• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 13 ۔ضرورۃ الامام ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
روحانی خزائن جلد 13۔ ضرورۃ الامام۔ یونی کوڈ

Ruhani Khazain Volume 13. Page: 471
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 471
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
471
ٹائٹل طبع اوّل
یٰآیھا الّذین اٰمنوا اتقوا اللّٰہ وابتغوا الیہ الوسیلۃ وجاھدوا فی سبیلہ لعلکم تفلحون
و یقول الذین کفروا لست مرسلا۔
قل کفی باللّٰہ شھیدا بینی و بینکم ومن عندہ علم الکتاب۔
الحمد للہ
کہ یہ رسالہ جس کا نام ہے
ضرورۃ الامام
صرف ڈیڑھ دن میں طیار ہوکر
مطبع
ضیاء الاسلام قادیان میں
قیمت ۲/ محصول علاوہ جلد ۷۰۰
باھتمام حکیم فضل الدین صاحب بھیروی مالک و مہتمم مطبع مطبوعہ ہوا۔
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 472
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 472
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
472
ضَرُوْرَۃُ الامَام
3
الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفٰی
اما بعد واضح ہو کہ حدیث صحیح*سے ثابت ہے کہ جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کرے اس کی موت جاہلیت کی موت ہوتی ہے۔ یہ حدیث ایک متقی کے دل کو امام الوقت کا طالب بنانے کے لئے کافی ہو سکتی ہے کیونکہ جاہلیت کی موت ایک ایسی جامع شقاوت ہے جس سے کوئی بدی اور بدبختی باہر نہیں۔ سو بموجب اس نبوی وصیت کے ضروری ہوا کہ ہر ایک حق کا طالب امام صادق کی تلاش میں لگا رہے۔
یہ صحیح نہیں ہے کہ ہر ایک شخص جس کو کوئی خواب سچی آوے یا الہام کا دروازہ اس پر کھلا ہو وہ اس نام سے موسوم ہو سکتا ہے بلکہ امام کی حقیقت کوئی اور امر جامع اور حالت کاملہ تامہ ہے جس کی وجہ سے آسمان پر اس کا نام امام ہے؟ اور یہ تو ظاہر ہے کہ صرف تقویٰ اور طہارت کی وجہ سے کوئی شخص امام نہیں کہلا سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱؂ پس اگر ہر ایک
* حدثنا عبداللّٰہ حدثنا ابی حدثنا اسود بن عامر اناابوبکر عن عاصم عن ابی صالح عن معاویۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من مات بغیر امام مات میتۃ جاھلیۃ صفحہ نمبر۹۶ جلدنمبر۴ مسند احمد و اخرجہ احمد والترمذی و ابن خزیمۃ و ابن حبان و صححہ من حدیث الحارث الاشعری بلفظ من مات ولیس علیہ امام جماعۃ فان موتتہ موتۃ جاھلیۃ۔ ورواہ الحاکم من حدیث بن عمرو من حدیث معاویۃ و رواہ البزّار من حدیث ابن عباس۔
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 473
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 473
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
473
متقی امام ہے تو پھر تمام مومن متقی امام ہی ہوئے اور یہ امر منشاء آیت کے برخلاف ہے اور ایسا ہی بموجب نص قرآن کریم کے ہر ایک ملہم اور صاحب رؤیا صادقہ امام نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ قرآن کریم میں عام مومنین کے لئے یہ بشارت ہے کہ 3۔۱؂ یعنی دنیا کی زندگی میں مومنین کو یہ نعمت ملے گی کہ اکثر سچی خوابیں انہیں آیا کریں گی یا سچے الہام ان کو ہوا کریں گے۔ پھر قرآن شریف میں ایک دوسرے مقام میں ہے۔33 ۔۲؂ یعنی جو لوگؔ اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور پھر استقامت اختیار کرتے ہیں فرشتے ان کو بشارت کے الہامات سناتے رہتے ہیں اور ان کو تسلی دیتے رہتے ہیں جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو بذریعہ الہام تسلی دی گئی۔ لیکن قرآن ظاہر کر رہا ہے کہ اس قسم کے الہامات یا خوابیں عام مومنوں کے لئے ایک روحانی نعمت ہے خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ہوں اور ان الہامات کے پانے سے وہ لوگ امام وقت سے مستغنی نہیں ہو سکتے اور اکثر یہ الہامات ان کے ذاتیات کے متعلق ہوتے ہیں اور علوم کا افاضہ ان کے ذریعہ سے نہیں ہوتا اور نہ کسی عظیم الشان تحدّی کے لائق ہوتے ہیں اور بہت سے بھروسے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ بعض وقت ٹھوکر کھانے کا موجب ہو جاتے ہیں۔ اور جب تک امام کی دستگیری افاضہ علوم نہ کرے تب تک ہرگزہرگزخطرات سے امن نہیں ہوتا۔ اس امر کی شہادت صدراسلام میں ہی موجود ہے۔ کیونکہ ایک شخص جو قرآن شریف کا کاتب تھااس کو بسا اوقات نور نبوت کے قرب کی وجہ سے قرآنی آیت کا اس وقت میں الہام ہو جاتا تھا جبکہ امام یعنی نبی علیہ السلام وہ آیت لکھوانا چاہتے تھے۔ ایک دن اس نے خیال کیا کہ مجھ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا فرق ہے۔ مجھے بھی الہام ہوتا ہے۔ اس خیال سے وہ ہلاک کیا گیا۔ اور لکھا ہے کہ قبر نے بھی اس کو باہر پھینک دیا۔ جیسا کہ بلعم ہلاک کیا گیا۔ مگر عمر رضی اللہ عنہ کو بھی الہام ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنے تئیں کچھ چیز نہ سمجھا۔ اور امامتِ حقہ جو آسمان کے خدا نے زمین پر قائم کی تھی اس کا شریک بننا نہ چاہا۔ بلکہ ادنیٰ چاکر
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 474
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 474
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
474
اور غلام اپنے تئیں قرار دیا۔ اس لئے خدا کے فضل نے ان کو نائب امامتِ حقہ بنا دیا۔ اور اویس قرنی کو بھی الہام ہوتا تھا اس نے ایسی مسکینی اختیار کی کہ آفتاب نبوت اور امامت کے سامنے آنا بھی سوء ادب خیال کیا۔ سیدنا حضرت محمد* مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بارہا یمن کی طرف منہ کر کے فرمایا کرتے تھے کہ اَجِدُ رِیْحَ الرَّحْمٰنِ مِنْ قِبَلِ الْیَمَن۔ یعنی مجھے یمن کی طرف سے خدا کی خوشبو آتی ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اویس میں خدا کا نور اترا ہے۔ مگر افسوس کہ اس زمانہ میں اکثر لوگ امامت حقّہ کی ضرورت کو نہیں سمجھتے اور ایک سچّی خواب آنے سے یا چند الہامی فقروں سے خیال کرلیتے ہیں کہ ہمیں امام الزمان کی حاجت نہیں کیا ہم کچھ کم ہیں؟ اور یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ ایسا خیالؔ سراسر معصیت ہے کیونکہ جب کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام الزمان کی ضرورت ہر ایک صدی کیلئے قائم کی ہے اور صاف فرما دیا ہے کہ جو شخص اس حالت میں خداتعالیٰ کی طرف آئے گا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ اندھا آئے گا اور جاہلیت کی موت پر مرے گا۔ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ملہم یاخواب بین کا استثناء نہیں کیا جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ملہم ہو یا خواب بین ہو اگر وہ امام الزمان کے سلسلہ میں داخل نہیں ہے تو اس کا خاتمہ خطرناک ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ اس حدیث کے مخاطب تمام مومن اور مسلمان ہیں اور ان میں ہر ایک زمانہ میں ہزاروں خواب بین اور ملہم بھی ہوتے آئے ہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ امّت محمدیہ میں کئی کروڑ ایسے بندے ہوں گے جن کو الہام ہوتا ہوگا۔ پھر ماسوا اس کے حدیث اور قرآن سے یہ ثابت ہے کہ امام الزمان کے وقت میں اگر کسی کو کوئی سچی خواب یا الہام ہوتا ہے تو وہ درحقیقت امام الزمان کے نور کا ہی پرتوہ ہوتا ہے جو مستعد دلوں پر پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے تو ہزارہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیں اور آسمان میں ایک صورت انبساطی پیدا ہو جاتی ہے اور انتشار روحانیت اور نورانیت ہوکر نیک استعدادیں جاگ اٹھتی ہیں پس جو شخص الہام کی استعداد رکھتا ہے اس کو سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے اور جو شخص فکر اور غور کے ذریعہ
* ایڈیشن اول میں محمد کا لفظ کاتب سے سہواً رہ گیا ہے۔ ناشر
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 475
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 475
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
475
سے دینی تفقہ کی استعداد رکھتا ہے اس کے تدبّر اور سوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے اور جس کو عبادات کی طرف رغبت ہو اس کو تعبد اور پرستش میں لذت عطا کی جاتی ہے۔ اور جو شخص غیر قوموں کے ساتھ مباحثات کرتا ہے اس کو استدلال اور اتمام حجت کی طاقت بخشی جاتی ہے۔ اور یہ تمام باتیں درحقیقت اسی انتشار روحانیت کا نتیجہ ہوتا ہے جو امام الزمان کے ساتھ آسمان سے اترتی اور ہر ایک مستعد کے دل پر نازل ہوتی ہے۔ اور یہ ایک عام قانون اور سنت الٰہی ہے جو ہمیں قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی رہنمائی سے معلوم ہوا اور ذاتی تجارب نے اس کا مشاہدہ کرایا ہے مگر مسیح موعود کے زمانہ کو اس سے بھی بڑھ کر ایک خصوصیت ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے نبیوں کی کتابوں اور احادیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس حد تک ہوگا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہو جائے گا اور نابالغؔ بچے نبوت کریں گے۔ اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے۔ اور یہ سب کچھ مسیح موعود کی روحانیت کا پرتوہ ہوگا۔ جیسا کہ دیوار پر آفتاب کا سایہ پڑتاہے تو دیوار منور ہو جاتی ہے۔ اور اگر چونہ اور قلعی سے سفید کی گئی ہو تو پھر تو اور بھی زیادہ چمکتی ہے۔ اور اگر اس میں آئینے نصب کئے گئے ہوں تو ان کی روشنی اس قدر بڑھتی ہے کہ آنکھ کو تاب نہیں رہتی۔ مگر دیوار دعویٰ نہیں کر سکتی کہ یہ سب کچھ ذاتی طور پر مجھ میں ہے۔ کیونکہ سورج کے غروب کے بعد پھر اس روشنی کا نام و نشان نہیں رہتا۔ پس ایسا ہی تمام الہامی انوار امام الزمان کے انوار کا انعکاس ہوتا ہے۔ اور اگر کوئی قسمت کا پھیر نہ ہو اور خدا کی طرف سے کوئی ابتلا نہ ہو تو سعید انسان جلد اس دقیقہ کو سمجھ سکتا ہے اور خدانخواستہ اگر کوئی اس الٰہی راز کو نہ سمجھے اور امام الزمان کے ظہور کی خبر سن کر اس سے تعلق نہ پکڑے تو پھر اول ایسا شخص امام سے استغنا ظاہر کرتا ہے اور پھر استغنا سے اجنبیت پیدا ہوتی ہے اور پھر اجنبیت سے سوء ظن بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر سوء ظن سے عداوت پیدا ہوتی ہے اور پھر عداوت سے نعوذ باللہ سلب ایمان تک نوبت پہنچتی ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ہزاروں راہب ملہم اور اہل کشف تھے اور نبی آخر الزمان کے قرب ظہور کی بشارت سنایا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے امام الزمان کو جو خاتم الانبیاء تھے قبول نہ کیا
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 476
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 476
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
476
تو خدا کے غضب کے صاعقہ نے ان کو ہلاک کر دیا اور ان کے تعلقات خداتعالیٰ سے بکلی ٹوٹ گئے اور جو کچھ ان کے بارے میں قرآن شریف میں لکھا گیا اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی ہیں جن کے حق میں قرآن شریف میں فرمایا گیا 33۔۱؂ اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ یہ لوگ خداتعالیٰ سے نصرت دین کیلئے مدد مانگا کرتے تھے اور ان کو الہام اور کشف ہوتا تھا اگرچہ وہ یہودی جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نافرمانی کی تھی خداتعالیٰ کی نظر سے گرگئے تھے لیکن جب عیسائی مذہب بوجہ مخلوق پرستی کے مرگیا اور اس میں حقیقت اور نورانیت نہ رہی تو اس وقت کے یہود اس گناہ سے بری ہوگئے کہ وہ عیسائی کیوں نہیں ہوتے تب ان میں دوبارہ نورانیت پیدا ہوئی اور اکثر ان میں سے صاحب الہام اور صاحب کشف پیدا ہونے لگے اور ان کے راہبوں میں اچھے اچھے حالات کے لوگ تھے اور وہ ہمیشہؔ اس بات کا الہام پاتے تھے کہ نبی آخر زمان اور امام دوران جلد پیدا ہوگا اور اسی وجہ سے بعض ربانی علماء خداتعالیٰ سے الہام پاکر ملک عرب میں آ رہے تھے اور ان کے بچہ بچہ کو خبر تھی کہ عنقریب آسمان سے ایک نیا سلسلہ قائم کیا جائے گا۔ یہی معنے اس آیت کے ہیں کہ 33۲؂ ۔ یعنی اس نبی کو وہ ایسی صفائی سے پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بچوں کو۔ مگر جب کہ وہ نبی موعود اس پر خدا کا سلام ظاہر ہوگیا۔ تب خود بینی اور تعصب نے اکثر راہبوں کو ہلاک کر دیا اور ان کے دل سیہ ہوگئے۔ مگر بعض سعادتمند مسلمان ہوگئے اور ان کا اسلام اچھا ہوا پس یہ ڈرنے کا مقام ہے اور سخت ڈرنے کا مقام ہے خداتعالیٰ کسی مومن کی بلعم کی طرح بدعاقبت نہ کرے۔ الٰہی تو اس امت کو فتنوں سے بچا اور یہودیوں کی نظریں ان سے دور رکھ۔ آمین ثم آمین۔
اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح خداتعالیٰ نے قبائل اور قومیں اس غرض سے بنائیں کہ تا اس جسمانی تمدن کا ایک نظام قائم ہو اور بعض کے بعض سے رشتے اور تعلقات ہو کر ایک دوسرے کے ہمدرد اور معاون ہوجاویں۔ اسی غرض سے اس نے سلسلہ نبوت اور امامت قائم کیا ہے کہ تا امت محمدیہ میں روحانی تعلقات پیدا ہو جائیں اور بعض بعض کے شفیع ہوں۔
اب ایک ضروری سوال یہ ہے کہ امام الزمان کس کو کہتے ہیں اور اس کی علامات کیا ہیں اور اس کو دوسرے
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 477
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 477
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
477
ملہموں اور خواب بینوں اور اہل کشف پر ترجیح کیا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امام الزمان اس شخص کا نام ہے کہ جس شخص کی روحانی تربیت کا خداتعالیٰ متولی ہوکر اس کی فطرت میں ایک ایسی امامت کی روشنی رکھ دیتا ہے کہ وہ سارے جہان کی معقولیوں اور فلسفیوں سے ہر ایک رنگ میں مباحثہ کر کے ان کو مغلوب کرلیتا ہے وہ ہر ایک قسم کے دقیق در دقیق اعتراضات کا خدا سے قوت پاکر ایسی عمدگی سے جواب دیتا ہے کہ آخر ماننا پڑتا ہے کہ اس کی فطرت دنیا کی اصلاح کا پورا سامان لے کر اس مسافر خانہ میں آئی ہے اس لئے اس کو کسی دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا نہیں پڑتا۔ وہ روحانی طور پر محمدی فوجوں کا سپہ سالار ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر دین کی دوبارہ فتح کرے اور وہ تمام لوگ جو اس کے جھنڈے کے نیچے آتے ہیں ان کو بھی اعلیٰ درجہ کے قویٰ ؔ بخشے جاتے ہیں اور وہ تمام شرائط جو اصلاح کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ اور وہ تمام علوم جو اعتراضات کے اٹھانے اور اسلامی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے ضروری ہیں اس کو عطا کئے جاتے ہیں۔ اور بایں ہمہ چونکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس کو دنیا کے بے ادبوں اور بد زبانوں سے بھی مقابلہ پڑے گا۔ اس لئے اخلاقی قوت بھی اعلیٰ درجہ کی اس کو عطا کی جاتی ہے اور بنی نوع کی سچی ہمدردی اس کے دل میں ہوتی ہے اور اخلاقی قوت سے یہ مراد نہیں کہ ہر جگہ وہ خواہ نخواہ نرمی کرتا ہے کیونکہ یہ تو اخلاقی حکمت کے اصول کے برخلاف ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جس طرح تنگ ظرف آدمی دشمن اور بے ادب کی باتوں سے جل کر اور کباب ہو کر جلد مزاج میں تغیر پیدا کر لیتے ہیں اور ان کے چہرہ پر اس عذاب الیم کے جس کا نام غضب ہے نہایت مکروہ طور پر آثار ظاہر ہو جاتے ہیں اور طیش اور اشتعال کی باتیں بے اختیار اوربے محل منہ سے نکلتی چلی جاتی ہیں۔ یہ حالت اہل اخلاق میں نہیں ہوتی۔ ہاں وقت اورمحل کی مصلحت سے کبھی معالجہ کے طور پر سخت لفظ بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ لیکن اس استعمال کے وقت نہ ان کا دل جلتا نہ طیش کی صورت پیدا ہوتی ہے نہ منہ پر جھاگ آتی ہے ہاں کبھی بناوٹی غصّہ رعب دکھلانے کیلئے ظاہر کر دیتے ہیں اور دل آرام اور انبساط اور سرور میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اکثرسخت لفظ اپنے مخاطبین کے حق میں استعمال کئے ہیں جیسا کہ سور ،کتے ،بے ایمان، بدکار وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم نہیں کہہ سکتے
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 478
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 478
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
478
کہ نعوذ باللہ آپ اخلاق فاضلہ سے بے بہرہ تھے کیونکہ وہ تو خود اخلاق سکھلاتے اور نرمی کی تاکید کرتے ہیں بلکہ یہ لفظ جو اکثر آپ کے منہ پر جاری رہتے تھے یہ غصہ کے جوش اور مجنونانہ طیش سے نہیں نکلتے تھے بلکہ نہایت آرام اور ٹھنڈے دل سے اپنے محل پر یہ الفاظ چسپاں کئے جاتے تھے۔ غرض اخلاقی حالت میں کمال رکھنا اماموں کیلئے لازمی ہے۔ اور اگر کوئی سخت لفظ سوختہ مزاجی اور مجنونانہ طیش سے نہ ہو اور عین محل پر چسپاں اور عندالضرورت ہو تو وہ اخلاقی حالت کے منافی نہیں ہے اور یہ بات بیان کر دینے کے لائق ہے کہ جن کو خداتعالیٰ کا ہاتھ امام بناتا ہے ان کی فطرت میں ہی امامت کی قوت رکھی جاتی ہے اور جس طرح الٰہی فطرت نے بموجب آیت کریمہ 3 ۱؂ ۔ہرؔ ایک چرند اور پرند میں پہلے سے وہ قوت رکھ دی ہے جس کے بارے میں خداتعالیٰ کے علم میں یہ تھا کہ اس قوت سے اس کو کام لینا پڑے گا اسی طرح ان نفوس میں جن کی نسبت خداتعالیٰ کے ازلی علم میں یہ ہے کہ ان سے امامت کا کام لیا جاوے گا منصب امامت کے مناسب حال کئی روحانی ملکے پہلے سے رکھے جاتے ہیں اور جن لیاقتوں کی آئندہ ضرورت پڑے گی۔ ان تمام لیاقتوں کا بیج ان کی پاک سرشت میں بویا جاتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اماموں میں بنی نوع کے فائدے اور فیض رسانی کے لئے مندرجہ ذیل قوتوں کا ہونا ضروری ہے:
اول۔ قوت اخلاق۔ چونکہ اماموں کو طرح طرح کے اوباشوں اور سفلوں اور بدزبان لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے ان میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قوت کا ہونا ضروری ہے تا ان میں طیش نفس اور مجنونانہ جوش پیدا نہ ہو اور لوگ ان کے فیض سے محروم نہ رہیں۔ یہ نہایت قابل شرم بات ہے کہ ایک شخص خدا کا دوست کہلا کر پھر اخلاق رزیلہ میں گرفتار ہو اور درشت بات کا ذرہ بھی متحمل نہ ہو سکے اور جو امام زمان کہلا کر ایسی کچی طبیعت کا آدمی ہو کہ ادنیٰ ادنیٰ بات میں منہ میں جھاگ آتا ہے۔ آنکھیں نیلی پیلی ہوتی ہیں وہ کسی طرح امام زمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس پر آیت 3۲؂ ۔کا پورے طور پر صادق آ جانا ضروری ہے۔
دوم۔ قوت امامت ہے جس کی وجہ سے اس کا نام امام رکھا گیا ہے یعنی نیک باتوں
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 479
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 479
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
479
اور نیک اعمال اور تمام الٰہی معارف اور محبت الٰہی میں آگے بڑھنے کا شوق یعنی روح اس کی کسی نقصان کو پسند نہ کرے اور کسی حالت ناقصہ پر راضی نہ ہو۔ اور اس بات سے اس کو درد پہنچے اوردکھ میں پڑے کہ وہ ترقی سے روکا جاوے یہ ایک فطرتی قوت ہے جو امام میں ہوتی ہے اور اگر یہ اتفاق بھی پیش نہ آوے کہ لوگ اس کے علوم اور معارف کی پیروی کریں اور اس کے نور کے پیچھے چلیں تب بھی وہ بلحاظ اپنی فطرتی قوت کے امام ہے۔ غرض یہ دقیقہ معرفت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ امامت ایک قوت ہے کہ اس شخص کے جوہر فطرت میں رکھی جاتی ہے جو اس کام کیلئے ارادہ الٰہی میں ہوتا ہے۔ اور اگر امامت کے لفظ کا ترجمہ کریں تو یوں کہہ سکتے ہیں کہ قوت پیشروی۔ غرض یہ کوئی عارضی منصبؔ نہیں جو پیچھے سے لگ جاتا ہے بلکہ جس طرح دیکھنے کی قوت اور سننے کی قوت اور سمجھنے کی قوت ہوتی ہے اسی طرح یہ آگے بڑھنے اور الٰہی امور میں سب سے اول درجہ پر رہنے کی قوت ہے اور انہی معنوں کی طرف امامت کا لفظ اشارہ کرتا ہے۔
تیسری قوت بسطت فی العلم ہے جو امامت کیلئے ضروری اور اس کا خاصہ لازمی ہے۔ چونکہ امامت کا مفہوم تمام حقائق اور معارف اور لوازم محبت اور صدق اور وفا میں آگے بڑھنے کو چاہتا ہے۔ اسی لئے وہ اپنے تمام دوسرے قویٰ کو اسی خدمت میں لگا دیتا ہے اور 3۔۱؂ کی دعا میں ہر دم مشغول رہتا ہے اور پہلے سے اس کے مدارک اور حواس ان امور کے لئے جوہر قابل ہوتے ہیں۔ اسی لئے خداتعالیٰ کے فضل سے علوم الٰہیہ میں اس کو بسطت عنایت کی جاتی ہے اور اس کے زمانہ میں کوئی دوسرا ایسا نہیں ہوتا جو قرآنی معارف کے جاننے اور کمالات افاضہ اور اتمام حجت میں اس کے برابر ہو اس کی رائے صائب دوسروں کے علوم کی تصحیح کرتی ہے۔ اور اگر دینی حقائق کے بیان میں کسی کی رائے اس کی رائے کے مخالف ہو تو حق اس کی طرف ہوتا ہے کیونکہ علوم حقہ کے جاننے میں نور فراست اس کی مدد کرتا ہے۔ اور وہ نور ان چمکتی ہوئی شعاعوں کے ساتھ دوسروں کو نہیں دیا جاتا وَذالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ پس جس طرح مرغی انڈوں کو اپنے پروں کے نیچے لے کر ان کو بچے بناتی ہے اور پھر بچوں کو پروں کے نیچے رکھ کر اپنے جوہر ان کے اندر
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 480
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 480
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
480
پہنچا دیتی ہے اسی طرح یہ شخص اپنے علوم روحانیہ سے صحبت یابوں کو علمی رنگ سے رنگین کرتا رہتا ہے اور یقین اور معرفت میں بڑھاتا جاتا ہے مگر دوسرے ملہموں اور زاہدوں کیلئے اس قسم کی بسطت علمی ضروری نہیں کیونکہ نوع انسان کی تربیت علمی ان کے سپرد نہیں کی جاتی۔ اور ایسے زاہدوں اور خواب بینوں میں اگر کچھ نقصان علم اور جہالت باقی ہے تو چنداں جائے اعتراض نہیں کیونکہ وہ کسی کشتی کے ملّاح نہیں ہیں بلکہ خود ملاح کے محتاج ہیں۔ ہاں ان کو ان فضولیوں میں نہیں پڑنا چاہئے کہ ہم اس روحانی ملاح کی کچھ حاجت نہیں رکھتے ہم خود ایسے اور ایسے ہیں۔ اور ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ضرور ان کو حاجت ہے جیسا کہ عورت کو مرد کی حاجت ہے۔ خدا نے ہر ایک کو ایک کام کے لئے پیدا کیا ہے۔ پس جوؔ شخص امامت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا اگر وہ ایسا دعویٰ زبان پر لائے گا تو وہ لوگوں سے اسی طرح اپنی ہنسی کرائے گا جیسا کہ ایک نادان ولی نے بادشاہ کے روبرو ہنسی کرائی تھی اور قصہ یوں ہے کہ کسی شہر میں ایک زاہد تھا جو نیک بخت اور متقی تو تھا مگر علم سے بے بہرہ تھا اور بادشاہ کو اس پر اعتقاد تھا اور وزیر بوجہ اس کی بے علمی کے اس کا معتقد نہیں تھا۔ ایک مرتبہ وزیر اور بادشاہ دونوں اس کے ملنے کیلئے گئے اور اس نے محض فضولی کی راہ سے اسلامی تاریخ میں دخل دے کر بادشاہ کو کہا کہ اسکندر رومی بھی اس امت میں بڑا بادشاہ گذرا ہے تب وزیر کو نکتہ چینی کا موقعہ ملا اور فی الفور کہنے لگا کہ دیکھئے حضور فقیر صاحب کو علاوہ کمالات ولایت کے تاریخ دانی میں بھی بہت کچھ دخل ہے۔ سو امام الزمان کو مخالفوں اور عام سائلوں کے مقابل پر اس قدر الہام کی ضرورت نہیں جس قدر علمی قوت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ شریعت پر ہر ایک قسم کے اعتراض کرنے والے ہوتے ہیں۔ طبابت کے رو سے بھی ہیئت کے رو سے بھی، طبعی کے رو سے بھی، جغرافیہ کے رو سے بھی اور کتب مسلمہ اسلام کے رو سے بھی اور عقلی بناء پر بھی اور نقلی بناء پر بھی اور امام الزمان حامی بیضۂ اسلام کہلاتا ہے۔ اور اس باغ کا خداتعالیٰ کی طرف سے باغبان ٹھہرایا جاتا ہے اور اس پر فرض ہوتا ہے کہ ہر ایک اعتراض کو دور کرے اور ہر ایک معترض کا منہ بند کر دے اور صرف یہ نہیں بلکہ یہ بھی اس کا فرض ہوتا ہے کہ نہ صرف اعتراضات دور کرے بلکہ اسلام کی خوبی اور خوبصورتی بھی دنیا پر ظاہر کردے۔ پس
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 481
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 481
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
481
ایسا شخص نہایت قابل تعظیم اور کبریت احمر کا حکم رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کے وجود سے اسلام کی زندگی ظاہر ہوتی ہے اور وہ اسلام کا فخر اور تمام بندوں پر خداتعالیٰ کی حجت ہوتا ہے اور کسی کیلئے جائز نہیں ہوتا کہ اس سے جدائی اختیار کرے کیونکہ وہ خداتعالیٰ کے ارادہ اور اذن سے اسلام کی عزت کا مربی اور تمام مسلمانوں کا ہمدرد اور کمالات دینیہ پر دائرہ کی طرح محیط ہوتا ہے۔ ہر ایک اسلام اور کفر کی کشتی گاہ میں وہی کام آتاہے اور اسی کے انفاس طیبہ کفرکش ہوتے ہیں۔ وہ بطور کل کے اور باقی سب اس کے جز ہوتے ہیں ؂
او چو کل و تو جزئی نے کلی
تو ہلاک استی اگر از وے بگسلی
چوتھیؔ قوت عزم ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہے اور عزم سے مراد یہ ہے کہ کسی حالت میں نہ تھکنا اور نہ نوامید ہونا اور نہ ارادہ میں سست ہو جانا۔ بسا اوقات نبیوں اور مرسلوں اور محدثوں کو جو امام الزمان ہوتے ہیں ایسے ابتلا پیش آجاتے ہیں کہ وہ بظاہر ایسے مصائب میں پھنس جاتے ہیں کہ گویا خداتعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا ہے اور ان کے ہلاک کرنے کا ارادہ فرمایا ہے اور بسا اوقات ان کی وحی اور الہام میں فترت واقع ہو جاتی ہے کہ ایک مدت تک کچھ وحی نہیں ہوتی اور بسااوقات ان کی بعض پیشگوئیاں ابتلا کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں اور عوام پر ان کا صدق نہیں کھلتا اور بسا اوقات ان کے مقصود کے حصول میں بہت کچھ توقف پڑ جاتی ہے اور بسا اوقات وہ دنیا میں متروک اور مخذول اور ملعون اور مردود کی طرح ہوتے ہیں۔ اور ہر ایک شخص جو ان کو گالی دیتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ گویا میں بڑا ثواب کا کام کر رہا ہوں۔ اور ہر ایک ان سے نفرت کرتا اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے اور نہیں چاہتا کہ سلام کا بھی جواب دے۔ لیکن ایسے وقتوں میں ان کا عزم آزمایا جاتا ہے۔ وہ ہرگز ان آزمائشوں سے بے دل نہیں ہوتے اور نہ اپنے کام میں سست ہوتے ہیں یہاں تک کہ نصرت الٰہی کا وقت آجاتا ہے۔
پانچویں قوت اقبال علی اللہ ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہے۔ اور اقبال علی اللہ سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ مصیبتوں اور ابتلاؤں کے وقت اور نیز اس وقت کہ جب سخت دشمن سے مقابلہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 482
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 482
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
482
آ پڑے اور کسی نشان کا مطالبہ ہو۔ اور یا کسی فتح کی ضرورت ہو اور یا کسی کی ہمدردی واجبات سے ہو۔ خداتعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں اور پھر ایسے جھکتے ہیں کہ ان کے صدق اور اخلاص اور محبت اور وفا اور عزم لاینفکسے بھری ہوئی دعاؤں سے ملاء اعلیٰ میں ایک شور پڑ جاتا ہے اور ان کی محویت کے تضرعات سے آسمانوں میں ایک دردناک غلغلہ پیدا ہوکر ملائک میں اضطراب ڈالتا ہے۔ پھر جس طرح شدت کی گرمی کی انتہا کے بعد برسات کی ابتداء میں آسمان پر بادل نمودار ہونے شروع ہو جاتے ہیں اسی طرح ان کے اقبال علی اللہ کی حرارت یعنی خداتعالیٰ کی طرف سخت توجہ کی گرمی آسمان پر کچھ بنانا شروع کر دیتی ہے اور تقدیریں بدلتی ہیں اور الٰہیؔ ارادے اور رنگ پکڑتے ہیں یہاں تک کہ قضاء و قدر کی ٹھنڈی ہوائیں چلنی شروع ہو جاتی ہیں۔ اور جس طرح تپ کا مادہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہی پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر مسہل کی دوا بھی خداتعالیٰ کے حکم سے ہی اس مادّہ کو باہر نکالتی ہے۔ ایسا ہی مردان خدا کے اقبال علی اللہ کی تاثیر ہوتی ہے ؂
آں دعائے شیخ نے چوں ہر دعاست
فانی است و دستِ او دستِ خداست
اور امام الزمان کا اقبال علی اللہ یعنی اس کی توجہ الی اللہ تمام اولیاء اللہ کی نسبت زیادہ تر تیز اور سریع الاثر ہوتی ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے وقت کا امام الزمان تھا اور بلعم اپنے وقت کا ولی تھا جس کو خداتعالیٰ سے مکالمہ اور مخاطبہ نصیب تھا اور نیز مستجاب الدعوات تھا۔ لیکن جب موسیٰ سے بلعم کا مقابلہ آپڑا تو وہ مقابلہ اس طرح بلعم کو ہلاک کر گیا کہ جس طرح ایک تیز تلوار ایک دم میں سر کو بدن سے جدا کر دیتی ہے اور بدبخت بلعم کو چونکہ اس فلاسفی کی خبر نہ تھی کہ گو خدا تعالیٰ کسی سے مکالمہ کرے اور اس کو اپنا پیارا اور برگزیدہ ٹھہراوے مگروہ جو فضل کے پانی میں اس سے بڑھ کر ہے جب اس شخص سے اس کا مقابلہ ہوگا تو بے شک یہ ہلاک ہو جائے گا اور اس وقت کوئی الہام کام نہیں دے گا اور نہ مستجاب الدعوات ہونا کچھ مدد دے گا۔ اور یہ تو ایک بلعم تھا مگر میں جانتا ہوں کہ ہمارے نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں اسی طرح ہزاروں بلعم ہلاک ہوئے جیسا کہ یہودیوں کے
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 483
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 483
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
483
راہب عیسائی دین کے مرنے کے بعد اکثر ایسے ہی تھے۔
چھٹے کشوف اور الہامات کا سلسلہ ہے جو امام الزمان کیلئے ضروری ہوتا ہے۔ امام الزمان اکثر بذریعہ الہامات کے خداتعالیٰ سے علوم اور حقائق اور معارف پاتا ہے اور اس کے الہامات دوسروں پر قیاس نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ وہ کیفیت اور کمیّت میں اس اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں۔ اور ان کے ذریعہ سے علوم کھلتے ہیں اور قرآنی معارف معلوم ہوتے ہیں۔ اور دینی عقدے اور معضلات حل ہوتے ہیں اور اعلیٰ درجہ کی پیشگوئیاں جو مخالف قوموں پر اثر ڈال سکیں ظاہر ہوتی ہیں۔ غرض جولوگ امام الزمان ہوں ان کے کشوف اور الہام صرف ذاتیات تک محدود نہیں ہوتے۔ بلکہ نصرت دین اور تقویت ایمان کیلئے نہایت مفید اور ؔ مبارک ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ ان سے نہایت صفائی سے مکالمہ کرتا ہے اور ان کی دعا کا جواب دیتا ہے اور بسا اوقات سوال اور جواب کا ایک سلسلہ منعقد ہو کر ایک ہی وقت میں سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب اور پھر سوال کے بعد جواب ایسے صفا اور لذیذ اور فصیح الہام کے پیرایہ میں شروع ہوتا ہے کہ صاحب الہام خیال کرتا ہے کہ گویا وہ خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ اور امام الزمان کا ایسا الہام نہیں ہوتا کہ جیسے ایک کلوخ انداز درپردہ ایک کلوخ پھینک جائے اور بھاگ جائے اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون تھا اور کہا ں گیا بلکہ خداتعالیٰ ان سے بہت قریب ہو جاتا ہے اور کسی قدر پردہ اپنے پاک اور روشن چہرہ پر سے جو نور محض ہے اتار دیتا ہے۔ اور یہ کیفیت دوسروں کومیسر نہیں آتی بلکہ وہ تو بسا اوقات اپنے تئیں ایسا پاتے ہیں کہ گویا ان سے کوئی ٹھٹھا کر رہا ہے۔ اور امام الزمان کی الہامی پیشگوئیاں اظہار علی الغیب کا مرتبہ رکھتی ہیں۔ یعنی غیب کو ہر ایک پہلو سے اپنے قبضہ میں کرلیتی ہیں۔ جیسا کہ چابک سوار گھوڑے کو قبضہ میں کرتا ہے اور یہ قوت اور انکشاف اس لئے ان کے الہام کو دیا جاتا ہے کہ تا ان کے پاک الہام شیطانی الہامات سے مشتبہ نہ ہوں اور تا دوسروں پر حجت ہو سکیں۔
واضح ہو کہ شیطانی الہامات ہونا حق ہے اور بعض ناتمام سالک لوگوں کو ہوا کرتے ہیں۔ اور حدیث النفس بھی ہوتی ہے جس کو اضغاث احلام کہتے ہیں اور جو شخص اس سے انکار کرے وہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 484
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 484
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
484
قرآن شریف کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ قرآن شریف کے بیان سے شیطانی الہام ثابت ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تک انسان کا تزکیہ نفس پورے اور کامل طور پر نہ ہو تب تک اس کو شیطانی الہام ہو سکتا ہے اور وہ آیت 3 ۱؂۔کے نیچے آ سکتا ہے مگر پاکوں کو شیطانی وسوسہ پر بلاتوقف مطلع کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ بعض پادری صاحبان نے اپنی تصنیفات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت اس واقعہ کی تفسیر میں کہ جب ان کو ایک پہاڑی پر شیطان لے گیا۔ اس قدر جرأت کی ہے کہ وہ لکھتے ہیں کہ یہ کوئی خارجی بات نہ تھی جس کو دنیا دیکھتی اور جس کو یہودی بھی مشاہدہ کرتے بلکہ یہ تین مرتبہ شیطانی الہام حضرت مسیح کو ہوا ؔ تھا جس کو انہوں نے قبول نہ کیا مگر انجیل کی ایسی تفسیر سننے سے ہمارا تو بدن کانپتا ہے کہ مسیح اور پھر شیطانی الہام۔ ہاں اگر اس شیطانی گفتگو کو شیطانی الہام نہ مانیں اور یہ خیال کریں کہ درحقیقت شیطان نے مجسم ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات کی تھی تو یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ اگر شیطان نے جو پرانا سانپ ہے فی الحقیقت اپنے تئیں جسمانی صورت میں ظاہر کیا تھا اور وجود خارجی کے ساتھ آدمی بن کر یہودیوں کے ایسے متبرک معبد کے پاس آکر کھڑا ہوگیا تھا جس کے اردگرد صدہا آدمی رہتے تھے تو ضرور تھا کہ اس کے دیکھنے کیلئے ہزاروں آدمی جمع ہو جاتے بلکہ چاہئے تھا کہ حضرت مسیح آواز مار کر یہودیوں کو شیطان دکھلا دیتے جس کے وجود کے کئی فرقے منکر تھے۔ اور شیطان کا دکھلا دینا حضرت مسیح کا ایک نشان ٹھہرتا جس سے بہت آدمی ہدایت پاتے اور رومی سلطنت کے معزز عہدہ دار شیطان کو دیکھ کر اور پھر اس کو پرواز کرتے ہوئے مشاہدہ کر کے ضرور حضرت مسیح کے پیرو ہو جاتے مگر ایسا نہ ہوا۔ اس سے یقین ہوتا ہے کہ یہ کوئی روحانی مکالمہ تھا جس کو دوسرے لفظوں میں شیطانی الہام کہہ سکتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ بھی آتا ہے کہ یہودیوں کی کتابوں میں بہت سے شریر انسانوں کا نام بھی شیطان رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اسی محاورہ کے لحاظ سے مسیح نے بھی ایک اپنے بزرگ حواری کو جس کو انجیل میں اس واقعہ کی تحریر سے چند سطر ہی پہلے بہشت کی کنجیاں دی گئی تھیں
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 485
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 485
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/485/mode/1up
485
شیطان کہا ہے۔ پس یہ بات بھی قرین قیاس ہے کہ کوئی یہودی شیطان ٹھٹھے اور ہنسی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے پاس آیا ہوگا اور آپ نے جیسا کہ پطرس کا نام شیطان رکھا اس کو بھی شیطان کہہ دیا ہوگااور یہودیوں میں اس قسم کی شرارتیں بھی تھیں۔ اور ایسے سوال کرنا یہودیوں کا خاصہ ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ سب قصہ ہی جھوٹ ہو جو عمداً یا دھوکہ کھانے سے لکھ دیا ہو۔ کیونکہ یہ انجیلیں حضرت مسیح کی انجیلیں نہیں ہیں اور نہ ان کی تصدیق شدہ ہیں بلکہ حواریوں نے یا کسی اور نے اپنے خیال اور عقل کے موافق لکھا ہے۔ اسی وجہ سے ان میں باہمی اختلاف بھی ہے۔ لہٰذا کہہ سکتے ہیں کہ ان خیالات میں لکھنے والوں سے غلطی ہوگئی۔ جیساؔ کہ یہ غلطی ہوئی کہ انجیل نویسوں میں سے بعض نے گمان کیا کہ گویا حضرت مسیح صلیب پر فوت ہوگئے ہیں*۔ایسی غلطیاں حواریوں کی سرشت میں تھیں کیونکہ انجیل ہمیں خبر دیتی ہے کہ ان کی عقل باریک نہ تھی۔ ان کے حالات ناقصہ کی خود حضرت مسیح گواہی دیتے ہیں کہ وہ فہم اور درایت اور عملی قوت میں بھی کمزور تھے۔ بہرحال یہ سچ ہے کہ پاکوں کے دل میں شیطانی خیال مستحکم نہیں ہو سکتا۔ اور اگر کوئی تیرتا ہوا سرسری وسوسہ ان کے دل کے نزدیک آبھی جائے تو جلد تر وہ شیطانی خیال دور اور دفع کیا جاتا ہے اور ان کے پاک دامن پر کوئی داغ نہیں لگتا قرآن شریف میں اس قسم کے وسوسہ کو جو ایک کم رنگ اور ناپختہ خیال سے مشابہ ہوتا ہے طائف کے نام سے موسوم کیا ہے اور لغت عرب میں اس کا نام طائف اور طَوف اور طَیّف اور طَیْف بھی ہے۔ اور اس وسوسہ کا دل سے نہایت ہی کم تعلق ہوتا ہے گویا نہیں ہوتا۔ یا یوں کہو کہ جیسا کہ دور سے کسی درخت کا سایہ بہت ہی خفیف سا پڑتا ہے ایسا ہی یہ وسوسہ ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ شیطان لعین نے حضرت مسیح علیہ السلام کے دل میں اسی قسم کے خفیف وسوسہ کے ڈالنے کا ارادہ کیا ہو۔ اور انہوں نے قوت نبوت سے اس وسوسہ کو دفع کر دیا ہو۔ اور ہمیں یہ کہنا اس مجبوری سے پڑا
*عیسائیوں کی بہت سی انجیلوں میں سے ایک انجیل اب تک ان کے پاس وہ بھی ہے جس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح مصلوب نہیں ہوئے۔ یہ بیان صحیح ہے کیونکہ مرہم عیسیٰ اس کی تصدیق کرتی ہے جس کا ذکر صدہا طبیبوں نے کیا ہے۔منہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 486
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 486
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/486/mode/1up
486
ہے کہ یہ قصہ صرف انجیلوں میں ہی نہیں ہے بلکہ ہماری احادیث صحیحہ میں بھی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:
عن محمد بن عمران الصیرفی قال حدثنا الحسن بن علیل العنزی عن العباس بن عبدالواحد۔ عن محمد بن عمرو۔ عن محمد بن مناذر۔ عن سفیان بن عیینۃ عن عمرو بن دینار۔ عن طاؤس عن ابی ھریرۃ قال جاء الشیطٰن الٰی عیسَی۔ قال الست تزعم انک صادق قال بلٰی قال فاوف علی ھذہ الشاھقۃ فالق نفسک منھا فقال ویلک الم یقل اللّٰہ یا ابن ادم لا تبلنی بھلاکک فانی افعل ما اشاء*۔ یعنی محمد بن عمران صیرفی سے روایت ہے اور انہوں نے حسن بن علیل عنزیسے روایت کی اور حسن نے عباس سے اور عباس نے محمد بن عمرو سے اور محمد بن عمرو نے محمد بن مناذر سے اور محمد بن مناذر نے سفیان بن عیینہؔ سے اور سفیان نے عمرو بن دینار سے اور عمرو بن دینار نے طاؤس سے اور طاؤس نے ابوہریرہ سے کہا شیطان عیسیٰ کے پاس آیا اور کہا کہ کیا تو گمان نہیں کرتا کہ تو سچا ہے۔ اس نے کہا کہ کیوں نہیں شیطان نے کہا کہ ا گر یہ سچ ہے تو اس پہاڑ پر چڑھ جا اور پھر اس پر سے اپنے تئیں نیچے گرادے۔ حضرت عیسیٰ نے کہا کہ تجھ پر واویلا ہو کیا تو نہیں جانتا کہ خدا نے فرمایا ہے کہ اپنی موت کے ساتھ میرا امتحان نہ کر کہ میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ شیطان ایسی طرز سے آیا ہوگا جیسا کہ جبرائیل پیغمبروں کے پاس آتا ہے۔ کیونکہ جبرائیل ایسا تو نہیں آتا جیسا کہ انسان کسی گاڑی میں بیٹھ کر یا کسی کرایہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر اور پگڑی باندھ کر اور چادر اوڑھ کر آتا ہے بلکہ اس کا آنا عالم ثانی کے رنگ میں ہوتا ہے۔ پھر شیطان جو کمتر اور ذلیل تر ہے کیونکر انسانی طور پر کھلے کھلے آ سکتا ہے۔ اس تحقیق سے بہرحال اس بات کو ماننا پڑتا ہے جو ڈریپر نے بیان کی ہے لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قوّت نبوت اور نورِحقیقت کے ساتھ شیطانی القا کو ہرگز ہرگز نزدیک آنے نہیں دیا اور اس کے ذب اور دفع میں فوراً مشغول ہوگئے۔ اور جس طرح نور کے مقابل پر ظلمت ٹھہر نہیں سکتی اسی طرح شیطان ان کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکا اور بھاگ گیا۔ یہی3
* الاغانی ، لابی الفرج الاصفہانی، اخبار ابن مناذر و نسبہ ، جز ۱۸ صفحہ۲۰۷۔ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی۔ بیروت (ناشر)
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 487
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 487
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/487/mode/1up
487
3۔۱؂کے صحیح معنے ہیں۔ کیونکہ شیطان کا سلطان یعنی تسلط درحقیقت ان پر ہے جو شیطانی وسوسہ اور الہام کو قبول کرلیتے ہیں۔ لیکن جو لوگ دور سے نور کے تیر سے شیطان کو مجروح کرتے ہیں اور اس کے منہ پر زجر اور توبیخ کا جوتہ مارتے ہیں اور اپنے منہ سے وہ کچھ بکے جائے اس کی پیروی نہیں کرتے وہ شیطانی تسلط سے مستثنیٰ ہیں مگر چونکہ ان کو خداتعالیٰ ملکوت السمٰوات والارضدکھانا چاہتا ہے اور شیطان ملکوت الارض میں سے ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہ مخلوقات کے مشاہدہ کا دائرہ پورا کرنے کے لئے اس عجیب الخلقت وجود کا چہرہ دیکھ لیں اور کلام سن لیں جس کا نام شیطان ہے اس سے ان کے دامن تنزہ اور عصمت کو کوئی داغ نہیں لگتا۔ حضرت مسیح سے شیطان نے اپنے قدیم طریقہ وسوسہ اندازی کے طرز پر شرارت سے ایک درخواست کی تھی سو ان کی پاک طبیعت نے فی الفور اس کو ردؔ کیا اور قبول نہ کیا۔ اس میں ان کی کوئی کسر شان نہیں۔ کیا بادشاہوں کے حضور میں کبھی بدمعاش کلام نہیں کرتے۔ سو ایسا ہی روحانی طور سے شیطان نے یسوع کے دل میں اپنا کلام ڈالا۔ یسوع نے اس شیطانی الہام کو قبول نہ کیا بلکہ رد کیا۔ سو یہ تو قابل تعریف بات ہوئی اس سے کوئی نکتہ چینی کرنا حماقت اور روحانی فلاسفی کی بے خبری ہے لیکن جیسا کہ یسوع نے اپنے نور کے تازیانہ سے شیطانی خیال کو دفع کیا اور اس کے الہام کی پلیدی فی الفور ظاہر کر دی۔ ہر ایک زاہد اور صوفی کا یہ کام نہیں۔ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ شیطانی الہام مجھے بھی ہوا تھا۔ شیطان نے کہا کہ اے عبدالقادر تیری عبادتیں قبول ہوئیں اب جو کچھ دوسروں پر حرام ہے تیرے پر حلال اور نماز سے بھی اب تجھے فراغت ہے جو چاہے کر۔ تب میں نے کہا کہ اے شیطان دور ہو۔ وہ باتیں میرے لئے کب روا ہو سکتی ہیں جو نبی علیہ السلام پر روا نہیں ہوئیں۔ تب شیطان مع اپنے سنہری تخت کے میری آنکھوں کے سامنے سے گم ہوگیا۔ اب جبکہ سیّد عبدالقادر جیسے اہل اللہ اور مرد فرد کو شیطانی الہام ہوا تو دوسرے عامۃ الناس جنہوں نے ابھی اپنا سلوک بھی تمام نہیں کیا۔ وہ کیونکر اس سے
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 488
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 488
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/488/mode/1up
488
بچ سکتے ہیں۔ اور ان کو وہ نورانی آنکھیں کہاں حاصل ہیں تا سید عبدالقادر اور حضرت مسیح علیہ السلام کی طرح شیطانی الہام کو شناخت کرلیں۔ یاد رہے کہ وہ کاہن جو عرب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بکثرت تھے ان لوگوں کو بکثرت شیطانی الہام ہوتے تھے اور بعض وقت وہ پیشگوئیاں بھی الہام کے ذریعہ سے کیا کرتے تھے۔ اور تعجب یہ کہ ان کی بعض پیشگوئیاں سچی بھی ہوتی تھیں۔ چنانچہ اسلامی کتابیں ان قصوں سے بھری پڑی ہیں۔ پس جو شخص شیطانی الہام کا منکر ہے وہ انبیاء علیہم السلام کی تمام تعلیموں کا انکاری ہے اور نبوت کے تمام سلسلہ کا منکر ہے۔ بائبل میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبی کو شیطانی الہام ہوا تھا اور انہوں نے الہام کے ذریعہ سے جو ایک سفید جن کا کرتب تھا ایک بادشاہ کی فتح کی پیشگوئی کی۔ آخر وہ بادشاہ بڑی ذلت سے اسی لڑائی میں مارا گیا اور بڑی شکست ہوئی اور ایک پیغمبر جسؔ کو حضرت جبرائیل سے الہام ملا تھا اس نے یہی خبر دی تھی کہ بادشاہ مارا جائے گا اور کتے اس کا گوشت کھائیں گے اور بڑی شکست ہوگی۔ سو یہ خبر سچی نکلی۔ مگر اس چار سو نبی کی پیشگوئی جھوٹی ظاہر ہوئی۔
اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کہ اس کثرت سے شیطانی الہام بھی ہوتے ہیں تو پھر الہام سے امان اٹھتا ہے اور کوئی الہام بھروسہ کے لائق نہیں ٹھہرتا۔ کیونکہ احتمال ہے کہ شیطانی ہو خاص کر جبکہ مسیح جیسے اولی العزم نبی کو بھی یہی واقعہ پیش آیا تو پھر اس سے تو ملہموں کی کمر ٹوٹتی ہے تو الہام کیا ایک بلا ہو جاتی ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بیدل ہونے کا کوئی محل نہیں۔ دنیا میں خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ایسا ہی واقع ہوا ہے کہ ہر ایک عمدہ جوہر کے ساتھ مغشوش چیزیں بھی لگی ہوئی ہیں۔ دیکھو ایک تو وہ موتی ہیں جو دریا سے نکلتے ہیں اور دوسرے وہ سستے موتی ہیں جو لوگ آپ بنا کر بیچتے ہیں۔ اب اس خیال سے کہ دنیا میں جھوٹے موتی بھی ہیں سچے موتیوں کی خریدوفروخت بند نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ جوہری جن کو خداتعالیٰ نے بصیرت دی ہے ایک ہی نظر سے پہچان جاتے ہیں کہ یہ سچا اور
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 489
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 489
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/489/mode/1up
489
یہ جھوٹا ہے۔ سو الہامی جواہرات کا جوہری امام الزمان ہوتا ہے۔ اس کی صحبت میں رہ کر انسان جلد اصل اور مصنوعی میں فرق کر سکتا ہے۔ اے صوفیو!!! اور اس مہوّسی کے گرفتارو۔ ذرہ ہوش سنبھال کر اس راہ میں قدم رکھو اور خوب یاد رکھو کہ سچا الہام جو خالص خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے مندرجہ ذیل علامتیں اپنے ساتھ رکھتا ہے:۔
(۱) وہ اس حالت میں ہوتاہے کہ جب کہ انسان کا دل آتش درد سے گداز ہو کر مصفا پانی کی طرح خداتعالیٰ کی طرف بہتا ہے۔ اسی طرف حدیث کا اشارہ ہے کہ قرآن غم کی حالت میں نازل ہوا لہٰذا تم بھی اس کو غمناک دل کے ساتھ پڑھو۔
(۲) سچا الہام اپنے ساتھ ایک لذت اور سرور کی خاصیت لاتا ہے اور نامعلوم وجہ سے یقین بخشتا ہے اور ایک فولادی میخ کی طرح دل کے اندردھنس جاتاہے اور اس کی عبارت فصیح اور غلطی سے پاک ہوتی ہے۔
(۳) ؔ سچے الہام میں ایک شوکت اور بلندی ہوتی ہے اور دل پر اس سے مضبوط ٹھوکر لگتی ہے اور قوت اور رعبناک آواز کے ساتھ دل پر نازل ہوتا ہے۔ مگر جھوٹے الہام میں چوروں اور مخنثوں اور عورتوں کی سی دھیمی آواز ہوتی ہے کیونکہ شیطان چور اور مخنث اور عورت ہے۔
(۴) سچا الہام خداتعالیٰ کی طاقتوں کا اثر اپنے اندر رکھتا ہے اور ضرور ہے کہ اس میں پیشگوئیاں بھی ہوں اور وہ پوری بھی ہو جائیں۔
(۵) سچا الہام انسان کو دن بدن نیک بناتا جاتا ہے اور اندرونی کثافتیں اور غلاظتیں پاک کرتا ہے اور اخلاقی حالتوں کو ترقی دیتا ہے۔
(۶) سچے الہام پر انسان کی تمام اندرونی قوتیں گواہ ہو جاتی ہیں اور ہر ایک قوت پر ایک نئی اور پاک روشنی پڑتی ہے اور انسان اپنے اندر ایک تبدیلی پاتا ہے اور اس کی پہلی زندگی مر جاتی ہے اور نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔ اور وہ بنی نوع کی ایک عام ہمدردی کا ذریعہ ہوتا ہے۔
(۷) سچا الہام ایک ہی آواز پر ختم نہیں ہوتا کیونکہ خدا کی آواز ایک سلسلہ رکھتی ہے۔ وہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 490
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 490
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/490/mode/1up
490
نہایت ہی حلیم ہے جس کی طرف توجہ کرتا ہے اس سے مکالمت کرتا ہے اور سوالات کا جواب دیتا ہے اور ایک ہی مکان اور ایک ہی وقت میں انسان اپنے معروضات کا جواب پا سکتا ہے گو اس مکالمہ پر کبھی فترت کا زمانہ بھی آجاتا ہے۔
(۸) سچے الہام کا انسان کبھی بزدل نہیں ہوتا اور کسی مدعی الہام کے مقابلہ سے اگرچہ وہ کیسا ہی مخالف ہو نہیں ڈرتا۔ جانتا ہے کہ میرے ساتھ خدا ہے اور وہ اس کو ذلت کے ساتھ شکست دے گا۔
(۹) سچا الہام اکثر علوم اور معارف کے جاننے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ کیونکہ خدا اپنے ملہم کو بے علم اور جاہل رکھنا نہیں چاہتا۔
(۱۰) سچے الہام کے ساتھ اور بھی بہت سی برکتیں ہوتی ہیں اور کلیم اللہ کو غیب سے عزت دی جاتی ہے اور رعب عطا کیا جاتا ہے۔
آج کل کا ایک ایسا ناقص زمانہ ہے کہ اکثر فلسفی طبع اور نیچری اور برہمو اس الہام سے منکرؔ ہیں۔ اسی انکار میں کئی اس دنیا سے گذر بھی گئے۔ لیکن اصل امر یہ ہے کہ سچائی سچائی ہے گو تمام جہان اس کا انکار کرے اور جھوٹ جھوٹ ہے گو تمام دنیا اس کی مصدق ہو۔ جو لوگ خداتعالیٰ کو مانتے اور اس کو مدبر عالم خیال کرتے ہیں اور اس کو بصیر اور سمیع اور علیم جانتے ہیں۔ ان کی یہ حماقت ہے کہ اس قدر اقراروں کے بعد پھر خداتعالیٰ کے کلام سے منکر رہیں۔ کیا جو دیکھتا ہے جانتا ہے اور بغیر ذریعہ جسمانی اسباب کے اس کا علم ذرہ ذرہ پر محیط ہے وہ بول نہیں سکتا۔ اور یہ کہنا بھی غلطی ہے کہ اس کی قوت گویائی پہلے تو تھی اور اب بند ہوگئی۔ گویا اس کی صفت کلام آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہے۔ لیکن ایسا کہنا بڑی نومیدی دیتا ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی صفتیں بھی کسی زمانہ تک چل کر پھر مفقود ہو جاتی ہیں اور کچھ بھی ان کا نشان باقی نہیں رہتا تو پھر باقی ماندہ صفتوں میں بھی جائے اندیشہ ہے۔ افسوس ایسی عقلوں اور ایسے اعتقادوں پر کہ جو خداتعالیٰ کی تمام صفات مان کر پھر چھری ہاتھ میں لے بیٹھتے ہیں۔ اور ان میں سے ایک ضروری حصہ کاٹ کر پھینک دیتے ہیں۔ افسوس کہ آریوں نے تو وید تک ہی خداتعالیٰ کے کلام پر مہر لگا دی تھی مگر
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 491
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 491
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/491/mode/1up
491
عیسائیوں نے بھی الہام کو بے مہر رہنے نہ دیا۔ گویا حضرت مسیح تک ہی انسانوں کو ذاتی بصیرت اور معرفت حاصل کرنے کیلئے چشم دید الہاموں کی حاجت تھی۔ اور آئندہ ایسی بدقسمت ذریت ہے کہ وہ ہمیشہ کیلئے محروم ہیں۔ حالانکہ انسان ہمیشہ چشم دید ماجرا اور ذاتی بصیرت کا محتاج ہے۔ مذہب اسی زمانہ تک علم کے رنگ میں رہ سکتا ہے جب تک خداتعالیٰ کی صفات ہمیشہ تازہ بتازہ تجلی فرماتی رہیں ورنہ کہانیوں کی صورت میں ہوکر جلد مر جاتا ہے۔ کیا ایسی ناکامی کو کوئی انسانی کانشنس قبول کر سکتا ہے۔ جب کہ ہم اپنے اندر اس بات کا احساس پاتے ہیں کہ ہم اس معرفت تامہ کے محتاج ہیں جو کسی طرح بغیر مکالمہ الٰہیہ اور بڑے بڑے نشانوں کے پوری نہیں ہو سکتی تو کس طرح خداتعالیٰ کی رحمت ہم پر الہامات کا دروازہ بند کر سکتی ہے۔ کیا اس زمانہ میں ہمارے دل اور ہوگئے ہیں یا خدا اور ہوگیا ہے۔ یہ تو ہم نے مانا اور قبول کیا کہ ایک زمانہ میں ایک کا الہام لاکھوں کی معرفت کو تازہ کر سکتا ہے اور فرد فرد میں ہونا ضروری نہیں۔ لیکن یہ ہم قبول نہیں کر سکتے کہ الہام کی سرے سے صف ہی الٹ دی جائے۔ اورؔ ہمارے ہاتھ میں صرف ایسے قصے ہوں جن کو ہم نے بچشم خود دیکھا نہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ایک امر صدہا سال سے قصے کی صورت میں ہی چلا جائے اور اس کی تصدیق کیلئے کوئی تازہ نمونہ پیدا نہ ہو تو اکثر طبیعتیں جو فلسفی رنگ اپنے اندر رکھتی ہیں۔ اس قصے کو بغیر قوی دلیل کے قبول نہیں کر سکتیں۔ خاص کر جبکہ قصے ایسی باتوں پر دلالت کریں کہ جو ہمارے زمانہ میں خلاف قیاس معلوم ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد ہمیشہ فلسفی طبع آدمی ایسی کرامتوں پر ٹھٹھا کرتے آئے ہیں اور شبہ کی حد تک بھی نہیں ٹھہرتے۔ اور یہ ان کا حق بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کے دل میں گذرتا ہے کہ جب کہ وہی خدا ہے اور وہی صفات اور وہی ضرورتیں ہمیں پیش ہیں تو پھر الہام کا سلسلہ کیوں بند ہے۔ حالانکہ تمام روحیں شور ڈال رہی ہیں کہ ہم بھی تازہ معرفت کے محتاج ہیں۔ اسی وجہ سے ہندوؤں میں لاکھوں انسان دہریہ ہوگئے۔ کیونکہ بار بار پنڈتوں نے ان کو یہی تعلیم دی کہ کروڑہا سال سے الہام اور کلام کا سلسلہ بند ہے۔ اب ان کو یہ شبہات دل میں گذرے کہ وید کے زمانہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 492
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 492
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/492/mode/1up
492
کی نسبت ہمارا زمانہ پرمیشر کے تازہ الہامات کا بہت محتاج تھا۔ پھر اگر الہام ایک حقیقت حقہ ہے تو وید کے بعد اس کا سلسلہ کیوں قائم نہیں رہا۔ اسی وجہ سے آریہ ورت میں دہریت پھیل گئی۔ اسی لئے صدہا فرقے ہندوؤں میں ایسے پاؤ گے جو وید سے ٹھٹھا کرتے اور اس سے انکاری ہیں۔ چنانچہ ان میں سے ایک جین مت کا فرقہ ہے اور درحقیقت سکھوں کا فرقہ بھی انہی خیالات کی وجہ سے ہندوؤں سے الگ ہوا ہے۔ کیونکہ ایک تو ہندو مذہب میں دنیا کی صدہا چیزوں کو خدا کے ساتھ شریک کیا گیا ہے اور اس قدر شرک کا انبار ہے جس میں پرمیشر کا کچھ پتہ نہیں ملتا اور پھر جو وید کے الہامی ہونے کا دعویٰ ہے۔ یہ محض بلا ثبوت ایک قصہ ہے جس کو لاکھوں برسوں کی طرف حوالہ دیا جاتا ہے۔ تازہ ثبوت کوئی نہیں۔ اسی سبب سے جو پورے سکھ ہیں وہ وید کو نہیں مانتے۔ چنانچہ اخبار عام لاہور ۲۶؍ ستمبر ۱۸۹۸ ؁ء میں ایک سکھ صاحب کا ایک مضمون اسی بارے میں شائع ہوا ہے اور انہوں نے اس بات کی تائید میں کہ خالصہ کا گروہ وید کو نہیں مانتا اور ان کو گوروؤں کی طرف سے ہدایت ہے کہ وید کو ہرگز نہ مانیں۔ گرنتھ کے شبد یعنی شعر بھی لکھے ہیں جن کا ماحصل یہی ہے کہ وید کو ہرگز نہ ماننا اور اقرار کیا ہے کہؔ ہم لوگ وید کے ہرگز پیرو نہیں ہیں اور نہ اس کو قبول کرتے ہیں۔ ہاں اس نے قرآن شریف کی پیروی کا بھی اقرار نہیں کیا مگر اس کا یہ سبب ہے کہ سکھوں کو اسلام کی واقفیت نہیں ہے اور وہ اس نور سے بے خبر ہیں۔ جو خدائے قادر قیوم نے اسلام میں رکھا ہوا ہے اور بباعث بے علمی اور تعصب کے ان کو ان نوروں پر اطلاع بھی نہیں ہے کہ جو قرآن شریف میں بھرے پڑے ہیں بلکہ جس قدر قومی طور پر ہندوؤں سے ان کے تعلق ہیں مسلمانوں سے یہ تعلقات نہیں ہیں۔ ورنہ ان کے لئے یہی کافی تھا کہ اس وصیت پر چلتے کہ جو چولہ صاحب میں باوا نانک صاحب تحریر فرما گئے ہیں کیونکہ چولہ صاحب میں باوا صاحب یہ لکھ گئے ہیں کہ اسلام کے سوا کوئی مذہب صحیح اور سچا نہیں ہے۔ پس ایسے بزرگ کی اس ضروری وصیت کو ضائع کر دینا نہایت قابل افسوس بات ہے خالصہ صاحبوں کے ہاتھ میں صرف ایک چولہ صاحب ہی ہے جو
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 493
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 493
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/493/mode/1up
493
باوا صاحب کے ہاتھوں کی یادگار ہے۔ اور گرنتھ کے شبد تو بہت پیچھے سے اکٹھے کئے گئے ہیں جس میں محققوں کو بہت کچھ کلام ہے۔ خداجانے اس میں کیا کیا تصرفات ہوئے ہیں اور کن کن لوگوں کے کلام کا ذخیرہ ہے۔ خیر یہ قصہ اس جگہ کے لائق نہیں ہے۔ ہمارا اصل مطلب تو یہ ہے کہ بنی نوع انسان کا ایمان تازہ رکھنے کیلئے تازہ الہامات کی ہمیشہ ضرورت ہے۔ اور وہ الہامات اقتداری قوت سے شناخت کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ خدا کے سوا کسی شیطان جن بھوت میں اقتداری قوت نہیں ہے۔ اور امام الزمان کے الہام سے باقی الہامات کی صحت ثابت ہوتی ہے۔
ہم بیان کر چکے ہیں کہ امام الزمان اپنی جبلّت میں قوت امامت رکھتا ہے اور دست قدرت نے اس کے اندر پیشروی کا خاصہ پھونکا ہوا ہوتا ہے۔ اور یہ سنت اللہ ہے کہ وہ انسانوں کو متفرق طور پر چھوڑنا نہیں چاہتا بلکہ جیسا کہ اس نے نظام شمسی میں بہت سے ستاروں کو داخل کر کے سورج کو اس نظام کی بادشاہی بخشی ہے ایسا ہی وہ عام مومنوں کو ستاروں کی طرح حسب مراتب روشنی بخش کر امام الزمان کو ان کا سورج قرار دیتا ہے اور یہ سنت الٰہی یہاں تک اس کی آفرینش میں پائی جاتی ہے کہ شہد کی مکھیوں میں بھی یہ نظام موجود ہے کہ ان میں بھی ایک امام ہوتا ہے جو یعسوب کہلاتا ہے۔ اورؔ جسمانی سلطنت میں بھی یہی خداتعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک قوم میں ایک امیر اور بادشاہ ہو۔ اور خدا کی *** ان لوگوں پر ہے جو تفرقہ پسند کرتے ہیں اور ایک امیر کے تحت حکم نہیں چلتے۔ حالانکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے۔33۔۱؂ اُوْلِی الْاَمْر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے۔ اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے۔ اسی لئے میری نصیحت اپنی جماعت کو یہی ہے کہ وہ انگریزوں کی بادشاہت کو اپنے اُوْلِی الْاَمْرمیں داخل کریں اور دل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 494
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 494
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/494/mode/1up
494
کیونکہ وہ ہمارے دینی مقاصد کے حارج نہیں ہیں بلکہ ہم کو ان کے وجود سے بہت آرام ملا ہے اور ہم خیانت کریں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ انگریزوں نے ہمارے دین کو ایک قسم کی وہ مدد دی ہے کہ جو ہندوستان کے اسلامی بادشاہوں کو بھی میسر نہیں آ سکی کیونکہ ہندوستان کے بعض اسلامی بادشاہوں نے اپنی کوتاہ ہمتی سے صوبہ پنجاب کو چھوڑ دیا تھا۔ اور اُن کی اس غفلت سے سکھوں کی متفرق حکومتوں کے وقت میں ہم پر اور ہمارے دین پر وہ مصیبتیں آئیں کہ مساجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اور بلند آواز سے اذان دینا بھی مشکل ہوگیا تھا اور پنجاب میں دین اسلام مر چکا تھا۔ پھر انگریز آئے اور انگریز کیا ہمارے نیک طالع پھر ہماری طرف واپس ہوئے اور انہوں نے دین اسلام کی حمایت کی اور ہمارے مذہبی فرائض میں ہمیں پوری آزادی بخشی اور ہماری مسجدیں واگذار کی گئیں۔ اور پھر مدت دراز کے بعد پنجاب میں شعار اسلام دکھائی دینے لگا۔ پس کیا یہ احسان یاد رکھنے کے لائق نہیں؟ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ بعض سُست ہمت اسلامی بادشاہوں نے تو اپنی غفلتوں سے کفرستان میں ہمیں دھکہ دیا تھا اور انگریز ہاتھ پکڑ کر پھر ہمیں باہر نکال لائے۔ پس انگریزوں کے برخلاف بغاوت کی کھچڑی پکاتے رہنا خداتعالیٰ کی نعمتوں کو فراموش کرنا ہے۔
پھر اصل کلام کی طرف عود کر کے کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے جیسا کہ جسمانی تمدن کے لئے یہ تاکید فرمائی ہے کہ ایک بادشاہ کے زیر حکم ہوکر چلیں۔ یہی تاکید روحانی تمدن کے لئے بھی ہے اسیؔ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ یہ دعا سکھلاتا ہے 33۔۱؂ پس سوچنا چاہئے کہ یوں تو کوئی مومن بلکہ کوئی انسان بلکہ کوئی حیوان بھی خداتعالیٰ کی نعمت سے خالی نہیں مگر نہیں کہہ سکتے کہ ان کی پیروی کے لئے خداتعالیٰ نے یہ حکم فرمایا ہے۔ لہذا اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ جن لوگوں پر اکمل اور اتم طور پر نعمت روحانی کی بارش ہوئی ہے ان کی راہوں کی ہمیں توفیق بخش کہ تاہم ان کی پیروی کریں۔ سو اس آیت میں یہی اشارہ ہے کہ تم امام الزمان کے ساتھ ہو جاؤ۔
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 495
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 495
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/495/mode/1up
495
یاد رہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی، رسول، محدث، مجدد سب داخل ہیں۔ مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کیلئے مامور نہیں ہوئے اور نہ وہ کمالات ان کو دئیے گئے۔ وہ گو ولی ہوں یا ابدال ہوں امام الزمان نہیں کہلا سکتے۔
اب بالآخر یہ سوال باقی رہا کہ اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے جس کی پیروی تمام عام مسلمانوں اور زاہدوں اور خواب بینوں اور ملہموں کو کرنی خداتعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے۔ سو میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ
امام الزمان میں ہوں
اور مجھ میں خداتعالیٰ نے وہ تمام علامتیں اور تمام شرطیں جمع کی ہیں اور اس صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا ہے جس میں سے پندرہ برس گذر بھی گئے۔ اور ایسے وقت میں میں ظاہر ہوا ہوں کہ جب کہ اسلامی عقیدے اختلافات سے بھر گئے تھے۔ اور کوئی عقیدہ اختلاف سے خالی نہ تھا۔ ایسا ہی مسیح کے نزول کے بارے میں نہایت غلط خیال پھیل گئے تھے اور اس عقیدے میں بھی اختلاف کا یہ حال تھا کہ کوئی حضرت عیسیٰ کی حیات کا قائل تھا اور کوئی موت کا اور کوئی جسمانی نزول مانتا تھا اور کوئی بروزی نزول کا معتقد تھا اور کوئی دمشق میں ان کو اتار رہا تھا اور کوئی مکہ میں اور کوئی بیت المقدس میں اور کوئی اسلامی لشکر میں اور کوئی خیال کرتا تھا کہ ہندوستان میں اتریں گے۔ پس یہ تمام مختلف رائیں اور مختلف قول ایک فیصلہ کرنے والے حَکَم کو چاہتے تھے سو وہ حَکَم مَیں ہوں۔ میں روحانی طور پر کسر صلیب کے لئے اورؔ نیز اختلافات کے دور کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں۔ ان ہی دونوں امروں نے تقاضا کیا کہ میں بھیجا جاؤں میرے لئے ضروری نہیں تھا کہ میں اپنی حقیت کی کوئی اور دلیل پیش کروں کیونکہ ضرورت خود دلیل ہے۔ لیکن پھر بھی میری تائید میں خداتعالیٰ نے کئی نشان ظاہر کئے ہیں اور میں جیسا کہ اور اختلافات میں فیصلہ کرنے کے لئے حکم ہوں۔ ایسا ہی وفات حیات کے جھگڑے میں بھی حَکَم ہوں۔
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 496
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 496
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/496/mode/1up
496
اور میں امام مالک اور ابن حزم اور معتزلہ کے قول کو مسیح کی وفات کے بارے میں صحیح قرار دیتا ہوں اور دوسرے اہل سنت کو غلطی کا مرتکب سمجھتا ہوں۔ سو میں بحیثیت حکم ہونے کے ان جھگڑا کرنے والوں میں یہ حکم صادر کرتا ہوں کہ نزول کے اجمالی معنوں میں یہ گروہ اہل سنت کا سچا ہے کیونکہ مسیح کا بروزی طور پر نزول ہونا ضروری تھا۔ ہاں نزول کی کیفیت بیان کرنے میں ان لوگوں نے غلطی کھائی ہے۔ نزول صفت بروزی تھانہ کہ حقیقی۔ اور مسیح کی وفات کے مسئلہ میں معتزلہ اور امام مالک اور ابن حزم وغیرہ ہمکلام ان کے سچے ہیں کیونکہ بموجب نصِ صریح آیت کریمہ یعنی آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کے مسیح کا عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے وفات پانا ضروری تھا۔ یہ میری طرف سے بطور حکم کے فیصلہ ہے۔ اب جو شخص میرے فیصلہ کو قبول نہیں کرتا وہ اس کو قبول نہیں کرتا جس نے مجھے حکم مقرر فرمایا ہے۔ اگر یہ سوال پیش ہو کہ تمہارے حکم ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ اس کا یہ جواب ہے کہ جس زمانہ کیلئے حکم آنا چاہئے تھا وہ زمانہ موجود ہے۔ اور جس قوم کی صلیبی غلطیوں کی حکم نے اصلاح کرنی تھی وہ قوم موجود ہے۔ اور جن نشانوں نے اس حَکَم پر گواہی دینی تھی وہ نشان ظہور میں آ چکے ہیں۔ اور اب بھی نشانوں کا سلسلہ شروع ہے۔ آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے زمین نشان ظاہر کر رہی ہے اور مبارک وہ جن کی آنکھیں اب بند نہ رہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے نشانوں پر ہی ایمان لاؤ بلکہ میں کہتا ہوں کہ اگر میں حَکَم نہیں ہوں تو میرے نشانوں کا مقابلہ کرو۔ میرے مقابل پر جو اختلاف عقائد کے وقت آیا ہوں اور سب بحثیں نکمی ہیں۔ صرف حَکَم کی بحث میں ہر ایک کا حق ہے جس کو میں پورا کر چکا ہوں۔ خدا نے مجھے چار نشان دئیے ہیں۔
(۱) میں قرآن شریف کے معجزہ کے ظل پر عربی بلاغت فصاحت کا نشان دیا گیا ہوں۔ کوئیؔ نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے۔
(۲) میں قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرنے کا نشان دیا گیا ہوں۔ کوئی نہیں کہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 497
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 497
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/497/mode/1up
497
جو اس کا مقابلہ کرسکے۔
(۳) میں کثرت قبولیت دعا کا نشان دیا گیا ہوں۔ کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے۔ میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ میری دعائیں تیس ہزار کے قریب قبول ہو چکی ہیں اور ان کا میرے پاس ثبوت ہے۔
(۴) میں غیبی اخبار کا نشان دیا گیا ہوں کوئی نہیں کہ جو اس کا مقابلہ کر سکے۔ یہ خداتعالیٰ کی گواہیاں میرے پاس ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں میرے حق میں چمکتے ہوئے نشانوں کی طرح پوری ہوئیں ۔
آسماں بارد نشان الوقت مے گوید زمین
این دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند
مدت ہوئی کسوف خسوف رمضان میں ہوگیا۔ حج بھی بند ہوا۔ اور بموجب حدیث کے طاعون بھی ملک میں پھیلی اور بہت سے نشان مجھ سے ظاہر ہوئے جس کے صدہا ہندو اور مسلمان گواہ ہیں جن کو میں نے ذکر نہیں کیا۔ ان تمام وجوہ سے میں امام الزمان ہوں اور خدا میری تائید میں ہے اور وہ میرے لئے ایک تیز تلوار کی طرح کھڑا ہے اور مجھے خبر دی گئی ہے کہ جو شرارت سے میرے مقابل پر کھڑا ہوگا وہ ذلیل اور شرمندہ کیا جائے گا۔ دیکھو میں نے وہ حکم پہنچا دیا جو میرے ذمّہ تھا۔ اور یہ باتیں اپنی کتابوں میں کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں۔ مگر جس واقعہ نے مجھے ان امور کے مکرر لکھنے کی تحریک کی وہ میرے ایک دوست کی اجتہادی غلطی ہے جس پر اطلاع پانے سے میں نے ایک نہایت دردناک دل کے ساتھ اس رسالہ کو لکھا ہے۔تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ ان دنوں میں یعنی ماہ ستمبر ۱۸۹۸ء میں جو مطابق جمادی الاول ۱۳۱۶ھ ہے۔ ایک میرے دوست جن کو میں ایک بے شر انسان اور نیک بخت اور متقی اور پرہیزگار جانتا ہوں اور ان کی نسبت ابتدا سے میرا بہت نیک گمان ہے وَاللّٰہُ حَسِیْبُہٗ۔ مگر بعض خیالات میں غلطی میں پڑا ہوا سمجھتا ہوں۔ اور اس غلطی کے ضرر سے ان کی نسبت اندیشہ بھی رکھتا ہوں وہ تکالیف سفر اٹھا کر اور ایک اور میرے عزیز دوست کو ہمراہ لے کر قادیان میں میرے پاس پہنچے۔ اور بہت سے الہامات اپنے مجھ کو سنائے۔ پس اس سے مجھ کو بہت خوشی ہوئی کہؔ خداتعالیٰ نے ان کو الہامات کا شرف بخشا ہے مگر انہوں نے سلسلہ الہامات میں ایک یہ خواب بھی اپنی مجھے سنائی کہ میں نے
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 498
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 498
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/498/mode/1up
498
آپ کی نسبت کہا ہے کہ میں ان کی کیوں بیعت کروں بلکہ انہیں میری بیعت کرنی چاہئے۔ اس خواب سے معلوم ہوا کہ وہ مجھے مسیح موعود نہیں مانتے اور نیز یہ کہ وہ مسئلہ امامت حقہ سے بے خبر ہیں۔ لہذا میری ہمدردی نے تقاضا کیا کہ تا میں ان کیلئے امامت حقہ کے بیان میں یہ رسالہ لکھوں اور بیعت کی حقیقت تحریر کروں سو میں امام حق کے بارے میں جس کو بیعت لینے کا حق ہے۔ اس رسالے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں۔ رہی حقیقت بیعت کی سو وہ یہ ہے کہ بیعت کا لفظ بیع سے مشتق ہے۔ اور بیع اس باہمی رضا مندی کے معاملہ کو کہتے ہیں جس میں ایک چیز دوسری چیز کے عوض میں دی جاتی ہے۔ سو بیعت سے غرض یہ ہے کہ بیعت کرنیوالا اپنے نفس کو مع اس کے تمام لوازم کے ایک رہبر کے ہاتھ میں اس غرض سے بیچے کہ تا اس کے عوض میں وہ معارف حقہ اور برکات کاملہ حاصل کرے جو موجب معرفت اور نجات اور رضامندی باری تعالیٰ ہوں۔ اس سے ظاہر ہے کہ بیعت سے صرف توبہ منظور نہیں۔ کیونکہ ایسی توبہ تو انسان بطورخود بھی کر سکتا ہے بلکہ وہ معارف اور برکات اور نشان مقصود ہیں جو حقیقی توبہ کی طرف کھینچتے ہیں۔ بیعت سے اصل مدعا یہ ہے کہ اپنے نفس کو اپنے رہبر کی غلامی میں دے کر وہ علوم اور معارف اور برکات اس کے عوض میں لیوے جن سے ایمان قوی ہو اور معرفت بڑھے۔ اور خداتعالیٰ سے صاف تعلق پیدا ہو اور اسی طرح دنیوی جہنم سے رہا ہو کر آخرت کے دوزخ سے مخلصی نصیب ہو اور دنیوی نابینائی سے شفا پاکر آخرت کی نابینائی سے بھی امن حاصل ہو۔ سو اگر اس بیعت کے ثمرہ دینے کا کوئی مرد ہو تو سخت بدذاتی ہوگی کہ کوئی شخص دانستہ اس سے اعراض کرے۔ عزیزمن! ہم تو معارف اور حقائق اور آسمانی برکات کے بھوکے اور پیاسے ہیں اور ایک سمندر بھی پی کر سیر نہیں ہو سکتے۔ پس اگر ہمیں کوئی اپنی غلامی میں لینا چاہے تو یہ بہت سہل طریق ہے کہ بیعت کے مفہوم اور اس کی اصل فلاسفی کو ذہن میں رکھ کر یہ خرید و فروخت ہم سے کرلے اور اگر اس کے پاس ایسے حقائق اور معارف اور آسمانی برکات ہوں جو ہمیں نہیں دئیے گئے اور یا اس پر وہ قرآنی علوم کھولے گئے ہوں جو ہم پر نہیں کھولے گئے۔ تو بسم اللہ وہؔ بزرگ ہماری غلامی اور اطاعت کا ہاتھ لیوے اور وہ روحانی معارف اور قرآنی حقائق اور آسمانی برکات ہمیں عطا کرے۔ میں تو زیادہ تکلیف دینا ہی
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 499
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 499
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/499/mode/1up
499
نہیں چاہتا۔ ہمارے ملہم دوست کسی ایک جلسہ میں سورۂ اخلاص کے ہی حقائق معارف بیان فرماویں جس سے ہزار درجہ بڑھ کر ہم بیان نہ کر سکیں۔ تو ہم ان کے مطیع ہیں ۔
ندارد کسے باتو ناگفتہ کار
و لیکن چو گفتی دلیلش بیار
بہرحال اگر آپ کے پاس وہ حقائق اور معارف اور برکات ہیں جو معجزانہ اثر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ تو پھر میں کیا میری تمام جماعت آپ کی بیعت کرے گی اور کوئی سخت بدذات ہوگا کہ جو ایسا نہ کرے۔ مگر میں کیا کہوں اور کیا لکھوں معافی مانگ کر کہتا ہوں کہ جس وقت میں نے آپ کے الہامات لکھے ہوئے سنے تھے ان میں بھی بعض جگہ صرفی اور نحوی غلطیاں تھیں۔ آپ ناراض نہ ہوں میں نے محض نیک نیتی سے اور غربت سے دینی نصیحت کے طور پر یہ بھی بیان کر دیا ہے۔ باایں ہمہ میرے نزدیک اگر الہامات میں کسی ناواقف اور ناخواندہ کے الہامی فقروں میں نحوی صرفی غلطی ہو جائے تو نفس الہام قابل اعتراض نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک نہایت دقیق مسئلہ ہے اور بڑے بسط کو چاہتا ہے جس کا یہ محل نہیں ہے۔ اگر ایسی غلطیاں سن کر کوئی خشک ملّا جوش میں آجاوے تو وہ بھی معذور ہے کیونکہ روحانی فلاسفی کے کوچہ میں اس کو دخل نہیں۔ لیکن یہ ادنیٰ درجہ کا الہام کہلاتا ہے جو خداتعالیٰ کے نور کی پوری تجلی سے رنگ پذیر نہیں ہوتا کیونکہ الہام تین طبقوں کا ہوتا ہے ادنیٰ اور اوسط اور اعلیٰ۔ بہرحال ان غلطیوں سے مجھے شرمندہ ہونا پڑا۔ اور میں اپنے دل میں دعا کرتا تھا کہ میرے معزز دوست کسی شریر خشک ملا کو یہ الہامات جو بظاہر قابل اعتراض ہیں نہ سناویں کہ وہ خواہ نخواہ ٹھٹھا اور ہنسی کرے گا۔ جو الہام حقائق معارف سے خالی ا ور غلطیوں سے بھی پر ہو کسی موافق یا مخالف کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا خاص کر اس زمانہ میں بلکہ بجائے فائدہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ میں ایمان سے اور سچائی سے حلفاًکہتا ہوں کہ یہ بات سراسر سچ ہے۔ میرے عزیز دوست توجہ* الی اللہ کی طرف زیادہ ترقی کریں کہ جیسے جیسے دلؔ کی صفائی بڑھے گی ایسا ہی الہام میں فصاحت کی
*میرا یقین ہے کہ اگر یہ معزز دوست زیادہ توجہ فرمائیں گے ۔ تو جلد تر ان کے الہامات میں ایک کامل رنگ پیدا ہو جائیگا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 500
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 500
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/500/mode/1up
500
صفائی بڑھے گی۔ یہی بھید ہے کہ قرآن کی وحی دوسرے تمام نبیوں کی وحیوں سے علاوہ معارف کے فصاحت بلاغت میں بھی بڑھ کر ہے کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ دل کی صفائی دی گئی تھی۔ سو وہ وحی معنوں کے رو سے معارف کے رنگ میں اور الفاظ کے رو سے بلاغت فصاحت کے رنگ میں ظاہر ہوئی۔ میرے دوست یہ بھی یاد رکھیں کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بیعت ایک خریدوفروخت کا معاملہ ہے اور میں حلفاًکہتا ہوں کہ جس قدر ہمارے دوست فاضل مولوی عبدالکریم صاحب وعظ کے وقت قرآن شریف کے حقائق معارف بیان کرتے ہیں مجھے ہرگز امید نہیں کہ ان کا ہزارم حصہ بھی میرے عزیز دوست کے منہ سے نکل سکے۔ اس کی یہی وجہ ہے کہ الہامی طریق ابھی ناقص اور کسبی طریق بکلّی متروک۔ نہ معلوم کسی محقق سے قرآن سننے کا بھی اب تک موقعہ ہوا یا نہیں۔*آپ برائے خدا ناراض نہ ہوں۔ آپ نے اب تک بیعت کی حقیقت نہیں سمجھی کہ اس میں کیا دیتے اور کیا لیتے ہیں۔ ہماری جماعت میں اور میرے بیعت کردہ بندگان خدا میں اک مرد ہیں جو جلیل الشان فاضل ہیں اور وہ مولوی حکیم حافظ حاجی حرمین نورالدین صاحب ہیں جو گویا تمام جہان کی تفسیریں اپنے پاس رکھتے ہیں اور ایسا ہی ان کے دل میں ہزارہا قرآنی معارف کا ذخیرہ ہے۔ اگر آپ کو فی الحقیقت بیعت لینے کی فضیلت دی گئی ہے۔ تو ایک قرآن کا سپارہ ان ہی کو مع حقائق معارف کے پڑھاویں۔ یہ لوگ دیوانے تو نہیں کہ انہوں نے مجھ سے ہی بیعت کرلی اور دوسرے ملہموں کو چھوڑ دیا۔ اگر آپ حضرت مولوی صاحب موصوف کی پیروی کرتے تو آپ کیلئے بہتر ہوتا۔ آپ سوچیں کہ فاضل موصوف جو خانماں چھوڑ کر میرے پاس آ بیٹھے
ہم انکار نہیں کرتے کہ آپ پر لدنی علم کے چشمے کھل جائیں مگر ابھی تو نہیں۔ خوابوں اور کشفوں پر استعارات اور مجازات غالب ہوتے ہیں۔ مگر آپ نے اپنے خواب کو حقیقت پر حمل کرلیا۔ مجدد صاحب سرہندی نے ایک کشف میں دیکھا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی طفیل خلیل اللہ کا مرتبہ ملا اور اس سے بڑھ کر شاہ ولی اللہ صاحب نے دیکھا تھا کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے مگر انہوں نے بباعث بسطت علم کے وہ خیال نہ کیا۔ جو آپ نے کیا۔ بلکہ تاویل کی۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 501
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 501
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/501/mode/1up
501
اور کچے کوٹھوں میں تکلیف سے بسر کرتے ہیں کیا وہ بغیر کسی بات کے دیکھنے کے دانستہ اس تکلیف کو گوارا کئے ہوئے ہیں؟ ہمارے عزیز اور دوست ملہم صاحب یاد رکھیں کہ وہ ان خیالات میں سخت درجہ کی غلطی میں مبتلا ہیں۔ اگر وہ اپنی الہامی طاقت سے پہلے مولوی صاحب موصوف کو قرآن دانی کا نمونہ دکھلاویں اورؔ اس خارق عادت کی چمکار سے نوردین جیسے عاشق قرآن سے بیعت لیں تو پھر میں اور میری تمام جماعت آپ پر قربان ہے۔ کیا چند ناشناختہ الہامی فقروں کیساتھ کہ وہ بھی اکثر صحیح نہیں۔ یہ مرتبہ حاصل ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے تئیں امام الزمان خیال کرلے۔ عزیز من امام الزمان کے لئے بہت سی شرائط ہیں تبھی تو وہ ایک جہان کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔
ہزار نکتۂ باریک تر زمو اینجاست نہ ہرکہ سر بتراشد قلندری داند
میرے عزیز ملہم اس دھوکہ میں نہ رہیں کہ فقرات الہامی اکثر ان پر وارد ہوتے ہیں میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میری جماعت میں اس قسم کے ملہم اس قدر ہیں کہ بعض کے الہامات کی ایک کتاب بنتی ہے۔ سید امیر علی شاہ ہر ایک ہفتہ کے بعد الہامات کا ایک ورق بھیجتے ہیں اور بعض عورتیں میری مصدق ہیں جنہوں نے ایک حرف عربی کا نہیں پڑھا اور عربی میں الہام ہوتا ہے۔ میں نہایت تعجب میں ہوں کہ آپ کی نسبت اس کے الہامات میں غلطی کم ہوتی ہے۔ ۲۸؍ ستمبر ۱۸۹۸ء کو ان کے چند الہامات مجھ کو بذریعہ خط ان کے برادر حقیقی فتح محمد بزدار کے ملے۔ ایسا ہی کئی ملہم ہماری جماعت میں موجود ہیں۔ ایک لاہور میں ہی تشریف رکھتے ہیں۔ مگر کیا ایسے الہامات سے کوئی شخص امام الزمان کی بیعت سے مستغنی ہو سکتا ہے۔ اور مجھے تو کسی کی بیعت سے عذر نہیں۔ مگر بیعت سے غرض افاضہ علوم روحانیہ اور تقویت ایمان ہے۔ اب فرمائیے کہ آپ بیعت میں کونسے علوم سکھلائیں گے اور کون سے قرآنی حقائق بیان فرمائیں گے۔ آپ آئیے اور امامت کا جوہر دکھلائیے ہم سب بیعت کرتے ہیں۔
حضرتِ ناصح گر آئیں دیدہ و دل فرش راہ پر کوئی مجھ کو تو سمجھائے کہ سمجھائیں گے کیا
میں نقارہ کی آواز سے کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ سب بطور نشان امامت ہے جو شخص اس نشان امامت کو دکھلائے اور ثابت کرے کہ وہ فضائل میں مجھ سے بڑھ کر ہے۔ میں اس کو
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 502
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 502
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/502/mode/1up
502
دست بیعت دینے کو طیار ہوں۔ مگر خدا کے وعدوں میں تبدیلی نہیں۔ اُس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آج سے قریباً بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں یہ الہام درج ہےؔ :
الرحمٰن علّم القرآن۔ لتنذر قوما ما انذر آباؤھم ولتستبین سبیل المجرمین قل انی امرت و انا اول المومنین۔
اس الہام کے رو سے خدا نے مجھے علوم قرآنی عطا کئے ہیں۔ اور میرا نام اول المومنین رکھا۔ اور مجھے سمندر کی طرح معارف اور حقائق سے بھر دیا ہے۔ اور مجھے بار بار الہام دیا ہے کہ اس زمانہ میں کوئی معرفت الٰہی اور کوئی محبت الٰہی تیری معرفت اور محبت کے برابر نہیں۔ پس بخدا میں کُشتی کے میدان میں کھڑا ہوں جو شخص مجھے قبول نہیں کرتا عنقریب وہ مرنے کے بعد شرمندہ ہوگااور اب حجۃ اللہ کے نیچے ہے۔ اے عزیز کوئی کام دنیا کا ہو یا دین کا بغیر لیاقت کے نہیں ہو سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک انگریز حاکم کے پاس ایک خاندانی شخص پیش کیا گیا کہ اس کو تحصیلدار بنا دیا جائے۔ اور جس کو پیش کیا وہ محض جاہل تھا اردو بھی نہیں آتی تھی۔ اس انگریز نے کہا کہ اگر میں اس کو تحصیلدار بنادوں تو اس کی جگہ مقدمات کون فیصلہ کرے گا۔ میں اس کو بجز پانچ روپیہ کے مذکوری کے اور کوئی نوکری دے نہیں سکتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے۔ 3۔۱؂
کیا جس کے پاس ہزاروں دشمن دوست سوالات اور اعتراضات لے کر آتے ہیں اور نیابت نبوت اس کے سپرد ہوتی ہے۔ اس کی یہی شان چاہئے کہ صرف چند الہامی فقرے اس کی بغل میں ہوں اور وہ بھی بے ثبوت۔ کیا قوم اور مخالف قوم اس سے تسلی پکڑ سکتے ہیں۔
اب میں اس مضمون کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور اگر اس میں کوئی گراں لفظ ہو تو ہر ایک صاحب اور نیز اپنے دوست ملہم صاحب سے معافی مانگتا ہوں۔ کیونکہ میں نے سراسر نیک نیتی سے چند سطریں لکھی ہیں اور میں اس عزیز دوست سے بدل و جان محبت رکھتا ہوں۔ اور دعا کرتا ہوں۔ کہ خدا ان کے ساتھ ہو۔ فقط
خاکسار میرزا غلام احمد از قادیاں ضلع گورداسپور
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 503
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 503
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/503/mode/1up
503
مولویؔ عبدالکریم صاحب کا خط ایک دوست کے نام*
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ الحمد لولیہ والصلٰوۃ والسلام علی نبیہٖ
امابعد
من عبدالکریم الی اخی وحبّی نصراللہ خان سلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آج میرے دل میں پھر تحریک ہوئی ہے کہ کچھ درد دل کی کہانی آپ کو سناؤں ممکن ہے کہ آپ بھی میرے ہمدرد بن جائیں۔ اتنی مدت کے بعد یہ تحریک خالی از مصالح نہ ہوگی۔ محرک قلوب اپنے بندوں کو عبث کام کی ترغیب نہیں دیا کرتا۔
چوہدری صاحب! میں بھی ابن آدم ہوں ضعیف عورت کے پیٹ سے نکلا ہوں ضرور ہے انسانی کمزوری۔ تعلقات کی کششیں اور رقت مجھ میں بھی ہو۔ بطن عورت سے نکلا ہوا اگر اور عوارض اسے چمٹ نہ جائیں تو سنگدل نہیں ہو سکتا۔ میری ماں بڑی رقیق قلب والی بڑھیا دائم المرض موجود ہے۔ میرا باپ بھی ہے (اللّٰہم عافہ و والہ و وفقہ للحسنیٰ) میرے عزیز اور نہایت ہی عزیز بھائی بھی ہیں۔ اور تعلقات بھی ہیں تو پھر کیا میں پتھر کا کلیجہ رکھتا ہوں جو مہینوں گذر گئے یہاں دھونی رمائے بیٹھا ہوںیا کیا میں سودائی ہوں اور میرے حواس میں خلل ہے۔ یا کیا میں مقلد کور باطن اور علوم حقہ سے نابلد محض ہوں یا کیا میں فاسقانہ زندگی بسر کرنے میں اپنے کنبہ اور محلہ اور اپنے شہر میں مشہور ہوں۔ یا کیا میں مفلس نادار پیٹ کی غرض سے نت نئے بہروپ بدلنے والا قلاش ہوں۔ یعلم اللّٰہ والملا ئکۃ یشہدونکہ میں بحمداللہ ان سب معائب سے بری ہوں۔ وَلا اُزَکِّیْ نَفْسِیْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ۔
تو پھر کس بات نے مجھ میں ایسی استقامت پیدا کر رکھی ہے جو ان سب تعلقات پر غالب آگئی ہے۔ بہت صاف بات اور ایک ہی لفظ میں ختم ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے امام زمان کی شناخت۔ اللہ اللہ یہ
*اس خط پر اتفاقاً میری نظر پڑی جس کو اخویم مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنے ایک دوست کی طرف لکھا تھا سو مَیں نے ایک مناسبت کی وجہ سے جو اِس رسالہ کے مضمون سے اس کو ہے چھاپ دیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 504
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 504
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/504/mode/1up
504
کیا بات ہے جس میں ایسی زبردست قدرت ہے جو سارے ہی سلسلوں کو توڑ تاڑ دیتی ہے۔ آپ خوب جانتے ہیں میں بقدر استطاعت کے کتاب اللہ کے معارف و اسرار سے بہرہ مند ہوں اور اپنے گھر میں کتاب اللہ کے پڑھنے اورؔ پڑھانے کے سوا مجھے اور کوئی شغل نہیں ہوتا۔ پھر میں یہاں کیا سیکھتا ہوں کیا وہ گھر میں پڑھنا اور ایک معتدبہ جماعت میں مشارالیہ اور مطمح انظار بننا میری روح یا میرے نفس کے بہلانے کو کافی نہیں۔ ہرگز نہیں۔ واللّٰہ ثم تاللّٰہ ہرگز نہیں۔ میں قرآن کریم پڑھتا لوگوں کو سناتا۔ جمعہ میں ممبر پر کھڑا ہو کر بڑی پراثر اخلاقی وعظیں کرتا اور لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتا اور نواہی سے بچنے کی تاکیدیں کرتا مگر میرا نفس ہمیشہ مجھے اندر اندر ملامتیں کرتا کہ3۔ ۱؂ میں دوسروں کو رُلاتا پر خود نہ روتا۔ اوروں کو ناکردنی اور ناگفتنی امور سے ہٹاتا پر خود نہ ہٹتا۔ چونکہ معتمد ریاکار اور خودغرض مکار نہ تھا۔ اور حقیقتاً حصول جاہ و دنیا میرا قبلہء ہمت نہ تھا۔ میرے دل میں جب ذرا تنہا ہوتا ہجوم کر کے یہ خیالات آتے مگر چونکہ اپنی اصلاح کے لئے کوئی راہ و روئے نظر نہ آتا اور ایمان ایسے جھوٹے خشک عملوں پر قانع ہونے کی اجازت بھی نہ دیتا۔ آخر ان کشاکشوں سے ضعف دل کے سخت مرض میں گرفتار ہوگیا۔ بارہا مصمم ارادہ کیا کہ پڑھنا پڑھانا اور وعظ کرنا قطعاً چھوڑ دوں۔ پھر لپک لپک کر اخلاق کی کتابوں۔ تصوف کی کتابوں اور تفاسیر کو پڑھتا۔ احیاء العلوم اور عوارف المعارف اور فتوحات مکیہ ہر چہار جلد اور اور کثیر کتابیں اسی غرض سے پڑھیں اور بتوجہ پڑھیں اور قرآن کریم تو میری روح کی غذا تھی اور بحمداللہ ہے۔ بچپن سے اور بالکل بے شعوری کے سن سے اس پاک بزرگ کتاب سے مجھے اس قدر انس ہے کہ میں اس کا کم و کیف بیان نہیں کر سکتا۔ غرض علم تو بڑھ گیا اور مجلس کے خوش کرنے اور وعظ کو سجانے کے لئے لطائف و ظرائف بھی بہت حاصل ہوگئے۔ اور میں نے دیکھا کہ بہت سے بیمار میرے ہاتھوں سے چنگے بھی ہوگئے۔ مگر مجھ میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوتی تھی۔ آخر بڑے حیص بیص کے بعد مجھ پر کھولا گیا کہ زندہ نمونہ یا اس زندگی کے چشمہ پر پہنچنے کے سوا جو اندرونی آلائشوں کو دھو سکتا ہو یہ میل اترنے والی نہیں۔ ہادئ کامل خاتم الانبیاء صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ سَلَامُہٗ نے کس طرح صحابہ کو منازل سلوک ۲۳برس میں طے کرائیں۔ قرآن علم تھا اور آپ اس کا سچا عملی نمونہ تھے۔ قرآن کے احکام کی
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 505
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 505
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/505/mode/1up
505
عظمت و جبروت کو مجرد الفاظ اور علمی رنگ نے فوق العادہ رنگ میں قلوبؔ پر نہیں بٹھایا بلکہ حضور پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عملی نمونوں اور بے نظیر اخلاق اور دیگر تائیدات سماویہ کی رفاقت اور پیاپے ظہور نے ایسا لازوال سکہ آپ کے خدام کے دلوں پر جمایا۔ خداتعالیٰ کو چونکہ اسلام بہت پیارا ہے اور اس کا اَ بْدُالدَّھر تک قائم رکھنا منظور ہے۔ اس لئے اس نے پسند نہیں کیا کہ یہ مذہب بھی دیگر مذاہب عالم کی طرح قصوں اور فسانوں کے رنگ میں ہوکر تقویم پارینہ ہو جائے۔ اس پاک مذہب میں ہر زمانہ میں زندہ نمونے موجود رہے ہیں۔ جنہوں نے علمی اور عملی طور پر حامل قرآن علیہ صلوات الرحمن کا زمانہ لوگوں کو یاد دلایا۔ اسی سنت کے موافق ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود اَیَّدَہُ اللّٰہُ الْوُدُوْد کو ہم میں کھڑا کیا کہ زمانہ پر وہ ایک گواہ ہوجائے۔ میں نے جو کچھ اس خط میں لکھنا چاہا تھا حضرت اقدس امام صادق علیہ السلام کے وجود پاک کی ضرورت پر چند وجدانی دلائل تھے۔ اس اثنا میں بعض تحریکات کی وجہ سے خود حضرت اقدس نے ’’ضرورت امام‘‘ پر پرسوں ایک چھوٹا سا رسالہ لکھ ڈالا ہے جو عنقریب شائع ہوگا۔ ناچار میں نے اس ارادے کو چھوڑ دیا۔
بالآخر میں اپنی نیکی سے بھری ہوئی صحبتوں کو آپ کے باقاعدہ حسن ارادت کے ساتھ درس کتاب اللہ میں حاضر ہونے کو آپ کے اپنی نسبت کمال حسن ظن کو اور ان سب پر آپ کی نیک دل اور پاک تیاری کو آپ کو یاد دلاتا اور آپ کی ضمیر روشن اور فطرت مستقیمہ کی خدمت میں اپیل کرتا ہوں کہ آپ سوچیں وقت بہت نازک ہے۔ جس زندہ ایمان کو قرآن چاہتا ہے اور جیسی گناہ سوز آگ قرآن سینوں میں پیدا کرنی چاہتا ہے وہ کہاں ہے۔ میں خدائے ربّ عرش عظیم کی قسم کھا کر آپ کو یقین دلاتا ہوں۔ وہی ایمان حضرت نائب الرسول مسیح موعود کے ہاتھ میں ہاتھ دینے اور اس کی پاک صحبت میں بیٹھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اب اس کارخیر میں توقف کرنے سے مجھے خوف ہے کہ دل میں کوئی خوفناک تبدیلی پیدا نہ ہو جائے۔ دنیا کا خوف چھوڑ دو اور خدا کیلئے سب کچھ کھودو کہ یقیناً سب کچھ مل جائے گا۔ والسلام
۱۔اکتوبر ۱۸۹۸ ؁ء عاجز عبدالکریم از قادیاں
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 506
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 506
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/506/mode/1up
506
نحمدہ و نصلی عَلٰی رسولہ الکریم
انکم ٹیکس اور تازہ نشان
صدق را ہر دم مددآید ز ربّ العٰلمین
ہر بلا کز آسماں بر صادقے آید فرود
صادقاں را دستِ حق باشد نہاں در آستیں
آخرش گردد نشانے از برائے طالبیں
ہمارے بعض نادان دشمن ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ میں اپنے ناکام رہنے سے بہت مغموم اور کوفتہ خاطر تھے۔ کیونکہ ان کو ایک ایسے مقدمہ میں جس کا اثر اس راقم کی جان اور عزت پر تھا۔ باوجود بہت سی کوشش کے فاش شکست اٹھانی پڑی اور نہ صرف شکست بلکہ اس مقدمہ کے متعلق وہ الہامی پیشگوئی بھی پوری ہوئی جس کے دو سو سے زیادہ ثقہ اور معزز لوگوں کو خبر دی گئی تھی اور جس کو پبلک میں پیش از وقت بخوبی شائع کر دیا گیا تھا۔ مگر افسوس کہ ان مخالفوں کی بدظنی اور شتاب کاری سے ایک دوسری شکست بھی ان کو نصیب ہوئی۔ اور وہ یہ کہ جب کہ ان دنوں میں سرسری طور پر بغیر کسی عدالت کی باضابطہ تحقیق کے اس راقم پر مبلغ 3انکم ٹیکس مشخص ہو کر اس کا مطالبہ ہوا تو یہ لوگ جن کے نام لکھنے کی حاجت نہیں (عقلمند خود ہی سمجھ جائیں گے) اپنے دلوں میں بہت ہی خوش ہوئے اور یہ خیال کیا کہ اگر ہمارا پہلا نشانہ خطا گیا تھا۔ تو غنیمت ہے کہ اس مقدمہ میں اُس کی تلافی ہوئی۔ لیکن کبھی ممکن نہیں کہ بد اندیش اورنفسانی آدمی فتح یاب ہو سکیں کیونکہ کوئی فتحیابی اپنے منصوبوں اور مکاریوں سے نہیں ہو سکتی بلکہ ایک ہے جو انسانوں کے دلوں کو دیکھتا اوران کے اندرونی خیالات کو جانچتا اور ان کے نیات کے موافق آسمان پر سے حکم کرتا ہے۔ سو اس نے ان تیرہ خیالات لوگوں کی یہ مراد بھی پوری نہ ہونے دی اور بعد تحقیقات کامل بتاریخ ۱۷؍ ستمبر ۱۸۹۸ ؁ء انکم ٹیکس معاف کیا گیا۔ اس مقدمہ کے یک دفعہ پیدؔ ا ہوجانے میں
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 507
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 507
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/507/mode/1up
507
ایک یہ بھی حکمت الٰہی مخفی تھی کہ تا خداتعالیٰ کی تائید میری جان اور آبرو اور مال کے متعلق یعنی تینوں طرح سے اور تینوں پہلوؤں سے ثابت ہو جائے کیونکہ جان اور آبرو کے متعلق تو ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ میں نصرت الٰہی بپایۂ ثبوت پہنچ چکی تھی۔ مگر مال کے متعلق امر تائید ہنوز مخفی تھا۔ سو خداتعالیٰ کے فضل اور عنایت نے ارادہ فرمایا کہ پبلک کو مال کے متعلق بھی اپنی تائید دکھلاوے۔ سو اس نے یہ تائید بھی ظاہر فرما کر تینوں قسم کی تائیدات کا دائرہ پورا کر دیا۔ سو یہی بھید ہے کہ یہ مقدمہ برپا کیا گیا اور جیسا کہ ڈاکٹر کلارک کا مقدمہ خداتعالیٰ کی طرف سے اس لئے برپا نہیں ہوا تھا کہ مجھ کو ہلاک یا ذلیل کیا جائے بلکہ اس لئے برپا ہوا تھا کہ اس قادر کریم کے نشان ظاہر ہوں۔ ایسا ہی اس میں بھی ہوا اور جس طرح میرے خدا نے جان اور عزت کے مقدمہ میں پہلے سے الہام کے ذریعہ سے یہ بشارت دی تھی کہ آخر میں بریت ہوگی اور دشمن شرمسار ہوں گے۔ ایسا ہی اس نے اس مقدمہ میں بھی پہلے سے خوشخبری دی کہ انجام کار ہماری فتح ہوگی اور حاسد بدباطن ناکام رہیں گے۔ چنانچہ وہ الہامی خوشخبری اخیر حکم کے نکلنے کے پہلے ہی ہماری جماعت میں خوب اشاعت پا چکی تھی۔ اور جیسا کہ ہماری جماعت نے جان اور آبرو کے مقدمہ میں ایک آسمانی نشان دیکھا تھا اس میں بھی انہوں نے ایک آسمانی نشان دیکھ لیا جو ان کے ایمان کی زیادت کا موجب ہوا۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذالک۔
مجھے بڑا تعجب ہے کہ باوجودیکہ نشان پر نشان ظاہر ہوتے جاتے ہیں مگرپھر بھی مولویوں کو سچائی کے قبول کرنے کی طرف توجہ نہیں۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ ہر میدان میں خداتعالیٰ ان کو شکست دیتا ہے اور وہ بہت ہی چاہتے ہیں کہ کسی قسم کی تائید الٰہی ان کی نسبت بھی ثابت ہو مگر بجائے تائید کے دن بدن انکا خذلان اور ان کا نامراد ہونا ثابت ہوتا جاتا ہے۔ مثلاً جن دنوں میں جنتریوں کے ذریعہ سے یہ مشہور ہوا تھا کہ حال کے رمضان میں سورج اور چاند دونوں کو گرہن لگے گا اور لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ یہ امام موعود کے ظہور کا نشان ہے تو اس وقت مولویوں کے دلوں میں یہ دھڑکہ شروع ہوگیا تھا کہ مہدیؔ اور مسیح ہونے کا مدعی تو یہی ایک شخص میدان میں کھڑا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ اس کی طرف جھک جائیں۔ تب اس
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 508
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 508
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/508/mode/1up
508
نشان کے چھپانے کے لئے اول تو بعض نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس رمضان میں ہرگز کسوف خسوف نہیں ہوگا بلکہ اس وقت ہوگا کہ جب ان کے امام مہدی ظہور فرما ہوں گے اور جب رمضان میں خسوف کسوف ہو چکا تو پھر یہ بہانہ پیش کیا کہ یہ کسوف خسوف حدیث کے لفظوں کے مطابق نہیں۔ کیونکہ حدیث میں یہ ہے کہ چاند کو گرہن اول رات میں لگے گا اور سورج کو گرہن درمیان کی تاریخ میں لگے گا۔ حالانکہ اس کسوف خسوف میں چاند کو گرہن تیرھویں رات میں لگا اور سورج کو گرہن اٹھائیس تاریخ کو لگا۔ اور جب ان کو سمجھایا گیا کہ حدیث میں مہینے کی پہلی تاریخ مراد نہیں۔ اور پہلی تاریخ کے چاند کو قمر نہیں کہہ سکتے اس کا نام تو ہلال ہے۔ اور حدیث میں قمر کا لفظ ہے نہ ہلال کا لفظ۔ سو حدیث کے معنے یہ ہیں کہ چاند کو اس پہلی رات میں گرہن لگے گا جو اس کے گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات ہے یعنی مہینہ کی تیرھویں رات۔ اور سورج کو درمیان کے دن میں گرہن لگے گا یعنی اٹھائیس تاریخ جو اس کے گرہن کے دنوں میں سے درمیانی دن ہے* ۔
تب یہ نادان مولوی اس صحیح معنے کو سن کر بہت شرمندہ ہوئے اور پھر بڑی جانکاہی سے یہ دوسرا عذر بنایا کہ حدیث کے رجال میں سے ایک راوی اچھا آدمی نہیں ہے۔ تب ان کو کہا گیا کہ جب کہ حدیث کی پیشگوئی پوری ہوگئی تو وہ جرح جس کی بنا شک پر ہے۔ اس یقینی واقعہ کے مقابل پر جو حدیث کی صحت پر ایک قوی دلیل ہے کچھ چیز ہی نہیں۔ یعنی پیشگوئی کا پورا ہونا یہ گواہی دے رہا ہے کہ یہ صادق کا کلام ہے۔ اور اب یہ کہنا کہ وہ صادق نہیں بلکہ کاذب ہے بدیہیات کے انکار کے حکم میں ہے اور ہمیشہ سے یہی اصول محدثین کا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ
*یہ قانون قدرت ہے کہ چاند گرہن کیلئے مہینہ کی تین رات مقرر ہیں یعنی تیرھویں چودھویں پندرھویں اور ہمیشہ چاند گرہن ان تین راتوں میں سے کسی ایک میں لگتا ہے۔ پس اس حساب سے چاند گرہن کی پہلی رات تیرھویں رات ہے جس کی طرف حدیث کا اشارہ ہے اور سورج گرہن کے دن مہینہ کی ستائیسویں اور اٹھائیسویں اور انتیسویں تاریخ ہے پس اس حساب سے درمیانی دن سورج گرہن کا اٹھائیسواں ہے۔ اور انہیں تاریخوں میں گرہن لگا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 509
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 509
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/509/mode/1up
509
شک یقین کو رفع نہیں کر سکتا۔ پیشگوئی کا اپنے مفہوم کے مطابق ایک مدعی مہدویت کے زمانہ میں پوری ہوجانا اس بات پر یقینی گواہی ہے کہ جس کے منہ سے یہ کلمات نکلے تھے اس نے سچ بولا ہے۔ لیکن یہ کہنا اس کی چال چلن میںؔ ہمیں کلام ہے۔ یہ ایک شکی امر ہے اور کبھی کاذب بھی سچ بولتا ہے۔ ما سوا اس کے یہ پیشگوئی اور طرق سے بھی ثابت ہے اور حنفیوں کے بعض اکابر نے بھی اس کو لکھا ہے تو پھر انکار شرط انصاف نہیں ہے بلکہ سراسرہٹ دھرمی ہے اور اس دندان شکن جواب کے بعد انہیں یہ کہنا پڑا کہ یہ حدیث تو صحیح ہے اور اس سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ عنقریب امام موعود ظاہر ہوگا مگر یہ شخص امام موعود نہیں ہے بلکہ وہ اور ہوگا جو بعد اس کے عنقریب ظاہر ہوگا۔ مگر یہ انکا جواب بھی بودا اور باطل ثابت ہوا کیونکہ اگر کوئی اور امام ہوتا تو جیسا کہ حدیث کا مفہوم ہے وہ امام صدی کے سر پر آنا چاہئے تھا۔ مگر صدی سے بھی پندرہ برس گذر گئے اور کوئی امام ان کا ظاہر نہ ہوا۔ اب ان لوگوں کی طرف سے آخری جواب یہ ہے کہ یہ لوگ کافر ہیں ان کی کتابیں مت دیکھو۔ ان سے ملاپ مت رکھو۔ ان کی بات مت سنو کہ ان کی باتیں دلوں میں اثر کرتی ہیں۔ لیکن کس قدر عبرت کی جگہ ہے کہ آسمان بھی ان کے مخالف ہوگیا اور زمین کی حالت موجودہ بھی مخالف ہوگئی۔ یہ کس قدر ان کی ذلت ہے کہ ایک طرف آسمان ان کے مخالف گواہی د ے رہا ہے اور ایک طرف زمین صلیبی غلبہ کی وجہ سے گواہی دے رہی ہے۔ آسمان کی گواہی دارقطنی وغیرہ کتابوں میں موجود ہے یعنی رمضان میں خسوف کسوف اور زمین کی گواہی صلیبی غلبہ ہے جس کے غلبہ میں مسیح موعود کا آنا ضروری تھا اور جیسا کہ صحیح بخاری میں یہ حدیث موجود ہے۔ یہ دونوں شہادتیں ہماری مؤید اور ان کی مکذب ہیں۔ پھر لیکھرام کی موت کا جو نشان ظاہر ہوا اس نے بھی ان کو کچھ کم شرمندہ نہیں کیا۔ ایسا ہی مہوتسو جلسہ یعنی قوموں کا مذہبی جلسہ جس میں ہمارا مضمون بطور نشان غالب رہا تھا کچھ کم ندامت کا موجب نہیں ہوا۔ کیونکہ اس میں نہ صرف ہمارا مضمون غالب رہا بلکہ یہ واقعہ پیش از وقت الہام ہو کر بذریعہ اشتہارات شائع کر دیا گیا۔ کاش اگر
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 510
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 510
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/510/mode/1up
510
آتھم ہی زندہ رہتا۔ تو میاں محمد حسین بٹالوی اور اس کے ہم جنسوں کے ہاتھ میں جھوٹی تاویلوں کی کچھ گنجائش رہتی مگر آتھم بھی جلد مر کر ان لوگوں کو برباد کر گیا۔ جب تک وہ چپ رہا زندہ رہا اور پھر منہ کھولتے ہی الہامی شرط نے اس کو لے لیا۔ خداؔ تعالیٰ نے الہامی شرط کے موافق اس کو عمر دی اور جبھی سے کہ اس نے تکذیب شروع کی اسی وقت سے عوارض شدیدہ نے اُس کو ایسا پکڑ لیا کہ بہت جلد اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن چونکہ یہ ذلت بعض نادان مولویوں کو محسوس نہیں ہوئی تھی اور شرطی پیشگوئی کو محض شرارت سے انہوں نے یوں دیکھا کہ گویا اس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہ تھی اور آتھم کی سراسیمگی اور زبان بند زندگی سے جو پیشگوئی کے ایام میں بدیہی طور پر رہی انہوں نے دیانتداری سے کوئی نتیجہ نہ نکالا اور جو آتھم قسم کیلئے بلایا گیا اور نالش کیلئے اکسایا گیا اور وہ انکار سے کانوں پر ہاتھ رکھتا رہا ان تمام امور سے ان کوکوئی ہدایت نہ ہوئی۔ اس لئے خدا نے جو اپنے نشانوں کو شبہ میں چھوڑنا نہیں چاہتا لیکھرام کی پیشگوئی کو جس کے ساتھ کوئی شرط نہ تھی اور جس میں تاریخ اور دن اور صورت موت یعنی کس طریق سے مرے گا سب بیان کیا گیا تھا اتمام حجت کیلئے کمال صفائی سے پورا کیا۔ مگر افسوس کہ سچائی کے مخالفوں نے اس کھلیکھلے خدا تعالیٰ کے نشان سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔ ظاہر ہے کہ اگر میں جھوٹا ہوتا تو لیکھرام کی پیشگوئی میرے ذلیل کرنے کیلئے بڑا عمدہ موقعہ تھا کیونکہ اس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہ تھی اور اس میں صاف طور پر پیشگوئی کے ساتھ ہی میں نے اپنا اقرار لکھ کر شائع کر دیا تھا کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی تو میں جھوٹا ہوں اور ہر ایک سزا اور ذلت کا سزاوار ہوں۔ سو اگر میں جھوٹا ہوتا تو ایسے موقعہ پر جب کہ قسمیں کھا کر یہ پیشگوئی جو کوئی شرط نہیں رکھتی تھی شائع کی گئی تھی ضرور تھا کہ خداتعالیٰ مجھ کو رسوا کرتا اور میرا اور میری جماعت کا نام و نشان مٹا دیتا۔ سو خدا نے ایسا نہ کیا بلکہ اس میں میری عزت ظاہر کی۔ اور جن لوگوں نے نادانی سے آتھم کے متعلق کی پیشگوئی کو نہیں سمجھا تھا ان کے دلوں میں بھی اس پیشگوئی سے روشنی ڈالی۔ کیا یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے کہ ایسی پیشگوئی میں جس کے ساتھ کوئی بھی شرط نہیں تھی اور جس کے خطا جانے سے میری تمام
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 511
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 511
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/511/mode/1up
511
کشتی غرق ہوتی تھی خدا نے کیوں میری تائید کی اور کیوں اس کو پوری کر کے صدہا دلوں میں میری محبت ڈال دی۔ یہاں تک کہ بعض سخت دشمنوں نے روتے ہوئے آکر بیعت کی۔ اگر یہ پیشگوئی پوری نہ ہوتی تو میاں بٹالوی صاحب خود سوچ لیں کہ کس شدومد سے وہ اشاعۃ السنہ میںؔ تکذیب کے مضامین لکھتے اور کیا کچھ ان کا دنیا پر اثر ہوتا کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ خدا نے ایسے موقعہ پر کیوں بٹالوی اور اس کے ہم خیال لوگوں کو شرمندہ اور ذلیل کیا۔ کیا قرآن میں نہیں ہے کہ خدا لکھ چکا ہے کہ وہ مومنوں کو غالب کرتا ہے۔ کیا اگر یہ پیشگوئی جو ایک ذرہ بھی شرط اپنے ساتھ نہیں رکھتی تھی اورایک بھاری مخالف کے حق میں تھی جو مجھ پر دانت پیستا تھا جھوٹی نکلتی تو کیا اس صاف فیصلہ کے بعد میرا کچھ باقی رہ جاتا اور کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ اس پیشگوئی کے جھوٹے نکلنے پر شیخ محمد حسین بٹالوی کو ہزار عید کی خوشی ہوتی اور وہ طرح طرح کے ٹھٹھے اور ہنسی کا اپنے کلام کو رنگ دے کر رسالہ کو نکالتا اور کئی جلسے کرتا لیکن اب پیشگوئی کے سچی نکلنے پر اس نے کیا کیا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ اس نے خدا کے ایک عظیم الشان کام کو ایک ردّی چیز کی طرح پھینک دیا اور اپنے منحوس رسالہ میں یہ اشارہ کیا کہ لیکھرام کا یہی شخص قاتل ہے۔ سو میں کہتا ہوں کہ میں کسی انسانی حربہ کے ساتھ قاتل نہیں ہاں آسمانی حربہ کے ساتھ یعنی دعا کے ساتھ قاتل ہوں اور وہ بھی اس کے الحاح اور درخواست کے بعد۔ میں نے نہیں چاہاکہ اس پر بددعا کروں مگر اس نے آپ چاہا سو مَیں اس کا اسی طرح قاتل ہو ں جس طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خسرو پرویز شاہ ایران کے قاتل تھے ۔ غرض لیکھرام کامقدمہ محمد حسین پر خداتعالیٰ کی حجت پوری کر گیا اور ایساہی اس کے اور بھائیوں پر۔
پھر بعد اس کے ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ میں خدا کا نشان ظاہر ہوا اور وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو اخیر حکم سے پہلے صدہا لوگوں میں پھیل چکی تھی۔ اس مقدمہ میں شیخ بٹالوی کو وہ ذلت پیش آئی کہ اگر سعادت یاوری کرتی تو بلاتوقف توبہ نصوح کرتا۔ اس پر خوب کھل گیا کہ خدا نے کس کی تائید کی۔
یاد رہے کہ کلارک کے مقدمہ میں محمد حسین نے عیسائیوں کے ساتھ شامل ہو کر میری تباہی
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 512
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 512
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/512/mode/1up
512
کے لئے ناخنوں تک زور لگایا تھا اور میرے ذلیل کرنے کے لئے کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا تھا آخر میرے خدا نے مجھے بری کیا۔ اور عین کچہری میں کرسی مانگنے پر وہ ذلت اسؔ کے نصیب ہوئی جس سے ایک شریف آدمی مارے ندامت کے مر سکتا ہے۔ یہ ایک صادق کی ذلت چاہنے کا نتیجہ ہے۔ کرسی کی درخواست پر اس کو صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر نے جھڑکیاں دیں اور کہا کہ کرسی نہ کبھی تجھ کو ملی اور نہ تیرے باپ کو اور جھڑک کر پیچھے ہٹایا اور کہا کہ سیدھا کھڑا ہوجا۔ اور اُس پر موت پر موت یہ ہوئی کہ ان جھڑکیوں کے وقت یہ عاجز صاحب ڈپٹی کمشنر کے قریب ہی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ جس کی ذلت دیکھنے کیلئے وہ آیا تھا۔ اور مجھے کچھ ضرورت نہیں کہ اس واقعہ کو بار بار لکھوں۔ کچہری کے افسر موجود ہیں ان کا عملہ موجود ہے ان سے پوچھنے والے پوچھ لیں۔
اب سوال تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ کا قرآن شریف میں وعدہ ہے کہ وہ مومنوں کی تائید کرتا ہے اور انہیں عزت دیتا ہے اور جھوٹوں اور دجالوں کو ذلیل کرتا ہے پھر یہ الٹی ندی کیوں بہنے لگی کہ ہر ایک میدان میں محمد حسین کو ہی ذلت اور رسوائی اور بے عزتی نصیب ہوتی گئی۔ کیا خداتعالیٰ کی اپنے پیاروں سے یہی عادت ہے۔ اب ٹیکس کے مقدمہ میں شیخ بٹالوی صاحب کی یہ خوشی تھی کہ کسی طرح ٹیکس لگ جائے تا اسی مضمون کو لمبا چوڑا کر کے اشاعۃ السنہ کو رونق دیں تا پہلی ذلتوں کی کسی قدر پردہ پوشی ہوسکے۔ سو اس میں بھی وہ نامراد ہی رہا اور صاف طور پر معافی کا حکم آگیا۔ خدا نے اس مقدمہ کو ایسے حکام کے ہاتھ میں دیا جنہوں نے سچائی اور ایمانداری سے عدالت کو پورا کرنا تھا۔ سو بدنصیب بد اندیش اس حملہ میں بھی محروم ہی رہے۔ خداتعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے حکام با انصاف پر اصل حقیقت کھول دی۔ اوراس جگہ ہمیں جناب مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپورہ کا شکر کرنا چاہئے۔ جن کے دل پر خداتعالیٰ نے واقعی حقیقت منکشف کر دی۔ اسی وجہ سے ہم ابتداء سے انگریزی حکومت اور انگریزی حکام کے شکر گذار اور مداح اور ثنا خوان ہیں کہ وہ انصاف کو بہرحال مقدم رکھتے ہیں۔ کپتان ڈگلس صاحب سابق کمشنر نے ڈاکٹر کلارک کے مقدمہ فوجداری میں اور مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب نے اس انکم ٹیکس کے مقدمہ میں ہمیں انگریزی
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 513
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 513
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/513/mode/1up
513
عدالت اور حق پسندی کے دو ایسے نمونے دئیے ہیں جن کو ہم مدت العمر میں کبھیؔ بھول نہیں سکتے۔ کیونکہ کپتان ڈگلس صاحب کے سامنے وہ نازک مقدمہ آیا تھا جس کا فریق مستغیث ایک معزز عیسائی تھا اور جس کی تائید میں گویا پنجاب کے تمام پادری تھے۔ لیکن صاحب موصوف نے اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہیں کی کہ یہ مقدمہ کس گروہ کی طرف سے ہے اور پورے طور پر عدالت سے کام لیا اور مجھے بری کیا۔ اور جو مقدمہ اب مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب کے زیر تجویز آیا۔ یہ بھی نازک تھاکیونکہ ٹیکس کی معافی میں سرکار کا نقصان ہے۔ سو صاحب مؤخر الذکر نے بھی سراسر معدلت اور انصاف پسندی اور محض عدل سے کام لیا۔ میری دانست میں اس قسم کے حکام گورنمنٹ کی رعایا پروری اور نیک نیتی اور اصول انصاف کے روشن نمونے ہیں۔ اور واقعی امر یہی تھا جس امر تک مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب کا روشن خیال پہنچ گیا۔ سو ہم شکر بھی کرتے ہیں اور دعا بھی۔ اور اس جگہ محنت اور تفتیش منشی تاج الدین صاحب تحصیلدار پر گنہ بٹالہ قابل ذکر ہے جنہوں نے انصاف اور احقاق حق مقصود رکھ کر واقعات صحیحہ کو آئینہ کی طرح حکام بالادست کو دکھلا دیااور اس طرح پر ٹھیک ٹھیک اصلیت تک پہنچنے کیلئے اعلیٰ حکام کو مدد دی۔ اب وہ مقدمہ یعنی تحصیلدار صاحب کی رائے اور صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کا اخیر حکم ذیل میں لکھا جاتا ہے۔
نقل رپورٹ منشی تاج الدین صاحب تحصیلدار پرگنہ بٹالہ ضلع گورداسپور بمقدمہ عذر داری ٹیکس
مشمولہ مثل اجلاسی مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر
مرجوعہ ۲۷؍جون ۹۸ء فیصلہ ۱۷؍ ستمبر ۹۸ء نمبر بستہ از محکمہ نمبر مقدمہ ۴۶۵۵
مثل عذرداری انکم ٹیکس مسمی مرزا غلام احمد ولد غلام مرتضیٰ ذات مغل
سکنہ قادیاں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور
بحضور جناب والا شان جناب صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپور
جناب عالی۔ مرزا غلام احمد قادیانی پر اس سال3 انکم ٹیکس تشخیص ہوا تھا اس سے
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 514
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 514
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/514/mode/1up
514
پیشتر مرزا غلام احمد پر کبھی ٹیکس تشخیص نہیں ہوا۔ چونکہ یہ ٹیکس نیا لگایا تھا۔ مرزا غلام احمد نے اس پر عدالت حضور میں عذرداری دائر کی جو بنا بر دریافت سپرد محکمہ ہذا ہوئی۔ پیشتر اس کے کہ انکم ٹیکس کے متعلق جس قدر تحقیقات کی گئی ہے اس کا ذکر کیا جائے۔ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا کچھ ذکر گوش گذار حضور کیا جاوے تاکہ معلوم ہو کہ عذردار کون ہے اور کس حیثیت کا آدمی ہے۔
مرزا غلام احمد ایک پرانے معزز خاندان مغل میں سے ہے جو موضع قادیان میں عرصہ سے سکونت پذیر ہے اس کا والد مرزا غلام مرتضیٰ ایک معزز زمیندار تھا اور موضع قادیان کا رئیس تھا۔ اس نے اپنی وفات پر ایک معقول جائیداد چھوڑی۔ اس میں سے کچھ جائداد تو مرزا غلام احمد کے پاس اب بھی ہے اور کچھ مرزا سلطان احمد پسر مرزا غلام احمد کے پاس ہے جو اس کو مرزا غلام قادر مرحوم کی بیوی کے توسل سے ملی ہے۔ یہ جائیداد اکثر زرعی مثلاً باغ، زمین اور تعلقہ داری چند دیہات ہے اور چونکہ مرزا غلام مرتضیٰ ایک معزز رئیس آدمی تھا ممکن ہے اور میری رائے میں اغلب ہے کہ اس نے بہت سی نقدی اور زیورات بھی چھوڑے ہوں لیکن ایسی جائیداد غیر منقولہ کی نسبت قابل اطمینان شہادت نہیں گذری۔ مرزا غلام احمد ابتدائی ایام میں خود ملازمت کرتا رہا ہے اور اس کا طریق عمل ہمیشہ سے ایسا رہا ہے کہ اس سے امید نہیں ہو سکتی کہ اس نے اپنی آمدنی یا اپنے والد کی جائیداد نقدی و زیورات کو تباہ کیا ہو۔ جو جائیداد غیر منقولہ اس کو باپ سے وراثتاً پہنچی ہے وہ تو اب بھی موجود ہے۔ لیکن جائیداد غیر منقولہ کی نسبت شہادت کافی نہیں مل سکی۔ لیکن بہرحال مرزا غلام احمد کے حالات کے لحاظ سے یہ طمانیت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی اس نے تلف نہیں کی۔ کچھ مدت سے مرزا غلام احمد نے ملازمت وغیرہ چھوڑ کر اپنے مذہب کی طرف رجوع کیا اور اس امر کی ہمیشہ سے کوشش کرتا رہا کہ وہ ایک مذہبی سرگروہ مانا جاوے اس نے چند مذہبی کتابیں شائع کیں رسالہ جات لکھے اور اپنے خیالات کا اظہار بذریعہ اشتہارات کیا۔ چنانچہ اس کل کارروائی کا یہ نتیجہ ہوا کہ کچھ عرصہ سے ایک متعدد اشخاص کا گروہ جن کی فہرست (بحروف انگریزی) منسلک ہذا ہے اس کو اپنا سرگروہ ماننے لگ گیا اور بطور ایک علیحدہ فرقہ کے قائم ہوگیا۔ اس فرقہ میں حسب فہرست منسلکہ ہذا (۳۱۸) آدمی ہیں۔ جن میں
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 515
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 515
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/515/mode/1up
515
بلاشبہ بعضؔ اشخاص جن کی تعداد زیادہ نہیں معزز اور صاحب علم ہیں۔ مرزا غلام احمد کا گروہ جب کچھ بڑھ نکلا تو اس نے اپنی کتب ’’فتح اسلام‘‘ اور ’’توضیح مرام‘‘ میں اپنے اغراض کے پورا کرنے کیلئے اپنے پیروؤں سے چندہ کی درخواست کی اور ان میں پانچ مدات کا ذکر کیا جن کے لئے چندہ کی ضرورت ہے۔ چونکہ مرزا غلام احمد پر اس کے مریدان کا اعتقاد ہوگیا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے چندہ بھیجنا شروع کیا اور اپنے خطوط میں بعض دفعہ تو تخصیص کر دی کہ ان کا چندہ ان پانچ مدوں میں سے فلاں مد پر لگایا جاوے اور بعض دفعہ مرزا غلام احمد کی رائے پر چھوڑ دیا کہ جس مد میں وہ ضروری خیال کریں صرف کریں چنانچہ حسب بیان مرزا غلام احمد عذردار اور بروئے شہادت گواہان چندہ کے روپیہ کا حال اسی طرح ہوتا ہے۔ الغرض یہ گروہ اس وقت بطور ایک مذہبی سوسائٹی کے ہے جس کا سرگروہ مرزا غلام احمد ہے اور باقی سب پیروان ہیں اور چندہ باہمی سے اپنے سوسائٹی کے اغراض کو بہ سلوک پورا کرتے ہیں۔ جن پانچ مدات کا اوپر ذکر ہوا ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
اول۱ مہمان خانہ۔ جس قدر لوگ مرزا غلام احمد کے پاس قادیان میں آتے خواہ وہ مرید ہوں یا نہ ہوں لیکن وہ مذہبی تحقیقات کیلئے آئے ہوں ان کو وہاں سے کھانا ملتا ہے اور حسب بیان تحریری مختار مرزا غلام احمد اس مد کے چندہ میں سے مسافروں، یتیموں اور بیواؤں کی بھی امداد کی جاتی ہے۔
دوم۲ مطبع۔ اس میں مذہبی کتابیں اور اشتہارات چھاپے جاتے ہیں اور بعض دفعہ لوگوں میں مفت تقسیم ہوتے ہیں۔
سوم۳ مدرسہ۔ مرزا غلام احمد کے مریدوں کی طرف سے ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے لیکن اس کی ابھی ابتدائی حالت ہے اور اس کا اہتمام مولوی نور الدین کے سپرد ہے جو مرزا غلام احمد کا ایک مرید خاص ہے۔
چہارم۴ سالانہ اور دیگر جلسہ جات۔ اس گروہ کے سالانہ جلسے بھی ہوتے ہیں اور ان جلسوں کے سرانجام دینے کے لئے چندہ فراہم کیا جاتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 516
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 516
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/516/mode/1up
516
پنجم ۵ خط و کتابت۔ حسب بیان تحریری مختار مرزا غلام احمد اور شہادت گواہان اس میں بہت سا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ مذہبی تحقیقات کے متعلق جس قدر خط و کتابت ہوتی ہے اس کیلئے مریدوں سے چندہ لیا جاتا ہے۔ الغرض حسب بیان گواہان ان پانچ مدوں میں چندہ کا روپیہؔ خرچ ہوتا ہے اور ان ذرائع سے مرزا غلام احمد مع اپنے مریدوں کے اپنے خیالات مذہبی کی اشاعت کرتا ہے۔ یہ سوسائٹی ایک مذہبی گروہ ہے اور چونکہ حضور کو اس گروہ کی نسبت پیشتر سے علم ہے اس لئے اسی مختصر خاکہ پر اکتفا کی جاتی ہے۔ اور اب اصل درخواست عذرداری کے متعلق گذارش کی جاتی ہے۔
مرزا غلام احمد پر امسال ۷۲۰۰ روپیہ اس کی سالانہ آمدنی قرار دے کر 3 انکم ٹیکس قرار دیا گیا۔ اس کی عذرداری پر اس کا اپنا بیان خاص موضع قادیان میں جبکہ کمترین بتقریب دورہ اس طرف گیا لیا گیا۔ اور تیراں کس گواہان کی شہادت قلم بند کی گئی۔ مرزا غلام احمد نے اپنے بیان حلفی میں لکھوایا کہ اس کو تعلقہ داری، زمین اور باغ کی آمدنی ہے۔ تعلقہ داری کی سالانہ تخمیناً3کی زمین کی تخمیناً تین سو روپیہ سالانہ کی اور باغ کی سالانہ تخمیناً دو سو تین سو روپیہ چار سو اور حد درجہ پانسو روپیہ کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو کسی قسم کی اور آمدنی نہیں ہے۔ مرزا غلام احمد نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کو تخمیناً پانچ ہزار دو سو روپیہ سالانہ مریدوں سے اس سال پہنچا ہے ورنہ اوسط سالانہ آمدنی قریباً چار ہزار روپیہ کے ہوتی ہے وہ پانچ مدوں میں جن کا ذکر اوپر کیا گیا خرچ ہوتی ہے اور اس کی ذاتی خرچ میں نہیں آتی۔ خرچ اور آمدنی کا حساب باضابطہ کوئی نہیں ہے۔ صرف یادداشت سے تخمیناً لکھوایا ہے۔ مرزا غلام احمد نے یہ بھی بیان کیا کہ اس کی ذاتی آمدنی باغ، زمین اور تعلقہ داری کی اس کے خرچ کیلئے کافی ہے اور اس کو کچھ ضرورت نہیں ہے کہ وہ مریدوں کا روپیہ ذاتی خرچ میں لاوے۔ شہادت گواہان بھی مرزا غلام احمد کے بیان کی تائید کرتی ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ مریدان بطور خیرات پانچ مدات مذکورہ بالا کے لئے روپیہ مرزا غلام احمد کو بھیجتے ہیں۔ اور ان ہی مدات میں خرچ ہوتا ہے۔ مرزا غلام احمد کی اپنی ذاتی آمدنی سوائے آمدنی تعلقہ داری، زمین اور باغ کے اور نہیں ہے جو قابل ٹیکس ہو۔ گواہان میں سے چھ گواہ گو معتبر
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 517
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 517
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/517/mode/1up
517
اشخاص ہیں لیکن مرزا صاحب کے مرید ہیں اور اکثر مرزا غلام احمد کے پاسؔ رہتے ہیں۔ دیگر سات گواہ مختلف قسم کے دوکاندار ہیں جن کو مرزا صاحب سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ بالعموم یہ سب گواہان مرزا غلام احمد کے بیان کی تائید کرتے ہیں اور اس کی ذاتی آمدنی سوائے آمدنی تعلقہ داری، زمین اور باغ کے اور کسی قسم کی نہیں بتلاتے۔ میں نے موقعہ پر بھی خفیہ طور سے مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی کی نسبت بعض اشخاص سے دریافت کیا۔ لیکن اگرچہ بعض اشخاص سے معلوم ہوا کہ مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی بہت ہے اور یہ قابل ٹیکس ہے لیکن کہیں سے کوئی بین ثبوت مرزا صاحب کی آمدنی کا نہ مل سکا۔ زبانی تذکرات پائے گئے۔ کوئی شخص پورا پورا ثبوت نہ دے سکا۔ میں نے موضع قادیاں میں مدرسہ اور مہمان خانہ کا بھی ملاحظہ کیا۔ مدرسہ ابھی ابتدائی حالت میں ہے اور اکثر بعمارت خام بنا ہوا ہے۔ اور کچھ مریدوں کیلئے بھی گھر بنے ہوئے ہیں۔ لیکن مہمان خانہ میں واقعی مہمان پائے گئے اور یہ بھی دیکھا گیا کہ جس قدر مرید اس روز قادیاں میں موجود تھے انہوں نے مہمان خانہ سے کھانا کھایا۔
کمترین کی رائے ناقص میں اگر مرزا غلام احمد کی ذاتی آمدنی صرف تعلقہ داری اور باغ کی قرار دی جائے جیسا کہ شہادت سے عیاں ہوا اور جس قدر آمدنی مرزا صاحب کو مریدوں سے ہوتی ہے اس کو خیرات کا روپیہ قرار دیا جائے جیسا کہ گواہان نے بالعموم بیان کیا تو مرزا غلام احمد پر موجودہ انکم ٹیکس بحال نہیں رہ سکتا۔ لیکن جب کہ دوسری طرف یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مرزا غلام احمد ایک معزز اور بھاری خاندان سے ہے اور اس کے آباء و اجداد رئیس رہے ہیں اور ان کی آمدنی معقول رہی ہے اور مرزا غلام احمد خود ملازم رہا ہے اور آسودہ حال رہا ہے تو ضرور گمان گذرتا ہے کہ مرزا غلام احمد ایک مالدار شخص ہے اور قابل ٹیکس ہے۔مرزا صاحب کے اپنے بیان کے مطابق حال ہی میں اس نے اپنا باغ اپنی زوجہ کے پاس گرو رکھ کر اس سے چار ہزار روپیہ کا زیور اور ایک ہزار روپیہ نقد وصول پایا ہے۔ تو جس شخص کی عورت اس قدر روپیہ دے سکتی ہو اس کی نسبت گمان گذرتا ہے کہ وہ مالدار ہوگا۔ کمترین نے جس قدر تحقیقات کی ہے۔ وہ شامل مثل ہذا ہے۔ اور بہ تعمیل حکم حضور رپورٹ ہذا ارسال خدمت حضور ہے۔ المرقوم ۳۱؍اگست ۱۸۹۸ ؁ء
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 518
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 518
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/518/mode/1up
518
کمترین تاج الدین تحصیلدار بٹالہ مکرر آنکہ مختارؔ وکیل مرزا غلام احمد کو حضور کی عدالت میں حاضر ہونے کے لئے ۳؍ ستمبر ۱۸۹۸ء کی تاریخ دی گئی ہے۔ تحریر بتاریخ صدر۔ دستخط حاکم
نقل حکم درمیانی بصیغہ عذرداری ٹیکس اجلاسی ٹی ڈیکسن صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر گورداسپور
مثل عذرداری انکم ٹیکس مسمی مرزا غلام احمد ولد غلام مرتضیٰ ذات مغل سکنہ موضع قادیاں۔
تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور
آج یہ کاغذات پیش ہو کر رپورٹ تحصیلدار صاحب سماعت ہوئی۔ فی الحال یہ مثل زیر تجویز رہے۔ شیخ علی احمد وکیل اور مختار عذردار حاضر ہیں۔ ان کو اطلاع دیا گیا۔
تحریر ۹۸۔۹۔۳ دستخط حاکم
نقل ترجمہ حکم اخیر بصیغہ عذرداری ٹیکس اجلاسی مسٹر ٹی ڈیکسن صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور
ترجمہ حکم
یہ ٹیکس جدید تشخیص کی گئی ہے اور مرزا غلام احمد کا دعویٰ ہے کہ تمام اس کی آمدنی اس کے ذاتی کاروبار پر خرچ نہیں ہوتی۔ بلکہ اس فرقہ کے اخراجات پر صرف ہوتی ہے کہ جو اس نے قائم کیا ہے۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ اس کے پاس اور جائیداد بھی ہے لیکن اس نے تحصیلدار کے سامنے بیان کیا کہ وہ آمدنی بھی کہ جو از قسم آمدنی اراضی و زراعت کی ہے اور زیر دفعہ ۵ (ب) مستثنیٰ ہے مذہبی اخراجات میں جاتی ہے۔ ہمیں اس شخص کی نیک نیتی پر شبہ کرنے کے لئے کوئی وجہ معلوم نہیں کرتے۔ اور ہم اس کی آمدنی کو جواز چندہ ہا ہے وہ/=۵۲۰۰ روپیہ بیان کرتا ہے معاف کرتے ہیں۔ کیونکہ زیر دفعہ (۵) (E) محض مذہبی اغراض کے لئے وہ صرف کی جاتی ہے۔ لہذا حکم ہوا کہ بعد تعمیل ضابطہ کاغذات ہذا داخل دفتر کئے جاویں۔ تحریر ۹۸۔۹۔۱۷
مقام ڈلہوزی دستخط حاکم
اس جگہ ہم اصل انگریزی اخیر حکم کی نقل بھی معہ ترجمہ کر دیتے ہیں:۔
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 519
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 519
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/519/mode/1up
519
In the Court of F.T. Dixon Esquire Collector of the District of Gurdaspur.
Income Tax objection case No. 46 of 1898.
Mirza Ghulam Ahmad son of Mirza Ghulam Murtaza, caste Mughal, resident of mauzah Qadian Mughlan, Tahsil Batala, Distt. of Gurdaspur objector
ORDER
This tax is a newly imposed one and Mirza Ghulam Ahmad claims that all his income is applied not to his personal but to the expenses of sect he has founded. He admits that he has other property but he stated to the Tahsildar that even the proceeds of that which is classed as land and the proceeds of agriculture and is exempt under 5 (b) go to his religious expenses. I see no reason to doubt the bona fides of this man, whose sect is well known, and I exempt his income from subscriptions which he states as 5200/- Under Sec 5 (c) as being solely employed in religious purposes.
Sd/T. Dixon
17-9-1898 Collector
ترجمہ
بعدالت ٹی ڈیکسن صاحب بہادر کلکٹر ضلع گورداسپور
مقدمہ نمبر ۴۶ بابت ۹۸ء ؁ عذر داری انکم ٹیکس
مرزا غلام احمد صاحب ولد مرزا غلام مرتضیٰ قوم مغل ساکن موضع قادیان مغلاں
تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور عذردار
حُکم
یہ ٹیکس اب کے ہی لگایا گیا ہے اور مرزا غلام احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ
Ruhani Khazain Volume 13. Page: 520
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۳- ضرورۃ الامَام: صفحہ 520
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=13#page/520/mode/1up
520
تمام آمدنی میری جماعت کے لئے خرچ ہوتی ہے۔ میرے ذاتی خرچ میں نہیں آتی۔ وہ اس بات کو بھی قبول کرتے ہیں کہ میری اور بھی جائیداد ہے۔ لیکن تحصیل دار صاحب کے سامنے انہوں نے بیان کیا ہے کہ اس میری جائیداد کی آمدنی بھی جو از قسم زمین ہے۔ اور پیداوار زراعت ہے اور زیر دفعہ ۵ (ب) انکم ٹیکس سے بری ہے۔ دینی مصارف میں ہی کام آتی ہے۔ اس شخص کے اظہار نیک نیتی میں مجھے شک کرنے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ جس کی جماعت کو ہر ایک جانتا ہے میں ان کی چندوں کی آمدنی کو جس کی تعداد وہ 3(۵۲۰۰ )بیان کرتے ہیں اور جو محض دینی کاموں میں خرچ ہوتی ہے۔ زیر دفعہ ۵ (ای) انکم ٹیکس سے بری کرتا ہوں۔
دستخط ٹی ڈیکسن صاحب بہادر کلکٹر
۱۷؍ ستمبر ۹۸ء ؁
***
جس کتاب پر دستخط مصنف و مہر نہ ہو تو وہ کتاب مسروقہ ہوگی
راقم
مرزا غلام احمد
مورخہ ۲۰؍ اکتوبر ۱۸۹۸ء
 
Last edited:
Top