کیونکہ آج کے ماحول میں اور آج کے شعور میں بعض باتیں ہمیں کمزوریاں دکھائی نہیں دیتیں۔
مثلاً گندے ماحول میںپلنے والے لوگ ہیں گندے معاشروں میںپلنے والے لوگ ہیں۔ انکو جب ماں باپ سمجھاتے ہیں تو وہ پلٹ کے کہتے ہیں کہ کیا بات کررہے ہو یہ تو کوئی کمزوری نہیں۔ ٹھیک ٹھاک ہے۔ بالکل اچھی بات ہے۔ توان کو حسن نہیں عطا ہوسکتا۔ وہ محسن بن ہی نہیں سکتے۔ پس کمزوریوں کی پہچان ان کو بعد میں ہو بھی جاتی ہے۔ ایسے لوگ ہیں جو پھر میں عملاً جانتا ہوں کہ ان سے کمزوریاں سرزد ہوئیں اور بعد میں بڑی گریہ و زاری سے خط لکھتے ہیں کہ ہمیں نظر نہیں آیا ۔ ہم اندھے ہوگئے ۔ ہم سے یہ غلطی ہوگئی۔ ہمیں معاف کیا جائے۔ جماعت میں پھر داخل کیا جائے۔ اور اس قسم کے مضمون۔ تو یہ کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں۔ پس ہر انسان کا کمزوری کا احساس اس کے شعور کی لطافت سے تعلق رکھتا ہے۔ جوں جوں معیار بلند ہوگا جوں جوں شعور لطیف ہوگا۔ جوںجوں ذوق لطیف ہوگا۔ وہ چیزیں جو پہلے حسن دکھائی دیتی تھیں وہ بدیاں دکھائی دینے لگیں گی۔ پس اس لحاظ سے یہ آیت ہمارے لئے بہت ہی اہمیت رکھتی ہے کہ ان لوگوں میں جو دعائیں کرتے تھے ایسے بھی شامل تھے۔ جن سے کوئی غلطیاں سرزد نہیں ہوئی تھیں۔ اور کسی جاہل کا یہ کہنا کہ یہ اعتراف ہے اس بات کا کہ سارے انبیاء گنہ گار تھے یہ بالکل ایک جہالت کی بات ہے۔اس میں محض ایک ظالم کی بڑ ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اتنے لطیف اور اعلیٰ مضامین اس آیت میں بیان ہوئے ہیں۔ اگر کسی کو دکھائی دیتا تو عاشق ہوجاتا۔
اندھے نے کیا عشق کرنا ہے۔ اندھا تو اپنے تعصب سے سنی سنائی بات کو مانتا ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو سنی سنائی نفرتوں کو اپنے دلوں میںپال رہے ہیں۔ پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ مسلسل ایک ایسی جدوجہدمیں مشغول ہیں کہ کمزوریاں ان کو ایک کے بعد دوسری دکھائی دیتی چلی جارہی ہیں اور وہ محسن ہونے سے ہٹتے ہی نہیں کبھی۔ یعنی جاری و ساری مضمون ہے۔ جو انکی زندگی پر اطلاق پا رہا ہے۔ ایک کمزوری کو دور کرتے ہیں دوسری سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ دوسری کو دور کرتے ہیں تیسری سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔ جسے اچھا کرکے ایک طرف رکھ دیا تھا۔ کچھ دیر کے بعد دیکھتے ہیں اوہو ! یہ تو کمزوری ہے۔ جیسے بعض لوگ داغ دور کرتے ہیں کپڑوں سے تو جس جگہ سے داغ دور کرتے ہیں وہ صاف ہو جاتی ہے باقی جگہ ساری داغدار دکھائی دینے لگتی ہے اس کو صاف کریں تو کہیں کوئی اور داغ دکھائی دینے لگتا ہے۔ تو محسن کا مضمون ساری زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس کے لئے شعورکی لطافت لازم ہے۔
’’ثواب الدنیا ‘‘ کیلئے حسن کا لفظ استعمال نہیں فرمایا۔ ثواب الآخرۃ کیلئے ’’حسن ثواب الآخرۃ‘‘ فرمایا ہے۔اس میںمتفرق مفسرین نے مختلف وضاحتیں کی ہیں۔قاضی مثلاً لکھتے ہیںیہ
علامہ رازی کی تفسیر میں سے ہی لیا گیا ہے حوالہ کہ اس سے مراد یہ ہے کہ شاید محسنین یا ’’حسن ثواب‘‘ جو ہے اس کا تعلق شہداء سے ہو اور یہ آیت عام نہ ہو۔ ثواب الدنیا کا تعلق عام سے ہو اور دوسرا شہداء سے ہو یہ مضمون قابل قبول نہیں ہے بلکہ یقیناً رد کرنے کے لائق ہے۔ وجہ یہ ہے جو دوسرے تھے شہیدنہیں ہوئے اور غازی بنے۔ ان کا کیا قصور تھا کہ ان کو صرف دنیا کا ثواب دیا جائے اور حسن ثواب الآخرۃ سے وہ محروم کئے جائیں۔ پس اس میں دراصل لامتناہی ترقیات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی ہر جزا آگے حسین تر ہوتی چلی جائیگی۔
حسن ثواب الآخرۃ سے مراد یہ ہے جیسے اس آیت میں آنحضرت ﷺکو مخاطب کرکے فرمایا گیا ہے کہ۔
’’ وللآخرۃ خیر لک من الاولیٰ‘‘
جب آخرت پہلی سے بہتر ہوگی تو اس کے مقابل پر اسے حسین تر قرار دیا جائیگا۔ پس وہی مضمون ہے کہ ان لوگوں کو جو جزائیں ملیں گی وہ ان کو جو پہلے پہلی جزائیں ملی ہیں ویسی ہی نہیں ملیں گی پھر۔ ان کو بہتر سے بہتر جزا ملتی چلی جائیگی۔ اس رنگ میں اس مضمون کو سمجھیں تو دیکھئے محسنین کے مضمون کے ساتھ کس طرح انطباق پاتا ہے۔ اس پر کس طرح صادق آتا ہے۔ محسن سے مراد یہ ہے کہ ہر لحظہ وہ اپنے حسن میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اپنی خوبیوں کو بڑھاتا جاتا ہے۔ اور خدا اگر صرف ثواب الدنیا ہی دے دے ان کو پہلا ثواب جوانکو ملنا چاہئے اور آخرت میں بھی ثواب ہی ہو صرف ویسا ہی ثواب جیسا دنیا میں ملا ہے اس کو یا پہلے مل گیا۔ تو مومن کا دن بدن حسین تر ہونے کیساتھ تو اس ثواب کا کوئی جوڑ نہیں بنتا۔ یہ تو تبھی بنے گا کہ اگر جس طرح مومن حسین سے حسین تر ہورہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ثواب کو بھی حسین سے حسین تر بناتا چلا جارہا ہے۔ تو آخرۃ سے مراد صرف بعد کی زندگی کا ثواب نہیں ہے یہ غلط فہمی ہے۔ قران کریم نے لفظ ’’آخرۃ‘‘ کو دنیا کے نیک انجام سے بھی جوڑا ہے۔ پس آنحضرتﷺکے متعلق جب فرمایا۔
’’وللآخرۃ خیر لک من الاولی‘‘
تو من الدنیاکا لفظ عمداً استعمال نہیں فرمایا۔ ’’اولی‘‘ فرمایا ہے۔ تاکہ جیسا کہ بعض مولوی یہ سمجھتے ہیں کہ آخرت سے مراد صرف یوم آخرت ہے۔ یہ ان کی غلط فہمی دور ہوجائے۔ آخرت سے مراد انجام ہے یا بعد میںآنے والی ہر گھڑی کو ہم آخرت کہہ سکتے ہیں۔ پس جس طرح اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد؛ تیرا ہر لمحہ پہلے لمحے سے بہتر ہوتا چلا جائیگا۔ اور یہ ہمارا وعدہ ہے۔ اسی طرح ’’حسن ثواب الآخرۃ‘‘ سے مراد یہ ہوگی کہ ’’وہ میرے بندے جو میری خاطر دن بدن بہتر سے بہتر ہورہے ہیں ۔ ان سے میرا وعدہ یہ ہے کہ ان کی ہر گھڑی پچھلی سے بہتر ہوگی۔ پس ثواب دنیا اور ثواب آخرت سے مراد دنیا اور آخرت کا موازنہ نہیں۔ وہ بھی ہوسکتا ہے ! لیکن اول موازنہ جو میرے ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کو اس دنیا میں جو ثواب ملیں گے وہ وہاں رکیں گے نہیں۔ بعد میں آنے والے ثواب پہلوں سے بڑھتے چلے جائیں گے۔ اسکے بعد آنے والے اور بڑھتے چلے جائیں گے۔ اب اس مضمون کو پیش نظر رکھیں تو اسلام کے اس دور کی فتوحات کی سمجھ آنے لگتی ہے۔ اس کے بغیر نہیں آتی۔
بعد ازاں مسلمانوں میں لشکروں میں ایسے لشکر تھے جن کے مقابلے بڑی بڑی سلطنتوں کے لشکروں سے ہوئے ہیں۔اسلام کی جنگیں تو عربوںکے درمیان ہی تھیں ناں ! یعنی آغاز میں جو خالصتہً دفاعی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ جن کو اعلیٰ درجے کا جہاد کہا جاسکتا ہے۔ وہ وہ تھیں جن میں آنحضرتﷺکے دین کو جبراً تبدیل کرنے کے لئے تلوار اٹھائی گئی۔ اور ان لوگوں نے نہایت کمزوری کی حالت میں مقابلے کئے ہیں۔ اور ثبات قدم ان کو نصیب ہوا۔ ان سے وعدہ یہ ہے کہ تم نے جو دعائیں ابھی کی ہیں یہ دعائوںکا سلسلہ اس فتح پر رکے گا نہیں جو ہم نے تم کو عطا کردی ہے بلکہ یہ جاری و ساری مضمون ہے۔ یہ کبھی ختم نہ ہونے والی قبولیت دعا ہے جس کے نظارے آئندہ تمہاری نسلیں دیکھیں گی۔ اور ان کا ان دعائوں کے نتیجے میں تمہارے اعمال کے حسین تر ہوتے چلے جانے کے نتیجے میں آئندہ نسلوںمیں بھی بڑی سے بڑی عظیم الشان سے عظیم الشان تر فتوحات نصیب ہوتی چلی جائینگی۔
اب اس مضمون کو دیکھیں تو سمجھ آجاتی ہے کہ بعد میں جب ایران کی فوجوں سے ٹکر ہوئی ہے تو بعض ایسے مواقع بھی آئے کہ چھ سات لاکھ کی فوج کے مقابل پر 20 ہزار کی فوج کو غلبہ نصیب ہوگیا۔ یا 30 ہزار کی فوج کو غلبہ نصیب ہوگیا۔
ایسے دن بھی ان لڑائیوں کے دوران آئے کہ 60 ہزار کے لشکر کے مقابل پر عمداً مسلمانوں کے جرنیل نے صرف 60 سوار بھیجے۔ اور وہ چوٹی کے سوار چُن کر بھیجے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صبح سے شام تک وہ جس طرف بھی جاتے تھے وہاں مقتولین کے انبار لگادیتے تھے۔لیکن ان تک ‘ اُن میں سے بہت کم لوگ تھے جو پہنچ سکے۔ اور الا ما شاء اللہ زخمی تو ہوئے مگرشہید بہت کم ہوئے۔ اور اکثر خیر و عافیت سے رات کو واپس لوٹے۔ اسکے نتیجے میں ایک رعب طاری ہوا دشمن پر اور بعد میں جب عام جنگ کا طبل بجایا گیا ہے تو یہ یادیں تھیں جن یادوں نے ان کو مرغوب اور مبہوت کردیا تھا۔ جس کے نتیجے میں وہ بڑا بھاری لشکر بھی شکست کھانے پر مجبور ہوا۔ تو حسن ثواب الآخرۃ جو ہمیں وہاں دکھائی دے رہا ہے۔ یہ انکی اپنی خوبیوں سے اتنا تعلق نہیں رکھتا۔ جتنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے ساتھیوں کی دعائوں کی قبولیت سے تعلق رکھتا ہے۔
پس یہ وعدہ جو حسن آخرت کا ہے اگرچہ حسین تر ہونے کا وعدہ ہے یہ صرف آخرت سے نہیں بلکہ اس دنیا سے بھی گہرا بلکہ لازم تعلق رکھتا ہے۔
بعض مفسرین نے اس کو اس طرف جوڑا ہے کہ من یرد ثواب الدنیا نوتیہ منھا۔ ومن یرد ثواب الآخرۃ نوتہ منھا۔
یہ بالکل بے محل بات ہے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ اس آیت کے حوالے سے وہ یہ بیان کرنا چاہتے ہیںکہ وہ چند تیر انداز جن کو درے پر مقرر فرمایا گیا تھا کہ وہ کسی قیمت پر بھی درے کو نہ چھوڑیں۔ انہوں نے ثواب الدنیا کی خاطر یعنی لالچ اور حرص میںکہ مال غنیمت لوٹا جارہا ہے دوڑ کر جلدی کرکے۔ نافرمانی کرتے ہوئے اس مال میں حصہ لے لیا۔ تو ان کو ثواب الدنیا بتایا گیا ہے کہ انہوں نے دنیا چاہی انکو نے دنیا مل گئی اور باقی جو لوگ تھے ان کو حسن ثواب الآخرۃ ملے گا۔ یہ بالکل غلط بات ہے۔
ان لوگوں نے اگر کچھ مال حاصل کیا تو اس کو ثواب کے تابع قرار دینا ہی بے وقوفی ہے۔ اگر بے وقوفی سخت لفظ ہے تو سادگی کہہ لیں۔ لیکن اس کا ثواب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ مضمون ہی الگ ہے وہ مضمون ہی الگ ہے۔
یہ جو مضمون ہے کہ وہ کمزوریاں بیان کررہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو محسن قرار دے رہا ہے ۔ اس کا امام رازی نے بھی یہی تعلق باندھا ہے کہ اس میں ایک لطیف نکتہ ہے۔ کہ انہوں نے ربنا اغفرلنافی امرناکہہ کر اپنے خطاکار ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ تو جب انہوں نے یہ اعتراف کرلیا تو خدا نے ان کا نام محسن رکھ دیا۔ پس کمزوریوں کے اعتراف سے انسان گنہ گار ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ محسن بننے کیلئے اس رستے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور یہی وہ رستہ ہے جو تکبر کے برعکس ہے اور جس رستے سے لوگ جنت میں داخل ہونگے۔ یہ چھوٹا ہونے کا رستہ ہے۔ حضرت مسیح ؑ نے بھی کہا تھا۔ اور Wherry کو شاید مسیح کے کلمات یاد نہیں رہے کہ ایسے لوگ جو متکبر ہوں۔ دولت مند ہوں۔ وہ جب تک اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزر ہوجائے جنت میں داخل نہیںہوسکتے۔ پس کون ہے جو اعتراف گناہ کے بغیر جنت میں داخل ہوسکتا ہے کیونکہ یہی وہ آخری عجزہے اور انکساری ہے جس کے نتیجے میں آدمی محسن قرار پاتا ہے۔ پس سب انبیاء نے اگر اعتراف کیا ہے تو یہ ان کی شان ہے۔ اور اس رستے سے وہ جنت میں داخل ہونے کے اہل قرار پائے ہیں۔ ورنہ باقی سارے جو سمجھتے ہیں کہ ہم گنہ گار ہی نہیں ہیں۔ ان کا معاملہ اللہ سے ہے ۔
اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ تکبر کی راہ سے ایسا کیا گیا یا کسی اور وجہ سے مگر جہاں تک حضرت مسیح ؑ کا تعلق ہے۔ Wherry کا یہ کہنا کہ مسیح ؑ نے اعترافِ گناہ نہیں کیا۔ ایک جھوٹا الزام ہے۔ ایسا واضح جھوٹ ہے۔ جو کھل کر اس پر بولا گیا جسے وہ خدا کا بیٹا اور اپنا آقا کہتا ہے۔ کیونکہ جب مسیح کو نیک کہا گیا تو مسیح نے بڑی شدت اور سختی سے انکار کیا۔ مجھے نیک مت کہو۔ ایک ہی ہے وہ نیک جو آسمان پر ہے۔ اور اعتراف گناہ کیا ہوتا ہے؟ یعنی میں نیک ویک کوئی نہیں ہوں۔ میری کمزوریوں پر اللہ نے پردہ ڈالاہوا ہے۔ تمہیں کیا پتہ؟ اس لئے خدا کے سوا کوئی پاک نہیںہے۔ مجھے پاک قرار نہ دو۔ اگر اسے اعتراف گناہ نہیں کہا جاتا تو پھر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس کے لئے لغت میں اور کونسا لفظ ہوگا۔ باقی سب تفاسیر میں جو مختلف باتیں ہیں وہ عام مضامین ہیں جن کا کوئی خاص ایسا مرتبہ نہیں ہے کہ انہیں بیان کیا جائے۔(یہ سب ہو چکا ہے یہ رکھیں شاید ضرورت پڑ جائے )
____ _____ ____
یا ایھا الذین امنوا ان تطیعوا الذین کفروا یردوکم علیٰ اعقابکم فتنقلبوا خسرین O بل اللّہ مولکم وھو خیر النصرین O (آل عمران 150-151)
یہ دونوں آیات اکٹھی کرلی گئی ہیں کیونکہ دراصل دوسری آیت میں پہلی آیت کا نتیجہ ہی نکالا گیا ہے اور چھوٹی چھوٹی ہیں ان کو ایک ہی جگہ میں اکٹھا کر کے انشاء اللہ اکٹھا اس پر گفتگوکروں گا۔
اس میں ایک لفظ آیا ہے۔ رَدَّ۔ یردوکم علی اعقابکم ۔ لیکن پہلے تو ترجمہ کرلوں۔ میں ترجمہ کرنا بھول گیا تھا۔
’’اے وہ لوگو ! جو ایمان لائے ہو۔ اگر تم ان لوگوں کی پیروی کروگے جنہو ںنے کفر کیا ہے۔ تمہیں وہ اپنی ایڑیوں کے بل لوٹادیں گے۔ فتنقلبوا خسرین O تو تم نقصان اٹھانے والوں میںسے ہو جائو گے۔بل اللّہ مولکم :دیکھو ! اللہ تمہارا مولاہے۔ سچ بات یہی ہے۔ ’’بل‘‘ اس لئے آتا ہے کہ تم ہر دوسرے خیال کو ردکردو۔ اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ اگر حقیقت ہے تو اس بات میں ہے کہ تمہارا مولا اللہ ہے اور اس کے سوا کوئی مولا نہیں۔ ’’وھو خیر الناصرین ‘‘ اور وہ بہترین مدد کرنے والا ہے۔ یعنی اس کی ہر مدد فتح پر منتج ہوتی ہے۔
رَدَّہ‘۔ یَرُدُّ ۔ردًّا ۔و مَرْدُا و مَرْدُوْدًا : اس کے معنیٰ ہیں رَدَّہ‘۔ یَرُدُّ ۔ردًّا ۔و مَرْدُا عن کذا: جب عن کا صیغہ استعمال ہوگا اس کے ساتھ عن کا لفظ تو مطلب یہ بنے گا کہ کسی چیز سے رخ موڑ لیا۔
رَدّ عَنْہ‘ : کا مطلب ہے پیٹھ پھیر لی۔ یا منہ موڑ لیا۔ دوسری طرف ہوگیا۔ اسکو چھوڑ کر کسی اور طرف چلا گیا۔ یا اسے واپس کردیا۔ کوئی چیز کسی کو پیش کی جائے تو وہ اسے رد کردے۔ اور یہ اچھے مفہوم میں بھی ہوتا ہے اور برے مفہوم میں بھی۔ اچھے مفہوم میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ اگر کوئی تمہیں تحفہ دے۔ تو اگر تم اس سے بہتر نہیں دے سکتے اس سے بہتر چیز اس کو پیش نہیں کرسکتے تو اس جیسی ہی اس کو دے دواور یہاں واپس کرنے کا مفہوم بھی ہے۔ جو بعض صورتوں میں بعض معاشروں پر صادق آتا ہے بعض صورتوں میں نہیں آتا۔ لیکن وسیع مضمون ہے اس وقت میں اس کی گفتگو نہیں کرتا۔ کسی چیز کو واپس کردینا بھی رَدَّ کے اندر داخل ہے۔ کسی کی حالت بدل دینا۔ یعنی کیفیت بدل دی جائے کسی چیز کی اس کے لئے بھی رَدَّ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک عرب شاعر لکھتا ہے۔
’’فَرَدَّ شعور ھن السُّود بیضاً ‘‘
کہ ان عورتوں بے چاریوں کے اس غم نے کالے بال سفید کردیئے۔ تو ضمیر غم کی طرف ہے جس کا پہلے مصرعے میں ذکر ہے کہ یہ ایسا غم تھا کہ جس سے ان عورتوں کے کالے بال سفید ہوگئے یعنی غم نے رد کردیا اس کو۔ تو ردَّ معنیٰ حالت میں تبدیلی، حالت میں انقلابی تبدیلی۔ سیاہ سفید ہوجائے۔ اسی مضمون کا تعلق لفظ مرتد سے ہے۔
اِرْتَدّ الشیء : رَدَّہ ‘ طَلَبَ رَدَّہ‘ عَلَیْہِ وَ اسْتَرْھَبَہ‘
اس نے چیز کو واپس کردیا۔ دوسرے معنے ہیں اس نے کہا اس کی چیز واپس کردی جائے۔ کسی کو دے کر کوئی چیز مانگی جائے تو اس کے لئے بھی لفظ ارتدَّ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی میرا دین مجھے واپس کردو۔ چنانچہ ایک جاہل عرب بے چارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوا۔ اور مسلمان ہوگیا تو جاتے جاتے کہنے لگا آخر پر کہ میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔ میرا واپس کردو دَین۔ وہ گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبضے میں رکھا ہوا تھا۔ تو کہنے لگا کہ بس ہوگئی۔ مجھے واپس چاہئے۔ تو آپ نے اسے رخصت کیا تم پہ کوئی جبر نہیں کہ تم اپنا دین لیکر نکلو یہاں سے۔ تو ارتد کا معنیٰ اسی طرح کسی چیز کو دے کر واپس لے لینا بھی ہے۔
اِرْتَدَّ عَلیٰ اَثْرِہٖ او عن طریقہ : رجع
و ارتَدَّ عَنْ دینہ : رجع و حاد
ارتد علی اثرہ اوعن طریقہ کا مطلب ہے وہ اپنے سابقہ رستے سے واپس آگیا۔
وہ اپنے سابقہ رستے سے واپس آگیا یہ کچھ عجیب وغریب سا مفہوم ابھر رہا ہے ۔ ارتد عن دینہ۔ سے مراد ہے وہ اپنے سابقہ دین سے منحرف ہوگیا۔
یہ دونوں ترجمے بعض ڈکشنریوں نے اس طرح ہی کئے ہوئے ہیں مگر امام راغب نے اس مضمون کو بڑے واضح طور پر یوں بیان فرمایا ہے کہ
اِلارتداد او الرِدَّۃ :۔ کا بنیادی معنیٰ ہے کہ جس طریق سے آیا ہو اسی طریق سے پھر واپس چلا جائے۔ یہ معنیٰ ہیں اصل۔ پس وہ دوسری لغات نے جو معنے کئے ہیں وہ بے معنی سے معنے ہیں۔امام راغب جو معنے بیان کررہے ہیں انہی معنوں میں یہ لفظ ساری امت میں معروف ہے اور یہی معقول معنے دکھائی دیتے ہیں کہ جس رستے سے آیا اسی رستے پہ واپس چلا گیا اور سابقہ مگر اس کا تعلق ......................
------ ------ -------
ضروری نوٹ : اس سے آگے کچھ دیر کا درس باقی ہے لیکن نشریاتی رابطہ منقطع ہوجانے کی وجہ سے وہ ریکارڈ پر نہیں آیا۔ اور باقی ہے۔
٭٭٭٭٭
بسم اللہ الر حمن الرحیم
درس القرآن 20 رمضان المبارک
3 مارچ 1994ء
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا قلتم انی ھذا قل ھو من عندانفسکم ان اللہ علی کل شی قدیرO ……………یستبشرون بنعمۃ من اللہ و فضل و ان اللہ لا یضیع اجر المؤمنینO
(آل عمران آیات 166 تا 172)
اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا : پس جب تم پر کوئی ایسی مصیبت ٹوٹی جس سے دوگنی تم دشمن کو پہنچا چکے تھے تم نے کہہ دیا یا تم کہنے لگے انی ھذا یہ کیسے ہوگیا ؟ کہاں سے آئی قل ھو من عندانفسکم کہہ دے یہ تمہارے اپنے ہی نفوس کی طرف سے ہے۔ ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر ہاں اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ یعنی تمہارے نفوس کی تکلیف سے بھی تمہیںبچا سکتا تھا۔ اگر چاہتا تو۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ و لیعلم المومنین۔ پس جو مصیبت اس دن جب کہ دو گروہوں کا تصادم ہوا تمہیں پہنچی یہ اس پہلو سے اللہ کے حکم سے بن جاتی ہے کہ اس نے وہ مصیبت پہنچنے دی۔ چاہتا تو اسے روک سکتا تھا۔ ولیلعم المومنین اور یہ بھی مقصد تھا کہ وہ مومنوں کو پہنچان لے اور جانچ لے۔ و لیعلم الذین نافقوا اور ساتھ ہی منافقوں کو بھی پہچان لے۔ وقیل لھم تعالوا قاتلو فی سبیل اللہ۔ یہ جو ہے و لیعلم الذین نافقوا یہاں سے آگے پھر نفاق کی علامتوں کا ذکر چلتا ہے۔ جو اگلی چند آیات تک ممتد ہے۔ یعنی یہ فرمانے کے بعد کہ منافقوں کو بھی پہچان لے پھر لوگوں کی قیاس آرائیوں پر بات نہیں چھوڑی کہ وہ کہیں کہ فلاں صحابی نعوذ باللہ منافق تھا۔ فلاں مخلص‘ فدائی‘ منافق تھا‘ اللہ نے پھر منافقوں کے حالات خوب کھول کر بیان کردیئے ہیں تاکہ ایک ادنیٰ بھی گنجائش کسی بدنصیب کو پاک صحابہ رضی اللہ عنہم پر حملہ کرنے کی نہ ملے۔ و لیعلم الذین نفقوا و قیل لھم تعالوا قاتلوا فی سبیل اللہ۔ ان سے جب کہا گیا کہ آئو اللہ کی راہ میں قتال کرو یا دفاع کرو قالوا لو نعلم قتالا لا اتبعنکم اگر ہمیںقتال آتا تو ہم تمہاری پیروی نہ کرتے۔ اس کی طرف میں دوبارہ واپس آئوں گا۔ اس ترجمہ کی طرف‘ اس کے دو اور بعض نے تین ترجمے بھی امکاناً پیش کئے ہیں۔ عام طور پر مفسرین کا رجحان اس ترجمہ کی طرف ہے کہ اگر ہمیں علم ہوتا کہ لڑائی ہوگی تو ہم ضرور شامل رہتے۔ لیکن ہمارا خیال تو تھا کہ لڑائی ہونی کوئی نہیں اور یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منافقین کے ایک الزام کا ذکر بعض روایات میں ملتا ہے۔ اس لئے مفسرین نے اس ترجمہ کو ترجیح دی ہے۔ یعنی بہت سے مفسرین نے ۔ وہ کہتے ہیں وہ یہ بات کہا کرتے تھے ‘ وہ یہ بات پھیلا رہے تھے کہ ہیں تو رشتے دار ہی اپنے‘ مکے سے آنے والے بھی تو اپنے رشتے دار ہیں اور عزیز ہیں اور ان سے رعایت کا سلوک کریں گے۔ اس لئے لڑائی وڑائی کوئی نہیں ہونی ۔ اور یہ عجیب بات ہے اس دلیل میں کوئی منطق مجھے تو کوئی دکھائی نہیں دے رہی کہ وہ مکے سے آنے والے تین ہزار ہیں اور یہاں سے جانے والے ہزار ہیں جن میں سے تین سو واپس آجاتے ہیں اور اس لئے واپس آتے ہیں کہ یہ ان تین ہزار پر رحم کر جائیں گے اور ان سے نرمی کا سلوک کرکے نہیں لڑیں گے۔ یہ تو الٹ ہونا چاہئے تھا۔ وہ جو مکہ سے رشتہ داری کے باوجود حملہ کرنے کیلئے چڑھ دوڑے تھے ان کا کام تھا وہ طاقت ور تھے وہ بڑی دور سے بڑے بد ارادے لیکر نکلے تھے ان کو چاہئے تھا کہ خون کا خیال کرتے اور رشتہ داریوں کا خیال کرتے۔ یہ منافقوں کی بات اگر یہ درست ہے روایت تو عجیب سی ہے لیکن اسے قبول کرتے ہوئے اس کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے جو میں بتا رہا ہوں کہ نعلم قتالا سے مراد ہے کہ اگر ہمارے علم میں یہ ہوتا کہ لڑائی ہوگی تو پھر ہم ضرور لڑتے۔ لا تبعنکم ھم للکفر یومئذ اقرب منھم للایمان جس دن وہ یہ باتیں کررہے تھے وہ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے۔ اپنے مونہوں سے ایسی باتیں کرتے ہیں یا کرتے تھے۔ مالیس فی قلوبھم جو ان کے دلوں میں نہیں واللہ اعلم بما یکتمون اور اللہ خوب جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو۔ یہ باقی ترجمہ انشاء اللہ اس موقعہ پر پہنچیں گے تو شروع کریں گے۔ اب میں باقاعدہ ایک ایک آیت کرکے اس مضمون کو لیتا ہوں۔
یہ جو پہلی تین آیات ہیں ان تینوں پر اکٹھے نوٹس میں نے رکھے ہیں ان پر تفسیری گفتگو اکٹھی چلے گی۔ اولما اصابتکم مصیبۃ قد اصبتم مثلیھا۔ یہ بات پہلے چل رہی تھی (جب ہمارا درس ختم ہوا ہے) میں نے یہ کہا تھا کہ بہت سے مفسرین کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ جنگ بدر میں چونکہ ستر ۷۰ ہی کفار مقتول ہوئے تھے اور ستر کو قیدی بنایا گیا تھا اس لئے دوگنے کا مضمون آگیا۔ بعض مفسرین نے یہ نکتہ اٹھایا ہے اور امام رازی نے بھی اس کا تحسین سے ذکر کیا ہے کہ دراصل مثلیھا سے مراد یہ ہے کہ پہلے تم بدر میں بھی شکست دے چکے تھے ایک ان کو اور پھر احد میں بھی ایک شکست دے چکے تھے اور دو شکستیں اوپر تلے دے بیٹھے تھے پھر اپنی غلطی سے اس شکست کو جو دشمن کی شکست تھی اپنی شکست بنا بیٹھے اور ابھی شکوہ ہے‘ ابھی باتیں یہ ہورہی ہیں کہ اللہ نے ہماری مدد نہیں کی۔ کیوں ہمیں دشمن کے ہاتھوں گزند پہنچی۔ تو ان اللہ علی کل شیئٍ قدیر قلتم انی ھذا یہ کہہ دیا قل ھو من عندانفسکم کہہ دو کہ یہ دوسری بات جو ہے تمہاری تکلیف کی‘ یہ تمہیں اپنی طرف سے پہنچی تھی۔ لیکن اس کا برعکس جو ہے وہ کیا ہے؟ دونوں فتوحات اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں۔ یہ پہلو ہے جس کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ یہاں من انفسکم کہہ کے فی الحقیقت فتوحات کی طرف بھی اشارہ فرمادیا کہ جو تم نے دشمن کو تکلیف پہنچائی وہ تمہاری طرف سے نہیں تھی۔ تمہارے بس کی بات نہیں تھی، تمہاری طاقت نہیں تھی۔ وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے تھی۔ اس لئے خداکی مدد کے وعدے پر تم کیا بات کرسکتے ہو۔ یہ منافقین مراد ہیں یہاں۔ کیا باتیں کرتے ہو؟ تمہاری کوئی حیثیت تھی دشمن کو شکست دینے والی؟ اس کے باوجود دو مرتبہ تمہیںدیکھ لیا اور حیرت انگیز طور پر ایک طاقتور دشمن کے تم نے چھکے چھڑا دئیے۔ پس وہ تمہاری وجہ سے نہیں تھا۔ ہاں جب مار پڑی ہے وہ تمہاری وجہ سے تھا۔ تم خدا کے اس وعدے کی امان سے باہر نکل آئے جس میں یہ وعدہ تھا کہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ کرو تو پھر اللہ تعالیٰ تمہاری نصرت فرمائے گا وہاں جودرے پر فائز لوگ تھے انہوں نے نہ تقویٰ سے کام لیا نہ صبر سے کام لیا۔ اس کے نتیجہ میں یہ تکلیف پہنچی ہے۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن فباذن اللہ۔ اب یہاں اُسی مضمون کو اللہ کی طرف منسوب فرمادیا۔ وما اصابکم یوم التقی الجمعن امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ چاہتا تو اُس تکلیف کو بھی تم سے دور کرسکتا تھا۔ لیکن اللہ کے اذن سے ایسا ہوا ہے جیسا کہ میں نے امام رازی کے حوالے پیش کئے تھے‘ وہ یہاں اذن سے مراد علم لیتے ہیں اور کئی روایات میں سے یہ ملتا ہے مضمون۔ لیکن اللہ کے علم سے ہی میں اجازت کے معنی نکالتا ہوں۔ علم سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں‘ ایک واقعہ میری آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے اور میں اسے روکتا نہیں ہوں ل