• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

روحانی خزائن جلد 21 ۔ براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
Ruhani Khazain Volume 21. Page: 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 1

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 2

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


دیباچہ پنجم حصہ براہین احمدیہ

بحمد اللہ کہ آخر اِیں کتابم مکمل شد بفضلِ آن جنابم


اما بعد واضح ہوکہ یہ براہین احمدیہ کا پانچواں حصہ ہے کہ جو اس دیباچہ کے بعد لکھا جائے گا۔ خدا تعالیٰ کی حکمت اورمصلحت سے ایسا اتفاق ہوا کہ چار حصیّ اس کتاب کے چھپ کر پھر تخمیناً تیئس۲۳ برس تک اس کتاب کا چھپنا ملتوی رہا۔ اور عجیب تریہ کہ اسی۰۸ کے قریب اِس مدت میں مَیں نے کتابیں تالیف کیں جن میں سے بعض بڑے بڑے حجم کی تھیں لیکن اِس کتاب کی تکمیل کے لئے توجہ پیدا نہ ہوئی اور کئی مرتبہ دل میں یہ درد پیدا بھی ہوا کہ براہین احمدیہ کے ملتوی رہنے پر ایک زمانہ دراز گذر گیا مگر باوجود کوشش بلیغ اور باوجود اس کے کہ خریداروں کی طرف سے بھی کتاب کے مطالبہ کے لئے سخت الحاح ہوا اور اس مدت مدید اور اس قدر زمانہ التوا میں مخالفوں کی طرف سے بھی وہ اعتراض مجھ پر ہوئے کہ جو بدظنی اور بدزبانی کے گند سے حد سے زیادہ آلودہ تھے اور بوجہ امتدادمدت درحقیقت وہ دلوں میں پیدا ہوسکتے تھے مگر پھر بھی قضاء و قدر کے مصالح نے مجھے یہ توفیق نہ دی کہ میں اس کتاب کو پورا کرسکتا ۔ اس سے ظاہر ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 3

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کہ قضاء وقدر درحقیقت ایک ایسی چیز ہے جس کے احاطہ سے باہر نکل جانا انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔مجھےؔ اس بات پر افسوس ہے بلکہ اس بات کے تصور سے دل دردمند ہو جاتا ہے کہ بہت سے لوگ جو اس کتاب کے خریدار تھے اس کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی دنیا سے گذر گئے مگر جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں انسان تقدیر الٰہی کے ماتحت ہے اگر خدا کا ارادہ انسان کے ارادہ کے مطابق نہ ہو تو انسان ہزار جدوجہد کرے اپنے ارادہ کو پورا نہیں کرسکتا۔ لیکن جب خدا کے ارادہ کا وقت آجاتا ہے تو وہی امور جو بہت مشکل نظر آتے تھے نہایت آسانی سے میسر آجاتے ہیں۔

اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کے تمام کاموں میں حکمت اورمصلحت ہوتی ہے تواس عظیم الشان دینی خدمت کی کتاب میں جس میں اسلام کے تمام مخالفوں کا رد مقصود تھا کیا حکمت تھی کہ وہ کتاب تخمیناًتیئس۲۳برس تک مکمل ہونے سے معرض التوا میں رہی۔ اس کا جواب خدا ہی بہتر جانتا ہے کوئی انسان اس کے تمام بھیدوں پر محیط نہیں ہوسکتامگر جہاں تک میرا خیال ہے وہ یہ ہے کہ براہین احمدیہ کے ہر چہار حصے کو جو شائع ہوچکے تھے وہ ایسے امور پرمشتمل تھے کہ جب تک وہ امور ظہور میں نہ آجاتے تب تک براہین احمدیہ کے ہر چہار حصّہ کے دلائل مخفی اور مستور رہتے اور ضرور تھا کہ براہین احمدیہ کا لکھنا اس وقت تک ملتوی رہے جب تک کہ امتدادِ زمانہ سے وہ سربستہ امور کھل جائیں اور جو دلائل اُن حصوں میں درج ہیں وہ ظاہر ہوجائیں کیونکہ براہین احمدیہ کے ہر چہار حصوں میں جو خدا کاکلام یعنی اس کا الہام جابجا مستور ہے جو اس عاجز پر ہوا وہ اس بات کا محتاج تھا جو اس کی تشریح کی جائے اور نیز اس بات کا محتاج تھا کہ جو پیشگوئیاں اس میں درج ہیں اُن کی سچائی لوگوں پر ظاہر ہو جائے ۔ پس اس لئے خدائے حکیم و علیم نے اس وقت تک براہین احمدیہ کا چھپنا ملتوی رکھا کہ جب تک وہ تمام پیشگوئیاں ظہور میں آگئیں اور یاد رہے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 4

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 4

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کسی مذہب کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یعنی اس بات کے ثبوت کے لئے کہ وہ مذہب منجانب اللہ ہے دو قسم کی فتح کا اس میں پایا جانا ضروری ہے۔

اوّل۔ یہ کہ وہ مذہب اپنے عقائد اور اپنی تعلیم اور اپنے احکام کی رُو سے ایسا جامع اور اکمل اورؔ اتم اور نقص سے دُور ہو کہ اس سے بڑھ کر عقل تجویز نہ کرسکے۔ اورکوئی نقص اور کمی اُس میں دکھلائی نہ دے۔ اور اس کمال میں وہ ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہو یعنی ان خوبیوں میں کوئی مذہب اُس کے برابر نہ ہو۔ جیسا کہ یہ دعویٰ قرآن شریف نے آپ کیا ہے کہ 3333 ۱؂یعنی آج میں نے تمہارے لئے اپنا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر پوراکیا۔ اورمیں نے پسند کیاکہ اسلام تمہارامذہب ہو۔ یعنی وہ حقیقت جو اسلام کے لفظ میں پائی جاتی ہے جس کی تشریح خود خدا تعالیٰ نے اسلام کے لفظ کے بارہ میں بیان کی ہے اس حقیقت پر تم قائم ہو جاؤ۔ اس آیت میں صریح یہ بیان ہے کہ قرآن شریف نے ہی کامل تعلیم عطاکی ہے اورقرآن شریف کاہی ایسا زمانہ تھا جس میں کامل تعلیم عطا کی جاتی۔ پس یہ دعویٰ کامل تعلیم کا جو قرآن شریف نے کیا یہ اُسی کاحق تھا اس کے سواکسی آسمانی کتاب نے ایسا دعویٰ نہیں کیا جیسا کہ دیکھنے والوں پر ظاہر ہے کہ توریت اور انجیل دونوں اس دعوے سے دست بردار ہیں کیونکہ توریت میں خدا تعالیٰ کا یہ قول موجود ہے کہ میں تمہارے بھائیوں میں سے ایک نبی قائم کروں گا اور اپناکلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو شخص اس کے کلام کو نہ سنے گا میں اس سے مطالبہ کروں گا۔ پس صاف ظاہر ہے کہ اگر آئندہ زمانہ کی ضرورتوں کی رُو سے توریت کا سننا کافی ہوتا توکچھ ضرورت نہ تھی کہ کوئی اورنبی آتا۔ اور مواخذہ الٰہیہ سے مخلصی پانا اُس کلام کے سننے پرموقوف ہوتاجو اُس پر نازل ہوتا۔ ایسا ہی انجیل نے کسی مقام میں دعویٰ نہیں کیا کہ انجیل کی تعلیم کامل اور جامع ہے بلکہ صاف اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 5

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


کھلا کھلا اقرار کیا ہے کہ اور بہت سی باتیں قابل بیان تھیں مگر تم برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ سب کچھ بیان کرے گا۔ اب دیکھنا چاہئے کہ حضرت موسیٰ نے اپنی توریت کو ناقص تسلیم کرکے آنے والے نبی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی ایسا ہی حضرت عیسیٰ نے بھی اپنی تعلیم کا نامکمل ہونا قبول کرکے یہ عذر پیش کردیا کہ ابھی کامل تعلیم بیان کرنے کا وقت نہیں ہے لیکن جب فارقلیط آئے گا تو وہ کامل تعلیم بیان کردے گا مگرؔ قرآن شریف نے توریت اور انجیل کی طرح کسی دوسرے کاحوالہ نہیں دیا بلکہ اپنی کامل تعلیم کا تمام دنیا میں اعلان کردیا اور فرمایا کہ3 3333 ۱؂۔ اس سے ظاہر ہے کہ کامل تعلیم کادعویٰ کرنے والا صرف قرآن شریف ہی ہے اور ہم اپنے موقعہ پر بیان کریں گے کہ جیسا کہ قرآن شریف نے دعویٰ کیا ہے ویسا ہی اُس نے اس دعویٰ کو پورا کرکے دکھلا بھی دیا ہے اور اُس نے ایک ایسی کامل تعلیم پیش کی ہے جس کو نہ توریت پیش کرسکی اورنہ انجیل بیان کرسکی۔ پس اسلام کی سچائی ثابت کرنے کے لئے یہ ایک بڑی دلیل ہے کہ وہ تعلیم کی رُو سے ہر ایک مذہب کو فتح کرنے والا ہے۔ اور کامل تعلیم کے لحاظ سے کوئی مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔

دو۲م۔ پھر دوسری قسم فتح کی جو اسلام میں پائی جاتی ہے جس میں کوئی مذہب اس کا شریک نہیں اورجو اس کی سچائی پر کامل طور پر مُہر لگاتی ہے اُس کی زندہ برکات اور معجزات ہیں جن سے دوسرے مذاہب بکلی محروم ہیں۔ یہ ایسے کامل نشان ہیں کہ اُن کے ذریعہ سے نہ صرف اسلام دوسرے مذاہب پر فتح پاتا ہے بلکہ اپنی کامل روشنی دکھلاکر دلوں کو اپنی طرف کھینچ لیتاہے۔ یاد رہے کہ پہلی دلیل اسلام کی سچائی کی جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں یعنی کامل تعلیم وہ درحقیقت اس بات کے سمجھنے کیلئے کہ مذہب اسلام منجانب اللہ ہے ایک کھلی کھلی دلیل نہیں ہے کیونکہ ایک متعصب منکر جس کی نظر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 6

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


باریک بین نہیں ہے کہہ سکتا ہے کہ ممکن ہے کہ ایک کامل تعلیم بھی ہو اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہو۔ پس اگرچہ یہ دلیل ایک دانا طالب حق کو بہت سے شکوک سے مخلصی دے کر یقین کے نزدیک کردیتی ہے لیکن تاہم جب تک دوسری دلیل مذکورہ بالا اس کے ساتھ منضم اور پیوستہ نہ ہو کمال یقین کے مینار تک نہیں پہنچا سکتی اور ان دونوں دلیلوں کے اجتماع سے سچے مذہب کی روشنی کمال تک پہنچ جاتی ہے اور اگرچہ سچا مذہب ہزارہا آثار اور انوار اپنے اندر رکھتا ہے لیکن یہ دونوں دلیلیں بغیر حاجت کسی اور دلیل کے طالب حق کے دل کو یقین کے پانی سے سیراب کردیتی ہیںؔ اور مکذّبوں پر پورے طور پر اتمام حجت کرتی ہیں۔ اس لئے ان دو قسم کی دلیلوں کے موجود ہونے کے بعد کسی اور دلیل کی حاجت نہیں رہتی۔ اورمیں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثباتِ حقّیّتِ اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تومعلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل ہزارہا نشانوں کے قائم مقام ہیں۔ پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا۔ اگرمیں کتاب براہین احمدیہ کے پورا کرنے میں جلدی کرتا تو ممکن نہ تھا کہ اس طریق سے اسلام کی حقّانیت لوگوں پر ظاہر کرسکتا۔ کیونکہ براہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو اسلام کی سچائی پر قوی دلیل ہیں مگر ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ خدا تعالیٰ کے وہ موعود ہ نشان کھلے کھلے طور پر دنیا پر ظاہر ہوتے۔ ہر ایک دانشمندسمجھ سکتا ہے کہ معجزات اور نشانوں کا لکھنا انسان کے اختیار میں نہیں اور دراصل یہی ایک بڑا ذریعہ سچے مذہب کی شناخت کا ہے کہ اس میں برکات اور معجزات پائے جائیں کیونکہ جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے صرف کامل تعلیم کا ہونا سچے مذہب کے لئے پوری پوری اور کھلی کھلی علامت نہیں ہے جو تسلی کے انتہائی درجہ تک پہنچا سکے۔ سو میں انشاء اللہ تعالیٰ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 7

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ


یہی دونوں قسم کے دلائل اس کتاب میں لکھ کر اس کتاب کو پورا کروں گا۔ اگرچہ براہین احمدیہ کے گذشتہ حصوں میں نشانوں کے ظہور کاوعدہ دیا گیا تھا مگر میرے اختیار میں نہ تھا کہ کوئی نشان اپنی طاقت سے ظاہرکرسکتا اور کئی باتیں پہلے حصوں میں تھیں جن کی تشریح میری طاقت سے باہر تھی لیکن جب تیئس۲۳ برس کے بعد وہ وقت آگیا تو تمام سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے میسر آگئے اور موافق اُس وعدہ کے جو براہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں درج تھا قرآن شریف کے معارف اور حقائق میرے پر کھولے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ 3۱؂ایسا ہی بڑے بڑے نشان ظاہر کئے گئے۔

جولوؔ گ سچے دل سے خدا کے طالب ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ خدا کی معرفت خدا کے ذریعہ سے ہی میسر آسکتی ہے اور خدا کو خدا کے ساتھ ہی شناخت کرسکتے ہیں۔ اورخدا اپنی حجت آپ ہی پوری کرسکتا ہے انسان کے اختیار میں نہیں اور انسان کبھی کسی حیلہ سے گناہ سے بیزار ہوکر اس کاقرب حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ معرفت کاملہ حاصل نہ ہو۔ اور اس جگہ کوئی کفارہ مفید نہیں اورکوئی طریق ایسا نہیں جو گناہ سے پاک کرسکے بجز اُس کامل معرفت کے جو کامل محبت اور کامل خوف کو پیدا کرتی ہے۔ اور کامل محبت اور کامل خوف یہی دونوں چیزیں ہیں جو گناہ سے روکتی ہیں کیونکہ محبت اورخوف کی آگ جب بھڑکتی ہے توگناہ کے خس و خاشاک کو جلاکر بھسم کردیتی ہے۔ اور یہ پاک آگ اورگناہ کی گندی آگ دونوں جمع ہو ہی نہیں سکتیں۔ غرض انسان نہ بدی سے رک سکتا ہے اور نہ محبت میں ترقی کرسکتاہے جب تک کہ کامل معرفت اُس کو نصیب نہ ہو اور کامل معرفت نہیں ملتی جب تک کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے زندہ برکات اورمعجزات نہ دیئے جائیں۔ یہی ایک ایسا ذریعہ سچے مذہب کی شناخت کا ہے کہ جو تمام مخالفوں کامنہ بند کردیتاہے اور ایسا مذہب جو مذکورہ بالا دونوں قسم کے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے یعنی ایسا مذہب کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 8

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 8

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/8/mode/1up


تعلیم اُس کی ہر ایک پہلو سے کامل ہے جس میں کوئی فروگذاشت نہیں اور نیز یہ کہ خدا نشانوں اور معجزات کے ذریعہ سے اس کی سچائی کی گواہی دیتا ہے۔ اس مذہب کو وہی شخص چھوڑتا ہے جو خدا تعالیٰ کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتا اور روزِ آخرت پر چند روزہ زندگی اور قوم کے جھوٹے تعلقات کو مقدم کر لیتا ہے ۔ وہ خدا جو آج بھی ایسا ہی قادر ہے جیسا کہ آج سے دس۱۰ ہزار برس پہلے قادر تھا۔ اُس پر اسی صورت سے ایمان حاصل ہوسکتا ہے کہ اُس کی تازہ برکات اور تازہ معجزات اور قدرت کے تازہ کاموں پر علم حاصل ہو۔ ورنہ یہ کہنا پڑے گا کہ یہ وہ خدا نہیں ہے جو پہلے تھا یا اُس میں وہ طاقتیں اب موجود نہیں ہیں جو پہلے تھیں۔ اس لئے ان لوگوں کا ایمان کچھ بھی چیز نہیں جو خدا کے تازہ برکات اور تازہ معجزات کے دیکھنے سے محروم ہیں اور خیال کرتے ہیںؔ کہ اُس کی طاقتیںآگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں۔

بالآخر یہ بھی یاد رہے کہ جو براہین احمدیہ کے بقیہ حصّہ کے چھاپنے میں تیئس۲۳ برس تک التواء رہا یہ التواء بے معنی اور فضول نہ تھا بلکہ اِس میں یہ حکمت تھی کہ تا اُس وقت تک پنجم حصہ دنیا میں شائع نہ ہو جب تک کہ وہ تمام امور ظاہر ہو جائیں جن کی نسبت براہین احمدیہ کے پہلے حصوں میں پیشگوئیاں ہیں کیونکہ براہین احمدیہ کے پہلے حصّے عظیم الشان پیشگوئیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور پنجم حصہ کا عظیم الشان مقصد یہی تھا کہ وہ موعودہ پیشگوئیاں ظہور میں آجائیں۔ اور یہ خدا کا ایک خاص نشان ہے کہ اُس نے محض اپنے فضل سے اِس وقت تک مجھے زندہ رکھا یہاں تک کہ وہ نشان ظہور میں آگئے تب وہ وقت آگیا کہ پنجم حصہ لکھا جائے اور اِس حصہ پنجم کے وقت جو نصرت حق ظہور میں آئی ضرور تھا کہ بطور شکر گذاری کے اس کا ذکر کیا جاتا۔ سو اس امر کے اظہار کے لئے میں نے براہین احمدیہ کے پنجم حصہ کے لکھنے کے وقت جس کو درحقیقت اس کتاب کا نیا جنم کہنا چاہئے اس حصہ کا نام نصرت الحق بھی رکھ دیا تا وہ نام ہمیشہ کیلئے اس بات کا نشان ہو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 9

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 9

http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/9/mode/1up


کہ باوجود صدہا عوائق او ر موانع کے محض خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد نے اِس حصہ کو خلعتِ وجود بخشا۔ چنانچہ اس حصہ کے چند اوائل ورق کے ہر ایک صفحہ کے سر پر نصرت الحق لکھا گیا مگر پھر اس خیال سے کہ تا یاد دلایا جائے کہ یہ وہی براہین احمدیہ ہے جس کے پہلے چار حصے طبع ہوچکے ہیں بعد اس کے ہر ایک سر صفحہ پر براہین احمدیہ کا حصہ پنجم لکھا گیا۔ پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاسسے پانچ پر اکتفا کیا گیااور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا۔

دوسرا سبب اس التواء کا جو تیئس۲۳ برس تک حصہ پنجم لکھا نہ گیا یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اُن لوگوں کے دلی خیالات ظاہر کرے جن کے دل مرض بدگمانی میں مبتلا تھے اور ایسا ہی ظہور میں آیا۔ کیونکہ اس قدر دیر کے بعد خام طبع لوگ بدگمانی میں بڑھ گئے۔ یہاںؔ تک کہ بعض ناپاک فطرت گالیوں پر اُتر آئے اور چار حصے اس کتاب کے جو طبع ہوچکے تھے کچھ تو مختلف قیمتوں پر فروخت کئے گئے تھے اورکچھ مفت تقسیم کئے گئے تھے۔ پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی۔ اگر وہ اپنی جلد بازی سے ایسا نہ کرتے تواُن کے لئے اچھا ہوتا۔ لیکن اس قدر دیر سے اُن کی فطرتی حالت آزمائی گئی۔

اِس دیر کا ایک یہ بھی سبب تھا کہ تا خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر ظاہر کرے کہ یہ کاروبار اُس کی مرضی کے مطابق ہے اور یہ تمام الہام جو براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں لکھے گئے ہیں یہ اُسی کی طرف سے ہیں نہ انسان کی طرف سے کیونکہ اگریہ کتاب خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق نہ ہوتی اور یہ تمام الہام اُس کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ امر خدا ئے عادل اور قدوس کی عادت کے برخلاف تھا کہ جوشخص



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 10

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 10

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/10/mode/1up


اُس کے نزدیک مفتری ہے اور اُس نے یہ گناہ کیا ہے کہ اپنی طرف سے باتیں بناکر اُس کا نام وحی اللہ اور خدا کا الہام رکھا ہے اس کو تیئس۲۳ برس تک مہلت دے تا وہ اپنی کتاب براہین احمدیہ کے باقی ماندہ حصہ کو جہاں تک اراد ۂ الٰہیہ ہو اور نہ صرف اسی قدر بلکہ خدا اُس پر یہ بھی احسان کرے کہ جو باتیں اس تکمیل کے لئے انسانی اختیار سے باہر تھیں ان کو اپنی طرف سے انجام دے دے اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے شخص کے ساتھ یہ معاملہ لطف واحسان کا نہیں کرتا جس کو جانتا ہے کہ وہ مفتری ہے ۔ پس اس قدر دیر اور التواء سے یہ نشان بھی ظہور میں آگیا کہ نصرت اور حمایت الٰہی میری نسبت ثابت ہوگئی۔ اس لمبی مدت میں بہت سے کافر اور دجال اور کذاب کہنے والے جو مجھے دائرہ اسلام سے خارج کرتے تھے اور مباہلہ کے رنگ میں جھوٹے پر بد دُعائیں کرتے تھے دنیا سے گذر گئے مگر خدا نے مجھے زندہ رکھا اور میری وہ حمایت کی کہ جھوٹوں کا تو کیا ذکر ہے دنیا میں بہت ہی کم سچے اور راستباز گذرے ہوں گے جن کی ایسی حمایت کی گئی ہو ۔ پس یہ خدا کا کھلا کھلا نشان ہے مگر اُن کے لئے جو آنکھ بند نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ کے نشانوں کو قبول کرنے کیلئے طیار ہیں۔

میرزا غلام احمدؐ قادیانی مسیح موعود



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 11

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 11

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/11/mode/1up



ہے شکر ربِّ عزّوجل خارج از بیاں

جس کی کلام سے ہمیں اُس کا ملا نشاں

وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں

ہوگی نہیں کبھی وہ ہزار آفتاب میں

اُس سے ہمارا پاک دل و سینہ ہوگیا

وہ اپنے منہ کا آپ ہی آئینہ ہوگیا

اُس نے درختِ دل کو معارف کا پھل دیا

ہر سینہ شک سے دھو دیا ہر دل بدل دیا

اُس سے خدا کا چہرہ نمودار ہوگیا

شیطاں کا مکر و وسوسہ بیکار ہوگیا

وہ رَہ جو ذاتِ عزّوجل کو دکھاتی ہے

وہ رہ جو دل کو پاک و مطہر بناتی ہے

وہ رہ جو یارگم شدہ کو کھینچ لاتی ہے

وہ رہ جو جامِ پاک یقیں کا پلاتی ہے

وہ رہ جو اُس کے ہونے پہ محکم دلیل ہے

وہ رَہ جو اُس کے پانے کی کامل سبیل ہے

اُس نے ہر ایک کو وہی رستہ دکھا دیا

جتنے شکوک و شبہ تھے سب کو مٹا دیا

افسردگی جو سینوں میں تھی دور ہوگئی

ظلمت جو تھی دلوں میں وہ سب نور ہوگئی

جو ؔ دَور تھا خزاں کا وہ بدلا بہار سے

چلنے لگی نسیم عنایاتِ یار سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 12

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 12

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/12/mode/1up


جاڑے کی رُت ظہور سے اُسکے پلٹ گئی

عشقِ خدا کی آگ ہر اک دل میں اٹ گئی

جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے

پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے

موجوں سے اُس کی پردے وساوس کے پھٹ گئے

جو کُفر اور فسق کے ٹیلے تھے کٹ گئے

قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے

بے اُس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے

جو لوگ شک کی سردیوں سے تھرتھراتے ہیں

اس آفتاب سے وہ عجب دھوپ پاتے ہیں

دنیا میں جس قدر ہے مذاہب کا شور و شر

سب قصہ گو ہیں نور نہیں ایک ذرّہ بھر

پر یہ کلام نورِ خدا کو دکھاتا ہے

اسکی طرف نشانوں کے جلوہ سے لاتا ہے

جس دیں کا صرف قصوں پہ سارا مدار ہے

وہ دیں نہیں ہے ایک فسانہ گذار ہے

سچ پوچھیئے تو قصوں کا کیا اعتبار ہے

قصوں میں جھوٹ اور خطا بے شمار ہے

ہے دیں وہی کہ صرف وہ اک قصہ گو نہیں

زندہ نشانوں سے ہے دکھاتا رہِ یقیں

ہے دیں وہی کہ جس کا خدا آپ ہوعیاں

خود اپنی قدرتوں سے دکھاوے کہ ہے کہاں

جو معجزات سنتے ہو قصوں کے رنگ میں

اُنکو تو پیش کرتے ہیں سب بحث و جنگ میں

جتنے ہیں فرقے سب کا یہی کاروبارہے

قصوں میں معجزوں کا بیاں بار بار ہے

پر اپنے دیں کا کچھ بھی دکھاتے نہیں نشاں

گویا وہ ربِّ ارض و سما اب ہے ناتواں

گویا اب اُس میں طاقت و قدرت نہیں رہی

وہ سلطنت وہ زور وہ شوکت نہیں رہی

یا ؔ یہ کہ اب خدا میں وہ رحمت نہیں رہی

نیت بدل گئی ہے وہ شفقت نہیں رہی

ایسا گماں خطا ہے کہ وہ ذات پاک ہے

ایسے گماں کی نوبت آخر ہلاک ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 13

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 13

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/13/mode/1up


سچ ہے یہی کہ ایسے مذاہب ہی مرگئے

اَب اُن میں کچھ نہیں ہے کہ جاں سے گذر گئے

پابند ایسے دینوں کے دنیا پرست ہیں

غافل ہیں ذوقِ یار سے دنیا میں مست ہیں

مقصود اُن کا جینے سے دنیا کمانا ہے

مومن نہیں ہیں وہ کہ قدم فاسقانہ ہے

تم دیکھتے ہو کیسے دلوں پر ہیں اُن کے زنگ

دنیا ہی ہوگئی ہے غرض۔ دین سے آئے ننگ

وہ دیں ہی چیز کیا ہے کہ جو رہنما نہیں

ایسا خدا ہے اُس کا کہ گویا خدا نہیں

پھر اُس سے سچی راہ کی عظمت ہی کیا رہی

اور خاص وجہ صفوتِ ملّت ہی کیا رہی

نُور خدا کی اُس میں علامت ہی کیارہی

توحید خشک رہ گئی نعمت ہی کیا رہی

لوگو ! سنو! کہ زندہ خدا وہ خدا نہیں

جس میں ہمیشہ عادتِ قدرت نما نہیں

مُردہ پرست ہیں وہ جو قصہ پرست ہیں

پس اس لئے وہ موردِ ذِل و شکست ہیں

بن دیکھے دل کو دوستو پڑتی نہیں ہے کل

قصوں سے کیسے پاک ہو یہ نفس پُرخلل

کچھ کم نہیں یہودیوں میں یہ کہانیاں

پر دیکھو کیسے ہوگئے شیطاں سے ہم عناں

ہر دم نشانِ تازہ کا محتاج ہے بشر

قصوں کے معجزات کا ہوتا ہے کب اثر

کیونکر ملے فسانوں سے وہ دلبرِ ازل

گر اِک نشاں ہو ملتا ہے سب زندگی کا پھل

قصوں کا یہ اثر ہے کہ دل پُر فساد ہے

ایماں زباں پہ۔ سینہ میں حق سے عِناد ہے

دُنیاؔ کی حرص و آز میں یہ دل ہیں مرگئے

غفلت میں ساری عمر بسر اپنی کر گئے

اے سونے والو جاگو کہ وقتِ بہار ہے

اب دیکھو آکے درپہ ہمارے وہ یار ہے

کیا زندگی کا ذوق اگر وہ نہیں ملا

*** ہے ایسے جینے پہ گر اُس سے ہیں جُدا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 14

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 14

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/14/mode/1up


اُس رُخ کو دیکھنا ہی تو ہے اصل مدّعا

جنت بھی ہے یہی کہ ملے یارِ آشنا

اَے حُبِّ جاہ والو یہ رہنے کی جا نہیں

اِس میں تو پہلے لوگوں سے کوئی رہا نہیں

دیکھو تو جاکے اُن کے مقابر کو اِک نظر

سوچو کہ اب سلف ہیں تمہارے گئے کدھر

اِک دن وہی مقام تمہارا مقام ہے

اِک دن یہ صبح زندگی کی تم پہ شام ہے

اِک دن تمہارا لوگ جنازہ اُٹھائیں گے

پھر دفن کرکے گھر میں تاسّف سے آئیں گے

اے لوگو! عیشِ دنیا کو ہرگز وفا نہیں

کیا تم کو خوفِ مرگ و خیالِ فنا نہیں

سوچو کہ باپ دادے تمہارے کدھر گئے

کس نے بلا لیا وہ سبھی کیوں گذر گئے

وہ دن بھی ایک دن تمہیں یارو نصیب ہے

خوش مت رہو کہ کوچ کی نوبت قریب ہے

ڈھونڈو وہ راہ جس سے دل و سینہ پاک ہو

نفس دنی خدا کی اطاعت میں خاک ہو

ملتی نہیں عزیزو فقط قصوں سے یہ راہ

وہ روشنی نشانوں سے آتی ہے گاہ گاہ

وہ لغو دیں ہے جس میں فقط قصہ جات ہیں

اُن سے رہیں الگ جو سعید الصفات ہیں

صد حیف اِس زمانہ میں قصوں پہ ہے مدار

قصوں پہ سارا دیں کی سچائی کا اِنحصار

پر نقد معجزات کا کچھ بھی نشاں نہیں

پس یہ خدائے قِصّہ خدائے جہاں نہیں

دنیاؔ کو ایسے قِصّوں نے یکسر تبہ کیا

مُشرک بنا کے کُفر دیا روسیہ کیا

جس کو تلاش ہے کہ ملے اُس کو کردگار

اُس کے لئے حرام جو قصّوں پہ ہو نثار

اُس کا تو فرض ہے کہ وہ ڈھونڈے خدا کا نور

تا ہووے شک و شبہ سبھی اُس کے دِل سے دُور

تا اُس کے دل پہ نُورِ یقیں کانزول ہو

تا وہ جنابِ عزّوجل میں قبول ہو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 15

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 15

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/15/mode/1up


قِصّوں سے پاک ہونا کبھی کیا مجال ہے

سچ جانو یہ طریق سراسر محال ہے

قِصّوں سے کب نجات ملے ہے گناہ سے

ممکن نہیں وصالِ خدا ایسی راہ سے

مُردہ سے کب اُمید کہ وہ زندہ کرسکے

اُس سے تو خود محال کہ رہ بھی گذرسکے

وہ رہ جو ذاتِ عزّوجل کو دکھاتی ہے

وہ رہ جو دل کو پاک و مطہر بناتی ہے

وہ رہ جو یارِ گم شدہ کو ڈھونڈلاتی ہے

وہ رہ جو جامِ پاک یقین کا پلاتی ہے

وہ تازہ قدرتیں جو خدا پر دلیل ہیں

وہ زندہ طاقتیں جو یقیں کی سبیل ہیں

ظاہر ہے یہ کہ قصوں میں اُن کا اثر نہیں

افسانہ گو کو راہِ خدا کی خبر نہیں

اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی نشاں سے ہے

سچ ہے کہ سب ثبوت خدائی نشاں سے ہے

کوئی بتائے ہم کو کہ غیروں میں یہ کہاں

قصوں کی چاشنی میں حلاوت کا کیا نشاں

یہ ایسے مذہبوں میں کہاں ہے دکھایئے

ورنہ گزاف قصوں پہ ہرگز نہ جایئے

جب سے کہ قصے ہوگئے مقصود راہ میں

آگے قدم ہے قوم کا ہردم گناہ میں

تم دیکھتے ہو قوم میں عِفّت نہیں رہی

وہ صدق وہ صفا وہ طہارت نہیں رہی

مو ؔ من کے جو نشاں ہیں وہ حالت نہیں رہی

اُس یار بے نشاں کی محبت نہیں رہی

اِک سیل چل رہا ہے گناہوں کا زور سے

سنتے نہیں ہیں کچھ بھی معاصی کے شور سے

کیوں بڑھ گئے زمیں پہ بُرے کام اس قدر

کیوں ہوگئے عزیزو! یہ سب لوگ کور و کر

کیوں اب تمہارے دل میں وہ صدق و صفا نہیں

کیوں اس قدر ہے فسق کہ خوف و حیا نہیں

کیوں زندگی کی چال سبھی فاسقانہ ہے

کچھ اِک نظر کرو کہ یہ کیسا زمانہ ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 16

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 16

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/16/mode/1up


اِس کا سبب یہی ہے کہ غفلت ہی چھاگئی

دُنیائے دُوں کی دل میں محبت سما گئی

تقویٰ کے جامے جتنے تھے سب چاک ہوگئے

جتنے خیال دل میں تھے ناپاک ہوگئے

ہر دم کے خبث و فسق سے دل پر پڑے حجاب

آنکھوں سے اُن کی چھپ گیا ایماں کا آفتاب

جس کو خدائے عزوجل پر یقیں نہیں

اُس بدنصیب شخص کا کوئی بھی دیں نہیں

پر وہ سعید جوکہ نشانوں کو پاتے ہیں

وہ اُس سے مل کے دل کو اُسی سے ملاتے ہیں

وہ اُس کے ہوگئے ہیں اُسی سے وہ جیتے ہیں

ہر دم اُسی کے ہاتھ سے اِک جام پیتے ہیں

جس مَے کو پی لیا ہے وہ اُس مَے سے مَست ہیں

سب دشمن اُن کے اُن کے مقابل میں پَست ہیں

کچھ ایسے مست ہیں وہ رُخ خوب یار سے

ڈرتے کبھی نہیں ہیں وہ دشمن کے وار سے

اُن سے خدا کے کام سبھی معجزانہ ہیں

یہ اس لئے کہ عاشقِ یارِ یگانہ ہیں

اُن کو خدانے غیروں سے بخشی ہے امتیاز

اُن کے لئے نشاں کو دکھاتا ہے کارساز

جب دشمنوں کے ہاتھ سے وہ تنگ آتے ہیں

جب بدشعار لوگ اُنہیں کچھ ستاتے ہیں

جبؔ اُن کے مارنے کیلئے چال چلتے ہیں

جب اُن سے جنگ کرنے کو باہر نکلتے ہیں

تب وہ خدائے پاک نشاں کو دکھاتا ہے

غیروں پہ اپنا رُعب نشاں سے جماتا ہے

کہتا ہے یہ تو بندۂ عالی جناب ہے

مجھ سے لڑو اگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے

اُس ذاتِ پاک سے جو کوئی دل لگاتا ہے

آخر وہ اُس کے رحم کو ایسا ہی پاتا ہے

جن کو نشانِ حضرت باری ہوا نصیب

وہ اُس جنابِ پاک سے ہردم ہوئے قریب

کھینچے گئے کچھ ایسے کہ دنیا سے سو گئے

کچھ ایسا نور دیکھا کہ اُس کے ہی ہوگئے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 17

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 17

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/17/mode/1up


بِن دیکھے کیسے پاک ہو انساں گناہ سے

اِس چاہ سے نکلتے ہیں لوگ اُس کی چاہ سے

تصویر شیر سے نہ ڈرے کوئی گوسپند

نَے مار مُردہ سے ہے کچھ اندیشۂ گزند

پھر وہ خدا جو مُردہ کی مانند ہے پڑا

پس کیا امید ایسے سے اور خوف اُس سے کیا

ایسے خدا کے خوف سے دل کیسے پاک ہو

سینہ میں اُسکے عشق سے کیونکر تپاک ہو

بِن دیکھے کس طرح کسی مَہ رُخ پہ آئے دل

کیونکر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل

دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی

حُسن و جمالِ یار کے آثار ہی سہی

جب تک خدائے زندہ کی تم کو خبر نہیں

بے قید اور دلیر ہو کچھ دل میں ڈر نہیں

سَوروگ کی دوا یہی وصلِ الٰہی ہے

اِس قید میں ہر ایک گنہ سے رہائی ہے

پر جس خدا کے ہونے کا کچھ بھی نہیں نشاں

کیونکر نثار ایسے پہ ہو جائے کوئی جاں

ہر چیز میں خدا کی ضیا کا ظہور ہے

پر پھر بھی غافلوں سے وہ دلدار دور ہے

جو ؔ خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا

اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

عاشق جو ہیں وہ یار کومَرمَرکے پاتے ہیں

جب مرگئے تو اُسکی طرف کھینچے جاتے ہیں

یہ راہ تنگ ہے پہ یہی ایک راہ ہے

دلبر کی مرنے والوں پہ ہردم نگاہ ہے

ناپاک زندگی ہے جو دوری میں کٹ گئی

دیوار زُہد خشک کی آخر کوپَھٹ گئی

زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں

مقبول بن کے اُس کے عزیزو حبیب ہیں

وہ دُور ہیں خدا سے جو تقویٰ سے دُور ہیں

ہر دم اسیرِ نخوت و کبر و غرور ہیں

تقویٰ یہی ہے یارو کہ نخوت کو چھوڑ دو

کبر و غرور و بخل کی عادت کو چھوڑ دو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 18

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 18

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/18/mode/1up


اِس بے ثبات گھر کی محبت کو چھوڑ دو

اُس یار کے لئے رہِ عشرت کو چھوڑ دو

*** کی ہے یہ راہ سو *** کو چھوڑ دو

ورنہ خیالِ حضرتِ عزّت کو چھوڑ دو

تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول

تاتم پہ ہو ملائکہء عرش کا نزول

اسلام چیز کیا ہے خدا کیلئے فنا

ترکِ رضائے خویش پئے مرضیء خدا

جو مرگئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات

اِس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجزممات

شوخی و کبر دیو لعیں کا شعار ہے

آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے

اے کرمِ خاک چھوڑ دے کبروغرور کو

زیبا ہے کبر حضرتِ ربِّ غیور کو

بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے

ہو جاؤ خاک مرضئ مولیٰ اِسی میں ہے

تقوؔ یٰ کی جڑ خدا کے لئے خاکساری ہے

عفّت جو شرط دیں ہے وہ تقویٰ میں ساری ہے

جو لوگ بدگمانی کو شیوہ بناتے ہیں

تقویٰ کی راہ سے وہ بہت دُور جاتے ہیں

بے احتیاط اُن کی زباں وار کرتی ہے

اِک دم میں اُس علیم کو بیزار کرتی ہے

اِک بات کہہ کے اپنے عمل سارے کھوتے ہیں

پھر شوخیوں کا بیج ہر اک وقت بوتے ہیں

کچھ ایسے سوگئے ہیں ہمارے یہ ہم وطن

اُٹھتے نہیں ہیں ہم نے تو سوسوکئے جتن

سب عضو سست ہوگئے غفلت ہی چھاگئی

قوت تمام نوکِ زباں میں ہی آگئی

یا بدزباں دکھاتے ہیں یا ہیں وہ بدگماں

باقی خبر نہیں ہے کہ اسلام ہے کہاں

تم دیکھ کر بھی بدکو بچو بدگمان سے

ڈرتے رہو عقابِ خدائے جہان سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 19

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 19

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/19/mode/1up


شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا

شاید وہ بد نہ ہو جو تمہیں ہے وہ بدنما

شاید تمہاری فہم کا ہی کچھ قصور ہو

شاید وہ آزمائشِ ربِّ غفور ہو

پھر تم تو بدگمانی سے اپنی ہوئے ہلاک

خود سرپہ اپنے لے لیا خشمِ خدائے پاک

گر ایسے تم دلیریوں میں بے حیا ہوئے

پھر اِتّقا کے سوچو کہ معنے ہی کیا ہوئے

موسیٰ بھی بدگمانی سے شرمندہ ہوگیا

قرآں میں خضر نے جو کیا تھا پڑھو ذرا

بندوں میں اپنے بھید خدا کے ہیں صد ہزار

تم کو نہ علم ہے نہ حقیقت ہے آشکار

پس تم تو ایک بات کے کہنے سے مرگئے

یہ کیسی عقل تھی کہ براہِ خطر گئے

بدبخت تر تمام جہاں سے وہی ہوا

جو ایک بات کہہ کے ہی دوزخ میں جاگرا

پسؔ تم بچاؤ اپنی زباں کو فساد سے

ڈرتے رہو عقوبت ربّ العباد سے

دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا

سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا

وہ اِک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا

یہ ہے حدیث سیّدنا سیّد الورٰی

پر وہ جو مجھ کو کاذب و مکّار کہتے ہیں

اور مفتری و کافر و بدکار کہتے ہیں

اُن کیلئے تو بس ہے خدا کا یہی نشاں

یعنی وہ فضل اُس کے جو مجھ پر ہیں ہرزماں

دیکھو خدا نے ایک جہاں کو جھکا دیا

گمنام پاکے شہرۂ عالم بنا دیا

جو کچھ مری مراد تھی سب کچھ دکھا دیا

میں اِک غریب تھا مجھے بے انتہا دیا

دنیا کی نعمتوں سے کوئی بھی نہیں رہی

جو اُس نے مجھ کو اپنی عنایات سے نہ دی

ایسے بدوں سے اُس کے ہوں ایسے معاملات

کیا یہ نہیں کرامت و عادت سے بڑھ کے بات



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 20

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 20

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/20/mode/1up


جو مفتری ہے اُس سے یہ کیوں اتحاد ہے

کس کو نظیر ایسی عنایت کی یاد ہے

مجھ پر ہر اک نے وار کیا اپنے رنگ میں

آخر ذلیل ہوگئے انجامِ جنگ میں

اِن کینوں میں کسی کو بھی ارماں نہیں رہا

سب کی مراد تھی کہ میں دیکھوں رہِ فنا

تھے چاہتے کہ مجھ کو دکھائیں عدم کی راہ

یا حاکموں سے پھانسی دلا کر کریں تباہ

یا کم سے کم یہ ہو کہ میں زنداں میں جاپڑوں

یا یہ کہ ذلتوں سے میں ہو جاؤں سرنگوں

یا مخبری سے ان کی کوئی اَور ہی بلا

آجائے مجھ پہ یا کوئی مقبول ہو دُعا

پس ایسے ہی ارادوں سے کرکے مقدمات

چاہا گیا کہ دن مرا ہوجائے مجھ پہ رات

کوؔ شش بھی وہ ہوئی کہ جہاں میں نہ ہو کبھی

پھر اتفاق وہ کہ زماں میں نہ ہو کبھی

مجھ کو ہلاک کرنے کو سب ایک ہوگئے

سمجھا گیا میں بدپہ وہ سب نیک ہوگئے

آخر کو وہ خدا جو کریم و قدیر ہے

جو عالم القلوب و علیم و خبیر ہے

اُترا مری مدد کیلئے کرکے عہد یاد

پس رہ گئے وہ سارے سیہ رُوئے و نامراد

کچھ ایسا فضل حضرتِ ربّ الوریٰ ہوا

سب دشمنوں کے دیکھ کے اوساں ہوئے خطا

اِک قطرہ اُس کے فضل نے دریا بنا دیا

میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا

میں تھا غریب و بیکس و گمنام و بے ہنر

کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر

لوگوں کی اِس طرف کو ذرا بھی نظر نہ تھی

میرے وجود کی بھی کسی کو خبر نہ تھی

اب دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا

اِک مرجع خواص یہی قادیاں ہوا

پر پھر بھی جن کی آنکھ تعصب سے بند ہے

اُن کی نظر میں حال مرا ناپسند ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 21

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 21

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/21/mode/1up


میں مفتری ہوں اُن کی نگاہ و خیال میں

دنیا کی خیر ہے مری موت و زوال میں

*** ہے مفتری پہ خدا کی کتاب میں

عزّت نہیں ہے ذرّہ بھی اُس کی جناب میں

توریت میں بھی نیز کلام مجید میں

لکھا گیا ہے رنگِ وعیدِ شدید میں

کوئی اگر خدا پہ کرے کچھ بھی افترا

ہوگا وہ قتل ہے یہی اِس جرم کی سزا

پھر یہ عجیب غفلت ربِّ قدیر ہے

دیکھے ہے ایک کو کہ وہ ایسا شریر ہے

پچیس سال سے ہے وہ مشغولِ افترا

ہر دن ہر ایک رات یہی کام ہے رہا

ہرؔ روز اپنے دل سے بناتا ہے ایک بات

کہتا ہے یہ خدا نے کہا مجھ کو آج رات

پھر بھی وہ ایسے شوخ کو دیتا نہیں سزا

گویا نہیں ہے یاد جو پہلے سے کہہ چکا

پھر یہ عجیب تر ہے کہ جب حامیانِ دیں

ایسے کے قتل کرنے کو فاعل ہوں یامعیں

کرتا نہیں ہے اُن کی مدد وقتِ انتظام

تا مفتری کے قتل سے قصہ ہی ہو تمام

اپنا تو اُس کا وعدہ رہا سارا طاق پر

اوروں کی سعی و جہد پہ بھی کچھ نہیں نظر

کیاوہ خدا نہیں ہے جو فرقاں کا ہے خدا

پھر کیوں وہ مفتری سے کرے اسقدر وفا

آخر یہ بات کیا ہے کہ ہے ایک مفتری

کرتا ہے ہر مقام میں اُس کو خدا بَری

جب دشمن اُسکوپیچ میں کوشش سے لاتے ہیں

کوشش بھی اسقدر کہ وہ بس مر ہی جاتے ہیں

اِک اتفاق کرکے وہ باتیں بناتے ہیں

سو جھوٹ اور فریب کی تہمت لگاتے ہیں

پھر بھی وہ نامراد مقاصد میں رہتے ہیں

جاتا ہے بے اثر وہ جو سو بار کہتے ہیں

ذلّت ہیں چاہتے۔ یہاں اِکرام ہوتا ہے

کیا مفتری کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 22

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 22

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/22/mode/1up


اے قوم کے سرآمدہ اے حامیانِ دیں

سوچو کہ کیوں خدا تمہیں دیتا مدد نہیں

تم میں نہ رحم ہے نہ عدالت نہ اتّقا

پس اس سبب سے ساتھ تمہارے نہیں خدا

ہوگا تمہیں کلارک کا بھی وقت خوب یاد

جب مجھ پہ کی تھی تہمت خوں ازرہِ فساد

جب آپ لوگ اُس سے ملے تھے بدیں خیال

تا آپ کی مدد سے اُسے سہل ہو جدال

پر وہ خدا جو عاجز و مسکیں کا ہے خدا

حاکم کے دل کو میری طرف اُس نے کردیا

تمؔ نے تو مجھ کو قتل کرانے کی ٹھانی تھی

یہ بات اپنے دل میں بہت سہل جانی تھی

تھے چاہتے صلیب پہ یہ شخص کھینچا جائے

تاتم کو ایک فخر سے یہ بات ہاتھ آئے

جھوٹا تھا مفتری تھا تبھی یہ ملی سزا

آخر مری مدد کیلئے خود اُٹھا خدا

ڈگلس پہ سارا حال بریّت کا کھل گیا

عزت کے ساتھ تب میں وہاں سے بَری ہوا

الزام مجھ پہ قتل کا تھا سخت تھا یہ کام

تھا ایک پادری کی طرف سے یہ اتّہام

جتنے گواہ تھے وہ تھے سب میرے برخلاف

اِک مولوی بھی تھا جو یہی مارتا تھا لاف

دیکھو یہ شخص اب تو سزا اپنی پائے گا

اب بن سزائے سخت یہ بچ کر نہ جائے گا

اتنی شہادتیں ہیں کہ اب کھل گیا قصور

اب قیدیا صلیب ہے اک بات ہے ضرور

بعضوں کو بددُعا میں بھی تھا ایک انہماک

اِتنی دُعا کہ گھس گئی سجدے میں اُن کی ناک

القصّہ جہد کی نہ رہی کچھ بھی انتہا

اِک سُو تھا مگر ایک طرف سجدہ و دُعا

آخر خدا نے دی مجھے اُس آگ سے نجات

دُشمن تھے جتنے اُن کی طرف کی نہ التفات

کیسا یہ فضل اُس سے نمودار ہوگیا

اِک مفتری کا وہ بھی مددگار ہوگیا

اُس کا تو فرض تھا کہ وہ وعدہ کو کرکے یاد

خود مارتا وہ گردنِ کذّاب بدنہاد



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 23

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 23

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/23/mode/1up


گر اُس سے رہ گیا تھا کہ وہ خود دکھائے ہاتھ

اتنا تو سہل تھا کہ تمہارا بٹائے ہاتھ

یہ بات کیا ہوئی کہ وہ تم سے الگ رہا

کچھ بھی مدد نہ کی نہ سنی کوئی بھی دُعا

جو مفتری تھا اُس کو تو آزاد کردیا

سب کام اپنی قوم کا برباد کردیا

سبؔ جدوجہد وسعی اکارت چلی گئی

کوشش تھی جس قدر وہ بغارت چلی گئی

کیا ’’راستی کی فتح‘‘ نہیں وعدہ ء خدا

دیکھو تو کھول کر سخنِ پاک کبریا

پھر کیوں یہ بات میری ہی نسبت پلٹ گئی

یا خود تمہاری چادرِ تقویٰ ہی پھٹ گئی

کیا یہ عجب نہیں ہے کہ جب تم ہی یار ہو

پھر میرے فائدہ کا ہی سب کاروبار ہو

پھر یہ نہیں کہ ہوگئی ہے صرف ایک بات

پاتا ہوں ہر قدم میں خدا کے تفضلات

دیکھو وہ بھیں کا شخص کرم دیں ہے جس کا نام

لڑنے میں جس نے نیند بھی اپنے پہ کی حرام

جس کی مدد کے واسطے لوگوں میں جوش تھا

جس کا ہر ایک دشمنِ حق عیب پوش تھا

جس کا رفیق ہوگیا ہر ظالم و غوی

جس کی مدد کے واسطے آئے تھے مولوی

اُن میں سے ایسے تھے کہ جو بڑھ بڑھ کے آتے تھے

اپنا بیاں لکھانے میں کرتب دکھاتے تھے

ہشیاری مستغیث بھی اپنی دکھاتا تھا

سو سو خلاف واقعہ باتیں بناتا تھا

پر اپنے بدعمل کی سزا کو وہ پاگیا

ساتھ اُس کے یہ کہ نام بھی کاذب رکھا گیا

کذّاب نام اس کا دفاتر میں رہ گیا

چالاکیوں کا فخر جو رکھتا تھا بہ گیا

اے ہوش و عقل والو یہ عبرت کا ہے مقام

چالاکیاں تو ہیچ ہیں تقویٰ سے ہوویں کام

جو متقی ہے اُس کا خدا خود نصیر ہے

انجام فاسقوں کا عذاب سعیر ہے

جڑ ہے ہر ایک خیروسعادت کی اتّقا

جس کی یہ جڑ رہی ہے عمل اُس کا سب رہا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 24

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 24

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/24/mode/1up


مومن ہی فتح پاتے ہیں انجام کار میں

ایسا ہی پاؤگے سخنِ کردگار میں

کوئیؔ بھی مفتری ہمیں دنیا میں اب دکھا

جس پر یہ فضل ہو یہ عنایات یہ عطا

اِس بدعمل کی قتل سزا ہے نہ یہ کہ پیت

پس کس طرح خدا کو پسند آگئی یہ ریت

کیا تھا یہی معاملہ پاداشِ اِفترا

کیا مفتری کے بارے میں وعدہ یہی ہوا

کیوں ایک مفتری کا وہ ایسا ہے آشنا

یا بے خبر ہے عیب سے دھوکے میں آگیا

آخر کوئی تو بات ہے جس سے ہوا وہ یار

بدکار سے تو کوئی بھی کرتا نہیں ہے پیار

تم بدبنا کے پھر بھی گرفتار ہوگئے

یہ بھی تو ہیں نشاں جو نمودار ہوگئے

تاہم وہ دوسرے بھی نشاں ہیں ہمارے پاس

لکھتے ہیں اب خدا کی عنایت سے بے ہراس

جس دل میں رچ گیا ہے محبت سے اُس کا نام

وہ خود نشاں ہے نیز نشاں سارے اس کے کام

کیا کیا نہ ہم نے نام رکھائے زمانہ سے

مُردوں سے نیز فرقہء ناداں زنانہ سے

اُس کے گمان میں ہم بدوبدحال ہوگئے

اُن کی نظر میں کافر و دجّال ہوگئے

ہم مفتری بھی بن گئے اُن کی نگاہ میں

بے دیں ہوئے فساد کیا حق کی راہ میں

پر ایسے کفر پر تو فدا ہے ہماری جاں

جس سے ملے خدائے جہان وجہانیاں

*** ہے ایسے دیں پہ کہ اس کفر سے ہے کم

سَوشکر ہے کہ ہوگئے غالب کے یار ہم

ہوتا ہے کردگار اسی رہ سے دستگیر

کیاجانے قدر اس کا جو قصوں میں ہے اسیر

وحی خدا اِسی رہِ فرّخ سے پاتے ہیں

دلبر کا بانکپن بھی اسی سے دکھاتے ہیں

اے مدعی نہیں ہے تیرے ساتھ کردگار

یہ کفر تیرے دیں سے ہے بہتر ہزار بار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 25

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 25

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/25/mode/1up


ہزار ہزار شکر اُس خداوند کریم کا ہے جس نے ایسا مذہب ہمیں عطا فرمایا جو خدادانی اور خدا ترسی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی نظیر کبھی اور کسی زمانہ میں نہیں پائی گئی۔ اور ہزارہادروداُس نبی معصوم پر جس کے وسیلہ سے ہم اس پاک مذہب میں داخل ہوئے ۔ اور ہزارہا رحمتیں نبی کریم کے اصحاب پر ہوں جنہوں نے اپنے خونوں سے اِس باغ کی آب پاشی کی۔

اسلام ایک ایسا بابرکت اور خدا نما مذہب ہے کہ اگرکوئی شخص سچے طور پر اس کی پابندی اختیار کرے اور ان تعلیموں اور ہدایتوں اور وصیتوں پر کاربند ہو جائے جو خدائے تعالیٰ کے پاک کلام قرآن شریف میں مندرج ہیں تو وہ اسی جہان میں خدا کو دیکھ لے گا۔ وہ خدا جو دنیا کی نظر سے ہزاروں پردوں میں ہے اس کی شناخت کیلئے بجز قرآنی تعلیم کے اور کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ قرآن شریف معقولی رنگ میں اور آسمانی نشانوں کے رنگ میں نہایت سہل اور آسان طریق سے خدائے تعالیٰ کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اور اس میں ایک برکت اور قوتِ جاذبہ ہے جو خدا کے طالب کو دمبدم خدا کی طرف کھینچتی اور روشنی اور سکینت اوراطمینان بخشتی ہے اورقرآن شریف پر سچا ایمان لانے والا صرف فلسفیوں کی طرح یہ ظن نہیں رکھتا کہ اس پُر حکمت عالم کا بنانے والا کوئی ہونا چاہیے بلکہ وہ ایک ذاتی بصیرت حاصل کرکے اور ایک پاک رؤیت سے مشرف ہوکر یقین کی آنکھ سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 26

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 26

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/26/mode/1up


دیکھؔ لیتا ہے کہ فی الواقع وہ صانع موجود ہے اور اس پاک کلام کی روشنی حاصل کرنے والا محض خشک معقولیوں کی طرح یہ گمان نہیں رکھتا کہ خدا واحد لاشریک ہے بلکہ صدہا چمکتے ہوئے نشانوں کے ساتھ جو اُس کا ہاتھ پکڑ کر ظلمت سے نکالتے ہیں واقعی طور پر مشاہدہ کرلیتا ہے کہ درحقیقت ذات اور صفات میں خدا کا کوئی بھی شریک نہیں اورنہ صرف اس قدر بلکہ وہ عملی طور پر دنیا کو دکھا دیتا ہے کہ وہ ایساہی خدا کو سمجھتا ہے اوروحدتِ الٰہی کی عظمت ایسی اس کے دل میں سما جاتی ہے کہ وہ الٰہی ارادہ کے آگے تمام دنیا کو ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح بلکہ مطلق لَاشَے اورسراسر کالعدم سمجھتا ہے۔

انسانی فطرت ایک ایسے درخت کی طرح واقع ہے جس کے ایک حصہ کی شاخیں نجاست اور پیشاب کے گڑھے میں غرق ہیں اور دوسرے حصے کی شاخیں ایک ایسے حوض میں پڑتی ہیں جو کیوڑہ اور گلاب اور دوسری لطیف خوشبوؤں سے پُر ہے اور ہر ایک حصے کی طرف سے جب کوئی ہوا چلتی ہے تو بدبو یاخوشبو کو جیسی کہ صورت ہو پھیلا دیتی ہے۔ اِسی طرح نفسانی جذبات کی ہوا بدبو ظاہر کرتی ہے اور رحمانی نفحات کی ہوا پوشیدہ خوشبو کو پیرایۂ ظہور و بروز پہناتی ہے۔ پس اگر رحمانی ہوا کے چلنے میں جو آسمان سے اُترتی ہے روک ہو جائے تو انسان نفسانی جذبات کی تندو تیز ہواؤں کے ہر طرف سے طمانچے کھاکر اور اُن کی بدبوؤں کے نیچے دب کر ایسا خدائے تعالیٰ سے منہ پھیر لیتاہے کہ شیطان مجسم بن جاتا ہے اور اسفل السافلین میں گرایا جاتا ہے اور کوئی نیکی اُس کے اندر نہیں رہتی اور کفر اور معصیت اور فسق و فجور اور تمام رذائل کے زہروں سے آخر ہلاک ہو جاتا ہے اور زندگی اُس کی جہنمی ہوتی ہے اور آخر مرنے کے بعد جہنم میں گرتا ہے اور اگر خدائے تعالیٰ کا فضل دستگیر ہو اور نفحاتِ الٰہیہ اُس کے صاف اور معطّر کرنے کے لئے آسمان سے چلیں اور اُس کی رُوح کو اپنی خاص تربیت سے دمبدم نورانیت اور تازگی اور پاک طاقت بخشیں تو وہ طاقت بالا سے قوت پاکر اس قدر اوپر کی طرف کھینچا جاتا ہے کہ فرشتوں کے مقام سے بھی اوپر گذر جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 27

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 27

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/27/mode/1up


انسان میں نیچےؔ گرنے کا بھی مادہ ہے اور اوپر اُٹھائے جانے کا بھی ۔ اور کسی نے اس بارے میں سچ کہا ہے۔

حضرتِ انساں کہ حدِّ مشترک راجا مع است


می تواند شد مسیحا مے تواند خرشدن

لیکن اس جگہ مشکل یہ ہے کہ نیچے جانا انسان کے لئے سہل امر ہے گویا ایک طبعی امر ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو ایک پتھر اوپر کو بہت مشکل سے جاتا ہے اور کسی دوسرے کے زور کامحتاج ہے لیکن نیچے کی طرف خود بخود گر جاتا ہے اور کسی کے زور کا محتاج نہیں۔ پس انسان اوپر جانے کے لئے ایک زور آو ر ہاتھ کا محتاج ہے۔ اِسی حاجت نے سلسلہ انبیاء اور کلام الٰہی کی ضرورت ثابت کی ہے۔ اگرچہ دنیا کے لوگ سچے مذہب کے پرکھنے کے معاملہ میں ہزارہا پیچ در پیچ مباحثات میں پڑ گئے ہیں اور پھر بھی کسی منزل مقصود تک نہیں پہنچے لیکن سچ بات یہ ہے کہ جومذہب انسانی نابینائی کے دُور کرنے اور آسمانی برکات کے عطا کرنے کیلئے اس حد تک کامیاب ہوسکے جو اس کے پیروکی عملی زندگی میں خدا کی ہستی کا اقرار اورنوع انسان کی ہمدردی کا ثبوت نمایاں ہو وہی مذہب سچا ہے اور وہی ہے جو اپنے سچے پابند کو اس منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے جس کی اُس کی رُوح کو پیاس لگادی گئی ہے۔ اکثر لوگ صرف ایسے فرضی خدا پر ایمان لاتے ہیں جس کی قدرتیں آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں اور جس کی سکتی اور طاقت صرف قصوں اور کہانیوں کے پیرایہ میں بیان کی جاتی ہے۔ پس یہی سبب ہوتا ہے کہ ایسا فرضی خدا اُن کو گناہ سے روک نہیں سکتا بلکہ ایسے مذہب کی پیروی میں جیسے جیسے اُن کا تعصب بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے فسق و فجور پر شوخی اور دلیری زیادہ پیدا ہوتی جاتی ہے اور نفسانی جذبات ایسی تیزی میں آتے ہیں کہ جیسے ایک دریا کا بند ٹوٹ کر ارد گرد پانی اُس کا پھیل جاتاہے اور کئی گھروں اور کھیتوں کو تباہ کر دیتاہے۔ وہ زندہ خدا جو قادرانہ نشانوں کے شعاع اپنے ساتھ رکھتا ہے اور اپنی ہستی کو تازہ بتازہ معجزات اور طاقتوں سے ثابت کرتا رہتا ہے وہی ہے جس کاپانا اور دریافت کرنا گناہ سے روکتا ہے اور سچی سکینت اور شانتی اور تسلی بخشتا ہے اور استقامت اور دلی بہادری کو عطا فرماتا ہے۔ وہ آگ بن کر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 28

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 28

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/28/mode/1up


گناہوں کو جلا دیتا ہے اور پانی بن کر دنیا پرستی کی خواہشوں کو دھو ڈالتا ہے مذہب اسی کا نام ہے جو اُسؔ کو تلاش کریں اور تلاش میں دیوانہ بن جائیں۔

یاد رہے کہ محض خشک جھگڑے اور سب وشتم اور سخت گوئی اور بدزبانی جو نفسانیت کی بنا پر مذہب کے نام پر ظاہر کی جاتی ہے۔ اور اپنی اندرونی بدکاریوں کو دُور نہیں کیا جاتا اور اس محبوب حقیقی سے سچا تعلق پیدا نہیں کیا جاتا اور ایک فریق دوسرے فریق پر نہ انسانیت سے بلکہ کتوں کی طرح حملہ کرتا ہے اور مذہبی حمایت کی اوٹ میں ہر ایک قسم کی نفسانی بدذاتی دکھلاتا ہے کہ یہ گندہ طریق جو سراسر استخوان ہے اس لائق نہیں کہ اس کا نام مذہب رکھا جائے۔ افسوس ایسے لوگ نہیں جانتے کہ ہم دنیا میں کیوں آئے۔ اور اصل اور بڑا مقصود ہمارا اس مختصر زندگی سے کیا ہے بلکہ وہ ہمیشہ اندھے اور ناپاک فطرت رہ کر صرف متعصبانہ جذبات کا نام مذہب رکھتے ہیں اور ایسے فرضی خدا کی حمایت میں دنیا میں بداخلاقی دکھلاتے اور زبان درازیاں کرتے ہیں جس کے وجود کا اُن کے پاس کچھ بھی ثبوت نہیں۔ وہ مذہب کس کام کا مذہب ہے جو زندہ خدا کا پرستار نہیں بلکہ ایسا خدا ایک مُردے کا جنازہ ہے جو صرف دوسروں کے سہارے سے چل رہا ہے سہارا الگ ہوا اور وہ زمین پر گرا۔ ایسے مذہب سے اگر ان کو کچھ حاصل ہے تو صرف تعصب اور حقیقی خدا ترسی اور نوع انسان کی سچی ہمدردی جو افضل الخصائل ہے۔ بالکل اُن کی فطرت سے مفقود ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسے شخص کا اُن سے مقابلہ پڑے جو اُن کے مذہب اور عقیدے کا مخالف ہو تو فقط اسی قدر مخالفت کو دل میں رکھ کر اُس کی جان اور مال اور عزّت کے دشمن ہو جاتے ہیں اور اگر ان کے متعلق کسی غیر قوم کے شخص کا کام پڑ جائے تو انصاف اور خدا ترسی کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہیں کہ اس کو بالکل نابود کردیں اوروہ رحم اور انصاف اور ہمدردی جو انسانی فطرت کی اعلیٰ فضیلت ہے بالکل اُن کے طبائع سے مفقود ہو جاتی ہے اور تعصب کے جوش سے ایک ناپاک درندگی اُن کے اندر سما جاتی ہے اور نہیں جانتے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 29

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 29

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/29/mode/1up


کہ اصل غرض مذہب سے کیا ہے۔ اصل بدخواہ مذہب اور قوم کے وہی بدکردار لوگ ہوتے ہیں جو حقیقت اور سچی معرفت اور سچی پاکیزگی کی کچھ پروا نہیں رکھتے اور صرف نفسانی جوشوں کا نام مذہب رکھتے ہیں۔ تمام وقت فضول لڑائی جھگڑؔ وں اور گندی باتوں میں صرف کرتے ہیں اور جو وقت خدا کے ساتھ خلوت میں خرچ کرنا چاہیئے وہ خواب میں بھی اُن کو میسر نہیں ہوتا۔ بزرگوں کی نندیا تحقیر توہین ان کا کام ہوتا ہے اور خود اندر اُن کا نفسانی غلاظتوں سے اس قدر بھرا ہوا ہوتا ہے جیسا کہ سنڈ اس نجاست سے۔ زبان پر بک بک بہت مگر دل خدا سے دُور اور دنیا کے گندوں میں غرق پھر مصلح قوم ہونے کا دعویٰ۔

ع خفتہ را خفتہ کے کند بیدار

ایسے آدمی نہ خوف زدہ دل سے کسی کی بات سن سکتے ہیں نہ تحمل سے جواب دے سکتے ہیں۔ اُن کے نزدیک تمام اسلام نشانۂ اعتراضات ہے کوئی بات بھی اچھی نہیں اور عجیب تر یہ کہ وہ اس حالت پر خوش ہوتے ہیں اور کسی دوسری قوم کے انسان پر کوئی موذیانہ ہاتھ ڈال کر خیال کرتے ہیں کہ ہم نے بہت ثواب کا کام کیا ہے یا بڑی ہمت اور جوانمردی دکھلائی ہے لیکن افسوس کہ اس زمانہ میں اکثر قومیں اسی تعصب کا نام مذہب خیال کرتی ہیں۔ اور ہم اس خراب عادت سے عام مسلمانوں کو بھی باہر نہیں رکھتے ۔ پس وہ خدا کے نزدیک زیادہ مؤاخذہ کے لائق ہیں کیونکہ ان کو وہ دین دیا گیا تھا جس کا نام اسلام ہے جس کے معنے خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں خود ظاہر فرمائے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا۔33 ۱؂۔ یعنی اسلام کے دو ٹکڑے ہیں ۔ایک یہ کہ خدا کی رضا میں ایسا محو ہوجانا کہ اپنی رضا چھوڑ کر اُس کی رضا جوئی کیلئے اُس کے آستانہ پر سر رکھ دینا اور دوسر۲ے عام طورپر تمام بنی نوع سے نیکی کرنا۔ پس یہ دین کیسا پیارا اور نیک اور پاک اصولوں پر مبنی تھا جس کی تعلیموں سے وہ بہت دُور پڑ گئے۔ اور یہ تباہی اُس وقت پیدا ہوئی جبکہ قرآن شریف کی تعلیم سے عمداً یا غلطی سے اعراض



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 30

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 30

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/30/mode/1up


کیا گیا کیونکہ اعراض خواہ صوری ہو یا معنوی فیض الٰہی سے محروم کردیتا ہے۔ اور اس جگہ ہماری مراد اعراض صوری سے یہ ہے کہ ایک شخص خدائے تعالیٰ کے کلام سے بالکل منکر ہو۔ اور اعراض معنوی سے یہ مراد ہے کہ بظاہر منکر تو نہ ہو لیکن رسم اور عادت اور نفسانی اغراض اور اقوال غیر کے نیچے دب کر ایسا ہو جائے کہ خدائے تعالیٰ کے کلام کی کچھ پرواہ نہ کرے۔

غرض یہ دو خبیث مرضیں ہیں جن سے بچنے کیلئے سچے مذہب کی پیروی کی ضرورت ہے۔ یعنیؔ اوّل یہ مرض کہ خدا کو واحد لا شریک اور متصف بہ تمام صفات کاملہ اور قدرت تامہ قبول نہ کرکے اس کے حقوقِ واجبہ سے منہ پھیر نا اور ایک نمک حرام انسان کی طرح اُس کے اُن فیوض سے انکار کرنا جو جان اور بدن کے ذرّہ ذرّہ کے شامل حال ہیں۔ دوسرے یہ کہ بنی نوع کے حقوق کی بجاآوری میں کوتاہی کرنا۔ اور ہر ایک شخص جو اپنے مذہب اور قوم سے الگ ہو یا اُس کامخالف ہو اس کی ایذا کیلئے ایک زہریلے سانپ کی طرح بن جانااور تمام انسانی حقوق کو یک دفعہ تلف کر دینا۔ ایسے انسان درحقیقت مردہ ہیں اور زندہ خدا سے بے خبر۔ زندہ ایمان لانا ہرگز ممکن نہیں جب تک انسان زندہ خدا کی تجلیات اور آیات عظیمہ سے فیضیاب نہ ہو۔ یوں تو بجز دہریہ لوگوں کے تمام دنیا کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کے وجود کی قائل ہے مگر چونکہ وہ قائل ہونا صرف اپنا خود تر اشیدہ خیال ہے اور زندہ خدا کی اپنی ذاتی تجلی سے نہیں ہے اس لئے ایسے خیال سے زندہ ایمان حاصل نہیں ہوسکتا۔ جب تک خدائے تعالیٰ کی طرف سے انا الموجودکی آواز زور دار طاقتوں کے ساتھ معجزانہ رنگ میں اور خارق عادت کے طورپر سنائی نہ دے اور فعلی طور پر اس کے ساتھ دوسرے زبردست نشان نہ ہوں اُس وقت تک اُس زندہ خدا پر ایمان آنہیں سکتا۔ ایسے لوگ محض سنی سنائی باتوں کا نام خدا یا پرمیشر رکھتے ہیں اور صرف گلے پڑا ڈھول بجا رہے ہیں اور اپنی شناسائی کی حد سے زیادہ لاف و گزاف اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 31

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 31

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/31/mode/1up


حقیقی خدادانی تمام اسی میں منحصر ہے کہ اس زندہ خدا تک رسائی ہو جائے کہ جو اپنے مقرب انسانوں سے نہایت صفائی سے ہم کلام ہوتا ہے اور اپنی پُر شوکت اور لذیذ کلام سے اُن کو تسلی اور سکینت بخشتا ہے اور جس طرح ایک انسان دوسرے انسان سے بولتا ہے ایسا ہی یقینی طور پر جو بکلی شک و شبہ سے پاک ہے اُن سے باتیں کرتاہے اُن کی بات سنتا ہے اور اُس کا جواب دیتاہے اور اُن کی دعاؤں کو سن کر دُعا کے قبول کرنے سے اُن کو اطلاع بخشتا ہے اور ایک طرف لذیذ اور پُرشوکت قول سے اور دوسری طرف معجزانہ فعل سے اور اپنے قوی اور زبردست نشانوں سے اُن پر ثابت کر دیتا ہے کہ میں ہی خدا ہوں۔ وہ اوّل پیشگوئی کے طورؔ پر اُن سے اپنی حمایت اور نصرت اور خاص طور کی دستگیری کے وعدے کرتا ہے اور پھر دوسری طرف اپنے وعدوں کی عظمت بڑھانے کیلئے ایک دنیا کو اُن کے مخالف کر دیتا ہے۔ اور وہ لوگ اپنی تمام طاقت اور تمام مکرو فریب اور ہر ایک قسم کے منصوبوں سے کوشش کرتے ہیں کہ خدا کے اُن وعدوں کو ٹال دیں جو اُس کے ان مقبول بندوں کی حمایت اور نصرت اور غلبہ کے بارے میں ہیں اور خدا ان تمام کوششوں کو برباد کرتا ہے۔ وہ شرارت کی تخم ریزی کرتے ہیں اور خدا اس کی جڑ باہر پھینکتا ہے ۔ وہ آگ لگاتے ہیں اور خدا اُس کو بجھا دیتا ہے۔ وہ ناخنوں تک زور لگاتے ہیں آخر خدا اُن کے منصوبوں کو اُنہی پر اُلٹا کر مارتا ہے خدا کے مقبول اور راستباز نہایت سیدھے اور سادہ طبع اور خدا تعالیٰ کے سامنے اُن بچوں کی طرح ہوتے ہیں جو ماں کی گود میں ہوں اور دنیا اُن سے دشمنی کرتی ہے کیونکہ وہ دنیا میں سے نہیں ہوتے اور طرح طرح کے مکر اور فریب اُن کی بیخ کنی کیلئے کئے جاتے ہیں۔ قومیں اُن کے ایذا دینے کیلئے متفق ہو جاتی ہیں اور تمام نااہل لوگ ایک ہی کمان سے اُن کی طرف تیر چلاتے ہیں۔ اور طرح طرح کے افترا اور تہمتیں لگائی جاتی ہیں تا کسی طرح وہ ہلاک ہو جائیں اور اُن کا نشان نہ رہے مگر آخر خدائے تعالیٰ اپنی باتوں کو پوری کرکے دکھلا دیتا ہے۔ اِسی طرح اُن کی زندگی میں یہ معاملہ ان سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 32

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 32

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/32/mode/1up


جاری رہتا ہے کہ ایک طرف وہ مکالماتِ صحیحہ واضحہ یقینیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں اور امور غیبیہ جن کا علم انسانوں کی طاقت سے باہر ہے اُن پر خدائے کریم و قدیر اپنے صریح کلام کے ذریعہ سے منکشف کرتا رہتا ہے اور دوسری طرف معجزانہ افعال سے جو اُن اقوال کو سچ کرکے دکھلاتے ہیں اُن کے یقین کو33کیا جاتا ہے۔ اور جس قدر انسان کی طبیعت تقاضا کرتی ہے کہ خدا کی یقینی شناخت کے لئے اس قدر معرفت چاہیئے وہ معرفت قولی اور فعلی تجلّی سے پوری کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک ذرّہ کے برابر بھی تاریکی درمیان نہیں رہتی۔ یہ خدا ہے جس کے ان قولی فعلی تجلّیات کے بعد جو ہزاروں انعامات اپنے اندر رکھتی ہیں اور نہایت قوی اثر دل پر کرتی ہیں انسان کوؔ سچا اور زندہ ایمان نصیب ہوتا ہے اور ایک سچا اور پاک تعلق خدا سے ہوکر نفسانی غلاظتیں دُور ہوجاتی ہیں۔ اور تمام کمزوریاں دُور ہوکر آسمانی روشنی کی تیز شعاعوں سے اندرونی تاریکی الوداع ہوتی ہے اور ایک عجیب تبدیلی ظہور میں آتی ہے۔

پس جومذہب اس خدا کو جس کا ان صفات سے متصف ہونا ثابت ہے پیش نہیں کرتا اور ایمان کو صرف گذشتہ قصوں کہانیوں اور ایسی باتوں تک محدود رکھتا ہے جو دیکھنے اور کہنے میں نہیں آئی ہیں وہ مذہب ہرگز سچا مذہب نہیں ہے ۔ اور ایسے فرضی خدا کی پیروی ایسی ہے کہ جیسے ایک مُردہ سے توقع رکھنا کہ وہ زندوں جیسے کام کرے گا۔ ایسے خدا کا ہونا نہ ہونا برابر ہے جو ہمیشہ تازہ طور پر اپنے وجود کو آپ ثابت نہیں کرتا گویا وہ ایک بُت ہے جو نہ بولتا ہے اور نہ سنتا ہے او ر نہ سوال کا جواب دیتاہے اور نہ اپنی قادرانہ قوت کو ایسے طور پر دکھا سکتا ہے جو ایک پکا دہریہ بھی اس میں شک نہ کرسکے۔

یاد رکھنا چاہئے کہ جیسے ہمیں روشنی بخشنے کیلئے ہر روز تازہ طور پر آفتاب نکلتا ہے او ر ہم اس قدر قصہ سے کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے اور نہ کچھ تسلی پاسکتے ہیں کہ ہم اندھیرے میں ہوں اور روشنی کا نام و نشان نہ ہو اور یہ کہا جائے کہ آفتاب تو ہے مگر وہ کسی پہلے زمانہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 33

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 33

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/33/mode/1up


میں طلوع کرتا تھا اور اب وہ ہمیشہ کیلئے پوشیدہ ہے ایسا ہی وہ حقیقی آفتاب جو دلوں کو روشن کرتا ہے ہرروز تازہ بتازہ طلوع کرتا ہے۔ اور اپنی قولی فعلی تجلیات سے انسان کو حصہ بخشتا ہے ۔ وہی خدا سچا ہے اوروہی مذہب سچا جو ایسے خدا کے وجود کی بشارت دیتا ہے اور ایسے خدا کو دکھلاتا ہے اُسی زندہ خدا سے نفس پاک ہوتا ہے۔

یہ اُمید مت رکھو کہ کوئی اور منصوبہ انسانی نفس کو پاک کرسکے جس طرح تاریکی کو صرف روشنی ہی دُور کرتی ہے اسی طرح گناہ کی تاریکی کا علاج فقط وہ تجلیات الٰہیہ قولی و فعلی ہیں جو معجزانہ رنگ میں پُرزور شعاعوں کے ساتھ خدا کی طرف سے کسی سعید دل پر نازل ہوتی ہیں اور اُس کو دکھا دیتی ہیں کہ خدا ہے اور تمام شکوک کی غلاظت کو دُور کر دیتی ہیںؔ اور تسلی اور اطمینان بخشتی ہیں ۔ پس اُس طاقت بالا کی زبردست کشش سے وہ سعید آسمان کی طرف اٹھایا جاتا ہے اس کے سوا جس قدر اور علاج پیش کئے جاتے ہیں سب فضول بناوٹ ہے۔ ہاں کامل طور پر پاک ہونے کیلئے صرف معرفت ہی کافی نہیں بلکہ اُس کے ساتھ پُردرد دُعاؤں کا سلسلہ جاری رہنا بھی ضروری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے اُس کے فیوض کو اپنی طرف کھینچنے کیلئے ایسی دُعاؤں کی سخت ضرورت ہے جوگریہ اور بُکا اور صدق و صفا اور دردِ دل سے پُر ہوں۔ تم دیکھتے ہو کہ بچۂ شیر خوار اگرچہ اپنی ماں کو خوب شناخت کرتا ہے اور اُس سے محبت بھی رکھتا ہے اور ماں بھی اُس سے محبت رکھتی ہے۔ مگر پھر بھی ماں کادودھ اُترنے کیلئے شیرخوار بچوں کا رونا بہت کچھ دخل رکھتا ہے ۔ ایک طرف بچہ دردناک طور پر بھوک سے روتا ہے اور دوسری طرف اُس کے رونے کا ماں کے دل پر اثر پڑتا ہے اور دودھ اُترتاہے پس اسی طرح خدائے تعالیٰ کے سامنے ہر ایک طالب کو اپنی گریہ وزاری سے اپنی روحانی بھوک پیاس کا ثبوت دینا چاہیے تا وہ رُوحانی دودھ اُترے اور اُسے سیراب کرے۔

غرض پاک و صاف ہونے کیلئے صرف معرفت کافی نہیں بلکہ بچوں کی طرح دردناک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 34

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 34

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/34/mode/1up


گریہ وزاری بھی ضروری ہے۔ اور نومید مت ہو اور یہ خیال مت کرو کہ ہمارا نفس گناہوں سے بہت آلودہ ہے ہماری دُعائیں کیا چیز ہیں اور کیا اثر رکھتی ہیں کیونکہ انسانی نفس جو دراصل محبتِ الٰہی کیلئے پیدا کیا گیا ہے وہ اگرچہ گناہ کی آگ سے سخت مشتعل ہو جائے پھر بھی اُس میں ایک ایسی قوتِ توبہ ہے کہ وہ اس آگ کو بجھا سکتی ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک پانی کو کیسا ہی آگ سے گرم کیا جائے مگر تاہم جب آگ پر اس کو ڈالا جائے تووہ آگ کو بجھا دے گا۔

یہی ایک طریق ہے کہ جب سے خدائے تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا اسی طریق سے اُن کے دل پاک و صاف ہوتے رہے ہیں۔ یعنی بغیر اس کے جو زندہ خدا خود اپنی تجلّی قولی و فعلی سے اپنی ہستی اور اپنی طاقت اور اپنی خدائی ظاہر کرے اور اپنا رعب چمکتا ہوا دکھاوے اور کسی طریق سے انساؔ ن گناہ سے پاک نہیں ہوسکتا۔

اورمعقولی طور پر بھی یہی بات ظاہر و ثابت ہے کہ انسان فقط اُسی چیز کی قدر کرتا ہے اور اُسی کا رعب اپنے دل میں جماتا ہے جس کی عظمت اور طاقت بذریعہ معرفت تامّہ کے وہ معلوم کر لیتاہے۔ مثلاً ظاہر ہے کہ انسان اس سوراخ میں ہاتھ نہیں ڈالتا جس کی نسبت اُس کو یقین ہو کہ اس میں سانپ ہے۔ اور ایسی چیز کو ہرگز نہیں کھاتا جس کو یقین کرتا ہے کہ وہ زہر ہے۔ پھر کیا باعث کہ وہ اس طرح خدائے تعالیٰ سے نہیں ڈرتا اور ہزاروں فسق و فجور گستاخی سے کرتا ہے اور گو پیرانہ سالی تک بھی نوبت پہنچ جائے پھر بھی نہیں ڈرتا۔ اس کا یہی سبب ہے کہ وہ اُس حقیقی منتقم کے وجود اور ہستی سے بالکل بے خبر ہے جو گناہ کی سزا دے سکتا ہے۔

افسوس کہ اکثر انسانوں نے بدقسمتی سے اس اصول کی طرف توجہ نہیں کی اور ایسے بے ہودہ طریق گناہ سے پاک ہونے کیلئے اپنے دل سے تراشے ہیں کہ وہ اور بھی گناہ پر گستاخ کرتے ہیں ، مثلاً یہ خیال کہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب دیئے جانے پر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 35

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 35

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/35/mode/1up


ایمان لانا اور اُن کو خدا سمجھنا انسان کے تمام گناہ معاف ہو جانے کا موجب ہے۔ کیا ایسے خیال سے توقع ہوسکتی ہے کہ انسان میں سچی نفرت گناہ سے پیدا کرے۔ صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک ضد اپنی ضد سے دُور ہوتی ہے۔ سردی کو گرمی دُور کرتی ہے اور تاریکی کے ازالہ کا علاج روشنی ہے۔ پھر یہ علاج کس قسم کا ہے کہ زید کے مصلوب ہونے سے بکر گناہ سے پاک ہوجائے۔ بلکہ یہ انسانی غلطیاں ہیں کہ جو غفلت اور دنیا پرستی کے زمانہ میں دلوں میں سما جاتی ہیں۔ اور جن پست خیالات کی وجہ سے دنیا میں بت پرستی نے رواج پایا ہے فی الحقیقت ایسے ہی نفسانی اغراض کے سبب سے یہ مذہب صلیب اور کفارہ کا عیسائیوں میں رواج پاگیا ہے۔

اصل امر یہ ہے کہ انسان کا نفس کچھ ایسا واقع ہے کہ ایسے طریق کو زیادہ پسند کرلیتا ہے جس میں کوئی محنت اور مشقت نہیں۔ مگر سچی پاکیزگی بہت سے دُکھ اور مجاہدات کو چاہتی ہے اور وہ پاک زندگی حاصل نہیں ہوسکتی جب تک انسان موت کا پیالہ نہ پی لے۔ پس جیسا کہ انسان کی عادت ہے کہ وہ تنگ اور مشکل راہوں سے پرہیز کرتا ہے اور سہل اور آسان طریق ڈھونڈتا ہے۔ اسیؔ طرح ان لوگوں کو یہ طریق صلیب جو صرف زبان کا اقرار ہے اور رُوح پر کسی مشقت کا اثر نہیں بہت پسند آگیا ہے جس کی وجہ سے خدائے تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ اور نہیں چاہتے کہ گناہوں سے نفرت کرکے پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کریں۔ درحقیقت صلیبی اعتقاد ایک ایسا عقیدہ ہے جو اُن لوگوں کو خوش کر دیتا ہے جو سچی پاکیزگی حاصل کرنا نہیں چاہتے اور کسی ایسے نسخہ کی تلاش میں رہتے ہیں کہ گندی زندگی بھی موجود ہو اور گناہ بھی معاف ہوجائیں لہٰذا وہ باوجود بہت سی آلودگیوں کے خیال کر لیتے ہیں کہ فقط خونِ مسیح پر ایمان لانے سے گناہ سے پاک ہوگئے۔ مگر یہ پاک ہونا درحقیقت ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک پھوڑا جو پیپ سے بھرا ہوا ہو اور باہر سے چمکتا ہوا نظر آئے۔ اور اگر غور کرنے والی طبیعتیں ہوں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 36

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 36

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/36/mode/1up


تو اس صلیبی نسخہ کا غلط ہونا خود صلیب پرستوں کے حالات سے واضح ہوسکتاہے کہ وہ کہاں تک دنیا پرستی اور ہوا وہوس کو چھوڑ کر خدا ئے تعالیٰ کی محبت میں محو ہوگئے ہیں۔ جو شخص یورپ کے ممالک کی سیر کرے وہ خود دیکھ لے گا کہ دنیا کی عیّاشی اور بے قیدی اور شراب خواری اور نفس پرستی اور دوسرے فسق و فجور کس درجہ تک ان لوگوں میں پائے جاتے ہیں جو بڑے حام ئ دین کہلاتے ہیں اور جو اس ملک کے جاہل لوگوں کی طرح نہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور مہذّب ہیں۔ سب سے زیادہ خونِ مسیح پر زور دینے والے پادری صاحبان ہیں۔ سو اکثر اُن کے شراب خواری میں جو اُمّ الخبائث ہے مبتلا ہیں بلکہ بعض کے حالات جو اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں ایسے قابلِ شرم ہیں جو ناگفتہ بہ۔ چنانچہ آج ہی ہم نے ایک اخبار میں پڑھا ہے کہ ولایت سے ایک پادری صاحب پکڑا آرہا ہے جس نے لڑکیوں کے ساتھ بدفعلی کی۔ اُس پادری صاحب کانام ڈاکٹر ساندی لینڈز ہے۔ پادری صاحب مذکور بٹھنڈارہ ناگپور میں مشنری یتیم خانہ کے پرنسپل تھے۔ اگست کی بات ہے ۲۴؍ اگست کی رات کو اُن کے کمرہ میں ایک لڑکی پائی گئی۔ جواب نہ دے سکے ۔ مستعفی ہوکر چلے جانے پر معلوم ہوا کہ ستر۱۷ہ لڑکیوں سے بدفعلیاں کیں۔ اظہار پولیس میں اور بھی گُل کھلا۔ معلوم ہوا کہ ناجائز عمل جرّاحی بھی کیا یعنی حمل گرایا۔ وارنٹ نکلا ولایت میں گرفتار ہوئے۔ ہندوستان پہنچنے پر مقدمہ ہائی کورٹ بمبئی کی اجلاس ششن میں ہوگا۔ دیکھو پایونیئر واخبار عام ۸؍ فروری ۱۹۰۵ ؁ء پہلاؔ کالم۔ اور ۹؍ فروری ۱۹۰۵ ؁ء صفحہ ۶ دوسراکالم۔ اب ظاہر ہے کہ جبکہ یہ لوگ کہ جو بڑے مقدس پادری کہلاتے ہیں اور خونِ مسیح سے فیض اُٹھانے میں اوّل درجہ پر ہیں اُن کا یہ حال ہے تو دوسرے بیچارے اس نسخہ سے کیا فائدہ اُٹھائیں گے۔ سو یاد رہے کہ یہ طریق حقیقی پاکیزگی حاصل کرنے کا ہرگز نہیں ہے۔ اور وقت آتا جاتا ہے بلکہ قریب ہے کہ لوگ اس غلط طریق پر خود متنبہ ہوجائیں گے۔ طریق وہی ہے جو ہم نے بیان کیا ہے۔ ہر ایک شخص جو خدائے تعالیٰ کی طرف آیا ہے اِسی دروازہ سے داخل ہوا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 37

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 37

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/37/mode/1up


ہاں یہ دروازہ بہت تنگ ہے اور اس کے اندر داخل ہونے والے بہت تھوڑے ہیں کیونکہ اس دروازہ کی دہلیز موت ہے اور خدا کو دیکھ کر اُس کی راہ میں اپنی ساری قوت اور سارے وجود سے کھڑے ہو جانا اُس کی چوکھٹ ہے۔ پس بہت ہی تھوڑے ہیں جو اس دروازے میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے ملک میں عیسائی صاحبوں کو تو حضرت مسیح کے خون کے خیال نے اس دروازہ سے دُور ڈال دیا اور آریہ صاحبوں کو تناسخ کے خیال اور توبہ نہ قبول ہونے کے عقیدہ نے اس دروازہ سے محروم کردیا کیونکہ اُن کے نزدیک گناہ کے بعد بجز طرح طرح کے جونوں میں پڑنے کے اسی زندگی میں اور کوئی طریق پاک ہونے کا نہیں۔ اور تو بہ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف ایک موت کی حالت بناکر پر صدق دل سے رجوع کرنا اور موت کی سی حالت بناکر اپنی قربانی آپ ادا کرنا اُن کے نزدیک ایک لغو خیال ہے۔ پس یہ دونوں فریق اُس حقیقی راہ سے محروم ہیں۔

آریہ صاحبوں کے لئے اور بھی مشکلات ہیں کہ اُن کیلئے خدائے تعالیٰ پر یقین کرنے کی کوئی بھی راہ کھلی نہیں۔ نہ معقولی نہ سماوی۔ معقولی اس لئے نہیں کہ اُن کے خیال کے مطابق ارواح مع اپنی تمام طاقتوں کے خود بخود ہیں اور پرکرتی یعنی اجزاء عالم مع اپنے تمام گنوں کے خود بخود ہیں تو پھر پرمیشر کے وجود پر کونسی عقلی دلیل رہی کیونکہ اگر سب کچھ خود بخود ہے تو پھر کیاوجہ کہ ان چیزوں کا جوڑ خود بخود نہیں۔ سو یہ مذہب دہریہ مذہب سے بہت نزدیک ہے۔ اور اگر خدا نے ان لوگوں کو اس غلط راہ سے توبہ نصیب نہ کی تو کسی دن سب دہریہ ہو جائیں گے۔ اسی طرح سماوی طریق سے بھی خدا تعالیٰ کی شناخت سے بے نصیب ہیں۔ کیونکہ سماوی طرؔ یق سے مراد آسمانی نشان ہیں جو خدائے تعالیٰ کے وجود پر تازہ بتازہ نشان ہوتے ہیں۔ جن کو زندہ خدا پر ایمان لانے والا آدمی مشاہدہ کرتا رہتا ہے اور یقینی طور پر اُس کا تصرف ہر ایک چیز پر دیکھتا ہے۔ سو یہ لوگ ان نشانوں سے قطعاً منکر ہیں لہٰذا خدا شناسی کے دونوں دروازے ان لوگوں پر بند ہیں۔ ہاں محض تعصّب کے طور پر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 38

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 38

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/38/mode/1up


مباحثاتِ مذہبیّہ میں بڑی سرگرمی دکھلاتے ہیں۔ اور سخت گوئی اور بدزبانی اور منہ کی تیزی میں ایک طور سے پادری صاحبوں سے بھی کچھ آگے قدم ہے۔ لیکن خدائے تعالیٰ کی معرفت اُن کو ہرگز نصیب نہیں کیونکہ اوّل تو خدا تعالیٰ عقلی طور پر اپنی خالقیت سے شناخت کیا جاتا ہے مگر اُن کے نزدیک خدائے تعالیٰ خالق نہیں ہے۔ پس مصنوعات کے لحاظ سے اُن کے پاس اُس کے وجود پر کوئی دلیل نہیں اور دوسرا طریق شناخت خدائے تعالیٰ کا آسمانی نشان ہیں مگر وہ اُن سے منکر اور قطعاً اس راہ سے بے نصیب ہیں اور صرف پرمیشر کے نام کے لفظ ہاتھ میں ہیں اور اُس کی ہستی سے بے خبر۔ افسوس یہ لوگ نہیں جانتے کہ انسان ہزار اپنی زبان سے بک بک کرے اس سے کیا فائدہ جب تک اس کو اپنے خدا کی ایسی شناخت حاصل نہ ہو جائے جس سے اُس کی سفلی زندگی پر موت آجائے۔ اور اُس کا دل خدائے تعالیٰ کی محبت سے بھر جائے اور گناہ سے اس کو نفرت ہو جائے۔

یوں تو ہر ایک شخص دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں ایسا ہی ہوں لیکن سچے پرستاروں کے یہ نشان ہیں کہ خدائے تعالیٰ کی سچی محبت کی وجہ سے اُن میں ایک برکت پیدا ہوجاتی ہے اور خدائے تعالیٰ کی قولی اور فعلی تجلی اُن کے شامل حال ہو جاتی ہے۔ یعنی وہ خدائے تعالیٰ کے ہم کلام ہو جاتے ہیں اور خدائے تعالیٰ کے معجزانہ افعال اُن میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اور خدائے تعالیٰ بہت سے الہامات ایسے اُن پر ظاہر کرتا ہے جن میں آئندہ نصرتوں کے وعدے ہوتے ہیں اور پھر دوسرے وقت میں وہ نصرتیں ظاہر ہو جاتی ہیں اور اس طرح پر وہ اپنے خدا کو پہچان لیتے ہیں اور خاص نشانوں کے ساتھ غیر سے ممتاز ہو جاتے ہیں۔ اُن کو ایک قوتِ جذب دی جاتی ہے جس سے لوگ اُن کی طرف کھینچے جاتے ہیں۔ اور عشقِ الٰہی اُن کے منہ پر برستا ہے۔ اور اگر یہ مابہؔ الامتیاز نہ ہو تو پھر ہر ایک بدمعاش جو پوشیدہ طور پر زانی فاسق فاجر شراب خور اور پلید طبع ہو نیک کہلا سکتا ہے پھر حقیقی نیک اور اس مصنوعی نیک میں فرق کیا ہوگا۔ پس فرق کرنے کیلئے ہمیشہ سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 39

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 39

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/39/mode/1up


یہ عادتِ الٰہی ہے کہ راستبازوں کی معجزانہ زندگی ہوتی ہے۔ او ر خدا کی نصرت اُن کے شامل حال رہتی ہے اور ایسے طور سے شامل حال ہوتی ہے کہ وہ سراسر معجزہ ہوتا ہے۔

یاد رکھناچاہئے کہ ایک راستباز کی معجزانہ زندگی زمین اورآسمان سے زیادہ تر خدائے تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے کیونکہ کسی نے نہیں دیکھا کہ زمین اور آسمان کو خدا نے اپنے ہاتھ سے بنایا۔ صرف اس عالم کی پُرحکمت صنعت کو دیکھ کر اور اس کی ترکیب کو ابلغ اور محکم پاکر عقل سلیم اس بات کی ضرورت سمجھتی ہے کہ ان بے مثل مصنوعات کا کوئی صانع ہوناچاہیے۔ مگر عقل اپنی معرفت میں اس حد تک نہیں پہنچتی کہ فی الواقع وہ صانع موجود بھی ہے کیونکہ اُس نے اس صانع کو بناتے نہیں دیکھا اور عقلی خدا شناسی کا تمام مدار صرف ضرورتِ صانع پر رکھا گیا ہے نہ یہ کہ اس کا ہونا مشاہدہ کیا گیا ہے لیکن راستباز کی معجزانہ زندگی واقعی طور پر اور مشاہدہ کے پیرایہ میں خدائے تعالیٰ کی ہستی کو دکھلاتی ہے کیونکہ راستباز اپنی سب ابتدائی حالت میں ایک ذرّہ بے مقدار کی طرح ہوتا ہے یا ایک رائی کے بیج کی طرح جس کو ایک کسان نے بویا اور نہایت ذلیل حالت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔ تب وحی کے ذریعہ سے خدا دنیا کو اطلاع دیتا ہے کہ دیکھو میں اس کو بناؤں گا۔ میں ستاروں کی طرح اُس میں چمک ڈالوں گا اورآسمان کی طرح اُس کو بلند کروں گا۔ اور ایک ذرّہ کو ایک پہاڑ کی طرح کر دکھاؤں گا۔ پھر بعد اس کے باوجود اس بات کے کہ دنیا کے تمام شریر چاہتے ہیں کہ وہ ارادۂ الٰہی معرضِ التواء میں رہے۔ اور ناخنوں تک زور لگاتے ہیں کہ وہ امر ہونے نہ پائے مگر وہ رُک نہیں سکتا جب تک پورا نہ ہو اور خدا کا ہاتھ سب روکوں کو دور کرکے اس کو پورا کرتا ہے وہ ایک گمنام کو اپنی پیشگوئی کے مطابق ایک عظیم الشان جماعت بنا دیتا ہے۔ وہ تمام مستعد لوگوں کو اس کی طرف کھینچتا ہے۔ وہ اُس گمنام کو ایسی شہرت دیتاؔ ہے کہ کبھی اُس کے باپ دادوں کو نصیب نہ ہوئی۔ وہ ہر میدان میں اس کا ہاتھ پکڑتا ہے اور ہر ایک جنگ میں اس کو فتح دیتا ہے اور ایک دنیا کو اُس کا غلام کرتا ہے اور لاکھوں انسانوں کو اس کی طرف



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 40

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 40

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/40/mode/1up


کھینچ لاتا ہے اور اُس کی تعلیم اُن کے دلوں میں بٹھا دیتا ہے۔ اور رُوح القدس سے اُن کی مدد کرتا ہے ۔ وہ اُس کے دشمنوں کا دشمن اور اس کے دوستوں کا دوست ہوجاتا ہے اور اُس کے دشمن سے وہ آپ لڑتا ہے۔ اسی لئے میں نے کہا ہے کہ راستباز کی معجزانہ زندگی آسمان و زمین سے زیادہ خدائے تعالیٰ کے وجود پر دلالت کرتی ہے کیونکہ لوگوں نے زمین و آسمان کو بچشم خود خدا کے ہاتھ سے بنتے نہیں دیکھا لیکن وہ بچشم خود دیکھ لیتے ہیں کہ خدا راستباز کے اقبال کی عمارت کو اپنے ہاتھ سے بناتا ہے۔ وہ ایک زمانہ دراز پہلے خبر دے دیتا ہے کہ میں ایسا کروں گا اور ایسا اس کو بنا دوں گا۔ اور پھر باوجود سخت روکوں اور شدید مزاحمتوں کے جو شریر انسانوں کی طرف سے ہوتی ہیں ایسا ہی کرکے دکھلا دیتا ہے۔

پس یہ نشان حق کے طالب کو حق الیقین تک پہنچاتا ہے اوروہ خدائے تعالیٰ کے وجود پر ایک قطعی دلیل ہوتی ہے۔ مگر اُن کے لئے جو خدائے تعالیٰ کے طالب ہیں اور تکبّر نہیں کرتے اور حق کو پاکر انکسار سے قبول کر لیتے ہیں۔ اس زمانہ میں بھی خدا نے ایسے نشان بہت جمع کئے ہیں۔ کاش لوگ اُن میں غور کرتے اور اپنے تئیں یقین اور معرفت کے چراغ سے روشن کرکے نجات کے لائق ٹھہرا دیتے۔ لیکن شریر انسان کو خدا کے نشانوں سے ہدایت حاصل کرنا نصیب نہیں۔ وہ روشنی کو دیکھ کر آنکھ بند کر لیتا ہے تا ایسا نہ ہو کہ روشنی اُس کی آنکھوں کو منور کرے اورراہ دکھائی دے۔ شریر آدمی ہزار نشان دیکھ کر اس سے منہ پھیر لیتا ہے اور ایک بات جس کو اپنی ہی حماقت سے سمجھ نہیں سکا بار بار پیش کرتا ہے۔ وہ شخص جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اُس پر یہ فرض نہیں ہے کہ ایسے نشان دکھائے جس سے ستارے زمین پر گریںیا آفتاب مغرب سے طلوع کرے یا بکری کو انسان بناکر دکھلا دے یا لوگوں کے روبرو آسمان پر چڑھ جائے اور ان کے روبروہی اُترے اور آسمان سے ایکؔ لکھی ہوئی کتاب لائے جس کو لوگ خود ہاتھوں میں لے کر پڑھ لیں یا اس کے تمام مکانات سونے کے بن جائیں یا اس کے ہاتھ سے لوگوں کے باپ دادے مرے ہوئے زندہ ہوکر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 41

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 41

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/41/mode/1up


قبروں سے بولتے ہوئے اور چیختے ہوئے نکلیں اور اپنے بیٹوں کو *** کریں اور نفرین کرکے کہیں کہ یہ تو حقیقت میں سچا خدا کا رسول تھا یہ غضب تم نے کیا کیا کہ اُس کے منکر ہوگئے۔ ہم بچشم خود دیکھ آئے ہیں کہ اس پر ایمان لانے والا سیدھا بہشت کی طرف جاتا ہے اور اس سے منکر رہنے والا نہایت ذلیل حالت میں دوزخ میں ڈالا جاتا ہے اور شہر میں جلسے کریں اور تمام منکروں کو اُن جلسوں میں بلائیں اور اپنی اولاد کو کہیں کہ تم جانتے ہو کہ ہم تمہارے باپ دادا ہیں اور تم جانتے ہو کہ ہم کس قدر اس شخص کے دشمن تھے لیکن جب ہم مرگئے تو اس کی دشمنی کی وجہ سے ہم دوزخ میں ڈالے گئے۔ دیکھو ہمارے بدن آگ میں جھلسے ہوئے اور سیاہ ہو رہے ہیں اور تمہارے روبرو ہم قبروں میں سے نکلے ہیں تاہم گواہی دیں کہ یہ شخص خدا کی طرف سے اور سچا نبی ہے۔ یاد رکھو کہ ایسے لیکچر کبھی مردوں نے قبروں میں سے نکل کر نہیں دیئے۔ اور کبھی اور کسی زمانہ میں ایسے جلسے نہیں ہوئے کہ چند لوگوں کے باپ دادا قبروں میں سے زندہ ہوکر نکل آئے ہوں۔ تب ایک مکان جلسہ کا مقرر ہوکر تمام شہر کے لوگ اُن مردوں کے سامنے بلائے گئے ہوں اور اُن مُردوں نے ہزاروں لوگوں کے روبرو کھڑے ہوکر بلند آواز سے یہ لیکچر دیئے ہوں کہ اے حاضرین! ہم آپ کا شکر کرتے ہیں کہ آپ ہمارا لیکچر سننے کے لئے آئے۔ آپ صاحبان جانتے ہیں اور ہمیں خوب پہچانتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں محلہ کے رہنے والے او رفلاں فلاں شخص کے دادا پڑدادا ہیں اور چند سال ہوئے کہ ہم طاعون سے یا ہیضہ سے یا کسی اور بیماری سے فوت ہوگئے تھے اور آپ لوگ ہمارے جنازہ میں شریک تھے اور آپ لوگوں نے ہی ہمیں دفن کیا تھا یا پھونک دیا تھا پھر بعد اس کے آپ صاحبوں نے اِس بزرگ نبی کو جو ہمارے سامنے صدر نشینی کی کرسی کو زیب دے رہا ہے نہایت تحقیر سے ردّکیا اور اس کو جھوٹا خیال کیا اور اس سے چاہا کہ معجزہ کے طور پر چند مردے زندہ ہوں تب اس کی دُعا سے ہم زندہ ہوگئے جو اس وقت آپ صاحبوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ صاحبان آنکھ کھول کر دیکھ لو کہ ہم وہی ہیں اور ہم سے ہمارے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 42

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 42

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/42/mode/1up


پورے قصے پوچھ لو۔اور اس وقت زندؔ ہ ہو کرہم چشم دید گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص درحقیقت سچا ہے اور ہم اس کے نہ ماننے کی وجہ سے دوزخ میں جلتے ہوئے آئے ہیں سو ہماری گواہی چشم دید گواہی ہے اس کو قبول کرو تا تم دوزخ سے بچ جاؤ۔ اب کیا کوئی کانشنس کوئی ضمیر کوئی نورِ قلب قبول کرتا ہے کہ ایسا لیکچر کسی مُردہ نے زندہ ہوکر دیا اور پھر لوگوں نے قبول نہ کیا۔

پس جوشخص اب بھی نہیں سمجھتا کہ نشان کس حد تک ظاہر ہوتے ہیں وہ خود مردہ ہے اگر نشانوں میں ایسے لیکچر مُردوں کی طرف سے ضروری ہیں تو پھر ایمان کا کچھ فائدہ نہیں۔ کیونکہ ایمان اُس حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ ایک بات من وجہٍ ظاہر ہو اور من وجہٍ پوشیدہ بھی ہو یعنی ایک بار یک نظر سے اُس کا ثبوت ملتا ہو اور اگر باریک نظر سے نہ دیکھا جائے تو سرسری طور پر حقیقت پوشیدہ رہ سکتی ہو۔ لیکن جب سارا پردہ ہی کھل گیا تو کون ہے کہ ایسی کھلی بات کو قبول نہیں کرے گا۔ سو معجزات سے وہ امور خارق عادت مراد ہیں جو باریک اور منصفانہ نظر سے ثابت ہوں اور بجز مؤیّدانِ الٰہی دوسرے لوگ ایسے امور پر قادر نہ ہوسکیں اِسی وجہ سے وہ امورخارق عادت کہلاتے ہیں۔ مگر بدبخت ازلی اُن معجزانہ امور سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جیسا کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام سے کئی معجزات دیکھے مگر اُن سے کچھ فائدہ نہ اُٹھایا اور انکار کرنے کیلئے ایک دوسرا پہلو لے لیا کہ ایک شخص کی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں جیسا کہ باراں تختوں کی پیشگوئی جو حواریوں کیلئے کی گئی تھی اُن میں سے ایک مرتد ہوگیا۔ یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ بے بنیاد ثابت ہوا۔ اور پھر تاویل کی گئی کہ میری مراد اس سے آسمانی بادشاہت ہے۔ اور یہ بھی پیشگوئی حضرت مسیح نے کی تھی کہ ابھی اِس زمانہ کے لوگ زندہ ہوں گے کہ میں پھر دنیا میں آؤں گا۔ مگر یہ پیشگوئی بھی صریح طور پر جھوٹی ثابت ہوئی۔اور پھر پہلے نبیوں نے مسیح کی نسبت یہ پیشگوئی کی تھی کہ وہ نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس دوبارہ دنیا میں نہ آجائے مگر الیاس نہ آیا۔ اور یسوع ابن مریم نے یونہی مسیح موعود ہونے کادعویٰ کردیا حالانکہ الیاس دوبارہ دنیا میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 43

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 43

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/43/mode/1up


نہ آیا۔ اور جب پوچھا گیا تو الیاس موعود کی جگہ یوحنا یعنی یحییٰ نبی کو الیاس ٹھہرا دیا۔ تا ؔ کسی طرح مسیح موعود بن جائے حالانکہ پہلے نبیوں نے آنے والے الیاس کی نسبت ہرگز یہ تاویل نہیں کی اور خود یوحنا نبی نے الیاس سے مراد وہی الیاس مراد رکھا جودنیا سے گذر گیا تھا۔ مگر مسیح نے یعنی یسوع بن مریم نے اپنی بات بنانے کیلئے پہلے نبیوں اور تمام راستبازوں کے اجماع کے برخلاف الیاس آنے والے سے مراد یوحنا اپنے مرشد کو قرار دے دیا اور عجیب یہ کہ یوحنا اپنے الیاس ہونے سے خود منکر ہے۔ مگر تاہم یسوع ابن مریم نے زبردستی اس کو الیاس ٹھہراہی دیا۔

اب سوچنے کی بات ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا اور اب تک کہتے ہیں کہ اُس سے کوئی معجزہ نہیں ہوا صرف مکر و فریب تھا۔ اِسی لئے حضرت مسیح کو کہنا پڑا کہ اس زمانہ کے حرام کار مجھ سے معجزہ مانگتے ہیں انہیں کوئی معجزہ دکھایا نہیں جائے گا۔

درحقیقت معجزات کی مثال ایسی ہے جیسے چاندنی رات کی روشنی جس کے کسی حصہ میں کچھ بادل بھی ہو مگر وہ شخص جو شب کو ر ہو جو رات کو کچھ دیکھ نہیں سکتا اُس کیلئے یہ چاندنی کچھ مفید نہیں۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہوسکتا اور نہ کبھی ہوا کہ اِس دنیا کے معجزات اُسی رنگ سے ظاہر ہوں جس رنگ سے قیامت میں ظہور ہوگا۔ مثلاً دو تین سو مُردے زندہ ہو جائیں اور بہشتی پھل اُن کے پاس ہوں اور دوزخ کی آگ کی چنگاریاں بھی پاس رکھتے ہوں اور شہر بشہر دورہ کریں اور ایک نبی کی سچائی پر جو قوم کے درمیان ہو گواہی دیں اور لوگ اُن کو شناخت کرلیں کہ درحقیقت یہ لوگ مرچکے تھے اور اب زندہ ہوگئے ہیں اور وعظوں اور لیکچروں سے شور مچا دیں کہ درحقیقت یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے سچا ہے۔ سو یاد رہے کہ ایسے معجزات کبھی ظاہر نہیں ہوئے اور نہ آئندہ قیامت سے پہلے کبھی ظاہر ہوں گے۔ اور جو شخص دعویٰ کرتا ہے کہ ایسے معجزات کبھی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 44

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 44

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/44/mode/1up


ظاہر ہوچکے ہیں وہ محض بے بنیاد قصوں سے فریب خوردہ ہے اور اُس کو سنت اللہ کا علم نہیں اگر ایسے معجزات ظاہر ہوتے تو دنیا دنیا نہ رہتی اور تمام پردے کھل جاتے اور ایمان لانے کا ایک ذرّہ بھی ثواب باقی نہ رہتا۔

یاد ؔ رہے کہ معجزہ صرف حق اور باطل میں فرق دکھلانے کیلئے اہل حق کو دیا جاتا ہے اور معجزہ کی اصل غرض صرف اس قدر ہے کہ عقلمندوں اور منصفوں کے نزدیک سچے اور جھوٹے میں ایک مابہ الامتیاز قائم ہوجائے اور اُسی حد تک معجزہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو مابہ الامتیاز قائم کرنے کیلئے کافی ہو۔ اور یہ اندازہ ہر ایک زمانہ کی حاجت کے مناسبِ حال ہوتا ہے اور نیز نوعیّتِ معجزہ بھی حسبِ حال زمانہ ہی ہوتی ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ ہر ایک متعصب اور جاہل اور بدطبع گو کیسا ہی مصلحتِ الہٰیّہ کے برخلاف اور قدرِ ضرورت سے بڑھ کر کوئی معجزہ مانگے تو وہ بہرحال دکھلانا ہی پڑے۔ یہ طریق جیسا کہ حکمت الہٰیّہ کے برخلاف ہے ایسا ہی انسان کی ایمانی حالت کو بھی مضر ہے کیونکہ اگر معجزات کا حلقہ ایسا وسیع کردیا جائے کہ جو کچھ قیامت کے وقت پر موقوف رکھا گیا ہے وہ سب دنیا میں ہی بذریعہ معجزہ ظاہر ہوسکے تو پھر قیامت اور دنیا میں کوئی فرق نہ ہوگا۔ حالانکہ اسی فرق کی وجہ سے جن اعمال صالحہ اور عقائد صحیحہ کا جو دنیا میں اختیار کئے جائیں ثواب ملتا ہے وہی عقائد اور اعمال اگر قیامت کو اختیار کئے جائیں توایک رَتی بھی ثواب نہیں ملے گا۔ جیسا کہ تمام نبیوں کی کتابوں اور قرآن شریف میں بھی بیان فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن کسی بات کا قبول کرنا یا کوئی عمل کرنا نفع نہیں دے گا اور اُس وقت ایمان لانا محض بیکار ہوگا۔ کیونکہ ایمان اُسی حد تک ایمان کہلاتا ہے جبکہ کسی مخفی بات کو ماننا پڑے لیکن جب کہ پردہ ہی کھل گیا اور رُوحانی عالم کا دن چڑھ گیا اور ایسے امور قطعی طور پر ظاہر ہوگئے کہ خدا پر اور روزجزا پر شک کرنے کی کوئی بھی وجہ نہ رہی تو پھر کسی بات کواُس وقت ماننا جس کو دوسرے لفظوں میں ایمان کہتے ہیں محض تحصیلِ حاصل ہوگا۔ غرض



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 45

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 45

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/45/mode/1up


نشان اس درجہ پر کھلی کھلی چیز نہیں ہے جس کے ماننے کیلئے تمام دنیا بغیر اختلاف اور بغیر عذر اور بغیر چون و چرا کے مجبور ہو جائے۔ اور کسی طبیعت کے انسان کو اُس کے نشان ہونے میں کلام نہ رہے اور کسی غبی سے غبی انسان پر بھی وہ امر مشتبہ نہ رہے۔

غرض نشان اور معجزہ ہر ایک طبیعت کیلئے ایک بدیہی امر نہیں جو دیکھتے ہی ضروری التسلیم ہو بلکہ نشانوں سے وہی عقلمند اور منصف اور راستباز اور راست طبع فائدہ اٹھاتے ہیںؔ جو اپنی فراست اور دوربینی اور باریک نظر اور انصاف پسندی اور خدا ترسی اور تقویٰ شعاری سے دیکھ لیتے ہیں کہ وہ۔۔۔ ایسے امور ہیں جو دنیا کی معمولی باتوں میں سے نہیں ہیں اور نہ ایک کاذب اُن کے دکھلانے پر قادر ہوسکتا ہے اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ امور انسانی بناوٹ سے بہت دور ہیں اور بشری دسترس سے برتر ہیں اور اُن میں ایک ایسی خصوصیت اورامتیازی علامت ہے جس پر انسان کی معمولی طاقتیں اور پُرتکلف منصوبے قدرت نہیں پاسکتے اور وہ اپنے لطیف فہم اور نُورِ فراست سے اس تہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ اُن کے اندر ایک نُور ہے اور خدا کے ہاتھ کی ایک خوشبو ہے جس پر مکر اور فریب یا کسی چالاکی کا شُبہ نہیں ہوسکتا ۔ پس جس طرح سورج کی روشنی پر یقین لانے کیلئے صرف وہ روشنی ہی کافی نہیں بلکہ آنکھ کے نور کی بھی ضرورت ہے تا اُس روشنی کو دیکھ سکے اِسی طرح معجزہ کی روشنی پر یقین لانے کیلئے فقط معجزہ ہی کافی نہیں ہے بلکہ نورِ فراست کی بھی ضرورت ہے اور جب تک معجزہ دیکھنے والے کی سرشت میں فراستِ صحیحہ اور عقل سلیم کی روشنی نہ ہو تب تک اس کا قبول کرنا غیر ممکن ہے مگر بدبخت انسان جس کو یہ نورِ فراست عطا نہیں ہوا وہ ایسے معجزات سے جو صرف امتیازی حد تک ہیں تسلّی نہیں پاتا اور بار بار یہی سوال کرتا ہے کہ بجز ایسے معجزہ کے میں کسی معجزہ کو قبول نہیں کرسکتا کہ جو نمونہ قیامت ہو جائے ۔ مثلاً کوئی شخص میرے روبرو آسمان پر چڑھ جائے اور پھر روبرو ہی آسمان سے اُترے اور اپنے ساتھ کوئی ایسی کتاب لائے جو اُترنے کے وقت اس کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 46

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 46

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/46/mode/1up


ہاتھ میں ہو۔ اور صرف اسی پر کفایت نہیں بلکہ تب مانیں گے کہ ہم اس کتاب کو ہاتھ میں لے کر دیکھ لیں اور پڑھ لیں۔ یا چاند کا ٹکڑا یا سورج کا ٹکڑا اپنے ساتھ لائے جو زمین کو روشن کرسکے۔ یا فرشتے اس کے ساتھ آسمان سے اُتریں جو فرشتوں کی طرح خارق عادت کام کرکے دکھلائیں۔ یادس بیس مردے اُس کی دُعا سے زندہ ہو جائیں او وہ شناخت کئے جائیں کہ فلاں فلاں شخص کے باپ دادا ہیں جو فلاں تاریخ مرگئے تھے اور صرف اسی قدر کافی نہیں بلکہ ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عام شہروں میں مجلسیں منعقد کرکے لیکچر دیں۔ اور بلند آواز سے کہہ دیں کہ درحقیقت ہم مُردے ہیں جو دوبارہ زندہ ہوکر دنیا میں آئے ہیں اورؔ ہم اسلئے آئے ہیں کہ تا گواہی دیں کہ فلاں مذہب سچا ہے یا فلاں شخص جو دعویٰ کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں وہ سچ کہتا ہے اور ہم خدا ئے تعالیٰ کے منہ سے سن کرآئے ہیں کہ وہ سچا ہے۔

یہ وہ خودتراشیدہ معجزات ہیں جو ا کثر جاہل لوگ جو ایمان کی حقیقت سے بکلّی بے خبر ہیں مانگا کرتے ہیں۔ یا ایسے ہی اور بیہودہ خوارق جو خدا ئے تعالیٰ کی اصل منشاء سے بہت دور ہیں طلب کیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ مدت ہوئی کہ آریوں میں سے ایک شخص لیکھرام نام نے بھی قادیان میں آکر ایسے ہی نشان مجھ سے طلب کئے تھے اور ہر چند سمجھایا گیا کہ اصل غرض نشانوں کی صرف حق او ر باطل میں امتیاز ہے اور صرف امتیاز دکھلانے کی حد تک وہ ظاہر ہوتے ہیں مگر تعصب نے اس قدر اُس کو نافہم اور غبی کررکھا تھا کہ وہ اس حقیقت کو سمجھتا ہی نہیں تھا ۔ آخر وہ نشانوں سے منکر ہونے کی وجہ سے بمقام لاہور خدا کے نشان کا ہی نشانہ ہوگیا۔ اور جیسا کہ اُس کے حق میں اُس کی مفتریانہ پیشگوئی کے مقابل پر یہ پیشگوئی میں نے کی تھی کہ وہ چھ۶ سال کے اندر مارا جائے گا ایسا ہی ظہور میں آیا۔ اور اس قضاو قدر کو جس کی نسبت پانچ برس پہلے لاکھوں انسانوں میں اعلان کیا گیا تھا کوئی روک نہ سکا۔ اور اسلام اور آریہ مذہب میں ایک امتیازی نشان ظاہر ہوگیا۔ کیونکہ میری طرف سے یہ دعویٰ تھا کہ مذہب اسلام سچا ہے۔ اور لیکھرام کی طرف سے یہ دعویٰ تھا کہ آریہ مذہب سچا ہے اور لیکھرام نے اپنے دعویٰ کی تائید میں اپنی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 47

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 47

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/47/mode/1up


کتاب میں جو اب تک موجود ہے میری نسبت یہ شائع کیا تھا کہ مجھے پرمیشر کے الہام سے معلوم ہوا ہے کہ یہ شخص تین۳ برس میں ہیضہ کی بیماری سے فوت ہوجائے گا۔ اور اس کے مقابل پر میں نے خدائے تعالیٰ سے واقعی اطلاع پاکر یہ اشتہار دیا تھا کہ لیکھرام چھ۶ برس کے اندر مارا جائے گا اور اُس کے مارے جانے کا دن اور تاریخ مقرر کردی تھی۔چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ یہ امتیازی نشان ہے جو مذہب اسلام کی سچائی پر گواہی دیتا ہے لیکن افسوس کہ آریہ صاحبوں نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا۔

غرض سچا مذہب صرف عقل کا دریوزہ گر نہیں ہوتا کہ یہ اس کیلئے عار ہے۔ اور اس سے شبہ گذرتا ہے کہ عقلمندوں کی باتیں چُراکر لکھی گئی ہیں کیونکہ دنیا میں عقلمند تھوڑے نہیں گذرے ہیں۔ بلکہ وہ ؔ علاوہ عقلی دلائل کے مذہب کی ذاتی خاصیت بھی پیش کرتا ہے جو آسمانی نشان ہیں اور یہی سچے مذہب کی حقیقی علامت ہے ہاں یہ سچ ہے کہ جو عوام الناس اور جاہل لوگ بعض مذاہب یا اشخاص کی نسبت خود تراشیدہ کرامات اور معجزات شائع کرتے ہیں جو نہایت مبالغہ آمیز باتیں ہوتی ہیں وہ کسی مذہب کا فخر نہیں ہیں بلکہ عار اور ننگ کی جگہ ہیں۔ اور ان فرضی معجزات کے ساتھ جس قدر حضرت عیسیٰ علیہ السلام متہم کئے گئے ہیں اس کی نظیر کسی اور نبی میں نہیں پائی جاتی یہاں تک کہ بعض جاہل خیال کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہزاروں بلکہ لاکھوں مُردے زندہ کر ڈالے تھے۔یہاں تک کہ انجیلوں میں بھی یہ مبالغہ آمیز باتیں لکھی ہیں کہ ایک مرتبہ تمام گورستان جو ہزاروں برسوں کا چلا آتا تھا سب کا سب زندہ ہوگیا تھا اور تمام مُردے زندہ ہوکر شہر میں آگئے تھے۔

اب عقلمند قیاس کرسکتا ہے کہ باوجودیکہ کروڑہا انسان زندہ ہوکر شہر میں آگئے اور اپنے بیٹوں پوتوں کو آکر تمام قصے سنائے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سچائی کی تصدیق کی مگر پھر بھی یہودی ایمان نہ لائے اور اس درجہ کی سنگ دلی کو کون باور کرے گا۔ اوردرحقیقت اگر ہزاروں مُردے زندہ کرنا حضرت عیسیٰ کا پیشہ تھا تو جیسا کہ عقل کے رو سے سمجھا جاتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 48

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 48

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/48/mode/1up


وہ تمام مردے بہرے اور گونگے تو نہیں ہوں گے۔ اور جن لوگوں کو ایسے معجزات دکھلائے جاتے تھے کوئی اُن مُردوں میں سے اُن کا بھائی ہوگا اور کوئی باپ اور کوئی بیٹا اور کوئی ماں اورکوئی دادی اور کوئی دادا اور کوئی دوسرا قریبی اور عزیز رشتہ دار۔ اِس لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے کافروں کومومن بنانے کی ایک وسیع راہ کھل گئی تھی۔ کئی مُردے یہودیوں کے رشتہ دار اُن کے ساتھ ساتھ پھرتے ہوں گے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کئی شہروں میں اُن کے لیکچر دلائے ہوں گے۔ایسے لیکچر نہایت پُر بہار اور شوق انگیز ہوتے ہوں گے۔ جب ایک مردہ کھڑا ہوکر حاضرین کو سناتا ہوگا کہ اے حاضرین! آپ لوگوں میں بہت ایسے اس وقت موجود ہیں جو مجھے شناخت کرتے ہیں جنہوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے دفن کیا تھا۔ اب میں خدا کے منہ سے سن کر آیاہوں کہ عیسیٰ مسیح سچا ہے اور اُسی نے مجھے زندہ کیا تو عجب لطف ہوتاہوگا اور ظاہر ہے کہ ایسے مردوں کے لیکچروں سے یہودی قوم کے لوگوں کے دلوں پر بڑے بڑے اثر ہوتے ہوں گے۔ اورہزاروں لاکھوں یہودی ایمان لاتے ہوں گے۔ پر قرآن شریف اور انجیل سے ثابت ہے کہ یہودؔ یوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ردکر دیا تھا۔ اور اصلاح مخلوق میں تمام نبیوں سے اُن کا گرا ہوا نمبر تھا اور تقریباً تمام یہودی اُن کو ایک مکّار اور کاذب خیال کرتے تھے۔

اب عقلمند سوچے کہ کیا ایسے بزرگ اور فوق العادت معجزات کا یہی نتیجہ ہونا چاہئے تھا جبکہ ہزاروں مُردوں نے زندہ ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سچائی کی گواہی بھی دیدی اور یہ بھی کہہ دیا کہ ہم بہشت کو دیکھ آئے ہیں اُس میں صرف عیسائی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے ماننے والے ہیں اور دوزخ کو دیکھا تو اس میں یہودی ہیں جو حضرت عیسیٰ کے منکر ہیں تو ان سب باتوں کے بعد کس کی مجال تھی کہ حضرت عیسیٰ کی سچائی میں ذرہ بھی شک کرتا۔اور اگر کوئی شک کرتا تو ان کے باپ دادا جو زندہ ہوکرآئے تھے اُن کو جان سے مارتے کہ

اے ناپاک لوگو! ہماری گواہی اور پھر بھی شک۔ پس یقیناًسمجھو کہ ایسے معجزات محض بناوٹ ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 49

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 49

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/49/mode/1up


معجزہ کے نفس امر میں شک نہیں مگر وہ اسی قدر ہوتا ہے جیسا کہ آگے ہم تفصیل سے بیان کریں گے۔

اس جگہ مسلمانوں پرنہایت افسوس ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف ایسے معجزات منسوب کرتے ہیں جو قرآن شریف کی بیان کردہ سنت کے مخالف ہیں۔ اور وہ راہ چلتے ہیں جس کا آگے کوچہ ہی بند ہے۔ اور نہ صرف اسی قدر کہ حضرت عیسیٰ کی نسبت عیسائیوں کی پرانی کہانیوں پر ایمان لائے ہوئے ہیں بلکہ آئندہ کیلئے تمام دنیا سے الگ کسی وقت آسمان سے اُن کا نازل ہونا مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آئندہ آخری زمانہ میں (حالانکہ عمردنیا کے رُو سے جو سات ہزار ہے یہی آخری زمانہ ہے) حضرت عیسیٰ آسمان سے فرشتوں کے ساتھ نازل ہوں گے اور ایک بڑا تماشا ہوگا اور لاکھوں آدمیوں کا ہجوم ہوگا اور آسمان کی طرف نظر ہوگی۔اور لوگ دور سے دیکھ کرکہیں گے کہ وہ آئے وہ آئے۔ اور دمشق میں ایک سفیدمینار کے قریب اُتریں گے۔ مگر تعجب کہ وہ غریب اور عاجز انسان جو اپنی نبوت ثابت کرنے کیلئے الیاس نبی کو دوبارہ دنیا میں نہ لاسکا یہاں تک کہ صلیب پر لٹکایا گیا۔ اُس کی نسبت ایسے ایسے کرشمے بیان کئے جاتے ہیں۔اگر یہ باتیں قبول کے لائق ہیں تو پھر کیوں حضرت سید عبد القادر جیلانی کی یہ کرامت جو لوگوں میں بہت مشہور ہو رہی ہے قبول نہیں کی جاتی کہ ایک کشتی جو مع برات دریامیں ڈوب گئی تھی انہوں نے بارہ برس کے بعد نکالی تھی اور سب لوگ زندہ تھے اور نقارے اور باجے اُن کے ساتھ بج رہے تھے۔ ایساؔ ہی یہ دوسری کرامت کہ ایک مرتبہ فرشتہ ملک الموت ان کے کسی مرید کی رُوح بغیر اجازت نکال کر لے گیا تھا انہوں نے اڑ کر آسمان پر اس کو جا پکڑا اور اُس کی ٹانگ پر لاٹھی ماری اور ہڈی توڑ دی ۔ اور اُس روز کی جس قدر روحیں نکالی گئی تھیں سب چھوڑ دیں اور وہ دوبارہ زندہ ہوگئیں۔ فرشتہ روتا ہوا خدا تعالیٰ کے پاس گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عبد القادر محبوبیّت کے مقام میں ہے اس کے کام کی نسبت کوئی دست اندازی نہیں ہوگی اگر وہ تمام گذشتہ مُردے زندہ کر دیتا تب بھی اُس کا اختیار تھا۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 50

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 50

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/50/mode/1up


اب جس حالت میں ایسی مشہور شدہ کرامات کو قبول نہیں کیا گیا جن کے قبول کرنے میں چنداں حرج نہ تھا تو پھر کیوں ایسے شخص کی طرف وہ باتیں منسوب کی جاتی ہیں جو نہ صرف قرآن شریف کی منشاء کے برخلاف ہیں بلکہ عیسیٰ پرستی کے شرک کو اُس سے مدد ملتی ہے جس نے چالیس کروڑ انسانوں کو خدائے تعالیٰ کی توحید سے محروم کردیا ہے میں نہیں سمجھ سکتا کہ حضرت عیسیٰ بن مریم کو اور نبیوں پر کیا زیادتی اور کیا خصوصیت ہے۔ پھر اُس کو ایک خصوصیت دینا جو شرک کی جڑ ہے کس قدر کھلی کھلی ضلالت ہے جس سے ایک بڑی قوم تباہ ہوچکی ہے ہائے افسوس کہ انہوں نے محض مصنوعی کفارہ پر بھروسہ کرکے اپنے تئیں ہلاک کیا اور یہ خیال نہ کیا کہ نفس کے آتشی دریا سے وہی پار ہوگا جو اپنی کشتی اپنے ہاتھ سے بنائے گا اور وہی مزدوری لے گا جو اپنا کام آپ کرے گا اور وہی نقصان سے بچے گا جو اپنا بوجھ آپ اُٹھائے گا یہ کیسی جہالت ہے جو ایک انسان بیدست و پاہوکر دوسرے انسان پر اپنی کامیابی کیلئے بھروسہ کرے اور کسی کی جسمانی قوت کو اپنی روحانی زندگی کیلئے مفید سمجھے۔ خدا کا قانون ہے کہ اُس نے کسی انسان کو کسی امر میں خصوصیت نہیں دی اور کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ مجھ میں ایک ایسی بات ہے جو دوسرے انسانوں میں نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ایسے انسان کو واقعی طور پر معبود ٹھہرانے کیلئے بنیاد پڑ جاتی۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بعض عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی یہ خصوصیت پیش کی تھی کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں توفی الفور اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی اس آیت میں جواب دیا۔333۔۱؂ یعنی ’’عیسیٰ کی مثال آدم کی مثال ہے خدا نے اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اُس کو کہا کہ’’ ہو جا۔ سو وہ ہوگیا‘‘ ایسا ہی عیسیٰ بن مریم، مریم کے خون سے اور مریم کی منی سے پیدا ہوا اور پھر خدا نے کہا کہ ہو جا سو ہوگیا۔ پس اتنی بات میں کون سی خدائی اور کون سی خصوصیت اسؔ میں پیدا ہوگئی۔ موسم برسات میں ہزارہا کیڑے مکوڑے بغیر ماں اور باپ کے خودبخود زمین سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 51

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 51

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/51/mode/1up


پیدا ہوجاتے ہیں۔ کوئی اُن کو خدا نہیں ٹھہراتا۔ کوئی اُن کی پرستش نہیں کرتا۔ کوئی اُن کے آگے سر نہیں جھکاتا۔ پھر خواہ نخواہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت اتنا شور کرنا اگر جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ اور یہ کہنا کہ وہ اب تک زندہ ہے اور دوسرے نبی سب فوت ہوچکے یہ قرآن شریف کی مخالفت ہے۔ اللہ تعالیٰ تو قرآن شریف میں بتصریح اُن کی موت بیان فرماتا ہے پھر وہ زندہ کیونکر ہوئے اور قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ ہرگز نہیں آئیں گے۔ جیسا کہ آیت33۱؂سے یہ دونوں مطلب ثابت ہوتے ہیں ۔ کیونکہ اس تمام آیت کے اوّل آخر کی آیتوں کے ساتھ یہ معنے ہیں کہ خدا قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کہے گا کہ کیا تو نے ہی لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اپنا معبود ٹھہرانا۔ تو وہ جواب دیں گے کہ جب تک میں اپنی قوم میں تھا تو میں اُن کے حالات سے مطلع تھا اور گواہ تھا پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو پھر تو ہی اُن کے حالات سے واقف تھا۔ یعنی بعد وفات مجھے اُن کے حالات کی کچھ بھی خبر نہیں۔

اب اس آیت سے صریح طور پر دو باتیں ثابت ہوتی ہیں(۱) اوّل یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اِس آیت میں اقرار کرتے ہیں کہ جب تک میں اُن میں تھا میں ان کا محافظ تھا۔ اور وہ میرے روبرو بگڑے نہیں بلکہ میری وفات کے بعد بگڑے ہیں۔ پس اب اگر فرض کیاجائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ ہیں تو ساتھ ہی اقرار کرنا پڑے گا کہ اب تک عیسائی بھی بگڑے نہیں کیونکہ اس آیت میں عیسائیوں کا بگڑنا آیت33کا ایک نتیجہ ٹھہرایا گیاہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات پر موقوف رکھا گیا ہے۔ لیکن جبکہ ظاہر ہے کہ عیسائی بگڑ چکے ہیں توساتھ ہی ماننا پڑتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی فوت ہوچکے ہیں ورنہ تکذیب آیت قرآنی لازم آتی ہے۔(۲) دوسرے یہ کہ آیت میں صریح طور پر بیان فرمایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام عیسائیوں کے بگڑنے کی نسبت اپنی لاعلمی ظاہر کریں گے اورکہیں گے کہ مجھے تو اُس وقت تک ان کے حالات کی نسبت علم تھا جبکہ میں اُن میں تھا۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 52

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 52

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/52/mode/1up


اور پھر جب مجھے وفات دی گئی تب سے میں اُن کے حالات سے محض بے خبر ہوں مجھے معلوم نہیں کہ میرے پیچھے کیا ہوا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ عذر اُن کا اس حالت میں کہ وہ قیامت سے پہلے دوبارہ دنیا میں کسی وقت آئے ہوتے اور عیسائیوں کی ضلالت پر اؔ طلاع پاتے۔ محض دروغگوئی ٹھہرتا ہے اور اس کا جواب تو خدائے تعالیٰ کی طرف سے یہ ہونا چاہیے کہ اے گستاخ شخص میرے روبرو اور میری عدالت میں کیوں جھوٹ بولتا ہے اور کیوں محض دروغ کے طور پر کہتاہے کہ مجھے اُن کے بگڑنے کی کچھ بھی خبر نہیں حالانکہ تجھے معلوم ہے کہ میں نے قیامت سے پہلے دوبارہ تجھے دنیا میں بھیجا تھا اور تو نے عیسائیوں سے لڑائیاں کی تھیں اور اُن کی صلیب توڑی تھی اور اُن کے خنزیر قتل کئے تھے اور پھر میرے روبرو اتنا جھوٹ کہ گویا تجھے کچھ بھی خبر نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ایسے عقیدے میں کہ گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے کس قدر ان کی ہتک ہے اور نعوذ باللہ اس سے وہ دروغگو ٹھہرتے ہیں۔

اور اگر کہو کہ پھر ان حدیثوں کے کیامعنے کریں جن میں لکھا ہے کہ عیسیٰ بن مریم نازل ہوگا اس کا یہ جواب ہے کہ اُسی طرح معنے کرلو جس طرح حضرت عیسیٰ نے الیاس کے دوبارہ آنے کی نسبت معنے کئے تھے۔ اور نیز حدیثوں میں صاف لکھا ہے کہ وہ عیسیٰ اسی امت میں سے ہوگا کوئی اور شخص نہیں ہوگا۔ اور یہ نہیں لکھا کہ دوبارہ آئے گا۔ بلکہ یہ لکھا ہے کہ ’’نازل ہوگا‘‘ اگر دوبارہ آنا مقصود ہوتا تو اُس جگہ رجوع کا لفظ چاہئے تھا نہ نزول کا۔ اور اگر فرض محال کے طورپر کوئی حدیث قرآن شریف سے مخالف ہوتی تو وہ رد کرنے کے لائق تھی نہ یہ کہ کسی حدیث سے قرآن شریف کو رد کیا جائے ۔ اور اس جگہ یاد رہے کہ قرآن شریف یہود ونصاریٰ کی غلطیوں اور اختلافات کو دُور کرنے کیلئے آیا ہے۔ اور قرآن شریف کی کسی آیت کے معنے کرنے کے وقت جو یہود و نصاریٰ کے متعلق ہو یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ اُن میں کیا جھگڑا تھا جس کو قرآن شریف فیصلہ کرنا چاہتا ہے اب اس اصول کو مدنظررکھ کر اس آیت کے معنے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 53

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 53

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/53/mode/1up


بڑی آسانی سے ایک منصف مزاج سمجھ سکتا ہے کیونکہ یہود کے عقیدہ کے رُو سے جو شخص صلیب کے ذریعہ سے قتل کیاجائے وہ ملعون ہوتا ہے اور اُس کا رفع رُوحانی خدا تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور وہ شیطان کی طرف جاتا ہے۔ اب خدائے تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ حضرت عیسیٰ کا رفع روحانی خدائے تعالیٰ کی طرف ہوا یا نہ ہوا۔ سو خدا نے اوّل یہود کے اِس وہم کو مٹایا کہ حضرت عیسیٰ بذریعہ صلیب قتل ہوچکے ہیں اور فرمایا کہ یہود کا صرف یہ ایک شبہ تھا جو خدا نے اُن کے دلوں میں ڈال دیا۔ عیسیٰ بذریعہ صلیب قتل نہیں ہوا تا اس کو ملعون قرار دیا جائے بلکہ اُس کا رفع روحانی ہوا جیسے کہ اور مومنوں کا ہوتا ہے ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ کو اس فضول بحث اور فیصلہ کی ضرورت نہ تھی کہ حضرت عیسیٰ بجسم عنصری آسمان پر گیا یا نہ گیا۔کیونکہ یہود کا یہ متنازع فیہ امر نہ تھا اور یہود کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ جو شخص مصلوب ہو جائے وہ مع جسم عنصری آسمان پر نہیں جاتا کیوؔ نکہ اس سے تو یہ لازم آتا ہے کہ جو شخص مصلوب نہ ہو وہ مع جسم عنصری آسمان پرچلا جاتا ہے اور نہ یہود کا یہ عقیدہ ہے کہ بے ایمان اور *** آدمی مع جسم آسمان پر نہیں جاتا مگرمومن مع جسم عنصری آسمان پرچلا جاتا ہے کیونکہ موسٰی ؑ جو یہود کے نزدیک سب سے بڑا نبی تھا اُس کی نسبت بھی یہود کا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ وہ مع جسم آسمان پر چلا گیا ۔ پس تمام جھگڑا تورفع روحانی کا تھا۔ یہود کی طرف سے اپنے عقیدہ کے موافق یہ بحث تھی کہ نعوذ باللہ حضرت عیسیٰ ملعون ہیں کیونکہ اُن کا رفع روحانی نہیں ہوا وجہ یہ کہ وہ صلیب کے ذریعہ سے مارے گئے پس اسی غلطی کو خدا تعالیٰ نے دُور کرنا تھا سو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ عیسیٰ ملعون نہیں ہے بلکہ اُس کا رفع رُوحانی

اورمومنوں کی طرح ہوگیا۔

یاد رہے کہ ملعون کا لفظ مرفوع کے مقابل پر آتا ہے جبکہ مرفوع کے معنے رُوحانی طور پر مرفوع ہو۔ پس جو لوگ حضرت عیسیٰ کو بوجہ مصلوب ہونے کے ملعون ٹھہراتے ہیں اُن کے نزدیک ملعون کے معنے صرف اس قدر ہیں کہ ایسے شخص کا رفع رُوحانی نہیں ہوتا۔ عیسائیوں نے بھی اپنی غلطی سے تین دن کیلئے حضرت عیسیٰ کو ملعون مان لیا یعنی تین دن تک اُس کا رفع روحانی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 54

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 54

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/54/mode/1up


نہیں ہوا۔ اوربموجب ان کے عقیدہ کے حضرت عیسیٰ ملعون ہونے کی حالت میں تحت الثریٰ میں گئے اور ساتھ کوئی جسم نہ تھا۔ پھر مرفوع ہونے کی حالت میں کیوں جسم کی ضرورت ہوئی ۔ دونوں حالتیں ایک ہی رنگ کی ہونی چاہیئیں۔ یہ ہماری طرف سے عیسائیوں پر الزام ہے کہ وہ بھی رفع کے بارے میں غلطی میں پھنس گئے۔ وہ اب تک اس بات کے اقراری ہیں کہ صلیب کا نتیجہ توریت کی رُو سے ایک روحانی امر تھا یعنی *** ہونا جس کو دوسرے لفظوں میں عدم رفع کہتے ہیں پس بموجب اُن کے عقیدہ کے عدم رفع رُوحانی طور پر ہی ہوا۔ اس حالت میں رفع بھی روحانی ہونا چاہئے تھا تا تقابل قائم رہے۔ عیسائی صاحبان مانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ملعون ہونے کی حالت میں صرف روحانی طور پر تحت الثریٰ اوردوزخ کی طرف گئے اُس وقت اُن کے ساتھ کوئی جسم نہ تھا۔ پھر جبکہ یہ حالت ہے تو پھر مرفوع ہونے کی حالت میں کیوں جسم کی ضرورت پڑی اور کیوں جسم کو ساتھ ملایا گیا۔ حالانکہ قدیم سے توریت کے ماننے والے تمام نبی اور تمام یہود کے فقیہ صلیبی *** کے یہی معنے کرتے آئے ہیں کہ روحانی طور پر رفع نہ ہو۔ اور اب بھی یہی کرتے ہیں کہ جو شخص صلیب کے ذریعہ سے مارا جائے اُس کا خداتعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوتا۔ *** کے معنے عدم رفع ہے ۔ بہرحال جبکہ خدا تعالیٰ نے یہود کا اعتراض دُور کرناتھا اور یہود اب تک عدم رفع سے مراد رُوحانی معنے لیتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ روحانی طور پر عیسیٰ کا خدا تعالیٰ کی طرف رفع نہیں ہوا۔ اور وہ کاذب تھا۔ تو پھر خدا تعالیٰ اصل بات کو چھوڑ کر اور طرف کیوں چلا گیا۔ گویا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے یہود کا اصل جھگڑا سمجھا ہی نہیں اور ایسے جج ؔ کی طرح فیصلہ کیاجو سراسر روئداد مثل کے برخلاف فیصلہ لکھ مارتا ہے۔ ایسا گمان اگر عمداً خدا تعالیٰ کی نسبت کیا جائے تو پھر کفر میں کیا شک ہے۔

پھر ماسوا اس کے ہم کہتے ہیں کہ اگرمان بھی لیا جائے کہ خدا ئے تعالیٰ نے یہود کے اصل جھگڑے کی اس جگہ پروانہ رکھ کر ایک نئی بات بیان کردی ہے جس کا بیان کرنا محض ایک فضول اور غیر ضروری امر تھا یعنی یہ کہ حضرت عیسیٰ کو مع جسم عنصری دوسرے آسمان پر بٹھایا گیا تو پھر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 55

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 55

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/55/mode/1up


اس خیال کا بطلان اس طرح پر ہوتا ہے کہ اوّل تو قرآن شریف میں کہیں نہیں لکھا کہ حضرت عیسیٰ کومع جسم عنصری دوسرے آسمان پر بٹھایا گیا بلکہ قرآن شریف کے لفظ تو یہ ہیں کہ3۔۱؂ یعنی خدا نے عیسیٰ کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ پس سوچوکہ کیا خدا دوسرے آسمان پر مجسم چیزوں کی طرح بیٹھا ہوا ہے ؟ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف رفع ہمیشہ روحانی ہی ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی تمام نبیوں کی تعلیم ہے خدا جسم نہیں ہے کہ تا جسمانی رفع اُس کی طرف ہو۔ تمام قرآن شریف میں یہی محاورہ ہے کہ جب کسی کی نسبت فرمایا جاتا ہے کہ خدا کی طرف وہ گیا یا خدا کی طرف اس کارفع ہوا تو اُس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ روحانی طور پر اس کا رفع ہوا۔ جیسا کہ اس آیت میں بھی یہی معنے ہیں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 33۲؂ الخ کہ اے نفسِ مطمئنہ اپنے رب کی طرف واپس آجا۔ پس کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ مع جسم عنصری آجا۔

ماسوا اس کے اس جگہ یہ سوال ہوگا کہ اگر اس جگہ رفع رُوحانی کا بیان نہیں ہے اور اس جگہ وہ جھگڑا فیصلہ نہیں کیا گیا جو یہودنے حضرت مسیح کے رفع روحانی کی نسبت انکارکیا تھا اور نعوذ باللہ ملعون قرار دیا تھا تو پھر قرآن شریف کے کس مقام میں یہود کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے جس کا جواب دینا بموجب وعدہ الٰہی کے ضروری تھا۔پس اس تمام بیان سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ کے رفع کو رفع جسمانی ٹھہرانا سراسر ہٹ دھرمی اورحماقت ہے بلکہ یہ وہی رفع ہے جو ہر ایک مومن کے لئے وعدۂ الٰہی کے موافق موت کے بعد ہونا ضروری ہے اور کافر کے لئے حکم ہے کہ3۳؂یعنی اُن کیلئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے۔ یعنی اُن کا رفع نہیں ہوگا۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرماتا ہے 3۴؂ پس سیدھی بات کو اُلٹا دینا تقویٰ اور طہارت کے برخلاف اور ایک طور سے تحریف کلامِ الٰہی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت میں تمام صحابہ کا اجماع ہوچکا ہے کہ تمام نبی فوت ہوچکے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 56

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 56

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/56/mode/1up


اورصحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد میں یہی معنے آیت 333۱؂کے کئے گئے ۔ یعنی سب رسول فوت ہوچکے ہیں۔ پس کیا حضرؔ ت عیسیٰ رسول نہیں تھے جو فوت سے باہر رہ گئے۔ پھر باوجود اس اجماع کے فیج اعوج کے زمانہ کی تقلید کرنا دیانت سے بعید ہے۔ امام مالک کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوگئے ہیں۔ پس جبکہ سلف الائمہ کا یہ مذہب ہے تو دوسروں کا بھی یہی مذہب ہوگا۔ اور جن بزرگوں نے اس حقیقت کے سمجھنے میں خطا کی وہ خطا خدا تعالیٰ کے نزدیک درگذر کے لائق ہے۔ اِس دین میں بہت سے اسرار ایسے تھے کہ درمیانی زمانہ میں پوشیدہ ہوگئے تھے مگر مسیح موعود کے وقت میں ان غلطیوں کا کھل جانا ضروری تھا کیونکہ وہ حَکَم ہوکر آیا۔اگر درمیانی زمانہ میں یہ غلطیاں نہ پڑتیں تو پھر مسیح موعود کا آنا فضول اور انتظار کرنا بھی فضول تھا، کیونکہ مسیح موعود مجدد ہے اور مجدد غلطیوں کی اصلاح کے لئے ہی آیا کرتے ہیں۔ وہ جس کا نام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حَکَم رکھا ہے وہ کس بات کا حَکَم ہے اگر کوئی اصلاح اس کے ہاتھ سے نہ ہو۔ یہی سچ ہے مبارک وہ جو قبول کریں اور خدا سے ڈریں۔

اب پھر ہم اپنے پہلے مضمون کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ معجزات اور کرامات جو عوام الناس نے حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب کئے ہیں وہ سنت اللہ سے سراسر برخلاف ہیں۔ اور جیسے ایک فریق نے سرے سے انکار معجزات کا کرکے اپنے تئیں تفریط کی حد تک پہنچا دیا ہے ایسا ہی اُن کے مقابل پر دوسرے فریق نے معجزات کے بارے میں سخت غلو کرکے اپنی بات کو افراط کی حد تک پہنچا دیا ہے اور درمیانی راہ کو دونوں فریق نے ترک کر دیا ہے ظاہر ہے کہ اگر معجزات نہ ہوں تو پھر خدا تعالیٰ کے وجود پر کوئی قطعی اور یقینی علامت باقی نہیں رہتی اور اگر معجزات اس رنگ کے ہوں جس کا ابھی بیان کیا گیا ہے تو پھر ایمان کے ثمرات مفقود ہوجاتے ہیں اور ایمان ایمان نہیں رہتا۔ اور شرک تک نوبت پہنچتی ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 57

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 57

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/57/mode/1up


اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو عجیب طور پر جاہلوں کانشانہ ہوئے ہیں۔ اُن کی زندگی کے زمانہ میں تو یہود بے دین نے اُن کانام کافر اور کذّاب اور مکّار اورمُفتری رکھا اور اُن کے رفع روحانی سے انکار کیا۔ اور پھر جب وہ فوت ہوگئے تو اُن لوگوں نے جن پرانسان پرستی کی سیرت غالب تھی اُن کو خدا بنا دیا اور یہودی تو رفع روحانی سے ہی انکار کرتے تھے۔ اب بمقابل اُن کے رفع جسمانی کااعتقاد ہوا اور یہ بات مشہور کی گئی کہ وہ مع جسم آسمان پر چڑھ گئے ہیں گویا پہلے نبی تو روحانی طور پر بعدموت آسمان پر چڑھتے تھے مگر حضرت عیسیٰ زندہ ہونے کی حالت میں ہی مع جسم مع لباس مع تمام لوازم جسمانی کے آسمان پر جا بیٹھے۔ گویا یہ یہودیوں کی ضد اور انکار کا جو رفع روحانی سے منکر تھے نہایت مبالغہ کے ساتھ ایک جواب تراشا گیا اور یہ جواب سراسر نامعقول تھا کیونکہ یہودیوں کو رفعِ جسمانی سے کچھ غرض نہ تھی۔ اُن کی شریعت کا یہ مسئلہ تھا کہ جو لوگ صلیب پرمرتے ہیں وہ *** اورکافر اور بے ایمان ہوتے ہیں ۔ اُن کا رفع روحانی خداؔ ئے تعالیٰ کی طرف نہیں ہوتا اور یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہر ایک مومن جب مرتا ہے تو اُس کی رُوح کو فرشتے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں اور اُس کیلئے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں لیکن کافر کی رُوح آسمان کی طرف اٹھائی نہیں جاتی۔ اور کافر ملعون ہوتا ہے اُس کی رُوح نیچے کو جاتی ہے۔ اور وہ لوگ بباعث صلیب پانے حضرت عیسیٰ اور نیز بوجہ بعض اختلافات کے اپنے فتووں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کافر ٹھہرا چکے تھے۔ کیونکہ بزعم اُن کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بذریعہ صلیب قتل ہوگئے تھے۔ اور توریت میں یہ صاف حکم تھا کہ جو شخص بذریعہ صلیب ماراجائے وہ *** ہوتا ہے پس ان وجوہ سے انہوں نے حضرت عیسیٰ کو کافر ٹھہرایا تھا اوراُن کے رفع روحانی سے منکر ہوگئے تھے۔ پس یہودیوں کے نزدیک یہ منصوبہ ہنسی کے قابل تھا کہ گویا حضرت مسیح مع جسم آسمان پر چلے گئے۔ او ردرحقیقت یہ افترا ان لوگوں نے کیا تھا جو توریت کے علم سے ناواقف تھے اور خود فی نفسہٖ یہ خیال نہایت درجہ پر لغو تھا جس سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 58

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 58

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/58/mode/1up


خدائے تعالیٰ پر اعتراض ہوتا تھا کیونکہ جس حالت میں حضرت مسیح علیہ السلام یہودیوں کے تمام فرقوں تک جو مختلف فرقوں میں متفرق ہوچکے تھے اپنی دعوت کو ہنوز پہنچانہیں سکے تھے اور اُن کے ہاتھ سے ایک فرقہ کو بھی ابھی ہدایت نہیں ہوئی تھی۔ ایسی صورت میں تبلیغ کے کام کو ناتمام چھوڑ کر حضرت عیسیٰ کاآسمان پر چڑھ جانا سراسر خلافِ مصلحت او راپنے فرض منصبی سے پہلو تہی کرنا تھا۔ اور خود ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ کا محض بیہودہ طور پر اُن کو آسمان پر بٹھا دینا ایک بے سود اور لغو کام ہے جو ہرگز خدائے تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا۔

غرض حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر یہ ایک تہمت ہے کہ گویا وہ مع جسم عنصری آسمان پر چلے گئے۔ سو جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی زندگی کے زمانہ میں بھی اُن کے دشمنوں نے محض تہمت کے طور پر اُن کو کافر اور کذّاب قرار دیا ویسا ہی اُن کی تعریف میں غلو کرنے والوں نے جو نادان دوست تھے بقول شخصے کہ پیراں نپرند مریداں بپرانند اُن کو مع جسم آسمان پر چڑھا دیا اور نہ صرف اِسی قدر بلکہ اُن کو خدا بھی بنا دیا۔ اور پھر جب اور بھی زمانہ گذر گیا تو یہ عقیدہ بھی تراشا گیا کہ وہ اسی جسم عنصری کے ساتھ پھر آسمان سے اُتریں گے اور آخری دور انہی کا ہوگا اور وہی خاتم الانبیاء ہوں گے۔ غرض جس قدر جھوٹی کرامتیں اور جھوٹے معجزات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کئے گئے ہیں کسی اور نبی میں اُس کی نظیر نہیں پائی جاتی اور عجیب تر یہ کہ باوجود ان تمام فرضی معجزات کے ناکامی اور نامرادی جو مذہب کے پھیلانے میں کسی کو ہوسکتی ہے وہ سب سے اوّل نمبر پر ہیں۔ کسی اور نبی میں اس قدر نامرادی کی نظیر تلاش کرنا لاحاصل ہے مگر یاد رہے کہ اب اُن کے نام پر جو مذہب دنیا میں پھیل رہا ہے یہ ان کا مذہب نہیں ہے۔ اُن کی تعلیم میں خنزیر خوری اور تین خدا بنانے کا حکمؔ اب تک انجیلوں میں نہیں پایا جاتا۔ بلکہ یہ وہی مشرکانہ تعلیم ہے جس کی نبیوں نے مخالفت کی تھی۔ توریت کے دو۲ ہی بڑے بھاری اور ابدی حکم تھے اوّل یہ کہ انسان کو خدا نہ بنانا۔ دوسرے یہ کہ سؤر کو مت کھانا۔ سو دونوں حکم پولوس مقدس کی تعلیم سے توڑ دیئے گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 59

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 59

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/59/mode/1up


اب ہم بیان کرنا چاہتے ہیں کہ معجزہ کیا چیز ہے اور معجزہ کی کیوں ضرورت ہے۔ سو ہم اس کتاب کے پہلے باب میں معجزہ کی اصل حقیقت اور ضرورت بیان کریں گے۔ اور دوسرے باب میں اپنے دعویٰ کے مطابق اُن معجزات کے چند نمونے بیان کردیں گے اور تیسرا باب خاتمہ کا ہوگا۔ جس پر رسالہ ختم ہوگا۔

پہلا باب

معجزہ کی اصل حقیقت اور ضرورت کے بیان میں

معجزہ کی اصل حقیقت یہ ہے کہ معجزہ ایسے امر خارق عادت کو کہتے ہیں کہ فریق مخالف اُس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز آجائے خواہ وہ امر بظاہر نظر انسانی طاقتوں کے اندر ہی معلوم ہو جیسا کہ قرآن شریف کا معجزہ جو ملک عرب کے تمام باشندوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ پس وہ اگر چہ بنظر سرسری انسانی طاقتوں کے اندر معلوم ہوتا تھا لیکن اُس کی نظیر پیش کرنے سے عرب کے تمام باشندے عاجز آگئے ۔ پس معجزہ کی حقیقت سمجھنے کیلئے قرآن شریف کا کلام نہایت روشن مثال ہے کہ بظاہر وہ بھی ایک کلام ہے جیسا کہ انسان کا کلام ہوتا ہے لیکن وہ اپنی فصیح تقریر کے لحاظ سے او رنہایت لذیذ اور مصفّٰی اور رنگین عبارت کے لحاظ سے جو ہر جگہ حق اور حکمت کی پابندی کا التزام رکھتی ہے اور نیز روشن دلائل کے لحاظ سے جو تمام دنیا کے مخالفانہ دلائل پر غالب آگئیں اور نیززبردست پیشگوئیوں کے لحاظ سے ایک ایسا لاجواب معجزہ ہے جو باوجود گذرنے تیرہ سو برس کے اب تک کوئی مخالف اس کا مقابلہ نہیں کرسکا اور نہ کسی کو طاقت ہے جو کرے۔ قرآن شریف کو تمام دنیا کی کتابوں سے یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ معجزانہ پیشگوئیوں کو بھی معجزانہ عبارات میں جو اعلیٰ درجہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 60

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 60

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/60/mode/1up


کی بلاغت اور فصاحت سے پُر اور حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہیں بیان فرماتا ہے۔ غرض اصلی اور بھاری مقصد معجزہ سے حق اور باطل یا صادق اور کاذب میں ایکؔ امتیاز دکھلانا ہے۔ اور ایسے امتیازی امر کا نام معجزہ یا دوسرے لفظوں میں نشان ہے۔ نشان ایک ایسا ضروری امر ہے کہ اُس کے بغیر خدائے تعالیٰ کے وجود پر بھی پورا یقین کرنا ممکن نہیں اور نہ وہ ثمرہ حاصل ہونا ممکن ہے کہ جو پورے یقین سے حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ مذہب کی اصلی سچائی خدائے تعالیٰ کی ہستی کی شناخت سے وابستہ ہے ۔ سچے مذہب کے ضروری اور اہم لوازم میں سے یہ امر ہے کہ اُس میں ایسے نشان پائے جائیں جو خدائے تعالیٰ کی ہستی پر قطعی اوریقینی دلالت کریں اور وہ مذہب اپنے اندر ایسی زبردست طاقت رکھتا ہو جو اپنے پیرو کا خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے ہاتھ ملادے۔ اور ہم بیان کرچکے ہیں کہ صرف مصنوعات پر نظر کرکے صانع کی فقط ضرورت ہی محسوس کرنا اور اُس کی واقعی ہستی پر اطلاع نہ پانا یہ کامل خدا شناسی کیلئے کافی نہیں ہے اور اسی حد تک ٹھہرنے والے کوئی سچا تعلق خدائے تعالیٰ سے حاصل نہیں کرسکتے اور نہ اپنے نفس کو جذبات نفسانیہ سے پاک کرسکتے ہیں۔ اس سے اگر کچھ سمجھا جاتا ہے تو صرف اس قدر کہ اس ترکیب محکم اور ابلغ کا کوئی صانع ہونا چاہیے نہ یہ کہ درحقیقت وہ صانع ہے بھی۔ اور ظاہر ہے کہ صرف ضرورت کو محسوس کرنا ایک قیاس ہے جو رؤیت کا قائم مقام نہیں ہوسکتا اورنہ رؤیت کے پاک نتائج اس سے پیدا ہوسکتے ہیں۔ پس جو مذہب انسان کی خدا شناسی کو صرف ہونا چاہئے کے ناقص مرحلہ تک چھوڑتا ہے وہ اس کی عملی حالت کا چارہ گر نہیں ہے۔ پس درحقیقت ایسا مذہب ایک مردہ مذہب ہے جس سے کسی پاک تبدیلی کی توقع رکھنا ایک طمعِ خام ہے۔

ظاہر ہے کہ محض عقلی دلائل مذہب کی سچائی کے لئے کامل شہادت نہیں ہوسکتے اور یہ ایسی مہر نہیں ہے کہ کوئی جعلساز اس کے بنانے پر قادر نہ ہو بلکہ یہ تو عقل کے چشم ۂ عام کی ایک گداگری متصور ہوسکتی ہے۔ پھر اس بات کاکون فیصلہ کرے کہ عقلی باتیں جو ایک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 61

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 61

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/61/mode/1up


کتاب نے لکھیں درحقیقت وہ الہامی ہیں یا کسی اور کتاب سے چُراکر لکھی گئی ہیں۔ اور اگر فرض بھی کرلیں کہ وہ چُرائی ہوئی نہیں ہیں تو پھر بھی ہستی باری تعالیٰ پر وہ کب دلیل قاطع ہوسکتی ہیں۔ اور کب کسی طالب حق کا نفس اس بات پر پوری تسلی پاسکتا ہے کہ فقط وہی عقلی باتیں یقینی طور پر آیت خدا نما ہیں اور کب یہ اطمینان بھی ہوسکتا ہے کہ وہ باتیں بکلی غلطی سے مبرّا ہیں۔پس اگر ایک مذہب صرف چند باتوں کو عقل یا فلسفہ کی طرف منسوب کرکے اپنی سچائی کی وجہ بیان کرتا ہے اور آسمانی نشانوں اور خارق عادت امور کے دکھلانے سے قاصر ہے توایسے مذہب کا پیرو فریب خوردہ یا فریب دہندہ ہے او روہ تاریکی میں مرے گا۔

غرؔ ض محض عقلی دلائل سے تو خدائے تعالیٰ کا وجود بھی یقینی طور پر ثابت نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ کسی مذہب کی سچائی اُس سے ثابت ہوجائے۔ اور جب تک ایک مذہب اس بات کاذمہ وار نہ ہو کہ وہ خدا کی ہستی کو یقینی طورپر ثابت کرکے دکھلائے تب تک وہ مذہب کچھ چیز نہیں ہے اور بدقسمت ہے وہ انسان جو ایسے مذہب پر فریفتہ ہو۔ہر ایک وہ مذہب *** کا داغ اپنی پیشانی پر رکھتا ہے جو انسان کی معرفت کو اُس مرحلہ تک نہیں پہنچا سکتا جس سے گویا وہ خدا کو دیکھ لے۔ اور نفسانی تاریکی روحانی حالت سے بدل جائے اور خدا کے تازہ نشانوں سے تازہ ایمان حاصل ہوجائے۔اور نہ صرف لاف کے طور پر بلکہ واقعی طور پر ایک پاک زندگی مل جائے ۔ انسان کو سچی پاکیزگی حاصل کرنے کیلئے اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ اُس زندہ خدا کا اُس کو پتہ لگ جائے جو نا فرمان کو ایک دم میں ہلاک کرسکتا ہے اور جس کی رضا کے نیچے چلنا ایک نقد بہشت ہے ۔ اور جس طرح ایک مذہب کیلئے صرف عقلی طور پر اپنی عمدگی دکھلانا کافی نہیں ہے ایسا ہی ایک ظاہری راستباز کیلئے صرف یہ دعویٰ کافی نہیں ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ کے احکام پر چلتا ہے بلکہ اس کیلئے ایک امتیازی نشان چاہیے جو اُس کی راستبازی پر گواہ ہو کیونکہ ایسا دعویٰ تو قریباً ہر ایک کرسکتا ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اور اس کا دامن تمام اقسام فسق و فجورسے پاک ہے مگر ایسے دعوے پر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 62

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 62

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/62/mode/1up


تسلی کیونکر ہو کہ فی الحقیقت ایسا ہی امر واقع ہے ۔ اگر کسی میں مادۂ سخاوت ہے تو ناموری کی غرض سے بھی ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی عابد زاہد ہے تو ریا کاری بھی اس کا موجب ہوسکتی ہے۔ اور اگر فسق و فجور سے کوئی بچ گیا ہے تو تہید ستی بھی اس کا باعث ہوسکتی ہے۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ محض لوگوں کے لعن طعن کے خوف سے کوئی پارسا طبع بن بیٹھے اور عظمت الٰہی کا کچھ بھی اس کے دل پر اثر نہ ہو۔ پس ظاہر ہے کہ عمدہ چال چلن اگر ہو بھی تاہم حقیقی پاکیزگی پر کامل ثبوت نہیں ہوسکتا شاید درپردہ کوئی اور اعمال ہوں۔ لہٰذا حقیقی راستبازی کیلئے خدائے تعالیٰ کی شہادت ضروری ہے جو عالم الغیب ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو دنیا میں پاک ناپاک کے حالات مشتبہ ہوجاتے ہیں اور امان اُٹھ جاتا ہے اس لئے مابہ الامتیاز کی نہایت درجہ ضرورت ہے ۔ اور جس مذہب نے راستباز کیلئے کوئی مابہ الامتیاز کا خلعت عطا نہیں فرمایا یقیناًسمجھو کہ وہ مذہب ٹھیک نہیں ہے اور نور سے بالکل خالی ہے۔ خدا کی طرف سے جو کتاب ہو وہ آپ بھی اپنے اندر مابہ الامتیاز رکھتی ہے اور اپنے پیروکو بھی امتیازی نشان بخشتی ہے۔

غرض بغیر امتیازی نشان کے نہ مذہب حق اور مذہب باطل میں کوئی کھلا کھلا تفرقہ پیدا ہوسکتا ہے اورؔ نہ ایک راستباز اور مکّار کے درمیان کوئی فرق بیّن ظاہر ہوسکتا ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ایک شخص دراصل بدچلن اور فاسق اورفاجر ہو لیکن اُس کی بدچلنیاں ظاہر نہ ہوں۔ پس اگر ایسی صورت میں وہ بھی راستبازی کا دعویٰ کرے جیسا کہ ایسے دعوے ہمیشہ دنیا میں پائے جاتے ہیں تو پھر خدائے تعالیٰ کی طرف سے حقیقی راستباز کیلئے کونسا ایک چمکتا ہوا نشان ہے جس سے وہ ایسے مکّاروں سے الگ کا الگ دکھائی دے اور روز روشن کی طرح شناخت کرلیا جائے۔ حالانکہ قدیم سے اور جب سے کہ دنیا کی بنیاد ڈالی گئی ہے سنت اللہ اِسی طرح پر جاری ہے اور یہی قانونِ قدرت ہے کہ تمام عمدہ اور خراب چیزوں میں ایک امتیازی نشان رکھا گیا ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ بظاہر سونا اور پیتل ہم شکل ہیں یہاں تک کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 63

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 63

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/63/mode/1up


بعض جاہل اس سے دھوکہ بھی کھا لیتے ہیں۔ لیکن حکیم مطلق نے سونے میں ایک امتیازی نشان رکھا ہے جس کو صرّاف فی الفور شناخت کرلیتے ہیں۔ اوربہتیرے سفید اور چمکتے ہوئے پتھر ایسے ہیں جوکہ ہیرے سے بہت ہی مشابہ ہیں اور بعض نادان اُن کو ہیرا سمجھ کر ہزارہا روپیہ کانقصان اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن صانع عالم نے ہیرے کیلئے ایک امتیازی نشان رکھا ہوا ہے جس کو ایک دانشمند جوہری شناخت کرسکتا ہے۔ ایسا ہی دنیا کے کل جواہرات اور عمدہ چیزوں کو دیکھ لو کہ اگرچہ بظاہر نظر کئی ردّی اور ادنیٰ درجہ کی چیزیں اُن سے شکل میں مل جاتی ہیں مگر ہر ایک پاک اور قابل قد ر جوہر اپنے امتیازی نشان سے اپنی خصوصیت کو ظاہر کردیتا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا میں اندھیر پڑ جاتا۔ اور خود انسان کو دیکھو کہ اگرچہ وہ صورت میں بہت سے حیوانات سے مشابہت رکھتا ہے جیسا کہ بندر سے تاہم اُس میں ایک امتیازی نشان ہے جس کی وجہ سے ہم کسی بندر کو انسان نہیں کہہ سکتے۔ پھر جب کہ اس مادی دنیا میں جو ناپائدار اور بے ثبات ہے اور جس کا نقصان بھی بمقابل آخرت کے کچھ چیز نہیں ہے ہر ایک عمدہ اور نفیس جوہر کیلئے حکیم مطلق نے امتیازی نشان قائم کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ جوہر بسہولت شناخت کیا جاتا ہے تو پھر مذہب جس کی غلطی جہنم تک پہنچاتی ہے اور ایسا ہی ایک راستباز اور اہل اللہ کا وجود جس کا انکار شقاوت ابدی کے گڑھے میں ڈالتا ہے کیونکر یقین کیا جائے کہ اُن کی شناخت کے لئے کوئی بھی یقینی اور قطعی نشان نہیں ۔ پس ایسے شخص سے زیادہ کون احمق او ر نادان ہے کہ جو خیال کرتا ہے کہ سچے مذہب اور سچے راستباز کیلئے کوئی امتیازی نشان خدا نے قائم نہیں کیا۔ حالانکہ خدائے تعالیٰ قرآن شریف میں آپ فرماتا ہے کہ کتاب اللہ جو مذہب کی بنیاد ہے امتیازی نشان اپنے اندر رکھتی ہے جس کی نظیر کوئی پیش نہیں کرسکتا۔ اور نیز فرماتا ہے کہ ہر ایک مومن کو فرقان عطا ہوتا ہے یعنی امتیاؔ زی نشان جس سے وہ شناخت کیا جاتاہے۔ پس یقیناًسمجھو کہ سچا مذہب اور حقیقی راستباز ضرور اپنے ساتھ امتیازی نشان رکھتا ہے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں معجزہ اور کرامت اور خارق عادت امر ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 64

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 64

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/64/mode/1up


ہمارے اس قدر بیان سے ثابت ہوگیا کہ سچا مذہب ضرور اس بات کا حاجت مند ہے کہ اُس میں کوئی ایسی معجزانہ خاصیّت ہو کہ جو دوسرے مذاہب میں وہ نہ پائی جائے اور سچا راستباز ضرور اس بات کا حاجتمند ہے کہ کچھ ایسی معجزانہ تائیدات الٰہیہ اُس کے شامل حال ہوں کہ جن کی نظیر غیروں میں ہرگز نہ مل سکے تا انسان ضعیف البنیان جو ادنیٰ ادنیٰ شبہ سے ٹھوکر کھاتا ہے دولتِ قبول سے محروم نہ رہے۔ سوچ کر دیکھو کہ جس حالت میں انسانوں کی غفلت اور وہم پرستی کی یہ حالت ہے کہ باوجود یکہ خدا کے سچے مامورین سے صدہا نشان ظاہر ہوتے ہیں اور ہر ایک پہلو سے خدا اُن کی مدد فرماتا ہے پھر بھی وہ اپنی بدبختی سے شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ہزارہا نشانوں سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھاکر طرح طرح کی بدگمانیوں میں پڑ جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں ان کا کیا حال ہوتا کہ ایک مامورمن اللہ کیلئے آسمان سے کوئی امتیازی نشان نہ ملتا اور صرف خشک زہد اور ظاہری عبادت کے دکھلانے پرمدار ہوتا اور اس طرح بدگمانیوں کادروازہ بھی کھلا ہوتا۔ پس خدا جو کریم و رحیم ہے اُس نے نہ چاہا کہ اس کے ایک مقبول مذہب یا ایک مقبول بندہ سے انکار کرکے دنیا میں ہلاک ہوجائے۔ پس اُس نے سچے مذہب پر دائمی نشانوں کی مُہر لگادی اور سچے راستباز کواپنے خارق عادت کاموں کے ساتھ قبولیت کا نشان عطا فرمایا۔ سچ تو یہ ہے کہ خدا نے مقبول مذہب او ر مقبول بندہ کو امتیازی نشان عطا کرنے میں کوئی بھی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ اور سورج سے زیادہ اُن کو چمکا کر دکھلا دیا اور وہ کام اُن کی تائید میں دکھلائے کہ جن کی نظیر دنیا میں دیکھنے سننے میں نہیں آتی۔ خدا برحق ہے لیکن اُس کا چہرہ دیکھنے کا آئینہ وہ منہ ہیں جن پر اس کے عشق کی بارشیں ہوئیں جن کے ساتھ خدا ایسا ہمکلام ہوا کہ جیسے ایک دوست دوست سے۔ وہ غلبۂ محبت سے دوئی کے نقش کو مٹا کر توحید کی کامل حقیقت تک پہنچے کیونکہ توحید صرف یہی نہیں ہے کہ الگ رہ کر خدا کو ایک جاننا۔ اس توحید کا تو شیطان بھی قائل ہے بلکہ ساتھ اس کے یہ بھی ضروری ہے کہ عملی رنگ میں یعنی محبت کے کامل جوش سے اپنی ہستی کو محو کرکے خداکی وحدت کو اپنے پر وارد کر لینایہی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 65

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 65

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/65/mode/1up


کامل توحید ہے جو مدارِ نجات ہے جس کو اہل اللہ پاتے ہیں۔ پس یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ خدا اُن میں اُترتا ہے کیونکہ خلا اپنے تئیں بالطبع پُر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ اُترتا جسمانی طور سے نہیں ہے بلکہؔ اس طور سے ہے جو کیف اور کم سے بلند تر ہے۔ غرض خدا کی خاص تجلّی سے حقیقی راستبازوں میں وہ برکتیں پیدا ہو جاتی ہیں جو خدا میں ہیں۔اور اُن کی زندگی معجزانہ زندگی ہو جاتی ہے وہ بدلائے جاتے ہیں۔ اور ان کا وجود ایک نیا وجود ہو جاتا ہے جس کو دنیا دیکھ نہیں سکتی۔ پر سعید لوگ اُس کے آثار کو دیکھتے ہیں۔ چونکہ اب وہ تجلّی موجود ہے اور ایسے آثار تائیداتِ الٰہیہ کے نمایاں ہیں جو ہم میں اور ہمارے غیروں میں مابہ الامتیاز ہیں اس لئے ہم چند ایسے نشان تحریر کرکے حق کے طالبوں کو خدائے تعالیٰ کی طرف بلاتے ہیں جو مامورین کی نسبت سنت اللہ ہے اور شریر متعصّبوں پر خدائے تعالیٰ کی حجت پوری کرتے ہیں۔ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ الْکَرِیْمِ الْقَدِیْر۔

باب دوم

اُن نشانوں کے بیان میں جو بذریعہ اُن پیشگوئیوں کے ظاہر ہوئے جو آج سے پچیس برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھ کر شائع کی گئی تھیں

واضح ہو کہ براہین احمدیہ میری تالیفات میں سے وہ کتاب ہے جو ۱۸۸۰ ؁ عیسوی میں یعنی ۱۲۹۷ ہجری میں چھپ کر شائع ہوئی تھی۔ اِس کتاب کی تالیف کے زمانہ میں جیسا کہ خود کتاب سے ظاہر ہوتا ہے میں ایک ایسی گمنامی کی حالت میں تھا کہ بہت کم لوگ ہوں گے کہ جو میرے وجود سے بھی واقف ہوں گے۔ غرض اس زمانہ میں مَیں اکیلا انسان تھا جس کے ساتھ کسی دوسرے کو کچھ تعلق نہ تھا اور میری زندگی ایک گوش ۂ تنہائی میں گذرتی تھی اور اسی پر مَیں راضی اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 66

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 66

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/66/mode/1up


خوش تھا کہ ناگہاں عنایت ازلی سے مجھے یہ واقعہ پیش آیا کہ یکدفعہ شام کے قریب اسی مکان میں اور ٹھیک ٹھیک اسی جگہ کہ جہاں اب ان چند سطروں کے لکھنے کے وقت میرا قدم ہے مجھے خدائے تعالیٰ کی طرف سے کچھ خفیف سی غنودگی ہو کر یہ وحی ہوئی:۔

یَا اَحْمَدُ بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اُنْذِرَ اٰبَاءُ ھُمْ وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلَ الْمُجْرِمِیْنَ۔ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤمِنِیْنَ۔*

یعنی اے احمد ! خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی۔ جو کچھ تو نے چلایا تو نے نہیں چلایا بلکہ خدا نے چلایا۔ وہ خدا ہے جس نے تجھے قرآن سکھلایا یعنی اُس کے حقیقی معنوں پر تجھے اطلاع دی۔خ تاکہ تو اُن لوگوں کو ڈرائے جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے۔ اور تاکہ مجرموں کی راہ کھل جائے اور تیرے انکار کی وجہ سے اُن پر حجت پوری ہو جائے۔ ان لوگوں کو کہہ دے کہ مَیں خدائے تعالیٰ کی طرف سے مامورہوکر آیا ہوں اور مَیں وہ ہوں جو سب سے پہلے ایمان لایا۔

اِس وحی کے نازل ہونے پر مجھے ایک طرف تو خدائے تعالیٰ کی بے نہایت عنایات کا


قرآن شریف کے لئے تین۳ تجلّیات ہیں۔ وہ سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے نازل ہوا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ سے اُس نے زمین پر اشاعت پائی اور مسیح موعود کے ذریعہ سے بہت سے پوشیدہ اسرار اس کے کھلے۔ وَلِکُلِّ اَمْرٍ وَقْتٌ مَّعْلُوْم۔ اور جیسا کہ آسمان سے نازل ہوا تھا ویسا ہی آسمان تک اس کا نور پہنچا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں اس کے تمام احکام کی تکمیل ہوئی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے وقت میں اس کے ہر ایک پہلو کی اشاعت کی تکمیل ہوئی اور مسیح موعود کے وقت میں اس کے روحانی فضائل اور اسرار کے ظہور کی تکمیل ہوئی۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 67

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 67

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/67/mode/1up


شکر ادا کرنا پڑا کہ ایک میرے جیسے انسان کو جو کوئی بھی لیاقت اپنے اندر نہیں رکھتا اِس عظیم الشان خدمت سے سرفراز فرمایا اور دوسری طرف بمجرّد اِس وحی الٰہی کے مجھے یہ فکر دامنگیر ہوا کہ ہر ایک مامور کیلئے سنتِ الٰہیہ کے موافق جماعت کا ہونا ضروری ہے تا وہ اُس کا ہاتھ بٹائیں اور اُس کے مددگار ہوں۔ اور مال کا ہونا ضروری ہے ۔ تا دینی ضرورتوں میں جو پیش آتی ہیں خرچ ہو۔ اور سنت اللہ کے موافق اعداء کا ہونا بھی ضروری ہے اور پھر اُن پرغلبہ بھی ضروری ہے تا اُن کے شر سے محفوظ رہیں اور اَمر دعوت میں تاثیر بھی ضروری ہے تا سچائی پر دلیل ہو اور تااس خدمت مفوّضہ میں ناکامی نہ ہو۔

اِن امور میں جیسا کہ تصور کیا گیا بڑی مشکلات کا سامنا نظر آیا اور بہت خوفناک حالت دکھائی دی کیونکہ جبکہ مَیں نے اپنے تئیں دیکھا تو نہایت درجہ گمنام اور اَحَدٌ مِّنَ النَّاس پایا۔ وجہ یہ کہ نہ تو مَیں کوئی خاندانی پیرزادہ اورکسی گدّی سے تعلق رکھتا تھا تا میرے پر اُن لوگوں کا اعتقاد ہوجاتا اوروہ میرے گرد جمع ہو جاتے جو میرے باپ دادا کے مرید تھے اور کام سہل ہو جاتا۔ اور نہ مَیں کسی مشہور عالم فاضل کی نسل میں سے تھا تا صدہا آبائی شاگردوں کا میرے ساتھ تعلق ہوتا۔ اور نہ مَیں کسی عالم فاضل سے باقاعدہ تعلیم یافتہ اور سند یافتہؔ تھا تا مجھے اپنے سرمایہ ء علمی پر ہی بھروسہ ہوتا۔ اور نہ مَیں کسی جگہ کا بادشاہ یا نواب یا حاکم تھا تا میرے رُعبِ حکومت سے ہزاروں لوگ میرے تابع ہو جاتے بلکہ میں ایک غریب ایک ویرانہ گاؤں کا رہنے والا اور بالکل اُن ممتاز لوگوں سے الگ تھا جو مرجع عالم ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔

غرض کسی قسم کی ایسی عزت اور شہرت اور ناموری مجھے حاصل نہ تھی جس پر میں نظر رکھ کر اس بات کو اپنے لئے سہل سمجھتا کہ یہ کام تبلیغِ دعوت کا مجھ سے ہو سکے گا۔ پس طبعاً یہ کام مجھے نہایت مشکل اور بظاہر صورت غیر ممکن اور محالات سے معلوم ہوا۔ اور علاوہ اس کے اور مشکلات یہ معلوم ہوئے کہ بعض امور اس دعوت میں ایسے تھے کہ ہرگز اُمید نہ تھی کہ قو م



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 68

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 68

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/68/mode/1up


اُن کو قبول کرسکے اور قوم پر تو اس قدر بھی امیدنہ تھی کہ وہ اس امر کو بھی تسلیم کرسکیں کہ بعد زمانۂ نبوت وحی غیر تشریعی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور قیامت تک باقی ہے بلکہ صریح معلوم ہوتا تھا کہ اُن کی طرف سے وحی کے دعوے پر تکفیر کا انعام ملے گا۔ اور سب علماء متفق ہوکر درپئے ایذا و بیخ کنی ہو جائیں گے۔ کیونکہ اُن کے نزدیک بعد سیدنا جناب ختمی پناہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی پر قیامت تک مہر لگ گئی ہے اور بالکل غیرممکن ہے کہ اب کسی سے مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ ہو اور اب قیامت تک اُمّتِ مرحومہ اِس قسم کے رحم سے بے نصیب کی گئی ہے کہ خدائے تعالیٰ ان کو اپنا ہمکلام کرکے اُن کی معرفت میں ترقی بخشے اور براہ راست اپنی ہستی پر اُن کو مطلع فرمائے بلکہ وہ صرف تقلیدی طورپر گلے پڑا ڈھول بجا رہے ہیں۔اور شہودی طور پر ایک ذرّہ معرفت اُن کو حاصل نہیں۔ ہاں اس قدر محض لغو طریق پر بعض کا اُن میں سے اعتقاد ہے کہ الہام تو نیک بندوں کو ہوتا ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ وہ الہام رحمانی ہے یا شیطانی ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایسا الہام جو شیطان کی طرف بھی منسوب ہوسکتا ہے خدا کے ان انعامات میں شمار نہیں ہوسکتا جو انسان کے ایمان کو مفید ہوسکتے ہیں بلکہ مشتبہ ہونا اور شیطانی کلام سے مشابہ ہونا اُس کے ساتھ ایک ایسا *** کا داغ ہے جو جہنم تک پہنچا سکتا ہے۔ او راگر خدا نے کسی بندہ کے لئے33کی دُعا قبول کی ہے اور اُس کو منعمین میں داخل فرمایا ہے توضرور اپنے وعدہ کے مطابق اس رُوحانی انعام سے حصہ دیا ہے جو یقینی طورپر مکالمہ و مخاطبہ الٰہیہ ہے۔

غرض یہ ہی وہ امر تھا کہ اس اندھی دُنیا میں قوم کیلئے ایک جوش اور غضب دکھلانے کا محل تھا۔ پس میرے جیسے بیکس تنہا کے لئے ان تمام امور کا جمع ہونا بظاہر ناکامی کی ایک علامت تھی*۔ بلکہ ایک سخت ناکامی کا سامنا تھا کیونکہ کوئی پہلو بھی درست نہ تھا ۔ اوّل


میری دعوت کی مشکلات میں سے ایک رسالت اور وحی الٰہی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تھا اسی کی نسبت میری گھبراہٹ ظاہر کرنے کے لئے یہ الہام ہوا تھا۔ فاجاء ہ المخاض



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 69

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 69

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/69/mode/1up


مال کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سو اس وحی الٰہیؔ کے وقت تمام ملکیت ہماری تباہ ہوچکی تھی اور ایک بھی ایسا آدمی ساتھ نہ تھا جو مالی مدد کرسکتا۔ دوسرے مَیں کسی ایسے ممتاز خاندان میں سے نہیں تھا جو کسی پر میرا اثر پڑ سکتا۔ ہر ایک طرف سے بال و پر ٹوٹے ہوئے تھے پس جس قدر مجھے اس وحی الٰہی کے بعد سرگردانی ہوئی وہ میرے لئے ایک طبعی امر تھا اور میں اس بات کا محتاج تھا کہ میری زندگی کو قائم رکھنے کے لئے خدائے تعالیٰ عظیم الشان وعدوں سے مجھے تسلی دیتا تا میں غموں کے ہجوم سے ہلاک نہ ہو جاتا۔ پس میں کس منہ سے خداوند کریم و قدیر کا شکر کروں کہ اُس نے ایسا ہی کیا۔ اور میری بے کسی اور نہایت بے قراری کے وقت میں مجھے مبشرانہ پیشگوئیوں کے ساتھ تھام لیا اور پھر بعد اس کے اپنے تمام وعدوں کو پورا کیا۔ اگر وہ خدائے تعالیٰ کی تائیدیں اور نصرتیں بغیر سبقت پیشگوئیوں کے یونہی ظہور میں آتیں تو بخت اور اتفاق پر حمل کی جاتیں لیکن اب وہ ایسے خارقِ عادت نشان ہیں کہ اُن سے وہی انکار کرے گا جو شیطانی خصلت اپنے اندر رکھتا ہوگا۔

اور پھر اس کے بعد خدا نے اپنے اُن تمام وعدوں کو پورا کیا جو ایک زمانہ دراز پہلے پیشگوئی کے طور پر کئے تھے۔ اور طرح طرح کی تائیدیں اور طرح طرح کی نصرتیں کیں۔اور جن مشکلات کے تصور سے قریب تھا کہ میری کمر ٹوٹ جائے اور جن غموں کی وجہ سے مجھے خوف تھا کہ میں ہلا ک ہو جاؤں اُن تمام مشکلات اور تمام غموں کو دُور فرمایا اور جیسا کہ وعدہ کیا تھا


اِلٰی جذع النخلۃ۔ قال یالیتنی مِتّ قبل ھٰذا و کنت نسیًا منسیًا۔ مخاض سے مراد اس جگہ وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں اور جذع النخلۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی اولاد مگر صرف نام کے مسلمان ہیں۔ بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ درد انگیز دعوت جس کا نتیجہ قوم کا جانی دشمن ہو جانا تھا اس مامور کو قوم کے لوگوں کی طرف لائی جو کھجور کی خشک شاخ یا جڑ کی مانند ہیں۔ تب اُس نے خوف کھا کر کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مرجاتا اور بھولا بسرا ہو جاتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 70

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 70

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/70/mode/1up


ویسا ہی ظہور میں لایا۔ اگرچہ وہ بغیر سبقت پیشگوئیوں کے بھی میری نصرت اور تائید کرسکتا تھا مگر اُس نے ایسا نہ کیا بلکہ ایسے زمانہ اور ایسی نومیدی کے وقت میں میری تائید اور نصرت کیلئے پیشگوئیاں فرمائیں کہ وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس زمانہ سے مشابہ تھا جبکہ آپ مکّہ معظمہ کی گلیوں میں اکیلے پھرتے تھے اور کوئی آپ کے ساتھ نہ تھا۔اور کوئی صورت کامیابی کی ظاہر نہیں تھی۔ اسی طرح وہ پیشگوئیاں جو میرے گمنامی کے زمانہ میں کی گئیں اُس زمانہ کی نگاہ میں ہنسی کے لائق اور دُور از قیاس تھیں اور ایک دیوانہ کی بڑ سے مشابہ تھیں۔کس کو معلوم تھا کہ جیسا کہ ان پیشگوئیوں میں وعد ہ فرمایا گیا ہے سچ مچ کسی زمانہ میں ہزارہا انسان میرے پاس قادیان میں آئیں گے۔ اور کئی لاکھ انسان میری بیعت میں داخل ہو جائیں گے اور میں اکیلا نہیں رہوں گا جیسا کہ اُس زمانہ میں اکیلا تھا۔اور خدا نے گمنامی او رتنہائی کے زمانہ میں یہ خبریں دیں تا وہ ایک دانشمند اور طالب حق کی نظر میں عظیم الشان نشان ہوں اور تا سچائی کے ڈھونڈنے والے یقینِ دل سے سمجھ لیں کہ یہ کاروبار انسان کی طرف سے نہیں ہے اور نہ ممکن ہے کہ انسان کی طرف سے ہو۔ اُس زمانہ میں کہ مَیں ایک گمنام اور اکیلا اور نہایت کم درجہ کی حیثیتؔ کا انسان تھا اور اس قدر کم حیثیت تھا کہ قابل ذکر نہ تھا اور کسی ایسے ممتاز خاندان سے نہ تھا جس کی نسبت توقع ہوسکتی تھی کہ بآسانی لوگ اُس پر جمع ہو جائیں گے۔ ایسے وقت میں اور ایسی حالت میں کون انسان ایسی پیشگوئیاں کرسکتا تھا جو براہین احمدیہ میں آج سے پچیس۲۵ برس* پہلے شائع ہوچکی ہیں جن میں سے بطور نمونہ ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔

اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ وَانْتَھٰی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا اَلَیْسَ ھَذَا بِالْحَقّ۔

اصل میں بہت سی پیشگوئیاں براہین احمدیہ کی ایسی ہیں جن پر آج تیس۳۰ سال کی مدت گزر چکی ہے لیکن پچیس۲۵سال براہین احمدیہ میں لکھے جانے کی تاریخ ہے نہ اصل زمانہ پیشگوئی کا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 71

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 71

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/71/mode/1up



وَلَا تَیْءَسْ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ۔ اَلا اِنَّ رَوْحَ اللّٰہِ قَرِیْب۔اَلا اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْب۔یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق۔ یَنْصُرُکَ اللّٰہ مِنْ عِنْدِہٖ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِی اِلَیْھِم مِّنَ السَّمَآءِ اِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا ۔ یَرْفَعُ اللّٰہُ ذِکْرَکَ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ فِی الدُّنْیَاوَالْاٰخِرَۃ۔ اَنْتَ مِنِّی بِمَنْزِلَۃِ تَوْحِیْدِیْ وَتَفْرِیْدِیْ فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَیْنَ النَّاسِ۔ ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْءًا مَّذْکُوْرًا۔ وَبَشّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمِ وَاْتلُ عَلَیْھِمْ مَا اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۔ وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَلَا تَسْءَمْ مِّنَ النَّاسِ۔ اَصْحَابُ الصُّفُّۃ۔وَمَا اَدْرَاکَ مَا اَصْحَابُ الصُّفَّۃ تَرَی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ۔ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ۔ رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًایُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ ۔ اَمْلُوا۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۰ سے ۲۴۲ تک۔ ترجمہ ۔ جس وقت خدا کی مدد اور فتح آئے گی اور زمانہ ہماری طرف رجوع کرلے گااُس وقت کہا جائے گا کہ کیا یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہ تھا۔ اور خدا کی رحمت سے نومید مت ہو یعنی یہ خیال مت کر کہ میں تو ایک گمنام اور اکیلا اور احدٌ مّن النّاس آدمی ہوں۔ یہ کیوں کر ہوگا کہ میرے ساتھ ایک دنیا جمع ہو جائے گی۔ کیونکہ خدا ارادہ کرچکا ہے کہ ایسا ہی ہوگا اور اُس کی مدد قریب ہے۔اور جن راہوں سے وہ مالی مدد آئے گی اور ارادت کے خطوط آئیں گے وہ سڑکیں ٹوٹ جائیں گی اور گہری ہو جائیں گی۔ یعنی بکثرت ہر ایک قسم کا مال آئے گا اور دُور دُور سے آئے گا اور دُور دُور سے مُریدانہ خطوط آئیں گے۔ اور نیز اس قدر لوگ کثرت سے آئیں گے کہ جن راہوں پر چلیں گے اُن راہوں میں گڑھے پڑ جائیں گے۔ خدا اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا۔ تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم خود آسمان سے الہام کریں گے۔ تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ تیرے ذکر کو خدا اونچا کرے گا اور دنیا اور آخرت میں اپنی نعمت تیرے پر پوری کردے گا۔ تومجھ سے ایسا ہے جیسا کہ میری توحید اور تفرید۔ پس وقت چلا آتا ہے کہ ؔ تیری مدد کی جائے گی۔اور دنیا جہان میں تیرے نام کو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 72

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 72

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/72/mode/1up


شہرت دی جائے گی۔ اور تو اس سے کیوں تعجب کرتا ہے کہ خدا ایسا کرے گا ۔ کیا تیرے پر وہ وقت نہیں آیا کہ تو محض معدوم تھا اور تیرے وجود کا دنیا میں نام و نشان نہ تھا۔ پھر کیا خدا کی قدرت سے یہ بعید ہے کہ تیری ایسی تائیدیں کرے اور یہ وعدے پورے کرکے دکھلا دے۔ اور تو اُن لوگوں کو جو ایمان لائے یہ خوشخبری سنا کہ اُن کا قدم خدا کے نزدیک صدق کا قدم ہے ۔ سو اُن کو وہ وحی سنا دے جو تیری طرف تیرے رب سے ہوئی۔ اور یاد رکھ کہ وہ زمانہ آتا ہے کہ لوگ کثرت سے تیری طرف رجوع کریں گے۔ سو تیرے پر واجب ہے کہ تو اُن سے بدخلقی نہ کرے اور تجھے لازم ہے کہ تو اُن کی کثرت کو دیکھ کر تھک نہ جائے۔ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو اپنے وطنوں سے ہجرت کرکے تیرے حجروں میں آکرآباد ہوں گے۔ وہی ہیں جو خدا کے نزدیک اَصحابُ الصُّفّہ کہلاتے ہیں۔ اور تو جانتا ہے کہ وہ کس شان اور کس ایمان کے لوگ ہوں گے جو اَصحابُ الصُّفّہ کے نام سے موسوم ہیں وہ بہت قوی الایمان ہوں گے۔ تو دیکھے گا کہ اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے وہ تیرے پردرود بھیجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ! ہم نے ایک آواز دینے والے کی آواز سنی جو ایمان کی طرف بلاتا ہے۔ سو ہم ایمان لائے ان تمام پیشگوئیوں کو تم لکھ لو کہ وقت پر واقع ہوں گی۔

ان چند سطروں میں جو پیشگوئیاں ہیں وہ اس قدر نشانوں پر مشتمل ہیں جو دس۱۰ لاکھ سے زیادہ ہوں گے اور نشان بھی ایسے کھلے کھلے ہیں جو اوّل درجہ پر خارق عادت ہیں سو ہم اوّل صفائی بیان کے لئے ان پیشگوئیوں کے اقسام بیان کرتے ہیں بعد اس کے یہ ثبوت دیں گے کہ یہ پیشگوئیاں پوری ہوگئی ہیں۔ اور درحقیقت یہ خارق عادت نشان ہیں اور اگر بہت ہی سخت گیری اور زیادہ سے زیادہ احتیاط سے بھی ان کا شمار کیا جائے تب بھی یہ نشان جو ظاہر ہوئے دس لاکھ سے زیادہ ہوں گے۔

پیشگوئیوں کے اقسام میں سے اوّل وہ پیشگوئی ہے جس کی طرف وحی الٰہی وَانْتَھٰی اَمْرُ الزَّمَانِ اِلَیْنَا میں اشارہ ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مخالف لوگوں سے ہمارا جنگ ہوگا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 73

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 73

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/73/mode/1up


مخالف چاہیں گے کہ اِس سلسلہ میں ناکامی رہے اور لو گ اِس طرف رجوع نہ کریں اور نہ قبول کریں۔ پر ہم چاہیں گے کہ لوگ رجوع کریں آخر ہمارا ہی ارادہ پورا ہوگا ۔ اور لوگوں کا اِس طرف رجوع ہو جائے گا۔ اور وہ قبول کرتے جائیں گے (۲) دوسری پیشگوئیوں میں یہ خبر دی گئی ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ دُور دُور سے مالی امداد بھیجی جائے گی اور دُور دُور سے خطوط آئیں گے اور اس قدر تواتر اور کثرت سے مالیؔ مدد پہنچے گی کہ جن راہوں سے وہ مالی مدد آئے گی وہ سڑکیں گہری ہو جائیں گی۔ (۳) تیسری پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ اس قدر لوگ ارادت اور اعتقاد سے قادیان میں آئیں گے کہ جن راہوں سے وہ آئیں گے وہ سڑکیں ٹوٹ جائیں گی(۴) چوتھی پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ لوگ تیرے ہلاک اورتباہ کرنے کے لئے کوشش کریں گے۔ مگر ہم تیرے محافظ رہیں گے ۔(۵)پانچویں پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ میں دنیا میں تجھے شہرت دوں گا اور تو دُور دُور تک مشہور ہو جائے گا اورتیری مدد کی جائے گی۔(۶) چھٹی پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ اس قدر لوگ کثرت سے آئیں گے کہ قریب ہے کہ تو تھک جائے یا بباعث کثرت ازدحام اُن سے توبدخلقی کرے۔(۷) ساتویں پیشگوئی یہ ہے کہ خدا فرماتاہے کہ بہت سے لوگ اپنے اپنے وطنوں سے تیرے پاس قادیان میں ہجرت کرکے آئیں گے اور تمہارے گھروں کے کسی حصہ میں رہیں گے وہ اصحابِ صُفّہ کہلائیں گے۔

یہ سات پیشگوئیاں ہیں جن کی خبر ان کلماتِ وحی الٰہی میں دی گئی ہے اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس زمانہ میں یہ ساتوں پیشگوئیاں پوری ہوچکی ہیں۔ کیونکہ علماء اور پیرزادوں نے کفر کے فتوے طیارکرکے اور طرح طرح کے منصوبے تراش کرکے ناخنوں تک زور لگایا کہ تامیری طرف کوئی رجوع نہ کرے اور حیا کو بالائے طاق رکھ کر خدا تعالیٰ سے جنگ کیا اور کوئی دقیقہ مکر اور فریب اوردھوکہ دینے کا اٹھانہ رکھا۔ اور بعض نے میری نسبت جھوٹی مخبریاں کیں تا کسی طرح گورنمنٹ کو ہی افروختہ کریں اور بعض نے جاہل مسلمانوں کو افروختہ کیا تا وہ دُکھ دیتے رہیں مگر آخر کار وہ سب نامراد رہے اور یہ پودا زمین میں مخفی نہ رہ سکا اور ایک جماعت کی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 74

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 74

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/74/mode/1up


صورت پیدا ہوگئی جس کے ثابت کرنے کی کچھ ضرورت نہیں کہ بدیہی امر ہے پھر دوسری پیشگوئی یہ تھی کہ ہر طرف سے مالی امداد آئے گی یہ مالی امداد اب تک پچاس ہزار روپیہ سے زیادہ آچکی ہے۔ بلکہ مَیں یقین کرتا ہوں کہ ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے اس کے ثبوت کیلئے ڈاکخانجات کے رجسٹر کافی ہیں اور پھر تیسری پیشگوئی یہ تھی کہ لوگ کثرت سے آئیں گے۔ سو اس قدر کثرت سے آئے کہ اگر ہر روزہ آمدن اورخاص وقتوں کے مجمعوں کا اندازہ لگایا جائے تو کئی لاکھ تک اُس کی تعداد پہنچتی ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کو محکمہ پولیس کے وہ ملازم خوب جانتے ہیں جن کو اس طرف خیال رکھنے کا حکم ہے اور نیز قادیان کے تمام لوگ جانتے ہیں ۔ اور پھر چوتھی پیشگوئی یہ تھی کہ خدا فرماتا ہے کہ لوگوں کے حملوں سے ہم بچائیں گے اور تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے سو اِس کا ظہور بھی ہو چکا۔ چنانچہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کے مقدمہ میں یہ ارادہ کیا گیا تھا کہ میں پھانسی دیا جاؤں اور کرم دین جس نے ناحق بے موجب مجھ پر فوجداری مقدمے کئے اُس کا بھی یہی ارادہ تھا کہ میں کسی طرح سخت قید کی سزا پاؤں اورؔ وہ اس مقدمہ بازی میں اکیلا نہ تھا بلکہ کئی مولوی اور حاسد دنیا دار اس کے ساتھ شریک تھے اور اس کیلئے چندے ہوتے تھے۔ سو خدا نے مجھے بچا لیا اور اپنی پیشگوئیوں کوسچا کرکے دکھلا دیا ۔ پھر پانچویں پیشگوئی یہ تھی کہ خدا دنیا میں عزت کے ساتھ تجھے شہرت دے گا۔ سواس کا پورا ہونا محتاج بیان نہیں۔ چھٹی پیشگوئی یہ تھی کہ اس قدر لوگ آئیں گے کہ عنقریب ہے کہ تو اُن کی ملاقات سے تھک جائے یا کثرت مہمانداری کی وجہ سے بدخلقی کرے سواس پیشگوئی کا وقوع نہایت ظاہر ہے اور جن لوگوں کو قادیان میں آنے کا اتفاق ہوتارہا ہے وہ کثرت آمد مہمانوں کو دیکھ کر گواہی دے سکتے ہیں کہ واقعی بعض اوقات اس کثرت سے مہمان جمع ہوتے ہیں اور اس کثرت سے ملاقاتوں کی کشمکش ہوتی ہے کہ اگر یہ وصیت ہر وقت ملحوظ نہ ہو تو ممکن ہے کہ ضعف بشریت بدخلقی کی طرف مائل کر دیوے یا مہمانداری میں فتور پیدا ہو جائے۔ سب کے ساتھ خوش خلقی سے مصافحہ کرنا اور باوجود صدہا لوگوں کے اجتماع کے ہر ایک کے ساتھ پور ے اخلاق سے پیش آنا بجز خدا کی مدد کے ہر ایک کا کام نہیں۔ ساتویں پیشگوئی اُن اصحا ب الصفہ کی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 75

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 75

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/75/mode/1up


نسبت ہے جو ہجرت کرکے قادیاں میں آگئے۔ سو جس کا جی چاہے آکر دیکھ لے۔

یہ سات قسم کے نشان ہیں جن میں سے ہر ایک نشان ہزارہا نشانوں کا جامع ہے۔ مثلاً یہ پیشگوئی کہ یَأْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک جگہ سے اور دور دراز ملکوں سے نقد اور جنس کی امداد آئے گی اور خطوط بھی آئیں گے۔ اب اس صورت میں ہر ایک جگہ سے جواب تک کوئی روپیہ آتا ہے یا پارچات اوردوسرے ہدیے آتے ہیں یہ سب بجائے خود ایک ایک نشان ہیں۔ کیونکہ ایسے وقت میں ان تمام باتوں کی خبر دی گئی تھی جبکہ انسانی عقل اس کثرتِ مدد کو دُور از قیاس و محال سمجھتی تھی۔ ایسا ہی یہ دوسری پیشگوئی یعنی یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق جس کے یہ معنے ہیں کہ دُور دُور سے لوگ تیرے پاس آئیں گے یہاں تک کہ وہ سڑکیں ٹوٹ جائیں گی جن پر وہ چلیں گے۔ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی چنانچہ اب تک کئی لاکھ انسان قادیان میں آچکے ہیں اور اگر خطوط بھی اس کے ساتھ شامل کئے جائیں جن کی کثرت کی خبر بھی قبل از وقت گمنامی کی حالت میں دی گئی تھی تو شاید یہ اندازہ کروڑ تک پہنچ جائے گا مگر ہم صرف مالی مدد اور بیعت کنندوں کی آمد پرکفایت کرکے ان نشانوں کو تخمیناً دس لاکھ نشان قرار دیتے ہیں۔ بے حیا انسان کی زبان کو قابو میں لانا تو کسی نبی کیلئے ممکن نہیں ہوا لیکن وہ لوگ جو حق کے طالب ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے گمنامی کے زمانہ میں جس کو قریباً پچیس برس گذر گئے جب کہ میں کچھ بھی چیز نہ تھا اور کسی قسم کی شہرت نہ رکھتا تھا اور کسی بزرگ خاندان پیر زادگی سے نہ تھا تا رجوع خلائق سہل ہوتا۔ اس قدر کھلے طور پر آئندہ زمانہ کے عروج اور ترقیات کیؔ خبر دینا اور پھر اُن چیزوں کا اُسی طرح بعدزمانہ دراز وقوع میںآجانا کیا کسی انسان سے ہو سکتا ہے اور کیاممکن ہے کہ کوئی کذّاب اور مفتری ایسا کرسکے۔ مَیں باور نہیں کرسکتا کہ جو شخص پہلے انصاف کی نظر سے اُس زمانہ کی طرف نظر اٹھاکردیکھے جبکہ براہین احمدیہ تالیف کی گئی تھی اور ابھی شائع بھی نہیں ہوئی تھی اور ایک جوڈیشل تحقیقات کے طور سے خود موقع پر آکر دریافت کرے کہ اُس زمانہ میں مَیں کیا چیز تھا اور کس قدرخمول اور گمنامی کے زاویہ میں پڑا ہوا تھا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 76

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 76

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/76/mode/1up


اور کیسے مہجور اور مخذول کی طرح لوگوں کے تعلقات سے الگ تھا ۔ اور پھر ان پیشگوئیوں کو جو حال کے زمانہ میں پوری ہوگئیں غور سے دیکھے اور تدبّر سے اُن پر نظر ڈالے تواُس کو ان پیشگوئیوں کی سچائی پر ایسا یقین آجائے گا کہ گویا دن چڑھ جائے گا ۔ مگر بخل اور تعصب اور نفسانی کبر اور رعونت کی حالت میں کسی کو کیاغرض جو اس قدر محنت اٹھائے بلکہ وہ تو تکذیب کی راہ کو اختیار کرے گا جو بہت سہل کام ہے اور کوشش کرے گا جو کسی طرح ان نشانوں کے قبول کرنے سے محروم رہے۔


بجز فضل خداوندی چہ درمانے ضلالت را

نہ بخشد سود اعجاز ے تہیدستان قِسمت را

اگر برآسمان صدماہتاب و صدخورے تابد

نہ بیند روز روشن آنکہ گم کردہ بصارت را

تو اے دانابترس از آنکہ سوئے اوبخواہی رفت

بہ دنیا دل چہ مے بندی چہ دانی وقتِ رحلت را

مشو از بہرِدنیا سرکشِ فرمانِ احدیّت

مخراز بہرِ روزے چند اے مسکیں تو شقوت را

اگر خواہی کہ یابی در دو عالم جاہ و دولت را

خدا را باش و از دل پیش ۂ خود گیر طاعت را

غلامِ درگہش باش و بعالم بادشاہی کُن

نباشد بیم از غیرے پرستاران حضرت را

تواز دل سوئے یارِ خود بیا تا نیز یار آید

محبت مے کشدباجذبِ روحانی محبت را

خدا در نصرتِ آنکس بود کو ناصرِ دین ست

ہمیں اُفتاد آئین از ازل درگاہِ عزّت را

اگر باورنمے آید بخواں ایں واقعاتم را

کہ تابینی تو درہر مشکلم انواعِ نُصرت را

ہرآں کو یابد از درگاہ از خدمت ہمے یابد

کہ غفلت را سزائے ہست و اجرے ہست خدمت را

من اندر کارِ خود حیرانم و رازش نمے دانم

کہ من بے خدمتے دیدم چنیں نعماء وحشمت را

نہاں اندرنہاں اندر نہاں اندر نہاں ہستم

کجا باشد خبر از ماگرفتارانِ نخوت را



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 77

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 77

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/77/mode/1up


ندا ؔ ئے رحمت از درگاہِ باری بشنوم ہردم

اگر کرمے کند *** چہ وزن آں ہرزہ *** را

اگر در حلقۂ اہلِ خدا داخل شوی یانے

نوِشتیم از رہِ شفقت کہ ماموریم دعوت را

یہ پیشگوئیاں جو ابھی ہم لکھ چکے ہیں صرف براہین احمدیہ کے اُسی مقام میں مسطور نہیں ہیں بلکہ خدائے تعالیٰ نے تاکید کے طور پر اور اس اظہار کی غرض سے کہ یہ ارادہ آسمان پر قرار پاچکا ہے جابجا دوبارہ سہ بارہ براہین احمدیہ کے مختلف مقامات میں اُن کا ذکر کیا ہے۔ اور بعض اور پیشگوئیاں بھی بیان فرمائی ہیں جو ان سے الگ ہیں۔ چنانچہ ہم حق کے طالبوں کو پورے طور پر سیراب کرنے کیلئے وہ پیشگوئیاں بھی اس جگہ لکھ دیتے ہیں اور یاد رہے کہ اس جگہ صرف اسی قدر معجزہ نہیں کہ وہ پیشگوئیاں باوجود اہلِ عناد کی سخت مخالفت کے ایک مدت دراز کے بعد پوری ہوگئیں بلکہ ساتھ اس کے یہ بھی معجزہ ہے کہ جیسا کہ ابتدا میں یہ وحی الٰہی مجھے ہوئی تھی کہ جو اس رسالہ میں درج ہوچکی ہے یعنی یہ کہ یا احمد بارک اللّٰہ فیک جس کے معنے ہیں کہ اے احمد خدا تیری عمراورکام میں برکت دے گا۔ایسا ہی خدا نے مجھے موت سے محفوظ رکھا یہاں تک کہ وہ تمام پیشگوئیاں پوری کرکے دکھلا دیں اور باوجود ان تمام عوارض اور امراض کے جو مجھے لگے ہوئے ہیں جو د۲و زرد چادروں کی طرح ایک اوپر کے حصّے میں اور ایک نیچے کے بدن کے حصہ میں شامل حال ہیں جیسا کہ مسیح موعود کے لئے اخبار صحیحہ میں یہ علامت قرار دی گئی ہے مگر پھر بھی خدائے تعالیٰ نے اپنے فضل سے جیسا کہ وعدہ کیا تھا میری عمر میں برکت دی بڑی بڑی بیماریوں سے میں جاں برہوگیا۔ اور کئی دشمن بھی منصوبے کرتے رہے کہ کسی طرح میں کسی پیچ میں پڑ کر اس دارِ دنیا سے رخصت ہو جاؤں مگر وہ اپنے مکروں میں نامراد رہے اور میرے خدا کاہاتھ میرے ساتھ رہا اور اُس کی پاک وحی جس پر میں ایسا ہی ایمان لاتا ہوں جیسا کہ خدائے تعالیٰ کی تمام کتابوں پر مجھے ہر روز تسلی دیتی رہی۔ سو یہ خدا کے نشان ہیں جن کے دیکھنے سے اُس کا چہرہ نظر آتا ہے ۔مبارک وہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 78

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 78

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/78/mode/1up


جو ان پر غور کریں اور خدا کے ساتھ لڑنے سے ڈریں۔ اگریہ کاروبار انسان کا ہوتا تو خود تباہ ہو جاتا اور اس کا یوں خاتمہ ہو جاتا جیسا کہ ایک کاغذ لپیٹ دیا جائے ۔ پر یہ سب کچھ اُس خدا کی طرف سے ہے جس نے آسمان بنائے اور زمین کو پیدا کیا۔ کیا انسان کو حق پہنچتا ہے کہ اُس پر اعتراض کرے کہ تو نے ایسا کیوں کیا۔ اور ایسا کیوں نہ کیا۔ اور کیا وہ ایسا ہے کہ اپنے کاموں سے پوچھا جائے؟ کیا انسان کا علم اس کے علم سے بڑھ کر ہے؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ نزولِ مسیح کی پیشگوئی کے کیامعنے تھے؟

ابؔ ذیل میں وہ پیشگوئیاں لکھی جاتی ہیں جو پہلی پیشگوئیوں کی تاکید اور تائید کیلئے فرمائی گئی ہیں اور وہ یہ ہیں:۔ بورکت یا احمد وکان ما بارک اللّٰہ فیک حقًّا فیک۔ شانک عجیب واجرک قریب۔ الارض والسّماء معک کما ھو معی۔ سبحان اللّٰہ تبارک وتعالٰی زاد مجدک ینقطع اٰباء ک ویبدء منک ۔ وما کان اللّٰہ لیترکک حتّٰی یمیز الخبیث من الطیّب۔ واللّٰہ غالب علٰی امرہٖ ولکن اکثر النّاس لا یعلمون ۔ اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح وتَمَّت کلمۃ ربّک ھٰذا الذی کنتم بہ تستعجلون۔ أَردتُ ان استخلف فخلقتُ اٰدم ۔ دنٰی فتدلّٰی فکان قاب قوسین او أدنٰی ۔ یُحْیِی الدّین ویقیم الشریعۃ۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۴۸۶ سے صفحہ ۴۹۶ تک۔ ترجمہ:۔ اے احمد تجھے برکت دی گئی اور یہ برکت تیرا ہی حق تھا۔ تیری شان عجیب ہے اور تیرا اجر قریب ہے یعنی وہ تمام وعدے جو کئے گئے وہ جلد پورے ہوں گے۔ چنانچہ پورے ہوگئے۔ اور پھر فرماتا ہے کہ زمین اور آسمان تیرے ساتھ ہیں جیسا کہ وہ میرے ساتھ ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آئندہ بہت سی قبولیت ظاہر ہوگی اور زمین کے لوگ رجوع کریں گے اور آسمانی فرشتے ساتھ ہوں گے جیسا کہ آج کل ظہور میں آیا۔ پھر فرماتا ہے ۔ پاک ہے وہ خدا جو بہت برکتوں والا اور بہت بلند ہے اُس نے تیری بندگی کو زیادہ کیا۔ تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع ہو جائے گا اور اب سے سلسلہ تجھ سے شروع ہوگا۔اور دنیا میں تیری نسل پھیلے گی اور قوموں میں تیری شہرت ہو جائے گی۔ اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 79

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 79

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/79/mode/1up


خاندان کی عمارت کا پہلا پتھر تُو ہوگا ۔ خدا ایسا نہیں ہے کہ تجھے چھوڑ دے جب تک پاک اور پلید میں فرق کرکے نہ دکھلائے۔اور خدا اپنی ہر ایک بات پر غالب ہے مگر اکثر لوگ خدائی طاقت سے بے خبر ہیں۔ ان پیشگوئیوں میں بہت سی نسل کا وعدہ دیا جیسا کہ حضرت ابراہیم کو دیا تھا چنانچہ اس وعدہ کی بنا پر مجھے یہ چار بیٹے دیئے جواب موجود ہیں۔ اور ان پیشگوئیوں کو کہ میں تجھے نہیں چھوڑوں گا جب تک کہ پاک اور پلید میں فرق نہ کرلوں اِس زمانہ میں ظاہر کردیا۔چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ باوجود تمہاری سخت مخالفت اور مخالفانہ دعاؤں کے اُس نے مجھے نہیں چھوڑا اور ہر میدان میں وہ میراحامی رہا۔ ہر ایک پتھر جو میرے پر چلایا گیا اُس نے اپنے ہاتھوں پر لیا۔ ہر ایک تیرجو مجھے مارا گیا اُس نے وہی تیر دشمنوں کی طرف لوٹا دیا۔ میں بیکس تھا اُس نے مجھے پناہ دی۔ میں اکیلا تھا اُس نے مجھے اپنے دامن میں لے لیا۔ میں کچھ بھی چیز نہ تھا مجھے اُس نے عزت کے ساتھ شہرؔ ت دی اور لاکھوں انسانوں کو میرا اِرادتمند کردیا ۔ پھر وہ اُسی مقدس وحی میں فرماتا ہے کہ جب میری مدد تمہیں پہنچے گی اور میرے منہ کی باتیں پوری ہو جائیں گی یعنی خلق اللہ کا رجوع ہو جائے گا اور مالی نُصرتیں ظہورمیں آئیں گی تب منکروں کو کہا جائے گا کہ دیکھو کیا وہ باتیں پوری نہیں ہوگئیں جن کے بارے میں تم جلدی کرتے تھے ۔ چنانچہ آج وہ سب باتیں پوری ہوگئیں۔ اس بات کے بیان کرنے کی حاجت نہیں کہ خدا نے اپنے عہد کو یاد کرکے لاکھوں انسانوں کو میری طرف رجوع دے دیا اور وہ مالی نصرتیں کیں جو کسی کے خواب و خیال میں نہ تھیں۔ پس اے مخالفو! خدا تم پر رحم کرے اور تمہاری آنکھیں کھولے۔ ذرہ سوچوکہ کیا یہ انسانی مکر ہوسکتے ہیں۔ یہ وعدے تو براہین احمدیہ کی تصنیف کے زمانہ میں کئے گئے تھے جبکہ قوم کے سامنے ان کا ذکر کرنا بھی ہنسی کے لائق تھا اور میری حیثیت کا اس قدر بھی وزن نہ تھا جیسا کہ رائی کے دانہ کاوزن ہوتا ہے ۔ تم میں سے کون ہے کہ جومجھے اس بیان میں ملزم کرسکتاہے۔ تم میں سے کون ہے کہ یہ ثابت کرسکتا ہے کہ اُس وقت بھی ان ہزارہا لوگوں میں سے کوئی میری طرف رجوع رکھتا تھا۔میں تو براہین احمدیہ کے چھپنے کے وقت ایسا گمنام



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 80

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 80

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/80/mode/1up


شخص تھا کہ امرتسر میں ایک پادری کے مطبع میں جس کانام رجب علی تھا میری کتاب براہین احمدیہ چھپتی تھی اور میں اُس کے پروف دیکھنے کے لئے اورکتاب کے چھپوانے کے لئے اکیلا امرتسر جاتا اور اکیلا واپس آتا تھا اور کوئی مجھے آتے جاتے نہ پوچھتا کہ تو کون ہے اور نہ مجھ سے کسی کو تعارف تھا او رنہ میں کوئی حیثیت قابل تعظیم رکھتا تھا۔ میری اس حالت کے قادیاں کے آریہ بھی گواہ ہیں جن میں سے ایک شخص شرمپت نام اب تک قادیاں میں موجود ہے جو بعض دفعہ میرے ساتھ امرتسر میں پادری رجب علی کے پاس مطبع میں گیا تھا جس کے مطبع میں میری کتاب براہین احمدیہ چھپتی تھی۔ اور تمام یہ پیشگوئیاں اس کا کاتب لکھتا تھا۔ اوروہ پادری خود حیرانی سے پیشگوئیوں کو پڑھ کر باتیں کرتا تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک ایسے معمولی انسان کی طرف ایک دنیا کا رجوع ہو جائے گا۔پر چونکہ وہ باتیں خدا کی طرف سے تھیں میری نہیں تھیں اس لئے وہ اپنے وقت میں پوری ہوگئیں اور پوری ہو رہی ہیں۔ ایک وقت میں انسانی آنکھ نے اُن سے تعجب کیا ۔ اور دوسرے وقت میں دیکھ بھی لیا۔ پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ارادہ کیا کہ دنیا میں اپنا ایک خلیفہ قائم کروں۔ سو میں نے اس آدم کو پیدا کیا ۔ اس وحی الٰہی میں میرا نام آدم رکھا گیا۔ کیونکہ انسانی نسل کے خراب ہوجانے کے زمانہ میں مَیں پیدا کیا گیا گویا ایسے زمانہ میں جب کہ زمین انسانوں سے خالی تھی۔ اور جیسا کہ آدم توام پیدا کیا گیا میں بھی تواؔ م ہی پیدا ہوا تھا۔ اور میرے ساتھ ایک لڑکی تھی جو مجھ سے پہلے پیدا ہوئی اور مَیں بعد میں۔یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اب میرے پر کامل انسانیت کے سلسلہ کا خاتمہ ہے اور نیز میرا نام آدم رکھنے میں اور بھی ایک اشارہ تھا جو اس دوسرے الہام میں یعنی اُس وحی الٰہی میں جو قرآنی عبارت میں مجھ کو ہوئی۔ اُس کی تفصیل یہ ہے اور وہ وحی یہ ہے: قال اِنّی جاعل فی الارض خلیفۃ ۔ قالوا اَتجعل فیھا من یفسد فیھا۔ قَالَ اِنّی اعلم ما لا تعلمون۔ یعنی میری نسبت خدا نے میرے ہی ذریعہ سے براہین احمدیہ میں خبر دی کہ میں آدم کے رنگ پر ایک خلیفہ پیدا کرتاہوں۔ تب اس خبر کو سن کر بعض مخالفوں نے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 81

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 81

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/81/mode/1up


میرے حالات کو کچھ اپنے عقائد کے برخلاف پاکر اپنے دلوں میں کہا کہ یا الٰہی کیا تُو ایسے انسان کو اپنا خلیفہ بنائے گا کہ جو ایک مفسد آدمی ہے جو ناحق قوم میں پھوٹ ڈالتا ہے اور علماء کے مسلّمات سے باہر جاتا ہے ۔ تب خدا نے جواب دیا کہ جو مجھے معلوم ہے وہ تمہیں معلوم نہیں۔ یہ خدا کا کلام ہے کہ جو مجھ پر نازل ہوا اور درحقیقت میرے اور میرے خدا کے درمیان ایسے باریک راز ہیں جن کو دنیا نہیں جانتی اور مجھے خدا سے ایک نہانی تعلق ہے جو قابل بیان نہیں۔ اور اس زمانہ کے لوگ اس سے بے خبر ہیں۔پس یہی معنے ہیں اس وحی الٰہی کے کہ قَالَ اِنّی اَعلم مالا تَعلمون۔

پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ شخص مجھ سے نزدیک ہوااور میرا قرب کامل اس نے پایا۔ اور پھر بعد اس کے ہمدردی ء خلائق کے لئے اُن کی طرف متوجہ ہوا اور مجھ میں اورمخلوق میں ایک واسطہ ہوگیا جیسا کہ دو قوسوں میں وتر ہو۔ اور اس لئے کہ وہ اس درمیانی مقام پر ہے وہ دین کو از سر نو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کردے گا۔ یعنی بعض غلطیاں جو مسلمانوں میں رائج ہوگئی ہیں اور ناحق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان غلطیوں کو منسوب کیا جاتا ہے۔ اُن سب غلطیوں کو ایک حَکَم کے منصب پر ہوکر دُور کردے گا۔ اور شریعت کو جیسا کہ ابتدا میں سیدھی تھی سیدھی کرکے دکھلا دے گا۔

پھر انہی پیشگوئیوں کے بارے میں براہین احمدیہ میں اور بھی الہام ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ نُصرتَ وقالوا لَاتَ حین مناص۔ اَمْ یقولون نحن جمیع منتصر ۔ سَیُھزم الجمع ویولون الدبر۔ وان یروا اٰیۃً یُعرضوا

ویقولوا سحر مستمر۔ قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ۔ واعلموا اَنّ اللّٰہ یحیی الارض بعد موتھا ۔ ومن کان لِلّٰہ کان اللّٰہ لہ ۔

قل ان افتریتہ فعلیّ اجرام شدید۔ یا احمدی انت مرادی ومعی غرستک کرامتک بیدی ۔ أ کاؔ ن للنّاس عجبًا ۔ قل ھو اللّٰہ عجیب ۔ لا یُسئل



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 82

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 82

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/82/mode/1up


عمّا یفعل وھم یُسْءَلون۔ وقالوا انّی لک ھٰذا ان ھٰذاالّا اختلاق۔ قل اللّٰہ ثمّ ذرھُم فِیْ خوضھم یلعبون۔ وَلا تخاطبنی فی الذین ظلموا انھم مغرقون۔یظلّ ربّک علیک ویغیثک ویرحمک۔ وان لم یعصمک الناس یعصمک اللّٰہ من عندہٖ۔ یعصمک اللہ من عندہ وان لم یعصمک الناس۔ واذیمکربک الّذی کفّر*۔ اوقدلی یاھامان۔ تبّت یدا ابی لھبٍ وتبّ ما کان لہ ان یدخل فیھا اِلّا خائفًا وَمَا اصابک فمن اللّٰہ۔ الفتنۃ ھٰھنا فاصبرکما صبر اولوا العزم۔ اَلا انّھا فتنۃ من اللّٰہ لیحبّ حبًّا جمًّا عطاءً غیر مجذوذ۔ شاتان تذبحان۔ وکلّ من علیھا فان۔ عسٰی ان تکرھوا شیءًا وھو خیرلکم واللّٰہ یعلم وانتم لا تعلمون۔ دیکھو صفحہ ۴۹۷ سے ۵۱۱ تک براہین احمدیہ جلد چہارم۔ ترجمہ: تجھے مدد دی جائے گی اور نصرت الٰہی تیرے شامل ہوگی۔ اور ایسی نصرت ہوگی کہ حقیقت راستی کھل جائے گی۔ تب مخالف لوگ کہیں گے کہ اب گریز کی جگہ نہیں۔ وہ کہیں گے کہ ہم ایک بھاری جماعت ہیں جو انتقام لے سکتے ہیں۔ پر عنقریب وہ بھاگ جائیں گے اور منہ پھیر لیں گے۔ خدا کے نشان کو دیکھ کر کہیں گے کہ یہ مکر ہے جو بہت پختہ ہیض ۔ تواُن کو کہہ دے کہ اگر خدائے تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ میری پیروی


یہ لفظ کفّر اور کفر دونوں قراء تیں ہیں۔ کیونکہ کافر کہنے والا بہر حال منکر بھی ہو گا اور جو شخص اس دعوے سے منکر ہے وہ بہر حال کافر ٹھہرائے گا۔ اور ھامان کا لفظ ھیمان کے لفظ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ھیمان اس کو کہتے ہیں جو کسی وادی میں اکیلا سرگردان پھرے۔ منہ

یہ آیت یعنی3 ۱؂ قرآن شریف کے اس مقام کی ہے جہاں معجزہ شقُّ القمر کا ذکر ہے۔ پس ایسی آیت کو اس موقعہ پر ذکر کرنا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس جگہ بھی کوئی قمری نشان ظاہر ہو گا۔ پس وہ نشان عجیب طور کا خسوف قمر تھا جو رمضان کے مہینہ میں ظہور میں آیا۔ بعض علماء لکھتے ہیں کہ معجزہ شقُّ القمر بھی ایک قسم کا خسوف ہی تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 83

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 83

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/83/mode/1up


کرو تا خدا بھی تم سے محبت رکھے اور یقیناًسمجھو کہ خدا اس زمین کو یعنی اس زمین کے رہنے والوں کو جو مرچکے ہیں پھر زندہ کرے گا یعنی بہت سے لوگ ہدایت پائیں گے اور ایک روحانی انقلاب پیدا ہوگا۔اور بہت سے لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے۔ اور جو خدا کا ہو خدا اُس کے لئے ہو جاتا ہے۔ اُن کو کہہ دے کہ اگر میں نے خدا پر افترا کیا ہے تومیں نے ایک سخت گناہ کا ارتکاب کیاہے جس کی سزا مجھے ملے گی یعنی مفتری اِسی دنیا میں سزا پاتا ہے اور سرسبز نہیں ہوتا اور اُس کا تمام ساختہ پر داختہ آخر بگڑ جاتا ہے ۔مگر صادق کامیاب ہو جاتا ہے اور صدق کی جڑ پاتا ل میں ہے۔ پھرؔ فرمایا کہ اے میرے احمد ! تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے میں نے تیری بزرگی کا درخت اپنے ہاتھ سے لگایایعنی تو صادق ہے اور میری طرف سے ہے اس لئے میں تجھے لوگوں میں بہت وجاہت اور بزرگی بخشوں گا اور یہ کام خاص میرے ہاتھ سے ہوگا نہ کسی اورکے ہاتھ سے ۔ لہٰذا اس کام کو کوئی بھی زائل نہیں کرسکے گا۔ یہ آئندہ زمانہ کے لئے ایک پیشگوئی تھی جواب پوری ہوگئی۔ اور پھر فرماتا ہے کہ کیا لوگوں کو اس بات سے تعجب ہے اور خیال کرتے ہیں کہ ایسا کیونکر ہوگا۔تو تُو ان کو جواب دے کہ عجائب دکھلانا خدا کا کام ہے وہ اپنے کاموں سے پوچھا نہیں جاتا اور لوگ پوچھے جاتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ یہ مرتبہ تجھے کیونکر ملے گا۔ یہ تو تیری اپنی بناوٹ معلوم ہوتی ہے۔ کہہ نہیں یہ وعدے خداکی طرف سے ہیں اور پھر اُن کو اُن کے لہو و لعب میں چھوڑ دے یعنی جو بدگمانی کر رہے ہیں کرتے رہیں۔ آخر دیکھ لیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں یاانسان کی ۔ اور جو لوگ ظالم ہیں اور اپنے ظلم کو نہیں چھوڑتے اُن کے بارے میں مجھ سے ہمکلام مت ہو کہ میں اُن کو غرق کروں گا۔ یہ ایک نہایت خوفنا ک پیشگوئی ہے جو غرق کرنے کاوعدہ دیا گیا ہے۔ نہ معلوم کس طور سے غرق کیا جائے گا۔ آیا نوح کی قوم کی طرح یالوط کی قوم کی طرح جو شدید زلزلہ سے زمین میں غرق کئے گئے تھے۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیرے پر تیراربّ اپناسایہ ڈالے گا اور تیری فریاد سنے گا اور تیرے پر رحم کرے گا اور اگرچہ لوگ تجھے بچانا نہ چاہیں مگر خدا تجھے بچائے گا۔خدا تجھے ضرور بچائے گا اگرچہ لوگ پھنسانے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 84

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 84

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/84/mode/1up


کا ارادہ کریں۔ یہ پیشگوئی اُن مقدمات کی نسبت ہے جو ڈاکٹر مارٹن کلارک اور کرم دین وغیرہ کی طرف سے بصیغہ فوجداری میرے پر ہوئے تھے اور لیکھرام کے قتل ہونے کے وقت بھی میرے پھنسانے کیلئے کوشش کی گئی تھی اور ان مقدمات میں ارادہ کیا گیا تھا کہ مجھے پھانسی دی جائے یا قید میں ڈالا جائے ۔ سو خدا ئے تعالیٰ اس پیشگوئی میں فرماتا ہے کہ میں اُن کو اُن کے ارادوں میں نامراد رکھوں گا اور ان کے حملوں سے میں تجھے ضرور بچاؤں گا ، چنانچہ چوبیس۲۴ برس کے بعد وہ سب پیشگوئیاں پوری ہوگئیں۔ اور پھر فرماتا ہے کہ اس مکر کرنے والے کے مکرکو یاد کر جو تجھے کافر ٹھہرائے گا۔اور تیرے دعوے سے منکر ہوگا وہ ایک اپنے رفیق سے استفتاء پر فتویٰ لے گا تا عوام کو اس سے افروختہ کرے۔ ہلاک ہوگئے دونوں ہاتھ ابی لہب کے جن سے وہ فتویٰ لکھا تھا۔لکھنے میں اگرچہ ایک ہاتھ کاکام ہے مگر دوسرا بھی اس کی مدد دیتا ہے۔ اور ہلاک ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنے استفتاء کی غرض سے نامراد رہےؔ گا۔ اور پھر فرماتا ہے کہ وہ بھی ہلاک ہوگیا یعنی اُس نے گناہِ شدید کا ارتکاب کیا جو دراصل ہلاکت ہے۔اس لئے دنیا کی طرف اُس کا رُخ کردیا گیا اور حلاوتِ ایمان اُس سے جاتی رہی۔ اُس کو مناسب نہ تھا کہ اِس معاملہ میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے یعنی اگر کچھ شک تھا تو پوشیدہ طورپر رفع کرتا اورادب سے رفع کرتا نہ یہ کہ دشمن بن کر میدان میں نکلتا۔ اور پھر فرمایا کہ جو تجھے تکلیف پہنچے گی وہ خدا کی طرف سے ہے۔ یعنی اگر خدا نہ چاہتا تو یہ فتنہ برپا کرنا اس کی مجال نہ تھا۔ اور پھر فرمایا کہ اُس وقت دنیا میں بڑا شور اُٹھے گا اور بڑا فتنہ ہوگا پس تجھ کو چاہیے کہ صبر کرے جیسا کہ اولوا لعزم پیغمبر صبر کرتے رہے۔ مگر یاد رکھ کہ یہ فتنہ اُس شخص کی طرف سے نہیں ہوگا بلکہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہوگا تاکہ وہ تجھ سے زیادہ پیارکرے۔ اور یہ پیار


اس جگہ ابی لہب کے معنے ہیں۔ آگ بھڑکنے کا باپ یعنی اس ملک میں جو تکفیر کی آگ بھڑکے گی۔ دراصل باپ اس کاوہ ہو گا جس نے یہ استفتاء لکھا۔ منہ




Ruhani Khazain Volume 21. Page: 85

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 85

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/85/mode/1up


خدا کی طرف سے وہ نعمت ہے کہ جو پھر تجھ سے چھینی نہیں جائے گی۔ اور پھر ایک اور پیشگوئی کرکے فرمایا کہ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی۔ یعنی میاں عبد الرحمن اور مولوی عبد اللطیف جو کابل میں سنگسار کئے گئے۔ اور ہر ایک جو زمین پر ہے آخر مرے گا۔ پر ان دونوں کا ذبح کیا جانا آخر تمہارے لئے بہتری کا پھل لائے گا۔ اور ان واقعات شہادت کے مصالح جو خدا کو معلوم ہیں و ہ تمہیں معلوم نہیں۔ یعنی خدا جانتا ہے کہ ان موتوں سے اس ملک کابل میں کیا کیا بہتری پیدا ہوگی ۔ اس سے پہلی پیشگوئی اُس استفتاء کے بارے میں ہے جو مولوی محمد حسین کے ہاتھ سے اور مولوی نذیر حسین کے فتویٰ لکھنے سے ظہور میں آیا جس سے ایک دنیا میں شور اٹھا اور سب نے ہمارا تعلق چھوڑ دیااور کافر اور بے ایمان اور دجّال کہنا موجب ثواب سمجھا۔ اُس کے ساتھ جو یہ وعدہ ہے کہ خدا اس کے بعد بہت پیار کرے گا یہ رجوع خلق اللہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ خدا کا پیار مخلوق کے پیار کو چاہتا ہے۔ اورخدا کی رضامندی تقاضا کرتی ہے کہ دنیا کے سعید لوگ بھی راضی ہوجائیں۔ اور مؤخر الذکر پیشگوئی میں جو دو بکریوں کے ذبح کئے جانے کا ذکر ہے یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جوسرزمین کابل میں ظہور میں آیایعنی ہماری جماعت میں سے ایک شخص عبد الرحمن نام جو جوان صالح تھا اور دوسرے مولوی عبد اللطیف صاحب جو نہایت بزرگوار آدمی تھے امیر کابل کے حکم سے سنگسار کئے گئے محض اس الزام سے کہ کیوں وہ دونوں ہماری جماعت میں داخل ہوگئے اور اس واقعہ کو قریباً دو برس گذر چکے ہیں*۔ اب یہ مقام انصاف کی آنکھ سے دیکھنے کا ہے کہ کیونکر


یہ واقعہ شہادت اخویم مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم اور شیخ عبد الرحمن صاحب مرحوم ایکؔ ایسا دور از قیاس واقعہ تھا کہ جب تک وقوع میں نہ آگیا ہمارے ذہن کا اس طرف التفات نہ ہوا کہ دراصل وحی الٰہی کے یہ معنے ہیں کہ دو ہمارے صادق مرید سچ مچ ذبح کئے جائیں گے بلکہ اس حالت کو مستبعد سمجھ کر محض اجتہاد کے طور پر تاویل کی طرف میلان ہوتا رہا۔ اور تاویلی مصداق



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 86

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 86

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/86/mode/1up


ممکنؔ ہے کہ ایسے غیب کی باتیں جو نہاں در نہاں تھیں اُس شخص کی طرف منسوب ہوسکیں جو مفتری ہو۔ حالانکہ خدائے تعالیٰ اپنے کلام عزیز میں فرماتا ہے کہ ہر ایک مومن پر غیبِ کامل کے امور ظاہر نہیں کئے جاتے بلکہ محض اُن بندوں پر جواصطفائاور اجتباء کامرتبہ رکھتے ہیں ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ ایک جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے333 ۱؂ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے غیب پر کسی کو غالب ہونے نہیں دیتا مگر اُن لوگوں کو جو اس کے رسول اور اس کی درگاہ کے پسندیدہ ہوں۔

افسوس کا مقام ہے کہ بعض نادان مولوی اور عالم کہلاکر بعض وعید کی پیشگوئیوں کی نسبت جن میں سے بعض پوری ہوگئیں اور بعض پوری ہونے کو ہیں اعتراض پیش کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ خدائے تعالیٰ اپنے وعید کی نسبت اختیار رکھتا ہے چاہے اُس کو پورا کرے یا ملتوی کردے یہی تمام نبیوں کا مذہب ہے اور اسی پر ردّ بلا کا سلسلہ قائم کیا گیا ہے۔ کیونکہ ایک بلا جس کا خدا تعالیٰ نے کسی کی نسبت ارادہ کیا ہے خواہ وہ اُس بلا کو کسی نبی پر ظاہرکرکے پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر فرمادے اورخواہ پوشیدہ رکھے وہ بہرحال بلا ہی ہے ۔ پس اگر وہ کسی طرح رد نہیں ہوسکتی تو پھر صدقہ اور خیرات اور دُعا کی کیوں ترغیب دی ہے۔


خیال میں گزرتے رہے کیونکہ انسان کا اپنا علم اور اپنا اجتہاد غلطی سے خالی نہیں۔ لیکن جب یہ دونوں واقعات بعینہٖ ظہور میں آگئے۔ اور دو بزرگ اس جماعت کے بڑی بے رحمی سے کابل میں شہید کئے گئے تو حق الیقین کی طرح وحی الٰہی کے معنے معلوم ہو گئے اور جب اُس وحی کی تمام عبارت کو نظر اٹھا کر دیکھا تو آنکھ کھل گئی اور عجیب ذوق پیدا ہوا اور معلوم ہوا کہ جہاں تک تصریح ممکن ہے خدا نے تصریح سے اس پیشگوئی کو بیان کر دیا ہے اور ایسے الفاظ اختیار کئے ہیں اور ایسے فقرات بیان فرمائے ہیں کہ وہ دوسرے پر صادق آہی نہیں سکتے۔ سبحان اللہ! اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کیسے اس نے ان پوشیدہ باتوں کو ایک زمانہء دراز پہلے براہین احمدیہ میں بتصریح بیان کر دیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 87

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 87

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/87/mode/1up


پھرؔ بعد اس کے اور پیشگوئیاں ہیں جو ان پیشگوئیوں کی مؤیّدہیں جن کو ہم ذیل میں لکھتے ہیں اور وہ یہ ہیں:۔ وَلا تھنوا وَلا تحزنوا الیس اللّٰہ بکاف عبدہ۔ الم تعلم انّ اللّٰہ علٰی کلّ شیءٍ قدیر۔ وان یتخذونک اِلّا ھزوا۔ أَھٰذا الّذی بعث اللّٰہ۔ قل انّما انا بشر مثلکم یوحٰی اِلیّ انّما اِلٰھُکُمْ اِلٰہ وَّاحدٌ والخَیْر کلّہٗ فی القراٰن۔ قل ان ھُدَی اللّٰہ ھوالھُدٰی ۔ رَبِّ اِنّیْ مغلوبٌ فانتصر ۔ ایلی ایلی لما سبقتنی۔ یا عبد القادراِنّی معک غرست لک بیدَی رحمتی وقدرتی۔ ونجّیناک من الغمّ وفتنّاک فتونا۔ انا بُدّک اللازم۔ اَنَا مُحْیِیْکَ نَفختُ فیک مِن لّدنِّی روح الصّدق۔ وَأَلقیت علیک محبّۃ مِّنّی وَلتصنع علٰی عینی۔ کزرع اخرج شَطْأَہٗ فَاستغلظ فاستوٰی علٰی سوقہٖ ۔ اِنّا فتحنالک فتحا مُّبِیْنًا لیغفرلک اللّٰہ ماتقدّم من ذنبک وَمَا تَأَخّر۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۱ سے ۵۱۵ تک۔ ترجمہ مع شرح۔ اور تم سست مت بنو اور غم مت کرو۔ کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں یعنی اگر تمام لوگ دشمن ہو جائیں تو خدا اپنی طرف سے نُصرت کرے گااور پھر فرمایا کہ کیا تو جانتا نہیں کہ خدا ہر ایک چیز پر قادر ہے اُس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔ پس وہ قادر ہے کہ ایک تنہا گمنام کو اس قدر ترقی دے کہ لاکھوں انسان اُس کے محب اور ارادتمند ہو جائیں۔ یہ وہ پیشگوئی ہے جو پچیس برس کے بعد اس زمانہ میں پوری ہوئی۔ اور پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے تجھے ایک ہنسی کی جگہ سمجھ رکھا ہے۔ وہ طنزًا کہتے ہیں کہ کیا یہی وہ شخص ہے جس کو خدا نے ہم میں دعوت کے لئے کھڑا کیا ان کو کہہ دے کہ مَیں تو تمہاری طرح صرف ایک بشر ہوں مجھے یہ وحی ہوتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے اور ہر ایک نیکی اور بھلائی قرآن میں ہے ان کو کہہ دے کہ تمہارے خیالات کیا چیز ہیں۔ ہدایت وہی ہے جو خدائے تعالیٰ براہِ راست آپ دیتا ہے ورنہ انسان اپنے غلط اجتہادات سے کتاب اللہ کے معنے بگاڑ دیتا ہے اور کچھ کا کچھ سمجھ لیتا ہے۔ وہ خدا ہی ہے جو غلطی نہیں کھاتالہٰذا ہدایت اُسی کی ہدایت ہے۔ انسانوں کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 88

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 88

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/88/mode/1up


اپنے خیالی معنے بھروسے کے لائق نہیں ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ یہ دعا کر کہ اے خدا میں مغلوب ہوں وہ بہت ہیں اور میں اکیلا ہوں وہ ایک گروہ ہے تو میری طرف سے مقابلہ کے لئے آپ کھڑا ہوجا۔ اے میرے خدا! اے میرے خدا! توؔ نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ یہ آئندہ زمانہ کی ابتلاؤں کی نسبت ایک پیشگوئی ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جو مخالفت کا بہت شور اُٹھے گا اور وہ گمنامی اور تنہائی کازمانہ ہوگا اور مخالفت پر ایک مخلوق تُل جائے گی اور ظاہری تزلزل دیکھ کر بشریت کے مقتضا سے خیال آئے گا کہ خدا نے اپنی نصرت کو چھوڑ دیا۔ پس خدائے تعالیٰ اس آئندہ زمانہ کو یاد دلاتا ہے کہ اُس وقت خدا دُعاؤں کو قبول کرے گا اور وہ حالت نہیں رہے گی۔ اور دلوں کو اس طرف رجوع پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور بہت فتنہ کے بعد جو کافر ٹھہرانے کے فتویٰ سے اٹھا تھا آخر دل اس طرف متوجہ ہوگئے۔ پھر فرماتا ہے کہ اے عبد القادر میں تیرے ساتھ ہوں ۔ مَیں نے تیرے لئے اپنی رحمت اور قدرت کا درخت لگایا اور میں تجھ کو ہر ایک غم سے نجات دوں گا مگر اس سے پہلے کئی فتنے تیری راہ میں برپا کروں گا تا تجھے خوب جانچا جائے اور تا فتنوں کے وقتوں میں تیری استقامت ظاہر ہو۔ میں تیرا لازمی چارہ ہوں۔ اور میں تیرے دردوں کا علاج ہوں اور میں ہی ہوں جس نے تجھے زندہ کیا۔ میں نے اپنی طرف سے تجھ میں صدق کی رُوح پھونک دی۔ او ر اپنی طرف سے میں نے تجھ پر محبت ڈال دی ۔ یعنی تجھ میں ایک ایسی خاصیت رکھ دی کہ ہر ایک جو سعید ہوگا وہ تجھ سے محبت کرے گااور تیری طرف کھینچا جائے گا۔ میں نے ایسا کیا تاکہ تو میری آنکھوں کے سامنے پرورش پاوے اور میرے روبرو تیرا نشو ونما ہو۔ تو اُس بیج کی طرح ہے جو زمین میں بویا گیا اور وہ ایک چھوٹا سا دانہ تھا جو خاک میں پوشیدہ تھا۔ پھر اُس کا سبزہ نکلا اور روز بروز وہ بڑھتا گیا یہاں تک کہ وہ بہت موٹا ہوگیا اور اُ س کی ٹہنیاں پھیل گئیں اور وہ ایک پورا درخت ہوکر تنا اُس کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا۔ یہ آئندہ زمانہ کی ترقی کے لئے ایک پیشگوئی ہے اور اس میں بتلایا ہے کہ اس وقت تو تُو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 89

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 89

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/89/mode/1up


ایک دانہ کی طرح ہے جو زمین میں بویا گیا اور خاک میں چھپ گیا۔ لیکن آئندہ یہ مقدر ہے کہ اس دانہ کا سبزہ نکلے اور وہ بڑھتا جائے گا یہاں تک کہ ایک بڑا درخت بن جائے گااور موٹا ہو جائے گااور اپنے پاؤں پر قائم ہو جائے گا جس کو کوئی آندھی نقصان پہنچا نہیں سکے گی۔یہ پیشگوئی اس زمانہ سے پچیس۲۵ برسپہلے دنیا میں شائع ہوچکی ہے ۔ اور پھر فرمایا کہ خدا تجھے ایک بڑی اور کھلی کھلی فتح دے گا تاکہ وہ تیرے پہلے گناہ بخشے اور پچھلے گناہ بھی۔ اس جگہ اس وحی الٰہی کے متعلق ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ فتح کو گناہ کے بخشنے سے کیا تعلق ہے ۔ بظاہر ان دونوں فقروں کو آپس میں کچھ جوڑ نہیں۔ لیکن درحقیقت ان دونوں فقروں کا باہم نہایت درجہ کا تعلق ہے۔ پس تشریح اُسؔ وحی الٰہی کی یہ ہے کہ اس اندھی دنیا میں جس قدر خدا کے ماموروں اور نبیوں اور رسولوں کی نسبت نکتہ چینیاں ہوتی ہیں اور جس قدر اُن کی شان اور اعمال کی نسبت اعتراض ہوتے ہیں اور بدگمانیاں ہوتی ہیں اور طرح طرح کی باتیں کی جاتی ہیں وہ دنیا میں کسی کی نسبت نہیں ہوتیں اور خدا نے ایسا ہی ارادہ کیا ہے تا اُن کو بدبخت لوگوں کی نظر سے مخفی رکھے اور وہ ان کی نظر میں جائے اعتراض ٹھہر جائیں کیونکہ وہ ایک دولت عظمیٰ ہیں اوردولت عظمیٰ کو نااہلوں سے پوشیدہ رکھنا بہتر ہے۔ اِسی وجہ سے خدائے تعالیٰ اُن کو جو شقی ازلی ہیں اُس برگزیدہ گروہ کی نسبت طرح طرح کے شبہات میں ڈال دیتا ہے تا وہ دولتِ قبول سے محروم رہ جائیں۔ یہ سنت اللہ ان لوگوں کی نسبت ہے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے امام اور رسول اور نبی ہوکر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس قدر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت دشمنانِ حق نے طر ح طرح کے اعتراض تراشے ہیں اور طرح طرح کی عیب جوئی کی ہے وہ باتیں کسی معمولی صالح کی نسبت ہرگز تراشی نہیں گئیں۔ کونسی تہمت ہے جو اُن پر نہیں لگائی گئی اور کونسی نکتہ چینی ہے جو اُن پر نہیں کی گئی۔ پس چونکہ تما م تہمتوں کا معقولی طورپر جواب دینا ایک نظری امر تھااور نظری امور کا فیصلہ مشکل ہوتاہے اور تاریک طبع لوگ اُس سے تسلی نہیں پکڑتے۔ اس لئے خدائے تعالیٰ نے نظری راہ کو اختیار نہیں کیا اور نشانوں کی راہ اختیار کی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 90

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 90

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/90/mode/1up


اور اپنے نبیوں کی بریّت کے لئے اپنے تائیدی نشانوں اور عظیم الشان نصرتوں کو کافی سمجھا۔ کیونکہ ہر ایک غبی اور پلید بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر وہ نعوذ باللہ ایسے ہی نفسانی آدمی اور مفتری اور ناپاک طبع ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ اُن کی نصرت کے لئے ایسے بڑے بڑے نشان دکھلائے جاتے سو خدا تعالیٰ نے اپنی سنت قدیمہ کے موافق حصص سابقہ براہین احمدیہ میں میری نسبت بھی یہی وحی کی جو اوپر ذکر ہوچکی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ خدا بڑی بڑی فتوحات اور عظیم الشان نشان تیری تائید میں دکھلائے گا تا وہ اعتراض جو دنیا کے اندھے لوگوں نے تیرے پہلے حصہء زندگی کی نسبت یا اخیر حصہء زندگی کی نسبت کئے ہیں ان سب کا جواب پیدا ہوجائے*۔ کیونکہ عالم الاسرار کی شہادت سے بڑھ کر اور کوئی شہادت نہیں اور ذنب کا لفظ اس اعتبار سے بولا گیا ہے کہ معترض اور نکتہ چین جو حملہ کرتے ہیں وہ اپنے دلوں میں مرسلین کی نسبت ان نکتہ چینیوں کو ایک ذنب قراردے کر حملہ کرتے ہیں۔ پس اس کے یہ معنے ہوئے کہ جو ذنب تیری طرف منسوب کیا گیا ہے نہ یہ کہ حقیقت میں کوئی ذنب ہے اور خود یہ ادب سے دُور ہے کہ انسان اس وحیؔ الٰہی کے یہ معنے کرے کہ درحقیقت کوئی ذنب ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے بخش دیا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ جو کچھ ذنب کے نام پر اُن کی طرف

خدا نے مجھ پر ظاہر فرمایا ہے کہ آخری حصہ زندگی کا یہی ہے جو اب گذر رہا ہے جیسا کہ عربی میں وحی الٰہی یہ ہے۔ قَرُبَ اَجَلُکَ الْمُقَدّر وَلا نُبْقِیْ لک من المخزیاتِ ذِکرا۔ یعنی تیری اجل مقدر اب قریب ہے اور ہم تیری نسبت ایک بات بھی ایسی باقی نہیں چھوڑیں گے جو موجب رسوائی اور طعن تشنیع ہو۔ اسی بناء پر اس نے مجھے توفیق دی کہ پنجم حصہ براہین احمدیہ شائع کیا جائے۔

اور ایسا ہی خدائے عزّوجلّ نے اپنی اس وحی میں میرے قرب اجل کی طرف اشارہ فرمایا۔ تمام حوادث اور عجائبات قدرت دکھلانے کے بعد تیرا حادثہ ہو گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 91

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 91

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/91/mode/1up


منسوب کیا گیا اور اس کو شہرت دی گئی ہے اس غلط شہرت کو ایک عظیم الشان نشان سے ڈھانک دیا جائے گا۔ نادان لوگ نہیں جانتے کہ کن معنوں سے خدا اپنے مقبول بندوں کی طرف ذنب کو یعنی گناہ کو منسوب کرتا ہے کیونکہ حقیقی گناہ جو نافرمانی خدا تعالیٰ کی ہے وہ تو قبل از توبہ قابل سزا ہے نہ یہ کہ خدا تعالیٰ کو خود ہی اِس بات کا فکر پڑ جائے کہ میں کوئی ایسانشان دکھلاؤں کہ تا وہ نکتہ چینی کے خیالات اور عیب جوئی کے توہمات خود بخود مخفی اور مستور ہو جائیں اور اُن کاذکر کرنے والا ذلیل ہو جائے۔ اسی وجہ سے ائمہ اور اہل تصوف لکھتے ہیں کہ جن لغزشوں کا انبیاء علیھم السّلام کی نسبت خدائے تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام کا دانہ کھانا۔ اگر تحقیر کی راہ سے ان کا ذکر کیا جائے تو یہ موجبِ کفر اور سلب ایمان ہے کیونکہ وہ مقبول ہیں اور دنیا جس بات کو ذنبسمجھتی ہے وہ اُس سے محفوظ ہیں اور اُن سے عداوت کرناخدائے تعالیٰ کے حملہ کا نشانہ بننا ہے جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے ومن عَادٰی وَلِیًّا لی فقد اٰذنتہ للحرب یعنی جو شخص میرے ولی کا دشمن ہو تو میں اُس کو متنبہ کرتا ہوں کہ اب میری لڑائی کے لئے طیار ہو جا۔ غرض اہلِ اِصطفاء خدائے تعالیٰ کے بہت پیارے ہوتے ہیں اور اُس سے نہایت شدید تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کی عیب جوئی اور نکتہ چینی میں خیر نہیں ہے۔ اور ہلاکت کے لئے اس سے کوئی بھی دروازہ نزدیک تر نہیں کہ انسان اندھا بن کر محبّان اور محبوبانِ الٰہی کا دشمن ہو جائے۔

اور یاد رہے کہ مغفرت کے صرف یہی معنے نہیں کہ جو گناہ صادر ہو جائے اُس کو بخش دینا بلکہ یہ بھی معنے ہیں کہ گناہ کوحیّز قوت سے حیّز فعل کی طرف نہ آنے دینا اور ایسا خیال دل میں پیدا ہی نہ کرنا ۔ ان پیشگوئیوں میں بھی بار بار خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ ایک گمنامی کی حالت کو خدائے تعالیٰ شہرت کی حالت سے بدل دے گا اور گو کتنے فتنے پیدا ہوں گے اُن سب سے خدائے تعالیٰ نجات دے گا۔ اور جیسے اوّل عیب جو اور نکتہ چین تھے آخری حصۂ عمر میں بھی ایسے ہی ہوں گے لیکن خدا ایک ایسی فتح نمایاں ظاہر کرے گا کہ ان نکتہ چینوں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 92

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 92

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/92/mode/1up


اور عیب گیروں کا منہ بند ہو جائے گا یا یہ کہ اُن کے اثر سے لوگ محفوظ رہیں گے۔ یہ انسان کا خاصہ ہے کہ ہزار نشان سے بھی اس قدر ہدایت پانے کے لئے طیار نہیں ہوتا جس قدر کہ ایک عیب گیر کی شرارت سے متاثر ہوؔ کر منکر ہونے کو طیار ہو جاتا ہے۔ اس لئے اِس وحی الٰہی میں اس پیرایہ میں ظاہر نہیں فرمایا کہ میں نشان دکھلاؤں گا بلکہ فرمایا کہ میں ایک فتح عظیم تجھ کو دوں گا یعنی کوئی ایسا نشان دکھلاؤں گا کہ جو دلوں کو فتح کرے گا اور تمہاری عظمت ظاہر کردے گا۔ اور فرمایا کہ یہ عمر کے آخری زمانہ میں ہوگا۔ پس میں زور سے کہتاہوں کہ اسی زمانہ کیلئے یہ پیشگوئی ہے۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ نکتہ چینیاں اورعیب گیریاں حد سے بڑھ گئی ہیں پس میں امیدوار ہوں کہ عنقریب ایک بڑا نشان ظاہر ہوگا جو دلوں کو فتح کرے گا اور مُردہ دلوں کو جو بار بار مرتے ہیں پھر زندہ کردے گا۔ فالحمد لِلّٰہِ علٰی ذالک۔

پھر ان پیشگوئیوں کی تائید میں اور پیشگوئیاں حصص سابقہ براہین احمدیہ میں ہیں جوپچیس۲۵ برس کے بعد اس زمانہ میں پوری ہوئی ہیں اور وہ یہ ہیں۔الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ فبرّأہ اللّٰہ ممّا قالوا وکان عند اللّٰہ وجیھا۔ الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہ فلمَّا تجلّٰی ربّہ للجبل جعلہ دکّا۔ واللّٰہ موھن کید الکافرین۔ الیس اللہ بکافٍ عبدہ ولنجعلہٗ اٰیۃ للناس ورحمۃً منّا وکان امرًا مقضیّا قول الحق الّذی فیہ تمترون۔ لا یُصدّق السفیہ اِلّا سیفۃ الھلاک عدوٌّلی وعدوٌّلکَ قل أَتٰی امر اللّٰہ فلا تستعجلوہ اذا جاء نصر اللّٰہ الست بربّکم قالوا بلٰی ۔ بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔ پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا۔ اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ ھو الّذی ینزل الغیث بعد ماقنطوا وینشر رحمتہ ۔یجتبی الیہ من یشاء من عبادہٖ۔ وکذالک مَنَنَّا عَلٰی یوسف لنصرف عنہ السُّوء والفحشاء ولتنذر قومًا مَّا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 93

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 93

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/93/mode/1up


اُنذر اٰباء ھم فھم غافلون۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔ انّ مَعِی ربّی سیھدین۔ ربّ السِّجنُ احبّ الیَّ ممّا یدعوننی الیہ ربِّ نجّنی من غَمِّی۔ دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۶ سے ۵۵۴ تک۔

ترجمہ:۔ کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ پس وہ اُن تمام الزاموں سے اُس کو بَری کرے گا جو اُس پر لگائے جائیں گے اوروہ خدا کے نزدیک مرتبہ رکھتا ہے کیاخدا اپنے بندؔ ہ کے لئے کافی نہیں ہے۔ پس وہ پہاڑ کو اُس کی بریت کے لئے گواہ لائے گا اور پہاڑ پر جب اُس کی تجلی ہوگی تو وہ اُسے پارہ پارہ کردے گا اور اس نشان سے منکروں کے منصوبوں کوسست کر دے گا کیاوہ اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے یعنی خدا کے نشان کافی ہیں کسی اور کی گواہی کی ضرورت نہیں اور یہ پہاڑ کا پارہ پارہ کرنا لوگوں کے لئے ہم ایک نشان بنائیں گے اور یہ نشان ہماراموجب رحمت ہوگا کہ اس سے بہت لوگ فائدہ اٹھائیں گے*اور یہ امر پہلے سے مقدر تھا۔ یہ وہ سچی بات ہے جس کے ظہور سے پہلے تم شک میں مبتلا تھے۔ سفلہ آدمی تو کسی نشان کو نہیں مانتا بجز موت کے نشان کے وہ میرا اور تیرا دشمن ہے ان سفلوں کو کہہ دے کہ موت کانشان بھی آئے گا اور دنیا میں ایک مری پڑے گی۔پس تم مجھ سے جلدی مت کرو کہ یہ سب کچھ اپنے وقت پر ظاہر ہوگا۔ یہ طاعون اور زلزلہ شدید کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو اس زمانہ سے پچیس۲۵ برس


یاد رہے کہ براہین احمدیہ میں جو کلماتِ الٰہیہ کا ترجمہ ہے وہ بباعث قبل از وقت ہونے کے کسی جگہ مجمل ہے اور کسی جگہ معقولی رنگ کے لحاظ سے کوئی لفظ حقیقت سے پھیرا گیا ہے یعنی صرف عن الظاہرکیا گیا ،اور چونکہ اصل کلام الٰہی موجود ہے اس کے پڑھنے والوں کو چاہیے کہ کسی ایسی تاویل کی پروا نہ کریں جو پیشگوئی کے ظہور سے پہلے کی گئی ہو۔ اور اس کو اجتہادی غلطی سمجھ لیں کیونکہ پیشگوئی کی حقیقی تفسیر کا وہ وقت ہوتا ہے جس وقت میں وہ پیشگوئی ظاہر ہو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 94

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 94

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/94/mode/1up


پہلے براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہے۔ پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں ہولناک اور مہلک نشان ملک میں بھیج کر اپنے مامور اور مرسل کی مدد کروں گا تو منکرین کو کہا جائے گا کہ اب بتلاؤ کیا میں تمہارا رب ہوں یانہیں ۔ یعنی وہ دن بڑی مشکل اور مصیبت کے ہوں گے۔ اور اُن دنوں میں بڑے بڑے ہولناک نشان ظاہر ہوں گے۔ اور نشانوں کو دیکھ کر بہت سے سیہ دل اور کج طبع حق کی طرف رجوع کر لیں گے۔ اور یہ فرستادہ جو ان کے درمیان ظاہر ہوا ہے اس پر ایمان لے آئیں گے۔ پھر مجھ کو خدائے عزّوجل مذکورہ بالا وحی میں مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تو خوشی اور نشاط کی چال سے زمین پر چل کہ اب تیرا وقت نزدیک آگیا اور محمدیوں کاپاؤں ایک بہت بلند اورمحکم منار پرپڑ گیا۔محمدیوں کے لفظ سے مراد اس سلسلہ کے مسلمان ہیں۔ ورنہ بموجب خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے جو براہین احمدیہ میں شائع ہوچکی ہے دوسرے فرقے جو مسلمان کہلاتے ہیں روز بروز تنزل پذیر ہوں گے۔ اور ایسا ہی وہ فرقے جو اسلام سے باہر ہیں جیسا کہ اس وحی الٰہی میں جو براہین احمدیہ میں مندرج ہے صریح طور پر فرمایا ہے۔ یا عیسٰی انّی متوفیک ورافعک الیَّ ومطھّرک من الّذین کفروا وجاعل الّذین اتّبعوک


یہ ؔ پیشگوئی ان لوگوں کی نسبت ہے جواس مامور و مرسل کی وحی کو انسان کا افترا یا شیطان کے وساوس خیال کرتے ہیں اور یہ نہیں مانتے کہ وہی ہمارا خدا ہے جو براہین احمدیہ کے زمانہ سے آج تک اس راقم پر اپنی وحی نازل کر رہا ہے۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ اخیر میں ان کو منوا کر چھوڑوں گا۔ اور ان کو اقرار کرنا پڑے گا۔ وہ جو براہین احمدیہ کے زمانہ سے اخیر تک اس راقم پر وحی کرتا رہا ہے وہی اس دنیا کا خدا ہے اس کے سوائے کوئی خدا نہیں۔ اس میں یہ اشارہ بھی پایا جاتا ہے کہ کوئی بڑا نشان ظاہر ہو گا جس سے بڑے بڑے منکروں کی گردنیں جھک جائیں گی۔ منہ

یہ ؔ فقرہ سہو کاتب سے براہین میں رہ گیا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ منکروں کے ہر ایک الزام اور تہمت سے تیرا دامن پاک کر دوں گا۔ یہ کئی مرتبہ الہام ہو چکا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 95

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 95

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/95/mode/1up


فوق الذین کفر وا الٰی یوم القیامۃ۔ یعنی اے عیسیٰ مَیں تجھے وفات دوں گا۔ اور اپنی طرف اٹھاؤں گا اور تیری بریّت ظاہر کروں گا۔ اور وہ جو تیرے پیرو ہیں مَیں قیامت تک ان کو تیرے منکروں پر غالب رکھوں گا۔ اس جگہ اس وحی الٰہی میں عیسیٰ سے مراد مَیں ہوں۔ اور تابعین یعنی پیروؤں سے مراد میری جماعت ہے۔ قرآن شریف میں یہ پیشگوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ہے اور مغلوب قوم سے مراد یہودی ہیں جو دن بدن کم ہوتے گئے ۔ پس اس آیت کو دوبارہ میرے لئے اور میری جماعت کے لئے نازل کرنا اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مقدّریوں ہے کہ وہ لوگ جو اس جماعت سے باہر ہیں وہ دن بدن کم ہوتے جائیں گے اور تمام فرقے مسلمانوں کے جو اس سلسلہ سے باہر ؔ ہیں وہ دن بدن کم ہوکر اس سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے یا نابود ہوتے جائیں گے جیسا کہ یہودی گھٹتے گھٹتے یہاں تک کم ہوگئے کہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے۔ ایسا ہی اس جماعت کے مخالفوں کاانجام ہوگا۔ اور اس جماعت کے لوگ اپنی تعداد اور قوتِ مذہب کے رُو سے سب پر غالب ہو جائیں گے۔ یہ پیشگوئی فوق العادت کے طور پر پوری ہو رہی ہے کیونکہ جب براہین احمدیہ میں یہ پیشگوئی شائع ہوئی تھی اُس وقت تو میری یہ حالت گمنامی کی تھی کہ ایک شخص بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ میرا پیرو تھا۔ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے تعداد اس جماعت کی کئی لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور اس ترقی کی تیز رفتار ہے جس کا باعث وہ آفات آسمانی بھی ہیں جو اس ملک کو لقمۂ اجل بنا رہے ہیں۔ پھر بعد اس کے بقیہ وح ئ الٰہی یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کا سردار ہے اور پھر بعد اس کے فرمایا کہ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا۔ اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ واضح رہے کہ یہ پیشگوئیاں نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں کیونکہ ایسے وقت میں کی گئیں جبکہ کوئی کام بھی درست نہ تھا اور کوئی مراد حاصل نہ تھی اور اب اس زمانہ میں پچیس۲۵برس بعد اس قدر مرادیں حاصل ہوگئیں کہ جن کا شمار کرنا مشکل ہے خدا نے اس ویرانہ کو یعنی قادیان کو مجمع الدیار بنا دیا کہ ہر ایک ملک کے لوگ یہاں آکر جمع ہوتے ہیں اور وہ کام دکھلائے کہ کوئی عقل نہیں کہہ سکتی تھی کہ ایسا ظہور میں آجائے گا۔ لاکھوں انسانوں نے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 96

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 96

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/96/mode/1up


مجھے قبول کرلیا اور یہ ملک ہماری جماعت سے بھر گیا۔ اور نہ صر ف اسی قدر بلکہ ملک عرب اور شام اور مصر اور روم اور فارس اور امریکہ اور یورپ وغیرہ ممالک میں یہ تخم بویا گیا اور کئی لوگ ان ممالک سے اس سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگئے اور امید کی جاتی ہے کہ وہ وقت آتا جاتا ہے بلکہ نزدیک ہے کہ ان مذکورہ بالا ممالک کے لوگ بھی اس نور آسمانی سے پورا حصہ لیں گے۔ نادان دشمن جو مولوی کہلاتے تھے اُن کی کمریں ٹوٹ گئیں اوروہ آسمانی ارادہ کو اپنے فریبوں اور مکروں اور منصوبوں سے روک نہ سکے اور وہ اس بات سے نوامید ہوگئے کہ وہ اس سلسلہ کو معدوم کرسکیں اور جن کاموں کو وہ بگاڑنا چاہتے تھے وہ سب کام درست ہوگئے۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِک

پھر بعد اس کے خدا تعالیٰ آئندہ زمانہ کے لوگوں کی بیجا تہمتوں کی نسبت ایک خاص پیشگوئی کرکے مجھے یوسف قرار دیتا ہے ۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے : ھو الذی ینزل الغیث من بعد ما قنطوا وینشر رحمتہ یجتبی الیہ من یشاء من عبادہٖ وکذالک مننّا علٰی یوسف لنصرف عنہ السوء والفحشاء ولتنذر قومًا مّا اُنذراٰباء ھم فھم غافلون۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون انّ معی ربّی سیھدین ۔ ربّ السجن احبّ الیّ ممّا یدعوننی الیہ ۔ ربّ نجّنی من غمّی۔

ان آیات کو جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۶ سے ۵۵۴ تک درج ہیں میں ابھی پہلے بھی لکھ چکا ہوں مگر صفائی بیان کے لئے دوبارہ موقع پر لکھی گئیں تا پیشگوؔ ئی کے معنی سمجھنے میں کچھ دقّت نہ ہو۔ ترجمہ اس وحی الٰہی کا یہ ہے ۔ خدا وہ خدا ہے جو بارش کو اُس وقت اُتارتا ہے۔جبکہ لوگ مینہ سے نومید ہو جاتے ہیں تب نومیدی کے بعد اپنی رحمت پھیلاتا ہے۔ اور جس بندہ کو اپنے بندوں میں سے چاہتا ہے رسالت اور نبوت کے لئے چن لیتا ہے۔ اور ہم نے اِسی طرح اس یوسف پر احسان کیا تاہم دفع کریں اور پھیر دیں اُس سے اُن بُرائی اور بے حیائی کی باتوں کو جو اُس کی نسبت بطور تہمت تراشی جائیں گی۔ یعنی خدا تعالیٰ کا کسی تہمت اور الزام کے وقت جو اُس کے نبیوں اوررسولوں کی نسبت کی جاتی ہیں یہ قانونِ قدرت ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 97

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 97

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/97/mode/1up


اوّل وہ عیب گیر اور نکتہ چین اور بدگمان لوگوں کو پورے طور پرموقعہ دیتا ہے کہ تا وہ جو چاہیں بکواس کریں اور جس طرح چاہیں کوئی تہمت لگاویں یا بہتان باندھیں۔ پس وہ لوگ بہت خوش ہوکر حملے کرتے ہیں اور اپنے حملوں پر بہت بھروسہ کرتے ہیں یہاں تک کہ صادقوں کی جماعت ایسے حملوں سے ڈرتی ہے اور انسانی کمزوری کی وجہ سے اس بات سے نومید ہو جاتے ہیں کہ بارانِ رحمت الٰہی اس مفتریانہ داغ کو دھو دے اور خدا تعالیٰ کی بھی یہی عادت ہے کہ بارانِ رحمت نازل توکرتا ہے اور اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے لیکن اوّل کسی مدت تک لوگوں کو نومید کر دیتا ہے تا وہ لوگوں کے ایمان کی آزمائش کرے۔ پس اسی طرح خدا تعالیٰ کے نبی اور مرسل پر جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہ آزمائے جاتے ہیں۔ شریر لوگوں کی طرف سے بہت بیجا حملے خدا تعالیٰ کے نبیوں پرہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ فاسق اور فاجر ٹھہرائے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی عادت اسی طرح پر واقعہ ہے کہ ا عتراض کرنے والوں کو اعتراض کرنے کے لئے بہت سی گنجائش دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی نکتہ چینی اورعیب گیری کی باتوں کو بہت قوی سمجھنے لگتے ہیں اور اُن پرخوش ہوتے اور اتراتے ہیں اور مومنوں کے دلوں کو ان باتوں سے بہت صدمہ پہنچتا ہے یہاں تک کہ اُن کی کمر ٹوٹتی ہے اور وہ سخت طور پر آزمائے جاتے ہیں پھر خدا تعالیٰ کی نصرت کا مینہ برستا ہے ا ور تمام افتراؤں کے ورق کو دھو ڈالتا ہے اور اپنے نبیوں کے اجتباء اور اصطفاء کے مرتبہ کو ثابت کر دیتا ہے۔ خلاصہ اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ اسی طرح اس یوسف کی ہم بریّت ظاہر کریں گے کہ اوّل شریر لوگ بیجا تہمتیں اُس پر لگائیں گے جیسا کہ یوسف بن یعقوب پر تہمت لگائی گئی تھی لیکن آخر خدا نے ایک شخص کو اُس کی بریت کیلئے ایک گواہ ٹھہرایا اور اُس گواہی نے یوسف کو اُس تہمت سے بَری کردیا ۔ پس خدا فرماتا ہے کہ اس جگہ بھی میں ایسا ہی کروں گا۔ جیسا کہ اس نے فرمایا ۔ قل عندی شھادۃٌ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔ ان معی ربّی سیھدین۔ یعنی اے یوسف جو لوگ تیرے پر الزام لگاتے ہیں اُن کو کہہ دے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 98

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 98

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/98/mode/1up


کہ میں اپنی بریّت کیلئے خدا تعالیٰ کی گواہی اپنے پاس رکھتا ہوں پس کیا تم اس گواہی کو قبول کروگے یانہیں؟ اور یہ بھی ان کو کہہ دے کہ مَیں تمہاری کسی تہمت سے ملزم نہیں ہوسکتا کیونکہ میرے ساتھ میرا خدا ہے۔ وہ میری بریّت کے لئے کوئی راہ پیدا کردے گا*۔ یاد رہے کہ جب یوسف بن یعقوب پر زلیخانے بیجا الزام لگایا تھا تو اُس موقعہ پر خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے3۱؂۔یعنی زلیخا کے قریبیوں میں سے ایک شخص نے یوسف کی بریّت کی گواہی دی۔ مگر اس جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اِس یوسف کے لئے خودگواہی دوں گا پس اس سے زیادہ اور کیا گواہی ہوگی کہ آج سے پچیس۲۵ برس پہلے خدا تعالیٰ نے ان تہمتوں کی خبر دی ہے جو ظالم اور شریر لوگ مجھ پرلگاتے ہیں۔ اور یوسف بن یعقوب کے لئے صرف ایک انسان نے گواہی دی مگر میرے لئے خدا نے پسند کیا کہ خود گواہی دے اور یوسف بن یعقوب پر تہمت لگانے کیلئے ایک عورت نے پیش دستی کی مگر میرے پر وہ لوگ تہمتیں لگاتے ہیں جو عورتوں سے بھی کمتر ہیں۔ اور 3۲؂ کے مصداق ہیں۔ پھر اس پیشگوئی کے آخری حصہ کی یہ عبارت ہے۔333۔ یعنی اے میرے رب مجھے تو قید بہتر ہے اُن باتوں سے کہ یہ عورتیں مجھ سے خواہش


یہ آیت یعنی3۳؂ جس کا یہ ترجمہ ہے کہ میرے ساتھ میرا خدا ہے۔ وہ مَخلصی کی کوئی راہ دکھلا دے گا۔ یہ قرآن شریف میں حضرت موسیٰ کے قصہ میں ہے جب کہ فرعون نے ان کا تعاقب کیا تھا اور بنی اسرائیل نے سمجھا تھا کہ اب ہم پکڑے گئے ہیں پس خدا تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے کہ ایسے کمزور اس جماعت میں بھی ہوں گے جن کی تسلی کے لئے کہا جائے گا کہ گھبراؤ مت۔ خدا تمہیں ان تہمتوں سے بریّت حاصل کرنے کے لئے کوئی راہ دکھادے گا جیسا کہ اس نے یوسف بن یعقوب کو دکھلا دی جب کہ ایک مکّارہ عورت نے پیش دستی کر کے خلاف واقعہ باتیں یوسف کی نسبت اپنے خاوند کو سنائیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 99

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 99

http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/99/mode/1up


کرتی ہیں۔ خلاصہ مطلب یہ کہ اگر کوئی عورت ایسی خواہش کرے تو میں اپنے نفس کے لئے اُس امر سے قید ہونا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ یہ یوسف بن یعقوب علیہما السلام کی دُعا تھی جس دُعا کی وجہ سے وہ قید ہوگئے اور میرا بھی یہی کلمہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے آج سے پچیس۲۵ برس پہلے براہین احمدیہ میں لکھ دیا۔ صرف یہ فرق ہے کہ یوسف بن یعقوب اپنی اس دُعا کی وجہ سے قید ہوگیا ، مگر خدا نے براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۰ میں میری نسبت یہ فرمایا۔ یعصمک اللّٰہ من عندہ وان لم یعصمک النّاس ۔یعنی خدا تعالیٰ تجھے خود بچالے گا اگرچہ لوگ تیرے پھنسانے پر آمادہ ہوں ۔ سو ایسا ہی ہوا کہ مسمّی کرم دین کے فوجداری مقدمہ میں ایک ہندو مجسٹریٹ کا ارادہ تھا کہ مجھے قید کی سزا دے مگر خدا تعالیٰ نے کسی غیبی سامان سے اُس کے دل کو اس ارادہ سے روک دیا۔ اور یہ بھی ظاہر کیا کہ وہ آخر کار سزا دینے کے ارادہ سے قطعاً ناکام رہے گا۔ پس اِس اُمت کا یوسف یعنی یہ عاجز اسرائیلی یوسف سے بڑھ کر ہے کیونکہ یہ عاجز قید کی دُعا کرکے بھی قید سے بچایا گیا مگر یوسف بن یعقوب قید میں ڈالا گیا۔ اور اِس اُمت کے یوسف کی بریّت کے لئے پچیس۲۵ برس پہلے ہی خدا نے آپ گواہی دے دی اور اور بھی نشان دکھلائے مگر یوسف بن یعقوب اپنی بریّت کے لئے انسانی گواہی کا محتاج ہوا۔ اوران پیشگوئیوں کی گواہی کے بعد زلزلہ شدیدہ نے بھی گواہی دی جس کی گیارہ مہینہ پہلے میں نے خبر دی تھی کیونکہ زلزلہ کی پیشگوئی کے ساتھ یہ وحی الٰہی بھی ہوئی تھی۔ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون*۔ پس یہ دو گواہ ہوگئے اور نہ معلوم کہ بعد ان کے کتنے گواہ ہیں۔


اس جگہ پر خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خدا کی گواہی ہے جو انسانوں کی گواہی پر مقدّم ہے۔ وہ یہی گواہی ہے کہ خدا نے ایک مدت دراز پہلے اِن بیجا بہتانوں کی خبر دی ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 100

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 100

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/100/mode/1up


غرض وہ خدا جو بدگمانوں کے گندے خیالات کا بھی علم رکھتا ہے اُس نے مجھے یوسف قرار دے کر اور میری نسبت میری زبان سے یوسف علیہ السلام کا وہ قول نقل کرکے جو سورہ یوسف میں آچکا ہے یعنی یہ کہ333 ۔ آئندہ زمانہ کی نسبت ایک پیشگوئی کی ہے تا وہ میرے اندرونی حالات کو لوگوں پر ظاہر کرے۔ اگرچہ میں یہ عادت نہیں رکھتا اور طبعاً اس سے کراہت کرتا ہوں کہ لوگوں کے سامنے اپنی دلی پاکیزگی ظاہر کروں بلکہ یوسف کی طر ح میرا بھی یہی قول ہے کہ3333333 مگرخدا کے لطف و کرم کو میں کہاں چھپاؤں اور کیونکر میں اس کو پوشیدہ کر دوں۔اُس کے تواس قدر لطف و کرم ہیں کہ ؔ میں گن بھی نہیں سکتا۔ کیا عجیب کرم فرمائی ہے کہ ایسے زمانہ میں جبکہ بدگمانیاں نہایت درجہ تک پہنچ گئی ہیں خدا نے میرے لئے ہیبت ناک نشان دکھلائے۔ مثلاً غور کرو کہ وہ شدید زلزلہ جس کی ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء کو مجھے خبردی گئی جس نے ہزارہا انسانوں کو ایک دم میں تباہ کردیا۔ اور پہاڑوں کو غاروں کی طرح بنا دیا اُس کے آنے کی کس کو خبر تھی۔ کس نجومی نے مجھ سے پہلے یہ پیشگوئی کی تھی وہ خدا ہی تھا جس نے قریباًایک برس پہلے مجھے یہ خبر دی ۔ اُسی وقت لاکھوں انسانوں میں بذریعہ اخبارات شائع کی گئی ۔ اُس نے فرمایا کہ میں نشان کے طور پر یہ زلزلہ ظاہر کروں گا تا سعید لوگوں کی آنکھ کھلے۔ مگر میرے نزدیک براہین احمدیہ کی پیشگوئیاں اس سے کم نہیں ہیں جن میں اس زلزلہ شدیدہ کی بھی خبر ہے۔ اور یہ پیشگوئی یوسف قرار دینے کی بھی ایک ایسی پیشگوئی ہے جس نے اس زمانہ کے نہایت گندہ حملوں کی آج سے پچیس۲۵ سال پہلے خبر دی ہے۔ یہ وہ ناپاک حملے ہیں جو نادان مخالفوں کے آخری ہتھیار ہیں اور بعد اس کے فیصلہ کا دن ہے۔ اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس موقعہ پرخدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون یہ اُس شہادت سے زیادہ زبردست ہے جو سورہ یوسف میں یہ آیت ہے 3۱؂ظاہر ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 101

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 101

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/101/mode/1up


کہ خدا کی شہادت اور انسان کی شہادت برابر نہیں ہوسکتی۔ پس وہ شہادت یہی شہادت ہے کہ وہ جو عالم الغیب ہے وہ پچیس۲۵ سال پہلے اس زمانہ سے مجھے یوسف قرار دے کر اس کے واقعات میرے پر منطبق کرتا ہے اور ایسی خصوصیت کے الفاظ بیان فرماتا ہے جس سے حقیقت کھلتی ہے جیسا کہ اس کا میری طرف سے یہ فرمانا کہ333۱؂ ظاہر کر رہا ہے کہ کسی آئندہ واقعہ کی طرف یہ اشارہ ہے لیکن چونکہ یوسف بھی شریر لوگوں کی بدگمانیوں سے نہیں بچ سکا تو پھر ایسے لوگوں پر مجھے بھی افسوس کرنا لاحاصل ہے جو میرے پر بدگمانی کریں۔ ہر ایک جو مجھ پر حملہ کرتا ہے وہ جلتی ہوئی آگ میں اپنا ہاتھ ڈالتا ہے کیونکہ وہ میرے پر حملہ نہیں بلکہ اُس پر حملہ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے وہی فرماتا ہے کہ اِنِّیْ مھینٌ من اراد اھانتک۔یعنی میں اُس کو ذلیل کروں گا جو تیری ذلّت چاہتا ہے ایسا شخص خدا تعالیٰ کی آنکھ سے پوشیدہ نہیں*۔ یہ مت گمان کرو کہ وہ میرے لئے نشانوں کا دکھلانا بس کردے گا ۔ نہیں بلکہ وہ نشان پر نشان دکھلائے گا اور میرے لئے اپنی وہ گواہیاں دے گا جن سے زمین بھر جائے گی۔ وہ ہولناک نشان دکھلائے گا اور رعب ناک کام کرے گا۔ اس نے مدت تک ان حالات کو دیکھا اور صبر کرتارہا مگر اب وہ اس مینہ کی طرح جو موسم پر ضرور گرجتا ہے گرجے گا اور شریر روحوں کو اپنے صاعقہ کا مزا چکھائے گا۔ وہ شریر جو اس سے نہیں ڈرتے اور شوخیوں میں حد سے بڑھ جاتے ہیں وہ اپنے ناپاک خیالات اور بُرے کاموں کو لوگوں سے چھپاتے ہیں مگر خدا اُنہیں دیکھتا ہے کیا شریر انسان خدا کے ارادوں پر غالب آسکتا ہے ؟ کیا وہ اس سے لڑکر فتح پاسکتا ہے ؟ اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے

یہ آیت کہ3 ۲؂ بآواز بلند بتلا رہی ہے کہ فرعونی صفات لوگ اپنی بیجا تہمتوں پر فخر کریں گے مگر خدا اپنے بندہ کو نجات دے گا پھر حملہ کرنے والوں کے آگے ایک دریا ہے جس میں اُن کا خاتمہ ہو جائے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 102

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 102

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/102/mode/1up


مجھے یوسف قرار دے کر فرمایا قل عندی شھادۃ من اللّٰہ فھل انتم مؤمنون۔جسؔ کے یہ معنے ہیں کہ ان کو کہہ دے کہ میرے پاس خداکی گواہی ہے جو انسانوں کی گواہیوں پر غالب ہے پس کیا تم اس گواہی کو مانتے ہو یا نہیں؟ اس فقرہ سے یہ مطلب ہے کہ اے شرارتیں کرنے والو اور تہمتیں لگانے والو! اگرتم خدا کی اس گواہی کوقبول نہیں کرتے جو اُس نے آج سے پچیس۲۵ سال پہلے دی تو پھر خدا کسی اور نشان سے گواہی دے گا جس سے تم ایک سخت شکنجہ میں پڑوگے تب رونااور دانت پیسنا ہوگا۔پس میں دیکھتا ہوں کہ خدا کی دوسری گواہیاں بھی شروع ہوگئیں اور مجھے خدا نے اپنے الہام سے یہ بھی خبر دی ہے کہ جو شخص تیری طرف تیر چلائے گا میں اُسی تیر سے اس کاکام تمام کروں گا۔اور اس وحی الٰہی میں جو مجھے یوسف قرار دیا گیا ہے یہ بھی ایک فقرہ ہے کہ ولتنذرقومًا ماانذر اٰباء ھم فھم غافلون۔ اس آیت کے معنے پہلی آیت کو ساتھ ملانے سے یہ ہیں کہ ہم نے اس یوسف پر احسان کیا کہ خود اس کی بریّت کی شہادت دی تاوہ بُرائی اور بے حیائی جو اس کی طرف منسوب کی جائے گی اس کو ہم اُس سے پھیر دیں اور دفع کردیں اور ہم یہ اس لئے کریں گے کہ تا انذار اور دعوت میں حرج نہ آوے کیونکہ خدا کے رسولوں اور نبیوں اور ماموروں پرجو یہ اندھی دنیا طرح طرح کے الزام لگاتی ہے اگر ان کو دفع نہ کیا جائے تواس سے دعوت اور انذار کا کام سُست ہو جاتا ہے بلکہ رُک جاتا ہے اور ان کی باتیں دلوں پر اثر نہیں کرتیں اورمعقولی رنگ کے جواب اچھی طرح دلوں کے زنگ کو دُور نہیں کر سکتے۔ پس اس سے اندیشہ ہوتاہے کہ لوگ اپنی بدگمانیوں سے ہلاک نہ ہو جائیں اور ہیزم دوزخ نہ بن جائیں۔ لہٰذا وہ خدا جو کریم اور رحیم ہے جو اپنی مخلوق کو ضائع کرنا نہیں چاہتا اپنے زبردست نشانوں کے ساتھ اپنے نبیوں کی صفائی اور اصطفاء اور اجتباء کی شہادت دیتا ہے اور جو شخص ان گواہیوں کو پاکربھی اپنی بدظنیوں سے باز نہیں آتا اُس کے ہلاک ہونے کی خدا کو کچھ بھی پروا نہیں۔ خدا اُس کادشمن ہو جاتا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 103

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 103

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/103/mode/1up


اور اس کے مقابل پر خود کھڑا ہوجاتا ہے۔ شریر انسان خیال کرتا ہے کہ میرے مکر دُنیا کے دلوں پر بُرا اثر ڈالیں گے مگر خدا کہتا ہے کہ اے احمق! کیا تیرے مکرمیرے مکر سے بڑھ کر ہیں؟ میں تیرے ہی ہاتھوں کو تیری ذلّت کا موجب کروں گا اور تجھے تیرے دوستوں کے ہی آگے رُسوا کرکے دکھلاؤں گا۔اور اس جگہ مجھے یوسف قرار دینے سے ایک اور مقصد بھی مدّنظر ہے کہ یوسف نے مصر میں پہنچ کر کئی قسم کی ذلّتیں اٹھائی تھیں جو دراصل اُس کی ترقی ء مدارج کی ایک بنیاد تھی مگر اوائل میں یوسف نادانوں کی نظر میں حقیر اور ذلیل ہوگیا تھا اور آخر خدا نے اُس کو ایسی عزّت دی کہ اُس کو اسی ملک کا بادشاہ بناکر قحط کے دنوں میں وہی لوگ غلام کی طرح اس کے بنا دیئے جو غلامی کاداغ بھی اُس کی طرف منسوب کرتے تھے پس خدا تعالیٰ مجھے یوسف قرار دے کر یہ اشارہ فرماتا ہے کہؔ اس جگہ بھی میں ایسا ہی کروں گا۔ اسلام اور غیر اسلام میں روحانی غذا کا قحط ڈال دوں گا اور روحانی زندگی کے ڈھونڈنے والے بجز اس سلسلہ کے کسی جگہ آرام نہ پائیں گے اور ہر ایک فرقہ سے آسمانی برکتیں چھین لی جائیں گی اور اسی بندۂ درگاہ پر جو بول رہا ہے ہر ایک نشان کا انعام ہوگا پس وہ لوگ جو اس روحانی موت سے بچنا چاہیں گے وہ اسی بندۂ حضرت عالی کی طرف رجوع کریں گے اور یوسف کی طرح یہ عزت مجھے اسی توہین کے عوض دی جائے گی بلکہ دی گئی جس توہین کو ان دنوں میں ناقص العقل لوگوں نے کمال تک پہنچایا ہے۔ اور گومَیں زمین کی سلطنت کے لئے نہیں آیا مگر میرے لئے آسمان پر سلطنت ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی اور مجھے خدا نے اطلاع دی ہے کہ آخر بڑے بڑے مفسد اور سرکش تجھے شناخت کرلیں گے۔ جیسا کہ فرماتا ہے ۔ یَخِرُّون عَلَی الْاَذْقان سُجَّدًا۔ ربّنا اغفرلنا اناکنا خاطئین۔ لا تثریب علیکم الیوم یغفراللّٰہ لکم وھو ارحم الرّاحمین*۔ اور میں نے کشفی طور پر

ترجمہ ۔ٹھوڑیوں پر سجدہ کرتے ہوئے گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ خدایا ہم خطاکار تھے ہم نے گناہ کیا۔ ہمارے گناہ بخش۔ پس خدا فرمائے گا کہ تم پر کوئی سرزنش نہیں کیونکہ تم ایمان لے آئے خدا تمہارے گناہ بخش دے گا کہ وہ ارحم الراحمین ہے۔ اس جگہ بھی خدا نے لا تثریب کے لفظ کے ساتھ مجھے یوسف ہی قرار دیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 104

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 104

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/104/mode/1up


دیکھا کہ زمین نے مجھ سے کلام کیا اور کہا یا ولی اللّٰہ کُنْتُ لا اَعْرفک۔یعنی اے ولی اللہ میں اس سے پہلے تجھ کو نہیں پہچانتی تھی۔ زمین سے مراد اس جگہ اہل زمین ہیں۔ مبارک وہ جو دہشت ناک دن سے پہلے مجھ کو قبول کرے کیونکہ وہ امن میں آئے گا۔ لیکن جو شخص زبردست نشانوں کے بعد مجھے قبول کرے اُس کا ایمان رَتی بھی قیمت نہیں رکھتا۔

اکنوں ہزار عُذر بیارے گناہ را


مرشوئے کردہ رانبود زیب دخترے

پھر اور پیشگوئیاں ہیں جو مذکورہ بالا پیشگوئیوں کی تائید میں براہین احمدیہ میں مندرج ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھو شعنا نَعْسا۔ آئی لَوْیُو۔۲؂ آئی شیل گِو یو ءِ لارج پارٹی اوف اسلام۔۲؂ ثلّۃ من الاولین وثلّۃ من الاٰخرین ۔ میں اپنی چمکار دکھاؤں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اُٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا الفتنۃ ھٰھنا فاصبر کما صبر اولو العزم ۔ یا داوٗد عامل بالناس رفقًا واحسانًا وامّا بنعمۃ ربّک فحدّث۔ اشکر نعمتی رئیت خدیجتی۔ انک الیوم لذوحظٍ عظیم۔ ما ودّعک ربّک وما قلٰی۔ الم نشرح لک صدرک۔ الم نجعل لک سھولۃً فی کلّ امر۔ بیت الفکر وبیت الذکر ومن دخلہ کان اٰمنا۔ مبارک و مبارک وکل امرٍ مبارک یجعل فیہ۔ یریدون ان یطفءُوا نور اللّٰہ قل اللّٰہ حافظہ۔ عنایۃ اللّٰہ حافظک۔ نحن نزّلناہ وانالہ لحافظون۔ اللہ خیر حافظا وھوارحم الراحمین۔ ویُخوّفونک من دونہ ائمّۃ الکفر۔ لا تخف انک انت الاعلٰی۔ ینصرک اللّٰہ فی مواطن۔ کتب اللّٰہ لأَغلبن انا ورسلی۔ اعمل ماشئت فانی قد غفرت لک۔ انت منّی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق۔ وقالوا ان ھوالّا افک افترٰی۔ وما سمعنا بھٰذا فی اٰبائنا الاولین۔ ولقد کرمنا بنی اٰدم و



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 105

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 105

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/105/mode/1up


فَضَّلنا بعضھم علٰی بعض۔ اجتبیناھم واصطفیناھم کذالک لیکون اٰیۃً للمؤمنین۔ ام حسبتم انّ اصحابَ الکھف والرقیم کانوامن اٰیاتنا عجبًا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب ۔ کلّ یوم ھو فی شان ففھّمناھا سلیمان۔ وجحدوا بھا واستیقنتھا انفسھم ظلمًا وعلوّا۔ قل جاء کم نورٌ من اللّٰہ فلا تکفروا ان کنتم مؤمنین۔ سلام علٰی ابراھیم۔ صافیناہ ونجیناہ من الغم۔ تفردنا* بذالک ۔ فاتخذوا من مقام ابراھیم مُصلّٰی۔(دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۶ سے صفحہ ۵۶۱ تک) ترجمہ۔ اے خدا میں دُعا کرتا ہوں کہ مجھے نجات بخش اور مشکلات سے رہائی فرما۔ ہم نے نجات دے دی۔ یہ دونوں فقرے عبرانی زبان میں ہیں اور یہ ایک پیشگوئی ہے جو دُعا کی صورت میں کی گئی اور پھر دعا کا قبول ہونا ظاہر کیا گیا اور اس کاحاصل مطلب یہ ہے کہ جو موجودہ مشکلات ہیں یعنی تنہائی بیکسی ناداری کسی آئندہ زمانہ میں وہ دُور کر دی جائیں گی۔ چنانچہ پچیس۲۵ برس کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور اس زمانہ میں ان مشکلات کا نام و نشان نہ رہا۔ اور پھر دوسری پیشگوئی انگریزی زبان میں ہے اور میں اس زبان سے واقف نہیں۔ یہ بھی ایک معجزہ ہے جو اِس زبان میں وحی الٰہی نازل ہوئی۔ ترجمہ یہ ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ میں تمہیں ایک بڑا گروہ اسلام کا دوں گا۔ ایک گروہ تو اُن میں سے پہلے مسلمانوں میں سے ہوگا اور دوسرا گروہ اُن لوگوں میں سے ہو گا جو دوسری قوموں میں سے ہوں گے یعنی ہندوؤں میں سے یا یورپ کے عیسائیوں میں سے یا امریکہ کے عیسائیوں میں سے یا کسی اور قوم میں سے چنانچہ ہندو مذہب کے گروہ میں سے بہت سے لوگ مشرف باسلام ہوکر

ترجمہ: یعنی سچی اور صافی اور کامل محبت جو ہم کو اس بندہ سے ہے دوسروں کو نہیں ہم اس امر میں منفرد ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ محبت بقدر معرفت ہوتی ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 106

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 106

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/106/mode/1up


ہمارے سلسلہ میں داخل ہوگئے ہیں جن میں سے ایک شیخ عبد الرحیم ہیں جو اسی جگہ قادیان میں مقیم ہیں جنہوں نے عربی کی کتابیں بھی پڑھ لی ہیں اور قرآن شریف اور کتب درسیہ حدیث وغیرہ کو پڑھ لیا ہے اورعربی میں خوب مہارت پیدا کرلی ہے۔ دوسرے شیخ فضل حق جو اس ضلع کے رئیس ہیں اور اُن کا باپ جاگیردار ہے۔ تیسرے شیخ عبد اللہ (دیوان چند) جو سالہا سال سے ڈاکٹری میں تجربہ رکھتے ہیں اور اس جگہ قادیان میں وہی کام کرتے ہیں۔ اور اس سلسلہ کے لئے اسی کام پر قادیان میں مامور ہیں اسی طرح اور کئی ہیں جو اپنے اپنے وطنوں میں جاگزؔ یں ہیں۔ ایسا ہی یورپ یا امریکہ کے قدیم عیسائیوں میں بھی تھوڑے عرصہ سے ہمارے سلسلہ کا رواج ہوتا جاتاہے چنانچہ حال میں ہی ایک معزز انگریز شہر نیویارک کا رہنے والا جو ملک یونائیٹڈ اسٹیٹ امریکہ میں ہے جس کا پہلانام ہے ایف ایل اینڈرسن نمبر ۲۰۲۔۲۰۰ ورتھ سٹریٹ۔ اور بعد اسلام اس کانام حَسن رکھا گیا ہے وہ ہماری جماعت یعنی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہے اور اُس نے اپنے ہاتھ سے چٹھی لکھ کر اپنا نام اس جماعت میں درج کرایا ہے اور ہماری کتابیں جو انگریزی میں ترجمہ شدہ ہیں پڑھتا ہے قرآن شریف کو عربی میں پڑھ لیتا ہے اور لکھ بھی سکتا ہے ایسا ہی اور کئی انگریز ان ملکوں میں اس سلسلہ کے ثناخوان ہیں اور اپنی موافقت اس سے ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر بیکر جن کا نام ہے۔ اے جارج بیکر نمبر ۴۰۴ سیس کوئی ھینا ایونیو فلاڈلفیا امریکہ۔ میگزین ریویو آف ریلیجنز میں میرا نام اور تذکرہ پڑھ کر اپنی چٹھی میں یہ الفاظ لکھتے ہیں ’’ مجھے آپ کے امام کے خیالات کے ساتھ بالکل اتفاق ہے انہوں نے اسلام کو ٹھیک اُس شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس شکل میں حضرت نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا تھا ‘‘ اور ایک عورت امریکہ سے میری نسبت اپنے خط میں لکھتی ہے کہ ’’میں ہر وقت ان کی تصویر کو دیکھتی رہنا پسند کرتی ہوں۔ یہ تصویر بالکل مسیح کی تصویر معلوم ہوتی ہے ‘‘ اور اسی طرح ہمارے ایک دوست کی بیوی جس کا پہلا نام ایلزی بتھ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 107

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 107

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/107/mode/1up


تھا جو انگلینڈ کی باشندہ ہے اس جماعت میں داخل ہوچکی ہے۔ اسی طرح اور کئی خط امریکہ انگلینڈ روس وغیرہ ممالک سے متواتر آرہے ہیں اور وہ تمام خطوط متعصّب منکروں کے منہ بند کرنے کے لئے محفوظ رکھے جاتے ہیں۔ ایک بھی ضائع نہیں کیا گیا اور دن بدن اِن ممالک میں ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنے کیلئے قدرتی طور پر ایک جوش پیدا ہو رہا ہے اور تعجب ہے کہ وہ خود بخود ہمارے سلسلہ سے مطلع ہوتے جاتے ہیں اور خدائے کریم و رحیم و حکیم ان کے دلوں میں ایک اُنس اور محبت اور حسن ظن پیدا کرتا جاتاہے اور صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے طیاری کر رہے ہیں اور وہ اس سلسلہ کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسا کہ ایک سخت پیاسا یا سخت بھوکا جو شدت بھوک اور پیاس سے مرنے پر ہو اور یکدفعہ اُس کو پانی اور کھانا مل جائے۔ اسی طرح وہ اس سلسلہ کے ظہور سے خوشی ظاہر کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اِس زمانہ میں اسلام کی شکل کو تفریط اور افراط کے سیلاب نے بگاڑ دیا تھا ایک فرقہ جو محض زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتا ہے وہ قطعاً اسلامی برکات سے منکر ہوچکا تھا اور معجزات اور پیشگوئیوں سے نہ صرف انکار بلکہ دن رات ٹھٹھا اور ہنسی کرتا تھا اور معاد کے واقعات کی اصل حقیقت نہ سمجھ کر اس سے بھی تمسخر اور انکار سے پیش آتا تھا اورعباداتِ اسلاؔ میہ سے جن سے روحانیت کے دروازے کھلتے ہیں سبکدوش ہوناچاہتا تھا غرض دہریت سے بہت قریب جا رہا تھا اور صرف نام کا مسلمان تھا۔ اور وہ امر جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں ایسا مابہ الامتیاز ہے جوکوئی شخص اپنی طاقت سے اپنے مذہب میں وہ حصہ امتیازی نشان کا داخل کر ہی نہیں سکتا اُس سے وہ بالکل بے خبر تھا۔ یہ تو تفریط والوں کا حال تھا اور دوسرے فریق نے افراط کی راہ اختیار کرلی تھی یعنی ایسے بے اصل قصّے اور بیہودہ کہانیاں جو کتاب اللہ کے برخلاف ہیں جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ دنیا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 108

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 108

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/108/mode/1up


میں آنا اپنے مذہب کا جزو بنا دیا تھاحالانکہ خدا تعالیٰ صریح الفاظ سے قرآن شریف میں اُن کی وفات ظاہر کرتا ہے اوراحادیث نبویہ میں صراحت سے لکھا گیا ہے کہ آنے والا مسیح اِسی اُمت میں سے ہوگا۔ جیسا کہ موسٰی ؑ کے سلسلہ کا مسیح اُسی قوم میں سے تھا نہ کہ آسمان سے آیا تھا۔ پس اس تفریط اور افراط کو دُور کرنے کیلئے خدا نے یہ سلسلہ زمین پر قائم کیا جو بباعث اپنی سچائی اورخوبصورتی اور اعتدال کے ہر ایک اہل دل کو پسند آتا ہے۔غرض یہ پیشگوئی کہ ایک گروہ پرانے مسلمانوں میں سے اس سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوگا اور ایک گروہ نئے مسلمانوں میں سے یعنی یورپ اور امریکہ اور دیگر کُفّار کی قوموں میں سے اس سلسلہ کے اندر اپنے تئیں لائے گا۔ پچیس۲۵ برس بعد اُس زمانہ سے کہ جب خبر دی گئی پوری ہوئی۔ یاد رکھو کہ جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں عربی زبان میں اس پیشگوئی کے یہ لفظ ہیں جو وحی الٰہی نے میرے پر ظاہر کئے جو براہین احمدیہ حصص سابقہ میں آج سے پچیس۲۵ برس پہلے شائع ہو چکے ہیں۔ ثُلّۃٌ من الاوّلین وثُلّۃٌ من الاٰخرین یعنی اس سلسلہ میں داخل ہونے والے دو۲ فریق ہوں گے۔ایک پرانے مسلمان جن کا نام اولین رکھا گیا جو اب تک تین لاکھ کے قریب اس سلسلہ میں داخل ہوچکے ہیں۔ اور دوسرے نئے مسلمان جو دوسری قوموں میں سے اسلام میں داخل ہوں گے یعنی ہندوؤں اور سکھوں اور یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں میں سے۔ اور وہ بھی ایک گروہ اس سلسلہ میں د اخل ہوچکا ہے اور ہوتے جاتے ہیں۔ اسی زمانہ کے بارہ میں جو میرا زمانہ ہے خدا تعالیٰ قرآن شریف میں خبر دیتا ہے جس کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ آخری دنوں میں طرح طرح کے مذاہب پیدا ہو جائیں گے اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر حملہ کرے گا جیسا کہ ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے یعنی تعصب بہت بڑھ جائے گا اور لوگ طلب حق کو چھوڑ کر خواہ نخواہ اپنے مذاہب کی حمایت کریں گے۔ اور کینے اور تعصب ایسے حدِّاعتدال سے گذر جائیں گے کہ ایک قوم دوسری قوم کو نگل لیناچاہے گی تب انہیں دنوں میں آسمان سے ایک فرقہ کی بنیاد ڈالی جائے گی اور خدا اپنے مُنہ سے اُس فرقہ کی حمایت کے لئے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 109

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 109

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/109/mode/1up


ایک کرناء بجائے گا اور اس کرناء کی آواز سے ہر ایک سعیدؔ اس فرقہ کی طرف کھچا آئے گا بجز اُن لوگوں کے جو شقی ازلی ہیں جو دوزخ کے بھرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ قرآن شریف کے اس میں الفاظ یہ ہیں 3 ۱؂۔ اوریہ بات کہ وہ نفخ کیا ہوگا۔ اور اس کی کیفیت کیا ہوگی اس کی تفصیل وقتاً فوقتاً خود ظاہر ہوتی جائے گی۔ مجملاً صرف اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ استعدادوں کو جنبش دینے کے لئے کچھ آسمانی کارروائی ظہور میں آئے گی اور ہولناک نشان ظاہر ہوں گے تب سعید لوگ جاگ اٹھیں گے کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے کیا یہ وہی زمانہ نہیں جو قریب قیامت ہے جس کی نبیوں نے خبر دی ہے ۔ اور کیا یہ وہی انسان نہیں جس کی نسبت اطلاع دی گئی تھی کہ اس امت میں سے وہ مسیح ہوکر آئے گا جو عیسیٰ بن مریم کہلائے گا تب جس کے دل میں ایک ذرا بھی سعادت اور رشد کا مادہ ہے خدا تعالیٰ کے غضبناک نشانوں کو دیکھ کر ڈرے گا اور طاقت بالا اُس کو کھینچ کر حق کی طرف لے آئے گی اور اُس کے تمام تعصب اور کینے یوں جل جائیں گے جیسا کہ ایک خشک تِنکا بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑ کر بھسم ہو جاتا ہے غرض اُس وقت ہر ایک رشید خدا کی آواز سن لے گا۔ اور اس کی طرف کھینچا جائے گا اور دیکھ لے گا کہ اب زمین اور آسمان دوسرے رنگ میں ہیں نہ وہ زمین ہے اور نہ وہ آسمان۔ جیسا کہ مجھے پہلے اس سے ایک کشفی رنگ میں دکھلایا گیا تھا کہ میں نے ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنایا ایسا ہی عنقریب ہونے والا ہے اور کشفی رنگ میں یہ بنانا میری طرف منسوب کیا گیا کیونکہ خدا نے اس زمانہ کے لئے مجھے بھیجا ہے۔ لہٰذا اس نئے آسمان اور نئی زمین کا میں ہی موجب ہوا اور ایسے استعارات خدا کی کلام میں بہت ہیں لیکن اس جگہ شاید بعض نادانوں کو یہ اشکال پیش آوے کہ اگرچہ یہ تو صحیح مسلم اور بخاری میں آچکا ہے کہ آنے والامسیح اسی امت میں سے ہوگا اور قرآن شریف میں بھی سورہ ء نور میں مِنْکُمْ کا لفظ اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر ایک خلیفہ اسی اُمت میں سے ہوگا اور آیت33۲؂ بھی اسی کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس سے ظاہر ہے کہ کوئی امر غیر معمولی نہیں ہوگا بلکہ جس طرح صدر زمانہ اسلام میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 110

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 110

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/110/mode/1up


مثیل موسیٰ ہیں جیسا کہ آیت3 ۱؂سے ظاہر ہے ایسا ہی آخر زمانہ اسلام میں دونوں سلسلوں موسوی اورمحمدی کا اوّل اور آخرمیں تطابق پورا کرنے کیلئے مثیل عیسیٰ کی ضرورت تھی جس کی نسبت حدیث بخاری اِمَامَکُمْ مِنْکُم اور حدیث مسلم اَمَّکُمْ مِنْکَم وضاحت سے خبر دے رہی ہیں۔مگر اسی امت میں سے عیسیٰ بننے والا ابن مریم کیونکر کہلا سکے وہ تو مریم کا بیٹا نہیں ہے حالانکہ حدیثوں میں ابن مریم کا لفظ آیا ہے۔ پس یاد رہے کہ یہ وسوسہ جو نادانوں کے دلوؔ ں کو پکڑتا ہے قرآن شریف میں سورۂ تحریم میں اِس شبہ کاازالہ کردیا گیا ہے جیسا کہ سورۃ تحریم میں اس امت کے بعض افراد کومریم سے مشابہت دی گئی ہے اور پھر اس میں عیسیٰ کی روح کے نفخ کا ذکر کیا گیا ہے جس میں صریح اشارہ کیا گیا ہے کہ اس امت میں سے کوئی فرد اوّل مریم کے درجہ پر ہوگا اور پھر اس مریم میں نفخ روح کیا جائے گا تب وہ اس درجہ سے منتقل ہوکر ابن مریم کہلائے گا۔ اور اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ اگر یہی سچ ہے تو پھر تمہارے الہامات میں بھی اس کی طرف کوئی اشارہ ہونا چاہئے تھا۔ اس کے جواب میں مَیں کہتا ہوں کہ آج سے پچیس۲۵ برس پہلے یہی تصریح میری کتاب براہین احمدیہ حصص سابقہ میں موجود ہے اور نہ صرف اشارہ بلکہ پور ی وضاحت سے کتاب براہین احمدیہ حصص سابقہ میں ایک لطیف استعارہ کے رنگ میں مجھے ابن مریم ٹھہرایا گیا ہے چاہیے کہ اوّل وہ کتاب ہاتھ میں لے لو اور پھر دیکھو کہ اس کی اوائل میں اوّل میرا نام خدا تعالیٰ نے مریم رکھا ہے اور فرمایا ہے یا مریم اسکن انت وزوجک الجنۃ۔ یعنی اے مریم تواور تیری دوست جنت میں داخل ہو۔ پھر آگے چل کر کئی صفحوں کے بعد جو ایک مدت پیچھے لکھے گئے تھے خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے یا مریم نفختُ فیک من لدنی روح الصدق۔ یعنی اے مریم میں نے تجھ میں صدق کی روح پھونک دی۔ پس یہ رُوح پھونکنا گویا روحانی حمل تھا کیونکہ اس جگہ وہی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو مریم صدیقہ کی نسبت استعمال کئے گئے تھے جب مریم صدیقہ میں روح پھونکی گئی تھی تو اس کے یہی معنے تھے کہ اس کو حمل ہوگیا تھا جس حمل سے عیسیٰ پیدا ہوا۔ پس اس جگہ بھی اسی طرح فرمایا کہ تجھ میں رُوح پھونکی گئی گویا یہ ایک روحانی حمل تھا ۔ پھر آگے چل کر آخر کتاب میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 111

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 111

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/111/mode/1up


مجھے عیسیٰ کرکے پکارا گیا ۔ کیونکہ بعد نفخ ربانی مریمی حالت عیسیٰ بننے کیلئے مستعد ہوئی جس کو استعارہ کے رنگ میں حمل قرار دیا گیا۔ پھر آخر اُسی مریمی حالت سے عیسیٰ پیدا ہوگیا۔ اسی رمز کیلئے کتاب کے آخر میں میرانام عیسیٰ رکھا گیااور کتاب کے اوّل میں مریم نام رکھا گیا۔ اب شرم اور حیا اور انصاف اور تقویٰ کی آنکھ سے اوّل سورۂ تحریم میں اس آیت پر غور کرو جس میں بعض افراد اس امت کو مریم سے نسبت دی گئی ہے اور پھر مریم میں نفخ روح کاذکر کیا گیا ہے جو اس حمل کی طرف اشارہ کرتا ہے جس سے عیسیٰ پیدا ہونے والا ہے۔ پھر بعد اس کے براہین احمدیہ حصص سابقہ کے یہ تمام مقامات پڑھو اور خدا تعالیٰ سے ڈرکر خوف کرو کہ کس طرح اُس نے پہلے میرانام مریم رکھا اور پھر مریم میں نفخِ رُوح کا ذکر کیا اور آخر کتاب میں اسی مریم کے رُوحانی حمل سے مجھے عیسیٰ بنا دیا۔ اگر یہ کاروبار انسان کاہوتا تو ہرگز انسان کی قدرت نہ تھی کہ دعوے سے ایکؔ زمانہ دراز پہلے یہ لطیف معارف پیش بندی کے طور پراپنی کتاب میں داخل کردیتا۔ تم خود گواہ ہوکہ اُس وقت اور اُس زمانہ میں مجھے اس آیت پر اطلاع بھی نہ تھی کہ میں اس طرح پرعیسیٰ مسیح بنایا جاؤں گا بلکہ میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسیٰ بن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ اور باوجود اس بات کے کہ خدا تعالیٰ نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام عیسیٰ رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیشگوئی کے طور پر حضرت عیسیٰ کی طرف منسوب تھیں وہ سب آیتیں میری طرف منسوب کردیں اور یہ بھی فرما دیا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے مگر پھر بھی میں متنبہ نہ ہوا اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں مَیں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طو ر پر لکھ دیا او ر شائع کردیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اور میری آنکھیں اُس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے بار بار کھول کر مجھ کو نہ سمجھا یا کہ عیسیٰ بن مریم اسرائیلی توفوت ہوچکاہے اوروہ واپس نہیں آئے گا اس زمانہ اور اس امت کے لئے تو ہی عیسیٰ بن مریم ہے۔ یہ میری غلط رائے جو براہین احمدیہ حصص سابقہ میں درج ہوگئی یہ بھی خدا تعالیٰ کا ایک نشان تھا اور میری سادگی اورعدم بناوٹ پر گواہ تھا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 112

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 112

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/112/mode/1up


مگر اب میں اس سخت دل قوم کا کیا علاج کروں کہ نہ قسم کو مانتے ہیں نہ نشانوں پر ایمان لاتے ہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی ہدایتوں پرغور کرتے ہیں۔ آسمان نے بھی نشان دکھلائے او رزمین نے بھی۔ مگر ان کی آنکھیں بند ہیں اب نہ معلوم خدا انہیں کیادکھلائے گا۔

اِس جگہ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرانام عیسیٰ ہی نہیں رکھا بلکہ ابتدا سے انتہا تک جس قدر انبیاء علیھم السّلام کے نام تھے وہ سب میرے نام رکھ دیئے ہیں۔ چنانچہ براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرانام آدم رکھا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اردتُ اَن استخلف فخلقتُ اٰدم دیکھو براہین احمدیہ حصص سابقہ صفحہ ۴۹۲۔ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے سبحان الذی اسری بعبدہ لیلًا خلق اٰدم فاکرمہ۔ دیکھو براہین احمدیہ حصص سابقہ صفحہ ۵۰۴ دونوں فقروں کے معنے یہ ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ اپنا خلیفہ بناؤں سو میں نے آدم کو پیدا کیا یعنی اس عاجز کو۔ پھر فرمایا پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندہ کو ایک ہی رات میں تمام سیر کرا دیا۔ پیدا کیا اِس آدم کو ۔ پھر اس کو بزرگی دی۔ ایک ہی رات میں سیر کرانے سے مقصد یہ ہے کہ اس کی تمام تکمیل ایک ہی رات میں کردی اور صرف چار پہر میں اس کے سلوک کو کمال تک پہنچایا اور خدا نے جو میرانام آدم رکھا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں عام طور پر بنی آدم کی روحانیت پر موؔ ت آگئی تھی پس خدا نے نئی زندگی کے سلسلہ کا مجھے آدم ٹھہرایا اور اس مختصر فقرہ میں یہ پیشگوئی پوشیدہ ہے کہ جیساکہ آدم کی نسل تمام دنیا میں پھیل گئی ایسا ہی میری یہ روحانی نسل اور نیز ظاہری نسل بھی تمام دنیامیں پھیلے گی۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جیساکہ فرشتوں نے آدم کے خلیفہ بنانے پر اعتراض کیا اور خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو رد کرکے کہا کہ آدم کے حالا ت جو مجھے معلوم ہیں وہ تمہیں معلوم نہیں یہی واقعہ میرے پر صادق آتا ہے کیونکہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ وحی الٰہی درج ہے کہ لوگ میری نسبت ایسے ہی اعتراض کریں گے جیسے کہ آدم علیہ السلام پر کئے گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وان یتخذونک اِلا ھزوًا أھٰذا الذی بعث اللّٰہ۔ جاھل اومجنون۔ یعنی تجھے لوگ ہنسی کی جگہ بنا لیں گے اور کہیں گے کہ کیا یہی شخص خدا نے مبعوث فرمایا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 113

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 113

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/113/mode/1up


یہ تو جاہل ہے یا دیوانہ ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ انہیں حصص براہین احمدیہ میں فرماتا ہے۔ انتَ منّی بمنزلۃٍ لا یعلمھا الخلق ۔ یعنی تیرا میرے نزدیک وہ مقام ہے جس کو دنیا نہیں جانتی۔ یہ جواب اِسی قسم کا ہے جیسا کہ آدم کی نسبت قرآن شریف میں ہے۔3 3۱؂ بلکہ یہی آیتیں بعینہٖ اگرچہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں نہیں مگر دوسری کتابوں میں میری نسبت بھی وحی الٰہی ہوکر شائع ہوچکی ہیں۔ تیسری آدم سے مجھے یہ بھی مناسبت ہے کہ آدم توام کے طور پر پیدا ہوا اور میں بھی توام پیدا ہوا۔ پہلے لڑکی پیدا ہوئی بعدہٗ میں۔ اور باایں ہمہ میں اپنے والد کیلئے خاتم الولد تھا۔ میرے بعد کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ اور میں جمعہ کے روز پیدا ہوا تھااو ر آدم کا حواسے پہلے پیدا ہونا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ وہ سلسلہ دنیا کا مبدء ہے۔ اور میرا اپنی توام ہمشیرہ سے بعد میں پیدا ہونا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ میں دنیاکے سلسلہ کے خاتمہ پر آیا ہوں۔ چنانچہ چھٹے ہزار کے آخر میں میری پیدائش ہے اور قمری حساب کی رو سے اب ساتواں ہزار جاتا ہے۔

اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام نوح بھی رکھا ہے اور میری نسبت فرمایا ہے۔ ولا تخاطبنی فی الّذین ظلموا اِنّھم مُغْرقون۔ یعنی میری آنکھوں کے سامنے کشتی بنا اور ظالموں کی شفاعت کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کر کہ میں ان کو غرق کروں گا۔ خدا نے نوح کے زمانہ میں ظالموں کو قریباً ایک ہزار سال تک مہلت دی تھی اور اب بھی خیر القرون کی تین صدیوں کو علیحدہ رکھ کر ہزار برس ہی ہو جاتا ہے۔ اس حساب سے اب یہ زمانہ اُس وقت پر آپہنچتا ہے جبکہؔ نوح کی قوم عذاب سے ہلاک کی گئی تھی اور خدا تعالیٰ نے مجھے فرمایا۔ اصنع الفلک باعیننا ووحینا۔ انّ الذین یبایعونک انما یبایعون اللّٰہ ید اللّٰہ فوق ایدیھم ۔یعنی میری آنکھوں کے روبرو اور میرے حکم سے کشتی بنا۔ وہ لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ نہ تجھ سے بلکہ خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ یہ خدا کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھوں پر ہے۔ یہی بیعت کی کشتی ہے جو انسانوں کی جان اور ایمان بچانے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 114

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 114

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/114/mode/1up


کے لئے ہے ۔ لیکن بیعت سے مراد وہ بیعت نہیں جو صرف زبان سے ہوتی ہے اور دل اس سے غافل بلکہ روگردان ہے۔ بیعت کے معنے بیچ دینے کے ہیں۔ پس جو شخص درحقیقت اپنی جان اور مال اور آبرو کو اس راہ میں بیچتا نہیں مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ خدا کے نزدیک بیعت میں داخل نہیں بلکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک ظاہری بیعت کرنے والے بہت ایسے ہیں کہ نیک ظنی کا مادہ بھی ہنوز اُن میں کامل نہیں اور ایک کمزور بچہ کی طرح ہر ایک ابتلا کے وقت ٹھوکر کھاتے ہیں۔ اور بعض بدقسمت ایسے ہیں کہ شریر لوگوں کی باتوں سے جلد متاثر ہوجاتے ہیں اور بدگمانی کی طرف ایسے دوڑتے ہیں جیسے کتامُردار کی طرف ۔ پس میں کیونکر کہوں کہ وہ حقیقی طور پر بیعت میں داخل ہیں مجھے وقتاً فوقتاً ایسے آدمیوں کا علم بھی دیا جاتا ہے مگر اذن نہیں دیا جاتا کہ ان کو مطلع کروں۔ کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے اور کئی بڑے ہیں جو چھوٹے کئے جائیں گے۔ پس مقام خوف ہے۔

اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام ابراہیم بھی رکھا گیا ہے جیسا کہ فرمایا۔ سلام علیک یا ابراھیم (دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۸) یعنی اے ابراہیم تجھ پر سلام ۔ ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بہت برکتیں دی تھیں اور وہ ہمیشہ دشمنوں کے حملوں سے سلامت رہا۔ پس میرا نام ابراہیم رکھ کر خدا تعالیٰ یہ اشارہ کرتا ہے کہ ایسا ہی اس ابراہیم کو برکتیں دی جائیں گی اور مخالف اس کو کچھ ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔ جیسا کہ اسی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں اللہ تعالیٰ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے بورکت یا احمد وکان ما بارک اللّٰہ فیک حقًّا فیک یعنی اے احمد تجھے مبارک کیا گیا اور یہ تیرا ہی حق تھا۔ اور انہیں حصص سابقہ براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ ایک جگہ مجھے مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ میں تجھے اس قدر برکت دوں گا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور جس طرح ابراہیم سے خدا نے خاندان شروع کیا اسی طرح اللہ تعالیٰ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میری نسبت فرماتا ہے۔ سبحان اللّٰہ زاد مجدک ینقطع اٰبا ء ک و یبد ء منک۔ یعنی خدا پاک ہے جس نے تیریؔ بزرگی کو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 115

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 115

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/115/mode/1up


زیادہ کیا۔ وہ تیرے باپ دادے کا ذکر منقطع کردے گا اور ابتداء خاندان کا تجھ سے کرے گا۔ اور ابراہیم سے خدا کی محبت ایسی صاف تھی جو اُس نے اس کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے کام دکھلائے اور غم کے وقت اُس نے ابراہیم کو خود تسلی دی۔ ایسا ہی اللہ تعالیٰ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام ابراہیم رکھ کر فرماتا ہے۔ سلام علٰی ابراھیم صافیناہ ونجّیناہ من الغمّ تفرّدنا بذالک صفحہ ۵۶۱۔ یعنی اس ابراہیم پر سلام ۔ ہماری اس سے محبت صافی ہے جس میں کوئی کدورت نہیں اور ہم اس کو غم سے نجات دیں گے۔ یہ محبت ہم سے ہی مخصوص ہے کوئی دوسرا اس کا ایسامحب نہیں۔ اور پھر ایک اور جگہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام ابراہیم رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے ۔ یا ابراھیم أَعرضْ عن ھٰذا اِنَّہ عمل غیر صالح۔ ا نما انت مذکّروما انت علیھم بمصیطر ۔ صفحہ۵۱۰۔ یعنی اے ابراہیم اس شخص سے الگ ہو جا یہ اچھا آدمی نہیں ہے اور تیرا کام یاد دلانا ہے تو ان پر داروغہ تو نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بعض اپنی قوم کے لوگوں سے اور قریب رشتوں سے قطع تعلق کرنا پڑا تھا پس میری نسبت یہ پیشگوئی تھی کہ تمہیں بھی بعض قوم کے قریب لوگوں سے قطع تعلق کرنا پڑے گا چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا۔ پھر ایک اور جگہ براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام ابراہیم رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے و نظرنا الیک وقلنا یا نارکونی بردًا و سلامًا علٰی ابراھیم۔ دیکھو صفحہ ۲۴۰۔ یعنی ہم نے اس ابراہیم کی طرف نظر کی اور کہا کہ اے آگ ابراہیم کیلئے ٹھنڈی اور سلامتی ہو جا۔ یہ آئندہ زمانہ کے لئے ایک پیشگوئی ہے۔ اور جہاں تک اس وقت میرا خیال ہے یہ ان خوفناک مقدمات کیلئے بشارت ہے جن میں جان اور عزت کے تلف ہونے کا اندیشہ تھا جیسا کہ ڈاکٹر مارٹن کلارک کا میرے پر استغاثہ اقدام قتل اور کرم دین کا مقدمہ اور آگ سے مراد اس جگہ وہ آگ ہے جوحکام کے غضب اور اشتعال سے پیدا ہوتی ہے اور حاصل مطلب یہ ہے کہ ہم غضب اور اشتعال کی آگ کو ٹھنڈی کردیں گے اور سلامتی سے مَخلصی ہوگی۔ اور اسی طرح براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرا نام یوسف بھی رکھا گیا ہے۔ اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 116

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 116

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/116/mode/1up


مشابہت کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔ ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں میرانام موسیٰ رکھا گیا ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ تلطّف بالناس وترحّم علیھم انت فیھم بمنزلۃ موسٰی واصبر علٰی مایقولون(دیکھو صفحہ ۵۰۸ براہین احمدیہ حصص سابقہ) یعنی لوگوں سے لطف اور مدارات سے پیش آ۔ تو اُن میں موسیٰ کی طرح ہے اور اُن کی دلآزار باتوں پر صبر کرتا رہ۔ یعنی موسیٰ بڑا حلیم تھا اور ہمیشہ بنیؔ اسرائیل آئے دن مرتد ہوتے تھے اور موسیٰ پر حملے کرتے اور بعض اوقات کئی بیہودہ الزام اس پر لگاتے تھے مگر موسیٰ ہمیشہ صبر کرتا تھا اور ان کاشفیع تھا۔ موسیٰ ان کو ایک جلتے ہوئے تنور سے نکال لایا اور فرعون کے ہاتھ سے نجات دی اور موسیٰ نے فرعون کے سامنے بڑے بڑے ہولناک معجزے دکھائے۔ پس اس نام کے رکھنے میں یہ پیشگوئی بھی ہے کہ ایسا ہی اس جگہ بھی ہوگا۔ اسی طرح خدا نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرانام داؤد بھی رکھا جس کی تفصیل عنقریب اپنے موقع پر آئے گی۔ ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام سلیمان بھی رکھا اور اسکی تفصیل بھی عنقریب آئے گی۔ ایسا ہی براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں خدا تعالیٰ نے میرا نام احمد اور محمد بھی رکھا اور یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم نبوت ہیں ویساہی یہ عاجز خاتم ولایت ہے۔ اور بعد اس کے میری نسبت براہین احمدیہ کے حصص سابقہ میں یہ بھی فرمایا۔ جری اللّٰہ فی حُلَلِ الانبیاء یعنی رسولِ خدا تمام گذشتہ انبیاء علیھم السلام کے پیرائیوں میں، اس وحی الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیائعلیھم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اِس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا۔ ہر ایک نبی کی فطرت کانقش میری فطرت میں ہے اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی اور اس میں یہ بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ تمام انبیائعلیھم السلام کے جانی دشمن



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 117

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 117

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/117/mode/1up


اور سخت مخالف جو عناد میں حد سے بڑھ گئے تھے جن کو طرح طرح کے عذابوں سے ہلاک کیا گیا اس زمانہ کے اکثر لوگ بھی اُن سے مشابہ ہیں اگر وہ توبہ نہ کریں ۔ غرض اس وحی الٰہی میں یہ جتلانا منظور ہے کہ یہ زمانہ جامع کمالاتِ اخیار و کمالات اشرار ہے اور اگر خدا تعالیٰ رحم نہ کرے تو اس زمانہ کے شریر تمام گذشتہ عذابوں کے مستحق ہیں یعنی اس زمانہ میں تمام گذشتہ عذاب جمع ہوسکتے ہیں اور جیسا کہ پہلی امتوں میں کوئی قوم طاعون سے مری کوئی قوم صاعقہ سے اور کوئی قوم زلزلہ سے اور کوئی قوم پانی کے طوفان سے اور کوئی قوم آندھی کے طوفان سے اور کوئی قوم خسف سے۔ اسی طرح اس زمانہ کے لوگوں کو ایسے عذابوں سے ڈرنا چاہیے اگر وہ اپنی اصلاح نہ کریں کیونکہ اکثر لوگوں میں یہ تمام مواد موجود ہیں محض حلم الٰہی نے مہلت دے رکھی ہے۔ اور یہ فقرہ کہ جری اللّٰہ فی حُلَلِ الانبیاء بہت تفصیل کے لائق ہے جس کا یہ پنجم حصہ براہین متحمل نہیں ہوسکتا صرف اس قدر اِجمالاً کافی ہے کہ ہر ایک گذشتہ نبی کی عادت اور خاصیت اور واقعات میں سے کچھ مجھ میں ہے اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے گذشتہ نبیوں کے ساتھ رنگا رنگ طرؔ یقوں میں نصرت اور تائید کے معاملات کئے ہیں اُن معاملات کی نظیر بھی میرے ساتھ ظاہر کی گئی ہے اور کی جائے گی اور یہ امر صرف اسرائیلی نبیوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ کُل دنیا میں جو نبی گذرے ہیں ان کی مثالیں اور ان کے واقعات میرے ساتھ اور میرے اندر موجود ہیں۔ اور ہندوؤں میں جو ایک نبی گذرا ہے جس کا نام کرشن تھاوہ بھی اس میں داخل ہے افسوس کہ جیسے داؤد نبی پر شریر لوگوں نے فسق و فجور کی تہمتیں لگائیں ایسی ہی تہمتیں کرشن پر بھی لگائی گئی ہیں اور جیسا کہ داؤد خدا تعالیٰ کا پہلوان اور بڑا بہادر تھا اور خدا اس سے پیار کرتا تھا ویسا ہی آریہ ورت میں کرشن تھا ۔ پس یہ کہنادرست ہے کہ آریہ ورت کا داؤد کرشن ہی تھا اور اسرائیلی نبیوں کا کرشن داؤد ہی تھا اور یہ بالکل صحیح ہے کہ ہم کہیں کہ داؤد کرشن تھا یاکرشن داؤد تھا۔ کیونکہ زمانہ اپنے اندر ایک گردشِ دَوری رکھتا ہے۔ اور نیک ہوں یا بد ہوں بار بار دنیا میں ان کے امثال پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس زمانہ میں خدا نے چاہا کہ جس قدر نیک اور راستباز مقدس نبی گذر چکے ہیں ایک ہی شخص کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 118

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 118

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/118/mode/1up


وجود میں ان کے نمونے ظاہر کئے جائیں سو وہ میں ہوں ۔ اسی طرح اس زمانہ میں تمام بدوں کے نمونے بھی ظاہرہوئے فرعون ہو یا وہ یہود ہوں جنہوں نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھایا یا ابوجہل ہو سب کی مثالیں اِس وقت موجود ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں یا جوج ماجوج کے ذکر کے وقت اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

اسی طرح خدا تعالیٰ نے میرا نام ذوالقرنین بھی رکھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی میری نسبت یہ وحی مقدّس کہ جری اللّٰہ فی حُلَلِ الانبیاء۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ خدا کارسول تمام نبیوں کے پیرائیوں میں یہ چاہتی ہے کہ مجھ میں ذوالقرنین کے بھی صفات ہوں کیونکہ سورہ ء کہف سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین بھی صاحب وحی تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس کی نسبت فرمایا ہے 3۔۱؂پس اس وحی الٰہی کی رُو سے کہ جری اللّٰہ فی حُلَلِ الانبیاء۔ اِس اُمت کے لئے ذوالقرنین مَیں ہوں۔ اور قرآن شریف میں مثالی طور پر میری نسبت پیشگوئی موجود ہے مگر اُن کے لئے جو فراست رکھتے ہیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ذوالقرنین وہ ہوتا ہے جو د۲و صدیوں کو پانے والا ہو۔ اور میری نسبت یہ عجیب بات ہے کہ اس زمانہ کے لوگوں نے جس قدر اپنے اپنے طور پر صدیوں کی تقسیم کر رکھی ہے ان تمام تقسیموں کے لحاظ سے جب دیکھا جائے تو ظاہرہوگا کہ میں نے ہرایک قوم کی دو۲ صدیوں کو پالیا ہے ۔ میری عمراس وقت تخمیناً ۶۷سال ہے پس ظاہر ہے کہ اس حساب سے جیسا کہ میں نے دو۲ ہجری صدیوں کو پالیا ہے۔ ایسا ہی دو۲ عیسائی صدیوں کو بھی پالیا ہے اور ایسا ہی دو۲ ہندی صدیوں کو بھی جن کا سن بکرماجیت سے شروع ہوتا ہے اور میں نے جہاں تک ممکن تھا قدیم زمانہ کے تمام مماؔ لک شرقی اور غربی کی مقرر شدہ صدیوں کا ملاحظہ کیا ہے کوئی قوم ایسی نہیں جس کی مقرر کردہ صدیوں میں سے دو۲ صدئیں میں نے نہ پائی ہوں۔ اور بعض احادیث میں بھی آچکا ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ بھی علامت ہے کہ وہ ذوالقرنین ہوگا۔ غرض بموجب نص وحی الٰہی کے مَیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 119

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 119

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/119/mode/1up


ذوالقرنین ہوں اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کی ان آیتوں کی نسبت جو سورہ ء کہف میں ذوالقرنین کے قِصّہ کے بارے میں ہیں میرے پر پیشگوئی کے رنگ میں معنی کھولے ہیں۔ مَیں ذیل میں ان کو بیان کرتا ہوں مگر یاد رہے کہ پہلے معنوں سے انکار نہیں ہے وہ گذشتہ سے متعلق ہیں اور یہ آئندہ کے متعلق ۔ اور قرآن شریف صرف قصہ گو کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کے ہر ایک قصہ کے نیچے ایک پیشگوئی ہے۔ اور ذوالقرنین کا قِصّہ مسیح موعود کے زمانہ کیلئے ایک پیشگوئی اپنے اندر رکھتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف کی عبارت یہ ہے3۱؂ *یعنی یہ لوگ تجھ سے ذوالقرنین کاحال دریافت کرتے ہیں۔ ان کو کہو کہ میں ابھی تھوڑا سا تذکرہ ذوالقرنین کا تم کو سناؤں گا اور پھر بعد اس کے فرمایا۔33۲ ؂ یعنی ہم اس کو یعنی مسیح موعود کو جو ذوالقرنین بھی کہلائے گا روئے زمین پر ایسا مستحکم کریں گے کہ کوئی اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ اور ہم ہر طرح سے سازو سامان اس کو دے دیں گے۔اور اُس کی کارروائیوں کو سہل اور آسان کرد یں گے۔ یاد رہے کہ یہ وحی براہین احمدیہ حصص سابقہ میں بھی میری نسبت ہوئی ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے الم نجعل لک سھولۃً فی کلّ امرٍیعنی کیا ہم نے ہر ایک امر میں تیر ے لئے آسانی نہیں کردی۔ یعنی کیا ہم نے تمام وہ سامان تیر ے لئے میسر نہیں کر دیئے جو تبلیغ اور اشاعت حق کے لئے ضروری تھے۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ اس نے میرے لئے وہ سامان تبلیغ اوراشاعت حق کے میسر کر دیئے جو کسی نبی کے وقت میں موجود نہ تھے۔ تمام قوموں کی آمد و رفت کی راہیں کھولی گئیں۔ طے مسافرت کے لئے وہ آسانیاں کردی گئیں کہ برسوں کی راہیں دنوں میں طے ہونے لگیں اور خبر رسانی کے وہ ذریعے


یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ذو القرنین کا ذکر صرف گزشتہ زمانہ سے وابستہ نہیں بلکہ آئندہ زمانہ میں بھی ایک ذوالقرنین آنے والا ہے اور گزشتہ کا ذکر تو ایک تھوڑی سی بات ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 120

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 120

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/120/mode/1up


پیدا ہوئے کہ ہزاروں کو س کی خبریں چند منٹوں میں آنے لگیں۔ ہر ایک قوم کی وہ کتابیں شائع ہوئیں جو مخفی اور مستور تھیں۔ اور ہر ایک چیز کے بہم پہنچانے کے لئے ایک سبب پیدا کیا گیا۔ کتابوں کے لکھنے میں جو جو دقتیں تھیں وہ چھاپہ خانوں سے دفع اور دور ہوگئیں یہاں تک کہ ایسی ایسی مشینیں نکلی ہیں کہ ان کے ذریعہ سے دس دن میں کسی مضمون کو اس کثرت سے چھاپ سکتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں د۱۰س سال میں بھی وہ مضمون قید تحریر میں نہیں آسکتا تھا اور پھر ان کے شائع کرنے کے اس قدر حیرت انگیز سامان نکل آئے ہیں کہ ایک تحریر صرف چالیس دن میں تمام دنیا کی آبادی میں شائعؔ ہوسکتی ہے اور اس زمانہ سے پہلے ایک شخص بشرطیکہ اس کی عمر بھی لمبی ہو سو برس تک بھی اس وسیع اشاعت پر قادر نہیں ہوسکتا تھا۔ پھر بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے3333333333۱؂۔ یعنی جب ذو القرنین کو جو مسیح موعود ہے ہر ایک طرح کے سامان دیئے جائیں گے۔ پس وہ ایک سامان کے پیچھے پڑے گا ۔ یعنی وہ مغربی ممالک کی اصلاح کے لئے کمر باندھے گا اور وہ دیکھے گا کہ آفتاب صداقت اور حقانیت ایک کیچڑ کے چشمہ میں غروب ہوگیا اور اس غلیظ چشمہ اور تاریکی کے پاس ایک قوم کو پائے گا جو مغربی قوم کہلائے گی یعنی مغربی ممالک میں عیسائیت کے مذہب والوں کو نہایت تاریکی میں مشاہدہ کرے گا۔ نہ اُن کے مقابل پر آفتاب ہوگا جس سے وہ روشنی پا سکیں اور نہ اُن کے پاس پانی صاف ہوگا جس کو وہ پیویں یعنی ان کی علمی و عملی حالت نہایت خراب ہوگی اور وہ روحانی روشنی اور روحانی پانی سے بے نصیب ہوں گے۔ تب ہم ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کو کہیں گے کہ تیرے اختیار میں ہے چاہے تو اِن کو عذاب دے یعنی عذاب نازل ہونے کے لئے بددُعا کرے (جیسا کہ احادیث صحیحہ میں مروی ہے) یا اُن کے ساتھ حسن سلوک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 121

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 121

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/121/mode/1up


کا شیوہ اختیار کرے تب ذوالقرنین یعنی مسیح موعود جو اب دے گا کہ ہم اُسی کو سزا دلانا چاہتے ہیں جو ظالم ہو۔ وہ دنیا میں بھی ہماری بد دُعا سے سزا یاب ہو گا اور پھر آخرت میں سخت عذاب دیکھے گا۔ لیکن جو شخص سچائی سے منہ نہیں پھیرے گا اور نیک عمل کرے گا اس کو نیک بدلہ دیا جائے گا اور اس کو انہیں کاموں کی بجاآوری کا حکم ہوگا جو سہل ہیں اور آسانی سے ہوسکتے ہیں ۔ غرض یہ مسیح موعود کے حق میں پیشگوئی ہے کہ وہ ایسے وقت میں آئے گاجبکہ مغربی ممالک کے لوگ نہایت تاریکی میں پڑے ہوں گے اور آفتابِ صداقت اُن کے سامنے سے بالکل ڈوب جائے گا اور ایک گندے اور بدبودارچشمہ میں ڈوبے گا یعنی بجائے سچائی کے بدبو دار عقائد اور اعمال اُن میں پھیلے ہوئے ہوں گے۔ اور وہی ان کا پانی ہوگا جس کو وہ پیتے ہوں گے۔ اور روشنی کانام و نشان نہیں ہوگاتاریکی میں پڑے ہوں گے اور ظاہر ہے کہ یہی حالت عیسائی مذہب کی آج کل ہے جیسا کہ قرآن شریف نے ظاہر فرمایا ہے اور عیسائیت کا بھاری مرکز ممالک مغربیہ ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔3333333۱؂یعنی پھر ذوالقرنین جو ؔ مسیح موعود ہے جس کو ہر ایک سامان عطا کیا جائے گا ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا یعنی ممالک مشرقیہ کے لوگوں کی حالت پر نظر ڈالے گا اور وہ جگہ جس سے سچائی کاآفتاب نکلتاہے اس کو ایسا پائے گا کہ ایک ایسی نادان قوم پرآفتاب نکلا ہے جن کے پاس دھوپ سے بچنے کے لئے کوئی بھی سامان نہیں یعنی وہ لوگ ظاہر پرستی اور افراط کی دھوپ سے جلتے ہوں گے اور حقیقت سے بے خبر ہوں گے اور ذوالقرنین یعنی مسیح موعود کے پاس حقیقی راحت کا سامان سب کچھ ہوگا جس کو ہم خوب جانتے ہیں مگر وہ لوگ قبول نہیں کریں گے اور وہ لوگ افراط کی دھوپ سے بچنے کے لئے کچھ بھی پناہ نہیں رکھتے ہوں گے۔ نہ گھر نہ سایہ دار درخت نہ کپڑے جو گرمی سے بچا سکیں اس لئے آفتاب صداقت جو طلوع کرے گا اُن کی ہلاکت کا موجب ہو جائے گا۔ یہ اُن لوگوں کے لئے ایک مثال ہے جو آفتاب ہدایت کی روشنی تو اُن کے سامنے موجود ہے اور اُس گروہ کی طرح نہیں ہیں جن کا آفتاب غروب ہو چکا ہے لیکن ان لوگوں کو اس آفتاب ہدایت سے بجز اس کے کوئی فائدہ نہیں کہ دھوپ سے چمڑا اُن کا جل جائے اوررنگ سیاہ ہو جائے اور آنکھوں کی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 122

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 122

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/122/mode/1up


روشنی بھی جاتی رہے۔*اس تقسیم سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح موعود کا اپنے فرض منصبی کے ادا کرنے کے لئے تین قسم کا دورہ ہوگا۔ اوّ۱ل اس قوم پر نظر ڈالے گا جو آفتاب ہدایت کو کھو بیٹھے ہیں اور ایک تاریکی اور کیچڑ کے چشمہ میں بیٹھے ہیں۔ دو۲سرا دورہ اس کا ان لوگوں پر ہوگا جو ننگ دھڑنگ آفتاب کے سامنے بیٹھے ہیں۔ یعنی ادب سے اور حیا سے اور تواضع سے اور نیک ظن سے کام نہیں لیتے نرے ظاہر پرست ہیں گویا آفتاب کے ساتھ لڑنا چاہتے ہیں سو وہ بھی فیض آفتاب سے بے نصیب ہیں اور ان کو آفتاب سے بجز جلنے کے اور کوئی حصہ نہیں۔ یہ ان مسلمانوں کی طرف اشارہ ہے جن میں مسیح موعود ظاہر تو ہوا مگر وہ انکار اور مقابلہ سے پیش آئے اور حیا اور ادب اورحسن ظن سے کام نہ لیا اس لئے سعادت سے محروم رہ گئے بعد اس کے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے ۔


اس جگہ خدا تعالیٰ کو یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ مسیح موعود کے وقت تین گروہ ہوں گے۔ ایک گروہ تفریط کی راہ لے گا۔ جو روشنی کو بالکل کھو بیٹھے گا۔ اور دوسرا گروہ افراط کی راہ اختیار کرے گا جو تواضع اور انکسار اور فروتنی سے روشنی سے فائدہ نہیں اٹھائے گا بلکہ خیرہ طبع ہو کر مقابلہ کرنے والے کی طرح روحانی دھوپ کے سامنے محض برہنہ ہونے کی حالت میں کھڑا ہو گا۔ مگر تیسرا گروہ میانہ حالت میں ہو گا۔ وہ مسیح موعود سے چاہیں گے کہ کسی طرح یاجوج ماجوج کے حملوں سے بچ جائیں اور یاجوج ماجوج اجیج کے لفظ سے نکلا ہے۔ یعنی وہ قوم جو آگ کے استعمال کرنے میں ماہر ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 123

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 123

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/123/mode/1up


پھر ذوالقرنین یعنی مسیح موعود ایک اور سامان کے پیچھے پڑے گا۔ اور جب وہ ایک ایسے موقعہ پر پہنچے گا یعنی جب وہ ایک ایسانازک زمانہ پائے گا جس کو بین السدّین کہنا چاہیئے یعنی دو پہاڑوں کے بیچ مطلب یہ کہ ایسا وقت پائے گا جب کہ دو طرفہ خوف میں لوگ پڑے ہوں گے اور ضلالت کی طاقت حکومت کی طاقت کے ساتھ مل کر خوفناک نظارہ دکھائے گی تو ان دونوں طاقتوں کے ماتحت ایک قوم کو پائے گا جو اُس کی بات کو مشکل سے سمجھیں گے یعنی غلط خیالات میں مبتلا ہوں گے اور بباعث غلط عقائد مشکل سے اُس ہدایت کو سمجھیں گے جو وہ پیش کرے گا لیکن آخر کار سمجھ لیں گے اور ہدایت پالیں گے اور یہ تیسری قوم ہے جو مسیح موعود کی ہدایات سے فیض یاب ہوں گے تب وہ اس کو کہیں گے کہ اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج نے زمین پر فساد مچا رکھا ہے پس اگر آپ کی مرضی ہو تو ہم آپ کے لئے چندہ جمع کردیں تا آپ ہم میں اور ان میں کوئی روک بنادیں۔ وہ جواب میں کہے گا کہ جس بات پر خدا نے مجھے قدرت بخشی ہے وہ تمہارے چندوں سے بہتر ہے ہاں اگر تم نے کچھ مدد کرنی ہو تو اپنی طاقت کے موافق کرو تا میں تم مَیں اور ان میں ایک دیوار کھینچ دوں۔ یعنی ایسے طور پر اُن پر حجت پوری کروں کہ وہ کوئی طعن تشنیع اور اعتراض کا تم پرحملہ نہ کرسکیں۔ لوہے کی سلیں مجھے لادو تا آمد و رفت کی راہوں کو بند کیا جائے یعنی اپنے تئیں میری تعلیم اور دلائل پر مضبوطی سے قائم کرو اور پوری استقامت اختیار کرو اور اس طرح پر خود لوہے کی سِل بن کر مخالفانہ حملوں کو روکو اور پھر سلوں میں آگ پھونکو جب تک کہ وہ خود آگ بن جائیں۔ یعنی محبت الٰہی اس قدر اپنے اندر بھڑکاؤ کہ خود الٰہی رنگ اختیار کرو۔ یاد رکھنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ سے کمال محبت کی یہی علامت ہے کہ محب میں ظلی طور پر الٰہی صفات پیدا ہو جائیں۔ اور جب تک ایسا ظہور میں نہ آوے تب تک دعوی ئ محبت جھوٹ ہے۔ محبت کاملہ کی مثال بعینہٖ لوہے کی وہ حالت ہے جب کہ وہ آگ میں ڈالا جائے اور اس قدر آگ اُس میں اثر کرے کہ وہ خود آگ بن جائے۔ پس اگرچہ وہ اپنی اصلیت میں لوہا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 124

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 124

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/124/mode/1up


آگ نہیں ہے مگر چونکہ آگ نہایت درجہ اس پر غلبہ کر گئی ہے اس لئے آگ کے صفات اُس سے ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ آگ کی طرح جلا سکتا ہے ۔ آگ کی طرح اس میں روشنی ہے ۔ پس محبت الٰہیہ کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اس رنگ سے رنگین ہو جائے اور اگر اسلام اس حقیقت تک پہنچانہ سکتا تو وہ کچھ چیز نہ تھا لیکن اسلام اس حقیقت تک پہنچاتا ہے ۔اوّلؔ انسان کو چاہیئے کہ لوہے کی طرح اپنی استقامت اور ایمانی مضبوطی میں بن جائے کیونکہ اگر ایمانی حالت خس و خاشاک کی طرح ہے تو آگ اُس کو چھوتے ہی بھسم کردے گی۔ پھر کیونکر وہ آگ کا مظہر بن سکتا ہے۔افسوس بعض نادانوں نے عبودیّت کے اُس تعلق کو جو ربوبیّت کے ساتھ ہے جس سے ظلّی طور پر صفاتِ الٰہیہ بندہ میں پیدا ہوتے ہیں نہ سمجھ کر میری اس وحی من اللہ پراعتراض کیاہے کہ اِنَّما امرک اذا اردتَ شیءًا ان تقول لہ کُنْ فیکون۔ یعنی تیری یہ بات ہے کہ جب تو ایک بات کو کہے کہ ہو جاتو وہ ہو جاتی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو میرے پر نازل ہوا یہ میری طرف سے نہیں ہے اور اس کی تصدیق اکابر صوفیہ اسلام کر چکے ہیں جیسا کہ سید عبد القادر جیلانی ؓ نے بھی فتوح الغیب میں یہی لکھا ہے اور عجیب تر یہ کہ سید عبد القادر جیلانی ؓ نے بھی یہی آیت پیش کی ہے۔ افسوس لوگوں نے صرف رسمی ایمان پر کفایت کرلی ہے اور پوری معرفت کی طلب ان کے نزدیک کفر ہے اور خیال کرتے ہیں کہ یہی ہمارے لئے کافی ہے حالانکہ وہ کچھ بھی چیز نہیں اور اس سے منکر ہیں کہ کسی سے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کامکالمہ مخاطبہ یقینی اور واقعی طور پر ہوسکتا ہے۔ ہاں اس قدر اُن کا خیال ہے کہ دلوں میں القاتو ہوتا ہے مگر نہیں معلوم کہ وہ القاشیطانی ہے یارحمانی ہے اور نہیں سمجھتے کہ ایسے القاسے ایمانی حالت کو فائدہ کیاہوا اور کونسی ترقی ہوئی بلکہ ایسا القاتو ایک سخت ابتلا ہے جس میں معصیت کااندیشہ یا ایمان جانے کا خطرہ ہے کیونکہ اگر ایسی مشتبہ وحی میں جو نہیں معلوم شیطان سے ہے یا رحمان سے ہے کسی کو تاکیدی حکم ہو کہ یہ کام کر تو اگر اس نے وہ کام نہ کیا اس خیال سے کہ شاید یہ شیطان نے حکم دیا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 125

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 125

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/125/mode/1up


اور دراصل وہ خدا کا حکم تھا تو یہ انحراف موجب معصیت ہوا۔ اور اگر اُس حکم کو بجا لایا اور اصل میں شیطان کی طرف سے وہ حکم تھا تو اس سے ایمان گیا ۔ پس ایسے الہام پانے والوں سے وہ لوگ اچھے رہے جو ایسے خطرناک الہامات سے جن میں شیطان بھی حصہ دار ہوسکتا ہے۔ محروم ہیں۔ ایسے عقیدہ کی حالت میں عقل بھی کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی ممکن ہے کہ کوئی الہام الٰہی ایسا ہو جیساکہ موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا تھا جس کی تعمیل میں اس کے بچہ کی جان خطرہ میں پڑتی تھی یا جیسا کہ خضر علیہ السلام کا الہام تھا جس نے بظاہر حال ایک نفس زکیہ کا ناحق خون کیا اورچونکہ ایسے امور بظاہر شریعت کے برخلاف ہیں اس لئے شیطانی دخل کے احتمال سے کون ان پر عمل کرے گا اورؔ بوجہ عدم تعمیل معصیت میں گرے گا۔ اور ممکن ہے کہ شیطان لعین کوئی ایساحکم دے کہ بظاہر شریعت کے مخالف معلوم نہ ہو اور دراصل بہت فتنہ اور تباہی کا موجب ہو یا پوشیدہ طورپر ایسے امور ہوں جو موجب سلبِ ایمان ہوں۔پس ایسے مکالمہ مخاطبہ سے فائدہ کیا ہوا۔

پھر آیاتِ متذکرہ بالا کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذوالقرنین یعنی مسیح موعود اس قوم کو جو یاجوج ماجوج سے ڈرتی ہے کہے گا کہ مجھے تانبا لادو کہ مَیں اس کو پگھلا کر اُس دیوار پر انڈیل دوں گا۔ پھر بعد اس کے یاجوج ماجوج طاقت نہیں رکھیں گے کہ ایسی دیوار پر چڑھ سکیں یا اس میں سوراخ کرسکیں۔ یاد رہے کہ لوہا اگرچہ بہت دیر تک آگ میں رہ کر آگ کی صورت اختیار کرلیتا ہے مگر مشکل سے پگھلتا ہے مگر تانبا جلد پگھل جاتا ہے اور سالک کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں پگھلنا بھی ضروری ہے ۔ پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے مستعد دل اور نرم طبیعتیں لاؤ کہ جو خدا تعالیٰ کے نشانوں کو دیکھ کر پگھل جائیں کیونکہ سخت دلوں پر خدا تعالیٰ کے نشان کچھ اثر نہیں کرتے لیکن انسان شیطانی حملے سے تب محفوظ ہوتا ہے کہ اول استقامت میں لوہے کی طرح ہو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 126

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 126

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/126/mode/1up


اور پھر وہ لوہا خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ سے آگ کی صورت پکڑ لے اور پھر دل پگھل کر اس لوہے پر پڑ ے اور اس کو منتشر اور پراگندہ ہونے سے تھام لے ۔ سلوک تمام ہونے کے لئے یہ تین ہی شرطیں ہیں جو شیطانی حملوں سے محفوظ رہنے کیلئے سدِّ سکندری ہیں اور شیطانی رُوح اس دیوار پر چڑھ نہیں سکتی اورنہ اس میں سوراخ کرسکتی ہے۔ اور پھر فرمایا کہ یہ خدا کی رحمت سے ہوگا اور اس کاہاتھ یہ سب کچھ کرے گا۔ انسانی منصوبوں کا اس میں دخل نہیں ہوگا۔ اور جب قیامت کے دن نزدیک آجائیں گے تو پھر دوبارہ فتنہ برپا ہو جائے گا یہ خدا کا وعدہ ہے اور پھر فرمایا کہ ذوالقرنین کے زمانہ میں جو مسیح موعود ہے ہر ایک قوم اپنے مذہب کی حمایت میں اُٹھے گی اور جس طرح ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے ایک دوسرے پر حملہ کریں گے اتنے میں آسمان پر قرناء پھونکی جائے گی یعنی آسمان کا خدا مسیح موعود کو مبعوث فرماکر ایک تیسری قوم پیدا کر دے گا اور ان کی مددکے لئے بڑے بڑے نشان دکھلائے گا یہاں تک کہ تمام سعید لوگوں کو ایک مذہب پر یعنی اسلام پر جمع کردے گا۔ اور وہ مسیح کی آواز سنیں گے اور اس کی طرف دوڑیں گے تب ایک ہی چوپان اور ایک ہی گلہ ہوگا اوروہ دن بڑے سخت ہوں گے۔ اور خدا ہیبت ناک نشانوں کے ساتھ اپنا چہرہ ظاہر کردے گا۔ اور جو لوگ کفر پر اصرار کرتے ہیں وہ اسی دنیا میں بباعث طرح طرح کی بلاؤں کے دوزخ کامنہ دیکھ لیں گے۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی آنکھیں میری کلام سے پردہ میں تھیں اور جن کے کان میرے حکم کو سن نہیں سکتے تھے کیا ان منکروں نے یہ گمان کیا تھا کہ یہ امر سہل ہے کہ عاجز بندوں کو خدا بنا دیا جائے اور میں معطل ہو جاؤں اس لئے ہم ان کی ضیافت کے لئے اِسی دنیا میں جہنم کو نمودار کردیں گے۔ یعنی بڑے بڑے ہولناک نشان ظاہر ہوں گے اور یہ سب نشان اس کے مسیح موعود کی سچائی پر گواہی دیں گے ۔ اُس کریم کے فضل کو دیکھو کہ یہ انعامات اِس مُشتِ خاک پر ہیں جس کو مخالف کافر اور دجّال کہتے ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 127

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 127

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/127/mode/1up


اےؔ خدا اے کارساز و عیب پوش و کِردگار

اے مرے پیارے مرے محسن مرے پروردگار

کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سپاس

وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار

بدگمانوں سے بچایا مجھ کو خود بن کر گواہ

کردیا دشمن کو اک حملہ سے مغلوب اور خوار

کام جو کرتے ہیں تیری رہ میں پاتے ہیں جزا

مجھ سے کیا دیکھا کہ یہ لطف و کرم ہے بار بار

تیرے کاموں سے مجھے حیرت ہے اے میرے کریم

کس عمل پر مجھ کو دی ہے خلعتِ قرب وجوار

کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں

ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار

یہ سراسر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند

ورنہ درگہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گذار

دوستی کا دم جو بھرتے تھے وہ سب دشمن ہوئے

پر نہ چھوڑا ساتھ تو نے اے میرے حاجت برار

اے مرے یارِ یگانہ اے مری جاں کی پنہ

بس ہے تو میرے لئے مجھ کو نہیں تجھ بن بکار

میں تو مرکر خاک ہوتا گرنہ ہوتا تیرا لطف

پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار

اے فدا ہو تیری راہ میں میراجسم و جان و دل

میں نہیں پاتا کہ تجھ سا کوئی کرتا ہو پیار

ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے

گود میں تیری رہا میں مثلِ طفلِ شیر خوار

نسلِ انساں میں نہیں دیکھی وفا جو تجھ میں ہے

تیرے بن دیکھا نہیں کوئی بھی یارِ غمگسار

لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول

میں تو نالائق بھی ہوکر پاگیا درگہ میں بار

اس قدر مجھ پر ہوئیں تیری عنایات و کرم

جن کا مشکل ہے کہ تاروزِ قیامت ہو شمار

آسماں میرے لئے تو نے بنایا اِک گواہ

چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار

تو نے طاعوں کو بھی بھیجا میری نصرت کے لئے

تا وہ پورے ہوں نشاں جو ہیں سچائی کا مدار

ہوگئے بیکار سب حیلے جب آئی وہ بلا

ساری تدبیروں کا خاکہ اُڑ گیا مثلِ غبار

سرزمین ہند میں ایسی ہے شہرت مجھ کو دی

جیسے ہووے برق کا اک دم میں ہرجا انتشار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 128

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 128

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/128/mode/1up


پھرؔ دوبارہ ہے اُتارا تو نے آدم کو یہاں

تا وہ نخلِ راستی اس ملک میں لاوے ثمار

لوگ سَو بک بک کریں پر تیرے مقصد اور ہیں

تیری باتوں کے فرشتے بھی نہیں ہیں راز دار

ہاتھ میں تیرے ہے ہرخسران و نفع و عُسرویُسر

تو ہی کرتا ہے کسی کو بے نوا یا بختیار

جس کو چاہے تختِ شاہی پر بٹھا دیتا ہے تو

جس کو چاہے تخت سے نیچے گرا دے کر کے خوار

میں بھی ہوں تیرے نشانوں سے جہاں میں اک نشاں

جس کو تو نے کردیا ہے قوم و دیں کا افتخار

فانیوں کی جاہ و حشمت پر بلا آوے ہزار

سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے دائم برقرار

عزت و ذلّت یہ تیرے حکم پر موقوف ہیں

تیرے فرماں سے خزاں آتی ہے اور بادِ بہار

میرے جیسے کو جہاں میں تو نے روشن کردیا

کون جانے اے مرے مالک ترے بھیدوں کی سار

تیرے اے میرے مُربی کیا عجائب کام ہیں

گرچہ بھاگیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار

ابتدا سے گوشۂ خلوت رہا مجھ کو پسند

شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار

پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا

میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار

اس میں میرا جرم کیا جب مجھ کو یہ فرماں ملا

کون ہوں تا رد کروں حکمِ شہِ ذِی الاقتدار

اب تو جو فرماں ملا اُس کا ادا کرنا ہے کام

گرچہ میں ہوں بس ضعیف و ناتواں و دل فگار

دعوتِ ہر ہرزہ گو کچھ خدمتِ آساں نہیں

ہر قدم میں کوہِ ماراں ہرگذر میں دشتِ خار

چرخ تک پہنچے ہیں میرے نعرہ ہائے روز و شب

پر نہیں پہنچی دلوں تک جاہلوں کے یہ پکار

قبضۂ تقدیر میں دل ہیں اگر چاہے خدا

پھیردے میری طرف آجائیں پھر بے اختیار

گر کرے مُعجز نمائی ایک دم میں نرم ہو

وہ دلِ سنگیں جو ہووے مثلِ سنگ کوہسار

ہائے میری قوم نے تکذیب کرکے کیا لیا

زلزلوں سے ہوگئے صدہا مساکن مثلِ غار

شرط تقویٰ تھی کہ وہ کرتے نظر اس وقت پر

شرط یہ بھی تھی کہ کرتے صبر کچھ دن اور قرار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 129

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 129

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/129/mode/1up


کیا ؔ وہ سارے مرحلے طے کرچکے تھے علم کے

کیا نہ تھی آنکھوں کے آگے کوئی رہ تاریک و تار

دل میں جو ارماں تھے وہ دل میں ہمارے رہ گئے

دشمن جاں بن گئے جن پر نظر تھی باربار

ایسے کچھ بگڑے کہ اب بننا نظر آتا نہیں

آہ کیا سمجھے تھے ہم اور کیا ہوا ہے آشکار

کس کے آگے ہم کہیں اِس دردِ دل کا ماجرا

اُن کو ہے ملنے سے نفرت بات سننا درکنار

کیا کروں کیونکر کروں مَیں اپنی جاں زیرو زبر

کس طرح میری طرف دیکھیں جو رکھتے ہیں نقار

اِس قدر ظاہر ہوئے ہیں فضل حق سے معجزات

دیکھنے سے جن کے شیطاں بھی ہوا ہے دلفگار

پر نہیں اکثر مخالف لوگوں کو شرم و حیا

دیکھ کر سو سو نشاں پھر بھی ہے توہیں کاروبار

صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں

اِک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار

دن چڑھا ہے دشمنانِ دیں کا ہم پر رات ہے

اے مرے سورج نکل باہر کہ میں ہوں بیقرار

اے مرے پیارے فدا ہو تجھ پہ ہر ذرّہ مرا

پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار

کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ کس کا شورہے

خاک میں ہوگا یہ سرگر تو نہ آیا بن کے یار

فضل کے ہاتھوں سے اب اِسوقت کر میری مدد

کشتیِ ء اسلام تا ہو جائے اس طوفاں سے پار

میرے سُقم و عَیب سے اب کیجئے قطعِ نظر

تا نہ خوش ہو دشمنِ دیں جس پہ ہے *** کی مار

میرے زخموں پر لگا مرہم کہ میں رنجور ہوں

میری فریادوں کو سن میں ہو گیا زار و نزار

دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضُعفِ دینِ مصطفی

مجھ کو کر اے میرے سلطاں کامیاب و کامگار

کیا سُلائے گا مجھے تو خاک میں قبل از مراد

یہ تو تیرے پر نہیں امید اے میرے حصار

یا الٰہی فضل کر اسلام پر اور خود بچا

اس شکستہ ناؤ کے بندوں کے اب سن لے پکار

قوم میں فسق و فجور و معصیت کا زور ہے

چھا رہا ہے ابرِ یاس اور رات ہے تاریک و تار

ایک عالم مرگیا ہے تیرے پانی کے بغیر

پھیر دے اب میرے مولیٰ اس طرف دریا کی دھار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 130

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 130

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/130/mode/1up


ابؔ نہیں ہیں ہوش اپنے اِن مصائب میں بجا

رحم کر بندوں پہ اپنے تا وہ ہوویں رستگار

کس طرح نپٹیں کوئی تدبیر کچھ بنتی نہیں

بے طرح پھیلی ہیں یہ آفات ہر سو ہر کنار

ڈوبنے کو ہے یہ کشتی آمرے اے ناخدا

آگیا اِس قوم پر وقتِ خزاں اندر بہار

نورِ دل جاتا رہا اور عقل موٹی ہوگئی

اپنی کج رائی پہ ہردل کر رہا ہے اعتبار

جس کو ہم نے قطرۂ صافی تھا سمجھا اور تقی

غور سے دیکھا تو کیڑے اُس میں بھی پائے ہزار

دوربینِ معرفت سے گند نکلا ہر طرف

اس وبا نے کھالئے ہر شاخِ ایمان کے ثمار

اے خدا بن تیرے ہو یہ آبپاشی کس طرح

جل گیا ہے باغِ تقویٰ دیں کی ہے اب اک مزار

تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر کچھ ہو تو ہو

ورنہ فتنہ کا قدم بڑھتا ہے ہر دم سیل وار

اِک نشاں دکھلا کہ اب دیں ہوگیاہے بے نشاں

اِک نظر کر اس طرف تا کچھ نظر آوے بہار

کیا کہوں دنیا کے لوگوں کی کہ کیسے سوگئے

کسقدر ہے حق سے نفرت اور ناحق سے پیار

عقل پر پردے پڑے سوسو نشاں کو دیکھ کر

نور سے ہوکر الگ چاہا کہ ہوویں اہلِ نار

گر نہ ہوتی بدگمانی کفر بھی ہوتا فنا

اُس کا ہووے ستیاناس اِس سے بگڑے ہوشیار

بدگمانی سے تو رائی کے بھی بنتے ہیں پہاڑ

پَرکے اک ریشہ سے ہوجاتی ہے کوّوں کی قطار

حد سے کیوں بڑھتے ہو لوگو کچھ کرو خوفِ خدا

کیا نہیں تم دیکھتے نصرت خدا کی بار بار

کیا خدا نے اتقیا کی عون و نصرت چھوڑ دی

ایک فاسق اور کافر سے وہ کیوں کرتا ہے پیار

ایک بدکردار کی تائید میں اتنے نشاں

کیوں دکھاتا ہے وہ کیا ہے بدکنوں کا رشتہ دار

کیا بدلتا ہے وہ اب اس سنت و قانون کو

جس کا تھا پابند وہ از ابتدائے روزگار

آنکھ گر پھوٹی تو کیا کانوں میں بھی کچھ پڑ گیا

کیا خدا دھوکے میں ہے اور تم ہو میرے راز دار

جس کے دعویٰ کی سراسر افترا پر ہے بِنا

اُس کی یہ تائید ہو پھر جھوٹ سچ میں کیا نکھار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 131

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 131

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/131/mode/1up


کیاؔ خدا بھولا رہا تم کو حقیقت مل گئی

کیا رہا وہ بے خبر اور تم نے دیکھا حالِ زار

بدگمانی نے تمہیں مجنون و اندھا کردیا

ورنہ تھے میری صداقت پر براہیں بیشمار

جہل کی تاریکیاں اور سوء ظن کی تند باد

جب اکٹھے ہوں تو پھر ایماں اُڑے جیسے غبار

زہر کے پینے سے کیا انجام جز موت و فنا

بدگمانی زہر ہے اس سے بچو اے دیں شعار

کانٹے اپنی راہ میں بوتے ہیں ایسے بدگمان

جن کی عادت میں نہیں شرم و شکیب و اصطبار

یہ غلط کاری بشر کی بدنصیبی کی ہے جڑ

پر مقدر کو بدل دینا ہے کس کے اختیار

سخت جاں ہیں ہم کسی کے بغض کی پروا نہیں

دل قوی رکھتے ہیں ہم دردوں کی ہے ہم کو سہار

جو خدا کا ہے اُسے للکارنا اچھا نہیں

ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زار و نزار

ہے سرِرہ پر مرے وہ خود کھڑا مولیٰ کریم

پس نہ بیٹھو میری رہ میں اے شریرانِ دیار

سنت اللہ ہے کہ وہ خود فرق کو دکھلائے ہے

تا عیاں ہو کون پاک اور کون ہے مُردار خوار

مجھ کو پردے میں نظرآتا ہے اِک میرا معیں

تیغ کو کھینچے ہوئے اُس پر جو کرتا ہے وہ وار

دشمنِ غافل اگر دیکھے وہ بازو وہ سلاح

ہوش ہو جائیں خطا اور بھول جائے سب نقار

اس جہاں کا کیا کوئی داور نہیں اور داد گر

پھر شریرالنفس ظالم کو کہاں جائے فرار

کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہوکر مسیح

خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار

آسمان پر دعوتِ حق کیلئے اک جوش ہے

ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار

آرہا ہے اس طرف احرارِ یورپ کا مزاج

نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار

کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع

پھر ہوئے ہیں چشمۂ توحید پر از جاں نثار

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا

آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار

آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے

گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اُس کا انتظار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 132

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 132

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/132/mode/1up


ہر ؔ طرف ہر ملک میں ہے بت پرستی کا زوال

کچھ نہیں انساں پرستی کو کوئی عزّ و وقار

آسماں سے ہے چلی توحیدِ خالق کی ہوا

دل ہمارے ساتھ ہیں گو مُنہ کریں بک بک ہزار

اسمعوا۔صوت السّما جاء المسیح جاء المسیح

نیز بشنو از زمیں آمد امامِ کامگار

آسماں بارد نشان الوقت مے گوید زمیں

ایں دو شاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار

اب اِسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے

وقت ہے جلد آؤ اے آوارگانِ دشتِ خار

اِک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا

پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار

اے مکذّب کوئی اس تکذیب کا ہے انتہا

کب تلک تو خوئے شیطاں کو کرے گا اختیار

ملّت احمد کی مالک نے جو ڈالی تھی بِنا

آج پوری ہو رہی ہے اے عزیزانِ دیار

گلشنِ احمد بنا ہے مسکنِ بادِ صبا

جس کی تحریکوں سے سنتا ہے بشر گفتارِ یار

ورنہ وہ ملّت وہ رہ وہ رسم وہ دیں چیز کیا

سایہ افگن جس پہ نور حق نہیں خورشید وار

دیکھ کر لوگوں کے کینے دل مرا خوں ہو گیا

قصد کرتے ہیں کہ ہو پامال درِّ شاہوار

ہم تو ہر دم چڑھ رہے ہیں اک بلندی کی طرف

وہ بلاتے ہیں کہ ہو جائیں نہاں ہم زیرِ غار

نُورِ دل جاتا رہا اِک رسم دیں کی رَہ گئی

پھر بھی کہتے ہیں کہ کوئی مصلحِ دیں کیا بکار

راگ وہ گاتے ہیں جس کو آسماں گاتا نہیں

وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلافِ شہریار

ہائے مارِ آستیں وہ بن گئے دیں کے لئے

وہ تو فربہ ہو گئے پر دیں ہوا زار و نزار

اِن غموں سے دوستو خم ہو گئی میری کمر

میں تو مرجاتا اگر ہوتا نہ فضل کردگار

اِس تپش کو میری وہ جانے کہ رکھتا ہے تپش

اِس اَلَم کو میرے وہ سمجھے کہ ہے وہ دِلفگار

کون روتا ہے کہ جس سے آسماں بھی رو پڑا

مہر و ماہ کی آنکھ غم سے ہوگئی تاریک و تار

مفتری کہتے ہوئے ان کو حیا آتی نہیں

کیسے عالِم ہیں کہ اُس عالَم سے ہیں یہ برکنار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 133

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 133

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/133/mode/1up


غیرؔ کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے

وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار

میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں

نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بیشمار

اِک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے

میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار

پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب

گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار

دشمنوں! ہم اس کی رہ میں مر رہے ہیں ہر گھڑی

کیا کرو گے تم ہماری نیستی کا انتظار

سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں

اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار

کیا کروں تعریف حُسنِ یار کی اور کیا لکھوں

اک ادا سے ہو گیا میں سیلِ نفسِ دوں سے پار

اس قدر عرفاں بڑھا میرا کہ کافر ہو گیا

آنکھ میں اس کی کہ ہے وہ دور تر از صحنِ یار

اُس رُخِ روشن سے میری آنکھ بھی روشن ہوئی

ہو گئے اسرار اس دلبر کے مجھ پر آشکار

قوم کے لوگو! اِدھر آؤ کہ نکلا آفتاب

وادئ ظلمت میں کیا بیٹھے ہو تم لیل و نہار

کیا تماشا ہے کہ میں کافر ہوں تم مومن ہوئے

پھر بھی اس کافر کا حامی ہے وہ مقبولوں کا یار

کیا اچنبھی بات ہے کافر کی کرتا ہے مدد

وہ خدا جو چاہیئے تھا مومنوں کا دوستدار

اہلِ تقویٰ تھا کرم دیں بھی تمہاری آنکھ میں

جس نے ناحق ظلم کی رہ سے کیا تھا مجھ پہ وار

بے معاون مَیں نہ تھا تھی نُصرتِ حق میرے ساتھ

فتح کی دیتی تھی وحیِ حق بشارت بار بار

پر مجھے اُس نے نہ دیکھا آنکھ اُس کی بند تھی

پھر سزا پاکر لگایا سرمۂ دُنبالہ دار

نام بھی کذّاب اس کا دفتروں میں رہ گیا

اب مٹا سکتا نہیں یہ نام تا روزِ شمار

اب کہو کس کی ہوئی نُصرت جنابِ پاک سے

کیوں تمہارا متقی پکڑا گیا ہو کر کے خوار

پھر اِدھر بھی کچھ نظر کرنا خدا کے خوف سے

کیسے میرے یار نے مجھ کو بچایا بار بار

قتل کی ٹھانی شریروں نے چلائے تیرِ مکر

بن گئے شیطاں کے چیلے اور نسلِ ہونہار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 134

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 134

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/134/mode/1up


پھرؔ لگایا ناخنوں تک زور بن کر اک گروہ

پر نہ آیا کوئی بھی منصوبہ اُن کو ساز وار

ہم نگہ میں اُن کی دجّال اور بے ایماں ہوئے

آتشِ تکفیر کے اُڑتے رہے پیہم شرار

اب ذرہ سوچو دیانت سے کہ یہ کیا بات ہے

ہاتھ کس کا ہے کہ ردّ کرتا ہے وہ دشمن کا وار

کیوں نہیں تم سوچتے کیسے ہیں یہ پردے پڑے

دل میں اُٹھتا ہے مرے رہ رہ کے اب سَوسَو بخار

یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں

ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار

کچھ نہ تھی حاجت تمہاری نے تمہارے مکر کی

خود مجھے نابود کرتا وہ جہاں کا شہریار

پاک و برتر ہے وہ جھوٹوں کا نہیں ہوتا نصیر

ورنہ اُٹھ جائے اماں پھر سچے ہوویں شرمسار

اس قدر نصرت کہاں ہوتی ہے اک کذّاب کی

کیا تمہیں کچھ ڈر نہیں ہے کرتے ہو بڑھ بڑھ کے وار

ہے کوئی کاذب جہاں میں لاؤ لوگو کچھ نظیر

میرے جیسی جس کی تائیدیں ہوئی ہوں بار بار

آفتابِ صُبْح نکلا اب بھی سوتے ہیں یہ لوگ

دن سے ہیں بیزار اور راتوں سے وہ کرتے ہیں پیار

روشنی سے بغض اور ظلمت پہ وہ قربان ہیں

ایسے بھی شپر نہ ہوں گے گرچہ تم ڈھونڈو ہزار

سر پہ اک سورج چمکتا ہے مگر آنکھیں ہیں بند

مرتے ہیں بن آب وہ اور درپہ نہرِ خوشگوار

طرفہ کیفیت ہے اُن لوگوں کی جو منکرہوئے

یوں تو ہر دم مشغلہ ہے گالیاں لیل و نہار

پر اگر پوچھیں کہ ایسے کاذبوں کے نام لو

جن کی نصرت سالہا سے کررہا ہو کردگار

مردہ ہو جاتے ہیں اس کا کچھ نہیں دیتے جواب

زرد ہو جاتا ہے منہ جیسے کوئی ہو سوگوار

اُن کی قسمت میں نہیں دیں کے لئے کوئی گھڑی

ہوگئے مفتونِ دنیا دیکھ کر اُس کا سنگار

جی چُرانا راستی سے کیا یہ دیں کا کام ہے

کیا یہی ہے زہد و تقویٰ کیا یہی راہ خیار

کیا قسم کھائی ہے یا کچھ پیچ قسمت میں پڑا

روزِ روشن چھوڑ کر ہیں عاشقِ شب ہائے تار

انبیاء کے طور پر حجت ہوئی اُن پر تمام

اُن کے جو حملے ہیں اُن میں سب نبی ہیں حصہ دار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 135

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 135

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/135/mode/1up


میرؔ ی نسبت جو کہیں کِیں سے وہ سب پر آتا ہے

چھوڑ دیں گے کیا وہ سب کو کفر کرکے اختیار

مجھ کو کافر کہہ کے اپنے کفر پر کرتے ہیں مہر

یہ تو ہے سب شکل اُن کی ہم تو ہیں آئینہ وار

ساٹھ سے ہیں کچھ برس میرے زیادہ اس گھڑی

سال ہے اب تیسواں دعوے پہ از روئے شمار

تھا برس چالیس کا مَیں اس مسافر خانہ میں

جبکہ میں نے وحیِ ربّانی سے پایا افتخار

اس قدر یہ زندگی کیا افترا میں کٹ گئی

پھر عجب تر یہ کہ نصرت کے ہوئے جاری بحار

ہر قدم میں میرے مولیٰ نے دیئے مجھ کو نشاں

ہر عدو پر حجتِ حق کی پڑی ہے ذوالفقار

نعمتیں وہ دیں مرے مولیٰ نے اپنے فضل سے

جن سے ہیں معنی ءِ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ آشکار

سایہ بھی ہو جائے ہے اوقاتِ ظلمت میں جدا

پر رہا وہ ہر اندھیرے میں رفیق و غمگسار

اس قدر نصرت تو کاذب کی نہیں ہوتی کبھی

گر نہیں باور نظیریں اس کی تم لاؤ دو چار

پھر اگر ناچار ہو اس سے کہ دو کوئی نظیر

اُس مہمین سے ڈرو جو بادشاہ ہر دو دار

یہ کہاں سے سن لیا تم نے کہ تم آزاد ہو

کچھ نہیں تم پر عقوبت گو کرو عصیاں ہزار

نَعْرۂِ اِنَّا ظَلَمْنَا سنتِ ابرار ہے

زہر منہ کی مت دکھاؤ تم نہیں ہو نسلِ مار

جسم کو مَل مَل کے دھونا یہ تو کچھ مشکل نہیں

دل کو جو دھووے وہی ہے پاک نزدِ کردگار

اپنے ایماں کو ذرا پردہ اُٹھاکردیکھنا

مجھ کو کافر کہتے کہتے خود نہ ہوں از اہلِ نار

گرحیا ہو سوچ کر دیکھیں کہ یہ کیا راز ہے

وہ مری ذلّت کو چاہیں پا رہا ہوں مَیں وقار

کیا بگاڑا اپنے مکروں سے ہمارا آج تک

اژدہا بن بن کے آئے ہوگئے پھر سُوسَمار

اے فقیہو عالمو مجھ کو سمجھ آتا نہیں

یہ نشانِ صدق پاکر پھر یہ کیں اور یہ نقار

صدق کو جب پایا اصحابِ رسول اللہ نے

اُس پہ مال و جان و تن بڑھ بڑھ کے کرتے تھے نثار

پھر عجب یہ علم۔ یہ تنقیدِ آثار و حدیث

دیکھ کر سَوسَو نشاں پھر کررہے ہو تم فرار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 136

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 136

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/136/mode/1up


بحثؔ کرنا تم سے کیا حاصل اگر تم میں نہیں

رُوحِ انصاف و خدا ترسی کہ ہے دیں کا مدار

کیامجھے تم چھوڑتے ہو جاہِ دنیا کے لئے

جاہِ دنیا کب تلک دُنیا ہے خود ناپائیدار

کون درپردہ مجھے دیتا ہے ہر میدان میں فتح

کون ہے جو تم کو ہر دم کررہا ہے شرمسار

تم تو کہتے تھے کہ یہ نابود ہو جائے گا جلد

یہ ہمارے ہاتھ کے نیچے ہے اِک اَدنیٰ شکار

بات پھر یہ کیا ہوئی کس نے مری تائید کی

خائب و خاسر رہے تم۔ ہوگیا مَیں کامگار

اِک زمانہ تھا کہ میرا نام بھی مستور تھا

قادیاں بھی تھی نہاں ایسی کہ گویا زیرِ غار

کوئی بھی واقف نہ تھا مجھ سے نہ میرا معتقد

لیکن اب دیکھو کہ چرچا کس قدر ہے ہر کنار

اُس زمانہ میں خدا نے دی تھی شہرت کی خبر

جوکہ اب پوری ہوئی بعد از مرورِ روزگار

کھول کر دیکھو براہیں جوکہ ہے میری کتاب

اُس میں ہے یہ پیشگوئی پڑھ لو اُس کو ایک بار

اب ذرہ سوچو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے

اِس قدر امر نہاں پر کس بشر کو اقتدار

قدرتِ رحمان و مکرِ آدمی میں فرق ہے

جو نہ سمجھے وہ غبی از فرق تا پا ہے حمار

سوچ لو اے سوچنے والو کہ اب بھی وقت ہے

راہِ حرماں چھوڑ دو رحمت کے ہو امیدوار

سوچ لو یہ ہاتھ کس کا تھا کہ میرے ساتھ تھا

کس کے فرماں سے میں مقصد پاگیا اور تم ہو خوار

یہ بھی کچھ ایماں ہے یارو ہم کو سمجھائے کوئی

جس کا ہر میداں میں پھل حرماں ہے اور ذلّت کی مار

غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجّال ہے

میں توخود رکھتاہوں اُن کے دیں سے اور ایماں سے عار

گریہی دیں ہے جو ہے اُن کی خصائل سے عیاں

مَیں تو اِک کوڑی کو بھی لیتا نہیں ہوں زینہار

جان و دل سے ہم نثارِ ملّتِ اسلام ہیں

لیک دیں وہ رہ نہیں جس پر چلیں اہلِ نقار

واہ رے جوشِ جہالت خوب دکھلائے ہیں رنگ

جھوٹ کی تائید میں حملے کریں دیوانہ وار

نازمت کر اپنے ایماں پر کہ یہ ایماں نہیں

اس کو ہیرامت گماں کر ہے یہ سنگِ کوہسار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 137

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 137

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/137/mode/1up


پیٹناؔ ہوگا دو ہاتھوں سے کہ ہے ہے مرگئے

جب کہ ایماں کے تمہارے گند ہوں گے آشکار

ہے یہ گھر گرنے پہ اے مغرور لے جلدی خبر

تانہ دب جائیں ترے اہل و عیال و رشتہ دار

یہ عجب بدقسمتی ہے کس قدر دعوت ہوئی

پر اُترتا ہی نہیں ہے جامِ غفلت کا خُمار

ہوش میں آتے نہیں سو سو طرح کوشش ہوئی

ایسے کچھ سوئے کہ پھر ہوتے نہیں ہیں ہوشیار

دن بُرے آئے اکٹھے ہوگئے قحط و وبا

اب تلک توبہ نہیں اب دیکھئے انجام کار

ہے غضب کہتے ہیں اب وحیِ خدا مفقود ہے

اب قیامت تک ہے اِس اُمت کا قصوں پر مدار

یہ عقیدہ برخلافِ گفتۂِ دادار ہے

پر اُتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار

وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم

اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار

گوہرِ وحیِ خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر

اِک یہی دیں کے لئے ہے جائے عزّ و افتخار

یہ وہ گُل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں

یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مشکِ تتار

یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے درکھلیں

یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں روئے نگار

بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے

بس یہی اِک قصر ہے جو عافیت کا ہے حصار

ہے خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں

محض قصوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار

ہے یہی وحیِ خدا عرفانِ مولیٰ کا نشاں

جس کو یہ کامل ملے اُس کو ملے وہ دوستدار

واہ رے باغِ محبت موت جس کی رہ گذر

وصلِ یار اُس کا ثمر۔ پر ارد گرد اُس کے ہیں خار

ایسے دل پر داغِ *** ہے ازل سے تا ابد

جو نہیں اس کی طلب میں بیخود و دیوانہ وار

پر جو دنیا کے بنے کیڑے وہ کیا ڈھونڈیں اُسے

دیں اُسے ملتا ہے جو دیں کیلئے ہو بیقرار

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج

جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

یاد وہ دن جب کہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دیں

مہدئ موعودِ حق اب جلد ہوگا آشکار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 138

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 138

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/138/mode/1up


کون تھا جس کی تمنّا یہ نہ تھی اک جوش سے

کون تھا جس کو نہ تھا اُس آنے والے سے پیار

پھرؔ وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی

سب سے اوّل ہوگئے منکر یہی دیں کے منار

پھر دوبارہ آگئی احبار میں رسمِ یہود

پھر مسیحِ وقت کے دشمن ہوئے یہ جُبّہ دار

تھا نوشتوں میں یہی از ابتدا تا انتہا

پھر مٹے کیونکر کہ ہے تقدیر نَے نقشِ جدار

میں تو آیا اس جہاں میں ابنِ مریم کی طرح

میں نہیں مامور از بہرِ جہاد و کارزار

پر اگر آتا کوئی جیسی انہیں امید تھی

اور کرتا جنگ اور دیتا غنیمت بے شمار

ایسے مہدی کے لئے میداں کھلا تھا قوم میں

پھر تو اس پر جمع ہوتے ایک دم میں صد ہزار

پر یہ تھا رحم خداوندی کہ مَیں ظاہر ہوا

آگ آتی گرنہ میں آتا تو پھر جاتا قرار

آگ بھی پھر آگئی جب دیکھ کر اتنے نشاں

قوم نے مجھ کو کہا کذّاب ہے اور بدشعار

ہے یقیں یہ آگ کچھ مدت تلک جاتی نہیں

ہاں مگر توبہ کریں با صد نیاز و انکسار

یہ نہیں اِک اتفاقی امر تا ہوتا علاج

ہے خدا کے حکم سے یہ سب تباہی اور تبار

وہ خدا جس نے بنایا آدمی اور دیں دیا

وہ نہیں راضی کہ بے دینی ہو ان کا کاروبار

بے خدا بے زہد و تقویٰ بے دیانت بے صفا

بَنْ ہے یہ دنیائے دوں طاعوں کرے اُس میں شکار

صیدِ طاعوں مت بنو پورے بنو تم متقی

یہ جو ایماں ہے زباں کا۔کچھ نہیں آتا بکار

موت سے گر خود ہو بے ڈر کچھ کر و بچوں پہ رحم

امن کی رہ پر چلو بَنْ کو کرو مت اختیار

بَنْ کے رہنے والو تم ہرگز نہیں ہو آدمی

کوئی ہے روبہ کوئی خنزیر اور کوئی ہے مار

ان دلوں کو خود بدل دے اے مرے قادر خدا

تُو تو ربّ العالمیں ہے اور سب کا شہریار

تیرے آگے محو یا اثبات نا ممکن نہیں

جوڑنا یا توڑنا یہ کام تیرے اختیار

ٹوٹے کاموں کو بناوے جب نگاہِ فضل ہو

پھر بناکر توڑ دے اک دم میں کردے تارتار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 139

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 139

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/139/mode/1up


توہی بگڑی کو بناوے توڑدے جب بن چکا

تیرے بھیدوں کو نہ پاوے سو کرے کوئی بچار

جبؔ کوئی دل ظلمت عصیاں میں ہووے مبتلا

تیرے بن روشن نہ ہووے گو چڑھے سورج ہزار

اس جہاں میں خواہشِ آزادگی بے سود ہے

اِک تری قیدِ محبت ہے جو کردے رستگار

دل جو خالی ہو گدازِ عشق سے وہ دل ہے کیا

دل وہ ہے جس کو نہیں بے دلبرِ یکتا قرار

فقر کی منزل کا ہے اوّل قدم نفیِ وجود

پس کرو اس نفس کو زیرو زبر از بہرِ یار

تلخ ہوتا ہے ثمر جب تک کہ ہو وہ ناتمام

اس طرح ایماں بھی ہے جب تک نہ ہو کامل پیار

تیرے مُنہ کی بھوک نے دل کو کیا زیروزبر

اے مرے فردوسِ اعلیٰ اب گِرا مجھ پر ثمار

اے خدا اے چارہ سازِ درد ہم کو خود بچا

اے مرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دلفگار

باغ میں تیری محبت کے عجب دیکھے ہیں پھل

ملتے ہیں مشکل سے ایسے سیب اور ایسے انار

تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے

ایسے جینے سے تو بہتر مرکے ہو جانا غبار

گر نہ ہو تیری عنایت سب عبادت ہیچ ہے

فضل پر تیرے ہے سب جہدوعمل کا انحصار

جن پہ ہے تیری عنایت وہ بدی سے دور ہیں

رہ میں حق کی قوتیں اُن کی چلیں بن کر قطار

چھٹ گئے شیطاں سے جوتھے تیری اُلفت کے اسیر

جو ہوئے تیرے لئے بے برگ وبَر۔پائی بہار

سب پیاسوں سے نکوتر تیرے منہ کی ہے پیاس

جس کا دل اس سے ہے بریاں پاگیا وہ آبشار

جس کو تیری دھن لگی آخر وہ تجھ کو جاملا

جس کو بے چینی ہے یہ وہ پاگیا آخر قرار

عاشقی کی ہے علامت گریہ و دامانِ دشت

کیا مبارک آنکھ جو تیرے لئے ہو اشکبار

تیری درگہ میں نہیں رہتا کوئی بھی بے نصیب

شرط رہ پر صبر ہے اور ترکِ نامِ اضطرار

میں تو تیرے حکم سے آیا مگر افسوس ہے

چل رہی ہے وہ ہوا جو رخنہ اندازِ بہار

جیفۂ دنیا پہ یکسر گِر گئے دنیا کے لوگ

زندگی کیاخاک اُن کی جوکہ ہیں مُردار خوار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 140

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 140

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/140/mode/1up


دیں کو دے کر ہاتھ سے دنیا بھی آخر جاتی ہے

کوئی آسودہ نہیں بن عاشق و شیدائے یار

رنگؔ تقویٰ سے کوئی رنگت نہیں ہے خوب تر

ہے یہی ایماں کا زیور ہے یہی دیں کا سنگار

سو چڑھے سورج نہیں بن رُوئے دلبر روشنی

یہ جہاں بے وصلِ دلبر ہے شب تاریک و تار

اے مرے پیارے جہاں میں تو ہی ہے اک بے نظیر

جو ترے مجنوں حقیقت میں وہی ہیں ہوشیار

اس جہاں کو چھوڑنا ہے تیرے دیوانوں کاکام

نقد پالیتے ہیں وہ اور دوسرے امیدوار

کون ہے جس کے عمل ہوں پاک بے انوارِ عشق

کون کرتا ہے وفا بن اس کے جس کا دِل فگار

غیر ہوکر غیر پر مرنا کسی کو کیا غرض

کون دیوانہ بنے اس راہ میں لیل و نہار

کون چھوڑے خواب شیریں کون چھوڑے اکل و شرب

کون لے خارِ مغیلاں چھوڑ کر پھولوں کے ہار

عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پُر خطر

عشق ہے جو سرجھکاوے زیرِ تیغِ آب دار

پر ہزار افسوس دنیا کی طرف ہیں جھک گئے

وہ جو کہتے تھے کہ ہے یہ خانہ ءِ ناپائدار

جس کو دیکھو آجکل وہ شوخیوں میں طاق ہے

آہ رحلت کر گئے وہ سب جو تھے تقویٰ شعار

ممبروں پر اُن کے سارا گالیوں کا وعظ ہے

مجلسوں میں اُن کی ہردم سبّ و غیبت کاروبار

جس طرف دیکھو یہی دُنیا ہی مقصد ہوگئی

ہر طرف اس کے لئے رغبت دلائیں بار بار

ایک کانٹا بھی اگر دیں کے لئے اُن کو لگے

چیخ کر اس سے وہ بھاگیں شیر سے جیسے حمار

ہر زماں شکوہ زباں پر ہے اگر ناکام ہیں

دیں کی کچھ پروا نہیں دنیا کے غم میں سوگوار

لوگ کچھ باتیں کریں میری تو باتیں اور ہیں

میں فدائے یار ہوں گو تیغ کھینچے صد ہزار

اے مرے پیارے بتا تو کس طرح خوشنود ہو

نیک دن ہوگا وہی جب تجھ پہ ہوویں ہم نثار

جس طرح تو دور ہے لوگوں سے میں بھی دور ہوں

ہے نہیں کوئی بھی جو ہو میرے دل کا راز دار

نیک ظن کرنا طریقِ صالحانِ قوم ہے

لیک سو پردے میں ہوں اُن سے۔ نہیں ہوں آشکار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 141

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 141

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/141/mode/1up


بے خبر دونوں ہیں جو کہتے ہیں بد یا نیک مرد

میرے باطن کی نہیں ان کو خبر اک ذرّہ وار

ابنؔ مریم ہوں مگر اُترا نہیں مَیں چَرخ سے

نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کار زار

ملک سے مجھ کو نہیں مطلب نہ جنگوں سے ہے کام

کام میرا ہے دلوں کو فتح کرنا نَے دیار

تاج و تختِ ہند قَیصر کو مبارک ہو مدام

اُن کی شاہی میں مَیں پاتا ہوں رفاہِ روزگار

مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا

مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار

ہم تو بستے ہیں فلک پر اس زمیں کو کیاکریں

آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نِقار

ملکِ روحانی کی شاہی کی نہیں کوئی نظیر

گو بہت دنیا میں گذرے ہیں امیر و تاجدار

داغِ *** ہے طلب کرنا زمیں کا عزّوجاہ

جس کا جی چاہے کرے اس داغ سے وہ تن فگار

کام کیاعزت سے ہم کو شہرتوں سے کیاغرض

گر وہ ذلّت سے ہو راضی اس پہ سو عزّت نثار

ہم اُسی کے ہوگئے ہیں جو ہمارا ہوگیا

چھوڑ کر دنیاءِ دوں کو ہم نے پایا وہ نگار

دیکھتا ہوں اپنے دل کو عرشِ ربّ العالمیں

قرب اتنا بڑھ گیا جس سے ہے اُترا مجھ میں یار

دوستی بھی ہے عجب جس سے ہوں آخر د۲و سَتِی

آملی اُلفت سے اُلفت ہوکے دو دل پر سوار

دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے

ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار

کوئی رہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں

طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشتِ خار

اس کے پانے کا یہی اے دوستو اک راز ہے

کیمیا ہے جس سے ہاتھ آجائے گا زر بے شمار

تیر تاثیرِ محبت کا خطا جاتا نہیں

تیر اندازو! نہ ہونا سست اس میں زینہار

ہے یہی اک آگ تا تم کو بچاوے آگ سے

ہے یہی پانی کہ نکلیں جس سے صدہا آبشار

اِس سے خود آکر ملے گا تم سے وہ یارِ ازل

اس سے تم عرفانِ حق سے پہنو گے پھولوں کے ہار

وہ کتابِ پاک و برتر جس کا فرقاں نام ہے

وہ یہی دیتی ہے طالب کو بشارت بار بار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 142

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 142

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/142/mode/1up


جن کو ہے انکارِ اس سے سخت ناداں ہیں وہ لوگ

آدمی کیونکر کہیں جب اُن میں ہے حُمقِ حمار

کیاؔ یہی اسلام کا ہے دوسرے دینوں پہ فخر

کردیا قصّوں پہ سارا ختم دیں کا کاروبار

مغزِ فرقانِ مطہرّ کیا یہی ہے زُہد خشک

کیا یہی چوہا ہے نکلا کھود کر یہ کوہسار

گریہی اسلام ہے بس ہو گئی اُمّت ہلاک

کس طرح رہ مل سکے جب دیں ہی ہوتاریک و تار

منہ کو اپنے کیوں بگاڑا نااُمیدوں کی طرح

فیض کے در کھل رہے ہیں اپنے دامن کو پسار

کس طرح کے تم بشر ہو دیکھتے ہو صد نشاں

پھر وہی ضدّ و تعصّب اور وہی کین و نقار

بات سب پوری ہوئی پر تم وہی ناقص رہے

باغ میں ہوکر بھی قسمت میں نہیں دیں کے ثمار

دیکھ لو وہ ساری باتیں کیسی پوری ہوگئیں

جن کا ہونا تھا بعید از عقل و فہم و افتکار

اُس زمانہ میں ذرہ سوچو کہ میں کیاچیز تھا

جس زمانہ میں براہیں کا دیا تھا اشتہار

پھر ذرہ سوچو کہ اب چرچا مرا کیسا ہوا

کس طرح سرعت سے شہرت ہوگئی درہر دیار

جانتا تھا کون کیا عزت تھی پبلک میں مجھے

کس جماعت کی تھی مجھ سے کچھ ارادت یا پیار

تھے رجوعِ خلق کے اسباب مال و علم و حکم

خاندانِ فقر بھی تھا باعثِ عزّ و وقار

لیک ان چاروں سے میں محروم تھا اور بے نصیب

ایک انساں تھا کہ خارج از حساب و از شمار

پھر رکھایا نام کافر ہوگیا مطعونِ خلق

کُفر کے فتووں نے مجھ کو کر دیا بے اعتبار

اس پہ بھی میرے خدا نے یاد کرکے اپنا قول

مرجع عالم بنایا مجھ کو اور دین کا مدار

سارے منصوبے جو تھے میری تباہی کے لئے

کر دیئے اُس نے تبہ جیسے کہ ہو گرد و غبار

سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ آدمی کا کام ہے

کوئی بتلائے نظیر اس کی اگر کرنا ہے وار

مکر انساں کو مٹا دیتا ہے انسانِ دِگر

پر خدا کا کام کب بگڑے کسی سے زینہار

مفتری ہوتا ہے آخر اس جہاں میں رُوسیہ

جلد تر ہوتا ہے برہم افترا کا کاروبار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 143

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 143

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/143/mode/1up


افترا کی ایسی دُم لمبی نہیں ہوتی کبھی

جو ہو مثلِ مدتِ فخر الرسل فخر الخیار

حسرؔ توں سے میرا دل پُر ہے کہ کیوں منکر ہو تم

یہ گھٹا اب جھوم جھوم آتی ہے دل پر بار بار

یہ عجب آنکھیں ہیں سورج بھی نظر آتا نہیں

کچھ نہیں چھوڑا حسد نے عقل اور سوچ اور بچار

قوم کی بدقسمتی اِس سرکشی سے کھل گئی

پر وہی ہوتا ہے جو تقدیر سے پایا قرار

قوم میں ایسے بھی پاتا ہوں جو ہیں دُنیا کے کرم

مقصد اُن کی زیست کا ہے شہوت و خمر و قمار

مکر کے بل چل رہی ہے اُن کی گاڑی روز و شب

نفس و شیطاں نے اُٹھایا ہے انہیں جیسے کہار

دیں کے کاموں میں تو اُن کے لڑکھڑاتے ہیں قدم

لیک دُنیا کے لئے ہیں نوجوان و ہوشیار

حلّتُ و حُرمت کی کچھ پروا نہیں باقی رہی

ٹھونس کر مُردار پیٹوں میں نہیں لیتے ڈکار

لافِ زہد و راستی اور پاپ دل میں ہے بھرا

ہے زباں میں سب شرف اور نیچ دل جیسے چمار

اے عزیزو کب تلک چل سکتی ہے کاغذ کی ناؤ

ایک دن ہے غرق ہونا باد و چشمِ اشکبار

جاودانی زندگی ہے موت کے اندر نہاں

گلشنِ دلبرکی راہ ہے وادی ءِ غربت کے خار

اے خدا کمزور ہیں ہم اپنے ہاتھوں سے اُٹھا

ناتواں ہم ہیں ہمارا خود اُٹھالے سارا بار

تیری عظمت کے کرشمے دیکھتا ہوں ہر گھڑی

تیری قدرت دیکھ کر دیکھا جہاں کو مُردہ وار

کام دکھلائے جو تو نے میری نصرت کے لئے

پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے ہر زماں وہ کاروبار

کس طرح تو نے سچائی کو مری ثابت کیا

میں ترے قرباں مری جاں تیرے کاموں پر نثار

ہے عجب اک خاصیت تیرے جمال و حسن میں

جس نے اک چمکار سے مجھ کو کیا دیوانہ وار

اے مرے پیارے ضلالت میں پڑی ہے میری قوم

تیری قدرت سے نہیں کچھ دُور گر پائیں سُدھار

مجھ کو کافر کہتے ہیں میں بھی انہیں مومن کہوں

گر نہ ہو پرہیز کرنا جھوٹ سے دیں کا شعار

مجھ پہ اے واعظ نظر کی یار نے تجھ پر نہ کی

حیف اُس ایماں پہ جس سے کفر بہتر لاکھ بار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 144

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 144

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/144/mode/1up


روضۂ آدم کہ تھا وہ نامکمل اب تلک

میرے آنے سے ہوا کامل بجملہ برگ و بار

وہ ؔ خدا جس نے نبی کو تھا زرِ خالص دیا

زیورِ دیں کو بناتا ہے وہ اب مثلِ سُنار

وہ دکھاتا ہے کہ دیں میں کچھ نہیں اکراہ وجبر

دیں تو خود کھینچے ہے دل مثلِ بُتِ سیمیں عذار

پس یہی ہے رمز جو اُس نے کیا منع از جہاد

تا اٹھا وے دیں کی راہ سے جو اُٹھا تھا اِک غبار

تا دکھاوے منکروں کو دیں کی ذاتی خوبیاں

جن سے ہوں شرمندہ جو اسلام پر کرتے ہیں وار

کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں

وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار

پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اِک معجزہ

معنی ءِ رازِ نبوت ہے اسی سے آشکار

نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اِک نور تھے

قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیاجائے عار

روشنی میں مہرِ تاباں کی بھلا کیا فرق ہو

گرچہ نکلے روم کی سرحد سے یا از زنگبار

اے مرے پیارو شکیب و صبر کی عادت کرو

وہ اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مشکِ تتار

نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں

چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دمار

جس نے نفسِ دُوں کو ہمت کرکے زیرِ پاکیا

چیز کیا ہیں اُس کے آگے رستم و اسفندیار

گالیاں سن کر دُعا دو پا کے دکھ آرام دو

کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار

تم نہ گھبراؤ اگر وہ گالیاں دیں ہرگھڑی

چھوڑ دو اُن کو کہ چھپوائیں وہ ایسے اشتہار

چپ رہو تم دیکھ کر اُن کے رسالوں میں ستم

دم نہ مارو گر وہ ماریں اور کردیں حالِ زار

دیکھ کر لوگوں کا جوش و غیظ مت کچھ غم کرو

شدتِ گرمی کا ہے محتاج بارانِ بہار

افترا اُن کی نگاہوں میں ہمارا کام ہے

یہ خیال اللہ اکبر کس قدر ہے نابکار

خیر خواہی میں جہاں کی خوں کیا ہم نے جگر

جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیں سے فرار

پاک دل پر بدگمانی۔ہے یہ شقوت کا نشاں

اب تو آنکھیں بند ہیں دیکھیں گے پھر انجام کار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 145

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 145

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/145/mode/1up


جب کہ کہتے ہیں کہ کاذب پھولتے پھلتے نہیں

پھر مجھے کہتے ہیں کاذب دیکھ کر میرے ثمار

کیا ؔ تمہاری آنکھ سب کچھ دیکھ کر اندھی ہوئی

کچھ تو اُس دن سے ڈرو یارو کہ ہے روزِ شمار

آنکھ رکھتے ہو ذرہ سوچو کہ یہ کیا راز ہے

کس طرح ممکن کہ وہ قدّوس ہو کاذب کا یار

یہ کرم مجھ پر ہے کیوں کوئی تو اس میں بات ہے

بے سبب ہرگز نہیں یہ کاروبارِ کِردگار

مجھ کو خود اُس نے دیا ہے چشمہِ ء توحید پاک

تا لگاوے از سرِ نو باغِ دیں میں لالہ زار

دوش پر میرے وہ چادر ہے کہ دی اُس یار نے

پھر اگر قدرت ہے اے منکر تو یہ چادر اُتار

خیرگی سے بدگمانی اس قدر اچھی نہیں

اِن دنوں میں جب کہ ہے شورِ قیامت آشکار

ایک طوفاں ہے خدا کے قہر کا اب جوش پر

نوح کی کشتی میں جو بیٹھے وہی ہو رستگار

صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے

ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار

پشتی ءِ دیوارِ دیں اور مامنِ اسلام ہوں

نارسا ہے دستِ دشمن تا بفرقِ ایں جدار

جاہلوں میں اس قدر کیوں بدگمانی بڑھ گئی

کچھ بُرے آئے ہیں دن یا پڑ گئی *** کی مار

کچھ تو سمجھیں بات کو یہ دل میں ارماں ہی رہا

واہ رے شیطاں عجب اُن کو کیا اپنا شکار

اے کہ ہر دم بدگمانی تیرا کاروبار ہے

دوسری قوت کہاں گم ہوگئی اے ہوشیار

میں اگر کاذب ہوں کذّابوں کی دیکھوں گا سزا

پر اگر صادق ہوں پھر کیا عذر ہے روزِ شمار

اس تعصب پر نظر کرنا کہ مَیں اسلام پر

ہوں فدا۔ پھر بھی مجھے کہتے ہیں کافر باربار

مَیں وہ پانی ہوں کہ آیا آسماں سے وقت پر

میں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار

ہائے وہ تقویٰ جو کہتے تھے کہاں مخفی ہوئی

ساربانِ نفس دوں نے کس طرف پھیری مہار

کام جو دکھلائے اُس خلّاق نے میرے لئے

کیا وہ کرسکتا ہے جو ہو مفتری شیطاں کا یار

میں نے روتے روتے دامن کر دیا تر درد سے

اب تلک تم میں وہی خشکی رہی باحالِ زار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 146

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 146

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/146/mode/1up


ہائے یہ کیا ہوگیا عقلوں پہ کیا پتھر پڑے

ہوگیا آنکھوں کے آگے اُن کے دن تاریک و تار

یا ؔ کسی مخفی گناہ سے شامتِ اعمال ہے

جس سے عقلیں ہوگئیں بیکار اور ۔اک مُردہ وار

گردنوں پر اُن کی ہے سب عام لوگوں کا گناہ

جن کے وعظوں سے جہاں کے آگیا دل میں غبار

ایسے کچھ سوئے کہ پھر جاگے نہیں ہیں اب تلک

ایسے کچھ بھولے کہ پھر نسیاں ہوا گردن کا ہار

نوعِ انساں میں بدی کا تخم بونا ظلم ہے

وہ بدی آتی ہے اُس پر جو ہو اُس کا کاشتکار

چھوڑ کر فرقاں کو آثارِ مخالف پر جمے

سر پہ مسلم اور بخاری کے دیا ناحق کا بار

جبکہ ہے امکان کذب و کجروی اخبار میں

پھر حماقت ہے کہ رکھیں سب انہی پر انحصار

جبکہ ہم نے نور حق دیکھا ہے اپنی آنکھ سے

جب کہ خود وحی خدا نے دی خبر یہ بار بار

پھر یقیں کو چھوڑ کر ہم کیوں گمانوں پر چلیں

خود کہو رویت ہے بہتر یا نقولِ پُر غبار

تفرقہ اسلام میں نقلوں کی کثرت سے ہوا

جس سے ظاہر ہے کہ راہ نقل ہے بے اعتبار

نقل کی تھی اک خطا کاری مسیحا کی حیات

جس سے دیں نصرانیت کا ہوگیا خدمت گذار

صد ہزاراں آفتیں نازل ہوئیں اسلام پر

ہوگئے شیطاں کے چیلے گردنِ دیں پر سوار

موتِ عیسیٰ کی شہادت دی خدا نے صاف صاف

پھر احادیثِ مخالف رکھتی ہیں کیا اعتبار

گر گُماں صحت کا ہو پھر قابلِ تاویل ہیں

کیاحدیثوں کے لئے فرقاں پہ کرسکتے ہو وار

وہ خدا جس نے نشانوں سے مجھے تمغہ دیا

اب بھی وہ تائید فرقاں کر رہا ہے بار بار

سر کو پیٹو! آسماں سے اب کوئی آتا نہیں

عمرِ دنیا سے بھی اب ہے آگیا ہفتم* ہزار

کتب سابقہ اور احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ عمر دنیا کی حضرت آدم علیہ السلام سے سات ہزار برس تک ہے اِسی کی طرف قرآن شریف اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ33 ۱؂۔ یعنی خدا کا ایک دن تمہارے ہزار برس کے برابر ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے میرے دل پر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 147

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 147

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/147/mode/1up


اُس کے آتے آتے دیں کا ہوگیا قصّہ تمام

کیا وہ تب آئے گا جب دیکھے گا اِس دیں کا مزار

کشتی ءِ اسلام بے لطفِ خدا اب غرق ہے

اے جنوں کچھ کام کر بیکار ہیں عقلوں کے وار

مجھ کو دے اک فوق عادت اے خدا جوش و تپش

جس سے ہوجاؤں میں غم میں دیں کے اِک دیوانہ وار

وہ لگادے آگ میرے دل میں ملّت کے لئے

شعلے پہنچیں جس کے ہردم آسماں تک بیشمار

اےؔ خدا تیرے لئے ہر ذرّہ ہو میرا فدا

مجھ کو دکھلادے بہارِ دیں کہ مَیں ہوں اشکبار

خاکساری کو ہماری دیکھ اے دانائے راز

کام تیرا کام ہے ہم ہوگئے اب بیقرار

اِک کرم کر پھیر دے لوگوں کو فرقاں کی طرف

نیز دے توفیق تا وہ کچھ کریں سوچ اور بچار

ایک فرقاں ہے جو شک اور ریب سے وہ پاک ہے

بعد اس کے ظنِّ غالب کو ہیں کرتے اختیار

پھر یہ نقلیں بھی اگر میری طرف سے پیش ہوں

تنگ ہو جائے مخالف پر مجالِ کار زار

باغ مرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر

میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار

مرہمِ عیسیٰ نے دی تھی محض عیسیٰ کو شفا

میری مرہم سے شفا پائے گا ہر ملک و دیار

جھانکتے تھے نور کو وہ روزنِ دیوار سے

لیک جب در کھل گئے پھر ہوگئے شپّر شعار

وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے

اب مَیں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

پر ہوئے دیں کے لئے یہ لوگ مارِ آستیں

دشمنوں کو خوش کیا اور ہوگیا آزردہ یار

یہ الہام کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ تک حضرت آدمؑ سے اسی قدر مدت بحساب قمری گذری تھی جو اِس سورۃ کے حروف کی تعداد سے بحساب ابجد معلوم ہوتی ہے۔ اور اس کے رو سے حضرت آدمؑ سے اب ساتواں ہزار بحساب قمری ہے جو دنیا کے خاتمہ پر دلالت کرتا ہے اور یہ حساب جو سورۃوالعصر کے حروف کے اعداد کے نکالنے سے معلوم ہوتا ہے۔ یہود و نصاریٰ کے حساب سے قریباً تمام و کمال ملتا ہے صرف قمری اور شمسی حساب کو ملحوظ رکھ لینا چاہیے۔ اور ان کی کتابوں سے پایا جاتا ہے جو مسیح موعود کا چھٹے ہزار میں آنا ضروری ہے اور کئی برس ہو گئے کہ چھٹا ہزار گزر گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 148

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 148

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/148/mode/1up


غل مچاتے ہیں کہ یہ کافر ہے اور دجّال ہے

پاک کو ناپاک سمجھے ہوگئے مردار خوار

گو وہ کافر کہہ کے ہم سے دُور تر ہیں جاپڑے

اُن کے غم میں ہم تو پھر بھی ہیں حزین و دلفگار

ہم نے یہ مانا کہ اُن کے دل ہیں پتھر ہوگئے

پھر بھی پتھر سے نکل سکتی ہے دینداری کی نار

کیسے ہی وہ سخت دل ہوں ہم نہیں ہیں نا امید

آیتِ لَا تَیْءَسُوْا رکھتی ہے دل کو استوار

پیشہ ہے رونا ہمارا پیش ربِّ ذُوالمِنَن

یہ شجر آخر کبھی اس نہر سے لائیں گے بار

جن میں آیا ہے مسیح وقت وہ منکر ہوئے

مرگئے تھے اس تمنا میں خواصِ ہر دیار

مَیں نہیں کہتا کہ میری جاں ہے سب سے پاک تر

میں نہیں کہتا کہ یہ میرے عمل کے ہیں ثمار

میں نہیں رکھتا تھا اس دعوے سے اِک ذرّہ خبر

کھول کر دیکھو براہیں کو کہ تا ہو اعتبار

گرکہے کوئی کہ یہ منصب تھا شایانِ قریش

وہ خدا سے پوچھ لے میرا نہیں یہ کاروبار

مجھؔ کو بس ہے وہ خدا عہدوں کی کچھ پروا نہیں

ہوسکے تو خود بنو مہدی بحکمِ کِردگار

افترا *** ہے اور ہر مفتری ملعون ہے

پھر لعیں وہ بھی ہے جو صادق سے رکھتا ہے نقار

تشنہ بیٹھے ہو کنارِ جوئے شیریں حیف ہے

سر زمینِ ہند میں چلتی ہے نہرِ خوشگوار

ان نشا*نوں کو ذرہ سوچو کہ کس کے کام ہیں

کیا ضرورت ہے کہ دکھلاؤ غضب دیوانہ وار

مفت میں ملزم خداکے مت بنو اے منکرو

یہ خدا کا ہے نہ ہے یہ مفتری کا کاروبار

اب تک کئی ہزار خدا تعالیٰ کے نشان میرے ہاتھ پر ظاہر ہو چکے ہیں۔ زمین نے بھی میرے لئے نشان دکھلائے اور آسمان نے بھی۔اور دوستوں میں بھی ظاہر ہوئے اور دشمنوں میں بھی جن کے کئی لاکھ انسان گواہ ہیں۔ اور ان نشانوں کو اگر تفصیلاً جُدا جُدا شمار کیا جائے تو قریباً وہ سارے نشان دس لاکھ تک پہنچتے ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِک۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 149

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 149

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/149/mode/1up


یہ فتوحاتِ نمایاں یہ تواتر سے نشاں

کیا یہ ممکن ہیں بشر سے کیا یہ مکّاروں کا کار

ایسی سرعت سے یہ شہرت ناگہاں سالوں کے بعد

کیا نہیں ثابت یہ کرتی صدقِ قولِ کردگار

کچھ تو سوچو ہوش کرکے کیا یہ معمولی ہے بات

جس کا چرچا کر رہا ہے ہر بشر اور ہر دیار

مٹ گئے حیلے تمہارے ہوگئی حجت تمام

اب کہو کس پر ہوئی اے منکرو *** کی مار

بندۂ درگاہ ہوں اور بندگی سے کام ہے

کچھ نہیں ہے فتح سے مطلب نہ دل میں خوفِ ہار

مت کرو بک بک بہت ۔ اُس کی دلوں پر ہے نظر

دیکھتا ہے پاکی ءِ دل کو نہ باتوں کی سنوار

کیسے پتھر پڑ گئے ہَے ہَے تمہاری عقل پر

دیں ہے مُنہ میں گرگ کے۔ تم گرگ کے خود پاسدار

ہر طرف سے پڑ رہے ہیں دینِ احمد پر تبر

کیا نہیں تم دیکھتے قوموں کو اور اُن کے وہ وار

کون سی آنکھیں جو اس کو دیکھ کر روتی نہیں

کون سے دل ہیں جو اس غم سے نہیں ہیں بیقرار

کھا رہا ہے دیں طمانچے ہاتھ سے قوموں کے آج

اِک تزلزل میں پڑا اسلام کا عالی منار

یہ مصیبت کیا نہیں پہنچی خدا کے عرش تک

کیا یہ شمس الدّیں نہاں ہو جائے گا اب زیرِغار

جنگ روحانی ہے اب اِس خادم و شیطان کا

دل گھٹا جاتا ہے یاربّ سخت ہے یہ کارزار

ہر نبیء وقت نے اس جنگ کی دی تھی خبر

کر گئے وہ سب دعائیں بادو چشمِ اشکبار

اے خدا شیطاں پہ مجھ کو فتح دے رحمت کے ساتھ

وہ اکٹھی کر رہا ہے اپنی فوجیں بے شمار

جنگؔ یہ بڑھ کر ہے جنگِ روس اور جاپان سے

میں غریب اور ہے مقابل پر حریفِ نامدار

دل نکل جاتا ہے قابو سے یہ مشکل سوچ کر

اے مری جاں کی پنہ فوجِ ملائک کو اُتار

بستر راحت کہاں ان فکر کے ایاّم میں

غم سے ہردن ہو رہا ہے بد تراز شب ہائے تار

لشکر شیطاں کے نرغے میں جہاں ہے گھِر گیا

بات مشکل ہوگئی قدرت دکھا اے میرے یار

نسلِ انساں سے مدد اب مانگنا بے کار ہے

اب ہماری ہے تری درگاہ میں یاربّ پکار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 150

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 150

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/150/mode/1up


کیوں کریں گے وہ مدد اُن کو مدد سے کیا غرض

ہم تو کافر ہوچکے اُن کی نظر میں بار بار

پر مجھے رہ رہ کے آتا ہے تعجب قوم سے

کیوں نہیں وہ دیکھتے جو ہو رہا ہے آشکار

شکر لِلّٰہ میری بھی آہیں نہیں خالی گئیں

کچھ بنیں طاعوں کی صورت کچھ زلازل کے بخار

اِک۱ طرف طاعون خونی کھا رہا ہے ملک کو

ہو رہے ہیں صدہزاراں آدمی اس کا شکار

دوسر۲ ے منگل کے دن آیا تھا ایسا زلزلہ

جس سے اِک محشر کا عالم تھا بصد شوروپکار

ایک ہی دم میں ہزاروں اس جہاں سے چل دیئے

جس قدر گھر گر گئے اُن کا کروں کیونکر شمار

یا تو وہ عالی مکاں تھے زینت و زیبِ جلوس

یا ہوئے اِک ڈھیر اینٹوں کے پُر از گرد و غبار

حشر جس کو کہتے ہیں اِک دم میں برپا ہوگیا

ہر طرف میں مرگ کی آواز تھی اور اضطرار

دب گئے نیچے پہاڑوں کے کئی دیہات و شہر

مرگئے لاکھوں بشر اور ہوگئے دُنیا سے پار

اِس نشاں کو دیکھ کر پھر بھی نہیں ہیں نرم دل

پس خدا جانے کہ اب کس حشر کاہے انتظار

وہ جو کہلاتے تھے صوفی کِیں میں سب سے بڑھ گئے

کیا یہی عادت تھی شیخِ غزنوی کی یادگار

کہتے ہیں لوگوں کو ہم بھی زُبدۃُ الابرار ہیں

پڑتی ہے ہم پر بھی کچھ کچھ وحیِ رحماں کی پھوار

پر وہی نا فہم ملہم اَوّلُ الاعدا ہوئے

آگیا چرخِ بریں سے اُن کو تکفیروں کا تار

سب نشاں بیکار اُن کے بغض کے آگے ہوئے

ہو گیا تیرِ تعصّب ان کے دل میں وار پار

دیکھتےؔ ہرگز نہیں قُدرت کو اُس ستّار کی

گو سناویں اُن کو وہ اپنی بجاتے ہیں ستار

صوفیا اب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ

آسماں سے آگئی میری شہادت بار بار

قدرتِ حق ہے کہ تم بھی میرے دشمن ہوگئے

یا محبت کے وہ دن تھے یا ہوا ایسا نقار

دھو دیئے دل سے وہ سارے صحبتِ دیریں کے رنگ

پھول بَن کر ایک مدت تک ہوئے آخر کو خار

جس قدر نقدِ تعارف تھا وہ کھو بیٹھے تمام

آہ کیا یہ دل میں گذرا ۔ہوں میں اس سے دلفگار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 151

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 151

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/151/mode/1up


آسماں پر شور ہے پر کچھ نہیں تم کو خبر

دن تو روشن تھا مگر ہے بڑھ گئی گرد و غبار

اِک نشاں ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد

جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شہر اور مرغزار

آئے گا قہر خدا سے خلق پر اِک انقلاب

اِک برہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تا باندھے ازار

یک بیک اِک زلزلہ سے سخت جنبش کھائیں گے*

کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا بحار

اِک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیرو زبر

نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آبِ رودبار

رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگِ یاسمن

صبح کردے گی انہیں مثلِ درختانِ چنار

خدا تعالیٰ کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے۔ اور فرمایا کہ ایسا زلزلہ ہو گا جو نمونۂ قیامت ہو گا بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہیئے جس کی طرف سورۃ3۱؂ اشارہ کرتی ہے لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا۔ ممکن ہے یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھادے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے۔ ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو اور لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں مَیں کاذب ٹھہروں گا۔مگر میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ شدید آفت جس کو خدا تعالیٰ نے زلزلہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے صرف اختلافِ مذہب پر کوئی اثر نہیں رکھتی اور نہ ہندو یا عیسائی ہونے کی وجہ سے کسی پر عذاب آسکتا ہے اور نہ اس وجہ سے آسکتا ہے کہ کوئی میری بیعت میں داخل نہیں یہ سب لوگ اس تشویش سے محفوظ ہیں۔ ہاں جو شخص خواہ کسی مذہب کا پابند ہو جرائم پیشہ ہونا اپنی عادت رکھے اور فسق و فجور میں غرق ہو اور زانی، خونی، چور، ظالم اور ناحق کے طور پر بد اندیش، بد زبان اور بدچلن ہو اس کو اس سے ڈرنا چاہیئے اور اگر توبہ کرے تو اس کو بھی کچھ غم نہیں اور مخلوق کے نیک کردار اور نیک چلن ہونے سے یہ عذاب ٹل سکتا ہے قطعی نہیں ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 152

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 152

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/152/mode/1up


ہوش اُڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس

بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار

ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی

راہ کو بھولیں گے ہوکر مست و بیخود راہوار

خون سے مردوں کے کوہستان کے آبِ رواں

سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شرابِ انجبار

مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جنّ وانس

زار بھی ہوگا تو ہوگا اُس گھڑی باحالِ زار

اِک نمونہ قہر کا ہوگا وہ ربّانی نشاں

آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار

ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفیہِ ناشناس

اِس پہ ہے میری سچائی کا سبھی دارومدار

وحی حق کی بات ہے ہوکر رہے گی بے خطا

کچھ دنوں کر صبر ہوکر متقی اور بُردبار

یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی ہے معاف

قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا اُدھار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 153

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 153

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/153/mode/1up



(ضمیمہؔ براہین احمدیہ حصہ پنجم)


نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم

اے یار ازل بس است روئے تو مرا

بہتر زِ ہزار خلد کوئے تو مرا

از مصلحتے دگر طرف بینم لیک

ہر لحظہ نگاہِ ہست سوئے تو مرا

بر عزتِ من اگر کسے حملہ کند

صبر است طریق ہمچو خوئے تو مرا

من چیستم و چہ عزتم ہست مگر

جنگ است زِ بہرِ آبروئے تو مرا

ایک صاحب محمد اکرام اللہ نام نے روزانہ پیسہ اخبار مورخہ۲۲ ؍ مئی ۱۹۰۵ء میں میرے ان اشتہارات کی نسبت جن میں اوّ۔۱ل دفعہ اور دو۔۲م دفعہ کے زلزلہ کی نسبت پیشگوئیاں ہیں کچھ اعتراض شائع کئے ہیں اور میرے خیال میں وہ اعتراضات صرف تعصب کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ ناسمجھی اور نہایت محدود واقفیت بھی ان کا موجب ہے ۔ قوم کی حالت پر اسی وجہ سے مجھے رونا آتا ہے کہ اعتراض کرنے کے وقت کچھ تدبّر نہیں کرتے اور جنون کی طرح ایک جوش پیدا ہو جاتاہے یا خود نمائی کی وجہ سے یہ شوق دامن گیر ہوتا ہے کہ کسی طرح معترض بن کر ہمیں بھی اوّل درجہ کے مخالفوں میں جگہ مل جائے اور یا کم سے کم لائق اور اہلِ علم متصور ہوں مگر بجائے لائق کہلانے کے خود اپنے ہاتھ سے اپنی پردہ دری کرتے ہیں۔ اب اہل انصاف اعتراضات کو سنیں اور ان کے جوابات پر غور کرکے دیکھیں کہ کیا ایسے اعتراضات کوئی منصف مزاج جس کو کچھ بھی عقل اور دین سے حصہ ملا ہے کرسکتا ہے۔ افسوس کہ یہ لوگ اوّل خود دھوکا کھاتے ہیں اور پھر لوگوں کو دھوکے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ اور اس جاہلیت کا سارا باعث وہ جلا ہوا تعصب ہے کہ جو جہنم کی آگ اپنے اندر رکھتا ہے۔

خلاصہ اعتراض اوّ۔۱ل قولہ۔اب ہم مرزا صاحب کے قول سے ثابت کرتے ہیں کہ زلزلہ کی پیشگوئی کوئی قابلِ وقعت چیز نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں خود لکھتے ہیں کہ زلزلہ کی پیشگوئی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 154

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 154

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/154/mode/1up


قابل وقعت چیز نہیں بلکہ مہمل اور ناقابلِ التفات ہے۔ الجواب۔ واضح ہو کہ معترض نے اسؔ جگہ وہ میری عبارت پیش کی ہے کہ جو میں نے انجیل متی کی ایک پیشگوئی پر جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کی جاتی ہے ازالہ اوہام میں لکھی ہے ۔ اور اس جگہ کافی ہوگا کہ وہی عبارت زلزلہ کی نسبت جو انجیل متی میں حضرت مسیح کے نام پر مندرج ہے جس کو میں نے ازالہ اوہام میں نقل کیا ہے پبلک کے سامنے پیش کردی جائے اور پھر وہ عبارتیں جو میری پیشگوئیوں میں دونوں زلزلوں کی نسبت بذریعہ اشتہارات شائع ہوچکی ہیں بالمقابل اس جگہ لکھ دی جائیں تا ناظرین خود سمجھ لیں کہ کیا ان دونوں پیشگوئیوں کی ایک ہی صورت ہے یا ان میں کچھ فرق بھی ہے اور کیا میری پیشگوئی میں بھی زلزلہ کی نسبت صرف معمولی الفاظ ہیں جو ہر ایک زلزلہ پر صادق آسکتے ہیں جیسا کہ انجیل متی کے الفاظ ہیں یا میری پیشگوئی فوق العادت زلزلہ کی خبر دیتی ہے۔اور اس جگہ اس بات کاذکر کرنا بھی بے موقعہ نہ ہوگا کہ جس سرزمین میں حضرت مسیح تھے یعنی ملک شام میں اُس ملک کی قدیم سے ایسی صورت ہے کہ ہمیشہ اس میں زلزلے آیا کرتے ہیں جیسا کہ کشمیر میں اور ہمیشہ طاعون بھی اُس ملک میں آیا کرتی ہے پس اُس ملک کے لئے یہ اعجوبہ نہیں ہے کہ اُس میں زلزلہ آوے یا طاعون پیدا ہو بلکہ کوئی بڑا زلزلہ آنا بھی عجیب بات نہیں ہے حضرت مسیح کی پیدائش سے بھی پہلے اس میں زلزلے آچکے ہیں اور ان کی زندگی میں بھی ہمیشہ سخت اور نرم زلزلے آتے رہے ہیں۔ پھر معمولی بات کی نسبت پیشگوئی کیا ہوگی؟ مگر ہم آگے چل کر بیان کریں گے کہ یہ زلزلہ جس کی پیشگوئی میں نے کی تھی اس ملک کے لئے کوئی معمولی بات نہ تھی بلکہ ایک انہونی اور فوق العادت بات تھی جس کو تمام ملک کے رہنے والوں نے فوق العادت قرار دیا بلکہ نمونہ قیامت سمجھا اور تمام محقق انگریزوں نے بھی یہی گواہی دی اور تاریخ پنجاب بھی یہی شہادت دیتی ہے اور نیز پرانی عمارتیں جو قریباً سولہ۱۶۰۰ سو برس سے محفوظ چلی آئیں بزبان حال یہی شہادت دے رہی ہیں مگر سب کو معلوم ہے کہ ملک شام میں تو اِس کثرت سے زلزلے آتے ہیں کہ جب وہ پیشگوئی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 155

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 155

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/155/mode/1up


حضرت مسیح کی لکھی گئی تو غالباً اس وقت بھی کوئی زلزلہ آرہا ہوگا۔

اب ہم ذیل میں وہ پیشگوئی لکھتے ہیں جو زلزلہ آنے کی نسبت انجیل متی میں لکھی گئی ہے جس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب کیا گیاہے اور وہ یہ ہے ۔ قوم قوم پر اور بادشاہت بادشاؔ ہت پر چڑھ آوے گی اور کال اور مری پڑے گی اور جگہ جگہ بھونچال آویں گے ۔ دیکھو انجیل متی باب ۲۴۔ یہی پیشگوئی ہے جس کی نسبت میں نے ازالہ اوہام میں وہ عبارت لکھی ہے جو معترض نے اخبار مذکور کے صفحہ پا۵نچ کالم اوّل سطرچھبیس۲۶ میں درج کی ہے اور وہ یہ ہے۔ کیا یہ بھی کچھ پیشگوئیاں ہیں کہ زلزلے آئیں گے مری پڑے گی لڑائیاں ہوں گی قحط پڑیں گے۔ معترض صاحب میری اس عبارت کو لکھ کر اس سے یہ بات نکالتے ہیں کہ گویامیں نے یہ اقرار کیاہے کہ زلزلہ کی نسبت پیشگوئی کرنا کوئی قابل وقعت چیز نہیں اور ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اس عبارت سے میرا یہ مدّعا نہیں ہے جو معترض نے سمجھا ہے بلکہ یہ غرض ہے کہ معمولی طور پر ایک بات کو پیش کرنا جس میں کوئی اعجوبہ نہیں اور جس میں کوئی فوق العادت امرنہیں پیشگوئی کے مفہوم میں داخل نہیں ہوسکتا۔ مثلاً اگر کوئی پیشگوئی کرے کہ برسات کے دنوں میں کچھ نہ کچھ بارشیں ہوں گی تو یہ پیشگوئی نہیں کہلا سکتی کیونکہ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ برسات کے مہینوں میں کچھ نہ کچھ بارشیں ہو جایا کرتی ہیں۔ ہاں اگر کوئی یہ پیشگوئی کرے کہ اب کی دفعہ برسات کے دنوں میں اس قدر بارشیں ہوں گی کہ زمین میں سے چشمے جاری ہوجائیں گے اور کوئیں پُر ہوکر نہروں کی طرح بہنے لگیں گے اور گذشتہ سو برس میں ایسی بارش کی کوئی نظیر نہیں ہوگی تو اس کانام ضرور ایک امر خارق عادت اور پیشگوئی رکھا جائے گا سو اسی اصول کے لحاظ سے میں نے انجیل متی باب۲۴ کی پیشگوئی پر اعتراض کیا تھا کہ صرف اتنا کہہ دینا کہ زلزلے آئیں گے خاص کر اس ملک میں جس میں ہمیشہ زلزلے آیاکرتے ہیں بلکہ سخت زلزلے بھی آتے ہیں یہ کوئی ایسی خبر نہیں ہے جس کانام پیشگوئی رکھا جائے یا اس کو ایک امر خارق عادت ٹھہرایا جائے۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ کیااُن ہرسہ اشتہارات میں بھی جو میں نے زلزلہ کی نسبت پیشگوئی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 156

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 156

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/156/mode/1up


کے طور پر ملک میں شائع کئے ایسی ہی معمولی خبر پائی جاتی ہے جس میں کوئی امر خارق عادت نہیں۔ اگر درحقیقت ایسا ہی ہے تو پھر زلزلہ کی نسبت میری پیشگوئی بھی ایک معمولی بات ہوگی۔ زلزلہ کی نسبت میرے اشتہارات کے الفاظ یہ ہیں۔ یکم مئی ۱۹۰۴ ؁ء میں مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وحی ہوئی تھی جس کو میں نے اخبار الحکم اور البدرؔ میں شائع کرادیا تھا۔ عفت الدّیار محلّھا ومقامھا۔ یعنی اس ملک کاایک حصہ مٹ جائے گا۔ اس کی وہ عمارتیں جو عارضی سکونت کی جگہ ہیں اور وہ عمارتیں جو مستقل سکونت کی جگہ ہیں دونوں نابود ہوجائیں گی ان کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ اور الدیارپر جو الف لام ہے وہ دلالت کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں اس ملک میں سے وہ خاص خاص جگہ ہیں جن پر یہ تباہی آئے گی اور وہ خاص حصہ ملک کے مکانات ہیں جو زمین سے برابر ہو جائیں گے۔ یہ کس قدر فوق العادت پیشگوئی ہے اور کس شدومد سے اس میں آئندہ واقعہ کاذکر ہے جس کی سولہ ۱۶۰۰سو برس تک بھی اس ملک میں نظیر نہیں پائی جاتی۔ چنانچہ انگریزی اخباروں کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ بڑے بڑے طبقات الارض کے محقق اس ملک کی نسبت یہ فوق العادت واقعہ قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ یورپ کے بڑے بڑے محققوں کی شہادت سے شائع ہوچکا ہے کہ سولہ سو برس تک بھی پنجاب میں اس زلزلہ کی نظیر نہیں پائی جاتی اور تمام اخباریں اس مضمون سے بھری پڑی ہیں کہ یہ زلزلہ نمونہ قیامت تھا۔ پس جبکہ اُس وحی الٰہی میں جو میرے پر ہوئی یہ فوق العادت مضمون ہے کہ اس حادثہ سے عمارتیں نابود ہوجائیں گی اور ایک حصہ اِس ملک کا تباہ ہو جائے گا تو پھر نہایت افسوس ہے کہ ایسی عظیم الشان پیشگوئی کو جو ایک ملک کے تباہ ہونے کی خبر دیتی ہے انجیل کی ایک معمولی خبر کے برابر ٹھہرایا جائے جوزلزلے آئیں گے اور وہ بھی اُس ملک میں جو زلزلوں کا گھر ہے کیا کسی پیشگوئی کے اِس سے زیادہ الفاظ ڈرانے والے ہوسکتے ہیں۔ ہر ایک منصف مزاج خود سوچ لے کہ کیا اس ملک پنجاب کے لئے زلزلہ کی پیشگوئی کے الفاظ اس سے زیادہ فوق العادت ہوسکتے ہیں جو وحی ربّانی عفت الدّیار محلّھا و مقامھا میں پائے جاتے ہیں۔ جس کے یہ معنے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 157

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 157

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/157/mode/1up


ہیں کہ ایک حصہ ملک کا ایسا تباہ ہو جائے گا کہ اس کی عمارتیں سب نابود ہو جائیں گی نہ سرائیں باقی رہیں گی نہ مستقل سکونت کی جگہ۔ اس جگہ ادنیٰ عربی دان بھی الدیار کے الف لام کو ذہن میں رکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ الدیار سے ایک حصہ اس ملک کا مراد ہے اور عفت کے لفظ سے یہی مطلب ہے کہ اس حصہ ملک کے سب مکانات گر جائیں گے نابود ہو جائیں گے نا پدید ہو جائیں گے۔*

پسؔ کوئی مجھ کو سمجھا وے کہ اس ملک کے لئے ایساواقعہ پہلے اس سے کب پیش آیا تھا ورنہ ایمانداری سے بعید ہے کہ انسان بے حیا ہوکر جھوٹ بولے اور اس خدا کا خوف نہ کرے جس کا ہاتھ ہر ایک وقت سزا دینے پر قادر ہے ۔ اور پھر اشتہار الوصیت میں جو ۲۷؍ فروری ۱۹۰۵ ؁ء میں زلزلہ سے پہلے شائع کیا گیا تھا یہ عبارت درج ہے۔ اِس وقت جو آدھی رات کے بعد چا۴ر بج چکے ہیں بطور کشف میں نے دیکھا ہے کہ دردناک موتوں سے عجیب طور پر شورِ قیامت برپا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی الہام ہوا کہ موتا موتی لگ رہی ہے اب سوچو کہ کیا ایک آئندہ واقعہ کی ان الفاظ سے پیشگوئی کرنا کہ وہ نمونہ قیامت ہوگا۔ اور شورِ قیامت اس سے برپا ہوگا وہ پیشگوئی اس پیشگوئی سے مساوی ہوسکتی ہے جومعمولی الفاظ میں کہا جائے جو زلزلے آویں گے۔ خاص کر شام جیسے ملک میں جو اکثر زلزلوں اور طاعون کی جگہ ہے اگر خدا تعالیٰ کا خوف ہو تو خدائے تعالیٰ کی پیشگوئی کے انکار میں اس قدر دلیری کیونکر ہو۔ یہ میرے پر حملہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر حملہ ہے جس کاوہ کلام ہے اور یہ کہنا کہ عَفَتِ الدِّیار محلّھا و مقامھایہ لبید بن ربیعہکے ایک بیت کا پہلا مصرعہ ہے

اگر کسی کو ان معنوں میں شک ہو تو اسے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ کسی مخالف عربی دان کو قسم دے کر پوچھ لے کہ کیا اس الہام عَفَتِ الدّیار میں عمارتوں کا گرنا۔ نابود ہو جانا اور ایسے مکانات کا گِرنا جو عارضی آمد و رفت کے لئے مقرر ہوتے ہیں جیسا کہ دھرم سالہ اور کانگڑہ کے پہاڑ کی لاٹاں والی کا مندر یا دائمی بودوباش کے مکانات کا گِرنا ثابت نہیں ہوتا؟ ظاہر ہے کہ ایسے کھلے طور پر ثابت ہوتا ہے جس سے آگے توضیح کی ضرورت نہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 158

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 158

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/158/mode/1up


یہ بھی خدا تعالیٰ پر گستاخانہ حملہ ہے وہ ہر ایک شخص کے قول کاوارث ہے لبید ہویاکوئی اور ہو۔ اُسی کی توفیق سے شعر بھی بنتا ہے۔ پس اگر اس نے ایک شخص کے کلام کو لے کر بطور وحی القا کردیا تو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اور اگر یہ اعتراض ہوسکتا ہے تو پھر اس بات کا کیاجواب ہے کہ قرآن شریف میں جو یہ آیت ہے فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین۔یہ بھی دراصل ایک انسان کا کلام تھا۔ یعنی عبد اللہ بن ابی سرح کا جو ابتداء میں قرآن شریف کی بعض آیات کا کاتب بھی تھا پھر مرتد ہوگیا وہی کلام اس کا بغیر کمی بیشی کے فرقان مجید میں نازل ہوگیا اور یہ وحی الٰہی کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا اس کے حروف قرآن شریف کی آیت موصوفہ کے حروف سے بھی زیادہ نہیں ہیں ۔ یعنی3 ۱؂سے بلکہ اس کے اکیس۲۱ حرف ہیں مگر آیت قرآنی کے بائیس۲۲ حرف ۔ پھر معترض کا اس وحی الٰہی پر یہ کہاوت سنانا کہ ’’ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا۔ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘*اُس کو ذرا سوچنا چاہیےے کہ اُس نے درحقیقت قرآن شریف پر حملہؔ کرکے اپنی عاقبت درست کرلی ہے۔ اور قرآن شریف میں صرف یہی وحی نہیں جو اس بات کانمونہ ہو جو وہ پہلے انسانی کلام تھا اور پھر اُس سے خدا تعالیٰ کی وحی کا توارد ہوا بلکہ بہت سے ایسے نمونے پیش ہوسکتے ہیں جہاں انسانی کلام سے خدا تعالیٰ کے کلام کا توارد ہوا جیسا کہ قرآن شریف کوبہت جگہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام سے توارد ہوا ہے جس سے علماء بے خبر نہیں ہیں۔ اور جن کی ایک بڑی فہرست پیش ہوسکتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معترض دراصل قرآن شریف سے منکر ہے ورنہ ایسا گستاخی او ر بے ادبی کا کلمہ ہرگز اس کے منہ پرنہ آتا۔ کیا کوئی مومن ایسا اعتراض کسی پر کرسکتا ہے؟ کہ وہ اعتراض بعینہٖ قرآن شریف پر آتا ہو۔ نعوذ باللہ ہرگز نہیں۔

اگرچہ گناہ ہزاروں قسم کے ہوتے ہیں مگر نہایت درجہ کا *** وہ شخص ہے جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام پر اعتراض کرے۔ جاہل جلدی سے اور گستاخی سے اور خوش ہو کر خدا تعالیٰ کے کلام پر اعتراض کرتا ہے اور اس قدوس سے لڑتا ہے مگر وہ مر جاتا تو اس سے بہتر تھا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 159

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 159

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/159/mode/1up


پھر معترض کا پیشگوئی عفت الدیار پر ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ عفت کا لفظ جو ماضی کا صیغہ ہے اس کا ترجمہ مضارع کے معنوں میں کیا گیا ہے حالانکہ اس کا ترجمہ ماضی کے معنوں میں کرنا چاہئے تھا۔ اس اعتراض کے ساتھ معترض نے بہت شوخی دکھلائی ہے۔ گویا مخالفانہ حملہ میں اس کو بھاری کامیابی ہوئی ہے۔ اب ہم اس کی کس کس دھوکا دہی کو ظاہر کریں جس شخص نے کافیہ یا ہدایت النحو بھی پڑھی ہوگی۔ وہ خوب جانتا ہے کہ ماضی مضارع کے معنوں پر بھی آجاتی ہے بلکہ ایسے مقامات میں جبکہ آنے والا واقعہ متکلم کی نگاہ میں یقینی الوقوع ہو* مضارع کو ماضی کے صیغہ پر لاتے ہیں تااس امر کا یقینی الوقوع ہونا ظاہر ہو۔ اور قرآن شریف میں اس کی بہت نظیریں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔33 ۱؂ اور جیساکہ فرماتا ہے 333۲؂۔ 3اورجیساکہ فرماتاہے33333اورجیساکہ فرماتاہے۵؂ اور جیسا کہ فرماتا ہے۶؂

اور جیسا کہ فرماتا ہے 3۷؂ اور جیسا کہ فرماتا ہے۔۸؂اب معترض صاحب

مثلاً جس شخص کو بہت سی زہر قاتل دی گئی ہو وہ کہتا ہے کہ میں تو مر گیا۔ اور ظاہر ہے کہ مر گیا ماضی کا صیغہ ہے مضارع کا صیغہ نہیں ہے۔ اس سے مطلب اس کا یہ ہوتا ہے کہ میں مر جاؤں گا۔ اور مثلاً ایک وکیل جس کو ایک قوی اور کھلی کھلی نظیر فیصلہ چیف کورٹ کی اپنے مؤکل کے حق میں مل گئی ہے وہ خوش ہو کر کہتا ہے کہ بس اب ہم نے فتح پا لی حالانکہ مقدمہ ابھی زیر تجویز ہے کوئی فیصلہ نہیں لکھا گیا۔ پس مطلب اس کا یہ ہوتا ہے کہ ہم یقیناًفتح پا لیں گے اسی لئے وہ مضارع کی جگہ ماضی کا صیغہ استعمال کرتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 160

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 160

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/160/mode/1up


فرما دیں کہ کیا یہ قرآنی آیات ماضی کے صیغے ہیں یا مضارع کے اور اگر ماضی کے صیغے ہیں تو ان کے معنے اس جگہ مضارع کے ہیں یا ماضی کے۔ جھوٹ بولنے کی سزا تو اس قدر کافی ہے کہ آپ کاحملہ صرف میرے پر حملہ نہیں بلکہ یہ تو قرآن شریف پر بھی حملہ ہوگیا گویا وہ صرف ونحو جو آپ کو معلوم ہے خدا کو معلوم نہیں۔ اسی وجہ سے خدا نے جابجا غلطیاں کھائیں اور مضارع کی جگہ ماضی کو لکھ دیا۔

پھر اس کے ساتھ آپ کا ایک اور اعتراض بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس پیشگوئی یعنی عفت الدیار محلھا ومقامھا میں زلزلہ کا لفظ کہاں ہے۔ افسوس اس معترض کو یہ معلوم نہیں کہ مقصود بالذات تو پیشگوئی کا اسی قدر مفہوم ہے جو الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے غرض تو صرف اتنی ہے کہ ایک حصہ ملک پر بڑی تباہی آئے گی ۔ اس جگہ دانا خود سمجھ سکتا ہے کہ مکانات کا تباہ ہونا بذریعہ زلزلہ ہی ہوا کرتا ہے ۔ ہاں ممکن ہے کہ یہ عظیم الشان ملک کی تباہی اور شہروں اور مکانات کا نابود ہوجانا کسی اور ذریعہ سے ظہور میں آوے مگر تب بھی بہرحال یہ پیشگوئی سچی ثابت ہوگی۔ اورچونکہ سنّت اللہ کے موافق اس تباہی کو زلزلہ پر دلالتِ التزامی ہے اس لئے اس کاذکرکرنا ضروری نہ تھا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ بعض کم فہم جن کی فطرت نادانی اور تعصب کی معجون ہے ایسااعتراض بھی کریں گے اس لئے اُس نے زلزلہ کا لفظ بھی بتصریح لکھ دیا۔ دیکھو پرچہ الحکم مورخہ۲۴؍دسمبر۱۹۰۳ء اور اگرچہ یہ پیشگوئی زلزلہ کی پیشگوئی سے الگ کرکے جو اس سے پہلے شائع ہوچکی ہے صرف اس قدر بتاتی ہے کہ اس ملک کے بعض حصے تباہ ہو جائیں گے اور سخت تباہی آئے گی اور عمارات نابود ہو جائیں گی اور بستیاں کالعدم ہو جائیں گی۔ اور یہ نہیں بتلاؔ تی کہ کس خاص ذریعہ سے یہ تباہیاں وقوع میںآئیں گی۔ لیکن جو شخص سوچے گا کہ شہر اور بستیاں کس ذریعہ سے زمین میں دھنسا کرتی ہیں اوریک دفعہ عمارتیں کیونکر گر جاتی ہیں اور اس پیشگوئی کے ساتھ اس پیشگوئی کو بھی پڑھے گا جو اسی پرچہ میں پانچ۵ ماہ پہلے شائع ہوچکی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 161

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 161

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/161/mode/1up


جس کے یہ لفظ ہیں کہ زلزلہ کا دھکا وہ ایسا اعتراض کرنے سے حیا کرے گا کہ پیشگوئی میں زلزلہ کا ذکر نہیں۔ ہاں ہم یہ اب بھی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں استعارات بھی ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 3 ۱؂لہٰذا ممکن تھا کہ زلزلہ سے مراد اور کوئی عظیم الشان آفت ہوتی جو پورے طورپر زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی۔ مگر ظاہر عبارت بہ نسبت تاویل کے زیادہ حق رکھتی ہے پس دراصل اس پیشگوئی کا حلقہ وسیع تھا لیکن خدا تعالیٰ نے دشمنوں کامنہ کالا کرنے کے لئے ظاہر الفاظ کی رو سے بھی اس کو پورا کردیا۔ اور ممکن ہے کہ بعد اس کے بعض حصے اس پیشگوئی کے کسی اور رنگ میں بھی ظاہر ہوں لیکن بہرحال وہ امر خارقِ عادت ہوگا جس کی نسبت یہ پیشگوئی ہے چنانچہ یہی زلزلہ جس نے اس قدر پنجاب میں نقصان پہنچایا اس کی نسبت تحقیقات کی رو سے سول ملٹری گزٹ وغیرہ اخبارات میں شائع ہوچکا ہے اور یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ سولہ سو برس تک اس ملک پنجاب میں ایسا کوئی زلزلہ نہیں آیا۔ پس یہ پیشگوئی بلا شبہ اوّل درجہ کی خارق عادت امر کی خبر دیتی ہے۔ اور ممکن ہے کہ اس کے بعد بھی کچھ ایسے حوادث مختلف اسبابِ طبعیہ سے ظاہر ہوں جو ایسی تباہیوں کے موجب ہو جائیں جو خارقِ عادت ہوں پس اگر اس پیشگوئی کے کسی حصہ میں زلزلہ کا ذکر بھی نہ ہوتا تب بھی یہ عظیم الشان نشان تھا کیونکہ مقصود تو اس پیشگوئی میں ایک خارقِ عادت تباہی مکانوں اور جگہوں کی ہے جو بے مثل ہے زلزلہ سے ہو یا کسی اور وجہ سے پس جب کہ یہ شہادت مل چکی کہ سولہ سو برس تک اس تباہی کی ملک پنجاب میں نظیر نہیں پائی جاتی تو یہ پیشگوئی ایک معمولی امر نہ رہا جو صرف انسانی اٹکل سے ہوسکتا ہے پھر جبکہ اسؔ پیشگوئی کے

اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ جو شخص اس جہان میں اندھا ہے وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا یعنی جس کو خدا کا دیدار اِس جگہ نہیں اُس جگہ بھی نہیں۔ اس آیت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ جو بیچارے جسمانی طور پر اس جہان میں اندھے ہیں وہ دوسرے جہان میں بھی اندھے ہی ہوں گے۔ پس یہ استعارہ ہے کہ جاہل کا نام اندھا رکھا گیا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 162

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 162

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/162/mode/1up


پہلے حصہ میں جو ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء ؁ میں اُسی اخبار الحکم میں درج ہوئی ہے صاف اور صریح لفظوں میں زلزلہ کا ذکر بھی شائع ہوچکا ہے تو ایسے معترض کی عقل پر ہنسیں یاروویں جو کہتا ہے جو زلزلہ کی کوئی پیشگوئی نہیں کی۔

اب یاد رہے کہ وحی الٰہی یعنی عفت الدیار محلھا ومقامھایہ وہ کلام ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے خدا تعالیٰ نے لبید بن ربیعۃ العامریکے دل میں ڈالا تھا جو اُس کے اس قصیدہ کااوّل مصرع ہے جو سبعہ مُعلّقہ کا چوتھا قصیدہ ہے اور لبید نے زمانہ اسلام کا پایا تھا اور مشرف باسلام ہوگیا تھا اور صحابہ رضی اللّٰہ عنھم میں داخل تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کے کلام کو یہ عزّت دی کہ جو آخری زمانہ کی نسبت ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ ایسی ایسی تباہیاں ہوں گی جن سے ایک ملک تباہ ہوگا وہ اُسی کے مصرع کے الفاظ میں بطور وحی فرمائی گئی جو اس کے منہ سے نکلی تھی۔ پس یہ تعجب سخت نادانی ہے کہ ایک کلام جو مسلمان کے منہ سے نکلا ہے وہ کیوں وحی الٰہی میں داخل ہوا۔ کیونکہ جیسا کہ ہم ابھی بیان کرچکے ہیں وہ کلام جو عبدا للہ بن ابی سرح کے منہ سے نکلا تھا یعنی3۱؂ وہی قرآن شریف میں نازل ہوا جس کی وجہ سے عبد اللہ بن ابی سرح مرتد ہوکر مکہ کی طرف بھاگ گیا*۔ پس جب کہ خدا تعالیٰ کے کلام کا ایک مرتد کے کلام سے توارد ہوا تو اس سے کیوں تعجب کرناچاہیے کہ لبید جیسے صحابی بزرگوار کے کلام سے اس کے کلام کا توارد ہوجائے ۔ خدا تعالیٰ جیسے ہرایک چیز کا وارث ہے ہر ایک پاک کلام کا بھی وارث ہے اور ہر ایک پاک کلام اُسی کی توفیق سے مُنہ سے نکلتا ہے۔پس اگر ایسا کلام بطور وحی نازل ہو جائے تو اس بارے میں وہی شخص شک کرے گا جس کو اسلام میں شک ہو۔ اور لبید کے فضائل میں سے ایک یہ بھی تھا جو اس نے نہ صرف



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 163

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 163

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/163/mode/1up


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا بلکہ زمانہ ترقیات اسلام کا خوب دیکھا اور ۴۱ ہجری میں ایک سو ستاو۱۵۷ن برس کی عمر پاکر فوت ہوا۔ اِسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کلام سے بھی کئی مرتبہ قرآن شریف کا توارد ہوا جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ قال قال عمروَاؔ فَقْت رَبِّیْ فِیْ اَرْبَعٍ یعنی چارباتیں جو میرے منہ سے نکلیں وہی خدا تعالیٰ نے فرمائیں اور اگر ہم اس امت مرحومہ کے اولیاء کرام کا ذکر کریں کہ کس قدر دوسروں کے کلام بطور الہام اُن کے دلوں پر القا ہوئے اور بعض کو مثنوی رومی کے اشعار بطور الہام منجانب اللہ دل پر ڈالے گئے تو یہ بیان ایک علیحدہ رسالہ کو چاہتا ہے۔اور میں جانتا ہوں کہ جس شخص کو ایک ذرا واقفیت بھی اس کوچہ سے ہوگی وہ کبھی اس بات کو مُنہ پر نہیں لائے گا کہ خدا کے کلام کو انسان کے کلام سے توارد نہیں ہوسکتا بلکہ ہر ایک شخص جو کسی قدر علم شریعت سے حصہ رکھتا ہے وہ ایسے کلمہ کو موجبِ کفر سمجھے گا کیونکہ اس عقیدہ سے قرآن شریف سے انکار کرنا لازم آتا ہے۔ اس جگہ ایک اشکال بھی ہے اور ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ اس اشکال کو بھی حل کردیں۔ وہ یہ ہے کہ اگر یہ جائزہے کہ کسی انسان کے کلام سے خدا کے کلام کا توارد ہو تو ایسا ہونا قرآن شریف کے معجزہ ہونے میں قدح پیدا کرتا ہے لیکن جیسا کہ صاحب تفسیر کبیر اور دوسرے مفسروں نے لکھا ہے کوئی جائے اشکال نہیں کیونکہ اس قدر قلیل کلام پر اعجاز کی بنا نہیں ورنہ قرآن شریف کے کلمات بھی وہی ہیں جو اور عربوں کے منہ سے نکلتے تھے اعجازی صورت کے پیداہونے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کا کلام کم سے کم اس سورۃ کے برابر ہو جو سب سے چھوٹی سورۃ قرآن شریف میں ہے یا کم سے کم دس آیتیں ہوں کیونکہ اسی قدر کو قرآن شریف نے معجزہ ٹھہرایا ہے۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ اگر کسی شخص کا کلام خدا کے کلام میں بطور وحی کے داخل ہوجائے تو وہ بہرحال اعجاز کا رنگ پکڑ سکتا ہے۔ مثلاً یہی وحی الٰہی یعنی عَفَتِ الدّیار محلّھا و مقامھا جب لبید ر ضی اللہ عنہ کے مُنہ سے شعر کے طور پر نکلی تو یہ معجزہ نہ تھی۔ لیکن جب وحی کے طور پر ظاہر ہوئی تو اب معجزہ ہوگئی ۔کیونکہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 164

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 164

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/164/mode/1up


لبید ایک واقعہ گذشتہ کے حالات پیش کرتا ہے جن کا بیان کرنا انسانی قدرت کے اندر داخل ہے لیکن اب خدا تعالیٰ لبید کے کلام سے اپنی وحی کا توارد کرکے ایک واقعہ عظیمہ آئندہ کی خبر دیتا ہے جو انسانی طاقتوں سے باہرہے پس وہی کلام جب لبید کی طرف منسوب کیا جائے تو معجزہ نہیں ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے تو بلاشبہ معجزؔ ہ ہے ۔ آج سے ایک سال پہلے اس بات کو کون جانتا تھا کہ ایک حصہ اس ملک کا زلزلہ شدیدہ کے سبب سے تباہ اورویران ہو جائے گا یہ کس کو خبر تھی کہ اس قدر شہر اور دیہات یک دفعہ زمین میں دھنس کر تمام عمارتیں نابود ہو جائیں گی اور اُس زمین کی ایسی صورت ہو جائے گی کہ گویا اس میں کبھی کوئی عمارت نہ تھی پس اسی بات کا نام تو معجزہ ہے کہ کوئی ایسی بات ظہور میں آوے جو پہلے اس سے کسی کے خیال و گمان میں نہ تھی اور امکانی طور پر بھی اس کی طرف کسی کاخیال نہ تھا۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اس ملک کے رہنے والوں نے اس زلزلہ شدیدہ کو بڑے تعجب کی نظر سے دیکھا ہے اور اس کو ایک غیر معمولی اور انہونی بات اور نمونہ قیامت قرار دیا ہے اور کیا یہ سچ نہیں ہے کہ محققان یورپ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ اس ملک کی تاریخ پر سولہ سو بر۱۶۰۰س تک نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ پہلے اس سے ایساخوفناک اور تباہی ڈالنے والا زلزلہ اس ملک میں کبھی نہیں آیا۔ پس جس وحی نے ایک زمانہ دراز پہلے ایسے غیر معمولی واقعہ کی خبر دی کیاوہ خبر معجزہ نہیں ہے؟ کیا وہ انسانی طاقتوں کے اندر داخل ہے*۔ جس ملک کے لوگوں نے بلکہ ان کے باپ دادوں نے

معترض صاحب نے جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں پیسہ اخبار میں یہ اعتراض شائع کیا ہے کہ پیشگوئی عفت الدیار محلھا و مقامھا میں زلزلہ کا کہاں ذکر ہے حالانکہ زلزلہ کا ذکر اس پیشگوئی سے پا۵نچ ماہ پہلے اُسی اخبار میں شائع ہو چکا ہے۔ اور یہ پیشگوئی اسی زلزلہ کی صفات کا بیان ہے۔ ہمارے مخالفین کی یہ دیانت اور امانت اور یہ عقل اور یہ فہم ہے۔ کیا ان لوگوں میں کوئی بھی ایسا انسان نہیں کہ خلوت میں اس شخص کو ملامت کرے اور اس کو گو شمالی کرے کہ ایسا دھوکا پبلک کو کیوں دیا حالانکہ اس کو خوب معلوم تھا کہ پرچہ الحکم ۲۴؍دسمبر۱۹۰۳ ؁ء میں زلزلہ کی پیشگوئی صاف لفظوں میں موجود ہے جس کے ہیبت ناک نتائج الہام عفت الدیار میں ذکر کئے گئے ہیں اور یہ دونوں پیشگوئیاں ان کے ظہور سے ایک سال پہلے شائع کی گئی ہیں بلکہ زلزلہ کی پیشگوئی صریح اور صاف لفظوں میں مواہب الرحمن صفحہ ۸۶ میں بھی موجود ہے جس کو شائع کئے اڑھائی برس ہو چکے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 165

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 165

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/165/mode/1up


بھی قریباً دو ہزا*ر بر س تک ایک واقعہ کو نہ دیکھا ہو نہ سنا ہو اور نہ انؔ کے خیال و گمان میں ہو کہ ایسا واقعہ ہونے والا ہے یاامکان میں ہے پھر اگر کوئی پیشگوئی ایسے واقعہ کی خبر دے اور وہ واقعہ بعینہٖ ظہور میں آجائے تو وہ خبر نہ صرف معجزہ کہلائے گی بلکہ اوّل درجہ کا معجزہ ہوگا۔

پھر ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ معترض صاحب نے ایک عظیم الشان پیشگوئی کی عظمت دُور کرنے کے لئے اور اس کو تمام لوگوں کی نظر میں خفیف ٹھہرانے کیلئے انجیل کی اُس بے معنی پیشگوئی سے اس کو مشابہت دی ہے جس میں محض معمولی الفاظ میں لکھا ہے کہ زلزلے آویں گے۔ لیکن جو شخص ذرا آنکھ کھول کر میرے اشتہارات کی عبارت کو پڑھے گا اس کو افسوس سے کہنا پڑے گا کہ ناحق معترض نے روز روشن پر پردہ ڈالنا چاہا ہے اور ایک بھاری خیانت سے کام لیا ہے۔ اُس نے میرے اشتہارات کو پڑھ لیا ہے اور اس کو خوب علم تھا کہ میری پیشگوئی کے الفاظ جو زلزلہ کی نسبت بیان کئے گئے ہیں وہ انجیل کے الفاظ کی طرح سُست اور معمولی نہیں ہیں تاہم اس نے دانستہ ہٹ دھرمی کو اختیار کرلیا۔ کس کو معلوم نہیں کہ عربی الہام یعنی عفت الدیارمحلھاومقامھاایک ایسی چونکا دینے والی خبر پیشگوئی کے طور پر بیان کرتاہے جس سے بدنوں پر لرزہ پڑ جائے کیا یہ ایک معمولی بات ہے کہ شہر اور دیہات زمین میں دھنس جائیں گے اور اُردو میں تصریح کی گئی ہے کہ وہ زلزلہ کا دھکا ہوگا۔ دیکھو اخبار الحکم صفحہ ۱۵ کالم ۲ مورخہ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۳ء اور پھر ۱۹۰۱ء میں جو رسالہ آمین شائع کیا گیا تھا اس میں لکھا گیا ہے کہ وہ ایسا حادثہ ہوگا کہ اس سے قیامت یاد آجائے گی اور ضالحکم ۲۴ ؍مارچ ۱۹۰۴ ؁ء

اخبار سول ملٹری گزٹ میں یہ امر تحقیقات شدہ شائع کیا گیا ہے کہ ہندوؤں کا مندر جو کانگڑہ میں زلزلہ سے نابود ہو گیا ہے دو ہزار برس سے یہ مندر چلا آتا تھا۔ پس اگر ایسا زلزلہ پہلے اس سے آیا ہوتا تو یہ عمارتیں پہلے سے ہی نابود ہو جاتیں۔منہ

ایسا ہی میری کتاب ’’مواہب الرحمن‘‘ مطبوعہ ۱۹۰۲ ء میں ایک سخت زلزلہ کی خبر ہے جس سے عمارتیں گریں گی اور اس میں نہ صرف عمارتوں کے گرنے کا ذکر ہے بلکہ صاف لفظوں میں زلزلہ کا ذکر ہے۔ دیکھو مواہب الرحمن صفحہ ۸۶۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 166

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 166

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/166/mode/1up


میں شائع کیا گیا ہے کہ مکذّبوں کو ایک نشان دکھایا جائے گا۔ اور پھر اشتہار الانذاز میں لکھا ہے کہ آنے والا زلزلہ قیامت خیز زلزلہ ہوگا۔ پھر النداء میں لکھا ہے کہ آنے والے زلزلہ سے زمین زیروزبر ہو جائے گی۔ پھر اسی میں لکھا ہے کہ یہ عظیم الشان حادثہ محشر کے حادثہ کو یاد دلائے گا۔ اور پھر اسی میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تیرے لئے زمین پر اُتروں گا تا اپنے نشان دکھلاؤں ہم تیرے لئے زلزلہ کا نشان دکھلائیں گے۔ اور وہ عمارتیں جنؔ کو غافل انسان بناتے ہیں یا آئندہ بنائیں گے گرادیں گے اور میں وہ نشان ظاہر کروں گاجس سے زمین کانپ اٹھے گی تب وہ روز دنیا کے لئے ایک ماتم کا دن ہوگا پھر اس اشتہار میں جس کی سرخی ہے ’’زلزلہ کی خبر بارسوم‘‘۔ آنیوالے زلزلہ کی نسبت یہ عبارت لکھی ہے کہ درحقیقت یہ سچ ہے اور بالکل سچ ہے کہ وہ زلزلہ اس ملک پر آنے والا ہے جو پہلے کسی آنکھ نے نہیں دیکھا۔ اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل میں گذرا۔ اب ایماناً کہو کہ انجیل میں زلزلہ کے بارے میں اس قسم کی عبارتیں کہاں ہیں اور اگر ہیں تو وہ پیش کرنی چاہئیں ورنہ خدا تعالیٰ سے خوف کرکے اس حق پوشی سے باز آناچاہئے۔

قولہ۔ترجمہ میں زلزلہ کا لفظ بھی داخل کردیا تاکہ جاہل لوگ یہ سمجھیں کہ الہام میں زلزلہ کا لفظ بھی موجود ہے۔

اقول۔ اے اندھے صاحب پیشگوئی کے مجموعی الفاظ یہ ہیں۔’’ زلزلہ کا دھکّا عفت الدیار محلھا و مقامھا ‘‘۔ دیکھو اخبارالحکم ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء ان دونوں کے معنے یہ ہوئے کہ ایک زلزلہ کا دھکّا لگے گا اور اس دھکّا سے ایک حصہ اس ملک کا تباہ ہو جائے گا۔ اور عمارتیں گر جائیں گی اور نابود ہو جائیں گی۔ اب بتلاؤ کہ کیا ہم نے جاہلوں کو دھوکا دیا ہے*۔

جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں میری کتاب مواہب الرحمن میں بھی جو ۱۹۰۲ء میں چھپ کر شائع ہو گئی تھی صریح لفظوں میں یہ پیشگوئی ہے اور زلزلہ کا نام لے کر ذکر موجود ہے۔ پھر اس حالت میں جاہل تو وہ لوگ ہیں کہ جو اتنی تصریح اور توضیح کے بعد بھی سمجھتے ہیں کہ زلزلہ کا کہاں ذکر ہے ان کو چاہیے کہ آنکھیں کھول کر اخبار الحکم ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء کو پڑھیں اور رسالہ آمین



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 167

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 167

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/167/mode/1up


یا آپ جاہلوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اور کیا ہم نے جھوٹ بولا ہے یا آپ جھوٹ بولتے ہیں؟ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ اخبار الحکم موجود ہے۔ اس کے دونوں پرچوں کو دیکھ لو اور یہ اخبار زلزلہ موعودہ سے ایک سال پہلے ملک میں شائع ہوچکی ہے۔ گورنمنٹ میں بھی پہنچ چکی ہے اب بتلاؤ کس تعصب نے آپ کو اس جھوٹ پر آمادہ کیا جو آپ دعویٰ کر بیٹھے جو زلزلہ کا ذکر پیشگوئی میں موجود ہی نہیں ہے۔

قولہ۔ یہ الہام ۳۱؍ مئی ۱۹۰۲ء ؁ کے الحکم کے۱؂ صفحہ کالم ۴ پر موجود ہے اور اس کے سامنے صاف طور پر جلی قلم سے لکھا ہوا ہے۔ متعلق طاعون۔

اقول۔ اس میں کیا شک ہے کہ یہ زلزلہ بھی طاعون کا ایک ضمیمہ ہے اور اس سے متعلق ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار فرما دیا ہے کہ زلزلہ اور طاعون دونوں تیری تائید کے لئے ہیںؔ پس زلزلہ درحقیقت طاعون سے ایک تعلق رکھتا ہے کیونکہ طاعون بھی میرے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان ہے اور ایسا ہی زلزلہ بھی۔ پس اسی وجہ سے دونوں کو باہم تعلق ہے اور دونوں ایک ہی امر کے مؤیّد ہیں۔ اور اگر یہ وہم دل میں پیدا ہو کہ اس فقرہ سے مراد درحقیقت طاعون ہی ہے تو یہ وہم درحقیقت فاسد ہے کیونکہ جو چیز کسی چیز سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ درحقیقت اس کاعین نہیں ہوسکتی ماسوا اس کے قرینہ قویہ اس جگہ موجود ہے کہ اس فقرہ سے مراد درحقیقت طاعون نہیں ہے یعنی جب کہ پہلے اس سے یہ الہام موجودہے کہ زلزلہ کا دھکّاتو پھر ذرہ انصاف اور عقل کو دخل دے کر خود سوچ لینا چاہیئے کہ عمارتوں کا گرنا اور بستیوں کا معدوم ہونا کیا یہ طاعون کی صفات میں سے ہوسکتا ہے بلکہ یہ تو زلزلہ کی صفات میں سے ہے اس قدر مُنہ زوری ایک پرہیز گار انسان میں نہیں ہوسکتی کہ جو معنے ایک عبارت کے الفاظ سے پیدا ہوسکتے ہیں

کوپڑھیں جو ۱۹۰۱ ء میں شائع ہوا تھا اور پھر مواہب الرحمن کے صفحہ ۸۶ کو پڑھیں جو ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی تھی اور پھر اپنی ایمانی حالت پر روویں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 168

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 168

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/168/mode/1up


اور جو اس کے سیاق اور سباق سے مترشح ہو رہے ہیں اور جو معنے واقعہ کے ظہور سے کھل گئے ہیں اور انسانی کانشنس نے قبول کرلیا ہے کہ جوکچھ ظاہر ہوا ہے وہ وہی ہے جو عفت الدیار کے الہام سے نکلتا ہے پھر اس کے انکار پر اصرار کرے اگر فرض بھی کرلیں کہ خود ملہم نے اپنے اجتہاد کی غلطی سے اس حادثہ کو جو عفت الدیار کے الہام سے ظاہر ہوتاہے طاعون ہی سمجھ لیا تھا تو اس کی یہ غلطی کہ قبل از وقوع ہے مخالف کے لئے کوئی حجت نہیں۔ دنیا میں کوئی ایسا نبی یا رسول نہیں گذرا جس نے اپنی کسی پیشگوئی میں اجتہا دی غلطی نہ کی ہو تو کیا وہ پیشگوئی آپ کے نزدیک خدا تعالیٰ کا ایک نشان نہ ہو گا اگر یہی کفر دل میں ہے تو دبی زبان سے کیوں کہتے ہو پورے طور پر اسلام پر کیوں حملہ نہیں کرتے کیا کسی ایک نبی کا نام بھی لے سکتے ہو جس نے کبھی اجتہادی طور پر اپنی کسی پیشگوئی کے معنے کرنے میں غلطی نہیں کھائی ۔ تو پھر بتلاؤ کہ اگر فرض بھی کرلیں کہ لفظ متعلق کے معنے بعینہٖ طاعون ہے تو کیا یہ حملہ تمام انبیاء پر نہیں۔ عفت الدیارکے الہامی فقرہ پر نظر ڈال کر صاف ظاہر ہے کہ اس فقرہ سے مرا ؔ د یہ ہے کہ وہ ایسا حادثہ ہوگا کہ ایک حصہ ملک کی عمارتیں اس سے گر جائیں گی۔ اور نابود ہو جائیں گی۔ اور ظاہرہے کہ طاعون کا عمارتوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا۔ پس اگر ایڈیٹر اخبار الحکم نے ایسا لکھ بھی دیا کہ یہ فقرہ طاعون سے متعلق ہے اور تعلّق سے وہ معنے سمجھے جائیں جو معترض نے کئے ہیں تو غایت مافی الباب یہ کہا جائے گا کہ ایڈیٹر الحکم نے ایسا لکھنے میں غلطی کی۔ اور ایسی غلطی خود انبیاء علیھم السلام سے پیشگوئیوں کے سمجھنے میں بعض دفعہ ہوتی رہی ہے۔ جیسا کہ ذھب وھلی کی حدیث بخاری میں موجود ہے اور اس کے لفظ یہ ہیں۔ قال ابو موسٰی عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم رئیت فی المنام انّی اھاجرمن مکۃ الٰی ارض بھا نخل فذھب وھلی الٰی انھا الیمامۃ اوھجر فاذا ھی المد ینۃ یثرب (بخاری جلد ثانی باب ہجرۃالنّبی صلّی اللّٰہ علیہ و سلم

واصحابہ الی المدینہ*) یعنی ابو موسیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 169

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 169

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/169/mode/1up


آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے مکّہ سے ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کی ہے جس میں کھجوروں کے درخت ہیں۔ پس میرا خیال اِس طرف گیا کہ وہ زمین یمامہ یا زمین ہجر ہے مگر وہ مدنیہ نکلا یعنی یثرب۔ اب دیکھو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی رؤیا وحی ہے اور جن کا اجتہاد سب اجتہادوں سے اسلم اور اقویٰ اور اصح ہے اپنی رؤیا کی یہ تعبیر کی تھی کہ یمامہ یا ہجر کی طرف ہجرت ہوگی ۔ مگر وہ تعبیر صحیح نہ نکلی۔ پس کیا یہ پیشگوئی آپ کے نزدیک پیشگوئی نہیں ہے؟ اور کیا آپ طیار ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایک حملہ کردیں ۔ پس جب کہ اجتہادی غلطی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہیں تو پھر آ پ کا یہ کیا ایمان ہے کہ تعصب کے جوش میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی بھی کچھ پروا نہیں کرتے اور خدا تعالیٰ سے کچھ شرم نہیں ۔ اور پھر سچے منصف بن کر اور خدا ترسی کا دھیان رکھ کر عفت الدیار کے الفاظ کی طرف دیکھنا چاہیئے کہ اس کے الفاظ طاعون پر صادق آتے ہیں یا زلزلہ پر۔ کیا یہ ایمانداری ہے کہ جب کہ واقعہ موعودہ کے ظہور نے عفت الدیار کے معنوں کو خود کھول دیا پھر بھی اس سے مراد طاعون ہی سمجھیں۔ اس پیشگوئی کے الفاظ صاف طور پر پکار رہے ہیں کہ ؔ وہ ایک حادثہ ہے جس سے عمارتیں گر جائیں گی اور ایک حصہ ملک کی بستیوں کا نابود ہو جائے گا۔ اگر آپ عربی نہیں جانتے تو کسی عربی دان سے پوچھ لیں کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا کے کیامعنے ہیں اور اگر کسی پر اعتبار نہ ہو تو اس مصرع کے معنے جو شارح نے لکھے ہیں وہ دیکھ لیں اوروہ معنے یہ ہیں اِنْدَرَسَتْ دِیَارُ الْاَحْبَابِ وَانْمَحٰی مَاکَانَ مِنْھَا لِلْحَوْلِ وَمَا کَانَ لِلْاِئقَامَۃِ (دیکھومعلّقہ چہارم شرح مصرع اوّل) یعنی دوستوں کی بستیاں اور اُن کے گھر نابود ہوگئے اور وہ عمارتیں نابود ہوگئیں جو چند روزہ اقامت کے لئے تھیں جیسے سرائے یا قوموں کی زیارت گاہیں۔ اور وہ عمارتیں بھی نابود ہوگئیں جو مستقل سکونت کی تھیں۔ اب بتلاؤ یہ معنے طاعون پر کیونکر صادق آسکتے ہیں اور طاعون کو عمارتوں کے گرنے سے کیا تعلق ہے۔ ان معنوں میں اورخدا تعالیٰ کی وحی کے معنوں میں صرف ماضی اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 170

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 170

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/170/mode/1up


مضارع کا فرق ہے یعنی لبید نے اس جگہ ماضی کے معنے ملحوظ رکھے اور خدا تعالیٰ کے کلام میں اس جگہ استقبال کے معنے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ایک حصہ ملک کی عمارتیں اور بستیاں نابود ہو جائیں گی۔ نہ عارضی سکونتیں باقی رہیں گی نہ مستقل سکونتیں۔ اب بتلاؤ کہ کیا یہ معنے طاعون پر صادق آسکتے ہیں؟ اب ہٹ دھرمی کرنا کیا فائدہ۔ ناحق کی ضد دوہی قسم کے آدمی کیا کرتے ہیں یا سخت احمق یا سخت بے ایمان اور متعصّب ۔ پھر اگر آپ وہی اعتراض پیش کریں جس کا پہلے بھی جواب دیا گیا ہے یعنی یہ کہ یہ ماضی کا صیغہ ہے اور لبید رضی اللہ عنہ نے ماضی کے معنوں پر استعمال کیا ہے تو اس کا جواب پہلے بھی گذر چکا ہے کہ اب یہ کلام لبید کا نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے ۔ خدا تعالیٰ نے جابجا قرآن شریف میں عظیم الشان پیشگوئیوں کو ماضی کے لفظ سے بیان کیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے333 ۱؂* اب ذرہ کچھ انصاف کو کام میں لاکر جواب دو کہ اس پیشگوئی کے الفاظ ماضی کے صیغہ میں ہیں یا مضارع کے صیغہ میں ۔عقل مند کے لئے تو یہ ایک سخت ندامت کاموقعہ ہے بلکہ ایسی غلطی مرنے کی جگہ ہوجاتی ہے جب کہ ایک شخص باوجود دعوے علم ایکؔ بدیہی امر کا انکار کرے۔ مگرمیں سمجھ نہیں سکتا کہ ان جوابات کے پرکھنے کے بعد آپ کی کیاحالت ہوگی۔ انسان کو ایسا طریق اختیار کرنے سے کیا فائدہ جس سے ایک طرف حق کو ترک کرکے خدا تعالیٰ کو ناراض کرے اور دوسری طرف ناحق پر ضد کرکے شرمندگی اور رُسوائی اُٹھاوے اور خدا تعالیٰ کی کلام میں جو اکثر پیشگوئیوں کو ماضی کے صیغہ میں بیان کیا گیا ہے اس کی اصل فلاسفی یہ ہے کہ ہر ایک واقعہ جو زمین پر ہونے والا ہے وہ پہلے ہی آسمان پر ہوچکتا ہے۔ پس آسمان کے لحاظ سے گویا وہ واقعہ

بائبل میں بھی بہت جگہ آئندہ واقعات کو ماضی کے صیغہ میں بیان کیا گیا ہے جیسا کہ یہ فقرہ بابل گِر پڑا،گِر پڑا۔ دیکھو یسعیاہ باب ۲۱ آیت۵*۔ اور جیسا کہ یہ فقرہ۔ ہائے نبو پر کہ وہ ویران ہو گیا۔ قریتیم رُسوا ہوا۔ دیکھو یرمیاہ باب ۴۸۔ آیت ۱۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 171

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 171

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/171/mode/1up


زمانہ ماضی سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی بناء پر یہ امر ہے کہ عام لوگوں کو بھی جو صدہا سچی خوابیں آتی ہیں تو ان خوابوں میں بھی آئندہ ہونے والی بات کو ماضی کے طور پر بتلایا جاتا ہے ۔ مثلاً کسی کے گھر میں جو لڑکا پیدا ہوتا ہے تو دکھلایا جاتا ہے کہ لڑکا پیدا ہوگیا یا لڑکی پیدا ہوگئی یا ایسی چیز اس کو مل گئی جس کی تعبیر لڑکا ہے۔ اور پیشگوئیوں کو ماضی کے لفظ پر لانا اور پھر مضارع کے معنوں پر استعمال کرنا نہ صرف قرآن شریف میں ہے بلکہ پہلی کتابوں میں بھی یہ محاورہ شائع متعارف ہے اور ایک بچہ بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اور حدیثوں میں بھی بکثرت یہ محاورہ موجود ہے۔ عن انس رضی اللّٰہ عنہ قال، قال النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلم خربت خیبر۔ انا اذا نزلنا بساحۃ قوم فساء صباح المنذرین۔ خیبر پر فتح پانے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خیبر خراب ہوگیااور ہم جب کسی قوم کے صحن میں اُتریں پس اس قوم کی نا مبارک صبح ہے جو ڈرائی گئی ۔ پس آپ نے اس جگہ ماضی کا صیغہ استعمال کیا۔ اور مقصود یہ تھا کہ آئندہ خراب ہوگا۔

غرض یہ ایک پیشگوئی تھی جو ماضی کے صیغہ میں کی گئی تھی اور دراصل مضارع کے معنے رکھتی تھی یعنی استقبال کے ۔ پس اسی طرح یہ بھی ایک پیشگوئی ہے یعنی عفت الدیار محلھا ومقامھا جو ماضی کے صیغہ میں ہے اور معنی استقبال کے رکھتی ہے اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں الدیارسے مراد ایک حصہ ملک کا ہے جیسا کہ الف لام اس پر دلالت کرتا ہے اسی وجہ سے لبید رضی اللہ عنہ نے بھی الدیار سے مراد عام طور پر دیار مراد نہیں لی بلکہ دیارِ احباب مرادلی ہے اور اس جگہ یعنی خدا کی کلام میں جو عفت الدیار محلھا و مقامھا ہے محل سے مراد ہندوؤں کی قدیم زیارت گاہیں ہیں یعنی ؔ وہ مندرہیں جو قدیم زمانہ سے دھرم سالہ اور کانگڑہ میں موجود تھے جن کی بنیاد کا زمانہ کم سے کم سولہ سو برس ثابت ہے اور مقام سے مراد وہ عمارتیں ہیں جو دائمی سکونت کے لئے اس نواح میں بنائی گئی تھیں اور خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی میں یہ خبر دی تھی کہ وہ مندر یعنی بُت خانے بھی گر جائیں گے جن کا گرنا اشاعت توحید



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 172

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 172

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/172/mode/1up


کے لئے بطور ارہاص کے ہے۔ اور دوسری عمارتیں بھی گر جائیں گی۔ چنانچہ ایساہی وقوع میں آیا پس جب کہ ظاہر الفاظ کے رو سے پیشگوئی ظہور میں آگئی تو اب اس سے انکار کرنا جھک مارنا ہے ظاہر الفاظ حق رکھتے ہیں کہ معنی کرنے میں اُن کی رعایت ہو اور صَرف عن الظاہر اس وقت سراسر حماقت ہے جب کہ ظاہری صورت میں پیشگوئی کے الفاظ پورے ہو جائیں۔ اگر یہ فقرہ انسان کا افترا ہوتا یعنی یہ فقرہ کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا اور اس سے مرادطاعون ہوتی تو ایسا مفتری کبھی یہ فقرہ استعمال نہ کر سکتا کیونکہ اس کو عقل منع کرتی کہ طاعون کی نسبت وہ لفظ استعمال کرے جو طاعون پر صادق نہیں آسکتے کیونکہ طاعون سے عمارتیں نہیں گرتیں اور اگر اجتہاد کے طور پر قبل از وقت صحیح معنے نہ کئے گئے تو اس کانام اجتہادی غلطی ہے اور بعد از وقت جب حقیقت کھل گئی تب صحیح معنوں کو نہ ماننا اس کانام شرارت اور بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہے۔

قولہ۔ ہم تو آپ سے وہ الہام پوچھتے ہیں جس میں آپ نے یہ خبر دی ہو کہ زلزلہ آئے گا لیکن ایسا الہام آپ قیامت تک پیش نہیں کرسکتے۔

اقول۔ میں کہتا ہوں کہ جس قیامت کو آپ دُور سمجھتے تھے وہ قیامت تو آپ پر آگئی۔دیکھو اخبار الحکم صفحہ ۱۵ کالم نمبر ۲ مورخہ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۳ء ؁ جس میں تصریح کردی گئی ہے کہ زلزلہ کا دھکّاآئے گا اور پھر پا۵نچ ماہ بعد ۳۱ مئی ۱۹۰۴ء میں اس دھکا کی عظمت اور قوت اس وحی الٰہی میں بیان فرمائی گئی ہے یعنی یہ کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا جس کے یہ معنے ہیں کہ وہ ایسا دھکّا ہوگا جس سے اس ملک پنجاب کی ایک حصہ کی بستیاں تباہ ہو جائیں گی۔ اور عمارتوں کا نام و نشان نہیں رہے گا۔ خواہ وہ عارضی سکونتیں تھیں جیسا کہ دھرم سالہ اورکانگڑہ میں ہندوؤں کے پوجا کے مندر تھے اورخواہ مستقل سکونتیں تھیں جیسا کہ دھرم سالہ اور کانگڑہ وغیرہ کی مستقل سکونتوں کی جگہ تھیں۔ اب آپ فرمایئے کہ وہ قیامت جس کو آپ بہت دُور سمجھتے تھے اورکہتے تھے کہ ایسا الہام تم قیامت تک پیش



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 173

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 173

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/173/mode/1up


نہیں کرسکتے وہ قیامت آپ پر آگئی یا نہیں؟ ہر یک سمجھ سکتا ہے کہ اُس قیامت نےؔ ضرور آپ کو پکڑ لیا۔ کیونکہ جس زلزلہ کی پیشگوئی سے آپ منکر ہیں اس کا صریح طورپر ذکر ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء ؁ کے اخبار الحکم کے صفحہ ۱۵ کالم نمبر ۲ میں موجود ہے ۔ ذرا آنکھیں کھولو اور پڑھ لو اور کسی چپنی میں پانی ڈال کر ڈوب مرو۔ پس یہی زلزلہ مذکورہ بالا ہے جس کی صفات ظاہرکرنے کے لئے وحی الٰہی عفت الدیارپہلی وحی کے بعد نازل ہوئی۔ تو کیا اب تک آپ پر قیامت نہ آئی؟ اگر کہو کہ قیامت کو تو لوگ مر جائیں گے اور میں اب تک زندہ موجود ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت آپ ذلّت کی موت سے مرچکے ہیں اور یہ جسمانی زندگی روحانی موت کے بعد کچھ چیز نہیں۔ کیا وہ شخص بھی زندہ کہلا سکتا ہے جس نے بڑے زور و شور سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ پیشگوئی میں ہرگز زلزلہ کا ذکر نہیں اور بڑے گھمنڈ سے اس بات پر اصرار کیا تھا کہ قیامت تک تم ایسی پیشگوئی پیش نہیں کرسکتے جس میں زلزلہ کاذکر ہو اور پھر اس کو دکھلایا گیا کہ وہ پیشگوئی موجود ہے جس میں صریح الفاظ میں زلزلہ کا ذکر ہے جو عفت الدیارکے الہام سے بھی پانچ۵ ماہ پہلے الحکم میں شائع ہوچکی ہے اور الہام عفت الدیار محلھا و مقامھا اُسی زلزلہ مذکورہ کی عظمت بیان کرتا ہے کہ وہ ایسا ہوگا اس لئے اس میں دوبارہ زلزلہ کا لفظ لانے کی ضرورت نہ تھی۔

اب بتلاؤکہ ایسی زندگی بھی کیا خاک زندگی ہے کہ ایک بات کا قیامت تک نہ ہونے کا دعویٰ کیا اور وہ بغل میں سے ہی نکل آئی ؂


بمردی کہ تا زیستن مرد را

بہ از زندگانی بترکِ حیا

جہنم کزو داد فرقان خبر

بسوزد درو کاذبِ بدگہر

جو شخص اندھا اور مردہ نہ ہو سمجھ سکتا ہے کہ جس قدر اس پیشگوئی کے لئے صفائی اور قوتِ بیان چاہیئے وہ سب اوّل درجہ پر اس پیشگوئی میں موجود ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اور اس سے انکار ایک ایسی ہٹ دھرمی ہے جس سے صریح سمجھا جاتاہے کہ ایسے شخص کو خدا پر ایمان



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 174

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 174

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/174/mode/1up


ہی نہیں۔ اور یہ کچھ نیا طریق نہیں۔ پہلے زمانوں میں بھی وہ لوگ جن کو حق کو قبول کرناکسی طرح منظور نہ تھا یہی طریق اختیار کرتے آئے ہیں۔

شاید آپ تعصّب کے جوش سے یہ بھی اعتراض کردیں کہ خداتعالیٰ نے زلزلہ کے آنے کی پانچ ماہ پہلے خبردی جو الحکم ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۳ء ؁ کو شائع ہوئی اور پھر زلزلہ کی شدت کی نشانیاں اور اس کا ہولناؔ ک نتیجہ پانچ ماہ بعدبذریعہ اپنی وحی کے بیان کیا۔ یکجا کیوں بیان نہ کیا۔ لیکن اگر آپ ایسااعتراض کریں تو یہ اعتراض بھی نیا نہیں ہوگا بلکہ یہ وہی اعتراض ہے جو آج سے تیرہ سو برس پہلے ابوجہل ملعون اور ابو لہب ملعون نے قرآن شریف پر کرکے کہا تھا۔33۔ ۱؂ سو ایسا اعتراض تَشابَہَتِ الْقُلُوب میں داخل ہوگا جس سے ایک مسلمان کو پرہیز کرناچاہیئے۔

قولہ۔ آپ نے اس الہام میں یہ بھی نہیں بتایا کہ زلزلہ سے مراد کیاہے۔

اقول۔ ظاہر وحی الٰہی میں زلزلہ کا لفظ ہے مگر ایسا زلزلہ جو نمونہ قیامت ہوگا بلکہ قیامت کا

زلزلہ ہوگا اور یہ کہ اس سے ہزارہا مکان گر یں گے کئی بستیاں نابود ہو جائیں گی اور اس کی نظیر پہلے زمانہ میں نہیں پائی جائے گی۔ اور ناگہانی طور پرہزارہا آدمی مر جائیں گے اور ایسا واقعہ ہوگا جو پہلے کسی آنکھ نے دیکھا نہیں ہوگا۔ پس اس صورت میں مکانوں کا گرنا اور ہزاروں لوگوں کا یک دفعہ مرجانااور ایک خارق عادت امر ظاہر ہونا اصل مقصود پیشگوئی ہے۔ اور اگرچہ ظاہر الفاظ پیشگوئی سے زلزلہ سے مراد بلا شبہ زلزلہ ہی سمجھا جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ کے کلام کے ساتھ ادب اسی بات کو چاہتا ہے کہ ہم اصل مقصود کو جو ایک خارق عادت امر ہے اور معجزہ ہے مدِّنظر رکھیں اور زلزلہ کی کیفیت میں دخل نہ دیں کہ وہ کس طرح کا ہوگا اور کس رنگ کا ہوگا۔ گو ظاہر الفاظ یہی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ زلزلہ ہی ہوگا کیونکہ ممکن ہے کہ وہ کوئی اور آفت شدید ہو جس کی نظیر پہلے دنیا میں نہیں دیکھی گئی۔ اور زلزلہ کی کیفیت اور خاصیت اپنے اندر رکھتی ہو مثلاً



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 175

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 175

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/175/mode/1up


خسف کی صورت پر ہو اور کوئی زلزلہ محسوس نہ ہو اور زمین تہ و بالا ہو جائے یا کوئی اور خارقِ عادت آفت ظہور پذیر ہو جس کی طرف انسانی علم نے کبھی سبقت نہیں کی۔ پس بہرحال وہ معجزہ ہے۔ ہاں اگر وہ شدید آفت ظاہر نہ ہوئی جو دنیا میں ایک زلزلہ ڈال دے گی جو وحی الٰہی کے ظاہر الفاظ کی رو سے زلزلہ کے رنگ میں ہوگی یا کوئی معمولی امر ظہور میں آیا جس کو دنیا ہمیشہ دیکھتی ہے جو خارق عادت اور غیر معمولی نہیں اور جو سچ مچ قیامت کانمونہ نہیں اور یا وہ حادثہ میری زندگی میں ظاہر نہ ہوا۔ تو بیشک نقارہ بجاکر میری تکذیب کرو اور مجھے جھوٹا سمجھو۔ غرض تو اس حادثہ عظمیٰ سے یہ ہے جو نمونہ قیامت ہوگا اور دنیا کو ایک آن میں تباہ کرجائے گا۔ اور ہزاروں انسانوں کو ہماری جماعت میں داخل کرے گا۔

قوؔ لہ۔ آ پ نے موقع دیکھ کر براہین احمدیہ کی عبارتوں کو بھی زلزلہ پر چسپاں کیا۔ حالانکہ ان عبارتوں میں زلزلہ کا ذکر نہیں۔

اقول۔ یہ اسی طرح کا اعتراض ہے جو اس زمانہ میں متعصب پادری قرآن شریف کی اس پیشگوئی پر کرتے ہیں۔3۱؂ اور کہتے ہیں کہ موقع دیکھ کریہ پیشگوئی اپنی اٹکل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ بنائی اور رومی سلطنت کے غلبہ کی محض اس خیال سے پیشگوئی کی کہ رومی طاقت دراصل بڑھی ہوئی تھی جنگی سامان پورے تھے۔ فوج تجربہ کار بہادر تھی اور ایرانی سلطنت کی حالت اس کے برعکس تھی اس لئے موجودہ حالات کو دیکھ کر پیشگوئی کردی۔ پس مجھے تعجب ہے کہ پادریوں کی عادت اور خصلت کہاں سے آپ میں آگئی۔ ظالم طبع پادری قرآن شریف کی تمام پیشگوئیوں پر یہی اعتراض کرتے ہیں جو آپ نے کیا۔ توبہ کرو ایسا نہ ہو کہ اس مشابہت سے بڑھ کر کوئی اور ترقی کرلو اور اپنے اعتراض کو ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ میں یہ پیشگوئی ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنی چمکار دکھاؤ ں گا اپنی قدرت نمائی سے تجھ کو اٹھاؤں گا۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 176

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 176

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/176/mode/1up


ظاہر کردے گا۔ فلمّا تجلّٰی ربّہ للجبل جعلہ دکّا۔ قوۃ الرحمن لِعُبَیْدِ اللّٰہِ الصَّمد عربی الہام کا ترجمہ یہ ہے کہ جب خدا پہاڑ پر تجلی کرے گا تو اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ خدا ایسا کرے گا تا اپنے بندہ کی سچائی ظاہر کرے۔

اب سوچ کر دیکھو کہ میں نے اس میں اپنی طرف سے کیا بنایا۔ اس جگہ خدا تعالیٰ خود ایک چمکار دکھانے کا وعدہ کرتاہے۔ جیسا کہ کوہ طور پرموسیٰ کے لئے چمکار ظاہرہوئی اور ایک ایسی قدرت نمائی کا وعدہ کرتا ہے جو خارق عادت اور میری رفعت کاموجب ہوگی۔ اور پھر تیسری دفعہ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ خدا بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کردے گا۔ اور پھر آخر میں اس زور آور حملہ اور اپنی چمکار اوراپنی قدرت نمائی کی شرح کرتا ہے جس کا اوپر ذکر کیا ہے اور فرماتا ہے کہ خدا ایک خاص پہاڑ پر تجلی کرے گا اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کرؔ دے گا۔ اب اگر آپ کی آنکھ تعصب سے کچھ دیکھ نہیں سکتی تو کسی اور منصف مزاج سے پوچھ لو کہ اس الہامی عبارت میں کسی عظیم الشان نشان کاوعدہ دیا گیا ہے یا خاص ہماری بناوٹ ہے اور اگروعدہ ہے تو کیا پیشگوئی کے الفاظ سے یہی نکلتا ہے کہ نشان کے طور پر پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا یا کچھ اور نکلتا ہے ۔ رہا یہ اعتراض کہ اس وقت ہمارے ذہن کا اس طرف انتقال نہ ہوا کہ درحقیقت پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا یہ ایسی ہی صورت ہے جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذہن کا اس طرف انتقال نہ ہوا کہ جو ہجرت کی جگہ کشفی طور پر دکھائی گئی کہ وہ مدینہ ہے، یمامہ یاہجر نہیں ہے۔ اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ذہن کا اس طرف انتقال نہ ہوا کہ حدیبیہ والے سفر میں مکہ کے اندر نہیں جاسکیں گے اور نہ طواف خانہ کعبہ کرسکیں گے۔ پس اگر آپ کے ایسے ہی اعتراض ہیں جو اس زمانہ کے نابکار کفار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں پر کرتے ہیں تو مجھے تو یہ فکر پڑگئی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کسی دن آپ اسلام سے ہی ہاتھ دھوئیں۔

اب یاد رہے کہ خدا تعالیٰ نے پیشگوئی متذکرہ بالا میں جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 177

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 177

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/177/mode/1up


موجود ہے ایک صریح اشارہ کے ساتھ زلزلہ کا ذکر کردیا ہے کیونکہ آیت33۱؂

اس موقع کی آیت ہے جب کہ خدا تعالیٰ نے کوہِ طور پر ایک زلزلہ ڈال کر اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا جیسا کہ یہ بیان مفصل توریت میں موجود ہے پس اس صورت میں آپ کی اس حرکت کا نام تعصب رکھیں یا نادانی رکھیں؟ جو آپ کہتے ہیں کہ ان عبارتوں میں کہیں زلزلہ کا ذکر نہیں۔بندہ ء خدا اگر زلزلہ کا ذکر نہیں تو تمہیں اس بات سے بھی انکار کرنا چاہیئے کہ کوہِ طور بھی زلزلہ سے ٹکرے ٹکڑے ہوگیا تھا۔

قولہ۔عفت الدیارکے مصرع کے یہ معنے ہیں کہ زمانہ گذشتہ میں مکان برباد ہوگئے تھے۔

اقول۔ الحمد للہ! یہ تو آپ نے مان لیا کہ عفت الدیار محلھا و مقامھاکے یہی معنی ہیں کہ مکانات گر جانا اور برباد ہو جانا۔ باقی رہا یہ کہ آپ عفت کے لفظ کو ماضی کے معنوں تک محدود رکھتے ہیں۔ اس خیال کے ردمیں ہم قرآن شریف کے نظائر پیش کرچکے ہیں بلکہ اس کے لئے تو تمام عربؔ کے باشندے ہمارے گواہ ہیں۔ اب بتلاؤ کیا اب بھی یہ پیشگوئی خارق عادت ہے یا نہیں اگر یہ کہو کہ اس میں کوئی وقت نہیں بتلایا گیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جن پیشگوئیوں میں خدا تعالیٰ کو یہ منظور ہوتا ہے کہ ان کا وقت مخفی رکھا جائے اُن میں وہ ہرگز نہیں بتلاتا کہ فلاں وقت وہ پیشگوئی پوری ہوگی۔ پس جب کہ خدا تعالیٰ صاف لفظوں میں فرماتا ہے کہ زلزلہ کی پیشگوئی ایسے وقت میں ظاہر ہوگی جب کہ کسی کو خبر نہیں ہوگی اور ناگہانی طور پر وہ حادثہ ظہور میں آئے گا۔ تو پھر اس حادثہ کا وقت بتلانا اپنے ہی قول کی مخالفت ہے۔ دیکھو اشتہارالنداء صفحہ ۱۴۔اور اگر کہو کہ پھر تعیّن کے بغیر پیشگوئی میں خصوصیت کیا ہوئی۔ یوں تو کبھی کبھی دنیا پر کوئی حادثہ آجاتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تعیّن کافی ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ میری زندگی میں میری تصدیق کے لئے یہ حادثہ آئے گا اور اس وقت کے کروڑہا لوگ زندہ ہوں گے جو یہ حادثہ دیکھ لیں گے اور حادثہ ایسا ہوگا کہ اس ملک میں پہلے زمانوں میں اس کی نظیر نہیں ہوگی۔ پس یہ تعیین کافی ہے کہ وہ قیامت خیز زلزلہ میری



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 178

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 178

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/178/mode/1up


زندگی میں اور اکثر مخالفوں کی زندگی میں آئے گا۔ اور یاد رکھو کہ تمہاری طرح مخالفین مکہ نے بھی

مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُکہہ کر وقت کی تخصیص چاہی تھی۔اور ان کو وقت نہیں بتلایاگیا تھا۔

قولہ۔ جو اخبار اسلامی معاملات سے ہمدردی رکھتے ہیں ان کو چاہیئے کہ اس مضمون کو اپنے جرائد میں نقل کرکے لوگوں کو آگاہ کردیں کہ یہ اشتہار جھوٹے ہیں۔ مرزا نے کوئی پیشگوئی نہیں کی تھی۔

اقول۔ اب اس کا کیا جواب دیا جائے بجز اس کے کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ رہا یہ کہ اخبارات تکذیب کامضمون چھاپ دیں تو اس کی اُس قادر کو کچھ پروا نہیں جس نے مجھے بھیجا ہے ۔ دنیاکے کیڑے آسمانی ارادوں میں کون سا حرج ڈال سکتے ہیں۔ پہلے اس سے ابوجہل علیہ اللعنۃ نے عرب کی تمام قوموں کو اُکسایا تھا کہ یہ شخص (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) جھوٹا دعویٰ کرتا ہے اور جاہل لوگوں کو اپنے ساتھ جمع کر لیا تھا۔ پھر سوچو کہ اس کاانجام کیا ہوا۔ کیاخدا تعالیٰ کا ارادہ اُس کی شرارتوں سے رُک گیا تھا بلکہ اس بدقسمت کا خدا تعالیٰ نے بدر کی لڑائی میں فیصلہ کردؔ یا اور خدا تعالیٰ کے سچے نبی کادین تمام دنیا میں پھیل گیا۔ اِسی طرح میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی اخبار اس ارادہ کو جو آسمان پر کیا گیا ہے روک نہیں سکتا۔ خدا کا غضب انسان کے غضب سے بڑھ کر ہے۔ یہ میرے پر حملہ نہیں بلکہ اس خدا پر حملہ ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ۔ وہ چاہتا ہے کہ زمین کو گناہ سے صاف کرے اور پھر اُن دنوں کو دوبارہ لاوے جو صدق اورر استبازی اور توحید کے دن ہیں۔ مگر وہ دل جو دنیا سے پیار کرتے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ ایسے دن آویں۔ اے نادان کیا تو خدا سے مقابلہ کرے گا۔ کیا تیری طاقت میں ہے کہ تو اُس سے لڑائی کرسکے ۔ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا تو تیرے مقابلہ کی کیا حاجت تھی اس کے تباہ کرنے کے لئے خدا کافی تھا۔ مگر قریباًپچیس۲۵ برس سے یہ سلسلہ چلا آتا ہے اور ہرروز ترقی پر ہے۔ اور خدا نے اپنے پاک وعدوں کے موافق اس کو فوق العادت ترقی دی ہے اور ضرور ہے کہ قبل اس کے جو یہ دنیا ختم ہو جائے خدا کامل درجہ پر اس سلسلہ کو ترقی دے خدا نے میری تصدیق کے لئے ہزارہا نشان دکھائے جن کے لاکھوں انسان گواہ ہیں ۔ زمین



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 179

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 179

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/179/mode/1up


سے بھی نشان ظاہر ہوئے۔ اور آسمان سے بھی اور دوستوں میں بھی اور دشمنوں میں بھی اور کوئی مہینہ شاذ و نادر اس سے خالی جاتا ہوگاکہ کوئی نشان ظاہر نہ ہو۔ اور اب بھی فوق العادت نشان کا وعدہ ہے جس کانام قیامت خیز زلزلہ رکھا گیا ہے جو دنیا کو وہ ہاتھ دکھائے گا جس کو کبھی دنیا نے دیکھانہیں ہوگا۔ پس اگر خدا کاخوف ہے تو کیوں کچھ عرصہ تک صبر نہیں کیا جاتا۔ یہ زلزلہ محض اس لئے ہوگا کہ تا خدا صادق کے صدق کو ظاہر کرے اور انسانوں کو موقع دے کہ وہ راستی کو ایک چمکتے ہوئے نشان کے ساتھ دیکھ لیں اگرچہ اس کے بعد ایمان لانا کچھ بہت قابلِ عزت نہیں ہوگا۔ مگر تاہم قبول کرنے والے اس رحمت سے حصہ لیں گے جو ایمان داروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔

قولہ: کیااحمد بیگ کی لڑکی کا قصہ مرزائی الہامات کی رونق کو دُور نہیں کرتا؟

اقول۔ اے معترض صاحب ! کیا پہلے بیہودہ اعتراضات کی ندامت آپ کے لئے کچھ تھوڑی تھی کہ اس لغو اعتراض کی ندامت کا بھی آپ نے حصہ لے لیا۔ اب آپ کان کھول کر سنیئے کہ اس پیشگوؔ ئی کے دو حصہ تھے اور دونوں شرطی تھے۔ ایک حصہ شرطی طور پر احمد بیگ کی وفات کے متعلق تھا ۔ یعنی اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ اگر وہ خدا تعالیٰ کی قرارداد شرطوں کا پابند نہ ہو تو تین برس پورے ہونے سے پہلے ہی فوت ہو جائے گا۔ اور نہ صرف وہی بلکہ اس کے ساتھ اور کئی موتیں اس کے اقارب کی ہوں گی ۔ پس چونکہ وہ شوخی کی راہ سے کسی شرط کا پابند نہ ہوسکا اس لئے خدا نے اس کو میعاد پوری ہونے سے پہلے ہی اس جہان سے اُٹھا دیا اور کئی موتیں اور بھی ساتھ ہوئیں ۔ مگر دوسراحصہ پیشگوئی کا جو احمد بیگ کے داماد کی نسبت تھا اُس میں اس وجہ سے تاخیرڈال دی گئی کہ باقی ماندہ لوگوں نے شرط کے مضمون سے اپنے دلوں میں خوف پیدا کیا اور بہت ڈرے اور یہ بات ہرایک کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اگر دو شخص کی موت کی نسبت کوئی پیشگوئی ہو۔ اور ایک اُن میں سے میعاد کے اندر مر جائے تو طبعاً دوسرے کے دل میں خوف پیدا ہو جاتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 180

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 180

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/180/mode/1up


پس یہ تو ضروری امر تھا کہ احمد بیگ کے داماد کا گروہ احمد بیگ کی موت کو دیکھ کر اپنے دلوں میں بہت ڈرتا۔ سو خدا نے اپنے وعدہ کے موافق جب ان لوگوں کا خوف دیکھا تو داماد کی وفات کے متعلق جو پیشگوئی تھی اس میں تا خیر ڈال دی۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم اور پنڈت لیکھرام کی نسبت جو پیشگوئی وفات کی تھی اُس میں ظہور میں آیا۔ کیونکہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم نے وفات کی پیشگوئی سُن کر بہت خوف ظاہر کیا اس لئے اس کی موت میں تاخیر ڈال دی گئی۔ اور مقرر شدہ دنوں سے کچھ مہینے زیادہ زندہ رہا۔ لیکن لیکھرام نے پیشگوئی کو سن کر بہت شوخی ظاہر کی اور بدگوئی میں حد سے زیادہ بڑھ گیا اس لئے وہ اصلی میعاد سے بھی پہلے ہی اس جہان سے اٹھایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی پیشگوئیاں جو خدا کے رسول کرتے ہیں جن میں کسی کی موت یا اور بلا کی خبر ہوتی ہے وہ وعید کی پیشگوئیاں کہلاتی ہیں۔ اور سنت اللہ ہے کہ خواہ اُن میں کوئی شرط ہو یا نہ ہو وہ تو بہ استغفار سے ٹل سکتی ہیں یا اُن میں تاخیرڈال دی جاتی ہے جیسا کہ یونس نبی کی پیشگوئی میں وقوع میں آیا۔ اور یونس نبی نے جو اپنی قوم کے لئے چالیس۴۰ دن تک عذاب آنے کا وعد ہ کیا تھاوہ قطعی وعدہ تھا۔ اُس میں ایمان لانے یا ڈرنے کی کوئی شرط نہ تھی۔ مگر باوجود اس کے جب قوم نے تضرع اور زاری اختیار کیؔ تو خدا تعالیٰ نے اس عذاب کو ٹال دیا۔ تمام انبیاء علیہم السلام کے اتفاق سے یہ تسلیم شدہ عقیدہ ہے کہ ہر ایک بلا جو خدا تعالیٰ کسی بندہ پر نازل کرنا ارادہ کرتا ہے وہ بلا صدقہ اور خیرات اور توبہ او راستغفار اوردعا سے دفع ہوسکتی ہے پس اگر وہ بلا جس کانازل کرناارادہ کیا گیا ہے کسی نبی اور رسول اور مامورمن اللہ کو اُس سے اطلاع دی جائے تو وہ وعید کی پیشگوئی کہلاتی ہے۔ اورچونکہ وہ بلا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق توبہ و استغفار اور صدقہ خیرات اور دُعا و تضرّع سے دفع ہوسکتی ہے۔ یااس میں تاخیر پڑسکتی ہے۔ اور اگر وہ بلاجو پیشگوئی کے رنگ میں ظاہر کی گئی ہے صدقہ خیرات وغیرہ سے دُور نہ ہوسکے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 181

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 181

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/181/mode/1up


توخدا تعالیٰ کی تمام کتابیں اس سے باطل ٹھہر یں گی۔ اور تمام نظام دین کا اس سے درہم برہم ہو جائے گا۔معترض نے اسلام پر یہ سخت حملہ کیاہے اور نہ صرف اسلام پر بلکہ تمام نبیوں پر یہ حملہ ہے اور اگر عمدًایہ حملہ نہیں کیا تو اسلام اور شریعت سے سخت ناواقفیت اُس کی ثابت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں سے ایمانداروں کو متنبہ رہنا چاہیئے کہ میرے پر حملہ کرنے سے ان کا ارادہ صرف میرے پر حملہ نہیں ہے بلکہ دین اسلام کی اُن کو کچھ پروا نہیں اور اسلام کے وہ چھپے دشمن ہیں۔خدا تعالیٰ اپنے دین کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔

اس ناسمجھ کو یہ بھی توخبر نہیں کہ جیسے خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق میں یہ داخل رکھا ہے کہ وہ وعید کی پیشگوئی کو توبہ واستغفار اور دُعا اور صدقہ سے ٹال دیتا ہے اسی طرح انسان کو بھی اُس نے یہی اخلاق سکھائے ہیں جیسا کہ قرآن شریف اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نسبت جو منافقین نے محض خباثت سے خلاف واقعہ تہمت لگائی تھی اس تذکرہ میں بعض سادہ لوح صحابہ بھی شریک ہوگئے تھے۔ ایک صحابی ایسے تھے کہ وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر سے د ووقتہ روٹی کھاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کی اس خطا پر قسم کھائی تھی اور وعید کے طور پر عہد کر لیا تھا کہ میں اس بے جا حرکت کی سزا میں اس کو کبھی روٹی نہ دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی تھی33 3 ۱؂ تب حضرت ابوبکر نے اپنے اس عہد کو توڑ دیا اور بدستور روٹی لگادی ۔ اسی بناء پر اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے کہ اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائےؔ تو اُس کاتوڑنا حُسنِ اخلاق میں داخل ہے۔ مثلاً اگر کوئی اپنے خدمتگار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچا۵۰س جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرع پرمعاف کرنا سنت اسلام ہے تا تخلق باخلاق اللّٰہ ہو جائے مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں ترکِ وعدہ پر باز پُرس ہوگی مگر ترکِ وعید پر نہیں۔

قولہ: اور پیشگوئیوں کاحال اس سے بھی زیادہ ابتر ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 182

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 182

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/182/mode/1up


اقول۔ اے متعصب نادان! تجھے کب اتفاق ہوا ہے کہ تو میری پیشگوئیوں کو غور سے دیکھتا اور اُن سب پراطلاع پاتا۔ اور تجھے کب اتفاق ہوا کہ میری صحبت میں رہتا اور میرے نشانوں کو بچشم خود دیکھتا۔ میں تجھے کس سے مشابہت دوں۔ تو اُس اندھے سے مشابہ ہے جو سورج کے وجود سے انکار کرتاہے اور اپنی نابینائی کی طرف نہیں دیکھتا۔ ہرایک واقف حال سمجھ سکتا ہے کہ کیا میری پیشگوئیوں کاحال ابتر ہے یا تیرے ایمان کاہی حال ابتر ہے۔ عقلمندوں کے لئے تیرے اعتراضات کا یہی نمونہ کافی ہے کہ جو بات تمام انبیاء کے نزدیک مسلّم ہے اور تمام فرقہ ہائے اسلام کے نزدیک مسلّم ہے وہی بات تیرے نزدیک جائے اعتراض ہے۔ ہائے افسوس کیا یہی لوگ اسلام کے لیڈر بننا چاہتے ہیں جن کو خدا کی تعلیم اور اسلام کے عقیدہ کی بھی خبر نہیں اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا اِلَیْہ راجِعُوْن۔

اے ظالم معترض کیا اسی سرمایہ پر قلم اٹھایا تھا؟گو تعصب کا جوش تھا مگر اپنی جہالت کو دکھلانا کیا ضرور تھا۔ ہر ایک بات سراسر جھوٹ ہر ایک شبہ محض شیطانی وسوسہ۔اس علم اور واقفیت کے ساتھ تیرے دل میں کیوں گدگدی اُٹھی کہ خدا تعالیٰ کی پاک وحی پر اعتراض کرے اگر تم خاموش رہتے تو بہتر تھا۔ ناحق گناہ خریدا اور زبان کے ذریعہ سے اپنی پوشیدہ نادانی پر سب کو مطلع کردیا اور پبلک میں اپنی رُسوائی کرائی اور اپنی حالت پر شیخ سعدی علیہ الرحمۃ کی وہ مثل صادق کرلی جو بوستان میں ہے اور وہ یہ ہے :-

یکے نیک خلق و خَلَق پوش بود

کہ در مصر یک چند خاموش بود

جہانے برو بود از صدق جمع

چو پروانہ ہا وقتِ شب گرد شمع

شبےؔ در دِل خویش اندیشہ کرد

کہ پوشیدہ زیر زبان است مَرد

اگر ماند فطنت نہان در سرم

چہ دانند مردم کہ دانش وَرم

سخن گفت و دشمن بدانست و دوست

کہ درمصر ناداں تر از وے ہموست



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 183

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 183

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/183/mode/1up


حضورش پریشاں شدد کارزشت

سفر کرد و بر طاقِ مسجد نوشت

در آئینہ گر روئے خود دیدمے

بہ بیدانشی پردہ ندریدمے

اب میں محمد اکرام اللہ خان صاحب شاہجہان پوری کے ان اعتراضات کا جواب لکھ چکا جو روزانہ پیسہ اخبار مؤرخہ ۲۲ مئی ۱۹۰۵ء ؁ کے صفحہ ۵ میں چھپے ہیں۔ لیکن بعد اس کے میرے دوست مولوی عبد الکریم صاحب کے نام ایک صاحب نے جنہوں نے اپنا نام اپنے خط میں ظاہر نہیں کیا ایک خط بھیجا ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کاواسطہ ڈال کر چند اعتراضات کاجواب مانگا ہے جو انہیں پیشگوئیوں کے متعلق ہیں۔ اگرچہ ان اعتراضات کاجواب کافی طور پر اسی حصہ براہین میں آچکا ہے لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کاواسطہ دے کر معترض صاحب کی درخواست ہے اس لئے ہم تکرار کلام کی کچھ پروا نہ رکھ کر محض لِلّٰہ صاحب موصوف کے اعتراضات کا جواب برعایت اختصار ذیل میں دیتے ہیں۔

قولہ:عفت الدیارمحلّھا و مقامھا کا فقرہ جسے جناب مقدس مرزا صاحب اپنا الہام و وحی فرما رہے ہیں ایک پرانے شاعر کا مصرع ہے ۔کیا کسی نبی کو کبھی ایسی وحی ہوئی جس کے الفاظ حرفاً حرفاً وہی ہوں جو اس نبی سے پہلے کسی آدمی کی زبان سے نکل چکے ہوں۔ اگر آپ یہ ثابت کرسکیں تو دوسرا اعتراض یہ ہوگا کہ اس صورت میں خدا کے قول اور بندہ کے قول میں فرق کیا ہوگا۔

اقول۔ اس بارہ میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اورنبیوں کو تلاش کرنا کچھ ضروری نہیں خود ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض ایسے فقرے وحی الٰہی کے نازل ہو چکے ہیں جو پہلے وہ کسی آدمی کے منہ سے نکلے تھے۔ جیسا کہ یہ فقرہ وحی فرقانی یعنی3۔۱؂ یہ فقرہ پہلےؔ عبد اللہ بن ابی سرح کی زبان سے نکلا تھا۔ اور وہی فقرہ وحی قرآنی میں نازل ہوا۔دیکھو تفسیر کبیر الجزء السادس صفحہ ۲۷۶ مطبوعہ مصر۔ اصل عبارت یہ ہے۔ روی الکلبی عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 184

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 184

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/184/mode/1up


ان عبداللّٰہ بن سعد بن ابی سرح کان یکتب ھذہ الاٰیات لرسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فلما انتھی الٰی قولہ تعالٰی خلقًا اٰخرعجب من ذالک فقال فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین ۔ فقال رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم اُکتب فھٰکذا نزلت، فشکّ عبد اللّٰہ وقال ان کان محمد صادقًا فیما یقول فانہ یوحٰی اِلیَّ کما یوحٰی الیہ وان کان کاذبًا فلا خیر فی دینہ فھرب الٰی مکّۃ فقیل انہ مات علی الکفر وقیل انہ اسلم یوم الفتح۔ ترجمہ یہ ہے کہ کلبی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ عبد اللہ ابن ابی سرح قرآن شریف کی آیات لکھا کرتا تھا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے روبرو جیسی آیت نازل ہوتی تھی اُس سے لکھواتے تھے۔ پس جب وہ آیت لکھوائی گئی جو خلقاً اٰخر تک ختم ہوتی ہے تو عبد اللہ اس آیت سے تعجب میں پڑ گیا۔ اور عبد اللہ نے کہا فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی لکھ لے کیونکہ خدا نے بھی یہی فقرہ جو تیرے منہ سے نکلا ہے یعنی فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین نازل کردیا ہے۔ پس عبد اللہ شک میں پڑ گیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو میری زبان کا کلمہ ہے وہی خدا کا کلمہ ہوگیا۔ اور اُس نے کہا کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے میں صادق ہے تو مجھے بھی وہی وحی ہوتی ہے جو اُسے ہوتی ہے اور اگر کاذب ہے تو اس کے دین میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔ پھر وہ مکّہ کی طرف بھاگ گیا ۔ پس ایک روایت یہ ہے کہ وہ کفر پر مرگیا اور ایک یہ بھی روایت ہے کہ وہ فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوگیا۔

اب دیکھو عبد اللہ ابن ابی سرح کے کلام سے خدا تعالیٰ کے کلام کا توارد ہوا یعنی عبد اللہ کے مُنہ سے بھی یہ فقرہ نکلا تھا فتبارک اللّٰہ احسن الخالقیناور خدا تعالیٰ کی وحی میں بھی یہی آیا۔ اور اگر کہو کہ پھر خدا تعالیٰ کے کلام اور انسان کے کلام میں مابہ الامتیاز کیا ہوا؟ تو اوّل تو ہم اس کا یہی جواب دیتے ہیں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے آپ قرآن شریف میں فرمایا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 185

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 185

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/185/mode/1up


مابہ الامتیاز قائم کرنے کے لئے ؔ ضروری ہے کہ وہ کلام جو غیر کا کلام کہلاتا ہے قرآنی سورتوں میں سے کسی سورت کے برابر ہو۔ کیونکہ اعجاز کیلئے اسی قدر معتبر سمجھا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ 3۱؂ یہ نہیں فرمایا کہ فَاْتُوْا بِآ یَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ یا فَاْتُوْا بِکَلِمَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۔اور درحقیقت یہ سچ ہے کہ خدا کے کلمات علیحدہ علیحدہ تو وہی کلمات ہیں جو کفار کی زبان پر بھی جاری تھے۔ پھر رنگینی عبارت اور نظم کلام اور دیگر لوازم کے لحاظ سے وہی کلمات بحیثیت مجموعی ایک معجزہ کے رنگ میں ہوگئے اور جو معجزہ خدا تعالیٰ کے افعال میں پایا جاتا ہے اس کی بھی یہی شان ہے یعنی وہ بھی اپنی حیثیت مجموعی سے معجزہ بنتا ہے جیسا کہ کلام اپنی حیثیت مجموعی سے معجزہ بنتا ہے۔ ہاں خدا تعالیٰ کے منہ سے جو چھوٹے چھوٹے فقرے نکلتے ہیں وہ اپنے مطالب عالیہ کے لحاظ سے جو اُن کے اندر ہوتے ہیں انسانی فقرات سے امتیاز کلّی رکھتے ہیں۔ یہ امر دیگر ہے کہ انسان ان کے پوشیدہ حقائق معارف تک نہ پہنچے مگر ضرور ان کے اندر انوارِ مخفیہ ہوتے ہیں جو ان کلمات کی رُوح ہوتے ہیں۔ جیسا کہ یہی کلمہ 3۲ ؂ اپنی گذشتہ آیات کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ایک امتیازی رنگ اپنے اندر رکھتا ہے۔ یعنی اس قسم کی روحانی فلاسفی اس کے اندر بھری ہوئی ہے کہ وہ بجائے خود ایک معجزہ ہے جس کی نظیر انسانی کلام میں نہیں ملتی۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کے ابتدا میں جو سورۃ المؤمنون ہے جس میں یہ آیت 3 ہے اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ کیونکر انسان مراتب سِتّہ کو طے کرکے جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں اپنے کمال روحانی اور جسمانی کو پہنچتا ہے ۔ سو خدا نے دونوں قسم کی ترقیات کو چھ۶ چھ۶ مرتبہ پر تقسیم کیاہے اورمرتبہ ششم کو کمال ترقی کا مرتبہ قرار دیا ہے اور یہ مطابقت روحانی اور جسمانی وجود کی ترقیات کی ایسے خارقِ عادت طور پر دکھلائی ہے کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے کبھی کسی انسان کے ذہن نے اس نکتہ معرفت کی طرف سبقت نہیں کی۔ اور اگرکوئی دعوے کرے کہ سبقت کی ہے تو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 186

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 186

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/186/mode/1up


یہ بار ثبوت اُس کی گردن پر ہوگا کہ یہ پاک فلاسفی کسی انسان کی کتاب میں سے دکھلاوے اور یہ یاد رہے کہ وہ ایسا ہرگز ثابت نہیں کرسکے گا۔ پس بدیہی طور پر یہ معجزہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے وہ عمیقؔ مناسبت جو روحانی اور جسمانی وجود کی اُن ترقیات میں ہے جو وجود کامل کے مرتبہ تک پیش آتی ہیں ان آیات مبارکہ میں ظاہر کردی ہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ یہ ظاہری اور باطنی صنعت ایک ہی ہاتھ سے ظہور پذیر ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کاہاتھ ہے۔

بعض نادانوں نے یہ بھی اعتراض کیا تھا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے نطفہ کی حالت سے لے کر اخیر تک جسمانی وجود کا قرآن شریف میں نقشہ کھینچا ہے یہ نقشہ اس زمانہ کی جدید تحقیقات طبی کی رُو سے صحیح نہیں ہے۔ لیکن اُن کی حماقت ہے کہ ان آیات کے معنی انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ گویا خدا تعالیٰ رحم کے اندر انسانی وجود کو اس طرح بناتا ہے کہ پہلے بکلّی ایک عضو سے فراغت کرلیتا ہے پھر دوسرا بناتا ہے ۔ یہ آیات الٰہیہ کا منشا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے بچشم خود ملاحظہ کر لیا ہے اور مُضغہ سے لے کر ہرایک حالت کے بچے کو دیکھ لیا ہے۔ خالق حقیقی رحم کے اندر تمام اعضاء اندرونی و بیرونی کو ایک ہی زمانہ میں بناتا ہے یعنی ایک ہی وقت میں سب بنتے ہیں تاخیر تقدیم نہیں۔ البتہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ پہلے تمام وجود انسان کا ایک جما ہوا خون ہوتاہے اور پھر سارے کا سارا ایک ہی وقت میں مُضغہ بن جاتا ہے اور پھر ایک ہی وقت میں کچھ حصہ اس کا اپنے اپنے موقعہ پر ہڈیاں بن جاتا ہے اور پھر ایک ہی وقت میں اس تمام مجموعہ پر ایک زائد گوشت چڑھ جاتا ہے جو تمام بدن کی کھال کہلاتی ہے جس سے خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ اور اس مرتبہ پر جسمانی بناوٹ تمام ہو جاتی ہے اور پھر جان پڑ جاتی ہے ۔ یہ وہ تمام حالتیں ہیں جو ہم نے بچشم خود دیکھ لی ہیں۔

اب ہم روحانی مراتب ستّہ کاذیل میں ذکر کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (۱)3(۲)3(۳) 3۱؂ (۴)333 333(۵)3(۶) 3 3۱؂اورؔ ان کے مقابل جسمانی ترقیات کے مراتب بھی چھ قرار دیئے ہیں جیسا کہ وہ ان آیات کے بعد فرماتا ہے:۔(۱)3(۲)33(۳) 3 (۴)3 (۵)3(۶)3۲؂



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 187

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 187

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/187/mode/1up


جیسا کہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں ظاہر ہے کہ پہلامرتبہ روحانی ترقی کا یہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی 3 یعنی وہ مومن نجات پاگئے جو اپنی نماز اور یاد الٰہی میں خشوع اور فروتنی اختیار کرتے ہیں اور رقّت اور گدازش سے ذکر الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس کے مقابل پر پہلا مرتبہ جسمانی نشو و نما کا جو اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے یہ ہے یعنی 3 یعنی پھر ہم نے انسان کو نطفہ بنایا اور وہ نطفہ ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ سو خدا تعالیٰ نے آدم کی پیدائش کے بعد پہلا مرتبہ انسانی وجود کا جسمانی رنگ میں نطفہ کو قرار دیا ہے اور ظاہر ہے کہ نطفہ ایک ایسا تخم ہے جو اجمالی طور پر مجموعہ ان تمام قویٰ اور صفات اوراعضاء اندرونی اور بیرونی اور تمام نقش و نگار کا ہوتا ہے جو پانچویں درجہ پر مفصل طور پر ظاہر ہو جاتے ہیں اور چھٹے درجہ پراتم اور اکمل طور پر اُن کا ظہور* ہوتا ہے اور با ایں ہمہ نطفہ باقی تمام درجات سے زیادہ تر معرضِ خطر میں ہے۔ کیونکہ ابھی

درجات سے مراد وہ درجے ہیں جو ابھی ذکر کئے گئے ہیں۔ پانچواں درجہ وہ ہے جب قدرت صانع مطلق سے انسانی قالب تمام و کمال رحم میں تیار ہو جاتا ہے۔ اور ہڈیوں پر ایک خوشنما گوشت چڑھ جاتا ہے۔ اور چھٹا درجہ وہ ہے جب اس قالب میں جان پڑ جاتی ہے۔ اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے انسان کے روحانی وجود کا پہلا مرتبہ حالتِ خشوع اور عجز و نیاز اور سوز و گداز ہے اور درحقیقت وہ بھی اجمالی طور پر مجموعہ اُن تمام امور کا ہے جو بعد میں کھلے طور پر انسان کے روحانی وجود میں نمایاں ہوتے ہیں۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 188

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 188

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/188/mode/1up


وہ اُس تخم کی طرح ہے جس نے ہنوز زمین سے کوئی تعلق نہیں پکڑا۔ اور ابھی وہ رحم کی کشش سے بہرہ ور نہیں ہوا ممکن ہے کہ وہ اندام نہانی میں پڑ کر ضائع ہو جائے جیسا کہ تخم بعض اوقات پتھریلی زمین پر پڑ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اور ممکن ہے کہ وہ نطفہ بِذاتہاناقص ہو یعنی اپنے اندر ہی کچھ نقص رکھتا ہو اور قابل نشوونما نہ ہو۔ اور یہ استعداد اُس میں نہ ہو کہ رحم اس کو اپنی طرف جذب کرلے اور صرف ایک مُردہ کی طرح ہو جس میں کچھ حرکت نہ ہو۔ جیساؔ کہ ایک بوسیدہ تخم زمین میں بویا جائے۔ اور گو زمین عمدہ ہو مگر تاہم تخم بوجہ اپنے ذاتی نقص کے قابلِ نشو و نما نہیں ہوتا اور ممکن ہے کہ بعض اور عوارض کی وجہ سے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں نطفہ رحم میں تعلق پذیر نہ ہوسکے اور رحم اس کو اپنی کشش سے محروم رکھے ۔ جیسا کہ تخم بعض اوقات پیروں کے نیچے کچلا جاتا ہے یا پرندے اس کو چُگ جاتے ہیں یا کسی اور حادثہ سے تلف ہو جاتا ہے۔

یہی صفات مومن کے روحانی وجود کے اوّل مرتبہ کے ہیں اور اوّل مرتبہ مومن کے روحانی وجود کا وہ خشوع اور رقت اور سوز و گداز کی حالت ہے جو نماز اور یاد الٰہی میں مومن کو میسر آتی ہے یعنی گدازش اور رقت اور فروتنی اور عجز و نیاز اور روح کا انکسار اور ایک تڑپ اور قلق اور تپش اپنے اندر پیدا کرنا۔ اور ایک خوف کی حالت اپنے پر وارد کرکے خدائے عزّوجلّ کی طرف دل کوجھکانا جیسا کہ اِس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے3 3۔ یعنی وہ مومن مراد پاگئے جو اپنی نماز میں اور ہر ایک طور کی یادِ الٰہی میں فروتنی اور عجزونیاز اختیار کرتے ہیں۔ اور رقت اور سوزوگداز اور قلق اور کرب اور دلی جوش سے اپنے ربّ کے ذکر میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہ خشوع کی حالت جس کی تعریف کا اوپر اشارہ کیا گیا ہے روحانی وجود کی طیّاری کے لئے پہلا مرتبہ ہے یا یوں کہو کہ وہ پہلا تخم ہے جو عبودیت کی زمین میں بویا جاتا ہے اور وہ اجمالی طور پر ان تمام قویٰ اور صفات اور اعضاء اور تمام نقش و نگار اور حسن و جمال اور خط و خال اور شمائل روحانیہ پر مشتمل ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 189

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 189

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/189/mode/1up


جو پانچویں اور چھٹے درجہ میں انسانِ کامل کیلئے نمودار طور پر ظاہر ہوتے اور اپنے دلکش پیرایہ میں تجلی فرماتے ہیں * اور چونکہ وہ نطفہ کی طرح روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے اس لئے وہ آیت قرآنی میںؔ نطفہ کی طرح پہلے مرتبہ پر رکھا گیا ہے اور نطفہ کے مقابل پر دکھلایا گیا ہے تا وہ لوگ جو قرآن شریف میں غور کرتے ہیں سمجھ لیں کہ نمازمیں خشوع کی حالت روحانی وجود کے لئے ایک نطفہ ہے او ر نطفہ کی طرح روحانی طور پر انسان کامل کے تمام قویٰ اور صفات اور تمام نقش و نگار اس میں مخفی ہیں۔ اور جیسا کہ نطفہ اُس وقت تک معرضِ خطر میں ہے جب تک کہ رحم سے تعلق نہ پکڑے۔ ایسا ہی روحانی وجود کی یہ ابتدائی حالت یعنی خشوع کی حالت اُس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑلے۔ یاد رہے کہ جب خدا تعالیٰ کا فیضان بغیر توسط کسی عمل کے ہو تو وہ رحمانیت کی صفت سے ہوتا ہے جیسا کہ جو کچھ خدا نے زمین و آسمان وغیرہ انسان کے لئے بنائے یا خود انسان کو بنایا یہ سب فیضِ رحمانیت سے ظہور میں آیا لیکن جب کوئی فیض کسی عمل اور عبادت اور مجاہدہ اور ریاضت کے عوض میں ہو وہ رحیمیت کا فیض کہلاتا ہے ۔ یہی سنت اللہ بنی آدم کے لئے جاری ہے پس جب کہ انسان نماز اور یاد الٰہی میں خشوع کی حالت اختیار کرتا ہے تب اپنے تئیں رحیمیت کے فیضان کے لئے مستعد بناتا ہے ۔ سو نطفہ میں اور روحانی وجود کے پہلے مرتبہ میں جو حالت خشوع ہے صرف فرق یہ ہے کہ نطفہ رحم کی کشش کا محتاج ہوتا ہے اور یہ رحیم کی کشش کی طرف احتیاج رکھتا ہے اور جیسا کہ نطفہ کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحم کی کشش سے پہلے ہی ضائع ہوجائے۔

پانچواں درجہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی33333۔۱؂ اور چھٹا درجہ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی333۔۲؂ اور یہ پانچواں درجہ جسمانی درجات کے پنجم درجہ کے مقابل پر ہوتا ہے جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے یعنی3۳؂اور چھٹا درجہ جسمانی درجات کے ششم درجہ کے مقابل پر پڑا ہے جس کی طر ف یہ آیت اشارہ کرتی ہے33۔۴؂ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 190

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 190

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/190/mode/1up


ایسا ہی رُوحانی وجود کے پہلے مرتبہ کے لئے یعنی حالت خشوع کے لئے ممکن ہے کہ وہ رحیم کی کشش اور تعلق سے پہلے ہی بربادہو جائے۔ جیسا کہ بہت سے لوگ ابتدائی حالت میں اپنی نمازوں میں روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور خدا کی محبت میں طرح طرح کی دیوانگی ظاہر کرتے ہیں اور طرح طرح کی عاشقانہ حالت دکھلاتے ہیں اور چونکہ اس ذات ذوالفضل سے جس کانام رحیم ہے کوئی تعلق پیدا نہیں ہوتا اور نہ اُس کی خاص تجلی کے جذبہ سے اُس کی طرف کھنچے جاتے ہیں اس لئے ان کا وہ تمام سوزوگداز اور تمام وہ حالتِ خشوع بے بنیاد ہوتی ہے اور بسااوقات ان کا قدم پھسل جاتا ہے یہاں تک کہ پہلی حالت سے بھی بدتر حالت میں جا پڑتے ہیں۔ پس یہ عجیب دلچسپ مطابقت ہے کہ جیسا کہ نطفہ جسمانی وجود کا اوّل مرتبہ ہے اور جب تک رحم کی کشش اُس کی دستگیری نہ کرے وہ کچھ چیز ہی نہیں ایساہی حالتِ خشوع روحانی وجود کا اوّل مرتبہ ہے اور جب تک رحیم خدا کی کششؔ اُسکی دستگیری نہ کرے وہ حالتِ خشوع کچھ بھی چیز نہیں۔ اِسی لئے ہزارہا ایسے لوگوں کو پاؤگے کہ اپنی عمر کے کسی حصہ میں یادِ الٰہی اور نماز میں حالت خشوع سے لذّت اٹھاتے اور وجد کرتے اور روتے تھے اور پھر کسی ایسی *** نے اُن کو پکڑ لیا کہ یک مرتبہ نفسانی امور کی طرف گر گئے اور دنیا اور دنیا کی خواہشوں کے جذبات سے وہ تمام حالت کھو بیٹھے۔ یہ نہایت خوف کا مقام ہے کہ اکثر وہ حالتِ خشوع رحیمیت کے تعلق سے پہلے ہی ضائع ہو جاتی ہے اور قبل اس کے کہ رحیم خدا کی کشش اس میں کچھ کام کرے وہ حالت برباد اور نابود ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں وہ حالت جو روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے اس نطفہ سے مشابہت رکھتی ہے کہ جو رِحم سے تعلق پکڑنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے۔ غرض روحانی وجود کا پہلا مرتبہ جو حالتِ خشوع ہے اور جسمانی وجود کا پہلامرتبہ جو نطفہ ہے باہم اس بات میں تشابہ رکھتے ہیں کہ جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ یعنی نطفہ بغیر کششِ رحم کے ہیچ ہے اور روحانی وجود کا پہلا مرتبہ یعنی حالتِ خشوع بغیر جذبِ رحیم کے ہیچ اور جیسا کہ دنیا میں ہزارہا نطفے تباہ ہوتے ہیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 191

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 191

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/191/mode/1up


اور نطفہ ہونے کی حالت میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں اوررحم سے تعلق نہیں پکڑتے۔ ایسا ہی دنیا میں ہزارہا خشوع کی حالتیں ایسی ہیں کہ رحیم خدا سے تعلق نہیں پکڑتیں اور ضائع جاتی ہیں۔ ہزارہا جاہل اپنے چند روزہ خشوع اور وجد اور گریہ وزاری پر خوش ہوکر خیال کرتے ہیں کہ ہم ولی ہوگئے غوث ہوگئے قطب ہوگئے اور ابدال میں داخل ہوگئے اور خدارسیدہ ہوگئے حالانکہ وہ کچھ بھی نہیں ہنوز ایک نطفہ ہے۔ابھی تو نام خدا ہے غنچہ صبا تو چُھو بھی نہیں گئی ہے۔ افسوس کہ انہیں خام خیالیوں سے ایک دنیا ہلاک ہوگئی۔ اور یاد رہے کہ یہ روحانی حالت کا پہلا مرتبہ جو حالتِ خشوع ہے طرح طرح کے اسباب سے ضائع ہوسکتا ہے جیسا کہ نطفہ جو جسمانی حالت کا پہلا مرتبہ ہے انواع اقسام کے حوادث سے تلف ہو سکتاہے منجملہ ان کے ذاتی نقص بھی ہے۔ مثلاً اس خشوع میں کوئی مشرکانہ ملونی ہے یا کسی بدعت کی آمیزش ہے یا اور لغویات کا ساتھ اشتراک ہے۔مثلاً نفسانی خواہشیں اور نفسانی ناپاک جذبات بجائے خود زور مار رہے ہیں یا سفلی تعلقات نے دل کو پکڑ رکھا ہے یا جیفۂ دنیاکی لغو خواہشوں نے زیر کردیا ہے پس ان تمام ناپاک عوارض کے ساتھ حالت خشوع اس لائق نہیں ٹھہرؔ تی کہ رحیم خدا اس سے تعلق پکڑ جائے جیسا کہ اس نطفہ سے رحم تعلق نہیں پکڑ سکتا جو اپنے اندر کسی قسم کا نقص رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو جوگیوں کی حالت خشوع اور عیسائی پادریوں کی حالت انکسار ان کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور گو وہ سوزوگداز میں اس قدر ترقی کریں کہ اپنے جسم کو بھی ساتھ ہی استخوان بے پوست کردیں تب بھی رحیم خدا اُن سے تعلق نہیں کرتا کیونکہ اُن کی حالت خشوع میں ایک ذاتی نقص ہے اور ایسا ہی وہ بدعتی فقیراسلام کے جو قرآن شریف کی پیروی چھوڑ کر ہزاروں بدعات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بھنگ چرس اور شراب پینے سے بھی شرم نہیں کرتے اور دوسرے فسق و فجور بھی اُن کے لئے شیر مادر ہوتے ہیں چونکہ وہ ایسی حالت رکھتے ہیں کہ رحیم خدا سے اور اُس کے تعلق سے کچھ مناسبت نہیں رکھتے بلکہ رحیم خدا کے نزدیک وہ تمام حالتیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 192

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 192

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/192/mode/1up


مکروہ ہیں اس لئے وہ باوجود اپنے طور کے وجد اور رقص اور اشعار خوانی اور سرود وغیرہ کے رحیم خدا کے تعلق سے سخت بے نصیب ہوتے ہیں اور اُس نطفہ کی طرح ہوتے ہیں جو آتشک کی بیماری یاجذام کے عارضہ سے جل جائے اور اس قابل نہ رہے کہ رحم اس سے تعلق پکڑ سکے پس رحم اور رحیم کا تعلق یا عدم تعلق ایک ہی بنا پر ہے صرف روحانی اور جسمانی عوارض کا فرق ہے۔ اور جیسا کہ نطفہ بعض اپنے ذاتی عوارض کی رُو سے اس لائق نہیں رہتا کہ رحم اس سے تعلق پکڑ سکے اور اس کو اپنی طرف کھینچ سکے ایساہی حالت خشوع جو نطفہ کے درجہ پر ہے بعض اپنے عوارض ذاتیہ کی وجہ سے جیسے تکبر اور عُجب اور ریایا اور کسی قسم کی ضلالت کی وجہ سے یا شرک سے اس لائق نہیں رہتی کہ رحیم خدا اس سے تعلق پکڑ سکے پس نطفہ کی طرح تمام فضیلت روحانی وجود کے اوّل مرتبہ کی جو حالت خشوع ہے رحیم خدا کے ساتھ حقیقی تعلق پیدا کرنے سے وابستہ ہے جیسا کہ تمام فضیلت نطفہ کی رحم کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے وابستہ ہے پس اگر اس حالت خشوع کو اس رحیم خدا کے ساتھ حقیقی تعلق نہیں اورنہ حقیقی تعلق پیداہوسکتاہے تو وہ حالت اُس گندے نطفہ کی طرح ہے جس کو رحم کے ساتھ حقیقی تعلق پیدا نہیں ہو سکتا اور یاد رکھنا چاہیئے کہ نماز اور یاد الٰہی میں جو کبھی انسان کو حالتِ خشوع میسر آتی ہے اور وجد اور ذوق پیدا ہوجاتا ہے یا لذّت محسوس ہوتی ہے یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ؔ اس انسان کو رحیم خدا سے حقیقی تعلق ہے جیسا کہ اگر نطفہ اندام نہانی کے اندر داخل ہوجائے اور لذّت بھی محسوس ہو تو اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اُس نطفہ کورحم سے تعلق ہوگیا ہے بلکہ تعلق کے لئے علیحدہ آثار اور علامات ہیں۔ پس یاد الٰہی میں ذوق شوق جس کو دوسرے لفظوں میں حالتِ خشوع کہتے ہیں نطفہ کی اُس حالت سے مشابہ ہے جب وہ ایک صورتِ انزال پکڑ کر اندام نہانی کے اندر گر جاتا ہے اور اِس میں کیا شک ہے کہ وہ جسمانی عالم میں ایک کمال لذّت کا وقت ہوتا ہے لیکن تاہم فقط اُس قطرہ منی کا اندر گرنا اس بات کو مستلزم نہیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 193

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 193

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/193/mode/1up


کہ رِحم سے اُس نطفہ کا تعلق بھی ہو جائے اوروہ رحم کی طرف کھینچا جائے۔ پس ایسا ہی روحانی ذوق شوق اور حا لتِ خشوع اس بات کو مستلزم نہیں کہ رحیم خدا سے ایسے شخص کا تعلق ہو جائے اوراس کی طرف کھینچا جائے۔ بلکہ جیسا کہ نطفہ کبھی حرامکاری کے طور پر کسی رنڈی کے اندام نہانی میں پڑتا ہے تواس میں بھی وہی لذّت نطفہ ڈالنے والے کو حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اپنی بیوی کے ساتھ۔ پس ایسا ہی بُت پرستوں اور مخلوق پرستوں کا خشوع و خضوع اور حالتِ ذوق اور شوق رنڈی بازوں سے مشابہ ہے یعنی خشوع اور خضوع مشرکوں اور اُن لوگوں کا جو محض اغراض دنیویہ کی بنا پر خدا تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اس نطفہ سے مشابہت رکھتا ہے جو حرامکار عورتوں کے اندام نہانی میں جاکرباعثِ لذّت ہوتا ہے۔ بہرحال جیسا کہ نطفہ میں تعلق پکڑنے کی استعداد ہے حالتِ خشوع میں بھی تعلق پکڑنے کی استعداد ہے مگر صرف حا لتِ خشوع اور رِقّت اور سوز اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ وہ تعلق ہوبھی گیا ہے جیسا کہ نطفہ کی صورت میں جو اس روحانی صورت کے مقابل پر ہی مشاہدہ ظاہر کر رہا ہے اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے صحبت کرے اور منی عورت کے اندام نہانی میں داخل ہوجائے اور اس کو اس فعل سے کمال لذّت حاصل ہو تو یہ لذّت اس بات پر دلالت نہیں کرے گی کہ حمل ضرور ہوگیا ہے ۔ پس ایساہی خشوع اور سوز و گدازکی حالت گو وہ کیسی ہی لذّت اور سرور کے ساتھ ہو خدا سے تعلق پکڑنے کے لئے کوئی لازمی علامت نہیں ہے*۔ یعنی کسی شخص میں نماز اور یاد الٰہی کی حالت میں خشوع اور سوزو گداز اور گریہ وزاری پیدا ہونا لازمی طور پر اس بات کو

ابتدائی حالت میں خشوع اور رِقّت کے ساتھ ہر طرح کے لغو کام جمع ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ بچہ میں رونے کی عادت بہت ہوتی ہے اور بات بات میں ڈر جاتااور خشوع اور انکسار اختیار کرتا ہے مگر باایں ہمہ بچپن کے زمانہ میں طبعاً انسان بہت سے لغویات میں مبتلا ہوتا ہے اور سب سے پہلے لغو باتوں اور لغو کاموں کی طرف ہی رغبت کرتا ہے اور اکثر لغو حرکات اور لغو طور پر کودنا اور اچھلنا ہی اس کو پسند آتا ہے جس میں بسا اوقات اپنے جسم کو بھی کوئی صدمہ پہنچا دیتا ہے اس سے ظاہر ہے کہ انسان کی زندگی کی راہ میں فطرتاً پہلے لغویات ہی آتے ہیں اور بغیر اس مرتبہ کے طے کرنے کے دوسرے مرتبہ تک وہ پہنچ ہی نہیں سکتا۔ پس طبعاً پہلا زینہ بلوغ کا بچپن کے لغویات سے پرہیز کرنا ہے سواس سے ثابت ہے کہ سب سے پہلا تعلق انسانی سرشت کو لغویات سے ہی ہوتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 194

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 194

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/194/mode/1up


مستلزم نہیں کہ اس شخص کو خدا سے تعلقؔ بھی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سب حالات کسی شخص میں موجود ہوں مگر ابھی اس کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہ ہو۔ جیسا کہ مشاہدہ صریحہ اس بات پر گواہ ہے کہ بہت سے لوگ پندو نصیحت کی مجلسوں اور وعظ و تذکیر کی محفلوں یا نماز اور یاد الٰہی کی حالت میں خوب روتے اور وجد کرتے اور نعرے مارتے اور سوز و گداز ظاہر کرتے ہیں اور آنسو اُن کے رخساروں پر پانی کی طرح رواں ہو جاتے ہیں بلکہ بعض کا رونا تو مُنہ پر رکھا ہوا ہوتاہے۔ ایک بات سنی اور وہیں رو دیا۔ مگر تاہم لغویات سے وہ کنارہ کش نہیں ہوتے اور بہت سے لغو کام اور لغو باتیں اور لغو سیروتماشے اُن کے گلے کاہار ہوجاتے ہیں۔ جن سے سمجھا جاتا ہے کہ کچھ بھی اُن کو خداتعالیٰ سے تعلق نہیں اور نہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت کچھ اُن کے دلوں میں ہے۔ پس یہ عجیب تماشا ہے کہ ایسے گندے نفسوں کے ساتھ بھی خشوع اورسوزوگداز کی حالت جمع ہوجاتی ہے۔ اور یہ عبرت کا مقام ہے اور اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مجردخشوع اور گریہ وزاری کہ جو بغیر ترک لغویات ہو کچھ فخر کرنے کی جگہ نہیں اور نہ یہ قرب الٰہی اور تعلق باللہ کی کوئی علامت ہے۔ بہت سے ایسے فقیر مَیں نے بچشم خود دیکھے ہیں اور ایسا ہی بعض دوسرے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی دردناک شعر کے پڑھنے یا دردناک نظارہ دیکھنے یا دردناک قصہ کے سننے سے اس جلدی سے ان کے آنسو گرنے شروع ہوجاتے ہیں جیسا کہ بعض بادل اس قدر جلدی سے اپنے موٹے موٹے قطرے برساتے ہیں کہ باہر سونے والوں کو رات کے وقت فرصت نہیں دیتے کہ اپنا بستر بغیر تر ہونے کے اندر لے جاسکیں لیکن مَیں اپنی ذاتی شہادت سے گواہی دیتا ہوں کہ اکثر ایسے شخص میں نے بڑے مکّاربلکہ دنیاداروں سے آگے بڑھے ہوئے پائے ہیں اور بعض کو میں نے ایسے خبیث طبع اور بد دیانت اور ہر پہلو سے بدمعاش پایا ہے کہ مجھے اُن کی گریہ وزاری کی عادت اور خشوع وخضوع کی خصلت دیکھ کر اس بات سے کراہت آتی ہے کہ کسی مجلس میں ایسی رقت اور سوز و گداز ظاہر کروں۔ ہاں کسی زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ نیک بندوں کی علامت تھی مگر اب تو اکثر یہ پیرایہ مکّاروں اور فریب دہ لوگوں کا ہوگیا ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 195

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 195

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/195/mode/1up


سبز کپڑے ۔ بال سرکے لمبے۔ ہاتھ میں تسبیح۔ آنکھوں سے دمبدم آنسوؔ جاری ۔ لبوں میں کچھ حرکت گویا ہر وقت ذکر الٰہی زبان پر جاری ہے۔ اور ساتھ اس کے بدعت کی پابندی۔ یہ علامتیں اپنے فقر کی ظاہر کرتے ہیں۔ مگر دلِ مجذوم محبتِ الٰہی سے محروم۔ اِلّاماشاء اللہ۔ راستباز لوگ میری اس تحریر سے مستثنیٰ ہیں جن کی ہر ایک بات بطور جوش اور حال کے ہوتی ہے نہ بطور تکلّف اور قَال کے، بہرحال یہ تو ثابت ہے کہ گریہ وزاری اور خشوع اور خضوع نیک بندوں کے لئے کوئی مخصوص علامت نہیں بلکہ یہ بھی انسان کے اندر ایک قوت ہے جو محل اور بے محل دونوں صورتوں میں حرکت کرتی ہے۔ انسان بعض اوقات ایک فرضی قصہ پڑھتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ فرضی اور ایک ناول کی قسم ہے مگر تاہم جب اس کے ایک دردناک موقعہ پر پہنچتا ہے تو اس کا دل اپنے قابو سے نکل جاتا ہے اور بے اختیار آنسوجاری ہوتے ہیں جو تھمتے نہیں۔ ایسے دردناک قصے یہاں تک مؤثر پائے گئے ہیں کہ بعض وقت خود ایک انسان ایک پُرسوز قصہ بیان کرنا شروع کرتا ہے اور جب بیان کرتے کرتے اس کے ایک پُردرد موقعہ پر پہنچتا ہے تو آپ ہی چشم پُر آب ہو جاتا ہے اور اس کی آواز بھی ایک رونے والے شخص کے رنگ میں ہو جاتی ہے آخر اس کارونا اچھل پڑتا ہے اور جو رونے کے اندر ایک قسم کی سرور اور لذّت ہے وہ اس کو حاصل ہو جاتی ہے اور اس کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ جس بنا پر وہ روتا ہے وہ بنا ہی غلط اور ایک فرضی قصہ ہے ۔ پس کیوں اور کیاوجہ کہ ایسا ہوتا ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ سوز و گداز اور گریہ وزاری کی قوت جو انسان کے اندر موجود ہے اُس کو ایک واقعہ کے صحیح یاغلط ہونے سے کچھ کام نہیں بلکہ جب اس کے لئے ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جو اس قوت کو حرکت دینے کے قابل ہوتے ہیں تو خواہ نخواہ وہ رقّت حرکت میں آجاتی ہے اور ایک قسم کا سرور اور لذّت ایسے انسان کو پہنچ جاتا ہے گو وہ مومن ہو یاکافر ۔ اسی وجہ سے غیر مشروع مجالس میں بھی جو طرح طرح کی بدعات پر مشتمل ہوتی ہیں بے قید لوگ جو فقیروں کے لباس میں اپنے تئیں ظاہر کرتے ہیں مختلف قسم کی کافیوں اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 196

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 196

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/196/mode/1up


شعروں کے سننے اورسُرود کی تاثیر سے رقص اور وجد اور گریہ وزاری شروع کر دیتے ہیں اور اپنے رنگ میں لذّت اُٹھاتے ہیں۔ اور خیال کرتے ہیں کہ ہم خدا کو مل گئے ہیں۔ مگر یہ لذّت اُس لذّت سے مشابہ ہے جو ایک زانی کو حرامکار عورت سے ہوتی ہے۔

اورؔ پھر ایک اور مشابہت خشوع اور نطفہ میں ہے اور وہ یہ کہ جب ایک شخص کا نطفہ اس کی بیوی یا کسی اور عورت کے اندر داخل ہوتا ہے تو اس نطفہ کا اندام نہانی کے اندر داخل ہونا اور انزال کی صورت پکڑ کر رواں ہو جانا بعینہٖ رونے کی صورت پر ہوتا ہے جیسا کہ خشوع کی حالت کا نتیجہ بھی رونا ہی ہوتا ہے اور جیسے بے اختیار نطفہ اُچھل کر صورت انزال اختیار کرتا ہے۔ یہی صورت کمال خشوع کے وقت میں رونے کی ہوتی ہے کہ رونا آنکھوں سے اُچھلتا ہے اور جیسی انزال کی لذّت کبھی حلال طور پر ہوتی ہے جب کہ اپنی بیوی سے انسان صحبت کرتاہے اور کبھی حرام طور پر جب کہ انسان کسی حرام کار عورت سے صحبت کرتاہے۔ یہی صورت خشوع اور سوزو گداز اور گریہ وزاری کی ہے یعنی کبھی خشوع اورسوزوگداز محض خدائے واحد لاشریک کے لئے ہوتاہے جس کے ساتھ کسی بدعت اور شرک کا رنگ نہیں ہوتا۔ پس وہ لذّت سوزوگداز کی ایک لذّت حلال ہوتی ہے مگر کبھی خشوع اور سوزوگداز اور اسکی لذّت بدعات کی آمیزش سے یا مخلوق کی پرستش اوربتوں اور دیویوں کی پوجا میں بھی حاصل ہوتی ہے مگر وہ لذّت حرامکاری کے جماع سے مشابہ ہوتی ہے۔ غرض مجردخشوع اور سوزوگداز اور گریہ وزاری اور اس کی لذّتیں تعلق باللہ کو مستلزم نہیں بلکہ جیسا کہ بہت سے ایسے نطفے ہیں جو ضائع جاتے ہیں اور رحم اُن کو قبول نہیں کرتا۔ ایسا ہی بہت سے خشوع اور تضرع اورزاری ہیں جومحض آنکھوں کو کھونا ہے اوررحیم خدا ان کو قبول نہیں کرتا۔ غرض حالتِ خشوع کو جوروحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے نطفہ ہونے کی حالت سے جو جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے ایک کھلی کھلی مشابہت ہے جس کو ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور یہ مشابہت کوئی معمولی امر نہیں ہے بلکہ صانع قدیم جلّ شانہٗ کے خاص ارادہ سے ان دونوں میں اکمل اور اتم مشابہت ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی کتاب میں بھی لکھا گیا ہے کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 197

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 197

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/197/mode/1up


دوسرے جہان میں بھی یہ دونوں لذّتیں ہوں گی۔ مگر مشابہت میں اس قدر ترقی کر جائیں گی کہ ایک ہی ہو جائیں گی یعنی اُس جہان میں جو ایک شخص اپنی بیوی سے محبت اور اختلاط کرے گا وہ اس بات میں فرق نہیں کر سکے گا کہ وہ اپنی بیوی سے محبت اور اختلاط کرتا ہے یامحبت الٰہیہ کے دریائے بے پایاں میں غرق ہے اور واصلانِ حضرتِ عزت پر اِسی جہان میں یہ کیفیت طاری ہو ؔ جاتی ہے جو اہلِ دنیا اور محجوبوں کے لئے ایک امر فوق الفہم ہے۔

اب ہم یہ تو بیان کرچکے کہ روحانی وجود کا پہلا مرتبہ جو حالتِ خشوع ہے جسمانی وجود کے پہلے مرتبہ سے جو نطفہ ہے مشابہت تام رکھتا ہے۔ اس کے بعد یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ بھی جسمانی وجود کے دوسرے مرتبہ سے مشابہ اور مماثل ہے۔ اِس کی تفصیل یہ ہے جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ رُوحانی وجود کا دوسرا مرتبہ وہ ہے جو اس آیت کریمہ میں بیان فرمایا گیا ہے یعنی 3۔۱؂ یعنی مومن وہ ہیں جو لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں اور لغو تعلقات سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ اور اس کے مقابل پرجسمانی وجود کا دوسرا مرتبہ وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام عزیزمیں عَلَقَہ کے نام سے موسوم فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے 3۲؂ یعنی پھر ہم نے نطفہ کو عَلَقَہ بنایا۔ یعنی ہم نے اُس کو لغو طور پر ضائع ہونے سے بچاکر رحم کی تاثیر اور تعلق سے عَلَقَہ بنا دیا۔ اس سے پہلے وہ معرض خطر میں تھا اور کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ انسانی وجود بنے یا ضائع جائے۔ لیکن وہ رحم کے تعلق کے بعد ضائع ہونے سے محفوظ ہوگیا اور اس میں ایک تغیر پیدا ہوگیا جو پہلے نہ تھا۔ یعنی وہ ایک جمے ہوئے خون کی صورت میں ہوگیا۔ اور قوام بھی غلیظ ہوگیا اور رحم سے اس کا ایک علاقہ ہوگیااس لئے اس کانام عَلَقَہ رکھا گیا اور ایسی عورت حاملہ کہلانے کی مستحق ہوگئی ۔ اور بوجہ اس علاقہ کے رحم اس کا سرپرست بن گیا اور اس کے زیر سایہ نطفہ کا نشو ونما ہونے لگا۔ مگر اس حالت میں نطفہ نے کچھ زیادہ پاکیزگی حاصل نہیں کی۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 198

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 198

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/198/mode/1up


صرف ایک خون جما ہوا بن گیا اور رحم کے تعلق کی وجہ سے ضائع ہونے سے بچ گیا اور جس طرح اورصورتوں میں ایک نطفہ لغو طور پر پھیلتا اور بیہودہ طور پر اندر سے بہ نکلتااورکپڑوں کو پلید کرتا تھا اب اس تعلق کی وجہ سے بیکار جانے سے محفوظ رہ گیا۔ لیکن ہنوز وہ ایک جما ہوا خون تھا جس نے ابھی نجاست خفیفہ کی آلودگی سے پاکی حاصل نہیں کی تھی۔ اگر رحم سے یہ تعلق اس کا پیدا نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ اندام نہانی میں داخل ہوکر بھی رحم میں قرار نہ پاسکتا اور باہر کی طرف بہ جاتا۔ مگر رحم کی قوت مدبّرہ نے اپنے خاص جذب سے اُس کو تھام لیا اور پھر ایکؔ جمے ہوئے خون کی شکل پر بنا دیا۔ تب جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں اس تعلق کی وجہ سے علقہ کہلایا اور اس سے پہلے رحم نے اُس پر کوئی اپنا خاص اثر ظاہر نہیں کیا تھا اور اسی اثر نے اس کو ضائع ہونے سے روکا اور اسی اثر سے نطفہ کی طرح اُس میں رقّت بھی باقی نہ رہی یعنی اس کا قوام رکیک اور پتلا نہ رہا بلکہ کسی قدر گاڑھا ہوگیا۔

اور اس علقہ کے مقابل پر جو جسمانی وجود کادوسرا مرتبہ ہے روحانی وجود کادوسرا مرتبہ وہ ہے جس کا ابھی ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں جس کی طرف قرآن شریف کی یہ آیت اشارہ کرتی ہے 3یعنی رہائی یافتہ مومن وہ لوگ ہیں جو لغوکاموں اور لغو باتوں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو صحبتوں سے اور لغو تعلقات سے اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور ایمان ان کا اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اس قدر کنارہ کشی اُن پر سہل ہو جاتی ہے کیونکہ بوجہ ترق ئ ایمان کے کسی قدر تعلق اُن کا خدائے رحیم سے ہوجاتاہے جیسا کہعلقہ ہونے کی حالت میں جب نطفہ کا تعلق کسی قدر رحم سے ہو جاتاہے تو وہ لغو طور پر گر جانے یا بہ جانے یا اور طور پر ضائع ہوجانے سے امن میں آجاتاہے اِلَّاماشاء اللّٰہ ۔ سو روحانی وجود کے اس مرتبہ دوم میں خدائے رحیم سے تعلق بعینہٖ اُس تعلق سے مشابہ ہوتا ہے جو جسمانی وجود کے دوسرے مرتبہ پر علقہ کو



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 199

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 199

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/199/mode/1up


رحم سے تعلق ہو جاتاہے اور جیسا کہ قبل ظہور دوسرے مرتبہ وجودروحانی کے لغو تعلقات اورلغوشغلوں سے رہائی پانا غیر ممکن ہوتا ہے اور صرف وجود روحانی کا پہلا مرتبہ یعنی خشوع اور عجزونیاز کی حالت اکثر برباد بھی چلی جاتی ہے اور انجام بد ہوتا ہے۔ ایسا ہی نطفہ بھی جو جسمانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے علقہ بننے کی حالت سے پہلے بسا اوقات صدہا مرتبہ لغو طور پر ضائع ہوجاتا ہے پھر جب ارادہ الٰہی اس بات کے متعلق ہوتا ہے کہ لغو طور پر ضائع ہونے سے اس کو بچائے تو اُس کے امر اور اذن سے وہی نطفہ رحم میں علقہ بن جاتا ہے تب وہ وجود جسمانی کا دوسرا مرتبہ کہلاتا ہے غرض دوسرامرتبہ روحانی وجود کا جو تمام لغو باتوں اور تمام کاموں سے پرہیز کرنا اور لغو باتوں اور لغو تعلقات اور لغو جوشوں سے کنارہ کش ہونا ہے یہ مرتبہ بھی اسی وقت میسّر آتا ہے کہ جب خدائے رحیم سے انسان کا تعلق پیدا ہو جائے۔ کیونکہ یہ تعلق میں ہی طاقت اور قوتؔ ہے کہ دوسرے تعلق کو توڑتا ہے اور ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور گو انسان کو اپنی نماز میں حالت خشوع میسر آجائے جو روحانی وجود کا پہلا مرتبہ ہے پھر بھی وہ خشوع لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو جوشوں سے روک نہیں سکتا۔ جب تک کہ خدا سے وہ تعلق نہ ہو جو روحانی وجود کے دوسرے مرتبہ پر ہوتا ہے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ گو ایک انسان اپنی بیوی سے ہر روز کئی دفعہ صحبت کرے تاہم وہ نطفہ ضائع ہونے سے رُک نہیں سکتا جب تک کہ رحم سے اس کا تعلق پیدا نہ ہو جائے۔

پس خدا تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ 3 اس کے یہی معنے ہیں کہ مومن وہی ہیں جو لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرتے ہیں اور لغو تعلقات سے اپنے تئیں الگ کرنا خدا تعالیٰ کے تعلق کا موجب ہے*۔ گویا لغو باتوں سے دل کو

لغو تعلقات سے الگ ہونا خدا تعالیٰ کے تعلق کا اس لئے موجب ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں آیات میں اَفْلَحَ کے لفظ کے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص خدا کی طلب میں کوئی کام



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 200

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 200

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/200/mode/1up


چھڑانا خدا سے دل کو لگا لینا ہے کیونکہ انسان تعبّد ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اور طبعی طور پر اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت موجود ہے پس اسی وجہ سے انسان کی روح کو خداتعالیٰ سے ایک تعلق ازلی ہے۔ جیسا کہ آیت33۱؂ سے ظاہر ہوتا ہے اوروہ تعلق جو انسان کو رحیمیّت کے پرتوہ کے نیچے آکر یعنی عبادات کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے حاصل ہوتا ہے جس تعلق کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان لاکر ہر ایک لغو بات اور لغو کام اور لغو مجلس اور لغو حرکت اور لغو تعلق اور لغو جوش سے کنارہ کشی کی جائے۔ وہ اُسی ازلی تعلق کو مُکمن قوت سے حیّزِفعل میں لانا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اور جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں انسان کے روحانی وجود کا پہلا مرتبہ جو نماز اور یاد الٰہی میں حالتِ خشوع اور رقّت اور سوز و گداز ہے یہ مرتبہ اپنی ذات میں صرف اطلاق کی حیثیت رکھتا ہے یعنی نفس خشوع کے لئے یہ لازمی امر نہیں ہے کہ ترکِ لغویات بھی ساتھ ہی ہو یا اس سے بڑھ کر کوئی اخلاقِ فاضلہ اور عاداتِ مہذبہ ساتھ ہوں بلکہ ممکن ہے کہ جو شخص نماز میں خشوع اور رقّت و سوز اور گریہ وزاری اختیار کرتا ہے خواہ اس قدر کہ دوسرے پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے ہنوز لغوباتوں اور لغو کاموں اور لغو حرکتوں اور لغو مجلسوں اور لغو تعلقوں اور لغو نفسانی جوشوں سے اس کا دل پاک نہ ہو یعنی ممکن ہے کہ ہنوز معاصی سے ؔ اس کورُستگاری نہ ہو کیونکہ خشوع کی حالت کا

کرے گا وہ بقدر محنت کشی اور بقدر اپنی سعی کے خدا کو پائے گا۔ اور اس سے تعلق پیدا کرلے گا۔ پس جو شخص خدا کا تعلق حاصل کرنے کے لئے لغو کام چھوڑتا ہے اس کو اس وعدہ کے موافق جو لفظ افلح میں ہے ایک خفیف سا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جو اس نے کام کیا ہے وہ بھی بڑا بھاری کام نہیں صرف ایک خفیف تعلق کو جو اس کو لغویات سے تھا چھوڑ دیا ہے اور یاد رہے کہ جیسا کہ لفظ افلح اول آیت میں موجود ہے یعنی اس آیت میں کہ3۔3۲؂ یہی لفظ عطف کے طور پر تمام آئندہ آیتوں سے وعدہ کے طور پر متعلق ہے۔ پس یہ آیت کہ3۳؂ یہی معنی رکھتی ہے کہقد أفلح المؤمنون الذین ھم عن اللغو معرضون اور افلاح یعنی افلح کا لفظ ہریک مرتبہ ایمان پر ایک خاص معنی رکھتا ہے اور ایک خاص تعلّق کا وعدہ دیتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 201

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 201

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/201/mode/1up


کبھی کبھی دل پر وارد ہونا یا نماز میں ذوق اور سرور حاصل ہونا یہ اور چیز ہے اور طہارتِ نفس اور چیز۔ اور گو کسی سالک کا خشوع اورعجز و نیاز اور سوزوگداز بدعت اور شرک کی آمیزش سے پاک بھی ہوتا ہم ایسا آدمی جس کا وجود روحانی ابھی مرتبہ دوم تک نہیں پہنچا ابھی صرف قبل ۂ روحانی کا قصد کر رہا ہے اور راہ میں سرگردان ہے اور ہنوز اُس کی راہ میں طرح طرح کے دشت و بیابان اورخارستان اور کوہستان اور بحرِ عظیم پُر طوفان اور درندگان دشمن ایمان و دشمن جان قدم قدم پر بیٹھے ہیں تاوقتیکہ وجود روحانی کے دوسرے مرتبہ تک نہ پہنچ جائے۔

یاد رہے کہ خشوع اورعجزو نیاز کی حالت کو یہ بات ہرگز لازم نہیں ہے کہ خدا سے سچا تعلق ہو جائے بلکہ بسا اوقات شریر لوگوں کو بھی کوئی نمونہ قہر الٰہی دیکھ کر خشوع پیدا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ان کو کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا اور نہ لغو کاموں سے ابھی رہائی ہوتی ہے ۔ مثلاً وہ زلزلہ جو چار ۴ اپریل۱۹۰۵ء ؁ کو آیا تھا اُس کے آنے کے وقت لاکھوں دلوں میں ایسا خشوع اور سوز و گداز ہوا تھا کہ بجز خدا کے نام لینے اور رونے کے اور کوئی کام نہ تھا یہاں تک کہ دہریوں کو بھی اپنا دہریہ پن بھول گیا تھا۔ اور پھر جب وہ وقت جاتا رہا اور زمین ٹھہر گئی تو حالتِ خشوع نابود ہوگئی یہاں تک کہ میں نے سنا ہے کہ بعض دہریوں نے جو اس وقت خدا کے قائل ہوگئے تھے بڑی بے حیائی اور دلیری سے کہا کہ ہمیں غلطی لگ گئی تھی کہ ہم زلزلہ کے رعب میں آگئے ورنہ خدا نہیں ہے ۔ غرض جیسا کہ ہم بار بار لکھ چکے ہیں خشوع کی حالت کے ساتھ بہت گند جمع ہو سکتے ہیں البتہ وہ تمام آئندہ کمالات کے لئے تخم کی طرح ہے مگر اسی حالت کو کمال سمجھنا اپنے نفس کو دھوکہ دینا ہے۔ بلکہ بعد اس کے ایک اور مرتبہ ہے جس کی تلاش مومن کو کرنی چاہئے اور کبھی آرام نہیں لینا چاہئے اور سست نہیں ہونا چاہئے جب تک وہ رتبہ حاصل نہ ہو جائے اور وہ وہی مرتبہ ہے جس کو کلامِ الٰہی نے ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے 3۱؂ یعنی مومن صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو نماز میں خشوع اختیار کرتے اور سوز و گداز ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان سے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 202

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 202

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/202/mode/1up


بڑھؔ کر وہ مومن ہیں کہ جو باوجود خشوع اور سوز و گداز کے تمام لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو تعلقوں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں اور اپنی خشوع کی حالت کو بیہودہ کاموں اور لغو باتوں کے ساتھ ملاکر ضائع اور برباد ہونے نہیں دیتے اور طبعاً تمام لغو یات سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں اور بیہودہ باتوں اور بیہودہ کاموں سے ایک کراہت اُن کے دلوں میں پیدا ہوجاتی ہے اور یہ اس بات پر دلیل ہوتی ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق ہوگیا ہے کیونکہ ایک طرف سے انسان تب ہی منہ پھیرتا ہے جب دوسری طرف اس کا تعلق ہو جاتا ہے۔ پس دنیا کی لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو سیروتماشا اور لغو صحبتوں سے واقعی طور پر اُسی وقت انسان کا دل ٹھنڈا ہوتا ہے جب دل کا خدائے رحیم سے تعلق ہو جائے اور دل پر اس کی عظمت اور ہیبت غالب آجائے۔ ایسا ہی نطفہ بھی اسی وقت لغو طورپر ضائع ہو جانے سے محفوظ ہوتا ہے جب رحم سے اس کا تعلق ہو جائے اور رحم کا اثر اس پر غالب آجائے اور اس تعلق کے وقت نطفہ کا نام علقہ ہو جاتا ہے۔ پس اسی طرح روحانی وجود کا دوسرا مرتبہ بھی جو مومن کا مُعرض عن اللغوہونا ہے روحانی طور پر علقہ ہے کیونکہ اسی مرتبہ پر مومن کے دل پر ہیبت اور عظمت الٰہی وارد ہوکر اس کو لغو باتوں اور لغو کاموں سے چھڑاتی ہے اور ہیبت اور عظمتِ الٰہی سے متاثر ہوکر ہمیشہ کے لئے لغو باتوں اور لغو کاموں کو چھوڑ دینا یہی وہ حالت ہے جس کو دوسرے لفظوں میں تعلق باللہ کہتے ہیں لیکن یہ تعلق جو صرف لغو یات کے ترک کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے یہ ایک خفیف تعلق ہے کیونکہ اس مرتبہ پر مومن صرف لغویات سے تعلق توڑتا ہے لیکن نفس کی ضروری چیزوں سے اور ایسی باتوں سے جن پر معیشت کی آسودگی کاحصہ ہے ابھی اس کے دل کا تعلق ہوتا ہے اس لئے ہنوز ایک حصہ پلیدی کااس کے اندر رہتاہے۔ اِسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے وجودِروحانی کے اس مرتبہ کو علقہ سے مشابہت دی ہے اور علقہ خون جما ہوا ہوتا ہے جس میں بباعث خون ہونے کے ایک حصہ پلیدی کا باقی ہوتا ہے اور اس مرتبہ میں یہ نقص اس لئے رہ جاتا ہے کہ ایسے لوگ پورے طور پر خدا تعالیٰ سے ڈرتے نہیں اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 203

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 203

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/203/mode/1up


پورے طور پر ان کے دلوں میں حضرت عزّت جلّ شَانہٗ کی عظمت اور ہیبت نہیں بیٹھی اس لئے صرف نکمی اور لغو باتوں کے چھوڑنے پر قادر ہوسکتے ہیں نہ اور باتوں پر ۔ پس ناچاؔ ر اس قدر پلیدی اُن کے نفوس ناقصہ میں رہ جاتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ایک خفیف سا تعلق پیدا کرکے لغویات سے توکنارہ کش ہو جاتے ہیں لیکن وہ ان کاموں کو چھوڑ نہیں سکتے جن کا چھوڑنا نفس پر بہت بھاری ہے یعنی وہ خدا تعالیٰ کے لئے ان چیزوں کو چھوڑ نہیں سکتے جو نفسانی لذّات کے لئے لوازم ضروریہ ہیں اِس بیان سے ظاہر ہے کہ محض لغویات سے منہ پھیرنا ایسا امر نہیں ہے جو بہت قابلِ تحسین ہو بلکہ یہ مومن کی ایک ادنیٰ حالت ہے ہاں خشوع کی حالت سے ایک درجہ ترقی پر ہے۔

اور جسمانی وجود کے تیسرے درجہ کے مقابل پر روحانی وجود کا تیسرا درجہ واقع ہوا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جسمانی وجود کا تیسرا مرتبہ یہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے3 3۱؂یعنی پھر بعد اس کے ہم نے علقہ کو بوٹی بنایا۔یہ وہ مرتبہ ہے جس میں وجود جسمانی انسان کا ناپاکی سے باہر آتا ہے اور پہلے سے اس میں کسی قدر شدت اور صلابت بھی پیدا ہوجاتی ہے کیونکہ نطفہ اور خون جما ہوا جو علقہ ہے وہ دونوں ایک نجاستِ خفیفہ اپنے اندر رکھتے ہیں اور اپنے قوام کے رو سے بھی بہ نسبت مضغہ کے نرم اور رقیق ہیں مگر مضغہ جو ایک گوشت کا ٹکڑہ ہوتا ہے پاک حالت اپنے اندر پیدا کرتا ہے اور بہ نسبت نطفہ اور علقہ کے قوام میں بھی ایک حد تک سختی پیدا کرلیتا ہے۔ یہی حالت روحانی وجود کے تیسرے درجہ کی ہے اور روحانی وجود کا تیسرا درجہ وہ ہے جو اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے۔3۲؂ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ وہ مومن کہ جو پہلی دو حالتوں سے بڑھ کر قدم رکھتا ہے وہ صرف بیہودہ اور لغو باتوں سے ہی کنارہ کش نہیں ہوتا بلکہ بخل کی پلیدی کو دُور کرنے کے لئے جو طبعاً ہر ایک انسان کے اندر ہوتی ہے زکوٰۃ بھی دیتا ہے یعنی خدا کی راہ میں ایک حصہ اپنے مال کا خرچ کرتا ہے۔ زکوٰۃ کا نام اسی لئے زکوٰۃ ہے کہ انسان اس کی بجا آوری سے یعنی اپنے مال کو جو اس کو بہت پیارا ہے لِلّٰہ دینے سے بخل کی پلیدی سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور جب بخل کی پلیدی جس سے انسان طبعاً بہت تعلق رکھتا ہے انسان کے اندر سے نکل جاتی ہے تو وہ کسی حد تک پاک بن کر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 204

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 204

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/204/mode/1up


خدا سے جو اپنی ذات میںؔ پاک ہے ایک مناسبت پیدا کرلیتا ہے ؂

کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک آپ کو تب اُس کو پاوے

اور یہ مرتبہ پہلی دو حالتوں میں پایا نہیں جاتا۔ کیونکہ صرف خشوع اورعجز و نیاز یا صرف لغو باتوں کو ترک کرنا ایسے انسان سے بھی ہوسکتا ہے جس میں ہنوز بخل کی پلیدی موجود ہے لیکن جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے اپنے اس مال عزیز کو ترک کرتا ہے جس پر اس کی زندگی کامدار اور معیشت کا انحصار ہے اور جو محنت اور تکلیف اور عرقریزی سے کمایا گیا ہے تب بخل کی پلیدی اس کے اندر سے نکل جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ایمان میں بھی ایک شدت اور صلابت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ دونوں حالتیں مذکورہ بالا جو پہلے اس سے ہوتی ہیں اُن میں یہ پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی بلکہ ایک چھپی ہوئی پلیدی ان کے اندر رہتی ہے ۔ اس میں حکمت یہی ہے کہ لغویات سے منہ پھیرنے میں صرف ترکِ شر ہے اور شر بھی ایسی جس کی زندگی اور بقاکے لئے کچھ ضرورت نہیں اور نفس پر اس کے ترک کرنے میں کوئی مشکل نہیں لیکن اپنا محنت سے کمایا ہوا مال محض خدا کی خوشنودی کے لئے دینا یہ کسبِ خیر ہے جس سے وہ نفس کی ناپاکی جو سب ناپاکیوں سے بدتر ہے یعنی بخل دُور ہوتا ہے لہٰذا یہ ایمانی حالت کا تیسرا درجہ ہے جو پہلے دو درجوں سے اشرف اور افضل ہے اور اس کے مقابل پرجسمانی وجود کے تیار ہونے میں مضغہ کا درجہ ہے جو پہلے دو درجوں نطفہ اور علقہ سے فضیلت میں بڑھ کر ہے اور پاکی میں خصوصیت رکھتا ہے کیونکہ نطفہ اور علقہ دونوں نجاست خفیفہ سے ملوث ہیں مگر مضغہ پاک حالت میں ہے اور جس طرح رحم میں مضغہ کو بہ نسبت نطفہ اور علقہ کے ایک ترقی یافتہ حالت اور پاکیزگی پیدا ہو جاتی ہے اور بہ نسبت نطفہ اور علقہ کے رحم سے اس کا تعلق بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور شدت اور صلابت بھی زیادہ ہو جاتی ہے یہی حالت وجود روحانی کی مرتبہ سوم کی ہے جس کی تعریف خدا تعالیٰ نے یہ فرمائی ہے3۱؂ یعنی مومن وہ ہیں جو اپنے نفس کو بخل سے پاک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 205

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 205

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/205/mode/1up


کرنے کے لئے اپنا عزیز مال خدا کی راہ میں دیتے ہیں اور اس فعل کو وہ آپ اپنی مرضی سے اختیار کرتے ہیں۔ پس وجود رُوحانی کی اس مرتبہ سوم میں وہی تین۳ خوبیاں پائی جاتی ہیں جو وجود جسمانی کے مرتبہ سوم میں یعنی مضغہ ہونے کی حالت میں پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ حالت جو بخل سے پاکؔ ہونے کے لئے اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا اور اپنی محنت سے حاصل کردہ سرمایہ محض لِلّٰہ دوسرے کو دینا بہ نسبت اس حالت کے جو محض لغو باتوں اور لغو کاموں سے پرہیز کرنا ہے ایک ترقی یافتہ حالت ہے اور اس میں صریح اور بدیہی طورپر بخل کی پلیدی سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور خدائے رحیم سے تعلق بڑھتا ہے کیونکہ اپنے مال عزیز کو خدا کے لئے چھوڑنا بہ نسبت لغو باتوں کے چھوڑنے کے زیادہ تر نفس پر بھاری ہے اس لئے اس زیادہ تکلیف اٹھانے کے کام سے خدا سے تعلق بھی زیادہ ہو جاتا ہے اور بباعث ایک مشقت کا کام بجالانے کے ایمانی شدت اور صلابت بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔

اب اس کے بعد روحانی وجود کا چوتھا درجہ وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے 3۱؂یعنی تیسرے درجہ سے بڑھ کرمومن وہ ہیں جو اپنے تئیں نفسانی جذبات اور شہوات ممنوعہ سے بچاتے ہیں۔ یہ درجہ تیسرے درجہ سے اس لئے بڑھ کر ہے کہ تیسرے درجہ کا مومن تو صرف مال کو جو اُس کے نفس کو نہایت پیارا اورعزیز ہے خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے لیکن چوتھے۴ درجہ کا مومن وہ چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں نثار کرتا ہے جو مال سے بھی زیادہ پیاری اور محبوب ہے یعنی شہوات نفسانیہ۔ کیونکہ انسان کو اپنی شہواتِ نفسانیہ سے اس قدر محبت ہے کہ وہ اپنی شہوات کے پورا کرنے کے لئے اپنے مال عزیز کو پانی کی طرح خرچ کرتا ہے اور ہزارہا روپیہ شہوات کے پورا کرنے کے لئے برباد کر دیتا ہے اور شہوات کے حاصل کرنے کے لئے مال کو کچھ بھی چیز نہیں سمجھتا۔ جیسا کہ دیکھا جاتا ہے ایسے نجس طبع اور بخیل لوگ جو ایک محتاج بھوکے اور ننگے کو بباعث سخت بخل کے ایک پیسہ بھی دے نہیں سکتے شہوات نفسانیہ کے جوش میں بازاری عورتوں کو ہزارہا روپیہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 206

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 206

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/206/mode/1up


دے کر اپنا گھر ویران کر لیتے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ سیلاب شہوت ایسا تُنداور تیز ہے کہ بخل جیسی نجاست کو بھی بہالے جاتا ہے ۔ اس لئے یہ بدیہی امر ہے کہ بہ نسبت اس قوت ایمانی کے جس کے ذریعہ سے بخل دور ہوتا ہے اور انسان اپنا عزیز مال خدا کے لئے دیتا ہے یہ قوتِ ایمانی جس کے ذریعہ سے انسان شہواتِ نفسانیہ کے طوفان سے بچتا ہے نہایت زبردست اور شیطان کا مقابلہ کرنے میں نہایت سخت اور نہایت دیرپا ہے کیونکہ اس کا کام یہ ہے کہ نفسِ امّارہ جیسے پرانے اژدہا کو اؔ پنے پیروں کے نیچے کچل ڈالتی ہے۔ اور بخل تو شہوات نفسانیہ کے پورا کرنے کے جوش میں اور نیز ریااور نمود کے وقتوں میں بھی دُورہو سکتا ہے مگر یہ طوفان جو نفسانی شہوات کے غلبہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہ نہایت سخت اور دیرپا طوفان ہے جو کسی طرح بجز رحم خداوندی کے دور ہوہی نہیں سکتا اور جس طرح جسمانی وجود کے تمام اعضاء میں سے ہڈی نہایت سخت ہے اور اس کی عمر بھی بہت لمبی ہے اسی طرح اس طوفان کے دور کرنے والی قوتِ ایمانی نہایت سخت اور عمر بھی لمبی رکھتی ہے تا ایسے دشمن کا دیر تک مقابلہ کرکے پامال کرسکے اور وہ بھی خدا تعالیٰ کے رحم سے کیونکہ شہواتِ نفسانیہ کا طوفان ایک ایسا ہولناک اور پُرآشوب طوفان ہے کہ بجز خاص رحم حضرت احدیت کے فرو نہیں ہوسکتا۔ اسی وجہ سے حضرت یوسف کو کہنا پڑا 33۱؂یعنی میں اپنے نفس کو بَری نہیں کرتا نفس نہایت درجہ بدی کا حکم دینے والا ہے اور اس کے حملہ سے مَخلصی غیر ممکن ہے مگر یہ کہ خود خدا تعالیٰ رحم فرماوے۔ اس آیت میں جیسا کہ فقرہ 3ہے طوفان نوح کے ذکر کے وقت بھی اسی کے مشابہ الفاظ ہیں کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 33۲؂ پس یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ طوفان شہواتِ نفسانیہ اپنی عظمت اور ہیبت میں نوح کے طوفان سے مشابہ ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 207

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 207

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/207/mode/1up


اور اس درجہ روحانی کے مقابل پر جو وجودِ روحانی کا چو۴ تھادرجہ ہے جسمانی وجود کا درجہ

چہارم ہے جس کے بارے میں قرآن شریف میں یہ آیت ہے3۱؂ یعنی پھرہم نے مُضغہ سے ہڈیاں بنائیں۔ اور ظاہرہے کہ ہڈیوں میں بہ نسبت مضغہ یعنی بوٹی کے زیادہ صلابت اور سختی پیدا ہو جاتی ہے اور نیز ہڈی بہ نسبت مضغہ کے بہت دیرپا ہے اور ہزاروں برس تک اس کانشان رہ سکتا ہے پس وجود روحانی کے درجہ چہارم اور وجود جسمانی کے درجہ چہارم میں مشابہت ظاہر ہے کیونکہ وجود روحانی کے درجہ چہارم میں بہ نسبت وجود روحانی کے درجہ سوم کے ایمانی شدّت اور صلابت زیادہ ہے اور خدا ئے رحیم سے تعلق بھی زیادہ۔ ایسا ہی وجود جسماؔ نی کے درجہ چہارم میں جو استخوان کا پیدا ہونا ہے بہ نسبت درجہ سوم وجود جسمانی کے جو محض مضغہ یعنی بوٹی ہے جسمانی طور پر شدت اور صلابت زیادہ ہے اور رحم سے تعلق بھی زیادہ۔

پھر چہارم درجہ کے بعد پانچوا۵ں درجہ وجود روحانی کا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے3۔۲؂ یعنی پانچویں درجہ کے مومن جو چوتھے درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو صرف اپنے نفس میں یہی کمال نہیں رکھتے جو نفسِ امّارہ کی شہوات پر غالب آگئے ہیں اور اس کے جذبات پر اُن کو فتح عظیم حاصل ہوگئی ہے بلکہ وہ حتی الوسع خدا اوراس کی مخلوق کی تمام امانتوں اور تمام عہدوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھ کر تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جہاں تک طاقت ہے اس راہ پر چلتے ہیں۔ خدا کے عہدوں سے مراد وہ ایمانی عہد ہیں جو بیعت اور ایمان لانے کے وقت مومن سے لئے جاتے ہیں جیسے شرک نہ کرنا خونِ ناحق نہ کرنا وغیرہ۔

لفظ رَاعُوْنَ جو اس آیت میں آیا ہے جس کے معنے ہیں رعایت رکھنے والے۔ یہ لفظ عرب کے محاورہ کے موافق اُس جگہ بولا جاتا ہے جہاں کوئی شخص اپنی قوت اور طاقت کے مطابق



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 208

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 208

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/208/mode/1up


کسی امر کی باریک راہ پر چلنا اختیار کرتا ہے اور اس امر کے تمام دقائق بجا لانا چاہتا ہے اور کوئی پہلو اس کا چھوڑنا نہیں چاہتا۔ پس اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہوا کہ وہ مومن جو وجودِ روحانی کے پنجم درجہ پر ہیں حتی الوسع اپنی موجودہ طاقت کے موافق تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارتے ہیں اور کوئی پہلو تقویٰ کا جو امانتوں یا عہد کے متعلق ہے خالی چھوڑنا نہیں چاہتے اور سب کی رعایت رکھنا اُن کا ملحوظِ نظر ہوتا ہے اور اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ موٹے طور پر اپنے تئیں امین اور صادق العہد قرار دے دیں بلکہ ڈرتے رہتے ہیں کہ درپردہ اُن سے کوئی خیانت ظہور پذیر نہ ہو۔ پس طاقت کے موافق اپنے تمام معاملات میں توجہ سے غور کرتے رہتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ اندرونی طور پر اُن میں کوئی نقص اور خرابی ہو اور اسی رعایت کا نام دوسرے لفظوں میں تقویٰ ہے۔

خلاصہ مطلب یہ کہ وہ مومن جو وجود رُوحانی میں پنجم درجہ پر ہیں وہ اپنے معاملات میںؔ خواہ خدا کے ساتھ ہیں خواہ مخلوق کے ساتھ بے قید اور خلیع الرسن نہیں ہوتے بلکہ اس خوف سے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی اعتراض کے نیچے نہ آجاویں اپنی امانتوں اور عہدوں میں دُور دُور کا خیال رکھ لیتے ہیں اور ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں اور تقویٰ کی دُوربین سے اس کی اندرونی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ درپردہ اُن کی امانتوں اور عہدوں میں کچھ فتور ہو اور جو امانتیں خدا تعالیٰ کی اُن کے پاس ہیں جیسے تمام قویٰ اور تمام اعضاء اور جان اور مال اور عزت وغیرہ ان کو حتی الوسع اپنی بپابندی تقویٰ بہت احتیاط سے اپنے اپنے محل پر استعمال کرتے رہتے ہیں اور جو عہد ایمان لانے کے وقت خدا تعالیٰ سے کیا ہے کمال صدق سے حتی المقدور اس کے پورا کرنے کے لئے کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ایسا ہی جو امانتیں مخلوق کی اُن کے پاس ہوں یا ایسی چیزیں جو امانتوں کے حکم میں ہوں اُن سب میں تابمقدور تقویٰ کی پابندی سے کاربند ہوتے ہیں۔ اگر کوئی تنازع واقع ہو تو تقویٰ کو مدّنظر رکھ کر اس کا فیصلہ کرتے ہیں گو اس فیصلہ میں نقصان اٹھالیں۔ یہ درجہ چوتھے درجہ سے اس لئے بڑھ کر ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 209

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 209

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/209/mode/1up


کہ اس میں حتی الوسع تمام اعمال میں تقویٰ کی باریک راہوں سے کام لینا پڑتا ہے اور حتی الوسع جمیع امور میں ہر ایک قدم تقویٰ کی رعایت سے اٹھانا پڑتا ہے مگر چوتھا درجہ صرف ایک ہی موٹی بات ہے اور وہ یہ کہ زنا سے اور بدکاریوں سے پرہیز کرنا اور ہر ایک سمجھ سکتا ہے کہ زنا ایک بہت بے حیائی کا کام ہے اور اس کا مرتکب شہواتِ نفس سے اندھا ہو کر ایسا ناپاک کام کرتا ہے جو انسانی نسل کے حلال سِلسلہ میں حرام کو ملا دیتا ہے اور تضیع نسل کا موجب ہوتا ہے۔ اِسی وجہ سے شریعت نے اس کو ایسا بھاری گناہ قرار دیا ہے کہ اِسی دنیا میں ایسے انسان کے لئے حدِ شرعی مقرر ہے۔ پس ظاہر ہے کہ مومن کی تکمیل کے لئے صرف یہی کافی نہیں کہ وہ زنا سے پرہیز کرے کیونکہ زنا نہایت درجہ مفسد طبع اور بے حیا انسانوں کا کام ہے اور یہ ایک ایسا موٹا گناہ ہے جو جاہل سے جاہل اس کو بُرا سمجھتا ہے اور اس پر بجز کسی بے ایمان کے کوئی بھی دلیری نہیں کر سکتا۔ پس اِس کا ترک کرنا ایک معمولی شرافت ہے کوئی بڑے کمال کی بات نہیں لیکن انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔* تقویٰ کی باریک راہیں رُوحانی خوبصوؔ رتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں ض کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں

ایمان کے لئے خشوع کی حالت مثل بیج کے ہے اور پھر لغو باتوں کے چھوڑنے سے ایمان اپنا نرم نرم سبزہ نکالتا ہے اور پھر اپنا مال بطور زکوٰۃ دینے سے ایمانی درخت کی ٹہنیاں نکل آتی ہیں جو اس کو کسی قدر مضبوط کرتی ہیں اور پھر شہواتِ نفسانیہ کا مقابلہ کرنے سے ان ٹہنیوں میں خوب مضبوطی اور سختی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر اپنے عہد اور امانتوں کی تمام شاخوں کی محافظت کرنے سے درخت ایمان کاا پنے مضبوط تنہ پر کھڑا ہو جاتا ہے اور پھر پھل لانے کے وقت ایک اور طاقت کا فیضان اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس طاقت سے پہلے نہ درخت کو پھل لگ سکتا ہے نہ پھول۔ وہی طاقت روحانی پیدائش کے مرتبہ ششم میں خلق آخر کہلاتی ہے اور اسی مرتبہ ششم پر انسانی کمالات کے پھل اور پھول ظاہر ہونے شروع ہوتے ہیں اور انسانی درخت کی روحانی شاخیں نہ صرف مکمل ہو جاتی ہیں بلکہ اپنے پھل بھی دیتی ہیں۔ منہ

ایمانی عہدوں سے مراد وہ عہد ہیں جو انسان بیعت اور ایمان لانے کے وقت ان کا اقرار کرتا ہے جیسے یہ کہ وہ خون نہیں کرے گا۔ چوری نہیں کرے گا۔ جھوٹی گواہی نہیں دے گا۔ خدا سے کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گا اور اسلام اور پیروی نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مرے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 210

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 210

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/210/mode/1up


جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں۔ ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محلِ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لِبَاسُ التَّقوٰی قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقوٰی سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کاربند ہو جائے۔

یہ تو وجودِ روحانی کا پانچواں درجہ ہے اور اس کے مقابل پر جسمانی وجود کا پانچوا۵ں درجہ وہ ہے جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر ہے3۔۱؂ یعنی پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت مڑھ دیا اور جسمانی بناوٹ کی کسی قدر خوبصورتی دکھلا دی۔ یہ عجیب مطابقت ہے کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ایک جگہ روحانی طور پر تقویٰ کو لباس قرار دیا ہے ایسا ہی کَسَوْنَا کا لفظ جو کسوت سے نکلا ہے وہ بھی بتلا رہا ہے کہ جو گوشت ہڈیوں پر مڑھا جاتا ہے وہ بھی ایک لباس ہے جو ہڈیوں پر پہنایا جاتا ہے۔ پس یہ دونوں لفظ دلالت کر رہے ہیں کہ جیسی خوبصورتی کا لباس تقویٰ پہناتی ہے ایسا ہی وہ کسوت جو ہڈیوں پر چڑھائی جاتی ہے ہڈیوں کے لئے ایک خوبصورتی کا پیرایہ بخشتی ہے۔ وہاں لباس کا لفظ ہے اور یہاں کسوت کا اور دونوں کے معنے ایک ہیں اور نص قرآنی بآواز بلند پکار رہی ہے کہ دونوں کا مقصد خوبصورتی ہے اور جیسا کہ انسان کی رُوح پر سے اگر تقویٰ کا لباس اتار دیا جائے تو روحانی بدشکلی اس کی ظاہر ہو جاتی ہے۔ اسیؔ طرح اگر وہ گوشت و پوست جو حکیم مطلق نے انسان کی ہڈیوں پر مڑھا ہے اگر ہڈیوں پر سے اتار دیا جائے تو انسان کی جسمانی شکل



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 211

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 211

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/211/mode/1up


نہایت مکروہ نکل آتی ہے مگر اس درجہ پنجم میں خواہ درجہ پنجم وجود جسمانی کا ہے اور خواہ درجہ پنجم وجود روحانی کا ہے کامل خوبصورتی پیدا نہیں ہوتی۔ کیونکہ ابھی رُوح کا اُس پر فیضان نہیں ہوا۔ یہ امر مشہود و محسوس ہے کہ ایک انسان گو کیسا ہی خوبصورت ہو جب وہ مر جاتا ہے اور اُس کی رُوح اس کے اندر سے نکل جاتی ہے تو ساتھ ہی اس حُسن میں بھی فرق آ جاتا ہے جو اُس کو قدرتِ قادر نے عطا کیا تھا۔ حالانکہ تمام اعضاء اور تمام نقوش موجود ہوتے ہیں مگر صرف ایک رُوح کے نکلنے سے انسانی قالب کا گھر ایک ویران اور سُنسان سا معلوم ہوتا ہے اور آب و تاب کا نشان نہیں رہتا۔ یہی حالت رُوحانی وجود کے پانچویں درجہ کی ہے کیونکہ یہ امر بھی مشہود و محسوس ہے کہ جب تک کسی مومن میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس رُوح کا فیضان نہ ہو جو وجود رُوحانی کے چھٹے درجہ پر ملتی ہے اور ایک فوق العادت طاقت اور زندگی بخشتی ہے تب تک خدا کی امانتوں کے ادا کرنے اور اُن کے ٹھیک طور پر استعمال کرنے اور صدق کے ساتھ اس کا ایمانی عہد پورا کرنے اور ایسا ہی مخلوق کے حقوق اور عہدوں کے ادا کرنے میں وہ آب و تاب تقویٰ پیدا نہیں ہوتی جس کا حُسن اور خوبی دلوں کو اپنی طرف کھینچے اور جس کی ہر ایک ادا فوق العادت اور اعجاز کے رنگ میں معلوم ہو بلکہ قبل اس رُوح کے تقویٰ کے ساتھ تکلّف اور بناوٹ کی ایک ملونی رہتی ہے کیونکہ اس میں وہ رُوح نہیں ہوتی جو حُسنِ روحانی کی آب و تاب دکھلا سکے اور یہ سچ اور بالکل سچ ہے کہ ایسے مومن کا قدم جو ابھی اس رُوح سے خالی ہے پورے طور پر نیکی پر قائم نہیں رہ سکتا بلکہ جیسا کہ ایک ہَوا کے دھکّا سے مُردہ کا کوئی عضو حرکت کر سکتا ہے اور جب ہوا دُور ہو جائے تو پھر مُردہ اپنی حالت پر آجاتا ہے ایسا ہی وجود رُوحانی کے پنجم درجہ کی حالت ہوتی ہے کیونکہ صرف عارضی طور پر خدا تعالیٰ کی نسیمِ رحمت اس کو نیک کاموں کی طرف جنبش دیتی رہتی ہے اور اس طرح تقویٰ کے کام اُس سے صادر ہوتے ہیں۔ لیکن ابھی نیکی کی رُوح اس کے اندر آباد نہیں ہوتی اس لئے وہ حسنِ معاملہ اس میں پیدا نہیں ہوتا جو اس رُوح کے داخلؔ ہونے کے بعد اپنا جلوہ دکھلاتا ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 212

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 212

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/212/mode/1up


غرض پنجم مرتبہ وجود روحانی کا گو ایک ناقص مرتبہ حُسن تقویٰ کا حاصل کر لیتا ہے مگر کمال اس حُسن کا وجودِ روحانی کے درجہ ششم پر ہی ظاہر ہوتا ہے جب کہ خدا تعالیٰ کی اپنی محبتِ ذاتیہ روحانی وجود کے لئے ایک رُوح کی طرح ہو کر انسان کے دل پر نازل ہوتی اور تمام نقصانوں کا تدارک کرتی ہے اور انسان محض اپنی قوتوں کے ساتھ کبھی کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ رُوح خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہو۔ جیسا کہ حافظ شیرازی نے فرمایا ہے

مابدان منزلِ عالی نتوانیم رسید ہاں مگر لطف تو چوں پیش نہد گامے چند

پھر درجہ پنجم کے بعد چھٹا درجہ وجود روحانی کا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اِس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے3۱؂یعنی چھٹے۶ درجہ کے مومن جو پانچویں درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو اپنی نمازوں پر آپ محافظ اور نگہبان ہیں یعنی وہ کسی دوسرے کی تذکیر اور یاد دہانی کے محتاج نہیں رہے بلکہ کچھ ایسا تعلّق ان کو خدا سے پیدا ہو گیا ہے اور خدا کی یاد کچھ اس قسم کی محبوب طبع اور مدارِ آرام اور مدارِ زندگی ان کے لئے ہو گئی ہے کہ وہ ہر وقت اس کی نگہبانی میں لگے رہتے ہیں اور ہر دم ان کا یادِ الٰہی میں گذرتا ہے اور نہیں چاہتے کہ ایک دم بھی خدا کے ذکر سے الگ ہوں۔

اب ظاہر ہے کہ انسان اسی چیز کی محافظت اور نگہبانی میں تمام تر کوشش کر کے ہر دم لگا رہتا ہے جس کے گم ہونے میں اپنی ہلاکت اور تباہی دیکھتا ہے جیسا کہ ایک مسافر جو ایک بیابان بے آب و دانہ میں سفر کر رہا ہے جس کے صد ہا کوس تک پانی اور روٹی ملنے کی کوئی امید نہیں وہ اپنے پانی اور روٹی کی جو ساتھ رکھتا ہے بہت محافظت کرتا ہے اور اپنی جان کے برابر اس کو سمجھتا ہے کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ اس کے ضائع ہونے میں اس کی موت ہے۔ پس وہ لوگ جو اُس مسافر کی طرح اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں اور گو مال کا نقصان ہو یا عزت کا نقصان ہو یا نماز کی وجہ سے کوئی ناراض ہو جائے نماز کو نہیں چھوڑتے اور اس کے ضائع ہونے کے اندیشہ میں سخت بے تاب ہوتے اور پیچ و تاب کھاتے گویا مر ہی جاتے ہیں اور نہیں چاہتے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 213

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 213

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/213/mode/1up


کہ ایک دم بھی یادِ الٰہیؔ سے الگ ہوں۔ وہ درحقیقت نماز اور یاد الٰہی کو اپنی ایک ضروری غذا سمجھتے ہیں جس پر ان کی زندگی کا مدار ہے اور یہ حالت اس وقت پیدا ہوتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ اُن سے محبت کرتا ہے اور اس کی محبتِ ذاتیہ کا ایک افروختہ شعلہ جس کو روحانی وجود کے لئے ایک رُوح کہنا چاہیئے اُن کے دل پر نازل ہوتا ہے اور ان کو حیاتِ ثانی بخش دیتا ہے اور وہ رُوح ان کے تمام وجود روحانی کو روشنی اور زندگی بخشتی ہے۔ تب وہ نہ کسی تکلّف اور بناوٹ سے خدا کی یاد میں لگے رہتے ہیں بلکہ وہ خدا جس نے جسمانی طور پر انسان کی زندگی روٹی اور پانی پر موقوف رکھی ہے وہ ان کی رُوحانی زندگی کو جس سے وہ پیار کرتے ہیں اپنی یاد کی غذا سے وابستہ کر دیتا ہے۔ اس لئے وہ اس روٹی اور پانی کو جسمانی روٹی اور پانی سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اور اس کے ضائع ہونے سے ڈرتے ہیں اور یہ اس رُوح کا اثر ہوتا ہے جو ایک شعلہ کی طرح اُن میں ڈالی جاتی ہے۔ جس سے عشقِ الٰہی کی کامل مستی اُن میں پیدا ہو جاتی ہے اس لئے وہ یاد الٰہی سے ایک دم الگ ہونا نہیں چاہتے۔وہ اس کے لئے دکھ اُٹھاتے اورمصائب دیکھتے ہیں مگراس سے ایک لحظہ بھی جداہونانہیں چاہتے اور پاس انفاس کرتے ہیں۔ اور اپنی نمازوں کے محافظ اور نگہبان رہتے ہیں۔ اور یہ اَمر اُن کے لئے طبعی ہے کیونکہ درحقیقت خدا نے اپنی محبت سے بھری ہوئی یاد کو جس کو دوسرے لفظوں میں نماز کہتے ہیں ان کے لئے ایک ضروری غذا مقرر کر دیا ہے اور اپنی محبتِ ذاتیہ سے اُن پر تجلّی فرما کر یاد الٰہی کی ایک دلکش لذّت ان کو عطا کی ہے۔ پس اس وجہ سے یاد الٰہی جان کی طرح بلکہ جان سے بڑھ کر ان کو عزیز ہو گئی ہے اور خدا کی ذاتی محبت ایک نئی رُوح ہے جو شعلہ کی طرح ان کے دلوں پر پڑتی ہے اور ان کی نماز اور یادِ الٰہی کو ایک غذا کی طرح ان کے لئے بنا دیتی ہے۔ پس وہ یقین رکھتے ہیں کہ اُن کی زندگی روٹی اور پانی سے نہیں بلکہ نماز اور یاد الٰہی سے جیتے ہیں۔

غرض محبت سے بھری ہوئی یاد الٰہی جس کا نام نماز ہے وہ درحقیقت ان کی غذا ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ جی ہی نہیں سکتے اور جس کی محافظت اور نگہبانی بعینہٖ اس مسافر کی طرح وہ کرتے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 214

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 214

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/214/mode/1up


رہتے ہیں جو ایک دشت بے آب و دانہ میں اپنی چند روٹیوں کی محافظت کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں اور اپنے کسی قدر پانی کو جان کے ساتھ رکھتا ہے جو اس کی مشک میں ہے۔ واہب مطلق نے انسان کی روحاؔ نی ترقیات کے لئے یہ بھی ایک مرتبہ رکھا ہوا ہے جو محبت ذاتی اور عشق کے غلبہ اور استیلا کا آخری مرتبہ ہے اور درحقیقت اس مرتبہ پر انسان کے لئے محبت سے بھری ہوئی یاد الٰہی جس کا شرعی اصطلاح میں نماز نام ہے غذا کے قائم مقام ہو جاتی ہے بلکہ وہ بار بار جسمانی رُوح کو بھی اس غذا پر فدا کرنا چاہتا ہے وہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا جیسا کہ مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اور خدا سے علیحدہ ایک دم بھی بسر کرنا اپنی موت سمجھتا ہے۔ اور اس کی رُوح آستانہ الٰہی پر ہر وقت سجدہ میں رہتی ہے اور تمام آرام اُس کا خدا ہی میں ہو جاتا ہے اور اس کو یقین ہوتا ہے کہ مَیں اگر ایک طرفۃالعین بھی یاد الٰہی سے الگ ہوا تو بس میں مرا۔ اور جس طرح روٹی سے جسم میں تازگی اور آنکھ اور کان وغیرہ اعضاء کی قوتوں میں توانائی آجاتی ہے۔ اِسی طرح اس مرتبہ پر یاد الٰہی جو عشق اور محبت کے جوش سے ہوتی ہے مومن کی روحانی قوتوں کو ترقی دیتی ہے یعنی آنکھ میں قوتِ کشف نہایت صاف اور لطیف طور پر پیدا ہو جاتی ہے اور کان خدا تعالیٰ کے کلام کو سُنتے ہیں اور زبان پروہ کلام نہایت لذیذ اور اجلٰی اور اصفٰی طور پر جاری ہو جاتا ہے اور رؤیاءِ صادقہ بکثرت ہوتے ہیں۔*

بہت سے نادان اس وہم میں گرفتار ہیں کہ ہمیں بھی بعض اوقات سچی خواب آجاتی ہے یا سچا الہام ہو جاتا ہے تو ہم میں اور ایسے اعلیٰ مرتبہ کے لوگوں میں فرق کیا ہوا اور ان عالی مرتبہ لوگوں کی کیا خصوصیت باقی رہی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس قدر طاقت خواب دیکھنے یا الہام کی اس غرض سے عام لوگوں کی فطرت میں رکھی گئی ہے کہ تا ان کے پاس بھی ان باریک باتوں کا کسی قدر نمونہ ہو جو اس جہان سے وراء الوراء باتیں ہیں۔ اور اس طرح پر وہ اپنے پاس ایک نمونہ دیکھ کر دولتِ قبول سے محروم نہ رہیں اور ان پر اتمام حجت ہو جائے۔ ورنہ اگر انسانوں کی یہ حالت ہوتی کہ وحی اور رؤیا صادقہ کی حقیقت سے وہ بالکل بے خبر ہوتے تو بجز انکار کے کیا کر سکتے تھے اور اس حالت میں کسی قدر معذور تھے۔ پھرجبکہ باوجود موجود ہونے اس نمونے کے زمانہ حال کے فلسفی اب تک وحی اور رؤیاصادقہ کا انکار



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 215

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 215

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/215/mode/1up


جو فلق صبح کی طرح ظہور میں آ جاتے ہیں اور بباعث علاقہ صافیہ محبت جو حضرت عزت سے ہوتا ہے مبشر خوابوں سے بہت سا حصہ اُن کو ملتا ہے۔ یہی وہ مرتبہ ہے جس مرتبہ پر مومن کو محسوس ہوتا ہے کہ خدا کی محبت اس کے لئے روٹی اور پانی کا کام دیتی ہے۔ یہ نئی پیدائش اس وقت ہوتی ہے جب پہلےؔ روحانی قالب تمام تیار ہو چکتا ہے۔ اور پھر وہ رُوح جو محبتِ ذاتیہ الٰہیہ کا ایک شعلہ ہے ایسی مومن کے دل پر آ پڑتا ہے اور یک دفعہ طاقت بالا نشیمن بشریت سے بلند تر اُس کو لے جاتی ہے۔ اور یہ مرتبہ وہ ہے جس کو روحانی طور پر خَلقِ آخر کہتے ہیں۔ اس مرتبہ پر خدا تعالیٰ اپنی ذاتی محبت کا ایک افروختہ شعلہ جس کو دوسرے لفظوں میں روح کہتے ہیں مومن کے دل پر نازل کرتا ہے اور اس سے تمام تاریکیوں اور آلائشوں اور کمزوریوں کو دُور کر دیتا ہے۔ اور اس رُوح کے پھونکنے کے ساتھ ہی وہ حُسن جو ادنیٰ مرتبہ پر تھا کمال کو پہنچ جاتا ہے اور ایک روحانی آب و تاب پیدا ہو جاتی ہے اور گندی زندگی کی کبودگی بکلّی دُور ہو جاتی ہے اور مومن اپنے اندر محسوس کر لیتا ہے کہ ایک نئی رُوح اس کے اندر داخل ہو گئی ہے جو پہلے نہیں تھی۔ اُس رُوح کے ملنے سے ایک عجیب سکینت اور اطمینان مومن کو حاصل ہو جاتی ہے اور محبتِ ذاتیہ ایک فوّارہ کی طرح جوش مارتی اور عبودیت کے پودہ کی آبپاشی کرتی ہے اور وہ آگ جو پہلے ایک معمولی گرمی کی حد تک تھی اس درجہ پر وہ تمام و کمال افروختہ ہو جاتی ہے اور انسانی وجود کے تمام خس وخاشاک کو جلا کر الوہیت کا قبضہ اس پر کر دیتی ہے۔ اور وہ آگ تمام اعضاء پر احاطہ کر لیتی ہے۔ تب اُس لوہے کی مانند جو نہایت درجہ آگ میں

کرتے ہیں تو اس وقت عام لوگوں کا کیا حال ہوتا جب کہ ان کے پاس کوئی بھی نمونہ نہ ہوتا۔ اور یہ خیال کہ ہمیں بھی بعض اوقات سچی خوابیں آجاتی ہیں یا کوئی سچے الہام ہو جاتے ہیں اس سے رسولوں اور نبیوں کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آتا کیونکہ ایسے لوگوں کے رؤیا اور الہام شکوک اور شبہات کے دُخان سے خالی نہیں ہوتے اور باایں ہمہ مقدار میں بھی کم ہوتے ہیں۔ پس جیسا کہ ایک مفلس ایک پیسہ کے ساتھ ایک بادشاہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہیں کہہ سکتا کہ میرے پاس بھی مال ہے اور اس کے پاس بھی ایسا ہی یہ مقابلہ بھی ہیچ اور سراسر حماقت ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 216

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 216

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/216/mode/1up


تپایا جائے یہاں تک کہ سُرخ ہو جائے اور آگ کے رنگ پر ہو جائے۔ اس مومن سے اُلوہیت کے آثار اور افعال ظاہر ہوتے ہیں۔ جیسا کہ لوہا بھی اس درجہ پر آگ کے آثار اور افعال ظاہر کرتا ہے مگر یہ نہیں کہ وہ مومن خدا ہو گیا ہے بلکہ محبتِ الٰہیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے جو اپنے رنگ میں ظاہر وجود کو لے آتی ہے اور باطن میں عبودیت اور اس کا ضعف موجود ہوتا ہے۔ اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اور مومن کا پانی بھی خدا ہوتا ہے جس کے پینے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے۔ اور اس کی ٹھنڈی ہوا بھی خدا ہی ہوتا ہے جس سے اس کے دل کو راحت پہنچتی ہے۔ اور اس مقام پر استعارہ کے رنگ میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ خدا اس مرتبہ کے مومن کے اندر داخل ہوتا اور اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کرتا اور اس کے دل کو اپنا تخت گاہ بنا لیتا ہے۔ تب وہ اپنی رُوح سے نہیں بلکہ خدا کی رُوح سے دیکھتا اور خدا کی رُوح سے سُنتا اور خدا کی رُوحؔ سے بولتااور خدا کی رُوح سے چلتا اور خدا کی رُوح سے دشمنوں پر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ اس مرتبہ پر نیستی اور استہلاک کے مقام میں ہوتا ہے اور خدا کی رُوح اس پر اپنی محبتِ ذاتیہ کے ساتھ تجلّی فرما کر حیاتِ ثانی اس کو بخشتی ہے ۔ پس اس وقت روحانی طور پر اس پر یہ آیت صادق آتی ہے۔33۔۱؂

یہ تو وجود روحانی کا مرتبہ ششم ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اور اس کے مقابل پر جسمانی پیدائش کا مرتبہ ششم ہے اور اس جسمانی مرتبہ کے لئے بھی وہی آیت ہے جو روحانی مرتبہ کے لئے اوپر ذکر ہو چکی ہے یعنی3۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب ہم ایک پیدائش کو طیار کر چکے تو بعد اس کے ہم نے ایک اور پیدائش سے انسان کو پیدا کیا۔ اَور کے لفظ سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ وہ ایسی فوق الفہم پیدائش ہے جس کا سمجھنا انسان کی عقل سے بالاتر ہے اور اُس کے فہم سے بہت دُور یعنی رُوح جو قالب کی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 217

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 217

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/217/mode/1up


طیاری کے بعد جسم میں ڈالی جاتی ہے وہ ہم نے انسان میں روحانی اور جسمانی دونوں طور پر ڈال دی جو مجہول الکنہ ہے اور جس کی نسبت تمام فلسفی اور اس مادی دنیا کے تمام مقلّد حیران ہیں کہ وہ کیا چیز ہے۔ اور جب کہ حقیقت تک اُن کو راہ نہ ملی تو اپنی اٹکل سے ہر ایک نے تُکیں لگائیں۔کسی نے روح کے وجود سے ہی انکار کیا۔ اور کسی نے اس کو قدیم اور غیر مخلوق سمجھا۔ پس اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ ’’ روح ‘‘ بھی خدا کی پیدائش ہے مگر دنیا کے فہم سے بالا تر ہے اور جیسا کہ اس دنیا کے فلاسفر اس رُوح سے بے خبر ہیں جو وجود جسمانی کے چھٹے مرتبہ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے جسم پر فائض ہوتی ہے ویسا ہی وہ لوگ اس رُوح سے بھی بے علم رہے کہ جو وجود رُوحانی کے چھٹے مرتبہ پر مومن صادق کو خدا تعالیٰ سے ملتی ہے اور اس بارے میں بھی مختلف راہیں اختیار کیں۔ بہتوں نے ایسے لوگوں کی پوجا شروع کر دی جن کو وہ رُوح بھی دی گئی تھی اور ان کو قدیم اور غیر مخلوق اور خدا سمجھ لیا اور بہتوں نے اس سے انکار کر دیا کہ اس مرتبہ کے لوگ بھی ہوتے ہیں اور ایسی رُوح بھی انسان کو ملتی ہے۔

لیکنؔ اس بات کو بہت جلد ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جب کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور خدا نے زمین کے تمام پرند و چرند پر اس کو بزرگی دے کر اور سب پر حکومت بخش کر اور عقل و فہم عنایت فرما کر اور اپنی معرفت کی ایک پیاس لگا کر اپنے ان تمام افعال سے جتلا دیا ہے کہ انسان خدا کی محبت اور عشق کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو پھر اس سے کیوں انکار کیا جائے کہ انسان محبتِ ذاتیہ کے مقام تک پہنچ کر اس درجہ تک پہنچ جائے کہ اس کی محبت پرخدا کی محبت ایک رُوح کی طرح وارد ہو کر تمام کمزوریاں اس کی دُور کر دے۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وجود رُوحانی کے ششم مرتبہ کے بارے میں فرمایا ہے ۔33۱؂ایسا ہی دائمی حضور اور سوز و گداز اور عبودیت انسان سے سرزد ہو اور اس طرح پر وہ اپنے وجود کی علّتِ غائی کو پورا کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے 333۲؂ یعنی مَیں نے پرستش کے لئے ہی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 218

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 218

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/218/mode/1up


جِنّ و اِنس کو پیدا کیا ہے۔ ہاں یہ پرستش اور حضرت عزّت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بجز محبتِ ذاتیہ کے ممکن نہیں۔ اور محبت سے مرا د یک طرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں تا بجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اُس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام رُوحانی وجود پر قبضہ کر لیں۔

یہی وہ کامل صورت ہے جس میں انسان ان امانتوں اور عہد کو جن کا ذکر وجود روحانی کے مرتبہ پنجم میں تحریر ہے کامل طور پر اپنے اپنے موقع پر ادا کر سکتا ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ مرتبہ پنجم میں انسان صرف تقویٰ کے لحاظ سے خدا اور مخلوق کی امانتوں اور عہد کا لحاظ رکھتا ہے اور اس مرتبہ پر محبت ذاتی کے تقاضا سے جو خدا کے ساتھ اس کو ہو گئی ہے جس کی وجہ سے خدا کی مخلوق کی محبت بھی اُس میں جوش زن ہو گئی ہے اور اس رُوح کے تقاضا سے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر نازل ہوتی ہے ان تمام حقوق کو طبعاً بوجہ احسن ادا کرتا ہے اور اس صورت میں وہ حسن باطنی جو حسنِ ظاہری کے مقابل پر ہے بوجہ احسن اس کو نصیب ہو جاتا ہے کیونکہ وجود روحاؔ نی کے مرتبہ پنجم میں تو ابھی وہ رُوح انسان میں داخل نہیں ہوئی تھی جو محبتِ ذاتیہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے جلوۂ حُسن بھی ابھی کمال پر نہیں تھا مگر رُوح کے داخل ہونے کے بعد وہ حسن کمال کو پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مُردہ خوبصورت اور زندہ خوبصورت یکساں آب و تاب نہیں رکھتے۔

جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حُسن ہیں۔ ایک حُسنِ معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے ادا کرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امر حتی الوسع اُن کے متعلق فوت نہ ہو۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں رَاعُون کا لفظ اِسی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے یعنی حقوق اللہ اور حقوق عباد میں تقویٰ سے کام لے۔ یہ حُسنِ معاملہ ہے یا یُوں کہو کہ روحانی خوبصورتی ہے جو درجہ پنجم وجود روحانی میں نمایاں ہوتی ہے مگر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 219

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 219

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/219/mode/1up


ہنوز پورے طور پر چمکتی نہیں اور وجودرُوحانی کے درجہ ششم میں بوجہ کامل ہونے پیدائش اور رُوح کے داخل ہو جانے کے یہ خوبصورتی اپنی تمام آب و تاب دکھلا دیتی ہے۔ اور یاد رہے کہ مرتبہ ششم وجود روحانی میں رُوح سے مراد وہ محبتِ ذاتیہ الٰہیہ ہے جو انسان کی محبتِ ذاتیہ پر ایک شعلہ کی طرح پڑتی اور تمام اندرونی تاریکی دُور کرتی اور روحانی زندگی بخشتی ہے اور اس کے لوازم میں سے رُوح القدس کی تائید بھی کامل طور پر ہے۔

دوسر۲ا حُسن انسان کی پیدائش میں حُسنِ بشرہ ہے۔ اور یہ دونوں حُسن اگرچہ رُوحانی اور جسمانی پیدائش درجہ پنجم میں نمودار ہو جاتے ہیں لیکن آب و تاب اُن کی فیضانِ رُوح کے بعد ظاہر ہوتی ہے اور جیسا کہ جسمانی وجود کی رُوح جسمانی قالب طیار ہونے کے بعد جسم میں داخل ہوتی ہے ایسا ہی روحانی وجود کی رُوح روحانی قالب طیار ہونے کے بعد انسان کے رُوحانی وجود میں داخل ہوتی ہے۔ یعنی اُس وقت جب کہ انسان شریعت کا تمام جُوااپنی گردن پر لے لیتا ہے اور مشقت اور مجاہدہ کے ساتھ تمام حدودِ الٰہیہ کے قبول کرنے کے لئے طیار ہوتا ہے اور ورزش شریعت اور بجا آوری احکامِ کتاب اللہ سے اس لائق ہو جاتا ہے کہ خُدا کی روحانیت اس کی طرف توجہ فرماوے اور سب سے زیادہ یہ کہ اپنی محبتِ ذاتیہ سے ؔ اپنے تئیں خدا تعالیٰ کی محبتِ ذاتیہ کا مستحق ٹھہرالیتا ہے جو برف کی طرح سفید اور شہد کی طرح شیریں ہے۔ اور جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں وجود رُوحانی خشوع کی حالت سے شروع ہوتا ہے اور روحانی نشو و نما کے چھٹے۶ مرتبہ پر یعنی اس مرتبہ پر کہ جب کہ رُوحانی قالب کے کامل ہونے کے بعد محبتِ ذاتیہ الٰہیہ کا شعلہ انسان کے دل پر ایک رُوح کی طرح پڑتا ہے اور دائمی حضور کی حالت اس کو بخش دیتا ہے کمال کو پہنچتا ہے اور تبھی روحانی حُسن اپنا پورا جلوہ دکھاتا ہے۔ لیکن یہ حُسن جو روحانی حُسنِ ہے جس کو حُسنِ معاملہ کے ساتھ موسوم کر سکتے ہیں یہ وہ حُسن ہے جو اپنی قوی کششوں کے ساتھ حُسنِ بشرہ سے بہت بڑھ کر ہے۔ کیونکہ حُسنِ بشرہ صرف ایک یا دو شخص کے فانی عشق کا موجب ہو گا جو جلد



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 220

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 220

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/220/mode/1up


زوال پذیر ہو جائے گا اور اس کی کشش نہایت کمزور ہو گی۔ لیکن وہ روحانی حُسن جس کو حُسنِ معاملہ سے موسوم کیا گیا ہے وہ اپنی کششوں میں ایسا سخت اور زبردست ہے کہ ایک دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اس کی طرف کھنچا جاتا ہے اور قبولیت دُعا کی بھی درحقیقت فلاسفی یہی ہے کہ جب ایسا رُوحانی حُسن والا انسان جس میں محبتِ الٰہیہ کی رُوح داخل ہو جاتی ہے جب کسی غیر ممکن اور نہایت مشکل امر کے لئے دُعا کرتا ہے اور اُس دُعا پر پورا پورا زور دیتا ہے تو چونکہ وہ اپنی ذات میں حُسنِ رُوحانی رکھتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے امر اور اذن سے اس عالم کا ذرّہ ذرّہ اس کی طرف کھینچا جاتا ہے۔ پس ایسے اسباب جمع ہو جاتے ہیں جو اس کی کامیابی کے لئے کافی ہوں۔ تجربہ اور خدا تعالیٰ کی پاک کتاب سے ثابت ہے کہ دنیا کے ہر ایک ذرّہ کو طبعاً ایسے شخص کے ساتھ ایک عشق ہوتا ہے اور اُس کی دُعائیں اُن تمام ذرّات کو ایسا اپنی طرف کھینچتی ہیں جیسا کہ آہن رُبا لوہے کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ پس غیر معمولی باتیں جن کا ذکر کسی علمِ طبعی اور فلسفہ میں نہیں اس کشش کے باعث ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اور وہ کشش طبعی ہوتی ہے۔ جب سے کہ صانع مطلق نے عالمِ اجسام کو ذرّات سے ترکیب دی ہے ہر ایک ذرّے میں وہ کشش رکھی ہے اور ہر ایک ذرّہ رُوحانی حُسن کا عاشق صادق ہے اور ایسا ہی ہر ایک سعید رُوح بھی۔ کیونکہ وہ حُسن تجلّی گاہِ حق ہے۔ وہی حُسن تھا جس کے لئے فرمایا گیا أُ33۱؂اور اب بھی بہتیرے ابلیس ہیں جو اِس حُسن کو شناخت نہیں کرتے مگر وہ حسنؔ بڑے بڑے کام دکھلاتا رہا ہے۔

نوح میں وہی حُسن تھا جس کی پاس خاطر حضرت عزت جلّ شانہٗ کو منظور ہوئی اور تمام منکروں کو پانی کے عذاب سے ہلاک کیا گیا۔ پھر اس کے بعد موسیٰ بھی وہی حُسن رُوحانی لے کر آیا جس نے چند روز تکلیفیں اٹھا کر آخر فرعون کا بیڑا غرق کیا۔ پھر سب کے بعد سیّد الانبیاء وخیرالوریٰ مولانا و سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ایک عظیم الشان روحانی حُسن لے کر آئے جس کی تعریف میں یہی آیت کریمہ کافی ہے۔3۲؂یعنی وہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 221

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 221

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/221/mode/1up


نبی جنابِ الٰہی سے بہت نزدیک چلا گیا۔ اور پھر مخلوق کی طرف جُھکا اور اس طرح پر دونوں حقوں کو جو حق اللہ اور حق العباد ہے ادا کر دیا۔ اور دونوں قسم کا حُسن رُوحانی ظاہر کیا۔ اور دونوں قوسوں میں وتر کی طرح ہو گیا۔ یعنی دونوں قوسوں میں جو ایک درمیانی خط کی طرح ہو اور اس طرح اس کا وجود واقع ہوا جیسے یہ ۔


اس حُسن کو ناپاک طبع اور اندھے لوگوں نے نہ دیکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ 3۱؂یعنی تیری طرف وہ دیکھتے ہیں مگر تو انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ آخر وہ سب اندھے ہلاک ہو گئے۔

اس جگہ بعض جاہل کہتے ہیں کہ کیوں کامل لوگوں کی بعض دُعائیں منظور نہیں ہوتیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اُن کی تجلّی حُسن کو خدا تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے۔ پس جس جگہ یہ تجلی عظیم ظاہر ہو جاتی ہے اور کسی معاملہ میں اُن کا حُسن جوش میں آتا ہے اور اپنی چمک دکھلاتا ہے تب اس چمک کی طرف ذرّاتِ عالم کھنچے جاتے ہیں اور غیر ممکن باتیں وقوع میں آتی ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں معجزہ کہتے ہیں۔ مگر یہ جوشِ روحانی ہمیشہ اور ہر جگہ ظہور میں نہیں آتا اور تحریکات خارجیہ کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ اس لئے کہ جیسا کہ خدائے کریم بے نیاز ہے اس نے اپنے برگزیدوں میں بھی بے نیازی کی صفت رکھ دی ہے۔ سو وہ خدا کی طرح سخت بے نیاز ہوتے ہیں اور جب تک کوئی پوری خاکساری اور اخلاص کے ساتھ اُن کے رحم کے لئے ایک تحریک پیدا نہ کرے وہ قوت اُن کی جوش نہیں مارتی اور عجیب تر یہ کہ وہ لوگ تمام دنیا سے زیادہ تر رحم کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ مگر اُس کی تحریک اُن کے اختیار میںؔ نہیں ہوتی گو وہ بارہا چاہتے بھی ہیں کہ وہ قوت ظہور میں آوے مگر بجز ارادہ الٰہیہ کے ظاہر نہیں ہوتی۔ بالخصوص وہ منکروں اور منافقوں اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 222

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 222

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/222/mode/1up


سُست اعتقاد لوگوں کی کچھ بھی پروا نہیں رکھتے اور ایک مرے ہوئے کیڑے کی طرح اُن کو سمجھتے ہیں اور وہ بے نیازی ان کی ایک ایسی شان رکھتی ہے جیسا کہ ایک معشوق نہایت خوبصورت برقع میں اپناچہرہ چھپائے رکھے۔ اور اِسی بے نیازی کا ایک شعبہ یہ ہے کہ جب کوئی شریر انسان اُن پر بدظنی کرے تو بسا اوقات بے نیازی کے جوش سے اُس بدظنی کو اور بھی بڑھا دیتے ہیں۔ کیونکہ تخلّق باخلاق اللّٰہ رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔3۱؂ جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ کوئی معجزہ اُن سے ظاہر ہو تو اُن کے دلوں میں ایک جوش پیدا کر دیتا ہے اور ایک امر کے حصول کے لئے سخت کرب اور قلق اُن کے دلوں میں پیدا ہو جاتا ہے تب وہ بے نیازی کا برقع اپنے مُنہ پر سے اُتار لیتے ہیں اور وہ حُسن اُن کا جو بجز خدا تعالیٰ کے کوئی نہیں دیکھتا وہ آسمان کے فرشتوں پر اورذرّہ ذرّہ پر نمودار ہو جاتا ہے۔ اور اُن کا مُنہ پر سے برقع اٹھانا یہ ہے کہ وہ اپنے کامل صدق اور صفا کے ساتھ اور اِس رُوحانی حُسن کے ساتھ جس کی وجہ سے وہ خدا کے محبوب ہو گئے ہیں اس خدا کی طرف ایک ایسا خارق عادت رجوع کرتے ہیں اور ایک ایسے اقبال علی اللہ کی اُن میں حالت پیدا ہو جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کی فوق العادت رحمت کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور ساتھ ہی ذرّہ ذرّہ اس عالم کا کھنچا چلا آتا ہے۔ اور اُن کی عاشقانہ حرارت کی گرمی آسمان پر جمع ہوتی اور بادلوں کی طرح فرشتوں کو بھی اپنا چہرہ دکھا دیتی ہے اور اُن کی دردیں جو رعد کی خاصیت اپنے اندر رکھتی ہیں ایک سخت شور ملاءِ اعلیٰ میں ڈال دیتی ہیں تب خدا تعالیٰ کی قدرت سے وہ بادل پیدا ہو جاتے ہیں جن سے رحمتِ الٰہی کا وہ مینہ برستا ہے جس کی وہ خواہش کرتے ہیں۔ اُن کی روحانیت جب اپنے پورے سوز و گداز کے ساتھ کسی عقدہ کشائی کے لئے توجہ کرتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کیونکہ وہ لوگ بباعث اس کے جو خدا سے ذاتی محبت رکھتے ہیں محبوبانِ الٰہی میں داخل ہوتے ہیں۔ تب ہر ایک چیز جو خدا تعالیٰ کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 223

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 223

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/223/mode/1up


زیرِ حکم ہے۔ اُن کی مدد کے لئے جوش مارتی ہے * اور رحمتِ الٰہی محض اُن کی مراد پوری کرنے کے لئے ایکؔ خلق جدید کے لئے تیار ہو جاتی ہے۔ اور وہ امور ظاہر ہوتے ہیں جو اہل دنیا کی نظر میں غیر ممکن معلوم ہوتے ہیں اور جن سے سفلی علوم محض نا آشنا ہیں۔ ایسے لوگوں کو خدا تو نہیں کہہ سکتے مگر قرب اور علاقہ محبت اُن کا کچھ ایسا صدق اور صفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے گویا خدا اُن میں اُتر آتا ہے۔ اور آدم کی طرح خدائی رُوح اُن میں پُھونکی جاتی ہے مگر یہ نہیں کہ وہ خدا ہیں لیکن درمیان میں کچھ ایسا تعلق ہے جیسا کہ لوہے کو جب کہ سخت طور پر آگ سے افروختہ ہو جائے اور آگ کا رنگ اُس میں پیدا ہو جائے آگ سے تعلق ہوتا ہے۔ اس صورت میں تمام چیزیں جو خدا تعالیٰ کے زیرِ حکم ہیں اُن کے زیر حکم ہو جاتی ہیں۔ اور آسمان کے ستارے اور سورج اور چاند سے لے کر زمین کے سمندروں اور ہوا اور آگ تک اُن کی آواز کو سُنتے اور ان کو شناخت کرتے اور اُن کی خدمت میں لگے رہتے ہیں اور ہر ایک چیز طبعاً اُن سے پیار کرتی ہے اور عاشقِ صادق کی طرح اُن کی طرف کھنچی جاتی ہے۔ بجز شریر انسانوں کے جو شیطان کا اوتار ہیں۔ عشق مجازی تو ایک منحوس عشق ہے کہ ایک طرف پیدا ہوتا اور ایک طرف مر جاتا ہے۔ اور نیز اس کی بنا اُس حُسن پر ہے جو قابلِ زوال ہے۔ اور نیز اُس حُسن کے اثر کے نیچے آنے والے بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ مگر یہ کیا حیرت انگیز نظارہ ہے کہ وہ حسن روحانی جو حُسن معاملہ اور صدق و صفا اور محبتِ الٰہیہ کی تجلّی کے بعد انسان میں پیدا ہوتا ہے اس میں ایک عالمگیر کشش پائی جاتی ہے وہ مستعد دلوں کو اس طرح اپنی طرف کھینچ لیتا ہے کہ جیسے شہد چیونٹیوں کو۔ اور نہ صرف انسان بلکہ عالم کا ذرّہ ذرّہ اس کی کشش سے متاثر ہوتا ہے۔ صادق المحبت انسان جو سچی محبت خدا تعالیٰ سے رکھتا ہے وہ وہ یوسف ہے جس کے لئے ذرّہ ذرّہ اس عالم کا زلیخا صفت ہے۔ اور ابھی حسن اُس کا اس عالم میں ظاہر نہیں کیونکہ یہ عالم اس کی برداشت نہیں کرتا۔ خدا تعالیٰ

کافر اور دشمن بھی ایک قسم کی ان کی مدد کرتے ہیں کہ ایذاء اور ظلم کے ساتھ ان کے دل کو دکھ دیتے اور ان کی روحانیت کو جوش میں لاتے ہیں ؂ تا دل مرد خدا نا مد بدرد ہیچ قومے را خدا رسوا نہ کرد ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 224

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 224

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/224/mode/1up


اپنی پاک کتاب میں جو فرقان مجید ہے فرماتا ہے کہ مومنوں کا نور اُن کے چہروں پر دوڑتا ہے۔ اور مومن اس حُسن سے شناخت کیا جاتا ہے جس کا نام دوسرے لفظوں میں نور ہے۔

اور مجھے ایک دفعہ عالمِ کشف میں پنجابی زبان میں اِسی علامت کے بارہ میں یہ موزوں فقرہ سُنایا گیا۔ ’’عِشق الٰہی وَسّے مُنہ پر ولیاں ایہہ نشانی‘‘ مومن کا نور جس کا قرآن شریف میں ذکر ؔ کیا گیا ہے وہ وہی روحانی حُسن و جمال ہے جو مومن کو وجود رُوحانی کے مرتبہ ششم پر کامل طور پر عطا کیا جاتا ہے۔ جسمانی حُسن کا ایک شخص یا دو شخص خریدار ہوتے ہیں مگر یہ عجیب حُسن ہے جس کے خریدار کروڑ ہا رُوحیں ہو جاتی ہیں۔ اِسی روحانی حُسن کی بنا پر بعض نے سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ* کی نعت میں یہ شعر کہے ہیں اور اُن کو ایک نہایت درجہ حسین اور خوبصورت قرار دیا ہے اور وہ اشعار یہ ہیں ؂

آن تُرکِ عجم چون زِ مئےِ عشق طرب کرد

غارت گر یئے کوفہ و بغداد و حلب کرد

صد لالہ رُخے بود بصد حُسنِ شگفتہ

نازان ہمہ را زِیر قدم کرد عجب کرد


فطرتًا بعض طبائع کو بعض طبائع سے مناسبت ہوتی ہے۔ اسی طرح میری روح اور سید عبد القادر کی روح کو خمیر فطرت سے باہم ایک مناسبت ہے جس پر کشوفِ صحیحہ صریحہ سے مجھ کو اطلاع ملی ہے۔ اس بات پر تیس۳۰ برس کے قریب زمانہ گزر گیا ہے کہ جب ایک رات مجھے خدا نے اطلاع دی کہ اُس نے مجھے اپنے لئے اختیار کر لیا ہے۔ تب یہ عجیب اتفاق ہوا کہ اُسی رات ایک بڑھیا کو خواب آئی جس کی عمر قریباً اسی۸۰ برس کی تھی اور اُس نے صبح مجھ کو آکر کہا کہ میں نے رات سید عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے اور ساتھ ان کے ایک اور بزرگ تھے اور دونوں سبزپوش تھے اور رات کے پچھلے حصہ کا وقت تھا۔ دوسرا بزرگ عمر میں اُن سے کچھ چھوٹا تھا۔ پہلے انہوں نے ہماری جامع مسجد میں نماز پڑھی اور پھر مسجد کے باہر کے صحن میں نکل آئے اور میں اُن کے پاس کھڑی تھی اتنے میں مشرق کی طرف سے ایک چمکتا ہوا ستارہ نکلا تب اس ستارہ کو دیکھ کر سید عبد القادر بہت خوش ہوئے اور ستارہ کی طرف مخاطب ہو کر کہا السلام علیکم اور ایسا ہی ان کے رفیق نے السلام علیکم کہا۔ اور وہ ستارہ میں تھا۔ المؤمن یَرٰی و یُرٰی لہ۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 225

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 225

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/225/mode/1up


اور شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے بھی اس بارہ میں ایک شعر کہا ہے جو حُسنِ روحانی پر بہت منطبق ہوتا ہے اور وہ یہ ہے

صورت گر دیبائے چیں رو صورتِ زیباش بین

یا صورتے برکش چنیں یا توبہ کن صورت گری

اب یہ بھی یاد رہے کہ بندہ تو حُسنِ معاملہ دکھلا کر اپنے صدق سے بھری ہوئی محبت ظاہر کرتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس کے مقابلہ پر حد ہی کر دیتا ہے اس کی تیز رفتار کے مقابل پر برق کی طرح اس کی طرف دوڑتا چلا آتا ہے اور زمین و آسمان سے اس کے لئے نشان ظاہر کرتا ہے اور اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن بن جاتا ہے اور اگر پچاس کروڑ انسان بھی اُس کی مخالفت پر کھڑا ہو تو ان کو ایسا ذلیل اور بے دست و پا کر دیتا ہے جیسا کہ ایک مرا ہوا کیڑا۔ اور محض ایک شخص کی خاطر کے لئے ایک دنیا کو ہلاک کر دیتا ہے اور اپنی زمین و آسمان کو اس کے خادم بنا دیتا ہے اور اس کے کلام میں برکت ڈال دیتا ہے اور اس کے تمام درو دیوار پر نور کی بارش کرتا ہے اور اُس کی پوشاک اور اُس کی خوراک میں اور اس مٹی میں بھی جس پر اس کا قدم پڑتا ہے ایک برکت رکھ دیتا ہے اور اس کو نامراد ہلاک نہیں کرتا۔ اور ہر ایک اعتراض جو اس پر ہو اُس کا آپ جواب دیتا ہے۔ وہ اُس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے اور اُس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے اور اُس کی زبان ہو جاتا ہے جس سے وہ بولتا ہے اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے اور اُس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ دشمنوں پر حملہ کرتا ہے۔ وہ اُس کے دشمنوں کے مقابل پر آپ نکلتا ہے اور شریروں پر جو اُس کو دُکھ دیتے ہیں آپؔ تلوار کھینچتا ہے۔ ہر میدان میں اس کو فتح دیتا ہے اور اپنی قضاء و قدر کے پوشیدہ راز اس کو بتلاتا ہے۔ غرض پہلا خریدار اس کے رُوحانی حُسن و جمال کا جو حُسنِ معاملہ اور محبتِ ذاتیہ کے بعد پیدا ہوتا ہے خدا ہی ہے۔ پس کیا ہی بدقسمت وہ لوگ ہیں جو ایسا زمانہ پاویں اور ایسا سورج اُن پر طلوع کرے اور وہ تاریکی میں بیٹھے رہیں۔

بعض نادان یہ اعتراض بار بار پیش کرتے ہیں کہ محبوبانِ الٰہی کی یہ علامت ہے کہ ہر ایک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 226

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 226

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/226/mode/1up


دُعا اُن کی سُنی جاتی ہے۔ اور جس میں یہ علامت نہیں پائی جاتی وہ محبوبانِ الٰہی میں سے نہیں ہے*۔مگر افسوس کہ یہ لوگ مُنہ سے تو ایک بات نکال لیتے ہیں مگر اعتراض کرنے کے وقت یہ نہیں سوچتے کہ ایسے جاہلانہ اعتراض خدا تعالیٰ کے تمام نبیوں اور رسولوں پر وارد ہوتے ہیں۔ مثلاً ہر ایک نبی کی یہ مراد تھی کہ تمام کفّار ان کے زمانہ کے جو ان کی مخالفت پر کھڑے تھے مسلمان ہو جائیں۔ مگر یہ مراد اُن کی پوری نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کر کے فرمایا۔3۱؂ یعنی ’’کیا تو اِس غم سے اپنے تئیں ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کفار کے ایمان لانے کے لئے اس قدر جانکاہی اور سوز و گداز سے دُعا کرتے تھے کہ اندیشہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس غم سے خود ہلاک نہ ہو جاویں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے لئے اس قدر غم نہ کر اور اس قدر اپنے دل کو دردوں کا نشانہ مت بنا کیونکہ یہ لوگ ایمان لانے سے لاپروا ہیں اور ان کے اغراض اور مقاصد اَور ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اے نبی (علیہ السلام) ! جس قدر تو عقد ہمت اور کامل توجہ اور سوز و گداز اور اپنی رُوح کو مشقت میں ڈالنے سے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دُعا کرتا ہے تیری دعاؤں کے پُر تاثیر ہونے میں کچھ کمی نہیں ہے لیکن شرط قبولیت دُعا یہ ہے کہ جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے سخت متعصب اور لاپروا اور گندی فطرت کا انسان نہ ہو ورنہ دُعا قبول نہیں ہو گی اور جہاں تک مجھے خدا تعالیٰ نے دعاؤں کے بارے میں علم دیا ہے وہ یہؔ ہے کہ دُعا کے قبول ہونے کے لئے تین شرطیں ہیں۔

یاد رہے کہ مومن کے ساتھ خدا تعالیٰ دوستانہ معاملہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کبھی تو وہ مومن کے ارادہ کو پورا کرے اور کبھی مومن اس کے ارادہ پر راضی ہو جائے۔ پس ایک جگہ تو مومن کو مخاطب کر کے فرماتا ہے3۲؂ یعنی دعا کرو کہ میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ اس جگہ تو مومن کی خواہش پوری کرنا چاہتا ہے۔ اور دوسری جگہ اپنی خواہش مومن سے منوانا چاہتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے3333333 ۳؂ افسوس کہ نادان آدمی صرف ایک پہلو کو دیکھتا ہے اور دونوں پہلوؤں پر نظر نہیں ڈالتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 227

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 227

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/227/mode/1up


اوّل۔ دُعا کرنے والا کامل درجہ پر متقی ہو کیونکہ خدا تعالیٰ کا مقبول وہی بندہ ہوتا ہے جس کا شعار تقویٰ ہو اور جس نے تقویٰ کی باریک راہوں کو مضبوط پکڑا ہو اور جو امین اور متقی اور صادق العہد ہونے کی وجہ سے منظور نظر الٰہی ہو۔ اور محبتِ ذاتیہ الٰہیہ سے معمور اور پُر ہو۔

دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی عقدِ ہمت اور توجہ اس قدر ہو کہ گویا ایک شخص کے زندہ کرنے کے لئے ہلاک ہو جائے اور ایک شخص کو قبر سے باہر نکالنے کے لئے آپ گور میں داخل ہو۔ اس میں راز یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنے مقبول بندے اس سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں جیسا کہ ایک خوبصورت بچہ جو ایک ہی ہو اس کی ماں کو پیارا ہوتا ہے۔ پس جب کہ خدائے کریم و رحیم دیکھتا ہے کہ ایک مقبول و محبوب اُس کا ایک شخص کی جان بچانے کے لئے روحانی مشقتوں اور تضرعات اور مجاہدات کی وجہ سے اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ قریب ہے کہ اُس کی جان نکل جائے تو اُس کو علاقۂ محبت کی وجہ سے ناگوار گذرتا ہے کہ اسی حال میں اُس کو ہلاک کر دے۔ تب اس کے لئے اس دوسرے شخص کا گناہ بخش دیتا ہے جس کے لئے وہ پکڑا گیا تھا پس اگر وہ کسی مہلک بیماری میں گرفتار ہے یا اور کسی بلا میں اسیر و لاچار ہے تو اپنی قدرت سے ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جس سے رہائی ہو جائے اور بسا اوقات اُس کا ارادہ ایک شخص کے قطعی طور پر ہلاک کرنے یا برباد کرنے پر قرار یافتہ ہوتا ہے لیکن جب ایک مصیبت زدہ کی خوش قسمتی سے ایسا شخص پُر درد تضرعات کے ساتھ درمیان میں آ پڑتا ہے جس کو حضرت عزت میں وجاہت ہے تو وہ مِثل مقدمہ جو سزا دینے کے لئے مکمل اور مرتب ہو چکی ہے چاک کرنی پڑتی ہے کیونکہ اب بات اغیار سے یار کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور یہ کیونکر ہو سکے کہ خدا اپنے سچے دوستوں کو عذاب دے۔

۳۔تیسری شرط استجابتِ دُعا کے لئے ایک ایسی شرط ہے جو تمام شرطوں سے مشکل تر ہے کیونکہ اس کا پورا کرنا خدا کے مقبول بندوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اُس شخص کے ہاتھ میں ہے جو دعا کرانا چاہتاؔ ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ نہایت صدق اور کامل اعتقاد اور کامل یقین اور کامل ارادت اور کامل غلامی کے ساتھ دُعا کا خواہاں ہو اور یہ دل میں فیصلہ کر لے کہ اگر دُعا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 228

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 228

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/228/mode/1up


قبول بھی نہ ہو تاہم اس کے اعتقاد اور ارادت میں فرق نہیں آئے گا۔ اور دُعا کرانا آزمائش کے طور پر نہ ہو بلکہ سچے اعتقاد کے طور پر ہو اور نہایت نیاز مندی سے اس کے دروازے پر گرے اور جہاں تک اس کے لئے ممکن ہے مال سے خدمت سے ہر ایک طور کی اطاعت سے ایسا قرب پیدا کرے کہ اس کے دل کے اندر داخل ہو جائے اور باایں ہمہ نہایت درجہ پر نیک ظن ہو اور اُس کو نہایت درجہ کا متقی سمجھے اور اس کی مقدس شان کے بر خلاف ایک خیال بھی دل میں لانا کفر خیال کرے اور اس قسم کی طرح طرح کی جاں نثاری دکھلا کر سچے اعتقاد کو اُس پر ثابت اور روشن کر دے اور اس کی مثل دنیا میں کسی کو بھی نہ سمجھے اور جان سے مال سے آبرو سے اُس پر فدا ہو جائے۔ اور کوئی کلمہ کسر شان کا کسی پہلو سے اس کی نسبت زبان پر نہ لائے اور نہ دل میں۔ اور اس بات کو اس کی نظر میں بپایۂ ثبوت پہنچا دے کہ درحقیقت وہ ایسا ہی معتقد اور مرید ہے اور باایں ہمہ صبر سے انتظار کرے اور اگر پچاس دفعہ بھی اپنے کام میں نامراد رہے پھر بھی اعتقاد اور یقین میں سُست نہ ہو۔ کیونکہ یہ قوم سخت نازک دل ہوتی ہے اور اُن کی فراست چہرہ کو دیکھ کر پہچان سکتی ہے کہ یہ شخص کس درجہ کا اخلاص رکھتا ہے اور یہ قوم باوجود نرم دل ہونے کے نہایت بے نیاز ہوتی ہے۔ اُن کے دل خدا نے ایسے بے نیاز پیدا کئے ہیں کہ متکبّر اور خود غرض اور منافق طبع انسان کی کچھ پروا نہیں کرتے۔ اس قوم سے وہی لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں جو اس قدر غلامانہ اطاعت اُن کی اختیار کرتے ہیں کہ گویا مر ہی جاتے ہیں۔ مگر وہ شخص جو قدم قدم پر بد ظنی کرتا ہے اور دل میں کوئی اعتراض رکھتا ہے اور پوری محبت اور ارادت نہیں رکھتا وہ بجائے فائدہ کے ہلاک ہوتا ہے۔

اب ہم اس تقریر کے بعد کہتے ہیں کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے مومن کے وجود روحانی کے مراتب سِتّہ بیان کر کے ان کے مقابل پر وجودِ جسمانی کے مراتبِ سِتّہ دکھلائے ہیں یہ ایک علمی معجزہ ہے اور جس قدر کتابیں دنیا میں کُتب سماوی کہلاتی ہیں یا جن حکیموں نے نفسؔ اور الٰہیات کے بارے میں تحریریں کی ہیں اور یا جن لوگوں نے صوفیوں کی طرز پر معارف



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 229

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 229

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/229/mode/1up


کی باتیں لکھی ہیں کسی کا ذہن ان میں سے اس بات کی طرف سبقت نہیں لے گیا کہ یہ مقابلہ جسمانی اور روحانی وجود کا دکھلاتا۔ اگر کوئی شخص میرے اس دعوے سے منکر ہو اور اس کا گمان ہو کہ یہ مقابلہ روحانی اور جسمانی کِسی اَور نے بھی دکھلایا ہے تو اس پر واجب ہے کہ اس علمی معجزہ کی نظیر کسی اَور کتاب میں سے پیش کر کے دکھلاوے۔ اور مَیں نے تو توریت اور انجیل اور ہندوؤں کے وید کو بھی دیکھا ہے۔ مگر مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اِس قسم کا علمی معجزہ میں نے بجز قرآن شریف کے کسی کتاب میں نہ پایا۔ اور صرف اِسی معجزہ پر حصر نہیں بلکہ تمام قرآن شریف ایسے ہی علمی معجزات سے پُر ہے جن پر ایک عقل مند نظر ڈال کر سمجھ سکتا ہے کہ یہ اُسی خدائے قادرِ مطلق کا کلا م ہے جس کی قدرتیں زمین و آسمان کی مصنوعات میں ظاہر ہیں۔ وہی خدا جو اپنی باتوں اور کاموں میں بے مثل و مانند ہے پھر جب ہم ایک طرف ایسے ایسے معجزات قرآن شریف میں پاتے ہیں اور دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اُمیّت کو دیکھتے ہیں اور اس بات کو اپنے تصور میں لاتے ہیں کہ آپ نے ایک حرف بھی کسی اُستاد سے نہیں پڑھا تھا اور نہ آپ نے طبعی اور فلسفہ سے کچھ حاصل کیا تھا بلکہ آپ ایک ایسی قوم میں پیدا ہوئے تھے کہ جو سب کی سب اُمی اور ناخواندہ تھی اور ایک وحشیانہ زندگی رکھتی تھی اور باایں ہمہ آپ نے والدین کی تربیت کا زمانہ بھی نہیں پایا تھا۔ تو ان سب باتوں کو مجموعی نظر کے ساتھ دیکھنے سے قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے پر ایک ایسی چمکتی ہوئی بصیرت ہمیں ملتی ہے اور اس کا علمی معجزہ ہونا ایسے یقین کے ساتھ ہمارے دل میں بھر جاتا ہے کہ گویا ہم اس کو دیکھ کر خدا تعالیٰ کو دیکھ لیتے ہیں۔ غرض جب کہ بدیہی طور پر ثابت ہے کہ سورۃ المؤمنون کی یہ تمام آیات جو ابتدائے سورۃ سے لے کر آیت3۱؂ تک ہیں علمی معجزہ ہیں۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ آیت3 علمی معجزہ کی ایک جزو ہے اور بباعث معجزہ کے جزو ہونے کے معجزہ میں داخل ہے اور یہی ثابت کرنا تھا۔

اورؔ یاد رہے کہ یہ علمی معجزہ مذکورہ بالا ایک ایسی صاف اور کھلی کھلی اور روشن اور بدیہی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 230

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 230

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/230/mode/1up


سچائی ہے کہ اب خدا تعالیٰ کی کلام کی رہبری اور یاد دہانی کے بعد عقل بھی اپنے معقولی علوم میں بہت فخر کے ساتھ اس کو داخل کرنے کے لئے طیار ہے۔

کیونکہ عندالعقل یہ بات ظاہر ہے کہ سب سے پہلے جو ایک سعید الفطرت آدمی کے نفس کو خدا تعالیٰ کی طرف اس کی طلب میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہے۔ وہ خشوع اور انکسار ہے اور خشوع سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے فروتنی اور تواضع اور تضرع کی حالت اختیار کی جائے اور جو اس کے مقابل پر اخلاقِ ردّیہ ہیں جیسے تکبّر اور عُجب اور ریا اور لاپروائی اور بے نیازی ان سب کو خدا تعالیٰ کے خوف سے چھوڑ دیا جائے اور یہ بات بدیہی ہے کہ جب تک انسان اپنے اخلاق ردّیہ کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک اُن اخلاق کے مقابل پر جو اخلاق فاضلہ ہیں جو خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں اُن کو قبول نہیں کر سکتا کیونکہ دو ضدّیں ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اِسی کی طرف اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں اشارہ فرماتا ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ کی ابتدا میں اس نے فرمایا۔3۱؂ یعنی قرآن شریف ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو متقی ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو تکبّر نہیں کرتے اور خشوع اور انکسار سے خدا تعالیٰ کے کلام میں غور کرتے ہیں وہی ہیں جو آخر کو ہدایت پاتے ہیں۔ اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ ان آیات میں چھ۶ جگہ اَفلَحَ کا لفظ ہے۔ پہلی آیت میں صریح طور پر جیسا کہ فرمایا ہے33۲؂ اور بعد کی آیتوں میں عطف کے ذریعہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ اور اَفلَح کے لُغت میں یہ معنے ہیں اُصِیْرَ اِلَی الفَلَاحِ یعنی فوز مرام کی طرف پھیرا گیا اور حرکت دیا گیا۔ پس ان معنوں کی رُو سے مومن کا نماز میں خشوع اختیار کرنا فوزِ مرام کے لئے پہلی حرکت ہے جس کے ساتھ تکبّر اور عُجب وغیرہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ اور اس میں فوزِ مرام یہ ہے کہ انسان کا نفس خشوع کی سیرت اختیار کر کے خدائے تعالیٰ سے تعلق پکڑنے کے لئے مستعد اور طیار ہو جاتا ہے۔

دوسرؔ ا کام مومن کا یعنی وہ کام جس سے دوسرے مرتبہ تک قوّتِ ایمانی پہنچتی ہے اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 231

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 231

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/231/mode/1up


پہلے کی نسبت ایمان کچھ قوی ہو جاتا ہے عقلِ سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ مومن اپنے دل کو جو خشوع کے مرتبہ تک پہنچ چکا ہے لغو خیالات اور لغو شغلوں سے پاک کرے کیونکہ جب تک مومن یہ ادنیٰ قوت حاصل نہ کر لے کہ خدا کے لئے لغو باتوں اور لغو کاموں کو ترک کر سکے جو کچھ بھی مشکل نہیں اور صرف گناہ بے لذّت ہے اُس وقت تک یہ طمع خام ہے کہ مومن ایسے کاموں سے دست بردار ہو سکے جن سے دست بردار ہونا نفس پر بہت بھاری ہے اور جن کے ارتکاب میں نفس کو کوئی فائدہ یا لذّت ہے۔ پس اِس سے ثابت ہے کہ پہلے درجہ کے بعد کہ ترکِ تکبّر ہے دوسرا درجہ ترکِ لغویات ہے۔ اور اس درجہ پر وعدہ جو لفظ اَفْلَحَ سے کیا گیا ہے یعنی فوزِ مرام اس طرح پر پورا ہوتا ہے کہ مومن کا تعلق جب لغو کاموں اور لغو شغلوں سے ٹوٹ جاتا ہے تو ایک خفیف سا تعلق خدا تعالیٰ سے اس کو ہو جاتا ہے اور قوت ایمانی بھی پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور خفیف تعلق اس لئے ہم نے کہا کہ لغویات سے تعلق بھی خفیف ہی ہوتا ہے پس خفیف تعلق چھوڑنے سے خفیف تعلق ہی ملتا ہے۔

پھر تیسرا کام مومن کا جس سے تیسرے درجے تک قوتِ ایمانی پہنچ جاتی ہے عقل سلیم کے نزدیک یہ ہے کہ وہ صرف لغو کاموں اور لغو باتوں کو ہی خدا تعالیٰ کے لئے نہیں چھوڑتا بلکہ اپنا عزیز مال بھی خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ لغو کاموں کے چھوڑنے کی نسبت مال کا چھوڑنا نفس پر زیادہ بھاری ہے کیونکہ وہ محنت سے کمایا ہوا اور ایک کارآمد چیز ہوتی ہے۔ جس پر خوش زندگی اور آرام کا مدار ہے اس لئے مال کا خدا کے لئے چھوڑنا بہ نسبت لغو کاموں کے چھوڑنے کے قوتِ ایمانی کو زیادہ چاہتا ہے اور لفظ اَفْلَحَ کا جو آیات میں وعدہ ہے اس کے اس جگہ یہ معنی ہوں گے کہ دوسرے درجہ کی نسبت اس مرتبہ میں قوت ایمانی اور تعلق بھی خدا تعالیٰ سے زیادہ ہو جاتی ہے اور نفس کی پاکیزگی اس سے پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اپنے ہاتھ سے اپنامحنت سے کمایا ہوا مال محض خدا کے خوف سے نکالنا بجز نفس کی پاکیزگی کے ممکن نہیں۔

پھر ؔ چوتھا کام مومن کا جس سے چوتھے درجہ تک قوت ایمانی پہنچ جاتی ہے عقلِ سلیم کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 232

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 232

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/232/mode/1up


نزدیک یہ ہے کہ وہ صرف مال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ترک نہیں کرتا بلکہ وہ چیز جس سے وہ مال سے بھی بڑھ کر پیار کرتا ہے یعنی شہوات نفسانیہ اُن کا وہ حصہ جو حرام کے طور پر ہے چھوڑ دیتا ہے ہم بیان کر چکے ہیں کہ ہر ایک انسان اپنی شہواتِ نفسانیہ کو طبعاً مال سے عزیزتر سمجھتا ہے اور مال کو ان کی راہ میں فدا کرتا ہے۔ پس بلا شبہ مال کے چھوڑنے سے خدا کے لئے شہوات کو چھوڑنا بہت بھاری ہے اور لفظ اَفْلَحَ جو اس آیت سے بھی تعلق رکھتا ہے اُس کے اِس جگہ یہ معنی ہیں کہ جیسے شہواتِ نفسانیہ سے انسان کو طبعاً شدید تعلق ہوتا ہے ایسا ہی ان کے چھوڑنے کے بعد وہی شدید تعلق خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جو شخص کوئی چیز خدا تعالیٰ کی راہ میں کھوتا ہے اُس سے بہتر پا لیتا ہے ۔ ؂

لُطفِ او ترک طالبان نہ کند کس بہ کارِ رہش زیان نہ کند

ہر کہ آن راہ جُست یافتہ است تافت آن رو کہ سرنتافتہ است

پھر پانچواں کام مومن کا جس سے پانچویں درجہ تک قوتِ ایمانی پہنچ جاتی ہے عند العقل یہ ہے کہ صرف ترک شہواتِ نفس ہی نہ کرے بلکہ خدا کی راہ میں خود نفس کو ہی ترک کر دے اور اس کے فدا کرنے پر طیار رہے۔ یعنی نفس جو خدا کی امانت ہے اسی مالک کو واپس دیدے اور نفس سے صرف اس قدر تعلق رکھے جیسا کہ ایک امانت سے تعلق ہوتا ہے اور دقائق تقویٰ ایسے طور پر پوری کرے کہ گویا اپنے نفس* اَور مال اور تمام چیزوں کو خدا کی راہ میں وقف کر چکا ہے۔ اِسی طرف یہ آیت اشارہ فرماتی ہے3۱؂ پس جبکہ انسان کے جان و مال اور تمام قسم کے آرام خدا کی امانت ہے جس کو واپس دینا امین ہونے کے لئے شرط ہے لہٰذا ترکِ نفس وغیرہ کے یہی معنے ہیں کہ یہ امانت خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر کے اس طور سے

جیسا کہ نفس خدا تعالیٰ کی امانت ہے ایسا ہی مال بھی خدا تعالیٰ کی امانت ہے۔ پس جو شخص صرف اپنے مال میں سے زکوٰۃ دیتا ہے وہ مال کو اپنا مال سمجھتا ہے مگر جو شخص مال کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھتا ہے وہ اپنے تمام مال کو خدا تعالیٰ کا مال جانتا ہے اور ہر ایک وقت خدا کی راہ میں دیتا ہے گو کوئی زکوٰۃ اس پر واجب نہ ہو۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 233

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 233

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/233/mode/1up


یہ قربانی ادا کر دے اور دوسرے یہ کہ جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ایمان کے وقت اس کا عہد تھا اور جو عہد اور امانتیں مخلوق کی اس کی گردن پر ہیں اُن سب کو ایسے طور سے تقویٰ کی رعایت سے بجا لاوے کہ وہ بھی ایک سچی قربانی ہو جاوے کیونکہ دقائقِ تقویٰ کو انتہا تک پہنچانا یہ بھی ایک قسم کی موت ہے۔ اور ؔ لفظاَفْلَحَکا جو اس آیت سے بھی تعلق رکھتا ہے اِس کے اس جگہ یہ معنے ہیں کہ جب اس درجہ کا مومن خدا تعالیٰ کی راہ میں بذلِ نفس کرتا ہے اور تمام دقائقِ تقویٰ بجا لاتا ہے۔ تب حضرتِ احدیت سے انوارِ الٰہیہ اُس کے وجود پر محیط ہو کر روحانی خوبصورتی اُس کو بخشتے ہیں جیسے کہ گوشت ہڈیوں پر چڑھ کر ان کو خوبصورت بنا دیتا ہے اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں اِن دونوں حالتوں کا نام خدا تعالیٰ نے لباس ہی رکھا ہے۔ تقویٰ کا نام بھی لباس ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔3۱؂اور جو گوشت ہڈیوں پر چڑھتا ہے وہ بھی لباس ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3۲؂کیونکہ کَسَوْت جس سے کَسَونَا کا لفظ نکلا ہے لباس کو ہی کہتے ہیں۔

اب یاد رہے کہ منتہا سلوک کا پنجم درجہ ہے۔ اور جب پنجم درجہ کی حالت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو اس کے بعد چھٹا درجہ ہے جو محض ایک موہبت کے طور پر ہے اور جو بغیر کسب اور کوشش کے مومن کو عطا ہوتا ہے اور کسب کا اس میں ذرّہ دخل نہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ جیسے مومن خدا کی راہ میں اپنی رُوح کھوتا ہے ایک رُوح اس کو عطا کی جاتی ہے۔ کیونکہ ابتدا سے یہ وعدہ ہے کہ جو کوئی خداتعالیٰ کی راہ میں کچھ کھوئے گا وہ اُسے پائے گا۔ اس لئے رُوح کو کھونے والے رُوح کو پاتے ہیں ۔ پس چونکہ مومن اپنی محبتِ ذاتیہ سے خدا کی راہ میں اپنی جان وقف کرتا ہے اس لئے خدا کی محبت ذاتیہ کی رُوح کو پاتا ہے جس کے ساتھ رُوح القدس شامل ہوتا ہے۔ خدا کی محبتِ ذاتیہ ایک رُوح ہے اور رُوح کا کام مومن کے اندر کرتی ہے اس لئے وہ خود رُوح ہے اور رُوح القدس اس سے جُدا نہیں۔ کیونکہ اس محبت اور رُوح القدس میں کبھی انفکاک ہو ہی نہیں سکتا۔ اِسی وجہ سے ہم نے اکثر جگہ صرف محبتِ ذاتیہ الٰہیہ کا ذکر کیا ہے اور رُوح القدس کا نام نہیں لیا کیونکہ ان کا باہم تلازم ہے اور جب رُوح



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 234

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 234

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/234/mode/1up


کسی مومن پر نازل ہوتی ہے تو تمام بوجھ عبادات کا اس کے سر پرسے ساقط ہو جاتا ہے اور اُس میں ایک ایسی قوت اور لذت آ جاتی ہے جو وہ قوت تکلّف سے نہیں بلکہ طبعی جوش سے یادِاؔ لٰہی اُس سے کراتی ہے اور عاشقانہ جوش اُس کو بخشتی ہے۔ پس ایسا مومن جبرائیل علیہ السلام کی طرح ہر وقت آستانہ الٰہی کے آگے حاضر رہتا ہے اور حضرت عزت کی دائمی ہمسائیگی اس کے نصیب ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اِس درجہ کے بارے میں فرماتا ہے 3 3۱؂ یعنی مومن کامل وہ لوگ ہیں کہ ایسا دائمی حضور اُن کو میّسر آتا ہے کہ ہمیشہ وہ اپنی نماز کے آپ نگہبان رہتے ہیں۔ یہ اس حالت کی طرف اشارہ ہے کہ اس درجہ کا مومن اپنی رُوحانی بقا کے لئے نماز کو ایک ضروری چیز سمجھتا ہے اور اس کو اپنی غذا قرار دیتا ہے جس کے بغیر وہ جی ہی نہیں سکتا۔ یہ درجہ بغیر اس رُوح کے حاصل نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مومن پر نازل ہوتی ہے کیونکہ جب کہ مومن خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جان کو ترک کر دیتا ہے تو ایک دوسری جان پانے کا مستحق ہوتا ہے۔

اِس تمام تقریر سے ثابت ہے کہ یہ مراتبِ سِتّہ عقلِ سلیم کے نزدیک اُس مومن کی راہ میں پڑے ہیں جو اپنے وجود روحانی کو کمال تک پہنچانا چاہتا ہے اور ہر ایک انسان تھوڑے سے غور کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ ضرور مومن پر اس کے سلوک کے وقت چھ۶ حالتیں آتی ہیں۔ وجہ یہ کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ سے کامل تعلّق نہیں پکڑتا تب تک اُس کا نفس ناقص پانچ خراب حالتوں سے پیار کرتا ہے اور ہر ایک حالت کا پیار دُور کرنے کے لئے ایک ایسے سبب کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اس پیار پر غالب آ جائے۔ اور نیا پیار پہلے پیار کا علاقہ توڑ دے۔

چنانچہ پہلی حالت جس سے وہ پیار کرتا ہے یہ ہے کہ وہ ایک غفلت میں پڑا ہوتا ہے اور اس کو بالکل خدا تعالیٰ سے بُعد اور دُوری ہوتی ہے اور نفس ایک کفر کے رنگ میں ہوتا ہے اور غفلت کے پردے تکبّر اور لاپروائی اور سنگدلی کی طرف اس کو کھینچتے ہیں اور خشوع اور خضوع اور تواضع اور فروتنی اور انکسار کا نام و نشان اس میں نہیں ہوتا اور اسی اپنی حالت سے وہ محبت کرتا ہے اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 235

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 235

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/235/mode/1up


اس کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے اور پھر جب عنایتِ الٰہیہ اس کی اصلاح کی طرف توجہ کرتی ہے تو کسی واقعہ کے پیدا ہونے سے یا کسی آفت کے نازل ہونے سے خدا تعالیٰ کیؔ عظمت اور ہیبت اور جبروت کا اس کے دل پر اثر پڑتا ہے اور اس اثر سے اُس پر ایک حالت خشوع پیدا ہو جاتی ہے جو اُس کے تکبّر اور گردن کشی اور غفلت کی عادت کو کالعدم کر دیتی ہے اور اس سے علاقہ محبت توڑ دیتی ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر وقت دنیا میں مشاہدہ میں آتی رہتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ جب ہیبتِ الٰہی کا تازیانہ کسی خوفناک لباس میں نازل ہوتا ہے تو بڑے بڑے شریروں کی گردن جُھکا دیتا ہے اور خوابِ غفلت سے جگا کر خشوع اور خضوع کی حالت بنا دیتا ہے یہ وہ پہلا مرتبہ رجوع الی اللہ کا ہے جو عظمت اور ہیبت الٰہی کے مشاہدہ کے بعد یا کسی اور طور سے ایک سعید الفطرت کو حاصل ہو جاتا ہے اور گو وہ پہلے اپنی غافلانہ اور بے قید زندگی سے محبت ہی رکھتا تھا۔ مگر جب مخالف اثر اُس پہلے اثر سے قوی تر پیدا ہوتا ہے تو اس حالت کو بہر حال چھوڑنا پڑتا ہے۔

پھر اس کے بعد دوسری حالت یہ ہے کہ ایسے مومن کو خدا تعالیٰ کی طرف کچھ رجوع تو ہوجاتا ہے مگر اس رجوع کے ساتھ لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو شغلوں کی پلیدی لگی رہتی ہے جس سے وہ اُنس اور محبت رکھتا ہے۔ ہاں کبھی نماز میں خشوع کے حالات بھی اس سے ظہور میں آتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف لغو حرکات بھی اس کے لازمِ حال رہتی ہیں اور لغو تعلقات اور لغو مجلسیں اور لغو ہنسی ٹھٹھا اس کے گلے کا ہار رہتا ہے۔ گویا وہ دو رنگ رکھتا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ ؂

واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر مے کنند چوں بخلوت مے روند آن کارِ دیگر مے کنند

پھر جب عنایتِ الٰہیہ اس کو ضائع کرنا نہیں چاہتی تو پھر ایک اَور جلوہ عظمت اور ہیبت اور جبروتِ الٰہی کا اُس کے دل پر نازل ہوتا ہے جو پہلے جلوہ سے زیادہ تیز ہوتا ہے اور قوّتِ ایمانی اُس سے تیز ہو جاتی ہے اور ایک آگ کی طرح مومن کے دل پرپڑ کر تمام خیالات لغو اس کے ایک دم میں بھسم کر دیتی ہے۔ اور یہ جلوہ عظمت اور جبروتِ الٰہی کا اس قدر حضرتِ عزت کی محبت



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 236

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 236

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/236/mode/1up


اُس کے دل میں پیدا کرتا ہے کہ لغو کاموں اور لغو شغلوں کی محبت پر غالب آ جاتا ہے اور ان کو دفع اور دُور کر کے اُن کی جگہ لے لیتا ہے۔ اور تمام بیہودہ شغلوں سے دل کو سرد کر دیتا ہے تب لغو کاموں سے دل کو ایک کراہت پیدا ہو جاتی ہے۔

پھر ؔ لغو شغلوں اورلغو کاموں کے دُور ہونے کے بعد ایک تیسر۳ی خراب حالت مومن میں باقی رہ جاتی ہے جس سے وہ دوسری حالت کی نسبت بہت محبت رکھتا ہے یعنی طبعاً مال کی محبت اس کے دل میں ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی اور آرام کا مدار مال کو ہی سمجھتا ہے اور نیز اس کے حاصل ہونے کاذریعہ صرف اپنی محنت اور مشقت خیال کرتا ہے۔ پس اس وجہ سے اس پر خداتعالیٰ کی راہ میں مال کا چھوڑنا بہت بھاری اور تلخ ہوتا ہے۔

پھر جب عنایتِ الٰہیہ اس ورطۂ عظیمہ سے اُس کو نکالنا چاہتی ہے تو راز قیتِ الٰہیہ کا علم اُس کو عطا کیا جاتا ہے اور توکّل کا بیج اُس میں بویا جاتا ہے اور ساتھ اس کے ہیبتِ الٰہیہ بھی کام کرتی ہے اور دونوں تجلّیات جمالی اور جلالی اُس کے دل کو اپنے قابو میں لے آتی ہیں۔تب مال کی محبت بھی دل میں سے بھاگ جاتی ہے اور مال دینے والے کی محبت کا تخم دل میں بویا جاتا ہے اور ایمان قوی کیا جاتا ہے۔ اور یہ قوتِ ایمانی درجہ سوم کی قوت سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ کیونکہ اس جگہ مومن صرف لغو باتوں کو ہی ترک نہیں کرتا بلکہ اُس مال کو ترک کرتا ہے جس پر اپنی خوش زندگی کا سارا مدار سمجھتا ہے ۔ اور اگر اس کے ایمان کو قوّتِ توکّل عطا نہ کی جاتی اور رازقِ حقیقی کی طرف آنکھ کا دروازہ نہ کھولا جاتا تو ہر گز ممکن نہ تھا کہ بخل کی بیماری دُور ہو سکتی۔ پس یہ قوتِ ایمانی نہ صرف لغو کاموں سے چھڑاتی ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے رازق ہونے پر ایک قوی ایمان پیدا کر دیتی ہے۔ اور نورِ توکّل دل میں ڈال دیتی ہے۔ تب مال جو ایک پارۂ جگر سمجھا جاتا ہے بہت آسانی اور شرح صدر سے مومن اس کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتا ہے اور وہ ضعف جو بخل کی حالت میں نومیدی سے پیدا ہوتا ہے۔ اب خدا تعالیٰ پر بہت سی امیدیں ہو کر وہ تمام ضعف جاتا رہتا ہے۔ اور مال دینے والے کی محبت مال کی محبت سے زیادہ ہو جاتی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 237

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 237

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/237/mode/1up


پھر بعد اس کے چوتھی حالت ہے جس سے نفسِ امّارہ بہت ہی پیار کرتا ہے اور جو تیسری حالت سے بدتر ہے کیونکہ تیسری حالت میں تو صرف مال کا اپنے ہاتھ سے چھوڑنا ہے۔ مگر چوتھی حالت میں نفس امّارہ کی شہواتِ محرّمہ کو چھوڑنا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ مال کا چھوڑنا بہ نسبت شہوات کے چھوڑنے کےؔ انسان پر طبعاً سہل ہوتا ہے۔ اس لئے یہ حالت بہ نسبت حالات گذشتہ کے بہت شدید اور خطرناک ہے اور فطرتاً انسان کو شہوات نفسانیہ کا تعلق بہ نسبت مال کے تعلق کے بہت پیارا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مال کو جو اُس کے نزدیک مدارِ آسائش ہے بڑی خوشی سے شہوات نفسانیہ کی راہ میں فدا کر دیتا ہے۔ اور اس حالت کے خوفناک جوش کی شہادت میں یہ آیت کافی ہے۔3۱؂ یعنی یہ ایسا مُنہ زور جوش ہے جو اِس کا فرو ہونا کسی برہانِ قوی کا محتاج ہے۔ پس ظاہر ہے کہ درجہ چہارم پر قوّتِ ایمانی بہ نسبت درجہ سوم کے بہت قوی اور زبردست ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور ہیبت اور جبروت کا مشاہدہ بھی پہلے کی نسبت اُس میں زیادہ ہوتا ہے اور نہ صرف اس قدر بلکہ یہ بھی اس میں نہایت ضروری ہے کہ جس لذّت ممنوعہ کو دُور کیا گیا ہے اس کے عوض میں روحانی طور پر کوئی لذّت بھی حاصل ہو۔ اور جیسا کہ بخل کے دُور کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی رازقیت پر قوی ایمان درکار ہے۔ اور خالی جیب ہونے کی حالت میں ایک قوی توکّل کی ضرورت ہے تا بخل بھی دُور ہو اور غیبی فتوح پر اُمید بھی پیدا ہو جائے۔ ایسا ہی شہوات ناپاک نفسانیہ کے دُور کرنے کے لئے اور آتشِ شہوت سے مخلصی پانے کے لئے اس آگ کے وجود پر قوی ایمان ضروری ہے جو جسم اور رُوح دونوں کو عذاب شدید میں ڈالتی ہے اور نیز ساتھ اس کے اُس رُوحانی لذّت کی ضرورت ہے جو ان کثیف لذّتوں سے بے نیاز اور مستغنی کر دیتی ہے۔ جو شخص شہوات نفسانیہ محرّمہ کے پنجہ میں اسیر ہے وہ ایک اژدہا کے مُنہ میں ہے جو نہایت خطرناک زہر رکھتا ہے۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ جیسا کہ لغو حرکات کی بیماری سے بخل کی بیماری بڑھ کر ہے اِسی طرح بخل کی بیماری کے مقابل پر شہوات نفسانیہ محرّمہ کے پنجہ میں اسیر ہونا سب بَلاؤں سے زیادہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 238

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 238

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/238/mode/1up


بلا ہے جو خدائے تعالیٰ کے ایک خاص رحم کی محتاج ہے اور جب خدا تعالیٰ کسی کو اس بلا سے نجات دینا چاہتا ہے تو اپنی عظمت اور ہیبت اور جبروت کی ایسی تجلّی اس پر کرتا ہے جس سے شہواتِ نفسانیہ محرّمہ پارہ پارہ ہو جاتی ہیں اور پھر جمالی رنگ میں اپنی لطیف محبت کا ذوق اس کے دل میں ڈالتا ہے اور جس طرح شیر خوار بچہ دودھ چھوؔ ڑنے کے بعد صرف ایک رات تلخی میں گذارتا ہے بعد اس کے اس دودھ کو ایسا فراموش کر دیتا ہے کہ چھاتیوں کے سامنے بھی اگر اس کے مُنہ کو رکھا جائے تب بھی دودھ پینے سے نفرت کرتا ہے۔ یہی نفرت شہواتِ محرّمہ نفسانیہ سے اُس راستباز کو ہو جاتی ہے جس کو نفسانی دودھ چھڑا کر ایک روحانی غذا اس کے عوض میں دی جاتی ہے۔

پھر چوتھی حالت کے بعد پانچویں حالت ہے جس کے مفاسد سے نہایت سخت اور شدید محبت نفسِ امّارہ کو ہے۔ کیونکہ اس مرتبہ پر صرف ایک لڑائی باقی رہ جاتی ہے اور وہ وقت قریب آجاتا ہے کہ حضرت عزّت جلّ شانہٗکے فرشتے اس وجود کی تمام آبادی کو فتح کر لیں اور اُس پر اپنا پورا تصرّف اور دخل کر لیں اور تمام نفسانی سِلسلہ کو درہم برہم کر دیں۔ اور نفسانی قویٰ کے قریہ کو ویران کردیں۔ اور اس کے نمبر داروں کو ذلیل اور پست کر کے دکھلا دیں اور پہلی سلطنت پر ایک تباہی ڈال دیں۔ اور انقلاب سلطنت پر ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔3333333۱؂ اور یہ مومن کے لئے ایک آخری امتحان اور آخری جنگ ہے جس پر اُس کے تمام مراتب سلوک ختم ہو جاتے ہیں اور اس کا سِلسلہ ترقیات جو کسب اور کوشش سے ہے انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ اور انسانی کوششیں اپنے اَخیر نقطہ تک منزل طے کر لیتی ہیں۔ پھر بعد اس کے صرف موہبت اور فضل کا کام باقی رہ جاتا ہے جو خلق آخر کے متعلق ہے۔ اور یہ پانچو۵یں حالت چوتھی۴ حالت سے مشکل تر ہے کیونکہ چوتھی حالت میں تو صرف مومن کا کام یہ ہے کہ شہوات محرّمہ نفسانیہ کو ترک کرے مگر پانچویں حالت میں مومن کا کام یہ ہے کہ نفس کو بھی ترک کر دے اور اس کو خدا تعالیٰ کی امانت سمجھ کر خدا تعالیٰ کی طرف واپس کرے اور خدا کے کاموں میں اپنے نفس کو وقف کر کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 239

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 239

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/239/mode/1up


اس سے خدمت لے اور خدا کی راہ میں بذل نفس کرنے کا ارادہ رکھے اور اپنے نفس کی نفی وجود کے لئے کوشش کرے۔ کیونکہ جب تک نفس کا وجود باقی ہے گناہ کرنے کے لئے جذبات بھی باقی ہیں جو تقویٰ کے بر خلاف ہیں۔ اور نیز جب تک وجود نفس باقی ہے ممکن نہیں کہ انسان تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مار سکے یا پورے طور پر خدا کی امانتوں اور عہدوں یا مخلوق کی امانتوں اور عہدوں کو ادا کر سکے۔ لیکن جیسا کہ بخل بغیر توکّل اور خدا کی رازقیت پر ایماؔ ن لانے کے ترک نہیں ہو سکتا اور شہوات نفسانیہ محرّمہ بغیر استیلاء ہیبت اور عظمتِ الٰہی اور لذاتِ روحانیہ کے چھوٹ نہیں سکتیں ایسا ہی یہ مرتبہ عظمیٰ کہ ترکِ نفس کر کے تمام امانتیں خدا تعالیٰ کی اس کو واپس دی جائیں کبھی حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک تیز آندھی عشقِ الٰہی کی چل کر کسی کو اس کی راہ میں دیوانہ نہ بنا دے۔ یہ تو درحقیقت عشقِ الٰہی کے مستوں اور دیوانوں کے کام ہیں دنیا کے عقلمندوں کے کام نہیں ؂

آسماں بار امانت نتو انست کشید قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند

اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ فرماتا ہے۔333333ہم نے اپنی امانت کو جو امانت کی طرح واپس دینی چاہیئے تمام زمین و آسمان کی مخلوق پر پیش کیا۔ پس سب نے اُس امانت کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈرے کہ امانت کے لینے سے کوئی خرابی پیدا نہ ہو مگر انسان نے اس امانت کو اپنے سرپر اٹھا لیا کیونکہ وہ ظلوم اور جہول تھا۔ یہ دونوں لفظ انسان کے لئے محل مدح میں ہیں نہ محل مذمت میں اور ان کے معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں ایک صفت تھی کہ وہ خدا کے لئے اپنے نفس پر ظلم اور سختی کر سکتا تھا۔ اور ایسا خدا تعالیٰ کی طرف جُھک سکتا تھا کہ اپنے نفس کو فراموش کر دے اس لئے اُس نے منظور کیا کہ اپنے تمام وجود کو امانت کی طرح پاوے اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کر دے۔

اوراس پانچویں مرتبہ کے لئے یہ جواللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے 3 3۲؂ یعنی مومن وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہیں یعنی ادائے امانت



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 240

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 240

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/240/mode/1up


اور ایفائے عہد کے بارے میں کوئی دقیقہ تقویٰ اور احتیاط کا باقی نہیں چھوڑتے۔ یہ اس امانت کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کا نفس اور اس کے تمام قویٰ اور آنکھ کی بینائی اور کانوں کی شنوائی اور زبان کی گویائی اور ہاتھوں پَیروں کی قوّت یہ سب خدا تعالیٰ کی امانتیں ہیں جو اُس نے دی ہیں اور جس وقت وہ چاہے اپنی امانتوں کو واپس لے سکتا ہے۔ پس ان تمام امانتوں کا رعایت رکھنا یہ ہے کہ باریک در باریک تقویٰ کیؔ پابندی سے خدا تعالیٰ کی خدمت میں نفس اور اُس کے تمام قویٰ اور جسم اور اس کے تمام قویٰ اور جوارح کو لگایا جائے اِس طرح پر کہ گویا یہ تمام چیزیں اُس کی نہیں بلکہ خدا کی ہو جائیں اور اُس کی مرضی سے نہیں بلکہ خدا کی مرضی کے موافق ان تمام قویٰ اور اعضاء کا حرکت اور سکون ہو اور اس کا ارادہ کچھ بھی نہ رہے بلکہ خدا کا ارادہ اُن میں کام کرے اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں اس کا نفس ایسا ہو جیسا کہ مُردہ زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اور یہ خود رائی سے بے دخل ہو اور خدا تعالیٰ کا پورا تصّرف اس کے وجود پر ہو جائے یہاں تک کہ اُسی سے دیکھے اور اُسی سے سُنے اور اُسی سے بولے اور اُسی سے حرکت یا سکون کرے اور نفس کی دقیق دردقیق آلائشیں جو کسی خوردبین سے بھی نظر نہیں آ سکتیں دُور ہو کر فقط رُوح رہ جائے۔ غرض مہیمنت خدا کی اس پر احاطہ کر لے اور اپنے وجود سے اس کو کھو دے اور اُس کی حکومت اپنے وجود پر کچھ نہ رہے اور سب حکومت خدا کی ہو جائے اور نفسانی جوش سب مفقود ہو جائیں اور الوہیت کے ارادے اُس کے وجود میں جوش زن ہو جائیں۔ پہلی حکومت بالکل اُٹھ جائے اور دوسری حکومت دل میں قائم ہو اور نفسانیت کا گھر ویران ہو اور اُس جگہ پر حضرت عزّت کے خیمے لگائے جائیں اور ہیبت اور جبروت الٰہی تمام اُن پودوں کو جن کی آب پاشی گندے چشمۂ نفس سے ہوتی تھی اس پلید جگہ سے اکھیڑ کر رضا جوئی حضرتِ عزّت کی پاک زمین میں لگا دئے جائیں اور تمام آرزوئیں اور تمام ارادے اور تمام خواہشیں خدا میں ہو جائیں اور نفسِ امّارہ کی تمام عمارتیں منہدم کر کے خاک میں ملا دی جائیں اور ایک ایسا پاک محل تقدس اور تطہّر کا دل میں طیار کیا جاوے جس میں حضرت عزّت نازل ہو سکے اور اس کی رُوح اس میں آباد ہو سکے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 241

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 241

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/241/mode/1up


اس قدر تکمیل کے بعد کہا جائے گا کہ وہ امانتیں جو منعم حقیقی نے انسان کو دی تھیں وہ واپس کی گئیں۔ تب ایسے شخص پر یہ آیت صادق آئے گی 3333۱؂ اس درجہ پر صرف ایک قالب تیار ہوتا ہے اور تجلّی الٰہی کی رُوح جس سے مراد محبتِ ذاتیہ حضرت عزّت ہے بعد اس کے مع رُوح القدس ایسے مومن کے اندر داخل ہوتی اور نئی حیات اُس کو بخشتی ہے اورؔ ایک نئی قوت اس کو عطا کی جاتی ہے اور اگرچہ یہ سب کچھ رُوح کے اثر سے ہی ہوتا ہے لیکن ہنوز رُوح مومن سے صرف ایک تعلّق رکھتی ہے اور ابھی مومن کے دل کے اندر آباد نہیں ہوتی۔

پھر بعد اس کے وجودرُوحانی کا مرتبہ ششم ہے یہ وہی مرتبہ ہے جس میں مومن کی محبتِ ذاتیہ اپنے کمال کو پہنچ کر اللہ جلّ شانہٗکی محبتِ ذاتیہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے تب خدا تعالیٰ کی وہ محبت ذاتی مومن کے اندر داخل ہوتی ہے اور اس پر احاطہ کرتی ہے جس سے ایک نئی اور فوق العادت طاقت مومن کو ملتی ہے اور وہ ایمانی طاقت ایمان میں ایک ایسی زندگی پیدا کرتی ہے جیسے ایک قالبِ بے جان میں رُوح داخل ہو جاتی ہے بلکہ وہ مومن میں داخل ہوکر درحقیقت ایک رُوح کا کام کرتی ہے۔ تمام قویٰ میں اس سے ایک نُور پیدا ہوتا ہے۔ اور رُوح القدس کی تائید ایسے مومن کے شامل حال ہوتی ہے کہ وہ باتیں اور وہ علوم جو انسانی طاقت سے برتر ہیں وہ اس درجہ کے مومن پر کھولے جاتے ہیں اور اس درجہ کا مومن ایمانی ترقیات کے تمام مراتب طے کر کے ان ظلّی کمالات کی وجہ سے جو حضرت عزت کے کمالات سے اُس کو ملتے ہیں آسمان پر خلیفۃاللہ کا لقب پاتا ہے کیونکہ جیسا کہ ایک شخص جب آئینہ کے مقابل پر کھڑا ہوتا ہے تو تمام نقوش اس کے مُنہ کے نہایت صفائی سے آئینہ میں منعکس ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی اس درجہ کا مومن جو نہ صرف ترک نفس کرتا ہے بلکہ نفی ء وجود اور ترکِ نفس کے کام کو اس درجہ کے کمال تک پہنچاتا ہے کہ اس کے وجود میں سے کچھ بھی نہیں رہتا اور صرف آئینہ کے رنگ میں ہو جاتا ہے۔ تب ذاتِ الٰہی کے تمام نقوش اور تمام



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 242

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 242

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/242/mode/1up


اخلاق اس میں مندرج ہو جاتے ہیں اور جیسا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ آئینہ جو ایک سامنے کھڑے ہونے والے مُنہ کے تمام نقوش اپنے اندر لے کر اس مُنہ کا خلیفہ ہو جاتا ہے اسی طرح ایک مومن بھی ظلّی طور پر اخلاق اور صفاتِ الٰہیہ کو اپنے اندر لے کر خلافت کا درجہ اپنے اندر حاصل کرتا ہے اور ظلّی طور پر الٰہی صورت کا مظہر ہو جاتا ہے اور جیسا کہ خدا غیب الغیب ہے اور اپنی ذات میں وراء الوراء ہے ایسا ہی یہ مومن کامل اپنی ذات میں غیب الغیب اور وراء الوراء ہوتا ہے۔ دنیا اس کی حقیقت تک پہنچ نہیں سکتی۔ کیوؔ نکہ وہ دنیا کے دائرہ سے بہت ہی دُور چلا جاتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ خدا جو غیر متبدل اور حیّ و قیّوم ہے وہ مومن کامل کی اُس پاک تبدیلی کے بعد جب کہ مومن خدا کے لئے اپنا وجود بالکل کھو دیتا ہے اور ایک نیا چولا پاک تبدیلی کا پہن کر اُس میں سے اپنا سر نکالتا ہے۔ تب خدا بھی اس کے لئے اپنی ذات میں ایک تبدیلی کرتا ہے مگر یہ نہیں کہ خدا کی ازلی ابدی صفات میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے۔ نہیں بلکہ وہ قدیم سے اور ازل سے غیر متبدل ہے۔ لیکن یہ صرف مومن کامل کے لئے جلوۂ قدرت ہوتا ہے اور ایک تبدیلی جس کی ہم کُنہ نہیں سمجھ سکتے مومن کی تبدیلی کے ساتھ خدا میں بھی ظہور میں آجاتی ہے مگر اس طرح پر کہ اُس کی غیر متبدل ذات پر کوئی گرد و غبار حدوث کا نہیں بیٹھتا۔ وہ اسی طرح غیر متبدل ہوتا ہے جس طرح وہ قدیم سے ہے لیکن یہ تبدیلی جو مومن کی تبدیلی کے وقت ہوتی ہے یہ اس قسم کی ہے جیسا کہ لکھا ہے کہ جب مومن خدائے تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو خدا اس کی نسبت تیز حرکت کے ساتھ اُس کی طرف آتا ہے اور ظاہر ہے کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ تبدیلیوں سے پاک ہے ایسا ہی وہ حرکتوں سے بھی پاک ہے۔ لیکن یہ تمام الفا ظ استعارہ کے رنگ میں بولے جاتے ہیں اور بولنے کی اس لئے ضرورت پڑتی ہے کہ تجربہ شہادت دیتا ہے کہ جیسے ایک مومن خدائے تعالیٰ کی راہ میں نیستی اور فنا اور اِستہلاک کر کے اپنے تئیں ایک نیا وجود بناتا ہے اس کی ان تبدیلیوں کے مقابل پر خدا بھی اس کے لئے ایک نیا ہو جاتا ہے اور اس کے ساتھ وہ معاملات کرتا ہے جو دوسرے کے ساتھ کبھی نہیں کرتا۔ اور اس کو اپنے ملکوت اور اسرار کاوہ سَیر



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 243

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 243

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/243/mode/1up


کراتا ہے جو دوسرے کو ہر گز نہیں دکھلاتا۔ اور اس کے لئے وہ کام اپنے ظاہر کرتا ہے جو دوسروں کے لئے ایسے کام کبھی ظاہر نہیں کرتا۔ اور اس قدر اس کی نصرت اور مدد کرتا ہے کہ لوگوں کو تعجب میں ڈالتا ہے۔ اس کے لئے خوارق دکھلاتا ہے اور معجزات ظاہر کرتا اور ہر ایک پہلو سے اس کو غالب کر دیتا ہے اور اس کی ذات میں ایک قوتِ کشش رکھ دیتا ہے جس سے ایک جہان اُس کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور وہی باقی رہ جاتے ہیں جن پر شقاوتِ ازلی غالب ہے۔

پس اِن تمام باتوں سے ظاہر ہے کہ مومن کامل کی پاک تبدیلی کے ساتھ خدا تعالیٰ بھیؔ ایک نئی صورت کی تجلّی سے اُس پر ظاہر ہوتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اُس نے انسان کو اپنے لئے پیدا کیا ہے کیونکہ جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا شروع کرے تو اُسی دن سے بلکہ اُسی گھڑی سے بلکہ اُسی دم سے خدا تعالیٰ کا رجوع اُس کی طرف شروع ہو جاتا ہے۔ اور وہ اُس کا متولّی اور متکفّل اور حامی اور ناصر بن جاتا ہے۔ اور اگر ایک طرف تمام دنیا ہو اور ایک طرف مومنِ کامل تو آخر غلبہ اُسی کو ہوتا ہے کیونکہ خدا اپنی محبت میں صادق ہے اور اپنے وعدوں میں پورا۔ وہ اس کو جو درحقیقت اُس کا ہو جاتا ہے ہر گز ضائع نہیں کرتا۔ ایسا مومن آگ میں ڈالا جاتا ہے اور گلزار میں سے نکلتا ہے۔ وہ ایک گرداب میں دھکیل دیا جاتا ہے اور ایک خوشنما باغ میں سے نمودار ہو جاتا ہے۔ دشمن اس کے لئے بہت منصوبے کرتے اور اس کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن خدا ان کے تمام مکروں اور منصوبوں کو پاش پاش کر دیتا ہے کیونکہ وہ اس کے ہر قدم کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے آخر اُس کی ذلّت چاہنے والے ذلّت کی مار سے مرتے ہیں اور نامرادی اُن کا انجام ہوتا ہے۔ لیکن وہ جو اپنے تمام دل اور تمام جان اور تمام ہمّت کے ساتھ خدا کا ہو گیا ہے وہ نامراد ہر گز نہیں مرتا اور اُس کی عمر میں برکت دی جاتی ہے اور ضرور ہے کہ وہ جیتا رہے جب تک اپنے کاموں کو پورا کر لے۔ تمام برکتیں اخلاص میں ہیں اور تمام اخلاص خدا کی رضا جوئی میں اور تمام خدا کی رضا جوئی اپنی رضا کے چھوڑنے میں۔ یہی موت ہے جس کے بعد زندگی ہے مبارک وہ جو اس زندگی میں سے حصّہ لے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 244

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 244

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/244/mode/1up


اب واضح ہو کہ جہاں تک ہم نے سورۃ المؤمنون کی آیات ممدوحہ بالا کے معجزہ ہونے کی نسبت لکھنا تھا وہ سب ہم لکھ چکے اور بخوبی ثابت کر چکے کہ سورۃ موصوفہ کی ابتدا میں مومن کے وجود رُوحانی کے چھ۶ مراتب قرار دیئے ہیں اور مرتبہ ششم خلق آخر کا رکھا ہے۔ یہی مراتبِ ستّہ سورۃ موصوفہ بالا میں جسمانی پیدائش کے بارہ میں بعد ذکر پیدائش روحانی بیان فرمائے گئے ہیں۔ اور یہ ایک علمی اعجاز ہے۔ اور یہ علمی نکتہ قرآن شریف سے پہلے کسی کتاب میں مذکور نہیں ہے۔ پس ان آیات کا آخری حصہ یعنی 3۱؂بلاشبہ ایک ؔ علمی معجزہ کی جڑ ہے کیونکہ وہ ایک اعجازی موقعہ پر چسپاں کیا گیا ہے۔ اور انسان کے لئے یہ بات ممکن نہیں کہ اپنے بیان میں ایسی اعجازی صورت پیدا کرے اور پھر اس پر آیت 3 چسپاں کرے۔ اور اگر کوئی کہے کہ اِس پر کیا دلیل ہے کہ آیات مذکورہ بالا میں جو مقابلہ انسان کے مراتب پیدائش روحانی اور پیدائش جسمانی میں دکھلایا گیا ہے وہ علمی معجزہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ معجزہ اس کو کہتے ہیں کہ کوئی انسان اس کے مثل بنانے پر قادر نہ ہو سکے یا گذشتہ زمانہ میں قادر نہ ہو سکا ہو اور نہ بعد میں قادر ہونے کا ثبوت ہو۔ پس ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ یہ بیان انسانی پیدائش کی دقیق فلاسفی کا جو قرآن شریف میں مندرج ہے یہ ایک ایسا بے مثل و مانند بیان ہے کہ اس کی نظیر پہلے اس سے کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی۔ نہ اس زمانہ میں ہم نے سُنا کہ کسی ایسے شخص کو جو قرآن شریف کا علم نہیں رکھتا اس فلاسفی کے بیان کرنے میں قرآن شریف سے توارد ہوا ہو۔ اور جب کہ قرآن شریف اپنے جمیع معارف اور نشانوں اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے معجزہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور یہ آیات قرآن شریف کا ایک حصّہ ہیں جو دعویٰ اعجاز میں داخل ہے پس اس کا بے مثل و مانند ثابت ہونا باوجود دعویٰ اعجاز اور طلبِ مقابلہ کے بلاشبہ معجزہ ہے۔ اور معترض کے بقیہ اعتراضات کا جواب ذیل میں لکھا جاتا ہے۔

قولہ۔ عفت الدیار محلھا و مقامھا ایک پُرانے شاعر کا مصرع ہے۔ کیا کسی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 245

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 245

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/245/mode/1up


نبی کو کبھی ایسی وحی ہوئی جس کے الفاظ حرفاً حرفاً وہی ہوں جو اس نبی سے پہلے کسی آدمی کی زبان سے نکل چکے ہوں۔

اقول۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں ایسی وحی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ہوئی تھی۔ یعنی فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین۔ یہ وہ فقرہ ہے جو عبداللہ ابن ابی سرح کے مُنہ سے نکلا تھا اور بعینہٖ یہی وحی الٰہی ہوئی تھی۔ اور اسی ابتلا سے عبداللہ بدقسمت مرتد ہو گیا تھا۔ پس ایسا اعتراض عبد اللہ مرتد کے خیالات کی پیروی ہے جس سے پرہیز کرنا چاہیئے تھا۔ اور یہ فقرؔ ہ یعنی عفت الدیار محلّھا و مقامھا یہ لبید رضی اللہ عنہ جو صحابی تھے اُن کے شعر کا پہلا مصرع ہے۔ پورا شعر یہ ہے ؂

عفت الدیار محلّھا و مقامھا

بِمنًی تأبّد غولھا فرجامھا

اِس کے یہ معنے ہیں کہ میرے پیاروں کے گھر منہدم ہو گئے۔ اُن عمارتوں کا نام و نشان نہ رہا جو عارضی سکونت کی عمارتیں تھیں اور نہ وہ عمارتیں رہیں جو مستقل سکونت کی عمارتیں تھیں۔ دونوں قسم کی عمارتیں نابود ہو گئیں اور وہ عمارتیں منٰی میں واقع تھیں جو نجد کی زمین میں ہے۔ منٰی دو ہیں۔ ایک منٰی مکّہ اور ایک منٰی نجد۔ اس جگہ منٰی نجد مراد ہے۔ اور پھر شاعر کہتا ہے کہ اُس سَرزمین کے دو شہر جن میں سے ایک کا نامغَول تھا اور دوسرے کا نام رَجَام تھا یہ ایسے منہدم ہو کر نابود ہو گئے اور زمین سے ہموار ہو گئے کہ اب اِ ن شہروں کی جگہ ایک جنگل پڑا ہے جہاں وحشی جانور ہرن وغیرہ رہتے ہیں۔ یہ معنی اس عربی لفظ کے ہیں یعنی تَأَبَّدَ کے جو شعر میں موجود ہے تَأَبَّدَ کا لفظ اَوَابِد سے لیا گیا ہے اوراَوَابِد جنگلی جانوروں ہرن وغیرہ کو کہتے ہیں۔ اور اَوَابِدکا لفظ اَبَد سے لیا گیا ہے۔ اس کے معنے ہیں ہمیشہ جینے والے۔ چونکہ ہرن وغیرہ اکثر اپنی موت سے نہیں مرتے بلکہ شکار کئے جاتے ہیں اور دوسرے کے ذریعہ سے ان کی موت آتی ہے اس لئے ان کا نام اوابد رکھا گیا۔

قولہ ۔ اگر انسان کے قول سے خدا کا بھی توارد ہو سکتا ہے تو خدا کے قول اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 246

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 246

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/246/mode/1up


بندے کے قول میں فرق کیا ہوا؟

اقول۔ ابھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ قرآن شریف ان معنوں سے معجزہ ہے کہ کسی انسان کی عبارت کو قرآن شریف کی ایک لمبی عبارت کے ساتھ جو دس آیت سے کم نہ ہو توارد نہیں ہو سکتا اور اس قدر عبارت قرآن شریف کی اس درجہ فصاحت بلاغت اور دیگر معارف اور حقائق اپنے اندر رکھتی ہے جو انسانی طاقتیں اس کی مثل پیش نہیں کر سکتیں اس لئے عبارتِ قرآنی اِس شرط کے ساتھ کہ دس آیت کی مقدار سے کم نہ ہو معجزہ ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اس کی تصریح موجود ہے۔ مگرؔ ایک فقرہ جو زیادہ سے زیادہ ایک آیت یا دو آیت کے برابر ہو اس قدر فقرہ میں انسان کے کلام کا خدا کے کلام سے بظاہر توارد ہو سکتا ہے مگر پھر بھی اندرونی طور پر خدا کی کلام میں بعض پوشیدہ معارف اور ایک قسم کا نور ہوتا ہے اور نیز معجزہ میں سے ایک حصہ اس میں مخفی ہوتا ہے۔ جیسا کہ انسان اور ہرن میں مابہ الامتیاز مجموعی حالت پر نظر ڈال کر ظاہر ہے لیکن تاہم ہرن کی آنکھ انسان کی آنکھ سے مشابہ ہے مگر پھر بھی انسان کی آنکھ میں بعض وہ قوتیں ہیں جو ہرن کی آنکھ میں ہر گز نہیں۔

قولہ۔ جب عفت الدیار محلّھا و مقامھا کا الہام شائع ہوا تب اُس کے ذیل میں لکھا گیا تھا کہ متعلق طاعون۔ لیکن اب بتایا جاتا ہے کہ زلزلہ کے متعلق ہے۔

اقول۔ عفت الدیار کے عذاب کا طاعون سے تعلق رکھنا اس کو عین طاعون نہیں بنا سکتا ما سوا اس کے یہ قول کہ عفت الدیار کے فقرہ کو طاعون سے تعلّق ہے یہ انسان کی عبارت ہے۔ اعتراض تب ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کی وحی میں یہ لفظ ہوتا۔ خدا تعالیٰ کی وحی تو صاف کہتی ہے کہ یہ زلزلہ کے متعلق ہے۔ دیکھو وہ الہام جو اُسی اخبار الحکم میں دسمبر ۱۹۰۳ء کے اخیر میں شائع ہوا جس کی یہ عبارت ہے کہ ’’ زلزلہ کا دھکّا ‘‘۔ پھر پانچ ماہ بعد اسی پہلے الہام کی اسی اخبار کے پرچہ ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء میں دوسرے الہام نے یہ تصریح کی کہ عفت الدیار محلھا و مقامھا۔ افسوس یہ کیسا زمانہ آ گیا کہ دو ۲ جگہ ایک ہی اخبار میں خدا کا کلام موجود ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 247

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 247

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/247/mode/1up


اور ایک کلام دوسرے کی تشریح کرتا ہے۔ اس کی طرف کوئی نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا اور انسانی الفاظ کو پیش کرتے ہیں جس کی غلطی کا الہام الٰہی ذمہ وار نہیں۔ مسلمانوں کی اولاد کہلا کر اس قدر تعصّب۔ خدا جانے اس کا وبال آئندہ کیا ہو گا۔

ماسوا اس کے ہمیں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ پیش از وقت کسی پیشگوئی کی پوری حقیقت نہیں کھلتی اور ممکن ہے کہ انسانی تشریح میں غلطی بھی ہو جائے اسی لئے کوئی نبی دُنیا میں ایسا نہیں گذرا جس نے اپنی کسی پیشگوئی کے معنے کرنے میں کبھی غلطی نہ کھائی ہو لیکن اگر قبل از وقت اجتہادی طور پر کوئی نبی اپنی پیشگوئی کے معنے کرنے میں کسی طور کی غلطی کھاوے تو اس پیشگوئی کی شان اور عزّت میں فرق نہیں آئے گا۔ کیونکہ ربّانی پیشگوئی ایک خارؔ ق عادت اور انسانی نظر سے بلند اور انسانی خیالات سے برتر ہے۔ کیا آپ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ فرق آ جاتا ہے اگر یہی حال ہے تو مَیں ایک لمبی فہرست ایسی پیشگوئیوں کی آپ کو دے سکتا ہوں جن کے سمجھنے میں اولوالعزم نبیوں نے غلطی کھائی تھی۔ مگر مَیں یقین رکھتا ہوں کہ آپ بعد اس کے ایسا اعتراض ہر گز نہیں کریں گے اور متنبہ ہو جائیں گے کہ یہ اعتراض کہاں تک پہنچتا ہے صاف ظاہر ہے کہ جب پیشگوئی ظہور میں آ جائے اور اپنے ظہور سے اپنے معنے آپ کھول دے اور اُن معنوں کو پیشگوئی کے الفاظ کے آگے رکھ کر بدیہی طور پر معلوم ہو کہ وہی سچے ہیں تو پھر ان میں نکتہ چینی کرنا ایمانداری نہیں ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ الہام مذکورہ بالا کے یہی معنے ہیں کہ ایک حصۂ ملک کی عمارتیں گر جائیں گی۔ پس اس صورت میں یہ الہام اپنے ظاہری معنوں کے رُو سے طاعون پر کیونکر صادق آسکتا ہے۔ اور جس حالت میں ایک حادثہ سے عمارتیں گِر گئیں تو وہی حادثہ مصداق اس پیشگوئی کا ہو گا۔ کیا طاعون میں بھی عمارتیں گِرا کرتی ہیں۔ پھر ماسوا اس کے اس پیشگوئی سے پہلے الہام میں جو صرف پانچ ماہ پہلے اسی اخبار میں شائع ہو چکا تھا صاف طور پر زلزلہ کا لفظ موجود ہے اور الہامی لفظ یہ ہیں کہ ’’ زلزلہ کا دھکّا ‘‘۔ پس اس میں کیا شک ہے کہ اُسی اخبار میں ایک آنے والے زلزلہ کی خبر دی گئی ہے۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 248

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 248

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/248/mode/1up


اب آپ خود منصف ہو کر سوچ لیں کہ الہام عفت الدیار محلّھا و مقامھا اپنے لفظی معنوں کے رُو سے اس زلزلہ کی پیشگوئی پر چسپاں ہوتا ہے جو پہلے اس سے ذکر بھی کیا گیا یا طاعون پر ماسوا اِس کے زلزلہ کی پیشگوئی کا اس فقرہ سے یعنی عفت الدیار کی پیشگوئی سے جیسا کہ معنوں کی رُو سے تعلق ہے ایسا ہی قُرب زمانی کی رُو سے بھی تعلق ہے اور وہ یہ کہ عفت الدیارکے الہام سے پانچ ماہ پہلے صریح الفاظ میں زلزلہ کا الہام ہو چکا ہے اور دونوں پیشگوئیاں ایک دوسرے کے بعد شائع ہو چکی ہیں۔ یعنی پہلے ’’ زلزلہ کا دھکّا ‘‘ اور پھر عفت الدیار محلّھا و مقامھا اور ان دونوں کے اندر طاعون کا کوئی ذکر نہیں۔

قولہ۔ اگر الہام عفت الدیار الخ کی نسبت قطعی طور پر علم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ زلزلہ کے متعلق ہےؔ تو پھر ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا۔

اقول۔ افسوس آپ کو سنّت اللہ کی کچھ بھی خبر نہیں۔نبی کے لئے کسی پیشگوئی کے کسی خاص پہلو کا قطعی علم ہونا کہ ضرور اِسی پہلو پر ظاہر ہو گی ضروری نہیں پیشگوئی میں اس بات کا ہونا تو ضروری ہے کہ اس کا مفہوم خارق عادت ہو اور انسانی قوت یا مکر و فریب اس کا مقابلہ نہ کر سکے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک پہلو سے اس پیشگوئی کی حقیقت ظاہر کی جائے۔توریت میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ایک ضروری پیشگوئی محض گول مول ہے کہ ایک نبی موسیٰ کی مانند بنی اسرائیل میں سے اُن کے بھائیوں میں سے آئے گا۔*اور کہیں کھول کر نہ بتلایا کہ بنی اسماعیل میں سے آئے گا۔ اور اس کا یہ نام اور اس کے باپ کا یہ نام ہو گا۔ اور مکّہ میں پیدا ہو گا اور اتنی مدت بعد آئے گا۔ اس لئے یہود کو اس پیشگوئی سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔ اور اسی غلطی سے لاکھوںیہود جہنم میں جا پڑے حالانکہ قرآن شریف نے اسی پیشگوئی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے۔333333۱؂ اور یہود کہتے ہیں کہ

توریت میں بعض جگہ بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ وہ تم میں سے ہی آئے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 249

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 249

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/249/mode/1up


مثیل موسیٰ یسوعا نبی تھا جو موسیٰ کے فوت ہونے کے بعد اس کا جانشین ہوا۔ اور عیسائی کہتے ہیں کہ مثیل موسیٰ عیسیٰ ہے کیونکہ وہ بھی موسیٰ کی طرح منجّی ہو کر آیا ہے۔ اب بتلاؤ کہ توریت کی ایسی پیشگوئی کا جس نے کوئی صاف فیصلہ نہ کیا ، کیا فائدہ ہوا؟ جس نبی علیہ السلام کی نسبت پیشگوئی تھی نہ یہود اس کو شناخت کر سکے نہ عیسائی اور دونوں گروہ سعادت قبول سے محروم رہے مگر وہ وحی الٰہی جو میرے پر نازل ہوئی یعنی عفت الدیار محلّھا و مقامھا یہ جیسا کہ تمہارا خیال ہے مبہم نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے اسی اخبار میں یہ الہام موجود ہے کہ ’’زلزلہ کا دھکّا‘‘۔ پھر بعد اس کے یہ دوسری وحی کہعفت الدیار محلّھا و مقامھا اسی زلزلہ کی صفات بیان کرتی ہے جس کا پہلے اسی اخبار میں ذکر ہو چکا ہے۔ اور یہ پیشگوئی طاعون پر کسی طرح صادق نہیں آ سکتی۔ اور یہ دونوں وحی ایک ہی اخبار میں صرف پانچ ماہ کے فاصلہ کے ساتھ موجود ہیں یعنی الحکم میں۔ ابؔ بتلاؤ کہ کیا یہ ہٹ دھرمی ہے یا نہیں کہ ایسی عظیم الشان پیشگوئی کو جو دو مرتبہ ایک ہی اخبار میں صریح زلزلہ کا نام اور اس کے صفات بیان کر کے اس عظیم الشان حادثہ کی خبر دیتی ہے نکمی اور لغو قرار دی جائے اور اگر یہی بات ہے تو پھر آپ کا اسلام پر قائم رہنا ہی مشکل ہے معتبر تفسیروں میں لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی3۱؂ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم نہیں کہ یہ پیشگوئی کس موقعہ کے متعلق ہے۔ اور پھر جب بدر کی لڑائی میں فتح عظیم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اب معلوم ہوا کہ اسی فتح عظیم کی یہ پیشگوئی خبر دیتی تھی اور ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ مجھ کو ایک خوشۂ انگور دیا گیا کہ یہ ابو جہل کے لئے ہے اور مَیں حیران تھا کہ ابو جہل کا ایسا خبیث مادہ ہے کہ وہ بہشت میں داخل ہونے کے لائق نہیں۔ اور کچھ بھی اس کے معنی سمجھ نہ آئے۔ آخر وہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ ابو جہل کا بیٹا عکرمہ مسلمان ہو گیا اور ایک مرتبہ آپ نے ایک وحی الٰہی کے مطابق مدینہ سے مکہ کی طرف ایک طول طویل سفر کیا۔ اور وحی الٰہی میں یہ بشارت دی گئی تھی کہ مکّہ کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 250

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 250

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/250/mode/1up


اندر داخل ہوں گے اور خانہ کعبہ کا طواف کریں گے۔ اور وقت نہیں بتایا گیا تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے محض اجتہاد کی بناء پر اُس سفر کی تکلیف اٹھائی۔ اور وہ اجتہاد صحیح نہ نکلا اور مکّہ میں داخل نہ ہو سکے سو اس جگہ پیشگوئی کے سمجھنے میں غلطی ہوئی جس سے بعض صحابہ ابتلا میں پڑ گئے۔

ایسا ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے خبر دی تھی کہ تو بادشاہ ہو گا۔ انہوں نے اِس وحی الٰہی سے دنیا کی بادشاہی سمجھ لی۔ اور اسی بنا پر حضرت عیسیٰ نے اپنے حواریوں کو حکم دیا کہ اپنے کپڑے بیچ کر ہتھیار خرید لو مگر آخر معلوم ہوا کہ یہ حضرت عیسیٰ کی غلط فہمی تھی اور بادشاہت سے مراد آسمانی بادشاہت تھی نہ زمین کی بادشاہت۔ اصل بات یہ ہے کہ پیغمبر بھی بشر ہی ہوتا ہے اور اس کے لئے یہ نقص کی بات نہیں کہ کسی اپنے اجتہاد میں غلطی کھاوے۔ ہاں وہ غلطی پر قائم نہیں رکھا جا سکتا اور کسی وقت اپنی غلطی پر ضرور متنبہ کیا جاتا ہے۔ اور نبی کی پیشگوئی کو ہمیشہ اس کے خارق عادت مفہوم کی رُو سے دیکھنا چاہیئے اور اگر کسی خاص پہلو پر پیشگوئی کا ظہور نہ ؔ ہو اور کسی دوسرے پہلو پر ظاہر ہو جائے اور اصل امر جو اس پیشگوئی کا خارق عادت ہونا ہے وہ دوسرے پہلو میں بھی پایا جائے۔ اور واقعہ کے ظہور کے بعد ہر ایک عقلمند کو سمجھ آجائے کہ یہی صحیح معنے پیشگوئی کے ہیں جو واقعہ نے اپنے ظہور سے آپ کھول دیئے ہیں تو اس پیشگوئی کی عظمت اور وقعت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا۔ اور اس پر ناحق نکتہ چینی کرنا شرارت اور بے ایمانی اور ہٹ دھرمی ہوتی ہے۔

قولہ۔ ایک گول بات کہہ دینی کہ کوئی آفت آنے والی ہے لیکن اس کی کیفیت نہ بتانی کہ کیا آفت ہے اور کب آنے والی ہے پیشگوئی نہیں بلکہ تمسخر ہے اور ہر ایک شخص ایسا کہہ سکتا ہے۔

اقول۔ بجز اس کے کیا کہیں کہ لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ ایسے مخالف کو چاہیئے کہ اتنا ہی کہہ دے کہ ایسی آفت نہیں آئے گی۔ اور پھر آپ خود سوچ لیں کہ یہ پیشگوئی گول مول کیسے ہوئی۔ جب کہ صریح اس میں زلزلہ کا نام بھی موجود ہے اور یہ بھی موجود ہے کہ اُس میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 251

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 251

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/251/mode/1up


ایک حصہ ملک کا نابود ہو جائے گا۔ اور یہ بھی موجود ہے کہ وہ میری زندگی میں آئے گا۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی پیشگوئی ہے کہ وہ ان کے لئے نمونہ قیامت ہو گا جن پر یہ زلزلہ آئے گا۔ اور اگر یہ گول مول ہے تو پھر کھلی کھلی پیشگوئی کس کو کہتے ہیں؟ اور یہ کہنا کہ اُس میں وقت نہیں بتایا گیا یہ صرف آپ اسلام پر نہیں بلکہ تمام آسمانی کتابوں پر حملہ کرتے ہیں۔ قرآن شریف میں اکثر ایسی ہی پیشگوئیاں ہیں جن میں کوئی وقت نہیں بتایا گیا۔ توریت میں بخت نصر اور طیطوس رومی کی نسبت جو پیشگوئی تھی اس میں کونسا وقت بتایا گیا تھا۔ ایسا ہی توریت میں جو مثیلِ موسیٰ کے آنے کی نسبت پیشگوئی تھی اُس میں کس وقت کی قید لگائی گئی تھی۔ اور انجیل کی پیشگوئیاں جو زلزلوں اور لڑائیوں کے بارہ میں ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اُن میں کسی وقت کا پتہ دیا گیا ہے۔ اور پھر وہ پیشگوئی جو مسیح موعود کے آنے کے بارہ میں ہے جس میں آپ لوگ حضرت عیسیٰ بن مریم کو دوبارہ زمین پر لانا چاہتے ہیں اس میں کس وقت کی خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو خبر دے رکھی ہے تا دور سے آنے والے کے لئے چند قدم استقبال کی نیت سے آپ آگے قدم اٹھاویں اور اگر ؔ زیادہ نہیں تو کُرّہ زمہریر تک ہی پیشوائی کریں اور لحاف وغیرہ ساتھ لے لیں۔ کاش آپ لوگوں نے سوچا ہوتا کہ ایسے اعتراض صرف میرے پر نہیں یہ تو سب اعتراض آپ کے اسلام پر اور نعوذ باللہ قرآن شریف پر پڑتے ہیں بلکہ یہ تو تمام ابنیاء گذشتہ پر حملہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب ایک پیشگوئی فی نفسہٖ خارق عادت ہو یا کسی ایسے غیب پر مشتمل ہو جس کا علم انسانی طاقت سے بالا تر ہے۔ اور پیشگوئی میں صاف طور پر یہ دعویٰ ہو کہ ایسا واقعہ اس ملک میں صدہا سال تک کبھی ظہور میں نہیں آیا۔ اور دراصل ظہور میں نہ آیا ہو اور پھر وہ واقعہ اپنے دعوے کے موافق ظہور میں آ جائے تو پھر ایسی خارق عادت پیشگوئی پر اعتراض کرنا بے ایمانوں کا کام ہے جن کو خدا کی اور سچائی کی پروا نہیں اور ایسے بدقسمت ہمیشہ شقاوتِ قلبی کی وجہ سے ہر ایک نبی پر اعتراض کرتے رہے ہیں۔ بھلا آپ ہی بتلاویں کہ اِس زلزلہ کی نسبت جس مدّوشدّ سے پیشگوئی میں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 252

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 252

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/252/mode/1up


خبر دی گئی ہے۔ کیا آپ دو ہزار برس تک اس ملک میں اس کی کوئی نظیر پیش کر سکتے ہیں؟ اور یاد رہے کہ یہ صرف ایک پیشگوئی نہیں بلکہ بار بار میری معرفت میرے خدا نے براہین احمدیہ حصص سابقین میں اس کی خبر دی ہے۔ مواہب الرحمن میں اس کی خبر موجود ہے۔ رسالہ آمین میں اس کی خبر موجود ہے اور اخبار الحکم کے کئی پرچوں میں مختلف الہامات میں اس کی خبر موجود ہے۔ پھر بھی آپ کے نزدیک یہ پیشگوئی گول مول ہے۔ اب اس کا کیا علاج اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ۔ جن بے جا حملوں کا اسلام پر کرنا غیر مذاہب والوں کا کام تھا اب خود مسلمان وہ حملے کرتے ہیں۔ اگر حمایتِ دین نصیب نہیں تھی تو کم سے کم سوچ کر حملہ کرتے مفت کی رُوسیاہی اور آخر حملہ میں جھوٹے نکلنا کیا یہ دین داری ہے؟ ع

یکے برسر شاخ وبُن مے بُرید

اگر اسلامی نور دل میں ہوتا تو خود بخود سمجھ جاتے بلکہ دوسروں کو جواب دیتے۔

قولہ۔ جناب مقدّس مرزا صاحب نے دوبارہ زلزلہ آنے کی خبر دی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ مجھے علم نہیں دیا گیا کہ وہ کوئی زلزلہ ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے۔ اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا حادثہ کب ہو گا۔

اقولؔ ۔ میری اس تقریر پر کوئی اعتراض عائد نہیں ہو سکتا کیونکہ قرآن شریف میں جو عربوں کے لئے ایک عذاب کا وعدہ دیا گیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس عذاب کی کوئی تصریح نہیں کی کہ کس طرح کا عذاب ہو گا اور کِس قسم کا ہو گا صرف یہ فرمایا ہے کہ خدا قادر ہے کہ وہ عذاب آسمان سے نازل کرے یا زمین سے بھیجے یا کافروں کو مسلمانوں کی تلوار کا مزہ چکھا دے۔ اب ان آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خود اقرار کرتے ہیں کہ مجھے علم نہیں دیا گیا کہ وہ کس قسم کا عذاب ہو گا۔ اور جب پُوچھا گیا کہ وہ عذاب کب آئے گا تو آپ نے کوئی تاریخ نہ بتلائی۔ جیسا کہ قرآن شریف میں فرمایا ہے۔3



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 253

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 253

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/253/mode/1up


یعنی کافر پوچھتے ہیں کہ یہ دعویٰ پورا کب ہو گا اگر تم سچے ہو تو تاریخ عذاب بتاؤ۔ ان کو کہہ دے مجھے کوئی تاریخ معلوم نہیں یہ علم خدا کو ہے۔ مَیں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔ اور پھر کافروں نے مکررًا عذاب کی تاریخ پوچھی تو یہ جواب ملا۔3۱؂ یعنی ان کو کہہ دے کہ مَیں نہیں جانتا کہ عذاب قریب ہے یا دُور ہے۔ اب اے سُننے والو! یاد رکھو کہ یہ بات سچ ہے اور بالکل سچ ہے اور اس کے ماننے کے بغیر چارہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں کبھی ظاہر پر پوری ہوتی ہیں اور کبھی استعارہ کے رنگ میں۔ پس کسی نبی یا رسول کو یہ حوصلہ نہیں کہ ہر جگہ اور ہر پیشگوئی میں یہ دعویٰ کر دے کہ اس طور پر یہ پیشگوئی پوری ہو گی۔ ہاں البتہ جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں اس امر کا دعویٰ کرنانبی کا حق ہے کہ وہ پیشگوئی جس کو وہ بیان کرتا ہے خارق عادت ہے یا انسانی علم سے وراء الوراء ہے۔ اگر پنجاب میں ہر صدی میں بھی ایسا زلزلہ آ جایا کرتا جیسا کہ ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء کو آیا تو اس صورت میں بھی یہ پیشگوئی کچھ بھی چیز نہ ہوتی۔ کیونکہ تمام لوگ اس بات کے کہنے کا حق رکھتے تھے کہ ہمیشہ پنجاب میں ایسے زلزلے آتے ہیں یہ کوئی اَنہونی بات نہیں ہے۔ لیکن جب کہ گذشتہ زلزلہ اس خارق عادت طور سے ظاہر ہوا جس خارق عادت طور سے پیشگوئی نے بیان کیا تھا تو پھر سب اعتراض فضول ہو گئے۔ ایسا ہی آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی ہے وہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں اگر وہ آخر کو معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اُس کاؔ ظہور نہ ہوا تو مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں مجھے خدا تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ وہ آفت جس کا نام اس نے زلزلہ رکھا ہے نمونۂ قیامت ہو گا اور پہلے سے بڑھ کر اس کا ظہور ہو گا۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ اِس آئندہ کی پیشگوئی میں بھی پہلی پیشگوئی کی طرح بار بار زلزلہ کا لفظ ہی آیا ہے اور کوئی لفظ نہیں آیا۔ اور ظاہری معنوں کا بہ نسبت تاویلی معنوں کے زیادہ حق ہے لیکن جیسا کہ تمام انبیاء ادبِ ربوبیّت اور ادب وسعتِ علم باری ملحوظ رکھتے رہے ہیں اُس اَدب کے لحاظ سے اور سنّت اللہ کو مدّنظر رکھ کر یہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 254

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 254

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/254/mode/1up


کہنا پڑتا ہے کہ اگرچہ بظاہرلفظ زلزلہ کا آیا ہے مگر ممکن ہے کہ وہ کوئی اور آفت ہو جو زلزلہ کا رنگ اپنے اندر رکھتی ہو مگر نہایت شدید آفت ہو جو پہلے سے بھی زیادہ تباہی ڈالنے والی ہو جس کا سخت اثر مکانات پر بھی پڑے۔* اور یہ پیشگوئی تاریخ اور وقت نہ لکھنے سے باطل نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے ساتھ اس قدر اور تصریحات ہیں جو تاریخ اور وقت لکھنے سے مُستغنی کرتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ زلزلہ تیری ہی زندگی میں آئے گا اور اس زلزلے کے آنے سے تیرے لئے فتح نمایاں ہو گی اور ایک مخلوق کثیر تیری جماعت میں داخل ہو جا ئے گی۔ اور تیرے لئے وہ آسمانی نشان ہو گا۔ تیری تائید کے لئے خدا خود اُترے گا اور اپنے عجائب کام دکھلائے گا جو کبھی دنیا نے نہیں دیکھے۔ اور دور دور سے لوگ آئیں گے اور تیری جماعت میں داخل ہوں گے۔ اور وہ زلزلہ پہلے زلزلہ سے بڑھ کر ہو گا اور اس میں قیامت کے آثار ظاہر ہوں گے اور دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرے گا۔ اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں اُس وقت آؤں گا کہ جب دل سخت ہو جائیں گے اور زلزلہ آنے کے خیال سے لوگ اطمینان حاصل کر لیں گے۔ اور خدا فرماتا ہے کہ مَیں مخفی طور پر آؤں گا اور مَیں ایسے وقت میں آؤں گا کہ کسی کو بھی اطلاع نہیں ہو گی۔ یعنی لوگ اپنے دنیا کے کاروبار میں سرگرمی اور اطمینان سے مشغول ہوں گے کہ یکدفعہ وہ آفت نازل ہو جائے گی اور اس سے پہلے لوگ تسلّی کر بیٹھے ہوں گے کہ زلزلہ نہیں آئے گا اور اپنے تئیں بے خطر اور امن میں سمجھ لیا ہو گا تب یکدفعہ یہ آفت

مسیح موعود کے بارے میں جو یہودیوں کو پیشگوئی کے طور پر خبر دی گئی تھی کہ وہ نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس نبی دوبارہ آسمان سے نازل نہ ہو لے۔ لیکن آسمان سے تو کوئی نازل نہ ہوا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دعویٰ کر دیا کہ وہ مسیح موعود مَیں ہوں اور الیاس نبی سے مراد یحییٰ نبی ہے جو مجھ سے پہلے آچکا۔ پس الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی جس کے یہود منتظر تھے اور اب تک منتظر ہیں حضرت یحییٰ کے ظہور سے بطور استعارہ پوری ہو گئی ۔ اس سے ظاہر ہے کہ پیشگوئیوں میں کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ صَرف عَنِ الظَّاہرکر کے استعارہ کے رنگ میں اپنے وعدہ کو پورا کر دیتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 255

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 255

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/255/mode/1up


اُن کے سروں پر ٹوٹے گی۔ مگر خدا فرماتا ہے کہ وہ بہار کے دن ہوں گے۔ آفتا ب بہار کی صبح میں نمودار ہو گا اورؔ خزاں کی شام میں غروب کرے گا۔ تب کئی گھروں میں ماتم پڑے گا کیونکہ انہوں نے وقت کو شناخت نہ کیا۔ علم غیب تک کسی نجومی اور کسی طبقات الارض کے علم کے مدعی کو رسائی نہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ کل کیا ہو گا مگر خدا جس نے یہ سب کچھ پیدا کیا ہے وہ اپنی مخلوقات کی تہ سے واقف ہے۔

قولہ۔ جس حالت میں قرآن شریف میں دونوں زلزلوں کی خبر ہے پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ شاید وہ زلزلہ ہے یا کوئی اور آفت ہے۔

اقول۔ مَیں نے تو بار بار کہہ دیا کہ ظاہر الفاظ قرآن شریف کے اور اس وحیِ الٰہی کے جو مجھ پر ہوئی زلزلہ کی ہی خبر دیتے ہیں لیکن سنّت اللہ ہمیں مجبور کرتی ہے کہ تاویلی احتمال بھی پیشِ نظر رہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک قوم کے لئے ایک جگہ فرماتا ہے۔3۱؂ یعنی اُن پر سخت زلزلہ آیا حالانکہ اُن پر کوئی زلزلہ نہیں آیا تھا۔ پس دوسری آفت کا نام اس جگہ زلزلہ رکھا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے33۲؂ یعنی جو شخص اِس دنیا میں اندھا ہو گا وہ دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا یہ بھی ایک پیشگوئی ہے مگر اس کے وہ معنے نہیں ہیں جو ظاہر الفاظ سے سمجھے جاتے ہیں۔ وسعتِ علم الٰہی پر ایمان رکھنا اور اپنے علم کو اس کے برابر نہ ٹھہرانا انبیاء اور رسولوں کی صفت ہے۔ قرآن شریف میں بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کافروں پر فتح پانے کا وعدہ دیا گیا تھا۔ مگر جب بدر کی لڑائی شروع ہوئی جو اسلام کی پہلی لڑائی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے رونا اور دُعا کرنا شروع کیا اور دُعا کرتے کرتے یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مُنہ سے نکلے اَللّٰھم اِن اھلکتَ ھٰذہ العِصابۃ فَلن تُعبد فِی الاَرضِ أَبَدًا یعنی اے میرے خدا ! اگر آج تو نے اس جماعت کو (جو صرف تین سو تیرہ آدمی تھے) ہلاک کر دیا تو پھر قیامت تک کوئی تیری بندگی



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 256

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 256

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/256/mode/1up


نہیں کرے گا۔ اِن الفاظ کو جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مُنہ سے سُنا تو عرض کی یا رسول اللہ !صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس قدر بے قرار کیوں ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تو آپ کو پختہ وعدہ دے رکھا ہے کہؔ مَیں فتح دونگا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سچ ہے مگر اُس کی بے نیازی پر میری نظر ہے۔ یعنی کسی وعدہ کا پورا کرنا خدا تعالیٰ پر حق واجب نہیں ہے۔ اب سمجھنا چاہیئے کہ جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے طریقِ ادب ربوبیت کو اس حد تک ملحوظ رکھا تو پھر اس مسلّم عقیدہ جمیع ابنیاء علیہم السلام سے کیوں مُنہ پھیر لیا جائے کہ کبھی خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ظاہر الفاظ پر پوری ہوتی ہے اور کبھی بطریق استعارہ اور مجاز پوری ہو جاتی ہے۔ اور اس عقیدہ کا مقابلہ نادانی ہے۔ اور یہ کہناکہ جس پیشگوئی کے نہ ظاہر الفاظ پر بھروسہ ہے اور نہ اس کا وقت بتایا گیا وہ پیشگوئی کیسے ہوئی؟ یہ سفلی زندگی کا خیال ہے اور اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایسے شخص کو سنّت اللہ کی کچھ بھی خبر نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جب ایک پیشگوئی کوئی عظمت اور قوت اور خارق عادت خبر اپنے اندر رکھتی ہو اور خدا کا ہاتھ صریح طور پر اس میں وقتِ ظہور نظر آ جائے تو خود دل اس کو قبول کر لیتے ہیں اور کوئی شخص تاریخ وغیرہ کا ذکر نہیں کرتا۔ دراصل یہ جھگڑا اور یہ اعتراض قبل از وقت ہے۔ وہ وقت تو آنے دو بعد میں اعتراض کرنا۔ قبل از وقت واویلا اچھا نہیں ظہور کے وقت پیشگوئی خود بتا دے گی کہ وہ معمولی بات ہے یا غیر معمولی۔

قولہ۔ جب کہ بقول آپ کے قرآن شریف میں بھی د۲و زلزلوں کی خبر ہے تو اب تو آنے والی آفت کے زلزلہ ہونے میں شک کی جگہ نہ رہی۔

اقول۔ قرآن شریف میں یہ آیت ہے۔33۱؂ یعنی اس دن زمین ایک سخت اضطرابی حرکت کرے گی اور زمین میں ایک سخت اور شدید اضطراب پیدا ہو گا اور اس کے بعد ایک اور اضطراب زمین میں پیدا ہو گا جو پہلے کے بعد ظہور میں آئے گا۔ اِن آیتوں کے ظاہر الفاظ میں زلزلہ کا کوئی ذکر نہیں کیونکہ لُغت میں رجفان اضطراب شدید کو کہتے ہیں۔ چنانچہ بولا جاتا ہے رَجَفَ الشَّیْ ءُ یعنی اِضْطَرَبَ اِضْطِرَابًا شَدِیْدًا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 257

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 257

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/257/mode/1up


مگر چونکہ زمین کا اضطراب اکثر کر کے زلزلہ سے ہی ہوتا ہے اس لئے ہم نے اس جگہ ظن غالب کے طور پر زلزلہ کے معنے کئے ہیں۔ ورنہ ممکن ہے کہ یہ اضطراب کسی اور حادثہ کی وجہ سے ہو زلزلہ کی وجہ سے نہ ہو یا اس اضطراب سے کوئیؔ اور آفت مراد ہو۔ پس اس جگہ بھی وہی بات قائم رہی جو پہلے ہم بیان کر چکے ہیں۔ یعنی یہ آیت بھی زلزلہ پر قطعیۃ الدّلالت نہیں۔ اگرچہ ظن غالب یہی ہے کہ اس جگہ تَرجف الرَّاجفۃ سے زلزلہ ہی مراد ہے۔ واللّٰہ اعلم۔ ہم نے کب اور کس وقت اپنی پیشگوئیوں کے الفاظ کے یہ معنے کئے ہیں کہ ان سے مراد زلزلہ نہیں ہے بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ اکثر اور اغلب طور پر زلزلہ کے لفظ سے مراد زلزلہ ہی ہے مگر ممکن ہے کہ قدیم سنّت اللہ کے موافق ان الفاظ سے کوئی اور ایسی شدید اور خارق عادت اور سخت تباہی ڈالنے والی آفت مراد ہو جو زلزلہ کا رنگ اور خاصیّت اپنے اندر رکھتی ہو۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں استعارات بھی اکثر پائے جاتے ہیں جن سے اہلِ علم کو انکار نہیں مگر ظاہر الفاظ کا سب سے پہلا حق ہے۔ اور ظاہر الفاظ ان پیشگوئیوں کے زلزلہ پر ہی دلالت کرتے ہیں۔

معترض صاحب نے یہ بار بار سوال کیا ہے کہ پیشگوئی کرنے والے نے نہ زلزلہ کے لفظ کو قطعی طور پر زلزلہ ہی قرار دیا ہے اور نہ وقت بتایا ہے پھر اس صور ت میں یہ پیشگوئی کیا ہوئی؟ یوں تو قیامت تک کوئی نہ کوئی حادثہ آ جائے گا اور سہل ہو گا کہ اسی کو اپنی پیشگوئی قرار دے دیں۔

تعجب کہ ہم بار بار کہے جاتے ہیں کہ ظن غالب کے طور پر زلزلہ سے مراد ہماری پیشگوئیوں میں زلزلہ ہی ہے اور اگر وہ نہ ہو تو ایسی خارق عادت آفت مراد ہے جو زلزلہ سے شدید مناسبت رکھتی ہو اور پورے طور پر زلزلہ کا رنگ اس کے اندر موجود ہو پھر بھی معترض صاحب کی اس قدر الفاظ سے تسلّی نہیں ہوتی۔ مجھے معلوم نہیں کہ ایسے توہمات کے ساتھ ان کی اسلام پر کیونکر تسلّی ہو گئی ہے۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیوں کے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 258

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 258

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/258/mode/1up


بارے میں اس قدر کافی سمجھا گیا ہے کہ وہ خارق عادت اور انسانی طاقتوں سے بالا تر ہوں یا یہ کہ کسی ایسے غیب پر مشتمل ہوں جو انسانی پیش بینی سے بلند تر ہو۔ جب ایک پیشگوئی خارق عادت کے طور پر بیان کی جائے جس کے بیان کرنے کے وقت کسی عقل اور فہم کو یہ خیال نہ ہو کہ ایسا امر ہونے والا ہے اور صریح وہ ایک غیر معمولی بات ہو جس کی گذشتہ صدہا سال میں کوئی نظیر نہ پائی جائے اور نہ آئندہ اس کے ظہور کے لئے آثار ظاہر ہوں اور وہ پیشگوئی سچی نکلے تو عقلِ سلیم حکم دیتی ہے کہ ایسی پیشگوئی ضرور منجانب اللہ سمجھیؔ جائے گی ورنہ تمام نبیوں کی پیشگوئیوں سے انکار کرنا پڑے گا۔ اب ذرہ کان کھول کر سُن لو کہ آئندہ زلزلہ کی نسبت جو میری پیشگوئی ہے اُس کو ایسا خیال کرنا کہ اُس کے ظہور کی کوئی بھی حد مقرر نہیں کی گئی یہ خیال سراسر غلط ہے کہ جو محض قلّتِ تدبّر اور کثرتِ تعصّب اور جلد بازی سے پیدا ہوا ہے۔ کیونکہ بار بار وحیِ الٰہی نے مجھے اطلاع دی ہے کہ وہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی ملک میں اور میرے ہی فائدہ کے لئے ظہور میں آئے گی۔ اور اگر وہ صرف معمولی بات ہو جس کی نظیریں آگے پیچھے صد ہا موجود ہوں اور اگر کوئی ایسا خارق عادت امر نہ ہو جو قیامت کے آثار ظاہر کرے تو پھر مَیں خود اقرار کرتا ہوں کہ اس کو پیشگوئی مت سمجھو۔ اس کو بقول اپنے تمسخر ہی سمجھ لو۔ اب میری عمر ستّر۷۰برس کے قریب ہے اور تیس ۳۰برس کی مدت گذر گئی کہ خدا تعالیٰ نے مجھے صریح لفظوں میں اطلاع دی تھی کہ تیری عمر اسّی۸۰ برس کی ہو گی اور یا یہ کہ پا۵نچ چھ۶ سال زیادہ یا پا۵نچ چھ۶ سال کم۔ پس اس صورت میں اگر خدا تعالیٰ نے اس آفت شدیدہ کے ظہور میں بہت ہی تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ سولہ۱۶ سال ہیں اس سے زیادہ نہیں کیونکہ ضرور ہے کہ یہ حادثہ میری زندگی میں ظہور میں آ جائے۔*

خدا تعالیٰ کا الہام ایک یہ بھی ہے۔’’پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ موعودہ کے وقت بہار کے دن ہوں گے۔ اور جیسا کہ بعض الہامات سے سمجھا جاتا ہے غالباً وہ صبح کا وقت ہو گا یا اس کے قریب اور غالباً وہ وقت نزدیک ہے جب کہ وہ پیشگوئی ظہور میں آجائے اور ممکن ہے کہ خدا اس میں کچھ تاخیر ڈال دے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 259

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 259

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/259/mode/1up


لیکن پیشگوئی کا مطلب یہ نہیں کہ پورے سو۱۶لہ سال تک ظہور اس پیشگوئی کا معرض التوا میں رہے گا بلکہ ممکن ہے کہ آج سے ایک دو سال تک یا اس سے بھی پہلے یہ پیشگوئی ظہور میں آجائے۔ اور نہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ میری عمر اسّی۸۰ سال سے ضرور زیادہ ہو جائے گی بلکہ اس بارے میں جو فقرہ وحی الٰہی میں درج ہے اس میں مخفی طور پر ایک امید دلائی گئی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تواسّی۸۰ برس سے بھی عمر کچھ زیادہ ہو سکتی ہے اور جو ظاہر الفاظ وحی کے وعدہ کے متعلق ہیں وہ تو چُہتر۷۴اور چھیا۸۶سی کے اندر اندر عمر کی تعیین کرتے ہیں۔ بہرحال یہ میرے پر تہمت ہے کہ مَیں نے اس پیشگوئی کے زمانہ کی کوئی بھی تعیین نہیں کی۔ اور خدا تعالیٰ بار بار اپنی وحی میں فرما رہا ہے کہ ہم تیرے لئے یہ نشان دکھلائیں گے۔ اور ان کو کہہ دے کہ یہ نشان میری سچائی کا گواہ ہو گا۔ مَیں تیرے لئے اُتروں گا اور تیرے لئے اپنے نشان دکھلاؤں گا۔ مَیں اُس وقت تیرے پاس اپنی فوجیں لے کر آؤں گا جب کہ کسی کو خبر نہیں ہو گی اور اس وقت کو کوئی نہیں جانتا مگر خدا۔اور جیسا کہ موسیٰ کے زمانہ میں ہوا کہ فرعون اور ہامانؔ اُس وقت تک دھوکا میں رہے جب تک کہ رودنیل کے طوفان نے ان کو پکڑا ایسا ہی اب بھی ہو گا۔ اور پھر فرمایا کہ تو میری آنکھوں کے سامنے کشتی طیار کر اور ظالم لوگوں کی سفارش مت کر۔ اور اُن کا شفیع مت بَن کہ مَیں اُن سب کو غرق کروں گا۔ ایسا ہی اور صریح الہاماتِ الٰہی ہیں اور سب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے ہی زمانہ میں ظہور میں آئے گی اور اس کی یہ حدّ ہے جو معیّن اور مقرر ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کر سکتی۔ مگر نہیں معلوم کہ وہ مہینوں کے بعد ظہور میں آئے گی یا ہفتوں کے بعد یا برسوں کے بعد۔ بہر حال وہ سولہ۱۶ سال سے تجاوز نہیں کرے گی۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسا کہ استنباط آیاتِ قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا کی عمر حضرت آدم سے لے کر سات۷۰۰۰ ہزار سال ہے۔ اور اس میں سے ہمارے زمانہ تک چھ ہزا۶۰۰۰ر برس گذر چکے ہیں۔ جیسا کہ اعداد سورۃ والعصر سے معلوم ہوتا ہے۔ اور بموجب حساب قمری کے اب ہم ساتویں ہزار میں ہیں۔ اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 260

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 260

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/260/mode/1up


جو مسیح موعود چھٹے ہزار کے اخیر پر قائم ہونا تھا وہ قائم ہو چکا ہے۔*اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ قیامت کی گھڑی معلوم نہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا نے قیامت کے بارے میں انسان کو کوئی اجمالی علم بھی نہیں دیا ورنہ قیامت کے علامات بھی بیان کرنا ایک لغو کام ہو جاتا ہے کیونکہ جس چیز کو خدا تعالیٰ اس طرح پر مخفی رکھنا چاہتا ہے اُس کے علامات بیان کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ بلکہ ایسی آیات سے مطلب یہ ہے کہ ؔ قیامت کی خاص گھڑی تو کسی کو معلوم نہیں مگر خدا نے حمل کے دنوں کی طرح انسانوں کو اس قدر علم دے دیا ہے کہ ساتویں ہزار کے گذرنے تک اِس زمین کے باشندوں پر قیامت آجائے گی۔ اِس کی ایسی ہی مثال ہے

خدا نے آدم کو چھٹے دن بروز جمعہ بوقت عصر پیدا کیا۔ توریت اور قرآن اور احادیث سے یہی ثابت ہے اور خدانے انسانوں کے لئے سات ۷ دن مقرر کئے ہیں۔ اور اِن دنوں کے مقابل پر خدا کا ہر ایک دن ہزار سال کا ہے اور اس کی رو سے استنباط کیا گیا ہے کہ آدم سے عمردنیا کی سات ہزار سال ہے اور چھٹا ہزار جو چھٹے دن کے مقابل پر ہے وہ آدمِ ثانی کے ظہور کا دن ہے۔ یعنی مقدریوں ہے کہ چھٹے ہزار کے اندر دینداری کی روح دنیا سے مفقود ہو جائے گی اور لوگ سخت غافل اور بے دین ہو جائیں گے۔ تب انسان کے روحانی سلسلہ کو قائم کرنے کے لئے مسیح موعود آئے گا۔ اور وہ پہلے آدم کی طرح ہزار ششم کے اخیر میں جو خدا کا چھٹا دن ہے ظاہر ہو گا۔ چنانچہ وہ ظاہر ہو چکا اور وہ وہی ہے جو اس وقت اس تحریر کی رو سے تبلیغ حق کر رہا ہے۔ میرا نام آدم رکھنے سے اس جگہ یہ مقصود ہے کہ نوع انسان کافر دکامل آدم سے ہی شروع ہوا اور آدم سے ہی ختم ہوا۔ کیونکہ اس عالم کی وضع دَوری ہے اور دائرہ کاکمال اسی میں ہے کہ جس نقطہ سے شروع ہوا ہے اُسی نقطہ پر ختم ہوجائے۔ پس خاتم الخلفاء کا آدم نام رکھنا ضروری تھا اور اسی وجہ سے جیسا کہ آدم توام پیداہواتھا میری پیدائش بھی توام ہے اور جس طرح آدم جمعہ کے روز پیدا ہوا تھا میں بھی جمعہ کے دن ہی پیدا ہوا تھا اور جس طرح آدم کی نسبت فرشتوں نے اعتراض کیا میری نسبت بھی وہ وحی الٰہی نازل ہوئی جو یہ ہے ۔ قالوا ا تجعل فیھا من یفسد فیھا۔ قال انی اعلم ما لا تعلمون۔ اور جس طرح آدم کے لئے سجدہ کا حکم ہوا۔ میری نسبت بھی وحی الٰہی میں یہ پیشگوئی ہے۔ یَخِرُّون علی الاذقان سُجَّدًا ربّنا اغْفِرلنا اِنّا کُنّا خاطئین۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 261

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 261

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/261/mode/1up


کہ ہر ایک انسان کا بچہ جو پیٹ میں ہو نو۹ ماہ دس۱۰ دن تک ضرور پیدا ہو جاتا ہے لیکن تاہم اُس کے پیدا ہونے کی گھڑی خاص معلوم نہیں۔ اِسی طرح قیامت بھی سات ہزار برس تک آ جائے گی۔ مگر اُس کے آنے کی گھڑی خاص معلوم نہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ سات ہزار پورا ہونے کے بعد دو۲ تین۳ صدیاں بطور کسور کے زیادہ ہو جائیں جو شمار میں نہیں آ سکتیں۔

اور معترض کا یہ دوسرا اعتراض کہ یہ دعویٰ نہیں کیا گیا کہ درحقیقت زلزلہ ہے۔ یہ اعتراض بھی قلّتِ فہم سے ناشی ہوا ہے کیونکہ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ ظاہر الفاظ وحی سے زلزلہ ہی معلوم ہوتا ہے اور اَغلب اکثر یہی ہے کہ وہ زلزلہ ہے اور پہلا زلزلہ اس پر شہادت بھی دیتا ہے اور قرآن شریف کی یہ آیت بھی اس کی مؤید ہے کہ33۔۱؂ * مگر تاہم خدا تعالیٰ کی کتابیں بھی اِس طرف ہمیں توجہ دلاتی ہیں کہ کبھی ایسی پیشگوئیاں استعارہ کے طور پر بھی پوری ہوتی ہیں مگر خارق عادت ہونے کا رنگ اور غیر معمولی حادثہ ہونے کا رنگ اُن میں باقی رہتا ہے اور ہماری رائے تو یہی ہے کہ سو۱۰۰ میں سے نوّے ۹۰ وجوہ تو یہی بتلاتی ہیں کہ حقیقت میں وہ زلزلہ ہے نہ اور کچھ۔ کیونکہ اس میں زمین کی جنبش اور عمارتوں کے منہدم ہونے کا بھی ذکر ہے یہ تو ہمارا اجتہاد ہے اور بعد اس کے خدا تعالیٰ کے اسرار مخفی کو خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے اور ممکن ہے کہ آگے چل کر وہ اس سے زیادہ ہم پر کھول دے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

اور آپ کا یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ نے اپنی پیشگوئیوں میں جن زلزلوں کا ذکر کیا تھا اُن کی انہوں نے کوئی تاویل نہیں کی اس لئے وہ پیشگوئیاں ایک تعیّن اپنے اندر رکھتی ہیں۔ یہ آپ کا عجیب قول ہے اور عجیب رائے۔ ظاہر ہے کہ ان پیشگوئیوں میں حضرت عیسیٰ نے کسی ہولناک اور مہلک اور خارق عادت زلزلہ کا ذکر نہیں کیا۔ جس ملک میں حضرت عیسیٰ

اُس دن زمین سخت حرکت اضطرابی کرے گی۔ اور اس کے بعد ایک اور حرکت اضطرابی ہو گی یعنی قیامت کے نزدیک دو۲ سخت زلزلے آئیں گے۔ پہلے کے بعد دوسرا زلزلہ آئے گا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 262

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 262

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/262/mode/1up


رہتے تھے اس ملک میں تو شاذ و نادر کوئی ایسا سال گذرتا ہو گا کہ زلزلہ نہ آتا ہو۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ اس ملک میں ہمیشہ زلزلے آتے رہے ہیں اورؔ سخت زلزلے بھی آتے رہے ہیں حضرت عیسیٰ نے اپنی زندگی میں جب وہ اُس ملک میں تھے اور ابھی کشمیر کی طرف سفر نہیں کیا تھا* کئی زلزلے خود دیکھے ہوں گے۔ پس مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ ان معمولی حوادث کا نام پیشگوئی کیوں رکھا جائے۔ پس جس تمسخر کو آپ نے میری پیشگوئیوں میں تلاش کرنا چاہا اور نامراد رہے اگر آپ حضرت عیسیٰ کی ان پیشگوئیوں میں تلاش کرتے تو بغیر کسی محنت کے فی الفور آپ کو مِل جاتا۔ اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ نے زلزلہ کا نام زلزلہ ہی رکھا کوئی تاویل نہیں کی۔ کیا آپ مجھے حضرت عیسیٰ کا کوئی ایسا فقرہ دکھلا سکتے ہیں جس میں لکھا ہو کہ اِن پیشگوئیوں میں زلزلے سے مراد در حقیقت زلزلہ ہے کوئی استعارہ نہیں۔ اور بغیر حضرت عیسیٰ کی

ہم ثابت کر چکے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کا زندہ آسمان پر جانا محض گپ ہے بلکہ وہ صلیب سے بچ کر پوشیدہ طور پر ایران اور افغانستان کا سیر کرتے ہوئے کشمیر میں پہنچے اور ایک لمبی عمر وہاں بسر کی۔ آخر فوت ہو کر سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہوئے اور اب تک آپ کی وہیں قبر ہے۔یُزَارُ وَ یُتَبَرَّکُ بِہٖ اور صلیب پر آپ فوت نہیں ہوئے۔ کچھ زخم بدن پر آئے تھے جن کا مرہم عیسیٰ کے ساتھ علاج کیا گیا تھا۔ اور اس مرہم کا نام اسی وجہ سے مرہم عیسیٰ رکھا گیا ۔ منہ

جس طرح ہمارے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اُحد کی لڑائی میں مجروح ہوئے تھے اور کئی زخم تلواروں کے پیشانی مبارک پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو آئے تھے اور سر تا پا خون سے آلود ہو گئے تھے اسی طرح بلکہ اس سے بہت کم حضرت عیسیٰ کو صلیب پر زخم آئے تھے پھر نہ معلوم نادان لوگوں کو حضرت عیسیٰ سے کیسی مشرکانہ محبت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زخم تو قبول کر لیتے ہیں مگر حضرت عیسیٰ کا مجروح اور زخمی ہونا ان کی شان سے بلند تر سمجھتے ہیں اور شور ڈالتے ہیں کہ ان کی نسبت ایسا کیوں کہتے ہو اور ان کو تمام دنیا سے الگ ایک خصوصیت دینا چاہتے ہیں۔ وہی آسمان پر چڑھ کر پھر زمین پر اترنے والے۔ وہی اس قدر لمبی عمر پانے والے۔ مگر خدا نے ان کو پیدائش میں بھی اکیلا نہیں رکھا بلکہ کئی حقیقی بھائی اور کئی حقیقی بہنیں ان کی ایک ہی ماں سے تھیں۔ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم صرف اکیلے تھے۔ نہ کوئی دوسرا بھائی تھا نہ بہن۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 263

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 263

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/263/mode/1up


سند کے صرف آپ کا قول کیونکر قبول کیا جائے کیونکہ حضرت عیسیٰ کی پیشگوئیوں پر نظر ڈال کر ثابت ہو چکا ہے کہ وہ سب کی سب استعارہ کے رنگ میں ہیں جیسا کہ حضرت عیسیٰ نے دعویٰ کیا تھا کہ میںیہود کا بادشاہ ہوں اور اس دعویٰ پر روم کی گورنمنٹ میں مُخبری ہوئی کہ یہود تو سلطنت رومیہ کے ماتحت ہیں مگر یہ شخص دعویٰ کرتا ہے کہ یہود میری رعایا ہیں اور مَیں ان کا بادشاہ ہوں۔ اس پر جب گورنمنٹ رومی نے جواب طلب کیا تو آپ نے فرمایا کہ میری بادشاہی اس جہان کی نہیں بلکہ بادشاہی سے مراد آسمان کی بادشاہت ہے۔ اب دیکھئے کہ ابتدا میں خود حضرت عیسیٰ کا خیال تھا کہ مجھے زمین کی بادشاہت ملے گی اور اسی خیال پر ہتھیار بھی خریدے گئے تھے مگر آخر کار وہ آسمان کی بادشاہت نکلی۔ پس کیا بعید ہے کہ زلزلہ سے مراد بھی اُن کی کوئی آسمانی امر ہی ہو۔ ورنہ زمین شام میں تو ہمیشہ زلزلے آتے ہی ہیں ایسی زمین کے متعلق زلزلہ کی پیشگوئی کرنا ایک مخالف کی نظر میں تمسخر کی جگہ ہے۔ ایساؔ ہی حضرت عیسیٰ نے فرمایا تھا کہ میرے باراں۱۲ حواری باراں۱۲ تختوں پر بہشت میں بیٹھیں گے۔ یہ پیشگوئی بھی انجیل میں موجود ہے مگر ایک اُن حواریوں میں سے یعنی یہودااسکریوطی مرتد ہو کر مر گیا۔ اب بتلاؤ باراں۱۲ تختوں کی پیشگوئی کس طرح صحیح ہو سکتی ہے اگر کوئی جوڑ توڑ آپ کر سکتے ہیں تو ہمیں بھی سمجھا دیں ہم ممنون ہوں گے یہاں تو کسی استعارہ کی بھی کچھ پیش نہیں جاتی۔ ایسا ہی حضرت عیسیٰ نے فرمایا تھا کہ اس زمانہ کے لوگ ابھی گذر نہیں جائیں گے کہ میں واپس آؤں گا۔ پس جو لوگ ان کو آسمان پر چڑھائے بیٹھے ہیں کیا نصاریٰ اور کیا مسلمان۔ اس بات کا جواب اُن کے ذمہ ہے کہ اُنیس۹ ۱ صدیاں تو گذر گئیں مگر ابھی تک حضرت عیسیٰ واپس نہیں آئے اور اُنیس۹ ۱ صدیوں تک جو لوگ عمریں پوری کر چکے تھے وہ سب خاک میں مل گئے لیکن اب تک کسی نے حضرت عیسیٰ کو آسمان سے اُترتے نہ دیکھا۔ پھر وہ وعدہ کہاں گیا کہ اس زمانہ کے لوگ ابھی زندہ ہوں گے کہ مَیں واپس آ جاؤں گا۔ غرض ایسی پیشگوئیوں پر جس نے ناز کرنا ہے بیشک کرے ہم تو قرآن شریف



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 264

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 264

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/264/mode/1up


کے فرمودہ کے مطابق حضرت عیسیٰ کو سچا نبی مانتے ہیں ورنہ اس انجیل کی رُو سے (جو موجود ہے) اُن کی نبوت کی بھی خیر نہیں۔ عیسائی تو ان کی خدائی کو روتے ہیں مگر ہمیں ان کی نبوت ہی ثابت کرنا بجز ذریعہ قرآن شریف کے ایک غیر ممکن امر معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ عیسائی صاحبوں نے انجیل کی کچھ ایسی ہڈی پسلی توڑی ہے کہ اب اُس کی بُری بھلی بات کا کچھ بھی اعتماد نہیں رہا لیکن تحریف کے قبول کرنے کے بعد بھی حضرت عیسیٰ کی زلزلہ والی پیشگوئی مسلمانوں کے نزدیک سرے سے قابلِ اعتماد نہیں۔ کیونکہ قرآن شریف میں حضرت عیسیٰ کی اس پیشگوئی کا کچھ بھی ذکر نہیں۔ پس کیونکر اور کس ذریعہ سے اس کو صحیح مان لیا جائے۔ افسوس کہ جس قدر آپ نے میری پیشگوئیوں کے ردّ میں ہاتھ پَیر مارے ہیں اور خدا ترسی کو چھوڑ کر ناخنوں تک کوشش کی ہے کہ کسی طرح پبلک کی نظر میں اِن پیشگوئیوں کو آپ خفیف ثابت کر دیں یہ گناہِ بے لذّت آپ نے مُفت میں خرید لیااگر دلائل کے توڑنے میں کچھ کامیابی ہوتی تو اور نہیں تو عیسائیوں کی نظر میں ہی آپ قابلِ تحسین ٹھہرتے۔ خاموشی میں بھی ایک سعادت تھی زبان کھول کر کیا لیا اور آپ نے میرے پر یہ حملہ نہیں کیا ہے بلکہ اُس خدا پر حملہ کیا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔ افسوس کہ صرف سختؔ دلی اور شہرت کی خواہش نے اکثر لوگوں کو میرے مخالف کھڑا کیا ہے ورنہ میرے دعویٰ اور میرے دلائل کا سمجھنا کچھ مشکل نہ تھا۔ ہزار ہا نشان اب تک ظاہر ہو چکے اور زمین و آسمان نے بھی گواہی دی۔ مگر جن کے دلوں پر مُہریں ہیں وہ مخالفت سے باز نہ آئے۔ انہوں نے خدا سے ایک عذاب مانگا ہے جو وقت پر آئے گا۔ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کا مقابلہ کر رہے ہیں اگر وہ اس سے پہلے مر جاتے تو اُن کے لئے بہتر تھا مگر تعصب اور خود بینی کی شراب نے ان کو مست کر رکھا ہے اور وہ دن آتے ہیں کہ خدا اُن کو ہوش میں لائے گا۔

اب ہم چند شبہات مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب بٹالوی کو جو انہوں نے پرچہ پیسہ اخبار ۱۹؍ جون ۱۹۰۵ء ؁ میں چھپوائے ہیں اس جگہ رفع دفع کرتے ہیں۔اور وہ یہ ہیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 265

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 265

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/265/mode/1up


قولہ۔ وہ لکھتا ہے (یعنی یہ عاجز) کہ مَیں نے براہین احمدیہ میں اس زلزلہ کی خبر دی تھی اور لکھا تھا کہ پہاڑ پھٹ جائیں گے۔ یہ ایسا جھوٹ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔

اقول۔ کیا آپ کو اس بات میں کچھ شک ہے کہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۶ میں یہ عبارت موجود ہے فلمّا تجلّٰی ربّہ للجبل جعلہ دکًّا۔ واللّٰہ موھن کید الکافرین ولنجعلہٗ اٰیۃً للناس و رحمۃً منّا و کان اَمْرًا مَّقْضِیًّا یعنی جب اس عاجز کا ربّ ایک پہاڑ مخصوص پر تجلّی کرے گا تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ اور خدا منکروں کے مکر کو سُست کر دے گا اور ہم پہاڑ کے اس واقعہ کو لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیں گے اور مومنوں کے لئے یہ رحمت کا موجب ہو گا اور یہ امر ابتداء سے فیصلہ شدہ تھا یعنی پہلے نبیوں نے خبر دی تھی کہ مسیح موعود کے وقت میں ایسے ہولناک زلزلے آئیں گے۔ ایسا ہی پھر مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ کو اس بات میں کچھ شک ہے کہ براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۷ میں اسی واقعہ کے متعلق یہ دوسری وحی الٰہی ہے فلمّا تجلّی ربّہٗ للجبل جعلہٗ دکًّا۔ قوۃ الرحمٰن لعُبید اللّٰہ الصمد۔ (ترجمہ) جب اس کا (یعنی اس عاجز کا) ربّ پہاڑ پر تجلّی کرے گا تو اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا یہ خدا کی قوت سے ہو گا اپنے بندہ کی تائید میں یعنی اس کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے۔

اب جب کہ یہ دونوں عبارتیں براہین احمدیہ میں موجود ہیں اور اُن میں صریح لفظوں میں یہ وعدہ بھیؔ ہے کہ خدا نشان دکھائے گا اور نُصرت اور تائید کرے گا۔ پھر اس بارے میں جو کچھ اشتہار میں لکھا گیا سفید جھوٹ کیونکر ہو گیا۔ کیا پہاڑ کے پھٹ جانے کو زلزلہ پر دلالت التزامی نہیں؟ اور کیا صاف طرح پر اس جگہ یہ وعدہ نہیں کہ ہم پہاڑ کے پھٹ جانے کو اپنے اس بندہ کے لئے نشان بنائیں گے اور یہ واقعہ تائید اور نصرتِ الٰہی پر دلالت کرے گا اور کیا تصریح کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی اور الفاظ ہو سکتے ہیں جو صفحہ ۵۱۶ میں فرمایا گیا ولنجعلہ اٰیۃ للنّاس یعنی ہم پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کا واقعہ لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیں گے۔ایسا ہی اس سے بڑھ کر اور کیا تصریح ہو سکتی ہے جو براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۵۷ میں کی گئی ہے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 266

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 266

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/266/mode/1up


کیونکہ پہلے پہاڑ کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا وعدہ کیا اور پھر فرمایا قوّۃ الرحمٰن لِعُبَید اللّٰہ الصمد ۔یعنی یہ خدا کی قوّت سے ہو گا۔ اُس کے بندہ کی تائید اور نُصرت کے لئے جس شخص نے اب بھی باوجود اِن تصریحات کے ایسی واضح پیشگوئی کو سفید جھوٹ سمجھا ہے اس کی نسبت بجز اس کے کیا کہیں کہ خود اُس کی آنکھیں سفید ہو گئی ہیں کہ روز روشن کو وہ رات خیال کرتا ہے۔ علاوہ اس کے جس موقعہ پر قرآن شریف میں یہ آیت ہے وہ موقعہ بھی تو زلزلہ پر ہی دلالت کرتا ہے کیونکہ اب تک توریت سے ثابت ہو تا ہے کہ جب کہ حضرت موسیٰ کو کرشمۂ قدرت دکھلانے کے لئے پہاڑ پھٹا تھا اس وقت بھی زلزلہ ہی آیا تھا۔ اس قدر شہادتوں کے بعد بھی اگر کوئی نہیں مانتا تو دو۲ حال سے خالی نہیں۔ یا تو اس کے حواس میں خلل ہے اور آنکھ کی بینائی میں قصور اور یا سخت تعصّب کے پردہ نے اس کو اس توفیق سے محروم کر دیا ہے کہ وہ نُور کو دیکھ کر پھر اس کو قبول کر سکے۔ ماسوائے اس کے ہر ایک عقلمند جانتا ہے کہ پہاڑ کا پھٹ جانا بھی مستلزم زلزلہ ہے اور اس واقعہ کو زلزلہ پر قطعی اور ضروری دلالت ہے تو پھر کیونکر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ زلزلہ کا اس جگہ کچھ بھی ذکر نہیں۔ کیا پہاڑ زلزلہ کے بغیر بھی پھٹا کرتے ہیں؟ مولوی صاحب کی عقل پر یہ کیسے پتھر پڑ گئے کہ کھلی کھلی بات اُن کو سمجھ نہیں آتی۔ستّر۷۰برس تک پہنچ کر پھر طفولیّت کی سادہ لوحی ظاہر ہونے لگی۔ پھر ساتھ اس کے جب کہ یہ بھی موجود ہے کہ اس واقعہ کو ہم نشان بنائیں گے اور اس مامور کی اس سے تائید اور نصرت کریں گے تو بجز ایسے شخص کے کہ اس کے دل پر شقاوت کا زنگ جم گیا ہو۔ کون اس بات سے انکاؔ ر کر سکتا ہے کہ یہ پہاڑ کا پھٹنا جس کا براہین احمدیہ میں ذکر ہے کوئی ایسا واقعہ ہے جس کو خدا اپنے مامور کے لئے نشان بنائے گا۔ جیسا کہ اُسی جگہ بطور وعدہ اُس نے فرمایا ہے ولنجعلہ اٰیَۃً لِّلنّاس۔ یعنی ہم اس کو لوگوں کے لئے نشان بنائیں گے۔

قولہ۔ گورنمنٹ اور پبلک براہین احمدیہ کے صفحات مذکورہ کو ملاحظہ کریں کیا یہ عبارت کہیں پائی جاتی ہے۔ اس دھوکا بازی اور جعلسازی کی کوئی انتہا نہیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 267

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 267

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/267/mode/1up


ا قول۔ اِس دلیری اور شوخی اور مُنہ زوری کے مقابل پر ہم بجز اس کے کیا لکھ سکتے ہیں کہلعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ بندۂ خدا آخر کبھی مرنا ہے۔ کبھی تو اُس گھڑی کا خیال کرو جب جان کندن کا غرغرہ شروع ہو گا۔ کیا یہ دونوں عربی عبارتیں جن کا مَیں نے اپنے اشتہار میں حوالہ دیا ہے براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۶ اور ۵۵۷ میں موجود نہیں ہیں اِس قدر جھوٹ اور یہ عمر۔ براہین احمدیہ دنیا میں پھیل چکی ہے صرف آپ کی بغل میں نہیں۔ پھر اس شوخی اور شرارت سے فائدہ کیا۔کیا یہ سچ نہیں کہ ان آیتوں میں پہاڑ پھٹ جانے کا ذکر ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ اسی الہام میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم پہاڑ کا پھٹ جانا لوگوں کے لئے نشان بنائیں گے اور بعض کے لئے یہ نشان رحمت کا موجب ہو گا اور کیا یہ سچ نہیں کہ ان الہامات میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نشان اپنے بندہ کی تائید اور نصرت کے لئے ظاہر کریں گے؟ اور کیا یہ سچ نہیں کہ جو الہام صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں عربی میں ہے اس کے سر پر اردو میں یہ الہام ہے۔ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُ س کی سچائی ظاہر کر دے گا۔* کیا ان تمام عبارتوں کو یکجائی نظر سے دیکھنے سے ثابت نہیں ہوتا کہ پہاڑ کا پھٹنا جو براہین احمدیہ میں لکھا گیا ہے اس کے ساتھ ہی کتاب موصوف میں یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے۔ ہاں

خداتعالیٰ کی پہلی کتابوں میں بعض پیشگوئیاں اسی پیشگوئی کے ہم معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت ہیں جن میں لکھا ہے کہ یہودی ان کو قبول نہیں کریں گے۔ جیسا کہ انجیل میں بھی انہیں پیشگوئیوں کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونہ کا سرا ہوا۔ یعنی اسرائیلی نبیوں کا خاتم الانبیاء ہوا۔ سو انہیں پیشگوئی کے مطابق یہ پیشگوئی ہے۔ کیونکہ خدا فرماتا ہے کہ لوگوں نے تو اُس کو قبول نہ کیا مگر میں قبول کروں گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دوں گا۔ سو ضروری ہے کہ یہ دنیا ختم نہ ہو جب تک یہ تمام باتیں ظہور میں آجائیں۔ اور جیسا کہ انجیل میں ہے کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا وہی کونہ کا سرا ہوا۔ اِسی طرح خدا نے مجھے فرمایا کہ وہ تو تجھے رد کرتے ہیں مگر میں تجھے خاتم الخلفاء بناؤں گا۔ اس بارے میں وحی الٰہی کئی مختلف عبارتوں میں ہے اگر سب لکھی جائیں تو طول ہوگا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 268

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 268

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/268/mode/1up


اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ قبل از وقت ہم براہین احمدیہ کی اس پیشگوئی کو متعیّن نہیں کر سکے کہ کس پہلو پر یہ ظاہر ہو گی۔ اور یہ ایک ایسا امر ہے جس میں تمام انبیاء شریک ہیں مگر مَیں نے نہ براہین احمدیہ میں اور نہ کسی اور کتاب میں اس بات سے انکار کیا ہے کہ یہ پیشگوؔ ئی ہے اور کیونکر انکار کر سکتا وہاں تو صاف صفحہ ۵۱۶ براہین احمدیہ میں لکھا ہے ولنجعلہ اٰیۃً لِّلنّاس و رحمۃً منّاکہ ہم پہاڑ کا پھٹ جانا لوگوں کے لئے ایک نشان بنائیں گے۔ اور پھر صفحہ ۵۵۷ میں صاف لکھا ہے قوّۃ الرحمٰن لعُبَید اللّٰہ الصمد یعنی پہاڑ کا پھٹ جانا خدا کی قوت سے ہوگا اپنے بندہ کی تائید کے لئے۔ پس اس جگہ بجز کسی شریر خبیث آدمی کے جس کو ایمان اور خدا اور روز جزاء کی کچھ بھی پروا نہ ہو کون اس بات کا انکار کر سکتا ہے کہ یہ پیشگوئی ہے اور اس میں ایک نشان کا وعدہ ہے۔ اور جب کہ خدا تعالیٰ نے اس کا نام نشان رکھا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ کسی وقت ہم اس کو لوگوں کے فائدہ کے لئے ظاہر کریں گے اور پھر کس کی مجال ہے کہ وہ کہے کہ یہ نشان نہیں اور یہ پیشگوئی نہیں۔ اور ہمارا یہ اقرار کہ ہم براہین احمدیہ کے زمانہ میں اس پیشگوئی کو کسی پہلو پر متعیّن نہیں کر سکتے اس سے مخالف کو کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا کیونکہ نبی کے لئے قبل از وقت ہر ایک پیشگوئی کا متعیّن کرنا ضروری نہیں اور یہ بحث اسی کتاب میں ہم پہلے بہت کر چکے ہیں ضرورت نہیں کہ ہم بار بار اس کو لکھیں۔ اگر در خانہ کس است حرفے بس است۔

قولہ۔ ان تینوں فقروں میں کرشن قادیانی نے جھوٹ بولا ہے ۔ یعنی ایک فقرہ گذشتہ بالا جس کا جواب ہو چکا ہے اور دوسرے یہ کہنا کہ زلزلہ سے پیچھے بار بار خیال آیا کہ مَیں نے بڑا گناہ کیا * کہ جیسا کہ شائع کرنے کا حق تھا زلزلہ کی پیشگوئی کو شائع نہ کیا۔ اور تیسرے یہ کہنا کہ اگرچہ مَیں اس وقت جانتا تھا کہ میرا لکھنا دلوں کو ایک واجبی احتیاط کی طرف مصروف نہیں کرے گا تاہم اس غم نے میرے دل کو گھیرا کہ جو خبر مجھ کو خدائے علیم و حکیم سے ملی تھی اُس کی مَیں نے پورے طور سے اشاعت نہ کی۔

مولوی محمد حسین صاحب نے اس میرے فقرہ پر بہت خوشی سے بغلیں بجائی ہیں کہ مجھے بار بار خیال آیا کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 269

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 269

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/269/mode/1up


ا قول۔ بدظنی ایسی چیز ہے کہ اُس کا کوئی علاج نہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر ایک شخص کو اِس بات کا علم دیا جائے کہ فلاں تباہی کسی گروہ پر آنے والی ہے اور وہ اس قوم کو اُس تباہی سے جیسا کہ چاہیئے متنبہ نہ کر سکے اور ساتھ ہی اس کو یہ بھی یقین ہو کہ میرا کہنا نہ کہنا ان کو برابر ہو گا مگر پھر بھی اس تباہی کے بعد ضرور اس کے دل کو صدمہ پہنچے گا کہ کاش وہ لوگ میری آواز کو سُنتے اور بچ جاتے۔ مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ خاصیّت ہر ایک دل میں ہے۔مگر ممکن ہے کہ اس زماؔ نہ کے بعض مولویوں کے دل ایسے ہوں کہ خدا نے یہ خاصیّت ان میں سے سلب کر لی ہو۔ اور اگریہ وہم گذرے کہ کیونکر یقین کریں کہ صاحبِ الہام کو یقین ہو گیا تھا کہ الہام عفت الدیار محلّھاو مقامھا سے مراد زلزلہ ہے۔ اس کا جواب ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ یہ ایک ایسا صاف الہام ہے کہ اس کے معنوں پر اطلاع پانے سے ایک بچہ کو بھی یقین ہو سکتا ہے کہ یہ ایک سخت حادثہ کی پیشگوئی ہے جس کا اثر عمارتوں پر ہو گا۔ اور اس سے ایک سال پا۵نچ مہینے پہلے الحکم اخبار میں


میں نے بہت بڑا گناہ کیا۔ مولوی کہلا کر ان کو یہ معلوم نہیں کہ انسان کا کمالِ معرفت اسی میں ہے کہ انسان اپنے رب جلیل کے آگے ہر ایک وقت اپنے تئیں قصور وار ٹھہراوے یہ نبیوں کی سنت ہے وہ شیطان ہے جو خداتعالیٰ کے سامنے انکسار اختیار نہ کرے نبی جو روتے چِلّاتے نعرے مارتے رہے۔ یہ سوز و گداز اسی وجہ سے تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم نے گناہ کیا کہ جیسا کہ حق تبلیغ کا تھا ہم سے ادا نہ ہو سکا۔ اپنے آقا و مولیٰ کے سامنے تمام سعادت اِسی میں ہے کہ اِس قصور کا اقرار کریں۔ چنانچہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام استغفار اسی بنا پر ہے کہ آپ بہت ہی ڈرتے تھے کہ جو خدمت مجھے سپرد کی گئی ہے یعنی تبلیغ کی خدمت اور خدا کی راہ میں جانفشانی کی خدمت اس کو جیسا کہ اس کا حق تھا میں ادا نہیں کر سکا۔ اور اس خدمت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے برابر کسی نے ادا نہیں کیا۔ مگر خوفِ عظمت اور ہیبت الٰہی آپ کے دل میں حد سے زیادہ تھا۔ اسی لئے دوام استغفار آپ کا شغل تھا۔ توریت میں بھی ہے’’تب موسیٰ نے جلدی سے زمین پر سر جھکایا اور بولا کہ اے خداوند ۔۔۔ ہمارے گناہ اور خطائیں معاف کر‘‘ خروج ۳۴-۹۔ ساؤل نبی کہتا ہے۔ ’’میں نے گناہ کیاکہ میں نے خداوند کے فرمان کو ٹال دیا‘‘۔ دیکھو ا۔سموئیل ۱۵-۲۵۔ داؤد نبی خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ میں نے تیرا گناہ کیا۔ دیکھو زبور۔ ۵۱-۳۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 270

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 270

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/270/mode/1up


یعنی اخیر دسمبر ۱۹۰۳ء ؁ کے پرچہ میں صاف لفظوں میں زلزلہ کی پیشگوئی موجود ہے۔ اور پھر مواہب الرحمٰن مطبوعہ ۱۹۰۲ء ؁ میں بھی یہی زلزلہ کی پیشگوئی موجود ہے۔ اور پھر رسالہ آمین مطبوعہ۱۹۰۱ء ؁ میں بھی یہی زلزلہ کی پیشگوئی موجود ہے۔ پھر باوجود اس قدر تواتر کے کیونکر کوئی عقلمند خیال کر سکتا ہے کہ ہم اس پیشگوئی سے بالکل بے خبر تھے۔ ہاں مَیں جیسا کہ میرا مذہب ہے بار بار یہ بھی کہہ چکا ہوں کہ پیشگوئیوں میں قطعی طور پر یہ دعویٰ نہیں ہو سکتا کہ ضرور ان کا ایک ہی خاص پہلو پر ظہور ہو گا ممکن ہے کہ خدائے علیم و حکیم کوئی دوسرا پہلو اُن کے ظہور کے لئے اختیار کرے جس میں وہی عظمت اور قوّت اور ہولناک صورت پائی جائے جس پر پیشگوئی دلالت کرتی ہو۔

پھر جب کہ مجھ کو پیشگوئی عفت الدیار محلھا و مقامھا کی عظمت اور شدت پر پورا پورا یقین تھا اور مَیں اس کو پورے ایمان سے خدا تعالیٰ کا کلام سمجھتا تھا اور اس کے ظہور نے مجھ پر کھول دیا تھا کہ جیسا کہ پیشگوئی کے ظاہری الفاظ تھے اسی طرح وہ وقوع میں بھی آ گئی تو کیا وہ وقت نہیں تھا کہ بنی نوع کے لئے میری ہمدردی جو ش مارتی اور مَیں کوشش کرتا کہ آئندہ زلزلہ سے بچنے کے لئے لوگ توبہ اور استغفار اور کسی احسن انتظام کی طرف متوجہ ہوں ۔ کیا مَیں نے یہ بُرا کام کیا کہ جس بلا کا مجھے یقین دیا گیا تھا اس بَلا سے بچنے کے لئے مَیں نے لوگوں کو مطلع کر دیا۔ اور کیا انسان میں یہ طبعی امر نہیں ہے کہ کسی بَلا پر اطلاع پا کر بنی نوع کی ہمدردی کے لئے اس کا دل جوش مارتا ہے۔ ہاں بعض قصّاب طبع لوگ ہوتے ہیں کہ ان کو دوسرے کے درد اور مصیبت کی کچھ بھی پروا نہیں ہوتی۔ سو مَیں ایسے لوگوں کو انسان نہیں سمجھتا۔

قولہؔ ۔ لہٰذا اُس سے (یعنی مجھ سے) یہ حماقت عمل میں آئی جو اپنے تئیں ایک بڑے گناہ کا مرتکب مان لیا جس سے اپنے اصلی دعویٰ نبوت کی جڑ کاٹ دی۔

اقول۔ یہودیوں کی طرح آپ جس قدر چاہیں تحریف کریں ہم آپ کو کیا کہہ سکتے ہیں



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 271

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 271

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/271/mode/1up


ورنہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں وہ باوجود نبی اور رسول ہونے کے اقرار رکھتے ہیں کہ جیسا کہ حق تبلیغ کا تھا ادا نہ کر سکے۔* اور اسی کو وہ گناہِ عظیم خیال کرتے ہیں اور اسی خیال سے وہ نعرے مارتے اور روتے اور درد سے بھر جاتے ہیں اور دائم الاستغفار رہتے ہیں مگر خشک مولوی جن کے دامن میں بجز ہڈیوں کے کچھ نہیں وہ اس روحانیت کو کیا جانتے ہیں۔ بے گناہ ہونے کی اطمینان کسی نبی نے بھی ظاہر نہیں کی۔ جو دنیا میں افضل الرسل اور خاتم الرسل گذرا ہے اس کے مُنہ سے بھی یہی نکلا ربنا اغفرلنا ذنوبنا و باعد بیننا و بین خطایانا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ فرماتے تھے کہ سورۃہود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ اور آپ سب سے زیادہ استغفار پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مَیں دن میں ستر۷۰ مرتبہ استغفار کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے آپ کے حق میں فرمایا333333۔۱؂یہ سورۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قُرب زمانۂ وفات میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ زور دے کر اپنی نصرت اور تائید اور تکمیل مقاصد دین کی خبر دیتا ہے کہ اب تو اے نبی خدا کی تسبیح اور تمجید کر اور خدا سے مغفرت چاہ وہ توّاب ہے اس موقعہ پر مغفرت کا ذکر کرنا یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب کام تبلیغ ختم ہو گیا خدا سے دُعا کر کہ اگر خدمتِ تبلیغ کے دقائق میں کوئی فروگذاشت ہوئی ہو تو خدا اُس کو بخش دے۔ موسیٰ بھی توریت میں اپنے قصوروں کو یاد کر کے روتا ہے اور جس کو عیسائیوں نے خدا بنا رکھا ہے کسی نے اس کو کہا۔ کہ اے نیک اُستاد۔ تو اُس نے جواب دیا کہ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک کوئی نہیں مگر خدا۔ یہی تمام اولیاء کا شعار رہا ہے۔ سب نے استغفار کو اپنا شعار قرار دیا ہے بجز شیطان کے ؂

فرس کشتہ چنداں کہ شب راندہ اند سحر گہ خروشاں کہ وا ماندہ اند

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں ما عبدناک حقّ عبادتک یعنی اے ہمارے خدا جو حق تیری پرستش کا تھا ہم سے ادا نہیں ہو سکا۔ کیا آپ اس جگہ یہ اعتراض کریں گے کہ جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود عبادت کرنے میں قاصرتھے تو دوسروں کو کیوں نصیحت کرتے تھے۔ افسوس۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 272

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 272

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/272/mode/1up


قوؔ لہ۔ وہ (یعنی یہ عاجز) براہین احمدیہ کی پیشگوئی کو سچا بنانے اور اس پر زلزلہ کا رنگ چڑھانے اور اس ذریعہ سے اپنی غیب دانی اور نبوت کا سکّہ جمانے کی غرض سے اس بات کا مدعی ہو گیا ہے کہ براہین احمدیہ کی پیشگوئی سے مجھے بہت صفائی سے خدا کی طرف سے یہ خبر مل چکی تھی کہ اِس سے زلزلہ مراد ہے تاہم مَیں نے قوم کی بدگوئی اور بدظنّی کے خوف سے اُس کو چھپایا اور عربی کا ترجمہ اردو میں کر کے شائع نہ کیا۔ اور مَیں اس فعل سے خدا کے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا اور پچیس۲۵ برس تک اِسی گناہ پر قائم اور مُصِر رہا۔

اقول۔ مولوی صاحب آج آپ نے تحریف کرنے میں یہودیوں کے بھی کان کاٹے۔ مولوی کہلانا اور اس قدر صریح عبارت کے معنے بیان کرنے میں عمداً خیانت کرنا کیا یہ ان لوگوں کا کام ہو سکتا ہے جو یوم الحساب پر ایمان لاتے ہیں۔ مَیں نے اپنے اشتہار میں کب اور کہاں لکھا ہے کہ مَیں پچیس۲۵ برس تک اس گناہ پر قائم اور مُصِر رہا کہ براہین احمدیہ کے عربی الہام کا ترجمہ شائع نہ کیا۔ براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۶ اور صفحہ ۵۵۷ کھول کر دیکھو دونوں مقام میں عربی الہامات کا ترجمہ موجود ہے۔ پھر مَیں کیونکر کہہ سکتا تھا کہ مَیں نے عربی الہام کا ترجمہ اردو میں کر کے شائع نہ کیا اور پچیس۲۵ برس تک اِسی گناہ پر قائم اور مُصِر رہا۔ کیا کوئی عقلمند باور کر سکتا ہے کہ باوجود یکہ ان دونوں الہامات کا جو صفحہ ۵۱۶ اور صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں درج ہیں ساتھ ہی ترجمہ اردو میں لکھا ہوا ہے۔ پھر مَیں اشتہار میں یہ لکھتا کہ ان الہامات کا ترجمہ براہین احمدیہ میں مَیں نے نہیں لکھا۔ بلکہ یہ ذکر تو میرے اشتہار ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء ؁ میں اس عربی الہام کے متعلق تھا جو الحکم ۳۱؍ مئی ۱۹۰۴ء میں بغیر ترجمہ کے شائع کیا گیا تھا یعنی الہام عفت الدیار محلّھا و مقامھا جس کا ترجمہ اردو میں نہیں لکھا گیا تھا۔ مولوی صاحب نے اس غرض سے یہ تحریف کی تا میرے پر یہ الزام قائم کریں کہ گویا مَیں نے عمداًپچیس۲۵ برس تک براہین احمدیہ کے عربی الہام کا ترجمہ نہ کیا اور مخفی رکھا۔

ماسوا اس کے زلزلہ کے متعلق تو براہین احمدیہ میں دو۲ پیشگوئیاں تھیں۔ ایک



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 273

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 273

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/273/mode/1up


صفحہؔ ۵۱۶ میں درج تھی اور دوسری صفحہ ۵۵۷ میں درج تھی۔ اور میرے اشتہار ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء میں صرف ایک پیشگوئی کی نسبت لکھا ہے کہ اس کا ترجمہ اردو میں نہیں ہوا۔ پس اگر اس جگہ اشتہار ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء ؁ میں براہین احمدیہ کی وہ دو۲ پیشگوئیاں مراد ہیں تو اس میں یہ عبارت نہیں ہونی چاہیئے تھی کہ عربی پیشگوئی کا ترجمہ بھی نہیں ہوا تھا۔ بلکہ یہ عبارت ہونی چاہیئے تھی کہ عربی دو پیشگوئیوں کا ترجمہ بھی نہیں ہوا تھا۔ اور پھر بھی ایسا لکھنا جھوٹ ہوتا کیونکہ دونوں عربی پیشگوئیوں کا ترجمہ براہین احمدیہ میں موجود ہے جو شخص چاہے دیکھ لے۔

پھر علاوہ اس کے وہ اشتہار مورخہ ۱۱؍ مئی ۱۹۰۵ء ؁ جس پر مولوی صاحب یہ نکتہ چینی کرتے ہیں ابھی دنیا سے گم نہیں ہو گیا بہتوں کے پاس موجود ہو گا۔ اس کی اصل عبارت یہ ہے اُس زلزلہ کے بعد مجھے بار بار خیال آیا کہ مَیں نے بڑا گناہ کیا کہ جیسا کہ حق شائع کرنے کا تھا اس پیشگوئی کو شائع نہ کیا کیونکہ وہ پیشگوئی صرف اردو کے دو۲ اخبار اور دو۲ رسالوں میں شائع ہوئی تھی اور یہ بھی فروگذاشت ہوئی تھی کہ عربی پیشگوئی کا ترجمہ بھی نہیں ہوا تھا۔ اب صاف ظاہر ہے کہ براہین احمدیہ کی عربی پیشگوئیاں جو صفحہ ۵۱۶ اور صفحہ ۵۵۷ میں درج ہیں نہ اردو دو۲ اخباروں میں شائع ہوئیں اور نہ ان کا ترجمہ کرنا رہ گیا اور نہ کسی اور رسالہ میں ان کا ذکر ہوا بلکہوہ پیشگوئی جو دو۲ اردو اخباروں میں درج ہوئی تھی اور جس کا عربی سے اردو میں ترجمہ نہیں ہوا تھا وہ یہی پیشگوئی عفت الدیار محلّھا و مقامھا ہے۔ کیونکہ وہ علاوہ دو۲ اخباروں کے جن میں سے ایک الحکم ۳۱؍ مئی ۱۹۰۵ء ؁ ہے دو۲ رسالوں میں بھی درج ہو چکی تھی یعنی اُس کو مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے نے اپنے دونوں رسالوں میں ۲۰؍ مارچ ۱۹۰۴ء کو شائع کر دیا تھا۔ چنانچہ حاشیہ میں ان کا اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ درج ہے۔ * اب ذرا آنکھ کھول کر

سیّدی! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ یہ الہام عفت الدیار محلھا و مقامھا۔ مارچ کے دونوں رسالوں میں شائع ہو چکا تھا اور رسالہ کے صفحہ ۱۲۶ میں درج ہے۔ اسی الہام کو پڑھ کر اور پھر زلزلہ کی خبر اخباروں میں پڑھ کر چارلس سورائٹ عبد الحق نے جو اس وقت نیوزی لینڈ میں تھا خط لکھا تھا۔ جس میں زلزلہ کے ذریعہ سے اس الہام کے پورا ہونے پر بہت ہی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ (محمد علی)



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 274

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 274

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/274/mode/1up


اولؔ آپ مولوی صاحب موصوف کے نوٹ کو پڑھ لیں اورپھر ندامت میں غرق ہو جائیں اور کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ بندۂ خدا اس قدر چالاکی تو وہ یہود بھی نہیں کرتے ہوں گے جن کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے3۱؂ پ ۶ ۷۔پھر آپ نے اپنی مولویّت کا یہ نمونہ کیسا دکھلایا؟ مَیں نہیں خیال کر سکتا کہ آپ ایسے نادان تھے جنہوں نے کمال سادہ لوحی سے عبارت کے سمجھنے میں غلطی کھائی۔ آپ براہین احمدیہ کا ریویو لکھ چکے تھے۔ اور آپ کو خوب معلوم تھا کہ براہین احمدیہ کے وہ عربی الہامات جن کا مَیں نے اپنے اشتہار میں ذکر کیا ہے وہ بغیر ترجمہ کے نہیں لکھے گئے اور آپ کو خوب معلوم تھا کہ براہین احمدیہ کے اِن عربی الہامات کا ذکر نہ تو ہمارے سِلسلہ کے اِن دو۲ اخباروں الحکم اور البدر میں کیا گیا ہے اور نہ ایسے دو۲ رسالے ہمارے سِلسلہ میں کسی نے تالیف کئے جن میں براہین احمدیہ کے ان الہامات کا کچھ ذکر ہو۔ پھر جب کہ براہین احمدیہ کے ان الہاماتِ عربیہ کا براہین احمدیہ میں ترجمہ موجود ہے اور نہ کسی اخبار اور نہ کسی رسالہ میں ان کا ذکر ہے اور نہ وہ صرف ایک پیشگوئی ہے تا اشتہار ۱۱؍مئی ۱۹۰۵ء ؁ کی یہ عبارت اس پر منطبق ہو سکے کہ عربی پیشگوئی کا ترجمہ بھی نہیں ہوا تھا بلکہ وہ دو پیشگوئیاں ہیں تو اس صورت میں شرعاً آپ سے مطالبہ ہے کہ آپ نے اس قدر جھوٹ کیوں بولا؟ شائد جو کرم دین کے مقدمہ میں میرے مقابل پر مولویوں نے دروغ مصلحت آمیز کے جواز کا فتویٰ دیا تھا اس پر آپ نے بھی عمل کیا۔ بہر حال آپ بتلاؤ کہ کیوں آپ نے وہ ذکر جو الہام عفت الدّیار محلّھا و مقامھا کی نسبت تھا براہین احمدیہ کے اُن دو۲ عربی الہاموں پر مڑھ دیا جو صفحہ ۵۱۶ اور صفحہ ۵۵۷ براہین احمدیہ میں موجود ہے کیا آپ لوگوں کی یہی مولویانہ حیثیت میں دیانت اور امانت ہے کہ آپ نے ایسا افترا کیا اور کچھ بھی خدا تعالیٰ کا خوف آپ کے دل میں نہ آیا۔ اور صرف اِسی پر بس نہیں بلکہ آپ محض شرارت اور چالاکی سے اپنے اس مضمون میں اپنی طرف سے ایک عبارت لکھتے ہیں اور پھر پبلک پر یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ گویا وہ عبارت جو آپ نے میری طرف منسوب



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 275

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 275

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/275/mode/1up


کی ہے درحقیقت میرے ہی قلم سے نکلی ہے۔ چنانچہ وہ عبارت جو آپ نے محض جعلسازی سے میری طرف منسوب کر دی ہے وہ یہ ہے۔ ’’براہین احمدیہ کیؔ پیشگوئی سے مجھے بہت صفائی سے خدا کی طرف سے یہ خبر مل چکی تھی کہ اس سے زلزلہ مراد ہے تاہم مَیں نے قوم کی بدگوئی اور بدظنی کے خوف سے اُس کو چھپایا اور عربی کا ترجمہ اردو میں کر کے شائع نہ کیا۔ اور مَیں اس فعل سے خدا کے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔ اور پچیس۲۵ برس تک اِسی گناہ پر قائم اور مُصِر رہا‘‘۔اے مفتری نابکار کیا اب بھی ہم نہ کہیں کہ جھوٹے پر خدا کی ***۔ جس نے آپ عبارت بنا کر میری طرف منسوب کر دی۔ اے سخت دل ظالم تجھے مولوی کہلا کر شرم نہ آئی کہ تُو نے ناحق اس قدر میرے پر جھوٹ بولا۔ کیا تُو دکھلا سکتا ہے کہ میرے اشتہار ۱۱؍ مئی ۱۹۰۵ء میں یا کسی اور اشتہار میں یا کسی رسالہ میں یہ عبارت موجود ہے جو تُو نے لکھی ! لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

اِس جگہ اُن لوگوں کو متنبہ رہنا چاہیئے کہ جو ایسے لوگوں کو مولوی اور دیانتدار سمجھ کر اُن کے قول پر عمل کرنے کو طیار ہوتے ہیں۔ یہ حال ہے ان لوگوں کی دیانت کا اور جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔ اس لئے مولوی صاحب موصوف کا یہ بیان بھی تناقض سے بھرا ہوا ہے۔ چنانچہ وہ اخبار مذکور کے صفحہ پا۵نچ کالم تیسر۳ے میں پندرھو۱۵یں سطر و چوبیسو۲۴یں سطر میں میرے اشتہار کی عبارت یہ لکھتے ہیں کہ ’’ مَیں نے براہین احمدیہ میں اِس زلزلہ کی خبر دی تھی اور اگرچہ اُس وقت اس خارق عادت بات کی طرف ذہن منتقل نہ ہو سکا لیکن اب اِن پیشگوئیوں پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والے زلزلہ کی نسبت تھیں جو اُس وقت نظر سے مخفی رہ گئیں‘‘۔

اب ناظرین خود دیکھ لیں کہ اس عبارت مذکورہ بالا کا یہی مطلب ہے کہ اُس زمانہ میں کہ براہین احمدیہ کے لکھنے کا زمانہ تھا ذہن اس طرف منتقل نہ ہو سکا کہ زلزلہ سے مُراد درحقیقت زلزلہ ہے اور یہ امر اُس وقت نظر سے مخفی رہا اور اب پچیس۲۵ برس



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 276

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 276

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/276/mode/1up


کے بعد جب زلزلہ ظہور میں آگیا تو اب معلوم ہوا کہ وہ براہین احمدیہ کی پیشگوئیاں آئندہ آنے والے زلزلہ کی نسبت پیشگوئیاں تھیں۔

یہ تو میری طرف سے انہوں نے اقرار لکھا ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کیونکہ مَیں نے اپنے اشتہار النداء من وحی السّمآء میں جو اپریل ۱۹۰۵ء ؁ کو شائع ہوا تھا درحقیقت یہ عبارت اشتہار کے صفحہؔ ۷ مطبوعہ نول کشور پریس لاہور میں لکھی ہے چنانچہ پوری عبارت یہ ہے۔ ’’ یاد رہے کہ ان دونوں زلزلوں کا ذکر میری کتاب براہین احمدیہ میں بھی موجود ہے جو آج سے پچیس۲۵ برس پہلے اکثر ممالک میں شائع کی گئی تھی۔ اگرچہ اس وقت اس خارق عادت بات کی طرف ذہن منتقل نہ ہو سکا۔ لیکن اب ان پیشگوئیوں پر نظر ڈالنے سے بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئندہ آنے والے زلزلوں کی نسبت پیشگوئیاں تھیں جو اُس وقت نظر سے مخفی رہ گئیں‘‘۔

اب ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ مَیں نے اس اشتہار میں صاف طور پر لکھ دیا ہے کہ میرا اس وقت سے پہلے جب کہ زلزلہ ۴؍اپریل ۱۹۰۵ء ؁ ظہور میں آ گیا اس بات کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوا تھا کہ جیسا کہ ظاہر الفاظ پہاڑ کے پھٹ جانے سے سمجھا جاتا ہے درحقیقت براہین احمدیہ کے ان الہامات سے زلزلہ ہی مراد ہے اور اس پر ایک دلیل بھی ہے کہ براہین احمدیہ میں جو اِن دونوں الہامات کا ترجمہ کیا گیا ہے اُس میں بھی ظاہر الفاظ کی رُو سے ترجمہ نہیں ہوا۔ غرض میں نے اس اشتہار ۲۱؍اپریل ۱۹۰۵ ؁ء میں جو ۴؍اپریل ۱۹۰۵ ؁ء کے بعد لکھاتھا صاف اقرار کر دیا کہ مَیں پچیس۲۵ برس تک براہین احمدیہ کے دونوں موقعہ کے الہام کو جو فلمّا تجلّٰی ربّہٗ للجبلہے خاص زلزلہ کے لئے متعیّن نہ کر سکا۔ مگر ۴ ؍اپریل ۱۹۰۵ ؁ء کے زلزلہ کے بعد کھل گیا کہ وہ اسی زلزلہ کے متعلق تھا۔ یہ تو وہ امر ہے جو میرے اشتہار ۲۱؍ اپریل ۱۹۰۵ء ؁ سے ثابت ہوتا ہے۔

اب اس اشتہار کے برخلاف جو دعویٰ محض افترااور جعلسازی سے مولوی محمد حسین صاحب نے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 277

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 277

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/277/mode/1up


میری طرف منسوب کیا ہے اور اپنی طرف سے ایک عبارت بنا کر میری طرف منسوب کی ہے وہ عبارت پھر ہم دوبارہ لکھ دیتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے ’’ براہین احمدیہ کی پیشگوئی سے مجھے بہت صفائی سے خدا کی طرف سے یہ خبر مل چکی تھی کہ اس سے زلزلہ مراد ہے تاہم مَیں نے قوم کی بدگوئی اور بدظنّی کے خوف سے اس کو چھپایا۔ اور عربی کا ترجمہ اُردو میں کر کے شائع نہ کیا۔ اور مَیں اس فعل سے خدا کے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا اور پچیس۲۵ برس تک اِسی گناہ پر قائم اور مُصر رہا‘‘۔

ابؔ ناظرین انصافاً فرماویں کہ کیا یہ بیان جو مولوی صاحب موصوف نے میری طرف منسوب کیا ہے یہ میرے اشتہار ۲۱؍ اپریل ۱۹۰۵ء ؁ کی عبارت کے مخالف ہے یا نہیں جس کو ابھی مَیں نے نقل کر دیا ہے کیونکہ مَیں اشتہار مذکور میں صاف طور پر لکھ چکا ہوں کہ اُس اشتہار سے پہلے جو براہین احمدیہ سے پچیس۲۵ برس بعد مَیں نے ۱۱ ؍مئی ۱۹۰۵ء ؁ کو شائع کیا ہے اس بات کی طرف ذہن منتقل نہیں ہوا تھا کہ زلزلہ سے مراد درحقیقت ظاہری طور پر زلزلہ ہے بلکہ پچیس۲۵ برس بعد زلزلہ کے آنے پر ان الہامات کے معنے کھلے۔

پس جب کہ یہ دونوں بیانات متناقض ہیں اور مَیں اُن میں سے صرف ایک بیان کو قبول کرتا ہوں جو مولوی صاحب کے اس مضمون میں بھی انہیں کے ہاتھ سے درج ہو چکا ہے۔ یعنی یہ کہ مَیں پچیس۲۵ برس تک براہین احمدیہ کے الہام صفحہ ۵۱۶ اور صفحہ ۵۵۷ کو کسی ایک پہلو پر متعیّن نہ کر سکا تو اس میں کیا شک ہے کہ دوسرا بیان اُس وقت تک محض مولوی صاحب کا افترا سمجھا جائے گا جب تک کہ وہ میری کسی کتاب یا اشتہار میں سے یہ ثابت کر کے نہ دکھلا دیں کہ یہ عبارت مذکورہ مَیں نے کسی جگہ لکھی ہے اور یا کسی جگہ مَیں نے یہ لکھا ہے کہ پچیس۲۵ برس تک اس گناہ پر قائم اور مُصِر رہا کہ باوجود یکہ براہین احمدیہ کے زمانہ سے قطعی علم زلزلہ کے متعلق مجھے ہو چکا تھا پھر مَیں نے اس خبر کو مخفی رکھا۔

اب اے ناظرین برائے خدا اپنی موت کو یاد کر کے ایماناً مجھے بتلاؤ کہ جو شخص اس قدر افتراکرتا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 278

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 278

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/278/mode/1up


اور جھوٹی عبارتیں بنا کر میری طرف منسوب کرتا ہے کیا وہ کسی سرزنش اور تعزیر شرعی کے لائق ہے یا نہیں۔ بیّنوا توجروا۔ اور یہ بھی محض لِلّٰہ فرماویں کہ کیا ایسا شخص جو اس طرح کی شوخی سے جعلسازی کرتا ہے اس لائق ہے کہ آئندہ اس کو مولوی کے نام سے پکارا جائے۔ اور کیا مناسب نہیں کہ ایک مجلس علماء مقرر کر کے اس کو بلایا جاوے اور اس سے پوچھا جاوے کہ یہ فرضی عبارت جو میری طرف اُس نے منسوب کی ہے مَیں نے کس کتاب یا رسالہ میں اس کو لکھا ہے۔ مولوی کہلا کر یہ افترا اور یہ تحریف اور یہ خیانت اور یہ جھوٹ اور یہ دلیری اور یہ شوخی اِن باتوں کا تصوؔ ر کر کے بدن کانپتا ہے۔ کیا مجھے کافر اور بے ایمان کہنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ حدیث جس میں کہ لکھا ہے کہ آخری زمانہ کے اکثر مولوی یہودیوں کے مولویوں سے مشابہت پیدا کر لیں گے یاد نہیں رکھتے بلکہ اس سے بڑھ کر بعض حدیثوں میں یہ بھی آیا ہے کہ اس قدر مشابہت پیدا کریں گے کہ اگر کسی یہودی نے ماں سے بھی زنا کیا ہو گا تو وہ بھی کر لیں گے۔*

آخری زمانہ کے وہ علماء جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہود اس امت کے قرار دیا ہے وہ بالخصوص اسی قسم کے مولوی ہیں جو مسیح موعود کے مخالف اور جانی دشمن اور اس کی تباہی کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور اس کو کافراور بے ایمان اور دجال کہتے ہیں اور اگر ان کے لیے ممکن ہو تو اس کو صلیب دینے کے لئے طیار ہیں کیونکہ یہود کے فقیہ اور فریسی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اسی طرح پیش آئے تھے اور ان کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جو علماء اس قسم کے نہیں ہیں ان کو ہم اس امت کے یہودی نہیں کہہ سکتے بلکہ جو لوگ حضرت عیسیٰ کے دشمنوں کی طرح مجھے دجال اور کافر اور بے ایمان کہتے ہیں وہی یہودی ہیں اور میں ان کو یہودی نہیں کہتا بلکہ خدا تعالیٰ کا کلام ان کو یہودی کہتا ہے اور یہ تو امر مجبوری ہے جس حالت میں درحقیقت مَیں سچا ہوں نہ کافر نہ دجال نہ بے ایمان ہوں۔ پس جو شخص سچے مسیح کو ایسے الفاظ سے یاد کرتا ہے۔ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہودی قراردیتے ہیں۔اگرمولوی ابوسعیدمحمدحسین صاحب مجھے بے ایمان کافردجّال قرار نہیں دیتے اور واجب القتل نہیں سمجھتے تو ہم ان کو یہودی نہیں کہتے اور اگر وہ مجھے ان الفاظ سے یاد کرتے ہیں اور خدا جانتا ہے کہ میں سچا مسیح موعود ہوں تو اس صورت میں وہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کا مصداق بن کر اپنے تئیں یہودی بناتے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ تم کیوں عیسیٰ بنے۔ اس کا یہی جواب ہے کہ آپ لوگوں کے طفیل سے۔ اگر آپ یہودی نہ بنتے تو میرا نام یہ نہ ہوتا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 279

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 279

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/279/mode/1up


اور باوجود اس کے کہ بٹالوی صاحب نے اس قدر جھوٹ بول کر اور خیانت اور تحریف کر کے مجھے دُکھ دیا ہے پھر بھی اگر وہ میری کسی کتاب میں وہ عبارت جو انہوں نے میری طرف منسوب کی ہے اور لکھا ہے کہ گویا میں پچیس۲۵ برس تک اسی گناہ پر قائم اور مُصِر رہا دکھلا دیں تو مَیں نقد پچاس۵۰ روپیہ اُن کو دے سکتا ہوں۔ ورنہ میری طرف سے یہ کلمہ کافی ہے لعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔

قولہ۔ کسی سچّے نبی یا ملہم کے نشان نہیں ہیں کہ جس بات کی تبلیغ کا خدا اُس کو حکم دے وہ دانستہ اور عمداً پچیس۲۵ برس تک چھپائے رکھے اور اُس کی تبلیغ نہ کرے۔

اقول۔ اس افترا کا جواب گذر گیا اور مَیں بیان کر چکا ہوں کہ مَیں نے کسی اشتہار میں یہ دعویٰ نہیں کیا کہ براہین احمدیہ کی یہ دو۲ پیشگوئیاں جو لکھی گئی ہیں یعنی فلّما تجلّی ربّہ للجبل جعلہٗ دکًّا اُن کے اصل منشاء کی طرف اسی زمانہ میں میرا ذہن منتقل ہو گیا تھا بلکہ بار بار لکھ چکا ہوں کہ پچیس۲۵ برس کے بعد ان معنوں کی حقیقت کھلی۔ اور اگر پہلے سے میرے پر حقیقت کھلتی تو پھر اس الہام کے اس ترجمہ میں جو براہین احمدیہ میں لکھا گیا کیوں غلطی وقوع میں آتی۔

پھر اس نادان مولوی کے اِس قول پر مجھے تعجب آتا ہے کہ وہ کہتا ہے کہ سچے نبی یا ملہم کا یہ نشان نہیں ہے کہ جس بات کی تبلیغ کا خدا اس کو حکم دے وہ دانستہ اور عمداً پچیس۲۵ برس تک اس کو چھپائے رکھے۔ اس نادان کو اب تک یہ بھی معلوم نہیں کہ تبلیغ الٰہی احکام کے متعلق ہوتی ہے نہ ایسی پیشگوئیوں کے متعلق۔ جن کی اشاعت کے لئے ملہم مامور بھی نہیں بلکہ اختیار رکھتا ہے چاہے ان کو شائع کرے یا نہ کرے۔ ماسوا اس کے جب کہ اس پیشگوئی کی حقیقت ابھیؔ میرے پر نہیں کھلی تھی تو اس بات کے لئے میں مکلّف نہ تھا کہ اس کے معنے اور مقصد لوگوں پر ظاہر کرتا اور جس قدر اجتہادی طور پر میرے خیال میں گذرا مَیں نے ترجمہ ان پیشگوئیوں کا براہین احمدیہ میں شائع کر دیا۔ پس مَیں نے تبلیغ میں کونسا قصور کیا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 280

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 280

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/280/mode/1up


3۱؂ اگر یہ بات ہوتی کہ براہین احمدیہ کی اُن پیشگوئیوں کی وہ حقیقت جو ۴؍ اپریل ۱۹۰۵ء ؁ کے زلزلہ کے بعد میرے پر کھل گئی براہین احمدیہ کی اشاعت کے زمانہ میں ہی مجھے معلوم ہوتی تو اگرچہ مَیں اس کی اشاعت کے لئے مامور نہ تھا تا ہم میں نوع انسان کی ہمدردی کے لئے جہاں تک مجھ سے ممکن ہوتا اس کی اصل حقیقت سے لوگوں کو اطلاع دیتا۔

قولہ ۔ یہ عجیب عذر گناہ بدتر از گناہ ہے کہ پیشگوئیوں کے معنے سمجھنے میں عوام تو عوام ابنیاء علیہم السلام بھی اجتہاد کے وقت غلطی کر بیٹھتے ہیں۔

ا قول۔ انہیں باتوں سے تو آپ کا خیانت پیشہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔ مَیں خوب جانتا ہوں کہ آپ شیر خوار بچہ نہیں آپ علم حدیث سے ایسے جاہل نہیں جن کو اوّل نمبر کے جاہل کہنا چاہیئے۔ آپ ایسے مجنون نہیں جن کے حواس بالکل قائم نہیں ہوتے۔ تو پھر یہ خیانت ہے یا کوئی اور بات ہے کہ آپ اس سے انکار کرتے ہیں کہ ابنیاء علیہم السلام سے کوئی غلطی اجتہادی طور پر نہیں ہو سکتی سب جانتے ہیں کہ بیشک غلطی ہو سکتی ہے۔ مگر وہ ہمیشہ اس غلطی پر قائم نہیں رکھے جا سکتے۔ مَیں اس بارے میں اسی ضمیمہ میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں ۔ اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔

قولہ۔ کسی پیشگوئی کے جھوٹے ہونے کا الزام جب آپ پر قائم ہوتا ہے تو اس الزام کو اسی اصول سے اٹھا دیا جاتا ہے۔

ا قول۔ اے مولوی صاحب خدا آپ کو ہدایت کرے اور وہ دن لاوے کہ آپ کی آنکھیں کھلیں۔ آپ اس شخص کی طرح جس کی گردن کے پیچھے بہت بڑا پھوڑا ہو اور اس وجہ سے وہ ہمیشہ زمین کی طرف جھکا رہے آسمان کی طرف نظر نہ اٹھا سکے آسمانی انوار سے محروم ہیں اور اُن سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ اب تک دس ہز۱۰۰۰۰ار سے بھی زیادہ خدا تعالیٰ میری تائید میں نشان ظاہر کر ؔ چکا ہے جو روز روشن کی طرح پورے ہو گئے ہیں مگر آپ کے نزدیک ہر ایک پیشگوئی جھوٹی نکلتی رہی ہے اور گویا میں جھوٹ کو سچ بنانے



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 281

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 281

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/281/mode/1up


کے لئے تاویلیں کرتارہا ہوں۔ اب اس جگہ بھی میں بجز اس کے کیا کہوں کہلعنۃ اللّٰہ علی الکاذبین۔ جو شخص میری صحبت میں چالیس دن بھی رہتا ہے وہ کوئی نہ کوئی خدا تعالیٰ کا نشان دیکھ لیتا ہے۔ اسی وجہ سے ہزار ہا بندگانِ خدا ا س طرف جُھک گئے ہیں اور باوجود آپ کے بُغض اور بُخل اور ہمیشہ کی یاوہ گوئی کے ایک عالم ہماری طرف آگیا ہے اور آتا جاتا ہے اور آپ کے مُنہ کی پھونکوں سے کچھ بھی بگڑ نہ سکا۔ آسمان میں خدا نے میرے لئے خسوف کسوف کیا مگر آپ کے نزدیک وہ حدیث غلط ہے۔ اور مَیں چودھویں صدی کے سر پر آیا اور بفضلہ تعالیٰ محدثین کی شرط قرار داد کے مطابق چہارم حصّہ صدی تک میری زندگی پہنچ گئی مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط۔ اور لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی اور سخت پڑے گی مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط۔ اور لکھا تھا کہ اُس وقت آفتاب میں ایک نشان ظاہر ہوگا۔ چنانچہ اب تک ظاہر ہے اور دُور بین سے دیکھا جاتا ہے مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط۔ اور حدیث میں آیا تھا کہ اُن دنوں ستارہ ذوالسنین طلوع کرے گا چنانچہ مدت ہوئی کہ اُس ستارہ کا طلوع ہو چکا مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط ۔ اور لکھا تھا کہ وہ مسیح موعود اِسی امت میں سے ہو گا۔ اور دمشق سے مشرق کی طرف وہ مبعوث ہو گا مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط۔ اور لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور اِس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ اُس زمانہ میں مدینہ کی طرف سے مکّہ تک ریل کی سواری جاری ہو جائے گی مگر آپ کے نزدیک یہ حدیث بھی غلط۔ پس جب کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیثیں آپ کے نزدیک غلط ہیں تو میری پیشگوئیوں کو غلط کہنے کے وقت آپ کیوں شرم کرنے لگے۔ *

بلکہ حدیث اور میری پیشگوئیوں کا ذکر تو الگ رہا آپ تو مسلمان کہلا کر قرآن شریف سے ہی مُنہ پھیرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ عیسیٰ فوت ہو گیا ہے اور آپ نے اس کو زندہ قرار دے کر

یہ بھی بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ اس زمانہ میں لوگ حج کرنے سے روکے جائیں گے مگر یہ سب حدیثیں آپ کے نزدیک غلط ہیں کیونکہ ان سے میرے دعویٰ کا ثبوت ملتا ہے۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 282

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 282

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/282/mode/1up


آسمان کے کسی حجرہ میں بٹھا رکھا ہے کیا خدا تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرؔ ف سے نہیں فرمایا3۔۱؂ کیااس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ مجھے وفات دینے کے بعد تُو ہی اُن پررقیب تھا۔ اور کیا ان تمام آیات پر نظر ڈالنے سے صریح طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسیٰ خدا تعالیٰ کے سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ مَیں جب تک اپنی امّت میں تھا مَیں اُن کے اعمال کا گواہ تھا اور اُن کے حالات کا علم رکھتا تھا پھر جب تُونے مجھے وفات دے دی تو بعد اس کے تُو ہی اُن کا رقیب اور محافظ تھا۔ پس کیا اِن آیات کا بدیہی طور پر یہ خاص مطلب نہیں ہے کہ میر ی اُمت میری زندگی میں نہیں بگڑی بلکہ میری وفات کے بعد بگڑی۔ اور بعد وفات مجھے معلوم نہیں کہ ان کا کیا حال ہوا اور کیا مذہب اختیار کیا۔ پس خدا تعالیٰ کے اس کلام سے ظاہر ہے کہ اگر فرض کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ اب تک زندہ ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی فرض کرنا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک بگڑے نہیں اور سچے مذہب پر قائم ہیں۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ اپنی امّت کا صراط مستقیم پر ہونا اپنی زندگی تک وابستہ کرتے ہیں اور اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ مَیں نے یہ تعلیم دی ہے کہ مجھے اور میری ماں کو خُدا کر کے مانا کرو اور جناب الٰہی میں عرض کرتے ہیں کہ جب تک مَیں اپنی امت میں تھا مَیں نے وہی تعلیم اُن کو دی جس کی تُونے مجھے ہدایت دی تھی اور جب تو نے مجھے وفات دے دی تو بعد کے حالات کا مجھے کچھ علم نہیں۔ اور ان آیات سے صاف طور پر یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ دنیامیں نہیں آئیں گے ورنہ لازم آتا ہے کہ قیامت کے دن وہ خداتعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولیں گے کیونکہ اگر وہ قیامت سے پہلے دنیا میں دوبارہ آئے ہوتے تو اِس صورت میں اُن کا یہ کہنا کہ مجھے کچھ علم نہیں کہ میری اُمت نے میرے بعد کیا عقیدہ اختیار کیا صریح جھوٹ ٹھہرتا ہے۔ کیونکہ جو شخص دوبارہ دنیا میں آوے اور بچشمِ خود دیکھ جاوے کہ اس کی اُمت بگڑ چکی ہے اور نہ صرف ایک دن بلکہ برابر چالیس۴۰ برس تک اُن کے کفر کی حالت دیکھتارہے وہ کیونکر قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے کہہ سکتا ہے کہ اپنی امت کی حالت سے محض بے خبر ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ آپ کایہ عقیدہ کہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 283

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 283

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/283/mode/1up


حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور پھر دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے۔ صاف اور صریح طور پر نصوصِ صریحہ قرآن شریف کے برخلاف ہے مگرؔ پھر بھی آپ اس عقیدہ کو نہیں چھوڑتے پس اس صورت میں آپ پر کیا افسوس کروں کہ آپ میرے صدہا نشانوں کو دیکھ کر اُن سے منکر ہوئے جاتے ہیں اور جس طرح ایک شخص کو مٹی کھانے کی عادت ہو جاتی ہے وہ باوجود پیش کئے جانے عُمدہ غذاؤں کے پھر بھی مٹی کھانے کی طرف ہی رغبت کرتا ہے۔ یہی حال آپ کا ہو رہا ہے۔ یہ بھی جھوٹ ہے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ حدیثوں کی رو سے ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ سمجھتے ہیں۔ صحیح بخاری جس کو آپ اصحّ الکتب بعد کتاب اللّٰہ قرار دیتے ہیں اس میں تو صاف لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج کی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اُن مُردہ رُوحوں میں دیکھا جو اِس جہان سے گذر چکی ہیں بلکہ حضرت یحیٰی کے پاس جو فوت ہو چکے ہیں اُن کا مقام پایا۔ اب بندۂ خدا کچھ تو خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہیئے۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر قبض رُوح کے یونہی جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے تھے تو اُن کو رُوحوں سے کیا تعلق تھا جو موت کے بعد دوسرے جہان میں پہنچ چکی ہیں اُن کے لئے تو کوئی علیحدہ مکان یا کمرہ چاہیئے تھا جس میں جسمانی زندگی بسر کرتے نہ کہ عالمِ فانی کے رہنے والوں کے پاس چلے جاتے جو موت کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ پس یہ کس قدر جھوٹ ہے جو آپ کے گلے کا ہار ہو رہا ہے جو ایسے شخص کو آپ زندہ قرار دیتے ہیں جو اُنیس سو ۱۹۰۰ برس سے فوت ہو چکا ہے۔ جب تک خدا تعالیٰ نے اس بھید کو نہیں کھولا تھا تب تک تو ہر ایک معذور تھا۔ اب جب کہ حَکَم آ گیا اور حقیقت کھل گئی اور قرآن شریف کی رو سے حضرت عیسیٰ کی موت ثابت ہو گئی اور حدیثوں کی رُو سے مُردہ رُوحوں میں اُن کی بود و باش پر گواہی مل گئی اور خدا کے قول سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے یعنی رؤیت سے حضرت عیسیٰ کا وفات پانا بپایہ ء ثبوت پہنچ گیا بلکہ مسلم اور صحیح بخاری کی حدیث سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ آنے والا مسیح اِسی امت میں سے ہو گا اور اس مسیح نے بھی بحیثیت حَکَم ہونے کے قرآن شریف اور ان احادیث



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 284

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 284

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/284/mode/1up


کے مطابق گواہی دی تو اب بھی نہ ماننا۔ بتلاؤ یہ ایمانداری ہے یا بے ایمانی۔ پھر ایسے آدمی پر افسوس کیا کریں کہ وہ ہمارے نشانوں کو نہیں مانتا جب کہ اس نے نہ خدا کے قول کو مانا اور نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کو قبول کیا اورؔ نہ چاہا کہ خدا تعالیٰ سے خوف کر کے اپنی غلطی کو چھوڑ دے۔ تو ایسا آدمی اگر میرے پر افترا کرے تو مجھے کیوں افسوس کرنا چاہیئے۔ ایک کی غلطی دوسرے کے لئے سند نہیں ہو سکتی۔ اگر فیج اعوج کے زمانہ میں ایسا خیال دلوں میں ہو گیا تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ آسمان پرچلے گئے ہیں تو وہ قابلِ سند نہیں ہے۔ خیر القرون کے زمانہ میں اس خیال کا نام و نشان نہ تھا ورنہ صحابہ رضی اللہ عنہم اس بات پر کیوں راضی ہو جاتے کہ سب انبیاء علیہم السلا م فوت ہو چکے ہیں۔ اسلام میں سب سے پہلا اجماع یہی تھا کہ تمام نبی فوت ہو گئے ہیں کیونکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو بعض صحابہ کا یہ بھی خیال تھا کہ آپ فوت نہیں ہوئے اور پھر دنیا میں واپس آئیں گے اور منافقوں کی ناک اور کان کاٹیں گے۔ تو اُس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب کو مسجد نبوی میں جمع کیا اور یہ آیت پڑھی 33 ۔۱؂ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک نبی ہیں اور تمام انبیاء گذشتہ پہلے ان سے فوت ہو چکے ہیں۔ تب صحابہ جو سب کے سب موجود تھے رضی اللہ عنہم سمجھ گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بے شک فوت ہو گئے اور انہوں نے یقین کر لیا کہ کوئی نبی بھی زندہ نہیں۔ اور کسی نے اعتراض نہ کیا کہ حضرت عیسیٰ اس آیت کے مفہوم سے باہر ہیں اور وہ اب تک زندہ ہیں۔ اور کیا ممکن تھا کہ عاشقانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر راضی ہو سکتے کہ ان کا نبی تو چھوٹی سی عمر میں فوت ہو گیا اور عیسیٰ چھ سو۶۰۰ برسوں سے زندہ چلا آتا ہے اور قیامت تک زندہ رہے گا بلکہ وہ تو اس خیال سے زندہ ہی مر جاتے پس اسی وجہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان سب کے سامنے یہ آیت پڑھ کر ان کو تسلّی دی 33۲؂۔ اور اس آیت نے ایسا



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 285

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 285

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/285/mode/1up


اثر صحابہ کے دل پر کیا کہ وہ مدینہ کے بازاروں میں یہ آیت پڑھتے پھرتے تھے گویا اُسی دن وہ نازل ہوئی تھی۔ اور اسلام میں یہ اجماع تمام اجماعوں سے پہلا تھا کہ تمام نبی فوت ہو چکے ہیں۔ مگر اے مولوی صاحب !! آپ کو صحابہ کے اس اجماع سے کیا غرض۔ آپ کا مذہب تو تعصّب ہے نہ کہ اسلام۔

مذہب اسلام ایسے باطل عقیدوں سے دن بدن تباہ ہوتا جا تا ہے مگر آپ لو گؔ خوش ہیں ؂ رونقِ دیں عقائدت بُردہ دشمناں شاد و یار آزردہ

معلوم ہوتا ہے کہ اس اجماع سے پہلے جو تمام انبیاء علیہم السلام کی وفات پر ہوا بعض نادان صحابی جن کو درایت سے کچھ حصہ نہ تھا وہ ابھی اس عقیدہ سے بے خبر تھے کہ کل انبیاء فوت ہو چکے ہیں اور اسی وجہ سے صدیق رضی اللہ عنہ کو اس آیت کے سُنانے کی ضرورت پڑی اور اس آیت کے سُننے کے بعد سب نے یقین کر لیا کہ تمام گذشتہ لوگ داخلِ قبور ہو چکے ہیں اِسی وجہ سے حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے یہ چند شعر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرثیہ میں بنائے جس میں اُس نے اسی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ یہ ہیں ؂

کنت السّواد لناظری

فعمی علیک الناظر

من شاء بعدک فلیمت

فعلیک کنت احاذر

(ترجمہ) تو میری آنکھوں کی پتلی تھا پس مَیں تو تیرے مرنے سے اندھا ہو گیا۔ اب بعد تیرے جو شخص چاہے مرے (عیسیٰ ہو یا موسیٰ ہو) مجھے تو تیرے ہی مرنے کا خوف تھا۔ جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء محبت اِسی کا نام ہے۔ *

حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا اگر وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں اکٹھے کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی۔ کیونکہ ایسی صورت میں اس زمانے کے مفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں۔ مگر اب صدیق اکبر کی آیت ممدوحہ پیش کرنے سے اس بات پر کل صحابہ کا اجماع ہو چکا کہ کل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں بلکہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 286

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 286

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/286/mode/1up


اور اگر ایک ذرّہ انصاف ہو تو معلوم ہو گا کہ خود حضرت مسیح علیہ السلام اس عقیدہ کے مخالف تھے کہ کوئی آسمان پر جا کر پھر دنیا میں آتا ہے اِسی لئے جب اُن سے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کے بارہ میں یہودیوں نے پوچھا اور کتابیں دکھلائیں کہ لکھا ہے کہ الیاس دوبارہ دنیا میں آئے گا تب بعد الیاس آنے کے وہ مسیح موعود آئے گا جس کے آنے کا یہود کو وعدہ دیا گیا تھا اور بتلایا گیا تھا کہ وہ ان کا خاتم الانبیاء ہو گا تو عیسیٰ علیہ السلام نے یہ اعتراض سُن کر فرمایا کہ یوحنانبی جو تم میں موجود ہے اور مجھ سے پہلے آ چکا ہے یہی الیاس ہے جس نے قبول کرنا ہو قبول کرے۔ اور یہ قول آپ کا یہود کو بہت ہی بُرا معلوم ہوا۔ اور اُن کو کافر اور بدعتی اور اجماع اُمّت کے برخلاف ایک بات کہنے والا قرار دیا۔ چنانچہ ایک کتاب جو حال میں ایک بڑے یہودی فاضل نے تالیف کی ہے جو میرے پاس موجود ہے۔ اُس میں وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کے لئے بڑا شور ڈالتا ہے اور اُن کو وہ نعوذ باللہ کذّاب اور کافر اور ملحد کہتا ہے اور لوگوں کے سامنے اس بات کا اپیل کرتا ہے اور کہتا ہے کہ تم خود منصف ہو کر سوچو کہ جس حالت میں خدا نے اپنی کتاب میں یہؔ خبر دی تھی جیسا کہ صحیفہ ملاکی میں لکھا ہے ۔ جس کی صحت اور منجانب اللہ ہونے کا

اُس اجماع پر شعر بنائے گئے۔ ابو بکر کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں رحمتوں کی بارش کرے اُس نے تمام روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور اس اِجماع میں تمام صحابہ شریک تھے۔ ایک فرد بھی ان میں سے باہر نہ تھا۔ اور یہ صحابہ کا پہلا اجماع تھا اور نہایت قابل شکر کارروائی تھی۔ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اور مسیح موعود کی باہم ایک مشابہت ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ قرآن شریف میں دونوں کی نسبت یہ تھا کہ جب ایک خوف کی حالت اسلام پر طاری ہو گی اور سلسلہ مرتد ہونے کا شروع ہو گا تب ان کا ظہور ہو گا سو حضرت ابوبکر اور مسیح موعود کے وقت میں ایسا ہی ہوا۔ یعنی حضرت ابو بکرکے وقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد صد ہا جاہل عرب مرتد ہو گئے تھے۔ اور صرف دو۲ مسجدیں باقی تھیں جن میں نماز پڑھی جاتی تھی۔ حضرت ابو بکر نے دوبارہ ان کو اسلام پر قائم کیاایسا ہی مسیح موعود کے وقت میں کئی لاکھ انسان اسلام سے مرتد ہو کر عیسائی بن گئے اور یہ دونوں حالات قرآن شریف میں مذکور ہیں یعنی پیشگوئی کے طور پر ان کا ذکر ہے۔منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 287

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 287

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/287/mode/1up


اس شخص کو اقرار ہے کہ یہودیوں کا مسیح موعود نہیں آئے گا جب تک کہ الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آسمان سے نازل ہو کر نہ آوے۔ اور معلوم ہے کہ اب تک الیاس نبی آسمان سے نازل نہیں ہوا جس کا نازل ہونا مسیح موعود سے پہلے ضروری ہے تو ہم کیونکر اس کو سچا مسیح موعود سمجھ لیں۔ کیا ہم اپنے ایمان کو ضائع کر دیں یا توریت سے روگردان ہو جائیں کیا کریں۔ اور جب کہ کھلے کھلے لفظوں میں ملاکی نبی نے خدا تعالیٰ سے وحی پاکرہمیں خبر دی ہے کہ ضرور ہے کہ مسیح موعود یہودیوں میں پیدا نہ ہو جب تک کہ خدا کے وعدہ کے موافق الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آوے تو پھر یہ شخص یہودیوں کا مسیح موعود کیونکر ہو سکتا ہے۔*اور جب کہ ایسی

یہودیوں کا یہ مذہب ہے کہ مسیح دو ہیں(۱) ایک وہ مسیح جو پہلے آنے والا ہے جس کے لئے یہ شرط ہے کہ اس سے پہلے الیاس دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ یہی مسیح تھا جس کی نسبت حضرت عیسیٰ نے دعویٰ کیا کہ وہ میں ہوں مگر یہودی فاضلوں نے اس دعوے کو قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ دعویٰ نصوصِ صریحہ کتاب اللہ کے مخالف ہے۔وجہ یہ کہ جیسا کہ خدا کی کتاب بتلاتی ہے الیاس دوبارہ آسمان سے زمین پر نہیں آیا۔حضرت عیسیٰ نے باربارکہاکہ ایسی عبارتیں استعارہ کے رنگ میں ہوتی ہیں اور الیاس سے مراد اس جگہ یحییٰ یعنی یوحنا نبی ہے مگر چونکہ یہودی سخت ظاہر پرست تھے انہوں نے اس تاویل کو قبول نہ کیا اور اب تک اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ کو قبول نہیں کرتے اور بہت توہین کرتے ہیں (۲) دوسرا مسیح جس کی یہودیوں کو انتظار ہے وہ ہے جس کی نسبت ان کا عقیدہ ہے کہ وہ چھٹے ہزار کے اخیر میں آئے گا اس لئے آج کل نہایت اضطراب یہودیوں میں ہے کیونکہ قمری حساب کی رو سے چھٹا ہزار آدم سے ختم ہو گیا اور اب ساتواں ہزار چل رہا ہے مگر وہ مسیح موعود اب تک نہیں آیا۔ عیسائیوں کے محققین کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ آمد ثانی ان کے مسیح کی چھٹے ہزار کے آخر میں ہو گی۔ اب وہ بھی نومیدی میں پڑگئے کیونکہ چھٹے ہزارکاخاتمہ ہوگیاآخرانہوں نے نومید ہو کر یہ رائے ظاہر کی ہے کہ کلیسیا کو ہی مسیح سمجھ لو اور آنے والے سے ہاتھ دھو بیٹھو۔ غرض یہودیوں کے نزدیک مسیح دو۲ ہیں اور آخری مسیح موعود جو چھٹے ہزار کے آخر میں آنے والا تھا وہ ان کے نزدیک پہلے مسیح سے بہت افضل اور صاحب اقبال ہے مگر وہ تو دونوں مسیحوں سے محروم رہے نہ وہ ملا نہ وہ ملا۔ منہ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 288

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 288

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/288/mode/1up


تصریح اور وضاحت سے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی قبل از مسیح موعود ہمیں خبر ملی ہے جس کی کوئی تاویل نہیں ہو سکتی تو پھر اگر ہم تکلّف سے صَرف عَنِ الظَّاہر کر کے اس پیشگوئی کی کچھ تاویل کر دیں تو یہ سخت بے ایمانی ہو گی۔ ہمیں خدا نے اپنی کتاب میں یہ تو نہیں بتلایا کہ مسیح موعود سے پہلے الیاس نبی کا کوئی مثیل آئے گا بلکہ اُس نے تو صاف طور پر ہمیں خبر دے دی ہے کہ خود الیاس ہی دوبارہ آسمان سے نازل ہو جائے گا تو پھر ایسی صریح خبر سے ہمؔ کیونکر انکار کر دیں اور پھر آخر مضمون میں لکھتا ہے کہ اگر خدا نے قیامت کے دن ہم سے پوچھا کہ تم نے اس شخص یعنی یسوع بن مریم کو کیوں قبول نہ کیا اور کیوں اُس پر ایمان نہ لائے تو ہم ملاکی نبی کی کتاب اُس کے سامنے پیش کر دیں گے۔

غرض یہ عقیدہ قدیم سے یہود کا ہے کہ اُن کا سچا مسیح موعود جو پہلا مسیح موعود ہے تبھی آئے گا جب پہلے اس سے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آجائے گا مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اُن کی ایک نہ سُنی اور ان کو یہی سُنائی کہ اس آنے والے سے مراد یوحنا نبی ہے۔ یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا فیصلہ ہے جس کے برخلاف آپ لوگوں نے شور مچا رکھا ہے۔ کیا الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آگیا تا حضرت عیسیٰ بھی دوبارہ آ جائیں۔ بلکہ اگر کسی شخص کا دوبارہ دنیا میں آنا جائز ہے تو اس سے حضرت عیسیٰ سچے نبی ٹھہر نہیں سکتے اور ان کی نبوت باطل ہوتی ہے کیونکہ اس صورت میں ماننا پڑتا ہے کہ انہوں نے ناحق اپنی بات بنانے کے لئے یحيٰ نبی کو الیاس بنا دیا ورنہ الیاس ابھی آسمان سے نازل نہیں ہوا تھا۔ کیا عقلمند کے لئے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کا قصّہ جس کی وجہ سے کئی لاکھ یہودی حضرت عیسیٰ کو ردّ کر کے واصلِ جہنّم ہو گئے عبرت کا مقام نہیں؟

جب کہ الیاس نبی جس کا آسمان سے نازل ہونا حضرت عیسیٰ کے دعویٰ کی سچائی کے لئے ایک علامت مقرر کی گئی تھی آسمان سے ناز ل نہ ہوا تو اب وہی راہ اس زمانہ کے مسلمان کیوں اختیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے پہلے اِس سے یہودی کافر ہو گئے۔ اگر آسمان سے نازل ہونا سنّت اللہ میں داخل ہوتا تو الیاس کی راہ میں کون سے پتھر پڑ گئے تھے کہ باوجودیکہ خدا تعالیٰ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 289

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 289

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/289/mode/1up


کی کتاب میں اس کے نازل ہونے کا وعدہ تھا پھر بھی نازل نہ ہو سکا اور حضرت عیسیٰ کو یہودیوں کے مقابل پر شرمندگی اٹھانی پڑی اور آخر یحيٰنبی کو الیاس نبی کا مثیل ٹھہرا کر یہودیوں کے بکواس سے پیچھا چھڑایا۔

خیال کرنا چاہیئے کہ کس قدر عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کی اس حجت بازی سے دُکھ پہنچتا ہو گا جب کہ وہ بار بار کہتے تھے کہ تُو کس طرح سچا مسیح موعود ہو سکتا ہے جب کہ تجھ میں مسیح موعود کے علامات نہیں پائے جاتے کیونکہ خدا کی کتاب صاف لفظوں میں کہتی ہے کہ مسیح موعود نہیں آئے گا جب تک پہلےؔ اس سے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں نہ آ جائے۔ اِس حجت میں بظاہر یہودی سچے تھے کیونکہ الیاس آسمان سے نازل نہیں ہوا تھا اور نہ اب تک آسمان سے نازل ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس قدر یہودیوں نے شرارتوں اور گستاخیوں میں دلیری کی اس کی یہی وجہ تھی کہ ظاہر الفاظ کتاب اللہ کے لحاظ سے جو مسیح موعود کی علامت تھی وہ علامت حضرت مسیح میں پائی نہ گئی اور حضرت مسیح اپنے دل میں سمجھ چکے تھے کہ میرا جواب صرف تاویلی ہے جس کو یہود قبول نہیں کریں گے اس لئے انہوں نے نرم لفظوں میں کہا کہ جو الیاس دوبارہ دنیامیں آنا تھا وہ یہی یحيٰ بن زکریا ہے چاہو تو قبول کرو۔ ایسا ہی آسمان پر چڑھنے اور اُترنے کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے معجزہ مانگا گیا تھا جس کا قرآن شریف میں ذکر ہے۔ آخر اُن کو صاف جواب دیا گیا اور خدا تعالیٰ نے فرمایا33۱؂اور عیسائیوں کو یہودی اب تک تنگ کیا کرتے ہیں کہ اگر عیسیٰ حقیقت میں مسیح موعود تھاتو کیوں الیاس نبی پہلے اس سے نازل نہ ہوا۔ عیسائی ہمیشہ اس اعتراض سے لاجواب رہتے ہیں اور ان کے سامنے بات نہیں کر سکتے۔

سو ہمارے مخالفوں کو الیاس نبی کے دوبارہ آنے کی پیشگوئی سے سبق حاصل کرنا چاہیئے ایسا نہ ہو کہ یہودیوں کی طرح ان کا انجام ہو۔ مگر مماثلت پوری کرنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ جیسا کہ اُن سے پہلے یہودیوں نے حضرت الیاس کے دوبارہ آنے کے بارہ میں حضرت عیسیٰ



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 290

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 290

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/290/mode/1up


سے بہت جھگڑا کیا تھا اور اُن کو بے دین اور کافر اور ملحد ٹھہرایا تھا اِسی طرح حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے میں ان لوگوں کا مجھ سے بھی جھگڑا ہوتا۔ یہ نادان سمجھتے نہیں کہ جس شخص کے دوبارہ آنے کے لئے روتے اور مجھے گالیاں نکالتے ہیں وہی میرے دعویٰ کی اُن پر ڈگری کرتا ہے کیونکہ بعینہٖ اس بیان کے مطابق جو حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کے بارہ میں مَیں ان لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ یہی بیان حضرت عیسیٰ کا یہودیوں کے سامنے تھا۔ اور جس طرح خدا نے میرا نام عیسیٰ رکھا ہے اِسی طرح خدا نے یحییٰ نبی کا نام الیاس رکھ دیا تھا۔ اور یہی نظیر جو مذکور ہو چکی ہے ایک ایماندار کے لئے تسلّی بخش ہے۔ اور خدا بھی توفرماتا ہے۔33۱؂اور یہودی تو ایک درجہ تک معذور بھی تھے کیونکہ یہودیوں کے زمانہ میں ابھی کسی انسان کے دوبارہ آنے میں خدا تعالیٰ کی کتابوں میں فیصلہ نہیں ہواؔ تھا مگر اب تو فیصلہ ہو چکاکیا الیاس نبی ملاکی نبی کی پیشگوئی کے مطابق دوبارہ دنیا میں آ گیا تا یہ لوگ بھی حضرت عیسیٰ کے دوبارہ آنے کی امید رکھیں۔ اور صحیح حدیثوں میں تو دوبارہ آنے کا کوئی لفظ بھی نہیں صرف نزول کا لفظ ہے جو محض اجلال اوراکرام کے لئے آتا ہے۔ ہر ایک عزیز مہمان کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ جب وہ تشریف لائیں گے تو ہمارے ہاں اُتریں گے تو کیا اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ آسمان سے واپس آئیں گے واپس آنے کے لئے عربی زبان میں رجوع کا لفظ ہے نہ نزول کا۔ بڑا افسوس ہے کہ ناحق یہ عقیدہ جو عیسائی مذہب کو مدد دیتا ہے مسلمان کہلانے والوں کے گلے کا ہار ہو گیا۔

ہمارے مخالف سخت شرمندہ اور لاجواب ہو کر آخر کو یہ عذر پیش کر دیتے ہیں کہ ہمارے بزرگ ایسا ہی کہتے چلے آئے ہیں۔ نہیں سوچتے کہ وہ بزرگ معصوم نہ تھے بلکہ جیسا کہ یہودیوں کے بزرگوں نے پیشگوئیوں کے سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ان بزرگوں نے بھی ٹھوکر کھا لی اور خدا تعالیٰ کی حکمت اور مصلحت سے ایسا ہی ایک غلط عقیدہ اُن میں شائع ہو گیا جیسا کہ یہود میں یہ عقیدہ شائع ہو گیا تھا کہ الیاس نبی دوبارہ آسمان سے نازل ہو گا اور یہود کے بزرگ بڑی محبت اور شوق سے الیاس نبی کے دوبارہ آنے کے منتظر تھے اُن کی نظموں اور نثروں میں بڑے درد اور



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 291

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 291

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/291/mode/1up


وجد سے انتظار کی اُمیدیں پائی جاتی ہیں اور تمہارے بزرگ تو معصوم نہ تھے مگر اُن میں باوجود اس کے کہ اُن میں نبی اور خدا سے وحی پانے والے بھی تھے سب غلطی میں مبتلا رہے اور یہ عقدہ سربستہ رہا کہ الیاس نبی کے دوبارہ آنے سے کوئی اور نبی مراد ہے۔ نہ یہ کہ درحقیقت الیاس ہی نازل ہو گا۔ اور اس وقت تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مبعوث ہوئے کسی نبی یا ولی کو یہ راز سربستہ سمجھ نہ آیا کہ الیاس کے دوبارہ آنے سے مراد یحییٰ نبی ہے نہ کہ درحقیقت الیاس۔ پس یہ کوئی نئی بات نہیں کہ اس ا مّت کے بعض بزرگ کسی ایک بات کے سمجھنے میں دھوکہ کھاویں۔ اور عجیب تر یہ کہ اس مسئلہ میں بھی ان بزرگوں کا اتفاق نہیں۔ بہت سے ایسے علماء گذرے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ کی وفات کے قائل ہیں۔ ان میں سے حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ بھی ہیں جیسا کہ لکھتے ہیں۔ قد اختلف فی عیسٰی علیہ السلام ھل ھو حیّ ؔ او میّت و قال مالک مات ۔یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا اور مالک رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ وہ مر گیا ہے۔ اور محی الدین ابن العربی صاحب اپنی ایک کتاب میں جو ان کی آخری کتاب ہے لکھتے ہیں کہ عیسیٰ تو آئے گا مگر بروزی طور پر یعنی کوئی اور شخص اس امت کا عیسیٰ کی صفت پر آجائے گا صوفیوں کا یہ مقرر شدہ مسئلہ ہے کہ بعض کاملین اسی طرح پر دوبارہ دنیا میں آ جاتے ہیں کہ اُن کی روحانیت کسی اور پر تجلّی کرتی ہے اور اس وجہ سے وہ دوسرا شخص گویا پہلا شخص ہی ہو جاتا ہے۔ ہندوؤں میں بھی ایسا ہی اصول ہے اور ایسے آدمی کا نام وہ اوتار رکھتے ہیں۔

اور یہ خیال کہ کوئی زندہ آدمی آسمان پر چلا گیا اور یا گُم ہو گیا یہ بھی ایک پُرانا خیال پایا جاتا ہے جس کے پہلے وقتوں میں کچھ اور معنے تھے اور پھر جاہلوں نے سمجھ لیا کہ درحقیقت کوئی شخص مع جسم آسمان پر چلا جاتا ہے اور پھر آتا ہے۔ سیّد احمد صاحب بریلوی کی نسبت بھی کچھ ایسے ہی خیالات اُن کے گروہ کے لوگوں میں آج تک شائع ہیں۔ گویا وہ بھی حضرت عیسیٰ کی طرح پھر آئیں گے۔ اور اگرچہ وہ پہلی آمد میں حضرت عیسیٰ کی طرح ناکام رہے مگر دوسری مرتبہ خوب تلوار چلائیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ بڑے بڑے دعوے کر کے پھر ناکام اور نامراد دنیا سے چلے گئے اُن کی پردہ پوشی کے لئے یہ باتیں بنائی گئیں۔



Ruhani Khazain Volume 21. Page: 292

روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۱- براہینِ احمدیہ حصہ پنجم: صفحہ 292

http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=21#page/292/mode/1up


ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کوئی اعتقاد نہیں رکھتا کہ آپ بھی پھر آئیں گے کیونکہ آنجناب نے اپنی آمد اوّل میں ہی کافروں کو وہ ہاتھ دکھائے جو اب تک یاد کرتے ہیں اور پوری کامیابی کے ساتھ آپ کا انتقال ہوا۔

اور معلوم ہوتا ہے کہ ابن العربی صاحب نے آخر عمر میں اپنے پہلے اقوال سے رجوع کر لیا تھا۔ اس لئے ان کا آخری بیان پہلے بیان سے متناقض ہے۔ ایسا ہی بعض اور فرقے صوفیوں کے کھلے طور پر حضرت عیسیٰ کی وفات کے قائل ہیں۔ اور ہم ابھی بیان کر چکے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کا اسی پر اجماع ہو گیا تھا جو انبیاء گذشتہ جن میں حضرت عیسیٰؔ بھی شامل ہیں فوت ہو چکے ہیں۔ اُن میں سے ایک بھی زندہ نہیں پھر جیسے جیسے مذہب اسلام میں جہالت اور بدعات پھیلتی گئیں یہ بدعت بھی دین کا ایک جزو ہو گئی کہ حضرت عیسیٰ مُردہ ارواح کی جماعت میں سے نکل کر پھر دنیا میں واپس آئیں گے۔ اِس عقیدہ نے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے کیونکہ تمام دنیا میں سے صرف ایک ہی انسان کو یہ خصوصیت دی ہے کہ وہ آسمان پر مع جسم چلا گیا اور کسی زمانہ میں مع جسم واپس آئے گا۔ یہ عقیدہ حضرت عیسیٰ کو خدا بنانے کی پہلی اینٹ ہے کیونکہ ان کو ایک خصوصیت دی گئی ہے جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔ خدا جلد یہ داغ اسلام کے چہرہ سے دُور کرے۔ آمین

بالآخر میں مولوی ابوسعید محمد حسین صاحب کو محض حسبۃ