آریوں کو دعوتِ حق
اے آریہ سماج پھنسو مت عذاب میں
کیوں مبتلا ہو یار وخیالِ خراب میں
اے قوم آریہ تیرے دل کو یہ کیا ہوا
تو جاگتی ہے یا تیری باتیں ہیں خواب میں
کیا وہ خدا جو ہے تیری جاں کا خدا نہیں
ایماں کی بُو نہیں ترے ایسے جواب میں
گر عاشقوں کی روح نہیں اُس کے ہاتھ سے
پھر غیر کےلئے ہیں وہ کیوں اضطراب میں
گر وہ الگ ہے ایسا کہ چھو بھی نہیں گیا
پھر کس نے لکھ دیا ہے وہ دل کی کتاب میں
جس سوز میں ہیں اُس کےلئے عاشقوں کے دل
اتنا تو ہم نے سوز نہ دیکھا کباب میں
جامِ وصال دیتا ہے اُس کو جو مر چکا
کچھ بھی نہیں ہے فرق یہاں شیخ و شاب میں
ملتا ہے وہ اُسی کو جو وہ خاک میں ملا
ظاہر کی قیل و قال بھلا کس حساب میں
ہوتا ہے وہ اُسی کا جو اُس کا ہی ہوگیا
ہے اُس کی گود میں جو گرا اُس جناب میں
پھولوں کو جاکے دیکھو اُسی سےوہ آب ہے
چمکے اُسی کا نور مہ وآفتاب1 میں
خوبوں کے حسن میں بھی اُسی کا وہ نور ہے
کیا چیز حسن ہے وہی چمکا حجاب میں
اس کی طرف ہے ہاتھ ہر اک تارِ زلف کا
ہجراں سے اس کے رہتی ہے وہ پیچ و تاب میں
ہر چشم مست دیکھو اُسی کو دکھاتی ہے
ہر دل اُسی کے عشق سے ہے التہاب میں
جن مورکھوں کو کاموں پہ اُس کے یقیں نہیں
پانی کو ڈھونڈتے ہیں عبث وہ سراب میں
قدرت سے اُس قدیم کے انکار کرتے ہیں
بکتے ہیں جیسے غرق کوئی ہو شراب میں
دل میں نہیں کہ دیکھیں وہ اُس پاک ذات کو
ڈرتے ہیں قوم سے کہ نہ پکڑیں عتاب میں
ہم کو تُو اے عزیز دکھا اپنا وہ جمال
کب تک وہ منہ رہے گا حجاب و نقاب میں
1۔ اللَّهُ نُورُ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ "خدا ہے نور زمین و آسمان کا"(النور ؛36)
سناتن دھرم ٹائیٹل پیج صفحہ2مطبوعہ 1903ء