دلائل امکان نبوت از اقوال بزرگان
حضرت محی الدین ابن عربیؒ فرماتے ہیں:۔
(ا) اِنَّ النَّبُوَّۃَ الَّتِیْ اِنْقَطَعَتْ بِوُجُوْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلْعَمْ اِنَّمَا ھِیَ النُّبُوَّۃُ التَّشْرِیْحُ لَا مَقَامُھَا فَلَا شَرْعَ یَکُوْنُ نَاسِخًا لِشَرْعِہٖ صَلْعَمْ وَ لَا یَزِیْدُ فِیْ شَرْعِہٖ حُکْمًا اٰخَرَ وَ ھٰذَا مَعٰی قَوْلِہٖ صَلْعَمْ اِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ اَیْ لَا نَبِیَّ یَکُوْنُ عَلٰی شَرْعٍ یُخَالِفُ شَرْعِیْ بَلْ اِذَا کَانَ یَکُوْنُ تَحْتَ حُکْمِ شَرِیْعَتِیْ وَلَا رَسُوْلَ اَیْ لَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ اِلٰٰٰٰٰٰی اَحَدٍ مِنْ خَلْقِ اللّٰہِ بِشَرْعٍ یَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ فَھٰذَا ھُوَ الَّذِیْ اِنْقَطَعَ وَسُدَّ بَابُہٗ لَا مَقَامُ النَّبُوَّۃِ۔
(فتوحات مکیہ از ابن عربی جلد ۲ صفحہ ۳ مطبوعہ دار صادر بیروت)
کہ وہ نبوت جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وجود پر ختم ہوئی۔ وہ صرف تشریعی نبوت ہے نہ کہ مقامِ نبوت۔ پس آنحضرت صلعم کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں آ سکتی اور نہ اس میں کوئی حکم بڑھا سکتی ہے اور یہی معنی ہیں کہ آنحضرت صلعم کے اس قول کے کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو گئی اور ’’لَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ‘‘ یعنی میرے بعد کوئی ایسا نبی نہیں جو میرے شریعت کے خلاف کسی اور شریعت پر ہو ہاں اس صورت میں نبی آ سکتا ہے کہ وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت آئے اور میرے بعد کوئی رسول نہیں یعنی میرے بعد دنیا کے کسی انسان کی طرف کوئی ایسا رسول نہیں آ سکتا جو شریعت لے کر آوے اور لوگوں کو اپنی شریعت کی طرف بلانے والا ہو۔ پس یہ وہ قسم نبوت ہے جو بند ہوئی اور اس کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ ورنہ مقامِ نبوت بند نہیں۔
(ب) فَمَا ارْتَفَعَتِ النُّبُوَّۃُ بِالْکُلِّیَّۃِ لِھٰذَا قُلْنَا اِنَّمَا ارْتَفَعَتْ نُبُوَّۃُ التَّشْرِیْحِ فَھٰذَا مَعْنٰی لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ فَعَلِمْنَا اَنَّ قَوْلَہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ اَیْ لَا مُشَرِّعَ خَاصَّۃً لِاَنَّہٗ لَا یَکُوْنُ بَعْدَہٗ نَبِیٌّ ھٰذَا مِثْلُ قَوْلِہٖ اِذَا ھَلَکَ کِسْریٰ فَلَا کِسْریٰ بَعْدَہٗ وَاِذَا ھَلَکَ قَیْصَرُ فَلَا قَیْصَرَ بَعْدَہٗ۔ (فتوحات مکیہ از محی الدین ابن عربی جلد ۲ صفحہ ۵۸ باب ۷۳ سوال ۱۵ مطبوعہ دار صادر بیروت)
کہ نبوت کلی طور پر اٹھ نہیں گئی۔ اسی وجہ سے ہم نے کہا تھا کہ صرف تشریعی نبوت بند ہوئی ہے یہی معنی ہے لَا نَبِیَّ بَعْدِی کے۔پس ہم نے جان لیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا لَا نَبِیَّ بَعْدِی فرمایا انہی معنوں سے ہے کہ خاص طور پر میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نہ ہو گا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد اور کوئی نبی نہیں یہ بعینہٖ اسی طرح ہے جس طرح آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ قیصر ہلاک ہو گا تو اس کے بعد قیصر نہ ہو گا اور جب یہ کسریٰ ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہ ہو گا۔
(ج) فَاِنَّ الرَّسَالَۃَ وَالنُّبُوَّۃَ بِالتَّشْرِیْعِ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدَہٗ صَلْعَمْ وَلَا نَبِیَّ اَیْ لَا مُشْرِعَ وَلَا شَرِیْعَۃَ وَ قَدْ عَلِمْنَا اِنَّ عِیْسٰی یَنْزِلُ وَلَا بُدَّ مَعَ کَوْنِہٖ رَسُوْلًا وَلٰکِنْ لَا یَقُوْلُ بِشَرْعٍ بَلْ یَحْکُمُ فِیْنَا بِشَرْعِنَا فَعَلِمْنَا اَنَّہٗ اَرَادَ اِنْقَطَاعَ الرِّسَالَۃِ وَالنُّبُوَّۃِ بِقَوْلِہٖ لَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ اَیْ لَا مُشَرِّعَ وَلَا شَرِیْعَۃَ۔‘‘
(فتوحات مکیہ از محی الدین ابن عربی جلد ۲ صفحہ ۹۰ سوال نمبر ۸۸ مطبوعہ دار صادر بیروت)
۲۔ حضرت امام شعرانی فرماتے ہیں:۔
(ا) ’’وَقَوْلُہٗ صَلَعَمُ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ وَلَا رَسُوْلَ الْمُرَادُ بِہٖ لَا مُشَرِّعَ بَعْدِیْ۔‘‘ (الیواقیت والجواہر جز اوّل صفحہ ۳۷۴ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان) کہ آنحضرت صلعم کا یہ قول کہ میرے بعد نبی نہیں اور نہ رسول اس سے مراد یہ ہے کہ میرے بعد کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں۔
(ب) فَاِنَّ النَّبُوَّۃَ سَارِیَۃٌ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ فِی الْخَلْقِ وَاِنْ کَانَ التَّشْرِیْعُ قَدْ اِنْقَطَعَ فَا التَّشْرِیْعُ جُزْءٌ مِنْ اَجْزَاءِ النُّبُوَّۃِ۔ (فتوحات مکیہ جلد ۲ باب ۷۳ سوال نمبر ۸۲ صفحہ ۱۵۵ مصر)
کہ نبوت قیامت کے دن تک مخلوقات میں جاری ہے لیکن جو تشریعی نبوت ہے وہ بند ہو گئی ہے۔ تشریعی نبوت، نبوت کا ایک جزو ہے۔
(ج) وَاَمَّا النُّبُوَّۃُ التَّشْرِیْعُ وَالرِّسَالَۃُ فَمُنْقَطِعَۃٌ فِیْ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فَلَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ مُشَرِّعًا …… اِلَّا اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی لَطَفَ بِعِبَادِہٖ وَاَبْقٰی لَھُمُ النَّبُوَّۃَ الْعَامَۃَ الَّتِیْ لَا تَشْرِیْعَ فِیْھَا (فَصُوْصُ الْحِکْمِ فَصُّ حِکْمَۃٍ قَدْرِیَّۃٍ فِیْ کَلِمَۃٍ عَزِیْرِیَّۃٍ) کہ جو نبوت اور رسالت شریعت والی ہوتی ہے۔ پس وہ تو آنحضرت صلعم پر ختم ہو گئی ہے پس آپؐ کے بعد شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا …… ہاں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر مہربانی کر کے ان میں عام نبوت جس میں شریعت نہ ہو باقی رہنے دی۔
۳۔عارف ربانی سید عبد الکریم جیلانی ابن ابراہیم جیلانی فرماتے ہیں:۔
فَانْقَطَعَ حُکْمُ النُّبُوَّۃِ التَّشْرِیْعِ بَعْدَہٗ وَکَانَ مُحَمَّدٌ صَلّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ (الانسان الکامل از سید عبد الکریم بن ابراہیم جیلانی ؒ باب ۳۶ ترجمہ اردو خزینہ التصوف صفحہ ۶۶) کہ تشریعی نبوت کا حکم آنحضرت صلعم کے بعد ختم ہو گیا۔ پس اس وجہ سے آنحضرت صلعم خاتم النبیین ہوئے۔
۴۔ حضرت ملا علی قاری فرماتے ہیں:۔
قُلْتُ وَ مَعَ ھٰذَا لَوْ عَاشَ اِبْرَاہِیْمَ وَ صَارَ نَبِیًّا وَکَذَا لَوْ صَارَ عُمَرؓ نَبِیًّا لَکَانَا مِنْ اَتْبَاعِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ …… فَلَا یُنَاقِضُ قَوْلَہٗ تَعَالٰی خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ اِذَا الْمَعْنٰی اَنَّہٗ لَا یَاْتِیْ نَبِیٌّ بَعْدَہٗ یَنْسَخُ مِلَّتَہٗ وَلَمْ یَکُنْ مِنْ اُمَّتِہٖ۔
(موضاعات کبیر از ملا علی قاریؒ صفحہ ۱۰۰ الناشر نور محمد، اصح المطابع و کارخانہ تجارت کتب آرام باغ کراچی مطبوعہ ایجوکیشنل پریس کراچی)
میں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ آنحضرت صلعم کا فرمانا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو نبی ہو جاتا اور اسی طرح اگر عمرؓ نبی ہو جاتا تو آنحضرت کے متبعین میں سے ہوتے۔ پس یہ قول خاتم النبیین کے مخالف نہیں ہے۔ کیونکہ خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلعم کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا۔ جو آنحضرت صلعم کی شریعت کو منسوخ کرے اور آپؐ کی امت سے نہ ہو۔
۵۔ حضرت سید ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں:۔
خُتِمَ بِہِ النَّبِیُّوْنَ اَیْ لَا یُوْجَدُ مَنْ یَّاْمُرُہٗ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ بِالتَّشْرِیْعِ عَلَی النَّاسِ۔
(تفہیمات الہٰیہ از حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلویؒ تفہیم نمبر ۵۳)
کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نبی ختم ہو گئے۔ یعنی آپؐ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں ہو سکتا جس کو خدا تعالیٰ شریعت دے کر لوگوں کی طرف مامور کرے۔
۶۔ مولوی عبد الحی صاحب لکھنوی فرماتے ہیں:۔
’’علمائے اہلسنت بھی اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ آنحضرت صلعم کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدیدہ نہیں ہو سکتا اور نبوت آپ کی تمام مکلفین کو شامل ہے اور جو نبی آپ کے ہمعصر ہو گا۔ پس بہر تقدیر بعثتِ محمدیہؐ عام ہے۔‘‘
(دافع الوسواس فی اثر ابن عباس صفحہ ۳از محمد عبد الحی لکھنوی در مطبع یوسفی واقع فرنگی محل لکھنؤ )
۷۔ جنات مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیوبند ’’تحذیر الناس‘‘ میں فرماتے ہیں:۔
(ا) ’’سو عوام کے خیال میں تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپؐ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپؐ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم و تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ پھر مقام مدح میں فرمانا اس صورت میں کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔‘‘
(تحذیر الناس صفحہ ۳ ناشر مولوی محمد اسحٰق مالک کتب خانہ رحیمیہ دیوبند سہارپنور)
(ب) اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیؐ میں کچھ فرق نہ آئے گا۔‘‘ (صفحہ ۲۵)