دلائل و مطاعِن شیعہ کا جواب
شیعہ: ۔ (المائدۃ:۵۶) سے حضرت علیؓ مراد ہیں۔ لہٰذا وہ خلیفہ بلا فصل ہوئے؟
الجواب۱۔کلمہ حصر ہے۔اگر سے مراد حضرت علی ؓ ہوں تو شیعوں کے باقی ائمہ کی امامت باطل ہوئی ۔کیونکہ پھر سوائے اﷲ ،رسول اور علیؓ کے کسی اور کی امامت ممتنع ہوجائے گی۔
۲۔جمع کا صیغہ ہے۔اس سے علی ؓ (واحد) مراد نہیں لیا جاسکتا۔
۳۔اس کے آگے ہے ۔ حضرت علیؓ کا زکوٰۃ دینا ثابت نہیں۔
۴۔سے مراد اگرحضرت علیؓہوں تو اس کے آگے اُن کے ساتھ دوستی کرنے والے گروہ کو غالب قرار دیا گیا ہے مگر بقول شما علیؓ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔
۵۔اہل سنت کی تفا سیر میں جہاں سے مراد حضرت علیؓ کو لکھا گیا ہے و ہاں علماء اہل سنت نے شیعوں کا قول نقل کرکے اس کے آگے اس کی تردید کی ہے ۔پس وہ تمہارے لئے دلیل نہیں ہو سکتی (دیکھو الفوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعۃ مصنفہ امام شوکانی صفحہ۳۶۹۔۳۷۰ مطبع ناشر دار الکتب العربی) ’’فَاِنَّ ذَالِکَ مَوْضُوعٌ بِلَا خَوْفٍ‘‘کہ یہ روایت بلا شبہ وضعی ہیں۔
۶۔ لفظ ’’ولی ‘‘دوست،ناصر اور حاکم کے معنوں میں مشترک ہے اس کے معنے صرف حاکم لینا حجت نہیں ہوسکتا۔جب تک اس کے لئے د لیل نہ دی جائے۔
۷۔اس آیت میں ’’ولی‘‘کے معنے محب و ناصر کے ہیں کیونکہ اس آیت سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے یہود اور نصاریٰ کی دوستی کا ذکر فرمایا ہے۔ اور اس کے بعد اس آیت میں اﷲ، رسول اور مومنوں کو دوست بنانے کی تلقین کی گئی ہے۔
۸۔یہ آیت اصحاب ثلاثہ پر صادق آتی ہے۔ کیونکہ اس آیت سے پہلی آیت میں (المائدۃ:۵۵) ہے کہ اے مسلمانو!اگر تم میں سے کوئی مرتد ہوجائے تو خدا ایک اور قوم کو لائے گا وغیرہ۔آنحضرت ؐ کی وفات پر ’’ظہور عرب‘‘جو ہوا یعنی تمام عرب والے مرتد ہوگئے ان کو حضرت ابوبکرؓ اور ان کے اصحاب کے سوا اور کون مسلمان بنانے والا ہوا۔
۹۔ سے دوستی رکھنے والوں کو خدا نے غالب گروہ قرار دیا ہے اور وہ اصحاب ثلاثہ اور ان کے اصحاب ہیں۔
شیعہ:۔ ’’مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَا ہُ‘‘۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب علیؓ)
جواب۱۔اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے :۔جو مجھ سے محبت کرے وہ علیؓ سے بھی محبت کرے‘‘۔یا جس سے میں محبت کرتا ہوں علی ؓ بھی اس سے محبت کرتا ہے‘‘۔
’’مولا‘‘ظرف ہے جس کے معنی محل محبت کے ہیں۔
۲۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابی کے سامنے اعلان کیا تو اس کے دوتین ماہ ہی بعد آنحضرتﷺ کی وفات کے دن وہ ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابی کہاں گئے تھے؟ان میں سے ایک بھی تو خلافت کے لئے حضرت علیؓ کا نام نہیں لیتا۔
۳۔ حضرت علیؓ بھی اپنی خلافت کے لئے اس حدیث کو پیش نہیں کرتے۔
۴۔ یہاں تک کہ جب حضرت عثمان ؓ کی وفات پر حضرت علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو حضرت معاویہ نے انکار کردیا۔حضرت علیؓ نے اپنی خلافت منوانے کے لئے متعدد دلائل دیئے مگر خم غدیر کے واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیالہٰذا ثابت ہوا کہ یہ بعد کی اختراع ہے۔
شیعہ:۔ اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌ بَابُھَا۔‘‘
جواب۱:۔یہ حدیث ضعیف ہے ۔دیکھو (ترمذی کتاب المناقب باب مناقب علی)
۲۔ اس حدیث کے متعلق لکھا ہے :۔
ذَکَرَہُ ابْنُ الْجَوْزِیْ فِیْ الْمَوْضُوْعَاتِ مِنْ عِدَّۃِ طُرُقٍ وَجَزَمَ بِبُطْلَانِ الْکُلِّ۔‘‘ (اللّمعات برحاشیہ مشکوٰۃ مطبوعہ اصح المطابع دہلی صفحہ ۵۶۴) اس حدیث کو ابن جوزی نے متعدد طرق سے روایت کرکے موضوع قراردیا ہے ۔نیز اس کے سب طریقوں کو باطل قرار دیا ہے۔
(نیز دیکھو فوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعہ مصنفہ امام شوکانی مطبوعہ دار الکتب العربی ۳۷۳ حدیث ۳۵طبع اولیٰ ۱۹۸۶ء)
۳۔ اس کا ترجمہ ہے ’’میں علم کا شہر ہوں اور اس کا دروازہ بہت بلند ہے؟کہاں ہے ذکر علیؓ؟
۴۔ ایک دروازہ والا بھی شہر ہوا ہے؟ہاں جیل خانے اور کوٹھڑی کا ایک دروازہ ہوتا ہے ۔شہر کے کم از کم چار دروازے ہونے چاہئیں۔ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم علم کا شہر ہیں اور ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اﷲ عنہم اس شہر کے چار دروازے ہیں حضرت علیؓ بھی ان میں سے ایک ہیں۔ یاد رہے کہ مندرجہ بالا حدیث میں ایک دروازے کا حصر نہیں۔
۵۔ خود حضرت علیؓ نے حضرت عثمان ؓسے فرمایا۔اِنَّکَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ (نہج البلاغہ جز ثانی ۱۵۹ ومن کلام لہ لما اجتمع الناس لہ) کہ اے عثمان!تو اتنا ہی عالم ہے جتنا میں ۔پس حضرت عثمان ؓ کی حضرت علیؓ سے مساوات علمی ثابت ہے۔اگر وہ علم کا دروازہ ہیں تو عثمانؓ بھی بو جہ مساوات علمی رکھنے کے علم کا دروازہ ہوئے۔
شیعہ:۔حضرت علیؓ کے لئے رِجعت شمس کا معجزہ ظاہر ہوا اور یہ ان کی فضلیت کی دلیل ہے۔
جواب:۔رِجعت شمس والی روایت سراسر جعلی اور موضوع ہے۔
(ملاحظہ ہو موضوعات کبیر ملاّ علی قاری صفحہ ۸۹) نیز الفوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعہ مصنفہ امام شوکانی مطبوعہ دار الکتب العربی صفحہ ۳۷۰-۳۶۹)
شیعہ:۔’’حدیث طیر‘‘سے حضرت علیؓ کی فضیلت ثابت ہے ۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ خدایا! اس آدمی کو بھیج دے جو تمام انسانوں میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہو تاکہ وہ میرے ہمراہ اس پرندے کا گوشت کھائے ۔تو حضرت علیؓ تشریف لے آئے۔
جواب:۔یہ روایت بھی سراسر جعلی ہے۔چنانچہ لکھا ہے :۔
لَہٗ طُرُقٌ کَثِیْرَۃٌ کُلُّھَا ضَعِیْفَۃٌ وَقَدْ ذَکَرَہُ ابْنُ الْجَوْزِیْ فِی الْمَوْضُوْعَاتِ (الفوائد المجموعہ فی احادیث الموضوعہ صفحہ ۱۲۹) کہ یہ روایت جتنے طریقوں سے مروی ہے وہ سب ضعیف ہیں اور ابن جوزی نے کہا ہے کہ یہ روایت وضعی یعنی جعلی ہے۔
حضرت عثمان ؓ کا جنازہ
اعتراض شیعہ:۔حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کا جنازہ نہیں پڑھا۔
جواب:۔غلط ہے حضرت عثمانؓ کے جنازے پر حضرت علیؓ حاضر ہوئے چنانچہ لکھا ہے۔
۱۔وَقِیْلَ شَھِدَ جَنَازَتَہٗ عَلِیٌّ وَ طَلْحَۃُ وَ زَیْدُ ابْنُ ثَابِتٍ وَکَعْبُ مَالِکَ (کامل ابن اثیر جلد ۳ صفحہ ۱۸۰مطبوعہ بیروت ۱۳۸۵ھ) کہ حضرت عثمانؓ کے جنازہ پر حضرت علیؓ ،طلحہ ؓ ،زید بن ثابت اور کعب بن مالک رضی اﷲ عنہم حاضر ہوئے۔
۲۔اسی طرح شیعوں کی ناسخ التواریخ میں ہے:۔
’’حسن بن علی یا عبداﷲ بن زبیر و ابو جہم بن حذیفہ و چند تن جسد ِ اُو رَا برتختہ پارہ نہادند …… و جشن نام بستان است در آنجا خاک سپردند‘‘۔ (ناسخ التواریخ کتاب دوم جلد ۲ صفحہ ۴۳۸) گویا حضرت علیؓ نے حضرت عثمانؓ کا جنازہ بوساطت امام حسن ؓ کرایا۔یادرہے کہ جنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے نیز جو امر حضرت علیؓ کو (بقول شما) جنازہ پڑھنے سے مانع تھاوہ حضرت حسنؓ کو کیوں مانع نہ ہوا۔
حضرت ابوبکر ؓ و عمرؓ کا جنگ سے بھاگنا
اعتراض شیعہ:۔حضرت ابوبکرؓ و عمر ؓ جنگ سے بھاگے۔
جواب۱۔غلط ہے ۔طبری میں ہے:۔
وَنُھِضَ نَحْوَ الشِّعْبِ مَعَہ‘ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبِ وَاَبُوْ بَکْرِ ابْنَ اَبِیْ قَحَافَۃَوَعُمَرُ ابْنُ الْخَطَابِ۔ (تاریخ الطبری جلد الثانی صفحہ ۸۶ مطبع دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان) اورگھاٹی کے پاس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمکے ساتھ حضرت علیؓ،حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ کھڑے (دشمن کے ساتھ) مقابلہ کرتے رہے۔
۲۔عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ قَالَ لَمَّا کَانَ یَوْمُ اُحْدٍ انْصَرَفَ کُلُّھُمْ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَکُنْتُ اَوَّلَ مَنْ فَاہٗ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۳۵)
حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ اُحد کے دن جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس سے سب لوگ اِدھر اُدھر چلے گئے تو سب سے پہلے میں آپ کے پاس پہنچا ۔
۳۔ وَمِمَّنْ ثَبَتَ مَعَہ‘ مِنَ الْمُھَاجِرِ یْنَ اَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ۔
(تاریخ الطبری جلد الثانی ذکر الخبر عن غزوہ رسول اﷲ موازن بحنین صفحہ۱۶۸ مطبع دار الکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
کہ جنگ حنین میں حضرت ابوبکر و عمر آنحضرت ؐ کے ساتھ ثابت قدم رہے۔
۴۔ وَثَبَتَ (اَبُوْبَکْرٍ) یَوْمَ اُحْدٍوَیَوْمَ حُنَیْنٍ (تاریخ الخلفاء صفحہ ۳۶للامام السیوطی اصح المطابع آرام باغ کراچی) کہ حضرت ابوبکر ؓ جنگ اُحد اور حنین میں ثابت قدم رہے۔
۵۔اسی طرح جنگ خیبر کے متعلق لکھا ہے:۔
وَاِنَّ اَبَابَکْر اَخَذَ رَأیَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ثُمَّ نَھَضَ فَقَاتَلَ قِتَالاًشَدِیْدًاثُمَّ رَجَعَ فَأَخَذَھَا عُمَرُ فَقَاتَلَ قِتَالاًشَدِیْدًا ھُوَ اَشَدُّمِنَ الْقِتَالِ الْاَوَّلِ۔
(تاریخ الطبری جلد الثانی ذکر الاحداث الکائنۃ فی سنۃ سبع من الھجرۃ غزوہ الخیبر صفحہ ۱۳۸ مطبع دار الکتب العلمیۃ بیروت )
کہ (جب آنحضرت ؐ بیمار ہوگئے تو) حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ نے یکے بعد دیگرے آنحضرت ؐ کا جھنڈا لے کر ایک دوسرے سے بڑھ کر کفّار سے جنگ کی۔
۶۔ اسی طرح تاریخ الخلفاء میں حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق حضرت علیؓ کی شہادت موجود ہے۔
فَوَاللّٰہِ مَا دَنَا مِنَّا اَحَدٌ اِلَّا اَبُوْبَکْرٍشَاھِرًا بِالْسَّیْفِ عَلیٰ رَأْسِ رَسُوْلِ اللّٰہِ فَھُوَ اَشْجَعُ النَّاسِ (تاریخ الخلفاء صفحہ۳۷ للامام السیوطی اصح المطابع آرام باغ کراچی) کہ خدا کی قسم!حضرت ابوبکرؓ کے سوا اور کوئی ہم میں سے آنحضرت ؐ کے قریب نہیں ہوا۔حضرت ابوبکرؓ تلوار سونت کر آنحضرت ؐ کے سر پر پہرہ دے رہے تھے۔پس آپ سب سے زیادہ شجاع تھے۔
پس کتب اہل سنّت سے اصحاب ثلاثہ کا جنگوں کے موقع پر ثابت قدم رہنا ثابت ہے ۔اس لئے اہل سنّت کے بالمقابل یہ طعن کوئی وقعت نہیں رکھتا ۔باقی رہیں اہل شیعہ کی روایات۔سو وہ حجت نہیں؟