روحانی خزائن جلد 4۔ آسمانی فیصلہ ۔ یونی کوڈ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 309
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 309
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 310
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 310
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 311
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 311
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بسمؔ اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا
یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کافر مومنوں کو ملزم کرنے کے لیے راہ پاسکیں۔
اے خداوند رہنمائے جہان
صادقاں را زِ کاذبانِ بُرہان
آتش افتاد درجہان ز فساد
الغیاث اے مغیث عالمیان
میاں نذیر حسین صاحب کی تکفیر کی اصل حقیقت اور ان کی مصنوعی فتح کی واقعی کیفیت اور ان کو اور ان کے ہم خیال
لوگوں کو آسمانی فیصلہ کی طرف دعوت
میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اگرچہ آپ بھی کفر کے فتوؤں سے بچے ہوئے نہیں ہیں اور خیر سے ہندوستان میں اول الکافرین وہی ٹھہرائے گئے ہیں تاہم ان کو دوسرے مسلمانوں کے کافر بنانے کا اس قدر جوش ہے کہ جیسے راست باز لوگوں کو مسلمان بنانے کا شوق ہوتا ہے وہ اس بات کے بڑے ہی خواہش مند پائے جاتے ہیں کہ کسی مسلمان پر خواہ نخواہ کفر کا فتویٰ لگ جائے گو کفر کی ایک بھی وجہ نہ پائی جائے اور ان کے شاگرد رشید میاں محمد حسین بٹالوی جو شیخ کہلاتے ہیں انہیں کے نقش قدم پر چلے ہیں بلکہ شیخ جی تو کچھ زیادہ گرمی دار اور تکفیر کے شوق میں اپنے استاد سے بھی کچھ بڑھ چڑھ کر ہیں۔ ان دونوں استاد اورشاگرد کا مذہب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر ننانویں وجوہ ایمان کی کھلی کھلی ان کی نگاہ میں پائی جائیں اور ایک ایمانی وجہ ان کو اپنی کوتہ نظری کی وجہ سے سمجھ میں نہ آوے تو پھر بھی ایسے آدمی کو کافر کہنا ہی مناسب ہے چنانچہ اس عاجز کے ساتھ بھی ان حضرات نے ایسا ہی برتاؤ کیا جو شخص اس عاجز کی تالیفات براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ وغیرہ کو غور سے پڑھے اس پر بخوبی کھل جائے گا کہ یہ عاجز کس
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 312
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 312
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
جان نثاری کے ساتھ خادم دین اسلام ہے اور کس قدر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمتوں کے شائع کرنے میں فداشدہ ہے مگر پھر بھی میاں نذیر حسین صاحب اور ان کے شاگرد بٹالوی نے صبر نہ کیا جب تک کہ اس عاجز کو کافر قرار نہ دے دیا میاں نذیر حسین صاحب کی حالت نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ اس پیرانہ سالی میں کہ گور میں پیر لٹکا رہے ہیں اپنی عاقبت کی کچھ پروانہ کی اور اس عاجز کو کافر ٹھہرانے کیلئے دیانت اور تقویٰ کو بالکل ہاتھ سے چھوڑ دیا اور موت کے کنارہ تک پہنچ کر اپنے اندرون کا نہایت ہی برا نمونہ دکھایا خدا ترس اور متدیّن اور پرہیز گار علماء کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ جب تک ان کے ہاتھ میں کسی کے کافر ٹھہرانے کیلئے ایسی صحیحیہ یقینیہ قطعیہ وجوہ نہ ہوں کہ جن اقوال کی بناء پر اس پر کفر کا الزام لگایا جاتا ہے ان اقوال مستلزم کفر کا وہ اپنے ُ منہ سے صاف اقرار کرے انکار نہ کرے تب تک ایسے شخص کو کافر بنانے میں جلدی نہ کریں لیکن دیکھنا چاہئے کہ میاں نذیر حسین اسی تقویٰ کے طریق پر چلے ہیں یا اور طرف قدم مارا۔ سو واضح ہو کہ میاں نذیر حسین نے تقویٰ اور دیانت کے طریق کو بکلی چھوڑ دیا میں نے دہلی میں تین اشتہار جاری کئے اور اپنے اشتہارات میں بار بار ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوں اور عقیدۂ اسلام رکھتا ہوں بلکہ میں نے اللہ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر پیغام پہنچایا کہ میری کسی تحریر یا تقریر میں کوئی ایسا امر نہیں ہے جو نعوذ باللہ عقیدۂ اسلام کے مخالف ہو صرف معترضین کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ میں تمام عقائد اسلام پر بدل و جان ایمان رکھتا ہوں اور مخالف عقیدۂاسلام سے بیزار ہوں لیکن حضرت میاں صاحب نے میری باتوں کی طرف کچھ بھی التفات نہ کی اور بغیر اس کے کہ کچھ تحقیق اور تفتیش کرتے مجھے کافر ٹھہرایا بلکہ میری طرف سے أَنَامُؤمن انا مؤمن کے صاف اقرارات بھی سن کر پھر بھی لَسْتَ مُؤْمِنًا کہہ دیا اور جا بجا اپنی تحریروں اور تقریروں اور اپنے شاگردوں کے اشتہارات میں اس عاجز کا نام کافر و بے دین اور دجال رکھا اور عام طور پر مشتہر کردیا کہ یہ شخص کافر اور بے ایمان اور خدا اور رسول ؐ سے روگردان ہے سو میاں صاحب کی اس پھونک سے عوام الناس میں ایک سخت آندھی پیدا ہوگئی اور ہندوستان اور پنجاب کے لوگ ایک سخت فتنہ میں پڑ گئے خاص کر دہلی والے تو میاں صاحب کی اس اخگر اندازی سے آگ ببولا بن گئے شاید دہلی میں
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 313
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 313
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ساٹھ یا ستر۷۰ ہزار کے قریب مسلمان ہوگا لیکن ان میں سے واللہ اعلم شاذو نادر کوئی ایسا فرد ؔ ہوگا جو اس عاجز کی نسبت گالیوں اور لعنتوں اور ٹھٹھوں کے کرنے یا سننے میں شریک نہ ہوا ہو یہ تمام ذخیرہ میاں صاحب کے ہی اعمال نامہ سے متعلق ہے جس کو انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنی عاقبت کیلئے اکٹھا کیا انہوں نے سچی گواہی پوشیدہ کر کے لاکھوں دلوں میں جما دیا کہ درحقیقت یہ شخص کافر اور *** کے لائق اور دین اسلام سے خارج ہے اور میں نے انہیں دنوں میں جب کہ میں دہلی میں مقیم تھا شہر میں تکفیر کا عام غوغا دیکھ کر ایک خاص اشتہارانہیں میاں صاحب کو مخاطب کر کے شائع کیا اور چند خط بھی لکھے اور نہایت انکسار اور فروتنی سے ظاہر کیا کہ میں کافر نہیں ہوں۔ اور خدائے تعالیٰ جانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور ان سب عقائد پر ایمان رکھتا ہوں جو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں اور کلمہ طیبہ لااِلٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کا قائل ہوں اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہوں اور میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور یہ بھی لکھا کہ میں ملائک کا منکر بھی نہیں بخدا میں اسی طرح ملائک کو مانتا ہوں جیسا کہ شرع میں مانا گیا اور یہ بھی بیان کیا کہ میں لیلتہ القدر کا بھی انکاری نہیں بلکہ میں اس لیلتہ القدر پر ایمان رکھتا ہوں جس کی تصریح قرآن اور حدیثوں میں وارد ہوچکی ہے اور یہ بھی ظاہر کردیا کہ میں وجود جبرائیل اور وحی رسالت پر ایمان رکھتا ہوں انکاری نہیں۔ اور نہ حشر و نشر اور یوم البعث سے منکر ہوں اور نہ خام خیال نیچریوں کی طرح اپنے مولیٰ کی کامل عظمتوں اور کامل قدرتوں اور اس کے نشانوں میں شک رکھتا ہوں اور نہ کسی استبعاد عقلی کی وجہ سے معجزات کے ماننے سے منہ پھیرنے والا ہوں اور کئی دفعہ میں نے عام جلسوں میں ظاہر کیا کہ خدائے تعالیٰ کی غیر محدود قدرتوں پر میرا یقین ہے بلکہ میرے نزدیک قدرت کی غیر محدودیّت الوہیت کا ایک ضروری لازمہ ہے اگر خدا کو مان کر پھر کسی امر کے کرنے سے اس کو عاجز قرار دیا جائے تو ایسا خدا خدا ہی نہیں اور اگر نعوذ باللہ وہ ایسا ہی ضعیف ہے تو اس پر بھروسہ کرنے والے جیتے ہی مر گئے اور تمام امیدیں ان کی خاک میں مل گئیں بلاشبہ کوئی بات اس سے انہونی نہیں ہاں وہ بات ایسی چاہئے کہ خداتعالیٰ کی شان اور تقدس کو زیبا ہو اور اس کے صفات کاملہ اور اس کے مواعید صادقہ کے برخلاف نہ ہو۔ لیکن میاں صاحب نے باوجود میرے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 314
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 314
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ان تمام اقرارات کے صاف لکھا کہ تم پر کفر کا فتویٰ ہوچکا اور ہم تم کو کافر اور بے ایمان سمجھتے ہیں بلکہ ۲۰ ؍ اکتوبر ۱۸۹۱ ء میں جو تاریخ بحث مقرر کی گئی تھی جس سے پہلے اشتہارات مذکورہ جاری ہوچکے تھے میاں صاحب کی طرف سے بحث ٹالنے کیلئے بار بار یہی عذر تھا کہ تم کافر ہو پہلے اپنا عقیدہ تو مطابق اسلام ثابت کرو پھر بحث بھی کرنا۔ اس وقت بھی بتما متر ادب یہی کہا گیا کہ میں کافر نہیں ہوں بلکہ ان تمام امور پر ایمان رکھتا ہوں جو اللہ جلّ شانہٗ نے مسلمانوں کیلئے عقائد ٹھہرائے ہیں بلکہ جیسا کہ اشتہار ۲۳ ؍اکتوبر ۱۸۹۱ ء میں درج ہے میں نے اپنے ہاتھ سے ایک تحریر بھی لکھ کر دی کہ میں ان تمام عقائد پر ایمان رکھتا ہوں مگر افسوس کہ میاں صاحب موصوف پھر بھی اس عاجز کو کافر ہی جانتے رہے اور کافر ہی لکھتے رہے اور یہی ایک بہانہ ان کے ہاتھ میں تھا جس کی وجہ سے مسیح کی وفات حیات کے بارے میں انہوں نے مجھ سے بحث نہ کی کہ یہ تو کافر ہے کافروں سے کیا بحث کریں اگر ان میں ایک ذرہ تقویٰ ہوتی تو اسی وقت سے جو میری طرف سے عقائد اسلام اور اپنے مسلمان ہونے کا اشتہار جاری ہوا تھا تکفیر کے فتوے سے دستکش ہوجاتے اور جیسا کہ ہزاروں لوگوں میں تکفیر کے فتوے کو مشہور کیا تھا ایسا ہی عام جلسوں میں اپنی خطا کا اقرار کر کے میرے اسلام کی نسبت صاف گواہی دیتے اور ناحق کے سوء ظن سے اپنے تئیں بچاتے اور خلاف واقعہ تکفیر کی شہرت کا تدارک کر کے اپنے لئے خدائے تعالیٰ کے نزدیک ایک عذر پیدا کر لیتے لیکن انہوں نے ہرگز ایسا نہ کیا بلکہ جب تک میں دہلی میں رہا یہی سنتا رہا کہ میاں صاحب اس عاجز کی نسبت گندے اور ناگفتنی الفاظ اپنے منہ سے نکالتے ہیں اور تکفیر سے دست بردار نہیں ہوئے اور ہر چند کوشش کی گئی کہ وہ اس نالائق طریق سے باز آجائیں اور اپنی زبان کو تھام لیں لیکن اس عاجز کی نسبت کافر کافر کہنا ایساان کی زبان پر چڑھ گیا کہ وہ اپنی زبان کو روک نہیں سکے اور نفس امّارہ نے ایسا ان کے دل پر قبضہ کر لیا کہ خدائے تعالیٰ کے خوف کا کوئی خانہ خالی نہ رہا فاعتبروا یا اولی الابصار۔اب میں ان کی تکفیر کو زیادہ طول دینا نہیں چاہتا۔ ہریک شخص اپنی گفتار و کردار سے پوچھا جائے گا۔ ان کے اعمال ان کے ساتھ اور میرے اعمال میرے ساتھ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ناحق کے الزاموں اور مفتریانہ کاموں کی طرف انھوں نے توجہ کی اور جو اصل بحث کے لائق اور متنازعہ فیہ امر تھا یعنے وفات مسیح علیہ السلام اس کی طرف
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 315
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 315
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
انہوں نے ذرہ توجہ نہ فرمائی میں نے ان کی طرف کئی دفعہ لکھا کہ میں کسی اور عقیدہ میں آپ کا مخالف نہیں صرف اس بات میں مخالف ہوں کہ میں آپ کی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی جسمانی حیات کا قائل نہیں۔ بلکہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کو ؔ فوت شدہ اور داخل موتی ایماناً و یقیناً جانتا ہوں اور ان کے مرجانے پر یقین رکھتا ہوں اور کیوں یقین نہ رکھوں جب کہ میرا مولیٰ میرا آقا اپنی کتاب عزیز اور قرآن کریم میں ان کو متوفیوں کی جماعت میں داخل کرچکا ہے اور سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی خارق عادت زندگی اور ان کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں بلکہ ان کو صرف فوت شدہ کہہ کر پھر چپ ہوگیالہٰذا انکا زندہ بجسدہ العنصری ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں آنا نہ صرف اپنے ہی الہام کی رو سے خلاف واقعہ سمجھتا ہوں بلکہ اس خیال حیات مسیح کو نصوص بیّنہ قطعیّہ یقینیہ قرآن کریم کی رو سے لغو اور باطل جانتا ہوں اگر یہ میرا بیان کلمہ کفر ہے یا جھوٹ ہے تو آیئے اس امر میں مجھ سے بحث کیجئے پھر اگر آپ نے قرآن اور حدیث سے حیات جسمانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ثابت کر کے دکھلادی تو میں اس قول سے رجوع کروں گا بلکہ وہ اپنی کتابیں جن میں یہ مضمون ہے جلادوں گا۔ اگر بحث نہیں کرسکتے تو آؤ اس بارہ میں اس مضمون کی قسم ہی کھاؤ کہ قرآن کریم میں مسیح کی وفات کا کچھ ذکر نہیں بلکہ حیات کا ذکر ہے یا کوئی اور حدیث صحیح مرفوع متصل موجود ہے جس نے توفّی کے لفظ کی کوئی مخالفانہ تفسیر کر کے مسیح کی حیات جسمانی پر گواہی دی ہے۔ پھر اگر ایک سال تک خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا کوئی کھلا نشان ظاہر نہ ہوا کہ آپ نے جھوٹی قسم کھائی ہے یعنے کسی وبال عظیم میں آپ مبتلا نہ ہوئے تب بلاتوقف میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا مگر افسوس کہ ہر چند بار بار میاں صاحب سے یہ درخواست کی گئی لیکن نہ انہوں نے بحث کی اور نہ قسم کھائی اور نہ کافر کافر کہنے سے باز آئے ہاں اپنی اس کنارہ کشی کی ذلت کو عوام سے پوشیدہ رکھنے کیلئے جھوٹے اشتہارات شائع کردیئے جن میں یہ بار بار لکھا گیا کہ گو وہ تو اس عاجز کو بحث کیلئے اخیر تک بلاتے ہی رہے اور قسم کھانے کیلئے بھی مستعد تھے لیکن یہ عاجز ہی ان سے ڈر گیا اور مقابل پر نہ آیا۔ میاں صاحب اور شیخ الکل کہلانا اور اس قدر جھوٹ! میں ان کے حق میں علی الکاذبین کیا کہوں خدائے تعالیٰ ان پر رحمت کرے۔ ناظرین! اگر کچھ نور فراست رکھتے ہو تو یقیناً سمجھو کہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 316
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 316
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
یہ سب باتیں میاں صاحب اور ان کے شاگردوں کی سراسر دروغ بے فروغ اور محض اوباشانہ لاف و گزاف ہے جب کہ میری طرف سے اشتہار پر اشتہار اس بات کیلئے جاری ہوا تھا کہ میاں صاحب مسیح کی وفات کے بارہ میں مجھ سے بحث کریں اور اسی مطلب کیلئے میں حرج اور خرچ اٹھا کر ایک ماہ برابر دہلی میں رہا تو پھر ایک حقیقت رس آدمی سمجھ سکتا ہے کہ اگر میاں صاحب بحث کے لئے سیدھے دل سے مستعد ہوتے تو میں کیوں ان سے بحث نہ کرتا نقل مشہور ہے کہ سانچ کو آنچ نہیں میں اسی طرح بحث وفات مسیح کیلئے اب پھر حاضر ہوں جیسا کہ پہلے حاضر تھا اگر میاں صاحب لاہور میں آکر بحث منظور کریں تو میں ان کی خاص ذات کا کرایہ آنے جانے کا خود دے دوں گا اگر آنے پر راضی ہوں تو میں ان کی تحریر پر بلاتوقف کرایہ پہلے روانہ کرسکتا ہوں اب میں دہلی میں بحث کیلئے جانا نہیں چاہتا کیونکہ دہلی والوں کے شور و غوغا کو دیکھ چکا ہوں اور ان کی مفسدانہ اور اوباشانہ باتیں سن چکا ہوں وَلَایُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِمیں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر میں بحث وفات مسیح سے گریز کروں تو میرے پر بوجہ صدّ عن سبیل اللّٰہ خدائے تعالیٰ کی ہزار *** ہو۔ اور اگر شیخ الکل صاحب گریز کریں تو ان پر اس سے آدھی ہی سہی اور اگر وہ حاضر ہونے سے روگردان ہیں تو میں یہ بھی اجازت دیتا ہوں کہ وہ اپنی جگہ پر ہی بذریعہ تحریرات اظہار حق کیلئے بحث کر لیں غرض َ میں ہر طرح سے حاضر ہوں اور میاں صاحب کے جواب باصواب کا منتظر ہوں میں زیادہ تر گرمجوشی سے میاں صاحب کی طرف اسلئے مستعد ہوں کہ لوگوں کے خیال میں ان کی علمی حالت سب سے بڑھی ہوئی ہے اور وہ علمائے ہند میں بیخ کی طرح ہیں اور کچھ شک نہیں کہ بیخ کے کاٹنے سے تمام شاخیں خود بخود گریں گی سو مجھے بیخ ہی کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور شاخوں کا قصہ خود بخود تمام ہوجائے گا اور اس بحث سے دنیا پر کھل جائے گا کہ شیخ الکل صاحب کے پاس مسیح علیہ السلام کی جسمانی زندگی پر کون سے دلائل یقینیہ ہیں جن کی وجہ سے انھوں نے عوام الناس کو سخت درجہ کے اشتعال میں ڈال رکھا ہے مگر یہ پیشگوئی بھی یاد رکھو کہ وہ ہرگز بحث نہیں کریں گے اور اگر کریں گے تو ایسے رسوا ہوں گے کہ منہ دکھانے کی جگہ نہیں رہے گی۔ ہائے مجھے ان پر بڑا افسوس ہے کہ انھوں نے چند روزہ زندگی کے ننگ و ناموس سے پیار کر کے حق کو چھپایا اور راستی کو ترک کر کے ناراستی سے دل لگایا ان کو خوب معلوم تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 317
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 317
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کی وفات قرآن کریم اور احادیث صحیحہ مرفوعہ سے بخوبی ثابت ہے مگر سراسر خیانت اور بددؔ یانتی کی راہ سے اس شہادت کے ادا کرنے سے وہ عمداً پیچھے ہٹے رہے انھوں نے سچائی کا پکا دشمن بن کر محض دروغ گوئی کی راہ سے عوام میں اس بات کو پھیلایا کہ قرآن کریم میں یہی لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم زندہ بجسدہ العنصری آسمان پر اٹھایا گیا ہے اور وفات کا کہیں ذکر نہیں مگر چونکہ وہ دل میں جانتے تھے کہ ہم ناحق پر ہیں اور کتاب اللہ کے مخالف کہہ رہے ہیں اسلئے وہ سیدھی نیت سے بحث کرنے کیلئے مقابل پر نہ آئے اور بے ہودہ شرطوں کے ساتھ اس مختصر اور صاف طریق بحث وفات کو ٹال دیا۔ غضب کی بات ہے کہ خدا وند ذوالمجد والجلال تو یہ فرماوے مسیح ابن مریم فوت ہوگیا ہے اور میاں نذیر حسین یہ کہیں کہ نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ تو زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اٹھایا گیا ہے آفرین اے نذیر حسین تو نے خوب قرآن کی پیروی کی۔ اور طرفہ تر یہ کہ قران کریم میں آسمان کی طرف اٹھا لینے کا کہیں ذکر بھی نہیں بلکہ وفات دینے کے بعد اپنی طرف اٹھا لینے کا ذکر ہے جیسا کہ عام طور پر تمام فوت شدہ راستبازوں کیلئے اِ ۱ کا خطاب ہے سو وہی رفع الی اللہ اور رجوع الی اللہ جس کیلئے پہلے موت شرط ہے حضرت مسیح کے بھی نصیب ہوگیا کہاں یہ رفع الی اللّٰہ اور کہاں رفع الی السماء ہائے افسوس ان لوگوں نے قران کریم کو کیسے پس پشت ڈال دیا اور اس کی عظمت ان کے دلوں سے کیسی یکدفعہ اٹھ گئی اور خدا ئے تعالیٰ کی پاک کلام کی جگہ بے اصل لکیر سے محبت کرنے لگے کتابوں سے تو لدے ہوئے ہیں مگر خدائے تعالیٰ نے سمجھ چھین لی فتح اور شکست کے خیال نے دیانت اور ایمان کو دبا لیا اور پندار اور ُ عجب نے حق کے قبول کرنے سے دور ڈال دیا اور مجھے تو اس بات کا ذرہ بھی رنج نہیں کہ میاں نذیر حسین اور ان کے شاگردوں نے ایک جھوٹی فتح کو خلاف واقعہ مشہور کردیا اور نفس الامر کو چھپایا۔ اور نہ میرے لئے یہ کچھ رنج کی بات ہے کیونکہ جس حالت میں راست راست اور حق الامر یہی ہے کہ دراصل میاں صاحب ہی ایک بڑی ذلت کے ساتھ ہمیشہ کیلئے شکست یاب اور پس پا ہوگئے ہیں اور ایسے گرے ہیں کہ اب پھر کبھی کھڑے نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اسی مغلوبی میں اس عالم سے گذر جائیں گے پھر اگر وہ ملامت خلق پر پردہ ڈالنے کیلئے ایک مصنوعی فتح کا خاکہ اپنی نظر کے سامنے رکھ کر چند منٹ کیلئے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 318
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 318
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اپنا جی خوش کر لیں تو مجھے کیوں ُ برا ماننا چاہئے بلکہ اگر رحم کی نظر سے دیکھا جائے تو ان کا یہ حق بھی ہے کیونکہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ انھوں نے اس عاجز کے مقابل پر شکست فاش کھا کر بہت کچھ غم و غصہ اٹھایا ہے اور ان کے دل پر اس اخیر عمر میں سخت صدمہ خجالت اور شرمندگی کا پہنچ گیا ہے اب اگر غم غلط کرنے کیلئے اس قدر بھی نہ کرتے کہ خلاف واقع فتح کا نقارہ بجاتے تو پیرانہ سالی کا ضعیف دل اتنے بڑے صدمہ کی برداشت کیونکر کرسکتا سو شاید انہوں نے جان رکھنا فرض سمجھ کر اتنا بڑا جھوٹ اپنے لئے روا رکھ لیا اور مجھے اب بھی اس بات کی ضرورت نہ تھی کہ میں اس حق الامر کا اظہار کر کے ان کے ملمع خوشی کو کالعدم کردیتا کیونکہ فتح و شکست پر نظر رکھنا ایک محجوبانہ خیال ہے اور سچائی کے عاشق سچائی کو ہی چاہتے ہیں خواہ وہ فتح کی صورت میں حاصل ہوجائے یا شکست کے پیرایہ میں ملے مگر چونکہ لوگ ایسی غلط اور مخالفانہ تحریروں سے دھوکے میں پڑ جاتے ہیں اور خلاف واقعہ شہرت کی وجہ سے متأثر ہو کر ان تحریروں کو صحیح اور باوقعت سمجھنے لگتے ہیں اور پھر اس کا بداثر لوگوں کے دین کو سخت نقصان پہنچاتا ہے اسلئے اصل حقیقت کا ظاہر کرنا ایک حق لازم اور دین واجب میرے پر تھا جو ادا کرنے کے بغیر ساقط نہیں ہوسکتا تھا مگر میں اس بات سے تو نادم ہوں کہ میاں صاحب کی پیرانہ سالی کی حالت میں ان کے دوبارہ غم تازہ کرنے کا موجب ہوا ہوں۔
اس جگہ یہ بیان کرنا بھی بے محل نہیں کہ میاں صاحب کے ناحق کے ظلموں سے جو انہوں نے اس عاجز کی نسبت روا رکھے ایک یہ بھی ہے کہ بٹالوی کو انھوں نے بکلّی کھلا چھوڑ دیا اور اس بات پر راضی ہوگئے کہ وہ ہر ایک طرح کی گالیوں اورلعن طعن سے اس عاجز کی آبرو پر دانت تیز کرے سو وہ میاں صاحب کا منشاء پا کر حد سے گذر گیا اور آیت کریمہ ۱ کی کچھ بھی پروانہ کر کے ایسی گندی گالیوں پر آگیا کہ چوہڑوں چماروں کے بھی کان کاٹے یہاں تک کہ اس پاکیزہ سرشت نے صدہا لوگوں کے روبرو دہلی کی جامع مسجد میں اس عاجز کو فحش گالیاں دیں چنانچہ گالیوں کے سننے والوں میں سے شیخ حامد علی میرا ملازم بھی ہے جو اس وقت موجود تھا جس کی اور لوگوں نے بھی تصدیق کی ایسا ہی اس بزرگ نے پھلور کے اسٹیشن پر ایک جماعت کے روبرو اس عاجز کی نسبت کہا کہ وہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 319
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 319
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کتے کی موت سے مرے گا اور عام تحریروں میں اس عاجز کا نام کافر اور دجال رکھا اور ۱۱۔ اکتوبر ۱۸۹۱ ء کے کارڈ میں جو اس نے منشی فتح محمد اہلکار ریاست جموں کے نام لکھا جو اس وقت میرے پاس سامنے پڑا ہے بجز گالیوں کے اور کچھ تحریر نہیں کیا کھلی تحریر میںؔ سخت گالیاں دینا اور کارڈوں میں جن کو ہریک شخص پڑھ سکتا ہے بدزبانی کرنا اور اپنے مخالفانہ جوش کو انتہا تک پہنچانا کیا اس عادت کوخدا پسند کرتا ہے یا اس کو شیوہ شرفاء کہہ سکتے ہیں اس گیارہ اکتوبر کے کارڈ میں اس بزرگ نے بڑے جوش سے اس ناکارہ کی نسبت لکھا ہے کہ یہ شخص درحقیقت کافر ہے دجال ہے ملحد ہے کذاب ہے۔ اے میرے مولیٰ اے میرے پیارے آقا میں نے اس شخص کی تمام سخت باتوں اور لعنتوں اور گالیوں کا جواب تیرے پر چھوڑا۔ اگر تیری یہی مرضی ہے تو جو کچھ تیری مرضی وہ میری ہے مجھے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہئے کہُ تو راضی ہو میرا دل تجھ سے پوشیدہ نہیں تیری نگاہیں میری تہہ تک پہنچی ہوئی ہیں اگر مجھ میں کچھ فرق ہے تو نکال ڈال اور اگر تیری نگاہ میں مجھ میں کچھ بدی ہو تو میں تیرے ہی منہ کی اس سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے میرے پیارے ہادی!! اگر میں نے ہلاکت کی راہ اختیار کی ہے تو مجھے اس سے بچا اور وہ کام کرا کہ جس میں تیری رضا مندی ہو۔ میری روح بول رہی ہے کہُ تو میرے لئے ہے اور ہوگا جب سے کہ تو نے کہا کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور جب سے کہ تو نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ من اراداھانتک اور جب سے کہُ تونے دل جوئی اور نوازش کی راہ سے مجھے کہا کہ انت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق تو اسی دم سے میرے قالب میں جان آگئی تیری دل آرام باتیں میرے زخموں کی مرہم ہیں تیرے محبت آمیز کلمات میرے غم رسیدہ دل کےُ مفرّح ہیں۔ میں غموں میں ڈوبا ہوا تھا تو نے مجھے بشارتیں دیں۔ میں مصیبت زدہ تھا تو نے مجھے پوچھا پیارے میرے لئے یہ خوشی کافی ہے کہ ُ تومیرے لئے اور میں تیرے لئے ہوں ۔تیرے حملے دشمنوں کی صف توڑیں گے اور تیرے تمام پاک وعدے پورے ہوں گے تو اپنے بندہ کا آمرز گار ہوگا۔
پھر میں پہلی کلام کی طرف رجوع کر کے ناظرین پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جس قدر میں نے بٹالوی کی سخت زبانی لکھی ہے وہ صرف بطور نمونہ کے بیان کی گئی ہے ورنہ اس شخص کی بدزبانی کا کچھ انتہا نہیں رہا اور درحقیقت یہ ساری بدزبانی میاں نذیر حسین صاحب کی ہے کیونکہ استاد کے خلاف منشاء شاگرد کو کبھی جرأت نہیں ہوتی میاں صاحب نے آپ بھی بدزبانی کی اور
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 320
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 320
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کرائی بھی اور بٹالوی کی کوئی بدگوئی میاں صاحب کو مکروہ معلوم نہ ہوئی اور میاں صاحب کے مکان میں بیٹھ کر ایک اور اشتہار تکبر کا بھرا ہوا بٹالوی نے لکھا جس میں اس عاجز کی نسبت یہ فقرہ درج تھا کہ یہ میرا شکار ہے کہ بدقسمتی سے پھر دہلی میں میرے قبضہ میں آگیا اور میں خوش قسمت ہوں کہ بھاگا ہوا شکار پھر مجھے مل گیا۔ ناظرین!! انصافاًکہو کہ یہ کیسے سفلہ پن کی باتیں ہیں میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے مہذّب ڈوم اور نقّال بھی تھوڑا بہت حیا کو کام میں لاتے ہیں اور پشتوں کے سفلے بھی ایسا کمینگی اور شیخی سے بھرا ہوا تکبر اپنے حقیقت شناس کے سامنے زبان پر نہیں لاتے۔ اگر میں بٹالوی صاحب کا شکار ہوتا تو اس کے استاد کو دہلی میں کیوں جا پکڑتا کیا شاگرد استاد سے بڑا ہے جب استاد ہی چڑیا کی طرح میرے پنجہ میں گرفتار ہوگیا تو پھر ناظرین سمجھ لیں کہ کیا میں بٹالوی کا شکار ہوا یا بٹالوی میرے شکار کا شکار بٹالوی کی شوخیاں انتہا کو پہنچ گئی ہیں اور اس کی کھوپڑی میں ایک کیڑا ہے جس کو ضرور ایک دن خدائے تعالیٰ نکال دے گا افسوس کہ آج کل ہمارے مخالفوں کا جھوٹ اور بہتانوں پر ہی گذارہ ہے اور فرعونی رنگ کے تکبر سے اپنی عزت بنانی چاہتے ہیں۔ فرعون اس روز تک جو معہ اپنے لشکر کے غرق ہوگیا یہی سمجھتا رہا کہ موسیٰ اس کا شکار ہے آخر رود نیل نے دکھا دیا کہ واقعی طور پر کون شکار تھا۔ میں نادم ہوں کہ نااہل حریف کے مقابلہ نے کسی قدر مجھے درشت الفاظ پر مجبور کیا ورنہ میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات منہ پر لاؤں۔ میں کچھ بھی بولنا نہیں چاہتا تھا مگر بٹالوی اور اس کے استاد نے مجھے بلایا۔ اب بھی بٹالوی کیلئے بہتر ہے کہ اپنی پالیسی بدل لیوے اور منہ کو لگام دیوے ورنہ ان دنوں کو رو رو کے یاد کرے گا۔ بادرد کشاں ہر کہ درافتاد درافتاد وما علینا الا البلاغ المبین ۔
گندم از گندم بروید جو ز جو
از مکافات عمل غافل مشو
جو لوگ ان جھوٹے اشتہارات پر خوش ہورہے ہیں جن میں میاں نذیرحسین کی مصنوعی فتح کا ذکر ہے میں خالصاً للہ ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس دروغ گوئی میں ناحق کا گناہ اپنے ذمہ نہ لیں میں ۲۳؍ اکتوبر ۱۸۹۱ ء کے اشتہار میں مفصل بیان کرچکا ہوں کہ میاں صاحب ہی بحث کرنے سے گریز کرگئے یہ کیا شرارت اور بے حیائی کا بہتان ہے کہ میری نسبت اڑایا ؔ گیا ہے کہ گویا میں میاں نذیرحسین سے ڈرگیا نعوذ باللہ میں ہرگز ان سے نہیں ڈرا اور کیونکر ڈرتا میں اس بصیرت کے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 321
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 321
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مقابل پر جو مجھے آسمان سے عطا کی گئی ہے ان سفلی ملاؤں کو سراسر بے بصر سمجھتا ہوں بخدا ایک مرے ہوئے کیڑے کے برابر بھی میں انہیں خیال نہیں کرتا کیا کوئی زندہ مردوں سے ڈرا کرتا ہے یقیناً سمجھو کہ علم دین ایک آسمانی بھید ہے اور وہی کماحقہٗ آسمانی بھید جانتا ہے جو آسمان سے فیض پاتا ہے جو خدائے تعالیٰ تک پہنچتا ہے وہی اس کی کلام کے اسرار عمیقہ تک بھی پہنچتا ہے جو پوری روشنی میں نشست رکھتا ہے وہی ہے جو پوری بصیرت بھی رکھتا ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جاتا کہ میں ان کی گندی گالیوں سے ڈر گیا اور ان کی نجاست سے بھری ہوئی باتوں سے ترساں ہوا تو شاید کسی قدر سچ بھی ہوتا کیونکہ ہمیشہ شرفاء بدگفتار لوگوں سے ڈرا کرتے ہیں اور مہذب لوگ گندی زبان والوں سے پرہیز کر جاتے ہیں۔ شریف از سفلہ نمے ترسد بلکہ از سفلگی او مے ترسد۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ میاں نذیر حسین کی پردہ دری کرے اور ان کی آواز دہل کی حقیقت لوگوں پر ظاہر کردیوے سو بالغ نظر جانتے ہیں کہ وہ خواستہ ایزدی پورا ہوگیا اور نذیر حسین کے تقویٰ اور خدا پرستی اور علم اور معرفت کی ساری قلعی کھل گئی اور ترک تقویٰ کی شامت سے ایک ذلت ان کو پہنچ گئی مگر ایک اور ذلت ابھی باقی ہے جو ان کیلئے اور ان کے ہم خیال لوگوں کے لئے طیار ہے جس کا ذکر ہم نیچے کرتے ہیں۔
اے خدا اے مالک ارض و سما
اے پناہ حزب خود در ہر بلا
اے رحیم و دست گیر و رہنما
ایکہ در دستِ تو فصل است و قضا
سخت شورے اوفتاد اندر زمین
رحم کن برخلق اے جان آفرین
امر فیصل از جناب خود نما
تا شود قطع نزاع و فتنہ ہا
اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا
تجھ کو سب قدرت ہے اے ربُّ الوریٰ
حق پرستی کا مٹا جاتا ہے نام
اک نشاں دکھلا کہ ہو حجت تمام
الہام اللّٰہ تعالٰی
کِتَابٌ سَجَّلْنَا مِنْ عِنْدِنَا
یہ وہ کتاب ہے جس پر ہم نے اپنے پاس سے مہر لگادی ہے
آسمانی فیصلہ
قبل اس کے جو میں آسمانی فیصلہ کا ذکر کروں صفائی بیان کیلئے اس قدر لکھنا ضرور ہے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ جو لوگ خدائے تعالیٰ کے نزدیک فی الحقیقت مومن ہیں اور جن کو خدائے تعالیٰ نے خاص اپنے لئے چن لیا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہے اور اپنے برگزیدہ گروہ میں جگہ دے دی ہے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 322
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 322
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/322/mode/1up
اور جن کے حق میں فرمایا ہے۔ ۱ ان میں آثار سجود اور عبودیّت کے ضرور پائے جانے چاہئیں کیونکہ خدائے تعالیٰ کے وعدوں میں خطا اور تخلف نہیں سو ان تمام علامات کا مومن میں پائے جانا جن کا قرآن کریم میں مومنوں کی تعریف میں ذکر فرمایا گیا ہے ضروریات ایمان میں سے ہے اور مومنوں اور ایسے شخص میں فیصلہ کرنے کیلئے جس کا نام اس کی قوم کے علماء نے کافر رکھا اور مفتری اور دجال اور ملحد قرار دیا یہی علامات کامل محک اور معیار ہیں پس اگر کوئی شخص اپنے بھائی مسلمان کا نام کافر رکھے اور اس سے مطمئن نہ ہو کہ وہ شخص اپنے ایماندار ہونے کا اقرار کرتا ہے اور کلمہ طیبہ لٓا اِلٰہ الَّا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ کا قائل ہے اور اسلام کے تمام عقیدوں کا ماننے والا ہے اور خدائے تعالیٰ کے تمام فرائض اور حدود اور احکام کو فرائض اور حدود اور احکام سمجھتا ہے اور حتی الوسع ان پر عمل کرتا ہے۔ تو پھر بالآخر طریق فیصلہ یہ ہے کہ فریقین کو ان علامات میں آزمایا جاوے جو خدا وند تعالیٰ نے مومن اور کافر میں فرق ظاہر کرنے کیلئے قرآن کریم میں ظاہر فرمائی ہیں تا جو شخص حقیقت میں خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن ہے اس کو خدائے تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق تہمت کفر سے بری کرے اور اس میں اور اس کے غیر میں فرق کر کے دکھا دیوے اور روز کا قصہ کوتاہ ہوجاوے۔ یہ بات ہر ایک عاقلؔ سمجھ سکتا ہے کہ اگر یہ عاجز جیسا کہ میاں نذیر حسین اور اس کے شاگرد بٹالوی کا خیال ہے درحقیقت کافر اور دجال اور مفتری اور مورد لعن اور دائرہ اسلام سے خارج ہے تو خدائے تعالیٰ عند المقابلہ کوئی نشان ایمانداران کا اس عاجز کی تصدیق کیلئے ظاہر نہیں کرے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ کافروں اور اپنے دین کے مخالفوں کے بارے میں جو بے ایمان اور مردود ہیں ایمانی علامات کے دکھلانے سے ہرگز اپنی تائید ظاہر نہیں کرتا اور کیونکرکرے جب کہ وہ ان کو جانتا ہے کہ وہ دشمن دین اور نعمت ایمان سے بے بہرہ ہیں سو جیسا کہ میاں نذیر حسین صاحب اور بٹالوی نے میری نسبت کفر اور بے دینی کا فتویٰ لکھا اگر میں درحقیقت ایسا ہی کافر اور دجال اور دشمن دین ہوں تو خدائے تعالیٰ اس مقابلہ میں ہر گز میری تائید نہیں کرے گا بلکہ اپنی تائیدوں سے مجھے بے بہرہ رکھ کر ایسا رسوا کرے گا کہ جیسا اتنے بڑے کذاب کی سزا ہونی چاہئے اور اس صورت میں اہل اسلام میرے شر سے بچ جائیں گے اور تمام مسلمان میرے فتنہ سے امن میں آجائیں گے لیکن اگر کرشمہ قدرت
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 323
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 323
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/323/mode/1up
یہ پیدا ہوا کہ خود میاں نذیر حسین اور ان کی جماعت کے لوگ بٹالوی وغیرہ تائید کے نشانوں میں مخذول و مہجور رہے اور تائید الٰہی میرے شامل حال ہوگئی تو اس صورت میں بھی لوگوں پر حق کھل جائے گا اور روز کے جھگڑوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔
اب جاننا چاہئے کہ خدا ئے تعالیٰ نے قرآن کریم میں چار۴ عظیم الشان آسمانی تائیدوں کا کامل متقیوں اور کامل مومنوں کیلئے وعدہ دیا ہے اور وہی کامل مومن کی شناخت کے لئے کامل علامتیں ہیں اور وہ یہ ہیں اول یہ کہ مومن کامل کو خدائے تعالیٰ سے اکثر بشارتیں ملتی ہیں یعنی پیش از وقوع خوشخبریاں جو اس کی مرادات یا اس کے دوستوں کے مطلوبات ہیں اس کو بتلائی جاتی ہیں دوئم یہ کہ مومن کامل پر ایسے امور غیبیہ کھلتے ہیں جو نہ صرف اس کی ذات یا اس کے واسطے داروں سے متعلق ہوں بلکہ جو کچھ دنیا میں قضا و قدر نازل ہونے والی ہے یا بعض دنیا کے افراد مشہورہ پر کچھ تغیرّ ات آنے والے ہیں ان سے برگزیدہ مومن کو اکثر اوقات خبر دی جاتی ہے سیوم یہ کہ مومن کامل کی اکثر دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور اکثر ان دعاؤں کی قبولیت کی پیش از وقت اطلاع بھی دی جاتی ہے۔ چہارم یہ کہ مومن کامل پر قرآن کریم کے دقائق و معارف جدیدہ و لطائف و خواص عجیبہ سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں۔ ان چاروں علامتوں میں مومن کامل نسبتی طور پر دوسروں پر غالب رہتا ہے۔ اور اگرچہ دائمی طور پر یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ ہمیشہ مومن کامل کو منجانب اللہ بشارتیں ہی ملتی رہیں یا ہمیشہ بلاتخلّف ہر ایک دعا اس کی منظور ہی ہوجایا کرے اور نہ یہ کہ ہمیشہ ہر ایک حادثہ زمانہ سے اس کو اطلاع دی جائے اور نہ یہ کہ ہر وقت معارف قرآنی اس پر کھلتے رہیں لیکن غیر کے مقابلہ کے وقت ان چاروں علامتوں میں کثرت مومن ہی کی طرف رہتی ہے اگرچہ ممکن ہے کہ غیر کو بھی مثلاً جو مومن ناقص ہے شاذو نادر کے طور پر ان نعمتوں سے کچھ حصہ دیا جاوے مگر اصلی وارث ان نعمتوں کا مومن کامل ہی ہوتا ہے ہاں یہ سچ ہے کہ یہ مرتبہ کاملہ مومن کا بغیر مقابلہ کے ہر ایک بلید و غبی اور کوتاہ نظر پر کھل نہیں سکتا۔ لہٰذا نہایت صاف اور سہل طریق حقیقی اور کامل مومن کی شناخت کیلئے مقابلہ ہی ہے کیونکہ اگرچہ یہ تمام علامات بطور خود بھی مومن کامل سے صادر ہوتی رہتی ہیں لیکن یک طرفہ طور پر بعض دقتیں بھی ہیں مثلاً بسا اوقات مومن کامل کی خدمت میں دعا کرانے کیلئے ایسے لوگ بھی آجاتے ہیں جن کی تقدیر میں قطعاً کامیابی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 324
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 324
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/324/mode/1up
نہیں ہوتی اور قلمِ ازل مبرم طور پر ان کے مخالف چلی ہوئی ہوتی ہے سو وہ لوگ اپنی ناکامی کی وجہ سے مومن کامل کی اس علامت قبولیت کو شناخت نہیں کرسکتے بلکہ اور بھی شک میں پڑ جاتے ہیں اور اپنے محروم رہنے کی وجہ سے مومن کامل کے کمالات قبولیت پر مطلع نہیں ہوسکتے اور اگرچہ مومن کامل کا خدائے تعالیٰ کے نزدیک بڑا درجہ اور مرتبہ ہوتا ہے اور اس کی خاطر سے اور اس کی تضرع اور دعا سے بڑے بڑے پیچیدہ کام درست کئے جاتے ہیں اور بعض ایسی تقدیریں جو تقدیر مبرم کے مشابہ ہوں بدلائی بھی جاتی ہیں مگر جو تقدیر حقیقی اور واقعی طور پر مبرم ہے وہ مومن کامل کی دعاؤں سے ہرگز بدلائی نہیں جاتی۔ اگرچہ وہ مومن کامل نبی یا رسول کا ہی درجہ رکھتا ہو۔ غرض نسبتی طور پر مومن کامل ان چاروں علامتوں میں اپنے غیر سے بہ بداہت ممیز ہوتا ہے اگرچہ دائمی طور پر قادر اور کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پس جب کہ یہ امر ثابت ہوچکا کہ نسبتی طور پر حقیقی اور کامل مومن کو کثرت بشارات اور کثرت استجابت دعا اور کثرت انکشاف مغیبات اور کثرت انکشاف معارف قرؔ آنی سے وافر حصہ ہے تو مومن کامل اور اس کے غیر کے آزمانے کیلئے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہ ہوگا کہ بذریعہ مقابلہ ان دونوں کو جانچا اور پرکھا جاوے یعنی اگر یہ امر لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہو کہ دوشخصوں میں سے کون عند اللہ مومن کامل اور کون اس درجہ سے گرا ہوا ہے تو انہیں چاروں علامتوں کے ساتھ مقابلہ ہونا چاہئے یعنی ان چاروں علامتوں کو محک اور معیار ٹھہرا کر مقابلہ کے وقت دیکھا جاوے کہ اس معیار اور ترازو کی رو سے کون شخص پورا اترا ہے اور کس کی حالت میں کمی اور نقصان ہے۔
اب خلق اللہ گواہ رہے کہ میں خالصاً ِ للہ اور اظہاراًلِلحق اس مقابلہ کو بدل و جان منظور کرتا ہوں اور مقابلہ کیلئے جو صاحب میرے سامنے آنا چاہیں ان میں سب سے اول نمبر میاں نذیر حسین دہلوی کا ہے جنہوں نے پچاس سال سے زیادہ قرآن اور حدیث پڑھا کر پھر اپنے علماورعمل کا یہ نمونہ دکھایا کہ بلاتفتیش و تحقیق اس عاجز کے کفر پر فتویٰ لکھ دیا اور ہزارہا وحشیطبع لوگوں کو بدظن کر کے ان سے گندی گالیاں دلائیں اور بٹالوی کو ایک مجنون درندہ کی طرح تکفیر اور *** کی جھاگ منہ سے نکالنے کیلئے چھوڑ دیا اور آپ مومن کامل اور شیخ الکل اور شیخ العرب و العجم بن بیٹھے لہٰذا مقابلہ کیلئے سب سے اول انہیں کو دعوت کی جاتی ہے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 325
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 325
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/325/mode/1up
ہاں ان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے ساتھ بٹالوی کو بھی کہ اب تو خواب بینی کابھی دعویٰ رکھتا ہے ملالیں بلکہ ان کو میری طرف سے اختیار ہے کہ وہ مولوی عبدالجبّار صاحب خلف عبدصالح مولوی عبداللہ صاحب مرحوم اور نیز مولوی عبدالرحمن لکھو والے کو جو میری نسبت ابدی گمراہ ہونے کا الہام مشتہر کرچکے ہیں اور کفر کا فتویٰ دے چکے ہیں اور نیز مولوی محمدبشیر صاحب بھوپالوی کو جو انکے متبعین میں سے ہیں اس مقابلہ میں اپنے ساتھ ملالیں اور اگر میاں صاحب موصوف اپنی عادت کے موافق گریز کر جائیں تو یہی حضرات مذکورہ بالا میرے سامنے آویں اور اگر یہ سب گریز اختیار کریں تو پھر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اس کام کیلئے ہمت کریں کیونکہ مقلّدوں کی پارٹی کے تو وہی رُکن اول ہیں اور انکے ساتھ ہر ایک ایسا شخص بھی شامل ہوسکتا ہے کہ جو نامی اور مشاہیر صوفیوں اور پیرزادوں اور سجادہ نشینوں میں سے ہو اور انہیں حضرات علماء کی طرح اس عاجز کو کافر اور مفتری اور کذاب اور مکار سمجھتا ہو اور اگر یہ سب کے سب مقابلہ سے منہ پھیر لیں اور کچے ُ عذروں اور نامعقول بہانوں سے میری اس دعوت کے قبول کرنے سے منحرف ہوجائیں تو خدائے تعالیٰ کی حجت ان پر تمام ہے َ میں مامور ہوں اور فتح کی مجھے بشارت دی گئی ہے لہٰذا َ میں حضرات مذکورہ بالا کو مقابلہ کیلئے بلاتا ہوں کوئی ہے جو میرے سامنے آوے؟ اور مقابلہ کیلئے احسن انتظام یہ ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے اس امتحان کی غرض سے ایک انجمن مقرر کی جائے اگر فریق مخالف اس تجویز کو پسند کرے تو انجمن کے ممبر بتراضی ء فریقین مقرر کئے جائیں گے اور اختلافات کے وقت کثرت رائے کا لحاظ رہے گا اور مناسب ہوگا کہ چار۴وں علامتوں کی پورے طور پر آزمائش کیلئے فریقین ایک سال تک انجمن میں بقید تاریخ اپنی تحریرات بھیجتے رہیں اور انجمن کی طرف سے بقید تاریخ و بہ تفصیل مضمون تحریرات موصول شدہ کی رسیدیں فریقین کو بھیجی جائیں گی۔ علامت اوّل یعنی بشارتوں کی آزمائش کا طریق یہ ہوگا کہ فریقین پر جو کچھ منجانب اللہ بطریق الہام و کشف وغیرہ ظاہر ہو وہ امر بقید تاریخ و بہ ثبت شہادت چار کس از مسلماناں پیش از وقوع انجمن کی خدمت میں پہنچا دیا جائے اور انجمن اپنے رجسٹر میں بقید تاریخ اس کو درج کرے اور اس پر تمام ارکان انجمن یا کم سے کم پانچ ممبروں کے دستخط ہو کر پھر ایک رسید اس کی فریسندہ کو حسب تصریح مذکور بھیجی جائے اور اس بشارت کے صدق یا کذب کا انتظار کیا جائے اور کسی نتیجہ کے ظہور کے وقت
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 326
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 326
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/326/mode/1up
اس کی یادداشت معہ اس کے ثبوت کے رجسٹر میں لکھی جاوے اور بدستور ممبروں کی گواہیاں اس پر ثبت ہوں۔ اور دوسری علامت کی نسبت بھی جو حوادث و نوازل دنیا کے متعلق ہے یہی انتظام مرعی رہے گا اور یاد رہے کہ انجمن کے پاس یہ سب اسرار بطور امانت محفوظ رہیں گے اور انجمن اس بات کا حلفاًاقرار کر لے گی کہ اس وقت سے پہلے کہ فریقین کے موازنہ کیلئے ان امور کا جلسہ عام میں افشا ہو ہرگز کوئی امر کسی اجنبی کے کانوں تک نہیں پہنچایا جائے گا بجز اس صورت کے کہ کسی راز کا فاش ہونا انجمن کے حد اختیار سے باہر ہو اور علامت سوم یعنی قبولیت دعا کی آزمائش کا طریق یہ ہوگا کہ وہی انجمن مختلف قسم کے مصیبت رسیدوں کے بہم پہنچانے کیلئے جس میں ہر ایک مذہبؔ کا آدمی شامل ہوسکتا ہے ایک عام اشتہار دے دے گی اور ہر ایک مذہب کا آدمی خواہ وہ مسلمان ہو خواہ عیسائی یا ہندو ہو یا یہودی ہو غرض کسی مذہب یا کسی رائے کا پابند ہو اگر وہ کسی عظیم الشان مصیبت میں مبتلا ہو اور اپنے نفس کو مصیبت زدوں کے گروہ میں پیش کرے تو بلاتمیز و تفرقہ قبول کیا جائے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے جسمانی دنیوی فوائد کے پہنچانے میں اپنے مختلف المذاہب بندوں میں کوئی تمیز اور تفرقہ قائم نہیں رکھا اور مصیبت زدوں کے فراہمی کیلئے ایک ماہ تک یا جیسے انجمن مناسب سمجھے یہ انتظام رہے گا کہ ان کے نام کے پرچے معہ ولدیت و سکونت وغیرہ کے ایک صندوق میں جمع ہوتے رہیں بعد ا س کے ان کی اسم وارد و فردیں برعایت اعتدال اور بقید ولدیت و قومیت و سکونت و مذہب و پیشہ و بتصریح بلاء پیش آمدہ مرتب کر کے فریقین کے سامنے معہ ان مصیبت رسیدوں کے پیش کریں گے اور فریقین ان مصیبت رسیدوں کا ملاحظہ کر کے ان دونوں فردوں کو بذریعہ قرعہ اندازی کے باہم تقسیم کرلیں گے اور اگر کوئی مصیبت زدہ کسی دور دراز ملک میں ہو اور بوجہ بعد مسافت و عدم مقدرت حاضر نہ ہوسکے تو ایک شاخ انجمن اس شہر میں مقرر ہو کر جہاں وہ مصیبت زدہ رہتا ہے اس کے پرچہ مصیبت کو صدر انجمن میں پہنچا دیں گی اور بعد قرعہ اندازی کے ہر ایک فریق کے حصہ میں جو فرد آئے گی اس فرد میں جو مصیبت رسیدہ مندرج ہوں گے وہ اسی فریق کے حصہ کے سمجھے جائیں گے جس کو خدائے تعالیٰ نے قرعہ اندازی کے ذریعہ سے یہ فرد دے دی اور واجب ہوگا کہ انجمن مصیبت رسیدوں کی فراہمی کیلئے اور ان کی تاریخ مقررہ پر حاضر ہوجانے کی غرض سے چند ہفتے پہلے اشتہارات شائع کر دیوے ان اشتہارات کا تمام خرچ خاص میرے ذمہ ہوگا ۱ اور وہ دو فردیں مصیبت رسیدوں کی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 327
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 327
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/327/mode/1up
جو تیار ہوں گی ایک ایک نقل ان کی انجمن بھی اپنے دفتر میں رکھے گی اور یہی دن سال مقررہ میں سے پہلا دن شمار کیا جائے گا ہر ایک فریق اپنے حصہ کے مصیبت رسیدوں کیلئے دعا کرتا رہے گا اور بدستور مذکور وہ تمام کارروائی انجمن کی رجسٹر میں درج ہوتی رہے گی۔ اور اگر ایک سال کے عرصہ میں اور اس وقت سے پہلے جو کثرت قبولیت اور غلبہ صریحہ کا اندازہ پیدا ہو کوئی فریق وفات پاجائے اور اپنے مقابلہ کے تمام امر کو ناتمام چھوڑ جائے تب بھی وہ مغلوب سمجھا جائے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے خاص ارادہ سے اس کے کام کو ناتمام رکھا تا اس کا باطل پر ہونا ظاہر کرے۔ اور مصیبت رسیدوں کا اندازہ کثیرہ اس لئے شرط ٹھہرایا گیا ہے کہ قبولیت دعا کا امتحان صرف باعتبار کثرت ہوسکتا ہے ورنہ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں یہ ممکن ہے کہ اگر دعا کرانے والے صرف چند آدمی ہوں مثلاً دو یا تین شخص ہوں تو وہ اپنی ناکامی میں تقدیر مبرم رکھتے ہوں یعنی ارادہ ازلی میں قطعی طور پر یہی مقدر ہو کہ یہ ہرگز اپنی بلاؤں سےَ مخلصی نہیں پائیں گے اور اکثر ایسا اتفاق اکابر اولیاء اور انبیاء کو پیش آتا رہا ہے کہ ان کی دعاؤں کے اثر سے بعض آدمی محروم رہے اس کی یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ اپنی ناکامی میں تقدیر مبرم رکھتے تھے لہٰذا ایک یا دو۲ بلا رسیدوں کو معیار آزمائش ٹھہرانا ایک دھوکہ دینے والا طریق ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی ناکامی میں تقدیر مبرم رکھتے ہوں پس اگر وہ دعا کیلئے کسی مقبول کی طرف رجوع کریں اور اپنی تقدیر مبرم کی وجہ سے ناکام رہیں تو اس صورت میں اس بزرگ کی قبولیت ان پر مخفی رہے گی بلکہ شاید وہ اپنے خیال کو بدظنی کی طرف کھینچ کر اس خدا رسیدہ سے بداعتقاد ہوجائیں اور اپنی دنیا کے ساتھ اپنی عاقبت بھی خراب کر لیں کیونکہ اس طرز آزمائش میں بعض لوگوں نے نبیوں کے وقت میں بھی ٹھوکریں کھائی ہیں اور مرتد ہونے تک نوبت پہنچی ہے اور یہ بات ایک معرفت کا دقیقہ ہے کہ مقبولوں کی قبولیت کثرت استجابت دعا سے شناخت کی جاتی ہے یعنی ان کی اکثر دعائیں قبول ہوجاتی ہیں نہ یہ کہ سب کی سب قبول ہوتی ہیں۔ پس جب تک کہ رجوع کرنے والوں کی تعداد کثرت کی مقدار تک نہ پہنچے تب تک قبولیت کا پتہ نہیں لگ سکتا۔ اور کثرت کی پوری حقیقت اور عظمت اس وقت بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ جب کہ مومن کامل مستجاب الدعوات کا اس کے غیر سے مقابلہ کیا جائے ورنہ ممکن ہے کہ ایک بدباطن نکتہ چین کی نظر میں وہ کثرت بھی قلت کی صورت میں نظر آوے سو درحقیقت کثرت استجابت دعا ایک نسبتی امر ہے جس کی صحیح اور یقینی اور قطعی تشخیص جو منکر کے منہ کو بند کرنے والی ہو مقابلہ سے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 328
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 328
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/328/mode/1up
ہی ظاہر ہوتی ہے مثلاً اگر ہزار ہزار مصیبت رسیدہ دو ایسے شخصوں کے حصہ میں آجائے جن کو مومن کامل اور مستجاب الدعوات ہونے کا دعویٰ ہے اور ایک شخص کی قبولیت دعا کا یہ اثر ہو کہ ہزار میں سے پچا۵۰س یا پچیس۲۵ ایسے باقی رہیں جو ناکام ہوں اور باقی سب کامیاب ہوجائیں اور دوسرے گروہ میں سے شاید پچیس یا پچاس ناکامی سے بچیں اور باقی سب نامرادی کے تحت الثریٰ میں جائیں تو مقبول اور مردود میں صریح فرق ہوجائے گا۔ اس زمانہ کا فرقہ نیچریّہ ان اوہام اور وساوس میں مبتلا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ابتدا سے قدرت نے شدنی اور ناشدنی امور میں تقسیم کررکھی ہے اس لئے استجابت دعا کچھ چیز ہی نہیں مگر یہ اوہام سراسر خام ہیں اور حق بات یہی ہے کہ جیسے حکیم مطلق نے دواؤں میں باوجود انضباط قوانین قدرتیہ کی تاثیرؔ ات رکھی ہیں ایسا ہی دعاؤں میں بھی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ تجارب صحیحہ سے ثابت ہوتی ہیں اور جس مبارک ذات علّت العلل نے استجابتِ دعا کو قدیم سے اپنی سنت ٹھہرایا ہے اسی ذات قدوس کی یہ بھی سنت ہے کہ جو مصیبت رسیدہ لوگ ازل میں قابل رہائی ٹھہر چکے ہیں وہ انھیں لوگوں کے انفاس پاک یا دعا اور توجہ اور یا ان کے وجود فی الارض کی برکت سے رہائی پاتے ہیں جو قرب اور قبولیت الٰہی کے شرف سے مشرف ہیں اگرچہ دنیا میں بہت سے لوگ ُ بت پرست بھی ہیں جو مومن کامل کی طرف اپنے مصائب کے وقت رجوع بھی نہیں کرتے اور ایسے بھی ہیں جو استجابت دعا کے قائل ہی نہیں اور بکلّی تدابیر اور اسباب کے مقیّد ہیں اور ان کی سوانح زندگی پر نظر ڈالنے سے شائد ایک سطحی خیال کا آدمی اس دھوکہ میں پڑے گا کہ ان کی مشکلات بھی تو حل ہوتی ہیں پھر یہ بات کہ مقبولوں کی دعائیں ہی کثرت سے قبول ہوتی ہیں کیونکر صفائی سے ثابت ہوسکتی ہے اس وہم کا جواب جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ اگرچہ کوئی شخص اپنی مرادات کیلئے ُ بت کی طرف رجوع کرے یا اور دیوتاؤں کی طرف یا اپنی تدابیر کی طرف لیکن درحقیقت خدائے تعالیٰ کا پاک قانون قدرت یہی ہے کہ یہ تمام امور مقبولوں کے ہی اثر وجود سے ہوتے ہیں اور ان کے انفاس پاک سے اور ان کی برکات سے یہ جہان آباد ہورہا ہے انھیں کی برکت سے بارشیں ہوتی ہیں اور انھیں کی برکت سے دنیا میں امن رہتا ہے اور وبائیں دور ہوتی ہیں اور فساد مٹائے جاتے ہیں اور انھیں کی برکت سے دنیا دار لوگ اپنی تدابیر میں کامیاب ہوتے ہیں اور انھیں کی برکت سے چاند نکلتا اور سورج چمکتا ہے وہ دنیا کے نور ہیں جب تک وہ اپنے وجود نوعی کے لحاظ سے دنیا میں ہیں دنیا منور ہے اور ان کے وجود نوعی کے خاتمہ کے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 329
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 329
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/329/mode/1up
ساتھ ہی دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ حقیقی آفتاب و ماہتاب دنیا کے وہی ہیں۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ بنی آدم کی مرادات بلکہ زندگی کا مدار وہی لوگ ہیں اور بنی آدم کیا ہریک مخلوق کے ثبات اور قیام کا مدار اور مناط وہی ہیں اگر وہ نہ ہوں تو پھر دیکھو کہ بتوں سے کیا حاصل ہے اور تدبیروں سے کیا فائدہ ہے یہ ایک نہایت باریک بھید ہے جس کے سمجھنے کیلئے صرف اس دنیا کی عقل کافی نہیں بلکہ وہ نور درکار ہے جو عارفوں کو ملتا ہے درحقیقت یہ سارے شبہات مقابلہ سے دور ہوجاتے ہیں کیونکہ مقابلہ کے وقت خدائے تعالیٰ خاص ارادہ فرماتا ہے کہ تا وہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے سچی قبولیت اور سچی برکت رکھتا ہے اس کی عزت ظاہر ہو اگر ُ بت پرست موحد کے مقابل پر آوے اور استجابت دعا میں ایک دوسرے کی آزمائش کریں تو ُ بت پرست سخت ذلیل اور رسوا ہو اسی وجہ سے میں نے پہلے بھی کہہ دیا ہے کہ کامل مومن کی آزمائش کیلئے جیسا سہل طریق مقابلہ ہے ایسا اور کوئی طریق نہیں جس بارے میں کامل مومن کی دعا منظور نہ ہو اور اعلام الٰہی سے اس کو نامنظوری کی اطلاع دی جائے پھر اگر اس کام کیلئے یورپ اور امریکہ کی تمام تدبیریں ختم کی جائیں یا دنیا کے تمام بتوں کے آگے سرر گڑا جائے یا اگر تمام دنیا اپنی اپنی دعاؤں میں اس امر میں کامیابی چاہے تو یہ ناممکن ہوگا۔ اور اگرچہ مومن کامل کا فیض تمام دنیا میں جاری و ساری ہوتا ہے اور اسی کی برکت سے دنیا کیَ کل چلتی ہے اور وہ درپردہ ہریک کیلئے حصولِ مرادات کا ذریعہ ہوتا ہے خواہ کوئی اس کو شناخت کرے یا نہ کرے لیکن جو لوگ خاص طور پر ارادت اور عقیدت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ نہ صرف اس کی برکت سے دنیا کی مرادات پاتے ہیں بلکہ اپنا دین بھی درست کر لیتے ہیں اور اپنے ایمانوں کو قوی کر لیتے ہیں اور اپنے رب کو پہچان لیتے ہیں اور اگر وہ وفاداری سے مومن کامل کے زیر سایہ پڑے رہیں اور درمیان سے بھاگ نہ جائیں تو بکثرت آسمانی نشانوں کو دیکھ لیتے ہیں۔
اور میں نے جو اس مضمون میں مختلف اقسام کے مصیبت رسیدوں کا ہونا بطور شرط لکھ دیا ہے یہ اسلئے لکھا ہے کہ تاعام طورپر انواع اقسام کی صورتوں میں خدائے تعالیٰ کی رحمت ظاہر ہو اور ہریک طبیعت اور مذاق کا آدمی اسکو سمجھ سکے اور مختلف اقسام کے مصیبت رسیدہ مندرجہ ذیل مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی انواع اقسام کے امراض میں مبتلا ہو اور کوئی کسی ناحق کی سزا میں پھنس گیا ہو یا پھنسنے والا ہو اور کسی کا ولد عزیز مفقود الخبرہو اور کوئی خود لاولد ہو۔ اور کوئی جاہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 330
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 330
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/330/mode/1up
و مرتبہ کے بعد لائق رحم ذلت میں پڑا ہو اور کوئی کسی ظالم کے پنجہ میں گرفتار ہو۔ اور کوئی فوق الطاقت اور غیر معمولی قرضہ کی بلا سے جان بلب ہو اور کسی کا جگر گوشہ دین اسلام سے مرتد ہوگیا ہو اور کوئی کسی ایسے غم و قلق میں گرفتار ہو جس کو ہم اس وقت بیان نہیں کرسکے۔ اور علامت چہارم یعنے معارف قرآنی کا کھلنا اس میں احسن انتظام یہ ہے کہ ہریک فریق چند آیات قرآنی کے معارف و حقائق و لطائف لکھ کر انجمن میں عین جلسہ عام میں سناوے پھر اگر جو کچھ کسی فریق نے لکھا ہے کسی پہلی تفسیر کی کتاب میں ثابت ہوجائے تو یہ شخص محض ناقل متصور ہوکر موردعتاب ہو لیکن اگر اس کے بیا ن کردہ حقائق و معارف جو فیِ حدِّ ذاتہا صحیح اور غیر مخدوش بھی ہوں ایسے جدید اور نووارد ہوں جو پہلے مفسرین کے ذہن ان کی طرف سبقت نہ لے گئے ہوں اور بااینہمہ وہ معنے من کل الوجوہ تکلف سے پاک اور قرآن کریم کے اعجاز اور کمال عظمت اور شان کو ظاہر کرتے ہوں اور اپنے اندر ایک جلالت اور ہیبت اور سچائی کا نور رکھتے ہوں تو سمجھنا چاہئے کہؔ وہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں جو خدا وند تعالیٰ نے اپنے مقبول کی عزت اور قبولیت اور قابلیت ظاہر کرنے کیلئے اپنے لدُ نی علم سے عطا فرمائی ہیں یہ ہر چہار محک امتحان جو میں نے لکھی ہیں یہ ایسی سیدھی اور صاف ہیں کہ جو شخص غور کے ساتھ ان کو زیر نظر لائے گا وہ بلاشبہ اس بات کو قبول کرلے گا کہ متخاصمین کے فیصلہ کیلئے اس سے صاف اور سہل تر اور کوئی روحانی طریق نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں اور اللہ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں اس مقابلہ میں مغلوب ہوگیا تو اپنے ناحق پر ہونے کا خود اقرار شائع کردوں گا اور پھر میاں نذیر حسین صاحب اور شیخ بٹالوی کی تکفیر اور مفتری کہنے کی حاجت نہیں رہے گی اور اس صورت میں ہر ایک ذلت اور توہین اور تحقیر کا مستوجب و سزا وار ٹھہروں گا اور اسی جلسے میں اقرار بھی کردوں گا کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں اور میرے تمام دعاوی باطل ہیں اور بخدا میں یقین رکھتا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ میرا خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا اور کبھی مجھے ضائع ہونے نہیں دے گا۔ اب علماء مذکورہ بالا کا اس صاف اور صریح امتحان سے انحراف کرنا[اگر وہ انحراف کریں] نہ صرف بے انصافی ہوگی بلکہ میرے خیال میں وہ اس وقت چپ رہنے سے یا صرف مغشوش اور غیر صحیح جوابوں پر کفایت کرنے سے دانش مند لوگوں کو اپنے پر سخت بدگمان کرلیں گے اگر وہ اس وقت ایسے شخص کے مقابل پر جو سچے دل سے مقابلہ کیلئے میدان میں کھڑا ہے محض حیلہ سازی سے بھرا ہوا کوئی ملمع جواب دیں گے تو یاد رکھیں کہ کوئی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 331
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 331
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/331/mode/1up
طالب حق اور حق پسند ایسے جواب کو پسند نہیں کرے گا بلکہ منصف لوگ اس کو تأسف کی نگاہوں سے دیکھیں گے۔ ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ جو شخص مسیح موعود ہونے کا مدعی ہو وہ کیوں خود یکطرفہ طور پر ایسے نشان نہیں دکھلاتا جن سے لوگ مطمئن ہوجائیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام لوگ علماء کے تابع ہیں اور علماء نے اپنے اشتہارات کے ذریعہ سے عوام میں یہ بات پھیلا دی ہے کہ یہ شخص کافر اور دجّال ہے اگر کتنے ہی نشان دکھاوے تو بھی قبول کے لائق نہیں چنانچہ شیخ بٹالوی نے اپنے ایک لمبے اشتہار میں جس کو اس نے لدھیانہ کی بحث کے بعد چھاپا ہے یہی باتیں صاف صاف لکھ دی ہیں اور بڑے انکار اور عناد کی راہ سے اس عاجز کی نسبت بیان کیا ہے کہ یہ شخص جو آسمانی نشانوں کے دکھلانے کی طرف دعوت کرتا ہے اس کی اس دعوت کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ نشان تو ابن صیّاد سے بھی ظاہر ہوتے تھے اور دجّال معہود بھی دکھلائے گا پھر نشانوں کا کیا اعتبار ہے ماسوا اس کے میں یہ بھی سنتا ہوں اور اپنے مخالفوں کے اشتہارات میں پڑھتا ہوں کہ وہ میرے یکطرفہ نشانوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور محض شرارت کی راہ سے کہتے ہیں کہ اگر یہ شخص کوئی سچی خواب بتلاتا ہے یا کوئی الہامی پیشگوئی ظاہر کرتا ہے تو ان امور میں اس کی خصوصیت کیا ہے کافروں کو بھی سچی خوابیں آجاتی ہیں بلکہ کبھی ان کی دعائیں بھی قبول ہوجاتی ہیں کبھی ان کو پیش از وقت کوئی بات بھی معلوم ہوجاتی ہے بعض قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ یہ بات تو ہمیں بھی حاصل ہے اور نہیں جانتے کہ فقط ایک درم سے گدا تونگر نہیں کہلا سکتا اور ایک ذرہ سی روشنی سے کرمکِ شب تاب کو سورج نہیں کہہ سکتے لیکن بغیر مقابلہ کے یہ لوگ کسی طرح سمجھ نہیں سکتے مقابلہ کے وقت انہیں اختیار ہے کہ اگر آپ عاجز آجائیں تو دس بیس کافر ہی اپنے ساتھ شریک کرلیں۔ غرض جب کہ مولویوں نے یکطرفہ نشانوں کو منظور ہی نہیں کیا اور مجھے کافر ہی ٹھہراتے ہیں اور میرے نشانوں کو استدراج میں داخل کرتے یا تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر یکطرفہ نشانوں سے کیا اثر مترتب ہوگا اور عوام جن کے دل اور کان ایسی باتوں سے پُر کئے گئے ہیں ایسے نشانوں سے کیونکر مطمئن ہوں گے لیکن ایمانی نشانوں کے دکھلانے کا باہم مقابلہ ایک ایسا صاف اور روشن امر ہے کہ اس میں ان علماء کا کوئی عذر بھی پیش نہیں جاسکتا اور نیز جس قدر مقابلہ کے وقت کھلے کھلے طور پر حق ظاہر ہوتا ہے ایسی کوئی اور صورت حق کے ظاہر ہونے کی نہیں ہاں اگر یہ لوگ اس مقابلہ سے عاجز ہوں تو پھر ان پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے ایک اشتہار بہ ثبت مواہیر
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 332
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 332
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/332/mode/1up
بالاتفاق شائع کردیں کہ ہم مقابلہ نہیں کرسکتے اور مومنین کاملین کے علامات ہم میں پائے نہیں جاتے اور نیز لکھ دیں کہ ہم یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ اس شخص یعنے اس عاجز کے نشانوں کو دیکھ کر بلا عذر قبول کر لیں گے اور عوام کو قبول کرنے کیلئے فہمائش بھی کردیں گے اور نیز دعویٰ کو بھی تسلیم کر لیں گے اور تکفیر کے شیطانی منصوبوں سے باز آجائیں گے اور اس عاجز کو مومن کامل سمجھ لیں گے تو اس صورت میں یہ عاجز عہد کرتا ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ کے فضل و کرم سے یکطرفہ نشانوں کا ثبوت ان کو دے گا اور امید رکھتا ہے کہ خداوند قوی و قدیر ان کو اپنے نشان دکھائے گا اور اپنے بندہ کا حامی اور ناصر ہوگا اور صدقاً و حقاً اپنے وعدوں کو پورا کرے گا۔ لیکن اگر وہ لوگ ایسی تحریر شائع نہ کریں تو پھر بہرحال مقابلہ ہی بہتر ہے تا ان کا یہ خیال اور یہ غرور کہ ہم مومن کامل اور شیخ الکل اور مقتدائے زمانہ ہیں اور نیز ملہم اور مکالمات الہٰیہ سے مشرّفؔ ہیں مگر یہ شخص کافر اور دجال اور کتے سے بدتر ہے اچھی طرح انفصال پا جائے اور اس مقابلہ میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ جو فیصلہ ہماری طرف سے یکطرفہ طور پر ایک مدت دراز کو چاہتا ہے وہ مقابلہ کی صورت میں صرف تھوڑے ہی دنوں میں انجام پذیر ہوجائے گا سو یہ مقابلہ اس امر متنازعہ کے فیصلہ کرنے کیلئے کہ درحقیقت مومن کون ہے اور کافروں کی سیرت کون اپنے اندر رکھتا ہے نہایت آسان طریق اور نزدیک کی راہ ہے۔ اس سے جلد نزاع کا خاتمہ ہوجائے گا گویا صدہاکوس کا فاصلہ ایک قدم پر آجائے گا۔ اور خدائے تعالیٰ کی غیرت جلد تر دکھا دے گی کہ اصل حقیقت کیا ہے اور اس مقابلہ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں فریقین کو نکتہ چینی کی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ناحق کے عذروں اور بہانوں کی کچھ پیش جاتی ہے لیکن یکطرفہ نشانوں میں بد اندیش کی نکتہ چینی عوام کالانعام کو دھوکہ میں ڈالتی ہے یہ بھی جاننے والے جانتے ہیں کہ یکطرفہ نشان بہت سے آج تک اس عاجز سے ظہور میں آچکے ہیں جن کے دیکھنے والے زندہ موجود ہیں مگر کیا علماء باوجود ثبوت پیش کرنے کے ان کو قبول کر لیں گے ہرگز نہیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ تمام کلمات اور یہ طریق جو اختیار کیا گیا ہے یہ محض ان منکروں کا جلدی فیصلہ کرنے کے ارادہ سے اور نیز اسکات وافحام کے خیال اور ان پراتمام حجت کی غرض سے اور سچائی کا کامل جلوہ دکھانے کی نیت سے اور اس پیغام کے پہنچانے کیلئے ہے جو اس عاجز کو منجانب اللہ دیا گیا ہے ورنہ نشانوں کا ظاہر ہونا ان کے مقابلہ پر موقوف نہیں نشانوں کا سلسلہ تو ابتداء سے جاری ہے اور ہر یک صحبت میں رہنے والا بشرطیکہ صدق اور استقامت سے رہے کچھ نہ کچھ دیکھ سکتا ہے اور آئندہ بھی خدائے تعالیٰ اس سلسلہ کو بے نشان نہیں
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 333
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 333
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/333/mode/1up
چھوڑے گا اور نہ اپنی تائید سے دستکش ہوگا بلکہ جیسا کہ اس کے پاک وعدے ہیں وہ ضرور اپنے وقتوں پر نشان تازہ بتازہ دکھاتا رہے گا جب تک کہ وہ اپنی حجت کو پوری کرے اورخبیث اور طیب میں فرق کر کے دکھلاوے اس نے آپ اپنے مکالمہ میں اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا اور میں کبھی امید نہیں کرسکتا کہ وہ حملے بغیر ہونے کے رہیں گے گو ان کا ظہور میرے اختیار میں نہیں۔ میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں سچا ہوں پیارو! یقیناً سمجھو کہ جب تک آسمان کا خدا کسی کے ساتھ نہ ہو ایسی شجاعت کبھی نہیں دکھاتا کہ ایک دنیا کے مقابل پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور ان باتوں کا دعویٰ کرے جو اس کے اختیار سے باہر ہیں جو شخص قوت اور استقامت کے ساتھ ایک دنیا کے مقابل پر کھڑا ہو جاتا ہے کیا وہ آپ سے کھڑا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ اس ذات قدیر کی پناہ سے اور ایک غیبی ہاتھ کے سہارے سے کھڑا ہوتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں تمام زمین وآسمان اور ہر ایک روح اور جسم ہے سو آنکھیں کھولو اور سمجھ لو کہ اس خدا نے مجھ عاجز کو یہ قوت اور استقامت دی ہے جس کے مکالمہ سے مجھے عزت حاصل ہے اسی کی طرف سے اور اسی کے کھلے کھلے ارشاد سے مجھے یہ جرأت ہوئی کہ میں ان لوگوں کے مقابل پر بڑی دلیری اور دلی استقامت سے کھڑا ہوگیا جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم مقتدا اور شیخ العرب والعجم اور مقرب اللہ ہیں جن میں وہ جماعت بھی موجود ہے جو ملہم کہلاتی ہے اور الٰہی مکالمہ کا دعویٰ کرتی ہے اور اپنے زعم میں الہامی طور پر مجھے کافر اور جہنمی ٹھہرا چکے ہیں سو میں ان سب کے مقابل پر باذنہ ٖ تعالیٰ میدان میں آیا ہوں تا خدائے تعالیٰ صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھاوے اور تا اس کا ہاتھ جھوٹے کو تحت الثریٰ تک پہنچاوے اور تا وہ اس شخص کی نصرت اور تائید کرے جس پر اس کا فضل و کرم ہے۔ سو بھائیو دیکھو کہ یہ دعوت جس کی طرف میں میاں نذیر حسین صاحب اور ان کی جماعت کو بلاتا ہوں یہ درحقیقت مجھ میں اور ان میں کھلا کھلا فیصلہ کرنے والا طریق ہے سو میں اس راہ پر کھڑا ہوں اب اگر ان علماء کی نظر میں ایسا ہی کافر اور دجّال اور مفتری اور شیطان کا رہ زدہ ہوں تو میرے مقابل پر انہیں کیوں تامل کرنا چاہئے کیا انہوں نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا کہ عندالمقابلہ نصرت الٰہی مومنوں کے ہی شامل حال ہوتی ہے اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۱ یعنی اے مومنو مقابلہ سے ہمت مت ہارو اور کچھ اندیشہ مت کرو اور انجام کار
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 334
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 334
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/334/mode/1up
غلبہ تمہیں کا ہے اگر تم واقعی طور پر مومن ہو۔ اور فرماتا ہے ۱ یعنی خدائے تعالیٰ ہرگز کافروں کو مومنوں پر راہ نہیں دے گا۔ سو دیکھو خدائے تعالیٰ نے قرآن کریم میں مقابلہ کے وقت مومنوں کو فتح کی بشارت دے رکھی ہے اور خود ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ مومن کا ہی حامی اور ناصر ہوتا ؔ ہے مفتری کا ہرگز ناصر اور حامی نہیں ہوسکتا۔ سو جس کا خدائے تعالیٰ آپ دشمن ہو اور جانتا ہے کہ وہ مفتری ہے ایسا نااہل آدمی کیونکر مومن کے مقابل پر ایمان کے علامات خاصہ سے خلعت یاب ہوسکتا ہے بھلا یہ کیونکر ہو کہ جو لوگ خدائے تعالیٰ کے پیارے دوست اور سچے الہامات کے وارث اور نیز مومنین کاملین اور شیخ الکل ہوں وہ تو مقابلہ کے وقت ایمانی نشانوں سے محروم رہ جائیں اور بڑی ذلت کے ساتھ ان کی پردہ دری ہو اور عمداً خدائے تعالیٰ ان کی بزرگی اور نیک نامی کو صدمہ پہنچاوے لیکن وہ جو راندۂدرگاہ الٰہی اور بقول شیخ بٹالوی کتوں کی طرح اور کافر اور دجّال اور بقول میاں نذیر حسین بکلّی ایمان سے بے نصیب اور ملحد اور ہر ایک مخلوق سے بدتر ہو اس میں ایمانی نشان پائے جائیں اور خدائے تعالیٰ عند المقابلہ اسی کو فتح مند اور کامیاب کرے ایسا ہونا تو ہرگز ممکن نہیں۔ ناظرین آپ لوگ ایماناً فرماویں کہ کیا آسمانی اور روحانی تائید مومنوں کیلئے ہوتی ہے یا کافروں کیلئے؟ اس تمام تقریر میں َ میں نے ثابت کردیا ہے کہ حق اور باطل میں کھلا کھلا فرق ظاہر کرنے کیلئے مقابلہ کی ازحد ضرورت ہے تاسیہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد میں نے حضرت شیخ الکل صاحب اور اُن کے شاگردوں کی زبان درازیوں پر بہت صبر کیا اور ستایا گیا اور آپ کو روکتا رہا۔ اب میں مامور ہونے کی وجہ سے اس دعوت اللہ کی طرف شیخ الکل صاحب اور ان کی جماعت کو بلاتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اس نزاع کا آپ فیصلہ کردے گا وہ دلوں کے خیالات کو جانچتا اور سینوں کے حالات کو پرکھتا ہے اور کسی سے دل آزار زیادتی اور جہر بالسّوء پسند نہیں کرتا وہ لاپروا ہے متقی وہی ہے جو اس سے ڈرے اور میری اس میں کیا کسرشان ہے اگر کوئی مجھے کتا کہے یا کافر کافر اور دجّال کرکے پکارے درحقیقت حقیقی طور پر انسان کی کیا عزت ہے صرف اس کے نور کے پرتوہ پڑنے سے عزت حاصل ہوتی ہے اگر وہ مجھ پر راضی نہیں اور میں اس کی نگاہ میں ُ برا ہوں تو پھر کتے کی طرح کیا ہزار درجہ کتوں سے بدتر ہوں ۔
گرخدا ازبندہۂ خوشنود نیست
ہیچ حیوانے چو او مردُود نیست
گرسگِ نفسِ دنی را پروریم
ازسگانِ کوچہ ہا ہم کم تریم
اے خدا اے طالبان را رہنما
ایکہ مہر تو حیاتِ روح ما
بر رضائے خویش کن انجام ما
تا براید در دو عالم کام ما
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 335
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 335
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/335/mode/1up
خلق و عالم جملہ در شور و شراند
طالبانت در مقام دیگر اند
آن یکے را نورمے بخشی بدل
واں دِگر را می گزاری پابگل
چشم و گوش و دل زِ توگیرد ضیاء
ذات تو سرچشمہء فیض وُ ہدا
غرض خداوند قادر وقدوس میری پناہ ہے اور میں تمام کام اپنا اسی کو سونپتا ہوں اور گالیوں کے عوض میں گالیاں دینانہیں چاہتا اور نہ کچھ کہنا چاہتا ہوں ایک ہی ہے جو کہے گا افسوس کہ ان لوگوں نے تھوڑی سی بات کو بہت دور ڈال دیا اور خدائے تعالیٰ کو اس بات پر قادر نہ سمجھا کہ جو چاہے کرے اور جسکو چاہے مامور کرکے بھیجے کیا انسان اس سے لڑ سکتا ہے یا آدم زاد کو اس پر اعتراض کرنے کا حق پہنچتا ہے کہ تونے ایسا کیوں کیا ایسا کیوں نہیں کیا۔ کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ایک کی قوت اور طبع دوسرے کو عطا کرے اور ایک کا رنگ اور کیفیت دوسرے میں رکھ دیوے اور ایک کے اِسم سے دوسرے کو موسوم کردیوے اگر انسان کو خدائے تعالیٰ کی وسیع قدرت پر ایمان ہوتو وہ بلاتامل ان باتوں کا یہی جواب دے گا کہ ہاں بلاشبہ اللہ جلّ شانہٗ ہریک بات پر قادر ہے اور اپنی باتوں اور اپنی پیشگوئیوں کو جس طرز اور طریق اور جس پیرایہ سے چاہے پورا کرسکتا ہے ناظرین تم آپ ہی سوچ کر دیکھو کہ کیا آنیوالے عیسیٰ کی نسبت کسی جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ وہ دراصل وہی بنی اسرائیلی ناصری صاحب انجیل ہوگا بلکہ بخاری میں جو بعد کتاب اللہ اصح الکتاب کہلاتی ہے بجائے ان باتوں کے امامکم منکم لکھا ہے اور حضرت مسیح کی وفات کی شہادت دی ہے جسکی آنکھیں ہیں دیکھے۔ منصفو! سونچ کر جواب دو کہ کیا قرآن کریم میں کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی وقت کوئی حقیقی طور پر صلیبوں کو توڑنے والا اور ذمّیوں کو قتل کرنیوالا اور قتل خنزیر کا نیا حکم لانے والا اور قرآن کریم کے بعض احکام کو منسوخ کرنیوالا ظہور کرے گا اور آیت ۱ ا ور آیت ۲ اس وقت منسوخ ہوجائے گی اور نئی وحی قرآنی وحی پر خط نسخ کھینچ دے گی۔ اے لوگو اے مسلمانوں کی ذریّت کہلانے والو دشمن قرآن نہ بنو اور خاتم النبییّن کے بعد وحی نبوت کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو اور اُس خدا سے شرم کرو جس کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے۔ اور بالآخر میں ناظرین کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ جن باتوں پر حضرت مولوی نذیر حسین صاحب اور ان کی جماعت نے تکفیر کا فتویٰ دیا ہے اور میرا نام کافر اور دجّال رکھا ہے اور وہ گالیاں دی ہیں کہ کوئی مہذب آدمی غیر قوم کے آدمی کی نسبت بھی پسند نہیں کرتا اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ گویا یہ باتیں میری کتاب توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں درج ہیں۔ میں انشاء اللہ القدیر عنقریب ایک مستقل رسالہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 336
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 336
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/336/mode/1up
میں ان تمام مقامات معترض علیہا کو لکھ کر منصفین کو دکھلاؤں گا کہ ؔ کیا درحقیقت میں نے اسلام کے عقیدہ سے انحراف کیا ہے یاانہیں کی آنکھوں پر پردہ اور انہیں کے دلوں پر مہریں ہیں کہ باوجود علم کے دعوے کے حقیقت کو شناخت نہیں کرسکتے اور اس پل کی طرح جو یکدفعہ ٹوٹ کر ہر طرف ایک سیلاب پیدا کردے لوگوں کی سدّراہ ہورہے ہیں یاد رکھو کہ آخر یہ لوگ بہت شرمندگی کے ساتھ اپنے منہ بند کرلیں گے اور بڑی ندامت اور ذلت کے ساتھ تکفیر کے جوش سے دستکش ہوکر ایسے ٹھنڈے ہوجائیں گے کہ جیسے کوئی بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی ڈال دے لیکن انسان کی تمام قابلیت اور زیر کی اور عقلمندی اس میں ہے کہ سمجھانے سے پہلے سمجھے اور جتلانے سے پہلے بات کو پاجائے اگر سخت مغز خواری کے بعد سمجھا تو کیا سمجھا بہتوں پر عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ وہ کافر بنانے اور گالیاں دینے کے بعد پھر رجوع کریں گے اور بدظنی اور بدگمانی کے بعد پھر حسن ظن پیدا کرلیں گے مگر کہاں وہ پہلی بات اور کہاں یہ ۔
اکنوں ہزار عذر بیاری گناہ را
مرشوی کردہ را نبود زیب دختری
سواے میری پیاری قوم اس وقت کو غنیمت سمجھ یہ تیرا گمان صحیح نہیں ہے کہ اس صدی کے سر پر آسمان و زمین کے خدا نے کوئی مجدّد اپنی طرف سے نہ بھیجا بلکہ کافر اور دجّال بھیجا تازمین میں فساد پھیلائے اے قوم نبی علیہ السلام کی پیشگوئی کا کچھ لحاظ کر اور خدائے تعالیٰ سے ڈر اور نعمت کو ردّ مت کر۔
غافل مشوگر عاقلی در یاب گر صاحبدلی
شاید کہ نتواں یافتن دیگر چنیں ایام را
والسّلامُ علٰی من اتّبع الھدٰی
نوٹ۔ مندرجہ بالا رسالہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ ء کو بعد نماز ظہر مسجد کلاں واقعہ قادیان میں ایک جم غفیر کے روبرو مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا اور بعد اختتام یہ تجویز حاضرین کے روبرو پیش کی گئی کہ انجمن کے ممبر کون کون صاحبان قرار دیئے جائیں اور کس طرح اس کی کارروائی شروع ہو۔ حاضرین نے جنکے نام نامی ذیل میں درج کئے جاتے ہیں جو محض تجویز مذکورہ بالا پرغور کرنے اور مشورہ کرنے کیلئے تشریف لائے تھے بالاتفاق یہ قرار دیاکہ سردست رسالہ مذکور شائع کردیا جائے اور مخالفین کا عندیہ معلوم کرکے بعد ازاں بتراضیء فریقین انجمن کے ممبر مقرر کئے جائیں اور کارروائی شروع کی جائے۔ جواصحاب اس جلسہ میں موجود ہوئے ان کے نام نامی یہ ہیں:۔
منشی محمداروڑاصاحبنقشہ نویس محکمہ مجسٹریٹ کپورتھلہ
منشی محمد خان صاحب اہلمد فوجداری ؍؍
حافظ محمد علی صاحب کپورتھلہ
منشی محمد عبدالرحمن صاحب محرر محکمہ جرنیلی ایضاً
منشی سردار خان صاحب کورٹ دفعدار ؍؍
مرزا خدا بخش صاحب اتالیق نواب مالیر کوٹلہ
منشی محمد حبیب الرحمن رئیس کپور تھلہ ایضاً
منشی امداد علی خان صاحب محرر سرشتۂ تعلیم ؍؍
منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے لاہور
منشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس ؍؍
مولوی محمد حسین صاحب کپورتھلہ ؍؍
ڈپٹی حاجی سید فتح علی شاہ صاحب ڈپٹی کلکٹر انہار
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 337
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 337
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/337/mode/1up
حاجی خواجہ محمد الدین صاحب رئیس لاہور
سید محمد شاہ صاحب رئیس جموں
شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند امرتسر
میاں محمد چٹو صاحب رئیس لاہور
مستری عمر الدین صاحب جموں
منشی غلام محمد صاحب کاتب امرتسر
خلیفہ رجب الدین صاحب رئیس لاہور
منشی شمس الدین صاحب کلرک و فتر اگزیمنر لاہور
مولوی نور الدین صاحب حکیم خاص ریاست جموں
خلیفہ نور الدین صاحب صحاف جموں
میاںؔ جمال الدین صاحب ساکن
موضع سیکھواں
منشی تاجدین صاحب اکونٹنٹ دفتر اگزیمنر لاہور
قاضی محمد اکبر صاحب سابق تحصیلدار جموں
میاں امام الدین صاحب سیکھواں
منشی نبی بخش صاحب کلارک ؍؍ ؍؍
شیخ محمد جان صاحب ملازم را جہ امرسنگھ صاحب وزیر آباد
میاں خیر الدین صاحب ؍؍
حافظ فضل احمد صاحب ؍؍ ؍؍
مولوی عبدالقادر صاحب مدرس جمالپور
مولوی محمد عیسیٰ صاحب مدرس نوشہرہ
مولوی رحیم اللہ صاحب لاہور
مولوی غلام حسین صاحب امام مسجد گمٹی لاہور
شیخ رحمت اللہ صاحب میونسپل کمشنر گجرات
شیخ عبدالرحمن صاحب بی اے گجرات
میاں چراغ علی صاحب ساکن
تھہ غلام نبی
منشی عبدالرحمن صاحب کلارک لوکو آفس لاہور
منشی غلام اکبر صاحب یتیم کلرک اگزیمنر آفس لاہور
شیخ شہا ب الدین صاحب ساکن تھہ غلام نبی
مولوی عبدالرحمن صاحب مسجد چینیاں لاہور
منشی دوست محمد صاحب سارجنٹ پولیس جموں
میاں عبداللہ صاحب ساکن سوہل
منشی کرم الٰہی صاحب لاہور
مفتی فضل الرحمن صاحب رئیس جموں
حافظ عبدالرحمن صاحب ساکن سوہیاں
سید ناصر شاہ صاحب سب اوورسیر
حافظ محمد اکبر صاحب لاہور
منشی غلام محمد صاحب خلف مولوی دین محمد لاہور
سائیں شیرشاہ صاحب مجذوب جموں
داروغہ نعمت علی صاحب ہاشمی عباسی بٹالوی
مولوی غلام قادر صاحب فصیح مالک و مہتمم
پنجاب پریس و میونسپل کمشنر سیالکوٹ
صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدہانہ
قاضی خواجہ علی صاحب ٹھیکیدار شکرم لدہانہ
حافظ حامد علی صاحب ملازم مرزا صاحب
حکیم جان محمد صاحب امام مسجد قادیانی
مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹ
حافظ نور احمد صاحب کارخانہ پشمینہ لدہانہ
بابو علی محمد صاحب رئیس بٹالہ
میر حامد شاہ صاحب اہلمد معافیات سیالکوٹ
شہزادہ حاجی عبدالمجیدصاحب لدہانہ
میرزا اسمعیل بیگ صاحب قادیانی
میر محمود شاہ صاحب نقل نویس سیالکوٹ
حاجی عبدالرحمن صاحب لدہانہ
میاں بڈھے خاں نمبردار بیری
منشی محمد دین صاحب سابق گرد آور سیالکوٹ
شیخ شہاب الدین صاحب لدہانہ
میرزا محمد علی صاحب رئیس پٹی
حکیم فضل الدین صاحب رئیس بھیرہ
حاجی نظام الدین صاحب لدہانہ
شیخ محمد عمر صاحب خلف حاجی غلام محمد صاحب بٹالہ
میاں نجم الدین صاحب رئیس بھیرہ
شیخ عبدالحق صاحب لدہانہ
منشی احمد اللہ صاحب محالدار محکمہ پرمٹ جموں
مولوی محکم الدین صاحب مختار امرتسر
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 338
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 338
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/338/mode/1up
ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں
کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت
میرے مخلص دوست اور للّہی رفیق اخویم حضرت مولوی حکیم نورِ دین صاحب فانی فی ابتغاء مرضات ربانی ملازم و معالج ریاست جموں نے ایک عنایت نامہ مورخہ ۷ جنوری ۱۸۹۲ء اس عاجز کی طرف بھیجا ہے جس کی عبارت کسی قدر نیچے لکھی جاتی ہے اور وہ یہ ہے۔ خاکسار نابکار نور الدین بحضور خدّام والا مقام حضرت مسیح الزمان سلمہ الرحمن السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗکے بعد بکمال ادب عرض پرداز ہے۔ غریب نواز۔ پر یروز ایک عرضی خدمت میں روانہ کی اس کے بعد یہاں جموں میں ایک عجیب طوفانِ بے تمیزی کی خبر پہنچی جس کو بضرورت تفصیل کے ساتھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں ازالہ اوہام میں حضور والا نے ڈاکٹر جگن ناتھ کی نسبت ارقام فرمایا ہے کہ وہ گریز کر گئے اب ڈاکٹر صاحب نے بہت سے ایسے لوگوں کو جو اس معاملہ سے آگاہ تھے کہا ہے۔ سیاہی سے یہ بات لکھی گئی ہے سرخی سے اس پر قلم پھیر دو میں نے ہرگز گریز نہیں کیا اور نہ کسی نشان کی تخصیص چاہی مردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور نہ خشک درخت کا ہرا ہوناؔ ۔ یعنے بلا تخصیص کوئی نشان چاہتا ہوں جو
نوٹ۔ حضرت مولوی صاحب کے محبت نامہ موصوفہ کے چند فقرہ لکھتا ہوں غور سے پڑھنا چاہئے تا معلوم ہو کہ کہاں تک رحمانی فضل سے ان کو انشراح صدر و صدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں۔ ’’عالی جناب مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو۔ اللہ کی رضا مندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہوسکے طیار ہوں اگر آپ کے مشن کو انسانی خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ نابکار(مگر محب انسان) چاہتا ہے کہ اس کام میں کام آوے‘‘۔ تمّ کلا مہ جزاہ اللّٰہٗ حضرت مولوی صاحب جو انکسار اور ادب اور ایثار مال و عزت اور جان فشانی میں فانی ہیں وہ خود نہیں بولتے بلکہ ان کی روح بول رہی ہے۔ درحقیقت ہم اسی وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خدا وند منعم نے ہمیں دیا ہم اس کو واپس دیں یا واپس دینے کیلئے تیار ہوجائیں۔ ہماری جان اس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے کہ ۱ سرکہ نہ درپائے عزیزش رود بارِگران ست کشیدن بدوش ۔ مِنْہُ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 339
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 339
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/339/mode/1up
انسانی طاقت سے بالاتر ہو ۔*
اب ناظرین پر واضح ہو کہ پہلے ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کو تخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مردہ زندہ کرنا وغیرہ اس پر انکی خدمت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص ناجائز ہے خدائے تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے اور جب کہ نشان کہتے ہی اس کو ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہوتو پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے۔ کسی نشان کے آزمانے کیلئے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں اسکی نظیر پیدا نہ کرسکیں اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا اب پھر ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرماکر اپنی اس پہلی قید کو اٹھالیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو لہٰذا آج ہی کی تاریخ یعنی ۱۱؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو بروز دوشنبہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکرراً دعوت حق کے طور پر ایک خط رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ اگر آپ بلاتخصیص کسی نشان دیکھنے پر سچے دل سے مسلمان ہونے کیلئے تیار ہیں تو اخبارات مندرجہ حاشیہ میں حلفاًیہ اقرار اپنی طرف سے شائع کردیں کہ میں جو فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں ریاست جموں میں برعہدہ ڈاکٹری متعین ہوں اور اسوقت حلفاًاقرار صحیح سراسر نیک نیتی اور حق طلبی اور خلوص دل سے کرتا ہوں کہ اگر میں اسلام کی تائید میں کوئی نشان دیکھوں جسکی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آجاؤں اور انسانی طاقتوں میں اسکا کوئی نمونہ انہیں تمام لواز م کے ساتھ دکھلا نہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہوجاؤں گا اس اشاعت اور اس اقرار کی اسلئے ضرورت ہے کہ خدائے قیّوم وقدّوس بازی اور کھیل کی طرح کوئی نشان دکھلانا نہیں چاہتا جب تک کوئی انسان پوری انکسار اور ہدایت یابی کی غرض سے اسکی طرف رجوع نہ کرے
*پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور اور ناظم الہند لاہور اور اخبار عام لاہور اور نورافشاں لدھیانہ۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 340
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 340
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/340/mode/1up
تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے اور چونکہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوں کے ظہور کیلئے ایک سال کے وعدہ پر اشتہار دیا ہے سو وہی میعاد ڈاکٹر صاحب کیلئے قائم رہے گی طالب حق کیلئے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں۔ اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میرے مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز کریں وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں۔
ہماں بہ کہ جاں دررہِ او فشانم
جہاں راچہ نقصاں اگر من نمانم
والسلام علی من اتبع الھدٰی
المعلن المشتھر
خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی عفی اللہ عنہ
یازدہم جنوری ۱۸۹۲ ء
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 341
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 341
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/341/mode/1up
منصفینؔ کے غور کے لائق
یہ بات بالکل سچ ہے کہ جب دل کی آنکھیں بند ہوتی ہیں تو جسمانی آنکھیں بلکہ سارے حواس ساتھ ہی بند ہوجاتے ہیں پھر انسان دیکھتا ہوا نہیں دیکھتا اور سنتا ہو۱ نہیں سنتا اور سمجھتا ہوا نہیں سمجھتا اور زبان پر حق جاری نہیں ہوسکتا۔ دیکھو ہمارے محجوب مولوی کیسے دانا کہلا کر تعصب کی وجہ سے نادانی میں ڈوب گئے دینی دشمنوں کی طرح آخر افتراؤں پر آگئے۔ ایک صاحب اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ ایک اپنے لڑکے کی نسبت الہام سے خبردی تھی کہ یہ باکمال ہوگا حالانکہ وہ صرف چند مہینہ جی کر مر گیا۔ مجھے تعجب ہے کہ ان جلد باز مولویوں کو ایسی باتوں کے کہنے کے وقت کیوں لَعْنَتَ ۱ کی آیت یاد نہیں رہتی اور کیوں یکدفعہ اپنے باطنی جذام اور عداوت اسلام کو دکھلانے لگے ہیں اگر کچھ حیا ہو تو اب اس بات کا ثبوت دیں کہ اس عاجز کے کس الہام میں لکھا گیا ہے کہ وہی لڑکا جو فوت ہوگیا درحقیقت وہی موعود لڑکا ہے الہام الٰہی میں صرف اجمالی طور پر خبر ہے کہ ایسا لڑکا پیدا ہوگا اور خدا تعالیٰ کے پاک الہام نے کسی کو اشارہ کر کے مورد اس پیشگوئی کا نہیں ٹھہرایا بلکہ اشتہار فروری ۱۸۸۶ ء میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ بعض لڑکے ِ صغرسن میں فوت بھی ہوں گے پھر اس بچے کے فوت ہونے سے ایک پیشگوئی پوری ہوئی یا کوئی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ اب فرض کے طور پر کہتا ہوں کہ اگر ہم اپنے اجتہاد سے کسی اپنے بچہ پر یہ خیال بھی کرلیں کہ شاید یہ وہی پسر موعود ہے اور ہمارا اجتہاد خطا جائے تو اس میں الہام الٰہی کا کیا قصور ہوگا کیا نبیوں کے اجتہادات میں اس کا کوئی نمونہ نہیں! اگر ہم نے وفات یافتہ لڑکے کی نسبت کوئی قطعی الدلالت الہام کسی اپنی کتاب میں لکھا ہے تو وہ پیش کریں جھوٹ بولنا اور نجاست کھانا ایک برابر ہے تعجب کہ ان لوگوں کو نجاست خوری کا کیوں شوق ہوگیا آ ج تک صدہا الہامی پیشگوئیاں سچائی سے ظہور میں آئیں جو ایک دنیا میں مشہور کی گئیں مگر ان مولویوں نے ہمدردی اسلام کی راہ سے کسی ایک کا بھی ذکر نہ کیا۔ دلیپ سنگھ کا ارادہ سیر ہندوستان و پنجاب سے ناکام رہنا صدہا لوگوں کو پیش از وقوع سنایا گیا تھا۔ بعض ہندوؤں کو پنڈت دیانند کی موت کی خبر چند مہینے اسکے مرنے سے پہلے بتلائی گئی تھی اور یہ لڑکا بشیر الدین محمود جو پہلے لڑکے کے بعد پیدا ہوا ایک اشتہار میں اسکی پیدائش کی قبل از تولد خبر دی گئی تھی سردار محمد حیات خان کی معطلی کے زمانہ میں ان کی دوبارہ بحالی کی لوگوں کو خبر سنادی گئی تھی۔ شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور پر مصیبت کا آنا پیش از وقت ظاہر کیا گیا تھا اور پھر انکی بریّت
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 342
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 342
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/342/mode/1up
کی خبر نہ صرف ان کو پیش از وقت پہنچائی گئی تھی بلکہ صدہا آدمیوں میں مشہور کی گئی تھی۔ ایسا ہی صدہا نشان ہیں جن کے گواہ موجود ہیں۔ کیا ان دیندار مولویوں نے کبھی ان نشانوں کا بھی نام لیا جس کے دل پر خدا تعالیٰ مہر کرے اس کے دل کو کون کھولے۔ اب بھی یہ لوگ یاد رکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ ضرر نہیں پہنچ سکتا۔ کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا۔ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلا وے- اسلام کی برکتیں اب ان مگس طینت مولویوں کی بک بک سے رک نہیں سکتیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے اَنَا الفتّاح افتح لک۔ تری نصرًا عجیبًا و یَخِرّون علی المساجد۔ ربنا اغفرلنا انا کنا خاطئین۔ جلابیب الصدق۔ فاستقم کما امرت۔ الخوارق تحت منتہی صدق الاقدام۔ کن لِلّٰہ جمیعًا و مع اللّٰہ جمیعا۔ عسٰی ان یبعثک ربّک مقامًا محمودا۔یعنی میں فتّاح ہوں تجھے فتح دوں گا ایک عجیب مدد تو دیکھے گا اور منکر یعنی بعض ان کے جن کی قسمت میں ہدایت مقدر ہے اپنے سجدہ گاہوں پر گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش ہم خطا پر تھے۔ یہ صدق کے جلابیب ہیں جو ظاہر ہوں گے۔ سو جیسا کہ تجھے حکم کیا گیا ہے استقامت اختیار کر۔ خوارق یعنی کرامات اس محل پر ظاہر ہوتی ہیں جو انتہائی درجہ صدق اقدام کا ہے۔ تو سارا خدا کیلئے ہو جا تو سارا خدا کے ساتھ ہوجا۔ خدا تجھے اس مقام پر اٹھائے گا جس میں تو تعریف کیا جائے گا اور ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اب اے مولویو۔ اے بخل کی سرشت والو ۔ اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھلاؤ ہریک قسم کے فریب کام میں لاؤ اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو پھر دیکھو کہ آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا۔
والسّلام علٰی من اتبع الھدٰی
اَلمُنَبِّہ النّاصِح مرزا غلام احمد قادیانی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 343
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 343
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/343/mode/1up
میرؔ عباس علی صاحب ُ لدھانوی
چو بشنوی سخن اہل دل مگو کہ خطااست
سخن شناس نۂِ دلبرا خطا اینجا است
یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کا ذکر بالخیر میں نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۷۹۰ میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں لکھا ہے افسوس کہ وہ بعض ُ موَ سوِ سین کی وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آگئے بلکہ جماعت اعداء میں داخل ہوگئے۔ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ ان کی نسبت تو الہام ہوا تھا کہ اصلھا ثابتٌ وفرعھا فی السمآء اس کا یہ جواب ہے۔ کہ الہام کے صرف اس قدر معنے ہیں کہ اصل اس کا ثابت ہے اور آسمان میں اس کی شاخ ہے اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں بلاشبہ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے جس پر وہ ہمیشہ ثابت اور مستقل رہتا ہے اور اگر ایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تو وہ فطرتی خوبی ساتھ ہی لاتا ہے اور اگر پھر اسلام سے کفر کی طرف انتقال کرے تو اس خوبی کو ساتھ ہی لے جاتا ہے کیونکہ فطرت اللہ اور خلق اللہ میں تبدل اور تغیر نہیں افراد نوع انسان مختلف طور کی کانوں کی طرح ہیں کوئی سونے کی کان کوئی چاندی کی کان کوئی پیتل کی کان پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے بلاشبہ یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض اخلاق فطرتاً ان کو حاصل ہوتے ہیں خدا تعالیٰ نے مجسم ظلمت اور سراسر تاریکی میں کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا ہاں یہ سچ ہے کہ کوئی فطرتی خوبی بجز حصول صراط مستقیم کے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے موجب نجات اخروی نہیں ہوسکتی کیونکہ اعلیٰ درجہ کی خوبی ایمان اور خدا شناسی اور راست روی اور خدا ترسی ہے اگر وہی نہ ہوئی تو دوسری خوبیاں ہیچ ہیں۔ علاوہ اس کے یہ الہام اُس زمانہ کا ہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 344
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 344
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/344/mode/1up
موجود تھی۔ زبردست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اور اپنے دل میں وہ بھی یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت رہوں گا سو خدا تعالیٰ نے اُن کی اُس وقت کی حالت موجودہ کی خبر دے دی یہ بات خدا تعالیٰ کی تعلیمات وحی میں شائع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبردیتا ہے کسی کے کافر ہونے کی حالت میں اس کا نام کافر ہی رکھتا ہے۔ اور اس کے مومن اور ثابت قدم ہونے کی حالت میں اس کا نام مومن اور مخلص اور ثابت قدم ہی رکھتا ہے خدا تعالیٰ کی کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ میر صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجز کے مخلصوں میں شامل رہے اور خلوص کے جوش کی وجہ سے بیعت کرنے کے وقت نہ صرف آپ انہوں نے بیعت کی بلکہ اپنے دوسرے عزیزوں اور رفیقوں اور دوستوں اور متعلقوں کو بھی اس سلسلہ میں داخل کیا اور اس دس سال کے عرصہ میں جس قدر انہوں نے اخلاص اور ارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے اُن کا اس وقت میں اندازہ بیان نہیں کرسکتا لیکن دو سو کے قریب اب بھی ایسے خطوط ان کے موجود ہوں گے جن میں انہوں نے انتہائی درجہ کے عجز اور انکسار سے اپنے اخلاص اور ارادت کا بیان کیا ہے بلکہ بعض خطوط میں اپنی وہ خوابیں لکھی ہیں جن میں گویا روحانی طور پر ان کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ عاجز منجانب اللہ ہے اور اس عاجز کے مخالف باطل پر ہیں اور نیز وہ اپنی خوابوں کی بناء پر اپنی معیت دائمی ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اس جہان اور اس جہان میں ہمارے ساتھ ہیں ایسا ہی لوگوں میں بکثرت انہوں نے یہ خوابیں مشہور کی ہیں اور اپنے مریدوں اور مخلصوں کو بتلائیں اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس قدر جوش سے اپنا اخلاص ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگر خدائے تعالیٰ کا الہام ہو کہ یہ شخص اس وقت ثابت قدم ہے متزلزل نہیں تو کیا اس الہام کو خلاف واقعہ کہا جائے گا بہت سے الہامات صرف موجود ہ حالات کے آئینہ ہوتے ہیں عواقب امور سے ان کو کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نیز یہ بات بھی ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے اس کے سوء خاتمہ پر حکم نہیں کرسکتے کیونکہ انسان کا دل اللہ جلّ شانہٗ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 345
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 345
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/345/mode/1up
کے قبضہ میں ہے میر صاحب تو میر صاحب ہیں اگر وہ چاہے تو دنیا کے ایک بڑے سنگدل اور مختوم القلب آدمی کو ایک دم میں حق کی طرف پھیر سکتا ہے۔ غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتا ہے مآل پر ضروری طور پر اس کی دلالت نہیں ہے اور مآل ابھی ظاہر بھی نہیں ہے بہتوں نے راست بازوں کو چھوڑ دیا اور پکے دشمن بن گئے مگر بعد میں پھر کوئی کرشمہ قدرت دیکھ کر پشیمان ہوئے اور زارزار روئے اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور رجوع لائے۔ انسان کا دل خدائے تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس حکیم مطلق کی آزمائشیں ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ سو میر صاحب اپنی کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلا کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پیدا ہوئی اور پھر قبض سے خشکی اور اجنبیّت اور اجنبیّت سے ترک ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جہری عداوت اور ارادہ تحقیر و استحقاق* و توہین پیدا ہوگیا۔ عبرت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے۔ کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہوگا۔ مالک الملک جو چاہتا ہے کرتا ہے میرے دوستوں کو چاہئے کہ ان کے حق میں دعا کریں اور اپنے بھائی فروماندہ اور درگذشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں اور میں بھی انشاء اللہ الکریم دعا کروں گا۔ میں چاہتا تھا کہ ان کے چند خطوط بطور نمونہ اس رسالہ میں نقل کر کے لوگوں پر ظاہر کروں کہ میر عباس علی کا اخلاص کس درجہ پر پہنچا تھا اور کس طور کی خوابیں وہ ہمیشہ ظاہر کیا کرتے تھے اور کس انکساری کے الفاظ اور تعظیم کے الفاظ سے وہ خط لکھتے تھے لیکن افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے وقت میں حسب ضرورت ظاہر کیا جائے گا۔ یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفۃ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا آج اس کی کیاحالت ہے۔ پس خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے اپنی استقامتوں پر بھروسہ مت کرو کیا استقامت میں فاروق رضی اللہ عنہُ سے کوئی بڑھ کر
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 346
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 346
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/346/mode/1up
ہوگا جن کو ایک ساعت کیلئے ابتلا پیش آگیا تھا اور اگر خدائے تعالیٰ کا ہاتھ ان کو نہ تھامتا تو خدا جانے کیا حالت ہوجاتی۔ مجھے اگرچہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج بہت ہوا لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو اُن کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے جن کی تعریف میں وحی الٰہی بھی نازل ہوگئی تھی آخر حضرت مسیح سے منحرف ہوگئے تھے یہودا اسکریوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کا تھا جو اکثر ایک ہی پیالہ میں حضرت مسیح کے ساتھ کھاتا اور ؔ بڑے پیار کا دم مارتا تھا جس کو بہشت کے بارھویں تخت کی خوشخبری بھی دی گئی تھی اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے جن کی نسبت حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ آسمان کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں جن کو چاہیں بہشت میں داخل کریں اور جن کو چاہیں نہ کریں لیکن آخر میاں صاحب موصوف نے جو کرتوت دکھلائی وہ انجیل پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہوکر اور ان کی طرف اشارہ کر کے نعوذ باللہ بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پرلعنت بھیجتا ہوں۔ میر صاحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں کل کی کس کو خبر ہے کہ کیا ہو۔ میر صاحب کی قسمت میں اگرچہ یہ لغزش مقدر تھی اور أَصلھا ثابتٌ کی ضمیر تانیث بھی اس کی طرف ایک اشارہ کررہی تھی لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میر صاحب کی حالت کو لغزش میں ڈالا میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جن کو مسائل دقیقہ دین کی کچھ بھی خبر نہیں حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ یہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے میں نے سنا ہے کہ شیخ بٹالوی اِس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ اور اس قدر غلو ہے کہ شیخ نجدی کا استثناء بھی ان کے کلام میں نہیں پایا جاتا تا صالحین کو باہر رکھ لیتے اگرچہ وہ بعض روگردان ارادتمندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں مگر انھیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہوجانے سے سارا باغ بر باد نہیں ہوسکتا۔ جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 347
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 347
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/347/mode/1up
خشک کردیتا ہے اور کاٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا کردیتا ہے بٹالوی صاحب یاد رکھیں کہ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدائے تعالیٰ اس کی جگہ بیس لائے گا اور اس آیت پر غور کریں ۔ ۱
بالآخر ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ میر عباس علی صاحب نے ۱۲ ؍دسمبر ۱۸۹۱ء میں مخالفانہ طور پر ایک اشتہار بھی شائع کیا ہے جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے سو ان الفاظ سے تو ہمیں کچھ غرض نہیں جب دل بگڑتا ہے تو زبان ساتھ ہی بگڑ جاتی ہے لیکن اس اشتہار کی تین باتوں کا جواب دینا ضروری ہے:۔
اول۔ یہ کہ میر صاحب کے دل میں دہلی کے مباحثات کا حال خلاف واقعہ جم گیا ہے سو اس وسوسہ کے دور کرنے کیلئے میرا یہی اشتہار کافی ہے بشرطیکہ میر صاحب اس کو غور سے پڑھیں۔
دوم۔ یہ کہ میر صاحب کے دل میں سراسر فاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا میں ایک نیچری آدمی ہوں معجزات کا منکر اور لیلتہ القدر سے انکاری اور نبوت کا مدعی اور انبیاء علیہم السلام کی اہانت کرنے والا اور عقائد اسلام سے ُ منہ پھیرنے والا سو ان اوہام کے دور کرنے کیلئے میں وعدہ کرچکا ہوں کہ عنقریب میری طرف سے اس بارہ میں رسالہ مستقلہ شائع ہوگا اگر میر صاحب توجہ سے اس رسالہ کو دیکھیں گے تو بشرط توفیق ازلی اپنی بے بنیاد اور بے اصل بدظنیوں سے سخت ندامت اٹھائیں گے۔
سوئم۔ یہ کہ میرصاحب نے اپنے اس اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر فرماکر تحریر فرمایا ہے کہ گویا ان کو رسول نمائی کی طاقت ہے چنانچہ وہ اس اشتہار میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں میرا مقابلہ نہیں کیا میں نے کہا تھا کہ ہم دونوں کسی ایک مسجد میں بیٹھ جائیں اور پھر یا تو مجھ کو رسولؐ کریم کی زیارت کراکر اپنے دعاوی کی تصدیق کرادی جائے اور یا میں زیارت کراکر اس بارہ میں فیصلہ کرادوں گا۔ میر صاحب کی اس تحریر نے نہ صرف مجھے ہی تعجب میں ڈالا بلکہ ہر ایک واقف حال سخت متعجب ہورہا ہے کہ اگر میرصاحب میں
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 348
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 348
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/348/mode/1up
یہ قدرت اور کمال حاصل تھا کہ جب چاہیں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ لیں اور باتیں پوچھ لیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھلادیں تو پھر انھوں نے اس عاجز سے بدوں تصدیق نبوی کے کیوں بیعت کر لی اور کیوں دس۱۰ سال تک برابر خلوص نماؤں کے گروہ میں رہے تعجب کہ ایک دفعہ بھی رسول کریم ان کی خواب میں نہ آئے اور ان پر ظاہر نہ کیا کہ اس کذّاب اور مکّار اور بے دین سے کیوں بیعت کرتا ہے اور کیوں اپنے تئیں گمراہی میں پھنساتا ہے کیا کوئی عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کو یہ اقتدار حاصل ہے کہ بات بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حضوری میں چلا جاوے اور ان کے فرمودہ کے مطابق کاربند ہو۔ اور ان سے صلاح مشورہ لے لے وہ دس برس تک برابر ایک کذّاب اور فریبی کے پنجہ میں پھنسا رہے اور ایسے شخص کا مرید ہوجاوے جو اللہ اور رسول کا دشمن اور آنحضرتؐ کی تحقیر کرنے والا اور تحت الثریٰ میں گرنے والا ہو زیادہ تر تعجب کا مقام یہ ہے کہ میر صاحب کے بعض دوست بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے بعض خوابیں ہمارے پاس بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھا اور آنحضرت ؐنے اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ وہ شخص واقعی طور پر خلیفۃ اللہ اور مجدّد دین ہے اور اسی قسم کے بعض خط جن میں خوابوں کا بیان اور تصدیق اس عاجز کے دعوے کی تھی میر صاحب نے اس عاجز کو بھی لکھے اب ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اگر میر صاحب رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں تو جو کچھ انھوں نے پہلے دیکھا وہ بہرحال اعتبار کے لائق ہوگا اور اگر وہ خوابیں ان کی اعتبار کے لائق نہیں اور اضغاث احلام میں داخل ہیں تو ایسی خوابیں آئندہ بھی قابل اعتبار نہیں ٹھہر سکتیں۔ ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ رسول نمائی کا قادرانہ دعویٰ کس قدر فضول بات ہے حدیث صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی کی ُ مبرا ہوسکتی ہے جس میں آنحضرت صلعم کو ان کے حلیہ پر دیکھا گیا ہو ورنہ شیطان کا تمثل انبیاء کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے ہے۔ اور شیطان لعین تو خدائے تعالیٰ کا تمثل اور اس کے عرش کی تجلّی دکھلا دیتا ہے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 349
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 349
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/349/mode/1up
تو پھر انبیاء کا تمثل اُس پر کیا مشکل ہے اب جب کہ یہ بات ہے تو فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ کسی کو آنحضرت صلعم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر کیونکر مطمئن ہوں کہ وہ زیارت درحقیقت آنحضرت صلعم کی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک حلیہ نبوی پر اطلاع نہیں اور غیر حلیہ پر تمثل شیطان جائز ہے پس اس زمانہ کے لوگوں کیلئے زیارت حقہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اُس زیارت کے ساتھ بعض ایسے خوارق اور علامات خاصہ بھی ہوں جن کی وجہ سے رؤیا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے مثلاً رسول اللہ صلعم بعض بشارتیں پیش از وقوع بتلادیں یا بعض قضا وقدر کے نزول کی باتیں پیش از وقوع مطلع کردیں یا بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقائق و معارف بتلادیں جو پہلے قلم بند اور شائع نہیں ہوچکے تو بلاشبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی۔ ورنہ اگر ایک شخص دعویٰ کرے جو رسول اللہ صلعم میری خواب میں آئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ فلاں شخص بے شک کافر اور دجّال ہے اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ یہ رسول اللہ صلعم کا قول ہے یا شیطان کا یا خود اس خواب بین نے چالاکی کی راہ سے یہ خواب اپنی طرف سے بنالی ہے سو اگر میر صاحب میں درحقیقت یہ قدرت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلعم ان کی خواب میں آجاتے ہیں تو ہم میر صاحب کو یہ تکلیف دینا نہیں چاہتے کہ وہ ضرور ہمیں دکھادیں بلکہ وہ اگر اپنا ہی دیکھنا ثابت کردیں اور علامات اربعہ مذکورہ بالا کے ذریعہ سے اس بات کو بپایۂ ثبوت پہنچا دیں کہ درحقیقت انہوں نے آنحضرت صلعم کو دیکھا ہے تو ہم قبول کرلیں گے اور اگر انھیں مقابلہ کا ہی شوق ہے تو اس سیدھے طور سے مقابلہ کریں جس کا ہم نے اس اشتہار میں ذکر کیا ہے ہمیں بالفعل ان کی رسول بینی میں ہی کلام ہے چہ جائیکہ ان کی رسول نمائی کے دعویٰ کو قبول کیا جائے پہلا مرتبہ آزمائش کا تو یہی ہے کہ آیا میر صاحب رسول بینی کے دعویٰ میں صادق ہیں یا کاذب اگر صادق ہیں تو پھر اپنی کوئی خواب یا کشف شائع کریں جس میں یہ بیان
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 350
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 350
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/350/mode/1up
ہو کہ رسول اللہ صلعم کی زیارت ہوئی اور آپ نے اپنی زیارت کی علامت فلاں فلاں پیشگوئی اور قبولیت دعا اور انکشاف حقائق و معارف کو بیان فرمایا پھر بعد اسکے رسول نمائی کی دعوت کریں اور یہ عاجز حق کی تائید کی غرض سے اس بات کیلئے بھی حاضر ہے کہ میر صاحب رسول نمائی کا اعجوبہ بھی دکھلاویں قادیان میں آجائیں مسجد موجود ہے ان کے آنے جانے اور خوراک کا تمام خرچ اس عاجز کے ذمہ ہوگا اور یہ عاجز تمام ناظرین پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف لاف و گزاف ہے اور کچھ نہیں دکھلا سکتے۔ اگر آئیں گے تو اپنی پردہ دری کرائیں گے۔ عقل مند سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے بیعت کی مریدوں کے حلقہ میں داخل ہوا اور مدت دس سال سے اس عاجز کو خلیفۃ اللہ اور امام اور مجدد کہتا رہا اور اپنی خوابیں بتلاتا رہا کیا وہ اس دعویٰ میں صادق ہے میر صاحب کی حالت نہایت قابل افسوس ہے خدا ان پر رحم کرے۔ پیشگوئیوں کے منتظر رہیں جو ظاہر ہوں گی۔ ازالہ اوہام کے صفحہ ۸۵۵ کو دیکھیں ازالہ اوہام کے صفحہ ۶۳۵۔ اور ۳۹۶ کو بغور مطالعہ کریں۔ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں۔ جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے ویسئلونک أَحق ھو قل ای وربی انہ لحق وماانتم بمعجزین۔ زوجناکھا لامبدل لکلماتی۔ وان یروا اٰیۃ یعرضوا و یقولوا سحر مستمر۔ اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے۔ کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کر منہ پھیرلیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکاّ جادو ہے۔
والسلام علی من فھم اسرارنا واتبع الھدے
الناصح المشفق خاکسار غلام احمد قادیانی۔ ۲۷۔دسمبر ۱۸۹۱ء
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 351
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 351
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/351/mode/1up
اطلاع
تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو لیکن اس غرض کے حصول کیلئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی ُ برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہوجائے سو اس بات کیلئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دعا کرنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی۔ اور چونکہ ہریک کیلئے بباعث ضعف فطرت یا کمئ مقدرت یا بُعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کیلئے آوے کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کیلئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں لہٰذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کیلئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویہّ تاریخ مقرر پر حاضر ہوسکیں سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ ؍دسمبرسے ۲۹ دسمبر تک قرار پائے یعنی آج کے دن کے بعد جو تیس دسمبر ۱۸۹۱ ء ہے آئندہ اگر ہماری زندگی میں ۲۷ دسمبر کی تاریخ آجاوے تو حتی الوسع تمام
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 352
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 352
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/352/mode/1up
دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کیلئے اور دعا میں شریک ہونے کیلئے اس تاریخ پر آجانا چاہئے اور اِس جلسہ میں ایسے حقایق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کیلئے ضروری ہیں اور نیز اُن دوستوں کیلئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہِ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال میں جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے ُ منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اس کیلئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کیلئے ان کی خشکی اور اجنبیّت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کیلئے بدرگاہ حضرت عزت جلّ شانہٗ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے اور کم مقدرت احباب کیلئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں۔ اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑا سرمایہ خرچ سفر کیلئے ہر روز یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلادقت سرمایہ سفر میسر آجاوے گا گویا یہ سفر مفت میسر ہوجائے گا اور بہتر ہوگا کہ جو صاحب احباب میں سے اس تجویز کو منظور کریں وہ مجھ کو ابھی بذریعہ اپنی تحریر خاص کے اطلاع دیں تاکہ ایک علیحدہ فہرست میں ان تمام احباب کے نام محفوظ رہیں کہ جو حتی الوسع والطاقت تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے کیلئے اپنی آئندہ زندگی کیلئے عہد کر لیں اور بدل و جان پختہ عزم سے حاضر ہوجایا کریں بجز ایسی صورت کے کہ ایسے موانع پیش آجائیں جن میں سفر کرنا اپنی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 353
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 353
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/353/mode/1up
حد اختیار سے باہر ہوجائے۔ اور اب جو ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ ء کو دینی مشورہ کے لئے جلسہ کیا گیا۔ اِس جلسہ پر جس قدر احباب محض ِ للہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے خدا ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہریک قدم کا ثواب ان کو عطا فرماوے۔ آمین ثم آمین
اعلان
ہمارے پاس کچھ جلدیں رسالہ فتح اسلام و توضیح مرام موجود ہیں جن کی قیمت ایک روپیہ ہے اور کچھ جلدیں کتاب ازالہ اوہام موجود ہیں جن کی قیمت فی جلد تین روپیہ ہے محصول ڈاک علاوہ ہے جو صاحب خرید کرنا چاہیں منگوالیں پتہ یہ ہے قادیان ضلع گورداسپور بنام راقم رسالہ ہذا یا اگر چاہیں تو بمقام پٹیالہ میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس دفتر نہر سے لے سکتے ہیں۔ اور نیز یہ کتابیں پنجاب پریس سیالکوٹ میں مولوی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع کے پاس بھی موجود ہیں وہاں سے بھی منگوا سکتے ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 354
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 354
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/354/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 309
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 309
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 310
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 310
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 311
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 311
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بسمؔ اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
لَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہُ لِلْکَافِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلًا
یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ کافر مومنوں کو ملزم کرنے کے لیے راہ پاسکیں۔
اے خداوند رہنمائے جہان
صادقاں را زِ کاذبانِ بُرہان
آتش افتاد درجہان ز فساد
الغیاث اے مغیث عالمیان
میاں نذیر حسین صاحب کی تکفیر کی اصل حقیقت اور ان کی مصنوعی فتح کی واقعی کیفیت اور ان کو اور ان کے ہم خیال
لوگوں کو آسمانی فیصلہ کی طرف دعوت
میاں نذیر حسین صاحب دہلوی اگرچہ آپ بھی کفر کے فتوؤں سے بچے ہوئے نہیں ہیں اور خیر سے ہندوستان میں اول الکافرین وہی ٹھہرائے گئے ہیں تاہم ان کو دوسرے مسلمانوں کے کافر بنانے کا اس قدر جوش ہے کہ جیسے راست باز لوگوں کو مسلمان بنانے کا شوق ہوتا ہے وہ اس بات کے بڑے ہی خواہش مند پائے جاتے ہیں کہ کسی مسلمان پر خواہ نخواہ کفر کا فتویٰ لگ جائے گو کفر کی ایک بھی وجہ نہ پائی جائے اور ان کے شاگرد رشید میاں محمد حسین بٹالوی جو شیخ کہلاتے ہیں انہیں کے نقش قدم پر چلے ہیں بلکہ شیخ جی تو کچھ زیادہ گرمی دار اور تکفیر کے شوق میں اپنے استاد سے بھی کچھ بڑھ چڑھ کر ہیں۔ ان دونوں استاد اورشاگرد کا مذہب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر ننانویں وجوہ ایمان کی کھلی کھلی ان کی نگاہ میں پائی جائیں اور ایک ایمانی وجہ ان کو اپنی کوتہ نظری کی وجہ سے سمجھ میں نہ آوے تو پھر بھی ایسے آدمی کو کافر کہنا ہی مناسب ہے چنانچہ اس عاجز کے ساتھ بھی ان حضرات نے ایسا ہی برتاؤ کیا جو شخص اس عاجز کی تالیفات براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ وغیرہ کو غور سے پڑھے اس پر بخوبی کھل جائے گا کہ یہ عاجز کس
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 312
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 312
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
جان نثاری کے ساتھ خادم دین اسلام ہے اور کس قدر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمتوں کے شائع کرنے میں فداشدہ ہے مگر پھر بھی میاں نذیر حسین صاحب اور ان کے شاگرد بٹالوی نے صبر نہ کیا جب تک کہ اس عاجز کو کافر قرار نہ دے دیا میاں نذیر حسین صاحب کی حالت نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ اس پیرانہ سالی میں کہ گور میں پیر لٹکا رہے ہیں اپنی عاقبت کی کچھ پروانہ کی اور اس عاجز کو کافر ٹھہرانے کیلئے دیانت اور تقویٰ کو بالکل ہاتھ سے چھوڑ دیا اور موت کے کنارہ تک پہنچ کر اپنے اندرون کا نہایت ہی برا نمونہ دکھایا خدا ترس اور متدیّن اور پرہیز گار علماء کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ جب تک ان کے ہاتھ میں کسی کے کافر ٹھہرانے کیلئے ایسی صحیحیہ یقینیہ قطعیہ وجوہ نہ ہوں کہ جن اقوال کی بناء پر اس پر کفر کا الزام لگایا جاتا ہے ان اقوال مستلزم کفر کا وہ اپنے ُ منہ سے صاف اقرار کرے انکار نہ کرے تب تک ایسے شخص کو کافر بنانے میں جلدی نہ کریں لیکن دیکھنا چاہئے کہ میاں نذیر حسین اسی تقویٰ کے طریق پر چلے ہیں یا اور طرف قدم مارا۔ سو واضح ہو کہ میاں نذیر حسین نے تقویٰ اور دیانت کے طریق کو بکلی چھوڑ دیا میں نے دہلی میں تین اشتہار جاری کئے اور اپنے اشتہارات میں بار بار ظاہر کیا کہ میں مسلمان ہوں اور عقیدۂ اسلام رکھتا ہوں بلکہ میں نے اللہ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر پیغام پہنچایا کہ میری کسی تحریر یا تقریر میں کوئی ایسا امر نہیں ہے جو نعوذ باللہ عقیدۂ اسلام کے مخالف ہو صرف معترضین کی اپنی ہی غلط فہمی ہے ورنہ میں تمام عقائد اسلام پر بدل و جان ایمان رکھتا ہوں اور مخالف عقیدۂاسلام سے بیزار ہوں لیکن حضرت میاں صاحب نے میری باتوں کی طرف کچھ بھی التفات نہ کی اور بغیر اس کے کہ کچھ تحقیق اور تفتیش کرتے مجھے کافر ٹھہرایا بلکہ میری طرف سے أَنَامُؤمن انا مؤمن کے صاف اقرارات بھی سن کر پھر بھی لَسْتَ مُؤْمِنًا کہہ دیا اور جا بجا اپنی تحریروں اور تقریروں اور اپنے شاگردوں کے اشتہارات میں اس عاجز کا نام کافر و بے دین اور دجال رکھا اور عام طور پر مشتہر کردیا کہ یہ شخص کافر اور بے ایمان اور خدا اور رسول ؐ سے روگردان ہے سو میاں صاحب کی اس پھونک سے عوام الناس میں ایک سخت آندھی پیدا ہوگئی اور ہندوستان اور پنجاب کے لوگ ایک سخت فتنہ میں پڑ گئے خاص کر دہلی والے تو میاں صاحب کی اس اخگر اندازی سے آگ ببولا بن گئے شاید دہلی میں
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 313
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 313
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ساٹھ یا ستر۷۰ ہزار کے قریب مسلمان ہوگا لیکن ان میں سے واللہ اعلم شاذو نادر کوئی ایسا فرد ؔ ہوگا جو اس عاجز کی نسبت گالیوں اور لعنتوں اور ٹھٹھوں کے کرنے یا سننے میں شریک نہ ہوا ہو یہ تمام ذخیرہ میاں صاحب کے ہی اعمال نامہ سے متعلق ہے جس کو انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنی عاقبت کیلئے اکٹھا کیا انہوں نے سچی گواہی پوشیدہ کر کے لاکھوں دلوں میں جما دیا کہ درحقیقت یہ شخص کافر اور *** کے لائق اور دین اسلام سے خارج ہے اور میں نے انہیں دنوں میں جب کہ میں دہلی میں مقیم تھا شہر میں تکفیر کا عام غوغا دیکھ کر ایک خاص اشتہارانہیں میاں صاحب کو مخاطب کر کے شائع کیا اور چند خط بھی لکھے اور نہایت انکسار اور فروتنی سے ظاہر کیا کہ میں کافر نہیں ہوں۔ اور خدائے تعالیٰ جانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور ان سب عقائد پر ایمان رکھتا ہوں جو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں اور کلمہ طیبہ لااِلٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کا قائل ہوں اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہوں اور میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور یہ بھی لکھا کہ میں ملائک کا منکر بھی نہیں بخدا میں اسی طرح ملائک کو مانتا ہوں جیسا کہ شرع میں مانا گیا اور یہ بھی بیان کیا کہ میں لیلتہ القدر کا بھی انکاری نہیں بلکہ میں اس لیلتہ القدر پر ایمان رکھتا ہوں جس کی تصریح قرآن اور حدیثوں میں وارد ہوچکی ہے اور یہ بھی ظاہر کردیا کہ میں وجود جبرائیل اور وحی رسالت پر ایمان رکھتا ہوں انکاری نہیں۔ اور نہ حشر و نشر اور یوم البعث سے منکر ہوں اور نہ خام خیال نیچریوں کی طرح اپنے مولیٰ کی کامل عظمتوں اور کامل قدرتوں اور اس کے نشانوں میں شک رکھتا ہوں اور نہ کسی استبعاد عقلی کی وجہ سے معجزات کے ماننے سے منہ پھیرنے والا ہوں اور کئی دفعہ میں نے عام جلسوں میں ظاہر کیا کہ خدائے تعالیٰ کی غیر محدود قدرتوں پر میرا یقین ہے بلکہ میرے نزدیک قدرت کی غیر محدودیّت الوہیت کا ایک ضروری لازمہ ہے اگر خدا کو مان کر پھر کسی امر کے کرنے سے اس کو عاجز قرار دیا جائے تو ایسا خدا خدا ہی نہیں اور اگر نعوذ باللہ وہ ایسا ہی ضعیف ہے تو اس پر بھروسہ کرنے والے جیتے ہی مر گئے اور تمام امیدیں ان کی خاک میں مل گئیں بلاشبہ کوئی بات اس سے انہونی نہیں ہاں وہ بات ایسی چاہئے کہ خداتعالیٰ کی شان اور تقدس کو زیبا ہو اور اس کے صفات کاملہ اور اس کے مواعید صادقہ کے برخلاف نہ ہو۔ لیکن میاں صاحب نے باوجود میرے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 314
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 314
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ان تمام اقرارات کے صاف لکھا کہ تم پر کفر کا فتویٰ ہوچکا اور ہم تم کو کافر اور بے ایمان سمجھتے ہیں بلکہ ۲۰ ؍ اکتوبر ۱۸۹۱ ء میں جو تاریخ بحث مقرر کی گئی تھی جس سے پہلے اشتہارات مذکورہ جاری ہوچکے تھے میاں صاحب کی طرف سے بحث ٹالنے کیلئے بار بار یہی عذر تھا کہ تم کافر ہو پہلے اپنا عقیدہ تو مطابق اسلام ثابت کرو پھر بحث بھی کرنا۔ اس وقت بھی بتما متر ادب یہی کہا گیا کہ میں کافر نہیں ہوں بلکہ ان تمام امور پر ایمان رکھتا ہوں جو اللہ جلّ شانہٗ نے مسلمانوں کیلئے عقائد ٹھہرائے ہیں بلکہ جیسا کہ اشتہار ۲۳ ؍اکتوبر ۱۸۹۱ ء میں درج ہے میں نے اپنے ہاتھ سے ایک تحریر بھی لکھ کر دی کہ میں ان تمام عقائد پر ایمان رکھتا ہوں مگر افسوس کہ میاں صاحب موصوف پھر بھی اس عاجز کو کافر ہی جانتے رہے اور کافر ہی لکھتے رہے اور یہی ایک بہانہ ان کے ہاتھ میں تھا جس کی وجہ سے مسیح کی وفات حیات کے بارے میں انہوں نے مجھ سے بحث نہ کی کہ یہ تو کافر ہے کافروں سے کیا بحث کریں اگر ان میں ایک ذرہ تقویٰ ہوتی تو اسی وقت سے جو میری طرف سے عقائد اسلام اور اپنے مسلمان ہونے کا اشتہار جاری ہوا تھا تکفیر کے فتوے سے دستکش ہوجاتے اور جیسا کہ ہزاروں لوگوں میں تکفیر کے فتوے کو مشہور کیا تھا ایسا ہی عام جلسوں میں اپنی خطا کا اقرار کر کے میرے اسلام کی نسبت صاف گواہی دیتے اور ناحق کے سوء ظن سے اپنے تئیں بچاتے اور خلاف واقعہ تکفیر کی شہرت کا تدارک کر کے اپنے لئے خدائے تعالیٰ کے نزدیک ایک عذر پیدا کر لیتے لیکن انہوں نے ہرگز ایسا نہ کیا بلکہ جب تک میں دہلی میں رہا یہی سنتا رہا کہ میاں صاحب اس عاجز کی نسبت گندے اور ناگفتنی الفاظ اپنے منہ سے نکالتے ہیں اور تکفیر سے دست بردار نہیں ہوئے اور ہر چند کوشش کی گئی کہ وہ اس نالائق طریق سے باز آجائیں اور اپنی زبان کو تھام لیں لیکن اس عاجز کی نسبت کافر کافر کہنا ایساان کی زبان پر چڑھ گیا کہ وہ اپنی زبان کو روک نہیں سکے اور نفس امّارہ نے ایسا ان کے دل پر قبضہ کر لیا کہ خدائے تعالیٰ کے خوف کا کوئی خانہ خالی نہ رہا فاعتبروا یا اولی الابصار۔اب میں ان کی تکفیر کو زیادہ طول دینا نہیں چاہتا۔ ہریک شخص اپنی گفتار و کردار سے پوچھا جائے گا۔ ان کے اعمال ان کے ساتھ اور میرے اعمال میرے ساتھ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ناحق کے الزاموں اور مفتریانہ کاموں کی طرف انھوں نے توجہ کی اور جو اصل بحث کے لائق اور متنازعہ فیہ امر تھا یعنے وفات مسیح علیہ السلام اس کی طرف
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 315
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 315
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
انہوں نے ذرہ توجہ نہ فرمائی میں نے ان کی طرف کئی دفعہ لکھا کہ میں کسی اور عقیدہ میں آپ کا مخالف نہیں صرف اس بات میں مخالف ہوں کہ میں آپ کی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی جسمانی حیات کا قائل نہیں۔ بلکہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کو ؔ فوت شدہ اور داخل موتی ایماناً و یقیناً جانتا ہوں اور ان کے مرجانے پر یقین رکھتا ہوں اور کیوں یقین نہ رکھوں جب کہ میرا مولیٰ میرا آقا اپنی کتاب عزیز اور قرآن کریم میں ان کو متوفیوں کی جماعت میں داخل کرچکا ہے اور سارے قرآن میں ایک دفعہ بھی ان کی خارق عادت زندگی اور ان کے دوبارہ آنے کا ذکر نہیں بلکہ ان کو صرف فوت شدہ کہہ کر پھر چپ ہوگیالہٰذا انکا زندہ بجسدہ العنصری ہونا اور پھر دوبارہ کسی وقت دنیا میں آنا نہ صرف اپنے ہی الہام کی رو سے خلاف واقعہ سمجھتا ہوں بلکہ اس خیال حیات مسیح کو نصوص بیّنہ قطعیّہ یقینیہ قرآن کریم کی رو سے لغو اور باطل جانتا ہوں اگر یہ میرا بیان کلمہ کفر ہے یا جھوٹ ہے تو آیئے اس امر میں مجھ سے بحث کیجئے پھر اگر آپ نے قرآن اور حدیث سے حیات جسمانی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ثابت کر کے دکھلادی تو میں اس قول سے رجوع کروں گا بلکہ وہ اپنی کتابیں جن میں یہ مضمون ہے جلادوں گا۔ اگر بحث نہیں کرسکتے تو آؤ اس بارہ میں اس مضمون کی قسم ہی کھاؤ کہ قرآن کریم میں مسیح کی وفات کا کچھ ذکر نہیں بلکہ حیات کا ذکر ہے یا کوئی اور حدیث صحیح مرفوع متصل موجود ہے جس نے توفّی کے لفظ کی کوئی مخالفانہ تفسیر کر کے مسیح کی حیات جسمانی پر گواہی دی ہے۔ پھر اگر ایک سال تک خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس بات کا کوئی کھلا نشان ظاہر نہ ہوا کہ آپ نے جھوٹی قسم کھائی ہے یعنے کسی وبال عظیم میں آپ مبتلا نہ ہوئے تب بلاتوقف میں آپ کے ہاتھ پر توبہ کروں گا مگر افسوس کہ ہر چند بار بار میاں صاحب سے یہ درخواست کی گئی لیکن نہ انہوں نے بحث کی اور نہ قسم کھائی اور نہ کافر کافر کہنے سے باز آئے ہاں اپنی اس کنارہ کشی کی ذلت کو عوام سے پوشیدہ رکھنے کیلئے جھوٹے اشتہارات شائع کردیئے جن میں یہ بار بار لکھا گیا کہ گو وہ تو اس عاجز کو بحث کیلئے اخیر تک بلاتے ہی رہے اور قسم کھانے کیلئے بھی مستعد تھے لیکن یہ عاجز ہی ان سے ڈر گیا اور مقابل پر نہ آیا۔ میاں صاحب اور شیخ الکل کہلانا اور اس قدر جھوٹ! میں ان کے حق میں علی الکاذبین کیا کہوں خدائے تعالیٰ ان پر رحمت کرے۔ ناظرین! اگر کچھ نور فراست رکھتے ہو تو یقیناً سمجھو کہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 316
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 316
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
یہ سب باتیں میاں صاحب اور ان کے شاگردوں کی سراسر دروغ بے فروغ اور محض اوباشانہ لاف و گزاف ہے جب کہ میری طرف سے اشتہار پر اشتہار اس بات کیلئے جاری ہوا تھا کہ میاں صاحب مسیح کی وفات کے بارہ میں مجھ سے بحث کریں اور اسی مطلب کیلئے میں حرج اور خرچ اٹھا کر ایک ماہ برابر دہلی میں رہا تو پھر ایک حقیقت رس آدمی سمجھ سکتا ہے کہ اگر میاں صاحب بحث کے لئے سیدھے دل سے مستعد ہوتے تو میں کیوں ان سے بحث نہ کرتا نقل مشہور ہے کہ سانچ کو آنچ نہیں میں اسی طرح بحث وفات مسیح کیلئے اب پھر حاضر ہوں جیسا کہ پہلے حاضر تھا اگر میاں صاحب لاہور میں آکر بحث منظور کریں تو میں ان کی خاص ذات کا کرایہ آنے جانے کا خود دے دوں گا اگر آنے پر راضی ہوں تو میں ان کی تحریر پر بلاتوقف کرایہ پہلے روانہ کرسکتا ہوں اب میں دہلی میں بحث کیلئے جانا نہیں چاہتا کیونکہ دہلی والوں کے شور و غوغا کو دیکھ چکا ہوں اور ان کی مفسدانہ اور اوباشانہ باتیں سن چکا ہوں وَلَایُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِمیں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ اگر میں بحث وفات مسیح سے گریز کروں تو میرے پر بوجہ صدّ عن سبیل اللّٰہ خدائے تعالیٰ کی ہزار *** ہو۔ اور اگر شیخ الکل صاحب گریز کریں تو ان پر اس سے آدھی ہی سہی اور اگر وہ حاضر ہونے سے روگردان ہیں تو میں یہ بھی اجازت دیتا ہوں کہ وہ اپنی جگہ پر ہی بذریعہ تحریرات اظہار حق کیلئے بحث کر لیں غرض َ میں ہر طرح سے حاضر ہوں اور میاں صاحب کے جواب باصواب کا منتظر ہوں میں زیادہ تر گرمجوشی سے میاں صاحب کی طرف اسلئے مستعد ہوں کہ لوگوں کے خیال میں ان کی علمی حالت سب سے بڑھی ہوئی ہے اور وہ علمائے ہند میں بیخ کی طرح ہیں اور کچھ شک نہیں کہ بیخ کے کاٹنے سے تمام شاخیں خود بخود گریں گی سو مجھے بیخ ہی کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور شاخوں کا قصہ خود بخود تمام ہوجائے گا اور اس بحث سے دنیا پر کھل جائے گا کہ شیخ الکل صاحب کے پاس مسیح علیہ السلام کی جسمانی زندگی پر کون سے دلائل یقینیہ ہیں جن کی وجہ سے انھوں نے عوام الناس کو سخت درجہ کے اشتعال میں ڈال رکھا ہے مگر یہ پیشگوئی بھی یاد رکھو کہ وہ ہرگز بحث نہیں کریں گے اور اگر کریں گے تو ایسے رسوا ہوں گے کہ منہ دکھانے کی جگہ نہیں رہے گی۔ ہائے مجھے ان پر بڑا افسوس ہے کہ انھوں نے چند روزہ زندگی کے ننگ و ناموس سے پیار کر کے حق کو چھپایا اور راستی کو ترک کر کے ناراستی سے دل لگایا ان کو خوب معلوم تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 317
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 317
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کی وفات قرآن کریم اور احادیث صحیحہ مرفوعہ سے بخوبی ثابت ہے مگر سراسر خیانت اور بددؔ یانتی کی راہ سے اس شہادت کے ادا کرنے سے وہ عمداً پیچھے ہٹے رہے انھوں نے سچائی کا پکا دشمن بن کر محض دروغ گوئی کی راہ سے عوام میں اس بات کو پھیلایا کہ قرآن کریم میں یہی لکھا ہے کہ مسیح ابن مریم زندہ بجسدہ العنصری آسمان پر اٹھایا گیا ہے اور وفات کا کہیں ذکر نہیں مگر چونکہ وہ دل میں جانتے تھے کہ ہم ناحق پر ہیں اور کتاب اللہ کے مخالف کہہ رہے ہیں اسلئے وہ سیدھی نیت سے بحث کرنے کیلئے مقابل پر نہ آئے اور بے ہودہ شرطوں کے ساتھ اس مختصر اور صاف طریق بحث وفات کو ٹال دیا۔ غضب کی بات ہے کہ خدا وند ذوالمجد والجلال تو یہ فرماوے مسیح ابن مریم فوت ہوگیا ہے اور میاں نذیر حسین یہ کہیں کہ نہیں ہرگز نہیں بلکہ وہ تو زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اٹھایا گیا ہے آفرین اے نذیر حسین تو نے خوب قرآن کی پیروی کی۔ اور طرفہ تر یہ کہ قران کریم میں آسمان کی طرف اٹھا لینے کا کہیں ذکر بھی نہیں بلکہ وفات دینے کے بعد اپنی طرف اٹھا لینے کا ذکر ہے جیسا کہ عام طور پر تمام فوت شدہ راستبازوں کیلئے اِ ۱ کا خطاب ہے سو وہی رفع الی اللہ اور رجوع الی اللہ جس کیلئے پہلے موت شرط ہے حضرت مسیح کے بھی نصیب ہوگیا کہاں یہ رفع الی اللّٰہ اور کہاں رفع الی السماء ہائے افسوس ان لوگوں نے قران کریم کو کیسے پس پشت ڈال دیا اور اس کی عظمت ان کے دلوں سے کیسی یکدفعہ اٹھ گئی اور خدا ئے تعالیٰ کی پاک کلام کی جگہ بے اصل لکیر سے محبت کرنے لگے کتابوں سے تو لدے ہوئے ہیں مگر خدائے تعالیٰ نے سمجھ چھین لی فتح اور شکست کے خیال نے دیانت اور ایمان کو دبا لیا اور پندار اور ُ عجب نے حق کے قبول کرنے سے دور ڈال دیا اور مجھے تو اس بات کا ذرہ بھی رنج نہیں کہ میاں نذیر حسین اور ان کے شاگردوں نے ایک جھوٹی فتح کو خلاف واقعہ مشہور کردیا اور نفس الامر کو چھپایا۔ اور نہ میرے لئے یہ کچھ رنج کی بات ہے کیونکہ جس حالت میں راست راست اور حق الامر یہی ہے کہ دراصل میاں صاحب ہی ایک بڑی ذلت کے ساتھ ہمیشہ کیلئے شکست یاب اور پس پا ہوگئے ہیں اور ایسے گرے ہیں کہ اب پھر کبھی کھڑے نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اسی مغلوبی میں اس عالم سے گذر جائیں گے پھر اگر وہ ملامت خلق پر پردہ ڈالنے کیلئے ایک مصنوعی فتح کا خاکہ اپنی نظر کے سامنے رکھ کر چند منٹ کیلئے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 318
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 318
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اپنا جی خوش کر لیں تو مجھے کیوں ُ برا ماننا چاہئے بلکہ اگر رحم کی نظر سے دیکھا جائے تو ان کا یہ حق بھی ہے کیونکہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ انھوں نے اس عاجز کے مقابل پر شکست فاش کھا کر بہت کچھ غم و غصہ اٹھایا ہے اور ان کے دل پر اس اخیر عمر میں سخت صدمہ خجالت اور شرمندگی کا پہنچ گیا ہے اب اگر غم غلط کرنے کیلئے اس قدر بھی نہ کرتے کہ خلاف واقع فتح کا نقارہ بجاتے تو پیرانہ سالی کا ضعیف دل اتنے بڑے صدمہ کی برداشت کیونکر کرسکتا سو شاید انہوں نے جان رکھنا فرض سمجھ کر اتنا بڑا جھوٹ اپنے لئے روا رکھ لیا اور مجھے اب بھی اس بات کی ضرورت نہ تھی کہ میں اس حق الامر کا اظہار کر کے ان کے ملمع خوشی کو کالعدم کردیتا کیونکہ فتح و شکست پر نظر رکھنا ایک محجوبانہ خیال ہے اور سچائی کے عاشق سچائی کو ہی چاہتے ہیں خواہ وہ فتح کی صورت میں حاصل ہوجائے یا شکست کے پیرایہ میں ملے مگر چونکہ لوگ ایسی غلط اور مخالفانہ تحریروں سے دھوکے میں پڑ جاتے ہیں اور خلاف واقعہ شہرت کی وجہ سے متأثر ہو کر ان تحریروں کو صحیح اور باوقعت سمجھنے لگتے ہیں اور پھر اس کا بداثر لوگوں کے دین کو سخت نقصان پہنچاتا ہے اسلئے اصل حقیقت کا ظاہر کرنا ایک حق لازم اور دین واجب میرے پر تھا جو ادا کرنے کے بغیر ساقط نہیں ہوسکتا تھا مگر میں اس بات سے تو نادم ہوں کہ میاں صاحب کی پیرانہ سالی کی حالت میں ان کے دوبارہ غم تازہ کرنے کا موجب ہوا ہوں۔
اس جگہ یہ بیان کرنا بھی بے محل نہیں کہ میاں صاحب کے ناحق کے ظلموں سے جو انہوں نے اس عاجز کی نسبت روا رکھے ایک یہ بھی ہے کہ بٹالوی کو انھوں نے بکلّی کھلا چھوڑ دیا اور اس بات پر راضی ہوگئے کہ وہ ہر ایک طرح کی گالیوں اورلعن طعن سے اس عاجز کی آبرو پر دانت تیز کرے سو وہ میاں صاحب کا منشاء پا کر حد سے گذر گیا اور آیت کریمہ ۱ کی کچھ بھی پروانہ کر کے ایسی گندی گالیوں پر آگیا کہ چوہڑوں چماروں کے بھی کان کاٹے یہاں تک کہ اس پاکیزہ سرشت نے صدہا لوگوں کے روبرو دہلی کی جامع مسجد میں اس عاجز کو فحش گالیاں دیں چنانچہ گالیوں کے سننے والوں میں سے شیخ حامد علی میرا ملازم بھی ہے جو اس وقت موجود تھا جس کی اور لوگوں نے بھی تصدیق کی ایسا ہی اس بزرگ نے پھلور کے اسٹیشن پر ایک جماعت کے روبرو اس عاجز کی نسبت کہا کہ وہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 319
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 319
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کتے کی موت سے مرے گا اور عام تحریروں میں اس عاجز کا نام کافر اور دجال رکھا اور ۱۱۔ اکتوبر ۱۸۹۱ ء کے کارڈ میں جو اس نے منشی فتح محمد اہلکار ریاست جموں کے نام لکھا جو اس وقت میرے پاس سامنے پڑا ہے بجز گالیوں کے اور کچھ تحریر نہیں کیا کھلی تحریر میںؔ سخت گالیاں دینا اور کارڈوں میں جن کو ہریک شخص پڑھ سکتا ہے بدزبانی کرنا اور اپنے مخالفانہ جوش کو انتہا تک پہنچانا کیا اس عادت کوخدا پسند کرتا ہے یا اس کو شیوہ شرفاء کہہ سکتے ہیں اس گیارہ اکتوبر کے کارڈ میں اس بزرگ نے بڑے جوش سے اس ناکارہ کی نسبت لکھا ہے کہ یہ شخص درحقیقت کافر ہے دجال ہے ملحد ہے کذاب ہے۔ اے میرے مولیٰ اے میرے پیارے آقا میں نے اس شخص کی تمام سخت باتوں اور لعنتوں اور گالیوں کا جواب تیرے پر چھوڑا۔ اگر تیری یہی مرضی ہے تو جو کچھ تیری مرضی وہ میری ہے مجھے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہئے کہُ تو راضی ہو میرا دل تجھ سے پوشیدہ نہیں تیری نگاہیں میری تہہ تک پہنچی ہوئی ہیں اگر مجھ میں کچھ فرق ہے تو نکال ڈال اور اگر تیری نگاہ میں مجھ میں کچھ بدی ہو تو میں تیرے ہی منہ کی اس سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے میرے پیارے ہادی!! اگر میں نے ہلاکت کی راہ اختیار کی ہے تو مجھے اس سے بچا اور وہ کام کرا کہ جس میں تیری رضا مندی ہو۔ میری روح بول رہی ہے کہُ تو میرے لئے ہے اور ہوگا جب سے کہ تو نے کہا کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور جب سے کہ تو نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ من اراداھانتک اور جب سے کہُ تونے دل جوئی اور نوازش کی راہ سے مجھے کہا کہ انت منی بمنزلۃ لا یعلمھا الخلق تو اسی دم سے میرے قالب میں جان آگئی تیری دل آرام باتیں میرے زخموں کی مرہم ہیں تیرے محبت آمیز کلمات میرے غم رسیدہ دل کےُ مفرّح ہیں۔ میں غموں میں ڈوبا ہوا تھا تو نے مجھے بشارتیں دیں۔ میں مصیبت زدہ تھا تو نے مجھے پوچھا پیارے میرے لئے یہ خوشی کافی ہے کہ ُ تومیرے لئے اور میں تیرے لئے ہوں ۔تیرے حملے دشمنوں کی صف توڑیں گے اور تیرے تمام پاک وعدے پورے ہوں گے تو اپنے بندہ کا آمرز گار ہوگا۔
پھر میں پہلی کلام کی طرف رجوع کر کے ناظرین پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جس قدر میں نے بٹالوی کی سخت زبانی لکھی ہے وہ صرف بطور نمونہ کے بیان کی گئی ہے ورنہ اس شخص کی بدزبانی کا کچھ انتہا نہیں رہا اور درحقیقت یہ ساری بدزبانی میاں نذیر حسین صاحب کی ہے کیونکہ استاد کے خلاف منشاء شاگرد کو کبھی جرأت نہیں ہوتی میاں صاحب نے آپ بھی بدزبانی کی اور
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 320
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 320
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کرائی بھی اور بٹالوی کی کوئی بدگوئی میاں صاحب کو مکروہ معلوم نہ ہوئی اور میاں صاحب کے مکان میں بیٹھ کر ایک اور اشتہار تکبر کا بھرا ہوا بٹالوی نے لکھا جس میں اس عاجز کی نسبت یہ فقرہ درج تھا کہ یہ میرا شکار ہے کہ بدقسمتی سے پھر دہلی میں میرے قبضہ میں آگیا اور میں خوش قسمت ہوں کہ بھاگا ہوا شکار پھر مجھے مل گیا۔ ناظرین!! انصافاًکہو کہ یہ کیسے سفلہ پن کی باتیں ہیں میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے مہذّب ڈوم اور نقّال بھی تھوڑا بہت حیا کو کام میں لاتے ہیں اور پشتوں کے سفلے بھی ایسا کمینگی اور شیخی سے بھرا ہوا تکبر اپنے حقیقت شناس کے سامنے زبان پر نہیں لاتے۔ اگر میں بٹالوی صاحب کا شکار ہوتا تو اس کے استاد کو دہلی میں کیوں جا پکڑتا کیا شاگرد استاد سے بڑا ہے جب استاد ہی چڑیا کی طرح میرے پنجہ میں گرفتار ہوگیا تو پھر ناظرین سمجھ لیں کہ کیا میں بٹالوی کا شکار ہوا یا بٹالوی میرے شکار کا شکار بٹالوی کی شوخیاں انتہا کو پہنچ گئی ہیں اور اس کی کھوپڑی میں ایک کیڑا ہے جس کو ضرور ایک دن خدائے تعالیٰ نکال دے گا افسوس کہ آج کل ہمارے مخالفوں کا جھوٹ اور بہتانوں پر ہی گذارہ ہے اور فرعونی رنگ کے تکبر سے اپنی عزت بنانی چاہتے ہیں۔ فرعون اس روز تک جو معہ اپنے لشکر کے غرق ہوگیا یہی سمجھتا رہا کہ موسیٰ اس کا شکار ہے آخر رود نیل نے دکھا دیا کہ واقعی طور پر کون شکار تھا۔ میں نادم ہوں کہ نااہل حریف کے مقابلہ نے کسی قدر مجھے درشت الفاظ پر مجبور کیا ورنہ میری فطرت اس سے دور ہے کہ کوئی تلخ بات منہ پر لاؤں۔ میں کچھ بھی بولنا نہیں چاہتا تھا مگر بٹالوی اور اس کے استاد نے مجھے بلایا۔ اب بھی بٹالوی کیلئے بہتر ہے کہ اپنی پالیسی بدل لیوے اور منہ کو لگام دیوے ورنہ ان دنوں کو رو رو کے یاد کرے گا۔ بادرد کشاں ہر کہ درافتاد درافتاد وما علینا الا البلاغ المبین ۔
گندم از گندم بروید جو ز جو
از مکافات عمل غافل مشو
جو لوگ ان جھوٹے اشتہارات پر خوش ہورہے ہیں جن میں میاں نذیرحسین کی مصنوعی فتح کا ذکر ہے میں خالصاً للہ ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس دروغ گوئی میں ناحق کا گناہ اپنے ذمہ نہ لیں میں ۲۳؍ اکتوبر ۱۸۹۱ ء کے اشتہار میں مفصل بیان کرچکا ہوں کہ میاں صاحب ہی بحث کرنے سے گریز کرگئے یہ کیا شرارت اور بے حیائی کا بہتان ہے کہ میری نسبت اڑایا ؔ گیا ہے کہ گویا میں میاں نذیرحسین سے ڈرگیا نعوذ باللہ میں ہرگز ان سے نہیں ڈرا اور کیونکر ڈرتا میں اس بصیرت کے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 321
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 321
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مقابل پر جو مجھے آسمان سے عطا کی گئی ہے ان سفلی ملاؤں کو سراسر بے بصر سمجھتا ہوں بخدا ایک مرے ہوئے کیڑے کے برابر بھی میں انہیں خیال نہیں کرتا کیا کوئی زندہ مردوں سے ڈرا کرتا ہے یقیناً سمجھو کہ علم دین ایک آسمانی بھید ہے اور وہی کماحقہٗ آسمانی بھید جانتا ہے جو آسمان سے فیض پاتا ہے جو خدائے تعالیٰ تک پہنچتا ہے وہی اس کی کلام کے اسرار عمیقہ تک بھی پہنچتا ہے جو پوری روشنی میں نشست رکھتا ہے وہی ہے جو پوری بصیرت بھی رکھتا ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جاتا کہ میں ان کی گندی گالیوں سے ڈر گیا اور ان کی نجاست سے بھری ہوئی باتوں سے ترساں ہوا تو شاید کسی قدر سچ بھی ہوتا کیونکہ ہمیشہ شرفاء بدگفتار لوگوں سے ڈرا کرتے ہیں اور مہذب لوگ گندی زبان والوں سے پرہیز کر جاتے ہیں۔ شریف از سفلہ نمے ترسد بلکہ از سفلگی او مے ترسد۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ میاں نذیر حسین کی پردہ دری کرے اور ان کی آواز دہل کی حقیقت لوگوں پر ظاہر کردیوے سو بالغ نظر جانتے ہیں کہ وہ خواستہ ایزدی پورا ہوگیا اور نذیر حسین کے تقویٰ اور خدا پرستی اور علم اور معرفت کی ساری قلعی کھل گئی اور ترک تقویٰ کی شامت سے ایک ذلت ان کو پہنچ گئی مگر ایک اور ذلت ابھی باقی ہے جو ان کیلئے اور ان کے ہم خیال لوگوں کے لئے طیار ہے جس کا ذکر ہم نیچے کرتے ہیں۔
اے خدا اے مالک ارض و سما
اے پناہ حزب خود در ہر بلا
اے رحیم و دست گیر و رہنما
ایکہ در دستِ تو فصل است و قضا
سخت شورے اوفتاد اندر زمین
رحم کن برخلق اے جان آفرین
امر فیصل از جناب خود نما
تا شود قطع نزاع و فتنہ ہا
اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا
تجھ کو سب قدرت ہے اے ربُّ الوریٰ
حق پرستی کا مٹا جاتا ہے نام
اک نشاں دکھلا کہ ہو حجت تمام
الہام اللّٰہ تعالٰی
کِتَابٌ سَجَّلْنَا مِنْ عِنْدِنَا
یہ وہ کتاب ہے جس پر ہم نے اپنے پاس سے مہر لگادی ہے
آسمانی فیصلہ
قبل اس کے جو میں آسمانی فیصلہ کا ذکر کروں صفائی بیان کیلئے اس قدر لکھنا ضرور ہے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ جو لوگ خدائے تعالیٰ کے نزدیک فی الحقیقت مومن ہیں اور جن کو خدائے تعالیٰ نے خاص اپنے لئے چن لیا ہے اور اپنے ہاتھ سے صاف کیا ہے اور اپنے برگزیدہ گروہ میں جگہ دے دی ہے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 322
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 322
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/322/mode/1up
اور جن کے حق میں فرمایا ہے۔ ۱ ان میں آثار سجود اور عبودیّت کے ضرور پائے جانے چاہئیں کیونکہ خدائے تعالیٰ کے وعدوں میں خطا اور تخلف نہیں سو ان تمام علامات کا مومن میں پائے جانا جن کا قرآن کریم میں مومنوں کی تعریف میں ذکر فرمایا گیا ہے ضروریات ایمان میں سے ہے اور مومنوں اور ایسے شخص میں فیصلہ کرنے کیلئے جس کا نام اس کی قوم کے علماء نے کافر رکھا اور مفتری اور دجال اور ملحد قرار دیا یہی علامات کامل محک اور معیار ہیں پس اگر کوئی شخص اپنے بھائی مسلمان کا نام کافر رکھے اور اس سے مطمئن نہ ہو کہ وہ شخص اپنے ایماندار ہونے کا اقرار کرتا ہے اور کلمہ طیبہ لٓا اِلٰہ الَّا اللّٰہ محمّد رسول اللّٰہ کا قائل ہے اور اسلام کے تمام عقیدوں کا ماننے والا ہے اور خدائے تعالیٰ کے تمام فرائض اور حدود اور احکام کو فرائض اور حدود اور احکام سمجھتا ہے اور حتی الوسع ان پر عمل کرتا ہے۔ تو پھر بالآخر طریق فیصلہ یہ ہے کہ فریقین کو ان علامات میں آزمایا جاوے جو خدا وند تعالیٰ نے مومن اور کافر میں فرق ظاہر کرنے کیلئے قرآن کریم میں ظاہر فرمائی ہیں تا جو شخص حقیقت میں خدا تعالیٰ کے نزدیک مومن ہے اس کو خدائے تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق تہمت کفر سے بری کرے اور اس میں اور اس کے غیر میں فرق کر کے دکھا دیوے اور روز کا قصہ کوتاہ ہوجاوے۔ یہ بات ہر ایک عاقلؔ سمجھ سکتا ہے کہ اگر یہ عاجز جیسا کہ میاں نذیر حسین اور اس کے شاگرد بٹالوی کا خیال ہے درحقیقت کافر اور دجال اور مفتری اور مورد لعن اور دائرہ اسلام سے خارج ہے تو خدائے تعالیٰ عند المقابلہ کوئی نشان ایمانداران کا اس عاجز کی تصدیق کیلئے ظاہر نہیں کرے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ کافروں اور اپنے دین کے مخالفوں کے بارے میں جو بے ایمان اور مردود ہیں ایمانی علامات کے دکھلانے سے ہرگز اپنی تائید ظاہر نہیں کرتا اور کیونکرکرے جب کہ وہ ان کو جانتا ہے کہ وہ دشمن دین اور نعمت ایمان سے بے بہرہ ہیں سو جیسا کہ میاں نذیر حسین صاحب اور بٹالوی نے میری نسبت کفر اور بے دینی کا فتویٰ لکھا اگر میں درحقیقت ایسا ہی کافر اور دجال اور دشمن دین ہوں تو خدائے تعالیٰ اس مقابلہ میں ہر گز میری تائید نہیں کرے گا بلکہ اپنی تائیدوں سے مجھے بے بہرہ رکھ کر ایسا رسوا کرے گا کہ جیسا اتنے بڑے کذاب کی سزا ہونی چاہئے اور اس صورت میں اہل اسلام میرے شر سے بچ جائیں گے اور تمام مسلمان میرے فتنہ سے امن میں آجائیں گے لیکن اگر کرشمہ قدرت
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 323
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 323
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/323/mode/1up
یہ پیدا ہوا کہ خود میاں نذیر حسین اور ان کی جماعت کے لوگ بٹالوی وغیرہ تائید کے نشانوں میں مخذول و مہجور رہے اور تائید الٰہی میرے شامل حال ہوگئی تو اس صورت میں بھی لوگوں پر حق کھل جائے گا اور روز کے جھگڑوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔
اب جاننا چاہئے کہ خدا ئے تعالیٰ نے قرآن کریم میں چار۴ عظیم الشان آسمانی تائیدوں کا کامل متقیوں اور کامل مومنوں کیلئے وعدہ دیا ہے اور وہی کامل مومن کی شناخت کے لئے کامل علامتیں ہیں اور وہ یہ ہیں اول یہ کہ مومن کامل کو خدائے تعالیٰ سے اکثر بشارتیں ملتی ہیں یعنی پیش از وقوع خوشخبریاں جو اس کی مرادات یا اس کے دوستوں کے مطلوبات ہیں اس کو بتلائی جاتی ہیں دوئم یہ کہ مومن کامل پر ایسے امور غیبیہ کھلتے ہیں جو نہ صرف اس کی ذات یا اس کے واسطے داروں سے متعلق ہوں بلکہ جو کچھ دنیا میں قضا و قدر نازل ہونے والی ہے یا بعض دنیا کے افراد مشہورہ پر کچھ تغیرّ ات آنے والے ہیں ان سے برگزیدہ مومن کو اکثر اوقات خبر دی جاتی ہے سیوم یہ کہ مومن کامل کی اکثر دعائیں قبول کی جاتی ہیں اور اکثر ان دعاؤں کی قبولیت کی پیش از وقت اطلاع بھی دی جاتی ہے۔ چہارم یہ کہ مومن کامل پر قرآن کریم کے دقائق و معارف جدیدہ و لطائف و خواص عجیبہ سب سے زیادہ کھولے جاتے ہیں۔ ان چاروں علامتوں میں مومن کامل نسبتی طور پر دوسروں پر غالب رہتا ہے۔ اور اگرچہ دائمی طور پر یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ ہمیشہ مومن کامل کو منجانب اللہ بشارتیں ہی ملتی رہیں یا ہمیشہ بلاتخلّف ہر ایک دعا اس کی منظور ہی ہوجایا کرے اور نہ یہ کہ ہمیشہ ہر ایک حادثہ زمانہ سے اس کو اطلاع دی جائے اور نہ یہ کہ ہر وقت معارف قرآنی اس پر کھلتے رہیں لیکن غیر کے مقابلہ کے وقت ان چاروں علامتوں میں کثرت مومن ہی کی طرف رہتی ہے اگرچہ ممکن ہے کہ غیر کو بھی مثلاً جو مومن ناقص ہے شاذو نادر کے طور پر ان نعمتوں سے کچھ حصہ دیا جاوے مگر اصلی وارث ان نعمتوں کا مومن کامل ہی ہوتا ہے ہاں یہ سچ ہے کہ یہ مرتبہ کاملہ مومن کا بغیر مقابلہ کے ہر ایک بلید و غبی اور کوتاہ نظر پر کھل نہیں سکتا۔ لہٰذا نہایت صاف اور سہل طریق حقیقی اور کامل مومن کی شناخت کیلئے مقابلہ ہی ہے کیونکہ اگرچہ یہ تمام علامات بطور خود بھی مومن کامل سے صادر ہوتی رہتی ہیں لیکن یک طرفہ طور پر بعض دقتیں بھی ہیں مثلاً بسا اوقات مومن کامل کی خدمت میں دعا کرانے کیلئے ایسے لوگ بھی آجاتے ہیں جن کی تقدیر میں قطعاً کامیابی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 324
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 324
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/324/mode/1up
نہیں ہوتی اور قلمِ ازل مبرم طور پر ان کے مخالف چلی ہوئی ہوتی ہے سو وہ لوگ اپنی ناکامی کی وجہ سے مومن کامل کی اس علامت قبولیت کو شناخت نہیں کرسکتے بلکہ اور بھی شک میں پڑ جاتے ہیں اور اپنے محروم رہنے کی وجہ سے مومن کامل کے کمالات قبولیت پر مطلع نہیں ہوسکتے اور اگرچہ مومن کامل کا خدائے تعالیٰ کے نزدیک بڑا درجہ اور مرتبہ ہوتا ہے اور اس کی خاطر سے اور اس کی تضرع اور دعا سے بڑے بڑے پیچیدہ کام درست کئے جاتے ہیں اور بعض ایسی تقدیریں جو تقدیر مبرم کے مشابہ ہوں بدلائی بھی جاتی ہیں مگر جو تقدیر حقیقی اور واقعی طور پر مبرم ہے وہ مومن کامل کی دعاؤں سے ہرگز بدلائی نہیں جاتی۔ اگرچہ وہ مومن کامل نبی یا رسول کا ہی درجہ رکھتا ہو۔ غرض نسبتی طور پر مومن کامل ان چاروں علامتوں میں اپنے غیر سے بہ بداہت ممیز ہوتا ہے اگرچہ دائمی طور پر قادر اور کامیاب نہیں ہوسکتا۔ پس جب کہ یہ امر ثابت ہوچکا کہ نسبتی طور پر حقیقی اور کامل مومن کو کثرت بشارات اور کثرت استجابت دعا اور کثرت انکشاف مغیبات اور کثرت انکشاف معارف قرؔ آنی سے وافر حصہ ہے تو مومن کامل اور اس کے غیر کے آزمانے کیلئے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہ ہوگا کہ بذریعہ مقابلہ ان دونوں کو جانچا اور پرکھا جاوے یعنی اگر یہ امر لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہو کہ دوشخصوں میں سے کون عند اللہ مومن کامل اور کون اس درجہ سے گرا ہوا ہے تو انہیں چاروں علامتوں کے ساتھ مقابلہ ہونا چاہئے یعنی ان چاروں علامتوں کو محک اور معیار ٹھہرا کر مقابلہ کے وقت دیکھا جاوے کہ اس معیار اور ترازو کی رو سے کون شخص پورا اترا ہے اور کس کی حالت میں کمی اور نقصان ہے۔
اب خلق اللہ گواہ رہے کہ میں خالصاً ِ للہ اور اظہاراًلِلحق اس مقابلہ کو بدل و جان منظور کرتا ہوں اور مقابلہ کیلئے جو صاحب میرے سامنے آنا چاہیں ان میں سب سے اول نمبر میاں نذیر حسین دہلوی کا ہے جنہوں نے پچاس سال سے زیادہ قرآن اور حدیث پڑھا کر پھر اپنے علماورعمل کا یہ نمونہ دکھایا کہ بلاتفتیش و تحقیق اس عاجز کے کفر پر فتویٰ لکھ دیا اور ہزارہا وحشیطبع لوگوں کو بدظن کر کے ان سے گندی گالیاں دلائیں اور بٹالوی کو ایک مجنون درندہ کی طرح تکفیر اور *** کی جھاگ منہ سے نکالنے کیلئے چھوڑ دیا اور آپ مومن کامل اور شیخ الکل اور شیخ العرب و العجم بن بیٹھے لہٰذا مقابلہ کیلئے سب سے اول انہیں کو دعوت کی جاتی ہے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 325
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 325
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/325/mode/1up
ہاں ان کو اختیار ہے کہ وہ اپنے ساتھ بٹالوی کو بھی کہ اب تو خواب بینی کابھی دعویٰ رکھتا ہے ملالیں بلکہ ان کو میری طرف سے اختیار ہے کہ وہ مولوی عبدالجبّار صاحب خلف عبدصالح مولوی عبداللہ صاحب مرحوم اور نیز مولوی عبدالرحمن لکھو والے کو جو میری نسبت ابدی گمراہ ہونے کا الہام مشتہر کرچکے ہیں اور کفر کا فتویٰ دے چکے ہیں اور نیز مولوی محمدبشیر صاحب بھوپالوی کو جو انکے متبعین میں سے ہیں اس مقابلہ میں اپنے ساتھ ملالیں اور اگر میاں صاحب موصوف اپنی عادت کے موافق گریز کر جائیں تو یہی حضرات مذکورہ بالا میرے سامنے آویں اور اگر یہ سب گریز اختیار کریں تو پھر مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی اس کام کیلئے ہمت کریں کیونکہ مقلّدوں کی پارٹی کے تو وہی رُکن اول ہیں اور انکے ساتھ ہر ایک ایسا شخص بھی شامل ہوسکتا ہے کہ جو نامی اور مشاہیر صوفیوں اور پیرزادوں اور سجادہ نشینوں میں سے ہو اور انہیں حضرات علماء کی طرح اس عاجز کو کافر اور مفتری اور کذاب اور مکار سمجھتا ہو اور اگر یہ سب کے سب مقابلہ سے منہ پھیر لیں اور کچے ُ عذروں اور نامعقول بہانوں سے میری اس دعوت کے قبول کرنے سے منحرف ہوجائیں تو خدائے تعالیٰ کی حجت ان پر تمام ہے َ میں مامور ہوں اور فتح کی مجھے بشارت دی گئی ہے لہٰذا َ میں حضرات مذکورہ بالا کو مقابلہ کیلئے بلاتا ہوں کوئی ہے جو میرے سامنے آوے؟ اور مقابلہ کیلئے احسن انتظام یہ ہے کہ لاہور میں جو صدر مقام پنجاب ہے اس امتحان کی غرض سے ایک انجمن مقرر کی جائے اگر فریق مخالف اس تجویز کو پسند کرے تو انجمن کے ممبر بتراضی ء فریقین مقرر کئے جائیں گے اور اختلافات کے وقت کثرت رائے کا لحاظ رہے گا اور مناسب ہوگا کہ چار۴وں علامتوں کی پورے طور پر آزمائش کیلئے فریقین ایک سال تک انجمن میں بقید تاریخ اپنی تحریرات بھیجتے رہیں اور انجمن کی طرف سے بقید تاریخ و بہ تفصیل مضمون تحریرات موصول شدہ کی رسیدیں فریقین کو بھیجی جائیں گی۔ علامت اوّل یعنی بشارتوں کی آزمائش کا طریق یہ ہوگا کہ فریقین پر جو کچھ منجانب اللہ بطریق الہام و کشف وغیرہ ظاہر ہو وہ امر بقید تاریخ و بہ ثبت شہادت چار کس از مسلماناں پیش از وقوع انجمن کی خدمت میں پہنچا دیا جائے اور انجمن اپنے رجسٹر میں بقید تاریخ اس کو درج کرے اور اس پر تمام ارکان انجمن یا کم سے کم پانچ ممبروں کے دستخط ہو کر پھر ایک رسید اس کی فریسندہ کو حسب تصریح مذکور بھیجی جائے اور اس بشارت کے صدق یا کذب کا انتظار کیا جائے اور کسی نتیجہ کے ظہور کے وقت
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 326
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 326
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/326/mode/1up
اس کی یادداشت معہ اس کے ثبوت کے رجسٹر میں لکھی جاوے اور بدستور ممبروں کی گواہیاں اس پر ثبت ہوں۔ اور دوسری علامت کی نسبت بھی جو حوادث و نوازل دنیا کے متعلق ہے یہی انتظام مرعی رہے گا اور یاد رہے کہ انجمن کے پاس یہ سب اسرار بطور امانت محفوظ رہیں گے اور انجمن اس بات کا حلفاًاقرار کر لے گی کہ اس وقت سے پہلے کہ فریقین کے موازنہ کیلئے ان امور کا جلسہ عام میں افشا ہو ہرگز کوئی امر کسی اجنبی کے کانوں تک نہیں پہنچایا جائے گا بجز اس صورت کے کہ کسی راز کا فاش ہونا انجمن کے حد اختیار سے باہر ہو اور علامت سوم یعنی قبولیت دعا کی آزمائش کا طریق یہ ہوگا کہ وہی انجمن مختلف قسم کے مصیبت رسیدوں کے بہم پہنچانے کیلئے جس میں ہر ایک مذہبؔ کا آدمی شامل ہوسکتا ہے ایک عام اشتہار دے دے گی اور ہر ایک مذہب کا آدمی خواہ وہ مسلمان ہو خواہ عیسائی یا ہندو ہو یا یہودی ہو غرض کسی مذہب یا کسی رائے کا پابند ہو اگر وہ کسی عظیم الشان مصیبت میں مبتلا ہو اور اپنے نفس کو مصیبت زدوں کے گروہ میں پیش کرے تو بلاتمیز و تفرقہ قبول کیا جائے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے جسمانی دنیوی فوائد کے پہنچانے میں اپنے مختلف المذاہب بندوں میں کوئی تمیز اور تفرقہ قائم نہیں رکھا اور مصیبت زدوں کے فراہمی کیلئے ایک ماہ تک یا جیسے انجمن مناسب سمجھے یہ انتظام رہے گا کہ ان کے نام کے پرچے معہ ولدیت و سکونت وغیرہ کے ایک صندوق میں جمع ہوتے رہیں بعد ا س کے ان کی اسم وارد و فردیں برعایت اعتدال اور بقید ولدیت و قومیت و سکونت و مذہب و پیشہ و بتصریح بلاء پیش آمدہ مرتب کر کے فریقین کے سامنے معہ ان مصیبت رسیدوں کے پیش کریں گے اور فریقین ان مصیبت رسیدوں کا ملاحظہ کر کے ان دونوں فردوں کو بذریعہ قرعہ اندازی کے باہم تقسیم کرلیں گے اور اگر کوئی مصیبت زدہ کسی دور دراز ملک میں ہو اور بوجہ بعد مسافت و عدم مقدرت حاضر نہ ہوسکے تو ایک شاخ انجمن اس شہر میں مقرر ہو کر جہاں وہ مصیبت زدہ رہتا ہے اس کے پرچہ مصیبت کو صدر انجمن میں پہنچا دیں گی اور بعد قرعہ اندازی کے ہر ایک فریق کے حصہ میں جو فرد آئے گی اس فرد میں جو مصیبت رسیدہ مندرج ہوں گے وہ اسی فریق کے حصہ کے سمجھے جائیں گے جس کو خدائے تعالیٰ نے قرعہ اندازی کے ذریعہ سے یہ فرد دے دی اور واجب ہوگا کہ انجمن مصیبت رسیدوں کی فراہمی کیلئے اور ان کی تاریخ مقررہ پر حاضر ہوجانے کی غرض سے چند ہفتے پہلے اشتہارات شائع کر دیوے ان اشتہارات کا تمام خرچ خاص میرے ذمہ ہوگا ۱ اور وہ دو فردیں مصیبت رسیدوں کی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 327
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 327
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/327/mode/1up
جو تیار ہوں گی ایک ایک نقل ان کی انجمن بھی اپنے دفتر میں رکھے گی اور یہی دن سال مقررہ میں سے پہلا دن شمار کیا جائے گا ہر ایک فریق اپنے حصہ کے مصیبت رسیدوں کیلئے دعا کرتا رہے گا اور بدستور مذکور وہ تمام کارروائی انجمن کی رجسٹر میں درج ہوتی رہے گی۔ اور اگر ایک سال کے عرصہ میں اور اس وقت سے پہلے جو کثرت قبولیت اور غلبہ صریحہ کا اندازہ پیدا ہو کوئی فریق وفات پاجائے اور اپنے مقابلہ کے تمام امر کو ناتمام چھوڑ جائے تب بھی وہ مغلوب سمجھا جائے گا کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے خاص ارادہ سے اس کے کام کو ناتمام رکھا تا اس کا باطل پر ہونا ظاہر کرے۔ اور مصیبت رسیدوں کا اندازہ کثیرہ اس لئے شرط ٹھہرایا گیا ہے کہ قبولیت دعا کا امتحان صرف باعتبار کثرت ہوسکتا ہے ورنہ جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں یہ ممکن ہے کہ اگر دعا کرانے والے صرف چند آدمی ہوں مثلاً دو یا تین شخص ہوں تو وہ اپنی ناکامی میں تقدیر مبرم رکھتے ہوں یعنی ارادہ ازلی میں قطعی طور پر یہی مقدر ہو کہ یہ ہرگز اپنی بلاؤں سےَ مخلصی نہیں پائیں گے اور اکثر ایسا اتفاق اکابر اولیاء اور انبیاء کو پیش آتا رہا ہے کہ ان کی دعاؤں کے اثر سے بعض آدمی محروم رہے اس کی یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ اپنی ناکامی میں تقدیر مبرم رکھتے تھے لہٰذا ایک یا دو۲ بلا رسیدوں کو معیار آزمائش ٹھہرانا ایک دھوکہ دینے والا طریق ہے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی ناکامی میں تقدیر مبرم رکھتے ہوں پس اگر وہ دعا کیلئے کسی مقبول کی طرف رجوع کریں اور اپنی تقدیر مبرم کی وجہ سے ناکام رہیں تو اس صورت میں اس بزرگ کی قبولیت ان پر مخفی رہے گی بلکہ شاید وہ اپنے خیال کو بدظنی کی طرف کھینچ کر اس خدا رسیدہ سے بداعتقاد ہوجائیں اور اپنی دنیا کے ساتھ اپنی عاقبت بھی خراب کر لیں کیونکہ اس طرز آزمائش میں بعض لوگوں نے نبیوں کے وقت میں بھی ٹھوکریں کھائی ہیں اور مرتد ہونے تک نوبت پہنچی ہے اور یہ بات ایک معرفت کا دقیقہ ہے کہ مقبولوں کی قبولیت کثرت استجابت دعا سے شناخت کی جاتی ہے یعنی ان کی اکثر دعائیں قبول ہوجاتی ہیں نہ یہ کہ سب کی سب قبول ہوتی ہیں۔ پس جب تک کہ رجوع کرنے والوں کی تعداد کثرت کی مقدار تک نہ پہنچے تب تک قبولیت کا پتہ نہیں لگ سکتا۔ اور کثرت کی پوری حقیقت اور عظمت اس وقت بخوبی ظاہر ہوتی ہے کہ جب کہ مومن کامل مستجاب الدعوات کا اس کے غیر سے مقابلہ کیا جائے ورنہ ممکن ہے کہ ایک بدباطن نکتہ چین کی نظر میں وہ کثرت بھی قلت کی صورت میں نظر آوے سو درحقیقت کثرت استجابت دعا ایک نسبتی امر ہے جس کی صحیح اور یقینی اور قطعی تشخیص جو منکر کے منہ کو بند کرنے والی ہو مقابلہ سے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 328
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 328
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/328/mode/1up
ہی ظاہر ہوتی ہے مثلاً اگر ہزار ہزار مصیبت رسیدہ دو ایسے شخصوں کے حصہ میں آجائے جن کو مومن کامل اور مستجاب الدعوات ہونے کا دعویٰ ہے اور ایک شخص کی قبولیت دعا کا یہ اثر ہو کہ ہزار میں سے پچا۵۰س یا پچیس۲۵ ایسے باقی رہیں جو ناکام ہوں اور باقی سب کامیاب ہوجائیں اور دوسرے گروہ میں سے شاید پچیس یا پچاس ناکامی سے بچیں اور باقی سب نامرادی کے تحت الثریٰ میں جائیں تو مقبول اور مردود میں صریح فرق ہوجائے گا۔ اس زمانہ کا فرقہ نیچریّہ ان اوہام اور وساوس میں مبتلا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ ابتدا سے قدرت نے شدنی اور ناشدنی امور میں تقسیم کررکھی ہے اس لئے استجابت دعا کچھ چیز ہی نہیں مگر یہ اوہام سراسر خام ہیں اور حق بات یہی ہے کہ جیسے حکیم مطلق نے دواؤں میں باوجود انضباط قوانین قدرتیہ کی تاثیرؔ ات رکھی ہیں ایسا ہی دعاؤں میں بھی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ تجارب صحیحہ سے ثابت ہوتی ہیں اور جس مبارک ذات علّت العلل نے استجابتِ دعا کو قدیم سے اپنی سنت ٹھہرایا ہے اسی ذات قدوس کی یہ بھی سنت ہے کہ جو مصیبت رسیدہ لوگ ازل میں قابل رہائی ٹھہر چکے ہیں وہ انھیں لوگوں کے انفاس پاک یا دعا اور توجہ اور یا ان کے وجود فی الارض کی برکت سے رہائی پاتے ہیں جو قرب اور قبولیت الٰہی کے شرف سے مشرف ہیں اگرچہ دنیا میں بہت سے لوگ ُ بت پرست بھی ہیں جو مومن کامل کی طرف اپنے مصائب کے وقت رجوع بھی نہیں کرتے اور ایسے بھی ہیں جو استجابت دعا کے قائل ہی نہیں اور بکلّی تدابیر اور اسباب کے مقیّد ہیں اور ان کی سوانح زندگی پر نظر ڈالنے سے شائد ایک سطحی خیال کا آدمی اس دھوکہ میں پڑے گا کہ ان کی مشکلات بھی تو حل ہوتی ہیں پھر یہ بات کہ مقبولوں کی دعائیں ہی کثرت سے قبول ہوتی ہیں کیونکر صفائی سے ثابت ہوسکتی ہے اس وہم کا جواب جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ اگرچہ کوئی شخص اپنی مرادات کیلئے ُ بت کی طرف رجوع کرے یا اور دیوتاؤں کی طرف یا اپنی تدابیر کی طرف لیکن درحقیقت خدائے تعالیٰ کا پاک قانون قدرت یہی ہے کہ یہ تمام امور مقبولوں کے ہی اثر وجود سے ہوتے ہیں اور ان کے انفاس پاک سے اور ان کی برکات سے یہ جہان آباد ہورہا ہے انھیں کی برکت سے بارشیں ہوتی ہیں اور انھیں کی برکت سے دنیا میں امن رہتا ہے اور وبائیں دور ہوتی ہیں اور فساد مٹائے جاتے ہیں اور انھیں کی برکت سے دنیا دار لوگ اپنی تدابیر میں کامیاب ہوتے ہیں اور انھیں کی برکت سے چاند نکلتا اور سورج چمکتا ہے وہ دنیا کے نور ہیں جب تک وہ اپنے وجود نوعی کے لحاظ سے دنیا میں ہیں دنیا منور ہے اور ان کے وجود نوعی کے خاتمہ کے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 329
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 329
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/329/mode/1up
ساتھ ہی دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا کیونکہ حقیقی آفتاب و ماہتاب دنیا کے وہی ہیں۔ اس تقریر سے ظاہر ہے کہ بنی آدم کی مرادات بلکہ زندگی کا مدار وہی لوگ ہیں اور بنی آدم کیا ہریک مخلوق کے ثبات اور قیام کا مدار اور مناط وہی ہیں اگر وہ نہ ہوں تو پھر دیکھو کہ بتوں سے کیا حاصل ہے اور تدبیروں سے کیا فائدہ ہے یہ ایک نہایت باریک بھید ہے جس کے سمجھنے کیلئے صرف اس دنیا کی عقل کافی نہیں بلکہ وہ نور درکار ہے جو عارفوں کو ملتا ہے درحقیقت یہ سارے شبہات مقابلہ سے دور ہوجاتے ہیں کیونکہ مقابلہ کے وقت خدائے تعالیٰ خاص ارادہ فرماتا ہے کہ تا وہ جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے سچی قبولیت اور سچی برکت رکھتا ہے اس کی عزت ظاہر ہو اگر ُ بت پرست موحد کے مقابل پر آوے اور استجابت دعا میں ایک دوسرے کی آزمائش کریں تو ُ بت پرست سخت ذلیل اور رسوا ہو اسی وجہ سے میں نے پہلے بھی کہہ دیا ہے کہ کامل مومن کی آزمائش کیلئے جیسا سہل طریق مقابلہ ہے ایسا اور کوئی طریق نہیں جس بارے میں کامل مومن کی دعا منظور نہ ہو اور اعلام الٰہی سے اس کو نامنظوری کی اطلاع دی جائے پھر اگر اس کام کیلئے یورپ اور امریکہ کی تمام تدبیریں ختم کی جائیں یا دنیا کے تمام بتوں کے آگے سرر گڑا جائے یا اگر تمام دنیا اپنی اپنی دعاؤں میں اس امر میں کامیابی چاہے تو یہ ناممکن ہوگا۔ اور اگرچہ مومن کامل کا فیض تمام دنیا میں جاری و ساری ہوتا ہے اور اسی کی برکت سے دنیا کیَ کل چلتی ہے اور وہ درپردہ ہریک کیلئے حصولِ مرادات کا ذریعہ ہوتا ہے خواہ کوئی اس کو شناخت کرے یا نہ کرے لیکن جو لوگ خاص طور پر ارادت اور عقیدت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ نہ صرف اس کی برکت سے دنیا کی مرادات پاتے ہیں بلکہ اپنا دین بھی درست کر لیتے ہیں اور اپنے ایمانوں کو قوی کر لیتے ہیں اور اپنے رب کو پہچان لیتے ہیں اور اگر وہ وفاداری سے مومن کامل کے زیر سایہ پڑے رہیں اور درمیان سے بھاگ نہ جائیں تو بکثرت آسمانی نشانوں کو دیکھ لیتے ہیں۔
اور میں نے جو اس مضمون میں مختلف اقسام کے مصیبت رسیدوں کا ہونا بطور شرط لکھ دیا ہے یہ اسلئے لکھا ہے کہ تاعام طورپر انواع اقسام کی صورتوں میں خدائے تعالیٰ کی رحمت ظاہر ہو اور ہریک طبیعت اور مذاق کا آدمی اسکو سمجھ سکے اور مختلف اقسام کے مصیبت رسیدہ مندرجہ ذیل مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً کوئی انواع اقسام کے امراض میں مبتلا ہو اور کوئی کسی ناحق کی سزا میں پھنس گیا ہو یا پھنسنے والا ہو اور کسی کا ولد عزیز مفقود الخبرہو اور کوئی خود لاولد ہو۔ اور کوئی جاہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 330
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 330
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/330/mode/1up
و مرتبہ کے بعد لائق رحم ذلت میں پڑا ہو اور کوئی کسی ظالم کے پنجہ میں گرفتار ہو۔ اور کوئی فوق الطاقت اور غیر معمولی قرضہ کی بلا سے جان بلب ہو اور کسی کا جگر گوشہ دین اسلام سے مرتد ہوگیا ہو اور کوئی کسی ایسے غم و قلق میں گرفتار ہو جس کو ہم اس وقت بیان نہیں کرسکے۔ اور علامت چہارم یعنے معارف قرآنی کا کھلنا اس میں احسن انتظام یہ ہے کہ ہریک فریق چند آیات قرآنی کے معارف و حقائق و لطائف لکھ کر انجمن میں عین جلسہ عام میں سناوے پھر اگر جو کچھ کسی فریق نے لکھا ہے کسی پہلی تفسیر کی کتاب میں ثابت ہوجائے تو یہ شخص محض ناقل متصور ہوکر موردعتاب ہو لیکن اگر اس کے بیا ن کردہ حقائق و معارف جو فیِ حدِّ ذاتہا صحیح اور غیر مخدوش بھی ہوں ایسے جدید اور نووارد ہوں جو پہلے مفسرین کے ذہن ان کی طرف سبقت نہ لے گئے ہوں اور بااینہمہ وہ معنے من کل الوجوہ تکلف سے پاک اور قرآن کریم کے اعجاز اور کمال عظمت اور شان کو ظاہر کرتے ہوں اور اپنے اندر ایک جلالت اور ہیبت اور سچائی کا نور رکھتے ہوں تو سمجھنا چاہئے کہؔ وہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہیں جو خدا وند تعالیٰ نے اپنے مقبول کی عزت اور قبولیت اور قابلیت ظاہر کرنے کیلئے اپنے لدُ نی علم سے عطا فرمائی ہیں یہ ہر چہار محک امتحان جو میں نے لکھی ہیں یہ ایسی سیدھی اور صاف ہیں کہ جو شخص غور کے ساتھ ان کو زیر نظر لائے گا وہ بلاشبہ اس بات کو قبول کرلے گا کہ متخاصمین کے فیصلہ کیلئے اس سے صاف اور سہل تر اور کوئی روحانی طریق نہیں اور میں اقرار کرتا ہوں اور اللہ جلّ شانہٗ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر میں اس مقابلہ میں مغلوب ہوگیا تو اپنے ناحق پر ہونے کا خود اقرار شائع کردوں گا اور پھر میاں نذیر حسین صاحب اور شیخ بٹالوی کی تکفیر اور مفتری کہنے کی حاجت نہیں رہے گی اور اس صورت میں ہر ایک ذلت اور توہین اور تحقیر کا مستوجب و سزا وار ٹھہروں گا اور اسی جلسے میں اقرار بھی کردوں گا کہ میں خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہوں اور میرے تمام دعاوی باطل ہیں اور بخدا میں یقین رکھتا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ میرا خدا ہرگز ایسا نہیں کرے گا اور کبھی مجھے ضائع ہونے نہیں دے گا۔ اب علماء مذکورہ بالا کا اس صاف اور صریح امتحان سے انحراف کرنا[اگر وہ انحراف کریں] نہ صرف بے انصافی ہوگی بلکہ میرے خیال میں وہ اس وقت چپ رہنے سے یا صرف مغشوش اور غیر صحیح جوابوں پر کفایت کرنے سے دانش مند لوگوں کو اپنے پر سخت بدگمان کرلیں گے اگر وہ اس وقت ایسے شخص کے مقابل پر جو سچے دل سے مقابلہ کیلئے میدان میں کھڑا ہے محض حیلہ سازی سے بھرا ہوا کوئی ملمع جواب دیں گے تو یاد رکھیں کہ کوئی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 331
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 331
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/331/mode/1up
طالب حق اور حق پسند ایسے جواب کو پسند نہیں کرے گا بلکہ منصف لوگ اس کو تأسف کی نگاہوں سے دیکھیں گے۔ ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ جو شخص مسیح موعود ہونے کا مدعی ہو وہ کیوں خود یکطرفہ طور پر ایسے نشان نہیں دکھلاتا جن سے لوگ مطمئن ہوجائیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تمام لوگ علماء کے تابع ہیں اور علماء نے اپنے اشتہارات کے ذریعہ سے عوام میں یہ بات پھیلا دی ہے کہ یہ شخص کافر اور دجّال ہے اگر کتنے ہی نشان دکھاوے تو بھی قبول کے لائق نہیں چنانچہ شیخ بٹالوی نے اپنے ایک لمبے اشتہار میں جس کو اس نے لدھیانہ کی بحث کے بعد چھاپا ہے یہی باتیں صاف صاف لکھ دی ہیں اور بڑے انکار اور عناد کی راہ سے اس عاجز کی نسبت بیان کیا ہے کہ یہ شخص جو آسمانی نشانوں کے دکھلانے کی طرف دعوت کرتا ہے اس کی اس دعوت کی طرف متوجہ نہیں ہونا چاہئے کیونکہ نشان تو ابن صیّاد سے بھی ظاہر ہوتے تھے اور دجّال معہود بھی دکھلائے گا پھر نشانوں کا کیا اعتبار ہے ماسوا اس کے میں یہ بھی سنتا ہوں اور اپنے مخالفوں کے اشتہارات میں پڑھتا ہوں کہ وہ میرے یکطرفہ نشانوں کو تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں اور محض شرارت کی راہ سے کہتے ہیں کہ اگر یہ شخص کوئی سچی خواب بتلاتا ہے یا کوئی الہامی پیشگوئی ظاہر کرتا ہے تو ان امور میں اس کی خصوصیت کیا ہے کافروں کو بھی سچی خوابیں آجاتی ہیں بلکہ کبھی ان کی دعائیں بھی قبول ہوجاتی ہیں کبھی ان کو پیش از وقت کوئی بات بھی معلوم ہوجاتی ہے بعض قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ یہ بات تو ہمیں بھی حاصل ہے اور نہیں جانتے کہ فقط ایک درم سے گدا تونگر نہیں کہلا سکتا اور ایک ذرہ سی روشنی سے کرمکِ شب تاب کو سورج نہیں کہہ سکتے لیکن بغیر مقابلہ کے یہ لوگ کسی طرح سمجھ نہیں سکتے مقابلہ کے وقت انہیں اختیار ہے کہ اگر آپ عاجز آجائیں تو دس بیس کافر ہی اپنے ساتھ شریک کرلیں۔ غرض جب کہ مولویوں نے یکطرفہ نشانوں کو منظور ہی نہیں کیا اور مجھے کافر ہی ٹھہراتے ہیں اور میرے نشانوں کو استدراج میں داخل کرتے یا تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر یکطرفہ نشانوں سے کیا اثر مترتب ہوگا اور عوام جن کے دل اور کان ایسی باتوں سے پُر کئے گئے ہیں ایسے نشانوں سے کیونکر مطمئن ہوں گے لیکن ایمانی نشانوں کے دکھلانے کا باہم مقابلہ ایک ایسا صاف اور روشن امر ہے کہ اس میں ان علماء کا کوئی عذر بھی پیش نہیں جاسکتا اور نیز جس قدر مقابلہ کے وقت کھلے کھلے طور پر حق ظاہر ہوتا ہے ایسی کوئی اور صورت حق کے ظاہر ہونے کی نہیں ہاں اگر یہ لوگ اس مقابلہ سے عاجز ہوں تو پھر ان پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے ایک اشتہار بہ ثبت مواہیر
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 332
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 332
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/332/mode/1up
بالاتفاق شائع کردیں کہ ہم مقابلہ نہیں کرسکتے اور مومنین کاملین کے علامات ہم میں پائے نہیں جاتے اور نیز لکھ دیں کہ ہم یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ اس شخص یعنے اس عاجز کے نشانوں کو دیکھ کر بلا عذر قبول کر لیں گے اور عوام کو قبول کرنے کیلئے فہمائش بھی کردیں گے اور نیز دعویٰ کو بھی تسلیم کر لیں گے اور تکفیر کے شیطانی منصوبوں سے باز آجائیں گے اور اس عاجز کو مومن کامل سمجھ لیں گے تو اس صورت میں یہ عاجز عہد کرتا ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ کے فضل و کرم سے یکطرفہ نشانوں کا ثبوت ان کو دے گا اور امید رکھتا ہے کہ خداوند قوی و قدیر ان کو اپنے نشان دکھائے گا اور اپنے بندہ کا حامی اور ناصر ہوگا اور صدقاً و حقاً اپنے وعدوں کو پورا کرے گا۔ لیکن اگر وہ لوگ ایسی تحریر شائع نہ کریں تو پھر بہرحال مقابلہ ہی بہتر ہے تا ان کا یہ خیال اور یہ غرور کہ ہم مومن کامل اور شیخ الکل اور مقتدائے زمانہ ہیں اور نیز ملہم اور مکالمات الہٰیہ سے مشرّفؔ ہیں مگر یہ شخص کافر اور دجال اور کتے سے بدتر ہے اچھی طرح انفصال پا جائے اور اس مقابلہ میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ جو فیصلہ ہماری طرف سے یکطرفہ طور پر ایک مدت دراز کو چاہتا ہے وہ مقابلہ کی صورت میں صرف تھوڑے ہی دنوں میں انجام پذیر ہوجائے گا سو یہ مقابلہ اس امر متنازعہ کے فیصلہ کرنے کیلئے کہ درحقیقت مومن کون ہے اور کافروں کی سیرت کون اپنے اندر رکھتا ہے نہایت آسان طریق اور نزدیک کی راہ ہے۔ اس سے جلد نزاع کا خاتمہ ہوجائے گا گویا صدہاکوس کا فاصلہ ایک قدم پر آجائے گا۔ اور خدائے تعالیٰ کی غیرت جلد تر دکھا دے گی کہ اصل حقیقت کیا ہے اور اس مقابلہ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں فریقین کو نکتہ چینی کی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ناحق کے عذروں اور بہانوں کی کچھ پیش جاتی ہے لیکن یکطرفہ نشانوں میں بد اندیش کی نکتہ چینی عوام کالانعام کو دھوکہ میں ڈالتی ہے یہ بھی جاننے والے جانتے ہیں کہ یکطرفہ نشان بہت سے آج تک اس عاجز سے ظہور میں آچکے ہیں جن کے دیکھنے والے زندہ موجود ہیں مگر کیا علماء باوجود ثبوت پیش کرنے کے ان کو قبول کر لیں گے ہرگز نہیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ تمام کلمات اور یہ طریق جو اختیار کیا گیا ہے یہ محض ان منکروں کا جلدی فیصلہ کرنے کے ارادہ سے اور نیز اسکات وافحام کے خیال اور ان پراتمام حجت کی غرض سے اور سچائی کا کامل جلوہ دکھانے کی نیت سے اور اس پیغام کے پہنچانے کیلئے ہے جو اس عاجز کو منجانب اللہ دیا گیا ہے ورنہ نشانوں کا ظاہر ہونا ان کے مقابلہ پر موقوف نہیں نشانوں کا سلسلہ تو ابتداء سے جاری ہے اور ہر یک صحبت میں رہنے والا بشرطیکہ صدق اور استقامت سے رہے کچھ نہ کچھ دیکھ سکتا ہے اور آئندہ بھی خدائے تعالیٰ اس سلسلہ کو بے نشان نہیں
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 333
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 333
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/333/mode/1up
چھوڑے گا اور نہ اپنی تائید سے دستکش ہوگا بلکہ جیسا کہ اس کے پاک وعدے ہیں وہ ضرور اپنے وقتوں پر نشان تازہ بتازہ دکھاتا رہے گا جب تک کہ وہ اپنی حجت کو پوری کرے اورخبیث اور طیب میں فرق کر کے دکھلاوے اس نے آپ اپنے مکالمہ میں اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا اور میں کبھی امید نہیں کرسکتا کہ وہ حملے بغیر ہونے کے رہیں گے گو ان کا ظہور میرے اختیار میں نہیں۔ میں آپ لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ میں سچا ہوں پیارو! یقیناً سمجھو کہ جب تک آسمان کا خدا کسی کے ساتھ نہ ہو ایسی شجاعت کبھی نہیں دکھاتا کہ ایک دنیا کے مقابل پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہوجائے اور ان باتوں کا دعویٰ کرے جو اس کے اختیار سے باہر ہیں جو شخص قوت اور استقامت کے ساتھ ایک دنیا کے مقابل پر کھڑا ہو جاتا ہے کیا وہ آپ سے کھڑا ہوسکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ اس ذات قدیر کی پناہ سے اور ایک غیبی ہاتھ کے سہارے سے کھڑا ہوتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں تمام زمین وآسمان اور ہر ایک روح اور جسم ہے سو آنکھیں کھولو اور سمجھ لو کہ اس خدا نے مجھ عاجز کو یہ قوت اور استقامت دی ہے جس کے مکالمہ سے مجھے عزت حاصل ہے اسی کی طرف سے اور اسی کے کھلے کھلے ارشاد سے مجھے یہ جرأت ہوئی کہ میں ان لوگوں کے مقابل پر بڑی دلیری اور دلی استقامت سے کھڑا ہوگیا جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم مقتدا اور شیخ العرب والعجم اور مقرب اللہ ہیں جن میں وہ جماعت بھی موجود ہے جو ملہم کہلاتی ہے اور الٰہی مکالمہ کا دعویٰ کرتی ہے اور اپنے زعم میں الہامی طور پر مجھے کافر اور جہنمی ٹھہرا چکے ہیں سو میں ان سب کے مقابل پر باذنہ ٖ تعالیٰ میدان میں آیا ہوں تا خدائے تعالیٰ صادق اور کاذب میں فرق کر کے دکھاوے اور تا اس کا ہاتھ جھوٹے کو تحت الثریٰ تک پہنچاوے اور تا وہ اس شخص کی نصرت اور تائید کرے جس پر اس کا فضل و کرم ہے۔ سو بھائیو دیکھو کہ یہ دعوت جس کی طرف میں میاں نذیر حسین صاحب اور ان کی جماعت کو بلاتا ہوں یہ درحقیقت مجھ میں اور ان میں کھلا کھلا فیصلہ کرنے والا طریق ہے سو میں اس راہ پر کھڑا ہوں اب اگر ان علماء کی نظر میں ایسا ہی کافر اور دجّال اور مفتری اور شیطان کا رہ زدہ ہوں تو میرے مقابل پر انہیں کیوں تامل کرنا چاہئے کیا انہوں نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا کہ عندالمقابلہ نصرت الٰہی مومنوں کے ہی شامل حال ہوتی ہے اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۱ یعنی اے مومنو مقابلہ سے ہمت مت ہارو اور کچھ اندیشہ مت کرو اور انجام کار
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 334
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 334
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/334/mode/1up
غلبہ تمہیں کا ہے اگر تم واقعی طور پر مومن ہو۔ اور فرماتا ہے ۱ یعنی خدائے تعالیٰ ہرگز کافروں کو مومنوں پر راہ نہیں دے گا۔ سو دیکھو خدائے تعالیٰ نے قرآن کریم میں مقابلہ کے وقت مومنوں کو فتح کی بشارت دے رکھی ہے اور خود ظاہر ہے کہ خدائے تعالیٰ مومن کا ہی حامی اور ناصر ہوتا ؔ ہے مفتری کا ہرگز ناصر اور حامی نہیں ہوسکتا۔ سو جس کا خدائے تعالیٰ آپ دشمن ہو اور جانتا ہے کہ وہ مفتری ہے ایسا نااہل آدمی کیونکر مومن کے مقابل پر ایمان کے علامات خاصہ سے خلعت یاب ہوسکتا ہے بھلا یہ کیونکر ہو کہ جو لوگ خدائے تعالیٰ کے پیارے دوست اور سچے الہامات کے وارث اور نیز مومنین کاملین اور شیخ الکل ہوں وہ تو مقابلہ کے وقت ایمانی نشانوں سے محروم رہ جائیں اور بڑی ذلت کے ساتھ ان کی پردہ دری ہو اور عمداً خدائے تعالیٰ ان کی بزرگی اور نیک نامی کو صدمہ پہنچاوے لیکن وہ جو راندۂدرگاہ الٰہی اور بقول شیخ بٹالوی کتوں کی طرح اور کافر اور دجّال اور بقول میاں نذیر حسین بکلّی ایمان سے بے نصیب اور ملحد اور ہر ایک مخلوق سے بدتر ہو اس میں ایمانی نشان پائے جائیں اور خدائے تعالیٰ عند المقابلہ اسی کو فتح مند اور کامیاب کرے ایسا ہونا تو ہرگز ممکن نہیں۔ ناظرین آپ لوگ ایماناً فرماویں کہ کیا آسمانی اور روحانی تائید مومنوں کیلئے ہوتی ہے یا کافروں کیلئے؟ اس تمام تقریر میں َ میں نے ثابت کردیا ہے کہ حق اور باطل میں کھلا کھلا فرق ظاہر کرنے کیلئے مقابلہ کی ازحد ضرورت ہے تاسیہ روئے شود ہر کہ دروغش باشد میں نے حضرت شیخ الکل صاحب اور اُن کے شاگردوں کی زبان درازیوں پر بہت صبر کیا اور ستایا گیا اور آپ کو روکتا رہا۔ اب میں مامور ہونے کی وجہ سے اس دعوت اللہ کی طرف شیخ الکل صاحب اور ان کی جماعت کو بلاتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ اس نزاع کا آپ فیصلہ کردے گا وہ دلوں کے خیالات کو جانچتا اور سینوں کے حالات کو پرکھتا ہے اور کسی سے دل آزار زیادتی اور جہر بالسّوء پسند نہیں کرتا وہ لاپروا ہے متقی وہی ہے جو اس سے ڈرے اور میری اس میں کیا کسرشان ہے اگر کوئی مجھے کتا کہے یا کافر کافر اور دجّال کرکے پکارے درحقیقت حقیقی طور پر انسان کی کیا عزت ہے صرف اس کے نور کے پرتوہ پڑنے سے عزت حاصل ہوتی ہے اگر وہ مجھ پر راضی نہیں اور میں اس کی نگاہ میں ُ برا ہوں تو پھر کتے کی طرح کیا ہزار درجہ کتوں سے بدتر ہوں ۔
گرخدا ازبندہۂ خوشنود نیست
ہیچ حیوانے چو او مردُود نیست
گرسگِ نفسِ دنی را پروریم
ازسگانِ کوچہ ہا ہم کم تریم
اے خدا اے طالبان را رہنما
ایکہ مہر تو حیاتِ روح ما
بر رضائے خویش کن انجام ما
تا براید در دو عالم کام ما
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 335
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 335
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/335/mode/1up
خلق و عالم جملہ در شور و شراند
طالبانت در مقام دیگر اند
آن یکے را نورمے بخشی بدل
واں دِگر را می گزاری پابگل
چشم و گوش و دل زِ توگیرد ضیاء
ذات تو سرچشمہء فیض وُ ہدا
غرض خداوند قادر وقدوس میری پناہ ہے اور میں تمام کام اپنا اسی کو سونپتا ہوں اور گالیوں کے عوض میں گالیاں دینانہیں چاہتا اور نہ کچھ کہنا چاہتا ہوں ایک ہی ہے جو کہے گا افسوس کہ ان لوگوں نے تھوڑی سی بات کو بہت دور ڈال دیا اور خدائے تعالیٰ کو اس بات پر قادر نہ سمجھا کہ جو چاہے کرے اور جسکو چاہے مامور کرکے بھیجے کیا انسان اس سے لڑ سکتا ہے یا آدم زاد کو اس پر اعتراض کرنے کا حق پہنچتا ہے کہ تونے ایسا کیوں کیا ایسا کیوں نہیں کیا۔ کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ایک کی قوت اور طبع دوسرے کو عطا کرے اور ایک کا رنگ اور کیفیت دوسرے میں رکھ دیوے اور ایک کے اِسم سے دوسرے کو موسوم کردیوے اگر انسان کو خدائے تعالیٰ کی وسیع قدرت پر ایمان ہوتو وہ بلاتامل ان باتوں کا یہی جواب دے گا کہ ہاں بلاشبہ اللہ جلّ شانہٗ ہریک بات پر قادر ہے اور اپنی باتوں اور اپنی پیشگوئیوں کو جس طرز اور طریق اور جس پیرایہ سے چاہے پورا کرسکتا ہے ناظرین تم آپ ہی سوچ کر دیکھو کہ کیا آنیوالے عیسیٰ کی نسبت کسی جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ وہ دراصل وہی بنی اسرائیلی ناصری صاحب انجیل ہوگا بلکہ بخاری میں جو بعد کتاب اللہ اصح الکتاب کہلاتی ہے بجائے ان باتوں کے امامکم منکم لکھا ہے اور حضرت مسیح کی وفات کی شہادت دی ہے جسکی آنکھیں ہیں دیکھے۔ منصفو! سونچ کر جواب دو کہ کیا قرآن کریم میں کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی وقت کوئی حقیقی طور پر صلیبوں کو توڑنے والا اور ذمّیوں کو قتل کرنیوالا اور قتل خنزیر کا نیا حکم لانے والا اور قرآن کریم کے بعض احکام کو منسوخ کرنیوالا ظہور کرے گا اور آیت ۱ ا ور آیت ۲ اس وقت منسوخ ہوجائے گی اور نئی وحی قرآنی وحی پر خط نسخ کھینچ دے گی۔ اے لوگو اے مسلمانوں کی ذریّت کہلانے والو دشمن قرآن نہ بنو اور خاتم النبییّن کے بعد وحی نبوت کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو اور اُس خدا سے شرم کرو جس کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے۔ اور بالآخر میں ناظرین کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ جن باتوں پر حضرت مولوی نذیر حسین صاحب اور ان کی جماعت نے تکفیر کا فتویٰ دیا ہے اور میرا نام کافر اور دجّال رکھا ہے اور وہ گالیاں دی ہیں کہ کوئی مہذب آدمی غیر قوم کے آدمی کی نسبت بھی پسند نہیں کرتا اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ گویا یہ باتیں میری کتاب توضیح مرام اور ازالہ اوہام میں درج ہیں۔ میں انشاء اللہ القدیر عنقریب ایک مستقل رسالہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 336
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 336
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/336/mode/1up
میں ان تمام مقامات معترض علیہا کو لکھ کر منصفین کو دکھلاؤں گا کہ ؔ کیا درحقیقت میں نے اسلام کے عقیدہ سے انحراف کیا ہے یاانہیں کی آنکھوں پر پردہ اور انہیں کے دلوں پر مہریں ہیں کہ باوجود علم کے دعوے کے حقیقت کو شناخت نہیں کرسکتے اور اس پل کی طرح جو یکدفعہ ٹوٹ کر ہر طرف ایک سیلاب پیدا کردے لوگوں کی سدّراہ ہورہے ہیں یاد رکھو کہ آخر یہ لوگ بہت شرمندگی کے ساتھ اپنے منہ بند کرلیں گے اور بڑی ندامت اور ذلت کے ساتھ تکفیر کے جوش سے دستکش ہوکر ایسے ٹھنڈے ہوجائیں گے کہ جیسے کوئی بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی ڈال دے لیکن انسان کی تمام قابلیت اور زیر کی اور عقلمندی اس میں ہے کہ سمجھانے سے پہلے سمجھے اور جتلانے سے پہلے بات کو پاجائے اگر سخت مغز خواری کے بعد سمجھا تو کیا سمجھا بہتوں پر عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ وہ کافر بنانے اور گالیاں دینے کے بعد پھر رجوع کریں گے اور بدظنی اور بدگمانی کے بعد پھر حسن ظن پیدا کرلیں گے مگر کہاں وہ پہلی بات اور کہاں یہ ۔
اکنوں ہزار عذر بیاری گناہ را
مرشوی کردہ را نبود زیب دختری
سواے میری پیاری قوم اس وقت کو غنیمت سمجھ یہ تیرا گمان صحیح نہیں ہے کہ اس صدی کے سر پر آسمان و زمین کے خدا نے کوئی مجدّد اپنی طرف سے نہ بھیجا بلکہ کافر اور دجّال بھیجا تازمین میں فساد پھیلائے اے قوم نبی علیہ السلام کی پیشگوئی کا کچھ لحاظ کر اور خدائے تعالیٰ سے ڈر اور نعمت کو ردّ مت کر۔
غافل مشوگر عاقلی در یاب گر صاحبدلی
شاید کہ نتواں یافتن دیگر چنیں ایام را
والسّلامُ علٰی من اتّبع الھدٰی
نوٹ۔ مندرجہ بالا رسالہ ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ ء کو بعد نماز ظہر مسجد کلاں واقعہ قادیان میں ایک جم غفیر کے روبرو مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے پڑھ کر سنایا اور بعد اختتام یہ تجویز حاضرین کے روبرو پیش کی گئی کہ انجمن کے ممبر کون کون صاحبان قرار دیئے جائیں اور کس طرح اس کی کارروائی شروع ہو۔ حاضرین نے جنکے نام نامی ذیل میں درج کئے جاتے ہیں جو محض تجویز مذکورہ بالا پرغور کرنے اور مشورہ کرنے کیلئے تشریف لائے تھے بالاتفاق یہ قرار دیاکہ سردست رسالہ مذکور شائع کردیا جائے اور مخالفین کا عندیہ معلوم کرکے بعد ازاں بتراضیء فریقین انجمن کے ممبر مقرر کئے جائیں اور کارروائی شروع کی جائے۔ جواصحاب اس جلسہ میں موجود ہوئے ان کے نام نامی یہ ہیں:۔
منشی محمداروڑاصاحبنقشہ نویس محکمہ مجسٹریٹ کپورتھلہ
منشی محمد خان صاحب اہلمد فوجداری ؍؍
حافظ محمد علی صاحب کپورتھلہ
منشی محمد عبدالرحمن صاحب محرر محکمہ جرنیلی ایضاً
منشی سردار خان صاحب کورٹ دفعدار ؍؍
مرزا خدا بخش صاحب اتالیق نواب مالیر کوٹلہ
منشی محمد حبیب الرحمن رئیس کپور تھلہ ایضاً
منشی امداد علی خان صاحب محرر سرشتۂ تعلیم ؍؍
منشی رستم علی صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس ریلوے لاہور
منشی ظفر احمد صاحب اپیل نویس ؍؍
مولوی محمد حسین صاحب کپورتھلہ ؍؍
ڈپٹی حاجی سید فتح علی شاہ صاحب ڈپٹی کلکٹر انہار
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 337
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 337
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/337/mode/1up
حاجی خواجہ محمد الدین صاحب رئیس لاہور
سید محمد شاہ صاحب رئیس جموں
شیخ نور احمد صاحب مالک مطبع ریاض ہند امرتسر
میاں محمد چٹو صاحب رئیس لاہور
مستری عمر الدین صاحب جموں
منشی غلام محمد صاحب کاتب امرتسر
خلیفہ رجب الدین صاحب رئیس لاہور
منشی شمس الدین صاحب کلرک و فتر اگزیمنر لاہور
مولوی نور الدین صاحب حکیم خاص ریاست جموں
خلیفہ نور الدین صاحب صحاف جموں
میاںؔ جمال الدین صاحب ساکن
موضع سیکھواں
منشی تاجدین صاحب اکونٹنٹ دفتر اگزیمنر لاہور
قاضی محمد اکبر صاحب سابق تحصیلدار جموں
میاں امام الدین صاحب سیکھواں
منشی نبی بخش صاحب کلارک ؍؍ ؍؍
شیخ محمد جان صاحب ملازم را جہ امرسنگھ صاحب وزیر آباد
میاں خیر الدین صاحب ؍؍
حافظ فضل احمد صاحب ؍؍ ؍؍
مولوی عبدالقادر صاحب مدرس جمالپور
مولوی محمد عیسیٰ صاحب مدرس نوشہرہ
مولوی رحیم اللہ صاحب لاہور
مولوی غلام حسین صاحب امام مسجد گمٹی لاہور
شیخ رحمت اللہ صاحب میونسپل کمشنر گجرات
شیخ عبدالرحمن صاحب بی اے گجرات
میاں چراغ علی صاحب ساکن
تھہ غلام نبی
منشی عبدالرحمن صاحب کلارک لوکو آفس لاہور
منشی غلام اکبر صاحب یتیم کلرک اگزیمنر آفس لاہور
شیخ شہا ب الدین صاحب ساکن تھہ غلام نبی
مولوی عبدالرحمن صاحب مسجد چینیاں لاہور
منشی دوست محمد صاحب سارجنٹ پولیس جموں
میاں عبداللہ صاحب ساکن سوہل
منشی کرم الٰہی صاحب لاہور
مفتی فضل الرحمن صاحب رئیس جموں
حافظ عبدالرحمن صاحب ساکن سوہیاں
سید ناصر شاہ صاحب سب اوورسیر
حافظ محمد اکبر صاحب لاہور
منشی غلام محمد صاحب خلف مولوی دین محمد لاہور
سائیں شیرشاہ صاحب مجذوب جموں
داروغہ نعمت علی صاحب ہاشمی عباسی بٹالوی
مولوی غلام قادر صاحب فصیح مالک و مہتمم
پنجاب پریس و میونسپل کمشنر سیالکوٹ
صاحبزادہ افتخار احمد صاحب لدہانہ
قاضی خواجہ علی صاحب ٹھیکیدار شکرم لدہانہ
حافظ حامد علی صاحب ملازم مرزا صاحب
حکیم جان محمد صاحب امام مسجد قادیانی
مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹ
حافظ نور احمد صاحب کارخانہ پشمینہ لدہانہ
بابو علی محمد صاحب رئیس بٹالہ
میر حامد شاہ صاحب اہلمد معافیات سیالکوٹ
شہزادہ حاجی عبدالمجیدصاحب لدہانہ
میرزا اسمعیل بیگ صاحب قادیانی
میر محمود شاہ صاحب نقل نویس سیالکوٹ
حاجی عبدالرحمن صاحب لدہانہ
میاں بڈھے خاں نمبردار بیری
منشی محمد دین صاحب سابق گرد آور سیالکوٹ
شیخ شہاب الدین صاحب لدہانہ
میرزا محمد علی صاحب رئیس پٹی
حکیم فضل الدین صاحب رئیس بھیرہ
حاجی نظام الدین صاحب لدہانہ
شیخ محمد عمر صاحب خلف حاجی غلام محمد صاحب بٹالہ
میاں نجم الدین صاحب رئیس بھیرہ
شیخ عبدالحق صاحب لدہانہ
منشی احمد اللہ صاحب محالدار محکمہ پرمٹ جموں
مولوی محکم الدین صاحب مختار امرتسر
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 338
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 338
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/338/mode/1up
ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب ملازم ریاست جموں
کو آسمانی نشانوں کی طرف دعوت
میرے مخلص دوست اور للّہی رفیق اخویم حضرت مولوی حکیم نورِ دین صاحب فانی فی ابتغاء مرضات ربانی ملازم و معالج ریاست جموں نے ایک عنایت نامہ مورخہ ۷ جنوری ۱۸۹۲ء اس عاجز کی طرف بھیجا ہے جس کی عبارت کسی قدر نیچے لکھی جاتی ہے اور وہ یہ ہے۔ خاکسار نابکار نور الدین بحضور خدّام والا مقام حضرت مسیح الزمان سلمہ الرحمن السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗکے بعد بکمال ادب عرض پرداز ہے۔ غریب نواز۔ پر یروز ایک عرضی خدمت میں روانہ کی اس کے بعد یہاں جموں میں ایک عجیب طوفانِ بے تمیزی کی خبر پہنچی جس کو بضرورت تفصیل کے ساتھ لکھنا مناسب سمجھتا ہوں ازالہ اوہام میں حضور والا نے ڈاکٹر جگن ناتھ کی نسبت ارقام فرمایا ہے کہ وہ گریز کر گئے اب ڈاکٹر صاحب نے بہت سے ایسے لوگوں کو جو اس معاملہ سے آگاہ تھے کہا ہے۔ سیاہی سے یہ بات لکھی گئی ہے سرخی سے اس پر قلم پھیر دو میں نے ہرگز گریز نہیں کیا اور نہ کسی نشان کی تخصیص چاہی مردہ کا زندہ کرنا میں نہیں چاہتا اور نہ خشک درخت کا ہرا ہوناؔ ۔ یعنے بلا تخصیص کوئی نشان چاہتا ہوں جو
نوٹ۔ حضرت مولوی صاحب کے محبت نامہ موصوفہ کے چند فقرہ لکھتا ہوں غور سے پڑھنا چاہئے تا معلوم ہو کہ کہاں تک رحمانی فضل سے ان کو انشراح صدر و صدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں۔ ’’عالی جناب مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو۔ اللہ کی رضا مندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہوسکے طیار ہوں اگر آپ کے مشن کو انسانی خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ نابکار(مگر محب انسان) چاہتا ہے کہ اس کام میں کام آوے‘‘۔ تمّ کلا مہ جزاہ اللّٰہٗ حضرت مولوی صاحب جو انکسار اور ادب اور ایثار مال و عزت اور جان فشانی میں فانی ہیں وہ خود نہیں بولتے بلکہ ان کی روح بول رہی ہے۔ درحقیقت ہم اسی وقت سچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خدا وند منعم نے ہمیں دیا ہم اس کو واپس دیں یا واپس دینے کیلئے تیار ہوجائیں۔ ہماری جان اس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے کہ ۱ سرکہ نہ درپائے عزیزش رود بارِگران ست کشیدن بدوش ۔ مِنْہُ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 339
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 339
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/339/mode/1up
انسانی طاقت سے بالاتر ہو ۔*
اب ناظرین پر واضح ہو کہ پہلے ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے ایک خط میں نشانوں کو تخصیص کے ساتھ طلب کیا تھا جیسے مردہ زندہ کرنا وغیرہ اس پر انکی خدمت میں خط لکھا گیا کہ تخصیص ناجائز ہے خدائے تعالیٰ اپنے ارادہ اور اپنے مصالح کے موافق نشان ظاہر کرتا ہے اور جب کہ نشان کہتے ہی اس کو ہیں جو انسانی طاقتوں سے بالاتر ہوتو پھر تخصیص کی کیا حاجت ہے۔ کسی نشان کے آزمانے کیلئے یہی طریق کافی ہے کہ انسانی طاقتیں اسکی نظیر پیدا نہ کرسکیں اس خط کا جواب ڈاکٹر صاحب نے کوئی نہیں دیا تھا اب پھر ڈاکٹر صاحب نے نشان دیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور مہربانی فرماکر اپنی اس پہلی قید کو اٹھالیا ہے اور صرف نشان چاہتے ہیں کوئی نشان ہو مگر انسانی طاقتوں سے بالاتر ہو لہٰذا آج ہی کی تاریخ یعنی ۱۱؍ جنوری ۱۸۹۲ء کو بروز دوشنبہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں مکرراً دعوت حق کے طور پر ایک خط رجسٹری شدہ بھیجا گیا ہے جس کا یہ مضمون ہے کہ اگر آپ بلاتخصیص کسی نشان دیکھنے پر سچے دل سے مسلمان ہونے کیلئے تیار ہیں تو اخبارات مندرجہ حاشیہ میں حلفاًیہ اقرار اپنی طرف سے شائع کردیں کہ میں جو فلاں ابن فلاں ساکن بلدہ فلاں ریاست جموں میں برعہدہ ڈاکٹری متعین ہوں اور اسوقت حلفاًاقرار صحیح سراسر نیک نیتی اور حق طلبی اور خلوص دل سے کرتا ہوں کہ اگر میں اسلام کی تائید میں کوئی نشان دیکھوں جسکی نظیر مشاہدہ کرانے سے میں عاجز آجاؤں اور انسانی طاقتوں میں اسکا کوئی نمونہ انہیں تمام لواز م کے ساتھ دکھلا نہ سکوں تو بلا توقف مسلمان ہوجاؤں گا اس اشاعت اور اس اقرار کی اسلئے ضرورت ہے کہ خدائے قیّوم وقدّوس بازی اور کھیل کی طرح کوئی نشان دکھلانا نہیں چاہتا جب تک کوئی انسان پوری انکسار اور ہدایت یابی کی غرض سے اسکی طرف رجوع نہ کرے
*پنجاب گزٹ سیالکوٹ اور رسالہ انجمن حمایت اسلام لاہور اور ناظم الہند لاہور اور اخبار عام لاہور اور نورافشاں لدھیانہ۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 340
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 340
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/340/mode/1up
تب تک وہ بنظر رحمت رجوع نہیں کرتا اور اشاعت سے خلوص اور پختہ ارادہ ثابت ہوتا ہے اور چونکہ اس عاجز نے خدا تعالیٰ کے اعلام سے ایسے نشانوں کے ظہور کیلئے ایک سال کے وعدہ پر اشتہار دیا ہے سو وہی میعاد ڈاکٹر صاحب کیلئے قائم رہے گی طالب حق کیلئے یہ کوئی بڑی میعاد نہیں۔ اگر میں ناکام رہا تو ڈاکٹر صاحب جو سزا اور تاوان میرے مقدرت کے موافق میرے لئے تجویز کریں وہ مجھے منظور ہے اور بخدا مجھے مغلوب ہونے کی حالت میں سزائے موت سے بھی کچھ عذر نہیں۔
ہماں بہ کہ جاں دررہِ او فشانم
جہاں راچہ نقصاں اگر من نمانم
والسلام علی من اتبع الھدٰی
المعلن المشتھر
خاکسار میرزا غلام احمد قادیانی عفی اللہ عنہ
یازدہم جنوری ۱۸۹۲ ء
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 341
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 341
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/341/mode/1up
منصفینؔ کے غور کے لائق
یہ بات بالکل سچ ہے کہ جب دل کی آنکھیں بند ہوتی ہیں تو جسمانی آنکھیں بلکہ سارے حواس ساتھ ہی بند ہوجاتے ہیں پھر انسان دیکھتا ہوا نہیں دیکھتا اور سنتا ہو۱ نہیں سنتا اور سمجھتا ہوا نہیں سمجھتا اور زبان پر حق جاری نہیں ہوسکتا۔ دیکھو ہمارے محجوب مولوی کیسے دانا کہلا کر تعصب کی وجہ سے نادانی میں ڈوب گئے دینی دشمنوں کی طرح آخر افتراؤں پر آگئے۔ ایک صاحب اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ ایک اپنے لڑکے کی نسبت الہام سے خبردی تھی کہ یہ باکمال ہوگا حالانکہ وہ صرف چند مہینہ جی کر مر گیا۔ مجھے تعجب ہے کہ ان جلد باز مولویوں کو ایسی باتوں کے کہنے کے وقت کیوں لَعْنَتَ ۱ کی آیت یاد نہیں رہتی اور کیوں یکدفعہ اپنے باطنی جذام اور عداوت اسلام کو دکھلانے لگے ہیں اگر کچھ حیا ہو تو اب اس بات کا ثبوت دیں کہ اس عاجز کے کس الہام میں لکھا گیا ہے کہ وہی لڑکا جو فوت ہوگیا درحقیقت وہی موعود لڑکا ہے الہام الٰہی میں صرف اجمالی طور پر خبر ہے کہ ایسا لڑکا پیدا ہوگا اور خدا تعالیٰ کے پاک الہام نے کسی کو اشارہ کر کے مورد اس پیشگوئی کا نہیں ٹھہرایا بلکہ اشتہار فروری ۱۸۸۶ ء میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ بعض لڑکے ِ صغرسن میں فوت بھی ہوں گے پھر اس بچے کے فوت ہونے سے ایک پیشگوئی پوری ہوئی یا کوئی پیشگوئی جھوٹی نکلی۔ اب فرض کے طور پر کہتا ہوں کہ اگر ہم اپنے اجتہاد سے کسی اپنے بچہ پر یہ خیال بھی کرلیں کہ شاید یہ وہی پسر موعود ہے اور ہمارا اجتہاد خطا جائے تو اس میں الہام الٰہی کا کیا قصور ہوگا کیا نبیوں کے اجتہادات میں اس کا کوئی نمونہ نہیں! اگر ہم نے وفات یافتہ لڑکے کی نسبت کوئی قطعی الدلالت الہام کسی اپنی کتاب میں لکھا ہے تو وہ پیش کریں جھوٹ بولنا اور نجاست کھانا ایک برابر ہے تعجب کہ ان لوگوں کو نجاست خوری کا کیوں شوق ہوگیا آ ج تک صدہا الہامی پیشگوئیاں سچائی سے ظہور میں آئیں جو ایک دنیا میں مشہور کی گئیں مگر ان مولویوں نے ہمدردی اسلام کی راہ سے کسی ایک کا بھی ذکر نہ کیا۔ دلیپ سنگھ کا ارادہ سیر ہندوستان و پنجاب سے ناکام رہنا صدہا لوگوں کو پیش از وقوع سنایا گیا تھا۔ بعض ہندوؤں کو پنڈت دیانند کی موت کی خبر چند مہینے اسکے مرنے سے پہلے بتلائی گئی تھی اور یہ لڑکا بشیر الدین محمود جو پہلے لڑکے کے بعد پیدا ہوا ایک اشتہار میں اسکی پیدائش کی قبل از تولد خبر دی گئی تھی سردار محمد حیات خان کی معطلی کے زمانہ میں ان کی دوبارہ بحالی کی لوگوں کو خبر سنادی گئی تھی۔ شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور پر مصیبت کا آنا پیش از وقت ظاہر کیا گیا تھا اور پھر انکی بریّت
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 342
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 342
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/342/mode/1up
کی خبر نہ صرف ان کو پیش از وقت پہنچائی گئی تھی بلکہ صدہا آدمیوں میں مشہور کی گئی تھی۔ ایسا ہی صدہا نشان ہیں جن کے گواہ موجود ہیں۔ کیا ان دیندار مولویوں نے کبھی ان نشانوں کا بھی نام لیا جس کے دل پر خدا تعالیٰ مہر کرے اس کے دل کو کون کھولے۔ اب بھی یہ لوگ یاد رکھیں کہ ان کی عداوت سے اسلام کو کچھ ضرر نہیں پہنچ سکتا۔ کیڑوں کی طرح خود ہی مر جائیں گے مگر اسلام کا نور دن بدن ترقی کرے گا۔ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اسلام کا نور دنیا میں پھیلا وے- اسلام کی برکتیں اب ان مگس طینت مولویوں کی بک بک سے رک نہیں سکتیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے اَنَا الفتّاح افتح لک۔ تری نصرًا عجیبًا و یَخِرّون علی المساجد۔ ربنا اغفرلنا انا کنا خاطئین۔ جلابیب الصدق۔ فاستقم کما امرت۔ الخوارق تحت منتہی صدق الاقدام۔ کن لِلّٰہ جمیعًا و مع اللّٰہ جمیعا۔ عسٰی ان یبعثک ربّک مقامًا محمودا۔یعنی میں فتّاح ہوں تجھے فتح دوں گا ایک عجیب مدد تو دیکھے گا اور منکر یعنی بعض ان کے جن کی قسمت میں ہدایت مقدر ہے اپنے سجدہ گاہوں پر گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش ہم خطا پر تھے۔ یہ صدق کے جلابیب ہیں جو ظاہر ہوں گے۔ سو جیسا کہ تجھے حکم کیا گیا ہے استقامت اختیار کر۔ خوارق یعنی کرامات اس محل پر ظاہر ہوتی ہیں جو انتہائی درجہ صدق اقدام کا ہے۔ تو سارا خدا کیلئے ہو جا تو سارا خدا کے ساتھ ہوجا۔ خدا تجھے اس مقام پر اٹھائے گا جس میں تو تعریف کیا جائے گا اور ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اب اے مولویو۔ اے بخل کی سرشت والو ۔ اگر طاقت ہے تو خدا تعالیٰ کی ان پیشگوئیوں کو ٹال کر دکھلاؤ ہریک قسم کے فریب کام میں لاؤ اور کوئی فریب اٹھا نہ رکھو پھر دیکھو کہ آخر خدا تعالیٰ کا ہاتھ غالب رہتا ہے یا تمہارا۔
والسّلام علٰی من اتبع الھدٰی
اَلمُنَبِّہ النّاصِح مرزا غلام احمد قادیانی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 343
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 343
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/343/mode/1up
میرؔ عباس علی صاحب ُ لدھانوی
چو بشنوی سخن اہل دل مگو کہ خطااست
سخن شناس نۂِ دلبرا خطا اینجا است
یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کا ذکر بالخیر میں نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۷۹۰ میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں لکھا ہے افسوس کہ وہ بعض ُ موَ سوِ سین کی وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آگئے بلکہ جماعت اعداء میں داخل ہوگئے۔ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ ان کی نسبت تو الہام ہوا تھا کہ اصلھا ثابتٌ وفرعھا فی السمآء اس کا یہ جواب ہے۔ کہ الہام کے صرف اس قدر معنے ہیں کہ اصل اس کا ثابت ہے اور آسمان میں اس کی شاخ ہے اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں بلاشبہ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے جس پر وہ ہمیشہ ثابت اور مستقل رہتا ہے اور اگر ایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تو وہ فطرتی خوبی ساتھ ہی لاتا ہے اور اگر پھر اسلام سے کفر کی طرف انتقال کرے تو اس خوبی کو ساتھ ہی لے جاتا ہے کیونکہ فطرت اللہ اور خلق اللہ میں تبدل اور تغیر نہیں افراد نوع انسان مختلف طور کی کانوں کی طرح ہیں کوئی سونے کی کان کوئی چاندی کی کان کوئی پیتل کی کان پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے بلاشبہ یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض اخلاق فطرتاً ان کو حاصل ہوتے ہیں خدا تعالیٰ نے مجسم ظلمت اور سراسر تاریکی میں کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا ہاں یہ سچ ہے کہ کوئی فطرتی خوبی بجز حصول صراط مستقیم کے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے موجب نجات اخروی نہیں ہوسکتی کیونکہ اعلیٰ درجہ کی خوبی ایمان اور خدا شناسی اور راست روی اور خدا ترسی ہے اگر وہی نہ ہوئی تو دوسری خوبیاں ہیچ ہیں۔ علاوہ اس کے یہ الہام اُس زمانہ کا ہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 344
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 344
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/344/mode/1up
موجود تھی۔ زبردست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اور اپنے دل میں وہ بھی یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت رہوں گا سو خدا تعالیٰ نے اُن کی اُس وقت کی حالت موجودہ کی خبر دے دی یہ بات خدا تعالیٰ کی تعلیمات وحی میں شائع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبردیتا ہے کسی کے کافر ہونے کی حالت میں اس کا نام کافر ہی رکھتا ہے۔ اور اس کے مومن اور ثابت قدم ہونے کی حالت میں اس کا نام مومن اور مخلص اور ثابت قدم ہی رکھتا ہے خدا تعالیٰ کی کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ میر صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجز کے مخلصوں میں شامل رہے اور خلوص کے جوش کی وجہ سے بیعت کرنے کے وقت نہ صرف آپ انہوں نے بیعت کی بلکہ اپنے دوسرے عزیزوں اور رفیقوں اور دوستوں اور متعلقوں کو بھی اس سلسلہ میں داخل کیا اور اس دس سال کے عرصہ میں جس قدر انہوں نے اخلاص اور ارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے اُن کا اس وقت میں اندازہ بیان نہیں کرسکتا لیکن دو سو کے قریب اب بھی ایسے خطوط ان کے موجود ہوں گے جن میں انہوں نے انتہائی درجہ کے عجز اور انکسار سے اپنے اخلاص اور ارادت کا بیان کیا ہے بلکہ بعض خطوط میں اپنی وہ خوابیں لکھی ہیں جن میں گویا روحانی طور پر ان کی تصدیق ہوئی ہے کہ یہ عاجز منجانب اللہ ہے اور اس عاجز کے مخالف باطل پر ہیں اور نیز وہ اپنی خوابوں کی بناء پر اپنی معیت دائمی ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اس جہان اور اس جہان میں ہمارے ساتھ ہیں ایسا ہی لوگوں میں بکثرت انہوں نے یہ خوابیں مشہور کی ہیں اور اپنے مریدوں اور مخلصوں کو بتلائیں اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس قدر جوش سے اپنا اخلاص ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگر خدائے تعالیٰ کا الہام ہو کہ یہ شخص اس وقت ثابت قدم ہے متزلزل نہیں تو کیا اس الہام کو خلاف واقعہ کہا جائے گا بہت سے الہامات صرف موجود ہ حالات کے آئینہ ہوتے ہیں عواقب امور سے ان کو کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نیز یہ بات بھی ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے اس کے سوء خاتمہ پر حکم نہیں کرسکتے کیونکہ انسان کا دل اللہ جلّ شانہٗ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 345
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 345
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/345/mode/1up
کے قبضہ میں ہے میر صاحب تو میر صاحب ہیں اگر وہ چاہے تو دنیا کے ایک بڑے سنگدل اور مختوم القلب آدمی کو ایک دم میں حق کی طرف پھیر سکتا ہے۔ غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتا ہے مآل پر ضروری طور پر اس کی دلالت نہیں ہے اور مآل ابھی ظاہر بھی نہیں ہے بہتوں نے راست بازوں کو چھوڑ دیا اور پکے دشمن بن گئے مگر بعد میں پھر کوئی کرشمہ قدرت دیکھ کر پشیمان ہوئے اور زارزار روئے اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور رجوع لائے۔ انسان کا دل خدائے تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس حکیم مطلق کی آزمائشیں ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ سو میر صاحب اپنی کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلا کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پیدا ہوئی اور پھر قبض سے خشکی اور اجنبیّت اور اجنبیّت سے ترک ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جہری عداوت اور ارادہ تحقیر و استحقاق* و توہین پیدا ہوگیا۔ عبرت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے۔ کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہوگا۔ مالک الملک جو چاہتا ہے کرتا ہے میرے دوستوں کو چاہئے کہ ان کے حق میں دعا کریں اور اپنے بھائی فروماندہ اور درگذشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں اور میں بھی انشاء اللہ الکریم دعا کروں گا۔ میں چاہتا تھا کہ ان کے چند خطوط بطور نمونہ اس رسالہ میں نقل کر کے لوگوں پر ظاہر کروں کہ میر عباس علی کا اخلاص کس درجہ پر پہنچا تھا اور کس طور کی خوابیں وہ ہمیشہ ظاہر کیا کرتے تھے اور کس انکساری کے الفاظ اور تعظیم کے الفاظ سے وہ خط لکھتے تھے لیکن افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے وقت میں حسب ضرورت ظاہر کیا جائے گا۔ یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہیبت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفۃ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا آج اس کی کیاحالت ہے۔ پس خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے اپنی استقامتوں پر بھروسہ مت کرو کیا استقامت میں فاروق رضی اللہ عنہُ سے کوئی بڑھ کر
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 346
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 346
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/346/mode/1up
ہوگا جن کو ایک ساعت کیلئے ابتلا پیش آگیا تھا اور اگر خدائے تعالیٰ کا ہاتھ ان کو نہ تھامتا تو خدا جانے کیا حالت ہوجاتی۔ مجھے اگرچہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج بہت ہوا لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض مدعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو اُن کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے جن کی تعریف میں وحی الٰہی بھی نازل ہوگئی تھی آخر حضرت مسیح سے منحرف ہوگئے تھے یہودا اسکریوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کا تھا جو اکثر ایک ہی پیالہ میں حضرت مسیح کے ساتھ کھاتا اور ؔ بڑے پیار کا دم مارتا تھا جس کو بہشت کے بارھویں تخت کی خوشخبری بھی دی گئی تھی اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے جن کی نسبت حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ آسمان کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہیں جن کو چاہیں بہشت میں داخل کریں اور جن کو چاہیں نہ کریں لیکن آخر میاں صاحب موصوف نے جو کرتوت دکھلائی وہ انجیل پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہوکر اور ان کی طرف اشارہ کر کے نعوذ باللہ بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پرلعنت بھیجتا ہوں۔ میر صاحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں کل کی کس کو خبر ہے کہ کیا ہو۔ میر صاحب کی قسمت میں اگرچہ یہ لغزش مقدر تھی اور أَصلھا ثابتٌ کی ضمیر تانیث بھی اس کی طرف ایک اشارہ کررہی تھی لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میر صاحب کی حالت کو لغزش میں ڈالا میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جن کو مسائل دقیقہ دین کی کچھ بھی خبر نہیں حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ یہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے میں نے سنا ہے کہ شیخ بٹالوی اِس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ لَاُغْوِیَنَّھُمْ اَجْمَعِیْنَ اور اس قدر غلو ہے کہ شیخ نجدی کا استثناء بھی ان کے کلام میں نہیں پایا جاتا تا صالحین کو باہر رکھ لیتے اگرچہ وہ بعض روگردان ارادتمندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں مگر انھیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہوجانے سے سارا باغ بر باد نہیں ہوسکتا۔ جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 347
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 347
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/347/mode/1up
خشک کردیتا ہے اور کاٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا کردیتا ہے بٹالوی صاحب یاد رکھیں کہ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدائے تعالیٰ اس کی جگہ بیس لائے گا اور اس آیت پر غور کریں ۔ ۱
بالآخر ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ میر عباس علی صاحب نے ۱۲ ؍دسمبر ۱۸۹۱ء میں مخالفانہ طور پر ایک اشتہار بھی شائع کیا ہے جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے سو ان الفاظ سے تو ہمیں کچھ غرض نہیں جب دل بگڑتا ہے تو زبان ساتھ ہی بگڑ جاتی ہے لیکن اس اشتہار کی تین باتوں کا جواب دینا ضروری ہے:۔
اول۔ یہ کہ میر صاحب کے دل میں دہلی کے مباحثات کا حال خلاف واقعہ جم گیا ہے سو اس وسوسہ کے دور کرنے کیلئے میرا یہی اشتہار کافی ہے بشرطیکہ میر صاحب اس کو غور سے پڑھیں۔
دوم۔ یہ کہ میر صاحب کے دل میں سراسر فاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا میں ایک نیچری آدمی ہوں معجزات کا منکر اور لیلتہ القدر سے انکاری اور نبوت کا مدعی اور انبیاء علیہم السلام کی اہانت کرنے والا اور عقائد اسلام سے ُ منہ پھیرنے والا سو ان اوہام کے دور کرنے کیلئے میں وعدہ کرچکا ہوں کہ عنقریب میری طرف سے اس بارہ میں رسالہ مستقلہ شائع ہوگا اگر میر صاحب توجہ سے اس رسالہ کو دیکھیں گے تو بشرط توفیق ازلی اپنی بے بنیاد اور بے اصل بدظنیوں سے سخت ندامت اٹھائیں گے۔
سوئم۔ یہ کہ میرصاحب نے اپنے اس اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر فرماکر تحریر فرمایا ہے کہ گویا ان کو رسول نمائی کی طاقت ہے چنانچہ وہ اس اشتہار میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں میرا مقابلہ نہیں کیا میں نے کہا تھا کہ ہم دونوں کسی ایک مسجد میں بیٹھ جائیں اور پھر یا تو مجھ کو رسولؐ کریم کی زیارت کراکر اپنے دعاوی کی تصدیق کرادی جائے اور یا میں زیارت کراکر اس بارہ میں فیصلہ کرادوں گا۔ میر صاحب کی اس تحریر نے نہ صرف مجھے ہی تعجب میں ڈالا بلکہ ہر ایک واقف حال سخت متعجب ہورہا ہے کہ اگر میرصاحب میں
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 348
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 348
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/348/mode/1up
یہ قدرت اور کمال حاصل تھا کہ جب چاہیں رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ لیں اور باتیں پوچھ لیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھلادیں تو پھر انھوں نے اس عاجز سے بدوں تصدیق نبوی کے کیوں بیعت کر لی اور کیوں دس۱۰ سال تک برابر خلوص نماؤں کے گروہ میں رہے تعجب کہ ایک دفعہ بھی رسول کریم ان کی خواب میں نہ آئے اور ان پر ظاہر نہ کیا کہ اس کذّاب اور مکّار اور بے دین سے کیوں بیعت کرتا ہے اور کیوں اپنے تئیں گمراہی میں پھنساتا ہے کیا کوئی عقل مند سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کو یہ اقتدار حاصل ہے کہ بات بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حضوری میں چلا جاوے اور ان کے فرمودہ کے مطابق کاربند ہو۔ اور ان سے صلاح مشورہ لے لے وہ دس برس تک برابر ایک کذّاب اور فریبی کے پنجہ میں پھنسا رہے اور ایسے شخص کا مرید ہوجاوے جو اللہ اور رسول کا دشمن اور آنحضرتؐ کی تحقیر کرنے والا اور تحت الثریٰ میں گرنے والا ہو زیادہ تر تعجب کا مقام یہ ہے کہ میر صاحب کے بعض دوست بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے بعض خوابیں ہمارے پاس بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ میں نے رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھا اور آنحضرت ؐنے اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ وہ شخص واقعی طور پر خلیفۃ اللہ اور مجدّد دین ہے اور اسی قسم کے بعض خط جن میں خوابوں کا بیان اور تصدیق اس عاجز کے دعوے کی تھی میر صاحب نے اس عاجز کو بھی لکھے اب ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اگر میر صاحب رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں تو جو کچھ انھوں نے پہلے دیکھا وہ بہرحال اعتبار کے لائق ہوگا اور اگر وہ خوابیں ان کی اعتبار کے لائق نہیں اور اضغاث احلام میں داخل ہیں تو ایسی خوابیں آئندہ بھی قابل اعتبار نہیں ٹھہر سکتیں۔ ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ رسول نمائی کا قادرانہ دعویٰ کس قدر فضول بات ہے حدیث صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی کی ُ مبرا ہوسکتی ہے جس میں آنحضرت صلعم کو ان کے حلیہ پر دیکھا گیا ہو ورنہ شیطان کا تمثل انبیاء کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے ہے۔ اور شیطان لعین تو خدائے تعالیٰ کا تمثل اور اس کے عرش کی تجلّی دکھلا دیتا ہے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 349
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 349
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/349/mode/1up
تو پھر انبیاء کا تمثل اُس پر کیا مشکل ہے اب جب کہ یہ بات ہے تو فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ کسی کو آنحضرت صلعم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر کیونکر مطمئن ہوں کہ وہ زیارت درحقیقت آنحضرت صلعم کی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک حلیہ نبوی پر اطلاع نہیں اور غیر حلیہ پر تمثل شیطان جائز ہے پس اس زمانہ کے لوگوں کیلئے زیارت حقہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اُس زیارت کے ساتھ بعض ایسے خوارق اور علامات خاصہ بھی ہوں جن کی وجہ سے رؤیا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے مثلاً رسول اللہ صلعم بعض بشارتیں پیش از وقوع بتلادیں یا بعض قضا وقدر کے نزول کی باتیں پیش از وقوع مطلع کردیں یا بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقائق و معارف بتلادیں جو پہلے قلم بند اور شائع نہیں ہوچکے تو بلاشبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی۔ ورنہ اگر ایک شخص دعویٰ کرے جو رسول اللہ صلعم میری خواب میں آئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ فلاں شخص بے شک کافر اور دجّال ہے اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ یہ رسول اللہ صلعم کا قول ہے یا شیطان کا یا خود اس خواب بین نے چالاکی کی راہ سے یہ خواب اپنی طرف سے بنالی ہے سو اگر میر صاحب میں درحقیقت یہ قدرت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلعم ان کی خواب میں آجاتے ہیں تو ہم میر صاحب کو یہ تکلیف دینا نہیں چاہتے کہ وہ ضرور ہمیں دکھادیں بلکہ وہ اگر اپنا ہی دیکھنا ثابت کردیں اور علامات اربعہ مذکورہ بالا کے ذریعہ سے اس بات کو بپایۂ ثبوت پہنچا دیں کہ درحقیقت انہوں نے آنحضرت صلعم کو دیکھا ہے تو ہم قبول کرلیں گے اور اگر انھیں مقابلہ کا ہی شوق ہے تو اس سیدھے طور سے مقابلہ کریں جس کا ہم نے اس اشتہار میں ذکر کیا ہے ہمیں بالفعل ان کی رسول بینی میں ہی کلام ہے چہ جائیکہ ان کی رسول نمائی کے دعویٰ کو قبول کیا جائے پہلا مرتبہ آزمائش کا تو یہی ہے کہ آیا میر صاحب رسول بینی کے دعویٰ میں صادق ہیں یا کاذب اگر صادق ہیں تو پھر اپنی کوئی خواب یا کشف شائع کریں جس میں یہ بیان
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 350
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 350
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/350/mode/1up
ہو کہ رسول اللہ صلعم کی زیارت ہوئی اور آپ نے اپنی زیارت کی علامت فلاں فلاں پیشگوئی اور قبولیت دعا اور انکشاف حقائق و معارف کو بیان فرمایا پھر بعد اسکے رسول نمائی کی دعوت کریں اور یہ عاجز حق کی تائید کی غرض سے اس بات کیلئے بھی حاضر ہے کہ میر صاحب رسول نمائی کا اعجوبہ بھی دکھلاویں قادیان میں آجائیں مسجد موجود ہے ان کے آنے جانے اور خوراک کا تمام خرچ اس عاجز کے ذمہ ہوگا اور یہ عاجز تمام ناظرین پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف لاف و گزاف ہے اور کچھ نہیں دکھلا سکتے۔ اگر آئیں گے تو اپنی پردہ دری کرائیں گے۔ عقل مند سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے بیعت کی مریدوں کے حلقہ میں داخل ہوا اور مدت دس سال سے اس عاجز کو خلیفۃ اللہ اور امام اور مجدد کہتا رہا اور اپنی خوابیں بتلاتا رہا کیا وہ اس دعویٰ میں صادق ہے میر صاحب کی حالت نہایت قابل افسوس ہے خدا ان پر رحم کرے۔ پیشگوئیوں کے منتظر رہیں جو ظاہر ہوں گی۔ ازالہ اوہام کے صفحہ ۸۵۵ کو دیکھیں ازالہ اوہام کے صفحہ ۶۳۵۔ اور ۳۹۶ کو بغور مطالعہ کریں۔ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں۔ جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے ویسئلونک أَحق ھو قل ای وربی انہ لحق وماانتم بمعجزین۔ زوجناکھا لامبدل لکلماتی۔ وان یروا اٰیۃ یعرضوا و یقولوا سحر مستمر۔ اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے۔ کہہ ہاں مجھے اپنے رب کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ ہم نے خود اس سے تیرا عقد نکاح باندھ دیا ہے میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کر منہ پھیرلیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکاّ جادو ہے۔
والسلام علی من فھم اسرارنا واتبع الھدے
الناصح المشفق خاکسار غلام احمد قادیانی۔ ۲۷۔دسمبر ۱۸۹۱ء
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 351
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 351
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/351/mode/1up
اطلاع
تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہوجائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو لیکن اس غرض کے حصول کیلئے صحبت میں رہنا اور ایک حصہ اپنی عمر کا اس راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے تا اگر خدائے تعالیٰ چاہے تو کسی ُ برہان یقینی کے مشاہدہ سے کمزوری اور ضعف اور کسل دور ہو اور یقین کامل پیدا ہو کر ذوق اور شوق اور ولولہ عشق پیدا ہوجائے سو اس بات کیلئے ہمیشہ فکر رکھنا چاہئے اور دعا کرنا چاہئے کہ خدائے تعالیٰ یہ توفیق بخشے اور جب تک یہ توفیق حاصل نہ ہو کبھی کبھی ضرور ملنا چاہئے کیونکہ سلسلہ بیعت میں داخل ہو کر پھر ملاقات کی پروا نہ رکھنا ایسی بیعت سراسر بے برکت اور صرف ایک رسم کے طور پر ہوگی۔ اور چونکہ ہریک کیلئے بباعث ضعف فطرت یا کمئ مقدرت یا بُعد مسافت یہ میسر نہیں آسکتا کہ وہ صحبت میں آکر رہے یا چند دفعہ سال میں تکلیف اٹھا کر ملاقات کیلئے آوے کیونکہ اکثر دلوں میں ابھی ایسا اشتعال شوق نہیں کہ ملاقات کیلئے بڑی بڑی تکالیف اور بڑے بڑے حرجوں کو اپنے پر روا رکھ سکیں لہٰذا قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے کہ سال میں تین روز ایسے جلسہ کیلئے مقرر کئے جائیں جس میں تمام مخلصین اگر خدا تعالیٰ چاہے بشرط صحت و فرصت و عدم موانع قویہّ تاریخ مقرر پر حاضر ہوسکیں سو میرے خیال میں بہتر ہے کہ وہ تاریخ ۲۷ ؍دسمبرسے ۲۹ دسمبر تک قرار پائے یعنی آج کے دن کے بعد جو تیس دسمبر ۱۸۹۱ ء ہے آئندہ اگر ہماری زندگی میں ۲۷ دسمبر کی تاریخ آجاوے تو حتی الوسع تمام
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 352
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 352
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/352/mode/1up
دوستوں کو محض للہ ربانی باتوں کے سننے کیلئے اور دعا میں شریک ہونے کیلئے اس تاریخ پر آجانا چاہئے اور اِس جلسہ میں ایسے حقایق اور معارف کے سنانے کا شغل رہے گا جو ایمان اور یقین اور معرفت کو ترقی دینے کیلئے ضروری ہیں اور نیز اُن دوستوں کیلئے خاص دعائیں اور خاص توجہ ہوگی اور حتی الوسع بدرگاہِ ارحم الراحمین کوشش کی جائے گی کہ خدائے تعالیٰ اپنی طرف ان کو کھینچے اور اپنے لئے قبول کرے اور پاک تبدیلی ان میں بخشے اور ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر یک نئے سال میں جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے ُ منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تودّد و تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اس کیلئے دعائے مغفرت کی جائے گی اور تمام بھائیوں کو روحانی طور پر ایک کرنے کیلئے ان کی خشکی اور اجنبیّت اور نفاق کو درمیان سے اٹھا دینے کیلئے بدرگاہ حضرت عزت جلّ شانہٗ کوشش کی جائے گی اور اس روحانی جلسہ میں اور بھی کئی روحانی فوائد اور منافع ہوں گے جو انشاء اللہ القدیر وقتاً فوقتاً ظاہر ہوتے رہیں گے اور کم مقدرت احباب کیلئے مناسب ہوگا کہ پہلے ہی سے اس جلسہ میں حاضر ہونے کا فکر رکھیں۔ اور اگر تدبیر اور قناعت شعاری سے کچھ تھوڑا تھوڑا سرمایہ خرچ سفر کیلئے ہر روز یا ماہ بماہ جمع کرتے جائیں اور الگ رکھتے جائیں تو بلادقت سرمایہ سفر میسر آجاوے گا گویا یہ سفر مفت میسر ہوجائے گا اور بہتر ہوگا کہ جو صاحب احباب میں سے اس تجویز کو منظور کریں وہ مجھ کو ابھی بذریعہ اپنی تحریر خاص کے اطلاع دیں تاکہ ایک علیحدہ فہرست میں ان تمام احباب کے نام محفوظ رہیں کہ جو حتی الوسع والطاقت تاریخ مقررہ پر حاضر ہونے کیلئے اپنی آئندہ زندگی کیلئے عہد کر لیں اور بدل و جان پختہ عزم سے حاضر ہوجایا کریں بجز ایسی صورت کے کہ ایسے موانع پیش آجائیں جن میں سفر کرنا اپنی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 353
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 353
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/353/mode/1up
حد اختیار سے باہر ہوجائے۔ اور اب جو ۲۷ دسمبر ۱۸۹۱ ء کو دینی مشورہ کے لئے جلسہ کیا گیا۔ اِس جلسہ پر جس قدر احباب محض ِ للہ تکلیف سفر اٹھا کر حاضر ہوئے خدا ان کو جزائے خیر بخشے اور ان کے ہریک قدم کا ثواب ان کو عطا فرماوے۔ آمین ثم آمین
اعلان
ہمارے پاس کچھ جلدیں رسالہ فتح اسلام و توضیح مرام موجود ہیں جن کی قیمت ایک روپیہ ہے اور کچھ جلدیں کتاب ازالہ اوہام موجود ہیں جن کی قیمت فی جلد تین روپیہ ہے محصول ڈاک علاوہ ہے جو صاحب خرید کرنا چاہیں منگوالیں پتہ یہ ہے قادیان ضلع گورداسپور بنام راقم رسالہ ہذا یا اگر چاہیں تو بمقام پٹیالہ میر ناصر نواب صاحب نقشہ نویس دفتر نہر سے لے سکتے ہیں۔ اور نیز یہ کتابیں پنجاب پریس سیالکوٹ میں مولوی غلام قادر صاحب فصیح مالک مطبع کے پاس بھی موجود ہیں وہاں سے بھی منگوا سکتے ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 354
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- آسمانی فیصلہ: صفحہ 354
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/354/mode/1up
Last edited: