Ruhani Khazain Volume 19. Page: 361
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 361
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
وہ خدا جس نے تمام رُوحیں اور ذرہ ذرہ عالم علوی اور سفلی کا پیدا کیا اُسی نے
اپنے فضل و کرم سے اِس رسالہ کے مضمون ہمارے دل میں پیدا کئے۔
اور
اس کا نام
ہے
نسیمِ دعوت
نام اس کا نسیمِ دعوت ہے
آریوں کے لئے یہ رحمت ہے
دِلِ بیمار کا یہ درماں ہے
طالبوں کا یہ یارِ خلوت ہے
کفر کے زہر کو یہ ہے تریاق
ہر ورق اس کا جامِ صحت ہے
غور کر کے اسے پڑھو پیارو
یہ خدا کے لئے نصیحت ہے
خاکساری سے ہم نے لکھا ہے
نہ تو سختی نہ کوئی شدّت ہے
قوم سے مت ڈرو خدا سے ڈرو
آخر اس کی طرف ہی رحلت ہے
سخت دل کیسے ہو گئے ہیں لوگ
سر پہ طاعون ہے پھر بھی غفلت ہے
ایک دنیا ہے مر چکی اب تک
پھر بھی توبہ نہیں یہ حالت ہے
مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں باہتمام حکیم فضل الدین صاحب بھیروی
بتاریخ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ء چھپ کر شائع ہوا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 362
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 362
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 363
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 363
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/363/mode/1up
اُس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہورپذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے نہ اُس کی خَلْق سے۔ اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اُس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کوپایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ ہمارا سچا خدا بیشمار برکتوں والا ہے اور بیشمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا ۔اور بے شمار احسان والا اُس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔
بعد ھٰذا واضح ہو کہ آج آریہ سماج قادیان کی طرف سے میری نظر سے ایک اشتہار گزرا* جس پر سا۷ت فروری ۱۹۰۳ء تاریخ لکھی ہے اور مطبع چشمہ نور پریس امرتسر میں چھپا ہے جس کا عنوان اشتہار پر یہ لکھا ہے۔ ’’کادیانی پوپ کے چیلوں کی ایک ڈینگ کا جواب‘‘۔ اس اشتہار میں ہمارے سیّد و مولیٰ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور میری نسبت اور میرے معزز احباب جماعت کی نسبت اس قدر سخت الفاظ اور گالیاں استعمال کی ہیں کہ بظاہر یہی دل چاہتا تھا ؔ کہ ایسے لوگوں کو مخاطب نہ کیا جاوے مگر
* اس کے بعد ایک اور تحریر ایک انگریزی اخبار میں جو آریہ سماج لاہور کی طرف سے نکلتی ہے اور ایک اور اشتہار طوطی رام نام ایک شخص کی طرف سے دیکھا گیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 364
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 364
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/364/mode/1up
خدا تعالیٰ نے اپنی وحی خاص سے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اس تحریر کا جواب لکھ اور مَیں جواب دینے میں تیرے ساتھ ہوں۔ تب مجھے اس مبشّر وحی سے بہت خوشی پہنچی کہ جواب دینے میں مَیں اکیلا نہیں۔ سو مَیں اپنے خدا سے قوت پاکر اُٹھا اور اُس کی رُوح کی تائید سے مَیں نے اس رسالہ کو لکھا اور جیسا کہ خدا نے مجھے تائید دی مَیں نے یہی چاہا کہ ان تمام گالیوں کو جو میرے نبی مطاع کو اور مجھے دی گئیں نظر انداز کر کے نرمی سے جواب لکھوں اور پھر یہ کاروبار خدا تعالیٰ کے سپرد کردوں۔
مگر قبل اس کے کہ مَیں اس اشتہار کا جواب لکھوں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحتاً کہتا ہوں کہ جو کچھ اس اشتہار کے لکھنے والوں اور ان کی جماعت نے محض دل دُکھانے اور توہین کی نیّت سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اعتراضات کے پیرایہ میں سخت الفاظ لکھے ہیں یا میری نسبت مال خور اور ٹھگ اور کاذب اور نمک حرام کے لفظ کو استعمال میں لائے ہیں اور مجھے لوگوں کا دغا بازی سے مال کھانے والا قرار دیا ہے اور یا جو خود میری جماعت کی نسبت سؤر اور کتے اور مُردار خوار اور گدھے اور بندر وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور ملیچھ ان کا نام رکھا ہے۔ ان تمام دُکھ دینے والے الفاظ پر وہ صبر کریں اور مَیں اس جوش اور اشتعال طبع کو خوب جانتا ہوں کہ جو انسان کو اس حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ جب کہ نہ صرف اس کو گالیاں دی جاتی ہیں بلکہ اس کے رسول اور پیشوا اور امام کو توہین اور تحقیر کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور سخت اور غضب پیدا کرنے والے الفاظ سنائے جاتے ہیں لیکن مَیں کہتا ہوں کہ اگر تم ان گالیوں اور بدزبانیوں پر صبر نہ کرو تو پھر تم میں اور دوسرے لوگوں میں کیا فرق ہوگا اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ تمہارے ساتھ ہوئی اور پہلے کسی سے نہیں ہوئی ہر ایک سچا سلسلہ جو دنیا میں قائم ہوا ضرور دنیا نے اس سے دشمنی کی ہے۔ سوچونکہ تم سچائی کے وارث ہو ضرور ہے کہ تم سے بھی دشمنی کریں سو خبردار رہو نفسانیت تم پر غالب نہ آوے، ہر ایک سختی کی برداشت کرو ہر ایک گالی کا نرمی سے جواب دو تا آسمان پر تمہارے لئے اجر
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 365
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 365
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/365/mode/1up
لکھا جاوے۔ تمہیں چاہئے کہ آریوں کے رشیوں اور بزرگوں کی نسبت ہرگز سختی کے الفاظ استعمال نہ کرو تا وہ بھی خدائے قدوؔ س اور اس کے رسول پاک کو گالیاں نہ دیں کیونکہ ان کو معرفت نہیں دی گئی اس لئے وہ نہیں جانتے کہ کس کو گالیاں دیتے ہیں۔ یاد رکھو کہ ہرایک جو نفسانی جوشوں کا تابع ہے۔ ممکن نہیں کہ اس کے لبوں سے حکمت اور معرفت کی بات نکل سکے بلکہ ہر ایک قول اس کا فساد کے کیڑوں کا ایک انڈہ ہوتا ہے بجز اس کے اور کچھ نہیں۔ پس اگر تم رُوح القدس کی تعلیم سے بولنا چاہتے ہو تو تمام نفسانی جوش اور نفسانی غضب اپنے اندر سے باہر نکال دو تب پاک معرفت کے بھید تمہارے ہونٹوں پر جاری ہوں گے اور آسمان پر تم دنیا کے لئے ایک مفید چیز سمجھے جاؤگے اور تمہاری عمریں بڑھائی جائیں گی تمسخر سے بات نہ کرو اور ٹھٹھے سے کام نہ لو اور چاہئے کہ سفلہ پن اور اوباش پن کا تمہارے کلام پرکچھ رنگ نہ ہو،تا حکمت کا چشمہ تم پر کھلے۔ حکمت کی باتیں دلوں کو فتح کرتی ہیں لیکن تمسخر اور سفاہت کی باتیں فساد پھیلاتی ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو سکے سچی باتوں کو نرمی کے لباس میں بتاؤ تا سامعین کے لئے موجب ملال نہ ہوں۔ جو شخص حقیقت کو نہیں سوچتااور نفس سرکش کا بندہ ہو کر بدزبانی کرتا ہے اور شرارت کے منصوبے جوڑتا ہے۔ وہ ناپاک ہے۔ اس کوکبھی خدا کی طرف راہ نہیں ملتی اور نہ کبھی حکمت اور حق کی بات اُس کے منہ پر جاری ہوتی ہے پس اگر تم چاہتے ہو کہ خدا کی راہیں تم پرکھلیں تو نفسانی جوشوں سے دُور رہو اور کھیل بازی کے طور پر بحثیں مت کرو کہ یہ کچھ چیز نہیں اور وقت ضائع کرنا ہے بدی کا جواب بدی کے ساتھ مت دو۔ نہ قول سے نہ فعل سے تا خدا تمہاری حمایت کرے اور چاہئے کہ درد مند دل کے ساتھ سچائی کو لوگوں کے سامنے پیش کرو نہ ٹھٹھے اور ہنسی سے کیونکہ مُردہ ہے وہ دل جو ٹھٹھا ہنسی اپنا طریق رکھتا ہے اور ناپاک ہے وہ نفس جو حکمت اور سچائی کے طریق کو نہ آپ اختیار کرتا ہے اور نہ دوسرے کو اختیار کرنے دیتا ہے۔ سو تم اگر پاک علم کے وارث بننا چاہتے ہو تو نفسانی جوش سے کوئی بات
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 366
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 366
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/366/mode/1up
منہ سے مت نکالو کہ ایسی بات حکمت اور معرفت سے خالی ہوگی اور سفلہ اور کمینہ لوگوں اور اوباشوں کی طرح نہ چاہو کہ دشمن کو خواہ نخواہ ہتک آمیز اور تمسخر کا جواب دیا جاوے بلکہ دل کی راستی سے سچا اور پُر حکمت جواب دو تا تم آسمانی اسرار کے وارث ٹھہرو۔
اسؔ جگہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ قادیان کے آریوں کا یہ حملہ جو میرے پر کیا گیا ہے یہ ایک ناگہانی ہے ان دنوں میں کوئی تحریر میری طرف سے شائع نہیں ہوئی اور نہ میرے قلم سے اور نہ میری تعلیم سے اور نہ میری تحریک سے کسی نے کوئی اشتہار شائع کیا۔ پس خواہ نخواہ مجھے نشانہ بنانا اور مجھے گالیاں دینا اور میرے سیّد و مولیٰ جناب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت توہین و تحقیر کے الفاظ لکھنا اور اس طرح پر مجھے دوہرے طور پر دُکھ دینا مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس قدر نفسانی جوش کیوں دکھلایا گیا۔ بعض قادیان کے آریہ جو میرے پاس آتے تھے۔ بارہا مَیں نے ان کو نصیحت کی کہ زبان کی چالاکیوں کا نام مذہب نہیں ہے مذہب ایک پاک کیفیت ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو پہچان لیتے ہیں اور مَیں نے ان کو بارہا یہ بھی کہا کہ دیکھو طاعون کا زمانہ ہے اور دنیا کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جب یہ کسی ملک میں بڑے زور سے بھڑکتی رہی ہے تو اس کا یہی موجب ہوتا رہا ہے کہ زمین پاپ اور گناہ سے بھر جاتی تھی اور خدا کی طرف سے جو آتا تھا اس سے انکار کیا جاتا تھا اور جب بھی کہ آسمان کے نیچے اس قسم کا کوئی بڑا گناہ ظہور میں آیا اور بیباکی حد سے بڑھ گئی تبھی یہ بلا ظہور میں آئی۔ اب بھی یہ گناہ انتہا تک پہنچ گیا ہے دنیا میں ایک عظیم الشان نبی انسانوں کی اصلاح کے لئے آیا یعنی سیّدنا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس نے اس سچے خدا کی طرف لوگوں کو بلایا جس کو دنیا بھول گئی تھی۔ لیکن اس زمانہ میں اُسی کامل نبی کی ایسی توہین اور تحقیر کی جاتی ہے جس کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں مل سکتی پھر خدا نے چودھویں صدی کے سر پر اپنے ایک بندہ کو جو یہی لکھنے والا ہے بھیجا تا اس
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 367
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 367
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/367/mode/1up
نبی کی سچائی اور عظمت کی گواہی دے اور خدا کی توحید اور تقدیس کو دنیا میں پھیلاوے اس کو بھی گالیوں کا نشانہ بنایا گیا سو یہ بُرے دن جو زمانہ دیکھ رہا ہے اس کا یہی باعث ہے کہ دلوں میں خدا کا خوف نہیں رہا اور زبانیں تیز ہوگئیں۔ ہر ایک جوش محض قوم اور سوسائٹی کے لئے دکھلاتے ہیں۔ خدا کی عظمت ان لوگوں کے دلوں میں نہیں۔
غرض کئی دفعہ ایسی نصیحتیں قادیان کے ان آریوں کو کی گئیں لیکن نتیجہ برخلاف ہوا اور وہ خدا کی عظمت سے بالکل نہیں ڈرے۔ شاید دلوں میں یہ خیال ہوگا کہ گو طاعون قادیان کے ارد ؔ گرد لوگوں کو ہلاک کررہی ہے مگر ہمیں کیا غم ہم تو ٹیکا لگانے کے بعد ہمیشہ کیلئے طاعون کے پنجہ سے رہائی یاب ہوگئے ہیں بڑا تعجب ہے کہ ایسے خطرناک دن اور پھر یہ لوگ زبان کو اپنے قابو میں نہیں رکھتے نہیں سوچتے کہ جس نبی کو ہم گالیاں دیتے ہیں اور اس کی تحقیر اور توہین کرتے ہیں اگر وہ خدا کی طرف سے ہے اور ضرور وہ خدا کی طرف سے ہے تو کیا یہ بدزبانیاں اور بے ادبیاں خالی جائیں گی۔ سنو اے غافلو! ہمارا اور ان را ستبازوں کا تجربہ جوہم سے پہلے گزرچکے ہیں گواہی دیتا ہے کہ خدا کے پاک رسولوں کی بے ادبی کا انجام اچھا نہیں ہوتا ہر ایک نیک طینت جانتا ہے کہ خدا کے پاس ہر ایک بدی اور شوخی کی سزا ہے اور ہر ایک ظلم کا پاداش ہے۔
ایک اعتراض کا جواب
اب ہم آریہ صاحبوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہیں جو انہوں نے اپنے اشتہار میں ہماری جماعت کے نو مسلم آریوں پر کیا ہے اور وہ یہ کہ یہ مسلمان ہونا ان کا تب صحیح ہوتا کہ اول وہ چاروں وید پڑھ لیتے اور پھر ویدوں کے پڑھنے کے بعد چاہئے تھا کہ وہ آریہ دھرم کا اسلام سے مقابلہ کرتے اور پھر اس قدر تحقیق و تفتیش کے بعد اگر اسلام کو حق دیکھتے تو مسلمان ہو جاتے سو واضح ہو کہ ہمارے نو مسلم آریہ جہاں تک حق تحقیق کا ہے سب کچھ ادا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 368
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 368
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/368/mode/1up
کر کے مشرف باسلام ہوئے ہیں باقی رہا یہ اعتراض کہ انہوں نے چاروں وید کب پڑھے ہیں یہ اعتراض اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ جب اعتراض کرنے والے اپنے وید خوان ہونے کا ثبوت دیتے افسوس کہ انہوں نے اعتراض کرتے وقت انصاف اور خدا ترسی سے کام نہیں لیابھلا اگر انہوں نے سچائی کی پابندی سے یہ اعتراض پیش کیا ہے تو ہمیں بتلاویں کہ ان میں سے وہ تمام لوگ رام رام کرنے والے جو سناتن دھرم پر قائم تھے اور پھر چند سال سے وہ آریہ بنے انہوں نے کس پنڈت سے وید پڑھا ہے کیونکہ اگر مذہب کی تبدیلی کیلئے پہلے ویدوں کا پڑھ لینا ضروری شرط ہے تو اس شرط سے آریہ کیونکرباہر رہ سکتے ہیں یہ بات کسؔ کو معلوم نہیں کہ پنڈت دیانند کے وجود سے پہلے اس ملک میں تمام ہندوسناتن دھرم مذہب رکھتے تھے اور ابھی تک ان کے ٹھاکر دوارے اس گاؤں میں بھی موجود ہیں اور ان کے پنڈت اور وید دان آریہ ورت میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور بہتوں کو ہم نے خود دیکھا ہے اور وید جو اُردو اور انگریزی میں ترجمہ ہو چکے ہیں ان پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وید کے اکثر ارتھ جو سناتن دھرم والے کرتے ہیں وہی ٹھیک ہیں۔ خیر اس بحث کو اس وقت جانے دو بہر حال جو اعتراض ان آریہ صاحبوں نے نو مسلم ہندوؤں پر کیا ہے وہی اعتراض ان پر بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک زمانہ تو وہ تھا کہ وہ رام چندر، کرشن اور دیگر اوتاروں کو پر میشر جانتے تھے مورتی پوجا کو وید کی ہدایت سمجھتے تھے اور سب سے زیادہ یہ کہ ویدانت کے اصول کے موافق اپنے تئیں پرمیشر میں سے نکلے ہوئے خیال کرتے تھے اور پھرآریہ بننے کے بعد وہ سب خیالات پلٹ گئے اور بجائے اس کے کہ پرمیشر میں سے نکلے ہوں انادی اور غیر مخلوق کہلا کر خود قدیم اور پرمیشر کے شریک بن گئے۔ پس کیا اس قدر انقلاب کے لئے حسب عقیدہ ان کے یہ ضرور نہ تھا کہ ہر ایک فرد اُن میں سے اوّل چاروں ویدپڑھ لیتا پھر اپنے قدیم مذہب سناتن دھرم کو چھوڑتا اور آریہ سماج میں داخل ہوتا۔ پس اگر
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 369
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 369
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/369/mode/1up
قادیان کے آریہ سماجیوں نے نو مسلم آریوں پر اعتراض کرنے کے وقت جھوٹ اور حق پوشی سے کام نہیں لیا تو ہمیں دکھلاویں کہ ان کی جماعت آریوں میں کتنے وہ لوگ ہیں جن کو رگ اور یجر اور شام اور اتھر بن وید سب کنٹھ ہیں اگر اس بات میں وہ سچے نکلے کہ اپنی سب جماعت انہوں نے وید دان ثابت کردی تو کم سے کم ہم ان کو شریف آدمی مان لیں گے جنہوں نے اپنے اعتراض میں کسی ایسی جھوٹی بات کو پیش نہیں کیا جس کے آپ وہ پابند نہیں تھے۔ یہ کس کو معلوم نہیں کہ یہ تمام مجمع قادیان والوں کا ایک بازاری دوکان نشینوں کا مجمع ہے جن میں سے کوئی ساہوکارہ کا شغل رکھتا ہے اور کوئی بزازی کرتا ہے اور کوئی نون تیل کی دوکان رکھتا ہے اور جہاں تک ہم کو علم ہے ان میں سے ایک بھی ویددان نہیں پس کیا ان لوگوں کے مقابل پر وہ شریف نو مسلم آریہ جاہل کہلا سکتے ہیں جو بعض ان کے بی۔اے تک تعلیم یافتہ ہیں اور انگریزی اور اُردو ترجمے ویدوں کے پڑھتے ہیں اور دن رات دین کی تعلیم پاتے ہیں۔
پھرؔ ماسوا اس کے یہ ہمارا دعویٰ صرف قادیان تک محدود نہیں بلکہ ہم اس امر کی پوری اطلاع رکھتے ہیں کہ ہرایک شہر اور قصبہ کا آریہ سماج اکثر ایسے ہی ذخیرہ سے بھرا ہوا ہے اور یہ خیال ہرگز ہرگز صحیح نہیں ہے کہ جن لوگوں نے سناتن دھرم کو الوداع کہہ کر باوجود سخت اختلاف کے آریہ سماجی بننا قبول کیا ہے پہلے وہ اپنے گھر سے چاروں وید پڑھ کر آئے تھے بلکہ ہم زور سے کہتے ہیں کہ تمام پنجاب اور ہندوستان میں بجز معدودے چند جن کو انگلیوں پرگن سکتے ہیں تمام مجموعہ آریوں کا ایسا ہی ہے کہ ہر ایک دوکاندار یا ساہوکار نے آریوں میں نام لکھا رکھا ہے اور خود بجز بڑے پیٹ اور لمبی موچھوں اور دوکان کے حساب کے اور کچھ یاد نہیں۔
اور یہ باتیں میری بے تحقیق نہیں بلکہ مَیں آریہ صاحبوں کو ہزار۱۰۰۰ روپیہ بطور انعام دینے کو طیار ہوں اگر وہ میرے پر ثابت کردیں کہ جس قدر ان کی فہرست میں مردو زن آریہ درج ہیں یا یوں کہو کہ جس قدر آریہ سماجی کہلانے والے مرد ہوں یا عورات ہوں برٹش انڈیا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 370
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 370
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/370/mode/1up
میں موجود ہیں فیصدی اُن میں سے پانچ ایسے پنڈت پائے جاتے ہیں جو چاروں وید سنسکرت میں جانتے ہیں اگر چاہیں تو میں کسی سرکاری بینک میں یہ روپیہ جمع کرا سکتا ہوں۔ اب بتلاؤ کہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ خود رافضیحت و دیگرے رانصیحت اگر حیا اور سچائی سے کام لیا جاتا تو ایسے اعتراضات کی کیا ضرورت تھی جو خود آریہ سماج پر ہی وارد ہوتے ہیں۔ ہمارے دیکھنے کی بات ہے کہ آریوں کا یہ مجموعہ صرف اس طرح پر طیار ہوا ہے کہ مہاجنوں ساہوکاروں ملازموں کو طرح طرح کے حیلوں سے ترغیب دی گئی کہ تم آریہ سماج میں نام لکھا دو تو بہت سے لالہ صاحبوں نے اِس طرح پر نام لکھا رکھے ہیں اور اصل حقیقت کی کچھ بھی خبر نہیں اور اکثروں کے گھروں میں دیوتا پرستی اور مورتی پوجا کے تعلقات بھی بدستور قائم ہیں یہ بات ایسی مخفی نہیں ہے جس کی تحقیق کرنے کیلئے کچھ زیادہ مشقت کی حاجت ہو تم کسی شہر یا قصبہ میں چلے جاؤ اور تحقیقات کر لو کہ کس قدر اس میں آریہ سماجی ہیں۔ اور کس قدر ان میں سے ویددان ہیں پس جبکہ آریہ سماجی بننے کی یہ کیفیت ہے تو پھر کون ایسے تعلیم یافتہ نو مسلم آریوں پر اعتراض کر سکتا ہے جو اوّل ہندو تھے اور پھر سناتن دھرم اور آریوں کے اصولوں کوخوب معلوم کر کے اور اس کے مقابل پر اسلام کے اصول دیکھ کر اور سچائی اور عظمت الٰہی ان میں مشاہدہ کر کے مشرف باسلام ہوگئے محضؔ خدا کے لئے دُکھ اُٹھائے اور بیویوں بھائیوں عزیزوں سے الگ ہوئے اور قوم کی گالیاں سُنیں۔ اِن نو مسلم آریوں کے تبدیل مذہب کو غرض نفسانی پرمحمول کر نا یہ طعن ہندوؤں کا کچھ نیا نہیں بلکہ قدیم سے اس مذہب کے متعصب لوگوں کی عادت ہے کہ جب کوئی اور معقول جواب نہیںآتا تو یہی کہہ دیا کرتے ہیں کہ مال کے لئے یا کسی عورت کے لئے ہندومذہب کو چھوڑ دیا ہے اور یہ بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ کروڑہا ہندو جو مسلمان ہوگئے وہ مسلمان بادشاہوں کے جبر سے ہوئے تھے۔ بعض ہندو جوش میں آکر یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ مسلمان ہونے والے دراصل مسلمانوں کا ہی نطفہ ہیں اور نہیں سوچتے کہ یہ اعتراض تو ہماری
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 371
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 371
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/371/mode/1up
ہی کروڑہا عورتوں پر آتا ہے۔ آج کل کی تحقیقات سے ثابت ہے کہ اسلامی بادشاہوں کے عہد کا زمانہ جو سات سو برس تک تھا اگر انگریزوں کے زمانہ سے جو سو برس تک ابھی گزرا ہے مقابلہ کیا جائے تو اس میں جس قدر ہندو کثرت سے مسلمان ہوئے ہیں اس کی اوسط زیادہ نکلتی ہے اور خود غرضی کا الزام تو بہت ہی قابلِ شرم ہے کیونکہ بعض ہندو امیروں، رئیسوں اور راجوں نے اسلام کے بعد کئی لاکھ روپیہ دینی امداد میں دیا ہے اور ہمارے غریب نو مسلم آریہ ہمیشہ اپنی کمائی سے ہمیں چندہ دیتے ہیں پھر تعجب کہ یہ مخالف لوگ ایسے بیجا بہتانوں سے باز نہیں آتے اور جس حالت میں اکثر آریہ اپنی عورتوں کو چھوڑ کر اسلام کی طرف آتے ہیں تو اِس صورت میں پھر ان کو عورتوں کا الزام دینا کیا اس قسم کے اعتراضات دیانت کے اعتراض ہیں مثلاً ذرا سوچو کہ سردارفضل حق اور شیخ عبدالرحیم جو نو مسلم آریہ ہیں ہندو ہونے کی حالت میں کس قسم کی حاجت رکھتے تھے جو اسلام سے پوری ہوئی۔
تبدیل مذہب کیلئے جس قدر علم درکار ہے اس کی سچی فلاسفی
اب ہم فائدہ عام کے لئے اس امر کی سچی فلاسفی بیان کرتے ہیں کہ تبدیل مذہب کے لئے کس قدر واقفیت ضروری ہے۔ کیا بقول آریہ سماج قادیان جب مثلاً ایک ہندو تبدیل مذہب کرنے لگے تو اوّل اس کو چاروں وید سنسکرت میں پڑھ لینے چاہئیں یا عقل اور انصاف کے رُو سے اس میں کوئی اور قاعدہ ہے۔
پسؔ واضح ہو کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں یہ ہرگز صحیح نہیں ہے کہ تبدیل مذہب کے لئے ایک ہندو کایہ فرض ہے کہ اوّل چاروں وید سبقًا سبقًا کسی پنڈت سے پڑھ لے اور پھر اگر چاہے تو کوئی اور مذہب اختیار کرے کیونکہ اگر یہ صحیح ہو تو مذہب کی تبدیلی کے لئے صرف وہی لوگ لائق ہوں گے جو وید دان پنڈت ہوں حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ صدہا ہندو جو ویدوں کا ایک صفحہ بھی نہیں پڑھ سکتے سناتن دھرم سے نکل کر آریہ سماجی بنتے جاتے ہیں اور
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 372
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 372
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/372/mode/1up
بموجب حال کی مردم شماری کے پنجاب میں آریہ مت والے مرد نو ہزار سے زیادہ نہیں اور اس قدر جماعت آریہ میں شاید ایک دو پنڈت ہوں یا نہ ہوں باقی سب عوام ہندوہیں جو محض چند باتیں سُن کر آریہ بن گئے ہیں اور اپنے قدیم مذہب سناتن دھرم کو چھوڑ دیا ہے اور جیسا کہ آریہ سماجی لوگ مسلمان ہونے والے آریوں کا نام برہشٹ اور ملیچھ رکھتے ہیں یہی نام سناتن دھرم کی طرف سے ان کوملتا ہے اور مذہب سے ان کو خارج سمجھتے ہیں اور وید کے منکر قرار دیتے ہیں پھر باوجود اس قدر مخالفت شدید اور اختلاف عقائد کے جو سناتن دہرم اور آریہ سماجیوں میں اظہر من الشّمس ہے ایک جاہل سے جاہل سناتن دھرم والا جب آریہ بننے کے لئے آتا ہے تو کوئی اس کو نہیں کہتا کہ اوّل چاروں وید پڑھ لے بلکہ اس کا آریہ سماجی بننا غنیمت سمجھتے ہیں خاص کر اگر کوئی دولت مند ساہوکار ہو گو کیسا ہی جاہل ہو تو پھر کیا کہنا ہے ایک شکار ہاتھ آگیا اس کو کون چھوڑے بھلا بتلایئے آپ کے لالہ بڈھا مل صاحب کتنے وید پڑھے ہوئے ہیں جو سناتن دھرم چھوڑ کر آریہ بن گئے۔ ایسا ہی دوسرے لالہ صاحبان جو انہیں کے بھائی بند ہیں اپنے اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر سوچیں کہ ان کو وید دانی میں کیا کیا کمالات حاصل ہیں۔ پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ جو اعتراض نو مسلم آریوں پر کیا جاتا ہے وہی در اصل آریوں پر بھی ہوتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ جوآریہ ہندومسلما ن ہوتا ہے چونکہ اس کوپہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو بہت سے دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا اس لئے طبعاً وہ اسی وقت مسلمان ہوتا ہے جب وہ اپنے دل میں حق اور باطل کا فیصلہ کر لیتاہے۔
اور یہ فیصلہ چاروں وید پڑھنے پر منحصر نہیں ورنہ تبدیل مذہب کا دروازہ ہی بند ہو جائے اورنیز اس صورت میں یہ بھی لازم آتا ہے کہ آریہ سماج والے بجز ایک دو وید دان پنڈتوں کے جو اُنؔ میں ہوں باقی سب ہندوؤں کو سناتن دھرم کی طرف واپس کردیں اور ان کو ہدایت کردیں کہ جب تم وید پڑھ کر آؤگے تب تمہیں آریہ سماج میں داخل کیا جاوے گا پہلے نہیں۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 373
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 373
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/373/mode/1up
ہوش مند انسان اس بات کو جلد سمجھ سکتا ہے کہ اگر تبدیل مذہب کے لئے عالم فاضل ہونا ضروری ہے تو ہندوستان کے کروڑہا ہندو عوام الناس جو کچھ علم نہیں رکھتے اور مختلف فرقوں پر تقسیم شدہ ہیں وہ آریہ سماج میں داخل ہونے کے لائق نہیں ہوسکتے جب تک سب کے سب ویددان نہ ہوں اور شاستروں کو سبقًا سبقًا نہ پڑھ لیں۔
پس سُنو اور خوب کان کھول کر سُنو کہ تبدیل مذہب کیلئے تمام جزئیات کی تفتیش کچھ ضروری نہیں بلکہ سچائی کی تلاش کرنے والے کے لئے مذاہب موجودہ کا باہم مقابلہ کرنے کے وقت اور پھر ان میں سے سچا مذہب شناخت کرنے کے لئے صرف تین باتوں کا دیکھنا ضروری ہے۔ (۱) اوّل یہ کہ اس مذہب میں خدا کی نسبت کیا تعلیم ہے یعنی اس کی توحید اور قدرت اور علم اور کمال اور عظمت اور سزا اور رحمت اور دیگر لوازم اور خواص الوہیّت کی نسبت کیا بیان ہے کیونکہ اگر کوئی مذہب خدا کو واحد لاشریک قرار نہیں دیتا اور آسمان کے اجرام یا زمین کے عناصر یا کسی انسان یا اور چیزوں کو خدا جانتا ہے یا خدا کے برابر ٹھہراتا ہے اور ایسی پرستشوں سے منع نہیں کرتا یا خدا کی قدرت کو ناقص خیال کرتا ہے اور جہاں تک امکانِ قدرت ہے وہاں تک قدرت کے سلسلہ کو نہیں پہنچاتا یا اس کے علم کو ناتمام جانتا ہے یا اس کی قدیم عظمت کے برخلاف کوئی تعلیم دیتا ہے یا سزا اور رحمت کے قانون میں افراط یا تفریط کی راہ لیتا ہے یا اس کی رحمت عامہ جیسا کہ جسمانی طورپر محیط عالم ہے اس کے برخلاف کسی خاص قوم سے خدا کا خاص تعلق اور رُوحانی نعمت کے وسائل کو مخصوص رکھتا ہے یا الوہیت کے خواص میں سے کسی خاصہ کے برخلاف بیان کرتا ہے تو وہ مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ (۲) دوسرے طالب حق کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس مذہب میں جس کو وہ پسند کرے اس کے نفس کے بارے میں اور ایسا ہی عام طور پر انسانی چال چلن کے بارے میں کیا تعلیم ہے۔ کیا کوئی ایسی تعلیم تو نہیں کہ جو انسانی حقوق کے باہمی رشتہ کو توڑتی ہو یا انسان کو دیوثی کی طرف کھینچتی ہو یادیّوثی امور کو مستلزم ہو اور فطرتی حیا اور شرم کی مخالف ہو اورؔ نہ کوئی ایسی تعلیم ہو کہ جو خدا کے عام
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 374
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 374
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/374/mode/1up
قانون قدرت کے مخالف پڑی ہو اور نہ کوئی ایسی تعلیم ہو جس کی پابندی غیر ممکن یا منتج خطرات ہو اور نہ کوئی ضروری تعلیم جو مفاسد کے روکنے کے لئے اہم ہے ترک کی گئی ہو اور نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ تعلیم ایسے احکام سکھلاتی ہے یا نہیں کہ جو خدا کو عظیم الشان محسن قرار دے کر بندہ کارشتۂ محبت اس سے محکم کرتے ہوں اور تاریکی سے نور کی طرف لے جاتے ہوں اور غفلت سے حضور اور یادداشت کی طرف کھینچتے ہوں۔
(۳) تیسرے طالب حق کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس مذہب کو پسند کرے جس کا خداایک فرضی خدا نہ ہو جو محض قصّوں اور کہانیوں کے سہارے سے مانا گیا ہو اور ایسا نہ ہو کہ صرف ایک مُردہ سے مشابہت رکھتا ہو کیونکہ اگر ایک مذہب کا خدا صرف ایک مُردہ سے مشابہ ہے جس کا قبول کرنا محض اپنی خوش عقیدگی کی وجہ سے ہے نہ اس وجہ سے کہ اس نے اپنے تئیں آپ ظاہر کیا ہے تو ایسے خدا کا ماننا گویا اس پر احسان کرنا ہے اور جس خدا کی طاقتیں کچھ محسوس نہ ہوں اور اپنے زندہ ہونے کے علامات وہ آپ ظاہر نہ کرے اس پر ایمان لانا بے فائدہ ہے اور ایسا خدا انسان کو پاک زندگی بخش نہیں سکتا اور نہ شبہات کی تاریکی سے باہر نکال سکتا ہے اور ایک مُردہ پرمیشر سے ایک زندہ بیل بہتر ہے جس سے کاشتکاری کر سکتے ہیں۔ پس اگر ایک شخص بے ایمانی اور دنیا پرستی پر جھکا ہوا نہ ہو تو وہ زندہ خدا کو ڈھونڈے گا تا اس کا نفس پاک اور روشن ہو جائے اور کسی ایسے مذہب پر راضی نہیں ہوگا جس میں زندہ خدا اپنا جلوہ قدرت نہیں دکھلاتا اور اپنے جلال کی بھری ہوئی آواز سے تسلی نہیں بخشتا۔
یہ تین ضروری امر ہیں جو تبدیل مذہب کرنے والے کے لئے قابلِ غور ہیں پس اگر کوئی شخص کسی مذہب کو ان تین معیاروں کے رُو سے دوسرے مذاہب پر فائق اور غالب پاوے تو اُس کا فر ض ہوگا کہ ایسے مذہب کو اختیار کرے اور اس قدر تحقیق کے لئے نہ کسی بڑے پنڈت بننے کی حاجت ہے اور نہ کسی بڑے پادری بننے کی ضرورت ہے اور خدا نے جیسا کہ جسمانی زندگی کے لئے جن جن چیزوں کی حاجت ہے جیسے پانی ، ہوا، آگ اور خوردنی چیزیں وہ ان کے لئے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 375
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 375
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/375/mode/1up
جو عمداً خودکشی نہ کرنا چاہیں بکثرت پیدا کر رکھی ہیں اسی طرح اس نے روحانی زندگی کے لئے اپنی ہدایت کے طریقوں کو ؔ انسانوں کے لئے بہت سہل و آسان کر دیا ہے تا انسان اس مختصر عمر میں فوق الطاقت مشکلات میں نہ پڑیں اور امور ثلاثہ جو ہم نے اُوپر ذکر کئے ہیں۔ ان کے لئے ایک عمر خرچ کرنے اور عالم فاضل بننے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر ایک حامی مذہب جو اپنے اصول شائع کرتا ہے انہیں اصولوں سے پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ اس معیار کے موافق ہیں یا نہیں اور اگر وہ اپنے اصولوں کے بیان کرنے میں کچھ جھوٹ بولے یا کسی بات کو چھپاوے تو وہ خیانت پوشیدہ نہیں رہ سکتی کیونکہ علمی زمانہ ہے اور صدہا پہلو ایسے ہیں جن سے حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے۔
اب جبکہ مذکورہ بالا بیانات سے ببداہت ثابت ہے کہ تبدیل مذہب کے لئے ہرگز ایسی ضرورت نہیں کہ کسی دین کے تمام فروع اصول اور جزئیات کلیات معلوم کئے جائیں بلکہ امور متذکرہ بالا کی واقفیت کافی ہے تو اس صورت میں ان نو مسلم آریوں کا کیا قصور ہے جو ان ضروری امور کی تحقیق کر کے مشرف باسلام ہوئے ہیں اور جس صورت میں خود آریہ سماج کے گروہ میں سکھ جٹ سنار اور جاہل دوکاندار آریوں میں شامل ہیں جو بغیر چاروں وید پڑھنے کے بلکہ بدوں ان امور ثلاثہ مذکورہ بالا کی تحقیق کے سناتن دھرم اور خالصہ مذہب سے جو ان کے قدیم مذاہب تھے دست بردار ہو کر آریہ مت میں داخل ہوگئے ہیں اور اکثرلوگ ان میں سے نادان اور جاہل ہیں گویا کُل ذخیرہ آریہ مت کا بجزشاذو نادر اشخاص کے انہیں عوام الناس سے بھرا ہوا ہے تو پھر کیوں ان غریب نو مسلم آریوں پر اعتراض کیا جاتا ہے جنہوں نے ارکانِ ثلاثہ پر خوب غور کر کے مذہب اسلام اختیار کیا ہے۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ یہ بات تعلیق بالمحال ہے کہ کسی مذہب کے اختیار کرنے کے لئے پہلے اپنے آبائی مذہب کی کتاب اور اس کی تفسیروں کو سبقاً سبقًااوّل سے آخر تک پڑھ لینا ضروری ہے اس شرط کو نہ کوئی آریہ دکھاسکتا ہے اور نہ کوئی پادری بلکہ یہ صرف ناحق کی نیش زنی ہے جو راستبازی سے بعید
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 376
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 376
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/376/mode/1up
ہے۔ دنیا میں عالم فاضل کی ڈگری حاصل کرنے والے تو ہر ایک مذہب میں تھوڑے ہوتے ہیں بلکہ تبحر علمی میں پورے کامل ہر ایک ملک میں دس بیس سے زیادہ نہیں ہوتے مگر دوسرے لوگ کروڑہا ہوتے ہیں جو نہ پنڈت کہلاویں اور نہ پادری کے نام سے ملقّب ہوں اور نہ مولوی ہونے کا عمامہ سر پر رکھتے ہیں اور انہیں میں اکثر طالب حق بھی ہوتے ہیںؔ اور ان کے لئے کافی ہوتا ہے کہ وہ اس قدر دیکھ لیں کہ کسی مذہب میں خدا کے بارے میں کیا تعلیم ہے اور پھر مخلوق کے بارے میں کیا تعلیم ہے اور پھر اس تعلیم کا ثمرہ کیا ہے کیا وہ اُس خدا تک پہنچاتی اور اُس مخفی ذات کو دکھلاتی ہے جو زندہ خدا ہے یا اس کو محض قصّوں کے سہارے پر چھوڑتی ہے جیسا کہ ہم ان امور ثلاثہ کی ابھی تصریح کر چکے ہیں اور عقلِ سلیم ببداہت اس بات کو سمجھتی ہے کہ جو شخص ان تینوں امور میں کسی مذہب کو کامل پائے گا وہی مذہب سچا ہوگا کیونکہ یہ تسلی جھوٹے مذہب میں ہرگز مل نہیں سکتی۔
اب ہم ناظرین پر بڑے زور سے اس بات کا ثبوت ظاہرکرتے ہیں کہ یہ تینوں قسم کی خوبیاں محض اسلام میں پائی جاتی ہیں اور باقی جس قدر مذاہب روئے زمین پر ہیں۔ کیا آریہ اور کیا عیسائی اور کیا کوئی اور مذہب وہ ان سہ گونہ خوبیوں سے خالی ہیں اور ہم طول بیان سے پرہیز کر کے ہر ایک خوبی کے ذیل میں اسلام اور ان دونوں مذہبوں کا کچھ ذکر کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
اوّل
خدا تعالیٰ کے متعلق عیسائی صاحبوں اور آریہ صاحبوں کی
کیا تعلیم ہے اور قرآن شریف کی کیا تعلیم
عیسائی صاحبان اس بات کے اقرار ی ہیں کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کامل خدا ہیں، جن کے اندر چا۴ر روحیں موجود ہیں۔ ایک۱ بیٹے کی دوسر۲ے باپ کی، تیسر۳ی روح القدس کی، چوتھی۴ انسان کی اور یہ مربع خدا ہمیشہ کے لئے مربّع ہوگا بلکہ اس کو
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 377
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 377
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/377/mode/1up
مخمس کہیں تو بجا ہے کیونکہ اس کے ساتھ جسم بھی ہمیشہ ہی رہے گا لیکن اب تک اس بات کا جواب نہیں دیا گیا کہ اس خدا کا وہ جسم جو ختنہ کے وقت اس سے علیحدہ کیا گیا تھا اور وہ جسم جو تحلیل ہوتا رہا اور یا ہمیشہ ناخنوں اور بالوں کے کٹانے کی وجہ سے کم ہوتا رہا کیا وہ بھی کبھی اس جسم کے ساتھ شامل کیا جائے گا یا ہمیشہ کے لئے اس کو داغ جدائی نصیب ہوا ۔ہر ایک عقلمند کو معلوم ہے کہ یہ علم طبعی کا مسلّم اور مقبول اور ؔ تجربہ کردہ مسئلہ ہے کہ تین برس تک پہلا جسم تحلیل پاکر نیا جسم اس کی جگہ آجاتا ہے اور پہلے ذرات الگ ہو جاتے ہیں پس اس حساب سے تینتیس برس کے عرصہ میں حضرت مسیح کے گیارہ جسم تحلیل پائے ہوں گے اور گیار۱۱ہ نئے جسم آئے ہوں گے اب طبعًا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ گیارہ مفقود شدہ جسم پھر حضرت مسیح کے موجودہ جسم کے ساتھ شامل ہو جائیں گے یا نہیں اور اگر نہیں شامل ہوں گے تو کیا بوجہ کسی گناہ کے وہ علیحدہ رکھنے کے لائق تھے یا کسی اور وجہ سے علیحدہ کئے گئے اور اس ترجیح بلامرجح کا کیا سبب ہے اور کیوں جائز نہیں کہ اس موجودہ جسم کو دُور کر کے وہی پہلے جسم حضرت مسیح کو دیئے جائیں۔ اور کیا وجہ کہ جبکہ گیارہ دفعہ اس بات کا تجربہ ہو چکا ہے کہ حضرت مسیح تمام انسانوں کی طرح تین برس کے بعد نیا جسم پاتے رہے ہیں اور تینتیس برس تک گیارہ نئے جسم پا چکے ہیں تو پھر کیوں اب باوجود دو ہزار برس گزرنے کے وہی پرانا جسم ان کے ساتھ لازم غیرمنفک رہا اگر اس جسم کے غیرفانی بننے کی وجہ ان کی خدائی ہے تو ان پہلے دنوں میں بھی تو خدائی موجود تھی جبکہ ہر ایک تین برس کے بعد پہلا چولہ جسم کا وہ اُتارتے رہے ہیں اور وہ جسم جو خدائی کا ہمسایہ تھا خاک و غبار میں ملتا رہا تو کیوں یہ موجودہ جسم بھی ان سے الگ نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی ذرہ سوچو کہ انسان کے جسم کے پہلے ذرات اس سے الگ ہو جانا تو کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ رحم سے نکلتے ہی ایک حصہ اس کے جسم کے زواید کا الگ کرنا پڑتا ہے اور ناخن اور بال ہمیشہ کٹانے پڑتے ہیں اور بسا اوقات بباعث بیماری بہت دُبلا ہو جاتا ہے اور پھر کھانے پینے سے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 378
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 378
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/378/mode/1up
نیا جسم آجاتا ہے مگر خدا کے گیارہ جسم اس سے الگ ہو جائیں اس میں بیشک خدا کی ہتک ہے ہاں جیسا کہ چاروں روحوں کے عقیدہ میں ایک راز تسلیم کیا گیا ہے اگر اس جگہ بھی یہی جواب دیا جائے کہ اس میں بھی کوئی راز ہے تو پھر بحث کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ مگر بار بار راز کا بہانہ پیش کرنا یہ ایک بناوٹ اور کمزوری کی نشانی ہے۔
پھر دوسری تعجب یہ ہے کہ اس تخمیس کا نام تثلیث کیوں رکھا گیا ہے جبکہ بموجب عیسائی عقیدہ کے چاروں روحیں مسیح کے جسم میں ابدی اور غیر فانی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی اور انسانی روح بھی بباعث غیر فانی ہونے کے اس مجموعہ سے کبھی الگ نہیں ہوگی اور نہ کبھی جسمؔ الگ ہوگا تو پھر یہ تو تخمیس ہوئی نہ تثلیث۔ اب ظاہر ہے کہ واضعانِ تثلیث سے یہ ایک بڑی ہی غلطی ہوئی ہے جو انہوں نے تخمیس کو تثلیث سمجھ لیا مگر اب بھی یہ غلطی درست ہو سکتی ہے اور جیسا کہ گذشتہ دنوں میں تثلیث کے لفظ کی نسبت ثالوث تجویز کیا گیا تھا اب بجائے ثالوث کے تخمیس تجویز ہوسکتی ہے غلطی کی اصلاح ضروری ہے مگر افسوس کہ اس پا۵نچ پہلو والے خدا کی کچھ نہ کچھ مرمت ہی ہوتی رہتی ہے۔
اب خلاصہ کلام یہ کہ عیسائی مذہب توحید سے تہی دست اور محروم ہے بلکہ ان لوگوں نے سچے خدا سے منہ پھیرکر ایک نیا خدا اپنے لئے بنایا ہے جو ایک اسرائیلی عورت کا بیٹا ہے مگر کیا یہ نیا خدا ان کا قادر ہے جیسا کہ اصلی خدا قادر ہے۔ اس بات کے فیصلہ کے لئے خود اس کی سرگذشت گواہ ہے کیونکہ اگر وہ قادر ہوتا تو یہودیوں کے ہاتھ سے ماریں نہ کھاتا ۔رومی سلطنت کی حوالات میں نہ دیا جاتا اور صلیب پر کھینچا نہ جاتا۔ اور جب یہودیوں نے کہا تھا کہ صلیب پر سے خود بخود اُتر آ ہم ابھی ایمان لے آئیں گے اُس وقت اُتر آتا۔ لیکن اس نے کسی موقعہ پر اپنی قدرت نہیں دکھلائی۔ رہے اس کے معجزات سو واضح ہو کہ اس کے معجزات دوسرے اکثر نبیوں کی نسبت بہت ہی کم ہیں مثلاً اگر کوئی عیسائی ایلیا نبی کے معجزات سے جو بائبل میں مفصل مذکور ہیں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 379
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 379
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/379/mode/1up
جن میں سے مُردوں کا زندہ کرنا بھی ہے مسیح ابن مریم کے معجزات کا مقابلہ کرے تو اس کو ضرور اقرار کرنا پڑے گا کہ ایلیا نبی کے معجزات شان اور شوکت اور کثرت میں مسیح ابن مریم کے معجزات سے بہت بڑھ کر ہیں ہاں انجیلوں میں بار بار اس معجزہ کا ذکرہے کہ یسوع مسیح مَصر و عوں یعنی مرگی زدہ لوگوں میں سے جن نکالا کرتا تھا اور یہ بڑا معجزہ اس کا شمار کیا گیا ہے جو محققین کے نزدیک ایک ہنسی کی جگہ ہے آج کل کی تحقیقات سے ثابت ہے کہ مرض صَرع ضعفِ دماغ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے یا بعض اوقات کوئی رسولی دماغ میں پیدا ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ کسی اور مرض کا یہ عرض ہوتی ہے لیکن ان تمام محققین نے کہیں نہیں لکھا کہ اس مرض کا سبب جن بھی ہوا کرتے ہیں۔ قرآن شریف کا حضرت مسیح ابن مریم پر یہ بھی احسان ہے کہ اس کے بعض معجزات کا ذکر تو کیا لیکن یہ نہیں لکھا کہ وہ مرگی زدہ بیماروں میں سے جن بھی نکالا کرتا تھا۔ اور قرآن شریف میں حضرت مسیح ابنِ مریم کے معجزات کا ذکر اس غرض سے نہیں ہے کہؔ اس سے معجزات زیادہ ہوئے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ یہودی اس کے معجزات سے قطعاً منکر تھے اور اس کو فریبی اور مکّار کہتے تھے پس خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہودیوں کے دفع اعتراض کے لئے مسیح ابن مریم کو صاحب معجزہ قرار دیا اور اسی حکمت کی وجہ سے اس کی ماں کا نام صدّیقہ رکھا کیونکہ یہودی اس پر ناجائز تہمت لگاتے تھے سو مریم کا صدیقہ نام رکھنا اس غرض سے نہیں تھا کہ وہ دوسری تمام پاک دامن اور صالحہ عورتوں سے افضل تھی بلکہ اس نام کے رکھنے میں یہودیوں کے اعتراض کا ذَبّ اور دفع مقصود تھا۔ اسی طرح جو احادیث میں لکھا گیا کہ عیسیٰ اور اس کی ما ں مسِ شیطان سے پاک تھے اس قول کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دوسرے نبی مسِ شیطان سے پاک نہیں تھے بلکہ غرض یہ تھی کہ نعوذ باللہ جو حضرت مسیح پر ولادتِ ناجائز کا الزام لگایا گیا تھا اور حضرت مریم کو ناپاک عورت قرار دیا گیا تھا۔ اس کلمہ میں اس کا ردّ مقصود ہے ایسا ہی حضرت
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 380
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 380
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/380/mode/1up
مسیح کی پیدائش بھی کوئی ایسا امر نہیں ہے جس سے ان کی خدائی مستنبط ہو سکے۔ اسی دھوکہ کے دُور کرنے کے لئے قرآن شریف اور انجیل میں حضرت عیسیٰ اور یحییٰ کی ولادت کا قصہ ایک ہی جگہ بیان کیا گیا ہے تا پڑھنے والا سمجھ لے کہ دونوں ولادتیں اگرچہ بطور خارق عادت ہیں لیکن ان سے کوئی خدا نہیں بن سکتا ورنہ چاہئے کہ یحییٰ بھی جس کا عیسائی یوحنا نام رکھتے ہیں خدا ہو بلکہ یہ دونوں امر اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ نبوت اسرائیلی خاندان میں سے جاتی رہے گی یعنی جبکہ یسوع مسیح کا باپ بنی اسرائیل میں سے نہ ہوا اور یحییٰ کی ماں اور باپ اس لائق نہ ٹھہرے کہ اپنے نطفہ سے بچہ پیدا کر سکیں تو یہ دونوں بنی اسرائیلی سلسلہ سے خارج ہوگئے اور یہ آئندہ ارادۂ الٰہی کے لئے ایک اشارہ قرار پاگیا کہ وہ نبوت کو دوسرے خاندان میں منتقل کرے گا۔ ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کا کوئی اسرائیلی باپ نہیں ہے پس وہ بنی اسرائیل میں سے کیونکر ہو سکتا ہے لہٰذا اس کا وجود اسرائیلی سلسلہ کے دائمی نبوت کی نفی کرتا ہے ایسا ہی یوحنا یعنی یحییٰ اپنے ماں باپ کے قویٰ میں سے نہیں ہے سو وہ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے۔
اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ مسیح کے کسی معجزہ یا طرز ولادت میں کوئی ایسا اعجوبہ نہیں کہ وہ اس کی خدائی پر دلالت کرے اسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کی ولادت کے ذکر ؔ کے ساتھ یحییٰ کی ولادت کا ذکر کر دیا تا معلوم ہو کہ جیسا کہ یحییٰ کی خارق عادت ولادت ان کو انسان ہونے سے باہرنہیں لے جاتی ایسا ہی مسیح ابن مریم کی ولادت اس کو خدا نہیں بناتی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یوحنا کی ولادت حضرت عیسیٰ کی ولادت سے کوئی کم عجیب تر نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ میں صرف باپ کی طرف میں ایک خارق عادت امر ہے اور حضرت یحییٰ میں ماں اور باپ دونوں کی طرف میں خارق عادت امر ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت یحییٰ کی پیدائش کانشان بہت صاف رہا ہے کیونکہ ان کی ماں پرکوئی ناجائز تہمت نہیں لگائی گئی اور بوجہ اس کے کہ وہ بانجھ تھی تہمت کا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 381
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 381
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/381/mode/1up
کوئی محل بھی نہیں تھا۔ لیکن حضرت مریم پر تہمت لگائی گئی اور اس تہمت نے حضرت عیسیٰ کی ولادت کے اعجوبہ کو خاک میں ملا دیا مگر اس تہمت میں صرف یہودیوں کا قصور نہیں بلکہ خود حضرت مریم سے ایک بڑی بھاری غلطی ہوئی جس نے یہود کو تہمت کا موقعہ دیا اور وہ یہ کہ جب اس نے اپنے کشف میں فرشتہ کو دیکھا اور فرشتہ نے اس کو حاملہ ہونے کی بشارت دی تو مریم نے عمداً اپنے خواب کو چھپایا اور کسی کے پاس اس کو ظاہر نہ کیا کیونکہ اس کی ماں اور باپ دونوں نے اس کو بیت المقدس کی نذر کیا تھا تا وہ ہمیشہ تارکہ رہ کر بیت المقدس کی خدمت میں مشغول رہے اور کبھی خاوند نہ کرے اور بتول کا لقب اس کو دیا گیا اور اس نے آپ بھی یہی عہد کیا تھا کہ خاوند نہیں کرے گی اور بیت المقدس میں رہے گی۔ اب اس خواب کے دیکھنے سے اس کو یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر میں لوگوں کے پاس یہ ظاہر کرتی ہوں کہ فرشتہ نے مجھے یہ بشارت دی ہے کہ تیرے لڑکا پیدا ہوگا تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ خاوند کرنا چاہتی ہے اس لئے وہ اس خواب کو اندر ہی اندر دبا گئی لیکن وہ خواب سچی تھی اور ساتھ ہی اس کے حمل ہوگیا جس سے مریم مدت تک بے خبر رہی جب پانچواں مہینہ حمل پر گزرا تب یہ چرچا پھیل گیا کہ مریم کو حمل ہے اور اس وقت لوگوں کو خواب سنادی لیکن اُس وقت سُنانا بے فائدہ تھا۔ آخر بزرگوں نے پردہ پوشی کے طور پر یوسف نام ایک شخص سے اس کا نکاح کر دیا اس طرح پر یہ نشان مکدّر ہوگیا۔
رہی حضرت مسیح کی پیشگوئیاں پس وہ تو ایسی ہیں کہ اب تک یہودی اس پر ہنسی کرتے ہیں کیونکہ ایسی باتیں کہ زلزلے آئیں گے قحط پڑیں گے لڑائیاں ہوں گی عادت میں داخل ہیں اور ہمیشہ ہوتی رہتی ؔ ہیں اور نیز یہودی کہتے ہیں کہ ان کی کوئی بات جو پیشگوئی کے رنگ میں تھی سچی نہیں نکلی چنانچہ یہ اعتراض ان کے اب تک لاینحلچلے آتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے بارا۱۲ں حواریوں کو جو ان کے سامنے موجود تھے بہشت کا وعدہ دیا تھا بلکہ ان کے لئے بارہ تخت تجویز کئے تھے لیکن آخرکاربارا۱۲ں میں سے گیار۱۱ہ رہ گئے اورباروا۱۲ں حواری جو یہوداا سکر یوطی تھا وہ مُرتد ہوگیا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 382
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 382
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/382/mode/1up
اور 3 تیس روپیہ لے کر حضرت عیسیٰ کو اس نے گرفتار کرا دیا اگر یہ پیشگوئی خدا کی طرف سے ہوتی تو یہودا مُرتد نہ ہوتا۔ ایسا ہی ان کا یہ بھی اعتراض ہے کہ ان کی یہ پیشگوئی کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ مَیں واپس آجاؤں گا یہ پیشگوئی بھی بڑی صفائی سے خطا گئی۔ کیونکہ انیس سو برس گزر گئے اور اس زمانہ کے لوگ مدت ہوئی کہ مرکھپ گئے لیکن وہ واپس نہیں آئے۔
غرض ان تمام باتوں سے ظاہر ہے کہ وہ ہرگز کسی بات پر قادر نہیں تھا صرف ایک عاجز انسان تھا اور انسانی ضعف اور لاعلمی اپنے اندر رکھتا تھا اور انجیل سے ظاہر ہے کہ اس کو غیب کا علم ہرگز نہیں تھا کیونکہ وہ ایک انجیر کے درخت کی طرف پھل کھانے گیا اور اس کو معلوم نہ ہوا کہ اس پر کوئی پھل نہیں ہے اور وہ خود اقرار کرتا ہے کہ قیامت کی خبر مجھے معلوم نہیں پس اگر وہ خدا ہوتا تو ضرور قیامت کا علم اس کو ہونا چاہئے تھا اسی طرح کوئی صفت الوہیت اس میں موجود نہیں تھی اور کوئی ایسی بات اس میں نہیں تھی کہ دوسروں میں نہ پائی جائے عیسائیوں کو اقرار ہے کہ وہ مر بھی گیا۔ پس کیسا بدقسمت وہ فرقہ ہے جس کا خدا مر جائے۔ یہ کہنا کہ پھر وہ زندہ ہوگیا تھا کوئی تسلی کی بات نہیں جس نے مر کر ثابت کر دیا کہ وہ مربھی سکتا ہے اس کی زندگی کا کیا اعتبار۔
اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ موجودہ مذہب عیسائیوں کا ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے کیونکہ جس کو انہوں نے خدا قرار دیا ہے وہ کسی طرح خدا نہیں ہو سکتا۔ خدا پر ہرگز موت نہیں آسکتی اور نہ وہ علم غیب سے محروم ہوسکتاہے ۔
ابؔ ہم اسی پیمانہ سے آریہ مذہب کوناپنا چاہتے ہیں کہ آیا وہ سچے اور کامل اور واحد لاشریک خدا کو مانتے ہیں یا اس سے برگشتہ ہیں۔ پس واضح ہو کہ اوّل علامت خدا شناسی کی توحید ہے یعنی خدا کو اس کی ذات میں اور صفات میں ایک ماننا اور کسی خوبی میں اس کا کوئی شریک قرار نہ دینا۔ لیکن ظاہر ہے کہ آریہ سماجی لوگ ذرہ ذرہ کو خدا تعالیٰ کی ازلیت کی صفت میں شریک قرار دیتے ہیں* اور جس طرح خدا تعالیٰ اپنے وجود اور ہستی میں کسی خالق کا محتاج نہیں
* یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ مسلمان بھی انسانی ارواح کو ابدی قرار دیتے ہیں کیونکہ قرآن شریف یہ نہیں سکھلاتا کہ انسانی ارواح اپنی ذات کے تقاضا سے ابدی ہیں بلکہ وہ یہ سکھلاتا ہے کہ یہ ابدیت انسانی روح کے لئے محض عطیہ الٰہی ہے ورنہ انسانی روح بھی دوسرے حیوانات کی روحوں کی طرح قابل فنا ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 383
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 383
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/383/mode/1up
اسی طرح ان کے نزدیک جیو ء یعنی روح اور پرمانو یعنی ذرّات اجسام بھی اپنے وجود اور ہستی میں کسی خالق کی طرف محتاج نہیں بلکہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ قدیم اور انادی ہیں اور اپنے اپنے وجود کے آپ ہی خدا ہیں اب ظاہر ہے کہ اس عقیدہ کے رُو سے نہ خدا کی توحید باقی رہتی ہے نہ اس کی عظمت میں سے کچھ باقی رہ سکتا ہے بلکہ اس صور ت میں اس کی شناخت پر کوئی دلیل بھی قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ صانع اپنے مصنوعات سے ہی شناخت ہوتا ہے پس جبکہ رُوحوں اور جسموں کی تمام قوتیں خود بخود اور قدیم ہیں تو پھر خدا کے وجود پر کونسی دلیل قائم ہوئی اور عقل انسانی نے کیونکر سمجھ لیا کہ وہ موجود ہے۔ یہ کہنا بیجا ہے کہ وہ ان ذرات کو جوڑتا ہے اور روح اور جسم کو تعلق بخشتا ہے اور اسی سے وہ پہچانا جاتا ہے کیونکہ صرف جوڑنے سے کوئی شخص خدا نہیں کہلا سکتاوجہ یہ ہے کہ اگر صرف جوڑنے سے کوئی خدا کہلا سکتا ہے تو اس صورت میں تو تمام نجار اور معمار خدا کہلا سکتے ہیں کیونکہ جوڑنے کا کام تو انہیں بھی آتاہے۔ دیکھو حال کے زمانہ میں کیسی کیسی عمدہ صنعتیں یورپ کے صناعوں نے ایجاد کی ہیں یہاں تک کہ مادرزاد اندھوں کے دیکھنے کے لئے بھی ایک آلہ نکالا ہے۔ اور آئے دن کوئی نہ کوئی نئی صنعت نکال لیتے ہیں یہاں تک کہ ایک قسم کے مُردہ جانوروں میں روح ڈالنے کا طریق بھی انہوں نے ایجاد کیا ہے یعنی جب کوئی جانور ایسے طور سے مر جائے جو اس کے اعضائے رئیسہ کو صدمہ نہ پہنچے اور اس کی موت پر کچھ زیادہ عرصہ بھی نہ گزرے تو وہ اس کو اپنی حکمت عملی سے دوبارہ زندہ کرتے ہیں گو حقیقی طور پر وہ زندگی نہیں ہوتی۔ تاہم اعجوبہ نمائی میں کیا شک ہے۔ امریکہ میں آج کل یہ عمل کثرت سے پھیل رہا ہے۔ مگر کیاایسی صنعتوں سے وہ خدا کہلاؔ سکتے ہیں؟
پس اصل بات یہ ہے کہ خدا کی قدرت میں جو ایک خصوصیت ہے جس سے وہ خدا کہلاتا ہے وہ روحانی اور جسمانی قوتوں کے پیدا کرنے کی خاصیت ہے۔ مثلاً جانداروں کے جسم کو جو اُس نے آنکھیں عطا کی ہیں اس کام میں اس کا اصل کمال یہ نہیں ہے کہ اُس نے یہ آنکھیں بنائیں بلکہ کمال یہ ہے کہ اُس نے ذراتِ جسم میں پہلے سے ایک پوشیدہ طاقتیں پیدا کر رکھی تھیں۔ جن میں بینائی کا نور
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 384
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 384
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/384/mode/1up
پیدا ہو سکے پس اگر وہ طاقتیں خود بخود ہیں تو پھر خدا کچھ بھی چیز نہیں کیونکہ بقول شخصے کہ گھی سنوارے سا لنا بڑی بہوکا نام۔ اس بینائی کو وہ طاقتیں پیدا کرتی ہیں خدا کو اس میں کچھ دخل نہیں اور اگر ذرّاتِ عالم میں وہ طاقتیں نہ ہوتیں تو خدائی بے کار رہ جاتی پس ظاہر ہے کہ خدائی کا تمام مدار اِس پر ہے کہ اس نے روحوں اور ذرات عالم کی تمام قوتیں خود پیدا کی ہیں اور کرتا ہے اور خود ان میں طرح طرح کے خواص رکھے ہیں اور رکھتا ہے پس وہی خواص جوڑنے کے وقت اپنا کرشمہ دکھلاتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے خدا کے ساتھ کوئی موجد برابر نہیں ہو سکتا کیونکہ گو کوئی شخص ریل کا موجد ہو یا تارکا یا فوٹو گراف کا یا پریس کا یا کسی اور صنعت کا اس کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ ان قوتوں کا موجد نہیں جن قوتوں کے استعمال سے وہ کسی صنعت کو طیار کرتا ہے بلکہ یہ تمام موجد بنی بنائی قوتوں سے کام لیتے ہیں جیسا کہ انجن چلانے میں بھاپ کا طاقتوں سے کام لیا جاتا ہے پس فرق یہی ہے کہ خدا نے عنصر وغیرہ میں یہ طاقتیں خود پیدا کی ہیں مگر یہ لوگ خود طاقتیں اور قوتیں پیدا نہیں کرسکتے۔پس جب تک خدا کو ذرّاتِ عالم اور ارواح کی تمام قوتوں کا موجد نہ ٹھہرایا جائے تب تک خدائی اس کی ہرگز ثابت نہیں ہو سکتی اور اس صورت میں اس کا درجہ ایک معمار یا نجّار یا حدّاد یا گِلگو سے ہرگز زیادہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک بدیہی بات ہے جو ردّ کے قابل نہیں۔ پس دانشمند کو چاہئے کہ سمجھ کر جواب دے کہ بغیر سمجھ کے جواب دینا صرف بکواس ہے۔
یہ نمونہ آریہ سماجیوں کی توحید کا ہے اور پھر دوسرا امر کہ وہ اپنے پرمیشر کو قادر کس درجہ تک سمجھتے ہیں خود ظاہر ہے کیونکہ جب کہ ان کا یہ مانا ہوا اصول ہے کہ ان کا پرمیشر نہ ارواح کا خالق ہے نہ ذرّاتِ اجسام کا تو اس سے ظاہر ہے کہ اس کی قدرت ان کے نزدیک صرف اسؔ حد تک ہے کہ وہ باہم جسم اور رُوح کو جوڑتا ہے اور جو ارواح اور اجسام میں گُن اور خواص اور عجیب و غریب قوتیں ہیں وہ ان کے نزدیک انادی اور خود بخود ہیں پرمیشر کا ان میں کچھ بھی دخل نہیں اب اِس سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک ان کے پرمیشر کی قوت اور قدرت نجّاروں اور آہن گروں وغیرہ صناعوں سے کچھ زیادہ نہیں کیونکہ زیادتی تو تب ہو کہ وہ ان قوتوں اور گُنوں اور خاصیتوں کا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 385
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 385
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/385/mode/1up
پیدا کرنے والا بھی ہو اور جبکہ وہ سب خاصیتیں اور قوتیں اور گن اور طرح طرح کی طاقتیں ارواح اور ذرّات اجسام میں قدیم اور انادی ہیں جیسا کہ خود ارواح اور ذرّات اجسام قدیم اور انادی ہیں تو اِس صورت میں ماننا پڑتا ہے کہ جس پرمیشر نے ان ارواح اور ذرّات کو پیدا نہیں کیا اس نے ان کی قوتوں کو بھی پیدا نہیں کیا کیونکہ کوئی چیز اپنی قوتوں سے الگ نہیں رہ سکتی۔ ہر ایک چیز کی قوتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور وہی اس کی صورتِ نوعیہ کو قائم رکھتی ہیں اور جب وہ قوت اور گُن باطل ہو جائے تو ساتھ ہی وہ چیز باطل ہو جاتی ہے پس اگر یہ مانا جائے کہ پرمیشر نے روحوں اور ذرّاتِ عالم کو پیدا نہیں کیا۔ تو ساتھ ہی ماننا پڑتا ہے کہ اس نے اس کی قوتوں اور گنوں اور خاصیتوں کو بھی پیدا نہیں کیا اور اس صورت میں بدیہی طور پر نتیجہ یہ نکلتاہے کہ پرمیشرکی قدرت اور قوت انسانی قوت اور قدرت سے بڑھ کر نہیں کیونکہ ہم بار بار کہتے ہیں کہ انسان سے زیادہ پرمیشر میں یہی بات ہے کہ وہ قوتوں اور گُنوں اور خاصیتوں کا اپنی قدرت سے پیدا کرنے والا ہے مگر انسان گو کیسا ہی انواع اقسام کے ایجادات میں سبقت لے جائے مگر وہ قوتوں اور گُنوں اور خاصیتوں کو اپنے مطلب کے موافق ارواح اور اجسام میں پیدا نہیں کر سکتا۔ ہاں جو خدا کی طرف سے پہلے ہی سے قوتیں اور گُن اور خاصیتیں موجود ہیں ان سے کام لیتا ہے مگر خدا نے انسانوں میں جس مطلب کا ارادہ کیا ہے پہلے سے اس مطلب کی تکمیل کے لئے تمام قوتیں خود پیدا کر رکھی ہیں مثلاً انسانی روحوں میں ایک قوت عشقی موجود ہے اور گو کوئی انسان اپنی غلطی سے دوسرے سے محبت کرے اور اپنے عشق کا محل کسی اور کو ٹھہراوے لیکن عقل سلیم بڑی آسانی سے سمجھ سکتی ہے کہ یہ قوتِ عشقی اس لئے روح میں رکھی گئی ہے کہ تا وہ اپنے محبوب حقیقی سے جو اس کا خدا ہے اپنے سارے دل اور ساری طاقت اور سارے جوش سے پیار کرے۔
پسؔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قوت عشقی جو انسانی روح میں موجود ہے جس کی موجیں ناپیدا کنار ہیں اور جس کے کمال تموج کے وقت انسان اپنی جان سے بھی دست بردار ہونے کو طیار ہوتا ہے یہ خود بخود رُوح میں قدیم سے ہے، ہرگز نہیں۔ اگر خدا نے انسان اور اپنی ذات میں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 386
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 386
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/386/mode/1up
عاشقانہ رشتہ قائم کرنے کے لئے رُوح میں خود قوتِ عشقی پیدا کر کے یہ رشتہ آپ پیدا نہیں کیا تو گویا یہ امر اتفاقی ہے کہ پرمیشر کی خوش قسمتی سے رُوحوں میں قوتِ عشقی پائی گئی اور اگر اس کے مخالف کوئی اتفاق ہوتا یعنی قوتِ عشقی روحوں میں نہ پائی جاتی تو کبھی لوگوں کو پرمیشر کی طرف خیال بھی نہ آتا اور نہ پرمیشر اس میں کوئی تدبیر کر سکتا کیونکہ نیستی سے ہستی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی سوچنا چاہئے کہ پرمیشر کا بھگتی اور عبادت اور نیک اعمال کے لئے مواخذہ کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ اس نے خود محبت اور اطاعت کی قوتیں انسان کی روح کے اندر رکھی ہیں لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ انسان جس میں خود اس نے یہ قوتیں رکھی ہیں اس کی محبت اور اطاعت میں محو ہو جائے ورنہ پرمیشر میں یہ خواہش پیدا کیوں ہوئی کہ لوگ اس سے محبت کریں اس کی اطاعت کریں اور اس کی مرضی کے موافق رفتار اور گفتار بناویں ہم دیکھتے ہیں کہ باہمی کشش کے لئے کسی قسم کا اتحاد ضروری ہے انسان انسان کے ساتھ انس رکھتا ہے اور بکری بکری کے ساتھ اور گائے گائے کے ساتھ اور ایک پرندہ اپنے ہم قسم پرندہ کے ساتھ پس جبکہ انسان کی روحانی اور جسمانی قوتوں کو پرمیشر کے ساتھ کوئی بھی رشتہ نہیں تو کس اشتراک سے باہمی کشش درمیان ہو ، صرف جوڑنے کا اشتراک کافی نہیں کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں جوڑنے میں پرمیشر اور ایک نجار یا آہن گر برابر ہیں اگر ہمارا کوئی عضو اپنے ٹھکانہ سے اُتر جائے اور کوئی شخص اس کو اصل جگہ سے جوڑ دے یا مثلاً اگر کسی کا ناک کٹ جائے اور کوئی شخص زندہ گوشت اس ناک پر چڑھا کر ناک کو درست کردے تو کیا وہ اس کا پرمیشر ہو جائے گا۔ خدا کو پہلی کتابوں میں استعارہ کے طور پر پِتا یعنی باپ قرار دیا گیا ہے اور قرآن شریف میں بھی فرمایا ہے۔3 3 ۱ یعنی تم خدا کو ایسایاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور فرمایا 3۲۔ یعنی خدا اصل نور ہے ہر ایک نور زمین و آسمان کا اسی سے نکلا ہے۔ پس خدا کا نامؔ استعارۃً پِتا رکھنا اور ہر ایک نور کی جڑ اس کو قرار دینا اسی کی طرف
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 387
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 387
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/387/mode/1up
اشارہ کرتا ہے کہ انسانی رُوح کا خدا سے کوئی بھاری علاقہ ہے۔
عربی میں آدمی کو انسان کہتے ہیں یعنی جس میں دو اُنس ہیں ایک اُنس خدا کی اور ایک اُنس بنی نوع کی۔ اور اسی طرح ہندی میں اس کا نام مانس ہے جومانوس کا مخفف ہے اس سے ظاہر ہے کہ انسان اپنے خدا سے طبعی اُنس رکھتا ہے اور مشرکانہ غلطی بھی دراصل اسی سچے خدا کی تلاش کی وجہ سے ہے۔ ہم اپنے کامل ایمان اور پوری معرفت سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ اصول آریہ سماجیوں کا ہرگز درست نہیں کہ ارواح اور ذرّات اپنی تمام قوتوں کے ساتھ قدیم اور انادی اور غیر مخلوق ہیں۔ اس سے تمام وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جو خدا میں اور اس کے بندوں میں ہے۔ یہ ایک نیا اور مکر وہ مذہب ہے جو پنڈت دیانند نے پیش کیا ہے ہم نہیں جانتے کہ وید سے کہاں تک اس مذہب کا تعلق ہے لیکن ہم اس پر بحث کرتے ہیں کہ یہ اصول جو آریہ سماجیوں نے اپنے ہاتھ سے شائع کیا ہے یہ عقل سلیم کے نزدیک کامل معرفت اور کامل غور اور کامل سوچ کے بعد ہرگز درست نہیں۔ سناتن دھرم کا اصول جو اس کے مقابل پر پڑا ہوا ہے اس کو اگر چہ ویدانت کے بیجا مبالغہ نے بدشکل کر دیا ہے اور ویدانتیوں کی افراط نے بہت سے اعتراضات کا موقعہ دے دیا ہے تاہم اس میں سچائی کی ایک چمک ہے اگر اس عقیدہ کو زوائد سے الگ کر دیا جاوے تو ماحصل اس کا یہی ہوتا ہے کہ ہر ایک چیز پرمیشر کے ہی ہاتھ سے نکلی ہے پس اس صورت میں تمام شبہات دُور ہو جاتے ہیں اور ماننا پڑتا ہے کہ بموجب اصول سناتن دھرم کے وید کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ یہ تمام ارواح اور ذرّات اجسام اور ان کی قوتیں اور طاقتیں اور گُن اور خاصیتیں خدا کی طرف سے ہیں۔
یاد رہے کہ آریہ ورت میں مذہب قدیم جس پر کروڑہا انسان پائے جاتے ہیں سناتن دھرم ہے اگرچہ اس مذہب کو عوام نے بگاڑ دیا ہے اور مورتی پوجا اور دیویوں کی پرستش اور بہت سی مشرکانہ بدعتیں اور اوتاروں کو خدا سمجھنا گویا اس مذہب کی ُ جز ہوگیا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 388
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 388
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/388/mode/1up
لیکن ان چند غلطیوں کو الگ کر کے بہت سی عمدہ باتیں بھی اس مذہب میں موجود ہیں۔ اسی مذہب میں بڑے بڑے رشی اور مُنی اور جوگی ہوتے رہے ہیں اور نیز اس مذہب میں بڑے بڑے جپی تپی اور ریاضت کرؔ نے والے پائے گئے ہیں اب اگر کوئی چاہے قبول کرے یا نہ کرے۔ لیکن جس مذہب کو پنڈت دیانند نے پیش کیا ہے اس میں وہ روحانیت نہیں ہے جس کو سناتن دھرم کے بزرگوں نے پایا تھا گو آخر کار شرک کو اپنے عقائد میں ملا کر اس روحانیت کو کھودیا مخلوق کا خدا سے حقیقی تعلق تبھی ٹھہرتا ہے جب مخلوق خدا کے ہاتھ سے نکلنے والے ہوں جس پر غیریت کا داغ ہے اس میں یگانگت کبھی آنہیں سکتی۔ ہم نے بڑے بڑے پنڈتوں سے سُنا ہے کہ پنڈت دیانند نے جو مذہب پیش کیا ہے یہ اس ملک کے خود رائے لوگوں کا مذہب تھا جو محض اپنی ناقص عقل کے پیرو تھے جیسے یونان کے گمراہ فلاسفر اس لئے وہ وید کی چنداں پروا نہیں کرتے تھے۔ غایت کار عوام کو مائل کرنے کے لئے تاویلوں کے ساتھ کوئی وید کی شرتی اپنی تائید میں سُناتے تھے تا اس طرح پر اپنے عقائد کو عوام میں پھیلاویں۔ ورنہ اصل عقیدہ وید کا وہی ہے جو سناتن دھرم کی روح میں مخفی ہے۔ ان لوگوں میں کسی زمانہ میں قابل تعریف عملی حالتیں تھیں اور وہ بنوں میں جاکر ریاضت اور عبادت بھی کرتے تھے۔ اور ان کے دلوں میں نرمی اور سچی تہذیب تھی کیونکہ ان کا مذہب صرف زبان تک نہیں بلکہ دلوں کو صاف کرتے تھے اور وہ پرمیشر جس کا کتابوں میں انہوں نے نام سُنا تھا چاہتے تھے کہ اسی دنیا میں اس کا درشن ہو جائے اس لئے وہ بہت محنت کرتے تھے اور اُس صدق کا نور ان کی پیشانیوں میں ظاہر تھا۔ پھر بعد اس کے ایک اور زمانہ آیا کہ بُت پرستی اور دیوتوں کی پوجا اور مورتی پوجا اور اَوتاروں کی پوجا بلکہ ہر ایک عجیب چیز کی پوجا سناتن دھرم کا طریق ہوگیا اور وہ اس طریق کو بھول گئے جوطریق راجہ رام چندر اور راجہ کرشن نے اختیار کیا تھا جن پر ان کی را ستبازی کی وجہ سے خدا ظاہر ہوا۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 389
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 389
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/389/mode/1up
بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے ہو جاتے ہیں اور واقعی اپنا وجود اور ذرّہ ذرّہ اپنے جسم کا خدا کی طرف سے سمجھتے ہیں ان کو خدا اور بھی نعمت دیتاہے اور جو لوگ اپنی رُوح اور اپنے جسم کا ذرّہ ذرّہ خدا کی طرف سے نہیں جانتے ان میں تکبر ہوتا ہے اور وہ دراصل خدا کے گہرے احسان اور اس کی کامل پرورش سے منکر ہوتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک جس قدر باپ کو اپنے بیٹے سے روحانی تعلق ہے اس قدر بھی خدا کو اپنے بندہ سے تعلق نہیں کیونکہ وہ مانتے اور قبول کرتے ہیں کہ بیٹا اپنی ماں اورؔ باپ سے اس قدر روحانی تعلق رکھتا ہے کہ ان کے اخلاق سے حصہ لیتا ہے۔ مثلاً جب بیٹے کا باپ شجاعت کی صفت سے موصوف ہے بیٹے میں بھی وہ صفت کسی قدر آجاتی ہے اور جس باپ میں مادہ فراست اور عقل کا بہت ہے بیٹا بھی اس میں سے کسی قدر حصہ پاتا ہے لیکن آریہ صاحبوں کا یہ مذہب نہیں ہے کہ انسانی رُوح میں جواخلاق اور صفات اور قوتیں ہیں وہ خدا سے اس کو ملی ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا کہیں تو پھر اُنہیں رُوح کو مخلوق ماننا پڑے حالانکہ انسانی اخلاق خدا کے اخلاق کا پرَتوہ ہیں۔ جب خدا نے روحوں کو پیدا کیا تو جس طرح باپ کے اخلاق کا بیٹوں میں اثر آجاتا ہے ایسا ہی بندوں میں اپنے خدا کا اثر آگیا۔
اور ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ خدا نے جو انسان کو اپنی طرف بلایا ہے اس لئے اس نے پہلے سے پرستش اور عشق کے مناسب حال قوتیں اس میں رکھ دی ہیں۔ پس وہ قوتیں جو خدا کی طرف سے ہیں خدا کی آواز کو ُ سن لیتی ہیں۔ اسی طرح جب خدا نے چاہا کہ انسان خدا کی معرفت میں ترقی کرے تو اس نے پہلے سے ہی انسانی رُوح میں معرفت کے حواس پیدا کر رکھے ہیں اور اگر وہ پیدا نہ کرتا تو پھر کیونکر انسان اس کی معرفت حاصل کرسکتا تھا۔ انسان کی رُوح میں جو کچھ ہے دراصل خدا سے ہے اور وہ خدا کی صفات ہیں جو انسانی آئینہ میں ظاہر ہیں ان میں سے کوئی صفت بُری نہیں بلکہ ان کی بد استعمالی اور ان میں افراط تفریط کرنا بُرا ہے شاید کوئی جلدی سے یہ اعتراض کرے کہ انسان میں حسد ہے بغض ہے اور دوسری صفات ذمیمہ ہوتے ہیں پھر وہ کیونکر خدا کی طرف سے ہو سکتے ہیں پس واضح رہے کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں دراصل تمام
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 390
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 390
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/390/mode/1up
انسانی اخلاق الٰہی اخلاق کا ظل ہیں کیونکہ انسانی رُوح خدا سے ہے لیکن کمی یازیادتی یا بداستعمالی کی وجہ سے وہ صفات ناقص انسانوں میں مکروہ صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً حسد انسان میں ایک بہت بُرا خُلق ہے جو چاہتا ہے کہ ایک شخص سے ایک نعمت زائل ہو کر اس کو مل جائے لیکن اصل کیفیت حسد کی صرف اس قدر ہے کہ انسان اپنے کسی کمال کے حصول میں یہ روا نہیں رکھتا کہ اس کمال میں اُس کا کوئی شریک بھی ہو پس درحقیقت یہ صفت خدا تعالیٰ کی ہے جو اپنے تئیں ہمیشہ وحدہٗ لاشریک دیکھنا چاہتا ہے۔ پس ایک قسم کیؔ بداستعمالی سے یہ عمدہ صفت قابلِ نفرت ہوگئی ہے۔ ورنہ اس طرح پر یہ صفت مذموم نہیں کہ کمال میں سب سے زیادہ سبقت چاہے اور روحانیت میں تفرد اور یکتائی کے درجہ پر اپنے تئیں دیکھنا چاہے۔
پھر ماسوا اس کے اگر خدا کو قادر نہ مانا جاوے تو پھر اس سے ساری امیدیں باطل ہو جاتی ہیں کیونکہ ہماری دُعاؤں کی قبولیت اس بات پرموقوف ہے کہ خدا تعالیٰ جب چاہے ذرّاتِ اجسام میں یا ارواح میں وہ قوتیں پیدا کردے جو ان میں موجود نہ ہوں مثلاً ہم ایک بیمار کے لئے دُعا کرتے ہیں اور بظاہر مرنے والے آثار اس میں ہوتے ہیں تب ہماری درخواست ہوتی ہے کہ خدا اس کے ذرّاتِ جسم میں ایک ایسی قوت پیدا کردے جو اس کے وجود کو موت سے بچالے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر وہ دُعا قبول ہوتی ہے اور بسا اوقات اوّل ہمیں علم دیا جاتا ہے کہ یہ شخص مرنے پر ہے اور اس کی زندگی کی قوتوں کا خاتمہ ہے لیکن جب دُعا بہت کی جاتی ہے اور انتہا تک پہنچ جاتی ہے اور شدت دُعا اور قلق اور کرب سے ہماری حالت ایک موت کی سی ہو جاتی ہے تب ہمیں خدا سے وحی ہوتی ہے کہ اس شخص میں زندگی کی طاقتیں پھر پیدا کی گئیں تب وہ یک دفعہ صحت کے آثار ظاہر کرنے لگتا ہے گویا مُردہ سے زندہ ہوگیا۔
ایسا ہی مجھے یاد ہے کہ جب مَیں نے طاعون کے وقت میں دُعا کی کہ اے خدائے قادر ہمیں اس بلاسے بچا اور ہمارے جسم میں وہ ایک تریاقی خاصیّت پیدا کردے جس سے ہم طاعون کی زہر سے بچ جائیں۔ تب وہ خاصیت خدا نے ہم میں پیدا کردی اور فرمایا کہ مَیں طاعون
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 391
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 391
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/391/mode/1up
کی موت سے تمہیں بچاؤں گا اور فرمایا کہ تیرے گھر کی چاردیواری کے لوگ جو تکبر نہیں کرتے یعنی خدا کی اطاعت سے سرکش نہیں اور پرہیزگار ہیں مَیں ان سب کو بچاؤں گا اور نیز میں قادیان کو طاعون کے سخت غلبہ اور عام ہلاکت سے محفوظ رکھوں گا یعنی وہ سخت تباہی جو دوسرے دیہات کو فنا کردے گی اس قدر قادیان میں تباہی نہیں ہوگی سو ہم نے دیکھا اور خدا تعالیٰ کی ان تمام باتوں کو مشاہدہ کیا۔ پس ہمارا خدا یہی خدا ہے جو نئی نئی قوتیں اور گُن اور خاصیتیں ذرّاتِ عالم میں پیدا کرتا ہے اس سے پہلے پانسو برس تک پنجاب میں اس ؔ مہلک طاعون کا پتہ نہیں ملتا اس وقت یہ ذرات کہاں تھے۔ اب جب خدا نے پیدا کئے توپیدا ہوگئے اور پھر ایسے وقت رخصت ہوں گے جب خدا تعالیٰ ان کو رخصت کرے گا ہمارا یہ طریق ہر ایک آریہ کے لئے ایک نشان ہوگا کہ ہم نے اس کامل خدا سے خبر پاکر ٹیکا کے انسانی حیلہ سے دست کشی کی اور بہت سے لوگ ٹیکا کرانے والے اس جہان سے گزر گئے اور ہم اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجود ہیں۔ پس اِسی طرح خدا تعالیٰ ذرّات پیدا کرتا ہے جس طرح اس نے ہمارے لئے ہمارے جسم میں تریاقی ذرّات پیدا کردیئے۔ اور اسی طرح وہ خدا رُوح پیدا کرتا ہے جس طرح مجھ میں اُس نے وہ پاک رُوح پھونک دی جس سے مَیں زندہ ہوگیا۔ ہم صرف اِس بات کے محتاج نہیں کہ وہ رُوح پیدا کر کے ہمارے جسم کو زندہ کرے بلکہ خود ہماری رُوح بھی ایک اور رُوح کی محتاج ہے جس سے وہ مُردہ رُوح زندہ ہو پس ان دونوں رُوحوں کو خدا ہی پیدا کرتا ہے جس نے اس راز کو نہیں سمجھا وہ خدا کی قدرتوں سے بے خبر اور خدا سے غافل ہے۔
اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ خداتعالیٰ کے علم کے بارے میں آریہ سماجیوں کا کیا عقیدہ ہے۔ واضح ہو کہ عقل سلیم اِس بات کی ضرورت سمجھتی ہے کہ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہو اور کوئی ایسا مخفی امر نہ ہو جس پر اس کا علم محیط نہ ہو۔ لیکن آریہ صاحبوں کے عقیدہ سے یہی لازم آتا ہے کہ ان کا پرمیشر ارواح اور ذرّات کی مخفی در مخفی قوتوں اور خاصیتوں کا علم نہیں رکھتا کیونکہ ابھی تک اس کو اِسی قدر خبر ہے کہ جو کچھ کسی انسان یا حیوان میں گُن اور قوّت اور خوبی ہے وہ گزشتہ اعمال کی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 392
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 392
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/392/mode/1up
وجہ سے ہے پس اگر اس کو یہ بھی معلوم ہوتا کہ علاوہ جسم دار جانداروں کے خود رُوحوں میں بھی انواع اقسام کی قوتیں اور گُن اور خوبیاں ہیں جو کبھی ان سے دُور نہیں ہوتیں تو وہ ان کے لئے بھی کوئی گزشتہ جنم تجویز کرتا اور ان کوانادی قرار نہ دیتا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی چیز کے خواص اس سے منفک نہیں ہوتے۔پس فرض کے طور پر اگر انسانی رُوح گدھے میں آجاتی ہے تو وہ اپنے طبعی خواص کو کسی طرح چھوڑ نہیں سکتی گو اس جون میں ان خواص کو ظاہر کرے یا نہ کرے کیونکہ اگر کسی جون کے بدلنے سے اصلی خواص اور قوتیں رُوح کی قطعاً اسؔ سے دُور ہو جائیں تو پھر خود بقول آریہ صاحبان اعادہ اس کا محال ہوگاکیونکہ نیستی سے ہستی نہیں ہو سکتی جو قوت درحقیقت رُوح میں سے معدوم ہو گئی اس کا دوبارہ رُوح میں موجود ہو جانا درحقیقت نیست سے ہست ہو جانا ہے اور اگر تناسخ کے چکّر میںآکر رُوح کی قوتیں معدوم نہیں ہوتیں تو تناسخ کا اُن پر کوئی اثر نہ ہوا۔ پس جبکہ پرمیشر نے ان غیر منفک قوتوں کو تناسخ کے چکر سے باہر رکھا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ اس کو ان مخفی قوتوں اور خوبیوں کی خبر ہی نہیں۔ اور نہ یہ معلوم کہ کن عملوں کے پاداش میںیہ قوتیں اور یہ گُن اور خوبیاں رُوحوں کو ملی ہیں۔ علاوہ اس کے اگر پرمیشر کو اِس بات کا کامل علم ہے کہ رُوح کیا چیز ہے اور اس کے خواص اور قوتیں کیا ہیں تو پھرکیوں وہ اس کے بنانے پر قادر نہیں۔ یہ تو آریہ صاحبوں کے نزدیک مانا ہوا مسئلہ ہے کہ ارواح اپنے شمار میں محدود ہیں اور محدود وقت تک اپنا دَورہ پورا کرتی ہیں پس محدود اور معلوم کے بنانے پرکیوں خدا قادر نہیں اور کس نے ان رُوحوں کو شمار مقرر ہ تک محدود کر دیا ہے اگر خدا ان کا محدّد نہیں۔ اگر وہ رُوحیں خدا کی بنائی ہوئی نہیں تو ان کی نسبت خدا کا علم ایسا کیونکر کامل ہو سکتا ہے جیسا کہ بنانے والے کا علم ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ بنانے والے اور غیر بنانے والے کا علم برابر نہیں ہوتا۔ مثلاً جو لوگ اپنے ہاتھ سے کوئی صنعت بناتے ہیں جیسے وہ لوگ اس صنعت کی دقیق در دقیق کیفیتوں پر واقف ہوتے ہیں دوسرے لوگ ایسی اطلاع نہیں رکھتے اور اگر کامل طور پر اطلاع رکھتے تو بنا بھی سکتے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 393
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 393
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/393/mode/1up
یہ بات مسلّم اور مقبول ہے کہ جو بنانے والے کو ایک قسم کا علم ہوتا ہے وہ دوسرے شخص کو نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ خیال بھی کرے کہ مَیں علم رکھتا ہوں تب بھی اس کا وہ خیال غلط ہے اور دراصل ایک قسم کی ناواقفی کا پردہ اس پر ضرور رہتا ہے مثلاً ہم ہرروز دیکھتے ہیں کہ روٹی اس طرح پکاتے ہیں اور ہمارے رو برو وہ روٹی بنائی جاتی ہے اور عمدہ اور لطیف پھلکے اور نان اورکلچے تیار ہوتے ہیں لیکن اگر ہم کبھی اپنے ہاتھ سے یہ کام کرنا چاہیں تو اوّل غالباً یہی ہوگا کہ ہم گوندھنے کے وقت آٹے کو ہی خراب کریں گے اور وہ پتلا ہو کر روٹی پکانے کے لائق ہی نہیں رہے گا یا گاڑہ اور سخت ہو کر اس کام کے ناقابل ہوگا اور یا اس میں آٹے کی گلٹیاں پڑ جائیں گی۔ اور اگر ہم نے مطلب کے موافق آٹا گوندھ بھیؔ لیا تو پھر روٹی ہم سے ہرگز درست نہیں آئے گی غالباً بیچ میں اس کے ایک ٹکّی رہے گی اور گرد اس کے بڑے بڑے کان نکل آئیں گے اور کسی جگہ سے پتلی اور کسی جگہ سے موٹی اور کسی جگہ سے کچی اور کسی جگہ سے سڑی ہوئی ہوگی پس کیا سبب ہے کہ باوجود ہر روز ہ مشاہدہ کے ہم صاف روٹی پکا نہیں سکیں گے اور باوجودیکہ وقت بہت خرچ کریں گے لیکن کام بگاڑ دیں گے اس کا یہی سبب ہے کہ ہمارے پاس وہ علم نہیں کہ جو اُس شخص کو علم ہے جو بیس برس سے ہر قسم کی روٹیاں اپنے ہاتھ سے پکا رہا ہے۔
اسی طرح دیکھ لو کہ تجربہ کار ڈاکٹر کیسے کیسے نازک اپریشن کرتے ہیں یہاں تک کہ گردہ میں سے پتھریاں نکال لیتے ہیں اور بعض ڈاکٹروں نے انسان کے سر کی بیکار اور زخم رسیدہ کھوپڑی کو کاٹ کر اسی قدر حصہ کسی اور جانور کی کھوپڑی کا اس سے پیوست کر دیا ہے اور دیکھو وہ کیسی عمدگی سے بعض نازک اعضا کوچیرتے ہیں یہاں تک کہ انتڑیوں میں جو بعض پھوڑے پیدا ہوتے ہیں نہایت صفائی سے ان پرعمل جراحی کرتے ہیں اور نزول الماء کے موتی کو کیسی صفائی سے کاٹتے ہیں اب اگر یہی عمل ایک دہقان بغیر تجربہ اور علم کے کرنے لگے تو اگر آنکھوں پر کوئی نشتر چلاوے تو دونوں ڈیلے نکال دے گا اور اگر پیٹ پر چلاوے تو وہیں بعض اعضاء کو کاٹ کر زندگی کا خاتمہ کردے گا۔ اب ظاہر ہے کہ اس دہقان اور ڈاکٹر میں فرق صرف علم کا ہے کیونکہ ڈاکٹر کو کثرت تجربہ اور عملی مزاولت سے ایک قسم کا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 394
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 394
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/394/mode/1up
علم حاصل ہوگیا ہے جو اس دہقان کو حاصل نہیں۔ دیکھو ہمیشہ شفاخانوں میں بیماروں کے لئے خدمت کرنے والے اور سقے وغیرہ موجود ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر کس کس قسم کے اپریشن کرتاہے لیکن اگر وہ آپ کرنے لگیں تو بیشک کسی انسان کا خون کردیں گے پس اس میں کچھ شک نہیں کہ عملی مزاولت میں ایک خاص علم ہو جاتا ہے جو دوسرے کو نہیں ہو سکتا اسی طرح آریہ صاحبوں کو اس بات کا اقرار کرنا پڑے گا کہ اگر ان کا پرمیشر روحوں اور ذرّات عالم کا خالق ہوتا تو اس کا علم موجودہ حالت سے بہت زیادہ ہوتا۔ اسی اقرار سے یہ بھی ان کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ان کے پرمیشر کا علم ناقص ہے کیونکہ بنانے والا اور نہ بنانے والا حقیقت شناسی میں برابر نہیں ہو سکتے اور خود جب مان لیا جائے کہ پرمیشر نے نہ روحوں کو ؔ بنایا نہ ان کی قوتوں کو اور نہ ان کی خاصیتوں کو اور نہ پرمانو یعنی ذرّات اجسام کو بنایا اور نہ ان کی قوتوں اور خاصیتوں اور گنوں کو تو اس پر کیادلیل ہے کہ ایسے پرمیشر کو ان کی قوتوں اور خاصیتوں اور گنوں کا علم بھی ہے یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کو علم ہے کیونکہ محض عقیدہ پیش کرنا کوئی دلیل نہیں ہے اور بفرضِ محال اگر کسی قدر علم مان بھی لیں تو وہ علم اس علم کے برابر کب ہو سکتا ہے جو اس حالت میں ہوتا کہ جبکہ پرمیشر نے روحوں اور ذراتِ عالم اور ان کی قوتوں اور خاصیتوں کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہوتا کیونکہ تمام عقلمندوں کی یہ مانی ہوئی بات ہے کہ بنانے والے اور نہ بنانے والے کا علم برابر نہیں ہوتا جیسا کہ ابھی ہم اوپر بیان کر چکے ہیں لیکن قرآن شریف ہمیں سکھلاتا ہے کہ وہ روحوں اور ذرّات عالم کی تمام اندرونی کیفیتیں اور قوتیں اور خاصیتیں جانتا ہے اور قرآن شریف میں خدا فرماتا ہے کہ مَیں اس لئے اندرونی حالات ارواح اور ذرات کے جانتاہوں کہ مَیں ان سب چیزوں کابنانے والا ہوں لیکن وید کا پرمیشر کوئی دلیل نہیں دیتا کہ بلا تعلق اور بلاواسطہ کیوں اور کس وجہ سے ارواح کی پوشیدہ قوتوں اور گنوں اور خواص کا اس کو علم ہے اور ایسا ہی کیوں اور کس طرح ذرّات اجسام کے نہاں درنہاں خواص اور طاقتوں اور گنوں پر اس کو اطلاع ہے۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 395
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 395
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/395/mode/1up
پھر ماسوا اس کے ہم خدا تعالیٰ کے علم کا اس کی تازہ بتازہ وحی سے ہمیشہ مشاہدہ کرتے ہیں اورہم روز دیکھتے ہیں کہ درحقیقت خدا تعالیٰ غیب دان ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ ہم اس کی قدرت کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں مگر آریہ صاحبوں پر یہ دروازہ بھی بند ہے اس لئے ان کے لئے اس بات پر یقین کرنے کے لئے کوئی راہُ کھلی نہیں کہ ان کا پرمیشر غیب دان ہے یا قادرمطلق ہے اورنہ وید ان کو اس درجہ کے حاصل کرنے کی کوئی بشارت دیتا ہے۔
ایسا ہی آریہ صاحبان خود اقراری ہیں کہ ان کے پرمیشر کے لئے اپنے فیض الوہیت میں کمال تام حاصل نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ناقص طور پرلوگوں کومکتی خانہ میں داخل کرتا ہے اور پھر کچھ مدت کے بعد ناکردہ گناہ مکتی خانہ سے باہر نکال لیتا ہے تا سلسلہ تناسخ میں کچھ فرق نہ آوے اس لئے اس کی سزا اور رحمت کا قاعدہ بھی خود غرضی کی آمیزش اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ وہ ؔ جانتا ہے کہ اگر میں رحمت تامہ سے کام لوں اور سب کو ہمیشہ کے لئے نجات دے دوں تو سلسلہ تناسخ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا تو پھر بعد میں بیکار بیٹھنا پڑے گا کیونکہ جس حالت میں روحیں محدود ہیں یعنی ان کے شمار کی ایک مقدار تک حد مقرر ہے تو اس صورت میں اگر ایک بھگت کو جو عبادت میں اپنی تمام عمر بسر کرتا ہے نجات ابدی دی جائے تو ظاہر ہے کہ جو رُوح نجات پاگئی وہ ہاتھ سے گئی اور تناسخ کے چکر سے آزاد ہوئی پس بالضرورت ایک دن ایسا آجائے گا کہ سب روحیں ہمیشہ کے لئے نجات پا جائیں گی اور یہ تو خود مانا ہوا مسئلہ ہے کہ پرمیشر رُوح پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ پس اس صورت میں بجز اس کے کیا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ کسی دن تمام رُوحوں کے دائمی مکتی پانے کے بعد پرمیشر گری کا تمام سلسلہ معطل پڑجائے اور تناسخ کے لئے ایک روح بھی اس کے ہاتھ میں نہ رہے پس اس تمام تقریر سے ثابت ہوتا ہے کہ آریہ صاحبان کا پرمیشر جیسا کہ روحوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ایسا ہی وہ روحوں کو نجات ابدی دینے پر بھی قادر نہیں کیونکہ اگر وہ روحوں کو نجات ابدی دے دے تو اس کا تمام سلسلہ ٹوٹتا ہے اس لئے اپنی تمام عملداری کے محفوظ رکھنے کے لئے بخل کی عادت کو اس نے لازم
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 396
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 396
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/396/mode/1up
پکڑ لیا ہے اور اپنے را ستباز پرستاروں کے ساتھ بخیلوں کی طرح کارروائی کرتا ہے اور بار بار عزت کے بعد ان کو ذلت دیتا ہے اور تناسخ کے چکر میں ڈال کر مکروہ در مکروہ موتوں میں ان کو ڈالتا ہے محض اس لئے کہ تا اس کی عملداری میں فرق نہ آوے۔ اس بات کا آریہ صاحبوں کو خود اقرار ہے کہ اس نے بارہا دنیا کے کل انسانوں کو نجات دے دی ہے مگر پھر کچھ مدت کے بعد اس نجات خانہ سے باہر نکال کر طرح طرح کی جونوں میں ان کو ڈال دیا ہے اب آریہ صاحبان ناراض نہ ہوں ہم ادب سے عرض کرتے ہیں اور جہاں تک ہمیں نرم الفاظ مل سکتے ہیں ان میں ہماری یہ گذارش ہے کہ اس عقیدہ پر ایک سخت اعتراض ہوتاہے اور ہم امید نہیں کرتے کہ اس اعتراض کا کوئی آریہ صاحب صفائی سے جواب دے سکے اور اگر جواب دیں تو ہم خوشی سے سُنیں گے اور اعتراض یہ ہے کہ جبکہ خود غرضی کی ضرورت کی وجہ سے پرمیشر کی یہ عادت ہے کہ وہ مکتی خانہ میں ہمیشہ لوگوں کو رہنے نہیں دیتا اور پھر طرح طرح کی جونوؔ ں میں ڈالتا ہے تو ان مختلف جونوں سے ترجیح بلا مرجح لازم آئے گی یعنی جو لوگ پرمیشر کے سچے بھگت ہو کر نجات پا چکے ہیں اب مکتی خانہ سے باہر نکالنے کے وقت کسی کو مرد بنانا اور کسی کو عورت اور کسی کو گائے اور کسی کو بیل اور کسی کو کتّا اور کسی کو سؤر اور کسی کو بندر اور کسی کو بھیڑیا، اس میں خلاف عدالت طریق معلوم ہوتا ہے۔ خصوصاً جس حالت میں ہریک مکتی پانے والا سخت امتحان کے بعد مکتی پاتا ہے اور کروڑہا برس تناسخ کے چکر میں رہ کر پھر کہیں اس مراد تک پہنچتا ہے تو کم سے کم اس کے لئے یہ رعایت تو ہونی چاہئے تھی کہ وہ انسان بنایا جاتا ۔یہ کیا معاملہ ہے کہ اپنا پیارا بنا کر اور اپنے قرب سے شرف بخش کر پھر آخرکار اس کو کتا یا سؤر بناکر مکتی خانہ سے باہر نکال دیا گیا اور اس کے ساتھ کے اشخاص کو کتا نہ بنایا، بلکہ انسان بنایا، حالانکہ مکتی پانے کے شرائط سب نے برابر پورے کرلئے تھے پرمیشر کا کسی پر احسان نہ تھا پھر کیا وجہ کہ مکتی خانہ سے نکال کر کسی کو انسان اور کسی کو کتابنایا گیا۔ اس صورت میں نہ سزا عدل کے طور پر ہوئی اور نہ رحمت۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 397
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 397
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/397/mode/1up
ایک اور بات ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتی کیا کوئی شریف آریہ صاحب ہیں جو اس کو سمجھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بموجب اس قاعدہ کے جو مکتی یابوں کو ایک مدت کے بعد پھر تناسخ کے چکر میں ڈالا جاتا ہے اور طرح طرح کے جونوں کی ذلت ان کو دیکھنی پڑتی ہے لازم آتا ہے کہ آریہ صاحبوں کا کوئی مقدس بزرگ اس ذلت سے باہر نہ ہو گو ہماری یہ رائے نہیں ہے کہ ہم کسی قوم کے بزرگوں کو ذلّت کے داغ کی طرف منسوب کریں بلکہ ہماری یہ رائے ہے کہ جس شخص کو خدائے کریم اپنے فضل عظیم سے اپنی معرفت اور محبت اور اپنے پاک تعلق سے حصّہ کامل بخشتا ہے اور اپنے عزت والے گروہ میں داخل کرتا ہے پھر اس کو کبھی ذلیل نہیں کرتا اور ممکن نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے قرب کا اتنا بڑا درجہ پاکر پھر کُتّا یا بلّا یا سؤر یا بندر بنایا جاوے مگر آریہ صاحبوں کا یہ قاعدہ چاہتا ہے کہ ضرور مقدس لوگ ان جونوں میں آتے ہیں خواہ وہ اوتار کہلاویں یا رشی یا منی کے درجہ تک پہنچیں ہم بادب دریافت کرتے ہیں کہ کیا وید کے رشی جن پرچاروں وید نازل ہوئے تھے اور راجہؔ رام چندر اور راجہ کرشن وغیرہ اوتار اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں یا نہیں اور اگر مستثنیٰ ہیں تو کیا وجہ اور اگر نہیں تو ان کو عزت سے یاد کرنا کیا معنے رکھتا ہے کیا عقل سلیم اس بات کو چاہتی ہے کہ ایک کتاب کو تو عزت دی جائے اور اس کو آسمانی کتاب سمجھا جائے مگر جس پر وہ کتاب نازل ہوئی تھی اس کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ رذیل سے رذیل جونوں میں چکر کھاتا پھرتا ہے۔ غرض جو لوگ خدا تعالیٰ کی جناب میں ایک مرتبہ عزت پاگئے پھر ان کو تناسخ کے چکر میں ڈالنا اور کُتّے،بلّے، سؤر بنانا، یہ اُس قدّوس خدا کا فعل نہیں ہے جو پاک بنا کر پھر پلید بنانا نہیں چاہتا۔ ورنہ اس صورت میں آریہ سماجیوں کا کوئی بزرگ بھی یقینی طور پر قابل تعریف نہیں ٹھہرتا کیونکہ کیا معلوم کہ اب وہ کس جون میں ہے۔ غرض اس عقیدہ کے رُو سے آریہ صاحبوں کا پرمیشر نہ صرف بخیلی کی صفت مذمومہ سے موسوم ہوتا ہے بلکہ سخت دل اور ظالم اور کینہ وَر بھی ٹھہرتا ہے کہ جن لوگوں نے اس کے ساتھ سچے دل سے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 398
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 398
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/398/mode/1up
محبت کی اور اس کی راہ میں فدا ہوئے اور اس کو ہمیشہ کے لئے اختیار کیا وہ ان کو بھی مکتی خانہ سے نکال کر اسی وقت یا کچھ دن بعد بندر اور سؤر بنا دیتا ہے ایسے پرمیشر سے کونسی نیکی کی امید ہو سکتی ہے چاہئے کہ آریہ صاحبان اس مضمون کو غور سے مطالعہ کریں اور محض جوش اور غضب سے جواب نہ دیں بلکہ اوّل بات کو سمجھ لیں پھر کوئی کلمہ منہ پر لاویں۔
آریہ سماجیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وید میں عناصر پرستی اور ستارہ پرستی کی تعلیم نہیں ہے اور اس میں محض خدائے واحد لاشریک کی پرستش کی تعلیم ہے لیکن ان کے مقابل پر قدیم مذہب سناتن دھرم کا ہے جو تمام آریہ ورت میں پھیلا ہوا ہے جس کے کروڑ ہا باشندے اس ملک میں موجود ہیں اور صدہا پنڈت جابجا پائے جاتے ہیں ان کا یہ بیان ہے کہ ضرور عناصر پرستی کی تعلیمیں وید میں پائی جاتی ہیں اور بلاشُبہ وید یہی ہدایت کرتا ہے کہ تم آگ کی پرستش کرو ہوا کی پرستش کرو، پانی کی پرستش کرو، زمین کی پرستش کرو، سورج کی پرستش کرو، چاندؔ کی پرستش کرو اور اسی وجہ سے آریہ ورت میں قدیم سے ان چیزوں کے پرستار پائے جاتے ہیں چنانچہ گنگا کی پرستش کرنے والے اور کانگڑہ میں جوالا مکھی کی آگ کی پرستش کرنے والے اور سورج کے آگے ہاتھ جوڑنے والے اب تک جابجا ان پرستشوں میں مشغول ہیں اور یہ سب لوگ وید کی پابندی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور قطع نظر اس کے جب کہ ہم خود بھی ایمان اور انصاف کی رُو سے ان ویدوں پر غور کرتے ہیں جو اُردو اور انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع کئے گئے ہیں تو صدہا شرتیوں پر نظر ڈال کر ضرور ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ بلاشبہ ان ویدوں میں آگ اور ہوا اور سورج اور چاند وغیرہ سے دُعائیں مانگی گئی ہیں اور مرادوں کے پانے کے لئے ان سے مدد طلب کی گئی ہے چنانچہ ہم چند شرتیاں رگ وید کی اس جگہ محض نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں اوریہ حصہ وید کا ترجمہ ہو کر سنسکرت پستک سے دوبارہ مقابلہ کیا گیا ہے اور پنڈتوں کی شہادتوں کے ساتھ اس کی صحت کی اطمینان دلائی گئی ہے اور یونیورسٹی میں پڑھانے کے لئے قبول کیا گیا ہے اور وہ شرتیاں یہ ہیں:۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 399
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 399
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/399/mode/1up
’’میں اگنی دیوتا کی جو ہوم کا بڑاگرو کارکن اور دیوتاؤں کو نذریں پہنچانے والا اور بڑے ثروت والا ہے مہما کرتا ہوں۔ ایسا ہو کہ اگنی جس کی مہما زمانہ قدیم اور زمانہ حال کے رشی کرتے چلے آئے ہیں دیوتاؤں کو اس طرف متوجہ کرے۔ اے اگنی جو کہ دو لکڑیوں کے رگڑنے سے پیدا ہوئی ہے اس پاک کٹے ہوئے کشا پر دیوتاؤں کولا تو ہماری جانب سے اُن کا بلانے والا ہے اور تیری پرستش ہوتی ہے۔ اے اگنی آج ہماری خوش ذائقہ قربانی دیوتاؤں کو ان کے کھانے کے واسطے پیش کر۔ اے اگنی، وایو، سورج وغیرہ دیوتاؤں کو ہماری نذر پیش کر۔ اے بے عیب اگنی تو منجملہ اور دیوتاؤں کے ایک ہوشیار دیوتا ہے جو اپنے والدین کے پاس رہتا ہے اور ہمیں اولاد عطا کرتا ہے، تمام دولتوں کا تو ہی بخشنے والا ہے،اے اگنی سُرخ گھوڑوں کے سوامی ہماری استت سے پرسن ہو۔ تنتیسؔ ؔ ؔ دیوتاؤں کو یہاں لا۔ اے اگنی جیسا کہ تو ہے لوگ اپنے گھروں میں تجھے محفوظ جگہ میں روشن کرتے ہیں۔ اے عاقل اگنی تو پناپت ہے یعنی اپنے جسم کا آپ جلانے والا ہے آج ہماری خوش ذائقہ قربانی دیوتاؤں کو ان کے کھانے کے لئے پیش کر۔ اے اِندر اے وایو یہ ارگ تمہارے واسطے چھڑ کا گیا ہے ہمارے واسطے کھانا لے کر ادھر آؤ۔ اے اندر کو سیکارشی کے پوتر جلد آ اور مجھ رشی کو مال دار کردے۱۔ اے سورج اور چاند ہمارے یگ کو کامیاب کرو اور ہماری قوت زیادہ کرو۔ تم بہت آدمیوں کے فائدے کے لئے پیدا ہوئے ہو بہتوں کو
۱ تمام پرانوں کے شجرہ میں لکھا ہے کہ کوسیکا کا بیٹا وشوا مترتھا اور سیانا وید کا بھاشیکار اس کی وجہ بیان کرنے کو کہ اندر کو سیکا کا کیونکر پوتر ہوگیا یہ قصّہ بیان کرتا ہے جو کہ وید کے تتمہ انوکر امیتکا میں درج ہے کہ کوسیکا اشراتہا کے پوترنے یہ دل میں خواہش کر کے کہ اندر کی توجہ سے میرا بیٹا ہو تپ جپ اختیار کیا تھا جس تپ کے بدلہ میں خود اندر نے ہی اس کے گھر جنم لے لیا اور آپ ہی اس کا بیٹا بن گیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 400
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 400
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/400/mode/1up
تمہارا ہی آسرا ہے (غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک طرف اس شرتی میں اقرار ہے کہ سورج اور چاند دونوں مخلوق اور پیدا شدہ ہیں اور پھر ان سے مرادیں بھی مانگی گئی ہیں) سورج کے نکلنے پر ستارے اور رات چوروں کی طرح بھاگ جاتے ہیں۔ ہم سورج کے پاس جاتے ہیں جو دیوتاؤں کے بیچ نہایت عمدہ دیوتا ہے۔ اے چاند ہمیں تہمت سے بچا گناہ سے محفوظ رکھ۔ ہمارے توکل سے خوش ہو کر ہمارا دوست ہو جا ایسا ہو کہ تیری قوت زیادہ ہو۔ اے چاند تو دولت کو بخشنے والا ہے اور مشکلوں سے نجات دینے والا ہمارے مکان پر دلیر بہادروں کے ہمراہ آ۔ اے چاند اور اگنی تم مرتبہ میں برابر ہو ہماری تعریفوں کو آپس میں بانٹ لو کہ تم ہمیشہ دیوتاؤں کے سردار رہے ہو۔ میں جَل دیوتا کو جس میں ہمارے مویشی پانی پیتے ہیں بلاتا ہوں۔ اے دہرتی دیوتا ایسا ہو کہ تو بہت وسیع ہو جائے تجھ پر کانٹے نہ رہیں اور تو ہمارے رہنے کی جگہ ہو جائے اور ہمیں بڑی خوشی دے۔
یہؔ چند شرتیاں ہیں جو ہم نے رگ وید سے بطور نمونہ کے لکھی ہیں جس کا جی چاہے اصل سنسکرت پستک سے مقابلہ کرلے۔ اس قسم کی شرتیاں جو صدہا وید میں پائی جاتی ہیں سناتن دہرم والے ہزارہا پنڈت جو آریہ ورت میں موجود ہیں۔ ان کے یہی معنے کرتے ہیں کہ ان سے عناصر پرستی ثابت ہوتی ہے اسی وجہ سے آریہ قوم میں آگ کی پوجا کرنے والے اور ایسا ہی پانی کی پوجا کرنے والے اور سورج چاند کے پوجاری بھی پائے جاتے ہیں اور ان معنوں پر صرف انہی کی گواہی نہیں بلکہ برہمو مذہب کے صدہا محقق بھی جنہوں نے بڑی محنت سے سنسکرت میں چاروں وید پڑھے تھے آج تک گواہی دیتے آئے ہیں۔
اب غور کا مقام ہے کہ ان سب کے مقابل پر صرف ایک پنڈت دیانند جس کو کوئی وحی الہام نہیں ہوتا تھا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ سب پرمیشر کے نام ہیں اور پھر وہ اس دعویٰ کو بھی اخیر تک نباہ نہیں سکا بلکہ بعض مقام میں جہاں کسی طرح اس کی تاویل پیش نہیں گئی آپ قبول کر لیا ہے کہ اس جگہ آگ سے آگ ہی مراد ہے یا جَل سے جَل ہی مراد ہے اصل
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 401
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 401
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/401/mode/1up
انصاف کی یہ بات ہے کہ پنڈت دیانند وید کی تاویل نہیں کرتا تھا بلکہ ایک دوسرا وید بنانا چاہتا تھا۔ آخر تاویل کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ خدا کے آسمانی بندوں میں سے تو نہیں تھا جو خدا سے الہام پاتے ہیں اور نہ اس کو خدا کا مکالمہ نصیب تھا اور نہ اس کی تائید میں کوئی آسمانی نشان ظاہر ہوئے بلکہ وہ بلا امتیاز صدہا ہندو پنڈتوں میں سے ایک پنڈت تھا پھر خواہ نخواہ بے دلیل اس کی بات کو ماننا انصاف سے بعید ہے جبکہ ہزارہا پنڈت ایک طرف ہیں اور ایک طرف صرف وہ اور خدا کی طرف سے کوئی امتیازی نشان اس کے ساتھ نہیں اور بجز تاویلوں کے اور کوئی کام اس نے نہیں کیا تو کیوں بغیرتحقیق کے خواہ نخواہ اس کی بات مان لی جائے۔ یہ صرف مسلمانوں کا الزام نہیں کہ ویدوں میں مخلوق پرستی کی تعلیم ہے بلکہ سناتن دھرم والے قدیم ہندوجن کے مذہب کے کروڑہا لوگ اس ملک میں پائے جاتے ہیں وہ بھی اس بات کے ہمیشہ (سے) قائل چلے آتے ہیں کہ وید میں مخلوق پرستی کی تعلیم ہے۔ میں ہرگز سمجھؔ نہیں سکتا کہ اگر وید میں مخلوق پرستی کی تعلیم نہ ہوتی تو پھر کیوں یہ ہزارہا پنڈت یک دفعہ اندھے ہو جاتے اور خلاف واقعہ وید پر تہمتیں لگاتے۔ عناصر پرستی کی شرتیاں صرف ایک دو نہیں بلکہ تمام رگ وید ان سے بھرا پڑا ہے۔ اب کہاں تک انسان تاویل کرتا جاوے۔ اگر دو شرتیاں ہوتیں یا دس۱۰ ہوتیں یا بیس۲۰ ہوتیں یا پچا۵۰س ہوتیں تو کوئی شخص تکلف سے محنت اُٹھا کر تاویل بھی کرتا مگر وید میں تو صدہا شرتیاں اسی قسم کی پائی جاتی ہیں ان کی کہاں تک تاویل ہو سکے۔ تعصب امرالگ ہے اور گرفتار تعصب جو چاہے کہے لیکن انصاف کے ساتھ اگر سوچا جائے تو کوئی صورت تاویل کی معلوم نہیں ہوتی۔
آریہ سماجیوں کے دل میں خواہ نخواہ یہ وہم پیدا ہوگیا ہے کہ جو کچھ پنڈت دیانند نے سمجھا ہے وہ دوسرے ہزارہا پنڈتوں نے نہیں سمجھا لیکن یہ خیال بالکل بیہودہ ہے۔ وید سامنے موجود ہے اور وہ تین فرقوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایک سناتن دھرم والے دوسرے برہم سماج والے۔ تیسرے وید کے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 402
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 402
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/402/mode/1up
ترجمے جو اُردو اور انگریزی میں ہو چکے ہیں اس صورت میں کوئی قبول کر سکتا ہے کہ اس رائے کے ظاہر کرنے میں کہ ویدوں میں مخلوق پرستی ہے ان تمام لوگوں کی عقل ماری گئی اور صرف پنڈت دیانند صاحب اس دھوکہ سے بچ گئے۔ ہاں میرے خیال میں ایک بات آتی ہے اگر اس امر کو آریہ سماجی لوگ ثابت کرسکیں تو پھر پنڈت دیانند کی تاویل صحیح ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ جس قدر شدّومد سے ویدوں میں مخلوق پرستی کی تعلیم ہے جیسا کہ ابھی ہم نے چند شرتیاں نمونہ کے طور پر لکھی ہیں اس کے مقابلہ پر ویدوں میں سے بکثرت ایسی صاف صاف شرتیاں پیش کردی جائیں جن میں یہ بیان ہو کہ تم نہ تو آگ کی پرستش کرو اور نہ ہوا کی اور نہ پانی کی اور نہ سورج کی اور نہ چاند کی اور نہ کسی اور چیز کی بلکہ محض پرمیشر کی ہی پرستش کرو مگر چاہئے کہ ایسی شرتیاں کم سے کم پچاس یا ساٹھ ہوں کیونکہ جس حالت میں عناصر پرستی اور شمس و قمر کی پوجا کے بارے میں صدہا شرتیاں وید میں پائی جاتی ہیں تو ان کے ردّ میں صرف دو چار شرتیاں کافی نہیں ہو سکتیں کیونکہ وہم گزرتا ہے کہ کسیؔ نے وید کی پردہ پوشی کے لئے پیچھے سے ملا دی ہوں گی۔ اسی فیصلہ کے لئے میں نے یہ گذارش کی ہے۔ اگر ایسی شرتیاں جو مخلوق پرستی کے وہم کو ردّ کرتی ہوں بہت ہی تھوڑی ہوں تب بھی کم سے کم پچاس یا ساٹھ ہونی چاہئیں تاکسی وہم کی گنجائش نہ رہے اور اگر مشرکانہ تعلیم کی کثرت کے مقابل ایسی شرتیوں کی کثرت ثابت نہ ہو تو اگر ایک پنڈت دیانند نہیں کروڑہا پنڈت دیانند ہوں ہرگز ان مشرکانہ شرتیوں کی تاویل میں ایمانداری سے جواب نہیں دے سکے گا۔ ظاہر ہے کہ وید کی ان تعلیموں سے کروڑہا مخلوقات گمراہ ہو چکی ہے اور بیسیوں مخلوق پرستی کے مذہب آریہ قوم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پس اگر فرض کے طور پر پنڈت دیانند کی طرح کسی اور وید کے بھاشی کار نے بھی ان شرتیوں کی وہی تاویل کی ہو جو دیانندنے کی ہے تو وہ بھی ہرگز پذیرائی کے لائق نہیں ہوگی کیونکہ ایسی تاویل کرنے والے کو وحی اور الہام کا دعویٰ نہیں ممکن ہے کہ کسی شخص نے جس کو مشرکانہ تعلیم بُری معلوم ہوئی ہو۔ وید کی ان شرتیوں پر اپنی تاویل سے پردہ ڈال دیا ہو تو جبکہ اس کے مقابل
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 403
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 403
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/403/mode/1up
دوسرے بھاشی کاروں نے قبول کیا ہے کہ ضرور اس میں مشرکانہ تعلیم ہے تو دو مختلف رائیوں کے ساتھ فیصلہ کیونکر ہو اور ایسے بے اصل خیالات سے گووہ قدیم ہو ںیا جدید قطعی طور پر ہرگز یہ رائے قائم نہیں ہو سکتی کہ وید اس داغ سے مبّرا ہے کیونکہ ہم دوسرے بھاشی کاروں کی شہادت کو کہاں چھپائیں اور جس طور کے معنی کروڑ ہا لوگ ابتدا سے سمجھتے چلے آئے ہیں ان معنوں سے بلاوجہ کیونکر اعراض کیا جائے۔ یہ وید کا خود اپنا فرض تھا کہ جس حالت میں اس نے ایسے الفاظ استعمال کئے جن سے قوم شرک کی نجاست سے آلودہ ہوگئی تو وہ دھوکہ دور کرنے کے لئے آپ ہی پچا۵۰س یا سا۶۰ٹھ یا سو۱۰۰ مرتبہ تاکید کے طور پر بار بار لکھ دیتا کہ تم سورج چاند آگ پانی وغیرہ کی پرستش ہرگز نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
ایک اور امر ہے جو قرآن شریف کی تعلیم سے ہمیں معلوم ہوا ہے اور ہم تکمیل بحث کے لئے اس کا ذکر بھی اس جگہ مناسب سمجھتے ہیں اور ہمیں خیال گذرتا ہے کہ شاید رگ وید کی شرتیوں کا بھی یہی منشاء ہو اور پھر ایک زمانہ کے گزرنے کے بعد وہ منشاء سطحی نظروں سے چھُپ گیا اور ساتھؔ ہی اس کے یہ بھی ممکن ہے کہ ابتدا زمانہ میں ایسی شرتیاں وید میں بہت ہوں جن کا مضمون یہ ہو کہ آگ اور پانی اور ہوا اور سورج اور چاند وغیرہ کی پرستش نہیں کرنی چاہئے پھر بعد میں جبکہ آریہ ورت میں ایسے فرقے بہت پیدا ہوگئے جو وید کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر عناصر پرست اور آفتاب پرست وغیرہ بن گئے تو رفتہ رفتہ انہوں نے وہ شرتیاں وید میں سے نکال دیں کیونکہ طبعاً انسان میں یہ عادت ہے کہ جب وہ اپنی عقل اور فہم کی حد تک دو مخالف مضمون کو ایک کتاب میں دیکھتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح ان دونوں کو مطابق کرے اور جب مطابق نہیں کر سکتا تو پھر اس کوشش میں لگ جاتا ہے کہ کسی طرح اس حصہ کو نکال دے کہ جو اس کے مسلّم حصہ کے مخالف ہے۔ جیسا کہ عیسائی صاحبان بھی دن رات یہی کوشش کررہے ہیں اور انجیل
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 404
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 404
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/404/mode/1up
کے وہ حصے جن میں صریح گواہی دی گئی ہے کہ یسوع ابن مریم انسان تھا وہ ان پر بہت ناگوار گذر رہے ہیں اگر ان کے مشورہ سے انجیلیں لکھی جاتیں تو بہت سے مقامات انجیل کے نکال دینے کے لائق تھے اور حتی المقدور اب بھی یہ کارروائی مختلف ترجموں کے ذریعہ سے کی جاتی ہے۔ اسی طرح اس تقریر کے لحاظ سے جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں جس کو ہم نے نہ اپنی طرف سے بلکہ قرآن شریف کے استنباط سے لکھا ہے ممکن معلوم ہوتا ہے کہ وید بھی کسی زمانہ میں خدا کی وحی ہو۔ اور خدا کی طرف سے یہ کتاب ہو اور پھر ایک مدت کے بعد اس کے اصلی معنوں کے سمجھنے میں لوگوں نے غلطی کھائی اور اس وجہ سے آریہ ورت میں آریہ قوم میں یہ فرقے پیدا ہوگئے کہ کوئی سورج کی پوجا کرتا ہے اور کوئی آگ کا پوجاری اور کوئی گنگا سے مرادیں مانگتا ہے اور جب ان فرقوں نے دیکھا کہ وید کی صدہا دوسری شرتیاں مخلوق پرستی کے مخالف ہیں تب انہوں نے رفتہ رفتہ ان تمام شرتیوں کو وید میں سے باہر نکال دیا اور صرف وہی شرتیاں وید میں رہنے دیں جو مشرکانہ تعلیم کے رنگ میں تھیں۔ اگر یہ امر ثابت ہو جائے کہ درحقیقت ایسی صدہا شرتیاں وید میں سے نکال دی گئی ہیں تو کم سے کم ایک خدا ترس کو تقویٰ کے لحاظ سے وید کے بارے میں جلدی سے تکذیب کرنا منع ہوگا اور ویدکی تکذیب کے لئے صرف اس ؔ قدر کافی نہیں ہوگا کہ اس میں آگ وغیرہ کی پرستش واستت و مہما موجود ہے کیونکہ قرآن شریف کی بعض آیات جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے وید کے اس طرز کو توحید میں داخل کرتی ہیں اور گو عناصر پرستی کے متعلق بعض شرتیاں وید میں اس قسم کی ہیں کہ ان کی تاویل کرنا بہت مشکل ہے مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ اس طور پر جو قرآن شریف میں ا شارات مذکور ہیں بعض شرتیوں کی تاویل بھی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ہم اس قاعدہ کو ذیل میں لکھیں گے ۔اور اس کے ساتھ ہم یہ بھی اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ گو وید اپنی موجودہ حالت میں ایک دھوکادینے والی کتاب ہے جو شرک کی تعلیم جا بجا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 405
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 405
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/405/mode/1up
اس میں دکھائی دیتی ہے اور کروڑہا لوگوں پر اس کا یہ بداثر پایا جاتا ہے کہ وہ آتش پرستی وغیرہ مشرکانہ طریقوں میں سرگرم ہیں بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ جو ستارہ پرستی اور آتش پرستی پارسیوں میں موجود ہے وہ بھی وید سے ہی انہیں پہنچی ہے اور تعجب نہیں کہ رومیوں اور یونانیوں میں بھی یہ مشرکانہ تعلیمیں ویدکے ذریعہ سے ہی رواج پائی ہوں کیونکہ آریہ قوم کا خیال ہے کہ وید قدیم ہے لہٰذا ہر ایک جھوٹی اور مشرکانہ تعلیم کا سرچشمہ ایسی کتاب کو ہی ماننا پڑے گا جو سب سے پرانی کہلاتی ہے پس وہ نمونہ جو وید کی تعلیم نے دکھلایا ہے وہ ان کروڑہا لوگوں کے عقیدوں سے ظاہر ہے جو وید کی پابندی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اور موجودہ حالت میں وید میں کوئی نور توحید نظر نہیں آتا۔ ہرایک صفحہ پرمشرکانہ تعلیم کے الفاظ نظر آتے ہیں اور بے اختیار دل میں گزرتا ہے کہ یہ چار کا عدد ہی شرک سے کچھ مناسبت رکھتا ہے۔ انجیلیں چار تھیں۔ انہوں نے ایک مصنوعی خدا پیش کیا اور پھر وید بھی چار ہیں۔ انہوں نے آگ وغیرہ کی پرستش سکھلائی لیکن تا ہم ممکن اور قرین قیاس ہے کہ یہ کتاب تحریف کی گئی ہو اور کسی زمانہ میں صحیح ہو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو اور پھر نادانوں کے تصرف اور تحریف سے بگڑ گئی ہو اور وہ شرتیاں اس میں سے نکال دی گئی ہوں جن میں یہ ذکر تھا کہ تم سورج اور چاند اور ہوا اور آگ اور پانی اور اکاش اور خاک وغیرہ کی پرستش مت کرو۔ اگرچہ اس قدر تغیر اور انقلاب سے یہ کتاب خطرناک اور مُضر ہوگئی تاہم کسی زمانہ میں بیکار نہ تھی ۔اور جس شخص کو ہندوؤں کی تاریخ سے واقفیت ہے وہ خوب جانتا ہے کہؔ وید پر بڑے بڑے تغیرات آئے ہیں اور ایک زمانہ میں ویدوں کو مخالفوں نے آگ میں جلا دیا تھا اورمدت تک وہ ایسے لوگوں کے قبضہ میں رہے جو عناصر پرستی اور مُورتی پوجا کے دلدادہ تھے اور بجز اس قسم کے برہمنوں کے دوسروں پر ان کا پڑھنا حرام کیا گیا تھا۔ پس اس وجہ سے وید کے پستک عام طور پر مل نہیں سکتے تھے بلکہ صرف بڑے بڑے برہمنوں کے کتب خانوں میں ہی پائے جاتے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 406
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 406
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/406/mode/1up
تھے جو بُت پرست اور عناصر پرست ہو چکے تھے۔ اس صورت میں خود عقل قبول کرتی ہے کہ ان دنوں میں ان برہمنوں نے بہت کچھ مشرکانہ حاشیے وید پر چڑھائے ہوں گے اور اس بات کے اکثرمحقق آریہ ورت کے قائل ہیں کہ بعض زمانوں میں وید بڑھائے گئے اور بعض میں گھٹائے گئے اور بعض وقت جلائے گئے اور جب آریہ قوم نے اندرونی لڑائیوں سے فراغت پائی تو بیرونی حکومتوں کے پنجہ میں پھنس گئے۔ اسلامی حکومت بھی سات ۷۰۰سو برس تک اس ملک میں رہی۔ اس لمبے زمانہ میں بھی جوکچھ مسلمانوں نے آریہ قوم کا عقیدہ دیکھا وہ بُت پرستی اور آتش پرستی وغیرہ تھا۔ اسی زمانہ میں شیخ سعدی بھی ایک مرتبہ اس ملک میں آئے تھے اور بُت پرستی کا بڑا زور تھا۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب بوستان میں فرماتے ہیں:۔
بُتک را یکے بوسہ دادم بدست کہ *** بروباد و بر بُت پرست
گائے کے لئے جس قدر آریہ صاحبوں کو جوش ہے وہ بھی دراصل مخلوق پرستی کی ایک جڑھ ہے ورنہ ایک حیوان کے لئے اس قدر جوش کیا معنے رکھتا ہے۔ قریباً تیرہ سو۱۳۰۰ برس ہوتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس ملک کا ایک حصّہ فتح کر لیا تھا اس وقت بھی اس ملک میں عام طور پر بُت پرستی اور آتش پرستی وغیرہ پھیلی ہوئی تھی پس جہاں تک تاریخ کا قدم روشنی میں ہے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ آریہ ورت پر کوئی ایسا زمانہ بھی آیا تھا کہ وہ خدا پرست تھے۔
مسلمانوں پر یہ اعتراض آریوں کا کہ ان کے بادشاہوں نے ہمارے بزرگوں کو جبراً بُت پرستی سے چھڑا کر مسلمان بنایا تھا یہ بھی صاف بتلا رہا ہے کہ اب تک آریہ صاحبوں کو بُتؔ پرستی سے بہت پیار ہے۔ عملی طور پر توحید سے کچھ تعلق ثابت نہیں ہوتا اس پر یہ کافی دلیل ہے کہ وہ بُت پرستوں کے مسلمان ہونے سے بہت ناراض ہیں۔ ایک بُت پرست حقیقت رائے کا قصّہ بھی اسی غرض سے گھڑا گیا ہے جس کو بقول اُن کے کسی مسلمان بادشاہ نے مورتی پوجا سے جبراً چھڑا کر مسلمان کرنا چاہا تھا مگر وہ لڑکا بُت پرستی پر
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 407
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 407
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/407/mode/1up
عاشق تھا اسی میں اس نے جان دی۔
غرض اسلامی تاریخ بھی قریباً ایک ہزار برس سے اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ملک آریہ ورت بُت پرستی اور مورتی پوجا کا ایک بھاری مرکز ہے۔ اس زمانہ کا کون ثبوت دے سکتا ہے کہ جب ان کروڑہا لوگوں کی طرح جو بُت پرست اور عناصر پرست نظر آتے ہیں۔ وید مقدس کی تعلیم سے اس ملک میں کروڑہا خدا پرست موحّد بھی موجود تھے۔ جگن ناتھ جی کا قدیم بُت خانہ اور ایسا ہی اور بعض پُرانے بُت خانے جن کی عمارت ہزارہا برس کی معلوم ہوتی ہے صاف طور پر گواہی دے رہے ہیں کہ یہ بُت پرستی اور مورتی پوجا کا مذہب کچھ نیا نہیں بلکہ قدیم ہے۔ ایسا ہی بھاگوت وغیرہ کتابیں جو ہزارہا برس کی تالیف معلوم ہوتی ہیں جن کو سناتن دھرم والے سیدھے سادھے ہندو بڑے پیار سے پڑھا کرتے ہیں اس قدامت شرک کے گواہ ہیں۔ اس کے ساتھ پُرانے کتبے بھی اس ملک میں ایسے پائے گئے ہیں کہ وہ ایک پُرانے زمانے کی حالت کی ایک آئینہ کی طرح شکل دکھلا رہے ہیں اور بلند آواز سے گواہی دے رہے ہیں کہ اُس وقت بھی اس ملک میں بُت پرستی تھی اور جہاں تک تاریخ کا سلسلہ صفائی سے چل سکتا ہے یہی ظلمت شرک اور عناصر پرستی اور مورتی پوجا کی رسوم ہر ایک زمانہ میں پائی جاتی ہیں اور ایسی گلے کا ہار ہورہی ہیں کہ جب تک ایک ہندو اسلام اختیار نہ کرے یہ شرک کا داغ اس سے بکلی دُور ہی نہیں ہو سکتا گوآریہ سماجی بنے یا کچھ اور ہو جائے زمانہ دراز سے جس کا ابتدا معلوم کرنا مشکل ہے مورتی پوجا اور عناصر پرستی کا مذہب آریہ قوم میں چلا آتا ہے اور دوسری قوموں کے مورخوں کو کبھی یہ نصیب نہیں ہوا کہ وہ گواہی دیں کہ آرؔ یہ ورت میں بھی کسی وقت توحیدتھی اور اس زمانۂ دراز میں اگر ہم یہ کہیں کہ کروڑہا پنڈت آریہ ورت میں عناصر پرستی کے حامی گذرتے ہیں تو یہ کچھ مبالغہ نہ ہوگا۔ پس ایسے پنڈتوں کے وجود سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمیشہ تمام ملک ایک سمندر کی طرح بُت پرستی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 408
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 408
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/408/mode/1up
اور عناصر پرستی اور مورتی پوجا سے بھرا رہا ہے اور اس ملک کو توحید نصیب نہ ہوئی جب تک اسلام اس ملک میں نہ آیا مگر جن بادشاہوں نے توحید کو اس ملک میں پھیلایا اور بُت پرستی کی جڑکھوئی وہی آریہ صاحبوں کی نظر میں بُرے بنے۔ اب تک ہندو صاحبان محمود غزنوی کو بھی گالیاں دیتے ہیں کہ اس نے کیوں ان کے قدیم بُت خانے توڑے۔ غرض بت پرستی اور عناصر پرستی کا مذہب اس ملک میں اس قدر قدیم ہے کہ محققانہ طور پر اس کا کوئی ابتدا ٹھہرانا مشکل ہے بجز اس کے کہ اس مذہب کو وید کے ساتھ ساتھ تسلیم کیا جائے مگر پھر بھی جیسا کہ مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے مجھے بعض قرآنی آیتوں پر نظر ڈال کر خیال آتا ہے کہ شاید اصل تعلیم وید کی عناصر پرستی سے پاک ہو اور عناصر کی مہما اور اُستت سے کچھ اور مطلب ہو مگر جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا ہے یہ میرا خیال اس وقت یقین کے مرتبہ تک پہنچے گا جبکہ ویدکی پچا۵۰س یا سا۶۰ٹھ یاستّر ۷۰ شرتیوں سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ ان تمام عناصر اور اجرامِ فلکی کی پوجا سے جن کی مہما اور اُستت رگ وید میں موجود ہے صاف اور صریح لفظوں کے ساتھ منع کرتا ہے۔
ویدکی شریتوں کی وہ تاویل جس کے لکھنے کا ہم
نے وعدہ کیا تھا
وید کی شرتیوں کی وہ تاویل جس کا میں اُوپر ذکر کر آیا ہوں قرآن شریف کی چند آیتوں پر غور کرنے سے میرے دل میں گزرتی ہے۔ پہلی آیت یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی سورۃ فاتحہ میں فرماتا ہے۔ 3۔ یعنی ہر ایک حمد اور ثنا اس خدا کے لئے مسلّم ہے جسؔ کی تربیت ہر ایک عالم میں یعنی ہر ایک رنگ میں ہر ایک
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 409
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 409
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/409/mode/1up
پیرایہ میں اور ہر ایک فائدہ بخش صنعت الٰہی کے ذریعہ سے مشہود اور محسوس ہورہی ہے یعنی جن جن متفرق وسیلوں پر اس دنیا کے لوگوں کی بقا اور عافیت اور تکمیل موقوف ہے۔ دراصل ان کے پردہ میں ایک ہی پوشیدہ طاقت کام کررہی ہے جس کا نام اللہ ہے۔ چنانچہ اس دنیا کے کاروبار کی تکمیل کے لئے ایک قسم کی تربیت سورج کررہا ہے جو ایک حد تک انسان کے بدن کو گرمی پہنچا کر دورانِ خون کا سلسلہ جاری رکھتا ہے جس سے انسان مرنے سے بچتا ہے اور اس کی آنکھوں کے نور کی مدد کرتا ہے۔ پس حقیقی سورج جو حقیقی گرمی پہنچانے والا اور حقیقی روشنی عطا کرنے والا ہے وہ خدا ہے کیونکہ اسی کی طاقت کے سہارے سے یہ سورج بھی کام کررہا ہے اور اس حقیقی سورج کا صرف یہی کام نہیں کہ وہ دورانِ خون کے سلسلہ کو جاری رکھتا ہے جس پر جسمانی زندگی موقوف ہے۔ اس طرح پر کہ اس فعل کا آلہ انسان کے دل کو ٹھہراتا ہے اور آسمانی روشنی سے آنکھوں کے نور کی مدد کرتا ہے بلکہ وہ روحانی زندگی کو نوعِ انسان کے تمام اعضاء تک پہنچانے کے لئے منجملہ انسانوں کے ایک انسان کو اختیار کر لیتا ہے اور انسانی سلسلہ کے مجموعہ کے لئے جو ایک جسم کا حکم رکھتا ہے اس کو بطور دل کے قرار دے دیتا ہے اور اس کو روحانی زندگی کا خون نوع انسان کے تمام اعضاء تک پہنچانے کے لئے ایک آلہ مقرر کر دیتا ہے۔ پس وہ طبعاً اس خدمت میں لگا رہتا ہے کہ ایک طرف سے لیتا اور پھر تمام مناسب اطراف میں تقسیم کر دیتا ہے اور جیسا کہ غیر حقیقی اور جسمانی سورج آنکھوں کو کامل روشنی پہنچاتا اور تمام نیک بد چیزیں ان پر کھول دیتا ہے۔ ایسا ہی یہ حقیقی سورج دل کی آنکھ کو معرفت کے بلند مینار تک پہنچاکر دن چڑھا دیتا ہے اور جیسا کہ وہ جسمانی سورج حقیقی سورج کے سہارے سے پھلوں کو پکاتا ہے اور ان میں شیرینی اور حلاوت ڈالتا اور عفونتوں کو دُور کرتا اور بہار کے موسم میں تمام درختوں کو ایک سبز چادر پہناتا اور خوشگوار پھلوں کی دولت سے ان کے دامن کو پُر کرتا اور پھر خریف
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 410
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 410
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/410/mode/1up
میں اس کے برخلاف اثر ظاہر کرتا ہے اور تمام درختوں کے پتے گرا دیتا اور بدشکل بنا دیتا اور پھلوں سے محروؔ م کرتا اور بالکل انہیں ننگے کر دیتا ہے بجز ان ہمیشہ بہار درختوں کے جن پر وہ ایسا اثر نہیں ڈالتا یہی کام اس حقیقی آفتاب کے ہیں جو سرچشمہ تمام روشنیوں اور فیضوں کا ہے وہ اپنی مختلف تجلیات سے مختلف طور کے اثر دکھاتا ہے ایک قسم کی تجلی سے وہ بہار پیدا کردیتا ہے اورپھر دوسری قسم کی تجلی سے وہ خزاں لاتا ہے اور ایک تجلی سے وہ عارفوں کے لئے معرفت کی حلاوتیں پیدا کرتا ہے اور پھر ایک تجلی سے کفر اور فسق کا عفونت ناک مادہ دنیا سے دُور اور دفع کر دیتا ہے۔ پس اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ تمام کام جو یہ جسمانی آفتاب کررہا ہے وہ سب کام اس حقیقی آفتاب کے ظل ہیں اور یہ نہیں کہ وہ صرف روحانی کام کرتا ہے بلکہ جس قدر اس جسمانی سورج کے کام ہیں وہ اس کے اپنے کام نہیں ہیں بلکہ درحقیقت اسی معبود حقیقی کی پوشیدہ طاقت اس کے اندر وہ تمام کام کررہی ہے جیسا کہ اُسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن شریف میں ایک ملکہ کا قصہ لکھا ہے جو آفتاب پرست تھی اور اس کا نام بلقیس تھااور وہ اپنے ملک کی بادشاہ تھی اور ایسا ہوا کہ اس وقت کے نبی نے اس کو دھمکی دے بھیجی کہ تجھے ہمارے پاس حاضر ہونا چاہئے ورنہ ہمارا لشکر تیرے پر چڑھائی کرے گا اور پھر تیری خیر نہیں ہوگی۔ پس وہ ڈر گئی اور اس نبی کے پاس حاضر ہونے کے لئے اپنے شہر سے روانہ ہوئی اور قبل اس کے کہ وہ حاضر ہو اس کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ایسا محل طیار کیا گیا جس پر نہایت مصفّا شیشہ کا فرش تھا اور اس فرش کے نیچے نہر کی طرح ایک وسیع خندق طیار کی گئی تھی جس میں پانی بہتا تھا اور پانی میں مچھلیاں چلتی تھیں جب وہ ملکہ اس جگہ پہنچی تو اس کو حکم دیا گیا کہ محل کے اندر آجا تب اس نے نزدیک جاکر دیکھا کہ پانی زور سے بہہ رہا ہے اور اس میں مچھلیاں ہیں۔ اس نظارہ سے اس پر یہ اثر ہوا کہ اُس نے اپنی پنڈلیوں پر سے کپڑا اُٹھا لیا کہ ایسا نہ ہو کہ پانی میں تر ہو جائے۔ تب اُس نبی نے اس ملکہ کو جس کا نام بلقیس تھا آواز دی کہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 411
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 411
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/411/mode/1up
اے بلقیس تو کس غلطی میں گرفتار ہوگئی۔ یہ تو پانی نہیں ہے جس سے ڈر کر تُو نے پاجامہ اُوپر اُٹھالیا۔ یہ تو شیشہ کا فرش ہے اور پانی اس کے نیچے ہے۔ اس مقام میں قرآن شریف میں یہ آیت ہے۔3 ۱ یعنی اس نبی نے کہا کہ اے بلقیس تو کیوں دھوکا کھاتی ہے یہ تو شیش محل کے شیشے ہیں جو اُوپر کی سطح پر بطور فرش کے لگائے گئے ہیں اور پانی جو زور سے بہہ رہا ہے وہ تو ان شیشوں کے نیچے ہے نہ کہ یہ خود پانی ہیں تب وہ سمجھ گئی کہ میری مذہبی غلطی پر مجھے ہوشیار کیا گیاہے اور مَیں نے فی الحقیقت جہالت کی راہ اختیار کر رکھی تھی جو سورج کی پوجا کرتی تھی۔
تب وہ خدائے واحد لاشریک پر ایمان لائی اور اُس کی آنکھیں کھل گئیں اور اُس نے یقین کر لیا کہ وہ طاقتِ عظمیٰ جس کی پرستش کرنی چاہئے وہ تو اور ہے اور مَیں دھوکہ میں رہی اور سطحی چیز کو معبود ٹھہرایا اور اس نبی کی تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ دنیا ایک شیش محل ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور عناصر وغیرہ جو کچھ کام کر رہے ہیں۔ یہ دراصل ان کے کام نہیں یہ تو بطور شیشوں کے ہیں بلکہ ان کے نیچے ایک طاقت مخفی ہے جو خدا ہے۔ یہ سب اس کے کام ہیں۔ اس نظارہ کو دیکھ کر بلقیس نے سچے دل سے سورج کی پوجا سے توبہ کی اور سمجھ لیا کہ وہ طاقت ہی اور ہے کہ سورج وغیرہ سے کام کراتی ہے اور یہ تو صرف شیشے ہیں۔
یہ تو ہم نے سورج کا حال بیان کیا ایسا ہی چاند کا حال ہے۔ جن صفات کو چاند کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ دراصل خدا تعالیٰ کی صفات ہیں۔ وہ راتیں جو خوفناک تاریکی پیدا کرتی ہیں چاند ان کو روشن کرنے والا ہے۔ جب وہ چمکتا ہے تو فی الفور اندھیری رات کی تاریکی اُٹھ جاتی ہے۔ کبھی وہ پہلے وقت سے ہی چمکنا شروع کرتا ہے اور کبھی کچھ تاریکی کے بعد نکلتا ہے۔ یہ عجیب نظارہ ہوتا ہے کہ ایک طرف چاند چڑھا اور ایک طرف تاریکی کا نام و نشان نہ رہا۔ اسی طرح خدا بھی جب نہایت گندہ اور تاریک
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 412
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 412
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/412/mode/1up
آدمیوں پر جو اس کی طرف جھکتے ہیں چمکتا ہے تو ان کو اسی طرح روشن کر دیتا ہے جیسا کہ چاند رات کو روشن کرتا ہے۔ اور کوئی انسان اپنی عمر کے پہلے زمانہ میں ہی اس چاند کی روشنی سے حصہ لیتا ہے اور کوئی نصف عمر میں اور کوئی آخری حصہ میں اور بعض بدبخت سلخ کی راتوں کی طرح ہوتے ہیں یعنی تمام عمر ان پر اندھیرا ہی چھائے رہتا ہے۔ اس حقیقی چاند سے حصہ لینا ان کو نصیب نہیں ہوتا۔ غرض کہ یہ سلسلہ چاند کی روشنی کا اسؔ حقیقی چاند کی روشنی سے بہت مناسبت رکھتا ہے۔ ایسا ہی چاند پھلوں کو موٹا کرتا اور اُن میں طراوت ڈالتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو عبادت کر کے اپنے درختِ وجود میں پھل تیار کرتے ہیں چاند کی طرح خدا کی رحمت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے اور اس پھل کو موٹا اور تازہ بتازہ کر دیتی ہے اور یہی معنے رحیم کے لفظ میں مخفی ہیں جو سورۃ فاتحہ میں خدا کی دوسری صفت بیان کی گئی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جسمانی طور پر چار قسم کی ربوبیت ایسی ہورہی ہے جس سے نظامِ عالم وابستہ ہے۔ ایک آسمانی ربوبیت یعنی اکاش سے ہے جو جسمانی تربیت کاسرچشمہ ہے جس سے پانی برستاہے اگر وہ پانی کچھ مدّت نہ برسے تو جیسا کہ علم طبعی میں ثابت کیا گیا ہے۔ کنوؤں کے پانی بھی خشک ہو جائیں یہ آسمانی ربوبیت یعنی اکاش کا پانی بھی دنیا کو زندہ کرتا ہے اور نابود کو بود کی حالت میں لاتا ہے۔ اس طور پر آسمان ایک پہلا ربّ النوع ہے جس*سے پانی برستا ہے۔ جس کو وید میں اندر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱۔ اس جگہ آسمان سے مُراد وہ کرۂ زمہریر ہے جس سے پانی برستا ہے اور اس آیت میں اس کرۂ زمہریر کی قسم کھائی گئی جو مینہ برساتا ہے اور رجع کے معنی مینہ ہے اور خلاصہ معنی آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں وحی کا ثبوت دینے
* قرآن شریف کی اصطلاح کی رُو سے جو فضا یعنی پول اوپر کی طرف ہے جس میں بادل جمع ہو کر مینہ برستا ہے اس کا نام بھی آسمان ہے جس کو ہندی میں اکاش کہتے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 413
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 413
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/413/mode/1up
کے لئے آسمان کو گواہ لاتا ہوں جس سے پانی برستا ہے یعنی تمہاری روحانی حالت بھی ایک پانی کی محتاج ہے اور وہ آسمان سے ہی آتا ہے جیسا کہ تمہارا جسمانی پانی آسمان سے آتا ہے اگر وہ پانی نہ ہو تو تمہاری عقلوں کے پانی بھی خشک ہو جائیں۔ عقل بھی اُسی آسمانی پانی یعنی وحی الٰہی سے تازگی اور روشنی پاتی ہے۔ غرض جس خدمت میں آسمان لگا ہوا ہے یعنی پانی برسانے کی خدمت یہ کام آسمان کا خدا تعالیٰ کی پہلی صفت کا ایک ظل ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ ابتدا ہر ایک چیز کا پانی سے ہے۔ انسان بھی پانی سے ہی پیدا ہوتا ہے اور وید کی رُو سے پانی کا دیوتا اکاش ہے جس کو وید کی اصطلاح میں اندر کہتے ہیں مگر یہ سمجھنا غلطی ہے کہ یہ اندر کچھ چیز ہے بلکہ وہی پوشیدہ اور نہاں در نہاں طاقت عظمیٰ جس کا نام خدا ہے اس میں کام کررہی ہے اسی کو بیان کرنےؔ کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یعنی سورۃ فاتحہ میںیوں فرمایا ہے۔
3 ۱
یعنی مت خیال کرو کہ بجز خدا کے کوئی اور بھی ربّ ہے جو اپنی ربوبیّت سے دنیا کی پرورش کررہا ہے بلکہ وہی ایک خدا ہے جو تمہارا ربّ ہے۔ اسی کی طاقت ہر ایک جگہ کام کرتی ہے۔ اس جگہ اس ترتیب کے لحاظ سے جو اس سورۃ میں ہے اندردیوتاکا ردّ ملحوظ ہے کیونکہ پہلی تربیت اسی سے شروع ہوتی ہے۔ اسی کو دوسرے لفظوں میں آسمان یا اکاش کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا کے لوگ تمام قضا ء و قدر کو آسمان کی طرف منسوب کیا کرتے ہیں۔ اور بُت پرستوں کے نزدیک بڑا ربّ النوع وہی ہے جو اندر کہلاتا ہے۔ پس اِس جگہ اسی کا ردّ منظور ہے اور یہ جتلانا مقصود ہے کہ حقیقی اندر وہی اکیلا خدا ہے۔ اسی کی طاقت ہے جو پانی برساتی ہے۔ آسمان کو ربّ العالمینکہنا حماقت ہے بلکہ ربّ العالمین وہی ہے جس کا نام اللہ ہے۔
غرض خدا تعالیٰ کی یہ پہلی ربوبیت ہے جس کو نادانوں نے اکاش یعنی اندر کی طرف منسوب
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 414
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 414
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/414/mode/1up
کیا ہے۔ بات یہی ہے کہ اندھوں کو اکاش سے پانی برستا نظر آتا ہے مگر برسانے والی ایک اور طاقت ہے اور اس طور پر برسانا یہ جلوہ دکھلانا ہے کہ یہ بھی اس کی ایک صفت ہے۔ پس آسمان کی یہ ظاہری ربوبیت اس کی حقیقی ربوبیت کا ایک ظل ہے اور جو سامان رعد اور صاعقہ وغیرہ کا بادل میں ہوتا ہے۔ دراصل یہ سب اس کی صفات کے رنگوں میں سے ایک رنگ ہے۔ پھر دوسری ربوبیت خدا تعالیٰ کی جو زمین پر کام کررہی ہے رحمانیت ہے۔ اس لفظ رحمان سے بُت پرستوں کے مقابل پر سورج دیوتا کا ردّ ملحوظ ہے کیونکہ بموجب بُت پرستوں کے خیال کے جیسا کہ اکاش یعنی آسمان پانی کے ذریعہ سے چیزوں کو پیدا کرتا ہے۔ ایسا ہی سورج بہار کے ایاّم میں تمام درختوں کو لباس پہناتا ہے۔ گویا یہ اس کی وہ رحمت ہے جو کسی عمل پر مترتب نہیں۔ پس سورج جسمانی طور پر رحمانیت کا مظہر ہے کیونکہ وہ موسم بہار میں ننگے درختوں کو پتوں کی چادر پہناتا ہے اور اس وقت تک درختوں نے اپنے طور پر کوئی عمل نہیں کیا ہوتا یعنی کچھ بنایا نہیں ہوتا۔ تا بناؔ ئے ہوئے پر کچھ زیادہ کیا جائے بلکہ وہ خزاں کی غارت گری کے باعث محض ننگے اور برہنہ کھڑے ہوتے ہیں پھر سورج کے پر توہِ عاطفت سے ہر ایک درخت اپنے تئیں آراستہ کرنا شروع کر دیتا ہے آخر سورج کی مدد سے درختوں کا عمل اس حد تک پہنچتا ہے کہ وہ پھل بنا لیتے ہیں۔ پس جبکہ وہ پھل بنا کر اپنے عمل کو پورا کر چکتے ہیں تب چاند ا ن پر اپنی رحیمیت کا سایہ ڈالتا ہے اور رحیم اس کو کہتے ہیں کہ عمل کرنے والے کو اس کی تکمیل عمل کے لئے مدد دے تا اس کا عمل نا تمام نہ رہ جاوے۔ پس چاند درختوں کے پھلوں کو یہ مدد دیتا ہے کہ ان کو موٹے کر دیتاہے اور ان میں اپنی تاثیر سے رطوبت ڈالتا ہے چنانچہ علم طبعی میں یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ چاند کی روشنی میں باغبان لوگ اناروں کے پھٹنے کی آواز سُنا کرتے ہیں۔ غرض استعارہ کے طور پر قمر جو نیّر دوم ہے رحیم کے نام سے موسوم ہوا کیونکہ بڑا فعل اس کا یہی ہے جو موجود شدہ پھلوں کی مدد کرتا ہے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 415
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 415
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/415/mode/1up
اور موٹا اور تازہ کر دیتا ہے پھر جب وہ پھل طیار ہو جاتے اور اپنے کمال کو پہنچ جاتے ہیں تو زمین ان کو اپنی مالکانہ حیثیت سے اپنی طرف گراتی ہے تا وہ اپنی جزاء سزا کو پہنچیں۔ پس اگر وہ عمدہ اور نفیس پھل ہیں تو زمین پر ان کی بڑی عزّت ہوتی ہے اور وہ قابل قدر جگہوں میں رکھے جاتے ہیں اور اگر وہ ردّی ہیں تو خراب جگہوں میں پھینک دیئے جاتے ہیں اور یہ سزا جزا گویا زمین کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ جو خدا نے اس کی فطرت کو دے رکھی ہے کہ اچھے پھل کی قدر کرتی ہے اور بُرے پھل کو ذلیل جگہ رکھتی ہے۔
غرض وید میں بطور استعارہ کے یہ چار نام ہیں جو چار بڑے بڑے دیوتاؤں کو عطا ہوئے ہیں۔ اوّل اکاش یعنی آسمان جس کو اندر دیوتابو*لتے ہیں وہ پانی کا داتا ہے اور قرآن شریف میں ہے کہؔ 3 ۱ یعنی ہر ایک چیز پانی سے ہی زندہ ہے۔اس لئے یہ مجازی دیوتا یعنی اندر جس کو اکاش کہنا چاہئے سب مجازی دیوتاؤں سے بڑا ہے جس کی بغلوں میں سورج اور چاند پرورش پاتے ہیں یہ بہ نسبت اوروں کے ربوبیت عامہ کا دیوتا ہے بعد اس کے سورج دیوتا ہے جو رحمانیت کا مظہر ہے اس کی ربوبیت چاند سے زیادہ اور اکاش یعنی اندر دیوتا سے کم ہے۔ وہ کام جو
*حاشیہ۔ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ حقیقت میںیہ سب دیوتا ہیں بلکہ یہ سب ایک ہی مالک کے قبضہ میں ہیں۔ اور انسان کے فائدہ کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ہم نے اس جگہ دیوتا کالفظ محض وید کا استعارہ بیان کیا ہے کیونکہ ان چاروں کے فیوض بموجب وید کے ایسے طور سے جاری ہیں کہ گویا اختیار سے یہ فیض پہنچا رہے ہیں مگر یہ سب خدا کی مخلوق ہیں اپنے ارادہ سے کوئی کام نہیں کرتے اور نہیں جانتے کہ کیا کام کرتے ہیں گویا مُردہ بدست زندہ ہیں یہ چار صفات کے نمونہ جو اکاش اور سورج اور چاند اور زمین میں پائے جاتے ہیں یہ انسانوں کو غور کرنے کے لئے دیئے گئے ہیں تا صفاتِ الٰہی کے سمجھنے میں یہ مدد دیویں مثلاً آریہ لوگ خدا کی رحمانیت سے منکر ہیں اور حالانکہ وید سورج میں استعارہ کے رنگ میں خود رحمانیت کی صفت قرار دیتا ہے یہ اسی غرض سے ہے کہ تا انسانوں کو اس تقریب سے خدا کی رحمانیت پر نظر پڑے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 416
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 416
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/416/mode/1up
اس کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بغیر موجودگی عمل کے درختوں پر اپنی عنایت اور کر پا ظاہر کرتا ہے کیونکہ درخت ننگ دھڑنگ کھڑے ہوتے ہیں اور خزاں کے مارے ہوئے ایسے ہوتے ہیں کہ گویا مُردے ہیں جو زمین میں گاڑے گئے ہیں اور تہی دست فقیروں کی طرح ایک پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ پس سورج دیوتا بہار کے موسم میں موج میں آکر ان کو لباس بخشتا ہے اور ان کا دامن پھلوں اور پھولوں سے بھر دیتا ہے اور چند روز میں ان کے سر پر پھولوں کے سہرے باندھتا ہے اور سبز پتوں کی ریشمی قبا ان کو پہناتا ہے اور پھلوں کی دولت سے ان کو مال مال کر دیتا ہے اور اس طرح پر ایک شاندار نوشہ ان کو بنا دیتا ہے پس اس کی رحمانیت میں کیا شک رہا جو بغیر کسی سابق عمل کے ننگے درویشوں پر اس قدرکرپا اور مہربانی کرتا ہے۔ اس قسم کے استعارات وید میں بہت موجود ہیں کہ اول شاعرانہ طور پر معلوم ہوتے ہیں اور پھر ذرا غور کریں تو کوئی علمی چمک بھی ان میں دکھائی دیتی ہے۔
پھر سورج کے بعد وید کی رُو سے چاند دیوتا ہے کہ وہ کمزوروں کے عملوں کو دیکھ کر اپنی مدد سے ان کے اعمال انجام تک پہنچاتا ہے یعنی بہار کے موسم میں درخت پھل تو پیدا کر لیتے ہیں لیکن اگر چاند نہ ہوتا تو یہ عمل ان کا ناقص رہ جاتا اور پھلوں میں تازگی اور فربہی اور طراوت ہرگز نہ آتی۔ پس چاند ان کے عمل کا متمم ہے اس لئے اس لائق ہوا کہ مجازی طور پر اس کو رحیم کہا جائے سووید اس کو رحیم قرار دیتا ہے سو استعارہ کے طور پر کچھ حرج نہیں۔
پھر چاند کے بعد دھرتی دیوتا ہے جس نے مسافروں کو جگہ دینے کے لئے اپنی پشت کو بہت وسیع کر رکھا ہے ہر ایک پھل درخت پر مسافر کی طرح ہوتا ہے آخرکار مستقل سکونت اس کی زمینؔ پر ہوتی ہے اور زمین اپنے مالکانہ اختیارات سے جہاں چاہے اس کو اپنی پشت پرجگہ دیتی ہے اور جیسا کہ خدا نے قرآن شریف میں فرمایا۔ 3 ۱ کہ ہم نے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 417
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 417
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/417/mode/1up
انسانوں کو زمین پر اور دریاؤں پر خود اُٹھایا۔ ایسا ہی زمین بھی ہر ایک چیز کو اُٹھاتی ہے اور ہر ایک خاکی چیز کی سکونت مستقل زمین میں ہے۔ وہ جس کو چاہے عزت کے مقام پر بٹھاوے اور جس کو چاہے ذلّت کے مقام میں پھینک دے۔ پس اِس طرح پر زمین کا نام 3۔ ہوا یعنی استعارہ کے طور پر صحیفۂ فطرت کے آئینہ میں یہ چاروں الٰہی صفات نظر آتی ہیں۔ غرض اسی طرح خدا نے چاہا کہ اپنی صفات کو مجازی مظاہر میں بھی ظاہر کرے۔ تا طالب حق مثالوں کو پاکر اس کے دقیق در دقیق صفات پر اطمینان پکڑلے۔
اب اس تمام تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ چار مجازی دیوتے جو وید میں مذکور ہیں۔ چار مجازی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ چنانچہ اکاش مجازی طور پر ربوبیّت کُبریٰ کی صفت اپنے اندر رکھتاہے اور سورج رحمانیت کی صفت سے موصوف ہے اور چاند رحیمیت کی صفت سے حصّہ دیا گیا ہے اور زمین مالکِ یوم الدین کی صفت سے بہرہ یاب ہے اور یہ چار۴وں صفات مشہود و محسوس ہیں۔ انہی امور کی وجہ سے موٹی عقل والوں نے درحقیقت ان کو دیوتے قرار دیا ہے* اور ان کو ربّ النوع اور قابلِ پرستش سمجھا ہے۔ پس ان لوگوں کے ردّ کے لئے خداتعالیٰ اپنی پاک کتاب قرآن شریف میں یعنی سورۃ فاتحہ میں فرماتا ہے۔
* دیوتا سنسکرت میں ربّ کو کہتے ہیں جو کسی کی ربوبیت کرتا ہے یعنی پرورش کرتا ہے۔ پس سورج بجائے خود ایک ربّ ہے یعنی دیوتا ہے اور چاند بجائے خود ایک ربّ ہے یعنی دیوتا ہے۔ ان تمام ربوں یعنی دیوتاؤں کے سر پر ایک بڑا ربّ ہے جو مدبّر بالا رادہ ہے اور وہی خدا ہے۔ اس کا نام ربّ العالمین ہے یعنی سب کا ربّ اور تمام ربّوں کا بھی ربّ۔ ارادہ اور اختیار سے کام کرنے والا وہی ایک ہے باقی سب کلیں ہیں جو اُس کے ہاتھ سے چلتی ہیں۔ پس عبادت اور حمد کے لائق وہی ہے۔ اِسی واسطے فرمایا۔ الحمدللّٰہ ربّ العالمین۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 418
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 418
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/418/mode/1up
ترجمہ:۔ حمد اور استت اور مہما اس بڑے ربّ کے لئے خاص ہے جس کا نام اللہ ہے جو ربّ العالمین ہے۔ اور رحمان العالمین ہے اور رحیم العالمین ہے۔ اور مالک جمیع عالم یوم الدین ہے یعنی یہ مرتبہ پرستش کا خدا کے لئے مخصوص ہے کہ اس کی ربو۱بیت اور رحما۲نیت اور رحیمیت۳ ؔ اور جز۴ا سزا کے لئے مالکیت ایک عالم اور ایک رنگ میں محدود نہیں بلکہ یہ صفات اس کی بے انتہا رنگوں میں ظاہر ہوتی ہیں کوئی ان کا انتہا نہیں پا سکتا اور آسمان اورسورج وغیرہ کی ربوبیتیں یعنی پرورشیں ایک خاص رنگ اور ایک خاص قسم میں محدود ہیں اور اس اپنے تنگ دائرہ سے آگے نہیں نکلتیں اس لئے ایسی چیزیں پرستش کے لائق نہیں۔ علاوہ اس کے ان کے یہ افعال بالا رادہ نہیں بلکہ ان سب کے نیچے الٰہی طاقت کام کررہی ہے۔ پھرفرمایا کہ اے وہ سب کے ربّ کہ جو بے انتہا رنگوں میں اپنے یہ صفات ظاہر کرتا ہے۔ پرستش کے لائق تو ہی ہے اور سورج چاند وغیرہ پرستش کے لائق نہیں ہیں۔ اسی طرح دوسرے مقام میں فرمایا۔ 3 3 ۲ یعنی نہ سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ اُس خدا کو سجدہ کرو جس نے یہ تمام چیزیں سورج چاند۔ آسمان۔ آگ۔ پانی وغیرہ پیدا کی ہیں۔ چاند اور سورج کا ذکر کرکے پھر بعد اس کے جمع کا صیغہ بیان کرنا اس غرض سے ہے کہ یہ کل چیزیں جن کی غیر قومیں پرستش کرتی ہیں۔ تم ہرگز ان کی پرستش مت کرو۔ پھر اس سورۃ میں یعنی سورۃ فاتحہ میں اس بات کا جواب ہے کہ جب اکاش اور سورج اور چاند اور آگ اور پانی وغیرہ کی پرستش سے منع کیا گیا تو پھر کونسا فائدہ اللہ کی پرستش میں ہے کہ جو ان چیزوں کی پرستش میں نہیں تو دُعا کے پیرایہ میں اس کا جواب دیا گیا کہ وہ خدا ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرتا ہے اور اپنے تئیں آپ اپنے بندوں پر
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 419
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 419
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/419/mode/1up
ظاہر کرتا ہے انسان صرف اپنی عقل سے اس کو شناخت نہیں کرتا بلکہ وہ قادر مطلق اپنی خاص تجلّی سے اور اپنی زبردست قدرتوں اور نشانوں سے اپنے تئیں شناخت کرواتا ہے۔ وہی ہے کہ جب غضب اور قہر اس کا دنیا پر بھڑکتا ہے تو اپنے پرستار بندوں کو اس غضب سے بچا لیتا ہے وہی ہے جو انسان کی عقل کو روشن کر کے اور اس کو اپنے پاس سے معرفت عطا کر کے گمراہی سے نجات دیتا ہے اور گمراہ ہونے نہیں دیتا۔ یہ سورۃ فاتحہ کا خلاصہ مطلب ہے جس کو پانچ وقت مسلمان نماز میں پڑھتے ہیں بلکہ در اصل اسی دعا کا نام نماز ہے اور جب تک انساؔ ن اس دُعا کو درد دل کے ساتھ خدا کے حضور میں کھڑے ہو کر نہ پڑھے اور اس سے وہ عقدہ کشائی نہ چاہے جس عقدہ کشائی کے لئے یہ دُعا سکھلائی گئی ہے تب تک اس نے نماز نہیں پڑھی۔ اور اس نماز میں تین چیزیں سکھلائی گئی ہیں۔
(۱)۔اوّل خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات کی توحید تا انسان چاند سورج اور دوسرے جھوٹے دیوتاؤں سے منہ پھیر کر صرف اسی سچے دیوتا کا ہو جائے اور اس کی رُوح سے یہ آواز نکلے کہ
3 ۱
یعنی مَیں تیرا ہی پرستار ہوں اور تجھ سے ہی مدد چاہتا ہوں اور دوسرے یہ سکھلایا گیا ہے کہ وہ اپنی دُعاؤں میں اپنے بھائیوں کو شریک کرے اور اس طرح پر بنی نوع کا حق ادا کردے، اس لئے دُعا میں اھدنا کا لفظ آیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ اے ہمارے خدا ہم سب لوگوں کو اپنی سیدھی راہ دکھلا۔ یہ معنے نہیں کہ مجھ کو اپنی سیدھی راہ دکھا۔ پس اِس طور کی دُعا سے جو جمع کے صیغہ کے ساتھ ہے بنی نوع کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے اور تیسرے اس دُعا میں یہ سکھلانا مقصود ہے کہ ہماری حالت کو صرف خشک ایمان تک محدود نہ رکھ بلکہ ہمیں وہ روحانی نعمتیں عطا کر جو تُو نے پہلے راستبازوں کو دی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 420
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 420
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/420/mode/1up
ہیں اور پھر کہا کہ یہ دُعا بھی کرو کہ ہمیں ان لوگوں کی راہوں سے بچا جن کو روحانی آنکھیں عطا نہیں ہوئیں آخر انہوں نے ایسے کام کئے جن سے اسی دنیا میں غضب ان پر نازل ہوا ۔اور یا اس دنیا میں غضب سے توبچے مگر گمراہی کی موت سے مرے اور آخرت کے غضب میں گرفتار ہوئے۔ خلاصہ دُعا کا یہ ہے کہ جس کو خدا روحانی نعمتیں عطا نہ کرے اور دیکھنے والی آنکھیں نہ بخشے اور دل کو یقین اور معرفت سے نہ بھرے آخر وہ تباہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کی شوخیوں اور شرارتوں کی وجہ سے اسی دنیا میں اس پر غضب پڑتا ہے کیونکہ وہ پاکوں کے حق میں بدزبانی کرتا ہے اور کتوں کی طرح زبان نکالتاہے۔ پس ہلاک کیا جاتا ہے جیسا کہ یہود اپنی شرارتوں اور شوخیوں کی وجہ سے ہلاک کئے گئے اور بارہا طاعون کا عذاب ان پر نازل ہوا جس نے ان کی بیخ کنی کردی اور یا اگر وہ دنیا میں شوخیؔ اور شرارت نہ کرے اور بدزبانی اور شرارت کے منصوبے میں شریک نہ ہو تو اس کے عذاب کی جگہ عالم ثانی ہے جب اس دنیا سے وہ گزر جائے گا۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں یہ ممکن ہے کہ رگ وید میں جو اندر اور سورج اور چاند اور آگ وغیرہ دیوتاؤں سے دُعائیں مانگی گئی ہیں اس سے مراد وہ اعلیٰ طاقت حضرت احدیّت ہو جو ان کے پردہ میں کام کررہی ہے جو سب مجازی دیوتاؤں کا دیوتا ہے کیونکہ ہم بعض جگہ قرآن شریف میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پاتے ہیں کہ جس قدر اس عالم میں مختلف چیزیں نظام عالم کا قائم رکھنے کے لئے کام کررہی ہیں وہ درحقیقت خدا تعالیٰ کے اسماء اور صفات کے نمونے ہیں جو مجازی رنگ میں ظاہر ہورہے ہیں گویا اجرام فلکی اور عناصر ارضی ایک کتاب کے اوراق ہیں جن سے ہمیں خدا تعالیٰ کی صفات کے بارے میں معرفت کا سبق ملتا ہے اور عادت اللہ کا پتہ لگتا ہے مثلاً سورج چار فصلوں میں چار تغیرات دکھلاتا ہے۔
اوّل تغیر ۔ّ موسم خریف جو موسم بہار کے مخالف ہے اس تغیر سے وہ درختوں کے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 421
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 421
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/421/mode/1up
آب و تاب کو ویران کرنا شروع کرتا ہے۔ اکثر درختوں کے پتے گر جاتے ہیں اور ان کے اندر کا مادّہ سیّالہ جو تازگی بخش ہوتا ہے خشک ہو جاتا ہے۔ انسانوں کے بدن پر بھی اس موسم کا یہی اثر ہوتا ہے کہ خشک اور سوداوی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ پس اسی طرح خدا کی ایک تجلّی بھی موسمِ خریف سے مشابہ ہے کہ ایک زمانہ انسانوں پر آتا ہے کہ ان کے دلوں پر قبض طاری ہوتی ہے اور وجد اور یاد الٰہی کا مادّہ سیّالہ جو روحانی تازگی کو بخشتا ہے وہ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے گوکھلے کھلے معصیت اور فسق کا دور ابھی نہیں آتامگر اُنس الٰہی کا جوش جاتا رہتا ہے اور دلوں پر افسردگی اور مُردگی اور جمود طبع اور قبض غالب ہو جاتا ہے اور لذّت اور ذوق شوق الٰہی باقی نہیں رہتا اور یہ زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس کو کلجگ کا پیش خیمہ کہنا چاہئے۔
پھر دوسرا زمانہ جو بذریعہ سورج کے خریف کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ وہ موسم سرما کا زمانہ ہےؔ جبکہ آفتاب اپنی دوری کی وجہ سے شدت برودت ظاہر کرتا ہے سو اسی طرح اس آفتاب حقیقی کی جس کا نام خدا ہے ایک تجلّی ہے جو جاڑے سے مشابہت رکھتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ خدا کی محبت دلوں سے بکلّی ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور انسانی طبیعتیں اس کو چھوڑ دیتی ہیں اور بجائے اس کے ہر ایک شخص نفس اور شہوات کی راہ کو پسند کرتا ہے اور شراب خواری۔ قماربازی۔ زناکاری اور جھوٹ۔ فریب۔ دغا۔ بدزبانی۔ تکبر۔ دنیا پرستی۔ چوری۔خیانت۔ خونریزی۔ ٹھٹھا۔ ہنسی اور ہر ایک قسم کا پاپ اور ہر ایک قسم کا پلید کام دنیا میں پھیل جاتا ہے اور تمام لیاقتیں زبان کی چالاکیوں سے آزمائی جاتی ہیں اور جو شخص ایسے طریقوں سے اپنی چالاکیاں دکھلاتا ہے وہ بڑا لائق سمجھا جاتا ہے اور بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے اور اگر مر بھی جائے تو اس کی یادگاریں قائم ہوتی ہیں۔ ایسا ہی زمین سُنسان پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ شاذو نادر کے طور پر کوئی زمین پر ہوتا ہے جو پاک دل اور پاک زبان اور پاک خیال
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 422
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 422
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/422/mode/1up
اور خدا سے ڈرنے والا اور معرفت کے پاک پانی سے سیراب ہونے والاہو یہ موسم ایسا ہے گویا اس کو کلجگکہہ سکتے ہیں کیونکہ اس میں نیکی کا کال اور بدی کا اقبال ہوتا ہے اور زمین پاپ اور گناہ سے بھر جاتی ہے۔
پھر دوسرا زمانہ جو سورج اپنے تغیرات سے جاڑے کے بعد ظاہر کرتا ہے وہ ربیع کا زمانہ ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جبکہ مُردہ پودے نئے سر ے زندہ کئے جاتے ہیں اور نباتات کا خشک شدہ خون نئے سر ے پیدا کیا جاتا ہے۔ سو اسی طرح وہ جو آفتابِ حقیقی ہے ایک بھاری تجلّی اپنی جوموسمِ بہار کو دکھلاتی ہے دنیا پرظاہر کرتا ہے۔ تب زمین کے زندہ کرنے کے لئے ایک نیا پانی آسمان سے نازل ہوتا ہے اور وہ پانی اس طرح اُترتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب کر کے اس کے دل کو اس پانی کا ا برِ بہار بناتا ہے۔ تب وہ پانی اس بادل میں سے خدا تعالیٰ کے اذن سے نکلتا رہتاہے۔ اور ان خشک پودوں پر پڑتا ہے جن کو خریف کی بادِ صرصر نے تباہ اور خراب کر دیا تھا اورؔ ان میں معرفت الٰہی کے نئے پتے پیدا کرتا ہے اور ذوق شوق کے پھول ان میں نمایاں کردیتاہے اور آخر انسانی شاخوں کو نیک اعمال کے پھلوں سے بھر دیتا ہے۔
پھر تیسرا زمانہ جو زمانہ بہار کے بعد سورج دیوتا ظاہر کرتا ہے وہ صیف کا زمانہ ہے جو موسم گرما کا زمانہ کہلاتا ہے اور موسم گرما میں سورج ان پھلوں کو پکا دیتا ہے جو بہار کے موسم میں ابھی کچے تھے۔ پس اسی طرح خدا کی تجلّی کے لئے بھی ایک موسم صیف یعنی موسم گرما آتا ہے۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جبکہ بہار کے دنوں سے ترقی کر کے انسانی پاک طبیعتیں خدا تعالیٰ کی یاد میں اور اس کی محبت میں گرم ہوتی ہیں اور طبیعتوں میں ذکر الٰہی کے لئے جوش پیدا ہوتے ہیں اور ترقیات کمال کو پہنچتی ہیں اور یہ زمانہ پورے معنے سے سَت جُگ کا زمانہ ہوتا ہے۔ تب اکثر لوگ درحقیقت خدا تعالیٰ کی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 423
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 423
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/423/mode/1up
مرضی کے موافق چلتے ہیں اور اس کی خواہشوں کو اپنی خواہشیں بناتے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ سورج کے ان چار تغیر کے مقابل خدا تعالیٰ کے بھی چار تغیر پائے جاتے ہے۔ پس اس میں کلام کی جگہ نہیں کہ جوکچھ اجرام فلکی اور عناصر میں جسمانی اور فانی طور پر صفات پائی جاتی ہیں وہ روحانی اور ابدی طور پر خدا تعالیٰ میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے یہ بھی ہم پر کھول دیا ہے کہ سورج وغیرہ بذاتِ خود کچھ چیز نہیں ہیں یہ اسی کی طاقتِ زبردست ہے جو پردہ میں ہر ایک کام کر رہی ہے۔ وہی ہے جو چاند کو پردہ پوش اپنی ذات کا بنا کر اندھیری راتوں کو روشنی بخشتا ہے جیسا کہ وہ تاریک دِلوں میں خود داخل ہو کر ان کو منوّر کر دیتا ہے اور آپ انسان کے اندر بولتا ہے۔ وہی ہے جو اپنی طاقتوں پر سورج کا پردہ ڈال کردِن کو ایک عظیم الشان روشنی کا مظہر بنا دیتا ہے اور مختلف فصلوں میں مختلف اپنے کام ظاہر کرتا ہے۔ اسی کی طاقت آسمان سے برستی ہے جو مینہ کہلاتی ہے اور خشک زمین کو سر سبز کر دیتی ہے اور پیاسوں کو سیراب کر دیتی ہے۔ اسی کی طاقت آگ میں ہو کر جلاتی ہے اور ہوا میں ہو کر دَم کو تازہ کرتی اور پھولوں کو ؔ شگفتہ کرتی اور بادلوں کو اُٹھاتی اور آواز کو کانوں تک پہنچاتی ہے۔ یہ اسی کی طاقت ہے کہ زمین کی شکل میں مجسّم ہو کر نوع انسان اور حیوانات کو اپنی پُشت پر اُٹھا رہی ہے مگر کیا یہ چیزیں خدا ہیں؟ نہیں بلکہ مخلوق مگر ان کے اجرام میں خدا کی طاقت ایسے طور سے پیوست ہورہی ہے کہ جیسے قلم کے ساتھ ہاتھ ملا ہوا ہے اگرچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلم لکھتی ہے مگر قلم نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتا ہے یا مثلاً ایک لوہے کا ٹکڑا جو آگ میں پڑ کر آگ کی شکل بن گیا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جلاتا ہے اور روشنی بھی دیتا ہے مگر دراصل وہ صفات اُس کی نہیں بلکہ آگ کی ہیں۔ اسی طرح تحقیق کی نظر سے یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر اجرام فلکی و عناصر ارضی بلکہ ذرّہ ذرّہ عالم سفلی اور علوی کا مشہود اور محسوس ہے، یہ سب باعتبار
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 424
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 424
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/424/mode/1up
اپنی مختلف خاصیتوں کے جواُن میں پائی جاتی ہیں خدا کے نام ہیں اور خدا کی صفات ہیں اور خدا کی طاقت ہے جو ان کے اندر پوشیدہ طور پر جلوہ گر ہے اور یہ سب ابتدا میں اسی کے کلمے تھے جو اس کی قدرت نے ان کو مختلف رنگوں میں ظاہر کر دیا ۔ نادان سوال کرے گا کہ خدا کے کلمے کیونکر مجسم ہوئے کیا خدا ان کے علیحدہ ہونے سے کم ہوگیا مگر اس کو سوچنا چاہئے کہ آفتاب سے جو ایک آتشی شیشی* آگ حاصل کرتی ہے وہ آگ کچھ آفتاب میں سے کم نہیں کرتی۔ ایسا ہی جو کچھ چاند کی تاثیر سے پھلوں میں فربہی آتی ہے وہ چاند کو دُبلا نہیں کر دیتی۔ یہی خدا کی معرفت کا ایک بھید اور تمام نظام روحانی کا مرکز ہے کہ خدا کے کلمات سےؔ ہی دنیا کی پیدائش ہے جبکہ یہ بات طے ہو چکی اور خود قرآن شریف نے یہ علم ہمیں عطا کیا تو پھر میرے نزدیک ممکن ہے کہ وید نے جو کچھ آگ کی تعریف کی یا ہَوا کی تعریف کی یا سورج کی مہما اور استت کی اس کا بھی یہی مقصد ہوگا کہ الٰہی طاقت ایسے شدید تعلق سے ان کے اندر کام کررہی ہے کہ درحقیقت اس کے مقابل وہ سب اجرام
* حاشیہ۔آریہ صاحبان کا یہ عقیدہ ہے کہ پرمیشر نے زمین اور آسمان کی کسی چیز کو پیدا نہیں کیا صرف موجودہ چیزوں کو جو قدیم سے تھیں باہم جوڑا ہے جیسا کہ جیو جو قدیم سے اور انادی ہے اور پرمانو یا پرکرتی جو اجسام کے چھوٹے چھوٹے حصے ہیں اور قدیم اور انادی ہیں۔ مگر ہم ایسے اعتقاد کی وجہ سے اس قدر آریہ صاحبوں پر غصّہ نہیں کرتے جس قدر ہمیں ان کی بے نصیبی پر رحم آتا ہے کیونکہ جبکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی قدرتِ ایجاد کو شناخت نہیں ۱ کیا تو کیا شناخت کیا اور کونسا سچا اور کامل گیان اُن کو حاصل ہوا۔ وہ خدا جس نے اس قدر بڑے بڑے اجرام آسمان میں پیدا کئے جیسے سورج اور چاند اور اس قدر ستارے پیدا کئے جن کا اب تک انسانوں کو پتہ نہیں لگا۔
۱ کوئی محبت بغیر مشاہدہ حسن یا احسان کے پیدا نہیں ہو سکتی اور کوئی گناہ بغیر خدا کی محبت اور اندیشہ اُس کی ناراضگی کے دُور نہیں ہو سکتا۔ محبت گناہ کو ایسا جلاتی ہے جیسا کہ آگ میل کو۔ جس سونے کو ہر روز آگ میں ڈالو گے کیا اُس پر کوئی میل رہ سکتی ہے! مگر وہ شخص جو نہ خدا کے حسن کا قائل ہے یعنی اُس کو پورا قادر نہیں جانتا اور نہ خدا کے احسان کا قائل ہے یعنی یہ یقین نہیں رکھتا جو اس کی رُوح جو اس کے اندر بول رہی ہے وہ خدا سے ہے۔ وہ خاک اپنے پرمیشر سے محبت کرے گا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 425
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 425
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/425/mode/1up
بطور چھلکے کے ہیں اور وہ مغز ہے اور سب صفات اُسی کی طرف رجوع کرتی ہیں اس لئے اسی کا نام آگ رکھنا چاہئے اور اسی کا نام پانی اور اسی کا نام ہوا کیونکہ ان کے فعل ان کے فعل نہیں بلکہ یہ سب اس کے فعل ہیں اور ان کی طاقتیں ان کی طاقتیں نہیں بلکہ یہ سب اس کی طاقتیں ہیں جیسا کہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت میں کہ 3 اسی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی مختلف رنگوں او رپیرایوں اور عالموں میں جو دنیا کا نظام قائم رکھنےؔ کے لئے زمین آسمان کی چیزیں کام کررہی ہیں یہ وہ نہیں کام کرتیں بلکہ خدائی طاقت ان کے نیچے کام کررہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں بھی فرمایا 3 ۱۔ یعنی دنیا ایک شیش محل ہے جس کے شیشوں کے نیچے زور سے پانی چل رہا ہے اور نادان سمجھتا ہے کہ یہی شیشے پانی ہیں حالانکہ پانی ان کے نیچے ہے۔ اور جیسا کہ قرآن شریف میں ایک
بقیہ حاشیہ :۔ کیا وہ پیدا کرنے میں کسی مادّہ کا محتاج تھا۔ جب میں ان بڑے بڑے اجرام کو دیکھتا ہوں اور ان کی عظمت اور عجائبات پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ صرف ارادۂ الٰہی سے اور اس کے اشارہ سے ہی سب کچھ ہوگیا تو میری رُوح بے اختیار بول اُٹھتی ہے کہ اے ہمارے قادر خدا تو کیا ہی بزرگ قدرتوں والا ہے تیرے کام کیسے عجیب اور وراء العقل ہیں۔ نادان ہے وہ جو تیری قدرتوں سے انکار کرے اور احمق ہے وہ جو تیری نسبت یہ اعتراض پیش کرے کہ اس نے ان چیزوں کو کس مادّہ سے بنایا۔ افسوس کہ آریہ صاحبان یہ نہیں خیال کرتے کہ اگر خدا کو مخلوق کے بنانے میں انسانی اسباب کی پابندی ضروری ہے تو پھر وہ جیسے بغیرمادّہ کے کچھ بنا نہیں سکتا ویسا ہی وہ بغیر کسی کافی وقت کے کچھ بنا نہیں سکتا۔ پس اس صورت میں جیسا کہ ہم ایک دیوار کے بنانے میں اندازہ کرتے ہیں کہ ایک معمار اتنے دنوں میں اس کو تیار کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے نہیں۔ ایسا ہی ہمیں یہ اندازہ کرنا پڑے گا کہ خدا کو مثلاً سورج یا چاند بنانے میں اس قدر وقت کی ضرور حاجت پڑی ہوگی اور اس سے پہلے اس کے لئے غیر ممکن ہوگا کہ کچھ بنا سکے مگر ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے یہ حدّیں مقرر کرنا اور کسی خاص اندازۂ وقت کی طرف کسی کام کے لئے اس کو محتاج سمجھنا کفر ہے اور گو وہ اپنی مرضی سے کوئی کام جلدی سے کرے یا دیر سے مگر وہ وقت کا محتاج نہیں۔ پس اس صورت میں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 426
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 426
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/426/mode/1up
تیسری جگہ بھی فرمایا۔3 ۱۔ یعنی یہ خیال مت کرو کہ زمین تمہیں اُٹھاتی ہے یا کشتیاں دریا میں تمہیں اُٹھاتی ہیں بلکہ ہم خود تمہیں اٹھا رہے ہیں۔
خلاصہ مطلب یہ کہ ہم ان معنوں کو جو اُوپر بیان ہوئے وید کی نسبت قبول کر سکتے ہیں اور ہم خیال کر سکتے ہیں کہ جیسا کہ قرآن شریف نے ہمیں ہدایت دی ہے۔ویدؔ کا بھی یہی مدعا ہے مگر دو باتوں کا ثابت ہونا ضروری ہے (۱) اوّل یہ کہ ویدکا بھی یہی مذہب ہو جو قرآن نے ظاہر کیا ہے کہ یہ سب چیزیں کیا آسمان کے اجرام اور کیا زمین کے عناصر اور کیا ذرہ ذرہ مخلوقات خدا کے ہاتھ سے نکلے ہیں کیونکہ اگر ایسا تسلیم نہ کریں تو پھر ان چیزوں کی صفات پر میشر کی صفات نہیں ہو سکتیں اور ان چیزوں کے گُن پرمیشر کے گُن نہیں کہلا سکتے۔ اور ان چیزوں کی
بقیہ حاشیہ :۔ وہ ؔ مادہ کا کیونکر محتاج ہوگیا۔ انسانی ضعف کے لئے جو منطق بنائی گئی ہے اس منطق سے اس کے حق میں بھی کوئی نتیجہ نکالنا اس سے زیادہ کونسی حماقت ہوگی۔ میں ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ وید کی یہ تعلیم ہو بلکہ خاص پنڈت دیانند کے پیٹ سے یہ تعلیم نکلی ہے۔ پنڈت صاحب نے جب دیکھا کہ بغیر روٹی کھانے کے وہ جی نہیں سکتے اور بغیر پانی کے ان کی پیاس نہیں بجھتی اور بغیر مشقت اور مغز خوری کے وید نہ پڑھ سکے تو انہوں نے سمجھ لیا کہ جیسا وہ ایک چیز کے حصول کے لئے مادہ کے محتاج ہیں ایسا ہی ان کا پرمیشر بھی مادہ کا محتاج ہے۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ وہ دوسرے کے کاموں کو اپنے نفس پر قیاس کر لیتا ہے چنانچہ بازاری عورتیں ہرگز سمجھ نہیں سکتیں کہ دنیا میں پاکدامن اور پاک دل عورتیں بھی ہوتی ہیں جس کو آنکھیں ملی ہیں وہ آنکھوں کے بعد اپنے تئیں اندھا نہیں کر سکتا اور جس کو کوئی حصّہ گیان اور معرفت کا ملا ہے وہ پھر جہالت کو پسند نہیں کر سکتا۔ ہم نے صدہا امور اپنی آنکھوں سے ایسے خارق عادت دیکھے ہیں کہ اگر ہم بعد اس کے گواہی نہ دیں کہ درحقیقت ہمارا خدا قادر مطلق ہے اور کسی مادہ کامحتاج نہیں تو ہم سخت گنہگار ہوں گے۔ شائد چودہ سال کے قریب ہوگیا ہے یا کم زیادہ جو میں نے دیکھا تھا کہ عالمِ کشف میں ایک کاغذ پر مَیں نے بعض باتیں لکھی ہیں اس غرض سے کہ ایسے طور سے وہ ہونی چاہئیں اورؔ مَیں نے دیکھا کہ میں نے وہ تحریر اپنے قادر خدا کے رُوبرو پیش کی کہ اس پر دستخط کردیں کہ ایسا ہی ہو جائے تب میرے خدا نے ایک قلم سے ایک سُرخی کی سیاہی سے جو خون کی مانند تھی اور مَیں خیال کرتا تھا کہ وہ خون ہی ہے۔ اس پر دستخط اپنے کر دیئے اور دستخط سے پہلے قلم کو چھڑک دیا اور وہ چھینٹے خون کے میرے پر پڑے۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 427
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 427
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/427/mode/1up
طاقتیں پرمیشر کی طاقتیں نہیں کہلا سکتیں مگر افسوس کہ آریہ سماجی اصول کے موافق ذرّات یعنی پرمانو اور جیو یعنی روح یہ سب انادی اور قدیم اور غیر مخلوق ہیں اس لئے ان کے گُن اور صفات اور خواص اور طاقتیں بھی غیر مخلوق اور انادی ہیں پرمیشر کو ان میں کچھ دخل نہیں۔ پس اگر وید کا یہی مذہب ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ وید نے آگ کے صفات بیان کر کے آتش پرستی سکھائی ہے اور سورج کی ا ستت اور مہما کر کے سورج پرستی سکھائی ہے۔ ہاں اگر ان سب چیزوں کو پرمیشر سے نکلی ہوئی مان لیں اور ان کی طاقتیں اس کی طاقتیں مان لیں تو پھر اعتراض باقی نہیں رہتا اور یاد رہے کہ اس کے ساتھ دوسری شرط بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ وید میں ان صدہا شرتیوں کے مقابل پر جن میں سورج اور آگ وغیرہ کی ا ستت و مہما موجود ہے پچا۵۰س یا سا۶۰ٹھ یا ستر۷۰ ایسی شرتیاں بھی پائی جائیں جن کایہ مطلب ہو کہ یہ چیزیں ہرگز پرستش کے لائق نہیں اور نہ ان سے مُراد مانگ سکتے ہیں۔ ان دو باتوں کے ثابت ہو جانے سے وید اس لائق ہوگا کہ اس الزام سے اس کو بری کر دیا جاوے اور وہ فرد قرار داد جرم اس پر سے اُٹھالی جائے جو بڑے بڑے اہل الرائے اس پرلگارہے ہیں اور اگر یہ
بقیہ حاشیہ :۔ تب وجد اور شوق محبت سے میری آنکھ کھل گئی کہ خدا نے میرا منشاء پورا کیا اور میری تحریر پر بے تامل دستخط کر دےئے۔ اس وقت میرے پاس ایک دوست موجود تھا یعنی میاں عبداللہ سنوری۔ اس نے شور مچایا کہ یہ قطرے سُرخ کہاں سے گرے اور جیسا کہ عالمِ کشف میں دیکھا تھا درحقیقت خارج میں بھی وہ سرخ قطرے تربتر میرے کُرتہ پر پڑے تھے اور کچھ عبداللہ پر بھی۔ اب بتلاؤ کہ یہ تو تمام کشفی معاملہ تھا۔ ظاہر میں اُن خونی قطروں کا وجود کیونکر پیدا ہوگیا اور کس مادہ سے وہ خون پیدا ہوا۔ آریہ صاحبان بجز اس کے کیا جواب دے سکتے ہیں کہ یہ قصّہ جھوٹا ہے اور آپ بنا لیا ہے اور یہی قصّہ مَیں نے سرمہ چشم آریہ میں لکھا ہے۔ کیونکہ انہی دنوں میں وہ کتاب تالیف ہوئی تھی اور چونکہ عین آریہ صاحبوں کے مقابل پر یہ نشان ظاہر ہوا تھا اس لئے میرے خیال میں یہ پنڈت لیکھرام کے مارے جانے کی طرف اشارہ تھا اور طاعون کے وقوع کی طرف بھی اشارہ تھا۔ اسی طرح صدہا نشان ہیں جو ایسی قدرتوں پر دلالت کرتے ہیں جو بغیر مادہ کے ظہور میں آئیں۔ جس نے یہ قدرتیں نہیں دیکھیں اس نے اپنے خدا کا کیا دیکھا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 428
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 428
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/428/mode/1up
باتیں ثابت نہیں تو الزام ثابت ہے۔
پھرؔ ایک اور اعتراض آریہ صاحبوں کے اصول پر ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس پر بھی توجہ کریں گے اور وہ یہ ہے کہ یہ قرار دیا گیا ہے کہ گو دنیا کے لئے ایک ازلی اور ابدی سلسلہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا لیکن پرمیشر نے قدیم سے یہی طریق مقرر کر رکھا ہے کہ ہمیشہ وہ سنسکرت زبان میں اور آریہ ورت میں آسمانی کتاب پیدائش کے ابتدا میں بھیجتا رہتا ہے۔ یہ مقولہ تین۳ طور سے غلط ہے۔ اوّ۱ل خدا تعالیٰ کی رحمت عامہ کے برخلاف ہے یعنی جس حالت میں دنیا میں مختلف بلاد اور مختلف زبانیں پائی جاتی ہیں اور ایک ملک کے باشندے دوسری قوم کی زبان سے ناآشنا ہیں بلکہ اس زمانہ سے پہلے تو یہ حالت رہی ہے کہ ایک ملک دوسرے ملک کے وجود سے بھی بے خبر تھا اور آریہ ورت میں یہ خیال تھا کہ ہمالیہ پہاڑ کے پَرے کوئی آبادی نہیں تو اس صورت میں جبکہ دنیا کے تفرقہ کی یہ صورت تھی ہمیشہ اور کروڑہا برسوں سے آسمانی کتاب کو ایک ہی ملک تک محدود رکھنا یہ خدا کی اس رحمت کے برخلاف ہے جو اس کے ربّ العالمین ہونے کی شان کو زیبا ہے اور اس کے برخلاف جو قرآن شریف نے فرمایا ہے۔ وہ نہایت معقول اور قرین انصاف ہے اور وہ یہ کہ وہ فرماتا ہے۔3 ۱ یعنی کوئی بستی اور کوئی آباد ملک نہیں جس میں پیغمبر نہیں بھیجا گیا اور پھر فرماتا ہے۔ 3 ۲۔ یعنی یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تمام کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں۔ اس آیت سے مطلب یہ ہے کہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جُدا جُدا دستور العمل بھیجا اور پھر چاہا کہ جیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہو جائیں تب سب کو اکٹھا کرنے کے لئے قرآن کو بھیجا اور خبر دی کہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ خدا تمام قوموں کو ایک قوم بنا دے گا اور تمام ملکوں کو ایک ملک کر دے گا اور تمام زبانوں کو ایک زبان بنادے گا سو ہم دیکھتے ہیں کہ دن بدن دنیا اس صورت کےؔ قریب آتی جاتی ہے اور
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 429
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 429
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/429/mode/1up
مختلف ملکوں کے تعلقات بڑھتے جاتے ہیں۔ سیاحت کے لئے وہ سامان میسّر آگئے ہیں جو پہلے نہیں تھے خیالات کے مبادلہ کے لئے بڑی بڑی آسانیاں ہوگئی ہیں۔ ایک قوم دوسری قوم میں ایسی دھنس گئی ہے کہ گویا وہ دونوں ایک ہونا چاہتی ہیں۔ بڑے اور مشکل سفر بہت سہل اور آسان ہوگئے ہیں۔ اب روس کی طرف سے ایک ریل طیار ہورہی ہے کہ جو چالیس دن میں تمام دنیا کا دورہ ختم کرلے گی۔ اور خبر رسانی کے خارق عادت ذریعے پیدا ہوگئے ہیں اس سے پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان مختلف قوموں کو جو کسی وقت ایک تھیں پھر ایک ہی بنانا چاہتا ہے تا پیدائش کا دائرہ پورا ہو جائے اور تا ایک ہی خدا ہو اور ایک ہی نبی ہو اور ایک ہی دین ہو۔ یہ بات نہایت معقول ہے کہ تفرقہ کے زمانہ میں خدا نے جُدا جُدا ہر ایک ملک میں نبی بھیجے اور کسی ملک سے بخل نہیں کیا لیکن آخری زمانہ میں جب تمام ملکوں میں ایک قوم بننے کی استعداد پیدا ہوگی تب سب ہدایتوں کو اکٹھا کر کے ایک ایسی زبان میں جمع کر دیا جو اُمّ الالسنہ ہے یعنی زبانِ عربی۔ کیا کوئی کانشنس اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ سنسکرت زبان اور آریہ ورت میں تو کروڑہا مرتبہ وید نے جو بقول آریہ پرمیشر کا کلام ہے جنم لیا لیکن کسی اور زبان میں اور کسی اور ملک میں ایک مرتبہ بھی اس کا ظہور نہ ہوا۔ اگر تناسخ کا مسئلہ کچھ چیز ہے تو اس سے ہی ثبوت دینا چاہئے کہ پرمیشر نے اس ملک کے لوگوں سے اس قدر کیوں پیار کیا اور دوسرے ملکوں سے کیوں ایسی بیگانگی ظاہر فرمائی کون سے عمدہ اور پاک کرم یہ ملک ہمیشہ کرتا رہا ہے جن کی وجہ سے یہ وید کی عزّت ہمیشہ اس کو دی جاتی ہے کیا پرمیشر جانتا ہے یا نہیں کہ دوسرے ملک بھی اِس بات کے محتاج ہیں کہ کبھی ان کی زبان میں بھی کلامِ الٰہی نازل ہو اور ان میں بھی وحی الٰہی پانے والے پیدا ہوں اور اگر جانتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ ہمیشہ وید آریہ ورت میں ہی آتا ہے اور سنسکر ؔ ت زبان میں ہی ہوتا ہے بیان توکرنا چاہئے کہ یہ پکش پات کیوں ہے اور دوسرے ملکوں کا کیا گناہ ہے جن کی قسمت میں یہ نعمت نہیں اور ہمیشہ کے لئے وہ اس فخر سے بے نصیب
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 430
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 430
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/430/mode/1up
ہیں کہ ان کے ملک میں اور ان کی زبان میں خدا کی کتاب نازل ہو۔
پھر دوسرا پہلو اعتراض کا یہ ہے کہ اگر فرض محال کے طور پر یہ بھی خیال کیا جائے کہ وید کُل دنیا کے لئے آیا ہے اور خدا تعالیٰ پر یہ بخل جائز رکھا جائے کہ اُس نے دوسرے ملکوں اور قوموں کو اپنے شرفِ مکالمہ سے ہمیشہ کے لئے محروم رکھا تو اس صورت میں اس قدر تو چاہئے تھا کہ پرمیشر وہ زبان اختیار کرتا جو تمام زبانوں کی ماں ہو اور زندہ زبان ہو نہ سنسکرت کہ کسی طرح وہ تمام زبانوں کی ماں نہیں کہلا سکتی اور نہ وہ زندہ زبان ہے بلکہ مدّت ہوئی کہ مرگئی اور کسی ملک میں وہ بولی نہیں جاتی۔ ہاں یہ درجہ اُمّ الالسنہ ہونے کا عربی زبان کو حاصل ہے اور وہی آج ان تمام زبانوں میں سے جن میں آسمانی کتابیں بیان کی جاتی ہیں زندہ زبان ہے اور ہم نے بڑی تحقیق سے تمام زبانوں کا مقابلہ کر کے بہت سے قوی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ درحقیت عربی زبان ہی اُم الالسنہ ہے ۔اس لئے وہی زبان اس لائق ہے کہ کل قوموں کو اس زبان میں مخاطب کیا جائے اور ہم نے عربی زبان کے اُمّ الالسنہ ہونے کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی ہے اور جو شخص اس کتاب کو پڑھے گا مَیں خیال نہیں کرتا کہ بجُز تسلیم کے کسی طرف اس کو گریز کی راہ مل سکے کیونکہ اس میں اعلیٰ درجہ کی تحقیقاتوں سے اور ہزارہا مفردات کے مقابلہ سے اور نیز اس علمی خزانہ سے جو عربی مفردات میں پایا جاتا ہے عربی کا تمام زبانوں کی ماں ہونا ثابت کر دیا ہے۔
تیسری وجہ آریہ صاحبوں کے اس اصول کے غلط ہونے کی کہ وید پر پرمیشر کی مُہر لگ چکی ہے اور اس کے بغیر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہے ہمارا ذاتی تجربہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ قریباً ہر روز خدا تعالیٰ ہم سے کلام کرتا ہے اور اپنے اسرارِ غیب اور علومِ معرفت ؔ سے مطلع فرماتا ہے۔ پس اگر یہ لاف و گزاف درحقیقت وید میں ہے کہ آئندہ وحی کا دروازہ بند ہوگیا تو بعد اس کے ہمیں اس کے جھوٹا ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 431
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 431
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/431/mode/1up
ضرورت نہیں کیونکہ امور مشہودہ محسُوسہ کے برخلاف کہنے والا بالیقین کاذب اور سخت کاذب ہوتا ہے جس عالیشان وحی سے ہمیں خدا نے مشرف کیا ہے ہم وید میں اس کا نمونہ نہیں دیکھتے۔ یہ کلام خارق عادت باتوں اور غیب سے پُر ہے جیسا کہ سمندر پانی سے اور اکثر عربی میں جو نبوت کی کلام کی تخت گاہ ہے نازل ہوتا ہے اور کبھی اُردو میں اور کبھی فارسی میں اور بعض اوقات انگریزی زبان میں بھی ہوا ہے اور اگر آریہ صاحبان یہ کہیں کہ کونسا نشان ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ خدا کا کلام ہے سو مَیں کہتا ہوں کیا پنڈت لیکھرام کے متعلق جو پیشگوئی تھی جس میں اُس کے مارے جانے کا دن اور تاریخ بھی درج تھی کیا وہ آریہ صاحبوں کو بھول گئی۔ کیا وہ ایک ہی پیشگوئی آریہ صاحبوں کے لئے کافی نہیں تھی اور ایسی پیشگوئیاں ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور ایک فوج گواہوں کی ان کے ساتھ ہے جن میں سے کئی معزز آریہ بھی ہیں۔ پس اس سے زیادہ ہم خدا کے مکالمہ کا اور کیا ثبوت دے سکتے ہیں بلکہ ہم اسی جگہ کے چند آریہ صاحبوں کوبلکہ کئی لاکھ اور آریہ صاحبوں کو بھی گواہی کے لئے پیش کرتے ہیں۔
اور اس جگہ اس بات کا ذکر کرنا بھی نامناسب نہ ہوگا کہ بعض نادان ایک لاکھ پیشگوئی کے مقابل پر ایک دو پیشگوئیوں کا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں لیکن یہ خود اُن کا قصورِ فہم ہے بلکہ کوئی بھی ایسی پیشگوئی نہیں کہ وہ اپنے الفاظ کے مطابق پوری نہیں ہو چکی یا اس میں سے کوئی حصہ پورا نہیں ہو چکا جو دوسرے حصّے کے کسی وقت پورا ہو جانے پر گواہ ہے۔ سچی گواہی کو چھپانا اور جھوٹی حجتیں پیش کرنا ان لوگوں کا کام نہیں جو خدا سے ڈرتے ہیں۔ خاص کر آریہ صاحبوں کووہ نشان فراموش نہیں کرنا چاہئے جو خدا نے ان کو اپنے زبردست ہاتھ سے دکھلایا اور کئی کروڑ انسانوں کو اس پر گواہ کیا۔ ایسے زبردست نشانوں کا انکار کر کے پھر تکذیب کرنا یہ خدا کے ساتھ لڑائی ہے۔
وید کی یہ تعلیمیں ہم نے بطور نمونہ کے بیان کی ہیں اور ہم لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف کی تعلیمیں اس کے مخالف ہیں وہ دنیا میں توحید قائم کرنے آیا ہے اس میں توحید کی تعلیم شمشیر برہنہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 432
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 432
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/432/mode/1up
کی طرح ہے اس کو اوّل سے آخر تک پڑھو وہ یہ نہیں سکھلاتا کہ خدا کے بغیر کسی چیز کی پرستش کرو اور اس سے مرادیں مانگو اور اس کی مہما اور استت بیان کرو۔ وہ خدا کی کتابوں کو نہ کسی خاص ملک سے محدود کرتا ہے اور نہ کسی خاص قوم سے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ وہ ایک دائرہ کو ختم کرنے آیا ہے جس کے متفرق طور پر تمام دنیا میں نقطے موجود تھے۔ اب وہ ان تمام نقطوں میں خط کھینچ کر ان سب کو ایک دائرہ کی طرح بناتا ہے اور اس طرح پر تمام قوموں کو ایک قوم بنانا چاہتا ہے لیکن نہ وقت سے پہلے بلکہ ایسے وقت میں جبکہ خود وقت گواہی دیتا ہے کہ اب ضرور یہ تمام قومیں ایک قوم ہو جائیں گی۔
نمبرؔ ۲
ہر ایک نفس کے بارے میں اس کی ذات کے متعلق اور نیز بنی نوع اور قوم کے متعلق عیسائی صاحبوں اور آریہ صاحبوں کی کیا تعلیم ہے اور قرآن شریف کی کیا تعلیم
عیسائی صاحبوں کی تعلیم کو اس جگہ مفصل لکھنے کی ضرورت نہیں۔ خونِ مسیح اور کفارہ کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے ان کو نہ صرف تمام مجاہدات اور ریاضات سے فارغ کر دیا ہے بلکہ اکثر دِلوں کو گناہوں کے ارتکاب پر ایک دلیری بھی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ جبکہ عیسائی صاحبوں کے ہاتھ میں قطعی طور پر گناہوں کے بخشے جانے کا ایک نسخہ ہے یعنی خونِ مسیح تو صاف ظاہر ہے کہ اس نسخہ نے قوم میں کیا کیا نتائج پیدا کئے ہوں گے اور کس قدر نفسِ امّارہ کو گناہ کرنے کے لئے ایک جرأت پر آمادہ کردیا ہوگا۔ اِس نسخہ نے جس قدر یورپ اور امریکہ کی عملی پاکیزگی کو نقصان پہنچایا ہے میں خیال کرتا ہوں کہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 433
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 433
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/433/mode/1up
اس کے بیان کرنے کی مجھے ضرورت نہیں بالخصوص جب سے اس نسخہ کی دوسری جُز شراب بھی اس کے ساتھ ملحق ہوگئی ہے تب سے تو یہ نسخہ ایک خطرناک اور بھڑکنے والا مادہ بن گیا ہے اس کی تائید میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے ہر ایک سچے عیسائی کا یہ فرض ہے کہ وہ بھی شراب پیوے اور اپنے مرشد کی پَیروی کرے۔
غرض اس نسخہ کے استعمال سے ان ملکوں کی عملی پاکیزگی پر جو زلزلہ آیا ہے اور جو کچھ تباہی قوم میں پھیلی ہے اس کے ذکر کرنے سے بھی بدن کانپتا ہے۔ افسوس کہ شراب اور کفّارہ دونوں مل کر ایک ایسا تیز اور جلد مشتعل ہونے والا بارود ہوگیا ہے جس کے آگے تقویٰ اور طہارت باطنی یوں اُڑ جاتی ہے جیسے سخت آندھی کے آگے خس و خاشاک۔ اور اس میں اندرونی پاکیزگی کے اُڑانے کے لئے اس توپ سے بھی زیادہ قوت ہے جو دس۱۰ میل سے مار کر سکتی ہے کیونکہ توپیں تو اکثر دو ؔ تین میل تک فیر کر سکتی ہیں مگر ان توپوں کی زد تو دس ہزار میل سے بھی زیادہ تک پہنچ گئی ہے۔ یورپ کی شراب کی گرم بازاری نے اس ملک کو بھی شریک کر لیا ہے۔ زیادہ بیان کی حاجت نہیں۔ پھر علاوہ اس کے عورتوں کی عام بے پردگی نے اس توپ کا زن و مرد کو نشانہ بنا دیا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ پاک دل رکھنے والے اور خدا سے ڈرنے والے دنیا میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ اور اکثر انسان اُس کتّے سے مشابہ ہیں جو دودھ یا کسی اورعمدہ چیز کو دیکھ کر اس میں منہ ڈالنے سے صبر نہیں کر سکتا۔ نفس غالب اور شہوت طالب اور آنکھیں اندھی ہوتی ہیں اور شراب ایسے جذبات کو اور بھی بانس پر چڑھا دیتی ہے۔ تب خدائے تعالیٰ کا خوف دل سے جاتا رہتا ہے اور جوانی کے دن اور جذبات کے ایّام اور نیز شرابوں کے جام اندھا کر دیتے ہیں۔ اس صورت میں جو ان مردوں اور جوان عورتوں کا اس طور سے بلاتکلف ملاپ ہونا گویا کہ وہ میاں بیوی ہیں ایسی قابلِ شرم خرابیاں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 434
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 434
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/434/mode/1up
پیدا کرتا ہے جن سے اب یورپ بھی دن بدن واقف ہوتا جاتا ہے آخر جیسے بہت سے تجارب کے بعد طلاق کا قانون پاس ہوگیا ہے اسی طرح کسی دن دیکھ لوگے کہ تنگ آکر اسلامی پردہ کے مشابہ یورپ میں بھی کوئی قانون شائع ہوگا ورنہ انجام یہ ہوگا کہ چارپایوں کی طرح عورتیں اور مرد ہو جائیں گے اور مشکل ہوگا کہ یہ شناخت کیا جائے کہ فلاں شخص کس کا بیٹا ہے اور وہ لوگ کیونکر پاک دل ہوں۔ پاک دل تو وہ ہوتے ہیں جن کی آنکھوں کے آگے ہر وقت خدا رہتا ہے اور نہ صرف ایک موت اُن کو یاد ہوتی ہے بلکہ وہ ہر وقت عظمتِ الٰہی کے اثر سے مرتے رہتے ہیں مگر یہ حالت شراب خوری میں کیونکر پیدا ہو۔ شراب اور خدا ترسی ایک وجود میں اکٹھی نہیں ہو سکتی۔ خونِ مسیح کی دلیری اور شراب کا جوش تقویٰ کی بیخ کنی میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آیا کفارہ کے مسئلہ نے یہ خرابیاں زیادہ پیدا کی ہیں یا شراب نے۔ اگر اسلام کی طرح پردہ کی رسم ہوتی تو پھر بھی کچھ پردہ رہتا۔ مگر یورپ تو پردہ کی رسم کا دشمن ہے۔ ہم یورپ کے اسؔ فلسفہ کو نہیں سمجھ سکتے اگر وہ اس اصرار سے باز نہیں آتے تو شوق سے شراب پیا کریں کہ اس کے ذریعہ سے کفارہ کے فوائد بہت ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ مسیح کے خون کے سہارے پر جو لوگ گناہ کرتے ہیں شراب کے وسیلہ سے ان کی میزان بڑھتی ہے۔ ہم اس بحث کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتے کیونکہ فطرت کا تقاضا الگ الگ ہے۔ ہمیں تو ناپاک چیزوں کے استعمال سے کسی سخت مرض کے وقت بھی ڈر لگتا ہے۔ چہ جائیکہ پانی کی جگہ بھی شراب پی جائے۔ مجھے اس وقت ایک اپنا سرگذشت قصّہ یاد آیا ہے اور وہ یہ کہ مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے اور بعض وقت سو سو دفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آیا ہے اور بوجہ اس کے کہ پیشاب میں شکر ہے۔ کبھی کبھی خارش کا عارضہ بھی ہو جاتا ہے اور کثرت پیشاب سے بہت ضعف تک نوبت پہنچتی ہے۔ ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 435
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 435
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/435/mode/1up
کے لئے افیون مفید ہوتی ہے۔ پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے مَیں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر مَیں ذیابیطس کے لئے افیون کھانے کی عادت کرلوں تو مَیں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا اور دوسرا افیونی۔
پس اس طرح جب مَیں نے خدا پر توکّل کی تو خدا نے مجھے ان خبیث چیزوں کا محتاج نہیں کیا اور بارہا جب مجھے غلبہ مرض کا ہوا تو خدا نے فرمایا کہ دیکھ مَیں نے تجھے شفا دیدی تب اسی وقت مجھے آرام ہوگیا۔ انہیں باتوں سے مَیں جانتا ہوں کہ ہمارا خدا ہر ایک چیز پر قادرہے*۔ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ نہ اُس نے رُوح پیدا کی اور نہ ذرّات اجسام۔ وہ خداسے غافل ہیں۔ ہم ہرروز اُس کی نئی پیدائش دیکھتے ہیں اور ترقیات سے نئی نئی رُوح وہ ہم میں پھونکتا ہے۔ اگر وہ نیست سے ہست کرنے والا نہ ہوتا تو ہم تو زندہ ہی مر جاتے۔ عجیب ہے وہ خدا جو ہمارا خدا ہے۔ کون ہے جو اس کی مانند ہے اور عجیب ہیں اُس کے کام۔ کون ہے جس کے کام اس کی مانند ہیں۔ وہ قادر مطلق ہے ہاں بعض وقت حکمت اس کی ایک ؔ کام کرنے سے اُسے روکتی ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر ظاہر کرتا ہوں کہ مجھے دو مرض دامنگیر ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصّہ میں کہ سردرد اور دورانِ سر اور دورانِ خون کم ہو کر ہاتھ پَیرسرد ہو جانا نبض کم ہو جانا۔ دوسرے جسم کے نیچے کے حصّہ میں کہ پیشاب کثرت سے آنا اور اکثر دست آتے رہنا۔ یہ دونوں بیماریاں قریباً بیس۲۰ برس سے ہیں۔ کبھی دعا سے ایسی رخصت ہو جاتی ہیں کہ گویا دُور ہوگئیں۔ مگر پھر شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک دفعہ مَیں نے دُعا کی کہ یہ بیماریاں بالکل دُور کر دی جائیں توجواب ملا کہ ایسا نہیں ہوگا۔
* انسان جب تک خود خدا کی تجلّی سے اور خدا کے وسیلہ سے اس کے وجود پر اطلاع نہ پاوے تب تک وہ خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ اپنے خیال کی پرستش کرتا ہے محض خیال کی پرستش کرنا اندرونی گندگی کو صاف نہیں کرتا۔ ایسے لوگ تو پرمیشر کے خود پرمیشر بنتے ہیں کہ خود اس کا پتہ آپ لگاتے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 436
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 436
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/436/mode/1up
تب میرے دل میں خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے ڈالا گیا کہ مسیح موعود کے لئے یہ بھی ایک علامت ہے۔ کیونکہ لکھا ہے کہ وہ دو زرد چادروں میں اُترے گا سو یہ وہی د۲و زرد رنگ کی چادریں ہیں۔ ایک اوپر کے حصّہء بدن پر اَور ایک نیچے حصّہء بدن پر۔ کیونکہ تمام اہلِ تعبیر اس پر متفق ہیں کہ عالمِ کشف یا عالمِ روء یا میں جو نبوت کا عالم ہے اگر زرد چادریں دیکھی جائیں تو ان سے بیماری مُراد ہوتی ہے۔ پس خدا نے نہ چاہا کہ یہ علامت مسیح موعود کی مجھ سے علیحدہ ہو۔
کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ہم نے اِس جگہ انجیل کی تعلیم کا ذکر نہیں کیا کیونکہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ مسیح صرف اپنے خون کا فائدہ پہنچانے کے لئے آیا تھا یعنی اس لئے کہ تاگناہ کرنے والے اس کے مَرنے سے نجات پاتے رہیں ورنہ انجیل کی تعلیم ایک معمولی بات ہے جو پہلے سے بائبل میں موجود ہے گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہناچاہئے کہ یہ صرف دکھانے کے دانت ہیں۔ اس پر عمل کرنا مقصود ہی نہیں۔ اور یہی سچ ہے کیا عدالتیں اس پر عمل کرتی ہیں؟ کیا خود پادری صاحبان اِس پر عمل کرتے ہیں؟ کیا عوام عیسائی اس کے پابند ہیں؟ ہاں کفّارہ اور خونِ مسیح کے موافق ضرور عمل ہورہا ہے۔ اور اس سے یورپ امریکہ دونوں فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
علاوہ اس کے یہ بھی سخت غلطی ہے کہ انجیل کی تعلیم کو کامل کہا جائے۔ وہ انسانی فطرت کے درخت کی پورے طور پر آبپاشی نہیں کر سکتی اور صرف ایک شاخ کو غیر ؔ موزوں طور پر لمبی کرتی ہے اور باقی کو کاٹتی ہے اور جن جن قوتوں کے ساتھ انسان اس مسافر خانہ میں آیا ہے انجیل ان سب قوتوں کی مُربی نہیں ہے۔ انسان کی فطرت پر نظر کر کے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو مختلف قویٰ اس غرض سے دیئے گئے ہیں کہ تا وہ مختلف وقتوں میں حسب تقاضا محل اور موقعہ کے ان قویٰ کو استعمال کرے مثلاً انسان میں منجملہ اور خلقوں کے ایک خلق بکری کی فطرت سے مشابہ ہے۔ اور دوسرا خلق شیر کی صفت سے مشابہت رکھتا ہے۔ پس
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 437
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/437/mode/1up
خدائے تعالیٰ انسان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ بکری بننے کے محل میں بکری بن جائے اور شیر بننے کے محل میں وہ شیر بن جائے اور خدا تعالیٰ ہرگز نہیں چاہتا کہ وہ ہروقت اور ہر محل میں بکری بنا رہے اور نہ یہ کہ ہرجگہ وہ شیرہی بنا رہے اور جیسا کہ وہ نہیں چاہتا کہ ہر وقت انسان سوتا ہی رہے یا ہر وقت جاگتا ہی رہے یا ہردم کھاتا ہی رہے یا ہمیشہ کھانے سے منہ بند رکھے۔ اِسی طرح وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ انسان اپنی اندرونی قوتوں میں سے صرف ایک قوت پر زور ڈال دے اور دوسری قوتیں جو خدا کی طرف سے اس کو ملی ہیں ان کو لغو سمجھے۔ اگر انسان میں خدا نے ایک قوت حلم اور نرمی اور درگزر اور صبر کی رکھی ہے تو اسی خدا نے اس میں ایک قوتِ غضب اور خواہش انتقام کی بھی رکھی ہے۔ پس کیا مناسب ہے کہ ایک خدداد قوت کو تو حد سے زیادہ استعمال کیا جائے اور دوسری قوت کو اپنی فطرت میں سے بکلی کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ اس سے تو خدا پر اعتراض آتا ہے کہ گویا اس نے بعض قوتیں انسان کو ایسی دی ہیں جو استعمال کے لائق نہیں۔ کیونکہ یہ مختلف قوتیں اسی نے تو انسان میں پیدا کی ہیں۔ پس یاد رہے کہ انسان میں کوئی بھی قوت بُری نہیں ہے۔ بلکہ اُن کی بد استعمالی بُری ہے۔ سو انجیل کی تعلیم نہایت ناقص ہے۔ جس میں ایک ہی پہلو پر زور ڈال دیا گیا ہے۔ علاوہ اس کے دعویٰ تو ایسی تعلیم کا ہے کہ ایک طرف طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیردیں۔ مگر اس دعویٰ کے موافق عمل نہیں ہے مثلاً ایک پادری صاحب کو کوئی طمانچہ مار کر دیکھ لے کہ پھر عدالت کے ذریعہ سے وہ کیا کارؔ روائی کراتے ہیں۔ پس یہ تعلیم کس کام کی ہے جس پر نہ عدالتیں چل سکتی ہیں نہ پادری چل سکتے ہیں ۔اصل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو حکمت اور موقعہ شناسی پر مبنی ہے مثلاً انجیل نے تو یہ کہا کہ ہر وقت تم لوگوں کے طمانچے کھاؤ اور کسی حالت میں شرکا مقابلہ نہ کرو۔ مگر قرآن شریف اس کے مقابل پر یہ کہتا ہے۔ 3 3 ۱۔یعنی اگر کوئی تمہیں دُکھ پہنچاوے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 438
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/438/mode/1up
مثلاً دانت توڑ دے یا آنکھ پھوڑ دے تو اس کی سزا اسی قدر بدی ہے جو اس نے کی لیکن اگر تم ایسی صورت میں گناہ معاف کردو کہ اس معافی کا کوئی نیک نتیجہ پیداہو اور اس سے کوئی اصلاح ہو سکے۔ یعنی مثلاً مجرم آئندہ اس عادت سے باز آجائے تو اِس صورت میں معاف کرنا ہی بہتر ہے اور اس معاف کرنے کا خدا سے اجر ملے گا۔
اب دیکھو اس آیت میں دونوں پہلو کی رعایت رکھی گئی ہے اور عفو اور انتقام کو مصلحتِ وقت سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔ سو یہی حکیمانہ مسلک ہے جس پر نظام عالم کا چل رہا ہے رعایت محل اور وقت سے گرم اور سرد دونوں کا استعمال کرنا یہی عقلمندی ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہم ایک ہی قسم کی غذا پر ہمیشہ زور نہیں ڈال سکتے بلکہ حسب موقعہ گرم اور سرد غذائیں بدلتے رہتے ہیں۔ اور جاڑے اور گرمی کے وقتوں میں کپڑے بھی مناسب حال بدلتے رہتے ہیں۔ پس اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے۔ ایک وقت رعب دکھلانے کا مقام ہوتا ہے وہاں نرمی اور درگزر سے کام بگڑتا ہے اور دوسرے وقت نرمی اور تواضع کا موقع ہوتا ہے اور وہاں رعب دکھلانا سفلہ پن سمجھا جاتا ہے۔ غرض ہر ایک وقت اور ہر ایک مقام ایک بات کو چاہتا ہے۔ پس جو شخص رعایت مصالح اوقات نہیں کرتا وہ حیوان ہے نہ انسان اور وہ وحشی ہے نہ مہذّب۔
اب ہم آریہ مذہب میں کلام کرتے ہیں کہ اس میں انسانی پاکیزگی اور انسانی نیک چلنی کے لئے کیا تعلیم ہے۔ پس واضح ہو کہ آریہ سماج کے اصولوں میں سے نہایت قبیحؔ اور قابلِ شرم نیوگ کا مسئلہ ہے جس کو پنڈت دیانند صاحب نے بڑی جرأت کے ساتھ اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں درج کیا ہے۔ اور وید کی قابلِ فخر تعلیم اس کو ٹھہرایا ہے اور اگر وہ اس مسئلہ کو صرف بیوہ عورتوں تک محدود رکھتے۔ تب بھی ہمیں کچھ غرض نہیں تھی کہ ہم اس میں کلام کرتے مگر انہوں نے تو اِس اصول، انسانی فطرت کے دشمن کو
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 439
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/439/mode/1up
انتہا تک پہنچا دیا اور حیا اور شرم کے جامہ سے بالکل علیحدہ ہو کر یہ بھی لکھ دیا کہ ایک عورت جو خاوند زندہ رکھتی ہے اور وہ کسی بدنی عارضہ کی وجہ سے اولاد نرینہ پیدا نہیں کر سکتا مثلاً لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیں یا بباعث رقت منی کے اولاد ہی نہیں ہوتی یا وہ شخص گو جماع پر قادر ہے ۔مگر بانجھ عورتوں کی طرح ہے یا کسی اور سبب سے اولاد نرینہ ہونے میں توقف ہوگئی ہے توان تمام صورتوں میں اس کو چاہئے کہ اپنی عورت کو کسی دوسرے سے ہم بستر کراوے اور اس طرح پر وہ غیر کے نطفہ سے گیارہ * بچے حاصل کر سکتا ہے گویا قریباً بیس برس تک اس کی عورت دوسرے سے ہم بستر ہوتی رہے گی جیسا کہ ہم نے مفصل کتاب کے حوالہ سے یہ تمام ذکر اپنے رسالہ آریہ دھرم میں کر دیا ہے اور حیا مانع ہے کہ ہم اِس جگہ وہ تمام تفصیلیں لکھیں۔ غرض اس عمل کا نام نیوگ ہے۔
اب ظاہر ہے کہ یہ اُصول انسانی پاکیزگی کی بیخ کنی کرتا ہے اور اولاد پرناجائز ولادت کا داغ لگاتا ہے اور انسانی فطرت اس بے حیائی کو کسی طرح قبول نہیں کر سکتی کہ ایک انسان کی ایک عورت منکوحہ ہو جس کے بیاہنے کے لئے وہ گیا تھا۔ اور والدین نے صدہا یا ہزارہا روپیہ خرچ کرکے اس کی شادی کی تھی جو اُس کے ننگ و ناموس کی جگہ تھی اوراس کی عزت و آبرو کا مدار تھا وہ باوجودیکہ اس کی بیوی ہے اور وہ خود زندہ موجود ہے اس کے سامنے رات کو دوسرے سے ہم بستر ہووے اور غیر انسان اس کے ہوتے ہوئے اسی کے مکان میں اُس کی بیوی سے منہ کالا کرے اور وہ آوازیں سُنے اور خوش ہو کہ اچھا کررہا ہے اور یہ تمام ناجائز حرکات اس کی آنکھوں کے سامنے ہوں اور اس کو کچھ بھی جوش نہ آوے۔ اب بتلاؤ کہ کیا ایسا شخصؔ جس کی منکوحہ اور سہروں
* مجھے ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں کہ نیوگ میں یعنی اپنی بیوی کو دوسرے سے ہم بستر کروا کر صرف گیار۱۱ہ بچوں تک لینے کا حکم ہے یا زیادہ۔ مُدّت ہوئی کہ مَیں نے ستیارتھ پرکاش میں پڑھا تو تھا مگر حافظہ اچھا نہیں یاد نہیں رہا۔ آریہ صاحبان خود مطلع فرماویں کیونکہ بوجہ روز کی مشق کرانے کے اُن کو خوب یاد ہوگا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 440
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/440/mode/1up
کے ساتھ بیاہی ہوئی بیوی اس کی آنکھوں کے سامنے دوسرے کے ساتھ خراب ہو۔ کیا اس کی انسانی غیرت اِس بے حیائی کو قبول کرے گی دیکھو راجہ رام چندر نے اپنی بیوی سیتا کے لئے کس قدر غیرت دکھلائی۔ حالانکہ راون ایک برہمن تھا اور سیتا کی ابھی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اور بموجب اس قاعدہ کے برہمن سے نیوگ جائز تھا۔ تاہم رام چندر کی غیرت نے اپنی پاکدامن بیوی کے لئے راون کو قتل کیا اور لنکا کو جلا دیا۔ وہ شخص انسان کہلانے کا مستحق نہیں جس کو اپنی بیوی کے لئے بھی غیرت نہیں اور کیا وجہ کہ اس کا نام دّ یوث نہ رکھا جائے۔ حیوانوں میں بھی یہ غیرت مشاہدہ کی گئی ہے پرندوں میں بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک پرند روا نہیں رکھتا کہ دوسرا پرند اس کی مادہ سے تعلق پیدا کرے پھر انسان ہو کر یہ حیا سے دُور حرکت کیا کوئی پاک فطرت اِس کو قبول کرے گی اور دیانند کا یہ لکھنا کہ یہ وید کی شرتی ہے ہم نہیں قبول کر سکتے کہ ایسی کوئی شرتی وید میں ہوگی۔ نادانوں میں پنڈت دیانند نے جس قدر چاہا لافیں مارلیں ورنہ کامل علمی فضیلت حاصل کرنا جو انسان کے دِل کو روشن کرتی ہے۔ ہر ایک کا کام نہیں۔ بعض الفاظ کے بہت سے معنے ہوتے ہیں اور ایک جاہل اپنی جلد بازی اور اپنی جہالت سے ایک معنے کو پسند کر لیتا ہے۔ پس ایسا شخص جس میں مادہ حیا کا کم ہو اُسے محسوس نہیں ہوتا کہ یہ میرا قول شرافت اور طہارت سے بعید ہے مگر اِس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے قابلِ شرم امر پر دیانند نے کیوں زور دیا۔ اور کیوں دلیری کر کے یہ گندی تعلیم اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں لکھ دی۔ پس جہاں تک میں نے سوچا ہے میرے خیال میں اس کا یہ جواب ہے کہ چونکہ پنڈت دیانند تمام عمر مجرد رہا ہے اور بیوی نہیں کی۔ لہٰذا اس کو اس غیرت کی خبر نہیں تھی کہ جو ایک شریف اور غیور انسان کو اپنی بیوی کی نسبت ہوا کرتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کی ناتجربہ کار فطرت نے محسوس نہ کیا کہ مَیں کیا لکھ رہا ہوں۔ دیانند کو معلوم نہیں تھا کہ اپنی بیویوں کی نسبت تو کنجروں کو بھی غیرت ہوتی ہے بلکہ بہت سے لوگ جو بازاری عورتوں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 441
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/441/mode/1up
سے ناجائز تعلق ر ؔ کھتے ہیں جب کسی آشنا کنجری کی نسبت ان کو شک پڑتا ہے کہ وہ دوسرے کے پاس گئی تو بسا اوقات غصّہ میں آکر اس کا ناک کاٹ دیتے ہیں یا قتل کر دیتے ہیں تو پھر کیا عقل قبول کر سکتی ہے کہ ایک غیرتمند آریہ کی عورت ایسے کام کرے تو وہ لوگوں کو منہ دکھانے کے قابل رہے۔ اسی اصول سے تو دنیا میں صریح بدکاری پھیلتی ہے اور آخر حکام کو بھی ان گندے اصولوں کے روکنے کے لئے دخل دینا پڑتا ہے جیسا کہ گورنمنٹ انگریزی نے ابتدا ءِ حکومت میں ہی جَل پَروا اور ستی کے رواج کو جبراً ہٹا دیا تھا۔
اسی طرح تناسخ * کا مسئلہ بھی اگر صحیح فرض کیا جاوے تو اسی خرابی کا موجب ہوگا جیسا کہ نیوگخ۔کیونکہ اس صورت میں کروڑہا دفعہ یہ واقعہ پیش آجائے گا کہ ایک شخص ایک ایسی عورت سے نکاح کرے کہ جو دراصل اس کی ماں تھی یا دادی تھی یا لڑکی تھی جو مرچکی تھی اور پھر وہ دوبارہ جنم لے کر دنیا میں آئی۔ پس اگر اواگون کا مسئلہ صحیح تھا تو اتنا تو پرمیشر کو کرنا
*حاشیہ:۔ تناسخ کے مسئلہ جیسا اور کوئی جھوٹا مسئلہ نہیں کیونکہ اس کی بنیاد بھی غلط ہے اور آزمائش کے طور پر بھی یہ غلط ثابت ہوتا ہے اور انسانی پاکیزگی کے لحاظ سے بھی غلط ٹھہرتا ہے اور خدا کی قدرت میں رخنہ انداز ہونے کی وجہ سے بھی ہر ایک عارف کا فرض ہے جو اس کو غلط سمجھے۔
اس کی بنیاد اس طرح پر غلط ہے کہ ستیارتھ پرکاش میں بتلایا گیا ہے کہ روح عورت کے پیٹ میں اس طرح آتی ہے کہ شبنم کے ساتھ کسی ساگ پات پر پڑتی ہے اور اس ساگ پات کے کھانے سے روح بھی ساتھ کھائی جاتی ہے۔ پس اس سے تو لازم آتا ہے کہ روح دو ٹکڑے ہو کر زمین پر پڑتی ہے۔ ایک ٹکڑے کو اتفاقًا مرد کھا لیتا ہے اور دوسرے ٹکڑے کو عورت کھاتی ہے کیونکہ یہ ثابت شدہ مسئلہ ہے کہ بچہ کو روحانی قوتیں اور روحانی اخلاق مرد اور عورت دونوں سے ملتے ہیں نہ کہ صرف ایک سے۔ پس دونوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے ساگ پات کو کھاوؔ یں جس میں رُوح ہو اور صرف ایک کا کھانا کافی نہیں۔ پس ببداہت
نیوگ کی کثرت عورتوں کے لئے اس وجہ سے بھی مضر ہے کہ اس سے حجاب اُٹھ جائے گا اور چند سال بیگانہ مرد کے پاس جاکر پھر ہمیشہ کے لئے یہی عادت رہے گی۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 442
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/442/mode/1up
چاہئے تھا کہ نئی پیدا ہونے والی کو اس بات کا علم دے دیتا کہ وہ فلاں فلاں شخص سے پہلے جنم میں یہ رؔ شتہ رکھتا تھا ۱ تابدکاری تک نوبت نہ آتی۔
اس جگہ یاد رہے کہ تناسخ کا مسئلہ اپنی جڑھ سے باطل ہے وہ تب سچ ہو سکتا ہے جب یہ بات سچ ہو کہ رُوح دو ٹکڑے ہو کر کسی ساگ پات پرگرتی ہے اور پھر غذا کی طرح کھائی جاتی ہے مگر بیشی کمی مراتب کی تناسخ پر دلیل نہیں۔ یہ اختلاف مراتب تو بے جان چیزوں میں بھی پایا جاتا ہے اس وسوسہ کا جواب یہی ہے کہ قیامت کے دن کم حصہ والے کو پورا حصہ دیا جائے گا اور زیادہ حصّہ والے سے حساب کیا جائے گا پس چند روزہ دنیا کی کمی بیشی تناسخ پر کیونکر دلیل ہو سکتی ہے۔
اور نیوگ کے جواب میں یہ کہنا کہ مسلمانوں میں بھی متعہ ہے یہ عجیب جواب ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ آریہ صاحبوں نے متعہ کس چیز کو سمجھا ہوا ہے۔ پس واضح ہو کہ خدا نے قرآن شریف میں بجز نکاح کے ہمیں کوئی اور ہدایت نہیں دی ہاں شیعہ مذہب میں سے ایک فرقہ ہے
بقیہ حاشیہ ۔ یہ امر مستلزم تقسیم روح ہے۔ اور تقسیم روح باطل ہے۔ اس لئے تناسخ باطل ہے۔
اور آزمائش کے طور پر یہ مسئلہ اس طرح پر غلط ٹھہرتا ہے کہ جس طرح ہر قسم کی روحیں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ ان تمام صورتوں میں ممکن ہی نہیں کہ شبنم کے ساتھ وہ روحیں پیدا ہوتی ہوں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ بالوں میں جوئیں پڑجاتی ہیں وہ روحیں کس شبنم کے ساتھ کھائی جاتی ہیں۔ ایسا ہی کنک کے کھاتوں میں سُسری پڑ جاتی ہے۔ وہ کروڑہا روحیں جو کھاتہ کے اندر پیدا ہو جاتی ہیں وہ کس شبنم کے ساتھ کھاتہ کے اندر اترتی ہیں اور کون ان کو کھاتا ہے۔ ایسا ہی ہم دیکھتے ہیں کہ پیٹ میں کدو دانے پیدا ہوتے ہیں اور کبھی کبھی دماغ میں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور طبعی علم کے تجربہ سے پانی کے ہر ایک قطرے میں ہزارہا کیڑے ثابت ہوتے ہیں۔ یہ کس شبنم سے پڑتے ہیں۔ تجربہ بتلارہا ہے کہ ہر ایک چیز میں ایک قسم کے کیڑہ کا مادہ موجود ہے۔ پشمینہ میں بھی ایک قسم کا کیڑہ لگ جاتا ہے لکڑی میں بھی اناج میں بھی پھلوں میں بھی اور بعض پھلوں میں پھل کی پیدائش کے سا ؔ تھ ساتھ ہی کیڑا پیدا ہوتا ہے جیسا کہ گُولر کا درخت وہ کس
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 443
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/443/mode/1up
کہ وہ مؤقت طور پر نکاؔ ح کر لیتے ہیں یعنی فلاں وقت تک نکاح اور پھر طلاق ہوگی اور اس کا نام متعہ رکھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے کلام سے ان کے پاس کوئی سند نہیں۔ بہر حال وہ تو ایک نکاح ہے جس کی طلاق کا زمانہ معلوم ہے اور نیوگ کو طلاق کے مسئلہ سے کچھ تعلق نہیں۔ طلاق کے بعد تمام تعلقات میاں بیوی کے قطعاً ٹوٹ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی نسبت یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مرگیا اور یہ طلاق کا مسئلہ بوجہ انسانی ضرورتوں کے ہر ایک مذہب میں پایا جاتا ہے چنانچہ ولایت میں بھی قانونِ طلاق پاس ہوگیا ہے اور یہ اعتراض کہ مسلمان کئی بیویاں کر لیتے ہیں اس کو بھی نیوگ سے کچھ تعلق نہیں۔ ہندو دھرم کے راجے اور بڑے بڑے آدمی قدیم سے کئی بیویاں کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں اور یہ اعتراض کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ز ینب کا آسمان پر نکاح ہوا تھا۔ اس سے بھی معترض کی صرف نادانی ثابت ہوتی ہے۔ خدا کے نبیوں اورؔ رسولوں کے آسمان پر ہی نکاح ہوتے ہیں کیونکہ خدا ان کو قبل از وقت نکاح کا حکم دیتا ہے۔ اور اپنی رضا مندی ظاہر کرتا ہے جبکہ آپ لوگوں کا ایک برہمن درمیان
بقیہ حاشیہ ۔ شبنم سے کیڑے آتے ہیں۔ اور اہل تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ بعض ترکیبوں سے ہزارہا بچھو پیدا کر سکتے ہیں وہ کس شبنم سے آتے ہیں۔ افسوس پنڈت دیانند صاحب کی موٹی عقل نے بہت کچھ خفتیں اور ندامتیں آریہ صاحبوں کو پہنچائی ہیں۔ آپ تو ایسی غلط اور بیہودہ باتیں بیان کر کے جلد اس دنیا سے گذر گئے اور دوسروں کو جنہوں نے انہی کامت اختیار کیا تھا ندامتوں کا نشانہ بنا گئے۔
دیکھو پاکیزگی کے لحاظ سے بھی تناسخ کا مسئلہ کیسا خراب ہے۔ کیا جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے اس کے ساتھ کوئی فہرست بھی اندر سے نکلتی ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ لڑکی فلاں مرد کی ماں یا دادی یا ہمشیرہ ہے اس سے وہ شادی کرنے سے پرہیز کرے۔
اور یہ تناسخ کا مسئلہ پرمیشر کی قدرت میں بھی سخت رخنہ انداز ہے۔ خدا وہ خدا ہے کہ چاہے تو ایک لکڑی میں جان ڈال دے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ کا عصا ایک دم میں لکڑی اور ایک دم میں سانپ بن جاتا تھا۔ مگر
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 444
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/444/mode/1up
میں آکر نکاح کرا جاتا ہے تو کیا خدا کو اختیار نہیں۔ اعتراض تو اس صورت میں تھا کہ خدا کسی غیر کی عورت سے جو اس کے نکاح میں ہے اور اس نے طلاق نہیں دی جبراً کسی پیغمبر کو دیدے مگر طلاق کے بعد اگر خدا کے حکم سے طرفین کی رضامندی سے نکاح ہو تو اس پر کیا اعتراض ہے۔
اور اگر آریہ صاحبوں کے نزدیک اپنی حین حیات میں اپنی بیوی کو کسی دوسرے سے ہم بستر کرانا اس صورت سے برابر ہے کہ جب انسان اپنی عورت کو بوجہ اس کی ناپاکی یا بدکاری یا کسی اور وجہ سے طلاق دیتا ہے تو اس کا فیصلہ بہت سہل ہے کیونکہ اس ملک میں ایسے مسلمان اور دوسرے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں جو اپنی عورتوں سے بوجہ ناموافقت عاجز آکر ان کو طلاق دے دیتے ہیں اور پھر وہ عورتیں اس عضو کی طرح ہو جاتی ہیں جو کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے اور ان سے کچھ تعلق نہیں رہتا اور اگر آریہ صاحبان چاہیں توہم ایسے مسلمانوں بلکہ ہندوؤں کے ناموں کی بھی بہت سی فہرستیں دے سکتے ہیں جنہوں نے ان مشکلات کی وجہ سے ناپاک وضع عورتوں کو طلاق دے کر
بقیہ حاشیہ ۔ روحوں کے انادی ہونے کی حالت میں ہندوؤں کا پرمیشر ہرگز پرمیشر نہیں رہ سکتا۔ کیوؔ نکہ جو محض دوسروں کے سہارے سے اپنی خدائی چلارہا ہے اس کی خدائی کی خیر نہیں وہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں۔ اور یہ کہنا کہ تناسخ کا چکر جو کئی ارب سے بموجب آریہ صاحبوں کے عقیدہ کے جاری ہے اس کا باعث گذشتہ پیدائشوں کے گناہ ہیں یہ خیال طبعی علم کے تجربہ کے ذریعہ سے نہایت فضول اور لچر اور باطل ثابت ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ روحوں کی پیدائش میں بھی خدا تعالیٰ کا ایک نظام ہے جو کبھی پیش وپس نہیں ہوتا مثلاً برسات کے دنوں میں ہزارہا کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور گرمی کے دنوں میں بکثرت مکھیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو کیا انہی دنوں میں ہمیشہ دنیا میں پاپ زیادہ ہوتے ہیں اور نہایت سخت گناہ کی وجہ سے انسانوں کو مکھیاں اور برسات کے کیڑے بنایا جاتا ہے اس طرح کے ہزارہا دلائل ہیں جن سے تناسخ باطل ہوتا ہے چاہئے کہ آریہ صاحبان بغور ان تمام باتوں کو سوچیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 445
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/445/mode/1up
ان سے تمام تعلقات زندگی کے قطع کر لئے ہیں۔ ایسا ہی آریہ صاحبوں کو ؔ چاہئے کہ ہمیں اُن شریف اور جنٹلمین اور معزز آریہ صاحبوں کی فہرست دکھلاویں*۔ جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنی عورتوں سے نیوگ کرائے ہیں اور غیر مردوں سے ہمبستر کراکر ان سے اولاد حاصل کی ہے۔ مگر چاہئے کہ اس فہرست کے ساتھ نیوگ کی اولاد کی ایک فہرست بھی نام بنام پیش کردیں ہم دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ خاص قادیان میں جو آریہ صاحبان رہتے ہیں کتنوں نے اب تک ان میں سے اپنی بیویوں سے نیوگ کرایا ہے اور کس قدر انہوں نے اس مقدس عمل سے حصہ لیا ہے اور کتنے نامحرم مردوں سے اپنی جوروؤں کو ہمبستر کراکر ان سے اولاد حاصل کی ہے کیونکہ اگر درحقیقت یہ عمل عمدہ اور قابلِ فخر اور وید مقدس کی ہدایت ہے تو ضرور ہر ایک آریہ صاحب نے اس ہدایت سے حصّہ لیا ہوگا اور لینا چاہئے۔
یاد رہے کہ بالمقابل نیوگ کی ہدایت کے قرآن شریف میں بیویوں کے لئے پردہ کی ہدایت ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ 33 3 ۱ 33 3۲۔ یعنی مومنوں کو کہہ دے مرد ہوں یا عورتیں ہوں کہ اپنی آنکھوں کو غیر عورتوں اور مردوں کی طرف دیکھنے سے روکو اور کانوں کو غیر مردوں کی ناجائز آواز اور غیر کی آواز سننے سے روکو اور اپنے سترگاہوں کی حفاظت کرو کہ اس طریق سے تم پاک ہو جاؤ گے۔
*کچھ مدت ہوئی ہے کہ ایک آریہ صاحب نے بذریعہ ایک اخبار کے غالباً فیروزپور سے اس مضمون کا ایک خط شائع کیا تھا کہ اگر کوئی آریہ صاحبوں میں سے اپنی بیوی سے نیوگ کرانا چاہتے ہیں یا خود بیوی ہی اس مقدس کام کی شائق ہے تو وہ بذریعہ خط و کتابت کے اس سے تصفیہ کرلیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ قادیان سے بھی اس درخواست کا کوئی جواب بھیجا گیا تھا یا نہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 446
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/446/mode/1up
اب اے آریہ صاحبان انصاف سے سوچو کہ قرآن شریف تو اس بات سے بھی منع کرتا ہے کہ کوئی مرد غیر عورت پر نظر ڈالے اور یا عورت غیر مرد پر نظر ڈالے یا اس کی آواز ناجائز طور پرسُنے مگر آپ لوگ خوشی سے اپنی بیویوں کو غیر مردوں سے ہم بستر کراتے ہیں اس کا نام نیوگ رکھتے ہیں۔ کس قدر ان دونوں تعلیموں میں فرق ہے خود سوچ لیں اور سخت افسوس ہے کہ اگر آپ پر ہمدردی کی راہ سے اعتراض کیا جائے کہ ایسا گندہ کام عورتوں سے کیوں کراتے ہو تو آپ طلاق کا مسئلہ پیش کر دیتے ہیں اور نہیں جانتے کہ طلاق کی ضرورتیں تو تمام دنیا میں مشترک ہیں جس عورت سے باہمی زوجیت کا علاقہ توڑ دیا گیا وہ تو گویا طلاق دہندہ کے حساب میں مرگئی اگر آپ لوگ صرفؔ اس حد تک رہتے کہ ضرورتوں کے وقتوں میں آپ لوگ اپنی ان عورتوں کو طلاق دیتے جو آپ لوگوں کی نافرمانی یا نا موافق یا بدچلن ہوتیں یا دشمن جانی ہوتیں تو کوئی بھی آپ پر اعتراض نہ کرتا کیونکہ عورت مرد کا جوڑ تقویٰ طہارت کے محفوظ رکھنے کے لئے ہے اور عورت مرد ایک دوسرے کے دین اور پاکیزگی کے مددگار ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے سچّے دوست اور وفادار مخلص ہوتے ہیں اور جب ان میں وہ پاک تعلق باقی نہ رہے جو اصل مدعا نکاح کا ہے تو پھر بجز طلاق کے اور کیا علاج ہے جب ایک دانت میں کیڑا پڑ جائے اور درد پہنچائے تو اب وہ دانت نہیں ہے بلکہ ایک خبیث چیز ہے اس کو باہر نکالنا چاہئے تا زندگی تلخ نہ ہو۔
چوں بدندانِ تو کِرمے اوفتاد
نیست آں دندان بکن اے اوستاد*
* درحقیقت اسلامی پاکیزگی نے ہی طلاق کی ضرورت کو محسوس کیا ہے ورنہ جو لوگ د ّ یو ثوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں ان کے نزدیک گو ان کی عورت کچھ کرتی پھرے طلاق کی ضرورت نہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 447
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/447/mode/1up
سیوم
جس خدا کی طرف عیسائی مذہب ہدایت کرتا ہے یا وید یا قرآن شریف ان تینوں مذاہب میں سے کونسا ایسا مذہب ہے
جو سچے خدا کو دکھلاتا ہے صرف قصے پیش نہیں کرتا۔
واضح رہے کہ مذہب کے اختیار کرنے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا وہ خدا جو سرچشمہ نجات کا ہے اس پر ایسا کامل یقین آجائے کہ گویا اس کو آنکھ سے دیکھ لیا جائے کیونکہ گناہ کی خبیث رُوح انسان کو ہلاک کرنا چاہتی ہے اور انسان گناہ کی مہلک زہر سے کسی طرح بچ نہیں سکتا جب تک اس کو اس کامل اور زندہ خدا پر پورا یقین نہ ہو اور جب تک معلوم نہ ہو کہ وہ خدا ہے جو مجرم کو سزا دیتا ہے اور راستباز کو ہمیشہ کی خوشی پہنچاتا ہے۔ یہ عام طور پر ہر روز دیکھا جاتا ہے کہ جب کسی چیز کے مہلک ہونے پر کسی کو یقین آجائے تو پھر وہ شخص اس چیز کے نزدیک نہیں جاتا۔ مثلاً کوئی شخص عمداً زہر نہیں کھاتا۔کوئی شخص شیر خونخوار کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا اور کوئی شخص عمداً سانپ کے سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ پھر عمداً گناہ کیوں کرتا ہے۔ اس کا یہی باعث ہے کہ وہ یقین اس کو حاصل نہیں جو ان دوسری چیزوں پر حاصل ہے۔ پس سب سے مقدم انسان کا یہ فرض ہے کہ خدا پر یقین حاصل کرے اور اس مذہب کو اختیار کرے جس کے ذریعہ سے یقین حاصل ہو ؔ سکتاہے تا وہ خدا سے ڈرے اور گناہ سے بچے مگر ایسا یقین حاصل کیونکر ہو۔ کیا یہ صرف قصوں کہانیوں سے حاصل ہو سکتا ہے ہرگز نہیں۔ کیا یہ محض عقل کے ظنی دلائل سے میسر آسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پس واضح ہو کہ یقین کے حاصل ہونے کی صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے مکالمہ کے ذریعہ سے اس کے خارق عادت
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 448
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/448/mode/1up
نشان* دیکھے۔اور بار بار کے تجربہ سے اس کی جبروت اور قدرت پر یقین کرے یا ایسے شخص کی صحبت میں رہے جو اس درجہ تک پہنچ گیا ہے۔
اب میں کہتا ہوں کہ یہ درجہ معرفت کا نہ کسی عیسائی صاحب کو نصیب ہے اور نہ کسی آریہ صاحب کو اور ان کے ہاتھ میں محض قصّے ہیں اور زندہ خدا کی زندہ تجلّی کے نظارہ سے وہ سب بے نصیب ہیں۔ ہمارا زندہ حیّ و قیّوم خدا ہم سے انسان کی طرح باتیں کرتا ہے۔ ہم ایک بات پوچھتے اور دُعا کرتے ہیں تو وہ قدرت کے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ جواب دیتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ ہزار مرتبہ تک بھی جاری رہے تب بھی وہ جواب دینے سے اعراض نہیں کرتا۔ وہ اپنے کلام میں عجیب درعجیب غیب کی باتیں ظاہر کرتا ہے اور خارق عادت قدرتوں کے نظارے دکھلاتا ہے یہاں تک کہ وہ یقین کرادیتا ہے کہ وہ وہی ہے جس کو خدا کہنا چاہئے۔ دُعائیں قبول کرتا ہے اور قبول کرنے کی اطلاع دیتا ہے۔ وہ بڑی بڑی مشکلات حل کرتا ہے اور جو مُردوں کی طرح بیمار ہوں ان کو بھی کثرتِ دُعا سے زندہ کردیتا ہے اور یہ سب ارادے اپنے قبل از وقت اپنے کلام سے بتلا دیتا ہے۔ خدا وہی خدا ہے جو ہمارا خدا ہے وہ اپنے کلام سے جو آئندہ کے واقعات پر مشتمل ہوتا ہے ہم پر ثابت کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا وہی خدا ہے۔ وہی ہے جس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں تجھے طاعون کی موت سے بچاؤں گااور نیز ان سب کو جو تیرے گھر میں نیکی اور پرہیز گاری کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں بچاؤں گا۔ اس زمانہ میں کون ہے جس نے میرے سوا ایسا الہام شائع کیا اور اپنے نفس اور اپنی بیوی اور اپنے بچوں اور دوسرے نیک انسانوں
* نبوت کے زمانہ کے بعد کچھ مدت تک پیشگوئیاں اسی نبی کی جو دنیا سے گذر گیا بطور معجزات کے دلوں کو تسلی دیتی رہتی ہیں جو دوسری نسل کے سامنے پوری ہوتی رہتی ہیں۔ مگر یہ نظارہ بہت مدت تک نہیں رہتا اور نرے قصّے انسان کو سچا پرہیزگار نہیں بنا سکتے گو صرف لکیر پرچلنے والا قومی تعصب میں بڑھ سکتا ہے اور شریر انسان کی طرح زبان دراز ہو سکتا ہے مگر سچی پاکیزگی جو اپنے پھل ظاہر کرے کبھی اس کے دل میں نہیں آسکتی۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 449
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/449/mode/1up
کے لئیجو اس کی چار دیواری کے اندر رہتے ہیں خدا کی ذمہ داری ظاہر کی۔ ایک لاکھ تک اب تک میرے نشان ظاہر ہوچکے ہیں اور ایک بڑے حصّہؔ کے گواہ اس جگہ کے آریہ صاحبان لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل بھی ہیں اگر وہ انکار کریں گے تو ہم ایک اور رسالہ کے ذریعہ سے دکھائیں گے کہ ان کا ردّ دھرم*ہے یا ہٹ دھرمی۔ قوم کے ڈر سے جھوٹ بولنا نجاست کھانے سے بدتر ہے۔ پھر قوم بھی کب اس گواہی سے باہر ہے ان کے بہادر پنڈت نے اپنی موت سے سب کو گواہ بنا دیا۔ غریب شرمپت اور ملاوامل کس حساب میں ہیں۔
یاد رہے کہ طاعون کے متعلق اور ایک پیشگوئی عظیم الشان ظہور میں آئی ہے اور وہ یہ کہ آج سے چھ سات سال پہلے مَیں نے اپنی ایک کتاب میں خدا تعالیٰ سے الہام پاکر شائع کیا تھا کہ طاعون کے ذریعہ سے بہت سے لوگ میری جماعت میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک دس ہزار سے زیادہ ایسے لوگ میری جماعت میں داخل ہوئے ہیں جو طاعون سے ڈر کر اس طرف آئے ہیں خدا تعالیٰ نے میرے سلسلہ کو نوح کی کشتی سے تشبیہ دی تھی۔ سو اس کشتی میں لوگ بیٹھتے جاتے ہیں۔ نوح کی کشتی میں ہرایک درند چرند ڈر کر بیٹھ گیا تھا۔ یہ نہیں کہ نوح شکاریوں کی طرح ان کو جنگلوں سے پکڑ لایا تھا بلکہ وہ جان کے خوف سے آپ ہی کشتی میں بیٹھ گئے تھے۔ اب بھی اس کشتی میں ہر قسم کے ڈرنے والے لوگ بیٹھ رہے ہیں۔
سنو اے سب زمین پر رہنے والو۔ آپ آریہ صاحبان اور عیسائی صاحبان سے پوچھ کر
* مَیں دیکھتا ہوں کہ آریہ صاحبوں کی اب بدزبانی بڑھتی جاتی ہے اور انہوں نے اب علاوہ وید کے دیوتاؤں کے اپنی قوم کو بھی ایک دیوتا بنا لیا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ وہ زندہ اور حیّ و قیّوم خدا سچائی کی تائید میں آسمان سے اپنی کوئی قدرت دکھلاوے۔ وید کے خدا کی کمزوری تو انہیں ۶؍ مارچ کو معلوم ہوچکی تھی مگر اس نئے دیوتا نے وہ واقعہ فراموش کر ا دیا۔ اب وہ مجھ سے کیسا نشان طلب کرتے ہیں کھلے طور پر چیلنج کریں۔ پھرجس طور سے خدا چاہے وہ قادر ہے کہ ان کے چیلنج کا جواب دے۔ خدا پر اور اس کی وحی پر ہنسی کرنا اچھا نہیں۔ اگرچہ بقول ان کے وید خدا کا کلام نہیں مگر خدا کا کلام مجھ پر نازل ہوتا ہے۔ دیکھیں اور پرکھیں اور مت ہنسیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 450
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/450/mode/1up
انصافًا کہیں کہ ان کے ہاتھ میں بجز پرانے اور بوسیدہ قصّوں کے کچھ اور بھی ہے یہی تو وجہ ہے کہ ایک فرقہ نے ان میں سے ایک انسان کو خدا بنا رکھا ہے جو درحقیقت مجھ سے زیادہ نہیں۔ اگر وہ مجھے دیکھتا تو خدا کی نعمتوں کو اس جگہ زیادہ پاتا۔ یہ تو عیسائیوں کا جعلی خدا ہے مگر آریوں نے ایک فرضی خدا انسان کی طرح کمزور اپنی طرف سے تراش لیا ہے جو رُوحوں اور ذرات اجسام کے پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ اگر ان کو خدا تعالیٰ کی تازہ قدرتوں سے حصّہ ہوتا تو وہ جانتے کہ وہ انسان ہونے سے پاک اور ہر ایک بات پر قدرت رکھتا ہے۔ رُوح کیا حقیقت ہے جو اس کو پیدا نہ کر سکے اور پرمانو کیا چیز ہیں جو ان کی پیدائش پر قادر نہ ہو۔ روحوں کے اندر ایک اور روحیں ہیں اورذرّات کے اندر ایک اور ذرّات ہیں سب کا وہی پیدا کرنے والا ہے۔ وہ کبھی اپنی مرضی سے اور کبھی اپنے مقبول بندوں کی دُعا سن کر تازؔ ہ بتازہ ایجاد کرتا رہتا ہے جس نے اس کو اس طرح پر نہیں دیکھا۔ وہ اندھا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ 3 3 ۱۔ یعنی جس کو اس جہان میں اس کا درشن نہیں ہوا اُس کو اُس جہان میں بھی اس کا درشن نہیں ہوگا اور وہ دونوں جہانوں میں اندھا رہے گا۔ خدا کے دیکھنے کے لئے اسی جہان میں آنکھیں طیّار ہوتی ہیں اور بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع ہوتی ہے۔
ان اشتہارات میں جو میرے پر حملہ کرنے کے لئے آریہ صاحبوں نے شائع کئے ہیں میری بعض پیشگوئیوں پر نا سمجھی سے بعض اعتراض بھی کر دیئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حال میں یا پہلے لڑکا ہونے کی پیشگوئی تھی اور لڑکی پیدا ہوئی۔ پس اس قدر جواب کافی ہے کہ اگر وہ کتابوں کو دیکھ کر دیانت کے طریق کواختیار کرتے تو ایسا اعتراض کبھی نہ کرتے۔ مجھے تو ایسا الہام کوئی یاد نہیں کہ جس کا یہ مضمون ہو کہ اب ضرور بلا فاصلہ لڑکا پیدا ہوگا۔ اگر ان کو یاد ہے تو وہ پیش کردیں ورنہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین ہماری طرف سے جواب کافی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 451
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/451/mode/1up
ہے۔ خدا نے تمام کتابوں میں قیامت کی پیشگوئی شائع کر رکھی ہے۔ آریہ صاحبان بھی مہاپرلوکے قائل ہیں مگر وہ پیشگوئی اب تک پوری نہیں ہوئی بلکہ دنیا پہلے سے زیادہ آباد ہوتی جاتی ہے۔ جو پہلے جنگل تھے اب وہاں آبادیاں اور شہر ہیں مگر کیا کہہ سکتے ہیں کہ وہ پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ خدا کی باتوں میں ایک وقت ہوتا ہے۔ وہ اپنے وقتوں میں پوری ہوتی ہیں اور وعید کی پیشگوئی میں توبہ اور رجوع سے کبھی تاخیر بھی ہو جاتی ہے۔ انسان کی بدذاتی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت نہیں کہ اعتراض کے وقت جھوٹ بولے۔ ایسا ہی آتھم کی موت کی پیشگوئی پر تب اعتراض ہوتا کہ میں اس سے پہلے مر جاتا اور وہ اب تک زندہ ہوتا کیونکہ الہام کا خلاصہ یہ ہے کہ جومذہب میں جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ الہامی شرط کے موافق اس نے تھوڑے دن فائدہ اُٹھایا پھر پیشگوئی کے مطابق مر گیا اس نے عین مجلس میں قریباً ستر آدمی کے روبرو جن میں نصف کے قریب عیسائی بھی تھے اپنی شوخیوں سے رجوع کیا اور پھر آخر میعاد تک ڈرتا اور روتا رہا۔ اس کو کچھ مہلت دی گئی اور یہ مہلت خدا کی شرؔ ط کے موافق اور الہام میں درج تھی اور آخر قبر نے اس کو بلا لیا مگر تعجب کہ آریہ صاحبان کیوں خواہ نخواہ دوسروں کے قصّے پیش کرتے ہیں۔ آپ بیتی کو کیوں اس قدر جلدی سے بھول گئے اور کیوں وہ پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ ذرا پنڈت لیکھرام کی کتاب کھول کر دیکھیں کہ اس نے میری نسبت اشتہار شائع کیا تھا کہ مجھے پرمیشر نے خبر دی ہے کہ یہ شخص تین برس تک ہیضہ سے مر جائے گا اور مَیں نے بھی خدا تعالیٰ سے الہام پاکر کئی کتابوں میں شائع کر دیا تھا کہ پنڈت لیکھرام چھ برس کے عرصہ تک قتل کے ذریعہ مارا جائے گا اور وہ دن عید کے دن سے ملا ہوا ہوگا اور کچھ عرصہ بعد اس ملک میں طاعون پھیلے گی چنانچہ وہ سب باتیں پوری ہوگئیں اور آپ لوگوں کا بہادر پنڈت لیکھرام آپ کو نادم کرنے والا چھ مارچ کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ دیکھو
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 452
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/452/mode/1up
!
اسلام کا خدا کیسا سچا اور غالب نکلا۔ اگر یہ انسان کا کام تھا تو کیوں لیکھرام کی پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔ میں آریہ صاحبوں سے بادب پوچھتاہوں کہ یہ پیشگوئی پنڈت لیکھرام صاحب کی جو میری نسبت تھی کہ یہ شخص تین برس کے عرصہ میں ہیضہ سے مر جائے گا کیا یہ درحقیقت پرمیشر کی طرف سے تھی۔ پھر ایسے مقابلہ کے وقت لیکھرام کا پرمیشرکیوں عاجز رہ گیا اور اگر پنڈت جی نے جھوٹ بولا تھا اور پرمیشر پر افتراکیا تھا تو کیا ایسے مفتری کی یادگاریں قائم کرنا روا ہے جس نے پرمیشر پر جھوٹ بولا۔ دیکھو اس مقابلہ میں ہمارے خدا کی کیسی صفائی سے پیشگوئی پوری ہوئی۔ اور مَیں نے لکھ دیا تھا کہ تمام آریہ صاحبان اب مل کر لیکھرام کے بچانے کے لئے اپنے پرمیشر سے دُعا کرلیں مگر پرمیشربچانہ سکا۔ اب بالفعل ہم اسی پر ختم کرتے ہیں۔ وَالسَّلام علی من اتبع الھُدیٰ۔
خاتمہ آریہ صاحبوں کے بعض اعتراضات کے جواب میں
انسان جب بغیر سوچنے سمجھنے کے محض نکتہ چینی کے ارادہ سے مخالفت کی نظر سے دیکھے توگو کیسا ہی کوئی امر سیدھا اور صاف ہو اس کی نظر میں جائے اعتراض ٹھہر جاتا ہے۔ ایسا ہی آریہ صاحبوں کا حال ہے وہ اس ندامت کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے جو ایک اعتراض کے غلط اور بے جا ثابت ہونے میں ایک باحیا انسان کے دل پر صدمہ پہنچاتی ہے۔ اب سنئے اعتراضات یہ ہیں جو ہمیشہ اسلام جیسے پاک اورکامل مذہب پر سراسر نادانی سے کرتے ہیں اور ہم اس وقت وہ اعتراض لکھتے ہیں جو انہوں نے ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ء کو قادیان میں جلسہ کر کے اسلام پر کئے اور اس طرح یہ ثابت کردیا کہ ان کے تعصب اور نا سمجھی اور ناحق کے کینہ کی کہاں تک نوبت پہنچی ہے۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 453
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 453
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/453/mode/1up
اعتراضات
۱۔مسلمان خدا کی نندیا کرتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہوا ہے اور چار فرشتوں نے اس تخت کو اٹھایا ہوا ہے۔ اس طرح پرثابت ہوتا ہے کہ خدا محدود ہے اور قائم بالذات نہیں اور جب محدود ہے تو اس کا علم بھی محدود ہوگا اور حاضر ناظر نہ ہوگا۔
الجواب
اے حضرات! مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے۔ تمام قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک پڑھو اس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے۔ خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا مَیں ہی پیدا کرنے والا ہوں۔ مَیں ہی زمین و آسمان اور رُوحوں اور اؔ ن کی تمام قوتوں کا خالق ہوں۔ مَیں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے۔ ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے۔ مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا مَیں پیدا کرنے والا ہوں۔ اگر کوئی آریہ قرآن شریف میں سے نکال دے کہ عرش کوئی جسمانی اورمخلوق چیز ہے تو میں اس کو قبل اس کے جو قادیان سے باہر جائے ایک3 ہزار روپیہ انعام دوں گا۔ مَیں اُس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا *** کا کام ہے کہ مَیں قرآن شریف کی وہ آیت دکھاتے ہی ہزار روپیہ حوالہ کروں گا۔ ورنہ میں بادب کہتا ہوں کہ ایسا شخص خود *** کا محل ہوگا جو خدا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 454
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 454
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/454/mode/1up
پر جھوٹ بولتا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ اس اعتراض کی بنیاد تو محض اس بات پر ہے کہ عرش کوئی علیحدہ چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے اور جب یہ امر ثابت نہ ہو سکا تو کچھ اعتراض نہ رہا۔ خدا صاف فرماتا ہے کہ وہ زمین پر بھی ہے اور آسمان پر بھی اورکسی چیز پر نہیں بلکہ اپنے وجود سے آپ قائم ہے اور ہر ایک چیز کو اُٹھائے ہوئے ہے اور ہر ایک چیز پر محیط ہے۔ جہاں تین ہوں تو چوتھا ان کا خداہے۔ جہاں پانچ ہوں تو چھٹا ان کے ساتھ خدا ہے اور کوئی جگہ نہیں جہاں خدا نہیں اور پھر فرماتا ہے۔ 3 ۱۔ جس طرف تم منہ کرو اسی طرف خدا کا منہ پاؤ گے۔ وہ تم سے تمہاری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہی ہے جو پہلے ہے اور وہی ہے جو آخر ہے اور وہ سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے اور وہ نہاں در نہاں ہے اور پھر فرماتا ہے۔
33۲
یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ وہ کہاں ہے۔ پس جواب یہ ہے کہ ایسا نزدیک ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نزدیک نہیں جو شخص مجھ پر ایمان لاکر مجھے پکارتا ہے تو مَیں اس کا جواب دیتا ہوں۔ ہر ایک چیز کی کَلْ میرے ہاتھ میں ہے اور میرا علم سب پر محیط ہے ۔میںؔ ہی ہوں جو زمین و آسمان کو اٹھا رہا ہوں۔ مَیں ہی ہوں جو تمہیں خشکی تری میں اُٹھا رہا ہوں۔
یہ تمام آیات قرآن شریف میں موجود ہیں۔ بچہ بچہ مسلمانوں کا ان کو جانتا اور پڑھتا ہے۔ جس کا جی چاہے وہ ہم سے آکر ابھی پوچھ لے۔ پھر ان آیات کو ظاہر نہ کرنا اور ایک استعارہ کو لے کراس پر اعتراض کر دینا کیا یہی دیانت آریہ سماج کی ہے ایسا دنیا میں کون
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 455
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 455
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/455/mode/1up
مسلمان ہے جو خدا کو محدود جانتا ہے یا اس کے وسیع اور غیر محدود علم سے منکر ہے۔ اب یاد رکھو کہ قرآن شریف میںیہ تو کہیں بھی نہیں کہ خدا کو کوئی فرشتہ اُٹھا رہا ہے بلکہ جابجا یہ لکھا ہے کہ خدا ہرایک چیز کو اُٹھا رہا ہے ہاں بعض جگہ یہ استعارہ مذکورہے کہ خدا کے عرش کو جو دراصل کوئی جسمانی اور مخلوق چیز نہیں فرشتے اٹھارہے ہیں۔ دانشمند اس جگہ سے سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ عرش کوئی مجسم چیز ہی نہیں تو فرشتے کس چیز کو اٹھاتے ہیں۔ ضرور کوئی یہ استعارہ ہوگا مگر آریہ صاحبوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کیونکہ انسان خود غرضی اور تعصب کے وقت اندھا ہو جاتا ہے۔ اب اصل حقیقت سنو کہ قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے۔ اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر* چار ہیں جو وید کے رُو سے چار دیوتے کہلاتے ہیں مگر قرآنی اصطلاح کی رُو سے
خدا تعالیٰ کی چار صفتیں ہیں جن سے ربوبیت کی پوری شوکت نظر آتی ہے۔ اور کامل طور پر چہرہ اس ذات ابدی ازلی کا دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان ہرچہار صفتوں کو سورۃ فاتحہ میں بیان کر کے اپنی ذات کو معبود قرار دینے کے لئے ان لفظوں سے لوگوں کو اقرار کرنے کی ہدایت دی ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن۔یعنی اے وہ خدا جوان چار صفتوں سے موصوف ہے۔ہم خاص تیری ہی پرستش کرتے ہیں کیونکہ تیری ربوبیت تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری رحمانیت بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری رحیمیت بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری صفت مالکانہ جزا و سزا کی بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیرے اس حسن اور احسان میں بھی کوئی شریک نہیں۔ اس لئے ہم تیری عبادت میں بھی کوئی شریک نہیں کرتے۔
اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ میں ان چار صفتوں کو اپنی الوہیت کا مظہر ا تم قرار دیا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 456
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 456
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/456/mode/1up
ان کا نام فرشتے بھی ہے اور وہ یہ ہیں۔ اکاش جس کا نام اندر بھی ہے۔ سورج دیوتا جس کو عربی میں شمس کہتے ہیں۔ چاند جس کو عربی میں قمر کہتے ہیں۔ دھرتی جس کو عربی میں ارض کہتے ہیں۔ یہ چاروں دیوتا جیسا کہ ہم اس رسالہ میں بیان کر چکے ہیں خدا کی چار صفتوں کو جو اس کے جبروت اورعظمت کا اتم مظہر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا جاتا ہے اٹھارہے ہیں یعنی عالم پر یہ ظاہر کررہے ہیں تصریح کی حاجت نہیں۔ اس بیان کو ہم مفصل لکھ آئے ہیں اور قرآن شریف میں تین قسم کے فرشتے لکھے ہیں۔
(۱) ؔ ذراتِ اجسام ارضی اور روحوں کی قوتیں۔
(۲) اکاش۔ سورج۔ چاند۔ زمین کی قوتیں جو کام کررہی ہیں۔
(۳) ان سب پر اعلیٰ طاقتیں جو جبرائیل ومیکائیل و عزرائیل وغیرہ نام رکھتی ہیں جن کو وید میں جم لکھا ہے مگر اس جگہ فرشتوں سے یہ چار دیوتے مراد ہیں یعنی اکاش اور سورج وغیرہ جو خدا تعالیٰ کی چار صفتوں کو اٹھا رہے ہیں۔ یہ وہی صفتیں ہیں جن کو دوسرے لفظوں
ہے اور اسی لئے صرف اس قدر ذکر پر یہ نتیجہ مترتب کیا ہے کہ ایسا خدا کہ یہ چار صفتیں اپنے اندررکھتا ہے وہی لائق پرستش ہے اور درحقیقت یہ صفتیں بہر وجہ کامل ہیں اور ایک دائرہ کے طور پر الوہیت کے تمام لوازم اور شرائط پر محیط ہیں کیونکہ ان صفتوں میں خدا کی ابتدائی صفات کا بھی ذکر ہے اور درمیانی زمانہ کی رحمانیت اور رحیمیت کا بھی ذکر ہے اور پھر آخری زمانہ کی صفت مجازات کا بھی ذکر ہے اوراصولی طور پر کوئی فعل اللہ تعالیٰ کا ان چار صفتوں سے باہر نہیں۔ پس یہ چار صفتیں خدا تعالیٰ کی پوری صورت دکھلاتی ہیں سو درحقیقت استوا علی العرش کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ صفات جب دنیا کو پیدا کرکے ظہور میںآگئیں تو خداتعالیٰ ان معنوں سے اپنے عرش پر پوری وضع استقامت سے بیٹھ گیا کہ کوئی صفت صفات لازمہ الوہیت سے باہر نہیں رہی اور تمام صفات کی پورے طور پر تجلی ہوگئی جیسا کہ جب اپنے تخت پر بادشاہ بیٹھتا ہے تو تخت نشینی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 457
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 457
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/457/mode/1up
میں عرش کہا گیا ہے۔ اس فلسفہ کا وید کو بھی اقرار ہے مگر یہ لوگ خوب وید دان ہیں جو اپنے گھر کے مسئلہ سے بھی انکار کررہے ہیں۔
غرض وید کے یہ چار دیوتے یعنی اکاش۔ سورج۔ چاند۔ دھرتی۔ خدا کے عرش کو جو صفت ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مالک یوم الدین ہے اٹھارہے ہیں۔ اور فرشتہ کا لفظ قرآن شریف میں عام ہے ہر ایک چیز جو اس کی آواز سنتی ہے وہ اس کا فرشتہ ہے۔ پس دنیا کا ذرّہ ذرّہ خدا کا فرشتہ ہے کیونکہ وہ اس کی آواز سنتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اگر ذرّہ ذرّہ اُس کی آواز سُنتا نہیں تو خدا نے زمین آسمان کے اجرام کو کس طرح پیدا کرلیا ۔اور یہ استعارہ جو ہم نے بیان کیا ہے اس طرح خدا کے کلام میں بہت سے استعارات ہیں جو نہایت لطیف علم اور حکمت پر مشتمل ہیں۔ اگر اب بھی کوئی شخص اپنی ناسمجھی سے باز نہ آوے تو وہ کوئی اعتراض
کے وقت اس کی ساری شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک طرف شاہی ضرورتوں کے لئے طرح طرح کے سامان طیّار ہونے کا حکم ہوتا ہے اور وہ فی الفور ہو جاتے ہیں اور وہی حقیقت ربوبیت عامہ ہیں۔ دوسری طرف خسروانہ فیض سے بغیر کسی عمل کے حاضرین کو جود و سخاوت سے مالا مال کیا جاتا ہے۔ تیسری طرف جو لوگ خدمت کررہے ہیں ان کو مناسب چیزوں سے اپنی خدمات کے انجام کے لئے مدد دی جاتی ہے۔ چوتھی طرف جزا سزا کا دروازہ کھولا جاتا ہے کسی کی گردن ماری جاتی ہے اور کوئی آزاد کیا جاتا ہے۔ یہ چار صفتیں تخت نشینی کے ہمیشہ لازم حال ہوتی ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کا ان ہر چہار صفتوں کو دنیا پر نافذ کرنا گویا تخت پر بیٹھنا ہے جس کا نام عرش ہے۔
اب رہی یہ بات کہ اس کے کیا معنے ہیں کہ اس تخت کو چار فرشتے اُٹھا رہے ہیں۔ پس اس کا یہی جواب ہے کہ ان چار صفتوں پر چار فرشتے موکل ہیں جو دنیا پر یہ صفات خدا تعالیٰ کی ظاہر کرتے ہیں اور ان کے ماتحت چار ستارے ہیں جو چار رب النوع کہلاتے ہیں جن کو وید میں دیوتا کے نام سے پکارا گیا ہے۔ پس وہ ان چاروں صفتوں کی حقیقت کو دنیا میں پھیلاتے ہیں گویا اس روحانی تخت کو اٹھارہے ہیں۔ بت پرستوں کا جیسا کہ وید سے ظاہرہے صاف طور پر یہ خیال تھا کہ یہ چار صفتیں مستقل طور پر دیوتاؤں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 458
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 458
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/458/mode/1up
منتخب کرکے اسلام پر پیش کرے اور پھر انسانیت اور تحمل سے اس کا جواب سُنے۔ ورنہ ایسے اعتراضات سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ معترض حقیقت سے بے خبر اور دل اس کا تعصب سے پُر اور غرض اس کی محض تحقیر ہے۔ دین ایک علم ہے اور اپنے اندر اسرار رکھتا ہے۔ کیا لازم ہے کہ اس طرح پر افترا کے طور پر اعتراض کئے جائیں ورنہ مسلمان بوجہ اولیٰ کہہ سکتے ہیں کہ جن خداؤں کو وید نے پیش کیا ہے وہ تو یہی ہیں کہ سورج۔ چاند۔آگ۔ پانی زمین وغیرہ مخلوق چیزیں یہ سب محدود اور مخلوق اور بے جان ہیں۔ اس ؔ لئے آریہ صاحبوں کا پرمیشر نہ صرف محدود بلکہ بے جان چیز ہے اسی لئے ان کی آواز نہیں سُن سکتااور نہ جواب دے سکتا ہے۔
پھر جس پرمیشر نے کچھ پیدا ہی نہیں کیا اس کا محدود ہونا تو بہرحال ماننا پڑے گا کیونکہ اس طرح پر سمجھ لوکہ روحوں اور پرمانو اور پرمیشر سے گویا ایک شہر آباد ہے۔ جس کے ایک محلہ
کو حاصل ہیں۔ اسی وجہ سے ویدمیں جابجا ان کی استت اور مہما کی گئی اور ان سے مرادیں مانگی گئیں۔ پس خدا تعالیٰ نے استعارہ کے طور پر سمجھایا کہ یہ چار دیوتا جن کو بت پرست اپنا معبود قرار دیتے ہیں یہ مخدوم نہیں ہیں بلکہ یہ چاروں خادم ہیں اور خدا تعالیٰ کے عرش کو اٹھارہے ہیں یعنی خادموں کی طرح ان الٰہی صفات کو اپنے آئینوں میں ظاہر کررہے ہیں اور عرش سے مراد لوازم صفات تخت نشینی ہیں جیسا کہ ابھی مَیں نے بیان کر دیا ہے۔ ہم ابھی لکھ چکے ہیں کہ رب کے معنے دیوتا ہے۔ پس قرآن شریف پہلے اسی سورۃ سے شروع ہوا ہے کہ3 یعنی وہ تمام مہما اور استت اُس خدا کو چاہئے جو تمام عالموں کا دیوتا ہے۔ وہی ہے جو ربّ العٰلمین ہے اور رَحْمٰن العٰلَمِیْن ہے اور رحِیْم العٰلمین ہے۔ اور مالک جزاء العالمین ہے۔ اس کے برابر اور کوئی دیوتا نہیں کیونکہ قرآن شریف کے زمانہ میں دیوتا پرستی بہت شائع تھی اور یونانی ہر ایک دیوتے کا نام رب النوع رکھتے تھے اور رب النوع کا لفظ آریہ ورت میں دیوتا کے نام سے موسوم تھا اس لئے پہلے خدا کا کلام ان جھوٹے دیوتاؤں کی طرف ہی متوجہ ہوا جیسا کہ اس نے فرمایا۔ 3 ۱ یعنی وہ جو سب عالموں کا دیوتا ہے نہ صرف ایک یا دو عالم کا اسی کی پرستش اور حمدو ثنا چاہئے۔ دوسروں کی مہما اور ا ستت کرنا غلطی ہے۔ اس
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 459
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/459/mode/1up
میں تو اَرواح یعنی جیو رہتے ہیں اور دوسرے محلہ میں پرمانو یعنی ذراتِ اجسام رہتے ہیں اور تیسرے محلہ کے کونے میں پرمیشر رہتا ہے کیونکہ جو چیزیں انادی اور اپنا اپنا وجود مستقل رکھتی ہیں ان میں پرمیشر دہنس نہیں سکتا۔ کیا تم سرب بیاپک ہو سکتے ہو۔ پس سوچ کر دیکھو کہ انادی اور غیر مخلوق ہونے کی حیثیت سے تم میں اور پرمیشر میں کیا فرق ہے پس وہ کیونکر غیر میں دھنس جائے گا۔ پس خواہ مخواہ تمہاراپرمیشر محدود ہوگیا اور بوجہ محدود ہونے کے علم بھی محدود ہوگیا مگر اس خدا کو کون محدود کہہ سکتا ہے جس کو قرآن شریف نے پیش کیا ہے جس کی نسبت وہ کہتا ہے کہ ہر ایک جان کی وہی جان ہے۔ جس کے ساتھ وہ زندہ ہے اور ذرّہ ذرّہ اس کے ہاتھ سے نکلا اور اسی کے سہارے سے موجود ہے اور سب چیز پر وہ محیط ہے کیونکہ ہر ایک چیزاسی سے نکلی ہے۔
نادان انسان جو تعصب سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایک بات اپنے منہ سے نکالتاہے اور کبھی ارادہ نہیں رکھتا کہ اس کا فیصلہ کرے۔ یہی آریہ صاحبان کا حال ہے گویا وہ اس دنیا میں
صورت میں جو صفتیں بُت پرستوں نے چار دیوتاؤں کے لئے مقرر کررکھی تھیں۔ خدا تعالیٰ نے ان سب کو اپنی ذات میں جمع کردیا ہے اور صرف اپنی ذات کو ان صفات کا منبع ظاہر فرمایا۔ بُت پرست قدیم سے یہ بھی خیال کرتے تھے کہ خدا کی اصولی صفات یعنی جو اصل جڑ تمام صفات کی ہیں وہ صرف چار ہیں۔ پیدا کرنا پھر مناسب حال سامان عطا کرنا۔ پھر ترقی کے لئے عمل کرنے والوں کی مدد کرنا پھر آخر میں جزاسزا دینا اور وہ ان چار صفات کو چار دیوتاؤں کی طرف منسوب کرتے تھے۔ اسی بناپر نوح کی قوم کے بھی چار ہی دیوتا تھے اور انہیں صفات کے لحاظ سے عرب کے بت پرستوں نے بھی لات۔ منات و عزیٰ اور ہبل بنا رکھے تھے۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ چار دیوتا بالارا دہ دنیا میں اپنے اپنے رنگوں میں پرورش کررہے ہیں اور ہمارے شفیع ہیں اور ہمیں خدا تک بھی یہی پہنچاتے ہیں۔ چنانچہ یہ مطلب آیت 3 ۱سے ظاہر ہے۔
اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں وید بھی ان چاروں دیوتاؤں کی مہما اور ا ستت کی ترغیب دیتا ہے اور وید میں اگرچہ اور دیوتاؤں کا بھی ذکر ہے لیکن اصولی دیوتے جن سے اور سب دیوتے پیدا ہوئے ہیں یا یوں کہو کہ ان کی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 460
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/460/mode/1up
ہمیشہ رہیں گے ورنہ ہم کہتے ہیں کہ اگر تم قرآن شریف کی ایک بات کو بھی ردّ کر سکو تو جو تاوان چاہو ہم پر لگالو خواہ تم تمام جائداد ہماری لے لو۔ مگر کیا کسی کی نیت ہے کہ آرام سے اور آہستگی سے جیسا کہ عدالت میں مقدمات فیصلہ پاتے ہیں کسی چیز کا فیصلہ کرے ہرگز نہیں پس صبر کرو جب تک خدا ہمارا تمہارا فیصلہ کرے۔
(۲)ؔ ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ فرشتے خدائے تعالیٰ کو جاکرنیکی ابدی کی خبر دیتے ہیں اور اس وقت تک وہ بے خبر ہوتا ہے۔ الجواب:۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین ورنہ کھول کر دکھلاؤ کہ کہاں قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مَیں مخلوق کے حال سے بے خبر ہوں جب تک کوئی فرشتہ مجھے خبر نہ دے۔ وہ تو بار بار قرآن شریف میں کہتا ہے کہ ذرّہ ذرّہ کی مجھے خبر ہے۔ ایک پتہ بھی میرے حکم کے بغیر نہیں گرتا۔ میں تعجب کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کی روحیں ہیں کہ دلیری سے
شاخ ہیں وہ چار ہی ہیں کیونکہ کام بھی چار ہی ہیں۔ پس قرآن شریف کی پہلی غرض یہی تھی کہ وید وغیرہ مذاہب کے دیوتاؤں کو نیست و نابود کرے اور ظاہر کرے کہ یہ لوگوں کی غلطیاں ہیں کہ اور اور چیزوں کو دیوتا یعنی رب النوع بنا رکھا تھا بلکہ یہ چار صفتیں خاص خدا تعالیٰ کی ہیں اور ان چار صفتوں کے عرش کو خادموں اور نوکروں کی طرح یہ بیجان دیوتے اُٹھا رہے ہیں چنانچہ کسی نے کہا ہے۔
حمد را باتو نسبتے است درست بردر ہر کہ رفت بردرتست
پس یہ اعتراض کہ جو آریہ صاحبان ہمیشہ سے کرتے ہیں یہ تو درحقیقت ان کے ویدوں پر اعتراض ہے کیونکہ مسلمان تو اس خدا کی پرستش کرتے ہیں جو مخدوم ہے مگرآریہ صاحبان ان جھوٹے دیوتاؤں کو خدا سمجھ رہے ہیں جو خادموں اور نوکروں چاکروں کی طرح خدا تعالیٰ کی صفات اربعہ کا عرش اپنے سر پر اٹھا رہے ہیں بلکہ وہ تو چاکروں کے بھی چاکر ہیں کیونکہ ان پر اور طاقتیں بھی مسلط ہیں جو ملائک کے نام سے موسوم ہیں جو ان دیوتاؤں کی طاقتوں کو قائم رکھتے ہیں جن میں سے زبان شرع میں کسی کو جبرائیل کہتے ہیں اور کسی کو میکائیل اور کسی کو عزرائیل اور کسی کو اسرافیل اور سناتن دھرم والے اس قسم کے ملائک کے بھی قائل ہیں اور ان کا نام جَم رکھتے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 461
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/461/mode/1up
اس قدر افترا کرتے ہیں۔ سارا قرآن اس بات سے بھرا ہوا ہے کہ خدا ہر ایک چیز کا بالذات علم رکھتا ہے۔ پس ہم اس افترا کا کیا نام رکھیں کہ گویا مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا کو کچھ بھی اپنی مخلوق کی خبر نہیں جب تک فرشتے جاکر رپورٹ نہ دیں۔
(۳) ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا پہلے کچھ مدت تک بیکار رہا ہے کیونکہ دنیا ہمیشہ سے نہیں۔
الجواب:۔ یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان کے پیدا کرنے سے پہلے خدا بیکار تھا بلکہ وہ قرآن شریف میں بار بار کہتا ہے کہ مَیں قدیم سے خالق ہوں مگر اس بات کی تفصیل کہ وہ کس کس مخلوق کو پیدا کرتا رہا ہے یہ امر انسان کے احاطۂ اقتدار سے باہر ہے۔ ہم قرآن کی رُو سے ایمان رکھتے ہیں کہ وہ کبھی معطل نہیں رہا مگر اس کی تفصیل کو ہم نہیں جانتے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اس نے کتنی مرتبہ اس دنیا کو بنایا اور کتنی مرتبہ ہلاک کیا یہ لمبا اور غیر متناہی علم خدا کو ہے کسی دفتر میں یہ سما نہیں سکتا ہاں عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ صرف چند مدت سے خدا نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ پہلے کچھ نہ تھا اور قدیم سے وہ خالق نہیں ہے۔ سو یہ اعتراض ان پر کرو اور پھر آپ لوگوں کو شرم کرنا چاہئے کہ ہم تو مانتے ہیں کہ ہمارا خدا قدیم سے ذراتِ اجسام پیدا کرتا رہا اور قدیم سے روحیں بھی پیدا کرتا رہا مگر آپ لوگ تو قطع نظر قدیم کے ایک مرتبہ کے لئے بھی خدا ئے تعالیٰ کی ان صفات کو نہیں مانتے پھر کیوں اپنے گھر سے بے خبر رہ کر اسلام پر محض افترا کے طور پر اعتراض کر دیتے ہیں ورنہ حیا اور شرم کرکے قرآن شریف سے ہمیں دکھلادو کہ کہاں لکھا ہے کہ مَیں قدیم سے خالق نہیں ہوں مگر آپ کا پرمیشر تو بجز معمار یا نجار کی حیثیت سے زیادہ مرتبہ نہیں رکھتا اور کیونکر معلوم ہوا کہ وہ عالم الغیب ہے اس کا وید میں کیا ثبوت ہے ذرا ہوش سے جواب دو۔
(۴)ؔ ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ مسلمانوں کا خدا متغیر ہے کبھی کوئی حکم دیتا ہے کبھی کوئی۔ الجواب:۔ خدا آپ لوگوں کو ہدایت دے۔ قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ خدا متغیر ہے بلکہ یہ لکھا ہے کہ انسان متغیر ہے اس لئے اس کے مناسب حال خدا اس کے لئے تبدیلیاں کرتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 462
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/462/mode/1up
جب بچہ پیٹ میں ہوتا ہے تو صرف اس کو خون کی غذا ملتی ہے اور جب پیدا ہوتا ہے تو ایک مدت تک صرف دودھ پیتا ہے اور پھر بعد اس کے اناج کھاتا ہے اور خدا ئے تعالیٰ تینوں سامان اس کے لئے وقتاً فوقتاً پیدا کردیتا ہے۔ پیٹ میں ہونے کی حالت میں پیٹ کے فرشتوں کو جو اندرونی ذرات ہیں حکم کر دیتا ہے کہ اس کی غذا کے لئے خون بناویں اور پھر جب پیدا ہوتا ہے تو اس حکم کو منسوخ کر دیتا ہے تو پھر پستان کے فرشتوں کو جو اس کے ذرات ہیں حکم کرتا ہے جو اس کے لئے دودھ بناویں اور جب وہ دودھ سے پرورش پا چکتا ہے تو پھر اس حکم کو بھی منسوخ کر دیتا ہے تو پھر زمین کے فرشتوں کو جو اس کے ذرات ہیں حکم کرتا ہے جو اس کے لئے اخیر مدت تک اناج اور پانی پیدا کرتے رہیں۔ پس ہم مانتے ہیں کہ ایسے تغیر خدا کے احکام میں ہیں خواہ بذریعہ قانونِ قدرت اور خواہ بذریعہ شریعت ۔مگر اس سے خدا میں تغیر کونسا لازم آیا۔ شرم! شرم!! شرم!!!
مگر افسوس کہ وید کی رُو سے خدا ان تغیرات کامالک نہیں بن سکتا کیونکہ وید تو خدا کے فرشتوں کا منکر ہے۔ پس کیونکر دنیا کے ذرّات اور رُوحوں کی قوتیں اس کی آواز سُن سکتی ہیں۔ علم طبعی اور ہیئت کا سلسلہ تبھی خدا کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب طبعی طور پر ہر ایک ذرہ مخلوقات کا خدا کا فرشتہ مان لیا جائے ورنہ فرشتوں کے انکار سے دہریہ بننا پڑے گا کہ جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے پرمیشر کو اس کا کچھ بھی علم نہیں اور نہ اس کی مرضی اور ارادہ سے ہورہا ہے مثلاً کانوں میں سونا اور چاندی اور پیتل اور تانبا اور لوہا طیار ہوتا ہے اور بعض کانوں میں سے ہیرے نکلتے ہیں اورنیلم پیدا ہوتا ہے اور بعض جگہ یا قوت کی کانیں ہیں اور بعض دریاؤں میں سے موتی پیدا ہوتے ہیں اور ہر ایک جانور کے پیٹ سے بچہؔ یا انڈہ پیدا ہوتا ہے۔ اب خدا نے تو قرآن شریف میں ہمیں یہ سکھلایا ہے کہ یہ طبعی سلسلہ خود بخود نہیں بلکہ ان چیزوں کے تمام ذرات خدا کی آوازسنتے ہیں اور اس کے فرشتے ہیں یعنی اس کی طرف سے ایک کام کے لئے مقر رشدہ ہیں۔ پس وہ کام اس کی مرضی کے موافق وہ کرتے رہتے ہیں۔ سونے کے ذرات سونا بناتے رہتے ہیں اور چاندی کے ذرات چاندی بناتے رہتے ہیں اور موتی کے ذرات موتی بناتے ہیں اور انسانی وجود کے ذرات ماؤں کے پیٹ میں انسانی بچہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 463
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/463/mode/1up
طیّار کرتے ہیں اور یہ ذرات خود بخود کچھ بھی کام نہیں کرتے بلکہ خدا کی آواز سُنتے ہیں اور اس کی مرضی کے موافق کام کرتے ہیں اسی لئے وہ اس کے فرشتے کہلاتے ہیں اور کئی قسم کے فرشتے ہوتے ہیں یہ تو زمین کے فرشتے ہیں۔ مگر آسمان کے فرشتے آسمان سے اپنا اثر ڈالتے ہیں جیسا کہ سورج کی گرمی بھی خدا کا ایک فرشتہ ہے جو پھلوں کاپکانا اور دوسرے کام کرتا ہے اور ہوائیں بھی خدا کے فرشتے ہیں جو بادلوں کو اکٹھے کرتے اور کھیتوں کو مختلف اثر اپنے پہنچاتے ہیں اور پھر ان کے اوپر اور بھی فرشتے ہیں جو ان میں تاثیر ڈالتے ہیں۔ علوم طبعی اس بات کے گواہ ہیں کہ فرشتوں کا وجود ضروری ہے اور ان فرشتوں کو ہم بچشمِ خود دیکھ رہے ہیں۔ اب بقول آریہ صاحبان ویدان فرشتوں کا منکر ہے۔ پس اس طور سے وہ اس طبعی سلسلہ سے انکاری اور دہریہ مذہب کی بنیاد ڈالتا ہے کیا یہ امر بدیہی اور مشہود و محسوس نہیں کہ ہر ایک ذرہ ذراتِ اجسام میں سے ایک کام میں مشغول ہے۔ یہاں تک کہ شہد کی مکھیاں بھی خدا کی وحی سے ایک کام کررہی ہیں۔ پس وید اگر اس سلسلہ سے منکر ہے تو پھر اس کی خیر نہیں۔ اس صورت میں وہ تو دہریہ مذہب کا حامی ہوگا۔ اگر یہی وید ودّیا کا نمونہ ہے تو شاباش خوب نمونہ پیش کیا۔
(۵) ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ شفاعت پر بھروسہ شرک ہے۔
الجواب :۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 33 ۱ یعنی خدا کے اذن کے سوا کوئی شفاعت نہیں ہو سکتی۔قرآن شریف کی رُو سے شفاؔ عت کے معنے یہ ہیں کہ ایک شخص اپنے بھائی کے لئے دُعا کرے کہ وہ مطلب اس کو حاصل ہو جائے۔ یا کوئی بلا ٹل جائے۔ پس قرآن شریف کا حکم ہے کہ جو شخص خدا ئے تعالیٰ کے حضور میں زیادہ جھکا ہوا ہے وہ اپنے کمزور بھائی کے لئے دُعا کرے کہ اس کو وہ مرتبہ حاصل ہو یہی حقیقتِ شفاعت ہے۔ سو ہم اپنے بھائیوں کے لئے بیشک دُعا کرتے ہیں کہ خدا ان کو قوّت دے اور ان کی بلا دور کرے اور یہ ایک ہمدردی کی قسم ہے۔ پس اگر وید نے اس ہمدردی کو نہیں سکھلایا اور وید کی رُو سے ایک بھائی دوسرے کے لئے دُعا نہیں کر سکتا تو یہ بات وید کے لئے قابل تعریف نہیں بلکہ ایک
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 464
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/464/mode/1up
سخت عیب ہے۔ چونکہ تمام انسان ایک جسم کی طرح ہیں اس لئے خدا نے ہمیں بار بار سکھلایا ہے کہ اگرچہ شفاعت کو قبول کرنا اس کا کام ہے مگر تم اپنے بھائیوں کی شفاعت میں یعنی ان کے لئے دُعا کرنے میں لگے رہو اور شفاعت سے یعنی ہمدردی کی دُعا سے باز نہ رہو کہ تمہارا ایک دوسرے پر حق ہے۔ اصل میں شفاعت کا لفظ شفع سے لیا گیا ہے۔ شفع جفت کو کہتے ہیں جوطاق کی ضد ہے۔ پس انسان کو اس وقت شفیع کہا جاتا ہے جبکہ وہ کمال ہمدردی سے دوسرے کا جفت ہو کر اس میں فنا ہو جاتا ہے اور دوسرے کے لئے ایسی ہی عافیت مانگتا ہے جیسا کہ اپنے نفس کے لئے۔ اور یاد رہے کہ کسی شخص کا دین کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ شفاعت کے رنگ میں ہمدردی اس میں پیدا نہ ہو بلکہ دین کے دو ہی کامل حصّے ہیں۔ ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دُعا کرنا جس کو دوسرے لفظوں میں شفاعت کہتے ہیں۔
(۶) خدا کی کوئی آواز دنیا میں سنائی نہیں دیتی۔
الجواب:۔ تعجب کہ باوجودیکہ پنڈت لیکھرام کی موت سے تمام آریہ صاحبوں نے ۶؍ مارچ کے دن خدا ئے تعالیٰ کی آواز سن لی۔ اور خدا نے دنیا میں اشتہار دے دیا کہ لیکھرام بوجہ اپنی بدزبانیوں کے چھ۶ برس تک کسی کے ہاتھ سے مارا جائے گا وہ آواز نہ صرف ہم نے سُنی بلکہ ہمارے ذریعہ سے سب آریہ صاحبوں نے سُنی مگر کیا اب بھی ثابت نہ ہوا کہ خدا کی آواز دنیا کو سنائی دیتی ہے۔ آپ صاحبوں میں سے پکّے آریہ لالہ شرم پت اور لالہ ملاوا مل ساکن قادیان بہت سی خدا کی آوازوں کے گواہ ہیں۔ اگر وہ انکار کریں گے اور قوم کو خدا پر مقدم رکھیں گے اور جھوٹ بولیں گے تو شاید کوئی اور آواز آسمانی سُن لیں گے۔
المشتھر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 361
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
وہ خدا جس نے تمام رُوحیں اور ذرہ ذرہ عالم علوی اور سفلی کا پیدا کیا اُسی نے
اپنے فضل و کرم سے اِس رسالہ کے مضمون ہمارے دل میں پیدا کئے۔
اور
اس کا نام
ہے
نسیمِ دعوت
نام اس کا نسیمِ دعوت ہے
آریوں کے لئے یہ رحمت ہے
دِلِ بیمار کا یہ درماں ہے
طالبوں کا یہ یارِ خلوت ہے
کفر کے زہر کو یہ ہے تریاق
ہر ورق اس کا جامِ صحت ہے
غور کر کے اسے پڑھو پیارو
یہ خدا کے لئے نصیحت ہے
خاکساری سے ہم نے لکھا ہے
نہ تو سختی نہ کوئی شدّت ہے
قوم سے مت ڈرو خدا سے ڈرو
آخر اس کی طرف ہی رحلت ہے
سخت دل کیسے ہو گئے ہیں لوگ
سر پہ طاعون ہے پھر بھی غفلت ہے
ایک دنیا ہے مر چکی اب تک
پھر بھی توبہ نہیں یہ حالت ہے
مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں باہتمام حکیم فضل الدین صاحب بھیروی
بتاریخ ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ء چھپ کر شائع ہوا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 362
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 362
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 363
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 363
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/363/mode/1up
اُس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہورپذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے نہ اُس کی خَلْق سے۔ اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اُس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کوپایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ ہمارا سچا خدا بیشمار برکتوں والا ہے اور بیشمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا ۔اور بے شمار احسان والا اُس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔
بعد ھٰذا واضح ہو کہ آج آریہ سماج قادیان کی طرف سے میری نظر سے ایک اشتہار گزرا* جس پر سا۷ت فروری ۱۹۰۳ء تاریخ لکھی ہے اور مطبع چشمہ نور پریس امرتسر میں چھپا ہے جس کا عنوان اشتہار پر یہ لکھا ہے۔ ’’کادیانی پوپ کے چیلوں کی ایک ڈینگ کا جواب‘‘۔ اس اشتہار میں ہمارے سیّد و مولیٰ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اور میری نسبت اور میرے معزز احباب جماعت کی نسبت اس قدر سخت الفاظ اور گالیاں استعمال کی ہیں کہ بظاہر یہی دل چاہتا تھا ؔ کہ ایسے لوگوں کو مخاطب نہ کیا جاوے مگر
* اس کے بعد ایک اور تحریر ایک انگریزی اخبار میں جو آریہ سماج لاہور کی طرف سے نکلتی ہے اور ایک اور اشتہار طوطی رام نام ایک شخص کی طرف سے دیکھا گیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 364
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 364
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/364/mode/1up
خدا تعالیٰ نے اپنی وحی خاص سے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اس تحریر کا جواب لکھ اور مَیں جواب دینے میں تیرے ساتھ ہوں۔ تب مجھے اس مبشّر وحی سے بہت خوشی پہنچی کہ جواب دینے میں مَیں اکیلا نہیں۔ سو مَیں اپنے خدا سے قوت پاکر اُٹھا اور اُس کی رُوح کی تائید سے مَیں نے اس رسالہ کو لکھا اور جیسا کہ خدا نے مجھے تائید دی مَیں نے یہی چاہا کہ ان تمام گالیوں کو جو میرے نبی مطاع کو اور مجھے دی گئیں نظر انداز کر کے نرمی سے جواب لکھوں اور پھر یہ کاروبار خدا تعالیٰ کے سپرد کردوں۔
مگر قبل اس کے کہ مَیں اس اشتہار کا جواب لکھوں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحتاً کہتا ہوں کہ جو کچھ اس اشتہار کے لکھنے والوں اور ان کی جماعت نے محض دل دُکھانے اور توہین کی نیّت سے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اعتراضات کے پیرایہ میں سخت الفاظ لکھے ہیں یا میری نسبت مال خور اور ٹھگ اور کاذب اور نمک حرام کے لفظ کو استعمال میں لائے ہیں اور مجھے لوگوں کا دغا بازی سے مال کھانے والا قرار دیا ہے اور یا جو خود میری جماعت کی نسبت سؤر اور کتے اور مُردار خوار اور گدھے اور بندر وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور ملیچھ ان کا نام رکھا ہے۔ ان تمام دُکھ دینے والے الفاظ پر وہ صبر کریں اور مَیں اس جوش اور اشتعال طبع کو خوب جانتا ہوں کہ جو انسان کو اس حالت میں پیدا ہوتا ہے کہ جب کہ نہ صرف اس کو گالیاں دی جاتی ہیں بلکہ اس کے رسول اور پیشوا اور امام کو توہین اور تحقیر کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے اور سخت اور غضب پیدا کرنے والے الفاظ سنائے جاتے ہیں لیکن مَیں کہتا ہوں کہ اگر تم ان گالیوں اور بدزبانیوں پر صبر نہ کرو تو پھر تم میں اور دوسرے لوگوں میں کیا فرق ہوگا اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ تمہارے ساتھ ہوئی اور پہلے کسی سے نہیں ہوئی ہر ایک سچا سلسلہ جو دنیا میں قائم ہوا ضرور دنیا نے اس سے دشمنی کی ہے۔ سوچونکہ تم سچائی کے وارث ہو ضرور ہے کہ تم سے بھی دشمنی کریں سو خبردار رہو نفسانیت تم پر غالب نہ آوے، ہر ایک سختی کی برداشت کرو ہر ایک گالی کا نرمی سے جواب دو تا آسمان پر تمہارے لئے اجر
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 365
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 365
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/365/mode/1up
لکھا جاوے۔ تمہیں چاہئے کہ آریوں کے رشیوں اور بزرگوں کی نسبت ہرگز سختی کے الفاظ استعمال نہ کرو تا وہ بھی خدائے قدوؔ س اور اس کے رسول پاک کو گالیاں نہ دیں کیونکہ ان کو معرفت نہیں دی گئی اس لئے وہ نہیں جانتے کہ کس کو گالیاں دیتے ہیں۔ یاد رکھو کہ ہرایک جو نفسانی جوشوں کا تابع ہے۔ ممکن نہیں کہ اس کے لبوں سے حکمت اور معرفت کی بات نکل سکے بلکہ ہر ایک قول اس کا فساد کے کیڑوں کا ایک انڈہ ہوتا ہے بجز اس کے اور کچھ نہیں۔ پس اگر تم رُوح القدس کی تعلیم سے بولنا چاہتے ہو تو تمام نفسانی جوش اور نفسانی غضب اپنے اندر سے باہر نکال دو تب پاک معرفت کے بھید تمہارے ہونٹوں پر جاری ہوں گے اور آسمان پر تم دنیا کے لئے ایک مفید چیز سمجھے جاؤگے اور تمہاری عمریں بڑھائی جائیں گی تمسخر سے بات نہ کرو اور ٹھٹھے سے کام نہ لو اور چاہئے کہ سفلہ پن اور اوباش پن کا تمہارے کلام پرکچھ رنگ نہ ہو،تا حکمت کا چشمہ تم پر کھلے۔ حکمت کی باتیں دلوں کو فتح کرتی ہیں لیکن تمسخر اور سفاہت کی باتیں فساد پھیلاتی ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو سکے سچی باتوں کو نرمی کے لباس میں بتاؤ تا سامعین کے لئے موجب ملال نہ ہوں۔ جو شخص حقیقت کو نہیں سوچتااور نفس سرکش کا بندہ ہو کر بدزبانی کرتا ہے اور شرارت کے منصوبے جوڑتا ہے۔ وہ ناپاک ہے۔ اس کوکبھی خدا کی طرف راہ نہیں ملتی اور نہ کبھی حکمت اور حق کی بات اُس کے منہ پر جاری ہوتی ہے پس اگر تم چاہتے ہو کہ خدا کی راہیں تم پرکھلیں تو نفسانی جوشوں سے دُور رہو اور کھیل بازی کے طور پر بحثیں مت کرو کہ یہ کچھ چیز نہیں اور وقت ضائع کرنا ہے بدی کا جواب بدی کے ساتھ مت دو۔ نہ قول سے نہ فعل سے تا خدا تمہاری حمایت کرے اور چاہئے کہ درد مند دل کے ساتھ سچائی کو لوگوں کے سامنے پیش کرو نہ ٹھٹھے اور ہنسی سے کیونکہ مُردہ ہے وہ دل جو ٹھٹھا ہنسی اپنا طریق رکھتا ہے اور ناپاک ہے وہ نفس جو حکمت اور سچائی کے طریق کو نہ آپ اختیار کرتا ہے اور نہ دوسرے کو اختیار کرنے دیتا ہے۔ سو تم اگر پاک علم کے وارث بننا چاہتے ہو تو نفسانی جوش سے کوئی بات
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 366
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 366
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/366/mode/1up
منہ سے مت نکالو کہ ایسی بات حکمت اور معرفت سے خالی ہوگی اور سفلہ اور کمینہ لوگوں اور اوباشوں کی طرح نہ چاہو کہ دشمن کو خواہ نخواہ ہتک آمیز اور تمسخر کا جواب دیا جاوے بلکہ دل کی راستی سے سچا اور پُر حکمت جواب دو تا تم آسمانی اسرار کے وارث ٹھہرو۔
اسؔ جگہ یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ قادیان کے آریوں کا یہ حملہ جو میرے پر کیا گیا ہے یہ ایک ناگہانی ہے ان دنوں میں کوئی تحریر میری طرف سے شائع نہیں ہوئی اور نہ میرے قلم سے اور نہ میری تعلیم سے اور نہ میری تحریک سے کسی نے کوئی اشتہار شائع کیا۔ پس خواہ نخواہ مجھے نشانہ بنانا اور مجھے گالیاں دینا اور میرے سیّد و مولیٰ جناب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت توہین و تحقیر کے الفاظ لکھنا اور اس طرح پر مجھے دوہرے طور پر دُکھ دینا مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس قدر نفسانی جوش کیوں دکھلایا گیا۔ بعض قادیان کے آریہ جو میرے پاس آتے تھے۔ بارہا مَیں نے ان کو نصیحت کی کہ زبان کی چالاکیوں کا نام مذہب نہیں ہے مذہب ایک پاک کیفیت ہے جو ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو پہچان لیتے ہیں اور مَیں نے ان کو بارہا یہ بھی کہا کہ دیکھو طاعون کا زمانہ ہے اور دنیا کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ جب یہ کسی ملک میں بڑے زور سے بھڑکتی رہی ہے تو اس کا یہی موجب ہوتا رہا ہے کہ زمین پاپ اور گناہ سے بھر جاتی تھی اور خدا کی طرف سے جو آتا تھا اس سے انکار کیا جاتا تھا اور جب بھی کہ آسمان کے نیچے اس قسم کا کوئی بڑا گناہ ظہور میں آیا اور بیباکی حد سے بڑھ گئی تبھی یہ بلا ظہور میں آئی۔ اب بھی یہ گناہ انتہا تک پہنچ گیا ہے دنیا میں ایک عظیم الشان نبی انسانوں کی اصلاح کے لئے آیا یعنی سیّدنا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس نے اس سچے خدا کی طرف لوگوں کو بلایا جس کو دنیا بھول گئی تھی۔ لیکن اس زمانہ میں اُسی کامل نبی کی ایسی توہین اور تحقیر کی جاتی ہے جس کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں مل سکتی پھر خدا نے چودھویں صدی کے سر پر اپنے ایک بندہ کو جو یہی لکھنے والا ہے بھیجا تا اس
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 367
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 367
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/367/mode/1up
نبی کی سچائی اور عظمت کی گواہی دے اور خدا کی توحید اور تقدیس کو دنیا میں پھیلاوے اس کو بھی گالیوں کا نشانہ بنایا گیا سو یہ بُرے دن جو زمانہ دیکھ رہا ہے اس کا یہی باعث ہے کہ دلوں میں خدا کا خوف نہیں رہا اور زبانیں تیز ہوگئیں۔ ہر ایک جوش محض قوم اور سوسائٹی کے لئے دکھلاتے ہیں۔ خدا کی عظمت ان لوگوں کے دلوں میں نہیں۔
غرض کئی دفعہ ایسی نصیحتیں قادیان کے ان آریوں کو کی گئیں لیکن نتیجہ برخلاف ہوا اور وہ خدا کی عظمت سے بالکل نہیں ڈرے۔ شاید دلوں میں یہ خیال ہوگا کہ گو طاعون قادیان کے ارد ؔ گرد لوگوں کو ہلاک کررہی ہے مگر ہمیں کیا غم ہم تو ٹیکا لگانے کے بعد ہمیشہ کیلئے طاعون کے پنجہ سے رہائی یاب ہوگئے ہیں بڑا تعجب ہے کہ ایسے خطرناک دن اور پھر یہ لوگ زبان کو اپنے قابو میں نہیں رکھتے نہیں سوچتے کہ جس نبی کو ہم گالیاں دیتے ہیں اور اس کی تحقیر اور توہین کرتے ہیں اگر وہ خدا کی طرف سے ہے اور ضرور وہ خدا کی طرف سے ہے تو کیا یہ بدزبانیاں اور بے ادبیاں خالی جائیں گی۔ سنو اے غافلو! ہمارا اور ان را ستبازوں کا تجربہ جوہم سے پہلے گزرچکے ہیں گواہی دیتا ہے کہ خدا کے پاک رسولوں کی بے ادبی کا انجام اچھا نہیں ہوتا ہر ایک نیک طینت جانتا ہے کہ خدا کے پاس ہر ایک بدی اور شوخی کی سزا ہے اور ہر ایک ظلم کا پاداش ہے۔
ایک اعتراض کا جواب
اب ہم آریہ صاحبوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہیں جو انہوں نے اپنے اشتہار میں ہماری جماعت کے نو مسلم آریوں پر کیا ہے اور وہ یہ کہ یہ مسلمان ہونا ان کا تب صحیح ہوتا کہ اول وہ چاروں وید پڑھ لیتے اور پھر ویدوں کے پڑھنے کے بعد چاہئے تھا کہ وہ آریہ دھرم کا اسلام سے مقابلہ کرتے اور پھر اس قدر تحقیق و تفتیش کے بعد اگر اسلام کو حق دیکھتے تو مسلمان ہو جاتے سو واضح ہو کہ ہمارے نو مسلم آریہ جہاں تک حق تحقیق کا ہے سب کچھ ادا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 368
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 368
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/368/mode/1up
کر کے مشرف باسلام ہوئے ہیں باقی رہا یہ اعتراض کہ انہوں نے چاروں وید کب پڑھے ہیں یہ اعتراض اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ جب اعتراض کرنے والے اپنے وید خوان ہونے کا ثبوت دیتے افسوس کہ انہوں نے اعتراض کرتے وقت انصاف اور خدا ترسی سے کام نہیں لیابھلا اگر انہوں نے سچائی کی پابندی سے یہ اعتراض پیش کیا ہے تو ہمیں بتلاویں کہ ان میں سے وہ تمام لوگ رام رام کرنے والے جو سناتن دھرم پر قائم تھے اور پھر چند سال سے وہ آریہ بنے انہوں نے کس پنڈت سے وید پڑھا ہے کیونکہ اگر مذہب کی تبدیلی کیلئے پہلے ویدوں کا پڑھ لینا ضروری شرط ہے تو اس شرط سے آریہ کیونکرباہر رہ سکتے ہیں یہ بات کسؔ کو معلوم نہیں کہ پنڈت دیانند کے وجود سے پہلے اس ملک میں تمام ہندوسناتن دھرم مذہب رکھتے تھے اور ابھی تک ان کے ٹھاکر دوارے اس گاؤں میں بھی موجود ہیں اور ان کے پنڈت اور وید دان آریہ ورت میں بکثرت پائے جاتے ہیں اور بہتوں کو ہم نے خود دیکھا ہے اور وید جو اُردو اور انگریزی میں ترجمہ ہو چکے ہیں ان پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وید کے اکثر ارتھ جو سناتن دھرم والے کرتے ہیں وہی ٹھیک ہیں۔ خیر اس بحث کو اس وقت جانے دو بہر حال جو اعتراض ان آریہ صاحبوں نے نو مسلم ہندوؤں پر کیا ہے وہی اعتراض ان پر بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک زمانہ تو وہ تھا کہ وہ رام چندر، کرشن اور دیگر اوتاروں کو پر میشر جانتے تھے مورتی پوجا کو وید کی ہدایت سمجھتے تھے اور سب سے زیادہ یہ کہ ویدانت کے اصول کے موافق اپنے تئیں پرمیشر میں سے نکلے ہوئے خیال کرتے تھے اور پھرآریہ بننے کے بعد وہ سب خیالات پلٹ گئے اور بجائے اس کے کہ پرمیشر میں سے نکلے ہوں انادی اور غیر مخلوق کہلا کر خود قدیم اور پرمیشر کے شریک بن گئے۔ پس کیا اس قدر انقلاب کے لئے حسب عقیدہ ان کے یہ ضرور نہ تھا کہ ہر ایک فرد اُن میں سے اوّل چاروں ویدپڑھ لیتا پھر اپنے قدیم مذہب سناتن دھرم کو چھوڑتا اور آریہ سماج میں داخل ہوتا۔ پس اگر
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 369
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 369
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/369/mode/1up
قادیان کے آریہ سماجیوں نے نو مسلم آریوں پر اعتراض کرنے کے وقت جھوٹ اور حق پوشی سے کام نہیں لیا تو ہمیں دکھلاویں کہ ان کی جماعت آریوں میں کتنے وہ لوگ ہیں جن کو رگ اور یجر اور شام اور اتھر بن وید سب کنٹھ ہیں اگر اس بات میں وہ سچے نکلے کہ اپنی سب جماعت انہوں نے وید دان ثابت کردی تو کم سے کم ہم ان کو شریف آدمی مان لیں گے جنہوں نے اپنے اعتراض میں کسی ایسی جھوٹی بات کو پیش نہیں کیا جس کے آپ وہ پابند نہیں تھے۔ یہ کس کو معلوم نہیں کہ یہ تمام مجمع قادیان والوں کا ایک بازاری دوکان نشینوں کا مجمع ہے جن میں سے کوئی ساہوکارہ کا شغل رکھتا ہے اور کوئی بزازی کرتا ہے اور کوئی نون تیل کی دوکان رکھتا ہے اور جہاں تک ہم کو علم ہے ان میں سے ایک بھی ویددان نہیں پس کیا ان لوگوں کے مقابل پر وہ شریف نو مسلم آریہ جاہل کہلا سکتے ہیں جو بعض ان کے بی۔اے تک تعلیم یافتہ ہیں اور انگریزی اور اُردو ترجمے ویدوں کے پڑھتے ہیں اور دن رات دین کی تعلیم پاتے ہیں۔
پھرؔ ماسوا اس کے یہ ہمارا دعویٰ صرف قادیان تک محدود نہیں بلکہ ہم اس امر کی پوری اطلاع رکھتے ہیں کہ ہرایک شہر اور قصبہ کا آریہ سماج اکثر ایسے ہی ذخیرہ سے بھرا ہوا ہے اور یہ خیال ہرگز ہرگز صحیح نہیں ہے کہ جن لوگوں نے سناتن دھرم کو الوداع کہہ کر باوجود سخت اختلاف کے آریہ سماجی بننا قبول کیا ہے پہلے وہ اپنے گھر سے چاروں وید پڑھ کر آئے تھے بلکہ ہم زور سے کہتے ہیں کہ تمام پنجاب اور ہندوستان میں بجز معدودے چند جن کو انگلیوں پرگن سکتے ہیں تمام مجموعہ آریوں کا ایسا ہی ہے کہ ہر ایک دوکاندار یا ساہوکار نے آریوں میں نام لکھا رکھا ہے اور خود بجز بڑے پیٹ اور لمبی موچھوں اور دوکان کے حساب کے اور کچھ یاد نہیں۔
اور یہ باتیں میری بے تحقیق نہیں بلکہ مَیں آریہ صاحبوں کو ہزار۱۰۰۰ روپیہ بطور انعام دینے کو طیار ہوں اگر وہ میرے پر ثابت کردیں کہ جس قدر ان کی فہرست میں مردو زن آریہ درج ہیں یا یوں کہو کہ جس قدر آریہ سماجی کہلانے والے مرد ہوں یا عورات ہوں برٹش انڈیا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 370
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 370
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/370/mode/1up
میں موجود ہیں فیصدی اُن میں سے پانچ ایسے پنڈت پائے جاتے ہیں جو چاروں وید سنسکرت میں جانتے ہیں اگر چاہیں تو میں کسی سرکاری بینک میں یہ روپیہ جمع کرا سکتا ہوں۔ اب بتلاؤ کہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ خود رافضیحت و دیگرے رانصیحت اگر حیا اور سچائی سے کام لیا جاتا تو ایسے اعتراضات کی کیا ضرورت تھی جو خود آریہ سماج پر ہی وارد ہوتے ہیں۔ ہمارے دیکھنے کی بات ہے کہ آریوں کا یہ مجموعہ صرف اس طرح پر طیار ہوا ہے کہ مہاجنوں ساہوکاروں ملازموں کو طرح طرح کے حیلوں سے ترغیب دی گئی کہ تم آریہ سماج میں نام لکھا دو تو بہت سے لالہ صاحبوں نے اِس طرح پر نام لکھا رکھے ہیں اور اصل حقیقت کی کچھ بھی خبر نہیں اور اکثروں کے گھروں میں دیوتا پرستی اور مورتی پوجا کے تعلقات بھی بدستور قائم ہیں یہ بات ایسی مخفی نہیں ہے جس کی تحقیق کرنے کیلئے کچھ زیادہ مشقت کی حاجت ہو تم کسی شہر یا قصبہ میں چلے جاؤ اور تحقیقات کر لو کہ کس قدر اس میں آریہ سماجی ہیں۔ اور کس قدر ان میں سے ویددان ہیں پس جبکہ آریہ سماجی بننے کی یہ کیفیت ہے تو پھر کون ایسے تعلیم یافتہ نو مسلم آریوں پر اعتراض کر سکتا ہے جو اوّل ہندو تھے اور پھر سناتن دھرم اور آریوں کے اصولوں کوخوب معلوم کر کے اور اس کے مقابل پر اسلام کے اصول دیکھ کر اور سچائی اور عظمت الٰہی ان میں مشاہدہ کر کے مشرف باسلام ہوگئے محضؔ خدا کے لئے دُکھ اُٹھائے اور بیویوں بھائیوں عزیزوں سے الگ ہوئے اور قوم کی گالیاں سُنیں۔ اِن نو مسلم آریوں کے تبدیل مذہب کو غرض نفسانی پرمحمول کر نا یہ طعن ہندوؤں کا کچھ نیا نہیں بلکہ قدیم سے اس مذہب کے متعصب لوگوں کی عادت ہے کہ جب کوئی اور معقول جواب نہیںآتا تو یہی کہہ دیا کرتے ہیں کہ مال کے لئے یا کسی عورت کے لئے ہندومذہب کو چھوڑ دیا ہے اور یہ بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ کروڑہا ہندو جو مسلمان ہوگئے وہ مسلمان بادشاہوں کے جبر سے ہوئے تھے۔ بعض ہندو جوش میں آکر یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ مسلمان ہونے والے دراصل مسلمانوں کا ہی نطفہ ہیں اور نہیں سوچتے کہ یہ اعتراض تو ہماری
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 371
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 371
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/371/mode/1up
ہی کروڑہا عورتوں پر آتا ہے۔ آج کل کی تحقیقات سے ثابت ہے کہ اسلامی بادشاہوں کے عہد کا زمانہ جو سات سو برس تک تھا اگر انگریزوں کے زمانہ سے جو سو برس تک ابھی گزرا ہے مقابلہ کیا جائے تو اس میں جس قدر ہندو کثرت سے مسلمان ہوئے ہیں اس کی اوسط زیادہ نکلتی ہے اور خود غرضی کا الزام تو بہت ہی قابلِ شرم ہے کیونکہ بعض ہندو امیروں، رئیسوں اور راجوں نے اسلام کے بعد کئی لاکھ روپیہ دینی امداد میں دیا ہے اور ہمارے غریب نو مسلم آریہ ہمیشہ اپنی کمائی سے ہمیں چندہ دیتے ہیں پھر تعجب کہ یہ مخالف لوگ ایسے بیجا بہتانوں سے باز نہیں آتے اور جس حالت میں اکثر آریہ اپنی عورتوں کو چھوڑ کر اسلام کی طرف آتے ہیں تو اِس صورت میں پھر ان کو عورتوں کا الزام دینا کیا اس قسم کے اعتراضات دیانت کے اعتراض ہیں مثلاً ذرا سوچو کہ سردارفضل حق اور شیخ عبدالرحیم جو نو مسلم آریہ ہیں ہندو ہونے کی حالت میں کس قسم کی حاجت رکھتے تھے جو اسلام سے پوری ہوئی۔
تبدیل مذہب کیلئے جس قدر علم درکار ہے اس کی سچی فلاسفی
اب ہم فائدہ عام کے لئے اس امر کی سچی فلاسفی بیان کرتے ہیں کہ تبدیل مذہب کے لئے کس قدر واقفیت ضروری ہے۔ کیا بقول آریہ سماج قادیان جب مثلاً ایک ہندو تبدیل مذہب کرنے لگے تو اوّل اس کو چاروں وید سنسکرت میں پڑھ لینے چاہئیں یا عقل اور انصاف کے رُو سے اس میں کوئی اور قاعدہ ہے۔
پسؔ واضح ہو کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں یہ ہرگز صحیح نہیں ہے کہ تبدیل مذہب کے لئے ایک ہندو کایہ فرض ہے کہ اوّل چاروں وید سبقًا سبقًا کسی پنڈت سے پڑھ لے اور پھر اگر چاہے تو کوئی اور مذہب اختیار کرے کیونکہ اگر یہ صحیح ہو تو مذہب کی تبدیلی کے لئے صرف وہی لوگ لائق ہوں گے جو وید دان پنڈت ہوں حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ صدہا ہندو جو ویدوں کا ایک صفحہ بھی نہیں پڑھ سکتے سناتن دھرم سے نکل کر آریہ سماجی بنتے جاتے ہیں اور
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 372
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 372
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/372/mode/1up
بموجب حال کی مردم شماری کے پنجاب میں آریہ مت والے مرد نو ہزار سے زیادہ نہیں اور اس قدر جماعت آریہ میں شاید ایک دو پنڈت ہوں یا نہ ہوں باقی سب عوام ہندوہیں جو محض چند باتیں سُن کر آریہ بن گئے ہیں اور اپنے قدیم مذہب سناتن دھرم کو چھوڑ دیا ہے اور جیسا کہ آریہ سماجی لوگ مسلمان ہونے والے آریوں کا نام برہشٹ اور ملیچھ رکھتے ہیں یہی نام سناتن دھرم کی طرف سے ان کوملتا ہے اور مذہب سے ان کو خارج سمجھتے ہیں اور وید کے منکر قرار دیتے ہیں پھر باوجود اس قدر مخالفت شدید اور اختلاف عقائد کے جو سناتن دہرم اور آریہ سماجیوں میں اظہر من الشّمس ہے ایک جاہل سے جاہل سناتن دھرم والا جب آریہ بننے کے لئے آتا ہے تو کوئی اس کو نہیں کہتا کہ اوّل چاروں وید پڑھ لے بلکہ اس کا آریہ سماجی بننا غنیمت سمجھتے ہیں خاص کر اگر کوئی دولت مند ساہوکار ہو گو کیسا ہی جاہل ہو تو پھر کیا کہنا ہے ایک شکار ہاتھ آگیا اس کو کون چھوڑے بھلا بتلایئے آپ کے لالہ بڈھا مل صاحب کتنے وید پڑھے ہوئے ہیں جو سناتن دھرم چھوڑ کر آریہ بن گئے۔ ایسا ہی دوسرے لالہ صاحبان جو انہیں کے بھائی بند ہیں اپنے اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کر سوچیں کہ ان کو وید دانی میں کیا کیا کمالات حاصل ہیں۔ پس اس صورت میں ظاہر ہے کہ جو اعتراض نو مسلم آریوں پر کیا جاتا ہے وہی در اصل آریوں پر بھی ہوتا ہے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ جوآریہ ہندومسلما ن ہوتا ہے چونکہ اس کوپہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو بہت سے دشمنوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا اس لئے طبعاً وہ اسی وقت مسلمان ہوتا ہے جب وہ اپنے دل میں حق اور باطل کا فیصلہ کر لیتاہے۔
اور یہ فیصلہ چاروں وید پڑھنے پر منحصر نہیں ورنہ تبدیل مذہب کا دروازہ ہی بند ہو جائے اورنیز اس صورت میں یہ بھی لازم آتا ہے کہ آریہ سماج والے بجز ایک دو وید دان پنڈتوں کے جو اُنؔ میں ہوں باقی سب ہندوؤں کو سناتن دھرم کی طرف واپس کردیں اور ان کو ہدایت کردیں کہ جب تم وید پڑھ کر آؤگے تب تمہیں آریہ سماج میں داخل کیا جاوے گا پہلے نہیں۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 373
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 373
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/373/mode/1up
ہوش مند انسان اس بات کو جلد سمجھ سکتا ہے کہ اگر تبدیل مذہب کے لئے عالم فاضل ہونا ضروری ہے تو ہندوستان کے کروڑہا ہندو عوام الناس جو کچھ علم نہیں رکھتے اور مختلف فرقوں پر تقسیم شدہ ہیں وہ آریہ سماج میں داخل ہونے کے لائق نہیں ہوسکتے جب تک سب کے سب ویددان نہ ہوں اور شاستروں کو سبقًا سبقًا نہ پڑھ لیں۔
پس سُنو اور خوب کان کھول کر سُنو کہ تبدیل مذہب کیلئے تمام جزئیات کی تفتیش کچھ ضروری نہیں بلکہ سچائی کی تلاش کرنے والے کے لئے مذاہب موجودہ کا باہم مقابلہ کرنے کے وقت اور پھر ان میں سے سچا مذہب شناخت کرنے کے لئے صرف تین باتوں کا دیکھنا ضروری ہے۔ (۱) اوّل یہ کہ اس مذہب میں خدا کی نسبت کیا تعلیم ہے یعنی اس کی توحید اور قدرت اور علم اور کمال اور عظمت اور سزا اور رحمت اور دیگر لوازم اور خواص الوہیّت کی نسبت کیا بیان ہے کیونکہ اگر کوئی مذہب خدا کو واحد لاشریک قرار نہیں دیتا اور آسمان کے اجرام یا زمین کے عناصر یا کسی انسان یا اور چیزوں کو خدا جانتا ہے یا خدا کے برابر ٹھہراتا ہے اور ایسی پرستشوں سے منع نہیں کرتا یا خدا کی قدرت کو ناقص خیال کرتا ہے اور جہاں تک امکانِ قدرت ہے وہاں تک قدرت کے سلسلہ کو نہیں پہنچاتا یا اس کے علم کو ناتمام جانتا ہے یا اس کی قدیم عظمت کے برخلاف کوئی تعلیم دیتا ہے یا سزا اور رحمت کے قانون میں افراط یا تفریط کی راہ لیتا ہے یا اس کی رحمت عامہ جیسا کہ جسمانی طورپر محیط عالم ہے اس کے برخلاف کسی خاص قوم سے خدا کا خاص تعلق اور رُوحانی نعمت کے وسائل کو مخصوص رکھتا ہے یا الوہیت کے خواص میں سے کسی خاصہ کے برخلاف بیان کرتا ہے تو وہ مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ (۲) دوسرے طالب حق کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ اس مذہب میں جس کو وہ پسند کرے اس کے نفس کے بارے میں اور ایسا ہی عام طور پر انسانی چال چلن کے بارے میں کیا تعلیم ہے۔ کیا کوئی ایسی تعلیم تو نہیں کہ جو انسانی حقوق کے باہمی رشتہ کو توڑتی ہو یا انسان کو دیوثی کی طرف کھینچتی ہو یادیّوثی امور کو مستلزم ہو اور فطرتی حیا اور شرم کی مخالف ہو اورؔ نہ کوئی ایسی تعلیم ہو کہ جو خدا کے عام
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 374
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 374
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/374/mode/1up
قانون قدرت کے مخالف پڑی ہو اور نہ کوئی ایسی تعلیم ہو جس کی پابندی غیر ممکن یا منتج خطرات ہو اور نہ کوئی ضروری تعلیم جو مفاسد کے روکنے کے لئے اہم ہے ترک کی گئی ہو اور نیز یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ تعلیم ایسے احکام سکھلاتی ہے یا نہیں کہ جو خدا کو عظیم الشان محسن قرار دے کر بندہ کارشتۂ محبت اس سے محکم کرتے ہوں اور تاریکی سے نور کی طرف لے جاتے ہوں اور غفلت سے حضور اور یادداشت کی طرف کھینچتے ہوں۔
(۳) تیسرے طالب حق کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس مذہب کو پسند کرے جس کا خداایک فرضی خدا نہ ہو جو محض قصّوں اور کہانیوں کے سہارے سے مانا گیا ہو اور ایسا نہ ہو کہ صرف ایک مُردہ سے مشابہت رکھتا ہو کیونکہ اگر ایک مذہب کا خدا صرف ایک مُردہ سے مشابہ ہے جس کا قبول کرنا محض اپنی خوش عقیدگی کی وجہ سے ہے نہ اس وجہ سے کہ اس نے اپنے تئیں آپ ظاہر کیا ہے تو ایسے خدا کا ماننا گویا اس پر احسان کرنا ہے اور جس خدا کی طاقتیں کچھ محسوس نہ ہوں اور اپنے زندہ ہونے کے علامات وہ آپ ظاہر نہ کرے اس پر ایمان لانا بے فائدہ ہے اور ایسا خدا انسان کو پاک زندگی بخش نہیں سکتا اور نہ شبہات کی تاریکی سے باہر نکال سکتا ہے اور ایک مُردہ پرمیشر سے ایک زندہ بیل بہتر ہے جس سے کاشتکاری کر سکتے ہیں۔ پس اگر ایک شخص بے ایمانی اور دنیا پرستی پر جھکا ہوا نہ ہو تو وہ زندہ خدا کو ڈھونڈے گا تا اس کا نفس پاک اور روشن ہو جائے اور کسی ایسے مذہب پر راضی نہیں ہوگا جس میں زندہ خدا اپنا جلوہ قدرت نہیں دکھلاتا اور اپنے جلال کی بھری ہوئی آواز سے تسلی نہیں بخشتا۔
یہ تین ضروری امر ہیں جو تبدیل مذہب کرنے والے کے لئے قابلِ غور ہیں پس اگر کوئی شخص کسی مذہب کو ان تین معیاروں کے رُو سے دوسرے مذاہب پر فائق اور غالب پاوے تو اُس کا فر ض ہوگا کہ ایسے مذہب کو اختیار کرے اور اس قدر تحقیق کے لئے نہ کسی بڑے پنڈت بننے کی حاجت ہے اور نہ کسی بڑے پادری بننے کی ضرورت ہے اور خدا نے جیسا کہ جسمانی زندگی کے لئے جن جن چیزوں کی حاجت ہے جیسے پانی ، ہوا، آگ اور خوردنی چیزیں وہ ان کے لئے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 375
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 375
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/375/mode/1up
جو عمداً خودکشی نہ کرنا چاہیں بکثرت پیدا کر رکھی ہیں اسی طرح اس نے روحانی زندگی کے لئے اپنی ہدایت کے طریقوں کو ؔ انسانوں کے لئے بہت سہل و آسان کر دیا ہے تا انسان اس مختصر عمر میں فوق الطاقت مشکلات میں نہ پڑیں اور امور ثلاثہ جو ہم نے اُوپر ذکر کئے ہیں۔ ان کے لئے ایک عمر خرچ کرنے اور عالم فاضل بننے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر ایک حامی مذہب جو اپنے اصول شائع کرتا ہے انہیں اصولوں سے پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ اس معیار کے موافق ہیں یا نہیں اور اگر وہ اپنے اصولوں کے بیان کرنے میں کچھ جھوٹ بولے یا کسی بات کو چھپاوے تو وہ خیانت پوشیدہ نہیں رہ سکتی کیونکہ علمی زمانہ ہے اور صدہا پہلو ایسے ہیں جن سے حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے۔
اب جبکہ مذکورہ بالا بیانات سے ببداہت ثابت ہے کہ تبدیل مذہب کے لئے ہرگز ایسی ضرورت نہیں کہ کسی دین کے تمام فروع اصول اور جزئیات کلیات معلوم کئے جائیں بلکہ امور متذکرہ بالا کی واقفیت کافی ہے تو اس صورت میں ان نو مسلم آریوں کا کیا قصور ہے جو ان ضروری امور کی تحقیق کر کے مشرف باسلام ہوئے ہیں اور جس صورت میں خود آریہ سماج کے گروہ میں سکھ جٹ سنار اور جاہل دوکاندار آریوں میں شامل ہیں جو بغیر چاروں وید پڑھنے کے بلکہ بدوں ان امور ثلاثہ مذکورہ بالا کی تحقیق کے سناتن دھرم اور خالصہ مذہب سے جو ان کے قدیم مذاہب تھے دست بردار ہو کر آریہ مت میں داخل ہوگئے ہیں اور اکثرلوگ ان میں سے نادان اور جاہل ہیں گویا کُل ذخیرہ آریہ مت کا بجزشاذو نادر اشخاص کے انہیں عوام الناس سے بھرا ہوا ہے تو پھر کیوں ان غریب نو مسلم آریوں پر اعتراض کیا جاتا ہے جنہوں نے ارکانِ ثلاثہ پر خوب غور کر کے مذہب اسلام اختیار کیا ہے۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ یہ بات تعلیق بالمحال ہے کہ کسی مذہب کے اختیار کرنے کے لئے پہلے اپنے آبائی مذہب کی کتاب اور اس کی تفسیروں کو سبقاً سبقًااوّل سے آخر تک پڑھ لینا ضروری ہے اس شرط کو نہ کوئی آریہ دکھاسکتا ہے اور نہ کوئی پادری بلکہ یہ صرف ناحق کی نیش زنی ہے جو راستبازی سے بعید
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 376
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 376
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/376/mode/1up
ہے۔ دنیا میں عالم فاضل کی ڈگری حاصل کرنے والے تو ہر ایک مذہب میں تھوڑے ہوتے ہیں بلکہ تبحر علمی میں پورے کامل ہر ایک ملک میں دس بیس سے زیادہ نہیں ہوتے مگر دوسرے لوگ کروڑہا ہوتے ہیں جو نہ پنڈت کہلاویں اور نہ پادری کے نام سے ملقّب ہوں اور نہ مولوی ہونے کا عمامہ سر پر رکھتے ہیں اور انہیں میں اکثر طالب حق بھی ہوتے ہیںؔ اور ان کے لئے کافی ہوتا ہے کہ وہ اس قدر دیکھ لیں کہ کسی مذہب میں خدا کے بارے میں کیا تعلیم ہے اور پھر مخلوق کے بارے میں کیا تعلیم ہے اور پھر اس تعلیم کا ثمرہ کیا ہے کیا وہ اُس خدا تک پہنچاتی اور اُس مخفی ذات کو دکھلاتی ہے جو زندہ خدا ہے یا اس کو محض قصّوں کے سہارے پر چھوڑتی ہے جیسا کہ ہم ان امور ثلاثہ کی ابھی تصریح کر چکے ہیں اور عقلِ سلیم ببداہت اس بات کو سمجھتی ہے کہ جو شخص ان تینوں امور میں کسی مذہب کو کامل پائے گا وہی مذہب سچا ہوگا کیونکہ یہ تسلی جھوٹے مذہب میں ہرگز مل نہیں سکتی۔
اب ہم ناظرین پر بڑے زور سے اس بات کا ثبوت ظاہرکرتے ہیں کہ یہ تینوں قسم کی خوبیاں محض اسلام میں پائی جاتی ہیں اور باقی جس قدر مذاہب روئے زمین پر ہیں۔ کیا آریہ اور کیا عیسائی اور کیا کوئی اور مذہب وہ ان سہ گونہ خوبیوں سے خالی ہیں اور ہم طول بیان سے پرہیز کر کے ہر ایک خوبی کے ذیل میں اسلام اور ان دونوں مذہبوں کا کچھ ذکر کریں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
اوّل
خدا تعالیٰ کے متعلق عیسائی صاحبوں اور آریہ صاحبوں کی
کیا تعلیم ہے اور قرآن شریف کی کیا تعلیم
عیسائی صاحبان اس بات کے اقرار ی ہیں کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کامل خدا ہیں، جن کے اندر چا۴ر روحیں موجود ہیں۔ ایک۱ بیٹے کی دوسر۲ے باپ کی، تیسر۳ی روح القدس کی، چوتھی۴ انسان کی اور یہ مربع خدا ہمیشہ کے لئے مربّع ہوگا بلکہ اس کو
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 377
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 377
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/377/mode/1up
مخمس کہیں تو بجا ہے کیونکہ اس کے ساتھ جسم بھی ہمیشہ ہی رہے گا لیکن اب تک اس بات کا جواب نہیں دیا گیا کہ اس خدا کا وہ جسم جو ختنہ کے وقت اس سے علیحدہ کیا گیا تھا اور وہ جسم جو تحلیل ہوتا رہا اور یا ہمیشہ ناخنوں اور بالوں کے کٹانے کی وجہ سے کم ہوتا رہا کیا وہ بھی کبھی اس جسم کے ساتھ شامل کیا جائے گا یا ہمیشہ کے لئے اس کو داغ جدائی نصیب ہوا ۔ہر ایک عقلمند کو معلوم ہے کہ یہ علم طبعی کا مسلّم اور مقبول اور ؔ تجربہ کردہ مسئلہ ہے کہ تین برس تک پہلا جسم تحلیل پاکر نیا جسم اس کی جگہ آجاتا ہے اور پہلے ذرات الگ ہو جاتے ہیں پس اس حساب سے تینتیس برس کے عرصہ میں حضرت مسیح کے گیارہ جسم تحلیل پائے ہوں گے اور گیار۱۱ہ نئے جسم آئے ہوں گے اب طبعًا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ گیارہ مفقود شدہ جسم پھر حضرت مسیح کے موجودہ جسم کے ساتھ شامل ہو جائیں گے یا نہیں اور اگر نہیں شامل ہوں گے تو کیا بوجہ کسی گناہ کے وہ علیحدہ رکھنے کے لائق تھے یا کسی اور وجہ سے علیحدہ کئے گئے اور اس ترجیح بلامرجح کا کیا سبب ہے اور کیوں جائز نہیں کہ اس موجودہ جسم کو دُور کر کے وہی پہلے جسم حضرت مسیح کو دیئے جائیں۔ اور کیا وجہ کہ جبکہ گیارہ دفعہ اس بات کا تجربہ ہو چکا ہے کہ حضرت مسیح تمام انسانوں کی طرح تین برس کے بعد نیا جسم پاتے رہے ہیں اور تینتیس برس تک گیارہ نئے جسم پا چکے ہیں تو پھر کیوں اب باوجود دو ہزار برس گزرنے کے وہی پرانا جسم ان کے ساتھ لازم غیرمنفک رہا اگر اس جسم کے غیرفانی بننے کی وجہ ان کی خدائی ہے تو ان پہلے دنوں میں بھی تو خدائی موجود تھی جبکہ ہر ایک تین برس کے بعد پہلا چولہ جسم کا وہ اُتارتے رہے ہیں اور وہ جسم جو خدائی کا ہمسایہ تھا خاک و غبار میں ملتا رہا تو کیوں یہ موجودہ جسم بھی ان سے الگ نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی ذرہ سوچو کہ انسان کے جسم کے پہلے ذرات اس سے الگ ہو جانا تو کوئی غیر معمولی بات نہیں بلکہ رحم سے نکلتے ہی ایک حصہ اس کے جسم کے زواید کا الگ کرنا پڑتا ہے اور ناخن اور بال ہمیشہ کٹانے پڑتے ہیں اور بسا اوقات بباعث بیماری بہت دُبلا ہو جاتا ہے اور پھر کھانے پینے سے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 378
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 378
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/378/mode/1up
نیا جسم آجاتا ہے مگر خدا کے گیارہ جسم اس سے الگ ہو جائیں اس میں بیشک خدا کی ہتک ہے ہاں جیسا کہ چاروں روحوں کے عقیدہ میں ایک راز تسلیم کیا گیا ہے اگر اس جگہ بھی یہی جواب دیا جائے کہ اس میں بھی کوئی راز ہے تو پھر بحث کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ مگر بار بار راز کا بہانہ پیش کرنا یہ ایک بناوٹ اور کمزوری کی نشانی ہے۔
پھر دوسری تعجب یہ ہے کہ اس تخمیس کا نام تثلیث کیوں رکھا گیا ہے جبکہ بموجب عیسائی عقیدہ کے چاروں روحیں مسیح کے جسم میں ابدی اور غیر فانی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی اور انسانی روح بھی بباعث غیر فانی ہونے کے اس مجموعہ سے کبھی الگ نہیں ہوگی اور نہ کبھی جسمؔ الگ ہوگا تو پھر یہ تو تخمیس ہوئی نہ تثلیث۔ اب ظاہر ہے کہ واضعانِ تثلیث سے یہ ایک بڑی ہی غلطی ہوئی ہے جو انہوں نے تخمیس کو تثلیث سمجھ لیا مگر اب بھی یہ غلطی درست ہو سکتی ہے اور جیسا کہ گذشتہ دنوں میں تثلیث کے لفظ کی نسبت ثالوث تجویز کیا گیا تھا اب بجائے ثالوث کے تخمیس تجویز ہوسکتی ہے غلطی کی اصلاح ضروری ہے مگر افسوس کہ اس پا۵نچ پہلو والے خدا کی کچھ نہ کچھ مرمت ہی ہوتی رہتی ہے۔
اب خلاصہ کلام یہ کہ عیسائی مذہب توحید سے تہی دست اور محروم ہے بلکہ ان لوگوں نے سچے خدا سے منہ پھیرکر ایک نیا خدا اپنے لئے بنایا ہے جو ایک اسرائیلی عورت کا بیٹا ہے مگر کیا یہ نیا خدا ان کا قادر ہے جیسا کہ اصلی خدا قادر ہے۔ اس بات کے فیصلہ کے لئے خود اس کی سرگذشت گواہ ہے کیونکہ اگر وہ قادر ہوتا تو یہودیوں کے ہاتھ سے ماریں نہ کھاتا ۔رومی سلطنت کی حوالات میں نہ دیا جاتا اور صلیب پر کھینچا نہ جاتا۔ اور جب یہودیوں نے کہا تھا کہ صلیب پر سے خود بخود اُتر آ ہم ابھی ایمان لے آئیں گے اُس وقت اُتر آتا۔ لیکن اس نے کسی موقعہ پر اپنی قدرت نہیں دکھلائی۔ رہے اس کے معجزات سو واضح ہو کہ اس کے معجزات دوسرے اکثر نبیوں کی نسبت بہت ہی کم ہیں مثلاً اگر کوئی عیسائی ایلیا نبی کے معجزات سے جو بائبل میں مفصل مذکور ہیں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 379
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 379
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/379/mode/1up
جن میں سے مُردوں کا زندہ کرنا بھی ہے مسیح ابن مریم کے معجزات کا مقابلہ کرے تو اس کو ضرور اقرار کرنا پڑے گا کہ ایلیا نبی کے معجزات شان اور شوکت اور کثرت میں مسیح ابن مریم کے معجزات سے بہت بڑھ کر ہیں ہاں انجیلوں میں بار بار اس معجزہ کا ذکرہے کہ یسوع مسیح مَصر و عوں یعنی مرگی زدہ لوگوں میں سے جن نکالا کرتا تھا اور یہ بڑا معجزہ اس کا شمار کیا گیا ہے جو محققین کے نزدیک ایک ہنسی کی جگہ ہے آج کل کی تحقیقات سے ثابت ہے کہ مرض صَرع ضعفِ دماغ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے یا بعض اوقات کوئی رسولی دماغ میں پیدا ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ کسی اور مرض کا یہ عرض ہوتی ہے لیکن ان تمام محققین نے کہیں نہیں لکھا کہ اس مرض کا سبب جن بھی ہوا کرتے ہیں۔ قرآن شریف کا حضرت مسیح ابن مریم پر یہ بھی احسان ہے کہ اس کے بعض معجزات کا ذکر تو کیا لیکن یہ نہیں لکھا کہ وہ مرگی زدہ بیماروں میں سے جن بھی نکالا کرتا تھا۔ اور قرآن شریف میں حضرت مسیح ابنِ مریم کے معجزات کا ذکر اس غرض سے نہیں ہے کہؔ اس سے معجزات زیادہ ہوئے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ یہودی اس کے معجزات سے قطعاً منکر تھے اور اس کو فریبی اور مکّار کہتے تھے پس خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہودیوں کے دفع اعتراض کے لئے مسیح ابن مریم کو صاحب معجزہ قرار دیا اور اسی حکمت کی وجہ سے اس کی ماں کا نام صدّیقہ رکھا کیونکہ یہودی اس پر ناجائز تہمت لگاتے تھے سو مریم کا صدیقہ نام رکھنا اس غرض سے نہیں تھا کہ وہ دوسری تمام پاک دامن اور صالحہ عورتوں سے افضل تھی بلکہ اس نام کے رکھنے میں یہودیوں کے اعتراض کا ذَبّ اور دفع مقصود تھا۔ اسی طرح جو احادیث میں لکھا گیا کہ عیسیٰ اور اس کی ما ں مسِ شیطان سے پاک تھے اس قول کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دوسرے نبی مسِ شیطان سے پاک نہیں تھے بلکہ غرض یہ تھی کہ نعوذ باللہ جو حضرت مسیح پر ولادتِ ناجائز کا الزام لگایا گیا تھا اور حضرت مریم کو ناپاک عورت قرار دیا گیا تھا۔ اس کلمہ میں اس کا ردّ مقصود ہے ایسا ہی حضرت
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 380
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 380
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/380/mode/1up
مسیح کی پیدائش بھی کوئی ایسا امر نہیں ہے جس سے ان کی خدائی مستنبط ہو سکے۔ اسی دھوکہ کے دُور کرنے کے لئے قرآن شریف اور انجیل میں حضرت عیسیٰ اور یحییٰ کی ولادت کا قصہ ایک ہی جگہ بیان کیا گیا ہے تا پڑھنے والا سمجھ لے کہ دونوں ولادتیں اگرچہ بطور خارق عادت ہیں لیکن ان سے کوئی خدا نہیں بن سکتا ورنہ چاہئے کہ یحییٰ بھی جس کا عیسائی یوحنا نام رکھتے ہیں خدا ہو بلکہ یہ دونوں امر اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ نبوت اسرائیلی خاندان میں سے جاتی رہے گی یعنی جبکہ یسوع مسیح کا باپ بنی اسرائیل میں سے نہ ہوا اور یحییٰ کی ماں اور باپ اس لائق نہ ٹھہرے کہ اپنے نطفہ سے بچہ پیدا کر سکیں تو یہ دونوں بنی اسرائیلی سلسلہ سے خارج ہوگئے اور یہ آئندہ ارادۂ الٰہی کے لئے ایک اشارہ قرار پاگیا کہ وہ نبوت کو دوسرے خاندان میں منتقل کرے گا۔ ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کا کوئی اسرائیلی باپ نہیں ہے پس وہ بنی اسرائیل میں سے کیونکر ہو سکتا ہے لہٰذا اس کا وجود اسرائیلی سلسلہ کے دائمی نبوت کی نفی کرتا ہے ایسا ہی یوحنا یعنی یحییٰ اپنے ماں باپ کے قویٰ میں سے نہیں ہے سو وہ بھی اسی کی طرف اشارہ ہے۔
اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ مسیح کے کسی معجزہ یا طرز ولادت میں کوئی ایسا اعجوبہ نہیں کہ وہ اس کی خدائی پر دلالت کرے اسی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کی ولادت کے ذکر ؔ کے ساتھ یحییٰ کی ولادت کا ذکر کر دیا تا معلوم ہو کہ جیسا کہ یحییٰ کی خارق عادت ولادت ان کو انسان ہونے سے باہرنہیں لے جاتی ایسا ہی مسیح ابن مریم کی ولادت اس کو خدا نہیں بناتی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ یوحنا کی ولادت حضرت عیسیٰ کی ولادت سے کوئی کم عجیب تر نہیں بلکہ حضرت عیسیٰ میں صرف باپ کی طرف میں ایک خارق عادت امر ہے اور حضرت یحییٰ میں ماں اور باپ دونوں کی طرف میں خارق عادت امر ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت یحییٰ کی پیدائش کانشان بہت صاف رہا ہے کیونکہ ان کی ماں پرکوئی ناجائز تہمت نہیں لگائی گئی اور بوجہ اس کے کہ وہ بانجھ تھی تہمت کا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 381
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 381
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/381/mode/1up
کوئی محل بھی نہیں تھا۔ لیکن حضرت مریم پر تہمت لگائی گئی اور اس تہمت نے حضرت عیسیٰ کی ولادت کے اعجوبہ کو خاک میں ملا دیا مگر اس تہمت میں صرف یہودیوں کا قصور نہیں بلکہ خود حضرت مریم سے ایک بڑی بھاری غلطی ہوئی جس نے یہود کو تہمت کا موقعہ دیا اور وہ یہ کہ جب اس نے اپنے کشف میں فرشتہ کو دیکھا اور فرشتہ نے اس کو حاملہ ہونے کی بشارت دی تو مریم نے عمداً اپنے خواب کو چھپایا اور کسی کے پاس اس کو ظاہر نہ کیا کیونکہ اس کی ماں اور باپ دونوں نے اس کو بیت المقدس کی نذر کیا تھا تا وہ ہمیشہ تارکہ رہ کر بیت المقدس کی خدمت میں مشغول رہے اور کبھی خاوند نہ کرے اور بتول کا لقب اس کو دیا گیا اور اس نے آپ بھی یہی عہد کیا تھا کہ خاوند نہیں کرے گی اور بیت المقدس میں رہے گی۔ اب اس خواب کے دیکھنے سے اس کو یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر میں لوگوں کے پاس یہ ظاہر کرتی ہوں کہ فرشتہ نے مجھے یہ بشارت دی ہے کہ تیرے لڑکا پیدا ہوگا تو لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ خاوند کرنا چاہتی ہے اس لئے وہ اس خواب کو اندر ہی اندر دبا گئی لیکن وہ خواب سچی تھی اور ساتھ ہی اس کے حمل ہوگیا جس سے مریم مدت تک بے خبر رہی جب پانچواں مہینہ حمل پر گزرا تب یہ چرچا پھیل گیا کہ مریم کو حمل ہے اور اس وقت لوگوں کو خواب سنادی لیکن اُس وقت سُنانا بے فائدہ تھا۔ آخر بزرگوں نے پردہ پوشی کے طور پر یوسف نام ایک شخص سے اس کا نکاح کر دیا اس طرح پر یہ نشان مکدّر ہوگیا۔
رہی حضرت مسیح کی پیشگوئیاں پس وہ تو ایسی ہیں کہ اب تک یہودی اس پر ہنسی کرتے ہیں کیونکہ ایسی باتیں کہ زلزلے آئیں گے قحط پڑیں گے لڑائیاں ہوں گی عادت میں داخل ہیں اور ہمیشہ ہوتی رہتی ؔ ہیں اور نیز یہودی کہتے ہیں کہ ان کی کوئی بات جو پیشگوئی کے رنگ میں تھی سچی نہیں نکلی چنانچہ یہ اعتراض ان کے اب تک لاینحلچلے آتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے بارا۱۲ں حواریوں کو جو ان کے سامنے موجود تھے بہشت کا وعدہ دیا تھا بلکہ ان کے لئے بارہ تخت تجویز کئے تھے لیکن آخرکاربارا۱۲ں میں سے گیار۱۱ہ رہ گئے اورباروا۱۲ں حواری جو یہوداا سکر یوطی تھا وہ مُرتد ہوگیا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 382
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 382
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/382/mode/1up
اور 3 تیس روپیہ لے کر حضرت عیسیٰ کو اس نے گرفتار کرا دیا اگر یہ پیشگوئی خدا کی طرف سے ہوتی تو یہودا مُرتد نہ ہوتا۔ ایسا ہی ان کا یہ بھی اعتراض ہے کہ ان کی یہ پیشگوئی کہ ابھی اس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ مَیں واپس آجاؤں گا یہ پیشگوئی بھی بڑی صفائی سے خطا گئی۔ کیونکہ انیس سو برس گزر گئے اور اس زمانہ کے لوگ مدت ہوئی کہ مرکھپ گئے لیکن وہ واپس نہیں آئے۔
غرض ان تمام باتوں سے ظاہر ہے کہ وہ ہرگز کسی بات پر قادر نہیں تھا صرف ایک عاجز انسان تھا اور انسانی ضعف اور لاعلمی اپنے اندر رکھتا تھا اور انجیل سے ظاہر ہے کہ اس کو غیب کا علم ہرگز نہیں تھا کیونکہ وہ ایک انجیر کے درخت کی طرف پھل کھانے گیا اور اس کو معلوم نہ ہوا کہ اس پر کوئی پھل نہیں ہے اور وہ خود اقرار کرتا ہے کہ قیامت کی خبر مجھے معلوم نہیں پس اگر وہ خدا ہوتا تو ضرور قیامت کا علم اس کو ہونا چاہئے تھا اسی طرح کوئی صفت الوہیت اس میں موجود نہیں تھی اور کوئی ایسی بات اس میں نہیں تھی کہ دوسروں میں نہ پائی جائے عیسائیوں کو اقرار ہے کہ وہ مر بھی گیا۔ پس کیسا بدقسمت وہ فرقہ ہے جس کا خدا مر جائے۔ یہ کہنا کہ پھر وہ زندہ ہوگیا تھا کوئی تسلی کی بات نہیں جس نے مر کر ثابت کر دیا کہ وہ مربھی سکتا ہے اس کی زندگی کا کیا اعتبار۔
اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ موجودہ مذہب عیسائیوں کا ہرگز خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے کیونکہ جس کو انہوں نے خدا قرار دیا ہے وہ کسی طرح خدا نہیں ہو سکتا۔ خدا پر ہرگز موت نہیں آسکتی اور نہ وہ علم غیب سے محروم ہوسکتاہے ۔
ابؔ ہم اسی پیمانہ سے آریہ مذہب کوناپنا چاہتے ہیں کہ آیا وہ سچے اور کامل اور واحد لاشریک خدا کو مانتے ہیں یا اس سے برگشتہ ہیں۔ پس واضح ہو کہ اوّل علامت خدا شناسی کی توحید ہے یعنی خدا کو اس کی ذات میں اور صفات میں ایک ماننا اور کسی خوبی میں اس کا کوئی شریک قرار نہ دینا۔ لیکن ظاہر ہے کہ آریہ سماجی لوگ ذرہ ذرہ کو خدا تعالیٰ کی ازلیت کی صفت میں شریک قرار دیتے ہیں* اور جس طرح خدا تعالیٰ اپنے وجود اور ہستی میں کسی خالق کا محتاج نہیں
* یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ مسلمان بھی انسانی ارواح کو ابدی قرار دیتے ہیں کیونکہ قرآن شریف یہ نہیں سکھلاتا کہ انسانی ارواح اپنی ذات کے تقاضا سے ابدی ہیں بلکہ وہ یہ سکھلاتا ہے کہ یہ ابدیت انسانی روح کے لئے محض عطیہ الٰہی ہے ورنہ انسانی روح بھی دوسرے حیوانات کی روحوں کی طرح قابل فنا ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 383
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 383
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/383/mode/1up
اسی طرح ان کے نزدیک جیو ء یعنی روح اور پرمانو یعنی ذرّات اجسام بھی اپنے وجود اور ہستی میں کسی خالق کی طرف محتاج نہیں بلکہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ قدیم اور انادی ہیں اور اپنے اپنے وجود کے آپ ہی خدا ہیں اب ظاہر ہے کہ اس عقیدہ کے رُو سے نہ خدا کی توحید باقی رہتی ہے نہ اس کی عظمت میں سے کچھ باقی رہ سکتا ہے بلکہ اس صور ت میں اس کی شناخت پر کوئی دلیل بھی قائم نہیں ہو سکتی کیونکہ صانع اپنے مصنوعات سے ہی شناخت ہوتا ہے پس جبکہ رُوحوں اور جسموں کی تمام قوتیں خود بخود اور قدیم ہیں تو پھر خدا کے وجود پر کونسی دلیل قائم ہوئی اور عقل انسانی نے کیونکر سمجھ لیا کہ وہ موجود ہے۔ یہ کہنا بیجا ہے کہ وہ ان ذرات کو جوڑتا ہے اور روح اور جسم کو تعلق بخشتا ہے اور اسی سے وہ پہچانا جاتا ہے کیونکہ صرف جوڑنے سے کوئی شخص خدا نہیں کہلا سکتاوجہ یہ ہے کہ اگر صرف جوڑنے سے کوئی خدا کہلا سکتا ہے تو اس صورت میں تو تمام نجار اور معمار خدا کہلا سکتے ہیں کیونکہ جوڑنے کا کام تو انہیں بھی آتاہے۔ دیکھو حال کے زمانہ میں کیسی کیسی عمدہ صنعتیں یورپ کے صناعوں نے ایجاد کی ہیں یہاں تک کہ مادرزاد اندھوں کے دیکھنے کے لئے بھی ایک آلہ نکالا ہے۔ اور آئے دن کوئی نہ کوئی نئی صنعت نکال لیتے ہیں یہاں تک کہ ایک قسم کے مُردہ جانوروں میں روح ڈالنے کا طریق بھی انہوں نے ایجاد کیا ہے یعنی جب کوئی جانور ایسے طور سے مر جائے جو اس کے اعضائے رئیسہ کو صدمہ نہ پہنچے اور اس کی موت پر کچھ زیادہ عرصہ بھی نہ گزرے تو وہ اس کو اپنی حکمت عملی سے دوبارہ زندہ کرتے ہیں گو حقیقی طور پر وہ زندگی نہیں ہوتی۔ تاہم اعجوبہ نمائی میں کیا شک ہے۔ امریکہ میں آج کل یہ عمل کثرت سے پھیل رہا ہے۔ مگر کیاایسی صنعتوں سے وہ خدا کہلاؔ سکتے ہیں؟
پس اصل بات یہ ہے کہ خدا کی قدرت میں جو ایک خصوصیت ہے جس سے وہ خدا کہلاتا ہے وہ روحانی اور جسمانی قوتوں کے پیدا کرنے کی خاصیت ہے۔ مثلاً جانداروں کے جسم کو جو اُس نے آنکھیں عطا کی ہیں اس کام میں اس کا اصل کمال یہ نہیں ہے کہ اُس نے یہ آنکھیں بنائیں بلکہ کمال یہ ہے کہ اُس نے ذراتِ جسم میں پہلے سے ایک پوشیدہ طاقتیں پیدا کر رکھی تھیں۔ جن میں بینائی کا نور
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 384
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 384
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/384/mode/1up
پیدا ہو سکے پس اگر وہ طاقتیں خود بخود ہیں تو پھر خدا کچھ بھی چیز نہیں کیونکہ بقول شخصے کہ گھی سنوارے سا لنا بڑی بہوکا نام۔ اس بینائی کو وہ طاقتیں پیدا کرتی ہیں خدا کو اس میں کچھ دخل نہیں اور اگر ذرّاتِ عالم میں وہ طاقتیں نہ ہوتیں تو خدائی بے کار رہ جاتی پس ظاہر ہے کہ خدائی کا تمام مدار اِس پر ہے کہ اس نے روحوں اور ذرات عالم کی تمام قوتیں خود پیدا کی ہیں اور کرتا ہے اور خود ان میں طرح طرح کے خواص رکھے ہیں اور رکھتا ہے پس وہی خواص جوڑنے کے وقت اپنا کرشمہ دکھلاتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے خدا کے ساتھ کوئی موجد برابر نہیں ہو سکتا کیونکہ گو کوئی شخص ریل کا موجد ہو یا تارکا یا فوٹو گراف کا یا پریس کا یا کسی اور صنعت کا اس کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ ان قوتوں کا موجد نہیں جن قوتوں کے استعمال سے وہ کسی صنعت کو طیار کرتا ہے بلکہ یہ تمام موجد بنی بنائی قوتوں سے کام لیتے ہیں جیسا کہ انجن چلانے میں بھاپ کا طاقتوں سے کام لیا جاتا ہے پس فرق یہی ہے کہ خدا نے عنصر وغیرہ میں یہ طاقتیں خود پیدا کی ہیں مگر یہ لوگ خود طاقتیں اور قوتیں پیدا نہیں کرسکتے۔پس جب تک خدا کو ذرّاتِ عالم اور ارواح کی تمام قوتوں کا موجد نہ ٹھہرایا جائے تب تک خدائی اس کی ہرگز ثابت نہیں ہو سکتی اور اس صورت میں اس کا درجہ ایک معمار یا نجّار یا حدّاد یا گِلگو سے ہرگز زیادہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک بدیہی بات ہے جو ردّ کے قابل نہیں۔ پس دانشمند کو چاہئے کہ سمجھ کر جواب دے کہ بغیر سمجھ کے جواب دینا صرف بکواس ہے۔
یہ نمونہ آریہ سماجیوں کی توحید کا ہے اور پھر دوسرا امر کہ وہ اپنے پرمیشر کو قادر کس درجہ تک سمجھتے ہیں خود ظاہر ہے کیونکہ جب کہ ان کا یہ مانا ہوا اصول ہے کہ ان کا پرمیشر نہ ارواح کا خالق ہے نہ ذرّاتِ اجسام کا تو اس سے ظاہر ہے کہ اس کی قدرت ان کے نزدیک صرف اسؔ حد تک ہے کہ وہ باہم جسم اور رُوح کو جوڑتا ہے اور جو ارواح اور اجسام میں گُن اور خواص اور عجیب و غریب قوتیں ہیں وہ ان کے نزدیک انادی اور خود بخود ہیں پرمیشر کا ان میں کچھ بھی دخل نہیں اب اِس سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک ان کے پرمیشر کی قوت اور قدرت نجّاروں اور آہن گروں وغیرہ صناعوں سے کچھ زیادہ نہیں کیونکہ زیادتی تو تب ہو کہ وہ ان قوتوں اور گُنوں اور خاصیتوں کا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 385
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 385
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/385/mode/1up
پیدا کرنے والا بھی ہو اور جبکہ وہ سب خاصیتیں اور قوتیں اور گن اور طرح طرح کی طاقتیں ارواح اور ذرّات اجسام میں قدیم اور انادی ہیں جیسا کہ خود ارواح اور ذرّات اجسام قدیم اور انادی ہیں تو اِس صورت میں ماننا پڑتا ہے کہ جس پرمیشر نے ان ارواح اور ذرّات کو پیدا نہیں کیا اس نے ان کی قوتوں کو بھی پیدا نہیں کیا کیونکہ کوئی چیز اپنی قوتوں سے الگ نہیں رہ سکتی۔ ہر ایک چیز کی قوتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور وہی اس کی صورتِ نوعیہ کو قائم رکھتی ہیں اور جب وہ قوت اور گُن باطل ہو جائے تو ساتھ ہی وہ چیز باطل ہو جاتی ہے پس اگر یہ مانا جائے کہ پرمیشر نے روحوں اور ذرّاتِ عالم کو پیدا نہیں کیا۔ تو ساتھ ہی ماننا پڑتا ہے کہ اس نے اس کی قوتوں اور گنوں اور خاصیتوں کو بھی پیدا نہیں کیا اور اس صورت میں بدیہی طور پر نتیجہ یہ نکلتاہے کہ پرمیشرکی قدرت اور قوت انسانی قوت اور قدرت سے بڑھ کر نہیں کیونکہ ہم بار بار کہتے ہیں کہ انسان سے زیادہ پرمیشر میں یہی بات ہے کہ وہ قوتوں اور گُنوں اور خاصیتوں کا اپنی قدرت سے پیدا کرنے والا ہے مگر انسان گو کیسا ہی انواع اقسام کے ایجادات میں سبقت لے جائے مگر وہ قوتوں اور گُنوں اور خاصیتوں کو اپنے مطلب کے موافق ارواح اور اجسام میں پیدا نہیں کر سکتا۔ ہاں جو خدا کی طرف سے پہلے ہی سے قوتیں اور گُن اور خاصیتیں موجود ہیں ان سے کام لیتا ہے مگر خدا نے انسانوں میں جس مطلب کا ارادہ کیا ہے پہلے سے اس مطلب کی تکمیل کے لئے تمام قوتیں خود پیدا کر رکھی ہیں مثلاً انسانی روحوں میں ایک قوت عشقی موجود ہے اور گو کوئی انسان اپنی غلطی سے دوسرے سے محبت کرے اور اپنے عشق کا محل کسی اور کو ٹھہراوے لیکن عقل سلیم بڑی آسانی سے سمجھ سکتی ہے کہ یہ قوتِ عشقی اس لئے روح میں رکھی گئی ہے کہ تا وہ اپنے محبوب حقیقی سے جو اس کا خدا ہے اپنے سارے دل اور ساری طاقت اور سارے جوش سے پیار کرے۔
پسؔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ قوت عشقی جو انسانی روح میں موجود ہے جس کی موجیں ناپیدا کنار ہیں اور جس کے کمال تموج کے وقت انسان اپنی جان سے بھی دست بردار ہونے کو طیار ہوتا ہے یہ خود بخود رُوح میں قدیم سے ہے، ہرگز نہیں۔ اگر خدا نے انسان اور اپنی ذات میں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 386
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 386
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/386/mode/1up
عاشقانہ رشتہ قائم کرنے کے لئے رُوح میں خود قوتِ عشقی پیدا کر کے یہ رشتہ آپ پیدا نہیں کیا تو گویا یہ امر اتفاقی ہے کہ پرمیشر کی خوش قسمتی سے رُوحوں میں قوتِ عشقی پائی گئی اور اگر اس کے مخالف کوئی اتفاق ہوتا یعنی قوتِ عشقی روحوں میں نہ پائی جاتی تو کبھی لوگوں کو پرمیشر کی طرف خیال بھی نہ آتا اور نہ پرمیشر اس میں کوئی تدبیر کر سکتا کیونکہ نیستی سے ہستی نہیں ہو سکتی۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی سوچنا چاہئے کہ پرمیشر کا بھگتی اور عبادت اور نیک اعمال کے لئے مواخذہ کرنا اس بات پر دلیل ہے کہ اس نے خود محبت اور اطاعت کی قوتیں انسان کی روح کے اندر رکھی ہیں لہٰذا وہ چاہتا ہے کہ انسان جس میں خود اس نے یہ قوتیں رکھی ہیں اس کی محبت اور اطاعت میں محو ہو جائے ورنہ پرمیشر میں یہ خواہش پیدا کیوں ہوئی کہ لوگ اس سے محبت کریں اس کی اطاعت کریں اور اس کی مرضی کے موافق رفتار اور گفتار بناویں ہم دیکھتے ہیں کہ باہمی کشش کے لئے کسی قسم کا اتحاد ضروری ہے انسان انسان کے ساتھ انس رکھتا ہے اور بکری بکری کے ساتھ اور گائے گائے کے ساتھ اور ایک پرندہ اپنے ہم قسم پرندہ کے ساتھ پس جبکہ انسان کی روحانی اور جسمانی قوتوں کو پرمیشر کے ساتھ کوئی بھی رشتہ نہیں تو کس اشتراک سے باہمی کشش درمیان ہو ، صرف جوڑنے کا اشتراک کافی نہیں کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں جوڑنے میں پرمیشر اور ایک نجار یا آہن گر برابر ہیں اگر ہمارا کوئی عضو اپنے ٹھکانہ سے اُتر جائے اور کوئی شخص اس کو اصل جگہ سے جوڑ دے یا مثلاً اگر کسی کا ناک کٹ جائے اور کوئی شخص زندہ گوشت اس ناک پر چڑھا کر ناک کو درست کردے تو کیا وہ اس کا پرمیشر ہو جائے گا۔ خدا کو پہلی کتابوں میں استعارہ کے طور پر پِتا یعنی باپ قرار دیا گیا ہے اور قرآن شریف میں بھی فرمایا ہے۔3 3 ۱ یعنی تم خدا کو ایسایاد کرو جیسا کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو اور فرمایا 3۲۔ یعنی خدا اصل نور ہے ہر ایک نور زمین و آسمان کا اسی سے نکلا ہے۔ پس خدا کا نامؔ استعارۃً پِتا رکھنا اور ہر ایک نور کی جڑ اس کو قرار دینا اسی کی طرف
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 387
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 387
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/387/mode/1up
اشارہ کرتا ہے کہ انسانی رُوح کا خدا سے کوئی بھاری علاقہ ہے۔
عربی میں آدمی کو انسان کہتے ہیں یعنی جس میں دو اُنس ہیں ایک اُنس خدا کی اور ایک اُنس بنی نوع کی۔ اور اسی طرح ہندی میں اس کا نام مانس ہے جومانوس کا مخفف ہے اس سے ظاہر ہے کہ انسان اپنے خدا سے طبعی اُنس رکھتا ہے اور مشرکانہ غلطی بھی دراصل اسی سچے خدا کی تلاش کی وجہ سے ہے۔ ہم اپنے کامل ایمان اور پوری معرفت سے یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ اصول آریہ سماجیوں کا ہرگز درست نہیں کہ ارواح اور ذرّات اپنی تمام قوتوں کے ساتھ قدیم اور انادی اور غیر مخلوق ہیں۔ اس سے تمام وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے جو خدا میں اور اس کے بندوں میں ہے۔ یہ ایک نیا اور مکر وہ مذہب ہے جو پنڈت دیانند نے پیش کیا ہے ہم نہیں جانتے کہ وید سے کہاں تک اس مذہب کا تعلق ہے لیکن ہم اس پر بحث کرتے ہیں کہ یہ اصول جو آریہ سماجیوں نے اپنے ہاتھ سے شائع کیا ہے یہ عقل سلیم کے نزدیک کامل معرفت اور کامل غور اور کامل سوچ کے بعد ہرگز درست نہیں۔ سناتن دھرم کا اصول جو اس کے مقابل پر پڑا ہوا ہے اس کو اگر چہ ویدانت کے بیجا مبالغہ نے بدشکل کر دیا ہے اور ویدانتیوں کی افراط نے بہت سے اعتراضات کا موقعہ دے دیا ہے تاہم اس میں سچائی کی ایک چمک ہے اگر اس عقیدہ کو زوائد سے الگ کر دیا جاوے تو ماحصل اس کا یہی ہوتا ہے کہ ہر ایک چیز پرمیشر کے ہی ہاتھ سے نکلی ہے پس اس صورت میں تمام شبہات دُور ہو جاتے ہیں اور ماننا پڑتا ہے کہ بموجب اصول سناتن دھرم کے وید کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ یہ تمام ارواح اور ذرّات اجسام اور ان کی قوتیں اور طاقتیں اور گُن اور خاصیتیں خدا کی طرف سے ہیں۔
یاد رہے کہ آریہ ورت میں مذہب قدیم جس پر کروڑہا انسان پائے جاتے ہیں سناتن دھرم ہے اگرچہ اس مذہب کو عوام نے بگاڑ دیا ہے اور مورتی پوجا اور دیویوں کی پرستش اور بہت سی مشرکانہ بدعتیں اور اوتاروں کو خدا سمجھنا گویا اس مذہب کی ُ جز ہوگیا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 388
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 388
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/388/mode/1up
لیکن ان چند غلطیوں کو الگ کر کے بہت سی عمدہ باتیں بھی اس مذہب میں موجود ہیں۔ اسی مذہب میں بڑے بڑے رشی اور مُنی اور جوگی ہوتے رہے ہیں اور نیز اس مذہب میں بڑے بڑے جپی تپی اور ریاضت کرؔ نے والے پائے گئے ہیں اب اگر کوئی چاہے قبول کرے یا نہ کرے۔ لیکن جس مذہب کو پنڈت دیانند نے پیش کیا ہے اس میں وہ روحانیت نہیں ہے جس کو سناتن دھرم کے بزرگوں نے پایا تھا گو آخر کار شرک کو اپنے عقائد میں ملا کر اس روحانیت کو کھودیا مخلوق کا خدا سے حقیقی تعلق تبھی ٹھہرتا ہے جب مخلوق خدا کے ہاتھ سے نکلنے والے ہوں جس پر غیریت کا داغ ہے اس میں یگانگت کبھی آنہیں سکتی۔ ہم نے بڑے بڑے پنڈتوں سے سُنا ہے کہ پنڈت دیانند نے جو مذہب پیش کیا ہے یہ اس ملک کے خود رائے لوگوں کا مذہب تھا جو محض اپنی ناقص عقل کے پیرو تھے جیسے یونان کے گمراہ فلاسفر اس لئے وہ وید کی چنداں پروا نہیں کرتے تھے۔ غایت کار عوام کو مائل کرنے کے لئے تاویلوں کے ساتھ کوئی وید کی شرتی اپنی تائید میں سُناتے تھے تا اس طرح پر اپنے عقائد کو عوام میں پھیلاویں۔ ورنہ اصل عقیدہ وید کا وہی ہے جو سناتن دھرم کی روح میں مخفی ہے۔ ان لوگوں میں کسی زمانہ میں قابل تعریف عملی حالتیں تھیں اور وہ بنوں میں جاکر ریاضت اور عبادت بھی کرتے تھے۔ اور ان کے دلوں میں نرمی اور سچی تہذیب تھی کیونکہ ان کا مذہب صرف زبان تک نہیں بلکہ دلوں کو صاف کرتے تھے اور وہ پرمیشر جس کا کتابوں میں انہوں نے نام سُنا تھا چاہتے تھے کہ اسی دنیا میں اس کا درشن ہو جائے اس لئے وہ بہت محنت کرتے تھے اور اُس صدق کا نور ان کی پیشانیوں میں ظاہر تھا۔ پھر بعد اس کے ایک اور زمانہ آیا کہ بُت پرستی اور دیوتوں کی پوجا اور مورتی پوجا اور اَوتاروں کی پوجا بلکہ ہر ایک عجیب چیز کی پوجا سناتن دھرم کا طریق ہوگیا اور وہ اس طریق کو بھول گئے جوطریق راجہ رام چندر اور راجہ کرشن نے اختیار کیا تھا جن پر ان کی را ستبازی کی وجہ سے خدا ظاہر ہوا۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 389
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 389
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/389/mode/1up
بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے ہو جاتے ہیں اور واقعی اپنا وجود اور ذرّہ ذرّہ اپنے جسم کا خدا کی طرف سے سمجھتے ہیں ان کو خدا اور بھی نعمت دیتاہے اور جو لوگ اپنی رُوح اور اپنے جسم کا ذرّہ ذرّہ خدا کی طرف سے نہیں جانتے ان میں تکبر ہوتا ہے اور وہ دراصل خدا کے گہرے احسان اور اس کی کامل پرورش سے منکر ہوتے ہیں بلکہ ان کے نزدیک جس قدر باپ کو اپنے بیٹے سے روحانی تعلق ہے اس قدر بھی خدا کو اپنے بندہ سے تعلق نہیں کیونکہ وہ مانتے اور قبول کرتے ہیں کہ بیٹا اپنی ماں اورؔ باپ سے اس قدر روحانی تعلق رکھتا ہے کہ ان کے اخلاق سے حصہ لیتا ہے۔ مثلاً جب بیٹے کا باپ شجاعت کی صفت سے موصوف ہے بیٹے میں بھی وہ صفت کسی قدر آجاتی ہے اور جس باپ میں مادہ فراست اور عقل کا بہت ہے بیٹا بھی اس میں سے کسی قدر حصہ پاتا ہے لیکن آریہ صاحبوں کا یہ مذہب نہیں ہے کہ انسانی رُوح میں جواخلاق اور صفات اور قوتیں ہیں وہ خدا سے اس کو ملی ہیں کیونکہ اگر وہ ایسا کہیں تو پھر اُنہیں رُوح کو مخلوق ماننا پڑے حالانکہ انسانی اخلاق خدا کے اخلاق کا پرَتوہ ہیں۔ جب خدا نے روحوں کو پیدا کیا تو جس طرح باپ کے اخلاق کا بیٹوں میں اثر آجاتا ہے ایسا ہی بندوں میں اپنے خدا کا اثر آگیا۔
اور ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ خدا نے جو انسان کو اپنی طرف بلایا ہے اس لئے اس نے پہلے سے پرستش اور عشق کے مناسب حال قوتیں اس میں رکھ دی ہیں۔ پس وہ قوتیں جو خدا کی طرف سے ہیں خدا کی آواز کو ُ سن لیتی ہیں۔ اسی طرح جب خدا نے چاہا کہ انسان خدا کی معرفت میں ترقی کرے تو اس نے پہلے سے ہی انسانی رُوح میں معرفت کے حواس پیدا کر رکھے ہیں اور اگر وہ پیدا نہ کرتا تو پھر کیونکر انسان اس کی معرفت حاصل کرسکتا تھا۔ انسان کی رُوح میں جو کچھ ہے دراصل خدا سے ہے اور وہ خدا کی صفات ہیں جو انسانی آئینہ میں ظاہر ہیں ان میں سے کوئی صفت بُری نہیں بلکہ ان کی بد استعمالی اور ان میں افراط تفریط کرنا بُرا ہے شاید کوئی جلدی سے یہ اعتراض کرے کہ انسان میں حسد ہے بغض ہے اور دوسری صفات ذمیمہ ہوتے ہیں پھر وہ کیونکر خدا کی طرف سے ہو سکتے ہیں پس واضح رہے کہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں دراصل تمام
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 390
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 390
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/390/mode/1up
انسانی اخلاق الٰہی اخلاق کا ظل ہیں کیونکہ انسانی رُوح خدا سے ہے لیکن کمی یازیادتی یا بداستعمالی کی وجہ سے وہ صفات ناقص انسانوں میں مکروہ صورت میں دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً حسد انسان میں ایک بہت بُرا خُلق ہے جو چاہتا ہے کہ ایک شخص سے ایک نعمت زائل ہو کر اس کو مل جائے لیکن اصل کیفیت حسد کی صرف اس قدر ہے کہ انسان اپنے کسی کمال کے حصول میں یہ روا نہیں رکھتا کہ اس کمال میں اُس کا کوئی شریک بھی ہو پس درحقیقت یہ صفت خدا تعالیٰ کی ہے جو اپنے تئیں ہمیشہ وحدہٗ لاشریک دیکھنا چاہتا ہے۔ پس ایک قسم کیؔ بداستعمالی سے یہ عمدہ صفت قابلِ نفرت ہوگئی ہے۔ ورنہ اس طرح پر یہ صفت مذموم نہیں کہ کمال میں سب سے زیادہ سبقت چاہے اور روحانیت میں تفرد اور یکتائی کے درجہ پر اپنے تئیں دیکھنا چاہے۔
پھر ماسوا اس کے اگر خدا کو قادر نہ مانا جاوے تو پھر اس سے ساری امیدیں باطل ہو جاتی ہیں کیونکہ ہماری دُعاؤں کی قبولیت اس بات پرموقوف ہے کہ خدا تعالیٰ جب چاہے ذرّاتِ اجسام میں یا ارواح میں وہ قوتیں پیدا کردے جو ان میں موجود نہ ہوں مثلاً ہم ایک بیمار کے لئے دُعا کرتے ہیں اور بظاہر مرنے والے آثار اس میں ہوتے ہیں تب ہماری درخواست ہوتی ہے کہ خدا اس کے ذرّاتِ جسم میں ایک ایسی قوت پیدا کردے جو اس کے وجود کو موت سے بچالے تو ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر وہ دُعا قبول ہوتی ہے اور بسا اوقات اوّل ہمیں علم دیا جاتا ہے کہ یہ شخص مرنے پر ہے اور اس کی زندگی کی قوتوں کا خاتمہ ہے لیکن جب دُعا بہت کی جاتی ہے اور انتہا تک پہنچ جاتی ہے اور شدت دُعا اور قلق اور کرب سے ہماری حالت ایک موت کی سی ہو جاتی ہے تب ہمیں خدا سے وحی ہوتی ہے کہ اس شخص میں زندگی کی طاقتیں پھر پیدا کی گئیں تب وہ یک دفعہ صحت کے آثار ظاہر کرنے لگتا ہے گویا مُردہ سے زندہ ہوگیا۔
ایسا ہی مجھے یاد ہے کہ جب مَیں نے طاعون کے وقت میں دُعا کی کہ اے خدائے قادر ہمیں اس بلاسے بچا اور ہمارے جسم میں وہ ایک تریاقی خاصیّت پیدا کردے جس سے ہم طاعون کی زہر سے بچ جائیں۔ تب وہ خاصیت خدا نے ہم میں پیدا کردی اور فرمایا کہ مَیں طاعون
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 391
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 391
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/391/mode/1up
کی موت سے تمہیں بچاؤں گا اور فرمایا کہ تیرے گھر کی چاردیواری کے لوگ جو تکبر نہیں کرتے یعنی خدا کی اطاعت سے سرکش نہیں اور پرہیزگار ہیں مَیں ان سب کو بچاؤں گا اور نیز میں قادیان کو طاعون کے سخت غلبہ اور عام ہلاکت سے محفوظ رکھوں گا یعنی وہ سخت تباہی جو دوسرے دیہات کو فنا کردے گی اس قدر قادیان میں تباہی نہیں ہوگی سو ہم نے دیکھا اور خدا تعالیٰ کی ان تمام باتوں کو مشاہدہ کیا۔ پس ہمارا خدا یہی خدا ہے جو نئی نئی قوتیں اور گُن اور خاصیتیں ذرّاتِ عالم میں پیدا کرتا ہے اس سے پہلے پانسو برس تک پنجاب میں اس ؔ مہلک طاعون کا پتہ نہیں ملتا اس وقت یہ ذرات کہاں تھے۔ اب جب خدا نے پیدا کئے توپیدا ہوگئے اور پھر ایسے وقت رخصت ہوں گے جب خدا تعالیٰ ان کو رخصت کرے گا ہمارا یہ طریق ہر ایک آریہ کے لئے ایک نشان ہوگا کہ ہم نے اس کامل خدا سے خبر پاکر ٹیکا کے انسانی حیلہ سے دست کشی کی اور بہت سے لوگ ٹیکا کرانے والے اس جہان سے گزر گئے اور ہم اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ موجود ہیں۔ پس اِسی طرح خدا تعالیٰ ذرّات پیدا کرتا ہے جس طرح اس نے ہمارے لئے ہمارے جسم میں تریاقی ذرّات پیدا کردیئے۔ اور اسی طرح وہ خدا رُوح پیدا کرتا ہے جس طرح مجھ میں اُس نے وہ پاک رُوح پھونک دی جس سے مَیں زندہ ہوگیا۔ ہم صرف اِس بات کے محتاج نہیں کہ وہ رُوح پیدا کر کے ہمارے جسم کو زندہ کرے بلکہ خود ہماری رُوح بھی ایک اور رُوح کی محتاج ہے جس سے وہ مُردہ رُوح زندہ ہو پس ان دونوں رُوحوں کو خدا ہی پیدا کرتا ہے جس نے اس راز کو نہیں سمجھا وہ خدا کی قدرتوں سے بے خبر اور خدا سے غافل ہے۔
اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ خداتعالیٰ کے علم کے بارے میں آریہ سماجیوں کا کیا عقیدہ ہے۔ واضح ہو کہ عقل سلیم اِس بات کی ضرورت سمجھتی ہے کہ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہو اور کوئی ایسا مخفی امر نہ ہو جس پر اس کا علم محیط نہ ہو۔ لیکن آریہ صاحبوں کے عقیدہ سے یہی لازم آتا ہے کہ ان کا پرمیشر ارواح اور ذرّات کی مخفی در مخفی قوتوں اور خاصیتوں کا علم نہیں رکھتا کیونکہ ابھی تک اس کو اِسی قدر خبر ہے کہ جو کچھ کسی انسان یا حیوان میں گُن اور قوّت اور خوبی ہے وہ گزشتہ اعمال کی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 392
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 392
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/392/mode/1up
وجہ سے ہے پس اگر اس کو یہ بھی معلوم ہوتا کہ علاوہ جسم دار جانداروں کے خود رُوحوں میں بھی انواع اقسام کی قوتیں اور گُن اور خوبیاں ہیں جو کبھی ان سے دُور نہیں ہوتیں تو وہ ان کے لئے بھی کوئی گزشتہ جنم تجویز کرتا اور ان کوانادی قرار نہ دیتا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ کسی چیز کے خواص اس سے منفک نہیں ہوتے۔پس فرض کے طور پر اگر انسانی رُوح گدھے میں آجاتی ہے تو وہ اپنے طبعی خواص کو کسی طرح چھوڑ نہیں سکتی گو اس جون میں ان خواص کو ظاہر کرے یا نہ کرے کیونکہ اگر کسی جون کے بدلنے سے اصلی خواص اور قوتیں رُوح کی قطعاً اسؔ سے دُور ہو جائیں تو پھر خود بقول آریہ صاحبان اعادہ اس کا محال ہوگاکیونکہ نیستی سے ہستی نہیں ہو سکتی جو قوت درحقیقت رُوح میں سے معدوم ہو گئی اس کا دوبارہ رُوح میں موجود ہو جانا درحقیقت نیست سے ہست ہو جانا ہے اور اگر تناسخ کے چکّر میںآکر رُوح کی قوتیں معدوم نہیں ہوتیں تو تناسخ کا اُن پر کوئی اثر نہ ہوا۔ پس جبکہ پرمیشر نے ان غیر منفک قوتوں کو تناسخ کے چکر سے باہر رکھا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ اس کو ان مخفی قوتوں اور خوبیوں کی خبر ہی نہیں۔ اور نہ یہ معلوم کہ کن عملوں کے پاداش میںیہ قوتیں اور یہ گُن اور خوبیاں رُوحوں کو ملی ہیں۔ علاوہ اس کے اگر پرمیشر کو اِس بات کا کامل علم ہے کہ رُوح کیا چیز ہے اور اس کے خواص اور قوتیں کیا ہیں تو پھرکیوں وہ اس کے بنانے پر قادر نہیں۔ یہ تو آریہ صاحبوں کے نزدیک مانا ہوا مسئلہ ہے کہ ارواح اپنے شمار میں محدود ہیں اور محدود وقت تک اپنا دَورہ پورا کرتی ہیں پس محدود اور معلوم کے بنانے پرکیوں خدا قادر نہیں اور کس نے ان رُوحوں کو شمار مقرر ہ تک محدود کر دیا ہے اگر خدا ان کا محدّد نہیں۔ اگر وہ رُوحیں خدا کی بنائی ہوئی نہیں تو ان کی نسبت خدا کا علم ایسا کیونکر کامل ہو سکتا ہے جیسا کہ بنانے والے کا علم ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ بنانے والے اور غیر بنانے والے کا علم برابر نہیں ہوتا۔ مثلاً جو لوگ اپنے ہاتھ سے کوئی صنعت بناتے ہیں جیسے وہ لوگ اس صنعت کی دقیق در دقیق کیفیتوں پر واقف ہوتے ہیں دوسرے لوگ ایسی اطلاع نہیں رکھتے اور اگر کامل طور پر اطلاع رکھتے تو بنا بھی سکتے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 393
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 393
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/393/mode/1up
یہ بات مسلّم اور مقبول ہے کہ جو بنانے والے کو ایک قسم کا علم ہوتا ہے وہ دوسرے شخص کو نہیں ہو سکتا اگرچہ وہ خیال بھی کرے کہ مَیں علم رکھتا ہوں تب بھی اس کا وہ خیال غلط ہے اور دراصل ایک قسم کی ناواقفی کا پردہ اس پر ضرور رہتا ہے مثلاً ہم ہرروز دیکھتے ہیں کہ روٹی اس طرح پکاتے ہیں اور ہمارے رو برو وہ روٹی بنائی جاتی ہے اور عمدہ اور لطیف پھلکے اور نان اورکلچے تیار ہوتے ہیں لیکن اگر ہم کبھی اپنے ہاتھ سے یہ کام کرنا چاہیں تو اوّل غالباً یہی ہوگا کہ ہم گوندھنے کے وقت آٹے کو ہی خراب کریں گے اور وہ پتلا ہو کر روٹی پکانے کے لائق ہی نہیں رہے گا یا گاڑہ اور سخت ہو کر اس کام کے ناقابل ہوگا اور یا اس میں آٹے کی گلٹیاں پڑ جائیں گی۔ اور اگر ہم نے مطلب کے موافق آٹا گوندھ بھیؔ لیا تو پھر روٹی ہم سے ہرگز درست نہیں آئے گی غالباً بیچ میں اس کے ایک ٹکّی رہے گی اور گرد اس کے بڑے بڑے کان نکل آئیں گے اور کسی جگہ سے پتلی اور کسی جگہ سے موٹی اور کسی جگہ سے کچی اور کسی جگہ سے سڑی ہوئی ہوگی پس کیا سبب ہے کہ باوجود ہر روز ہ مشاہدہ کے ہم صاف روٹی پکا نہیں سکیں گے اور باوجودیکہ وقت بہت خرچ کریں گے لیکن کام بگاڑ دیں گے اس کا یہی سبب ہے کہ ہمارے پاس وہ علم نہیں کہ جو اُس شخص کو علم ہے جو بیس برس سے ہر قسم کی روٹیاں اپنے ہاتھ سے پکا رہا ہے۔
اسی طرح دیکھ لو کہ تجربہ کار ڈاکٹر کیسے کیسے نازک اپریشن کرتے ہیں یہاں تک کہ گردہ میں سے پتھریاں نکال لیتے ہیں اور بعض ڈاکٹروں نے انسان کے سر کی بیکار اور زخم رسیدہ کھوپڑی کو کاٹ کر اسی قدر حصہ کسی اور جانور کی کھوپڑی کا اس سے پیوست کر دیا ہے اور دیکھو وہ کیسی عمدگی سے بعض نازک اعضا کوچیرتے ہیں یہاں تک کہ انتڑیوں میں جو بعض پھوڑے پیدا ہوتے ہیں نہایت صفائی سے ان پرعمل جراحی کرتے ہیں اور نزول الماء کے موتی کو کیسی صفائی سے کاٹتے ہیں اب اگر یہی عمل ایک دہقان بغیر تجربہ اور علم کے کرنے لگے تو اگر آنکھوں پر کوئی نشتر چلاوے تو دونوں ڈیلے نکال دے گا اور اگر پیٹ پر چلاوے تو وہیں بعض اعضاء کو کاٹ کر زندگی کا خاتمہ کردے گا۔ اب ظاہر ہے کہ اس دہقان اور ڈاکٹر میں فرق صرف علم کا ہے کیونکہ ڈاکٹر کو کثرت تجربہ اور عملی مزاولت سے ایک قسم کا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 394
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 394
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/394/mode/1up
علم حاصل ہوگیا ہے جو اس دہقان کو حاصل نہیں۔ دیکھو ہمیشہ شفاخانوں میں بیماروں کے لئے خدمت کرنے والے اور سقے وغیرہ موجود ہوتے ہیں اور وہ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر کس کس قسم کے اپریشن کرتاہے لیکن اگر وہ آپ کرنے لگیں تو بیشک کسی انسان کا خون کردیں گے پس اس میں کچھ شک نہیں کہ عملی مزاولت میں ایک خاص علم ہو جاتا ہے جو دوسرے کو نہیں ہو سکتا اسی طرح آریہ صاحبوں کو اس بات کا اقرار کرنا پڑے گا کہ اگر ان کا پرمیشر روحوں اور ذرّات عالم کا خالق ہوتا تو اس کا علم موجودہ حالت سے بہت زیادہ ہوتا۔ اسی اقرار سے یہ بھی ان کو اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ان کے پرمیشر کا علم ناقص ہے کیونکہ بنانے والا اور نہ بنانے والا حقیقت شناسی میں برابر نہیں ہو سکتے اور خود جب مان لیا جائے کہ پرمیشر نے نہ روحوں کو ؔ بنایا نہ ان کی قوتوں کو اور نہ ان کی خاصیتوں کو اور نہ پرمانو یعنی ذرّات اجسام کو بنایا اور نہ ان کی قوتوں اور خاصیتوں اور گنوں کو تو اس پر کیادلیل ہے کہ ایسے پرمیشر کو ان کی قوتوں اور خاصیتوں اور گنوں کا علم بھی ہے یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اس کو علم ہے کیونکہ محض عقیدہ پیش کرنا کوئی دلیل نہیں ہے اور بفرضِ محال اگر کسی قدر علم مان بھی لیں تو وہ علم اس علم کے برابر کب ہو سکتا ہے جو اس حالت میں ہوتا کہ جبکہ پرمیشر نے روحوں اور ذراتِ عالم اور ان کی قوتوں اور خاصیتوں کو اپنے ہاتھ سے بنایا ہوتا کیونکہ تمام عقلمندوں کی یہ مانی ہوئی بات ہے کہ بنانے والے اور نہ بنانے والے کا علم برابر نہیں ہوتا جیسا کہ ابھی ہم اوپر بیان کر چکے ہیں لیکن قرآن شریف ہمیں سکھلاتا ہے کہ وہ روحوں اور ذرّات عالم کی تمام اندرونی کیفیتیں اور قوتیں اور خاصیتیں جانتا ہے اور قرآن شریف میں خدا فرماتا ہے کہ مَیں اس لئے اندرونی حالات ارواح اور ذرات کے جانتاہوں کہ مَیں ان سب چیزوں کابنانے والا ہوں لیکن وید کا پرمیشر کوئی دلیل نہیں دیتا کہ بلا تعلق اور بلاواسطہ کیوں اور کس وجہ سے ارواح کی پوشیدہ قوتوں اور گنوں اور خواص کا اس کو علم ہے اور ایسا ہی کیوں اور کس طرح ذرّات اجسام کے نہاں درنہاں خواص اور طاقتوں اور گنوں پر اس کو اطلاع ہے۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 395
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 395
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/395/mode/1up
پھر ماسوا اس کے ہم خدا تعالیٰ کے علم کا اس کی تازہ بتازہ وحی سے ہمیشہ مشاہدہ کرتے ہیں اورہم روز دیکھتے ہیں کہ درحقیقت خدا تعالیٰ غیب دان ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ ہم اس کی قدرت کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں مگر آریہ صاحبوں پر یہ دروازہ بھی بند ہے اس لئے ان کے لئے اس بات پر یقین کرنے کے لئے کوئی راہُ کھلی نہیں کہ ان کا پرمیشر غیب دان ہے یا قادرمطلق ہے اورنہ وید ان کو اس درجہ کے حاصل کرنے کی کوئی بشارت دیتا ہے۔
ایسا ہی آریہ صاحبان خود اقراری ہیں کہ ان کے پرمیشر کے لئے اپنے فیض الوہیت میں کمال تام حاصل نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ناقص طور پرلوگوں کومکتی خانہ میں داخل کرتا ہے اور پھر کچھ مدت کے بعد ناکردہ گناہ مکتی خانہ سے باہر نکال لیتا ہے تا سلسلہ تناسخ میں کچھ فرق نہ آوے اس لئے اس کی سزا اور رحمت کا قاعدہ بھی خود غرضی کی آمیزش اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ وہ ؔ جانتا ہے کہ اگر میں رحمت تامہ سے کام لوں اور سب کو ہمیشہ کے لئے نجات دے دوں تو سلسلہ تناسخ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا تو پھر بعد میں بیکار بیٹھنا پڑے گا کیونکہ جس حالت میں روحیں محدود ہیں یعنی ان کے شمار کی ایک مقدار تک حد مقرر ہے تو اس صورت میں اگر ایک بھگت کو جو عبادت میں اپنی تمام عمر بسر کرتا ہے نجات ابدی دی جائے تو ظاہر ہے کہ جو رُوح نجات پاگئی وہ ہاتھ سے گئی اور تناسخ کے چکر سے آزاد ہوئی پس بالضرورت ایک دن ایسا آجائے گا کہ سب روحیں ہمیشہ کے لئے نجات پا جائیں گی اور یہ تو خود مانا ہوا مسئلہ ہے کہ پرمیشر رُوح پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ پس اس صورت میں بجز اس کے کیا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ کسی دن تمام رُوحوں کے دائمی مکتی پانے کے بعد پرمیشر گری کا تمام سلسلہ معطل پڑجائے اور تناسخ کے لئے ایک روح بھی اس کے ہاتھ میں نہ رہے پس اس تمام تقریر سے ثابت ہوتا ہے کہ آریہ صاحبان کا پرمیشر جیسا کہ روحوں کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ایسا ہی وہ روحوں کو نجات ابدی دینے پر بھی قادر نہیں کیونکہ اگر وہ روحوں کو نجات ابدی دے دے تو اس کا تمام سلسلہ ٹوٹتا ہے اس لئے اپنی تمام عملداری کے محفوظ رکھنے کے لئے بخل کی عادت کو اس نے لازم
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 396
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 396
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/396/mode/1up
پکڑ لیا ہے اور اپنے را ستباز پرستاروں کے ساتھ بخیلوں کی طرح کارروائی کرتا ہے اور بار بار عزت کے بعد ان کو ذلت دیتا ہے اور تناسخ کے چکر میں ڈال کر مکروہ در مکروہ موتوں میں ان کو ڈالتا ہے محض اس لئے کہ تا اس کی عملداری میں فرق نہ آوے۔ اس بات کا آریہ صاحبوں کو خود اقرار ہے کہ اس نے بارہا دنیا کے کل انسانوں کو نجات دے دی ہے مگر پھر کچھ مدت کے بعد اس نجات خانہ سے باہر نکال کر طرح طرح کی جونوں میں ان کو ڈال دیا ہے اب آریہ صاحبان ناراض نہ ہوں ہم ادب سے عرض کرتے ہیں اور جہاں تک ہمیں نرم الفاظ مل سکتے ہیں ان میں ہماری یہ گذارش ہے کہ اس عقیدہ پر ایک سخت اعتراض ہوتاہے اور ہم امید نہیں کرتے کہ اس اعتراض کا کوئی آریہ صاحب صفائی سے جواب دے سکے اور اگر جواب دیں تو ہم خوشی سے سُنیں گے اور اعتراض یہ ہے کہ جبکہ خود غرضی کی ضرورت کی وجہ سے پرمیشر کی یہ عادت ہے کہ وہ مکتی خانہ میں ہمیشہ لوگوں کو رہنے نہیں دیتا اور پھر طرح طرح کی جونوؔ ں میں ڈالتا ہے تو ان مختلف جونوں سے ترجیح بلا مرجح لازم آئے گی یعنی جو لوگ پرمیشر کے سچے بھگت ہو کر نجات پا چکے ہیں اب مکتی خانہ سے باہر نکالنے کے وقت کسی کو مرد بنانا اور کسی کو عورت اور کسی کو گائے اور کسی کو بیل اور کسی کو کتّا اور کسی کو سؤر اور کسی کو بندر اور کسی کو بھیڑیا، اس میں خلاف عدالت طریق معلوم ہوتا ہے۔ خصوصاً جس حالت میں ہریک مکتی پانے والا سخت امتحان کے بعد مکتی پاتا ہے اور کروڑہا برس تناسخ کے چکر میں رہ کر پھر کہیں اس مراد تک پہنچتا ہے تو کم سے کم اس کے لئے یہ رعایت تو ہونی چاہئے تھی کہ وہ انسان بنایا جاتا ۔یہ کیا معاملہ ہے کہ اپنا پیارا بنا کر اور اپنے قرب سے شرف بخش کر پھر آخرکار اس کو کتا یا سؤر بناکر مکتی خانہ سے باہر نکال دیا گیا اور اس کے ساتھ کے اشخاص کو کتا نہ بنایا، بلکہ انسان بنایا، حالانکہ مکتی پانے کے شرائط سب نے برابر پورے کرلئے تھے پرمیشر کا کسی پر احسان نہ تھا پھر کیا وجہ کہ مکتی خانہ سے نکال کر کسی کو انسان اور کسی کو کتابنایا گیا۔ اس صورت میں نہ سزا عدل کے طور پر ہوئی اور نہ رحمت۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 397
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 397
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/397/mode/1up
ایک اور بات ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتی کیا کوئی شریف آریہ صاحب ہیں جو اس کو سمجھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بموجب اس قاعدہ کے جو مکتی یابوں کو ایک مدت کے بعد پھر تناسخ کے چکر میں ڈالا جاتا ہے اور طرح طرح کے جونوں کی ذلت ان کو دیکھنی پڑتی ہے لازم آتا ہے کہ آریہ صاحبوں کا کوئی مقدس بزرگ اس ذلت سے باہر نہ ہو گو ہماری یہ رائے نہیں ہے کہ ہم کسی قوم کے بزرگوں کو ذلّت کے داغ کی طرف منسوب کریں بلکہ ہماری یہ رائے ہے کہ جس شخص کو خدائے کریم اپنے فضل عظیم سے اپنی معرفت اور محبت اور اپنے پاک تعلق سے حصّہ کامل بخشتا ہے اور اپنے عزت والے گروہ میں داخل کرتا ہے پھر اس کو کبھی ذلیل نہیں کرتا اور ممکن نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے قرب کا اتنا بڑا درجہ پاکر پھر کُتّا یا بلّا یا سؤر یا بندر بنایا جاوے مگر آریہ صاحبوں کا یہ قاعدہ چاہتا ہے کہ ضرور مقدس لوگ ان جونوں میں آتے ہیں خواہ وہ اوتار کہلاویں یا رشی یا منی کے درجہ تک پہنچیں ہم بادب دریافت کرتے ہیں کہ کیا وید کے رشی جن پرچاروں وید نازل ہوئے تھے اور راجہؔ رام چندر اور راجہ کرشن وغیرہ اوتار اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں یا نہیں اور اگر مستثنیٰ ہیں تو کیا وجہ اور اگر نہیں تو ان کو عزت سے یاد کرنا کیا معنے رکھتا ہے کیا عقل سلیم اس بات کو چاہتی ہے کہ ایک کتاب کو تو عزت دی جائے اور اس کو آسمانی کتاب سمجھا جائے مگر جس پر وہ کتاب نازل ہوئی تھی اس کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ رذیل سے رذیل جونوں میں چکر کھاتا پھرتا ہے۔ غرض جو لوگ خدا تعالیٰ کی جناب میں ایک مرتبہ عزت پاگئے پھر ان کو تناسخ کے چکر میں ڈالنا اور کُتّے،بلّے، سؤر بنانا، یہ اُس قدّوس خدا کا فعل نہیں ہے جو پاک بنا کر پھر پلید بنانا نہیں چاہتا۔ ورنہ اس صورت میں آریہ سماجیوں کا کوئی بزرگ بھی یقینی طور پر قابل تعریف نہیں ٹھہرتا کیونکہ کیا معلوم کہ اب وہ کس جون میں ہے۔ غرض اس عقیدہ کے رُو سے آریہ صاحبوں کا پرمیشر نہ صرف بخیلی کی صفت مذمومہ سے موسوم ہوتا ہے بلکہ سخت دل اور ظالم اور کینہ وَر بھی ٹھہرتا ہے کہ جن لوگوں نے اس کے ساتھ سچے دل سے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 398
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 398
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/398/mode/1up
محبت کی اور اس کی راہ میں فدا ہوئے اور اس کو ہمیشہ کے لئے اختیار کیا وہ ان کو بھی مکتی خانہ سے نکال کر اسی وقت یا کچھ دن بعد بندر اور سؤر بنا دیتا ہے ایسے پرمیشر سے کونسی نیکی کی امید ہو سکتی ہے چاہئے کہ آریہ صاحبان اس مضمون کو غور سے مطالعہ کریں اور محض جوش اور غضب سے جواب نہ دیں بلکہ اوّل بات کو سمجھ لیں پھر کوئی کلمہ منہ پر لاویں۔
آریہ سماجیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وید میں عناصر پرستی اور ستارہ پرستی کی تعلیم نہیں ہے اور اس میں محض خدائے واحد لاشریک کی پرستش کی تعلیم ہے لیکن ان کے مقابل پر قدیم مذہب سناتن دھرم کا ہے جو تمام آریہ ورت میں پھیلا ہوا ہے جس کے کروڑ ہا باشندے اس ملک میں موجود ہیں اور صدہا پنڈت جابجا پائے جاتے ہیں ان کا یہ بیان ہے کہ ضرور عناصر پرستی کی تعلیمیں وید میں پائی جاتی ہیں اور بلاشُبہ وید یہی ہدایت کرتا ہے کہ تم آگ کی پرستش کرو ہوا کی پرستش کرو، پانی کی پرستش کرو، زمین کی پرستش کرو، سورج کی پرستش کرو، چاندؔ کی پرستش کرو اور اسی وجہ سے آریہ ورت میں قدیم سے ان چیزوں کے پرستار پائے جاتے ہیں چنانچہ گنگا کی پرستش کرنے والے اور کانگڑہ میں جوالا مکھی کی آگ کی پرستش کرنے والے اور سورج کے آگے ہاتھ جوڑنے والے اب تک جابجا ان پرستشوں میں مشغول ہیں اور یہ سب لوگ وید کی پابندی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور قطع نظر اس کے جب کہ ہم خود بھی ایمان اور انصاف کی رُو سے ان ویدوں پر غور کرتے ہیں جو اُردو اور انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع کئے گئے ہیں تو صدہا شرتیوں پر نظر ڈال کر ضرور ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ بلاشبہ ان ویدوں میں آگ اور ہوا اور سورج اور چاند وغیرہ سے دُعائیں مانگی گئی ہیں اور مرادوں کے پانے کے لئے ان سے مدد طلب کی گئی ہے چنانچہ ہم چند شرتیاں رگ وید کی اس جگہ محض نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں اوریہ حصہ وید کا ترجمہ ہو کر سنسکرت پستک سے دوبارہ مقابلہ کیا گیا ہے اور پنڈتوں کی شہادتوں کے ساتھ اس کی صحت کی اطمینان دلائی گئی ہے اور یونیورسٹی میں پڑھانے کے لئے قبول کیا گیا ہے اور وہ شرتیاں یہ ہیں:۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 399
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 399
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/399/mode/1up
’’میں اگنی دیوتا کی جو ہوم کا بڑاگرو کارکن اور دیوتاؤں کو نذریں پہنچانے والا اور بڑے ثروت والا ہے مہما کرتا ہوں۔ ایسا ہو کہ اگنی جس کی مہما زمانہ قدیم اور زمانہ حال کے رشی کرتے چلے آئے ہیں دیوتاؤں کو اس طرف متوجہ کرے۔ اے اگنی جو کہ دو لکڑیوں کے رگڑنے سے پیدا ہوئی ہے اس پاک کٹے ہوئے کشا پر دیوتاؤں کولا تو ہماری جانب سے اُن کا بلانے والا ہے اور تیری پرستش ہوتی ہے۔ اے اگنی آج ہماری خوش ذائقہ قربانی دیوتاؤں کو ان کے کھانے کے واسطے پیش کر۔ اے اگنی، وایو، سورج وغیرہ دیوتاؤں کو ہماری نذر پیش کر۔ اے بے عیب اگنی تو منجملہ اور دیوتاؤں کے ایک ہوشیار دیوتا ہے جو اپنے والدین کے پاس رہتا ہے اور ہمیں اولاد عطا کرتا ہے، تمام دولتوں کا تو ہی بخشنے والا ہے،اے اگنی سُرخ گھوڑوں کے سوامی ہماری استت سے پرسن ہو۔ تنتیسؔ ؔ ؔ دیوتاؤں کو یہاں لا۔ اے اگنی جیسا کہ تو ہے لوگ اپنے گھروں میں تجھے محفوظ جگہ میں روشن کرتے ہیں۔ اے عاقل اگنی تو پناپت ہے یعنی اپنے جسم کا آپ جلانے والا ہے آج ہماری خوش ذائقہ قربانی دیوتاؤں کو ان کے کھانے کے لئے پیش کر۔ اے اِندر اے وایو یہ ارگ تمہارے واسطے چھڑ کا گیا ہے ہمارے واسطے کھانا لے کر ادھر آؤ۔ اے اندر کو سیکارشی کے پوتر جلد آ اور مجھ رشی کو مال دار کردے۱۔ اے سورج اور چاند ہمارے یگ کو کامیاب کرو اور ہماری قوت زیادہ کرو۔ تم بہت آدمیوں کے فائدے کے لئے پیدا ہوئے ہو بہتوں کو
۱ تمام پرانوں کے شجرہ میں لکھا ہے کہ کوسیکا کا بیٹا وشوا مترتھا اور سیانا وید کا بھاشیکار اس کی وجہ بیان کرنے کو کہ اندر کو سیکا کا کیونکر پوتر ہوگیا یہ قصّہ بیان کرتا ہے جو کہ وید کے تتمہ انوکر امیتکا میں درج ہے کہ کوسیکا اشراتہا کے پوترنے یہ دل میں خواہش کر کے کہ اندر کی توجہ سے میرا بیٹا ہو تپ جپ اختیار کیا تھا جس تپ کے بدلہ میں خود اندر نے ہی اس کے گھر جنم لے لیا اور آپ ہی اس کا بیٹا بن گیا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 400
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 400
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/400/mode/1up
تمہارا ہی آسرا ہے (غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک طرف اس شرتی میں اقرار ہے کہ سورج اور چاند دونوں مخلوق اور پیدا شدہ ہیں اور پھر ان سے مرادیں بھی مانگی گئی ہیں) سورج کے نکلنے پر ستارے اور رات چوروں کی طرح بھاگ جاتے ہیں۔ ہم سورج کے پاس جاتے ہیں جو دیوتاؤں کے بیچ نہایت عمدہ دیوتا ہے۔ اے چاند ہمیں تہمت سے بچا گناہ سے محفوظ رکھ۔ ہمارے توکل سے خوش ہو کر ہمارا دوست ہو جا ایسا ہو کہ تیری قوت زیادہ ہو۔ اے چاند تو دولت کو بخشنے والا ہے اور مشکلوں سے نجات دینے والا ہمارے مکان پر دلیر بہادروں کے ہمراہ آ۔ اے چاند اور اگنی تم مرتبہ میں برابر ہو ہماری تعریفوں کو آپس میں بانٹ لو کہ تم ہمیشہ دیوتاؤں کے سردار رہے ہو۔ میں جَل دیوتا کو جس میں ہمارے مویشی پانی پیتے ہیں بلاتا ہوں۔ اے دہرتی دیوتا ایسا ہو کہ تو بہت وسیع ہو جائے تجھ پر کانٹے نہ رہیں اور تو ہمارے رہنے کی جگہ ہو جائے اور ہمیں بڑی خوشی دے۔
یہؔ چند شرتیاں ہیں جو ہم نے رگ وید سے بطور نمونہ کے لکھی ہیں جس کا جی چاہے اصل سنسکرت پستک سے مقابلہ کرلے۔ اس قسم کی شرتیاں جو صدہا وید میں پائی جاتی ہیں سناتن دہرم والے ہزارہا پنڈت جو آریہ ورت میں موجود ہیں۔ ان کے یہی معنے کرتے ہیں کہ ان سے عناصر پرستی ثابت ہوتی ہے اسی وجہ سے آریہ قوم میں آگ کی پوجا کرنے والے اور ایسا ہی پانی کی پوجا کرنے والے اور سورج چاند کے پوجاری بھی پائے جاتے ہیں اور ان معنوں پر صرف انہی کی گواہی نہیں بلکہ برہمو مذہب کے صدہا محقق بھی جنہوں نے بڑی محنت سے سنسکرت میں چاروں وید پڑھے تھے آج تک گواہی دیتے آئے ہیں۔
اب غور کا مقام ہے کہ ان سب کے مقابل پر صرف ایک پنڈت دیانند جس کو کوئی وحی الہام نہیں ہوتا تھا دعویٰ کرتا ہے کہ یہ سب پرمیشر کے نام ہیں اور پھر وہ اس دعویٰ کو بھی اخیر تک نباہ نہیں سکا بلکہ بعض مقام میں جہاں کسی طرح اس کی تاویل پیش نہیں گئی آپ قبول کر لیا ہے کہ اس جگہ آگ سے آگ ہی مراد ہے یا جَل سے جَل ہی مراد ہے اصل
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 401
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 401
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/401/mode/1up
انصاف کی یہ بات ہے کہ پنڈت دیانند وید کی تاویل نہیں کرتا تھا بلکہ ایک دوسرا وید بنانا چاہتا تھا۔ آخر تاویل کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ خدا کے آسمانی بندوں میں سے تو نہیں تھا جو خدا سے الہام پاتے ہیں اور نہ اس کو خدا کا مکالمہ نصیب تھا اور نہ اس کی تائید میں کوئی آسمانی نشان ظاہر ہوئے بلکہ وہ بلا امتیاز صدہا ہندو پنڈتوں میں سے ایک پنڈت تھا پھر خواہ نخواہ بے دلیل اس کی بات کو ماننا انصاف سے بعید ہے جبکہ ہزارہا پنڈت ایک طرف ہیں اور ایک طرف صرف وہ اور خدا کی طرف سے کوئی امتیازی نشان اس کے ساتھ نہیں اور بجز تاویلوں کے اور کوئی کام اس نے نہیں کیا تو کیوں بغیرتحقیق کے خواہ نخواہ اس کی بات مان لی جائے۔ یہ صرف مسلمانوں کا الزام نہیں کہ ویدوں میں مخلوق پرستی کی تعلیم ہے بلکہ سناتن دھرم والے قدیم ہندوجن کے مذہب کے کروڑہا لوگ اس ملک میں پائے جاتے ہیں وہ بھی اس بات کے ہمیشہ (سے) قائل چلے آتے ہیں کہ وید میں مخلوق پرستی کی تعلیم ہے۔ میں ہرگز سمجھؔ نہیں سکتا کہ اگر وید میں مخلوق پرستی کی تعلیم نہ ہوتی تو پھر کیوں یہ ہزارہا پنڈت یک دفعہ اندھے ہو جاتے اور خلاف واقعہ وید پر تہمتیں لگاتے۔ عناصر پرستی کی شرتیاں صرف ایک دو نہیں بلکہ تمام رگ وید ان سے بھرا پڑا ہے۔ اب کہاں تک انسان تاویل کرتا جاوے۔ اگر دو شرتیاں ہوتیں یا دس۱۰ ہوتیں یا بیس۲۰ ہوتیں یا پچا۵۰س ہوتیں تو کوئی شخص تکلف سے محنت اُٹھا کر تاویل بھی کرتا مگر وید میں تو صدہا شرتیاں اسی قسم کی پائی جاتی ہیں ان کی کہاں تک تاویل ہو سکے۔ تعصب امرالگ ہے اور گرفتار تعصب جو چاہے کہے لیکن انصاف کے ساتھ اگر سوچا جائے تو کوئی صورت تاویل کی معلوم نہیں ہوتی۔
آریہ سماجیوں کے دل میں خواہ نخواہ یہ وہم پیدا ہوگیا ہے کہ جو کچھ پنڈت دیانند نے سمجھا ہے وہ دوسرے ہزارہا پنڈتوں نے نہیں سمجھا لیکن یہ خیال بالکل بیہودہ ہے۔ وید سامنے موجود ہے اور وہ تین فرقوں کے ہاتھ میں ہے۔ ایک سناتن دھرم والے دوسرے برہم سماج والے۔ تیسرے وید کے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 402
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 402
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/402/mode/1up
ترجمے جو اُردو اور انگریزی میں ہو چکے ہیں اس صورت میں کوئی قبول کر سکتا ہے کہ اس رائے کے ظاہر کرنے میں کہ ویدوں میں مخلوق پرستی ہے ان تمام لوگوں کی عقل ماری گئی اور صرف پنڈت دیانند صاحب اس دھوکہ سے بچ گئے۔ ہاں میرے خیال میں ایک بات آتی ہے اگر اس امر کو آریہ سماجی لوگ ثابت کرسکیں تو پھر پنڈت دیانند کی تاویل صحیح ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ جس قدر شدّومد سے ویدوں میں مخلوق پرستی کی تعلیم ہے جیسا کہ ابھی ہم نے چند شرتیاں نمونہ کے طور پر لکھی ہیں اس کے مقابلہ پر ویدوں میں سے بکثرت ایسی صاف صاف شرتیاں پیش کردی جائیں جن میں یہ بیان ہو کہ تم نہ تو آگ کی پرستش کرو اور نہ ہوا کی اور نہ پانی کی اور نہ سورج کی اور نہ چاند کی اور نہ کسی اور چیز کی بلکہ محض پرمیشر کی ہی پرستش کرو مگر چاہئے کہ ایسی شرتیاں کم سے کم پچاس یا ساٹھ ہوں کیونکہ جس حالت میں عناصر پرستی اور شمس و قمر کی پوجا کے بارے میں صدہا شرتیاں وید میں پائی جاتی ہیں تو ان کے ردّ میں صرف دو چار شرتیاں کافی نہیں ہو سکتیں کیونکہ وہم گزرتا ہے کہ کسیؔ نے وید کی پردہ پوشی کے لئے پیچھے سے ملا دی ہوں گی۔ اسی فیصلہ کے لئے میں نے یہ گذارش کی ہے۔ اگر ایسی شرتیاں جو مخلوق پرستی کے وہم کو ردّ کرتی ہوں بہت ہی تھوڑی ہوں تب بھی کم سے کم پچاس یا ساٹھ ہونی چاہئیں تاکسی وہم کی گنجائش نہ رہے اور اگر مشرکانہ تعلیم کی کثرت کے مقابل ایسی شرتیوں کی کثرت ثابت نہ ہو تو اگر ایک پنڈت دیانند نہیں کروڑہا پنڈت دیانند ہوں ہرگز ان مشرکانہ شرتیوں کی تاویل میں ایمانداری سے جواب نہیں دے سکے گا۔ ظاہر ہے کہ وید کی ان تعلیموں سے کروڑہا مخلوقات گمراہ ہو چکی ہے اور بیسیوں مخلوق پرستی کے مذہب آریہ قوم میں پھیلے ہوئے ہیں۔ پس اگر فرض کے طور پر پنڈت دیانند کی طرح کسی اور وید کے بھاشی کار نے بھی ان شرتیوں کی وہی تاویل کی ہو جو دیانندنے کی ہے تو وہ بھی ہرگز پذیرائی کے لائق نہیں ہوگی کیونکہ ایسی تاویل کرنے والے کو وحی اور الہام کا دعویٰ نہیں ممکن ہے کہ کسی شخص نے جس کو مشرکانہ تعلیم بُری معلوم ہوئی ہو۔ وید کی ان شرتیوں پر اپنی تاویل سے پردہ ڈال دیا ہو تو جبکہ اس کے مقابل
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 403
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 403
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/403/mode/1up
دوسرے بھاشی کاروں نے قبول کیا ہے کہ ضرور اس میں مشرکانہ تعلیم ہے تو دو مختلف رائیوں کے ساتھ فیصلہ کیونکر ہو اور ایسے بے اصل خیالات سے گووہ قدیم ہو ںیا جدید قطعی طور پر ہرگز یہ رائے قائم نہیں ہو سکتی کہ وید اس داغ سے مبّرا ہے کیونکہ ہم دوسرے بھاشی کاروں کی شہادت کو کہاں چھپائیں اور جس طور کے معنی کروڑ ہا لوگ ابتدا سے سمجھتے چلے آئے ہیں ان معنوں سے بلاوجہ کیونکر اعراض کیا جائے۔ یہ وید کا خود اپنا فرض تھا کہ جس حالت میں اس نے ایسے الفاظ استعمال کئے جن سے قوم شرک کی نجاست سے آلودہ ہوگئی تو وہ دھوکہ دور کرنے کے لئے آپ ہی پچا۵۰س یا سا۶۰ٹھ یا سو۱۰۰ مرتبہ تاکید کے طور پر بار بار لکھ دیتا کہ تم سورج چاند آگ پانی وغیرہ کی پرستش ہرگز نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
ایک اور امر ہے جو قرآن شریف کی تعلیم سے ہمیں معلوم ہوا ہے اور ہم تکمیل بحث کے لئے اس کا ذکر بھی اس جگہ مناسب سمجھتے ہیں اور ہمیں خیال گذرتا ہے کہ شاید رگ وید کی شرتیوں کا بھی یہی منشاء ہو اور پھر ایک زمانہ کے گزرنے کے بعد وہ منشاء سطحی نظروں سے چھُپ گیا اور ساتھؔ ہی اس کے یہ بھی ممکن ہے کہ ابتدا زمانہ میں ایسی شرتیاں وید میں بہت ہوں جن کا مضمون یہ ہو کہ آگ اور پانی اور ہوا اور سورج اور چاند وغیرہ کی پرستش نہیں کرنی چاہئے پھر بعد میں جبکہ آریہ ورت میں ایسے فرقے بہت پیدا ہوگئے جو وید کے ظاہری الفاظ کو دیکھ کر عناصر پرست اور آفتاب پرست وغیرہ بن گئے تو رفتہ رفتہ انہوں نے وہ شرتیاں وید میں سے نکال دیں کیونکہ طبعاً انسان میں یہ عادت ہے کہ جب وہ اپنی عقل اور فہم کی حد تک دو مخالف مضمون کو ایک کتاب میں دیکھتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح ان دونوں کو مطابق کرے اور جب مطابق نہیں کر سکتا تو پھر اس کوشش میں لگ جاتا ہے کہ کسی طرح اس حصہ کو نکال دے کہ جو اس کے مسلّم حصہ کے مخالف ہے۔ جیسا کہ عیسائی صاحبان بھی دن رات یہی کوشش کررہے ہیں اور انجیل
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 404
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 404
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/404/mode/1up
کے وہ حصے جن میں صریح گواہی دی گئی ہے کہ یسوع ابن مریم انسان تھا وہ ان پر بہت ناگوار گذر رہے ہیں اگر ان کے مشورہ سے انجیلیں لکھی جاتیں تو بہت سے مقامات انجیل کے نکال دینے کے لائق تھے اور حتی المقدور اب بھی یہ کارروائی مختلف ترجموں کے ذریعہ سے کی جاتی ہے۔ اسی طرح اس تقریر کے لحاظ سے جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں جس کو ہم نے نہ اپنی طرف سے بلکہ قرآن شریف کے استنباط سے لکھا ہے ممکن معلوم ہوتا ہے کہ وید بھی کسی زمانہ میں خدا کی وحی ہو۔ اور خدا کی طرف سے یہ کتاب ہو اور پھر ایک مدت کے بعد اس کے اصلی معنوں کے سمجھنے میں لوگوں نے غلطی کھائی اور اس وجہ سے آریہ ورت میں آریہ قوم میں یہ فرقے پیدا ہوگئے کہ کوئی سورج کی پوجا کرتا ہے اور کوئی آگ کا پوجاری اور کوئی گنگا سے مرادیں مانگتا ہے اور جب ان فرقوں نے دیکھا کہ وید کی صدہا دوسری شرتیاں مخلوق پرستی کے مخالف ہیں تب انہوں نے رفتہ رفتہ ان تمام شرتیوں کو وید میں سے باہر نکال دیا اور صرف وہی شرتیاں وید میں رہنے دیں جو مشرکانہ تعلیم کے رنگ میں تھیں۔ اگر یہ امر ثابت ہو جائے کہ درحقیقت ایسی صدہا شرتیاں وید میں سے نکال دی گئی ہیں تو کم سے کم ایک خدا ترس کو تقویٰ کے لحاظ سے وید کے بارے میں جلدی سے تکذیب کرنا منع ہوگا اور ویدکی تکذیب کے لئے صرف اس ؔ قدر کافی نہیں ہوگا کہ اس میں آگ وغیرہ کی پرستش واستت و مہما موجود ہے کیونکہ قرآن شریف کی بعض آیات جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے وید کے اس طرز کو توحید میں داخل کرتی ہیں اور گو عناصر پرستی کے متعلق بعض شرتیاں وید میں اس قسم کی ہیں کہ ان کی تاویل کرنا بہت مشکل ہے مگر اس میں کچھ شک نہیں کہ اس طور پر جو قرآن شریف میں ا شارات مذکور ہیں بعض شرتیوں کی تاویل بھی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ ہم اس قاعدہ کو ذیل میں لکھیں گے ۔اور اس کے ساتھ ہم یہ بھی اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ گو وید اپنی موجودہ حالت میں ایک دھوکادینے والی کتاب ہے جو شرک کی تعلیم جا بجا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 405
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 405
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/405/mode/1up
اس میں دکھائی دیتی ہے اور کروڑہا لوگوں پر اس کا یہ بداثر پایا جاتا ہے کہ وہ آتش پرستی وغیرہ مشرکانہ طریقوں میں سرگرم ہیں بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ جو ستارہ پرستی اور آتش پرستی پارسیوں میں موجود ہے وہ بھی وید سے ہی انہیں پہنچی ہے اور تعجب نہیں کہ رومیوں اور یونانیوں میں بھی یہ مشرکانہ تعلیمیں ویدکے ذریعہ سے ہی رواج پائی ہوں کیونکہ آریہ قوم کا خیال ہے کہ وید قدیم ہے لہٰذا ہر ایک جھوٹی اور مشرکانہ تعلیم کا سرچشمہ ایسی کتاب کو ہی ماننا پڑے گا جو سب سے پرانی کہلاتی ہے پس وہ نمونہ جو وید کی تعلیم نے دکھلایا ہے وہ ان کروڑہا لوگوں کے عقیدوں سے ظاہر ہے جو وید کی پابندی کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اور موجودہ حالت میں وید میں کوئی نور توحید نظر نہیں آتا۔ ہرایک صفحہ پرمشرکانہ تعلیم کے الفاظ نظر آتے ہیں اور بے اختیار دل میں گزرتا ہے کہ یہ چار کا عدد ہی شرک سے کچھ مناسبت رکھتا ہے۔ انجیلیں چار تھیں۔ انہوں نے ایک مصنوعی خدا پیش کیا اور پھر وید بھی چار ہیں۔ انہوں نے آگ وغیرہ کی پرستش سکھلائی لیکن تا ہم ممکن اور قرین قیاس ہے کہ یہ کتاب تحریف کی گئی ہو اور کسی زمانہ میں صحیح ہو اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو اور پھر نادانوں کے تصرف اور تحریف سے بگڑ گئی ہو اور وہ شرتیاں اس میں سے نکال دی گئی ہوں جن میں یہ ذکر تھا کہ تم سورج اور چاند اور ہوا اور آگ اور پانی اور اکاش اور خاک وغیرہ کی پرستش مت کرو۔ اگرچہ اس قدر تغیر اور انقلاب سے یہ کتاب خطرناک اور مُضر ہوگئی تاہم کسی زمانہ میں بیکار نہ تھی ۔اور جس شخص کو ہندوؤں کی تاریخ سے واقفیت ہے وہ خوب جانتا ہے کہؔ وید پر بڑے بڑے تغیرات آئے ہیں اور ایک زمانہ میں ویدوں کو مخالفوں نے آگ میں جلا دیا تھا اورمدت تک وہ ایسے لوگوں کے قبضہ میں رہے جو عناصر پرستی اور مُورتی پوجا کے دلدادہ تھے اور بجز اس قسم کے برہمنوں کے دوسروں پر ان کا پڑھنا حرام کیا گیا تھا۔ پس اس وجہ سے وید کے پستک عام طور پر مل نہیں سکتے تھے بلکہ صرف بڑے بڑے برہمنوں کے کتب خانوں میں ہی پائے جاتے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 406
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 406
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/406/mode/1up
تھے جو بُت پرست اور عناصر پرست ہو چکے تھے۔ اس صورت میں خود عقل قبول کرتی ہے کہ ان دنوں میں ان برہمنوں نے بہت کچھ مشرکانہ حاشیے وید پر چڑھائے ہوں گے اور اس بات کے اکثرمحقق آریہ ورت کے قائل ہیں کہ بعض زمانوں میں وید بڑھائے گئے اور بعض میں گھٹائے گئے اور بعض وقت جلائے گئے اور جب آریہ قوم نے اندرونی لڑائیوں سے فراغت پائی تو بیرونی حکومتوں کے پنجہ میں پھنس گئے۔ اسلامی حکومت بھی سات ۷۰۰سو برس تک اس ملک میں رہی۔ اس لمبے زمانہ میں بھی جوکچھ مسلمانوں نے آریہ قوم کا عقیدہ دیکھا وہ بُت پرستی اور آتش پرستی وغیرہ تھا۔ اسی زمانہ میں شیخ سعدی بھی ایک مرتبہ اس ملک میں آئے تھے اور بُت پرستی کا بڑا زور تھا۔ چنانچہ وہ اپنی کتاب بوستان میں فرماتے ہیں:۔
بُتک را یکے بوسہ دادم بدست کہ *** بروباد و بر بُت پرست
گائے کے لئے جس قدر آریہ صاحبوں کو جوش ہے وہ بھی دراصل مخلوق پرستی کی ایک جڑھ ہے ورنہ ایک حیوان کے لئے اس قدر جوش کیا معنے رکھتا ہے۔ قریباً تیرہ سو۱۳۰۰ برس ہوتے ہیں کہ مسلمانوں نے اس ملک کا ایک حصّہ فتح کر لیا تھا اس وقت بھی اس ملک میں عام طور پر بُت پرستی اور آتش پرستی وغیرہ پھیلی ہوئی تھی پس جہاں تک تاریخ کا قدم روشنی میں ہے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ آریہ ورت پر کوئی ایسا زمانہ بھی آیا تھا کہ وہ خدا پرست تھے۔
مسلمانوں پر یہ اعتراض آریوں کا کہ ان کے بادشاہوں نے ہمارے بزرگوں کو جبراً بُت پرستی سے چھڑا کر مسلمان بنایا تھا یہ بھی صاف بتلا رہا ہے کہ اب تک آریہ صاحبوں کو بُتؔ پرستی سے بہت پیار ہے۔ عملی طور پر توحید سے کچھ تعلق ثابت نہیں ہوتا اس پر یہ کافی دلیل ہے کہ وہ بُت پرستوں کے مسلمان ہونے سے بہت ناراض ہیں۔ ایک بُت پرست حقیقت رائے کا قصّہ بھی اسی غرض سے گھڑا گیا ہے جس کو بقول اُن کے کسی مسلمان بادشاہ نے مورتی پوجا سے جبراً چھڑا کر مسلمان کرنا چاہا تھا مگر وہ لڑکا بُت پرستی پر
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 407
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 407
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/407/mode/1up
عاشق تھا اسی میں اس نے جان دی۔
غرض اسلامی تاریخ بھی قریباً ایک ہزار برس سے اس بات کی گواہ ہے کہ یہ ملک آریہ ورت بُت پرستی اور مورتی پوجا کا ایک بھاری مرکز ہے۔ اس زمانہ کا کون ثبوت دے سکتا ہے کہ جب ان کروڑہا لوگوں کی طرح جو بُت پرست اور عناصر پرست نظر آتے ہیں۔ وید مقدس کی تعلیم سے اس ملک میں کروڑہا خدا پرست موحّد بھی موجود تھے۔ جگن ناتھ جی کا قدیم بُت خانہ اور ایسا ہی اور بعض پُرانے بُت خانے جن کی عمارت ہزارہا برس کی معلوم ہوتی ہے صاف طور پر گواہی دے رہے ہیں کہ یہ بُت پرستی اور مورتی پوجا کا مذہب کچھ نیا نہیں بلکہ قدیم ہے۔ ایسا ہی بھاگوت وغیرہ کتابیں جو ہزارہا برس کی تالیف معلوم ہوتی ہیں جن کو سناتن دھرم والے سیدھے سادھے ہندو بڑے پیار سے پڑھا کرتے ہیں اس قدامت شرک کے گواہ ہیں۔ اس کے ساتھ پُرانے کتبے بھی اس ملک میں ایسے پائے گئے ہیں کہ وہ ایک پُرانے زمانے کی حالت کی ایک آئینہ کی طرح شکل دکھلا رہے ہیں اور بلند آواز سے گواہی دے رہے ہیں کہ اُس وقت بھی اس ملک میں بُت پرستی تھی اور جہاں تک تاریخ کا سلسلہ صفائی سے چل سکتا ہے یہی ظلمت شرک اور عناصر پرستی اور مورتی پوجا کی رسوم ہر ایک زمانہ میں پائی جاتی ہیں اور ایسی گلے کا ہار ہورہی ہیں کہ جب تک ایک ہندو اسلام اختیار نہ کرے یہ شرک کا داغ اس سے بکلی دُور ہی نہیں ہو سکتا گوآریہ سماجی بنے یا کچھ اور ہو جائے زمانہ دراز سے جس کا ابتدا معلوم کرنا مشکل ہے مورتی پوجا اور عناصر پرستی کا مذہب آریہ قوم میں چلا آتا ہے اور دوسری قوموں کے مورخوں کو کبھی یہ نصیب نہیں ہوا کہ وہ گواہی دیں کہ آرؔ یہ ورت میں بھی کسی وقت توحیدتھی اور اس زمانۂ دراز میں اگر ہم یہ کہیں کہ کروڑہا پنڈت آریہ ورت میں عناصر پرستی کے حامی گذرتے ہیں تو یہ کچھ مبالغہ نہ ہوگا۔ پس ایسے پنڈتوں کے وجود سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہمیشہ تمام ملک ایک سمندر کی طرح بُت پرستی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 408
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 408
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/408/mode/1up
اور عناصر پرستی اور مورتی پوجا سے بھرا رہا ہے اور اس ملک کو توحید نصیب نہ ہوئی جب تک اسلام اس ملک میں نہ آیا مگر جن بادشاہوں نے توحید کو اس ملک میں پھیلایا اور بُت پرستی کی جڑکھوئی وہی آریہ صاحبوں کی نظر میں بُرے بنے۔ اب تک ہندو صاحبان محمود غزنوی کو بھی گالیاں دیتے ہیں کہ اس نے کیوں ان کے قدیم بُت خانے توڑے۔ غرض بت پرستی اور عناصر پرستی کا مذہب اس ملک میں اس قدر قدیم ہے کہ محققانہ طور پر اس کا کوئی ابتدا ٹھہرانا مشکل ہے بجز اس کے کہ اس مذہب کو وید کے ساتھ ساتھ تسلیم کیا جائے مگر پھر بھی جیسا کہ مَیں نے اوپر ذکر کیا ہے مجھے بعض قرآنی آیتوں پر نظر ڈال کر خیال آتا ہے کہ شاید اصل تعلیم وید کی عناصر پرستی سے پاک ہو اور عناصر کی مہما اور اُستت سے کچھ اور مطلب ہو مگر جیسا کہ مَیں نے ذکر کیا ہے یہ میرا خیال اس وقت یقین کے مرتبہ تک پہنچے گا جبکہ ویدکی پچا۵۰س یا سا۶۰ٹھ یاستّر ۷۰ شرتیوں سے یہ ثابت ہو جائے کہ وہ ان تمام عناصر اور اجرامِ فلکی کی پوجا سے جن کی مہما اور اُستت رگ وید میں موجود ہے صاف اور صریح لفظوں کے ساتھ منع کرتا ہے۔
ویدکی شریتوں کی وہ تاویل جس کے لکھنے کا ہم
نے وعدہ کیا تھا
وید کی شرتیوں کی وہ تاویل جس کا میں اُوپر ذکر کر آیا ہوں قرآن شریف کی چند آیتوں پر غور کرنے سے میرے دل میں گزرتی ہے۔ پہلی آیت یہ کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی سورۃ فاتحہ میں فرماتا ہے۔ 3۔ یعنی ہر ایک حمد اور ثنا اس خدا کے لئے مسلّم ہے جسؔ کی تربیت ہر ایک عالم میں یعنی ہر ایک رنگ میں ہر ایک
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 409
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 409
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/409/mode/1up
پیرایہ میں اور ہر ایک فائدہ بخش صنعت الٰہی کے ذریعہ سے مشہود اور محسوس ہورہی ہے یعنی جن جن متفرق وسیلوں پر اس دنیا کے لوگوں کی بقا اور عافیت اور تکمیل موقوف ہے۔ دراصل ان کے پردہ میں ایک ہی پوشیدہ طاقت کام کررہی ہے جس کا نام اللہ ہے۔ چنانچہ اس دنیا کے کاروبار کی تکمیل کے لئے ایک قسم کی تربیت سورج کررہا ہے جو ایک حد تک انسان کے بدن کو گرمی پہنچا کر دورانِ خون کا سلسلہ جاری رکھتا ہے جس سے انسان مرنے سے بچتا ہے اور اس کی آنکھوں کے نور کی مدد کرتا ہے۔ پس حقیقی سورج جو حقیقی گرمی پہنچانے والا اور حقیقی روشنی عطا کرنے والا ہے وہ خدا ہے کیونکہ اسی کی طاقت کے سہارے سے یہ سورج بھی کام کررہا ہے اور اس حقیقی سورج کا صرف یہی کام نہیں کہ وہ دورانِ خون کے سلسلہ کو جاری رکھتا ہے جس پر جسمانی زندگی موقوف ہے۔ اس طرح پر کہ اس فعل کا آلہ انسان کے دل کو ٹھہراتا ہے اور آسمانی روشنی سے آنکھوں کے نور کی مدد کرتا ہے بلکہ وہ روحانی زندگی کو نوعِ انسان کے تمام اعضاء تک پہنچانے کے لئے منجملہ انسانوں کے ایک انسان کو اختیار کر لیتا ہے اور انسانی سلسلہ کے مجموعہ کے لئے جو ایک جسم کا حکم رکھتا ہے اس کو بطور دل کے قرار دے دیتا ہے اور اس کو روحانی زندگی کا خون نوع انسان کے تمام اعضاء تک پہنچانے کے لئے ایک آلہ مقرر کر دیتا ہے۔ پس وہ طبعاً اس خدمت میں لگا رہتا ہے کہ ایک طرف سے لیتا اور پھر تمام مناسب اطراف میں تقسیم کر دیتا ہے اور جیسا کہ غیر حقیقی اور جسمانی سورج آنکھوں کو کامل روشنی پہنچاتا اور تمام نیک بد چیزیں ان پر کھول دیتا ہے۔ ایسا ہی یہ حقیقی سورج دل کی آنکھ کو معرفت کے بلند مینار تک پہنچاکر دن چڑھا دیتا ہے اور جیسا کہ وہ جسمانی سورج حقیقی سورج کے سہارے سے پھلوں کو پکاتا ہے اور ان میں شیرینی اور حلاوت ڈالتا اور عفونتوں کو دُور کرتا اور بہار کے موسم میں تمام درختوں کو ایک سبز چادر پہناتا اور خوشگوار پھلوں کی دولت سے ان کے دامن کو پُر کرتا اور پھر خریف
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 410
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 410
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/410/mode/1up
میں اس کے برخلاف اثر ظاہر کرتا ہے اور تمام درختوں کے پتے گرا دیتا اور بدشکل بنا دیتا اور پھلوں سے محروؔ م کرتا اور بالکل انہیں ننگے کر دیتا ہے بجز ان ہمیشہ بہار درختوں کے جن پر وہ ایسا اثر نہیں ڈالتا یہی کام اس حقیقی آفتاب کے ہیں جو سرچشمہ تمام روشنیوں اور فیضوں کا ہے وہ اپنی مختلف تجلیات سے مختلف طور کے اثر دکھاتا ہے ایک قسم کی تجلی سے وہ بہار پیدا کردیتا ہے اورپھر دوسری قسم کی تجلی سے وہ خزاں لاتا ہے اور ایک تجلی سے وہ عارفوں کے لئے معرفت کی حلاوتیں پیدا کرتا ہے اور پھر ایک تجلی سے کفر اور فسق کا عفونت ناک مادہ دنیا سے دُور اور دفع کر دیتا ہے۔ پس اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ تمام کام جو یہ جسمانی آفتاب کررہا ہے وہ سب کام اس حقیقی آفتاب کے ظل ہیں اور یہ نہیں کہ وہ صرف روحانی کام کرتا ہے بلکہ جس قدر اس جسمانی سورج کے کام ہیں وہ اس کے اپنے کام نہیں ہیں بلکہ درحقیقت اسی معبود حقیقی کی پوشیدہ طاقت اس کے اندر وہ تمام کام کررہی ہے جیسا کہ اُسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن شریف میں ایک ملکہ کا قصہ لکھا ہے جو آفتاب پرست تھی اور اس کا نام بلقیس تھااور وہ اپنے ملک کی بادشاہ تھی اور ایسا ہوا کہ اس وقت کے نبی نے اس کو دھمکی دے بھیجی کہ تجھے ہمارے پاس حاضر ہونا چاہئے ورنہ ہمارا لشکر تیرے پر چڑھائی کرے گا اور پھر تیری خیر نہیں ہوگی۔ پس وہ ڈر گئی اور اس نبی کے پاس حاضر ہونے کے لئے اپنے شہر سے روانہ ہوئی اور قبل اس کے کہ وہ حاضر ہو اس کو متنبہ کرنے کے لئے ایک ایسا محل طیار کیا گیا جس پر نہایت مصفّا شیشہ کا فرش تھا اور اس فرش کے نیچے نہر کی طرح ایک وسیع خندق طیار کی گئی تھی جس میں پانی بہتا تھا اور پانی میں مچھلیاں چلتی تھیں جب وہ ملکہ اس جگہ پہنچی تو اس کو حکم دیا گیا کہ محل کے اندر آجا تب اس نے نزدیک جاکر دیکھا کہ پانی زور سے بہہ رہا ہے اور اس میں مچھلیاں ہیں۔ اس نظارہ سے اس پر یہ اثر ہوا کہ اُس نے اپنی پنڈلیوں پر سے کپڑا اُٹھا لیا کہ ایسا نہ ہو کہ پانی میں تر ہو جائے۔ تب اُس نبی نے اس ملکہ کو جس کا نام بلقیس تھا آواز دی کہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 411
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 411
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/411/mode/1up
اے بلقیس تو کس غلطی میں گرفتار ہوگئی۔ یہ تو پانی نہیں ہے جس سے ڈر کر تُو نے پاجامہ اُوپر اُٹھالیا۔ یہ تو شیشہ کا فرش ہے اور پانی اس کے نیچے ہے۔ اس مقام میں قرآن شریف میں یہ آیت ہے۔3 ۱ یعنی اس نبی نے کہا کہ اے بلقیس تو کیوں دھوکا کھاتی ہے یہ تو شیش محل کے شیشے ہیں جو اُوپر کی سطح پر بطور فرش کے لگائے گئے ہیں اور پانی جو زور سے بہہ رہا ہے وہ تو ان شیشوں کے نیچے ہے نہ کہ یہ خود پانی ہیں تب وہ سمجھ گئی کہ میری مذہبی غلطی پر مجھے ہوشیار کیا گیاہے اور مَیں نے فی الحقیقت جہالت کی راہ اختیار کر رکھی تھی جو سورج کی پوجا کرتی تھی۔
تب وہ خدائے واحد لاشریک پر ایمان لائی اور اُس کی آنکھیں کھل گئیں اور اُس نے یقین کر لیا کہ وہ طاقتِ عظمیٰ جس کی پرستش کرنی چاہئے وہ تو اور ہے اور مَیں دھوکہ میں رہی اور سطحی چیز کو معبود ٹھہرایا اور اس نبی کی تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ دنیا ایک شیش محل ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اور عناصر وغیرہ جو کچھ کام کر رہے ہیں۔ یہ دراصل ان کے کام نہیں یہ تو بطور شیشوں کے ہیں بلکہ ان کے نیچے ایک طاقت مخفی ہے جو خدا ہے۔ یہ سب اس کے کام ہیں۔ اس نظارہ کو دیکھ کر بلقیس نے سچے دل سے سورج کی پوجا سے توبہ کی اور سمجھ لیا کہ وہ طاقت ہی اور ہے کہ سورج وغیرہ سے کام کراتی ہے اور یہ تو صرف شیشے ہیں۔
یہ تو ہم نے سورج کا حال بیان کیا ایسا ہی چاند کا حال ہے۔ جن صفات کو چاند کی طرف منسوب کیا جاتا ہے وہ دراصل خدا تعالیٰ کی صفات ہیں۔ وہ راتیں جو خوفناک تاریکی پیدا کرتی ہیں چاند ان کو روشن کرنے والا ہے۔ جب وہ چمکتا ہے تو فی الفور اندھیری رات کی تاریکی اُٹھ جاتی ہے۔ کبھی وہ پہلے وقت سے ہی چمکنا شروع کرتا ہے اور کبھی کچھ تاریکی کے بعد نکلتا ہے۔ یہ عجیب نظارہ ہوتا ہے کہ ایک طرف چاند چڑھا اور ایک طرف تاریکی کا نام و نشان نہ رہا۔ اسی طرح خدا بھی جب نہایت گندہ اور تاریک
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 412
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 412
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/412/mode/1up
آدمیوں پر جو اس کی طرف جھکتے ہیں چمکتا ہے تو ان کو اسی طرح روشن کر دیتا ہے جیسا کہ چاند رات کو روشن کرتا ہے۔ اور کوئی انسان اپنی عمر کے پہلے زمانہ میں ہی اس چاند کی روشنی سے حصہ لیتا ہے اور کوئی نصف عمر میں اور کوئی آخری حصہ میں اور بعض بدبخت سلخ کی راتوں کی طرح ہوتے ہیں یعنی تمام عمر ان پر اندھیرا ہی چھائے رہتا ہے۔ اس حقیقی چاند سے حصہ لینا ان کو نصیب نہیں ہوتا۔ غرض کہ یہ سلسلہ چاند کی روشنی کا اسؔ حقیقی چاند کی روشنی سے بہت مناسبت رکھتا ہے۔ ایسا ہی چاند پھلوں کو موٹا کرتا اور اُن میں طراوت ڈالتا ہے اسی طرح وہ لوگ جو عبادت کر کے اپنے درختِ وجود میں پھل تیار کرتے ہیں چاند کی طرح خدا کی رحمت ان کے شامل حال ہو جاتی ہے اور اس پھل کو موٹا اور تازہ بتازہ کر دیتی ہے اور یہی معنے رحیم کے لفظ میں مخفی ہیں جو سورۃ فاتحہ میں خدا کی دوسری صفت بیان کی گئی ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جسمانی طور پر چار قسم کی ربوبیت ایسی ہورہی ہے جس سے نظامِ عالم وابستہ ہے۔ ایک آسمانی ربوبیت یعنی اکاش سے ہے جو جسمانی تربیت کاسرچشمہ ہے جس سے پانی برستاہے اگر وہ پانی کچھ مدّت نہ برسے تو جیسا کہ علم طبعی میں ثابت کیا گیا ہے۔ کنوؤں کے پانی بھی خشک ہو جائیں یہ آسمانی ربوبیت یعنی اکاش کا پانی بھی دنیا کو زندہ کرتا ہے اور نابود کو بود کی حالت میں لاتا ہے۔ اس طور پر آسمان ایک پہلا ربّ النوع ہے جس*سے پانی برستا ہے۔ جس کو وید میں اندر کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱۔ اس جگہ آسمان سے مُراد وہ کرۂ زمہریر ہے جس سے پانی برستا ہے اور اس آیت میں اس کرۂ زمہریر کی قسم کھائی گئی جو مینہ برساتا ہے اور رجع کے معنی مینہ ہے اور خلاصہ معنی آیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں وحی کا ثبوت دینے
* قرآن شریف کی اصطلاح کی رُو سے جو فضا یعنی پول اوپر کی طرف ہے جس میں بادل جمع ہو کر مینہ برستا ہے اس کا نام بھی آسمان ہے جس کو ہندی میں اکاش کہتے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 413
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 413
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/413/mode/1up
کے لئے آسمان کو گواہ لاتا ہوں جس سے پانی برستا ہے یعنی تمہاری روحانی حالت بھی ایک پانی کی محتاج ہے اور وہ آسمان سے ہی آتا ہے جیسا کہ تمہارا جسمانی پانی آسمان سے آتا ہے اگر وہ پانی نہ ہو تو تمہاری عقلوں کے پانی بھی خشک ہو جائیں۔ عقل بھی اُسی آسمانی پانی یعنی وحی الٰہی سے تازگی اور روشنی پاتی ہے۔ غرض جس خدمت میں آسمان لگا ہوا ہے یعنی پانی برسانے کی خدمت یہ کام آسمان کا خدا تعالیٰ کی پہلی صفت کا ایک ظل ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ ابتدا ہر ایک چیز کا پانی سے ہے۔ انسان بھی پانی سے ہی پیدا ہوتا ہے اور وید کی رُو سے پانی کا دیوتا اکاش ہے جس کو وید کی اصطلاح میں اندر کہتے ہیں مگر یہ سمجھنا غلطی ہے کہ یہ اندر کچھ چیز ہے بلکہ وہی پوشیدہ اور نہاں در نہاں طاقت عظمیٰ جس کا نام خدا ہے اس میں کام کررہی ہے اسی کو بیان کرنےؔ کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یعنی سورۃ فاتحہ میںیوں فرمایا ہے۔
3 ۱
یعنی مت خیال کرو کہ بجز خدا کے کوئی اور بھی ربّ ہے جو اپنی ربوبیّت سے دنیا کی پرورش کررہا ہے بلکہ وہی ایک خدا ہے جو تمہارا ربّ ہے۔ اسی کی طاقت ہر ایک جگہ کام کرتی ہے۔ اس جگہ اس ترتیب کے لحاظ سے جو اس سورۃ میں ہے اندردیوتاکا ردّ ملحوظ ہے کیونکہ پہلی تربیت اسی سے شروع ہوتی ہے۔ اسی کو دوسرے لفظوں میں آسمان یا اکاش کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے دنیا کے لوگ تمام قضا ء و قدر کو آسمان کی طرف منسوب کیا کرتے ہیں۔ اور بُت پرستوں کے نزدیک بڑا ربّ النوع وہی ہے جو اندر کہلاتا ہے۔ پس اِس جگہ اسی کا ردّ منظور ہے اور یہ جتلانا مقصود ہے کہ حقیقی اندر وہی اکیلا خدا ہے۔ اسی کی طاقت ہے جو پانی برساتی ہے۔ آسمان کو ربّ العالمینکہنا حماقت ہے بلکہ ربّ العالمین وہی ہے جس کا نام اللہ ہے۔
غرض خدا تعالیٰ کی یہ پہلی ربوبیت ہے جس کو نادانوں نے اکاش یعنی اندر کی طرف منسوب
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 414
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 414
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/414/mode/1up
کیا ہے۔ بات یہی ہے کہ اندھوں کو اکاش سے پانی برستا نظر آتا ہے مگر برسانے والی ایک اور طاقت ہے اور اس طور پر برسانا یہ جلوہ دکھلانا ہے کہ یہ بھی اس کی ایک صفت ہے۔ پس آسمان کی یہ ظاہری ربوبیت اس کی حقیقی ربوبیت کا ایک ظل ہے اور جو سامان رعد اور صاعقہ وغیرہ کا بادل میں ہوتا ہے۔ دراصل یہ سب اس کی صفات کے رنگوں میں سے ایک رنگ ہے۔ پھر دوسری ربوبیت خدا تعالیٰ کی جو زمین پر کام کررہی ہے رحمانیت ہے۔ اس لفظ رحمان سے بُت پرستوں کے مقابل پر سورج دیوتا کا ردّ ملحوظ ہے کیونکہ بموجب بُت پرستوں کے خیال کے جیسا کہ اکاش یعنی آسمان پانی کے ذریعہ سے چیزوں کو پیدا کرتا ہے۔ ایسا ہی سورج بہار کے ایاّم میں تمام درختوں کو لباس پہناتا ہے۔ گویا یہ اس کی وہ رحمت ہے جو کسی عمل پر مترتب نہیں۔ پس سورج جسمانی طور پر رحمانیت کا مظہر ہے کیونکہ وہ موسم بہار میں ننگے درختوں کو پتوں کی چادر پہناتا ہے اور اس وقت تک درختوں نے اپنے طور پر کوئی عمل نہیں کیا ہوتا یعنی کچھ بنایا نہیں ہوتا۔ تا بناؔ ئے ہوئے پر کچھ زیادہ کیا جائے بلکہ وہ خزاں کی غارت گری کے باعث محض ننگے اور برہنہ کھڑے ہوتے ہیں پھر سورج کے پر توہِ عاطفت سے ہر ایک درخت اپنے تئیں آراستہ کرنا شروع کر دیتا ہے آخر سورج کی مدد سے درختوں کا عمل اس حد تک پہنچتا ہے کہ وہ پھل بنا لیتے ہیں۔ پس جبکہ وہ پھل بنا کر اپنے عمل کو پورا کر چکتے ہیں تب چاند ا ن پر اپنی رحیمیت کا سایہ ڈالتا ہے اور رحیم اس کو کہتے ہیں کہ عمل کرنے والے کو اس کی تکمیل عمل کے لئے مدد دے تا اس کا عمل نا تمام نہ رہ جاوے۔ پس چاند درختوں کے پھلوں کو یہ مدد دیتا ہے کہ ان کو موٹے کر دیتاہے اور ان میں اپنی تاثیر سے رطوبت ڈالتا ہے چنانچہ علم طبعی میں یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ چاند کی روشنی میں باغبان لوگ اناروں کے پھٹنے کی آواز سُنا کرتے ہیں۔ غرض استعارہ کے طور پر قمر جو نیّر دوم ہے رحیم کے نام سے موسوم ہوا کیونکہ بڑا فعل اس کا یہی ہے جو موجود شدہ پھلوں کی مدد کرتا ہے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 415
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 415
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/415/mode/1up
اور موٹا اور تازہ کر دیتا ہے پھر جب وہ پھل طیار ہو جاتے اور اپنے کمال کو پہنچ جاتے ہیں تو زمین ان کو اپنی مالکانہ حیثیت سے اپنی طرف گراتی ہے تا وہ اپنی جزاء سزا کو پہنچیں۔ پس اگر وہ عمدہ اور نفیس پھل ہیں تو زمین پر ان کی بڑی عزّت ہوتی ہے اور وہ قابل قدر جگہوں میں رکھے جاتے ہیں اور اگر وہ ردّی ہیں تو خراب جگہوں میں پھینک دیئے جاتے ہیں اور یہ سزا جزا گویا زمین کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ جو خدا نے اس کی فطرت کو دے رکھی ہے کہ اچھے پھل کی قدر کرتی ہے اور بُرے پھل کو ذلیل جگہ رکھتی ہے۔
غرض وید میں بطور استعارہ کے یہ چار نام ہیں جو چار بڑے بڑے دیوتاؤں کو عطا ہوئے ہیں۔ اوّل اکاش یعنی آسمان جس کو اندر دیوتابو*لتے ہیں وہ پانی کا داتا ہے اور قرآن شریف میں ہے کہؔ 3 ۱ یعنی ہر ایک چیز پانی سے ہی زندہ ہے۔اس لئے یہ مجازی دیوتا یعنی اندر جس کو اکاش کہنا چاہئے سب مجازی دیوتاؤں سے بڑا ہے جس کی بغلوں میں سورج اور چاند پرورش پاتے ہیں یہ بہ نسبت اوروں کے ربوبیت عامہ کا دیوتا ہے بعد اس کے سورج دیوتا ہے جو رحمانیت کا مظہر ہے اس کی ربوبیت چاند سے زیادہ اور اکاش یعنی اندر دیوتا سے کم ہے۔ وہ کام جو
*حاشیہ۔ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ حقیقت میںیہ سب دیوتا ہیں بلکہ یہ سب ایک ہی مالک کے قبضہ میں ہیں۔ اور انسان کے فائدہ کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ہم نے اس جگہ دیوتا کالفظ محض وید کا استعارہ بیان کیا ہے کیونکہ ان چاروں کے فیوض بموجب وید کے ایسے طور سے جاری ہیں کہ گویا اختیار سے یہ فیض پہنچا رہے ہیں مگر یہ سب خدا کی مخلوق ہیں اپنے ارادہ سے کوئی کام نہیں کرتے اور نہیں جانتے کہ کیا کام کرتے ہیں گویا مُردہ بدست زندہ ہیں یہ چار صفات کے نمونہ جو اکاش اور سورج اور چاند اور زمین میں پائے جاتے ہیں یہ انسانوں کو غور کرنے کے لئے دیئے گئے ہیں تا صفاتِ الٰہی کے سمجھنے میں یہ مدد دیویں مثلاً آریہ لوگ خدا کی رحمانیت سے منکر ہیں اور حالانکہ وید سورج میں استعارہ کے رنگ میں خود رحمانیت کی صفت قرار دیتا ہے یہ اسی غرض سے ہے کہ تا انسانوں کو اس تقریب سے خدا کی رحمانیت پر نظر پڑے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 416
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 416
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/416/mode/1up
اس کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ بغیر موجودگی عمل کے درختوں پر اپنی عنایت اور کر پا ظاہر کرتا ہے کیونکہ درخت ننگ دھڑنگ کھڑے ہوتے ہیں اور خزاں کے مارے ہوئے ایسے ہوتے ہیں کہ گویا مُردے ہیں جو زمین میں گاڑے گئے ہیں اور تہی دست فقیروں کی طرح ایک پاؤں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ پس سورج دیوتا بہار کے موسم میں موج میں آکر ان کو لباس بخشتا ہے اور ان کا دامن پھلوں اور پھولوں سے بھر دیتا ہے اور چند روز میں ان کے سر پر پھولوں کے سہرے باندھتا ہے اور سبز پتوں کی ریشمی قبا ان کو پہناتا ہے اور پھلوں کی دولت سے ان کو مال مال کر دیتا ہے اور اس طرح پر ایک شاندار نوشہ ان کو بنا دیتا ہے پس اس کی رحمانیت میں کیا شک رہا جو بغیر کسی سابق عمل کے ننگے درویشوں پر اس قدرکرپا اور مہربانی کرتا ہے۔ اس قسم کے استعارات وید میں بہت موجود ہیں کہ اول شاعرانہ طور پر معلوم ہوتے ہیں اور پھر ذرا غور کریں تو کوئی علمی چمک بھی ان میں دکھائی دیتی ہے۔
پھر سورج کے بعد وید کی رُو سے چاند دیوتا ہے کہ وہ کمزوروں کے عملوں کو دیکھ کر اپنی مدد سے ان کے اعمال انجام تک پہنچاتا ہے یعنی بہار کے موسم میں درخت پھل تو پیدا کر لیتے ہیں لیکن اگر چاند نہ ہوتا تو یہ عمل ان کا ناقص رہ جاتا اور پھلوں میں تازگی اور فربہی اور طراوت ہرگز نہ آتی۔ پس چاند ان کے عمل کا متمم ہے اس لئے اس لائق ہوا کہ مجازی طور پر اس کو رحیم کہا جائے سووید اس کو رحیم قرار دیتا ہے سو استعارہ کے طور پر کچھ حرج نہیں۔
پھر چاند کے بعد دھرتی دیوتا ہے جس نے مسافروں کو جگہ دینے کے لئے اپنی پشت کو بہت وسیع کر رکھا ہے ہر ایک پھل درخت پر مسافر کی طرح ہوتا ہے آخرکار مستقل سکونت اس کی زمینؔ پر ہوتی ہے اور زمین اپنے مالکانہ اختیارات سے جہاں چاہے اس کو اپنی پشت پرجگہ دیتی ہے اور جیسا کہ خدا نے قرآن شریف میں فرمایا۔ 3 ۱ کہ ہم نے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 417
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 417
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/417/mode/1up
انسانوں کو زمین پر اور دریاؤں پر خود اُٹھایا۔ ایسا ہی زمین بھی ہر ایک چیز کو اُٹھاتی ہے اور ہر ایک خاکی چیز کی سکونت مستقل زمین میں ہے۔ وہ جس کو چاہے عزت کے مقام پر بٹھاوے اور جس کو چاہے ذلّت کے مقام میں پھینک دے۔ پس اِس طرح پر زمین کا نام 3۔ ہوا یعنی استعارہ کے طور پر صحیفۂ فطرت کے آئینہ میں یہ چاروں الٰہی صفات نظر آتی ہیں۔ غرض اسی طرح خدا نے چاہا کہ اپنی صفات کو مجازی مظاہر میں بھی ظاہر کرے۔ تا طالب حق مثالوں کو پاکر اس کے دقیق در دقیق صفات پر اطمینان پکڑلے۔
اب اس تمام تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ چار مجازی دیوتے جو وید میں مذکور ہیں۔ چار مجازی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ چنانچہ اکاش مجازی طور پر ربوبیّت کُبریٰ کی صفت اپنے اندر رکھتاہے اور سورج رحمانیت کی صفت سے موصوف ہے اور چاند رحیمیت کی صفت سے حصّہ دیا گیا ہے اور زمین مالکِ یوم الدین کی صفت سے بہرہ یاب ہے اور یہ چار۴وں صفات مشہود و محسوس ہیں۔ انہی امور کی وجہ سے موٹی عقل والوں نے درحقیقت ان کو دیوتے قرار دیا ہے* اور ان کو ربّ النوع اور قابلِ پرستش سمجھا ہے۔ پس ان لوگوں کے ردّ کے لئے خداتعالیٰ اپنی پاک کتاب قرآن شریف میں یعنی سورۃ فاتحہ میں فرماتا ہے۔
* دیوتا سنسکرت میں ربّ کو کہتے ہیں جو کسی کی ربوبیت کرتا ہے یعنی پرورش کرتا ہے۔ پس سورج بجائے خود ایک ربّ ہے یعنی دیوتا ہے اور چاند بجائے خود ایک ربّ ہے یعنی دیوتا ہے۔ ان تمام ربوں یعنی دیوتاؤں کے سر پر ایک بڑا ربّ ہے جو مدبّر بالا رادہ ہے اور وہی خدا ہے۔ اس کا نام ربّ العالمین ہے یعنی سب کا ربّ اور تمام ربّوں کا بھی ربّ۔ ارادہ اور اختیار سے کام کرنے والا وہی ایک ہے باقی سب کلیں ہیں جو اُس کے ہاتھ سے چلتی ہیں۔ پس عبادت اور حمد کے لائق وہی ہے۔ اِسی واسطے فرمایا۔ الحمدللّٰہ ربّ العالمین۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 418
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 418
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/418/mode/1up
ترجمہ:۔ حمد اور استت اور مہما اس بڑے ربّ کے لئے خاص ہے جس کا نام اللہ ہے جو ربّ العالمین ہے۔ اور رحمان العالمین ہے اور رحیم العالمین ہے۔ اور مالک جمیع عالم یوم الدین ہے یعنی یہ مرتبہ پرستش کا خدا کے لئے مخصوص ہے کہ اس کی ربو۱بیت اور رحما۲نیت اور رحیمیت۳ ؔ اور جز۴ا سزا کے لئے مالکیت ایک عالم اور ایک رنگ میں محدود نہیں بلکہ یہ صفات اس کی بے انتہا رنگوں میں ظاہر ہوتی ہیں کوئی ان کا انتہا نہیں پا سکتا اور آسمان اورسورج وغیرہ کی ربوبیتیں یعنی پرورشیں ایک خاص رنگ اور ایک خاص قسم میں محدود ہیں اور اس اپنے تنگ دائرہ سے آگے نہیں نکلتیں اس لئے ایسی چیزیں پرستش کے لائق نہیں۔ علاوہ اس کے ان کے یہ افعال بالا رادہ نہیں بلکہ ان سب کے نیچے الٰہی طاقت کام کررہی ہے۔ پھرفرمایا کہ اے وہ سب کے ربّ کہ جو بے انتہا رنگوں میں اپنے یہ صفات ظاہر کرتا ہے۔ پرستش کے لائق تو ہی ہے اور سورج چاند وغیرہ پرستش کے لائق نہیں ہیں۔ اسی طرح دوسرے مقام میں فرمایا۔ 3 3 ۲ یعنی نہ سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ اُس خدا کو سجدہ کرو جس نے یہ تمام چیزیں سورج چاند۔ آسمان۔ آگ۔ پانی وغیرہ پیدا کی ہیں۔ چاند اور سورج کا ذکر کرکے پھر بعد اس کے جمع کا صیغہ بیان کرنا اس غرض سے ہے کہ یہ کل چیزیں جن کی غیر قومیں پرستش کرتی ہیں۔ تم ہرگز ان کی پرستش مت کرو۔ پھر اس سورۃ میں یعنی سورۃ فاتحہ میں اس بات کا جواب ہے کہ جب اکاش اور سورج اور چاند اور آگ اور پانی وغیرہ کی پرستش سے منع کیا گیا تو پھر کونسا فائدہ اللہ کی پرستش میں ہے کہ جو ان چیزوں کی پرستش میں نہیں تو دُعا کے پیرایہ میں اس کا جواب دیا گیا کہ وہ خدا ظاہری اور باطنی نعمتیں عطا کرتا ہے اور اپنے تئیں آپ اپنے بندوں پر
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 419
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 419
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/419/mode/1up
ظاہر کرتا ہے انسان صرف اپنی عقل سے اس کو شناخت نہیں کرتا بلکہ وہ قادر مطلق اپنی خاص تجلّی سے اور اپنی زبردست قدرتوں اور نشانوں سے اپنے تئیں شناخت کرواتا ہے۔ وہی ہے کہ جب غضب اور قہر اس کا دنیا پر بھڑکتا ہے تو اپنے پرستار بندوں کو اس غضب سے بچا لیتا ہے وہی ہے جو انسان کی عقل کو روشن کر کے اور اس کو اپنے پاس سے معرفت عطا کر کے گمراہی سے نجات دیتا ہے اور گمراہ ہونے نہیں دیتا۔ یہ سورۃ فاتحہ کا خلاصہ مطلب ہے جس کو پانچ وقت مسلمان نماز میں پڑھتے ہیں بلکہ در اصل اسی دعا کا نام نماز ہے اور جب تک انساؔ ن اس دُعا کو درد دل کے ساتھ خدا کے حضور میں کھڑے ہو کر نہ پڑھے اور اس سے وہ عقدہ کشائی نہ چاہے جس عقدہ کشائی کے لئے یہ دُعا سکھلائی گئی ہے تب تک اس نے نماز نہیں پڑھی۔ اور اس نماز میں تین چیزیں سکھلائی گئی ہیں۔
(۱)۔اوّل خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات کی توحید تا انسان چاند سورج اور دوسرے جھوٹے دیوتاؤں سے منہ پھیر کر صرف اسی سچے دیوتا کا ہو جائے اور اس کی رُوح سے یہ آواز نکلے کہ
3 ۱
یعنی مَیں تیرا ہی پرستار ہوں اور تجھ سے ہی مدد چاہتا ہوں اور دوسرے یہ سکھلایا گیا ہے کہ وہ اپنی دُعاؤں میں اپنے بھائیوں کو شریک کرے اور اس طرح پر بنی نوع کا حق ادا کردے، اس لئے دُعا میں اھدنا کا لفظ آیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ اے ہمارے خدا ہم سب لوگوں کو اپنی سیدھی راہ دکھلا۔ یہ معنے نہیں کہ مجھ کو اپنی سیدھی راہ دکھا۔ پس اِس طور کی دُعا سے جو جمع کے صیغہ کے ساتھ ہے بنی نوع کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے اور تیسرے اس دُعا میں یہ سکھلانا مقصود ہے کہ ہماری حالت کو صرف خشک ایمان تک محدود نہ رکھ بلکہ ہمیں وہ روحانی نعمتیں عطا کر جو تُو نے پہلے راستبازوں کو دی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 420
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 420
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/420/mode/1up
ہیں اور پھر کہا کہ یہ دُعا بھی کرو کہ ہمیں ان لوگوں کی راہوں سے بچا جن کو روحانی آنکھیں عطا نہیں ہوئیں آخر انہوں نے ایسے کام کئے جن سے اسی دنیا میں غضب ان پر نازل ہوا ۔اور یا اس دنیا میں غضب سے توبچے مگر گمراہی کی موت سے مرے اور آخرت کے غضب میں گرفتار ہوئے۔ خلاصہ دُعا کا یہ ہے کہ جس کو خدا روحانی نعمتیں عطا نہ کرے اور دیکھنے والی آنکھیں نہ بخشے اور دل کو یقین اور معرفت سے نہ بھرے آخر وہ تباہ ہو جاتا ہے اور پھر اس کی شوخیوں اور شرارتوں کی وجہ سے اسی دنیا میں اس پر غضب پڑتا ہے کیونکہ وہ پاکوں کے حق میں بدزبانی کرتا ہے اور کتوں کی طرح زبان نکالتاہے۔ پس ہلاک کیا جاتا ہے جیسا کہ یہود اپنی شرارتوں اور شوخیوں کی وجہ سے ہلاک کئے گئے اور بارہا طاعون کا عذاب ان پر نازل ہوا جس نے ان کی بیخ کنی کردی اور یا اگر وہ دنیا میں شوخیؔ اور شرارت نہ کرے اور بدزبانی اور شرارت کے منصوبے میں شریک نہ ہو تو اس کے عذاب کی جگہ عالم ثانی ہے جب اس دنیا سے وہ گزر جائے گا۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں یہ ممکن ہے کہ رگ وید میں جو اندر اور سورج اور چاند اور آگ وغیرہ دیوتاؤں سے دُعائیں مانگی گئی ہیں اس سے مراد وہ اعلیٰ طاقت حضرت احدیّت ہو جو ان کے پردہ میں کام کررہی ہے جو سب مجازی دیوتاؤں کا دیوتا ہے کیونکہ ہم بعض جگہ قرآن شریف میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پاتے ہیں کہ جس قدر اس عالم میں مختلف چیزیں نظام عالم کا قائم رکھنے کے لئے کام کررہی ہیں وہ درحقیقت خدا تعالیٰ کے اسماء اور صفات کے نمونے ہیں جو مجازی رنگ میں ظاہر ہورہے ہیں گویا اجرام فلکی اور عناصر ارضی ایک کتاب کے اوراق ہیں جن سے ہمیں خدا تعالیٰ کی صفات کے بارے میں معرفت کا سبق ملتا ہے اور عادت اللہ کا پتہ لگتا ہے مثلاً سورج چار فصلوں میں چار تغیرات دکھلاتا ہے۔
اوّل تغیر ۔ّ موسم خریف جو موسم بہار کے مخالف ہے اس تغیر سے وہ درختوں کے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 421
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 421
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/421/mode/1up
آب و تاب کو ویران کرنا شروع کرتا ہے۔ اکثر درختوں کے پتے گر جاتے ہیں اور ان کے اندر کا مادّہ سیّالہ جو تازگی بخش ہوتا ہے خشک ہو جاتا ہے۔ انسانوں کے بدن پر بھی اس موسم کا یہی اثر ہوتا ہے کہ خشک اور سوداوی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ پس اسی طرح خدا کی ایک تجلّی بھی موسمِ خریف سے مشابہ ہے کہ ایک زمانہ انسانوں پر آتا ہے کہ ان کے دلوں پر قبض طاری ہوتی ہے اور وجد اور یاد الٰہی کا مادّہ سیّالہ جو روحانی تازگی کو بخشتا ہے وہ کم ہونا شروع ہو جاتا ہے گوکھلے کھلے معصیت اور فسق کا دور ابھی نہیں آتامگر اُنس الٰہی کا جوش جاتا رہتا ہے اور دلوں پر افسردگی اور مُردگی اور جمود طبع اور قبض غالب ہو جاتا ہے اور لذّت اور ذوق شوق الٰہی باقی نہیں رہتا اور یہ زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ گویا اس کو کلجگ کا پیش خیمہ کہنا چاہئے۔
پھر دوسرا زمانہ جو بذریعہ سورج کے خریف کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ وہ موسم سرما کا زمانہ ہےؔ جبکہ آفتاب اپنی دوری کی وجہ سے شدت برودت ظاہر کرتا ہے سو اسی طرح اس آفتاب حقیقی کی جس کا نام خدا ہے ایک تجلّی ہے جو جاڑے سے مشابہت رکھتی ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ خدا کی محبت دلوں سے بکلّی ٹھنڈی ہو جاتی ہے اور انسانی طبیعتیں اس کو چھوڑ دیتی ہیں اور بجائے اس کے ہر ایک شخص نفس اور شہوات کی راہ کو پسند کرتا ہے اور شراب خواری۔ قماربازی۔ زناکاری اور جھوٹ۔ فریب۔ دغا۔ بدزبانی۔ تکبر۔ دنیا پرستی۔ چوری۔خیانت۔ خونریزی۔ ٹھٹھا۔ ہنسی اور ہر ایک قسم کا پاپ اور ہر ایک قسم کا پلید کام دنیا میں پھیل جاتا ہے اور تمام لیاقتیں زبان کی چالاکیوں سے آزمائی جاتی ہیں اور جو شخص ایسے طریقوں سے اپنی چالاکیاں دکھلاتا ہے وہ بڑا لائق سمجھا جاتا ہے اور بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے اور اگر مر بھی جائے تو اس کی یادگاریں قائم ہوتی ہیں۔ ایسا ہی زمین سُنسان پڑی ہوئی ہوتی ہے۔ شاذو نادر کے طور پر کوئی زمین پر ہوتا ہے جو پاک دل اور پاک زبان اور پاک خیال
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 422
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 422
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/422/mode/1up
اور خدا سے ڈرنے والا اور معرفت کے پاک پانی سے سیراب ہونے والاہو یہ موسم ایسا ہے گویا اس کو کلجگکہہ سکتے ہیں کیونکہ اس میں نیکی کا کال اور بدی کا اقبال ہوتا ہے اور زمین پاپ اور گناہ سے بھر جاتی ہے۔
پھر دوسرا زمانہ جو سورج اپنے تغیرات سے جاڑے کے بعد ظاہر کرتا ہے وہ ربیع کا زمانہ ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جبکہ مُردہ پودے نئے سر ے زندہ کئے جاتے ہیں اور نباتات کا خشک شدہ خون نئے سر ے پیدا کیا جاتا ہے۔ سو اسی طرح وہ جو آفتابِ حقیقی ہے ایک بھاری تجلّی اپنی جوموسمِ بہار کو دکھلاتی ہے دنیا پرظاہر کرتا ہے۔ تب زمین کے زندہ کرنے کے لئے ایک نیا پانی آسمان سے نازل ہوتا ہے اور وہ پانی اس طرح اُترتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب کر کے اس کے دل کو اس پانی کا ا برِ بہار بناتا ہے۔ تب وہ پانی اس بادل میں سے خدا تعالیٰ کے اذن سے نکلتا رہتاہے۔ اور ان خشک پودوں پر پڑتا ہے جن کو خریف کی بادِ صرصر نے تباہ اور خراب کر دیا تھا اورؔ ان میں معرفت الٰہی کے نئے پتے پیدا کرتا ہے اور ذوق شوق کے پھول ان میں نمایاں کردیتاہے اور آخر انسانی شاخوں کو نیک اعمال کے پھلوں سے بھر دیتا ہے۔
پھر تیسرا زمانہ جو زمانہ بہار کے بعد سورج دیوتا ظاہر کرتا ہے وہ صیف کا زمانہ ہے جو موسم گرما کا زمانہ کہلاتا ہے اور موسم گرما میں سورج ان پھلوں کو پکا دیتا ہے جو بہار کے موسم میں ابھی کچے تھے۔ پس اسی طرح خدا کی تجلّی کے لئے بھی ایک موسم صیف یعنی موسم گرما آتا ہے۔ یہ وہ موسم ہوتا ہے جبکہ بہار کے دنوں سے ترقی کر کے انسانی پاک طبیعتیں خدا تعالیٰ کی یاد میں اور اس کی محبت میں گرم ہوتی ہیں اور طبیعتوں میں ذکر الٰہی کے لئے جوش پیدا ہوتے ہیں اور ترقیات کمال کو پہنچتی ہیں اور یہ زمانہ پورے معنے سے سَت جُگ کا زمانہ ہوتا ہے۔ تب اکثر لوگ درحقیقت خدا تعالیٰ کی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 423
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 423
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/423/mode/1up
مرضی کے موافق چلتے ہیں اور اس کی خواہشوں کو اپنی خواہشیں بناتے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ سورج کے ان چار تغیر کے مقابل خدا تعالیٰ کے بھی چار تغیر پائے جاتے ہے۔ پس اس میں کلام کی جگہ نہیں کہ جوکچھ اجرام فلکی اور عناصر میں جسمانی اور فانی طور پر صفات پائی جاتی ہیں وہ روحانی اور ابدی طور پر خدا تعالیٰ میں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے یہ بھی ہم پر کھول دیا ہے کہ سورج وغیرہ بذاتِ خود کچھ چیز نہیں ہیں یہ اسی کی طاقتِ زبردست ہے جو پردہ میں ہر ایک کام کر رہی ہے۔ وہی ہے جو چاند کو پردہ پوش اپنی ذات کا بنا کر اندھیری راتوں کو روشنی بخشتا ہے جیسا کہ وہ تاریک دِلوں میں خود داخل ہو کر ان کو منوّر کر دیتا ہے اور آپ انسان کے اندر بولتا ہے۔ وہی ہے جو اپنی طاقتوں پر سورج کا پردہ ڈال کردِن کو ایک عظیم الشان روشنی کا مظہر بنا دیتا ہے اور مختلف فصلوں میں مختلف اپنے کام ظاہر کرتا ہے۔ اسی کی طاقت آسمان سے برستی ہے جو مینہ کہلاتی ہے اور خشک زمین کو سر سبز کر دیتی ہے اور پیاسوں کو سیراب کر دیتی ہے۔ اسی کی طاقت آگ میں ہو کر جلاتی ہے اور ہوا میں ہو کر دَم کو تازہ کرتی اور پھولوں کو ؔ شگفتہ کرتی اور بادلوں کو اُٹھاتی اور آواز کو کانوں تک پہنچاتی ہے۔ یہ اسی کی طاقت ہے کہ زمین کی شکل میں مجسّم ہو کر نوع انسان اور حیوانات کو اپنی پُشت پر اُٹھا رہی ہے مگر کیا یہ چیزیں خدا ہیں؟ نہیں بلکہ مخلوق مگر ان کے اجرام میں خدا کی طاقت ایسے طور سے پیوست ہورہی ہے کہ جیسے قلم کے ساتھ ہاتھ ملا ہوا ہے اگرچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قلم لکھتی ہے مگر قلم نہیں لکھتی بلکہ ہاتھ لکھتا ہے یا مثلاً ایک لوہے کا ٹکڑا جو آگ میں پڑ کر آگ کی شکل بن گیا ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ جلاتا ہے اور روشنی بھی دیتا ہے مگر دراصل وہ صفات اُس کی نہیں بلکہ آگ کی ہیں۔ اسی طرح تحقیق کی نظر سے یہ بھی سچ ہے کہ جس قدر اجرام فلکی و عناصر ارضی بلکہ ذرّہ ذرّہ عالم سفلی اور علوی کا مشہود اور محسوس ہے، یہ سب باعتبار
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 424
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 424
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/424/mode/1up
اپنی مختلف خاصیتوں کے جواُن میں پائی جاتی ہیں خدا کے نام ہیں اور خدا کی صفات ہیں اور خدا کی طاقت ہے جو ان کے اندر پوشیدہ طور پر جلوہ گر ہے اور یہ سب ابتدا میں اسی کے کلمے تھے جو اس کی قدرت نے ان کو مختلف رنگوں میں ظاہر کر دیا ۔ نادان سوال کرے گا کہ خدا کے کلمے کیونکر مجسم ہوئے کیا خدا ان کے علیحدہ ہونے سے کم ہوگیا مگر اس کو سوچنا چاہئے کہ آفتاب سے جو ایک آتشی شیشی* آگ حاصل کرتی ہے وہ آگ کچھ آفتاب میں سے کم نہیں کرتی۔ ایسا ہی جو کچھ چاند کی تاثیر سے پھلوں میں فربہی آتی ہے وہ چاند کو دُبلا نہیں کر دیتی۔ یہی خدا کی معرفت کا ایک بھید اور تمام نظام روحانی کا مرکز ہے کہ خدا کے کلمات سےؔ ہی دنیا کی پیدائش ہے جبکہ یہ بات طے ہو چکی اور خود قرآن شریف نے یہ علم ہمیں عطا کیا تو پھر میرے نزدیک ممکن ہے کہ وید نے جو کچھ آگ کی تعریف کی یا ہَوا کی تعریف کی یا سورج کی مہما اور استت کی اس کا بھی یہی مقصد ہوگا کہ الٰہی طاقت ایسے شدید تعلق سے ان کے اندر کام کررہی ہے کہ درحقیقت اس کے مقابل وہ سب اجرام
* حاشیہ۔آریہ صاحبان کا یہ عقیدہ ہے کہ پرمیشر نے زمین اور آسمان کی کسی چیز کو پیدا نہیں کیا صرف موجودہ چیزوں کو جو قدیم سے تھیں باہم جوڑا ہے جیسا کہ جیو جو قدیم سے اور انادی ہے اور پرمانو یا پرکرتی جو اجسام کے چھوٹے چھوٹے حصے ہیں اور قدیم اور انادی ہیں۔ مگر ہم ایسے اعتقاد کی وجہ سے اس قدر آریہ صاحبوں پر غصّہ نہیں کرتے جس قدر ہمیں ان کی بے نصیبی پر رحم آتا ہے کیونکہ جبکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی قدرتِ ایجاد کو شناخت نہیں ۱ کیا تو کیا شناخت کیا اور کونسا سچا اور کامل گیان اُن کو حاصل ہوا۔ وہ خدا جس نے اس قدر بڑے بڑے اجرام آسمان میں پیدا کئے جیسے سورج اور چاند اور اس قدر ستارے پیدا کئے جن کا اب تک انسانوں کو پتہ نہیں لگا۔
۱ کوئی محبت بغیر مشاہدہ حسن یا احسان کے پیدا نہیں ہو سکتی اور کوئی گناہ بغیر خدا کی محبت اور اندیشہ اُس کی ناراضگی کے دُور نہیں ہو سکتا۔ محبت گناہ کو ایسا جلاتی ہے جیسا کہ آگ میل کو۔ جس سونے کو ہر روز آگ میں ڈالو گے کیا اُس پر کوئی میل رہ سکتی ہے! مگر وہ شخص جو نہ خدا کے حسن کا قائل ہے یعنی اُس کو پورا قادر نہیں جانتا اور نہ خدا کے احسان کا قائل ہے یعنی یہ یقین نہیں رکھتا جو اس کی رُوح جو اس کے اندر بول رہی ہے وہ خدا سے ہے۔ وہ خاک اپنے پرمیشر سے محبت کرے گا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 425
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 425
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/425/mode/1up
بطور چھلکے کے ہیں اور وہ مغز ہے اور سب صفات اُسی کی طرف رجوع کرتی ہیں اس لئے اسی کا نام آگ رکھنا چاہئے اور اسی کا نام پانی اور اسی کا نام ہوا کیونکہ ان کے فعل ان کے فعل نہیں بلکہ یہ سب اس کے فعل ہیں اور ان کی طاقتیں ان کی طاقتیں نہیں بلکہ یہ سب اس کی طاقتیں ہیں جیسا کہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت میں کہ 3 اسی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی مختلف رنگوں او رپیرایوں اور عالموں میں جو دنیا کا نظام قائم رکھنےؔ کے لئے زمین آسمان کی چیزیں کام کررہی ہیں یہ وہ نہیں کام کرتیں بلکہ خدائی طاقت ان کے نیچے کام کررہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں بھی فرمایا 3 ۱۔ یعنی دنیا ایک شیش محل ہے جس کے شیشوں کے نیچے زور سے پانی چل رہا ہے اور نادان سمجھتا ہے کہ یہی شیشے پانی ہیں حالانکہ پانی ان کے نیچے ہے۔ اور جیسا کہ قرآن شریف میں ایک
بقیہ حاشیہ :۔ کیا وہ پیدا کرنے میں کسی مادّہ کا محتاج تھا۔ جب میں ان بڑے بڑے اجرام کو دیکھتا ہوں اور ان کی عظمت اور عجائبات پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ صرف ارادۂ الٰہی سے اور اس کے اشارہ سے ہی سب کچھ ہوگیا تو میری رُوح بے اختیار بول اُٹھتی ہے کہ اے ہمارے قادر خدا تو کیا ہی بزرگ قدرتوں والا ہے تیرے کام کیسے عجیب اور وراء العقل ہیں۔ نادان ہے وہ جو تیری قدرتوں سے انکار کرے اور احمق ہے وہ جو تیری نسبت یہ اعتراض پیش کرے کہ اس نے ان چیزوں کو کس مادّہ سے بنایا۔ افسوس کہ آریہ صاحبان یہ نہیں خیال کرتے کہ اگر خدا کو مخلوق کے بنانے میں انسانی اسباب کی پابندی ضروری ہے تو پھر وہ جیسے بغیرمادّہ کے کچھ بنا نہیں سکتا ویسا ہی وہ بغیر کسی کافی وقت کے کچھ بنا نہیں سکتا۔ پس اس صورت میں جیسا کہ ہم ایک دیوار کے بنانے میں اندازہ کرتے ہیں کہ ایک معمار اتنے دنوں میں اس کو تیار کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے نہیں۔ ایسا ہی ہمیں یہ اندازہ کرنا پڑے گا کہ خدا کو مثلاً سورج یا چاند بنانے میں اس قدر وقت کی ضرور حاجت پڑی ہوگی اور اس سے پہلے اس کے لئے غیر ممکن ہوگا کہ کچھ بنا سکے مگر ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے یہ حدّیں مقرر کرنا اور کسی خاص اندازۂ وقت کی طرف کسی کام کے لئے اس کو محتاج سمجھنا کفر ہے اور گو وہ اپنی مرضی سے کوئی کام جلدی سے کرے یا دیر سے مگر وہ وقت کا محتاج نہیں۔ پس اس صورت میں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 426
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 426
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/426/mode/1up
تیسری جگہ بھی فرمایا۔3 ۱۔ یعنی یہ خیال مت کرو کہ زمین تمہیں اُٹھاتی ہے یا کشتیاں دریا میں تمہیں اُٹھاتی ہیں بلکہ ہم خود تمہیں اٹھا رہے ہیں۔
خلاصہ مطلب یہ کہ ہم ان معنوں کو جو اُوپر بیان ہوئے وید کی نسبت قبول کر سکتے ہیں اور ہم خیال کر سکتے ہیں کہ جیسا کہ قرآن شریف نے ہمیں ہدایت دی ہے۔ویدؔ کا بھی یہی مدعا ہے مگر دو باتوں کا ثابت ہونا ضروری ہے (۱) اوّل یہ کہ ویدکا بھی یہی مذہب ہو جو قرآن نے ظاہر کیا ہے کہ یہ سب چیزیں کیا آسمان کے اجرام اور کیا زمین کے عناصر اور کیا ذرہ ذرہ مخلوقات خدا کے ہاتھ سے نکلے ہیں کیونکہ اگر ایسا تسلیم نہ کریں تو پھر ان چیزوں کی صفات پر میشر کی صفات نہیں ہو سکتیں اور ان چیزوں کے گُن پرمیشر کے گُن نہیں کہلا سکتے۔ اور ان چیزوں کی
بقیہ حاشیہ :۔ وہ ؔ مادہ کا کیونکر محتاج ہوگیا۔ انسانی ضعف کے لئے جو منطق بنائی گئی ہے اس منطق سے اس کے حق میں بھی کوئی نتیجہ نکالنا اس سے زیادہ کونسی حماقت ہوگی۔ میں ہرگز یقین نہیں رکھتا کہ وید کی یہ تعلیم ہو بلکہ خاص پنڈت دیانند کے پیٹ سے یہ تعلیم نکلی ہے۔ پنڈت صاحب نے جب دیکھا کہ بغیر روٹی کھانے کے وہ جی نہیں سکتے اور بغیر پانی کے ان کی پیاس نہیں بجھتی اور بغیر مشقت اور مغز خوری کے وید نہ پڑھ سکے تو انہوں نے سمجھ لیا کہ جیسا وہ ایک چیز کے حصول کے لئے مادہ کے محتاج ہیں ایسا ہی ان کا پرمیشر بھی مادہ کا محتاج ہے۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ وہ دوسرے کے کاموں کو اپنے نفس پر قیاس کر لیتا ہے چنانچہ بازاری عورتیں ہرگز سمجھ نہیں سکتیں کہ دنیا میں پاکدامن اور پاک دل عورتیں بھی ہوتی ہیں جس کو آنکھیں ملی ہیں وہ آنکھوں کے بعد اپنے تئیں اندھا نہیں کر سکتا اور جس کو کوئی حصّہ گیان اور معرفت کا ملا ہے وہ پھر جہالت کو پسند نہیں کر سکتا۔ ہم نے صدہا امور اپنی آنکھوں سے ایسے خارق عادت دیکھے ہیں کہ اگر ہم بعد اس کے گواہی نہ دیں کہ درحقیقت ہمارا خدا قادر مطلق ہے اور کسی مادہ کامحتاج نہیں تو ہم سخت گنہگار ہوں گے۔ شائد چودہ سال کے قریب ہوگیا ہے یا کم زیادہ جو میں نے دیکھا تھا کہ عالمِ کشف میں ایک کاغذ پر مَیں نے بعض باتیں لکھی ہیں اس غرض سے کہ ایسے طور سے وہ ہونی چاہئیں اورؔ مَیں نے دیکھا کہ میں نے وہ تحریر اپنے قادر خدا کے رُوبرو پیش کی کہ اس پر دستخط کردیں کہ ایسا ہی ہو جائے تب میرے خدا نے ایک قلم سے ایک سُرخی کی سیاہی سے جو خون کی مانند تھی اور مَیں خیال کرتا تھا کہ وہ خون ہی ہے۔ اس پر دستخط اپنے کر دیئے اور دستخط سے پہلے قلم کو چھڑک دیا اور وہ چھینٹے خون کے میرے پر پڑے۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 427
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 427
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/427/mode/1up
طاقتیں پرمیشر کی طاقتیں نہیں کہلا سکتیں مگر افسوس کہ آریہ سماجی اصول کے موافق ذرّات یعنی پرمانو اور جیو یعنی روح یہ سب انادی اور قدیم اور غیر مخلوق ہیں اس لئے ان کے گُن اور صفات اور خواص اور طاقتیں بھی غیر مخلوق اور انادی ہیں پرمیشر کو ان میں کچھ دخل نہیں۔ پس اگر وید کا یہی مذہب ہے تو ماننا پڑتا ہے کہ وید نے آگ کے صفات بیان کر کے آتش پرستی سکھائی ہے اور سورج کی ا ستت اور مہما کر کے سورج پرستی سکھائی ہے۔ ہاں اگر ان سب چیزوں کو پرمیشر سے نکلی ہوئی مان لیں اور ان کی طاقتیں اس کی طاقتیں مان لیں تو پھر اعتراض باقی نہیں رہتا اور یاد رہے کہ اس کے ساتھ دوسری شرط بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ وید میں ان صدہا شرتیوں کے مقابل پر جن میں سورج اور آگ وغیرہ کی ا ستت و مہما موجود ہے پچا۵۰س یا سا۶۰ٹھ یا ستر۷۰ ایسی شرتیاں بھی پائی جائیں جن کایہ مطلب ہو کہ یہ چیزیں ہرگز پرستش کے لائق نہیں اور نہ ان سے مُراد مانگ سکتے ہیں۔ ان دو باتوں کے ثابت ہو جانے سے وید اس لائق ہوگا کہ اس الزام سے اس کو بری کر دیا جاوے اور وہ فرد قرار داد جرم اس پر سے اُٹھالی جائے جو بڑے بڑے اہل الرائے اس پرلگارہے ہیں اور اگر یہ
بقیہ حاشیہ :۔ تب وجد اور شوق محبت سے میری آنکھ کھل گئی کہ خدا نے میرا منشاء پورا کیا اور میری تحریر پر بے تامل دستخط کر دےئے۔ اس وقت میرے پاس ایک دوست موجود تھا یعنی میاں عبداللہ سنوری۔ اس نے شور مچایا کہ یہ قطرے سُرخ کہاں سے گرے اور جیسا کہ عالمِ کشف میں دیکھا تھا درحقیقت خارج میں بھی وہ سرخ قطرے تربتر میرے کُرتہ پر پڑے تھے اور کچھ عبداللہ پر بھی۔ اب بتلاؤ کہ یہ تو تمام کشفی معاملہ تھا۔ ظاہر میں اُن خونی قطروں کا وجود کیونکر پیدا ہوگیا اور کس مادہ سے وہ خون پیدا ہوا۔ آریہ صاحبان بجز اس کے کیا جواب دے سکتے ہیں کہ یہ قصّہ جھوٹا ہے اور آپ بنا لیا ہے اور یہی قصّہ مَیں نے سرمہ چشم آریہ میں لکھا ہے۔ کیونکہ انہی دنوں میں وہ کتاب تالیف ہوئی تھی اور چونکہ عین آریہ صاحبوں کے مقابل پر یہ نشان ظاہر ہوا تھا اس لئے میرے خیال میں یہ پنڈت لیکھرام کے مارے جانے کی طرف اشارہ تھا اور طاعون کے وقوع کی طرف بھی اشارہ تھا۔ اسی طرح صدہا نشان ہیں جو ایسی قدرتوں پر دلالت کرتے ہیں جو بغیر مادہ کے ظہور میں آئیں۔ جس نے یہ قدرتیں نہیں دیکھیں اس نے اپنے خدا کا کیا دیکھا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 428
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 428
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/428/mode/1up
باتیں ثابت نہیں تو الزام ثابت ہے۔
پھرؔ ایک اور اعتراض آریہ صاحبوں کے اصول پر ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس پر بھی توجہ کریں گے اور وہ یہ ہے کہ یہ قرار دیا گیا ہے کہ گو دنیا کے لئے ایک ازلی اور ابدی سلسلہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا لیکن پرمیشر نے قدیم سے یہی طریق مقرر کر رکھا ہے کہ ہمیشہ وہ سنسکرت زبان میں اور آریہ ورت میں آسمانی کتاب پیدائش کے ابتدا میں بھیجتا رہتا ہے۔ یہ مقولہ تین۳ طور سے غلط ہے۔ اوّ۱ل خدا تعالیٰ کی رحمت عامہ کے برخلاف ہے یعنی جس حالت میں دنیا میں مختلف بلاد اور مختلف زبانیں پائی جاتی ہیں اور ایک ملک کے باشندے دوسری قوم کی زبان سے ناآشنا ہیں بلکہ اس زمانہ سے پہلے تو یہ حالت رہی ہے کہ ایک ملک دوسرے ملک کے وجود سے بھی بے خبر تھا اور آریہ ورت میں یہ خیال تھا کہ ہمالیہ پہاڑ کے پَرے کوئی آبادی نہیں تو اس صورت میں جبکہ دنیا کے تفرقہ کی یہ صورت تھی ہمیشہ اور کروڑہا برسوں سے آسمانی کتاب کو ایک ہی ملک تک محدود رکھنا یہ خدا کی اس رحمت کے برخلاف ہے جو اس کے ربّ العالمین ہونے کی شان کو زیبا ہے اور اس کے برخلاف جو قرآن شریف نے فرمایا ہے۔ وہ نہایت معقول اور قرین انصاف ہے اور وہ یہ کہ وہ فرماتا ہے۔3 ۱ یعنی کوئی بستی اور کوئی آباد ملک نہیں جس میں پیغمبر نہیں بھیجا گیا اور پھر فرماتا ہے۔ 3 ۲۔ یعنی یہ کتاب جو قرآن شریف ہے یہ مجموعہ ان تمام کتابوں کا ہے جو پہلے بھیجی گئی تھیں۔ اس آیت سے مطلب یہ ہے کہ خدا نے پہلے متفرق طور پر ہر ایک امت کو جُدا جُدا دستور العمل بھیجا اور پھر چاہا کہ جیسا کہ خدا ایک ہے وہ بھی ایک ہو جائیں تب سب کو اکٹھا کرنے کے لئے قرآن کو بھیجا اور خبر دی کہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ خدا تمام قوموں کو ایک قوم بنا دے گا اور تمام ملکوں کو ایک ملک کر دے گا اور تمام زبانوں کو ایک زبان بنادے گا سو ہم دیکھتے ہیں کہ دن بدن دنیا اس صورت کےؔ قریب آتی جاتی ہے اور
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 429
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 429
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/429/mode/1up
مختلف ملکوں کے تعلقات بڑھتے جاتے ہیں۔ سیاحت کے لئے وہ سامان میسّر آگئے ہیں جو پہلے نہیں تھے خیالات کے مبادلہ کے لئے بڑی بڑی آسانیاں ہوگئی ہیں۔ ایک قوم دوسری قوم میں ایسی دھنس گئی ہے کہ گویا وہ دونوں ایک ہونا چاہتی ہیں۔ بڑے اور مشکل سفر بہت سہل اور آسان ہوگئے ہیں۔ اب روس کی طرف سے ایک ریل طیار ہورہی ہے کہ جو چالیس دن میں تمام دنیا کا دورہ ختم کرلے گی۔ اور خبر رسانی کے خارق عادت ذریعے پیدا ہوگئے ہیں اس سے پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان مختلف قوموں کو جو کسی وقت ایک تھیں پھر ایک ہی بنانا چاہتا ہے تا پیدائش کا دائرہ پورا ہو جائے اور تا ایک ہی خدا ہو اور ایک ہی نبی ہو اور ایک ہی دین ہو۔ یہ بات نہایت معقول ہے کہ تفرقہ کے زمانہ میں خدا نے جُدا جُدا ہر ایک ملک میں نبی بھیجے اور کسی ملک سے بخل نہیں کیا لیکن آخری زمانہ میں جب تمام ملکوں میں ایک قوم بننے کی استعداد پیدا ہوگی تب سب ہدایتوں کو اکٹھا کر کے ایک ایسی زبان میں جمع کر دیا جو اُمّ الالسنہ ہے یعنی زبانِ عربی۔ کیا کوئی کانشنس اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ سنسکرت زبان اور آریہ ورت میں تو کروڑہا مرتبہ وید نے جو بقول آریہ پرمیشر کا کلام ہے جنم لیا لیکن کسی اور زبان میں اور کسی اور ملک میں ایک مرتبہ بھی اس کا ظہور نہ ہوا۔ اگر تناسخ کا مسئلہ کچھ چیز ہے تو اس سے ہی ثبوت دینا چاہئے کہ پرمیشر نے اس ملک کے لوگوں سے اس قدر کیوں پیار کیا اور دوسرے ملکوں سے کیوں ایسی بیگانگی ظاہر فرمائی کون سے عمدہ اور پاک کرم یہ ملک ہمیشہ کرتا رہا ہے جن کی وجہ سے یہ وید کی عزّت ہمیشہ اس کو دی جاتی ہے کیا پرمیشر جانتا ہے یا نہیں کہ دوسرے ملک بھی اِس بات کے محتاج ہیں کہ کبھی ان کی زبان میں بھی کلامِ الٰہی نازل ہو اور ان میں بھی وحی الٰہی پانے والے پیدا ہوں اور اگر جانتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ ہمیشہ وید آریہ ورت میں ہی آتا ہے اور سنسکر ؔ ت زبان میں ہی ہوتا ہے بیان توکرنا چاہئے کہ یہ پکش پات کیوں ہے اور دوسرے ملکوں کا کیا گناہ ہے جن کی قسمت میں یہ نعمت نہیں اور ہمیشہ کے لئے وہ اس فخر سے بے نصیب
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 430
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 430
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/430/mode/1up
ہیں کہ ان کے ملک میں اور ان کی زبان میں خدا کی کتاب نازل ہو۔
پھر دوسرا پہلو اعتراض کا یہ ہے کہ اگر فرض محال کے طور پر یہ بھی خیال کیا جائے کہ وید کُل دنیا کے لئے آیا ہے اور خدا تعالیٰ پر یہ بخل جائز رکھا جائے کہ اُس نے دوسرے ملکوں اور قوموں کو اپنے شرفِ مکالمہ سے ہمیشہ کے لئے محروم رکھا تو اس صورت میں اس قدر تو چاہئے تھا کہ پرمیشر وہ زبان اختیار کرتا جو تمام زبانوں کی ماں ہو اور زندہ زبان ہو نہ سنسکرت کہ کسی طرح وہ تمام زبانوں کی ماں نہیں کہلا سکتی اور نہ وہ زندہ زبان ہے بلکہ مدّت ہوئی کہ مرگئی اور کسی ملک میں وہ بولی نہیں جاتی۔ ہاں یہ درجہ اُمّ الالسنہ ہونے کا عربی زبان کو حاصل ہے اور وہی آج ان تمام زبانوں میں سے جن میں آسمانی کتابیں بیان کی جاتی ہیں زندہ زبان ہے اور ہم نے بڑی تحقیق سے تمام زبانوں کا مقابلہ کر کے بہت سے قوی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ درحقیت عربی زبان ہی اُم الالسنہ ہے ۔اس لئے وہی زبان اس لائق ہے کہ کل قوموں کو اس زبان میں مخاطب کیا جائے اور ہم نے عربی زبان کے اُمّ الالسنہ ہونے کے بارے میں ایک کتاب تالیف کی ہے اور جو شخص اس کتاب کو پڑھے گا مَیں خیال نہیں کرتا کہ بجُز تسلیم کے کسی طرف اس کو گریز کی راہ مل سکے کیونکہ اس میں اعلیٰ درجہ کی تحقیقاتوں سے اور ہزارہا مفردات کے مقابلہ سے اور نیز اس علمی خزانہ سے جو عربی مفردات میں پایا جاتا ہے عربی کا تمام زبانوں کی ماں ہونا ثابت کر دیا ہے۔
تیسری وجہ آریہ صاحبوں کے اس اصول کے غلط ہونے کی کہ وید پر پرمیشر کی مُہر لگ چکی ہے اور اس کے بغیر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہے ہمارا ذاتی تجربہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ قریباً ہر روز خدا تعالیٰ ہم سے کلام کرتا ہے اور اپنے اسرارِ غیب اور علومِ معرفت ؔ سے مطلع فرماتا ہے۔ پس اگر یہ لاف و گزاف درحقیقت وید میں ہے کہ آئندہ وحی کا دروازہ بند ہوگیا تو بعد اس کے ہمیں اس کے جھوٹا ہونے کے لئے کسی اور دلیل کی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 431
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 431
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/431/mode/1up
ضرورت نہیں کیونکہ امور مشہودہ محسُوسہ کے برخلاف کہنے والا بالیقین کاذب اور سخت کاذب ہوتا ہے جس عالیشان وحی سے ہمیں خدا نے مشرف کیا ہے ہم وید میں اس کا نمونہ نہیں دیکھتے۔ یہ کلام خارق عادت باتوں اور غیب سے پُر ہے جیسا کہ سمندر پانی سے اور اکثر عربی میں جو نبوت کی کلام کی تخت گاہ ہے نازل ہوتا ہے اور کبھی اُردو میں اور کبھی فارسی میں اور بعض اوقات انگریزی زبان میں بھی ہوا ہے اور اگر آریہ صاحبان یہ کہیں کہ کونسا نشان ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ خدا کا کلام ہے سو مَیں کہتا ہوں کیا پنڈت لیکھرام کے متعلق جو پیشگوئی تھی جس میں اُس کے مارے جانے کا دن اور تاریخ بھی درج تھی کیا وہ آریہ صاحبوں کو بھول گئی۔ کیا وہ ایک ہی پیشگوئی آریہ صاحبوں کے لئے کافی نہیں تھی اور ایسی پیشگوئیاں ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہیں اور ایک فوج گواہوں کی ان کے ساتھ ہے جن میں سے کئی معزز آریہ بھی ہیں۔ پس اس سے زیادہ ہم خدا کے مکالمہ کا اور کیا ثبوت دے سکتے ہیں بلکہ ہم اسی جگہ کے چند آریہ صاحبوں کوبلکہ کئی لاکھ اور آریہ صاحبوں کو بھی گواہی کے لئے پیش کرتے ہیں۔
اور اس جگہ اس بات کا ذکر کرنا بھی نامناسب نہ ہوگا کہ بعض نادان ایک لاکھ پیشگوئی کے مقابل پر ایک دو پیشگوئیوں کا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ وہ پوری نہیں ہوئیں لیکن یہ خود اُن کا قصورِ فہم ہے بلکہ کوئی بھی ایسی پیشگوئی نہیں کہ وہ اپنے الفاظ کے مطابق پوری نہیں ہو چکی یا اس میں سے کوئی حصہ پورا نہیں ہو چکا جو دوسرے حصّے کے کسی وقت پورا ہو جانے پر گواہ ہے۔ سچی گواہی کو چھپانا اور جھوٹی حجتیں پیش کرنا ان لوگوں کا کام نہیں جو خدا سے ڈرتے ہیں۔ خاص کر آریہ صاحبوں کووہ نشان فراموش نہیں کرنا چاہئے جو خدا نے ان کو اپنے زبردست ہاتھ سے دکھلایا اور کئی کروڑ انسانوں کو اس پر گواہ کیا۔ ایسے زبردست نشانوں کا انکار کر کے پھر تکذیب کرنا یہ خدا کے ساتھ لڑائی ہے۔
وید کی یہ تعلیمیں ہم نے بطور نمونہ کے بیان کی ہیں اور ہم لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف کی تعلیمیں اس کے مخالف ہیں وہ دنیا میں توحید قائم کرنے آیا ہے اس میں توحید کی تعلیم شمشیر برہنہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 432
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 432
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/432/mode/1up
کی طرح ہے اس کو اوّل سے آخر تک پڑھو وہ یہ نہیں سکھلاتا کہ خدا کے بغیر کسی چیز کی پرستش کرو اور اس سے مرادیں مانگو اور اس کی مہما اور استت بیان کرو۔ وہ خدا کی کتابوں کو نہ کسی خاص ملک سے محدود کرتا ہے اور نہ کسی خاص قوم سے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ وہ ایک دائرہ کو ختم کرنے آیا ہے جس کے متفرق طور پر تمام دنیا میں نقطے موجود تھے۔ اب وہ ان تمام نقطوں میں خط کھینچ کر ان سب کو ایک دائرہ کی طرح بناتا ہے اور اس طرح پر تمام قوموں کو ایک قوم بنانا چاہتا ہے لیکن نہ وقت سے پہلے بلکہ ایسے وقت میں جبکہ خود وقت گواہی دیتا ہے کہ اب ضرور یہ تمام قومیں ایک قوم ہو جائیں گی۔
نمبرؔ ۲
ہر ایک نفس کے بارے میں اس کی ذات کے متعلق اور نیز بنی نوع اور قوم کے متعلق عیسائی صاحبوں اور آریہ صاحبوں کی کیا تعلیم ہے اور قرآن شریف کی کیا تعلیم
عیسائی صاحبوں کی تعلیم کو اس جگہ مفصل لکھنے کی ضرورت نہیں۔ خونِ مسیح اور کفارہ کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے ان کو نہ صرف تمام مجاہدات اور ریاضات سے فارغ کر دیا ہے بلکہ اکثر دِلوں کو گناہوں کے ارتکاب پر ایک دلیری بھی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ جبکہ عیسائی صاحبوں کے ہاتھ میں قطعی طور پر گناہوں کے بخشے جانے کا ایک نسخہ ہے یعنی خونِ مسیح تو صاف ظاہر ہے کہ اس نسخہ نے قوم میں کیا کیا نتائج پیدا کئے ہوں گے اور کس قدر نفسِ امّارہ کو گناہ کرنے کے لئے ایک جرأت پر آمادہ کردیا ہوگا۔ اِس نسخہ نے جس قدر یورپ اور امریکہ کی عملی پاکیزگی کو نقصان پہنچایا ہے میں خیال کرتا ہوں کہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 433
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 433
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/433/mode/1up
اس کے بیان کرنے کی مجھے ضرورت نہیں بالخصوص جب سے اس نسخہ کی دوسری جُز شراب بھی اس کے ساتھ ملحق ہوگئی ہے تب سے تو یہ نسخہ ایک خطرناک اور بھڑکنے والا مادہ بن گیا ہے اس کی تائید میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے ہر ایک سچے عیسائی کا یہ فرض ہے کہ وہ بھی شراب پیوے اور اپنے مرشد کی پَیروی کرے۔
غرض اس نسخہ کے استعمال سے ان ملکوں کی عملی پاکیزگی پر جو زلزلہ آیا ہے اور جو کچھ تباہی قوم میں پھیلی ہے اس کے ذکر کرنے سے بھی بدن کانپتا ہے۔ افسوس کہ شراب اور کفّارہ دونوں مل کر ایک ایسا تیز اور جلد مشتعل ہونے والا بارود ہوگیا ہے جس کے آگے تقویٰ اور طہارت باطنی یوں اُڑ جاتی ہے جیسے سخت آندھی کے آگے خس و خاشاک۔ اور اس میں اندرونی پاکیزگی کے اُڑانے کے لئے اس توپ سے بھی زیادہ قوت ہے جو دس۱۰ میل سے مار کر سکتی ہے کیونکہ توپیں تو اکثر دو ؔ تین میل تک فیر کر سکتی ہیں مگر ان توپوں کی زد تو دس ہزار میل سے بھی زیادہ تک پہنچ گئی ہے۔ یورپ کی شراب کی گرم بازاری نے اس ملک کو بھی شریک کر لیا ہے۔ زیادہ بیان کی حاجت نہیں۔ پھر علاوہ اس کے عورتوں کی عام بے پردگی نے اس توپ کا زن و مرد کو نشانہ بنا دیا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ پاک دل رکھنے والے اور خدا سے ڈرنے والے دنیا میں بہت کم لوگ ہوتے ہیں۔ اور اکثر انسان اُس کتّے سے مشابہ ہیں جو دودھ یا کسی اورعمدہ چیز کو دیکھ کر اس میں منہ ڈالنے سے صبر نہیں کر سکتا۔ نفس غالب اور شہوت طالب اور آنکھیں اندھی ہوتی ہیں اور شراب ایسے جذبات کو اور بھی بانس پر چڑھا دیتی ہے۔ تب خدائے تعالیٰ کا خوف دل سے جاتا رہتا ہے اور جوانی کے دن اور جذبات کے ایّام اور نیز شرابوں کے جام اندھا کر دیتے ہیں۔ اس صورت میں جو ان مردوں اور جوان عورتوں کا اس طور سے بلاتکلف ملاپ ہونا گویا کہ وہ میاں بیوی ہیں ایسی قابلِ شرم خرابیاں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 434
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 434
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/434/mode/1up
پیدا کرتا ہے جن سے اب یورپ بھی دن بدن واقف ہوتا جاتا ہے آخر جیسے بہت سے تجارب کے بعد طلاق کا قانون پاس ہوگیا ہے اسی طرح کسی دن دیکھ لوگے کہ تنگ آکر اسلامی پردہ کے مشابہ یورپ میں بھی کوئی قانون شائع ہوگا ورنہ انجام یہ ہوگا کہ چارپایوں کی طرح عورتیں اور مرد ہو جائیں گے اور مشکل ہوگا کہ یہ شناخت کیا جائے کہ فلاں شخص کس کا بیٹا ہے اور وہ لوگ کیونکر پاک دل ہوں۔ پاک دل تو وہ ہوتے ہیں جن کی آنکھوں کے آگے ہر وقت خدا رہتا ہے اور نہ صرف ایک موت اُن کو یاد ہوتی ہے بلکہ وہ ہر وقت عظمتِ الٰہی کے اثر سے مرتے رہتے ہیں مگر یہ حالت شراب خوری میں کیونکر پیدا ہو۔ شراب اور خدا ترسی ایک وجود میں اکٹھی نہیں ہو سکتی۔ خونِ مسیح کی دلیری اور شراب کا جوش تقویٰ کی بیخ کنی میں کامیاب ہوگیا ہے۔ ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آیا کفارہ کے مسئلہ نے یہ خرابیاں زیادہ پیدا کی ہیں یا شراب نے۔ اگر اسلام کی طرح پردہ کی رسم ہوتی تو پھر بھی کچھ پردہ رہتا۔ مگر یورپ تو پردہ کی رسم کا دشمن ہے۔ ہم یورپ کے اسؔ فلسفہ کو نہیں سمجھ سکتے اگر وہ اس اصرار سے باز نہیں آتے تو شوق سے شراب پیا کریں کہ اس کے ذریعہ سے کفارہ کے فوائد بہت ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ مسیح کے خون کے سہارے پر جو لوگ گناہ کرتے ہیں شراب کے وسیلہ سے ان کی میزان بڑھتی ہے۔ ہم اس بحث کو زیادہ طول نہیں دینا چاہتے کیونکہ فطرت کا تقاضا الگ الگ ہے۔ ہمیں تو ناپاک چیزوں کے استعمال سے کسی سخت مرض کے وقت بھی ڈر لگتا ہے۔ چہ جائیکہ پانی کی جگہ بھی شراب پی جائے۔ مجھے اس وقت ایک اپنا سرگذشت قصّہ یاد آیا ہے اور وہ یہ کہ مجھے کئی سال سے ذیابیطس کی بیماری ہے۔ پندرہ بیس مرتبہ روز پیشاب آتا ہے اور بعض وقت سو سو دفعہ ایک ایک دن میں پیشاب آیا ہے اور بوجہ اس کے کہ پیشاب میں شکر ہے۔ کبھی کبھی خارش کا عارضہ بھی ہو جاتا ہے اور کثرت پیشاب سے بہت ضعف تک نوبت پہنچتی ہے۔ ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صلاح دی کہ ذیابیطس
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 435
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 435
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/435/mode/1up
کے لئے افیون مفید ہوتی ہے۔ پس علاج کی غرض سے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کر دی جائے مَیں نے جواب دیا کہ یہ آپ نے بڑی مہربانی کی کہ ہمدردی فرمائی لیکن اگر مَیں ذیابیطس کے لئے افیون کھانے کی عادت کرلوں تو مَیں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں کہ پہلا مسیح تو شرابی تھا اور دوسرا افیونی۔
پس اس طرح جب مَیں نے خدا پر توکّل کی تو خدا نے مجھے ان خبیث چیزوں کا محتاج نہیں کیا اور بارہا جب مجھے غلبہ مرض کا ہوا تو خدا نے فرمایا کہ دیکھ مَیں نے تجھے شفا دیدی تب اسی وقت مجھے آرام ہوگیا۔ انہیں باتوں سے مَیں جانتا ہوں کہ ہمارا خدا ہر ایک چیز پر قادرہے*۔ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ نہ اُس نے رُوح پیدا کی اور نہ ذرّات اجسام۔ وہ خداسے غافل ہیں۔ ہم ہرروز اُس کی نئی پیدائش دیکھتے ہیں اور ترقیات سے نئی نئی رُوح وہ ہم میں پھونکتا ہے۔ اگر وہ نیست سے ہست کرنے والا نہ ہوتا تو ہم تو زندہ ہی مر جاتے۔ عجیب ہے وہ خدا جو ہمارا خدا ہے۔ کون ہے جو اس کی مانند ہے اور عجیب ہیں اُس کے کام۔ کون ہے جس کے کام اس کی مانند ہیں۔ وہ قادر مطلق ہے ہاں بعض وقت حکمت اس کی ایک ؔ کام کرنے سے اُسے روکتی ہے۔ چنانچہ مثال کے طور پر ظاہر کرتا ہوں کہ مجھے دو مرض دامنگیر ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصّہ میں کہ سردرد اور دورانِ سر اور دورانِ خون کم ہو کر ہاتھ پَیرسرد ہو جانا نبض کم ہو جانا۔ دوسرے جسم کے نیچے کے حصّہ میں کہ پیشاب کثرت سے آنا اور اکثر دست آتے رہنا۔ یہ دونوں بیماریاں قریباً بیس۲۰ برس سے ہیں۔ کبھی دعا سے ایسی رخصت ہو جاتی ہیں کہ گویا دُور ہوگئیں۔ مگر پھر شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک دفعہ مَیں نے دُعا کی کہ یہ بیماریاں بالکل دُور کر دی جائیں توجواب ملا کہ ایسا نہیں ہوگا۔
* انسان جب تک خود خدا کی تجلّی سے اور خدا کے وسیلہ سے اس کے وجود پر اطلاع نہ پاوے تب تک وہ خدا کی پرستش نہیں کرتا بلکہ اپنے خیال کی پرستش کرتا ہے محض خیال کی پرستش کرنا اندرونی گندگی کو صاف نہیں کرتا۔ ایسے لوگ تو پرمیشر کے خود پرمیشر بنتے ہیں کہ خود اس کا پتہ آپ لگاتے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 436
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 436
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/436/mode/1up
تب میرے دل میں خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے ڈالا گیا کہ مسیح موعود کے لئے یہ بھی ایک علامت ہے۔ کیونکہ لکھا ہے کہ وہ دو زرد چادروں میں اُترے گا سو یہ وہی د۲و زرد رنگ کی چادریں ہیں۔ ایک اوپر کے حصّہء بدن پر اَور ایک نیچے حصّہء بدن پر۔ کیونکہ تمام اہلِ تعبیر اس پر متفق ہیں کہ عالمِ کشف یا عالمِ روء یا میں جو نبوت کا عالم ہے اگر زرد چادریں دیکھی جائیں تو ان سے بیماری مُراد ہوتی ہے۔ پس خدا نے نہ چاہا کہ یہ علامت مسیح موعود کی مجھ سے علیحدہ ہو۔
کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ہم نے اِس جگہ انجیل کی تعلیم کا ذکر نہیں کیا کیونکہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ مسیح صرف اپنے خون کا فائدہ پہنچانے کے لئے آیا تھا یعنی اس لئے کہ تاگناہ کرنے والے اس کے مَرنے سے نجات پاتے رہیں ورنہ انجیل کی تعلیم ایک معمولی بات ہے جو پہلے سے بائبل میں موجود ہے گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہناچاہئے کہ یہ صرف دکھانے کے دانت ہیں۔ اس پر عمل کرنا مقصود ہی نہیں۔ اور یہی سچ ہے کیا عدالتیں اس پر عمل کرتی ہیں؟ کیا خود پادری صاحبان اِس پر عمل کرتے ہیں؟ کیا عوام عیسائی اس کے پابند ہیں؟ ہاں کفّارہ اور خونِ مسیح کے موافق ضرور عمل ہورہا ہے۔ اور اس سے یورپ امریکہ دونوں فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
علاوہ اس کے یہ بھی سخت غلطی ہے کہ انجیل کی تعلیم کو کامل کہا جائے۔ وہ انسانی فطرت کے درخت کی پورے طور پر آبپاشی نہیں کر سکتی اور صرف ایک شاخ کو غیر ؔ موزوں طور پر لمبی کرتی ہے اور باقی کو کاٹتی ہے اور جن جن قوتوں کے ساتھ انسان اس مسافر خانہ میں آیا ہے انجیل ان سب قوتوں کی مُربی نہیں ہے۔ انسان کی فطرت پر نظر کر کے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو مختلف قویٰ اس غرض سے دیئے گئے ہیں کہ تا وہ مختلف وقتوں میں حسب تقاضا محل اور موقعہ کے ان قویٰ کو استعمال کرے مثلاً انسان میں منجملہ اور خلقوں کے ایک خلق بکری کی فطرت سے مشابہ ہے۔ اور دوسرا خلق شیر کی صفت سے مشابہت رکھتا ہے۔ پس
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 437
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/437/mode/1up
خدائے تعالیٰ انسان سے یہ چاہتا ہے کہ وہ بکری بننے کے محل میں بکری بن جائے اور شیر بننے کے محل میں وہ شیر بن جائے اور خدا تعالیٰ ہرگز نہیں چاہتا کہ وہ ہروقت اور ہر محل میں بکری بنا رہے اور نہ یہ کہ ہرجگہ وہ شیرہی بنا رہے اور جیسا کہ وہ نہیں چاہتا کہ ہر وقت انسان سوتا ہی رہے یا ہر وقت جاگتا ہی رہے یا ہردم کھاتا ہی رہے یا ہمیشہ کھانے سے منہ بند رکھے۔ اِسی طرح وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ انسان اپنی اندرونی قوتوں میں سے صرف ایک قوت پر زور ڈال دے اور دوسری قوتیں جو خدا کی طرف سے اس کو ملی ہیں ان کو لغو سمجھے۔ اگر انسان میں خدا نے ایک قوت حلم اور نرمی اور درگزر اور صبر کی رکھی ہے تو اسی خدا نے اس میں ایک قوتِ غضب اور خواہش انتقام کی بھی رکھی ہے۔ پس کیا مناسب ہے کہ ایک خدداد قوت کو تو حد سے زیادہ استعمال کیا جائے اور دوسری قوت کو اپنی فطرت میں سے بکلی کاٹ کر پھینک دیا جائے۔ اس سے تو خدا پر اعتراض آتا ہے کہ گویا اس نے بعض قوتیں انسان کو ایسی دی ہیں جو استعمال کے لائق نہیں۔ کیونکہ یہ مختلف قوتیں اسی نے تو انسان میں پیدا کی ہیں۔ پس یاد رہے کہ انسان میں کوئی بھی قوت بُری نہیں ہے۔ بلکہ اُن کی بد استعمالی بُری ہے۔ سو انجیل کی تعلیم نہایت ناقص ہے۔ جس میں ایک ہی پہلو پر زور ڈال دیا گیا ہے۔ علاوہ اس کے دعویٰ تو ایسی تعلیم کا ہے کہ ایک طرف طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیردیں۔ مگر اس دعویٰ کے موافق عمل نہیں ہے مثلاً ایک پادری صاحب کو کوئی طمانچہ مار کر دیکھ لے کہ پھر عدالت کے ذریعہ سے وہ کیا کارؔ روائی کراتے ہیں۔ پس یہ تعلیم کس کام کی ہے جس پر نہ عدالتیں چل سکتی ہیں نہ پادری چل سکتے ہیں ۔اصل تعلیم قرآن شریف کی ہے جو حکمت اور موقعہ شناسی پر مبنی ہے مثلاً انجیل نے تو یہ کہا کہ ہر وقت تم لوگوں کے طمانچے کھاؤ اور کسی حالت میں شرکا مقابلہ نہ کرو۔ مگر قرآن شریف اس کے مقابل پر یہ کہتا ہے۔ 3 3 ۱۔یعنی اگر کوئی تمہیں دُکھ پہنچاوے
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 438
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/438/mode/1up
مثلاً دانت توڑ دے یا آنکھ پھوڑ دے تو اس کی سزا اسی قدر بدی ہے جو اس نے کی لیکن اگر تم ایسی صورت میں گناہ معاف کردو کہ اس معافی کا کوئی نیک نتیجہ پیداہو اور اس سے کوئی اصلاح ہو سکے۔ یعنی مثلاً مجرم آئندہ اس عادت سے باز آجائے تو اِس صورت میں معاف کرنا ہی بہتر ہے اور اس معاف کرنے کا خدا سے اجر ملے گا۔
اب دیکھو اس آیت میں دونوں پہلو کی رعایت رکھی گئی ہے اور عفو اور انتقام کو مصلحتِ وقت سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔ سو یہی حکیمانہ مسلک ہے جس پر نظام عالم کا چل رہا ہے رعایت محل اور وقت سے گرم اور سرد دونوں کا استعمال کرنا یہی عقلمندی ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ہم ایک ہی قسم کی غذا پر ہمیشہ زور نہیں ڈال سکتے بلکہ حسب موقعہ گرم اور سرد غذائیں بدلتے رہتے ہیں۔ اور جاڑے اور گرمی کے وقتوں میں کپڑے بھی مناسب حال بدلتے رہتے ہیں۔ پس اسی طرح ہماری اخلاقی حالت بھی حسب موقع تبدیلی کو چاہتی ہے۔ ایک وقت رعب دکھلانے کا مقام ہوتا ہے وہاں نرمی اور درگزر سے کام بگڑتا ہے اور دوسرے وقت نرمی اور تواضع کا موقع ہوتا ہے اور وہاں رعب دکھلانا سفلہ پن سمجھا جاتا ہے۔ غرض ہر ایک وقت اور ہر ایک مقام ایک بات کو چاہتا ہے۔ پس جو شخص رعایت مصالح اوقات نہیں کرتا وہ حیوان ہے نہ انسان اور وہ وحشی ہے نہ مہذّب۔
اب ہم آریہ مذہب میں کلام کرتے ہیں کہ اس میں انسانی پاکیزگی اور انسانی نیک چلنی کے لئے کیا تعلیم ہے۔ پس واضح ہو کہ آریہ سماج کے اصولوں میں سے نہایت قبیحؔ اور قابلِ شرم نیوگ کا مسئلہ ہے جس کو پنڈت دیانند صاحب نے بڑی جرأت کے ساتھ اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں درج کیا ہے۔ اور وید کی قابلِ فخر تعلیم اس کو ٹھہرایا ہے اور اگر وہ اس مسئلہ کو صرف بیوہ عورتوں تک محدود رکھتے۔ تب بھی ہمیں کچھ غرض نہیں تھی کہ ہم اس میں کلام کرتے مگر انہوں نے تو اِس اصول، انسانی فطرت کے دشمن کو
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 439
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/439/mode/1up
انتہا تک پہنچا دیا اور حیا اور شرم کے جامہ سے بالکل علیحدہ ہو کر یہ بھی لکھ دیا کہ ایک عورت جو خاوند زندہ رکھتی ہے اور وہ کسی بدنی عارضہ کی وجہ سے اولاد نرینہ پیدا نہیں کر سکتا مثلاً لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیں یا بباعث رقت منی کے اولاد ہی نہیں ہوتی یا وہ شخص گو جماع پر قادر ہے ۔مگر بانجھ عورتوں کی طرح ہے یا کسی اور سبب سے اولاد نرینہ ہونے میں توقف ہوگئی ہے توان تمام صورتوں میں اس کو چاہئے کہ اپنی عورت کو کسی دوسرے سے ہم بستر کراوے اور اس طرح پر وہ غیر کے نطفہ سے گیارہ * بچے حاصل کر سکتا ہے گویا قریباً بیس برس تک اس کی عورت دوسرے سے ہم بستر ہوتی رہے گی جیسا کہ ہم نے مفصل کتاب کے حوالہ سے یہ تمام ذکر اپنے رسالہ آریہ دھرم میں کر دیا ہے اور حیا مانع ہے کہ ہم اِس جگہ وہ تمام تفصیلیں لکھیں۔ غرض اس عمل کا نام نیوگ ہے۔
اب ظاہر ہے کہ یہ اُصول انسانی پاکیزگی کی بیخ کنی کرتا ہے اور اولاد پرناجائز ولادت کا داغ لگاتا ہے اور انسانی فطرت اس بے حیائی کو کسی طرح قبول نہیں کر سکتی کہ ایک انسان کی ایک عورت منکوحہ ہو جس کے بیاہنے کے لئے وہ گیا تھا۔ اور والدین نے صدہا یا ہزارہا روپیہ خرچ کرکے اس کی شادی کی تھی جو اُس کے ننگ و ناموس کی جگہ تھی اوراس کی عزت و آبرو کا مدار تھا وہ باوجودیکہ اس کی بیوی ہے اور وہ خود زندہ موجود ہے اس کے سامنے رات کو دوسرے سے ہم بستر ہووے اور غیر انسان اس کے ہوتے ہوئے اسی کے مکان میں اُس کی بیوی سے منہ کالا کرے اور وہ آوازیں سُنے اور خوش ہو کہ اچھا کررہا ہے اور یہ تمام ناجائز حرکات اس کی آنکھوں کے سامنے ہوں اور اس کو کچھ بھی جوش نہ آوے۔ اب بتلاؤ کہ کیا ایسا شخصؔ جس کی منکوحہ اور سہروں
* مجھے ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں کہ نیوگ میں یعنی اپنی بیوی کو دوسرے سے ہم بستر کروا کر صرف گیار۱۱ہ بچوں تک لینے کا حکم ہے یا زیادہ۔ مُدّت ہوئی کہ مَیں نے ستیارتھ پرکاش میں پڑھا تو تھا مگر حافظہ اچھا نہیں یاد نہیں رہا۔ آریہ صاحبان خود مطلع فرماویں کیونکہ بوجہ روز کی مشق کرانے کے اُن کو خوب یاد ہوگا۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 440
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/440/mode/1up
کے ساتھ بیاہی ہوئی بیوی اس کی آنکھوں کے سامنے دوسرے کے ساتھ خراب ہو۔ کیا اس کی انسانی غیرت اِس بے حیائی کو قبول کرے گی دیکھو راجہ رام چندر نے اپنی بیوی سیتا کے لئے کس قدر غیرت دکھلائی۔ حالانکہ راون ایک برہمن تھا اور سیتا کی ابھی کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی اور بموجب اس قاعدہ کے برہمن سے نیوگ جائز تھا۔ تاہم رام چندر کی غیرت نے اپنی پاکدامن بیوی کے لئے راون کو قتل کیا اور لنکا کو جلا دیا۔ وہ شخص انسان کہلانے کا مستحق نہیں جس کو اپنی بیوی کے لئے بھی غیرت نہیں اور کیا وجہ کہ اس کا نام دّ یوث نہ رکھا جائے۔ حیوانوں میں بھی یہ غیرت مشاہدہ کی گئی ہے پرندوں میں بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک پرند روا نہیں رکھتا کہ دوسرا پرند اس کی مادہ سے تعلق پیدا کرے پھر انسان ہو کر یہ حیا سے دُور حرکت کیا کوئی پاک فطرت اِس کو قبول کرے گی اور دیانند کا یہ لکھنا کہ یہ وید کی شرتی ہے ہم نہیں قبول کر سکتے کہ ایسی کوئی شرتی وید میں ہوگی۔ نادانوں میں پنڈت دیانند نے جس قدر چاہا لافیں مارلیں ورنہ کامل علمی فضیلت حاصل کرنا جو انسان کے دِل کو روشن کرتی ہے۔ ہر ایک کا کام نہیں۔ بعض الفاظ کے بہت سے معنے ہوتے ہیں اور ایک جاہل اپنی جلد بازی اور اپنی جہالت سے ایک معنے کو پسند کر لیتا ہے۔ پس ایسا شخص جس میں مادہ حیا کا کم ہو اُسے محسوس نہیں ہوتا کہ یہ میرا قول شرافت اور طہارت سے بعید ہے مگر اِس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے قابلِ شرم امر پر دیانند نے کیوں زور دیا۔ اور کیوں دلیری کر کے یہ گندی تعلیم اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں لکھ دی۔ پس جہاں تک میں نے سوچا ہے میرے خیال میں اس کا یہ جواب ہے کہ چونکہ پنڈت دیانند تمام عمر مجرد رہا ہے اور بیوی نہیں کی۔ لہٰذا اس کو اس غیرت کی خبر نہیں تھی کہ جو ایک شریف اور غیور انسان کو اپنی بیوی کی نسبت ہوا کرتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کی ناتجربہ کار فطرت نے محسوس نہ کیا کہ مَیں کیا لکھ رہا ہوں۔ دیانند کو معلوم نہیں تھا کہ اپنی بیویوں کی نسبت تو کنجروں کو بھی غیرت ہوتی ہے بلکہ بہت سے لوگ جو بازاری عورتوں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 441
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/441/mode/1up
سے ناجائز تعلق ر ؔ کھتے ہیں جب کسی آشنا کنجری کی نسبت ان کو شک پڑتا ہے کہ وہ دوسرے کے پاس گئی تو بسا اوقات غصّہ میں آکر اس کا ناک کاٹ دیتے ہیں یا قتل کر دیتے ہیں تو پھر کیا عقل قبول کر سکتی ہے کہ ایک غیرتمند آریہ کی عورت ایسے کام کرے تو وہ لوگوں کو منہ دکھانے کے قابل رہے۔ اسی اصول سے تو دنیا میں صریح بدکاری پھیلتی ہے اور آخر حکام کو بھی ان گندے اصولوں کے روکنے کے لئے دخل دینا پڑتا ہے جیسا کہ گورنمنٹ انگریزی نے ابتدا ءِ حکومت میں ہی جَل پَروا اور ستی کے رواج کو جبراً ہٹا دیا تھا۔
اسی طرح تناسخ * کا مسئلہ بھی اگر صحیح فرض کیا جاوے تو اسی خرابی کا موجب ہوگا جیسا کہ نیوگخ۔کیونکہ اس صورت میں کروڑہا دفعہ یہ واقعہ پیش آجائے گا کہ ایک شخص ایک ایسی عورت سے نکاح کرے کہ جو دراصل اس کی ماں تھی یا دادی تھی یا لڑکی تھی جو مرچکی تھی اور پھر وہ دوبارہ جنم لے کر دنیا میں آئی۔ پس اگر اواگون کا مسئلہ صحیح تھا تو اتنا تو پرمیشر کو کرنا
*حاشیہ:۔ تناسخ کے مسئلہ جیسا اور کوئی جھوٹا مسئلہ نہیں کیونکہ اس کی بنیاد بھی غلط ہے اور آزمائش کے طور پر بھی یہ غلط ثابت ہوتا ہے اور انسانی پاکیزگی کے لحاظ سے بھی غلط ٹھہرتا ہے اور خدا کی قدرت میں رخنہ انداز ہونے کی وجہ سے بھی ہر ایک عارف کا فرض ہے جو اس کو غلط سمجھے۔
اس کی بنیاد اس طرح پر غلط ہے کہ ستیارتھ پرکاش میں بتلایا گیا ہے کہ روح عورت کے پیٹ میں اس طرح آتی ہے کہ شبنم کے ساتھ کسی ساگ پات پر پڑتی ہے اور اس ساگ پات کے کھانے سے روح بھی ساتھ کھائی جاتی ہے۔ پس اس سے تو لازم آتا ہے کہ روح دو ٹکڑے ہو کر زمین پر پڑتی ہے۔ ایک ٹکڑے کو اتفاقًا مرد کھا لیتا ہے اور دوسرے ٹکڑے کو عورت کھاتی ہے کیونکہ یہ ثابت شدہ مسئلہ ہے کہ بچہ کو روحانی قوتیں اور روحانی اخلاق مرد اور عورت دونوں سے ملتے ہیں نہ کہ صرف ایک سے۔ پس دونوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے ساگ پات کو کھاوؔ یں جس میں رُوح ہو اور صرف ایک کا کھانا کافی نہیں۔ پس ببداہت
نیوگ کی کثرت عورتوں کے لئے اس وجہ سے بھی مضر ہے کہ اس سے حجاب اُٹھ جائے گا اور چند سال بیگانہ مرد کے پاس جاکر پھر ہمیشہ کے لئے یہی عادت رہے گی۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 442
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/442/mode/1up
چاہئے تھا کہ نئی پیدا ہونے والی کو اس بات کا علم دے دیتا کہ وہ فلاں فلاں شخص سے پہلے جنم میں یہ رؔ شتہ رکھتا تھا ۱ تابدکاری تک نوبت نہ آتی۔
اس جگہ یاد رہے کہ تناسخ کا مسئلہ اپنی جڑھ سے باطل ہے وہ تب سچ ہو سکتا ہے جب یہ بات سچ ہو کہ رُوح دو ٹکڑے ہو کر کسی ساگ پات پرگرتی ہے اور پھر غذا کی طرح کھائی جاتی ہے مگر بیشی کمی مراتب کی تناسخ پر دلیل نہیں۔ یہ اختلاف مراتب تو بے جان چیزوں میں بھی پایا جاتا ہے اس وسوسہ کا جواب یہی ہے کہ قیامت کے دن کم حصہ والے کو پورا حصہ دیا جائے گا اور زیادہ حصّہ والے سے حساب کیا جائے گا پس چند روزہ دنیا کی کمی بیشی تناسخ پر کیونکر دلیل ہو سکتی ہے۔
اور نیوگ کے جواب میں یہ کہنا کہ مسلمانوں میں بھی متعہ ہے یہ عجیب جواب ہے۔ مَیں نہیں جانتا کہ آریہ صاحبوں نے متعہ کس چیز کو سمجھا ہوا ہے۔ پس واضح ہو کہ خدا نے قرآن شریف میں بجز نکاح کے ہمیں کوئی اور ہدایت نہیں دی ہاں شیعہ مذہب میں سے ایک فرقہ ہے
بقیہ حاشیہ ۔ یہ امر مستلزم تقسیم روح ہے۔ اور تقسیم روح باطل ہے۔ اس لئے تناسخ باطل ہے۔
اور آزمائش کے طور پر یہ مسئلہ اس طرح پر غلط ٹھہرتا ہے کہ جس طرح ہر قسم کی روحیں پیدا ہوتی رہی ہیں۔ ان تمام صورتوں میں ممکن ہی نہیں کہ شبنم کے ساتھ وہ روحیں پیدا ہوتی ہوں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ بالوں میں جوئیں پڑجاتی ہیں وہ روحیں کس شبنم کے ساتھ کھائی جاتی ہیں۔ ایسا ہی کنک کے کھاتوں میں سُسری پڑ جاتی ہے۔ وہ کروڑہا روحیں جو کھاتہ کے اندر پیدا ہو جاتی ہیں وہ کس شبنم کے ساتھ کھاتہ کے اندر اترتی ہیں اور کون ان کو کھاتا ہے۔ ایسا ہی ہم دیکھتے ہیں کہ پیٹ میں کدو دانے پیدا ہوتے ہیں اور کبھی کبھی دماغ میں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور طبعی علم کے تجربہ سے پانی کے ہر ایک قطرے میں ہزارہا کیڑے ثابت ہوتے ہیں۔ یہ کس شبنم سے پڑتے ہیں۔ تجربہ بتلارہا ہے کہ ہر ایک چیز میں ایک قسم کے کیڑہ کا مادہ موجود ہے۔ پشمینہ میں بھی ایک قسم کا کیڑہ لگ جاتا ہے لکڑی میں بھی اناج میں بھی پھلوں میں بھی اور بعض پھلوں میں پھل کی پیدائش کے سا ؔ تھ ساتھ ہی کیڑا پیدا ہوتا ہے جیسا کہ گُولر کا درخت وہ کس
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 443
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/443/mode/1up
کہ وہ مؤقت طور پر نکاؔ ح کر لیتے ہیں یعنی فلاں وقت تک نکاح اور پھر طلاق ہوگی اور اس کا نام متعہ رکھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے کلام سے ان کے پاس کوئی سند نہیں۔ بہر حال وہ تو ایک نکاح ہے جس کی طلاق کا زمانہ معلوم ہے اور نیوگ کو طلاق کے مسئلہ سے کچھ تعلق نہیں۔ طلاق کے بعد تمام تعلقات میاں بیوی کے قطعاً ٹوٹ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کی نسبت یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ مرگیا اور یہ طلاق کا مسئلہ بوجہ انسانی ضرورتوں کے ہر ایک مذہب میں پایا جاتا ہے چنانچہ ولایت میں بھی قانونِ طلاق پاس ہوگیا ہے اور یہ اعتراض کہ مسلمان کئی بیویاں کر لیتے ہیں اس کو بھی نیوگ سے کچھ تعلق نہیں۔ ہندو دھرم کے راجے اور بڑے بڑے آدمی قدیم سے کئی بیویاں کرتے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں اور یہ اعتراض کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ز ینب کا آسمان پر نکاح ہوا تھا۔ اس سے بھی معترض کی صرف نادانی ثابت ہوتی ہے۔ خدا کے نبیوں اورؔ رسولوں کے آسمان پر ہی نکاح ہوتے ہیں کیونکہ خدا ان کو قبل از وقت نکاح کا حکم دیتا ہے۔ اور اپنی رضا مندی ظاہر کرتا ہے جبکہ آپ لوگوں کا ایک برہمن درمیان
بقیہ حاشیہ ۔ شبنم سے کیڑے آتے ہیں۔ اور اہل تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ بعض ترکیبوں سے ہزارہا بچھو پیدا کر سکتے ہیں وہ کس شبنم سے آتے ہیں۔ افسوس پنڈت دیانند صاحب کی موٹی عقل نے بہت کچھ خفتیں اور ندامتیں آریہ صاحبوں کو پہنچائی ہیں۔ آپ تو ایسی غلط اور بیہودہ باتیں بیان کر کے جلد اس دنیا سے گذر گئے اور دوسروں کو جنہوں نے انہی کامت اختیار کیا تھا ندامتوں کا نشانہ بنا گئے۔
دیکھو پاکیزگی کے لحاظ سے بھی تناسخ کا مسئلہ کیسا خراب ہے۔ کیا جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے اس کے ساتھ کوئی فہرست بھی اندر سے نکلتی ہے جس سے معلوم ہو کہ یہ لڑکی فلاں مرد کی ماں یا دادی یا ہمشیرہ ہے اس سے وہ شادی کرنے سے پرہیز کرے۔
اور یہ تناسخ کا مسئلہ پرمیشر کی قدرت میں بھی سخت رخنہ انداز ہے۔ خدا وہ خدا ہے کہ چاہے تو ایک لکڑی میں جان ڈال دے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ کا عصا ایک دم میں لکڑی اور ایک دم میں سانپ بن جاتا تھا۔ مگر
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 444
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/444/mode/1up
میں آکر نکاح کرا جاتا ہے تو کیا خدا کو اختیار نہیں۔ اعتراض تو اس صورت میں تھا کہ خدا کسی غیر کی عورت سے جو اس کے نکاح میں ہے اور اس نے طلاق نہیں دی جبراً کسی پیغمبر کو دیدے مگر طلاق کے بعد اگر خدا کے حکم سے طرفین کی رضامندی سے نکاح ہو تو اس پر کیا اعتراض ہے۔
اور اگر آریہ صاحبوں کے نزدیک اپنی حین حیات میں اپنی بیوی کو کسی دوسرے سے ہم بستر کرانا اس صورت سے برابر ہے کہ جب انسان اپنی عورت کو بوجہ اس کی ناپاکی یا بدکاری یا کسی اور وجہ سے طلاق دیتا ہے تو اس کا فیصلہ بہت سہل ہے کیونکہ اس ملک میں ایسے مسلمان اور دوسرے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں جو اپنی عورتوں سے بوجہ ناموافقت عاجز آکر ان کو طلاق دے دیتے ہیں اور پھر وہ عورتیں اس عضو کی طرح ہو جاتی ہیں جو کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے اور ان سے کچھ تعلق نہیں رہتا اور اگر آریہ صاحبان چاہیں توہم ایسے مسلمانوں بلکہ ہندوؤں کے ناموں کی بھی بہت سی فہرستیں دے سکتے ہیں جنہوں نے ان مشکلات کی وجہ سے ناپاک وضع عورتوں کو طلاق دے کر
بقیہ حاشیہ ۔ روحوں کے انادی ہونے کی حالت میں ہندوؤں کا پرمیشر ہرگز پرمیشر نہیں رہ سکتا۔ کیوؔ نکہ جو محض دوسروں کے سہارے سے اپنی خدائی چلارہا ہے اس کی خدائی کی خیر نہیں وہ آج بھی نہیں اور کل بھی نہیں۔ اور یہ کہنا کہ تناسخ کا چکر جو کئی ارب سے بموجب آریہ صاحبوں کے عقیدہ کے جاری ہے اس کا باعث گذشتہ پیدائشوں کے گناہ ہیں یہ خیال طبعی علم کے تجربہ کے ذریعہ سے نہایت فضول اور لچر اور باطل ثابت ہوتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ روحوں کی پیدائش میں بھی خدا تعالیٰ کا ایک نظام ہے جو کبھی پیش وپس نہیں ہوتا مثلاً برسات کے دنوں میں ہزارہا کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور گرمی کے دنوں میں بکثرت مکھیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو کیا انہی دنوں میں ہمیشہ دنیا میں پاپ زیادہ ہوتے ہیں اور نہایت سخت گناہ کی وجہ سے انسانوں کو مکھیاں اور برسات کے کیڑے بنایا جاتا ہے اس طرح کے ہزارہا دلائل ہیں جن سے تناسخ باطل ہوتا ہے چاہئے کہ آریہ صاحبان بغور ان تمام باتوں کو سوچیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 445
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/445/mode/1up
ان سے تمام تعلقات زندگی کے قطع کر لئے ہیں۔ ایسا ہی آریہ صاحبوں کو ؔ چاہئے کہ ہمیں اُن شریف اور جنٹلمین اور معزز آریہ صاحبوں کی فہرست دکھلاویں*۔ جنہوں نے اپنی زندگی میں اپنی عورتوں سے نیوگ کرائے ہیں اور غیر مردوں سے ہمبستر کراکر ان سے اولاد حاصل کی ہے۔ مگر چاہئے کہ اس فہرست کے ساتھ نیوگ کی اولاد کی ایک فہرست بھی نام بنام پیش کردیں ہم دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ خاص قادیان میں جو آریہ صاحبان رہتے ہیں کتنوں نے اب تک ان میں سے اپنی بیویوں سے نیوگ کرایا ہے اور کس قدر انہوں نے اس مقدس عمل سے حصہ لیا ہے اور کتنے نامحرم مردوں سے اپنی جوروؤں کو ہمبستر کراکر ان سے اولاد حاصل کی ہے کیونکہ اگر درحقیقت یہ عمل عمدہ اور قابلِ فخر اور وید مقدس کی ہدایت ہے تو ضرور ہر ایک آریہ صاحب نے اس ہدایت سے حصّہ لیا ہوگا اور لینا چاہئے۔
یاد رہے کہ بالمقابل نیوگ کی ہدایت کے قرآن شریف میں بیویوں کے لئے پردہ کی ہدایت ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ 33 3 ۱ 33 3۲۔ یعنی مومنوں کو کہہ دے مرد ہوں یا عورتیں ہوں کہ اپنی آنکھوں کو غیر عورتوں اور مردوں کی طرف دیکھنے سے روکو اور کانوں کو غیر مردوں کی ناجائز آواز اور غیر کی آواز سننے سے روکو اور اپنے سترگاہوں کی حفاظت کرو کہ اس طریق سے تم پاک ہو جاؤ گے۔
*کچھ مدت ہوئی ہے کہ ایک آریہ صاحب نے بذریعہ ایک اخبار کے غالباً فیروزپور سے اس مضمون کا ایک خط شائع کیا تھا کہ اگر کوئی آریہ صاحبوں میں سے اپنی بیوی سے نیوگ کرانا چاہتے ہیں یا خود بیوی ہی اس مقدس کام کی شائق ہے تو وہ بذریعہ خط و کتابت کے اس سے تصفیہ کرلیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ قادیان سے بھی اس درخواست کا کوئی جواب بھیجا گیا تھا یا نہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 446
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/446/mode/1up
اب اے آریہ صاحبان انصاف سے سوچو کہ قرآن شریف تو اس بات سے بھی منع کرتا ہے کہ کوئی مرد غیر عورت پر نظر ڈالے اور یا عورت غیر مرد پر نظر ڈالے یا اس کی آواز ناجائز طور پرسُنے مگر آپ لوگ خوشی سے اپنی بیویوں کو غیر مردوں سے ہم بستر کراتے ہیں اس کا نام نیوگ رکھتے ہیں۔ کس قدر ان دونوں تعلیموں میں فرق ہے خود سوچ لیں اور سخت افسوس ہے کہ اگر آپ پر ہمدردی کی راہ سے اعتراض کیا جائے کہ ایسا گندہ کام عورتوں سے کیوں کراتے ہو تو آپ طلاق کا مسئلہ پیش کر دیتے ہیں اور نہیں جانتے کہ طلاق کی ضرورتیں تو تمام دنیا میں مشترک ہیں جس عورت سے باہمی زوجیت کا علاقہ توڑ دیا گیا وہ تو گویا طلاق دہندہ کے حساب میں مرگئی اگر آپ لوگ صرفؔ اس حد تک رہتے کہ ضرورتوں کے وقتوں میں آپ لوگ اپنی ان عورتوں کو طلاق دیتے جو آپ لوگوں کی نافرمانی یا نا موافق یا بدچلن ہوتیں یا دشمن جانی ہوتیں تو کوئی بھی آپ پر اعتراض نہ کرتا کیونکہ عورت مرد کا جوڑ تقویٰ طہارت کے محفوظ رکھنے کے لئے ہے اور عورت مرد ایک دوسرے کے دین اور پاکیزگی کے مددگار ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے سچّے دوست اور وفادار مخلص ہوتے ہیں اور جب ان میں وہ پاک تعلق باقی نہ رہے جو اصل مدعا نکاح کا ہے تو پھر بجز طلاق کے اور کیا علاج ہے جب ایک دانت میں کیڑا پڑ جائے اور درد پہنچائے تو اب وہ دانت نہیں ہے بلکہ ایک خبیث چیز ہے اس کو باہر نکالنا چاہئے تا زندگی تلخ نہ ہو۔
چوں بدندانِ تو کِرمے اوفتاد
نیست آں دندان بکن اے اوستاد*
* درحقیقت اسلامی پاکیزگی نے ہی طلاق کی ضرورت کو محسوس کیا ہے ورنہ جو لوگ د ّ یو ثوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں ان کے نزدیک گو ان کی عورت کچھ کرتی پھرے طلاق کی ضرورت نہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 447
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/447/mode/1up
سیوم
جس خدا کی طرف عیسائی مذہب ہدایت کرتا ہے یا وید یا قرآن شریف ان تینوں مذاہب میں سے کونسا ایسا مذہب ہے
جو سچے خدا کو دکھلاتا ہے صرف قصے پیش نہیں کرتا۔
واضح رہے کہ مذہب کے اختیار کرنے سے اصل غرض یہ ہے کہ تا وہ خدا جو سرچشمہ نجات کا ہے اس پر ایسا کامل یقین آجائے کہ گویا اس کو آنکھ سے دیکھ لیا جائے کیونکہ گناہ کی خبیث رُوح انسان کو ہلاک کرنا چاہتی ہے اور انسان گناہ کی مہلک زہر سے کسی طرح بچ نہیں سکتا جب تک اس کو اس کامل اور زندہ خدا پر پورا یقین نہ ہو اور جب تک معلوم نہ ہو کہ وہ خدا ہے جو مجرم کو سزا دیتا ہے اور راستباز کو ہمیشہ کی خوشی پہنچاتا ہے۔ یہ عام طور پر ہر روز دیکھا جاتا ہے کہ جب کسی چیز کے مہلک ہونے پر کسی کو یقین آجائے تو پھر وہ شخص اس چیز کے نزدیک نہیں جاتا۔ مثلاً کوئی شخص عمداً زہر نہیں کھاتا۔کوئی شخص شیر خونخوار کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا اور کوئی شخص عمداً سانپ کے سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ پھر عمداً گناہ کیوں کرتا ہے۔ اس کا یہی باعث ہے کہ وہ یقین اس کو حاصل نہیں جو ان دوسری چیزوں پر حاصل ہے۔ پس سب سے مقدم انسان کا یہ فرض ہے کہ خدا پر یقین حاصل کرے اور اس مذہب کو اختیار کرے جس کے ذریعہ سے یقین حاصل ہو ؔ سکتاہے تا وہ خدا سے ڈرے اور گناہ سے بچے مگر ایسا یقین حاصل کیونکر ہو۔ کیا یہ صرف قصوں کہانیوں سے حاصل ہو سکتا ہے ہرگز نہیں۔ کیا یہ محض عقل کے ظنی دلائل سے میسر آسکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ پس واضح ہو کہ یقین کے حاصل ہونے کی صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے مکالمہ کے ذریعہ سے اس کے خارق عادت
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 448
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/448/mode/1up
نشان* دیکھے۔اور بار بار کے تجربہ سے اس کی جبروت اور قدرت پر یقین کرے یا ایسے شخص کی صحبت میں رہے جو اس درجہ تک پہنچ گیا ہے۔
اب میں کہتا ہوں کہ یہ درجہ معرفت کا نہ کسی عیسائی صاحب کو نصیب ہے اور نہ کسی آریہ صاحب کو اور ان کے ہاتھ میں محض قصّے ہیں اور زندہ خدا کی زندہ تجلّی کے نظارہ سے وہ سب بے نصیب ہیں۔ ہمارا زندہ حیّ و قیّوم خدا ہم سے انسان کی طرح باتیں کرتا ہے۔ ہم ایک بات پوچھتے اور دُعا کرتے ہیں تو وہ قدرت کے بھرے ہوئے الفاظ کے ساتھ جواب دیتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ ہزار مرتبہ تک بھی جاری رہے تب بھی وہ جواب دینے سے اعراض نہیں کرتا۔ وہ اپنے کلام میں عجیب درعجیب غیب کی باتیں ظاہر کرتا ہے اور خارق عادت قدرتوں کے نظارے دکھلاتا ہے یہاں تک کہ وہ یقین کرادیتا ہے کہ وہ وہی ہے جس کو خدا کہنا چاہئے۔ دُعائیں قبول کرتا ہے اور قبول کرنے کی اطلاع دیتا ہے۔ وہ بڑی بڑی مشکلات حل کرتا ہے اور جو مُردوں کی طرح بیمار ہوں ان کو بھی کثرتِ دُعا سے زندہ کردیتا ہے اور یہ سب ارادے اپنے قبل از وقت اپنے کلام سے بتلا دیتا ہے۔ خدا وہی خدا ہے جو ہمارا خدا ہے وہ اپنے کلام سے جو آئندہ کے واقعات پر مشتمل ہوتا ہے ہم پر ثابت کرتا ہے کہ زمین و آسمان کا وہی خدا ہے۔ وہی ہے جس نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں تجھے طاعون کی موت سے بچاؤں گااور نیز ان سب کو جو تیرے گھر میں نیکی اور پرہیز گاری کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں بچاؤں گا۔ اس زمانہ میں کون ہے جس نے میرے سوا ایسا الہام شائع کیا اور اپنے نفس اور اپنی بیوی اور اپنے بچوں اور دوسرے نیک انسانوں
* نبوت کے زمانہ کے بعد کچھ مدت تک پیشگوئیاں اسی نبی کی جو دنیا سے گذر گیا بطور معجزات کے دلوں کو تسلی دیتی رہتی ہیں جو دوسری نسل کے سامنے پوری ہوتی رہتی ہیں۔ مگر یہ نظارہ بہت مدت تک نہیں رہتا اور نرے قصّے انسان کو سچا پرہیزگار نہیں بنا سکتے گو صرف لکیر پرچلنے والا قومی تعصب میں بڑھ سکتا ہے اور شریر انسان کی طرح زبان دراز ہو سکتا ہے مگر سچی پاکیزگی جو اپنے پھل ظاہر کرے کبھی اس کے دل میں نہیں آسکتی۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 449
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/449/mode/1up
کے لئیجو اس کی چار دیواری کے اندر رہتے ہیں خدا کی ذمہ داری ظاہر کی۔ ایک لاکھ تک اب تک میرے نشان ظاہر ہوچکے ہیں اور ایک بڑے حصّہؔ کے گواہ اس جگہ کے آریہ صاحبان لالہ شرمپت اور لالہ ملاوامل بھی ہیں اگر وہ انکار کریں گے تو ہم ایک اور رسالہ کے ذریعہ سے دکھائیں گے کہ ان کا ردّ دھرم*ہے یا ہٹ دھرمی۔ قوم کے ڈر سے جھوٹ بولنا نجاست کھانے سے بدتر ہے۔ پھر قوم بھی کب اس گواہی سے باہر ہے ان کے بہادر پنڈت نے اپنی موت سے سب کو گواہ بنا دیا۔ غریب شرمپت اور ملاوامل کس حساب میں ہیں۔
یاد رہے کہ طاعون کے متعلق اور ایک پیشگوئی عظیم الشان ظہور میں آئی ہے اور وہ یہ کہ آج سے چھ سات سال پہلے مَیں نے اپنی ایک کتاب میں خدا تعالیٰ سے الہام پاکر شائع کیا تھا کہ طاعون کے ذریعہ سے بہت سے لوگ میری جماعت میں داخل ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک دس ہزار سے زیادہ ایسے لوگ میری جماعت میں داخل ہوئے ہیں جو طاعون سے ڈر کر اس طرف آئے ہیں خدا تعالیٰ نے میرے سلسلہ کو نوح کی کشتی سے تشبیہ دی تھی۔ سو اس کشتی میں لوگ بیٹھتے جاتے ہیں۔ نوح کی کشتی میں ہرایک درند چرند ڈر کر بیٹھ گیا تھا۔ یہ نہیں کہ نوح شکاریوں کی طرح ان کو جنگلوں سے پکڑ لایا تھا بلکہ وہ جان کے خوف سے آپ ہی کشتی میں بیٹھ گئے تھے۔ اب بھی اس کشتی میں ہر قسم کے ڈرنے والے لوگ بیٹھ رہے ہیں۔
سنو اے سب زمین پر رہنے والو۔ آپ آریہ صاحبان اور عیسائی صاحبان سے پوچھ کر
* مَیں دیکھتا ہوں کہ آریہ صاحبوں کی اب بدزبانی بڑھتی جاتی ہے اور انہوں نے اب علاوہ وید کے دیوتاؤں کے اپنی قوم کو بھی ایک دیوتا بنا لیا ہے۔ مَیں جانتا ہوں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ وہ زندہ اور حیّ و قیّوم خدا سچائی کی تائید میں آسمان سے اپنی کوئی قدرت دکھلاوے۔ وید کے خدا کی کمزوری تو انہیں ۶؍ مارچ کو معلوم ہوچکی تھی مگر اس نئے دیوتا نے وہ واقعہ فراموش کر ا دیا۔ اب وہ مجھ سے کیسا نشان طلب کرتے ہیں کھلے طور پر چیلنج کریں۔ پھرجس طور سے خدا چاہے وہ قادر ہے کہ ان کے چیلنج کا جواب دے۔ خدا پر اور اس کی وحی پر ہنسی کرنا اچھا نہیں۔ اگرچہ بقول ان کے وید خدا کا کلام نہیں مگر خدا کا کلام مجھ پر نازل ہوتا ہے۔ دیکھیں اور پرکھیں اور مت ہنسیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 450
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/450/mode/1up
انصافًا کہیں کہ ان کے ہاتھ میں بجز پرانے اور بوسیدہ قصّوں کے کچھ اور بھی ہے یہی تو وجہ ہے کہ ایک فرقہ نے ان میں سے ایک انسان کو خدا بنا رکھا ہے جو درحقیقت مجھ سے زیادہ نہیں۔ اگر وہ مجھے دیکھتا تو خدا کی نعمتوں کو اس جگہ زیادہ پاتا۔ یہ تو عیسائیوں کا جعلی خدا ہے مگر آریوں نے ایک فرضی خدا انسان کی طرح کمزور اپنی طرف سے تراش لیا ہے جو رُوحوں اور ذرات اجسام کے پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ اگر ان کو خدا تعالیٰ کی تازہ قدرتوں سے حصّہ ہوتا تو وہ جانتے کہ وہ انسان ہونے سے پاک اور ہر ایک بات پر قدرت رکھتا ہے۔ رُوح کیا حقیقت ہے جو اس کو پیدا نہ کر سکے اور پرمانو کیا چیز ہیں جو ان کی پیدائش پر قادر نہ ہو۔ روحوں کے اندر ایک اور روحیں ہیں اورذرّات کے اندر ایک اور ذرّات ہیں سب کا وہی پیدا کرنے والا ہے۔ وہ کبھی اپنی مرضی سے اور کبھی اپنے مقبول بندوں کی دُعا سن کر تازؔ ہ بتازہ ایجاد کرتا رہتا ہے جس نے اس کو اس طرح پر نہیں دیکھا۔ وہ اندھا ہے جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ 3 3 ۱۔ یعنی جس کو اس جہان میں اس کا درشن نہیں ہوا اُس کو اُس جہان میں بھی اس کا درشن نہیں ہوگا اور وہ دونوں جہانوں میں اندھا رہے گا۔ خدا کے دیکھنے کے لئے اسی جہان میں آنکھیں طیّار ہوتی ہیں اور بہشتی زندگی اسی جہان سے شروع ہوتی ہے۔
ان اشتہارات میں جو میرے پر حملہ کرنے کے لئے آریہ صاحبوں نے شائع کئے ہیں میری بعض پیشگوئیوں پر نا سمجھی سے بعض اعتراض بھی کر دیئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حال میں یا پہلے لڑکا ہونے کی پیشگوئی تھی اور لڑکی پیدا ہوئی۔ پس اس قدر جواب کافی ہے کہ اگر وہ کتابوں کو دیکھ کر دیانت کے طریق کواختیار کرتے تو ایسا اعتراض کبھی نہ کرتے۔ مجھے تو ایسا الہام کوئی یاد نہیں کہ جس کا یہ مضمون ہو کہ اب ضرور بلا فاصلہ لڑکا پیدا ہوگا۔ اگر ان کو یاد ہے تو وہ پیش کردیں ورنہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین ہماری طرف سے جواب کافی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 451
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/451/mode/1up
ہے۔ خدا نے تمام کتابوں میں قیامت کی پیشگوئی شائع کر رکھی ہے۔ آریہ صاحبان بھی مہاپرلوکے قائل ہیں مگر وہ پیشگوئی اب تک پوری نہیں ہوئی بلکہ دنیا پہلے سے زیادہ آباد ہوتی جاتی ہے۔ جو پہلے جنگل تھے اب وہاں آبادیاں اور شہر ہیں مگر کیا کہہ سکتے ہیں کہ وہ پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ خدا کی باتوں میں ایک وقت ہوتا ہے۔ وہ اپنے وقتوں میں پوری ہوتی ہیں اور وعید کی پیشگوئی میں توبہ اور رجوع سے کبھی تاخیر بھی ہو جاتی ہے۔ انسان کی بدذاتی کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی ثبوت نہیں کہ اعتراض کے وقت جھوٹ بولے۔ ایسا ہی آتھم کی موت کی پیشگوئی پر تب اعتراض ہوتا کہ میں اس سے پہلے مر جاتا اور وہ اب تک زندہ ہوتا کیونکہ الہام کا خلاصہ یہ ہے کہ جومذہب میں جھوٹا ہے وہ پہلے مرے گا۔ الہامی شرط کے موافق اس نے تھوڑے دن فائدہ اُٹھایا پھر پیشگوئی کے مطابق مر گیا اس نے عین مجلس میں قریباً ستر آدمی کے روبرو جن میں نصف کے قریب عیسائی بھی تھے اپنی شوخیوں سے رجوع کیا اور پھر آخر میعاد تک ڈرتا اور روتا رہا۔ اس کو کچھ مہلت دی گئی اور یہ مہلت خدا کی شرؔ ط کے موافق اور الہام میں درج تھی اور آخر قبر نے اس کو بلا لیا مگر تعجب کہ آریہ صاحبان کیوں خواہ نخواہ دوسروں کے قصّے پیش کرتے ہیں۔ آپ بیتی کو کیوں اس قدر جلدی سے بھول گئے اور کیوں وہ پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ ذرا پنڈت لیکھرام کی کتاب کھول کر دیکھیں کہ اس نے میری نسبت اشتہار شائع کیا تھا کہ مجھے پرمیشر نے خبر دی ہے کہ یہ شخص تین برس تک ہیضہ سے مر جائے گا اور مَیں نے بھی خدا تعالیٰ سے الہام پاکر کئی کتابوں میں شائع کر دیا تھا کہ پنڈت لیکھرام چھ برس کے عرصہ تک قتل کے ذریعہ مارا جائے گا اور وہ دن عید کے دن سے ملا ہوا ہوگا اور کچھ عرصہ بعد اس ملک میں طاعون پھیلے گی چنانچہ وہ سب باتیں پوری ہوگئیں اور آپ لوگوں کا بہادر پنڈت لیکھرام آپ کو نادم کرنے والا چھ مارچ کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ دیکھو
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 452
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/452/mode/1up
!
اسلام کا خدا کیسا سچا اور غالب نکلا۔ اگر یہ انسان کا کام تھا تو کیوں لیکھرام کی پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔ میں آریہ صاحبوں سے بادب پوچھتاہوں کہ یہ پیشگوئی پنڈت لیکھرام صاحب کی جو میری نسبت تھی کہ یہ شخص تین برس کے عرصہ میں ہیضہ سے مر جائے گا کیا یہ درحقیقت پرمیشر کی طرف سے تھی۔ پھر ایسے مقابلہ کے وقت لیکھرام کا پرمیشرکیوں عاجز رہ گیا اور اگر پنڈت جی نے جھوٹ بولا تھا اور پرمیشر پر افتراکیا تھا تو کیا ایسے مفتری کی یادگاریں قائم کرنا روا ہے جس نے پرمیشر پر جھوٹ بولا۔ دیکھو اس مقابلہ میں ہمارے خدا کی کیسی صفائی سے پیشگوئی پوری ہوئی۔ اور مَیں نے لکھ دیا تھا کہ تمام آریہ صاحبان اب مل کر لیکھرام کے بچانے کے لئے اپنے پرمیشر سے دُعا کرلیں مگر پرمیشربچانہ سکا۔ اب بالفعل ہم اسی پر ختم کرتے ہیں۔ وَالسَّلام علی من اتبع الھُدیٰ۔
خاتمہ آریہ صاحبوں کے بعض اعتراضات کے جواب میں
انسان جب بغیر سوچنے سمجھنے کے محض نکتہ چینی کے ارادہ سے مخالفت کی نظر سے دیکھے توگو کیسا ہی کوئی امر سیدھا اور صاف ہو اس کی نظر میں جائے اعتراض ٹھہر جاتا ہے۔ ایسا ہی آریہ صاحبوں کا حال ہے وہ اس ندامت کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے جو ایک اعتراض کے غلط اور بے جا ثابت ہونے میں ایک باحیا انسان کے دل پر صدمہ پہنچاتی ہے۔ اب سنئے اعتراضات یہ ہیں جو ہمیشہ اسلام جیسے پاک اورکامل مذہب پر سراسر نادانی سے کرتے ہیں اور ہم اس وقت وہ اعتراض لکھتے ہیں جو انہوں نے ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ء کو قادیان میں جلسہ کر کے اسلام پر کئے اور اس طرح یہ ثابت کردیا کہ ان کے تعصب اور نا سمجھی اور ناحق کے کینہ کی کہاں تک نوبت پہنچی ہے۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 453
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 453
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/453/mode/1up
اعتراضات
۱۔مسلمان خدا کی نندیا کرتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہوا ہے اور چار فرشتوں نے اس تخت کو اٹھایا ہوا ہے۔ اس طرح پرثابت ہوتا ہے کہ خدا محدود ہے اور قائم بالذات نہیں اور جب محدود ہے تو اس کا علم بھی محدود ہوگا اور حاضر ناظر نہ ہوگا۔
الجواب
اے حضرات! مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے۔ تمام قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک پڑھو اس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش بھی کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے۔ خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا مَیں ہی پیدا کرنے والا ہوں۔ مَیں ہی زمین و آسمان اور رُوحوں اور اؔ ن کی تمام قوتوں کا خالق ہوں۔ مَیں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے۔ ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے۔ مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے جس کا مَیں پیدا کرنے والا ہوں۔ اگر کوئی آریہ قرآن شریف میں سے نکال دے کہ عرش کوئی جسمانی اورمخلوق چیز ہے تو میں اس کو قبل اس کے جو قادیان سے باہر جائے ایک3 ہزار روپیہ انعام دوں گا۔ مَیں اُس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا *** کا کام ہے کہ مَیں قرآن شریف کی وہ آیت دکھاتے ہی ہزار روپیہ حوالہ کروں گا۔ ورنہ میں بادب کہتا ہوں کہ ایسا شخص خود *** کا محل ہوگا جو خدا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 454
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 454
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/454/mode/1up
پر جھوٹ بولتا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ اس اعتراض کی بنیاد تو محض اس بات پر ہے کہ عرش کوئی علیحدہ چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے اور جب یہ امر ثابت نہ ہو سکا تو کچھ اعتراض نہ رہا۔ خدا صاف فرماتا ہے کہ وہ زمین پر بھی ہے اور آسمان پر بھی اورکسی چیز پر نہیں بلکہ اپنے وجود سے آپ قائم ہے اور ہر ایک چیز کو اُٹھائے ہوئے ہے اور ہر ایک چیز پر محیط ہے۔ جہاں تین ہوں تو چوتھا ان کا خداہے۔ جہاں پانچ ہوں تو چھٹا ان کے ساتھ خدا ہے اور کوئی جگہ نہیں جہاں خدا نہیں اور پھر فرماتا ہے۔ 3 ۱۔ جس طرف تم منہ کرو اسی طرف خدا کا منہ پاؤ گے۔ وہ تم سے تمہاری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے۔ وہی ہے جو پہلے ہے اور وہی ہے جو آخر ہے اور وہ سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے اور وہ نہاں در نہاں ہے اور پھر فرماتا ہے۔
33۲
یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ وہ کہاں ہے۔ پس جواب یہ ہے کہ ایسا نزدیک ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نزدیک نہیں جو شخص مجھ پر ایمان لاکر مجھے پکارتا ہے تو مَیں اس کا جواب دیتا ہوں۔ ہر ایک چیز کی کَلْ میرے ہاتھ میں ہے اور میرا علم سب پر محیط ہے ۔میںؔ ہی ہوں جو زمین و آسمان کو اٹھا رہا ہوں۔ مَیں ہی ہوں جو تمہیں خشکی تری میں اُٹھا رہا ہوں۔
یہ تمام آیات قرآن شریف میں موجود ہیں۔ بچہ بچہ مسلمانوں کا ان کو جانتا اور پڑھتا ہے۔ جس کا جی چاہے وہ ہم سے آکر ابھی پوچھ لے۔ پھر ان آیات کو ظاہر نہ کرنا اور ایک استعارہ کو لے کراس پر اعتراض کر دینا کیا یہی دیانت آریہ سماج کی ہے ایسا دنیا میں کون
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 455
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 455
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/455/mode/1up
مسلمان ہے جو خدا کو محدود جانتا ہے یا اس کے وسیع اور غیر محدود علم سے منکر ہے۔ اب یاد رکھو کہ قرآن شریف میںیہ تو کہیں بھی نہیں کہ خدا کو کوئی فرشتہ اُٹھا رہا ہے بلکہ جابجا یہ لکھا ہے کہ خدا ہرایک چیز کو اُٹھا رہا ہے ہاں بعض جگہ یہ استعارہ مذکورہے کہ خدا کے عرش کو جو دراصل کوئی جسمانی اور مخلوق چیز نہیں فرشتے اٹھارہے ہیں۔ دانشمند اس جگہ سے سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ عرش کوئی مجسم چیز ہی نہیں تو فرشتے کس چیز کو اٹھاتے ہیں۔ ضرور کوئی یہ استعارہ ہوگا مگر آریہ صاحبوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کیونکہ انسان خود غرضی اور تعصب کے وقت اندھا ہو جاتا ہے۔ اب اصل حقیقت سنو کہ قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے۔ اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر* چار ہیں جو وید کے رُو سے چار دیوتے کہلاتے ہیں مگر قرآنی اصطلاح کی رُو سے
خدا تعالیٰ کی چار صفتیں ہیں جن سے ربوبیت کی پوری شوکت نظر آتی ہے۔ اور کامل طور پر چہرہ اس ذات ابدی ازلی کا دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان ہرچہار صفتوں کو سورۃ فاتحہ میں بیان کر کے اپنی ذات کو معبود قرار دینے کے لئے ان لفظوں سے لوگوں کو اقرار کرنے کی ہدایت دی ہے کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن۔یعنی اے وہ خدا جوان چار صفتوں سے موصوف ہے۔ہم خاص تیری ہی پرستش کرتے ہیں کیونکہ تیری ربوبیت تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری رحمانیت بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری رحیمیت بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیری صفت مالکانہ جزا و سزا کی بھی تمام عالموں پر محیط ہے اور تیرے اس حسن اور احسان میں بھی کوئی شریک نہیں۔ اس لئے ہم تیری عبادت میں بھی کوئی شریک نہیں کرتے۔
اب واضح ہو کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ میں ان چار صفتوں کو اپنی الوہیت کا مظہر ا تم قرار دیا
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 456
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 456
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/456/mode/1up
ان کا نام فرشتے بھی ہے اور وہ یہ ہیں۔ اکاش جس کا نام اندر بھی ہے۔ سورج دیوتا جس کو عربی میں شمس کہتے ہیں۔ چاند جس کو عربی میں قمر کہتے ہیں۔ دھرتی جس کو عربی میں ارض کہتے ہیں۔ یہ چاروں دیوتا جیسا کہ ہم اس رسالہ میں بیان کر چکے ہیں خدا کی چار صفتوں کو جو اس کے جبروت اورعظمت کا اتم مظہر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا جاتا ہے اٹھارہے ہیں یعنی عالم پر یہ ظاہر کررہے ہیں تصریح کی حاجت نہیں۔ اس بیان کو ہم مفصل لکھ آئے ہیں اور قرآن شریف میں تین قسم کے فرشتے لکھے ہیں۔
(۱) ؔ ذراتِ اجسام ارضی اور روحوں کی قوتیں۔
(۲) اکاش۔ سورج۔ چاند۔ زمین کی قوتیں جو کام کررہی ہیں۔
(۳) ان سب پر اعلیٰ طاقتیں جو جبرائیل ومیکائیل و عزرائیل وغیرہ نام رکھتی ہیں جن کو وید میں جم لکھا ہے مگر اس جگہ فرشتوں سے یہ چار دیوتے مراد ہیں یعنی اکاش اور سورج وغیرہ جو خدا تعالیٰ کی چار صفتوں کو اٹھا رہے ہیں۔ یہ وہی صفتیں ہیں جن کو دوسرے لفظوں
ہے اور اسی لئے صرف اس قدر ذکر پر یہ نتیجہ مترتب کیا ہے کہ ایسا خدا کہ یہ چار صفتیں اپنے اندررکھتا ہے وہی لائق پرستش ہے اور درحقیقت یہ صفتیں بہر وجہ کامل ہیں اور ایک دائرہ کے طور پر الوہیت کے تمام لوازم اور شرائط پر محیط ہیں کیونکہ ان صفتوں میں خدا کی ابتدائی صفات کا بھی ذکر ہے اور درمیانی زمانہ کی رحمانیت اور رحیمیت کا بھی ذکر ہے اور پھر آخری زمانہ کی صفت مجازات کا بھی ذکر ہے اوراصولی طور پر کوئی فعل اللہ تعالیٰ کا ان چار صفتوں سے باہر نہیں۔ پس یہ چار صفتیں خدا تعالیٰ کی پوری صورت دکھلاتی ہیں سو درحقیقت استوا علی العرش کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ صفات جب دنیا کو پیدا کرکے ظہور میںآگئیں تو خداتعالیٰ ان معنوں سے اپنے عرش پر پوری وضع استقامت سے بیٹھ گیا کہ کوئی صفت صفات لازمہ الوہیت سے باہر نہیں رہی اور تمام صفات کی پورے طور پر تجلی ہوگئی جیسا کہ جب اپنے تخت پر بادشاہ بیٹھتا ہے تو تخت نشینی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 457
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 457
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/457/mode/1up
میں عرش کہا گیا ہے۔ اس فلسفہ کا وید کو بھی اقرار ہے مگر یہ لوگ خوب وید دان ہیں جو اپنے گھر کے مسئلہ سے بھی انکار کررہے ہیں۔
غرض وید کے یہ چار دیوتے یعنی اکاش۔ سورج۔ چاند۔ دھرتی۔ خدا کے عرش کو جو صفت ربوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت اور مالک یوم الدین ہے اٹھارہے ہیں۔ اور فرشتہ کا لفظ قرآن شریف میں عام ہے ہر ایک چیز جو اس کی آواز سنتی ہے وہ اس کا فرشتہ ہے۔ پس دنیا کا ذرّہ ذرّہ خدا کا فرشتہ ہے کیونکہ وہ اس کی آواز سنتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اگر ذرّہ ذرّہ اُس کی آواز سُنتا نہیں تو خدا نے زمین آسمان کے اجرام کو کس طرح پیدا کرلیا ۔اور یہ استعارہ جو ہم نے بیان کیا ہے اس طرح خدا کے کلام میں بہت سے استعارات ہیں جو نہایت لطیف علم اور حکمت پر مشتمل ہیں۔ اگر اب بھی کوئی شخص اپنی ناسمجھی سے باز نہ آوے تو وہ کوئی اعتراض
کے وقت اس کی ساری شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک طرف شاہی ضرورتوں کے لئے طرح طرح کے سامان طیّار ہونے کا حکم ہوتا ہے اور وہ فی الفور ہو جاتے ہیں اور وہی حقیقت ربوبیت عامہ ہیں۔ دوسری طرف خسروانہ فیض سے بغیر کسی عمل کے حاضرین کو جود و سخاوت سے مالا مال کیا جاتا ہے۔ تیسری طرف جو لوگ خدمت کررہے ہیں ان کو مناسب چیزوں سے اپنی خدمات کے انجام کے لئے مدد دی جاتی ہے۔ چوتھی طرف جزا سزا کا دروازہ کھولا جاتا ہے کسی کی گردن ماری جاتی ہے اور کوئی آزاد کیا جاتا ہے۔ یہ چار صفتیں تخت نشینی کے ہمیشہ لازم حال ہوتی ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کا ان ہر چہار صفتوں کو دنیا پر نافذ کرنا گویا تخت پر بیٹھنا ہے جس کا نام عرش ہے۔
اب رہی یہ بات کہ اس کے کیا معنے ہیں کہ اس تخت کو چار فرشتے اُٹھا رہے ہیں۔ پس اس کا یہی جواب ہے کہ ان چار صفتوں پر چار فرشتے موکل ہیں جو دنیا پر یہ صفات خدا تعالیٰ کی ظاہر کرتے ہیں اور ان کے ماتحت چار ستارے ہیں جو چار رب النوع کہلاتے ہیں جن کو وید میں دیوتا کے نام سے پکارا گیا ہے۔ پس وہ ان چاروں صفتوں کی حقیقت کو دنیا میں پھیلاتے ہیں گویا اس روحانی تخت کو اٹھارہے ہیں۔ بت پرستوں کا جیسا کہ وید سے ظاہرہے صاف طور پر یہ خیال تھا کہ یہ چار صفتیں مستقل طور پر دیوتاؤں
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 458
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 458
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/458/mode/1up
منتخب کرکے اسلام پر پیش کرے اور پھر انسانیت اور تحمل سے اس کا جواب سُنے۔ ورنہ ایسے اعتراضات سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو بس یہی کہ معترض حقیقت سے بے خبر اور دل اس کا تعصب سے پُر اور غرض اس کی محض تحقیر ہے۔ دین ایک علم ہے اور اپنے اندر اسرار رکھتا ہے۔ کیا لازم ہے کہ اس طرح پر افترا کے طور پر اعتراض کئے جائیں ورنہ مسلمان بوجہ اولیٰ کہہ سکتے ہیں کہ جن خداؤں کو وید نے پیش کیا ہے وہ تو یہی ہیں کہ سورج۔ چاند۔آگ۔ پانی زمین وغیرہ مخلوق چیزیں یہ سب محدود اور مخلوق اور بے جان ہیں۔ اس ؔ لئے آریہ صاحبوں کا پرمیشر نہ صرف محدود بلکہ بے جان چیز ہے اسی لئے ان کی آواز نہیں سُن سکتااور نہ جواب دے سکتا ہے۔
پھر جس پرمیشر نے کچھ پیدا ہی نہیں کیا اس کا محدود ہونا تو بہرحال ماننا پڑے گا کیونکہ اس طرح پر سمجھ لوکہ روحوں اور پرمانو اور پرمیشر سے گویا ایک شہر آباد ہے۔ جس کے ایک محلہ
کو حاصل ہیں۔ اسی وجہ سے ویدمیں جابجا ان کی استت اور مہما کی گئی اور ان سے مرادیں مانگی گئیں۔ پس خدا تعالیٰ نے استعارہ کے طور پر سمجھایا کہ یہ چار دیوتا جن کو بت پرست اپنا معبود قرار دیتے ہیں یہ مخدوم نہیں ہیں بلکہ یہ چاروں خادم ہیں اور خدا تعالیٰ کے عرش کو اٹھارہے ہیں یعنی خادموں کی طرح ان الٰہی صفات کو اپنے آئینوں میں ظاہر کررہے ہیں اور عرش سے مراد لوازم صفات تخت نشینی ہیں جیسا کہ ابھی مَیں نے بیان کر دیا ہے۔ ہم ابھی لکھ چکے ہیں کہ رب کے معنے دیوتا ہے۔ پس قرآن شریف پہلے اسی سورۃ سے شروع ہوا ہے کہ3 یعنی وہ تمام مہما اور استت اُس خدا کو چاہئے جو تمام عالموں کا دیوتا ہے۔ وہی ہے جو ربّ العٰلمین ہے اور رَحْمٰن العٰلَمِیْن ہے اور رحِیْم العٰلمین ہے۔ اور مالک جزاء العالمین ہے۔ اس کے برابر اور کوئی دیوتا نہیں کیونکہ قرآن شریف کے زمانہ میں دیوتا پرستی بہت شائع تھی اور یونانی ہر ایک دیوتے کا نام رب النوع رکھتے تھے اور رب النوع کا لفظ آریہ ورت میں دیوتا کے نام سے موسوم تھا اس لئے پہلے خدا کا کلام ان جھوٹے دیوتاؤں کی طرف ہی متوجہ ہوا جیسا کہ اس نے فرمایا۔ 3 ۱ یعنی وہ جو سب عالموں کا دیوتا ہے نہ صرف ایک یا دو عالم کا اسی کی پرستش اور حمدو ثنا چاہئے۔ دوسروں کی مہما اور ا ستت کرنا غلطی ہے۔ اس
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 459
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/459/mode/1up
میں تو اَرواح یعنی جیو رہتے ہیں اور دوسرے محلہ میں پرمانو یعنی ذراتِ اجسام رہتے ہیں اور تیسرے محلہ کے کونے میں پرمیشر رہتا ہے کیونکہ جو چیزیں انادی اور اپنا اپنا وجود مستقل رکھتی ہیں ان میں پرمیشر دہنس نہیں سکتا۔ کیا تم سرب بیاپک ہو سکتے ہو۔ پس سوچ کر دیکھو کہ انادی اور غیر مخلوق ہونے کی حیثیت سے تم میں اور پرمیشر میں کیا فرق ہے پس وہ کیونکر غیر میں دھنس جائے گا۔ پس خواہ مخواہ تمہاراپرمیشر محدود ہوگیا اور بوجہ محدود ہونے کے علم بھی محدود ہوگیا مگر اس خدا کو کون محدود کہہ سکتا ہے جس کو قرآن شریف نے پیش کیا ہے جس کی نسبت وہ کہتا ہے کہ ہر ایک جان کی وہی جان ہے۔ جس کے ساتھ وہ زندہ ہے اور ذرّہ ذرّہ اس کے ہاتھ سے نکلا اور اسی کے سہارے سے موجود ہے اور سب چیز پر وہ محیط ہے کیونکہ ہر ایک چیزاسی سے نکلی ہے۔
نادان انسان جو تعصب سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ ایک بات اپنے منہ سے نکالتاہے اور کبھی ارادہ نہیں رکھتا کہ اس کا فیصلہ کرے۔ یہی آریہ صاحبان کا حال ہے گویا وہ اس دنیا میں
صورت میں جو صفتیں بُت پرستوں نے چار دیوتاؤں کے لئے مقرر کررکھی تھیں۔ خدا تعالیٰ نے ان سب کو اپنی ذات میں جمع کردیا ہے اور صرف اپنی ذات کو ان صفات کا منبع ظاہر فرمایا۔ بُت پرست قدیم سے یہ بھی خیال کرتے تھے کہ خدا کی اصولی صفات یعنی جو اصل جڑ تمام صفات کی ہیں وہ صرف چار ہیں۔ پیدا کرنا پھر مناسب حال سامان عطا کرنا۔ پھر ترقی کے لئے عمل کرنے والوں کی مدد کرنا پھر آخر میں جزاسزا دینا اور وہ ان چار صفات کو چار دیوتاؤں کی طرف منسوب کرتے تھے۔ اسی بناپر نوح کی قوم کے بھی چار ہی دیوتا تھے اور انہیں صفات کے لحاظ سے عرب کے بت پرستوں نے بھی لات۔ منات و عزیٰ اور ہبل بنا رکھے تھے۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ یہ چار دیوتا بالارا دہ دنیا میں اپنے اپنے رنگوں میں پرورش کررہے ہیں اور ہمارے شفیع ہیں اور ہمیں خدا تک بھی یہی پہنچاتے ہیں۔ چنانچہ یہ مطلب آیت 3 ۱سے ظاہر ہے۔
اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں وید بھی ان چاروں دیوتاؤں کی مہما اور ا ستت کی ترغیب دیتا ہے اور وید میں اگرچہ اور دیوتاؤں کا بھی ذکر ہے لیکن اصولی دیوتے جن سے اور سب دیوتے پیدا ہوئے ہیں یا یوں کہو کہ ان کی
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 460
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/460/mode/1up
ہمیشہ رہیں گے ورنہ ہم کہتے ہیں کہ اگر تم قرآن شریف کی ایک بات کو بھی ردّ کر سکو تو جو تاوان چاہو ہم پر لگالو خواہ تم تمام جائداد ہماری لے لو۔ مگر کیا کسی کی نیت ہے کہ آرام سے اور آہستگی سے جیسا کہ عدالت میں مقدمات فیصلہ پاتے ہیں کسی چیز کا فیصلہ کرے ہرگز نہیں پس صبر کرو جب تک خدا ہمارا تمہارا فیصلہ کرے۔
(۲)ؔ ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ فرشتے خدائے تعالیٰ کو جاکرنیکی ابدی کی خبر دیتے ہیں اور اس وقت تک وہ بے خبر ہوتا ہے۔ الجواب:۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین ورنہ کھول کر دکھلاؤ کہ کہاں قرآن شریف میں لکھا ہے کہ مَیں مخلوق کے حال سے بے خبر ہوں جب تک کوئی فرشتہ مجھے خبر نہ دے۔ وہ تو بار بار قرآن شریف میں کہتا ہے کہ ذرّہ ذرّہ کی مجھے خبر ہے۔ ایک پتہ بھی میرے حکم کے بغیر نہیں گرتا۔ میں تعجب کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کی روحیں ہیں کہ دلیری سے
شاخ ہیں وہ چار ہی ہیں کیونکہ کام بھی چار ہی ہیں۔ پس قرآن شریف کی پہلی غرض یہی تھی کہ وید وغیرہ مذاہب کے دیوتاؤں کو نیست و نابود کرے اور ظاہر کرے کہ یہ لوگوں کی غلطیاں ہیں کہ اور اور چیزوں کو دیوتا یعنی رب النوع بنا رکھا تھا بلکہ یہ چار صفتیں خاص خدا تعالیٰ کی ہیں اور ان چار صفتوں کے عرش کو خادموں اور نوکروں کی طرح یہ بیجان دیوتے اُٹھا رہے ہیں چنانچہ کسی نے کہا ہے۔
حمد را باتو نسبتے است درست بردر ہر کہ رفت بردرتست
پس یہ اعتراض کہ جو آریہ صاحبان ہمیشہ سے کرتے ہیں یہ تو درحقیقت ان کے ویدوں پر اعتراض ہے کیونکہ مسلمان تو اس خدا کی پرستش کرتے ہیں جو مخدوم ہے مگرآریہ صاحبان ان جھوٹے دیوتاؤں کو خدا سمجھ رہے ہیں جو خادموں اور نوکروں چاکروں کی طرح خدا تعالیٰ کی صفات اربعہ کا عرش اپنے سر پر اٹھا رہے ہیں بلکہ وہ تو چاکروں کے بھی چاکر ہیں کیونکہ ان پر اور طاقتیں بھی مسلط ہیں جو ملائک کے نام سے موسوم ہیں جو ان دیوتاؤں کی طاقتوں کو قائم رکھتے ہیں جن میں سے زبان شرع میں کسی کو جبرائیل کہتے ہیں اور کسی کو میکائیل اور کسی کو عزرائیل اور کسی کو اسرافیل اور سناتن دھرم والے اس قسم کے ملائک کے بھی قائل ہیں اور ان کا نام جَم رکھتے ہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 461
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/461/mode/1up
اس قدر افترا کرتے ہیں۔ سارا قرآن اس بات سے بھرا ہوا ہے کہ خدا ہر ایک چیز کا بالذات علم رکھتا ہے۔ پس ہم اس افترا کا کیا نام رکھیں کہ گویا مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا کو کچھ بھی اپنی مخلوق کی خبر نہیں جب تک فرشتے جاکر رپورٹ نہ دیں۔
(۳) ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ خدا پہلے کچھ مدت تک بیکار رہا ہے کیونکہ دنیا ہمیشہ سے نہیں۔
الجواب:۔ یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان کے پیدا کرنے سے پہلے خدا بیکار تھا بلکہ وہ قرآن شریف میں بار بار کہتا ہے کہ مَیں قدیم سے خالق ہوں مگر اس بات کی تفصیل کہ وہ کس کس مخلوق کو پیدا کرتا رہا ہے یہ امر انسان کے احاطۂ اقتدار سے باہر ہے۔ ہم قرآن کی رُو سے ایمان رکھتے ہیں کہ وہ کبھی معطل نہیں رہا مگر اس کی تفصیل کو ہم نہیں جانتے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اس نے کتنی مرتبہ اس دنیا کو بنایا اور کتنی مرتبہ ہلاک کیا یہ لمبا اور غیر متناہی علم خدا کو ہے کسی دفتر میں یہ سما نہیں سکتا ہاں عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ صرف چند مدت سے خدا نے دنیا کو پیدا کیا ہے۔ پہلے کچھ نہ تھا اور قدیم سے وہ خالق نہیں ہے۔ سو یہ اعتراض ان پر کرو اور پھر آپ لوگوں کو شرم کرنا چاہئے کہ ہم تو مانتے ہیں کہ ہمارا خدا قدیم سے ذراتِ اجسام پیدا کرتا رہا اور قدیم سے روحیں بھی پیدا کرتا رہا مگر آپ لوگ تو قطع نظر قدیم کے ایک مرتبہ کے لئے بھی خدا ئے تعالیٰ کی ان صفات کو نہیں مانتے پھر کیوں اپنے گھر سے بے خبر رہ کر اسلام پر محض افترا کے طور پر اعتراض کر دیتے ہیں ورنہ حیا اور شرم کرکے قرآن شریف سے ہمیں دکھلادو کہ کہاں لکھا ہے کہ مَیں قدیم سے خالق نہیں ہوں مگر آپ کا پرمیشر تو بجز معمار یا نجار کی حیثیت سے زیادہ مرتبہ نہیں رکھتا اور کیونکر معلوم ہوا کہ وہ عالم الغیب ہے اس کا وید میں کیا ثبوت ہے ذرا ہوش سے جواب دو۔
(۴)ؔ ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ مسلمانوں کا خدا متغیر ہے کبھی کوئی حکم دیتا ہے کبھی کوئی۔ الجواب:۔ خدا آپ لوگوں کو ہدایت دے۔ قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ خدا متغیر ہے بلکہ یہ لکھا ہے کہ انسان متغیر ہے اس لئے اس کے مناسب حال خدا اس کے لئے تبدیلیاں کرتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 462
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/462/mode/1up
جب بچہ پیٹ میں ہوتا ہے تو صرف اس کو خون کی غذا ملتی ہے اور جب پیدا ہوتا ہے تو ایک مدت تک صرف دودھ پیتا ہے اور پھر بعد اس کے اناج کھاتا ہے اور خدا ئے تعالیٰ تینوں سامان اس کے لئے وقتاً فوقتاً پیدا کردیتا ہے۔ پیٹ میں ہونے کی حالت میں پیٹ کے فرشتوں کو جو اندرونی ذرات ہیں حکم کر دیتا ہے کہ اس کی غذا کے لئے خون بناویں اور پھر جب پیدا ہوتا ہے تو اس حکم کو منسوخ کر دیتا ہے تو پھر پستان کے فرشتوں کو جو اس کے ذرات ہیں حکم کرتا ہے جو اس کے لئے دودھ بناویں اور جب وہ دودھ سے پرورش پا چکتا ہے تو پھر اس حکم کو بھی منسوخ کر دیتا ہے تو پھر زمین کے فرشتوں کو جو اس کے ذرات ہیں حکم کرتا ہے جو اس کے لئے اخیر مدت تک اناج اور پانی پیدا کرتے رہیں۔ پس ہم مانتے ہیں کہ ایسے تغیر خدا کے احکام میں ہیں خواہ بذریعہ قانونِ قدرت اور خواہ بذریعہ شریعت ۔مگر اس سے خدا میں تغیر کونسا لازم آیا۔ شرم! شرم!! شرم!!!
مگر افسوس کہ وید کی رُو سے خدا ان تغیرات کامالک نہیں بن سکتا کیونکہ وید تو خدا کے فرشتوں کا منکر ہے۔ پس کیونکر دنیا کے ذرّات اور رُوحوں کی قوتیں اس کی آواز سُن سکتی ہیں۔ علم طبعی اور ہیئت کا سلسلہ تبھی خدا کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب طبعی طور پر ہر ایک ذرہ مخلوقات کا خدا کا فرشتہ مان لیا جائے ورنہ فرشتوں کے انکار سے دہریہ بننا پڑے گا کہ جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے پرمیشر کو اس کا کچھ بھی علم نہیں اور نہ اس کی مرضی اور ارادہ سے ہورہا ہے مثلاً کانوں میں سونا اور چاندی اور پیتل اور تانبا اور لوہا طیار ہوتا ہے اور بعض کانوں میں سے ہیرے نکلتے ہیں اورنیلم پیدا ہوتا ہے اور بعض جگہ یا قوت کی کانیں ہیں اور بعض دریاؤں میں سے موتی پیدا ہوتے ہیں اور ہر ایک جانور کے پیٹ سے بچہؔ یا انڈہ پیدا ہوتا ہے۔ اب خدا نے تو قرآن شریف میں ہمیں یہ سکھلایا ہے کہ یہ طبعی سلسلہ خود بخود نہیں بلکہ ان چیزوں کے تمام ذرات خدا کی آوازسنتے ہیں اور اس کے فرشتے ہیں یعنی اس کی طرف سے ایک کام کے لئے مقر رشدہ ہیں۔ پس وہ کام اس کی مرضی کے موافق وہ کرتے رہتے ہیں۔ سونے کے ذرات سونا بناتے رہتے ہیں اور چاندی کے ذرات چاندی بناتے رہتے ہیں اور موتی کے ذرات موتی بناتے ہیں اور انسانی وجود کے ذرات ماؤں کے پیٹ میں انسانی بچہ
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 463
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/463/mode/1up
طیّار کرتے ہیں اور یہ ذرات خود بخود کچھ بھی کام نہیں کرتے بلکہ خدا کی آواز سُنتے ہیں اور اس کی مرضی کے موافق کام کرتے ہیں اسی لئے وہ اس کے فرشتے کہلاتے ہیں اور کئی قسم کے فرشتے ہوتے ہیں یہ تو زمین کے فرشتے ہیں۔ مگر آسمان کے فرشتے آسمان سے اپنا اثر ڈالتے ہیں جیسا کہ سورج کی گرمی بھی خدا کا ایک فرشتہ ہے جو پھلوں کاپکانا اور دوسرے کام کرتا ہے اور ہوائیں بھی خدا کے فرشتے ہیں جو بادلوں کو اکٹھے کرتے اور کھیتوں کو مختلف اثر اپنے پہنچاتے ہیں اور پھر ان کے اوپر اور بھی فرشتے ہیں جو ان میں تاثیر ڈالتے ہیں۔ علوم طبعی اس بات کے گواہ ہیں کہ فرشتوں کا وجود ضروری ہے اور ان فرشتوں کو ہم بچشمِ خود دیکھ رہے ہیں۔ اب بقول آریہ صاحبان ویدان فرشتوں کا منکر ہے۔ پس اس طور سے وہ اس طبعی سلسلہ سے انکاری اور دہریہ مذہب کی بنیاد ڈالتا ہے کیا یہ امر بدیہی اور مشہود و محسوس نہیں کہ ہر ایک ذرہ ذراتِ اجسام میں سے ایک کام میں مشغول ہے۔ یہاں تک کہ شہد کی مکھیاں بھی خدا کی وحی سے ایک کام کررہی ہیں۔ پس وید اگر اس سلسلہ سے منکر ہے تو پھر اس کی خیر نہیں۔ اس صورت میں وہ تو دہریہ مذہب کا حامی ہوگا۔ اگر یہی وید ودّیا کا نمونہ ہے تو شاباش خوب نمونہ پیش کیا۔
(۵) ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ شفاعت پر بھروسہ شرک ہے۔
الجواب :۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 33 ۱ یعنی خدا کے اذن کے سوا کوئی شفاعت نہیں ہو سکتی۔قرآن شریف کی رُو سے شفاؔ عت کے معنے یہ ہیں کہ ایک شخص اپنے بھائی کے لئے دُعا کرے کہ وہ مطلب اس کو حاصل ہو جائے۔ یا کوئی بلا ٹل جائے۔ پس قرآن شریف کا حکم ہے کہ جو شخص خدا ئے تعالیٰ کے حضور میں زیادہ جھکا ہوا ہے وہ اپنے کمزور بھائی کے لئے دُعا کرے کہ اس کو وہ مرتبہ حاصل ہو یہی حقیقتِ شفاعت ہے۔ سو ہم اپنے بھائیوں کے لئے بیشک دُعا کرتے ہیں کہ خدا ان کو قوّت دے اور ان کی بلا دور کرے اور یہ ایک ہمدردی کی قسم ہے۔ پس اگر وید نے اس ہمدردی کو نہیں سکھلایا اور وید کی رُو سے ایک بھائی دوسرے کے لئے دُعا نہیں کر سکتا تو یہ بات وید کے لئے قابل تعریف نہیں بلکہ ایک
Ruhani Khazain Volume 19. Page: 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۱۹- نسیمِ دعوت: صفحہ 464
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=19#page/464/mode/1up
سخت عیب ہے۔ چونکہ تمام انسان ایک جسم کی طرح ہیں اس لئے خدا نے ہمیں بار بار سکھلایا ہے کہ اگرچہ شفاعت کو قبول کرنا اس کا کام ہے مگر تم اپنے بھائیوں کی شفاعت میں یعنی ان کے لئے دُعا کرنے میں لگے رہو اور شفاعت سے یعنی ہمدردی کی دُعا سے باز نہ رہو کہ تمہارا ایک دوسرے پر حق ہے۔ اصل میں شفاعت کا لفظ شفع سے لیا گیا ہے۔ شفع جفت کو کہتے ہیں جوطاق کی ضد ہے۔ پس انسان کو اس وقت شفیع کہا جاتا ہے جبکہ وہ کمال ہمدردی سے دوسرے کا جفت ہو کر اس میں فنا ہو جاتا ہے اور دوسرے کے لئے ایسی ہی عافیت مانگتا ہے جیسا کہ اپنے نفس کے لئے۔ اور یاد رہے کہ کسی شخص کا دین کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ شفاعت کے رنگ میں ہمدردی اس میں پیدا نہ ہو بلکہ دین کے دو ہی کامل حصّے ہیں۔ ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دُعا کرنا جس کو دوسرے لفظوں میں شفاعت کہتے ہیں۔
(۶) خدا کی کوئی آواز دنیا میں سنائی نہیں دیتی۔
الجواب:۔ تعجب کہ باوجودیکہ پنڈت لیکھرام کی موت سے تمام آریہ صاحبوں نے ۶؍ مارچ کے دن خدا ئے تعالیٰ کی آواز سن لی۔ اور خدا نے دنیا میں اشتہار دے دیا کہ لیکھرام بوجہ اپنی بدزبانیوں کے چھ۶ برس تک کسی کے ہاتھ سے مارا جائے گا وہ آواز نہ صرف ہم نے سُنی بلکہ ہمارے ذریعہ سے سب آریہ صاحبوں نے سُنی مگر کیا اب بھی ثابت نہ ہوا کہ خدا کی آواز دنیا کو سنائی دیتی ہے۔ آپ صاحبوں میں سے پکّے آریہ لالہ شرم پت اور لالہ ملاوا مل ساکن قادیان بہت سی خدا کی آوازوں کے گواہ ہیں۔ اگر وہ انکار کریں گے اور قوم کو خدا پر مقدم رکھیں گے اور جھوٹ بولیں گے تو شاید کوئی اور آواز آسمانی سُن لیں گے۔
المشتھر خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی