Ruhani Khazain Volume 1. Page: 532
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 532
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نہیں پہنچتے اورؔ اصل حقیقت کو نہیں شناخت کرسکتے یہ مشہور کردیا کہ ایک روح کی مدد سے ایسے ایسے کام کرتا ہوں بالخصوص جبکہ یہ بھی ثابت ہے
کہ خداوند تعالیٰ کی خالص طور پر پرستش کریں مسیح کی پرستش میں مشغول ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنے کاروبار میں خدا سے مدد چاہیں مسیح سے مدد مانگتے رہتے ہیں اور ان کی زبانوں پر ہروقت ربّنا المسیح ربّنا المسیح جاری ہے۔ سوؔ وہ لوگ مضمون اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پر عمل کرنے سے محروم اور راندہ درگاہِ الٰہی ہیں۔ ساتویں صداقت جو سور ۂفاتحہ میں درج ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ ہے
کے داغوں سے اور جہالت اور بے خبری کی ظلمتوں سے نجات حاصل کرے۔ سو ان کے مبارک عہد میں کچھ ایسی خاصیت ہوتی ہے اور کچھ اس قسم کا انتشار نورانیت ہوجاتا ہے کہ ہریک مومن اور طالب حق بقدر طاقت ایمانی اپنے نفس میں بغیر کسی ظاہری موجب کے انشراح اور شوق دینداری کا پاتا ہے اور ہمت کو زیادت اور قوت میں دیکھتا ہے۔ غرض ان کے اس عطر لطیف سے جو ان کو کامل متابعت کی برکت سے حاصل ہوا ہے ہریک مخلص کو بقدر اپنے اخلاص کے حظّ پہنچتا ہے ہاں جو لوگ شقی ازلی ہیں وہ اس سے کچھ حصہ نہیں پاتے بلکہ اور بھی عناد اور حسد اور شقاوت میں بڑھ کر ہاویہ جہنم میں گرتے ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے 3۔ ۱ پھر ہم اسی تقریر کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کی غرض سے دوسرے لفظوں میں دوہرا کر یہ تفصیل لکھتےؔ ہیں کہ متبعین قرآن شریف کو جو انعامات ملتے ہیں اور جو مواہب خاصہ ان کے نصیب ہوتے ہیں اگرچہ وہ بیان اور تقریر سے خارج ہیں مگر ان میں سے کئی ایک ایسے انعاماتِ عظیمہ ہیں جن کو اس جگہ مفصّل طور پر بغرض ہدایت طالبین بطور نمونہ لکھنا قرین مصلحت ہے۔ چنانچہ وہ ذیل میں لکھے جاتے ہیں:۔
ازانجملہ علوم و معارف ہیں جو کامل متبعین کو خوان نعمت فرقانیہ سے حاصل ہوتے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 533
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 533
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کہ حضرت مسیح اسی حوض پر اکثر جایا بھی کرتے تھے ؔ تو اس خیال کو اَور بھی قوت حاصل ہوتی ہے۔ غرض مخالف کی نظر میں ایسے معجزوں سے کہ
جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم کو وہ راستہ دکھلا اور اُس راہ پر ہم کو ثابت اور قائم کر کہ جو سیدھا ہے جس میں کسی نوع کی کجی نہیں۔ اس صداقت کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کی حقیقی دعا یہی ہے کہ وہ خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ طلب کرے کیونکہ ہر یک مطلوب کے حاصل کرنے کے لئے طبعی قاعدہ یہ ہے کہ ان وسائل کو حاصل کیا جائے جن کے ذریعہ سے وہ مطلب ملتا ہے اور خدا نے ہریک امر کی تحصیل کے لئے یہی قانون قدرت ٹھہرا رکھا ہے کہ جو اس کے حصول کے وسائل ہیں وہ حاصل کئے ؔ جائیں اور جن
ہیں۔ جب انسان فرقان مجید کی سچی متابعت اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس کے امرونہی کے بکُلّی حوالہ کردیتا ہے اور کامل محبت اور اخلاص سے اس کی ہدایتوں میں غور کرتا ہے اور کوئی اعراض صوری یا معنوی باقی نہیں رہتا۔ تب اس کی نظر اور فکر کو حضرت فیاض ُ مطلق کی طرف سے ایک نور عطا کیا جاتا ہے اور ایک لطیف عقل اس کو بخشی جاتی ہے جس سے عجیب غریب لطائف اور نکات علم الٰہی کے جو کلام الٰہی میں پوشیدہ ہیں اس پر کھلتے ہیں اور ابرنیساں کے رنگ میں معارف دقیقہ اس کے دل پر برستے ہیں۔ وہی معارف دقیقہ ہیں جن کو فرقان مجید میں حکمت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے یعنی خدا جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی ہے یعنی حکمت خیر کثیر پر مشتمل ہے اور جس نے حکمت پائی اس نے خیر کثیر کو پالیا۔ سو یہ علوم و معارف جو دوسرے لفظوں میں حکمت کے نام سے موسوم ہیں یہ خیر کثیر پر مشتمل ہونے کی و جہ سے بحر محیط کے رنگ میں ہیں جو کلام الٰہی کے تابعین کو دیئے جاتے ہیں اور ان کے فکر اور نظر میں ایک ایسی برکت رکھی جاتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے حقائق حقّہ اُن کے نفس آئینہ صفت پر منعکس ہوتے رہتے ہیں اور کامل صداقتیں ان پر منکشف ہوتی رہتی ہیں۔ اور تائیداؔ تِ الٰہیہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 534
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 534
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
و قدیم سے حوض دکھلاتا رہا ہے حضرت عیسیٰ کی نسبت بہت سے شکوک
راہوں پر چلنے سے وہ مطلب مل سکتا ہے وہ راہیں اختیار کی جائیں اور جب انسان صراط مستقیم پر ٹھیک ٹھیک قدم مارے اور جو حصول مطلب کی راہیں ہیں ان پر چلنا اختیار کرے تو پھر مطلب خودبخود حاصل ہوجاتا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اُن راہوں کے چھوڑ دینے سے جو کسی مطلب کے حصول کے لئے بطور وسائل کے ہیں یونہی مطلب حاصل ہوجائے بلکہ قدیم سے یہی قانون قدرت بندھا ہوا چلا آتا ہے کہ
ہریک تحقیق اور تدقیق کے وقت کچھ ایسا سامان ان کے لئے میسر کردیتی ہیں جس سے بیان ان کا ادھورا اور ناقص نہیں رہتا اور نہ کچھ غلطی واقعہ ہوتی ہے۔ سو جو جو علوم و معارف و دقائق حقائق و لطائف و نکات و ادلّہ و براہین ان کو سوجھتے ہیں وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں ایسے مرتبہ کاملہ پر واقع ہوتے ہیں کہ جو خارق عادت ہے اور جس کا موازنہ اور مقابلہ دوسرے لوگوں سے ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ ہی نہیں بلکہ تفہیم غیبی اور تائید صمدی ان کی پیش رو ہوتی ہے۔ اور اسی تفہیم کی طاقت سے وہ اسرار اور انوار قرآنی اُن پر کھلتے ہیں کہ جو صرف عقل کی دود آمیز روشنی سے کھل نہیں سکتے۔ اور یہ علوم و معارف جو اُن کو عطا ہوتے ہیں جن سے ذات اور صفات الٰہی کے متعلق اور عالم معاد کی نسبت لطیف اور باریک باتیں اور نہایت عمیق حقیقتیں اُن پر ظاہر ہوتی ہیں یہ ایک روحانی خوارق ہیں کہ جو بالغ نظروں کی نگاہوں میں جسمانی خوارق سے اعلیٰ اور الطف ہیں بلکہ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ عارفین اور اہل اللہ کا قدر و منزلت دانشمندوں کی نظر میں اِنہیں خوارق سے معلوم ہوتا ہے اور وہی خوارق ان کی منزلت عالیہ کی زینت اور آرائش اور ان کے چہرہ صلاحیت کی زیبائی اور خوبصورتی ہیں کیونکہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ علوم و معارف حقہ کی ہیبت سب سے زیادہ اس پر اثر
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 535
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 535
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ی طریقہ ہے جب تک انسان اس طریقہ مقررہ پر قدم نہیں مارتا تب تک وہ امر اس کو حاصل نہیں ہوتا پس وہ شے جس کو محنت اور کوشش اور دعا اور تضرع سے حاصل کرنا چاہئے صراطِ مستقیم ہے۔ جو شخص صراطِ مستقیم
ڈالتی ہے اور صداقت اور معرفت ہریک چیز سے زیادہ اس کو پیاری ہے اور اگر ایک زاہد عابد ایسا فرض کیا جائے کہ صاحب مکاشفات ہے اور اخبارِ غیبیہ بھی اسے معلوم ہوتے ہیں اور ریاضاتِ شاقہ بھی بجالاتا ہے اور کئی اور قسم کے خوارق بھی اس سے ظہور میں آتے ہیں مگر علم الٰہی کے بارہ میں سخت جاہل ہے۔ یہاں تک کہ حق اور باطل میں تمیز ہی نہیں کرسکتا بلکہ خیالاتِ فاسدہ میں گرفتار اور عقائد غیر صحیحہ میں مبتلا ہے ہریک بات میں خام اور ہریک رائے میںؔ فاش غلطی کرتا ہے تو ایسا شخص طبائع سلیمہ کی نظر میں نہایت حقیر اور ذلیل معلوم ہوگا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ جس شخص سے دانا انسان کو جہالت کی بدبو آتی ہے اور کوئی احمقانہ کلمہ اس کے منہ سے سن لیتا ہے تو فی الفور اس کی طرف سے دل متنفر ہوجاتا ہے اور پھر وہ شخص عاقل کی نظر میں کسی طور سے قابل تعظیم نہیں ٹھہرسکتا اور گو کیسا ہی زاہد عابد کیوں نہ ہو کچھ حقیر سا معلوم ہوتا ہے پس انسان کی اس فطرتی عادت سے ظاہر ہے کہ خوارق روحانی یعنی علوم و معارف اس کی نظر میں اہل اللہ کے لئے شرط لازمی اور اکابر دین کی شناخت کے لئے علامات خاصہ اور ضروریہ ہیں۔ پس یہ علامتیں فرقان شریف کی کامل تابعین کو اکمل اور اتم طور پر عطا ہوتی ہیں اور باوجودیکہ ان میں سے اکثروں کی سرشت پر اُمیت غالب ہوتی ہے اور علومِ رسمیہ کو باستیفا حاصل نہیں کیا ہوتا لیکن نکات اور لطائف علم الٰہی میں اس قدر اپنے ہم عصروں سے سبقت لے جاتے ہیں کہ بسا اوقات بڑے بڑے مخالف ان کی تقریروں کو سن کر یا ان کی تحریروں کو پڑھ کر اور دریائے حیرت
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 536
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 536
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
آدمی تھا جس نے اپنے ؔ عجائبات کے دکھلانے میں اس قدیمی حوض سے کچھ مدد نہیں لی اور سچ مچ معجزات ہی دکھائے ہیں اور اگرچہ قرآنِ شریف
کی طلب میں کوشش نہیں کرتا اور نہ اسؔ کی کچھ پرواہ رکھتا ہے وہ خدا کے نزدیک ایک کجرو آدمی ہے اور اگر وہ خدا سے بہشت اور عالمِ ثانی کی راحتوں کا طالب ہو تو حکمتِ الٰہی اسے یہی جواب دیتی ہے کہ اے نادان اول صراطِ مستقیم کو
میں پڑ کر بلا اختیار بول اٹھتے ہیں کہ ان کے علوم و معارف ایک دوسرے عالم سے ہیں جو تائیداتِ الٰہی کے رنگ خاص سے رنگین ہیں اور اس کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ اگر کوئی منکر بطور مقابلہ کے الٰہیات کے مباحث میں سے کسی بحث میں ان کی محققانہ اور عارفانہ تقریروں کے ساتھ کسی تقریر کا مقابلہ کرنا چاہے تو اخیر پر بشرط انصاف و دیانت اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ صداقت حقّہ اسی تقریر میں تھی جو ان کے منہ سے نکلی تھی اور جیسے جیسے بحث عمیق ہوتی جائے گی بہت سے لطیف اور دقیق براہین ایسے نکلتے آئیں گے جن سے روز روشن کی طرح ان کا سچا ہونا کھلتا جائے گا چنانچہ ہریک طالب حق پر اس کا ثبوت ظاہر کرنے کے لئے ہم آپ ہی ذمہ وار ہیںؔ ۔ ازاں جملہ ایک عصمت بھی ہے جس کو حفظِ الٰہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور یہ عصمت بھی فرقان مجید کے کامل تابعین کو بطور خارق عادت عطا ہوتی ہے۔ اور اس جگہ عصمت سے مراد ہماری یہ ہے کہ وہ ایسی نالائق اور مذموم عادات اور خیالات اور اخلاق اور افعال سے محفوظ رکھے جاتے ہیں جن میں دوسرے لوگ دن رات آلودہ اور ملوث نظر آتے ہیں اور اگر کوئی لغزش بھی ہوجائے تو رحمت الٰہیہ جلد تر ان کا تدارک کرلیتی ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ عصمت کا مقام نہایت نازک اور نفس امارہ کے مقتضیات سے نہایت دور پڑا ہوا ہے جس کا حاصل ہونا بجز توجہ خاص الٰہی کے ممکن نہیں مثلاً اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ وہ صرف ایک کذب اور دروغ گوئی کی عادت سے اپنے جمیع معاملات اور بیانات اور حرفوں اور پیشوں میں قطعی طور پر باز رہے تو یہ اس کے لئے مشکل اور ممتنع
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 537
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 537
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
پر ایمان لانے کے بعد ان وساوس سے نجات حاصل ہوجاتی ہے مگر جو شخص ابھی قرآنِؔ شریف پر ایمان نہیں لایا اور یہودی یا ہندو یا عیسائی
طلب کر پھر یہ سب کچھ تجھے آسانی سے مل جائے گا۔ سو سب دعاؤں سے مقدم دعا جس کی طالب حق کو اشدّؔ ضرورت ہے طلبِ صراط مستقیم ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہمارے مخالفین اس صداقت پر قدم مارنے سے بھی محروم ہیں۔ عیسائی لوگ تو اپنی ہر
ہوجاتا ہے۔ بلکہ اگر اس کام کے کرنے کے لئے کوشش اور سعی بھی کرے تو اس قدر موانع اور عوائق اس کو پیش آتے ہیں کہ بالآخر خود اس کا یہ اصول ہوجاتا ہے کہ دنیاداری میں جھوٹ اور خلاف گوئی سے پرہیز کرنا ناممکن ہے۔ مگر ان سعید لوگوں کے لئے کہ جو سچی محبت اور پُرجوش ارادت سے فرقان مجید کی ہدایتوں پر چلنا چاہتے ہیں۔ صرف یہی امر آسان نہیں کیا جاتا کہ وہ دروغ گوئی کی قبیح عادت سے باز رہیں بلکہ وہ ہر ناکردنی اور ناگفتنی کے چھوڑنے پر قادر مطلق سے توفیق پاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے ایسی تقریبات شنیعہ سے اُن کو محفوظ رکھتا ہے جن سے وہ ہلاکت کے ورطوں میں پڑیں۔ کیونکہ وہ دنیا کا نور ہوتے ہیں اور ان کی سلامتی میں دنیا کی سلامتی اور ان کی ہلاکت میں دنیا کی ہلاکت ہوتی ہے۔ اسی جہت سے وہ اپنے ہریک خیال اور علم اور فہم اور غضب اور شہوت اور خوف اور طمع اور تنگی اور فراخی اور خوشی اور غمی اور عسر اور یسر میں تمام نالائق باتوں اور فاسد خیالوں اور نادرست علموں اور ناجائزؔ عملوں اور بے جا فہموں اور ہریک افراط اور تفریط نفسانی سے بچائے جاتے ہیں اور کسی مذموم بات پر ٹھہرنا نہیں پاتے کیوں کہ خود خداوند کریم ان کی تربیت کا متکفل ہوتا ہے اور جس شاخ کو ان کے شجرۂ طیبہ میں خشک دیکھتا ہے۔ اس کو فی الفور اپنے مربیانہ ہاتھ سے کاٹ ڈالتا ہے اور حمایتِ الٰہی ہردم اور ہر لحظہ ان کی نگرانی کرتی رہتی ہے۔ اور یہ نعمت محفوظیت کی جو ان کو عطا ہوتی ہے۔ یہ بھی بغیر ثبوت نہیں بلکہ زیرک انسان کسی قدر صحبت سے اپنی پوری تسلی سے اس کو معلوم کرسکتا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 538
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 538
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہے وہ کیونکر ایسے وساوس سے نجات پاسکتا ہے اور کیونکر اس کا دل اطمینان پکڑ سکتا ہے کہ باوجود ایسے عجیب حوض کےؔ جس میں ہزاروں لنگڑے اور لُولے
دعا میں روٹی ہی مانگا کرتے ہیں۔ اور اگر کھاپی کر اور پیٹ بھر کربھی گرجا میں آویں پھر بھی جھوٹ موٹ اپنے تئیں بھوکے ظاہر کرکے روٹی مانگتے رہتے ہیں گویا ان کا مطلوبِ اعظم روٹی ہیؔ ہے وبس۔ آریہ سماج والے اور دوسرے ان کے
ہے۔ ازانجملہ ایک مقام توکل ہے جس پر نہایت مضبوطی سے ان کو قائم کیا جاتا ہے اور ان کے غیر کو وہ چشمہ صافی ہرگز میسر نہیں آسکتا بلکہ انہیں کے لئے وہ خوشگوار اور موافق کیا جاتا ہے۔ اور نور معرفت ایسا ان کو تھامے رہتا ہے کہ وہ بسا اوقات طرح طرح کی بے سامانی میں ہوکر اور اسباب عادیہ سے بکلّی اپنے تئیں دور پاکر پھر بھی ایسی بشاشت اور انشراح خاطر سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ایسی خوشحالی سے دنوں کو کاٹتے ہیں کہ گویا ان کے پاس ہزارہا خزائن ہیں۔ ان کے چہروں پر تونگری کی تازگی نظر آتی ہے اور صاحب دولت ہونے کی مستقل مزاجی دکھائی دیتی ہے اور تنگیوں کی حالت میں بکمال کشادہ دلی اور یقین کامل اپنے مولیٰ کریم پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ سیرت ایثار اُن کا مشرب ہوتا ہے اور خدمتِ خلق ان کی عادت ہوتی ہے اور کبھی انقباض ان کی حالت میں راہ نہیں پاتا اگرچہ سارا جہان ان کا عیال ہوجائے اور فی الحقیقت خدائے تعالیٰ کی ستاری مستوجب شکر ہے جو ہر جگہ ان کی پردہ پوشی کرتی ہے اور قبل اس کے جو کوئی آفت فوق الطاقت نازل ہو ان کو دامن عاطفت میں لے لیتی ہے کیونکہ اُن کے تمام کاموں کا خدا متولّی ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس نے آپ ہی فرمایا ہے۔3۔ ۱ لیکن دوسروں کو دنیاداری کے دل آزار اسباب میں چھوڑا جاتا ہے اور وہ خارق عادت سیرت جو خاص ان لوگوں کے ساتھ ظاہر کی جاتی ہے کسی دوسرے کے ساتھ ظاہر نہیں کی جاتی۔ اور یہ خاصہ ان کا بھیؔ صحبت سے بہت
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 539
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 539
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور مادر زاد اندھے ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہوجاتے تھے اور جو صدہا سال سے اپنے خواص عجیبہ کے ساتھ یہودیوں اور اس ملکؔ کے تمام لوگوں میں مشہور اور
بُت پرست بھائی اپنی دعاؤں میں جنم مرن سے بچنے کے لئے یعنی اواگون سے جو ان کے زعم باطل میں ٹھیک اور درست ہے طرح طرح کے اشلوک پڑھا کرتے ہیں اور صراطِ مستقیم کو خدا سے نہیں مانگتے۔ علاوہ اس کے اللہ تعالیٰ نے تو اس جگہ جمع کا لفظ بیان
جلد ثابت ہوسکتا ہے۔ ازانجملہ ایک مقام محبتِ ذاتی کا ہے جس پر قرآن شریف کے کامل متبعین کو قائم کیا جاتا ہے اور ان کے رگ و ریشہ میں اس قدر محبت الٰہیہ تاثیر کرجاتی ہے کہ ان کے وجود کی حقیقت بلکہ ان کی جان کی جان ہوجاتی ہے اور محبوب حقیقی سے ایک عجیب طرح کا پیار ان کے دلوں میں جوش مارتا ہے اور ایک خارق عادت انس اور شوق ان کے قلوب صافیہ پر مستولی ہوجاتا ہے کہ جو غیر سے بکلی منقطع اور گسستہ کردیتا ہے اور آتشِ عشقِ الٰہی ایسی افروختہ ہوتی ہے کہ جو ہم صحبت لوگوں کو اوقات خاصہ میں بدیہی طور پر مشہود اور محسوس ہوتی ہے بلکہ اگر محبان صادق اس جوش محبت کو کسی حیلہ اور تدبیر سے پوشیدہ رکھنا بھی چاہیں تو یہ ان کے لئے غیر ممکن ہوجاتا ہے۔ جیسے عشاق مجازی کے لئے بھی یہ بات غیر ممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب کی محبت کو جس کے دیکھنے کے لئے دن رات مرتے ہیں اپنے رفیقوں اور ہم صحبتوں سے چھپائے رکھیں بلکہ وہ عشق جو ان کے کلام اور ان کی صورت اور ان کی آنکھ اور ان کی وضع اور ان کی فطرت میں گھس گیا ہے اور ان کے بال بال سے مترشح ہورہا ہے وہ ان کے چھپانے سے ہرگز چھپ ہی نہیں سکتا۔ اور ہزار چھپائیں کوئی نہ کوئی نشان اس کا نمودار ہوجاتا ہے اور سب سے بزرگ تر ان کے صدق قدم کا نشان یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کو ہریک چیز پر اختیار کرلیتے ہیں اور اگر آلام اس کی طرف سے پہنچیں تو محبت ذاتی کے غلبہ سے برنگ انعام ان کو مشاہدہ کرتے ہیں اور عذاب کو شربت عذب کی طرح سمجھتے ہیں۔ کسی تلوار کی تیز دھار ان میں اور ان کے محبوب میں جدائی نہیں ڈال سکتی اور کوئی بلیّہ عظمیٰ ان کو اپنے اس پیارے کی یادداشت سے روک نہیں سکتے اسی کو اپنی جان سمجھتے ہیں اور اسی کی محبت میں لذّات پاتے اور اسی کی ہستی کو ہستی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 540
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 540
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
زبان زد ہورہا تھا اور بے شمار آدمی اُس میں غوطہ مارنے سے شفا پاچکے تھے اور ہر روز پاتے تھے اور ہر وقت ایک میلہ اُس پر لگا رہتا تھاؔ اور مسیح
کرؔ کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کوئی انسان ہدایت طلب کرنے اور انعام الٰہی پانے سے ممنوع نہیں ہے مگر بموجبِ اصول آریا سماج کے ہدایت طلب کرنا گنہگار کے لئے ناجائز ہے اور خدا اس کو ضرور سزا دے گا اور ہدایت پانا نہ پانا اس کے لئے برابر ہے۔ برہمو سماج والوں کا دعاؤں پر کچھ ایسا اعتقادؔ ہی نہیں وہ ہر وقت اپنی
خیال کرتے ہیں اور اسی کے ذکر کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیتے ہیں۔ اگر چاہتے ہیں تو اسی کو اگر ؔ آرام پاتے ہیں تو اسی سے۔ تمام عالم میں اسی کو رکھتے ہیں اور اسی کے ہورہتے ہیں۔ اسی کے لئے جیتے ہیں۔ اسی کے لئے مرتے ہیں۔ عالم میں رہ کر پھر بے عالم ہیں اور باخود ہوکر پھر بے خود ہیں نہ عزت سے کام رکھتے ہیں نہ نام سے نہ اپنی جان سے نہ اپنے آرام سے بلکہ سب کچھ ایک کے لئے کھو بیٹھتے ہیں اور ایک کے پانے کے لئے سب کچھ دے ڈالتے ہیں۔ لا یدرک آتش سے جلتے جاتے ہیں اور کچھ بیان نہیں کرسکتے کہ کیوں جلتے ہیں اور تفہیم اور تفہّم سے صمٌّ و بکمٌ ہوتے ہیں اور ہریک مصیبت اور ہریک رسوائی کے سہنے کو طیار رہتے ہیں اور اُس سے لذّت پاتے ہیں۔
عشق است کہ برخاک مذلت غلطاند
عشق است کہ برآتش سوزاں بنشاند
کس بہر کسے سر ندہد جان نہ فشاند
عشق است کہ ایں کار بصد صدق کناند
ازانجملہ اخلاق فاضلہ ہیں جیسے سخاوت شجاعت ایثار علوہمت و فور شفقت حلم حیا مودّت یہ تمام اخلاق بھی بوجہ احسن اور انسب انہیں سے صادر ہوتے ہیں اور وہی لوگ بہ یمن متابعتِ قرآن شریف وفاداری سے اخیر عمر تک ہر یک حالت میں ان کو بخوبی و شائستگی انجام دیتے ہیں اور کوئی انقباض خاطر ان کو ایسا پیش نہیں آتا کہ جو اخلاق حسنہ کی کما ینبغی صادر ہونے سے ان کو روک سکے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ خوبی علمی یا عملی یا اخلاقی انسان سے صادر ہوسکتی ہے وہ صرف انسانی طاقتوں سے صادر نہیں ہوسکتی بلکہ اصل موجب اس کے صدور کا فضل الٰہی ہے۔ پس چونکہ یہ لوگ سب سے زیادہ مورد فضل الٰہی ہوتے ہیں اس لئے خود خداوند کریم اپنے تفضّلات نامتناہی سے تمام خوبیوں سے ان کو متمتع کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 541
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 541
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بھی اکثر اُس حوض پر جایا کرتا تھا اور اُس کی ان عجیب و غریب خاصیتوں سے باخبر تھا مگر پھر بھی مسیح نے ان معجزات کے دکھلانے میں جن کو قدیم سے حوض
عقل کے گھمنڈ میں رہتے ہیں اور نیز ان کا یہ بھی مقولہ ہے کہ کسی خاص دعا کو بندگی اور عبادت کے لئے خاص کرنا ضروری نہیں۔ انسان کو اختیار ہے جو چاہے دعا مانگے مگر یہ ان کی سراسر نادانی ہے اور ظاہر ہے کہ اگرچہ جزوی حاجات صدہا انسان کو لگی ہوئی ہیں۔
کہ حقیقی طور پر بجُز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی نیک نہیں تمام اخلاق فاضلہ اور تمام نیکیاں اسی کے لئے مسلم ہیں پھر جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت سے فانی ہوکر اس ذات خیر محض کا قربؔ حاصل کرتا ہے اسی قدر اخلاقِ الٰہیہ اس کے نفس پر منعکس ہوتی ہیں پس بندہ کو جو جو خوبیاں اور سچی تہذیب حاصل ہوتی ہے وہ خدا ہی کے قرب سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہی چاہئے تھا کیونکہ مخلوق فی ذاتہٖ کچھ چیز نہیں ہے سو اخلاق فاضلہ الٰہیہ کا انعکاس انہیں کے دلوں پر ہوتا ہے کہ جو لوگ قرآن شریف کا کامل اتباع اختیار کرتے ہیں اور تجربہ صحیحہ بتلا سکتا ہے کہ جس مشرب صافی اور روحانی ذوق اور محبت کے بھرے ہوئے جوش سے اخلاق فاضلہ ان سے صادر ہوتے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اگرچہ منہ سے ہریک شخص دعویٰ کرسکتا ہے اور لاف و گذاف کے طور پر ہریک کی زبان چل سکتی ہے مگر جو تجربہ صحیحہ کا تنگ دروازہ ہے اس دروازہ سے سلامت نکلنے والے یہی لوگ ہیں اور دوسرے لوگ اگر کچھ اخلاق فاضلہ ظاہر کرتے بھی ہیں تو تکلّف اور تصنّع سے ظاہر کرتے ہیں اور اپنی آلودگیوں کو پوشیدہ رکھ کر اور اپنی بیماریوں کو چھپا کر اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں اور ادنیٰ ادنیٰ امتحانوں میں ان کی قلعی کھل جاتی ہے اور تکلف اور تصنع اخلاق فاضلہ کے ادا کرنے میں اکثر وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اپنی دنیا اور معاشرت کا حسن انتظام وہ اسی میں دیکھتے ہیں اور اگر اپنی اندرونی آلائشوں کی ہر جگہ پیروی کریں تو پھر مہمات معاشرت میں خلل پڑتا ہے اور اگرچہ بقدر استعداد فطرتی کے کچھ تخم اخلاق کا ان میں بھی ہوتا ہے مگر وہ اکثر نفسانی خواہشوں کے کانٹوں کے نیچے دبا رہتا ہے اور بغیر آمیزش اغراض نفسانی کے خالصاً للہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 542
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 542
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دکھلا رہا تھاؔ اُسی حوض کی مٹی یا پانی سے کچھ مدد نہیں لی اور اُسی میں کچھ تصرف کرکے اپنا نیا نسخہ نہیں نکالا۔ بلاشبہ ایسا خیال بے دلیل بات ہے کہ جو
مگر حاجتِ اعظم جس کا دن ؔ رات اور ہریک دم فکر کرنا چاہئے صرف ایک ہی ہے یعنی یہ کہ انسان ان طرح طرح کے حجبِ ظلمانیہ سے نجات پاکر معرفت کامل کے درجہ تک پہنچ جائے اور کسی طرح کی نابینائی اور کور باطنی اور بے مہری اور بے وفائی باقی نہ رہے بلکہ خدا کو کامل طور پر شناخت کرکے اور اس کی خالص محبت سے
ظاہر نہیں ہوتا چہ جائیکہ اپنے کمال کو پہنچے اور خالصاًللہ انہیں میں وہ تخم کمال کو پہنچتا ہے کہ جو خدا کے ہورہتے ہیں اور جن کے نفوس کو خدائے تعالیٰ غیریت کی لوث سے بکلّی خالی پاکر خود اپنے پاک اخلاق سے بھر دیتا ہے اور ان کے دلوں میں وہ اخلاق ایسے پیارے کردیتا ہے جیسے وہ اس کو آپ پیارے ہیں پس وہ لوگ فانی ہونے کی وجہ سے تخلق باخلاق اللہ کا ایسا مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں کہ گویا وہ خدا کا ایک آلہ ہوجاتے ہیں جس کی توسّط سے وہ اپنے اخلاق ظاہر کرتا ہے اور ان کو بھوکے اور پیاسے پاکر وہؔ آب زلال ان کو اپنے اس خاص چشمہ سے پلاتا ہے جس میں کسی مخلوق کو علیٰ وجہ الاصالت اس کے ساتھ شرکت نہیں۔ اور منجملہ ان عطیات کے ایک کمال عظیم جو قرآن شریف کے کامل تابعین کو دیا جاتا ہے عبودیت ہے یعنی وہ باوجود بہت سے کمالات کے ہر وقت نقصان ذاتی اپنا پیش نظر رکھتے ہیں اور بشہود کبریائی حضرت باری تعالیٰ ہمیشہ تذلل اور نیستی اور انکسار میں رہتے ہیں اور اپنی اصل حقیقت ذلت اور مفلسی اور ناداری اور پُر تقصیری اور خطاواری سمجھتے ہیں اور ان تمام کمالات کو جو ان کو دیئے گئے ہیں اس عارضی روشنی کی مانند سمجھتے ہیں جو کسی وقت آفتاب کی طرف سے دیوار پر پڑتی ہے جس کو حقیقی طور پر دیوار سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہوتا اور لباس مستعار کی طرح معرض زوال میں ہوتی ہے۔ پس وہ تمام خیر و خوبی خدا ہی میں محصور رکھتے ہیں اور تمام نیکیوں کا چشمہ اسی کی ذات کامل کو قرار دیتے ہیں اور صفات الٰہیہ کے کامل شہود سے ان کے دل میں حق الیقین کے طور پر بھر جاتا ہے کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے وجود اور ارادہ اور خواہش سے بکلی کھوئے جاتے ہیں اور عظمت الٰہی کا پُرجوش دریا اُن کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 543
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 543
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مخالف کے روبرو کارگر نہیںؔ اور بلاریب اس حوض عجیب الصفات کے وجود پر خیال کرنے سے مسیح کی حالت پر بہت سے اعتراضات عائد ہوتے ہیں جو کسی طرح
پُر ہوکر مرتبہ وصال الٰہی کا ؔ جس میں اس کی سعادت تامہ ہے پالیوے یہی ایک دعا ہے۔ جس کی انسان کو سخت حاجت ہے اور جس پر اس کی ساری سعادت موقوف ہے سو اس کے حصول کا سیدھا راستہ یہی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہے کیونکہ انسان کے لئے ہریک مطلب کے پانے کا یہی ایک طریق ہے کہ جن راہوں پر چلنے سے وہ مطلب حاصل ہوتا ہے ان راہوں پر مضبوطی سے قدم مارے اور وہی راستہ اختیار کرے
دلوں پر ایسا محیط ہوجاتا ہے کہ ہزارہا طور کی نیستی ان پر وارد ہوجاتی ہے اور شرک خفی کے ہریک رگ و ریشہ سے بکلی پاک اور منزہ ہوجاتے ہیں اور منجملہ ان عطیات کے ایک یہ ہے کہ اُن کی معرفت اور خداشناسی بذریعہ کشوف صادقہ و علوم لدنیہ و الہامات صریحہ و مکالمات و مخاطبات حضرت احدیت و دیگر خوارق عادت بدرجہ اکمل و اتم پہنچائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان میں اور عالم ثانی میں ایک نہایت رقیق اور شفاف حجاب باقی رہ جاتا ہے۔ جس میں سے ان کی نظر عبور کرکے واقعات اخروی کو اسی عالم میں دیکھ لیتی ہے برخلاف دوسرے لوگوں کے کہ جو بباعث پُرظلمت ہونے اپنی کتابوں کے اس مرتبہ کاملہ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے بلکہ ان کی کج تعلیم کتابیں ان کے حجابوں ؔ پر اور بھی صدہا حجاب ڈالتے ہیں اور بیماری کو آگے سے آگے بڑھا کر موت تک پہنچاتے ہیں۔ اور فلسفی جن کے قدموں پر آج کل برہمو سماج والے چلتے ہیں اور جن کے مذہب کا سارا مدار عقلی خیالات پر ہے وہ خود اپنے طریق میں ناقص ہیں اور ان کے نقصان پر یہی دلیل کافی ہے کہ ان کی معرفت باوجود صدہا طرح کی غلطیوں کی نظری وجوہ سے تجاوز نہیں کرتی اور قیاسی اٹکلوں سے آگے نہیں بڑھتی اور ظاہر ہے کہ جس شخص کی معرفت صرف نظری طور تک محدود ہے اور وہ بھی کئی طرح کی خطا کی آلودگیوں سے ملوث وہ شخص بمقابلہ اس شخص کے جس کا عرفان بداہت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے اپنی علمی حالت میں بغایت درجہ پست اور متنزّل ہے۔ ظاہر ہے کہ نظر اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 544
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 544
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اٹھ نہیں سکتے اورجس قدر غور کروؔ اُسی قدر داروگیر بڑھتی ہے اورمسیحی جماعت کیلئے کوئی راستہَ مخلصی کانظر نہیں آتاکیونکہ دنیا کی موجودہ حالت کودیکھ کریہ وساوس اور
کہ جو سیدھا منزل مقصودؔ تک پہنچتا ہے اور بے راہیوں کو چھوڑ دے اور یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ ہر شے کے حصول کے لئے خدا نے اپنے قانون قدرت میں صرف ایک ہی راستہ ایسا رکھا ہے جس کو سیدھا کہنا چاہئے اور جب تک ٹھیک ٹھیک وہی راستہ اختیار نہ
فکر کے مرتبہ کے آگے ایک مرتبہ بداہت اور شہود کا باقی ہے یعنی جو امور نظری اور فکری طور پر معلوم ہوتے ہیں وہ ممکن ہیں کہ کسی اور ذریعہ سے بدیہی اور مشہود طور پر معلوم ہوں سو یہ مرتبہ بداہت کا عند العقل ممکن الوجود ہے اور گو برہمو سماج والے اس مرتبہ کے وجود فی الخارج سے انکار ہی کریں پر اس بات سے انہیں انکار نہیں کہ وہ مرتبہ اگر خارج میں پایا جاوے تو بلاشبہ اعلیٰ و اکمل ہے اور جو نظر اور فکر میں خفا یا باقی رہ جاتے ہیں ان کا ظہور اور بروز اسی مرتبہ پر موقوف ہے اور خود اس بات کو کون نہیں سمجھ سکتا کہ ایک امر کا بدیہی طور پر کھل جانا نظری طور سے اعلیٰ اور اکمل ہے مثلاً اگرچہ مصنوعات کو دیکھ کر دانا اور سلیم الطبع انسان کا اس طرف خیال آسکتا ہے کہ ان چیزوں کا کوئی صانع ہوگا مگر نہایت بدیہی اور روشن طریق معرفت الٰہی کا جو اس کے وجود پر بڑی ہی مضبوط دلیل ہے یہ ہے کہ اس کے بندوں کو الہام ملتا ہے اور قبل اس کے جو حقائقِ اشیاء کا انجام کھلے اُن پر کھولا جاتا ہے اور وہ اپنے معروضات میں حضرت احدیت سے جوابات پاتے ہیں اور ان سے مکالمات اورؔ مخاطبات ہوتے ہیں اور بہ نظر کشفی ان کو عالمِ ثانی کے واقعات دکھلائے جاتے ہیں اور جزا سزا کی حقیقت پر مطلع کیا جاتا ہے اور دوسرے کئی طور کے اسرار اخروی ان پر کھولے جاتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ یہ تمام امور علم الیقین کو اتم اور اکمل مرتبہ تک پہنچاتے ہیں اور نظری ہونے کے عمیق نشیب سے بداہت کے بلند مینار تک لے جاتے ہیں بالخصوص مکالمات اور مخاطبات حضرت احدیت ان سب اقسام سے اعلیٰ ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے صرف اخبار غیبیہ ہی معلوم نہیں ہوتے بلکہ عاجز بندہ پر جو جو مولیٰ کریم کی عنایتیں ہیں ان سے بھی اطلاع دی جاتی ہے اور ایک لذیذ اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 545
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 545
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بھی زیادہ تقویت پکڑتے ہیں ؔ اور بہت سی نظیریں ایسے ہی مکروں اور فریبوں کے اپنی ہی قُوّت حافظہ پیش کرتی ہے بلکہ ہریک انسان ان مکروں کے بارے میں
کیا جائے ممکن نہیں کہ وہ چیز حاصل ہوسکے جس طرح خدا ؔ کے تمام قواعد قدیم سے مقرر اور منضبط ہیں ایسا ہی نجات اور سعادت اخروی کی تحصیل کے لئے ایک خاص طریق مقرر ہے جو مستقیم اور سیدھا ہے۔ سو دعا میں وضع استقامت یہی ہے کہ اسی طریق مستقیم کو خدا سے مانگا جائے۔ آٹھویں اور نویں اور دسویں صداقت جو سورۃ فاتحہ میں درج ہے۔
مبارک کلام سے ایسی تسلی اور تشفی اس کو عطا ہوتی ہے اور خوشنودی حضرت باری تعالیٰ سے مطلع کیا جاتا ہے جس سے بندہ مکروہات دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑی قوّت پاتا ہے گویا صبر اور استقامت کے پہاڑ اس کو عطا کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بذریعہ کلام اعلیٰ درجہ کے علوم اور معارف بھی بندہ کو سکھلائے جاتے ہیں اور وہ اسرار خفیہ و دقائق عمیقہ بتلائے جاتے ہیں کہ جو بغیر تعلیم خاص ربانی کے کسی طرح معلوم نہیں ہوسکتے اور اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ یہ تمام امور جن کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ قرآن شریف کے کامل اتباع سے حاصل ہوتے ہیں کیونکر اسلام میں ان کا متحقق فی الخارج ہونا بہ پایۂ ثبوت پہنچ سکتا ہے تو اس وہم کا جواب یہ ہے کہ صحبت سے۔ اور اگرچہ ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں لیکن بغیر اندیشہ طول کے پھر مکرر ہریک مخالف پر ظاہر کرتے ہیں کہ فی الحقیقت یہ دولت عظمٰی اسلام میں پائی جاتی ہے کسی دوسرے مذہب میں ہرگز پائی نہیں جاتی اور طالب حق کے لئے اس کے ثبوت کے بارے میں ہم آپ ہی ذمہ وار ہیں بشرط صحبت و حسن ارادت و تحقق مناسبت اور صبر اور ثبات کے یہ امور ہریک طالب پر بقدر استعداد اور لیاقت ذاتی اُس کے کے کھل سکتے ہیں اور ان امور میں سےؔ جو اخبار غیبیہ ہیں ان کی نسبت یہ شبہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے جو اس کام میں رمّال و منجم بھی شریک ہیں کیونکہ یہ قوم کسی خاص فن یا قواعد کے ذریعہ سے اخبار غیبیہ کو نہیں بتلاتی اور نہ غیب دان ہونے کا دعویٰ کرتی ہے بلکہ خداوند کریم جو ان پر مہربان ہے اور ان کے حال پر ایک خاص عنایات و توجہات رکھتا ہے وہ بعض مصالح کے لحاظ سے بعض امور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 546
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 546
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
چشم دید باتوں کا ایک ذخیرہ رکھتا ہے اور خودؔ اس قسم کے مکر جیسے سادہ لوحوں اور جاہلوں کے سامنے چل جاتے ہیں اور زیر پردہ رہتے ہیں یہ ایک ایسا امر ہے جو مکّاروں کو
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَؔ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم کو ان سالکین کا راستہ بتلا جنہوں نے ایسی راہیں اختیار کیں کہ جن سے اُن پر تیرا انعام وارد ہوا اور ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے لاپرواہی سے سیدھی راہ پر قدم مارنے کے لئے کوشش نہ کی اور اس باعث سے
پیش از وقوع ان کو بتلا دیتا ہے تا جس کام کا اس نے ارادہ کیا ہے بوجہ احسن انجام کو پہنچ جائے مثلاً وہ خلق اللہ پر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ فلاں بندہ مؤید من اللہ ہے اور جو کچھ انعامات اور اکرامات وہ پاتا ہے وہ معمولی اور اتفاقی طور پر نہیں بلکہ خاص ارادہ و توجہ الٰہی سے ظہور میں آتے ہیں۔ اسی طرح جو کچھ فتح و نصرت اور اقبال و عزت اس کو ملتی ہے وہ کسی تدبیر اور حیلہ کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خدا ہی نے چاہا ہے کہ اس کو غلبہ بخشے اور اپنی تائیدات اس کے شامل حال کرے پس وہ کریم اور رحیم اس مقصود کے ثابت کرنے کی غرض سے ان انعامات اور فتوح سے پہلے بطور پیشگوئی اُن نعمتوں کے عطا کرنے کی بشارت دے دیتا ہے سو ان پیشگوئیوں سے مقصود بالذات اخبار غیبیہ نہیں ہوتیں بلکہ مقصود بالذات یہ ہوتا ہے کہ تا یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہوجائے کہ وہ شخص مؤید من اللہ اور ان خاص لوگوں میں سے ہے جن کی تائید کے لئے عنایات حضرت عزّت خاص طور پر تجلی کرتی ہیں۔ اب اس تقریر سے ظاہر ہے کہ اس مؤیّد من اللہ کو منجم وغیرہ سے کچھ بھی نسبت نہیں اور اس کی پیشگوئیاں اصل مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصود کی شناخت کے لئے علامات و آثار ہیں۔ ماسوا اس کے جن لوگوں کو خدائے تعالیٰ خاص اپنے لئے چن لیتا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنے گروہ میں داخل کرتا ہے ان میں صرف یہی علامت نہیں کہ وہ پوشیدہ چیزیں بتلاتے ہیں تا ان کا حال نجومیوں اور جوتشیوں اور رمّالوں اور کاہنوں کے حال سے مشتبہ ہوجائے اور کچھ مابہ الامتیاز باقی نہ رہے بلکہ ان کے شامل حال ایک عظیم الشان نور ہوتا ہے جس کے مشاہدہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 547
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 547
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/547/mode/1up
اُن کی کارسازیوں پر دلیر کرتا ہے۔ عوامؔ النّاس کو جو اکثر چارپایوں کی طرح ہوتے ہیں اس طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ لمبی چوڑی تفتیش کریں اور بات کی تہہ تک
تیری تائید سےؔ محروم رہ کر گمراہ رہے۔ یہ تین صداقتیں ہیں جن کی تفصیل یہ ہے کہ بنی آدم اپنے اقوال اور افعال اور اعمال اور نیات کے رو سے تین قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض سچے دل سے خدا کے طالب ہوتے ہیں اور صدق اور عاجزی سے خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
کے سبب سے طالبؔ صادق بدیہی طور پر ان کو شناخت کرسکتا ہے اور حقیقت میں وہی ایک نور ہے جو ان کے ہریک قول اور فعل اور حال اور قال اور عقل اور فہم اور ظاہر اور باطن پر محیط ہو جاتا ہے اور صدہا شاخیں اس کی نمودار ہوجاتی ہیں اور رنگا رنگ کی صورتوں میں جلوہ فرماتا ہے وہی نور شدائد اور مصائب کے وقتوں میں صبر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور استقامت اور رضا کے پیرایہ میں اپنا چہرہ دکھاتا ہے تب یہ لوگ جو اس نور کے مورد ہیں آفات عظیمہ کے مقابلہ پر جبال راسیات کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور جن صدمات کی ادنیٰ َ مس سے ناآشنا لوگ روتے اور چلاتے ہیں بلکہ قریب بمرگ ہوجاتے ہیں ان صدمات کے سخت زور آور حملوں کو یہ لوگ کچھ چیز نہیں سمجھتے اور فی الفور حمایت الٰہی کنار عاطفت میں ان کو کھینچ لیتی ہے اور کوئی خامی اور بے صبری ان سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ محبوب حقیقی کے ایلام کو برنگ انعام دیکھتے ہیں اور بکشادگی سینہ و انشراح خاطر اس کو قبول کرتے ہیں بلکہ اس سے متلذّذ ہوتے ہیں کیونکہ طاقتوں اور قوتوں اور صبروں کے پہاڑ ان کی طرف رواں کئے جاتے ہیں اور محبت الٰہیہ کی پرجوش موجیں غیر کی یادداشت سے ان کو روک لیتی ہیں پس ان سے ایک ایسی برداشت ظہور میں آتی ہے کہ جو خارق عادت ہے اور جو کسی بشر سے بلاتائید الٰہی ممکن نہیں۔ اور ایسا ہی وہ نور حاجات کے وقتوں میں قناعت کی صورت میں ان پر جلوہ گر ہوتا ہے سو دنیا کی خواہشوں سے ایک عجیب طور کی برودت ان کے دلوں میں پیدا ہوجاتی ہے کہ بدبودار چیز کی طرح دنیا کو سمجھتے ہیں اور یہی دنیوی لذات جن کے حظوظ پر دنیا دار لوگ فریفتہ ہیں و بشوق تمام ان کے جویاں اور ان کے زوال سے سخت ہراساں ہیں یہ اُن کی نظر میں بغایت درجہ ناچیز ہوجاتے ہیں اور تمام سرور اپنا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 548
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 548
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/548/mode/1up
پہنچ جائیں اور ایسے تماشوں کے دکھلانے کا عرؔ صہ بھی نہایت ہی تھوڑا ہوتا ہے جس میں غور وفکر کرنے کے لئے کافی فرصت نہیں مل سکتی اس لئے مکّاروں کے لئے
پس خدا بھی ان کا طالب ہوجاتا ہے اور رحمت اور انعام کے ساتھؔ ان پر رجوع کرتا ہے۔ اس حالت کا نام انعام الٰہی ہے۔ اسی کی طرف آیت ممدوحہ میں اشارہ فرمایا اور کہا۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ یعنی وہ لوگ ایسا صفا اور سیدھا راستہ اختیار کرتے ہیں جس سے فیضانِ رحمتِ الٰہی کے مستحق ٹھہر جاتے ہیں اور بباعث اس کے
اِسی میں پاتے ہیں کہ مولیٰ حقیقی کی وفا اور محبت اور رضا سے دل بھرا رہے اور اسی کے ذوق اور شوق اور انس سے اوقات معمورر ہیں۔ اسؔ دولت سے بیزار ہیں کہ جو اُس کی خلاف مرضی ہے اور اس عزت پر خاک ڈالتے ہیں جس میں مولیٰ کریم کی ارادت نہیں۔ اور ایسا ہی وہ نور کبھی فراست کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی قوت نظریہ کی بلند پروازی میں اور کبھی قوت عملیہ کی حیرت انگیز کارگزاری میں کبھی حلم اور رفق کے لباس میں اور کبھی درشتی اور غیرت کے لباس میں۔ کبھی سخاوت اور ایثار کے لباس میں۔ کبھی شجاعت اور استقامت کے لباس میں۔ کبھی کسی خلق کے لباس میں اور کبھی کسی خلق کے لباس میں۔ اور کبھی مخاطبات حضرت احدیت کے پیرایہ میں اور کبھی کشوف صادقہ اور اعلامات واضحہ کے رنگ میں یعنی جیسا موقعہ پیش آتا ہے اس موقعہ کے مناسب حال وہ نور حضرت واہب الخیر کی طرف سے جوش مارتا ہے۔ نور ایک ہی ہے اور یہ تمام اس کی شاخیں ہیں۔ جو شخص فقط ایک شاخ کو دیکھتا ہے اور صرف ایک ٹہنی پر نظر رکھتا ہے اس کی نظر محدود رہتی ہے۔ اس لئے بسا اوقات وہ دھوکا کھالیتا ہے لیکن جو شخض یکجائی نگاہ سے اس شجرۂ طیبہ کی تمام شاخوں پر نظر ڈالتا ہے اور ان کے انواع اقسام کے پھلوں اور شگوفوں کی کیفیت معلوم کرتا ہے وہ روز روشن کی طرح اُن نوروں کو دیکھ لیتا ہے اور نورانی جلال کی کھینچی ہوئی تلواریں اس کے تمام گھمنڈوں کو توڑ ڈالتی ہیں۔ شاید اس جگہ بعض طبائع پر یہ اشکال پیش آوے کہ کیونکر ان کمالات کو وہ لوگ بھی پالیتے ہیں کہ جو نہ نبی ہیں اور نہ رسول لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں یہ اشکال ایک
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 549
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 549
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/549/mode/1up
دست بازی کی بہت گنجائش رہتی ہے اور ان کے پوؔ شیدہ بھیدوں پر اطلاع پانے کا کم موقع ملتا ہے۔ علاوہ اس کے عوام بیچارے علومِ طبعی وغیرہ فنونِ فلاسفہ
کہ ان میں اور خدا میں کوئی حجاب باقی نہیںؔ رہتا اور بالکل رحمت الٰہی کے محاذی آپڑتے ہیں۔ اس جہت سے انوار فیضان الٰہی کے ان پر وارد ہوتے ہیں۔ دوسری قسم وہ لوگ ہیں کہ جو دیدہ و دانستہ مخالفت کا طریق اختیار کرلیتے ہیں اور دشمنوں کی طرح خدا سے مونہہ
ناچیز وہم ہے کہ جو ان لوگوں کے دلوں کو پکڑتا ہے کہ جو اسلام کی اصل حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اگر نبیوں کے تابعین کو ان کے کمالات اور علوم اور معارف میں علیٰ وجہ التبعیت شرکت نہ ہو تو باب وراثت کا بکلّی مسدود ہوجاتا ہے یا بہت ہی تنگ اور منقبض رہ جاتا ہے کیونکہ یہ معنے بکلّی منافی وراثت ہے کہ جو کچھ فیوض حضرت مبدء فیاض سے اس کے رسولوں اور نبیوں کو ملتےؔ ہیں اور جس نورانیت یقین اور معرفت تک ان مقدّسوں کو پہنچایا جاتا ہے اس شربت سے ان کے تابعین کے حلق محض ناآشنا رہیں اور صرف خشک اور ظاہری باتوں سے ہی ان کے آنسو پونچھے جائیں۔ ایسی تجویز سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ حضرتِ فیاض مطلق کی ذات میں بھی ایک قسم کا بخل ہو اور نیز اس سے کلام الٰہی اور رسول مقبول کی عظمت اور بزرگی کی کسر شان لازم آتی ہے کیونکہ کلام الٰہی کی اعلیٰ تاثیریں اور نبی معصوم کی قوت قدسیہ کے کمالات اسی میں ہیں کہ انوار دائمہ کلام الٰہی کے ہمیشہ قلوب صافیہ اور مستعدہ کو روشن کرتے رہیں نہ یہ کہ تاثیر ان کی بکلّی معطّل ہو یا صرف معدودے چند تک ہوکر پھر ہمیشہ کے لئے باطل ہوجائے اور زائل القوّت دوا کی طرح فقط نام ہی تاثیر کا باقی رہ جائے ماسوا اس کے جبکہ ایک حقیقت واقعی طور پر ہر عہد اور ہر زمانہ میں خارج میں متحقق الوجود چلی آئی ہے اور اب بھی متحقق الوجود ہے اور شہادات متکاثرہ سے اس کا ثبوت بدیہی طور پر مل سکتا ہے تو پھر ایسی روشن صداقت سے کیونکر کوئی منصف انکار کرسکتا ہے اور ایسی کھلا کھلی سچائی کیونکر اور کہاں چھپ سکتی ہے حالانکہ قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ جب تک درخت قائم ہو اس کو پھل بھی لگتے رہیں۔ ہاں جو درخت خشک ہوجائے یا جڑ سے کاٹا جائے اس کے پھلوں کی توقع
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 550
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 550
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/550/mode/1up
سے کچھ خبر نہیں رکھتے اور جو کائنات میں حکیمِ مُطلق نے طرح طرحؔ کے عجیب خواص رکھے ہیں اُن خواص کی انہیں کچھ بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس وہ ہریک وقت
پھیر لیتے ہیں سو خدا بھی ان سے منہ پھیر لیتا ہے اور رحمت کے ساتھ ان پر رجوعؔ نہیں کرتا اس کا باعث یہی ہوتا ہے کہ وہ عداوت اور بیزاری اور غضب اور غیظ اور نارضامندی جو خدا کی نسبت ان کے دلوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہے وہی ان میں اور خدا میں حجاب ہوجاتی ہے
رکھنا محض نادانی ہے پس جس حالت میں فرقان مجید وہ عظیم الشان و سرسبز و شاداب درخت ہے جس کی جڑھیں زمین کے نیچے تک اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں تو پھر ایسے شجرہ طیبہ کے پھلوں سے کیونکر انکار ہوسکتا ہے۔ اس کے پھل بدیہی الظہور ہیں جن کو ہمیشہ لوگ کھاتے رہے ہیں اور اب بھی کھاتے ہیں اور آئندہ بھی کھائیں گے اور یہ بات بعض نادانوں کی بالکل بے ہودہ اور غلط ہے کہ اس زمانہ میں کسی کو ان پھلوں تک گزر ہی نہیں بلکہ ان کا کھانا پہلے لوگوں کے ہی حصہ ؔ میں تھا اور وہی خوش نصیب لوگ تھے جنہوں نے وہ پھل کھائے اور ان سے متمتع ہوئے اور ان کے بعد بدنصیب لوگ پیدا ہوئے جن کو مالک نے باغ کے اندر آنے سے روک دیا۔ خدا کسی ذی استعداد کی استعداد کو ضائع نہیں کرتا اور کسی سچے طالب پر اس کے فیض کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی کے خیال باطل میں یہ سمایا ہوا ہے کہ کسی وقت کسی زمانہ میں فیوض الٰہی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور ذی استعداد لوگوں کی کوششیں اور محنتیں ضائع جاتی ہیں تو اس نے اب تک خدا ئے تعالیٰ کا قدر شناخت نہیں کیا اور ایسا آدمی انہیں لوگوں میں داخل ہے جن کی نسبت خدائے تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے۔ 3۔۱ لیکن اگر یہ عذر پیش کیا جائے کہ جن علوم و معارف و کشوف صادقہ و مخاطبات حضرت احدیت کے تحقق وجود کا ذکر کیا جاتا ہے وہ اب کہاں ہیں اور کیونکر بہ پایۂ ثبوت پہنچ سکتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب امور اسی کتاب میں ثابت کئے گئے ہیں اور طالب حق کے لئے ان کے امتحان کا نہایت سیدھا اور آسان راستہ کھلا ہے کیونکہ وہ علوم و معارف کو خود اس کتاب میں دیکھ سکتا ہے۔ اور جو کشوف صادقہ اور اخبار غیبیہ اور دوسرے خوارق ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 551
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 551
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/551/mode/1up
اور ہر زمانہ میں دھوکا کھانے کو طیّار ہیں۔ اور کیونکر دھوکا نہ کھاویں خواص اشیاءؔ کے ایسے ہی حیرت افزا ہیں اور بے خبری کی حالت میں موجبِ زیادتِ حیرت
اس حالت کا نام غضبِ الٰہی ہے۔ اسی کی طرف خدائے تعالیٰ نے اشارہ فرما کر کہا۔ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ۔ تیسری قسم کے وہؔ لوگ ہیں کہ جو خدا سے لاپرواہ رہتے ہیں اور سعی اور کوشش سے اس کو طلب نہیں کرتے۔ خدا بھی اُن کے ساتھ لاپرواہی
وہ غیر مذہب والوں کی شہادت سے اس پر ثابت ہوسکتے ہیں یا وہ آپ ہی ایک عرصہ تک صحبت میں رہ کر یقین کامل کے مرتبہ تک پہنچ سکتا ہے اور جو دوسرے لوازم اور خصوصیات اسلام ہیں وہ بھی سب صحبت سے کھل سکتے ہیں لیکن اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جو کچھ عجائب و غرائب اہل حق پر منکشف ہوتے ہیں اور جو کچھ برکات ان میں پائے جاتے ہیں وہ کسی طالب پر تب کھولے جاتے ہیں کہ جب وہ طالب کمال صدق اور اخلاص سے بہ نیت ہدایت پانے کے رجوع کرتا ہے اور جب وہ ایسے طور سے رجوع کرتا ہے تو تب جس قدر اور جس طور سے انکشاف مقدر ہوتا ؔ ہے وہ بارادہ خالص الٰہی ظہور میں آتا ہے مگر جس جگہ سائل کے صدق اور نیت میں کچھ فتور ہوتا ہے اور سینہ خلوص سے خالی ہوتا ہے تو پھر ایسے سائل کو کوئی نشان دکھلایا نہیں جاتا یہی عادت خداوند تعالیٰ کی انبیاء کرام سے ہے جیسا کہ یہ بات انجیل کے مطالعہ سے نہایت ظاہر ہے کہ کئی مرتبہ یہودیوں نے مسیح سے کچھ معجزہ دیکھنا چاہا تو اس نے معجزہ دکھلانے سے صاف انکار کیا اور کسی گزشتہ معجزہ کا بھی حوالہ نہ دیا چنانچہ مرقس کی انجیل کے آٹھ باب اور باراں آیت میں بھی اسی کی تصریح ہے اور عبارت مذکور یہ ہے۔ تب فریسی نکلے اور اس سے(یعنی مسیح سے) حجت کرکے اس کے امتحان کے لئے آسمان سے کوئی نشان چاہا اس نے اپنے دل میں آہ کھینچ کر کہا اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا۔ سو اگرچہ بظاہر دلالت عبارت اسی پر ہے۔ کہ مسیح سے کوئی معجزہ صادر نہیں ہوا لیکن اصلی معنے اس کے یہی ہیں کہ اُس وقت تک مسیح سے کوئی معجزہ ظہور میں نہیں آیا تھا تب ہی اس نے کسی گذشتہ معجزہ کا حوالہ نہیں دیا کیونکہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 552
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 552
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/552/mode/1up
ہوتے ہیں۔ مثلاً مکھی اور دوسرے بعض جانوروں میں یہ خاصیّت ہے کہ اگر ایسے طور پر مرجائیں کہؔ اُن کے اعضا میں کچھ زیادہ تفرّق اتصال واقع نہ ہو اور اعضا
کرتا ہے اور ان کو اپنا راستہ نہیں دکھلاتا۔ کیونکہ وہ لوگ راستہ طلب کرنے میں آپ سستی کرتے ہیں۔ اور اپنے تئیں اس فیض کے لائق نہیں بناتے کہ جو خدا کے قانون قدیم میںؔ محنت اور کوشش کرنے والوں کے لئے مقرر ہے۔ اس حالت کا نام ا ضلالِ الٰہی ہے۔
یہود میں صاحب صدق اور اخلاص کم تھے تا کسی کے حسن ارادت کے لحاظ سے کوئی معجزہ ظہور میں آتا لیکن اس کے بعد جب لوگ صاحب صدق اور ارادت پیدا ہوگئے اور طالب حق بن کر مسیح کے پاس آئے تو وہ معجزات دیکھنے سے محروم نہیں رہے چنانچہ یہودا اسکریوطی کی خراب نیت پر مسیح کا مطلع ہوجانا یہ اس کا ایک معجزہ ہی تھا جو اس نے اپنے شاگردوں اور صادق الاعتقاد لوگوں کو دکھلایا۔ اگرچہ اُس کے دوسرے سب عجیب کام بباعث قصہ حوض اور بوجۂ آیتِ مذکورہ بالا کے مخالف کی نظر میں قابل انکار اور محل اعتراض ٹھہر گئے اور اب بطور حجت مستعمل نہیں ہوسکتے لیکن معجزہ مذکورہ بالا منصف مخالف کی نظر میں بھی ممکن ہے کہ ظہور میں آیا ہو غرض معجزات اور خوارق کے ظہور کے لئے طالب کا صدق اور اخلاص شرط ہے۔ اورؔ صدق اور اخلاص کے یہی آثار و علامات ہیں کہ کینہ اور مکابرہ درمیان نہ ہو اور صبر اور ثبات اور غربت اور تذلل سے بہ نیت ہدایت پانے کے کوئی نشان طلب کیا جائے اور پھر اس نشان کے ظہور تک صبر اور ادب سے انتظار کیا جائے تا خداوند کریم وہ بات ظاہر کرے جس سے طالب صادق یقین کامل کے مرتبہ تک پہنچ جائے۔ غرض ادب اور صدق اور صبر برکات الٰہیہ کے ظہور کے لئے شرط اعظم ہے جو شخص فیض الٰہی سے مستفیض ہونا چاہتا ہے اس کے حال کے یہی مناسب ہے کہ وہ سراپا ادب ہوکر بہ تمام تر غربت و صبر اس نعمت کو اس کے اہل کے دروازہ سے طلب کرے اور جہاں معرفت الٰہیہ کا چشمہ دیکھے آپ افتاں و خیزاں اس چشمہ کی طرف دوڑے اور پھر صبر اور ادب سے کچھ دنوں تک ٹھہرا رہے لیکن جو لوگ خدائے تعالیٰ کی طرف سے صاحب خوارق ہیں ان کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 553
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 553
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/553/mode/1up
اپنی اصلی ہیئت اور وضع پر سلامت رہیں اور متعفن ہونے بھی نہ پاویں بلکہ ابھی تازہ ہی ہوں اور موت پر دو تین گھنٹہ سے زیادہ عرصہ نہ گذرا ہو جیسے پانی
جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے ان کو گمراہ کیا یعنی جبکہ انہوں نے ہدایت پانے کے طریقوں کو بجدوجہد طلب نہ کیا تو خدا نے بہ پابندی اپنے قانون قدیم کے ان کو ہدایت بھی نہ دی اور اپنی تائید سے محروم رکھا۔ اسی کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا وَلَا الضَّالِیْن۔ غرض
شعبدہ بازوں کی طرح بازاروں اور مجالس میں تماشا دکھلاتے پھریں اور نہ یہ امور ان کے اختیار میں ہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کے پتھر میں آگ تو بلاشبہ ہے لیکن صادقوں اور صابروں اور مخلصوں کی پُر ارادت ضرب پر اس آگ کا ظہور اور بروز موقوف ہے اور ایک اَور بات بھی یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اہل اللہ کے کشوف اور الہامات کو فقط اخبار غیبیہ کا ہی خطاب دینا غلطی ہے بلکہ وہ کشوف اور الہامات تائیدات الٰہیہ کے باغ کی خوشبوئیں ہیں جو دور سے ہی اس باغ کا وجود بتلاتے ہیں اور عظمت اور شان ان کشوف اور الہامات کے اس شخص پر کما حقّہ‘ کھلتی ہے جس کی نظر تائیداتِ الہٰیہ کی تلاش میں ہو یعنی وہ اصل نشان تائیداتِ الہٰیہ کو ٹھہرا کر پیشگوئیوں کو ان تائیدوں کے لوازم سمجھتا ہو جو بغرض ثابت کرنے تائیدوں کے استعمال میں لائے گئے ہیںؔ ۔ غرض مدار مقرّب اللہ ہونے کا تائیدات الٰہیہ ہیں اور پیشگوئیاں روشن ثبوت سے ان تائیدات کا واقعی طور پر پایا جانا ہریک عام اور خاص کو دکھلاتے ہیں۔ پس تائیدات اصل ہیں اور پیشگوئیاں اُن کی فرع اور تائیدات قرص آفتاب کی طرح ہیں اور پیشگوئیاں اس آفتاب کی شعاعیں اور کرنیں ہیں۔ تائیدات کو پیشگوئیوں کے وجود سے یہ فائدہ ہے کہ تاہریک کو معلوم ہو کہ وہ حقیقت میں خاص تائیدیں ہیں معمولی اتفاقات سے نہیں اور بخت اور اتفاق پر محمول نہیں ہوسکتیں اور پیشگوئیوں کو تائیدات کے وجود سے یہ فائدہ ہے کہ اس بزرگ پیوند سے ان کی شان بڑھتی ہے اور ایک بے مثل خصوصیت ان میں پیدا ہوجاتی ہے کہ جو مؤیدان الٰہی کے غیر میں نہیں پائی جاتی۔ سو یہی خصوصیت عام پیشگوئیوں اور ان جلیل الشان پیشگوئیوں میں مابہ الامتیاز ٹھہر جاتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 554
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 554
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/554/mode/1up
میں مری ہوئی مکھیاں ہوتی ہیں تو اس صورت میں اگر نمک باریک پیس کر اس مکھی وغیرہ کو اس کے نیچے دبایا جاوے اور پھر اسی قدر خاکستر بھی اس پر ڈالی جاوے تو وہ مکھی زندہ ہوکر اڑ جاتی ہے اور یہ خاصیت مشہور و معروفؔ ہے جس کو اکثر لڑکے بھی جانتے ہیں لیکن اگر کسی سادہ لوح کو اس نسخہ پر اطلاع نہ ہو اور کوئی مکار
ماحصل اور خلاصہ ان تینوں صداقتوں کا یہ ہے کہ جیسے انسان کی خدا کے ساتھ تین حالتیں ہیں ایسا ہی خدا بھی ہریک حالت کے موافق ان کے ساتھ جدا جدا معاملہ کرتا ہے۔ جوؔ لوگ اُس پر راضی ہوتے ہیں اور دلی محبت اور صدق سے اس کے خواہاں ہوجاتے ہیں خدا بھی ان پر راضی ہوجاتا ہے اور اپنی رضامندی کے انوار ان پر نازل کرتا ہے۔ اور جو لوگ
اِس قوم کی عظمت اور بزرگی کے سمجھنے کے لئے جو پیشگوئیوں اور تائیدات کاملہ میں ایک پیوند ہے اُس کو خیال میں رکھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ پیوند دوسرے لوگوں کی پیش گوئیوں میں غیر ممکن اور ممتنع ہے اور نیز ان کی پیشگوئیوں میں ایسی فاش غلطیاں نکل آتی ہیں جنؔ سے ہریک ذلت ان کی ظاہر ہوتی ہے مگر خدا کے لوگ جو ہوتے ہیں ان کی روشن پیشگوئیاں ہمیشہ سے سچائی کے نور سے منور ہوتی ہیں ماسوا اس کے وہ مبارک پیشگوئیاں ایک عجیب طور کی عجیب تائید سے لازم ملزوم ہوتی ہیں۔ خدا اپنے بندوں کے کاموں کا آپ متولّی ہوکر ایک حیرت انگیز طور پر ان کی تائید کرتا ہے اور کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر ہر دم اور ہر لحظہ ان کی مدد میں رہتا ہے اور ان سے اس کی یہی عادت ہے کہ ان کو اپنی تائیدات کی خبریں پیش از وقوع بتلاتا ہے اور ان کے تردّد و تفکّر کے وقت میں اپنے پرنور کلام سے ان کو تسلی اور تشفّی بخشتا ہے اور پھر ایک ایسے عجیب طور پر ان کی مدد کرتا ہے کہ جو خیال اور گمان میں نہیں ہوتی اور جو شخص ان کی صحبت میں رہ کر ان باتوں کو عمیق نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے اور صاف اور پاک نظر سے ان کی عظمت اور بزرگی پر غور کرتا ہے۔ اس کو بلااختیار ایک ضروری اور جازم یقین سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ مؤیّد من اللہ ہیں اور حضرت احدیت کو ان کی طرف ایک خاص توجہ ہے کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ جب ایک آدھ دفعہ نہیں بلکہ بیسوں دفعہ کسی انسان کو اتفاق پڑے کہ وہ کسی تائید کا وعدہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 555
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 555
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/555/mode/1up
اس نادان اور بے خبر کے سامنے مگس مسیح ہونے کا دعویٰ کرے اور اسی حکمت عملی سے مکھیوں کو زندہ کرے اور بظاہر کوئی منتر جنتر پڑھتا رہے جس سے یہ جتلانا منظور ہو کہ گویا وہ اسی منتر کے ذریعہ سے مکھیوں کو زندہ کرتا ہے تو پھر اس سادہ لوح کو اس قدر عقل اور فرصت کہاں ہے کہ تحقیقاتیں کرتا پھرے۔ کیا تم
اُس سے مونہہ پھیر لیتے ہیں اور عمداً مخالفت اختیار کرتے ہیں۔ خدا بھی مخالف کی طرح ان سے معاملہ کرتا ہے اور جو لوگ اس کی طلب میں سستی اور لاپروائی کرتے ہیں خدا بھی ان سے لاپروائی کرتا ہے اور ان کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے غرض جس طرح آئینہ میں انسان کو وہی شکل نظر آتی ہے کہ جو حقیقت میں شکل رکھتا ہے۔ اسی طرح حضرتِ احدیّت کہؔ جو ہریک
قبل از وقوع سن کر پھر اس تائید کو ظہور میں آتے ہوئے بچشم خود دیکھ لے تو کوئی انسان ایسا پاگلؔ اور دیوانہ نہیں کہ پھر بھی ان صحیح پیشگوئیوں اور قوی تائیدوں پر یقین کامل نہ کرسکے۔ ہاں اگر فرط تعصب اور بے ایمانی سے کسی چشم دید ماجرا کا دانستہ انکار کرے تو یہ اَور بات ہے۔ لیکن پھر بھی اس کا دل انکار نہیں کرسکتا اور ہر وقت اس کو ملزم کرتا ہے کہ تو شریر اور سرکش آدمی ہے۔ اب چند کشوف اور الہامات نوواردہ بغرض افادہ طالبین حق لکھے جاتے ہیں اور اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اگر خدا نے چاہا تو جو کچھ مواہب لدنّیہ سے اس احقر عباد پر ظاہر کیا جائے گا وہ اس کتاب میں درج ہوتا رہے گا۔ اِلاَّ مَاشَاء اللہ۔ اور اس سے غرض یہ ہے کہ تا یقین اور معرفت کے سچے طالب فائدہ حاصل کریں اور اپنی حالت میں کشائش پاویں اور ان کے دل پر سے وہ پردے اٹھیں جن سے ان کی ہمت نہایت پست اور ان کے خیالات نہایت ُ پرظلمت ہورہے ہیں اور اس جگہ ہم مکرراً یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ باتیں ایسی نہیں ہیں جن کا ثبوت دینے سے یہ خاکسار عاجز ہو یا جن کے ثبوت میں اپنے ہی ہم مذہبوں کو پیش کیا جائے بلکہ یہ وہ بدیہی الصدق باتیں ہیں جن کی صداقت پر مخالف المذہب لوگ گواہ ہیں اور جن کی سچائی پر وہ لوگ شہادت دے سکتے ہیں جوؔ ہمارے دینی دشمن ہیں اور یہ سب اہتمام اس لئے کیا گیا کہ تا جو لوگ فی الحقیقۃراہ راست کے خواہاں اور جویاں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 556
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 556
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/556/mode/1up
دیکھتے نہیں کہ مکارؔ لوگ اسی زمانے میں دنیا کو ہلاک کررہے ہیں۔ کوئی سونا بنا کر دکھلاتا ہے اور کیمیا گری کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور کوئی آپ ہی زمین کے نیچے پتھر دبا کر پھر ہندوؤں کے سامنے دیوی نکالتا ہے۔ بعض نے ایسا بھی کیا ہے کہ جمال گوٹہ کا روغن اپنی دوات کی سیاہی میں ملایا اور پھر اس سیاہی سے کسی سادہ لوح کو تعویذ لکھ کر دیا تا دست آنے پر تعویذ کا اثر ظاہر ہو۔ ایسے ہی ہزاروں اور مکر اور فریب ہیں کہ جو اسی زمانہ میں ہورہے ہیں اور بعض مکر ایسے عمیق ہیں جن سے بڑے بڑے دانشمند
کدورت سے مصفّٰی اور پاک ہے محبت والوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ غضب والوں پر غضب ناک ہے لاپرواہوں کے ساتھ لاپرواہی‘ رُکنے والوں سے رک جاتا ہے اور جھکنے والوں کی طرف جھکتا ہے۔ چاہنے والوں کو چاہتا ہے اور نفرت کرنے والوں سے نفرت کرتا ہے اور جس طرح آئینہ کے سامنے جو انداز اپنا بناؤ گے وہی انداز آئینہ میں بھی نظر آئے گا۔ ایسا ہی خداوند تعالیٰ کے روبرو جس انداز سے کوئی چلتا ہے وہی انداز خدا کی طرف سے اس کے لئے موجود ہے۔ اور جن لباسوں کو بندہ اپنے لئے آپ
ہیں ان پر بکمال انکشاف ظاہر ہوجائے کہ تمام برکات اور انوار اسلام میں محدود اور محصور ہیں اور تا جو اس زمانہ کے ملحد ذرّیت ہے اس پر خدائے تعالیٰ کی حجت قاطعہ اتمام کو پہنچے اور تا ان لوگوں کی فطرتی شیطنت ہریک منصف پر ظاہر ہو کہ جو ظلمت سے دوستی اور نور سے دشمنی رکھ کر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مراتب عالیہ سے انکار کرکے اس عالی جناب کی شان کی نسبت پر خبث کلمات مونہہ پر لاتے ہیں اور اس افضل البشر پر ناحق کی تہمتیں لگاتے ہیں اور بباعث غایت درجہ کی کور باطنی کے اور بوجہ نہایت درجہ کی بے ایمانی کے اس بات سے بے خبر ہورہے ہیں کہ دنیا میں وہی ایک کامل انسان آیا ہے جس کا نور آفتاب کی طرح ہمیشہ دنیا پر اپنی شعاعیں ڈالتا رہا ہے اور ہمیشہ ڈالتا رہے گا۔ اور تا ان تحریراتِ حقہ سے اسلام کی شان و شوکت خود مخالفوں کے اقرار سے ظاہر ہوجائے اور تا جو شخص سچی طلب رکھتا ہو اس کے لئے ثبوت کا راستہ کھل جائے اور جو اپنے میں کچھ دماغ رکھتا ہو اس کی دماغ شکنی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 557
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 557
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/557/mode/1up
دھوکاؔ کھا جاتے ہیں اور علوم طبعی کے دقائق عمیقہ اور جسمی تراکیب اور قوتوں کے خواص عجیبہ جو حال کے زمانہ میں نئے تجارب کے ذریعہ سے روزبروز پھیلتے جاتے ہیں یہ جدید باتیں ہیں جن سے جھوٹے معجزے دکھلانے والے نئے نئے مکر اور فریب دکھا سکتے ہیں سو اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ جو معجزات بظاہر صورت ان مکروں سے متشابہ ہیں۔ گو وہ سچے بھی ہوں تب بھی محجوب الحقیقت ہیں اور ان کے ثبوت کے بارے میں بڑی بڑی دقتیں ہیں۔
اختیارؔ کرلیتا ہے وہی تخم بویا ہوا اس کا اس کو دیا جاتا ہے۔ جب انسان ہریک طرح کے حجابوں اور کدورتوں اور آلائشوں سے اپنے دل کو پاک کرلیتا ہے اور صحن سینہ اس کے کا مواد ردّیہ ماسوائے اللہ سے بالکل خالی ہوجاتا ہے۔ تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی اپنے مکان کا دروازہ جو آفتاب کی طرف ہے کھول دیتا ہے اور سورج کی کرنیں اس کے گھر کے اندر چلی آتی ہیں۔ لیکن جب بندہ ناراستی اور دروغ اور طرح طرح کی آلائشوں کو آپ اختیار کرلیتا ہے اور خدا کو حقیر چیز کی طرح خیال کرکے چھوڑ دیتا
ہوجائے اور نیز ان کشوف اور الہامات کےؔ لکھنے کا یہ بھی ایک باعث ہے کہ تا اس سے مومنوں کی قُوّت ایمانی بڑھے اور ان کے دلوں کو تثبت اور تسلی حاصل ہو اور وہ اس حقیقت حقہ کو بہ یقین کامل سمجھ لیں کہ صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 558
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 558
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/558/mode/1up
تمہیدؔ ششم۔ جس طرح محجوب الحقیقت معجزاتِ عقلی معجزات سے برابری نہیں کرسکتے۔ ایسا ہی پیشین گوئیاں اور اخبار ازمنہ گذشتہ جو نجومیوں اور رمّالوں اور کاہنوں اور مؤرّخوں کے طریق ۂبیان سے مشابہ ہیں ان پیشین گوئیوں اور اخبار غیبیہ سے مساوی نہیں ہوسکتیں کہ جو محض اخبار نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ قُدرتِ الوہیّت بھی شامل ہے کیونکہ دنیا میں بجز انبیاء کے اور بھی ایسے لوگ بہت نظر آتے ہیں کہ ایسی ایسی خبریں پیش از وقوع بتلایا کرتے ہیں کہ زلزلے
ہے تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی روشنی ؔ کو ناپسند کرکے اور اس سے بغض رکھ کر اپنے گھر کے تمام دروازے بند کردے تا ایسا نہ ہو کہ کسی طرف سے آفتاب کی شعاعیں اس کے گھر کے اندر آجائیں۔ اور جب انسان بباعث جذبات نفسانی یا ننگ و ناموس یا تقلید قوم وغیرہ طرح طرح کی غلطیوں اور آلائشوں میں گرفتار ہو اور سستی اور تکاسل اور لاپروائی سے ان آلائشوں سے پاک ہونے کے لئے کچھ سعی اور کوشش نہ کرے تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی اپنے گھر کے دروازوں کو بند پاوے اور
پہنچ جاتا ہے اور ایک باعث ان کشوف اور الہامات کی تحریر پر اور پھر غیر مذہب والوں کی شہادتوں سے اس کے ثابت کرنے پر یہ بھی ہے کہ تا ہمیشہ کے لئے ایک قوی حجت مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے اور جو سفلہ اور ناخداترس اور سیاہ دل آدمی ناحق کا مقابلہ اورؔ مکابرہ مسلمانوں سے کرتے ہیں۔ ان کا مغلوب اور لاجواب ہونا ہمیشہ لوگوں پر ثابت اور آشکار ہوتا رہے اور جو ضلالت اور گمراہی کی ایک زہرناک ہوا آج کل چل رہی ہے اس کی زہر سے زمانہ حال کے طالب حق اور نیز آئندہ کی نسلیں محفوظ رہیں کیونکہ ان الہامات میں ایسی بہت سی باتیں آئیں گی جن کا ظہور آئندہ زمانوں پر موقوف ہے پس جب یہ زمانہ گزر جائے گا اور ایک نئی دنیا نقاب پوشیدگی سے اپنا چہرہ دکھائے گی اور ان باتوں کی صداقت کو جو اس کتاب میں درج ہے بچشم خود دیکھے گی تو اُن کی تقویت ایمان کے لئے یہ پیشین گوئیاں بہت فائدہ دیں گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ سو اس وقت جو پیشگوئیاں خداوند کریم کی طرف سے ظاہر ہوئی ہیں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 559
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 559
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/559/mode/1up
آویں گے وباؔ پڑے گی لڑائیاں ہوں گی قحط پڑے گا ایک قوم دوسری قوم پر چڑھائی کرے گی یہ ہوگا وہ ہوگا اور بارہا کوئی نہ کوئی ان کی خبر بھی سچی نکل آتی ہے پس ان شبہات کے مٹانے کے لئے وہ پیشین گوئیاں اور اخبار غیبیہ زبردست اور کامل مُتصوّر ہوں گے جن کے ساتھ ایسے نشان قُدرتِ الٰہیہ کے ہوں جن میں رمّالوں اور خواب بینوں اور نجومیوں وغیرہ کا شریک ہونا ممتنع اور محال ہو یعنی ان میں خداوند تعالیٰ کے کامل جلال کا جوش اور اُس کی
تمام گھر میں اندھیرا بھرا ہوا دیکھے اور پھرؔ اٹھ کر دروازوں کو نہ کھولے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھا رہے اور دل میں یہ کہے کہ اب اس وقت کون اٹھے اور کون اتنی تکلیف اٹھاوے۔ یہ تینوں مثالیں ان تینوں حالتوں کی ہیں جو انسان کے اپنے ہی فعل یا اپنی ہی سستی سے پیدا ہوجاتی ہیں جن میں سے پہلی حالت کا نام حسب تصریح گذشتہ کے انعام الٰہی اور دوسری حالت کا نام غضب الٰہی اور تیسری حالت کا نام اضلال الٰہی ہے ان تینوں صداقتوں سے بھی ہمارے مخالفین بے خبر ہیں۔ کیونکہ برہمو سماج والوں کو
بعض ان میں سے ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔ ازانجملہ ایک یہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا اور یہ بھی ان کو خوب معلوم تھا کہ بظاہر کوئی ایسی تقریب پیش نہیں ہے کہ جو جائے امید ہوسکے بلکہ اس معاملہ میں ان کو ذاتی طور پر واقفیت تھی جس کی وہ شہادت دے سکتے ہیں۔ پس جبکہ وہ ایسے مشکل اور فقدان اسباب حل ؔ مشکل سے کامل طور پر مطلع تھے اس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرت احدیت میں دعا کی جائے تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہوجائے اور دوسری مخالفین کے لئے تائید الٰہی کا نشان پیدا ہو۔ ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہوجائیں۔ سو اسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے تب یہ الہام ہوا دس دن کے بعد مَیں موج دکھاتا ہوں۔ 33۔ فی شایل مقیاس۔ دن ول یو گو ٹو امرت سر۔ یعنی دس دن کے بعد روپیہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 560
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 560
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/560/mode/1up
تائیدات کا ایسا بزرگ چمکارا نظر آتا ہو۔ جوؔ بدیہی طور پر اس کی توجّہاتِ خاصہ پر دلالت کرتا ہو اور نیز وہ ایک ایسی نصرت کی خبر پر مشتمل ہوں جس میں اپنی فتح اور مخالف کی شکست اور اپنی عزت اور مخالف کی ذلت اور اپنا اقبال اور مخالف کا زوال بہ تفصیل تمام ظاہر کیا گیا ہو اور ہم اپنے موقعہ پر بیان کریں گے اور کچھ بیان بھی کرچکے ہیں کہ یہ اعلیٰ درجہ کی پیشین گوئیاں صرف قرآن شریف سے مخصوص ہیں کہ جن کے پڑھنے سے جلال الٰہی کا ایک عالم نظر آتا ہے۔
اُس صداقت سے بالکل اطلاع نہیں ہے جس کے رو سے خدائے ؔ تعالیٰ سرکش اور غضب ناک بندوں کے ساتھ غضبناک کا معاملہ کرتا ہے۔ چنانچہ برہمو صاحبوں میں سے ایک صاحب نے اس بارہ میں انہیں دنوں میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس میں صاحب موصوف خدا کی کتابوں پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان میں غضب کی صفت خدائے تعالیٰ کی طرف کیونکر منسوب کی گئی ہے کیا خدا ہماری کمزوریوں پر چڑتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر صاحب راقم کو اس صداقت کی کچھ بھی خبر ہوتی توکیوں وہ ناحق اپنے اوقات ضائع کرکے ایک ایسا رسالہ چھپواتے جس سے ان کی کم فہی ہر یک پر کھل گئی
آئے گا۔ خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دُم اٹھاتی ہے تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے ایسا ہی مدد الٰہی بھی قریب ہے اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرتسر بھی جاؤ گے۔ تو جیسا اس پیشگوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورہ بالا کے روبرو وقوع میں آیا یعنی حسب منشاء پیشگوئی دس دن تک ایک خرمُہرہ نہ آیا اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے اور بیست روپیہ ایک اور جگہ سے آئے اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہوؔ گیا جس کی امید نہ تھی۔ اور اسی روز کہ جب دس دن کے گزرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب وغیرہ کا روپیہ آیا امرتسر بھی جانا پڑا۔ کیونکہ عدالت خفیفہ امرتسر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اسی روز ایک سمن
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 561
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 561
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/561/mode/1up
تمہیدؔ ہفتم۔ قرآن شریف میں جس قدر باریک صداقتیں علم دین کی اور علوم دقیقہ الٰہیّات کے اور براہینِ قاطعہ اُصولِ حقّہ کے معہ دیگر اسرار اور معارف کے مُندرج ہیں اگرچہ وہ تمام فی حدّ ذاتہا ایسے ہیں کہ قویٰ بشریہ اُن کو بہ ہیئت مجموعی دریافت کرنے سے عاجز ہیں اور کسی عاقل کی عقل ان کے دریافت کرنے کے لئے بطور خود سبقت نہیں کرسکتی کیونکہ پہلے زمانوں پر نظر استقراری ڈالنے سے ثابت ہوگیا ہے کہ کوئی حکیم یا فیلسوف اُن علوم و معارف کا دریافت کرنے والا نہیں گزرا۔
ہے اور اُن کو باوجود دعویٰ عقل کے یہ باؔ ت سمجھ نہ آئی کہ خدا کا غضب بندہ کی حالت کا ایک عکس ہے جب انسان کسی مخالفانہ شر سے محجوب ہوجائے اور خدا سے دوسری طرف مونہہ پھیر لے تو کیا وہ اس لائق رہ سکتا ہے کہ جو سچے محبّوں اور صادقوں پر فیضان رحمت ہوتا ہے اس پر بھی وہی فیضان ہوجائے ہرگز نہیں بلکہ خدا کا قانونِ قدیم جو ابتدا سے چلا آیا ہے جس کو ہمیشہ راست باز اور صادق آدمی تجربہ کرتے رہے ہیں اور اب بھی صحیح تجارب سے اس کی سچائیوں کو مشاہدہ کرتے ہیں وہ یہی قانون ہے کہ جو شخص ظلماتی
آگیا۔ سو یہ وہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی مفصل حقیقت پر اس جگہ کے چند آریوں کو بخوبی اطلاع ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس پیشگوئی سے پہلے سخت ضرورت پیش آنے کی وجہ سے دعا کی گئی اور پھر اس دعا کا قبول ہونا اور دس دن کے بعد ہی روپیہ آنے کی بشارت دیا جانا اور ساتھ ہی روپیہ آنے کے بعد امرتسر جانے کی اطلاع دیا جانا یہ سب واقعات حقہ اور صحیحہ ہیں اور پھر انہیں کے روبرو اس پیشگوئی کا پورا ہونا بھی ان کو معلوم ہے اور اگرچہ وہ لوگ بباعث ظلمت کفر کے خبث اور عناد سے خالی نہیں ہیں اور اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح بغض اور کینہ اسلام پر کمربستہ اور جیفۂ دنیا پر گرے ہوئے اور حق اور راستی سے بکلّی بے غرض ہیں لیکن اگر شہادت کے وقت ان کو قسم دی جائے تو بحالت قسم سے وہ سچ سچ بیان کرنے سے کسی طرف گریز نہیں کرسکتے اور اگر خدا سے نہیں تو رسوائی اور وبالِ قسم سے ڈر کر ضروری سچی گواہی دیویں گے۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 562
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 562
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/562/mode/1up
لیکن اِس جگہ عجیبؔ بر عجیب اَور بات ہے یعنے یہ کہ وہ علوم اور معارف ایک ایسے اُمّی کو عطا کی گئی کہ جو لکھنے پڑھنے سے ناآشنا محض تھا جس نے عمر بھر کسی مکتب کی شکل نہیں دیکھی تھی اور نہ کسی کتاب کا کوئی حرف پڑھا تھا اور نہ کسی اہل علم یا حکیم کی صحبت میسّر آئی تھی بلکہ تمام عمر جنگلیوں اور وحشیوں میں سکونت رہی اُنہیں میں پرورش پائی اور اُنہیں میں سے پیدا ہوئے اور انہیں کے ساتھ اختلاط رہا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی اور اَن پڑھ ہونا ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ
حجابوں سے نکل کر سیدھا خدائے تعالیٰ کی طرف اپنے روح کا مونہہ پھیر کر اسؔ کے آستانہ پر گر پڑتا ہے اسی پر فیضان رحمتِ خاصہ ایزدی کا ہوتا ہے اور جو شخص اس طریق کے برخلاف کوئی دوسرا طریق اختیار کرلیتا ہے تو بالضرور جو امر رحمت کے برخلاف ہے یعنی غضب الٰہی اُس پر وارد ہوجاتا ہے اور غضب کی اصل حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص اس طریق مستقیم کو چھوڑ دیتا ہے کہ جو قانون الٰہی میں افاضۂِ رحمت الٰہی کا طریق ہے تو فیضان رحمت سے محروم رہ جاتا ہے۔ اسی محرومی کی حالت کا نام غضب الٰہی ہے اور چونکہ انسان کی زندگی اور آرام اور راحت خدا کے فیض سے ہی ہے۔ اِس
ازؔ انجملہ ایک یہ ہے کہ مولوی ابو عبداللہ غلام علی صاحب قصوری جن کا ذکرِ خیر حاشیہ در حاشیہ نمبر ۲ میں درج ہے الہام اولیاء اللہ کی عظمت شان میں کچھ شک رکھتے تھے اور یہ شک ان کی بالمواجہ تقریر سے نہیں بلکہ ان کے رسالہ کی بعض عبارتوں سے مترشح ہوتا تھا سو کچھ عرصہ ہوا ان کے شاگردوں میں سے ایک صاحب نور احمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظِ قرآن ہیں اور خاص امرتسر میں رہتے ہیں اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے کرتے یہاں بھی آگئے ان کا خیال الہام کے انکار میں مولوی صاحب کے انکار سے کچھ بڑھ کر معلوم ہوتا تھا۔ اور برہمو سماج والوں کی طرح صرف انسانی خیالات کا نام الہام رکھتے تھے چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں ٹھہرے اور اس عاجز پر انہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارہ میں ان کے دل میں تھی مدعیانہ طور پر ظاہر بھی کردی اس لئے دل میں بہت رنج گزرا ہر چند معقولی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 563
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 563
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/563/mode/1up
کوئی تاریخ دان اسلام کا اُس سے بےؔ خبر نہیں لیکن چونکہ یہ امر آئندہ فصلوں کے لئے بہت کارآمد ہے اس لئے ہم کسی قدر آیاتِ قرآنی لکھ کر اُمیّت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرتے ہیں سو واضح ہو کہ وہ آیات بہ تفصیل ذیل ہیں:۔
قال اللّٰہ تعالی۔ سورۂ جمعہ الجزو نمبر ۲۸۔۱
وہ خدا ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ان پر وہ اُس کی آیتیں پڑھتا ہے اور اُن کو پاک کرتا ہے اور اُنہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے صریح گمراہی میں پھنسے ہوئے تھے۔
جہت ؔ سے جو لوگ فیضان رحمت کے طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ خدا کی طرف سے اسی جہان میں یا دوسرے جہان میں طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ جس کے شامل حال رحمت الٰہی نہیں ہے ضرور ہے کہ انواع اقسام کے عذاب روحانی و بدنی اس کی طرف مونہہ کریں اور چونکہ خدا کے قانون میں یہی انتظام مقرر ہے کہ رحمت خاصہ انہیں کے شامل حال ہوتی ہے کہ جو رحمت کے طریق کو یعنی دعا اور توحید کو اختیار کرتے ہیں۔ اس باعث سے جو لوگ اس طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ طرح طرح کی آفات میں گرفتار
طور پر سمجھایا گیا کچھ اثر مترتب نہ ہوا آخر توجہ الی اللہ تک نوبت پہنچی اور ان کو قبل از ظہور پیشگوئی بتلایا گیا کہ خداوند کریم کی حضرت میں دعا کی جائے گی کچھ تعجبؔ نہیں کہ وہ دعا بہ پایہ اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیشگوئی خداوند کریم ظاہر فرماوے جس کو تم بچشم خود دیکھ جاؤ سو اس رات اس مطلب کے لئے قادر مطلق کی جناب میں دعا کی گئی علی الصباح بہ نظر کشفی ایک خط دکھلایا گیا جو ایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے اس خط پر انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے آئی ایم کورلر اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے ھذا شاھد نَزّاغ اور یہی الہام حکایتاً عن الکاتب القا کیا گیا اور پھر وہ حالت جاتی رہی چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا۔ اس جہت سے پہلے علی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر اور اس آنے والے خط سے مطلع کرکے پھر اسی وقت ایک انگریزی خوان سے اس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے تو معلوم ہوا کہ اُس کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 564
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 564
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/564/mode/1up
مَیں جس کوچاہتا ہوں عذاب پہنچاتا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز پر احاطہ کر رکھا ہے سو میں اُن کے لیے جو ہر یک طرح کے شرک اور کفر اور فواحش سے پرہیز کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور نیز اُن کیلئے جو ہماری نشانیوں پر ایمان کامل لاتے ہیں اپنی رحمت لکھوں گا وہ وہی لوگ ہیں جو اُس رسول نبی پر ایمان لاتے ہیں کہ جس میں ہماری قدرت کاملہ کی دو نشانیاں
ہو ؔ جاتے ہیں اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے
ی اِن کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگرتم دعا نہ کرو اور اس کے فیضان کے خواہاں نہ ہو خدا کو تو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں وہ تو بے نیاز مطلق ہے۔ اور آریہ سماج والے اور عیسائی بھی اِن تینوں صداقتوں میں سے پہلی اور تیسری صداقت سے بے خبر ہیں۔ کوئی اُن میں سے یہ اعتراض کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ سب
یہ معنے ہیں کہ مَیں جھگڑنے والا ہوں سو اس مختصر فقرہ سے یقینًا یہ معلوم ہو گیا کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے۔ اور ھٰذا شاھد نَزَّاغٌ کہ جو کاتب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا اس کے یہ معنےؔ کھلے کہ کاتب خط نے کسی مقدمہ کی شہادت کے بارہ میں وہ خط لکھا ہے۔ اُس دن حافظ نور احمد صاحب بباعثِ بارش باران امرتسر جانے سے روکے گئے اور درحقیقت ایک سماوی سبب سے ان کا روکا جانا بھی قبولیتِ دعا کے ایک خبر تھی تا وہ جیسا کہ اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی گئی تھی پیشگوئی کے ظہور کو بچشمِ خود دیکھ لیں۔ غرض اس تمام پیشگوئی کا مضمون اُن کو سنا دیا گیا ۔ شام کو اُن کے رو برو پادری رجب علی صاحب مہتمم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط رجسٹری شدہ امرت سر سے آیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب نے اپنے کاتب پر جو اِسی کتاب کا کاتب ہے عدالتِ خفیفہ میں نالش کی ہے اور اِس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہرایا ہے اور ساتھ اُس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا اور اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی ھٰذا شاھد نَزّاغ جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے۔ اِن
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 565
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 565
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/565/mode/1up
ہیں۔ ایک توبیرونی نشانی کہ توریت اور انجیل میں اس کی نسبت پیشین گوئیاں موجود ہیں جن کو وہ آپ بھی اپنی کتابوں میں موجود پاتے ہیں۔ دوسری وہ نشانی کہ خود اُس نبی کی ذات میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ باوجود اُمّی اور ناخواندہ ہونے کے ایسی ہدایت کامل لایا ہے کہ ہر یک قسم کی حقیقی صداقتیں جن کی سچائی کو عقل و شرع شناخت کرتی ہے اور جو صفحۂ دُنیا پر باقی نہیں رہی تھیں لوگوں کی ہدایت کے لئے بیان فرماتا ہے اور اُنکو اسکے بجالانے کیلئے حکم کرتا ہے اور ہریک
لوگوں کو کیوں ہدایت نہیں دیتا۔ اور کوئی یہ اعتراض کرؔ رہا ہے کہ خدا میں صفت اضلال کیونکر پائی جاتی ہے جو لوگ خدائے تعالیٰ کی ہدایت کی نسبت معترض ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہدایت الٰہی اُنہیں کے شامل حال ہوتی ہے کہ جو ہدایت پانے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اُن راہوں پر چلتے ہیں جن راہوں پر چلنا فیضانِ رحمت کے لئے ضروری ہے اور جو لوگ اضلالِ الٰہی کی نسبت معترض ہیں اُن کو یہ خیال نہیں آتا کہ خدائے تعالیٰ اپنے قواعد مقررہ کے ساتھ ہر یک انسان سے مناسبِ حال معاملہ کرتا ہے اور جوشخص سُستی اور تکاسل
معنوں پر محمول معلوم ہوا کہ مہتمم مطبع سفیر ہند کے دل میں بہ یقین کامل یہ مرکوز تھا کہ اِس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہو گی بباعث وثاقت اور صداقت اور نیز بااعتبار اور قابل قدر ہونے کی وجہ سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی اور اِسی نیت سے مہتمم مذکور نے اِس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاریؔ کرایا اور اتفاق ایسا ہوا کہ جس دن یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور امرتسر جانے کا سفر پیش آیا وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورے ہونے کا دن تھا سو وہ پہلی پیشگوئی بھی میاں نور احمد صاحب کے رُو برو پوری ہو گئی یعنی اُسی دن جو دس دن کے بعد کا دن تھا روپیہ آگیا اور امرتسر بھی جانا پڑا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
از انجملہ ایک یہ ہے کہ ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ آج حاجی ارباب محمد لشکر خان کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے۔ یہ پیشگوئی بھی بدستور معمول اسی وقت چند آریوں کو بتلائی گئی اور یہ قرار پایا کہ اُنہیں میں سے ڈاک کے وقت کوئی ڈاکخانہ میں جاوے چنانچہ ایک آریہ ملاوامل نامی اُس وقت ڈاکخانہ میں گیااور یہ خبر لایا کہ ہوتی مردان سے 3دس روپیہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 566
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 566
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/566/mode/1up
نامعقول بات سے کہ جس کی سچائی سے عقل و شرع انکار کرتی ہے منع کرتا ہے اور پاک چیزوں کو پاک اور پلید چیزوں کو پلید ٹھہراتا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے سر پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر پڑی ہوئی تھی اور جن طوقوں میں وہ گرفتار تھے ان سے خلاصی بخشتا ہے۔ سو جو لوگ اس پر ایمان لاویں اور اس کو قوت دیں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی بکلّی متابعت اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔ لوگوں کو کہہ دے کہ میں
سے اس کے لئے کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ایسےؔ لوگوں کے بارہ میں قدیم سے اس کا یہی قاعدہ مقرر ہے کہ وہ اپنی تائید سے ان کو محروم رکھتا ہے اور انہیں کو اپنی راہیں دکھلاتا ہے جو ان راہوں کے لئے بدل و جان سعی کرتے ہیں۔ بھلا یہ کیونکر ہوسکے کہ جو شخص نہایت لاپروائی سے سستی کررہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفیض ہوجائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈتا ہے۔ اسی کی طرف ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ نے اشارہ فر یا ہے اور وہ یہ ہے
آئے ہیں اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ یہ 3دس روپیہ ارباب سرور خان نے بھیجے ہیں۔ چونکہ ارباب کے لفظ سے اتحادِ قومی مفہوم ہوتا تھا اس لئے اُن آریوں کو کہا گیا کہ ارباب کے لفظ میں دونوں صاحبوں کی شراکت ہونا پیشگوئی کی صداقت کے لئے کافیؔ ہے مگر بعض نے ان میں سے اِس بات کو قبول نہ کیا اور کہا کہ اتحادِ قومی شے دیگر ہے اور قرابت شے دیگر اور اِس انکار پر بہت ضد کی ناچار اُن کے اصرار پر خط لکھنا پڑا اور وہاں سے یعنی ہُوتی مردان سے کئی روز کے بعد ایک دوست منشی الٰہی بخش نامی نے جو اُن دنوں میں ہوتی مردان میں اکونٹنٹ تھے خط کے جواب میں لکھا کہ ارباب سرور خان ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے چنانچہ اُس خط کے آنے پر سب مخالفین لاجواب اور عاجز رہ گئے۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 567
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 567
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/567/mode/1up
خداؔ کی طرف سے تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ وہ خدا جو بلا شرکت الغیری آسمان اور زمین کا مالک ہے جس کے سوا اور کوئی خدا اور قابل پرستش نہیں زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے پس اس خدا پر اور اس کے رسول پر جو نبی اُمّی ہے ایمان لاؤ۔ وہ نبی جو اللہ اور اس کے کلموں پر ایمان لاتا ہے اور تم اس کی پیروی کرو تاتم ہدایت پاؤ۔
یعنی جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو بالضرور اپنی راہیں دکھلا دیا کرتےؔ ہیں۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ یہ دس صداقتیں جو سورۂ فاتحہ میں درج ہیں کس قدر عالی اور بے نظیر صداقتیں ہیں جن کے دریافت کرنے سے ہمارے تمام مخالفین قاصر رہے اور پھر دیکھنا چاہئے کہ کس ایجاز اور لطافت سے اقل قلیل عبارت میں ان کو خدائے تعالیٰ نے بھر دیا ہے اور پھر اس طرف خیال کرنا چاہئے کہ علاوہ ان سچائیوں کے اور اس کمال ایجاز کے دوسرے کیا کیا لطائف ہیں جو اس سور ۂمبارکہ میں بھرے ہوئے ہیں اگر ہم اس جگہ ان سب لطائف کو بیان کریں تو یہ مضمون ایک
ازانجملہ ایک یہ ہے کہ ایک دفعہ اپریل ۱۸۸۳ ء میں صبح کے وقت بیداری ہی میں جہلم سے روپیہ روانہ ہونے کی اطلاع دی گئی اور اس بات سے اس جگہ آریوں کو جن میں سے بعض خود جاکر ڈاک خانہ میں خبر لیتے تھے بخوبی اطلاع تھی کہ اس روپیہ کے روانہ ہونے کے بارہ میں جہلم سے کوئی خط نہیں آیا تھا کیونکہ یہ انتظام اس عاجز نے پہلے سے کررکھا تھا کہ جو کچھ ڈاک خانہ سے خط وغیرہ آتا تھا اس کو خود بعض آریا ڈاک خانہ سے لےؔ آتے تھے اور ہر روز ہریک بات سے بخوبی مطلع رہتے تھے۔ اور خود اب تک ڈاک خانہ کا ڈاک منشی بھی ایک ہندو ہی ہے۔ غرض جب یہ الہام ہوا تو ان دنوں میں ایک پنڈت کا بیٹا شام لال نامی جو ناگری اور فارسی دونوں میں لکھ سکتا تھا بطور روزنامہ نویس کے نوکر رکھا ہوا تھا اور بعض امورِ غیبیہ جو ظاہر ہوتے تھے اس کے ہاتھ سے وہ ناگری اور فارسی خط میں قبل از وقوع لکھائے جاتے تھے اور پھر شام لال مذکور کے اُس پر دستخط کرائے جاتے تھے۔ چنانچہ یہ پیشگوئی بھی بدستور اس سے لکھائی گئی اور اس وقت کئی آریوں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 568
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 568
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/568/mode/1up
اورؔ اسی طرح ہم نے اپنے امر سے تیری طرف ایک روح نازل کی ہے تجھے معلوم نہ تھا کہ کتاب اور ایمان کسے کہتے ہیں پر ہم نے اس کو ایک نور بنایا ہے جس کو ہم چاہتے ہیں بذریعہ اس کے ہدایت دیتے ہیں اور بہ تحقیق سیدھے راستہ کی طرف تو ہدایت دیتا ہے۔
دفتر بن جائے گا صرف چند لطیفہ بطور نمونہ بیان کئے جاتے ہیں۔ اول یہ لطیفہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس سورۃ فاتحہ میں دعا کرنے کا ایسا طریقہ حسنہ بتلایا ہے جس سے خوب تر طریقہ پیدا ہونا ممکن نہیں اور جس میں وہ تمام امور جمعؔ ہیں جو دعا میں دلی جوش پیدا کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ قبولیت دعا کے لئے ضرور ہے کہ اُس میں ایک جوش ہو کیونکہ جس دعا میں جوش نہ ہو وہ صرف لفظی بڑبڑ ہے حقیقی دعا نہیں مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ دعا میں جوش پیدا ہونا ہریک وقت انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ انسان کے لئے اشد ضرورت ہے کہ دعا کرنے کے وقت جو امور دلی جوش کے محرّک ہیں وہ اس کے خیال میں حاضر ہوں اور یہ بات ہریک عاقل پر روشن ہے کہ دلی جوش پیدا کرنے والی صرف دو ہی چیزیں ہیں ایک خدا کو
کو بھی خبر دی گئی۔ اور ابھی پانچ روز نہیں گزرے تھے جو پینتالیس روپیہ کا منی آرڈر جہلم سے آگیا اور جب حساب کیا گیا تو ٹھیک ٹھیک اسی دن منی آرڈر روانہ ہوا تھا جس دن خداوند عالم الغیب نے اس کے روانہ ہونے کی خبر دی تھی۔ اور یہ پیشگوئی بھی اسی طور پر ظہور میں آئی جس سے بہ تمام تر انکشاف مخالفینؔ پر اس کی صداقت کھل گئی اور اس کے قبول کرنے سے کچھ چارہ نہ رہا کیونکہ ان کو اپنی ذاتی واقفیت سے بخوبی معلوم تھا کہ اس روپیہ کا اس مہینہ میں جہلم سے روانہ ہونا بے نشان محض تھا جس سے پہلے کوئی اطلاعی خط نہیں آیا تھا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
ازانجملہ ایک یہ ہے کہ کچھ عرصہ ہوا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ حیدرآباد سے نواب اقبال الدولہ صاحب کی طرف سے خط آیا ہے اور اُس میں کسی قدر روپیہ دینے کا وعدہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 569
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 569
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/569/mode/1up
اورؔ اس سے پہلے تو کسی کتاب کو نہیں پڑھتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا تا باطل پرستوں کو شک کرنے کی کوئی وجہ بھی ہوتی بلکہ وہ آیات بینات ہیں جو اہل علم لوگوں کے سینوں میں ہیں اور ان سے انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو ظالم ہیں۔
کامل اور قادر اور جامع صفات کاملہ خیال کرکے اس کی رحمتوں اور کرموں کو ابتدا سے انتہا تک اپنے وجود اور بقا کے لئے ضروری دیکھنا اور تمام فیوض کا مبدء اسی کو خیال کرنا۔ دوسرے اپنے تئیں اور اپنے تمام ہم جنسوں کو عاجزؔ اور مفلس اور خدا کی مدد کا محتاج یقین کرنا یہی دو امر ہیں جن سے دعاؤں میں جوش پیدا ہوتا ہے اور جو جوش دلانے کے لئے کامل ذریعہ ہیں وجہ یہ کہ انسان کی دعا میں تب ہی جوش پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے تئیں سراسر ضعیف اور ناتوان اور مدد الٰہی کا محتاج دیکھتا ہے اور خدا کی نسبت نہایت قوی اعتقاد سے یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ بغایت درجہ کامل القدرت اور رب العالمین اور رحمان اور رحیم اور مالک امر مجازات ہے اور جو کچھ انسانی حاجتیں ہیں سب کا پورا کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے سو سورۃ فاتحہ کے ابتدا میں
لکھا ہے یہ خواب بھی بدستور روزنامہ مذکورہ بالا میں اسی ہندو کے ہاتھ سے لکھائی گئی اور کئی آریوں کو اطلاع دی گئی۔ پھر تھوڑے دنوں کے بعد حیدرآباد سے خط آگیا اور نواب صاحب موصوف نے سو روپیہ بھیجا۔فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
ازانجملہ ایک یہ ہے کہ ایک دوست نے بڑی مشکل کے وقت لکھا کہ اس کا ایک عزیز کسی سنگین مقدمہ میں ماخوذ ہے اور کوئی صورت نجاؔ ت کی نظر نہیں آتی اور کوئی سبیل رہائی کی دکھائی نہیں دیتی۔ سو اس دوست نے یہ پُردرد ماجرا لکھ کر دعا کے لئے درخواست کی۔ چونکہ اس کی بھلائی مقدر تھی اور تقدیر معلق تھی اس لئے اسی رات وقت صافی میسر آگیا جو ایک مدت تک میسر نہیں آیا تھا دعا کی گئی اور وقت صافی قبولیت کی امید دیتا تھا چنانچہ قبولیت کے آثار سے ایک آریہ کو اطلاع دی گئی۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 570
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 570
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/570/mode/1up
انؔ تمام آیات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا بکمال وضاحت ثابت ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر آنحضرت فی الحقیقت اُمّی اور ناخواندہ نہ ہوتے۔ تو بہت سے لوگ اس دعویٰ اُمیّت کی تکذیب کرنے والے پیدا ہوجاتے کیونکہ آنحضرت نے کسی ایسے ملک میں یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ جس ملک کے لوگوں کو آنحضرت کے حالات
جو اللہ تعالیٰ کی نسبت بیان فرمایا گیا ہے کہ وہی ایک ذات ہے کہ جو تمام محامدِ کاملہ سے متصف اور تمام خوبیوں کی جامع ہے اور وہی ایک ذات ہے جو تمام عالموں کی رب اور تمام رحمتوں کا چشمہ اور سب کو ان کے عملوں کا بدلہ دینے والی ہے پس ان صفات کے بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نے بخوبی ظاہر فرمادیا کہ سبؔ قدرت اسی کے ہاتھ میں ہے اور ہریک فیض اسی کی طرف سے ہے اور اپنی اس قدر عظمت بیان کی کہ دنیا اور آخرت کے کاموں کا قاضی الحاجات اور ہریک چیز کا علت العلل اور ہریک فیض کا مبدء اپنی ذات کو ٹھہرایا جس میں یہ بھی اشارہ فرما دیا ہے کہ اس کی ذات کے بغیر اور اس کی رحمت کے بدوں کسی زندہ کی زندگی اور آرام اور راحت ممکن نہیں اور پھر بندہ کو
پھر چند روز کے بعد خبر ملی کہ مدعی ایک ناگہانی موت سے مرگیا اور اس طرح پر شخص ماخوذ نے خلاصی پائی۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
ماسوا اس کے کبھی کبھی دوسری زبان میں الہام ہونا جس سے یہ خاکسار ناآشنا محض ہے اور پھر وہ الہام کسی پیشگوئی پر مشتمل ہونا عجائباتِ غریبہ میں سے ہے جو قادر مطلق کی وسیع قدرتوں پر دلالت کرتا ہے۔ اگرچہ ؔ بیگانہ زبان کے تمام الفاظ محفوظ نہیں رہتے اور اُن کے تلفظ میں بعض وقت بباعث سرعت ورود الہام اور ناآشنائی لہجہ و زبان کچھ فرق آجاتا ہے مگر اکثر صاف صاف اور غیر ثقیل فقرات میں کم فرق آتا ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ جلدی جلدی القا ہونے کی وجہ سے بعض الفاظ یادداشت سے باہر رہ جاتے ہیں لیکن جب کسی فقرہ کا لقا مکررسہ کرر ہو تو پھر وہ الفاظ اچھی طرح سے یاد رہتے ہیں۔ الہام کے وقت میں قادر مطلق اپنے اُس تصرف بحث سے کام کرتا ہے جس میں اسبابِ اندرونی یا بیرونی کی کچھ آمیزش نہیں ہوتی اُس وقت
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 571
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 571
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/571/mode/1up
اور واقعات سے بے خبر اور ناواقف قرار دے سکیں بلکہ وہ تمام لوگ ایسے تھے جن میں آنحضرت نے ابتداء عمر سے نشوونما پایا تھا اور ایک حصۂ کلاں عمرؔ اپنی کا ان کی مخالطت اور مصاحبت میں بسر کیا تھا پس اگر فی الواقعہ جناب ممدوح اُمّی نہ ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اپنے اُمّی ہونے کا ان لوگوں کے سامنے نام بھی لے سکتے
تذلل کی تعلیم دی اور فرمایا اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ اے مبدء تمام فیوض ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں یعنی ہم عاجز ہیں آپ سے کچھ بھی نہیں کرسکتے جب تک تیری توفیق اور تائید شامل حال نہ ہو پس خدائے تعالیٰ نے دعا میں جوش دلانے کے لئے دو محرّک بیان فرمائے ایک اپنی عظمت اور رحمتِ شاملہ دوسرے بندوں کا عاجز اور ذلیل ہونا۔ اب جاننا چاہئے کہ یہی دو محرک ہیں جن کا دعا کے وقتؔ خیال میں لانا دعا کرنے والوں کے لئے نہایت ضروری ہے جو لوگ دعا کی کیفیت سے کسی قدر چاشنی حاصل رکھتے ہیں انہیں خوب معلوم ہے کہ بغیر پیش ہونے ان دونوں محرکوں کے دعا ہوہی نہیں سکتی اور بجز ان کے آتش شوق الٰہی دعا میں اپنے شعلوں کو بلند نہیں کرتے یہ بات نہایت ظاہر ہے
زبان خدا کے ہاتھ میں ایک آلہ ہوتا ہے جس طرح اور جس طرف چاہتا ہے اس آلہ کو یعنی زبان کو پھیرتا ہے اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ الفاظ زور کے ساتھ اور ایک جلدی سے نکلتے آتے ہیں اور کبھی ایسا بھیؔ ہوتا ہے کہ جیسے کوئی لطف اور ناز سے قدم رکھتا ہے اور ایک قدم پر ٹھہر کر پھر دوسرا قدم اٹھاتا ہے اور چلنے میں اپنی خوش وضع دکھلاتا ہے اور ان دونوں اندازوں کے اختیار کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تا رباّنی الہام کو نفسانی اور شیطانی خیالات سے امتیاز کلی حاصل رہے اور خداوندِ مطلق کا الہام اپنی جلالی اور جمالی برکت سے فی الفور شناخت کیا جائے۔ ایک دفعہ کی حالت یاد آئی ہے کہ انگریزی میں اول یہ الہام ہوا۔ آئی لو یو یعنی میں تم سے محبت رکھتا ہوں۔ پھر یہ الہام ہوا۔ آئی ایم ود یو یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں پھر الہام ہوا۔ آئی شیل ہیلپ یو یعنی میں تمہاری مدد کروں گا۔ پھر الہام ہوا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 572
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 572
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/572/mode/1up
جن پر کوئی حال ان کا پوشیدہ نہ تھا اور جو ہر وقت اس گھات میں لگے ہوئے تھے کہ کوئی خلاف گوئی ثابت کریں اور اُس کو مُشتہر کردیں۔ جن کا عناد اس درجہ تک پہنچ چکا تھا کہ اگر بس چل سکتا تو کچھ جھوٹ موٹ سے ہی ثبوت بنا کر پیش کردیتے اور اسی جہت سے ان کو ان کی ہریک بدظنی پر ایسا مسکت جواب دیا جاتا تھا کہ وہ ساکتؔ اور لاجواب رہ جاتے تھے مثلاً جب مکہ کے بعض
کہ جو شخص خدا کی عظمت اور رحمت اور قدرت کاملہ کو یاد نہیں رکھتا وہ کسی طرح سے خدا کی طرف رجوع نہیں کرسکتا اور جو شخص اپنی عاجزی اور درماندگی اور مسکینی کا اقراری نہیں اس کی روح اس مولیٰ کریم کی طرف ہرگز جھک نہیں سکتی۔ غرض یہ ایسی صداقت ہے جس کے سمجھنے کے لئے کوئی عمیق فلسفہ درکار نہیں بلکہ جب خدا کی عظمت اور اپنی ذلت اور عاجزی متحقق طور پر دل میں متنقّش ہو تو وہ حالت خاصہ خود انسان کو سمجھا دیتی ہے کہ خالص دعا کرنے کا وہی ذریعہ ہے سچے پرستار خوب سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں انہیں دو چیزوں کا تصورؔ دعا کے لئے ضروری ہے یعنی اول اس بات کا تصور کہ خدائے تعالیٰ ہریک قسم کی ربوبیت اور پرورش اور رحمت اور بدلہ دینے پر قادر ہے اور اس کی یہ صفات کاملہ ہمیشہ اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں۔
آئی کین ویٹ آئی ول ڈو۔ یعنی میں کرسکتا ہوں جو چاہوں گا۔ پھر بعد اس کے بہت ہی زور سے جس سے بدن کانپ گیا یہ الہامؔ ہوا۔ وی کین ویٹ وی ول ڈو۔ یعنی ہم کرسکتے ہیں۔ جو چاہیں گے اور اس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا ایک انگریز ہے جو سر پر کھڑا ہوا بول رہا ہے اور باوجود پُر دہشت ہونے کے پھر اس میں ایک لذت تھی جس سے روح کو معنے معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفّی ملتی تھی اور یہ انگریزی زبان کا الہام اکثر ہوتا رہا ہے۔ ایک دفعہ ایک طالب العلم انگریزی خوان ملنے کو آیا اس کے روبرو ہی یہ الہام ہوا۔ دس از مائی اینیمی یعنی یہ میرا دشمن ہے اگرچہ معلوم ہوگیا تھا کہ یہ الہام اسی کی نسبت ہے مگر اسی سے یہ معنی بھی دریافت
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 573
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 573
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/573/mode/1up
نادانوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ قرآن کی توحید ہمیں پسند نہیں آتی کوئی ایسا قرآن لاؤ جس میں بتوں کی تعظیم اور پرستش کا ذکر ہو یا اسی میں کچھ تبدّل تغیّر کرکے بجائے توحید کے شرک بھر دو تب ہم قبول کرلیں گے اور ایمان لے آئیں گے۔ تو خدا نے ان کے سوال کا جواب اپنے نبی کو وہ تعلیم کیا جو آنحضرت کے واقعات عمری پر نظر کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے:۔
دوسرے اس بات کا تصور کہ انسان بغیر توفیق اور تائید الٰہی کے کسی چیز کو حاصل نہیں کرسکتا۔ اور بلاشبہ یہ دونوں تصور ایسے ہیں کہ جب دعا کرنے کے وقت دل میں جم جاتے ہیں تو یکایک انسان کی حالت کو ایسا تبدیل کردیتے ہیں کہ ایک متکبر ان سے متاثر ہو کر روتا ہوا زمین پر گر پڑتا ہے اور ایک گردن کش سخت دل کے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ یہیَ کل ہے جس سے ایک غافل مردہ میں جان پڑجاتی ہے۔ انہیں دو باتوں کے تصور سے ہریک دل دعا کرنے کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ غرض یہی وہ روحانی وسیلہ ہے جس سے انسان کی روح روبخدا ہوتی ہے اور اپنی کمزوری اور امداد ربّانی پر نظر پڑتی ہے اسی کے ذریعہ سے انسان ایک ایسے عالم بے خودی میں پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی مکدّر ہستی کا نشان باقی نہیں رہتا اور صرف ایک ذات عظمیٰ کا جلال چمکتا ہوا نظر آتا ہے اور وہی ذات رحمتِ کُل اور ہریک ہستی کا ستون اور ہریک درد کا چارہ اور ہریک فیض کا مبدء دکھائی دیتی ہے آخر اس سے ایک صورت فنافی اللہ کیؔ ظہور پذیر ہوجاتی ہے جس کے ظہور سے نہ انسان مخلوق کی طرف مائل رہتا ہے نہ اپنے نفس کی طرف نہ اپنے ارادہ کی طرف اور بالکل خدا کی محبت میں کھویا جاتا ہے اور اُس ہستی
کئے گئے اور آخر وہ ایسا ہی آدمی نکلا اور اس کے باطن میں طرح طرح کے خبث پائے گئے۔ ایک دفعہ صبح ؔ کے وقت بہ نظر کشفی چند ورق چھپے ہوئے دکھائے گئے کہ جو ڈاک خانہ سے آئے ہیں اور اخیر پر ان کے لکھا تھا۔ آئی ایم بائی عیسیٰ یعنی میں عیسیٰ کے ساتھ ہوں۔ چنانچہ وہ مضمون کسی انگریزی خوان سے دریافت کرکے دو ہندو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 574
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 574
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/574/mode/1up
وہ ؔ لوگ جو ہماری ملاقات سے ناامید ہیں یعنی ہماری طرف سے بکلی علاقہ توڑ چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کے برخلاف کوئی اور قرآن لا جس کی تعلیم اس کی تعلیم سے مغایر اور منافی ہو یا اسی میں تبدیل کر ان کو جواب دے کہ مجھے یہ قدرت نہیں اور نہ روا ہے کہ میں خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کچھ تبدیل کروں۔ میں تو صرف اُس وحی کا تابع ہوں جو میرے پر نازل ہوتی ہے
حقیقی کی شہود سے اپنی اور دوسری مخلوق چیزوں کی ہستی کالعدم معلوم ہوتی ہے اس حالت کا نام خدا نے صراط مستقیم رکھا ہے جس کی طلب کے لئے بندہ کو تعلیم فرمایا اور کہا اِھْدِنَا الصِّرَاطَالْمُسْتَقِیْمَ یعنی وہ راستہ فنا اور توحید اور محبت الٰہی کا جو آیاتِ مذکور ۂبالا سے مفہوم ہورہا ہے وہ ہمیں عطا فرما اور اپنے غیر سے بکُلّی منقطع کر۔ خلاصہ یہ کہ خدائے تعالیٰ نے دعا میں جوش پیدا کرنے کے لئے وہ اسباب حقہ انسان کو عطا فرمائے کہ جو اس قدر دلی جوش پیدا کرتے ہیں کہ دعا کرنے والے کو خودی کے عالم سے بے خودی اور نیستی کے عالم میں پہنچا دیتے ہیں۔ اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بات ہرگز نہیں کہ سورۃ فاتحہ دعا کے کئی طریقوں میں سے ہدایت مانگنے کا ایک طریقہ ہے بلکہ جیسا کہ دلائل مذکورۂ بالا سے ثابت ہوچکا ہے درحقیقت صرف یہی ایک طریقہ ہے جس پر جوش دل سے دعا کا صادر ہونا موقوف ہے اور جس پر طبیعت انسانی بمقتضا اپنے فطرتی تقاضا ؔ کے چلنا چاہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے خدا نے دوسرے امور میں قواعد مقررّہ ٹھہرا رکھے ہیں ایسا ہی دعا کے لئے بھی ایک قاعدہ خاص ہے اور وہ قاعدہ وہی محرّک ہیں جو سورۃ فاتحہ میں لکھے گئے ہیں اور
آریہ کو بتلایا گیا جس سے یہ سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص عیسائی یا عیسائیوں کی طرز پر دینِ اسلام کی نسبت کچھ اعتراض چھپوا کر بھیجے گا چنانچہ اُسی روز ایک آریہ کو ڈاک آنے کے وقت ڈاک خانہ میں بھیجا گیا تو وہ چند چھپے ہوئے ورق لایا جس میں عیسائیوں کی طرز پر ایک صاحب خام خیال نے اعتراضات لکھے تھے۔ ایک دفعہ کسی امر میں جو دریافت طلب تھا خواب میں ایک درم نقرہ جو بشکل بادامی تھا اس عاجز کے ہاتھؔ میں دیا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 575
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 575
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/575/mode/1up
اورؔ اپنے خداوند کی نافرمانی سے ڈرتا ہوں اگر خدا چاہتا تو میں تم کو یہ کلام نہ سناتا اور خدا تم کو اس پر مطلع بھی نہ کرتا پہلے اس سے اتنی عمر یعنی چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں پھر کیا تم کو عقل نہیں یعنی کیا تم کو بخوبی معلوم نہیں کہ افترا کرنا میرا کام نہیں اور جھوٹ بولنا میری عادت میں نہیں اور پھر آگے فرمایا کہ اس شخص سے زیادہ تر اور کون ظالم ہوگا جو خدا پر افترا باندھے یا خدا کے کلام کو کہے کہ یہ انسان کا افترا ہے بلاشبہ مجرم نجات نہیں پائیں گے۔
ممکن نہیں کہ جب تک وہ دونوں محرک کسی کے خیال میں نہ ہوں تب تک اس کی دعا میں جوش پیدا ہوسکے۔ سو طبعی راستہ دعا مانگنے کا وہی ہے جو سورۃ فاتحہ میں ذکر ہوچکا ہے۔ پس سورہ ممدوحہ کے لطائف میں سے یہ ایک نہایت عمدہ لطیفہ ہے کہ دعا کو معہ محرکات اس کے کے بیان کیا ہے فتدبّر۔
پھر ایک دوسرا لطیفہ اس سورۃ میں یہ ہے کہ ہدایت کے قبول کرنے کے لئے پورے پورے اسباب ترغیب بیان فرمائے ہیں کیونکہ ترغیب کامل جو معقول طور پر دی جائے ایک زبردست کشش ہے اور حصر عقلی کے رو سے ترغیب کامل اس ترغیب کا نام ہے جس میں تین جُزیں موجود ہوں۔ ایک یہ کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس کی ذاتی خوبی بیان کی جائے سو اس خبر کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ یعنی ہم کو وہ راستہ بتلا جو اپنی ذات میں صفتِ استقامت
گیا۔ اس میں دو سطریں تھیں۔ اول سطر میں یہ انگریزی فقرہ لکھا تھا۔ یس آئی ایم ہیپی اور دوسری سطر جو خط فارق ڈال کر نیچے لکھی ہوئی تھی وہ اسی پہلی سطر کا ترجمہ تھا یعنی یہ لکھا تھا کہ ہاں میں خوش ہوں۔ ایک دفعہ کچھ حزن اور غم کے دن آنے والے تھے کہ ایک کاغذ پر بہ نظر کشفی یہ فقرہ انگریزی میں لکھا ہوا دکھایا گیا۔ لائف آف پین یعنی زندگی دکھ کی۔ ایک دفعہ بعض مخالفوں کے بارہ میں جنہوں نے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 576
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 576
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/576/mode/1up
غرض ؔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا عربوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی نظر میں ایسا بدیہی اور یقینی امر تھا کہ اس کے انکار میں کچھ دم نہیں مار سکتے تھے بلکہ اسی جہت سے وہ توریت کے اکثر قصے جو کسی خواندہ آدمی پر مخفی نہیں رہ سکتے بطور امتحان نبوت آنحضرت پوچھتے تھے اور پھر جواب صحیح اور درست پاکر ان فاش غلطیوں سے مبرا دیکھ کر جو توریت کے قصوں میں پڑ گئے ہیں وہ لوگ جو ان میں راسخ فی العلم تھے بصدق دلی ایمان لے آتے تھے جن کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح پر درج ہے:۔
اور راستی سے موصوف ہے جسؔ میں ذرا کجی نہیں سو اس آیت میں ذاتی خوبی اس راستہ کی بیان فرما کر اس کے حصول کے لئے ترغیب دی۔ دوسری جز ترغیب کی یہ ہے کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس شے کے فوائد بیان کئے جائیں۔ سو اس جز کو اس آیت میں بیان فرمایا۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ یعنی اس راستہ پر ہم کو چلا جس پر چلنے سے پہلے سالکوں پر انعام اور کرم ہوچکا ہے۔ سو اس آیت میں راستہ چلنے والوں کا کامیاب ہونا ذکر فرما کر اس راستہ کا شوق دلایا۔ تیسری جُز ترغیب کی یہ ہے کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس شے کے چھوڑنے والوں کی خرابی اور بدحالی بیان کی جائے۔ سو اس جز کو اس آیت میں بیان فرمایا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَاالضَّآلِّیْنَ۔ یعنی ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے صراط مستقیم کو چھوڑا اور دوسری راہیں اختیار کیں اور غضب الٰہی میں پڑے اور گمراہ ہوئے سو اس آیت میں اس سیدھا راستہ چھوڑنے پر جو ضرر مترتب ہوتا ہے اس سے آگاہ کیا۔ غرض سورۃ فاتحہ میں ترغیب کی
عنادؔ دلی سے خواہ نخواہ قرآن شریف کی توہین کی تھی اور عداوت ذاتی سے جس کا کچھ چارہ نہیں دین متین اسلام پر بے جا اعتراضات اور بیہودہ تعرّضات کئے تھے یہ دو فقرے انگریزی میں الہام ہوئے۔ َ گوڈ از کمنگ بائی ہز آرمی۔ ہی از ود یو ٹو کل اینیمی یعنی خدائے تعالیٰ دلائل اور براہین کا لشکر لے کر چلا آتا ہے وہ دشمن کو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 577
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 577
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/577/mode/1up
سبؔ فرقوں میں سے مسلمانوں کی طرف زیادہ تر رغبت کرنے والے عیسائی ہیں کیونکہ ان میں بعض بعض اہلِ علم اور راہب بھی ہیں جو تکبر نہیں کرتے اور جب خدا کے کلام کو جو اُس کے رسول پر نازل ہوا سنتے ہیں تبُ تو دیکھتا ہے کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ حقّانیّت کلام الٰہی کو پہچان جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدایا ہم ایمان لائے ہم کو اُن لوگوں میں لکھ لے جو تیرے دین کی سچائی کے گواہ ہیں اور کیوں ہم خدا اور خدا کے سچے کلام پر ایمان نہ لاویں۔ حالانکہ ہماری آرزو ہے کہ خدا ہم کو ان بندوں میں داخل کرے جو نیکوکار ہیں۔
تینوں جزوں کو لطیف طور پر بیان کیا۔ ذاتی خوبی بھی بیان کی۔ فوائد بھی بیان کئے اور پھر اس راہ کے چھوڑنے والوں کی ناکامی اور بدحالی بھی بیانؔ فرمائی تا ذاتی خوبی کو سن کر طبائع سلیمہ اُس کی طرف میل کریں اور فوائد پر اطلاع پاکر جو لوگ فوائد کے خواہاں ہیں ان کے دلوں میں شوق پیدا ہو اور ترک کرنے کی خرابیاں معلوم کرکے اس وبال سے ڈریں جو کہ ترک کرنے پر عائد حال ہوگا۔ پس یہ بھی ایک کامل لطیفہ ہے جس کا التزام اس صورت میں کیا گیا۔ پھر تیسرا لطیفہ اس سورۃ میں یہ ہے کہ باوجود التزام فصاحت و بلاغت یہ کمال دکھلایا ہے کہ محامد الٰہیہ کے ذکر کرنے کے بعد جو فقرات دعا وغیرہ کے بارہ میں لکھے ہیں۔ ان کو ایسے عمدہ طور پر بطور لف و نشر مرتب کے بیان کیا ہے جس کا صفائی سے بیان کرنا باوجود رعایت تمام مدارج
مغلوب اور ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے اسی طرح اور بھی بہت ؔ سے فقرات تھے جن میں سے کچھ تو یاد ہیں اور کچھ بھول گئے۔ لیکن سب سے زیادہ عربی زبان میں الہام ہوتا ہے۔ خصوصاً آیاتِ فرقانیہ میں بکثرت اور بتواتر ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی قدر عربی الہامات جو بعض عظیم الشان پیشگوئیوں اور احساناتِ الٰہیہ پر مشتمل ہیں ذیل میں معہ ترجمہ لکھے جاتے ہیں تاکہ اگر خدا چاہے تو طالب صادق کو ان سے فائدہ ہو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 578
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 578
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/578/mode/1up
جوؔ لوگ عیسائیوں اور یہودیوں میں سے صاحب علم ہیں جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ کرتے ہوئے ٹھوڑیوں پر گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا خدا تخلّفِ وعدہ سے پاک ہے ایک دن ہمارے خداوند کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا اور روتے ہوئے مونہہ پر گر پڑتے ہیں اور خدا کا کلام اُن میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہو۔
پس یہ تو ان لوگوں کا حال تھا جو عیسائیوں اور یہودیوں میں اہل علم اور صاحب انصاف تھے کہ جب وہ ایک طرف آنحضرت کی حالت پر نظر ڈال کر دیکھتے تھے کہ محض اُمّی ہیں کہ تربیت اور تعلیم کا ایک نقطہ بھی نہیں سیکھا اور نہ کسی مہذّب قوم
فصاحت و بلاغت کے بہت مشکل ہوتا ہے اور جو لوگ سخنؔ میں صاحب مذاق ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے لف و نشر کیسا نازک اور دقیق کام ہے۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اوّل محامدِ الٰہیہ میں فیوض اربعہ کا ذکر فرمایا کہ وہ رب العالمین۱ ہے۔ رحمان۲ ہے۔ رحیم۳ ہے۔ مالک۴ یوم الدین ہے۔ اور پھر بعد اس کے فقرات تعبد اور استعانت اور دعا اور طلب جزا کو انہیں کے ذیل میں اس لطافت سے لکھا ہے کہ جس فقرہ کو کسی قسم فیض سے نہایت مناسبت تھی اُسی کے نیچے وہ فقرہ درج کیا۔ چنانچہ رَبُّ الْعَالَمِیْن کے مقابلہ پر اِیَّاکَ نَعْبُدُ لکھا۔ کیونکہ ربوبیت سے استحقاق عبادت شروع ہوجاتا ہے پس اسی کے نیچے اور اسی کے محاذات میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ
اور تا مخالفوں کو بھی معلوم ہو کہ جس قوم پر خداوند کریم کی نظر عنایت ہوتی ہے اور جو لوگ راہ ؔ راست پر ہوتے ہیں ان سے کیونکر خداوند کریم اپنے مکالمات اور مخاطبات میں بہ مہربانی پیش آتا ہے اور کیونکر ان تفضّلات سے پیش از وقوع اطلاع دیتا ہے جن کو اس نے لطف محض سے اپنے وقتوں پر طیار رکھا ہے اور وہ الہامات یہ ہیں:۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 579
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 579
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/579/mode/1up
میں بودوباش رہی اور نہ مجالسِ علمیہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اورؔ دوسری طرف وہ قرآن شریف میں صرف پہلی کتابوں کے قصے نہیں بلکہ صدہا باریک صداقتیں دیکھتے تھے جو پہلی کتابوں کی مکمل اور متمم تھیں تو آنحضرت کی حالت اُمیّت کو سوچنے سے اور پھر اس تاریکی کے زمانہ میں ان کمالات علمیہ کو دیکھنے سے نیز انوار ظاہری و باطنی کے مشاہدہ سے نبوت آنحضرت ؐ کی ان کو اظہر من الشّمس معلوم ہوتی تھی اور ظاہر ہے کہ اگر ان مسیحی فاضلوں کو آنحضرت کے اُمّی اور مؤیّد من اللہ ہونے پر یقین کامل نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ وہ ایک ایسے دین سے جس کی حمایت میں ایک بڑی سلطنت قیصر روم کی قائم تھی اور جو نہ صرف ایشیا میں بلکہ بعض حصوں یورپ میں بھی پھیل چکا تھا اور بوجہ اپنی مشرکانہ تعلیم کے دنیا پرستوں کو عزیز اور پیارا معلوم ہوتا تھا صرف شک اور شبہ کی حالت میں الگ ہوکر ایسے مذہب کو
کا لکھنا نہایت موزون اور مناسب ہے اور رحمان کے مقابلہ پر اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ لکھا۔ کیونکہ بندہ کے لئے اعانت الٰہی جو توفیق عبادت اور ہریک اس کے مطلوب میں ہوتیؔ ہے جس پر اس کی دنیا اور آخرت کی صلاحیت موقوف ہے یہ اس کے کسی عمل کا پاداش نہیں بلکہ محض صفت رحمانیت کا اثر ہے۔ پس استعانت کو صفت رحمانیت سے بشدّت مناسبت ہے۔ اور رحیم کے مقابلہ پر اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ لکھا کیونکہ دعا ایک مجاہدہ اور کوشش ہے اور کوششوں پر جو ثمرہ مُترتّب ہوتا ہے وہ صفت رحیمیت کا اثر ہے۔ اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے مقابلہ پر صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ
بورکت یا احمد وکان ما بارک اللہ فیک حقًّا فیک۔ اے احمد تو مبارک کیا گیا اور خدا نے جو ؔ تجھ میں برکت رکھی ہے وہ حقانی طور پر رکھی ہے۔ شانک عجیب و اجرک قریب۔ تیری شان عجیب ہے اور تیرا بدلہ نزدیک ہے۔ انی راض منک۔ انی رافعک الی الارض والسماء معک کما ھو معی۔ میں تجھ سے راضی ہوں میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ زمین اور آسمان تیرے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 580
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 580
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/580/mode/1up
قبول کرلیتے جو بباعث تعلیم توحید کے تمام مشرکین کو ُ برا معلوم ہوتا تھا اور اُس کے قبول کرنے والے ہر وقت چاروں طرف سے معرض ہلاکت اورؔ بلا میں تھے پس جس چیز نے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیرا وہ یہی بات تھی جو انہوں نے آنحضرتؐ کو محض اُمّی اور سراپا مؤیّد من اللہ پایا اور قرآن شریف کو بشری طاقتوں سے بالاتر دیکھا اور پہلی کتابوں میں اس آخری نبی کے آنے کے لئے خود بشارتیں پڑھتے تھے سو خدا نے ان کے سینوں کو ایمان لانے کے لئے کھول دیا۔ اور ایسے ایماندار نکلے جو خدا کی راہ میں اپنے خونوں کو بہایا اور جو لوگ عیسائیوں اور یہودیوں اور عربوں میں سے نہایت درجہ کے جاہل اور شریر اور
عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَاالضَّآلِّیْنَلکھا۔ کیونکہ امر مجازات مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے متعلق ہے۔ سو ایسا فقرہ جس میں طلب انعام اور عذاب سے بچنے کی درخواست ہے اسی کے نیچے رکھنا موزوں ہے۔
چوتھا لطیفہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ مجمل طور پر تمام مقاصد قرآن شریف پر مشتمل ہے گویا یہ سورۃ مقاصدؔ قرآنیہ کا ایک ایجاز لطیف ہے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے 3 3۔ ۱ یعنی ہم نے تجھے اے رسول سات آیتیں سورۃ فاتحہ کی عطا کی ہیں جو مجمل طور پر تمام مقاصد قرآنیہ پر مشتمل ہیں اور ان کے مقابلہ پر قرآن عظیم بھی عطا فرمایا ہے جو مفصّل طور پر مقاصد دینیہ کو ظاہر کرتا ہے اور اسی جہت سے اس سورۃ کا نام
ساتھ ہیں جیسے وہ میرے ساتھ ہیں۔ ھو کا ضمیر واحد بتاویل مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہے اور ان کلمات کا حاصل مطلب تلطّفات اورؔ برکاتِ الٰہیہ ہیں جو حضرت خیر الرسل کی متابعت کی برکت سے ہریک کامل مومن کے شامل حال ہوجاتی ہیں اور حقیقی طور پر مصداق ان سب عنایات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرے سب طفیلی ہیں۔ اور اس بات کو ہر جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہریک مدح و ثنا جو کسی مومن کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 581
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 581
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/581/mode/1up
بدباطن تھے ان کے حالات پر بھی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی بہ یقینِ کامل آنحضرت کو اُمّی جانتے تھے اور اسی لئے جب وہ بائیبل کے بعض قصے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بطور امتحان نبوّت پوچھ کر ان کا ٹھیک ٹھیک جواب پاتے تھے تو یہ بات ان کو زبان پر لانے کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت کچھ پڑھے لکھے ہیںؔ ۔ آپ ہی کتابوں کو دیکھ کر جواب بتلا دیتے ہیں بلکہ جیسے کوئی لاجواب رہ کر اور گھسیانا بن کر کچے عذر پیش کرتا ہے ایسا ہی نہایت ندامت سے یہ کہتے تھے کہ شاید در پردہ کسی
اُمّ الکتاب اور سورۃ الجامع ہے۔ اُمّ الکتاب اس جہت سے کہ جمیع مقاصد قرآنیہ اُس سے مستخرج ہوتے ہیں۔ اور سورۃ الجامع اس جہت سے کہ علوم قرآنیہ کے جمیع انواع پر بصورت اجمالی مشتمل ہے اسی جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھا گویا اس نے سارے قرآن کو پڑھ لیا۔ غرض قرآن شریف اور احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ ؔ سورۃ فاتحہ ممدوحہ ایک آئینہ قرآن نما ہے۔ اس کی تصریح یہ ہے کہ قرآن شریف کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تمام محامد کاملہ باری تعالیٰ کو بیان کرتا ہے اور اُس کی ذات کے لئے جو کمال تام حاصل ہے اس کو بوضاحت بیان فرماتا ہے۔ سو یہ مقصد اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں بطور اجمال آگیا۔ کیونکہ اُس کے یہ معنے ہیں کہ تمام محامد کاملہ اللہ کے لئے ثابت ہیں جو مستجمع جمیع کمالات اور مستحق
الہامات میں کی جائے وہ حقیقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح ہوتی ہے اور وہ مومن بقدر اپنی متابعت کے اس مدح سے حصہ حاصل کرتا ہے۔ اور ؔ وہ بھی محض خدائے تعالیٰ کے لطف اور احسان سے نہ کسی اپنی لیاقت اور خوبی سے۔ پھر بعد اس کے فرمایا انت وجیہ فی حضرتی اخترتک لنفسی۔ تو میری درگاہ میں وجیہ ہے میں نے تجھے اپنے لئے اختیار کیا۔ انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی فحان ان تعان و تعرف بین الناس۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید سو وہ وقت آگیا جو تیری مدد کی جائے اور تجھ کو لوگوں میں معروف و مشہور کیا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 582
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 582
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/582/mode/1up
عیسائی یا یہودی عالم بائیبل نے یہ قصے بتلا دیئے ہوں گے۔ پس ظاہر ہے اگر آنحضرت کا اُمّی ہونا ان کے دلوں میں بہ یقین کامل متمکن نہ ہوتا تو اسی بات کے ثابت کرنے کے لئے نہایت کوشش کرتے کہ آنحضرت اُمّی نہیں ہیں فلاں مکتب یا مدرسہ میں انہوں نے تعلیم پائی ہے۔ واہیات باتیں کرنا جن سے اُن کی حماقت ثابت ہوتی تھی کیا ضرور تھا۔ کیونکہ یہ الزام لگانا کہ بعض عالم یہودی اور عیسائی درپردہ آنحضرت کے رفیق اور معاون ہیں بدیہی البطلان تھا۔ اس وجہ سے کہ قرآن تو جابجا اہلِ کتاب کی وحی کو ناقص اور اُن کی کتابوں کو محرّف اور مبدّل اور ان کے عقائد کو فاسد اور باطل اور خود ان کو بشرطیکہ بے ایمان مریں ملعون اور جہنمی بتلاتا ہے۔ اورؔ اُن کے اصولِ مصنوعہ کو دلائل قویّہ سے توڑتا ہے تو پھر کس طرح
جمیع عبادات ہے۔ دوسرا مقصد قرآن شریف کا یہ ہے کہ وہ خدا کا صانع کامل ہونا اور خالق العالمین ہونا ظاہر کرتا ہے اور عالم کے ابتدا کا حال بیان فرماتا ہے اور جو دائرہ عالم میں داخلؔ ہوچکا اس کو مخلوق ٹھہراتا ہے اور ان امور کے جو لوگ مخالف ہیں انکا کذب ثابت کرتا ہے۔ سو یہ مقصد رَبُّ الْعٰلَمِیْن میں بطور اجمال آگیا۔ تیسرا مقصد قرآن شریف کا خدا کا فیضان بلا استحقاق ثابت کرنا اور اُس کی رحمتِ عامہ کا بیان کرنا ہے۔ سو یہ مقصد لفظ رحمان میں بطور اجمال آگیا۔ چوتھا مقصد قرآن شریف کا
کیا انسان پر یعنی تجھ پر وہ وقت نہیں گزرا کہ تیرا دنیا میں کچھ بھی ذکر و تذکرہ نہ تھا۔ یعنی تجھ کو کوئی نہیں جانتا تھا کہ تو کون ہے اور کیا چیز ہے اور کسی شمار و حساب میں نہ تھا۔ یعنیؔ کچھ بھی نہ تھا۔ یہ گزشتہ تلطّفات و احسانات کا حوالہ ہے تا محسن حقیقی کے آئندہ فضلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے۔ سبحان اللّٰہ تبارک اللّٰہ تبارک و تعالٰی زاد مجدک۔ ینقطع ابائک و یبدء منک۔ سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے اس نے تیرے مجد کو زیادہ کیا۔ تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہوجائے گا۔ یعنی بطور مستقل ان کا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 583
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 583
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/583/mode/1up
ممکن تھا کہ وہ لوگ قرآن شریف سے اپنے مذہب کی آپ ہی مذمّت کرواتے۔ اور اپنی کتابوں کا آپ ہی ردّ لکھاتے اور اپنے مذہب کی بیخ کنی کے آپ ہی موجب بن جاتے پس یہ سست اور نادرست باتیں اس لئے دنیا پرستوں کو بکنی پڑیں کہ اُن کو عاقلانہ طور پر قدم مارنے کا کسی طرف راستہ نظر نہیں آتا تھا اور آفتاب صداقت کا ایسی پرزور روشنی سے اپنی کرنیں چاروں طرف چھوڑ رہا تھا کہ وہ اس سے چمگادڑ کی طرح چُھپتے پھرتے تھے اور کسی ایک بات پر ان کو ہرگز ثبات و قیام نہ تھا بلکہ تعصّب اور شدّت عناد نے ان کو سودائیوں اور پاگلوں کی طرح بنا رکھا تھا۔ پہلے تو قرآن کے قصوں کو سن کر جن میں بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا ذکر تھا اس وہم میں پڑے کہ شاید ایک شخص اہل کتاب میں سے پوشیدہ طور پر یہ قصے سکھاتا ہوگا جیسا اُن کا یہ مقولہ قرآن شریف میںؔ درج ہے۔ 3۔ ۱سورۃ النحل الجزو نمبر ۱۴ ۔
خدا کا وہ فیضان ثابت کرنا ہے جو محنت اور کوشش پر مترتب ہوتا ہے۔ سو یہ مقصد لفظ رَحِیْم میں آگیا۔ پانچواں مقصد قرآن شریف کا عالم معاد کی حقیقت بیان کرنا ہے۔ سو یہ مقصد مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں آگیا۔ چھٹا مقصد قرآنؔ شریف کا اخلاص اور عبودیت اور تزکیہ نفس عن غیر اللہ اور علاج امراض روحانی اور اصلاح اخلاق ردیہ اور توحید فی العبادت کا بیان کرنا ہے۔ سو یہ مقصد اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں بطور اجمال آگیا۔ ساتواں مقصد قرآن شریف کا ہریک کام میں فاعل حقیقی خدا کو ٹھہرانا اور تمام توفیق اور
نام نہیں رہے گا۔ اور خدا تجھ سے ابتدا شرف اور مجد کا کرے گا۔ نصرت بالرعب واحییت بالصدق ایھا الصدیق۔ نصرت وقالوا لات حین مناص۔ تو رعب کے ساتھ مدد کیا گیا اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا۔ اے صدیق تو مدد کیا گیا۔ اور مخالفوں نے کہا ؔ کہ اب گریز کی جگہ نہیں یعنی امداد الٰہی اس حد تک پہنچ جائے گی کہ مخالفوں کے دل ٹوٹ جائیں گے اور ان کے دلوں پر یاس مستولی ہوجائے گی اور حق آشکارا ہوجائے گا۔ وما کان اللہ لیترکک حتی یمیز الخبیث
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 584
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 584
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/584/mode/1up
اور پھر جب دیکھا کہ قرآن شریف میں صرف قصے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے حقائق ہیں تو پھر یہ دوسری رائے ظاہر کی 3۔ ۱ سورۃ الفرقان الجزو نمبر ۱۸۔ یعنی ایک بڑی جماعت نے متفق ہوکر قرآن شریف کو تالیف کیا ہے ایک آدمی کا کام نہیں۔ پھر جب قرآن شریف میں ان کو یہ جواب دیا گیا کہ اگر قرآن کو کسی جماعت علماء فضلاء اور شعرا نے اکٹھے ہوکر بنایا ہے تو تم بھی کسی ایسی جماعت سے مدد لے کر قرآن کی نظیر بنا کر دکھلاؤ تا تمہارا سچا ہونا ثابت ہو تو پھر لاجواب ہوکر اس رائے کو بھی جانے دیا اور ایک تیسری رائے ظاہر کی اور وہ یہ کہ قرآن کو جِنّات کی مدد سے بنایا ہے یہ آدمی کا کام نہیں پھر خدا نے اس کا جواب بھی ایسا دیا کہ جس کے سامنے وہ چون و چرا کرنے سے عاجز ہوگئے جیسا فرمایا ہے۔
لطف اور نصرت اور ثبات علی الطاعت اور عصمت عن العصیان اور حصول جمیع اسباب خیر اور صلاحیت دنیا و دین اسی کی طرف اسے قرار دینا اور ان تمام امور میں اسی سے مدد چاہنے کے لئے تاکید کرنا سو یہ مقصد اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن میں بطور اجمال آگیا۔ آٹھواں مقصد قرآن ؔ شریف کا صراط مستقیم کے دقائق کو بیان کرنا ہے اور پھر اس کی طلب کے لئے تاکید کرنا کہ دعا اور تضرّع سے اس کو طلب کریں سو یہ مقصد اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْممیں بطور اجمال کے آگیا۔ نواں مقصد قرآن شریف کا
من الطیب۔ اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے جب تک وہ خبیث اور طیب میں صریح فرق نہ کرلے۔3۔ اور خدا اپنے امر پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اذا جاء نصر اللہ والفتح و تمت کلمۃ ربک ھذا الذی کنتم بہ تستعجلون۔ جب مدد اور فتح الٰہی آئے گی اور تیرے رب کی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 585
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 585
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/585/mode/1up
یعنیؔ قرآن ہریک قسم کے امور غیبیہ پر مشتمل ہے اور اس قدر بتلانا جنات کا کام نہیں۔ ان کو کہہ دے کہ اگر تمام جن متفق ہوجائیں اور ساتھ ہی بنی آدم بھی اتفاق کرلیں اور سب مل کر یہ چاہیں کہ مثل اس قرآن کے کوئی اور قرآن بنادیں تو ان کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہوگا اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔
اُن لوگوں کا طریق و خلق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا انعام و فضل ہوا تا طالبین حق کے دل جمعیت پکڑیں سو یہ مقصد صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں آگیا۔ دسواں ۱۰مقصد قرآن شریف کا ان لوگوں کا خلق و طریق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا غضب ہوا۔ یا جو راستہ بھول کر انواع اقسام کی بدعتوں میں پڑگئے۔ تا حق کے طالب ان کی راہوں سے ڈریں۔ سو یہ مقصد غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْن میں بطور اجمال آگیا ہے یہ مقاصد عشرہ ہیں جو قرآن شریف میں مندرج ہیں جو تمام صداقتوں کا اصل الاصول ہیں۔ سو یہ تمام مقاصد سورۂ فاتحہ میں بطور اجمال آگئے۔
بات پوری ہوجائے گی تو کفّار اس خطاب کے لائق ٹھہریں گے کہ یہ وہی بات ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے۔ اردت ان ؔ استخلف فخلقت اٰدم انی جاعل فی الارض۔ یعنی میں نے اپنی طرف سے خلیفہ کرنے کا ارادہ کیا۔ سو میں نے آدم کو پیدا کیا۔ میں زمین پر کرنے والا ہوں یہ اختصاری کلمہ ہے یعنی اس کو قائم کرنے والا ہوں۔ اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مراد ہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے لئے بین اللہ و بین الخلق واسطہ ہو۔ خلافت ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے اور نہ وہ بجز قریش کے کسی دوسرے کے لئے خدا کی طرف سے شریعت اسلام میں مسلم ہوسکتی ہے بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے اور آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جو ابوالبشر ہے مرادؔ نہیں بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 586
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 586
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/586/mode/1up
پھر جب ان بدبختوں پر اپنے تمام خیالات کا جھوٹ ہونا کھل گیا اور کوئی بات بنتی نظر نہ آئی تو آخرکار کمال بے حیائی سے کمینہ لوگوں کی طرح اس بات پر آگئے کہ ہر طرح پر اس تعلیم کو شائع ہونے سے روکنا چاہئے جیسا اس کا ذکر قرآن شریف میں فرمایا ہے:۔
ی کافروں نے یہ کہا کہ اس قرآن کو مت سنو۔ اور جب تمہارے سامنے پڑھا جاوے توتم شور ڈال دیاکرو۔ تا شاید اسی طرح غالب آجاؤ۔ اور بعضوں نے عیسائیوں اور یہودیوں میں سے یہ کہا کہ یوں کرو کہ اول صبح کے وقت جاکر قرآن پر ایمان لے آؤ۔ پھر شام کو اپنا ہی دین اختیار کرلو۔ تاشاید اس طور سے لوگ شک میں پڑجائیں اوردینِ اسلام کوچھوڑ دیں۔
پانچواںؔ لطیفہ سورۃ فاتحہ میں یہ ہے کہ وہ اس اتم اور اکمل تعلیم پر مشتمل ہے کہ جو طالب حق کے لئے ضروری ہے۔ اور جو ترقیات قربت اور معرفت کے لئے کامل دستور العمل ہے۔ کیونکہ ترقیات قُربت کا شروع اس نقطہ سیر سے ہے کہ جب سالک اپنے نفس پر ایک موت قبول کرکے اور سختی اور آزار کشی کو روا رکھ کر
سلسلۂ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہوکر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے گویا وہ روحانی زندگی کے رو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے۔ اور یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ اس سلسلہ کا نام و نشان نہیں۔ پھر بعد اس کے اس روحانی آدم کا روحانی مرتبہ بیان فرمایا اور کہا۔ 33۔۳ جب یہ آیت شریفہ جو قرآن شریف کی آیت ہے الہام ہوئی تو اس کے معنے کی تشخیص اور تعیین میں تامّل تھا۔ اور اسی تامّل میں کچھ خفیف سی خواب آگئی اور اس خواب میں اس کے معنے حل کئے گئے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ دنوّ سے مراد قربِ الٰہی ہے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 587
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 587
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/587/mode/1up
کیا توؔ نے دیکھا نہیں کہ یہ عیسائی اور یہودی جنہوں نے انجیل اور تورات کوکچھ ادھورا سا پڑھ لیا ہے ایمان ان کا دیوتوں اور بُتوں پر ہے اور مشرکوں کو کہتے ہیں کہ ان کا مذہب جو بُت پرستی ہے وہ بہت اچھا ہے اور توحید کا مذہب جو مسلمان رکھتے ہیں یہ کچھ نہیں یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے *** کی ہے اور جس پر خدا *** کرے اس کے لئے کوئی مددگار نہیں۔
اُنؔ تمام نفسانی خواہشوں سے خالصاً للہ دست کش ہوجائے کہ جو اس میں اور اس کے مولیٰ کریم میں جدائی ڈالتے ہیں اور اس کے مونہہ کو خدا کی طرف سے پھیر کر اپنی نفسانی لذّات اور جذبات اور عادات اور خیالات اور ارادات اور نیز مخلوق کی طرف پھیرتے ہیں اور اُن کے خوفوں اور امیدوں میں گرفتار کرتے ہیں اور ترقیات کا اوسط درجہ
اور قرب کسی حرکت مکانی کا نام نہیں بلکہ اس وقت انسان کو مقرب الٰہی بولا جاتا ہے کہ جب وہ ارادہ اور نفس اور خلق اور تمام اضداد اور اغیار سے بکلّی الگ ہوکر طاعت اور محبت الٰہی میں سراپا محو ہوجاوے اور ہریک ماسوا اللہ سے پوری دوری حاصل کرلیوے اور محبت الٰہی کے دریا میں ایسا ڈوبے کہ کچھ اثر وجود اور انانیّت کا باقی نہ رہے۔ اور جب تک اپنی ہستی کے لوث سے مبرّا نہیں اور بقا باللہ کے پیرایہ سے متحلی نہیں تب تک اس قرب کی لیاقت نہیں رکھتا۔ اور بقا باللہ کا مرتبہ تب حاصل ہوتا ہے کہ جب خدا کی محبت ہی انسان کی غذا ہوجائے اور ایسی حالت ہوجائے کہ بغیر اس کی یاد کے جی ہی نہیں سکتا اور اس کے غیر کا دلؔ میں سمانا موت کی طرح دکھائی دے اور صریح مشہود ہو کہ وہ اسی کے ساتھ جیتا ہے اور ایسا خدا کی طرف کھینچا جاوے جو دل اس کا ہر وقت یاد الٰہی میں مستغرق اور اس کے درد سے دردمند رہے۔ اور ماسوا سے اس قدر نفرت پیدا ہوجائے کہ گویا غیر اللہ سے اس کی عداوت ذاتی ہے جن کی طرف میل کرنے سے بالطبع دکھ اٹھاتا ہے۔ جب یہ حالت متحقق ہوگی تو دل جو مورد انوار الٰہی ہے خوب صاف ہوگا اور اسماء اور صفات الٰہی کا اُس میں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 588
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 588
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/588/mode/1up
ابؔ خلاصہ اس تقریر کا یہ ہے کہ اگر آنحضرت اُمّی نہ ہوتے تو مخالفین اسلام بالخصوص یہودی اور عیسائی جن کو علاوہ اعتقادی مخالفت کے یہ بھی حسد اور بغض دامنگیر تھا کہ بنی اسرائیل میں سے رسول نہیں آیا بلکہ ان کے بھائیوں میں سے جو بنی اسماعیل ہیں آیا وہ کیونکر ایک صریح امر خلاف واقعہ پاکر خاموش رہتے
وہؔ ہے کہ جو جو ابتدائی درجہ میں نفس کشی کے لئے تکالیف اٹھائی جاتی ہیں اور حالت معتادہ کو چھوڑ کر طرح طرح کے دکھ سہنے پڑتے ہیں وہ سب آلام صورت انعام میں ظاہر ہوجائیں اور بجائے مشقّت کے لذّت اور بجائے رنج کے راحت اور بجائے تنگی کے انشراح اور بشاشت نمودار ہو۔ اور ترقیات کا اعلیٰ درجہ وہ ہے
انعکاس ہوکر ایک دوسرا کمال جو تدلّی ہے عارف کے لئے پیش آئے گا۔ اور تدلّی سے مراد وہ ہبوط اور نزول ہے کہ جب انسان تخلق باخلاق اللہ حاصل کرکے اس ذات رحمان و رحیم کی طرح شفقتًا علی العباد عالم خلق کی طرف رجوع کرے۔ اور چونکہ کمالات دنو کے کمالات تدلی سے لازم ملزوم ہیں۔ پس تدلی اسی قدر ہوگی جس قدر دنو ہے۔ اور دنو کی کمالیت اس میں ہے کہ اسماء اور صفات الٰہی کے عکوس کا سالک کے قلب میں ظہور ہو۔ اور محبوب حقیقی بے شائبہ ظلیت اور بے تواہم حالیت و محلیّت اپنے تمام صفات کاملہ کے ساتھ اس میں ظہور فرمائے اور یہی استخلاف کی حقیقت اور روح اللہ کی نفخ کی ماہیت ہے اور یہی تخلق باخلاق اللہ کی اصل بنیاد ہے۔ اور جبکہ تدلی کی حقیقت کو تخلق باخلاق اللہ لازم ہو اور کمالیت فی التخلّق اس بات کو چاہتی ہے کہ شفقت علی العباد اور ان کے لئے بمقام نصیحت کھڑے ہونا اور ان کی بھلائی کے لئے بدل و جان مصروف ہوجانا اس حد ؔ تک پہنچ جائے جس پر زیادہ متصور نہیں اس لئے واصل تام کو مجمع الاضداد ہونا پڑا کہ وہ کامل طور پر رو بخدا بھی ہو اور پھر کامل طور پر رو بخلق بھی پس وہ ان دونوں قوسوں الوہیت و انسانیت میں ایک وتر کی طرح
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 589
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 589
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/589/mode/1up
بلاشبہ ان پر یہ بات بکمال درجہ ثابت ہوچکی تھی کہ جو کچھ آنحضرت کے مونہہ سے نکلتا ہے وہ کسی اُمی اور ناخواندہ کا کام نہیں اور نہ دس بیس آدمیوں کا کام ہے تب ہی تو وہ اپنی جہالت سے 3۔ ۱ کہتے تھے اور جو اُن میں سے دانا اور واقعی اہل علم تھے وہ بخوبی معلوم کرچکے تھے کہ قرآن انسانی طاقتوں سے باہر ہے
کہ ؔ سالک اس قدر خدا اور اس کے ارادوں اور خواہشوں سے اتحاد اور محبت اور یک جہتی پیدا کرلے کہ اس کا تمام اپنا عین و اثر جاتا رہے۔ اور ذات اور صفات الٰہیہ بلا شائبہ ظلمت اور بلا توہم حالیّت و محلیّت اس کے وجود آئینہ صفت میں منعکس ہوجائیں۔ اور
واقعہ ہے جو دونوں سے تعلق کامل رکھتا ہے۔ اب خلاصہ کلام یہ کہ وصول کامل کے لئے دنوّ اور تدلّی دونوں لازم ہیں دنوّ اس قرب تام کا نام ہے کہ جب کامل تزکیہ کے ذریعہ سے انسان کامل سیر الی اللہ سے سیر فی اللہ کے ساتھ متحقّق ہوجائے اور اپنی ہستی ناچیز سے بالکل ناپدید ہوکر اور غرق دریائے بیچون و بیچگون ہوکر ایک جدید ہستی پیدا کرے جس میں بیگانگی اور دوئی اور جہل اور نادانی نہیں ہے اور صبغتہ اللہ کے پاک رنگ سے کامل رنگینی میسر ہے اور تدلّی انسان کی اس حالت کا نام ہے کہ جب وہ تخلّق باخلاق اللہ کے بعد ربّانی شفقتوں اور رحمتوں سے رنگین ہوکر خدا کے بندوں کی طرف اصلاح اور فائدہ رسانی کے لئے رجوع کرے۔ پس جاننا چاہئے کہ اس جگہ ایک ہی دل میں ایک ہی حالت اور نیّت کے ساتھ دو قسم کا رجوع پایا گیا۔ ایک خدائے تعالیٰ کی طرف جو وجود قدیم ہے اور ایک اس کے بندوں کی طرف جو وجود محدث ہے۔ اور دونوں قسم کا وجود یعنی قدیم اور حادث ایک دائرہ کی طرح ہے جس کی طرف اعلیٰ وجوب اور طرف اسفل امکان ہے۔ اب اس دائرہ کے درمیان میں انسان کامل بوجہ دنوّ اور تدلی کی دونوں طرف سے اتصال محکم کرکے یوں مثالی طور پر صورت پیدا کرلیتا ہے۔ جیسے ایک وترؔ دائرہ کے دو قوسوں میں ہوتا ہے یعنی حق اور خلق میں واسطہ ٹھہر جاتا ہے پہلے اس کو دنوّ اور قربِ الٰہی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 590
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 590
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/590/mode/1up
اور اُن پر یقین کا دروازہ ایسا کھل گیا تھا کہ ان کے حق میں خدا نے فرمایا 3 ۱ یعنی اس نبی کو ایسا شناخت کرتے ہیں کہ جیسا اپنے بیٹوں کو شناخت کرتے ہیں اور حقیقت میں یہ دروازہ یقین اور معرفت کا کچھ ان کے لئے ہی نہیں کھلا بلکہ اس زمانہ میں بھی سب کے لئے کھلا ہے کیونکہ
فنااتم کے آئینہ کے ذریعہ سے جس نے سالک میں اور اس کی نفسانی خواہشوں میں ؔ غایت درجہ کا بُعد ڈال دیا ہے انعکاس ربّانی ذات اور صفات کا نہایت صفائی سے دکھائی دے۔ اس تقریر میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں وجودیوں یا
کی خلعتِ خاص عطا کی جاتی ہے اور قرب کے اعلیٰ مقام تک صعود کرتا ہے اور پھر خلقت کی طرف اس کو لایا جاتا ہے۔ پس اس کا وہ صعود اور نزول دو قوس کی صورت میں ظاہر ہوجاتا ہے اور نفس جامع التعلقین انسان کامل کا ان دونوں قوسوں میں قاب قوسین کی طرح ہوتا ہے اور قاب عرب کے محاورہ میں کمان کے چلہ پر اطلاق پاتا ہے۔ پس آیت کے بطور تحت اللفظ یہ معنے ہوئے کہ نزدیک ہوا یعنی خدا سے ، پھر اترا یعنی خلقت پر پس اپنے اس صعود اور نزول کی وجہ سے دو قوسوں کے لئے ایک ہی وتر ہوگیا۔ اور چونکہ اس کا رُو بخلق ہونا چشمہ صافیہ تخلّق باخلاق اللہ ہے اس لئے اس کی توجہ بمخلوق توجہ بخالق کے عین ہے یا یوں سمجھو کہ چونکہ مالک حقیقی اپنی غایت شفقت علی العباد کی وجہ سے اس قدر بندوں کی طرف رجوع رکھتا ہے کہ گویا وہ بندوں کے پاس ہی خیمہ زن ہے۔ پس جبکہ سالک سیر الی اللہ کرتا کرتا اپنی کمال سیر کو پہنچ گیا تو جہاں خدا تھا وہیں اس کو لَوٹ کر آنا پڑا۔ پس اس وجہ سے کمال دنوّ یعنی قرب تام اس کی تدلی یعنی ہبوط کا موجب ہوگیا۔ یحی الدین و یقیم الشریعۃ۔ زندہ کرے گا دین کو اور قائم کرے گا شریعت کو۔ یا اٰدم اسکن انت و زوجک الجنۃ۔ یا مریم اسکن انت و زوجک الجنۃ۔ یا احمد اسکن انت و زوجک
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 591
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 591
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/591/mode/1up
قرآن شریف کی حقّانیّت معلوم کرنے کے لئےؔ اب بھی وہی معجزات قرآنیہ اور وہی تاثیرات فرقانیہ اور وہی تائیدات غیبی اور وہی آیات لاریبی موجود ہیں جو اُس زمانہ میں موجود تھی خدا نے اس دین قویم کو قائم رکھنا تھا اِس لئے اِس کی سب برکات اور سب آیات قائم رکھیں اور عیسائیوں اور یہودیوں اور ہندوؤں کے ادیان ُ محرفہ
وید انتیوں کے باطل خیال کی تائید ہو۔ کیونکہ انہوں نے خالق اور مخلوق میں جو ابدی امتیاز ہے شناخت نہیں کیا۔ اور اپنے کشوفِ مشتبہ کے دھوکہ سے کہ جو سلوک ناتمام کیؔ حالت میں اکثر پیش آجاتے ہیں یا جو سودا انگیز ریاضتوں کا ایک نتیجہ ہوتا ہے سخت
الجنۃ۔ نفخت فیک من لدنی روح الصدق۔ اے آدم اے مریم اے احمد تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے جنت میں یعنی نجات حقیقی ؔ کے وسائل میں داخل ہوجاؤ۔ میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے۔ اس آیت میں بھی روحانی آدم کا وجہ تسمیہ بیان کیا گیا یعنی جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بلا توسط اسباب ہے ایسا ہی روحانی آدم میں بلاتوسط اسباب ظاہر یہ نفخ روح ہوتا ہے اور یہ نفخ روح حقیقی طور پر انبیاء علیھم السلام سے خاص ہے اور پھر بطور تبیعت اور وراثت کے بعض افرادِ خاصہ امت محمدیہ کو یہ نعمت عطا کی جاتی ہے اور ان کلمات میں بھی جس قدر پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہر ہیں۔ پھر بعد اس کے فرمایا۔ نصرت وقالوا لات حین مناص۔ تو مدد دیا گیا۔ اور انہوں نے کہا کہ اب کوئی گریز کی جگہ نہیں۔ ان الذین کفروا وَ صدوا عن سبیل اللّٰہ رد علیھم رجل من فارس شکر اللّٰہ سعیہ۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ کے مزاحم ہوئے ان کا ایک مرد فارسی الاصل نے رد لکھا ہے۔ اس کی سعی کا خدا شاکر ہے۔ کتاب الولی ذوالفقار علی۔ ولی کی کتاب علی کی تلوار کی طرح ہے یعنی مخالف کو نیست و نابود کرنے والی ہے۔ اور جیسے علی کی تلوار نے بڑے بڑے خطرناک معرکوں میں نمایاں کار دکھلائے تھے ایسا ہی یہ بھی دکھلائے گی۔ اور یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ جو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 592
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 592
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/592/mode/1up
اور باطلہ اور ناقصہ کا استیصال منظور تھا اس جہت سے انکے ہاتھ صرف قصے ہی قصے رہ گئے اور برکت حقّانیّت اور تائیداتِ سماویہ کا نام و نشان نہ رہا۔ ان کی کتابیں ایسے نشان بتلا رہی ہیں جن کے ثبوت کا ایک ذراؔ نشان اُن کے ہاتھ میں نہیں صرف گزشتہ قصوں کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر قرآنِ شریف ایسے نشان پیش کرتا ہے جن کو ہریک شخص دیکھ سکتا ہے۔
مغالطات کے بیچ میں پڑگئے یا کسی نے سکر اور بے خودی کی حالت میں جو ایک قسم کا جنون ہے اس فرق کو نظر سے ساقط کردیا کہ جو خدا کی روح اور انسان کی روح میں باعتبار طاقتوں اور قوتوں اور کمالات اور تقدسات کے ہے ورنہ ظاہر ہے
کتاب کی تاثیرات عظیمہ اور برکات عمیمہ پر دلالت کرتی ہے۔ پھر بعد اس کے فرمایا ولو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ۔ اگر ایمان ثریا سے لٹکتا ہوتا یعنی زمین سے بالکل اٹھ جاتا تب بھی شخض مقدم الذکر اس کو پالیتا۔ یکاد زیتہ یضیء ولو ؔ لم تمسسہ نار۔ عنقریب ہے کہ اس کا تیل خودبخود روشن ہوجائے اگرچہ آگ اس کو چھو بھی نہ جائے۔ ام یقولون نحن جمیع منتصر سیھزم الجمع و یولون الدبر۔ وان یروا ایۃ یعرضوا ویقولوا سحر مستمر واستیقنتھا انفسم وقالوا لات حین مناص فبما رحمۃ من اللہ لنت علیھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک۔ ولو ان قرانا سیرت بہ الجبال۔ کیا کہتے ہیں کہ ہم ایک قوی جماعت ہیں جو جواب دینے پر قادر ہیں۔ عنقریب یہ ساری جماعت بھاگ جائے گی اور پیٹھ پھیر لیں گے اور جب یہ لوگ کوئی نشان دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایک معمولی اور قدیمی سحر ہے حالانکہ ان کے دل ان نشانوں پر یقین کرگئے ہیں اور دلوں میں انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اب گریز کی جگہ نہیں اور یہ خدا کی رحمت ہے کہ تُو ان پر نرم ہوا اور اگر تُو سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے اور تجھ سے الگ ہوجاتے۔ اگرچہ قرآنی معجزات ایسے دیکھتے جن سے پہاڑ جنبش میں آجاتے۔ یہ آیات ان بعض لوگوں کے حق میں بطور الہام القا ہوئیں جن کا ایسا ہی خیال اور حال تھا۔ اور شاید ایسے ہی اور لوگ بھی نکل آویں جو اس قسم کی باتیں کریں اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 593
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 593
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/593/mode/1up
تمھیدؔ ہشتم۔ جو امر خارق عادت کسی ولی سے صادر ہوتا ہے۔ وہ حقیقت میں اس متبوع کا معجزہ ہے جس کی وہ اُمّت ہے اور یہ بدیہی اور
کہ ؔ قادر مطلق کہ جس کے علم قدیم سے ایک ذرّہ مخفی نہیں اور جس کی طرف کوئی نقصان اور خسران عاید نہیں ہوسکتا اور جوہریک قسم کے جہل اور آلودگی اور ناتوانی اور غم اور حزن اور درد اور رنج اور گرفتاری سے پاک ہے وہ کیوں کر اس چیز کا عین ہوسکتا ہے کہ جو
بدرجۂ یقین کامل پہنچ کر پھر منکر رہیں۔ پھر بعد اس کے فرمایا۔ انا انزلناہ قریبا من القادیان۔ و بالحق انزلناہ و بالحق نزل۔ صدق اللہ و رسولہ وکان امر اللہ مفعولا۔ یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الہام پر ازمعارف و حقائق کو قادیان کے قریب اتارا ہے اور ضرورتِ حقّہ کے ساتھ اتارا ہے اور بضرورتِ حقہ اترا ہے۔ خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور جو کچھ خدا نے چاہا تھا وہ ہونا ہی تھا۔ یہ آخری فقرات اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کے ظہور کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حدیث متذکرہ بالا میں اشارہ فرماچکے ہیں اور خدائے تعالیٰ اپنے کلام مقدس میں اشارہ فرما چکا ہے چنانچہ وہ اشارہ حصہ سوم کے الہامات میں درج ہوچکا ہے۔ اور فرقانی اشارہ اس آیت میں ہے۔ 3۔۱ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔ اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اسؔ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 594
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 594
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/594/mode/1up
ظاہر ہے کیونکہ جب کسی امر کا ظاہر ہونا کسیؔ شخص اور کسی خاص کتاب کی متابعت
اُن سب بلاؤں میں مبتلا ہے۔ کیا انسان جس ؔ کی روحانی ترقّیات کے لئے اس قدر حالات منتظرہ ہیں جن کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا۔ وہ اُس ذات صاحبِ کمالِ تامّ سے مشابہ یا اس کا عین ہوسکتا ہے جس کے لئے کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں؟ کیا جس کی
بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے۔ اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کررکھا ہے یعنی حضرت مسیح پیشگوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اُس کا محل اور مورد ہے یعنی روحانی طور پر دین اسلام کا غلبہ جو حجج قاطعہ اور براہین ساطعہ پر موقوف ہے اس عاجز کے ذریعہ سے مقدر ہے۔ گو اس کی زندگی میں یا بعد وفات ہو اور اگرچہ دین اسلام اپنے دلائل حقہ کے رو سے قدیم سے غالب چلا آیا ہے اور ابتدا سے اس کے مخالف رسوا اور ذلیل ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس غلبہ کا مختلف فرقوں اور قوموں پر ظاہر ہونا ایک ایسے زمانہ کے آنے پر موقوف تھا کہ جو بباعث کھل جانے راہوں کے تمام دنیا کو ممالک متحدہ کی طرح بناتا ہو اور ایک ہی قوم کے حکم میں داخل کرتا ہواور تمام اسباب اشاعت تعلیم اور تمام وسائل اشاعتِ دین کے بتمام تر سہولت و آسانی پیش کرتا ہو اورؔ اندرونی اور بیرونی طور پر تعلیم حقانی کے لئے نہایت مناسب اور موزوں ہو سو اب وہی زمانہ ہے کیونکہ بباعث کھل جانے راستوں اور مطلع ہونے ایک قوم کے دوسری قوم سے اور ایک ملک کے دوسرے ملک سے سامان تبلیغ کا بوجہ احسن میسر آگیا ہے اور بوجہ انتظام ڈاک و ریل و تار و جہاز و وسائل متفرقہ اخبار وغیرہ کے دینی تالیفات کی اشاعت کے لئے بہت سی آسانیاں ہوگئی ہیں۔ غرض
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 595
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 595
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/595/mode/1up
سے وابستہ ہے اور بدون متابعت کے وہ ظہور میں آؔ ہی نہیں سکتا۔
ہستی فانی اور جس کی روح میں صریح مخلوقیت کے نقصان پائے جاتے ہیں۔ وہ باوجود اپنی تمام آلائشوں اورؔ کمزوریوں اور ناپاکیوں اور عیبوں اور نقصانوں کے اس ذاتِ جلیل الصفات سے برابر ہوسکتا ہے جو اپنی خوبیوں اور پاک صفتوں میں ازلی ابدی طور
بلاشبہ اب وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ جس میں تمام دنیا ایک ہی ملک کا حکم پیدا کرتی جاتی ہے۔ اور بباعث شائع اور رائج ہونے کئی زبانوں کے تفہیم تفہم کے بہت سے ذریعے نکل آئے ہیں اور غیریّت اور اجنبیّت کی مشکلات سے بہت سی سبکدوشی ہوگئی ہے۔ اور بوجۂ میل ملاپ دائمی اور اختلاط شبا روزی کی وحشت اور نفرت بھی کہ جو بالطبع ایک قوم کو دوسری قوم سے تھی بہت سی گھٹ گئی ہے چنانچہ اب ہندو بھی جن کی دنیا ہمیشہ ہمالہ پہاڑ کے اندر ہی اندر تھی اور جن کو سمندر کا سفر کرنا مذہب سے خارج کردیتا تھا لنڈن اور امریکہ تک سیر کر آتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس زمانہ میں ہریک ذریعہ اشاعت دین کا اپنی وسعت تامہ کو پہنچ گیا ہے اور گو دنیا پر بہت سی ظلمت اور تاریکی چھا رہی ہے مگر پھر بھی ضلالت کا دورہ اختتام پر پہنچا ہوا معلوم ہوتا ہے اور گمراہی کا کمال رو بزوال نظر آتا ہے کچھ خدا کی طرف سے ہی طبائع سلیمہ صراط مستقیم کی تلاش میں لگ گئے ہیں اور نیک اور پاکیزہ فطرتیں طریقہ حقہ کے مناسب حال ہوتی جاتی ہیں اور توحید کے قدرتی جوش نے مستعد دلوں کو وحدانیت کے چشمۂ صافی کی طرف مائل کردیا ہے اور مخلوق پرستی کی عمارت کا بودہ ہونا دانشمند لوگوں پر کھلتا جاتا ہے اور مصنوعی خدا پھر دوبارہ عقلمندوں کی نظر میں انسانیت کا جامہ پہنتے جاتے ہیں اور باایں ہمہ آسمانی مدد دین حق کی تائید کے لئے ایسے جوش میں ہے کہ وہ نشان اور خوارق جن کی سماعت سے عاجز اور ناقص بندے خدا بنائے گئے تھے اب وہ حضرت سید الرسل کے ادنیٰ خادموں اور چاکروں سے مشہود ؔ اور محسوس ہورہے ہیں اور جو پہلے زمانہ کے بعض نبی صرف اپنے حواریوں کو چھپ چھپ کر کچھ نشان دکھلاتے تھے۔ اب وہ نشان حضرت سید الرسل کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 596
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 596
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/596/mode/1up
تو بہ بداہت ثابت ہے کہ اگرچہ وہ امر بظاہر صورت کسی تابع سے ظہور میں
پر اتم اور اکمل ہے۔ سُبْحَانَہ‘ وَ تَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْن۔ بلکہ اس تیسرے قسم کی ترقی سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ سالک خدا کی محبت میں ایسا فانی اور مستہلک ہوجاتا ہے اور اس قدر ذات بے ؔ چون و بے چگون اپنی تمام صفاتِ
احقر توابع سے دشمنوں کے روبرو ظاہر ہوتے ہیں اور انہیں دشمنوں کی شہادتوں سے حقیت اسلام کا آفتاب تمام عالم کے لئے طلوع کرتا جاتا ہے۔ ماسوا اس کے یہ زمانہ اشاعت دین کے لئے ایسا مددگار ہے کہ جو امر پہلے زمانوں میں سو سال تک دنیا میں شائع نہیں ہوسکتا تھا۔ اب اس زمانہ میں وہ صرف ایک سال میں تمام ملکوں میں پھیل سکتا ہے۔ اس لئے اسلامی ہدایت اور ربانی نشانوں کا نقارہ بجانے کے لئے اس قدر اس زمانہ میں طاقت و قوت پائی جاتی ہے جو کسی زمانہ میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ صدہا وسائل جیسے ریل و تار و اخبار وغیرہ اسی خدمت کے لئے ہروقت طیار ہیں کہ تا ایک ملک کے واقعات دوسرے ملک میں پہنچاویں۔ سو بلاشبہ معقولی اور روحانی طور پر دین اسلام کے دلائل حقیقت کا تمام دنیا میں پھیلنا ایسے ہی زمانہ پر موقوف تھا اور یہی باسامان زمانہ اس مہمان عزیز کی خدمت کرنے کے لئے من کل الوجوہ اسباب مہیا رکھتا ہے۔ پس خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صدہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیماتِ حقّہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے۔ اور اسی ارادہ کی وجہ سے خداوند کریم نے اس عاجز کو یہ توفیق دی کہ اتماماً للحجۃ 3 دس ہزارروپیہ کا اشتہار کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا اور دشمنوں اور مخالفوں کی شہادت سے آسمانی نشانی پیش کی گئی اور اُن کے معارضہ اور مقابلہ کے لئے تمام مخالفین کو مخاطب کیا گیا تا کوئی دقیقہ اتمام حجت کا باقی نہ رہے اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 597
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 597
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/597/mode/1up
آیا ہو۔ لیکنؔ درحقیقت مظہر اس امر کا نبی متبوع ہے جس کی متابعت سے ظہور
کاملہ کے ساتھ اُس سے قریب ہوجاتی ہے کہ الوہیت کے تجلیات اس کے نفسانی جذبات پر ایسے غالب آجاتے ہیں اور ایسے اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں جو اس کو اپنے نفسانی جذبات سے بلکہ ہریک سے جو نفسانی جذبات کا تابع ہو مغائرت کلی اور
ہریک مخالف اپنے مغلوب اور لاجواب ہونے کا آپ گواہ ہوجائے۔ غرض خداوند کریم نے جو اسباب اور وسائل اشاعت دین کے اور دلائل اَور براہین اتمام حجت کے محض اپنے فضل اور کرم سے اس عاجز کو عطا فرمائے ہیں وہ امم سابقہ میں سے آج تک کسی کو عطا نہیں فرمائے اور جو کچھ اس بارے میں توفیقات غیبیہ اس عاجز کو دیؔ گئی ہیں وہ ان میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء۔ سو چونکہ خداوند کریم نے اسباب خاصہ سے اس عاجز کو مخصوص کیا ہے اور ایسے زمانہ میں اس خاکسار کو پیدا کیا ہے کہ جو اتمام خدمت تبلیغ کے لئے نہایت ہی معین و مددگار ہے۔ اس لئے اس نے اپنے تفضّلات و عنایات سے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ روز ازل سے یہی قرار یافتہ ہے کہ آیت کریمہ متذکرہ بالا اور نیز آیت وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ۱ کا روحانی طور پر مصداق یہ عاجز ہے اور خدائے تعالیٰ ان دلائل و براہین کو اور ان سب باتوں کو کہ جو اس عاجز نے مخالفوں کے لئے لکھی ہیں خود مخالفوں تک پہنچا دے گا اور ان کا عاجز اور لاجواب اور مغلوب ہونا دنیا میں ظاہر کرکے مفہوم آیت متذکرہ بالا کا پورا کردے گا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذلک۔
پھر بعد اس کے جو الہام ہے وہ یہ ہے۔ صل علٰی محمد و اٰل محمد سید ولد ادم و خاتم النبیین۔ اور درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضّلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیّت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اُس کا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 598
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 598
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/598/mode/1up
اُس کا مشروط ہے اورسِرّ اِس باتؔ کا کہ کیوں معجزہ نبی کا دوسرے کے توسّط
عداوتِ ذاتی پیدا ہوجاتی ہے اور اس میں اور قسم ؔ دویم کی ترقی میں فرق یہ ہے کہ گو قسم دویم میں بھی اپنے رب کی مرضی سے موافقت تامہ پیدا ہوجاتی ہے اور اُس کا ایلام بصورت انعام نظر آتا ہے۔ مگر ہنوز اس میں ایسا تعلق باللہ نہیں ہوتا کہ جو
خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے۔
ہیچ محبوبے نماند ہمچو یار دلبرم
مہرومہ را نیست قدرے در دیارِ دلبرم
آں کجا روئے کہ دارد ہمچو رویش آب و تاب
واں کجا باغے کہ مے دارد بہار دلبرم
اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادۂ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محیی کی تعین ظاہر نہیں ہوئی ؔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا ھذا رجل یحب رسول اللہ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔ اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سِرّ ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ اور جو شخص حضرت احدیّت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 599
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 599
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/599/mode/1up
سے ظہور پذیر ہوجاتا ہے یہ ہے کہ جب ایک شخص وہیؔ امر بجالاتا ہے کہ جو اُس کے
ماسوی اللہ کے ساتھ عداوت ذاتی پیدا ہوجانے کا موجب ہو اور جس سے محبت الٰہی صرف دل کا مقصد ہی نہ رہے بلکہ دل کی سرشت بھی ہوجائے۔ غرض قسم دویم کی ترقی میں خدا سے موافقت تامہ کرنا اور اس کے غیر سے عداوت رکھناؔ سالک کا مقصد ہوتا ہے اور
نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی َ غیبتِ حس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی، جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت علیؓ و حسنینؓ و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفیسر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیا ہے۔ اور اب علی وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے فالحمدللہ علی ذالک۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا۔ انک علی صراط مستقیم۔ فاصدع بما تؤمر و اعرض عن الجاھلین۔ تو سیدھی راہ پر ہے۔ پس جو حکم کیا جاتا ہے اس کو کھول کر سنا اور جاہلوں سے کنارہ کر۔ وقالوا لولا نزل علی رجل من قریتین عظیم۔ وقالوا انی لک ھذا۔ ان ھذا لمکرمکرتموہ فی ؔ المدینۃ۔ ینظرون الیک و ھم لا یبصرون۔ اور کہیں گے کہ کیوں نہیں یہ اترا کسی بڑے عالم فاضل پر اور شہروں میں سے۔ اور کہیں گے کہ یہ مرتبہ تجھ کو کہاں سے ملا یہ تو ایک مکر ہے جو تم نے شہر میں باہم مل کر بنالیا ہے تیری طرف دیکھتے ہیں اور نہیں دیکھتے۔ یعنی تو انہیں نظر نہیں آتا۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 600
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 600
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/600/mode/1up
شارع نے فرمایا ہے اور اُس امر سے پرہیز کرتا ہے کہ جو اُس کے شارعؔ
اُس مقصد کے حصول سے وہ لذت پاتا ہے لیکن قسم سوم کی ترقی میں خدا سے موافقت تامہ اور اس کے غیر سے عداوت خود سالک کی سرشت ہوجاتی ہے جس سرشت کو وہ کسی حالت میں چھوڑ نہیں سکتا۔ کیونکہ انفکاک الشی عن نفسہٖ محال ہے۔
تاللہ لقد ارسلنا الی امم من قبلک فزین لھم الشیطان۔ ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے امت محمدیہ میں کئی اولیاء کامل بھیجے پر شیطان نے ان کی توابع کی راہ کو بگاڑ دیا۔ یعنی طرح طرح کی بدعات مخلوط ہوگئیں اور سیدھا قرآنی راہ ان میں محفوظ نہ رہا۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔ واعلموا ان اللہ یحی الارض بعد موتھا۔ ومن کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ۔ قل ان افتریتہ فعلی اجرام شدید۔کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو سو میری پیروی کرو۔ یعنی اتباع رسول مقبول کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ اور یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے۔ اور جو شخص خدا کے لئے ہوجائے خدا اس کے لئے ہوجاتا ہے۔ کہہ اگر میں نے یہ افترا کیا ہے تو میرے پر جرم شدید ہے۔ انک الیوم لدینا مکین امین۔ وان علیک رحمتی فی الدنیا والدین۔ وانک من المنصورین۔ آج تو میرے نزدیک بامرتبہ اور امین ہے اور تیرے پر میری رحمت دنیا اور دین میں ہے اور تو مدد دیا گیا ہے۔ یحمدک اللّٰہ و یمشی الیک۔ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔ الا ان نصراللہ قریب۔ خبردار ہو خدا کی مدد نزدیک ہے۔ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو رات کے وقت میں سیر کرایا یعنی ضلالت اور گمراہی کے زمانہ میں جو رات سے مشابہ ہے مقامات معرفت اور یقین تک لدُنیّ طور سے پہنچایا۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 601
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 601
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/601/mode/1up
نے منع کیا ہے اور اُسی کتاب کا پابند رہتا ہے جو اُس کے شارع نے دی ہے تو
برخلاف قسمِ دوم کے کہ اُس میں اِنفکاک جائز ہے اور جب تک ولایت کسی ولی کی قِسم سوم تک نہیں پہنچتی عارضی ہے اور خطرات سے امن میں نہیں۔ وجہؔ یہ کہ جب تک انسان کی سرشت میں خدا کی محبت اور اس کے غیر کی عداوت داخل نہیں۔ تب تک کچھ رگ و ریشہ ظلم کا اس میں باقی ہے کیونکہ اُس نے حق ربوبیت کو
خلق آدم فاکرمہ۔پیدا کیا آدم کو پس اکرام کیا اس کا۔ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء جری اللہ نبیوں کے حلوں میں۔ اس فقرہ الہامی کے یہ معنے ہیں کہ منصب ارشاد و ہدایت اور مورد وحی الٰہی ہونے کا دراصل حلۂ انبیاء ہے اور ان کے غیر کوبطور مستعار ملتا ہے اور یہ حلۂ انبیاء امت محمدیہ کے بعض افراد کوبغرض تکمیلِ ناقصین عطا ہوتا ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَأَنْبِیَآءِ بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ۔ پس یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں پر نبیوں کا کام ان کو سپرد کیا جاتا ہے۔ وکنتم علی شفا حفرۃ فانقذکم منھا۔ اور تھے تم ایک گڑھے کے کنارہ پر سو اس سے تم کو خلاصی بخشی یعنی خلاصی کا سامان عطا فرمایا۔ عسٰی ربکم انؔ یرحم علیکم وان عدتم عدنا وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا۔ خدائے تعالیٰ کا ارادہ اس بات کی طرف متوجہ ہے جو تم پر رحم کرے اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے۔ تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدائے تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 602
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 602
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/602/mode/1up
وہ اِس صورت میںؔ بالکل اپنے نفس سے محو ہوکر اپنے شارع کی ذمہ واری
جیسا کہ چاہئے تھا ادا نہیں کیا۔ اور لقاء تام حاصل کرنے سے ہنوز قاصر ہے۔ لیکن جب اس کی سرشت میں محبتِ الٰہی اور موافقت باللہ بخوبی داخل ہوگئی یہاں تک کہ خدا اس کے کان ہوگیا جن سے وہ سنتا ہے۔ اور اس کی آنکھیں ہوگیا
سڑکوں کو خس و خاشاک سے صاف کردیں گے اور کج اور ناراست کا نام و نشان نہ رہے گا۔ اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست و نابود کردے گا۔ اور یہ زمانہ اس زمانہ کے لئے بطور ارہاص کے واقع ہوا ہے یعنی اس وقت جلالی طور پر خدائے تعالیٰ اتمام حجت کرے گا۔ اب بجائے اس کے جمالی طور پر یعنی رفق اور احسان سے اتمام حجت کررہا ہے۔ توبوا واصلحوا والی اللّٰہ توجھوا وعلی اللّٰہ توکلوا واستعینوا بالصبر والصلٰوۃ۔ توبہ کرو اور فسق اور فجور اور کفر اور معصیت سے باز آؤ اور اپنے حال کی اصلاح کرو اور خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس پر توکل کرو۔ اور صبر اور صلٰوۃ کے ساتھ اس سے مدد چاہو۔ کیونکہ نیکیوں سے بدیاں دور ہوجاتی ہیں۔ بشری لک یا احمدی۔ انت مرادی ومعی۔ غرست کرامتک بیدی۔ خوشخبری ہو تجھے اے میرے احمد۔ تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ میں نے تیری کرامت کو اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم ذالک ازکٰی لھم۔ مومنین کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نامحرموں سے بند رکھیں اور اپنی سترگاہوں کو اور کانوں کو نالائق امور سے بچاویں یہی ان کی پاکیزگی کے لئے ضروری اور لازم ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہریک مومن کے لئے منہیات سے پرہیز کرنا اور اپنے اعضا کو ناجائز افعال سے محفوظ رکھنا لازم ہے اور یہی طریق اس کی پاکیزگی کا مدار ہے۔
چشم گوش و دیدہ بند اے حق گزین
یاد کُن فرمان قل للمؤمنین
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 603
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 603
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/603/mode/1up
میں جاپڑتا ہے۔ پس اگر شارع طبیب حاذقؔ کی طرح ٹھیک ٹھیک صراطِ مستقیم
جن سے وہ دیکھتا ہے۔ اور اس کا ہاتھؔ ہوگیا جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا پاؤں ہوگیا جس سے وہ چلتا ہے تو پھر کوئی ظلم اس میں باقی نہ رہا اور ہریک خطرہ سے امن میں آگیا۔ اسی درجہ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ 333333 ۱
اب سمجھنا چاہئے کہ یہ ترقیات ثلاثہ کہ جو تمام علوم و معارف کا اصل الاصول بلکہ تمام
خاطرِ خود زین و آن یکسر برآر
تاشود بر خاطرت حق آشکار
زیر پا کن دلبرانِ ایں جہان
تانماید چہرۂ آں محبوب جان
کاملانِ حیّ اند ہم زیر زمیں
تو بگوری باحیاتِ ایں چنیں
سالہا باید کہ خون دل خوری
تا بکوئے دلستانے رہبری
کے بآسانی رہے بکشایدت
صد جنوں باید کہ تا ہوش آیدت
واذا سألک عبادی عنی فانی قریب۔ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔ اور جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو میں نزدیک ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا سب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں۔ لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکین حتی تأتیھم البینۃ۔ وکان کیدھم عظیما۔ اور جو لوگ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کافر ہوگئے ہیں یعنی کفر پر سخت اصرار اختیار کرلیا ہے وہ اپنے کفر سے بجز اس کے باز آنے والے نہیں تھے کہ ان کو کھلی نشانی دکھلائی جاتی اور ان کا مکر ایک بھارا مکر تھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے آیات سماوی اور دلائل عقلی سے اس عاجز کے ہاتھ میں ظاہر کیا ہے وہ اتمام حجت کے لئے نہایت ضروری تھا۔ اور اس زمانہ کے سیاہ باطن جن کو جہل اور خبث کے کیڑے نے اندر ہی اندر کھالیا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 604
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 604
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/604/mode/1up
کا رہنما ہے اور وہ مبارک کتاب لایا ہے جس میں شخص پیرو کیؔ امراضِ روحانی
دین کا لبؔ لباب ہے سورۃ فاتحہ میں بتمام تر خوبی و رعایت ایجاز و خوش اسلوبی بیان کئے گئے ہیں چنانچہ پہلی ترقی کہ جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے اول قدم ہے اس آیت میں تعلیم کی گئی ہے جو فرمایا ہے اھدنا الصراط المستقیم۔ کیونکہ
ہے ایسے نہیں تھے جو بجز آیاتِ صریحہ و براہین قطعیہ اپنے کفر سے باز آجاتے بلکہ وہ اس مکر میں لگے ہوئے تھے کہ تا کسی طرح باغ اسلام کو صفحۂ زمین سے نیست و نابود کردیں۔ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیرپڑجاتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے جو دنیا کو ان آیات بیّنات کی نہایت ضرورت تھی اور دنیا کے لوگ جو اپنے کفر اور خبث کی بیماری سے مجذوم کی طرح گداز ہوگئے ہیں وہ بجز اس آسمانی دوا کے جو حقیقت میں حق کے طالبوں کے لئے آب حیات تھی تندرستی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ واذا قیل لھم لا تفسدوا فی ؔ الارض قالوا انما نحن مصلحون۔ الا انھم ھم المفسدون۔ قل اعوذ برب الفلق من شر ما خلق ومن شر غاسق اذا وقب۔ اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو۔ اور کفر اور شرک اور بدعقیدگی کو مت پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ہی راستہ ٹھیک ہے اور ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ مصلح اور ریفارمر ہیں۔ خبردار رہو۔ یہی لوگ مفسد ہیں جو زمین پرفساد کررہے ہیں۔ کہہ میں شریر مخلوقات کی شرارتوں سے خدا کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اور اندھیری رات سے خدا کی پناہ میں آتا ہوں یعنی یہ زمانہ اپنے فساد عظیم کے رو سے اندھیری رات کی مانند ہے سو الٰہی قوتیں اور طاقتیں اس زمانہ کی تنویر کے لئے درکار ہیں۔ انسانی طاقتوں سے یہ کام انجام ہونا محال ہے۔ انی ناصرک۔ انی حافظک۔ انی جاعلک للناس اماما۔ اکان للناس عجبا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب۔ یجتبی من یشآء من عبادہ۔ لا یُسئل عما یفعل وھم یُسئلون۔ وتلک الایام نداولھا بین الناس۔ میں تیری مدد کروں گا۔ میں تیری حفاظت کروں گا۔ میں تجھے لوگوں کے لئے پیشرو بناؤں گا۔ کیا لوگوں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 605
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 605
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/605/mode/1up
کا علاج ہے اور اس کی علمی اور عملی تکمیل کے لئے پورا سامان موجود ہے۔
ہریک قسم کی کجی اور بے راہی سے باز آکر اور بالکل روبخدا ہوکر راہ راست کو اختیار کرنا یہ وہی سخت گھاٹی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں فنا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ امور مالوفہ اور معتادہ کو یکلخت ؔ چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشوں کو جو ایک عمر سے عادت ہوچکی ہے یکدفعہ ترک کرنا اور ہریک ننگ اور ناموس اور عجب
کو تعجب ہوا کہ خدا ذوالعجائب ہے ہمیشہ عجیب کام ظہور میں لاتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چن لیتا ہے وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا کہ ایسا کیوں کیا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں اور ہم یہ دن لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں یعنی کبھی کسی کی نوبت آتی ہے اور کبھی کسی کی اور عنایات الٰہیہ نوبت بہ نوبت امت محمدیہ کے مختلف افراد پر وارد ہوتے رہتے ہیں۔ وقالوا انّٰی لک ھذا۔ وقالوا ان ھذا الا اختلاق۔ اذا نصراللّٰہ المؤمن جعل لہ الحاسدین فی الارض فالنار موعدھم۔ قل اللّٰہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون۔اور کہیں گے کہ یہ تجھ کو کہاں سے۔ اور یہ تو ایک بناوٹ ہے۔ خدائے تعالیٰ جب مومن کی مدد کرتا ہے تو زمین پر کئی اُس کے حاسد بنا دیتا ہے سو جو لوگ حسد پر اصرار کریں اور باز نہ آویں تو جہنم ان کا وعدہ گاہ ہے۔ کہہ یہ سب کاروبار خدا کی طرف سے ہیں پھر ان کو چھوڑ دے تا اپنے بے جا خوض میں کھیلتے رہیں۔ تلطف بالناس و ترحم علیھم انت فیھم بمنزؔ لۃ موسٰی واصبر علی ما یقولون۔ لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور ان پر رحم کر۔ تو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے۔ اور ان کی باتوں پر صبر کر۔ حضرت موسیٰ ُ بردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے۔ اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبہ عالیہ تک پہنچ سکے۔ توریت سے ثابت ہے جو حضرت موسیٰ رفق اور حلم اور اخلاق فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے جیسا کہ گنتی باب دو از دہم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو روئے زمین پر تھے زیادہ بردبار تھا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 606
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 606
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/606/mode/1up
اور پھر اُس کے پیروؔ نے بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے اُن تعلیمات کو
اور ریا سے مونہہ پھیر کر اور تمام ماسواللہ کو کالعدم سمجھ کر سیدھا خدا کی طرف رخ کرلینا حقیقت میں ایک ایسا کام ہے جو موت کے برابر ہے اور یہ موت روحانی پیدائش کا مدار ہے۔ اور جیسے دانہ جب تک خاک میں نہیں ملتا اور اپنی صورت کو نہیں چھوڑتا تب تک نیا دانہ وجود میں آنا غیر ممکن ہے۔ اسی طرح روحانی پیدائش کا ؔ جسم
سو خدا نے توریت میں موسٰی کی بردباری کی ایسی تعریف کی جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے۔ ہاں جو اخلاقِ فاضلہ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُن اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے۔ اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے۔ 3۔۱ تُو خُلقِ عظیم پر ہے۔ اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں تک درختوں کے لئے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے۔ ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائلہ حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہوسکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں۔ سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا۔ 3 3۔۲ یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب ۵۴ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں موجود ہے جیسا کہ فرمایا کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا اور چونکہ اُمتِ محمدیہ کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں اس لئے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 607
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 607
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/607/mode/1up
بصدق دل قبول کرلیا ہے تو جو کچھ انوار وآثاؔ ر بعد متابعت کامل کے مترتب
اس فنا سے طیار ہوتا ہے۔ جوں جوں بندہ کا نفس شکست پکڑتا جاتا ہے اور اس کا فعل اور ارادت اور رو بخلق ہونا فنا ہوتا جاتا ہے توں توں پیدائش روحانی کے اعضاء بنتے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب فناء اتم حاصل ہوجاتی ہے تو وجود ثانی کی خلعت عطا کی جاتی ہے
الہام متذکرہ بالا میں اس عاجز کی تشبیہ حضرت موسیٰ سے دی گئی۔ اور یہ تمام برکات حضرت سید الرسل کے ہیں جو خداؔ وند کریم اس کی عاجز امت کو اپنے کمال لطف اور احسان سے ایسے ایسے مخاطبات شریفہ سے یاد فرماتا ہے۔ اللّٰھم صلّ علٰی محمد واٰ ل محمد۔ پھر بعد اس کے یہ الہامی عبارت ہے۔ واذا قیل لھم اٰمنوا کما اٰمن الناس قالوا انؤمن کما اٰمن السفھآء الا انھم ھم السفھآء ولکن لا یعلمون۔ و یحبون ان تدھنون۔ قل یایھا الکفرون لا اعبد ما تعبدون۔ قیل ارجعوا الی اللہ فلا ترجعون۔ وقیل استحوذوا فلا تستحوذون۔ ام تسئلھم من خرج فھم من مغرم مثقلون۔ بل اتیناھم بالحق فھم للحق کارھون۔ سبحانہ وتعالٰی عما یصفون۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنا وھم لا یفتنون۔ یحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا۔ ولا یخفی علی اللّٰہ خافیۃ۔ ولا یصلح شیء قبل اصلاحہ۔ ومن رُدّ من مطبعہ فلا مردلہ۔ اور جب اُن کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ہی ایمان لاویں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں خبردار ہو وہی بے وقوف ہیں مگر جانتے نہیں۔ اور یہ چاہتے ہیں کہ تم ان سے مداہنہ کرو۔ کہہ اے کافرو میں اس چیز کی پرستش نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو۔ تم کو کہا گیا کہ خدا کی طرف رجوع کرو سو تم رجوع نہیں کرتے۔ اور تم کو کہا گیا جو تم اپنے نفسوں پر غالب آجاؤ سو تم غالب نہیں آتے۔ کیا تو ان لوگوں سے کچھ مزدوری مانگتا ہے۔ پس وہ اس تاوان کی وجہ سے حق کو قبول کرنا ایک پہاڑ سمجھتے ہیں بلکہ ان کو مفت حق دیا جاتا ہے اور وہ حق سے کراہت کررہے ہیں۔ خدائے تعالیٰ اُن عیبوں سے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 608
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 608
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/608/mode/1up
ہوں گے۔ وہ حقیقت میں اُس نبی متبوع کے فیوض ہیں۔ سوؔ اِسی جہت سے اگر
اور ثم انشاناہ خلقا اخر کا وقت آجاتا ہے اور چونکہ یہ فناء اتم بغیر نصرت و توفیق و توجہ خاص قادر مطلق کے ممکن نہیں اس لئے یہ دعا تعلیم کی یعنی اھدنا الصراطؔ المستقیم جس کے یہ معنے ہیں کہ اے خدا ہم کو راہِ راست پر قائم کر
پاک و برتر ہے جو وہ لوگ اس کی ذات پر لگاتے ہیں۔ کیا یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بے امتحان کئے صرف زبانی ایمان کے دعویٰ سے چھوٹ جاویں گے۔ چاہتے ہیں جو ایسے کاموں سے تعریف کئے جائیں جن کو انہوں نے کیا نہیں۔ اور خدائے تعالیٰ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔ اور جب تک وہ کسی شے کی اصلاح نہ کرے اصلاح نہیں ہوسکتی۔ اور جو شخص اس کے مطبع سے ردّ کیا جائے۔اسؔ کو کوئی واپس نہیں لاسکتا۔ لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین۔ لا تقف ما لیس لک بہ علم۔ ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون۔ یا ابراھیم اعرض عن ھذا انہ عبد غیر صالح۔ انما انت مذکر وما انت علیھم بمسیطر۔ کیا تو اسی غم میں اپنے تئیں ہلاک کردے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ اور ان لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں میرے ساتھ مخاطبت مت کر۔ وہ غرق کئے جائیں گے۔ اے ابراہیم! اس سے کنارہ کر یہ صالح آدمی نہیں۔ تو صرف نصیحت دہندہ ہے ان پر داروغہ نہیں۔ یہ چند آیات جو بطور الہام القا ہوئی ہیں بعض خاص لوگوں کے حق میں ہیں۔ پھر آگے اس کے یہ الہام ہے واستعینوا بالصبر والصلٰوۃ واتخذوا من مقام ابراھیم مصلّٰی۔ اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد چاہو۔ اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو۔ اس جگہ مقام ابراہیم سے اطلاقِ مرضیہ و معاملہ باللہ مراد ہے یعنی محبت الٰہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا یہی حقیقی مقام ابراھیم کا ہے جو امت محمدیہ کو بطور تبعیت و وراثت عطا ہوتا ہے اور جو شخص قلب ابراہیم پر مخلوق ہے اس کی اتباع بھی اسی میں ہے۔ یظل ربک علیک و یغیثک و
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 609
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 609
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/609/mode/1up
ولی سے کوئی امر خارق عادت ظاہر ہو تو اُس نبی متبوع کا معجزہ ہوگا۔ اب
اور ہریک طور کی کجی اور بے راہی سے نجات بخش۔ اور یہ کامل استقامت اور راست روی جس کو طلب کرنے کا حکم ہے نہایت سخت کام ہے اور اول دفعہ میں اس کا حملہ سالک پر ایک شیر ببر کی طرح ہے جس کے سامنے موت نظر آتی ہے پس اگر سالک ٹھہر گیا اور اُس موت کو قبول کرلیا تو پھر بعد اس کے کوئی اسے سخت موت نہیں اور خدا اِس سے
یرحمک۔ وان لم یعصمک الناس فیعصمک اللّٰہ من عندہ۔ یعصمک اللّٰہ من عندہ وان لم یعصمک الناس۔ خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا اور نیز تیرا فریاد رس ہوگا اور تجھ پر رحم کرے گا۔ اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں مگر خدا تجھے بچائے گا اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا اگرچہ تمام لوگ دریغ کریں۔ یعنی خدا تجھے آپ مدد دے گا اور تیری سعی کے ضائع ہونے سے تجھے محفوظ رکھے گا۔ اور اس کی تائیدیں تیرے شامل حال رہیں گی۔ و اذ یمکر بک الذی کفر۔ اوقد لی یاھامان لعلی اطلع الی الٰہ موسی وانی لأظنہ من الکاذبین۔ یاد کر جب منکر نے بغرض کسی مکر کے اپنے رفیق کو کہا کہ کسی فتنہ یا آزمائش کی آگ بھڑکاتا میں موسیٰ کے خدا پر یعنی اس شخص کے خدا پر مطلع ہوجاؤں کہ کیونکر وہ اس کی مدد کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہے یا نہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔ یہ کسی واقعہ آئندہ کی طرف اشارہ ہے کہ جو بصورت گزشتہ بیان کیا گیا ہے۔ تبت یدا ابی لھب وتب۔ ما کان لہ ان یدخل فیھا الا خائفا وما اصابک فمن اللّٰہ۔ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ بھی ہلاک ہوا اور اس کو لائق نہ تھا کہ اس کام میں بجز خائفؔ اور ترسان ہونے کے یوں ہی دلیری سے داخل ہوجاتا اور جو تجھ کو پہنچے وہ تو خدا کی طرف سے ہے۔ یہ کسی شخص کے شر کی طرف اشارہ ہے جو بذریعہ تحریر یا بذریعہ کسی اور فعل کے اس سے ظہور میں آوے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم۔ الا انھا فتنۃ من اللّٰہ لیحب حبا جما۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 610
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 610
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/610/mode/1up
اِنؔ تمہیدات کے بعد دلائل حقیت قرآن شریف کے لکھے جاتے ہیں۔ و نسئل اللّٰہ التوفیق والنصرۃ ھو نعم المولی ونعم النصیر۔
زیادہ تر کریم ہے کہ پھر اس کو یہ ؔ جلتا ہوا دوزخ دکھاوے۔ غرض یہ کامل استقامت وہ فنا ہے کہ جس سے کارخانہ وجود بندہ کو بکُلّی شکست پہنچتی ہے اور ہوا اور شہوت اور ارادت اور ہریک خود روی کے فعل سے بیکبارگی دستکش ہونا پڑتا ہے اور یہ مرتبہ سیر و سلوک کے مراتب میں سے وہ مرتبہ ہے جس میں انسانی کوششوں کا بہت کچھ دخل ہے اور بشری مجاہدات کی بخوبی پیش رفت ہے اور اسی حد تک اولیاء اللہ کی کوششیں اور سالکین ؔ کی محنتیں ختم ہوجاتی ہیں اور پھر بعد اس کے خاص مواہبِ سماوی
حبا من اللہ العزیز الاکرم عطاءً ا غیر مجذوذ۔ اس جگہ فتنہ ہے۔ پس صبر کر جیسے اولوالعزم لوگوں نے صبر کیا ہے۔ خبردار ہو۔ یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے تا وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے۔ اس خدا کی محبت جو نہایت عزت والا اور نہایت بزرگ ہے وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں۔ شاتان تذبحان۔ وکل من علیھا فان۔ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی۔ اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا یعنی ہریک کے لئے قضا و قدر درپیش ہے اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں۔ کوئی چار روز پہلے اس دنیا کو چھوڑ گیا اور کوئی پیچھے اسے جاملا۔
ہمیں مرگ است کزیاران بپوشد روئے یاراں را
بیکدم می کند وقت خزاں فصل بہاراں را
ولا تھنوا ولا تحزنوا۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ۔ الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شیء قدیر۔ وجئنا بک علی ھؤلاء شھیدا۔ اور سست مت ہو اور غم مت کرو۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ اور خدا ان لوگوں پر تجھ کو گواہ لائے گا۔ اوفی اللّٰہ اجرک و یرضی عنک ربک و یتم اسمک و عسی ان تحبوا شیئا و ھو شر لکم و عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم واللّٰہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 611
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 611
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/611/mode/1up
بابِ اوّل
اُن براہین کے بیان میں جو قرآن شریف کی
حقیّت اور افضلیت پر بیرونی شہادتیں ہیں
برھان اوّل۔ قال اللّٰہ تعالی3
ہیں جن میں بشری کوششوں کو کچھ دخل نہیں بلکہ خود خدائے تعالیٰ کی طرف سے عجائبات سماوی کی سیر کرانے کے لئے غیبی سواری اور آسمانی بُرّاق عطا ہوتا ہے۔
اور دوسری ترقی کہ جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے دوسرا قدم ہے اِس آیت
یعلم و انتم لا تعلمون۔ خدا تیرا بدلہ پورا دے گا اور تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے اسم کو پورا کرے گا۔ اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اور اصل میں وہ تمہارے لئے بری ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بری سمجھو اور اصل میں وہ تمہارے لئے اچھی ہو۔ اور خدائے تعالیٰ عواقب امور کو جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف۔ ان السموات والارض کانتا رتقا ففتقناھما۔ وان یتخذونک الا ھزوا۔ اھذا الذی بعث اللّٰہ۔ قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد والخیر کلہ فی القراٰ ن لا یمسہ ؔ الا المطھرون۔ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون۔ میں ایک خزانہ پوشیدہ تھا سو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں آسمان اور زمین دونوں بند تھے سو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا اور تیرے ساتھ ہنسی سے ہی پیش آئیں گے اور ٹھٹھا مار کر کہیں گے کیا یہی ہے جس کو خدا نے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 612
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 612
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/612/mode/1up
میں تعلیم کیؔ گئی ہے جو فرمایا ہے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ یعنی ہم کو ان لوگوں کا راہ دکھلا جن پر تیرا انعام اکرام ہے۔ اس جگہ واضح رہے کہ جو لوگ منعم علیہم ہیں اور خدا سے ظاہری و باطنی نعمتیں پاتے ہیں شدائد سے خالی نہیں ہیں بلکہ اس دارالابتلاء میں ایسی ایسی شدّتیں اور صعوبتیں ان کو پہنچتی ہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے کو پہنچتیں تو مدد ایمانی اس کی منقطع ہوجاتی۔ لیکن اس جہت سے اُن کا
اصلاح خلق کے لئے مقرر کیا یعنی جن کا مادہ ہی خبث ہے ان سے صلاحیت کی امید مت رکھ اور پھر فرمایا کہہ میں صرف تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے کہ بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی تمہارا معبود نہیں وہی اکیلا معبود ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرنا نہیں چاہئے۔ اور تمام خیر اور بھلائی قرآنؔ میں ہے بجز اس کے اور کسی جگہ سے بھلائی نہیں مل سکتی اور قرآنی حقائق صرف انہیں لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے اور میں ایک عمر تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا تم کو عقل نہیں۔
ہست فرقانِ مبارک از خدا طیب شجر
نونہال و نیک بوو سایۂ دار و پُرزبر
میوہ گر خواہی بیا زیر درخت میوہ دار
گر خردمندی مجنباں بید را بہر ثمر
ور نیاید باورت دروصف فرقان مجید
حسن آں شاہد بپرس از شاہدان یا خود نگر
وانکہ اونامد پأ تحقیق و درکین مبتلا ست
آدمی ہرگز نباشد ہست او بدتر زِ خر
قل ان ھدی اللّٰہ ھو الھدٰی وانّ معی ربّی سیھدین۔ ربّ اغفر وارحم من السمآء۔ ربّ انی مغلوب فانتصر۔ ایلی ایلی لما سبقتنی ایلی آوس۔
کہہ ہدایت وہی ہے جو خدا کی ہدایت ہے اور میرے ساتھ میرا رب ہے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 613
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 613
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/613/mode/1up
نام منعم علیہم رکھا گیا ہے کہ وہ بباعث غلبہ محبت آلام کو برنگ انعام دیکھتے ہیں اور ہریک رنج یا راحت جو دوست حقیقی کی طرف سے اُن کو پہنچتی ہے بوجہؔ مستئ عشق اس سے لذت اٹھاتے ہیں پس یہ ترقی فی القرب کی دوسری قسم ہے جس میں اپنے محبوب کے جمیع افعال سے لذت آتی ہے اور جو کچھ اس کی طرف سے پہنچے انعام ہی انعام نظر آتا ہے اور اصل موجب اس حالت کا ایک محبت کامل اور تعلق صادق ہوتا ہے جو اپنے محبوب سے ہوجاتا ہے اور یہ ایک موہبت خاص ہوتی ہے جس میں
عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا۔ اے میرے خدا آسمان سے رحم اور مغفرت کر۔ میں مغلوب ہوں میری طرف سے مقابلہ کر۔ اے میرے خدا اے میرے خدا تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی آوس بباعث ُ سرعت ورود مشتبہ رہا ہے اور نہ اس کے کچھ معنے کھلے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
اےؔ خالق ارض و سما برمن در رحمت کشا
دانی توآں دردِ مرا کز دیگراں پنہاں کنم
ازبس لطیفی دلبرا در ہررگ و تارم درا
تا چوں بخودیابم ترا دل خوشتر از بستاں کنم
ور سرکشی اے پاک خوجاں برکنم در ہجر تو
زانساں ہمی گریم کزویک عالمے گریاں کنم
خواہی بقہرم کن جدا خواہی بلطفم رونما
خواہی بکش یا کن رہا کے ترک آں داماں کنم
یہ سب اشارات مختص المقامات ہیں جن کی تشریح اس جگہ ضروری نہیں۔ یا عبدالقادر انی معک اسمع و ارٰی غرست لک بیدی رحمتی و قدرتی و نجیناک من الغم و فتناک فتونا۔ لیأتینکم منی ھدی۔ الا ان حزب اللّٰہ ھم الغالبون۔ وما کان اللّٰہ لیعذبھم وانت فیھم وما کان اللّٰہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 614
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 614
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/614/mode/1up
حیلہ اور تدبیر کو کچھ دخل نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے آتی ہے اور جب آتی ہے تو پھر سالک ایک دوسرا رنگ پکڑلیتا ہے اور تمام بوجھ اس کے سر سے اتارے جاتے ہیں اور ہریک ایلام انعام ہی معلوم ہوتاؔ ہے اور شکوہ اور شکایت کا نشان نہیں ہوتا۔ پس یہ حالت ایسی ہوتی ہے کہ گویا انسان بعد موت کے زندہ کیا گیا ہے کیونکہ ان تلخیوں سے بکلی نکل آتا ہے جو پہلے درجہ میں تھیں جن سے ہریک وقت موت کا
لیعذبھم وھم یستغفرون۔ اے عبدالقادر میں تیرے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ تیرے لئے میں نے رحمت اور قدرت کو اپنے ہاتھ سے لگایا اور تجھ کو غم سے نجات دی۔ اور تجھ کو خالص کیا۔ اور تم کو میری طرف سے مدد آئے گی۔ خبردار ہو لشکر خدا کا ہی غالب ہوتا ہے۔ اور خدا ایسا نہیں جو ان کو عذاب پہنچاوے جب تک تو اُن کے درمیان ہے یا جب وہ استغفار کریں۔ انا بدک اللازم انا محییک نفخت فیک من لدنی روح الصدق والقیت علیک محبۃ منی ولتصنع علی عینی کزرع اخرج شطأہ فاستغلظ فاستویؔ علٰی سوقہ۔ میں تیرا چارہ لازمی ہوں۔ میں تیرا زندہ کرنے والا ہوں۔ میں نے تجھ میں سچائی کی روح پھونکی ہے اور اپنی طرف سے تجھ میں محبت ڈال دی ہے تاکہ میرے روبرو تجھ سے نیکی کی جائے سو تو اس بیج کی طرح ہے جس نے اپنا سبزہ نکالا پھر موٹا ہوتا گیا یہاں تک کہ اپنے ساقوں پر قائم ہوگیا۔ ان آیات میں خدائے تعالیٰ کی اُن تائیدات اور احسانات کی طرف اشارہ ہے اور نیز اس عروج اور اقبال اور عزت اور عظمت کی خبر دی گئی ہے کہ جو آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچے گی۔ انا فتحنالک فتحا مبینا لیغفرلک اللّٰہ ما
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 615
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 615
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/615/mode/1up
سامنا معلوم ہوتا تھا مگر اب چاروں طرف سے انعام ہی انعام پاتا ہے اور اسی جہت سے اس کی حالت کے مناسب حال یہی تھا کہ اس کا نام منعم علیہ رکھا جاتا اور دوسرے لفظوں میں اس حالت کا ؔ نام بقا ہے کیونکہ سالک اس حالت میں اپنے تئیں ایسا پاتا ہے کہ گویا وہ مرا ہوا تھا اور اب زندہ ہوگیا۔ اور اپنے نفس میں بڑی
تقدم من ذنبک وما تأخر۔ ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح عطا فرمائی ہے یعنی عطا فرمائیں گے۔ اور درمیان میں جو بعض مکروہات و شدائد ہیں وہ اس لئے ہیں تا خدائے تعالیٰ تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرماوے یعنی اگر خدائے تعالیٰ چاہتا تو قادر تھا کہ جو کام مدنظر ہے وہ بغیر پیش آنے کسی نوع کی تکلیف کے اپنے انجام کو پہنچ جاتا اور بآسانی فتح عظیم حاصل ہوجاتی۔ لیکن تکالیف اس جہت سے ہیں کہ تا وہ تکالیف موجب ترقی مراتب و مغفرت خطایا ہوں۔ آج اس موقع کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے۔ پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری۔ جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رعبناک جیسے سپہ سالار مسلح فتح یاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین و یسار میں ؔ حجت اللہ القادر و سلطان احمد مختار لکھا تھا۔ اور یہ سوموار کا روز انیسویں ذوالحجہ ۰۰۳۱ ھ مطابق ۲۲؍ اکتوبر ۳۸ء اور ششم کاتک ۰۴۹۱ بکرم ہے۔ الیس اللہ بکاف عبدہ فبرأہ اللّٰہ مما قالوا وکان عند اللّٰہ وجیھا۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ فلما تجلّٰی ربہ للجبل جعلہ دکا۔ واللّٰہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 616
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 616
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/616/mode/1up
خوشحالی اور انشراح صدر دیکھتا ہے اور بشریت کے انقباض سب دور ہوجاتے ہیں اور الوہیت کے مربیانہ انوار نعمت کی طرح برستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی مرتبہ میں سالک پر ہریک نعمت کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور عنایات الٰہیہ کامل طور پر متوجہ ہوتی
موھن کید الکافرین بعد العسر یسر و للّٰہ الامر من قبل ومن بعد۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ۔ ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا قول الحق الذی فیہ تمترون۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ پس خدا نے اس کو ان الزامات سے بری کیا جو اس پر لگائے گئے تھے اور خدا کے نزدیک وہ وجیہہ ہے۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ پس جبکہ خدا نے پہاڑ پر تجلی کی تو اس کو پاش پاش کردیا یعنی مشکلات کے پہاڑ آسان ہوئے اور خدائے تعالیٰ کافروں کے مکر کو سست کردے گا اور اُن کو مغلوب اور ذلیل کرکے دکھلائے گا تنگی کے بعد فراخی ہے۔ اور پہلے بھی خدا کا حکم ہے اور پیچھے بھی خدا کا ہی حکم ہے۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ اور ہم اس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنائیں گے اور یہ امر پہلے ہی سے قرار پایا ہوا تھا۔ یہ وہ سچی بات ہے جس میں تم شک کرتے ہو۔ محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم۔ رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللّٰہ۔ متع اللّٰہ المسلمین ببرکا تھم۔ فانظروا الی اٰ ثار رحمۃ اللّٰہ۔ وانبؤنی من مثل ھؤلآء ان کنتم صادقین۔ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا لن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین۔ محمد ؔ خدا کا رسول ہے۔ اور جو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 617
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 617
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/617/mode/1up
ہیں اور اس مرتبہ کا نام سیر فی اللہ ہے۔ کیونکہؔ اس مرتبہ میں ربوبیت کے عجائبات سالک پر کھولے جاتے ہیں اور جو ربانی نعمتیں دوسروں سے مخفی ہیں ان کا اس کو سیر کرایا جاتا ہے کشوف صادقہ سے متمتع ہوتا ہے اور مخاطبات حضرت احدیت سے سرفرازی پاتا ہے۔ اور عالم ثانی کے باریک بھیدوں سے مطلع کیا جاتا ہے اور علوم اور معارف سے وافر حصہ دیا جاتا ہے۔ غرض ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہت کچھ اس کو عطا
لوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں یعنی کفار ان کے سامنے لاجواب اور عاجز ہیں اور اُن کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یادِ الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بیع مانع ہوتی ہے یعنی محبت الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں ان کے حال میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں۔ خدائے تعالیٰ اُن کے برکات سے مسلمانوں کو متمتع کرے گا۔ سو اُن کا ظہور رحمت الٰہیہ کے آثار ہیں۔ سو ان آثار کو دیکھو۔ اور اگر ان لوگوں کی کوئی نظیر تمہارے پاس ہے یعنی اگر تمہارے ہم مشربوں اور ہم مذہبوں میں سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو اسی طرح تائیدات الٰہیہ سے مؤید ہوں۔ سو تم اگر سچے ہو تو ایسے لوگوں کو پیش کرو۔ اور جو شخص بجز دین اسلام کے کسی اَور دین کا خواہاں اور جویاں ہوگا وہ دین ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ زیان کاروں میں ہوگا۔ یا احمد فاضت الرحمۃ علی شفتیک انا اعطینک الکوثر فصل لربک وانحر۔ واقم الصلوۃ لذکری۔ انت معی وانا معک۔ سرک سری
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 618
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 618
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/618/mode/1up
کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ؔ اس درجہ یقین کامل تک پہنچتا ہے کہ گویا مدبر حقیقی کو بچشم خود دیکھتا ہے۔ سو اس طور کی اطلاع کامل جو اسرار سماوی میں اس کو بخشے جاتے ہیں۔ اس کا نام سیر فی اللہ ہے لیکن یہ وہ مرتبہ ہے جس میں محبت الٰہی انسان کو دی تو جاتی ہے لیکن بطریق طبعیت اس میں قائم نہیں کی جاتی یعنی اس کی سرشت
وضعنا عنک وزرک الذی انقض ظھرک ورفعنا لک ذکرک۔ انک علی صراط مستقیم۔ وجیھا فی الدنیا والاٰخرۃ و من المقربین۔ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے ہم نے تجھ کو معارف کثیرہ عطا فرمائے ہیں۔ سو اُس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے اور میری یاد کے لئے نماز کو قائم کر۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ ہم نے تیرا وہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی اتار دیا ہے اور تیرے ذکر کو اونچا کردیا ہے۔ تو سیدھی راہ پر ہے۔ دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور مقرّبین میں سے ہے۔ حماؔ ک اللّٰہ۔ نصرک اللّٰہ۔ رفع اللّٰہ حجّت الاسلام جمال۔ ھو الذی امشاکم فی کل حال۔ لا تحاط اسرار الاولیاء۔ خدا تیری حمایت کرے گا۔ خدا تجھ کو مدد دے گا۔ خدا حجتِ اسلام کو بلند کرے گا۔ جمالِ الٰہی ہے جس نے ہر حال میں تمہارا تنقیہ کیا ہے۔ خدائے تعالیٰ کو جو اپنے ولیوں میں اسرار ہیں وہ احاطہ سے باہر ہیں۔ کوئی کسی راہ سے اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور کوئی کسی راہ سے یعقوب* نے وہ مرتبہ گرفتاری سے پایا جو دوسرے ترک ماسوا سے پاتے ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدائے تعالیٰ میں دو صفتیں ہیں جو تربیتِعباد
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 619
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 619
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/619/mode/1up
میںؔ داخل نہیں ہوتی۔ بلکہ اس میں محفوظ ہوتی ہے۔
اور تیسری ترقی جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے انتہائی قدم ہے۔ اِس
میں مصروف ہیں ایک صفت رفق اور لطف اور احسان ہے اس کا نام جمال ہے۔ اور دوسری صفت قہر اور سختی ہے اس کا نام جلال ہے سو عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جو لوگ اُس کی درگاہ عالی میں بلائے جاتے ہیں ان کی تربیت کبھی جمالی صفت سے اور کبھی جلالی صفت سے ہوتی ہے اور جہاں حضرت احدیت کے تلطّفات عظیمہ مبذول ہوتے ہیں وہاں ہمیشہ صفت جمالی کے تجلیات کا غلبہ رہتا ہے مگر کبھی کبھی بندگانِ خاص کی صفاتِ جلالیہ سے بھی تادیب اور تربیت منظور ہوتی ہے۔ جیسے انبیاء کرام کے ساتھ بھی خدائے تعالیٰ کا یہی معاملہ رہا ہے کہ ہمیشہ صفات جمالیہ حضرت احدیّت کے ان کی تربیت میں مصروف رہے ہیں لیکن کبھی کبھی ان کی استقامت اور اخلاق فاضلہ کے ظاہر کرنے کے لئے جلالی صفتیں بھی ظاہر ہوتی رہی ہیں اور ان کو شریر لوگوں کے ہاتھ سے انواع اقسام کے دکھ ملتے رہے ہیں تا ان کے وہ اخلاق فاضلہ جو بغیر تکالیف شاقہ کے پیش آنے کے ظاہر نہیں ہوسکتے وہ سب ظاہر ہوجائیں اور دنیا کے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ کچے نہیں ہیں بلکہ سچے وفادار ہیں۔ وقالوا انّٰی لک ھذا ان ھذا الا سحر یؤثر۔ لن نؤمن لک حتی نری اللّٰہ جھرۃ۔ لا یصدق السفیہ الا سیفۃ الھلاؔ ک۔ عدو لی و عدو لک قل اتی امر اللّٰہ فلا تستعجلوہ۔ اذا جاء نصراللّٰہ الست بربکم قالوا بلٰی۔ اور کہیں گے یہ تجھے کہاں سے حاصل ہوا۔ یہ تو ایک سحر ہے جو اختیار کیا جاتا ہے۔ ہم
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 620
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 620
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/620/mode/1up
آیت میں تعلیم کی گئی ہے۔ جو ؔ فرمایا ہے۔ 33۔ یہ وہ مرتبہ ہے جس میں انسان کو خدا کی محبت اور اس کے غیر کی عداوت سرشت میں داخل ہوجاتی ہے۔ اور بطریق طبعیت اس میں قیام پکڑتی ہے
ہرگز نہیں مانیں گے جب تک خدا کو بچشم خود دیکھ نہ لیں۔ سفیہ بجز ضربۂ ہلاکت کے کسی چیز کو باور نہیں کرتا میرا اور تیرا دشمن ہے۔ کہہ خدا کا امر آیا ہے سو تم جلدی مت کرو جب خدا کی مدد آئے گی تو کہا جائے گا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں کہیں گے کہ کیوں نہیں۔ انی متوفیک ورافعک الی وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ ولا تھنوا ولا تحزنوا و کان اللّٰہ بکم رء وفًا رحیما۔ الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ تموت وانا راض منک فادخلوا الجنۃ ان شاء اللّٰہ اٰمنین۔ سلام علیکم طبتم فادخلوھا اٰمنین۔ سلام علیک جعلت مبارکا۔ سمع اللّٰہ انہ سمیع الدعاء انت مبارک فی الدنیا والاخرۃ۔ امراض الناس وبرکاتہ ان ربک فعال لما یرید۔ اذکر نعمتی التی انعمت علیک وانی فضلتک علی العلمین۔ یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃً فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔ منَّ ربکم علیکم و احسن الی احبابکم وعلمکم مالم تکونوا تعلمون۔ وان تعدوا نعمۃ اللّٰہ لا تحصوھا۔ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ اور جو لوگ تیری متابعت اختیار کریں یعنی حقیقی طور پر اللہ و رسول کے متبعین میں داخل ہو جائیں ان کو ان کے مخالفوں پر کہ جو انکاری ہیں۔ قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 621
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 621
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/621/mode/1up
اور ؔ صاحب اس مرتبہ کا اخلاق الٰہیہ سے ایسا ہی بالطبع پیار کرتا ہے کہ جیسے وہ اخلاق حضرت احدیت میں محبوب ہیں اور محبت ذاتی حضرت خداوند کریم کی اِس قدر
وہ لوگ حجت اور دلیل کے رو سے اپنے مخالفوں پر غالب رہیں گے۔ اور صدق اور راستی کے انوار ساطعہ اُنہیں کے شامل حال رہیں گے۔ اور سست مت ہو اور غم مت کرو۔ خدا تم پر بہت ہی مہربان ہے۔ خبردار ہو بہ تحقیق جو لوگ مقربانِ الٰہی ہوتےؔ ہیں ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم کرتے ہیں۔ تو اس حالت میں مرے گا کہ جب خدا تجھ پر راضی ہوگا۔ پس بہشت میں داخل ہو انشاء اللہ امن کے ساتھ تم پر سلام تم شرک سے پاک ہوگئے سو تم امن کے ساتھ بہشت میں داخل ہو تجھ پر سلام تو مبارک کیا گیا۔ خدا نے دعا سن لی وہ دعاؤں کو سنتا ہے تو دنیا اور آخرت میں مبارک ہے۔ یہ اس طرف اشارہ فرمایا کہ پہلے اس سے چند مرتبہ الہامی طور پر خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کی زبان پر یہ دعا جاری کی تھی کہ رب اجعلنی مبارکا حیث ما کنت۔ یعنی اے میرے رب مجھے ایسا مبارک کرکہ ہرجگہ میں بودوباش کروں برکت میرے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے اپنے لطف و احسان سے وہی دعا کہ جو آپ ہی فرمائی تھی قبول فرمائی۔ اور یہ عجیب بندہ نوازی ہے کہ اول آپ ہی الہامی طور پر زبان پر سوال جاری کرنا اور پھر یہ کہنا کہ یہ تیرا سوال منظور کیا گیا ہے اور اِس برکت کے بارہ میں ۸۶۸۱ء یا ۹۶۸۱ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میں ہوا تھا جس کو اِسی جگہ لکھنا مناسب ہے۔ اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے۔ جب نئے نئے مولوی ہوکر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کو ان کے خیالات گراں گزرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا چنانچہ اُس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اُس شخص
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 622
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 622
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/622/mode/1up
اُس کے دل میں آمیزش کرجاتی ہے ؔ کہ اُس کے دل سے محبت الٰہی کا منفک ہونا مستحیل اور ممتنع ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے دل کو اور اس کی جان کو بڑے بڑے امتحانوں اور ابتلاؤں
کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو معہ اُن کے والد صاحب کے مسجد میں پایا۔ پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اُس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کرلیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا۔ رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اسی ترک بحث کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ تیرا خدا تیرے اس فعل ؔ سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ پھر بعد اُس کے عالمِ کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے۔ چونکہ خالصاً خدا اور اس کے رسول کے لئے انکسار و تذلّل اختیار کیا گیا اس لئے اُس محسن مطلق نے نہ چاہا کہ اُس کو بغیر اجر کے چھوڑے۔ فتدبروا و تفکرّوا۔
پھر بعد اِس کے فرمایا کہ لوگوں کی بیماریاں اور خدا کی برکتیں یعنی مبارک کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے لوگوں کی روحانی بیماریاں دور ہوں گی اور جنکے نفس سعید ہیں وہ تیری باتوں کے ذریعہ سے رشد وہدایت پاجائیں گے اور ایسا ہی جسمانی بیماریاں اور تکالیف جن میں تقدیر مبرم نہیں۔ اور پھر فرمایا کہ تیرا رب بڑا ہی قادر ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا کی نعمت کو یاد رکھ اور میں نے تجھ کو تیرے وقت کے تمام عالموں پر فضیلت دی ہے۔ اس جگہ جاننا چاہئے کہ یہ تفضیل طفیلی اور جزوی ہے یعنی جو شخص حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل طور پرمتابعت کرتا ہے۔ اُس کا مرتبہ خدا کے نزدیک اسکے تمام ہمعصروں سے برتر و اعلیٰ ہے۔ پس حقیقی اور کلی طور پر تمام فضیلتیں حضرت خاتم الانبیاء کو جنابِ احدیت کی طرف سے ثابت ہیں اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 623
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 623
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/623/mode/1up
کے سخت صدمات کے پیچ میں دے کر کوفتہ کیا جائے اور نچوڑا جائے تو بجز محبت الٰہیہ کے اور کچھ اس کے دل اور جان سے نہیں نکلتا۔ اسی کے درد سے لذت پاتا
دوسرے تمام لوگ اُس کی متابعت اور اس کی محبت کی طفیل سے علیٰ قدر متعابعت ومحبت مراتب پاتے ہیں۔ فما اعظم شان کمالہ اللّٰھم صل علیہ وآلہ۔ اب بعد اس کے بقیہ ترجمہ الہام یہ ہے۔ اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ۔ وہ تجھ پر راضی اور تو اس پر راضی۔ پھر میرے بندوں میں داخل ہو اور میری بہشت میں اندر آجا۔ خدا نے تجھ پر احسان کیا اور تیرے دوستوں سے نیکی کی اور تجھ کو وہ علم بخشا جس کو تو خودبخود نہیں جان سکتا تھا۔ اور اگر تو خدا کی نعمتوں کو گننا چاہے تو یہ تیرے لئے غیر ممکن ہے۔ پھر ان الہامات کے بعد چند الہام فارسی اور اردو میں اور ایک انگریزی میں ہوا۔ وہ بھی بغرض افادۂ طالبین لکھے جاتے ہیں اور وہؔ یہ ہے۔ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔ پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار ۔ خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا۔ اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مونہہ کی باتیں ہیں۔ جناب الٰہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے اور اس کی پاک رحمتیں اس طرف متوجہ ہیں۔ دِی ڈیز شَلَ کم وَہن گاڈ شیل ہیلپ ُ یو گلوری بی ٹو دِس لارڈ َ گوڈْ میکر اوف ارتھ اینڈ ہیون۔ وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔ خدائے ذوی الجلال آفریندۂ زمین و آسمان اِن الہامات کے بعد ایک ایسی پیشگوئی چند آریوں کے روبرو جو پنڈت دیانند کے توابع ہیں پوری ہوئی کہ جس کی کیفیت پر مطلع ہونا ناظرین کے لئے خالی فائدہ سے نہیں۔ سو اگرچہُ اس کے لکھنے سے کسی قدر طول ہی ہو۔ لیکن بہ نظرِ خیر خواہی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 624
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 624
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/624/mode/1up
ہے۔ اور اُسی ؔ کو واقعی اور حقیقی طور پر اپنا دلآرام سمجھتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس میں تمام ترقیات قرب ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنے اس انتہائی کمال کو پہنچ جاتا ہے کہ جو فطرت بشری کے لئے مقدر ہے۔
ان لوگوں کے جو عظمت اسلام سے بے خبر ہیں لکھی جاتی ہے اور اس پیشگوئی کے پورے ہونے سے پہلے ایک عجیب طور کی مشکلات اور مکروہات پیش آئے۔ آخر خداوند کریم نے ان سب مشکلات کو دور کرکے بتاریخ دہم ستمبر ۳۸۸۱ ء روز دو شنبہ اس پیشگوئی کو پورا کیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ بتاریخ ۶ ستمبر ۳۸۸۱ ء روز پنجشنبہ خداوند کریم نے عین ضرورت کے وقت میں اس عاجز کی تسلی کے لئےؔ اپنے کلام مبارک کے ذریعہ سے یہ بشارت دی کہ بست ویک روپیہ آنے والے ہیں۔ چونکہ اس بشارت میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ آنے والے روپیہ کی تعداد سے اطلاع دی گئی اور کسی خاص تعداد سے مطلع کرنا ذات غیب دان کا خاصّہ ہے کسی اور کا کام نہیں ہے۔ دوسری عجیب بر عجیب یہ بات تھی کہ یہ تعداد غیر معہود طرز پر تھی کیونکہ قیمت مقررہ کتاب سے اس تعداد کو کچھ تعلق نہیں۔ پس انہیں عجائبات کی وجہ سے یہ الہام قبل از وقوع بعض آریوں کو بتلایا گیا۔ پھر ۰۱ ستمبر ۳۸۸۱ ء کو تاکیدی طور پر سہ بارہ الہام ہوا کہ بست ویک روپیہ آئے ہیں۔ جس الہام سے سمجھا گیا کہ آج اس پیشگوئی کا ظہور ہوجائے گا۔ چنانچہ ابھی الہام پر شاید تین منٹ سے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ ایک شخص وزیر سنگھ نامی بیماردار آیا اور اُس نے آتے ہی ایک روپیہ نذر کیا۔ ہر چند علاج معالجہ اس عاجز کا پیشہ نہیں اور اگر اتفاقاً کوئی بیمار آجاوے تو اگر اس کی دوا یاد ہو تو محض ثواب کی غرض سے ِ للہ فِی اللہ دی جاتی ہے۔ لیکن وہ روپیہ اس سے لیا گیا۔ کیونکہ فی الفور خیال آیا کہ یہ اُس پیشگوئی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 625
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 625
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/625/mode/1up
یہ لطائف خمسہ ہیں کہ جو بطور نمونہ مشتے از خروارے ہم نے لکھے ہیں مگر عجائبات معنوی اس صورت میں اورؔ نیز دوسرے حقائق و معارف اس قدر ہیں کہ اگر اُن کا عشرِ عشیر بھی لکھا جائے تو اس کے لکھنے کے لئے ایک بڑی کتاب چاہئے۔ اور جو اس سورہ مبارکہ میں خواص روحانی ہیں وہ بھی ایسے اعلیٰ و حیرت انگیز ہیں جن کو طالبِ حق
کی ایک جُز ہے۔ پھر بعد اس کے ڈاک خانہ میں ایک اپنا معتبر بھیجا گیا اس خیال سے کہ شاید دوسری جُز بذریعہ ڈاک خانہ پوری ہو۔ ڈاک خانہ سے ڈاک منشی نے جو ایک ہندو ہے جواب میں یہ کہا کہ میرے پاس صرف ایک منی آرڈر پانچ روپیہ کا جس کے ساتھ ایک کارڈ بھی نتھی ہے ڈیرہ غازی خان سے آیا ہے سو ابھی تک میرے پاس روپیہ موجود نہیں جب آئے گا تو دوں گا۔ اس خبر کے سننے سے سخت حیرانی ہوئی اور وہ اضطراب پیشؔ آیا جو بیان نہیں ہوسکتا چنانچہ یہ عاجز اسی تردد میں سربزانو تھا اور اس تصوّر میں تھا کہ پانچ اور ایک مل کر چھ ہوئے اب اکیس کیونکر ہوں گے یا الٰہی یہ کیا ہوا۔ سو اسی استغراق میں تھا کہ یکدفعہ یہ الہام ہوا۔ بست ویک آئے ہیں اس میں شک نہیں۔ اس الہام پر دوپہر نہیں گزرے ہوں گے کہ اسی روز ایک آریہ کہ جو ڈاک منشی کے پہلے بیان کی خبر سن چکا تھا ڈاک خانہ میں گیا اور اس کو ڈاک منشی نے کسی بات کی تقریب سے خبر دی کہ دراصل 3بست روپیہ آئے ہیں اور پہلے یوں ہی مونہہ سے نکل گیا تھا جو میں نے پانچ روپیہ کہہ دیا۔ چنانچہ وہی آریہ 3بیس روپیہ معہ ایک کارڈ کے جو منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کی طرف سے تھا لے آیا اور معلوم ہوا کہ وہ کارڈ بھی منی آرڈر کے کاغذ سے نتھی نہ تھا اور نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ روپیہ آیا ہوا تھا۔ اور نیز منشی الٰہی بخش صاحب کی تحریر سے جو بحوالہ ڈاک خانہ کے رسید کی تھی یہ بھی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 626
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 626
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/626/mode/1up
کئی فرقوں اور قوموں میں پیغمبر بھیجے۔ پس وہ لوگ شیطاؔ ن کے دھوکا دینے سے بگڑ گئے اور برے کام ان کو اچھے دکھائی دینے لگے سو وہی شیطان آج اُن سب کا رفیق ہے جو ان کو جادۂ استقامت سے مُنحرف کررہا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے کہ تا ان لوگوں کا رفع اختلافات کیا جائے اور تا مومنوں کے لئے وہ ہدایتیں
دیکھ کر اس بات کے اقرار کے لئے مجبور ہوتا ہے کہ بلاشبہ وہ قادر مطلق کا کلام ہے۔ چنانچہ منجملہ ان خواص عالیہ کے ایکؔ خاصہ روحانی سورہ فاتحہ میں یہ ہے کہ دلی حضور
معلوم ہوا کہ منی آرڈر ۶ ستمبر ۳۸۸۱ ء کو یعنی اسی روز جب الہام ہوا قادیان میں پہنچ گیا تھا۔ پس ڈاک منشی کا سارا املاء انشاء غلط نکلا اور حضرت عالم الغیب کا سارا بیان صحیح ثابت ہوا پس اس مبارک دن کی یادداشت کے لئے ایک روپیہ کی شیرینی لے کر بعض آریوں کو بھی دی گئی فالحمد للّٰہ علی اٰلآۂ و نعمآۂ ظاھرھا و باطنھا۔
اے خدا اے چارۂ آزار ما
اے علاج گریہ ہائے زار ما
اے تو مرہم بخش جانِ ریش ما
اے تو دلدارِ دلِ غم کیش ما
از کرم برداشتی ہر بار ما
واز تو ہر بار و برِ اشجار ما
حافظ و ستاری از جود و کرم
بیکساں را یاری از لُطفِ اتم
بندۂؔ درماندہ باشد دل طپاں
ناگہاں درماں براری ازمیاں
عاجزی را ظلمتے گیرد براہ
ناگہاں آری برو صد مہر و ماہ
حسن و خلق و دلبری بر تو تمام
صحبتی بعد از لقائے تو حرام
آں خرد مندی کہ او دیوانہ ات
شمع بزم است آنکہ او پروانہ ات
ہر کہ عشقت در دل و جانش فتد
ناگہاں جانے در ایمانش فتد
عشق تو گردد عیاں بر روئے او
بوئے تو آید زبام و کوئے او
صد ہزاراں نعمتش بخشی ز جود
مہر ومہ را پیشش آری در سجود
خود نشینی از پئے تائید او
روئے تُو یاد اوفتد از دید او
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 627
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 627
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/627/mode/1up
جو پہلے کتابوں میں ناقص رہ گئی تھیں کامل طور پر بیان کی جائیں تا وہ کامل رحمت کا موجب ہو اور حقیقت حال یہ ہے کہ زمین ساری کی ساری مر گئی تھی خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور نئے سرے اُس مردہؔ زمین کو زندہ کیا یہ ایک نشانِ صداقت
سے اپنی نماز میں اسکو ورد کرلینا اور اسکی تعلیم کو فی الحقیقت سچ سمجھ کر اپنے دل میں قائم کرلیناتنویر باطن میں نہایت دخل رکھتا ہے۔ یعنی اس سے انشراح خاطر ہوتا ہے اوربشریت کی ظلمت دور ہوتی ہے اور حضرت مبدء فیوض کے فیوض انسان پر
بس نمایاں کارہا کاندر جہاں
می نمائی بہر اکرامش عیاں
خود کنی و خود کنانی کار را
خود دہی رونق تو آں بازار را
خاک را در یکدمے چیزے کنی
کز ظہورش خلق گیرد روشنی
بر کسی چوں مہربانی میکنی
از زمینی آسمانی میکنی
صد شعاعش می دہی چوں آفتاب
تا نماند طالبِ دیں در حجاب
تاز تاریکی برآید عالمے
تا نشاں یابند از کویت ہمے
زیں نشانہا بدرگان کور و کراند
صد نشاں بینند و غافل بگذرند
عشق ظلمت دشمنی باآفتاب
شب پرانِ سرمدی جان در حجاب
آں شہِ عالم کہ نامش مصطفی
سیدِ عشاق حق شمس الضحیٰ
آنکہ ہر نورے طفیل نور اوست
آنکہ منظور خدا منظور اوست
آنکہ بہرِ زندگی آبِ رواں
در معارف ہمچو بحر بیکراں
آنکہ بر صدق و کمالش در جہاں
صد دلیل و حجت روشن عیاں
آنکہ انوارِ خدا بر روئے او
مظہر کارِ خدائے کوئے او
آنکہ جملہ انبیا و راستاں
خادمانش ہمچو خاکِ آستاں
آنکہ مہرش میرساند تا سما
میکند چوں ماہِ تاباں درصفا
میدہد فرعونیاں را ہر زماں
چوں ید بیضائے موسیٰ صد نشاں
آںؔ نبی در چشم ایں کوران زار
ہست یک شہوت پرست و کیں شعار
شرمت آید اے سگ ناچیز وپست
می نہی نامِ یلاں شہوت پرست
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 628
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 628
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/628/mode/1up
اُس کتاب کا ہے پر ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں یعنی طالب حق ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ خدائے تعالیٰ وہ ذات کریم و رحیم ہے جس کا قدیم سے یہ قانون قدرت ہے کہ وہ ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے یعنی بارش سے پہلے چلاتا ہے یہاں تک کہ جب ہوائیں بھاری بدلیوں کو اٹھالاتی ہیں تو ہم کسی مُردہ شہر کی طرف
وارد ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور قبولیتِ الٰہی کے ؔ انوار اس پر احاطہ کرلیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ترقی کرتا کرتا مخاطباتِ الٰہیہ سے سرفراز ہوجاتا ہے اور کشوفِ صادقہ اور الہاماتِ واضحہ سے تمتع تام حاصل کرتا ہے اور حضرت الوہیت کے مقربین میں دخل پالیتا ہے اور وہ وہ عجائبات القائے غیبی اور کلام لاریبی اور استجابت ادعیہ اور کشفِ مغیبات
ایں نشانِ شہوتی ہست اے لئیم
کز رخش رخشاں بود نور قدیم
در شبی پیدا شود روزش کند
درخزاں آید دل افروزش کند
مظہرِ انوارِ آں بیچوں بود
در خرد از ہر بشر افزوں بود
اتباعش آں دہد دل را کشاد
کش نہ بیند کس بصد سالہ جہاد
اتباعش دل فروزد جاں دہد
جلوۂ از طاقتِ یزداں دہد
اتباعش سینہ نورانی کند
باخبر از یار پنہانی کند
منطق او از معارف پُر بود
ہر بیانِ او سراسر دُر بود
از کمالِ حکمت و تکمیل دیں
پا نہد بر اوّلین و آخریں
و از کمال صورت و احسن اتم*
جملہ خوباں را کند زیر قدم
تابعش چوں انبیا گردد ز نور
نورش افتد برہمہ نزدیک و دور
شیر حق پُر ہیبت از ربّ جلیل
دشمنان پیشش چو روباہ ذلیل
ایں چنیں شیری بود شہوت پرست
ہوش کن اے رو بہی ناچیز وپست
چیستی اے کورکِ فطرت تباہ
طعنہ بر خوباں بدیں روئے سیاہ
شہوتِ شاں از سر آزادی است
نے اسیرِ آں چو تو آں قوم مست
خود نگہ کن آں یکے زندانی است
وآں دگر داروغۂِ سلطانی است
گرچہ در یکجاست ہر دو را قرار
لیک فرقی ہست دوری آشکار
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 629
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 629
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/629/mode/1up
یعنی جس ضلع میں بباعث اِمساکِ باران زمین مُردہ کی طرح خشک ہوگئی ہو اُن ہواؤں کو ہانک دیتے ہیں پھر اس سے پانی اتارتے ہیں اور اس کے ذریعہؔ سے قسم قسم کے میوے پیدا کردیتے ہیں۔ اسی طرح روحانی مردوں کو موت کے گڑھے سے نکالا کرتے ہیں اور یہ مثال اس لئے بیان کی گئی تو کہ تم دھیان کرو اور اس بات کو سمجھ جاؤ کہ جیسا کہ ہم امساک باران کی شدت کے وقت مردہ زمین کو
اور تائید حضرت قاضی الحاجات اُس ؔ سے ظہور میں آتی ہیں کہ جس کی نظیر اس کے غیر میں نہیں پائی جاتی اگر مخالفین اس سے انکار کریں اور غالباً انکار ہی کریں گے تو اس کا ثبوت اس کتاب میں دیا گیا ہے اور یہ احقر ہریک طالب حق کی تسلی کرنے کو طیار ہے اور نہ صرف مخالفین کو بلکہ اسمی اور رسمی موافقین کو بھی کہ جو بظاہر مسلمان ہیں مگر محجوب
کار پاکاں بر بداں کردن قیاس
کارِ ناپاکاں بود اے بدحواس
کاملاں کز شوق دلبر می روند
باد و صد بارے سبکتر می روند
ایں کمال آمد کہ با فرزند و زن
ازہمہ فرزند و زن یکسو شدن
در جہان و باز بیرون از جہان
بس ہمیں آمد نشانِ کا ملاں
چوں ستوری زیر بار افتد بسر
در تہی رفتن سریع و تیز تر
ایں چنیں اسپی کجا آید بکار
نابکارست ایں در اسپانش مدار
اسپؔ آں اسپ استُ کو بارِ گران
می کشد ہم میردو بس خوش عنان
کاملے گر زن بدارد صد ہزار
صد کنیزک صد ہزاراں کاروبار
پس گر افتد در حضورِ او فتور
نیست آں کامل ز قربت ہست دور
نیست آں کامل نہ مردے زندہ جان
گر خرد مندی ز مردانش مخواں
کامل آں باشد کہ بافرزند و زن
باعیال و جملہ مشغولی تن
باتجارت باہمہ بیع و شرا
یک زماں غافل نگردد از خدا
ایں نشانِ قوّتِ مردانہ است
کاملاں را بس ہمیں پیمانہ است
سوختہ جانے ز عشقِ دلبرے
کے فراموشش کند با دیگرے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 630
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 630
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/630/mode/1up
زندہ کردیا کرتے ہیں ایسا ہی ہمارا قاعدہ ہے کہ جب سخت درجہ پر گمراہی پھیل جاتی ہے اور دل جو زمین سے مشابہ ہیں مرجاتے ہیں تو ہم ان میں زندگی کی روح ڈال دیتے ہیں اور جو زمین پاکیزہ ہے اُس کی تو کھیتی اللہ کے اذن سے جیسی کہ چاہئے نکلتی ہے اور جو خراب زمینؔ ہے اس کی صرف تھوڑی سی کھیتی نکلتی ہے اور عمدہ
مسلمان اور قالب بے جان ہیں جن کو اس ُ پر ظلمتؔ زمانہ میں آیات سماویہ پر یقین نہیں رہا اور الہامات حضرت احدیت کو محال خیال کرتے ہیں اور از قبیل اوہام اور وساوس قرار دیتے ہیں جنہوں نے انسان کی ترقیات کا نہایت تنگ اور منقبض دائر
او نظر دارد بغیر و دل بہ یار
دست درکار و خیال اندر نگار
دل طپاں در فرقتِ محبوب خویش
سینہ از ہجران یاری ریش ریش
اوفتادہ دور از روئے کسے
دل دواں ہر لحظہ در کوئے کسے
خم شدہ از غم چو ابروئے کسے
ہر زماں پیچاں چو گیسوئے کسے
دلبرش در شد بجان و مغز وپوست
راحت جانش بیاد رُوئے اوست
جاں شد اوکے جان فراموشش شود
ہر زماں آید ہم آغوشش شود
دیدہ چوں بر دلبرِ مست اوفتد
ہرچہ غیرِ اوست از دست اوفتد
غیر گو در بر بود دور است دور
یارِ دور افتادہ ہر دم در حضور
کاروبار عاشقاں کارِ جداست
برتر از فکر و قیاسات شماست
قوم عیارست دل در دلبری
چشمِ ظاہر بین بدیوار و دری
جاں خروشاں از پئے مہ پیکرے
بر زباں صد قصہا از دیگرے
فانیاں را مانعے از یار نیست
بچہ او زن برسر شان بارِ نیست
باد و صد زنجیر ہر دم پیش یار
خار با او گل گلِ اندر ہجر خار
تو بیک خارے براری صد فغان
عاشقاں خنداں بپائے جاں فشاں
عاشقاں در عظمتِ مولیٰ فنا
غرقہ دریائے توحید از وفا
کین و مہر شان ہمہ بہر خداست
قہر شان گرہست آں قہر خداست
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 631
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 631
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/631/mode/1up
کھیتی نہیں نکلتی اسی طرح سے ہم پھیر پھیر کر بتاتے ہیں تا جو شکر کرنے والے ہیں شکر کریں۔ اور پھر فرمایا کہ خدائے تعالیٰ وہ ذاتِ کریم و رحیم ہے کہ جو بروقت ضرورت ایسی ہوائیں چلاتا ہے جو بدلی کو ابھارتی ہیں پھر خدائے تعالیٰ اس بدلی کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کو تہہ بہ تہہ رکھتا ہے۔
بنارکھا ہے کہ جو صرف عقلی اٹکلوں اور قیاسی ڈھکوسلوں پر ختم ہوتا ہے اور دوسری طرف خدائے تعالیٰ کو بھی نہایت درجہ کاؔ ؔ کمزور اور ضعیف سا خیال کررہے ہیں۔ سو یہ عاجزان سب صاحبوں کی خدمت میں بادب تمام عرض کرتا ہے کہ اگراب تک تاثیرات قرآنی سے انکار ہے اور اپنے جہل قدیم پر اصرار ہے تواب نہایت نیک موقعہ ہے کہ یہ احقر خادمین
آن کہؔ در عشقِ احد محو وفناست
ہرچہ زو آید ز ذات کبریاست
فانی است و تیر اُو تیر حق است
صید او دراصل نخچیرِ حق است
آنچہ می باشد خدا را از صفات
خود دمد در فانیاں آں پاک ذات
خوئے حق گردد در ایشان آشکار
از جمال و از جلال کردگار
لطفِ شان لطفِ خدا ہم قہر شاں
قہر حق گردد نہ ہمچو دیگراں
فانیاں ہستند از خود دور تر
چوں ملائک کارکن از دادگر
گر فرشتہ قبض جانے میکند
یا کرم بر ناتوانے میکند
ایں ہمہ سختی و نرمی از خداست
او زِ خواہشہائے نفسِ خود جداست
ہم چنیں میدان مقامِ انبیاء
واصلان و فاصلاں از ماسواء
فانی اند و آلۂ ربانی اند
نور حق در جامۂ انسانی اند
سخت پنہاں در قبابِ حضرت اند
گم زِ خود در رنگ و آبِ حضرت اند
اخترانِ آسمانِ زیب و فر
رفتہ از چشمِ خلائق دور تر
کس ز قدر نور شاں آگاہ نیست
زانکہ ادنیٰ را باعلیٰ راہ نیست
کور کورانہ زند رائے دنی
چشمِ کورش بے خبر زاں روشنی
ہم چنیں تو اے عدوِّ مصطفیٰ
مے نمائی کورئ خود را بما
بر قمر عوعو کُنی از سگ رگے
نور مہ کمتر نہ گردد زیں سگے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 632
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 632
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/632/mode/1up
پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکلتا ہے پھر جن بندوں کو اپنے بندوں میں سے اس مینہ کاپانی پہنچاتا ہے تو وہ خوش وقت ہوجاتے ہیں اور ناگہانی طورؔ پرخدا ان کے غم کوخوشی کے ساتھ مُبدّل کردیتا ہے اور مینہ کے اترنے سے پہلے ان کو بباعث نہایت سختی کے کچھ امید باقی نہیں رہتی پھر یکدفعہ خدائے تعالیٰ ان کی دستگیری فرماتا ہے یعنی ایسے وقت میں بارانِ رحمت نازل ہوتاہے جب
اپنے ذاتی تجارب سے ہریک منکر کی پوری پوری اطمینان کرسکتا ہے اس لئے مناسب ہے کہ طالب حق بن کر اس احقر کی طرف رجوع کریں اور جو جو خواص کلام الٰہی کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس کو بچشم خود دیکھ لیں اور تاریکی اور ظلمت میں سے نکل کر نور حقیقی میں داخل ہوجائیں۔ اب تک تو یہ عاجز زندہ ہے مگر وجود خاکی کی کیا بنیاد اور جسم فانی کا کیا اعتماد۔ پس مناسب ہے کہ اس عام اعلان کو سنتے ہی احقاقِ حق اور ابطال باطل کی طرف توجہ کریں۔ تا اگر دعویٰ اس احقر کا بہ پایۂ ثبوت نہ پہنچ سکے تو منکر اور روگردان رہنے کے لئے ایک وجہ موجہ پیدا ہوجائے۔ لیکن اگر اس عاجز کے قول کی صداقت جیسا کہ چاہئے بہ پایۂ ثبوت پہنچ جائے تو خدا سے ڈر کر اپنے باطل خیالات سے باز آئیں اور طریقۂ حقّہ اسلام پر قدم
مصطفیٰ آئینۂ روئے خداست
منعکس دروے ہماں خوئے خداست
گر ندیدستی خدا او را بہ بیں
من رأنی قد رأی الحق ایں یقین
آنکہ آویزد بمستانِ خدا
خصم او گردد جنابِ کبریا
دست حق تائید ایں مستان کند
چوں کسی بادست حق دستاں کند
منزلِ شاں برتر از صد آسماں
بس نہاں اندر نہاں اندر نہاں
پا فشردہ در وفائے دلبرے
وازسرش برخاک افتادہ سرے
جانِ خود را سوختہ بہر نگار
زندہ گشتہ بعد مرگ صد ہزار
صاحب چشم اندر آنجا بے تمیز
چشمِ کوراں خود نباشد ہیچ چیز
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 633
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 633
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/633/mode/1up
لوگوں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں اور مینہ برسنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی اور پھر فرمایا کہ تو خدا کی رحمت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ اور اس کی رحمت کی نشانیوں پر غور کر کہ وہ کیونکر زمین کو اس کے مرنے کے پیچھے زندہ کرتا ہے بے شک وہی خدا ہے جس کی یہ بھی عادت ہےؔ کہ جب لوگ روحانی طور پر مرجاتے ہیں اور سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے تو اسی طرح وہ ان کو بھی زندہ کرتا ہے اور وہ ہرچیز پر قادر اور توانا ہے اسی نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہریک وادی اپنے اپنے اندازہ اور قدر کے موافق بہ نکلا یعنی ہریک شخص نے اپنی استعداد کے موافق فائدہ اٹھایا اور پھر فرمایا کہ وہ رسول اس وقت آیا کہ جب جنگل اور دریا میں فساد ظاہر ہوگیایعنی تمام روئے زمین پر ظلمت اور ضلالت پھیل گئی اور کیا اُمّی لوگ اور کیا اہل کتاب اور اہل علم سب کے سب بگڑ گئے اور کوئی حق پر قائم نہ رہا اور یہ سب فساد اس لئے ہوا کہ لوگوں کے دلوں سے خلوص اور صدق اٹھ گیا اور اُن کے اعمال خدا کے لئے نہ رہے بلکہ اُن میں
جماویں تا اس جہان میں ذلت اور رسوائی سے اور دوسرے جہان میں عذاب اور عقوبتؔ سے نجات پاویں۔ سو دیکھو اے بھائیو اے عزیزو اے فلاسفرو اے پنڈتو اے پادریو اے آریو اے نیچریو اے براہم دھرم والو کہ میں اس وقت صاف صاف اور علانیہ کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی کو شک ہو اور خاصۂ مذکورۂ بالا کے ماننے میں کچھ تامل ہو تو وہ بلاتوقف اس عاجز کی طرف رجوع کریں اور صبوری اور صدق دلی سے کچھ عرصہ تک صحبت میں رہ کر بیانات مذکورۂ بالا کی حقیت کو بچشم خود دیکھ لے ایسا نہ ہو کہ اس ناچیز کے گذرنے
روئےؔ شان آں آفتابے کاندراں
چشم مرداں خیرہ ہم چوں شپراں
تو خودی زن رائے تو ہمچوں زناں
ناقص ابنِ ناقص ابنِ ناقصاں
خوب گر نزدُِ تو زِشت است و تباہ
پس چہ خوانم نام تو اے روسیاہ
کوریت صد پردہ ہا بر تو فگند
وایں تعصبہائے تو بیخت بکند
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 634
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 634
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/634/mode/1up
بہت سا خلل واقعہ ہوگیا اور وہ سب رو بدنیا ہوگئے اور رو بحق نہ رہے اس لئے امداد الٰہی اُن سے منقطع ہوگئی۔ سو خدا نے اپنی حجت پوری کرنے کے لئے ان کے لئے اپنا رسول بھیجا تا ان کو ان کے بعض عملوں کا ؔ مزہ چکھاوے اور تا ایسا ہو کہ وہ رجوع کریں۔ کہہ زمین پر سیر کرو پھر دیکھو کہ جو تم سے پہلے کافر اور سرکش گزر چکے ہیں ان کا کیا انجام ہوا اور اکثر ان میں سے مشرک ہی تھے کیا انہوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہمارا یہی دستور اور طریق ہے کہ ہم خشک زمین کی طرف پانی روانہ کردیا کرتے ہیں پھر اس سے کھیتی نکالتے ہیں تا ان کے چارپائے اور خود وہ کھیتی کو کھاویں اور مرنے سے بچ جائیں سو تم کیوں نظر غور سے ملاحظہ نہیں کرتے تاتم اس بات کو سمجھ جاؤ کہ وہ کریم و رحیم خدا کہ جو تم کو جسمانی موت سے بچانے کے لئے شدّتِ قحط اور اِمساک باران کے وقت بارانِ رحمت نازل کرتا ہے وہ کیونکر شدت ضلالت کے وقت جو روحانی قحط ہے زندگی کا پانی نازل کرنے سے جو اس کا کلام ہے تم سے دریغ کرے۔
کے بعد کوئی نامنصف کہے کہ کب مجھ کو کھول کر کہا گیا کہ تا میں اس جستجو میں پڑتا۔ کب کسی نے اپنی ذمہ داری سے دعویٰ کیا تا میں ایسے دعویٰ کا ثبوت اس سے مانگتا۔ سو اے بھائیو۔ اے حق کے طالبو ادھر دیکھو کہ یہ عاجز کھول کر کہتا ہے اور اپنے خدا پر توکل کرکے جس کے انوار دن رات دیکھ رہا ہے اس بات کا ذمہ وار بنتا ہے کہ اگر تم دلی صدق اور صفائی سے حق کے جویاں اور خواہاں ہوکر صبر اور ارادت سے کچھ مدت تک اس احقر کی صحبت میں زندگی بسر کرو گے تو یہ بات تم پر بدیہی طور پر
اےؔ بسا محبوبِ آں ربِّ جلیل
پشت از کوری حقیر است و ذلیل
اے بسا کس خوردہ صد جامِ فنا
پیش ایں چشمت ُ پر از حرص و ہوا
گر نماندے از وجودِ تو نشاں
نیک بودے زیں حیاتِ چوں سگاں
زاغ گر زادی بجایت مادرت
نیک بود از فطرت بد گوہرت
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 635
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 635
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/635/mode/1up
اور پھر فرمایا کہ ہم نے رات اور دن دو نشانیاں بنائی ہیں یعنی انتشار ضلالت جو رات سے مشابہ ہے اور انتشار ہدایت جو دن سے مشابہؔ ہے۔ رات جو اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو دن کے چڑھنے پر دلالت کرتی ہے اور دن جب اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو رات کے آنے کی خبر دیتا ہے سو ہم نے رات کا نشان محو کرکے دن کا نشان رہنما بنایا یعنی جب دن چڑھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے اندھیرا تھا۔ سو دن کا نشان ایسا روشن ہے کہ رات کی حقیقت بھی اسی سے کھلتی ہے اور رات کا نشان یعنی ضلالت کا زمانہ اس لئے مقرر کیا گیا کہ دن کے نشان یعنی انتشارِ ہدایت
کھل جائے گی کہ فی الحقیقت وہ خواص روحانی جن کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے سورۃفاتحہ اور قرآن شریف میں پائے جاتے ؔ ہیں سو کیا مبارک وہ شخص ہے کہ جو اپنے دل کو تعصب اور عناد سے خالی کرکے اور اسلام کے قبول کرنے پر مستعد ہوکر اس مطلب کے حصول کے لئے بصدق و ارادت توجہ کرے اور کیا بدقسمت وہ آدمی ہے کہ اس قدر واشگاف باتیں سن کر پھر بھی نظر اٹھا کر نہ دیکھے اور دیدہ و دانستہ خدائے تعالیٰ کی *** اور غضب کا مورد بن جاوے۔ مرگ نہایت نزدیک ہے اور بازی اجل سر پر ہے۔ اگر جلد تر خدا سے ڈر کر اس عاجز کی باتوں کی طرف نظر نہیں کرو گے اور اپنی تسلی اور تشفی حاصل کرنے کے لئے صدق اور ارادت سے قدم نہیں اٹھاؤ گے تو میں ڈرتا ہوں کہ آپ لوگوں کا ایسا ہی انجام نہ ہو جیسا پنڈت دیانند آریوں کے سرگروہ کا انجام ہوا کیونکہ اس احقر نے ان کو ان کی وفات سے ایک مدت پہلے راہِ راست کی
زانکہؔ کذب و فسق و کفرت در سراست
وایں نجاست خواریت زاں بدتراست
تو ہلاکی اے شقی سرمدی
زانکہ از جانِ جہاں سرکش شدی
اے در انکار و شکے از شاہِ دیں
خادمان و چاکرانش ر ابہ بیں
کس ندیدہ از بزرگانت نشاں
نیست در دستُِ تو بیش از داستاں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 636
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 636
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/636/mode/1up
کی خوبی اور زیبائی اسی سے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ خوبصورت کا قدر و منزلت بدصورت سے ہی معلوم ہوتا ہے اس لئے حکمت الٰہیہ نے یہی چاہا کہ ظلمت اور نور علیٰ سبیل التبادل دنیا میں دَور کرتے رہیں۔ جب نور اپنے کمال کو پہنچ جائے تو ظلمت قدم بڑھاوے۔ اور جب ظلمت اپنے انتہائی درجہ تک پہنچ جائے تو پھر نور اپنا پیارا چہرہ دکھاوے سو استیلا ظلمت کا نور کے ظہور پر ایک دلیل ہے اور استیلانور کا ظلمت کے آنے کا ایک سبیل ہے۔ ہر کمالِ رَا زَوَالے مثل مشہور ہے سو اسؔ آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچ گئی اور برّ وبحر ظلمت
طرف دعوت کی اور آخرت کی رسوائی یاد دلائی اور ان کے مذہب اور اعتقاد کا سراسر باطل ہونا براہینِ قطعیہ سے اُن پر ظاہر کیا اور نہایت عمدہ اور کامل دلائل سے بادب تمام اُن پر ثابت کردیا کہ دہریوں کے ؔ بعد تمام دنیا میں آریوں سے بدتر اور کوئی مذہب نہیں کیونکہ یہ لوگ خدائے تعالیٰ کی سخت درجہ پر تحقیر کرتے ہیں کہ اس کو خالق اور رب العالمین نہیں سمجھتے اور تمام عالم کو یہاں تک کہ دنیا کے ذرّہ ذرّہ کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں اور صفت قدامت اور ہستی حقیقی میں اس کے برابر سمجھتے ہیں اگر ان کو کہو کہ کیا تمہارا پرمیشر کوئی روح پیدا کرسکتا ہے یا کوئی ذرّہ جسم کا وجود میں لاسکتا ہے یا ایسا ہی کوئی اور زمین و آسمان بھی بنا سکتا ہے یا کسی اپنے عاشق صادق کو نجاتِ ابدی دے سکتا ہے اور بار بار کتا بِلّا بننے سے بچا سکتا ہے یا اپنے کسی محب خالص کی توبہ قبول کرسکتا ہے تو ان سب باتوں کا یہی جواب ہے کہ ہرگز نہیں اس کو یہ قدرت ہی
لیکؔ گر خواہی بیابنگر زِما
صد نشانِ صدق شانِ مصطفی
ہاں بیا اے دیدہ بستہ از حسد
تا شعاعش پردۂ تو بر درد
صادقاں را نور حق تابد مدام
کاذباں مردند و شدُ تر کی تمام
مصطفی مہرِ درخشانِ خداست
بر عدوش ***ِ ارض و سماست
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 637
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 637
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/637/mode/1up
سے بھرگئے توہم نے مطابق اپنے قانون قدیم کے نورکے نشان کوظاہر کیا تادانشمند لوگ قادر مطلق کی قدرت نمایاں کو ملاحظہ کرکے اپنے یقین اور معرفت کو زیادہ کریں۔ اورپھر بعد اس کے فرمایا3الخ ۱ اِس سورۃ کا حقیقی مطلب جوایک بھاری صداقت پر مشتمل ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اس قاعدۂ کُلّی کا بیان فرمانا ہے کہ دنیا میں کب اورکس وقت میں کوئی کتاب اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے۔ سو وہ قاعدہ یہ ہے کہ جب دلوں پر ایک ایسی غلیظ ظلمت طاری ہوجاتی ہے کہ
نہیں کہ ایک ذرہ اپنی طرف سے پیدا کرسکے اور نہ اس میں یہ رحیمیت ہے کہ کسی اوتار یا کسی رکھی یا منی کو یا کسی ایسے کو بھی کہ جس پر وید اترا ہو ہمیشہ کے لئے نجات دے اور پھر اس کا مرتبہ ملحوظ رکھ کر مکتی خانہ سے باہر دفعہ نہ کرے اور اپنے اُس پیارے کو ؔ جس کے دل میں پرمیشر کی پریت اور محبت رچ گئی ہے بار بارُ کتابِلا بننے سے بچاوے۔
مگر افسوس کہ پنڈت صاحب نے اس نہایت ذلیل اعتقاد سے دست کشی اختیار نہ کی اور اپنے تمام بزرگوں اور اوتاروں وغیرہ کی اہانت اور ذلت جائز رکھی مگر اس ناپاک اعتقاد کو نہ چھوڑا۔ اور مرتے دم تک یہی ان کا ظن رہا کہ گو کیسا ہی اوتار ہو رام چندر ہو یا کرشن ہو یا خود وہی ہو جس پر وید اترا ہے پرمیشور کو ہرگز منظور ہی نہیں کہ اس پر دائمی فضل کرے بلکہ وہ اوتار بناکر پھر بھی انہیں کو کیڑے مکوڑے ہی بناتا رہے گا وہ کچھ ایسا سخت دل ہے کہ عشق اور محبت کا اس کو ذرا پاس نہیں اور ایسا ضعیف ہے کہ اس میں خودبخود بنانے کی ذرہ طاقت نہیں۔
ایںؔ نشان *** آمد کایں خساں
ماندہ اندر ظلمتی چوں شپراں
نے دلِ صافی نہ عقلے راہ بیں
راندۂ درگاہِ رب العالمیں
جان کنی صد کن بکینِ مصطفی
رہ نہ بینی جُز بدینِ مصطفی
تانہ نورِ احمد آید چارہ گر
کس نمی گیرد ز تاریکی بدر
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 638
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 638
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/638/mode/1up
یکبارگی تمام دل رو بدنیا ہوجاتے ہیں اور پھر رو بدُنیا ہونے کی شامت سے ان کے تمام عقائد و اعمال و افعال و اخلاق و آداب اور نیّتوں اور ہمتوں میں اختلال کلّی راہ پاجاتا ہے اور محبتِ الٰہیہ دلوں سے بکُلّی اٹھ جاتی ہے اور یہ عام وبا ایسا پھیلتا ہے کہ تمام زمانہ پر رات کی طرح اندھیرا چھا جاتا ہے تو ایسےؔ وقت میں یعنی جب وہ اندھیرا اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے رحمتِ الٰہیہ اس طرف متوجہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس اندھیری سے خلاصی بخشے اور جن طریقوں سے ان کی اصلاح قرین مصلحت ہے ان طریقوں کو اپنے کلام میں بیان فرماوے سو اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے
یہ پنڈت صاحب کا خوش عقیدہ تھا جس کو پرزور دلائل سے رد کرکے پنڈت صاحب پر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ خدائے تعالیٰ ہرگز ادھورا اور ناقص نہیں بلکہ مبدء ہے تمام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مستجمع ہے جمیع صفاتِ کاملہ کا اور واحد لاشریک ہے اپنی ذات میں اورؔ صفات ؔ میں اور معبودیت میں اور پھر اس کے بعد دو دفعہ بذریعہ خط رجسٹری شدہ حقیّت دین اسلام سے بدلائل واضحہ ان کو متنبہ کیا گیا اور دوسرے خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ اسلام وہ دین ہے جو اپنی حقیّت پر دوہرا ثبوت ہر وقت موجود رکھتا ہے ایک معقولی دلائل جن سے اُصولِ حقہ اسلام کی دیوار روئیں کی طرح مضبوط اور مستحکم ثابت ہوتی ہیں۔ دوسری آسمانی آیات و ربانی تائیدات اور غیبی مکاشفات اور رحمانی الہامات و مخاطبات اور دیگر خوارق عادات جو اسلام کے کامل متبعین سے ظہور میں آتے ہیں جن سے حقیقی نجات ایسے جہان میں سچے ایماندار کو
ازؔ طفیلِ اوست نور ہر نبی
نام ہر مرسل بنام او جلی
آں کتابے ہمچو خور دادش خدا
کز رخش روشن شد ایں ظلمت سرا
ہست فرقاں طیب و طاہر شجر
از نشانہا میدہد ہردم ثمر
صد نشانِ راستی دروَے پدید
نے چو دینِ تو بنایش برشنید
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 639
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 639
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/639/mode/1up
آیت ممدوحہ میں اشارہ فرمایا کہ ہم نے قرآن کو ایک ایسی رات میں نازل کیا ہے جس میں بندوں کی اصلاح اور بھلائی کے لئے صراط مستقیم کی کیفیت بیان کرنا اور شریعت اور دین کی حدود کو بتلانا از بس ضروری تھا یعنی جب گمراہی کی تاریکی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ جیسی سخت اندھیری رات ہوتی ہے تو اس وقت رحمت الٰہی اس طرف متوجہ ہوئی کہ اس سخت اندھیری کے اٹھانے کے لئے ایسا قوی ُ نور نازل کیا جائے کہ جو اس اندھیری کو دور کرسکے۔ سو خدا نے قرآن شریف کو نازل کرکے اپنے بندوں کو وہ عظیم الشان نور عطا کیا کہ جو شکوک اور شبہات کی اندھیری کو دور کرتا ہے اور روشنی کو پھیلاتا ہے۔ اس جگہ جاننا چاہئے کہ اس باطنی لیلۃؔ القدر کو ظاہری لیلۃ القدر سے کہ جو عندالعوام مشہور ہے کچھ منافات نہیں بلکہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ ہریک کام مناسبت سے کرتا ہے اور حقیقت باطنی کے لئے
ملتی ہے۔ یہ دونوں قسم کے ثبوت اسلام کے غیر میں ہرگز نہیں پائے جاتے اور نہ ان کو طاقت ہے کہ اس کے مقابلہ پر کچھ دم مارسکیں لیکن اسلام میں وجود اس کا متحقق ہے سو اگر ان دونوں قسم کے ثبوت میں سے کسی قسم کے ثبوت میں شک ہو تو اسی جگہ ؔ قادیان میں آکر اپنی تسلی کرلینی چاہئے اور یہ بھی پنڈت صاحب کو لکھا گیا کہ معمولی خرچ آپ کی آمدورفت کا اور نیز واجبی خرچ خوراک کا ہمارے ذمہ رہے گا اور وہ خط اُن کے بعض آریوں کو بھی دکھلایا گیا اور دونوں رجسٹریوں کی ان کی دستخطی رسید بھی آگئی پر انہوں نے حُبِّ دنیا اور ناموس دُنیوی کے باعث سے
پُرؔ ز اعجاز است آں عالی کلام
نور یزدانی درُو رخشد تمام
از خدائی ہا نمودہ کار را
بر دریدہ پردۂ کفار را
آفتاب است و کند چوں آفتاب
گرنہ کوری بیابنگر شتاب
اے مزوّر گر بیائی سوئے ما
واز وفا رخت افگنی در کوئے ما
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 640
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 640
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/640/mode/1up
جو ظاہری صورت مناسب ہو وہ اس کو عطا فرماتا ہے۔ سو چونکہ لیلۃ القدر کی حقیقت باطنی وہ کمال ضلالت کا وقت ہے جس میں عنایت الٰہیہ اصلاح عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے سو خدائے تعالیٰ نے بغرض تحقق مناسبت اس زمانہ ضلالت کی آخری جز کو جس میں ضلالت اپنے نکتہ کمال تک پہنچ گئی تھی خارجی طور پر ایک رات میں مقرر کیا اور یہ رات وہ رات تھی جس میں خداوند تعالیٰ نے دنیا کو کمال ضلالت میں پاکر اپنے پاک کلام کو اپنے نبی پر اتارنا ارادہ فرمایا۔ سو اس جہت سے نہایت درجہ کی برکات اس رات میں پیدا ہوگئیں یا یوں کہو کہ قدیم سے اسی ارادۂ قدیم کے رو سے پیدا تھی اور پھر اُس خاص رات میں وہ قبولیت اور برکت ہمیشہ کے لئے باقی رہی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ وہ ظلمت کا وقت کہ جو اندھیری رات سے مشابہ تھا جس کی تنویر کے لئے کلام الٰہی کا نور اترا اُس ؔ میں بباعث نزولِ قرآن
اس طرف ذرا بھی توجہ نہ کی یہاں تک کہ جس دنیا سے انہوں نے پیار کیا اور ربط بڑھایا تھا آخر بصد حسرت اس کو چھوڑ کر اور تمام درہم و دینار سے بمجبوری جدا ہوکر اس دارالفنا سے کوچ کرگئے اور بہت سی غفلت اور ظلمت اور ضلالت اور کفر کے پہاڑ اپنے سر پر لے گئے اور اُن کے سفر آخرت کی خبر بھی کہ جو اُن کو تیس اکتوبر ۳۸۸۱ ء میں پیش آیا تخمیناً تین ماہ پہلے خداوند کریم نے اس عاجز کو دے دی تھی چنانچہ یہ خبر بعض آریہ کو بتلائی بھی گئی تھی۔ خیر یہ سفر تو ہریک کو درپیش ہی ہے اور کوئی آگے اور کوئی پیچھے اس مسافر خانہ کو چھوڑنے والا ہے مگر یہ افسوس ایک بڑا افسوس ہے
و ؔ از سر صدق و ثبات و غم خوری
روزگارے در حضور ما بری
عالمے بینی زِ ربانی نشاں
سوئے رحماں خلق و عالم راکشاں
گر خلافِ واقعہ گفتم سخن
راضیم گر تو سرم بُری زِ تن
راضیم گر خلق بردارم کشند
از سرِ کیں با صد آزارم کشند
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 641
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 641
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/641/mode/1up
کی ایک رات ہزار مہینہ سے بہتر بنائی گئی۔ اور اگر معقولی طور پر نظر کریں تب بھی ظاہر ہے کہ ضلالت کا زمانہ عبادت اور طاعت الٰہی کے لئے دوسرے زمانہ سے زیادہ تر موجب قربت و ثواب ہے پس وہ دوسرے زمانوں سے زیادہ تر افضل ہے اور اس کی عبادتیں بباعث شدت و صعوبت اپنی قبولیت سے قریب ہیں اور اس زمانہ کے عابد رحمت الٰہی کے زیادہ تر مستحق ہیں کیونکہ سچے عابدوں اور ایمانداروں کا مرتبہ ایسے ہی وقت میں عنداللہ متحقّق ہوتا ہے کہ جب تمام زمانہ پر دنیا پرستی کی ظلمت طاری ہو اور سچ کی طرف نظر ڈالنے سے جان جانے کا اندیشہ ہو اور یہ بات خود ظاہر ہے کہ جب دل افسردہ اور مردہ ہوجائیں اور سب کسی کو جیفۂ دنیا ہی پیارا دکھائی دیتا ہو اور ہر طرف اس روحانی موت کی زہرناک ہوا چل رہی
کہ پنڈت صاحب کو خدا نے ایسا موقع ہداؔ یت پانے کا دیا کہ اس عاجز کو ان کے زمانہ میں پیدا کیا مگر وہ باوصف ہرطور کے اعلام کی ہدایت پانے سے بے نصیب گئے۔ روشنی کی طرف ان کو بلایا گیا مگر انہوں نے کم بخت دنیا کی محبت سے اُس روشنی کو قبول نہ کیا اور سر سے پاؤں تک تاریکی میں پھنسے رہے۔ ایک بندہ خدا نے بارہا اُن کو اُن کی بھلائی کے لئے اپنی طرف بلایا مگر انہوں نے اُس طرف قدم بھی نہ اٹھایا اور یونہی عمر کو بے جا تعصبوں اور نخوتوں میں ضائع کرکے حباب کی طرح ناپدید ہوگئے حالانکہ اس عاجز کے دس ہزار روپیہ کے اشتہار کا اول نشانہ وہی تھے اور اس وجہ سے ایک مرتبہ رسالہ برادر ھند میں بھی ان کے لئے اعلان چھپوایا گیا تھا مگر ان کی طرف سے کبھی صدا نہ اٹھی یہاں تک کہ خاک میں یا راکھ میں جاملے۔
راضیمؔ گر باشدم ایں کیفرے
خوں رواں برخاک افتادہ سرے
راضیم گر مال و جان و تن رود
و آنچہ از قسمِ بلا برمن رود
گردرُو غم رفتہ باشد بر زباں
راضیم بر ہر سزائے کاذباں
لیک گر توزیں سخن پیچی سرے
بر تو ہم نفرین ربِّ اکبرے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 642
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 642
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/642/mode/1up
ہو اور محبت الٰہیہ یک لخت دلوں سے اٹھ گئی ہو اور رو بحق ہونے میں اور وفادار بندہ بننے میں کئی نوع کے ضرر متصوّر ہوں نہ کوئی اس راہ کا رفیق نظر آوؔ ے اور نہ کوئی اس طریق کا ہمدم ملے بلکہ اس راہ کی خواہش کرنے والے پر موت تک پہنچانے والی مصیبتیں دکھائی دیں اور لوگوں کی نظر میں ذلیل اور حقیر ٹھہرتا ہو تو ایسے وقت میں ثابت قدم ہوکر اپنے محبوب حقیقی کی طرف رخ کرلینا اور ناہموار عزیزوں اور دوستوں اور خویشوں اور اقارب کی رفاقت چھوڑ دینا اور غربت اور بے کسی اور تنہائی کی تکلیفوں کو اپنے سر پر قبول کرلینا اور دکھ پانے اور ذلیل ہونے اور مرنے کی کچھ پرواہ نہ کرنا حقیقت میں ایسا کام ہے کہ بجز اولوالعزم مرسلوں اور نبیوں اور صدیقوں کے جن پر فضلِ احدیت کی بارشیں ہوتی ہیں اور جو اپنے محبوب
سو اؔ ے بھائیو اُنہیں پنڈت صاحب کے حال سے نصیحت پکڑو اور اپنے نفسوں پر ظلم نہ کرو سچی نجات کو ڈھونڈو تا اسی جہان میں اس کی برکتیں پاؤ۔ سچی اور حقیقی نجات وہی ہے جس کی اس جہان میں برکتیں ظاہر ہوتی ہیں اور قادر قوی کا وہی پاک کلام ہے کہ جو اسی جگہ طالبوں پر آسمانی راہ کھولتا ہے سو اپنے آپ کو دھوکا مت دو اور جس دین کی حقیت اسی دنیا میں نظر آرہی ہے اس پاک دین سے روگردان ہوکر اپنے دل پر تاریکی کا دھبہ مت لگاؤ ہاں اگر مقابلہ اور معارضہ کرنے کی طاقت ہے تو اسی سورۂ فاتحہ کے کمالات کے مساوی کوئی دوسرا کلام پیش کرو اور جو کچھ سورۂ فاتحہ کے خواص روحانی کی بابت اس عاجز نے لکھا ہے وہ کوئی سماعی بات نہیں ہے بلکہ یہؔ عاجز اپنے ذاتی تجربہ
زیںؔ سخنہا ہر کہ روگرداں بود
آں نہ مردے رہزن مرداں بود
اے خدا بیخِ خبیثانے برار
کز جفا باحق نمیدارند کار
دل نمیدارند و چشم و گوش ہم
باز سر پیچاں ازاں بدرِ اتم
دین شان بر قصہ ہا دارد مدار
گفتگوہا بر زباں دل بے قرار
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 643
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 643
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/643/mode/1up
کی طرف بلااختیار کھینچے جاتے ہیں اور کسی سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا اور حقیقت میں ایسے وقت کی ثابت قدمی اور صبر اور عبادت الٰہی کا ثواب بھی وہ ملتا ہے کہ جو کسی دوسرے وقت میں ہرگز نہیں مل سکتا۔ سو اسی جہت سے لیلۃ القدرکی ایسے ہی زمانہ میں بنا ڈالی گئی کہ جس میں بباعث سخت ضلالت کے نیکی پر قائم ہونا کسی بڑے جوانمرد کا کام تھا یہی زمانہ ہے جس میں جوانمردوں کی قدرومنزلت ظاہر ہوتی ہے اور نامردؔ وں کی ذلت بہ پایۂ ثبوت پہنچتی ہے یہی پرظلمت زمانہ ہے جو اندھیری رات کی طرح ایک خوفناک صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ سو اس طغیانی کی حالت میں کہ جو بڑے ابتلا کا وقت ہے وہی لوگ ہلاکت سے بچتے ہیں جن پر عنایات الٰہیہ کا ایک خاص سایہ ہوتا ہے پس انہیں موجبات سے خدائے تعالیٰ نے اسی زمانہ کی ایک جز کو جس میں ضلالت کی تاریکی غایت درجہ تک پہنچ چکی تھی لیلۃ القدر مقرر کیا اور پھر بعد اس کے جن سماوی برکات سے اس ضلالت کا تدارک کیا جاتا ہے
سے بیان کرتا ہے کہ فی الحقیقت سورۂ فاتحہ مظہرِ انوارِ الٰہی ہے اس قدر عجائبات اس سورۃ کے پڑھنے کے وقت دیکھے گئے ہیں کہ جن سے خدا کے پاک کلام کا قدر ومنزلت معلوم ہوتا ہے اس سورہ مبارکہ کی برکت سے اور اس کے تلاوت کے التزام سے کشفِ مغیبات اس درجہ تک پہنچ گیا کہ صدہا اخبار غیبیہ قبل از وقوع منکشف ہوئیں اور ہریک مشکل کے وقت اس کے پڑھنے کی حالت میں عجیب طور پر رفع حجاب کیا گیا اور قریب تین ہزار کے کشف صحیح اور رؤیا صادقہ یاد ہے کہ جو اب تک اس عاجز
فرقؔ بسیار است در دید و شنید
خاک بر فرقِ کسے کیں را ندید
دید را کُن جستجو اے ناتمام
ورنہ درکار خودی بس سردو خام
بر سماعت چوں ہمہ باشد بنا
آں نیفزاید جوئے صدق و صفا
صد ہزاراں قصہ از روئے شنید
نیست یکساں باجوئے کاں ہست دید
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 644
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 644
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/644/mode/1up
اس کی کیفیت ظاہر فرمائی اور بیان فرمایا کہ اس ارحم الراحمین کی یوں عادت ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال تک پہنچ جاتی ہے اور خط تاریکی کا اپنے انتہائی نقطہ پر جا ٹھہرتا ہے یعنی اس غایت درجہ پر جس کا نام باطنی طور پر لیلۃ القدر ہے۔ تب خداوند تعالیٰ رات کے وقت میں کہ جس کی ظلمت باطنی ظلمت سے مشابہ ہے عالم ظلمانی کی طرف توجہ فرماتا ہے اور اس کے اذن خاص سے ملائکہ اور روح القدس زمین پر اترتے ہیں اور خلق اللہ کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کا نبی ظہور فرماتا ہے تب وہ نبی آسمانی نور پاکر خلق اللہ کو ظلمت سے باہر نکالتا ہے اور جب تکؔ وہ ُ نور اپنے کمال تک نہ پہنچ جائے تب تک ترقی پر ترقی کرتا جاتا ہے اور اسی قانون کے مطابق وہ اولیاء بھی پیدا ہوتے ہیں کہ جو ارشاد اور ہدایت خلق کے لئے بھیجے جاتے ہیں کیونکہ وہ انبیا کے وارث ہیں سو ان کے نقش قدم پر چلائے جاتے ہیں۔
سے ظہور میں آچکے اور صبح صادق کے کھلنے کی طرح پوری بھی ہوچکی ہیں۔ اور دو سو جگہ سے زیادہ قبولیت دعا کے آثار نمایاں ایسےؔ نازک موقعوں پر دیکھے گئے جن میں بظاہر کوئی صورت مشکل کشائی کی نظر نہیں آتی تھی اور اسی طرح کشف قبور اور دوسرے انواع اقسام کے عجائبات اسی سورہ کے التزامِ ورد سے ایسے ظہور پکڑتے گئے کہ اگر ایک ادنیٰ پرتوہ اُن کا کسی پادری یا پنڈت کے دل پر پڑجائے تو یک دفعہ حُبِّ دنیا سے قطع تعلق کرکے اسلام کے قبول کرنے کے لئے مرنے پر آمادہ ہوجائے۔ اسی طرح بذریعہ الہاماتِ صادقہ کے جو پیشگوئیاں اس عاجز پر ظاہر ہوتی
دیںؔ ہمان باشد کہ نورش باقی است
و از شراب دید ہر دم ساقی است
دل مدہ الّا بخوبی کز جمال
و انماید بر تو آیاتِ کمال
کورئ خود ترک کن ماہے بہ بیں
اے گدا برخیز واں شاہے بہ بیں
رو بہ بین و قد بہ بین و خدبہ بیں
واز محاسنہائے خوباں صد بہ بیں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 645
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 645
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/645/mode/1up
اب جاننا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ نے اِس بات کو بڑے پُرزور الفاظ سے قرآن شریف میں بیان کیا ہے کہ دنیا کی حالت میں قدیم سے ایک مدّوجزر واقعہ ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے33۔۱ یعنی اے خدا کبھی تو رات کو دن میں اور کبھی دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی ضلالت کے غلبہ پر ہدایت اور ہدایت کے غلبہ پر ضلالت کو پیدا کرتا ہے۔ اور حقیقت اس مدوجزر کی یہ ہے کہ کبھی بامراللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں میں ایک صورت انقباض اور محجوبیت کی پیدا ہوجاتی ہے اور دنیا کی آرائشیں ان کو عزیز معلوم ہونے لگتی ہیں اور تمام ہمتیں ان کی اپنی دنیا کے درست کرنے میں اور اس کے عیش حاصل کرنے کی طرف مشغول ہوجاتی ہیں۔ یہ ؔ ظلمت کا زمانہ ہے جس کے انتہائی نقطہ کی رات لیلۃ القدر کہلاتی ہے اور وہ لیلۃ القدر ہمیشہ آتی
رہی ہیں جن میں سے بعض پیشگوئیاں مخالفوں کے سامنے پوری ہوگئی ہیں اور پوری ہوتی جاتی ہیں اس قدر ہیں کہ اس عاجز کے خیال میں دو انجیلوں کی ضخامت سے کم نہیں اور یہ عاجز بطفیل متابعت حضرت رسولِ کریم مخاطباؔ ت حضرت احدیّت میں اس قدر عنایات پاتا ہے کہ جس کا کچھ تھوڑا سا نمونہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ کے عربی الہامات وغیرہ میں لکھا گیا ہے۔ خداوند کریم نے اسی رسول مقبول کی متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے اور علومِ لدُنیہ سے سرفراز فرمایا ہے۔
یکدمؔ از خود دور شو بہرخدا
تا مگر نوشی تو کاساتِ لقا
دین حق شہر خدائے امجد است
داخلِ او در امانِ ایزد است
در دمے نیک و خوش اسلوبی کند
ہم چو خود زیبا و محبوبی کند
جانبِ اہلِ سعادت پے بزن
تا شوی روزے سعید اے جانِ من
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 646
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 646
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/646/mode/1up
ہے مگر کامل طور پر اس وقت آئی تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا دن آپہنچا تھا کیونکہ اس وقت تمام دنیا پر ایسی کامل گمراہی کی تاریکی پھیل چکی تھی جس کی مانند کبھی نہیں پھیلی تھی اور نہ آئندہ کبھی پھیلے گی جب تک قیامت نہ آوے۔ غرض جب یہ ظلمت اپنے اس انتہائی نقطہ تک پہنچ جاتی ہے کہ جو اس کے لئے مقدر ہے تو عنایت الٰہیہ تنویر عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور کوئی صاحب نور دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے اور جب وہ آتا ہے تو اس کی طرف مستعد روحیں کھینچی چلی آتی ہے اور پاک فطرتیں خودبخود رو بحق ہوتی چلی جاتی ہیں اور جیسا کہ ہرگز ممکن نہیں کہ شمع کے روشن ہونے سے پروانہ اس طرف رخ نہ کرے ایسا ہی یہ بھی غیر ممکن ہے کہ بروقت ظہور کسی صاحبِ ُ نور کے صاحب فطرت سلیمہ کا اس کی طرف بارادت متوجہ نہ ہو۔ ان آیات میں جو خدائے تعالیٰ نے بیان
اور بہت سے اسرار مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پُر کردیا ہے اور بارہا بتلا دیا ہے کہ یہ سب عطیّات اور عنایات اور یہ سب تفضّلات اور احسانات اور یہ سب تلطّفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیمن متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیںؔ ۔
جمالِ ہم نشین درمن اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
اب وہ واعظانِ انجیل اور پادریانِ گُم کردہ سبیل کہاں اور کدھر ہیں کہ جو پرلے درجہ کی
اےؔ بصد انکاروکیں از کودنی
رو درِ حق زن چرا سر می زنی
نالہا کُن کے خداوندِ یگاں
بگسلاں از پائے من بند گراں
تا مگر زاں نالہائے درد ناک
دست غیبی گیردت ناگہہ زِ خاک
بے عنایاتِ خدا کار است خام
پُختہ داند ایں سخن را والسلام
منہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 647
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 647
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/647/mode/1up
فرمایا ہے جو بنیاد دعویٰ ہے اُس کا خلاصہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ایک ایسی ظلمانی حالتؔ پر زمانہ آچکا تھا کہ جو آفتاب صداقت کے ظاہر ہونے کے متقاضی تھے اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں اپنے رسول کا بار بار یہی کام بیان کیا ہے کہ اس نے زمانہ کو سخت ظلمت میں پایا اور پھر ظلمت سے ان کو باہر نکالا جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ 3 3 ۔۱ الجزو نمبر ۳۱ سورۃ ابراہیم3 333۔۲ الجزو نمبر ۳۔ 3 33۔۳ الجزو نمبر ۲۲۔33 3۔۴ الجزو نمبر۶ سورۂ مائدہ۔
ہٹ دھرمی کو اختیار کرکے محض کینہ اور عناد اور شیطانی سیرت کی راہ سے عوام کالانعام کو یہ کہہ کر بہکاتے تھے کہ آنحضرت صلی۱للہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئی ظہور میں نہیں آئی سو اب منصفان حق پسند خود سوچ سکتے ہیں کہ جس حالت میں حضرت خاتم الانبیاء کے ادنیٰ خادموں اور کمترین چاکروں سے ہزارہا پیشگوئیاں ظہور میں آتی ہیں اور خوارق عجیبہ ظاہر ہوتے ہیں تو پھر کس قدر بے حیائی اور بے شرمی ہے کہ کوئی کور باطن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے انکار کرے اور پادریوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیؔ پیشگوئیوں کے بارہ میں اس وجہ سے فکر پڑی کہ توریت کتاب استثناء باب ہژدہم آیت بست و دوم میں سچے نبی کی یہ نشانی لکھی ہے کہ اس کی پیشگوئی پوری ہوجائے۔ سو جب پادریوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزارہا خبریں قبل از وقوع بطور پیشگوئی فرمائی ہیں اور اکثر پیشگوئیوں سے قرآن شریف بھی بھرا ہوا ہے اور وہ سب پیشگوئیاں اپنے وقتوں پر پوری بھی ہوگئیں تو ان کے دل کو یہ دھڑکا شروع ہوا کہ ان پیشگوئیوں پر نظر ڈالنے سے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 648
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 648
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/648/mode/1up
333 33۔۱ الجزو نمبر ۸۲۔ یعنی یہ ہماری کتاب ہے جس کو ہم نے تیرے پر اس غرض سے نازل کیا ہے کہ تا تو لوگوں کو کہ جو ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں نور کی طرف نکالے سوؔ خدا نے اُس زمانہ کا نام ظلمانی زمانہ رکھا اور پھر فرمایا کہ خدا مومنوں کا کارساز ہے ان کو ظلمات سے نور کی طرف نکال رہا ہے اور پھر فرمایا کہ خدا اور اس کے فرشتے مومنوں پر درود بھیجتے ہیں تا خدا ان کو ظلمت سے نور کی طرف نکالے اور پھر فرمایا کہ ظلمانی زمانہ کے تدارک کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نور آتا ہے وہ نور اس کا رسول اور اس کی کتاب ہے خدا اس نور سے ان لوگوں کو راہ دکھلاتا ہے کہ جو اس کی خوشنودی کے خواہاں ہیں سو ان کو خدا ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ہے اور سیدھی راہ کی
نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بدیہی طور پر ثابت ہوتی ہے اور یا یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو کچھ توریت یعنی کتاب استثنا۸۱ باب ۱۲ و ۲۲ آیت میں سچے نبی کی نشانی لکھی ہے وہ نشانی صحیح نہیں ہے سو اس پیچ میں آکر نہایت ہٹ دھرمی سے ان کو یہ کہنا پڑا کہ وہ پیشگوئیاں اصل میں فراستیں ہیں کہ اتفاقاً پوری ہوگئی ہیں لیکن چونکہ جس درخت کی بیخ مضبوط اور طاقتیں قائم ہیں وہ ہمیشہ پھل لاتا ہے۔ اس جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں اور دیگر خوارق صرف اسی زمانہ تک محدود نہیں تھے بلکہ اب بھی ان کا برابر سلسلہ جاری ہے اگر ؔ کسی پادری وغیرہ کو شک و شبہ ہو تو اس پر لازم و فرض ہے کہ وہ صدق اور ارادت سے اس طرف توجہ کرے پھر دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں کس قدر اب تک بارش کی طرح برس رہی ہیں لیکن اس زمانہ کے متعصب پادری اگر خودکشی کا ارادہ کریں تو کریں مگر یہ امید اُن پر بہت ہی کم ہے کہ وہ طالب صادق بن کر کمال ارادت اور صدق سے اس نشان کے جویاں ہوں۔ بہرحال دوسرے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 649
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 649
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/649/mode/1up
ہدایت دیتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا نے اپنی کتاب اور اپنا رسول بھیجا وہ تم پر کلام الٰہی پڑھتا ہے تا وہ ایمانداروں اور نیک کرداروں کو ظلمات سے نور کی طرف نکالے پس خدائے تعالیٰ نے ان تمام آیات میں کھلا کھلی بیان فرما دیا کہ جس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے اور قرآن شریف نازل کیا گیا اُس زمانہ پر ضلالت اور گمراہی کی ظلمت طاری ہورہی تھی اور کوئی ایسی قوم نہیں تھی کہ جو اس ظلمت سے بچی ہوئی ہو پھر بقیہ ترجمہ آیات ممدوحہ بالا کا یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایک رسولؔ بھیجا ہے کہ تمہاری حالت معصیت اور ضلالت پر شاہد ہے اور یہ رسول اُسی رسول کی مانند ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا اور ہم نے اس کلام کو ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ یہ اترا ہے یعنی یہ کلام ِ فی حدِّ ذَاتہٖ حق اور راست ہے اور اس کا آنا بھی حقاًّ و ضرورتاً ہے
لوگوں پر یہ بات واضح رہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اب بھی آفتاب کی طرح روشن ہیں اور دوسرے کسی نبی کی برکات کا نشان نہیں ملتا۔ تو اس صورت میں لازم ہے کہ اگر ایسے متعصب اور دنیا پرست پادری کسی بازار یا کسی شہر یا گاؤں میں کسی کو برخلاف اس حق الامر کے بہکاتے نظر آویں تو یہی موقعہ اس کتاب کا ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا جاوے۔ کیونکہ یہ کتاب دس ہزار روپیہ کے اشتہار پر تالیف کی گئی ہے اور اس سے معارضہ کرنے والا دس ہزار روپیہ پاسکتا ہے پس شرم اور حیا سے نہایت بعید ہے کہ جو لوگ نبوتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہیں وہ پنڈت ہوں یا پادری آریہ ہوں یا برہموں وہ صرف زبان سے طریق فضول گوئی کا اختیار رکھیں اور جو دلائل قطعیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور رسالت پر ناطق ہورہی ہیں ان کے جو ۱ب کا کچھ فکر نہ کریں یہ عاجز خواہ نخواہ ان کو دینِ اسلام کے قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتا لیکن اگر مقابلہ و معارضہ سے عاجز رہیں اور جو کچھ آسمانی نشان اور عقلی دلائل حقیتِ اسلام
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 650
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 650
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/650/mode/1up
یہ نہیں کہ فضول اور بے فائدہ اور بے وقت نازل ہوا ہے اے اہل کتاب تمہارے پاس ایسے وقت میں ہمارا رسول آیا ہے کہ جبکہ ایک مدت سے رسولوں کا آنا منقطع ہو رہا تھا۔ سو وہ رسول َ فترت کے زمانہ میں آکر تم کو وہ راہِ راست بتلاتا ہے جس کو تم بھول گئے تھے تا تم یہ نہ کہو کہ ہم یونہی گمراہ رہے اور خدا کی طرف سے کوئی بشیر و نذیر نہ آیا جو ہم کو متنبہ کرتا ۔ سو اب سمجھو کہ وہ بشیر نذیر جس کی ضرورت تھی آگیا اور خدا جو ہر چیز پر قادر ہے اُس نے تم کو گمراہ پاکر اپنا کلام اور اپنا رسول بھیج دیا۔ اور تم آگ کے گڑؔ ھے کے کنارہ تک پہنچ چکے تھے سو خدا نے تم کو اے ایماندارو نجات دی اسی طرح وہ اپنے نشان کو بیان فرماتا ہے تا تم ہدایت پا جاؤ اور تا عذاب کے نازل ہونے پر گمراہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اے خداتو نے قبل از عذاب اپنا رسول کیوں نہ بھیجا تا ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور مومن بن جاتے اور
پر دلالت کررہے ہیں اُن کی نظیر اپنے مذہب میں ؔ پیش نہ کرسکیں تو پھر یہی لازم ہے کہ جھوٹ کو چھوڑ کر سچے مذہب کو قبول کرلیں۔
اب پھر ہم اپنی اصل تقریر کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ جس قدر میں نے اب تک لطائف و معارف و خواص سورۃ فاتحہ لکھے ہیں وہ بدیہی طور پر بے مثل و مانند ہیں مثلًا جو شخص ذرا منصف بن کر اول اُن صداقتوں کے اعلیٰ مرتبہ پر غور کرے جو کہ سورۃ فاتحہ میں جمع ہیں اور پھر اس لطائف اور نکات پر نظر ڈالے جن پر سورہ ممدوحہ مشتمل ہے اور پھر حسنِ بیان اور ایجازِ کلام کو مشاہدہ کرے کہ کیسے معانی کثیرہ کو الفاظ قلیلہ میں بھرا ہؤا ہے اور پھر عبارت کو دیکھیئے کہ کیسی آب وتاب رکھتی ہے اور کسی قدر روانگی اور صفائی اور ملائمت اس میں پائی جاتی ہے کہ گویا ایک نہایت مصفّٰی اور شفّاف پانی ہے کہ بہتا ہؤا چلا جاتا ہے اور پھر اُس کی روحانی تاثیروں کو دل میں سوچے کہ جو بطور خارقِ عادت دلوں کو ظلمات بشریت سے صاف کرکے موردِ انوارِ حضرت الوہیت بناتی ہیں جن کو ہم اس کتاب کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 651
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 651
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/651/mode/1up
اگر خدا صالح لوگوں کے ذریعہ سے گمراہوں کا تدارک نہ فرماتا اور بعض کو بعض سے دفعہ* نہ کرتا تو زمین بگڑ جاتی پر یہ خدا کا فضل ہے کہ وہ گمراہی کے پھیلنے کے وقت اپنی طرف سے ہادی بھیجتا ہے کیونکہ تفضل اور احسان اُس کی عادت ہے اورتجھ کو ہم نے اس لیے بھیجا ہے کہ تمام عالم پر نظرِ رحمت کریں اور نجات کا راستہ اُن پر کھول دیں اور تا تُو لوگوں کو کہ غفلت کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں حق کی طرف توجہ دلاوے اوراُن کو خبردار کرے۔ کیا تُو یہ خیال کرتا ہے کہ اکثر لوگ اُن میں سے سُنتے اور سمجھتے ہیں نہیں یہؔ تو چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بدتر اور اگر خدا ان لوگوں سے
ہر موقعہ پر ثابت کرتے چلے جاتے ہیں228تو اُس پر قرآنِ شریف کی شانِ بلند جس سے انسانی طاقتیں مقابلہ نہیں کرسکتیں ایسی وضاحتؔ سے کھل سکتی ہے جس پر زیادت متصور نہیں اور اگر باوجود مشاہدہ اِن کمالات کے پھر بھی کسی کور باطن پر عدیم المثالی اُس کلامِ مقدس کی مشتبہ رہے تو اُس کا علاج قرآنِ شریف نے آپ ہی ایسا کیا
228یہ ؔ عاجز اِس مقام تک لکھ چُکا تھا کہ شہاب الدین نامی ایک شخص موحّد ساکن تھہ غلام نبی نے آکر بیان کیا کہ مولوی غلام علی صاحب اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری اور مولوی عبدالعزیز صاحب اور بعض دوسرے مولوی صاحبان اس قسم کے الہام سے کہ جو رسولوں کے وحی سے مشابہ ہے باصرارِ تمام انکار کررہے ہیں بلکہ اِن میں سے بعض مولوی صاحباؔ ن مجانین کے خیالات سے اُس کو منسوب کرتے ہیں۔ اور اُن کی اِس بارہ میں حجت یہ ہے کہ اگر یہ الہام حق اور صحیح ہے تو صحابہ جناب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اِس کے پانے کے لئے احق اور اَولیٰ تھے حالانکہ اُن کا پانا متحقق نہیں۔ اب یہ احقر عباد عرض کرتا ہے کہ اگر یہ اعتراض جو شہاب الدین موحّد نے مولوی صاحبوں کی طرف سے بیان کیا ہے حقیقت میں اُنہیں کے مونہہ سے نکلا ہے تو بجواب اِس کے ہر یک طالبِ صادق کو اور نیز حضراتِ ممدوحہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ عدم علم سے عدمِ شَے لازم نہیں آتا۔ کیا ممکن نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اِس قِسم کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 652
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 652
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/652/mode/1up
ان کے گناہوں کا مواخذہ کرتا تو زمین پر ایک بھی زندہ نہ چھوڑتا اور خدا وہ ذات کریم و رحیم ہے کہ جو بارش سے پہلے ہواؤں کو چھوڑتا ہے پھر ہم ایک پاک پانی آسمان سے اتارتے ہیں تا اس سے مری ہوئی بستی کو زندہ کریں اور پھر بہت سے آدمیوں اور ان کے چارپایوں کو پانی پلاویں اور ہم پھیر پھیر کر مثالیں بتلاتے ہیں تا لوگ یاد کرلیں کہ نبیوں کے بھیجنے کا یہی اصول ہے اور اگر ہم چاہتے تو ہریک بستی کے لئے جُدا جُدا رسول بھیجتے مگر یہ اس لئے کیا گیا کہ تا تجھ سے بھاری کوششیں ظہور میں آویں یعنی جب ایک مرد ہزاروں کا کام کرے گا تو بلاشبہ وہ بڑا اجر پائے گا اور
الہامات پائے ہوں مگر مصلحتِ وقت سے عام طور پر ان کو شائع نہیں کیا اور خدائے تعالیٰ کو ہریک نئے زمانہ میں نئے نئے مصالحہ ہیں پس نبوت کے عہد میں مصلحت ربانی کا یہی تقاضا تھا کہ جو غیر نبی ہے اُس کے الہامات نبی کی وحی کی طرح قلمبند نہ ہوں تا غیر نبی کے کلام سے تداخل واقعہ نہ ہوجائے لیکن اُس زمانہ کے بعد جس قدر اولیاء اور صاحب کمالات باطنیہ گزرے ہیں اُن سب کے الہامات مشہور و متعارف ہیں کہ جوہریک عصر میں قلمبند ہوتے چلے آئے ہیں اس کی تصدیق کے لئے شیخ عبدالقادر جیلانی اور مجدد الف ثانی کےؔ مکتوبات اور دوسرے اولیاء اللہ کی کتابیں دیکھنی چاہئیں کہ کس کثرت سے ان کے الہامات پائے جاتے ہیں بلکہ امام ربانی صاحب اپنے مکتوبات کی جلد ثانی میں جو مکتوب پنجاہ و یکم ہے اس میں صاف لکھتے ہیں کہ غیر نبی بھی مکالمات و مخاطبات حضرتِ احدیّت سے مشرّف ہوجاتا ہے اور ایسا شخص محدّث کے نام سے موسوم ہے اور انبیاء کے مرتبہ سے اُس کا مرتبہ قریب واقعہ ہوتا ہے ایسا ہی شیخ عبدالقادر جیلانی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 653
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 653
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/653/mode/1up
یہ امر اس کی افضلیت کا موجب ہوگا سو چونکہ آنحضرتؔ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور سب رسولوں سے بہتر اور بزرگتر تھے اور خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ جیسے آنحضرت اپنے ذاتی جوہر کے رو سے فی الواقعہ سب انبیاء کے سردار ہیں ایسا ہی ظاہری خدمات کے رو سے بھی ان کا سب سے فائق اور برتر ہونا دنیا پر ظاہر اور روشن ہوجائے اس لئے خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو کافہ بنی آدم کے لئے عام رکھا تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتیں اور کوششیں عام طور پر ظہور میں آویں۔ موسیٰ اور ابن مریم کی طرح ایک خاص
صاحب نے فتوح الغیب کے کئی مقامات میں اس کی تصریح کی ہے۔ اور اگر اولیاء اللہ کے ملفوظات اور مکتوبات کا تجسس کیا جائے تو اس قسم کے بیانات ان کے کلمات میں بہت سے پائے جائیں گے اور اُمتِ محمدیہ میں محدّثیّت کا منصب اِس قدر بکثرت ثابت ہوتا ہے جس سے انکار کرنا بڑے غافل اور بے خبر کا کام ہے۔ اس امت میں آج تک ہزارہا اولیاء اللہ صاحب کمال گذرے ہیں جن کی خوارق اور کرامات بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ثابت اور متحقق ہوچکی ہیں اور جو شخص تفتیش کرے اس کو معلوم ہوگا کہ حضرتِ احدیّت نے جیسا کہ اس امت کاخیر الامم نام رکھا ہے ایسا ہی اس امت کے اکابر کو سب سے زیادہ کمالات بھی بخشے ہیں جو کسی طرح چھپ نہیں سکتے اور اُن سے انکار کرنا ایک سخت درجہ کی حق پوشی ہے۔ اورؔ نیز ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ الزام کہ صحابہ کرام سے ایسے الہامات ثابت نہیں ہوئے بالکل بے جا اور غلط ہے کیونکہ احادیث صحیحہ کے رو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے الہامات اور خوارق بکثرت ثابت ہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ساریہ کے لشکر کی خطرناک حالت سے باعلام الٰہی مطلع ہوجانا جس کو بیہقی نے ابن عمر سے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 654
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 654
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/654/mode/1up
قوم سے مخصوص نہ ہوں اور تاہریک طرف سے اور ہریک گروہ اور قوم سے تکالیفِ شاقہ اٹھا کر اس اجر عظیم کے مستحق ٹھہرجائیں کہ جو دوسرے نبیوں کو نہیں ملے گا۔ اور پھر فرمایا کہ خدا وہ ہے کہ جو راتؔ کے بعد دن اور دن کے بعد رات لاتا ہے تا جس نے یاد کرنا ہو وہ یاد کرے یا شکر کرنا ہو تو شکر کرے یعنی دن کے بعد رات کا آنا اور رات کے بعد دن کا آنا اس بات پر ایک نشان ہے کہ جیسے ہدایت کے بعد ضلالت اور غفلت کا زمانہ آجاتا ہے ایسا ہی خدا کی طرف سے یہ بھی مقرر ہے کہ ضلالت اور غفلت کے بعد ہدایت کا زمانہ آتا ہے اور پھر فرمایا کہ خدا وہ ذات قادر مطلق ہے جس نے بشر کو اپنی قدرتِ کاملہ سے پیدا کیا پھر اُس کے لئے نسل اور رشتہ مقرر کردیا
یاد رکھو کہ ہرگز بنا نہ سکو گے سو اُس آگ سے ڈرو جو کافروں کے ؔ لئے طیار ہے۔ جس کا ایندھن کافر آدمی اور ان کے بت ہیں جونارِ جہنم کو اپنے گناہوں اور شرارتوں سے افروختہ کررہے ہیں یہ قول فیصل ہے کہ جو خدائے تعالیٰ نے منکرینِ
روایت کیا ہے اگر الہام نہیں تھا تو اور کیا تھا اور پھر اُن کی یہ آواز کہ یا ساریہ الجبل الجبل مدینہ میں بیٹھے ہوئے مونہہ سے نکلنا اور وہی آواز قدرتِ غیبی سے ساریہ اور اس کے لشکر کو دور دراز مسافت سے سنائی دینا اگر خارقِ عادت نہیں تھی تو اور کیا چیز تھی۔ اسی طرح جناب علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ کے بعض الہامات و کشوف مشہور و معروف ہیں ماسوا اس کے میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں اس بارہ میں شہادت دینا تسلی بخش امر نہیں ہے کیا اس نے صحابہ کرام کے حق میں نہیں فرمایا 3۔۱ پھر جس حالت میں خدائے تعالیٰ اپنے نبی کریم کے اصحاب کو امم سابقہ سے جمیع کمالات میں بہتر و بزرگتر ٹھہراتا ہے اور دوسری طرف بطور مشتے نمونہ از خروارے پہلی اُمتوں کے کاملین کا حال بیان کرکے کہتا ہے کہ مریم صدیقہ والدہ عیسیٰ اور ایسا ہی والدہ حضرت موسیٰ اور نیز حضرت مسیح کے حواری اورؔ نیز خضر جن میں سے کوئی بھی نبی نہ تھا یہ جب ملہم من اللہ تھے اور بذریعہ وحی اعلام اسرار غیبیہ سے مطلع کئے جاتے تھے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 655
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 655
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/655/mode/1up
اِسی طرح وہ انسان کی روحانی پیدائش پر بھی قادر تھا یعنی اس کا قانون قدرت روحانی پیدائش میں بعینہٖ جسمانی پیدائش کی طرح ہے کہ اول وہ ضلالت کے وقت میں کہ جو عدم کا حکم رکھتا ہے کسی انسان کو روحانی طور پر اپنے ہاتھ سے پیداؔ کرتا ہے اور پھر اس کے متبعین کو کہ جو اس کی ذُرّیت کا حکم رکھتے ہیں بہ برکت متابعت اس کی کے روحانی زندگی عطا فرماتا ہے سو تمام مرسل روحانی آدم ہیں اور اُن کی اُمت کے نیک لوگ اُن کی روحانی نسلیں ہیں اور روحانی اور جسمانی سلسلہ بالکل آپس میں تطابق رکھتا ہے اور خدا کے ظاہری اور باطنی قوانین میں کسی نوع کا
اعجازِ قرآنی کے ملزم کرنے کے لئے آپ فرما دیا ہے۔ اب اگر کوئی ملزم اور لاجواب رہ کر پھر بھی قرآن شریف کی بلاغت بے مثل سے منکر رہے اور بیہودہ گوئی اور ژاژ خائی
سو اب سوچنا چاہئیے کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اُمت محمدیہ کے کامل متبعین اُن لوگوں کی نسبت بوجہ اولیٰ ملہم و محدّث ہونے چاہیئیں کیونکہ وہ حسب تصریح قرآن شریف خیر الامم ہیں۔ آپ لوگ کیوں قرآن شریف میں غور نہیں کرتے اور کیوں سوچنے کے وقت غلطی کھا جاتے ہیں کیا آپ صاحبوں کو خبر نہیں کہ صحیحین سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی۱للہ علیہ وسلم اِس اُمت کے لئے بشارت دے چکے ہیں کہ اِس اُمت میں بھی پہلی اُمتوں کی طرح محدّث پیدا ہوں گے اور محدث بفتح دال وہ لوگ ہیں جن سے مکالمات و مخاطبات الٰہیہ ہوتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ ابن عباس کی قراء ت میں آیا ہے وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث الا اذا تمنّٰی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللّٰہ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اللّٰہ اٰیاتہ۔ پس اس آیت کے رو سے بھی جس کو بخاری نے بھی لکھا ہے محدّث کا الہام یقینی اور قطعی ثابت ہوتا ہے جس میں دخل شیطان کا قائم نہیں رہ سکتا اور خود ظاہر ہے کہ اگر خضر اور موسیٰ کی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 656
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 656
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/656/mode/1up
اختلاف نہیں۔ اور پھر فرمایا کہ کیا تُو خدا کی طرف دیکھتا نہیں کہ وہ کیونکر سایہ کو لمبا کھینچتا ہے یہاں تک کہ تمام زمین پر تاریکی ہی دکھائی دیتی ہے اور اگر وہ چاہتا تو ہمیشہ تاریکی رکھتا اور کبھی روشنی نہ ہوتی لیکن ہم آفتاب کو اس لئے نکالتے ہیں کہ تا اس بات پر دلیل قائم ہوکہ اُس سے پہلے تاریکی تھی یعنی تا بذریعہ روشنی کے تاریکی کا وجود شناخت کیا جائے کیونکہ ضد کے ذریعہ سے ضد کا پہچاننا ؔ بہت آسان ہوجاتا ہے اور روشنی کا قدرومنزلت اُسی پرکھلتا ہے کہ جو تاریکی کے وجود پر علم رکھتا ہو اور پھر فرمایا کہ ہم تاریکی کو روشنی کے ذریعہ سے تھوڑا تھوڑا دور کرتے جاتے ہیں تا
سے باز نہ آوے تو ؔ ایسے بے حیا منقلب الفطرت کا اس دنیا میں علاج نہیں ہوسکتا اس کے لئے وہی علاج ہے جس کا خدا نے اپنے قول فیصل میں وعدہ فرمایا ہے
والدہ کا الہام صرف شکوؔ ک اور شبہات کا ذخیرہ تھا اور قطعی اور یقینی نہ تھا تو ان کو کب جائز تھا کہ وہ کسی بے گناہ کی جان کو خطرہ میں ڈالتے یا ہلاکت تک پہنچاتے یا کوئی دوسرا ایسا کام کرتے جو شرعاً و عقلاً جائز نہیں ہے۔ آخر یقینی علم ہی تھا جس کے باعث سے وہ کام کرنا ان پر فرض ہوگیا تھا اور وہ امور اُن کے لئے روا ہوگئے کہ جو دوسروں کے لئے ہرگز روا نہیں۔ پھر ماسوا اِس کے ذرا انصافاًسوچنا چاہئیے کہ کوئی امر مشہود و موجود کہ جو بپایہ صداقت پہنچ چکا ہو اور تجاربِ صحیحہ کے رو سے راست راست ثابت ہوتا ہو صرف ظنی خیالات سے متزلزل نہیں ہوسکتا وَالظَّنُّ لَا یُغْنِیْ عَنِ الْحَقِّ شَیْءًا۔ سو اس عاجز کے الہامات میں کوئی ایسا امر نہیں ہے جو زیر پردہ اور مخفی ہو بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ جو صدہا امتحانوں کی بوتہ میں داخل ہوکر سلامت نکلی ہے اور خداوند کریم نے بڑے بڑے تنازعات میں فتح نمایاں بخشی ہے اس مقام میں یاد آیا کہ جو رویا صادقہ حصہ سوم میں ایک ہندوؔ کے مقدمہ کے بارہ میں لکھی گئی ہے اس میں بھی ایک عجیب نزاع و انکار کے موقع پر الہام ہوا تھا جس سے ایک بڑا قلق اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 657
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 657
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/657/mode/1up
اندھیرے میں بیٹھنے والے اُس روشنی سے آہستہ آہستہ منتفع ہوجائیں اور جو یکدفعی انتقال میں حیرت ووحشت مُتصوّر ہے وہ بھی نہ ہو سو اسی طرح جب دنیا پر روحانی تاریکی طاری ہوتی ہے تو خلقت کو روشنی سے منتفع کرنے کے لئے اور نیز روشنی اور تاریکی میں جو فرق ہے وہ فرق ظاہر کرنے کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے آفتابِ صداقت نکلتا ہے اور پھر وہ آہستہ آہستہ دنیا پر طلوع کرتا جاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کا یہ قانون قدرت ہے کہ جب زمین مر جاتی ہے تو وہ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ہم ؔ نے کھول کر یہ نشان بتلائے ہیں تاہو کہ لوگ
بعض شریر اور کینہ پرور آدمی جنہوں نے ضد اور نفسانیت پر مضبوطی سے قدم مار رکھا ہے۔ اور جن کو تعصب کی ُ تند اندؔ ھیری نے بالکل اندھا کردیا ہے وہ لوگوں کو یہ کہہ کر بہکاتے ہیں کہ جس قدر لطائف و نکات قرآن کے مسلمان لوگ ذکر کرتے ہیں اور جس قدر
کرب دور ہوا۔ تفصیل اِس کی یہ ہے کہ اِس رؤیا صادقہ میں کہ ایک کشفِؔ صریح کی قسم تھی۔ یہ معلوم کرایا گیا تھا کہ ایک کھتری ہندو بشمبرداس نامی جو اب تک قادیان میں بقید حیات موجود ہے مقدمہ فوجداری سے بری نہیں ہوگا مگر آدھی قید تخفیف ہوجائے گی لیکن اُس کا دوسرا ہم قید خوشحال نامی کہ وہ بھی اب تک قادیان میں زندہ موجود ہے ساری قید بھگتے گا سو اِس جُزو کشف کی نسبت یہ ابتلا پیش آیا کہ جب چیف کورٹ سے حسب پیشگوئی ایں عاجز مثل مقدمہ مذکورہ واپس آئی تو متعلقین مقدمہ نے اس واپسی کو بریت پر حمل کرکے گاؤں میں یہ مشہور کردیا کہ دونوں ملزم جرم سے بری ہوگئے ہیں مجھ کو یاد ہے کہ رات کے وقت میں یہ خبر مشہور ہوئی اور یہ عاجز مسجد میں عشاء کی نماز پڑھنے کو طیار تھا کہ ایک نے نمازیوں میں سے بیان کیا کہ یہ خبر بازار میں پھیل رہی ہے اور ملزمان گاؤں میں آگئے ہیں۔ سو چونکہ یہ عاجز علانیہ لوگوں میں کہہ چکا تھا کہ دونوں مجرم ہرگز جرم سے بری نہیں ہوں گے اس لئے جو کچھ غم اور قلق اور کرب اس وقت گزرا سو گزرا۔ تب خدا نے کہ جو اِس عاجز بندہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 658
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 658
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/658/mode/1up
سوچیں اور سمجھیں۔
ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف کی ضرورت نزول کی اور اس کے منجانب اللہ ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے کہ قرآن شریف ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب تمام اُمتوں نے اُصولِ حقہ کو چھوڑ دیا تھا اور کوئی دین روئے زمین پر ایسا نہ تھا کہ جو خدا شناسی اور پاک اعتقادی اور نیک عملی پر قائم اور بحال ہوتا بلکہ سارے دین بگڑگئے تھے اور ہریک مذہب میں طرح طرح کا فساد دخل کرگیا تھا اور خود لوگوں کے طبائع میں دنیا پرستی کی محبت اس قدر بھر گئی تھی کہ بجز دنیا اور دنیا کے ناموں اور دنیاکے آراموں
خواص عجیبہ اس کے مسلمانوں کی کتابوں میں اندراج پائے ہیں یہ سب انہیں کے فہم کی تیزی ہے اور انہیں کی طبیعتوں کے ایجادات ہیں ورنہ دراصل قرآن لطائف و نکات و خواصِ عجیبہ سے خالی ہے مگرؔ ایسے لوگ بجز اس کے کہ اپنا ہی حمق اور خبث
کاہریک حال میں حامی ہے نماز کے اول یا عین نماز میں بذریعہ الہام یہ بشارتؔ دی لا تخف انک انت الاعلٰی اور پھر فجر کو ظاہر ہوگیا کہ وہ خبر َ بری ہونے کی سراسر جھوٹی تھی اور انجام کار وہی ظہور میں آیا کہ جو اس عاجز کو خبر دی گئی تھی جس کو شرمپت نامی ایک آریہ اور چند دوسرے لوگوں کے پاس قبل از وقوع بیان کیا گیا تھا کہ جو اب تک قادیان میں موجود ہیں۔ پھر ایک اور ایسا ہی پروحشت ماجرا گزرا جس کا قصہ اس سے بھی عجیب تر ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک مقدمہ میں کہ اس عاجز کے والد مرحوم کی طرف سے اپنی زمینداری حقوق کے متعلق کسی رعیت پر دائر تھا اس خاکسار پر خواب میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اس مقدمہ میں ڈگری ہوجائے گی چنانچہ اس عاجز نے وہ خواب ایک آریہ کو کہ جو قادیان میں موجود ہے بتلا دی پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ اخیر تاریخ پر صرف مدعا علیہ معہ اپنے چند گواہوں کے عداؔ لت میں حاضر ہوا اور اس طرف سے کوئی مختار وغیرہ حاضر نہ ہوا۔ شام کو مدعا علیہ اور سب گواہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا۔ اِس خبر کو سنتے ہی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 659
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 659
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/659/mode/1up
اور دنیا کی عزتوں اور دنیا کی راحتوں اور دنیا کے مال و متاع کے اور کچھ ان کا مقصد نہیں رہاؔ تھا اور خدائے تعالیٰ کی محبت اور اس کے ذوق اور شوق سے بکُلّی بے بہرہ اور بے نصیب ہوگئے تھے اور رسوم اور عادت کو مذہب سمجھا گیا تھا پس خدا نے جس کا یہ قانون قدرت ہے کہ وہ شدتوں اور صعوبتوں کے وقت اپنے عاجز بندوں کی خبرلیتا ہے اور جب کسی سختی سے جیسے اِمساکِ باراں وغیرہ سے اس کے بندے قریب ہلاکت کے ہوجاتے ہیں بارانِ رحمت سے اُن کی مشکل کشائی کرتا ہے نہ چاہا کہ خلق اللہ ایسی بلا میں مبتلا رہے جس کا نتیجہ ہلاکت دائمی اور ابدی ہے سو اُس نے بہ تعمیل اپنے
ظاہر کریں انوارِ قرآنی پر پردہ ڈال نہیں سکتے۔ اُن کے جواب میں یہی کہنا کافی ہے کہ اگر مسلمانوں نے خود اپنی ہی زیرکی سے قرآن شریف میں انواع و اقسام کے لطائف و نکات و خواص ایجاد کر لئے ہیں اور اصل میں موجود نہیں تو تم بھی اُن کے مقابلہ پر کسی اپنی
وہ آریہ تکذیب اور استہزاء سے پیش آیا۔ اس وقت جس قدر قلق اور کرب گزرا بیان میں نہیں آسکتا۔ کیونکہ قریب قیاس معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک گروہ کثیر کا بیان جن میں بے تعلق آدمی بھی تھے خلاف واقعہ ہو اس سخت حزن اور غم کی حالت میں نہایت شدت سے الہام ہوا کہ جو آہنی میخ کی طرح دل کے اندر داخل ہوگیا اور وہ یہ تھا۔ ڈگری ہوگئی ہے مسلمان ہے۔ یعنی کیا تو باور نہیں کرتا اور باوجود مسلمان ہونے کے شک کو دخل دیتا ہے۔ آخر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ڈگری ہی ہوئی تھی اور فریق ثانی نے حکم کے سُننے میں دھوکا کھایا تھا۔ اسی طرح فی الواقعہ بلا مبالغہ صدہا الہام ہیں کہ جو فلق صبح کی طرح پورے ہوگئے اور بہت سے الہاماتؔ بطور اسرار ہیں جن کو یہ عاجز بیان نہیں کرسکتا۔ بارہا عین مخالفوں کی حاضری کے وقت میں ایسا کھلا کھلا الہام ہوا ہے جس کے پورا ہونے سے مخالفوں کو بجز اقرار کے اور کوئی راہ نظر نہیں آیا۔ ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ یکدفعہ بعض امور میں تین طرح
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 660
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 660
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/660/mode/1up
قانون قدیم کے کہ جو جسمانی اور روحانی طور پر ابتدا سے چلا آتا ہے قرآن شریف کو خلق اللہ کی اصلاح کے لئے نازل کیا اور ضرور تھا کہ ایسے وقت میں قرآن شریف نازل ہوتا کیونکہ اس پرظلمت زمانہ کی حالت موجودہ کوؔ ایسی عظیم الشان کتاب اور ایسے عظیم الشان رسول کی حاجت تھی اور ضرورتِ حقّہ اس بات کی متقاضی ہورہی تھی کہ اس تاریکی کے وقت میں جو تمام دنیا پر چھا گئی تھی اور اپنے انتہائی درجہ تک پہنچ چکی تھی آفتاب صداقت کا طلوع کرے کیونکہ بجز طلوع اُس آفتاب کے ہرگز ممکن نہ تھا کہ ایسی اندھیری رات خودبخود روز روشن کی صورت پکڑ جائے اور اسی کی طرف ایک دوسرے مقام میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور وہ یہ ہے۔
الہامی کتاب یا کسی ؔ دوسری کتاب سے اسی قدر لطائف و نکات و خواص ایجاد کرکے دکھلاؤ اور اگر تمام قرآن شریف کے مقابلہ پر نہیں تو صرف بطور نمونہ سورۃ فاتحہ کے مقابلہ پر جس کے کمالات کسی قدر اسی حاشیہ میں بیان کئے گئے ہیں کسی اور کتاب سے نکال کر پیش کرو
کا غم پیش آگیا تھا جس کے تدارک کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ اور بجز حرج و نقصان اٹھانے کے اور کوئی سبیل نمودار نہ تھی اسی روز شام کے قریب یہ عاجز اپنے معمول کے مطابق جنگل میں سیر کو گیا اور اس وقت ہمراہ ایک آریہ ملا وامل نامی تھا جب واپس آیا تو گاؤں کے دروازہ کے نزدیک یہ الہام ہوا ننجیک من الغمّ۔ پھر دوبارہ ہوا ننجیک من الغمّ الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شیء قدیر۔ یعنی ہم تجھے اس غم سے نجات دیں گے ضرور نجات دیں گے کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ چنانچہ اُسی قدم پر جہاںؔ الہام ہوا تھا۔ اُس آریہ کو اس الہام سے اطلاع دی گئی تھی اور پھر خدا نے وہ تینوں طور کا غم دور کردیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔ اور ایک اتفاقات عجیبہ سے یہ بات ہے کہ جس وقت شہاب الدین موحد نے مولوی صاحبان ممدوحین کی رائے بیان کی اسی رات انگریزی میں ایک الہام ہوا کہ جو شہاب الدین کو سنایا گیا۔ اور وہ یہ ہے۔ دوہ آل مین شڈبی اینگری بٹَ گوڈ اِز وِدیو۔ ہی شیل
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 661
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 661
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/661/mode/1up
3 333 ۔۱ یعنی جو لوگ اہل کتاب اور مشرکین میں سے کافر ہوگئے اُن کا راہ راست پر آنا بجز اس کے ہرگز ممکن نہ تھا کہ ان کی طرف ایسا عظیم الشان نبی بھیجا جاوے جو ایسی عظیم الشان کتاب لایا ہے کہ جو سب الٰہی کتابوں کے معارف اور صداقتوں پر محیط اور ہریک غلطی اور نقصان سے پاک اور منزّہ ہے۔ ابؔ اس دلیل کا ثبوت دو مقدموں کے ثبوت پر موقوف ہے اوّل یہ کہ خدائے تعالیٰ کا یہی قانون قدیم ہے کہ
افسوس کہاں سے یہ مادر زاد اندھے پیدا ہوگئے کہ جو اس قدر روشنی کو دیکھ کر پھر ؔ بھی اُن کی تاریکی دور نہیں ہوتی۔ ان کی باطنی بیماریوں کے مواد کس قدر ردّی اور متعفن ہورہے ہیں جنہوں نے ان کے تمام حواس ظاہری و باطنی کو بیکار کردیا ہے ذرا نہیں سوچتے کہ
ہیلپ ُ یو۔ وارڈس اوفَ گوڈ کین ناٹ ایکس چینج۔ یعنی اگر تمام آدمی ناراض ہوں گے مگر خدا تمہارے ساتھ ہے وہ تمہاری مدد کرے گا۔ خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ پھر ماسوا اس کے اور بھی چند الہامات ہوئے جو نیچے لکھے جاتے ہی۔ الخیر کلہ فی القراٰن کتاب اللہ الرحمان۔ الیہ یصعد الکلم الطیب۔ یعنی تمام بھلائی قرآنؔ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ وہی اللہ جو رحمان ہے اسی رحمان کی طرف کلمات طیبہ صعود کرتے ہیں۔ ھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا و ینشر رحمتہ۔ اللہ وہ ذات کریم ہے کہ جو ناامیدی کے پیچھے مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کو دنیا میں پھیلاتا ہے یعنی عین ضرورت کے وقت تجدید دین کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یجتبی الیہ من یشآء من عبادہ۔ جس کو چاہتا ہے بندوں میں سے چن لیتا ہے۔ وکذالک مننا علی یوسف لنصرف عنہ السوٓء والفحشاء ولتنذر قوما ما انذر
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 662
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 662
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/662/mode/1up
وہ جسمانی یا روحانی حاجتوں کے وقت مدد فرماتا ہے یعنی جسمانی صعوبتوں کے وقت بارش وغیرہ سے اور روحانی صعوبتوں کے وقت اپنا شفا بخش کلام نازل کرنے سے عاجز بندوں کی دستگیری کرتا ہے۔
سو یہ مقدمہ بدیہی الصداقت ہے کیونکہ کسی عاقل کو اس سے انکار نہیں کہ یہ دونوں سلسلے روحانی اور جسمانی اسی وجہ سے اب تک صحیح و سالم چلے آتے ہیں کہ خداوند کریم نیست و نابود ہونے سے ان کو محفوظ رکھتا ہے مثلاً اگر خدائے تعالیٰ جسمانی سلسلہ کی حفاظت نہ کرتا اور سخت سخت قحطوں کے وقت میں باران رحمت سے دستگیری نہ فرماتا تو بالآخر نتیجہ اس کا یہی ہوتا کہ لوگ پہلی فصلوں کی جس قدر پیداوار تھی سب کی سب کھالیتے اور پھر آگے اناج کےؔ نہ ہونے سے تڑپ تڑپ کر مرجاتے اور نوع انسان کا
قرآن شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں اپنی حکمتوں اپنی صداقتوں اپنی بلاغتوں اپنے لطائف و نکات اپنے انوارِ روحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بے نظیر ہوناؔ آپ ظاہر فرما دیا ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں کہ صرف مسلمانوں نے فقط اپنے خیال میں اس کی خوبیوں کو قرار دے دیا ہے بلکہ وہ تو خود اپنی خوبیوں اور اپنے کمالات کو بیان فرماتا ہے اور
اٰباء ھم فھم غافلون۔ اور اسی طرح ہم نے یوسف پر احسان کیا تاہم اس سے بدی اور فحش کو روک دیں اور تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادوں کو کسی نے نہیں ڈرایا سو وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس جگہ یوسف کے لفظ سے یہی عاجز مراد ہے کہ جو باعتبار کسی روحانی مناسبت کے اطلاق پایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بعد اس کے فرمایا۔ قل عندی شھادۃ من اللہ فھل انتم مؤمنون ان معی ربی سیھدین۔ رب اغفر وارحم من السمآء ربنا عاج۔ رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ۔ رب نجنی من غمی۔ ایلی ایلی لما سبقتنی۔ کرمہائے تو مارا کرد گستاخ۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 663
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 663
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/663/mode/1up
خاتمہ ہوجاتا یا اگر خدائے تعالیٰ عین وقتوں پر رات اور دن اور سورج اور چاند اور ہوا اور بادل کو خدماتِ مقررہ میں نہ لگاتا تو تمام سلسلہ عالم کا درہم برہم ہوجاتا اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرما کر کہا ہے۔ 33333 ۔۱ 333333۔ ۲ الجزو نمبر ۵۲۔ یعنی کیا یہ منکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں اور خدا پر جھوٹ باندھا ہے۔ اگر خدا چاہے تو اس کا اترنا بند کردے پر وہ بند نہیں کرتا کیونکہ اس کی عادت اسی پر جاری ہے کہ وہ احقاقِ حق اور ابطال باطل اپنے کلمات سے کرتا ہے۔ اور یہ
اپنا بے مثل و مانند ہونا تمام مخلوقات کے مقابلہ پر پیش کررہا ہے اور بلند آواز سے ھل من معارض کا نقارہ بجارہا ہے اور دقائق حقائقؔ اس کے صرف دو تین نہیں جس میں کوئی نادان شک بھی کرے بلکہ اس کے دقائق تو بحرِ ذخّار کی طرح جوش ماررہے ہیں اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں۔ کوئی صداقت
کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس کیا تم ایمان نہیں لاتے۔ یعنی خدائے تعالیٰ کا تائیداؔ ت کرنا اور اسرارِ غیبیہ پر مطلع فرمانا اور پیش از وقوع پوشیدہ خبریں بتلانا اور دعاؤں کو قبول کرنا اور مختلف زبانوں میں الہام دینا اور معارف اور حقائقِ الٰہیہ سے اطلاع بخشنا یہ سب خدا کی شہادت ہے جس کو قبول کرنا ایماندار کا فرض ہے۔ پھر بقیہ الہامات بالا کا ترجمہ یہ ہے کہ بہ تحقیق میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ بتلائے گا۔ اے میرے ربّ میرے گناہ بخش اور آسمان سے رحم کر ہمارا رب عاجی ہے(اس کے معنے ابھی تک معلوم نہیں ہوئے) جن نالائق باتوں کی طرف مجھ کو بلاتے ہیں ان سے اے میرے رب مجھے زندان بہتر ہے۔ اے میرے خدا مجھ کو میرے غم سے نجات بخش اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 664
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 664
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/664/mode/1up
منصب اُسیؔ کو پہنچتا ہے کیونکہ امراض روحانی پر اُسی کو اطلاع ہے اور ازالۂ مرض اور استرداد صحت پر وہی قادر ہے پھر بعد اس کے بطور استدلال کے فرمایا کہ اللہ وہ ذات کامل الرحمت ہے کہ اُس کا قدیم سے یہی قانون قدرت ہے کہ اس تنگ حالت میں وہ ضرور مینہ برساتا ہے کہ جب لوگ ناامید ہوچکتے ہیں پھر زمین پر اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور وہی کارسازِ حقیقی اور ظاھراً و باطنًا قابل تعریف ہے یعنی جب سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی تو اس صورت میں اس کا یہی قانون قدیم ہے کہ وہ ضرور عاجز بندوں
نہیں جو اُس سے باہر ہو کوئی حکمت نہیں جو اس کے محیط بیان سے رہ گئی ہو۔ کوئی نور نہیں جو اس کی متابعت سے نہ ملتا ہو اورؔ یہ باتیں بلاثبوت نہیں۔ کوئی ایسا امر نہیں جو صرف زبان سے کہا جاتا ہے بلکہ یہ وہ متحقق اور بدیہی الثبوت صداقت ہے کہ جو تیرہ سو برس سے برابر اپنی روشنی دکھلاتی چلی آئی ہے اور ہم نے بھی اس صداقت کو اپنی اس کتاب میں نہایت تفصیل سے لکھا ہے اور دقائق اور معارف قرآنی کو اس قدر بیان کیا ہے کہ جو ایک طالب صادق کیؔ تسلی اور تشفی کے لئے بحرِ عظیم کی طرح
تیری بخششوں نے ہم کو گستاخ کردیا۔ یہ سب اسرار ہیں کہ جو اپنے اپنے اوقات پر چسپان ہیں جن کا علم حضرت عالم الغیب کو ہے پھر بعد اس کے فرمایا ھو شعنا نعسا۔ یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں اور اِن کے معنے ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔ پھر بعد اس کے دو فقرے انگریزی ہیں جن کے الفاظ کی صحت بباعث سرعت الہام ابھی تک معلوم نہیں اور وہ یہ ہیں آئی لَو یو۔ آئی شیل گِو یوء لارج پارٹی اوف اسلام۔ چونکہ اس وقت یعنی آج کے دن اس جگہ کوئی انگریزی خوان نہیں اور نہ اس کے پورے پورے معنے کھلے ہیں اس لئے بغیر معنوں کے لکھا گیا ۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہے۔ یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الی (و مطھرک من الذین کفروا ۱)۔وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الٰی یوم القیامہ۔ ثلۃ من الاولین وؔ ثلۃ من الآخرین۔ اے عیسیٰ میں تجھے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 665
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 665
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/665/mode/1up
کی خبر لیتا ہے اور اُن کو ہلاکت سے بچاتا ہے اور جیسے وہ جسمانی سختی کے وقت رحم فرماتا ہے اسی طرح جب روحانی سختی یعنی ضلالت اور گمراہی اپنی حد کو پہنچ جاتی ہے اور لوگ راہِ راست پر قائم نہیں رہتے تو اِس حالت میں بھی وہ ضرور اپنی طرف سے کسی کو مشرّف بوحی کرکے اور اپنے نور خاص کی روشنی عطا فرما کر ضلالت کیؔ مہلک تاریکی کو اس کے ذریعہ سے اٹھاتا ہے اور چونکہ جسمانی رحمتیں عام لوگوں کی نگاہ میں ایک واضح امر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت ممدوحہ میں اول ضرورت فرقان مجید
جوش ماررہے ہیں۔ اب یہ کیونکر ہوسکے کہ کوئی شخص صرف مونہہ کی واہیات باتوں سے اس نور بزرگ کی کسر شان کرے۔ ہاں اگر کسی کے دل کو یہ وہم پکڑتا ہے کہ یہ تمام دقائق و معارف و لطائف و خوؔ اص کہ جو قرآن شریف میں ثابت کرکے دکھلائے گئے ہیں کسی دوسری
کامل اجر بخشوں گا یا وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا یا دنیا سے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیرے تابعین کو ان پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی تیرے ہم عقیدہ اور ہم مشربوں کو حجت اور برہان اور برکات کے رو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا۔ پہلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے۔ اس جگہ عیسیٰ کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے اور پھر بعد اس کے اردو میں الہام فرمایا۔ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم۔ اس جگہ ایک فتنہ ہے سو اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کر۔ فلما تجلّٰی ربہ للجبل جعلہ دکا۔ جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کردے گا۔ قوۃ الرحمان لعبید اللّٰہ الصمد۔ یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندہ کے لئے وہ غنی مطلق ظاہر کرے گا۔ مقام لا تترقی العبد فیہ بسعی الاعمال۔ یعنی عبداللہ الصمد ہونا ایک مقام ہے کہ جو بطریق موہبت خاص عطا ہوتا ہے کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ یا داء ودؔ عامل بالناس رفقا واحسانا واذاحییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا۔ واما بنعمت ربک فحدث
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 666
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 666
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/666/mode/1up
کی نازل ہونے کی بیان کرکے پھر بطور توضیح جسمانی قانون کا حوالہ دیا تادانشمند آدمی جسمانی قانون کو دیکھ کر کہ ایک واضحہ اور بدیہی امر ہے خدائے تعالیٰ کے روحانی قانون کو بآسانی سمجھ سکے اور اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ جو لوگ بعض کتابوں کا منزل من اللہ ہونا مانتے ہیں اُن کو تو خود اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ ؔ کتابیں ایسے وقتوں میں نازل ہوئی ہیں کہ جب ان کے نزول کی ضرورت تھی۔ پس اسی اقرار کے ضمن میں ان کو یہ دوسرا اقرار کرنا بھی لازم آیا کہ ضرورت کے وقتوں میں کتابوں کا نازل کرنا خدائے تعالیٰ کی عادت ہے لیکن ایسے لوگ کہ جو ضرورت کتبِ الٰہیہ سے منکر ہیں
کتاب سے بھی مستخرج ہوسکتے ہیں۔ تو ؔ مناظرہ کا سیدھا راستہ یہ ہے کہ ہ شرائط مذکورہ بالا کی رعایت سے اس کتاب کے لطائف و معارف و خواص پیش کرے اور جس طرح قرآن تمام عقائد باطلہ کی ردّ پر مشتمل ہے اور جس طرح وہ پاک کلام ہریک عقیدہ صحیحہ کو دلائلِ عقلیہ سے
یو مسٹ ڈو وہات آئی ٹولڈ یو۔ تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے اشکر نعمتی رأیت خدیجتی انک الیوم لذوحظ عظیم۔ انت محدث اللّٰہ فیک مادۃ فاروقیۃ۔ اے داؤد خلق اللہ کے ساتھ رفق اور احسان کے ساتھ معاملہ کر اور سلام کا جواب احسن طور پردے۔ اور اپنے رب کی نعمت کا لوگوں کے پاس ذکر کر میری نعمت کا شکر کر کہ تُو نے اُس کو قبل از وقت پایا آج تجھے حظ عظیم ہے تو محدث اللہ ہے تجھ میں مادۂ فاروقی ہے۔ سلام علیک یا ابراھیم۔ انک الیوم لدینا مکین امین۔ ذو عقل متین۔ حب اللّٰہ خلیل اللّٰہ اسد اللّٰہ و صل علی محمد۔ ما ودعک ربک و ما قلی۔ الم نشرح لک صدرک۔ الم نجعل لک سھولۃ فی کل امر بیت الفکر و بیت الذکر۔ و من دخلہ کان اٰمنا۔ تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم۔ تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانتدار اور قوی العقل ہے اور دوست خدا ہے خلیل اللہ ہے اسداللہ ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیج۔ یعنی یہ اس نبی کریم کی متابعت کا نتیجہ ہے اور بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدا نے تجھ کو ترک نہیں کیا اور نہ وہ تجھ پر ناراض ہے کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھولا۔ کیا ہم نے ہریک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 667
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 667
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/667/mode/1up
جیسے برہمو سماج والے سو ان کے ملزم کرنے کیلئے اگرچہ بہت کچھ ہم لکھ چکے ہیں لیکن اگران میں ایک ذرا انصاف ہوتو ان کو وہی ایک دلیل کافی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے آیات گذشتۂبالا میں آپ بیان فرمائی ہے کیونکہ جس حالت میں وہؔ لوگ مانتے ہیں کہ حیاتِ ظاہری کا تمام انتظام خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہی اپنی آسمانی روشنی اور بارانی پانی کے ذریعہ سے دنیا کو تاریکی اور ہلاکت سے بچاتا ہے تو پھر وہ اس اقرار سے کہاں بھاگ سکتے ہیں کہ حیات باطنی کے وسائل بھی آسمان ہی سے
ثابت کرتا ہے اور جس طرح ان صحف مقدسہ میں معارف و حقائق الٰہیہ مندرج ہیں اور جس طرح ان میں تنویرِ قلبؔ کے متعلق خواصِ عجیبہ اور تاثیراتِ غریبہ پائے جاتے ہیں جن کو ہم نے اس کتاب میں ثابت کردیا ہے وہ سب اپنی کتاب میں پیش کرکے دکھلاوے اور جب تک
عطا کیا۔ اور جو شخص بیت الذکر میں باخلاص و قصد تعبد وصحت نیت و حسن ایمان داخل ہوگا وہ سوئے خاتمہ سے امن میں آجائے گا۔ بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہؔ جو اس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے اور آخری فقرہ مذکورہ بالا اسی مسجد کی صفت میں بیان فرمایا ہے جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے اور وہ یہ ہے۔ مبارک و مبارک وکل امر مبارک یجعل فیہ یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہریک امر مبارک اس میں کیا جائے گا۔ پھر بعد اس کے اس عاجز کی نسبت فرمایا۔ رفعت و جعلت مبارکا۔ تو اونچا کیا گیا اور مبارک بنایا گیا۔ والذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون۔ یعنی جو لوگ ان برکات و انوار پر ایمان لائیں گے کہ جو تجھ کو خدائے تعالیٰ نے عطا کئے ہیں اور ایمان ان کا خالص اور وفاداری سے ہوگا تو ضلالت کی راہوں سے امن میں آجائیں گے اور وہی ہیں جو خدا کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں۔ یریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ۔ قل اللّٰہ حافظہ۔ عنایۃ اللّٰہ حافظک۔ نحنؔ نزّلناہ وانا لہ لحافظون۔ اللّٰہ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین۔ ویخوفونک من دونہ۔ ائمۃ الکفر۔ لا تخف انک انت الاعلٰی ینصرک اللّٰہ فی مواطن۔ ان یومی لفصل عظیم۔ کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی لا مبدل لکلماتہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 668
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 668
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/668/mode/1up
نازل ہوتے ہیں اور خود یہ نہایت کوتہ اندیشی اور قلّتِ معرفت ہے کہ ناپائیدار حیات کا اہتمام تصرّف خاص الٰہی سے تسلیم کرلیا جاوے لیکن جو حقیقی حیات اور لازوال زندگی ہے یعنی معرفت الٰہی اور نور باطنی یہ صرف اپنی ہی عقلوں کا نتیجہ قرار دیا جائے۔ کیا وہ خدا جس نے جسمانی سلسلہ کے برپا رکھنے کے لئے اپنی الوہیت کی قوی طاقتوں کو ظاہر کیا ؔ ہے اور بغیر وسیلہ انسانی ہاتھوں کے زبردست قدرتیں دکھائی ہیں وہ روحانی طور پر اپنی طاقت ظاہر کرنے کے وقت ضعیف اور کمزور خیال
ایسا نہ کرے تب تک کسی کے عو عو کرنے سےؔ چاند کے نور میں کچھ فرق نہیں آسکتا بلکہ ایسے شخص کی حالت نہایت افسوس کے لائق ہے کہ جو اب تک بدیہی صداقت سے بدنصیب اور محروم رہنے کے لئے دانستہ ضلالت کی راہوں میں قدم رکھتا ہے۔ ہمارے مخالفوں میں سے کئی صاحب مشہور و نامور ہیں اور جہاں تک ہم خیال کرتے ہیں ان کے علم اور فہم کی نسبت ہمارا یہی یقین ہے کہ اگر انصاف پر آویں تو ان صداقتوں کو بدیہی طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری نیت میں ہرگز نفسانیت کا جھگڑا نہیں اور بجز اس کے کہ دنیا میں سچائی اور نیکی پھیلائی جائے اور کوئی غرض نہیں اس لئے منصف مزاج ذی علم لوگوں سے یہی درخواست ہے کہ
بصآئر للناس۔ نصرتک من لدنی۔ انی منجیک من الغم۔ وکان ربک قدیرا۔ انت معی وانا معک۔ خلقت لک لیلا ونھارا۔ اعمل ما شئت فانی قد غفرت لک۔ انت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق۔ مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ تا خدا کے نور کو بجھاویں کہہ خدا اس نور کا آپ حافظ ہے۔ عنایت الٰہیہ تیری نگہبان ہے۔ ہم نے اُتارا ہے اور ہم ہی محافظ ہیں۔ خدا خیر الحافظین ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے اور تجھ کو اور اور چیزوں سے ڈرائیں گے۔ یہی پیشوایان کفر ہیں۔ مت خوف کر تجھی کو غلبہ ہے یعنی حجت اور برہان اور قبولیت اور برکت کے رو سے تو ہی غالب ہے۔ خدا کئی میدانوں میں تیری مدد کرے گا یعنی مناظرات و مجادلات بحث میں تجھ کو غلبہ رہے گا۔ پھر فرمایا کہ میرا دن حق اور باطل میں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 669
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 669
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/669/mode/1up
کیا جاسکتا ہے کیا ایسا خیال کرنے سے وہ کامل رہ سکتا ہے یا اس کی روحانی طاقتوں کا ثبوت میسر آسکتا ہے۔ حقیقی تسلی جس کی بنیاد ایک محکم یقین پر ہونی چاہئے صرف قیاسی خیالات سے ممکن نہیں بلکہ خیالات قیاسی کی بڑی سے بڑی ترقی ظنِّ غالب تک ہے اور وہ بھی اس حالت میں کہ جب قیاس انکار کی طرف جھک نہ جائے غرض عقلی وجوہ بالکل غیر تسلی بخش اور آخری حدِّ عرفان سے پیچھے رہے ہوئے ہیں اور اُن کی اعلیٰ سے اعلیٰ پہنچ صرف ظاہری
وہ بھی ایک ساعت کے لئے صادقانہ نیت کو استعمال میں لاویں۔ جس حالت میں ان کی فراخ دلی اور نیک طینتی ان کی قوم میں مسلّم الثبوت ہے تو ہم کیونکر ناامید ہوسکتے ہیں یا کیونکر گمان کرسکتے ہیں کہ اس نیک منشی کا اس سے زیادہ وسیع ہونا ممکن نہیں اس لئے گو میں نے اب تک کسی صاحب مخالف کو منصفانہ قدم اٹھاتے نہیں پایا لیکن تاہم ابھی
فرق بیّن کرے گا۔ خدا لکھ چکا ہے کہ غلبہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو ہے۔ کوئی نہیں کہ ؔ جو خدا کی باتوں کو ٹال دے۔ یہ خدا کے کام دین کی سچائی کے لئے حجت ہیں۔ میں اپنی طرف سے تجھے مدد دوں گا میں خود تیرا غم دور کروں گا۔ اور تیرا خدا قادر ہے۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں تیرے لئے میں نے رات اور دن پیدا کیا جو کچھ تو چاہے کر کہ میں نے تجھے بخشا۔ تو مجھ سے وہ منزلت رکھتا ہے جس کی لوگوں کو خبر نہیں۔ اس آخری فقرہ کا یہ مطلب نہیں کہ منہیات شرعیہ تجھے حلال ہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تیری نظر میں منہیات مکروہ کئے گئے ہیں اور اعمال صالحہ کی محبت تیری فطرت میں ڈالی گئی ہے۔ گویا جو خدا کی مرضی ہے وہ بندہ کی مرضی بنائی گئی اور سب ایمانیات اس کی نظر میں بطور فطرتی تقاضا کے محبوب کی گئی۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء۔ وقالوا ان ھو افک افتری۔ وما سمعنا بھذا فی اٰبائنا الاولین ولقد کرمنا بنی ادم وفضلنا بعضھم علی بعض۔ اجتبیناھم و اصطفیناھم کذالک لیکون اٰیۃ للمؤمنین۔ ام حسبتم ان اصحاب الکھف و الرقیم کانوا من اٰیاتنا عجبا۔ قل ھو اللہ عجیب۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 670
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 670
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/670/mode/1up
اٹکلوں تکؔ ہے جن سے روح کو حقیقی انشراح اور عرفان حاصل نہیں ہوتا اور اندرونی آلائشوں سے پاکیزگی میسر نہیں آتی بلکہ ایسا انسان فقط سفلی خیالات کا بندہ بن کر مقاماتِ حریری کے ابوزید کی طرح اپنے علوم و فنون کو مکرو فریب کا آلہ بناتا ہے اور سب لسانی اور خوش بیانی اُس کی دام تزویر ہی ہوتی ہے۔ کیا انسان کی کمزور عقل اپنی تنہائی کی حالت میں اس کو اس محبس سے نکال سکتی ہے کہ جو جذباتِ نفس اور جہل اور غفلت کی وجہ سے اس کے نصیب ہورہا ہے۔ کیا انسانی خیالات میں کوئی ایسی طاقت بھی موجود ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کے علم اور قوت سے
تک رائے میری ایک محکم یقین پر قائم ہے اور بہت مضبوط امید سے میں خیال رکھتا ہوں کہ جب ہمارے منصف مزاج مخالفین نہایت غائر اور عمیق نظر سے اس طرف متوجہ ہوں گے تو خود ان کی اپنی نگاہیں ان کے وساوس دور کرنے کے لئے کافی ہوں گی۔ مجھے امید تھی
کل یوم ھو فی شان۔ ففھمنا ھا سلیمان و جحدوا بھا و استیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا۔ سنلقی فی قلوبھم الرعب۔ قل جاء کم نور من اللہ فلا تکفروا ان کنتم مؤمنین۔ سلام علی ابراھیم صافیناہ و نجیناہ من الغم تفردنا بذالک۔ فاتخذوا من مقام ابراھیمؔ مصلّٰی۔ اور کہیں گے کہ یہ جھوٹ بنالیا ہے ہم نے اپنے بزرگوں میں یعنی اولیاء سلف میں یہ نہیں سنا حالانکہ بنی آدم یکساں پیدا نہیں کئے گئے بعض کو بعض پر خدا نے بزرگی دی ہے اور ان کو دوسروں میں سے چن لیا ہے یہی سچ ہے تا مومنوں کے لئے نشان ہو کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہمارے عجیب کام فقط اصحاب کہف تک ہی ختم ہیں نہیں بلکہ خدا تو ہمیشہ صاحب عجائب ہے اور اس کے عجائبات کبھی منقطع نہیں ہوتے۔ ہر یک دن میں وہ ایک شان میں ہے پس ہم نے وہ نشان سلیمان کو سمجھائے یعنی اس عاجز کو اور لوگوں نے محض ظلم کی راہ سے انکار کیا حالانکہ ان کے دل یقین کرگئے۔ سو عنقریب ہم ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کہہ خدا کی طرف سے نور اترا ہے سو تم اگر مومن ہو تو انکار مت کرو۔ ابراہیم پر سلام ہم نے اُس کو خالص کیا اور غم سے نجات دی۔ ہم نے ہی یہ کام کیا۔ سو تم ابراہیم کے نقش قدم پر چلو یعنی رسول کریم ؐ کا طریقۂ حقہ کہ جو حال کے زمانہ میں اکثر لوگوں پر مشتبہ ہوگیا ہے اور بعض یہودیوں کی طرح
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 671
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 671
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/671/mode/1up
برابر ہوسکے کیا خدا کے پاک انوار جو جو روح پر اثر ڈال سکتے ہیں اور عمیق شکوک سے نجات بخش سکتے ہیں یہ بات خدا کے غیر کو بھی حاصل ہے ہرگز نہیں ہرگز نہیں بلکہ ایسے دھوکے ان لوگوں کو لگے ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہماری حقیقی نجات کس درجہ عرفان پر موقوف ہے اور طاقتِ الٰہی ہمارے روح پر کہاں تک کام کرسکتی ہے اور خدا کے بے غایت فضل سے کسؔ درجہ قربت اور شناخت پر ہم پہنچ سکتے ہیں اور وہ کس درجہ تک ہمارے آگے سے حجاب اٹھا سکتا ہے۔ ان کی معرفت
کہ اس کتاب کے حصۂ سوم کے شائع ہونے سے برہمو سماج ؔ اور آریہ سماج کے دانشمند اپنی غلطی پر متنبہ ہوکر صداقتِ حقہ کی طرف ایک پیاسہ کی طرح دوڑیں گے مگر افسوس کہ اب میں دیکھتا ہوں کہ میری فراست نے خطا کی اور مجھے اس بات کے سننے سے نہایت ہی دل شکنی ہوئی کہ برہمو صاحبوں اور آریوں نے میری کتاب کو غور سے نہیں پڑھا بالخصوص مجھ کو پنڈت شیونرائن صاحب کے ریویو کے دیکھنے سے ایک عالم تعصب کا برہمو صاحبوں کی طبیعت میں نظر آیا( خدا رحم کرے) افسوس کہ پنڈت صاحب نے ان حقانی صداقتوں سے کہ جو آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا اور اس قدر قوی اور مضبوط دلائل کی روشنی سے پنڈت صاحب کی تعصب کی تاریکی کچھ بھی رو بکمی نہ ہوئی۔ یہ امر یقیناً سخت حیرت کے لائق ہے کہ ایسے فہیم اور ذی علم لوگ ایسے کامل ثبوت کو دیکھ کر اس کے قبول کرنے میں دیر کریں۔ پنڈت صاحب نے اس انکار سے
صرف ظواہر پرست اور بعض مشرکوں کی طرح مخلوق پرستی تک پہنچ گئے ہیں یہ طریقہ خداوند کریم کے اِس عاجز بندہ سے دریافت کرلیں اور اُس پر چلیں۔
ترسم آں قوم کہ بر دُرد کشاں مے خندند
در سرِ کار خرابات کنند ایماں را
ربّ اغفر و ارحم۔
دوستاں عیب کنندم کہ چرا دل بتودادم
باید اول بتوگفتن کہ چنیں خوب چرائی
والفضل من اللّٰہ ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 672
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 672
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/672/mode/1up
صرف ناکارہ وہموں تک ختم ہے اور جو معرفت یقینی اور قطعی اور انسان کی نجات کے لئے ازبس ضروری ہے وہ ان کی عقل عجیب کے نزدیک محال اور ممتنع ہے لیکن جاننا چاہئے کہ یہ ان کی سخت غلطی ہے کہ جو عقلی خیالات پر قناعت کررہے ہیں۔ حقّانی معرفت کی راہ میں بے شمار راز ہیں جن کو انسان کی کمزور اور دود آمیز عقل دریافت نہیں کرسکتی اور قیاسی طاقت بباعث اپنی نہایت ضُعف کی الوہیّت کے بلند اسرار تک ہرگز پہنچ نہیں سکتی۔ سو اُس بلندی تک پہنچنے کے لئے بجز خدا کے عالی کلام کے اور کوئی زینہ نہیں۔ جو شخص دلی سچائی سے خدا کا طالب ہے اُس کو اُسی زینہ کی حاجت پڑتی ہے اور تاوقتیکہ وہ محکم اور بلند زینہ اپنی ترقیات کا ذریعہ نہ ٹھہرایا جاوؔ ے تب تک انسان حقّانی معرفت کے بلند مینار تک ہرگز پہنچ نہیں سکتا بلکہ ایسے تاریک اور پرظلمت خیالات میں گرفتار رہتا ہے کہ جو غیر تسلی بخش اور بعید از حقیقت ہیں اور بباعث فقدان اس حقانی معرفت کے اس کے سب معلومات بھی ناقص اور ادھورے رہتے ہیں اور جیسی سوئی بغیر دھاگہ کے نکمی اور ناکارہ ہے اور کوئیؔ کام سینے کا اُس سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح عقلی فلسفہ بغیر تائید خدا کی کلام کے نہایت متزلزل اور غیر مستحکم اور بے ثبات اور بے بنیاد ہے۔
پائے استدلالیاں چوبین بود
پائے چوبین سخت بے تمکین بود
نہ صرف حدِّ انصاف سے ہی تجاوز کیا ہے بلکہ حق پوشی کرکے اپنی قوم کی ہمدردی سے بلکہ خدا سے بھی فارغ ہو بیٹھے ہیں اور مجھے اس بات کے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ پنڈت صاحب کا انکار کس قدر ناانصافی سے بھرا ہوا ہے۔ یہ بات خود اُس شخص پر کھل سکتی ہے کہ جو اوّل میری کتاب کو دیکھے کہ میں نے کیونکر ضرورت وحی اللہ اور نیز اس کے وجود کا ثبوت دیا ہے اور پھر پنڈت صاحب کی تحریر پر نظر ڈالے کہ انہوں نے میرے مقابلہ پر کیا لکھا ہے اور میرے دلائل کا کیا جواب دیا ہے۔ جو لوگ پنڈت صاحب کی قوم میں سے اس کتاب کو غور سے پڑھیں گے ان کی روحوں پر ہرگز پنڈت صاحب پردہ ڈال نہیں سکتے بشرطیکہ کوئی فطرتی پردہ نہ ہو۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 673
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 673
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/673/mode/1up
ہم اور ہماری کتاب
ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اُس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اُس کے قدرت الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کررہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہرًا و باطنًا حضرت ربّ العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں اور اس کے فضل و کرم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ جب تک شکوک اور شبہات کی ظلمت کو بکلّی دور نہ کرے اپنی تائیدات غیبیہ سے مددگار رہے گا اگرچہ اس عاجز کو اپنی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں لیکن اس سے نہایت خوشی ہے کہ وہ حیُّ و قیُّوم کہ جو فنا اور موت سے پاک ہے ہمیشہ تا قیامت دین اسلام کی نصرت میں ہے اور جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ ایسا اس کا فضل ہے کہ جو اس سے پہلے کسی نبی پر نہیں ہوا۔ اس جگہ ان نیک دل ایمانداروں کا شکر کرنا لازم ہے جنہوں نے اس کتاب کے طبع ہونے کے لئے آج تک مدد دی ہے خدا تعالیٰ ان سب پر رحم کرے اور جیسا انہوں نے اس کے دین کی حمایت میں اپنی دلی محبت سے ہریک دقیقہ کوشش کے بجالانے میں زور لگایا ہے خداوند کریم ایسا ہی ان پر فضل کرے۔ بعض صاحبوں نے اس کتاب کو محض خرید وفروخت کا ایک معاملہ سمجھا ہے اور بعض کے سینوں کو خدا نے کھول دیا اور صدق اور ارادت کو ان کے دلوں میں قائم کردیا ہے لیکن موخر الذکر ہنوز وہی لوگ ہیں کہ جو استطاعت مالی بہت کم رکھتے ہیں اور سنت اللہ اپنے پاک نبیوں سے بھی یہی رہی ہے کہ اوّل اوّل ضعفاء اور مساکین ہی رجوع کرتے رہے ہیں اگر حضرت احدیت کا ارادہ ہے تو کسی ذی مقدرت کے دل کو بھی اس کام کے انجام دینے کے لئے کھول دے گا۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 674
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 674
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/674/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 675
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 675
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/675/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 676
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 676
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/676/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 677
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 677
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/677/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 678
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 678
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/678/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 679
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 679
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/679/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 680
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 680
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/680/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 681
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 681
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/681/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 682
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 682
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/682/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 683
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 683
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/683/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 684
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 684
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/684/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 685
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 685
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/685/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 686
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 686
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/686/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 687
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 687
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/687/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 688
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 688
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/688/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 689
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 689
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/689/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 690
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 690
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/690/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 691
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 691
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/691/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 692
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 692
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/692/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 693
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 693
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/693/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 694
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 694
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/694/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 695
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 695
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/695/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 696
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 696
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/696/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 697
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 697
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/697/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 698
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 698
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/698/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 699
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 699
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/699/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 700
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 700
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/700/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 701
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 701
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/701/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 702
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 702
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/702/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 703
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 703
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/703/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 704
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 704
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/704/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 705
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 705
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/705/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 706
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 706
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/706/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 707
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 707
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/707/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 708
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 708
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/708/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 709
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 709
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/709/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 710
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 710
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/710/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 711
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 711
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/711/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 712
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 712
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/712/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 713
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 713
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/713/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 714
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 714
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/714/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 715
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 715
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/715/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 716
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 716
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/716/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 717
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 717
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/717/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 718
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 718
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/718/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 719
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 719
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/719/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 720
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 720
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/720/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 721
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 721
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/721/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 722
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 722
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/722/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 723
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 723
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/723/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 724
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 724
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/724/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 725
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 725
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/725/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 726
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 726
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/726/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 727
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 727
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/727/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 728
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 728
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/728/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 729
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 729
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/729/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 730
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 730
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/730/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 731
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 731
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/731/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 732
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 732
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/732/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 733
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 733
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/733/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 734
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 734
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/734/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 735
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 735
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/735/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 736
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 736
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/736/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 737
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 737
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/737/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 738
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 738
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/738/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 739
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 739
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/739/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 740
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 740
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/740/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 741
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 741
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/741/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 742
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 742
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/742/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 743
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 743
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/743/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 744
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 744
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/744/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 745
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 745
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/745/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 746
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 746
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/746/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 747
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 747
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/747/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 748
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 748
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/748/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 749
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 749
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/749/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 750
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 750
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/750/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 751
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 751
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/751/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 752
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 752
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/752/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 753
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 753
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/753/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 754
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 754
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/754/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 755
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 755
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/755/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 756
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 756
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/756/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 757
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 757
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/757/mode/1up
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 532
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نہیں پہنچتے اورؔ اصل حقیقت کو نہیں شناخت کرسکتے یہ مشہور کردیا کہ ایک روح کی مدد سے ایسے ایسے کام کرتا ہوں بالخصوص جبکہ یہ بھی ثابت ہے
کہ خداوند تعالیٰ کی خالص طور پر پرستش کریں مسیح کی پرستش میں مشغول ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنے کاروبار میں خدا سے مدد چاہیں مسیح سے مدد مانگتے رہتے ہیں اور ان کی زبانوں پر ہروقت ربّنا المسیح ربّنا المسیح جاری ہے۔ سوؔ وہ لوگ مضمون اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پر عمل کرنے سے محروم اور راندہ درگاہِ الٰہی ہیں۔ ساتویں صداقت جو سور ۂفاتحہ میں درج ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ ہے
کے داغوں سے اور جہالت اور بے خبری کی ظلمتوں سے نجات حاصل کرے۔ سو ان کے مبارک عہد میں کچھ ایسی خاصیت ہوتی ہے اور کچھ اس قسم کا انتشار نورانیت ہوجاتا ہے کہ ہریک مومن اور طالب حق بقدر طاقت ایمانی اپنے نفس میں بغیر کسی ظاہری موجب کے انشراح اور شوق دینداری کا پاتا ہے اور ہمت کو زیادت اور قوت میں دیکھتا ہے۔ غرض ان کے اس عطر لطیف سے جو ان کو کامل متابعت کی برکت سے حاصل ہوا ہے ہریک مخلص کو بقدر اپنے اخلاص کے حظّ پہنچتا ہے ہاں جو لوگ شقی ازلی ہیں وہ اس سے کچھ حصہ نہیں پاتے بلکہ اور بھی عناد اور حسد اور شقاوت میں بڑھ کر ہاویہ جہنم میں گرتے ہیں۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے 3۔ ۱ پھر ہم اسی تقریر کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کی غرض سے دوسرے لفظوں میں دوہرا کر یہ تفصیل لکھتےؔ ہیں کہ متبعین قرآن شریف کو جو انعامات ملتے ہیں اور جو مواہب خاصہ ان کے نصیب ہوتے ہیں اگرچہ وہ بیان اور تقریر سے خارج ہیں مگر ان میں سے کئی ایک ایسے انعاماتِ عظیمہ ہیں جن کو اس جگہ مفصّل طور پر بغرض ہدایت طالبین بطور نمونہ لکھنا قرین مصلحت ہے۔ چنانچہ وہ ذیل میں لکھے جاتے ہیں:۔
ازانجملہ علوم و معارف ہیں جو کامل متبعین کو خوان نعمت فرقانیہ سے حاصل ہوتے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 533
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 533
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کہ حضرت مسیح اسی حوض پر اکثر جایا بھی کرتے تھے ؔ تو اس خیال کو اَور بھی قوت حاصل ہوتی ہے۔ غرض مخالف کی نظر میں ایسے معجزوں سے کہ
جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم کو وہ راستہ دکھلا اور اُس راہ پر ہم کو ثابت اور قائم کر کہ جو سیدھا ہے جس میں کسی نوع کی کجی نہیں۔ اس صداقت کی تفصیل یہ ہے کہ انسان کی حقیقی دعا یہی ہے کہ وہ خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ طلب کرے کیونکہ ہر یک مطلوب کے حاصل کرنے کے لئے طبعی قاعدہ یہ ہے کہ ان وسائل کو حاصل کیا جائے جن کے ذریعہ سے وہ مطلب ملتا ہے اور خدا نے ہریک امر کی تحصیل کے لئے یہی قانون قدرت ٹھہرا رکھا ہے کہ جو اس کے حصول کے وسائل ہیں وہ حاصل کئے ؔ جائیں اور جن
ہیں۔ جب انسان فرقان مجید کی سچی متابعت اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس کے امرونہی کے بکُلّی حوالہ کردیتا ہے اور کامل محبت اور اخلاص سے اس کی ہدایتوں میں غور کرتا ہے اور کوئی اعراض صوری یا معنوی باقی نہیں رہتا۔ تب اس کی نظر اور فکر کو حضرت فیاض ُ مطلق کی طرف سے ایک نور عطا کیا جاتا ہے اور ایک لطیف عقل اس کو بخشی جاتی ہے جس سے عجیب غریب لطائف اور نکات علم الٰہی کے جو کلام الٰہی میں پوشیدہ ہیں اس پر کھلتے ہیں اور ابرنیساں کے رنگ میں معارف دقیقہ اس کے دل پر برستے ہیں۔ وہی معارف دقیقہ ہیں جن کو فرقان مجید میں حکمت کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جیسا کہ فرمایا ہے یعنی خدا جس کو چاہتا ہے حکمت دیتا ہے اور جس کو حکمت دی گئی اس کو خیر کثیر دی گئی ہے یعنی حکمت خیر کثیر پر مشتمل ہے اور جس نے حکمت پائی اس نے خیر کثیر کو پالیا۔ سو یہ علوم و معارف جو دوسرے لفظوں میں حکمت کے نام سے موسوم ہیں یہ خیر کثیر پر مشتمل ہونے کی و جہ سے بحر محیط کے رنگ میں ہیں جو کلام الٰہی کے تابعین کو دیئے جاتے ہیں اور ان کے فکر اور نظر میں ایک ایسی برکت رکھی جاتی ہے جو اعلیٰ درجہ کے حقائق حقّہ اُن کے نفس آئینہ صفت پر منعکس ہوتے رہتے ہیں اور کامل صداقتیں ان پر منکشف ہوتی رہتی ہیں۔ اور تائیداؔ تِ الٰہیہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 534
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 534
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
و قدیم سے حوض دکھلاتا رہا ہے حضرت عیسیٰ کی نسبت بہت سے شکوک
راہوں پر چلنے سے وہ مطلب مل سکتا ہے وہ راہیں اختیار کی جائیں اور جب انسان صراط مستقیم پر ٹھیک ٹھیک قدم مارے اور جو حصول مطلب کی راہیں ہیں ان پر چلنا اختیار کرے تو پھر مطلب خودبخود حاصل ہوجاتا ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اُن راہوں کے چھوڑ دینے سے جو کسی مطلب کے حصول کے لئے بطور وسائل کے ہیں یونہی مطلب حاصل ہوجائے بلکہ قدیم سے یہی قانون قدرت بندھا ہوا چلا آتا ہے کہ
ہریک تحقیق اور تدقیق کے وقت کچھ ایسا سامان ان کے لئے میسر کردیتی ہیں جس سے بیان ان کا ادھورا اور ناقص نہیں رہتا اور نہ کچھ غلطی واقعہ ہوتی ہے۔ سو جو جو علوم و معارف و دقائق حقائق و لطائف و نکات و ادلّہ و براہین ان کو سوجھتے ہیں وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں ایسے مرتبہ کاملہ پر واقع ہوتے ہیں کہ جو خارق عادت ہے اور جس کا موازنہ اور مقابلہ دوسرے لوگوں سے ممکن نہیں کیونکہ وہ اپنے آپ ہی نہیں بلکہ تفہیم غیبی اور تائید صمدی ان کی پیش رو ہوتی ہے۔ اور اسی تفہیم کی طاقت سے وہ اسرار اور انوار قرآنی اُن پر کھلتے ہیں کہ جو صرف عقل کی دود آمیز روشنی سے کھل نہیں سکتے۔ اور یہ علوم و معارف جو اُن کو عطا ہوتے ہیں جن سے ذات اور صفات الٰہی کے متعلق اور عالم معاد کی نسبت لطیف اور باریک باتیں اور نہایت عمیق حقیقتیں اُن پر ظاہر ہوتی ہیں یہ ایک روحانی خوارق ہیں کہ جو بالغ نظروں کی نگاہوں میں جسمانی خوارق سے اعلیٰ اور الطف ہیں بلکہ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ عارفین اور اہل اللہ کا قدر و منزلت دانشمندوں کی نظر میں اِنہیں خوارق سے معلوم ہوتا ہے اور وہی خوارق ان کی منزلت عالیہ کی زینت اور آرائش اور ان کے چہرہ صلاحیت کی زیبائی اور خوبصورتی ہیں کیونکہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ علوم و معارف حقہ کی ہیبت سب سے زیادہ اس پر اثر
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 535
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 535
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ی طریقہ ہے جب تک انسان اس طریقہ مقررہ پر قدم نہیں مارتا تب تک وہ امر اس کو حاصل نہیں ہوتا پس وہ شے جس کو محنت اور کوشش اور دعا اور تضرع سے حاصل کرنا چاہئے صراطِ مستقیم ہے۔ جو شخص صراطِ مستقیم
ڈالتی ہے اور صداقت اور معرفت ہریک چیز سے زیادہ اس کو پیاری ہے اور اگر ایک زاہد عابد ایسا فرض کیا جائے کہ صاحب مکاشفات ہے اور اخبارِ غیبیہ بھی اسے معلوم ہوتے ہیں اور ریاضاتِ شاقہ بھی بجالاتا ہے اور کئی اور قسم کے خوارق بھی اس سے ظہور میں آتے ہیں مگر علم الٰہی کے بارہ میں سخت جاہل ہے۔ یہاں تک کہ حق اور باطل میں تمیز ہی نہیں کرسکتا بلکہ خیالاتِ فاسدہ میں گرفتار اور عقائد غیر صحیحہ میں مبتلا ہے ہریک بات میں خام اور ہریک رائے میںؔ فاش غلطی کرتا ہے تو ایسا شخص طبائع سلیمہ کی نظر میں نہایت حقیر اور ذلیل معلوم ہوگا۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ جس شخص سے دانا انسان کو جہالت کی بدبو آتی ہے اور کوئی احمقانہ کلمہ اس کے منہ سے سن لیتا ہے تو فی الفور اس کی طرف سے دل متنفر ہوجاتا ہے اور پھر وہ شخص عاقل کی نظر میں کسی طور سے قابل تعظیم نہیں ٹھہرسکتا اور گو کیسا ہی زاہد عابد کیوں نہ ہو کچھ حقیر سا معلوم ہوتا ہے پس انسان کی اس فطرتی عادت سے ظاہر ہے کہ خوارق روحانی یعنی علوم و معارف اس کی نظر میں اہل اللہ کے لئے شرط لازمی اور اکابر دین کی شناخت کے لئے علامات خاصہ اور ضروریہ ہیں۔ پس یہ علامتیں فرقان شریف کی کامل تابعین کو اکمل اور اتم طور پر عطا ہوتی ہیں اور باوجودیکہ ان میں سے اکثروں کی سرشت پر اُمیت غالب ہوتی ہے اور علومِ رسمیہ کو باستیفا حاصل نہیں کیا ہوتا لیکن نکات اور لطائف علم الٰہی میں اس قدر اپنے ہم عصروں سے سبقت لے جاتے ہیں کہ بسا اوقات بڑے بڑے مخالف ان کی تقریروں کو سن کر یا ان کی تحریروں کو پڑھ کر اور دریائے حیرت
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 536
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 536
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
آدمی تھا جس نے اپنے ؔ عجائبات کے دکھلانے میں اس قدیمی حوض سے کچھ مدد نہیں لی اور سچ مچ معجزات ہی دکھائے ہیں اور اگرچہ قرآنِ شریف
کی طلب میں کوشش نہیں کرتا اور نہ اسؔ کی کچھ پرواہ رکھتا ہے وہ خدا کے نزدیک ایک کجرو آدمی ہے اور اگر وہ خدا سے بہشت اور عالمِ ثانی کی راحتوں کا طالب ہو تو حکمتِ الٰہی اسے یہی جواب دیتی ہے کہ اے نادان اول صراطِ مستقیم کو
میں پڑ کر بلا اختیار بول اٹھتے ہیں کہ ان کے علوم و معارف ایک دوسرے عالم سے ہیں جو تائیداتِ الٰہی کے رنگ خاص سے رنگین ہیں اور اس کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ اگر کوئی منکر بطور مقابلہ کے الٰہیات کے مباحث میں سے کسی بحث میں ان کی محققانہ اور عارفانہ تقریروں کے ساتھ کسی تقریر کا مقابلہ کرنا چاہے تو اخیر پر بشرط انصاف و دیانت اس کو اقرار کرنا پڑے گا کہ صداقت حقّہ اسی تقریر میں تھی جو ان کے منہ سے نکلی تھی اور جیسے جیسے بحث عمیق ہوتی جائے گی بہت سے لطیف اور دقیق براہین ایسے نکلتے آئیں گے جن سے روز روشن کی طرح ان کا سچا ہونا کھلتا جائے گا چنانچہ ہریک طالب حق پر اس کا ثبوت ظاہر کرنے کے لئے ہم آپ ہی ذمہ وار ہیںؔ ۔ ازاں جملہ ایک عصمت بھی ہے جس کو حفظِ الٰہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور یہ عصمت بھی فرقان مجید کے کامل تابعین کو بطور خارق عادت عطا ہوتی ہے۔ اور اس جگہ عصمت سے مراد ہماری یہ ہے کہ وہ ایسی نالائق اور مذموم عادات اور خیالات اور اخلاق اور افعال سے محفوظ رکھے جاتے ہیں جن میں دوسرے لوگ دن رات آلودہ اور ملوث نظر آتے ہیں اور اگر کوئی لغزش بھی ہوجائے تو رحمت الٰہیہ جلد تر ان کا تدارک کرلیتی ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ عصمت کا مقام نہایت نازک اور نفس امارہ کے مقتضیات سے نہایت دور پڑا ہوا ہے جس کا حاصل ہونا بجز توجہ خاص الٰہی کے ممکن نہیں مثلاً اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ وہ صرف ایک کذب اور دروغ گوئی کی عادت سے اپنے جمیع معاملات اور بیانات اور حرفوں اور پیشوں میں قطعی طور پر باز رہے تو یہ اس کے لئے مشکل اور ممتنع
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 537
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 537
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
پر ایمان لانے کے بعد ان وساوس سے نجات حاصل ہوجاتی ہے مگر جو شخص ابھی قرآنِؔ شریف پر ایمان نہیں لایا اور یہودی یا ہندو یا عیسائی
طلب کر پھر یہ سب کچھ تجھے آسانی سے مل جائے گا۔ سو سب دعاؤں سے مقدم دعا جس کی طالب حق کو اشدّؔ ضرورت ہے طلبِ صراط مستقیم ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ہمارے مخالفین اس صداقت پر قدم مارنے سے بھی محروم ہیں۔ عیسائی لوگ تو اپنی ہر
ہوجاتا ہے۔ بلکہ اگر اس کام کے کرنے کے لئے کوشش اور سعی بھی کرے تو اس قدر موانع اور عوائق اس کو پیش آتے ہیں کہ بالآخر خود اس کا یہ اصول ہوجاتا ہے کہ دنیاداری میں جھوٹ اور خلاف گوئی سے پرہیز کرنا ناممکن ہے۔ مگر ان سعید لوگوں کے لئے کہ جو سچی محبت اور پُرجوش ارادت سے فرقان مجید کی ہدایتوں پر چلنا چاہتے ہیں۔ صرف یہی امر آسان نہیں کیا جاتا کہ وہ دروغ گوئی کی قبیح عادت سے باز رہیں بلکہ وہ ہر ناکردنی اور ناگفتنی کے چھوڑنے پر قادر مطلق سے توفیق پاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کاملہ سے ایسی تقریبات شنیعہ سے اُن کو محفوظ رکھتا ہے جن سے وہ ہلاکت کے ورطوں میں پڑیں۔ کیونکہ وہ دنیا کا نور ہوتے ہیں اور ان کی سلامتی میں دنیا کی سلامتی اور ان کی ہلاکت میں دنیا کی ہلاکت ہوتی ہے۔ اسی جہت سے وہ اپنے ہریک خیال اور علم اور فہم اور غضب اور شہوت اور خوف اور طمع اور تنگی اور فراخی اور خوشی اور غمی اور عسر اور یسر میں تمام نالائق باتوں اور فاسد خیالوں اور نادرست علموں اور ناجائزؔ عملوں اور بے جا فہموں اور ہریک افراط اور تفریط نفسانی سے بچائے جاتے ہیں اور کسی مذموم بات پر ٹھہرنا نہیں پاتے کیوں کہ خود خداوند کریم ان کی تربیت کا متکفل ہوتا ہے اور جس شاخ کو ان کے شجرۂ طیبہ میں خشک دیکھتا ہے۔ اس کو فی الفور اپنے مربیانہ ہاتھ سے کاٹ ڈالتا ہے اور حمایتِ الٰہی ہردم اور ہر لحظہ ان کی نگرانی کرتی رہتی ہے۔ اور یہ نعمت محفوظیت کی جو ان کو عطا ہوتی ہے۔ یہ بھی بغیر ثبوت نہیں بلکہ زیرک انسان کسی قدر صحبت سے اپنی پوری تسلی سے اس کو معلوم کرسکتا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 538
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 538
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہے وہ کیونکر ایسے وساوس سے نجات پاسکتا ہے اور کیونکر اس کا دل اطمینان پکڑ سکتا ہے کہ باوجود ایسے عجیب حوض کےؔ جس میں ہزاروں لنگڑے اور لُولے
دعا میں روٹی ہی مانگا کرتے ہیں۔ اور اگر کھاپی کر اور پیٹ بھر کربھی گرجا میں آویں پھر بھی جھوٹ موٹ اپنے تئیں بھوکے ظاہر کرکے روٹی مانگتے رہتے ہیں گویا ان کا مطلوبِ اعظم روٹی ہیؔ ہے وبس۔ آریہ سماج والے اور دوسرے ان کے
ہے۔ ازانجملہ ایک مقام توکل ہے جس پر نہایت مضبوطی سے ان کو قائم کیا جاتا ہے اور ان کے غیر کو وہ چشمہ صافی ہرگز میسر نہیں آسکتا بلکہ انہیں کے لئے وہ خوشگوار اور موافق کیا جاتا ہے۔ اور نور معرفت ایسا ان کو تھامے رہتا ہے کہ وہ بسا اوقات طرح طرح کی بے سامانی میں ہوکر اور اسباب عادیہ سے بکلّی اپنے تئیں دور پاکر پھر بھی ایسی بشاشت اور انشراح خاطر سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ایسی خوشحالی سے دنوں کو کاٹتے ہیں کہ گویا ان کے پاس ہزارہا خزائن ہیں۔ ان کے چہروں پر تونگری کی تازگی نظر آتی ہے اور صاحب دولت ہونے کی مستقل مزاجی دکھائی دیتی ہے اور تنگیوں کی حالت میں بکمال کشادہ دلی اور یقین کامل اپنے مولیٰ کریم پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ سیرت ایثار اُن کا مشرب ہوتا ہے اور خدمتِ خلق ان کی عادت ہوتی ہے اور کبھی انقباض ان کی حالت میں راہ نہیں پاتا اگرچہ سارا جہان ان کا عیال ہوجائے اور فی الحقیقت خدائے تعالیٰ کی ستاری مستوجب شکر ہے جو ہر جگہ ان کی پردہ پوشی کرتی ہے اور قبل اس کے جو کوئی آفت فوق الطاقت نازل ہو ان کو دامن عاطفت میں لے لیتی ہے کیونکہ اُن کے تمام کاموں کا خدا متولّی ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس نے آپ ہی فرمایا ہے۔3۔ ۱ لیکن دوسروں کو دنیاداری کے دل آزار اسباب میں چھوڑا جاتا ہے اور وہ خارق عادت سیرت جو خاص ان لوگوں کے ساتھ ظاہر کی جاتی ہے کسی دوسرے کے ساتھ ظاہر نہیں کی جاتی۔ اور یہ خاصہ ان کا بھیؔ صحبت سے بہت
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 539
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 539
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور مادر زاد اندھے ایک ہی غوطہ مار کر اچھے ہوجاتے تھے اور جو صدہا سال سے اپنے خواص عجیبہ کے ساتھ یہودیوں اور اس ملکؔ کے تمام لوگوں میں مشہور اور
بُت پرست بھائی اپنی دعاؤں میں جنم مرن سے بچنے کے لئے یعنی اواگون سے جو ان کے زعم باطل میں ٹھیک اور درست ہے طرح طرح کے اشلوک پڑھا کرتے ہیں اور صراطِ مستقیم کو خدا سے نہیں مانگتے۔ علاوہ اس کے اللہ تعالیٰ نے تو اس جگہ جمع کا لفظ بیان
جلد ثابت ہوسکتا ہے۔ ازانجملہ ایک مقام محبتِ ذاتی کا ہے جس پر قرآن شریف کے کامل متبعین کو قائم کیا جاتا ہے اور ان کے رگ و ریشہ میں اس قدر محبت الٰہیہ تاثیر کرجاتی ہے کہ ان کے وجود کی حقیقت بلکہ ان کی جان کی جان ہوجاتی ہے اور محبوب حقیقی سے ایک عجیب طرح کا پیار ان کے دلوں میں جوش مارتا ہے اور ایک خارق عادت انس اور شوق ان کے قلوب صافیہ پر مستولی ہوجاتا ہے کہ جو غیر سے بکلی منقطع اور گسستہ کردیتا ہے اور آتشِ عشقِ الٰہی ایسی افروختہ ہوتی ہے کہ جو ہم صحبت لوگوں کو اوقات خاصہ میں بدیہی طور پر مشہود اور محسوس ہوتی ہے بلکہ اگر محبان صادق اس جوش محبت کو کسی حیلہ اور تدبیر سے پوشیدہ رکھنا بھی چاہیں تو یہ ان کے لئے غیر ممکن ہوجاتا ہے۔ جیسے عشاق مجازی کے لئے بھی یہ بات غیر ممکن ہے کہ وہ اپنے محبوب کی محبت کو جس کے دیکھنے کے لئے دن رات مرتے ہیں اپنے رفیقوں اور ہم صحبتوں سے چھپائے رکھیں بلکہ وہ عشق جو ان کے کلام اور ان کی صورت اور ان کی آنکھ اور ان کی وضع اور ان کی فطرت میں گھس گیا ہے اور ان کے بال بال سے مترشح ہورہا ہے وہ ان کے چھپانے سے ہرگز چھپ ہی نہیں سکتا۔ اور ہزار چھپائیں کوئی نہ کوئی نشان اس کا نمودار ہوجاتا ہے اور سب سے بزرگ تر ان کے صدق قدم کا نشان یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کو ہریک چیز پر اختیار کرلیتے ہیں اور اگر آلام اس کی طرف سے پہنچیں تو محبت ذاتی کے غلبہ سے برنگ انعام ان کو مشاہدہ کرتے ہیں اور عذاب کو شربت عذب کی طرح سمجھتے ہیں۔ کسی تلوار کی تیز دھار ان میں اور ان کے محبوب میں جدائی نہیں ڈال سکتی اور کوئی بلیّہ عظمیٰ ان کو اپنے اس پیارے کی یادداشت سے روک نہیں سکتے اسی کو اپنی جان سمجھتے ہیں اور اسی کی محبت میں لذّات پاتے اور اسی کی ہستی کو ہستی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 540
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 540
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
زبان زد ہورہا تھا اور بے شمار آدمی اُس میں غوطہ مارنے سے شفا پاچکے تھے اور ہر روز پاتے تھے اور ہر وقت ایک میلہ اُس پر لگا رہتا تھاؔ اور مسیح
کرؔ کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ کوئی انسان ہدایت طلب کرنے اور انعام الٰہی پانے سے ممنوع نہیں ہے مگر بموجبِ اصول آریا سماج کے ہدایت طلب کرنا گنہگار کے لئے ناجائز ہے اور خدا اس کو ضرور سزا دے گا اور ہدایت پانا نہ پانا اس کے لئے برابر ہے۔ برہمو سماج والوں کا دعاؤں پر کچھ ایسا اعتقادؔ ہی نہیں وہ ہر وقت اپنی
خیال کرتے ہیں اور اسی کے ذکر کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیتے ہیں۔ اگر چاہتے ہیں تو اسی کو اگر ؔ آرام پاتے ہیں تو اسی سے۔ تمام عالم میں اسی کو رکھتے ہیں اور اسی کے ہورہتے ہیں۔ اسی کے لئے جیتے ہیں۔ اسی کے لئے مرتے ہیں۔ عالم میں رہ کر پھر بے عالم ہیں اور باخود ہوکر پھر بے خود ہیں نہ عزت سے کام رکھتے ہیں نہ نام سے نہ اپنی جان سے نہ اپنے آرام سے بلکہ سب کچھ ایک کے لئے کھو بیٹھتے ہیں اور ایک کے پانے کے لئے سب کچھ دے ڈالتے ہیں۔ لا یدرک آتش سے جلتے جاتے ہیں اور کچھ بیان نہیں کرسکتے کہ کیوں جلتے ہیں اور تفہیم اور تفہّم سے صمٌّ و بکمٌ ہوتے ہیں اور ہریک مصیبت اور ہریک رسوائی کے سہنے کو طیار رہتے ہیں اور اُس سے لذّت پاتے ہیں۔
عشق است کہ برخاک مذلت غلطاند
عشق است کہ برآتش سوزاں بنشاند
کس بہر کسے سر ندہد جان نہ فشاند
عشق است کہ ایں کار بصد صدق کناند
ازانجملہ اخلاق فاضلہ ہیں جیسے سخاوت شجاعت ایثار علوہمت و فور شفقت حلم حیا مودّت یہ تمام اخلاق بھی بوجہ احسن اور انسب انہیں سے صادر ہوتے ہیں اور وہی لوگ بہ یمن متابعتِ قرآن شریف وفاداری سے اخیر عمر تک ہر یک حالت میں ان کو بخوبی و شائستگی انجام دیتے ہیں اور کوئی انقباض خاطر ان کو ایسا پیش نہیں آتا کہ جو اخلاق حسنہ کی کما ینبغی صادر ہونے سے ان کو روک سکے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ خوبی علمی یا عملی یا اخلاقی انسان سے صادر ہوسکتی ہے وہ صرف انسانی طاقتوں سے صادر نہیں ہوسکتی بلکہ اصل موجب اس کے صدور کا فضل الٰہی ہے۔ پس چونکہ یہ لوگ سب سے زیادہ مورد فضل الٰہی ہوتے ہیں اس لئے خود خداوند کریم اپنے تفضّلات نامتناہی سے تمام خوبیوں سے ان کو متمتع کرتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 541
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 541
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بھی اکثر اُس حوض پر جایا کرتا تھا اور اُس کی ان عجیب و غریب خاصیتوں سے باخبر تھا مگر پھر بھی مسیح نے ان معجزات کے دکھلانے میں جن کو قدیم سے حوض
عقل کے گھمنڈ میں رہتے ہیں اور نیز ان کا یہ بھی مقولہ ہے کہ کسی خاص دعا کو بندگی اور عبادت کے لئے خاص کرنا ضروری نہیں۔ انسان کو اختیار ہے جو چاہے دعا مانگے مگر یہ ان کی سراسر نادانی ہے اور ظاہر ہے کہ اگرچہ جزوی حاجات صدہا انسان کو لگی ہوئی ہیں۔
کہ حقیقی طور پر بجُز خدائے تعالیٰ کے اور کوئی نیک نہیں تمام اخلاق فاضلہ اور تمام نیکیاں اسی کے لئے مسلم ہیں پھر جس قدر کوئی اپنے نفس اور ارادت سے فانی ہوکر اس ذات خیر محض کا قربؔ حاصل کرتا ہے اسی قدر اخلاقِ الٰہیہ اس کے نفس پر منعکس ہوتی ہیں پس بندہ کو جو جو خوبیاں اور سچی تہذیب حاصل ہوتی ہے وہ خدا ہی کے قرب سے حاصل ہوتی ہے اور ایسا ہی چاہئے تھا کیونکہ مخلوق فی ذاتہٖ کچھ چیز نہیں ہے سو اخلاق فاضلہ الٰہیہ کا انعکاس انہیں کے دلوں پر ہوتا ہے کہ جو لوگ قرآن شریف کا کامل اتباع اختیار کرتے ہیں اور تجربہ صحیحہ بتلا سکتا ہے کہ جس مشرب صافی اور روحانی ذوق اور محبت کے بھرے ہوئے جوش سے اخلاق فاضلہ ان سے صادر ہوتے ہیں اس کی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اگرچہ منہ سے ہریک شخص دعویٰ کرسکتا ہے اور لاف و گذاف کے طور پر ہریک کی زبان چل سکتی ہے مگر جو تجربہ صحیحہ کا تنگ دروازہ ہے اس دروازہ سے سلامت نکلنے والے یہی لوگ ہیں اور دوسرے لوگ اگر کچھ اخلاق فاضلہ ظاہر کرتے بھی ہیں تو تکلّف اور تصنّع سے ظاہر کرتے ہیں اور اپنی آلودگیوں کو پوشیدہ رکھ کر اور اپنی بیماریوں کو چھپا کر اپنی جھوٹی تہذیب دکھلاتے ہیں اور ادنیٰ ادنیٰ امتحانوں میں ان کی قلعی کھل جاتی ہے اور تکلف اور تصنع اخلاق فاضلہ کے ادا کرنے میں اکثر وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اپنی دنیا اور معاشرت کا حسن انتظام وہ اسی میں دیکھتے ہیں اور اگر اپنی اندرونی آلائشوں کی ہر جگہ پیروی کریں تو پھر مہمات معاشرت میں خلل پڑتا ہے اور اگرچہ بقدر استعداد فطرتی کے کچھ تخم اخلاق کا ان میں بھی ہوتا ہے مگر وہ اکثر نفسانی خواہشوں کے کانٹوں کے نیچے دبا رہتا ہے اور بغیر آمیزش اغراض نفسانی کے خالصاً للہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 542
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 542
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دکھلا رہا تھاؔ اُسی حوض کی مٹی یا پانی سے کچھ مدد نہیں لی اور اُسی میں کچھ تصرف کرکے اپنا نیا نسخہ نہیں نکالا۔ بلاشبہ ایسا خیال بے دلیل بات ہے کہ جو
مگر حاجتِ اعظم جس کا دن ؔ رات اور ہریک دم فکر کرنا چاہئے صرف ایک ہی ہے یعنی یہ کہ انسان ان طرح طرح کے حجبِ ظلمانیہ سے نجات پاکر معرفت کامل کے درجہ تک پہنچ جائے اور کسی طرح کی نابینائی اور کور باطنی اور بے مہری اور بے وفائی باقی نہ رہے بلکہ خدا کو کامل طور پر شناخت کرکے اور اس کی خالص محبت سے
ظاہر نہیں ہوتا چہ جائیکہ اپنے کمال کو پہنچے اور خالصاًللہ انہیں میں وہ تخم کمال کو پہنچتا ہے کہ جو خدا کے ہورہتے ہیں اور جن کے نفوس کو خدائے تعالیٰ غیریت کی لوث سے بکلّی خالی پاکر خود اپنے پاک اخلاق سے بھر دیتا ہے اور ان کے دلوں میں وہ اخلاق ایسے پیارے کردیتا ہے جیسے وہ اس کو آپ پیارے ہیں پس وہ لوگ فانی ہونے کی وجہ سے تخلق باخلاق اللہ کا ایسا مرتبہ حاصل کرلیتے ہیں کہ گویا وہ خدا کا ایک آلہ ہوجاتے ہیں جس کی توسّط سے وہ اپنے اخلاق ظاہر کرتا ہے اور ان کو بھوکے اور پیاسے پاکر وہؔ آب زلال ان کو اپنے اس خاص چشمہ سے پلاتا ہے جس میں کسی مخلوق کو علیٰ وجہ الاصالت اس کے ساتھ شرکت نہیں۔ اور منجملہ ان عطیات کے ایک کمال عظیم جو قرآن شریف کے کامل تابعین کو دیا جاتا ہے عبودیت ہے یعنی وہ باوجود بہت سے کمالات کے ہر وقت نقصان ذاتی اپنا پیش نظر رکھتے ہیں اور بشہود کبریائی حضرت باری تعالیٰ ہمیشہ تذلل اور نیستی اور انکسار میں رہتے ہیں اور اپنی اصل حقیقت ذلت اور مفلسی اور ناداری اور پُر تقصیری اور خطاواری سمجھتے ہیں اور ان تمام کمالات کو جو ان کو دیئے گئے ہیں اس عارضی روشنی کی مانند سمجھتے ہیں جو کسی وقت آفتاب کی طرف سے دیوار پر پڑتی ہے جس کو حقیقی طور پر دیوار سے کچھ بھی علاقہ نہیں ہوتا اور لباس مستعار کی طرح معرض زوال میں ہوتی ہے۔ پس وہ تمام خیر و خوبی خدا ہی میں محصور رکھتے ہیں اور تمام نیکیوں کا چشمہ اسی کی ذات کامل کو قرار دیتے ہیں اور صفات الٰہیہ کے کامل شہود سے ان کے دل میں حق الیقین کے طور پر بھر جاتا ہے کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ اپنے وجود اور ارادہ اور خواہش سے بکلی کھوئے جاتے ہیں اور عظمت الٰہی کا پُرجوش دریا اُن کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 543
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 543
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مخالف کے روبرو کارگر نہیںؔ اور بلاریب اس حوض عجیب الصفات کے وجود پر خیال کرنے سے مسیح کی حالت پر بہت سے اعتراضات عائد ہوتے ہیں جو کسی طرح
پُر ہوکر مرتبہ وصال الٰہی کا ؔ جس میں اس کی سعادت تامہ ہے پالیوے یہی ایک دعا ہے۔ جس کی انسان کو سخت حاجت ہے اور جس پر اس کی ساری سعادت موقوف ہے سو اس کے حصول کا سیدھا راستہ یہی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہے کیونکہ انسان کے لئے ہریک مطلب کے پانے کا یہی ایک طریق ہے کہ جن راہوں پر چلنے سے وہ مطلب حاصل ہوتا ہے ان راہوں پر مضبوطی سے قدم مارے اور وہی راستہ اختیار کرے
دلوں پر ایسا محیط ہوجاتا ہے کہ ہزارہا طور کی نیستی ان پر وارد ہوجاتی ہے اور شرک خفی کے ہریک رگ و ریشہ سے بکلی پاک اور منزہ ہوجاتے ہیں اور منجملہ ان عطیات کے ایک یہ ہے کہ اُن کی معرفت اور خداشناسی بذریعہ کشوف صادقہ و علوم لدنیہ و الہامات صریحہ و مکالمات و مخاطبات حضرت احدیت و دیگر خوارق عادت بدرجہ اکمل و اتم پہنچائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان میں اور عالم ثانی میں ایک نہایت رقیق اور شفاف حجاب باقی رہ جاتا ہے۔ جس میں سے ان کی نظر عبور کرکے واقعات اخروی کو اسی عالم میں دیکھ لیتی ہے برخلاف دوسرے لوگوں کے کہ جو بباعث پُرظلمت ہونے اپنی کتابوں کے اس مرتبہ کاملہ تک ہرگز نہیں پہنچ سکتے بلکہ ان کی کج تعلیم کتابیں ان کے حجابوں ؔ پر اور بھی صدہا حجاب ڈالتے ہیں اور بیماری کو آگے سے آگے بڑھا کر موت تک پہنچاتے ہیں۔ اور فلسفی جن کے قدموں پر آج کل برہمو سماج والے چلتے ہیں اور جن کے مذہب کا سارا مدار عقلی خیالات پر ہے وہ خود اپنے طریق میں ناقص ہیں اور ان کے نقصان پر یہی دلیل کافی ہے کہ ان کی معرفت باوجود صدہا طرح کی غلطیوں کی نظری وجوہ سے تجاوز نہیں کرتی اور قیاسی اٹکلوں سے آگے نہیں بڑھتی اور ظاہر ہے کہ جس شخص کی معرفت صرف نظری طور تک محدود ہے اور وہ بھی کئی طرح کی خطا کی آلودگیوں سے ملوث وہ شخص بمقابلہ اس شخص کے جس کا عرفان بداہت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے اپنی علمی حالت میں بغایت درجہ پست اور متنزّل ہے۔ ظاہر ہے کہ نظر اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 544
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 544
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اٹھ نہیں سکتے اورجس قدر غور کروؔ اُسی قدر داروگیر بڑھتی ہے اورمسیحی جماعت کیلئے کوئی راستہَ مخلصی کانظر نہیں آتاکیونکہ دنیا کی موجودہ حالت کودیکھ کریہ وساوس اور
کہ جو سیدھا منزل مقصودؔ تک پہنچتا ہے اور بے راہیوں کو چھوڑ دے اور یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ ہر شے کے حصول کے لئے خدا نے اپنے قانون قدرت میں صرف ایک ہی راستہ ایسا رکھا ہے جس کو سیدھا کہنا چاہئے اور جب تک ٹھیک ٹھیک وہی راستہ اختیار نہ
فکر کے مرتبہ کے آگے ایک مرتبہ بداہت اور شہود کا باقی ہے یعنی جو امور نظری اور فکری طور پر معلوم ہوتے ہیں وہ ممکن ہیں کہ کسی اور ذریعہ سے بدیہی اور مشہود طور پر معلوم ہوں سو یہ مرتبہ بداہت کا عند العقل ممکن الوجود ہے اور گو برہمو سماج والے اس مرتبہ کے وجود فی الخارج سے انکار ہی کریں پر اس بات سے انہیں انکار نہیں کہ وہ مرتبہ اگر خارج میں پایا جاوے تو بلاشبہ اعلیٰ و اکمل ہے اور جو نظر اور فکر میں خفا یا باقی رہ جاتے ہیں ان کا ظہور اور بروز اسی مرتبہ پر موقوف ہے اور خود اس بات کو کون نہیں سمجھ سکتا کہ ایک امر کا بدیہی طور پر کھل جانا نظری طور سے اعلیٰ اور اکمل ہے مثلاً اگرچہ مصنوعات کو دیکھ کر دانا اور سلیم الطبع انسان کا اس طرف خیال آسکتا ہے کہ ان چیزوں کا کوئی صانع ہوگا مگر نہایت بدیہی اور روشن طریق معرفت الٰہی کا جو اس کے وجود پر بڑی ہی مضبوط دلیل ہے یہ ہے کہ اس کے بندوں کو الہام ملتا ہے اور قبل اس کے جو حقائقِ اشیاء کا انجام کھلے اُن پر کھولا جاتا ہے اور وہ اپنے معروضات میں حضرت احدیت سے جوابات پاتے ہیں اور ان سے مکالمات اورؔ مخاطبات ہوتے ہیں اور بہ نظر کشفی ان کو عالمِ ثانی کے واقعات دکھلائے جاتے ہیں اور جزا سزا کی حقیقت پر مطلع کیا جاتا ہے اور دوسرے کئی طور کے اسرار اخروی ان پر کھولے جاتے ہیں اور کچھ شک نہیں کہ یہ تمام امور علم الیقین کو اتم اور اکمل مرتبہ تک پہنچاتے ہیں اور نظری ہونے کے عمیق نشیب سے بداہت کے بلند مینار تک لے جاتے ہیں بالخصوص مکالمات اور مخاطبات حضرت احدیت ان سب اقسام سے اعلیٰ ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے صرف اخبار غیبیہ ہی معلوم نہیں ہوتے بلکہ عاجز بندہ پر جو جو مولیٰ کریم کی عنایتیں ہیں ان سے بھی اطلاع دی جاتی ہے اور ایک لذیذ اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 545
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 545
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بھی زیادہ تقویت پکڑتے ہیں ؔ اور بہت سی نظیریں ایسے ہی مکروں اور فریبوں کے اپنی ہی قُوّت حافظہ پیش کرتی ہے بلکہ ہریک انسان ان مکروں کے بارے میں
کیا جائے ممکن نہیں کہ وہ چیز حاصل ہوسکے جس طرح خدا ؔ کے تمام قواعد قدیم سے مقرر اور منضبط ہیں ایسا ہی نجات اور سعادت اخروی کی تحصیل کے لئے ایک خاص طریق مقرر ہے جو مستقیم اور سیدھا ہے۔ سو دعا میں وضع استقامت یہی ہے کہ اسی طریق مستقیم کو خدا سے مانگا جائے۔ آٹھویں اور نویں اور دسویں صداقت جو سورۃ فاتحہ میں درج ہے۔
مبارک کلام سے ایسی تسلی اور تشفی اس کو عطا ہوتی ہے اور خوشنودی حضرت باری تعالیٰ سے مطلع کیا جاتا ہے جس سے بندہ مکروہات دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے بڑی قوّت پاتا ہے گویا صبر اور استقامت کے پہاڑ اس کو عطا کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح بذریعہ کلام اعلیٰ درجہ کے علوم اور معارف بھی بندہ کو سکھلائے جاتے ہیں اور وہ اسرار خفیہ و دقائق عمیقہ بتلائے جاتے ہیں کہ جو بغیر تعلیم خاص ربانی کے کسی طرح معلوم نہیں ہوسکتے اور اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے کہ یہ تمام امور جن کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ قرآن شریف کے کامل اتباع سے حاصل ہوتے ہیں کیونکر اسلام میں ان کا متحقق فی الخارج ہونا بہ پایۂ ثبوت پہنچ سکتا ہے تو اس وہم کا جواب یہ ہے کہ صحبت سے۔ اور اگرچہ ہم کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں لیکن بغیر اندیشہ طول کے پھر مکرر ہریک مخالف پر ظاہر کرتے ہیں کہ فی الحقیقت یہ دولت عظمٰی اسلام میں پائی جاتی ہے کسی دوسرے مذہب میں ہرگز پائی نہیں جاتی اور طالب حق کے لئے اس کے ثبوت کے بارے میں ہم آپ ہی ذمہ وار ہیں بشرط صحبت و حسن ارادت و تحقق مناسبت اور صبر اور ثبات کے یہ امور ہریک طالب پر بقدر استعداد اور لیاقت ذاتی اُس کے کے کھل سکتے ہیں اور ان امور میں سےؔ جو اخبار غیبیہ ہیں ان کی نسبت یہ شبہ ہرگز نہیں کرنا چاہئے جو اس کام میں رمّال و منجم بھی شریک ہیں کیونکہ یہ قوم کسی خاص فن یا قواعد کے ذریعہ سے اخبار غیبیہ کو نہیں بتلاتی اور نہ غیب دان ہونے کا دعویٰ کرتی ہے بلکہ خداوند کریم جو ان پر مہربان ہے اور ان کے حال پر ایک خاص عنایات و توجہات رکھتا ہے وہ بعض مصالح کے لحاظ سے بعض امور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 546
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 546
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
چشم دید باتوں کا ایک ذخیرہ رکھتا ہے اور خودؔ اس قسم کے مکر جیسے سادہ لوحوں اور جاہلوں کے سامنے چل جاتے ہیں اور زیر پردہ رہتے ہیں یہ ایک ایسا امر ہے جو مکّاروں کو
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَؔ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم کو ان سالکین کا راستہ بتلا جنہوں نے ایسی راہیں اختیار کیں کہ جن سے اُن پر تیرا انعام وارد ہوا اور ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے لاپرواہی سے سیدھی راہ پر قدم مارنے کے لئے کوشش نہ کی اور اس باعث سے
پیش از وقوع ان کو بتلا دیتا ہے تا جس کام کا اس نے ارادہ کیا ہے بوجہ احسن انجام کو پہنچ جائے مثلاً وہ خلق اللہ پر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ فلاں بندہ مؤید من اللہ ہے اور جو کچھ انعامات اور اکرامات وہ پاتا ہے وہ معمولی اور اتفاقی طور پر نہیں بلکہ خاص ارادہ و توجہ الٰہی سے ظہور میں آتے ہیں۔ اسی طرح جو کچھ فتح و نصرت اور اقبال و عزت اس کو ملتی ہے وہ کسی تدبیر اور حیلہ کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خدا ہی نے چاہا ہے کہ اس کو غلبہ بخشے اور اپنی تائیدات اس کے شامل حال کرے پس وہ کریم اور رحیم اس مقصود کے ثابت کرنے کی غرض سے ان انعامات اور فتوح سے پہلے بطور پیشگوئی اُن نعمتوں کے عطا کرنے کی بشارت دے دیتا ہے سو ان پیشگوئیوں سے مقصود بالذات اخبار غیبیہ نہیں ہوتیں بلکہ مقصود بالذات یہ ہوتا ہے کہ تا یقینی اور قطعی طور پر ثابت ہوجائے کہ وہ شخص مؤید من اللہ اور ان خاص لوگوں میں سے ہے جن کی تائید کے لئے عنایات حضرت عزّت خاص طور پر تجلی کرتی ہیں۔ اب اس تقریر سے ظاہر ہے کہ اس مؤیّد من اللہ کو منجم وغیرہ سے کچھ بھی نسبت نہیں اور اس کی پیشگوئیاں اصل مقصود نہیں ہے بلکہ اصل مقصود کی شناخت کے لئے علامات و آثار ہیں۔ ماسوا اس کے جن لوگوں کو خدائے تعالیٰ خاص اپنے لئے چن لیتا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنے گروہ میں داخل کرتا ہے ان میں صرف یہی علامت نہیں کہ وہ پوشیدہ چیزیں بتلاتے ہیں تا ان کا حال نجومیوں اور جوتشیوں اور رمّالوں اور کاہنوں کے حال سے مشتبہ ہوجائے اور کچھ مابہ الامتیاز باقی نہ رہے بلکہ ان کے شامل حال ایک عظیم الشان نور ہوتا ہے جس کے مشاہدہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 547
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 547
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/547/mode/1up
اُن کی کارسازیوں پر دلیر کرتا ہے۔ عوامؔ النّاس کو جو اکثر چارپایوں کی طرح ہوتے ہیں اس طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ لمبی چوڑی تفتیش کریں اور بات کی تہہ تک
تیری تائید سےؔ محروم رہ کر گمراہ رہے۔ یہ تین صداقتیں ہیں جن کی تفصیل یہ ہے کہ بنی آدم اپنے اقوال اور افعال اور اعمال اور نیات کے رو سے تین قسم کے ہوتے ہیں۔ بعض سچے دل سے خدا کے طالب ہوتے ہیں اور صدق اور عاجزی سے خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
کے سبب سے طالبؔ صادق بدیہی طور پر ان کو شناخت کرسکتا ہے اور حقیقت میں وہی ایک نور ہے جو ان کے ہریک قول اور فعل اور حال اور قال اور عقل اور فہم اور ظاہر اور باطن پر محیط ہو جاتا ہے اور صدہا شاخیں اس کی نمودار ہوجاتی ہیں اور رنگا رنگ کی صورتوں میں جلوہ فرماتا ہے وہی نور شدائد اور مصائب کے وقتوں میں صبر کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور استقامت اور رضا کے پیرایہ میں اپنا چہرہ دکھاتا ہے تب یہ لوگ جو اس نور کے مورد ہیں آفات عظیمہ کے مقابلہ پر جبال راسیات کی طرح دکھائی دیتے ہیں اور جن صدمات کی ادنیٰ َ مس سے ناآشنا لوگ روتے اور چلاتے ہیں بلکہ قریب بمرگ ہوجاتے ہیں ان صدمات کے سخت زور آور حملوں کو یہ لوگ کچھ چیز نہیں سمجھتے اور فی الفور حمایت الٰہی کنار عاطفت میں ان کو کھینچ لیتی ہے اور کوئی خامی اور بے صبری ان سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ محبوب حقیقی کے ایلام کو برنگ انعام دیکھتے ہیں اور بکشادگی سینہ و انشراح خاطر اس کو قبول کرتے ہیں بلکہ اس سے متلذّذ ہوتے ہیں کیونکہ طاقتوں اور قوتوں اور صبروں کے پہاڑ ان کی طرف رواں کئے جاتے ہیں اور محبت الٰہیہ کی پرجوش موجیں غیر کی یادداشت سے ان کو روک لیتی ہیں پس ان سے ایک ایسی برداشت ظہور میں آتی ہے کہ جو خارق عادت ہے اور جو کسی بشر سے بلاتائید الٰہی ممکن نہیں۔ اور ایسا ہی وہ نور حاجات کے وقتوں میں قناعت کی صورت میں ان پر جلوہ گر ہوتا ہے سو دنیا کی خواہشوں سے ایک عجیب طور کی برودت ان کے دلوں میں پیدا ہوجاتی ہے کہ بدبودار چیز کی طرح دنیا کو سمجھتے ہیں اور یہی دنیوی لذات جن کے حظوظ پر دنیا دار لوگ فریفتہ ہیں و بشوق تمام ان کے جویاں اور ان کے زوال سے سخت ہراساں ہیں یہ اُن کی نظر میں بغایت درجہ ناچیز ہوجاتے ہیں اور تمام سرور اپنا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 548
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 548
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/548/mode/1up
پہنچ جائیں اور ایسے تماشوں کے دکھلانے کا عرؔ صہ بھی نہایت ہی تھوڑا ہوتا ہے جس میں غور وفکر کرنے کے لئے کافی فرصت نہیں مل سکتی اس لئے مکّاروں کے لئے
پس خدا بھی ان کا طالب ہوجاتا ہے اور رحمت اور انعام کے ساتھؔ ان پر رجوع کرتا ہے۔ اس حالت کا نام انعام الٰہی ہے۔ اسی کی طرف آیت ممدوحہ میں اشارہ فرمایا اور کہا۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ یعنی وہ لوگ ایسا صفا اور سیدھا راستہ اختیار کرتے ہیں جس سے فیضانِ رحمتِ الٰہی کے مستحق ٹھہر جاتے ہیں اور بباعث اس کے
اِسی میں پاتے ہیں کہ مولیٰ حقیقی کی وفا اور محبت اور رضا سے دل بھرا رہے اور اسی کے ذوق اور شوق اور انس سے اوقات معمورر ہیں۔ اسؔ دولت سے بیزار ہیں کہ جو اُس کی خلاف مرضی ہے اور اس عزت پر خاک ڈالتے ہیں جس میں مولیٰ کریم کی ارادت نہیں۔ اور ایسا ہی وہ نور کبھی فراست کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی قوت نظریہ کی بلند پروازی میں اور کبھی قوت عملیہ کی حیرت انگیز کارگزاری میں کبھی حلم اور رفق کے لباس میں اور کبھی درشتی اور غیرت کے لباس میں۔ کبھی سخاوت اور ایثار کے لباس میں۔ کبھی شجاعت اور استقامت کے لباس میں۔ کبھی کسی خلق کے لباس میں اور کبھی کسی خلق کے لباس میں۔ اور کبھی مخاطبات حضرت احدیت کے پیرایہ میں اور کبھی کشوف صادقہ اور اعلامات واضحہ کے رنگ میں یعنی جیسا موقعہ پیش آتا ہے اس موقعہ کے مناسب حال وہ نور حضرت واہب الخیر کی طرف سے جوش مارتا ہے۔ نور ایک ہی ہے اور یہ تمام اس کی شاخیں ہیں۔ جو شخص فقط ایک شاخ کو دیکھتا ہے اور صرف ایک ٹہنی پر نظر رکھتا ہے اس کی نظر محدود رہتی ہے۔ اس لئے بسا اوقات وہ دھوکا کھالیتا ہے لیکن جو شخض یکجائی نگاہ سے اس شجرۂ طیبہ کی تمام شاخوں پر نظر ڈالتا ہے اور ان کے انواع اقسام کے پھلوں اور شگوفوں کی کیفیت معلوم کرتا ہے وہ روز روشن کی طرح اُن نوروں کو دیکھ لیتا ہے اور نورانی جلال کی کھینچی ہوئی تلواریں اس کے تمام گھمنڈوں کو توڑ ڈالتی ہیں۔ شاید اس جگہ بعض طبائع پر یہ اشکال پیش آوے کہ کیونکر ان کمالات کو وہ لوگ بھی پالیتے ہیں کہ جو نہ نبی ہیں اور نہ رسول لیکن جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں یہ اشکال ایک
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 549
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 549
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/549/mode/1up
دست بازی کی بہت گنجائش رہتی ہے اور ان کے پوؔ شیدہ بھیدوں پر اطلاع پانے کا کم موقع ملتا ہے۔ علاوہ اس کے عوام بیچارے علومِ طبعی وغیرہ فنونِ فلاسفہ
کہ ان میں اور خدا میں کوئی حجاب باقی نہیںؔ رہتا اور بالکل رحمت الٰہی کے محاذی آپڑتے ہیں۔ اس جہت سے انوار فیضان الٰہی کے ان پر وارد ہوتے ہیں۔ دوسری قسم وہ لوگ ہیں کہ جو دیدہ و دانستہ مخالفت کا طریق اختیار کرلیتے ہیں اور دشمنوں کی طرح خدا سے مونہہ
ناچیز وہم ہے کہ جو ان لوگوں کے دلوں کو پکڑتا ہے کہ جو اسلام کی اصل حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اگر نبیوں کے تابعین کو ان کے کمالات اور علوم اور معارف میں علیٰ وجہ التبعیت شرکت نہ ہو تو باب وراثت کا بکلّی مسدود ہوجاتا ہے یا بہت ہی تنگ اور منقبض رہ جاتا ہے کیونکہ یہ معنے بکلّی منافی وراثت ہے کہ جو کچھ فیوض حضرت مبدء فیاض سے اس کے رسولوں اور نبیوں کو ملتےؔ ہیں اور جس نورانیت یقین اور معرفت تک ان مقدّسوں کو پہنچایا جاتا ہے اس شربت سے ان کے تابعین کے حلق محض ناآشنا رہیں اور صرف خشک اور ظاہری باتوں سے ہی ان کے آنسو پونچھے جائیں۔ ایسی تجویز سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ حضرتِ فیاض مطلق کی ذات میں بھی ایک قسم کا بخل ہو اور نیز اس سے کلام الٰہی اور رسول مقبول کی عظمت اور بزرگی کی کسر شان لازم آتی ہے کیونکہ کلام الٰہی کی اعلیٰ تاثیریں اور نبی معصوم کی قوت قدسیہ کے کمالات اسی میں ہیں کہ انوار دائمہ کلام الٰہی کے ہمیشہ قلوب صافیہ اور مستعدہ کو روشن کرتے رہیں نہ یہ کہ تاثیر ان کی بکلّی معطّل ہو یا صرف معدودے چند تک ہوکر پھر ہمیشہ کے لئے باطل ہوجائے اور زائل القوّت دوا کی طرح فقط نام ہی تاثیر کا باقی رہ جائے ماسوا اس کے جبکہ ایک حقیقت واقعی طور پر ہر عہد اور ہر زمانہ میں خارج میں متحقق الوجود چلی آئی ہے اور اب بھی متحقق الوجود ہے اور شہادات متکاثرہ سے اس کا ثبوت بدیہی طور پر مل سکتا ہے تو پھر ایسی روشن صداقت سے کیونکر کوئی منصف انکار کرسکتا ہے اور ایسی کھلا کھلی سچائی کیونکر اور کہاں چھپ سکتی ہے حالانکہ قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ جب تک درخت قائم ہو اس کو پھل بھی لگتے رہیں۔ ہاں جو درخت خشک ہوجائے یا جڑ سے کاٹا جائے اس کے پھلوں کی توقع
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 550
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 550
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/550/mode/1up
سے کچھ خبر نہیں رکھتے اور جو کائنات میں حکیمِ مُطلق نے طرح طرحؔ کے عجیب خواص رکھے ہیں اُن خواص کی انہیں کچھ بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس وہ ہریک وقت
پھیر لیتے ہیں سو خدا بھی ان سے منہ پھیر لیتا ہے اور رحمت کے ساتھ ان پر رجوعؔ نہیں کرتا اس کا باعث یہی ہوتا ہے کہ وہ عداوت اور بیزاری اور غضب اور غیظ اور نارضامندی جو خدا کی نسبت ان کے دلوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہے وہی ان میں اور خدا میں حجاب ہوجاتی ہے
رکھنا محض نادانی ہے پس جس حالت میں فرقان مجید وہ عظیم الشان و سرسبز و شاداب درخت ہے جس کی جڑھیں زمین کے نیچے تک اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں تو پھر ایسے شجرہ طیبہ کے پھلوں سے کیونکر انکار ہوسکتا ہے۔ اس کے پھل بدیہی الظہور ہیں جن کو ہمیشہ لوگ کھاتے رہے ہیں اور اب بھی کھاتے ہیں اور آئندہ بھی کھائیں گے اور یہ بات بعض نادانوں کی بالکل بے ہودہ اور غلط ہے کہ اس زمانہ میں کسی کو ان پھلوں تک گزر ہی نہیں بلکہ ان کا کھانا پہلے لوگوں کے ہی حصہ ؔ میں تھا اور وہی خوش نصیب لوگ تھے جنہوں نے وہ پھل کھائے اور ان سے متمتع ہوئے اور ان کے بعد بدنصیب لوگ پیدا ہوئے جن کو مالک نے باغ کے اندر آنے سے روک دیا۔ خدا کسی ذی استعداد کی استعداد کو ضائع نہیں کرتا اور کسی سچے طالب پر اس کے فیض کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی کے خیال باطل میں یہ سمایا ہوا ہے کہ کسی وقت کسی زمانہ میں فیوض الٰہی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اور ذی استعداد لوگوں کی کوششیں اور محنتیں ضائع جاتی ہیں تو اس نے اب تک خدا ئے تعالیٰ کا قدر شناخت نہیں کیا اور ایسا آدمی انہیں لوگوں میں داخل ہے جن کی نسبت خدائے تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے۔ 3۔۱ لیکن اگر یہ عذر پیش کیا جائے کہ جن علوم و معارف و کشوف صادقہ و مخاطبات حضرت احدیت کے تحقق وجود کا ذکر کیا جاتا ہے وہ اب کہاں ہیں اور کیونکر بہ پایۂ ثبوت پہنچ سکتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب امور اسی کتاب میں ثابت کئے گئے ہیں اور طالب حق کے لئے ان کے امتحان کا نہایت سیدھا اور آسان راستہ کھلا ہے کیونکہ وہ علوم و معارف کو خود اس کتاب میں دیکھ سکتا ہے۔ اور جو کشوف صادقہ اور اخبار غیبیہ اور دوسرے خوارق ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 551
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 551
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/551/mode/1up
اور ہر زمانہ میں دھوکا کھانے کو طیّار ہیں۔ اور کیونکر دھوکا نہ کھاویں خواص اشیاءؔ کے ایسے ہی حیرت افزا ہیں اور بے خبری کی حالت میں موجبِ زیادتِ حیرت
اس حالت کا نام غضبِ الٰہی ہے۔ اسی کی طرف خدائے تعالیٰ نے اشارہ فرما کر کہا۔ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ۔ تیسری قسم کے وہؔ لوگ ہیں کہ جو خدا سے لاپرواہ رہتے ہیں اور سعی اور کوشش سے اس کو طلب نہیں کرتے۔ خدا بھی اُن کے ساتھ لاپرواہی
وہ غیر مذہب والوں کی شہادت سے اس پر ثابت ہوسکتے ہیں یا وہ آپ ہی ایک عرصہ تک صحبت میں رہ کر یقین کامل کے مرتبہ تک پہنچ سکتا ہے اور جو دوسرے لوازم اور خصوصیات اسلام ہیں وہ بھی سب صحبت سے کھل سکتے ہیں لیکن اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جو کچھ عجائب و غرائب اہل حق پر منکشف ہوتے ہیں اور جو کچھ برکات ان میں پائے جاتے ہیں وہ کسی طالب پر تب کھولے جاتے ہیں کہ جب وہ طالب کمال صدق اور اخلاص سے بہ نیت ہدایت پانے کے رجوع کرتا ہے اور جب وہ ایسے طور سے رجوع کرتا ہے تو تب جس قدر اور جس طور سے انکشاف مقدر ہوتا ؔ ہے وہ بارادہ خالص الٰہی ظہور میں آتا ہے مگر جس جگہ سائل کے صدق اور نیت میں کچھ فتور ہوتا ہے اور سینہ خلوص سے خالی ہوتا ہے تو پھر ایسے سائل کو کوئی نشان دکھلایا نہیں جاتا یہی عادت خداوند تعالیٰ کی انبیاء کرام سے ہے جیسا کہ یہ بات انجیل کے مطالعہ سے نہایت ظاہر ہے کہ کئی مرتبہ یہودیوں نے مسیح سے کچھ معجزہ دیکھنا چاہا تو اس نے معجزہ دکھلانے سے صاف انکار کیا اور کسی گزشتہ معجزہ کا بھی حوالہ نہ دیا چنانچہ مرقس کی انجیل کے آٹھ باب اور باراں آیت میں بھی اسی کی تصریح ہے اور عبارت مذکور یہ ہے۔ تب فریسی نکلے اور اس سے(یعنی مسیح سے) حجت کرکے اس کے امتحان کے لئے آسمان سے کوئی نشان چاہا اس نے اپنے دل میں آہ کھینچ کر کہا اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائے گا۔ سو اگرچہ بظاہر دلالت عبارت اسی پر ہے۔ کہ مسیح سے کوئی معجزہ صادر نہیں ہوا لیکن اصلی معنے اس کے یہی ہیں کہ اُس وقت تک مسیح سے کوئی معجزہ ظہور میں نہیں آیا تھا تب ہی اس نے کسی گذشتہ معجزہ کا حوالہ نہیں دیا کیونکہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 552
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 552
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/552/mode/1up
ہوتے ہیں۔ مثلاً مکھی اور دوسرے بعض جانوروں میں یہ خاصیّت ہے کہ اگر ایسے طور پر مرجائیں کہؔ اُن کے اعضا میں کچھ زیادہ تفرّق اتصال واقع نہ ہو اور اعضا
کرتا ہے اور ان کو اپنا راستہ نہیں دکھلاتا۔ کیونکہ وہ لوگ راستہ طلب کرنے میں آپ سستی کرتے ہیں۔ اور اپنے تئیں اس فیض کے لائق نہیں بناتے کہ جو خدا کے قانون قدیم میںؔ محنت اور کوشش کرنے والوں کے لئے مقرر ہے۔ اس حالت کا نام ا ضلالِ الٰہی ہے۔
یہود میں صاحب صدق اور اخلاص کم تھے تا کسی کے حسن ارادت کے لحاظ سے کوئی معجزہ ظہور میں آتا لیکن اس کے بعد جب لوگ صاحب صدق اور ارادت پیدا ہوگئے اور طالب حق بن کر مسیح کے پاس آئے تو وہ معجزات دیکھنے سے محروم نہیں رہے چنانچہ یہودا اسکریوطی کی خراب نیت پر مسیح کا مطلع ہوجانا یہ اس کا ایک معجزہ ہی تھا جو اس نے اپنے شاگردوں اور صادق الاعتقاد لوگوں کو دکھلایا۔ اگرچہ اُس کے دوسرے سب عجیب کام بباعث قصہ حوض اور بوجۂ آیتِ مذکورہ بالا کے مخالف کی نظر میں قابل انکار اور محل اعتراض ٹھہر گئے اور اب بطور حجت مستعمل نہیں ہوسکتے لیکن معجزہ مذکورہ بالا منصف مخالف کی نظر میں بھی ممکن ہے کہ ظہور میں آیا ہو غرض معجزات اور خوارق کے ظہور کے لئے طالب کا صدق اور اخلاص شرط ہے۔ اورؔ صدق اور اخلاص کے یہی آثار و علامات ہیں کہ کینہ اور مکابرہ درمیان نہ ہو اور صبر اور ثبات اور غربت اور تذلل سے بہ نیت ہدایت پانے کے کوئی نشان طلب کیا جائے اور پھر اس نشان کے ظہور تک صبر اور ادب سے انتظار کیا جائے تا خداوند کریم وہ بات ظاہر کرے جس سے طالب صادق یقین کامل کے مرتبہ تک پہنچ جائے۔ غرض ادب اور صدق اور صبر برکات الٰہیہ کے ظہور کے لئے شرط اعظم ہے جو شخص فیض الٰہی سے مستفیض ہونا چاہتا ہے اس کے حال کے یہی مناسب ہے کہ وہ سراپا ادب ہوکر بہ تمام تر غربت و صبر اس نعمت کو اس کے اہل کے دروازہ سے طلب کرے اور جہاں معرفت الٰہیہ کا چشمہ دیکھے آپ افتاں و خیزاں اس چشمہ کی طرف دوڑے اور پھر صبر اور ادب سے کچھ دنوں تک ٹھہرا رہے لیکن جو لوگ خدائے تعالیٰ کی طرف سے صاحب خوارق ہیں ان کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 553
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 553
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/553/mode/1up
اپنی اصلی ہیئت اور وضع پر سلامت رہیں اور متعفن ہونے بھی نہ پاویں بلکہ ابھی تازہ ہی ہوں اور موت پر دو تین گھنٹہ سے زیادہ عرصہ نہ گذرا ہو جیسے پانی
جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا نے ان کو گمراہ کیا یعنی جبکہ انہوں نے ہدایت پانے کے طریقوں کو بجدوجہد طلب نہ کیا تو خدا نے بہ پابندی اپنے قانون قدیم کے ان کو ہدایت بھی نہ دی اور اپنی تائید سے محروم رکھا۔ اسی کی طرف اشارہ فرمایا اور کہا وَلَا الضَّالِیْن۔ غرض
شعبدہ بازوں کی طرح بازاروں اور مجالس میں تماشا دکھلاتے پھریں اور نہ یہ امور ان کے اختیار میں ہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کے پتھر میں آگ تو بلاشبہ ہے لیکن صادقوں اور صابروں اور مخلصوں کی پُر ارادت ضرب پر اس آگ کا ظہور اور بروز موقوف ہے اور ایک اَور بات بھی یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اہل اللہ کے کشوف اور الہامات کو فقط اخبار غیبیہ کا ہی خطاب دینا غلطی ہے بلکہ وہ کشوف اور الہامات تائیدات الٰہیہ کے باغ کی خوشبوئیں ہیں جو دور سے ہی اس باغ کا وجود بتلاتے ہیں اور عظمت اور شان ان کشوف اور الہامات کے اس شخص پر کما حقّہ‘ کھلتی ہے جس کی نظر تائیداتِ الہٰیہ کی تلاش میں ہو یعنی وہ اصل نشان تائیداتِ الہٰیہ کو ٹھہرا کر پیشگوئیوں کو ان تائیدوں کے لوازم سمجھتا ہو جو بغرض ثابت کرنے تائیدوں کے استعمال میں لائے گئے ہیںؔ ۔ غرض مدار مقرّب اللہ ہونے کا تائیدات الٰہیہ ہیں اور پیشگوئیاں روشن ثبوت سے ان تائیدات کا واقعی طور پر پایا جانا ہریک عام اور خاص کو دکھلاتے ہیں۔ پس تائیدات اصل ہیں اور پیشگوئیاں اُن کی فرع اور تائیدات قرص آفتاب کی طرح ہیں اور پیشگوئیاں اس آفتاب کی شعاعیں اور کرنیں ہیں۔ تائیدات کو پیشگوئیوں کے وجود سے یہ فائدہ ہے کہ تاہریک کو معلوم ہو کہ وہ حقیقت میں خاص تائیدیں ہیں معمولی اتفاقات سے نہیں اور بخت اور اتفاق پر محمول نہیں ہوسکتیں اور پیشگوئیوں کو تائیدات کے وجود سے یہ فائدہ ہے کہ اس بزرگ پیوند سے ان کی شان بڑھتی ہے اور ایک بے مثل خصوصیت ان میں پیدا ہوجاتی ہے کہ جو مؤیدان الٰہی کے غیر میں نہیں پائی جاتی۔ سو یہی خصوصیت عام پیشگوئیوں اور ان جلیل الشان پیشگوئیوں میں مابہ الامتیاز ٹھہر جاتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 554
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 554
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/554/mode/1up
میں مری ہوئی مکھیاں ہوتی ہیں تو اس صورت میں اگر نمک باریک پیس کر اس مکھی وغیرہ کو اس کے نیچے دبایا جاوے اور پھر اسی قدر خاکستر بھی اس پر ڈالی جاوے تو وہ مکھی زندہ ہوکر اڑ جاتی ہے اور یہ خاصیت مشہور و معروفؔ ہے جس کو اکثر لڑکے بھی جانتے ہیں لیکن اگر کسی سادہ لوح کو اس نسخہ پر اطلاع نہ ہو اور کوئی مکار
ماحصل اور خلاصہ ان تینوں صداقتوں کا یہ ہے کہ جیسے انسان کی خدا کے ساتھ تین حالتیں ہیں ایسا ہی خدا بھی ہریک حالت کے موافق ان کے ساتھ جدا جدا معاملہ کرتا ہے۔ جوؔ لوگ اُس پر راضی ہوتے ہیں اور دلی محبت اور صدق سے اس کے خواہاں ہوجاتے ہیں خدا بھی ان پر راضی ہوجاتا ہے اور اپنی رضامندی کے انوار ان پر نازل کرتا ہے۔ اور جو لوگ
اِس قوم کی عظمت اور بزرگی کے سمجھنے کے لئے جو پیشگوئیوں اور تائیدات کاملہ میں ایک پیوند ہے اُس کو خیال میں رکھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ پیوند دوسرے لوگوں کی پیش گوئیوں میں غیر ممکن اور ممتنع ہے اور نیز ان کی پیشگوئیوں میں ایسی فاش غلطیاں نکل آتی ہیں جنؔ سے ہریک ذلت ان کی ظاہر ہوتی ہے مگر خدا کے لوگ جو ہوتے ہیں ان کی روشن پیشگوئیاں ہمیشہ سے سچائی کے نور سے منور ہوتی ہیں ماسوا اس کے وہ مبارک پیشگوئیاں ایک عجیب طور کی عجیب تائید سے لازم ملزوم ہوتی ہیں۔ خدا اپنے بندوں کے کاموں کا آپ متولّی ہوکر ایک حیرت انگیز طور پر ان کی تائید کرتا ہے اور کیا ظاہری طور پر اور کیا باطنی طور پر ہر دم اور ہر لحظہ ان کی مدد میں رہتا ہے اور ان سے اس کی یہی عادت ہے کہ ان کو اپنی تائیدات کی خبریں پیش از وقوع بتلاتا ہے اور ان کے تردّد و تفکّر کے وقت میں اپنے پرنور کلام سے ان کو تسلی اور تشفّی بخشتا ہے اور پھر ایک ایسے عجیب طور پر ان کی مدد کرتا ہے کہ جو خیال اور گمان میں نہیں ہوتی اور جو شخص ان کی صحبت میں رہ کر ان باتوں کو عمیق نگاہ سے دیکھتا رہتا ہے اور صاف اور پاک نظر سے ان کی عظمت اور بزرگی پر غور کرتا ہے۔ اس کو بلااختیار ایک ضروری اور جازم یقین سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ لوگ مؤیّد من اللہ ہیں اور حضرت احدیت کو ان کی طرف ایک خاص توجہ ہے کیونکہ یہ بات ظاہر ہے کہ جب ایک آدھ دفعہ نہیں بلکہ بیسوں دفعہ کسی انسان کو اتفاق پڑے کہ وہ کسی تائید کا وعدہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 555
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 555
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/555/mode/1up
اس نادان اور بے خبر کے سامنے مگس مسیح ہونے کا دعویٰ کرے اور اسی حکمت عملی سے مکھیوں کو زندہ کرے اور بظاہر کوئی منتر جنتر پڑھتا رہے جس سے یہ جتلانا منظور ہو کہ گویا وہ اسی منتر کے ذریعہ سے مکھیوں کو زندہ کرتا ہے تو پھر اس سادہ لوح کو اس قدر عقل اور فرصت کہاں ہے کہ تحقیقاتیں کرتا پھرے۔ کیا تم
اُس سے مونہہ پھیر لیتے ہیں اور عمداً مخالفت اختیار کرتے ہیں۔ خدا بھی مخالف کی طرح ان سے معاملہ کرتا ہے اور جو لوگ اس کی طلب میں سستی اور لاپروائی کرتے ہیں خدا بھی ان سے لاپروائی کرتا ہے اور ان کو گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے غرض جس طرح آئینہ میں انسان کو وہی شکل نظر آتی ہے کہ جو حقیقت میں شکل رکھتا ہے۔ اسی طرح حضرتِ احدیّت کہؔ جو ہریک
قبل از وقوع سن کر پھر اس تائید کو ظہور میں آتے ہوئے بچشم خود دیکھ لے تو کوئی انسان ایسا پاگلؔ اور دیوانہ نہیں کہ پھر بھی ان صحیح پیشگوئیوں اور قوی تائیدوں پر یقین کامل نہ کرسکے۔ ہاں اگر فرط تعصب اور بے ایمانی سے کسی چشم دید ماجرا کا دانستہ انکار کرے تو یہ اَور بات ہے۔ لیکن پھر بھی اس کا دل انکار نہیں کرسکتا اور ہر وقت اس کو ملزم کرتا ہے کہ تو شریر اور سرکش آدمی ہے۔ اب چند کشوف اور الہامات نوواردہ بغرض افادہ طالبین حق لکھے جاتے ہیں اور اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اگر خدا نے چاہا تو جو کچھ مواہب لدنّیہ سے اس احقر عباد پر ظاہر کیا جائے گا وہ اس کتاب میں درج ہوتا رہے گا۔ اِلاَّ مَاشَاء اللہ۔ اور اس سے غرض یہ ہے کہ تا یقین اور معرفت کے سچے طالب فائدہ حاصل کریں اور اپنی حالت میں کشائش پاویں اور ان کے دل پر سے وہ پردے اٹھیں جن سے ان کی ہمت نہایت پست اور ان کے خیالات نہایت ُ پرظلمت ہورہے ہیں اور اس جگہ ہم مکرراً یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ یہ باتیں ایسی نہیں ہیں جن کا ثبوت دینے سے یہ خاکسار عاجز ہو یا جن کے ثبوت میں اپنے ہی ہم مذہبوں کو پیش کیا جائے بلکہ یہ وہ بدیہی الصدق باتیں ہیں جن کی صداقت پر مخالف المذہب لوگ گواہ ہیں اور جن کی سچائی پر وہ لوگ شہادت دے سکتے ہیں جوؔ ہمارے دینی دشمن ہیں اور یہ سب اہتمام اس لئے کیا گیا کہ تا جو لوگ فی الحقیقۃراہ راست کے خواہاں اور جویاں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 556
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 556
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/556/mode/1up
دیکھتے نہیں کہ مکارؔ لوگ اسی زمانے میں دنیا کو ہلاک کررہے ہیں۔ کوئی سونا بنا کر دکھلاتا ہے اور کیمیا گری کا دعویٰ کرتا ہے۔ اور کوئی آپ ہی زمین کے نیچے پتھر دبا کر پھر ہندوؤں کے سامنے دیوی نکالتا ہے۔ بعض نے ایسا بھی کیا ہے کہ جمال گوٹہ کا روغن اپنی دوات کی سیاہی میں ملایا اور پھر اس سیاہی سے کسی سادہ لوح کو تعویذ لکھ کر دیا تا دست آنے پر تعویذ کا اثر ظاہر ہو۔ ایسے ہی ہزاروں اور مکر اور فریب ہیں کہ جو اسی زمانہ میں ہورہے ہیں اور بعض مکر ایسے عمیق ہیں جن سے بڑے بڑے دانشمند
کدورت سے مصفّٰی اور پاک ہے محبت والوں کے ساتھ محبت رکھتا ہے۔ غضب والوں پر غضب ناک ہے لاپرواہوں کے ساتھ لاپرواہی‘ رُکنے والوں سے رک جاتا ہے اور جھکنے والوں کی طرف جھکتا ہے۔ چاہنے والوں کو چاہتا ہے اور نفرت کرنے والوں سے نفرت کرتا ہے اور جس طرح آئینہ کے سامنے جو انداز اپنا بناؤ گے وہی انداز آئینہ میں بھی نظر آئے گا۔ ایسا ہی خداوند تعالیٰ کے روبرو جس انداز سے کوئی چلتا ہے وہی انداز خدا کی طرف سے اس کے لئے موجود ہے۔ اور جن لباسوں کو بندہ اپنے لئے آپ
ہیں ان پر بکمال انکشاف ظاہر ہوجائے کہ تمام برکات اور انوار اسلام میں محدود اور محصور ہیں اور تا جو اس زمانہ کے ملحد ذرّیت ہے اس پر خدائے تعالیٰ کی حجت قاطعہ اتمام کو پہنچے اور تا ان لوگوں کی فطرتی شیطنت ہریک منصف پر ظاہر ہو کہ جو ظلمت سے دوستی اور نور سے دشمنی رکھ کر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مراتب عالیہ سے انکار کرکے اس عالی جناب کی شان کی نسبت پر خبث کلمات مونہہ پر لاتے ہیں اور اس افضل البشر پر ناحق کی تہمتیں لگاتے ہیں اور بباعث غایت درجہ کی کور باطنی کے اور بوجہ نہایت درجہ کی بے ایمانی کے اس بات سے بے خبر ہورہے ہیں کہ دنیا میں وہی ایک کامل انسان آیا ہے جس کا نور آفتاب کی طرح ہمیشہ دنیا پر اپنی شعاعیں ڈالتا رہا ہے اور ہمیشہ ڈالتا رہے گا۔ اور تا ان تحریراتِ حقہ سے اسلام کی شان و شوکت خود مخالفوں کے اقرار سے ظاہر ہوجائے اور تا جو شخص سچی طلب رکھتا ہو اس کے لئے ثبوت کا راستہ کھل جائے اور جو اپنے میں کچھ دماغ رکھتا ہو اس کی دماغ شکنی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 557
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 557
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/557/mode/1up
دھوکاؔ کھا جاتے ہیں اور علوم طبعی کے دقائق عمیقہ اور جسمی تراکیب اور قوتوں کے خواص عجیبہ جو حال کے زمانہ میں نئے تجارب کے ذریعہ سے روزبروز پھیلتے جاتے ہیں یہ جدید باتیں ہیں جن سے جھوٹے معجزے دکھلانے والے نئے نئے مکر اور فریب دکھا سکتے ہیں سو اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ جو معجزات بظاہر صورت ان مکروں سے متشابہ ہیں۔ گو وہ سچے بھی ہوں تب بھی محجوب الحقیقت ہیں اور ان کے ثبوت کے بارے میں بڑی بڑی دقتیں ہیں۔
اختیارؔ کرلیتا ہے وہی تخم بویا ہوا اس کا اس کو دیا جاتا ہے۔ جب انسان ہریک طرح کے حجابوں اور کدورتوں اور آلائشوں سے اپنے دل کو پاک کرلیتا ہے اور صحن سینہ اس کے کا مواد ردّیہ ماسوائے اللہ سے بالکل خالی ہوجاتا ہے۔ تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی اپنے مکان کا دروازہ جو آفتاب کی طرف ہے کھول دیتا ہے اور سورج کی کرنیں اس کے گھر کے اندر چلی آتی ہیں۔ لیکن جب بندہ ناراستی اور دروغ اور طرح طرح کی آلائشوں کو آپ اختیار کرلیتا ہے اور خدا کو حقیر چیز کی طرح خیال کرکے چھوڑ دیتا
ہوجائے اور نیز ان کشوف اور الہامات کےؔ لکھنے کا یہ بھی ایک باعث ہے کہ تا اس سے مومنوں کی قُوّت ایمانی بڑھے اور ان کے دلوں کو تثبت اور تسلی حاصل ہو اور وہ اس حقیقت حقہ کو بہ یقین کامل سمجھ لیں کہ صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو سچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پاکر حق الیقین کے مقام تک
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 558
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 558
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/558/mode/1up
تمہیدؔ ششم۔ جس طرح محجوب الحقیقت معجزاتِ عقلی معجزات سے برابری نہیں کرسکتے۔ ایسا ہی پیشین گوئیاں اور اخبار ازمنہ گذشتہ جو نجومیوں اور رمّالوں اور کاہنوں اور مؤرّخوں کے طریق ۂبیان سے مشابہ ہیں ان پیشین گوئیوں اور اخبار غیبیہ سے مساوی نہیں ہوسکتیں کہ جو محض اخبار نہیں ہیں بلکہ ان کے ساتھ قُدرتِ الوہیّت بھی شامل ہے کیونکہ دنیا میں بجز انبیاء کے اور بھی ایسے لوگ بہت نظر آتے ہیں کہ ایسی ایسی خبریں پیش از وقوع بتلایا کرتے ہیں کہ زلزلے
ہے تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی روشنی ؔ کو ناپسند کرکے اور اس سے بغض رکھ کر اپنے گھر کے تمام دروازے بند کردے تا ایسا نہ ہو کہ کسی طرف سے آفتاب کی شعاعیں اس کے گھر کے اندر آجائیں۔ اور جب انسان بباعث جذبات نفسانی یا ننگ و ناموس یا تقلید قوم وغیرہ طرح طرح کی غلطیوں اور آلائشوں میں گرفتار ہو اور سستی اور تکاسل اور لاپروائی سے ان آلائشوں سے پاک ہونے کے لئے کچھ سعی اور کوشش نہ کرے تو اس کی ایسی مثال ہوتی ہے جیسے کوئی اپنے گھر کے دروازوں کو بند پاوے اور
پہنچ جاتا ہے اور ایک باعث ان کشوف اور الہامات کی تحریر پر اور پھر غیر مذہب والوں کی شہادتوں سے اس کے ثابت کرنے پر یہ بھی ہے کہ تا ہمیشہ کے لئے ایک قوی حجت مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے اور جو سفلہ اور ناخداترس اور سیاہ دل آدمی ناحق کا مقابلہ اورؔ مکابرہ مسلمانوں سے کرتے ہیں۔ ان کا مغلوب اور لاجواب ہونا ہمیشہ لوگوں پر ثابت اور آشکار ہوتا رہے اور جو ضلالت اور گمراہی کی ایک زہرناک ہوا آج کل چل رہی ہے اس کی زہر سے زمانہ حال کے طالب حق اور نیز آئندہ کی نسلیں محفوظ رہیں کیونکہ ان الہامات میں ایسی بہت سی باتیں آئیں گی جن کا ظہور آئندہ زمانوں پر موقوف ہے پس جب یہ زمانہ گزر جائے گا اور ایک نئی دنیا نقاب پوشیدگی سے اپنا چہرہ دکھائے گی اور ان باتوں کی صداقت کو جو اس کتاب میں درج ہے بچشم خود دیکھے گی تو اُن کی تقویت ایمان کے لئے یہ پیشین گوئیاں بہت فائدہ دیں گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ سو اس وقت جو پیشگوئیاں خداوند کریم کی طرف سے ظاہر ہوئی ہیں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 559
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 559
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/559/mode/1up
آویں گے وباؔ پڑے گی لڑائیاں ہوں گی قحط پڑے گا ایک قوم دوسری قوم پر چڑھائی کرے گی یہ ہوگا وہ ہوگا اور بارہا کوئی نہ کوئی ان کی خبر بھی سچی نکل آتی ہے پس ان شبہات کے مٹانے کے لئے وہ پیشین گوئیاں اور اخبار غیبیہ زبردست اور کامل مُتصوّر ہوں گے جن کے ساتھ ایسے نشان قُدرتِ الٰہیہ کے ہوں جن میں رمّالوں اور خواب بینوں اور نجومیوں وغیرہ کا شریک ہونا ممتنع اور محال ہو یعنی ان میں خداوند تعالیٰ کے کامل جلال کا جوش اور اُس کی
تمام گھر میں اندھیرا بھرا ہوا دیکھے اور پھرؔ اٹھ کر دروازوں کو نہ کھولے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھا رہے اور دل میں یہ کہے کہ اب اس وقت کون اٹھے اور کون اتنی تکلیف اٹھاوے۔ یہ تینوں مثالیں ان تینوں حالتوں کی ہیں جو انسان کے اپنے ہی فعل یا اپنی ہی سستی سے پیدا ہوجاتی ہیں جن میں سے پہلی حالت کا نام حسب تصریح گذشتہ کے انعام الٰہی اور دوسری حالت کا نام غضب الٰہی اور تیسری حالت کا نام اضلال الٰہی ہے ان تینوں صداقتوں سے بھی ہمارے مخالفین بے خبر ہیں۔ کیونکہ برہمو سماج والوں کو
بعض ان میں سے ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔ ازانجملہ ایک یہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرا ہے کہ ایک دفعہ سخت ضرورت روپیہ کی پیش آئی جس ضرورت کا ہمارے اس جگہ کے آریہ ہم نشینوں کو بخوبی علم تھا اور یہ بھی ان کو خوب معلوم تھا کہ بظاہر کوئی ایسی تقریب پیش نہیں ہے کہ جو جائے امید ہوسکے بلکہ اس معاملہ میں ان کو ذاتی طور پر واقفیت تھی جس کی وہ شہادت دے سکتے ہیں۔ پس جبکہ وہ ایسے مشکل اور فقدان اسباب حل ؔ مشکل سے کامل طور پر مطلع تھے اس لئے بلا اختیار دل میں اس خواہش نے جوش مارا کہ مشکل کشائی کے لئے حضرت احدیت میں دعا کی جائے تا اس دعا کی قبولیت سے ایک تو اپنی مشکل حل ہوجائے اور دوسری مخالفین کے لئے تائید الٰہی کا نشان پیدا ہو۔ ایسا نشان کہ اس کی سچائی پر وہ لوگ گواہ ہوجائیں۔ سو اسی دن دعا کی گئی اور خدائے تعالیٰ سے یہ مانگا گیا کہ وہ نشان کے طور پر مالی مدد سے اطلاع بخشے تب یہ الہام ہوا دس دن کے بعد مَیں موج دکھاتا ہوں۔ 33۔ فی شایل مقیاس۔ دن ول یو گو ٹو امرت سر۔ یعنی دس دن کے بعد روپیہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 560
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 560
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/560/mode/1up
تائیدات کا ایسا بزرگ چمکارا نظر آتا ہو۔ جوؔ بدیہی طور پر اس کی توجّہاتِ خاصہ پر دلالت کرتا ہو اور نیز وہ ایک ایسی نصرت کی خبر پر مشتمل ہوں جس میں اپنی فتح اور مخالف کی شکست اور اپنی عزت اور مخالف کی ذلت اور اپنا اقبال اور مخالف کا زوال بہ تفصیل تمام ظاہر کیا گیا ہو اور ہم اپنے موقعہ پر بیان کریں گے اور کچھ بیان بھی کرچکے ہیں کہ یہ اعلیٰ درجہ کی پیشین گوئیاں صرف قرآن شریف سے مخصوص ہیں کہ جن کے پڑھنے سے جلال الٰہی کا ایک عالم نظر آتا ہے۔
اُس صداقت سے بالکل اطلاع نہیں ہے جس کے رو سے خدائے ؔ تعالیٰ سرکش اور غضب ناک بندوں کے ساتھ غضبناک کا معاملہ کرتا ہے۔ چنانچہ برہمو صاحبوں میں سے ایک صاحب نے اس بارہ میں انہیں دنوں میں ایک رسالہ بھی لکھا ہے جس میں صاحب موصوف خدا کی کتابوں پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان میں غضب کی صفت خدائے تعالیٰ کی طرف کیونکر منسوب کی گئی ہے کیا خدا ہماری کمزوریوں پر چڑتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر صاحب راقم کو اس صداقت کی کچھ بھی خبر ہوتی توکیوں وہ ناحق اپنے اوقات ضائع کرکے ایک ایسا رسالہ چھپواتے جس سے ان کی کم فہی ہر یک پر کھل گئی
آئے گا۔ خدا کی مدد نزدیک ہے اور جیسے جب جننے کے لئے اونٹنی دُم اٹھاتی ہے تب اس کا بچہ جننا نزدیک ہوتا ہے ایسا ہی مدد الٰہی بھی قریب ہے اور پھر انگریزی فقرہ میں یہ فرمایا کہ دس دن کے بعد جب روپیہ آئے گا تب تم امرتسر بھی جاؤ گے۔ تو جیسا اس پیشگوئی میں فرمایا تھا ایسا ہی ہندوؤں یعنی آریوں مذکورہ بالا کے روبرو وقوع میں آیا یعنی حسب منشاء پیشگوئی دس دن تک ایک خرمُہرہ نہ آیا اور دس دن کے بعد یعنی گیارھویں روز محمد افضل خان صاحب سپرنٹنڈنٹ بندوبست راولپنڈی نے ایک سو دس روپیہ بھیجے اور بیست روپیہ ایک اور جگہ سے آئے اور پھر برابر روپیہ آنے کا سلسلہ ایسا جاری ہوؔ گیا جس کی امید نہ تھی۔ اور اسی روز کہ جب دس دن کے گزرنے کے بعد محمد افضل خان صاحب وغیرہ کا روپیہ آیا امرتسر بھی جانا پڑا۔ کیونکہ عدالت خفیفہ امرتسر سے ایک شہادت کے ادا کرنے کے لئے اس عاجز کے نام اسی روز ایک سمن
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 561
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 561
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/561/mode/1up
تمہیدؔ ہفتم۔ قرآن شریف میں جس قدر باریک صداقتیں علم دین کی اور علوم دقیقہ الٰہیّات کے اور براہینِ قاطعہ اُصولِ حقّہ کے معہ دیگر اسرار اور معارف کے مُندرج ہیں اگرچہ وہ تمام فی حدّ ذاتہا ایسے ہیں کہ قویٰ بشریہ اُن کو بہ ہیئت مجموعی دریافت کرنے سے عاجز ہیں اور کسی عاقل کی عقل ان کے دریافت کرنے کے لئے بطور خود سبقت نہیں کرسکتی کیونکہ پہلے زمانوں پر نظر استقراری ڈالنے سے ثابت ہوگیا ہے کہ کوئی حکیم یا فیلسوف اُن علوم و معارف کا دریافت کرنے والا نہیں گزرا۔
ہے اور اُن کو باوجود دعویٰ عقل کے یہ باؔ ت سمجھ نہ آئی کہ خدا کا غضب بندہ کی حالت کا ایک عکس ہے جب انسان کسی مخالفانہ شر سے محجوب ہوجائے اور خدا سے دوسری طرف مونہہ پھیر لے تو کیا وہ اس لائق رہ سکتا ہے کہ جو سچے محبّوں اور صادقوں پر فیضان رحمت ہوتا ہے اس پر بھی وہی فیضان ہوجائے ہرگز نہیں بلکہ خدا کا قانونِ قدیم جو ابتدا سے چلا آیا ہے جس کو ہمیشہ راست باز اور صادق آدمی تجربہ کرتے رہے ہیں اور اب بھی صحیح تجارب سے اس کی سچائیوں کو مشاہدہ کرتے ہیں وہ یہی قانون ہے کہ جو شخص ظلماتی
آگیا۔ سو یہ وہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی مفصل حقیقت پر اس جگہ کے چند آریوں کو بخوبی اطلاع ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس پیشگوئی سے پہلے سخت ضرورت پیش آنے کی وجہ سے دعا کی گئی اور پھر اس دعا کا قبول ہونا اور دس دن کے بعد ہی روپیہ آنے کی بشارت دیا جانا اور ساتھ ہی روپیہ آنے کے بعد امرتسر جانے کی اطلاع دیا جانا یہ سب واقعات حقہ اور صحیحہ ہیں اور پھر انہیں کے روبرو اس پیشگوئی کا پورا ہونا بھی ان کو معلوم ہے اور اگرچہ وہ لوگ بباعث ظلمت کفر کے خبث اور عناد سے خالی نہیں ہیں اور اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح بغض اور کینہ اسلام پر کمربستہ اور جیفۂ دنیا پر گرے ہوئے اور حق اور راستی سے بکلّی بے غرض ہیں لیکن اگر شہادت کے وقت ان کو قسم دی جائے تو بحالت قسم سے وہ سچ سچ بیان کرنے سے کسی طرف گریز نہیں کرسکتے اور اگر خدا سے نہیں تو رسوائی اور وبالِ قسم سے ڈر کر ضروری سچی گواہی دیویں گے۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 562
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 562
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/562/mode/1up
لیکن اِس جگہ عجیبؔ بر عجیب اَور بات ہے یعنے یہ کہ وہ علوم اور معارف ایک ایسے اُمّی کو عطا کی گئی کہ جو لکھنے پڑھنے سے ناآشنا محض تھا جس نے عمر بھر کسی مکتب کی شکل نہیں دیکھی تھی اور نہ کسی کتاب کا کوئی حرف پڑھا تھا اور نہ کسی اہل علم یا حکیم کی صحبت میسّر آئی تھی بلکہ تمام عمر جنگلیوں اور وحشیوں میں سکونت رہی اُنہیں میں پرورش پائی اور اُنہیں میں سے پیدا ہوئے اور انہیں کے ساتھ اختلاط رہا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی اور اَن پڑھ ہونا ایک ایسا بدیہی امر ہے کہ
حجابوں سے نکل کر سیدھا خدائے تعالیٰ کی طرف اپنے روح کا مونہہ پھیر کر اسؔ کے آستانہ پر گر پڑتا ہے اسی پر فیضان رحمتِ خاصہ ایزدی کا ہوتا ہے اور جو شخص اس طریق کے برخلاف کوئی دوسرا طریق اختیار کرلیتا ہے تو بالضرور جو امر رحمت کے برخلاف ہے یعنی غضب الٰہی اُس پر وارد ہوجاتا ہے اور غضب کی اصل حقیقت یہی ہے کہ جب ایک شخص اس طریق مستقیم کو چھوڑ دیتا ہے کہ جو قانون الٰہی میں افاضۂِ رحمت الٰہی کا طریق ہے تو فیضان رحمت سے محروم رہ جاتا ہے۔ اسی محرومی کی حالت کا نام غضب الٰہی ہے اور چونکہ انسان کی زندگی اور آرام اور راحت خدا کے فیض سے ہی ہے۔ اِس
ازؔ انجملہ ایک یہ ہے کہ مولوی ابو عبداللہ غلام علی صاحب قصوری جن کا ذکرِ خیر حاشیہ در حاشیہ نمبر ۲ میں درج ہے الہام اولیاء اللہ کی عظمت شان میں کچھ شک رکھتے تھے اور یہ شک ان کی بالمواجہ تقریر سے نہیں بلکہ ان کے رسالہ کی بعض عبارتوں سے مترشح ہوتا تھا سو کچھ عرصہ ہوا ان کے شاگردوں میں سے ایک صاحب نور احمد نامی جو حافظ اور حاجی بھی ہیں بلکہ شاید کچھ عربی دان بھی ہیں اور واعظِ قرآن ہیں اور خاص امرتسر میں رہتے ہیں اتفاقاً اپنی درویشانہ حالت میں سیر کرتے کرتے یہاں بھی آگئے ان کا خیال الہام کے انکار میں مولوی صاحب کے انکار سے کچھ بڑھ کر معلوم ہوتا تھا۔ اور برہمو سماج والوں کی طرح صرف انسانی خیالات کا نام الہام رکھتے تھے چونکہ وہ ہمارے ہی یہاں ٹھہرے اور اس عاجز پر انہوں نے خود آپ ہی یہ غلط رائے جو الہام کے بارہ میں ان کے دل میں تھی مدعیانہ طور پر ظاہر بھی کردی اس لئے دل میں بہت رنج گزرا ہر چند معقولی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 563
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 563
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/563/mode/1up
کوئی تاریخ دان اسلام کا اُس سے بےؔ خبر نہیں لیکن چونکہ یہ امر آئندہ فصلوں کے لئے بہت کارآمد ہے اس لئے ہم کسی قدر آیاتِ قرآنی لکھ کر اُمیّت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ثابت کرتے ہیں سو واضح ہو کہ وہ آیات بہ تفصیل ذیل ہیں:۔
قال اللّٰہ تعالی۔ سورۂ جمعہ الجزو نمبر ۲۸۔۱
وہ خدا ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا ان پر وہ اُس کی آیتیں پڑھتا ہے اور اُن کو پاک کرتا ہے اور اُنہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے صریح گمراہی میں پھنسے ہوئے تھے۔
جہت ؔ سے جو لوگ فیضان رحمت کے طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ خدا کی طرف سے اسی جہان میں یا دوسرے جہان میں طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ جس کے شامل حال رحمت الٰہی نہیں ہے ضرور ہے کہ انواع اقسام کے عذاب روحانی و بدنی اس کی طرف مونہہ کریں اور چونکہ خدا کے قانون میں یہی انتظام مقرر ہے کہ رحمت خاصہ انہیں کے شامل حال ہوتی ہے کہ جو رحمت کے طریق کو یعنی دعا اور توحید کو اختیار کرتے ہیں۔ اس باعث سے جو لوگ اس طریق کو چھوڑ دیتے ہیں وہ طرح طرح کی آفات میں گرفتار
طور پر سمجھایا گیا کچھ اثر مترتب نہ ہوا آخر توجہ الی اللہ تک نوبت پہنچی اور ان کو قبل از ظہور پیشگوئی بتلایا گیا کہ خداوند کریم کی حضرت میں دعا کی جائے گی کچھ تعجبؔ نہیں کہ وہ دعا بہ پایہ اجابت پہنچ کر کوئی ایسی پیشگوئی خداوند کریم ظاہر فرماوے جس کو تم بچشم خود دیکھ جاؤ سو اس رات اس مطلب کے لئے قادر مطلق کی جناب میں دعا کی گئی علی الصباح بہ نظر کشفی ایک خط دکھلایا گیا جو ایک شخص نے ڈاک میں بھیجا ہے اس خط پر انگریزی زبان میں لکھا ہوا ہے آئی ایم کورلر اور عربی میں یہ لکھا ہوا ہے ھذا شاھد نَزّاغ اور یہی الہام حکایتاً عن الکاتب القا کیا گیا اور پھر وہ حالت جاتی رہی چونکہ یہ خاکسار انگریزی زبان سے کچھ واقفیت نہیں رکھتا۔ اس جہت سے پہلے علی الصباح میاں نور احمد صاحب کو اس کشف اور الہام کی اطلاع دے کر اور اس آنے والے خط سے مطلع کرکے پھر اسی وقت ایک انگریزی خوان سے اس انگریزی فقرہ کے معنے دریافت کئے گئے تو معلوم ہوا کہ اُس کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 564
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 564
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/564/mode/1up
مَیں جس کوچاہتا ہوں عذاب پہنچاتا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز پر احاطہ کر رکھا ہے سو میں اُن کے لیے جو ہر یک طرح کے شرک اور کفر اور فواحش سے پرہیز کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیں اور نیز اُن کیلئے جو ہماری نشانیوں پر ایمان کامل لاتے ہیں اپنی رحمت لکھوں گا وہ وہی لوگ ہیں جو اُس رسول نبی پر ایمان لاتے ہیں کہ جس میں ہماری قدرت کاملہ کی دو نشانیاں
ہو ؔ جاتے ہیں اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے
ی اِن کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پروا کیا رکھتا ہے اگرتم دعا نہ کرو اور اس کے فیضان کے خواہاں نہ ہو خدا کو تو کسی کی زندگی اور وجود کی حاجت نہیں وہ تو بے نیاز مطلق ہے۔ اور آریہ سماج والے اور عیسائی بھی اِن تینوں صداقتوں میں سے پہلی اور تیسری صداقت سے بے خبر ہیں۔ کوئی اُن میں سے یہ اعتراض کرتا ہے کہ خدائے تعالیٰ سب
یہ معنے ہیں کہ مَیں جھگڑنے والا ہوں سو اس مختصر فقرہ سے یقینًا یہ معلوم ہو گیا کہ کسی جھگڑے کے متعلق کوئی خط آنے والا ہے۔ اور ھٰذا شاھد نَزَّاغٌ کہ جو کاتب کی طرف سے دوسرا فقرہ لکھا ہوا دیکھا تھا اس کے یہ معنےؔ کھلے کہ کاتب خط نے کسی مقدمہ کی شہادت کے بارہ میں وہ خط لکھا ہے۔ اُس دن حافظ نور احمد صاحب بباعثِ بارش باران امرتسر جانے سے روکے گئے اور درحقیقت ایک سماوی سبب سے ان کا روکا جانا بھی قبولیتِ دعا کے ایک خبر تھی تا وہ جیسا کہ اُن کے لئے خدائے تعالیٰ سے درخواست کی گئی تھی پیشگوئی کے ظہور کو بچشمِ خود دیکھ لیں۔ غرض اس تمام پیشگوئی کا مضمون اُن کو سنا دیا گیا ۔ شام کو اُن کے رو برو پادری رجب علی صاحب مہتمم و مالک مطبع سفیر ہند کا ایک خط رجسٹری شدہ امرت سر سے آیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ پادری صاحب نے اپنے کاتب پر جو اِسی کتاب کا کاتب ہے عدالتِ خفیفہ میں نالش کی ہے اور اِس عاجز کو ایک واقعہ کا گواہ ٹھہرایا ہے اور ساتھ اُس کے ایک سرکاری سمن بھی آیا اور اس خط کے آنے کے بعد وہ فقرہ الہامی یعنی ھٰذا شاھد نَزّاغ جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ گواہ تباہی ڈالنے والا ہے۔ اِن
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 565
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 565
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/565/mode/1up
ہیں۔ ایک توبیرونی نشانی کہ توریت اور انجیل میں اس کی نسبت پیشین گوئیاں موجود ہیں جن کو وہ آپ بھی اپنی کتابوں میں موجود پاتے ہیں۔ دوسری وہ نشانی کہ خود اُس نبی کی ذات میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ باوجود اُمّی اور ناخواندہ ہونے کے ایسی ہدایت کامل لایا ہے کہ ہر یک قسم کی حقیقی صداقتیں جن کی سچائی کو عقل و شرع شناخت کرتی ہے اور جو صفحۂ دُنیا پر باقی نہیں رہی تھیں لوگوں کی ہدایت کے لئے بیان فرماتا ہے اور اُنکو اسکے بجالانے کیلئے حکم کرتا ہے اور ہریک
لوگوں کو کیوں ہدایت نہیں دیتا۔ اور کوئی یہ اعتراض کرؔ رہا ہے کہ خدا میں صفت اضلال کیونکر پائی جاتی ہے جو لوگ خدائے تعالیٰ کی ہدایت کی نسبت معترض ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہدایت الٰہی اُنہیں کے شامل حال ہوتی ہے کہ جو ہدایت پانے کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اُن راہوں پر چلتے ہیں جن راہوں پر چلنا فیضانِ رحمت کے لئے ضروری ہے اور جو لوگ اضلالِ الٰہی کی نسبت معترض ہیں اُن کو یہ خیال نہیں آتا کہ خدائے تعالیٰ اپنے قواعد مقررہ کے ساتھ ہر یک انسان سے مناسبِ حال معاملہ کرتا ہے اور جوشخص سُستی اور تکاسل
معنوں پر محمول معلوم ہوا کہ مہتمم مطبع سفیر ہند کے دل میں بہ یقین کامل یہ مرکوز تھا کہ اِس عاجز کی شہادت جو ٹھیک ٹھیک اور مطابق واقعہ ہو گی بباعث وثاقت اور صداقت اور نیز بااعتبار اور قابل قدر ہونے کی وجہ سے فریق ثانی پر تباہی ڈالے گی اور اِسی نیت سے مہتمم مذکور نے اِس عاجز کو ادائے شہادت کے لئے تکلیف بھی دی اور سمن جاریؔ کرایا اور اتفاق ایسا ہوا کہ جس دن یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور امرتسر جانے کا سفر پیش آیا وہی دن پہلی پیشگوئی کے پورے ہونے کا دن تھا سو وہ پہلی پیشگوئی بھی میاں نور احمد صاحب کے رُو برو پوری ہو گئی یعنی اُسی دن جو دس دن کے بعد کا دن تھا روپیہ آگیا اور امرتسر بھی جانا پڑا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
از انجملہ ایک یہ ہے کہ ایک دفعہ فجر کے وقت الہام ہوا کہ آج حاجی ارباب محمد لشکر خان کے قرابتی کا روپیہ آتا ہے۔ یہ پیشگوئی بھی بدستور معمول اسی وقت چند آریوں کو بتلائی گئی اور یہ قرار پایا کہ اُنہیں میں سے ڈاک کے وقت کوئی ڈاکخانہ میں جاوے چنانچہ ایک آریہ ملاوامل نامی اُس وقت ڈاکخانہ میں گیااور یہ خبر لایا کہ ہوتی مردان سے 3دس روپیہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 566
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 566
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/566/mode/1up
نامعقول بات سے کہ جس کی سچائی سے عقل و شرع انکار کرتی ہے منع کرتا ہے اور پاک چیزوں کو پاک اور پلید چیزوں کو پلید ٹھہراتا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے سر پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر پڑی ہوئی تھی اور جن طوقوں میں وہ گرفتار تھے ان سے خلاصی بخشتا ہے۔ سو جو لوگ اس پر ایمان لاویں اور اس کو قوت دیں اور اس کی مدد کریں اور اس نور کی بکلّی متابعت اختیار کریں جو اس کے ساتھ نازل ہوا ہے وہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔ لوگوں کو کہہ دے کہ میں
سے اس کے لئے کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ ایسےؔ لوگوں کے بارہ میں قدیم سے اس کا یہی قاعدہ مقرر ہے کہ وہ اپنی تائید سے ان کو محروم رکھتا ہے اور انہیں کو اپنی راہیں دکھلاتا ہے جو ان راہوں کے لئے بدل و جان سعی کرتے ہیں۔ بھلا یہ کیونکر ہوسکے کہ جو شخص نہایت لاپروائی سے سستی کررہا ہے وہ ایسا ہی خدا کے فیض سے مستفیض ہوجائے جیسے وہ شخص کہ جو تمام عقل اور تمام زور اور تمام اخلاص سے اس کو ڈھونڈتا ہے۔ اسی کی طرف ایک دوسرے مقام میں بھی اللہ تعالیٰ نے اشارہ فر یا ہے اور وہ یہ ہے
آئے ہیں اور ایک خط لایا جس میں لکھا تھا کہ یہ 3دس روپیہ ارباب سرور خان نے بھیجے ہیں۔ چونکہ ارباب کے لفظ سے اتحادِ قومی مفہوم ہوتا تھا اس لئے اُن آریوں کو کہا گیا کہ ارباب کے لفظ میں دونوں صاحبوں کی شراکت ہونا پیشگوئی کی صداقت کے لئے کافیؔ ہے مگر بعض نے ان میں سے اِس بات کو قبول نہ کیا اور کہا کہ اتحادِ قومی شے دیگر ہے اور قرابت شے دیگر اور اِس انکار پر بہت ضد کی ناچار اُن کے اصرار پر خط لکھنا پڑا اور وہاں سے یعنی ہُوتی مردان سے کئی روز کے بعد ایک دوست منشی الٰہی بخش نامی نے جو اُن دنوں میں ہوتی مردان میں اکونٹنٹ تھے خط کے جواب میں لکھا کہ ارباب سرور خان ارباب محمد لشکر خان کا بیٹا ہے چنانچہ اُس خط کے آنے پر سب مخالفین لاجواب اور عاجز رہ گئے۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 567
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 567
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/567/mode/1up
خداؔ کی طرف سے تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ وہ خدا جو بلا شرکت الغیری آسمان اور زمین کا مالک ہے جس کے سوا اور کوئی خدا اور قابل پرستش نہیں زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے پس اس خدا پر اور اس کے رسول پر جو نبی اُمّی ہے ایمان لاؤ۔ وہ نبی جو اللہ اور اس کے کلموں پر ایمان لاتا ہے اور تم اس کی پیروی کرو تاتم ہدایت پاؤ۔
یعنی جو لوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو بالضرور اپنی راہیں دکھلا دیا کرتےؔ ہیں۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ یہ دس صداقتیں جو سورۂ فاتحہ میں درج ہیں کس قدر عالی اور بے نظیر صداقتیں ہیں جن کے دریافت کرنے سے ہمارے تمام مخالفین قاصر رہے اور پھر دیکھنا چاہئے کہ کس ایجاز اور لطافت سے اقل قلیل عبارت میں ان کو خدائے تعالیٰ نے بھر دیا ہے اور پھر اس طرف خیال کرنا چاہئے کہ علاوہ ان سچائیوں کے اور اس کمال ایجاز کے دوسرے کیا کیا لطائف ہیں جو اس سور ۂمبارکہ میں بھرے ہوئے ہیں اگر ہم اس جگہ ان سب لطائف کو بیان کریں تو یہ مضمون ایک
ازانجملہ ایک یہ ہے کہ ایک دفعہ اپریل ۱۸۸۳ ء میں صبح کے وقت بیداری ہی میں جہلم سے روپیہ روانہ ہونے کی اطلاع دی گئی اور اس بات سے اس جگہ آریوں کو جن میں سے بعض خود جاکر ڈاک خانہ میں خبر لیتے تھے بخوبی اطلاع تھی کہ اس روپیہ کے روانہ ہونے کے بارہ میں جہلم سے کوئی خط نہیں آیا تھا کیونکہ یہ انتظام اس عاجز نے پہلے سے کررکھا تھا کہ جو کچھ ڈاک خانہ سے خط وغیرہ آتا تھا اس کو خود بعض آریا ڈاک خانہ سے لےؔ آتے تھے اور ہر روز ہریک بات سے بخوبی مطلع رہتے تھے۔ اور خود اب تک ڈاک خانہ کا ڈاک منشی بھی ایک ہندو ہی ہے۔ غرض جب یہ الہام ہوا تو ان دنوں میں ایک پنڈت کا بیٹا شام لال نامی جو ناگری اور فارسی دونوں میں لکھ سکتا تھا بطور روزنامہ نویس کے نوکر رکھا ہوا تھا اور بعض امورِ غیبیہ جو ظاہر ہوتے تھے اس کے ہاتھ سے وہ ناگری اور فارسی خط میں قبل از وقوع لکھائے جاتے تھے اور پھر شام لال مذکور کے اُس پر دستخط کرائے جاتے تھے۔ چنانچہ یہ پیشگوئی بھی بدستور اس سے لکھائی گئی اور اس وقت کئی آریوں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 568
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 568
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/568/mode/1up
اورؔ اسی طرح ہم نے اپنے امر سے تیری طرف ایک روح نازل کی ہے تجھے معلوم نہ تھا کہ کتاب اور ایمان کسے کہتے ہیں پر ہم نے اس کو ایک نور بنایا ہے جس کو ہم چاہتے ہیں بذریعہ اس کے ہدایت دیتے ہیں اور بہ تحقیق سیدھے راستہ کی طرف تو ہدایت دیتا ہے۔
دفتر بن جائے گا صرف چند لطیفہ بطور نمونہ بیان کئے جاتے ہیں۔ اول یہ لطیفہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس سورۃ فاتحہ میں دعا کرنے کا ایسا طریقہ حسنہ بتلایا ہے جس سے خوب تر طریقہ پیدا ہونا ممکن نہیں اور جس میں وہ تمام امور جمعؔ ہیں جو دعا میں دلی جوش پیدا کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ قبولیت دعا کے لئے ضرور ہے کہ اُس میں ایک جوش ہو کیونکہ جس دعا میں جوش نہ ہو وہ صرف لفظی بڑبڑ ہے حقیقی دعا نہیں مگر یہ بھی ظاہر ہے کہ دعا میں جوش پیدا ہونا ہریک وقت انسان کے اختیار میں نہیں بلکہ انسان کے لئے اشد ضرورت ہے کہ دعا کرنے کے وقت جو امور دلی جوش کے محرّک ہیں وہ اس کے خیال میں حاضر ہوں اور یہ بات ہریک عاقل پر روشن ہے کہ دلی جوش پیدا کرنے والی صرف دو ہی چیزیں ہیں ایک خدا کو
کو بھی خبر دی گئی۔ اور ابھی پانچ روز نہیں گزرے تھے جو پینتالیس روپیہ کا منی آرڈر جہلم سے آگیا اور جب حساب کیا گیا تو ٹھیک ٹھیک اسی دن منی آرڈر روانہ ہوا تھا جس دن خداوند عالم الغیب نے اس کے روانہ ہونے کی خبر دی تھی۔ اور یہ پیشگوئی بھی اسی طور پر ظہور میں آئی جس سے بہ تمام تر انکشاف مخالفینؔ پر اس کی صداقت کھل گئی اور اس کے قبول کرنے سے کچھ چارہ نہ رہا کیونکہ ان کو اپنی ذاتی واقفیت سے بخوبی معلوم تھا کہ اس روپیہ کا اس مہینہ میں جہلم سے روانہ ہونا بے نشان محض تھا جس سے پہلے کوئی اطلاعی خط نہیں آیا تھا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
ازانجملہ ایک یہ ہے کہ کچھ عرصہ ہوا ہے کہ خواب میں دیکھا تھا کہ حیدرآباد سے نواب اقبال الدولہ صاحب کی طرف سے خط آیا ہے اور اُس میں کسی قدر روپیہ دینے کا وعدہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 569
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 569
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/569/mode/1up
اورؔ اس سے پہلے تو کسی کتاب کو نہیں پڑھتا تھا اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا تا باطل پرستوں کو شک کرنے کی کوئی وجہ بھی ہوتی بلکہ وہ آیات بینات ہیں جو اہل علم لوگوں کے سینوں میں ہیں اور ان سے انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو ظالم ہیں۔
کامل اور قادر اور جامع صفات کاملہ خیال کرکے اس کی رحمتوں اور کرموں کو ابتدا سے انتہا تک اپنے وجود اور بقا کے لئے ضروری دیکھنا اور تمام فیوض کا مبدء اسی کو خیال کرنا۔ دوسرے اپنے تئیں اور اپنے تمام ہم جنسوں کو عاجزؔ اور مفلس اور خدا کی مدد کا محتاج یقین کرنا یہی دو امر ہیں جن سے دعاؤں میں جوش پیدا ہوتا ہے اور جو جوش دلانے کے لئے کامل ذریعہ ہیں وجہ یہ کہ انسان کی دعا میں تب ہی جوش پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے تئیں سراسر ضعیف اور ناتوان اور مدد الٰہی کا محتاج دیکھتا ہے اور خدا کی نسبت نہایت قوی اعتقاد سے یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ بغایت درجہ کامل القدرت اور رب العالمین اور رحمان اور رحیم اور مالک امر مجازات ہے اور جو کچھ انسانی حاجتیں ہیں سب کا پورا کرنا اسی کے ہاتھ میں ہے سو سورۃ فاتحہ کے ابتدا میں
لکھا ہے یہ خواب بھی بدستور روزنامہ مذکورہ بالا میں اسی ہندو کے ہاتھ سے لکھائی گئی اور کئی آریوں کو اطلاع دی گئی۔ پھر تھوڑے دنوں کے بعد حیدرآباد سے خط آگیا اور نواب صاحب موصوف نے سو روپیہ بھیجا۔فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
ازانجملہ ایک یہ ہے کہ ایک دوست نے بڑی مشکل کے وقت لکھا کہ اس کا ایک عزیز کسی سنگین مقدمہ میں ماخوذ ہے اور کوئی صورت نجاؔ ت کی نظر نہیں آتی اور کوئی سبیل رہائی کی دکھائی نہیں دیتی۔ سو اس دوست نے یہ پُردرد ماجرا لکھ کر دعا کے لئے درخواست کی۔ چونکہ اس کی بھلائی مقدر تھی اور تقدیر معلق تھی اس لئے اسی رات وقت صافی میسر آگیا جو ایک مدت تک میسر نہیں آیا تھا دعا کی گئی اور وقت صافی قبولیت کی امید دیتا تھا چنانچہ قبولیت کے آثار سے ایک آریہ کو اطلاع دی گئی۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 570
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 570
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/570/mode/1up
انؔ تمام آیات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا بکمال وضاحت ثابت ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اگر آنحضرت فی الحقیقت اُمّی اور ناخواندہ نہ ہوتے۔ تو بہت سے لوگ اس دعویٰ اُمیّت کی تکذیب کرنے والے پیدا ہوجاتے کیونکہ آنحضرت نے کسی ایسے ملک میں یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ جس ملک کے لوگوں کو آنحضرت کے حالات
جو اللہ تعالیٰ کی نسبت بیان فرمایا گیا ہے کہ وہی ایک ذات ہے کہ جو تمام محامدِ کاملہ سے متصف اور تمام خوبیوں کی جامع ہے اور وہی ایک ذات ہے جو تمام عالموں کی رب اور تمام رحمتوں کا چشمہ اور سب کو ان کے عملوں کا بدلہ دینے والی ہے پس ان صفات کے بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نے بخوبی ظاہر فرمادیا کہ سبؔ قدرت اسی کے ہاتھ میں ہے اور ہریک فیض اسی کی طرف سے ہے اور اپنی اس قدر عظمت بیان کی کہ دنیا اور آخرت کے کاموں کا قاضی الحاجات اور ہریک چیز کا علت العلل اور ہریک فیض کا مبدء اپنی ذات کو ٹھہرایا جس میں یہ بھی اشارہ فرما دیا ہے کہ اس کی ذات کے بغیر اور اس کی رحمت کے بدوں کسی زندہ کی زندگی اور آرام اور راحت ممکن نہیں اور پھر بندہ کو
پھر چند روز کے بعد خبر ملی کہ مدعی ایک ناگہانی موت سے مرگیا اور اس طرح پر شخص ماخوذ نے خلاصی پائی۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
ماسوا اس کے کبھی کبھی دوسری زبان میں الہام ہونا جس سے یہ خاکسار ناآشنا محض ہے اور پھر وہ الہام کسی پیشگوئی پر مشتمل ہونا عجائباتِ غریبہ میں سے ہے جو قادر مطلق کی وسیع قدرتوں پر دلالت کرتا ہے۔ اگرچہ ؔ بیگانہ زبان کے تمام الفاظ محفوظ نہیں رہتے اور اُن کے تلفظ میں بعض وقت بباعث سرعت ورود الہام اور ناآشنائی لہجہ و زبان کچھ فرق آجاتا ہے مگر اکثر صاف صاف اور غیر ثقیل فقرات میں کم فرق آتا ہے اور یہ بھی ہوتا ہے کہ جلدی جلدی القا ہونے کی وجہ سے بعض الفاظ یادداشت سے باہر رہ جاتے ہیں لیکن جب کسی فقرہ کا لقا مکررسہ کرر ہو تو پھر وہ الفاظ اچھی طرح سے یاد رہتے ہیں۔ الہام کے وقت میں قادر مطلق اپنے اُس تصرف بحث سے کام کرتا ہے جس میں اسبابِ اندرونی یا بیرونی کی کچھ آمیزش نہیں ہوتی اُس وقت
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 571
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 571
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/571/mode/1up
اور واقعات سے بے خبر اور ناواقف قرار دے سکیں بلکہ وہ تمام لوگ ایسے تھے جن میں آنحضرت نے ابتداء عمر سے نشوونما پایا تھا اور ایک حصۂ کلاں عمرؔ اپنی کا ان کی مخالطت اور مصاحبت میں بسر کیا تھا پس اگر فی الواقعہ جناب ممدوح اُمّی نہ ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اپنے اُمّی ہونے کا ان لوگوں کے سامنے نام بھی لے سکتے
تذلل کی تعلیم دی اور فرمایا اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ اے مبدء تمام فیوض ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں یعنی ہم عاجز ہیں آپ سے کچھ بھی نہیں کرسکتے جب تک تیری توفیق اور تائید شامل حال نہ ہو پس خدائے تعالیٰ نے دعا میں جوش دلانے کے لئے دو محرّک بیان فرمائے ایک اپنی عظمت اور رحمتِ شاملہ دوسرے بندوں کا عاجز اور ذلیل ہونا۔ اب جاننا چاہئے کہ یہی دو محرک ہیں جن کا دعا کے وقتؔ خیال میں لانا دعا کرنے والوں کے لئے نہایت ضروری ہے جو لوگ دعا کی کیفیت سے کسی قدر چاشنی حاصل رکھتے ہیں انہیں خوب معلوم ہے کہ بغیر پیش ہونے ان دونوں محرکوں کے دعا ہوہی نہیں سکتی اور بجز ان کے آتش شوق الٰہی دعا میں اپنے شعلوں کو بلند نہیں کرتے یہ بات نہایت ظاہر ہے
زبان خدا کے ہاتھ میں ایک آلہ ہوتا ہے جس طرح اور جس طرف چاہتا ہے اس آلہ کو یعنی زبان کو پھیرتا ہے اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ الفاظ زور کے ساتھ اور ایک جلدی سے نکلتے آتے ہیں اور کبھی ایسا بھیؔ ہوتا ہے کہ جیسے کوئی لطف اور ناز سے قدم رکھتا ہے اور ایک قدم پر ٹھہر کر پھر دوسرا قدم اٹھاتا ہے اور چلنے میں اپنی خوش وضع دکھلاتا ہے اور ان دونوں اندازوں کے اختیار کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تا رباّنی الہام کو نفسانی اور شیطانی خیالات سے امتیاز کلی حاصل رہے اور خداوندِ مطلق کا الہام اپنی جلالی اور جمالی برکت سے فی الفور شناخت کیا جائے۔ ایک دفعہ کی حالت یاد آئی ہے کہ انگریزی میں اول یہ الہام ہوا۔ آئی لو یو یعنی میں تم سے محبت رکھتا ہوں۔ پھر یہ الہام ہوا۔ آئی ایم ود یو یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں پھر الہام ہوا۔ آئی شیل ہیلپ یو یعنی میں تمہاری مدد کروں گا۔ پھر الہام ہوا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 572
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 572
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/572/mode/1up
جن پر کوئی حال ان کا پوشیدہ نہ تھا اور جو ہر وقت اس گھات میں لگے ہوئے تھے کہ کوئی خلاف گوئی ثابت کریں اور اُس کو مُشتہر کردیں۔ جن کا عناد اس درجہ تک پہنچ چکا تھا کہ اگر بس چل سکتا تو کچھ جھوٹ موٹ سے ہی ثبوت بنا کر پیش کردیتے اور اسی جہت سے ان کو ان کی ہریک بدظنی پر ایسا مسکت جواب دیا جاتا تھا کہ وہ ساکتؔ اور لاجواب رہ جاتے تھے مثلاً جب مکہ کے بعض
کہ جو شخص خدا کی عظمت اور رحمت اور قدرت کاملہ کو یاد نہیں رکھتا وہ کسی طرح سے خدا کی طرف رجوع نہیں کرسکتا اور جو شخص اپنی عاجزی اور درماندگی اور مسکینی کا اقراری نہیں اس کی روح اس مولیٰ کریم کی طرف ہرگز جھک نہیں سکتی۔ غرض یہ ایسی صداقت ہے جس کے سمجھنے کے لئے کوئی عمیق فلسفہ درکار نہیں بلکہ جب خدا کی عظمت اور اپنی ذلت اور عاجزی متحقق طور پر دل میں متنقّش ہو تو وہ حالت خاصہ خود انسان کو سمجھا دیتی ہے کہ خالص دعا کرنے کا وہی ذریعہ ہے سچے پرستار خوب سمجھتے ہیں کہ حقیقت میں انہیں دو چیزوں کا تصورؔ دعا کے لئے ضروری ہے یعنی اول اس بات کا تصور کہ خدائے تعالیٰ ہریک قسم کی ربوبیت اور پرورش اور رحمت اور بدلہ دینے پر قادر ہے اور اس کی یہ صفات کاملہ ہمیشہ اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں۔
آئی کین ویٹ آئی ول ڈو۔ یعنی میں کرسکتا ہوں جو چاہوں گا۔ پھر بعد اس کے بہت ہی زور سے جس سے بدن کانپ گیا یہ الہامؔ ہوا۔ وی کین ویٹ وی ول ڈو۔ یعنی ہم کرسکتے ہیں۔ جو چاہیں گے اور اس وقت ایک ایسا لہجہ اور تلفظ معلوم ہوا کہ گویا ایک انگریز ہے جو سر پر کھڑا ہوا بول رہا ہے اور باوجود پُر دہشت ہونے کے پھر اس میں ایک لذت تھی جس سے روح کو معنے معلوم کرنے سے پہلے ہی ایک تسلی اور تشفّی ملتی تھی اور یہ انگریزی زبان کا الہام اکثر ہوتا رہا ہے۔ ایک دفعہ ایک طالب العلم انگریزی خوان ملنے کو آیا اس کے روبرو ہی یہ الہام ہوا۔ دس از مائی اینیمی یعنی یہ میرا دشمن ہے اگرچہ معلوم ہوگیا تھا کہ یہ الہام اسی کی نسبت ہے مگر اسی سے یہ معنی بھی دریافت
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 573
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 573
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/573/mode/1up
نادانوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ قرآن کی توحید ہمیں پسند نہیں آتی کوئی ایسا قرآن لاؤ جس میں بتوں کی تعظیم اور پرستش کا ذکر ہو یا اسی میں کچھ تبدّل تغیّر کرکے بجائے توحید کے شرک بھر دو تب ہم قبول کرلیں گے اور ایمان لے آئیں گے۔ تو خدا نے ان کے سوال کا جواب اپنے نبی کو وہ تعلیم کیا جو آنحضرت کے واقعات عمری پر نظر کرنے سے پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے:۔
دوسرے اس بات کا تصور کہ انسان بغیر توفیق اور تائید الٰہی کے کسی چیز کو حاصل نہیں کرسکتا۔ اور بلاشبہ یہ دونوں تصور ایسے ہیں کہ جب دعا کرنے کے وقت دل میں جم جاتے ہیں تو یکایک انسان کی حالت کو ایسا تبدیل کردیتے ہیں کہ ایک متکبر ان سے متاثر ہو کر روتا ہوا زمین پر گر پڑتا ہے اور ایک گردن کش سخت دل کے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔ یہیَ کل ہے جس سے ایک غافل مردہ میں جان پڑجاتی ہے۔ انہیں دو باتوں کے تصور سے ہریک دل دعا کرنے کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ غرض یہی وہ روحانی وسیلہ ہے جس سے انسان کی روح روبخدا ہوتی ہے اور اپنی کمزوری اور امداد ربّانی پر نظر پڑتی ہے اسی کے ذریعہ سے انسان ایک ایسے عالم بے خودی میں پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی مکدّر ہستی کا نشان باقی نہیں رہتا اور صرف ایک ذات عظمیٰ کا جلال چمکتا ہوا نظر آتا ہے اور وہی ذات رحمتِ کُل اور ہریک ہستی کا ستون اور ہریک درد کا چارہ اور ہریک فیض کا مبدء دکھائی دیتی ہے آخر اس سے ایک صورت فنافی اللہ کیؔ ظہور پذیر ہوجاتی ہے جس کے ظہور سے نہ انسان مخلوق کی طرف مائل رہتا ہے نہ اپنے نفس کی طرف نہ اپنے ارادہ کی طرف اور بالکل خدا کی محبت میں کھویا جاتا ہے اور اُس ہستی
کئے گئے اور آخر وہ ایسا ہی آدمی نکلا اور اس کے باطن میں طرح طرح کے خبث پائے گئے۔ ایک دفعہ صبح ؔ کے وقت بہ نظر کشفی چند ورق چھپے ہوئے دکھائے گئے کہ جو ڈاک خانہ سے آئے ہیں اور اخیر پر ان کے لکھا تھا۔ آئی ایم بائی عیسیٰ یعنی میں عیسیٰ کے ساتھ ہوں۔ چنانچہ وہ مضمون کسی انگریزی خوان سے دریافت کرکے دو ہندو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 574
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 574
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/574/mode/1up
وہ ؔ لوگ جو ہماری ملاقات سے ناامید ہیں یعنی ہماری طرف سے بکلی علاقہ توڑ چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کے برخلاف کوئی اور قرآن لا جس کی تعلیم اس کی تعلیم سے مغایر اور منافی ہو یا اسی میں تبدیل کر ان کو جواب دے کہ مجھے یہ قدرت نہیں اور نہ روا ہے کہ میں خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کچھ تبدیل کروں۔ میں تو صرف اُس وحی کا تابع ہوں جو میرے پر نازل ہوتی ہے
حقیقی کی شہود سے اپنی اور دوسری مخلوق چیزوں کی ہستی کالعدم معلوم ہوتی ہے اس حالت کا نام خدا نے صراط مستقیم رکھا ہے جس کی طلب کے لئے بندہ کو تعلیم فرمایا اور کہا اِھْدِنَا الصِّرَاطَالْمُسْتَقِیْمَ یعنی وہ راستہ فنا اور توحید اور محبت الٰہی کا جو آیاتِ مذکور ۂبالا سے مفہوم ہورہا ہے وہ ہمیں عطا فرما اور اپنے غیر سے بکُلّی منقطع کر۔ خلاصہ یہ کہ خدائے تعالیٰ نے دعا میں جوش پیدا کرنے کے لئے وہ اسباب حقہ انسان کو عطا فرمائے کہ جو اس قدر دلی جوش پیدا کرتے ہیں کہ دعا کرنے والے کو خودی کے عالم سے بے خودی اور نیستی کے عالم میں پہنچا دیتے ہیں۔ اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بات ہرگز نہیں کہ سورۃ فاتحہ دعا کے کئی طریقوں میں سے ہدایت مانگنے کا ایک طریقہ ہے بلکہ جیسا کہ دلائل مذکورۂ بالا سے ثابت ہوچکا ہے درحقیقت صرف یہی ایک طریقہ ہے جس پر جوش دل سے دعا کا صادر ہونا موقوف ہے اور جس پر طبیعت انسانی بمقتضا اپنے فطرتی تقاضا ؔ کے چلنا چاہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے خدا نے دوسرے امور میں قواعد مقررّہ ٹھہرا رکھے ہیں ایسا ہی دعا کے لئے بھی ایک قاعدہ خاص ہے اور وہ قاعدہ وہی محرّک ہیں جو سورۃ فاتحہ میں لکھے گئے ہیں اور
آریہ کو بتلایا گیا جس سے یہ سمجھا گیا تھا کہ کوئی شخص عیسائی یا عیسائیوں کی طرز پر دینِ اسلام کی نسبت کچھ اعتراض چھپوا کر بھیجے گا چنانچہ اُسی روز ایک آریہ کو ڈاک آنے کے وقت ڈاک خانہ میں بھیجا گیا تو وہ چند چھپے ہوئے ورق لایا جس میں عیسائیوں کی طرز پر ایک صاحب خام خیال نے اعتراضات لکھے تھے۔ ایک دفعہ کسی امر میں جو دریافت طلب تھا خواب میں ایک درم نقرہ جو بشکل بادامی تھا اس عاجز کے ہاتھؔ میں دیا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 575
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 575
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/575/mode/1up
اورؔ اپنے خداوند کی نافرمانی سے ڈرتا ہوں اگر خدا چاہتا تو میں تم کو یہ کلام نہ سناتا اور خدا تم کو اس پر مطلع بھی نہ کرتا پہلے اس سے اتنی عمر یعنی چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں پھر کیا تم کو عقل نہیں یعنی کیا تم کو بخوبی معلوم نہیں کہ افترا کرنا میرا کام نہیں اور جھوٹ بولنا میری عادت میں نہیں اور پھر آگے فرمایا کہ اس شخص سے زیادہ تر اور کون ظالم ہوگا جو خدا پر افترا باندھے یا خدا کے کلام کو کہے کہ یہ انسان کا افترا ہے بلاشبہ مجرم نجات نہیں پائیں گے۔
ممکن نہیں کہ جب تک وہ دونوں محرک کسی کے خیال میں نہ ہوں تب تک اس کی دعا میں جوش پیدا ہوسکے۔ سو طبعی راستہ دعا مانگنے کا وہی ہے جو سورۃ فاتحہ میں ذکر ہوچکا ہے۔ پس سورہ ممدوحہ کے لطائف میں سے یہ ایک نہایت عمدہ لطیفہ ہے کہ دعا کو معہ محرکات اس کے کے بیان کیا ہے فتدبّر۔
پھر ایک دوسرا لطیفہ اس سورۃ میں یہ ہے کہ ہدایت کے قبول کرنے کے لئے پورے پورے اسباب ترغیب بیان فرمائے ہیں کیونکہ ترغیب کامل جو معقول طور پر دی جائے ایک زبردست کشش ہے اور حصر عقلی کے رو سے ترغیب کامل اس ترغیب کا نام ہے جس میں تین جُزیں موجود ہوں۔ ایک یہ کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس کی ذاتی خوبی بیان کی جائے سو اس خبر کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ یعنی ہم کو وہ راستہ بتلا جو اپنی ذات میں صفتِ استقامت
گیا۔ اس میں دو سطریں تھیں۔ اول سطر میں یہ انگریزی فقرہ لکھا تھا۔ یس آئی ایم ہیپی اور دوسری سطر جو خط فارق ڈال کر نیچے لکھی ہوئی تھی وہ اسی پہلی سطر کا ترجمہ تھا یعنی یہ لکھا تھا کہ ہاں میں خوش ہوں۔ ایک دفعہ کچھ حزن اور غم کے دن آنے والے تھے کہ ایک کاغذ پر بہ نظر کشفی یہ فقرہ انگریزی میں لکھا ہوا دکھایا گیا۔ لائف آف پین یعنی زندگی دکھ کی۔ ایک دفعہ بعض مخالفوں کے بارہ میں جنہوں نے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 576
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 576
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/576/mode/1up
غرض ؔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّی ہونا عربوں اور عیسائیوں اور یہودیوں کی نظر میں ایسا بدیہی اور یقینی امر تھا کہ اس کے انکار میں کچھ دم نہیں مار سکتے تھے بلکہ اسی جہت سے وہ توریت کے اکثر قصے جو کسی خواندہ آدمی پر مخفی نہیں رہ سکتے بطور امتحان نبوت آنحضرت پوچھتے تھے اور پھر جواب صحیح اور درست پاکر ان فاش غلطیوں سے مبرا دیکھ کر جو توریت کے قصوں میں پڑ گئے ہیں وہ لوگ جو ان میں راسخ فی العلم تھے بصدق دلی ایمان لے آتے تھے جن کا ذکر قرآن شریف میں اس طرح پر درج ہے:۔
اور راستی سے موصوف ہے جسؔ میں ذرا کجی نہیں سو اس آیت میں ذاتی خوبی اس راستہ کی بیان فرما کر اس کے حصول کے لئے ترغیب دی۔ دوسری جز ترغیب کی یہ ہے کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس شے کے فوائد بیان کئے جائیں۔ سو اس جز کو اس آیت میں بیان فرمایا۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ یعنی اس راستہ پر ہم کو چلا جس پر چلنے سے پہلے سالکوں پر انعام اور کرم ہوچکا ہے۔ سو اس آیت میں راستہ چلنے والوں کا کامیاب ہونا ذکر فرما کر اس راستہ کا شوق دلایا۔ تیسری جُز ترغیب کی یہ ہے کہ جس شے کی طرف ترغیب دینا منظور ہو اس شے کے چھوڑنے والوں کی خرابی اور بدحالی بیان کی جائے۔ سو اس جز کو اس آیت میں بیان فرمایا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَاالضَّآلِّیْنَ۔ یعنی ان لوگوں کی راہوں سے بچا جنہوں نے صراط مستقیم کو چھوڑا اور دوسری راہیں اختیار کیں اور غضب الٰہی میں پڑے اور گمراہ ہوئے سو اس آیت میں اس سیدھا راستہ چھوڑنے پر جو ضرر مترتب ہوتا ہے اس سے آگاہ کیا۔ غرض سورۃ فاتحہ میں ترغیب کی
عنادؔ دلی سے خواہ نخواہ قرآن شریف کی توہین کی تھی اور عداوت ذاتی سے جس کا کچھ چارہ نہیں دین متین اسلام پر بے جا اعتراضات اور بیہودہ تعرّضات کئے تھے یہ دو فقرے انگریزی میں الہام ہوئے۔ َ گوڈ از کمنگ بائی ہز آرمی۔ ہی از ود یو ٹو کل اینیمی یعنی خدائے تعالیٰ دلائل اور براہین کا لشکر لے کر چلا آتا ہے وہ دشمن کو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 577
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 577
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/577/mode/1up
سبؔ فرقوں میں سے مسلمانوں کی طرف زیادہ تر رغبت کرنے والے عیسائی ہیں کیونکہ ان میں بعض بعض اہلِ علم اور راہب بھی ہیں جو تکبر نہیں کرتے اور جب خدا کے کلام کو جو اُس کے رسول پر نازل ہوا سنتے ہیں تبُ تو دیکھتا ہے کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اس وجہ سے کہ وہ حقّانیّت کلام الٰہی کو پہچان جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدایا ہم ایمان لائے ہم کو اُن لوگوں میں لکھ لے جو تیرے دین کی سچائی کے گواہ ہیں اور کیوں ہم خدا اور خدا کے سچے کلام پر ایمان نہ لاویں۔ حالانکہ ہماری آرزو ہے کہ خدا ہم کو ان بندوں میں داخل کرے جو نیکوکار ہیں۔
تینوں جزوں کو لطیف طور پر بیان کیا۔ ذاتی خوبی بھی بیان کی۔ فوائد بھی بیان کئے اور پھر اس راہ کے چھوڑنے والوں کی ناکامی اور بدحالی بھی بیانؔ فرمائی تا ذاتی خوبی کو سن کر طبائع سلیمہ اُس کی طرف میل کریں اور فوائد پر اطلاع پاکر جو لوگ فوائد کے خواہاں ہیں ان کے دلوں میں شوق پیدا ہو اور ترک کرنے کی خرابیاں معلوم کرکے اس وبال سے ڈریں جو کہ ترک کرنے پر عائد حال ہوگا۔ پس یہ بھی ایک کامل لطیفہ ہے جس کا التزام اس صورت میں کیا گیا۔ پھر تیسرا لطیفہ اس سورۃ میں یہ ہے کہ باوجود التزام فصاحت و بلاغت یہ کمال دکھلایا ہے کہ محامد الٰہیہ کے ذکر کرنے کے بعد جو فقرات دعا وغیرہ کے بارہ میں لکھے ہیں۔ ان کو ایسے عمدہ طور پر بطور لف و نشر مرتب کے بیان کیا ہے جس کا صفائی سے بیان کرنا باوجود رعایت تمام مدارج
مغلوب اور ہلاک کرنے کے لئے تمہارے ساتھ ہے اسی طرح اور بھی بہت ؔ سے فقرات تھے جن میں سے کچھ تو یاد ہیں اور کچھ بھول گئے۔ لیکن سب سے زیادہ عربی زبان میں الہام ہوتا ہے۔ خصوصاً آیاتِ فرقانیہ میں بکثرت اور بتواتر ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی قدر عربی الہامات جو بعض عظیم الشان پیشگوئیوں اور احساناتِ الٰہیہ پر مشتمل ہیں ذیل میں معہ ترجمہ لکھے جاتے ہیں تاکہ اگر خدا چاہے تو طالب صادق کو ان سے فائدہ ہو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 578
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 578
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/578/mode/1up
جوؔ لوگ عیسائیوں اور یہودیوں میں سے صاحب علم ہیں جب ان پر قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ کرتے ہوئے ٹھوڑیوں پر گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا خدا تخلّفِ وعدہ سے پاک ہے ایک دن ہمارے خداوند کا وعدہ پورا ہونا ہی تھا اور روتے ہوئے مونہہ پر گر پڑتے ہیں اور خدا کا کلام اُن میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہو۔
پس یہ تو ان لوگوں کا حال تھا جو عیسائیوں اور یہودیوں میں اہل علم اور صاحب انصاف تھے کہ جب وہ ایک طرف آنحضرت کی حالت پر نظر ڈال کر دیکھتے تھے کہ محض اُمّی ہیں کہ تربیت اور تعلیم کا ایک نقطہ بھی نہیں سیکھا اور نہ کسی مہذّب قوم
فصاحت و بلاغت کے بہت مشکل ہوتا ہے اور جو لوگ سخنؔ میں صاحب مذاق ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ اس قسم کے لف و نشر کیسا نازک اور دقیق کام ہے۔ اِس کی تفصیل یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اوّل محامدِ الٰہیہ میں فیوض اربعہ کا ذکر فرمایا کہ وہ رب العالمین۱ ہے۔ رحمان۲ ہے۔ رحیم۳ ہے۔ مالک۴ یوم الدین ہے۔ اور پھر بعد اس کے فقرات تعبد اور استعانت اور دعا اور طلب جزا کو انہیں کے ذیل میں اس لطافت سے لکھا ہے کہ جس فقرہ کو کسی قسم فیض سے نہایت مناسبت تھی اُسی کے نیچے وہ فقرہ درج کیا۔ چنانچہ رَبُّ الْعَالَمِیْن کے مقابلہ پر اِیَّاکَ نَعْبُدُ لکھا۔ کیونکہ ربوبیت سے استحقاق عبادت شروع ہوجاتا ہے پس اسی کے نیچے اور اسی کے محاذات میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ
اور تا مخالفوں کو بھی معلوم ہو کہ جس قوم پر خداوند کریم کی نظر عنایت ہوتی ہے اور جو لوگ راہ ؔ راست پر ہوتے ہیں ان سے کیونکر خداوند کریم اپنے مکالمات اور مخاطبات میں بہ مہربانی پیش آتا ہے اور کیونکر ان تفضّلات سے پیش از وقوع اطلاع دیتا ہے جن کو اس نے لطف محض سے اپنے وقتوں پر طیار رکھا ہے اور وہ الہامات یہ ہیں:۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 579
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 579
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/579/mode/1up
میں بودوباش رہی اور نہ مجالسِ علمیہ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اورؔ دوسری طرف وہ قرآن شریف میں صرف پہلی کتابوں کے قصے نہیں بلکہ صدہا باریک صداقتیں دیکھتے تھے جو پہلی کتابوں کی مکمل اور متمم تھیں تو آنحضرت کی حالت اُمیّت کو سوچنے سے اور پھر اس تاریکی کے زمانہ میں ان کمالات علمیہ کو دیکھنے سے نیز انوار ظاہری و باطنی کے مشاہدہ سے نبوت آنحضرت ؐ کی ان کو اظہر من الشّمس معلوم ہوتی تھی اور ظاہر ہے کہ اگر ان مسیحی فاضلوں کو آنحضرت کے اُمّی اور مؤیّد من اللہ ہونے پر یقین کامل نہ ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ وہ ایک ایسے دین سے جس کی حمایت میں ایک بڑی سلطنت قیصر روم کی قائم تھی اور جو نہ صرف ایشیا میں بلکہ بعض حصوں یورپ میں بھی پھیل چکا تھا اور بوجہ اپنی مشرکانہ تعلیم کے دنیا پرستوں کو عزیز اور پیارا معلوم ہوتا تھا صرف شک اور شبہ کی حالت میں الگ ہوکر ایسے مذہب کو
کا لکھنا نہایت موزون اور مناسب ہے اور رحمان کے مقابلہ پر اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ لکھا۔ کیونکہ بندہ کے لئے اعانت الٰہی جو توفیق عبادت اور ہریک اس کے مطلوب میں ہوتیؔ ہے جس پر اس کی دنیا اور آخرت کی صلاحیت موقوف ہے یہ اس کے کسی عمل کا پاداش نہیں بلکہ محض صفت رحمانیت کا اثر ہے۔ پس استعانت کو صفت رحمانیت سے بشدّت مناسبت ہے۔ اور رحیم کے مقابلہ پر اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ لکھا کیونکہ دعا ایک مجاہدہ اور کوشش ہے اور کوششوں پر جو ثمرہ مُترتّب ہوتا ہے وہ صفت رحیمیت کا اثر ہے۔ اور مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے مقابلہ پر صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ
بورکت یا احمد وکان ما بارک اللہ فیک حقًّا فیک۔ اے احمد تو مبارک کیا گیا اور خدا نے جو ؔ تجھ میں برکت رکھی ہے وہ حقانی طور پر رکھی ہے۔ شانک عجیب و اجرک قریب۔ تیری شان عجیب ہے اور تیرا بدلہ نزدیک ہے۔ انی راض منک۔ انی رافعک الی الارض والسماء معک کما ھو معی۔ میں تجھ سے راضی ہوں میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ زمین اور آسمان تیرے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 580
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 580
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/580/mode/1up
قبول کرلیتے جو بباعث تعلیم توحید کے تمام مشرکین کو ُ برا معلوم ہوتا تھا اور اُس کے قبول کرنے والے ہر وقت چاروں طرف سے معرض ہلاکت اورؔ بلا میں تھے پس جس چیز نے ان کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیرا وہ یہی بات تھی جو انہوں نے آنحضرتؐ کو محض اُمّی اور سراپا مؤیّد من اللہ پایا اور قرآن شریف کو بشری طاقتوں سے بالاتر دیکھا اور پہلی کتابوں میں اس آخری نبی کے آنے کے لئے خود بشارتیں پڑھتے تھے سو خدا نے ان کے سینوں کو ایمان لانے کے لئے کھول دیا۔ اور ایسے ایماندار نکلے جو خدا کی راہ میں اپنے خونوں کو بہایا اور جو لوگ عیسائیوں اور یہودیوں اور عربوں میں سے نہایت درجہ کے جاہل اور شریر اور
عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَاالضَّآلِّیْنَلکھا۔ کیونکہ امر مجازات مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے متعلق ہے۔ سو ایسا فقرہ جس میں طلب انعام اور عذاب سے بچنے کی درخواست ہے اسی کے نیچے رکھنا موزوں ہے۔
چوتھا لطیفہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ مجمل طور پر تمام مقاصد قرآن شریف پر مشتمل ہے گویا یہ سورۃ مقاصدؔ قرآنیہ کا ایک ایجاز لطیف ہے۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے 3 3۔ ۱ یعنی ہم نے تجھے اے رسول سات آیتیں سورۃ فاتحہ کی عطا کی ہیں جو مجمل طور پر تمام مقاصد قرآنیہ پر مشتمل ہیں اور ان کے مقابلہ پر قرآن عظیم بھی عطا فرمایا ہے جو مفصّل طور پر مقاصد دینیہ کو ظاہر کرتا ہے اور اسی جہت سے اس سورۃ کا نام
ساتھ ہیں جیسے وہ میرے ساتھ ہیں۔ ھو کا ضمیر واحد بتاویل مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہے اور ان کلمات کا حاصل مطلب تلطّفات اورؔ برکاتِ الٰہیہ ہیں جو حضرت خیر الرسل کی متابعت کی برکت سے ہریک کامل مومن کے شامل حال ہوجاتی ہیں اور حقیقی طور پر مصداق ان سب عنایات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور دوسرے سب طفیلی ہیں۔ اور اس بات کو ہر جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہریک مدح و ثنا جو کسی مومن کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 581
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 581
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/581/mode/1up
بدباطن تھے ان کے حالات پر بھی نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی بہ یقینِ کامل آنحضرت کو اُمّی جانتے تھے اور اسی لئے جب وہ بائیبل کے بعض قصے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بطور امتحان نبوّت پوچھ کر ان کا ٹھیک ٹھیک جواب پاتے تھے تو یہ بات ان کو زبان پر لانے کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت کچھ پڑھے لکھے ہیںؔ ۔ آپ ہی کتابوں کو دیکھ کر جواب بتلا دیتے ہیں بلکہ جیسے کوئی لاجواب رہ کر اور گھسیانا بن کر کچے عذر پیش کرتا ہے ایسا ہی نہایت ندامت سے یہ کہتے تھے کہ شاید در پردہ کسی
اُمّ الکتاب اور سورۃ الجامع ہے۔ اُمّ الکتاب اس جہت سے کہ جمیع مقاصد قرآنیہ اُس سے مستخرج ہوتے ہیں۔ اور سورۃ الجامع اس جہت سے کہ علوم قرآنیہ کے جمیع انواع پر بصورت اجمالی مشتمل ہے اسی جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ جس نے سورۃ فاتحہ کو پڑھا گویا اس نے سارے قرآن کو پڑھ لیا۔ غرض قرآن شریف اور احادیث نبوی سے ثابت ہے کہ ؔ سورۃ فاتحہ ممدوحہ ایک آئینہ قرآن نما ہے۔ اس کی تصریح یہ ہے کہ قرآن شریف کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ تمام محامد کاملہ باری تعالیٰ کو بیان کرتا ہے اور اُس کی ذات کے لئے جو کمال تام حاصل ہے اس کو بوضاحت بیان فرماتا ہے۔ سو یہ مقصد اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں بطور اجمال آگیا۔ کیونکہ اُس کے یہ معنے ہیں کہ تمام محامد کاملہ اللہ کے لئے ثابت ہیں جو مستجمع جمیع کمالات اور مستحق
الہامات میں کی جائے وہ حقیقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح ہوتی ہے اور وہ مومن بقدر اپنی متابعت کے اس مدح سے حصہ حاصل کرتا ہے۔ اور ؔ وہ بھی محض خدائے تعالیٰ کے لطف اور احسان سے نہ کسی اپنی لیاقت اور خوبی سے۔ پھر بعد اس کے فرمایا انت وجیہ فی حضرتی اخترتک لنفسی۔ تو میری درگاہ میں وجیہ ہے میں نے تجھے اپنے لئے اختیار کیا۔ انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی فحان ان تعان و تعرف بین الناس۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسا میری توحید اور تفرید سو وہ وقت آگیا جو تیری مدد کی جائے اور تجھ کو لوگوں میں معروف و مشہور کیا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 582
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 582
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/582/mode/1up
عیسائی یا یہودی عالم بائیبل نے یہ قصے بتلا دیئے ہوں گے۔ پس ظاہر ہے اگر آنحضرت کا اُمّی ہونا ان کے دلوں میں بہ یقین کامل متمکن نہ ہوتا تو اسی بات کے ثابت کرنے کے لئے نہایت کوشش کرتے کہ آنحضرت اُمّی نہیں ہیں فلاں مکتب یا مدرسہ میں انہوں نے تعلیم پائی ہے۔ واہیات باتیں کرنا جن سے اُن کی حماقت ثابت ہوتی تھی کیا ضرور تھا۔ کیونکہ یہ الزام لگانا کہ بعض عالم یہودی اور عیسائی درپردہ آنحضرت کے رفیق اور معاون ہیں بدیہی البطلان تھا۔ اس وجہ سے کہ قرآن تو جابجا اہلِ کتاب کی وحی کو ناقص اور اُن کی کتابوں کو محرّف اور مبدّل اور ان کے عقائد کو فاسد اور باطل اور خود ان کو بشرطیکہ بے ایمان مریں ملعون اور جہنمی بتلاتا ہے۔ اورؔ اُن کے اصولِ مصنوعہ کو دلائل قویّہ سے توڑتا ہے تو پھر کس طرح
جمیع عبادات ہے۔ دوسرا مقصد قرآن شریف کا یہ ہے کہ وہ خدا کا صانع کامل ہونا اور خالق العالمین ہونا ظاہر کرتا ہے اور عالم کے ابتدا کا حال بیان فرماتا ہے اور جو دائرہ عالم میں داخلؔ ہوچکا اس کو مخلوق ٹھہراتا ہے اور ان امور کے جو لوگ مخالف ہیں انکا کذب ثابت کرتا ہے۔ سو یہ مقصد رَبُّ الْعٰلَمِیْن میں بطور اجمال آگیا۔ تیسرا مقصد قرآن شریف کا خدا کا فیضان بلا استحقاق ثابت کرنا اور اُس کی رحمتِ عامہ کا بیان کرنا ہے۔ سو یہ مقصد لفظ رحمان میں بطور اجمال آگیا۔ چوتھا مقصد قرآن شریف کا
کیا انسان پر یعنی تجھ پر وہ وقت نہیں گزرا کہ تیرا دنیا میں کچھ بھی ذکر و تذکرہ نہ تھا۔ یعنی تجھ کو کوئی نہیں جانتا تھا کہ تو کون ہے اور کیا چیز ہے اور کسی شمار و حساب میں نہ تھا۔ یعنیؔ کچھ بھی نہ تھا۔ یہ گزشتہ تلطّفات و احسانات کا حوالہ ہے تا محسن حقیقی کے آئندہ فضلوں کے لئے ایک نمونہ ٹھہرے۔ سبحان اللّٰہ تبارک اللّٰہ تبارک و تعالٰی زاد مجدک۔ ینقطع ابائک و یبدء منک۔ سب پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو نہایت برکت والا اور عالی ذات ہے اس نے تیرے مجد کو زیادہ کیا۔ تیرے آباء کا نام اور ذکر منقطع ہوجائے گا۔ یعنی بطور مستقل ان کا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 583
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 583
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/583/mode/1up
ممکن تھا کہ وہ لوگ قرآن شریف سے اپنے مذہب کی آپ ہی مذمّت کرواتے۔ اور اپنی کتابوں کا آپ ہی ردّ لکھاتے اور اپنے مذہب کی بیخ کنی کے آپ ہی موجب بن جاتے پس یہ سست اور نادرست باتیں اس لئے دنیا پرستوں کو بکنی پڑیں کہ اُن کو عاقلانہ طور پر قدم مارنے کا کسی طرف راستہ نظر نہیں آتا تھا اور آفتاب صداقت کا ایسی پرزور روشنی سے اپنی کرنیں چاروں طرف چھوڑ رہا تھا کہ وہ اس سے چمگادڑ کی طرح چُھپتے پھرتے تھے اور کسی ایک بات پر ان کو ہرگز ثبات و قیام نہ تھا بلکہ تعصّب اور شدّت عناد نے ان کو سودائیوں اور پاگلوں کی طرح بنا رکھا تھا۔ پہلے تو قرآن کے قصوں کو سن کر جن میں بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا ذکر تھا اس وہم میں پڑے کہ شاید ایک شخص اہل کتاب میں سے پوشیدہ طور پر یہ قصے سکھاتا ہوگا جیسا اُن کا یہ مقولہ قرآن شریف میںؔ درج ہے۔ 3۔ ۱سورۃ النحل الجزو نمبر ۱۴ ۔
خدا کا وہ فیضان ثابت کرنا ہے جو محنت اور کوشش پر مترتب ہوتا ہے۔ سو یہ مقصد لفظ رَحِیْم میں آگیا۔ پانچواں مقصد قرآن شریف کا عالم معاد کی حقیقت بیان کرنا ہے۔ سو یہ مقصد مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن میں آگیا۔ چھٹا مقصد قرآنؔ شریف کا اخلاص اور عبودیت اور تزکیہ نفس عن غیر اللہ اور علاج امراض روحانی اور اصلاح اخلاق ردیہ اور توحید فی العبادت کا بیان کرنا ہے۔ سو یہ مقصد اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں بطور اجمال آگیا۔ ساتواں مقصد قرآن شریف کا ہریک کام میں فاعل حقیقی خدا کو ٹھہرانا اور تمام توفیق اور
نام نہیں رہے گا۔ اور خدا تجھ سے ابتدا شرف اور مجد کا کرے گا۔ نصرت بالرعب واحییت بالصدق ایھا الصدیق۔ نصرت وقالوا لات حین مناص۔ تو رعب کے ساتھ مدد کیا گیا اور صدق کے ساتھ زندہ کیا گیا۔ اے صدیق تو مدد کیا گیا۔ اور مخالفوں نے کہا ؔ کہ اب گریز کی جگہ نہیں یعنی امداد الٰہی اس حد تک پہنچ جائے گی کہ مخالفوں کے دل ٹوٹ جائیں گے اور ان کے دلوں پر یاس مستولی ہوجائے گی اور حق آشکارا ہوجائے گا۔ وما کان اللہ لیترکک حتی یمیز الخبیث
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 584
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 584
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/584/mode/1up
اور پھر جب دیکھا کہ قرآن شریف میں صرف قصے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے حقائق ہیں تو پھر یہ دوسری رائے ظاہر کی 3۔ ۱ سورۃ الفرقان الجزو نمبر ۱۸۔ یعنی ایک بڑی جماعت نے متفق ہوکر قرآن شریف کو تالیف کیا ہے ایک آدمی کا کام نہیں۔ پھر جب قرآن شریف میں ان کو یہ جواب دیا گیا کہ اگر قرآن کو کسی جماعت علماء فضلاء اور شعرا نے اکٹھے ہوکر بنایا ہے تو تم بھی کسی ایسی جماعت سے مدد لے کر قرآن کی نظیر بنا کر دکھلاؤ تا تمہارا سچا ہونا ثابت ہو تو پھر لاجواب ہوکر اس رائے کو بھی جانے دیا اور ایک تیسری رائے ظاہر کی اور وہ یہ کہ قرآن کو جِنّات کی مدد سے بنایا ہے یہ آدمی کا کام نہیں پھر خدا نے اس کا جواب بھی ایسا دیا کہ جس کے سامنے وہ چون و چرا کرنے سے عاجز ہوگئے جیسا فرمایا ہے۔
لطف اور نصرت اور ثبات علی الطاعت اور عصمت عن العصیان اور حصول جمیع اسباب خیر اور صلاحیت دنیا و دین اسی کی طرف اسے قرار دینا اور ان تمام امور میں اسی سے مدد چاہنے کے لئے تاکید کرنا سو یہ مقصد اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن میں بطور اجمال آگیا۔ آٹھواں مقصد قرآن ؔ شریف کا صراط مستقیم کے دقائق کو بیان کرنا ہے اور پھر اس کی طلب کے لئے تاکید کرنا کہ دعا اور تضرّع سے اس کو طلب کریں سو یہ مقصد اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْممیں بطور اجمال کے آگیا۔ نواں مقصد قرآن شریف کا
من الطیب۔ اور خدا ایسا نہیں ہے جو تجھے چھوڑ دے جب تک وہ خبیث اور طیب میں صریح فرق نہ کرلے۔3۔ اور خدا اپنے امر پر غالب ہے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اذا جاء نصر اللہ والفتح و تمت کلمۃ ربک ھذا الذی کنتم بہ تستعجلون۔ جب مدد اور فتح الٰہی آئے گی اور تیرے رب کی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 585
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 585
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/585/mode/1up
یعنیؔ قرآن ہریک قسم کے امور غیبیہ پر مشتمل ہے اور اس قدر بتلانا جنات کا کام نہیں۔ ان کو کہہ دے کہ اگر تمام جن متفق ہوجائیں اور ساتھ ہی بنی آدم بھی اتفاق کرلیں اور سب مل کر یہ چاہیں کہ مثل اس قرآن کے کوئی اور قرآن بنادیں تو ان کے لئے ہرگز ممکن نہیں ہوگا اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔
اُن لوگوں کا طریق و خلق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا انعام و فضل ہوا تا طالبین حق کے دل جمعیت پکڑیں سو یہ مقصد صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں آگیا۔ دسواں ۱۰مقصد قرآن شریف کا ان لوگوں کا خلق و طریق بیان کرنا ہے جن پر خدا کا غضب ہوا۔ یا جو راستہ بھول کر انواع اقسام کی بدعتوں میں پڑگئے۔ تا حق کے طالب ان کی راہوں سے ڈریں۔ سو یہ مقصد غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْن میں بطور اجمال آگیا ہے یہ مقاصد عشرہ ہیں جو قرآن شریف میں مندرج ہیں جو تمام صداقتوں کا اصل الاصول ہیں۔ سو یہ تمام مقاصد سورۂ فاتحہ میں بطور اجمال آگئے۔
بات پوری ہوجائے گی تو کفّار اس خطاب کے لائق ٹھہریں گے کہ یہ وہی بات ہے جس کے لئے تم جلدی کرتے تھے۔ اردت ان ؔ استخلف فخلقت اٰدم انی جاعل فی الارض۔ یعنی میں نے اپنی طرف سے خلیفہ کرنے کا ارادہ کیا۔ سو میں نے آدم کو پیدا کیا۔ میں زمین پر کرنے والا ہوں یہ اختصاری کلمہ ہے یعنی اس کو قائم کرنے والا ہوں۔ اس جگہ خلیفہ کے لفظ سے ایسا شخص مراد ہے کہ جو ارشاد اور ہدایت کے لئے بین اللہ و بین الخلق واسطہ ہو۔ خلافت ظاہری کہ جو سلطنت اور حکمرانی پر اطلاق پاتی ہے مراد نہیں ہے اور نہ وہ بجز قریش کے کسی دوسرے کے لئے خدا کی طرف سے شریعت اسلام میں مسلم ہوسکتی ہے بلکہ یہ محض روحانی مراتب اور روحانی نیابت کا ذکر ہے اور آدم کے لفظ سے بھی وہ آدم جو ابوالبشر ہے مرادؔ نہیں بلکہ ایسا شخص مراد ہے جس سے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 586
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 586
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/586/mode/1up
پھر جب ان بدبختوں پر اپنے تمام خیالات کا جھوٹ ہونا کھل گیا اور کوئی بات بنتی نظر نہ آئی تو آخرکار کمال بے حیائی سے کمینہ لوگوں کی طرح اس بات پر آگئے کہ ہر طرح پر اس تعلیم کو شائع ہونے سے روکنا چاہئے جیسا اس کا ذکر قرآن شریف میں فرمایا ہے:۔
ی کافروں نے یہ کہا کہ اس قرآن کو مت سنو۔ اور جب تمہارے سامنے پڑھا جاوے توتم شور ڈال دیاکرو۔ تا شاید اسی طرح غالب آجاؤ۔ اور بعضوں نے عیسائیوں اور یہودیوں میں سے یہ کہا کہ یوں کرو کہ اول صبح کے وقت جاکر قرآن پر ایمان لے آؤ۔ پھر شام کو اپنا ہی دین اختیار کرلو۔ تاشاید اس طور سے لوگ شک میں پڑجائیں اوردینِ اسلام کوچھوڑ دیں۔
پانچواںؔ لطیفہ سورۃ فاتحہ میں یہ ہے کہ وہ اس اتم اور اکمل تعلیم پر مشتمل ہے کہ جو طالب حق کے لئے ضروری ہے۔ اور جو ترقیات قربت اور معرفت کے لئے کامل دستور العمل ہے۔ کیونکہ ترقیات قُربت کا شروع اس نقطہ سیر سے ہے کہ جب سالک اپنے نفس پر ایک موت قبول کرکے اور سختی اور آزار کشی کو روا رکھ کر
سلسلۂ ارشاد اور ہدایت کا قائم ہوکر روحانی پیدائش کی بنیاد ڈالی جائے گویا وہ روحانی زندگی کے رو سے حق کے طالبوں کا باپ ہے۔ اور یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس میں روحانی سلسلہ کے قائم ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایسے وقت میں جبکہ اس سلسلہ کا نام و نشان نہیں۔ پھر بعد اس کے اس روحانی آدم کا روحانی مرتبہ بیان فرمایا اور کہا۔ 33۔۳ جب یہ آیت شریفہ جو قرآن شریف کی آیت ہے الہام ہوئی تو اس کے معنے کی تشخیص اور تعیین میں تامّل تھا۔ اور اسی تامّل میں کچھ خفیف سی خواب آگئی اور اس خواب میں اس کے معنے حل کئے گئے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ دنوّ سے مراد قربِ الٰہی ہے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 587
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 587
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/587/mode/1up
کیا توؔ نے دیکھا نہیں کہ یہ عیسائی اور یہودی جنہوں نے انجیل اور تورات کوکچھ ادھورا سا پڑھ لیا ہے ایمان ان کا دیوتوں اور بُتوں پر ہے اور مشرکوں کو کہتے ہیں کہ ان کا مذہب جو بُت پرستی ہے وہ بہت اچھا ہے اور توحید کا مذہب جو مسلمان رکھتے ہیں یہ کچھ نہیں یہ وہی لوگ ہیں جن پر خدا نے *** کی ہے اور جس پر خدا *** کرے اس کے لئے کوئی مددگار نہیں۔
اُنؔ تمام نفسانی خواہشوں سے خالصاً للہ دست کش ہوجائے کہ جو اس میں اور اس کے مولیٰ کریم میں جدائی ڈالتے ہیں اور اس کے مونہہ کو خدا کی طرف سے پھیر کر اپنی نفسانی لذّات اور جذبات اور عادات اور خیالات اور ارادات اور نیز مخلوق کی طرف پھیرتے ہیں اور اُن کے خوفوں اور امیدوں میں گرفتار کرتے ہیں اور ترقیات کا اوسط درجہ
اور قرب کسی حرکت مکانی کا نام نہیں بلکہ اس وقت انسان کو مقرب الٰہی بولا جاتا ہے کہ جب وہ ارادہ اور نفس اور خلق اور تمام اضداد اور اغیار سے بکلّی الگ ہوکر طاعت اور محبت الٰہی میں سراپا محو ہوجاوے اور ہریک ماسوا اللہ سے پوری دوری حاصل کرلیوے اور محبت الٰہی کے دریا میں ایسا ڈوبے کہ کچھ اثر وجود اور انانیّت کا باقی نہ رہے۔ اور جب تک اپنی ہستی کے لوث سے مبرّا نہیں اور بقا باللہ کے پیرایہ سے متحلی نہیں تب تک اس قرب کی لیاقت نہیں رکھتا۔ اور بقا باللہ کا مرتبہ تب حاصل ہوتا ہے کہ جب خدا کی محبت ہی انسان کی غذا ہوجائے اور ایسی حالت ہوجائے کہ بغیر اس کی یاد کے جی ہی نہیں سکتا اور اس کے غیر کا دلؔ میں سمانا موت کی طرح دکھائی دے اور صریح مشہود ہو کہ وہ اسی کے ساتھ جیتا ہے اور ایسا خدا کی طرف کھینچا جاوے جو دل اس کا ہر وقت یاد الٰہی میں مستغرق اور اس کے درد سے دردمند رہے۔ اور ماسوا سے اس قدر نفرت پیدا ہوجائے کہ گویا غیر اللہ سے اس کی عداوت ذاتی ہے جن کی طرف میل کرنے سے بالطبع دکھ اٹھاتا ہے۔ جب یہ حالت متحقق ہوگی تو دل جو مورد انوار الٰہی ہے خوب صاف ہوگا اور اسماء اور صفات الٰہی کا اُس میں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 588
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 588
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/588/mode/1up
ابؔ خلاصہ اس تقریر کا یہ ہے کہ اگر آنحضرت اُمّی نہ ہوتے تو مخالفین اسلام بالخصوص یہودی اور عیسائی جن کو علاوہ اعتقادی مخالفت کے یہ بھی حسد اور بغض دامنگیر تھا کہ بنی اسرائیل میں سے رسول نہیں آیا بلکہ ان کے بھائیوں میں سے جو بنی اسماعیل ہیں آیا وہ کیونکر ایک صریح امر خلاف واقعہ پاکر خاموش رہتے
وہؔ ہے کہ جو جو ابتدائی درجہ میں نفس کشی کے لئے تکالیف اٹھائی جاتی ہیں اور حالت معتادہ کو چھوڑ کر طرح طرح کے دکھ سہنے پڑتے ہیں وہ سب آلام صورت انعام میں ظاہر ہوجائیں اور بجائے مشقّت کے لذّت اور بجائے رنج کے راحت اور بجائے تنگی کے انشراح اور بشاشت نمودار ہو۔ اور ترقیات کا اعلیٰ درجہ وہ ہے
انعکاس ہوکر ایک دوسرا کمال جو تدلّی ہے عارف کے لئے پیش آئے گا۔ اور تدلّی سے مراد وہ ہبوط اور نزول ہے کہ جب انسان تخلق باخلاق اللہ حاصل کرکے اس ذات رحمان و رحیم کی طرح شفقتًا علی العباد عالم خلق کی طرف رجوع کرے۔ اور چونکہ کمالات دنو کے کمالات تدلی سے لازم ملزوم ہیں۔ پس تدلی اسی قدر ہوگی جس قدر دنو ہے۔ اور دنو کی کمالیت اس میں ہے کہ اسماء اور صفات الٰہی کے عکوس کا سالک کے قلب میں ظہور ہو۔ اور محبوب حقیقی بے شائبہ ظلیت اور بے تواہم حالیت و محلیّت اپنے تمام صفات کاملہ کے ساتھ اس میں ظہور فرمائے اور یہی استخلاف کی حقیقت اور روح اللہ کی نفخ کی ماہیت ہے اور یہی تخلق باخلاق اللہ کی اصل بنیاد ہے۔ اور جبکہ تدلی کی حقیقت کو تخلق باخلاق اللہ لازم ہو اور کمالیت فی التخلّق اس بات کو چاہتی ہے کہ شفقت علی العباد اور ان کے لئے بمقام نصیحت کھڑے ہونا اور ان کی بھلائی کے لئے بدل و جان مصروف ہوجانا اس حد ؔ تک پہنچ جائے جس پر زیادہ متصور نہیں اس لئے واصل تام کو مجمع الاضداد ہونا پڑا کہ وہ کامل طور پر رو بخدا بھی ہو اور پھر کامل طور پر رو بخلق بھی پس وہ ان دونوں قوسوں الوہیت و انسانیت میں ایک وتر کی طرح
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 589
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 589
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/589/mode/1up
بلاشبہ ان پر یہ بات بکمال درجہ ثابت ہوچکی تھی کہ جو کچھ آنحضرت کے مونہہ سے نکلتا ہے وہ کسی اُمی اور ناخواندہ کا کام نہیں اور نہ دس بیس آدمیوں کا کام ہے تب ہی تو وہ اپنی جہالت سے 3۔ ۱ کہتے تھے اور جو اُن میں سے دانا اور واقعی اہل علم تھے وہ بخوبی معلوم کرچکے تھے کہ قرآن انسانی طاقتوں سے باہر ہے
کہ ؔ سالک اس قدر خدا اور اس کے ارادوں اور خواہشوں سے اتحاد اور محبت اور یک جہتی پیدا کرلے کہ اس کا تمام اپنا عین و اثر جاتا رہے۔ اور ذات اور صفات الٰہیہ بلا شائبہ ظلمت اور بلا توہم حالیّت و محلیّت اس کے وجود آئینہ صفت میں منعکس ہوجائیں۔ اور
واقعہ ہے جو دونوں سے تعلق کامل رکھتا ہے۔ اب خلاصہ کلام یہ کہ وصول کامل کے لئے دنوّ اور تدلّی دونوں لازم ہیں دنوّ اس قرب تام کا نام ہے کہ جب کامل تزکیہ کے ذریعہ سے انسان کامل سیر الی اللہ سے سیر فی اللہ کے ساتھ متحقّق ہوجائے اور اپنی ہستی ناچیز سے بالکل ناپدید ہوکر اور غرق دریائے بیچون و بیچگون ہوکر ایک جدید ہستی پیدا کرے جس میں بیگانگی اور دوئی اور جہل اور نادانی نہیں ہے اور صبغتہ اللہ کے پاک رنگ سے کامل رنگینی میسر ہے اور تدلّی انسان کی اس حالت کا نام ہے کہ جب وہ تخلّق باخلاق اللہ کے بعد ربّانی شفقتوں اور رحمتوں سے رنگین ہوکر خدا کے بندوں کی طرف اصلاح اور فائدہ رسانی کے لئے رجوع کرے۔ پس جاننا چاہئے کہ اس جگہ ایک ہی دل میں ایک ہی حالت اور نیّت کے ساتھ دو قسم کا رجوع پایا گیا۔ ایک خدائے تعالیٰ کی طرف جو وجود قدیم ہے اور ایک اس کے بندوں کی طرف جو وجود محدث ہے۔ اور دونوں قسم کا وجود یعنی قدیم اور حادث ایک دائرہ کی طرح ہے جس کی طرف اعلیٰ وجوب اور طرف اسفل امکان ہے۔ اب اس دائرہ کے درمیان میں انسان کامل بوجہ دنوّ اور تدلی کی دونوں طرف سے اتصال محکم کرکے یوں مثالی طور پر صورت پیدا کرلیتا ہے۔ جیسے ایک وترؔ دائرہ کے دو قوسوں میں ہوتا ہے یعنی حق اور خلق میں واسطہ ٹھہر جاتا ہے پہلے اس کو دنوّ اور قربِ الٰہی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 590
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 590
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/590/mode/1up
اور اُن پر یقین کا دروازہ ایسا کھل گیا تھا کہ ان کے حق میں خدا نے فرمایا 3 ۱ یعنی اس نبی کو ایسا شناخت کرتے ہیں کہ جیسا اپنے بیٹوں کو شناخت کرتے ہیں اور حقیقت میں یہ دروازہ یقین اور معرفت کا کچھ ان کے لئے ہی نہیں کھلا بلکہ اس زمانہ میں بھی سب کے لئے کھلا ہے کیونکہ
فنااتم کے آئینہ کے ذریعہ سے جس نے سالک میں اور اس کی نفسانی خواہشوں میں ؔ غایت درجہ کا بُعد ڈال دیا ہے انعکاس ربّانی ذات اور صفات کا نہایت صفائی سے دکھائی دے۔ اس تقریر میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں وجودیوں یا
کی خلعتِ خاص عطا کی جاتی ہے اور قرب کے اعلیٰ مقام تک صعود کرتا ہے اور پھر خلقت کی طرف اس کو لایا جاتا ہے۔ پس اس کا وہ صعود اور نزول دو قوس کی صورت میں ظاہر ہوجاتا ہے اور نفس جامع التعلقین انسان کامل کا ان دونوں قوسوں میں قاب قوسین کی طرح ہوتا ہے اور قاب عرب کے محاورہ میں کمان کے چلہ پر اطلاق پاتا ہے۔ پس آیت کے بطور تحت اللفظ یہ معنے ہوئے کہ نزدیک ہوا یعنی خدا سے ، پھر اترا یعنی خلقت پر پس اپنے اس صعود اور نزول کی وجہ سے دو قوسوں کے لئے ایک ہی وتر ہوگیا۔ اور چونکہ اس کا رُو بخلق ہونا چشمہ صافیہ تخلّق باخلاق اللہ ہے اس لئے اس کی توجہ بمخلوق توجہ بخالق کے عین ہے یا یوں سمجھو کہ چونکہ مالک حقیقی اپنی غایت شفقت علی العباد کی وجہ سے اس قدر بندوں کی طرف رجوع رکھتا ہے کہ گویا وہ بندوں کے پاس ہی خیمہ زن ہے۔ پس جبکہ سالک سیر الی اللہ کرتا کرتا اپنی کمال سیر کو پہنچ گیا تو جہاں خدا تھا وہیں اس کو لَوٹ کر آنا پڑا۔ پس اس وجہ سے کمال دنوّ یعنی قرب تام اس کی تدلی یعنی ہبوط کا موجب ہوگیا۔ یحی الدین و یقیم الشریعۃ۔ زندہ کرے گا دین کو اور قائم کرے گا شریعت کو۔ یا اٰدم اسکن انت و زوجک الجنۃ۔ یا مریم اسکن انت و زوجک الجنۃ۔ یا احمد اسکن انت و زوجک
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 591
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 591
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/591/mode/1up
قرآن شریف کی حقّانیّت معلوم کرنے کے لئےؔ اب بھی وہی معجزات قرآنیہ اور وہی تاثیرات فرقانیہ اور وہی تائیدات غیبی اور وہی آیات لاریبی موجود ہیں جو اُس زمانہ میں موجود تھی خدا نے اس دین قویم کو قائم رکھنا تھا اِس لئے اِس کی سب برکات اور سب آیات قائم رکھیں اور عیسائیوں اور یہودیوں اور ہندوؤں کے ادیان ُ محرفہ
وید انتیوں کے باطل خیال کی تائید ہو۔ کیونکہ انہوں نے خالق اور مخلوق میں جو ابدی امتیاز ہے شناخت نہیں کیا۔ اور اپنے کشوفِ مشتبہ کے دھوکہ سے کہ جو سلوک ناتمام کیؔ حالت میں اکثر پیش آجاتے ہیں یا جو سودا انگیز ریاضتوں کا ایک نتیجہ ہوتا ہے سخت
الجنۃ۔ نفخت فیک من لدنی روح الصدق۔ اے آدم اے مریم اے احمد تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے جنت میں یعنی نجات حقیقی ؔ کے وسائل میں داخل ہوجاؤ۔ میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں پھونک دی ہے۔ اس آیت میں بھی روحانی آدم کا وجہ تسمیہ بیان کیا گیا یعنی جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بلا توسط اسباب ہے ایسا ہی روحانی آدم میں بلاتوسط اسباب ظاہر یہ نفخ روح ہوتا ہے اور یہ نفخ روح حقیقی طور پر انبیاء علیھم السلام سے خاص ہے اور پھر بطور تبیعت اور وراثت کے بعض افرادِ خاصہ امت محمدیہ کو یہ نعمت عطا کی جاتی ہے اور ان کلمات میں بھی جس قدر پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہر ہیں۔ پھر بعد اس کے فرمایا۔ نصرت وقالوا لات حین مناص۔ تو مدد دیا گیا۔ اور انہوں نے کہا کہ اب کوئی گریز کی جگہ نہیں۔ ان الذین کفروا وَ صدوا عن سبیل اللّٰہ رد علیھم رجل من فارس شکر اللّٰہ سعیہ۔ جن لوگوں نے کفر اختیار کیا اور خدا تعالیٰ کی راہ کے مزاحم ہوئے ان کا ایک مرد فارسی الاصل نے رد لکھا ہے۔ اس کی سعی کا خدا شاکر ہے۔ کتاب الولی ذوالفقار علی۔ ولی کی کتاب علی کی تلوار کی طرح ہے یعنی مخالف کو نیست و نابود کرنے والی ہے۔ اور جیسے علی کی تلوار نے بڑے بڑے خطرناک معرکوں میں نمایاں کار دکھلائے تھے ایسا ہی یہ بھی دکھلائے گی۔ اور یہ بھی ایک پیشگوئی ہے کہ جو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 592
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 592
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/592/mode/1up
اور باطلہ اور ناقصہ کا استیصال منظور تھا اس جہت سے انکے ہاتھ صرف قصے ہی قصے رہ گئے اور برکت حقّانیّت اور تائیداتِ سماویہ کا نام و نشان نہ رہا۔ ان کی کتابیں ایسے نشان بتلا رہی ہیں جن کے ثبوت کا ایک ذراؔ نشان اُن کے ہاتھ میں نہیں صرف گزشتہ قصوں کا حوالہ دیا جاتا ہے مگر قرآنِ شریف ایسے نشان پیش کرتا ہے جن کو ہریک شخص دیکھ سکتا ہے۔
مغالطات کے بیچ میں پڑگئے یا کسی نے سکر اور بے خودی کی حالت میں جو ایک قسم کا جنون ہے اس فرق کو نظر سے ساقط کردیا کہ جو خدا کی روح اور انسان کی روح میں باعتبار طاقتوں اور قوتوں اور کمالات اور تقدسات کے ہے ورنہ ظاہر ہے
کتاب کی تاثیرات عظیمہ اور برکات عمیمہ پر دلالت کرتی ہے۔ پھر بعد اس کے فرمایا ولو کان الایمان معلقا بالثریا لنالہ۔ اگر ایمان ثریا سے لٹکتا ہوتا یعنی زمین سے بالکل اٹھ جاتا تب بھی شخض مقدم الذکر اس کو پالیتا۔ یکاد زیتہ یضیء ولو ؔ لم تمسسہ نار۔ عنقریب ہے کہ اس کا تیل خودبخود روشن ہوجائے اگرچہ آگ اس کو چھو بھی نہ جائے۔ ام یقولون نحن جمیع منتصر سیھزم الجمع و یولون الدبر۔ وان یروا ایۃ یعرضوا ویقولوا سحر مستمر واستیقنتھا انفسم وقالوا لات حین مناص فبما رحمۃ من اللہ لنت علیھم ولو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک۔ ولو ان قرانا سیرت بہ الجبال۔ کیا کہتے ہیں کہ ہم ایک قوی جماعت ہیں جو جواب دینے پر قادر ہیں۔ عنقریب یہ ساری جماعت بھاگ جائے گی اور پیٹھ پھیر لیں گے اور جب یہ لوگ کوئی نشان دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ ایک معمولی اور قدیمی سحر ہے حالانکہ ان کے دل ان نشانوں پر یقین کرگئے ہیں اور دلوں میں انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ اب گریز کی جگہ نہیں اور یہ خدا کی رحمت ہے کہ تُو ان پر نرم ہوا اور اگر تُو سخت دل ہوتا تو یہ لوگ تیرے نزدیک نہ آتے اور تجھ سے الگ ہوجاتے۔ اگرچہ قرآنی معجزات ایسے دیکھتے جن سے پہاڑ جنبش میں آجاتے۔ یہ آیات ان بعض لوگوں کے حق میں بطور الہام القا ہوئیں جن کا ایسا ہی خیال اور حال تھا۔ اور شاید ایسے ہی اور لوگ بھی نکل آویں جو اس قسم کی باتیں کریں اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 593
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 593
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/593/mode/1up
تمھیدؔ ہشتم۔ جو امر خارق عادت کسی ولی سے صادر ہوتا ہے۔ وہ حقیقت میں اس متبوع کا معجزہ ہے جس کی وہ اُمّت ہے اور یہ بدیہی اور
کہ ؔ قادر مطلق کہ جس کے علم قدیم سے ایک ذرّہ مخفی نہیں اور جس کی طرف کوئی نقصان اور خسران عاید نہیں ہوسکتا اور جوہریک قسم کے جہل اور آلودگی اور ناتوانی اور غم اور حزن اور درد اور رنج اور گرفتاری سے پاک ہے وہ کیوں کر اس چیز کا عین ہوسکتا ہے کہ جو
بدرجۂ یقین کامل پہنچ کر پھر منکر رہیں۔ پھر بعد اس کے فرمایا۔ انا انزلناہ قریبا من القادیان۔ و بالحق انزلناہ و بالحق نزل۔ صدق اللہ و رسولہ وکان امر اللہ مفعولا۔ یعنی ہم نے ان نشانوں اور عجائبات کو اور نیز اس الہام پر ازمعارف و حقائق کو قادیان کے قریب اتارا ہے اور ضرورتِ حقّہ کے ساتھ اتارا ہے اور بضرورتِ حقہ اترا ہے۔ خدا اور اس کے رسول نے خبر دی تھی کہ جو اپنے وقت پر پوری ہوئی اور جو کچھ خدا نے چاہا تھا وہ ہونا ہی تھا۔ یہ آخری فقرات اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کے ظہور کے لئے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حدیث متذکرہ بالا میں اشارہ فرماچکے ہیں اور خدائے تعالیٰ اپنے کلام مقدس میں اشارہ فرما چکا ہے چنانچہ وہ اشارہ حصہ سوم کے الہامات میں درج ہوچکا ہے۔ اور فرقانی اشارہ اس آیت میں ہے۔ 3۔۱ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے۔ اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعہ سے ظہور میں آئے گا۔ اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اسؔ دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق اور اقطار میں پھیل جائے گا لیکن اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے اور اس عاجز کی فطرت اور مسیح کی فطرت باہم نہایت ہی متشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بحدی اتحاد ہے کہ نظر کشفی میں نہایت ہی باریک امتیاز ہے اور نیز ظاہری طور پر
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 594
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 594
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/594/mode/1up
ظاہر ہے کیونکہ جب کسی امر کا ظاہر ہونا کسیؔ شخص اور کسی خاص کتاب کی متابعت
اُن سب بلاؤں میں مبتلا ہے۔ کیا انسان جس ؔ کی روحانی ترقّیات کے لئے اس قدر حالات منتظرہ ہیں جن کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتا۔ وہ اُس ذات صاحبِ کمالِ تامّ سے مشابہ یا اس کا عین ہوسکتا ہے جس کے لئے کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں؟ کیا جس کی
بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا اور اس کی انجیل توریت کی فرع ہے اور یہ عاجز بھی اس جلیل الشان نبی کے احقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے۔ اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے۔ اور اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو چونکہ اس عاجز کو حضرت مسیح سے مشابہت تامہ ہے اس لئے خداوند کریم نے مسیح کی پیشگوئی میں ابتدا سے اس عاجز کو بھی شریک کررکھا ہے یعنی حضرت مسیح پیشگوئی متذکرہ بالا کا ظاہری اور جسمانی طور پر مصداق ہے اور یہ عاجز روحانی اور معقولی طور پر اُس کا محل اور مورد ہے یعنی روحانی طور پر دین اسلام کا غلبہ جو حجج قاطعہ اور براہین ساطعہ پر موقوف ہے اس عاجز کے ذریعہ سے مقدر ہے۔ گو اس کی زندگی میں یا بعد وفات ہو اور اگرچہ دین اسلام اپنے دلائل حقہ کے رو سے قدیم سے غالب چلا آیا ہے اور ابتدا سے اس کے مخالف رسوا اور ذلیل ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس غلبہ کا مختلف فرقوں اور قوموں پر ظاہر ہونا ایک ایسے زمانہ کے آنے پر موقوف تھا کہ جو بباعث کھل جانے راہوں کے تمام دنیا کو ممالک متحدہ کی طرح بناتا ہو اور ایک ہی قوم کے حکم میں داخل کرتا ہواور تمام اسباب اشاعت تعلیم اور تمام وسائل اشاعتِ دین کے بتمام تر سہولت و آسانی پیش کرتا ہو اورؔ اندرونی اور بیرونی طور پر تعلیم حقانی کے لئے نہایت مناسب اور موزوں ہو سو اب وہی زمانہ ہے کیونکہ بباعث کھل جانے راستوں اور مطلع ہونے ایک قوم کے دوسری قوم سے اور ایک ملک کے دوسرے ملک سے سامان تبلیغ کا بوجہ احسن میسر آگیا ہے اور بوجہ انتظام ڈاک و ریل و تار و جہاز و وسائل متفرقہ اخبار وغیرہ کے دینی تالیفات کی اشاعت کے لئے بہت سی آسانیاں ہوگئی ہیں۔ غرض
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 595
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 595
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/595/mode/1up
سے وابستہ ہے اور بدون متابعت کے وہ ظہور میں آؔ ہی نہیں سکتا۔
ہستی فانی اور جس کی روح میں صریح مخلوقیت کے نقصان پائے جاتے ہیں۔ وہ باوجود اپنی تمام آلائشوں اورؔ کمزوریوں اور ناپاکیوں اور عیبوں اور نقصانوں کے اس ذاتِ جلیل الصفات سے برابر ہوسکتا ہے جو اپنی خوبیوں اور پاک صفتوں میں ازلی ابدی طور
بلاشبہ اب وہ وقت پہنچ گیا ہے کہ جس میں تمام دنیا ایک ہی ملک کا حکم پیدا کرتی جاتی ہے۔ اور بباعث شائع اور رائج ہونے کئی زبانوں کے تفہیم تفہم کے بہت سے ذریعے نکل آئے ہیں اور غیریّت اور اجنبیّت کی مشکلات سے بہت سی سبکدوشی ہوگئی ہے۔ اور بوجۂ میل ملاپ دائمی اور اختلاط شبا روزی کی وحشت اور نفرت بھی کہ جو بالطبع ایک قوم کو دوسری قوم سے تھی بہت سی گھٹ گئی ہے چنانچہ اب ہندو بھی جن کی دنیا ہمیشہ ہمالہ پہاڑ کے اندر ہی اندر تھی اور جن کو سمندر کا سفر کرنا مذہب سے خارج کردیتا تھا لنڈن اور امریکہ تک سیر کر آتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ اس زمانہ میں ہریک ذریعہ اشاعت دین کا اپنی وسعت تامہ کو پہنچ گیا ہے اور گو دنیا پر بہت سی ظلمت اور تاریکی چھا رہی ہے مگر پھر بھی ضلالت کا دورہ اختتام پر پہنچا ہوا معلوم ہوتا ہے اور گمراہی کا کمال رو بزوال نظر آتا ہے کچھ خدا کی طرف سے ہی طبائع سلیمہ صراط مستقیم کی تلاش میں لگ گئے ہیں اور نیک اور پاکیزہ فطرتیں طریقہ حقہ کے مناسب حال ہوتی جاتی ہیں اور توحید کے قدرتی جوش نے مستعد دلوں کو وحدانیت کے چشمۂ صافی کی طرف مائل کردیا ہے اور مخلوق پرستی کی عمارت کا بودہ ہونا دانشمند لوگوں پر کھلتا جاتا ہے اور مصنوعی خدا پھر دوبارہ عقلمندوں کی نظر میں انسانیت کا جامہ پہنتے جاتے ہیں اور باایں ہمہ آسمانی مدد دین حق کی تائید کے لئے ایسے جوش میں ہے کہ وہ نشان اور خوارق جن کی سماعت سے عاجز اور ناقص بندے خدا بنائے گئے تھے اب وہ حضرت سید الرسل کے ادنیٰ خادموں اور چاکروں سے مشہود ؔ اور محسوس ہورہے ہیں اور جو پہلے زمانہ کے بعض نبی صرف اپنے حواریوں کو چھپ چھپ کر کچھ نشان دکھلاتے تھے۔ اب وہ نشان حضرت سید الرسل کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 596
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 596
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/596/mode/1up
تو بہ بداہت ثابت ہے کہ اگرچہ وہ امر بظاہر صورت کسی تابع سے ظہور میں
پر اتم اور اکمل ہے۔ سُبْحَانَہ‘ وَ تَعَالٰی عَمَّا یَصِفُوْن۔ بلکہ اس تیسرے قسم کی ترقی سے ہمارا مطلب یہ ہے کہ سالک خدا کی محبت میں ایسا فانی اور مستہلک ہوجاتا ہے اور اس قدر ذات بے ؔ چون و بے چگون اپنی تمام صفاتِ
احقر توابع سے دشمنوں کے روبرو ظاہر ہوتے ہیں اور انہیں دشمنوں کی شہادتوں سے حقیت اسلام کا آفتاب تمام عالم کے لئے طلوع کرتا جاتا ہے۔ ماسوا اس کے یہ زمانہ اشاعت دین کے لئے ایسا مددگار ہے کہ جو امر پہلے زمانوں میں سو سال تک دنیا میں شائع نہیں ہوسکتا تھا۔ اب اس زمانہ میں وہ صرف ایک سال میں تمام ملکوں میں پھیل سکتا ہے۔ اس لئے اسلامی ہدایت اور ربانی نشانوں کا نقارہ بجانے کے لئے اس قدر اس زمانہ میں طاقت و قوت پائی جاتی ہے جو کسی زمانہ میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی۔ صدہا وسائل جیسے ریل و تار و اخبار وغیرہ اسی خدمت کے لئے ہروقت طیار ہیں کہ تا ایک ملک کے واقعات دوسرے ملک میں پہنچاویں۔ سو بلاشبہ معقولی اور روحانی طور پر دین اسلام کے دلائل حقیقت کا تمام دنیا میں پھیلنا ایسے ہی زمانہ پر موقوف تھا اور یہی باسامان زمانہ اس مہمان عزیز کی خدمت کرنے کے لئے من کل الوجوہ اسباب مہیا رکھتا ہے۔ پس خداوند تعالیٰ نے اس احقر عباد کو اس زمانہ میں پیدا کرکے اور صدہا نشان آسمانی اور خوارق غیبی اور معارف و حقائق مرحمت فرما کر اور صدہا دلائل عقلیہ قطعیہ پر علم بخش کر یہ ارادہ فرمایا ہے کہ تا تعلیماتِ حقّہ قرآنی کو ہر قوم اور ہر ملک میں شائع اور رائج فرماوے اور اپنی حجت ان پر پوری کرے۔ اور اسی ارادہ کی وجہ سے خداوند کریم نے اس عاجز کو یہ توفیق دی کہ اتماماً للحجۃ 3 دس ہزارروپیہ کا اشتہار کتاب کے ساتھ شامل کیا گیا اور دشمنوں اور مخالفوں کی شہادت سے آسمانی نشانی پیش کی گئی اور اُن کے معارضہ اور مقابلہ کے لئے تمام مخالفین کو مخاطب کیا گیا تا کوئی دقیقہ اتمام حجت کا باقی نہ رہے اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 597
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 597
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/597/mode/1up
آیا ہو۔ لیکنؔ درحقیقت مظہر اس امر کا نبی متبوع ہے جس کی متابعت سے ظہور
کاملہ کے ساتھ اُس سے قریب ہوجاتی ہے کہ الوہیت کے تجلیات اس کے نفسانی جذبات پر ایسے غالب آجاتے ہیں اور ایسے اس کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں جو اس کو اپنے نفسانی جذبات سے بلکہ ہریک سے جو نفسانی جذبات کا تابع ہو مغائرت کلی اور
ہریک مخالف اپنے مغلوب اور لاجواب ہونے کا آپ گواہ ہوجائے۔ غرض خداوند کریم نے جو اسباب اور وسائل اشاعت دین کے اور دلائل اَور براہین اتمام حجت کے محض اپنے فضل اور کرم سے اس عاجز کو عطا فرمائے ہیں وہ امم سابقہ میں سے آج تک کسی کو عطا نہیں فرمائے اور جو کچھ اس بارے میں توفیقات غیبیہ اس عاجز کو دیؔ گئی ہیں وہ ان میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء۔ سو چونکہ خداوند کریم نے اسباب خاصہ سے اس عاجز کو مخصوص کیا ہے اور ایسے زمانہ میں اس خاکسار کو پیدا کیا ہے کہ جو اتمام خدمت تبلیغ کے لئے نہایت ہی معین و مددگار ہے۔ اس لئے اس نے اپنے تفضّلات و عنایات سے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ روز ازل سے یہی قرار یافتہ ہے کہ آیت کریمہ متذکرہ بالا اور نیز آیت وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ۱ کا روحانی طور پر مصداق یہ عاجز ہے اور خدائے تعالیٰ ان دلائل و براہین کو اور ان سب باتوں کو کہ جو اس عاجز نے مخالفوں کے لئے لکھی ہیں خود مخالفوں تک پہنچا دے گا اور ان کا عاجز اور لاجواب اور مغلوب ہونا دنیا میں ظاہر کرکے مفہوم آیت متذکرہ بالا کا پورا کردے گا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذلک۔
پھر بعد اس کے جو الہام ہے وہ یہ ہے۔ صل علٰی محمد و اٰل محمد سید ولد ادم و خاتم النبیین۔ اور درود بھیج محمد اور آل محمد پر جو سردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے صلی اللہ علیہ وسلم یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضّلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے۔ سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیّت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اُس کا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 598
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 598
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/598/mode/1up
اُس کا مشروط ہے اورسِرّ اِس باتؔ کا کہ کیوں معجزہ نبی کا دوسرے کے توسّط
عداوتِ ذاتی پیدا ہوجاتی ہے اور اس میں اور قسم ؔ دویم کی ترقی میں فرق یہ ہے کہ گو قسم دویم میں بھی اپنے رب کی مرضی سے موافقت تامہ پیدا ہوجاتی ہے اور اُس کا ایلام بصورت انعام نظر آتا ہے۔ مگر ہنوز اس میں ایسا تعلق باللہ نہیں ہوتا کہ جو
خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے۔
ہیچ محبوبے نماند ہمچو یار دلبرم
مہرومہ را نیست قدرے در دیارِ دلبرم
آں کجا روئے کہ دارد ہمچو رویش آب و تاب
واں کجا باغے کہ مے دارد بہار دلبرم
اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں۔ اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادۂ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص محیی کی تعین ظاہر نہیں ہوئی ؔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے کہا ھذا رجل یحب رسول اللہ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے۔ سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔ اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی سِرّ ہے کہ افاضہ انوار الٰہی میں محبت اہل بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے۔ اور جو شخص حضرت احدیّت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیّبین طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے۔ اس جگہ ایک نہایت روشن کشف یاد آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 599
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 599
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/599/mode/1up
سے ظہور پذیر ہوجاتا ہے یہ ہے کہ جب ایک شخص وہیؔ امر بجالاتا ہے کہ جو اُس کے
ماسوی اللہ کے ساتھ عداوت ذاتی پیدا ہوجانے کا موجب ہو اور جس سے محبت الٰہی صرف دل کا مقصد ہی نہ رہے بلکہ دل کی سرشت بھی ہوجائے۔ غرض قسم دویم کی ترقی میں خدا سے موافقت تامہ کرنا اور اس کے غیر سے عداوت رکھناؔ سالک کا مقصد ہوتا ہے اور
نماز مغرب کے بعد عین بیداری میں ایک تھوڑی سی َ غیبتِ حس سے جو خفیف سے نشاء سے مشابہ تھی ایک عجیب عالم ظاہر ہوا کہ پہلے یکدفعہ چند آدمیوں کے جلد جلد آنے کی آواز آئی، جیسی بسرعت چلنے کی حالت میں پاؤں کی جوتی اور موزہ کی آواز آتی ہے پھر اسی وقت پانچ آدمی نہایت وجیہہ اور مقبول اور خوبصورت سامنے آگئے یعنی جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت علیؓ و حسنینؓ و فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہم اجمعین اور ایک نے ان میں سے اور ایسا یاد پڑتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نہایت محبت اور شفقت سے مادر مہربان کی طرح اس عاجز کا سر اپنی ران پر رکھ لیا پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی۔ جس کی نسبت یہ بتلایا گیا کہ یہ تفیسر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیا ہے۔ اور اب علی وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے فالحمدللہ علی ذالک۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا۔ انک علی صراط مستقیم۔ فاصدع بما تؤمر و اعرض عن الجاھلین۔ تو سیدھی راہ پر ہے۔ پس جو حکم کیا جاتا ہے اس کو کھول کر سنا اور جاہلوں سے کنارہ کر۔ وقالوا لولا نزل علی رجل من قریتین عظیم۔ وقالوا انی لک ھذا۔ ان ھذا لمکرمکرتموہ فی ؔ المدینۃ۔ ینظرون الیک و ھم لا یبصرون۔ اور کہیں گے کہ کیوں نہیں یہ اترا کسی بڑے عالم فاضل پر اور شہروں میں سے۔ اور کہیں گے کہ یہ مرتبہ تجھ کو کہاں سے ملا یہ تو ایک مکر ہے جو تم نے شہر میں باہم مل کر بنالیا ہے تیری طرف دیکھتے ہیں اور نہیں دیکھتے۔ یعنی تو انہیں نظر نہیں آتا۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 600
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 600
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/600/mode/1up
شارع نے فرمایا ہے اور اُس امر سے پرہیز کرتا ہے کہ جو اُس کے شارعؔ
اُس مقصد کے حصول سے وہ لذت پاتا ہے لیکن قسم سوم کی ترقی میں خدا سے موافقت تامہ اور اس کے غیر سے عداوت خود سالک کی سرشت ہوجاتی ہے جس سرشت کو وہ کسی حالت میں چھوڑ نہیں سکتا۔ کیونکہ انفکاک الشی عن نفسہٖ محال ہے۔
تاللہ لقد ارسلنا الی امم من قبلک فزین لھم الشیطان۔ ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ ہم نے تجھ سے پہلے امت محمدیہ میں کئی اولیاء کامل بھیجے پر شیطان نے ان کی توابع کی راہ کو بگاڑ دیا۔ یعنی طرح طرح کی بدعات مخلوط ہوگئیں اور سیدھا قرآنی راہ ان میں محفوظ نہ رہا۔ قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ۔ واعلموا ان اللہ یحی الارض بعد موتھا۔ ومن کان للّٰہ کان اللّٰہ لہ۔ قل ان افتریتہ فعلی اجرام شدید۔کہہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو سو میری پیروی کرو۔ یعنی اتباع رسول مقبول کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے۔ اور یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے۔ اور جو شخص خدا کے لئے ہوجائے خدا اس کے لئے ہوجاتا ہے۔ کہہ اگر میں نے یہ افترا کیا ہے تو میرے پر جرم شدید ہے۔ انک الیوم لدینا مکین امین۔ وان علیک رحمتی فی الدنیا والدین۔ وانک من المنصورین۔ آج تو میرے نزدیک بامرتبہ اور امین ہے اور تیرے پر میری رحمت دنیا اور دین میں ہے اور تو مدد دیا گیا ہے۔ یحمدک اللّٰہ و یمشی الیک۔ خدا تیری تعریف کرتا ہے اور تیری طرف چلا آتا ہے۔ الا ان نصراللہ قریب۔ خبردار ہو خدا کی مدد نزدیک ہے۔ سبحان الذی اسری بعبدہ لیلا۔ پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو رات کے وقت میں سیر کرایا یعنی ضلالت اور گمراہی کے زمانہ میں جو رات سے مشابہ ہے مقامات معرفت اور یقین تک لدُنیّ طور سے پہنچایا۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 601
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 601
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/601/mode/1up
نے منع کیا ہے اور اُسی کتاب کا پابند رہتا ہے جو اُس کے شارع نے دی ہے تو
برخلاف قسمِ دوم کے کہ اُس میں اِنفکاک جائز ہے اور جب تک ولایت کسی ولی کی قِسم سوم تک نہیں پہنچتی عارضی ہے اور خطرات سے امن میں نہیں۔ وجہؔ یہ کہ جب تک انسان کی سرشت میں خدا کی محبت اور اس کے غیر کی عداوت داخل نہیں۔ تب تک کچھ رگ و ریشہ ظلم کا اس میں باقی ہے کیونکہ اُس نے حق ربوبیت کو
خلق آدم فاکرمہ۔پیدا کیا آدم کو پس اکرام کیا اس کا۔ جری اللّٰہ فی حلل الانبیاء جری اللہ نبیوں کے حلوں میں۔ اس فقرہ الہامی کے یہ معنے ہیں کہ منصب ارشاد و ہدایت اور مورد وحی الٰہی ہونے کا دراصل حلۂ انبیاء ہے اور ان کے غیر کوبطور مستعار ملتا ہے اور یہ حلۂ انبیاء امت محمدیہ کے بعض افراد کوبغرض تکمیلِ ناقصین عطا ہوتا ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عُلَمَآءُ اُمَّتِیْ کَأَنْبِیَآءِ بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ۔ پس یہ لوگ اگرچہ نبی نہیں پر نبیوں کا کام ان کو سپرد کیا جاتا ہے۔ وکنتم علی شفا حفرۃ فانقذکم منھا۔ اور تھے تم ایک گڑھے کے کنارہ پر سو اس سے تم کو خلاصی بخشی یعنی خلاصی کا سامان عطا فرمایا۔ عسٰی ربکم انؔ یرحم علیکم وان عدتم عدنا وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا۔ خدائے تعالیٰ کا ارادہ اس بات کی طرف متوجہ ہے جو تم پر رحم کرے اور اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لئے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ یہ آیت اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر ظاہر ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی اور لطف احسان کو قبول نہیں کریں گے اور حق محض جو دلائل واضحہ اور آیات بینہ سے کھل گیا ہے اس سے سرکش رہیں گے۔ تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ جب خدائے تعالیٰ مجرمین کے لئے شدت اور عنف اور قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام نہایت جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 602
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 602
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/602/mode/1up
وہ اِس صورت میںؔ بالکل اپنے نفس سے محو ہوکر اپنے شارع کی ذمہ واری
جیسا کہ چاہئے تھا ادا نہیں کیا۔ اور لقاء تام حاصل کرنے سے ہنوز قاصر ہے۔ لیکن جب اس کی سرشت میں محبتِ الٰہی اور موافقت باللہ بخوبی داخل ہوگئی یہاں تک کہ خدا اس کے کان ہوگیا جن سے وہ سنتا ہے۔ اور اس کی آنکھیں ہوگیا
سڑکوں کو خس و خاشاک سے صاف کردیں گے اور کج اور ناراست کا نام و نشان نہ رہے گا۔ اور جلال الٰہی گمراہی کے تخم کو اپنی تجلی قہری سے نیست و نابود کردے گا۔ اور یہ زمانہ اس زمانہ کے لئے بطور ارہاص کے واقع ہوا ہے یعنی اس وقت جلالی طور پر خدائے تعالیٰ اتمام حجت کرے گا۔ اب بجائے اس کے جمالی طور پر یعنی رفق اور احسان سے اتمام حجت کررہا ہے۔ توبوا واصلحوا والی اللّٰہ توجھوا وعلی اللّٰہ توکلوا واستعینوا بالصبر والصلٰوۃ۔ توبہ کرو اور فسق اور فجور اور کفر اور معصیت سے باز آؤ اور اپنے حال کی اصلاح کرو اور خدا کی طرف متوجہ ہوجاؤ اور اس پر توکل کرو۔ اور صبر اور صلٰوۃ کے ساتھ اس سے مدد چاہو۔ کیونکہ نیکیوں سے بدیاں دور ہوجاتی ہیں۔ بشری لک یا احمدی۔ انت مرادی ومعی۔ غرست کرامتک بیدی۔ خوشخبری ہو تجھے اے میرے احمد۔ تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔ میں نے تیری کرامت کو اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم ذالک ازکٰی لھم۔ مومنین کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نامحرموں سے بند رکھیں اور اپنی سترگاہوں کو اور کانوں کو نالائق امور سے بچاویں یہی ان کی پاکیزگی کے لئے ضروری اور لازم ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہریک مومن کے لئے منہیات سے پرہیز کرنا اور اپنے اعضا کو ناجائز افعال سے محفوظ رکھنا لازم ہے اور یہی طریق اس کی پاکیزگی کا مدار ہے۔
چشم گوش و دیدہ بند اے حق گزین
یاد کُن فرمان قل للمؤمنین
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 603
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 603
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/603/mode/1up
میں جاپڑتا ہے۔ پس اگر شارع طبیب حاذقؔ کی طرح ٹھیک ٹھیک صراطِ مستقیم
جن سے وہ دیکھتا ہے۔ اور اس کا ہاتھؔ ہوگیا جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا پاؤں ہوگیا جس سے وہ چلتا ہے تو پھر کوئی ظلم اس میں باقی نہ رہا اور ہریک خطرہ سے امن میں آگیا۔ اسی درجہ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ 333333 ۱
اب سمجھنا چاہئے کہ یہ ترقیات ثلاثہ کہ جو تمام علوم و معارف کا اصل الاصول بلکہ تمام
خاطرِ خود زین و آن یکسر برآر
تاشود بر خاطرت حق آشکار
زیر پا کن دلبرانِ ایں جہان
تانماید چہرۂ آں محبوب جان
کاملانِ حیّ اند ہم زیر زمیں
تو بگوری باحیاتِ ایں چنیں
سالہا باید کہ خون دل خوری
تا بکوئے دلستانے رہبری
کے بآسانی رہے بکشایدت
صد جنوں باید کہ تا ہوش آیدت
واذا سألک عبادی عنی فانی قریب۔ اجیب دعوۃ الداع اذا دعان۔ وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔ اور جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو میں نزدیک ہوں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا سب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں۔ لم یکن الذین کفروا من اھل الکتاب والمشرکین منفکین حتی تأتیھم البینۃ۔ وکان کیدھم عظیما۔ اور جو لوگ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کافر ہوگئے ہیں یعنی کفر پر سخت اصرار اختیار کرلیا ہے وہ اپنے کفر سے بجز اس کے باز آنے والے نہیں تھے کہ ان کو کھلی نشانی دکھلائی جاتی اور ان کا مکر ایک بھارا مکر تھا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ نے آیات سماوی اور دلائل عقلی سے اس عاجز کے ہاتھ میں ظاہر کیا ہے وہ اتمام حجت کے لئے نہایت ضروری تھا۔ اور اس زمانہ کے سیاہ باطن جن کو جہل اور خبث کے کیڑے نے اندر ہی اندر کھالیا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 604
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 604
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/604/mode/1up
کا رہنما ہے اور وہ مبارک کتاب لایا ہے جس میں شخص پیرو کیؔ امراضِ روحانی
دین کا لبؔ لباب ہے سورۃ فاتحہ میں بتمام تر خوبی و رعایت ایجاز و خوش اسلوبی بیان کئے گئے ہیں چنانچہ پہلی ترقی کہ جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے اول قدم ہے اس آیت میں تعلیم کی گئی ہے جو فرمایا ہے اھدنا الصراط المستقیم۔ کیونکہ
ہے ایسے نہیں تھے جو بجز آیاتِ صریحہ و براہین قطعیہ اپنے کفر سے باز آجاتے بلکہ وہ اس مکر میں لگے ہوئے تھے کہ تا کسی طرح باغ اسلام کو صفحۂ زمین سے نیست و نابود کردیں۔ اگر خدا ایسا نہ کرتا تو دنیا میں اندھیرپڑجاتا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے جو دنیا کو ان آیات بیّنات کی نہایت ضرورت تھی اور دنیا کے لوگ جو اپنے کفر اور خبث کی بیماری سے مجذوم کی طرح گداز ہوگئے ہیں وہ بجز اس آسمانی دوا کے جو حقیقت میں حق کے طالبوں کے لئے آب حیات تھی تندرستی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ واذا قیل لھم لا تفسدوا فی ؔ الارض قالوا انما نحن مصلحون۔ الا انھم ھم المفسدون۔ قل اعوذ برب الفلق من شر ما خلق ومن شر غاسق اذا وقب۔ اور جب ان کو کہا جائے کہ تم زمین میں فساد مت کرو۔ اور کفر اور شرک اور بدعقیدگی کو مت پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ہی راستہ ٹھیک ہے اور ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ مصلح اور ریفارمر ہیں۔ خبردار رہو۔ یہی لوگ مفسد ہیں جو زمین پرفساد کررہے ہیں۔ کہہ میں شریر مخلوقات کی شرارتوں سے خدا کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اور اندھیری رات سے خدا کی پناہ میں آتا ہوں یعنی یہ زمانہ اپنے فساد عظیم کے رو سے اندھیری رات کی مانند ہے سو الٰہی قوتیں اور طاقتیں اس زمانہ کی تنویر کے لئے درکار ہیں۔ انسانی طاقتوں سے یہ کام انجام ہونا محال ہے۔ انی ناصرک۔ انی حافظک۔ انی جاعلک للناس اماما۔ اکان للناس عجبا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب۔ یجتبی من یشآء من عبادہ۔ لا یُسئل عما یفعل وھم یُسئلون۔ وتلک الایام نداولھا بین الناس۔ میں تیری مدد کروں گا۔ میں تیری حفاظت کروں گا۔ میں تجھے لوگوں کے لئے پیشرو بناؤں گا۔ کیا لوگوں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 605
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 605
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/605/mode/1up
کا علاج ہے اور اس کی علمی اور عملی تکمیل کے لئے پورا سامان موجود ہے۔
ہریک قسم کی کجی اور بے راہی سے باز آکر اور بالکل روبخدا ہوکر راہ راست کو اختیار کرنا یہ وہی سخت گھاٹی ہے جس کو دوسرے لفظوں میں فنا سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ امور مالوفہ اور معتادہ کو یکلخت ؔ چھوڑ دینا اور نفسانی خواہشوں کو جو ایک عمر سے عادت ہوچکی ہے یکدفعہ ترک کرنا اور ہریک ننگ اور ناموس اور عجب
کو تعجب ہوا کہ خدا ذوالعجائب ہے ہمیشہ عجیب کام ظہور میں لاتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے چن لیتا ہے وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا کہ ایسا کیوں کیا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں اور ہم یہ دن لوگوں میں پھیرتے رہتے ہیں یعنی کبھی کسی کی نوبت آتی ہے اور کبھی کسی کی اور عنایات الٰہیہ نوبت بہ نوبت امت محمدیہ کے مختلف افراد پر وارد ہوتے رہتے ہیں۔ وقالوا انّٰی لک ھذا۔ وقالوا ان ھذا الا اختلاق۔ اذا نصراللّٰہ المؤمن جعل لہ الحاسدین فی الارض فالنار موعدھم۔ قل اللّٰہ ثم ذرھم فی خوضھم یلعبون۔اور کہیں گے کہ یہ تجھ کو کہاں سے۔ اور یہ تو ایک بناوٹ ہے۔ خدائے تعالیٰ جب مومن کی مدد کرتا ہے تو زمین پر کئی اُس کے حاسد بنا دیتا ہے سو جو لوگ حسد پر اصرار کریں اور باز نہ آویں تو جہنم ان کا وعدہ گاہ ہے۔ کہہ یہ سب کاروبار خدا کی طرف سے ہیں پھر ان کو چھوڑ دے تا اپنے بے جا خوض میں کھیلتے رہیں۔ تلطف بالناس و ترحم علیھم انت فیھم بمنزؔ لۃ موسٰی واصبر علی ما یقولون۔ لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور ان پر رحم کر۔ تو ان میں بمنزلہ موسیٰ کے ہے۔ اور ان کی باتوں پر صبر کر۔ حضرت موسیٰ ُ بردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے۔ اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبہ عالیہ تک پہنچ سکے۔ توریت سے ثابت ہے جو حضرت موسیٰ رفق اور حلم اور اخلاق فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے جیسا کہ گنتی باب دو از دہم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو روئے زمین پر تھے زیادہ بردبار تھا
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 606
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 606
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/606/mode/1up
اور پھر اُس کے پیروؔ نے بغیر کسی اعراض صوری یا معنوی کے اُن تعلیمات کو
اور ریا سے مونہہ پھیر کر اور تمام ماسواللہ کو کالعدم سمجھ کر سیدھا خدا کی طرف رخ کرلینا حقیقت میں ایک ایسا کام ہے جو موت کے برابر ہے اور یہ موت روحانی پیدائش کا مدار ہے۔ اور جیسے دانہ جب تک خاک میں نہیں ملتا اور اپنی صورت کو نہیں چھوڑتا تب تک نیا دانہ وجود میں آنا غیر ممکن ہے۔ اسی طرح روحانی پیدائش کا ؔ جسم
سو خدا نے توریت میں موسٰی کی بردباری کی ایسی تعریف کی جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے۔ ہاں جو اخلاقِ فاضلہ حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام اُن اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے۔ اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے۔ 3۔۱ تُو خُلقِ عظیم پر ہے۔ اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں تک درختوں کے لئے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے۔ ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ و شمائلہ حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہوسکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تامہ نفس محمدی میں موجود ہیں۔ سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا۔ 3 3۔۲ یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب ۵۴ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں موجود ہے جیسا کہ فرمایا کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا اور چونکہ اُمتِ محمدیہ کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہیں اس لئے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 607
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 607
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/607/mode/1up
بصدق دل قبول کرلیا ہے تو جو کچھ انوار وآثاؔ ر بعد متابعت کامل کے مترتب
اس فنا سے طیار ہوتا ہے۔ جوں جوں بندہ کا نفس شکست پکڑتا جاتا ہے اور اس کا فعل اور ارادت اور رو بخلق ہونا فنا ہوتا جاتا ہے توں توں پیدائش روحانی کے اعضاء بنتے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب فناء اتم حاصل ہوجاتی ہے تو وجود ثانی کی خلعت عطا کی جاتی ہے
الہام متذکرہ بالا میں اس عاجز کی تشبیہ حضرت موسیٰ سے دی گئی۔ اور یہ تمام برکات حضرت سید الرسل کے ہیں جو خداؔ وند کریم اس کی عاجز امت کو اپنے کمال لطف اور احسان سے ایسے ایسے مخاطبات شریفہ سے یاد فرماتا ہے۔ اللّٰھم صلّ علٰی محمد واٰ ل محمد۔ پھر بعد اس کے یہ الہامی عبارت ہے۔ واذا قیل لھم اٰمنوا کما اٰمن الناس قالوا انؤمن کما اٰمن السفھآء الا انھم ھم السفھآء ولکن لا یعلمون۔ و یحبون ان تدھنون۔ قل یایھا الکفرون لا اعبد ما تعبدون۔ قیل ارجعوا الی اللہ فلا ترجعون۔ وقیل استحوذوا فلا تستحوذون۔ ام تسئلھم من خرج فھم من مغرم مثقلون۔ بل اتیناھم بالحق فھم للحق کارھون۔ سبحانہ وتعالٰی عما یصفون۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنا وھم لا یفتنون۔ یحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا۔ ولا یخفی علی اللّٰہ خافیۃ۔ ولا یصلح شیء قبل اصلاحہ۔ ومن رُدّ من مطبعہ فلا مردلہ۔ اور جب اُن کو کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے لوگ ایمان لائے ہیں۔ تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسا ہی ایمان لاویں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں خبردار ہو وہی بے وقوف ہیں مگر جانتے نہیں۔ اور یہ چاہتے ہیں کہ تم ان سے مداہنہ کرو۔ کہہ اے کافرو میں اس چیز کی پرستش نہیں کرتا جس کی تم کرتے ہو۔ تم کو کہا گیا کہ خدا کی طرف رجوع کرو سو تم رجوع نہیں کرتے۔ اور تم کو کہا گیا جو تم اپنے نفسوں پر غالب آجاؤ سو تم غالب نہیں آتے۔ کیا تو ان لوگوں سے کچھ مزدوری مانگتا ہے۔ پس وہ اس تاوان کی وجہ سے حق کو قبول کرنا ایک پہاڑ سمجھتے ہیں بلکہ ان کو مفت حق دیا جاتا ہے اور وہ حق سے کراہت کررہے ہیں۔ خدائے تعالیٰ اُن عیبوں سے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 608
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 608
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/608/mode/1up
ہوں گے۔ وہ حقیقت میں اُس نبی متبوع کے فیوض ہیں۔ سوؔ اِسی جہت سے اگر
اور ثم انشاناہ خلقا اخر کا وقت آجاتا ہے اور چونکہ یہ فناء اتم بغیر نصرت و توفیق و توجہ خاص قادر مطلق کے ممکن نہیں اس لئے یہ دعا تعلیم کی یعنی اھدنا الصراطؔ المستقیم جس کے یہ معنے ہیں کہ اے خدا ہم کو راہِ راست پر قائم کر
پاک و برتر ہے جو وہ لوگ اس کی ذات پر لگاتے ہیں۔ کیا یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بے امتحان کئے صرف زبانی ایمان کے دعویٰ سے چھوٹ جاویں گے۔ چاہتے ہیں جو ایسے کاموں سے تعریف کئے جائیں جن کو انہوں نے کیا نہیں۔ اور خدائے تعالیٰ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں۔ اور جب تک وہ کسی شے کی اصلاح نہ کرے اصلاح نہیں ہوسکتی۔ اور جو شخص اس کے مطبع سے ردّ کیا جائے۔اسؔ کو کوئی واپس نہیں لاسکتا۔ لعلک باخع نفسک الا یکونوا مؤمنین۔ لا تقف ما لیس لک بہ علم۔ ولا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون۔ یا ابراھیم اعرض عن ھذا انہ عبد غیر صالح۔ انما انت مذکر وما انت علیھم بمسیطر۔ کیا تو اسی غم میں اپنے تئیں ہلاک کردے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے مت پڑ اور ان لوگوں کے بارے میں جو ظالم ہیں میرے ساتھ مخاطبت مت کر۔ وہ غرق کئے جائیں گے۔ اے ابراہیم! اس سے کنارہ کر یہ صالح آدمی نہیں۔ تو صرف نصیحت دہندہ ہے ان پر داروغہ نہیں۔ یہ چند آیات جو بطور الہام القا ہوئی ہیں بعض خاص لوگوں کے حق میں ہیں۔ پھر آگے اس کے یہ الہام ہے واستعینوا بالصبر والصلٰوۃ واتخذوا من مقام ابراھیم مصلّٰی۔ اور صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد چاہو۔ اور ابراہیم کے مقام سے نماز کی جگہ پکڑو۔ اس جگہ مقام ابراہیم سے اطلاقِ مرضیہ و معاملہ باللہ مراد ہے یعنی محبت الٰہیہ اور تفویض اور رضا اور وفا یہی حقیقی مقام ابراھیم کا ہے جو امت محمدیہ کو بطور تبعیت و وراثت عطا ہوتا ہے اور جو شخص قلب ابراہیم پر مخلوق ہے اس کی اتباع بھی اسی میں ہے۔ یظل ربک علیک و یغیثک و
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 609
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 609
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/609/mode/1up
ولی سے کوئی امر خارق عادت ظاہر ہو تو اُس نبی متبوع کا معجزہ ہوگا۔ اب
اور ہریک طور کی کجی اور بے راہی سے نجات بخش۔ اور یہ کامل استقامت اور راست روی جس کو طلب کرنے کا حکم ہے نہایت سخت کام ہے اور اول دفعہ میں اس کا حملہ سالک پر ایک شیر ببر کی طرح ہے جس کے سامنے موت نظر آتی ہے پس اگر سالک ٹھہر گیا اور اُس موت کو قبول کرلیا تو پھر بعد اس کے کوئی اسے سخت موت نہیں اور خدا اِس سے
یرحمک۔ وان لم یعصمک الناس فیعصمک اللّٰہ من عندہ۔ یعصمک اللّٰہ من عندہ وان لم یعصمک الناس۔ خدائے تعالیٰ اپنی رحمت کا تجھ پر سایہ کرے گا اور نیز تیرا فریاد رس ہوگا اور تجھ پر رحم کرے گا۔ اور اگر تمام لوگ تیرے بچانے سے دریغ کریں مگر خدا تجھے بچائے گا اور خدا تجھے ضرور اپنی مدد سے بچائے گا اگرچہ تمام لوگ دریغ کریں۔ یعنی خدا تجھے آپ مدد دے گا اور تیری سعی کے ضائع ہونے سے تجھے محفوظ رکھے گا۔ اور اس کی تائیدیں تیرے شامل حال رہیں گی۔ و اذ یمکر بک الذی کفر۔ اوقد لی یاھامان لعلی اطلع الی الٰہ موسی وانی لأظنہ من الکاذبین۔ یاد کر جب منکر نے بغرض کسی مکر کے اپنے رفیق کو کہا کہ کسی فتنہ یا آزمائش کی آگ بھڑکاتا میں موسیٰ کے خدا پر یعنی اس شخص کے خدا پر مطلع ہوجاؤں کہ کیونکر وہ اس کی مدد کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہے یا نہیں۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ جھوٹا ہے۔ یہ کسی واقعہ آئندہ کی طرف اشارہ ہے کہ جو بصورت گزشتہ بیان کیا گیا ہے۔ تبت یدا ابی لھب وتب۔ ما کان لہ ان یدخل فیھا الا خائفا وما اصابک فمن اللّٰہ۔ ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ بھی ہلاک ہوا اور اس کو لائق نہ تھا کہ اس کام میں بجز خائفؔ اور ترسان ہونے کے یوں ہی دلیری سے داخل ہوجاتا اور جو تجھ کو پہنچے وہ تو خدا کی طرف سے ہے۔ یہ کسی شخص کے شر کی طرف اشارہ ہے جو بذریعہ تحریر یا بذریعہ کسی اور فعل کے اس سے ظہور میں آوے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم۔ الا انھا فتنۃ من اللّٰہ لیحب حبا جما۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 610
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 610
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/610/mode/1up
اِنؔ تمہیدات کے بعد دلائل حقیت قرآن شریف کے لکھے جاتے ہیں۔ و نسئل اللّٰہ التوفیق والنصرۃ ھو نعم المولی ونعم النصیر۔
زیادہ تر کریم ہے کہ پھر اس کو یہ ؔ جلتا ہوا دوزخ دکھاوے۔ غرض یہ کامل استقامت وہ فنا ہے کہ جس سے کارخانہ وجود بندہ کو بکُلّی شکست پہنچتی ہے اور ہوا اور شہوت اور ارادت اور ہریک خود روی کے فعل سے بیکبارگی دستکش ہونا پڑتا ہے اور یہ مرتبہ سیر و سلوک کے مراتب میں سے وہ مرتبہ ہے جس میں انسانی کوششوں کا بہت کچھ دخل ہے اور بشری مجاہدات کی بخوبی پیش رفت ہے اور اسی حد تک اولیاء اللہ کی کوششیں اور سالکین ؔ کی محنتیں ختم ہوجاتی ہیں اور پھر بعد اس کے خاص مواہبِ سماوی
حبا من اللہ العزیز الاکرم عطاءً ا غیر مجذوذ۔ اس جگہ فتنہ ہے۔ پس صبر کر جیسے اولوالعزم لوگوں نے صبر کیا ہے۔ خبردار ہو۔ یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے تا وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے۔ اس خدا کی محبت جو نہایت عزت والا اور نہایت بزرگ ہے وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں۔ شاتان تذبحان۔ وکل من علیھا فان۔ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی۔ اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے گا یعنی ہریک کے لئے قضا و قدر درپیش ہے اور موت سے کسی کو خلاصی نہیں۔ کوئی چار روز پہلے اس دنیا کو چھوڑ گیا اور کوئی پیچھے اسے جاملا۔
ہمیں مرگ است کزیاران بپوشد روئے یاراں را
بیکدم می کند وقت خزاں فصل بہاراں را
ولا تھنوا ولا تحزنوا۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ۔ الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شیء قدیر۔ وجئنا بک علی ھؤلاء شھیدا۔ اور سست مت ہو اور غم مت کرو۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ اور خدا ان لوگوں پر تجھ کو گواہ لائے گا۔ اوفی اللّٰہ اجرک و یرضی عنک ربک و یتم اسمک و عسی ان تحبوا شیئا و ھو شر لکم و عسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم واللّٰہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 611
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 611
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/611/mode/1up
بابِ اوّل
اُن براہین کے بیان میں جو قرآن شریف کی
حقیّت اور افضلیت پر بیرونی شہادتیں ہیں
برھان اوّل۔ قال اللّٰہ تعالی3
ہیں جن میں بشری کوششوں کو کچھ دخل نہیں بلکہ خود خدائے تعالیٰ کی طرف سے عجائبات سماوی کی سیر کرانے کے لئے غیبی سواری اور آسمانی بُرّاق عطا ہوتا ہے۔
اور دوسری ترقی کہ جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے دوسرا قدم ہے اِس آیت
یعلم و انتم لا تعلمون۔ خدا تیرا بدلہ پورا دے گا اور تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے اسم کو پورا کرے گا۔ اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو دوست رکھو اور اصل میں وہ تمہارے لئے بری ہو اور ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو بری سمجھو اور اصل میں وہ تمہارے لئے اچھی ہو۔ اور خدائے تعالیٰ عواقب امور کو جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف۔ ان السموات والارض کانتا رتقا ففتقناھما۔ وان یتخذونک الا ھزوا۔ اھذا الذی بعث اللّٰہ۔ قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی انما الھکم الہ واحد والخیر کلہ فی القراٰ ن لا یمسہ ؔ الا المطھرون۔ فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ افلا تعقلون۔ میں ایک خزانہ پوشیدہ تھا سو میں نے چاہا کہ شناخت کیا جاؤں آسمان اور زمین دونوں بند تھے سو ہم نے ان دونوں کو کھول دیا اور تیرے ساتھ ہنسی سے ہی پیش آئیں گے اور ٹھٹھا مار کر کہیں گے کیا یہی ہے جس کو خدا نے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 612
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 612
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/612/mode/1up
میں تعلیم کیؔ گئی ہے جو فرمایا ہے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔ یعنی ہم کو ان لوگوں کا راہ دکھلا جن پر تیرا انعام اکرام ہے۔ اس جگہ واضح رہے کہ جو لوگ منعم علیہم ہیں اور خدا سے ظاہری و باطنی نعمتیں پاتے ہیں شدائد سے خالی نہیں ہیں بلکہ اس دارالابتلاء میں ایسی ایسی شدّتیں اور صعوبتیں ان کو پہنچتی ہیں کہ اگر وہ کسی دوسرے کو پہنچتیں تو مدد ایمانی اس کی منقطع ہوجاتی۔ لیکن اس جہت سے اُن کا
اصلاح خلق کے لئے مقرر کیا یعنی جن کا مادہ ہی خبث ہے ان سے صلاحیت کی امید مت رکھ اور پھر فرمایا کہہ میں صرف تمہارے جیسا ایک آدمی ہوں مجھ کو یہ وحی ہوتی ہے کہ بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی تمہارا معبود نہیں وہی اکیلا معبود ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرنا نہیں چاہئے۔ اور تمام خیر اور بھلائی قرآنؔ میں ہے بجز اس کے اور کسی جگہ سے بھلائی نہیں مل سکتی اور قرآنی حقائق صرف انہیں لوگوں پر کھلتے ہیں جن کو خدائے تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف اور پاک کرتا ہے اور میں ایک عمر تک تم میں ہی رہتا رہا ہوں کیا تم کو عقل نہیں۔
ہست فرقانِ مبارک از خدا طیب شجر
نونہال و نیک بوو سایۂ دار و پُرزبر
میوہ گر خواہی بیا زیر درخت میوہ دار
گر خردمندی مجنباں بید را بہر ثمر
ور نیاید باورت دروصف فرقان مجید
حسن آں شاہد بپرس از شاہدان یا خود نگر
وانکہ اونامد پأ تحقیق و درکین مبتلا ست
آدمی ہرگز نباشد ہست او بدتر زِ خر
قل ان ھدی اللّٰہ ھو الھدٰی وانّ معی ربّی سیھدین۔ ربّ اغفر وارحم من السمآء۔ ربّ انی مغلوب فانتصر۔ ایلی ایلی لما سبقتنی ایلی آوس۔
کہہ ہدایت وہی ہے جو خدا کی ہدایت ہے اور میرے ساتھ میرا رب ہے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 613
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 613
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/613/mode/1up
نام منعم علیہم رکھا گیا ہے کہ وہ بباعث غلبہ محبت آلام کو برنگ انعام دیکھتے ہیں اور ہریک رنج یا راحت جو دوست حقیقی کی طرف سے اُن کو پہنچتی ہے بوجہؔ مستئ عشق اس سے لذت اٹھاتے ہیں پس یہ ترقی فی القرب کی دوسری قسم ہے جس میں اپنے محبوب کے جمیع افعال سے لذت آتی ہے اور جو کچھ اس کی طرف سے پہنچے انعام ہی انعام نظر آتا ہے اور اصل موجب اس حالت کا ایک محبت کامل اور تعلق صادق ہوتا ہے جو اپنے محبوب سے ہوجاتا ہے اور یہ ایک موہبت خاص ہوتی ہے جس میں
عنقریب وہ میرا راہ کھول دے گا۔ اے میرے خدا آسمان سے رحم اور مغفرت کر۔ میں مغلوب ہوں میری طرف سے مقابلہ کر۔ اے میرے خدا اے میرے خدا تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا آخری فقرہ اس الہام کا یعنی ایلی آوس بباعث ُ سرعت ورود مشتبہ رہا ہے اور نہ اس کے کچھ معنے کھلے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
اےؔ خالق ارض و سما برمن در رحمت کشا
دانی توآں دردِ مرا کز دیگراں پنہاں کنم
ازبس لطیفی دلبرا در ہررگ و تارم درا
تا چوں بخودیابم ترا دل خوشتر از بستاں کنم
ور سرکشی اے پاک خوجاں برکنم در ہجر تو
زانساں ہمی گریم کزویک عالمے گریاں کنم
خواہی بقہرم کن جدا خواہی بلطفم رونما
خواہی بکش یا کن رہا کے ترک آں داماں کنم
یہ سب اشارات مختص المقامات ہیں جن کی تشریح اس جگہ ضروری نہیں۔ یا عبدالقادر انی معک اسمع و ارٰی غرست لک بیدی رحمتی و قدرتی و نجیناک من الغم و فتناک فتونا۔ لیأتینکم منی ھدی۔ الا ان حزب اللّٰہ ھم الغالبون۔ وما کان اللّٰہ لیعذبھم وانت فیھم وما کان اللّٰہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 614
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 614
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/614/mode/1up
حیلہ اور تدبیر کو کچھ دخل نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے آتی ہے اور جب آتی ہے تو پھر سالک ایک دوسرا رنگ پکڑلیتا ہے اور تمام بوجھ اس کے سر سے اتارے جاتے ہیں اور ہریک ایلام انعام ہی معلوم ہوتاؔ ہے اور شکوہ اور شکایت کا نشان نہیں ہوتا۔ پس یہ حالت ایسی ہوتی ہے کہ گویا انسان بعد موت کے زندہ کیا گیا ہے کیونکہ ان تلخیوں سے بکلی نکل آتا ہے جو پہلے درجہ میں تھیں جن سے ہریک وقت موت کا
لیعذبھم وھم یستغفرون۔ اے عبدالقادر میں تیرے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔ تیرے لئے میں نے رحمت اور قدرت کو اپنے ہاتھ سے لگایا اور تجھ کو غم سے نجات دی۔ اور تجھ کو خالص کیا۔ اور تم کو میری طرف سے مدد آئے گی۔ خبردار ہو لشکر خدا کا ہی غالب ہوتا ہے۔ اور خدا ایسا نہیں جو ان کو عذاب پہنچاوے جب تک تو اُن کے درمیان ہے یا جب وہ استغفار کریں۔ انا بدک اللازم انا محییک نفخت فیک من لدنی روح الصدق والقیت علیک محبۃ منی ولتصنع علی عینی کزرع اخرج شطأہ فاستغلظ فاستویؔ علٰی سوقہ۔ میں تیرا چارہ لازمی ہوں۔ میں تیرا زندہ کرنے والا ہوں۔ میں نے تجھ میں سچائی کی روح پھونکی ہے اور اپنی طرف سے تجھ میں محبت ڈال دی ہے تاکہ میرے روبرو تجھ سے نیکی کی جائے سو تو اس بیج کی طرح ہے جس نے اپنا سبزہ نکالا پھر موٹا ہوتا گیا یہاں تک کہ اپنے ساقوں پر قائم ہوگیا۔ ان آیات میں خدائے تعالیٰ کی اُن تائیدات اور احسانات کی طرف اشارہ ہے اور نیز اس عروج اور اقبال اور عزت اور عظمت کی خبر دی گئی ہے کہ جو آہستہ آہستہ اپنے کمال کو پہنچے گی۔ انا فتحنالک فتحا مبینا لیغفرلک اللّٰہ ما
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 615
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 615
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/615/mode/1up
سامنا معلوم ہوتا تھا مگر اب چاروں طرف سے انعام ہی انعام پاتا ہے اور اسی جہت سے اس کی حالت کے مناسب حال یہی تھا کہ اس کا نام منعم علیہ رکھا جاتا اور دوسرے لفظوں میں اس حالت کا ؔ نام بقا ہے کیونکہ سالک اس حالت میں اپنے تئیں ایسا پاتا ہے کہ گویا وہ مرا ہوا تھا اور اب زندہ ہوگیا۔ اور اپنے نفس میں بڑی
تقدم من ذنبک وما تأخر۔ ہم نے تجھ کو کھلی کھلی فتح عطا فرمائی ہے یعنی عطا فرمائیں گے۔ اور درمیان میں جو بعض مکروہات و شدائد ہیں وہ اس لئے ہیں تا خدائے تعالیٰ تیرے پہلے اور پچھلے گناہ معاف فرماوے یعنی اگر خدائے تعالیٰ چاہتا تو قادر تھا کہ جو کام مدنظر ہے وہ بغیر پیش آنے کسی نوع کی تکلیف کے اپنے انجام کو پہنچ جاتا اور بآسانی فتح عظیم حاصل ہوجاتی۔ لیکن تکالیف اس جہت سے ہیں کہ تا وہ تکالیف موجب ترقی مراتب و مغفرت خطایا ہوں۔ آج اس موقع کے اثناء میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور اُن پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے۔ پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری۔ جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رعبناک جیسے سپہ سالار مسلح فتح یاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین و یسار میں ؔ حجت اللہ القادر و سلطان احمد مختار لکھا تھا۔ اور یہ سوموار کا روز انیسویں ذوالحجہ ۰۰۳۱ ھ مطابق ۲۲؍ اکتوبر ۳۸ء اور ششم کاتک ۰۴۹۱ بکرم ہے۔ الیس اللہ بکاف عبدہ فبرأہ اللّٰہ مما قالوا وکان عند اللّٰہ وجیھا۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ فلما تجلّٰی ربہ للجبل جعلہ دکا۔ واللّٰہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 616
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 616
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/616/mode/1up
خوشحالی اور انشراح صدر دیکھتا ہے اور بشریت کے انقباض سب دور ہوجاتے ہیں اور الوہیت کے مربیانہ انوار نعمت کی طرح برستے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی مرتبہ میں سالک پر ہریک نعمت کا دروازہ کھولا جاتا ہے اور عنایات الٰہیہ کامل طور پر متوجہ ہوتی
موھن کید الکافرین بعد العسر یسر و للّٰہ الامر من قبل ومن بعد۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ۔ ولنجعلہ ایۃ للناس ورحمۃ منا وکان امرا مقضیا قول الحق الذی فیہ تمترون۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ پس خدا نے اس کو ان الزامات سے بری کیا جو اس پر لگائے گئے تھے اور خدا کے نزدیک وہ وجیہہ ہے۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ پس جبکہ خدا نے پہاڑ پر تجلی کی تو اس کو پاش پاش کردیا یعنی مشکلات کے پہاڑ آسان ہوئے اور خدائے تعالیٰ کافروں کے مکر کو سست کردے گا اور اُن کو مغلوب اور ذلیل کرکے دکھلائے گا تنگی کے بعد فراخی ہے۔ اور پہلے بھی خدا کا حکم ہے اور پیچھے بھی خدا کا ہی حکم ہے۔ کیا خدا اپنے بندہ کو کافی نہیں۔ اور ہم اس کو لوگوں کے لئے رحمت کا نشان بنائیں گے اور یہ امر پہلے ہی سے قرار پایا ہوا تھا۔ یہ وہ سچی بات ہے جس میں تم شک کرتے ہو۔ محمد رسول اللّٰہ والذین معہ اشدآء علی الکفار رحماء بینھم۔ رجال لا تلھیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللّٰہ۔ متع اللّٰہ المسلمین ببرکا تھم۔ فانظروا الی اٰ ثار رحمۃ اللّٰہ۔ وانبؤنی من مثل ھؤلآء ان کنتم صادقین۔ ومن یبتغ غیر الاسلام دینا لن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخاسرین۔ محمد ؔ خدا کا رسول ہے۔ اور جو
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 617
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 617
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/617/mode/1up
ہیں اور اس مرتبہ کا نام سیر فی اللہ ہے۔ کیونکہؔ اس مرتبہ میں ربوبیت کے عجائبات سالک پر کھولے جاتے ہیں اور جو ربانی نعمتیں دوسروں سے مخفی ہیں ان کا اس کو سیر کرایا جاتا ہے کشوف صادقہ سے متمتع ہوتا ہے اور مخاطبات حضرت احدیت سے سرفرازی پاتا ہے۔ اور عالم ثانی کے باریک بھیدوں سے مطلع کیا جاتا ہے اور علوم اور معارف سے وافر حصہ دیا جاتا ہے۔ غرض ظاہری اور باطنی نعمتوں سے بہت کچھ اس کو عطا
لوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت ہیں یعنی کفار ان کے سامنے لاجواب اور عاجز ہیں اور اُن کی حقانیت کی ہیبت کافروں کے دلوں پر مستولی ہے اور وہ لوگ آپس میں رحم کرتے ہیں وہ ایسے مرد ہیں کہ ان کو یادِ الٰہی سے نہ تجارت روک سکتی ہے اور نہ بیع مانع ہوتی ہے یعنی محبت الٰہیہ میں ایسا کمال تام رکھتے ہیں کہ دنیوی مشغولیاں گو کیسی ہی کثرت سے پیش آویں ان کے حال میں خلل انداز نہیں ہوسکتیں۔ خدائے تعالیٰ اُن کے برکات سے مسلمانوں کو متمتع کرے گا۔ سو اُن کا ظہور رحمت الٰہیہ کے آثار ہیں۔ سو ان آثار کو دیکھو۔ اور اگر ان لوگوں کی کوئی نظیر تمہارے پاس ہے یعنی اگر تمہارے ہم مشربوں اور ہم مذہبوں میں سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں کہ جو اسی طرح تائیدات الٰہیہ سے مؤید ہوں۔ سو تم اگر سچے ہو تو ایسے لوگوں کو پیش کرو۔ اور جو شخص بجز دین اسلام کے کسی اَور دین کا خواہاں اور جویاں ہوگا وہ دین ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ زیان کاروں میں ہوگا۔ یا احمد فاضت الرحمۃ علی شفتیک انا اعطینک الکوثر فصل لربک وانحر۔ واقم الصلوۃ لذکری۔ انت معی وانا معک۔ سرک سری
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 618
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 618
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/618/mode/1up
کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ ؔ اس درجہ یقین کامل تک پہنچتا ہے کہ گویا مدبر حقیقی کو بچشم خود دیکھتا ہے۔ سو اس طور کی اطلاع کامل جو اسرار سماوی میں اس کو بخشے جاتے ہیں۔ اس کا نام سیر فی اللہ ہے لیکن یہ وہ مرتبہ ہے جس میں محبت الٰہی انسان کو دی تو جاتی ہے لیکن بطریق طبعیت اس میں قائم نہیں کی جاتی یعنی اس کی سرشت
وضعنا عنک وزرک الذی انقض ظھرک ورفعنا لک ذکرک۔ انک علی صراط مستقیم۔ وجیھا فی الدنیا والاٰخرۃ و من المقربین۔ اے احمد تیرے لبوں پر رحمت جاری ہوئی ہے ہم نے تجھ کو معارف کثیرہ عطا فرمائے ہیں۔ سو اُس کے شکر میں نماز پڑھ اور قربانی دے اور میری یاد کے لئے نماز کو قائم کر۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں۔ تیرا بھید میرا بھید ہے۔ ہم نے تیرا وہ بوجھ جس نے تیری کمر توڑ دی اتار دیا ہے اور تیرے ذکر کو اونچا کردیا ہے۔ تو سیدھی راہ پر ہے۔ دنیا اور آخرت میں وجیہہ اور مقرّبین میں سے ہے۔ حماؔ ک اللّٰہ۔ نصرک اللّٰہ۔ رفع اللّٰہ حجّت الاسلام جمال۔ ھو الذی امشاکم فی کل حال۔ لا تحاط اسرار الاولیاء۔ خدا تیری حمایت کرے گا۔ خدا تجھ کو مدد دے گا۔ خدا حجتِ اسلام کو بلند کرے گا۔ جمالِ الٰہی ہے جس نے ہر حال میں تمہارا تنقیہ کیا ہے۔ خدائے تعالیٰ کو جو اپنے ولیوں میں اسرار ہیں وہ احاطہ سے باہر ہیں۔ کوئی کسی راہ سے اس کی طرف کھینچا جاتا ہے اور کوئی کسی راہ سے یعقوب* نے وہ مرتبہ گرفتاری سے پایا جو دوسرے ترک ماسوا سے پاتے ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدائے تعالیٰ میں دو صفتیں ہیں جو تربیتِعباد
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 619
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 619
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/619/mode/1up
میںؔ داخل نہیں ہوتی۔ بلکہ اس میں محفوظ ہوتی ہے۔
اور تیسری ترقی جو قربت کے میدانوں میں چلنے کے لئے انتہائی قدم ہے۔ اِس
میں مصروف ہیں ایک صفت رفق اور لطف اور احسان ہے اس کا نام جمال ہے۔ اور دوسری صفت قہر اور سختی ہے اس کا نام جلال ہے سو عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ جو لوگ اُس کی درگاہ عالی میں بلائے جاتے ہیں ان کی تربیت کبھی جمالی صفت سے اور کبھی جلالی صفت سے ہوتی ہے اور جہاں حضرت احدیت کے تلطّفات عظیمہ مبذول ہوتے ہیں وہاں ہمیشہ صفت جمالی کے تجلیات کا غلبہ رہتا ہے مگر کبھی کبھی بندگانِ خاص کی صفاتِ جلالیہ سے بھی تادیب اور تربیت منظور ہوتی ہے۔ جیسے انبیاء کرام کے ساتھ بھی خدائے تعالیٰ کا یہی معاملہ رہا ہے کہ ہمیشہ صفات جمالیہ حضرت احدیّت کے ان کی تربیت میں مصروف رہے ہیں لیکن کبھی کبھی ان کی استقامت اور اخلاق فاضلہ کے ظاہر کرنے کے لئے جلالی صفتیں بھی ظاہر ہوتی رہی ہیں اور ان کو شریر لوگوں کے ہاتھ سے انواع اقسام کے دکھ ملتے رہے ہیں تا ان کے وہ اخلاق فاضلہ جو بغیر تکالیف شاقہ کے پیش آنے کے ظاہر نہیں ہوسکتے وہ سب ظاہر ہوجائیں اور دنیا کے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ وہ کچے نہیں ہیں بلکہ سچے وفادار ہیں۔ وقالوا انّٰی لک ھذا ان ھذا الا سحر یؤثر۔ لن نؤمن لک حتی نری اللّٰہ جھرۃ۔ لا یصدق السفیہ الا سیفۃ الھلاؔ ک۔ عدو لی و عدو لک قل اتی امر اللّٰہ فلا تستعجلوہ۔ اذا جاء نصراللّٰہ الست بربکم قالوا بلٰی۔ اور کہیں گے یہ تجھے کہاں سے حاصل ہوا۔ یہ تو ایک سحر ہے جو اختیار کیا جاتا ہے۔ ہم
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 620
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 620
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/620/mode/1up
آیت میں تعلیم کی گئی ہے۔ جو ؔ فرمایا ہے۔ 33۔ یہ وہ مرتبہ ہے جس میں انسان کو خدا کی محبت اور اس کے غیر کی عداوت سرشت میں داخل ہوجاتی ہے۔ اور بطریق طبعیت اس میں قیام پکڑتی ہے
ہرگز نہیں مانیں گے جب تک خدا کو بچشم خود دیکھ نہ لیں۔ سفیہ بجز ضربۂ ہلاکت کے کسی چیز کو باور نہیں کرتا میرا اور تیرا دشمن ہے۔ کہہ خدا کا امر آیا ہے سو تم جلدی مت کرو جب خدا کی مدد آئے گی تو کہا جائے گا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں کہیں گے کہ کیوں نہیں۔ انی متوفیک ورافعک الی وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ ولا تھنوا ولا تحزنوا و کان اللّٰہ بکم رء وفًا رحیما۔ الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون۔ تموت وانا راض منک فادخلوا الجنۃ ان شاء اللّٰہ اٰمنین۔ سلام علیکم طبتم فادخلوھا اٰمنین۔ سلام علیک جعلت مبارکا۔ سمع اللّٰہ انہ سمیع الدعاء انت مبارک فی الدنیا والاخرۃ۔ امراض الناس وبرکاتہ ان ربک فعال لما یرید۔ اذکر نعمتی التی انعمت علیک وانی فضلتک علی العلمین۔ یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃً فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی۔ منَّ ربکم علیکم و احسن الی احبابکم وعلمکم مالم تکونوا تعلمون۔ وان تعدوا نعمۃ اللّٰہ لا تحصوھا۔ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا۔ اور جو لوگ تیری متابعت اختیار کریں یعنی حقیقی طور پر اللہ و رسول کے متبعین میں داخل ہو جائیں ان کو ان کے مخالفوں پر کہ جو انکاری ہیں۔ قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 621
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 621
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/621/mode/1up
اور ؔ صاحب اس مرتبہ کا اخلاق الٰہیہ سے ایسا ہی بالطبع پیار کرتا ہے کہ جیسے وہ اخلاق حضرت احدیت میں محبوب ہیں اور محبت ذاتی حضرت خداوند کریم کی اِس قدر
وہ لوگ حجت اور دلیل کے رو سے اپنے مخالفوں پر غالب رہیں گے۔ اور صدق اور راستی کے انوار ساطعہ اُنہیں کے شامل حال رہیں گے۔ اور سست مت ہو اور غم مت کرو۔ خدا تم پر بہت ہی مہربان ہے۔ خبردار ہو بہ تحقیق جو لوگ مقربانِ الٰہی ہوتےؔ ہیں ان پر نہ کچھ خوف ہے اور نہ کچھ غم کرتے ہیں۔ تو اس حالت میں مرے گا کہ جب خدا تجھ پر راضی ہوگا۔ پس بہشت میں داخل ہو انشاء اللہ امن کے ساتھ تم پر سلام تم شرک سے پاک ہوگئے سو تم امن کے ساتھ بہشت میں داخل ہو تجھ پر سلام تو مبارک کیا گیا۔ خدا نے دعا سن لی وہ دعاؤں کو سنتا ہے تو دنیا اور آخرت میں مبارک ہے۔ یہ اس طرف اشارہ فرمایا کہ پہلے اس سے چند مرتبہ الہامی طور پر خدائے تعالیٰ نے اس عاجز کی زبان پر یہ دعا جاری کی تھی کہ رب اجعلنی مبارکا حیث ما کنت۔ یعنی اے میرے رب مجھے ایسا مبارک کرکہ ہرجگہ میں بودوباش کروں برکت میرے ساتھ رہے۔ پھر خدا نے اپنے لطف و احسان سے وہی دعا کہ جو آپ ہی فرمائی تھی قبول فرمائی۔ اور یہ عجیب بندہ نوازی ہے کہ اول آپ ہی الہامی طور پر زبان پر سوال جاری کرنا اور پھر یہ کہنا کہ یہ تیرا سوال منظور کیا گیا ہے اور اِس برکت کے بارہ میں ۸۶۸۱ء یا ۹۶۸۱ء میں بھی ایک عجیب الہام اردو میں ہوا تھا جس کو اِسی جگہ لکھنا مناسب ہے۔ اور تقریب اس الہام کی یہ پیش آئی تھی کہ مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب بٹالوی کہ جو کسی زمانہ میں اس عاجز کے ہم مکتب بھی تھے۔ جب نئے نئے مولوی ہوکر بٹالہ میں آئے اور بٹالیوں کو ان کے خیالات گراں گزرے تو تب ایک شخص نے مولوی صاحب ممدوح سے کسی اختلافی مسئلہ میں بحث کرنے کے لئے اس ناچیز کو بہت مجبور کیا چنانچہ اُس کے کہنے کہانے سے یہ عاجز شام کے وقت اُس شخص
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 622
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 622
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/622/mode/1up
اُس کے دل میں آمیزش کرجاتی ہے ؔ کہ اُس کے دل سے محبت الٰہی کا منفک ہونا مستحیل اور ممتنع ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے دل کو اور اس کی جان کو بڑے بڑے امتحانوں اور ابتلاؤں
کے ہمراہ مولوی صاحب ممدوح کے مکان پر گیا اور مولوی صاحب کو معہ اُن کے والد صاحب کے مسجد میں پایا۔ پھر خلاصہ یہ کہ اس احقر نے مولوی صاحب موصوف کی اُس وقت کی تقریر کو سن کر معلوم کرلیا کہ ان کی تقریر میں کوئی ایسی زیادتی نہیں کہ قابل اعتراض ہو اس لئے خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کیا گیا۔ رات کو خداوند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اسی ترک بحث کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ تیرا خدا تیرے اس فعل ؔ سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ پھر بعد اُس کے عالمِ کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے۔ چونکہ خالصاً خدا اور اس کے رسول کے لئے انکسار و تذلّل اختیار کیا گیا اس لئے اُس محسن مطلق نے نہ چاہا کہ اُس کو بغیر اجر کے چھوڑے۔ فتدبروا و تفکرّوا۔
پھر بعد اِس کے فرمایا کہ لوگوں کی بیماریاں اور خدا کی برکتیں یعنی مبارک کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے لوگوں کی روحانی بیماریاں دور ہوں گی اور جنکے نفس سعید ہیں وہ تیری باتوں کے ذریعہ سے رشد وہدایت پاجائیں گے اور ایسا ہی جسمانی بیماریاں اور تکالیف جن میں تقدیر مبرم نہیں۔ اور پھر فرمایا کہ تیرا رب بڑا ہی قادر ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا کی نعمت کو یاد رکھ اور میں نے تجھ کو تیرے وقت کے تمام عالموں پر فضیلت دی ہے۔ اس جگہ جاننا چاہئے کہ یہ تفضیل طفیلی اور جزوی ہے یعنی جو شخص حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل طور پرمتابعت کرتا ہے۔ اُس کا مرتبہ خدا کے نزدیک اسکے تمام ہمعصروں سے برتر و اعلیٰ ہے۔ پس حقیقی اور کلی طور پر تمام فضیلتیں حضرت خاتم الانبیاء کو جنابِ احدیت کی طرف سے ثابت ہیں اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 623
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 623
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/623/mode/1up
کے سخت صدمات کے پیچ میں دے کر کوفتہ کیا جائے اور نچوڑا جائے تو بجز محبت الٰہیہ کے اور کچھ اس کے دل اور جان سے نہیں نکلتا۔ اسی کے درد سے لذت پاتا
دوسرے تمام لوگ اُس کی متابعت اور اس کی محبت کی طفیل سے علیٰ قدر متعابعت ومحبت مراتب پاتے ہیں۔ فما اعظم شان کمالہ اللّٰھم صل علیہ وآلہ۔ اب بعد اس کے بقیہ ترجمہ الہام یہ ہے۔ اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے رب کی طرف واپس چلا آ۔ وہ تجھ پر راضی اور تو اس پر راضی۔ پھر میرے بندوں میں داخل ہو اور میری بہشت میں اندر آجا۔ خدا نے تجھ پر احسان کیا اور تیرے دوستوں سے نیکی کی اور تجھ کو وہ علم بخشا جس کو تو خودبخود نہیں جان سکتا تھا۔ اور اگر تو خدا کی نعمتوں کو گننا چاہے تو یہ تیرے لئے غیر ممکن ہے۔ پھر ان الہامات کے بعد چند الہام فارسی اور اردو میں اور ایک انگریزی میں ہوا۔ وہ بھی بغرض افادۂ طالبین لکھے جاتے ہیں اور وہؔ یہ ہے۔ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔ پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار ۔ خدا تیرے سب کام درست کردے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ رب الافواج اس طرف توجہ کرے گا۔ اس نشان کا مدعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے مونہہ کی باتیں ہیں۔ جناب الٰہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے اور اس کی پاک رحمتیں اس طرف متوجہ ہیں۔ دِی ڈیز شَلَ کم وَہن گاڈ شیل ہیلپ ُ یو گلوری بی ٹو دِس لارڈ َ گوڈْ میکر اوف ارتھ اینڈ ہیون۔ وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔ خدائے ذوی الجلال آفریندۂ زمین و آسمان اِن الہامات کے بعد ایک ایسی پیشگوئی چند آریوں کے روبرو جو پنڈت دیانند کے توابع ہیں پوری ہوئی کہ جس کی کیفیت پر مطلع ہونا ناظرین کے لئے خالی فائدہ سے نہیں۔ سو اگرچہُ اس کے لکھنے سے کسی قدر طول ہی ہو۔ لیکن بہ نظرِ خیر خواہی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 624
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 624
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/624/mode/1up
ہے۔ اور اُسی ؔ کو واقعی اور حقیقی طور پر اپنا دلآرام سمجھتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جس میں تمام ترقیات قرب ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنے اس انتہائی کمال کو پہنچ جاتا ہے کہ جو فطرت بشری کے لئے مقدر ہے۔
ان لوگوں کے جو عظمت اسلام سے بے خبر ہیں لکھی جاتی ہے اور اس پیشگوئی کے پورے ہونے سے پہلے ایک عجیب طور کی مشکلات اور مکروہات پیش آئے۔ آخر خداوند کریم نے ان سب مشکلات کو دور کرکے بتاریخ دہم ستمبر ۳۸۸۱ ء روز دو شنبہ اس پیشگوئی کو پورا کیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ بتاریخ ۶ ستمبر ۳۸۸۱ ء روز پنجشنبہ خداوند کریم نے عین ضرورت کے وقت میں اس عاجز کی تسلی کے لئےؔ اپنے کلام مبارک کے ذریعہ سے یہ بشارت دی کہ بست ویک روپیہ آنے والے ہیں۔ چونکہ اس بشارت میں ایک عجیب بات یہ تھی کہ آنے والے روپیہ کی تعداد سے اطلاع دی گئی اور کسی خاص تعداد سے مطلع کرنا ذات غیب دان کا خاصّہ ہے کسی اور کا کام نہیں ہے۔ دوسری عجیب بر عجیب یہ بات تھی کہ یہ تعداد غیر معہود طرز پر تھی کیونکہ قیمت مقررہ کتاب سے اس تعداد کو کچھ تعلق نہیں۔ پس انہیں عجائبات کی وجہ سے یہ الہام قبل از وقوع بعض آریوں کو بتلایا گیا۔ پھر ۰۱ ستمبر ۳۸۸۱ ء کو تاکیدی طور پر سہ بارہ الہام ہوا کہ بست ویک روپیہ آئے ہیں۔ جس الہام سے سمجھا گیا کہ آج اس پیشگوئی کا ظہور ہوجائے گا۔ چنانچہ ابھی الہام پر شاید تین منٹ سے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہوگا کہ ایک شخص وزیر سنگھ نامی بیماردار آیا اور اُس نے آتے ہی ایک روپیہ نذر کیا۔ ہر چند علاج معالجہ اس عاجز کا پیشہ نہیں اور اگر اتفاقاً کوئی بیمار آجاوے تو اگر اس کی دوا یاد ہو تو محض ثواب کی غرض سے ِ للہ فِی اللہ دی جاتی ہے۔ لیکن وہ روپیہ اس سے لیا گیا۔ کیونکہ فی الفور خیال آیا کہ یہ اُس پیشگوئی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 625
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 625
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/625/mode/1up
یہ لطائف خمسہ ہیں کہ جو بطور نمونہ مشتے از خروارے ہم نے لکھے ہیں مگر عجائبات معنوی اس صورت میں اورؔ نیز دوسرے حقائق و معارف اس قدر ہیں کہ اگر اُن کا عشرِ عشیر بھی لکھا جائے تو اس کے لکھنے کے لئے ایک بڑی کتاب چاہئے۔ اور جو اس سورہ مبارکہ میں خواص روحانی ہیں وہ بھی ایسے اعلیٰ و حیرت انگیز ہیں جن کو طالبِ حق
کی ایک جُز ہے۔ پھر بعد اس کے ڈاک خانہ میں ایک اپنا معتبر بھیجا گیا اس خیال سے کہ شاید دوسری جُز بذریعہ ڈاک خانہ پوری ہو۔ ڈاک خانہ سے ڈاک منشی نے جو ایک ہندو ہے جواب میں یہ کہا کہ میرے پاس صرف ایک منی آرڈر پانچ روپیہ کا جس کے ساتھ ایک کارڈ بھی نتھی ہے ڈیرہ غازی خان سے آیا ہے سو ابھی تک میرے پاس روپیہ موجود نہیں جب آئے گا تو دوں گا۔ اس خبر کے سننے سے سخت حیرانی ہوئی اور وہ اضطراب پیشؔ آیا جو بیان نہیں ہوسکتا چنانچہ یہ عاجز اسی تردد میں سربزانو تھا اور اس تصوّر میں تھا کہ پانچ اور ایک مل کر چھ ہوئے اب اکیس کیونکر ہوں گے یا الٰہی یہ کیا ہوا۔ سو اسی استغراق میں تھا کہ یکدفعہ یہ الہام ہوا۔ بست ویک آئے ہیں اس میں شک نہیں۔ اس الہام پر دوپہر نہیں گزرے ہوں گے کہ اسی روز ایک آریہ کہ جو ڈاک منشی کے پہلے بیان کی خبر سن چکا تھا ڈاک خانہ میں گیا اور اس کو ڈاک منشی نے کسی بات کی تقریب سے خبر دی کہ دراصل 3بست روپیہ آئے ہیں اور پہلے یوں ہی مونہہ سے نکل گیا تھا جو میں نے پانچ روپیہ کہہ دیا۔ چنانچہ وہی آریہ 3بیس روپیہ معہ ایک کارڈ کے جو منشی الٰہی بخش صاحب اکونٹنٹ کی طرف سے تھا لے آیا اور معلوم ہوا کہ وہ کارڈ بھی منی آرڈر کے کاغذ سے نتھی نہ تھا اور نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ روپیہ آیا ہوا تھا۔ اور نیز منشی الٰہی بخش صاحب کی تحریر سے جو بحوالہ ڈاک خانہ کے رسید کی تھی یہ بھی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 626
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 626
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/626/mode/1up
کئی فرقوں اور قوموں میں پیغمبر بھیجے۔ پس وہ لوگ شیطاؔ ن کے دھوکا دینے سے بگڑ گئے اور برے کام ان کو اچھے دکھائی دینے لگے سو وہی شیطان آج اُن سب کا رفیق ہے جو ان کو جادۂ استقامت سے مُنحرف کررہا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی گئی ہے کہ تا ان لوگوں کا رفع اختلافات کیا جائے اور تا مومنوں کے لئے وہ ہدایتیں
دیکھ کر اس بات کے اقرار کے لئے مجبور ہوتا ہے کہ بلاشبہ وہ قادر مطلق کا کلام ہے۔ چنانچہ منجملہ ان خواص عالیہ کے ایکؔ خاصہ روحانی سورہ فاتحہ میں یہ ہے کہ دلی حضور
معلوم ہوا کہ منی آرڈر ۶ ستمبر ۳۸۸۱ ء کو یعنی اسی روز جب الہام ہوا قادیان میں پہنچ گیا تھا۔ پس ڈاک منشی کا سارا املاء انشاء غلط نکلا اور حضرت عالم الغیب کا سارا بیان صحیح ثابت ہوا پس اس مبارک دن کی یادداشت کے لئے ایک روپیہ کی شیرینی لے کر بعض آریوں کو بھی دی گئی فالحمد للّٰہ علی اٰلآۂ و نعمآۂ ظاھرھا و باطنھا۔
اے خدا اے چارۂ آزار ما
اے علاج گریہ ہائے زار ما
اے تو مرہم بخش جانِ ریش ما
اے تو دلدارِ دلِ غم کیش ما
از کرم برداشتی ہر بار ما
واز تو ہر بار و برِ اشجار ما
حافظ و ستاری از جود و کرم
بیکساں را یاری از لُطفِ اتم
بندۂؔ درماندہ باشد دل طپاں
ناگہاں درماں براری ازمیاں
عاجزی را ظلمتے گیرد براہ
ناگہاں آری برو صد مہر و ماہ
حسن و خلق و دلبری بر تو تمام
صحبتی بعد از لقائے تو حرام
آں خرد مندی کہ او دیوانہ ات
شمع بزم است آنکہ او پروانہ ات
ہر کہ عشقت در دل و جانش فتد
ناگہاں جانے در ایمانش فتد
عشق تو گردد عیاں بر روئے او
بوئے تو آید زبام و کوئے او
صد ہزاراں نعمتش بخشی ز جود
مہر ومہ را پیشش آری در سجود
خود نشینی از پئے تائید او
روئے تُو یاد اوفتد از دید او
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 627
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 627
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/627/mode/1up
جو پہلے کتابوں میں ناقص رہ گئی تھیں کامل طور پر بیان کی جائیں تا وہ کامل رحمت کا موجب ہو اور حقیقت حال یہ ہے کہ زمین ساری کی ساری مر گئی تھی خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور نئے سرے اُس مردہؔ زمین کو زندہ کیا یہ ایک نشانِ صداقت
سے اپنی نماز میں اسکو ورد کرلینا اور اسکی تعلیم کو فی الحقیقت سچ سمجھ کر اپنے دل میں قائم کرلیناتنویر باطن میں نہایت دخل رکھتا ہے۔ یعنی اس سے انشراح خاطر ہوتا ہے اوربشریت کی ظلمت دور ہوتی ہے اور حضرت مبدء فیوض کے فیوض انسان پر
بس نمایاں کارہا کاندر جہاں
می نمائی بہر اکرامش عیاں
خود کنی و خود کنانی کار را
خود دہی رونق تو آں بازار را
خاک را در یکدمے چیزے کنی
کز ظہورش خلق گیرد روشنی
بر کسی چوں مہربانی میکنی
از زمینی آسمانی میکنی
صد شعاعش می دہی چوں آفتاب
تا نماند طالبِ دیں در حجاب
تاز تاریکی برآید عالمے
تا نشاں یابند از کویت ہمے
زیں نشانہا بدرگان کور و کراند
صد نشاں بینند و غافل بگذرند
عشق ظلمت دشمنی باآفتاب
شب پرانِ سرمدی جان در حجاب
آں شہِ عالم کہ نامش مصطفی
سیدِ عشاق حق شمس الضحیٰ
آنکہ ہر نورے طفیل نور اوست
آنکہ منظور خدا منظور اوست
آنکہ بہرِ زندگی آبِ رواں
در معارف ہمچو بحر بیکراں
آنکہ بر صدق و کمالش در جہاں
صد دلیل و حجت روشن عیاں
آنکہ انوارِ خدا بر روئے او
مظہر کارِ خدائے کوئے او
آنکہ جملہ انبیا و راستاں
خادمانش ہمچو خاکِ آستاں
آنکہ مہرش میرساند تا سما
میکند چوں ماہِ تاباں درصفا
میدہد فرعونیاں را ہر زماں
چوں ید بیضائے موسیٰ صد نشاں
آںؔ نبی در چشم ایں کوران زار
ہست یک شہوت پرست و کیں شعار
شرمت آید اے سگ ناچیز وپست
می نہی نامِ یلاں شہوت پرست
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 628
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 628
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/628/mode/1up
اُس کتاب کا ہے پر ان لوگوں کے لئے جو سنتے ہیں یعنی طالب حق ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ خدائے تعالیٰ وہ ذات کریم و رحیم ہے جس کا قدیم سے یہ قانون قدرت ہے کہ وہ ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے یعنی بارش سے پہلے چلاتا ہے یہاں تک کہ جب ہوائیں بھاری بدلیوں کو اٹھالاتی ہیں تو ہم کسی مُردہ شہر کی طرف
وارد ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور قبولیتِ الٰہی کے ؔ انوار اس پر احاطہ کرلیتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ ترقی کرتا کرتا مخاطباتِ الٰہیہ سے سرفراز ہوجاتا ہے اور کشوفِ صادقہ اور الہاماتِ واضحہ سے تمتع تام حاصل کرتا ہے اور حضرت الوہیت کے مقربین میں دخل پالیتا ہے اور وہ وہ عجائبات القائے غیبی اور کلام لاریبی اور استجابت ادعیہ اور کشفِ مغیبات
ایں نشانِ شہوتی ہست اے لئیم
کز رخش رخشاں بود نور قدیم
در شبی پیدا شود روزش کند
درخزاں آید دل افروزش کند
مظہرِ انوارِ آں بیچوں بود
در خرد از ہر بشر افزوں بود
اتباعش آں دہد دل را کشاد
کش نہ بیند کس بصد سالہ جہاد
اتباعش دل فروزد جاں دہد
جلوۂ از طاقتِ یزداں دہد
اتباعش سینہ نورانی کند
باخبر از یار پنہانی کند
منطق او از معارف پُر بود
ہر بیانِ او سراسر دُر بود
از کمالِ حکمت و تکمیل دیں
پا نہد بر اوّلین و آخریں
و از کمال صورت و احسن اتم*
جملہ خوباں را کند زیر قدم
تابعش چوں انبیا گردد ز نور
نورش افتد برہمہ نزدیک و دور
شیر حق پُر ہیبت از ربّ جلیل
دشمنان پیشش چو روباہ ذلیل
ایں چنیں شیری بود شہوت پرست
ہوش کن اے رو بہی ناچیز وپست
چیستی اے کورکِ فطرت تباہ
طعنہ بر خوباں بدیں روئے سیاہ
شہوتِ شاں از سر آزادی است
نے اسیرِ آں چو تو آں قوم مست
خود نگہ کن آں یکے زندانی است
وآں دگر داروغۂِ سلطانی است
گرچہ در یکجاست ہر دو را قرار
لیک فرقی ہست دوری آشکار
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 629
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 629
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/629/mode/1up
یعنی جس ضلع میں بباعث اِمساکِ باران زمین مُردہ کی طرح خشک ہوگئی ہو اُن ہواؤں کو ہانک دیتے ہیں پھر اس سے پانی اتارتے ہیں اور اس کے ذریعہؔ سے قسم قسم کے میوے پیدا کردیتے ہیں۔ اسی طرح روحانی مردوں کو موت کے گڑھے سے نکالا کرتے ہیں اور یہ مثال اس لئے بیان کی گئی تو کہ تم دھیان کرو اور اس بات کو سمجھ جاؤ کہ جیسا کہ ہم امساک باران کی شدت کے وقت مردہ زمین کو
اور تائید حضرت قاضی الحاجات اُس ؔ سے ظہور میں آتی ہیں کہ جس کی نظیر اس کے غیر میں نہیں پائی جاتی اگر مخالفین اس سے انکار کریں اور غالباً انکار ہی کریں گے تو اس کا ثبوت اس کتاب میں دیا گیا ہے اور یہ احقر ہریک طالب حق کی تسلی کرنے کو طیار ہے اور نہ صرف مخالفین کو بلکہ اسمی اور رسمی موافقین کو بھی کہ جو بظاہر مسلمان ہیں مگر محجوب
کار پاکاں بر بداں کردن قیاس
کارِ ناپاکاں بود اے بدحواس
کاملاں کز شوق دلبر می روند
باد و صد بارے سبکتر می روند
ایں کمال آمد کہ با فرزند و زن
ازہمہ فرزند و زن یکسو شدن
در جہان و باز بیرون از جہان
بس ہمیں آمد نشانِ کا ملاں
چوں ستوری زیر بار افتد بسر
در تہی رفتن سریع و تیز تر
ایں چنیں اسپی کجا آید بکار
نابکارست ایں در اسپانش مدار
اسپؔ آں اسپ استُ کو بارِ گران
می کشد ہم میردو بس خوش عنان
کاملے گر زن بدارد صد ہزار
صد کنیزک صد ہزاراں کاروبار
پس گر افتد در حضورِ او فتور
نیست آں کامل ز قربت ہست دور
نیست آں کامل نہ مردے زندہ جان
گر خرد مندی ز مردانش مخواں
کامل آں باشد کہ بافرزند و زن
باعیال و جملہ مشغولی تن
باتجارت باہمہ بیع و شرا
یک زماں غافل نگردد از خدا
ایں نشانِ قوّتِ مردانہ است
کاملاں را بس ہمیں پیمانہ است
سوختہ جانے ز عشقِ دلبرے
کے فراموشش کند با دیگرے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 630
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 630
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/630/mode/1up
زندہ کردیا کرتے ہیں ایسا ہی ہمارا قاعدہ ہے کہ جب سخت درجہ پر گمراہی پھیل جاتی ہے اور دل جو زمین سے مشابہ ہیں مرجاتے ہیں تو ہم ان میں زندگی کی روح ڈال دیتے ہیں اور جو زمین پاکیزہ ہے اُس کی تو کھیتی اللہ کے اذن سے جیسی کہ چاہئے نکلتی ہے اور جو خراب زمینؔ ہے اس کی صرف تھوڑی سی کھیتی نکلتی ہے اور عمدہ
مسلمان اور قالب بے جان ہیں جن کو اس ُ پر ظلمتؔ زمانہ میں آیات سماویہ پر یقین نہیں رہا اور الہامات حضرت احدیت کو محال خیال کرتے ہیں اور از قبیل اوہام اور وساوس قرار دیتے ہیں جنہوں نے انسان کی ترقیات کا نہایت تنگ اور منقبض دائر
او نظر دارد بغیر و دل بہ یار
دست درکار و خیال اندر نگار
دل طپاں در فرقتِ محبوب خویش
سینہ از ہجران یاری ریش ریش
اوفتادہ دور از روئے کسے
دل دواں ہر لحظہ در کوئے کسے
خم شدہ از غم چو ابروئے کسے
ہر زماں پیچاں چو گیسوئے کسے
دلبرش در شد بجان و مغز وپوست
راحت جانش بیاد رُوئے اوست
جاں شد اوکے جان فراموشش شود
ہر زماں آید ہم آغوشش شود
دیدہ چوں بر دلبرِ مست اوفتد
ہرچہ غیرِ اوست از دست اوفتد
غیر گو در بر بود دور است دور
یارِ دور افتادہ ہر دم در حضور
کاروبار عاشقاں کارِ جداست
برتر از فکر و قیاسات شماست
قوم عیارست دل در دلبری
چشمِ ظاہر بین بدیوار و دری
جاں خروشاں از پئے مہ پیکرے
بر زباں صد قصہا از دیگرے
فانیاں را مانعے از یار نیست
بچہ او زن برسر شان بارِ نیست
باد و صد زنجیر ہر دم پیش یار
خار با او گل گلِ اندر ہجر خار
تو بیک خارے براری صد فغان
عاشقاں خنداں بپائے جاں فشاں
عاشقاں در عظمتِ مولیٰ فنا
غرقہ دریائے توحید از وفا
کین و مہر شان ہمہ بہر خداست
قہر شان گرہست آں قہر خداست
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 631
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 631
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/631/mode/1up
کھیتی نہیں نکلتی اسی طرح سے ہم پھیر پھیر کر بتاتے ہیں تا جو شکر کرنے والے ہیں شکر کریں۔ اور پھر فرمایا کہ خدائے تعالیٰ وہ ذاتِ کریم و رحیم ہے کہ جو بروقت ضرورت ایسی ہوائیں چلاتا ہے جو بدلی کو ابھارتی ہیں پھر خدائے تعالیٰ اس بدلی کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کو تہہ بہ تہہ رکھتا ہے۔
بنارکھا ہے کہ جو صرف عقلی اٹکلوں اور قیاسی ڈھکوسلوں پر ختم ہوتا ہے اور دوسری طرف خدائے تعالیٰ کو بھی نہایت درجہ کاؔ ؔ کمزور اور ضعیف سا خیال کررہے ہیں۔ سو یہ عاجزان سب صاحبوں کی خدمت میں بادب تمام عرض کرتا ہے کہ اگراب تک تاثیرات قرآنی سے انکار ہے اور اپنے جہل قدیم پر اصرار ہے تواب نہایت نیک موقعہ ہے کہ یہ احقر خادمین
آن کہؔ در عشقِ احد محو وفناست
ہرچہ زو آید ز ذات کبریاست
فانی است و تیر اُو تیر حق است
صید او دراصل نخچیرِ حق است
آنچہ می باشد خدا را از صفات
خود دمد در فانیاں آں پاک ذات
خوئے حق گردد در ایشان آشکار
از جمال و از جلال کردگار
لطفِ شان لطفِ خدا ہم قہر شاں
قہر حق گردد نہ ہمچو دیگراں
فانیاں ہستند از خود دور تر
چوں ملائک کارکن از دادگر
گر فرشتہ قبض جانے میکند
یا کرم بر ناتوانے میکند
ایں ہمہ سختی و نرمی از خداست
او زِ خواہشہائے نفسِ خود جداست
ہم چنیں میدان مقامِ انبیاء
واصلان و فاصلاں از ماسواء
فانی اند و آلۂ ربانی اند
نور حق در جامۂ انسانی اند
سخت پنہاں در قبابِ حضرت اند
گم زِ خود در رنگ و آبِ حضرت اند
اخترانِ آسمانِ زیب و فر
رفتہ از چشمِ خلائق دور تر
کس ز قدر نور شاں آگاہ نیست
زانکہ ادنیٰ را باعلیٰ راہ نیست
کور کورانہ زند رائے دنی
چشمِ کورش بے خبر زاں روشنی
ہم چنیں تو اے عدوِّ مصطفیٰ
مے نمائی کورئ خود را بما
بر قمر عوعو کُنی از سگ رگے
نور مہ کمتر نہ گردد زیں سگے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 632
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 632
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/632/mode/1up
پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکلتا ہے پھر جن بندوں کو اپنے بندوں میں سے اس مینہ کاپانی پہنچاتا ہے تو وہ خوش وقت ہوجاتے ہیں اور ناگہانی طورؔ پرخدا ان کے غم کوخوشی کے ساتھ مُبدّل کردیتا ہے اور مینہ کے اترنے سے پہلے ان کو بباعث نہایت سختی کے کچھ امید باقی نہیں رہتی پھر یکدفعہ خدائے تعالیٰ ان کی دستگیری فرماتا ہے یعنی ایسے وقت میں بارانِ رحمت نازل ہوتاہے جب
اپنے ذاتی تجارب سے ہریک منکر کی پوری پوری اطمینان کرسکتا ہے اس لئے مناسب ہے کہ طالب حق بن کر اس احقر کی طرف رجوع کریں اور جو جو خواص کلام الٰہی کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس کو بچشم خود دیکھ لیں اور تاریکی اور ظلمت میں سے نکل کر نور حقیقی میں داخل ہوجائیں۔ اب تک تو یہ عاجز زندہ ہے مگر وجود خاکی کی کیا بنیاد اور جسم فانی کا کیا اعتماد۔ پس مناسب ہے کہ اس عام اعلان کو سنتے ہی احقاقِ حق اور ابطال باطل کی طرف توجہ کریں۔ تا اگر دعویٰ اس احقر کا بہ پایۂ ثبوت نہ پہنچ سکے تو منکر اور روگردان رہنے کے لئے ایک وجہ موجہ پیدا ہوجائے۔ لیکن اگر اس عاجز کے قول کی صداقت جیسا کہ چاہئے بہ پایۂ ثبوت پہنچ جائے تو خدا سے ڈر کر اپنے باطل خیالات سے باز آئیں اور طریقۂ حقّہ اسلام پر قدم
مصطفیٰ آئینۂ روئے خداست
منعکس دروے ہماں خوئے خداست
گر ندیدستی خدا او را بہ بیں
من رأنی قد رأی الحق ایں یقین
آنکہ آویزد بمستانِ خدا
خصم او گردد جنابِ کبریا
دست حق تائید ایں مستان کند
چوں کسی بادست حق دستاں کند
منزلِ شاں برتر از صد آسماں
بس نہاں اندر نہاں اندر نہاں
پا فشردہ در وفائے دلبرے
وازسرش برخاک افتادہ سرے
جانِ خود را سوختہ بہر نگار
زندہ گشتہ بعد مرگ صد ہزار
صاحب چشم اندر آنجا بے تمیز
چشمِ کوراں خود نباشد ہیچ چیز
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 633
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 633
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/633/mode/1up
لوگوں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں اور مینہ برسنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی اور پھر فرمایا کہ تو خدا کی رحمت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ اور اس کی رحمت کی نشانیوں پر غور کر کہ وہ کیونکر زمین کو اس کے مرنے کے پیچھے زندہ کرتا ہے بے شک وہی خدا ہے جس کی یہ بھی عادت ہےؔ کہ جب لوگ روحانی طور پر مرجاتے ہیں اور سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے تو اسی طرح وہ ان کو بھی زندہ کرتا ہے اور وہ ہرچیز پر قادر اور توانا ہے اسی نے آسمان سے پانی اتارا پھر ہریک وادی اپنے اپنے اندازہ اور قدر کے موافق بہ نکلا یعنی ہریک شخص نے اپنی استعداد کے موافق فائدہ اٹھایا اور پھر فرمایا کہ وہ رسول اس وقت آیا کہ جب جنگل اور دریا میں فساد ظاہر ہوگیایعنی تمام روئے زمین پر ظلمت اور ضلالت پھیل گئی اور کیا اُمّی لوگ اور کیا اہل کتاب اور اہل علم سب کے سب بگڑ گئے اور کوئی حق پر قائم نہ رہا اور یہ سب فساد اس لئے ہوا کہ لوگوں کے دلوں سے خلوص اور صدق اٹھ گیا اور اُن کے اعمال خدا کے لئے نہ رہے بلکہ اُن میں
جماویں تا اس جہان میں ذلت اور رسوائی سے اور دوسرے جہان میں عذاب اور عقوبتؔ سے نجات پاویں۔ سو دیکھو اے بھائیو اے عزیزو اے فلاسفرو اے پنڈتو اے پادریو اے آریو اے نیچریو اے براہم دھرم والو کہ میں اس وقت صاف صاف اور علانیہ کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی کو شک ہو اور خاصۂ مذکورۂ بالا کے ماننے میں کچھ تامل ہو تو وہ بلاتوقف اس عاجز کی طرف رجوع کریں اور صبوری اور صدق دلی سے کچھ عرصہ تک صحبت میں رہ کر بیانات مذکورۂ بالا کی حقیت کو بچشم خود دیکھ لے ایسا نہ ہو کہ اس ناچیز کے گذرنے
روئےؔ شان آں آفتابے کاندراں
چشم مرداں خیرہ ہم چوں شپراں
تو خودی زن رائے تو ہمچوں زناں
ناقص ابنِ ناقص ابنِ ناقصاں
خوب گر نزدُِ تو زِشت است و تباہ
پس چہ خوانم نام تو اے روسیاہ
کوریت صد پردہ ہا بر تو فگند
وایں تعصبہائے تو بیخت بکند
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 634
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 634
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/634/mode/1up
بہت سا خلل واقعہ ہوگیا اور وہ سب رو بدنیا ہوگئے اور رو بحق نہ رہے اس لئے امداد الٰہی اُن سے منقطع ہوگئی۔ سو خدا نے اپنی حجت پوری کرنے کے لئے ان کے لئے اپنا رسول بھیجا تا ان کو ان کے بعض عملوں کا ؔ مزہ چکھاوے اور تا ایسا ہو کہ وہ رجوع کریں۔ کہہ زمین پر سیر کرو پھر دیکھو کہ جو تم سے پہلے کافر اور سرکش گزر چکے ہیں ان کا کیا انجام ہوا اور اکثر ان میں سے مشرک ہی تھے کیا انہوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہمارا یہی دستور اور طریق ہے کہ ہم خشک زمین کی طرف پانی روانہ کردیا کرتے ہیں پھر اس سے کھیتی نکالتے ہیں تا ان کے چارپائے اور خود وہ کھیتی کو کھاویں اور مرنے سے بچ جائیں سو تم کیوں نظر غور سے ملاحظہ نہیں کرتے تاتم اس بات کو سمجھ جاؤ کہ وہ کریم و رحیم خدا کہ جو تم کو جسمانی موت سے بچانے کے لئے شدّتِ قحط اور اِمساک باران کے وقت بارانِ رحمت نازل کرتا ہے وہ کیونکر شدت ضلالت کے وقت جو روحانی قحط ہے زندگی کا پانی نازل کرنے سے جو اس کا کلام ہے تم سے دریغ کرے۔
کے بعد کوئی نامنصف کہے کہ کب مجھ کو کھول کر کہا گیا کہ تا میں اس جستجو میں پڑتا۔ کب کسی نے اپنی ذمہ داری سے دعویٰ کیا تا میں ایسے دعویٰ کا ثبوت اس سے مانگتا۔ سو اے بھائیو۔ اے حق کے طالبو ادھر دیکھو کہ یہ عاجز کھول کر کہتا ہے اور اپنے خدا پر توکل کرکے جس کے انوار دن رات دیکھ رہا ہے اس بات کا ذمہ وار بنتا ہے کہ اگر تم دلی صدق اور صفائی سے حق کے جویاں اور خواہاں ہوکر صبر اور ارادت سے کچھ مدت تک اس احقر کی صحبت میں زندگی بسر کرو گے تو یہ بات تم پر بدیہی طور پر
اےؔ بسا محبوبِ آں ربِّ جلیل
پشت از کوری حقیر است و ذلیل
اے بسا کس خوردہ صد جامِ فنا
پیش ایں چشمت ُ پر از حرص و ہوا
گر نماندے از وجودِ تو نشاں
نیک بودے زیں حیاتِ چوں سگاں
زاغ گر زادی بجایت مادرت
نیک بود از فطرت بد گوہرت
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 635
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 635
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/635/mode/1up
اور پھر فرمایا کہ ہم نے رات اور دن دو نشانیاں بنائی ہیں یعنی انتشار ضلالت جو رات سے مشابہ ہے اور انتشار ہدایت جو دن سے مشابہؔ ہے۔ رات جو اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو دن کے چڑھنے پر دلالت کرتی ہے اور دن جب اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو رات کے آنے کی خبر دیتا ہے سو ہم نے رات کا نشان محو کرکے دن کا نشان رہنما بنایا یعنی جب دن چڑھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے اندھیرا تھا۔ سو دن کا نشان ایسا روشن ہے کہ رات کی حقیقت بھی اسی سے کھلتی ہے اور رات کا نشان یعنی ضلالت کا زمانہ اس لئے مقرر کیا گیا کہ دن کے نشان یعنی انتشارِ ہدایت
کھل جائے گی کہ فی الحقیقت وہ خواص روحانی جن کا اس جگہ ذکر کیا گیا ہے سورۃفاتحہ اور قرآن شریف میں پائے جاتے ؔ ہیں سو کیا مبارک وہ شخص ہے کہ جو اپنے دل کو تعصب اور عناد سے خالی کرکے اور اسلام کے قبول کرنے پر مستعد ہوکر اس مطلب کے حصول کے لئے بصدق و ارادت توجہ کرے اور کیا بدقسمت وہ آدمی ہے کہ اس قدر واشگاف باتیں سن کر پھر بھی نظر اٹھا کر نہ دیکھے اور دیدہ و دانستہ خدائے تعالیٰ کی *** اور غضب کا مورد بن جاوے۔ مرگ نہایت نزدیک ہے اور بازی اجل سر پر ہے۔ اگر جلد تر خدا سے ڈر کر اس عاجز کی باتوں کی طرف نظر نہیں کرو گے اور اپنی تسلی اور تشفی حاصل کرنے کے لئے صدق اور ارادت سے قدم نہیں اٹھاؤ گے تو میں ڈرتا ہوں کہ آپ لوگوں کا ایسا ہی انجام نہ ہو جیسا پنڈت دیانند آریوں کے سرگروہ کا انجام ہوا کیونکہ اس احقر نے ان کو ان کی وفات سے ایک مدت پہلے راہِ راست کی
زانکہؔ کذب و فسق و کفرت در سراست
وایں نجاست خواریت زاں بدتراست
تو ہلاکی اے شقی سرمدی
زانکہ از جانِ جہاں سرکش شدی
اے در انکار و شکے از شاہِ دیں
خادمان و چاکرانش ر ابہ بیں
کس ندیدہ از بزرگانت نشاں
نیست در دستُِ تو بیش از داستاں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 636
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 636
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/636/mode/1up
کی خوبی اور زیبائی اسی سے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ خوبصورت کا قدر و منزلت بدصورت سے ہی معلوم ہوتا ہے اس لئے حکمت الٰہیہ نے یہی چاہا کہ ظلمت اور نور علیٰ سبیل التبادل دنیا میں دَور کرتے رہیں۔ جب نور اپنے کمال کو پہنچ جائے تو ظلمت قدم بڑھاوے۔ اور جب ظلمت اپنے انتہائی درجہ تک پہنچ جائے تو پھر نور اپنا پیارا چہرہ دکھاوے سو استیلا ظلمت کا نور کے ظہور پر ایک دلیل ہے اور استیلانور کا ظلمت کے آنے کا ایک سبیل ہے۔ ہر کمالِ رَا زَوَالے مثل مشہور ہے سو اسؔ آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال کو پہنچ گئی اور برّ وبحر ظلمت
طرف دعوت کی اور آخرت کی رسوائی یاد دلائی اور ان کے مذہب اور اعتقاد کا سراسر باطل ہونا براہینِ قطعیہ سے اُن پر ظاہر کیا اور نہایت عمدہ اور کامل دلائل سے بادب تمام اُن پر ثابت کردیا کہ دہریوں کے ؔ بعد تمام دنیا میں آریوں سے بدتر اور کوئی مذہب نہیں کیونکہ یہ لوگ خدائے تعالیٰ کی سخت درجہ پر تحقیر کرتے ہیں کہ اس کو خالق اور رب العالمین نہیں سمجھتے اور تمام عالم کو یہاں تک کہ دنیا کے ذرّہ ذرّہ کو اس کا شریک ٹھہراتے ہیں اور صفت قدامت اور ہستی حقیقی میں اس کے برابر سمجھتے ہیں اگر ان کو کہو کہ کیا تمہارا پرمیشر کوئی روح پیدا کرسکتا ہے یا کوئی ذرّہ جسم کا وجود میں لاسکتا ہے یا ایسا ہی کوئی اور زمین و آسمان بھی بنا سکتا ہے یا کسی اپنے عاشق صادق کو نجاتِ ابدی دے سکتا ہے اور بار بار کتا بِلّا بننے سے بچا سکتا ہے یا اپنے کسی محب خالص کی توبہ قبول کرسکتا ہے تو ان سب باتوں کا یہی جواب ہے کہ ہرگز نہیں اس کو یہ قدرت ہی
لیکؔ گر خواہی بیابنگر زِما
صد نشانِ صدق شانِ مصطفی
ہاں بیا اے دیدہ بستہ از حسد
تا شعاعش پردۂ تو بر درد
صادقاں را نور حق تابد مدام
کاذباں مردند و شدُ تر کی تمام
مصطفی مہرِ درخشانِ خداست
بر عدوش ***ِ ارض و سماست
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 637
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 637
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/637/mode/1up
سے بھرگئے توہم نے مطابق اپنے قانون قدیم کے نورکے نشان کوظاہر کیا تادانشمند لوگ قادر مطلق کی قدرت نمایاں کو ملاحظہ کرکے اپنے یقین اور معرفت کو زیادہ کریں۔ اورپھر بعد اس کے فرمایا3الخ ۱ اِس سورۃ کا حقیقی مطلب جوایک بھاری صداقت پر مشتمل ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں اس قاعدۂ کُلّی کا بیان فرمانا ہے کہ دنیا میں کب اورکس وقت میں کوئی کتاب اور پیغمبر بھیجا جاتا ہے۔ سو وہ قاعدہ یہ ہے کہ جب دلوں پر ایک ایسی غلیظ ظلمت طاری ہوجاتی ہے کہ
نہیں کہ ایک ذرہ اپنی طرف سے پیدا کرسکے اور نہ اس میں یہ رحیمیت ہے کہ کسی اوتار یا کسی رکھی یا منی کو یا کسی ایسے کو بھی کہ جس پر وید اترا ہو ہمیشہ کے لئے نجات دے اور پھر اس کا مرتبہ ملحوظ رکھ کر مکتی خانہ سے باہر دفعہ نہ کرے اور اپنے اُس پیارے کو ؔ جس کے دل میں پرمیشر کی پریت اور محبت رچ گئی ہے بار بارُ کتابِلا بننے سے بچاوے۔
مگر افسوس کہ پنڈت صاحب نے اس نہایت ذلیل اعتقاد سے دست کشی اختیار نہ کی اور اپنے تمام بزرگوں اور اوتاروں وغیرہ کی اہانت اور ذلت جائز رکھی مگر اس ناپاک اعتقاد کو نہ چھوڑا۔ اور مرتے دم تک یہی ان کا ظن رہا کہ گو کیسا ہی اوتار ہو رام چندر ہو یا کرشن ہو یا خود وہی ہو جس پر وید اترا ہے پرمیشور کو ہرگز منظور ہی نہیں کہ اس پر دائمی فضل کرے بلکہ وہ اوتار بناکر پھر بھی انہیں کو کیڑے مکوڑے ہی بناتا رہے گا وہ کچھ ایسا سخت دل ہے کہ عشق اور محبت کا اس کو ذرا پاس نہیں اور ایسا ضعیف ہے کہ اس میں خودبخود بنانے کی ذرہ طاقت نہیں۔
ایںؔ نشان *** آمد کایں خساں
ماندہ اندر ظلمتی چوں شپراں
نے دلِ صافی نہ عقلے راہ بیں
راندۂ درگاہِ رب العالمیں
جان کنی صد کن بکینِ مصطفی
رہ نہ بینی جُز بدینِ مصطفی
تانہ نورِ احمد آید چارہ گر
کس نمی گیرد ز تاریکی بدر
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 638
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 638
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/638/mode/1up
یکبارگی تمام دل رو بدنیا ہوجاتے ہیں اور پھر رو بدُنیا ہونے کی شامت سے ان کے تمام عقائد و اعمال و افعال و اخلاق و آداب اور نیّتوں اور ہمتوں میں اختلال کلّی راہ پاجاتا ہے اور محبتِ الٰہیہ دلوں سے بکُلّی اٹھ جاتی ہے اور یہ عام وبا ایسا پھیلتا ہے کہ تمام زمانہ پر رات کی طرح اندھیرا چھا جاتا ہے تو ایسےؔ وقت میں یعنی جب وہ اندھیرا اپنے کمال کو پہنچ جاتا ہے رحمتِ الٰہیہ اس طرف متوجہ ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس اندھیری سے خلاصی بخشے اور جن طریقوں سے ان کی اصلاح قرین مصلحت ہے ان طریقوں کو اپنے کلام میں بیان فرماوے سو اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے
یہ پنڈت صاحب کا خوش عقیدہ تھا جس کو پرزور دلائل سے رد کرکے پنڈت صاحب پر یہ ثابت کیا گیا تھا کہ خدائے تعالیٰ ہرگز ادھورا اور ناقص نہیں بلکہ مبدء ہے تمام فیضوں کا اور جامع ہے تمام خوبیوں کا اور مستجمع ہے جمیع صفاتِ کاملہ کا اور واحد لاشریک ہے اپنی ذات میں اورؔ صفات ؔ میں اور معبودیت میں اور پھر اس کے بعد دو دفعہ بذریعہ خط رجسٹری شدہ حقیّت دین اسلام سے بدلائل واضحہ ان کو متنبہ کیا گیا اور دوسرے خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ اسلام وہ دین ہے جو اپنی حقیّت پر دوہرا ثبوت ہر وقت موجود رکھتا ہے ایک معقولی دلائل جن سے اُصولِ حقہ اسلام کی دیوار روئیں کی طرح مضبوط اور مستحکم ثابت ہوتی ہیں۔ دوسری آسمانی آیات و ربانی تائیدات اور غیبی مکاشفات اور رحمانی الہامات و مخاطبات اور دیگر خوارق عادات جو اسلام کے کامل متبعین سے ظہور میں آتے ہیں جن سے حقیقی نجات ایسے جہان میں سچے ایماندار کو
ازؔ طفیلِ اوست نور ہر نبی
نام ہر مرسل بنام او جلی
آں کتابے ہمچو خور دادش خدا
کز رخش روشن شد ایں ظلمت سرا
ہست فرقاں طیب و طاہر شجر
از نشانہا میدہد ہردم ثمر
صد نشانِ راستی دروَے پدید
نے چو دینِ تو بنایش برشنید
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 639
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 639
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/639/mode/1up
آیت ممدوحہ میں اشارہ فرمایا کہ ہم نے قرآن کو ایک ایسی رات میں نازل کیا ہے جس میں بندوں کی اصلاح اور بھلائی کے لئے صراط مستقیم کی کیفیت بیان کرنا اور شریعت اور دین کی حدود کو بتلانا از بس ضروری تھا یعنی جب گمراہی کی تاریکی اس حد تک پہنچ چکی تھی کہ جیسی سخت اندھیری رات ہوتی ہے تو اس وقت رحمت الٰہی اس طرف متوجہ ہوئی کہ اس سخت اندھیری کے اٹھانے کے لئے ایسا قوی ُ نور نازل کیا جائے کہ جو اس اندھیری کو دور کرسکے۔ سو خدا نے قرآن شریف کو نازل کرکے اپنے بندوں کو وہ عظیم الشان نور عطا کیا کہ جو شکوک اور شبہات کی اندھیری کو دور کرتا ہے اور روشنی کو پھیلاتا ہے۔ اس جگہ جاننا چاہئے کہ اس باطنی لیلۃؔ القدر کو ظاہری لیلۃ القدر سے کہ جو عندالعوام مشہور ہے کچھ منافات نہیں بلکہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ ہریک کام مناسبت سے کرتا ہے اور حقیقت باطنی کے لئے
ملتی ہے۔ یہ دونوں قسم کے ثبوت اسلام کے غیر میں ہرگز نہیں پائے جاتے اور نہ ان کو طاقت ہے کہ اس کے مقابلہ پر کچھ دم مارسکیں لیکن اسلام میں وجود اس کا متحقق ہے سو اگر ان دونوں قسم کے ثبوت میں سے کسی قسم کے ثبوت میں شک ہو تو اسی جگہ ؔ قادیان میں آکر اپنی تسلی کرلینی چاہئے اور یہ بھی پنڈت صاحب کو لکھا گیا کہ معمولی خرچ آپ کی آمدورفت کا اور نیز واجبی خرچ خوراک کا ہمارے ذمہ رہے گا اور وہ خط اُن کے بعض آریوں کو بھی دکھلایا گیا اور دونوں رجسٹریوں کی ان کی دستخطی رسید بھی آگئی پر انہوں نے حُبِّ دنیا اور ناموس دُنیوی کے باعث سے
پُرؔ ز اعجاز است آں عالی کلام
نور یزدانی درُو رخشد تمام
از خدائی ہا نمودہ کار را
بر دریدہ پردۂ کفار را
آفتاب است و کند چوں آفتاب
گرنہ کوری بیابنگر شتاب
اے مزوّر گر بیائی سوئے ما
واز وفا رخت افگنی در کوئے ما
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 640
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 640
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/640/mode/1up
جو ظاہری صورت مناسب ہو وہ اس کو عطا فرماتا ہے۔ سو چونکہ لیلۃ القدر کی حقیقت باطنی وہ کمال ضلالت کا وقت ہے جس میں عنایت الٰہیہ اصلاح عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے سو خدائے تعالیٰ نے بغرض تحقق مناسبت اس زمانہ ضلالت کی آخری جز کو جس میں ضلالت اپنے نکتہ کمال تک پہنچ گئی تھی خارجی طور پر ایک رات میں مقرر کیا اور یہ رات وہ رات تھی جس میں خداوند تعالیٰ نے دنیا کو کمال ضلالت میں پاکر اپنے پاک کلام کو اپنے نبی پر اتارنا ارادہ فرمایا۔ سو اس جہت سے نہایت درجہ کی برکات اس رات میں پیدا ہوگئیں یا یوں کہو کہ قدیم سے اسی ارادۂ قدیم کے رو سے پیدا تھی اور پھر اُس خاص رات میں وہ قبولیت اور برکت ہمیشہ کے لئے باقی رہی اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ وہ ظلمت کا وقت کہ جو اندھیری رات سے مشابہ تھا جس کی تنویر کے لئے کلام الٰہی کا نور اترا اُس ؔ میں بباعث نزولِ قرآن
اس طرف ذرا بھی توجہ نہ کی یہاں تک کہ جس دنیا سے انہوں نے پیار کیا اور ربط بڑھایا تھا آخر بصد حسرت اس کو چھوڑ کر اور تمام درہم و دینار سے بمجبوری جدا ہوکر اس دارالفنا سے کوچ کرگئے اور بہت سی غفلت اور ظلمت اور ضلالت اور کفر کے پہاڑ اپنے سر پر لے گئے اور اُن کے سفر آخرت کی خبر بھی کہ جو اُن کو تیس اکتوبر ۳۸۸۱ ء میں پیش آیا تخمیناً تین ماہ پہلے خداوند کریم نے اس عاجز کو دے دی تھی چنانچہ یہ خبر بعض آریہ کو بتلائی بھی گئی تھی۔ خیر یہ سفر تو ہریک کو درپیش ہی ہے اور کوئی آگے اور کوئی پیچھے اس مسافر خانہ کو چھوڑنے والا ہے مگر یہ افسوس ایک بڑا افسوس ہے
و ؔ از سر صدق و ثبات و غم خوری
روزگارے در حضور ما بری
عالمے بینی زِ ربانی نشاں
سوئے رحماں خلق و عالم راکشاں
گر خلافِ واقعہ گفتم سخن
راضیم گر تو سرم بُری زِ تن
راضیم گر خلق بردارم کشند
از سرِ کیں با صد آزارم کشند
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 641
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 641
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/641/mode/1up
کی ایک رات ہزار مہینہ سے بہتر بنائی گئی۔ اور اگر معقولی طور پر نظر کریں تب بھی ظاہر ہے کہ ضلالت کا زمانہ عبادت اور طاعت الٰہی کے لئے دوسرے زمانہ سے زیادہ تر موجب قربت و ثواب ہے پس وہ دوسرے زمانوں سے زیادہ تر افضل ہے اور اس کی عبادتیں بباعث شدت و صعوبت اپنی قبولیت سے قریب ہیں اور اس زمانہ کے عابد رحمت الٰہی کے زیادہ تر مستحق ہیں کیونکہ سچے عابدوں اور ایمانداروں کا مرتبہ ایسے ہی وقت میں عنداللہ متحقّق ہوتا ہے کہ جب تمام زمانہ پر دنیا پرستی کی ظلمت طاری ہو اور سچ کی طرف نظر ڈالنے سے جان جانے کا اندیشہ ہو اور یہ بات خود ظاہر ہے کہ جب دل افسردہ اور مردہ ہوجائیں اور سب کسی کو جیفۂ دنیا ہی پیارا دکھائی دیتا ہو اور ہر طرف اس روحانی موت کی زہرناک ہوا چل رہی
کہ پنڈت صاحب کو خدا نے ایسا موقع ہداؔ یت پانے کا دیا کہ اس عاجز کو ان کے زمانہ میں پیدا کیا مگر وہ باوصف ہرطور کے اعلام کی ہدایت پانے سے بے نصیب گئے۔ روشنی کی طرف ان کو بلایا گیا مگر انہوں نے کم بخت دنیا کی محبت سے اُس روشنی کو قبول نہ کیا اور سر سے پاؤں تک تاریکی میں پھنسے رہے۔ ایک بندہ خدا نے بارہا اُن کو اُن کی بھلائی کے لئے اپنی طرف بلایا مگر انہوں نے اُس طرف قدم بھی نہ اٹھایا اور یونہی عمر کو بے جا تعصبوں اور نخوتوں میں ضائع کرکے حباب کی طرح ناپدید ہوگئے حالانکہ اس عاجز کے دس ہزار روپیہ کے اشتہار کا اول نشانہ وہی تھے اور اس وجہ سے ایک مرتبہ رسالہ برادر ھند میں بھی ان کے لئے اعلان چھپوایا گیا تھا مگر ان کی طرف سے کبھی صدا نہ اٹھی یہاں تک کہ خاک میں یا راکھ میں جاملے۔
راضیمؔ گر باشدم ایں کیفرے
خوں رواں برخاک افتادہ سرے
راضیم گر مال و جان و تن رود
و آنچہ از قسمِ بلا برمن رود
گردرُو غم رفتہ باشد بر زباں
راضیم بر ہر سزائے کاذباں
لیک گر توزیں سخن پیچی سرے
بر تو ہم نفرین ربِّ اکبرے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 642
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 642
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/642/mode/1up
ہو اور محبت الٰہیہ یک لخت دلوں سے اٹھ گئی ہو اور رو بحق ہونے میں اور وفادار بندہ بننے میں کئی نوع کے ضرر متصوّر ہوں نہ کوئی اس راہ کا رفیق نظر آوؔ ے اور نہ کوئی اس طریق کا ہمدم ملے بلکہ اس راہ کی خواہش کرنے والے پر موت تک پہنچانے والی مصیبتیں دکھائی دیں اور لوگوں کی نظر میں ذلیل اور حقیر ٹھہرتا ہو تو ایسے وقت میں ثابت قدم ہوکر اپنے محبوب حقیقی کی طرف رخ کرلینا اور ناہموار عزیزوں اور دوستوں اور خویشوں اور اقارب کی رفاقت چھوڑ دینا اور غربت اور بے کسی اور تنہائی کی تکلیفوں کو اپنے سر پر قبول کرلینا اور دکھ پانے اور ذلیل ہونے اور مرنے کی کچھ پرواہ نہ کرنا حقیقت میں ایسا کام ہے کہ بجز اولوالعزم مرسلوں اور نبیوں اور صدیقوں کے جن پر فضلِ احدیت کی بارشیں ہوتی ہیں اور جو اپنے محبوب
سو اؔ ے بھائیو اُنہیں پنڈت صاحب کے حال سے نصیحت پکڑو اور اپنے نفسوں پر ظلم نہ کرو سچی نجات کو ڈھونڈو تا اسی جہان میں اس کی برکتیں پاؤ۔ سچی اور حقیقی نجات وہی ہے جس کی اس جہان میں برکتیں ظاہر ہوتی ہیں اور قادر قوی کا وہی پاک کلام ہے کہ جو اسی جگہ طالبوں پر آسمانی راہ کھولتا ہے سو اپنے آپ کو دھوکا مت دو اور جس دین کی حقیت اسی دنیا میں نظر آرہی ہے اس پاک دین سے روگردان ہوکر اپنے دل پر تاریکی کا دھبہ مت لگاؤ ہاں اگر مقابلہ اور معارضہ کرنے کی طاقت ہے تو اسی سورۂ فاتحہ کے کمالات کے مساوی کوئی دوسرا کلام پیش کرو اور جو کچھ سورۂ فاتحہ کے خواص روحانی کی بابت اس عاجز نے لکھا ہے وہ کوئی سماعی بات نہیں ہے بلکہ یہؔ عاجز اپنے ذاتی تجربہ
زیںؔ سخنہا ہر کہ روگرداں بود
آں نہ مردے رہزن مرداں بود
اے خدا بیخِ خبیثانے برار
کز جفا باحق نمیدارند کار
دل نمیدارند و چشم و گوش ہم
باز سر پیچاں ازاں بدرِ اتم
دین شان بر قصہ ہا دارد مدار
گفتگوہا بر زباں دل بے قرار
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 643
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 643
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/643/mode/1up
کی طرف بلااختیار کھینچے جاتے ہیں اور کسی سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا اور حقیقت میں ایسے وقت کی ثابت قدمی اور صبر اور عبادت الٰہی کا ثواب بھی وہ ملتا ہے کہ جو کسی دوسرے وقت میں ہرگز نہیں مل سکتا۔ سو اسی جہت سے لیلۃ القدرکی ایسے ہی زمانہ میں بنا ڈالی گئی کہ جس میں بباعث سخت ضلالت کے نیکی پر قائم ہونا کسی بڑے جوانمرد کا کام تھا یہی زمانہ ہے جس میں جوانمردوں کی قدرومنزلت ظاہر ہوتی ہے اور نامردؔ وں کی ذلت بہ پایۂ ثبوت پہنچتی ہے یہی پرظلمت زمانہ ہے جو اندھیری رات کی طرح ایک خوفناک صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ سو اس طغیانی کی حالت میں کہ جو بڑے ابتلا کا وقت ہے وہی لوگ ہلاکت سے بچتے ہیں جن پر عنایات الٰہیہ کا ایک خاص سایہ ہوتا ہے پس انہیں موجبات سے خدائے تعالیٰ نے اسی زمانہ کی ایک جز کو جس میں ضلالت کی تاریکی غایت درجہ تک پہنچ چکی تھی لیلۃ القدر مقرر کیا اور پھر بعد اس کے جن سماوی برکات سے اس ضلالت کا تدارک کیا جاتا ہے
سے بیان کرتا ہے کہ فی الحقیقت سورۂ فاتحہ مظہرِ انوارِ الٰہی ہے اس قدر عجائبات اس سورۃ کے پڑھنے کے وقت دیکھے گئے ہیں کہ جن سے خدا کے پاک کلام کا قدر ومنزلت معلوم ہوتا ہے اس سورہ مبارکہ کی برکت سے اور اس کے تلاوت کے التزام سے کشفِ مغیبات اس درجہ تک پہنچ گیا کہ صدہا اخبار غیبیہ قبل از وقوع منکشف ہوئیں اور ہریک مشکل کے وقت اس کے پڑھنے کی حالت میں عجیب طور پر رفع حجاب کیا گیا اور قریب تین ہزار کے کشف صحیح اور رؤیا صادقہ یاد ہے کہ جو اب تک اس عاجز
فرقؔ بسیار است در دید و شنید
خاک بر فرقِ کسے کیں را ندید
دید را کُن جستجو اے ناتمام
ورنہ درکار خودی بس سردو خام
بر سماعت چوں ہمہ باشد بنا
آں نیفزاید جوئے صدق و صفا
صد ہزاراں قصہ از روئے شنید
نیست یکساں باجوئے کاں ہست دید
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 644
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 644
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/644/mode/1up
اس کی کیفیت ظاہر فرمائی اور بیان فرمایا کہ اس ارحم الراحمین کی یوں عادت ہے کہ جب ظلمت اپنے کمال تک پہنچ جاتی ہے اور خط تاریکی کا اپنے انتہائی نقطہ پر جا ٹھہرتا ہے یعنی اس غایت درجہ پر جس کا نام باطنی طور پر لیلۃ القدر ہے۔ تب خداوند تعالیٰ رات کے وقت میں کہ جس کی ظلمت باطنی ظلمت سے مشابہ ہے عالم ظلمانی کی طرف توجہ فرماتا ہے اور اس کے اذن خاص سے ملائکہ اور روح القدس زمین پر اترتے ہیں اور خلق اللہ کی اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ کا نبی ظہور فرماتا ہے تب وہ نبی آسمانی نور پاکر خلق اللہ کو ظلمت سے باہر نکالتا ہے اور جب تکؔ وہ ُ نور اپنے کمال تک نہ پہنچ جائے تب تک ترقی پر ترقی کرتا جاتا ہے اور اسی قانون کے مطابق وہ اولیاء بھی پیدا ہوتے ہیں کہ جو ارشاد اور ہدایت خلق کے لئے بھیجے جاتے ہیں کیونکہ وہ انبیا کے وارث ہیں سو ان کے نقش قدم پر چلائے جاتے ہیں۔
سے ظہور میں آچکے اور صبح صادق کے کھلنے کی طرح پوری بھی ہوچکی ہیں۔ اور دو سو جگہ سے زیادہ قبولیت دعا کے آثار نمایاں ایسےؔ نازک موقعوں پر دیکھے گئے جن میں بظاہر کوئی صورت مشکل کشائی کی نظر نہیں آتی تھی اور اسی طرح کشف قبور اور دوسرے انواع اقسام کے عجائبات اسی سورہ کے التزامِ ورد سے ایسے ظہور پکڑتے گئے کہ اگر ایک ادنیٰ پرتوہ اُن کا کسی پادری یا پنڈت کے دل پر پڑجائے تو یک دفعہ حُبِّ دنیا سے قطع تعلق کرکے اسلام کے قبول کرنے کے لئے مرنے پر آمادہ ہوجائے۔ اسی طرح بذریعہ الہاماتِ صادقہ کے جو پیشگوئیاں اس عاجز پر ظاہر ہوتی
دیںؔ ہمان باشد کہ نورش باقی است
و از شراب دید ہر دم ساقی است
دل مدہ الّا بخوبی کز جمال
و انماید بر تو آیاتِ کمال
کورئ خود ترک کن ماہے بہ بیں
اے گدا برخیز واں شاہے بہ بیں
رو بہ بین و قد بہ بین و خدبہ بیں
واز محاسنہائے خوباں صد بہ بیں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 645
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 645
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/645/mode/1up
اب جاننا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ نے اِس بات کو بڑے پُرزور الفاظ سے قرآن شریف میں بیان کیا ہے کہ دنیا کی حالت میں قدیم سے ایک مدّوجزر واقعہ ہے اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو فرمایا ہے33۔۱ یعنی اے خدا کبھی تو رات کو دن میں اور کبھی دن کو رات میں داخل کرتا ہے یعنی ضلالت کے غلبہ پر ہدایت اور ہدایت کے غلبہ پر ضلالت کو پیدا کرتا ہے۔ اور حقیقت اس مدوجزر کی یہ ہے کہ کبھی بامراللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں میں ایک صورت انقباض اور محجوبیت کی پیدا ہوجاتی ہے اور دنیا کی آرائشیں ان کو عزیز معلوم ہونے لگتی ہیں اور تمام ہمتیں ان کی اپنی دنیا کے درست کرنے میں اور اس کے عیش حاصل کرنے کی طرف مشغول ہوجاتی ہیں۔ یہ ؔ ظلمت کا زمانہ ہے جس کے انتہائی نقطہ کی رات لیلۃ القدر کہلاتی ہے اور وہ لیلۃ القدر ہمیشہ آتی
رہی ہیں جن میں سے بعض پیشگوئیاں مخالفوں کے سامنے پوری ہوگئی ہیں اور پوری ہوتی جاتی ہیں اس قدر ہیں کہ اس عاجز کے خیال میں دو انجیلوں کی ضخامت سے کم نہیں اور یہ عاجز بطفیل متابعت حضرت رسولِ کریم مخاطباؔ ت حضرت احدیّت میں اس قدر عنایات پاتا ہے کہ جس کا کچھ تھوڑا سا نمونہ حاشیہ در حاشیہ نمبر ۳ کے عربی الہامات وغیرہ میں لکھا گیا ہے۔ خداوند کریم نے اسی رسول مقبول کی متابعت اور محبت کی برکت سے اور اپنے پاک کلام کی پیروی کی تاثیر سے اس خاکسار کو اپنے مخاطبات سے خاص کیا ہے اور علومِ لدُنیہ سے سرفراز فرمایا ہے۔
یکدمؔ از خود دور شو بہرخدا
تا مگر نوشی تو کاساتِ لقا
دین حق شہر خدائے امجد است
داخلِ او در امانِ ایزد است
در دمے نیک و خوش اسلوبی کند
ہم چو خود زیبا و محبوبی کند
جانبِ اہلِ سعادت پے بزن
تا شوی روزے سعید اے جانِ من
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 646
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 646
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/646/mode/1up
ہے مگر کامل طور پر اس وقت آئی تھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا دن آپہنچا تھا کیونکہ اس وقت تمام دنیا پر ایسی کامل گمراہی کی تاریکی پھیل چکی تھی جس کی مانند کبھی نہیں پھیلی تھی اور نہ آئندہ کبھی پھیلے گی جب تک قیامت نہ آوے۔ غرض جب یہ ظلمت اپنے اس انتہائی نقطہ تک پہنچ جاتی ہے کہ جو اس کے لئے مقدر ہے تو عنایت الٰہیہ تنویر عالم کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور کوئی صاحب نور دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے اور جب وہ آتا ہے تو اس کی طرف مستعد روحیں کھینچی چلی آتی ہے اور پاک فطرتیں خودبخود رو بحق ہوتی چلی جاتی ہیں اور جیسا کہ ہرگز ممکن نہیں کہ شمع کے روشن ہونے سے پروانہ اس طرف رخ نہ کرے ایسا ہی یہ بھی غیر ممکن ہے کہ بروقت ظہور کسی صاحبِ ُ نور کے صاحب فطرت سلیمہ کا اس کی طرف بارادت متوجہ نہ ہو۔ ان آیات میں جو خدائے تعالیٰ نے بیان
اور بہت سے اسرار مخفیہ سے اطلاع بخشی ہے اور بہت سے حقائق اور معارف سے اس ناچیز کے سینہ کو پُر کردیا ہے اور بارہا بتلا دیا ہے کہ یہ سب عطیّات اور عنایات اور یہ سب تفضّلات اور احسانات اور یہ سب تلطّفات اور توجہات اور یہ سب انعامات اور تائیدات اور یہ سب مکالمات اور مخاطبات بیمن متابعت و محبت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ہیںؔ ۔
جمالِ ہم نشین درمن اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
اب وہ واعظانِ انجیل اور پادریانِ گُم کردہ سبیل کہاں اور کدھر ہیں کہ جو پرلے درجہ کی
اےؔ بصد انکاروکیں از کودنی
رو درِ حق زن چرا سر می زنی
نالہا کُن کے خداوندِ یگاں
بگسلاں از پائے من بند گراں
تا مگر زاں نالہائے درد ناک
دست غیبی گیردت ناگہہ زِ خاک
بے عنایاتِ خدا کار است خام
پُختہ داند ایں سخن را والسلام
منہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 647
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 647
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/647/mode/1up
فرمایا ہے جو بنیاد دعویٰ ہے اُس کا خلاصہ یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ایک ایسی ظلمانی حالتؔ پر زمانہ آچکا تھا کہ جو آفتاب صداقت کے ظاہر ہونے کے متقاضی تھے اسی جہت سے خدائے تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں اپنے رسول کا بار بار یہی کام بیان کیا ہے کہ اس نے زمانہ کو سخت ظلمت میں پایا اور پھر ظلمت سے ان کو باہر نکالا جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ 3 3 ۔۱ الجزو نمبر ۳۱ سورۃ ابراہیم3 333۔۲ الجزو نمبر ۳۔ 3 33۔۳ الجزو نمبر ۲۲۔33 3۔۴ الجزو نمبر۶ سورۂ مائدہ۔
ہٹ دھرمی کو اختیار کرکے محض کینہ اور عناد اور شیطانی سیرت کی راہ سے عوام کالانعام کو یہ کہہ کر بہکاتے تھے کہ آنحضرت صلی۱للہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئی ظہور میں نہیں آئی سو اب منصفان حق پسند خود سوچ سکتے ہیں کہ جس حالت میں حضرت خاتم الانبیاء کے ادنیٰ خادموں اور کمترین چاکروں سے ہزارہا پیشگوئیاں ظہور میں آتی ہیں اور خوارق عجیبہ ظاہر ہوتے ہیں تو پھر کس قدر بے حیائی اور بے شرمی ہے کہ کوئی کور باطن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے انکار کرے اور پادریوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیؔ پیشگوئیوں کے بارہ میں اس وجہ سے فکر پڑی کہ توریت کتاب استثناء باب ہژدہم آیت بست و دوم میں سچے نبی کی یہ نشانی لکھی ہے کہ اس کی پیشگوئی پوری ہوجائے۔ سو جب پادریوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہزارہا خبریں قبل از وقوع بطور پیشگوئی فرمائی ہیں اور اکثر پیشگوئیوں سے قرآن شریف بھی بھرا ہوا ہے اور وہ سب پیشگوئیاں اپنے وقتوں پر پوری بھی ہوگئیں تو ان کے دل کو یہ دھڑکا شروع ہوا کہ ان پیشگوئیوں پر نظر ڈالنے سے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 648
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 648
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/648/mode/1up
333 33۔۱ الجزو نمبر ۸۲۔ یعنی یہ ہماری کتاب ہے جس کو ہم نے تیرے پر اس غرض سے نازل کیا ہے کہ تا تو لوگوں کو کہ جو ظلمت میں پڑے ہوئے ہیں نور کی طرف نکالے سوؔ خدا نے اُس زمانہ کا نام ظلمانی زمانہ رکھا اور پھر فرمایا کہ خدا مومنوں کا کارساز ہے ان کو ظلمات سے نور کی طرف نکال رہا ہے اور پھر فرمایا کہ خدا اور اس کے فرشتے مومنوں پر درود بھیجتے ہیں تا خدا ان کو ظلمت سے نور کی طرف نکالے اور پھر فرمایا کہ ظلمانی زمانہ کے تدارک کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نور آتا ہے وہ نور اس کا رسول اور اس کی کتاب ہے خدا اس نور سے ان لوگوں کو راہ دکھلاتا ہے کہ جو اس کی خوشنودی کے خواہاں ہیں سو ان کو خدا ظلمات سے نور کی طرف نکالتا ہے اور سیدھی راہ کی
نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بدیہی طور پر ثابت ہوتی ہے اور یا یہ کہنا پڑتا ہے کہ جو کچھ توریت یعنی کتاب استثنا۸۱ باب ۱۲ و ۲۲ آیت میں سچے نبی کی نشانی لکھی ہے وہ نشانی صحیح نہیں ہے سو اس پیچ میں آکر نہایت ہٹ دھرمی سے ان کو یہ کہنا پڑا کہ وہ پیشگوئیاں اصل میں فراستیں ہیں کہ اتفاقاً پوری ہوگئی ہیں لیکن چونکہ جس درخت کی بیخ مضبوط اور طاقتیں قائم ہیں وہ ہمیشہ پھل لاتا ہے۔ اس جہت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں اور دیگر خوارق صرف اسی زمانہ تک محدود نہیں تھے بلکہ اب بھی ان کا برابر سلسلہ جاری ہے اگر ؔ کسی پادری وغیرہ کو شک و شبہ ہو تو اس پر لازم و فرض ہے کہ وہ صدق اور ارادت سے اس طرف توجہ کرے پھر دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں کس قدر اب تک بارش کی طرح برس رہی ہیں لیکن اس زمانہ کے متعصب پادری اگر خودکشی کا ارادہ کریں تو کریں مگر یہ امید اُن پر بہت ہی کم ہے کہ وہ طالب صادق بن کر کمال ارادت اور صدق سے اس نشان کے جویاں ہوں۔ بہرحال دوسرے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 649
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 649
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/649/mode/1up
ہدایت دیتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدا نے اپنی کتاب اور اپنا رسول بھیجا وہ تم پر کلام الٰہی پڑھتا ہے تا وہ ایمانداروں اور نیک کرداروں کو ظلمات سے نور کی طرف نکالے پس خدائے تعالیٰ نے ان تمام آیات میں کھلا کھلی بیان فرما دیا کہ جس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے اور قرآن شریف نازل کیا گیا اُس زمانہ پر ضلالت اور گمراہی کی ظلمت طاری ہورہی تھی اور کوئی ایسی قوم نہیں تھی کہ جو اس ظلمت سے بچی ہوئی ہو پھر بقیہ ترجمہ آیات ممدوحہ بالا کا یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایک رسولؔ بھیجا ہے کہ تمہاری حالت معصیت اور ضلالت پر شاہد ہے اور یہ رسول اُسی رسول کی مانند ہے کہ جو فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا اور ہم نے اس کلام کو ضرورت حقہ کے ساتھ اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ یہ اترا ہے یعنی یہ کلام ِ فی حدِّ ذَاتہٖ حق اور راست ہے اور اس کا آنا بھی حقاًّ و ضرورتاً ہے
لوگوں پر یہ بات واضح رہے کہ جس حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات اب بھی آفتاب کی طرح روشن ہیں اور دوسرے کسی نبی کی برکات کا نشان نہیں ملتا۔ تو اس صورت میں لازم ہے کہ اگر ایسے متعصب اور دنیا پرست پادری کسی بازار یا کسی شہر یا گاؤں میں کسی کو برخلاف اس حق الامر کے بہکاتے نظر آویں تو یہی موقعہ اس کتاب کا ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا جاوے۔ کیونکہ یہ کتاب دس ہزار روپیہ کے اشتہار پر تالیف کی گئی ہے اور اس سے معارضہ کرنے والا دس ہزار روپیہ پاسکتا ہے پس شرم اور حیا سے نہایت بعید ہے کہ جو لوگ نبوتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منکر ہیں وہ پنڈت ہوں یا پادری آریہ ہوں یا برہموں وہ صرف زبان سے طریق فضول گوئی کا اختیار رکھیں اور جو دلائل قطعیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور رسالت پر ناطق ہورہی ہیں ان کے جو ۱ب کا کچھ فکر نہ کریں یہ عاجز خواہ نخواہ ان کو دینِ اسلام کے قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کرتا لیکن اگر مقابلہ و معارضہ سے عاجز رہیں اور جو کچھ آسمانی نشان اور عقلی دلائل حقیتِ اسلام
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 650
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 650
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/650/mode/1up
یہ نہیں کہ فضول اور بے فائدہ اور بے وقت نازل ہوا ہے اے اہل کتاب تمہارے پاس ایسے وقت میں ہمارا رسول آیا ہے کہ جبکہ ایک مدت سے رسولوں کا آنا منقطع ہو رہا تھا۔ سو وہ رسول َ فترت کے زمانہ میں آکر تم کو وہ راہِ راست بتلاتا ہے جس کو تم بھول گئے تھے تا تم یہ نہ کہو کہ ہم یونہی گمراہ رہے اور خدا کی طرف سے کوئی بشیر و نذیر نہ آیا جو ہم کو متنبہ کرتا ۔ سو اب سمجھو کہ وہ بشیر نذیر جس کی ضرورت تھی آگیا اور خدا جو ہر چیز پر قادر ہے اُس نے تم کو گمراہ پاکر اپنا کلام اور اپنا رسول بھیج دیا۔ اور تم آگ کے گڑؔ ھے کے کنارہ تک پہنچ چکے تھے سو خدا نے تم کو اے ایماندارو نجات دی اسی طرح وہ اپنے نشان کو بیان فرماتا ہے تا تم ہدایت پا جاؤ اور تا عذاب کے نازل ہونے پر گمراہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اے خداتو نے قبل از عذاب اپنا رسول کیوں نہ بھیجا تا ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور مومن بن جاتے اور
پر دلالت کررہے ہیں اُن کی نظیر اپنے مذہب میں ؔ پیش نہ کرسکیں تو پھر یہی لازم ہے کہ جھوٹ کو چھوڑ کر سچے مذہب کو قبول کرلیں۔
اب پھر ہم اپنی اصل تقریر کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ جس قدر میں نے اب تک لطائف و معارف و خواص سورۃ فاتحہ لکھے ہیں وہ بدیہی طور پر بے مثل و مانند ہیں مثلًا جو شخص ذرا منصف بن کر اول اُن صداقتوں کے اعلیٰ مرتبہ پر غور کرے جو کہ سورۃ فاتحہ میں جمع ہیں اور پھر اس لطائف اور نکات پر نظر ڈالے جن پر سورہ ممدوحہ مشتمل ہے اور پھر حسنِ بیان اور ایجازِ کلام کو مشاہدہ کرے کہ کیسے معانی کثیرہ کو الفاظ قلیلہ میں بھرا ہؤا ہے اور پھر عبارت کو دیکھیئے کہ کیسی آب وتاب رکھتی ہے اور کسی قدر روانگی اور صفائی اور ملائمت اس میں پائی جاتی ہے کہ گویا ایک نہایت مصفّٰی اور شفّاف پانی ہے کہ بہتا ہؤا چلا جاتا ہے اور پھر اُس کی روحانی تاثیروں کو دل میں سوچے کہ جو بطور خارقِ عادت دلوں کو ظلمات بشریت سے صاف کرکے موردِ انوارِ حضرت الوہیت بناتی ہیں جن کو ہم اس کتاب کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 651
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 651
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/651/mode/1up
اگر خدا صالح لوگوں کے ذریعہ سے گمراہوں کا تدارک نہ فرماتا اور بعض کو بعض سے دفعہ* نہ کرتا تو زمین بگڑ جاتی پر یہ خدا کا فضل ہے کہ وہ گمراہی کے پھیلنے کے وقت اپنی طرف سے ہادی بھیجتا ہے کیونکہ تفضل اور احسان اُس کی عادت ہے اورتجھ کو ہم نے اس لیے بھیجا ہے کہ تمام عالم پر نظرِ رحمت کریں اور نجات کا راستہ اُن پر کھول دیں اور تا تُو لوگوں کو کہ غفلت کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں حق کی طرف توجہ دلاوے اوراُن کو خبردار کرے۔ کیا تُو یہ خیال کرتا ہے کہ اکثر لوگ اُن میں سے سُنتے اور سمجھتے ہیں نہیں یہؔ تو چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بدتر اور اگر خدا ان لوگوں سے
ہر موقعہ پر ثابت کرتے چلے جاتے ہیں228تو اُس پر قرآنِ شریف کی شانِ بلند جس سے انسانی طاقتیں مقابلہ نہیں کرسکتیں ایسی وضاحتؔ سے کھل سکتی ہے جس پر زیادت متصور نہیں اور اگر باوجود مشاہدہ اِن کمالات کے پھر بھی کسی کور باطن پر عدیم المثالی اُس کلامِ مقدس کی مشتبہ رہے تو اُس کا علاج قرآنِ شریف نے آپ ہی ایسا کیا
228یہ ؔ عاجز اِس مقام تک لکھ چُکا تھا کہ شہاب الدین نامی ایک شخص موحّد ساکن تھہ غلام نبی نے آکر بیان کیا کہ مولوی غلام علی صاحب اور مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری اور مولوی عبدالعزیز صاحب اور بعض دوسرے مولوی صاحبان اس قسم کے الہام سے کہ جو رسولوں کے وحی سے مشابہ ہے باصرارِ تمام انکار کررہے ہیں بلکہ اِن میں سے بعض مولوی صاحباؔ ن مجانین کے خیالات سے اُس کو منسوب کرتے ہیں۔ اور اُن کی اِس بارہ میں حجت یہ ہے کہ اگر یہ الہام حق اور صحیح ہے تو صحابہ جناب پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم اِس کے پانے کے لئے احق اور اَولیٰ تھے حالانکہ اُن کا پانا متحقق نہیں۔ اب یہ احقر عباد عرض کرتا ہے کہ اگر یہ اعتراض جو شہاب الدین موحّد نے مولوی صاحبوں کی طرف سے بیان کیا ہے حقیقت میں اُنہیں کے مونہہ سے نکلا ہے تو بجواب اِس کے ہر یک طالبِ صادق کو اور نیز حضراتِ ممدوحہ کو یاد رکھنا چاہیئے کہ عدم علم سے عدمِ شَے لازم نہیں آتا۔ کیا ممکن نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اِس قِسم کے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 652
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 652
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/652/mode/1up
ان کے گناہوں کا مواخذہ کرتا تو زمین پر ایک بھی زندہ نہ چھوڑتا اور خدا وہ ذات کریم و رحیم ہے کہ جو بارش سے پہلے ہواؤں کو چھوڑتا ہے پھر ہم ایک پاک پانی آسمان سے اتارتے ہیں تا اس سے مری ہوئی بستی کو زندہ کریں اور پھر بہت سے آدمیوں اور ان کے چارپایوں کو پانی پلاویں اور ہم پھیر پھیر کر مثالیں بتلاتے ہیں تا لوگ یاد کرلیں کہ نبیوں کے بھیجنے کا یہی اصول ہے اور اگر ہم چاہتے تو ہریک بستی کے لئے جُدا جُدا رسول بھیجتے مگر یہ اس لئے کیا گیا کہ تا تجھ سے بھاری کوششیں ظہور میں آویں یعنی جب ایک مرد ہزاروں کا کام کرے گا تو بلاشبہ وہ بڑا اجر پائے گا اور
الہامات پائے ہوں مگر مصلحتِ وقت سے عام طور پر ان کو شائع نہیں کیا اور خدائے تعالیٰ کو ہریک نئے زمانہ میں نئے نئے مصالحہ ہیں پس نبوت کے عہد میں مصلحت ربانی کا یہی تقاضا تھا کہ جو غیر نبی ہے اُس کے الہامات نبی کی وحی کی طرح قلمبند نہ ہوں تا غیر نبی کے کلام سے تداخل واقعہ نہ ہوجائے لیکن اُس زمانہ کے بعد جس قدر اولیاء اور صاحب کمالات باطنیہ گزرے ہیں اُن سب کے الہامات مشہور و متعارف ہیں کہ جوہریک عصر میں قلمبند ہوتے چلے آئے ہیں اس کی تصدیق کے لئے شیخ عبدالقادر جیلانی اور مجدد الف ثانی کےؔ مکتوبات اور دوسرے اولیاء اللہ کی کتابیں دیکھنی چاہئیں کہ کس کثرت سے ان کے الہامات پائے جاتے ہیں بلکہ امام ربانی صاحب اپنے مکتوبات کی جلد ثانی میں جو مکتوب پنجاہ و یکم ہے اس میں صاف لکھتے ہیں کہ غیر نبی بھی مکالمات و مخاطبات حضرتِ احدیّت سے مشرّف ہوجاتا ہے اور ایسا شخص محدّث کے نام سے موسوم ہے اور انبیاء کے مرتبہ سے اُس کا مرتبہ قریب واقعہ ہوتا ہے ایسا ہی شیخ عبدالقادر جیلانی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 653
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 653
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/653/mode/1up
یہ امر اس کی افضلیت کا موجب ہوگا سو چونکہ آنحضرتؔ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیاء اور سب رسولوں سے بہتر اور بزرگتر تھے اور خدائے تعالیٰ کو منظور تھا کہ جیسے آنحضرت اپنے ذاتی جوہر کے رو سے فی الواقعہ سب انبیاء کے سردار ہیں ایسا ہی ظاہری خدمات کے رو سے بھی ان کا سب سے فائق اور برتر ہونا دنیا پر ظاہر اور روشن ہوجائے اس لئے خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو کافہ بنی آدم کے لئے عام رکھا تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محنتیں اور کوششیں عام طور پر ظہور میں آویں۔ موسیٰ اور ابن مریم کی طرح ایک خاص
صاحب نے فتوح الغیب کے کئی مقامات میں اس کی تصریح کی ہے۔ اور اگر اولیاء اللہ کے ملفوظات اور مکتوبات کا تجسس کیا جائے تو اس قسم کے بیانات ان کے کلمات میں بہت سے پائے جائیں گے اور اُمتِ محمدیہ میں محدّثیّت کا منصب اِس قدر بکثرت ثابت ہوتا ہے جس سے انکار کرنا بڑے غافل اور بے خبر کا کام ہے۔ اس امت میں آج تک ہزارہا اولیاء اللہ صاحب کمال گذرے ہیں جن کی خوارق اور کرامات بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ثابت اور متحقق ہوچکی ہیں اور جو شخص تفتیش کرے اس کو معلوم ہوگا کہ حضرتِ احدیّت نے جیسا کہ اس امت کاخیر الامم نام رکھا ہے ایسا ہی اس امت کے اکابر کو سب سے زیادہ کمالات بھی بخشے ہیں جو کسی طرح چھپ نہیں سکتے اور اُن سے انکار کرنا ایک سخت درجہ کی حق پوشی ہے۔ اورؔ نیز ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ الزام کہ صحابہ کرام سے ایسے الہامات ثابت نہیں ہوئے بالکل بے جا اور غلط ہے کیونکہ احادیث صحیحہ کے رو سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے الہامات اور خوارق بکثرت ثابت ہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ساریہ کے لشکر کی خطرناک حالت سے باعلام الٰہی مطلع ہوجانا جس کو بیہقی نے ابن عمر سے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 654
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 654
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/654/mode/1up
قوم سے مخصوص نہ ہوں اور تاہریک طرف سے اور ہریک گروہ اور قوم سے تکالیفِ شاقہ اٹھا کر اس اجر عظیم کے مستحق ٹھہرجائیں کہ جو دوسرے نبیوں کو نہیں ملے گا۔ اور پھر فرمایا کہ خدا وہ ہے کہ جو راتؔ کے بعد دن اور دن کے بعد رات لاتا ہے تا جس نے یاد کرنا ہو وہ یاد کرے یا شکر کرنا ہو تو شکر کرے یعنی دن کے بعد رات کا آنا اور رات کے بعد دن کا آنا اس بات پر ایک نشان ہے کہ جیسے ہدایت کے بعد ضلالت اور غفلت کا زمانہ آجاتا ہے ایسا ہی خدا کی طرف سے یہ بھی مقرر ہے کہ ضلالت اور غفلت کے بعد ہدایت کا زمانہ آتا ہے اور پھر فرمایا کہ خدا وہ ذات قادر مطلق ہے جس نے بشر کو اپنی قدرتِ کاملہ سے پیدا کیا پھر اُس کے لئے نسل اور رشتہ مقرر کردیا
یاد رکھو کہ ہرگز بنا نہ سکو گے سو اُس آگ سے ڈرو جو کافروں کے ؔ لئے طیار ہے۔ جس کا ایندھن کافر آدمی اور ان کے بت ہیں جونارِ جہنم کو اپنے گناہوں اور شرارتوں سے افروختہ کررہے ہیں یہ قول فیصل ہے کہ جو خدائے تعالیٰ نے منکرینِ
روایت کیا ہے اگر الہام نہیں تھا تو اور کیا تھا اور پھر اُن کی یہ آواز کہ یا ساریہ الجبل الجبل مدینہ میں بیٹھے ہوئے مونہہ سے نکلنا اور وہی آواز قدرتِ غیبی سے ساریہ اور اس کے لشکر کو دور دراز مسافت سے سنائی دینا اگر خارقِ عادت نہیں تھی تو اور کیا چیز تھی۔ اسی طرح جناب علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ کے بعض الہامات و کشوف مشہور و معروف ہیں ماسوا اس کے میں پوچھتا ہوں کہ کیا خدائے تعالیٰ کا قرآن شریف میں اس بارہ میں شہادت دینا تسلی بخش امر نہیں ہے کیا اس نے صحابہ کرام کے حق میں نہیں فرمایا 3۔۱ پھر جس حالت میں خدائے تعالیٰ اپنے نبی کریم کے اصحاب کو امم سابقہ سے جمیع کمالات میں بہتر و بزرگتر ٹھہراتا ہے اور دوسری طرف بطور مشتے نمونہ از خروارے پہلی اُمتوں کے کاملین کا حال بیان کرکے کہتا ہے کہ مریم صدیقہ والدہ عیسیٰ اور ایسا ہی والدہ حضرت موسیٰ اور نیز حضرت مسیح کے حواری اورؔ نیز خضر جن میں سے کوئی بھی نبی نہ تھا یہ جب ملہم من اللہ تھے اور بذریعہ وحی اعلام اسرار غیبیہ سے مطلع کئے جاتے تھے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 655
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 655
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/655/mode/1up
اِسی طرح وہ انسان کی روحانی پیدائش پر بھی قادر تھا یعنی اس کا قانون قدرت روحانی پیدائش میں بعینہٖ جسمانی پیدائش کی طرح ہے کہ اول وہ ضلالت کے وقت میں کہ جو عدم کا حکم رکھتا ہے کسی انسان کو روحانی طور پر اپنے ہاتھ سے پیداؔ کرتا ہے اور پھر اس کے متبعین کو کہ جو اس کی ذُرّیت کا حکم رکھتے ہیں بہ برکت متابعت اس کی کے روحانی زندگی عطا فرماتا ہے سو تمام مرسل روحانی آدم ہیں اور اُن کی اُمت کے نیک لوگ اُن کی روحانی نسلیں ہیں اور روحانی اور جسمانی سلسلہ بالکل آپس میں تطابق رکھتا ہے اور خدا کے ظاہری اور باطنی قوانین میں کسی نوع کا
اعجازِ قرآنی کے ملزم کرنے کے لئے آپ فرما دیا ہے۔ اب اگر کوئی ملزم اور لاجواب رہ کر پھر بھی قرآن شریف کی بلاغت بے مثل سے منکر رہے اور بیہودہ گوئی اور ژاژ خائی
سو اب سوچنا چاہئیے کہ اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اُمت محمدیہ کے کامل متبعین اُن لوگوں کی نسبت بوجہ اولیٰ ملہم و محدّث ہونے چاہیئیں کیونکہ وہ حسب تصریح قرآن شریف خیر الامم ہیں۔ آپ لوگ کیوں قرآن شریف میں غور نہیں کرتے اور کیوں سوچنے کے وقت غلطی کھا جاتے ہیں کیا آپ صاحبوں کو خبر نہیں کہ صحیحین سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی۱للہ علیہ وسلم اِس اُمت کے لئے بشارت دے چکے ہیں کہ اِس اُمت میں بھی پہلی اُمتوں کی طرح محدّث پیدا ہوں گے اور محدث بفتح دال وہ لوگ ہیں جن سے مکالمات و مخاطبات الٰہیہ ہوتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ ابن عباس کی قراء ت میں آیا ہے وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث الا اذا تمنّٰی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللّٰہ ما یلقی الشیطان ثم یحکم اللّٰہ اٰیاتہ۔ پس اس آیت کے رو سے بھی جس کو بخاری نے بھی لکھا ہے محدّث کا الہام یقینی اور قطعی ثابت ہوتا ہے جس میں دخل شیطان کا قائم نہیں رہ سکتا اور خود ظاہر ہے کہ اگر خضر اور موسیٰ کی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 656
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 656
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/656/mode/1up
اختلاف نہیں۔ اور پھر فرمایا کہ کیا تُو خدا کی طرف دیکھتا نہیں کہ وہ کیونکر سایہ کو لمبا کھینچتا ہے یہاں تک کہ تمام زمین پر تاریکی ہی دکھائی دیتی ہے اور اگر وہ چاہتا تو ہمیشہ تاریکی رکھتا اور کبھی روشنی نہ ہوتی لیکن ہم آفتاب کو اس لئے نکالتے ہیں کہ تا اس بات پر دلیل قائم ہوکہ اُس سے پہلے تاریکی تھی یعنی تا بذریعہ روشنی کے تاریکی کا وجود شناخت کیا جائے کیونکہ ضد کے ذریعہ سے ضد کا پہچاننا ؔ بہت آسان ہوجاتا ہے اور روشنی کا قدرومنزلت اُسی پرکھلتا ہے کہ جو تاریکی کے وجود پر علم رکھتا ہو اور پھر فرمایا کہ ہم تاریکی کو روشنی کے ذریعہ سے تھوڑا تھوڑا دور کرتے جاتے ہیں تا
سے باز نہ آوے تو ؔ ایسے بے حیا منقلب الفطرت کا اس دنیا میں علاج نہیں ہوسکتا اس کے لئے وہی علاج ہے جس کا خدا نے اپنے قول فیصل میں وعدہ فرمایا ہے
والدہ کا الہام صرف شکوؔ ک اور شبہات کا ذخیرہ تھا اور قطعی اور یقینی نہ تھا تو ان کو کب جائز تھا کہ وہ کسی بے گناہ کی جان کو خطرہ میں ڈالتے یا ہلاکت تک پہنچاتے یا کوئی دوسرا ایسا کام کرتے جو شرعاً و عقلاً جائز نہیں ہے۔ آخر یقینی علم ہی تھا جس کے باعث سے وہ کام کرنا ان پر فرض ہوگیا تھا اور وہ امور اُن کے لئے روا ہوگئے کہ جو دوسروں کے لئے ہرگز روا نہیں۔ پھر ماسوا اِس کے ذرا انصافاًسوچنا چاہئیے کہ کوئی امر مشہود و موجود کہ جو بپایہ صداقت پہنچ چکا ہو اور تجاربِ صحیحہ کے رو سے راست راست ثابت ہوتا ہو صرف ظنی خیالات سے متزلزل نہیں ہوسکتا وَالظَّنُّ لَا یُغْنِیْ عَنِ الْحَقِّ شَیْءًا۔ سو اس عاجز کے الہامات میں کوئی ایسا امر نہیں ہے جو زیر پردہ اور مخفی ہو بلکہ یہ وہ چیز ہے کہ جو صدہا امتحانوں کی بوتہ میں داخل ہوکر سلامت نکلی ہے اور خداوند کریم نے بڑے بڑے تنازعات میں فتح نمایاں بخشی ہے اس مقام میں یاد آیا کہ جو رویا صادقہ حصہ سوم میں ایک ہندوؔ کے مقدمہ کے بارہ میں لکھی گئی ہے اس میں بھی ایک عجیب نزاع و انکار کے موقع پر الہام ہوا تھا جس سے ایک بڑا قلق اور
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 657
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 657
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/657/mode/1up
اندھیرے میں بیٹھنے والے اُس روشنی سے آہستہ آہستہ منتفع ہوجائیں اور جو یکدفعی انتقال میں حیرت ووحشت مُتصوّر ہے وہ بھی نہ ہو سو اسی طرح جب دنیا پر روحانی تاریکی طاری ہوتی ہے تو خلقت کو روشنی سے منتفع کرنے کے لئے اور نیز روشنی اور تاریکی میں جو فرق ہے وہ فرق ظاہر کرنے کے لئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے آفتابِ صداقت نکلتا ہے اور پھر وہ آہستہ آہستہ دنیا پر طلوع کرتا جاتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ خدائے تعالیٰ کا یہ قانون قدرت ہے کہ جب زمین مر جاتی ہے تو وہ نئے سرے زمین کو زندہ کرتا ہے۔ ہم ؔ نے کھول کر یہ نشان بتلائے ہیں تاہو کہ لوگ
بعض شریر اور کینہ پرور آدمی جنہوں نے ضد اور نفسانیت پر مضبوطی سے قدم مار رکھا ہے۔ اور جن کو تعصب کی ُ تند اندؔ ھیری نے بالکل اندھا کردیا ہے وہ لوگوں کو یہ کہہ کر بہکاتے ہیں کہ جس قدر لطائف و نکات قرآن کے مسلمان لوگ ذکر کرتے ہیں اور جس قدر
کرب دور ہوا۔ تفصیل اِس کی یہ ہے کہ اِس رؤیا صادقہ میں کہ ایک کشفِؔ صریح کی قسم تھی۔ یہ معلوم کرایا گیا تھا کہ ایک کھتری ہندو بشمبرداس نامی جو اب تک قادیان میں بقید حیات موجود ہے مقدمہ فوجداری سے بری نہیں ہوگا مگر آدھی قید تخفیف ہوجائے گی لیکن اُس کا دوسرا ہم قید خوشحال نامی کہ وہ بھی اب تک قادیان میں زندہ موجود ہے ساری قید بھگتے گا سو اِس جُزو کشف کی نسبت یہ ابتلا پیش آیا کہ جب چیف کورٹ سے حسب پیشگوئی ایں عاجز مثل مقدمہ مذکورہ واپس آئی تو متعلقین مقدمہ نے اس واپسی کو بریت پر حمل کرکے گاؤں میں یہ مشہور کردیا کہ دونوں ملزم جرم سے بری ہوگئے ہیں مجھ کو یاد ہے کہ رات کے وقت میں یہ خبر مشہور ہوئی اور یہ عاجز مسجد میں عشاء کی نماز پڑھنے کو طیار تھا کہ ایک نے نمازیوں میں سے بیان کیا کہ یہ خبر بازار میں پھیل رہی ہے اور ملزمان گاؤں میں آگئے ہیں۔ سو چونکہ یہ عاجز علانیہ لوگوں میں کہہ چکا تھا کہ دونوں مجرم ہرگز جرم سے بری نہیں ہوں گے اس لئے جو کچھ غم اور قلق اور کرب اس وقت گزرا سو گزرا۔ تب خدا نے کہ جو اِس عاجز بندہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 658
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 658
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/658/mode/1up
سوچیں اور سمجھیں۔
ان آیات میں خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف کی ضرورت نزول کی اور اس کے منجانب اللہ ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے کہ قرآن شریف ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب تمام اُمتوں نے اُصولِ حقہ کو چھوڑ دیا تھا اور کوئی دین روئے زمین پر ایسا نہ تھا کہ جو خدا شناسی اور پاک اعتقادی اور نیک عملی پر قائم اور بحال ہوتا بلکہ سارے دین بگڑگئے تھے اور ہریک مذہب میں طرح طرح کا فساد دخل کرگیا تھا اور خود لوگوں کے طبائع میں دنیا پرستی کی محبت اس قدر بھر گئی تھی کہ بجز دنیا اور دنیا کے ناموں اور دنیاکے آراموں
خواص عجیبہ اس کے مسلمانوں کی کتابوں میں اندراج پائے ہیں یہ سب انہیں کے فہم کی تیزی ہے اور انہیں کی طبیعتوں کے ایجادات ہیں ورنہ دراصل قرآن لطائف و نکات و خواصِ عجیبہ سے خالی ہے مگرؔ ایسے لوگ بجز اس کے کہ اپنا ہی حمق اور خبث
کاہریک حال میں حامی ہے نماز کے اول یا عین نماز میں بذریعہ الہام یہ بشارتؔ دی لا تخف انک انت الاعلٰی اور پھر فجر کو ظاہر ہوگیا کہ وہ خبر َ بری ہونے کی سراسر جھوٹی تھی اور انجام کار وہی ظہور میں آیا کہ جو اس عاجز کو خبر دی گئی تھی جس کو شرمپت نامی ایک آریہ اور چند دوسرے لوگوں کے پاس قبل از وقوع بیان کیا گیا تھا کہ جو اب تک قادیان میں موجود ہیں۔ پھر ایک اور ایسا ہی پروحشت ماجرا گزرا جس کا قصہ اس سے بھی عجیب تر ہے اور تفصیل اس کی یہ ہے کہ ایک مقدمہ میں کہ اس عاجز کے والد مرحوم کی طرف سے اپنی زمینداری حقوق کے متعلق کسی رعیت پر دائر تھا اس خاکسار پر خواب میں یہ ظاہر کیا گیا کہ اس مقدمہ میں ڈگری ہوجائے گی چنانچہ اس عاجز نے وہ خواب ایک آریہ کو کہ جو قادیان میں موجود ہے بتلا دی پھر بعد اس کے ایسا اتفاق ہوا کہ اخیر تاریخ پر صرف مدعا علیہ معہ اپنے چند گواہوں کے عداؔ لت میں حاضر ہوا اور اس طرف سے کوئی مختار وغیرہ حاضر نہ ہوا۔ شام کو مدعا علیہ اور سب گواہوں نے واپس آکر بیان کیا کہ مقدمہ خارج ہوگیا۔ اِس خبر کو سنتے ہی
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 659
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 659
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/659/mode/1up
اور دنیا کی عزتوں اور دنیا کی راحتوں اور دنیا کے مال و متاع کے اور کچھ ان کا مقصد نہیں رہاؔ تھا اور خدائے تعالیٰ کی محبت اور اس کے ذوق اور شوق سے بکُلّی بے بہرہ اور بے نصیب ہوگئے تھے اور رسوم اور عادت کو مذہب سمجھا گیا تھا پس خدا نے جس کا یہ قانون قدرت ہے کہ وہ شدتوں اور صعوبتوں کے وقت اپنے عاجز بندوں کی خبرلیتا ہے اور جب کسی سختی سے جیسے اِمساکِ باراں وغیرہ سے اس کے بندے قریب ہلاکت کے ہوجاتے ہیں بارانِ رحمت سے اُن کی مشکل کشائی کرتا ہے نہ چاہا کہ خلق اللہ ایسی بلا میں مبتلا رہے جس کا نتیجہ ہلاکت دائمی اور ابدی ہے سو اُس نے بہ تعمیل اپنے
ظاہر کریں انوارِ قرآنی پر پردہ ڈال نہیں سکتے۔ اُن کے جواب میں یہی کہنا کافی ہے کہ اگر مسلمانوں نے خود اپنی ہی زیرکی سے قرآن شریف میں انواع و اقسام کے لطائف و نکات و خواص ایجاد کر لئے ہیں اور اصل میں موجود نہیں تو تم بھی اُن کے مقابلہ پر کسی اپنی
وہ آریہ تکذیب اور استہزاء سے پیش آیا۔ اس وقت جس قدر قلق اور کرب گزرا بیان میں نہیں آسکتا۔ کیونکہ قریب قیاس معلوم نہیں ہوتا تھا کہ ایک گروہ کثیر کا بیان جن میں بے تعلق آدمی بھی تھے خلاف واقعہ ہو اس سخت حزن اور غم کی حالت میں نہایت شدت سے الہام ہوا کہ جو آہنی میخ کی طرح دل کے اندر داخل ہوگیا اور وہ یہ تھا۔ ڈگری ہوگئی ہے مسلمان ہے۔ یعنی کیا تو باور نہیں کرتا اور باوجود مسلمان ہونے کے شک کو دخل دیتا ہے۔ آخر تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ فی الحقیقت ڈگری ہی ہوئی تھی اور فریق ثانی نے حکم کے سُننے میں دھوکا کھایا تھا۔ اسی طرح فی الواقعہ بلا مبالغہ صدہا الہام ہیں کہ جو فلق صبح کی طرح پورے ہوگئے اور بہت سے الہاماتؔ بطور اسرار ہیں جن کو یہ عاجز بیان نہیں کرسکتا۔ بارہا عین مخالفوں کی حاضری کے وقت میں ایسا کھلا کھلا الہام ہوا ہے جس کے پورا ہونے سے مخالفوں کو بجز اقرار کے اور کوئی راہ نظر نہیں آیا۔ ابھی چند روز کا ذکر ہے کہ یکدفعہ بعض امور میں تین طرح
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 660
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 660
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/660/mode/1up
قانون قدیم کے کہ جو جسمانی اور روحانی طور پر ابتدا سے چلا آتا ہے قرآن شریف کو خلق اللہ کی اصلاح کے لئے نازل کیا اور ضرور تھا کہ ایسے وقت میں قرآن شریف نازل ہوتا کیونکہ اس پرظلمت زمانہ کی حالت موجودہ کوؔ ایسی عظیم الشان کتاب اور ایسے عظیم الشان رسول کی حاجت تھی اور ضرورتِ حقّہ اس بات کی متقاضی ہورہی تھی کہ اس تاریکی کے وقت میں جو تمام دنیا پر چھا گئی تھی اور اپنے انتہائی درجہ تک پہنچ چکی تھی آفتاب صداقت کا طلوع کرے کیونکہ بجز طلوع اُس آفتاب کے ہرگز ممکن نہ تھا کہ ایسی اندھیری رات خودبخود روز روشن کی صورت پکڑ جائے اور اسی کی طرف ایک دوسرے مقام میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور وہ یہ ہے۔
الہامی کتاب یا کسی ؔ دوسری کتاب سے اسی قدر لطائف و نکات و خواص ایجاد کرکے دکھلاؤ اور اگر تمام قرآن شریف کے مقابلہ پر نہیں تو صرف بطور نمونہ سورۃ فاتحہ کے مقابلہ پر جس کے کمالات کسی قدر اسی حاشیہ میں بیان کئے گئے ہیں کسی اور کتاب سے نکال کر پیش کرو
کا غم پیش آگیا تھا جس کے تدارک کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ اور بجز حرج و نقصان اٹھانے کے اور کوئی سبیل نمودار نہ تھی اسی روز شام کے قریب یہ عاجز اپنے معمول کے مطابق جنگل میں سیر کو گیا اور اس وقت ہمراہ ایک آریہ ملا وامل نامی تھا جب واپس آیا تو گاؤں کے دروازہ کے نزدیک یہ الہام ہوا ننجیک من الغمّ۔ پھر دوبارہ ہوا ننجیک من الغمّ الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شیء قدیر۔ یعنی ہم تجھے اس غم سے نجات دیں گے ضرور نجات دیں گے کیا تو نہیں جانتا کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ چنانچہ اُسی قدم پر جہاںؔ الہام ہوا تھا۔ اُس آریہ کو اس الہام سے اطلاع دی گئی تھی اور پھر خدا نے وہ تینوں طور کا غم دور کردیا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔ اور ایک اتفاقات عجیبہ سے یہ بات ہے کہ جس وقت شہاب الدین موحد نے مولوی صاحبان ممدوحین کی رائے بیان کی اسی رات انگریزی میں ایک الہام ہوا کہ جو شہاب الدین کو سنایا گیا۔ اور وہ یہ ہے۔ دوہ آل مین شڈبی اینگری بٹَ گوڈ اِز وِدیو۔ ہی شیل
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 661
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 661
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/661/mode/1up
3 333 ۔۱ یعنی جو لوگ اہل کتاب اور مشرکین میں سے کافر ہوگئے اُن کا راہ راست پر آنا بجز اس کے ہرگز ممکن نہ تھا کہ ان کی طرف ایسا عظیم الشان نبی بھیجا جاوے جو ایسی عظیم الشان کتاب لایا ہے کہ جو سب الٰہی کتابوں کے معارف اور صداقتوں پر محیط اور ہریک غلطی اور نقصان سے پاک اور منزّہ ہے۔ ابؔ اس دلیل کا ثبوت دو مقدموں کے ثبوت پر موقوف ہے اوّل یہ کہ خدائے تعالیٰ کا یہی قانون قدیم ہے کہ
افسوس کہاں سے یہ مادر زاد اندھے پیدا ہوگئے کہ جو اس قدر روشنی کو دیکھ کر پھر ؔ بھی اُن کی تاریکی دور نہیں ہوتی۔ ان کی باطنی بیماریوں کے مواد کس قدر ردّی اور متعفن ہورہے ہیں جنہوں نے ان کے تمام حواس ظاہری و باطنی کو بیکار کردیا ہے ذرا نہیں سوچتے کہ
ہیلپ ُ یو۔ وارڈس اوفَ گوڈ کین ناٹ ایکس چینج۔ یعنی اگر تمام آدمی ناراض ہوں گے مگر خدا تمہارے ساتھ ہے وہ تمہاری مدد کرے گا۔ خدا کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ پھر ماسوا اس کے اور بھی چند الہامات ہوئے جو نیچے لکھے جاتے ہی۔ الخیر کلہ فی القراٰن کتاب اللہ الرحمان۔ الیہ یصعد الکلم الطیب۔ یعنی تمام بھلائی قرآنؔ میں ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ وہی اللہ جو رحمان ہے اسی رحمان کی طرف کلمات طیبہ صعود کرتے ہیں۔ ھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا و ینشر رحمتہ۔ اللہ وہ ذات کریم ہے کہ جو ناامیدی کے پیچھے مینہ برساتا ہے اور اپنی رحمت کو دنیا میں پھیلاتا ہے یعنی عین ضرورت کے وقت تجدید دین کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ یجتبی الیہ من یشآء من عبادہ۔ جس کو چاہتا ہے بندوں میں سے چن لیتا ہے۔ وکذالک مننا علی یوسف لنصرف عنہ السوٓء والفحشاء ولتنذر قوما ما انذر
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 662
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 662
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/662/mode/1up
وہ جسمانی یا روحانی حاجتوں کے وقت مدد فرماتا ہے یعنی جسمانی صعوبتوں کے وقت بارش وغیرہ سے اور روحانی صعوبتوں کے وقت اپنا شفا بخش کلام نازل کرنے سے عاجز بندوں کی دستگیری کرتا ہے۔
سو یہ مقدمہ بدیہی الصداقت ہے کیونکہ کسی عاقل کو اس سے انکار نہیں کہ یہ دونوں سلسلے روحانی اور جسمانی اسی وجہ سے اب تک صحیح و سالم چلے آتے ہیں کہ خداوند کریم نیست و نابود ہونے سے ان کو محفوظ رکھتا ہے مثلاً اگر خدائے تعالیٰ جسمانی سلسلہ کی حفاظت نہ کرتا اور سخت سخت قحطوں کے وقت میں باران رحمت سے دستگیری نہ فرماتا تو بالآخر نتیجہ اس کا یہی ہوتا کہ لوگ پہلی فصلوں کی جس قدر پیداوار تھی سب کی سب کھالیتے اور پھر آگے اناج کےؔ نہ ہونے سے تڑپ تڑپ کر مرجاتے اور نوع انسان کا
قرآن شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں اپنی حکمتوں اپنی صداقتوں اپنی بلاغتوں اپنے لطائف و نکات اپنے انوارِ روحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بے نظیر ہوناؔ آپ ظاہر فرما دیا ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں کہ صرف مسلمانوں نے فقط اپنے خیال میں اس کی خوبیوں کو قرار دے دیا ہے بلکہ وہ تو خود اپنی خوبیوں اور اپنے کمالات کو بیان فرماتا ہے اور
اٰباء ھم فھم غافلون۔ اور اسی طرح ہم نے یوسف پر احسان کیا تاہم اس سے بدی اور فحش کو روک دیں اور تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادوں کو کسی نے نہیں ڈرایا سو وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس جگہ یوسف کے لفظ سے یہی عاجز مراد ہے کہ جو باعتبار کسی روحانی مناسبت کے اطلاق پایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ بعد اس کے فرمایا۔ قل عندی شھادۃ من اللہ فھل انتم مؤمنون ان معی ربی سیھدین۔ رب اغفر وارحم من السمآء ربنا عاج۔ رب السجن احب الی مما یدعوننی الیہ۔ رب نجنی من غمی۔ ایلی ایلی لما سبقتنی۔ کرمہائے تو مارا کرد گستاخ۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 663
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 663
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/663/mode/1up
خاتمہ ہوجاتا یا اگر خدائے تعالیٰ عین وقتوں پر رات اور دن اور سورج اور چاند اور ہوا اور بادل کو خدماتِ مقررہ میں نہ لگاتا تو تمام سلسلہ عالم کا درہم برہم ہوجاتا اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرما کر کہا ہے۔ 33333 ۔۱ 333333۔ ۲ الجزو نمبر ۵۲۔ یعنی کیا یہ منکر لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں اور خدا پر جھوٹ باندھا ہے۔ اگر خدا چاہے تو اس کا اترنا بند کردے پر وہ بند نہیں کرتا کیونکہ اس کی عادت اسی پر جاری ہے کہ وہ احقاقِ حق اور ابطال باطل اپنے کلمات سے کرتا ہے۔ اور یہ
اپنا بے مثل و مانند ہونا تمام مخلوقات کے مقابلہ پر پیش کررہا ہے اور بلند آواز سے ھل من معارض کا نقارہ بجارہا ہے اور دقائق حقائقؔ اس کے صرف دو تین نہیں جس میں کوئی نادان شک بھی کرے بلکہ اس کے دقائق تو بحرِ ذخّار کی طرح جوش ماررہے ہیں اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں۔ کوئی صداقت
کہہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے۔ پس کیا تم ایمان نہیں لاتے۔ یعنی خدائے تعالیٰ کا تائیداؔ ت کرنا اور اسرارِ غیبیہ پر مطلع فرمانا اور پیش از وقوع پوشیدہ خبریں بتلانا اور دعاؤں کو قبول کرنا اور مختلف زبانوں میں الہام دینا اور معارف اور حقائقِ الٰہیہ سے اطلاع بخشنا یہ سب خدا کی شہادت ہے جس کو قبول کرنا ایماندار کا فرض ہے۔ پھر بقیہ الہامات بالا کا ترجمہ یہ ہے کہ بہ تحقیق میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ بتلائے گا۔ اے میرے ربّ میرے گناہ بخش اور آسمان سے رحم کر ہمارا رب عاجی ہے(اس کے معنے ابھی تک معلوم نہیں ہوئے) جن نالائق باتوں کی طرف مجھ کو بلاتے ہیں ان سے اے میرے رب مجھے زندان بہتر ہے۔ اے میرے خدا مجھ کو میرے غم سے نجات بخش اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 664
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 664
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/664/mode/1up
منصب اُسیؔ کو پہنچتا ہے کیونکہ امراض روحانی پر اُسی کو اطلاع ہے اور ازالۂ مرض اور استرداد صحت پر وہی قادر ہے پھر بعد اس کے بطور استدلال کے فرمایا کہ اللہ وہ ذات کامل الرحمت ہے کہ اُس کا قدیم سے یہی قانون قدرت ہے کہ اس تنگ حالت میں وہ ضرور مینہ برساتا ہے کہ جب لوگ ناامید ہوچکتے ہیں پھر زمین پر اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے اور وہی کارسازِ حقیقی اور ظاھراً و باطنًا قابل تعریف ہے یعنی جب سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی تو اس صورت میں اس کا یہی قانون قدیم ہے کہ وہ ضرور عاجز بندوں
نہیں جو اُس سے باہر ہو کوئی حکمت نہیں جو اس کے محیط بیان سے رہ گئی ہو۔ کوئی نور نہیں جو اس کی متابعت سے نہ ملتا ہو اورؔ یہ باتیں بلاثبوت نہیں۔ کوئی ایسا امر نہیں جو صرف زبان سے کہا جاتا ہے بلکہ یہ وہ متحقق اور بدیہی الثبوت صداقت ہے کہ جو تیرہ سو برس سے برابر اپنی روشنی دکھلاتی چلی آئی ہے اور ہم نے بھی اس صداقت کو اپنی اس کتاب میں نہایت تفصیل سے لکھا ہے اور دقائق اور معارف قرآنی کو اس قدر بیان کیا ہے کہ جو ایک طالب صادق کیؔ تسلی اور تشفی کے لئے بحرِ عظیم کی طرح
تیری بخششوں نے ہم کو گستاخ کردیا۔ یہ سب اسرار ہیں کہ جو اپنے اپنے اوقات پر چسپان ہیں جن کا علم حضرت عالم الغیب کو ہے پھر بعد اس کے فرمایا ھو شعنا نعسا۔ یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں اور اِن کے معنے ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔ پھر بعد اس کے دو فقرے انگریزی ہیں جن کے الفاظ کی صحت بباعث سرعت الہام ابھی تک معلوم نہیں اور وہ یہ ہیں آئی لَو یو۔ آئی شیل گِو یوء لارج پارٹی اوف اسلام۔ چونکہ اس وقت یعنی آج کے دن اس جگہ کوئی انگریزی خوان نہیں اور نہ اس کے پورے پورے معنے کھلے ہیں اس لئے بغیر معنوں کے لکھا گیا ۔ پھر بعد اس کے یہ الہام ہے۔ یا عیسٰی انی متوفیک و رافعک الی (و مطھرک من الذین کفروا ۱)۔وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الٰی یوم القیامہ۔ ثلۃ من الاولین وؔ ثلۃ من الآخرین۔ اے عیسیٰ میں تجھے
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 665
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 665
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/665/mode/1up
کی خبر لیتا ہے اور اُن کو ہلاکت سے بچاتا ہے اور جیسے وہ جسمانی سختی کے وقت رحم فرماتا ہے اسی طرح جب روحانی سختی یعنی ضلالت اور گمراہی اپنی حد کو پہنچ جاتی ہے اور لوگ راہِ راست پر قائم نہیں رہتے تو اِس حالت میں بھی وہ ضرور اپنی طرف سے کسی کو مشرّف بوحی کرکے اور اپنے نور خاص کی روشنی عطا فرما کر ضلالت کیؔ مہلک تاریکی کو اس کے ذریعہ سے اٹھاتا ہے اور چونکہ جسمانی رحمتیں عام لوگوں کی نگاہ میں ایک واضح امر ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت ممدوحہ میں اول ضرورت فرقان مجید
جوش ماررہے ہیں۔ اب یہ کیونکر ہوسکے کہ کوئی شخص صرف مونہہ کی واہیات باتوں سے اس نور بزرگ کی کسر شان کرے۔ ہاں اگر کسی کے دل کو یہ وہم پکڑتا ہے کہ یہ تمام دقائق و معارف و لطائف و خوؔ اص کہ جو قرآن شریف میں ثابت کرکے دکھلائے گئے ہیں کسی دوسری
کامل اجر بخشوں گا یا وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا یعنی رفع درجات کروں گا یا دنیا سے اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیرے تابعین کو ان پر جو منکر ہیں قیامت تک غلبہ بخشوں گا یعنی تیرے ہم عقیدہ اور ہم مشربوں کو حجت اور برہان اور برکات کے رو سے دوسرے لوگوں پر قیامت تک فائق رکھوں گا۔ پہلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے اور پچھلوں میں سے بھی ایک گروہ ہے۔ اس جگہ عیسیٰ کے نام سے بھی یہی عاجز مراد ہے اور پھر بعد اس کے اردو میں الہام فرمایا۔ میں اپنی چمکار دکھلاؤں گا۔ اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم۔ اس جگہ ایک فتنہ ہے سو اولوالعزم نبیوں کی طرح صبر کر۔ فلما تجلّٰی ربہ للجبل جعلہ دکا۔ جب خدا مشکلات کے پہاڑ پر تجلی کرے گا تو انہیں پاش پاش کردے گا۔ قوۃ الرحمان لعبید اللّٰہ الصمد۔ یہ خدا کی قوت ہے کہ جو اپنے بندہ کے لئے وہ غنی مطلق ظاہر کرے گا۔ مقام لا تترقی العبد فیہ بسعی الاعمال۔ یعنی عبداللہ الصمد ہونا ایک مقام ہے کہ جو بطریق موہبت خاص عطا ہوتا ہے کوششوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ یا داء ودؔ عامل بالناس رفقا واحسانا واذاحییتم بتحیۃ فحیوا باحسن منھا۔ واما بنعمت ربک فحدث
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 666
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 666
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/666/mode/1up
کی نازل ہونے کی بیان کرکے پھر بطور توضیح جسمانی قانون کا حوالہ دیا تادانشمند آدمی جسمانی قانون کو دیکھ کر کہ ایک واضحہ اور بدیہی امر ہے خدائے تعالیٰ کے روحانی قانون کو بآسانی سمجھ سکے اور اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ جو لوگ بعض کتابوں کا منزل من اللہ ہونا مانتے ہیں اُن کو تو خود اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ ؔ کتابیں ایسے وقتوں میں نازل ہوئی ہیں کہ جب ان کے نزول کی ضرورت تھی۔ پس اسی اقرار کے ضمن میں ان کو یہ دوسرا اقرار کرنا بھی لازم آیا کہ ضرورت کے وقتوں میں کتابوں کا نازل کرنا خدائے تعالیٰ کی عادت ہے لیکن ایسے لوگ کہ جو ضرورت کتبِ الٰہیہ سے منکر ہیں
کتاب سے بھی مستخرج ہوسکتے ہیں۔ تو ؔ مناظرہ کا سیدھا راستہ یہ ہے کہ ہ شرائط مذکورہ بالا کی رعایت سے اس کتاب کے لطائف و معارف و خواص پیش کرے اور جس طرح قرآن تمام عقائد باطلہ کی ردّ پر مشتمل ہے اور جس طرح وہ پاک کلام ہریک عقیدہ صحیحہ کو دلائلِ عقلیہ سے
یو مسٹ ڈو وہات آئی ٹولڈ یو۔ تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے اشکر نعمتی رأیت خدیجتی انک الیوم لذوحظ عظیم۔ انت محدث اللّٰہ فیک مادۃ فاروقیۃ۔ اے داؤد خلق اللہ کے ساتھ رفق اور احسان کے ساتھ معاملہ کر اور سلام کا جواب احسن طور پردے۔ اور اپنے رب کی نعمت کا لوگوں کے پاس ذکر کر میری نعمت کا شکر کر کہ تُو نے اُس کو قبل از وقت پایا آج تجھے حظ عظیم ہے تو محدث اللہ ہے تجھ میں مادۂ فاروقی ہے۔ سلام علیک یا ابراھیم۔ انک الیوم لدینا مکین امین۔ ذو عقل متین۔ حب اللّٰہ خلیل اللّٰہ اسد اللّٰہ و صل علی محمد۔ ما ودعک ربک و ما قلی۔ الم نشرح لک صدرک۔ الم نجعل لک سھولۃ فی کل امر بیت الفکر و بیت الذکر۔ و من دخلہ کان اٰمنا۔ تیرے پر سلام ہے اے ابراہیم۔ تو آج ہمارے نزدیک صاحب مرتبہ اور امانتدار اور قوی العقل ہے اور دوست خدا ہے خلیل اللہ ہے اسداللہ ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیج۔ یعنی یہ اس نبی کریم کی متابعت کا نتیجہ ہے اور بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدا نے تجھ کو ترک نہیں کیا اور نہ وہ تجھ پر ناراض ہے کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھولا۔ کیا ہم نے ہریک بات میں تیرے لئے آسانی نہیں کی کہ تجھ کو بیت الفکر اور بیت الذکر
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 667
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 667
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/667/mode/1up
جیسے برہمو سماج والے سو ان کے ملزم کرنے کیلئے اگرچہ بہت کچھ ہم لکھ چکے ہیں لیکن اگران میں ایک ذرا انصاف ہوتو ان کو وہی ایک دلیل کافی ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے آیات گذشتۂبالا میں آپ بیان فرمائی ہے کیونکہ جس حالت میں وہؔ لوگ مانتے ہیں کہ حیاتِ ظاہری کا تمام انتظام خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے اور وہی اپنی آسمانی روشنی اور بارانی پانی کے ذریعہ سے دنیا کو تاریکی اور ہلاکت سے بچاتا ہے تو پھر وہ اس اقرار سے کہاں بھاگ سکتے ہیں کہ حیات باطنی کے وسائل بھی آسمان ہی سے
ثابت کرتا ہے اور جس طرح ان صحف مقدسہ میں معارف و حقائق الٰہیہ مندرج ہیں اور جس طرح ان میں تنویرِ قلبؔ کے متعلق خواصِ عجیبہ اور تاثیراتِ غریبہ پائے جاتے ہیں جن کو ہم نے اس کتاب میں ثابت کردیا ہے وہ سب اپنی کتاب میں پیش کرکے دکھلاوے اور جب تک
عطا کیا۔ اور جو شخص بیت الذکر میں باخلاص و قصد تعبد وصحت نیت و حسن ایمان داخل ہوگا وہ سوئے خاتمہ سے امن میں آجائے گا۔ بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف کے لئے مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجد ہے کہؔ جو اس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے اور آخری فقرہ مذکورہ بالا اسی مسجد کی صفت میں بیان فرمایا ہے جس کے حروف سے بنائے مسجد کی تاریخ بھی نکلتی ہے اور وہ یہ ہے۔ مبارک و مبارک وکل امر مبارک یجعل فیہ یعنی یہ مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہریک امر مبارک اس میں کیا جائے گا۔ پھر بعد اس کے اس عاجز کی نسبت فرمایا۔ رفعت و جعلت مبارکا۔ تو اونچا کیا گیا اور مبارک بنایا گیا۔ والذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون۔ یعنی جو لوگ ان برکات و انوار پر ایمان لائیں گے کہ جو تجھ کو خدائے تعالیٰ نے عطا کئے ہیں اور ایمان ان کا خالص اور وفاداری سے ہوگا تو ضلالت کی راہوں سے امن میں آجائیں گے اور وہی ہیں جو خدا کے نزدیک ہدایت یافتہ ہیں۔ یریدون ان یطفؤا نور اللّٰہ۔ قل اللّٰہ حافظہ۔ عنایۃ اللّٰہ حافظک۔ نحنؔ نزّلناہ وانا لہ لحافظون۔ اللّٰہ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین۔ ویخوفونک من دونہ۔ ائمۃ الکفر۔ لا تخف انک انت الاعلٰی ینصرک اللّٰہ فی مواطن۔ ان یومی لفصل عظیم۔ کتب اللّٰہ لاغلبن انا ورسلی لا مبدل لکلماتہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 668
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 668
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/668/mode/1up
نازل ہوتے ہیں اور خود یہ نہایت کوتہ اندیشی اور قلّتِ معرفت ہے کہ ناپائیدار حیات کا اہتمام تصرّف خاص الٰہی سے تسلیم کرلیا جاوے لیکن جو حقیقی حیات اور لازوال زندگی ہے یعنی معرفت الٰہی اور نور باطنی یہ صرف اپنی ہی عقلوں کا نتیجہ قرار دیا جائے۔ کیا وہ خدا جس نے جسمانی سلسلہ کے برپا رکھنے کے لئے اپنی الوہیت کی قوی طاقتوں کو ظاہر کیا ؔ ہے اور بغیر وسیلہ انسانی ہاتھوں کے زبردست قدرتیں دکھائی ہیں وہ روحانی طور پر اپنی طاقت ظاہر کرنے کے وقت ضعیف اور کمزور خیال
ایسا نہ کرے تب تک کسی کے عو عو کرنے سےؔ چاند کے نور میں کچھ فرق نہیں آسکتا بلکہ ایسے شخص کی حالت نہایت افسوس کے لائق ہے کہ جو اب تک بدیہی صداقت سے بدنصیب اور محروم رہنے کے لئے دانستہ ضلالت کی راہوں میں قدم رکھتا ہے۔ ہمارے مخالفوں میں سے کئی صاحب مشہور و نامور ہیں اور جہاں تک ہم خیال کرتے ہیں ان کے علم اور فہم کی نسبت ہمارا یہی یقین ہے کہ اگر انصاف پر آویں تو ان صداقتوں کو بدیہی طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ہماری نیت میں ہرگز نفسانیت کا جھگڑا نہیں اور بجز اس کے کہ دنیا میں سچائی اور نیکی پھیلائی جائے اور کوئی غرض نہیں اس لئے منصف مزاج ذی علم لوگوں سے یہی درخواست ہے کہ
بصآئر للناس۔ نصرتک من لدنی۔ انی منجیک من الغم۔ وکان ربک قدیرا۔ انت معی وانا معک۔ خلقت لک لیلا ونھارا۔ اعمل ما شئت فانی قد غفرت لک۔ انت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق۔ مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ تا خدا کے نور کو بجھاویں کہہ خدا اس نور کا آپ حافظ ہے۔ عنایت الٰہیہ تیری نگہبان ہے۔ ہم نے اُتارا ہے اور ہم ہی محافظ ہیں۔ خدا خیر الحافظین ہے اور وہ ارحم الراحمین ہے اور تجھ کو اور اور چیزوں سے ڈرائیں گے۔ یہی پیشوایان کفر ہیں۔ مت خوف کر تجھی کو غلبہ ہے یعنی حجت اور برہان اور قبولیت اور برکت کے رو سے تو ہی غالب ہے۔ خدا کئی میدانوں میں تیری مدد کرے گا یعنی مناظرات و مجادلات بحث میں تجھ کو غلبہ رہے گا۔ پھر فرمایا کہ میرا دن حق اور باطل میں
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 669
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 669
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/669/mode/1up
کیا جاسکتا ہے کیا ایسا خیال کرنے سے وہ کامل رہ سکتا ہے یا اس کی روحانی طاقتوں کا ثبوت میسر آسکتا ہے۔ حقیقی تسلی جس کی بنیاد ایک محکم یقین پر ہونی چاہئے صرف قیاسی خیالات سے ممکن نہیں بلکہ خیالات قیاسی کی بڑی سے بڑی ترقی ظنِّ غالب تک ہے اور وہ بھی اس حالت میں کہ جب قیاس انکار کی طرف جھک نہ جائے غرض عقلی وجوہ بالکل غیر تسلی بخش اور آخری حدِّ عرفان سے پیچھے رہے ہوئے ہیں اور اُن کی اعلیٰ سے اعلیٰ پہنچ صرف ظاہری
وہ بھی ایک ساعت کے لئے صادقانہ نیت کو استعمال میں لاویں۔ جس حالت میں ان کی فراخ دلی اور نیک طینتی ان کی قوم میں مسلّم الثبوت ہے تو ہم کیونکر ناامید ہوسکتے ہیں یا کیونکر گمان کرسکتے ہیں کہ اس نیک منشی کا اس سے زیادہ وسیع ہونا ممکن نہیں اس لئے گو میں نے اب تک کسی صاحب مخالف کو منصفانہ قدم اٹھاتے نہیں پایا لیکن تاہم ابھی
فرق بیّن کرے گا۔ خدا لکھ چکا ہے کہ غلبہ مجھ کو اور میرے رسولوں کو ہے۔ کوئی نہیں کہ ؔ جو خدا کی باتوں کو ٹال دے۔ یہ خدا کے کام دین کی سچائی کے لئے حجت ہیں۔ میں اپنی طرف سے تجھے مدد دوں گا میں خود تیرا غم دور کروں گا۔ اور تیرا خدا قادر ہے۔ تو میرے ساتھ اور میں تیرے ساتھ ہوں تیرے لئے میں نے رات اور دن پیدا کیا جو کچھ تو چاہے کر کہ میں نے تجھے بخشا۔ تو مجھ سے وہ منزلت رکھتا ہے جس کی لوگوں کو خبر نہیں۔ اس آخری فقرہ کا یہ مطلب نہیں کہ منہیات شرعیہ تجھے حلال ہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تیری نظر میں منہیات مکروہ کئے گئے ہیں اور اعمال صالحہ کی محبت تیری فطرت میں ڈالی گئی ہے۔ گویا جو خدا کی مرضی ہے وہ بندہ کی مرضی بنائی گئی اور سب ایمانیات اس کی نظر میں بطور فطرتی تقاضا کے محبوب کی گئی۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشآء۔ وقالوا ان ھو افک افتری۔ وما سمعنا بھذا فی اٰبائنا الاولین ولقد کرمنا بنی ادم وفضلنا بعضھم علی بعض۔ اجتبیناھم و اصطفیناھم کذالک لیکون اٰیۃ للمؤمنین۔ ام حسبتم ان اصحاب الکھف و الرقیم کانوا من اٰیاتنا عجبا۔ قل ھو اللہ عجیب۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 670
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 670
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/670/mode/1up
اٹکلوں تکؔ ہے جن سے روح کو حقیقی انشراح اور عرفان حاصل نہیں ہوتا اور اندرونی آلائشوں سے پاکیزگی میسر نہیں آتی بلکہ ایسا انسان فقط سفلی خیالات کا بندہ بن کر مقاماتِ حریری کے ابوزید کی طرح اپنے علوم و فنون کو مکرو فریب کا آلہ بناتا ہے اور سب لسانی اور خوش بیانی اُس کی دام تزویر ہی ہوتی ہے۔ کیا انسان کی کمزور عقل اپنی تنہائی کی حالت میں اس کو اس محبس سے نکال سکتی ہے کہ جو جذباتِ نفس اور جہل اور غفلت کی وجہ سے اس کے نصیب ہورہا ہے۔ کیا انسانی خیالات میں کوئی ایسی طاقت بھی موجود ہے کہ جو خدائے تعالیٰ کے علم اور قوت سے
تک رائے میری ایک محکم یقین پر قائم ہے اور بہت مضبوط امید سے میں خیال رکھتا ہوں کہ جب ہمارے منصف مزاج مخالفین نہایت غائر اور عمیق نظر سے اس طرف متوجہ ہوں گے تو خود ان کی اپنی نگاہیں ان کے وساوس دور کرنے کے لئے کافی ہوں گی۔ مجھے امید تھی
کل یوم ھو فی شان۔ ففھمنا ھا سلیمان و جحدوا بھا و استیقنتھا انفسھم ظلما وعلوا۔ سنلقی فی قلوبھم الرعب۔ قل جاء کم نور من اللہ فلا تکفروا ان کنتم مؤمنین۔ سلام علی ابراھیم صافیناہ و نجیناہ من الغم تفردنا بذالک۔ فاتخذوا من مقام ابراھیمؔ مصلّٰی۔ اور کہیں گے کہ یہ جھوٹ بنالیا ہے ہم نے اپنے بزرگوں میں یعنی اولیاء سلف میں یہ نہیں سنا حالانکہ بنی آدم یکساں پیدا نہیں کئے گئے بعض کو بعض پر خدا نے بزرگی دی ہے اور ان کو دوسروں میں سے چن لیا ہے یہی سچ ہے تا مومنوں کے لئے نشان ہو کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہمارے عجیب کام فقط اصحاب کہف تک ہی ختم ہیں نہیں بلکہ خدا تو ہمیشہ صاحب عجائب ہے اور اس کے عجائبات کبھی منقطع نہیں ہوتے۔ ہر یک دن میں وہ ایک شان میں ہے پس ہم نے وہ نشان سلیمان کو سمجھائے یعنی اس عاجز کو اور لوگوں نے محض ظلم کی راہ سے انکار کیا حالانکہ ان کے دل یقین کرگئے۔ سو عنقریب ہم ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے کہہ خدا کی طرف سے نور اترا ہے سو تم اگر مومن ہو تو انکار مت کرو۔ ابراہیم پر سلام ہم نے اُس کو خالص کیا اور غم سے نجات دی۔ ہم نے ہی یہ کام کیا۔ سو تم ابراہیم کے نقش قدم پر چلو یعنی رسول کریم ؐ کا طریقۂ حقہ کہ جو حال کے زمانہ میں اکثر لوگوں پر مشتبہ ہوگیا ہے اور بعض یہودیوں کی طرح
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 671
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 671
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/671/mode/1up
برابر ہوسکے کیا خدا کے پاک انوار جو جو روح پر اثر ڈال سکتے ہیں اور عمیق شکوک سے نجات بخش سکتے ہیں یہ بات خدا کے غیر کو بھی حاصل ہے ہرگز نہیں ہرگز نہیں بلکہ ایسے دھوکے ان لوگوں کو لگے ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہماری حقیقی نجات کس درجہ عرفان پر موقوف ہے اور طاقتِ الٰہی ہمارے روح پر کہاں تک کام کرسکتی ہے اور خدا کے بے غایت فضل سے کسؔ درجہ قربت اور شناخت پر ہم پہنچ سکتے ہیں اور وہ کس درجہ تک ہمارے آگے سے حجاب اٹھا سکتا ہے۔ ان کی معرفت
کہ اس کتاب کے حصۂ سوم کے شائع ہونے سے برہمو سماج ؔ اور آریہ سماج کے دانشمند اپنی غلطی پر متنبہ ہوکر صداقتِ حقہ کی طرف ایک پیاسہ کی طرح دوڑیں گے مگر افسوس کہ اب میں دیکھتا ہوں کہ میری فراست نے خطا کی اور مجھے اس بات کے سننے سے نہایت ہی دل شکنی ہوئی کہ برہمو صاحبوں اور آریوں نے میری کتاب کو غور سے نہیں پڑھا بالخصوص مجھ کو پنڈت شیونرائن صاحب کے ریویو کے دیکھنے سے ایک عالم تعصب کا برہمو صاحبوں کی طبیعت میں نظر آیا( خدا رحم کرے) افسوس کہ پنڈت صاحب نے ان حقانی صداقتوں سے کہ جو آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا اور اس قدر قوی اور مضبوط دلائل کی روشنی سے پنڈت صاحب کی تعصب کی تاریکی کچھ بھی رو بکمی نہ ہوئی۔ یہ امر یقیناً سخت حیرت کے لائق ہے کہ ایسے فہیم اور ذی علم لوگ ایسے کامل ثبوت کو دیکھ کر اس کے قبول کرنے میں دیر کریں۔ پنڈت صاحب نے اس انکار سے
صرف ظواہر پرست اور بعض مشرکوں کی طرح مخلوق پرستی تک پہنچ گئے ہیں یہ طریقہ خداوند کریم کے اِس عاجز بندہ سے دریافت کرلیں اور اُس پر چلیں۔
ترسم آں قوم کہ بر دُرد کشاں مے خندند
در سرِ کار خرابات کنند ایماں را
ربّ اغفر و ارحم۔
دوستاں عیب کنندم کہ چرا دل بتودادم
باید اول بتوگفتن کہ چنیں خوب چرائی
والفضل من اللّٰہ ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ العلی العظیم۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 672
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 672
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/672/mode/1up
صرف ناکارہ وہموں تک ختم ہے اور جو معرفت یقینی اور قطعی اور انسان کی نجات کے لئے ازبس ضروری ہے وہ ان کی عقل عجیب کے نزدیک محال اور ممتنع ہے لیکن جاننا چاہئے کہ یہ ان کی سخت غلطی ہے کہ جو عقلی خیالات پر قناعت کررہے ہیں۔ حقّانی معرفت کی راہ میں بے شمار راز ہیں جن کو انسان کی کمزور اور دود آمیز عقل دریافت نہیں کرسکتی اور قیاسی طاقت بباعث اپنی نہایت ضُعف کی الوہیّت کے بلند اسرار تک ہرگز پہنچ نہیں سکتی۔ سو اُس بلندی تک پہنچنے کے لئے بجز خدا کے عالی کلام کے اور کوئی زینہ نہیں۔ جو شخص دلی سچائی سے خدا کا طالب ہے اُس کو اُسی زینہ کی حاجت پڑتی ہے اور تاوقتیکہ وہ محکم اور بلند زینہ اپنی ترقیات کا ذریعہ نہ ٹھہرایا جاوؔ ے تب تک انسان حقّانی معرفت کے بلند مینار تک ہرگز پہنچ نہیں سکتا بلکہ ایسے تاریک اور پرظلمت خیالات میں گرفتار رہتا ہے کہ جو غیر تسلی بخش اور بعید از حقیقت ہیں اور بباعث فقدان اس حقانی معرفت کے اس کے سب معلومات بھی ناقص اور ادھورے رہتے ہیں اور جیسی سوئی بغیر دھاگہ کے نکمی اور ناکارہ ہے اور کوئیؔ کام سینے کا اُس سے انجام پذیر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح عقلی فلسفہ بغیر تائید خدا کی کلام کے نہایت متزلزل اور غیر مستحکم اور بے ثبات اور بے بنیاد ہے۔
پائے استدلالیاں چوبین بود
پائے چوبین سخت بے تمکین بود
نہ صرف حدِّ انصاف سے ہی تجاوز کیا ہے بلکہ حق پوشی کرکے اپنی قوم کی ہمدردی سے بلکہ خدا سے بھی فارغ ہو بیٹھے ہیں اور مجھے اس بات کے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں کہ پنڈت صاحب کا انکار کس قدر ناانصافی سے بھرا ہوا ہے۔ یہ بات خود اُس شخص پر کھل سکتی ہے کہ جو اوّل میری کتاب کو دیکھے کہ میں نے کیونکر ضرورت وحی اللہ اور نیز اس کے وجود کا ثبوت دیا ہے اور پھر پنڈت صاحب کی تحریر پر نظر ڈالے کہ انہوں نے میرے مقابلہ پر کیا لکھا ہے اور میرے دلائل کا کیا جواب دیا ہے۔ جو لوگ پنڈت صاحب کی قوم میں سے اس کتاب کو غور سے پڑھیں گے ان کی روحوں پر ہرگز پنڈت صاحب پردہ ڈال نہیں سکتے بشرطیکہ کوئی فطرتی پردہ نہ ہو۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 673
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 673
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/673/mode/1up
ہم اور ہماری کتاب
ابتداء میں جب یہ کتاب تالیف کی گئی تھی اُس وقت اس کی کوئی اور صورت تھی پھر بعد اُس کے قدرت الٰہیہ کی ناگہانی تجلی نے اس احقر عباد کو موسیٰ کی طرح ایک ایسے عالم سے خبر دی جس سے پہلے خبر نہ تھی یعنی یہ عاجز بھی حضرت ابن عمران کی طرح اپنے خیالات کی شب تاریک میں سفر کررہا تھا کہ ایک دفعہ پردہ غیب سے اِنِّیْ اَنَا رَبُّکَ کی آواز آئی اور ایسے اسرار ظاہر ہوئے کہ جن تک عقل اور خیال کی رسائی نہ تھی سو اب اس کتاب کا متولی اور مہتمم ظاہرًا و باطنًا حضرت ربّ العالمین ہے اور کچھ معلوم نہیں کہ کس اندازہ اور مقدار تک اس کو پہنچانے کا ارادہ ہے اور سچ تو یہ ہے کہ جس قدر اس نے جلد چہارم تک انوار حقیت اسلام کے ظاہر کئے ہیں یہ بھی اتمام حجت کے لئے کافی ہیں اور اس کے فضل و کرم سے امید کی جاتی ہے کہ وہ جب تک شکوک اور شبہات کی ظلمت کو بکلّی دور نہ کرے اپنی تائیدات غیبیہ سے مددگار رہے گا اگرچہ اس عاجز کو اپنی زندگی کا کچھ اعتبار نہیں لیکن اس سے نہایت خوشی ہے کہ وہ حیُّ و قیُّوم کہ جو فنا اور موت سے پاک ہے ہمیشہ تا قیامت دین اسلام کی نصرت میں ہے اور جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ ایسا اس کا فضل ہے کہ جو اس سے پہلے کسی نبی پر نہیں ہوا۔ اس جگہ ان نیک دل ایمانداروں کا شکر کرنا لازم ہے جنہوں نے اس کتاب کے طبع ہونے کے لئے آج تک مدد دی ہے خدا تعالیٰ ان سب پر رحم کرے اور جیسا انہوں نے اس کے دین کی حمایت میں اپنی دلی محبت سے ہریک دقیقہ کوشش کے بجالانے میں زور لگایا ہے خداوند کریم ایسا ہی ان پر فضل کرے۔ بعض صاحبوں نے اس کتاب کو محض خرید وفروخت کا ایک معاملہ سمجھا ہے اور بعض کے سینوں کو خدا نے کھول دیا اور صدق اور ارادت کو ان کے دلوں میں قائم کردیا ہے لیکن موخر الذکر ہنوز وہی لوگ ہیں کہ جو استطاعت مالی بہت کم رکھتے ہیں اور سنت اللہ اپنے پاک نبیوں سے بھی یہی رہی ہے کہ اوّل اوّل ضعفاء اور مساکین ہی رجوع کرتے رہے ہیں اگر حضرت احدیت کا ارادہ ہے تو کسی ذی مقدرت کے دل کو بھی اس کام کے انجام دینے کے لئے کھول دے گا۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 674
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ 674
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/674/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 675
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 675
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/675/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 676
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 676
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/676/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 677
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 677
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/677/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 678
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 678
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/678/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 679
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 679
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/679/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 680
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 680
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/680/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 681
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 681
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/681/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 682
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 682
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/682/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 683
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 683
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/683/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 684
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 684
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/684/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 685
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 685
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/685/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 686
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 686
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/686/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 687
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 687
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/687/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 688
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 688
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/688/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 689
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 689
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/689/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 690
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 690
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/690/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 691
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 691
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/691/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 692
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 692
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/692/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 693
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 693
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/693/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 694
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 694
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/694/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 695
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 695
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/695/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 696
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 696
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/696/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 697
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 697
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/697/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 698
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 698
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/698/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 699
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 699
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/699/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 700
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 700
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/700/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 701
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 701
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/701/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 702
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 702
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/702/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 703
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 703
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/703/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 704
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 704
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/704/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 705
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 705
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/705/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 706
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 706
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/706/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 707
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 707
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/707/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 708
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 708
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/708/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 709
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 709
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/709/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 710
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 710
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/710/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 711
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 711
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/711/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 712
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 712
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/712/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 713
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 713
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/713/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 714
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 714
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/714/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 715
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 715
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/715/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 716
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 716
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/716/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 717
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 717
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/717/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 718
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 718
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/718/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 719
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 719
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/719/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 720
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 720
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/720/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 721
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 721
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/721/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 722
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 722
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/722/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 723
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 723
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/723/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 724
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 724
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/724/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 725
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 725
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/725/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 726
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 726
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/726/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 727
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 727
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/727/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 728
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 728
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/728/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 729
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 729
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/729/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 730
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 730
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/730/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 731
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 731
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/731/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 732
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 732
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/732/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 733
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 733
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/733/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 734
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 734
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/734/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 735
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 735
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/735/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 736
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 736
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/736/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 737
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 737
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/737/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 738
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 738
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/738/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 739
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 739
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/739/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 740
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 740
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/740/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 741
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 741
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/741/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 742
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 742
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/742/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 743
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 743
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/743/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 744
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 744
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/744/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 745
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 745
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/745/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 746
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 746
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/746/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 747
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 747
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/747/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 748
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 748
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/748/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 749
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 749
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/749/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 750
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 750
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/750/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 751
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 751
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/751/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 752
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 752
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/752/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 753
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 753
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/753/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 754
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 754
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/754/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 755
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 755
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/755/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 756
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 756
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/756/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 1. Page: 757
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱- انڈیکس: صفحہ 757
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=1#page/757/mode/1up