Ruhani Khazain Volume 23. Page: 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
اے میرے قادر خدا اے میرے پیارے رہنما تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہل صدق و صفا۔ اور ہمیں اُن راہوں سے بچا جن کا مدّعا صرف شہوات ہیں یا کینہ یا بغض یا دنیا کی حرص و ہوا۔
امّا بعد اے سامعین ہم سب کیا مسلمان اور کیا ہندو باوجود صدہا اختلافات کے اُس خدا پر ایمان لانے میں شریک ہیں جو دنیا کا خالق او رمالک ہے اور ایسا ہی ہم سب انسان کے نام میں بھی شراکت رکھتے ہیں۔ یعنی ہم سب انسان کہلاتے ہیں۔ اور ایسا ہی بباعث ایک ہی ملک کے باشندہ ہونے کے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ صفائے سینہ اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے رفیق بن جائیں اور دین و دنیا کی مشکلات میں ایک دوسرے کی ہمدردی کریں۔ اور ایسی ہمدردی کریں کہ گویا ایکؔ دوسرے کے اعضاء بن جائیں۔
اے ہموطنو!! وہ دین دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہو۔ اور نہ وہ انسان انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو۔ ہمارے خدا نے کسی قوم سے فرق نہیں کیا۔ مثلاً جو جو انسانی طاقتیں اور قوتیں آریہ ورت کی قدیم قوموں کو دی گئی ہیں۔ وہی تمام قوتیں عربوں اور فارسیوں اور شامیوں اور چینیوں اور جاپانیوں اور یورپ اور امریکہ کی قوموں کو بھی عطا کی گئی ہیں سب کے لئے خدا کی زمین فرش کا کام دیتی ہے اور سب کے لئے اُس کا سورج اور چاند اور کئی اور ستارے روشن چراغ کا کام دے رہے ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور دوسری خدمات بھی بجا لاتے ہیں۔ اس کی پیدا کردہ عناصر یعنی ہَوَا اور پانی اور آگ او ر خاک اور ایسا ہی اُس کی دوسری تمام پیدا کردہ چیزوں اناج اور پھل اور دوا وغیرہ سے تمام قومیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ پس یہ اخلاق ربّانی ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہم بھی اپنے بنی نوع انسانوں سے مروّت اور سلوک کے ساتھ پیش آویں اور تنگ دل اور تنگ ظرف نہ بنیں۔
دوستو !! یقیناًسمجھو کہ اگر ہم دونوں قوموں میں سے کوئی قوم خدا کے اخلاق کی عزت نہیں کرے گی اور اس کے پاک خلقوں کے برخلاف اپنا چال چلن بنائے گی تو وہ قوم جلد ہلا ک ہو جائے گی۔ اور نہ صرف اپنے ؔ تئیں بلکہ اپنی ذُرّیت کو بھی تباہی میں ڈالے گی جب سے کہ دُنیا پیدا ہوئی ہے تمام ملکوں کے راستباز یہ گواہی دیتے آئے ہیں کہ خدا کے اخلاق کا پیرو ہونا انسانی بقاء کے لئے ایک آبِ حیات ہے۔ اور انسانوں کی جسمانی اور رُوحانی زندگی اسی امر سے وابستہ ہے کہ وہ خدا کے تمام مقدّس اخلاق کی پیروی کرے جو سلامتی کا چشمہ ہیں
خدا نے قرآن شریف کو پہلے اسی آیت سے شروع کیا ہے جو سورۃ فاتحہ میں ہے کہ3 ۱ یعنی تمام کامل اور پاک صفات خدا سے خاص ہیں جو تمام عالموں کا ربّ ہے۔ عالم کے لفظ میں تمام مختلف قومیں اور مختلف زمانے اور مختلف ملک داخل ہیں۔ اور اس آیت سے جو قرآن شریف شروع کیا گیا۔ یہ درحقیقت اُن قوموں کاردّ ہے جو خدا تعالیٰ کی عام ربوبیت اور فیض کو اپنی ہی قوم تک محدود رکھتے ہیں۔ اور دوسری قوموں کو ایسا خیال کرتے ہیں کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کے بندے ہی نہیں۔ اور گویا خدا نے اُن کو پیدا کرکے پھر ردّی کی طرح پھینک دیا ہے۔یا اُن کو بھول گیا ہے۔ اور یا (نعوذ باللہ) وہ اس کے پیدا کردہ ہی نہیں۔ جیسا کہ مثلاً یہودیوں اور عیسائیوں کا اب تک یہی خیال ہے کہ جس قدر خدا کے نبی اور رسول آئے ہیں۔ وہ صرف یہود کے خاندان سے آئے ہیں۔ اور ؔ خدا دوسری قوموں سے کچھ ایساناراض رہا ہے کہ اُن کو گمراہی اور غفلت میں
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دیکھ کر پھر بھی اُن کی کچھ پروا نہیں کی۔ جیسا کہ انجیل میں بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں صرف اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے آیا ہوں۔ اس جگہ ہم ایک فرض محال کے طور پر کہتے ہیں کہ خدائی کا دعویٰ کرکے پھر ایسا تنگ خیالی کاکلمہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ کیا مسیح صرف اسرائیلیوں کاخدا تھا اور دوسری قوموں کاخدا نہ تھا جو ایسا کلمہ اُس کے منہ سے نکلا کہ مجھے دوسری قوموں کی اصلاح او ر ہدایت سے کچھ غرض نہیں۔
غرض یہودیوں اور عیسائیوں کا یہی مذہب ہے کہ تمام نبی اور رسول انہیں کے خاندان سے آتے رہے ہیں۔ اور انہیں کے خاندان میں خدا کی کتابیں اُترتی رہی ہیں۔ اور پھر بموجب عقیدہ عیسائیوں کے وہ سلسلہ الہام اور وحی کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوگیا۔ اورخدا کے الہام پر مُہر لگ گئی۔
انہیں خیالات کے پابند آریہ صاحبان بھی پائے جاتے ہیں یعنی جیسے یہود اور عیسائی نبوت اور الہام کو اسرائیلی خاندان تک ہی محدود رکھتے ہیں اور دوسری تمام قوموں کو الہام پانے کے فخر سے جواب د ے رہے ہیں۔ یہی عقیدہ نوع انسان کی بدقسمتی سے آریہ صاحبان نےؔ بھی اختیار کر رکھا ہے یعنی وہ بھی یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا کی وحی اور الہام کا سلسلہ آریہ ورت کی چار دیواری سے کبھی باہر نہیں گیا۔ ہمیشہ اسی ملک سے چار رشی منتخب کئے جاتے ہیں اور ہمیشہ وید ہی بار بار نازل ہوتا ہے اور ہمیشہ ویدک سنسکرت ہی اس الہام کے لئے خاص کی گئی ہے۔
غرض یہ دونوں قومیں خدا کو ربّ العالمین نہیں سمجھتیں ورنہ کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ جس حالت میں خدا ربّ العالمین کہلاتا ہے نہ صرف ربّ اسرائیلیاں یا صرف ربّ آریاں تو وہ ایک خاص قوم سے کیوں ایسا دائمی تعلق پیدا کرتا ہے جس میں صریح طور پر طرف داری اور پکش پات پائی جاتی ہے۔ پس ان عقائد کے ردّ کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو اسی آیت سے شروع کیا کہ3 ۱ اور جابجا
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اُس نے قرآن شریف میں صاف صاف بتلا دیا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کسی خاص قوم یا خاص ملک میں خدا کے نبی آتے رہتے ہیں۔ بلکہ خدا نے کسی قوم اور کسی ملک کو فراموش نہیں کیا۔ اور قرآن شریف میں طرح طرح کی مثالوں میں بتلایا گیا ہے کہ جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے اُن کے مناسب حال اُن کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہےؔ ۔ ایساہی اس نے ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم کو رُوحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے۔ جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے۔3 ۱ یا کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا۔
سو یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لانا ہرایک بندہ کا فرض ہے وہ ربّ العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں۔ اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا ربّ ہے اور تمام زمانوں کا ربّ ہے۔ اور تمام مکانوں کا رب ہے اور تمام ملکوں کا وہی ربّ ہے اور تمام فیضوں کاوہی سرچشمہ ہے۔ اور ہر ایک جسمانی اور رُوحانی طاقت اسی سے ہے اور اسی سے تمام موجودات پرورش پاتی ہیں۔ اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے۔
خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہو رہا ہے۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کاموقعہ نہ ملے۔ اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا۔ مگر ہم پرنہ کیا۔یا فلاں قو م کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی۔ یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور ؔ معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہاپس اُس نے عام فیض دکھلاکر ان تمام اعتراضات کو دفع کردیا۔ اور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا۔ اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھہرایا۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
پس جب کہ ہمارے خدا کے یہ اخلاق ہیں۔ تو ہمیں مناسب ہے کہ ہم بھی اُنہیں اخلاق کی پیروی کریں لہٰذا اے ہم وطن بھائیو! یہ مختصر رسالہ جس کانام ہے پیغام صلح بادب تمام آپ صاحبوں کی خدمت میں پیش کیا جاتاہے۔ اور بصدق دل دُعا کی جاتی ہے کہ وہ قادر خدا آپ صاحبوں کے دلوں میں خود الہام کرے۔ اور ہماری ہمدردی کاراز آپ کے دلوں پر کھول دے تا آپ اس دوستانہ تحفہ کو کسی خاص مطلب اور نفسانی غرض پر مبنی تصور نہ فرماویں۔ عزیزو !! آخرت کا معاملہ توعام لوگوں پر اکثر مخفی رہتا ہے اور اُنہیں پر عَالم عُقبیٰ کا راز کھلتا ہے جو مرنے سے پہلے مرتے ہیں مگر دنیا کی نیکی اور بدی کو ہر ایک دور اندیش عقل شناخت کرسکتی ہے۔
یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ اتفاق ایک ایسی چیز ہے کہ وہ بلائیں جو کسی طرح دُور نہیں ہوسکتیں اوروہ مشکلات جو کسی تدبیر سے حل نہیں ہوسکتیں وہ اتفاق سے حل ہو جاتی ہیں۔ پس ایک عقلمند سے بعیدؔ ہے کہ اتفاق کی برکتوں سے اپنے تئیں محروم رکھے۔ ہندو اور مسلمان اس ملک میں دو۲ ایسی قومیں ہیں کہ یہ ایک خیالِ محال ہے کہ کسی وقت مثلاًہندو جمع ہوکر مسلمانوں کو اس ملک سے باہر نکال دیں گے یا مسلمان اکٹھے ہوکر ہندوؤں کو جلاوطن کردیں گے بلکہ اب تو ہندو مسلمانوں کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہو رہا ہے۔ اگر ایک پر کوئی تباہی آوے تو دوسر ا بھی اس میں شریک ہوجائے گا۔ اور اگر ایک قوم دوسری قوم کو محض اپنے نفسانی تکبر اور مشیخت سے حقیر کرنا چاہے گی تو وہ بھی داغِ حقارت سے نہیں بچے گی۔ اور اگر کوئی اُن میں سے اپنے پڑوسی کی ہمدردی میں قاصر رہے گا تو اس کانقصان وہ آپ بھی اُٹھائے گا جو شخص تم دونوں قوموں میں سے دوسری قوم کی تباہی کی فکرمیں ہے اُس کی اس شخص کی مثال ہے کہ جو ایک شاخ پر بیٹھ کر اُسی کو کاٹتا ہے۔ آپ لوگ بفضلہ تعالیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوگئے۔ اب کینوں کو چھوڑ کر محبت میں ترقی کرنا زیبا ہے اور بے مہری کو چھوڑ کر ہمدردی اختیار کرنا آپ کی عقلمندی کے مناسب
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 444
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/444/mode/1up
حال ہے۔ دنیا کی مشکلات بھی ایک ریگستان کا سفر ہے کہ جو عین گرمی اور تمازتِ آفتاب کے وقت کیا جاتا ہے پس اس دشوار گذار راہ کے لئے باہمی اتفاق کے اس سردپانی کی ضرورت ہے جو اس جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈی کرؔ دے اور نیز پیاس کے وقت مرنے سے پچاوے۔
ایسے نازک وقت میں یہ راقم آپ کو صلح کے لئے بلاتا ہے جب کہ دونوں کو صلح کی بہت ضرورت ہے۔ دنیا پر طرح طرح کے ابتلا نازل ہو رہے ہیں۔ زلزلے آرہے ہیں۔ قحط پڑ رہا ہے اور طاعون نے بھی ابھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ اور جو کچھ خدا نے مجھے خبردی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دنیا اپنی بدعملی سے باز نہیں آئے گی اور بُرے کاموں سے توبہ نہیں کرے گی تو دنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی۔ اور ایک بلا ابھی بس نہیں کرے گی کہ دوسری بلا ظاہر ہو جائے گی۔ آخر انسان نہایت تنگ ہو جائیں گے کہ یہ کیاہونے والا ہے۔ اور بہتیری مصیبتوں کے بیچ میں آکر دیوانوں کی طرح ہو جائیں گے۔ سو اے ہموطن بھائیو! قبل اس کے کہ وہ دن آویں ہوشیار ہوجاؤ۔ اور چاہیئے کہ ہندومسلمان باہم صلح کرلیں اور جس قوم میں کوئی زیادتی ہے جو وہ صلح کی مانع ہو اس زیادتی کو وہ قوم چھوڑ دے۔ ورنہ باہم عداوت کا تمام گناہ اسی قوم کی گردن پر ہوگا۔
اگر کوئی کہے کہ یہ کیونکر وقوع میں آسکتا ہے کہ صلح ہو جائے۔ حالانکہ باہم مذہبی اختلاف صلح کے لئے ایک ایسا امر مانع ہے جو دن بدن دلوں میں پھوٹ ڈالتا جاتا ہے۔
میںؔ اس کے جواب میں یہ کہوں گا کہ درحقیقت مذہبی اختلاف صرف اُس اختلاف کا نام ہے جس کی دونوں طرف عقل اور انصاف اور اُمور مشہودہ پر بنا ہو۔ ورنہ انسان کو اسی بات کے لئے تو عقل دی گئی ہے کہ وہ ایسا پہلو اختیار کرے جوعقل اور انصاف سے بعید نہ ہو اور امور محسوسہ مشہودہ کے مخالف نہ ہو۔ اور چھوٹے چھوٹے اختلاف صلح کے مانع نہیں ہوسکتے۔ بلکہ وہی اختلاف صلح کامانع ہوگا جس میں کسی کے مقبول پیغمبر اور مقبول الہامی کتاب پر توہین اور تکذیب کے ساتھ حملہ کیا جائے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 445
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/445/mode/1up
ماسوا اس کے صلح پسندوں کے لئے یہ ایک خوشی کا مقام ہے کہ جس قدر اسلام میں تعلیم پائی جاتی ہے وہ تعلیم ویدک تعلیم کی کسی نہ کسی شاخ میں موجود ہے۔ مثلاً اگرچہ نوخیز مذہب آریہ سماج کا یہ اصول رکھتا ہے کہ ویدوں کے بعد الہام الٰہی پر مُہر لگ گئی ہے مگر جو ہندو مذہب میں وقتاً فوقتاً اوتار پیدا ہوتے رہے ہیں جن کے تابع کروڑہا لوگ اسی ملک میں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اُس مہر کو اپنے دعوئے الہام سے توڑ دیا ہے جیسا کہ ایک بزرگ اوتار جو اس ملک اور نیز بنگالہ میں بڑی بزرگی اور عظمت کے ساتھ مانے جاتے ہیں جن کا نام سری کرشن ہے۔ وہ اپنے ملہم ہونے کا دؔ عویٰ کرتے ہیں اور ان کے پیرو نہ صرف اُن کو ملہم بلکہ پرمیشر کرکے مانتے ہیں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ سری کرشن اپنے وقت کا نبی اور اوتار تھااور خدا اس سے ہمکلام ہوتا تھا۔
ایسا ہی اس آخری زمانہ میں ہندو صاحبوں کی قوم میں سے بابا نانک صاحب ہیں جن کی بزرگی کی شہرت اس تمام ملک میں زبان زدعام ہے۔ اور جن کی پیروی کرنے والی اس ملک میں وہ قوم ہے جو سکھ کہلاتے ہیں جو بیس لاکھ سے کم نہیں ہیں۔ باوا صاحب اپنی جنم ساکھیوں اور گرنتھ میں کھلے کھلے طور پر الہام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک جگہ وہ اپنی ایک جنم ساکھی میں
لکھتے ہیں کہ مجھے خدا کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ دین اسلام سچا ہے۔ اِسی بنا پر انہوں نے حج بھی کیا۔ اور تمام اسلامی عقائد کی پابندی اختیار کی اور بلاشبہ یہ بات ثابت ہے کہ اُن سے کرامات اور نشان بھی صادر ہوئے ہیں اور اس بات میں کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ باوا نانک ایک نیک اور برگزیدہ انسان تھا۔ اور ان لوگوں میں سے تھا جن کو خدائے عزّوجلّ اپنی محبت کا شربت پلاتا ہے۔ وہ ہندوؤں میں صرف اس بات کی گواہی دینے کے لئے پیدا ہوا تھا کہ اسلام خدا کی طرف سے ہے۔ جو شخص اس کے وہ تبرکات دیکھےؔ جو ڈیرہ نانک میں موجود ہیں جن میں بڑے زور سے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 446
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/446/mode/1up
اُس نے کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی گواہی دی ہے۔ اور پھر وہ تبرکات دیکھے جو بمقام گروہر سہائے ضلع فیروزپور میں موجود ہیں۔ جن میں ایک قرآن شریف بھی ہے تو کس کو اس بات میں شک ہوسکتا ہے کہ باوا نانک صاحب نے اپنے پاک دل اور پاک فطرت اور اپنے پاک مجاہدہ سے اس راز کو معلوم کرلیا تھا جو ظاہری پنڈتوں پر پوشیدہ رہا۔ اور اُنہوں نے الہام کا دعویٰ کرکے اور خدا کی طرف سے نشان اور کرامات دکھلاکر اس عقیدہ کا خوب کھنڈن اور رَدّ کردیا جو کہا جاتا ہے کہ وید کے بعد کوئی الہام نہیں اور نہ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔بلاشبہ باوا نانک صاحب کا وجود ہندوؤں کے لئے خدا کی طرف سے ایک رحمت تھی۔ اوریوں سمجھو کہ وہ ہندو مذہب کا آخری اوتار تھا جس نے اس نفرت کو دور کرنا چاہا تھا جو اسلام کی نسبت ہندوؤں کے دلوں میں تھی۔ لیکن اس ملک کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہندو مذہب نے باوا نانک صاحب کی تعلیم سے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا۔ بلکہ پنڈتوں نے اُن کو دُکھ دیا کہ کیوں وہ اسلام کی تعریف جابجا کرتا ہے۔وہ ہندو مذہب اور اسلام میں صلح کرانے آیا تھا۔ مگر افسوس کہ اس کی تعلیم پر کسی نے توجہ نہیں کی۔ اگر ؔ اُس کے وجود اور اُس کی پاک تعلیموں سے کچھ فائدہ اٹھایا جاتا تو آج ہندو اور مسلمان سب ایک ہوتے۔ ہائے افسوس ہمیں اس تصور سے رونا آتا ہے کہ ایسا نیک آدمی دنیا میں آیا اور گذر بھی گیا۔ مگر نادان لوگوں نے اُس کے نور سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی۔
بہرحال وہ اس بات کو ثابت کرگیا کہ خدا کی وحی اور اس کا الہام کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ اور خدا کے نشان اس کے برگزیدوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ اور اِس بات کی گواہی دے گیا کہ اسلام کی دشمنی نور کی دُشمنی ہے۔
ایسا ہی میں بھی اس بات میں صاحب تجربہ ہوں کہ خدا کی وحی اور خدا کا الہام ہرگز اس زمانہ سے منقطع نہیں کیا گیابلکہ جیسا خدا پہلے بولتا تھااب بھی بولتا ہے۔ اور جیسا
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 447
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/447/mode/1up
کہ پہلے سنتا تھااب بھی سنتا ہے۔ یہ نہیں کہ اب وہ صفات قدیمہ اُس کی معطل ہوگئی ہیں۔ میں تخمیناً تیس۳۰ برس سے خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں۔ اور میرے ہاتھ پر اُس نے اپنے صدہا نشان دکھائے ہیں جو ہزارہا گواہوں کے مشاہدہ میں آچکے ہیں۔ اور کتابوں اور اخباروں میں شائع ہوچکے ہیں۔ اور کوئی ایسی قوم نہیں جو کسی نہ کسی نشان کی گواہ نہ ہو۔
ابؔ باوجود اس قدر متواتر شہادتوں کے یہ تعلیم آریہ سماج کی جو خوانخواہ ویدوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے کیونکر قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تمام سلسلہ خدا کے کلام اور الہام کا ویدوں پر ختم ہوچکا ہے اور پھر بعد اس کے صرف قصوں پر مدار ہے اور اسی اپنے عقیدہ کو ہاتھ میں لیکر وہ لوگ کہتے ہیں کہ ویدوں کے سوا جس قدر دنیا میں کلام الٰہی کے نام پر کتابیں موجود ہیں وہ سب نعوذ باللہ انسانوں کے افترا ہیں حالانکہ وہ کتابیں وید سے بہت زیادہ اپنی سچائی کا
ثبوت پیش کرتی ہیں۔ اور خدا کی نصرت اور مدد کاہاتھ اُن کے ساتھ ہے۔ اور خدا کے فوق العادت نشان اُن کی سچائی پر گواہی دیتے ہیں۔ پھرکیا وجہ کہ وید تو خدا کاکلام مگر وہ کتابیں خدا کا کلام نہیں ؟ اور چونکہ خدا کی ذات عمیق در عمیق اور نہاں در نہاں ہے۔ اس لئے عقل بھی اس بات کو چاہتی ہے کہ وہ اپنے وجود کے ثابت کرنے کے لئے صرف ایک کتاب پر کفایت نہ کرے بلکہ مختلف ملکوں میں سے نبی منتخب کرکے اپنا کلام اور الہام اُن کو عطا کرے تا انسان ضعیف البنیان جو جلد تر شبہات میں گرفتار ہوسکتا ہے دولتِ قبول سے محروم نہ رہے۔
اور اس بات کو عقل سلیم ہرگز قبول کرنے کے لئے طیار نہیں ہے کہ وہ خدا جو تمام دُنیا کا خدا ہے جو اپنے آفتاب سے مشرق اور مغرب کو ؔ روشن کرتا ہے۔ اور اپنے مینہ سے ہر ایک ملک کو ہرایک ضرورت کے وقت سیراب فرماتا ہے۔ وہ نعوذ باللہ رُوحانی تربیت میں ایسا تنگ دل اور بخیل ہے کہ ہمیشہ کے لئے ایک ہی ملک اور ایک ہی قوم
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 448
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/448/mode/1up
اورایک ہی زبان اُس کو پسند آگئی ہے اور میں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ کس قسم کی منطق اور کس نوع کا فلسفہ ہے کہ پرمیشر ہر ایک آدمی کی دُعا اور پرارتھنا کو اس کی زبان میں سمجھ تو سکتا ہے اور نفرت نہیں کرتا مگر اس بات سے سخت نفرت کرتا ہے کہ بجز ویدک سنسکرت کے کسی اور زبان میں دلوں پر الہام کرے۔ یہ فلاسفی یا وید وِدّیا اس سربستہ معمّا کی طرح ہے جو اب تک کوئی انسان اس کو حل نہیں کرسکا۔
میں وید کو اس بات سے مُنزّہ سمجھتا ہوں کہ اس نے کبھی اپنے کسی صفحہ پر ایسی تعلیم شائع کی ہو کہ جو نہ صرف خلاف عقل ہو بلکہ پرمیشر کی پاک ذات پر بخل اور پکش پات کا داغ لگاتی ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی الہامی کتاب پر ایک زمانہ دراز گذر جاتا ہے تو اُس کے پیرو کچھ تو بباعث نادانی کے اور کچھ بباعث اغراض نفسانی کے سہواً یا عمداً اس کتاب پر اپنی طرف سے حاشیے چڑھا دیتے ہیں۔ اور چونکہ حاشیہ چڑہانے والے متفرق خیالات کے لوگ ہوتے ہیں اس لئے ایک مذہب سے صدہا مذہب پیدا ہو جاتے ہیں۔
اورؔ یہ عجیب بات ہے کہ جس طرح آریہ صاحبان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمیشہ آریہ خاندانوں اور آریہ ورت تک ہی الہام الٰہی کا سلسلہ محدود رہا ہے اور ہمیشہ ویدک سنسکرت ہی الہام الٰہی کے لئے خاص رہی ہے اور وہ پرمیشر کی زبان ہے۔ یہی یہود کا خیال اپنے خاندان اور اپنی کتابوں کی نسبت ہے۔ اُن کے نزدیک بھی خدا کی اصلی زبان عبرانی ہے اور ہمیشہ خدا کے الہام کا سلسلہ بنی اسرائیل اور انہیں کے ملک تک محدود رہا ہے۔ اور جو شخص اُن کے خاندان اور اُن کی زبان سے الگ ہونے کی حالت میں نبی ہونے کا دعویٰ کرے اُس کو وہ نعوذ باللہ جھوٹا خیال کرتے ہیں۔
پس کیا یہ توارد تعجب انگیز نہیں ہے کہ ان دونوں قوموں نے اپنے اپنے بیان میں ایک ہی خیال پر قدم مارا ہے۔ اسی طرح دنیا میں اور بھی کئی فرقے ہیں جو اسی خیال
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 449
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/449/mode/1up
کے پابند ہیں جیسے پارسی۔ جو اپنے مذہب کی بنیاد وید سے کئی ارب سال پہلے بتلاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال (کہ ہمیشہ کے لئے اپنے ملک اور اپنے خاندان اور اپنی کتابوں کی زبان کو ہی خدا کی وحی اور الہام سے مخصوص کیا گیا ہے) محض تعصب اور کمی معلومات سے پیدا ہوا ہے۔چونکہ پہلے زمانے دنیا پر ایسے گذرے ہیں کہ ایک قوم دوسری قوم کے حالات سے ؔ اور ایک ملک دوسرے ممالک کے وجود سے بکلی بے خبر تھی پس ایسی غلطی سے ہر ایک قوم کو جو خدا کی طرف سے کوئی کتاب ملی یا کوئی خدا کا رسول اور نبی اس قوم میں آیا تو اس قوم نے یہی خیال کرلیا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ہدایت ہونی چاہیئے تھی وہ یہی ہے اور خدا کی کتاب صرف انہیں کے خاندان اور انہی کے ملک کو دی گئی ہے اور باقی تمام دنیااس سے بے نصیب پڑی ہے۔
اس خیال نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا۔ اور دراصل باہمی کینوں اور بغضوں کے بیج جو قوموں میں بڑھتے گئے یہی خیال تھا۔ ایک مدت تک تو ایک قوم دوسری قوم سے پردہ میں رہی اور ایک ملک دوسرے ملک سے مخفی اور مستور رہا۔ یہاں تک کہ آریہ ورت کے فاضلوں کا یہ خیال تھا کہ کوہ ہمالہ کے پرے کوئی آبادی نہیں۔
پھر جب کہ خدا نے درمیان سے پردہ اٹھا لیا اور زمین کی آبادی کے متعلق کسی قدر لوگوں کے معلومات وسیع ہوگئے تووہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ وہ تمام غلط خصوصیتیں جو الہامی کتابوں اور اپنے رشیوں اور رسولوں کی نسبت لوگوں نے اپنے ہی دلوں سے تراش کر اپنے عقائد میں داخل کرلی تھیں وہ ان کے دلوں میں خوب راسخ اور پتھر کے نقش کی طرح ہوگئیں۔اور ہر ایک قوم یہی خیال کرتی تھی کہ خدا کا صدر مقام ہمیشہ انہیں کے مُلک میں ؔ رہا ہے۔ اور چونکہ اُن دنوں میں اکثر قوموں پر وحشیانہ خصلتیں غالب تھیں۔ اور ایک پرانی رسم کے مخالف کو تلوار کے ساتھ جواب دیا جاتا تھا۔ اس لئے کس کی مجال تھی کہ ہر ایک قوم کی خود ستائی کے جوشوں کو ٹھنڈا کرکے اُن کے درمیان صلح کراتا۔ گوتم بدھ نے اس صلح کا ارادہ کیا
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 450
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/450/mode/1up
تھا۔ اور وہ اس بات کا قائل نہ تھا۔ کہ جو کچھ ہے وید ہے آگے کچھ نہیں۔ اور نہ وہ قوم اور ملک اور خاندان کی خصوصیت کااقراری تھا یعنی یہ مذہب اس کانہیں تھا کہ گویا وید پر ہی سب کچھ حصر ہے اور یہی زبان اور یہی ملک اور یہی برہمن پرمیشر کے الہام کے لئے ہمیشہ کے لئے اس کی عدالت میں رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اُس نے اس اختلاف سے بڑا دُکھ اٹھایا اور اس کا نام ایک دہریہ اور ناستک مت والا رکھا گیا۔ جیسا کہ آج کل یورپ اور امریکہ کے تمام محقق جو حضرت عیسیٰ کی خدا ئی کو منظور نہیں کرتے۔ اور اُن کے دل اس بات کو نہیں مانتے کہ خدا کو بھی سُولی دے سکتے ہیں۔ وہ تمام لوگ حضرات پادری صاحبوں کے خیال میں دہریہ ہیں۔
سو اسی قسم کا بدھ بھی دہریہ ٹھہرایا گیا۔ اور جیسا کہ شریر مخالفوں کا دستور ہے عام لوگوں کو نفرت دلانے کی بہت سی تہمتیں اس پر لگائی گئیں۔ آخر انجام یہ ہوا کہ بدھ آریہ ورت سے جوؔ اس کی زادوبوم اور وطن تھا نکالا گیا۔ اور اب تک ہندو لوگ بدھ مذہب اور اس کی کامیابی کو بڑی نفرت او رحقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر حسب قول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں دوسرے ملک کی طرف بدھ نے ہجرت کرکے بڑی کامیابی حاصل کی۔ جیسا کہ بیان کیاجاتا ہے کہ تیسرا حصہ دنیا کا بدھ مذہب سے پُر ہے اور کثرت پیروؤں کے لحاظ سے اس کااصل مرکز چین اور جاپان ہے۔ اگرچہ وہ جنوبی رُوس اور امریکہ تک پھیل گیا ہے۔
اب پھر ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ جن زمانوں میں ایک مذہب دوسرے مذہب سے بے خبر تھا۔ اس بے خبری کے عالم میں یہ ایک لازمی امر تھا کہ ہر یک قوم اپنے مذہب اور اپنی کتاب پر ہی حصر رکھتی مگر اس حصر کا آخر کار نتیجہ یہ ہوا کہ جب ایک ملک دوسرے ملک کے وجود سے اطلاع پاگیا۔ اور ممالک مختلفہ کے لوگ ایک دوسرے کے مذہب سے مطلع ہوگئے۔ تب اُن کے لئے یہ مشکل پڑی کہ ایک ملک کامذہب دُوسرے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 451
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/451/mode/1up
ملک کے مذہب کی تصدیق کرسکے۔ کیونکہ ہر ایک مذہب کے لئے جو شاعر انہ طور پر مبالغہ کرکے خصوصیتیں اور فضیلتیں مقررہوچکی تھیں اُن کا دُورؔ کرنا کچھ سہل کام نہ تھا۔ اس لئے ہریک اہل مذہب نے دوسرے مذہب کی تکذیب پر کمربستہ کی۔ ژند واستا کے مذہب نے ہمچومن دیگرے نیست کا جھنڈا کھڑا کردیا۔ اور سلسلہ پیغمبری کو اپنے خاندان تک ہی محدود رکھا اور اپنے مذہب کی اتنی لمبی تاریخ بتلائی کہ وید کی تاریخ بتلانے والے اُن کے سامنے شرمندہ ہیں۔
ادھر عبرانیوں کے مذہب نے حد ہی کردی کہ ہمیشہ کے لئے خدا کا تخت گاہ ملک شام ہی قرار دیا گیا اور ہمیشہ انہیں کے خاندان کے برگزیدہ لوگ اس لائق قرار پائے کہ وہ ملک کی اصلاح کے لئے بھیجے جائیں۔ مگر حکمًا وہ اصلاح بنی اسرائیل تک ہی محدود رہی۔ اور انہیں کے خاندان پر الہام اور خدا کی وحی کی مہر لگ گئی اور جودوسرا اٹھے وہ کاذب کہلاوے۔
ایسا ہی آریہ ورت میں بھی بعینہٖ یہی خیالات شائع ہوگئے جو اسرائیلیوں میں شائع ہوئے اور اُن کے عقیدہ کی رُو سے پرمیشر صرف آریہ ورت کا ہی راجہ ہے اور راجہ بھی ایسا جس کو دوسرے ملکوں کی خبر ہی نہیں اور بغیر کسی دلیل کے یہ مانا جاتا ہے کہ جب سے پرمیشر ہے اس کو آریہ ورت کی ہی آب و ہوا پسند آگئی ہے۔ وہ ہرگز چاہتا نہیں کہ دوسرے ملکوں میں بھی کبھی دورہ کرے اور کبھی ان بیچاروں کی خبر بھی لے جن کو وہ پیدا کرکے بھول گیا۔
دوستوؔ ! برائے خدا یہ سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ عقائد ایسے ہیں جن کو انسانی فطرت قبول کرسکتی ہے یا کوئی کانشنس ان کو اپنے اندر جگہ دے سکتا ہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کس قسم کی عقلمندی ہے کہ ایک طرف خدا کو تمام دنیا کا خدا ماننا اور پھر اسی منہ سے یہ بھی کہنا کہ وہ تمام دنیا کی ربوبیت کرنے سے دستکش ہے۔ اور صرف ایک خاص قوم اور ایک خاص ملک پر اس کی نظر رحم ہے۔ عقلمندو !! خود انصاف کرو کہ کیا خدا کے جسمانی قانون قدرت میں اس کی کوئی شہادت ملتی ہے۔ پھر اس کا روحانی قانون کیوں ایسی طرفداری پر مبنی ہے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 452
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/452/mode/1up
اور اگر عقل سے کام لیا جائے تو ہر ایک کام کی بھلائی یا بُرائی اس کے نتیجہ سے بھی معلوم ہوسکتی ہے۔ پس مجھے اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ خدا کے ان بزرگ نبیوں کی ہتک اور ان کو گالیاں دینا جن کی غلامی اور اطاعت کے حلقہ میں ہر طبقہ کے کروڑہا انسان داخل ہیں اس کا نتیجہ کیسا ہے۔ اور انجام کار اس کا پھل کیا ہے کیونکہ کوئی ایسی قوم نہیں کہ جو ایسے نتیجہ کو کچھ نہ کچھ دیکھ نہ چکی ہو۔
اے عزیزو !! قدیم تجربہ اور بار بار کی آزمائش نے اس امر کو ثابت کردیا ہے کہ مختلف قوموں کے نبیوں اور رسولوں کو توہین سے یاد کرنا اور اُن کو گالیاں دینا ایکؔ ایسی زہر ہے کہ نہ صرف انجام کار جسم کو ہلاک کرتی ہے بلکہ رُوح کو بھی ہلاک کرکے دین اور دُنیا دونوں کو تباہ کرتی ہے۔ وہ ملک آرام سے زندگی بسر نہیں کرسکتا جس کے باشندے ایک دوسرے کے رہبرِ دین کی عیب شماری اور ازالہ حیثیت عرفی میں مشغول ہیں۔ اور ان قوموں میں ہرگز سچا اتفاق نہیں ہوسکتا جن میں سے ایک قوم یا دونوں ایک دوسرے کے نبی یا رشی اور اوتار کو بدی یا بد زبانی کے ساتھ یاد کرتے رہتے ہیں۔ اپنے نبی یا پیشوا کی ہتک سن کر کس کو جوش نہیں آتا۔ خاص کر مسلمان ایک ایسی قوم ہے کہ وہ اگرچہ اپنے نبی کو خدایا خدا کا بیٹا تو نہیں بناتی مگر آنجناب ؐ کو ان تمام برگزیدہ انسانوں سے بزرگ تر جانتے ہیں کہ جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے پس ایک سچے مسلمان سے صلح کرنا کسی حالت میں بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ اُن کے پاک نبی کی نسبت جب گفتگو ہو تو بجز تعظیم اور پاک الفاظ کے یاد نہ کیا جائے۔
اور ہم لوگ دوسری قوموں کے نبیوں کی نسبت ہرگز بد زبانی نہیں کرتے۔ بلکہ ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس قدر دنیا میں مختلف قوموں کے لئے نبی آئے ہیں اور کروڑہا لوگو ں نے ان کو مان لیاہے اور دنیا کے کسی ایک حصہ میں اُن کی محبت اور عظمت جاگزیں ہوگئی ہے اور ایک زمانہ دراز اس محبت اور اعتقاد پر گذر گیا ہے تو بس یہی ایک دلیل اُن کی سچائی
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 453
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 453
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/453/mode/1up
کے لئے کافی ہے کیونکہ اگر وہ خدا کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ قبولیت کروڑہا لوگوں کے دلوں میں نہ پھیلتی خدا اپنے ؔ مقبول بندوں کی عزت دوسروں کو ہرگز نہیں دیتا اور اگر کوئی کاذب اُن کی کرسی پر بیٹھنا چاہے تو جلد تباہ ہوتا اور ہلاک کیا جاتا ہے۔
اسی بنا پر ہم وید کو بھی خدا کی طرف سے مانتے ہیں اور اُس کے رشیوں کو بزرگ اور مقدس سمجھتے ہیں اگرچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وید کی تعلیم پورے طور پر کسی فرقے کو خدا پرست نہیں بنا سکی اور نہ بنا سکتی تھی۔ اور جو لوگ اس ملک میں بُت پرست یا آتش پرست یا آفتاب پرست یا گنگا کی پوجا کرنے والے یا ہزارہا دیوتاؤں کے پوجاری یا جَین مَت یا شَاکَت مَت والے پائے جاتے ہیں۔ وہ تمام لوگ اپنے مذاہب کو وید ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور وید ایک ایسی مجمل کتاب ہے کہ یہ تمام فرقے اُسی میں سے اپنے اپنے مطلب نکالتے ہیں تاہم خدا کی تعلیم کے موافق ہمارا پختہ اعتقاد ہے کہ وید انسان کاافترا نہیں ہے۔ انسان کے افترا میں یہ قوت نہیں ہوتی کہ کروڑہا لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے اور پھر ایک دائمی سلسلہ قائم کردے اور اگرچہ ہم نے وید میں پتھر کی پرستش کا ذکر تو کہیں نہ پڑھا لیکن بلاشبہ اگنی وایو اور جَل اور چاند اور سورج
وغیرہ کی پرستش سے وید بھرا ہوا ہے اور کسی شُرتی میں ان چیزوں کی پرستش کے لئے ممانعت نہیں۔ اب اس کاکون فیصلہ کرے کہ دوسرے تمام قدیم فرقے ہندوؤں کے جھوٹے ہیں اور صرف نیا فرقہ آریوں کا سچااور جو لوگ وید کے حوالہ سے ؔ ان چیزوں کی پرستش کرتے ہیں اُن کے ہاتھ میں یہ دلیل پختہ ہے کہ ان چیزوں کی پرستش کا وید میں صریح ذکر ہے اور ممانعت کہیں بھی نہیں اور یہ کہنا کہ یہ سب پرمیشر کے نام ہیں۔ ہنوز یہ ایک دعویٰ ہے کہ جو ابھی صفائی سے طے نہیں ہوااو راگر طے ہو جاتا تو کچھ وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ بڑے بڑے پنڈت بنارس اور دوسرے شہروں کے آریوں کے عقیدوں کو قبول نہ کرتے باوجود تیس پینتیس برس کی کوششوں کے بہت ہی کم ہندوؤں نے آریہ مذہب اختیار کیا ہے اور بمقابلہ سناتن دھرم اور دُوسرے ہندو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 454
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 454
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/454/mode/1up
فرقوں کے آریہ مذہب والے اس قدر تھوڑے ہیں کہ گویا کچھ بھی نہیں۔ اور نہ اُن کا دوسرے ہندو فرقوں پرکوئی وسیع اثر ہے۔ ایسا ہی جو نیوگ کی تعلیم وید کی طرف منسوب کی جاتی ہے یہ بھی وہ امر ہے کہ جو انسانی غیرت اور شرافت اُس کو قبول نہیں کرتی۔ لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے ہم قبول نہیں کرسکتے کہ درحقیقت یہ وید ہی کی تعلیم ہے بلکہ ہماری نیک نیتی بڑے زور سے ہمیں اس بات کی طرف مائل کرتی ہے کہ ایسی تعلیمیں کسی نفسانی غرض سے بعد میں وید کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ اورچونکہ وید پر ہزارہا برس گذر گئے ہیں اس لئے ممکن ہے کہ مختلف زمانوں میں بعض وید کے بھاشکاروں نے کئی قسم کی کمی بیشی کی ہوگی۔پس ہمارے لئے وید کی سچائی کی یہ ہی ایک دلیل کافی ہے کہ آریہ ورت کے کئی کروڑ آدمی ہزارہا برسوں سے اِس کو خدا کا کلام جانتے ہیں اور ممکن نہیں کہ یہ عزت کسی ایسے کلام کو دی جائے جو کسی مفتری کا کلام ہے۔
اور پھر جب کہ ہم باوجود ان تمام مشکلات کے خدا سے ڈرکر وید کو خدا کا کلام جانتے ہیں اور جو کچھ اس کی تعلیم میں غلطیاں ہیں وہ وید کے بھاشکاروں کی غلطیاں سمجھتے ہیں تو پھر قرآن شریف جو اول سے آخر تک توحید سے بھرا ہوا ہے اور کسی جگہ اس میں سورج اور چاند وغیرہ کی پرستش کی تعلیم نہیں کی بلکہ صاف لفظوں میں فرمایا ہے۔ 3 3 ۱ یعنی نہ سورج کی پرستش کرو اور نہ چاند کی اور نہ کسی اور مخلوق کی۔ اور اس کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا۔ علاوہ اس کے قرآن شریف خدا کے قدیم نشانوں اور تازہ نشانوں کی گواہی اپنے ساتھ رکھتا ہے اور خدا کا وجود دکھلانے کے لئے ایک آئینہ ہے۔ کیوں وحشیانہ طور کے اس پر حملے کئے جائیں۔ اور کیوں وہ معاملہ ہم سے نہیں کیاجاتا جو ہم آریہ صاحبوں سے کرتے ہیں اور کیوں دشمنی اور عداوت کا تخم ملک میں بویا جاتا ہے۔ کیاامید کی جاتی ہے کہ اس کا نتیجہ اچھا ہوگا۔ کیا یہ نیک معاملہ ہے کہ ایک شخص جو پھول دیتا ہے اس پر پتھر پھینکا جائے اور جو دودھ پیش کرتا ہے اس پر پیشاب گرایا جائے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 455
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 455
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/455/mode/1up
اگر اس قسم کی صلح تام کے لئے ہندو صاحبان اور آریہ صاحبان طیار ہو ں کہ وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آئندہ توہین اور تکذؔ یب چھوڑدیں تو میں سب سے پہلے اس اقرار نامہ پر دستخط کرنے پر طیار ہوں کہ ہم احمدی سلسلہ کے لوگ ہمیشہ وید کے مصدق ہوں گے اور وید اور اُس کے رشیوں کا تعظیم اور محبت سے نام لیں گے اور اگر ایسا نہ کریں گے تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی ہندو صاحبوں کی خدمت میں ادا کریں گے۔ اور اگر ہندو صاحبان دل سے ہمارے ساتھ صفائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ایساہی اقرار لکھ کر اس پر دستخط کردیں اور اس کا مضمون بھی یہ ہوگا کہ ہم حضرت محمد مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو سچا نبی اور رسول سمجھتے ہیں اور آئندہ آپ کو ادب اور تعظیم کے ساتھ یاد کریں گے جیسا کہ ایک ماننے والے کے مناسب حال ہے اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی احمدی سلسلہ کے پیش رو کی خدمت میں پیش کریں گے۔
یاد رہے کہ ہماری احمدی جماعت اب چار لاکھ سے کچھ کم نہیں ہے۔ اس لئے ایسے بڑے کام کیلئے تین لاکھ روپیہ چندہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اور جو لوگ ہماری جماعت سے ابھی باہر ہیں دراصل وہ سب پراگندہ طبع اور پراگندہ خیال ہیں۔ کسی ایسے لیڈر کے ماتحت وہ لوگ نہیں ہیں جو اُن کے نزدیک واجب الاطاعت ہے۔ ا س لئے میں اُن کی نسبت کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ابھی تو وہ لوگ مجھے بھی کافر اور دجّال قرار دیتے ہیں۔ لیکن میں اُمید رکھتا ہوں کہ جب ہندو صاحبان میرے ساتھ ایسا معاہدہ کرلیں گے تو یہ لوگ بھی ہر گز ایسی ؔ بیجا حرکت کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ کہ ایسی مہذب قوم کی کتاب اور رشیوں کو بُرے الفاظ سے یاد کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دلائیں۔ ایسی گالیاں تو درحقیقت انہیں لوگوں کی طرف سے منسوب کی جائیں گی جو اس حرکت کے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 456
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 456
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/456/mode/1up
مرتکب ہوں گے۔ اور چونکہ ایسی حرکت حیا اور شرافت کے برخلاف ہے۔اس لئے میں اُمید نہیں رکھتا کہ اس معاہدہ کے بعد وہ لوگ اپنی زبان کھولیں۔ لیکن یہ ضروری ہوگا کہ معاہدہ کی تحریرکو پختہ کرنے کے لئے دونوں فریق کے دس دس ہزار سمجھدار لوگوں کے اس پر دستخط ہوں۔
پیارو !! صلح جیسی کوئی بھی چیزنہیں۔ آو ہم اس معاہدہ کے ذریعہ سے ایک ہو جائیں۔ اور ایک قوم بن جائیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ باہمی تکذیب سے کسی قدر پھوٹ پڑگئی ہے۔ اور ملک کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے۔ آؤ اب یہ بھی آزما لو کہ باہمی تصدیق کی کس قدر برکات ہیں۔ بہترین طریق صلح کایہی ہے۔ ورنہ کسی دوسرے پہلو سے صلح کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسا کہ ایک پھوڑے کو جو شفاف اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے اسی حالت میں چھوڑ دیں اور اس کی ظاہری چمک پرخوش ہوجائیں۔ حالانکہ اس کے اندر سڑی ہوئی اور بدبو دار پیپ موجود ہے۔
مجھے اِس جگہ ان باتوں کا ذکر کرنے سے کچھ غرض نہیں کہ وہ نفاق اور فساد جو ہندواور مسلمانوں میں آج کل بڑھتا جاتاہے۔ ا س کے وجوہ صرف مذہبی اختلافات تک محدود نہیں ہیں بلکہ دُوسری اغراض اس کی وجوہ ہیں جو دُنیا کی خواہشوں اور معاملات سے متعلق ہیں۔ مثلاً ہندوؤں کی ابتدا سے یہ خواہش ہے کہ گورنمنٹ اور ملک کے معاملات میں ان کا دخل ہو یاکم سے کم یہ کہ ملک داری کےؔ معاملات میں ان کی رائے لی جائے اور گورنمنٹ ان کی ہر یک شکایت کو توجہ سے سنے۔ اور بڑے بڑے گورنمنٹ کے عہدے انگریزوں کی طرح ان کو بھی ملا کریں۔ مسلمانوں سے یہ غلطی ہوئی کہ ہندوؤں کی ان کوششوں میں شریک نہ ہوئے اور خیال کیا کہ ہم تعداد میں کم ہیں اور یہ سوچا کہ ان تمام کوششوں کا اگر کچھ فائدہ ہے تو وہ ہندوؤں کے لئے ہے نہ کہ مسلمانوں کے لئے۔ اس لئے نہ صرف شراکت سے دستکش رہے۔ بلکہ مخالفت کرکے ہندوؤں کی کوشش کے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 457
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 457
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/457/mode/1up
سدّ راہ ہوئے جس سے رنجش بڑھ گئی۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان وجوہ سے بھی اصل عداوت پر حاشیے چڑھ گئے ہیں۔ مگر میں ہرگز تسلیم نہیں کروں گا کہ اصل وجوہ یہی ہیں۔ اور مجھے ان صاحبوں سے اتفاق رائے نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کی باہمی عداوت اور نفاق کا باعث مذہبی تنازعات نہیں ہیں اصل تنازعات پولٹیکل ہیں۔
یہ بات ہریک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مسلمان اس بات سے کیوں ڈرتے ہیں کہ اپنے جائز حقوق کے مطالبات میں ہندوؤں کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ اور کیوں آج تک اُن کی کانگریس کی شمولیت سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اور کیوں آخر کار ہندوؤں کی درستی رائے محسوس کرکے اُن کے قدم پر قدم رکھا۔ مگر الگ ہوکر اور اُن کے مقابل پر ایک مسلم انجمن قائم کردی مگر اُن کی شراکت کو قبول نہ کیا۔
صاحبو! اِس کا باعث دراصل مذہب ہی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں اگر آج وہی ہندو کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ پڑھ کر مُسلمانوں سے آکر بغلگیر ہوجائیں یامسلمان ہی ہندو بن کر اگنی وایو وغیرہ کی پرستش وید کے حکم کے موافق شروع کردیں اور اسلام کو الوداع کہہ دیں تو جن تنازعات کا نام اب پولٹیکل رکھتے ہیں وہ ایک دم میں ایسے معدوم ہو جائیں کہ گویا کبھی نہ تھے۔
پسؔ اس سے ظاہر ہے کہ تمام بُغضوں اور کینوں کی جڑھ دراصل اختلاف مذہب ہے۔ یہی اختلافِ مذہب قدیم سے جب انتہا تک پہنچتا رہا ہے تو خُون کی ندیاں بہاتا رہا ہے۔ اے مسلمانوں جب کہ ہندو صاحبان تمہیں بوجہ اختلاف مذہب کے ایک غیر قوم جانتے ہیں اور تم بھی اِس وجہ سے اُن کوایک غیر قوم خیال کرتے ہو۔ پس جب تک اِس سبب کا ازالہ نہ ہوگا کیوں کر تم میں اوراُن میں ایک سچی صفائی پیدا ہوسکتی ہے۔ ہاں ممکن ہے کہ مُنافقانہ طور پر باہم چند روز کے لئے میل جول بھی ہوجائے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 458
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 458
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/458/mode/1up
مگر وہ دِلی صفائی جس کو در حقیقت صفائی کہنا چاہئے۔ صرف اسی حالت میں پیدا ہوگی جب کہ آپ لوگ وید اور وید کے رشیوں کو سچے دل سے خدا کی طرف سے قبول کرلوگے۔ اور ایسا ہی ہندو لوگ بھی اپنے بخل کو دُور کرکے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرلیں گے یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ تم میں اور ہندو صاحبوں میں سچی صلح کرانے والا صرف یہی ایک اصول اور یہی ایک ایسا پانی ہے جو کدورتوں کو دھودے گا اور اگر وہ دن آگئے ہیں کہ یہ دونوں بچھڑی ہوئی قومیں باہم مل جائیں۔ تو خدا اُن کے دِلوں کو بھی اس بات کے لئے کھول دے گا جس کے لئے ہمارا دل کھول دِیا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ضرور ہوگاکہ ہندو صاحبان کے ساتھ سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ۔ اور سلوک اور مروّت اپنی عادت کرو۔ اور ایسے کاموں سے اپنے تئیں باز رکھو جن سے اُن کو دُکھ پہنچے۔ مگر وہ کام ہمارے مذہب میں نہ واجبات سے ہوں اور نہ فرائض مذہب سے۔ پس اگر ہندو صاحبان اپنے صدق دل سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی مان لیں۔ اور ان پر ایمان لاویں تو یہ تفرقہ جو گائے کی وجہ سے ہے۔ اس کو بھی درمیان سے اُٹھا دیا جائے۔ جس چیز کو ہمؔ حلال جانتے ہیں۔ ہم پر واجب نہیں کہ ضرور اس کو استعمال بھی کریں۔ بہتیری ایسی چیزیں ہیں کہ ہم حلال تو جانتے ہیں۔ مگر کبھی ہم نے استعمال نہیں کیں۔ ان سے سلوک اور احسان کے ساتھ پیش آنا ہمارے دین کی وصایا میں سے ایک وصیت ہے۔ خدا کو واحد لاشریک جاننا۔ پس ایک ضروری اور مفید کام کے لئے غیر ضروری کو ترک کرنا خدا کی شریعت کے مخالف نہیں۔ حلال جاننا اور چیز ہے اور استعمال کرنا اور چیز۔ دین یہ ہے کہ خدا کی منہیات سے پرہیز کرنا اور اس کی رضامندی کی راہوں کی طرف دوڑنا اور اس کی تمام مخلوق سے نیکی اور بھلائی کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا اور
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 459
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/459/mode/1up
دنیاکے تمام مقدس نبیوں اور رسولوں کواپنے اپنے وقت میں خدا کی طرف سے نبی اور مصلح ماننا اور اُن میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ اور ہریک نوع انسان سے خدمت کے ساتھ پیش آنا۔ ہمارے مذہب کا خلاصہ یہی ہے۔ مگر جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں۔ ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔
میں اس وقت کسی خاص قوم کو بے وجہ ملامت کرنا نہیں چاہتا۔ اور نہ کسی کا دل دُکھانا چاہتا ہوں بلکہ نہایت افسوس سے آہ کھینچ کر مجھے یہ کہنا پڑا ہے کہ اِسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا۔ اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہرایک قوم کے نبی کو مان لیا۔ اور تمام دُنیا میں یہ فخر خاص قرآن شریف کوؔ حاصل ہے۔ جس نے دُنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی کہ 3 ۱ یعنی تم اے مسلمانو! یہ کہو کہ ہم دُنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ان میں تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو رد کردیں۔ اگرایسی صلح کار کوئی اور الہامی کتاب ہے تو اس کا نام لو قرآن شریف نے خدا کی عامہ رحمت کو کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا۔ اسرائیلی خاندان کے جتنے نبی تھے کیا یعقوب اور کیا اسحٰق اور کیا موسیٰ اور کیا داؤد اور کیا عیسیٰ سب کی نبوت کو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 460
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/460/mode/1up
مان لیا اورہر ایک قوم کے نبی خواہ ہند میں گذرے ہیں اور خواہ فارس میں کسی کو مکار اور کذّاب نہیں کہا بلکہ صاف طور پر کہہ دیا کہ ہر ایک قوم اور بستی میں نبی گذرے ہیں اور تمام قوموں کے لئے صلح کی بنیاد ڈالی ۔ مگر افسوس کہ اس صلح کے نبی کو ہر یک قوم گالی دیتی ہے اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے ۔
اے ہموطن پیارو! ! میں نے یہ بیان آپ کی خدمت میں اس لئے نہیں کیاکہ میں آپ کو دکھ دوں یا آپ کی دل شکنی کروں بلکہ میں نہایت نیک نیتی سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن قوموں نے یہ عادت اختیار کر رکھی ہے اور یہ ناجائز طریق اپنے مذہب میں اختیار کرلیا ہے کہ دوسری قوموں کے نبیوں کو بد گوئی اور دشنام دہی کے ساتھ یاد کریں وہ نہ صرف بیجا مداخلت سے جس کے ساتھ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں خدا کے گنہگار ہیں ۔ بلکہ وہ اس گنہ کے بھی مرتکب ہیں کہ بنی نوع میں نفاق اور دشمنی کابیج بوتے ہیں ۔ آپ دل تھام کر اس بات کا مجھے جواب دیں کہ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے یا اس کی ماں پر کوئی تہمت لگاوے تو کیا وہ اپنے باپ کی عزت پر آپ حملہ نہیں کرتا۔اور اگر وہ شخص جس کو ایسی گالی دی گئی ہے جواب میں اسی طرح گالیؔ سنادے تو کیا یہ کہنا بے محل ہوگا کہ بالمقابل گالی دیئے جانے کا دراصل وہی شخص موجب ہے جس نے گالی دینے میں سبقت کی اور اس صورت میں وہ اپنے باپ اور ماں کی عزت کا خود دشمن ہوگا ۔
خدا تعالےٰ نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریق ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے کہ وہ فرماتا ہے کہ33 ۱ (سورۃ الانعام الجزو نمبر ۷)یعنی تم مشرکوں کے بتوں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے ۔ کیوں کہ وہ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 461
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/461/mode/1up
اس خدا کو جانتے نہیں ۔ اب دیکھو کہ باوجودیکہ خدا کی تعلیم کی رو سے بُت کچھ چیز نہیں ہیں مگر پھر بھی خدامسلمانوں کو یہ اخلاق سکھلاتا ہے کہ بتوں کی بدگوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھو اور صرف نرمی سے سمجھاؤ ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مشتعل ہو کر خدا کو گالیاں نکالیں اور ان گالیوں کے تم باعث ٹھہر جاؤ ۔ پس ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اسلام کے اس عظیم الشان نبی کو گالیاں دیتے اور توہین کے الفاظ سے اس کو یاد کرتے اور وحشیانہ طریقوں سے اس کی عزت اور چال چلن پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ بزرگ نبی
جس کانام لینے سے اسلام کے عظیم الشان بادشاہ تخت سے اُترتے ہیں اور اس کے احکام کے آگے سر جھکاتے اور اپنے تئیں اس کے ادنیٰ غلاموں سے شمار کرتے ہیں۔ کیا یہ عزت خدا کی طرف سے نہیں ۔ خدا ؔ داد عزت کے مقابل پر تحقیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو خداسے لڑنا چاہتے ہیں ۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے وہ برگزیدہ رسول ہیں جن کی تائید اور عزت ظاہر کرنے کے لئے خدانے دنیا کوبڑے بڑے نمونے دکھائے ہیں ۔ کیا یہ خداکے ہاتھ کا کام نہیں جس نے بیس کروڑانسانوں کا محمدی درگاہ پر سر جھکارکھا ہے۔اگرچہ ہر ایک نبی اپنی نبوت کی سچائی کے لئے کچھ ثبوت رکھتاہے لیکن جس قدر ثبوت آنجناب کی نبوت کے بارے میں ہیں جو آج تک ظاہر ہورہے ہیں ۔ ان کی نظیر کسی نبی میں نہیں پائی جاتی ۔
آپ لوگ اس دلیل کو نہیں سمجھ سکتے ! کہ جب زمین گناہ اور پاپ سے پلید ہوجاتی ہے ۔ اور خدا کے ترازو میں بدکاریاں اور بد چلنیاں اور بے باکیاں نیک کاموں سے بہت بڑھ جاتی ہیں تب خدا کی رحمت تقاضا کرتی ہے کہ ایسے وقت میں کسی اپنے بندے کو بھیج کرزمین کے فسادوں کی اصلاح کی جائے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 462
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/462/mode/1up
بیماری طبیب کو چاہتی ہے ۔ اور آپ لوگ اس بات کے سمجھنے کے لئے سب سے زیادہ استعداد رکھتے ہیں کیونکہ جیسا کہ بقول آپ صاحبوں کے وید ایسے وقت میں نہیں آیا جبکہ گناہ کا طوفان برپا تھا بلکہ ایسے وقت آیا جبکہ زمین پر گناہ کا کوئی سیلاب نہ تھا ۔ تو کیا آپ صاحبوں کی نظر میں یہ بات قیاسؔ سے دور ہے کہ ایسے وقت میں کوئی نبی ظاہر ہو جبکہ گناہ کا تُند سیلاب ہر ایک ملک میں اپنی تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہو ۔
میں نہیں امید رکھتا کہ آپ لوگ اس تاریخی واقعہ سے بے خبر ہوں گے کہ جب ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسند رسالت کو اپنے وجود سے عزت دی تو وہ زمانہ ایک ایسا تاریک زمانہ تھا کہ کوئی پہلو دنیا کی آبادی کا بد چلنی اور بد عقیدگی سے خالی نہ تھا ۔ اور جیسا کہ پنڈت دیانند صاحب اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں لکھتے ہیں اُس زمانہ میں اس ملک آریہ ورت میں بھی بُت پرستی نے خدا پرستی کی جگہ لے لی تھی ۔ اورویدک مذہب میں بہت سا بگاڑ ہو گیا تھا۔
ایسا ہی پادری فنڈل صاحب مصنف میزان الحق جو عیسائی مذہب کا سخت حامی ایک یورپین انگریز ہے وہ اپنی کتاب میزان الحق میں لکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں سب قوموں سے زیادہ بگڑی ہوئی عیسائی قوم تھی ۔اور ان کی بد چلنیاں عیسائی مذہب کی عار اور ننگ کا موجب تھیں ۔ اور خود قرآن شریف بھی اپنے نزول کی ضرورت کے لئے یہ آیت پیش کرتاہے :۔
3 ۱ ۔یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے ۔ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ کوئی قوم خواہ وحشیانہ حالت رکھتی ہیں اور خواہؔ عقلمندی کا دعوےٰ کرتی ہیں فساد سے خالی نہیں ۔
اب جب کہ تمام شہادتوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 463
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/463/mode/1up
کے زمانہ کے لوگ کیا مشرقی اور کیا مغربی اور کیا آریہ ورت کے رہنے والے اور کیا عرب کے ریگستان کے باشندے اور کیا جزیروں میں ا پنی سکونت رکھنے والے سب کے سب بگڑ گئے تھے ۔ اور ایک بھی نہیں تھا جس کا خدا کے ساتھ تعلق صاف ہو ۔اور بد عملیوں نے زمین کو ناپاک کردیا تھا تو کیا ایک عقلمند کو یہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ یہ وہی وقت اور وہی زمانہ تھا جس کی نسبت عقل تجویز کرسکتی ہے کہ ایسے تاریک زمانہ میں ضرور کوئی عظیم الشان نبی آنا چاہیئے تھا ۔
رہا یہ سوال کہ اس نبی نے دنیا میں آ کر کیا اصلاح کی ۔ اس سوال کا جواب جیسا کہ ایک مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح کے بارے میں دے سکتا ہے میں زور سے کہتاہوں کہ ایسا صاف اور مدلل جواب نہ کوئی عیسائی دے سکتا ہے اور نہ کوئی یہودی اور نہ کوئی آریہ ۔
پہلا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عرب کی اصلاح تھی ۔ اورعرب کاملک اُس زمانہ میں ایسی حالت میں تھا کہ بمشکل کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسان تھے ۔ کونسی بدی تھی جو ان میں نہ تھی ۔ اور کونسا شرک تھا جو ان ؔ میں رائج نہ تھا چوری کرنا ڈاکہ مارناان کا کام تھا اور ناحق کا خون کرنا ان کے نزدیک ایک ایسا معمولی کام تھا جیسا کہ ایک چیونٹی کو پیروں کے نیچے کچل دیا جائے ۔ یتیم بچوں کو قتل کر کے اُن کا مال کھالیتے تھے ۔ لڑکیوں کو زندہ بگور کرتے تھے ۔ زنا کاری کے ساتھ فخر کرتے اور علانیہ اپنے قصیدوں میں اُن گندی باتوں کا ذکر کرتے تھے ۔ شراب خواری اُس قوم میں اِ س کثرت سے تھی کہ کوئی گھر بھی شراب سے خالی نہ تھا اور قمار بازی میں سب ملکوں سے آگے بڑھے ہوئے تھے ۔ حیوانوں کی عار تھی اور سانپوں اور بھیڑیوں کی ننگ ۔
پھر جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اصلاح کے لئے کھڑے ہوئے اور اپنی باطنی توجہ سے ان کے دلوں کو صاف کرنا چاہا تو اُن میں تھوڑے ہی دنوں
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 464
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/464/mode/1up
میں ایسی تبدیلی پیدا ہو گئی کہ وہ وحشیانہ حالت سے انسان بنے اور پھر انسان سے مہذب انسان ۔ اور مہذب انسان سے باخدا انسان ۔ اور آخر خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسے محو ہوگئے کہ انہوں نے ایک بے حس عضو کی طرح ہر ایک دکھ کو برداشت کیا۔ وہ انواع اقسام کی تکالیف سے عذاب دیئے گئے اور سخت بے دردی سے تازیانوں سے مارے گئے اور جلتی ہوئی ریت میں لٹائے گئے اور قید کئے گئے اور بھوکے اور پیاسے رکھ کر ہلاکت تک پہنچائے گئے ۔ مگرؔ انہوں نے ہر یک مصیبت کے وقت آگے قدم رکھا ۔ اور بہتیرے ان میں ایسے تھے کہ ان کے سامنے ان کے بچے قتل کئے گئے اور بہتیرے ایسے تھے کہ بچوں کے سامنے وہ سُولی دیئے گئے۔ اور جس صدق سے انہوں نے خدا کی راہ میں جانیں دیں اُس کا تصور کرکے رونا آتا ہے ۔ اگر ان کے دلوں پر یہ خدا کا تصرف اور اس کے نبی کی توجہ کا اثر نہ تھا تو پھر وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو اسلام کی طرف کھینچ لیا۔ اور ایک فوق العادت تبدیلی پیدا کر کے ان کو ایسے شخص کے آستانہ پر گرنے کی رغبت دی کہ جو بیکس اور مسکین اور بے زری کی حالت میں مکہ کی گلیوں میں اکیلا اور تنہا پھرتا تھا۔ آخر کوئی روحانی طاقت تھی جو ان کو سفلی مقام سے اٹھا کر اوپر کو لے گئی۔ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ اکثر ان کے ان کی کفر کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن اور آنجناب کے خون کے پیاسے تھے ۔ پس میں تو اس سے بڑھ کر کوئی معجزہ نہیں سمجھتا کہ کیونکر ایک غریب مفلس تنہا بیکس نے ان کے دلوں کو ہریک کینہ سے پاک کرکے اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہاں تک کہ وہ فخریہ لباس پھینک کر اور ٹاٹ پہن کر خدمت میں حاضر ہوگئے ۔
بعض ناسمجھ جو اسلام پرجہاد کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ؔ سب لوگ جبراََ تلوار سے مسلمان کئے گئے تھے ۔ افسوس ہزار افسوس کہ وہ اپنی بے انصافی
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 465
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 465
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/465/mode/1up
اور حق پوشی میں حد سے گذر گئے ہیں ۔ ہائے افسوس ان کو کیا ہوگیا کہ وہ عمداً صحیح واقعات سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے ملک میں ایک بادشاہ کی حیثیت سے ظہور فرما نہیں ہوئے تھے تا یہ گمان کیا جاتا کہ چونکہ وہ بادشاہی جبروت اور شوکت اپنے ساتھ رکھتے تھے اس لئے لوگ جان بچانے کے لئے ان کے جھنڈے کے نیچے آگئے تھے ۔
پس یہ سوال تو یہ ہے کہ جبکہ آپ کے لئے اپنی غریبی اور مسکینی اور تنہائی کی حالت میں خدا کی توحید اور اپنی نبوت کے بارے میں منادی شروع کی تھی تو اس وقت کس تلوار کے خوف سے لوگ آپ پر ایمان لے آئے تھے۔ اور اگر ایمان نہیں لائے تھے تو پھر جبر کرنے کے لئے کس بادشاہ سے کوئی لشکر مانگا گیا تھا اور مدد طلب کی گئی تھی ۔ اے حق کے طالبو! ! تم یقیناًسمجھو کہ یہ سب باتیں ان لوگوں کی افترا ہیں جو اسلام کے سخت دشمن ہیں ۔ تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا
باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا۔ اور ماں صرف چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مرگئی تھی تب وہ بچہ جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ تھا بغیر کسی کے سہارے کے خدا کی پناہ میں پرورش پاتا رہا۔ اور اس مصیبت اور یتیمی کے ایام میں بعض لوگوں کی بکرؔ یاں بھی چرائیں اور بجز خداکے کوئی متکفّل نہ تھا۔ اور پچیس برس تک پہنچ کر بھی کسی چچا نے بھی آپ کو اپنی لڑکی نہ دی ۔ کیونکہ جیسا کہ بظاہر نظر آتا تھا آپ ا س لائق نہ تھے کہ خانہ داری کے اخراجات کے متحمل ہوسکیں۔ اور نیز محض اُمّی تھے اور کوئی حرفہ اور پیشہ نہیں جانتے تھے ۔ پھر جب آپ چالیس برس کے سن تک پہنچے تویک دفعہ آپ کا دل خداکی طر ف کھینچا گیا۔ ایک غار مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے ۔ جس کا نام حرا ہے ۔ آپ اکیلے وہاں جاتے اور غار کے اندر چھپ جاتے اور اپنے خدا کو یاد کرتے ۔ ایک دن اُسی غار میںآپ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 466
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 466
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/466/mode/1up
پوشیدہ طور پر عبادت کر رہے تھے تب خدا تعالیٰ آپ پر ظاہر ہوا اور آپ کو حکم ہوا کہ دنیا نے خدا کی راہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اور زمین گنہ سے آلودہ ہو گئی ہے ۔ اس لئے میں تجھے اپنا رسول کرکے بھیجتا ہوں ۔ اب تُو اور لوگوں کو متنبہ کر کہ وہ عذاب سے پہلے خدا کی طرف رجوع کریں ۔ اس حکم کے سننے سے آپ ڈرے کہ میں ایک اُمّی یعنی ناخواندہ آدمی ہوں اور عرض کی کہ میں پڑھنانہیں جانتا ۔ تب خدا نے آپ کے سینہ میں تمام روحانی علوم بھردیئے اور آپ کے دل کو روشن کیا تھا ۔ آپ کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنے شروع ہوگئے ۔ اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوں سے دشمنی پر کمر باندھ لی ۔ یہاں تک کے آخر کار آپ کو قتل کرنا چاہا ۔ اور کئی مرداور کئی عورتیں بڑے عذاب کے ساتھ قتلکرؔ دیئے گئے۔ اور آخری حملہ یہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ مگر جس کو خدا بچاوے اس کو کون مارے ۔ خدا نے آپ کو اپنی وحی سے اطلاع دی کہ آپ اس شہر سے نکل جاؤ ۔ اور میں ہر قدم میں تمہارے ساتھ ہوں گا ۔ پس آپ شہر مکہ سے ابو بکرکو ساتھ
لے کر نکل آئے اور تین رات تک غار ثور میں چھپے رہے ۔ دشمنوں نے تعاقب کیا اور ایک سراغ رسان کو لے کر غار تک پہنچے اس شخص نے غار تک قدم کا نشان پہنچا دیا اور کہا کہ اس غار میں تلاش کرو اس کے آگے قدم نہیں ۔ اور اگر اس کے آگے گیا ہے تو پھر آسمان پر چڑھ گیا ہوگا مگر خدا کی قدرت کے عجائبات کی کون حد بست کرسکتا ہے ۔ خدا نے ایک ہی رات میں یہ قدرت نمائی کی کہ عنکبوت نے اپنی جالی سے غار کا تمام منہ بند کردیا اور ایک کبوتری نے غارکے منہ پر گھونسلا بنا کر انڈے دیدیئے اور جب سراغ رساں نے لوگوں کو غار کے اندر جانے کی ترغیب دی تو ایک بڈھا آدمی بولا کہ یہ سراغ ر ساں تو پاگل ہوگیا
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 467
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 467
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/467/mode/1up
ہے ۔ میں تو اس جالی کو غار کے منہ پر اس زمانہ سے دیکھ رہا ہوں جبکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ اس بات کو سن کر سب لوگ منتشر ہوگئے اور غارکا خیال چھوڑدیا ۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ طور پر مدینہ میں پہنچے اورؔ مدینہ کے اکثر لوگوں نے آپ کو قبول کرلیا۔ اس پر مکہ والوں کا غضب بھڑکا اور افسوس کیاکہ ہمارا شکار ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ اور پھر کیا تھادن رات انہیں منصوبوں میں لگے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں۔ اور کچھ تھوڑا گر وہ مکّہ والوں کاکہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تھا وہ بھی مکّہ سے ہجرت کرکے مختلف ممالک کی طرف چلے گئے۔ بعض نے حبشہ کے بادشاہ کی پناہ لے لی تھی۔ اور بعض مکّہ میں ہی رہے۔ کیوں کہ وہ سفر کرنے کے لئے زادِ راہ نہیں رکھتے تھے اوروہ بہت دُکھ دیئے گئے۔ قرآن شریف میں اُن کا ذکر ہے کہ کیوں کر وہ دِن رات فریاد کرتے تھے۔
اور جب کفار قریش کا حدسے زیادہ ظلم بڑھ گیا۔ اور انہوں نے غریب عورتوں اور یتیم بچوں کو قتل کرنا شروع کیا۔اوربعض عورتوں کو ایسی بیدردی سے مارا کہ اُن کی دونوں ٹانگیں دو رسوں سے باندھ کر دو اُونٹوں کے ساتھ وہ رسے خوب جکڑ دیئے اور پھر اُن اُونٹوں کو دو مختلف جہات میں دوڑایا اور اِس طرح پر وہ عورتیں دوٹکڑے ہوکر مرگئیں۔
جب بے رحم کافروں کا ظلم اِس حد تک پہنچ گیا۔ خدا نے جوآخر اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے۔ اپنے رسول پر اپنی وحی نازل کی کہ مظلوموں کی فریاد میرے تک پہنچ ؔ گئی۔ آج میں اجازت دیتا ہوں کہ تم بھی اُن کامقابلہ کرو اور یاد رکھو کہ جو لوگ بے گناہ لوگوں پر تلوار اُٹھاتے ہیں وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے جائیں گے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 468
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 468
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/468/mode/1up
مگر تم کوئی زیادتی مت کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
یہ ہے حقیقت اسلام کے جہاد کی جس کو نہایت ظلم سے بُرے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے۔ بیشک خد ا حلیم ہے۔ مگر جب کسی قوم کی شرارت حد سے گذر جاتی ہے۔ تو وہ ظالم کو بے سزا نہیں چھوڑتا۔ اور آپ اُن کے لئے تباہی کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ خدا توقرآن شریف میں فرماتا ہے۔3 ۱ یعنی دین اسلام میں جبر نہیں۔ تو پھر کس نے جبرکاحکم دیا۔ اور جبر کے کونسے سامان تھے۔ اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں اُن کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں۔ اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمن کو شکست دے دیں۔ اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے بھیڑوں بکریوں کی طرح سرکٹا دیں۔اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں کردیں۔ اور ؔ خدا کی توحید کے
پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اُٹھاکر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلادیں۔ اور پھر ہریک قسم کی صعوبت اُٹھاکر چین تک پہنچیں نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض درویشانہ طور پر اور اس ملک میں پہنچ کر دعوتِ اسلام کریں جس کانتیجہ یہ ہو کہ اُن کے بابرکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہوجائیں۔ اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کردیں۔ اور یورپ کی حدود تک لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی آواز پہنچا ویں۔ تم ایماناً کہو کہ کیا یہ کام اُن لوگوں کا ہے جو جبراً مسلمان کئے جاتے ہیں جن کادل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے؟
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 469
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 469
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/469/mode/1up
نہیں بلکہ یہ اُن لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نور ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے۔
پھر ہم اس طرف رجوع کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ واضح ہو کہ اسلام کا بڑا بھاری مقصد خدا کی توحید اور جلال زمین پر قائم کرنا اور شرک کا بکلّی استیصال کرنا۔ اور تمام متفرق فرقوں کو ایک کلمہ پر قائم کرکے اُن کو ایک قوم بنا دینا ہے۔ اور پہلے مذاہب جس قدر دنیا میں گذرے ہیں اور جس قدر نبی اور رسول آئے ہیں اُن کی نظرؔ صرف اپنی قوم اور اپنے ملک تک محدود تھی۔ اور اگر انہوں نے کچھ اخلاق بھی سکھلائے تھے۔ تو اس اخلاقی تعلیم سے اُن کا مقصد اس سے زیادہ نہ تھا کہ اپنی ہی قوم کو اُن کے اخلاق سے بہرہ یاب کریں۔ چنانچہ حضرت مسیح نے صاف صاف کہہ دیا کہ میری تعلیم صرف بنی اسرائیل تک محدود ہے۔ اور جب ایک عورت نے جو اسرائیلی خاندان میں
داخل نہ تھی بڑی عاجزی سے اُن سے ہدایت چاہی۔ تو اُنہوں نے اُس کو رد کیا۔ اور پھر وہ غریب عورت کتیا سے اپنے تئیں مشابہت دے کر دوبارہ ہدایت کی مستدعی ہوئی تو وہی جواب اُس کو ملا کہ میں صرف اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ آخر وہ چپ رہ گئی۔ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں نہیں کہا کہ میں صرف عرب کے لئے بھیجا گیا ہوں بلکہ قرآن شریف میں یہ ہے۔3 3 ۱ یعنی لوگوں سے کہہ دے کہ میں تمام دُنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ مگر یاد رہے کہ حضرت عیسیٰ کا اُس عورت کو صاف جواب دینا یہ ایسا امر نہیں ہے کہ اِس میں حضرت عیسیٰ کا کوئی گناہ تھا۔ بلکہ عام ہدایت کا ابھی وقت نہیں آیا تھا۔ اور حضرت عیسیٰ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم تھا کہ تم خاص بنی اسرائیل کے لئے بھیجے گئے ہو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 470
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 470
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/470/mode/1up
اوروں سے تمہیں کچھ غرض نہیں۔ پس جیسا کہ ابھی ؔ میں نے بیان کیا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی اخلاقی تعلیم بھی محض یہودیوں تک محدود تھی۔ بات یہ تھی کہ توریت میں یہ احکام تھے کہ دانت کے بدلہ دانت اور آنکھ کے بدلہ آنکھ اور ناک کے بدلہ ناک اور اس تعلیم سے صرف یہ غرض تھی کہ تا یہودیوں میں عدل کا مسئلہ قائم کیاجائے اور تعدّی اور زیادتی سے روکا جائے۔ چونکہ بباعث اس کے کہ وہ چار ۴۰۰سو برس تک غلامی میں رہ چکے تھے۔ ان میں ظلم اور سفلہ پن کی خصلتیں بہت پیدا ہوگئی تھیں۔ پس خدا کی حکمت نے یہ تقاضا کیا کہ جیسا کہ انتقام اور بدلہ لینے میں اُن کی فطرتوں میں ایک تشدد تھا اس کے دُور کرنے کے لئے ایک تشدد کے ساتھ اخلاقی تعلیم پیش کی جائے۔ سو وہ اخلاقی تعلیم انجیل ہے جو صرف یہودیوں کے لئے ہے نہ تمام دنیا کے لئے کیونکہ دوسری قوموں سے حضرت عیسیٰ کو کچھ بھی غرض نہ تھی۔
مگر واقعی بات یہ ہے کہ اس تعلیم میں جو حضرت عیسیٰ نے پیش کی صرف یہی نقص نہیں کہ وہ دنیا کی عام ہمدردی پر مبنی نہیں بلکہ ایک یہ بھی نقص ہے کہ جیسا کہ توریت تشدّد و انتقام کی تعلیم میں افراط کی طرف مائل ہے۔ ایسا انجیل عفو اور درگذر کی تعلیم میں تفریط کی طرف جھک گئی ہے۔ اور ان دونوں کتابوں نے انسانی درخت کی تمام شاخوں کا کچھ لحاظ نہیں کیا بلکہ اس درخت کی ایک شاخ کو تو توریت پیش کرتی ہے۔ اور دوسری شاخ انجیل کے ہاتھ میں ہے۔ اور دونوں تعلیمیں اعتدال سے گری ہوئی ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ ہر وقت اور ہر موقعہ پر انتقام لینا اور سزا دینا قرین مصلحت نہیں ایسا ہی ہر وقت اور ہر موقعہ پر عفو اور درگزر کرنا انسانی تربیت کے مصالح سے بالکل مخالف ہے۔ اسی وجہ سے قرآن شریف نے ان دونوں تعلیموں کو رد کرکے یہ فرمایا ہے ۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 471
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 471
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/471/mode/1up
3 ۱ یعنی بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے جوکی جائے۔ جیسا کہ توریت کی تعلیم ہے۔ مگر جو شخص عفو کرے جیسا کہ انجیل کی تعلیم ہے۔ تو اِس صورت میں وہ عفو مستحسن اور جائز ہوگی جبکہ کوئی نیک نتیجہ اس کا مرتب ہو۔ اور جس کو معاف کیا گیا کوئی اصلاح اس کی اس عفو سے متصور ہو۔ ورنہ قانون یہی ہے جو توریت میں مذکور ہے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 472
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 472
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/472/mode/1up
_
ذیلؔ میں وہ متفرق یاد داشتیں دیجاتی ہیں جو حضرت اقدس نے اس مضمون
کے متعلق لکھی تھیں اور مجھے اُن کے مسودات سے دستیاب ہوئیں*
*
آیات قرآن شریف جو اِس مضمون میں انشاء اللہ لکھی جائیں گی
۱ ۔صفحہ ۵۶
۲ اگر تم ظاہر کرو خیرات کو تو وہ اچھا ہے۔ اور اگر تم خیرات کو چھپاؤ تو وہ بہت ہی اچھا ہے۔ ایسی خیرات تمہاری بُرائیاں دور کرے گی۔صفحہ ۶۰
33۳ صفحہ ۶۱
33۴ تاکہ اُن کا بھلا ہو۔ صفحہ ۳۷ سورۃ البقرۃ الجزو نمبر۲چاہیئے کہ میرے حکموں کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لاویں۔ تاکہ اُن کا بھلا ہو۔
3۵ صفحہ ۴۱ الجزو سورۃ البقرۃ۔ تم محبت سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ خدا کو یاد کرو۔
نوٹ:۔ یہ حوالجات صفحات غالباً اس قرآن مجید کے ہیں جو حضور علیہ السلام کے پاس بوقت تحریر پیغام صلح تھا۔ (کمال الدین)
* یہ یاداشتیں براہین احمدیہ حصہ پنجم کے آخر میں بھی من و عن درج ہیں۔ ان کے بارہ میں جلد ہٰذا کے پیغام صلح کے تعارف کے تحت صفحہVIپر ملاحظہ کیا جائے۔ (ناشر)
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 473
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 473
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/473/mode/1up
جیساؔ کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِىْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌ ۢ بِالْعِبَادِ ۱ صفحہ ۴۲ الجزو نمبر ۲ البقرہ۔ بعض ایسے ہیں کہ اپنے نفسوں کو خدا کی راہ میں بیچ دیتے ہیں۔ تا کسی طرح وہ راضی ہو۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِىْ السِّلْمِ کَآفَّةً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ اِنَّهٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ
صفحہ ۴۲۔ اے ایمان والو خدا کی راہ میں اپنی گرد ن ڈال دو اور شیطانی راہوں کو اختیارمت کرو کہ شیطان تمہارادشمن ہے۔ اس جگہ شیطان سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں۔
وَلَا تَجْعَلُوْا اللّٰهَ عُرْضَةً ۳صفحہ ۴۶
ٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى صفحہ ۵۸۔ كَالَّذِىْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِؕ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ۴ ۔صفحہ۵۸
قرآن شریف میں یہ خاص حکم ہے۔ کہ اس کی اخلاقی تعلیم تمام دُنیا کیلئے ہے مگر انجیل کی اخلاقی تعلیم صرف یہود کے لئے ہے۔
اِسؔ بیان میں کہ قرآن شریف دُوسری اُمتوں کے نیکوں کی بھی تعریف کرتا ہ
لَـيْسُوْا سَوَآءًؕ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآٮِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّيْلِ وَ هُمْ يَسْجُدُوْنَ ۔ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسٰرِعُوْنَ فِىْ الْخَيْرٰتِ ؕ وَاُولٰٓٮِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۵ ۔صفحہ۸۵ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوٰهِهِمْ ۖۚ وَمَا تُخْفِىْ صُدُوْرُهُمْ
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوٰهِهِمْ ۖۚ وَمَا تُخْفِىْ صُدُوْرُهُمْ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 474
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 474
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/474/mode/1up
اَكْبَرُؕ قَدْ بَيَّنَّا لَـكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۔ هٰۤاَنْتُمْ اُولَاۤءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّهٖۚ وَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِؕ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۱ صفحہ ۸۷
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْؕ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّىْ مَنْ يَّشَآءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلاً ۲ صفحہ ۱۱۴
اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوْا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهْلِهَاۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعَۢا بَصِيْرًا۳ صفحہ ۱۱۵
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہودی اور مسلمان میں اس کے متعلق ہے۔
مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَّكُنْ لَّهٗ نَصِيْبٌ مِّنْهَاۚ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَاؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ مُّقِيْتًا۴۔سورۃ النساء الجز نمبر۵۔ اور اللہ ہرچیز پر نگہبان ہے۔
وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَـنَّمُ خَالِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيْمًا ۵۔ سورۃ النساء صفحہ ۱۲۳ الجز نمبر۵
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًاۚ ۶(۱۲۳ سورۃ النساء)
وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۷ صفحہ ۱۳۰۔ الجزو نمبر ۵ سورۃ النساء رکوع نمبر ۱ؕ
وَالصُّلْحُ خَيْرٌؕ ۸ ۔ صفحہ ۱۳۰۔رکوع نمبر ۱۵ سورۃ النساء
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰٓى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَؕ ۹ ۔ الجزو نمبر ۵ سورۃ النساء صفحہ ۱۳۶
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 475
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 475
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/475/mode/1up
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِىْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِىْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓٮِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاًۢ بَعِيْدًا ۱ صفحہ ۲ ۱۳
قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا۔۔۔وَمَآ اُوْتِىَ مُوْسَىٰ وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِىَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ۲۔ صفحہ۲۷سورۃ البقرۃ
3 3۳ صفحہ ۲۷ سورۃ البقرۃ۔
اگر وہ ایسا (ایمان*)لائیں جیسا کہ تم ایمان لائے۔ تو وہ ہدایت پاچکے اور اگر ایسا ایمان نہ لاویں تو پھر وہ ایسی قوم ہے کہ جو مخالفت چھوڑنا نہیں چاہتی اور صلح کی خواہاں نہیں۔
33۴ ۔ صفحہ ۱۳۷ سورۃ النساء الجز نمبر۶
33 3۔3 3۵ ۔صفحہ ۱۳۵ سورۃ النساء۔
333۶۔ صفحہ ۱۳۳۔
33 ۷۔ صفحہ ۱۳۵
اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ اَلْقٰٮهَاۤ اِلٰى مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 476
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 476
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/476/mode/1up
انتَهُوْا خَيْرًا لَّـكُمْ ۱ ۔ صفحہ ۱۳۹ سورۃ النساء الجزو نمبر ۶
33۲۔ صفحہ ۱۴۱
333۳ ۔ صفحہ ۱۴۳۔ سورۃ المائدۃ الجز نمبر۶
3۴ ۔ 3 33۵ ۔ (صفحہ ۱۶۱ ۔المائدۃ)
3۶ ۔
3۷ صفحہ ۱۹۹۔الاعراف الجزو نمبر۸
3۸ ۔۔۔۔33۹ (صفحہ ۲۰۸)
3333۔3 3۔33۱۰ ۔ صفحہ ۲۰۹ سورۃ الاعراف
33۱۱۔ سورۃ الاعراف صفحہ ۲۱۵
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 477
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 477
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/477/mode/1up
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی رسول نہیں بھیجا۔ مگر ہم نے اُن کو انکار کی حالت میں قحط اور وبا کے ساتھ پکڑا۔ تا اس طرح پر وہ عاجزی کریں۔
33۱۔صفحہ ۲۱۵ سورۃ الاعراف الجز نمبر ۹
33۲۔صفحہ۲۱۵۔ الاعراف
333۳ ۔ صفحہ ۲۱۵
3333۴ ۔ صفحہ ۲۲۵ ۔الاعراف الجزو نمبر ۹
یعنی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں۔ اور اُن باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے۔ اور پاک چیزوں کو حلال کرتاہے۔ او رناپاک کو حرام ٹھہراتا ہے۔ اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں۔ اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہوسکتی تھیں۔ پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے۔ اور اس کی مدد کریں گے۔ اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اُتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 478
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 478
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/478/mode/1up
3 ۱ صفحہ ۲۲۵۔ الاعراف الجزو نمبر ۹
333۲ ۔ صفحہ ۲۲۸۔ اور جو لوگ محکم پکڑتے ہیں کتاب کو اور نماز کو قائم کرتے ہیں اُن کے ہم اجر ضائع نہیں کرتے۔
3۳ صفحہ ۲۲۹۔ رُوحوں کے قویٰ جن میں خدا تعالیٰ کا حق پیدا ہوا ہے بزبان حال گواہی دے رہے ہیں جو وہ خدا کے ہاتھ سے نکلے ہیں۔
پس اگر یہ سوال پیش ہو کہ ہم کس طرح قرآن شریف پر ایمان لاویں کیونکہ دونوں تعلیموں میں تناقض درمیان ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی تناقض نہیں وید کی شرتیوں کی ہزارہا طورپر تفسیریں کی گئی ہیں۔ اور منجملہ ان کے ایک تفسیر وہ بھی ہے جو قرآن کے مطابق ہے۔
3
جوشخص خدا سے نہیں ڈرتا۔ وہ ایک حق الامر کے بارے ایسا مقابلہ سے پیش آتا ہے کہ گویا اُس کو موت کی طرف کھینچنا چاہتے ہیں۔ اور وہ اپنی جان بچا رہا ہے۔
3۴ صفحہ۲۳۹۔سورۃ الانفال الجزو نمبر ۹۔3۵ ۔(ترجمہ) اے ایمان والو ! اگر تم تقویٰ اختیار کرو۔ تو تم میں اور تمہارے غیر میں خداایک فرق رکھ دے گا اور تمہیں پاک کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور تمہارا خدا صاحب فضل بزرگ ہے۔
یادداشت۔ دین مذہب صرف زبانی قصہ نہیں بلکہ جس طرح سونا اپنی علاؔ متوں سے شناخت کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سچی ہدایت کا پابند اپنی روشنی سے ظاہر ہوجاتا ہے۔
خدا ہلاک کرتا ہے اس شخص کو جو دلیل کے ساتھ ہلاک ہوچکا۔ اور زندہ رکھتا ہے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 479
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 479
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/479/mode/1up
اُس شخص کو جو دلیل کے ساتھ زندہ ہے۔
33۱ صفحہ ۲۴۴۔ سورۃ الانفال نمبر۸۔ اور اگر مخالف لوگ صلح کے واسطے جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ اور خدا پر توکل کرو۔
33۲ ۔ صفحہ ۲۴۴ سورۃ الانفال۔
اور اگر صلح کے وقت دل میں دغا پر ہیں۔ تو اس دغا کے تدارک کے لئے خدا تجھے کافی ہے۔
3
33۳ ۔سورۃ التوبہ الجزو نمبر ۱۰۔
3 33333۴ ۔ صفحہ ۲۵۲۔ سورۃ التوبہ الجزو نمبر۹
3۵ ۔ صفحہ ۲۶۸۔ التوبہ نمبر ۹
33
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 480
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 480
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/480/mode/1up
3۱ ۔ صفحہ ۲۷۱۔ التوبہ۔ الجزو نمبر ۱۱
(ترجمہ) وہ لوگ خوش وقت ہیں۔جو سب کچھ چھوڑ کر خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور خدا کی پرستش میں مشغول ہوتے ہیں اور خدا کی تعریف میں لگے رہتے ہیں۔ اور خدا کی راہ کی منادی کے لئے دُنیا میں پھرتے ہیں۔ اورخدا کے آگے جھکتے رہتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں وہی مومن ہیں جن کونجات کی خوشخبری دی گئی ہے۔ صفحہ ۲۷۸
خدا نے اپنے قانون قدرت میں مصائب کو پانچ قسم پر منقسم کیا ہے۔ یعنی آثار مصیبت کے جو خوف دلاتے ہیں۔ اور پھر مصیبت کے اندر قدم رکھنا۔ اور پھر ایسی حالت جب *۔۔۔۔۔۔ پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر زمانہ تاریک مصیبت کا اور پھر صبح رحمت الٰہی کی۔ یہ پانچ وقت ہیں جن کے نمونہ پانچ نمازیں ہیں۔
3۔33۲
3۳
*
ذیل میں چند اعتراضات اورچند حقائق درج کئے جاتے ہیں جو حضور علیہ السلام کی یاد داشتوں میں جو پیغام صلح کے متعلق آپ نے لکھی ہوئی تھیں مجھے ملے۔ ان اعتراضات کو رد کرنے کااور اُن حقائق پر بموجب تعلیم قرآن روشنی ڈالنے کا آپ کا ارادہ تھا۔ ایسا ہی بعض امور بدھ کی ایک کتاب سے لئے معلوم ہوتے ہیں۔ جو اُن دِنوں آپ کے زیر مطالعہ تھی جس کے متعلق آپ کچھ لکھنا چاہتے تھے۔ (کمال الدین)
اعتراضات (۱) جتنی الہامی کتابیں ہیں اُن میں کونسی ایسی نئی بات ہے جو پہلے معلوم نہ تھی۔
* نوٹ۔ پڑھا نہیں گیا۔( کمال الدین )۔ البتہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۴۲۲ پر ’’ نومیدی ۔۔۔ پیدا ہوتی ہے ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ (ناشر)
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 481
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 481
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/481/mode/1up
(۲) کس ایسی سائنس کے عقدہ کو نبیوں نے حل کیا جو پہلے لاینحل تھا۔
(۳) نبیوں نے رُوح کی کیفیت و ماہیت کچھ نہیں بتلائی۔ اورنہ آئندہ زندگی کا کچھ حال بتلایا۔ نہ خدا کا ہی مفصل حال بیان کرسکے۔ لیکن انبیاء نے بیان کیا ہے کہ نیند کے اور اسباب تھے۔ فن طبعی میں نیند کو اسباب طبعیہ میں رکھا ہے۔
(۴) سابقہ مغالطوں کو رفع نہیں کیا اور نہ پیچیدہ مسائل کو سلجھایا۔ بلکہ اور بھی اُلجھن میں ڈال دیا۔
(۵) بُدھ کی اخلاقی تعلیم سب سے اعلیٰ ہے۔
(۶) جس چیز سے انسان پیار کرتا ہے اس سے اگر جدا کیا جائے تو یہی اس کے لئے ایک عذاب ہو جاتا ہے۔
(۷) اور جس چیز سے اگر پیار کرے۔ اگر وہ میسر آجائے تو یہی اُس کی راحت کا موجب ہو جاتا ہےؔ ۔ 3۱
(۸) خواہش کا نابود کرنا ذریعہ نجات ہے۔
(۹) دنیا میں کبھی علم صحیح سے نجات ملتی ہے اور کبھی عمل صحیح سے نجات ملتی ہے اور کبھی قول صحیح سے نجات ملتی ہے اور کبھی فعل صحیح سے نجات ملتی ہے۔ اور کبھی بنی نوع سے معاملہ پاک موجب نجات ہو جاتا ہے اور کبھی خدا سے معاملہ نیک درد و دکھ چھڑاتا ہے اور کبھی ایک درد دوسری دردوں کے لئے کفارہ ہو جاتی ہے۔
(۱۰) سچ کہو جھوٹ نہ بولو۔ بیہودہ باتوں سے پرہیز کرو۔ اور اپنے فعل یا اپنے قول سے کسی کو نقصان مت پہنچاؤ۔ اپنی زندگی کو پاک رکھو۔ غیبت نہ کرو۔ اور کسی پر بہتان مت لگاؤ۔ نفسانی شہوات اپنے پر غالب نہ ہونے دو۔ کینہ اور حسد سے پرہیز کرو۔ بغض سے اپنا دل صاف رکھو۔ اپنے دشمن سے بھی وہ معاملہ نہ کرو جو تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے۔ ایسی نصیحتیں دوسروں کو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 482
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 482
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/482/mode/1up
مت کرو جن کے تم خود پابند نہیں۔ معرفت کی ترقی میں لگے رہو۔ جہل سے دِل کو پاک کرو۔ جلدی سے کسی پر اعتراض مت کرو۔
نفرت کرنے سے نفرت رفع نہیں ہوتی بلکہ اور بھی بڑھتی ہے۔ محبت نفرت کو ٹھنڈا کرکے رفع کر دیتی ہے۔
333۱ ۔ یعنی دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے۔ گوشت اورخون سچی قربانی نہیں۔جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قرباؔ نی کرتے ہیں۔ خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔
مگر خدا نے یہ قربانیاں بھی بند نہیں کیں تا معلوم ہو کہ ان کی قربانیوں کا بھی انسان سے تعلق ہے۔
خدا نے بہشت کی خوبیاں اِس پیرایہ میں بیان کی ہیں جو عرب کے لوگوں کو چیزیں دل پسند تھیں وہی بیان کردی ہیں۔ تا اس طرح اُن کے دل اس طرف مائل ہو جائیں۔ اور دراصل وہ چیزیں اور ہیں یہی چیزیں نہیں۔ مگر ضرور تھا کہ ایسا بیان کیا جاتا۔ تاکہ دِل مائل کئے جائیں۔ 3۲ ۔
وہ جو ا پنی نفسانی خواہشات کے پورا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ وہ سراسر اپنی بیخ کنی کرتا ہے لیکن وہ جو سچے راستہ پر چلتا ہے اُس کا نہ صرف بدن بلکہ رُوح بھی نجات کو پہنچے گی۔
وہ جو ا پنی نفسانی خواہشات کے پورا کرنے میں لگا رہتا ہے وہ سراسر اپنی بیخ کنی کرتا ہے اور نہ صرف جسم کو ہلاکت میں ڈالتا ہے بلکہ رُوح کو بھی ہلاک کرتا ہے۔ مگر وہ جو راہ راست پر چلتا ہے اور نفسانی جذبات کا پیرو نہیں ہوتا۔ وہ نہ صرف اپنے جسم کو ہلاکت سے بچاتا ہے بلکہ اپنی رُوح کو بھی نجات تک پہنچا دیتا ہے۔ 3 3۳ ۔
ایک گاؤں میں سو گھر تھے۔ اور صرف ایک گھر میں چراغ جلتا تھا۔ تب جب
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 483
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 483
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/483/mode/1up
لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ اپنے اپنے چراغ لے کر آئے۔ اور سب نے اُس چراغ سے اپنے چراغ روشن کئے۔ اسی طرح ایک روشنی سے کثرت ہوسکتی ہے۔ اسی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ کرکے فرماتا ہے۔ 3 3 ۱ ۔
انساؔ ن تو اپنی جان کا بھی مالک نہیں چہ جائیکہ وہ دولت کا مالک ہو۔ ایک چمچہ شربت کا مزہ نہیں پاسکتا۔ اگرچہ کئی بار اس میں پڑتا ہے۔ شیرینی ہاتھوں کے ذریعہ سے منہ تک پہنچتی ہے۔ لیکن ہاتھ شیرینی کا مزہ نہیں پاسکتے اِسی طرح جس کو خدا نے حواس نہیں دیئے وہ ذریعہ بن کر بھی کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتا۔3 3 ۲ 3۳ ۔
ایک بڑی لذّت چھوٹی لذّت سے غنی کر دیتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3۴۔ 3۵ ۔
(۱) ایمان بیج ہے۔ (۲) نیک کام مینہ ہے (۳) مجاہدات ہل ہیں جو جسمانی اور ظاہری طور پر کئے جاتے ہیں۔ نفس مرتاض بیل ہے جو نفسِ لوّامہ ہے۔ شریعت اس کے چلانے کے لئے ڈنڈا ہے اور وہ اناج جو اس سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ دائمی زندگی ہے۔
ذات سے خارج وہ ہوتا ہے۔ جو نیک صفات سے خالی ہو۔ کیونکہ انسان کی نیک صفات ہی اُس کی ذات ہے۔ اپنے دل کے جذبات کو سمجھنے والے بہت کم ہوتے ہیں وہ جن چیزوں میں اپنی خوشحالی دیکھتے ہیں۔ درحقیقت وہ خوشحالی کا موجب نہیں ہوتیں۔
جو شخص بدی کے مقابل پر بدی نہیں کرتا اور معاف کرتا ہے وہ بلاشبہ تعریف کے لائق ہے۔ مگر اس سے زیادہ وہ شخص تعریف کے لائق ہے جو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 484
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 484
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/484/mode/1up
عفو یا انتقام کا مقید نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوکر مناسب وقت کام کرتا ہے۔ کیونکہ خدا بھی ہر ایک کے مناسب حال کام کرتا ہے۔ جو سزا کے لائق ہے اُس کو سزا دیتاہے جو معافی کے لائق ہے اس کو معافی دیتاہے۔ 333 ۱ ۔
دنیا میں دو فرقے بہت ہیں۔ ایک تو وہ جو عدل کو پسند کرتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو احسا ن کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔ اور تیسرا فرقہ وہ ہے جو سچی ہمدردی اِس قدر اُن پر غالب آجاتی ہے کہ وہ عدل اور احسان کا پابند نہیں رہتا۔ بلکہ سچی ہمدردی کی رہنمائی سے مناسب وقت عمل کرتا ہے۔ جیسا کہ ماں اپنے بچے کے ساتھ سلوک کرتی ہے۔ کہ شیریں اور لذیذ غذائیں بھی اُس کو اور پھر مناسب وقت پر تلخ ادویہ بھی دیتی ہے۔ اوردونوں حالتوں میں اُس کی۔۔۔۔۔۔*
میرے بیان میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہوگا جوکہ گورنمنٹ انگریزی کے برخلاف ہو اور ہم اس گورنمنٹ کے شکر گذار ہوں۔ کیونکہ ہم نے اس سے امن اور آرام پایا ہے۔ میں اپنے دعوےٰ کی نسبت اِس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کے انتخاب سے بھیجا گیا ہوں تا میں مغالطوں کو رفع کروں اور پیچیدہ مسائل کو صاف کردوں اور اسلام کی روشنی دُوسری قوموں کو دکھلاؤں اور یاد رہے کہ جیسا کہ ہمارے مخالف ایک مکروہ صورت اسلام کی دکھلا رہے ہیں۔ یہ صورت اسلام کی نہیں ہے بلکہ وہ ایسا چمکتا ہوں ہیرا ہے جس کا ہر ایک گوشہ چمک رہا ہے۔ ایک بڑے محل میں بہت سے چراغ ہوں اور کوئی چراغ کسی دریچہ
* یہاں بھی عبارت چھوٹی ہوئی ہے۔ (مصحح)
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 485
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 485
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/485/mode/1up
سے نظر آوے اور کوئی کسی کو نہ سے۔ یہی حال اسلام کا ہے کہ اس کی آسمانی روشنی صرف ایک ہی طرف سے نظر نہیں آتی بلکہ ہر ایک طرف سے اس کے ابدی چراغ نمایاں ہیں۔ اس کی تعلیم بجائے خود ایک چراغ ہے۔ اور اس کے ساتھ جو خدا کی نصرت کے نشان ہیں وہ ہر یک نشان چراغ ہے۔ او رجو شخص اس کی سچائی کے اظہار کے لئے خدا کی طرف سے آتا ہے وہ بھی ایک چراغ ہوتا ہے۔ میرا بڑا حصہ عمر کا مختلف قوموں کی کتابوں کے دیکھنے میں گذرا ہے مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے کسی دوسرے مذہب کی کسی تعلیم کو خواہ اُس کا عقائد کا حصہ اورؔ خواہ اخلاقی حصہ اور خواہ تدبیر منزلی اور سیاست مدنی کا حصہ اور خواہ اعمال صالحہ کی تقسیم کا حصہ ہو قرآن شریف کے بیان کے ہم پہلو نہیں پایا۔ اور یہ قول میرا اس لئے نہیں کہ میں ایک شخص مسلمان ہوں بلکہ سچائی مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں گواہی دوں۔ اور یہ میری گواہی بے وقت نہیں بلکہ ایسے وقت میں جبکہ
دُنیا میں مذاہب کی کشتی شروع ہے۔ مجھے خبردی گئی ہے کہ اس کشتی میں آخر اسلام کو فتح ہے۔ میں زمین کی باتیں نہیں کہتا کیونکہ میں زمین سے نہیں ہوں بلکہ میں وہی کہتا ہوں جو خدا نے میرے منہ میں ڈالا ہے۔ زمین کے لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ شاید انجام کار عیسائی مذہب دنیا میں پھیل جائے یا بدھ مذہب تمام دنیا پر حاوی ہو جائے۔ مگر وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ یاد رہے کہ زمین پر کوئی بات ظہور میں نہیں آتی جب تک وہ بات آسمان پر قرار نہ پائے۔ سو آسمان کا خدا مجھے بتلاتا ہے کہ آخر اسلام کا مذہب دلوں کو فتح کرے گا۔ اس مذہبی جنگ میں مجھے حکم ہے کہ میں حکم کے طالبوں کو ڈراؤں۔ اور میری مثال اُس شخص کی ہے کہ جو ایک خطرناک ڈاکوؤں کے گروہ کی خبر دیتا ہے۔ جو ایک گاؤں کی
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 486
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 486
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/486/mode/1up
غفلت کی حالت میں اس پر ڈاکہ مارنا چاہتے ہیں۔ پس جو شخص اُس کی سنتا ہے وہ اپنا مال اُن ڈاکوؤں کی دست برد سے بچا لیتا ہے۔ اور جو نہیں سنتا وہ غارت کیا جاتا (ہے)۔ ہمارے وقت میں دو قسم کے ڈاکو ہیں۔ کچھ تو باہر کی راہ سے آتے ہیں اور کچھ اندر کی راہ سے اوروہی مارا جاتا ہے جو اپنے مال کو محفوظ جگہ میں نہیں رکھتا۔ اس زمانہ میں ایمانی مال کے بچانے کے لئے محفوظ جگہ یہ ہے کہ اسلاؔ م کی خوبیوں کا علم ہو۔ اِسلام کی قوتِ رُوحانی کا علم ہو۔ اسلام کے زندہ معجزات کا علم ہو اور اُس شخص کا علم ہو جو اِسلامی بھیڑوں کے لئے بطور گلہ بان مقرر کیا جائے۔ کیونکہ پرانا بھیڑیا اب تک زندہ ہے وہ مرا نہیں ہے۔ وہ جس بھیڑ کو اُس کے چرانے والے سے دُور دیکھے گا وہ ضرور اُس کو لے جائے گا۔
اے بندگانِ خدا ! آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب امساک باران ہوتا ہے اور ایک مُدّت تک مینہ نہیں برستا تو اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئیں بھی خشک ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ پس جس طرح جسمانی طور پر آسمانی پانی بھی زمین کے ہاتھوں میں جوش پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح رُوحانی طور پر جو آسمانی پانی ہے یعنی خدا کی وحی۔ وہی سفلی عقلوں کو تازگی بخشتا ہے۔ سو یہ زمانہ بھی اس رُوحانی پانی کا محتاج تھا۔
میں اپنے دعویٰ کی نسبت اِس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں عین ضرورت کے وقت خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ جبکہ اس زمانہ میں بہتوں نے یہود کا رنگ پکڑا۔ اور نہ صرف تقویٰ طہارت کو چھوڑا بلکہ ان یہود کی طرح جو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 487
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 487
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/487/mode/1up
حضرت عیسیٰ کے وقت میں تھے سچائی کے دشمن ہوگئے تب بالمقابل خدا نے میرا نام مسیح رکھ دیا۔ نہ صرف یہ کہ میں اس زمانہ کے لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود زمانہ نے مجھے بلایا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 488
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 488
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/488/mode/1up
(نقل اشتہار جس میں پیغام صلح کامضمون پڑھے جانے کا اعلان کیا گیا)
ایک عظیم الشان جلسہ
بروز اتوار بتاریخ ۲۱ ماہ جون ۱۹۰۸ ء
ٹھیک بوقت ۷ بجے صبح جس میں پنجاب یونیورسٹی ہال متصل عجائب گھر میں وہ
پیغامِ صُلح
پڑھا جاوے گا
جو
اعلیٰ حضرت والا مناقب جناب مرزا غلام احمد صاحب قدّساللّٰہ سرّہنے اپنی زندگی کے آخری دو تین دنوں میں اس ملک سے نفاق اور پھوٹ کو دُور کرنے کے لئے لکھا اِس مبارک پیغام کے مخاطب علی الخصوص ہند و معززین ملک ہیں۔
اہل ہند میں امن اور صلح کے خواہاں ضرور تشریف لاویں۔
الداعیان
خان بہادر محمد شفیع بیرسٹراٹ لا۔ چوہدری نبی بخش بی اے وکیل چیف کورٹ پنجاب۔ میاں فضل حسین بی اے۔ کیمبرج یونیورسٹی بیرسٹراٹ لاو شیخ گلاب دین وکیل چیفکورٹ پنجاب۔ میاں محمد شاہنواز بی اے کیمبرج یونیورسٹی بیرسٹراٹ لا (مولوی) احمد دین بی اے۔ وکیل شیخ فضل الٰہی بیرسٹراٹ لا۔ مرزا جلال الدین بیرسٹرایٹ لا۔ شیخ محمد عبد العزیز بی اے ایڈیٹر ابزرور لاہور۔ میاں عبد العزیز بیرسٹرایٹ لا۔
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمـٰنِ الرَّحِيمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
اے میرے قادر خدا اے میرے پیارے رہنما تو ہمیں وہ راہ دکھا جس سے تجھے پاتے ہیں اہل صدق و صفا۔ اور ہمیں اُن راہوں سے بچا جن کا مدّعا صرف شہوات ہیں یا کینہ یا بغض یا دنیا کی حرص و ہوا۔
امّا بعد اے سامعین ہم سب کیا مسلمان اور کیا ہندو باوجود صدہا اختلافات کے اُس خدا پر ایمان لانے میں شریک ہیں جو دنیا کا خالق او رمالک ہے اور ایسا ہی ہم سب انسان کے نام میں بھی شراکت رکھتے ہیں۔ یعنی ہم سب انسان کہلاتے ہیں۔ اور ایسا ہی بباعث ایک ہی ملک کے باشندہ ہونے کے ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ صفائے سینہ اور نیک نیتی کے ساتھ ایک دوسرے کے رفیق بن جائیں اور دین و دنیا کی مشکلات میں ایک دوسرے کی ہمدردی کریں۔ اور ایسی ہمدردی کریں کہ گویا ایکؔ دوسرے کے اعضاء بن جائیں۔
اے ہموطنو!! وہ دین دین نہیں ہے جس میں عام ہمدردی کی تعلیم نہ ہو۔ اور نہ وہ انسان انسان ہے جس میں ہمدردی کا مادہ نہ ہو۔ ہمارے خدا نے کسی قوم سے فرق نہیں کیا۔ مثلاً جو جو انسانی طاقتیں اور قوتیں آریہ ورت کی قدیم قوموں کو دی گئی ہیں۔ وہی تمام قوتیں عربوں اور فارسیوں اور شامیوں اور چینیوں اور جاپانیوں اور یورپ اور امریکہ کی قوموں کو بھی عطا کی گئی ہیں سب کے لئے خدا کی زمین فرش کا کام دیتی ہے اور سب کے لئے اُس کا سورج اور چاند اور کئی اور ستارے روشن چراغ کا کام دے رہے ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اور دوسری خدمات بھی بجا لاتے ہیں۔ اس کی پیدا کردہ عناصر یعنی ہَوَا اور پانی اور آگ او ر خاک اور ایسا ہی اُس کی دوسری تمام پیدا کردہ چیزوں اناج اور پھل اور دوا وغیرہ سے تمام قومیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ پس یہ اخلاق ربّانی ہمیں سبق دیتے ہیں کہ ہم بھی اپنے بنی نوع انسانوں سے مروّت اور سلوک کے ساتھ پیش آویں اور تنگ دل اور تنگ ظرف نہ بنیں۔
دوستو !! یقیناًسمجھو کہ اگر ہم دونوں قوموں میں سے کوئی قوم خدا کے اخلاق کی عزت نہیں کرے گی اور اس کے پاک خلقوں کے برخلاف اپنا چال چلن بنائے گی تو وہ قوم جلد ہلا ک ہو جائے گی۔ اور نہ صرف اپنے ؔ تئیں بلکہ اپنی ذُرّیت کو بھی تباہی میں ڈالے گی جب سے کہ دُنیا پیدا ہوئی ہے تمام ملکوں کے راستباز یہ گواہی دیتے آئے ہیں کہ خدا کے اخلاق کا پیرو ہونا انسانی بقاء کے لئے ایک آبِ حیات ہے۔ اور انسانوں کی جسمانی اور رُوحانی زندگی اسی امر سے وابستہ ہے کہ وہ خدا کے تمام مقدّس اخلاق کی پیروی کرے جو سلامتی کا چشمہ ہیں
خدا نے قرآن شریف کو پہلے اسی آیت سے شروع کیا ہے جو سورۃ فاتحہ میں ہے کہ3 ۱ یعنی تمام کامل اور پاک صفات خدا سے خاص ہیں جو تمام عالموں کا ربّ ہے۔ عالم کے لفظ میں تمام مختلف قومیں اور مختلف زمانے اور مختلف ملک داخل ہیں۔ اور اس آیت سے جو قرآن شریف شروع کیا گیا۔ یہ درحقیقت اُن قوموں کاردّ ہے جو خدا تعالیٰ کی عام ربوبیت اور فیض کو اپنی ہی قوم تک محدود رکھتے ہیں۔ اور دوسری قوموں کو ایسا خیال کرتے ہیں کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کے بندے ہی نہیں۔ اور گویا خدا نے اُن کو پیدا کرکے پھر ردّی کی طرح پھینک دیا ہے۔یا اُن کو بھول گیا ہے۔ اور یا (نعوذ باللہ) وہ اس کے پیدا کردہ ہی نہیں۔ جیسا کہ مثلاً یہودیوں اور عیسائیوں کا اب تک یہی خیال ہے کہ جس قدر خدا کے نبی اور رسول آئے ہیں۔ وہ صرف یہود کے خاندان سے آئے ہیں۔ اور ؔ خدا دوسری قوموں سے کچھ ایساناراض رہا ہے کہ اُن کو گمراہی اور غفلت میں
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دیکھ کر پھر بھی اُن کی کچھ پروا نہیں کی۔ جیسا کہ انجیل میں بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں صرف اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے آیا ہوں۔ اس جگہ ہم ایک فرض محال کے طور پر کہتے ہیں کہ خدائی کا دعویٰ کرکے پھر ایسا تنگ خیالی کاکلمہ بڑے تعجب کی بات ہے۔ کیا مسیح صرف اسرائیلیوں کاخدا تھا اور دوسری قوموں کاخدا نہ تھا جو ایسا کلمہ اُس کے منہ سے نکلا کہ مجھے دوسری قوموں کی اصلاح او ر ہدایت سے کچھ غرض نہیں۔
غرض یہودیوں اور عیسائیوں کا یہی مذہب ہے کہ تمام نبی اور رسول انہیں کے خاندان سے آتے رہے ہیں۔ اور انہیں کے خاندان میں خدا کی کتابیں اُترتی رہی ہیں۔ اور پھر بموجب عقیدہ عیسائیوں کے وہ سلسلہ الہام اور وحی کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ختم ہوگیا۔ اورخدا کے الہام پر مُہر لگ گئی۔
انہیں خیالات کے پابند آریہ صاحبان بھی پائے جاتے ہیں یعنی جیسے یہود اور عیسائی نبوت اور الہام کو اسرائیلی خاندان تک ہی محدود رکھتے ہیں اور دوسری تمام قوموں کو الہام پانے کے فخر سے جواب د ے رہے ہیں۔ یہی عقیدہ نوع انسان کی بدقسمتی سے آریہ صاحبان نےؔ بھی اختیار کر رکھا ہے یعنی وہ بھی یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا کی وحی اور الہام کا سلسلہ آریہ ورت کی چار دیواری سے کبھی باہر نہیں گیا۔ ہمیشہ اسی ملک سے چار رشی منتخب کئے جاتے ہیں اور ہمیشہ وید ہی بار بار نازل ہوتا ہے اور ہمیشہ ویدک سنسکرت ہی اس الہام کے لئے خاص کی گئی ہے۔
غرض یہ دونوں قومیں خدا کو ربّ العالمین نہیں سمجھتیں ورنہ کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ جس حالت میں خدا ربّ العالمین کہلاتا ہے نہ صرف ربّ اسرائیلیاں یا صرف ربّ آریاں تو وہ ایک خاص قوم سے کیوں ایسا دائمی تعلق پیدا کرتا ہے جس میں صریح طور پر طرف داری اور پکش پات پائی جاتی ہے۔ پس ان عقائد کے ردّ کے لئے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو اسی آیت سے شروع کیا کہ3 ۱ اور جابجا
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اُس نے قرآن شریف میں صاف صاف بتلا دیا ہے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ کسی خاص قوم یا خاص ملک میں خدا کے نبی آتے رہتے ہیں۔ بلکہ خدا نے کسی قوم اور کسی ملک کو فراموش نہیں کیا۔ اور قرآن شریف میں طرح طرح کی مثالوں میں بتلایا گیا ہے کہ جیسا کہ خدا ہر ایک ملک کے باشندوں کے لئے اُن کے مناسب حال اُن کی جسمانی تربیت کرتا آیا ہےؔ ۔ ایساہی اس نے ہر ایک ملک اور ہر ایک قوم کو رُوحانی تربیت سے بھی فیضیاب کیا ہے۔ جیسا کہ وہ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے۔3 ۱ یا کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نبی یا رسول نہیں بھیجا گیا۔
سو یہ بات بغیر کسی بحث کے قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ سچا اور کامل خدا جس پر ایمان لانا ہرایک بندہ کا فرض ہے وہ ربّ العالمین ہے اور اس کی ربوبیت کسی خاص قوم تک محدود نہیں۔ اور نہ کسی خاص زمانہ تک اور نہ کسی خاص ملک تک بلکہ وہ سب قوموں کا ربّ ہے اور تمام زمانوں کا ربّ ہے۔ اور تمام مکانوں کا رب ہے اور تمام ملکوں کا وہی ربّ ہے اور تمام فیضوں کاوہی سرچشمہ ہے۔ اور ہر ایک جسمانی اور رُوحانی طاقت اسی سے ہے اور اسی سے تمام موجودات پرورش پاتی ہیں۔ اور ہر ایک وجود کا وہی سہارا ہے۔
خدا کا فیض عام ہے جو تمام قوموں اور تمام ملکوں اور تمام زمانوں پر محیط ہو رہا ہے۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا کسی قوم کو شکایت کرنے کاموقعہ نہ ملے۔ اور یہ نہ کہیں کہ خدا نے فلاں فلاں قوم پر احسان کیا۔ مگر ہم پرنہ کیا۔یا فلاں قو م کو اس کی طرف سے کتاب ملی تا وہ اس سے ہدایت پاویں مگر ہم کو نہ ملی۔ یا فلاں زمانہ میں وہ اپنی وحی اور الہام اور ؔ معجزات کے ساتھ ظاہر ہوا مگر ہمارے زمانہ میں مخفی رہاپس اُس نے عام فیض دکھلاکر ان تمام اعتراضات کو دفع کردیا۔ اور اپنے ایسے وسیع اخلاق دکھلائے کہ کسی قوم کو اپنے جسمانی اور روحانی فیضوں سے محروم نہیں رکھا۔ اور نہ کسی زمانہ کو بے نصیب ٹھہرایا۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
پس جب کہ ہمارے خدا کے یہ اخلاق ہیں۔ تو ہمیں مناسب ہے کہ ہم بھی اُنہیں اخلاق کی پیروی کریں لہٰذا اے ہم وطن بھائیو! یہ مختصر رسالہ جس کانام ہے پیغام صلح بادب تمام آپ صاحبوں کی خدمت میں پیش کیا جاتاہے۔ اور بصدق دل دُعا کی جاتی ہے کہ وہ قادر خدا آپ صاحبوں کے دلوں میں خود الہام کرے۔ اور ہماری ہمدردی کاراز آپ کے دلوں پر کھول دے تا آپ اس دوستانہ تحفہ کو کسی خاص مطلب اور نفسانی غرض پر مبنی تصور نہ فرماویں۔ عزیزو !! آخرت کا معاملہ توعام لوگوں پر اکثر مخفی رہتا ہے اور اُنہیں پر عَالم عُقبیٰ کا راز کھلتا ہے جو مرنے سے پہلے مرتے ہیں مگر دنیا کی نیکی اور بدی کو ہر ایک دور اندیش عقل شناخت کرسکتی ہے۔
یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ اتفاق ایک ایسی چیز ہے کہ وہ بلائیں جو کسی طرح دُور نہیں ہوسکتیں اوروہ مشکلات جو کسی تدبیر سے حل نہیں ہوسکتیں وہ اتفاق سے حل ہو جاتی ہیں۔ پس ایک عقلمند سے بعیدؔ ہے کہ اتفاق کی برکتوں سے اپنے تئیں محروم رکھے۔ ہندو اور مسلمان اس ملک میں دو۲ ایسی قومیں ہیں کہ یہ ایک خیالِ محال ہے کہ کسی وقت مثلاًہندو جمع ہوکر مسلمانوں کو اس ملک سے باہر نکال دیں گے یا مسلمان اکٹھے ہوکر ہندوؤں کو جلاوطن کردیں گے بلکہ اب تو ہندو مسلمانوں کا باہم چولی دامن کا ساتھ ہو رہا ہے۔ اگر ایک پر کوئی تباہی آوے تو دوسر ا بھی اس میں شریک ہوجائے گا۔ اور اگر ایک قوم دوسری قوم کو محض اپنے نفسانی تکبر اور مشیخت سے حقیر کرنا چاہے گی تو وہ بھی داغِ حقارت سے نہیں بچے گی۔ اور اگر کوئی اُن میں سے اپنے پڑوسی کی ہمدردی میں قاصر رہے گا تو اس کانقصان وہ آپ بھی اُٹھائے گا جو شخص تم دونوں قوموں میں سے دوسری قوم کی تباہی کی فکرمیں ہے اُس کی اس شخص کی مثال ہے کہ جو ایک شاخ پر بیٹھ کر اُسی کو کاٹتا ہے۔ آپ لوگ بفضلہ تعالیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوگئے۔ اب کینوں کو چھوڑ کر محبت میں ترقی کرنا زیبا ہے اور بے مہری کو چھوڑ کر ہمدردی اختیار کرنا آپ کی عقلمندی کے مناسب
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 444
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/444/mode/1up
حال ہے۔ دنیا کی مشکلات بھی ایک ریگستان کا سفر ہے کہ جو عین گرمی اور تمازتِ آفتاب کے وقت کیا جاتا ہے پس اس دشوار گذار راہ کے لئے باہمی اتفاق کے اس سردپانی کی ضرورت ہے جو اس جلتی ہوئی آگ کو ٹھنڈی کرؔ دے اور نیز پیاس کے وقت مرنے سے پچاوے۔
ایسے نازک وقت میں یہ راقم آپ کو صلح کے لئے بلاتا ہے جب کہ دونوں کو صلح کی بہت ضرورت ہے۔ دنیا پر طرح طرح کے ابتلا نازل ہو رہے ہیں۔ زلزلے آرہے ہیں۔ قحط پڑ رہا ہے اور طاعون نے بھی ابھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ اور جو کچھ خدا نے مجھے خبردی ہے وہ بھی یہی ہے کہ اگر دنیا اپنی بدعملی سے باز نہیں آئے گی اور بُرے کاموں سے توبہ نہیں کرے گی تو دنیا پر سخت سخت بلائیں آئیں گی۔ اور ایک بلا ابھی بس نہیں کرے گی کہ دوسری بلا ظاہر ہو جائے گی۔ آخر انسان نہایت تنگ ہو جائیں گے کہ یہ کیاہونے والا ہے۔ اور بہتیری مصیبتوں کے بیچ میں آکر دیوانوں کی طرح ہو جائیں گے۔ سو اے ہموطن بھائیو! قبل اس کے کہ وہ دن آویں ہوشیار ہوجاؤ۔ اور چاہیئے کہ ہندومسلمان باہم صلح کرلیں اور جس قوم میں کوئی زیادتی ہے جو وہ صلح کی مانع ہو اس زیادتی کو وہ قوم چھوڑ دے۔ ورنہ باہم عداوت کا تمام گناہ اسی قوم کی گردن پر ہوگا۔
اگر کوئی کہے کہ یہ کیونکر وقوع میں آسکتا ہے کہ صلح ہو جائے۔ حالانکہ باہم مذہبی اختلاف صلح کے لئے ایک ایسا امر مانع ہے جو دن بدن دلوں میں پھوٹ ڈالتا جاتا ہے۔
میںؔ اس کے جواب میں یہ کہوں گا کہ درحقیقت مذہبی اختلاف صرف اُس اختلاف کا نام ہے جس کی دونوں طرف عقل اور انصاف اور اُمور مشہودہ پر بنا ہو۔ ورنہ انسان کو اسی بات کے لئے تو عقل دی گئی ہے کہ وہ ایسا پہلو اختیار کرے جوعقل اور انصاف سے بعید نہ ہو اور امور محسوسہ مشہودہ کے مخالف نہ ہو۔ اور چھوٹے چھوٹے اختلاف صلح کے مانع نہیں ہوسکتے۔ بلکہ وہی اختلاف صلح کامانع ہوگا جس میں کسی کے مقبول پیغمبر اور مقبول الہامی کتاب پر توہین اور تکذیب کے ساتھ حملہ کیا جائے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 445
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/445/mode/1up
ماسوا اس کے صلح پسندوں کے لئے یہ ایک خوشی کا مقام ہے کہ جس قدر اسلام میں تعلیم پائی جاتی ہے وہ تعلیم ویدک تعلیم کی کسی نہ کسی شاخ میں موجود ہے۔ مثلاً اگرچہ نوخیز مذہب آریہ سماج کا یہ اصول رکھتا ہے کہ ویدوں کے بعد الہام الٰہی پر مُہر لگ گئی ہے مگر جو ہندو مذہب میں وقتاً فوقتاً اوتار پیدا ہوتے رہے ہیں جن کے تابع کروڑہا لوگ اسی ملک میں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اُس مہر کو اپنے دعوئے الہام سے توڑ دیا ہے جیسا کہ ایک بزرگ اوتار جو اس ملک اور نیز بنگالہ میں بڑی بزرگی اور عظمت کے ساتھ مانے جاتے ہیں جن کا نام سری کرشن ہے۔ وہ اپنے ملہم ہونے کا دؔ عویٰ کرتے ہیں اور ان کے پیرو نہ صرف اُن کو ملہم بلکہ پرمیشر کرکے مانتے ہیں۔ مگر اس میں شک نہیں کہ سری کرشن اپنے وقت کا نبی اور اوتار تھااور خدا اس سے ہمکلام ہوتا تھا۔
ایسا ہی اس آخری زمانہ میں ہندو صاحبوں کی قوم میں سے بابا نانک صاحب ہیں جن کی بزرگی کی شہرت اس تمام ملک میں زبان زدعام ہے۔ اور جن کی پیروی کرنے والی اس ملک میں وہ قوم ہے جو سکھ کہلاتے ہیں جو بیس لاکھ سے کم نہیں ہیں۔ باوا صاحب اپنی جنم ساکھیوں اور گرنتھ میں کھلے کھلے طور پر الہام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک جگہ وہ اپنی ایک جنم ساکھی میں
لکھتے ہیں کہ مجھے خدا کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ دین اسلام سچا ہے۔ اِسی بنا پر انہوں نے حج بھی کیا۔ اور تمام اسلامی عقائد کی پابندی اختیار کی اور بلاشبہ یہ بات ثابت ہے کہ اُن سے کرامات اور نشان بھی صادر ہوئے ہیں اور اس بات میں کچھ شک نہیں ہوسکتا کہ باوا نانک ایک نیک اور برگزیدہ انسان تھا۔ اور ان لوگوں میں سے تھا جن کو خدائے عزّوجلّ اپنی محبت کا شربت پلاتا ہے۔ وہ ہندوؤں میں صرف اس بات کی گواہی دینے کے لئے پیدا ہوا تھا کہ اسلام خدا کی طرف سے ہے۔ جو شخص اس کے وہ تبرکات دیکھےؔ جو ڈیرہ نانک میں موجود ہیں جن میں بڑے زور سے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 446
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/446/mode/1up
اُس نے کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی گواہی دی ہے۔ اور پھر وہ تبرکات دیکھے جو بمقام گروہر سہائے ضلع فیروزپور میں موجود ہیں۔ جن میں ایک قرآن شریف بھی ہے تو کس کو اس بات میں شک ہوسکتا ہے کہ باوا نانک صاحب نے اپنے پاک دل اور پاک فطرت اور اپنے پاک مجاہدہ سے اس راز کو معلوم کرلیا تھا جو ظاہری پنڈتوں پر پوشیدہ رہا۔ اور اُنہوں نے الہام کا دعویٰ کرکے اور خدا کی طرف سے نشان اور کرامات دکھلاکر اس عقیدہ کا خوب کھنڈن اور رَدّ کردیا جو کہا جاتا ہے کہ وید کے بعد کوئی الہام نہیں اور نہ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔بلاشبہ باوا نانک صاحب کا وجود ہندوؤں کے لئے خدا کی طرف سے ایک رحمت تھی۔ اوریوں سمجھو کہ وہ ہندو مذہب کا آخری اوتار تھا جس نے اس نفرت کو دور کرنا چاہا تھا جو اسلام کی نسبت ہندوؤں کے دلوں میں تھی۔ لیکن اس ملک کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ ہندو مذہب نے باوا نانک صاحب کی تعلیم سے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا۔ بلکہ پنڈتوں نے اُن کو دُکھ دیا کہ کیوں وہ اسلام کی تعریف جابجا کرتا ہے۔وہ ہندو مذہب اور اسلام میں صلح کرانے آیا تھا۔ مگر افسوس کہ اس کی تعلیم پر کسی نے توجہ نہیں کی۔ اگر ؔ اُس کے وجود اور اُس کی پاک تعلیموں سے کچھ فائدہ اٹھایا جاتا تو آج ہندو اور مسلمان سب ایک ہوتے۔ ہائے افسوس ہمیں اس تصور سے رونا آتا ہے کہ ایسا نیک آدمی دنیا میں آیا اور گذر بھی گیا۔ مگر نادان لوگوں نے اُس کے نور سے کچھ روشنی حاصل نہیں کی۔
بہرحال وہ اس بات کو ثابت کرگیا کہ خدا کی وحی اور اس کا الہام کبھی منقطع نہیں ہوتا۔ اور خدا کے نشان اس کے برگزیدوں کے ذریعہ سے ہمیشہ ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ اور اِس بات کی گواہی دے گیا کہ اسلام کی دشمنی نور کی دُشمنی ہے۔
ایسا ہی میں بھی اس بات میں صاحب تجربہ ہوں کہ خدا کی وحی اور خدا کا الہام ہرگز اس زمانہ سے منقطع نہیں کیا گیابلکہ جیسا خدا پہلے بولتا تھااب بھی بولتا ہے۔ اور جیسا
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 447
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/447/mode/1up
کہ پہلے سنتا تھااب بھی سنتا ہے۔ یہ نہیں کہ اب وہ صفات قدیمہ اُس کی معطل ہوگئی ہیں۔ میں تخمیناً تیس۳۰ برس سے خدا کے مکالمہ اور مخاطبہ سے مشرف ہوں۔ اور میرے ہاتھ پر اُس نے اپنے صدہا نشان دکھائے ہیں جو ہزارہا گواہوں کے مشاہدہ میں آچکے ہیں۔ اور کتابوں اور اخباروں میں شائع ہوچکے ہیں۔ اور کوئی ایسی قوم نہیں جو کسی نہ کسی نشان کی گواہ نہ ہو۔
ابؔ باوجود اس قدر متواتر شہادتوں کے یہ تعلیم آریہ سماج کی جو خوانخواہ ویدوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے کیونکر قبول کرنے کے لائق ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ تمام سلسلہ خدا کے کلام اور الہام کا ویدوں پر ختم ہوچکا ہے اور پھر بعد اس کے صرف قصوں پر مدار ہے اور اسی اپنے عقیدہ کو ہاتھ میں لیکر وہ لوگ کہتے ہیں کہ ویدوں کے سوا جس قدر دنیا میں کلام الٰہی کے نام پر کتابیں موجود ہیں وہ سب نعوذ باللہ انسانوں کے افترا ہیں حالانکہ وہ کتابیں وید سے بہت زیادہ اپنی سچائی کا
ثبوت پیش کرتی ہیں۔ اور خدا کی نصرت اور مدد کاہاتھ اُن کے ساتھ ہے۔ اور خدا کے فوق العادت نشان اُن کی سچائی پر گواہی دیتے ہیں۔ پھرکیا وجہ کہ وید تو خدا کاکلام مگر وہ کتابیں خدا کا کلام نہیں ؟ اور چونکہ خدا کی ذات عمیق در عمیق اور نہاں در نہاں ہے۔ اس لئے عقل بھی اس بات کو چاہتی ہے کہ وہ اپنے وجود کے ثابت کرنے کے لئے صرف ایک کتاب پر کفایت نہ کرے بلکہ مختلف ملکوں میں سے نبی منتخب کرکے اپنا کلام اور الہام اُن کو عطا کرے تا انسان ضعیف البنیان جو جلد تر شبہات میں گرفتار ہوسکتا ہے دولتِ قبول سے محروم نہ رہے۔
اور اس بات کو عقل سلیم ہرگز قبول کرنے کے لئے طیار نہیں ہے کہ وہ خدا جو تمام دُنیا کا خدا ہے جو اپنے آفتاب سے مشرق اور مغرب کو ؔ روشن کرتا ہے۔ اور اپنے مینہ سے ہر ایک ملک کو ہرایک ضرورت کے وقت سیراب فرماتا ہے۔ وہ نعوذ باللہ رُوحانی تربیت میں ایسا تنگ دل اور بخیل ہے کہ ہمیشہ کے لئے ایک ہی ملک اور ایک ہی قوم
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 448
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/448/mode/1up
اورایک ہی زبان اُس کو پسند آگئی ہے اور میں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ کس قسم کی منطق اور کس نوع کا فلسفہ ہے کہ پرمیشر ہر ایک آدمی کی دُعا اور پرارتھنا کو اس کی زبان میں سمجھ تو سکتا ہے اور نفرت نہیں کرتا مگر اس بات سے سخت نفرت کرتا ہے کہ بجز ویدک سنسکرت کے کسی اور زبان میں دلوں پر الہام کرے۔ یہ فلاسفی یا وید وِدّیا اس سربستہ معمّا کی طرح ہے جو اب تک کوئی انسان اس کو حل نہیں کرسکا۔
میں وید کو اس بات سے مُنزّہ سمجھتا ہوں کہ اس نے کبھی اپنے کسی صفحہ پر ایسی تعلیم شائع کی ہو کہ جو نہ صرف خلاف عقل ہو بلکہ پرمیشر کی پاک ذات پر بخل اور پکش پات کا داغ لگاتی ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی الہامی کتاب پر ایک زمانہ دراز گذر جاتا ہے تو اُس کے پیرو کچھ تو بباعث نادانی کے اور کچھ بباعث اغراض نفسانی کے سہواً یا عمداً اس کتاب پر اپنی طرف سے حاشیے چڑھا دیتے ہیں۔ اور چونکہ حاشیہ چڑہانے والے متفرق خیالات کے لوگ ہوتے ہیں اس لئے ایک مذہب سے صدہا مذہب پیدا ہو جاتے ہیں۔
اورؔ یہ عجیب بات ہے کہ جس طرح آریہ صاحبان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہمیشہ آریہ خاندانوں اور آریہ ورت تک ہی الہام الٰہی کا سلسلہ محدود رہا ہے اور ہمیشہ ویدک سنسکرت ہی الہام الٰہی کے لئے خاص رہی ہے اور وہ پرمیشر کی زبان ہے۔ یہی یہود کا خیال اپنے خاندان اور اپنی کتابوں کی نسبت ہے۔ اُن کے نزدیک بھی خدا کی اصلی زبان عبرانی ہے اور ہمیشہ خدا کے الہام کا سلسلہ بنی اسرائیل اور انہیں کے ملک تک محدود رہا ہے۔ اور جو شخص اُن کے خاندان اور اُن کی زبان سے الگ ہونے کی حالت میں نبی ہونے کا دعویٰ کرے اُس کو وہ نعوذ باللہ جھوٹا خیال کرتے ہیں۔
پس کیا یہ توارد تعجب انگیز نہیں ہے کہ ان دونوں قوموں نے اپنے اپنے بیان میں ایک ہی خیال پر قدم مارا ہے۔ اسی طرح دنیا میں اور بھی کئی فرقے ہیں جو اسی خیال
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 449
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/449/mode/1up
کے پابند ہیں جیسے پارسی۔ جو اپنے مذہب کی بنیاد وید سے کئی ارب سال پہلے بتلاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال (کہ ہمیشہ کے لئے اپنے ملک اور اپنے خاندان اور اپنی کتابوں کی زبان کو ہی خدا کی وحی اور الہام سے مخصوص کیا گیا ہے) محض تعصب اور کمی معلومات سے پیدا ہوا ہے۔چونکہ پہلے زمانے دنیا پر ایسے گذرے ہیں کہ ایک قوم دوسری قوم کے حالات سے ؔ اور ایک ملک دوسرے ممالک کے وجود سے بکلی بے خبر تھی پس ایسی غلطی سے ہر ایک قوم کو جو خدا کی طرف سے کوئی کتاب ملی یا کوئی خدا کا رسول اور نبی اس قوم میں آیا تو اس قوم نے یہی خیال کرلیا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے ہدایت ہونی چاہیئے تھی وہ یہی ہے اور خدا کی کتاب صرف انہیں کے خاندان اور انہی کے ملک کو دی گئی ہے اور باقی تمام دنیااس سے بے نصیب پڑی ہے۔
اس خیال نے دنیا کو بہت نقصان پہنچایا۔ اور دراصل باہمی کینوں اور بغضوں کے بیج جو قوموں میں بڑھتے گئے یہی خیال تھا۔ ایک مدت تک تو ایک قوم دوسری قوم سے پردہ میں رہی اور ایک ملک دوسرے ملک سے مخفی اور مستور رہا۔ یہاں تک کہ آریہ ورت کے فاضلوں کا یہ خیال تھا کہ کوہ ہمالہ کے پرے کوئی آبادی نہیں۔
پھر جب کہ خدا نے درمیان سے پردہ اٹھا لیا اور زمین کی آبادی کے متعلق کسی قدر لوگوں کے معلومات وسیع ہوگئے تووہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ وہ تمام غلط خصوصیتیں جو الہامی کتابوں اور اپنے رشیوں اور رسولوں کی نسبت لوگوں نے اپنے ہی دلوں سے تراش کر اپنے عقائد میں داخل کرلی تھیں وہ ان کے دلوں میں خوب راسخ اور پتھر کے نقش کی طرح ہوگئیں۔اور ہر ایک قوم یہی خیال کرتی تھی کہ خدا کا صدر مقام ہمیشہ انہیں کے مُلک میں ؔ رہا ہے۔ اور چونکہ اُن دنوں میں اکثر قوموں پر وحشیانہ خصلتیں غالب تھیں۔ اور ایک پرانی رسم کے مخالف کو تلوار کے ساتھ جواب دیا جاتا تھا۔ اس لئے کس کی مجال تھی کہ ہر ایک قوم کی خود ستائی کے جوشوں کو ٹھنڈا کرکے اُن کے درمیان صلح کراتا۔ گوتم بدھ نے اس صلح کا ارادہ کیا
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 450
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/450/mode/1up
تھا۔ اور وہ اس بات کا قائل نہ تھا۔ کہ جو کچھ ہے وید ہے آگے کچھ نہیں۔ اور نہ وہ قوم اور ملک اور خاندان کی خصوصیت کااقراری تھا یعنی یہ مذہب اس کانہیں تھا کہ گویا وید پر ہی سب کچھ حصر ہے اور یہی زبان اور یہی ملک اور یہی برہمن پرمیشر کے الہام کے لئے ہمیشہ کے لئے اس کی عدالت میں رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔ لہٰذا اُس نے اس اختلاف سے بڑا دُکھ اٹھایا اور اس کا نام ایک دہریہ اور ناستک مت والا رکھا گیا۔ جیسا کہ آج کل یورپ اور امریکہ کے تمام محقق جو حضرت عیسیٰ کی خدا ئی کو منظور نہیں کرتے۔ اور اُن کے دل اس بات کو نہیں مانتے کہ خدا کو بھی سُولی دے سکتے ہیں۔ وہ تمام لوگ حضرات پادری صاحبوں کے خیال میں دہریہ ہیں۔
سو اسی قسم کا بدھ بھی دہریہ ٹھہرایا گیا۔ اور جیسا کہ شریر مخالفوں کا دستور ہے عام لوگوں کو نفرت دلانے کی بہت سی تہمتیں اس پر لگائی گئیں۔ آخر انجام یہ ہوا کہ بدھ آریہ ورت سے جوؔ اس کی زادوبوم اور وطن تھا نکالا گیا۔ اور اب تک ہندو لوگ بدھ مذہب اور اس کی کامیابی کو بڑی نفرت او رحقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مگر حسب قول حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہ نبی بے عزت نہیں مگر اپنے وطن میں دوسرے ملک کی طرف بدھ نے ہجرت کرکے بڑی کامیابی حاصل کی۔ جیسا کہ بیان کیاجاتا ہے کہ تیسرا حصہ دنیا کا بدھ مذہب سے پُر ہے اور کثرت پیروؤں کے لحاظ سے اس کااصل مرکز چین اور جاپان ہے۔ اگرچہ وہ جنوبی رُوس اور امریکہ تک پھیل گیا ہے۔
اب پھر ہم اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے لکھتے ہیں کہ جن زمانوں میں ایک مذہب دوسرے مذہب سے بے خبر تھا۔ اس بے خبری کے عالم میں یہ ایک لازمی امر تھا کہ ہر یک قوم اپنے مذہب اور اپنی کتاب پر ہی حصر رکھتی مگر اس حصر کا آخر کار نتیجہ یہ ہوا کہ جب ایک ملک دوسرے ملک کے وجود سے اطلاع پاگیا۔ اور ممالک مختلفہ کے لوگ ایک دوسرے کے مذہب سے مطلع ہوگئے۔ تب اُن کے لئے یہ مشکل پڑی کہ ایک ملک کامذہب دُوسرے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 451
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/451/mode/1up
ملک کے مذہب کی تصدیق کرسکے۔ کیونکہ ہر ایک مذہب کے لئے جو شاعر انہ طور پر مبالغہ کرکے خصوصیتیں اور فضیلتیں مقررہوچکی تھیں اُن کا دُورؔ کرنا کچھ سہل کام نہ تھا۔ اس لئے ہریک اہل مذہب نے دوسرے مذہب کی تکذیب پر کمربستہ کی۔ ژند واستا کے مذہب نے ہمچومن دیگرے نیست کا جھنڈا کھڑا کردیا۔ اور سلسلہ پیغمبری کو اپنے خاندان تک ہی محدود رکھا اور اپنے مذہب کی اتنی لمبی تاریخ بتلائی کہ وید کی تاریخ بتلانے والے اُن کے سامنے شرمندہ ہیں۔
ادھر عبرانیوں کے مذہب نے حد ہی کردی کہ ہمیشہ کے لئے خدا کا تخت گاہ ملک شام ہی قرار دیا گیا اور ہمیشہ انہیں کے خاندان کے برگزیدہ لوگ اس لائق قرار پائے کہ وہ ملک کی اصلاح کے لئے بھیجے جائیں۔ مگر حکمًا وہ اصلاح بنی اسرائیل تک ہی محدود رہی۔ اور انہیں کے خاندان پر الہام اور خدا کی وحی کی مہر لگ گئی اور جودوسرا اٹھے وہ کاذب کہلاوے۔
ایسا ہی آریہ ورت میں بھی بعینہٖ یہی خیالات شائع ہوگئے جو اسرائیلیوں میں شائع ہوئے اور اُن کے عقیدہ کی رُو سے پرمیشر صرف آریہ ورت کا ہی راجہ ہے اور راجہ بھی ایسا جس کو دوسرے ملکوں کی خبر ہی نہیں اور بغیر کسی دلیل کے یہ مانا جاتا ہے کہ جب سے پرمیشر ہے اس کو آریہ ورت کی ہی آب و ہوا پسند آگئی ہے۔ وہ ہرگز چاہتا نہیں کہ دوسرے ملکوں میں بھی کبھی دورہ کرے اور کبھی ان بیچاروں کی خبر بھی لے جن کو وہ پیدا کرکے بھول گیا۔
دوستوؔ ! برائے خدا یہ سوچ کر دیکھو کہ کیا یہ عقائد ایسے ہیں جن کو انسانی فطرت قبول کرسکتی ہے یا کوئی کانشنس ان کو اپنے اندر جگہ دے سکتا ہے۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کس قسم کی عقلمندی ہے کہ ایک طرف خدا کو تمام دنیا کا خدا ماننا اور پھر اسی منہ سے یہ بھی کہنا کہ وہ تمام دنیا کی ربوبیت کرنے سے دستکش ہے۔ اور صرف ایک خاص قوم اور ایک خاص ملک پر اس کی نظر رحم ہے۔ عقلمندو !! خود انصاف کرو کہ کیا خدا کے جسمانی قانون قدرت میں اس کی کوئی شہادت ملتی ہے۔ پھر اس کا روحانی قانون کیوں ایسی طرفداری پر مبنی ہے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 452
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/452/mode/1up
اور اگر عقل سے کام لیا جائے تو ہر ایک کام کی بھلائی یا بُرائی اس کے نتیجہ سے بھی معلوم ہوسکتی ہے۔ پس مجھے اس بات کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ خدا کے ان بزرگ نبیوں کی ہتک اور ان کو گالیاں دینا جن کی غلامی اور اطاعت کے حلقہ میں ہر طبقہ کے کروڑہا انسان داخل ہیں اس کا نتیجہ کیسا ہے۔ اور انجام کار اس کا پھل کیا ہے کیونکہ کوئی ایسی قوم نہیں کہ جو ایسے نتیجہ کو کچھ نہ کچھ دیکھ نہ چکی ہو۔
اے عزیزو !! قدیم تجربہ اور بار بار کی آزمائش نے اس امر کو ثابت کردیا ہے کہ مختلف قوموں کے نبیوں اور رسولوں کو توہین سے یاد کرنا اور اُن کو گالیاں دینا ایکؔ ایسی زہر ہے کہ نہ صرف انجام کار جسم کو ہلاک کرتی ہے بلکہ رُوح کو بھی ہلاک کرکے دین اور دُنیا دونوں کو تباہ کرتی ہے۔ وہ ملک آرام سے زندگی بسر نہیں کرسکتا جس کے باشندے ایک دوسرے کے رہبرِ دین کی عیب شماری اور ازالہ حیثیت عرفی میں مشغول ہیں۔ اور ان قوموں میں ہرگز سچا اتفاق نہیں ہوسکتا جن میں سے ایک قوم یا دونوں ایک دوسرے کے نبی یا رشی اور اوتار کو بدی یا بد زبانی کے ساتھ یاد کرتے رہتے ہیں۔ اپنے نبی یا پیشوا کی ہتک سن کر کس کو جوش نہیں آتا۔ خاص کر مسلمان ایک ایسی قوم ہے کہ وہ اگرچہ اپنے نبی کو خدایا خدا کا بیٹا تو نہیں بناتی مگر آنجناب ؐ کو ان تمام برگزیدہ انسانوں سے بزرگ تر جانتے ہیں کہ جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے پس ایک سچے مسلمان سے صلح کرنا کسی حالت میں بجز اس صورت کے ممکن نہیں کہ اُن کے پاک نبی کی نسبت جب گفتگو ہو تو بجز تعظیم اور پاک الفاظ کے یاد نہ کیا جائے۔
اور ہم لوگ دوسری قوموں کے نبیوں کی نسبت ہرگز بد زبانی نہیں کرتے۔ بلکہ ہم یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس قدر دنیا میں مختلف قوموں کے لئے نبی آئے ہیں اور کروڑہا لوگو ں نے ان کو مان لیاہے اور دنیا کے کسی ایک حصہ میں اُن کی محبت اور عظمت جاگزیں ہوگئی ہے اور ایک زمانہ دراز اس محبت اور اعتقاد پر گذر گیا ہے تو بس یہی ایک دلیل اُن کی سچائی
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 453
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 453
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/453/mode/1up
کے لئے کافی ہے کیونکہ اگر وہ خدا کی طرف سے نہ ہوتے تو یہ قبولیت کروڑہا لوگوں کے دلوں میں نہ پھیلتی خدا اپنے ؔ مقبول بندوں کی عزت دوسروں کو ہرگز نہیں دیتا اور اگر کوئی کاذب اُن کی کرسی پر بیٹھنا چاہے تو جلد تباہ ہوتا اور ہلاک کیا جاتا ہے۔
اسی بنا پر ہم وید کو بھی خدا کی طرف سے مانتے ہیں اور اُس کے رشیوں کو بزرگ اور مقدس سمجھتے ہیں اگرچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وید کی تعلیم پورے طور پر کسی فرقے کو خدا پرست نہیں بنا سکی اور نہ بنا سکتی تھی۔ اور جو لوگ اس ملک میں بُت پرست یا آتش پرست یا آفتاب پرست یا گنگا کی پوجا کرنے والے یا ہزارہا دیوتاؤں کے پوجاری یا جَین مَت یا شَاکَت مَت والے پائے جاتے ہیں۔ وہ تمام لوگ اپنے مذاہب کو وید ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اور وید ایک ایسی مجمل کتاب ہے کہ یہ تمام فرقے اُسی میں سے اپنے اپنے مطلب نکالتے ہیں تاہم خدا کی تعلیم کے موافق ہمارا پختہ اعتقاد ہے کہ وید انسان کاافترا نہیں ہے۔ انسان کے افترا میں یہ قوت نہیں ہوتی کہ کروڑہا لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لے اور پھر ایک دائمی سلسلہ قائم کردے اور اگرچہ ہم نے وید میں پتھر کی پرستش کا ذکر تو کہیں نہ پڑھا لیکن بلاشبہ اگنی وایو اور جَل اور چاند اور سورج
وغیرہ کی پرستش سے وید بھرا ہوا ہے اور کسی شُرتی میں ان چیزوں کی پرستش کے لئے ممانعت نہیں۔ اب اس کاکون فیصلہ کرے کہ دوسرے تمام قدیم فرقے ہندوؤں کے جھوٹے ہیں اور صرف نیا فرقہ آریوں کا سچااور جو لوگ وید کے حوالہ سے ؔ ان چیزوں کی پرستش کرتے ہیں اُن کے ہاتھ میں یہ دلیل پختہ ہے کہ ان چیزوں کی پرستش کا وید میں صریح ذکر ہے اور ممانعت کہیں بھی نہیں اور یہ کہنا کہ یہ سب پرمیشر کے نام ہیں۔ ہنوز یہ ایک دعویٰ ہے کہ جو ابھی صفائی سے طے نہیں ہوااو راگر طے ہو جاتا تو کچھ وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ بڑے بڑے پنڈت بنارس اور دوسرے شہروں کے آریوں کے عقیدوں کو قبول نہ کرتے باوجود تیس پینتیس برس کی کوششوں کے بہت ہی کم ہندوؤں نے آریہ مذہب اختیار کیا ہے اور بمقابلہ سناتن دھرم اور دُوسرے ہندو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 454
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 454
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/454/mode/1up
فرقوں کے آریہ مذہب والے اس قدر تھوڑے ہیں کہ گویا کچھ بھی نہیں۔ اور نہ اُن کا دوسرے ہندو فرقوں پرکوئی وسیع اثر ہے۔ ایسا ہی جو نیوگ کی تعلیم وید کی طرف منسوب کی جاتی ہے یہ بھی وہ امر ہے کہ جو انسانی غیرت اور شرافت اُس کو قبول نہیں کرتی۔ لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے ہم قبول نہیں کرسکتے کہ درحقیقت یہ وید ہی کی تعلیم ہے بلکہ ہماری نیک نیتی بڑے زور سے ہمیں اس بات کی طرف مائل کرتی ہے کہ ایسی تعلیمیں کسی نفسانی غرض سے بعد میں وید کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ اورچونکہ وید پر ہزارہا برس گذر گئے ہیں اس لئے ممکن ہے کہ مختلف زمانوں میں بعض وید کے بھاشکاروں نے کئی قسم کی کمی بیشی کی ہوگی۔پس ہمارے لئے وید کی سچائی کی یہ ہی ایک دلیل کافی ہے کہ آریہ ورت کے کئی کروڑ آدمی ہزارہا برسوں سے اِس کو خدا کا کلام جانتے ہیں اور ممکن نہیں کہ یہ عزت کسی ایسے کلام کو دی جائے جو کسی مفتری کا کلام ہے۔
اور پھر جب کہ ہم باوجود ان تمام مشکلات کے خدا سے ڈرکر وید کو خدا کا کلام جانتے ہیں اور جو کچھ اس کی تعلیم میں غلطیاں ہیں وہ وید کے بھاشکاروں کی غلطیاں سمجھتے ہیں تو پھر قرآن شریف جو اول سے آخر تک توحید سے بھرا ہوا ہے اور کسی جگہ اس میں سورج اور چاند وغیرہ کی پرستش کی تعلیم نہیں کی بلکہ صاف لفظوں میں فرمایا ہے۔ 3 3 ۱ یعنی نہ سورج کی پرستش کرو اور نہ چاند کی اور نہ کسی اور مخلوق کی۔ اور اس کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا۔ علاوہ اس کے قرآن شریف خدا کے قدیم نشانوں اور تازہ نشانوں کی گواہی اپنے ساتھ رکھتا ہے اور خدا کا وجود دکھلانے کے لئے ایک آئینہ ہے۔ کیوں وحشیانہ طور کے اس پر حملے کئے جائیں۔ اور کیوں وہ معاملہ ہم سے نہیں کیاجاتا جو ہم آریہ صاحبوں سے کرتے ہیں اور کیوں دشمنی اور عداوت کا تخم ملک میں بویا جاتا ہے۔ کیاامید کی جاتی ہے کہ اس کا نتیجہ اچھا ہوگا۔ کیا یہ نیک معاملہ ہے کہ ایک شخص جو پھول دیتا ہے اس پر پتھر پھینکا جائے اور جو دودھ پیش کرتا ہے اس پر پیشاب گرایا جائے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 455
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 455
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/455/mode/1up
اگر اس قسم کی صلح تام کے لئے ہندو صاحبان اور آریہ صاحبان طیار ہو ں کہ وہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آئندہ توہین اور تکذؔ یب چھوڑدیں تو میں سب سے پہلے اس اقرار نامہ پر دستخط کرنے پر طیار ہوں کہ ہم احمدی سلسلہ کے لوگ ہمیشہ وید کے مصدق ہوں گے اور وید اور اُس کے رشیوں کا تعظیم اور محبت سے نام لیں گے اور اگر ایسا نہ کریں گے تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی ہندو صاحبوں کی خدمت میں ادا کریں گے۔ اور اگر ہندو صاحبان دل سے ہمارے ساتھ صفائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ بھی ایساہی اقرار لکھ کر اس پر دستخط کردیں اور اس کا مضمون بھی یہ ہوگا کہ ہم حضرت محمد مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور نبوت پر ایمان لاتے ہیں اور آپ کو سچا نبی اور رسول سمجھتے ہیں اور آئندہ آپ کو ادب اور تعظیم کے ساتھ یاد کریں گے جیسا کہ ایک ماننے والے کے مناسب حال ہے اور اگر ہم ایسا نہ کریں تو ایک بڑی رقم تاوان کی جو تین لاکھ روپیہ سے کم نہیں ہوگی احمدی سلسلہ کے پیش رو کی خدمت میں پیش کریں گے۔
یاد رہے کہ ہماری احمدی جماعت اب چار لاکھ سے کچھ کم نہیں ہے۔ اس لئے ایسے بڑے کام کیلئے تین لاکھ روپیہ چندہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اور جو لوگ ہماری جماعت سے ابھی باہر ہیں دراصل وہ سب پراگندہ طبع اور پراگندہ خیال ہیں۔ کسی ایسے لیڈر کے ماتحت وہ لوگ نہیں ہیں جو اُن کے نزدیک واجب الاطاعت ہے۔ ا س لئے میں اُن کی نسبت کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ابھی تو وہ لوگ مجھے بھی کافر اور دجّال قرار دیتے ہیں۔ لیکن میں اُمید رکھتا ہوں کہ جب ہندو صاحبان میرے ساتھ ایسا معاہدہ کرلیں گے تو یہ لوگ بھی ہر گز ایسی ؔ بیجا حرکت کے مرتکب نہیں ہوں گے۔ کہ ایسی مہذب قوم کی کتاب اور رشیوں کو بُرے الفاظ سے یاد کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دلائیں۔ ایسی گالیاں تو درحقیقت انہیں لوگوں کی طرف سے منسوب کی جائیں گی جو اس حرکت کے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 456
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 456
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/456/mode/1up
مرتکب ہوں گے۔ اور چونکہ ایسی حرکت حیا اور شرافت کے برخلاف ہے۔اس لئے میں اُمید نہیں رکھتا کہ اس معاہدہ کے بعد وہ لوگ اپنی زبان کھولیں۔ لیکن یہ ضروری ہوگا کہ معاہدہ کی تحریرکو پختہ کرنے کے لئے دونوں فریق کے دس دس ہزار سمجھدار لوگوں کے اس پر دستخط ہوں۔
پیارو !! صلح جیسی کوئی بھی چیزنہیں۔ آو ہم اس معاہدہ کے ذریعہ سے ایک ہو جائیں۔ اور ایک قوم بن جائیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ باہمی تکذیب سے کسی قدر پھوٹ پڑگئی ہے۔ اور ملک کو کس قدر نقصان پہنچتا ہے۔ آؤ اب یہ بھی آزما لو کہ باہمی تصدیق کی کس قدر برکات ہیں۔ بہترین طریق صلح کایہی ہے۔ ورنہ کسی دوسرے پہلو سے صلح کرنا ایسا ہی ہے کہ جیسا کہ ایک پھوڑے کو جو شفاف اور چمکتا ہوا نظر آتا ہے اسی حالت میں چھوڑ دیں اور اس کی ظاہری چمک پرخوش ہوجائیں۔ حالانکہ اس کے اندر سڑی ہوئی اور بدبو دار پیپ موجود ہے۔
مجھے اِس جگہ ان باتوں کا ذکر کرنے سے کچھ غرض نہیں کہ وہ نفاق اور فساد جو ہندواور مسلمانوں میں آج کل بڑھتا جاتاہے۔ ا س کے وجوہ صرف مذہبی اختلافات تک محدود نہیں ہیں بلکہ دُوسری اغراض اس کی وجوہ ہیں جو دُنیا کی خواہشوں اور معاملات سے متعلق ہیں۔ مثلاً ہندوؤں کی ابتدا سے یہ خواہش ہے کہ گورنمنٹ اور ملک کے معاملات میں ان کا دخل ہو یاکم سے کم یہ کہ ملک داری کےؔ معاملات میں ان کی رائے لی جائے اور گورنمنٹ ان کی ہر یک شکایت کو توجہ سے سنے۔ اور بڑے بڑے گورنمنٹ کے عہدے انگریزوں کی طرح ان کو بھی ملا کریں۔ مسلمانوں سے یہ غلطی ہوئی کہ ہندوؤں کی ان کوششوں میں شریک نہ ہوئے اور خیال کیا کہ ہم تعداد میں کم ہیں اور یہ سوچا کہ ان تمام کوششوں کا اگر کچھ فائدہ ہے تو وہ ہندوؤں کے لئے ہے نہ کہ مسلمانوں کے لئے۔ اس لئے نہ صرف شراکت سے دستکش رہے۔ بلکہ مخالفت کرکے ہندوؤں کی کوشش کے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 457
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 457
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/457/mode/1up
سدّ راہ ہوئے جس سے رنجش بڑھ گئی۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ ان وجوہ سے بھی اصل عداوت پر حاشیے چڑھ گئے ہیں۔ مگر میں ہرگز تسلیم نہیں کروں گا کہ اصل وجوہ یہی ہیں۔ اور مجھے ان صاحبوں سے اتفاق رائے نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کی باہمی عداوت اور نفاق کا باعث مذہبی تنازعات نہیں ہیں اصل تنازعات پولٹیکل ہیں۔
یہ بات ہریک شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مسلمان اس بات سے کیوں ڈرتے ہیں کہ اپنے جائز حقوق کے مطالبات میں ہندوؤں کے ساتھ شامل ہوجائیں۔ اور کیوں آج تک اُن کی کانگریس کی شمولیت سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اور کیوں آخر کار ہندوؤں کی درستی رائے محسوس کرکے اُن کے قدم پر قدم رکھا۔ مگر الگ ہوکر اور اُن کے مقابل پر ایک مسلم انجمن قائم کردی مگر اُن کی شراکت کو قبول نہ کیا۔
صاحبو! اِس کا باعث دراصل مذہب ہی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں اگر آج وہی ہندو کلمہ طیبہ لا الہ الا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ پڑھ کر مُسلمانوں سے آکر بغلگیر ہوجائیں یامسلمان ہی ہندو بن کر اگنی وایو وغیرہ کی پرستش وید کے حکم کے موافق شروع کردیں اور اسلام کو الوداع کہہ دیں تو جن تنازعات کا نام اب پولٹیکل رکھتے ہیں وہ ایک دم میں ایسے معدوم ہو جائیں کہ گویا کبھی نہ تھے۔
پسؔ اس سے ظاہر ہے کہ تمام بُغضوں اور کینوں کی جڑھ دراصل اختلاف مذہب ہے۔ یہی اختلافِ مذہب قدیم سے جب انتہا تک پہنچتا رہا ہے تو خُون کی ندیاں بہاتا رہا ہے۔ اے مسلمانوں جب کہ ہندو صاحبان تمہیں بوجہ اختلاف مذہب کے ایک غیر قوم جانتے ہیں اور تم بھی اِس وجہ سے اُن کوایک غیر قوم خیال کرتے ہو۔ پس جب تک اِس سبب کا ازالہ نہ ہوگا کیوں کر تم میں اوراُن میں ایک سچی صفائی پیدا ہوسکتی ہے۔ ہاں ممکن ہے کہ مُنافقانہ طور پر باہم چند روز کے لئے میل جول بھی ہوجائے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 458
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 458
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/458/mode/1up
مگر وہ دِلی صفائی جس کو در حقیقت صفائی کہنا چاہئے۔ صرف اسی حالت میں پیدا ہوگی جب کہ آپ لوگ وید اور وید کے رشیوں کو سچے دل سے خدا کی طرف سے قبول کرلوگے۔ اور ایسا ہی ہندو لوگ بھی اپنے بخل کو دُور کرکے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرلیں گے یاد رکھو اور خوب یاد رکھو کہ تم میں اور ہندو صاحبوں میں سچی صلح کرانے والا صرف یہی ایک اصول اور یہی ایک ایسا پانی ہے جو کدورتوں کو دھودے گا اور اگر وہ دن آگئے ہیں کہ یہ دونوں بچھڑی ہوئی قومیں باہم مل جائیں۔ تو خدا اُن کے دِلوں کو بھی اس بات کے لئے کھول دے گا جس کے لئے ہمارا دل کھول دِیا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ضرور ہوگاکہ ہندو صاحبان کے ساتھ سچی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ۔ اور سلوک اور مروّت اپنی عادت کرو۔ اور ایسے کاموں سے اپنے تئیں باز رکھو جن سے اُن کو دُکھ پہنچے۔ مگر وہ کام ہمارے مذہب میں نہ واجبات سے ہوں اور نہ فرائض مذہب سے۔ پس اگر ہندو صاحبان اپنے صدق دل سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا نبی مان لیں۔ اور ان پر ایمان لاویں تو یہ تفرقہ جو گائے کی وجہ سے ہے۔ اس کو بھی درمیان سے اُٹھا دیا جائے۔ جس چیز کو ہمؔ حلال جانتے ہیں۔ ہم پر واجب نہیں کہ ضرور اس کو استعمال بھی کریں۔ بہتیری ایسی چیزیں ہیں کہ ہم حلال تو جانتے ہیں۔ مگر کبھی ہم نے استعمال نہیں کیں۔ ان سے سلوک اور احسان کے ساتھ پیش آنا ہمارے دین کی وصایا میں سے ایک وصیت ہے۔ خدا کو واحد لاشریک جاننا۔ پس ایک ضروری اور مفید کام کے لئے غیر ضروری کو ترک کرنا خدا کی شریعت کے مخالف نہیں۔ حلال جاننا اور چیز ہے اور استعمال کرنا اور چیز۔ دین یہ ہے کہ خدا کی منہیات سے پرہیز کرنا اور اس کی رضامندی کی راہوں کی طرف دوڑنا اور اس کی تمام مخلوق سے نیکی اور بھلائی کرنا اور ہمدردی سے پیش آنا اور
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 459
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/459/mode/1up
دنیاکے تمام مقدس نبیوں اور رسولوں کواپنے اپنے وقت میں خدا کی طرف سے نبی اور مصلح ماننا اور اُن میں تفرقہ نہ ڈالنا۔ اور ہریک نوع انسان سے خدمت کے ساتھ پیش آنا۔ ہمارے مذہب کا خلاصہ یہی ہے۔ مگر جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہوکر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں۔ ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کرسکتے ہیں۔ لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کرسکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔
میں اس وقت کسی خاص قوم کو بے وجہ ملامت کرنا نہیں چاہتا۔ اور نہ کسی کا دل دُکھانا چاہتا ہوں بلکہ نہایت افسوس سے آہ کھینچ کر مجھے یہ کہنا پڑا ہے کہ اِسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب تھا جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا۔ اور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہرایک قوم کے نبی کو مان لیا۔ اور تمام دُنیا میں یہ فخر خاص قرآن شریف کوؔ حاصل ہے۔ جس نے دُنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی کہ 3 ۱ یعنی تم اے مسلمانو! یہ کہو کہ ہم دُنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اور ان میں تفرقہ نہیں ڈالتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو رد کردیں۔ اگرایسی صلح کار کوئی اور الہامی کتاب ہے تو اس کا نام لو قرآن شریف نے خدا کی عامہ رحمت کو کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا۔ اسرائیلی خاندان کے جتنے نبی تھے کیا یعقوب اور کیا اسحٰق اور کیا موسیٰ اور کیا داؤد اور کیا عیسیٰ سب کی نبوت کو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 460
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/460/mode/1up
مان لیا اورہر ایک قوم کے نبی خواہ ہند میں گذرے ہیں اور خواہ فارس میں کسی کو مکار اور کذّاب نہیں کہا بلکہ صاف طور پر کہہ دیا کہ ہر ایک قوم اور بستی میں نبی گذرے ہیں اور تمام قوموں کے لئے صلح کی بنیاد ڈالی ۔ مگر افسوس کہ اس صلح کے نبی کو ہر یک قوم گالی دیتی ہے اور حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے ۔
اے ہموطن پیارو! ! میں نے یہ بیان آپ کی خدمت میں اس لئے نہیں کیاکہ میں آپ کو دکھ دوں یا آپ کی دل شکنی کروں بلکہ میں نہایت نیک نیتی سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جن قوموں نے یہ عادت اختیار کر رکھی ہے اور یہ ناجائز طریق اپنے مذہب میں اختیار کرلیا ہے کہ دوسری قوموں کے نبیوں کو بد گوئی اور دشنام دہی کے ساتھ یاد کریں وہ نہ صرف بیجا مداخلت سے جس کے ساتھ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں خدا کے گنہگار ہیں ۔ بلکہ وہ اس گنہ کے بھی مرتکب ہیں کہ بنی نوع میں نفاق اور دشمنی کابیج بوتے ہیں ۔ آپ دل تھام کر اس بات کا مجھے جواب دیں کہ اگر کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے یا اس کی ماں پر کوئی تہمت لگاوے تو کیا وہ اپنے باپ کی عزت پر آپ حملہ نہیں کرتا۔اور اگر وہ شخص جس کو ایسی گالی دی گئی ہے جواب میں اسی طرح گالیؔ سنادے تو کیا یہ کہنا بے محل ہوگا کہ بالمقابل گالی دیئے جانے کا دراصل وہی شخص موجب ہے جس نے گالی دینے میں سبقت کی اور اس صورت میں وہ اپنے باپ اور ماں کی عزت کا خود دشمن ہوگا ۔
خدا تعالےٰ نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریق ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے کہ وہ فرماتا ہے کہ33 ۱ (سورۃ الانعام الجزو نمبر ۷)یعنی تم مشرکوں کے بتوں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے ۔ کیوں کہ وہ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 461
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/461/mode/1up
اس خدا کو جانتے نہیں ۔ اب دیکھو کہ باوجودیکہ خدا کی تعلیم کی رو سے بُت کچھ چیز نہیں ہیں مگر پھر بھی خدامسلمانوں کو یہ اخلاق سکھلاتا ہے کہ بتوں کی بدگوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھو اور صرف نرمی سے سمجھاؤ ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مشتعل ہو کر خدا کو گالیاں نکالیں اور ان گالیوں کے تم باعث ٹھہر جاؤ ۔ پس ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اسلام کے اس عظیم الشان نبی کو گالیاں دیتے اور توہین کے الفاظ سے اس کو یاد کرتے اور وحشیانہ طریقوں سے اس کی عزت اور چال چلن پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ بزرگ نبی
جس کانام لینے سے اسلام کے عظیم الشان بادشاہ تخت سے اُترتے ہیں اور اس کے احکام کے آگے سر جھکاتے اور اپنے تئیں اس کے ادنیٰ غلاموں سے شمار کرتے ہیں۔ کیا یہ عزت خدا کی طرف سے نہیں ۔ خدا ؔ داد عزت کے مقابل پر تحقیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو خداسے لڑنا چاہتے ہیں ۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے وہ برگزیدہ رسول ہیں جن کی تائید اور عزت ظاہر کرنے کے لئے خدانے دنیا کوبڑے بڑے نمونے دکھائے ہیں ۔ کیا یہ خداکے ہاتھ کا کام نہیں جس نے بیس کروڑانسانوں کا محمدی درگاہ پر سر جھکارکھا ہے۔اگرچہ ہر ایک نبی اپنی نبوت کی سچائی کے لئے کچھ ثبوت رکھتاہے لیکن جس قدر ثبوت آنجناب کی نبوت کے بارے میں ہیں جو آج تک ظاہر ہورہے ہیں ۔ ان کی نظیر کسی نبی میں نہیں پائی جاتی ۔
آپ لوگ اس دلیل کو نہیں سمجھ سکتے ! کہ جب زمین گناہ اور پاپ سے پلید ہوجاتی ہے ۔ اور خدا کے ترازو میں بدکاریاں اور بد چلنیاں اور بے باکیاں نیک کاموں سے بہت بڑھ جاتی ہیں تب خدا کی رحمت تقاضا کرتی ہے کہ ایسے وقت میں کسی اپنے بندے کو بھیج کرزمین کے فسادوں کی اصلاح کی جائے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 462
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/462/mode/1up
بیماری طبیب کو چاہتی ہے ۔ اور آپ لوگ اس بات کے سمجھنے کے لئے سب سے زیادہ استعداد رکھتے ہیں کیونکہ جیسا کہ بقول آپ صاحبوں کے وید ایسے وقت میں نہیں آیا جبکہ گناہ کا طوفان برپا تھا بلکہ ایسے وقت آیا جبکہ زمین پر گناہ کا کوئی سیلاب نہ تھا ۔ تو کیا آپ صاحبوں کی نظر میں یہ بات قیاسؔ سے دور ہے کہ ایسے وقت میں کوئی نبی ظاہر ہو جبکہ گناہ کا تُند سیلاب ہر ایک ملک میں اپنی تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہو ۔
میں نہیں امید رکھتا کہ آپ لوگ اس تاریخی واقعہ سے بے خبر ہوں گے کہ جب ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسند رسالت کو اپنے وجود سے عزت دی تو وہ زمانہ ایک ایسا تاریک زمانہ تھا کہ کوئی پہلو دنیا کی آبادی کا بد چلنی اور بد عقیدگی سے خالی نہ تھا ۔ اور جیسا کہ پنڈت دیانند صاحب اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں لکھتے ہیں اُس زمانہ میں اس ملک آریہ ورت میں بھی بُت پرستی نے خدا پرستی کی جگہ لے لی تھی ۔ اورویدک مذہب میں بہت سا بگاڑ ہو گیا تھا۔
ایسا ہی پادری فنڈل صاحب مصنف میزان الحق جو عیسائی مذہب کا سخت حامی ایک یورپین انگریز ہے وہ اپنی کتاب میزان الحق میں لکھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں سب قوموں سے زیادہ بگڑی ہوئی عیسائی قوم تھی ۔اور ان کی بد چلنیاں عیسائی مذہب کی عار اور ننگ کا موجب تھیں ۔ اور خود قرآن شریف بھی اپنے نزول کی ضرورت کے لئے یہ آیت پیش کرتاہے :۔
3 ۱ ۔یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے ۔ اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ کوئی قوم خواہ وحشیانہ حالت رکھتی ہیں اور خواہؔ عقلمندی کا دعوےٰ کرتی ہیں فساد سے خالی نہیں ۔
اب جب کہ تمام شہادتوں سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 463
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/463/mode/1up
کے زمانہ کے لوگ کیا مشرقی اور کیا مغربی اور کیا آریہ ورت کے رہنے والے اور کیا عرب کے ریگستان کے باشندے اور کیا جزیروں میں ا پنی سکونت رکھنے والے سب کے سب بگڑ گئے تھے ۔ اور ایک بھی نہیں تھا جس کا خدا کے ساتھ تعلق صاف ہو ۔اور بد عملیوں نے زمین کو ناپاک کردیا تھا تو کیا ایک عقلمند کو یہ بات سمجھ نہیں آسکتی کہ یہ وہی وقت اور وہی زمانہ تھا جس کی نسبت عقل تجویز کرسکتی ہے کہ ایسے تاریک زمانہ میں ضرور کوئی عظیم الشان نبی آنا چاہیئے تھا ۔
رہا یہ سوال کہ اس نبی نے دنیا میں آ کر کیا اصلاح کی ۔ اس سوال کا جواب جیسا کہ ایک مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاح کے بارے میں دے سکتا ہے میں زور سے کہتاہوں کہ ایسا صاف اور مدلل جواب نہ کوئی عیسائی دے سکتا ہے اور نہ کوئی یہودی اور نہ کوئی آریہ ۔
پہلا مقصد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عرب کی اصلاح تھی ۔ اورعرب کاملک اُس زمانہ میں ایسی حالت میں تھا کہ بمشکل کہہ سکتے ہیں کہ وہ انسان تھے ۔ کونسی بدی تھی جو ان میں نہ تھی ۔ اور کونسا شرک تھا جو ان ؔ میں رائج نہ تھا چوری کرنا ڈاکہ مارناان کا کام تھا اور ناحق کا خون کرنا ان کے نزدیک ایک ایسا معمولی کام تھا جیسا کہ ایک چیونٹی کو پیروں کے نیچے کچل دیا جائے ۔ یتیم بچوں کو قتل کر کے اُن کا مال کھالیتے تھے ۔ لڑکیوں کو زندہ بگور کرتے تھے ۔ زنا کاری کے ساتھ فخر کرتے اور علانیہ اپنے قصیدوں میں اُن گندی باتوں کا ذکر کرتے تھے ۔ شراب خواری اُس قوم میں اِ س کثرت سے تھی کہ کوئی گھر بھی شراب سے خالی نہ تھا اور قمار بازی میں سب ملکوں سے آگے بڑھے ہوئے تھے ۔ حیوانوں کی عار تھی اور سانپوں اور بھیڑیوں کی ننگ ۔
پھر جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اصلاح کے لئے کھڑے ہوئے اور اپنی باطنی توجہ سے ان کے دلوں کو صاف کرنا چاہا تو اُن میں تھوڑے ہی دنوں
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 464
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/464/mode/1up
میں ایسی تبدیلی پیدا ہو گئی کہ وہ وحشیانہ حالت سے انسان بنے اور پھر انسان سے مہذب انسان ۔ اور مہذب انسان سے باخدا انسان ۔ اور آخر خدا تعالیٰ کی محبت میں ایسے محو ہوگئے کہ انہوں نے ایک بے حس عضو کی طرح ہر ایک دکھ کو برداشت کیا۔ وہ انواع اقسام کی تکالیف سے عذاب دیئے گئے اور سخت بے دردی سے تازیانوں سے مارے گئے اور جلتی ہوئی ریت میں لٹائے گئے اور قید کئے گئے اور بھوکے اور پیاسے رکھ کر ہلاکت تک پہنچائے گئے ۔ مگرؔ انہوں نے ہر یک مصیبت کے وقت آگے قدم رکھا ۔ اور بہتیرے ان میں ایسے تھے کہ ان کے سامنے ان کے بچے قتل کئے گئے اور بہتیرے ایسے تھے کہ بچوں کے سامنے وہ سُولی دیئے گئے۔ اور جس صدق سے انہوں نے خدا کی راہ میں جانیں دیں اُس کا تصور کرکے رونا آتا ہے ۔ اگر ان کے دلوں پر یہ خدا کا تصرف اور اس کے نبی کی توجہ کا اثر نہ تھا تو پھر وہ کیا چیز تھی جس نے ان کو اسلام کی طرف کھینچ لیا۔ اور ایک فوق العادت تبدیلی پیدا کر کے ان کو ایسے شخص کے آستانہ پر گرنے کی رغبت دی کہ جو بیکس اور مسکین اور بے زری کی حالت میں مکہ کی گلیوں میں اکیلا اور تنہا پھرتا تھا۔ آخر کوئی روحانی طاقت تھی جو ان کو سفلی مقام سے اٹھا کر اوپر کو لے گئی۔ اور عجیب تر بات یہ ہے کہ اکثر ان کے ان کی کفر کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانی دشمن اور آنجناب کے خون کے پیاسے تھے ۔ پس میں تو اس سے بڑھ کر کوئی معجزہ نہیں سمجھتا کہ کیونکر ایک غریب مفلس تنہا بیکس نے ان کے دلوں کو ہریک کینہ سے پاک کرکے اپنی طرف کھینچ لیا۔ یہاں تک کہ وہ فخریہ لباس پھینک کر اور ٹاٹ پہن کر خدمت میں حاضر ہوگئے ۔
بعض ناسمجھ جو اسلام پرجہاد کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ؔ سب لوگ جبراََ تلوار سے مسلمان کئے گئے تھے ۔ افسوس ہزار افسوس کہ وہ اپنی بے انصافی
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 465
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 465
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/465/mode/1up
اور حق پوشی میں حد سے گذر گئے ہیں ۔ ہائے افسوس ان کو کیا ہوگیا کہ وہ عمداً صحیح واقعات سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے ملک میں ایک بادشاہ کی حیثیت سے ظہور فرما نہیں ہوئے تھے تا یہ گمان کیا جاتا کہ چونکہ وہ بادشاہی جبروت اور شوکت اپنے ساتھ رکھتے تھے اس لئے لوگ جان بچانے کے لئے ان کے جھنڈے کے نیچے آگئے تھے ۔
پس یہ سوال تو یہ ہے کہ جبکہ آپ کے لئے اپنی غریبی اور مسکینی اور تنہائی کی حالت میں خدا کی توحید اور اپنی نبوت کے بارے میں منادی شروع کی تھی تو اس وقت کس تلوار کے خوف سے لوگ آپ پر ایمان لے آئے تھے۔ اور اگر ایمان نہیں لائے تھے تو پھر جبر کرنے کے لئے کس بادشاہ سے کوئی لشکر مانگا گیا تھا اور مدد طلب کی گئی تھی ۔ اے حق کے طالبو! ! تم یقیناًسمجھو کہ یہ سب باتیں ان لوگوں کی افترا ہیں جو اسلام کے سخت دشمن ہیں ۔ تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا
باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا۔ اور ماں صرف چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مرگئی تھی تب وہ بچہ جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ تھا بغیر کسی کے سہارے کے خدا کی پناہ میں پرورش پاتا رہا۔ اور اس مصیبت اور یتیمی کے ایام میں بعض لوگوں کی بکرؔ یاں بھی چرائیں اور بجز خداکے کوئی متکفّل نہ تھا۔ اور پچیس برس تک پہنچ کر بھی کسی چچا نے بھی آپ کو اپنی لڑکی نہ دی ۔ کیونکہ جیسا کہ بظاہر نظر آتا تھا آپ ا س لائق نہ تھے کہ خانہ داری کے اخراجات کے متحمل ہوسکیں۔ اور نیز محض اُمّی تھے اور کوئی حرفہ اور پیشہ نہیں جانتے تھے ۔ پھر جب آپ چالیس برس کے سن تک پہنچے تویک دفعہ آپ کا دل خداکی طر ف کھینچا گیا۔ ایک غار مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے ۔ جس کا نام حرا ہے ۔ آپ اکیلے وہاں جاتے اور غار کے اندر چھپ جاتے اور اپنے خدا کو یاد کرتے ۔ ایک دن اُسی غار میںآپ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 466
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 466
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/466/mode/1up
پوشیدہ طور پر عبادت کر رہے تھے تب خدا تعالیٰ آپ پر ظاہر ہوا اور آپ کو حکم ہوا کہ دنیا نے خدا کی راہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اور زمین گنہ سے آلودہ ہو گئی ہے ۔ اس لئے میں تجھے اپنا رسول کرکے بھیجتا ہوں ۔ اب تُو اور لوگوں کو متنبہ کر کہ وہ عذاب سے پہلے خدا کی طرف رجوع کریں ۔ اس حکم کے سننے سے آپ ڈرے کہ میں ایک اُمّی یعنی ناخواندہ آدمی ہوں اور عرض کی کہ میں پڑھنانہیں جانتا ۔ تب خدا نے آپ کے سینہ میں تمام روحانی علوم بھردیئے اور آپ کے دل کو روشن کیا تھا ۔ آپ کی قوت قدسیہ کی تاثیر سے غریب اور عاجز لوگ آپ کے حلقہ اطاعت میں آنے شروع ہوگئے ۔ اور جو بڑے بڑے آدمی تھے انہوں سے دشمنی پر کمر باندھ لی ۔ یہاں تک کے آخر کار آپ کو قتل کرنا چاہا ۔ اور کئی مرداور کئی عورتیں بڑے عذاب کے ساتھ قتلکرؔ دیئے گئے۔ اور آخری حملہ یہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لئے آپ کے گھر کا محاصرہ کرلیا۔ مگر جس کو خدا بچاوے اس کو کون مارے ۔ خدا نے آپ کو اپنی وحی سے اطلاع دی کہ آپ اس شہر سے نکل جاؤ ۔ اور میں ہر قدم میں تمہارے ساتھ ہوں گا ۔ پس آپ شہر مکہ سے ابو بکرکو ساتھ
لے کر نکل آئے اور تین رات تک غار ثور میں چھپے رہے ۔ دشمنوں نے تعاقب کیا اور ایک سراغ رسان کو لے کر غار تک پہنچے اس شخص نے غار تک قدم کا نشان پہنچا دیا اور کہا کہ اس غار میں تلاش کرو اس کے آگے قدم نہیں ۔ اور اگر اس کے آگے گیا ہے تو پھر آسمان پر چڑھ گیا ہوگا مگر خدا کی قدرت کے عجائبات کی کون حد بست کرسکتا ہے ۔ خدا نے ایک ہی رات میں یہ قدرت نمائی کی کہ عنکبوت نے اپنی جالی سے غار کا تمام منہ بند کردیا اور ایک کبوتری نے غارکے منہ پر گھونسلا بنا کر انڈے دیدیئے اور جب سراغ رساں نے لوگوں کو غار کے اندر جانے کی ترغیب دی تو ایک بڈھا آدمی بولا کہ یہ سراغ ر ساں تو پاگل ہوگیا
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 467
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 467
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/467/mode/1up
ہے ۔ میں تو اس جالی کو غار کے منہ پر اس زمانہ سے دیکھ رہا ہوں جبکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ اس بات کو سن کر سب لوگ منتشر ہوگئے اور غارکا خیال چھوڑدیا ۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدہ طور پر مدینہ میں پہنچے اورؔ مدینہ کے اکثر لوگوں نے آپ کو قبول کرلیا۔ اس پر مکہ والوں کا غضب بھڑکا اور افسوس کیاکہ ہمارا شکار ہمارے ہاتھ سے نکل گیا۔ اور پھر کیا تھادن رات انہیں منصوبوں میں لگے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کردیں۔ اور کچھ تھوڑا گر وہ مکّہ والوں کاکہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تھا وہ بھی مکّہ سے ہجرت کرکے مختلف ممالک کی طرف چلے گئے۔ بعض نے حبشہ کے بادشاہ کی پناہ لے لی تھی۔ اور بعض مکّہ میں ہی رہے۔ کیوں کہ وہ سفر کرنے کے لئے زادِ راہ نہیں رکھتے تھے اوروہ بہت دُکھ دیئے گئے۔ قرآن شریف میں اُن کا ذکر ہے کہ کیوں کر وہ دِن رات فریاد کرتے تھے۔
اور جب کفار قریش کا حدسے زیادہ ظلم بڑھ گیا۔ اور انہوں نے غریب عورتوں اور یتیم بچوں کو قتل کرنا شروع کیا۔اوربعض عورتوں کو ایسی بیدردی سے مارا کہ اُن کی دونوں ٹانگیں دو رسوں سے باندھ کر دو اُونٹوں کے ساتھ وہ رسے خوب جکڑ دیئے اور پھر اُن اُونٹوں کو دو مختلف جہات میں دوڑایا اور اِس طرح پر وہ عورتیں دوٹکڑے ہوکر مرگئیں۔
جب بے رحم کافروں کا ظلم اِس حد تک پہنچ گیا۔ خدا نے جوآخر اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے۔ اپنے رسول پر اپنی وحی نازل کی کہ مظلوموں کی فریاد میرے تک پہنچ ؔ گئی۔ آج میں اجازت دیتا ہوں کہ تم بھی اُن کامقابلہ کرو اور یاد رکھو کہ جو لوگ بے گناہ لوگوں پر تلوار اُٹھاتے ہیں وہ تلوار سے ہی ہلاک کئے جائیں گے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 468
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 468
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/468/mode/1up
مگر تم کوئی زیادتی مت کرو کہ خدا زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔
یہ ہے حقیقت اسلام کے جہاد کی جس کو نہایت ظلم سے بُرے پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے۔ بیشک خد ا حلیم ہے۔ مگر جب کسی قوم کی شرارت حد سے گذر جاتی ہے۔ تو وہ ظالم کو بے سزا نہیں چھوڑتا۔ اور آپ اُن کے لئے تباہی کے سامان پیدا کر دیتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ ہمارے مخالفوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ خدا توقرآن شریف میں فرماتا ہے۔3 ۱ یعنی دین اسلام میں جبر نہیں۔ تو پھر کس نے جبرکاحکم دیا۔ اور جبر کے کونسے سامان تھے۔ اور کیا وہ لوگ جو جبر سے مسلمان کئے جاتے ہیں اُن کا یہی صدق اور یہی ایمان ہوتا ہے کہ بغیر کسی تنخواہ پانے کے باوجود دو تین سو آدمی ہونے کے ہزاروں آدمیوں کا مقابلہ کریں۔ اور جب ہزار تک پہنچ جائیں تو کئی لاکھ دشمن کو شکست دے دیں۔ اور دین کو دشمن کے حملہ سے بچانے کے لئے بھیڑوں بکریوں کی طرح سرکٹا دیں۔اور اسلام کی سچائی پر اپنے خون سے مہریں کردیں۔ اور ؔ خدا کی توحید کے
پھیلانے کے لئے ایسے عاشق ہوں کہ درویشانہ طور پر سختی اُٹھاکر افریقہ کے ریگستان تک پہنچیں اور اس ملک میں اسلام کو پھیلادیں۔ اور پھر ہریک قسم کی صعوبت اُٹھاکر چین تک پہنچیں نہ جنگ کے طور پر بلکہ محض درویشانہ طور پر اور اس ملک میں پہنچ کر دعوتِ اسلام کریں جس کانتیجہ یہ ہو کہ اُن کے بابرکت وعظ سے کئی کروڑ مسلمان اس زمین میں پیدا ہوجائیں۔ اور پھر ٹاٹ پوش درویشوں کے رنگ میں ہندوستان میں آئیں اور بہت سے حصہ آریہ ورت کو اسلام سے مشرف کردیں۔ اور یورپ کی حدود تک لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی آواز پہنچا ویں۔ تم ایماناً کہو کہ کیا یہ کام اُن لوگوں کا ہے جو جبراً مسلمان کئے جاتے ہیں جن کادل کافر اور زبان مومن ہوتی ہے؟
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 469
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 469
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/469/mode/1up
نہیں بلکہ یہ اُن لوگوں کے کام ہیں جن کے دل نور ایمان سے بھر جاتے ہیں اور جن کے دلوں میں خدا ہی خدا ہوتا ہے۔
پھر ہم اس طرف رجوع کرتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ واضح ہو کہ اسلام کا بڑا بھاری مقصد خدا کی توحید اور جلال زمین پر قائم کرنا اور شرک کا بکلّی استیصال کرنا۔ اور تمام متفرق فرقوں کو ایک کلمہ پر قائم کرکے اُن کو ایک قوم بنا دینا ہے۔ اور پہلے مذاہب جس قدر دنیا میں گذرے ہیں اور جس قدر نبی اور رسول آئے ہیں اُن کی نظرؔ صرف اپنی قوم اور اپنے ملک تک محدود تھی۔ اور اگر انہوں نے کچھ اخلاق بھی سکھلائے تھے۔ تو اس اخلاقی تعلیم سے اُن کا مقصد اس سے زیادہ نہ تھا کہ اپنی ہی قوم کو اُن کے اخلاق سے بہرہ یاب کریں۔ چنانچہ حضرت مسیح نے صاف صاف کہہ دیا کہ میری تعلیم صرف بنی اسرائیل تک محدود ہے۔ اور جب ایک عورت نے جو اسرائیلی خاندان میں
داخل نہ تھی بڑی عاجزی سے اُن سے ہدایت چاہی۔ تو اُنہوں نے اُس کو رد کیا۔ اور پھر وہ غریب عورت کتیا سے اپنے تئیں مشابہت دے کر دوبارہ ہدایت کی مستدعی ہوئی تو وہی جواب اُس کو ملا کہ میں صرف اسرائیل کی بھیڑوں کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ آخر وہ چپ رہ گئی۔ مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں نہیں کہا کہ میں صرف عرب کے لئے بھیجا گیا ہوں بلکہ قرآن شریف میں یہ ہے۔3 3 ۱ یعنی لوگوں سے کہہ دے کہ میں تمام دُنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ مگر یاد رہے کہ حضرت عیسیٰ کا اُس عورت کو صاف جواب دینا یہ ایسا امر نہیں ہے کہ اِس میں حضرت عیسیٰ کا کوئی گناہ تھا۔ بلکہ عام ہدایت کا ابھی وقت نہیں آیا تھا۔ اور حضرت عیسیٰ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم تھا کہ تم خاص بنی اسرائیل کے لئے بھیجے گئے ہو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 470
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 470
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/470/mode/1up
اوروں سے تمہیں کچھ غرض نہیں۔ پس جیسا کہ ابھی ؔ میں نے بیان کیا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی اخلاقی تعلیم بھی محض یہودیوں تک محدود تھی۔ بات یہ تھی کہ توریت میں یہ احکام تھے کہ دانت کے بدلہ دانت اور آنکھ کے بدلہ آنکھ اور ناک کے بدلہ ناک اور اس تعلیم سے صرف یہ غرض تھی کہ تا یہودیوں میں عدل کا مسئلہ قائم کیاجائے اور تعدّی اور زیادتی سے روکا جائے۔ چونکہ بباعث اس کے کہ وہ چار ۴۰۰سو برس تک غلامی میں رہ چکے تھے۔ ان میں ظلم اور سفلہ پن کی خصلتیں بہت پیدا ہوگئی تھیں۔ پس خدا کی حکمت نے یہ تقاضا کیا کہ جیسا کہ انتقام اور بدلہ لینے میں اُن کی فطرتوں میں ایک تشدد تھا اس کے دُور کرنے کے لئے ایک تشدد کے ساتھ اخلاقی تعلیم پیش کی جائے۔ سو وہ اخلاقی تعلیم انجیل ہے جو صرف یہودیوں کے لئے ہے نہ تمام دنیا کے لئے کیونکہ دوسری قوموں سے حضرت عیسیٰ کو کچھ بھی غرض نہ تھی۔
مگر واقعی بات یہ ہے کہ اس تعلیم میں جو حضرت عیسیٰ نے پیش کی صرف یہی نقص نہیں کہ وہ دنیا کی عام ہمدردی پر مبنی نہیں بلکہ ایک یہ بھی نقص ہے کہ جیسا کہ توریت تشدّد و انتقام کی تعلیم میں افراط کی طرف مائل ہے۔ ایسا انجیل عفو اور درگذر کی تعلیم میں تفریط کی طرف جھک گئی ہے۔ اور ان دونوں کتابوں نے انسانی درخت کی تمام شاخوں کا کچھ لحاظ نہیں کیا بلکہ اس درخت کی ایک شاخ کو تو توریت پیش کرتی ہے۔ اور دوسری شاخ انجیل کے ہاتھ میں ہے۔ اور دونوں تعلیمیں اعتدال سے گری ہوئی ہیں۔ کیونکہ جیسا کہ ہر وقت اور ہر موقعہ پر انتقام لینا اور سزا دینا قرین مصلحت نہیں ایسا ہی ہر وقت اور ہر موقعہ پر عفو اور درگزر کرنا انسانی تربیت کے مصالح سے بالکل مخالف ہے۔ اسی وجہ سے قرآن شریف نے ان دونوں تعلیموں کو رد کرکے یہ فرمایا ہے ۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 471
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 471
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/471/mode/1up
3 ۱ یعنی بدی کا بدلہ اسی قدر بدی ہے جوکی جائے۔ جیسا کہ توریت کی تعلیم ہے۔ مگر جو شخص عفو کرے جیسا کہ انجیل کی تعلیم ہے۔ تو اِس صورت میں وہ عفو مستحسن اور جائز ہوگی جبکہ کوئی نیک نتیجہ اس کا مرتب ہو۔ اور جس کو معاف کیا گیا کوئی اصلاح اس کی اس عفو سے متصور ہو۔ ورنہ قانون یہی ہے جو توریت میں مذکور ہے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 472
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 472
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/472/mode/1up
_
ذیلؔ میں وہ متفرق یاد داشتیں دیجاتی ہیں جو حضرت اقدس نے اس مضمون
کے متعلق لکھی تھیں اور مجھے اُن کے مسودات سے دستیاب ہوئیں*
*
آیات قرآن شریف جو اِس مضمون میں انشاء اللہ لکھی جائیں گی
۱ ۔صفحہ ۵۶
۲ اگر تم ظاہر کرو خیرات کو تو وہ اچھا ہے۔ اور اگر تم خیرات کو چھپاؤ تو وہ بہت ہی اچھا ہے۔ ایسی خیرات تمہاری بُرائیاں دور کرے گی۔صفحہ ۶۰
33۳ صفحہ ۶۱
33۴ تاکہ اُن کا بھلا ہو۔ صفحہ ۳۷ سورۃ البقرۃ الجزو نمبر۲چاہیئے کہ میرے حکموں کو قبول کریں اور مجھ پر ایمان لاویں۔ تاکہ اُن کا بھلا ہو۔
3۵ صفحہ ۴۱ الجزو سورۃ البقرۃ۔ تم محبت سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ خدا کو یاد کرو۔
نوٹ:۔ یہ حوالجات صفحات غالباً اس قرآن مجید کے ہیں جو حضور علیہ السلام کے پاس بوقت تحریر پیغام صلح تھا۔ (کمال الدین)
* یہ یاداشتیں براہین احمدیہ حصہ پنجم کے آخر میں بھی من و عن درج ہیں۔ ان کے بارہ میں جلد ہٰذا کے پیغام صلح کے تعارف کے تحت صفحہVIپر ملاحظہ کیا جائے۔ (ناشر)
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 473
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 473
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/473/mode/1up
جیساؔ کہ تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِىْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌ ۢ بِالْعِبَادِ ۱ صفحہ ۴۲ الجزو نمبر ۲ البقرہ۔ بعض ایسے ہیں کہ اپنے نفسوں کو خدا کی راہ میں بیچ دیتے ہیں۔ تا کسی طرح وہ راضی ہو۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ادْخُلُوْا فِىْ السِّلْمِ کَآفَّةً وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ اِنَّهٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ
صفحہ ۴۲۔ اے ایمان والو خدا کی راہ میں اپنی گرد ن ڈال دو اور شیطانی راہوں کو اختیارمت کرو کہ شیطان تمہارادشمن ہے۔ اس جگہ شیطان سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں۔
وَلَا تَجْعَلُوْا اللّٰهَ عُرْضَةً ۳صفحہ ۴۶
ٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰى صفحہ ۵۸۔ كَالَّذِىْ يُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِؕ فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًا ۴ ۔صفحہ۵۸
قرآن شریف میں یہ خاص حکم ہے۔ کہ اس کی اخلاقی تعلیم تمام دُنیا کیلئے ہے مگر انجیل کی اخلاقی تعلیم صرف یہود کے لئے ہے۔
اِسؔ بیان میں کہ قرآن شریف دُوسری اُمتوں کے نیکوں کی بھی تعریف کرتا ہ
لَـيْسُوْا سَوَآءًؕ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآٮِٕمَةٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّيْلِ وَ هُمْ يَسْجُدُوْنَ ۔ يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسٰرِعُوْنَ فِىْ الْخَيْرٰتِ ؕ وَاُولٰٓٮِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۵ ۔صفحہ۸۵ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوٰهِهِمْ ۖۚ وَمَا تُخْفِىْ صُدُوْرُهُمْ
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوٰهِهِمْ ۖۚ وَمَا تُخْفِىْ صُدُوْرُهُمْ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 474
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 474
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/474/mode/1up
اَكْبَرُؕ قَدْ بَيَّنَّا لَـكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ۔ هٰۤاَنْتُمْ اُولَاۤءِ تُحِبُّوْنَهُمْ وَلَا يُحِبُّوْنَكُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْكِتٰبِ كُلِّهٖۚ وَاِذَا لَقُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِؕ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ۱ صفحہ ۸۷
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ يُزَكُّوْنَ اَنْفُسَهُمْؕ بَلِ اللّٰهُ يُزَكِّىْ مَنْ يَّشَآءُ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلاً ۲ صفحہ ۱۱۴
اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوْا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَهْلِهَاۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعَۢا بَصِيْرًا۳ صفحہ ۱۱۵
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ یہودی اور مسلمان میں اس کے متعلق ہے۔
مَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَّكُنْ لَّهٗ نَصِيْبٌ مِّنْهَاۚ وَمَنْ يَّشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَّكُنْ لَّهٗ كِفْلٌ مِّنْهَاؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ مُّقِيْتًا۴۔سورۃ النساء الجز نمبر۵۔ اور اللہ ہرچیز پر نگہبان ہے۔
وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَـنَّمُ خَالِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهٗ وَاَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِيْمًا ۵۔ سورۃ النساء صفحہ ۱۲۳ الجز نمبر۵
وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًاۚ ۶(۱۲۳ سورۃ النساء)
وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۷ صفحہ ۱۳۰۔ الجزو نمبر ۵ سورۃ النساء رکوع نمبر ۱ؕ
وَالصُّلْحُ خَيْرٌؕ ۸ ۔ صفحہ ۱۳۰۔رکوع نمبر ۱۵ سورۃ النساء
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوَّامِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰٓى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَؕ ۹ ۔ الجزو نمبر ۵ سورۃ النساء صفحہ ۱۳۶
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 475
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 475
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/475/mode/1up
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِىْ نَزَّلَ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَالْكِتٰبِ الَّذِىْۤ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُؕ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِاللّٰهِ وَمَلٰٓٮِٕكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاًۢ بَعِيْدًا ۱ صفحہ ۲ ۱۳
قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْنَا۔۔۔وَمَآ اُوْتِىَ مُوْسَىٰ وَعِيْسٰى وَمَآ اُوْتِىَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَّبِّهِمْ ۚ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ ۲۔ صفحہ۲۷سورۃ البقرۃ
3 3۳ صفحہ ۲۷ سورۃ البقرۃ۔
اگر وہ ایسا (ایمان*)لائیں جیسا کہ تم ایمان لائے۔ تو وہ ہدایت پاچکے اور اگر ایسا ایمان نہ لاویں تو پھر وہ ایسی قوم ہے کہ جو مخالفت چھوڑنا نہیں چاہتی اور صلح کی خواہاں نہیں۔
33۴ ۔ صفحہ ۱۳۷ سورۃ النساء الجز نمبر۶
33 3۔3 3۵ ۔صفحہ ۱۳۵ سورۃ النساء۔
333۶۔ صفحہ ۱۳۳۔
33 ۷۔ صفحہ ۱۳۵
اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ اَلْقٰٮهَاۤ اِلٰى مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 476
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 476
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/476/mode/1up
انتَهُوْا خَيْرًا لَّـكُمْ ۱ ۔ صفحہ ۱۳۹ سورۃ النساء الجزو نمبر ۶
33۲۔ صفحہ ۱۴۱
333۳ ۔ صفحہ ۱۴۳۔ سورۃ المائدۃ الجز نمبر۶
3۴ ۔ 3 33۵ ۔ (صفحہ ۱۶۱ ۔المائدۃ)
3۶ ۔
3۷ صفحہ ۱۹۹۔الاعراف الجزو نمبر۸
3۸ ۔۔۔۔33۹ (صفحہ ۲۰۸)
3333۔3 3۔33۱۰ ۔ صفحہ ۲۰۹ سورۃ الاعراف
33۱۱۔ سورۃ الاعراف صفحہ ۲۱۵
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 477
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 477
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/477/mode/1up
اور ہم نے کسی بستی میں کوئی رسول نہیں بھیجا۔ مگر ہم نے اُن کو انکار کی حالت میں قحط اور وبا کے ساتھ پکڑا۔ تا اس طرح پر وہ عاجزی کریں۔
33۱۔صفحہ ۲۱۵ سورۃ الاعراف الجز نمبر ۹
33۲۔صفحہ۲۱۵۔ الاعراف
333۳ ۔ صفحہ ۲۱۵
3333۴ ۔ صفحہ ۲۲۵ ۔الاعراف الجزو نمبر ۹
یعنی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں۔ اور اُن باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے۔ اور پاک چیزوں کو حلال کرتاہے۔ او رناپاک کو حرام ٹھہراتا ہے۔ اور قوموں کے سر پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جس کے نیچے وہ دبی ہوئی تھیں۔ اور ان گردنوں کے طوقوں سے وہ رہائی بخشتا ہے جن کی وجہ سے گردنیں سیدھی نہیں ہوسکتی تھیں۔ پس جو لوگ اس پر ایمان لائیں گے اور اپنی شمولیت کے ساتھ اس کو قوت دیں گے۔ اور اس کی مدد کریں گے۔ اور اس نور کی پیروی کریں گے جو اس کے ساتھ اُتارا گیا وہ دنیا اور آخرت کی مشکلات سے نجات پائیں گے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 478
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 478
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/478/mode/1up
3 ۱ صفحہ ۲۲۵۔ الاعراف الجزو نمبر ۹
333۲ ۔ صفحہ ۲۲۸۔ اور جو لوگ محکم پکڑتے ہیں کتاب کو اور نماز کو قائم کرتے ہیں اُن کے ہم اجر ضائع نہیں کرتے۔
3۳ صفحہ ۲۲۹۔ رُوحوں کے قویٰ جن میں خدا تعالیٰ کا حق پیدا ہوا ہے بزبان حال گواہی دے رہے ہیں جو وہ خدا کے ہاتھ سے نکلے ہیں۔
پس اگر یہ سوال پیش ہو کہ ہم کس طرح قرآن شریف پر ایمان لاویں کیونکہ دونوں تعلیموں میں تناقض درمیان ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کوئی تناقض نہیں وید کی شرتیوں کی ہزارہا طورپر تفسیریں کی گئی ہیں۔ اور منجملہ ان کے ایک تفسیر وہ بھی ہے جو قرآن کے مطابق ہے۔
3
جوشخص خدا سے نہیں ڈرتا۔ وہ ایک حق الامر کے بارے ایسا مقابلہ سے پیش آتا ہے کہ گویا اُس کو موت کی طرف کھینچنا چاہتے ہیں۔ اور وہ اپنی جان بچا رہا ہے۔
3۴ صفحہ۲۳۹۔سورۃ الانفال الجزو نمبر ۹۔3۵ ۔(ترجمہ) اے ایمان والو ! اگر تم تقویٰ اختیار کرو۔ تو تم میں اور تمہارے غیر میں خداایک فرق رکھ دے گا اور تمہیں پاک کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور تمہارا خدا صاحب فضل بزرگ ہے۔
یادداشت۔ دین مذہب صرف زبانی قصہ نہیں بلکہ جس طرح سونا اپنی علاؔ متوں سے شناخت کیا جاتا ہے۔ اسی طرح سچی ہدایت کا پابند اپنی روشنی سے ظاہر ہوجاتا ہے۔
خدا ہلاک کرتا ہے اس شخص کو جو دلیل کے ساتھ ہلاک ہوچکا۔ اور زندہ رکھتا ہے
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 479
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 479
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/479/mode/1up
اُس شخص کو جو دلیل کے ساتھ زندہ ہے۔
33۱ صفحہ ۲۴۴۔ سورۃ الانفال نمبر۸۔ اور اگر مخالف لوگ صلح کے واسطے جھکیں تو تم بھی جھک جاؤ اور خدا پر توکل کرو۔
33۲ ۔ صفحہ ۲۴۴ سورۃ الانفال۔
اور اگر صلح کے وقت دل میں دغا پر ہیں۔ تو اس دغا کے تدارک کے لئے خدا تجھے کافی ہے۔
3
33۳ ۔سورۃ التوبہ الجزو نمبر ۱۰۔
3 33333۴ ۔ صفحہ ۲۵۲۔ سورۃ التوبہ الجزو نمبر۹
3۵ ۔ صفحہ ۲۶۸۔ التوبہ نمبر ۹
33
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 480
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 480
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/480/mode/1up
3۱ ۔ صفحہ ۲۷۱۔ التوبہ۔ الجزو نمبر ۱۱
(ترجمہ) وہ لوگ خوش وقت ہیں۔جو سب کچھ چھوڑ کر خدا کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اور خدا کی پرستش میں مشغول ہوتے ہیں اور خدا کی تعریف میں لگے رہتے ہیں۔ اور خدا کی راہ کی منادی کے لئے دُنیا میں پھرتے ہیں۔ اورخدا کے آگے جھکتے رہتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں وہی مومن ہیں جن کونجات کی خوشخبری دی گئی ہے۔ صفحہ ۲۷۸
خدا نے اپنے قانون قدرت میں مصائب کو پانچ قسم پر منقسم کیا ہے۔ یعنی آثار مصیبت کے جو خوف دلاتے ہیں۔ اور پھر مصیبت کے اندر قدم رکھنا۔ اور پھر ایسی حالت جب *۔۔۔۔۔۔ پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر زمانہ تاریک مصیبت کا اور پھر صبح رحمت الٰہی کی۔ یہ پانچ وقت ہیں جن کے نمونہ پانچ نمازیں ہیں۔
3۔33۲
3۳
*
ذیل میں چند اعتراضات اورچند حقائق درج کئے جاتے ہیں جو حضور علیہ السلام کی یاد داشتوں میں جو پیغام صلح کے متعلق آپ نے لکھی ہوئی تھیں مجھے ملے۔ ان اعتراضات کو رد کرنے کااور اُن حقائق پر بموجب تعلیم قرآن روشنی ڈالنے کا آپ کا ارادہ تھا۔ ایسا ہی بعض امور بدھ کی ایک کتاب سے لئے معلوم ہوتے ہیں۔ جو اُن دِنوں آپ کے زیر مطالعہ تھی جس کے متعلق آپ کچھ لکھنا چاہتے تھے۔ (کمال الدین)
اعتراضات (۱) جتنی الہامی کتابیں ہیں اُن میں کونسی ایسی نئی بات ہے جو پہلے معلوم نہ تھی۔
* نوٹ۔ پڑھا نہیں گیا۔( کمال الدین )۔ البتہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۴۲۲ پر ’’ نومیدی ۔۔۔ پیدا ہوتی ہے ‘‘ کے الفاظ ہیں۔ (ناشر)
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 481
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 481
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/481/mode/1up
(۲) کس ایسی سائنس کے عقدہ کو نبیوں نے حل کیا جو پہلے لاینحل تھا۔
(۳) نبیوں نے رُوح کی کیفیت و ماہیت کچھ نہیں بتلائی۔ اورنہ آئندہ زندگی کا کچھ حال بتلایا۔ نہ خدا کا ہی مفصل حال بیان کرسکے۔ لیکن انبیاء نے بیان کیا ہے کہ نیند کے اور اسباب تھے۔ فن طبعی میں نیند کو اسباب طبعیہ میں رکھا ہے۔
(۴) سابقہ مغالطوں کو رفع نہیں کیا اور نہ پیچیدہ مسائل کو سلجھایا۔ بلکہ اور بھی اُلجھن میں ڈال دیا۔
(۵) بُدھ کی اخلاقی تعلیم سب سے اعلیٰ ہے۔
(۶) جس چیز سے انسان پیار کرتا ہے اس سے اگر جدا کیا جائے تو یہی اس کے لئے ایک عذاب ہو جاتا ہے۔
(۷) اور جس چیز سے اگر پیار کرے۔ اگر وہ میسر آجائے تو یہی اُس کی راحت کا موجب ہو جاتا ہےؔ ۔ 3۱
(۸) خواہش کا نابود کرنا ذریعہ نجات ہے۔
(۹) دنیا میں کبھی علم صحیح سے نجات ملتی ہے اور کبھی عمل صحیح سے نجات ملتی ہے اور کبھی قول صحیح سے نجات ملتی ہے اور کبھی فعل صحیح سے نجات ملتی ہے۔ اور کبھی بنی نوع سے معاملہ پاک موجب نجات ہو جاتا ہے اور کبھی خدا سے معاملہ نیک درد و دکھ چھڑاتا ہے اور کبھی ایک درد دوسری دردوں کے لئے کفارہ ہو جاتی ہے۔
(۱۰) سچ کہو جھوٹ نہ بولو۔ بیہودہ باتوں سے پرہیز کرو۔ اور اپنے فعل یا اپنے قول سے کسی کو نقصان مت پہنچاؤ۔ اپنی زندگی کو پاک رکھو۔ غیبت نہ کرو۔ اور کسی پر بہتان مت لگاؤ۔ نفسانی شہوات اپنے پر غالب نہ ہونے دو۔ کینہ اور حسد سے پرہیز کرو۔ بغض سے اپنا دل صاف رکھو۔ اپنے دشمن سے بھی وہ معاملہ نہ کرو جو تم اپنے لئے پسند نہیں کرتے۔ ایسی نصیحتیں دوسروں کو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 482
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 482
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/482/mode/1up
مت کرو جن کے تم خود پابند نہیں۔ معرفت کی ترقی میں لگے رہو۔ جہل سے دِل کو پاک کرو۔ جلدی سے کسی پر اعتراض مت کرو۔
نفرت کرنے سے نفرت رفع نہیں ہوتی بلکہ اور بھی بڑھتی ہے۔ محبت نفرت کو ٹھنڈا کرکے رفع کر دیتی ہے۔
333۱ ۔ یعنی دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے۔ گوشت اورخون سچی قربانی نہیں۔جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قرباؔ نی کرتے ہیں۔ خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔
مگر خدا نے یہ قربانیاں بھی بند نہیں کیں تا معلوم ہو کہ ان کی قربانیوں کا بھی انسان سے تعلق ہے۔
خدا نے بہشت کی خوبیاں اِس پیرایہ میں بیان کی ہیں جو عرب کے لوگوں کو چیزیں دل پسند تھیں وہی بیان کردی ہیں۔ تا اس طرح اُن کے دل اس طرف مائل ہو جائیں۔ اور دراصل وہ چیزیں اور ہیں یہی چیزیں نہیں۔ مگر ضرور تھا کہ ایسا بیان کیا جاتا۔ تاکہ دِل مائل کئے جائیں۔ 3۲ ۔
وہ جو ا پنی نفسانی خواہشات کے پورا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ وہ سراسر اپنی بیخ کنی کرتا ہے لیکن وہ جو سچے راستہ پر چلتا ہے اُس کا نہ صرف بدن بلکہ رُوح بھی نجات کو پہنچے گی۔
وہ جو ا پنی نفسانی خواہشات کے پورا کرنے میں لگا رہتا ہے وہ سراسر اپنی بیخ کنی کرتا ہے اور نہ صرف جسم کو ہلاکت میں ڈالتا ہے بلکہ رُوح کو بھی ہلاک کرتا ہے۔ مگر وہ جو راہ راست پر چلتا ہے اور نفسانی جذبات کا پیرو نہیں ہوتا۔ وہ نہ صرف اپنے جسم کو ہلاکت سے بچاتا ہے بلکہ اپنی رُوح کو بھی نجات تک پہنچا دیتا ہے۔ 3 3۳ ۔
ایک گاؤں میں سو گھر تھے۔ اور صرف ایک گھر میں چراغ جلتا تھا۔ تب جب
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 483
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 483
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/483/mode/1up
لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ اپنے اپنے چراغ لے کر آئے۔ اور سب نے اُس چراغ سے اپنے چراغ روشن کئے۔ اسی طرح ایک روشنی سے کثرت ہوسکتی ہے۔ اسی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ کرکے فرماتا ہے۔ 3 3 ۱ ۔
انساؔ ن تو اپنی جان کا بھی مالک نہیں چہ جائیکہ وہ دولت کا مالک ہو۔ ایک چمچہ شربت کا مزہ نہیں پاسکتا۔ اگرچہ کئی بار اس میں پڑتا ہے۔ شیرینی ہاتھوں کے ذریعہ سے منہ تک پہنچتی ہے۔ لیکن ہاتھ شیرینی کا مزہ نہیں پاسکتے اِسی طرح جس کو خدا نے حواس نہیں دیئے وہ ذریعہ بن کر بھی کچھ فائدہ نہیں اُٹھاتا۔3 3 ۲ 3۳ ۔
ایک بڑی لذّت چھوٹی لذّت سے غنی کر دیتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ 3۴۔ 3۵ ۔
(۱) ایمان بیج ہے۔ (۲) نیک کام مینہ ہے (۳) مجاہدات ہل ہیں جو جسمانی اور ظاہری طور پر کئے جاتے ہیں۔ نفس مرتاض بیل ہے جو نفسِ لوّامہ ہے۔ شریعت اس کے چلانے کے لئے ڈنڈا ہے اور وہ اناج جو اس سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ دائمی زندگی ہے۔
ذات سے خارج وہ ہوتا ہے۔ جو نیک صفات سے خالی ہو۔ کیونکہ انسان کی نیک صفات ہی اُس کی ذات ہے۔ اپنے دل کے جذبات کو سمجھنے والے بہت کم ہوتے ہیں وہ جن چیزوں میں اپنی خوشحالی دیکھتے ہیں۔ درحقیقت وہ خوشحالی کا موجب نہیں ہوتیں۔
جو شخص بدی کے مقابل پر بدی نہیں کرتا اور معاف کرتا ہے وہ بلاشبہ تعریف کے لائق ہے۔ مگر اس سے زیادہ وہ شخص تعریف کے لائق ہے جو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 484
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 484
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/484/mode/1up
عفو یا انتقام کا مقید نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہوکر مناسب وقت کام کرتا ہے۔ کیونکہ خدا بھی ہر ایک کے مناسب حال کام کرتا ہے۔ جو سزا کے لائق ہے اُس کو سزا دیتاہے جو معافی کے لائق ہے اس کو معافی دیتاہے۔ 333 ۱ ۔
دنیا میں دو فرقے بہت ہیں۔ ایک تو وہ جو عدل کو پسند کرتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو احسا ن کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں۔ اور تیسرا فرقہ وہ ہے جو سچی ہمدردی اِس قدر اُن پر غالب آجاتی ہے کہ وہ عدل اور احسان کا پابند نہیں رہتا۔ بلکہ سچی ہمدردی کی رہنمائی سے مناسب وقت عمل کرتا ہے۔ جیسا کہ ماں اپنے بچے کے ساتھ سلوک کرتی ہے۔ کہ شیریں اور لذیذ غذائیں بھی اُس کو اور پھر مناسب وقت پر تلخ ادویہ بھی دیتی ہے۔ اوردونوں حالتوں میں اُس کی۔۔۔۔۔۔*
میرے بیان میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہوگا جوکہ گورنمنٹ انگریزی کے برخلاف ہو اور ہم اس گورنمنٹ کے شکر گذار ہوں۔ کیونکہ ہم نے اس سے امن اور آرام پایا ہے۔ میں اپنے دعوےٰ کی نسبت اِس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں اپنی طرف سے نہیں بلکہ خدا کے انتخاب سے بھیجا گیا ہوں تا میں مغالطوں کو رفع کروں اور پیچیدہ مسائل کو صاف کردوں اور اسلام کی روشنی دُوسری قوموں کو دکھلاؤں اور یاد رہے کہ جیسا کہ ہمارے مخالف ایک مکروہ صورت اسلام کی دکھلا رہے ہیں۔ یہ صورت اسلام کی نہیں ہے بلکہ وہ ایسا چمکتا ہوں ہیرا ہے جس کا ہر ایک گوشہ چمک رہا ہے۔ ایک بڑے محل میں بہت سے چراغ ہوں اور کوئی چراغ کسی دریچہ
* یہاں بھی عبارت چھوٹی ہوئی ہے۔ (مصحح)
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 485
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 485
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/485/mode/1up
سے نظر آوے اور کوئی کسی کو نہ سے۔ یہی حال اسلام کا ہے کہ اس کی آسمانی روشنی صرف ایک ہی طرف سے نظر نہیں آتی بلکہ ہر ایک طرف سے اس کے ابدی چراغ نمایاں ہیں۔ اس کی تعلیم بجائے خود ایک چراغ ہے۔ اور اس کے ساتھ جو خدا کی نصرت کے نشان ہیں وہ ہر یک نشان چراغ ہے۔ او رجو شخص اس کی سچائی کے اظہار کے لئے خدا کی طرف سے آتا ہے وہ بھی ایک چراغ ہوتا ہے۔ میرا بڑا حصہ عمر کا مختلف قوموں کی کتابوں کے دیکھنے میں گذرا ہے مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں نے کسی دوسرے مذہب کی کسی تعلیم کو خواہ اُس کا عقائد کا حصہ اورؔ خواہ اخلاقی حصہ اور خواہ تدبیر منزلی اور سیاست مدنی کا حصہ اور خواہ اعمال صالحہ کی تقسیم کا حصہ ہو قرآن شریف کے بیان کے ہم پہلو نہیں پایا۔ اور یہ قول میرا اس لئے نہیں کہ میں ایک شخص مسلمان ہوں بلکہ سچائی مجھے مجبور کرتی ہے کہ میں گواہی دوں۔ اور یہ میری گواہی بے وقت نہیں بلکہ ایسے وقت میں جبکہ
دُنیا میں مذاہب کی کشتی شروع ہے۔ مجھے خبردی گئی ہے کہ اس کشتی میں آخر اسلام کو فتح ہے۔ میں زمین کی باتیں نہیں کہتا کیونکہ میں زمین سے نہیں ہوں بلکہ میں وہی کہتا ہوں جو خدا نے میرے منہ میں ڈالا ہے۔ زمین کے لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ شاید انجام کار عیسائی مذہب دنیا میں پھیل جائے یا بدھ مذہب تمام دنیا پر حاوی ہو جائے۔ مگر وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ یاد رہے کہ زمین پر کوئی بات ظہور میں نہیں آتی جب تک وہ بات آسمان پر قرار نہ پائے۔ سو آسمان کا خدا مجھے بتلاتا ہے کہ آخر اسلام کا مذہب دلوں کو فتح کرے گا۔ اس مذہبی جنگ میں مجھے حکم ہے کہ میں حکم کے طالبوں کو ڈراؤں۔ اور میری مثال اُس شخص کی ہے کہ جو ایک خطرناک ڈاکوؤں کے گروہ کی خبر دیتا ہے۔ جو ایک گاؤں کی
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 486
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 486
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/486/mode/1up
غفلت کی حالت میں اس پر ڈاکہ مارنا چاہتے ہیں۔ پس جو شخص اُس کی سنتا ہے وہ اپنا مال اُن ڈاکوؤں کی دست برد سے بچا لیتا ہے۔ اور جو نہیں سنتا وہ غارت کیا جاتا (ہے)۔ ہمارے وقت میں دو قسم کے ڈاکو ہیں۔ کچھ تو باہر کی راہ سے آتے ہیں اور کچھ اندر کی راہ سے اوروہی مارا جاتا ہے جو اپنے مال کو محفوظ جگہ میں نہیں رکھتا۔ اس زمانہ میں ایمانی مال کے بچانے کے لئے محفوظ جگہ یہ ہے کہ اسلاؔ م کی خوبیوں کا علم ہو۔ اِسلام کی قوتِ رُوحانی کا علم ہو۔ اسلام کے زندہ معجزات کا علم ہو اور اُس شخص کا علم ہو جو اِسلامی بھیڑوں کے لئے بطور گلہ بان مقرر کیا جائے۔ کیونکہ پرانا بھیڑیا اب تک زندہ ہے وہ مرا نہیں ہے۔ وہ جس بھیڑ کو اُس کے چرانے والے سے دُور دیکھے گا وہ ضرور اُس کو لے جائے گا۔
اے بندگانِ خدا ! آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب امساک باران ہوتا ہے اور ایک مُدّت تک مینہ نہیں برستا تو اس کا آخری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئیں بھی خشک ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔ پس جس طرح جسمانی طور پر آسمانی پانی بھی زمین کے ہاتھوں میں جوش پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح رُوحانی طور پر جو آسمانی پانی ہے یعنی خدا کی وحی۔ وہی سفلی عقلوں کو تازگی بخشتا ہے۔ سو یہ زمانہ بھی اس رُوحانی پانی کا محتاج تھا۔
میں اپنے دعویٰ کی نسبت اِس قدر بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں عین ضرورت کے وقت خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں۔ جبکہ اس زمانہ میں بہتوں نے یہود کا رنگ پکڑا۔ اور نہ صرف تقویٰ طہارت کو چھوڑا بلکہ ان یہود کی طرح جو
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 487
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 487
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/487/mode/1up
حضرت عیسیٰ کے وقت میں تھے سچائی کے دشمن ہوگئے تب بالمقابل خدا نے میرا نام مسیح رکھ دیا۔ نہ صرف یہ کہ میں اس زمانہ کے لوگوں کو اپنی طرف بلاتا ہوں بلکہ خود زمانہ نے مجھے بلایا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 23. Page: 488
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۲۳- پَیغامِ صُلح: صفحہ 488
http://www.alislam.org/library/brow...n_Computerised/?l=Urdu&p=23#page/488/mode/1up
(نقل اشتہار جس میں پیغام صلح کامضمون پڑھے جانے کا اعلان کیا گیا)
ایک عظیم الشان جلسہ
بروز اتوار بتاریخ ۲۱ ماہ جون ۱۹۰۸ ء
ٹھیک بوقت ۷ بجے صبح جس میں پنجاب یونیورسٹی ہال متصل عجائب گھر میں وہ
پیغامِ صُلح
پڑھا جاوے گا
جو
اعلیٰ حضرت والا مناقب جناب مرزا غلام احمد صاحب قدّساللّٰہ سرّہنے اپنی زندگی کے آخری دو تین دنوں میں اس ملک سے نفاق اور پھوٹ کو دُور کرنے کے لئے لکھا اِس مبارک پیغام کے مخاطب علی الخصوص ہند و معززین ملک ہیں۔
اہل ہند میں امن اور صلح کے خواہاں ضرور تشریف لاویں۔
الداعیان
خان بہادر محمد شفیع بیرسٹراٹ لا۔ چوہدری نبی بخش بی اے وکیل چیف کورٹ پنجاب۔ میاں فضل حسین بی اے۔ کیمبرج یونیورسٹی بیرسٹراٹ لاو شیخ گلاب دین وکیل چیفکورٹ پنجاب۔ میاں محمد شاہنواز بی اے کیمبرج یونیورسٹی بیرسٹراٹ لا (مولوی) احمد دین بی اے۔ وکیل شیخ فضل الٰہی بیرسٹراٹ لا۔ مرزا جلال الدین بیرسٹرایٹ لا۔ شیخ محمد عبد العزیز بی اے ایڈیٹر ابزرور لاہور۔ میاں عبد العزیز بیرسٹرایٹ لا۔