دلائل فضلیت مسیح بمقابلہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا جواب
عیسائی پادری غیر احمدیوں کے عیسائیت نواز عقائد کو پیش کر کے مسلمانوں کو حلقۂ عیسائیت میں پھنساتے چلے جاتے ہیں اور اسی غرض سے ایک رسالہ بنام ’’حقا ئق قرآن‘‘ بھی انہوں نے شائع کر رکھا ہے۔ غیراحمدیوں کے عقائد پر تو بے شک اس رسالہ کے مندرجہ اعتراضات وارد ہو سکتے ہیں مگر خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے سامنے ان مزعومہ دلائل کی کچھ حقیقت نہیں ۔ چند چیدہ اعتراضات کے جوابات درج کئے جاتے ہیں ۔
دلیل نمبرا:۔ حضر ت مسیح کا معجزانہ طور پر پیدا ہونا
الجواب نمبرا:۔ بے شک قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور ہمارا س پر ایمان ہے مگر بغیر باپ کے پیدا ہونے والے کو باپ کے پیدا ہونے والے پر فضیلت دینا غلطی ہے۔ قرآن مجید نے خود اس کا جواب دیا ہے۔ (آل عمران:۶۰)
کہ عیسیٰ کی مثال آدمؑ کی ہے۔ اب آدمؑ تو بغیر ماں اور باپ کے پیدا ہوئے عیسائی بھی آپ کو مانتے ہیں۔پس اگر بغیر باپ کے پیدا ہونا فضیلت ہے تو بے ماں و باپ کے پیدا ہونا تو اس سے بھی بڑھ کر درجۂ فضیلت ہونا چاہیے۔ پھر عیسائی صاحبان کیوں آدمؑ کو حضرت عیسیٰ سے افضل نہیں مانتے ؟ اسی طرح انجیل میں لکھا ہے ۔’’ملک صدق……بے باپ، بے ماں، بے نسب نامہ ہے……بلکہ خدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہرا۔‘‘ (عبرانیوں ۱تا۷/۳ )
کیا عیسائی صاحبان ملک صدق کو حضرت عیسیٰ ؑسے افضل مانتے ہیں ؟ اگر نہیں تو کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ بے باپ پیدا ہونا و جہ فضیلت نہیں ۔ لہٰذا اس و جہ سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو افضل قراردینا غلطی ہے ۔
جواب نمبر ۲:۔ اگر بے باپ پیدا ہونا وجہ فضیلت ہے تو کیا ہم ان تمام کیڑوں مکوڑوں کو جو برسات کے دنوں میں ہزاروں لاکھوں کی تعدا د میں بے ماں اور بے باپ پیدا ہوتے ہیں تمام انسانوں سے افضل قرار دے سکتے ہیں؟
جواب نمبر۳:۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بے باپ ہونا کس طرح موجب فضیلت ہو سکتا ہے جبکہ ان کی ولادت سے لے کر آج تک ساڑھے انیس سو سال گزر جانے تک ان پر اور ان کی والدہ صدیقہ پر پے بہ پے کفار نا ہنجار ناجائز ولادت کا الزام لگا تے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام عمر اس اعتراض کا جواب دیتے رہے ۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بریت (البقرۃ: ۸۸ و ۲۵۴) کے الفاظ سے کرنی پڑی ۔ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت کے متعلق کبھی کسی نے کوئی اعتراض کیا ؟ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو طعنہ زنی کا نشانہ بننا پڑا۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بے باپ پیدا نہ ہونا بذاتِ خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آپ کی فضیلت کو ثابت کرتا ہے ۔
وَلَقَدۡ ءَاتَيۡنَا مُوسَى ٱلۡكِتَـٰبَ وَقَفَّيۡنَا مِنۢ بَعۡدِهِۦ بِٱلرُّسُلِۖ وَءَاتَيۡنَا عِيسَى ٱبۡنَ مَرۡيَمَ ٱلۡبَيِّنَـٰتِ وَأَيَّدۡنَـٰهُ بِرُوحِ ٱلۡقُدُسِۗ أَفَكُلَّمَا جَآءَكُمۡ رَسُولُۢ بِمَا لَا تَہۡوَىٰٓ أَنفُسُكُمُ ٱسۡتَكۡبَرۡتُمۡ فَفَرِيقً۬ا كَذَّبۡتُمۡ وَفَرِيقً۬ا تَقۡتُلُونَ (٨٧) (البقرۃ: ۸۸)
وَقَـٰتِلُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۬ (٢٤٤) (البقرۃ: ۸۸ و ۲۵۴)
جواب نمبر۴:۔ قرآن مجید کے پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بے باپ پیدا کرنے میں کیا حکمت تھی۔ قرآن مجید میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے فرمایا (البقرۃ:۱۲۵) کہ اے ابراہیم! تجھے لوگوں کا مقتداء اور راہنما(نبی)بناتا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے خدا!میری نسل میں بھی (نبوت رکھ)تو خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ ہاں تیری نسل میں جو ظالم ہوں گے وہ اس نعمت سے محروم کر دئے جائیں گے ۔ دوسری جگہ فرمایا (العنکبوت:۲۸)کہ ہم نے حضرت ابراہیم ؑ کی نسل میں نبوت میں رکھی۔ اب حضرت ابراہیم ؑ کی اولاد کی دو شاخیں تھیں۔ بطریق ذیل:۔
وَإِذِ ٱبۡتَلَىٰٓ إِبۡرَٲهِـۧمَ رَبُّهُ ۥ بِكَلِمَـٰتٍ۬ فَأَتَمَّهُنَّۖ قَالَ إِنِّى جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامً۬اۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِىۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهۡدِى ٱلظَّـٰلِمِينَ (١٢٤) (البقرۃ:۱۲۵)
وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّهِ وَلِقَآٮِٕهِۦۤ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ يَٮِٕسُواْ مِن رَّحۡمَتِى وَأُوْلَـٰٓٮِٕكَ لَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ۬ (٢٣) (العنکبوت:۲۸)
حضرت ابراہیم ؑ
حضرت اسمعیل۔ بنی اسماعیل(عرب) حضرت اسحاق ۔یعقوب۔ اسرائیل ۔ بنی اسرائیل
چناچہ حضرت اسحق ؑکی نسل سے (بنی اسرائیل میں ) پے در پے نبی ہوئے۔ حضرت موسیٰ ؑ داؤد و سلیمان، یحییٰ، زکریا علیہم السلام سب انبیاء بنی اسرائیل سے ہوئے لیکن بالآخر بنی اسرائیل ظالم ہوگئے اور اس وعدہ کے مستحق نہ رہے جو خدا تعالی نے ابراہیم ؑ سے کیا تھا۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کر کے بتا دیا کہ اب حضرت اسحق کی نسل میں نبوت کا خاتمہ ہے۔ اب چونکہ بنی اسرائیل ظالم ہو گئے ہیں اس لئے خدا کے وعدہ کے مطابق نبوت بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل کر دی جائے گی ۔ چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو بغیر باپ کے پیدا ہوئے ان کے بعد نبوت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو عطا ہوئی جو بنی اسرائیل سے نہ تھے۔ نیز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے محض اپنی قدرت مجردہ سے بغیر باپ کے پیدا کر کے یہودیوں کو ایک نمونہ سے سمجھایا کہ تم اس پا ک مولود کو جس کی والدہ ہر طرح سے بدکاری کی آلائش سے پاک ہے ولد الزنا قرار دیتے ہو اور حالت یہ ہے کہ تم میں سے ہزاروں بچے بد کاری کے نتیجہ میں ایسے پیدا ہوتے ہیں جن کے باپوں کا پتہ نہیں اور ہم نے تمہاری عملی حالت کے اظہار کے لئے عملی نمونہ قائم کیا ہے۔ گو خدا تعالیٰ نے اس بچہ کو محض روح القدس کے وسیلہ سے بغیر باپ کے پیدا کیا مگر تم میں اب کوئی نہیں جو نبی کا باپ بن سکے۔ لہٰذا تم اس قابل نہیں رہے کہ تم کو اس عہد کے مطابق جو خداتعالیٰ نے ابراہیم کے ساتھ کیا تھا نبوت کی نعمت سے مشرف کیا جائے ۔ اس لئے اب وہ عظیم الشان نبی جو دس ہزار قدوسیوں کی جمعیت کے ساتھ اپنے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت لے کر آنے والا تھا مکہ کی بستی میں بنی اسمٰعیل کے گھرانے میں پیدا ہوگا اور تم سے نبوت چھین کر ان کو عنایت کی جائے گی تاکہ مسیح علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ ’’جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوگیا ۔یہ خدواند کی طرف سے ہوا اور تمہاری نظروں میں عجیب ہے۔‘‘ (متی ۲۱/۴۲)
غرض یہ حکمت تھی جس کی بناء پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے بے باپ پیدا کیا تاکہ یہودیوں کی عملی حالت پر گواہ رہے۔ پس اس کو وجۂ فضیلت قرار دینا کسی صورت میں بھی قرینِ قیاس نہیں ہو سکتا ۔ بنی اسرائیل کی زنا کاری کے ـثبوت کے لئے ملاحظہ ہو:۔ (حزقیل۱۶/۶۲ و حزقیل۱تا۲۳/۵ و۱۷،۲۳/۲۰ و یرمیاہ ۳/۶
دلیل نمبر ۲ حضرت مسیح کی والدہ کا تمام جہان کی عورتوں سے افضل ہونا
الجواب ۔ قرآن مجید میں حضرت مریم کے متعلق (آل عمران:۴۳) تو بے شک آتا ہے مگر اس جگہ سے مراد دنیا میں قیامت تک پیدا ہونے والی عورتیں مراد لینا درست نہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو قرآن مجید کے شارح اوّل بلکہ معلّمِ اعظم اور (البقرۃ:۱۳۰) کے مصداق ہیں۔ اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے ۔چنانچہ تفسیر بیضاوی میں یہ روایت درج ہے ۔ فَقَالَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ جَعَلَکِ شَبِیْھَۃَ سَیِّدۃِ نِسَآءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔( بیضاوی تفسیر سورۃ آلِ عمران ع ۴۔ زیر آیت اِنََّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت مریمؑ بنی اسرائیل کی عورتوں کی سردار تھیں۔ اب جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مریم صدیقہ کو سَیِّدَۃُ نِسَآءِ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ قرار دیا ہے ۔ ان کی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ پر فضیلت کیسے ثابت ہوئی؟
ہاں اتنا ضرور ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کو سَیِّدَۃُ نِسَآءِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ (بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب مناقب فاطمہ جلد ۲ صفحہ ۱۹۱ مطبع الٰہیہ مصر) سب جنتی عورتوں کی سردار قرار دیا ہے۔ اب حضرت مریم ؓ یقینا نِسَآءِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ میں سے ہیں۔ پس فاطمہ ؓ ان سے افضل ٹھہریں ۔اس سے بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت ہوئی۔ کیونکہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ اپنے زمانہ کی عورتوں میں سب سے افضل تھیں تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کمال کا کیا دخل ؟ ہاں یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوت قدسی کا کمال تھا ۔کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی بے نظیر تربیت کے نتیجہ میں آپ کی بیٹی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر سبقت لے گئیں ۔
قرآن مجید میں جہاں حضرت مریم ؑکے متعلق زیر بحث الفاظ آئے ہیں وہاں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بطور خبر یہ نہیں بتایا گیا کہ حضرت مریم ؑکو خدا تعالیٰ نے تمام جہاں کی عورتو ں میں سے چن لیا ہے تا یہ نتیجہ نکل سکے کہ گویا حضرت مریم ؑزمانہ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عورتوں سے بھی افضل ہیں بلکہ قرآن مجید میں ذکر یہ ہے کہ فرشتے نے جب وہ حضرت مریم ؑ کو ولادت مسیح کی خوشخبر ی دینے آیا اس وقت ان سے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے دنیا کی سب عورتوں میں آپ کو چنا ہے۔ پس اس آیت سے اتنا ہی ثابت ہو سکتا ہے کہ اس وقت جب فرشتے نے یہ کہا کہ جس قدر عورتیں موجود تھیں ان میں سے حضرت مریم ؑ کو ایک نبی کی ماں بننے کے لئے خدا تعالیٰ نے چنا۔ بعد میں پیدا ہونے والی عورتوں کا نہ وہاں ذکر ہے اور نہ یہ مناسب تھا۔ نیز حضرت مریم ؑ کے متعلق قرآ ن میں جو تعریفی الفاظ آئے ہیں وہ یہودیوں کے بہتانات کی تردید کی غرض سے ہیں جیساکہ قرآن مجید میں ہے:۔(النساء:۱۵۷) کیاآنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدہ مطہرہ پر بھی کوئی الزام لگا؟ تا اس سے بریت کی ضرورت ہوتی۔