روحانی خزائن جلد 4۔ ایک عیسائی کے تین سوال اور جواب۔ یونی کوڈ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 413
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 413
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اے ایمان لانے والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔
ایک عیسائی کے تین سوال
اور
ان کے جوابات
۱۳۰۹ ہجری
۱۸۹۲ء
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 414
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 414
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 415
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 415
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ
ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات
حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں آخری زمانہ میں اسلام کے ازسر نو احیاء اور غلبہ کے لئے اُمت میں مسیح موعود کے مبعوث ہونے کی بشارت دی وہاں مسیح موعود کا ایک بنیادی کام فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَ یَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ ابن مریم)
یعنی مسیح موعود صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا‘ بھی بیان فرمایا۔ صلیب کو توڑنے سے مراد یہ تھی کہ مسیح موعود عیسائیت کے عقائد باطلہ کے زور کو توڑ کر ان کی بجائے اسلام کے عقائد حقہ کو غالب کرے گا اور خنزیر صفت لوگوں سے ہر قسم کی پلیدی دور کرکے انہیں پاک و صاف اور مطہر بنائے گا۔ اس حدیث میں جہاں مسیح مو عود کے مبعوث ہونے کی بشارت دی گئی تھی وہاں اس میں یہ واضح اشارہ بھی مضمر تھا کہ آخری زمانہ میں عیسائیت کو بہت فروغ حاصل ہوگا یہاں تک کہ وہ پورے کرّۂ ارض پر چھا جائے گا۔
اُس وقت جو مسلمانوں کی حالت تھی اس سے ہر وہ مسلمان جس کے دل میں اسلام کا درد تھا بے چین تھا۔ برصغیر میں آریوں اور عیسائی پادریوں اور اُن کے مبلغوں نے اسلام پر بے انتہا تابڑ توڑ حملے شروع کئے ہوئے تھے اتنے شدید حملے تھے کہ مسلمان علماء بھی اس وقت سہمے ہوئے تھے اور ان کے پاس کوئی جواب ان حملوں کا نہیں تھا ۔ کچھ مسلمان تو لاجواب ہونے کی وجہ سے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 416
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 416
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اسلام کو چھوڑ کر عیسائیت کی جھولی میں گر تے جاتے تھے اور کچھ بالکل اسلام سے لاتعلق ہو رہے تھے۔ اس وقت اگر عیسائیت اور دوسرے مذاہب کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر کوئی شخص تھا تو ایک ہی جری اللہ تھا یعنی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام۔ آپ نے ان مذاہب سے تن تنہا چومکھی لڑائی لڑی۔
انجمن حمایت اسلام سے ایک عیسائی عبداللہ جیمز نے تین سوال اسلام کی نسبت بطلب جواب تحریرکئے۔ انہوں نے یہ سوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مولانا نور الدین صاحب کو بھی ارسال کئے۔ ان جوابات کو انجمن حمایت اسلام نے ۱۳۰۹ھ میں’’ ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات‘‘ کے نام سے شائع کیا۔( اس کتاب کو بعد میں قادیان سے ’’تصدیق النبی‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا جس میں صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جوابات شائع کئے گئے۔ )
انجمن حمایت اسلام نے اس کے دیباچہ میں تحریر کیا کہ
’’دین اسلام کے وہ مخلص پیرو بندے جو اپنی اعلیٰ درجے کی دین داری، لیاقت، فضیلت، حسن اخلاق وغیرہ خوبیوں کے باعث آج کل کی معدن علم ہونے کی مدعی قوموں کے استاد تھے۔ انہیں کی نسلیں آج جاہل مطلق بے ہنر محض اور اپنے سچے مذہب کے مقدس اصولوں کی پابندی سے کوسوں دور ہیں۔ ان کی جہالت کا نتیجہ یہ ہے کہ بت پرست قومیں جن کے پاس اپنے مذہب کی حقیقت کی کوئی بھی عقلی اور نقلی دلیل نہیں علانیہ اسلام کی تردید کے واسطے کھڑی ہیں اور ہمیں اپنی بے علمی اور نالیاقتی سے ان کے جواب دینے کی جرأت نہیں۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت شرح اور بسط کے ساتھ ان سوالات کے جواب دیئے۔ بطور نمونہ چند اقتباسات پیش ہیں۔
’’اب اے حق کے طالبو! اور سچے نشانوں کے بھوکو اور پیاسو!! انصاف سے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 417
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 417
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دیکھو اور ذرا پاک نظر سے غور کرو کہ جن نشانوں کا خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے کس اعلیٰ درجہ کے نشان ہیں او ر کیسے ہر زمانہ کے لئے مشہود و محسوس کا حکم رکھتے ہیں۔ پہلے نبیوں کے معجزات کا اب نام و نشان باقی نہیں صرف قصے ہیں۔ خدا جانے ان کی اصلیت کہاں تک درست ہے؟ بالخصوص حضرت مسیح ؑ کے معجزات جو انجیلوں میں لکھے ہیں باوجود قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہونے کے اور باوجود بہت سے مبالغات کے جوا ن میں پائے جاتے ہیں ایسے شکوک و شبہات ان پر وارد ہوتے ہیں کہ جن سے انہیں بکلّی صاف و پاک کرکے دکھلانا بہت مشکل ہے۔ ‘‘
’’غرض امریکہ اور یورپ آج کل ایک جوش کی حالت میں ہے اور انجیل کے عقیدوں نے جو برخلاف حقیقت ہیں بڑی گھبراہٹ میں انہیں ڈال دیا ہے یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ مسیحؑ یا عیسٰی ؑ نام خارج میں کوئی شخص کبھی پیدا نہیں ہوا بلکہ اس سے آفتاب مراد ہے اور بارہ حواریوں سے بارہ برج مراد ہیں اور پھر اس مذہب عیسائی کی حقیقت زیادہ تر اس بات سے کھلتی ہے کہ جن نشانیوں کو حضرت مسیح ؑ ایمانداروں کے لئے قرار دے گئے تھے ان میں سے ایک بھی ان لوگوں میں پائی نہیں جاتی۔ حضرت مسیح ؑ نے فرمایا تھا کہ اگر تم میری پیروی کرو گے تو ہر ایک طرح کی برکت اور قبولیت میں میرا ہی روپ بن جاؤ گے اور معجزات اور قبولیت کے نشان تم کو دیئے جائیں گے اور تمہارے مومن ہونے کی یہی علامت ہوگی کہ تم طرح طرح کے نشان دکھلا سکو گے اور جو چاہو گے تمہارے لئے وہی ہوگا اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہیں ہوگی لیکن عیسائیوں کے ہاتھ میں ان برکتوں میں سے کچھ بھی نہیں وہ اس خدا سے ناآشنا محض ہیں جو اپنے مخصوص بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور انہیں آمنے سامنے شفقت اور رحمت کا جواب دیتا ہے اور عجیب عجیب کام ان کے لئے کر دکھاتا ہے۔ ‘‘
’’ اب جاننا چاہیئے کہ محبوبیت اور قبولیت اور ولایت حقّہ کا درجہ جس کے کسی قدر مختصر طو ر پر نشان بیان کر چکا ہوں یہ بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 418
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 418
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا اور سچے متبع کے مقابل پر اگر کوئی عیسائی یا آریہ یا یہودی قبولیت کے آثار و انوار دکھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگا اور نہایت صاف طریق امتحان کا یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان صالح مقابل پر جو سچا مسلمان اور سچائی سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا متبع ہو اور کوئی دوسرا شخص عیسائی وغیرہ معاوضہ کے طور پر کھڑا ہو اور یہ کہے کہ جس قدر تجھ پر آسمان سے کوئی نشان ظاہر ہوگا یا جس قدر اسرار غیبیہ تجھ پر کھلیں گے یا جو کچھ قبولیت دعاؤں سے تجھے مدد دی جائے گی یا جس طور سے تیری عزت او ر شرف کے اظہار کے لئے کوئی نمونہ قدرت ظاہر کیا جائے گا یا اگر انعامات خاصہ کا بطور پیشگوئی تجھے و عدہ دیا جائے گا یا اگر تیرے کسی موذی مخالف پر کسی تنبیہہ کے نزول کی خبر دی جائے گی تو ان سب باتوں میں جو کچھ تجھ سے ظہور میں آئے گا او رجو کچھ تو دکھلائے گا وہ مَیں بھی دکھلاؤں گا۔ تو ایسا معارضہ کسی مخالف سے ہرگز ممکن نہیں اور ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ ان کے دل شہادت دے رہے ہیں کہ وہ کذاب ہیں انہیں اس سچے خدا سے کچھ بھی تعلق نہیں کہ جو راستبازوں کا مددگار اور صدیقوں کا دوست دار ہے جیسا کہ ہم پہلے بھی کسی قدر بیان کر چکے ہیں۔ و ھٰذااٰخر کلامنا والحمد لِلّٰہِ اوّلًا وَّ اٰخرًا وَّ ظاہرًا وَّ باطنًا ھو مولانا نعم المولٰی و نعم الوکیل۔‘‘
ناظر اشاعت
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 419
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 419
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بِسْمِؔ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْم
۱
چند روز ہوئے کہ ایک عیسائی صاحب مسمّٰی عبداللہ جیمز نے چند سوال اسلام کی نسبت بطلب جواب انجمن میں ارسال فرمائے تھے چنانچہ اُن کے جواب اس انجمن کے تین معزز و مقتدر معاونین نے تحریر فرمائے ہیں جو بعد مشکوری تمام بصورت رسالہ ہذا شائع کئے جاتے ہیں۔
سوالات
اوّل: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی نبوت اور قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے پر متشکی ہونا جیسا سورۂ بقر اور سورۂ انعام میں درج ہے ۲ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دل میں یقین جانتے تھے کہ وہ پیغمبر خدا نہیں اگر وہ پیغمبر خدا ہوتے یا انہوں نے کبھی بھی کوئی معجزہ کیا ہوتا یا معراج ہوا ہوتا یا جبرئیل علیہ السلام قرآن مجید لائے ہوتے تو وہ کبھی اپنی نبوت پر متشکی نہ ہوتے اُس سے ان کا قرآن مجید پر اور اپنی نبوت پر متشکی ہونا صاف صاف ثابت ہوتا ہے اور نہ وہ رسول اللہ ہیں۔
دوم : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بھی کوئی معجزہ نہ ملا جیسا کہ سورۂ عنکبوت میں درج ہے (ترجمہ عربی کا) اور کہتے ہیں کیوں نہ اُتریں اس پرکچھ نشانیاں (یعنی کوئی ایک بھی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 420
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 420
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کیونکہ لا نافیہ اس آیت میں جو کہ جنسی ہے کل جنس کی نفی کرتا ہے) اس کے ربّ سے۔ اور سورۂ بنی اسرائیل میں بھی۔ اور ہم نے موقوف کیں نشانیاں بھیجنی کہ اگلوں نے ان کو جھٹلایا۔ اس سے صاف صاف ظاہر ہے خدا نے کوئی معجزہ نہیں دیا۔ حقیقت میں اگر کوئی ایک معجزہ ملتا تو وہ نبوت اور قرآن پر متشکی نہ ہوتے۔
سوم : اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرہوتے تو اس وقت کے سوالوں کے جواب میں لاچار ہو کر یہ نہ کہتے کہ خدا کو معلوم یعنی مجھ کو معلوم نہیں اور اصحابِ کہف کی بابت ان کی تعداد میں غلط بیانی نہ کرتے اور یہ نہ کہتے کہ سورج چشمہ دلدل میں چھپتا ہے یا غرق ہوتا ہے حالانکہ سورج زمین سے نوکروڑ حصہ بڑاہے وہ کس طرح دلدل میں چھپ سکتا ہے۔
نوٹ:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عبد اللہ جیمز کے تیسرے سوال کو (غالباً اس کی اہمیت کے پیش نظر) دوسرا سوال قرار دے کر اس کا جواب دیا ہے اور دوسرے سوال کو آخر میں رکھا ہے۔ جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ جیمز کے سوالات کی ترتیب کو قائم رکھا ہے۔ (ناشر)
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 421
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 421
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مورد ؔ برکات رحمانی مصدر انوار قرآنی
جناب مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیاں
کی طرف سے جوابات
پہلے سوال کا جواب
معترض نے پہلے اپنے دعوٰی کی تائید میں سورۂ بقرہ میں سے ایک آیت پیش کی ہے جس کے پورے پورے لفظ یہ ہیں۔ ۱ اس آیت کا سیاق سباق یعنی اگلی پچھلی آیتوں کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس جگہ نبوت اور قرآن شریف کا کوئی ذکر نہیں۔ صرف اس بات کا بیان ہے کہ اب بیت المقدس کی طرف نہیں۔ بلکہ بیت کعبہ کی طرف منہ پھیر کر نماز پڑھنی چاہیئے۔ سو اللہ جل شا نہٗ اس آیت میں فرماتا ہے کہ یہ ہی حق بات ہے یعنی خانہ کعبہ کی طرف ہی نماز پڑھنا حق ہے جو ابتدا سے مقرر ہو چکا ہے اور پہلی کتابوں میں بطور پیشگوئی اس کا بیان بھی ہے سو تو (اے پڑھنے والے اس کتاب کے) اس بارے میں شک کرنے والوں سے مت ہو* پھر
* یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پہلی کتابوں میں اور نیز انجیل میں بھی تحویل کعبہ کے بارے میں بطور پیشگوئی اشارات ہو چکے ہیں۔ دیکھو یوحنا ۴۔۲۱ ۔۲۴ یسوع نے اُس سے کہا کہ اے عورت میری بات کو یقین رکھ وہ گھڑی آتی ہے کہ جس میں تم نہ اِس پہاڑ پر اور نہ یروشلم میں باپ کی پرستش کروگے۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 422
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 422
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
اس آیت کے آگے بھی اسی مضمون کے متعلق آیتیں ہیں چنانچہ فرماتا ہے َ ۱ یعنی ہر ایک طرف سے جو تو نکلے تو خانہ کعبہ کی ہی طرف نماز پڑھ یہی تیرے ربّ کی طرف سے حق ہے غرض صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام آیات خانہ کعبہ کے بارے میں ہیں نہ کسی اور تذکرہ کے متعلق اور چونکہ یہ حکم جو خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کے لئے صادر ہوا ایک عام حکم ہے جس میں سب مسلمان داخل ہیں لہٰذا بعموم منشاء حکم بعض وسوسے والی طبیعتوں کا وسوسہ دور کرنے کے لئے ان آیات میں اُن کو تسلی دی گئی کہ اس بات سے متردد نہ ہوں کہ پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے پڑھتے اب اُس طرف سے ہٹ کر خانہ کعبہ کی طرف نماز پڑھنا کیوں شروع کر دیا سو فرمایا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ وہی مقرر شدہ بات ہے جس کو خدا ئے تعالیٰ نے اپنے پہلے نبیوں کے ذریعے سے پہلے ہی سے بتلا رکھا تھا اس میں شک مت کرو۔
دوسری آیت میں جو معترض نے بتائید دعویٰ خود تحریر کی ہے وہ سورہ انعام کی ایک آیت ہے جو معہ اپنی آیات متعلقہ کے اس طرح پر ہے َ۲ یعنی کیا بجز خدا کے میں کوئی اور حَکَم طلب کروں اور وہ وہی ہے جس نے مفصل کتاب تم پر اُتاری اورؔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب یعنی قرآن دیا ہے مراد یہ ہے کہ جن کو ہم نے علمِ قرآن سمجھایا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ منجانب اللہ ہے سواے پڑھنے والے تو شک کرنے والوں میں سے مت ہو۔
اب اِن آیات پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب اس آیت کے جو ہے ایسے لوگ ہیں جو ہنوز یقین اور ایمان اور علم سے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 423
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 423
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
کم حصہ رکھتے ہیں بلکہ اوپر کی آیتوں سے یہ بھی کھلتا ہے کہ اِس جگہ یہ حکم کا پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے جس کا قرآن شریف میں ذکر کیا گیا ہے کیونکہ شروع کی آیت میں جس سے یہ آیت تعلق رکھتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہی قول ہے یعنی یہ کہ سو اِن تمام آیات کا بامحاورہ ترجمہ یہ ہے کہ میں بجز خدا ئے تعالیٰ کے کوئی اور حَکَم جو مجھ میں اور تم میں فیصلہ کرے مقرر نہیں کر سکتا وہ وہی ہے جس نے تم پر مفصل کتاب نازل کی سو جن کو اس کتاب کا علم دیا گیا ہے وہ اس کا منجانب اللہ ہونا خوب جانتے ہیں سو تو (اے بے خبر آدمی) شک کرنے والوں میں سے مت ہو۔
اب تحقیق سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود شک نہیں کرتے بلکہ شک کرنے والوں کو بحوالہ شواہد و دلائل منع فرماتے ہیں پس باوجود ایسے کھلے کھلے بیان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شک فی الرسالت کو منسوب کر نا بے خبری و بے علمی یا محض تعصب نہیں تو کیا ہے۔
پھر اگر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ اگر شک کرنے سے بعض ایسے نَومسلم یا متردّد منع کئے گئے تھے جو ضعیف الایمان تھے تو اُن کو یوں کہنا چاہیے تھا کہ تم شک مت کرو نہ یہ کہ تو شک مت کر کیونکہ ضعیف الایمان آدمی صرف ایک ہی نہیں ہوتا بلکہ کئی ہوتے ہیں بجائے جمع کے واحد مخاطب کا صیغہ کیوں استعمال کیا گیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وحدت سے وحدت جنسی مراد ہے جو جماعت کا حکم رکھتی ہے اگر تم اوّل سے آخر تک قرآن شریف کو پڑھو تو یہ عام محاورہ اُس میں پاؤ گے کہ وہ اکثر مقامات میں جماعت کو فرد واحد کی صورت میں مخاطب کرتا ہے مثلاً نمونہ کے طور پر اِن آیات کو دیکھو۔ ۱
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 424
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 424
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
یعنی خدائے تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا خدا مت ٹھہرا اگر تو نے ایسا کیا تو مذموم اور مخذول ہو کر بیٹھے گا۔ اور تیرے خدا نے یہی چاہا ہے کہ تم اسی کی بندگی کرو اُس کے سوا کوئی اور دوسرا تمہارا معبود نہ ہو اور ماں باپ سے احسان کر اگر وہ دونو یا ایک اُن میں سے تیرے سامنے بڑی عمر تک پہنچ جائیں تو تُو اُن کو اُف نہ کر اور نہ اُن کو جھڑک بلکہ اُن سے ایسی باتیں کہہ کہ جن میں اُن کی بزرگی اور عظمت پائی جائے اور تذلل اور رحمت سے ان کے سامنے اپنا بازو جھکا اور دعا کر کہ اے میرے رَبّ تو ان پر رحم کر جیسا اُنہوں نے میرے بچپن کے زمانے میں میری پرورش کی۔
اب دیکھو کہ ان آیات میں یہ ہدایت ظاہر ہے کہ یہ واحد کا خطاب جماعت اُمت کی طرف ہے جن کو بعض دفعہ انہیں آیتوں میں تم کر کے بھی پکارا گیا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان آیات میں مخاطب نہیں کیونکہ ان آیتوں میں والدین کی تعظیم و تکریم اور اُن کی نسبت بِرّو احسان کا حکم ہے اور ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین تو صغر سنی کے زمانے میں بلکہ جناب ممدوح کی شیر خوارگی کے وقت میں ہی فوت ہوچکے تھے سو اس جگہ سے اور نیز ایسے اور مقامات سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ جماعت کو واحد کے طور پر مخاطب کر کے پکارنا یہ قرآن شریف کا ایک عام محاورہ ہے کہ جو ابتدا سے آخر تک جا بجا ثابت ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی محاورہ توریت کے احکام میں بھی پایا جاتا ہے کہ واحد مخاطب کے لفظ سے حکم صادر کیا جاتا ہے اور مراد بنی اسرائیل کی جماعت ہوتی ہے جیسا کہ خروج باب ۳۳ ‘ ۳۴ میں بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 425
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 425
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہے۔ (۱۱) آج کے دن میں جو حکم تجھے کرتا ہوں تو اُسے یاد رکھیو۔ (۱۲) ہوشیار رہ تا نہ ہووے کہ اُس زمین کے باشندوں کے ساتھ جس میں تو جاتا ہے کچھ عہد باندھے۔ (۱۷) تو اپنے لئے ڈھالے ہوئے معبودوں کو مت بنائیو۔
اب ان آیات کا سیاق سباق دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ اگرچہ ان آیات میں حضرت موسیٰ ؑ مخاطب کئے گئے تھے مگر دراصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اِن احکام کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نہ کنعان میں گئے اور نہ ُ بت پرستی جیسا بُرا کام حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے مردِ خدا ُ بت شکن سے ہو سکتا تھا جس سے ان کو منع کیا جاتا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام وہ مقربُ اللہ ہے جس کی شان میں اسی باب میں خدا ئے تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو میری نظر میں منظور ہے اور میں تجھ کو بنام پہچانتا ہوں دیکھو خروج باب ۳۳آیت (۱۷)
سوؔ یاد رکھنا چاہیے کہ یہی طرز قرآن شریف کی ہے توریت اور قرآن شریف میں اکثر احکام اسی شکل سے واقعہ ہیں کہ گویا مخاطب اُن کے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر دراصل وہ خطاب قوم اور اُمت کے لوگوں کی طرف ہوتا ہے لیکن جس کو ان کتابوں کی طرز تحریر معلوم نہیں وہ اپنی بے خبری سے یہی خیال کر لیتا ہے کہ گویا وہ خطاب و عتاب نبی منزل علیہ کو ہو رہا ہے مگر غور اور قرائن پر نظر ڈالنے سے اُس پر کھل جاتا ہے کہ یہ سراسر غلطی ہے۔
پھر یہ اعتراض اُن آیات پر نظر ڈالنے سے بھی بکلّی مستاصل ہوتا ہے جن میں اللہ جل شانہٗ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یقین کامل کی تعریف کی ہے جیسا کہ وہ ایک جگہ فرماتا ہے۔ ۱ س نمبر ۷ یعنی کہہ کہ مجھے اپنی رسالت پر کھلی کھلی دلیل اپنے ربّ کی طرف سے ملی ہے اور پھر دوسری جگہ فرماتا ہے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 426
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 426
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
۱ س نمبر۱۳ یعنی کہہ کہ یہ میری راہ ہے میں اللہ کی طرف بصیرت کاملہ کے ساتھ بُلاتا ہوں اور پھر ایک جگہ فرماتا ہے ۲ س نمبر۵ یعنی خدا نے تجھ پر کتاب اُتاری اور حکمت یعنی دلائل حقیت کتاب و حقیت رسالہ تجھ پر ظاہر کئے اور تجھے وہ علوم سکھائے جنہیں تو خود بخود جان نہیں سکتا تھا اور تجھ پر اُس کا ایک عظیم فضل ہے پھر سورہ نجم میں فرماتا ہے ۳ ۔ ۔۴ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل نے جو اپنی صداقت کے آسمانی نشان دیکھے تو اُس کی کچھ تکذیب نہ کی یعنی شک نہیں کیا اور آنکھ َ چپ ور است کی طرف نہیں پھیری اور نہ حد سے آگے بڑھی یعنی حق پر ٹھہر گئی اور اِس نے اپنے خدا کے وہ نشان دیکھے جو نہایت بزرگ تھے۔
اب اے ناظرین ذرا انصافاً دیکھو اے حق پسندو ذرا منصفانہ نگہ سے غور کرو کہ خدائے تعالیٰ کیسے صاف صاف طور پر بشارت دیتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بصیرتِ کاملہ کے ساتھ اپنی نبوت پر یقین تھا اور عظیم الشان نشان ان کو دکھلائے گئے تھے۔
اب خلاصہ جواب یہ ہے کہ تمام قرآن شریف میں ایک نقطہ یا ایک شعشہ اس بات پر دلالت کرنے والا نہیں پاؤ گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نبوت یا قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کی نسبت کچھ شک تھا بلکہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ جس قدریقینؔ کامل و بصیرت کامل و معرفت اکمل کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات بابرکات کی نسبت دعویٰ کیا ہے اور پھر اُس کا ثبوت دیا ہے ایسا کامل ثبوت کسی دوسری موجودہ کتاب میں ہرگز نہیں پایا جاتا۔ فَھَلْ مَنْ یَّسْمَعُ فَیُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ مُحَمَّدٍ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 427
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 427
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/427/mode/1up
صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَیَکُوْنُ مِنَ المُسْلِمِیْنَ الْمُخْلِصِیْنَ۔ واضح رہے کہ انجیلوں* میں حضرت مسیح کے بعض اقوال ایسے بیان کئے گئے ہیں جن پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنی عمر کے آخری دنوں میں اپنی نبوت اور اپنے مؤیّد من اللہ ہونے کی نسبت کچھ شبہات میں پڑ گئے تھے جیسا کہ یہ کلمہ کہ گویا آخری دم کا کلمہ تھا یعنی ایلی ایلی لماسبقتنی جس کے معنی یہ ہیں کہ اے میرے خدا ‘ اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ عین دنیا سے رخصت ہونے کے وقت میں کہ جو اہل اللہ کے یقین اور ایمان کے انوار ظاہر ہونے کا وقت ہوتا ہے آنجناب کے منہ سے نکل گیا۔ پھر آپ کا یہ بھی طریق تھا کہ دشمنوں کے بد ارادہ کا احساس کر کے اُس جگہ سے بھاگ جایا کرتے تھے حالانکہ خدائے تعالیٰ سے محفوظ رہنے کا وعدہ پا چکے تھے ان دونوں امور سے شک اور تحیر ظاہر ہے پھر آپ کا تمام رات رو رو کر ایسے امر کے لئے جس کا انجام بد آپ کو پہلے سے معلوم تھا بجز اس کے کیا معنی رکھتا ہے کہ ہر ایک بات میں آپ کو شک ہی شک تھا۔ یہ باتیں صرف عیسائیوں کے اس اعتراض اُٹھانے کی غرض سے لکھی گئی ہیں ورنہ ان سوالات کا جواب ہم تو اَحسن طریق سے دے سکتے ہیں اور اپنے پیارے مسیح کے سر سے جو بشری ناتوانیوں اور ضعفوں سے مستثنیٰ نہیں تھے ان تمام الزامات کو صرف ایک نفی الوہیت و ابنیت سے ایک طرفۃ العین میں اُٹھا سکتے ہیں مگر ہمارے عیسائی بھائیوں کو بہت دقت پیش آئے گی۔
دوسرے سوال کا جواب
پوشیدہ نہ رہے کہ ان دونوں آیتوں سے معترض کا مدعا جو استدلال بر نفی معجزات ہے،
* یہ شبہات چاروں انجیلوں سے پیدا ہوتے ہیں خاص کر انجیل متی تو اول درجہ کی شبہ اندازی میں ہے۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 428
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 428
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/428/mode/1up
ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ برخلاف اس کے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ایسے معجزات ظہور پذیر ہوتے رہے ہیں کہ جو ایک صادق و کامل نبی سے ہونے چاہئیں۔ چنانچہ تصریح اس کی نیچے کے بیانات سے بخوبی ہوؔ جائے گی۔
پہلی آیت جس کا ترجمہ معترض نے اپنے دعویٰ کی تائید کیلئے عبارات متعلقہ سے کاٹ کر پیش کر دیا ہے مع اس ساتھ کی دوسری آیتوں کے جن سے مطلب کھلتا ہے، یہ ہے۔
ٌ ۔ ۔۱ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۲
یعنی کہتے ہیں کیوں نہ اُتریں اس پر نشانیاں کہ وہ نشانیاں (جو تم مانگتے ہو یعنی عذاب کی نشانیاں)وہ تو خدا ئے تعالیٰ کے پاس اور خاص اس کے اختیار میں ہیں اور میں تو صرف ڈرانے والا ہوں۔ یعنی میرا کام فقط یہ ہے کہ عذاب کے دن سے ڈراؤں نہ یہ کہ اپنی طرف سے عذاب نازل کروں اور پھر فرمایا کہ کیا ان لوگوں کیلئے (جو اپنے پر کوئی عذاب کی نشانی وارد کرانی چاہتے ہیں) یہ رحمت کی نشانی کافی نہیں جو ہم نے تجھ پر (اے رسول اُمّی) وہ کتاب (جو جامع کمالات ہے) نازل کی جو اُن پر پڑھی جاتی ہے یعنی قرآن شریف جو ایک رحمت کا نشان ہے۔ جس سے درحقیقت وہی مطلب نکلتا ہے جو کفّار عذاب کے نشانوں سے پورا کرنا چاہتے ہیں کیونکہ کفّار مکہ اس غرض سے عذاب کا نشان مانگتے تھے کہ تا وہ ان پر وارد ہو کر انہیں حق الیقین تک پہنچادے۔ صرف دیکھنے کی چیزنہ رہے کیونکہ مجرد رویت کے نشانوں میں ان کو دھوکے کا احتمال تھا اور چشم بندی وغیرہ کا خیال سو اس
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 429
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 429
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/429/mode/1up
وہم اور اضطراب کے دور کرنے کے لئے فرمایا کہ ایسا ہی نشان چاہتے ہو جو تمہارے وجودوں پر وارد ہو جائے تو پھر عذاب کے نشان کی کیا حاجت ہے؟ کیا اس مدّعا کے حاصل کرنے کے لئے رحمت کا نشان کافی نہیں؟ یعنی قرآن شریف جو تمہاری آنکھوں کو اپنی پُر نور اور تیز شعاعوں سے خیرہ کر رہا ہے اور اپنی ذاتی خوبیاں اور اپنے حقائق اور معارف اور اپنے فوق العادت خواص اس قدر دکھلا رہا ہے جس کے مقابلہ و معارضہ سے تم عاجز رہ گئے ہو اور تم پر اور تمہاری قوم پر ایک خارق عادت اثر ڈال رہا ہے* اور دلوں پر وارد ہو کر عجیب در عجیب تبدیلیاں دکھلا رہا ہے۔ مدتؔ ہائے دراز کے مردے اس سے زندہ
یہؔ تمام خارق عادت خاصیتیں قرآن شریف کی، جن کی رو سے وہ معجزہ کہلاتا ہے ان مفصلہ ذیل سورتوں میں بہ تفصیل ذیل کہتے ہیں۔ سورۃ البقرۃ ، سورۃ اٰل عمران، سورۃ النساء، سوؔ رۃ المائدہ، سورۃ الانعام، سورۃ الاعراف، سورۃ الانفال، سورۃ التوبۃ، سورۃ یونس، سورۃ ھود، سورۃ الرعد، سورۃ ابراہیم،
سورۃ الحجر، سورۃ الواقعہ، سورۃ النمل، سورۃ الحج، سورۃ البیّنہ، سورۃ المجادلۃ چنانچہ بطور نمونہ چند آیات یہ ہیں فرماتا ہے عزّوجلّ۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 430
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 430
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/430/mode/1up
ہوتے چلے جاتے ہیں اور مادر زاد اندھے جو ؔ بے شمار پشتوں سے اندھے ہی چلے آتے تھے۔ آنکھیں کھول رہے ہیں اور کفر اور الحاد کی طرح طرح کی بیماریاں اس سے اچھی ہوتی چلی جاتی ہیں اور تعصب کے سخت جذامی اس سے صاف ہوتے جاتے ہیں۔ اس سے نور ملتا ہے اور ظلمت دُور ہوتی ہے اور وصل الٰہی میسر آتا ہے اور اس کی علامات پیدا ہوتی ہیں۔ سو تم کیوں اس رحمت کے نشان کو چھوڑ کر جو ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہے عذاب اور موت کا نشان مانگتے ہو؟ پھر بعد اس کے فرمایا کہ یہ قوم تو جلدی سے عذاب ہی مانگتی ہے۔ رحمت کے نشانوں سے فائدہ اُٹھانا نہیں چاہتی۔ اُن کو کہہ دے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ عذاب کی نشانیاں وابستہ باوقات ہوتی ہیں تو یہ عذابی نشانیاں بھی کب کی نازل ہوگئی ہوتیں اور
۱ یعنی قرآن کے ذریعہ سے سلامتی کی راہوں کی ہدایت ملتی ہے اور لوگ ظلمت سے نور کی طرف نکالے جاتے ہیں وہ ہر ایک اندرونی بیماری کو اچھا کرتاہے۔ خدا نے ایک ایسا پانی اُتارا ہے جس سے مردہ زمین زندہ ہو رہی ہے ایسا پانی اُتارا جس سے ہر ایک وادی میں بقدر اپنی وسعت کے بہہ نکلا ہے۔ ایسا پانی اُتارا جس سے گلی سڑی ہوئی زمین سرسبز ہوگئی۔ اس سے خدا خوف بندوں کی جلدیں کانپتی ہیں۔ پھر ان کی جلدیں اور ان کے دل ذکر الٰہی کیلئے نرم ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھو کہ قرآن سے دل اطمینان پکڑتے ہیں جو لوگ قرآن کے تابع ہو جائیں اُن کے دلوں میں ایمان لکھا جاتا ہے اور روح القدس انہیں ملتا ہے۔ روح القدس نے ہی قرآن کو اُتارا تا قرآن ایمانداروں کے دلوں کو مضبوط کرے اور مسلمین کیلئے ہدایت اور بشارت کا نشان ہو۔ ہم نے ہی قرآن کو اُتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں، یعنی کیا صورت کے لحاظ سے اور کیا خاصیت کے لحاظ سے ہمیشہ قرآن اپنی حالت اصلی پر رہے گا اور الٰہی حفاظت کا اس پر سایہ ہوگا۔ پھر فرمایا کہ قرآن میں تمام معارف و حقائق و صداقتیں ہیں جو حقّانی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور اس کی مثل بنانے پر کوئی انسان و جن قادر نہیں اگرچہ اس کام کیلئے باہم ممدومعاون ہو جائیں۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 431
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 431
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/431/mode/1up
عذاب ضرور آئے گا اور ایسے وقت میں آئے گا کہ ان کو خبر بھی نہیں ہوگی۔
اب انصاف سے دیکھو! کہ اس آیت میں کہاں معجزات کا انکار پایا جاتا ہے یہ آیتیں تو بآوازبلند پکار رہی ہیں کہ کفّار نے ہلاکت اور عذاب کا نشان مانگا تھا۔ سو اوّل انہیں کہا گیاکہ دیکھو تم میں زندگی بخش نشان موجود ہے یعنی قرآن جو تم پر وارد ہو کر تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا بلکہ ہمیشہ کی حیات بخشتا ہے مگر جب عذاب کا نشان تم پر وارد ہوا تو وہ تمہیں ہلاک کرے گا۔ پس کیوں تم ناحق اپنا مرنا ہی چاہتے ہو اور اگر تم عذاب ہی مانگتے ہو تو یاد رکھو کہ وہ بھی جلد آئے گا۔ پس اللہ جل شانہٗ نے ان آیات میں عذاب کے نشان کا وعدہ دیا ہے اور قرآن شریف میں جو رحمت کے نشان ہیں اور دلوں پر وارد ہو کر اپنا خارق عادت اثر ان پر ظاہر کرتے ہیں ان کی طرف توجہ دلائی۔ پر معترض کا یہ گمان کہ اس آیت میں لا نافیہ جنس معجزات کی نفی پر دلالت کرتا ہے۔ جس سے کل معجزات کی نفی لازم آتی ہے۔ محض صَرف ونحو سے ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ نفی کا اثر اُسی حد تک محدود ہوتا ہے جو متکلّم کے ارادہ میں متعین ہوتی ہے۔ خواہ وہ ارادہ تصریحاً بیان کیا گیا ہو یا اشارۃً۔ مثلاً کوئی کہے کہ اب سردی کا نام و نشان باقی نہیں رہا، تو ظاہر ہے کہ اس نے اپنے بلدہ کی حالت موجودہ کے موافق کہا ہے اور گو اس نے بظاہر اپنے شہر کا نام بھی نہیں لیا مگر اس کے کلام سے یہ سمجھنا کہ اس کا یہ دعویٰ ہے کہ کل کوہستانی ملکوں سے بھی سردی جاتی رہی اور سب جگہ سخت اور تیز دھوپ پڑنے لگی اور اس کی دلیل یہ پیش کرنا کہ جس لا کو اس نے استعمال کیا ہے وہ نفی جنس کا لا ہے۔ جس کا تمام جہان پر اثر پڑنا چاہئے، درست نہیں۔ مکہ کے مغلوب ُ بتؔ پرست جنہوں نے آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آنجناب کے معجزات کو معجزہ کر کے مان لیا اور جو کفر کے زمانہ میں بھی صرف خشک منکر نہیں تھے بلکہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 432
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 432
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/432/mode/1up
روم اور ایران میں بھی جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متعجبانہ خیال سے ساحر مشہور کرتے تھے اور گوبے جا پیرایوں میں ہی سہی، مگر نشانوں کا اقرار کر لیا کرتے تھے۔ جن کے اقرار قرآن شریف میں موجود ہیں۔ وہ اپنے ضعیف اور کمزور کلام میں جو انوار ساطعہ نبوت محمدیہ کے نیچے دبے ہوئے تھے کیوں لا نافیہ استعمال کرنے لگے۔ اگر ان کو ایسا ہی لمبا چوڑا انکار ہوتا تو وہ بالآخر نہایت درجہ کے یقین سے جو انہوں نے اپنے خونوں کے بہانے اور اپنی جانوں کے فدا کرنے سے ثابت کر دیا تھا مشرف بالاسلام کیوں ہو جاتے؟ اور کفر کے ایام میں جو اُن کے بار بار کلمات قرآن شریف میں درج ہیں وہ یہی ہیں کہ وہ اپنی کوتہ بینی کے دھوکہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ساحررکھتے تھے۔ جیسا کہ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے ۱ یعنی جب کوئی نشان دیکھتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ پکا جادو ہے۔ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے ۲ یعنی انہوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ انہیں میں سے ایک شخص اُن کی طرف بھیجاگیا اور بے ایمانوں نے کہا کہ یہ تو جادو گر کذّاب ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جبکہ وہ نشانوں کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو گر کہتے تھے اور پھر اس کے بعد انہیں نشانوں کو معجزہ کر کے مان بھی لیا اور جزیرہ کا جزیرہ مسلمان ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک معجزات کا ہمیشہ کیلئے سچے دل سے گواہ بن گیا تو پھر ایسے لوگوں سے کیونکر ممکن ہے کہ وہ عام طور پر نشانوں سے صاف منکر ہو جاتے اور انکار معجزات میں ایسا لا نافیہ استعمال کرتے جو اُن کی حد حوصلہ سے باہر اور ان کی مستمررائے سے بعید تھا بلکہ قرائن سے آفتاب کی طرح ظاہر ہے کہ جس جس جگہ پر قرآن شریف میں کفّار کی طرف سے یہ اعتراض لکھا گیا
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 433
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 433
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/433/mode/1up
ہے کہ کیوں اس پیغمبر پر کوئی نشانی نہیں اُتری؟ ساتھ ہی یہ بھی بتلا دیا گیا ہے کہ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جو نشانیاں ہم مانگتے ہیں۔ اُن میں سے کوئی نشانی کیوں نہیں اُترتی۔*
واضح ؔ ہو کہ قرآن شریف میں نشان مانگنے کے سوالات کفّار کی طرف سے صرف ایک دو جگہ نہیں بلکہ کئی مقامات میں یہی سوال کیا گیا ہے اور ان سب مقامات کو بنظر یکجائی دیکھنے سےؔ ثابت ہوتا ہے کہ کفّارِ مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین قسم کے نشانات مانگا کرتے تھے۔
(۱) وہ نشان جو عذاب کی صورت میں فقط اپنے اقتراح سے کفّارِ مکہ نے طلب کئے تھے۔
(۲) دوسرے وہ نشان جو عذاب کی صورت میں یا مقدمہ عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر وارد کئے گئے تھے۔
(۳) تیسرے وہ نشان جس سے پردہ غیبی بکلّی اُٹھ جائے، جس کا اُٹھ جانا ایمان بالغیب کے بکلّی برخلاف ہے۔ سو عذاب کے نشان ظاہر ہونے کے لئے جو سوال کئے گئے ہیں ان کا جواب تو قرآن شریف میں یہی دیا گیا ہے کہ تم منتظر رہو، عذاب نازل ہوگا۔ ہاں ایسی صورت کا عذاب نازل کرنے سے انکار کیا گیا ہے جس کی پہلے تکذیب ہوچکی ہے تا ہم عذاب نازل ہونے کا وعدہ دیا گیا ہے جو آخر غزوات کے ذریعہ سے پورا ہو گیا۔ لیکن تیسری قسم کا نشان دکھلانے سے بکلّی انکار کیا گیا ہے اور خود ظاہر ہے کہ ایسے سوال کا جواب انکار ہی تھا نہ اور کچھ۔ کیونکہ کفّار کہتے تھے کہ تب ہم ایمان لائیں گے کہ جب ہم ایسا نشان دیکھیں کہ زمین سے آسمان تک نرد بان رکھی جائے اور تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نرد بان کے ذریعہ سے زمین سے آسمان پر چڑھ جائے اور فقط تیرا آسمان پر چڑھنا ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے جب تک آسمان سے ایک ایسی کتاب نہ لاوے جس کو ہم پڑھ لیں اور پڑھیں بھی اپنے ہاتھ میں لے کر۔ یا تو ایسا کر کہ مکہ کی زمین میں جو ہمیشہ پانی کی تکلیف رہتی ہے۔ شام اور عراق کے ملک کی طرح نہریں جاری ہو جائیں اور جس قدر ابتدا دنیا سے آج تک ہمارے بزرگ مر چکے ہیں، سب زندہ ہو کر آ جائیں اور اس میں قصی بن کلاب بھی ہو کیونکہ وہ بڈھا ہمیشہ سچ بولتا تھا۔ اس سے ہم پوچھیں گے کہ تیرا دعویٰ حق ہے یا باطل؟ یہ سخت سخت خود تراشیدہ نشان تھے جو وہ مانگتے تھے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 434
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 434
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/434/mode/1up
اب قصہ کوتاہ یہ کہ آپ نے آیت متذکرہ بالا کے لا نافیہ کو قرائن کی حد سے زیادہ کھینچ دیا ہے ایسا لا نافیہ عربوؔ ں کے کبھی خواب میں بھی نہیں آیا ہوگا۔ ان کے دل تو اسلام کی حقیت سے بھرے ہوئےؔ تھے۔ تب ہی تو سب کے سب بجز معدودے چند کہ جو اس عذاب کو پہنچ گئے تھے جس کا اُن کو وعدہ دیا گیا تھا بالآخر مشرف بالاسلام ہوگئے تھے
اور پھر بھی نہ صاف طور پر بلکہ شرط پر شرط لگانے سے جن کا ذکر قرآن شریف میں جابجاآیا ہے۔ پس سوچنے والے کیلئے عرب کے شریروں کی ایسی درخواستیں ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ظاہرہ و آیات بینہ و رسولانہ ہیئت پر صاف اور کھلی کھلی دلیل ہے۔ خدا جانے ان دل کے اندھوں کو ہمارے مولیٰ و آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے انوار صداقت نے کس درجہ تک عاجز و تنگ کر رکھا تھا اور کیا کچھ آسمانی تائیدات و برکات کی بارشیں ہو رہی تھیں کہ جن سے خیرہ ہو کر اور جن کی ہیئت سے منہ پھیر کر سراسرٹالنے اور بھاگنے کی غرض سے ایسی دور از صواب درخواستیں پیش کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے معجزات کا دکھلانا ایمان بالغیب کی حد سے باہر ہے۔ یوں تو اللہ جلشانہٗ قادر ہے کہ زمین سے آسمان تک زینہ رکھ دیوے۔ جس کو سب لوگ دیکھ لیویں اور دو چار ہزار کیا دوچار کروڑؔ آدمیوں کو زندہ کر کے ان کے منہ سے اُن کی اولاد کے سامنے صدق نبوت کی گواہی دلا دیوے۔ یہ سب کچھ وہ کر سکتا ہے مگر ذرا سوچ کر دیکھو کہ اس انکشاف تام سے ایمان بالغیب جو مدار ثواب اور اجر ہے دور ہو جاتا ہے اور دنیا نمونہ محشر ہو جاتی ہے۔ پس جس طرح قیامت کے میدان میں جو انکشاف تام کا وقت ہوگا ایمان کام نہیں آتا۔ اِسی طرح اس انکشاف تام سے بھی ایمان لانا کچھ مفید نہیں بلکہ ایمان اسی حد تک ایمان کہلاتا ہے کہ جب کچھ اخفا بھی باقی رہے جب سارے پردے کھل گئے تو پھر ایمان ایمان نہیں رہتا اسی وجہ سے سارے نبی ایمان بالغیب کی رعایت سے معجزے دکھلاتے رہے ہیں کبھی کسی نبی نے ایسا نہیں کیا کہ ایک شہر کا شہر زندہ کر کے ان سے اپنی نبوت کی گواہی دلاوے یا آسمان تک نرد بان رکھ کر اور سب کے روبرو چڑھ کر تمام دنیا کو تماشا دکھلاوے۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 435
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 435
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/435/mode/1up
اور یاد رہے کہ ایسا لا نافیہ حضرت مسیح کے کلام میں بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے۔ فریسیسوں نے مسیح کے نشانات طلب کئے اُس نے آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں میں تم سے سچ کہتا ہوں اِس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان نہیں دیا جائے گا۔ دیکھو مرقس ۸ باب۱۱۔
اب دیکھو کیسا حضرت مسیح نے صفائی سے انکار کر دیا ہے اگر غور فرمائیں تو آپ کا اعتراض اس اعتراض کے آگے کچھ بھی چیز نہیں کیونکہ آپ نے فقط کفار کا انکار پیش کیا اور وہ بھی نہ عام انکار بلکہ خاص نشانات کے بارے میں اور ظاہرہے کہ دشمن کا انکار بکلّی قابل اطمینان نہیں ہوتا کیونکہ دشمن خلاف واقعہ بھی کہہ جاتا ہے مگر حضرت مسیح تو آپ اپنے ُ منہ سے معجزات کے دکھلانے سے انکار کر رہے ہیں اور نفی صدور معجزات کو زمانہ کے ساتھ متعلق کر دیا ہے اور فرماتے ہیں کہ اس زمانے کے لوگوں کو کوئی نشان دیانہ جائے گاپس اس سے بڑھ کر انکار معجزات کے بارے میں اور کون سا بیان واضح ہو سکتا ہے اور اس لا نافیہ سے بڑھ کر پھر اور کونسا لا نافیہ ہوگا۔
پھر دوسری آیت کا ترجمہ پیش کیا گیاہے۔ اس میں بھی سیاق سباق کی آیتوں سے بالکل الگ کر کے اس پر اعتراض وارد کر دیا ہے مگر اصل آیت اور اس کے متعلقات پر نظر ڈالنے سے ہر ایک منصف بصیر سمجھ سکتا ہے کہ آیت میں ایک بھی ایسا لفظ نہیں ہے کہ جو انکار معجزات پر دلالت کرتا ہو بلکہ تمام الفاظ صاف بتلا رہے ہیں کہ ضرور معجزات ظہور میں آئے۔ چنانچہ وہ آیت معہ اس کے دیگر آیات متعلقہ کے یہ ہے۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 436
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 436
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/436/mode/1up
۔ َ ً ۔ ۱ فرماتا ہے عزوجل کہ یوں توقیامت سے پہلے ہر ایک بستی کو ہم نے ہی ہلاک کرنا ہے یا عذاب شدید نازل کرنا ہے یہی کتاب میں مندرج ہوچکا ہے۔ مگر اس وقت ہم بعض ان گذشتہ قہری نشانوں کو (جو عذاب کی صورت میں پہلی اُمتوں پر نازل ہو چکے ہیں) اس لئے نہیں بھیجتے جو پہلی اُمت کے لوگ اس کی تکذیب کر چکے ہیں۔ چنانچہ ہم نے ثمود کو بطور نشان کے جو مقدمہ عذاب کا تھا ناقہ دیا جو حق نما نشان تھا۔( جس پر انہوں نے ظلم کیا۔ یعنی وہی ناقہ جس کی بسیار خوری اور بسیار نوشی کی وجہ سے شہر حجر کے باشندوں کے لئے جو قوم ثمود میں سے تھے۔ پانی تالاب وغیرہ کا پینے کے لئے باقی رہا تھا اور نہ اُن کے مویشی کیلئے کوئی چراگاہ رہی تھی اور ایک سخت تکلیف اور رنج اور بلا میں گرفتار ہوگئی تھی) اور قہری نشانوں کے نازل کرنے سے ہماری غرض یہی ہوتی ہے کہ لوگ اُن سے ڈریں یعنی قہری نشان تو صرف تخویف کیلئے دکھلائے جاتے ہیں پس ایسے قہری نشانوں کے طلب کرنے سے کیا فائدہ جو پہلی اُمتوں نے دیکھ کر انہیں جھٹلا دیا اور اُن کے دیکھنے سے کچھ بھی خائف و ہراساں نہ ہوئے۔
اس جگہ واضح ہو کہ نشان دو قسم کے ہوتے ہیں۔
(۱) نشان تخویف و تعذیب جن کو قہری نشان بھی کہہ سکتے ہیں۔
(۲) نشان تبشیر و تسکین جن کو نشان رحمت سے بھی موسوم کرسکتے ہیں۔
تخویف کے نشان سخت کافروں اور کج دلوں اورنافرمانوں اور بے ایمانوں اور فرعونی طبیعت والوں کیلئے ظاہر کئے جاتے ہیں تا وہ ڈریں اور خدائے تعالیٰ کی قہری اور جلالی ہیبت ان کے دلوں پر طاری ہو۔ اور تبشیر کے نشان اُن حق کے طالبوں اور مخلص مومنوں اور سچائی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 437
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 437
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/437/mode/1up
کے متلاشیوں کیلئے ظہور پذیر ہوتے ہیں جو دل کی غربت اور فروتنی سے کامل یقین اور زیادت ایمان کے طلبگار ہیں اور تبشیر کے نشانوں سے ڈرانا اور دھمکانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ اپنے اُن مطیع بندوں کو مطمئن کرنا اور ایمانی اور یقینی حالات میں ترقی دینا اور ان کے مضطرب سینہ پر دستِ شفقت و تسلّی رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ سو مومن قرآن شریف کے وسیلہ سے ہمیشہ تبشیر کے نشان پاتا رہتا ہے اور ایمان اور یقین میں ترقی کرتا جاتا ہے۔ تبشیر کے نشانوں سے مومن کو تسلی ملتی ہے اور وہ اضطراب جو فطرتًا انسان میں ہے جاتا رہتا ہے اور سکینت دل پر نازل ہوتی ہے۔ مومنؔ ببرکت اتباع کتاب اللہ اپنی عمر کے آخری دن تک تبشیر کے نشانوں کو پاتا رہتا ہے اور تسکین اور آرام بخشنے والے نشان اس پر نازل ہوتے رہتے ہیں تا وہ یقین اور معرفت میں بے نہایت ترقیاں کرتا جائے اور حق الیقین تک پہنچ جائے اور تبشیر کے نشانوں میں ایک لطف یہ ہوتا ہے کہ جیسے مومن ان کے نزول سے یقین اور معرفت اور قوتِ ایمان میں ترقی کرتا ہے ایسا ہی وہ بوجہ مشاہدہ آلاء و نعماءِ الٰہی و احسانات ظاہرہ و باطنہ و جلیہ و خفیہ حضرت باری عزاسمہٗ جو تبشیر کے نشانوں میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں محبت وعشق میں بھی دن بدن بڑھتا جاتا ہے۔ سو حقیقت میں عظیم الشان اور قوی الاثر اور مبارک اور موصل الی المقصود تبشیر کے نشان ہی ہوتے ہیں جو سالک کو معرفتِ کاملہ اور محبتِ ذاتیہ کے اس مقام تک پہنچا دیتے ہیں جو اولیاء اللہ کے لئے منتہی المقامات ہے اور قرآن شریف میں تبشیر کے نشانوں کا بہت کچھ ذکر ہے یہاں تک کہ اس نے اُن نشانوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ ایک دائمی وعدہ دے دیا ہے کہ قرآن شریف کے سچے متبع ہمیشہ ان نشانوں کو پاتے رہیں گے جیسا کہ وہ فرماتا ہے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 438
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 438
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/438/mode/1up
۱ یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے نشان پاتے رہیں گے۔ جن کے ذریعے سے وہ دنیا اور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں ناپیداکنار ترقیاں کرتے جائیں گے۔ یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ٹلیں گی اور تبشیر کے نشانوں کو پالینا یہی فوز عظیم ہے (یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہیٰ مقام تک پہنچا دیتا ہے)۔
اب جاننا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں جو معترض نے بصورت اعتراض پیش کی ہے صرف تخویف کے نشانوں کا ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ آیت ۱سے ظاہر ہو رہا ہے۔ کیونکہ اگر خدائے تعالیٰ کے کل نشانوں کو قہری نشانوں میں ہی محصور سمجھ کر اس آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ ہم تمام نشانوں کو محض تخویف کی غرض سے ہی بھیجا کرتے ہیں اور کوئی دوسری غرض نہیں ہوتی۔ تو یہ معنی بہ بداہت باطل ہیں۔ جیسا کہ ابھی بیان ہوچکا ہے کہ نشان دو غرضوں سے بھیجے جاتے ہیں یا تخویف کی غرض سے یا تبشیر کی غرض سے۔ انہیں دو قسموں کو قرآن شریف اور بائیبل بھی جا بجا ظاہر کر رہی ہے۔ پس جب کہ نشان دو قسم ؔ کے ہوئے تو آیت ممدوحہ بالا میں جو لفظ الاٰیات ہے (جس کے معنی وہ نشانات) بہرحال اسی تاویل پر بصحت منطبق ہوگا کہ نشانوں سے قہری نشان مراد ہیں کیونکہ اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو پھر اس سے یہ لازم آتا ہے کہ تمام نشانات جو تحت قدرت الٰہی داخل ہیں۔ تخویف کی قسم میں ہی محصور ہیں حالانکہ فقط تخویف کی قسم میں ہی سارے نشانوں کا حصر سمجھنا سراسر خلاف واقعہ ہے کہ جو نہ کتاب اللہ کی رو سے اور نہ عقل کی رو سے اور نہ کسی پاک دل کے کانشنس کی رو سے درست ہو سکتا ہے۔
اب چونکہ اس بات کا صاف فیصلہ ہو گیا کہ نشانوں کی دو قسموں میں سے صرف
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 439
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 439
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/439/mode/1up
تخویف کے نشانوں کا آیات موصوفہ بالا میں ذکر ہے تو یہ دوسرا امر تنقیح طلب باقی رہا کہ کیا اس آیت کے (جو مَامَنَعَنَا الخ ہے) یہ معنی سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کا کوئی نشان خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر نہیں کیا یا یہ معنی سمجھنے چاہئیں کہ تخویف کے نشانوں میں سے وہ نشان ظاہر نہیں کئے گئے جو پہلی اُمتوں کو دکھلائے گئے تھے اور یا یہ تیسرے معنی قابل اعتبار ہیں کہ دونوں قسم کے تخویف کے نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ بجز اُن خاص قسم کے بعض نشانوں کے جن کوپہلی پہلی اُمتوں نے دیکھ کر جھٹلا دیا تھا اور ان کو معجزہ نہیں سمجھا تھا۔
سو واضح ہو کہ آیات متنازعہ فیہا پر نظر ڈالنے سے بتمام تر صفائی کھل جاتا ہے کہ پہلے اور دوسرے معنی کسی طرح درست نہیں۔ کیونکہ آیت ممدوحہ بالا کے یہ سمجھ لینا کہ تمام انواع و اقسام کے وہ تخویفی نشان جو ہم بھیج سکتے ہیں اور تمام وہ وراء الوراء تعذیبی نشان جن کے بھیجنے پر غیر محدود طور پر ہم قادر ہیں اس لئے ہم نے نہیں بھیجے کہ پہلی اُمتیں اُس کی تکذیب کر چکی ہیں۔ یہ معنے سراسر باطل ہیں۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ پہلی اُمتوں نے انہیں نشانوں کی تکذیب کی جو انہوں نے دیکھے تھے وجہ یہ کہ تکذیب کیلئے یہ ضرور ہے کہ جس چیز کی تکذیب کی جائے۔ اوّل اس کا مشاہدہ بھی ہو جائے۔ جس نشان کو ابھی دیکھا ہی نہیں اس کی تکذیب کیسی حالانکہ نادیدہ نشانوں میں سے ایسے اعلیٰ درجہ کے نشان بھی تحت قدرت باری تعالیٰ ہیں جس کی کوئی انسان تکذیب نہ کر سکے اور سب گردنیں اُن کی طرف جھک جائیں۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ ہر ایک رنگ کا نشان دکھلانے پر قادر ہے اور پھر چونکہ نشان ہائے قدرت باری غیر محدود اور غیرؔ متناہی ہیں تو پھر یہ کہنا کیونکر درست ہو سکتا ہے کہ محدود زمانہ میں وہ سب دیکھے بھی گئے اور ان کی تکذیب بھی ہوگئی۔ وقت محدود میں تو وہی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 440
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 440
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/440/mode/1up
چیز دیکھی جائے گی جو محدود ہوگی۔ بہرحال اس آیت کے یہی معنی صحیح ہوں گے کہ جو بعض نشانات پہلے کفّار دیکھ چکے تھے اور ان کی تکذیب کر چکے تھے۔ ان کا دوبارہ بھیجنا عبث سمجھا گیا۔ جیسا کہ قرینہ بھی انہیں معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی اس موقعہ پر جو ناقہ ثمود کا خدائے تعالیٰ نے ذکر کیا ہے وہ ذکر ایک بھاری قرینہ اس بات پر ہے کہ اس جگہ گذشتہ اور ردّ کردہ نشانات کا ذکر ہے جو تخویف کے نشانوں میں سے تھے اور یہی تیسرے معنی ہیں جو صحیح اور درست ہیں۔
پھر اس جگہ ایک اور بات منصفین کے سوچنے کے لائق ہے جس سے اُن پر ظاہر ہوگا کہ آیت الخ ۱ سے ثبوت معجزات ہی پایا جاتا ہے نہ نفی معجزات کیونکہ الاٰیٰتکے لفظ پر جو الف لام واقعہ ہے وہ بموجب قواعد نحو کے دو صورتوں سے خالی نہیں۔ یا کل کے معنے دے گا یا خاص کے اگر کل کے معنے دے گا تو یہ معنے کئے جائیں گے کہ ہمیں کل معجزات کے بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر اگلوں کا ان کو جھٹلانا اور اگر خاص کے معنی دے گا تو یہ معنی ہونگے کہ ہمیں ان خاص نشانیوں کے بھیجنے سے (جنہیں منکر طلب کرتے ہیں) کوئی امر مانع نہیں ہوا مگر یہ کہ ان نشانیوں کو اگلوں نے توجھٹلایا۔ بہرحال ان دونوں صورتوں میں نشانوں کا آنا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ معنی ہوں کہ ہم نے ساری نشانیاں بوجہ تکذیب اُممِ گذشتہ نہیں بھیجیں تو اس سے بعض نشانوں کا بھیجنا ثابت ہوتا ہے جیسے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے اپنا سارا مال زید کو نہیں دیا تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کچھ حصہ اپنے مال کا زید کو ضرور دیا ہے اور اگر یہ معنے لیں کہ بعض خاص نشان ہم نے نہیں بھیجے تو بھی بعض دیگر کا بھیجنا ثابت ہے۔ مثلاً اگر کوئی کہے کہ بعض خاص چیزیں میں نے زید کو نہیں دیں تو اس سے صاف پایا جائے گا کہ بعض دیگر
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 441
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 441
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/441/mode/1up
ضرور دی ہیں۔ بہرحال جو شخص اوّل اس آیت کے سیاق و سباق کی آیتوں کو دیکھے کہ کیسی وہ دونوں طرف سے عذاب کے نشانوں کا قصہ بتلا رہی ہیں اور پھر ایک دوسری نظر اُٹھاوے اور خیال کرے کہ کیا یہ معنی صحیح اور قرین قیاس ہیں کہ خدائے تعالیٰ کے تمام نشانوں اور عجائب کاموں کی جو اس کی بے انتہا قدرت سے وقتاً فوقتاً پیدا ؔ ہونے والے اور غیر محدود ہیں پہلے لوگ اپنے محدود زمانہ میں تکذیب کرچکے ہوں۔ اور پھر ایک تیسری نظر منصفانہ سے کام لے کر سوچے کہ کیا اس جگہ تخویف کے نشانوں کا ایک خاص بیان ہے یا تبشیر اور رحمت کے نشانوں کا بھی کچھ ذکر ہے اور پھر ذرا چوتھی نگاہ اَ لْآیات کے ا ل پر بھی ڈال دیوے کہ وہ کن معنوں کا افادہ کر رہا ہے تو اس چار طور کی نظر کے بعد بجز اس کے کہ کوئی تعصب کے باعث حق پسندی سے بہت دور جا پڑا ہو ہر ایک شخص اپنے اندر سے نہ ایک شہادت بلکہ ہزاروں شہادتیں پائے گا کہ اس جگہ نفی کا حرف صرف نشانوں کی ایک قسم خاص کی نفی کیلئے آیا ہے جس کا دوسری اقسام پر کچھ اثر نہیں بلکہ اس سے ان کا متحقق الوجود ہونا ثابت ہو رہا ہے اور ان آیات میں نہایت صفائی سے اللہ جل شانہٗ بتلا رہا ہے کہ اس وقت تخویفی نشان جن کی یہ لوگ درخواست کرتے ہیں صرف اس وجہ سے نہیں بھیجے گئے کہ پہلی اُمتیں ان کی تکذیب کر چکی ہیں۔ سو جونشان پہلے ردّ کئے گئے اب بار بار انہیں کو نازل کرنا کمزوری کی نشانی ہے اور غیر محدود قدرتوں والے کی شان سے بعید۔ پس ان آیات میں یہ صاف اشارہ ہے کہ عذاب کے نشان ضرورنازل ہوں گے مگر اور رنگوں میں۔ یہ کیا ضرورت ہے کہ وہی نشان حضرت موسیٰ ؑ کے یا وہی نشان حضرت نوحؑ اور قوم لوط اور عاد اور ثمود کے ظاہر کئے جائیں۔ چنانچہ ان آیات کی تفصیل دوسری آیات میں زیادہ تر کی گئی ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 442
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 442
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/442/mode/1up
َ ۱۱ یعنی یہ لوگ تمام نشانوں کو دیکھ کر ایمان نہیں لاتے۔ پھر جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھ سے لڑتے ہیں اور جب کوئی نشان پاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم کبھی نہیں مانیں گے۔ جب تک ہمیں خود ہی وہ باتیں حاصل نہ ہوں جو رسولوں کو ملتی ہیں۔ کہہ میں کامل ثبوت لے کر اپنے ربّ کی طرف سے آیا ہوں اور تم اس ثبوت کو دیکھتے ہو اور پھر تکذیب کر رہے ہو۔ جس چیز کو تم جلدی سے مانگتے ہو (یعنی عذاب) وہ تو میرے اختیار میں نہیں۔ حکم اخیر صادر کرنا تو خدا ہی کا منصب ہے، وہی حق کو کھول دے گا اور وہی خیر الفاصلین ہے جو ایک دن میرا اور تمہارا فیصلہ کر دے گا۔ خدا نے میری رسالت پر روشن نشان تمہیں
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 443
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 443
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/443/mode/1up
دیئے ہیں۔ سو جو ان کو شناخت کرے اُس نے اپنے ہی نفس کو فائدہ پہنچایا اور جو اندھا ہو جائے اس کا وبال بھی اسی پر ہے میں تو تم پر نگہبان نہیں۔اور تجھ سے عذاب کیلئے جلدی کرتے ہیں ۔کہہ وہی پروردگار اس بات پر قادر ہے کہ اوپر سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے کوئی عذاب تم پر بھیجے اور چاہے تو تمہیں دو فریق بنا کرایک فریق کی لڑائی کا دوسرے کو مزا چکھا دے اور یہ کہ سب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں۔ وہ تمہیں ایسے نشان دکھائے گا جنہیں تم شناخت کر لو گے اور کہہ تمہارے لئے ٹھیک ٹھیک ایک برس کی میعاد ہے* نہ اس سے تم تاخیر کر سکو گے نہ تقدیم۔ اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ بات ہے۔ کہہ ہاں مجھے قسم ہے اپنے ربّ کی کہ یہ سچ ہے اور تم خدا ئے تعالیٰ کو اس کے وعدوں سے روک نہیں سکتے۔ ہم عنقریب ان کواپنے نشان دکھلائیں گے۔ ان کے ملک کے اردگرد میں اور خود اُن میں بھی یہاں تک کہ اُن پر کھل جائے گا کہ یہ نبی سچا ہے۔ انسان کی فطرت میں جلدی ہے میں عنقریب تمہیں اپنے نشان دکھلاؤں گا سو تم مجھ سے جلدی تو مت کرو۔
اب دیکھو کہ ان آیات میں نشان مطلوبہ کے دکھلانے کے بارے میں کیسے صاف اور پختہ وعدے دیئے گئے ہیں یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ ایسے کھلے کھلے نشان دکھلاؔ ئے جائیں گے کہ تم ان کو شناخت کر لو گے اور اگر کوئی کہے کہ یہ تو ہم نے مانا کہ عذاب کے نشانوں کے بارے میں جابجا قرآن شریف میں وعدے دیئے گئے ہیں کہ وہ ضرور کسی دن دکھلائے جائیں گے اور یہ بھی ہم نے تسلیم کیا کہ وہ سب وعدے اس زمانہ میں پورے بھی ہوگئے کہ جب کہ خدائے تعالیٰ نے اپنی خداوندی قدرت دکھلا کر مسلمانوں کی کمزوری اور
* یوم سے مراد اس جگہ برس ہے۔ چنانچہ بائیبل میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے سو پورے برس کے بعد بدر کی لڑائی کا عذاب مکہ والوں پر نازل ہوا۔ جو پہلی لڑائی تھی۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 444
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 444
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/444/mode/1up
ناتوانی کو دور کر دیا اور معدودے چند سے ہزار ہا تک ان کی نوبت پہنچا دی اور ان کے ذریعہ سے ان تمام کفّار کو تہ تیغ کیا جو مکہ میں اپنی سرکشی اور جو رو جفا کے زمانہ میں نہایت تکبر سے عذاب کا نشان مانگا کرتے تھے لیکن اس بات کا ثبوت قرآن شریف سے کہاں ملتا ہے کہ بجز اُن نشانوں کے اور بھی نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے تھے سو واضح ہو کہ نشانوں کے دکھلانے کا ذکر قرآن شریف میں جا بجا آیا ہے بعض جگہ اپنے پہلے نشانوں کا حوالہ بھی دیا ہے دیکھو آیت ۱ الجز و نمبر۷ سورۂ انعام بعض جگہ کفّار کی ناانصافی کا ذکر کر کے ان کا اس طور کا اقرار درج کیا ہے کہ وہ نشانوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ وہ جادو ہے۔ دیکھو آیت ۲ الجزو نمبر۲۷ سورۃ القمر بعض جگہ جو نشانوں کے دیکھنے کا صاف اقرار منکرین نے کر دیا ہے وہ شہادتیں ان کی پیش کی ہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے ۳ یعنی انہوں نے رسول کے حق ہونے پر گواہی دی اور کھلے کھلے نشان ان کو پہنچ گئے اور بعض جگہ بعض معجزات کو بتصریح بیان کر دیا ہے جیسے معجزہ شق القمر جو ایک عظیم الشان معجزہ اور خدائی قدرت کا ایک کامل نمونہ ہے، جس کی تصریح ہم نے کتاب سرمہ چشم آریہ میں بخوبی کر دی ہے جو شخص مفصل دیکھنا چاہے اس میں دیکھ سکتا ہے۔ اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خود تراشیدہ نشان مانگا کرتے تھے اکثر وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانوں کے آخر کار گواہ بھی بن گئے تھے کیونکہ آخر وہی لوگ تو تھے جنہوں نے مشرف باسلام ہو کر دین اسلام کو مشارق و مغارب میں پھیلایا اور نیز معجزات اور پیشگوئیوں کے بارے میں کتب احادیث میں اپنی رویت کی شہادتیں قلمبند کرائیں پس اس زمانہ میں ایک عجیب طرز ہے کہ ان بزرگان دین کے اس زمانہ جاہلیت کے انکاروں کو
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 445
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 445
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/445/mode/1up
بار بار پیش کرتے ہیں جن سے بالآخر خود وہ دست کش اور تائب ہوگئے تھے لیکن اُن کی اُن شہادتوں کو نہیں مانتے جو راہ راست پر آنے کے بعد انہوں نے پیش کی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو چاروں طرف سے چمک رہے ہیں وہ کیونکر چھپ سکتے ہیں صرف معجزات جو صحابہ کی شہادتوں سے ثابت ہیں وہ تین ہزار معجزہ ہے اور پیشؔ گوئیاں تو شاید دس ہزار سے بھی زیادہ ہوں گی جو اپنے وقتوں پر پوری ہوگئیں اور ہوتی جاتی ہیں۔ ماسوائے اس کے بعض معجزات و پیشگوئیاں قرآن شریف کی ایسی ہیں کہ وہ ہمارے لئے بھی جو اس زمانہ میں مشہود و محسوس کا حکم رکھتی ہیں اور کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا چنانچہ وہ یہ ہیں۔
(۱) عذابی نشان کا معجزہ جو اس وقت کے کفّار کو دکھلایا گیا تھا یہ ہمارے لئے بھی فی الحقیقت ایسا ہی نشان ہے جس کو چشم دید کہنا چاہئے۔ وجہ یہ کہ یہ نہایت یقینی مقدمات کا ایک ضروری نتیجہ ہے جس سے کوئی موافق اور مخالف کسی صورت سے انکار نہیں کر سکتا۔ اوّل یہ مقدمہ جو بطور بنیاد معجزہ کے ہے نہایت بدیہی اور مسلّم الثبوت ہے کہ یہ عذابی نشان اس وقت مانگا گیا تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور چند رفیق آنجناب کے مکہ میں دعوت حق کی وجہ سے خود صدہا تکالیف اور دردوں اور دکھوں میں مبتلا تھے اور وہ ایام دین اسلام کے لئے ایسے ضعف اور کمزوری کے دن تھے کہ خود کفّارِ مکہ ہنسی اور ٹھٹھے کی راہ سے مسلمانوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم حق پر ہو تو اس قدر عذاب اور مصیبت اور دکھ اور درد ہمارے ہاتھ سے کیوں تمہیں پہنچ رہا ہے اور وہ خدا جس پر تم بھروسہ کرتے ہو وہ کیوں تمہاری مدد نہیں کرتا اور کیوں تم ایک قدر قلیل جماعت ہو جو عنقریب نابود ہونے والی ہے اور اگر تم سچے ہو تو کیوں ہم پر عذاب نازل نہیں ہوتا؟ ان سوالات کے جواب میں جو کچھ کفّار کو قرآن شریف کے متفرق مقامات میں ایسے زمانہ تنگی و تکالیف میں کہا گیا وہ دوسرا
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 446
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 446
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/446/mode/1up
مقدمہ اس پیشگوئی کی عظمت شان سمجھنے کیلئے ہے کیونکہ وہ زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ پر ایسا نازک زمانہ تھا کہ ہر وقت اپنی جان کا اندیشہ تھا اور چاروں طرف ناکامی ُ منہ دکھلا رہی تھی سو ایسے زمانہ میں کفّار کو اُن سے عذابی نشان مانگنے کے وقت صاف صاف طور پر یہ کہا گیا تھا کہ عنقریب تمہیں اسلام کی فتح مندی اور تمہارے سزایاب ہونے کا نشان دکھلایا جائے گا اور اسلام جو اب ایک تخم کی طرح نظر آتا ہے کسی دن ایک بزرگ درخت کی مانند اپنے تئیں ظاہر کرے گا اور وہ جو عذاب کا نشان مانگتے ہیں وہ تلوار کی دھار سے قتل کئے جائیں گے اور تمام جزیرہ عرب کفر اور کافروں سے صاف کیا جائے گا اور تمام عرب کی حکومت مومنوں کے ہاتھ میں آ جائے گی اور خدا ئے تعالیٰ دین اسلام کو عرب کے ملک میں ایسے طور سے جمادے گا کہ پھر بت پرستی کبھی پیدا نہیں ہوگی اور حالت موجودہ جو خوف کی حالت ہے بکلّی امن کے ساتھ بدل جائے گی اور اسلام قوت پکڑے گا اور غالب ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ دوسرے ملکوں پر اپنی نصرت اور فتح کا سایہ ڈالے گا اور دور دور تک اس کی فتوحات پھیل جائیں گی اور ایک بڑی بادشاہت قائم ہو جائے گی جس کا اخیر دنیا تک زوال نہیں ہوگا۔
اب جو شخص پہلے ان دونوں مقدمات پر نظر ڈال کر معلوم کر لیوے کہ وہ زمانہ جس میں یہ پیشگوئی کی گئی، اسلاؔ م کے لئے کیسی تنگی اور ناکامی اور مصیبت کا زمانہ تھا اور جو پیشگوئی کی گئی وہ کس قدر حالت موجودہ سے مخالف اور خیال اور قیاس سے نہایت بعید بلکہ صریح محالات عادیہ سے نظر آتی تھی۔ پھر بعد اس کے اسلام کی تاریخ پر جو دشمنوں اور دوستوں کے ہاتھ میں موجود ہے ایک منصفانہ نظر ڈالے کہ کیسی صفائی سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی اور کس قدر دلوں پر ہیبت ناک اثر اس کا پڑا اور کیسے مشارق اور مغارب میں تمام تر قوت
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 447
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 447
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/447/mode/1up
اور طاقت کے ساتھ اس کا ظہور ہوا تو اس پیشگوئی کو یقینی اور قطعی طور پر چشم دید معجزہ قرار دے گا جس میں اس کو ایک ذرہ بھی شک و شبہ نہیں ہوگا۔
پھر دوسرا معجزہ قرآن شریف کاجو ہمارے لئے حکم مشہود و محسوس کا رکھتا ہے وہ عجیب و غریب تبدیلیاں ہیں جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ببرکت پیروی قرآن شریف و اثر صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ظہور میں آئیں۔ جب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ مشرف باسلام ہونے سے پہلے کیسے اور کس طریق اور عادت کے آدمی تھے اور پھر بعد شرف صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم و اتباع قرآن شریف کس رنگ میں آ گئے اور کیسے اخلاق میں، عقائد میں، چلن میں، گفتار میں، رفتار میں ،کردار میں اور اپنی جمیع عادات میں خبیث حالت سے منتقل ہو کر نہایت طیّب اور پاک حالت میں داخل کئے گئے تو ہمیں اس تاثیر عظیم کو دیکھ کر جس نے ان کے زنگ خوردہ وجودوں کو ایک عجیب تازگی اور روشنی اور چمک بخش دی تھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ یہ تصرف ایک خارقِ عادت تصرف تھا جو خاص خدائے تعالیٰ کے ہاتھ نے کیا۔ قرآن شریف میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ان کو مُردہ پایا اور زندہ کیا اور جہنم کے گڑھے میں گرتے دیکھا تو اُس ہولناک حالت سے چھڑایا۔ بیمار پایا اور اُنہیں اچھا کیا۔اندھیرے میں پایا انہیں روشنی بخشی۔ اور خدائے تعالیٰ نے اس اعجاز کے دکھلانے کے لئے قرآن شریف میں ایک طرف عرب کے لوگوں کی وہ خراب حالتیں لکھی ہیں جو اسلام سے پہلے وہ رکھتے تھے اور دوسری طرف ان کے وہ پاک حالات بیان فرمائے ہیں جو اسلام لانے کے بعد ان میں پیدا ہوگئے تھے کہ تا جو شخص ان پہلے حالات کو دیکھے جو کفر کے زمانہ میں تھے اور پھر مقابل اس کے وہ حالت پڑھے جو اسلام لانے کے بعد ظہور پذیر ہوگئی تو ان دونوں طور کے سوانح پر مطلع ہونے سے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 448
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 448
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/448/mode/1up
بہ یقینِ کامل سمجھ لیوے گا کہ یہ تبدیلی ایک خارق عادت تبدیلی ہے جسے معجزہ کہنا چاہئے۔
پھر تیسرا معجزہ قرآن شریف کا جو ہماری نظروں کے سامنے موجود ہے اس کے حقائق و معارف و لطائف ونکات ہیں جو اس کی بلیغ و فصیح عبارات میں بھرے ہوئے ہیں اس معجزہ کو قرآن شریف میں بڑی شدّومد سے بیان کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تمام جن و انس اکٹھے ہو کر اس کی نظیر بنانا چاہیں تو اُن کے لئے ممکن نہیں یہ معجزہ اس دلیل سے ثابت اور متحقق الوجود ہے کہ اس زمانہ تک کہ تیرہ سو برس سے زیادہ گزر رہا ہے باوجود یکہ قرآن شریف کی منادی دنیا کے ہر ایک نواح میں ہو رہی ہے اور بڑے زور سے ھَلْ مِنْ مُّعَارِضٍکا نقارہ بجایا جاتا ہے مگر کبھی کسی طرف سے آواز نہیں آئی۔ پس اس سے اسؔ بات کا صریح ثبوت ملتا ہے کہ تمام انسانی قوتیں قرآن شریف کے مقابلہ و معارضہ سے عاجز ہیں بلکہ اگر قرآن شریف کی صدہا خوبیوں میں سے صرف ایک خوبی کو پیش کر کے اس کی نظیر مانگی جائے تو انسان ضعیف البنیان سے یہ بھی ناممکن ہے کہ اس ایک جزو کی نظیر پیش کر سکے مثلاً قرآن شریف کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی خوبی ہے کہ وہ تمام معارف دینیہ پر مشتمل ہے اور کوئی دینی سچائی جو حق اور حکمت سے تعلق رکھتی ہے، ایسی نہیں جو قرآن شریف میں پائی نہ جاتی ہو مگر ایسا شخص کون ہے کہ کوئی دوسری کتاب ایسی دکھلائے جس میں یہ صفت موجود ہو اور اگر کسی کو اس بات میں شک ہو کہ قرآن شریف جامع تمام حقائق دینیہ ہے تو ایسا مشکک خواہ عیسائی ہو خواہ آریہ اور خواہ برہمو ہو، خواہ دہریہ اپنی طرز اور طور پر امتحان کر کے اپنی تسلی کرا سکتا ہے اورہم تسلی کر دینے کے ذمہ دار ہیں۔ بشرطیکہ کوئی طالب حق ہماری طرف رجوع کرے۔ بائیبل میں جس قدر پاک صداقتیں ہیں یا حکماء کی کتابوں میں جس قدر حق اور حکمت کی باتیں ہیں جن پر ہماری نظر پڑی ہے یا ہندوؤں کے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 449
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 449
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/449/mode/1up
وید وغیرہ میں جو اتفاقاً بعض سچائیاں درج ہوگئی ہیں یا باقی رہ گئی ہیں جن کو ہم نے دیکھا ہے یا صوفیوں کی صدہاکتابوں میں جو حکمت و معرفت کے نکتے ہیں جن پر ہمیں اطلاع ہوئی ہے اُن سب کو ہم قرآن شریف میں پاتے ہیں اور اس کامل استقراء سے جو تیس برس کے عرصہ سے نہایت عمیق اور محیط نظر کے ذریعہ سے ہم کو حاصل ہے، نہایت قطع اور یقین سے ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ کوئی روحانی صداقت جو تکمیل نفس اور دماغی اور دلی قویٰ کی تربیت کے لئے اثر رکھتی ہے ایسی نہیں جو قرآن شریف میں درج نہ ہو اور یہ صرف ہمارا ہی تجربہ نہیں بلکہ یہی قرآن شریف کا دعویٰ بھی ہے جس کی آزمائش نہ فقط میں نے بلکہ ہزار ہا علماء ابتداء سے کرتے آئے اور اس کی سچائی کی گواہی دیتے آئے ہیں۔
پھر چوتھا معجزہ قرآن شریف کا اس کی روحانی تاثیرات ہیں جو ہمیشہ اس میں محفوظ چلی آتی ہیں یعنی یہ کہ اس کی پیروی کرنے والے قبولیت الٰہی کے مراتب کو پہنچتے ہیں اور مکالماتِ الٰہیہ سے مشرف کئے جاتے ہیں۔ خدا ئے تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور انہیں محبت اور رحمت کی راہ سے جواب دیتا ہے اور بعض اسرارِ غیبیہ پر نبیوں کی طرح ان کو مطلع فرماتا ہے اور اپنی تائید اور نصرت کے نشانوں سے دوسری مخلوقات سے انہیں ممتاز کرتا ہے یہ بھی ایسا نشان ہے کہ جو قیامت تک اُمت محمدیہ میں قائم رہے گا اور ہمیشہ ظاہر ہوتا چلا آیا ہے اور اب بھی موجود اور متحقق الوجود ہے۔ مسلمانوں میں سے ایسے لوگ اب بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ جن کو اللہ جلّشانہٗ اپنی تائیداتِ خاصہؔ سے مؤیَّد فرما کر الہامات صحیحہ و صادقہ و مبشرات و مکاشفات غیبیہ سے سرفراز فرماتا ہے۔
اب اے حق کے طالبو اور سچے نشانوں کے بھوکو اور پیاسو! انصاف سے دیکھو اور ذرا پاک نظر سے غور کرو کہ جن نشانوں کا خدا ئے تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے کس
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 450
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 450
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/450/mode/1up
اعلیٰ درجہ کے نشان ہیں اور کیسے ہر زمانے کیلئے مشہود و محسوس کا حکم رکھتے ہیں۔ پہلے نبیوں کے معجزات کا اب نام و نشان باقی نہیں، صرف قصے ہیں۔ خدا جانے ان کی اصلیت کہاں تک درست ہے۔ بالخصوص حضرت مسیحؑ کے معجزات جو انجیلوں میں لکھے ہیں باوجود قصوں اور کہانیوں کے رنگ میں ہونے کے اور باوجود بہت سے مبالغات کے جو اُن میں پائے جاتے ہیں۔ ایسے شکوک و شبہات ان پر وارد ہوتے ہیں کہ جن سے انہیں بکلّی صاف و پاک کر کے دکھلانا بہت مشکل ہے۔ اور اگر ہم فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں کہ جو کچھ اناجیل مروجہ میں حضرت مسیح کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ لولے اور لنگڑے اور مفلوج اور اندھے وغیرہ بیمار ان کے چھونے سے اچھے ہو جاتے تھے۔ یہ تمام بیان بلامبالغہ ہے اور ظاہر پر ہی محمول ہے کوئی اور معنی اس کے نہیں۔ تب بھی حضرت مسیح کی ان باتوں سے کوئی بڑی خوبی ثابت نہیں ہوتی۔ اوّل تو انہیں دنوں میں ایک تالاب بھی ایسا تھا کہ اس میں ایک وقت خاص میں غوطہ مارنے سے ایسی سب مرضیں فی الفوردور ہو جاتی تھیں جیسا کہ خود انجیل میں مذکور ہے پھر ماسوائے اس کے زمانہ دراز کی تحقیقاتوں نے اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ ملکہ سلب امراض منجملہ علوم کے ایک علم ہے جس کے اب بھی بہت لوگ مشاق پائے جاتے ہیں۔ جس میں شدت توجہ اور دماغی طاقتوں کے خرچ کرنے اور جذب خیال کا اثر ڈالنے کی مشق درکار ہے۔ سو اس علم کو نبوت سے کچھ علاقہ نہیں بلکہ مردِ صالح ہو نا بھی اس کے لئے ضروری نہیں اور قدیم سے یہ علم رائج ہوتا چلا آیا ہے۔ مسلمانوں میں بعض اکابر جیسے محی الدین( ابن) عربی صاحب فصوص اور بعض نقشبندیوں کے اکابر اس کام میں مشاق گزرے ہیں۔ ایسے کہ ان کے وقت میں ان کی نظیر پائی نہیں گئی بلکہ بعض کی نسبت ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی کامل توجہ سے باذنہٖ تعالیٰ تازہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 451
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 451
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/451/mode/1up
مردوں سے باتیں کر کے دکھلا دیتے تھے*ؔ اور دو دو تین تین سَو بیماروں کو اپنے دائیں بائیں بٹھلا کر ایک ہی نظر سے تندرست کر دیتے تھے اور بعض جو مشق میں کچھ کمزورتھے وہ ہاتھ لگا کر یا بیمار کے کپڑے کو چھو کر شفا بخشتے تھے۔ اس مشق میں عامل عمل کے وقت کچھ ایسا احساس کرتا ہے کہ گویا اس کے اندر سے بیمار پر اثر ڈالنے کے وقت ایک قوت نکلتی ہے اور بسا اوقات بیمار کو بھی یہ مشہود ہوتا ہے کہ اس کے اندر سے ایک زہر یلا مادہ حرکت کر کے سفلی اعضا کی طرف اُترتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ بکلّی منعدم ہو جاتا ہے۔ اس علم میں اسلام میں بہت سی تالیفیں موجود ہیں اور میں خیال کرتا ہوں کہ ہندوؤں میں بھی اس کی کتابیں ہونگی۔ حال میں جو انگریزوں نے فن مسمریزم نکالا ہے حقیقت میں وہ بھی اسی علم کی ایک شاخ ہے۔ انجیل پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کو بھی کسی قدر اس علم میں مشق تھی مگر کامل نہیں تھے۔ اس وقت کے لوگ سادہ اور اس علم سے بے خبر تھے۔ اسی وجہ سے اس زمانہ میں یہ عمل اپنی حد سے زیادہ قابل تعریف سمجھا گیا تھا مگر پیچھے سے جوں جوں اس علم کی حقیقت کھلتی گئی لوگ اپنے علوّ اعتقاد سے تنزل کرتے گئے۔ یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ ایسی مشقوں سے بیماروں کو چنگا کرنایامجنونوں کو شفا بخشنا کچھ بھی کمال کی بات نہیں بلکہ اس میں ایماندار ہونا بھی ضرور ی نہیں۔ چہ جائیکہ نبوت یا ولایت پر یہ دلیل ہو سکے۔ ان کا یہ بھی قول ہے کہ عمل سلبِ امراض بدنیہ کی کامل مشق اور اُسی شغل میں دن رات اپنے تئیں ڈالے رکھنا روحانی ترقی کیلئے سخت مضر ہے اور ایسے شخص کے ہاتھ سے
* تازہ مردوں کا عمل توجہ سے چند منٹ یا چند گھنٹوں کیلئے زندہ ہو جانا قانون قدرت کے منافی نہیں جس حالت میں ہم بچشم خود دیکھتے ہیں کہ بعض جاندار مرنے کے بعد کسی دوا سے زندہ ہو جاتے ہیں تو پھر انسان کا زندہ ہونا کیا مشکل اور کیوں دور از قیاس ہے۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 452
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 452
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/452/mode/1up
روحانی تربیت کا کام بہت ہی کم ہوتا ہے اور قوتِ منوّرہ اُس کے قلب کی بغایت درجہ گھٹ جاتی ہے۔ خیال ہو سکتا ہے کہ اسی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام اپنی روحانی تربیت میں بہت کمزور نکلے جیسا کہ پادری ٹیلر صاحب جو باعتبار عہدہ و نیز بوجہ لیاقت ذاتی کے ایک ممتاز آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ وہ نہایت افسوس سے لکھتے ہیں کہ مسیحؑ کی روحانی تربیت بہت ضعیف اور کمزور ثابت ہوتی ہے اور اُن کے صحبت یافتہ لوگ جو حواریوں کے نام سے موسوم تھے اپنے روحانی تربیت یافتہ ہونے میں اور انسانی قوتوں کی پوری تکمیل سے کوئی اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھلا نہ سکے۔ (کاش حضرت مسیح نے اپنے ظاہرؔ ی شغل سلبِ امراض کی طرف کم توجہ کی ہوتی اور وہی توجہ اپنے حواریوں کی باطنی کمزوریوں اور بیماریوں پر ڈالتے خاص کر یہودا اسکریوطی پر) اس جگہ صاحب موصوف یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابہ کے مقابلہ پر حواریوں کی روحانی تربیت یابی اور دینی استقامت کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں افسوس کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح کے حواری روحانی طور پر تربیت پذیر ہونے میں نہایت ہی کچے اور پیچھے رہے ہوئے تھے اور ان کے دماغی اور دلی قویٰ کو حضرت مسیح کی صحبت نے کوئی ایسی توسیع نہیں بخشی تھی جو صحابہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقابل تعریف ہو سکے بلکہ حواریوں کی قدم قدم میں بزدلی، سست اعتقادی، تنگدلی ‘ دنیا طلبی، بیوفائی ثابت ہوتی تھی۔ مگر صحابہؓ نبی عربی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے وہ صدق وفا ظہور میں آیا جس کی نظیر کسی دوسرے نبی کے پیروؤں میں ملنا مشکل ہے سو یہ اس روحانی تربیت کا جو کامل طور پر ہوئی تھی اثر تھا جس نے اُن کو بکلّی مبدّل کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیا تھا۔ اسی طرح بہت سے دانشمند انگریزوں نے حال میں ایسی کتابیں تالیف کی ہیں کہ جن میں اُنہوں نے اقرار کر لیا ہے کہ اگر ہم نبی عربی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 453
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 453
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/453/mode/1up
(صلی اللہ علیہ وسلم) کی حالت رجوع الی اللہ و توکّل و استقامت ذاتی و تعلیم کامل و مطہر و القائے تاثیر و اصلاح خلق کثیر از مفسدین و تائیدات ظاہری و باطنی قادر مطلق کو ان معجزات سے الگ کر کے بھی دیکھیں جو بمدمنقول ان کی نسبت بیان کی جاتی ہیں تب بھی ہمارا انصاف اس اقرار کے لئے ہمیں مجبور کرتا ہے کہ یہ تمام امور جو اُن سے ظہور میں آئے یہ بھی بلاشبہ فوق العادت اور بشری طاقتوں سے بالاتر ہیں اور نبوت صحیحہ صادقہ کے شناخت کرنے کیلئے قوی اور کافی نشان ہیں۔ کوئی انسان جب تک اس کے ساتھ خدائے تعالیٰ نہ ہو کبھی ان سب باتوں میں کامل اور کامیاب نہیں ہو سکتا اور نہ ایسی غیبی تائیدیں اُس کے شامل ہوتی ہیں۔
تیسرے سوال کا جواب
جن خیالات کو عیسائی صاحب نے اپنی عبارت میں بصورت اعتراض پیش کیا ہے وہ درحقیقت اعتراض نہیں ہیں بلکہ وہ تین غلط فہمیاں ہیں جو بوجہ قلّتِ تدبیرؔ اُن کے دل میں پیدا ہوگئی ہیں۔ ذیل میں ہم ان غلط فہمیوں کو دُور کرتے ہیں۔
پہلی غلط فہمی کی نسبت جواب یہ ہے کہ نبی برحق کی یہ نشانی ہرگز نہیں ہے کہ خدا ئے تعالیٰ کی طرح ہر ایک مخفی بات کا بالاستقلال اس کو علم بھی ہو بلکہ اپنے ذاتی اقتدار اور اپنی ذاتی خاصیت سے عالم الغیب ہونا خدائے تعالیٰ کی ذات کا ہی خاصہ ہے۔ قدیم سے اہل حق حضرت واجب الوجود کے علم غیب کی نسبت وجوبِ ذاتی کا عقیدہ رکھتے ہیں اور دوسرے تمام ممکنات کی نسبت امتناعِ ذاتی اور امکان بالواجب عزّاسمہٗ کا عقیدہ ہے۔ یعنی یہ عقیدہ کہ خدائے تعالیٰ کی ذات کے لئے عالم الغیب ہونا واجب ہے اور اس کی ہَوِیّتِ حقّہ کی یہ ذاتی خاصیت ہے کہ عالم الغیب ہو مگر ممکنات کے جو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت ہیں اس صفت میں اور ایسا ہی دوسری صفات میں شراکت بحضرت باری عزّاِسمہٗ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 454
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 454
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/454/mode/1up
جائز نہیں اور جیسا ذات کی رو سے شریک الباری ممتنع ہے ایسا ہی صفات کی رو سے بھی ممتنع ہے۔ پس ممکنات کیلئے نظراً علٰی ذاتہم عالم الغیب ہونا ممتنعات میں سے ہے۔ خواہ نبی ہوں یامحدّ ث ہوں یا ولی ہوں، ہاں الہام الٰہی سے اسرار غیبیہ کو معلوم کرنا یہ ہمیشہ خاص اور برگزیدہ کو حصّہ ملتا رہا ہے اور اب بھی ملتا ہے جس کو ہم صرف تابعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں پاتے ہیں نہ کسی اور میں۔ عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ وہ کبھی کبھی اپنے مخصوص بندوں کو اپنے بعض اَسرارِ خاصہ پر مطلع کر دیتا ہے اور اوقات مقررہ اور مقدرہ میں رشحِ فیض غیب ان پر ہوتا ہے بلکہ کامل مقرب اللہ اسی سے آزمائے جاتے ہیں اور شناخت کئے جاتے ہیں کہ بعض اوقات آیندہ کی پوشیدہ باتیں یا کچھ چھپے اَسرار اُنہیں بتلائے جاتے ہیں مگر یہ نہیں کہ ان کے اختیار اور ارادہ اوراقتدار سے بلکہ خدا ئے تعالیٰ کے ارادہ اور اختیار اور اقتدار سے یہ سب نعمتیں انہیں ملتی ہیں۔
وہ جو اس کی مرضی پر چلتے ہیں اور اُسی کے ہو رہتے اور اسی میں کھوئے جاتے ہیں اس خیرمحض کی ان سے کچھ ایسی ہی عادت ہے کہ اکثر ان کی سنتا اور اپنا گزشتہ فعل یا آئندہ کا منشاء بسا اوقات ان پر ظاہر کر دیتا ہے۔ مگر بغیر اعلامِ الٰہی انہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا وہ اگرچہ خدائے تعالیٰ کے مقرب تو ہوتے ہیں مگر خدا تو نہیں ہوتے سمجھائے سمجھتے ہیں، بتلائے جانتے ہیں، دکھلائے دیکھتے ہیں‘ بلائے بولتے ہیں اور اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں ہوتے۔ جبؔ طاقت عظمیٰ انہیں اپنے الہام کی تحریک سے بلاتی ہے تو وہ بولتے ہیں اورجب دکھلاتی ہے تو دیکھتے ہیں اور جب سناتی ہے تو سنتے ہیں اور جب تک خدائے تعالیٰ ان پر کوئی پوشیدہ بات ظاہر نہیں کرتا تب تک انہیں اس بات کی کچھ بھی خبر نہیں ہوتی۔ تمام نبیوں کے حالات زندگی (لائف) میں اس کی شہادت پائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 455
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 455
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/455/mode/1up
کی طرف ہی دیکھو کہ وہ کیونکر اپنی لاعلمی کا آپ اقرار کرکے کہتے ہیں کہ اُس دن اور اس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں، نہ بیٹا، کوئی نہیں جانتا۔ باب۱۳۔ آیت ۳۲مرقس۔ اور پھر وہ فرماتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ نہیں کرتا (یعنی کچھ نہیں کر سکتا) مگر جو میرے باپ نے سکھلایا وہ باتیں کہتا ہوں۔ کسی کو راستبازوں کے مرتبہ تک پہنچانا میرے اختیار میں نہیں۔ مجھے کیوں نیک کہتا ہے نیک کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا۔مرقس۔ ۱
غرض کسی نبی نے بااقتدار یا عالم الغیب ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ دیکھو اس عاجز بندہ کی طرف جس کو مسیح کر کے پکارا جاتا ہے اور جسے نادان مخلوق پرستوں نے خدا سمجھ رکھا ہے کہ کیسے اس نے ہرمقام میں اپنے قول اور فعل سے ظاہر کر دیا کہ میں ایک ضعیف اور کمزور اور ناتواں بندہ ہوں اور مجھ میں ذاتی طور پر کوئی بھی خوبی نہیں اور آخری اقرار جس پر ان کا خاتمہ ہوا کیسا پیارے لفظوں میں ہے۔ چنانچہ انجیل میںیوں لکھا ہے کہ وہ یعنی مسیح (اپنی گرفتاری کی خبر پا کر) گھبرانے اور بہت دلگیر ہونے لگا اور ان سے (یعنی اپنے حواریوں سے) کہا کہ میر ی جان کا غم موت کا سا ہے اور وہ تھوڑا آگے جاکر زمین پر گر پڑا (یعنی سجدہ کیا) اور دعا مانگی کہ اگر ہوسکے تو یہ گھڑی مجھ سے ٹل جائے اور کہا کہ اے ابّا! اے باپ! سب کچھ تجھ سے ہو سکتا ہے۔ اس پیالہ کو مجھ سے ٹال دے۔ یعنی تو قادرِ مطلق ہے اور میں ضعیف اور عاجز بندہ ہوں۔ تیرے ٹالنے سے یہ بلا ٹل سکتی ہے اور آخر ایلی ایلی لما سبقتنی کہہ کر جان دی۔ جس کاترجمہ یہ ہے کہ ’’اے میرے خدا ! اے میرے خدا!! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔‘‘
اب دیکھئے کہ اگرچہ دعا تو قبول نہ ہوئی کیونکہ تقدیر مبرم تھی۔ ایک مسکین مخلوق کی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 456
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 456
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/456/mode/1up
خالق کے قطعی ارادہ کے آگے کیا پیش جاتی تھی۔ مگر حضرت مسیح نے اپنی عاجزی اور بندگی کے اقرار کو نہایت تک پہنچا دیا۔ اس امید سے کہ شاید قبول ہو جائے۔ اگر انہیں پہلے سے علم ہوتا کہ دعا ردّ کی جائے گی ہرگز قبول نہیں ہوگی تو وہ ساری راتؔ برابر فجر تک اپنے بچاؤ کے لئے کیوں دعا کرتے رہتے اور کیوں اپنے تئیں اور اپنے حواریوں کو بھی تقید سے اس لا حاصل مشقت میں ڈالتے۔
سو بقول معترض صاحب ان کے دل میں یہی تھا کہ انجام خدا کو معلوم ہے مجھے معلوم نہیں۔ پھر ایسا ہی حضرت مسیح کی بعض پیشگوئیوں کا صحیح نہ نکلنا دراصل اسی وجہ سے تھا کہ بباعث عدم علم براسرارِ مخفیہ اجتہادی طور پر تشریح کرنے میں اُن سے غلطی ہو جاتی تھی جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا کہ جب نئی خلقت میں ابن آدم اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا تم بھی (اے میرے بارہ حواریو) بارہ تختوں پر بیٹھو گے۔ دیکھو باب ۲۰۔ آیت ۲۸۔ متی۔
لیکن اسی انجیل سے ظاہر ہے کہ یہودا اسکریوطی اس تخت سے بے نصیب رہ گیا۔ اس کے کانوں نے تخت نشینی کی خبر سن لی مگر تخت پر بیٹھنا اُسے نصیب نہ ہوا اب راستی اور سچائی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت مسیح کو اس شخص کے مرتد اور بد عاقبت ہونے کا پہلے سے علم ہوتا تو کیوں اس کو تخت نشینی کی جھوٹی خوش خبری سناتے۔ ایسا ہی ایک مرتبہ آپ ایک انجیر کا درخت دور سے دیکھ کر انجیر کھانے کی نیت سے اس کی طرف گئے مگر جا کرجو دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس پر ایک بھی انجیر نہیں تو آپ بہت ناراض ہوئے اور غصہ کی حالت میں اس انجیر کو بددعا دی جس کا کوئی بد اثر انجیر پر ظاہر نہ ہوا۔ اگر آپ کو کچھ غیب کا علم ہوتا تو بے ثمر درخت کی طرف اس کا پھل کھانے کے ارادہ سے کیوں جاتے۔
ایسا ہی ایک مرتبہ آپ کے دامن کو ایک عورت نے چھوا تھا تو آپ چاروں طرف
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 457
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 457
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/457/mode/1up
پوچھنے لگے کہ کس نے میرا دامن چھوا ہے؟ اگر کچھ علم غیب سے حصہ ہوتا تو دامن چھونے والے کا پتہ معلوم کرنا تو کچھ بڑی بات نہ تھی ایک اور مرتبہ آ پ نے یہ پیشگوئی بھی کی تھی کہ اس زمانہ کے لوگ گزر نہ جائیں گے جب تک یہ سب کچھ (یعنی مسیح کا دوبارہ دنیا میں آنا اور ستاروں کا گرنا وغیرہ) واقع نہ ہووے لیکن ظاہر ہے کہ نہ اس زمانہ میں کوئی ستارہ آسمان کا زمین پر گرا اور نہ حضرت مسیح عدالت کیلئے دنیا میں آئے اور وہ صدی تو کیااس پر اٹھارہ صدیاں اور بھی گزر گئیں اور انیسویں گزرنے کو عنقریب ہے۔ سو حضرت مسیح کے علم غیب سے بے بہرہ ہونے کے لئے یہی چند شہادتیں کافی ہیں جو کسی اور کتاب سے نہیں بلکہ چاروں انجیلوں سے دیکھ کر ہم نے لکھی ہیں دوسرے اسرائیلی نبیوں کا بھی یہی حال ہے۔ حضرت یعقوب نبی ہی تھے مگر انہیں کچھ خبر ؔ نہ ہوئی کہ اُسی گاؤں کے بیابان میں میرے بیٹے پر کیا گزر رہا ہے۔ حضرت دانیال اس مدت تک کہ خدائے تعالیٰ نے بخت نصر کے رؤیا کی ان پر تعبیر کھول دی کچھ بھی علم نہیں رکھتے تھے کہ خواب کیا ہے اور اس کی تعبیر کیا ہے؟
پس اس تمام تحقیق سے ظاہر ہے کہ نبی کا یہ کہنا کہ یہ بات خدا کو معلوم ہے مجھے معلوم نہیں، بالکل سچ اور اپنے محل پر چسپاں اور سراسر اس نبی کا شرف اور اس کی عبودیت کا فخر ہے بلکہ ان باتوں سے اپنے آقائے کریم کے آگے اس کی شان بڑھتی ہے نہ یہ کہ اس کے منصب نبوت میں کچھ فتور لازم آتا ہے۔ ہاں اگر یہ تحقیق منظور ہو کہ خدائے تعالیٰ کے اعلام سے جو اسرار غیب حاصل ہوتے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر ہوئے تو میں ایک بڑا ثبوت اس بات کا پیش کرنے کیلئے تیار ہوں کہ جس قدر توریت و انجیل اور تمام بائیبل میں نبیوں کی پیشگوئیاں لکھی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیاں کَمًّا وَ کَیْفًا ہزار حصہ سے بھی ان سے زیادہ ہیں جن کی تفصیل احادیث نبویہ کی رو سے جو بڑی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 458
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 458
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/458/mode/1up
تحقیق سے قلم بند کی گئی ہیں، معلوم ہوتی ہے اور اجمالی طور پر مگر کافی اور اطمینان بخش اور نہایت مؤثر بیان قرآن شریف میں موجود ہے۔ پھر دیگر اہل مذاہب کی طرح مسلمانوں کے ہاتھ میں صرف قصہ ہی نہیں بلکہ وہ تو ہر صدی میں غیر قوموں کو کہتے رہے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ یہ سب برکات اسلام ہیں ہمیشہ کے لئے موجود ہیں۔ بھائیو! آؤ اوّل آزماؤ پھر قبول کرو۔ مگر اُن آوازوں کو کوئی نہیں سنتا۔ حجت الٰہی ان پر پوری ہے کہ ہم بلاتے ہیں وہ نہیں آتے اور ہم دکھاتے ہیں وہ نہیں دیکھتے۔ انہوں نے آنکھوں اور کانوں کو بکلّی ہم سے پھیر لیا تا نہ ہو کہ وہ سنیں اور دیکھیں اور ہدایت پاویں۔
دوسری غلط فہمی جو معترض نے پیش کی ہے یعنی یہ کہ اصحاب کہف کی تعداد کی بابت قرآن شریف میں غلط بیان ہے یہ نرا دعویٰ ہے۔ معترض نے اس بارے میں کچھ نہیں لکھا کہ وہ بیان کیوں غلط ہے اور اس کے مقابل پر صحیح کونسا بیان ہے اور اس کی صحت پر کون سے دلائل ہیں تا اس کے دلائل پر غور کی جائے اور جواب شافی دیا جائے۔ اگر معترض کو فرقانی بیان پر کچھ کلام تھا تو اس کے وجوہات پیش کرنی چاہئیں تھیں۔ بغیر پیش کرنے وجوہات کے یونہی غلط ٹھہرانا متلاشئ حق کا کام نہیں ہے۔
تیسرؔ ی غلط فہمی معترض کے دل میں یہ پیدا ہوئی ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ (جس کی سیر و سیاحت کا ذکر قرآن شریف میں ہے) سیر کرتا کرتا کسی ایسے مقام تک پہنچا جہاں اُسے سورج دلدل میں چھپتا نظر آیا۔ اب عیسائی صاحب مجاز سے حقیقت کی طرف رُخ کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سورج اتنا بڑا ہو کر ایک چھوٹے سے دلدل میں کیونکر چھپ گیا۔ یہ ایسی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ انجیل میں مسیح کو خدا کا برّہ لکھا ہے یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ برّہ تو وہ ہوتا ہے جس کے سر پر سینگ اور بدن پر پشم وغیرہ بھی ہو
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 459
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 459
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/459/mode/1up
اور چارپایوں کی طرح سرنگون چلتا اور وہ چیزیں کھاتا ہو جو برّے کھایا کرتے ہیں؟اے صاحب! آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ قرآن شریف نے واقعی طور پر سورج کے دلدل میں چھپنے کا دعوٰی کیا ہے۔ قرآن شریف تو فقط بمنصب نقل خیال اس قدر فرماتا ہے کہ اس شخص کو اس کی نگاہ میں دلدل میں سورج چھپتا ہوا معلوم ہوا۔ سو یہ تو ایک شخص کی رویت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسی جگہ پہنچا جس جگہ سورج کسی پہاڑ یا آبادی یا درختوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا نظرنہیں آتا تھا جیسا کہ عام دستور ہے بلکہ دلدل میں چھپتا ہوا معلوم دیتا تھا۔ مطلب یہ کہ اُس جگہ کوئی آبادی یا درخت یا پہاڑ نزدیک نہ تھے بلکہ جہاں تک نظر وفا کرے ان چیزوں میں سے کسی چیز کا نشان نظر نہیں آتا تھا فقط ایک دلدل تھا جس میں سورج چھپتا دکھائی دیتا تھا۔
ان آیات کا سیاق سباق دیکھو کہ اس جگہ حکیمانہ تحقیق کا کچھ ذکر بھی ہے فقط ایک شخص کی دُور دراز سیاحت کا ذکر ہے اور ان باتوں کے بیان کرنے سے اسی مطلب کا اثبات منظور ہے کہ وہ ایسے غیر آباد مقام پر پہنچا۔ سو اس جگہ ہیئت کے مسائل لے بیٹھنا بالکل بے محل نہیں تو اور کیا ہے؟ مثلاً اگر کوئی کہے کہ آج رات بادل وغیرہ سے آسمان خوب صاف ہو گیا تھا اور ستارے آسمان کے نقطوں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے تھے تواس سے یہ جھگڑا لے بیٹھیں کہ کیا ستارے نقطوں کی مقدار پر ہیں اور ہیئت کی کتابیں کھول کھول کر پیش کریں تو بلاشبہ یہ حرکت بے خبروں کی سی حرکت ہوگی کیونکہ اس وقت متکلّمکی نیت میں واقعی امر کا بیان کرنا مقصود نہیں وہ تو صرف مجازی طور پر جس طرح ساری دنیا جہان بولتا ہے بات کر رہا ہے۔ اے وہ لوگو! جو عشائے ربّانی میں مسیح کا لہو پیتے اور گوشت کھاتے ہو کیا ابھی تک تمہیں مجازات اور استعارات کی خبر نہیں؟ سب جانتے ہیں کہ ہر ایک ملکؔ کی عام
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 460
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 460
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/460/mode/1up
بول چال میں مجازات اور استعارات کے استعمال کانہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الٰہی انہیں محاورات و استعارات کو اختیار کرتی ہے جو سادگی سے عوامُ النَّاس نے اپنی روز مرہ کی بات چیت اور بول چال میں اختیار کر رکھی ہیں۔ فلسفہ کی دقیق اصطلاحات کی ہر جگہ اور ہر محل میں پیروی کرنا وحی کی طرز نہیں کیونکہ روئے سخن عوامُ النَّاس کی طرف ہے۔ پس ضرور ہے کہ ان کی سمجھ کے موافق اور ان کے محاورات کے لحاظ سے بات کی جائے۔ حقائق و دقائق کا بیان کرنا بجائے خود ہے مگر محاورات کا چھوڑنا اور مجازات اور استعارات عادیہ سے یک لخت کنارہ کش ہونا ایسے شخص کے لئے ہرگز روا نہیں جو عوامُ النَّاس سے مذاق پر بات کرنا اس کا فرضِ منصب ہے تا وہ اس کی بات کو سمجھیں اور ان کے دلوں پر اس کا اثر ہو۔ لہٰذا یہ مسلّم ہے کہ کوئی ایسی الہامی کتاب نہیں جس میں مجازات اور استعارات سے کنارہ کیا گیا ہو یا کنارہ کرنا جائز ہو۔ کیا کوئی کلامِ الٰہی دنیا میں ایسا بھی آیا ہے؟ اگر ہم غور کریں تو ہم خود اپنی ہر روزہ بول چال میں صدہا مجازات و استعارات بول جاتے ہیں اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ہلال بال سا باریک ہے اور ستارے نقطے سے ہیں یا چاند بادل کے اندر چھپ گیا اور سورج ابھی تک جو پہر دن چڑھا ہے نیزہ بھر اوپر آیا ہے یا ہم نے ایک رکابی پلاؤ کی کھا ئی یا ایک پیالہ شربت کا پی لیا۔ تو ان سب باتوں سے کسی کے دل میں یہ دھڑکا شروع نہیں ہوتا کہ ہلال کیونکر بال سا باریک ہو سکتا ہے اور ستارے کس وجہ سے بقدر نقطوں کے ہو سکتے ہیں یا چاند بادل کے اندر کیونکر سما سکتا ہے اور کیا سورج نے باوجود اپنی اس تیز حرکت کے جس سے وہ ہزارہا کوس ایک دن میں طے کر لیتا ہے ایک پہر میں فقط بقدر نیزہ کے اتنی مسافت طے کرے ہے اور نہ رکابی پلاؤ کی کھانے یا پیالہ شربت کا پینے سے یہ کوئی خیال کر سکتا ہے کہ رکابی اور پیالہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لیا
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 461
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 461
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/461/mode/1up
ہوگا۔ بلکہ یہ سمجھیں گے کہ جو ان کے اندر چاول اور پانی ہے وہی کھایا پیا ہوگا۔ نہایت صاف بات پر اعتراض کرنا کوئی دانا مخالف بھی پسند نہیں کرتا۔ انصاف پسند عیسائیوں سے ہم نے خود سنا ہے کہ ایسے ایسے اعتراض ہم میں سے وہ لوگ کرتے ہیں جو بے خبر یا سخت درجہ کے متعصّب ہیں۔
بھلا یہ کیا حق روی ہے ؟کہ اگر کلامِ الٰہی میں مجاز یااستعارہ کی صورت پر کچھ وارد ہو تو اس بیان کو حقیقت پر حمل کر کے مورد اعتراض بنایا جائے۔ اس صورت میںؔ کوئی الہامی کتاب بھی اعتراض سے نہیں بچ سکتی۔ جہاز میں بیٹھنے والے اور اگنبوٹ پر سوار ہونے والے ہر روز یہ تماشا دیکھتے ہیں کہ سورج پانی میں سے ہی نکلتا ہے اور پانی میں ہی غروب ہوتا ہے اور صدہا مرتبہ آپس میں جیسا دیکھتے ہیں، بولتے بھی ہیں کہ وہ نکلا اور وہ غروب ہوا۔ اب ظاہر ہے کہ اس بول چال کے وقت میں علم ہیئت کے دفتر اُن کے آگے کھولنا اور نظامِ شمسی کا مسئلہ لے بیٹھنا گویا یہ جواب سننا ہے کہ اے پاگل! کیا یہ علم تجھے ہی معلوم ہے۔ ہمیں معلوم نہیں۔
عیسائی صاحب نے قرآن شریف پر تو اعتراض کیا مگر انجیل کے وہ مقامات جن پر حقًّا و حقیقتاً اعتراض ہوتا ہے بھولے رہے۔ مثلاً بطور نمونہ دیکھو کہ انجیل متی و مرقس میں لکھا ہے کہ مسیح کو اس وقت آسمان سے خلق اللہ کی عدالت کے لئے اُترتا دیکھو گے جب سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہیں دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے۔ اب ہیئت کاعلم ہی یہ اشکال پیش کرتا ہے کہ کیونکر ممکن ہے کہ تمام ستارے زمین پر گریں اور سب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین کے کسی گوشہ میں جاپڑیں اور بنی آدم کو ان کے گرنے سے کچھ بھی حرج اور تکلیف نہ پہنچے اور سب زندہ اور سلامت رہ جائیں حالانکہ ایک ستارہ کا گرنا بھی سُکَّانُ الْاَرْضِ کی تباہی کیلئے کافی ہے پھر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جب
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 462
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 462
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/462/mode/1up
ستارے زمین پر گر کر زمین والوں کو صفحہ ہستی سے بے نشان و نابود کریں گے تو مسیح کا یہ قول کہ تم مجھے بادلوں میں آسمان سے اُترتا دیکھو گے کیونکر درست ہوگا؟ جب لوگ ہزاروں ستاروں کے نیچے دبے ہوئے مرے پڑے ہوں گے تو مسیح کا اُترنا کون دیکھے گا؟ اور زمین جو ستاروں کی کشش سے ثابت و برقرار ہے کیونکر اپنی حالت صحیحہ پر قائم اور ثابت رہے گی اور مسیح کن برگزیدوں کو (جیسا کہ انجیل میں ہے) دُور دُور سے بلائے گا اورکن کو سرزنش اور تنبیہ کرے گا کیونکہ ستاروں کاگرنا تو بہ بداہت مستلزم عام فنا اور عام موت بلکہ تختۂ زمین کے انقلاب کا موجب ہوگا۔ اب دیکھئے کہ یہ سب بیانات علم ہیئت کے برخلاف ہیں یا نہیں؟ ایسا ہی ایک اور اعتراض علم ہیئت کی رو سے انجیل پر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انجیل متی میں دیکھو وہ ستارہ جو انہوں نے (یعنی مجوسیوں نے) پورب میں دیکھاتھا ان کے آگے آگے چل رہا اور اس جگہ کے اوپر جہاں وہ لڑکا تھا جا کر ٹھہرا۔ (باب ۲۔ آیت ۹ متی)
اب عیسائی صاحبان براہ مہربانی بتلا ویں کہ علم ہیئت کی رو سے اس عجیب ستارہ کا کیا نام ہے جو مجوسیوں کے ہم قدم اور ان کے ساتھ ساتھ چلا تھا اور یہ کسؔ قسم کی حرکت اور کن قواعد کی رو سے مسلّم الثبوت ہے؟ مجھے معلوم نہیں کہ انجیل متی ایسے ستارہ کے بارے میں ہیئت والوں سے کیونکر پیچھا چھڑا سکتی ہے۔ بعض صاحب تنگ آ کر یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ مسیح کا قول نہیں متی کا قول ہے۔ متی کے قول کو ہم الہامی نہیں جانتے۔ یہ خوب جواب ہے جس سے انجیل کے الہامی ہونے کی بخوبی قلعی کھل گئی اور میں بطور تنزل کہتا ہوں کہ گو یہ مسیح کا قول نہیں متی یا کسی اور کا قول ہے مگر مسیح کا قول بھی تو (جس کو الہامی مانا گیا ہے اور جس پر ابھی ہماری طرف سے اعتراض ہوچکا ہے) اسی کا ہم رنگ اور ہم شکل ہے ذرا اُسی کو اصولِ ہیئت سے مطابق کر کے دکھلائیے اور نیز یہ بھی یاد رہے کہ یہ قول الہامی نہیں بلکہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 463
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 463
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/463/mode/1up
انسان کی طرف سے انجیل میں ملایا گیا ہے تو پھر آپ لوگ ان انجیلوں کو جو آپ کے ہاتھ میں ہیں تمام بیانات کے اعتبار سے الہامی کیوں کہتے ہو؟ صاف طور پر کیوں مشتہر نہیں کر دیتے کہ بجز چند ان باتوں کے جو حضرت مسیح کے ُ منہ سے نکلی ہیں باقی جو کچھ اناجیل میں لکھا ہے وہ مؤلفین نے صرف اپنے خیال اور اپنی عقل اور فہم کے مطابق لکھا ہے، جو غلطیوں سے مبرا متصور نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ پادری صاحبوں کی عام تحریروں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ رائے عام طور پر مشتہر بھی کی گئی ہے یعنی بالاتفاق انجیلوں کے بارے میں یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ جو کچھ تاریخی طور پر معجزات وغیرہ کا ذکر ان میں پایا جاتا ہے وہ کوئی الہامی امر نہیں بلکہ انجیل نویسوں نے اپنے قیاس یا سماعت وغیرہ وسائل خارجیہ سے لکھ دیا ہے۔ غرض پادری صاحبوں نے اس اقرار سے ان بہت سے حملوں سے جو انجیلوں پر ہوتے ہیں اپنا پیچھا چھڑانا چاہا ہے اور ہر ایک انجیل میں تقریباً دس۱۰ حصے انسان کا کلام اور ایک حصہ خدائے تعالیٰ کا کلام مان لیا ہے اور ان اقرارات کی وجہ سے جو جو نقصان انہیں اُٹھانے پڑے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عیسوی معجزات ان کے ہاتھ سے گئے اور ان کا کوئی شافی کافی ثبوت ان کے پاس نہ رہا کیونکہ ہر چند انجیل نویسوں نے تاریخی طور پر فقط اپنی طرف سے مسیح کے معجزات انجیلوں میں لکھے ہیں مگر مسیح کا اپنا خالص بیان جو الہامی کہلاتا ہے حواریوں کے بیان سے صریح مبائن و مخالف معلوم ہوتا ہے بلکہ اُسی کی ضد اور نقیض ہے۔ وجہ یہ کہ مسیح نے اپنے بیان میں جس کو الہامی کہا جاتا ہے جا بجا معجزات کےؔ دکھلانے سے انکار ہی کیا ہے اور معجزات کے مانگنے والوں کو صاف جواب دے دیا ہے کہ تمہیں کوئی معجزہ دکھلایا نہیں جائے گا۔ چنانچہ ہیرو دیس نے بھی مسیح سے معجزہ مانگا تو اُس نے نہ دکھلایا اور بہت سے لوگوں نے اس کے نشان دیکھنے چاہے اور اور نشانوں کے بارے میں اس
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 464
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 464
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/464/mode/1up
سے سوال بھی کیا مگر وہ صاف منکر ہو گیا اور کوئی نشان دکھلا نہ سکا بلکہ اس نے تمام رات جاگ کر خدا تعالیٰ سے یہ نشان مانگا کہ وہ یہودیوں کے ہاتھ سے محفوظ رہے تو یہ نشان بھی اس کو نہ ملا اور دعا ردّ کی گئی۔پھر مصلوب ہونے کے بعد یہودیوں نے سچے دل سے کہا کہ اگر وہ اب صلیب پر سے زندہ ہو کر اُتر آوے تو ہم سب کے سب اس پر ایمان لائیں گے مگر وہ اُتر بھی نہ سکا۔ پس ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں تک انجیلوں میں الہامی فقرات ہیں وہ مسیح کو صاحب معجزات ہونے سے صاف جواب دے رہے ہیں اور اگر کوئی ایسا فقرہ ہے بھی کہ جس میں مسیح کے صاحب معجزات ہونے کے بارے میں کچھ خیال کر سکیں تو حقیقت میں وہ فقرہ ذوالوجوہ ہے جس کے اور اور معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ کچھ ضروری نہیں معلوم ہوتا کہ اس کو ظاہر پر ہی محمول کیا جائے یا خواہ نخواہ کھینچ تان کر ان معجزات کا ہی مصداق ٹھہرایا جائے جن کا انجیل نویسوں نے اپنی طرف سے ذکر کیا ہے اورکوئی فقرہ خاص حضرت مسیح کی زبان سے نکلا ہوا ایسا نہیں کہ جو وقوع اور ثبوت معجزات پر صاف طور پر دلالت کرتا ہو بلکہ مسیح کے خاص اور پُرزور کلمات کی اسی امر پر دلالت پائی جاتی ہے کہ اُن سے ایک بھی معجزہ ظہور میں نہیں آیا۔* تعجب کہ عیسائی لوگ کیوں ان باتوں پر اعتماد و اعتبار نہیں کرتے جو مسیح کا خاص بیان اور الہامی کہلاتی ہیں اور خاص مسیح کے منہ سے نکلی ہیں؟ اور باتوں پر کیوں اعتماد کیا جاتا ہے اور کیوں ان کے قدر سے زیادہ ان پر زور دیا جاتا ہے جو عیسائیوں کے اپنے اقرار کے موافق الہامی نہیں ہیں بلکہ تاریخی طور پر انجیلوں میں
* قرآن شریف میں فقط اس مسیح کے معجزات کی تصدیق ہے جس نے کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا کیونکہ مسیح کئی ہوئے ہیں اور ہوں گے اور پھر قرآنی تصدیق ذوالوجوہ ہے جو انجیل نویسوں کے بیان کی ہرگز مصداق نہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 465
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 465
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/465/mode/1up
داخل ہیں اور الہام کے سلسلہ سے بکلّی خارج ہیں اور الہامی عبارات سے بکلّی ان کا تناقض پایا جاتا ہے۔ پس جب الہامی اور غیر الہامی عبارات میں تناقض ہو تو اس کے دور کرنے کیلئے بجز اس کے اور کیا تدبیر ہے ؔ کہ جو عبارتیں الہامی نہیں ہیں وہ ناقابل اعتبار سمجھی جائیں اور صرف انجیل نویسوں کے مبالغات یقین نہ کئے جائیں؟ چنانچہ جا بجا ان کا مبالغہ کرنا ظاہر بھی ہے جیسا کہ یوحنا کی انجیل کی آخری آیت جس پر وہ مقدس انجیل ختم کی گئی ہے یہ ہے۔ ’’پر اور بھی بہت سے کام ہیں جو یسوع نے کئے اور اگر وہ جُدا جُدا لکھے جاتے تو میں گمان کرتا ہوں کہ کتابیں جو لکھی جاتیں دنیا میں سما نہ سکتیں‘‘۔ دیکھو کس قدر مبالغہ ہے زمین و آسمان کے عجائبات تو دنیا میں سما گئے مگر مسیح کی تین یا اڑھائی برس کی سوانح دنیا میں سما نہیں سکتی ایسے مبالغہ کرنے والے لوگوں کی روایت پر کیونکر اعتبار کر لیا جاوے۔
ہندوؤں نے بھی اپنے اوتاروں کی نسبت ایسی ہی کتابیں تالیف کی تھیں اور اسی طرح خوب جوڑ جوڑ سے ملا کر جھوٹ کا پل باندھا تھا سو اس قوم پر بھی اس افترا کا نہایت قوی اثر پڑا اور اِس سرے سے ملک کے اُس سرے تک رام رام اور کرشن کرشن دلوں میں رَچ گیا۔ بات یہ ہے کہ مرتب کردہ کتابیں جن میں بہت سا افتراء بھرا ہوا ہو اُن قبروں کی طرح ہوتے ہیں جو باہر سے خوب سفید کی جائیں اور چمکائی جائیں پر اندر کچھ نہ ہو۔ اندر کا حال ان بے خبر لوگوں کو کیا معلوم ہو سکتا ہے جو صدہا برسوں کے بعد پیدا ہوئے اور بنی بنائی کتابیں ایسی متبرک اور بے لوث ظاہر کر کے ان کو دی گئیں کہ گویا وہ اسی صورت اور وضع کے ساتھ آسمان سے اُتری ہیں سو وہ کیا جانتے ہیں کہ دراصل یہ مجموعہ کس طرح طیار کیا گیاہے؟ دنیا میں ایسی تیز نگاہیں جو پردوں کو چیرتی ہوئی اندر گھس جائیں اور اصل حقیقت پراطلاع پا لیں اور چور کو پکڑ لیں بہت کم ہیں اور افتراء کے جادو سے متأثر ہونے والی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 466
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 466
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/466/mode/1up
روحیں اس قدر ہیں جن کا اندازہ کرنا مشکل ہے اسی وجہ سے ایک عالم تباہ ہو گیا اور ہوتا جاتا ہے۔ نادانوں نے ثبوت یا عدم ثبوت کے ضروری مسئلہ پر کچھ بھی غور نہیں کی اور انسانی منصوبوں اور بندشوں کا جو ایک مستمرہ طریقہ اور نیچرلی امر ہے جو نوع انسان میں قدیم سے چلا آتا ہے اس سے چوکس رہنا نہیں چاہا اور یونہی شیطانی دام کو اپنے پر لے لیا۔ مکّاروں نے اس شریر کیمیا گر کی طرح جو ایک سادہ لوح سے ہزار روپیہ نقد لے کر دس بیس لاکھ کا سونا بنا دینے کا وعدہ کرتا ہےؔ سچا اور پاک ایمان نادانوں کا کھویا اور ایک جھوٹی راستبازی اور جھوٹی برکتوں کا وعدہ دیا جن کا خارج میں کچھ بھی وجود نہیں اور نہ کچھ ثبوت۔ آخر شرارتوں میں، مکروں میں، دنیا پرستیوں میں، نفس امّارہ کی پیروی میں اپنے سے بدتر ان کو کر دیا۔ بالآخر یہ نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اعجازات اور پیشگوئیوں کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وقوع میں آئیں قرآن شریف کی ایک ذرہ شہادت، انجیلوں کے ایک تودۂ عظیم سے جو مسیح کے اعجاز وغیرہ کے بارے میں ہو، ہزار ہا درجہ بڑھ کر ہے کیوں بڑھ کر ہے؟ اسی وجہ سے کہ خود باقرار تمام محقق پادریوں کے انجیلوں کا بیان خود حواریوں کا اپنا ہی کلام ہے اور پھر اپنا چشم دید بھی نہیں اور نہ کوئی سلسلہ راویوں کا پیش کیا ہے اور نہ کہیں ذاتی مشاہدہ کا دعویٰ کیا لیکن قرآن شریف میں اعجازات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ خاص خدائے صادق و قدوس کی پاک شہادت ہے۔ اگر وہ صرف ایک ہی آیت ہوتی تب بھی کافی ہوتی۔ مگر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِکہ ان شہادتوں سے سارا قرآن شریف بھرا ہوا ہے۔ اب موازنہ کرنا چاہئے کہ کجا خدا ئے تعالیٰ کی پاک شہادت جس میں کذب ممکن نہیں اور کجا نا دیدہ جھوٹ اور مبالغہ آمیز شہادتیں۔
بہ نزدیک دانائے بیدار دل
جوئے سیم بہتر زِ صد تودۂِ گِل
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 467
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 467
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/467/mode/1up
افترائی باتوں پر کیوں تعجب کرنا چاہئے۔ ایسا بہت کچھ ہوا ہے اور ہوتا ہے۔ عیسائیوں کو آپ اقرار ہے کہ ہم میں سے بہت لوگ ابتدائی زمانوں میں اپنی طرف سے کتابیں بنا کر اور بہت کچھ کمالات اپنے بزرگوں کے ان میں لکھ کر پھر خدا ئے تعالیٰ کی طرف اُن کو منسوب کرتے رہے ہیں اور دعویٰ کر دیا جاتا تھا کہ وہ خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے کتابیں ہیں۔ * پس جب کہ قدیم عادت عیسائیوں اور یہودیوں کی یہیؔ جعلسازی چلی آئی ہے تو پھر کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی کہ متی وغیرہ انجیلوں کو اس عادت سے کیوں باہر رکھا جائے؟
* جوؔ کچھ انجیلوں میں ناجائز اور بے ثبوت مبالغہ معجزات حضرت مسیح کی نسبت یا ان کی ناواجب تعریفوں کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ اس کی تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کب اور کس وقت یہ باتیں انجیلوں میں ملائی گئی ہیں۔ اگرچہ عیسائیوں کو اقرار ہے کہ خود انجیل نویسوں نے یہ باتیں اپنی طرف سے ملا دی ہیں مگر اس عاجز کی دانست میں یہ حاشئے آہستہ آہستہ چڑھے ہیں۔ اور جعلساز مکار پیچھے سے بہت کچھ موقع پاتے رہے ہیں ہاں مستقل طور پر کئی جعلی کتابیں جو الہامی ہونے کے نام سے مشہور ہوگئیں حضراؔ ت مسیحوں اور یہودیوں نے اوائل دنوں میں ہی تالیف کر کے شائع کر دی تھیں۔ چنانچہ اسی جعلسازی کی برکت سے بجائے ایک انجیل کے بہت سی انجیلیں شائع ہو گئیں عیسائیوں کا خود یہ بیان ہے کہ مسیح کے بعد جعلی انجیلیں کئی تالیف ہوئیں۔ جیسا کہ منجملہ اُن کے ایک انجیل برنباس بھی ہے۔ یہ تو عیسائیوں کا بیان ہے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ چونکہ اُن انجیلوں اور اناجیل اربعہ مروجہ میں بہت کچھ تناقض ہے یہاں تک کہ برنباس کی انجیل مسیح کے مصلوب ہونے سے بھی منکر اور مسئلہ تثلیث کے بھی مخالف اور مسیح کی الوہیت اور ابنیت کو بھی نہیں مانتی اور نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی صریح لفظوں میں بشارت دیتی ہے۔ تو اب عیسائیوں کے اس دعوٰی بے دلیل کو کیونکر مان لیا جائے کہ جن انجیلوں کو اُنہوں نے رواج دیا ہے۔ وہ تو سچی ہیں اور جو اُن کے مخالف ہیں وہ سب جھوٹی ہیں۔ ماسوا اس کے جب کہ عیسائیوں میں جعل کی اس قدر گرم بازاری رہی ہے کہ بعض کامل اُستادوں نے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 468
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 468
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/468/mode/1up
حالانکہ اس ساہوکار کی طرح جس کا روزنامچہ اور بہی کھاتہ بوجہ صریح تناقض اور مشکوکیت کے پوشیدہ حال کو ظاہر کر رہا ہو۔ ہر چہار انجیلوں سے وہ کارستانی ظاہر ہو رہی ہے جس کو انہوں نے چھپانا چاہا تھا۔ اسی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں غور کرنے والوں کی طبیعتوں میں ایک طوفانِ شکوک پیدا ہو گیا ہے اور جس ناقص اور متغیر اور مجسم خدا کی طرف انجیل رہنمائی کر رہی ہے اس کے قبول کرنے سے وہ دہریہ رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ چناؔ نچہ میرے ایک دوست فاضل انگریز نے امریکہ سے بذریعہ اپنی کئی چٹھیوں کے مجھے خبر دی ہے کہ ان ملکوں میں دانشمندوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ عیسائی مذہب کو نقص سے خالی سمجھتا ہو اور اسلام کے قبول کرنے کے لئے مستعد نہ ہو۔ اور گو عیسائیوں نے قرآن شریف کے ترجمے محرف اور بدنما کر کے یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں شائع کئے ہیں مگر ان کے
بقیہ حاشیہ : ۔ پوری پوری انجیلیں بھی اپنی طرف سے بنا کر عام طور پر قوم میں اُنہیں شائع کر دیا اور ایک ذرہ پروں پر پانی پڑنے نہ دیا۔ تو کسی کتاب کا محرف مبدل کرنا اُن کے آگے کیا حقیقت تھا۔ پھر جب کہ یہ بھی تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مسیح کے زمانہ میں یہ انجیلیں قلمبند نہیں ہوئیں بلکہ ساٹھ یا ستر برس مسیح کے فوت ہونے کے بعد یا کچھ کم و بیش یا اختلاف روایت اناجیل اربعہ کا مجموعہ دنیا میں پیدا ہوا تو اُس سے ان انجیلوں کی نسبت اور بھی شک پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس بات کا ثبوت دینا مشکل ہے کہ اس عرصہ تک حواری زندہ رہے ہوں یا اُن کی قوتیں قائم رہی ہوں۔ اب ہم سب قصوں کو مختصر کر کے ناظرین کو یہ باور دلاتے ہیں کہ اس بات کا عیسائیوں نے ہرگز صفائی سے ثبوت نہیں دیا کہ بارہ انجیلیں جعلی اور چار جن کو رواج دے رہے ہیں جعل اور تحریف سے مبرا ہیں بلکہ وہ ان چاروں کی نسبت بھی خود اقرار کرتے ہیں کہ وہ خالص خدا ئے تعالیٰ کا کلام نہیں اور اگر وہ ایسا اقرار بھی نہ کرتے تب بھی انجیلوں کے مغشوش ہونے میں کچھ شک نہیں تھا کیونکہ اس بات کا بار ثبوت اُن کے ذمہ ہے۔ جس سے آج تک وہ سبکدوش نہیں ہو سکے کہ کیوں دوسری انجیلیں جعلی اور یہ جعلی نہیں۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 469
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 469
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/469/mode/1up
اندر جو نور چھپا ہوا ہے وہ پاکیزہ دلوں پر اپنا کام کر رہا ہے۔ غرض امریکہ اور یورپ آج کل ایک جوش کی حالت میں ہے اور انجیل کے عقیدوں نے جو برخلاف حقیقت ہیں بڑی گھبراہٹ میں انہیں ڈال دیا ہے یہاں تک کہ بعضوں نے یہ رائے ظاہر کی کہ مسیح یا عیسیٰ نام(کا) خارج میں کوئی شخص کبھی پیدا نہیں ہوا بلکہ اس سے آفتاب مراد ہے اور بارہ حواریوں سے بارہ ُ برج مراد ہیں۔ اور پھر اس مذہب عیسائی کی حقیقت زیادہ تر اس بات سے کھلتی ہے کہ جن نشانیوں کو حضرت مسیح ایمان داروں کے لئے قرار دیئے گئے تھے اُن میں سے ایک بھی ان لوگوں میں نہیں پائی جاتی حضرت مسیح نے فرمایا تھا کہ اگر تم میری پیروی کرو گے تو ہر ایک طرح کی برکت اور قبولیت میں میرا ہی روپ بن جاؤ گے اور معجزات اور قبولیت کے نشان تم کو دیئے جائیں گے اور تمہارے مومن ہونے کی یہی علامت ہوگی کہ تم طرح طرح کے نشان دکھلا سکو گے اور جو چاہو گے تمہارے لئے وہی ہوگا۔ اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہیں ہوگی۔ لیکن عیسائیوں کے ہاتھ میں ان برکتوں میں سے کچھ بھی نہیں۔ وہ اس خدا سے ناآشنا محض ہیں جو اپنے مخصوص بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور انہیں آمنے سامنے شفقت اور رحمت کا جواب دیتا ہے۔ اور عجیب عجیب کام ان کے لئے کر دکھاتا ہے لیکن سچے مسلمان جو اُن راستبازوں کے قائم مقام اور وارث ہیں جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں وہ اُس خدا کو پہچانتے اور اس کی رحمت کے نشانوں کو دیکھتے ہیں۔ اور اپنے مخالفوں کے سامنے آفتاب کی طرح جو ظلمت کے مقابل ہو مابہ الامتیاز رکھتے ہیں۔ ہم بار بار لکھ چکے ہیں کہ اس دعویٰ کو بلا دلیل نہیں سمجھناچاہئے سچے اور جھوٹے مذہب میں ایک آسمان پر فرق ہے اور ایک زمین پر۔ زمین کے فرق سے مراد وہ فرق ہے جو انسان کی عقل اور انسان کا کانشنس اور قانون قدرت اس عالم کا اس کی تشریح کرتا ہے۔ سو عیسائی مذہب اور اسلام
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 470
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 470
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/470/mode/1up
کو جب اس محک کی رو سے جانچا جائے تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ اسلام وہ فطرتی مذہبؔ ہے جس کے اصولوں میں کوئی تصنع اور تکلّف نہیں اور جس کے احکام کوئی مستحدث اور بناوٹی امر نہیں اور کوئی ایسی بات نہیں جو زبردستی منوانی پڑے اور جیسا کہ خدائے تعالیٰ نے جابجا آپ فرمایا ہے۔ قرآن شریف صحیفۂ فطرت کے تمام علوم اور اس کی صداقتوں کو یاد دلاتا ہے اور اس کے اسرارِ غامضہ کو کھولتا ہے اور کوئی نئے امور برخلاف اس کے پیش نہیں کرتا بلکہ درحقیقت اُسی کے معارف دقیقہ ظاہر کرتا ہے۔ برخلاف اس کے عیسائیوں کی تعلیم جس کا انجیل پر حوالہ دیا جاتا ہے ایک نیا خدا پیش کر رہی ہے جس کی خود کشی پر دنیا کے گناہ اور عذاب سے نجات موقوف اور اس کے دُکھ اُٹھانے پر خلقت کا آرام موقوف اور اس کے بے عزت اور ذلیل ہونے پر خلقت کی عزت موقوف خیال کی گئی ہے۔ پھر بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک ایسا عجیب خدا ہے کہ ایک حصہ اس کی عمر کا تو منزّہ عن الجسم و عن عیوب الجسم میں گزرا ہے اور دوسرا حصہ عمر کا (کسی نامعلوم بدبختی کی وجہ سے) ہمیشہ کے تجسم اور تحیّز کی قید میں اسیر ہو گیا اور گوشت پوست استخوان وغیرہ سب کے سب اس کی روح کے لئے لازمی ہوگئے اور اس تجسم کی وجہ سے، کہ اب ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا، انواع اقسام کے اس کو دکھ اُٹھانے پڑے آخر دکھوں کے غلبہ سے مر گیا اور پھر زندہ ہوا اور اُسی جسم نے پھر آ کر اس کو پکڑ لیا اور ابدی طور پر اُسے پکڑے رہے گا۔ کبھیَ مخلصی نہیں ہوگی۔ اب دیکھو کہ کیا کوئی فطرت صحیحہ اس اعتقاد کو قبول کر سکتی ہے؟ کیا کوئی پاک کانشنس اس کی شہادت دے سکتا ہے؟ کیا قانون قدرت کا ایک جزو بھی خدائے بے عیب و بے نقص وغیر متغیر کیلئے یہ حوادث و آفات روا رکھ سکتا ہے کہ اس کو ہمیشہ ہر ایک عالم کے پیدا کرنے اور پھر اس کو نجات دینے کیلئے ایک مرتبہ مرنا درکار ہے اور بجز خود کشی اپنے کسی افاضۂ خیر کی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 471
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 471
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/471/mode/1up
صفت کو ظاہر نہیں کر سکتا اور نہ کسی قسم کا اپنی مخلوقات کو دنیا یا آخرت میں آرام پہنچا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر خدائے تعالیٰ کو اپنی رحمت بندوں پر نازل کرنے کیلئے خود کشی کی ضرورت ہے تو اُس سے لازم آتا ہے کہ ہمیشہ اس کو حادثہ موت کا پیش آتا رہے اور پہلے بھی بے شمار موتوں کا مزہ چکھ چکا ہو اور نیز لازم آتا ہے کہ ہندوؤں کے پرمیشر کی طرح معطل الصفّات ہو۔ اب خود ہی سوچو کہ کیا ایسا عاجز اور درماندہ خدا ہو سکتا ہے کہ جو بغیر خودکشی کے اپنی مخلوقات کو کبھیؔ اور کسی زمانہ میں کوئی بھلائی پہنچا نہیں سکتا۔ کیا یہ حالت ضعف اور ناتوانی کی خدائے قادر مطلق کے لائق ہے؟ پھر عیسائیوں کے خدا کی موت کا نتیجہ دیکھئے تو کچھ بھی نہیں۔ ان کے خدا کی جان گئی مگر شیطان کے وجود اور اس کے کارخانہ کا ایک بال بھی بیکا نہ ہوا۔ وہی شیطان اور وہی اس کے چیلے جو پہلے تھے اب بھی ہیں۔ چوری، ڈکیتی، زنا، قتل، دروغ گوئی، شراب خواری،* قماربازی، دنیا پرستی، بے ایمانی، کفر شرک، دہریہ پن اور دوسرے صدہا طرؔ ح کے جرائم
* تازؔ ہ اخبارات سے معلوم ہوا ہے کہ تیرہ کروڑ ساٹھ ہزار پاؤنڈ ہر سال سلطنت برطانیہ میں شراب کشی اور شراب نوشی میں خرچ ہوتا ہے (اور ایک نامہ نگار ایم اے کی تحریر ہے) کہ شراب کی بدولت لندن میں صدہا خودکشی کی وارداتیں ہو جاتی ہیں اور خاص لندن میں شاید منجملہ تیس لاکھ آبادی کے دس ہزار آدمی مے نوش نہ ہوں گے، ورنہ سب مرد اور عورت خوشی اور آزادی سے شراب پیتے اور پلاتے ہیں۔ اہل لندن کا کوئی ایسا جلسہ اور سوسائٹی اور محفل نہیں ہے کہ جس میں سب سے پہلے برانڈی اور شری اور لال شراب کا انتظام نہ کیا جاتا ہو۔ ہر ایک جلسہ کا جزوِ اعظم شراب کو قرار دیا جاتا ہے اور طرفہ برآں یہ کہ لندن کے بڑے بڑے قسیس اور پادری صاحبان بھی باوجود دیندار کہلانے کے مے نوشی میں اوّل درجہ ہوتے ہیں۔ جتنے جلسوں میں مجھ کو بطفیل مسٹر نکلیٹ صاحب شامل ہونے کا اتفاق ہوا ہے ان سب میں ضرور دو چار نوجوان پادری اور ریورنڈ بھی شامل ہوتے دیکھے۔ لندن میں شراب نوشی کو
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 472
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 472
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/472/mode/1up
جو قبل از مصلوبیت مسیح تھے اب بھی اُسی زور و شور میں ہیں بلکہ کچھ چڑھ، بڑھ کر۔ مثلاً دیکھئے کہ اس زمانہ میں کہ جب ابھی مسیحیوں کا خدا زندہ تھا عیسائیوں کی حالت اچھی تھی جبھی کہ اس خدا پر موت آئی جس کو کفّارہ کہا جاتا ہے۔ تبھی سے عجیب طور پر شیطان اس قوم پر سوار
بقیہ حاشیہ :۔ کسی بُری مد میں شامل نہیں سمجھا گیا اور یہاں تک شراب نوشی کی علانیہ گرم بازاری ہے کہ میں نے بچشم خود ہنگام سیر لندن اکثر انگریزوں کو بازار میں پھرتے دیکھا کہ متوالے ہو رہے ہیں اور ہاتھ میں شراب کی بوتل ہے۔ علٰی ہذا القیاس۔ لندن میں عورتیں دیکھی جاتی تھیں کہ ہاتھ میں بوتل بیئر پکڑے لڑکھڑاتی چلی جاتی ہیں۔ بیسیوں لوگ شراب سے مدہوش اور متوالے، اچھے بھلے، بھلے مانس مہذب بازاروں کی نالیوں میں گرے ہوئے دیکھے۔ شراب نوشی کے طفیل اور برکت سے لندن میں اس قدر خود کشی کی وارداتیں واقعہ ہوتی رہتی ہیں کہ ہر ایک سال اُن کا ایک مہلک وبا پڑتا ہے (یکم فروری ۱۸۸۳ء۔ رہبر ہند لاہور)
اسی طرح ایک صاحب نے لندن کی عام زناکاری اور قریب ستر ستر ہزار کے ہر سال ولدالزنا پیدا ہونا ذکر کر کے وہ باتیں ان لوگوں کی بے حیائی کی لکھی ہیں کہ جن کی تفصیل سے قلم رُکتی ہے۔ بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ یورپ کے اوّل درجہ کے مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کے اگر دس حصے کئےؔ جائیں تو بلاشبہ نوحصے ان میں سے دہریہ ہوں گے جو مذہب کی پابندی اور خدائے تعالیٰ کے اقرار اور جزاسزا کے اعتقاد سے فارغ ہو بیٹھے ہیں اور یہ مرض دہریّت کا دن بدن یورپ میں بڑھتا جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دولت برطانیہ کی کشادہ دلی نے اس کی ترقی سے کچھ بھی کراہت نہیں کی۔ یہاں تک کہ بعض پکے دہریہ پارلیمنٹ کی کرسی پر بھی بیٹھ گئے اور کچھ پرواہ نہیں کی گئی۔ نامحرم لوگوں کو نوجوان عورتوں کا بوسہ لینا صرف جائز ہی نہیں بلکہ یورپ کی نئی تہذیب میں ایک مستحسن امر قرار دیا گیا ہے۔ کوئی دعویٰ سے نہیں کہہ سکتا کہ انگلستان میں کوئی ایسی عورت بھی ہے کہ جس کا عین جوانی کے دنوں میں کسی نامحرم جوان نے بوسہ نہ لیا ہو۔ دنیا پرستی اس قدر ہے کہ آروپ الیگزانڈر صاحب اپنی ایک چٹھی میں (جو میرے نام بھیجی ہے) لکھتے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 473
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 473
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/473/mode/1up
ہو گیا اور گناہ اور نافرماؔ نی اور نفس پرستی کے ہزار ہا دروازے کھل گئے۔ چنانچہ عیسائی لوگ خود اس بات کے قائل ہیں اور پادری فنڈر صاحب مصنف میزان الحق فرماتے ہیں کہ عیسائیوں کی کثرت گناہ اور اُن کی اندرونی بدچلنی اور فسق و فجور کے پھیلنے کی وجہ سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بغرض سزا دہی اور تنبیہ عیسائیوں کے بھیجے گئے تھے۔ پس ان تقریروں سے ظاہر ہے کہ زیادہ تر گناہ اور معصیت کا طوفان مسیح کے مصلوب ہونے کے بعد ہی عیسائیوں میں اُٹھا ہے۔ اس سے ثابت ہے کہ مسیح کا مرنا اس غرض سے نہیں تھا کہ گناہ کی تیزی اس کی موت سے کچھ روبہ کمی ہو جائے گی مثلاً اس کے مرنے سے پہلے اگر لوگ
بقیہ حاشیہ :۔ ہیں کہ تمام مہذب اور تعلیم یافتہ جو اس ملک میں پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک بھی میری نظر میں ایسا نہیں جس کی نگاہ آخرت کی طرف لگی ہوئی ہو بلکہ تمام لوگ سر سے پیر تک دنیا پرستی میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اب ان تمام بیانات سے ظاہر ہے کہ مسیح کے قربان ہونے کی وہ تاثیریں جو پادری لوگ ہندوستان میں آ کر سادہ لوحوں کو سناتے ہیں، سراسر پادری صاحبوں کا افترا ہے۔ اور اصل حقیقت یہی ہے کہ کفّارہ کے مسئلہ کو قبول کر کے جس طرف عیسائیوں کی طبیعتوں نے پلٹا کھایا ہے وہ یہی ہے کہ شراب خواری بکثرت پھیل گئی۔ زنا کاری اور بدنظری شیر مادر سمجھی گئی۔ قمار بازی کی از حد ترقی ہوگئی۔ خدا ئے تعالیٰ کی عبادت سچے دل سے کرنا اور بکلّی روبحق ہو جانا یہ سب باتیں موقوف ہوگئیں۔ ہاں انتظامی تہذیب یورپ میں بے شک پائی جاتی ہے۔ یعنی باہم رضامندی کے برخلاف جو گناہ ہیں جیسے سرقہ اور قتل اور زنا بالجبر وغیرہ جن کے ارتکاب سے شاہی قوانین نے بوجہ مصالح ملکی روک دیا ہے ان کا انسداد بے شک ہے مگر ایسے گناہوں کے انسداد کی یہ وجہ نہیں کہ مسیح کے کفّارہ کا اثر ہوا ہے بلکہ رعب قوانین اور سوسائٹی کے دباؤ نے یہ اثر ڈالا ہوا ہے اگر یہ موانع درمیان نہ ہوں تو حضرات مسیحیان سب کچھ کر گزریں اور پھر یہ جرائم بھی تو اور ملکوں کی طرح یورپ میں بھی ہوتے ہی رہتے ہیں انسداد کُلّی تو نہیں۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 474
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 474
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/474/mode/1up
بہت شراب پیتے تھے یا اگر بکثرت زنا کرتے تھے یا اگر پکے دُنیا دار تھے تو مسیح کے مرنے کے بعد یہ ہرایک قسم کے گناہ دور ہو جائیں گے کیونکہ یہ بات مستغنی عن الثبوت ہے کہ جس قدر اب شراب خوری و دنیا پرستی و زنا کاری خاص کر یورپ کے ملکوں میں ترقی پر ہے کوئی دانا ہرگز خیال نہیں کر سکتا کہ مسیح کی موت سے پہلے یہی طوفان فسق و فجور کا برپا ہو رہا تھا بلکہ اس کا ہزارم حصہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا اور انجیلوں پر غور کر کے بکمال صفائی کھل جاتا ہے کہ مسیح کو ہرگز منظور نہ تھا کہ یہودیوں کے ہاتھ میں پکڑا جائے اور مارا جائے اور صلیب پر کھینچا جائے کیونکہ اگر یہی منظور ہوتا تو ساری رات اس بلا کے دفعہ کرنے کیلئے کیوں روتا رہتا اور رو رو کر کیوں یہ دعا کرتا کہ اے ابّا! اے باپ!! تجھ سے سب کچھ ہو سکتا ہے یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے۔ بلکہ سچ یہی ہے کہ مسیح بغیر اپنی مرضی کے ناگہانی طور پر پکڑا گیا اور اس نے مرتے وقت تک رو رو کر یہی دعا کی ہے کہ اے میرے خدا! اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔اس سے بوضاحت ثابت ہوتا ہے کہ مسیح ز۴ندہ رہنا اور کچھ اور دن دنیا میں قیام کرنا چاہتا تھا اور اس کی روح نہایت بے قراری سے تڑپ رہی تھی کہ کسی طرح اس کی جان بچ جائے لیکن بلا مرضی اس کے یہ سفر اس کو پیش آ گیا تھا اور نیز یہ بھی غور کرنے کی جگہ ہے کہ قوم کے لئے اس طریق پر مرنے سے جیسا کہ عیسائیوں نے تجویز کیا ہے۔ مسیح کو کیا حاصل تھا اور قوم کو اُس سے کیا فائدہ؟ اگر وہ زندہ رہتا تو اپنی قوم میں بڑی بڑی اصلاحیں کرتا بڑے بڑے عیب اُن سے دور کر کے دکھاتا مگر اس کی موت نے کیا کر کے دکھایا بجز اس کے کہ اس کے بے وقت مرنے سے صدہا فتنےؔ پیدا ہوئے اور ایسی خرابیاں ظہور میں آئیں جن کی وجہ سے ایک عالم ہلاک ہو گیا۔ یہ سچ ہے کہ جوانمرد لوگ قوم کی بھلائی کیلئے اپنی جان
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 475
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 475
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/475/mode/1up
بھی فدا کر دیتے ہیں یا قوم کے بچاؤ کے لئے جان کو معرض ہلاکت میں ڈالتے ہیں مگر نہ ایسے لغو اور بیہودہ طور پر جو مسیح کی نسبت بیان کیا جاتا ہے بلکہ جو شخص دانشمندانہ طور سے قوم کے لئے جان دیتا ہے یا جان کو معرض ہلاکت میں ڈالتا ہے وہ تو معقول اور پسندیدہ اور کارآمد اور صریح مفید طریقوں میں سے کوئی سے ایسا اعلیٰ اور بدیہی اَنْفَع طریقہ فدا ہونے کا اختیار کرتا ہے جس طریقے کے استعمال سے گو اس کو تکلیف پہنچ جائے یا جان ہی جائے مگر اُس کی قوم بعض بلاؤں سے واقعی طور پر بچ جائے یہ تو نہیں کہ پھانسی لے کر یا زہر کھا کر یا کسی کوئیں میں گرنے سے خودکشی کا مرتکب ہو اور پھر یہ خیال کرے کہ میری خود کشی قوم کے لئے بہبودی کا موجب ہوگی۔ ایسی حرکت تو دیوانوں کا کام ہے نہ عقلمندوں دینداروں کا بلکہ یہ موت موتِ حرام ہے اور بجز سخت جاہل اور سادہ لوح کے کوئی اس کا ارادہ نہیں کرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ کامل اور اوالوالعزم آدمی کا مرنا بجز اُس حالت خاص کے کہ بہتوں کے بچاؤ کے لئے کسی معقول اور معروف طریق پر مرنا ہی پڑے قوم کے لئے اچھا نہیں بلکہ بڑی مصیبت اور ماتم کی جگہ ہے اور ایسا شخص جس کی ذات سے خلق اللہ کو طرح طرح کا فائدہ پہنچ رہا ہے اگر خودکشی کا ارادہ کرے تو وہ خدائے تعالیٰ کا سخت گنہگار ہے اور اس کا گناہ دوسرے ایسے مجرموں کی نسبت زیادہ ہے پس ہر ایک کامل کے لئے لازم ہے کہ اپنے لئے جناب باری تعالیٰ سے درازیءِ عمر مانگے تا وہ خلق اللہ کے لئے ان سارے کاموں کو بخوبی انجام دے سکے جن کے لئے اُس کے دل میں جوش ڈالا گیا ہے۔ ہاں! شریر آدمی کا مرنا اس کے لئے اور نیز خلق اللہ کے لئے بہتر ہے تا شرارتوں کا ذخیرہ زیادہ نہ ہوتا جائے اور خلق اللہ اس کے ہر روز کے فتنہ سے تباہ نہ ہو جائے۔ اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ تمام پیغمبروں میں سے قوم کے بچاؤ کے لئے اور الٰہی جلال کے اظہار کی غرض سے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 476
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 476
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/476/mode/1up
معقول طریقوں کے ساتھ اور ضروری حالتوں کے وقت میں کس پیغمبر نے زیادہ تر اپنے تئیں معرضِ ہلاکت میں ڈالا اور قوم پر اپنے تئیں فدا کرنا چاہا آیا مسیح یا کسی اور نبی یا ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ تو اس کا جواب جس جوش اور روشنؔ دلائل اور آیات بینات اور تاریخی ثبوت سے میرے سینہ میں بھرا ہوا ہے، میں افسوس کے ساتھ اس جگہ اس کا لکھنا چھوڑ دیتا ہوں کہ وہ بہت طویل ہے یہ تھوڑا سا مضمون اس کی برداشت نہیں کر سکتا۔ انشاء اللہ القدیر، اگر عمر نے وفا کی تو آئندہ ایک رسالہ مستقلہ اس بارے میں لکھوں گا لیکن بطور مختصر اس جگہ بشارت دیتا ہوں کہ وہ فرد کامل جو قوم پر اور تمام بنی نوع پر اپنے نفس کو فدا کرنے والا ہے وہ ہمارے نبی کریم ہیں یعنی سیّدنا و مولانا و وحیدنا و فرید نا احمد مجتبٰی محمد مصطفٰی الرسول النبی الاُ مّی العربی القرشی صلی اللہ علیہ وسلم۔
اس جگہ میں نے سچے اور جھوٹے مذہب کی تفریق کیلئے وہ فرق جو زمین پر موجود ہے یعنی جو باتیں عقل اور کانشنس کے ذریعہ سے فیصلہ ہو سکتی ہیں، کسی قدر لکھ دیا ہے لیکن جو فرق آسمان کے ذریعہ سے کھلتا ہے وہ بھی ایسا ضروری ہے کہ بجز اس کے حق اور باطل میں امتیاز بیّن نہیں ہو سکتا اور وہ یہ ہے کہ سچے مذہب کے پیرو کے ساتھ خدائے تعالیٰ کے ایک خاص تعلقات ہو جاتے ہیں اور وہ کامل پیرو اپنے نبی متبوع کا مظہر اور اس کے حالات روحانیہ اور برکات باطنیہ کا ایک نمونہ ہو جاتا ہے اور جس طرح بیٹے کے وجود درمیانی کی وجہ سے پوتا بھی بیٹا ہی کہلاتا ہے اسی طرح جو شخص زیر سایہ متابعت نبی پرورش یافتہ ہے اس کے ساتھ بھی وہی لطف اور احسان ہوتا ہے جو نبی کے ساتھ ہوتا ہے اور جیسے نبی کو نشان دکھائے جاتے ہیں ایسا ہی اس کی خاص طور پر معرفت بڑھانے کیلئے اس کو بھی نشان ملتے ہیں۔ سو ایسے لوگ اس دین کی سچائی کے لئے جس کی تائید کے لئے وہ ظہور
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 477
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 477
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/477/mode/1up
فرماتے ہیں، زندہ نشان ہوتے ہیں۔ خدا ئے تعالیٰ آسمان سے ان کی تائید کرتا ہے اور بکثرت ان کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور قبولیت کی اطلاع بخشتا ہے۔ ان پر مصیبتیں بھی نازل ہوتی ہیں مگر اس لئے نازل نہیں ہوتیں کہ اُنہیں ہلاک کریں بلکہ اس لئے کہ تا آخر ان کی خاص تائید سے قدرت کے نشان ظاہر کئے جائیں۔ وہ بے عزتی کے بعد پھر عزت پا لیتے ہیں اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں تا خدائے تعالیٰ کے خاص کام ان میں ظاہر ہوں۔
اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ دعا کا قبول ہونا دو طور سے ہوتا ہے۔ ایک بطور ابتلاء اور ایک بطور اصطفاء۔ بطور ابتلاء تو کبھی کبھی گنہگاروں اور نافرماؔ نوں بلکہ کافروں کی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے مگر ایسا قبول ہونا حقیقی قبولیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ از قبیل استدراج و امتحان ہوتا ہے لیکن جو بطور اصطفاء دعا قبول ہوتی ہے اس میں یہ شرط ہے کہ دعا کرنے والا خدائے تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں میں سے ہو اور چاروں طرف سے برگزیدگی کے انوار و آثار اس میں ظاہر ہوں کیونکہ خدائے تعالیٰ حقیقی قبولیت کے طور پر نافرمانوں کی دعا ہرگز نہیں سنتا بلکہ انہیں کی سنتا ہے کہ جو اس کی نظرمیں راستباز اور اس کے حکم پر چلنے والے ہوں۔ سو ابتلاء اور اصطفاء کی قبولیت ادعیہ میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ جو ابتلاء کے طور پر دعا قبول ہوتی ہے اس میں متقی اور خدا دوست ہونا شرط نہیں اور نہ اس میں یہ ضرورت ہے کہ خدا ئے تعالیٰ دعا کو قبول کر کے بذریعہ اپنے مکالمہ خاص کے اس کی قبولیت سے اطلاع بھی دیوے اور نہ وہ دعائیں ایسی اعلیٰ پایہ کی ہوتی ہیں جن کا قبول ہونا ایک امر عجیب اور خارقِ عادت متصور ہو سکے لیکن جو دعائیں اصطفاء کی وجہ سے قبول ہوتی ہیں ان میں یہ نشان نمایاں ہوتے ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 478
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 478
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/478/mode/1up
(۱) اوّل یہ کہ دعا کرنے والا ایک متقی اور راست باز اور کامل فرد ہوتا ہے۔
(۲) دوسرے یہ کہ بذریعہ مکالماتِ الٰہیہ اُس دعا کی قبولیت سے اس کو اطلاع دی جاتی ہے۔
(۳) تیسری یہ کہ اکثر وہ دعائیں جو قبول کی جاتی ہیں نہایت اعلیٰ درجہ کی اور پیچیدہ کاموں کے متعلق ہوتی ہیں، جن کی قبولیت سے کھل جاتا ہے کہ یہ انسان کا کام اور تدبیر نہیں بلکہ خدا ئے تعالیٰ کا ایک خاص نمونہ قدرت ہے جو خاص بندوں پر ظاہر ہوتا ہے۔
(۴) چوتھی یہ کہ ابتلائی دعائیں تو کبھی کبھی شاذو نادر کے طور پر قبول ہوتی ہیں لیکن اصطفائی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں۔ بسا اوقات صاحب اصطفائی دعا کا ایسی بڑی بڑی مشکلات میں پھنس جاتا ہے کہ اگر اور شخص ان میں مبتلاہو جاتا تو بجز خودکشی کے اور کوئی حیلہ اپنی جان بچانے کیلئے ہرگز اُسے نظر نہ آتا۔ چنانچہ ایسا ہوتا بھی ہے کہ جب کبھی دنیا پرست لوگ جو خدائے تعالیٰ سے مہجور و دور ہیں بعض بڑی بڑی ہموم و غموم و اَمراض و اَسقام و بلیّاتِ لاینحل میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو آخر وہ بباعث ضعف ایمان خدائے تعالیٰ سے ناامید ہو کر کسی قسم کی زہر کھا لیتے ہیں یا کوئیں میں گرتے ہیں یا بندوق وغیرہ سے خود کشی کر لیتے ہیں لیکن ایسے نازک وقتوں میں صاحب اصطفاؔ ء کا بوجہ اپنی قوت ایمانی اور تعلق خاص کے خدائے تعالیٰ کی طرف سے نہایت عجیب در عجیب مدد دیا جاتا ہے اور عنایت الٰہی ایک عجیب طور سے اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے یہاں تک کہ ایک محرم راز کا دل بے اختیار بول اُٹھتا ہے کہ یہ شخص مؤیَّد الٰہی ہے۔
(۵) پانچویں یہ کہ صاحب اصطفائی دعا کا مَورَد عنایاتِ الٰہیہ کا ہوتا ہے اور خدائے تعالیٰ اس کے تمام کاموں میں اس کا متولی ہو جاتا ہے اور عشق الٰہی کا نور اور مقبولانہ کبریائی کی
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 479
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 479
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/479/mode/1up
مستی اور روحانی لذت یابی اور تنعم کے آثار اس کے چہرہ میں نمایاں ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے۔
*: خبرداؔ ر ہو یعنی یقیناًسمجھ کہ جو لوگ اللہ( جلّشانہٗ )کے دوست ہیں یعنی جو لوگ خدائے تعالیٰ سے سچی محبت رکھتے ہیں اور خدائے تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے تو ان کی یہ نشانیاں ہیں کہ نہ ان پر خوف مستولی ہوتا ہے کہ کیا کھائیں گے یا کیا پئیں گے یا فلاں بلا سے کیونکر نجات ہوگی کیونکہ وہ تسلی دیئے جاتے ہیں اور نہ گزشتہ کے متعلق کوئی حزن و اندوہ انہیں ہوتا ہے کیونکہ وہ صبر دیئے جاتے ہیں۔ دوسری یہ نشانی ہے کہ وہ ایمان رکھتے ہیں یعنی ایمان میں کامل ہوتے ہیں اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں یعنی خلافِ ایمان و خلاف فرمانبرداری جو باتیں ہیں اُن سے بہت دُور رہتے ہیں۔ تیسری اُن کی یہ نشانی ہے کہ انہیں (بذریعہ مکالمہ الٰہیہ و رویائے صالحہ بشارتیں ملتی رہتی ہیں) اس جہان میں بھی اور دوسرے جہان میں بھی خدائے تعالیٰ کاان کی نسبت یہ عہد ہے جو ٹل نہیں سکتا اور یہی پیارا درجہ ہے جو انہیں ملا ہوا ہے۔ یعنی مکالمہ الٰہیہ اورر ویائے صالحہ سے خدائے تعالیٰ کے مخصوص بندوں کو جو اس کے ولی ہیں
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 480
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 480
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/480/mode/1up
اب ؔ جاننا چاہئے کہ محبوبیت اور قبولیت اور ولایت حقّہ کا درجہ جس کے کسی قدر مختصر طورپر نشان بیان کر چکا ہوں۔ یہ بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز حاصل نہیں ہو
بقیہ حاشیہ :۔ ضرور حصہ ملتا ہے اور ان کی ولایت کا بھاری نشان یہی ہے کہ مکالمات و مخاطباؔ ت الٰہیہ سے مشرف ہوں (یہی قانونِ قدرت اللہ جلّشانہٗ کا ہے) کہ جو لوگ اربابِ متفرقہ سے منہ پھیر کر اللہ جلشانہٗ کو اپنا ربّ سمجھ لیں اور کہیں کہ ہمارا تو ایک اللہ ہی ربّ ہے (یعنی اور کسی کی ربوبیت پر ہماری نظر نہیں) اور پھر آزمائشوں کے وقت میں مستقیم رہیں (کیسے ہی زلزلے آویں، آندھیاں چلیں، تاریکیاں پھیلیں ان میں ذرا تزلزل اور تغیر اور اضطراب پیدا نہ ہو پوری پوری استقامت پر رہیں) تو ان پر فرشتے اُترتے ہیں (یعنی الہام یا رؤیائے صالحہ کے ذریعہ سے انہیں بشارتیں ملتی ہیں) کہ دنیا اور آخرت میں ہم تمہارے دوست اور متولّی اور متکفّل ہیں اور آخرت میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے وہ سب تمہیں ملے گا۔ یعنی اگر دنیا میں کچھ مکروہات بھی پیش آویں تو کوئی اندیشہ کی بات نہیں کیونکہ آخرت میں تمام غم دور ہو جائیں گے اور سب مرادیں حاصل ہوں گی۔ اگر کوئی کہے کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ آخرت میں جو کچھ انسان کا نفس چاہے اس کو ملے میں کہتا ہوں کہ یہ ہونا نہایت ضروری ہے اور اسی بات کا نام نجات ہے ورنہ اگر انسان نجات پا کر بعض چیزوں کو چاہتا رہا اور ان کے غم میں کباب ہوتا اور جلتا رہا مگر وہ چیزیں اس کو نہ ملیں تو پھر نجات کاہے کی ہوئی۔ ایک قسم کا عذاب تو ساتھ ہی رہا۔ لہٰذا ضرور ہے کہ جنت یا بہشت یا مکتی خانہ یا سُرگ جو نام اس مقام کا رکھا جائے جو انتہا سعادت پانے کا گھر ہے وہ ایسا گھر چاہئے کہ انسان کو من کل الوجوہ اس میں مصفّا خوشی حاصل ہو اور کوئی ظاہری یا باطنی رنج کی بات درمیان نہ ہو اور کسی ناکامی کی سوزش دل پر غالب نہ ہو۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ بہشت میں نالائق و نامناسب باتیں نہیں ہوں گی مگر مقدس دلوں میں اُن کی خواہش بھی پیدا نہ ہوگی بلکہ ان مقدس اور مطہر دلوں میں جو شیطانی خیالات سے پاک کئے گئے ہیں، انسان کی پاک فطرت اور خالق کی پاک مرضی کے موافق پاک خواہشیں پیدا ہوں گی۔ تا انسان اپنی ظاہری اور باطنی اور بدنی اور روحانی سعادت کو پورے پورے طور پر پا لیوے اور اپنے جمیع قویٰ کے کامل ظہور سے کامل انسان کہلاوے کیونکہ بہشت میں داخل کرنا
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 481
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 481
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/481/mode/1up
سکتا۔اور سچے متبع کے مقابل پر اگر کوئی عیسائی یا آریہ یا یہودی قبولیت کے آثار و انوار دکھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگااور نہایت صاف طریقؔ امتحان کا یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان صالح کے مقابل پر جو سچا مسلمان اور سچائی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو کوئی دوسرا شخص عیسائی وغیرہ معارضہ کے طور پر کھڑا ہو اور یہ کہے کہ جس قدر تجھ پر آسمان سے کوئی نشان ظاہر ہوگا، یا جس قدر اسرارِ غیبیہ تجھ پر کھلیں گے، یا جو کچھ قبولیت دعاؤں سے تجھے مدد دی جائے گی، یا جس طور سے تیری عزت اور شرف کے اظہار کے لئے کوئی نمونہ قدرت ظاہر کیا جائے گا، یا اگر انعامات خاصہ کا بطور پیش گوئی تجھے وعدہ دیا جائے گا، یا اگر
بقیہ حاشیہ :۔ انسانی نقش کے مٹا دینے کی غرض سے نہیں جیسا کہ ہمارے مخالف عیسائی و آریہ خیال کرتے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ تا انسانی فطرت کے نقوش ظاہراً و باطناً بطور کامل چمکیں اور سب بے اعتدالیاں دور ہو کر ٹھیک ٹھیک وہ امور جلوہ نما ہو جائیں جو انسان کے لئے بلحاظ ظاہری و باطنی خلقت اس کی کے ضروری ہیں۔
اور پھر فرمایا کہ جب میرے مخصوص بندے (جو برگزیدہ ہیں) میرے بارہ میں سوال کریں اورؔ پوچھیں کہ کہاں ہے تو انہیں معلوم ہو کہ میں بہت ہی قریب ہوں۔ اپنے مخلص بندوں کی دعا سنتا ہوں جب ہی کہ کوئی مخلص بندہ دعا کرتا ہے (خواہ دل سے یا زبان سے) سن لیتا ہوں (پس اس سے قرب ظاہر ہے) مگر چاہئے کہ وہ ایسی اپنی حالت بنائے رکھیں جس سے میں ان کی دعا سُن لیا کروں۔ یعنی انسان اپنا حجاب آپ ہو جاتا ہے۔ جب پاک حالت کو چھوڑ کر دور جا پڑتا ہے تب خدائے تعالیٰ بھی اُس سے دور ہو جاتا ہے اور چاہیئے کہ ایمان اپنا مجھ پر ثابت رکھیں (کیونکہ قوتِ ایمانی کی برکت سے دُعا جلد قبول ہوتی ہے) اگر وہ ایسا کریں تو رُشد حاصل کر لیں گے یعنی ہمیشہ خدائے عزوجل اُن کے ساتھ ہوگا۔ اور کبھی عنایت و رہنمائی الٰہی اُن سے الگ نہیں ہوگی۔ سو استجابِ دعاء بھی اولیاء اللہ کے لئے ایک بھاری نشان ہے۔ فتدبّر۔ منہ
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 482
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 482
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/482/mode/1up
تیرے کسی موذی مخالف پر کسی تنبیہہ کے نزول کی خبر دی جائے گی تو اُن سب باتوں میں جو کچھ تجھ سے ظہور میں آئیگا اور جو کچھ تودکھائے گا، وہ میں بھی دکھلاؤں گا۔ تو ایسا معارضہ کسی مخالف سے ہرگز ممکن نہیں اور ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ اُن کے دل شہادت دے رہے ہیں کہ وہ کذّاب ہیں۔ انہیں اس سچے خدا سے کچھ بھی تعلق نہیں کہ جو راستبازوں کا مددگار اور صدیقوں کا دوست دار ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی کسی قدر بیان کر چکے ہیں۔ وَھَذَا
اٰخِرُ کَلَا مِنَا وَالْحَمْدُلِلّٰہِ اَوَّلًا وَّ اٰخِرًا وَّ ظَاہِرًا وَّ بَاطِنًا۔ ھُوَمَوْلَانَا نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ الْوَکِیْل۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 483
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 483
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/483/mode/1up
مرؔ اسلت نمبر (۲) ۱
ما بین
ُمنشی ُ بوبہ شاہ صاحب و منشی محمدؐ اسحق صاحب
اور مولوی سیّد محمدؐ احسن صاحب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از خاکسار بوبہ شاہ و محمد اسحق بخدمت مولانا مولوی محمد احسن صاحب زاد لطفہ‘
بعد مراسم مسنون تمنا مشحون مدعا آنکہ ۔ شاید جناب کو یاد ہو گا جب آپ ہمراہ لشکر گورنر جنرل لارڈ رپن صاحب بہادر مقام لاہور میں تشریف لائے۔ چند اشخاص خدمت میں حاضر ہو کر مشرف زیارت ہوئے تھے لیکن بعد اس کے کبھی اتفاق زیارت نصیب نہ ہوا اور نہ کبھی باہم خط و کتابت کی نوبت پہنچی اگرچہ اس بات کا تو علم تھا کہ آپ ریاست بھوپال میں ایک مدت سے قیام پذیر ہیں۔ جب جد عبد الرحمہ۱ ۔۔۔ راقم محمدؐ اسحٰق ریاست میں پنشن خوار ہوئے انہوں نے چند بار آپ کا ذکر تحریر فرمایا۔اس وقت وجہ تصدیعہ دہی یہ ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ جناب نے ایک رسالہ موسومہ اعلام الناس دربارہ تائید مرزا غلام احمد قادیانی تالیف فرما کر طبع کر دیا ہے اور اس میں دلائل ان کے دعویٰ مسیح ہونے کے بڑے پر زور لکھے ہیں جب سے یہ بات سنی ہے اس رسالہ کے معائنہ کا از حد شوق ہے۔ اگرچہ ہم ہر دو اب تک مرزا قادیانی کے معتقد نہیں ہیں اور بڑا انتظار آپ کے رسالہ کا ہے۔ اگر ممکن
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 484
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 484
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/484/mode/1up
ہو تو ایک رسالہ بذریعہ پمفلٹ عنایت فرما کر اس کی قیمت اور خرچ ڈاک سے مطلع فرماویں۔ انشاء اللہ قیمت مذکور بذریعہ ٹکٹ ارسال خدمت کی جائے گی۔ یا پہلے اطلاع دیں کہ جس قدر قیمت اس کی ہو ترسیل خدمت کی جائے گی امید کہ جوابؔ سے ضرور مطلع فرماویں۔ پتہ یہ ہے لاہور ڈڈلیٹر آفس پاس محمد اسحٰق ملازم ڈڈلیٹر کے پہنچے۔ مکرر یہ کہ چند اشعار مؤلفہ مرزا قادیانی رسالہ توضیح المرام میں ثبت ہیں۔ ان کے مطلب پر خدشہ گذرتا ہے مولانا مولوی محمد اسمٰعیل رحمۃ اللہ نے تقویت الایمان میں ایسے مضامین کی مذمت کی ہے۔ چونکہ مولانا مرحوم تیرھویں صدی کے مجدد تھے اور مرزا کو مجددیت کا دعویٰ چودھویں صدی مرکوز خاطر ہے۔ پھر ایک بات کو ایک مجدد ناجائز اور گنا ہ تحریر فرمائے دوسرا مجدد اسی بات کو اپنی کتاب میں ترویج دے یہ امر کیونکر جائز سمجھا جائے۔ اشعار ہیں۔
شان احمد را کہ داند جز خدا وندِ کریم
آنچنان از خود جدا شد کز میان افتاد میم
زان نمط شد محو دلبر کز کمالِ اتحاد
پیکر او شد سراسر صورتِ ربِّ رحیم
بوئے محبوبِ حقیقی مے دمد زان روئے پاک
ذات حقّانی صفاتش مظہرِ ذاتِ قدیم
گرچہ منسوبم کند کس سوئے الحاد و ضلال
چون دلِ احمدؐ نہ مے بینم دگر عرشِ عظیم
ان اشعار کا مضمون سر بسر عقیدہ وجودیہ پر دال ہے جس سے گروہ موحدین کو سوں متنفر چلا آتا ہے۔ مسلمانوں میں وجودی ہنود میں بیدانتی باہم ایک ہی ہیں۔ تعجب ہے کہ مرزا مدعی مجددیت ہو کر ایسے کلمہ ملحدانہ اپنی تالیف میں درج کرے۔ دلیری یہ۔ گرچہ منصوبم کند کس سوئے الحاد و ضلال۔ یعنی گو مجھے کوئی ملحد یا زندیق پڑا کہے میرا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ ہاں دنیا میں تو کوئی کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اِلاَّ روز حشر اس اَحکم الحاکمین کے سامنے قلعی کھل جائے گی۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 485
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 485
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/485/mode/1up
مولوی محمد احسن صاحب کا جواب
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
از عاجز سید محمد احسن بخدمت بوبہ شاہ و محمد اسحق صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دو خط آپ کے صادر ہوئے حال یہ ہے کہ رسائل اعلام الناس اب تقسیم مفت میں باقی نہیں رہے پچاس جلد اس احقر کو ملی تھیں وہ سب تقسیم ہو گئیں۔ اور لاہور میں چند اشخاص کے پاس یہ رسائل پہنچ گئے ہیں۔ آپ کسی سے خرید فرما لیجئے اور نسبت اشعار مندرجہ توضیح مرام کے جو خدشات آپ نے تحریر فرمائے ہیں وہ بہ سبب عدم غور اور تامل کے ہیں
شان احمد را کہ داند جز خداوند کریم
آنچنان از خود جدا شد کزمیان افتادمیم
اولؔ تو ان اشعار کا مطلب اور شرح خود حضرت اقدس نے سیاق اور سباق اشعار میں مفصل اور مشرح کر کر لکھ دی ہے کہ جس کے مطالعہ سے مخلصین کو کسی طرح کا خدشہ اور شبہ باقی نہیں رہتا۔ آپ اس مقام کو مطالعہ فرماویں اور اگر صرف لا تقربوا الصّلٰوۃ پر نظر رہے گی تو شکوک و شبہات کیونکر رفع ہو سکتے ہیں۔ ثانیاً ان آیات کے کیا معنی ہیں۔ ۱ ۲۔ ۳ ۴ و غیر ذٰلک من الاٰیات الکثیرۃ۔ جو معنے ان آیات کے آپ سمجھیں ان اشعار کو تفسیر اس کی تصور فرماویں ۔ ثالثاً ان اشعار میں کوئی خدشہ ظاہری بھی نہیں معلوم ہوتا حاصل مطلب یہ ہے کہ رتبہ و درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے خدائے کریم کے کوئی نہیں جان سکتا۔ آنحضرت کے رتبہ اعلیٰ کا تو ذکر ہی کیا ہے کسی ادنیٰ ولی کا
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 486
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 486
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/486/mode/1up
رتبہ بھی کوئی نہیں جان سکتا۔ مثل مشہور ہے۔ ولی را ولی مے شناسد۔ اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اپنی خودی اور ہوا ؤ ہوس سے ایسے جدا اور علیحدہ ہو گئے ہیں کہ کوئی امر مقتضائے خودی اور خودبینی کا سوائے مرضیات احدیت کے ان میں پایا نہیں جاتا۔ حدیث اصح الصحیح میں آنحضرت کے خادمین اولیا کی نسبت موجود ہے۔ کنت سمعہ الذی یسمع بہ و بصرہ الذی یبصر بہ و یدہ التی یبطش بھا و رجلہ التی یمشی بھا و لسانہ الذی یتکلم بہٖ الٰی اٰخرہٖ۔ آپ اس حدیث کے کیا معنے سمجھتے ہیں اُسی قسم کے یہ اشعار ہیں
زان نمط شد محو دلبر کز کمالِ اتحاد
پیکر او شد سراسر صورتِ ربِ رحیم
کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہ‘ کے کیا معنے ہیں اور خلق آدمؑ علٰی صورتہٖ کے معنے پر غور کرو اگرچہ ضمیر صورتہٖ میں بہت اختلاف ہے مگر جس صورت میں کہ ضمیر صورتہٖ کی راجع ہو طرف اللہ کے تو پھر کیا معنے ہوں گے۔ وہی معنے اس شعر کے سمجھے جائیں۔
بوئے محبوبِ حقیقی مے دمد زان روئے پاک
ذات حقانی صفاتش مظہر ذات قدیم
اے میرے پیارے دوست تم ہر جمعہ کے خطبہ میں سنتے ہو گے کہ السّلطان ظلّ اللّٰہ الخ۔ جب ایک ادنیٰ سلطان کے واسطے ایسا کچھ ارشاد ہے کہ وہ ظل اللہ ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مظہر الٰہی ہونے میں کون مومن شک کر سکتا ہے
گرچہ منسوبم کند کس سوئے الحاد و ضلال
چون دل احمد نمے بینم د گر عرش عظیم
مہربان من اس آیت کے کیا معنے ہیں۔ ۱۔ امام شافعی و نیز کبراؔ ء مجتہدین امت کے اشعار میں اس قسم کا محاورہ پایا جاتا ہے
ان کان رفضًا حب اٰل محمدٍ
فلیشھد الثقلان انی رافض
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 487
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 487
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/487/mode/1up
جو معانی ان محاورات کے ہیں وہی اس شعر کے معنے ہو سکتے ہیں۔ رابعاً کتاب منصب مامت اور صراط المستقیم مصنفہ مولانا و مقتدانا جناب شہید فی سبیل اللہ مولانا محمد اسمٰعیل صاحب کی ملاحظہ ہو ان دونوں کتابوں کو آپ شرح پاویں گے اُن مضامین کی جو حضرت اقدس کی تصانیف میں پائی جاتی ہیں۔ ’’ ہمچنین چون امواج جذب و کشش رحمانی نفس کاملہ این طالب را در قعر لجج بحا را حدیت فرو مے کشد زمزمہ انا الحق و لبس فی جبتی سوی اللّٰہ ازان سر بر میزند کہ کلام ہدایت الیتام کنت سمعہ الذی یسمع بہٖ و بصرہ الذی یبصر بہ و یدہ التی یبطش بھا و رجلہ التی یمشی بھا و در روایتے و لسانہ الذی یتکلم بہٖ۔ حکایتے است ازان۔ و اذ قال اللّٰہ علٰی لسان نبیّہ سمع اللّٰہ لمن حمدہ و یقضی اللّٰہ علٰی لسان نبیّہ ما شائکنایتے است ازان این مقالے است بس باریک و مسئلہ است بس نازک۔ باید کہ دران نیک تامل کنی و تفصیل او را بر معانی دیگر تفویض نمائی شعر و وراء ذاک فلا اقول لانہ اثر لسان النطق عنہ اخرس و زِنہار برین معاملہ تعجب نہ نمائی و بانکار پیش نہ آئی زیرا کہ چون از نارِ وادی ندائے ۱ سر بر زد اگر از نفس کاملہ کہ اشرف موجودات و نمونہ حضرت ذات است آواز انا الحق بر آید محل تعجب نیست ‘‘ الخ۔ پس اس مجدد الوقت کا کوئی کلام مخالف کلام مولانا محمد اسمٰعیل صاحب کے ہرگز ہرگز نہیں ہے بلکہ ایک صاحب کا کلام دوسرے صاحب کے کلام کی شرح ہے البتہ ناظرین کی نظر اور سمجھ کا قصور ہے اگر رسالہ اعلام آپ کو نہ ملے گا تو میں انشاء اللہ تعالیٰ خرید کر روانہ کروں گا اپنے حالات خیریت سمات سے ہمیشہ مطلع فرماتے رہو مورخہ ۳۱؍ جولائی ۱۸۹۱ء ۔
الراقم محمد احسن مہتمم مصارف ریاست بھوپال
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 488
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 488
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/488/mode/1up
بوبہ شاہ صاحب اور محمد اسحق صاحب کا جواب
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
از خاکسار بوبہ شاہ و محمد اسحٰق بخدمت گرامی جناب مولانا صاحب مولوی محمد احسن صاحب دام مجدھم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا گرامی نامہ موصول ہو کر کاشف مضامین مندرجہ ہوا اس جواب کے دیکھنے سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے نیاز نامہ کو کافی توجہ سے ملاحظہ نہیں فرمایا جناب من اصل خدشہ یہ ہے کہ جب مرزا صاحب نے اپنےؔ اور مسیح علیہ السلام کے لئے ایک ایسا درجہ ثابت کیا ہے جس کو ابن اللہ ہونے سے تعبیر کر سکتے ہیں حالانکہ کتاب و سنت میں اس کا بالکل ثبوت نہیں۔ تو یہ استفسار پیدا ہوا کہ اب جناب رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے کون سا درجہ باقی رہا۔ اُس کے جواب میں مرزا صاحب نے فرمایا کہ آپ کے لئے ایک اعلےٰ مقام اور برتر مرتبہ جو آپ کی ذات کمال الصفات پر ختم ہو گیا ہے جس کی کیفیت کو پہنچنا ہی کسی دوسرے کا کام نہیں۔ چہ جائیکہ وہ کسی اور کو حاصل ہو سکے۔ اسی جواب کے ذیل میں مرزا صاحب نے یہ اشعار تحریر فرمائے ہیں جن سے جناب رسول مقبو ل علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذات باری تعالیٰ سے اتحاد مفہوم ہوتا ہے اب اس اتحاد سے وحدت مجازی اور اتحاد صوری مراد ہے یا اتحاد حقیقی اور وحدت ذاتی۔ پہلی قسم کی وحدت تو آپ کے خادمین اولیاء کو بھی حاصل اور ثابت ہے جو مسیح علیہ السلام سے بدرجہا کم ہیں۔ آیہ ۱ اور حدیث کنت سمعہ الذی یسمع بہ الخ۔ ملاحظہ ہو پس اس قسم کی مراد ہونے کی تقدیر پر مرزا صاحب کا اپنے لئے مرتبہ ابنیت اور مساوات بالمسیح علیہ السلام ثابت کرنا اور اس کے مقابلہ میں جناب رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے وہ مرتبہ بیان کرنا جو حضرت مسیح علیہ السلام سے بدرجہا کم مرتبہ کے لوگوں کے لئے بھی ثابت اور متحقق ہے درحقیقت اپنے آپ کو
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 489
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 489
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/489/mode/1up
جناب رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام پر افضل و فایق قرار دینا ہے علاوہ بریں مرزا صاحب اس مقام پر جناب رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علو شان اور فوقیت علی المسیح علیہ السلام بیان کرنا چاہتے ہیں اور اس عام وصف کے بیان کرنے سے وہ مطلب حاصل نہیں ہو سکتا جس سے مرزاصاحب کا کلام مہمل ہوا جاتا ہے اس لئے ضرور دوسری قسم معنے اتحاد حقیقی اور وحدت ذاتی مراد ہونے چاہیئے اور یہی ہمارا سوال تھا کہ ان شعروں سے اتحاد الممکن مع الواجب ثابت ہوتا ہے جو باجماع المسلمین باطل ہے۔ اشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ228 سبحان الّذی اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ228 فَاَوْحٰی اِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰی228 قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ228 آپ کو واضح ہو گیا کہ صرف لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ پر آپ ہی نے نظر کو مقصور و محصور رکھا ہے نہ خاکساروں نے۔ قولکم ان آیات کے کیا معنے ہوں گے دَنٰی فَتَدَلّٰی الخ۔ جناب من ان آیات کے وہی معنے ہیں جو عائشہ رضی اللہ عنہا اور یا جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں۔ لیکن وہ آپ کو کیا مفید ہیں قولکم وَ مَا رَمَیْتَ الخ۔ اس قسم کا خطاب اوروں کے حق میں بھی موجود ہے جو مسیح علیہ السلام سےؔ کم ہیں۔ ۱ ۔(سورۃ الزمر) (یٰسٓ)۲ ۳ ۔کنت مرضت فلم تعدنی۔ مگر مرزا صاحب اپنے شعر میں ایسا وصف بیان کرنا چاہتے ہیں جو آپ کی ذات کامل الصفات پر ختم ہو گیا ہو اور اس سے آپ کا کمال علو منصب ثابت ہو برخلاف آیہ کریمہ ۴ کے کہ اُس سے یہ مقصود نہیں پس مرزا صاحب کے شعر کو آیت کریمہ پر قیاس کرنا درست نہیں ہو سکتا قولکم وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔الخ۔ غزوہ بدر اور غزوہ حدیبیہ میں جو غلطی آپ سے ہوئی تھی بقول آپ کے جناب باری عزّ اسمہٗ سے ہوئی ہو گی۔ افسوس مرزا صاحب کے عشق نے آپ کو کہاں سے کہاں پہنچایا سچ ہے حبک الشیء یعمی و یصم قولکم اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ الخ۔
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 490
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 490
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/490/mode/1up
اس آیہ کریمہ کا حال بھی آیت کریمہ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ کا سا ہے فقد مرّ۔ قولکم کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ الخ۔آپ کے نزدیک کسی شے کا ہلاک و فنا ہونا اور اس کا کسی دوسری چیز سے متحد ہو جانا ایک ہی بات ہو گی مع ھٰذا جب ہر چیز کو ہلاک ہونا اور بقول آپ کے ذات باری تعالیٰ سے متحد ہو جانا ضروری ہے تو اس میں جناب رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کیا خصوصیت ہوئی آپ وحدت الوجود کے مسئلہ کو یہاں کھپانا چاہتے ہیں لیکن آپ کے پیر کا سیاق و سباق کلام اُسے کھپنے نہیں دیتا اور آپ اپنے پیر صاحب کا کلام ملاحظہ کیجئے قولکم خلق اٰدم علٰی صورتہٖ الخ۔ مرجع قریب ہوتے ہوتے کیا ضرور ہے کہ بعید کی طرف ضمیر راجع کی جائے مع ھٰذا یہ بھی صفات مختصہبالنبی الکریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے نہ ہو گا ذرا تامل کیجئے قولکم اے میرے پیارے الخ۔ جناب رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مظہر ہونے میں شک کرنا فی الواقع کسی مومن کا کام نہیں لیکن اور کون سی چیز ہے جو مظہر نہیں ہے ہر چہ بینی بدانکہ مظہر او ست ۔ سبحان اللہ اپنے لئے ابن اللہ ہونے کا دعویٰ اور جناب رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے صرف مظہر ہونا جس میں ادنیٰ سے ادنیٰ ممکن آپ کا شریک ہے۔ آفرین باد بریں ہمت مردانۂ او۔ حاصل یہ کہ ان اشعار میں وحدت مجازی مراد لینے سے بقرینہ سیاق و سباق کلام مرزا صاحب کے فوقیت علی النبی الکریم علیہ الصلوٰۃ والسلام ثابت ہوتی ہے اور وحدت حقیقی مقصود ہو تو ۔۔۔ غُلّات کا مذہب ماننا پڑتا ہے و کلاھما کفر بالاجماع قولکم اس آیہ کے کیا معنے ہوں گے قل ان کان الخ۔ جناب من اس محاورہ اور طرز استعمال میں خدشہ نہیں ہے ۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر مرزا صاحب کا اشعار سابقہ میں اتحاد حقیقی مقصود و مراد نہ ہو تو پھر ان اشعار میں کون سی بات ہے جس کے سبب سے کوئی ان کو الحاد اور کفر کی طرف منسوب کرے گا اس شعر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کے اشعار سابقہ میں وحدت حقیقی مراد ہے جس پر ان کو خدشہ ہوا کہ علمائے شریعت ملحد کہیں گے پس آپ نے جو کچھ ان کے کلام کو
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 491
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 491
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/491/mode/1up
وحدت مجازی وغیرہ پر محمول کرنے میں کوشش کیؔ ہے مرزا صاحب کے نزدیک رائیگاں ہے یا رب مباد کس را مخدوم بے عنایت۔ قولکم کتاب منصب امامت و صراط المستقیم الخ۔ شاید آیہ کریمہ ۱ آپ کے نزدیک منسوخ ہو گئی ہو گی جو منصب وغیرہ پر چلنے کی ہدایت ہوتی ہے علاوہ بریں منصب امامت اور صراط المستقیم کو تقویت الایمان پر کیا ترجیح ہے جو اُسے چھوڑ کر اُن پر چلیں۔ صفحہ ۶۲۔ تقویت الایمان ملاحظہ فرمائیے کہ اس میں مولانا محمد اسمٰعیل شہید علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں ۔ بلکہ بعض جھوٹے دغا بازوں نے اس بات کو خود پیغمبر کی طرف نسبت کیا ہے کہ انہوں نے خود فرمایا ہے انا احمدبلا میم اور اسی طرح ایک بڑی عبارت عربی کی بنا کر اس میں ایسی ایسی خرافتیں جمع کر کر اس کا نام خطبۃالافتخار رکھا ہے۔ اور اس کو حضرت علیؓ مرتضےٰ کی طرف نسبت کیا ہے سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ اللہ سارے جھوٹوں کا مونہہ کالا کرے انتہٰی۔ یہ عبارت مولانا مرحوم کی دربارہ رد لفظ احمد بلا میم نص صریح ہے اس کے مقابلہ میں منصب اور صراط مستقیم کے مضامین مبہم قابل حجت نہیں ہو سکتے بلکہ صحیحین کی حدیث میں آیا ہے رسول صلعم نے فرمایا لا تطرونی کما اطرت النصارٰی عیسَی ابن مریم فانّما انا عبدہ فقولوا عبداللّٰہ و رسولہٗ فقط۔
جناب من خاکساروں نے آپ کو قدیمی شفیق تصور کر کے دوبارہ تصدیعہ دیا ہے تاکہ خدشات ہمارے رفع ہو جائیں شاید اگر جناب کے نزدیک کوئی لفظ ناملائم معلوم ہو تو معاف فرمادیں۔ اگر معاملہ دینی نہ ہوتا تو جو کچھ آپ تحریر فرما دیتے اس کے قبول کرنے میں عذر نہ ہوتا چونکہ یہ معاملہ متعلق دین اور اعتقاد کے ہے اور وجودیوں کو ہم جمیع پیشوایان دین سے مخالف و مخرب شریعت سنتے آئے ہیں خصوص جملہ فرق اسلام سے یہ فرقہ بد ترین ہے پھر کیونکر صبر کیا جاتا۔ عریضہ بوبہ شاہ و محمداسحٰق مورخہ ۳۰۔ اگست ۱۸۹۱ء
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 492
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 492
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/492/mode/1up
مولوی سیّد محمد احسن صاحب کا جواب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
محبی فی اللہ و اخی ِ ِ للہ منشی محمد اسحٰق صاحب و منشی بوبہ شاہ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ نے صادر ہو کر محظوظ و مسرور کیا۔ جزاکم اللہ خیرالجزاء آپ کو تحقیق مسائل کا بڑا شوق ہے اور اس پر یہ بڑی خوبی ہے کہ کتاب و سنت ہی آپ کا مطمح نظر ہے آپ جیسے صاحبوں سے قبول حق کی بڑی امیدؔ ہے تقلید کی صورت میں یہ امید نہیں ہوتی۔ خط حال میں آپ نے چند اعتراض کئے ہیں۔ میرے پہلے خط کو آپ نے غور سے ملاحظہ نہیں فرمایا لہذا مکرر لکھتا ہوں۔
اعتراض اول حضرت مرزا صاحب نے اپنے اور مسیح علیہ السلام کے لئے ایک ایسا درجہ ثابت کیا ہے جس کو ابن اللہ کے ساتھ تعبیر کر سکتے ہیں۔ حالانکہ کتاب و سنت میں بالکل اس کا ثبوت نہیں ہے۔
الجواب بے شک بہت صحیح ہے۔ کتاب و سنت میں اس مرتبہ کے ثبوت کا کیا ذکر ہے۔ اس کی نفی موجود ہے اور یہ تو مذہب یہود و نصاریٰ کا ہے۔ ۱۔اور فرمایا ۲ لیکن اے میرے محب فی اللہ مرزا صاحب اس کے کب قائل ہیں وہ اس کی نسبت یہ کہتے ہیں ’’ جس کو ناپاک طبیعتوں نے مشرکانہ طور پر سمجھ لیا ہے اور ذرا امکان کو جو ہالکۃ الذات باطلۃ الحقیقت ہے حضرت اعلیٰ واجب الوجوب کے ساتھ برابر ٹھہرا دیا ہے ‘‘ انتہی بلفظہٖ۔ مرزا صاحب کے کلام سے صحیح و صریح معلوم ہوا کہ جو لوگ ایسی تثلیث کے قائل ہیں اُن کی طبیعتیں ناپاک ہیں اور وہ مشرک ہیں اور عیسٰیؑ ابن مریم ہوں یا ان کے
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 493
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 493
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/493/mode/1up
مثیل وہ سب ایک ذرہ امکان ہیں جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے بقول شاعر
آنکس کہ اولش عدم و آخرش فنا است228 درحق او گمان ثبات و بقا خطا است
اسی واسطے اس ذرہ ا مکان کو فرمایا کہ وہ تو اپنی ذات میں بالکل ہالک اور فانی ہے کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہ‘۔ پھر آگے فرمایا کہ اس کی حقیقت ہی محض باطل ہے۔ الا کل شی ما خلا اللّٰہ باطل جبکہ اس ذرہ کی یہ حقیقت ٹھہری کہ وہ اپنی حقیقت میں ہی باطل ہے تو ایسی ذات کے ساتھ جو سب سے اعلےٰ ہے اور واجب الوجود ہے کیونکر کسی بات یا صفات میں شریک و برابر ہو سکتا ہے اب آپ کو مرزا صاحب کا عقیدہ تو اُسی رسالہ توضیح المرام سے معلوم ہو گیا اور یہی عقیدہ ہمارا اور آپ کا ہے۔ اب اس قدر گذارش اور ہے کہ جو نسبتیں اور حالتیں عارفین اولیاء اللہ پر وارد ہوتی ہیں اُن کو ہم پورے پورے طور پر نہیں سمجھ سکتے۔ کہ ولی را ولی می شناسد۔ مثل مشہور ہے مگر بطور نمونہ ایک حالت جو مجھ پر اور آپ پر اور سب پر طاری ہوئی ہے یا ہوتی ہے میں اس کو یاد دلاتا ہوں۔ جب آپ حالت طفولیت میں زیر تربیت اپنے والدین کے تھے تب اپنے والدین پر آپ کو سب طرح سے اطمینان تھا۔ نہ آپ کو کھانے کی فکر تھی۔ نہ آپ کو لباس کی فکر تھی۔ نہ آپ کو کسی دشمن کی فکر تھی اور جملہ امور میں رجوع آپ کی اپنے والدین ہی کی طرف رہتی تھی حتیّٰ کہ اگر والدہ نے کبھی آپ کو مارا بھی ہو گا تو بھی آپ نے والدہ ہی کی طرف رجوع کیا ہو گا۔ مثل مشہور ہے کہ ماں مارے لڑکا ماں ہی ماں پکارے یہ حالت تو آپ کی ہوئی۔ ابؔ اپنے والدین کی حالت کو دیکھئے۔ ان کی شفقت اور محبت کا کچھ ذکر ہی نہیں دنیا بھر کی خوبی و ہ آپ ہی کے واسطے چاہتے ہیں اور آپ کے دشمن کو اگر ان کا قابو چلتا تو نیست و نابود ہی کر ڈالتے اب میں آپ سے دریافت کرتا ہوں کہ اگر کسی مومن کی حالت توکل اپنے رب معبود کے ساتھ بلا تشبیہ مجازًا ایسی ہی ہو جیسا کہ آپ کو اپنے والدین مربی کے ساتھ تھی اور سب طرح سے آپ کو اپنے والدین مربی پر اطمینان تھا تو کیا یہ حالت بھی شرک یا کفر ہے۔ آپ ضرور فرماویں گے کہ یہ حالت
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 494
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 494
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/494/mode/1up
کیوں شرک ہوتی یہ تو کمال مقتضائے ایمان ہے پھر اگر اس درجہ کمال ایمان پر مرزا صاحب پہنچے ہوئے ہوں تو اس میں کون سا امر خلاف کتاب و سنت کے ہے مولانا شاہ ولی اللہ صاحب نے تفسیر فوز الکبیر میں لکھا ہے کہ اگر ہم تسلیم کر لیں کہ اناجیل میں لفظ ابن اللہ آیا ہے تو واضح ہو کہ معنے لفظ ابن کے زمان قدیم میں محبوب اور پیارے کے آئے ہیں اور یہی معنے محاورات انجیل سے معلوم ہوتے ہیں انتہیٰ حاصلہ۔ اسی طرح پر حضرت مرزا صاحب کو مراتب ثلاثہ قرب الٰہی کے مکشوف ہوئے ہیں جن میں سے ایک یہ مرتبہ ہے کہ بطور استعارہ و تمثیل کے اُس مرتبہ کو علاقہ ابنیت سے تعبیرکر سکتے ہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ مخلوق میں سے کسی کومرتبہ ابنیت کا حقیقتاً حاصل ہو۔ نعوذ باللہ منہ۔
اگر آپ کہیں کہ ہم کو کتاب و سنت سے اس مرتبہ کا پتہ اور نشان بتلاؤ تب ہماری پوری تسکین ہو گی واذ لا فلا ۔ لیجئے فرمایا اللہ تعالیٰ نے۔ ۱ جب تک کہ یہ حالت جو اوپر مذکور ہوئی تقاضائے ایمان کامل سے حاصل نہ ہو تو کیونکر ایسا ذکر الٰہی آدمی کر سکتا ہے جیسا آیت میں مذکور و مامور ہے اور جیسا کہ آیت میں کاف حرف تشبیہ کا موجود ہے۔ حضرت مرزا صاحب نے بھی جا بجا لفظ استعارہ وغیرہ الفاظ مجاز کا استعمال کیا ہے جو ویسا ہی آیت میں بھی مذکور ہے پھر اُسی آیت کی تفسیر حضرت مرزا صاحب نے کی ہے اور پھر طبرانی کی حدیث میں حرف تشبیہ تک نہیں ہے۔ الخلق کلھم عیال اللّٰہ و احبھم الیہ انفعھم لعیالہ اے میرے دوست اولیاء اللہ کا کوئی کلام جس پر اُن کو اصرار ہو ایسا نہیں ہوتا جو کتاب و سنت سے مستنبط نہ ہو لیکن اس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا اور مخالف رہتا ہے الناس اعداء لما جھلوا۔ البتہ استنباط والے لوگ ہی اس کو سمجھ لیتے ہیں۔ قال اللّٰہ تعالٰی ۲۔
اعتراض دوم۔ آپ کا یہ ہے کہ مرزا صاحب کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 495
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 495
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/495/mode/1up
کا اتحاد اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتحاد حقیقی ہے جو باجماع مسلمین باطل ہے اور اگر اتحاد مجازی مراد لی جاوے تو اُس میں کوئی فضیلتؔ حضرت نبی علیہ السلام کو حاصل نہیں ہوتی مرزاصاحب ہی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل ہوئے جاتے ہیں کہ ابن اللہ ہیں۔
الجواب۔بے شک اتحاد حقیقی باطل ہے باطل ہے اور پھر باطل ہے اٰمنّا ببطلانہٖ یہی ہمارا آپ کا عقیدہ ہے اور مرزا صاحب کا بھی یہی عقیدہ ہے۔اتنا فرق عبارتی ہے کہ آپ نے فرمایا اتحاد الممکن مع الواجب باطل۔ اور مرزا صاحب اس سے بڑھ کر فرماتے ہیں۔ اتحاد ذرۃ الامکان ھالکۃ الذات باطلۃ الحقیقۃ مع الذات الاعلی الواجب وجودہ باطل۔ اور وصف اتحاد مجازی کا آپ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے خادمین کو بھی تسلیم فرما چکے ہیں تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطریق اولیٰ حاصل ہو گا۔ اُس میں ہمارا آپ کا کوئی نزاع نہیں ہے صرف شُبہ یہ رہا کہ جو وصف مشترک ہے اُس میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ خصوصیت اور فضیلت حاصل نہیں ہوتی۔ اے میرے پیارے دوستو اسی قدر آپ کی غلط فہمی ہے۔ اگر یہ غلطی رفع ہو جاوے تو فیصلہ شد۔ اب اس کا رفع لیجئے میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ وصف منعم علیہم ہونے کا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مومنین صالحین تک مشترک ہے قال اللّٰہ تعالٰی ۱ وقال تعالٰی فی تفسیرہٖ۔ ۲ ۔ تو کیااس وصف میں آپ جو میرے نزدیک صالحین میں داخل ہیں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہیں ما ھو جوابکم فھو جوابنا۔ اس کو بھی رہنے دیجئے وصف مومن ہونے کا ایک ایسا وصف ہے جس میں مومن فاسق سے لے کر تا حضرت خاتم النبیین سب میں پایا جاتا ہے۔ اور سب کو مومن کہتے ہیں تو
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 496
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 496
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/496/mode/1up
کیا مومن فاسق حضرت نبی علیہ السلام کے برابر ہو گیا؟ اس کو بھی رہنے دیجئے لفظ وجود ایک ایسی کلی ہے جس میں تمام سلسلہ ممکنات ادنیٰ اعلیٰ سے لے کر تاواجب الوجود سب شریک ہیں تو کیا وجود ممکن وجود واجب تعالیٰ کے برابر ہے پہلی تقریر میں ہم اور آپ دونوں اس کو باطل کہہ چکے ہیں۔ ایسی مثالیں سینکڑوں میں آپ کے رو برو پیش کر سکتا ہوں آپ ان کا کیا جواب دیویں گے ما ھو جوابکم فھو الجواب من حضرت المجدّد۔ اے میرے پیارے دوستو آپ نے اگر ابتدائی رسائل منطق کے بھی دیکھے ہوں گے تو اُن میں جواب اس کا بآسانی آپ کو ملے گا کلیات کی دو قسمیں ہیں ایک کلی متواطی جس کے افراد سب مساوی ہوں۔ دوسری کلی مشکک جس کے افراد مختلف ہوتے ہیں۔ پس مرزاصاحب یہی فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وصف اتحادی مجازی میں جو آپ کو بھی مسلّم ہے ایسے مقام اعلیٰ اور برتر پر پہنچے ہوئے ہیں کہ نہ مسیح اس مرتبہ تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ کوئی اور ملک یا نبی
اگرؔ یک سرِ موئے برتر پرم
فروغِ تجلے بسوزد پرم
اور حضرت مجدد نے اسی مرتبہ کا نام مقام جمع اور مقام وحدت تامہ رکھا ہے جس کے سبب سے وہ آیات حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں وارد ہوئیں جو میں نے خط سابق میں آپ کو لکھی تھیں اگرچہ ظلّی اور طفیلی طور پر آپ کے خادمین کے حق میں بھی وارد ہوئی ہوں۔ اب سچ سچ فرماؤ کہ لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃ پرآپ کا عمل تھا یا اس ناچیز کا۔
اعتراض سوم۔ آپ کا یہ ہے کہ آیت دَنٰی فَتَدَلّٰی آپ کے مطلب کو مفید نہیں۔
الجواب۔ اس آیہ کی تفسیر میں مفسرین نے بہت سے وجوہ لکھے ہیں اور ہر ایک مفسر نے اپنی اپنی وجہ کو دلائل سے مبرہن اور موجہ کیا ہے آپ کے نزدیک جو وجہ مختار ہو اُسی کو اپنا
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 497
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 497
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/497/mode/1up
مذہب رکھئے۔ کیونکہ مدعا ہمارا یعنے اتحاد مجازی تو آپ تسلیم ہی فرما چکے ہیں۔ ثبوت مدعا اس آیت پر موقوف نہیں لیکن جس صاحب کے نزدیک اس آیہ کی تفسیر و ترجمہ اس طرح پر ہو (کہ نزدیک ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے پھر نیچے کی طرف اُترے یعنی مخلوق کی طرف واسطے تبلیغ احکام کے بلکہ اس سے زیادہ نزدیک تر ہوئے) حاصل یہ کہ ضمیر دَنٰی فَتَدَلّٰی وغیرہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راجع ہو جیسا کہ اکثر مفسرین نے لکھا ہے ۔ تو اس صورت میں جس اتحاد مجازی کے واسطے اس آیہ کو میں نے سابق میں لکھا تھا بخوبی مفید ہو گی اگر مفصلاً و مشرحاً آپ کو یہ تفسیر مطلوب ہو گی تو انشاء اللہ تعالیٰ عرض کی جاوے گی اور واضح خاطر ہو جیسا کہ در صورت اختلاف احادیث کے جمع مقدم ہوتی ہے ترجیح پر تاکہ اہمال احادیث کا لازم نہ آوے۔ اسی طرح پر جب کسی آیت کی وجوہ صحیحہ تفسیر مختلف ہوں تو مھما امکن سب وجوہ کو اخذ کرنا چاہئے تاکہ سب پر اعمال ہو جاوے اور اہمال لازم نہ آوے۔ اس ہیچمدان کے نزدیک تفسیر اس آیہ کی جو حضرت مجدّد پر مکشوف ہوئی ہے وہ کسی مجدّد سابق پر مکشوف نہیں ہوئی کم ترک الاول للاٰخر اس میں کوئی استبعاد نہیں ہے۔ قال اللّٰہ تعالٰی ۱ ۔جبکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہر ایک شے کے خزائن کثیرہ موجودہیں تو کیا معارف قرآنیہ و اسرار فرقانیہ شے میں داخل نہیں ہیں وہ تو اپنے اپنے وقت میں مجدد امت پر نازل ہوتے رہتے ہیں اور اسی واسطے اُس کو مجدّد کہا گیا ہے کہ وہ فہم جدید کتاب و سنت کا لاتا ہے کوئی شریعت جدید نہیں لاتا اگر فہم جدید بھی نہ لاتا ہو تو ۔۔۔ اُس کو مجدّد کیوں کہا گیا آیت مَارَمَیْتَ وغیرہ کی نسبت جو آپ نے لکھا ہے کہ ایسا وصف اوروں کے واسطے بھی آیا ہے اس میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا فضیلت بخصوصیت حاصل ہوئی۔۔۔اسؔ کا
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 498
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 498
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/498/mode/1up
جواب ہو چکا بطور کلی مشکک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُس وصف میں ایسے درجہ کمال پر پہنچے ہوئے ہیں کہ کوئی دوسرا نبی و ملک اس میں شریک نہیں ہے این ہم فیصلہ شد۔
اعتراض چہارم آپ کا یہ ہے کہ غزوہ بدر و غزوہ حدیبیہ میں جو غلطی آپ سے ہوئی وہ آپ کے نزدیک جناب باری عزّ اسمہٗ سے ہوئی ہو گی۔
الجواب۔اے میرے پیارے دوستو بغضک الشیء یعمی و یصم۔ افسوس مرزا صاحب کے بغض بلا وجہ نے آپ کو کہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ہے ہنر بچشم عداوت بزرگ تر عیب است۔ باوجودیکہ مرزا صاحب کے کلام میں جا بجا تصریحات موجودہیں کہ یہ وصف اتحاد بطور استعارہ و مجاز کے ہے نہ حقیقتاً بلکہ خود شعر میں لفظ (آنچنان) کا جو خاص مجاز کے واسطے آتا ہے موجود ہے اور یہ عبارت (کہ ذرہ امکان ہالکۃ الذات باطلۃ الحقیقت اس ذات اعلیٰ واجب الوجود سے کیونکر برابر ہو سکتا ہے) بھی توضیح المرام میں موجود ہے۔ آپ یہی سمجھتے ہیں کہ مرزا صاحب وحدۃ الوجود کے قائل ہیں کلا ثم کلا۔ اے میرے پیارے دوستو۔ یہ اعتراض تو اس شخص پر وارد ہو سکتا ہے جو قائل ہو اتحاد حقیقی کا نعوذ باللہ منہ ایں ہم فیصلہ شد۔
اور یہ اعتراض کہ آیت کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہ‘ سے اتحاد ثابت نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو کچھ مفید نہیں کہ اس میں کل شیء مشترک ہے۔
الجواب۔ بے شک معنے ظاہری آیہ سے اتحاد ثابت نہیں ہوتا اور جو ایک طرح کے اشارہ سے اولیاء و عرفاء اتحاد مجازی نکالتے ہیں وہ معنے بہت خفی ہیں۔ غیر پر حجت بینہ نہیں ہو سکتے۔ میں نے ضمن میں دیگر آیات کے اس آیہ کو بھی لکھ دیا تھا۔ لیکن وہ معنے خفی باطل بھی نہیں کیونکہ اتحاد مجازی کو تو آپ بھی تسلیم فرما ہی چکے ہیں کہ یہ وصف تو ادنیٰ خادمین
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 499
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 499
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/499/mode/1up
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل ہے اور یہ ثابت ہو چکا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور کلی مشکک کے اعلیٰ درجہ کا یہ وصف حاصل ہے اندریں صورت آیہ مذکورہ ایک خفی اشارہ اس اتحاد مجازی پر بھی کرتی ہے۔ آفتاب اور ستاروں کا وجود دو۲ وجود ہیں لیکن روز روشن میں سوائے وجود آفتاب کے دوسرا وجود ستاروں کا موجود ہی نہیں ۔شیخ بوستان لکھتا ہے
رہِ عقل جز پیچ در پیچ نیست بر عارفان جز خدا ہیچ نیست
توان گفتن این با حقایق شناس ولے خوردہ گیر ند اہلِ قیاس
الیٰ قولہ۔ ولے اہل صورت کجا پے برند کہ ارباب معنے بہ ملکے درند
کہ گر آفتاب ست یک ذرّہ نیست و گر ہفت دریاست یک قطرہ نیست
چو سلطانِ عزت علم بر کشد جہان جہانؔ سربجیب عدم در کشد
الے قولہ۔ مگر دیدہ باشی کہ در باغ و راغ بتابد بشب کرمکے چوں چراغ
یکے گفتش اے کرمک شب فروز چہ بودت کہ بیرون نیائی بروز
ببین کاتشین کرمکِ خاک زاد جواب از سرِ روشنائی چہ داد
کہ من روزو شب جز بصحرا نیم ولے پیش خورشید پیدانیم
اگر آپ کہیں کہ اقوال شیخ بوستان سے مسائل مہمہ میں یہ کیسا استناد ہے تو جواب یہ ہے کہ اس اتحاد مجازی کے ثبوت میں مولوی محمد حسین صاحب نے ایک بہت عمدہ نقل لکھی ہے۔ شیخ محیی الدین ابن عربی کی کتاب سے غایۃ الوصلۃ ان یکون الشیء عین ما ظھر و لا یعرف کما رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم و قد عانق ابن حزم المحدث فغاب احدھما فی الاٰخر فلم نر الا واحدا و ھو رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم فھٰذہٖ غایۃ الوصلۃ وھو المعبر عنہ بالاتّحاد۔ و لنعم ما قیل۔
جذبۂ شوق بحدیست میانِ من و تو کہ رقیب آمد و نہ شناخت نشانِ من و تو
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 500
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 500
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/500/mode/1up
آگے رہا یہ شبہ کہ جب ہر ایک شے میں یہ وصف مشترک ہے تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے کیا فضیلت ہوئی تو اس کا جواب مکرر سہ کرر گذر چکا یاد کرو کلی مشکک کو۔ اور پھر جبکہ بقول آپ کے سباق و سیاق کلام مرزا صاحب کا وحدۃ الوجود کے مسئلہ کو ردّ کرتا ہے تو اب نزاع ہی کیا رہا۔ اور جبکہ وحدۃ الوجود کا مسئلہ میری اور آپ کی سمجھ سے باہر ہے تو پھر میں اس کا کیونکر قائل ہو سکتا ہوں۔ ۱۔ آپ مجھ کو بلا وجہ الزام دیتے ہیں۔
اعتراض ششم آپ کا یہ ہے کہ ضمیر صورتہٖ میں راجع طرف قریب کے ہونی چاہئے بعید کی طرف کیوں پھیرتے ہو۔
الجواب۔ جو آپ نے معنے حدیث کے سمجھے ہیں وہ بھی صحیح ہیں۔ اور جو احتمال اس ہیچمدان نے لکھا تھا وہ بھی درست ہے کیونکہ اس کو ترجیح اس وجہ سے ہے کہ مرجع ضمیر کا اُس میں عمدہ ہوتا ہے ۔ بخلاف آپ کے احتمال کے کہ اُس میں مرجع ضمیر کا فضلہ ہوتا ہے متعلقات فعل میں ضمیر کا رجوع عمدہ کی طرف مناسب ہے۔ نہ فضلہ کی طرف۔ این ہم فیصلہ شد
اعتراض ہفتم آپ کا یہ ہے۔ ہر چہ بینی بدانکہ مظہر اوست۔ پھر اس وصف مظہریّت سے حضرت صلعم کو کون سی فضیلت حاصل ہوئی۔
الجواب۔ یہ وصف بھی بدرجہ اکمل جس سے فوق متصور نہیں۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں پایاؔ جاتاہے دوسرے میں نہیں پایا جاتا۔ وہی کلی مشکک کا حال اور علاقہ ابنیت جو بطور استعارہ حضرت مسیح یا مثیل مسیح وغیرہ کو حاصل ہے وہ بدرجہا کم ہے اس وصف وحدت تامہ سے جس کی تفصیل اوپر ہو چکی الحاصل واسطے سمجھنے کے آپ ان مراتب ثلاثہ قرب الٰہیہ کو بطور استعارہ و تمثیل کے یوں سمجھ لیجئے کہ ایک طرح کے مقربین کو ایسا
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 501
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 501
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/501/mode/1up
قرب الٰہی بلا تشبیہ حاصل ہے جیسا کہ خادم خاص فرمانبردار کو اپنے مخدوم کے ساتھ
یہ ادنیٰ درجہ قرب کا ہے جو فی نفسہٖ وہ بھی بہت بڑا ہے کہ اُس کی نسبت وارد ہے ۱ ۔ دوسرا مرتبہ قرب کا بلا تشبیہ ایسا ہے جیسا کہ خلف الرشید پسر کو اپنے والد ماجد سے جس کی طرف اشارہ ہے ۲۔ تیسرا مرتبہ قرب کا کہ سب سے بڑھ کر ہے اُس کی تمثیل بطور استعارہ کے ایسی ہے کہ کسی شخص کی تصویر جو آئینہ میں دکھائی دیتی ہو کہ اس میں تمام صفات ذی الصورت کے موجود ہوں گے۔ ان تینوں مراتب میں جو فرق ہے وہ اہل بصیرت پر پوشیدہ نہیں ہے اور یہی خلاصہ اور حاصل ہے حضرت مجدّد صاحب کی کلام کا جو توضیح المرام میں مذکور ہے۔
اعتراض ہشتم آپ کا یہ ہے کہ اتحاد سے مراد اگر اتحاد مجازی ہے تو کچھ موجب فضیلت نہیں اور اگر اتحاد حقیقی مراد ہے تو کفر ہے۔
الجواب۔ جواب اس کا گذر چکا کہ قول اتحاد حقیقی کا بلا شبہ کفر ہے اور اتحاد مجازی مجھ کو اور آپ کو دونوں کو مسلم ہے جس کے مدارج بطور کلی مشکک کے مختلف ہیں۔ سب سے اوپر کے مرتبہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے کہ اس مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ اٰدم و من دونہٖ تحت لوائی۔
اعتراض نہم۔ اس محاورہ اور طرز استعمال میں کوئی خدشہ نہیں۔
الجواب۔ پھر مرزا صاحب پر آپ کیوں خدشہ کرتے ہیں جو خدشہ آپ کا مرزا صاحب پر ہے وہی بعینہٖ امام شافعی و ابن تیمیہ وغیرہ پر وارد ہوتا ہے۔ قال الشافعی:
ان کان رفضًا حبّ اٰل محمد فلیشھد الثقلان انّی رافض
و قال شیخ الاسلام ابن تیمیۃ:
ان کان نصبًاحبّ صحب محمد فلیشھد الثقلان انی ناصب
و قال ابن قیم:
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 502
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 502
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/502/mode/1up
فان کان تجسیما ثبوت صفاتہٖ لدیکم فانی الیوم عبد مجسم
ما ھو جوابکم من ھذہ الا کابر فھو الجواب من المجدّد اے میرے مخدوم ۔ ذرہ میرے حال پر عنایت فرما کر خط حال اور خط سابقہ کو غور سے پڑھو ورنہ پھر میں بھی یہ مصرعہ پڑھے دیتا ہوں یا رب مباد کس را مخدوم بے عنایت۔
اعتراضؔ دہم۔ کتاب منصب امامت پر چلنے کی کیوں ہدایت ہے آیت ۱۔ کیا منسوخ ہو گئی۔ آخر خط تک ۔
الجواب۔ گستاخی معاف تقویۃ الایمان پر چلنے کی کیوں ہدایت ہے کیا آیہ مذکورہ منسوخ ہو گئی جو تقویۃ الایمان وغیرہ پر چلنے کی ہدایت ہوتی ہے۔ ما ھو جوابکم فھو جوابنا۔ علاوہ یہ کہ تقویت الایمان کو منصب امامت وغیرہ پر کیا ترجیح ہے جو انہیں چھوڑ کر اُس پر چلیں بلکہ منصب امامت اور صراط مستقیم کو تقویت الایمان پر ضرور بالضرور ترجیح حاصل ہے کیونکہ یہ دونوں کتابیں آخری تصنیف ہیں اور قول آخر قول سابق کا ناسخ ہوا کرتا ہے اور پھر یہ عرض ہے کہ میں نے آپ کو منصب امامت پر چلنے کی کب ہدایت کی ہے خود آپ نے خط اول میں لکھا تھا کہ مولانا اسمٰعیل صاحب شہید و مجدّد نے ایسے مضامین کی جو توضیح المرام میں لکھے ہیں ۔ تقویت الایمان میں مذمت کی ہے میں نے آپ کے جواب میں الزاماً لکھا کہ خود حضرت مولانا اسمٰعیل صاحب نے ایسے مضامین کو منصب امامت صراط مستقیم میں صحیح فرمایا ہے۔ اب فرمائیے کہ مولانا اسمٰعیل مجدّد صاحب کی کتاب پر چلنے کا ذکر اولاً آپ نے کیا یامیں نے۔ اور پھر یہ عرض ہے کہ تقویت الایمان اور منصب امامت وغیرہ میں کوئی تناقض بھی نہیں ہے جو تقویت الایمان پر چلنے سے منصب امامت وغیرہ ہاتھ سے جاتی رہے یا منصب امامت وغیرہ پر چلنے سے تقویت الایمان فوت ہو جاوے۔ کیونکہ ان دونوں میں کسی طرح کا تناقض اور تضاد نہیں ہے میں دو جملہ عرض کرتا ہوں۔ سنئے۔ زید
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 503
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 503
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/503/mode/1up
باعتبار شجاعت کے مجازًا شیر ہے ۔ اور زید باعتبار حقیقت کے ہرگز شیر نہیں ہے۔ ان دونوں میں کیا تناقض ہے۔ رسائل منطق میں آپ نے دیکھا پڑھا ہو گا در تناقض ہشت وحدت شرط دان۔۔۔ وحدتِ موضوع و محمول و مکان۔ الیٰ آخرہ۔ جو ہدایات تقویت الایمان میں ہیں۔ وہ باعتبار حقیقت کے ہیں اور جو معارف و اسرار منصب امامت وغیرہ میں مذکور ہوئے ہیں۔ وہ دوسرے اعتبارات پر مسطور ہیں۔ لو لا الاعتبارات لبطلت الحکمۃ۔ جو صاحب منصب امامت وغیرہ کے مضامین کا انکار کرتے ہیں وہ عین حکمت کو باطل کر رہے ہیں اور پھر یہ گذارش ہے کہ یہ سب نزاع بھی جانے دیجئے آپ سے میں اور کچھ نہیں کہتا۔ آپ تقویت الایمان پر ہی عامل رہیئے لیکن حضرت مرزا صاحب کو مثل حضرت مولانا اسمٰعیل شہید و مجدّد کی اور اُن کی کتاب توضیح المرام کو مثل کتاب منصب امامت وغیرہ کے تصور کیجئے۔ جو حالت آخر میں حضرت مولانا اسمٰعیل صاحب شہید فی سبیل و مجدّد کو حاصل ہوئی وہی حالتؔ ابتدا سے اس مجدّد الوقت کی ہے۔ اور جیسے اسرار و معارف کتاب منصب امامت صراط مستقیم میں لکھے ہیں ویسے معارف توضیح المرام وغیرہ میں لکھے ہیں۔ پس این ہم فیصلہ شد۔ اے میرے پیارے دوست پورے پورے غیر مقلد نہ آپ ہیں اور نہ میں ہوں۔ کسی مسئلہ کی جب ہم اور آپ تحقیق کرنے بیٹھے تو بڑا کمال ہمارا یہ ہو گا کہ تقویت الایمان میں یوں لکھا ہے اور منصب امامت میں ووں لکھا ہے اور جلالین میں ایسا کچھ مندرج ہے اور کمالین میں ایسا کچھ اور اگر زیادہ تر اس سے تو غل علمی ہو گا تو مولوی محمد حسین کی طرح حوالے مسلّم الثبوت اور مطول حمد اللہ ملا حسن ارشاد الفحول دائرۃ الوصول کے ہونے لگیں گے۔ اب آپ فرمائیے یہ تقلید نہیں تو کیا ہے پورا پورا غیر مقلد تو وہی شخص ہو گا جو صاحب نفس قدسیہ اور مؤید من اللہ ہو اور مرتبہ مجدّدیّت پر اللہ تعالےٰ نے اُس کو مبعوث
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 504
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 504
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/504/mode/1up
فرمایا ہو۔ میرے علم ناقص کے رو سے یہ منصب اس زمانہ میں سوائے حضرت مرزا صاحب کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔ کلکتہ سے پنجاب تک اور دامن کوہ ہمالہ سے بمبئی تک اس احقر نے سفر کیا اور اکثر علماء سے ملاقاتیں ہوئیں لیکن جو بات باوجود نہ ہونے ملاقات کے اس مسافت بعیدہ پر میں نے مرزا صاحب میں پائی وہ کسی میں نہیں پائی۔ورنہ یہ عاجز غیر مقلدوں میں دم بھرنے والا کیونکر اول حضرت کا ارادتمند ہو جاتا۔
اور امتحان بغیر تو یہ آپ کا غلام قائل نہیں ہے قبلہ کسی شیخ و شاب کا
کبھی آپ نے نہ سنا ہو گا کہ حضرت مرزا صاحب کے یہاں مسلم الثبوت کا درس ہو رہا ہے یا مطول پڑھائی جاتی ہے یا ُ ملاّ حسن حمد اللہ کی تعلیم ہو رہی ہے لیکن باوجود اس کے تمام علمائے ہندوستان وغیرہ کو جو اُن علوم میں ماہر واقف ہیں اُن کے مقابلہ کے واسطے بلایا جاتا ہے کوئی عالم اُس کا مقابلہ نہیں کرتا اور نہ کر سکے گا۔ مولوی محمدحسین جو ان علوم میں ایک فاضل اجلّ شمار کیا جاتا ہے اُس نے جو حضرت مجدّد سے مقابلہ اور مباحثہ کیا آپ نے سنا ہو گا کہ کیا نتیجہ اُس کا حاصل ہوا جو اسرار اور معارف حضرت مجدد نے اس مباحثہ میں بغیر کتاب اور سامان علم کے بیان کئے ہیں وہ مصداق ما لا عین رأت و لا اذن سمعت کے ہیں اور مولوی محمدحسین صاحب کی تقریر میں بجز مضامین علوم رسمیہ کے (وہ بھی صحیح طور پر نہیں) کوئی دوسرا مضمون ہی نہیں ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد حسین ایک ّ پکے مقلد ہیں اور حضرت ایک ّ پکے محقق پھر کیا اہل بصیرت کے نزدیک یہی مباحثہ ایک بڑانشان آسمانی حضرت مجدد کی مجددیّت اور محدثیت کا نہیں ہے اور اگر کسی صاحب کی نظر میں بعض کلام حضرت مجدد کا بظاہر خلاف معلوم ہو تو اول تو نفس الامر میں وہ خلاف اصول صحیحہ کے ہی نہیں اور پھر ثانیاً کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ تمام علوم رسمیہ ؔ میں بعض مسائل ایسے بھی ہیں جو باہم مخالف ہیں اور ان میں
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 505
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 505
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/505/mode/1up
حق ایک جانب ہے۔ علم صرف سے لے کر منطق۔ معانی۔ بیان۔ اصول فقہ۔ اصول حدیث وغیرہ میں کوئی ایسا علم نہیں جس کے بعض مسائل میں اختلاف نہ ہو جو کتاب ان علوم کی کھول کر دیکھو گے اُس میں پاؤ گے۔ اخفش یوں کہتا ہے۔ سیبویہ وُ وں کہتا ہے ابن سینا کا یہ مذہب ہے فارابی کا قول اُس کے خلاف ہے امام رازی نے یوں کہا ہے ۔ ابن الصلاح یوں فرماتے ہیں لیکن ابن تیمیہ نے اس کا خلاف کیا ہے۔ توضیح تلویح میں فلاں اصل کو متاصل کہا ہے ۔ ارشاد الفحول میں اس اصل کو ردّ کر دیا ہے۔ کہاں تک میں اس اختلاف کی شرح کروں پھر اگر حضرت مجدد کا کوئی کلام اصول فقہ یا اصول حدیث کے ظاہر میں کسی کو خلاف معلوم ہوتا ہو تو باوجود اختلاف موجودہ ان علوم کے یہ کیونکر ثابت ہو کہ حضرت مجدد غلطی پر ہیں وہ تو اپنے ہر ایک مدعا پر کتاب اللہ کو جو جملہ دلائل شرعیہ سے مقدم ہے اور جملہ فِرق اسلام کو مسلم ہے پیش کرتے ہیں۔ اب اگر کسی کو طاقت علمی ہے تو ان کے اس مدعا کو قرآن مجید سے ہی توڑے۔خیر حدیث سے ہی توڑے۔ خیر عقل سے ہی توڑے۔ علمائے ہندوستان جو مدعو ہوئے ہیں دیکھیں ان میں کون کو ن اس میدان میں آتا ہے اور جبکہ کتاب اللہ کی نسبت ۱۔ وارد ہے تو کیا اس آیہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالےٰ کا کلام نہ کہا جاوے اور اُس پر ایمان نہ لایا جاوے آگے رہا یہ امر کہ ایسا کھلا کھلا نشان بیّن حضرت مجدد کی مجددیت و ملہمیت و محدثیت پر ہم سب پر ظاہر ہو جاوے کہ کسی طرح کا حجاب کسی کو بھی نہ رہے تو یہ بات اللہ تعالےٰ کی حکمت کے جو اُس نے ایمان بالغیب میں رکھی مخالف ہے دیکھو حضرت موسیٰ ؑ سے نبی جلیل القدر صاحب الکتاب کو بڑے بڑے معجزات دیئے گئے لیکن مخالفین کی نظروں میں ایک حجاب بھی قائم کردیا گیا۔ ایک قبطی کو اُن کے ہاتھ سے قتل کروا دیا تاکہ مخالفین کی نظروں میں یہ فعل قتل اُن
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 506
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 506
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/506/mode/1up
کی نبوت کا حجاب ہو جاوے۔ حضرت یونس ؑ نے عذاب کے نازل ہونے کی قوم مخالف کو بہ تعین و قطع خبر دی۔ پھر اللہ تعالےٰ نے اس عذاب کو ٹال دیا تاکہ مخالفین کی نظروں میں ایک حجاب ہو جاوے۔ خلفائے راشدین کی خلافت راشدہ میں طرح طرح کے حجاب مخالفین کے واسطے کھڑے کر دیئے حالانکہ یہ خلافت باقی نبوت اور تتمہ رسالت تھی۔ اور بڑے زور شور سے موعود کی گئی تھی۔ تاکہ روافض اور خوارج کی نظروں میں وہ حجاب خفی حجاب جلی ہو جاویں اے میرے پیارے دوستو کیا اچھا کہا ہے کسی شاعر نے
در کارخانۂ عشق از کفر ناگزیر است
آتش کر ابسوزد گر بولہب نباشد
مولانا شاہ ولی اللہ حکیم اُمت فرماتے ہیں کہ یہ خفاء اور حجاب اس واسطے ڈالے جاتے ہیںؔ کہ امتحان مخلصان و منافقان بمیان آید۔ الحاصل جو طعن آپ حضرت مرزا صاحب پر کرتے ہیں۔ اس میں مولانا اسمٰعیل صاحب علیہ الرحمۃ بھی شریک ہیں۔ انا احمدبلا میم کوحدیث قرار دینا فی الحقیقت بڑا افترا اور کذب صریح ہے وہ کسی طرح پر درست نہیں سُبْحَانَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ۔ اللہ تعالیٰ سارے جھوٹوں کا منہ کالا کرے۔ اور پھر یہ عرض ہے کہ جملہ انا احمد بلا میم میں کوئی حرف تشبیہ وغیرہ کا مذکور نہیں جس سے معنے مجازی مفہوم ہوں صرف معنے حقیقی متبادر ہوتے ہیں اور وہ بالاتفاق باطل ہیں بخلاف کلام مرزا صاحب کے کہ اس میں جا بجا الفاظ مجاز اور استعارات کی تصریح ہے جس سے سوا اتحاد مجازی کے اتحاد حقیقی مفہوم ہی نہیں ہوتا حتیّٰ کہ شعر میں بھی لفظ آنچنان کا موجود ہے۔ آنچنان از خود جدا شد کزمیان افتاد میم
لفظ چنان کا محض تمثیل کے واسطے آتا ہے معنے حقیقی یہاں پر مراد ہو ہی نہیں سکتے لا تطرونی۔ کے معنے پر ہمارا ایمان ہے اور جو اطراء مذہب نصارےٰ کا ہے وہ بالکل شرک اور کفر ہے اس کی نسبت مرزا صاحب فرما چکے ہیں کہ ان کی طبیعتیں بسبب اس شرک کے ناپاک ہو گئی ہیں
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 507
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 507
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/507/mode/1up
وغیرہ وغیرہ مگر اس حدیث میں وہی اطراء منع ہے جو نصاریٰ کا سا ہو نہ وہ اطراء جو قرآن مجید اور سنت سے ثابت ہے اور جو اولیائے امت نے قرآن و حدیث سے آپ کی مدح میں اطراء کیا۔ وہ کہاں ممنوع ہے لفظ حدیث کے لا تطرونی کما اطرت النصاریٰ۔ ہیں نہ مطلق لا تطرونی۔ جناب من تقویت الایمان کو لآ الٰہ الا اللّٰہ کی شرح اور تفسیر سمجھئے اور منصب امامت یا صراط مستقیم یا توضیح المرام کے مضامین کو محمد الرسول اللہ کی تفسیر تصور کیجئے۔ ان میں وہ اطراء نہیں ہے جو یہود و نصارےٰ نے کیا ہے۔ والسلام خیرالختام۔ مورخہ دواز دہم ستمبر ۹۱ ء مطابق نہم صفر ۱۳۰۹ ھ
خاکسار
محمدؐ احسن مہتمم مصارف ریاست بھوپال
Ruhani Khazain Volume 4. Page: 508
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۴- نشانِ آسمانی: صفحہ 508
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=4#page/508/mode/1up
Last edited: