روحانی خزائن جلد 6۔ جنگ مقدس۔ یونی کوڈ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 83
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 83
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 84
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 84
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
روؔ ئیداد
جلسہ ۲۲ مئی ۱۸۹۳ ء
۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ء کو سوموار کے روز ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کی کوٹھی میں جلسہ مباحثہ منعقد ہوا۔ سوا چھ بجے کاروائی شروع ہوئی۔ مسلمانوں کی طرف سے منشی غلام قادر صاحب فصیح وائس پریزیڈنٹ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ میر مجلس قرار پائے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب میر مجلس قرار پائے۔
مرزا صاحب کے معاون مولوی نور الدین صاحب حکیم۔ سید محمد احسن صاحب اور شیخ الہ دیا صاحب قرار پائے اور ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کے معاون پادری جے ایل ٹھاکر داس صاحب اور پادری عبداللہ صاحب اور پادری ٹامس ہاول صاحب قرار پائے۔ چونکہ پادری جے ایل ٹھاکر داس صاحب آج تشریف نہیں لائے تھے۔ اس لئے آج کے دن ان کی بجائے پادری احسان اللہ صاحب معاون مقرر کئے گئے۔ سوا چھ بجے مرزاصاحب نے سوال لکھانا شروع کیا اور سوا سات بجے ختم کیا۔ اور بلند آواز سے جلسہ کو سنایا گیا۔ پھر ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے اپنا اعتراض پیش کرنے میں صرف پانچ منٹ خرچ کئے پھر مرزا صاحب نے جواب الجواب لکھایا۔ مگر اس پر یہ اعتراض پیش ہوا کہ مرزا صاحب نے جو سوال لکھایا ہے وہ شرائط کی ترتیب کے موافق نہیں یعنی پہلا سوال الوہیت مسیح کے متعلق ہونا چاہئے اس پر شرائط کی طرف توجہ کی گئی انگریزی اصلی شرائط اور ترجمہ کا مقابلہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کے پاس جو ترجمہ ہے اس میں غلطی ہے بنا براں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ الوہیت مسیح پر سوال شروع کیا جائے اور جو کچھ اس سے پہلے لکھایا گیا ہے اپنے موقع پر پیش ہو۔
۸ بجے ۲۶ منٹ پر مرزا صاحب نے الوہیت مسیح پر سوال لکھانا شروع کیا۔ ۹ بجے ۱۵ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے نو بجے ۳۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ان کا جواب ختم نہ ہوا تھا کہ ان کا وقت گزر گیا۔ اس پر مرزا صاحب اور میر مجلس اہل اسلام کی طرف سے اجازت دی گئی کہ مسٹر موصوف اپنا جواب ختم کر لیں اور پانچ منٹ کے زائد عرصہ میں جواب ختم کیا۔ بعدازاں فریقین کی تحریروں پر پریزیڈنٹوں کے دستخط ہوئے اور مصدقہ تحریریں ایک دوسرے فریق کو دی گئیں اور جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان۔
دستخط بحروف انگریزی غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 85
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 85
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
تقریرؔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ العٰلمِیْن والصلوۃ والسّلام علٰی رسُولہ مُحمّدٍ وَّآلہ واَصْحابہٖ اجمعین
امّا بَعْد واضح ہو کہ آج کا روز جو ۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ ء ہے اس مباحثہ اور مناظرہ کا دن ہے جو مجھ میں اور ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب میں قرار پایاہے۔ اور اس مباحثہ سے مدعا اور غرض یہ ہے کہ حق کے طالبوں پر یہ ظاہر ہو جائے کہ اسلام اور عیسائی مذہب میں سے کونسا مذہب سچا اور زندہ اور کامل اور منجانب اللہ ہے اور نیز حقیقی نجات کس مذہب کے ذریعہ سے مل سکتی ہے۔ اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے بطور کلام کلّی کے اسی امر میں جو مناظرہ کی علت غائی ہے انجیل شریف اور قرآن کریم کا مقابلہ اور موازنہ کیا جاوے لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس مقابلہ اور موازنہ میں کسی فریق کا ہرگز یہ اختیار نہیں ہوگا کہ اپنی کتاب سے باہر جاوے یا اپنی طرف سے کوئی بات منہ پر لاوے بلکہ لازم اور ضروری ہوگا کہ جو دعویٰ کریں وہ دعویٰ اس الہامی کتاب کے حوالہ سے کیا جاوے جو الہامی قرار دی گئی ہے اور جو دلیل پیش کریں وہ دلیل بھی اسی کتاب کے حوالہ سے ہو کیونکہ یہ بات بالکل سچی اور کامل کتاب کی شان سے بعید ہے کہ اس کی وکالت اپنے تمام ساختہ پرداختہ سے کوئی دوسرا شخص کرے اور وہ کتاب بکلی خاموش اور ساکت ہو۔
اب واضح ہو کہ قرآن کریم نے اسلام کی نسبت جس کو وہ پیش کرتا ہے یہ فرمایا ہے ۱ (س۳ر۱۰) ۲(سیپارہ۳رکوع ۱۷) ترجمہ یعنی دین سچا اور کامل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے اور جو کوئی بجز اسلام کے کسی اور دین کو چاہے گا تو ہرگز قبول نہیں کیا جاوے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہوگا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 86
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 86
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
پھرؔ فرماتا ہے۔ ۱ (سیپارہ۶رکوع۵)یعنی آج میں نے تمہارے لئے دین تمہارا کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور میں نے تمہاریلئے اسلام کو پسندیدہ کرلیا۔ ۲ (سیپارہ۲۶رکوع۱۲)وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا وہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے۔
پھر اللہ جلّ شانہٗ چند آیتیں قرآن کریم کی تعریف میں جو دین اسلام کو پیش کرتا ہے فرماتا ہے چونکہ قرآن کریم کی تعریف درحقیقت دین اسلام کی تعریف ہے اس لئے وہ آیتیں بھی ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔
۳ (سیپارہ ۱۵ رکوع ۱۰) اور البتہ طرح طرح بیان کیا ہم نے واسطے لوگوں کے قرآن میں ہر ایک مثال سے پس انکار کیا اکثر لوگوں نے مگر کفر کرنا۔ یعنی ہم نے ہر ایک طور سے دلیل اور حجت کے ساتھ قرآن کو پورا کیا۔ مگر پھر بھی لوگ انکار سے باز نہ آئے۔ (س۲۵؍۳)
۴ (سیپارہ ۱۱ رکوع ۹) ۵ یعنی خدا وہ ہے جس نے کتاب یعنی قرآن شریف کو حق اور میزان کے ساتھ اتارا یعنی وہ ایسی کتاب ہے جو حق اور باطل کے پرکھنے کے لئے بطور میزان کے ہے۔
۶ (سیپارہ ۱۳ رکوع ۸) ترجمہ آسمان سے پانی اتارا پس ہر ایک وادی اپنے اپنے قدر میں بہ نکلا۔ ۷ (سیپارہ ۱۵ رکوع ۱)یہ قرآن اس تعلیم کی ہدایت کرتا ہے جو بہت سیدھی اور بہت کامل ہے۔
۸کہ اگرجن اورانس سب اس بات پر اتفاق کریں کہ اگر اور کتاب جو کمالات قرآنی کا مقابلہ کرسکے پیش کرسکیں تو نہیں پیش کر سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔
پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے۔ ۹ (سیپارہ۷۔رکوع۱۰) یعنی تعلیمات ضروریہ میں سے کوئی چیز قرآن سے باہر نہیں رہی اور قرآن ایک مکمل کتاب ہے جو کسی دوسری مکمل کا منتظر نہیں بناتا۔ ۱۰ (سیپارہ ۳۰ رکوع ۱۱) ۱۱ (س ۲۷ر۸)قرآن قول فصل
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 87
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 87
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
جوہرؔ ایک امر میں سچا فیصلہ دیتا ہے۔ اور انتہائی درجہ کی حکمت ہے ۱(سیپارہ ۲۷ رکوع ۱۶) ۲ یعنی میں قسم کھاتا ہوں مطالع اورمناظر نجوم کی اور یہ قسم ایک بڑی قسم ہے۔ اگرتمہیں حقیقت پر اطلاع ہوکہ یہ قرآن ایک بزرگ اورعظیم الشان کتاب ہے اور اس کو وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک باطن ہیں۔ اور اس قسم کی مناسبت اس مقام میں یہ ہے کہ قرآن کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ کریم ہے یعنے روحانی بزرگیوں پر مشتمل ہے اور بباعث نہایت بلند اور رفیع دقائق حقائق کے بعض کوتاہ بینوں کی نظروں میں اسی وجہ سے چھوٹامعلوم ہوتا ہے جس وجہ سے ستارے چھوٹے اور نقطوں سے معلوم ہوتے ہیں اور یہ بات نہیں کہ درحقیقت وہ نقطوں کی مانند ہیں بلکہ چونکہ مقام ان کانہایت اعلیٰ وارفع ہے اس لئے جونظریں قاصر ہیں ان کی اصل ضخامت کو معلوم نہیں کرسکتیں۔3 3۳(سیپارہ ۲۵۔ر ۱۴) ہم نے قرآن کو ایک ایسی بابرکت رات میں اتارا ہے جس میں ہر ایک امر ُ پرحکمت تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے اس سے مطلب یہ ہے کہ جیسے ایک رات بڑی ظلمت کے ساتھ نمودار ہوئی تھی۔ اسی کے مقابل پر اس کتاب میں انوارعظیمہ رکھے گئے ہیں جو ہر ایک قسم کے شک اور شبہ کی ظلمت کو ہٹاتے ہیں اور ہر ایک بات کا فیصلہ کرتے ہیں اور ہرایک قسم کی حکمت کی تعلیم کرتے ہیں ۴(سیپارہ ۳ رکوع ۲)اللہ دوستدار ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے اور ان کو اندھیرے سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ ۵ (س۲۹ر۵)۶(سیپارہ۲۷رکوع۱۶)۷ (س۳۰ر۶) یعنی قرآن متقیوں کو وہ سارے امور یاد دلاتا ہے جو ان کی فطرت میں مخفی اور مستور تھے اور یہ حق محض ہے جو انسان کو یقین تک پہنچاتا ہے اور یہ غیب کے عطا کرنے میں بخیل نہیں ہے یعنی بخیلوں کی طرح اس کایہ کام نہیں کہ صرف آپ ہی غیب بیان کرے اور دوسرے کو غیبی قوت نہ دے سکے بلکہ آپ بھی غیب پرمشتمل ہے۔ اور پیروی کرنے والے پر بھی فیضان غیب کرتا ہے۔ یہ قرآن کا دعویٰ ہے جس کو وہ اپنی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 88
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 88
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
تعلیم کی نسبت آپ بیان فرماتا ہے اور پھر آگے چل کر اس کا ثبوت بھی آپ ہی دے گا۔ لیکن چونکہ اب وقتؔ تھوڑا ہے اس لئے وہ ثبوت جواب الجواب میں لکھایا جاوے گا۔ بالفعل ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کی خدمت میں یہ التماس ہے کہ بپابندی ان امور کے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ انجیل شریف کا دعویٰ بھی اسی طرز اور اسی شان کا پیش کریں کیونکہ ہر ایک منصف جانتا ہے کہ ایسا تو ہرگز ہو نہیں سکتا کہ مدعی سست اور گواہ چست۔ خاص کر اللہ جلّ شانہٗ جو قوی اور قادر اور نہایت درجہ کے علوم وسیع رکھتا ہے جس کتاب کو ہم اس کی طرف منسوب کریں وہ کتاب اپنی ذات کی آپ قیّوم چاہئے۔ انسانی کمزوریوں سے بالکل مبرّا اور منزّہ چاہئے۔ کیونکہ اگر وہ کسی دوسرے کے سہارا کی اپنے دعویٰ میں اور اثبات دعویٰ میں محتاج ہے تو وہ خدا کا کلام ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اور یہ مکرر یاد رہے کہ اس وقت صرف مدعا یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے اپنی تعلیم کی جامعیت اور کاملیت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہی دعویٰ انجیل کا وہ حصہ بھی کرتا ہو۔ جو حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اور کم سے کم اس قدر تو ہو کہ حضرت مسیحؑ اپنی تعلیم کو مختتم قرار دیتے ہوں اور کسی آئندہ وقت پر انتظار میں نہ چھوڑتے ہوں۔
نوٹ
یہ سوال اس قدر لکھا گیا تھا تو اس کے بعد فریق ثانی نے اس بات پر اصرار کیا کہ سوال نمبر ۲ بحث کے کسی دوسرے موقعہ میں پیش ہو۔ بالفعل الوہیت مسیح کے بارے میں سوال ہونا چاہئے چنانچہ ان کے اصرار کی وجہ سے یہ سوال جو ابھی غیر مختتم ہے اسی جگہ چھوڑا گیا بعد میں بقیہ اس کا شائع کیا جائے گا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 89
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 89
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
سوالؔ الوہیت مسیحؑ پر
۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط
اَلحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ والسَّلامُ عَلٰی رسُولِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ
امّا بعد واضح ہو کہ بموجب شرائط قرار دادہ پرچہ علیحدہ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۸۹۳ ء پہلا سوال ہماری طرف سے یہ تجویز ہوا تھا کہ ہم الوہیت حضرت مسیح علیہ السلام کے بارہ میں مسٹر عبداللہ آتھم صاحب سے سوال کریں گے۔ چنانچہ مطابق اسی شرط کے ذیل میں لکھا جاتا ہے۔
واضح ہو کہ اس بحث میں یہ نہایت ضروری ہوگا کہ جو ہماری طرف سے کوئی سوال ہو۔ یا ڈپٹی عبداللہ آتھم کی طرف سے کوئی جواب ہو وہ اپنی طرف سے نہ ہو بلکہ اپنی اپنی الہا۱می کتاب کے حوالہ سے ہو جس کو فریق ثانی حجت سمجھتا ہو۔ اور ایسا ہی ہر ایک دلیل۲ اور ہر ایک دعو۳یٰ جو پیش کیا جاوے وہ بھی اسی التزام سے ہو غرض کوئی فریق اپنی اس کتاب کے بیان سے باہر نہ جائے جس کا بیان بطور حجت ہوسکتا ہے۔
بعد اس کے واضح ہو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے بارہ میں قرآن کریم میں بغرض رد کرنے خیالات ان صاحبوں کے جو حضرت موصوف کی نسبت خدا یا ابن اللہ کا اعتقاد رکھتے ہیں یہ آیات موجود ہیں۔
۱۔ سیپارہ۶ر ۱۴ ۔یعنی حضرت مسیح ابن مریم میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہ وہ صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں اور یہ کلمہ کہ اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں۔ یہ قیا۴س استقرائی کے طور پر ایک استدلال لطیف ہے کیونکہ قیاسات کے جمیع اقسام میں سے استقراء کا مرتبہ وہ اعلیٰ شان کا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 90
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 90
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مرتبہ ہے کہ اگر یقینی اور قطعی مرتبہ سے اس کو نظر اندار کر دیا جائے تو دین و دنیا کا تمام سلسلہ بگڑ جاتا ہے۔ اگر ہم غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ حصہ کثیرہ دنیا کا اور ازمنہ گذشتہ کے واقعات کا ثبوت اسی استقراء کے ذریعہؔ سے ہوا ہے۔ مثلاً ہم جو اس وقت کہتے ہیں کہ انسان منہ سے کھاتا اور آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے سنتا اور ناک سے سونگھتا اور زبان سے بولتا ہے اگر کوئی شخص کوئی مقدس کتاب پیش کرے اور اس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ یہ واقعات زمانہ گذشتہ کے متعلق نہیں ہیں۔
بلکہ پہلے زمانہ میں انسان آنکھوں کے ساتھ کھایا کرتا تھا اور کانوں کے ذریعہ سے بولتا تھا۔ اور ناک کے ذریعہ سے دیکھتا تھا ایسا ہی اور باتوں کو بھی بدل دے۔ یا مثلاً یہ کہے کہ کسی زمانہ میں انسان کی آنکھیں دو نہیں ہوتی تھیں بلکہ بیس ہوتی تھیں۔ دس تو سامنے چہرہ میں اور دس پشت پر لگی ہوئی تھیں تو اب ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ گو فرض کے طورپر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ ان عجیب تحریروں کا لکھنے والا کوئی مقدس اور راستباز آدمی تھا۔ مگر ہم اس یقینی نتیجہ سے کہاں اور کدھر گریز کرسکتے ہیں جو قیاس استقرائی سے پیدا ہوا ہے۔ میری رائے میں ایسا بزرگ اگر نہ صرف ایک بلکہ کروڑ سے بھی زیادہ اور قیاس استقرائی سے نتائج قطعیہ یقینیہکو توڑنا چاہیں تو ہرگز ٹوٹ نہیں سکیں گے بلکہ اگر ہم منصف ہوں اور حق پسندی ہمارا شیوہ ہوتو اس حالت میں کہ اس بزرگ کو ہم درحقیقت ایک بزرگ سمجھتے ہیں اور اس کے الفاظ میں ایسے ایسے کلمات خلاف حقائق مشہودہ محسوسہ کے پاتے ہیں تو ہم اُس کی بزرگی کی خاطر سے صَرف عَنِ الظاھرکریں گے اور ایسی تاویل کریں گے جس سے اس بزرگ کی عزت قائم رہ جاوے۔ ورنہ یہ تو ہرگز نہ ہوگا کہ جو حقائق استقراء کے یقینی اور قطعی ذریعہ سے ثابت ہوچکے ہیں وہ ایک روایت دیکھ کر ٹال دیئے جاویں۔ اگر ایسا کسی کا خیال ہوتو یہ بار ثبوت اس کی گردن پر ہے کہ وہ استقراء مثبتہ موجودہ قطعیہ یقینیہ کے برخلاف اس روایت کی تائید اور تصدیق میں کوئی امر پیش کردیوے۔ مثلاً جو شخص اس بات پر بحث کرتا اور لڑتا جھگڑتا ہے کہ صاحب ضرور پہلے زمانہ میں لوگ زبان کے ساتھ دیکھتے اور ناک کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے تو اس کا ثبوت پیش کرے۔ اور جب تک ایسا ثبوت پیش نہ کرے تب تک ایک مہذّب عقلمند کی شان سے بہت بعید ہے کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 91
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 91
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ان تحریرات پر بھروسہ کرکے کہ جن کے بصورت صحت بھی بیس بیس معنے ہوسکتے ہیں وہ معنی اختیار کرے جو حقائق ثابت شدہ سے بالکل مغائر اور منافی پڑے ہوئے ہیں مثلاً اگر ایک ڈاکٹر ہی سے اس بات کا تذکرہ ہو کہ سم الفار اور وہ زہر جو تلخ بادام سے تیار کیا جاتا ہے اور بیش یہ تمام زہریں نہیں ہیں۔ اور اگر ان کو دو دو سیر کے قدر بھی انسان کے بچوں کو کھلایا جاوے تو کچھ ہرج نہیں۔ اورؔ اس کا ثبوت یہ دیوے کہ فلاں مقدس کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے اورراوی معتبر ہے تو کیا وہ ڈاکٹر صاحب اس مقد س کتاب کا لحاظ کرکے ایک ایسے امر کو چھوڑ دیں گے جو قیاس استقرائی سے ثابت ہوچکا ہے۔ غرض جب کہ قیاس استقرائی دنیا کے حقائق ثابت کرنے کے لئے اول درجہ کا مرتبہ رکھتا ہے تو اسی جہت سے اللہ جلّ شانہٗ نے سب سے پہلے قیاس استقرائی کو ہی پیش کیا۔ اور فرمایا ۱ یعنی حضرت مسیح علیہ السلام بیشک نبی تھے اور اللہ جلّ شانہٗ کے پیارے رسول تھے مگر وہ انسان تھے۔ تم نظر اٹھا کر دیکھو کہ جب سے یہ سلسلہ تبلیغ اور کلام الٰہی کے نازل کرنے کا شروع ہوا ہے ہمیشہ اور قدیم سے انسان ہی رسالت کا مرتبہ پاکر دنیا میں آتے رہے ہیں یا کبھی اللہ تعالیٰ کا بیٹا بھی آیا ہے اور خَلَتْکا لفظ اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جہاں تک تمہاری نظر تاریخی سلسلہ کو دیکھنے کے لئے وفا کرسکتی ہے اور گذشتہ لوگوں کا حال معلوم کرسکتے ہو خوب سوچو اور سمجھو کہ کبھی یہ سلسلہ ٹوٹا بھی ہے۔ کیا تم کوئی ایسی نظیر پیش کرسکتے ہو جس سے ثابت ہوسکے کہ یہ امر ممکنات میں سے ہے۔ پہلے بھی کبھی کبھی ہوتا ہی آیا ہے۔ سو عقلمند آدمی اس جگہ ذرہ ٹھہر کر اور اللہ جلّ شانہٗ کا خوف کرکے دل میں سوچے کہ حادثات کا سلسلہ اس بات کو چاہتا ہے کہ اس کی نظیر بھی کبھی کسی زمانہ میں پائی جاوے۔
ہاں اگر بائبل کے وہ تمام انبیاء اور صلحاء جن کی نسبت بائبل میں بھی الفاظ موجود ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے یا خدا تھے حقیقی معنوں پر حمل کر لئے جاویں تو بیشک اس صورت میں ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ بیٹے بھی بھیجا کرتا ہے بلکہ بیٹے کیا کبھی کبھی بیٹیاں بھی۔ اور بظاہر یہ دلیل تو عمدہ معلوم ہوتی ہے اگر حضرات عیسائی صاحبان اس کو پسند فرماویں اور کوئی اس کو توڑ بھی نہیں سکتا کیونکہ حقیقی غیر حقیقی کا تو وہاں کوئی ذکر ہی نہیں بلکہ بعض کو تو پہلوٹا ہی لکھ دیا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 92
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 92
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہاں اس صورت میں بیٹوں کی میزان بہت بڑھ جائے گی۔ غرض کہ اللہجلّ شانہٗ نے سب سے پہلے ابطال الوہیت کے لئے بھی دلیل استقرائی پیش کی ہے۔ پھر بعد اس کے ایک اور دلیل پیش کرتا ہے ۱ یعنی والدہ حضرت مسیحؑ کی راستبازتھی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیحؑ کو اللہجلّ شانہٗ کاحقیقی بیٹافرض کرلیاجاوے توپھریہ ضروری امر ہے کہ وہ دوسروں کی طرح ایسی والد۵ہ کے اپنے تولد میں محتاج نہ ہوں جو باتفاق فریقین انسان تھی کیونکہ یہ بات نہایتؔ ظاہراور کھلی کھلی ہے کہ قانون قدرت اللہ جلّ شانہٗ کا اسی طرح پر واقع ہے کہ ہر ایک جاندار کی اولاد اس کی نو۶ع کے موافق ہوا کرتی ہے مثلاً دیکھو کہ جس قدر جانور ہیں مثلاً انسان اور گھوڑا اور گدھا اور ہر ایک پرندہ وہ اپنی اپنی نوع کے لحاظ سے وجود پذیر ہوتے ہیں یہ تو نہیں ہوتا کہ انسان کسی پرندہ سے پیدا ہو جاوے یا پرند کسی انسان کے پیٹ سے نکلے۔ پھر ایک تیسری دلیل یہ پیش کی ہے۔ ۲ یعنی وہ دونوں حضرت مسیحؑ اور آپ کی والدہ صدیقہ کھانا کھایا کرتے تھے۔ اب آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کیوں کھانا کھاتا ہے اور کیوں کھانا کھانے کا محتاج ہے۔ اس میں اصل بھید یہ ہے کہ ہمیشہ انسان کے بدن میں سلسلہ تحلیل۷ کا جاری ہے یہاں تک کہ تحقیقا ت قدیمہ اور جدیدہ سے ثابت ہے کہ چند سال میں پہلا جسم تحلیل پاکر معدوم ہوجاتا ہے اور دوسرا بدن بدل ما یتحلل ہوجاتا ہے اور ہر ایک قسم کی جو غذا کھائی جاتی ہے اس کا بھی روح پر اثر ہوتا ہے کیونکہ یہ امر بھی ثابت شدہ ہے کہ کبھی روح جسم پراپنا اثر ڈالتی ہے اورکبھی جسم روح پر اپنا اثر ڈالتا ہے جیسے اگر روح کو یکدفعہ کوئی خوشی پہنچتی ہے تو اس خوشی کے آثار یعنی بشاشت اور چمک چہرہ پر بھی نمودار ہوتی ہے اور کبھی جسم کے آثار ہنسنے رونے کے روح پر پڑتے ہیں اب جب کہ یہ حال ہے تو کس قدر مرتبہ خدائی سے یہ بعید ہوگا کہ اپنے اللہ کا جسم بھی ہمیشہ اُڑتار ہے اور تین چار برس کے بعد اور جسم آوے ماسوا اس کے کھانے کا محتاج ہونا بالکل اس مفہوم کے مخالف ہے۔ جو خدا تعالیٰ کی ذات میں مسلّم ہے۔ اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیحؑ ان حاجتمندیوں سے بری نہیں تھے جو تمام انسان کو لگی ہوئی ہیں۔ پھر یہ ایک عمدہ دلیل اس بات کی ہے کہ وہ باوجود ان دردوں اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 93
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 93
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دکھوں کے خدا ہی تھے یا ابن اللہ تھے اور درد ہم نے اس لئے کہا کہ بھوک بھی ایک قسم درد کی ہے اور اگر زیادہ ہوجائے تو موت تک نوبت پہنچاتی ہے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
جواب از طرف مسٹر عبداللہ آتھم صاحب مسیحی
اگر یہ جناب کا قول صحیح ہے کہ ہر امر کی حقیقت تجربہ ہی پر مدار رکھتی ہے یعنی جو تجربہ کے برخلاف ہےؔ وہ باطل ہے۔ تب تو ہم کو صفت خالقہ کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ہمارے تجربہ میں کوئی چیز خلق نہیں ہوتی اور آدم کا بغیر والدین پیدا ہونے کا بھی انکار کرنا پڑے گا اور ہم یہ نہیں جانتے کہ ایسا ہم کیوں کریں کیونکہ ناممکن مطلق ہم اس کو کہتے ہیں جو کوئی امر کسی صفت ربّانی کے مخالف ہو اور یہ چیزیں جو ہمارے تجربہ کے باہر ہیں مثلاً خلقت کا ہونا یعنی بلا سامان کے عدم سے وجود میں آنا اور آدم کا بخلاف سلسلہ موجودہ کے پیدا ہونا ہم کسی صفت مقدسہ خدائے تعالیٰ کے مخالف نہیں دیکھتے۔
دوم۔ بجواب آپ کے دوسرے مقدمہ کے آپ کو یقین ہونا چاہئے کہ ہم اس شے مرئی کو جو کھانے پینے وغیرہ حاجتوں کے ساتھ ہے اللہ نہیں مانتے بلکہ مظہر اللہ کہتے ہیں اور یہ ایک ایسا مقدمہ ہے جیسا قرآن میں بابت اس آگ کے جو جھاڑی میں نظر آتی تھی لکھا ہے کہ اے موسیٰ اپنے نعلین دور کر کیونکہ یہ وادی طویٰ ہے اور کہ میں تیرے باپ ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کا خدا ہوں موسیٰ نے اس کو تسلیم کیا ۔اب فرمائیے شے مرئی تو خدا نہیں ہوسکتی اور رویت مرئی تھی پس ہم اس کو مظہر اللہ کہتے ہیں۔ اللہ نہیں کہتے۔ ویسے ہی یسوع مخلوق کو ہم اللہ نہیں کہتے بلکہ مظہر اللہ کہتے ہیں۔ کیا یہ ستون جو خشت و خاک کا سامنے نظر کے ہے اس میں سے اگر خدا آواز دے کر کہنا چاہے کہ میں تمہارا خدا ہوں اور میری فلاں بات سنو۔ توگو تجربہ کے برخلاف یہ امر ہے۔ توکیا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 94
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 94
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
امکان کے برخلاف ہے کہ خدا ایسا نہیں کرسکتا۔(ہمارے نزدیک تو امکان کے برخلاف نہیں)۔
سوم۔ ہم نے ابن اللہ کو جسم نہیں مانا۔ ہم تو اللہ کو روح جانتے ہیں جسم نہیں۔
چہارم۔ امر کے بارہ میں ہماری التماس یہ ہے کہ بیشک تاویل طلب امر کو تاویل کرنا چاہئے لیکن حقیقت کو چاہئے کہ تاویل کو نہ بگاڑے۔ اگر کوئی حقیقت برخلاف امر واقعی کے ہے تو بالمرہ حکم بطلان کا اس پر دینا چاہئے نہ کہ بطلان کو مروڑ کے حق بنانا۔
پنجم۔ امر کے بارہ میں جناب کی خدمت میں واضح ہو کہ لفظ بیٹے اور پہلو ٹھے کا بائیبل میں دو طرح پر بیان ہوا ہے یعنی ایک تو یہ کہ وہ یک تن ساتھ خدا کے ہو،دوم یہ کہ یک من ساتھ رضاءِ الٰہی کے ہو۔ (یک تن وہ ہے جو ماہیت میں واحد ہو۔ اور یک من وہ ہے جو ماہیت کا شریک نہیں بلکہ رضا کا شریک ہو)۔ کس نبی یا بزرگ کے بارہ میں بائیبل میں یہ لکھا ہے کہ اے تلوار میرے چرواہے اورؔ ہمتا پر اٹھ (زکریا ۱۳ - ۷) اور پھر کس کے بارہ میں ایسا لکھا ہے کہ تخت داؤدی پر یہود اصدقنو آوے گا (یرمیا) اور کس نے یہ کہا کہ میں الفا اور میگاو قادر مطلق خداوند ہوں اور کس کے بارہ میں یہ لکھا گیا کہ میں جو حکمت ہوں قدیم سے خدا کے ساتھ رہتی تھی اور میرے وسیلہ سے یہ ساری خلقت ہوئی اور یہ کہ جو کچھ خلقت کا ظہور ہے اسی کے وسیلہ سے ہے خدا باپ کو کسی نے نہیں دیکھا لیکن اکلوتے (خدا) نے اسے ظاہر کردیا (یوحنا ۱ - ۱۸)
اب اس پر انصاف کیجیئے کہ یہ الفاظ متعلق یک تن کے ہیں یا یک من کے نیز یہ بھی ایک بات یاد رکھنے کے لائق ہے۔ یسعیاہ ۹ - ۶ میں کہ وہ جو بیٹا ہم کو بخشا جاتا ہے اور فرزند تولد ہوتا ہے وہ ان خطابوں سے مزیّن ہے یعنی خدائے قادر۔ اب ابدیت۔ شاہ سلامت۔ مشیر۔ عجوبہ۔ تخت داؤدی پر آنے والا جس کی سلطنت کا زوال کبھی نہ ہوگا۔
ششم جو آپ نے قرآن سے استدلال کیا ہے مجھے افسوس ہے کہ میں اب تک اس کے الہامی ہونے کا قائل نہیں جب آپ اس کو الہامی ثابت کرکے قائل کر دیں گے تو اس کی سندات آپ ہی مانی جائیں گی۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 95
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 95
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہفتم۔ جناب من فطرت یا خلقت فعل الٰہی ہے اور الہام قول الٰہی فعل اورقول میں تناقص نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی کلام مبہم معلوم ہووے یا بادی النظر میں مشکل معلوم ہووے تو اس کی تاویل ہم معقولات ہی سے کریں گے ورنہ کہاں جائیں گے؟ چنانچہ جناب نے خود ہی فرمایا کہ امور تاویل طلب کی تاویل واجب ہے۔ اور جناب اس سے بھی بڑھ کر فرماتے ہیں کہ تجربہ کے برخلاف ہم کچھ نہ لیویں گے تو گویا یہ بھی رجوع کرنا طرف فطرت کے ہے جس کے ہم کلیۃً متفق نہیں ہیں۔
ہشتم۔ بجواب آٹھویں کے اتنی ہی عرض ہے کہ جہاں بیٹے حقیقی اور غیر حقیقی کی امتیاز بائبل میں نہ ہو تو ہماری عقل کو روک نہیں کہ ہم اس میں امتیاز نہ کریں اور دوسروں کے ساتھ بھی اگر یہی صفات ملحقہ ہوں جیسے مسیح کے ساتھ ہیں تو ہم ان کو بھی مسیح جیسا مان لیں گے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 96
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 96
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دوسرؔ ا پرچہ
مباحثہ ۲۳۔ مئی ۱۸۹۳ء
روئداد
آج پھر جلسہ منعقد ہوا ۔اور آج پادری جے ایل ٹھاکر داس صاحب بھی جلسہ میں تشریف لائے یہ تحریک پیش ہوئی اور باتفاق رائے منظور ہوئی کہ کوئی تحریر جو مباحثہ میں کوئی شخص اپنے طور پر قلمبند کرے قابل اعتبار نہ سمجھی جائے جب تک کہ اس پر ہر دو میر مجلس صاحبان کے دستخط نہ ہوں۔
اس کے بعد ۶ بجے ۳۰ منٹ اوپر مرزا صاحب نے اپنا سوال لکھانا شروع کیا اور ان کا جواب ختم نہ ہوا تھا کہ ان کا وقت گزر گیا۔ اور مسٹر عبداللہ آتھم صاحب اور میر مجلس عیسائی صاحبان کی طرف سے اجازت دی گئی کہ مرز صاحب اپنا جواب ختم کر لیں اور ۱۶ منٹ کے زائد عرصہ میں جواب ختم کیا بعدازاں یہ قرار پایا کہ مقررہ وقت سے زیادہ کسی کو نہ دیا جائے۔ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے آٹھ بجے ۱۱ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا۔ درمیان میں فہرست آیات کے پڑھے جانے کے متعلق تنازعہ میں صرف ہوا یعنی ۵ منٹ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کے وقت میں ایزاد کئے گئے۔ اور ۹ بجے ۱۶ منٹ پر جواب ختم ہوا۔
مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۷ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ۲۷ منٹ پر ختم ہوگیا۔ اور بعدازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اور تحریریں فریقین کو دی گئیں اور جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ) غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ)
ازجانب عیسائی صاحبان ازجانب اہل اسلامّ ّ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 97
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 97
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بیانؔ حضرت مرزا صاحب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
کل ۲۲۔ مئی ۱۸۹۳ ء کو جو میں نے حضرت مسیحؑ کی الوہیت کے بارہ میں ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب سے سوال کیا تھا۔ اس میں قابل جواب نو۹ ا مر تھے سب سے پہلے میں نے یہ لکھا تھا کہ فریقین پر لازم و واجب ہوگا کہ اپنی اپنی الہامی کتاب کے حوالہ سے سوال و جواب تحریر کریں۔ پھر ساتھ ہی اس کے یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ہر ایک دلیل یعنی دلیل عقلی اور دعویٰ جس کی تائید میں وہ دلیل پیش کی جائے اپنی اپنی کتاب کے حوالہ اور بیان سے دیا جائے۔ میرا اس میں یہ مدعا تھا کہ ہر ایک کتاب کی اس طور سے آزمائش ہوجائے کہ ان میں یہ قوت اعجازی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس زمانہ میں جو مثلاً قرآن کریم پر قریب تیرہ سو برس کے گذر گئے۔ جب وہ نازل ہوا تھا۔ ایسا ہی انجیل پر قریب انیس سو برس کے گذرتے ہیں۔ جب انجیل حواریوں کی تحریر کے مطابق شائع ہوئی۔ تو اس صورت میں صرف ان منقولات پر مدار رکھنا جو ان کتابوں میں لکھی گئی ہیں اس شخص کے لئے مفید ہوگا جو ان پر ایمان لاتا ہے اور ان کو صحیح سمجھتا ہے اور جو معنے ان کے کئے جاتے ہیں۔ ان معنوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں رکھتا۔ لیکن اگر معقولی سلسلہ اس کے ساتھ شامل ہو جاوے تو اس سلسلہ کے ذریعہ سے بہت جلد سمجھ آجائے گا کہ خدا تعالیٰ کا سچا اورپاک اور کامل اور زندہ کلام کون سا ہے سو میرا یہ مطلب تھا کہ جس کتاب کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فی حدّ ذاتہٖ کامل ہے اور تمام مراتب ثبوت کے وہ آپ پیش کرتی ہے تو پھر اسی کتاب کا یہ فرض ہوگا کہ اپنے اثبات دعاوی کے لئے دلائل معقولی بھی آپ ہی پیش کرے نہ یہ کہ کتاب پیش کرنے سے بالکل عاجز اور ساکت ہو اور کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوکر اس کی حمایت کرے اور ہر ایک منصف بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر اس طریق کا التزام فریقین اختیار کر لیں تو احقاق حق اور ابطال باطل بہت سہولیت سے ہوسکتا ہے۔ میں امید
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 98
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 98
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/98/mode/1up
رکھتا تھا کہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب جو پہلے سے یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ انجیل درحقیقت ایک کامل کتاب ہے وہ اس دعوے کے ساتھ ضرور اس بات کو مانتے ہوں گے کہ انجیل اپنی دعاوی کو معقولی طورؔ پر آپ پیش کرتی ہے۔ لیکن صاحب موصوف کے کل کے جواب سے مجھے بہت تعجب اور افسوس بھی ہوا کہ صاحب موصوف نے اس طرف ذرا توجہ نہیں فرمائی بلکہ اپنے جواب کی دفعہ ششم میں مجھ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ ’’آپ نے قرآن سے جو استدلال کیا ہے مجھے افسوس ہے کہ میں اب تک اس کے الہامی ہونے کا قائل نہیں جب آپ اس کو الہامی ثابت کر کے قائل کر دیں گے تو اس کی سندات آپ ہی مانی جائیں گی ‘‘۔ اب ہر ایک سوچنے والا غور کر سکتا ہے کہ میرا یہ منشاء کب تھا کہ وہ ہر ایک بات قرآن شریف کی بے تحقیق مان لیں۔ میں نے تو یہ لکھا تھا یعنی میرا یہ منشاء تھا کہ دلائل عقلیہ جو فریقین کی طرف سے پیش ہوں وہ اپنے ہی خیالات کے منصوبوں سے پیش نہیں ہونی چاہئیں بلکہ چاہئے کہ جس کتاب نے اپنے کامل ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ دعویٰ بھی بہ تصریح ثابت کر دیا جاوے اور پھر وہی کتاب اس دعویٰ کے ثابت کرنے کے لئے معقولی دلیل پیش کرے اور اس طور کے التزام سے جو کتاب اخیر پر غالب ثابت ہو گی اس کا یہ اعجاز ثابت ہو گا۔ کیونکہ قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ میں کامل کتاب ہوں جیسا کہ فرماتا ہے ۱ (سیپارہ۶رکوع۵)اور جیسا کہ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے ۲ (سیپارہ۱۵رکوع۱)دونوں آیتوں کا ترجمہ یہ ہے کہ آج میں نے دین تمہارا تمہارے لئے کامل کیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کیا۔ اور یہ قرآن ایک سیدھے اور کامل راہ کی طرف رہبری کرتا ہے یعنی رہبری میں کامل ہے اور رہبری میں جو لوازم ہونے چاہئیں دلائل عقلیہ اور برکات سماویہ میں سے وہ سب اس میں موجود ہیں اور حضرات عیسائی صاحبوں کا یہ خیال ہے کہ انجیل کامل کتاب ہے اور رہبری کے تمام لوازم انجیل میں موجود ہیں پھر جب کہ یہ بات ہے تو اب دیکھنا ضرور ہوا کہ اپنے دعویٰ میں صادق کون ہے۔ اسی بنا پر الوہیت حضرت مسیحؑ کے دلائل بھی جو معقولی طور پر ہوں انجیل سے پیش کرنے چاہئیں تھے جیسا کہ قرآن کریم نے ابطال الوہیت کے دلائل معقولی طور پر بھی علاوہ اور دلائل کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 99
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 99
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/99/mode/1up
جو برکات وغیرہ انوار سے اپنے اندر رکھتا ہے پیش کئے۔ سو اب امید کہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب ہمارے سوال کا منشاء سمجھ گئے ہوں گے تو چاہئے کہ اس منشاء کے مطابق انجیل کی طاقت اور قوت سے ایسے دلائل پیش کئے جائیں نہ اپنی طرف سے اور جو شخص ہم فریقین میں سے اپنی طرف سے کوئی معقولی دلیل یا کوئی دعویٰ پیش کرے گا تو ایسا پیش کرنا اس کا اس بات پر نشان ہوگا کہ اس کی وہ ؔ کتاب کمزور ہے اور وہ طاقت اور قوت اپنے اندر نہیں رکھتی جو کامل کتاب میں ہونی چاہئے۔ لیکن یہ جائز ہوگا کہ اگر کوئی کتاب کسی معقولی دلیل کو اجمالی طور پر پیش کرے مگر ایسے طور سے کہ اس کا پیش کرنا کوئی امر مشتبہ نہ ہو اوراسی کے سیاق سباق اوراسی کے اور دوسرے مقامات سے پتہ مل سکتا ہوکہ اس کا یہی منشاء ہے کہ ایسی دلیل پیش کرے کہ گو وہ دلیل اجمالی ہو مگر ہر ایک فریق کو اختیار ہوگا کہ عوام کے سمجھانے کے لئے کچھ بسط کے ساتھ اس دلیل کے مقدمات بیان کر دیوے لیکن یہ ہرگز جائز نہیں ہوگا کہ اپنی طرف سے کوئی دلیل تراش خراش کر کے الہامی کتاب کی ایسے طور سے مدد دی جائے کہ جیسے ایک کمزور اور بے طاقت انسان کو یا ایک میت کو اپنے بازو اور اپنے ہاتھ کے سہارے چلایا جائے۔ پھر بعد اس کے استقراء کے بارے میں جو مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے جرح کیا ہے وہ جرح بھی قلت تدبر کی وجہ سے ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ قول یعنی دلیل استقراء صحیح سمجھی جائے جو قرآن کریم پیش کرتا ہے تو پھر آدم کا بغیر والدین پیدا ہونا قابل تسلیم نہیں ہوگا اور صفت خالقہ کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ افسوس کہ صاحب موصوف اس بات کے سمجھنے سے غافل رہے کہ دلائل استقرائیہ میں یہی قاعدہ مسلم الثبوت ہے کہ جب تک اس حقیقت ثابت شدہ کے مقابل پر جو بذریعہ دلیل استقرائی کے ثابت ہو چکی ہے کوئی امر اس کا مخالف اور مبائن پیش نہ کیا جائے جس کا ظاہر ہونا بھی بہ پایہ ثبوت پہنچ چکا ہے تب تک دلیل استقرائی ثابت اور برقرار رہے گی مثلاً انسان کا ایک سر ہوتا ہے اور دو آنکھ۔ تو اس کے مقابل پر صرف اس قدر کہنا کافی نہیں ہو گا کہ ممکن ہے کہ دنیا میں ایسے آدمی بھی موجود ہوں جن کے دس سر اور بیس آنکھ ہوں بلکہ ایسا انسان کہیں سے پکڑ کر دکھلا بھی دینا چاہئے۔ اس بات میں فریقین میں سے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 100
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 100
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/100/mode/1up
کس کو انکار ہے کہ حضرت آدمؑ بغیر باپ اور ماں کے پیدا ہوئے تھے اور ان کی نسبت سنت اللہ اسی طرح پر ثابت ہو چکی ہے۔ لیکن امر متنازعہ فیہ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو فریقین کے نزدیک مسلّم اور ثابت شدہ قرار پائی ہو بلکہ فریق مخالف حضرات عیسائیوں کے جو کتاب ہے یعنی قرآن کریم وہ آپ سے یہ بات پیش کرتا ہے کہ دلیل استقرائی سے یہ امر باطل ہے۔ اب اگر یہ دلیل تام اور کامل نہیں ہے تو چاہئے کہ انجیل میں سے یعنی حضرت مسیحؑ کے کلام میں سے اس کے مخالف کوئی دلیل پیش کی جائے جس سے ثابت ہو کہؔ یہ دلیل پیش کردہ قرآن کی یہ ضعف رکھتی ہے اور خود ظاہر ہے کہ اگر دلائل استقرائیہ کو بغیر پیش کرنے نظیر مخالف کے یونہی رد کر دیا جائے تو تمام علوم و فنون ضائع ہو جائیں گے اور طریق تحقیق بند ہو جائے گا۔ مثلاً میں مسٹر عبداللہ آتھم صاحب سے دریافت کرتا ہوں کہ اگر آپ کسی اپنے ملازم کو ایک ہزار روپیہ بطور امانت کے رکھنے کو دیں اور وہ روپیہ صندوق میں بند ہو اور تالی اس کی اس ملازم کے پاس ہو اور کوئی صورت اور کوئی شبہ چوری (ہو)جانے مال کا نہ ہو اور وہ آپ کے پاس یہ عذر پیش کرے کہ حضرت وہ روپیہ پانی ہو کر بہہ گیا ہے یا ہوا ہو کر نکل گیا ہے تو کیا آپ یہ اس کا عذر قبول کر لیں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب تک کوئی امر صفات الٰہیہ کے مخالف نہ پڑے تب تک ہم اس کو جائز اور ممکن کی ہی مد میں رکھیں گے۔ مگر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ ایک مدت تک عہدہ اکسٹرا اسسٹنٹی پر مامور رہ کر مقدمات دیوانی و فوجداری وغیرہ کرتے رہے ہیں۔ کیا اس عجیب طرز کا بھی کوئی مقدمہ آپ نے کیا ہے کہ ایسے بے ہودہ عذر کو قابلِ اطمینان عدالت قرار دے کر فریق عذر کنندہ کے حق میں ڈگری کر دی ہو۔ حضرات آپ پھر ذرا توجہ سے غور کریں کہ یہ بات ہرگز درست نہیں ہے کہ جو شخص دلائل استقرائیہ کے برخلاف کوئی امر جدید اور خلاف دلائل استقراء پیش کرے تو اس امرکو بدوں اس کے کہ وہ نظائر سے ثابت کر دیا جائے قبول کر لیں اور یہ نظیر جو آپ نے پیش کی ہے کہ اس صورت میں ہم کو صفت خالقہ کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ میں حیران ہوں کہ یہ دلیل کیوں پیش کی ہے اور اس محل سے اس دلیل کو تعلق ہی کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کا اس
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 101
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 101
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/101/mode/1up
بات پر اتفاق ہے کہ صفات الٰہیہ جو اس کے افعال سے متعلق ہیں یعنی خلق وغیرہ سے وہ اپنے مفہوم میں قوت عموم کی رکھتی ہے یعنی ان کی نسبت یہ مان لیا گیا ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ ابدی ازلی طور پر ان صفات سے کام لے سکتا ہے۔ مثلاً حضرت آدمؑ کو جو اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پیدا کیا ہے تو کیا ہم فریقین میں کوئی اپنی کتاب کی رو سے ثبوت دے سکتا ہے کہ اس طرز کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قوت جو استقراء سے ثابت ہے اس حد تک ختم ہوچکی ہے۔ بلکہ فریقین کی کتابیں اس بات کو ظاہر کر رہی ہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ نے جو کچھ پیدا کیا ہے ایسا ہی وہ پھر بھی پیدا کر سکتا ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۱ (س۲۳ر۴)کیا وہ جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اس بات پر قادر نہیں کہ ان تمام چیزوں کی مانند اور چیزیں بھی پیدا کرے بیشک قادر ہے اور وہ خلاق علیم ہے یعنی خالقیت میں وہ کامل ہے اور ہر ایک طور سے پیدا کرنا جانتا ہے۔ حکم اس کا اس سے زیادہ نہیں کہ جب کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہو پس ساتھ ہی وہ ہو جاتی ہے۔ پس وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز کی بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم پھیرے جاؤ گے۔ پھر ایک دوسرے مقام میں فرماتا ہے۲یعنی تمام محامد اللہ کے لئے ثابت ہیں جو تمام عالموں کا رب ہے یعنی اس کی ربوبیت تمام عالموں پر محیط ہے۔ پھر ایک اور مقام میں فرماتا ہے ۳ یعنی وہ ہرطرح سے پیدا کرنا جانتا ہے اور ڈپٹی عبداللہ صاحب نے جو چند پیشگوئیاں اپنے تائید دعویٰ میں پیش کی ہیں وہ ہماری شرط سے بالکل مخالف ہیں۔ ہماری شرط میں یہ بات داخل ہے کہ ہر ایک دعویٰ اور دلیل اس کی الہامی کتاب آپ پیش کرے۔ ماسوا اس کے ڈپٹی صاحب کو اس بات کی خوب خبر ہے کہ یہ پیشگوئیاں صرف زبردستی کی راہ سے حضرت مسیحؑ پر جمائی جاتی ہیں اور ایسے طور کی یہ پیشگوئیاں نہیں ہیں کہ اول حضرت مسیحؑ نے آپ پوری پیشگوئی نقل کرکے ان کا مصداق
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 102
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 102
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/102/mode/1up
اپنے تئیں ٹھہرایا ہو ا ور مفسرین کا اس پر اتفاق بھی ہو اور اصل عبری زبان سے اسی طور سے ثابت ہوتی ہوں سو یہ بارثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ جب تک آپ اس التزام کے ساتھ اس کو ثابت نہ کردیں تب تک یہ بیان آپ کا ایک دعوے کے رنگ میں ہے جو خود دلیل کا محتاج ہے۔ چونکہ ہمیں ان پیشگوئیوں کی صحت اور پھر صحت تاویل اور پھر صحت ادعاء مسیحؑ میں آپ کے ساتھ اتفاق نہیں ہے اور آپ مدعی صحت ہیں تو یہ آپ پر لازم ہوگا کہ آپ ان مراتب کو مصفّا اور منقح کرکے ایسے طور سے دکھلاویں کہ جس سے ثابت ہو جائے کہ ان پیشگوئیوں کی تاویل میں یہودی جو اصل وارث توریت کے کہلاتے ہیں وہ بھی آپ کے ساتھ ہیں اور کل مفسر بھی آپ کے ساتھ ہیں اور حضرت مسیحؑ نے بھی تمام پیشگوئیاں جو آپ ذکر کرتے ہیں بحوالہ کتاب و باب و آیت پورے طور پر بیان کرکے اپنی طرف منسوب کی ہیں اور آپ کی رائے کے مخالف آج تک کسی وارث توریت نے اختلاف بیان نہیں کیا اور صاف طور پر حضرت مسیحؑ ابن مریم کے بارہ میں جن کو آپ خدائی کے رتبہ پر قرار دیتے ہیں قبول کرؔ لیا ہے اور ان کے خدا ہونے کے لئے یہ ثبوت کافی سمجھ لیا ہے تو پھر ہم اس کو قبول کر لیں گے اور بڑے شوق سے آپ کے اس ثبوت کو سنیں گے۔ لیکن اس نازک مسئلہ کی زیادہ تصریح کے لئے پھر یاد دلاتا ہوں کہ آپ جب تک ان تمام مراتب کو جو میں نے لکھے ہیں بغیر کسی اختلاف کے ثابت کرکے نہ دکھلاویں اور ساتھ ہی یہود کے علماء کی شہادت ان پیشگوئیوں کی بناء پر حضرت ابن مریم کے خدا ہونے کے لئے پیش نہ کریں۔ تب تک یہ قیاسی ڈھکوسلے آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔ دوسرا حصہ اس کا جواب الجواب میں بیان کیا جائے گا۔ اب وقت تھوڑا ہے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ) ھنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ)
ازجانب اہل اسلام ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 103
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 103
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/103/mode/1up
جواب از طرف مسٹر عبداللہ آتھم صاحب مسیحی
اوّل۔ بجواب آپ کے اے مرزا صاحب میرے مکرّم! میں لفظ استقراء کی شرح کا آپ سے طلب گار ہوں۔ کیا اس کی مراد تجربہ یا معمول سے نہیں جو اس کے سوا ہو وہ فرما دیجئے۔
دوم۔ آپ کے دوسرے مقدمہ میں جو آپ فرماتے ہیں کہ الہام شرح اپنی آپ ہی کرے اور اس کو محتاج معقولات کا نہ کیا جائے۔ بہت سا حصہ صحیح ہے مگر سمجھنے کے واسطے الہام اور عقل کی وہی تشبیہ ہے جو آنکھ اور روشنی کی ہے۔ روشنی ہواور آنکھ نہ ہو تو فائدہ نہیں ہے۔ آنکھ گوہو اور روشنی نہ ہو تب بھی فائدہ نہیں۔ سمجھنے کے واسطے عقل درکار ہے اور جس امر کو سمجھیں وہ چاہئے کہ الہامی ہو۔ مراد میری یہ ہے کہ وہ امر جو مدد نہیں پاتا الہام سے اور صرف انسانی خیال کی گھڑت ہو وہ البتہ الہام میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ مگر جو الہام میں ہے اور شمع الہامی نیچے رکھی ہوئی ہے تو اس کے واسطے عقل انسانی شمعدان ہوسکتی ہے؟
امر سوم۔ جناب یہودیوں کا اتفاق ہم سے کیوں طلب کرتے ہیں جب کہ لفظ موجود ہیں اور لغت موجودؔ ہے اور قواعد موجود ہیں خود معنی کر لیں جو معنی بن سکیں وہ ٹھیک ہیں۔ لفظ بلفظ کا میں ذمّہ نہیں اٹھا سکتا۔ مگر بالا جمال ساری نبوّتوں کو اس مقدمہ میں مسیح نے اپنے اوپر لیا ہے۔ چنانچہ یوحنا کے ۵ باب ۳۹ آیت میں اور لوقا کے ۲۴ باب ۲۷ آیت میں یہ امر مشرّح ہے۔ یوحنا۔ تم نوشتوں میں ڈھونڈھتے ہو کیونکہ تم گمان کرتے ہو کہ ان میں تمہارے لئے ہمیشہ کی زندگی ہے اور یہ وے ہی ہیں جو مجھے پر گواہی دیتے ہیں اور موسیٰ اور سب نبیوں سے شروع کرکے وہ باتیں جو سب کتابوں میں اس کے حق میں ہیں ان کے لئے تفسیر کیں۔
ماسوا اس کے بعض خاص نبوتیں بھی مسیح پر نوشتوں میں لگائی گئی ہیں۔ چنانچہ متی کے ۲۶ باب ۳۱ آیت میں اس پیش خبری کا جو بابت ہمتا کے ہے حوالہ دیا گیا۔ علٰی ھٰذَاالقیاس بہت سی اور بھی مثالیں ہیں جن کی فہرست ذیل میں دے دیتا ہوں:۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 104
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 104
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/104/mode/1up
یسعیا ۶ باب اسے ۱۲ بمقابلہ یوحنّا ۱۲ باب ۴۰،۴۱۔ اعمال ۲۸ باب ۲۶۔ پھر یسعیا ۴۰ باب ۳ ملاکی ۳ باب ۱ بمقابلہ متی ۳ باب ۳۔ زکریا ۱۲ باب ۱و ۱۰ بمقابلہ یوحنّا ۱۹ باب ۳۷۔ یرمیا ۳۱ باب ۳۱ - ۳۴ بمقابلہ عبرانی ۸ باب ۶ سے ۱۲۔ عبرانی ۱۰ باب ۱۲ سے ۱۹۔ خروج ۱۷ باب ۲ گنتی ۲۰ باب ۳و۴ گنتی ۲۱ باب ۴و۵۔ استثنا ۶ باب ۱۶۔ یہ چاروں مقام بمقابلہ پہلا قرنتی ۱۰ باب ۹ سے ۱۱۔ یسعیا ۴۱ باب۴و۴۴ باب ۶ بمقابلہ مکاشفات۸۔۱۱۱ ۔۱۷و۲۸و۲۱۶و۲۲۱۳ویوئیل۲۳۳بمقابلہ رومی ۹ سے۱۰ ۱۴ و یسعیا۷۱۴ و ۸۱۰ بمقابلہ متی ۱۲۳
زبان عبرانی سے جس امر کی آپ گرفت کریں موجود ہے ابھی پیش کیا جائے گا۔
چوتھا۔ لفظ کمال کی جو جناب گرفت فرماتے ہیں کہ انجیل درخود کامل ہونی چاہئے تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ کس امر میں کامل۔ کیا سنار کے کام میں لوہار کے کام میں؟ یہ تو دعویٰ ہی ان کتابوں کانہیں۔ مگر راہ نجات کے دکھلانے کے کام میں یہ دعویٰ ان کا ہے۔ انجیل نے جواس باب میں اپنا کمال دکھلایا وہ ہم پیش کردیتے ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ’’آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس سے ہم نجات پاسکیں سوائے مسیح کے‘‘۔
اور رومیوں کے خط میں لکھا ہے اگر نجات فضل سے ہے تو عمل عمل نہیں و اگر نجات عمل سے ہے تو فضل فضل نہیں۔ اس سے پھر وہی امر ثابت ہوا کہ مسیح نے خود کہا کہ ’’راہ حق اور زندگی مَیں ہی ہوں‘‘ (یوحنا ۱۴ باب ۶)۔ اور یادرکھنا چاہئے کہ کلام الٰہی میں اکثر خدا وند یہ فرمایا کرتا ہے کہ َ میں ؔ ہی ہوں۔ مَیں ہوں۔ اور اس کا ایماء اس نام پر ہے جو موسیٰ سے خدا نے کہا کہ میرا نام میں ہوں۔ سو ہوں اور اس نام سے میں پہلے معروف نہ تھا۔ یہ تجھ کو جتایا جاتا ہے۔
(خروج ۳ باب ۱۴ آیت)
(قلت وقت کے سبب جواب ناتمام رہا)
(دستخط بحروف انگریزی) ہنری مارٹن کلارک (دستخط بحروف انگریزی) غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 105
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 105
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/105/mode/1up
بقیہ بیانِ جواب حضرت مرزا صاحب
میرا جواب جو ناتمام رہ گیا تھا اب بقیہ حصہ اس کا لکھواتا ہوں۔ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب فرماتے ہیں ’’جو ہم جسمانی چیز کو جو مظہر اللہ تھی اللہ نہیں مانتے اور ہم نے ابن اللہ کو جسم نہیں مانا۔ ہم تو اللہ کو روح جانتے ہیں‘‘۔ صاحب موصوف کا یہ بیان بہت پیچیدہ اور دھوکہ دینے والا ہے۔ صاحب موصوف کو صاف لفظوں میں کہنا چاہئے تھا کہ ہم حضرت عیسٰیؑ کو خدا جانتے ہیں اور ابن اللہ مانتے ہیں کیونکہ یہ بات تو ہر ایک شخص سمجھتا اور جانتا ہے کہ جسم کو ارواح کے ساتھ ایسا ضروری تلازم نہیں ہے کہ تاجسم کو حصہ دار کسی شخص کا ٹھہرایا جائے مثلاً انسان کو جو ہم انسان جانتے ہیں تو کیا بوجہ اس کے ایک خاص جسم کے جو اس کو حاصل ہے انسان سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خیال تو ببداہت باطل ہے کیونکہ جسم ہمیشہ معرض تحلل میں پڑا ہوا ہے چند برس کے بعد گویا پہلا جسم دور ہوکر ایک نیا جسم آجاتا ہے اس صورت میں حضرت مسیحؑ کی کیا خصوصیت ہے۔ کوئی انسان بھی باعتبار جسم کے انسان نہیں ہے بلکہ باعتبار روح کے انسان کہلاتا ہے۔ اگر جسم کی شرط ضروری ہوتی تو چاہئے تھا کہ مثلاً زید جو ایک انسان ہے ساٹھ برس کی عمر پانے کے بعد زید نہ رہتا بلکہ کچھ اور بن جاتا کیونکہ ساٹھ برس کے عرصہ میں اس نے کئی جسم بدلے۔ یہی حال حضرت مسیحؑ کا ہے جو جسم مبارک ان کو پہلے ملا تھا جس کے ساتھ انہوں نے تولد پایا تھا وہ تو نہ کفارہ ہوسکا اور نہ کسی کام آیا۔ بلکہ قریباً تیس برس کے ہوکر انہوں نے ایک اور جسم پایا اور اسی جسم کی نسبت خیال کیا گیا کہ گویا وہ صلیب پر چڑھایا گیا اور پھر ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے داہنے ہاتھ روح کے ساتھ شامل ہوکر بیٹھا ہے۔ اب جب کہ صاف اور صریح طور پر ثابت ہے کہ جسم کو روح کی صفات اور القاب سے کچھ تعلق نہیں اور انسان ہو یا حیوان ہو وہ باعتبار اپنی روح کےؔ انسان یا حیوان کہلاتا ہے اور جسم ہر وقت معرض تحلل میں ہے تو اس صورت میں اگر حضرات عیسائی صاحبان کا یہی عقیدہ ہے کہ مسیح درحقیقت خدا تعالیٰ ہے۔ تو مظہر اللہ کہنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 106
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 106
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/106/mode/1up
کی کیا ضرورت ہے۔ کیا ہم انسان کو مظہر انسان کہا کرتے ہیں۔ایسا ہی اگر حضرت مسیحؑ کی روح انسانی روح کی سی نہیں ہے اور انہوں نے مریم صدیقہ کے رحم میں اس طریق اور قانون قدرت سے روح حاصل نہیں کی جس طرح انسان حاصل کرتے ہیں۔ اور جو طریق طبابت اور ڈاکٹری کے ذریعہ سے مشاہدہ میں آچکا ہے۔ تو اول تو یہ ثبوت دینا چاہئے کہ ان کے جنین کا نشوونما پانا کسی نرالے طریق سے تھا اور پھر بعد اس کے اس عقیدہ کو چھپ چھپ کر خوفزدہ لوگوں کی طرح اور پیراؤں اور رنگوں میں کیوں ظاہر کریں۔ بلکہ صاف کہہ دینا چاہئے کہ ہمارا خدا مسیح ہے اور کوئی دوسرا خدا نہیں ہے جس حالت میں خدا اپنی صفات کاملہ میں تقسیم نہیں ہوسکتا اور اگر اس کی صفات تامہ اور کاملہ میں سے ایک صفت بھی باقی رہ جائے تب تک خدا کا لفظ اس پر اطلاق نہیں کرسکتے۔
تو اس صورت میں میری سمجھ میں نہیں آسکتا کہ تین کیونکر ہوگئے۔ جب آپ صاحبوں نے اس بات کو خود مان لیا اور تسلیم کر لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مستجمعجمیع صفات کاملہ ہو تو اب یہ تقسیم جو کی گئی ہے کہ ابن اللہ کامل خدا۔ اور باپ کامل خدا۔ اور روح القدس کامل خدا اس کے کیامعنے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ یہ تین نام رکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ تفریق ناموں کی اس بات کوچاہتی ہے کہ کسی صفت کی کمی و بیشی ہو۔
مگر جب کہ آپ مان چکے کہ کسی صفت کی کمی و بیشی نہیں تو پھر وہ تینوں اقنوم میں مابہ الامتیاز کون ہے جو ابھی تک آپ لوگوں نے ظاہر نہیں فرمایا۔ جس امر کو آپ مابہ الامتیاز قرار دیں گے وہ بھی منجملہ صفات کاملہ کے ایک صفت ہوگی جو اس ذات میں پائی جانی چاہئے جو خدا کہلاتا ہے۔ اب جب کہ اس ذات میں پائی گئی جو خدا قرار دیا گیا تو پھر اس کے مقابل پر کوئی اور نام تجویز کرنا یعنی ابن اللہ کہنا یا روح القدس کہنا بالکل لغو اور بے ہودہ ہو جائے گا۔
آپ صاحب اس میرے بیان کو خوب سوچ لیں کیونکہ یہ دقیق مسئلہ ہے ایسا نہ ہو کہ جواب لکھنے کے وقت یہ امور نظر انداز ہوجائیں۔ خدا وہ ذات ہے جو مستجمع جمیع صفات کاملہ ہے اور غیر کا محتاج نہیں اور اپنے کمال میں دوسرے کا محتاج نہیں اور جو مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 107
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 107
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/107/mode/1up
دفعہؔ ۲ میں موسیٰ کی جھاڑی کی تمثیل پیش کی ہے۔ یہ محل متنازعہ فیہ سے کچھ علاقہ نہیں رکھتی۔ صاحب موصوف مہربانی فرما کر قرآن کریم سے ثابت کرکے دکھلاویں کہ کہاں لکھا ہے کہ وہ آگ ہی خدا تھی یا آگ ہی میں سے آواز آئی تھی۔ بلکہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں صاف فرماتا ہے۔ ۱ (سورۂ نملس۱۹۔ر ۱۶) یعنی جب موسیٰ آیا تو پکارا گیا کہ برکت دیا گیا ہے جو آگ میں ہے اور جو آگ کے گرد ہے اور اللہ تعالیٰ پاک ہے تجسم اور تحیز سے اور وہ رب ہے تمام عالموں کا۔ اب دیکھئے اس آیت میں صاف فرما دیا کہ جو آگ میں ہے اور جو اس کے گرد میں ہے اس کو برکت دی گئی۔ اور خداتعالیٰ نے پکارکر اس کو برکت دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آگ میں وہ چیز تھی جس نے برکت پائی نہ کہ برکت دینے والا۔ وہ تو نودیکے لفظ میں آپ اشارہ فرمارہا ہے کہ اس نے آگ کے اندر اور گرد کو برکت دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ آگ میں خدا نہیں تھا اور نہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے بلکہ اللہ جلّ شانہٗ اس وہم کا خود دوسری آیت میں ازالہ فرماتا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ اس حلول اور نزول سے پاک ہے وہ ہر ایک چیز کا ربّ ہے۔
اور اسی طرح خروج ۳باب آیت ۲ میں لکھا ہے کہ اس وقت خدا وند کا فرشتہ ایک بوٹے میں سے آگ کے شعلے میں سے اس پر ظاہر ہوا۔ اور مسٹر عبداللہ آتھم صاحب جو تحریر فرماتے ہیں کہ قرآن میں اس موقعہ پر یہ بھی لکھا ہے۔ ’’میں تیرے باپ اسحاقؑ اور ابراہیمؑ اور یعقوبؑ کا خدا ہوں‘‘۔ یہ بیان سراسر خلاف واقع ہے۔ قرآن میں ایسا کہیں نہیں لکھا۔ اگر صاحب موصوف کے حوالجات کا ایسا ہی حال ہے کہ ایک خلاف واقعہ امر جرأت کے ساتھ تحریر فرما دیتے ہیں تو پھر وہ حوالجات جو توریت اور انجیل کے تحریر فرمائے ہیں وہ بھی کتابیں پیش کرکے ملاحظہ کے لائق ہوں گی۔
اور پھر صاحب موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ توریت میں مسیح کو یک تن اور انبیاء کو یک من کرکے لکھا ہے۔
میں کہتاہوں کہ توریت میں نہ تو کہیں یک تن کالفظ ہے اورنہ یک من کا۔ صاحب موصوف کی بڑی مہربانی ہوگی کہ بتشریح توریت کے روسے ثابت کریں کہ توریت نے جب دوسرے انبیاء کا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 108
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 108
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/108/mode/1up
نام ابناء اللہ رکھا تو اس سے مراد یک من ہونا تھا۔ اور جب مسیح علیہ السلام کا نام ابن اللہ کہا۔ تو اس کا لقب یک تن رکھ دیا۔ میری دانست میں تو اور انبیاء حضرت مسیح علیہ السلام سے اس القاب یابی میںؔ بڑھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ حضرت مسیحؑ خود اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میرے ابن اللہ کہنے میں تم کیوں رنجیدہ ہوگئے یہ کونسی بات تھی زبور میں تو لکھا ہے کہ تم سب الہ ہو۔
حضرت مسیحؑ کے اپنے الفاظ جو یوحنا ۱۰باب۳۵ میں لکھے ہیں یہ ہیں کہ میں نے کہاتم خدا ہو جبکہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔ اب منصف لوگ اللہ تعالیٰ سے خوف کرکے ان آیات پر غور کریں کہ کیا ایسے موقعہ پر کہ حضرت مسیحؑ کی ابنیت کے لئے سوال کیا گیا تھا حضرت مسیحؑ پریہ بات فرض نہ تھی کہ اگر وہ حقیقت میں ابن اللہ تھے تو انہیں یہ کہنا چاہئے تھا کہ دراصل خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں اور تم آدمی ہو۔ مگر انہوں نے تو ایسے طور سے الزام دیا جسے انہوں نے مہر لگا دی کہ میرے خطاب میں تم اعلیٰ درجہ کے شریک ہو مجھے تو بیٹا کہا گیا اور تمہیں خدا کہا گیا۔
پھر صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ توریت میں اگرچہ دوسروں کو بھی بیٹا کہا گیا ہے مگر مسیحؑ کی بہت بڑھ کر تعریفیں کی گئی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تعریفیں مسیح کے حق میں اس وقت قابل اعتبار سمجھی جائیں گی جس وقت ہماری شرائط پیش کردہ کے موافق اس کو ثابت کر دو گے۔ اور دوسری یہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام یوحنا ۱۰ باب میں آپ کی تاویل کے مخالف اور ہمارے بیان کے موافق ہیں۔ اور یہ خیالات آپ کے حضرت مسیح علیہ السّلام نے خود ردّ فرما دیئے ہیں۔
بقیہ کا جواب آپ کے جواب کے بعد لکھا جائے گا۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر۔ فصیح ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 109
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 109
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/109/mode/1up
تیسراؔ پرچہ
مباحثہ ۲۴۔ مئی ۱۸۹۳ ء
روئداد
آج سولہ منٹ اوپر چھ بجے مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے اپنا جواب لکھانا شروع کیا اور سولہ منٹ اوپر سات بجے ختم ہوا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے سات بجے پچاس منٹ اوپر جواب لکھانا شروع کیا اور آٹھ بجے چھیالیس منٹ پر ختم کیا اور پھر بلند آواز سے سنا دیاگیا۔
ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے نو بجے پچیس منٹ پر شروع کیا اور دس بجے پچیس منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ بعدازاں تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اور مصدقہ تحریریں فریقین کو دی گئیں۔ بعد ازاں چند ایک تجاویز صورت مباحثہ کے تبدیل کرنے کے متعلق پیش ہوئیں مگر سابقہ صورت ہی بحال رہی۔ اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔ دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
مورخہ ۲۴۔ مئی ۱۸۹۳ ء ازجانب
ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب
اول میں خوش ہوا یہ سن کر کہ پیدائش آدم و حوّ ا میں دلیل استقراء نہیں لگ سکتی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قاعدہ عامہ میں استثنا جائز ہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 110
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 110
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/110/mode/1up
اولؔ ۔ جناب جو فرماتے ہیں کہ مسیح کا جسم زوال پذیر تھا۔ اس واسطے نہ وہ کفارہ ہوسکا اور نہ کسی کام آیا اس کے جواب میں عرض ہے کہ ہم انسانی جسم مسیح کو مسیح قرار نہیں دیتے مگر سارا وجود انسانی جو گناہ سے پاک تھا اور سوائے گناہ کے اور سب باتوں میں ہمارے مساوی اور مخلوق تھا اور ماسوائے انسانیت کے وہ مظہر اللہ بھی تھا یعنی جائے ظہور اللہ کا جس پاک انسانیت میں بارگناہاں سب کا اپنے اوپر اٹھا لیا اور اقنوم ثانی اللہ نے وہ بار اٹھوا دیا۔ اور یوں معاوضہ گناہاں کا ہوکرکفارہ پورا ہوگیا پھر وجود ثانی کے قائم و دائم رہنے کی کیا ضرورت تھی۔
دوم۔ آپ کا دوسرا اعتراض مسیح خدا تعالیٰ ہے تو مظہر اللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیا انسان کو مظہر انسان کہا کرتے ہیں۔ جواب۔ مسیح انسان کو اس کی الوہیت متعلقہ کے مشابہ کیوں کرتے ہیں انسان میں تو جسم علیحدہ چیز ہے اور روح علیحدہ چیز ہے اور جان ایک علیحدہ شے ہے۔ چنانچہ روح وہ شے ہے جس کے متعلق صفات علم اور ارادہ کے ہیں۔ جسم وہ شے ہے جس میں نہ علم ہے نہ ارادہ ہے۔ جان وہ قانون ہے جو نباتات میں بھی غذا کو بذریعہ رگ و ریشہ کے پہنچاتی ہے لیکن خدایا مظہر اللہ ان ساری علل سے علیحدہ ہے اور وہ قائم فی نفسہ ہے۔
سوم۔ جناب میرزا صاحب کے خیال میں مسیح کی روح قانون قدرت کے موافق مریم سے حاصل ہوئی تھی اسی لئے وہ خدا نہیں ہوسکتے۔ بجواب اس کے عرض ہے کہ مسیح کی انسانی روح اگرچہ قانون قدرت کے موافق نہیں پیدا ہوئی تاہم خلقیت میں مساوی ہے اور اشتقاق روح کا دوسری روح سے نہیں ہوتا جو مریم سے شق ہو کے وہ روح آئی ہو کیونکہ روح جو ہر فرد ہے اور کسی قانون اور آئین کا نام نہیں بلکہ شے جمع صفات و تعریف شخص کی ہے تو پھر آپ یوں کیوں فرماتے ہیں کہ مسیح کی روح مریم سے حاصل ہوئی تھی۔ کیوں نہ اس کو کہیں کہ نئی مخلوق ہوئی تھی۔ اور ماسوا اس کے الوہیت سے اس بات کا کیاعلاقہ ہے۔ ہم تو بار بار کہہ چکے کہ مظہر اللہ ماسوا اس کے انسانیت کی ہے۔
چہارم۔ جناب کا سوال ہے کہ خدا منقسم نہیں ہوسکتا پھر تین خدا کیونکر ہوئے اور اس تقسیم کی امتیاز کی بناء کیا ہے۔ بجواب اس کے عرض ہے کہ ہم یوں کہتے ہیں کہ تثلیث کا ِ سر صورت واحدہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 111
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 111
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/111/mode/1up
میں تو ایک ہے اور صورت ثانی میں تین ہیں اس کو ہم مشرح آئندہ تمہید میں کریں گے۔
صفت بے نظیری کی صفت بے حدی سے نکلی ہے کیونکہ بے نظیر مطلق وہ شے ہو سکتی ہے جو امکان تکؔ نظیر کا مٹا ڈالے اور یہ امکان تب مٹ سکتا ہے کہ جب مکان گنجائش نظیر کا مٹ سکے یعنی وہ شے بے حد بھی ہو جس کے بارہ میں کہا جاسکتا ہے کہ قدامت اور ماہیت بے حدی اور بے نظیری کی واحد ہے۔ کیونکہ نہیں کہہ سکتے کہ بے نظیری بے حدی سے کب نکلی اور کہاں رہتی ہے۔ کیونکہ وہ بے حدی سے علیحدہ نہیں ہوسکتی۔ پس اس نظیر سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک شے بمثل بے حدی کے قائم فی نفس ہے اور دوسری شے بمثل بے نظیری کے لازم اور ملزوم ساتھ اس بیحدی کے ہے اور خوب غور سے دیکھ لینا چاہیئے کہ ان دونوں صفتوں میں ایک تمہید ایسی واقع ہے جس کو بداہت کہا جاوے تو یہ ہر دو ایک صورت میں تو ایک سی ہیں اور دوسری صورت میں متفرق جیسے مثال ہم نے دو صفات سے دی ہے تو یہ صفات بجائے اجزاء شے ہونے کے حاوی برُکل شیء ہیں۔ ایسا ہی جس کوہم کہتے ہیں خدائے اب اور وہ بمثل بے حدی کے قائم فی نفسہٖ ہے اور جن کو ہم کہتے ہیں۔ ابن و روح القدس وہ لازم و ملزوم ساتھ خدائے اب کے ہیں۔
اب ہم نے ان کی یہ تمیز دکھلا دی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ ماہیت ان کی منقسمہ ہے۔ پس ہم مشرک بھی نہیں ہوسکتے کیونکہ ہم وحدہ لا شریک کے قائل ہیں۔ ہم تین خدا نہیں بناتے بلکہ ہم تینوں اقانیم یا شخص مساوی یک دیگر کو صفات الٰہیہ سے کلام میں مزیّن پاتے ہیں اور یہ ماہیت میں ایک ہیں اور فی نفسہ لازم ملزوم ہونے کے باعث تین ہیں۔
پنجم۔ جناب استفسار فرماتے ہیں کہ قرآن سے ثابت کر دکھلاؤ کہ وہ آگ ہی خدا تھی یا آگ میں سے آواز آئی تھی اور یہ آواز جو آئی تھی کہ میں ا براہیم اور اسحاق اور یعقوب کا خدا ہوں۔ بجواب اس کے عرض یہ ہے کہ آواز غیب سے جو آئی اور جو مخاطب ساتھ موسیٰ کے ہوئی اس کا ذکر ابھی ہم نہیں کرتے لیکن وہ آواز یہ تھی کہ تحقیق میں تیرا رب ہوں(س طٰہ ٰ ر۱) اگر جناب یہ کہیں کہ آگ میں سے یہ آواز نہ تھی تو قرینہ الفاظ تو یہ نہیں ظاہر کرتا کہ سوائے آگ کے اور جگہ سے ہووے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 112
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 112
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/112/mode/1up
اور سورہ قصص میں یوں لکھا ہے کہ اسی آواز کے بارے میں جو آگ یا جھاڑی میں سے آئی کہ تحقیق میں ہوں رب عالموں کا۔ اور تیسری آیہ ماسوائے ان دو آیات کے جو جناب نے پیش کی ہے یہ جملہ کہ میں ابراہیم و اسحاق و یعقوب کا خدا ہوں یہ فی الواقع توریت میں ہے کہ جس موقعہ کا قرآن میں یہ غلط اقتباس ہوا ہے اتنی میری غلطی مان لیں کہ میں نے توریت کے الفاظ قرآن میں بیان کر دیئے مگرؔ دراصل کچھ فرق نہیں کہ میں تیرا رب ہوں اور رب العالمین ہوں اور اسے جو توریت میں لکھا ہے کہ میں تیرے باپ ابراہیم و اسحاق و یعقوب کا خدا ہوں نہ کم ہیں نہ زیادہ۔ دلیل مظہر اللہ کی اس سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ شے مرئی خدا نہیں ہوسکتا۔
ششم۔ یہ جو جناب فرماتے ہیں کہ یک تن اور یک من یہ ہر دو الفاظ توریت میں پائے نہیں جاتے۔ بجواب اس کے ہماری عرض ہے کہ ہم نے یہ استنباط کیا تھا یعنی خلاصہ نکالا تھا۔ اگر ایسا ہی آپ گرفت فرمائیں گے تو یہ وہ نقل ہوجائے گی کہ ایک شخص محمد بخش نامی کو کسی نے کہا تھا کہ تو نماز کیوں نہیں پڑھا کرتا تو اس نے کہا کہ کہاں لکھا ہے محمد بخش نماز پڑھا کرے۔ اب یہ کوئی دلیل نہیں مگر لطیفہ ہے۔
ہفتم۔ آپ ان الفاظ سے جو مسیح خدا وند نے کہے کہ تم اس کو کفر نہیں کہتے ہو جو تمہاری قضات اور بزرگوں کو الوہیم کہا تب تو مجھ کو ابن اللہ کہنے سے کیوں الزام دیتے ہو۔ یہودی لوگوں سے خدا وند مسیح اپنے آپ کو کہتے تھے کہ میں بیٹا خدا کا ہوں تو سنگسار کرنے کو تیار ہوئے کہ تو اپنے آپ کو بیٹا خدا کا کہہ کے مساوی خدا کا بناتا ہے اور یہ کفر ہے اس لئے ہم تجھ کو سنگسار کرتے ہیں۔ ہمارے خدا وند نے ان کے زعم کو اس طرح پر ہٹایا کہ مساوی خدا خدا ہوا۔ اگر میں نے اپنے آپ کو خدا کہا تو تمہارے بزرگوں کو خدا یان کہا گیا وہاں تم نے ان کے کفر کا الزام کیوں نہ دیا۔ پس ان کی یہ دہان بندی خدا وند نے کر دی نہ کہ اپنی الوہیت کا اس نے انکار کردیا اور نہ اس کا کچھ ثبوت پیش کیا۔ گویا اس کی یہ علیحدہ بات رہی اور اس میں نہ کمی کا اقرار ہے اور نہ زیادتی کا۔
ہشتم۔ یہ جو جناب فرماتے ہیں کہ مسیح کی تعریفیں توریت میں اور انبیاء سے بڑھ کر بیان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 113
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 113
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/113/mode/1up
نہیں کی گئیں۔ بجواب اس کے عرض ہے کہ ان سب نے مدار نجات کا المسیح پر رکھا ہے پھر آپ ہی یہ کیونکر فرماتے ہیں کہ مسیح کی صفات اور نبیوں سے بڑھ کر نہیں کی گئیں۔ کس نبی کے بارہ میں بجز مسیح یہ کہا گیا کہ وہ ہمتائے خدا ہے۔ ذکر یا باب ۱۳ - ۷ - وہ یہوا صدقنو جو تخت داؤدی پر آنے والا ہے یرمیاہ باب ۲۳ - ۵و۶و۷۔ وہ خدائے قادر۔ اب ابدیت۔ شاہ سلامت ہے مشیر۔ مصلح جو تخت داؤدی پر ابد تک سلطنت کرے گا۔ یسعیا ۹ - ۶و۷
تتمتاً
بقایا دیر وزہ جس میں جناب نے فضیلت کلام انجیل کی پوچھی ہے ملاحظہ فرمایئے یوحنا کے باب۱۲۔ ۴۸ؔ
سے ۵۰ تک۔ انجیل وہ کلام ہے کہ جس کے موافق عدالت سب لوگوں کی ہوگی یعنی کل عالم کی۔(باقی آئندہ)
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
جواب حضرت مرزا صاحب
۲۴؍ مئی ۹۳ ء
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
کسی قدر کل کے سوالات کا بقیہ رہ گیا تھا۔ اب پہلے اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب مجھ سے دریافت فرماتے ہیں کہ استقراء کیا چیز ہے اور استقراء کی کیا تعریف ہے؟ اس کے جواب میں واضح ہو کہ استقراء اس کو کہتے ہیں کہ جزئیات مشہودہ کا جہاں تک ممکن ہے تتبع کرکے باقی جزئیات کا انہیں پر قیاس کردیا جائے۔ یعنی جس قدر جزئیات ہماری نظر کے سامنے ہوں یا تاریخی سلسلہ میں ان کا ثبوت مل سکتا ہو تو جو ایک شان خاص اور ایک حالت خاص قدرتی طور پر وہ رکھتے ہیں اسی پرتمام جزئیات کا اس وقت تک قیاس کرلیں جب تک کہ ان کے مخالف کوئی اور جزئی ثابت ہوکر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 114
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 114
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/114/mode/1up
پیش نہ ہو۔ مثلاً جیسے کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ نوع انسان کی تمام جزئیات کا تتبع جہاں تک حد امکان میں ہیں ہوکر یہ امر مسلّم الثبوت قرار پاچکا ہے کہ انسان کی دو آنکھیں ہوتی ہیں تو اب یہ دو آنکھیں ہونے کا مسئلہ اس وقت تک قائم اور برقرار سمجھا جائے گا جب تک اس کے مقابل پر مثلاً چار یا زیادہ آنکھوں کا ہونا ثابت نہ کر دیا جائے۔ اسی بنا پر میں نے کہا تھا کہ اللہ جلّ شانہٗ کی یہ دلیل معقولی کہ ۱ جو بطور استقراء کے بیان کی گئی ہے یہ ایک قطعی اور یقینی دلیل استقرائی ہے۔ جب تک کہ اس دلیل کو توڑ کر نہ دکھلایا جائے اور یہ ثابت نہ کیا جائے کہ خدا تعالیٰ کی رسالتوں کو لے کر خدا تعالیٰ کے بیٹے بھی آیا کرتے ہیں اس وقت تک حضرت مسیحؑ کا خدا تعالیٰ کا حقیقی بیٹا ہونا ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ اس دلیل میں صاف توجہ دلاتا ہے کہ تم مسیح سے لے کر انبیاء کے انتہائی سلسلہ تک دیکھ لو جہاں سے سلسلہ نبوت کا شروع ہوا ہے کہ بجز نوعؔ انسان کے کبھی خدایا خدا کا بیٹا بھی دنیا میں آیا ہے۔ اور اگر یہ کہو کہ آگے تو نہیں آیا مگر اب تو آگیا تو فن مناظرہ میں اس کا نام مصادر علی المطلوب ہے یعنی جو امر متنازعہ فیہ ہے اسی کو بطور دلیل پیش کردیا جائے مطلب یہ ہے کہ زیر بحث تو یہی امر ہے کہ حضرت مسیحؑ اس سلسلہ میں متصلہ مرفوعہ کو توڑ کر کیونکر بحیثیت ابن اللہ ہونے کے دنیا میں آگئے اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرت آدم ؑ نے بھی اپنی طرز جدید پیدائش میں اس سلسلہ معمولی پیدائش کو توڑا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم تو خود اس بات کے قائل ہیں کہ اگر دلائل معقولی سے یا تاریخی سے سلسلہ استقراء کے مخالف کوئی امر خاص پیش کیا جائے اور اس کوا دلہ عقلیہ سے یا ادلہ تاریخیہ سے ثابت کر کے دکھلا دیا جائے تو ہم اس کو مان لیں گے یہ تو ظاہر ہے کہ فریقین نے حضرت آدمؑ کی اس پیدائش خاص کو مان لیا ہے گو یاوہ بھی ایک سنّت اللہ طرز پیدائش میں ثابت ہوچکی ہے۔ جیسا کہ نطفہ کے ذریعہ سے انسان کو پیدا کرنا ایک سنّت اللہ ہے اگر حضرت مسیحؑ کو حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ مشابہ کرنا ہے اور اس نظیر سے فائدہ اٹھانا مدنظر ہے تو چاہیئے کہ جس طرح پر اور جن دلائل عقلیہ سے انتہائی سلسلہ نوع انسان کا حضرت آدمؑ کی پیدائش خاص تسلیم کی گئی ہے اسی طرح پر حضرت مسیحؑ کا ابن اللہ ہونا یا خدا ہونا اور سلسلہ سابقہ مشہودہ مثبتہ کو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 115
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 115
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/115/mode/1up
توڑ کر بحیثیت خدائی و ابنیت خدا تعالیٰ دنیا میں آنا ثابت کر دکھلاویں پھر کوئی وجہ انکار کی نہ ہوگی کیونکہ سلسلہ استقراء کے مخالف جب کوئی امر ثابت ہو جائے تو وہ امر بھی قانون قدرت اور سنت اللہ میں داخل ہوجاتا ہے سو ثابت کرنا چاہیئے۔ مگر دلائل عقلیہ سے پھر مسٹر عبداللہ آتھم صاحب فرماتے ہیں کہ الہام چاہیئے کہ اپنی شرح آپ کرے سو واضح ہو کہ اس میں ہمارا اتفاق رائے ہے۔ بیشک الہام صحیح اور سچے کے لئے یہی شرط لازمی ہے کہ اس کے مقامات مجملہ کی تفصیل بھی اسی الہام کے ذریعہ سے کی جائے جیسا کہ قرآن کریم میں یعنی سورہ فاتحہ میں یہ آیت ہے۔ ۱ اب اس آیت میں جو3کا لفظ ہے یہ ایک مجمل لفظ تھا اور تشریح طلب تھا تو خدا تعالیٰ نے دوسرے مقام میں خود اس کی تشریح کر دی اور فرمایا کہ ۲ (سیپارہ ۵ ر ۶)
اور پھر ڈپٹی صاحب موصوف اپنی عبارت میں جس کا خلاصہ لکھتا ہوں یہ فرماتے ہیں کہ الہام الٰہی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنے دعاوی کو دلائل عقلیہ سے ثابت کرے بلکہ اس کے لئے صرف بیا ن کر دینا کافیؔ ہوگا اور پھر اس کتاب کے پڑھنے والے دلائل آپ پیدا کر لیں گے۔ یہ بیان ڈپٹی صاحب کا اس روک اور حفاظت خود اختیاری کیلئے ہے کہ میں نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب کی یہ ضروری علامت اور شرط ہے کہ وہ دعویٰ بھی آپ کرے اور اس دعویٰ کی دلیل بھی آپ بیان فرماوے تاکہ ہر ایک پڑھنے والا اس کا دلائل شافیہ پاکر اس کے دعاوی کو بخوبی سمجھ لیوے اور دعویٰ بلا دلیل نہ رہے کیونکہ یہ ہر ایک متکلّم کا ایک نقص سمجھا جاتا ہے کہ دعاوی کرتاچلا جائے اور ان پر کوئی دلیل نہ لکھے۔ اب ڈپٹی صاحب موصوف کو یہ شرط سن کر یہ فکر پڑی کہ ہماری انجیل اس مرتبہ عالیہ سے خالی ہے اور وہ کسی صورت میں قرآن کریم کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ بہتر ہے کہ کسی طرح سے اس کو ٹال ہی دیا جائے سو میری دانست میں ڈپٹی صاحب موصوف کا انجیل شریف پر یہ ایک احسان ہے جو آپ اس کی پردہ پوشی کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔ افسوس کہ آپ نے ان کلمات کے لکھتے وقت اس بات کی طرف تو جہ نہیں فرمائی کہ آپ ایک زمانہ دراز تک اکسٹرا اسسٹنٹ رہ چکے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 116
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 116
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/116/mode/1up
ہیں اور آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ کیونکر ایک حاکم بحیثیت اپنی حکومت کے متخاصمین میں فیصلہ کیا کرتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی ایسا بھی کیا ہے کہ صرف ڈگری یا ڈسمس کا حکم سنا کر روبکار اخیر کا لکھنا جس میں مدلل وجوہات سے صادق کو صادق اور کاذب کو کاذب ٹھہرایا جاوے فضول سمجھا ہو اور یہ تو دنیا کا کام ہے اس کے نقصان میں بھی چنداں ہرج نہیں ہے۔ لیکن اس خدا تعالیٰ کا کلام جو غلط فہمی پر جہنم ابدی کے وعید سناتا ہے کیا وہ ایسا ہونا چاہیئے کہ صرف دعویٰ سنا کر ایک عالم کو مصیبت میں ڈال دے اور اس دعویٰ کی براہین اور دلائل جن کا بیان کرنا خود اس کا ذمہ تھا بیان نہ فرماوے۔ کیا اس کی رحیمیت کا یہی تقاضا ہونا چاہئے۔ ماسوا اس کے آپ جانتے ہیں کہ انبیاء اس وقت میں آیا کرتے ہیں کہ جب دنیا تاریکی میں پڑی ہوتی ہے اور عقلیں ضعیف ہوتی ہیں اور فکر ناتمام ہوتے ہیں اور جذبات نفسانیہ کے دخان غلبہ اور جوش میں ہوتے ہیں۔ اب آپ انصاف کریں کہ کیا اس صورت میں خدا تعالیٰ کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے کلام کو ظلمت کے اٹھا ڈالنے کے لئے مدلل طور پر پیش کرے اور ظلمت سے نکالے نہ یہ کہ گول مول اور پیچیدہ بیانات پیش کرکے اور بھی ظلمت اور حیرت میں ڈال دیوے۔ ظاہر ہے کہ حضرت مسیحؑ سے پہلے یہود لوگ بنی اسرائیل سیدھے سادے طور پر خدا تعالیٰ کو مانتے تھے اور اس ماننے میں وہ بڑے مطمئن تھے اور ہر ایک دل بول رہا تھا کہ خداؔ حق ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور مصنوعات کا صانع حقیقی ہے اور واحدلا شریک ہے اور کسی قسم کا دغدغہ خدا شناسی میں کسی کو نہ تھا۔ پھر جب حضرت مسیحؑ تشریف لائے تو وہ آنحضرت علیہ السلام کے بیانات سن کر گھبرا گئے کہ یہ شخص کس خدا کو پیش کررہا ہے۔ توریت میں تو ایسے خدا کا کوئی پتہ نہیں لگتا۔ تب حضرت مسیحؑ نے کہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی اور اس کے پیارے اور برگزیدہ تھے۔ اس وہم باطل کو دور کرنے کے لئے کہ یہودیوں نے بباعث کو تہ اندیشی اپنی کے اپنے دلوں میں جما لیا تھا ۔وہ اپنے کلمات مبارکہ پیش کئے جو یوحنا ۱۰ باب ۲۹ - ۳۰ آیت میں موجود ہیں چنانچہ وہ عبارت بجنسہٖ ذیل میں لکھ دی جاتی ہے چاہئے کہ تمام حاضرین حضرت مسیحؑ کی اس عبارت کو غور سے اور توجہ سے سنیں کہ ہم میں اور حضرات عیسائی صاحبوں میں پورا پورا فیصلہ دیتی ہے اور وہ یہ ہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 117
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 117
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/117/mode/1up
میرا باپ جس نے انہیں مجھے دیا ہے سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں میرے باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں لے سکتا میں اور باپ ایک ہیں۔ تب یہودیوں نے پھر پتھر اٹھائے کہ اس پر پتھراؤ کریں۔ یسوع نے انہیں جواب دیا کہ میں نے اپنے باپ کے بہت سے اچھے کام تمہیں دکھائے ہیں ان میں سے کس کام کے لئے تم مجھے پتھراؤ کرتے ہو۔ یہودیوں نے اسے جواب دیا اور کہا کہ ہم تجھے اچھے کام کے لئے نہیں بلکہ اس لئے تجھے پتھراؤ کرتے ہیں کہ تو کفر بکتا ہے اور انسان ہو کے اپنے تئیں خدا بناتا ہے یسوع نے انہیں جواب دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو جب کہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے کہ میں نے کہا میں خدا کا بیٹا ہوں۔
اب ہر ایک منصف اور ہر ایک متد ّ ین سمجھ سکتا ہے کہ یہودیوں کا یہ اعتراض تھا کہ انہوں نے باپ کا لفظ سن کر اور یہ کہ میں اور باپ ایک ہیں یہ خیال کر لیا کہ یہ اپنے تئیں خدا تعالیٰ کا حقیقی طور پر بیٹا قرار دیتا ہے تو اس کے جواب میں حضرت مسیحؑ نے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ مجھ میں کوئی زیادہ بات نہیں۔ دیکھو تمہارے حق میں تو خدا کا اطلاق بھی ہوا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیحؑ درحقیقت اپنے تئیں ابن اللہ جانتے اور حقیقی طور سے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کا بیٹا تصوّر کرتے تو اس بحث اور پرخاش کے وقت میں جب یہودیوں نے ان پر الزام لگایا تھا مرد میدان ہوکر صاف اور کھلے کھلے طور پر کہہ دیتے کہ میں درحقیقت ابن اللہ ہوں اور حقیقی طور پر خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں۔ بھلا یہ کیا جواب تھا کہ اگر میں اپنے تئیںؔ بیٹا قرار دیتا ہوں تو تمہیں بھی تو خدا کہا گیا ہے بلکہ اس موقعہ پر تو خوب تقویت اپنے اثبات دعویٰ کی ان کو ملی تھی کہ وہ بقول ڈپٹی صاحب وہ تمام پیشین گوئیاں پیش کر دیتے جو ڈپٹی صاحب موصوف نے اپنے کل کے جواب میں لکھائی ہیں۔ بلکہ ایک فہرست بھی ساتھ دے دی ہے اور انہیں اس وقت کہنا چاہیئے تھا کہ تم تو اسی قدر بات پر ناراض ہوگئے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔ اور میں تو بموجب بیان تمہاری کتابوں کے اور بموجب فلاں فلاں پیشگوئی کے خدا بھی ہوں۔ قادر مطلق بھی ہوں خدا کا ہمتا بھی ہوں۔ کونسا مرتبہ خدائی کا ہے جو مجھ میں نہیں ہے۔ غرض کہ یہ مقام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 118
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 118
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/118/mode/1up
انجیل شریف کے تمام مقامات اور بائبل کی تمام پیشگوئیوں کو حل کرنے والا اور بطور ان کی تفسیر کے ہے۔ مگر اس کے لئے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔
پھر ڈپٹی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ ’’یہودیوں کا اتفاق کیوں مانگا جائے‘‘۔ سو واضح ہو کہ یہودیوں کا اتفاق اس لئے مانگا جاتا ہے کہ وہ نبیوں کی اولاداورنبیوں سے مسلسل طور پر تعلیم پاتے آئے اور انجیل شریف بھی مقام شہادت دے رہا ہے کہ ہر ایک تعلیم نبیوں کی معرفت ان کو سمجھائی بلکہ حضرت عیسیٰؑ خود شہادت دیتے ہیں کہ ’’فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں جو کچھ وہ تمہیں ماننے کو کہیں وہ عمل میں لاؤ۔ لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں پر کرتے نہیں‘‘۔ (متی ۲۳ باب۱)
اب حضرت مسیحؑ کے اس فرمودہ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے متبعین اور شاگردوں کو نصیحت فرما رہے ہیں کہ یہودیوں کی رائے عہد عتیق کے بارہ میں ماننے کے لائق ہے تم ضرور اس کو مانا کرو کہ وہ حضرت موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس سے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہودیوں کی شہادت کو رد کرنا ایک قسم کی نافرمانی حضرت مسیحؑ کے حکم کی ہے۔ اور یہودی یہ تو اپنی تفسیروں میں کہیں نہیں لکھتے کہ کوئی حقیقی خدایا خدا کا بیٹا آئے گا۔ ہاں ایک سچے مسیح کے منتظر ہیں اور اس مسیح کو خدا نہیں سمجھتے۔ اگر سمجھتے ہیں تو ان کی کتابوں میں سے اس کا ثبوت دیں۔ (باقی آئندہ)
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ) ازجانب اہل اسلام ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ) ازجانب عیسائی صاحبان
بیانؔ ڈپٹی صاحب مسٹر عبداللہ آتھم
۲۴ ؍مئی ۱۸۹۳ ء
بقیہ جواب۔ خدا کے کلام کی فضیلت و کمالیت
پہلے۔ انجیل اس بات کی مدعی ہے کہ وہ لازوال کلام ہے حتیّٰ کہ لوگوں کی عدالت اسی کے موافق ہوگی۔ (یوحنا ۱۲ باب ۴۸ سے ۵۰ تک)
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 119
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 119
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/119/mode/1up
دوم۔ انجیل اپنے تئیں نجات کے ازلی بھید کا کاشف کہتی ہے۔ (رومی ۱۶ باب ۲۵و۲۶) (پطرس کا پہلا خط ۱۔ باب ۲۰)۔
سوم۔ انجیل اپنے تئیں خدا کی قدرت کہتی ہے۔ (رومی ایک باب ۱۶)۔
چہارم۔ انجیل اپنے تئیں زندگی اور بقا کی روشنی کرنے والی کہتی ہے (طمطاؤس کا دوسرا خط ۱ باب ۱۶)
پنجم۔ انجیل انسانی حکمت کا نہیں لیکن اپنے تئیں خدا کی روح کا فرمایا ہوا کلام فرماتی ہے۔ (قرنتیوں کے نام کا پہلا خط ۲ باب ۱۲و۱۳ و پطرس کا دوسرا خط پہلا باب ۱۹)
ششم۔ اس انجیل کے مقابل میں ہر ایک انجیل ہیچ ہے (گلاتی کے نام کا خط ۱ باب۸)
پس یہ وہ امور ہیں کہ جو کلام اللہ کی فضیلت و کاملیت و خوبی و فیض ر سانی پر دال ہیں نہ وہ امور جو معاشرت کے متعلق ہیں کہ جن کی نسبت حکیم و ڈاکٹر بھی انسان کو واجبی شرح بتا سکتے ہیں۔
جناب نے جو فرمایا قرآن میں لکھا ہے اکملت لکم دینکم غالباً بروئے متن کلام قرآن متعلق معاشرت کے ہے کہ جس میں حِل و حُرمت کا ذکر ہے۔
بجواب اعتراضات ۲۴۔ مئی ۱۸۹۳ ء
اوّل۔ استقراء کے معنے ہم سمجھ چکے ہیں کہ معمول اور گذشتہ پیوستہ میں جو تجربہ قانون بتاتا ہے اس کو استقراء کہتے ہیں۔ اس کے بارہ میں جناب مرزا صاحب کا فرمانا درست ہے کہ اگر کچھ استثناء اس کا ہو تو امکان محض اس کا ثابت کرنا کافی نہیں ہے مگر واقعی اس کا ثابت کرنا ضروری ہے۔ سو اس کے بارہ میں عرض اتنی ہے کہ مقدمہ مسیح کا بالکل استثنائی ہے جس کی واسطے ہم نے آیات کلام الٰہی پیش کی ہیں۔ مزید برآں ہم یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ کثرت فی الوحدت عہد عتیق میں موجود ہے اگر وہ موجود نہ ہوتی تو یہودی صادق ٹھہر سکتے تھے اور چونکہ یہ امر وہاں موجود ہے تو ان کو کچھ عذر نہ ہونا چاہئے۔ پس میں بطور مثال دو نظیرؔ یں پیش کرتا ہوں۔ اول یہ کہ پیدائش ۱باب ۲۶ میں لکھا ہے و یومر الوھیم نعشا آدام سلمنوقد میتونو یعنی کہا الوہیم خدا نے ہم بناویں آدم کو اوپر صورتوں اپنیوں کے اور اوپر شکلوں اپنیوں کے۔ دوم پیدائش۳۲۲میں ہے یہوا الوہیم نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 120
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 120
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/120/mode/1up
مانند ہوگیا- اس آیت میں جس جملہ کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا (عبرانی میں کا حد ممنو ہے) اس جملے متکلم مع الغیر کو دیکھ کر یہودیوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس موقعہ پر فرشتگان کو اپنی معیت میں لیتا ہے اور سرسید احمد خاں بہادر نے یہ لکھا ہے کہ غیر اس جملہ میں وہ آدم ہاطبقہ ماقبل آدم معروفہ کے ہیں جو گناہ کرکے تباہ ہوگئے۔ اور کلمہ لو ممنومیں متکلم مع الغیر نہیں بلکہ جمع غائب ہے۔ مراد ان دونوں صاحبوں کا یہ ہے کہ کثرت فی الوحدت کی تعلیم ثابت نہ ہونے پائے۔
دوم۔ اب ہم ان صاحبوں سے سوال ذیل رکھتے ہیں۔ اول یہودیوں سے یہ کہ آپ کے فرشتوں کا مرجوع متن کلام میں کہاں ہے۔ کیا صیغہ ہم کا اسم ضمیر نہیں؟ اور کیا اسم ضمیر کے لئے مرجوع کاہونا اس کے قرب میں ضرور نہیں؟ اور اگر کوئی کلام بغیرمرجوع کی نشاندہی کے درخود نہ ہو تو کیا اس کو مبہم اور مخبط نہیں کہتے؟ جیسا کہ اگر میں کسی سے کہوں کہ وہ بات یوں تھی اور قبل اور مابعد میں اس کا ذکر نہ ہو کہ کونسی بات۔ تو کیا یہ خبط کلامی نہیں؟ پس جب فرشتگان کا ذکر معیت میں کرتے ہیں تو ان کو متن ہی میں ان فرشتوں کو دکھانا چاہیئے۔ دوم اگر فرشتے ہی اس کے مصداق ہوویں تو ضرور ہے کہ بدی کا علم ان کا ذاتی ہو یا کسبی۔ اگر ذاتی ہو تو وہ مخلوق نہیں ہوسکتے کیونکہ علم ذاتی قائم بالذات کا ہوتا ہے اور اگر کسبی ہو تو یہ کسب ان کو ناپاک کر دیتا ہے تو پس وہ صحبت اقدس خالق کے لائق کیونکر ہوئی جو معیت میں اس کے لئے جاویں۔ سرسیدصاحب سے اول سوال ہمارا وہی ہے کہ متن میں مرجوع ان آدم ہاکا جو ماقبل آدم معروف کے متصور ہیں کہاں ہیں۔ فی متن تو درکنار جناب کے جیالوجی میں بھی کہاں ہے کہ جس کا فخر جناب کرتے ہوں ماسوا اس کے اگر جیالوجی سے گذر کر کسی اور سائینس میں ہووے تو اس کا پتہ دیویں۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ ہرگز ایسا پتہ نہ دے سکیں گے اور نہ اس عہدہ برائی سے یہودی باہر آسکتے ہیں۔ مگر مسیحیوں کا منہ بندکرنے کے لئے خیالات باطلہ پیش کرتے ہیں اور اس سے صاف تو فقرہ کیا ہوسکتا ہے اور کیا تاویل ایسے فقرہ کی ہوسکتی ہے کہ دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا۔ لغت و اصطلاح منطق و معانی صرف و نحو اِن سارے معیاروں کے آگے ہم اس فقرہ کو رکھتے ہیں۔ سر سید احمد خاں بہادرنےؔ جو الوہیم میں جمع تعظیمی بیان کی۔ حضرت ہم کو کہیں سے دکھلا دیویں کہ نیچر میں یاواقعات میں اسماء خاص میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 121
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 121
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/121/mode/1up
بھی کہیں تعظیم و تذلیل ہوسکتی ہے۔ کیا سرسید کا نام سرسید احمد ان بھی ہوسکتا ہے؟ یہ ڈھکوسلہ بازی نہیں تو اور کیا ہے؟
سرسید صاحب نے فرمایا ہے کہ بعلیم اور استرا فیم میںیہ ی میم تعظیمیہ ہے وہ بھی باطل بلکہ ابطل ہے اس لئے یہ فرضی دیوتا تھے واقعی اشخاص نہ تھے اور بروئے مورتہائے ان کی کے متفرق جگہوں میں پوجے جاتے تھے اور کثرت مورتوں کے لحاظ سے کثرت ناموں میں رکھی گئی جیسے کہ جسمیر سے کرشن یارا م چندر کی مورتیں آتی ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ ہمارا بیوپار کرشنوں اور رام چندروں کا ہے۔
غرض ہماری یہ ہے کہ نام خاص میں تعظیم اور تذلیل کچھ نہیں۔
سوم۔ ایک امر جو ادراک سے باہرہو اس کا امکان تو عقل ہے ہم پیش کریں گے اور واقعہ ہونا کلام سے۔ سو الہامی کتابوں سے ہم نے الوہیت مسیح اور مسئلہ تثلیث فی التوحید کو بخوبی پیش کر دیا ہے اور امکان بھی عقل سے دکھلا دیا ہے ۔ پس اب ہمارے ذمّہ بارثبوت کچھ باقی نہیں۔
چہارم۔ الہام کا مشرح الہام ہی ہونا چاہیئے۔ اس بارہ میں آپ کا فرمانا بہت سا درست ہے اور افضل ہے کیونکہ اگر الہام کسی جگہ مجمل اور مبہم معلوم ہو تو دوسرے موقعہ الہام سے اس کی شرح اچھی طرح ہوسکتی ہے لیکن اگر کسی الہام میں کوئی تعلیم ایک ہی موقع پر ہو اور وہ بھی مشرح نہ ہو تو تاویل عقلی کو اس میں گنجائش ہے۔
ہم اس کو ردیات میں نہیں پھینک سکتے ہیں بلکہ وہاں اس کی تاویل عقلی کریں گے۔
پنجم۔ و ہ جو خدا وند مسیح نے کہا کہ تم میرے ابن اللہ کہنے پر کفر کا الزام کیوں لگاتے ہو کیا تمہارے قضات اور بزرگوں کو الوہیم نہیں کہا گیا۔ ان پر کفر کا الزام نہیں ہے تو مجھ پر کیوں؟ اس سے اس نے اپنی الوہیت کا انکار کچھ نہیں کیا۔ مگر ان کے غصہ کو بیجا ٹھہرایا اور تھام دیا۔ علاوہ براں متی کے ۱۶ باب ۱۳ تا ۱۶ میں اس خطاب کو خدا وند نے حواریوں سے منظور بھی فرمایا کہ وہ زندہ خدا کا بیٹا ہے۔ پھر متی ۲۶ ۔ ۶۳ میں مرقوم ہے تب سردار کاہن نے اسے کہا میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں۔ اگر تو مسیح خدا کا بیٹا ہے تو ہم سے کہہ۔ یسوع نے اسے کہا۔ ہاں۔ وہ جو تو کہتا ہے۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 122
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 122
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/122/mode/1up
چوؔ تھاپرچہ
مباحثہ ۲۵۔ مئی ۱۸۹۳ء
روئداد
آج چھ بجے ۸ منٹ پر میرزا صاحب نے اپنا جواب لکھانا شروع کیا اور سات بجے ۸ منٹ پر ختم کیا۔ اس موقعہ پر یہ تحریک پیش ہوئی اور باتفاق رائے پیش ہوئی کہ چونکہ مضمون سنائے جانے کے وقت کاتب تحریروں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں اس لئے ان کی روک ٹوک کی وجہ سے مضمون بے لطف ہوجاتا ہے اور سامعین کو مزہ نہیں آتا۔ بنا براں ایسا ہونا چاہئے کہ کاتب پیشتر مضمون سنائے جانے کے باہم تحریروں کا مقابلہ کرلیا کریں۔ پھر ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے ۷ بجے ۵۴ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور آٹھ بجے ۵۴ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا۔ پھر مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۴ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰ بجے ۱۲ ۲۴ منٹ پر ختم ہوا اور بلند آواز سے سنایا گیا ۔ بعدازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط ہوئے اور مصدقہ تحریریں فریقین کو دی گئیں اور جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی ہنری مارٹن کلارک دستخط بحروف انگریزی غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
۲۵ ؍مئی ۱۸۹۳ ء وقت ۶ بجے ۸ منٹ
بیان حضرت مرزا صاحب
ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے میرے پہلے بیان پر جو میں نے کتاب آسمانی کے لئے بطور ضروری اعجازی علامت کے یہ لکھا تھا کہ دونوں کتابیں انجیل اور قرآن شریف کا ان کے کمالات ذاتیہ میں مقابلہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 123
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 123
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/123/mode/1up
کیاؔ جائے تو ڈپٹی صاحب کمال کے لفظ پر گرفت فرماتے ہیں کہ کمال کیا چیز ہے کیا سنار اور لوہار کا کمال بلکہ راہ نجات دکھلانے کا کمال ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ راہ نجات دکھلانے کا دعویٰ اس صورت میں اوراس حالت میں کمال متصور ہوگا کہ جب اس کو ثابت کرکے دکھلادیا جاوے اور پہلے اس سے اس بات کا ذکر کرنا بھی میرے نزدیک بے محل ہے۔ اب واضح ہو کہ اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن کریم میں اپنی کمال تعلیم کا آپ دعویٰ فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۱ الخ کہ آج میں نے تمہارے لئے دین تمہارا کامل کیااور اپنی نعمت یعنی تعلیم قرآنی کو تم پر پورا کیا۔ اور ایک دوسرے محل میں اس اکمال کی تشریح کے لئے کہ اکمال کس کو کہتے ہیں فرماتا ہے ۲ (س ۱۳۔ ر ۱۶)کیا تو نے نہیں دیکھا کیونکر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ بات پاکیزہ درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑ ثابت ہو اور شاخیں اس کی آسمان میں ہوں اور وہ ہر ایک وقت اپنا پھل اپنی پروردگار کے حکم سے دیتا ہو اور یہ مثالیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تالوگ ان کو یاد کر لیں اور نصیحت پکڑ لیں۔ اور ناپاک کلمہ کی مثال اس ناپاک درخت کی ہے جو زمین پرسے اُکھڑا ہوا ہے اور اس کو قرار و ثبات نہیں۔ سو اللہ تعالیٰ مومنوں کو قول ثابت کے ساتھ یعنی جو قول ثابت شدہ اور مدلّل ہے اس دنیا کی زندگی اور آخرت میں ثابت قدم کرتا ہے اور جو لوگ ظلم اختیار کرتے ہیں ان کو گمراہ کرتا ہے یعنی ظالم خدا تعالیٰ سے ہدایت کی مدد نہیں پاتا جب تک ہدایت کا طالب نہ ہو۔
اب دیکھئے کہ ڈپٹی صاحب موصوف نے آیت اَکْمَلْتُ لَکُمْ کی تشریح میں صرف اتنا فرمایاتھا کہ یہ غالباً امورمعاشرت کے متعلق معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ڈپٹی صاحب موصوف اس بات کوتسلیم کرچکے ہیں کہ کسی آیت کے وہ معنے کرنے چاہئے کہ الہامی کتاب آپ کرے اورالہامی کتاب کی شرح
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 124
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 124
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/124/mode/1up
دوسری شرحوں پر مقدم ہے۔ اب اللہ تعالیٰ ان آیات میں کلام پاک اور مقدس کا کمال تین باتوں پر موقوف قرار دیتا ہے۔ اول یہ کہ اصلھا ثابت یعنی اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور فی حدِّ ذاتہٖ یقینؔ کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں اور فطرت انسانی اس کو قبول کرے کیونکہ ارض کے لفظ سے اس جگہ فطرت انسانی مراد ہے جیسا کہ من فوق الارض کا لفظ صاف بیان کر رہا ہے اور ڈپٹی صاحب اس سے انکار نہیں کریں گے ۔ خلاصہ یہ کہ اصول ایمانیہ ایسے چاہئیں کہ ثابت شدہ اور انسانی فطرت کے موافق ہوں۔ پھر دوسری نشانی کمال کی یہ فرماتا ہے کہ فرعھا فی السماء یعنی اس کی شاخیں آسمان پر ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں یعنی صحیفۂ قدرت کو غور کی نگاہ سے مطالعہ کریں تو اس کی صداقت ان پر کھل جائے۔ اور دوسری یہ کہ وہ تعلیم یعنی فروعات اس تعلیم کے جیسے اعمال کا بیان۔ احکام کا بیان۔ اخلاق کا بیان یہ کمال درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں جس پر کوئی زیادہ متصور نہ ہو۔ جیسا کہ ایک چیز جب زمین سے شروع ہوکر آسمان تک پہنچ جائے تو اس پر کوئی زیادہ متصور نہیں۔
پھر تیسری نشانی کمال کی یہ فرمائی کہ تؤ تی اکلھا کل حین ہرایک وقت اور ہمیشہ کے لئے وہ اپنا پھل دیتا رہے ایسا نہ ہو کہ کسی وقت خشک درخت کی طرح ہو جاوے جو پھل پھول سے بالکل خالی ہے۔ اب صاحبو دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمودہ الیوم اکملت کی تشریح آپ ہی فرما دی کہ اس میں تین نشانیوں کا ہونا از بس ضروری ہے۔سو جیسا کہ اس نے یہ تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں اسی طرح پر اس نے ان کو ثابت کرکے بھی دکھلا دیا ہے اور اصول ایمانیہ جو پہلی نشانی ہے جس سے مراد کلمہ لا الہ الا اللّٰہ ہے اس کو اس قدر بسط سے قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ اگر میں تمام دلائل لکھوں تو پھر چند جزو میں بھی ختم نہ ہوں گے مگر تھوڑا سا ان میں سے بطور نمونہ کے ذیل میں لکھتا ہوں جیسا کہ ایک جگہ یعنی سیپارہ دوسرے سورۃ البقر میں فرماتا ہے۔ ۱
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 125
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 125
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/125/mode/1up
یعنی تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے او ررات اور دن کے اختلاف اور ان کشتیوں کے چلنے میں جو دریا میں لوگوں کے نفع کے لئے چلتی ہیں اور جو کچھ خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا۔ اور زمین میں ہر ایک قسم کے جانور بکھیر دیئے اور ہواؤں کو پھیرا اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں مسخرؔ کیا۔ یہ سب خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اس کے الہام اور اس کے مدبّر بالارادہ ہونے پر نشانات ہیں۔ اب دیکھئے اس آیت میں اللہ جلّ شانہٗ نے اپنے اس اصول ایمانی پر کیسا استدلال اپنے اس قانون قدرت سے کیا یعنی اپنی ان مصنوعات سے جو زمین و آسمان میں پائی جاتی ہیں جن کے دیکھنے سے مطابق منشاء اس آیت کریمہ کے صاف صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک اس عالم کا ایک صانع قدیم اور کامل اور وحدہٗ لاشریک اور مدبر بالارادہ اور اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجنے والا ہے وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام یہ مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے۔ یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کے لئے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو اور رحیم بھی ہو اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لا شریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مد ّ بر بالارادہ بھی ہو اور مستجمع جمیع صفات کاملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو۔
دوسری نشانی یعنی فرعھا فی السماء جس کے معنے یہ ہیں کہ آسمان تک اس کی شاخیں پہنچی ہوئی ہیں اور آسمان پر نظر ڈالنے والے یعنی قانون قدرت کے مشاہدہ کرنے والے اس کو دیکھ سکیں اور نیز وہ انتہائی درجہ کی تعلیم ثابت ہو۔ اس کے ثبوت کا ایک حصہ تو اسی آیت موصوفہ بالا سے پیدا ہوتا ہے کس لئے کہ جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ نے مثلاً قرآن کریم میں یہ تعلیم بیان فرمائی ہے کہجس کے یہ معنے ہیں کہ اللّٰہجَلَّ شَانَہٗ تمام عالموں کا رب ہے یعنی علۃ العلل ہر ایک ربوبیت کا وہی ہے۔ دوسری یہ کہ وہ رحمان بھی ہے یعنی بغیر ضرورت کسی عمل کے اپنی طرف سے طرح طرح کے آلاء اور نعماء شامل حال اپنی مخلوق کے رکھتا ہے اور رحیم بھی ہے کہ اعمال صالحہ کے بجالانے والوں کا مددگار ہوتا ہے اور ان کے مقاصد
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 126
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 126
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/126/mode/1up
کو کمال تک پہنچاتا ہے اور مالک یوم الدین بھی ہے کہ ہر ایک جزا سزا اس کے ہاتھ میں ہے جس طرح پر چاہے اپنے بندہ سے معاملہ کرے۔ چاہے تو اس کو ایک عمل بد کے عوض میں وہ سزا دیوے جو اس عمل بد کے مناسب حال ہے اور چاہے تو اس کے لئے مغفرت کے سامان میسّر کرے اور یہ تمام امور اللہ جلّ شانہٗ کے اس نظام کو دیکھ کر صاف ثابت ہوتے ہیں۔
پھر تیسری نشانی جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی تؤتی اکلھا کل حین یعنی کامل کتاب کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ جس پھل کا وہ وعدہ کرتی ہے وہ صرف وعدہ ہی وعدہ نہ ہو بلکہ وہ پھل ہمیشہ اورؔ ہر وقت میں دیتی رہے۔ اور پھل سے مراد اللہ جلّ شانہٗ نے اپنا لقامعہ اس کے تمام لوازم کے جو برکات سماوی اور مکالمات الٰہیہ اور ہر ایک قسم کی قبولیتیں اور خوارق ہیں رکھی ہیں جیسا کہ خود فرماتا ہے۔(س۲۴ر۱۸) وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی یعنی اپنی بات سے نہ پھرے اور طرح طرح کے زلازل ان پر آئے مگر انہوں نے ثابت قدمی کو ہاتھ سے نہ دیا۔ ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم کچھ خوف نہ کرو اور نہ کچھ حزن اور اس بہشت سے خوش ہو جس کا تم وعدہ دیئے گئے تھے یعنی اب وہ بہشت تمہیں مل گیا اور بہشتی زندگی اب شروع ہوگئی۔ کس طرح شروع ہوگئی نحن اولیاء کم الخ اس طرح کہ ہم تمہارے متولّی ور متکفل ہوگئے اس دنیا میں اور آخرت میں اور تمہارے لئے اس بہشتی زندگی میں جو کچھ تم مانگو وہی موجود ہے یہ غفور رحیم کی طرف سے مہمانی ہے۔ مہمانی کے لفظ سے اس پھل کی طرف اشارہ کیا ہے جو آیت 3 3 ۲ میں فرمایا گیا تھا۔ اور آیت3 ۳ کے متعلق ایک بات ذکر کرنے سے رہ گئی کہ کمال اس تعلیم کا باعتبار اس کے انتہائی درجہ ترقی کے کیونکر ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن شریف سے پہلے جس قدر تعلیمیں آئیں درحقیقت وہ ایک قانون مختص القوم یا مختلف الزمان کی طرح تھیں اور عام افادہ کی قوت ان میں نہیں پائی جاتی تھی۔ لیکن قرآن کریم تمام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 127
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 127
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/127/mode/1up
قوموں اور تمام زمانوں کی تعلیم اور تکمیل کے لئے آیا ہے مثلاً نظیر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسیؑ کی تعلیم بڑا زور سزا دہی اور انتقام میں پایا جاتا ہے جیسا کہ دانت کے عوض دانت اور آنکھ کے عوض آنکھ کے فقروں سے معلوم ہوتا ہے۔ اور حضرت مسیح ؑ کی تعلیم میں بڑا زور عفواور درگذر پر پایا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ دونوں تعلیمیں ناقص ہیں نہ ہمیشہ انتقام سے کام چلتا ہے اور نہ ہمیشہ عفو سے بلکہ اپنے اپنے موقعہ پر نرمی اور درشتی کی ضرورت ہوا کرتی ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے ۱(س۵ر۵) یعنی اصل بات تو یہ ہے کہ بدی کا عوض تو اسی قدر بدی ہے جو پہنچ گئی ہے لیکن جو شخص عفو کرے اور عفو کا نتیجہ کوئی اصلاح ہو نہ کہ کوئی فساد۔ یعنی عفو اپنے محل پر ہو نہ غیر محل پر۔ پس اجر اس کا اللہ پر ہے یعنی یہ نہایت احسن طریق ہے۔
ابؔ دیکھئے اس سے بہتر اور کونسی تعلیم ہوگی کہ عفو کو عفو کی جگہ اور انتقام کو انتقام کی جگہ رکھا۔ا ور پھر فرمایا۲(س۱۴۔ر۱۹) یعنی اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ باوجود رعایت عدل کے احسان کرو اور احسان سے بڑھ کریہ ہے کہ تم ایسے طور سے لوگوں سے مروت کرو کہ جیسے کہ گویا وہ تمہارے پیارے اورذوالقربیٰ ہیں۔اب سوچنا چاہیے کہ مراتب تین ہی ہیں۔ اول انسان عدل کرتا ہے یعنی حق کے مقابل حق کی درخواست کرتا ہے۔ پھر اگر اس سے بڑھے تو مرتبہ احسان ہے۔اور اگر اس سے بڑھے تو احسان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور ایسی محبت سے لوگوں کی ہمدردی کرتاہے جیسے ماں اپنے بچہ کی ہمدردی کرتی ہے یعنی ایک طبعی جوش سے نہ کہ احسان کے ارادہ سے۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح۔ پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک۔ پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 128
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 128
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/128/mode/1up
بیان مسٹر عبداللہ آتھم صاحب
بقیہ دیروزہ ۲۵۔ مئی ۱۸۹۳ ء
جناب مرزا صاحب مکرم میرے جو فرماتے ہیں کہ جو امور تعلیمیہ کسی کتاب الہامی سے ہوں ان کا ثبوت بھی اسی کتاب کے بیان سے ہو یعنی اس قسم کی کھچڑی نہ ہو جائے کہ کچھ تو کتاب کی تعلیم سے پیدا ہو جائے اور کچھ ذہن اس شخص کے سے جو تائید کرنے کے واسطے اس تعلیم کے کھڑا ہے۔ جس کے جواب میں میری التماس یہ ہے کہ میں نے مختصر ایک فہرست بنا دی ہے کہ جس کو پادری ٹامس ہاول صاحب لکھوا دیویں کہ میں کمزورآدمی ہوں۔ وھو ھٰذا۔
اوّل کثرت فی الوحدت
یرمیا ۲۳ باب ۶۔ اس کے دنوں میں یہود انجات پاوے گا اور اسرائیل سلامتی سے سکونت کرے گا اور اس کا یہ نام رکھا جائے گا خداوند ہماری صداقت۔ اصل میں ہے یھوصدقنو۔ یسعیاؔ ۷ باب ۱۴،۸ باب ۱۰ دیکھو کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام ایمانوائیل رکھیں گے تم منصوبہ باندھو پر وہ باطل ہوگا۔ حکم سناؤ پر وہ نہ ٹھہرے گا کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ اس جگہ لفظ ایمانوایل ہے۔ یسعیا ۴۰ باب ۳۔ ملاکی ۳ باب ۱ بمقابلہ متی ۳ باب۳ زکریا ۱۲ باب۱و۱۰ بمقابلہ یوحنا۱۹باب ۳۷یسعیا۶باب ۵بمقابلہ یوحنّا ۱۲ باب ۳۷و۴۰و۴۱۔
دوم الوہیت کی لازمی صفات المسیح میں
اوّل ازلیّت یوحنّا ۱ باب ۱ سے ۳ تک۔ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھایہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا سب چیزیں اس سے موجود ہوئیں اور کوئی چیز موجودہ نہ تھی جو بغیر اس کے ہوئی۔ یوحنّا ۸ باب ۵۸۔ یسوع نے انہیں کہا میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں پیشتر اس سے کہ ابراہام ہو میں ہوں۔ مکاشفات ۱ باب ۸۔ خداوندیوں فرماتا ہے کہ میں الفا اومیگا اول اور آخر جو ہے اور تھا اور آنے والا ہے قادر مطلق ہوں۔ یوحنّا ۱۷ باب ۵۔ یسعیا ۴۴ باب ۶
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 129
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 129
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/129/mode/1up
بمقابلہ مکاشفات ۲ باب ۸ ومیکہ ۵ باب ۲۰۔
دوم۔ خالقیت یوحنّا۳ و۱۱۰ سب چیزیں اس سے موجود ہوئیں کوئی چیز موجود نہ تھی جو بغیر اس کے ہوئی وہ جہان میں تھا اور جہان اسی سے موجود ہوا۔ اور جہان نے اسے نہ جانا۔ عبرانی۲و۳ ۱ان آخری دنوں میں ہم سے بیٹے کے وسیلہ سے بولا جس نے اس کو ساری چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلے اس نے عالم بنائے وہ اس کے جلال کی رونق اور اس کی ماہیت کا نقش ہوکے سب کچھ اپنی ہی قدرت کے کلام سے سنبھال لیتا ہے۔ قلسی ۱۵و۱۱۶و۱۷ افسی ۳۹ مکاشفات ۴۱۱ ان سب کا مقابلہ ۱مثال ۸ باب سے۔
تیسرامحافظ کل ہستی
قلسی ۱۱۷ وہ سب سے آگے ہے اور اس سے ساری چیزیں بحال رہتی ہیں بمقابلہ یسعیا ۲۴ ۴۴عبرانی۱و۲و۳و۱۱۰
چوتھالا تبدیل عبرانی ۱۸ ۱۳یسوع مسیح کل اور آج اور ابد تک ایک سال ہے۔ مزمور ۲۵و۱۰۲۲۶و۲۷مقابلہ عبرانی ۸و۱۰و۱۱و۱۱۲
پانچواںؔ ہمہ دانیپہلا سلاطین۳۹ ۸تو اپنے مسکن آسمان پر سے سن اور بخش دے اور عمل کر اور ہر ایک آدمی کو جس کے دل کوتو جانتا ہے اس کی سب روش کے مطابق بدلہ دے اس لئے کہ تو ہاں تو ہی اکیلا سارے بنی آدم کے دلوں کو جانتا ہے۔ (یہ خدا تعالیٰ کی تعریف ہے)۔ بمقابلہ مکاشفات ۲۳ ۲اور سارے کلیساؤں کو معلوم ہوگا کہ میں وہی ہوں یعنی یسوع مسیح جو دلوں اور گردوں کا جانچے والا ہوں اور میں تم میں سے ہر ایک کو اس کے کاموں کے موافق بدلا دوں گا۔ متی ۲۷ و۱۱ ۹۴و ۲۵ ۲۱ لوقا ۸ ۶۔ ۹۴۷
یوحنّا ۱۴۸ ۔ ۱۶۳۰۔ ۲۱۱۷ قلسی ۳ ۲ ۔
ششم حاضر و ناظر (مکانی) متی ۲۰ ۱۸کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہوں۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 130
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 130
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/130/mode/1up
وہاں میں ان کے بیچ میں ہوں۔ یوحنّا ۳۱۳ اور کوئی آسمان پر نہیں گیا سوا اس شخص کے جو آسمان پر سے اترا یعنی ابن آدم جو آسمان پر ہے۔ (زمانی) متی ۲۰ ۲۸یوحنّا۱۴۸
ساتواں قادر مطلق یوحنّا ۵۲۱ جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتا ہے اور جلاتا ہے بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے جلاتا ہے۔ مکاشفات ۱۸ میں الفا اور امیگا اول اور آخرجو ہے اور تھا اور آنے والا ہے قادر مطلق ہوں۔ متی۲۸۱۸ مرقس ۱۲۷ یوحنّا ۳۱۔۳۳۵، ۱۶۱۵ فلپی ۳۲۱ عبرانی ۷۲۵ اول پطرس ۳۲۲
آٹھواں ہمیشہ کی زندگی : یوحنّا۱۱۲۵ یسوع نے اسے کہا کہ قیامت اور زندگی میں ہی ہوں۔ پہلا یوحنّا ۵۲۰
سوم۔المسیح مالک کل ہے : رومی ۱۴ باب ۹ کہ مسیح اس لئے موا اور اٹھا اور جیا کہ مردوں اور زندوں کا بھی خداوند ہو پہلا تمطاؤس ۶۱۵ جسے وہ بروقت ظاہر کرے گا جو مبارک اور اکیلاحاکم بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند ہے اعمال ۱۰۳۶ افسی ۲۲و۲۳۱کاشفات۱۹۱۶
چہارم۔ کل عالم کا اختیار رکھتا ہے : ۲۸۱۸ اوریسوع نے پاس آکر اسے کہا کہآسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ متی ۱۱۷ عبرانی ۱۳
پنجم۔ المسیح کی پرستش : ان آیات میں جس لفظ کا ترجمہ سجدہ ہوا ہے۔ اصل زبان میں پراس اخومائیہے جس کے خاص معنی پرستش الٰہی کے ہیں۔ متی ۲۱۱و ۸۲و ۹۱۸و۱۴۳۳و۱۵۲۵و۲۰۲۰و۲۸۹۔ؔ مرقس ۵۶ پہلا تسبیلقون ۳۱۱ عبرانی ۱۶فلپی۱۰و۲۱۱ نبی اور بزرگ اور فرشتے ایسی پرستش اپنی سے سخت انکار کرتے رہے مگر مسیح نے انکار نہیں کیا۔ مکاشفات ۱۹۱۰ یوحنّا نے انکار کیا اعمال ۱۰۲۶ پطرس نے انکار کیا ۱۴۱۴ پولوس نے انکار کیا۔
ششم۔ المسیح سے دعا مانگی جاتی ہے : اعمال ۵۹ ۷ استفنس پر پتھراؤ کیا جو یہ کے دعا مانگتا تھا کہ اے خداوند یسوع میری روح کو قبول کر مرقس ۹۲۴ لوقا ۲۳۴۲ یوحنّا ۹۳۸ دوسری قرنتی ۸و۱۲۹ مکاشفات ۸ - ۱۲ - ۵۱۳
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 131
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 131
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/131/mode/1up
ہفتم۔ المسیح دنیا کی عدالت کرے گا متی ۱۶۲۷ کیونکہ ابن آدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آوے گا۔ تب ہر ایک کو اس کے اعمال کے موافق بدلہ دے گا۔ دوسری قرنتی ۵۱۰ کیونکہ ہم سب کو ضرور ہے کہ مسیح کی مسند عدالت کے آگے حاضر ہوویں تاکہ ہر ایک جو کچھ اس نے بدن میں ہوکے کیا بھلایا برا مطابق اس کے پاوے۔ متی ۴۱و۴۱۳۲و۴۳ ۳۱سے۴۶۲۵ یوحنّا ۲۲و۲۳۵ اعمال ۱۰۴۲
ہشتم۔ المسیح گناہ بخشتا ہے متی ۹۶ لیکن تا کہ تم جانو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ لوقا ۲۰ سے۵ ۲۶ ۔ ۷۴۸
نہم۔ المسیح اپنے فرشتوں کو بھیجتا ہے۔ متی ۱۳۴۱ ابن آدم اپنے فرشتوں کو بھیجے گا۔
مکاشفات ۱۱، ۲۶۲
نوٹ۔اگر مسیح محض انسان ہی ہوتا تو صفات مذکورہ بالا جو فقط ذات باری تعالیٰ پر عائد ہوسکتی ہیں اس پر کس طرح عائد ہوتیں۔ علاوہ اس کے واضح ہو کہ انسان کی نجات و سزا وغیرہ کے متعلق المسیح کو وہ کام منسوب کئے گئے ہیں جو سوائے خالق کے مخلوق نہیں کرسکتا اور نہ بائیبل میں کسی اور کو منسوب کئے گئے۔
اب جناب کے ان امور کا جواب جو پہلے پورا نہ ہوا تھا سو یہ ہے کہ جناب نے مسیح کی الوہیت کے مخالف اس کا وہ بیان لیا ہے جو تمہاری کتب میں لکھا ہے تم سب خدا ہو تب تم میرے خدا ہونے کو کیوں رد کرتے ہو۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ مناسب تو یہ تھا کہ اس جگہ مسیح اپنے دعویٰ الوہیت کو مفصل پیش اور ثابت کرتا۔
جواب۔ میری التماس یہ ہے کہ ایک شخص کا کچھ بیان کرنا منجملہ اس کی وجوہات مضمنہ کے منافی اس کے مابقی مضمنہ کا نہیں یعنی الوہیت کا انکار اس میں نہیں۔ اس میں مراد المسیح کی صرف ان کے غصہؔ کو فرو کرنا تھا۔ کیونکہ وہ اس امر پر اس کو پتھراؤ کرنا چاہتے تھے کہ اس نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔ اور انہوں نے یہ معنے کئے اور صحیح کئے کہ تو اپنے آپ کو خدا کا بیٹا ٹھہرا کر خدا کا مساوی بنتا ہے۔ پس یہ تیرا کفر ہے ہم اس لئے تجھے پتھراؤ کرتے ہیں اس نے کہا کہ لفظ اللہ کہنے سے میرے پر کفر کس طرح عائد کرتے ہو کیا تمہارے ہاں کتب انبیاء میں نہیں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 132
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 132
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/132/mode/1up
لکھا کہ قضات اور بزرگ الوہیم کہلائے۔ اگر وہ الوہیم کہلائے اور کفر ان پر عائد نہ ہوا اور مجھ کو جسے خدا نے مخصوص کیا ہے کفر کا الزام لگاتے ہو۔ یہاں سے صاف نظر آتا ہے کہ ان کی دیوانگی کے شعلہ کو فرو کیا ہے اور اپنی الوہیت کا (ان لفظوں میں) نہ انکار کیا نہ اقرار۔ فقط (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ) غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ)
ازجانب عیسائی صاحبان ازجانب اہل اسلام
بیان حضرت مرزا صاحب
۲۵۔ مئی ۱۸۹۳ ء
ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے کمال کے لفظ پر گرفت کی تھی اس کا کسی قدر جواب برعایت اختصار دے چکا ہوں مگر ڈپٹی صاحب موصوف نے ساتھ اس کے یہ فقرہ بھی ملادیا ہے کہ نجات دینے میں کمال ہونا چاہئے۔ اور منجی حضرت مسیحؑ ہیں اور اس کی تائید میں ڈپٹی صاحب نے بہت سی پیشگوئیاں بائیبل اور نیز خطوط عبرانیوں وغیرہ سے لکھ کر پیش کی ہیں مگر میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ یہ درد سر بے فائدہ اٹھائی گئی۔ میری طرف سے یہ شرط ہوچکی تھی کہ فریقین میں سے جو صاحب اپنی الہامی کتاب کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہیں اس میں یہ قاعدہ ہونا چاہیئے کہ اگر وہ بیان از قسم دعویٰ ہو تو وہ دعویٰ بھی الہامی کتاب آپ پیش کرے اور اگر وہ بیان از قسم دلائل عقلیہ ہوتو چاہئے کہ الہامی کتاب دلائل عقلیہ آپ پیش کرے نہ یہ کہ الہامی کتاب پیش کرنے سے عاجز ہو اور اس کی حالت پر رحم کرکے اس کی مدد کی جائے ڈپٹی صاحب توجہ فرماویں کہ میں نے ابطال الوہیت کی جب دلیل پیش کی تو وہ اپنی طرؔ ف سے نہیں کی بلکہ وہ عقلی دلیل پیش کی جو قرآن کریم نے آپ فرمائی تھی۔ مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ ڈپٹی صاحب موصوف نے مطابق شرائط قرار یافتہ کے عقلی دلائل میں سے کیا پیش کیا۔ اگر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 133
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 133
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/133/mode/1up
ڈپٹی صاحب یہ فرماویں کہ ہم نے ایک ذخیرہ کثیرہ پیشگوئیوں کا جو پیش کردیا تو اس سے زیادہ کیا پیش کیا جاتا تو اس کے جواب میں افسوس سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ پیشگوئیاں دلائل عقلیہ میں سے نہیں ہیں وہ تو ہنوز دعاوی کے رنگ میں ہیں جو اپنے ثبوت کے بھی محتاج ہیں چہ جائیکہ دوسری چیز کی مثبت ہوسکیں اور میں شرط کر چکا ہوں کہ دلائل عقلیہ پیش کرنی چاہئں۔ ماسوا اسکے جس قدر پیش کیاگیا ہے حضرت مسیحؑ اس کی تصدیق سے انکار کررہے ہیں۔ اگرچہ میں اپنے کل کے بیان میں کسی قدر اس کا ثبوت دے چکا ہوں مگر ناظرین کی زیادت معرفت کی غرض سے پھر کسی قدر لکھتا ہوں کہ حضرت مسیحؑ یوحنّا باب ۱۰۳۰ میں ۳۷ تک صاف طور پر فرمارہے ہیں کہ مجھ میں اور دوسرے مقرّبوں اور مقدسوں میں ان الفاظ کی اطلاق میں جو بائیبل میں اکثر انبیاء وغیرہ کی نسبت بولے گئے ہیں جو ابن اللّٰہ ہیں یا خدا ہیں کوئی امتیاز اور خصوصیت نہیں۔ ذرا سوچ کر دیکھنا چاہئے کہ حضرت مسیحؑ پر یہودیوں نے یہ بات سن کر کہ وہ اپنے تئیں ابن اللہ کہتے ہیں یہ الزام لگایا تھا کہ تو کفر کہتا ہے یعنی کافر ہے اور پھر انہوں نے اس الزام کے لحاظ سے ان کو پتھراؤ کرنا چاہا اور بڑے افروختہ ہوئے۔ اب ظاہر ہے کہ ایسے موقعہ پر کہ جب حضرت مسیحؑ یہودیوں کی نظر میں اپنے ابن اللہ کہلانے کی وجہ سے کافر معلوم ہوتے تھے اور انہوں نے اسکو سنگسار کرنا چاہا۔ تو ایسے موقعہ پر کہ اپنی بریت یا اثبات دعویٰ کا موقعہ تھا مسیحؑ کا فرض کیا تھا؟ ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے کہ اس موقعہ پر کہ کافر بنایا گیا حملہ کیا گیا سنگسار کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنا مسیح کا کام تھا۔ اول یہ کہ اگر حقیقت میں حضرت مسیحؑ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہی تھے تو یوں جواب دیتے کہ یہ میرا دعویٰ حقیقت میں سچاہے اور میں واقعی طور پر خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں اور اس دعویٰ کے ثابت کرنے کیلئے میرے پاس دو ثبوت ہیں ایک یہ کہ تمہاری کتابوں میں میری نسبت لکھا ہے کہ مسیح درحقیقت خدا تعالیٰ کا بیٹا ہے بلکہ خود خدا ہے۔ قادر مطلع ۱ ہے۔عالم الغیب ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے اگر تم کو شبہ ہے تو لاؤ کتابیں پیش کرو میں ان کتابوں سے اپنی خدائی کا ثبوت تمہیں دکھلادوں گا۔ یہ تمہاری غلط فہمی اورکم توجّہی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 134
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 134
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/134/mode/1up
اپنیؔ کتابوں کی نسبت ہے کہ تم مجھے کافر ٹھہراتے ہو تمہاری کتابیں ہی تو مجھے خدا بنا رہی ہیں اور قادر مطلق بتلا رہی ہیں پھر میں کافر کیونکر ہوا بلکہ تمہیں تو چاہیئے کہ اب میری پرستش اور پوجا شروع کر دو کہ میں خدا ہوں۔
پھر دوسرا ثبوت یہ دینا چاہیئے تھا کہ آؤ خدائی کی علامتیں مجھ میں دیکھ لو جیسے خدا تعالیٰ نے آفتاب ماہتاب۔ سیّارے۔ زمین وغیرہ پیدا کیا ہے۔ ایک قطعہ زمین کا یا کوئی ستارہ یا کوئی اور چیز میں نے بھی پیدا کی ہے اور اب بھی پیدا کرکے دکھلا سکتا ہوں اور نبیوں کے معمولی معجزات سے بڑھ کر مجھ میں قوت اور قدرت حاصل ہے۔ اور مناسب تھا کہ اپنے خدائی کے کاموں کی ایک مفصل فہرست ان کو دیتے کہ دیکھو آج تک یہ یہ کام میں نے خدائی کے کئے ہیں۔ کیا حضرت موسیٰ سے لے کر تمہارے کسی آخری نبی تک ایسے کام کسی اور نے بھی کئے ہیں اگر ایسا ثبوت دیتے تو یہودیوں کا منہ بند ہو جاتا اور اسی وقت تمام فقیہ اور فریسی آپ کے سامنے سجدہ میں گرتے کہ ہاں حضرت! ضرور آپ خدا ہی ہیں ہم بھولے ہوئے تھے۔ آپ نے اس آفتاب کے مقابل پر جو ابتداء سے چمکتا ہوا چلا آتا ہے اور دن کو روشن کرتا ہے اور اس ماہتاب کے مقابل پر جو ایک خوبصورت روشنی کے ساتھ رات کو طلوع کرتا ہے اور رات کو منوّر کردیتا ہے آپ نے ایک آفتاب اور ایک ماہتاب اپنی طرف سے بنا کر ہم کو دکھلا دیا ہے اور کتابیں کھول کر اپنی خدائی کاثبوت ہماری مقبولہ مسلّمہ کتابوں سے پیش کردیا ہے۔ اب ہماری کیا مجال ہے کہ بھلا آپ کو خدا نہ کہیں جہاں خدا نے اپنی قدرتوں کے ساتھ تجلّی کی وہاں عاجز بندہ کیا کرسکتا ہے۔ لیکن حضرت مسیحؑ نے ان دونوں ثبوتوں میں سے کسی ثبوت کو بھی پیش نہ کیا۔ اور پیش کیا تو ان عبارتوں کو پیش کیا سن لیجئے۔
تب یہودیوں نے پھر پتھر اٹھائے کہ اس پر پتھراؤ کریں۔ یسوع نے انہیں جو اب دیا کہ میں نے اپنے باپ کے بہت سے اچھے کام تمہیں دکھائے ہیں ان میں سے کس کام کے لئے تم مجھے پتھراؤ کرتے ہو۔ یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ ہم تجھے اچھے کام کے لئے نہیں بلکہ اس لئے تجھے پتھراؤ کرتے ہیں کہ تو کفر کہتا ہے اور انسان ہو کے اپنے تئیں خدا بناتا ہے۔ یسوع نے انہیں جواب دیا کہ کیا تمہاری
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 135
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 135
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/135/mode/1up
شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو جب کہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ؔ ہے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔
اب منصفین سوچ لیں کہ کیا الزام کفر کا دور کرنے کے لئے اور اپنے آپ کو حقیقی طور پر بیٹا اللہ تعالیٰ کا ثابت کرنے کے لئے یہی جواب تھا کہ اگر میں نے بیٹا کہلایا تو کیا ہرج ہوگیا تمہارے بزرگ بھی خدا کہلاتے رہے ہیں۔
ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب اس جگہ فرماتے ہیں کہ گویا حضرت مسیحؑ ان کے بلوے سے خوفناک ہوکر ڈر گئے اور اصلی جواب کو چھپا لیا اور تقیہ اختیار کیا مگر میں کہتا ہوں کہ کیا یہ ان نبیوں کا کام ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ کی راہ میں ہر وقت جان دینے کو تیار رہتے ہیں قرآن کریم میں اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے اَ ۱ یعنی اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبر جو اسکے پیغام پہنچاتے ہیں وہ پیغام رسانی میں کسی سے نہیں ڈرتے پس حضرت مسیح قادر مطلق کہلا کر کمزور یہودیوں سے کیوں کر ڈر گئے۔
اب اس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے حقیقی طور پر ابن اللہ ہونے کا یا خدا ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا اور اس دعویٰ میں اپنے تئیں ان تمام لوگوں کا ہمرنگ قرار دیا اور اس بات کا اقرار کیا کہ انہیں کے موافق یہ دعویٰ بھی ہے تو پھر اس صورت میں وہ پیشگوئیاں جو ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب پیش فرماتے ہیں وہ کیونکر بموجب شرط کے صحیح سمجھی جائیں گی۔ ایسا تو نہیں کرنا چاہئے کہ مدعی سست گواہ چست۔ حضرت مسیح تو کفر کے الزام سے بچنے کیلئے صرف یہ عذرپیش کرتے ہیں کہ میری نسبت اسی طرح بیٹا ہونے کا لفظ بولا گیا ہے جس طرح تمہارے بزرگوں کی نسبت بولا گیا ہے گویا یہ فرماتے ہیں کہ میں تو اس وقت قصوروار اور مستوجب کفر ہوتا کہ خاص طور پر بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا۔ بیٹا کہلانے اور خدا کہلانے سے تمہاری کتابیں بھری پڑی ہیں دیکھ لو۔ پھر حضرت مسیحؑ نے صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ آپ نے کئی مقامات انجیل میں اپنی انسانی کمزوریوں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 136
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 136
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/136/mode/1up
کا اقرار کیاجیسا کہ جب قیامت کا پتہ ان سے پوچھا گیا تو آپ نے اپنی لاعلمی ظاہر فرمائی اور کہا کہ بجز اللہ تعالیٰ کے قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا۔
اب صاف ظاہر ہے کہ علم روح کی صفات میں سے ہے نہ جسم کی صفات میں سے۔ اگر ان میں اللہ تعالیٰ کی روح تھی اور یہ خود اللہ تعالیٰ ہی تھے تو لاعلمی کے اقرار کی کیا وجہ۔ کیا خدا تعالیٰ بعد علم کے نادانؔ بھی ہوجایا کرتا ہے۔ پھر متی ۱۹ باب ۱۶ میں لکھا ہے۔ ’’دیکھو ایک نے آکے اسے (یعنی مسیح سے) کہا اے نیک استاد میں کونسا نیک کام کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں۔ اس نے اسے کہاتو کیوں نیک مجھے کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ پھر متی ۲۰۲۰ میں لکھا ہے کہ زبدی کے بیٹوں کی ماں نے اپنے بیٹوں کے حضرت مسیح کے دائیں بائیں بیٹھنے کی درخواست کی تو فرمایا اس میں میرا اختیار نہیں۔ اب فرمائیے قادر مطلق ہونا کہاں گیا۔ قادر مطلق بھی کبھی بے اختیار ہو جایا کرتا ہے اور جب کہ اس قدر تعارض صفات میں واقع ہوگیا کہ حضرات حواری تو آپ کو قادر مطلق خیال کرتے ہیں اور آپ قادر مطلق ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ تو ان پیش کردہ پیشگوئیوں کی کیا عزت اور کیا وقعت باقی رہی جس کے لئے یہ پیش کی جاتی ہیں وہی انکار کرتا ہے کہ میں قادر مطلق نہیں یہ خوب بات ہے۔ پھر متی ۳۸ ۲۶میں لکھا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ ’’مسیح نے تمام رات اپنے بچنے کے لئے دعا کی اور نہایت غمگین اور دلگیر ہوکر اور رو رو کر اللہ جلّ شانہٗ سے التماس کی کہ اگر ہوسکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذر جائے اور نہ صرف آپ بلکہ اپنے حواریوں سے بھی اپنے لئے دعا کرائی جیسے عام انسانوں میں جب کسی پرکوئی مصیبت پڑتی ہے اکثر مسجدوں وغیرہ میں اپنے لئے دعاکرایا کرتے ہیں لیکن تعجب یہ کہ باوجود اس کے کہ خواہ نخواہ قادر مطلق کی صفت ان پر تھوپی جاتی ہے اور ان کے کاموں کو اقتداری سمجھا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ دعا منظور نہ ہوئی اور جو تقدیر میں لکھا تھا وہ ہو ہی گیا۔ اب دیکھو اگر وہ قادر مطلق ہوتے تو چاہیئے تھا کہ یہ اقتدار اور یہ قدرت کاملہ پہلے ان کو اپنے نفس کے لئے کام آتا۔ جب اپنے نفس کے لئے کام نہ آیا تو غیروں کو ان سے توقع رکھنا ایک طمع خام ہے۔
اب ہمارے اس بیان سے وہ تمام پیشگوئیاں جو ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے پیش کی ہیں رد
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 137
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 137
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/137/mode/1up
ہوگئیں اور صاف ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیحؑ اپنے اقوال کے ذریعہ اور اپنے افعال کے ذریعہ سے اپنے تئیں عاجز ہی ٹھہراتے ہیں اور خدائی کی کوئی بھی صفت ان میں نہیں ایک عاجز انسان ہیں۔ ہاں نبی اللہ بے شک ہیں۔ خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۱ یعنی کیا تم نے دیکھاکہ جن لوگوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا معبود ٹھہرا رہے ہو انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا اور یا ان کو آسمان کی پیدائش میں کوئی شراکت ہے۔ اگر اس کا ثبوت تمہارے پاس ہے اور کوئی ایسی کتاب ہے جس میں یہ لکھا ہو کہ فلاں فلاں چیز تمہارے معبود نے پیدا کی ہے تو لاؤ وہ کتاب پیش کرو اگر تم سچے ہو یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یونہی کوئی شخص قادر مطلق کا نام رکھالے اور قدت کا کوئی نمونہ پیش نہ کرے اور خالق کہلائے اور خالقیت کا کوئی نمونہ ظاہر نہ کرے۔
اور پھر فرماتا ہے کہ اس شخص سے زیادہ تر گمراہ کون شخص ہے کہ ایسے شخص کو خدا کرکے پکارتا ہے جو اس کو قیامت تک جواب نہیں دے سکتا۔ بلکہ اس کے پکارنے سے بھی غافل ہے چہ جائیکہ اس کو جواب دے سکے۔
اب اس مقام پر ایک سچی گواہی میں دینا چاہتا ہوں جو میرے پر فرض ہے اور وہ یہ ہے جو میں اس اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہوں کہ جو بگفتن قادر مطلق نہیں۔ بلکہ حقیقی اور واقعی طور پر قادر مطلق ہے اور مجھے اس نے اپنے فضل وکرم سے اپنے خاص مکالمہ سے شرف بخشاہے اور مجھے اطلاع دیدی ہے کہ میں جو سچا اور کامل خدا ہوں میں ہرایک مقابلہ میں جو روحانی برکات اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 138
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 138
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/138/mode/1up
سماوی تائیدات میں کیا جائے تیرے ساتھ ہوں اور تجھ کو غلبہ ہوگا۔
اب میں اس مجلس میں ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کی خدمت میں اور دوسرے تمام حضرات عیسائی صاحبوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اس بات کو اب طول دینے کی کیا حاجت ہے کہ آپ ایسی پیشگوئیاں پیش کریں جو حضرت مسیحؑ کے اپنے کاموں و فعل کے مخالف پڑی ہوئی ہیں۔ ایک سیدھا اور آسان فیصلہ ہے جو میں زندہ اور کامل خدا سے کسی نشان کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ حضرت مسیح سے دعا کریں۔ آپ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قادر مطلق ہے۔ پھر اگر وہ قادر مطلق ہے تو ضرور آپ کامیاب ہو جاویں گے۔ اور میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کے کہتا ہوں کہ اگر میں بالمقابل نشانؔ بتانے میں قاصر رہا تو ہر ایک سزا اپنے پر اٹھا لوں گا۔ اور اگر آپ نے مقابل پر کچھ دکھلایا تب بھی سزا اٹھا لوں گا۔ چاہیئے کہ آپ خلق اللہ پر رحم کریں۔ میں بھی اب پیرانہ سالی تک پہنچا ہوا ہوں اور آپ بھی بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ہمارا آخری ٹھکانا اب قبر ہے۔ آؤ اس طرح پر فیصلہ کر لیں۔ سچا اور کامل خدا بیشک سچے کی مدد کرے گا۔ اب اس سے زیادہ کیا عرض کروں۔ (باقی آئندہ)
دستخط دستخط
(بحروف انگریزی) (بحروف انگریزی)
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 139
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 139
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/139/mode/1up
پانچواںؔ پرچہ
مباحثہ ۲۶؍ مئی ۱۸۹۳ء
روئداد
آج چھ بجے گیارہ منٹ پر مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے جواب لکھانا شروع کیا ۷ بجے ۶ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے ۷ بجے ۲۲ منٹ پر شروع کیا اور آٹھ بجے ۲۲ منٹ پر ختم ہوا مرزا صاحب کا مضمون سنائے جانے کے بعد یہ سوال پیش ہوا کہ مرزا صاحب نے جو اپنے مضمون کے اخیر میں عیسائی جماعت کو عام طور پر مخاطب کیا ہے اس کے متعلق بعض عیسائی صاحبان کو جو خواہش رکھتے ہیں جو اب دینے کی اجازت ہو جاوے سب سے پہلے پادری ٹامس ہاول صاحب نے اجازت طلب کی اور مرزا صاحب نے اپنی طرف سے اجازت دے دی۔ اس کے بعد پادری احسان اللہ صاحب نے کہا کہ شرائط کے بموجب عیسائی صاحبان کی طرف سے کسی اور شخص کو بولنے کی اجازت نہیں اور اس سوال میں عیسائی صاحبان کو عام طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ اس لئے یہ سوال ناواجب ہی سمجھا جانا چاہیئے- اس پر میر مجلس اہل اسلام نے بیان کیا کہ جس ترتیب کے ساتھ سوال ہوا ہے اسی ترتیب کے ساتھ جواب دیا جانا چاہیئے۔ یعنی سوال بھی مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کے ذریعہ عام طور پر عیسائی صاحبان سے کیا گیا ہے اور جواب بھی انہیں کے ذریعہ اسی ترتیب کے ساتھ دیا جائے یعنی اس سوال کے جواب کے موقعہ پر کسی عیسائی صاحب کو جو اجازت طلب کرتے ہیں پیش کردیں۔ اس پر میر مجلس عیسائی صاحبان نے بیان کیا کہ اس طریق سے مباحثہ کے انتظام میں نقص آئے گا۔ بہتر یہ ہے کہ اس سوال کو ہی نکال دیا جائے۔ اس پر مرزا صاحب نے بیان فرمایا کہ اس میں اتنی ترمیم کی جاسکتی ہے کہ اس سوال کو صرف مسٹر عبد اللہ آتھم تک ہی محدود کیا جائے۔ اور یہ ترمیم باتفاق رائے منظور ہوئی۔ بعد ازاں پادری جی ایل ٹھاکر داس صاحب نے اجازت لے کر بیان کیا کہ مرزا صاحب کو یہ سوال عیسائی صاحبان پر کرنے کا حق ہے مگر چونکہ اس سے پہلے اس امر کا تصفیہ ہوچکا تھا اس لئے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 140
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 140
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/140/mode/1up
وہی بحال رہا۔ پھر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے جواب ۸ بجے ۵۱ منٹ پر شروع کیا اور ۹ بجے ۲۲ منٹ پر ختم کیا۔ پھر مرزا صاحب نے ۹ بجے ۳۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ۳۰ منٹ پر ختم کیا۔ بعدازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اور مصدقہ تحریریں فریقین کو دی گئیں اور جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
بیانؔ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
ہمارا بیان یہ ہے کہ مسیح کامل انسان اور کامل مظہر اللہ ہے بروئے کلام الٰہی ان دو امروں کا انکار ہونا محال ہے لیکن بالیقین یہودی اس کو مظہر اللہ نہیں جانتے تھے پھر جب کبھی اس کے منہ سے اس کے مظہر اللہ ہونے کا کوئی لفظ نکل آتا تھا تو یہودی اس پر الزام کفر کا لگا کر سنگسار کرنے پر آمادہ ہوتے تھے۔ چنانچہ موقع متنازعہ کی بھی یہی صورت ہے اور اس موقعہ پر مسیح نے فرمایا کہ اگر میں اپنی انسانیت سے بھی اپنے آپ کو ابن اللہ کہوں تو اس سے زیادہ کچھ نہیں جیسے تمہارے نبی بھی خدا کہلائے تو میرا کہنا ان سے زیادہ بڑھ کر بہ نسبت اس کے انسانیت کے بھی نہیں ہے۔ پس یہاں اس نے اپنے مظہر اللہ ہونے کا انکار کیونکر کیا۔ مظہر اللہ ہونے کی آیات تو ہماری محولہ فہرست دیروزہ میں بھی موجود ہیں۔ اس کو کس خوش فہمی سے مرزا صاحب رد کرتے ہیں۔ کونسا امر ان میں اس کے بطلان کا پکڑا۔ کیا جو امر خاص متعلق مسیح کی انسانیت کے ہے وہ منافی اس کی الوہیت یا مظہر اللہ ہونے کا بھی ہوسکتا ہے۔ ہرگز کسی قانون سے نہیں۔ حق تو یہ ہے کہ وہ اپنی انسانیت میں بھی مخصوص اور مرسلہ شخص تھا۔ وہ لفظ جس کا ترجمہ مخصوص ہے یونانی میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 141
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 141
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/141/mode/1up
’’ہے گی ایڈزو‘‘ ہے جس کے معنی مقدس اور بھیجا گیا۔ جو لفظ ہے اس کا ایما اس پر ہے کہ وہ فرمایا کرتا تھا کہ میں آسمان پر سے ہوں تم زمینی ہو یعنی میں آسمان سے زمین پر بھیجا گیا ہوں اور ہمارے شارح اکثر اس کے معنے الوہیت کے کرتے ہیں۔ پھر کیا مرزا صاحب نے اسے باب ۱۰ یوحنّا میں یہ نہ دیکھا کہ جیسے مسیح نے اولاً یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں اور باپ ایک ہیں جس پر یہودیوں نے پتھر اٹھائے تھے اس زعم سے کہ وہ انسان مخلوق ہوکر دعویٰ اللہ ہونے کا کرتا ہے پھر جب اس نے اپنی انسانیت کو بھی اس الزام سے بچا لیا تو پھر وہی دعویٰ پیش کر دیا کہ میں اور باپ ایک ہیں۔ پس جناب یہ کیونکر فرماتے ہیں کہ وہ ڈر گیا۔ بجائے ڈرنے کے اور بھی اس نے کھلا کھلی دعویٰ الوہیت کو پیش کیا تو یہ صحیح ہے کہ ایک موقع پر خداوند مسیح نے فرمایا کہ میں اس گھڑی سے آگاہ نہیں اور دوسرے موقع پر فرمایا کہ میرے دائیں اور بائیں بٹھلانا میرا اختیاری نہیں لیکن یہ کلمات نسبت اس کی انسانیت سے رکھتے ہیں کیونکہ الوہیت کے کلمات اور ہیں چنانچہ یہ کہ زمین و آسمان کا اختیار مجھ کو حاصل ہے اور پھر یہ بھی صحیح ہے کہ ایک موقع پر خداوند نے فرمایا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے جب کہ نیک سوائے خدا کے کوئی نہیں مگر یہ فرمانا اس کا اس شخص سے تھا جو اس کو منجی اور مالک ہر شے کا نہیں مانتا تھا چنانچہ جب اس نے اخیر میں اس سے کہا کہ اگر تو کامل ہوا چاہتا ہے تو سارا اپنا مال غرباء کو دے ڈال اور میرے پیچھے ہولے مگر وہ اس سے دلگیر ہوکر چلا گیا اور اگر وہ اس کو خدا اور مالک جانتا اور یہ کہ وہ اس سے ہزار چند بخش سکتا ہے تو کبھی بھی دلگیر ہوکر نہ جاتا اس سے ظاہر کہ وہ قائل اس کی الوہیت کا نہ تھا۔ اسی واسطے خداوند نے فرمایا کہ تب تو مجھے نیک بھی کیوں کہتا ہے یعنی مکار کیوں بنتا ہے کیونکہ تو جانتا ہے کہ نیک سوائے خدا کے اور کوئی نہیں۔
(۲)ؔ جناب مرزا صاحب نے کمال ہونے راہ نجات پر قرآن سے کچھ نہیں فرمایا پھر ہماری اور کوئی چیز کس مصرف کی ہے بقول مسیح کہ اگر ہم جہان کو حاصل کریں اور جان کو کھودیں تو فائدہ کیا ہوا۔پس سب سے اول لازم اور واجب ہے کہ نجات کی بابت قرآن میں کمال دکھلایا جاوے۔ بیت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 142
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 142
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/142/mode/1up
وہ ہو تو یہ ہوتی ہو یا نہ ہو۔ وہ نا ہو تو سب کا سب فنا ہو۔ توحید کا علم تو بائبل میں بھی موجود تھا۔ اِلّا اس کلمہ توحید سے نجات کا کیا علاقہ ہے۔ کیا یعقوب حواری کے خط کے دوسرے باب ۱۹ میں یہ بہت ٹھیک اور واجباً نہیں فرمایا گیا کہ تو کہتا ہے کہ خدا ایک ہے۔ شیطان بھی کہتا ہے بلکہ ٹھہراتا بھی ہے۔ توریت کے مضمون کے چار حصہ میں ماسواء امور اثباتیہ کے یعنی شریعت اخلاقی۔ شریعت رسمیاتی۔ شریعت قضاتی اور قصص۔ اب یہ سارے امور ٹے پالوجی کے ہیں یعنی نشانات تصویری کے سے۔ چنانچہ اخلاقی میں احتیاج دکھلایا گیا ہے اور رسمیاتی میں مایحتاج دکھلایا گیا ہے اور قضاتی میں (تھی او کر سے) دکھلائی گئی۔ یعنی وہ سلطنت جو خدائے تعالیٰ بلاواسطہ غیر کے خود کرتا ہے اور قصص جن میں تصویر کے نشانات بھرے ہیں۔ ان مقامات کو اب اس جگہ اگر ہم لکھیں تو بہت طول ہوجاتا ہے ہم اس کے واسطے اپنی کتاب اندرونہ بائبل کوپیش کرتے ہیں کہ جس سے یہ سب حال ظاہرہو جائے گا۔ انجیل میں انہیں نشانات کا صاحب نشان دکھلایا ہے پس یہ متفرق شریعتیں کیونکر ہوئیں۔ البتہ قرآن کی شریعت ان کے سوا ہے جو مخصوص ساتھ قرآن کے ہے اس کا بار ہم پر کچھ نہیں لیکن آپ پر ہے۔
(۴) صداقت محتاج دلیل کی کیونکر ہے کیا وہ خود ہی اپنی مراد پر دال نہیں اس کے واسطے اور تصفیہ آپ کیا چاہتے ہیں کیا وہ آیات جو ہم نے اس فہرست میں پیش کی ہیں ان میں کوئی ناصاف بھی ہے۔
(۵) ہم سے جو استفسار یہ ہے کہ مسیح نے کیا بنایا تھا۔ خدا نے تو زمین و آسمان اور سب چیزیں بنائیں۔ بجواب اس کے عرض ہے کہ بہ حیثیت انسانیت کے تو اس نے کچھ نہیں بنایا۔ لیکن بحیثیت مظہر اقنوم ثانی کے باب۸۔ امثال و ایک باب یوحنّا میں یوں لکھا ہے جو کچھ بنا ہے اسی کے وسیلہ بنا ہے اور کہ باپ کو کسی نے دیکھا تک نہیں مگر بیٹے نے خلق کرنے کے وسیلہ سے اسے جتلا دیا۔
(۷) ہم نے خداوند مسیح کا ڈرنا نہیں کہا بلکہ ان کا بے جا غصہ فرو کرنا کہا ہے۔
(۸) مسیح نے تعلیم سلف کو پیچیدہ نہیں کیا بلکہ پیچیدہ کو صاف کیا ہے۔
چنانچہ اس نے مظہر اللہ ہوکر وہ صفات ظاہر کیں جو اور طرح سے ظاہر نہ ہو سکتی تھیں۔ جیسا کہ متی ۶۔ ۹ خدا کا باپ ہونا۔ یوحنّا ۳۔۱۶خدا محبت ہے۔ یوحنّا۴۲۴ خدا روح ہے۔ کثرت فی الوحدت توریت میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 143
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 143
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/143/mode/1up
صاف لکھی تھی جیسا کہؔ اس آیت میں ہے کہ دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ تاہم یہودیوں کی آنکھ میں غفلت کا پردہ تھا اور خداوند نے اس پردہ کو اٹھایا۔
(۹) کلام الٰہی کی شرح کرنا یہودیوں کا خاص ورثہ نہیں ہے گو وہ انبیاؤں کی اولاد ہیں اور کلام کے امانت دار اور تواتر سے سننے والے۔ کیونکہ ان میں بغض اور تعصب بہت بھر گیا تھا اور جب خداوند یسوع نے یہ فرمایا کہ جو وہ کہتے ہیں سو کرو اور جو کرتے ہیں سو نہ کرو۔ اس کے معنی صاف یہ ہیں کہ کہنا ان کا الفاظ توریت سے ہے اور کرنا ان کا برخلاف اس کے۔
(۱۰) بدن مسیح کا زوال پذیر ہو یا نہ ہو۔ مگر اس سے کفارہ کا کیا علاقہ ہے فی الحال اور کچھ نہ کہوں گا۔ (باقی آئندہ)
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
بیان حضرت مرزا صاحب
میرے کل کے بیان میں نجات کے بارہ میں کچھ لکھنا رہ گیا تھا کہ نجات کی حقیقت کیا ہے اور سچے حقیقی طور پر کب اور کس وقت کسی کو کہہ سکتے ہیں کہ نجات پا گیا۔ اب جاننا چاہیئے کہ اللہ جلّ شانہٗ نے نجات کے بارہ میں قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے۔ اور کہا انہوں نے کہ ہرگز بہشت میں داخل نہیں ہوگا یعنی نجات نہیں پائے گا مگر وہی شخص جو یہودی ہوگا یا نصرانی ہوگا یہ ان کی بے حقیقت آرزوئیں ہیں کہولاؤ برہان اپنی اگر تم سچے ہو یعنی تم دکھلاؤ کہ تمہیں کیا نجات حاصل ہوگئی ہے بلکہ نجات اس کو ملتی ہے جس نے اپنا سارا وجود اللہ کی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 144
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 144
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/144/mode/1up
راہ میں سونپ دیا۔ یعنی اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقفؔ کر دیا اور اس کی راہ میں لگا دیا۔ اور وہ بعد وقف کرنے اپنی زندگی کے نیک کاموں میں مشغول ہوگیا اور ہر ایک قسم کے اعمال حسنہ بجا لانے لگا پس وہی شخص ہے جس کو اس کا اجر اس کے رب کے پاس سے ملے گا اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ ڈر ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے یعنی وہ پورے اور کامل طور پر نجات پا جائیں گے۔ اس مقام میں اللہ جلّ شانہٗنے عیسائیوں اور یہودیوں کی نسبت فرما دیا کہ جو وہ اپنی اپنی نجات یابی کا دعویٰ کرتے ہیں وہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں اور ان آرزوؤں کی حقیقت جو زندگی کی روح ہے ان میں ہرگز پائی نہیں جاتی بلکہ اصلی اور حقیقی نجات وہ ہے جو اسی دنیا میں اس کی حقیقت نجات یا بندہ کو محسوس ہو جائے اور وہ اس طرح پر ہے کہ نجات یا بندہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ توفیق عطا ہوجائے کہ وہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دے۔ اس طرح پر کہ اس کا مرنا اور جینا اور اس کے تمام اعمال خدا تعالیٰ کے لئے ہو جائیں اور اپنے نفس سے وہ بالکل کھویا جائے اور اس کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی ہو جائے اور پھر نہ صرف دل کے عزم تک یہ بات محدود رہے بلکہ اس کی تمام جوارح اور اس کے تمام قویٰ اور اس کی عقل اور اس کا فکر اور اس کی تمام طاقتیں اسی راہ میں لگ جائیں تب اس کو کہا جائے گا کہ وہ محسن ہے یعنی خدمت گاری کا اور فرمانبرداری کا حق بجا لایا جہاں تک اس کی بشریت سے ہوسکتا تھا سو ایسا شخص نجات یاب ہے۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں اللہ فرماتا ہے(س ۸ سورہ انعام رکوع۷) کہہ نماز میری اور عبادتیں میری اور زندگی میری اور موت میری تمام اس اللہ کے واسطے ہیں جو رب ہے عالموں کا جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی درجہ کے حاصل کرنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اول مسلمانوں کا ہوں۔
پھر بعد اس کے اللہ جلّ شانہٗ اس نجات کی علامات اپنی کتاب کریم میں لکھتا ہے کیونکہ گو جو کچھ فرمایا گیا وہ بھی ایک حقیقی ناجی کے لئے مابہ الامتیازہے لیکن چونکہ دنیا کی آنکھیں اس باطنی نجات اور وصول الی اللہ کو دیکھ نہیں سکتیں اور دنیا پر واصل اور غیر واصل کا امر مشتبہ ہو جاتا ہے اسلئے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 145
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 145
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/145/mode/1up
اس کی نشانیاں بھی بتلا دیں کیونکہ یوں تو دنیا میں کوئی بھی فرقہ نہیں کہ اپنے تئیں غیرناجی اور جہنمی قرار دیتا ہے کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں بلکہ ہر ایک قوم کا آدمی جس کو پوچھو اپنی قوم کو اور اپنے مذہب کے لوگوںؔ کو اول درجہ کا نجات یافتہ قرار دے گا۔ اس صورت میں فیصلہ کیونکر ہو تو اس فیصلہ کے لئے خدا تعالیٰ نے حقیقی اور کامل ایمانداروں اور حقیقی اور کامل نجات یافتہ لوگوں کے لئے علامتیں مقرر کر دی ہیں اور نشانیاں قرار دے دی ہیں تادنیا شبہات میں مبتلا نہ رہے چنانچہ منجملہ ان نشانیوں کے بعض نشانیوں کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔33۔3۔3 33۱ (س۱۱ر۱۲ سورۂ یونس) یعنی خبردار ہو تحقیق وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے دوست ہیں ان پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے وہی لوگ ہیں جو ایمان لائے یعنی اللہ رسول کے تابع ہو گئے اور پھر پرہیز گاری اختیار کی ان کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا کی زندگی اور نیز آخرت میں بشریٰ ہے یعنی خدا تعالیٰ خواب اور الہام کے ذریعہ سے اور نیز مکاشفات سے ان کو بشارتیں دیتا رہے گا خدا تعالیٰ کے وعدوں میں تخلف نہیں اور یہ بڑی کامیابی ہے جو ان کے لئے مقرر ہو گئی یعنی اس کامیابی کے ذریعہ سے ان میں اور غیروں میں فرق ہو جائے گا۔ اور جو سچے نجات یافتہ نہیں ان کے مقابل میں دم نہیں مار سکیں گے پھر دوسری جگہ فرماتا ہے۔۔(س ۲۴ ر ۱۸) یعنی جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت اختیار کی ان کی یہ نشانی ہے کہ ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم مت ڈرو اور کچھ غم نہ کرو اور خوشخبری سنو اس بہشت کی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا ہم تمہارے دوست اور متولی اس دنیا کی زندگی میں ہیں اور نیز آخرت میں اور تمہارے لئے اس بہشت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 146
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 146
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/146/mode/1up
میں وہ سب کچھ دیا گیا جو تم مانگو یہ مہمانی ہے غفور رحیم سے۔
اب دیکھئے اس آیت میں مکالمہ الٰہیہ اور قبولیت اور خدا تعالیٰ کا متولّی اور متکفل ہونا اور اسی دنیا میں بہشتی زندگی کی بنا ڈالنا اور ان کا حامی اور ناصر ہونا بطور نشان کے بیان فرمایا گیا۔
اور پھر اس آیت میں جس کا کل ہم ذکر کرچکے ہیں یعنی یہ کہ ۱ اسی نشانی کی طرف اشارہ ہے کہ سچی نجات کا پانے والا ہمیشہ اچھے پھل لاتا ہے اور آسمانی برکات کے پھل اس کو ہمیشہ ملتے رہتے ہیں اور پھر ایک اور مقام میں فرماتا ہے۲(س ۲ ر ۷) اور جب میرے بندے میرے بارہؔ میں سوال کریں تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں یعنی جب وہ لوگ جو اللہ رسول پر ایمان لائے ہیں یہ پتہ پوچھنا چاہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا عنایات رکھتا ہے جو ہم سے مخصوص ہوں اور غیروں میں نہ پائی جاویں۔ تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں یعنی تم میں اور تمہارے غیروں میں یہ فرق ہے کہ تم میرے مخصوص اور قریب ہو اور دوسرے مہجور اور دور ہیں جب کوئی دعا کرنے والوں میں سے جو تم میں سے دعا کرے دعا کرتے ہیں تو میں اس کا جواب دیتا ہوں یعنی میں اس کا ہمکلام ہو جاتا ہوں اور اس سے باتیں کرتا ہوں اور اس کی دعا کو پایہء قبولیت میں جگہ دیتا ہوں پس چاہیئے کہ قبول کریں حکم میرے کو اور ایمان لاویں تاکہ بھلائی پاویں ایسا ہی اور کئی مقامات میں اللہ جلّ شانہٗ نجات یافتہ لوگوں کے نشان بیان فرماتا ہے اگر وہ تمام لکھے جاویں تو طول ہوجائے گا جیسا کہ ان میں سے ایک یہ بھی آیت ہے ۳ (س۹ ر ۱۸ سورۃ الانفال) کہ اے ایمان والو اگر تم خدا تعالیٰ سے ڈرو تو خدا تم میں اور تمہارے غیروں میں مابہ الامتیاز رکھ دے گا۔
اب میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب سے بادب دریافت کرتا ہوں کہ اگر عیسائی مذہب میں طریق نجات کا کوئی لکھا ہے اور وہ طریق آپ کی نظر میں صحیح اور درست ہے اور اس طریق پر چلنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 147
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 147
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/147/mode/1up
والے نجات پا جاتے ہیں تو ضرور اس نجات یابی کی علامات بھی اس کتاب میں لکھی ہوں گی اور سچے ایماندار جو نجات پاکر اس دنیا کی ظلمت سے مخلصی پاجاتے ہیں ان کی نشانیاں ضرور انجیل میں کچھ لکھی ہوں گی۔ آپ براہ مہربانی مجھ کو مختصر جواب دیں کہ کیا وہ نشانیاں آپ صاحبوں کے گروہ میں یا بعض ایسے صاحبوں میں جو بڑے بڑے مقدس اور اس گروہ کے سردار اور پیشوا اور اول درجہ پر ہیں پائی جاتی ہیں اگر پائی جاتی ہیں تو ان کا ثبوت عنایت ہو اور اگر نہیں پائی جاتیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس چیز کی صحت اور درستی کی نشانی نہ پائی جائے تو کیا وہ چیز اپنے اصل پر محفوظ اور قائم سمجھی جائے گی مثلاً اگرتُربد یا سقمونیا یا سنا میں خاصہ اسہال کا نہ پایا جائے کہ وہ دست آور ثابت نہ ہو تو کیا اس تربد کو تربد موصوف یا سقمونیا خالص کہہ سکتے ہیں اور ماسوا اس کے جو آپ صاحبوں نے طریق نجات شمار کیا ہے جس وقت ہم اس طریق کواس دوسرے طریق کے ساتھ جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے مقابل کرکے دیکھتے ہیں تو صاف طور پر آپ کے طریق کا تصنع اور غیر طبعی ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ بات بہ پایہء ثبوت پہنچتی ہے کہ آپ کے طریق میں کوئی صحیح راہ نجات کا قائم نہیں کیا گیا مثلاً دیکھئے کہ اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں جو طریق پیش کرتا ہے وہ تو یہ ؔ ہے کہ انسان جب اپنے تمام وجود کو اور اپنی تمام زندگی کو خدا تعالیٰ کے راہ میں وقف کر دیتا ہے تو اس صورت میں ایک سچی اور پاک قربانی اپنے نفس کے قربان کرنے سے وہ ادا کر چکتا ہے۔ اور اس لائق ہو جاتا ہے کہ موت کے عوض میں حیات پاوے کیونکہ یہ آپ کی کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ جو خداتعالیٰ کی راہ میں جان دیتا ہے وہ حیات کا وارث ہو جاتا ہے۔ پھر جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی تمام زندگی کو وقف کر دیا اور اپنے تمام جوارح اور اعضاء کو اس کی راہ میں لگا دیا تو کیا اب تک اس نے کوئی سچی قربانی ادا نہیں کی۔ کیا جان دینے کے بعد کوئی اور بھی چیز ہے جو اس نے باقی رکھ چھوڑی ہے لیکن آپ کے مذہب کا عدل تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ زید گناہ کرے اور بکر کو اس کے عوض میں سولی دیا جائے آپ اگر غور اور توجہ سے دیکھیں تو بے شک ایسا طریق قابل شرم آپ پر ثابت ہوگا خدا تعالیٰ نے جب سے انسان کو پیدا کیا انسان کی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 148
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 148
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/148/mode/1up
مغفرت کے لئے بھی قانون قدرت رکھا ہے جو ابھی میں نے بیان کیا ہے اور درحقیقت اس قانون قدرت میں جو طبعی اور ابتدا سے چلا آتا ہے ایسی خوبی اور عمدگی ہے جو ایک ہی انسان کی سرشت میں خدا تعالیٰ نے دونوں چیزیں رکھ دی ہیں جیسے اس کی سرشت میں گناہ رکھا ہے ویسا ہی اس گناہ کا علاج بھی رکھا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایسے طور سے زندگی وقف کر دی جائے کہ جس کو سچی قربانی کہہ سکتے ہیں اب مختصر بیان یہ ہے کہ آپ کے نزدیک یہ طریق نجات کا جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے صحیح نہیں ہے تو اول آپ کو چاہیئے کہ اس طریق کے مقابل پر جو حضرت مسیح کی زبان سے ثابت ہوتا ہے اس کو ایساہی مدلل اور معقول طور پر ان کی تقریر کے حوالہ سے پیش کریں پھر بعد اس کے انہیں کے قول مبارک سے اس کی نشانیاں بھی پیش کریں تاکہ تمام حاضرین جو اس وقت موجود ہیں ابھی فیصلہ کر لیں۔ ڈپٹی صاحب! کوئی حقیقت بغیر نشانوں کے ثابت نہیں ہوسکتی دنیا میں بھی ایک معیار حقائق شناسی کا ہے کہ ان کو ان کی نشانیوں سے پرکھا جائے سو ہم نے تو وہ نشانیاں پیش کر دیں اور ان کا دعویٰ بھی اپنی نسبت پیش کر دیا اب یہ قرضہ ہمارا آپ کے ذمہ ہے اگر آپ پیش نہیں کریں گے اور ثابت کرکے نہیں دکھلائیں گے کہ یہ طریق نجات جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کس وجہ سے سچا اور صحیح اور کامل ہے تو اس وقت تک آپ کا یہ دعویٰ ہر گزصحیح نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ قرآن کریم نے جو کچھ بیان کیاہے وہ صحیح اور سچا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے صرف بیان ہی نہیں کیا بلکہ کر کے بھی دکھا دیا اور اس کا ثبوت میں پیش کر چکا ہوں آپ براہ مہربانی اب اس نجاتؔ ؔ کے قصہ کو بے دلیل اور بے وجہ صرف دعویٰ کے طور پر پیش نہ کریں۔ کوئی صاحب آپ میں سے کھڑے ہوکر اس وقت بولیں کہ میں بموجب فرمودہ حضرت مسیح کے نجات پاگیا ہوں اور وہ نشانیاں نجات کی اور کامل ایمانداری کی جو حضرت مسیح نے مقرر کی تھیں وہ مجھ میں موجود ہیں پس ہمیں کیا انکار ہے۔ ہم تو نجات ہی چاہتے ہیں لیکن زبان کی لسانی کو کوئی قبول نہیں کر سکتا۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرچکا ہوں کہ قرآن
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 149
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 149
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/149/mode/1up
کا نجات دینا میں نے بچشم خود دیکھ لیا ہے۔ اور میں پھر اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں بالمقابل اس بات کو دکھلانے کو حاضر ہوں لیکن اول آپ دو حرفی مجھے جواب دیں کہ آپ کے مذہب میں سچی نجات معہ اس کی علامت کے پائی جاتی ہے یا نہیں اگر پائی جاتی ہے تو دکھلاؤ۔ پھر اس کا مقابلہ کرو۔ اگر نہیں پائی جاتی تو آپ صرف اتنا کہہ دو کہ ہمارے مذہب میں نجات نہیں پائی جاتی۔ پھر میں یک طرفہ ثبوت دینے کے لئے مستعد ہوں۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
بیان ڈپٹی مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب
بقیہ جواب:جو مرزا صاحب نے فرمایا کہ مسیح نے اسی وقت ایسا یا ویسا ثبوت کیوں نہ دیا جب اس پر الزام کفر کا لگا کر پتھراؤ کرنا چاہتے تھے تاکہ ظاہر ہو جاتا کہ فی الواقع اللہ ہی ہے۔ مجھے اس پر ایک قصہ یاد آیا کہ ایک شخص نے مجھ سے کلام کرتے ہوئے یہ کہا کہ خدا تعالیٰ نے یہ کیا کوتاہ بینی کی کہ دو آنکھیں پیشانی کے نیچے ہی لگا دی ہیں ایک سر میں کیوں نہ لگا دی کہ وہ اوپر کی بلیّات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا اور ایک پیٹھ میں کیوں نہ لگا دی کہ پیچھے سے دیکھ سکتا اب اس میں حیرانی ہے کہ کیا ایک بے چون و چرا پر اس قسم کی چون و چرا جائز ہے یہ کہنا معقول نہیں ہے کہ ایسا اور ویسا کیوں نہ کیا مگر یہ معقول ہے کہ جو کیا گیا ہے اس کو بمعرض اعتراض لایا جائے۔ ہم پوچھتے ہیں کہؔ کیا یہودیوں کا الزام یہی نہ تھا کہ تو انسان ہو کر خدا بنتا ہے یہ کفر ہے۔ اور جواب اس کا یہ ہوا کہ میں انسان ہوکر بھی اپنے آپ کو ابن اللہ کہہ سکتا ہوں اور کفر نہیں ہوتا جیسے نبی اللہ بھی تو انسان تھے اور ان کو اللہ کہا گیا تو پس اس میں سوال اس کی الوہیت کے متعلق کونسا تھا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 150
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 150
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/150/mode/1up
دو۲سرا امر جناب مرزا صاحب جو فرماتے ہیں کہ مسیح نے اپنے لئے حواریوں سے دعا چاہی یہ تو سچ نہیں موقعہ کو دیکھ لیں اس میں یہ تو لکھا ہے کہ مسیح نے ان کو کہا کہ تم اپنے لئے دعا مانگو تاکہ تم امتحان میں نہ پڑو۔
تیسر۳ا جناب کے کل کے مباہلہ کا جواب یہ ہے کہ ہم مسیحی تو پرانی تعلیمات کے لئے نئے معجزات کی کچھ ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ ہم اس کی استطاعت اپنے اندردیکھتے ہیں بجز اس کے کہ ہم کووعدہ یہ ہوا ہے کہ جو درخواست بمطابق رضاء الٰہی کے تم کرو گے وہ تمہارے واسطے حاصل ہو جائے گی اور نشانات کا وعدہ ہم سے نہیں لیکن جناب کو اس کا بہت سا ناز ہے ہم بھی دیکھنے معجزہ سے انکار نہیں کرتے۔ اگر اسی میں مہربانی خلق اللہ کے اوپر ہے کہ نشان دکھلا کر فیصلہ کیا جائے تو ہم نے تو اپنا عجز بیان کیا جناب ہی کوئی معجزہ دکھلا دیں اور اس وقت آپ نے اپنے آخری مضمون دیروزہ میں کہا تھا اور کچھ آج بھی اس پر ایما ہے اب زیادہ گفتگو کی اس میں کیا ضرورت ہے ہم دونوں عمر رسیدہ ہیں آخر قبر ہمارا ٹھکانا ہے خلق اللہ پر رحم کرنا چاہیئے کہ آؤ کسی نشان آسمانی سے فیصلہ کر لیں۔ اور یہ بھی آپ نے کہا کہ مجھے خاص الہام ہوا ہے کہ اس میدان میں تجھے فتح ہے۔ اور ضرور خدائے راست ان کے ساتھ ہوگا جو راستی پر ہیں ضرور ضرور ہی ہوگا۔ آپ کی تحریر کے خلاصہ کا یہ جواب ہے جیسا کہ ہم آگے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہم آپ کو کوئی پیغمبر یا رسول یا شخص ملہم جان کر آپ سے مباحثہ نہیں کرتے آپ کے ذاتی خیالات اور وجوہات اور الہامات سے ہمارا کچھ سروکار نہیں ہم فقط آپ کو ایک محمدی شخص فرض کر کے دین عیسوی اور محمدیت کے بارہ میں بموجب ان قواعد و اسناد کے جو ان ہر دو میں عام مانی جاتی ہیں آپ سے گفتگو کر رہے ہیں خیر تاہم چونکہ آپ کو ایک خاص قدرت الٰہی دیکھانے پر آمادہ ہو کے ہم کو برائے مقابلہ بلاتے ہیں تو ہمیں دیکھنے سے گریز بھی نہیں یعنی معجزہ یا نشانی۔ پس ہم یہ تین شخص پیش کرتے ہیں جن میں ایک اندھا۔ ایک ٹانگ کٹا اور ایک گونگا ہے۔ ان میں سے جس کسی کو صحیح سالم کر سکو کر دو اور جو اس معجزہ سے ہم پر فرض و واجب ہوگا ہم ادا کریں گے آپ بقول خود ایسے خدا کے قائل ہیں جو گفتہ قادر نہیں لیکن درحقیقت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 151
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 151
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/151/mode/1up
قادر ہے تو وہ ان کو تندرست بھی کر سکے گا پھر اس میں تامل کی کیا ضرورت ہے اور ضرور بقول آپ کے را ستباز کے ساتھ ہوگا ضرور ہوگا۔ آپ خلق اللہ پرؔ رحم فرمایئے جلد فرمایئے اور آپ کو خبر ہوگی کہ آج یہ معاملہ پڑنا ہے جس خدا نے الہام سے آپ کو خبر دے دی کہ اس جنگ و میدان میں تجھے فتح ہے اس نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہوگا کہ اندھے و دیگر مصیبت زدوں نے بھی پیش ہونا ہے۔ سو سب عیسائی صاحبان و محمدی صاحبان کے رو برو اسی وقت اپنا چیلنج پوراکیجئے۔
چہار۴م۔ نجات کے بارہ میں جو جناب نے قرآن سے فرمایا ہے اس کا خلاصہ افعال معینہ ہے اور اس امر کی پڑتال ہم ہفتہ آئندہ میں کریں گے کیونکہ موقع وہی ہے جب ہمارے حملہ شروع ہوں گے۔ اور آپ کے حملہ ختم ہولیں گے اور جو آپ نے اعمال متقین کا فدیہ پیش کیا ہے اس کو ہم جانچیں گے کہ کیا کامل ہے یا ناقص۔ عَلٰی ہٰذا القیاس مسیح کا طریقہ نجات بھی ہم اسی روز جانچیں گے۔
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
بیان حضرت مرزا صاحب
حضرت مسیح کے بارہ میں جو آپ نے عذر پیش کیا ہے کہ حضرت مسیح نے صرف یہودیوں کا غصّہ فرو کرنے کے لئے یہ کہہ دیا تھا کہ تمہاری شریعت میں بھی تمہارے نبیوں کی نسبت لکھا ہے کہ وہ خدا ہیں اور نیز اس جگہ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ مسیح نے اپنی انسانیت کے لحاظ سے ایسا جواب دیا یہ بیان آپ کا منصفین کی توجہ اور غور کے لائق ہے صاف ظاہر ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح کا کلمہ کہ میں خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں ایک کفر کا کلمہ قرار دے کر اور نعوذ باللہ ان کو کافر سمجھ کر یہ سوال کیا تھا اور اس سوال کے جواب میں بے شک حضرت مسیح کا یہ فرض تھا کہ اگر وہ حقیقت میں انسانیت کی و جہ سے نہیں بلکہ خدائی کی وجہ سے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کا بیٹا سمجھتے تھے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 152
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 152
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/152/mode/1up
تو اپنے مدعا کا پورا پورا اظہار کرتے اور اپنے ابن اللہ ہونے کا ا ن کو ثبوت دیتے کیونکہ اس وقت وہ ثبوت ہی مانگتے تھے لیکن حضرت مسیح نے تو اس طرف رخ نہ کیا اور اپنے دوسرے انبیاء کی طرح قرار دیکر عذر پیش کر دیا اور اس فرض سے سبکدوش نہ ہوئے جو ایک سچا مبلغ اور معلم سبکدوش ہونا چاہتا ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ مخصوص مقدس کو کہتے ہیں حضرت مسیح کی کوئی خصوصیت ثابت نہیں کرسکتا کیونکہ آپ کی بائبل میں مخصوص کا ؔ لفظ اور نبیوں وغیرہ کی نسبت بھی استعمال پاگیا ہے دیکھو یسعیا نبی ۱۳ باب ۳۔ اور جو آپ نے بھیجے ہوئے کے معنی الوہیت نکالے ہیں یہ بھی ایک عجیب معنی ہیں آپ دیکھیں کہ پہلے سمویل کے ۱۲ باب ۸ آیت میں لکھا ہے کہ موسیٰ اور ہارون کو بھیجا اور پھر پیدائش ۴۵ ۔ ۷ میں لکھا ہے۔ خدا نے مجھے یہاں بھیجا ہے پھر یرمیا ۳۵ باب ۱۳،۴۴ باب ۴ میں یہی آیت موجود ہے اب کیا اس جگہ بھی ان الفاظ کے معنی الوہیت کرنا چاہئے افسوس کہ آپ ایک سیدھے اور سادے حضرت مسیح کے بیان کو توڑ مروڑ کر اپنے منشاء کے مطابق کرنا چاہتے ہیں اور حضرت مسیح نے جو اپنی بریت کا ثبوت پیش کیا اس کو نکما اور مہمل کرنا آپ کا ارادہ ہے کیا حضرت مسیح یہودیوں کی نظر میں صرف اس قدر کہنے سے بری ہوسکتے تھے کہ میں اپنے خدا ہونے کی وجہ سے تو بے شک ابن اللہ ہی ہوں لیکن میں انسانیت کی وجہ سے دوسرے نبیوں کے مساوی ہوں اور جو انکے حق میں کہا گیا وہ ہی میرے حق میں کہا گیا۔ اور کیا یہودیوں کا الزام اس طور کے رکیک عذر سے حضرت مسیح کے سر پر سے دور ہوسکتا تھا اور کیا انہوں نے یہ تسلیم کیا ہوا تھا کہ حضرت مسیح اپنی خدائی کی وجہ سے تو بے شک ابن اللہ ہی ہیں اس میں ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہاں انسان ہونے کی وجہ میں کیوں اپنے تئیں ابن اللہ کہلاتے ہیں بلکہ صاف ظاہر ہے کہ اگر یہودیوں کے دل میں صرف اتنا ہی ہوتا کہ حضرت مسیح محض انسان ہونے کی و جہ سے دوسرے مقدس اور مخصوص انسانوں کی طرح اپنے تئیں ابن اللہ قرار دیتے ہیں تو وہ کافر ہی کیوں ٹھہراتے کیا وہ حضرت اسرائیل کو اور حضرت آدم اور دوسرے نبیوں کو جن کے حق میں ابن اللہ کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 153
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 153
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/153/mode/1up
لفظ آئے ہیں کافر خیال کرتے تھے نہیں بلکہ سوال ان کا تو یہی تھا کہ ان کو بھی دھوکا لگا تھا کہ حضرت مسیح حقیقت میں اپنے تئیں اللہ کا بیٹا سمجھتے ہیں اور چونکہ جواب مطابق سوال چاہیئے اس لیے حضرت مسیح کا فرض تھا کہ وہ اُنکے جواب میں وُہی طریق اختیار کرتے جس طریق کیلئے اُنکا استفسار تھا اگر حقیقت میں خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے تو وُہ پیشگوئیاں جو ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب بعد از وقت اس مجلس میں پیش کر رہے ہیں کے سامنے پیش کرتے اور چند نمونہ خدا ہونے کے دکھلادیتے تو فیصلہ ہو جاتا یہ بات ہر گز صحیح نہیں ہے کہ یہودیوں کا سوال حقیقی ابن اللہ کے دلائل دریافت کرنے کیلئے نہیں تھا ۔ اس مقام میں زیادہ لکھنے کی کچھ ضرورت نہیں اَ ب بعد اسکے واضح ہو کہ مَیں نے ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کی خدمت میں یہ تحریر کیا تھا کہ جیسے کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ نجات صرف مسیحی مذہب میں ہے ایسا ہی قرآن میں لکھا ہے کہ نجات صرف اسلام میں ہے اور آپکا تو صرف اپنے لفظوں کے ساتھ دعویٰ اور میں نے وہ آیات بھی پیش کر دی ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے کہؔ دعویٰ بغیر ثبوت کے کچھ عزّت اور وقعت نہیں رکھتا ۔ سو اس بناء پر دریافت کیا گیا تھا کہ قرآن کریم میں تو نجات یا بندہ کی نشانیاں لکھی ہیں جن نشانوں کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ اس مقدس کتاب کی پَیروی کرنے والے نجات کو اسی زندگی میں پا لیتے ہیں مگر آپ کے مذہب میں حضرت عیسٰی ؑ نے جو نشانیاں نجات یا بندوں یعنی حقیقی ایمانداروں کی لکھی ہیں وہ آپ میں کہاں موجود ہیں ۔ مثلاََ جیسے کہ مرقس ۱۶۔ ۱۷ میں لکھا ہے ۔ اور وے جو ایمان لائیں گے اُن کے ساتھ یہ علامتیں ہونگی کہ وہ میرے نام سے دیووں کو نکالینگے اور نئی زبانیں بولینگے سانپوں کو اُٹھالینگے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پیئیں گے اُنہیں کچھ نقصان نہ ہو گا ۔ وے بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو چنگے ہوجائینگے ۔ تو اَب میں بادب التماس کرتا ہوں اور اگر ان الفاظ میں کچھ درشتی یا مرارت ہو تو اُسکی معافی چاہتا ہوں کہ یہ تین بیمار جو آپ نے پیش کئے ہیں یہ علامت تو بالخصوصیّت مسیحیوں کیلئے حضرت عیسٰی ؑ قرار دے چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگرتم سچے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 154
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 154
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/154/mode/1up
ایماندار ہو تو تمہاری یہی علامت ہے کہ بیمار پر ہاتھ رکھوگے تو وہ چنگا ہوجائیگا اب گستاخی معاف اگر آپ سچّے ایماندار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اِسوقت تین بیمار آپ ہی کے پیش کردہ موجود ہیں آپ اُن پر ہاتھ رکھدیں اگر وہ چنگے ہوگئے تو ہم قبول کرلیں گے کہ بیشک آپ سچّے ایماندار اور نجات یافتہ ہیں ورنہ کوئی قبول کرنے کی راہ نہیں کیونکہ حضرت مسیح تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہوتا تو اگر تم پہاڑ کو کہتے کہ یہاں سے چلا جاتو وہ چلا جاتا مگر خیر مَیں اس وقت پہاڑ کی نقل مکانی تو آپ سے نہیں چاہتا کیونکہ وہ ہماری اِس جگہ سے دور ہیں لیکن یہ تو بہت اچھی تقریب ہوگئی کہ بیمار تو آپ نے ہی پیش کردیئے اِب آپ ان پر ہاتھ رکھو اور چنگا کرکے دکھلاؤ ورنہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہاتھ سے جاتا رہے گا مگر آپ پر یہ واضح رہے کہ یہ الزام ہم پر عائدنہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن کریم میں ہماری یہ نشانی نہیں رکھی کہ بالخصوصیّت تمہاری یہی نشانی ہے کہ جب تم بیماروں پر ہاتھ رکھوگے تو اچھے ہوجائیں گے ہاں یہ فرمایا ہے کہ میں اپنی رضا اور مرضی کے موافق تمہاری دُعائیں قبول کرونگا اور کم سے کم یہ کہ اگر ایک دُعا قبول کرنے کے لائق نہ ہو اور مصلحتِ الٰہی کے مخالف ہو تو اس میں اطلاع دیجائیگی یہ کہیں نہیں فرمایا کہ تم کو یہ اقتدار دیا جائیگا کہ تم اقتداری طور پر جو چاہو وہی کر گذروگے ۔ مگر حضرت مسیح کا تو یہ حکم معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیماروں وغیرہؔ کے چنگا کرنے میں اپنے تابعین کو اختیار بخشتے ہیں جیسا کہ متی ۱۰ باب ۱ میں لکھا ہے پھر اُس نے بارہ شاگردوں کو پاس بلا کے انہیں قدرت بخشی کہ ناپاک رُوحوں کو نکالیں اور ہر طرح کی بیماری اور دُکھ درد کو دُور کریں ۔ اب یہ آپکا فرض اور آپکی ایمانداری کا ضرور نشان ہو گیا کہ آپ ان بیماروں کو چنگا کرکے دکھلادیں یا یہ اقرار کریں کہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ہم میں ایمان نہیں اور آپکو یاد رہے کہ ہر ایک شخص اپنی کتاب کے موافق مؤاخذہ کیا جاتا ہے ۔ ہمارے قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھاکہ تمہیں اقتدار
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 155
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 155
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/155/mode/1up
دیا جائیگا بلکہ صاف فرمادیا کہ ۱یعنی انکو کہدو کہ نشان اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جس نشان کو چاہتا ہے اُسی نشان کو ظاہر کرتا ہے بندہ کا اُسپر زور نہیں ہے کہ جبر کے ساتھ اُس سے ایک نشان لیوے یہ جبر اور اقتدار تو آپ ہی کی کتابوں میں پایا جاتا ہے بقول آپ کے مسیح اقتداری معجزات دکھلاتا تھا اور اُس نے شاگردوں کو بھی اقتدار بخشا۔ اور آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ اب بھی حضرت مسیح زندہ حیّ قیّوم قادر مطلق عالم الغیب دن رات آپ کے ساتھ ہے جو چاہو وہی دے سکتا ہے پس آپ حضرت مسیح سے درخواست کریں کہ ان تینوں بیماروں کو آپ کے ہاتھ رکھنے سے اچھاکر دیویں تا نشانی ایمانداری کی آپ میں باقی رہ جاوے ورنہ یہ تو مناسب نہیں کہ ایک طرف اہل حق کے ساتھ بحیثیت سچے عیسائی ہونے کے مباحثہ کریں اور جب سچے عیسائی کے نشان مانگے جائیں تب کہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں اس بیان سے تو آپ اپنے پر ایک اقبالی ڈگری کراتے ہیں کہ آپ کا مذہب اسوقت زندہ مذہب نہیں ہے لیکن ہم جس طرح پر خدا تعالیٰ نے ہمارے سچے ایماندار ہونے کے نشان ٹھہرائے ہیں اس التزام سے نشان دکھلانے کو تیار ہیں اگر نشان نہ دکھلاسکیں تو جو سزا چاہیں دے دیں اور جس طرح کی چُھری چاہیں ہمارے گلے میں پھیر دیں اور وہ طریق نشان نمائی کا جسکے لئے ہم مامور ہیں وہ یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے جو ہمارا سچا اور قادر خدا ہے اس مقابلہ کے وقت جو ایک سچے اور کامل نبی کا انکار کیا جاتا ہے تضرع سے کوئی نشان مانگیں تو وُہ اپنی مرضی سے نہ ہمارا محکوم اور تابع ہو کر جس طرح سے چاہے گا نشان دکھلائے گا آپ خوب سوچیں کہ حضرت مسیح بھی باوجود آپ کے اس قدر غلو کے اقتدار ی نشانات کے دکھلانے سے عاجز رہے دیکھئے مرقس ب ۸۔۱۱،۱۲ ۔ آیت میں یہ لکھا ہے ۔ تب فریسی نکلے اور اس سے حجت کر کے یعنی جس طرح اب اسوقت مجھ سے حجت کی گئی ۔ اس کے امتحان کیلئے آسمان سے کوئی نشان چاہا اُس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کے کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائیگا اَب دیکھئے کہ یہودیوں نے اسی طرز سے نشان مانگا تھا حضرت مسیح نے آہ کھینچ کر نشان دکھلانے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 156
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 156
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/156/mode/1up
سےؔ انکار کردیا پھر اس سے بھی عجب طرح کا ایک اور مقام دیکھئے کہ جب مسیح صلیب پر کھینچے گئے تو تب یہودیوں نے کہا کہ اُس نے اوروں کو بچایا پر آپ کو نہیں بچا سکتا اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب سے اُتر آوے تو ہم اسپر ایمان لاویں گے اب ذرا نظر غور سے اس آیت کو سوچیں کہ یہودیوں نے صاف عہد اور اقرار کر لیا تھا کہ اب صلیب سے اُتر آوے تو وہ ایمان لاوینگے لیکن حضرت مسیح اُتر نہیں سکے ان تمام مقامات سے صاف ظاہر ہے کہ نشان دکھلانا اقتداری طور پر انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ ایک اور مقام میں حضرت مسیح فرماتے ہیں یعنی متی ب۱۲۔ آیت ۳۸کہ اس زمانہ کے بد اور حرام کار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سواکوئی نشان دکھلایا نہ جائیگا اب دیکھئے کہ اِس جگہ حضرت مسیح نے اُنکی درخواست کو منظور نہیں کیا بلکہ وہ بات پیش کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُنکو معلوم تھی اِسی طرح مَیں بھی وہ بات پیش کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو معلوم ہے میرا دعویٰ نہ خدائی کا اور نہ اقتدار کا اور میں ایک مسلمان آدمی ہوں جو قرآن شریف کی پَیروی کرتا ہوں اورقرآن شریف کی تعلیم کے رُو سے اس موجودہ نجات کا مدعی ہوں ۔ میرا نبّوت کا کوئی دعویٰ نہیں یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ نبی بھی ہو جائے میں تو محمدؐی اور کامل طور پر اللہ و رسول کا متبع ہوں اور ان نشانوں کا نام معجزہ رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ہمارے مذہب کی رُو سے ان نشانوں کا نام کرامات ہے جو اللہ رسول ؐکی پیروی سے دیئے جاتے ہیں تو پھر مَیں دعوتِ حق کی غرض سے دوبارہ اتمام حُجّت کرتا ہوں کہ یہ حقیقی نجات اور حقیقی نجات کے برکات اور ثمرات صرف اُنھیں لوگوں میں موجود ہیں جو حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی کرنے والے اور قرآنِ کریم کے احکام کے سچے تابعدار ہیں اور میرا دعویٰ قرآن کریم کے مطابق صرف اِتنا ہے کہ اگر کوئی حضرت عیسائی صاحب اس نجات حقیقی کے مُنکر ہوں جو قرآن کریم
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 157
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 157
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/157/mode/1up
کے وسیلہ سے مل سکتی ہے تو انھیں اختیار ہے کہ وہ میرے مقابل پر نجات حقیقی کی آسمانی نشانیاں اپنے مسیح سے مانگ کر پیش کریں مگر اب بالخصوص رعایت شرائط بحث کے لحاظ سے میرے مخاطب اِس بارہ میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب ہیں ۔ صاحب موصوفؔ کو چاہیئے کہ انجیل شریف کی علامات قرار دادہ کے موافق سچا ایماندار ہونے کی نشانیاں اپنے وجود میں ثابت کریں اور اِس طرف میرے پر لازم ہوگا کہ مَیں سچا ایماندار ہونے کی نشانیاں قرآن کریم کے رُو سے اپنے وجود میں ثابت کروں مگر اِس جگہ یاد رہے کہ قرآن کریم ہمیں اقتدار نہیں بخشتا بلکہ ایسے کلمہ سے ہمارے بدن پر لرزہ آتا ہے ہم نہیں جانتے کہ وہ کِس قسم کا نشان دکھلائے گا وہی خدا ہے سوا اُسکے اور کوئی خدا نہیں ہاں یہ ہماری طرف سے اِس بات کا عہد پختہ ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ نے میرے پر ظاہر کردیا ہے کہ ضرور مقابلہ کے وقت میں فتح پاؤں گا ۔ مگر یہ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس طور سے نشان دکھلائے گا اصل مدعا تو یہ ہے کہ نشان ایسا ہوکہ انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہو یہ کیا ضرور ہے کہ ایک بندہ کو خدا ٹھہرا کر اقتدار کے طور پر اُس سے نشان مانگا جائے ہمار ایہ مذہب نہیں اور نہ ہمارا یہ عقیدہ ہے اللہ جلّ شانہٗ ہمیں صرف عموم اور کلّی طور پر نشان دکھلانے کا وعدہ دیتاہے اگر اِس میں مَیں جُھوٹا نِکلوں تو جو سزا تجویز کریں خواہ سزائے مَوت ہی کیوں نہ ہو مجھے منظور ہے لیکن اگر آپ حدِّ اعتدال و انصاف کو چھوڑ کر مجھ سے ایسے نشان چاہیں گے جس طرز سے حضور مسیح بھی دِکھلا نہیں سکتے بلکہ سوال کرنے والوں کو ایک دو گالیاں سُناویں تو ایسے نشان دکھلانے کا دم مارنا بھی میرے نزدیک کفر ہے۔
دستخط
بحروف انگریزی غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ از جانب اہل اسلام
دستخط
بحروف انگریزی ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 158
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 158
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/158/mode/1up
چھٹاؔ پرچہ
مباحثہ ۲۷ ؍مئی ۱۸۹۳ء
روئداد
آج پھر جلسہ منعقد ہوا ۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ چونکہ پادری جی ایل ٹھاکر داس صاحب بوجہ ضروری کام کے گوجرانوالہ میں تشریف لے گئے ہیں۔ اس لئے اُنکی بجائے ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب ناصر مقرر کئے جائیں ۔ تجویز منظور ہوئی ۔
پھر بہ تحریک ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب ناصر اور بتائید میر حامد شاہ صاحب اور باتفاق رائے حاضرین یہ تجویز منظور ہوئی کہ شرائط مباحثہ میں قرار دیا گیا تھا کہ ہر ایک تقریر پر تقریر کنندوں اور میر مجلس صاحبان کے دستخط ہونے چاہئیں ۔ بعوض اِسکے مَیں پیش کرتا ہوں کہ صاحب میر مجلس صاحبان کے دستخط ہی کافی متصوّر ہیں ۔
مباحثہ کے متعلق یہ قرار پایا کہ اہل اسلام کی طرف سے منشی غلام قادر صاحب فصیح اور مرزاخدا بخش صاحب اور عیسائی صاحبان کی طرف سے بابو فخر الدین اور شیخ وارث الدین صاحب ایک جگہ بیٹھ کر فیصلہ کریں اور رپورٹ کریں کہ مباحثہ کی کس قدر قیمت مناسب مقرر کی جا سکتی ہے ۔ اِسکے بعد عیسائی صاحبان کیطرف سے بتایا جائیگا کہ وہ کس قدر کاپیاں خرید سکیں گے اور یہ مباحثہ جسے عیسائی صاحبان خرید یں گے اس طرح چھپا ہوا ہو گا کہ روئداد اور مصدقہ مضامین فریقین کے لفظ بلفظ اُس میں مندرج ہونگے ۔ کسی فریق کی طرف سے اُس میں کمی بیشی وغیرہ نہیں کی جائیگی ۔
۶ بجے ۳۰ منٹ پر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے جواب لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۳۰ منٹ پر ختم ہوا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سُنایا گیا ۔ مرزا صاحب نے ۸ بجے ۵ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۹ بجے ۵ منٹ پر ختم ہوا ۔ اور اِسکے بعد ایک امر پر تنازعہ ہوتا رہا جس کا اُسی وقت فیصلہ کر کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 159
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 159
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/159/mode/1up
ہر دو میر مجلسوں کےؔ اُسپر دستخط کئے گئے جو اِس کارروائی کے ساتھ ملحق ہے ۔ فقط
دستخط
بحروف انگریزی ۔ ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ از جانب عیسائی صاحبان
دستخط
بحروف انگریزی ۔ غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ از جانب اہل اسلام
چونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب بیمار تھے اور انہوں نے اپنے آخری جواب میں ایک پہلے سے لکھی ہوئی تحریر پیش کر کے کہا کہ کوئی اور صاحب انکی طرف سے سُنا دیں ۔ اِسلئے میر مجلس اہل اسلام نے اِسپر اعتراض کیا کہ ایسی تحریر پہلے سے لِکھّی ہُوئی پیش کی جانی خلاف شرائط ہے چنانچہ اس پر ایک عرصہ تک تنازعہ ہوتا رہا ۔ آخر کار یہ قرار پایا کہ سوموار کا ایک دن اِس زمانہ مباحثہ میں ایزاد کیا جاوے اور ایسا ہی دُوسرے زمانہ میں بھی ایک دن اور بڑھا دیا جاوے ۔ علاوہ بریں یہ بھی مرزا صاحب کی رضامندی سے قرار پایا کہ اُس سوموار کے روز مسٹرعبد اللہ آتھم صاحب خدا نخواستہ صحت یاب نہ ہوں تو اُنکی جگہ کوئی اور صاحب مقرر کئے جاویں اور اِس امر کا اختیار ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کو ہوگا ۔ یہ بھی قرار پایا کہ ۲۹ تاریخ کو آخری جواب ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کا ہو اور دُوسرے زمانہ میں آخری جواب مرزا صاحب کا ہوگا ۔ وقت کا لحاظ نہ ہوگا اور گیارہ بجے کے اندر اندر کارروائی ختم ہوگی ۔ یعنی آخری زمانہ مجیب کا حق ہو گا کہ جواب دے اور اُسکے جواب کے بعد اگر وقت بچے تو سائل کو وقت نہیں دیا جاویگا اور جلسہ برخاست کیا جاویگا۔ چونکہ مذکورہ بالا اوّل الذکر امر فیصلہ طلب تھا اِس لئے اتفاق رائے سے اِسکا یُوں فیصلہ ہؤا کہ آئندہ کوئی مضمون تحریری پہلے کا لکھا ہؤا لفظ بہ لفظ نقل نہیں کرا یا جاسکتا اور یہ فیصلہ بہ تراضی فریقین ہؤا اور فریقین پر کوئی اعتراض نہیں ۔
۲۷ مئی ۱۸۹۳ ء
دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ)
دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ)
از جانب عیسائی صاحبان
از جانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 160
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 160
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/160/mode/1up
بیانؔ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
۲۷؍ مئی ۱۸۹۳ء
اوّل ۔ دربارہ راہ نجات و نشانات نجات یافتگان جو جناب مرزا صاحب نے بیان کئے ہیں ہم نے پہلے اِس سے بیان کر دیا ہے کہ ہفتہ آئندہ کے شروع میں اسکی بحث پوری شروع ہوگی اِس جگہ بھی ہم اِس قدر اشارہ کر دیتے ہیں کہ آپ کے لفظ نجا ت کی تعریف بہت ہی نامکمل ہے اور آپ کو ضرور نہ تھا کہ طریقہ نجات مسیحان کو مصنوعی اور غیر طبعی اور باطل فرماتے۔ بہر کیف جو آپ نے فرمایاہے وہ آگے دیکھا جائیگا جب ہماری باری اعتراضات کی ہوگی ۔
دوم ۔ انجیل یوحنّا کی باب ۱۰ پیش کردہ آیات کاہم کافی و وافی جواب دے چکے ہیں آپ نے بجائے اِسکے کہ اُس جواب کا کچھ نقص دکھلاتے محض بار بار تکرار ہی اسکا کیا ہے گویا کہ تکرار ہی کافی ہے اور طول کلامی ہی گویا صداقت ہے ۔یوحنّا کے باب ۱۰۔۳۶ میں جہاں لفظ مخصوص اور بھیجا ہؤا ترجمہ ہؤا ہے ہماری اس شرح پرکہ لفظ مخصوص کا اصل زبان میں بمعنے تقدیس کیا گیا ہے ۔ اور بھیجا ہوااسی پر ایماء کرتا ہے جو اُس نے فرمایا کہ مَیں آسمانی ہوں اور تم زمینی ہو ۔ یہ لفظ جتنے حوالہ آپ نے دیئے ہیں ا ور کسی بزرگ کے بارہ میں پائے نہیں جاتے ۔ یسعیا۱۳۳سطروں کے ترجمہ میں لفظ ارخومائیہے جس کے معنے بھیجا ہواہے ۔ پہلے سمویل۱۸۲ میں لفظ اپسنن ای لو معنے وہی ہیں ۔ پَیدایش ۴۵۷ میں بھی اور یرمیا ۳۵۱۳ میں لفظ بادی زی جس کے معنے جاکے ہیں اور یہ الفاظ مقام متنازعہ کے لفظ ھی گی آسے سے بہت ہی متفرق ہیں اور ان الفاظ کا تعلق مقام متنازعہ سے کچھ نہیں ہے اور جو ہم نے کہا وہ درست ہے ، کہ جس کو خدا نے مخصوص کیا اور بھیجا یعنی آسمان سے بھیجا۔
سوم ۔ کیا یہودی لوگ اسرائیل وغیرہ کو اسی لقب کے باعث کافر سمجھتے تھے ۔ یہ جناب کا سوال ہے ۔ جواب اِس کا ہم بار بار دے چکے مگر افسوس کہ جناب کسی باعث سے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 161
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 161
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/161/mode/1up
اِسؔ کو نہ سمجھے ۔ گزشتہ بحث پر جناب نظر غورپھر فرما کر دیکھ لیں اور یہ خصوصیت اور کسی بزرگ کے ساتھ نہ تھی جو مسیح کے ساتھ تھی ۔
چہارم ۔ اس کا بھی لوگ انصاف کر لیں گے جو مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے صرف لفظ کے ساتھ نجات کادعویٰ کیا ہے اور صرف لفظ ہی استعمال کیا ہے ۔ کیوں صاحب ہماری آیات محولہ کتب مقدسہ سے کس لئے بے توجگی رہی ۔ کیوں نہ ان کا کچھ نقص دکھلایا گیا پیشتر اس سے کہ بے توجگی رکھی جاتی ۔
پنجم ۔ مرقس کے باب ۱۶ کے بموجب جو مرزا صاحب ہم سے نشان طلب کرتے ہیں بجواب اُس کے واضح ہوکہ وعدہ کی عمومیت پر ہمارا کچھ عذر نہیں کہ جو ایمان لائے اُس کے ساتھ یہ علامتیں ہوں ۔ اِلّا سوال یہ ہے کہ اُس وعدہ کی عمومیت کے ساتھ کیا معرفت بھی عام ہے ؟ کیا حواری اس ضعفِ ایمانی کے واسطے کہ اُنہوں نے معتبر گواہوں کی گواہی اور خداوند کے وعدہ کی باتیں اور انبیاء سلف کی پیش خبریاں نہ مانی تھیں ؟ جھڑکی نہ کھائی تھی کہ اور کیا ہمارے خداوند کا یہ دستور نہ تھا کہ جس کو وہ تنبیہ فرماتا تھا اُسی کو تقویت بھی بخشتاتھا ۔
اور جب اُس نے ایسا فرمایا کہ تم جاؤ دنیا میں کہ جب کوئی ایمان لاوے گا ۔ اُسکے ساتھ یہ نشان ہونگے تو اِس کا مطلب یہ نہ ہوا کہ معجزہ کی بابت تم ضعیف الایمان ہوئے۔ اب آئندہ کو معجزات تمہارے ہاتھ سے بہ نکلیں گے ۔ کیا یہ جھڑکی ہمارے اس زمانہ کے پادریوں نے بھی کھائی تھی ۔ یہ تو ہم نے تسلیم کیا کہ وعدہ عام ہے لیکن اس کو دکھلاؤ کہ معرفت بھی عام ہے جسکے وسیلہ سے یہ امر پورا ہونیوالا ہے ۔ ہم نے باب ۱۶مرقس سارا آپ کو سُنا دیا ہے جو ہم نے بیان کیا ۔ یہی صُورت وہاں موجود ہے یا نہیں۔ پس جب معرفت خاص تھی تو حواریوں کے زمانہ کے بعد اس وعدہ کی کشش بے جا ہے کہ نہیں۔
تکمیل اس وعدہ کے بارہ میں اعمال ۸۱۴دیکھو کہ کیا یہ لکھا ہے یا نہیں کہ یوحنّا اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 162
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 162
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/162/mode/1up
پطرس رسول جب سامریا میں گئے اور بہت سے لوگوں کو مسیحی پایا تو اُن سے سوال کیا کہ تم نے رُوح القدس بھی پائی ہے یا نہیں ۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ رُوح القدس کی بابت ہم ؔ نے سُنا تک نہیں تب اُنہوں نے پُوچھا کہ تم نے کس کے ہاتھ سے بپتسما پایا اُنہوں نے کہا کہ یوحنّا اصطباغی کے ہاتھ سے ۔ تب اُنہوں نے ہاتھ اُن کے سر پر رکھے اور اُنکو رُوح القدس ملی ۔ اِس نظیر سے کیا ثابت نہ ہوا کہ ہماری شرح صحیح اور سچّی ہے اور کیا جناب کی کشش وعدہ عام معجزات کی تا ابد غلط ہے ۔
پہلے قرنتیوں کے ۱۲ باب میں ۴ آیت سے معلوم ہوتا ہے ۔ پر رُوح ایک ہی ہے اور خدمتیں بھی طرح طرح کی ہیں اور خدا وند ایک ہی ہے اور تاثیریں طرح طرح کی ہیں پر خدا ایک ہی ہے جو سبھوں میں سب کچھ کرتا ہے ۲۸۔ اور خُدا نے کلب میں کتنوں کو مقرب کیا اور پہلے رسولوں کو دوسرے نبیوں کو تیسرے اُستادوں کو بعد اس کے کرامتیں تب چنگا کرنے کی قدرتیں وغیرہ ۔ ۳ آیت مدد گاریاں پیشوایاں طرح طرح کی زبانیں کیا سب رسول ہیں ؟ کیا سب نبی ہیں کیا سب اُستاد ہیں ۔ کیا سب کرامتیں دکھاتے ہیں؟ کیا سب کو چنگا کرنے کی قدرت ہے ؟ کیا طرح طرح کی زبانیں سب بولتے ہیں ؟ کیا سب ترجمہ کرتے ہیں ۔ اِن امور سے صاف ظاہر ہے کہ اُس زمانہ میں کہ جب حواری موجود تھے ہر ایک مومن کسی بخشش کو عطیّہ الٰہی سے پیش کرتا تھا کہ کسی کو یہ امر آتا تھا اور کسی کو وہ اورکوئی بغیر معجزہ کے نہ تھا لیکن کلام الٰہی نے پہلے قرنتیوں ۲و۸۱۳ میں یہ فرمایا اور اگر میں نبّوت کروں اور اگر مَیں غیب کی سب باتیں اور سارے علم جانوں اور میرا ایمان کامل ہو یہاں تک کہ مَیں پہاڑوں کو چلاؤں پر محبّت نہ رکھوں تو میں کچھ نہیں ہوں محبت کبھی جاتی نہیں رہتی اگر نبوتیں ہیں تو موقوف ہونگی اگر زبانیں ہیں تو بند ہوجائیں گی اگر علم ہے تو لا حاصل ہوجائے گا۔ اور آخری آیت میں لکھا ہے ۔ اب تو ایمان اُمید اور محبت یہ تینوں موجود رہتی ہیں پر اِن میں جو بڑھ کر ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 163
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 163
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/163/mode/1up
محبت ہے ۔ کیونکہ ایمان جب دوبدو ہوگیا تو ایمان رہا امید جب حاصل ہوگئی تو اتمام پاگئی مگر محبت کبھی اتمام نہیں پاتی اور یہ بھی یاد رہے محبت خاص نام خدا کاہے کہ خدا محبت ہے ۔ ان سب امور سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ معجزات جیسے کہ ہمیشہ کے واسطے موعود نہیں ہوئے ویسے ہی نجات کے بارہ میں سب سے اُوپر اِن کا درجہؔ نہیں ۔ لیکن ایک وقت کے واسطے جب نئی تعلیم دی گئی اِس کی تصدیق اور قائمی کے واسطے معجزے بخشے گئے اور اگر ہمیشہ معجزے ہوا کریں تو تاثیر معجزہ ہونے کی کچھ نہ رہے خلاصہ جس آیت سے جناب نے وعدہ عام کی کشش کی ہے ہم یہ دکھلاتے ہیں کہ اسکے متعلق معرفت بھی ہے اور وہ معرفت محض خاص ہے ۔ اور متن کلام باب ۱۶ مرقس کو دیکھ کر جناب اِس بیان کو کسی طرح سے غلط نہ ٹھہرا سکیں گے ۔
ششم ۔جناب فرماتے ہیں کہ مسیح نے بھی اقتداری معجزے دکھلانے سے انکار کیا ۔ لیکن یہ جناب کی زیادتی ہے کہاں انکار کیا ؟ کیا جب لوگ نشان آسمانی کو دیکھ کر واسطے ٹھٹھ کرنے کے اور نشان آسمانی مانگتے تھے تو ارشاد ہوا کہ اس بد اور حرامکار گروہ کو کوئی نشان نہ دکھلایا جاوے گا ۔ اب انصاف فرمائیے کہ کیا نشان کے نہ دکھانے کے معنے یہ ہیں کہ نشان نہیں دکھلایا جاسکتا ۔ کیا کوئی قادر شخص اگر یہ کہے کہ میں فلاں امر نہ کروں گا ۔ تو اسکے معنے یہ ہیں کہ وہ نہیں کرسکتا ؟
متی ۹ اور یوحّنا ۱۱ اور لوقا۷ وغیرہ ابواب میں نظائر معجزات صاف صاف دیکھ لو ۔ مجھے تو جناب کے فہم و ذکا سے اِس سے زیادہ اُمّید تھی کہ آپ ایسے معنے نہ کریں ۔
ہفتم ۔ آپ جو فرماتے ہیں کہ مسیح نے دو گالیاں دیں ۔ کیا بد کو بد کہنا گالی ہے اور یا حرامزادہ کو حرامزادہ کہنا گالی ہے ۔ اگر جناب اسلام کے داب کلام کے موافق بھی کچھ کرتے تو ایک نبی اُولو العزم اور معصوم کے اُوپر ایسی بے مہذ بانہ کلام نہ کرتے ۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 164
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 164
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/164/mode/1up
اس کے واسطے ہم افسوس کرتے ہیں کہ نبیوں کی بابت یہ کہا جائے کہ گالیاں دیتے تھے ۔ (باقی آئندہ )
دستخط (بحروف انگریزی )
ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ)
دستخط
غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ)
از جانب عیسائی صاحبان
از جانب اہل اسلام
بیانؔ ؔ حضرت مرزا صاحب
ڈپٹی صاحب سے میرا یہ سوال تھا کہ آپ جو حضرت عیسٰی ؑ کو خدا ٹھہراتے ہیں تو آپ کے پاس حضرت موصوف کی الوہیت پر کیا دلیل ہے کیونکہ جبکہ دُنیا میں بہت سے فرقے اور قومیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ اُنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں اور رہبروں کو خُدا ٹھہرا رکھا ہے جیسے ہندوؤں کا فرقہ اور بُدھ مذہب کے لوگ اور وہ لوگ بھی اپنے اپنے پُرانوں اور شاستروں کے رُو سے اُنکی خدائی پر منقولی دلائل پیش کیا کرتے ہیں بلکہ اُنکے معجزات اور بہت سے خوارق بھی ایسی شدّومد سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس اُنکی نظیر نہیں جیسے کہ راجہ رامچندر صاحب اور راجہ کرشن صاحب اور برہما اور بشن اور مہا دیو کی کرامات جو وہ بیان کرتے ہیں آپ صاحبوں پر پوشیدہ نہیں تو پھر ایسی صورت میں ان متفرق خداؤں میں سے ایک سچا خدا ٹھہرانے کے لئے ضرور نہیں کہ بڑے بڑے معقولی دلائل کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ دعوے میں اور منقولی ثبوتوں کے پیش کرنے میں تو وہ سب صاحب آپکے شریک ہیں بلکہ منقولات کے بیان کرنے میں شریک غالب معلوم ہوتے ہیں اور مَیں نے ڈپٹی صاحب موصوف کو صرف اسی قدر بات کی طرف توجّہ نہیں دلائی بلکہ قرآن کریم سے عقلی دلائل نکال کر ابطال الوہیت مسیح پرپیش کئے کہ انسان جو اور تمام انسانوں کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 165
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 165
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/165/mode/1up
لوازم اپنے اندر رکھتا ہے کسی طرح خدا نہیں ٹھہر سکتا۔ اور نہ کبھی یہ ثابت ہوا کہ دُنیا میں خدا یا خدا کا بیٹا بھی نبیوں کی طرح وعظ اور اصلاح خلق کیلئے آیا ہومگر افسوس کہ ڈپٹی صاحب موصوف نے اس کا کوئی جواب شافی نہ دیا ۔ میری طرف سے یہ پہلے شرط ہوچکی تھی کہ ہم فریقین دعوےٰ بھی اپنی کتاب الہامی کا پیش کریں گے اور دلائل معقولی بھی اسی کتاب الہامی کی سُنائی جائیں گی۔ مگر ڈپٹی صاحب موصوف نے بجائے اِسکے کہ کوئی معقولی دلیل حضرت عیسٰی ؑ کے خدا یا خدا کا بیٹا ہونے پر پیش کرتے دعوے پر دعوے کرتے گئے اور بڑا ناز اِن کو اِن چند پیشگوئیوں پر ہے جو اُنہوں نے عبرانیوں کےؔ خطوط اور بعض مقامات بائیبل سے نکال کر پیش کئے ہیں مگر افسوس کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایسی پیشگوئیاں جب تک ثابت نہ کی جاویں کہ درحقیقت وہ صحیح ہیں اور ان کا مصداق حضرت مسیحؑ نے اپنے تئیں ٹھہرالیا ہے اور اس پر دلائل عقلی دی ہیں تب تک وہ کسی طور سے دلائل کے طور پر پیش نہیں ہو سکتیں بلکہ وہ بھی ڈپٹی صاحب کے دعاوی ہیں جو محتاج ثبوت ہیں ۔ ان دعاوی کے سوائے ڈپٹی صاحب نے اب تک حضرت مسیح کی الوہیّت ثابت کرنے کے لئے کچھ بھی پیش نہیں کیا اور مَیں بیان کرچکا ہوں کہ حضرت مسیحؑ یوحّنا ۱۰ باب میں صاف طور سے اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہلانے میں دُوسروں کا ہمرنگ سمجھتے ہیں اور کوئی خصوصیّت اپنے نفس کے لئے قائم نہیں کرتے حالانکہ وہ یہودی جنہوں نے حضرت مسیح کو کافر ٹھہرایا تھا اُن کا سوال یہی تھا ۔ اور یہی وجہ کافر ٹھہرانے کی بھی تھی کہ اگر آپ درحقیقت خدا کے بیٹے ہیں تو اپنی خدائی کا ثبوت دیجئے لیکن انہوں نے کچھ بھی ثبوت نہ دیا افسوس کہ ڈپٹی صاحب اِس بات کو کیوں سمجھتے نہیں کہ کیا ایسا ہونا ممکن تھا کہ سوال دیگر و جواب دیگر ۔ اگر حضرت مسیحؑ درحقیقت اپنے تئیں ابن اللہ ٹھہراتے تو ضرور یہی پیشن گوئیاں وہ پیش کرتے جو اَب ڈپٹی صاحب پیش کر رہے ہیں اور جبکہ اُنہوں نے وہ پیش نہیں کیں تو معلوم ہوا کہ اُن کا وہ دعویٰ نہیں تھا اگر اُنہوں نے کسی اور مقام میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 166
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 166
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/166/mode/1up
پیش کر دی ہیں اور کسی دوسرے مقام میں یہودیوں کے اس بار بار کے اعتراض کوا س طرح پر اٹھا دیا ہے کہ میں درحقیقت خدا اور خدا کا بیٹا ہوں اور یہ پیشگوئیاں میرے حق میں وارد ہیں اور خدائی کا ثبوت بھی اپنے افعال سے دکھلا دیا ہے تا اس متنازعہ فیہ پیشگوئی سے ان کوَ مخلصی حاصل ہو جاتی تو برائے مہربانی وہ مقام پیش کریں۔ اب کسی طور سے آپ اس مقام کو چھپا نہیں سکتے۔ اور آپ کی دوسری تاویلات تمام رکیک ہیں۔ سچ یہی بات ہے کہ مخصوص کا لفظ اور بھیجا گیا کا لفظ عہد عتیق میں اور نیز جدید میں عام طور پر استعمال پایا ہے۔ آپ پر یہ ایک ہمارا قرضہ ہے جو مجھے ادا ہوتا نظر نہیں آتا جو آپ نے حضرت مسیحؑ کی خدائی کا تو ذکر کیا لیکن ان کی خدائی کا معقولی طور پر کچھ بھی ثبوت نہ دے سکے اور دوسرے خداؤں کی نسبت اس میں کچھ مابہ الامتیاز عقلی طور پر قائم نہ کرسکے بھلا آپ فرماویں کہؔ عقلی طور پر اس بات پر کیا دلیل ہے کہ راجہ رام چندر اور راجہ کرشن اور بدھ یہ خدا نہ ہوں اور حضرت مسیحؑ خدا ہوں۔ اور مناسب ہے کہ اب بعد اس کے آپ بار بار ان پیشگوئیوں کا نام نہ لیں جوخود حضرت مسیحؑ کے طرز بیان سے رد ہوچکی ہیں اور حضرت مسیحؑ ضرورت کے وقت ان کو اپنے کام میں نہیں لائے بیشک ہر ایک دانا اس بات کو سمجھتا ہے کہ جب وہ کافر ٹھہرائے گئے اور ان پر حملہ کیا گیا اور ان پر پتھراؤ شروع ہوا تو ان کو اس وقت اپنی خدائی کے ثابت کرنے کے لئے ان پیشگوئیوں کی اگر وہ درحقیقت حضرت مسیحؑ کے حق میں تھیں اور ان کی خدائی پر گواہی دیتی تھیں سخت ضرورت پڑی تھی۔ کیونکہ اس وقت جان جانے کا اندیشہ تھا اور کافر تو قرار پا چکے تھے تو پھر ایسی ضروری اور کار آمد پیشگوئیاں کس دن کے لئے رکھی گئی تھیں کیوں نہیں پیش کیں۔ کیا آپ نے اس کا کوئی کبھی جواب دیا۔ پھر ہم ان پیشگوئیوں کو کیا کریں اور کس عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور کیونکر حضرت مسیحؑ کو دنیا کے دوسرے مصنوعی خداؤں سے الگ کرلیں۔اللہ جلّ شانہٗقرآن کریم میں فرماتا ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 167
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 167
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/167/mode/1up
۔۔۱(س ۱۰ ر۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہا بعض یہود نے کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور کہا نصاریٰ نے مسیح خدا کا بیٹا ہے یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں جن کا کوئی بھی ثبوت نہیں ریس کرنے لگے ان لوگوں کی جو پہلے اس سے کافر ہوچکے یعنی جو انسانوں کو خدا اور خدا کے بیٹے قرار دے چکے یہ ہلاک کئے جائیں کیسے یہ تعلیم سے پھر گئے۔ انہوں نے اپنے عالموں کو اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا پروردگار ٹھہرا لیا۔ اور ایسا ہی مسیح ابن مریم کو حالانکہ ہم نے یہ حکم کیا تھا کہ تم کسی کی بندگی نہ کرومگر ایک کی جو خدا ہے جس کاکوئی شریک نہیں۔ چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں کی پھونکوں سے حق کو بجھا ویں اور اللہ تعالیٰ باز نہیں رہے گا جب تک اپنے نور کو پورا نہ کرے اگرچہ کافر ناخوش ہوں وہ وہی خدا ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تا وہ دین سب دینوں پر غالب ہو جائے۔ اگرچہ مشرک ناخوش ہوں‘‘۔ اب دیکھئے کہ ان آیات کریمہ میں اللہ جلّ شانہٗ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ عیسائیوں سے پہلے یہودی یعنی بعض یہودی بھی عزیر کو ابن اللہ قرار دے چکے اور نہ صرف وہی بلکہ مقدم زمانہ کے کافر بھی اپنے پیشواؤں اور اپنے اماموں کو یہی منصب دے چکے پھر ان کے پاس اس بات پر کیا دلیل ہے کہ وہ لوگ اپنے اماموں کو خدا ٹھہرانے میں جھوٹے تھے اور یہ سچے ہیں۔ اور پھر اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ یہی خرابیاں دنیا میں پڑ گئی تھیں جن کی اصلاح کے لئے اس رسول کو بھیجا گیا تا کامل تعلیم کے ساتھ ان خرابیوں کو دور کرے کیونکہ اگر یہودیوں کے ہاتھ میں کوئی کامل تعلیم ہوتی۔ تو وہ برخلاف توریت کے اپنے عالموں اور درویشوں کو ہرگز خدا نہ ٹھہراتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ کامل تعلیم کے محتاج تھے۔ جیسا کہ حضرت مسیحؑ نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ ابھی بہت سی باتیں تعلیم کی باقی ہیں کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 168
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 168
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/168/mode/1up
تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے یعنی جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتادے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن وہ جو کچھ سنے گی وہ کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی۔ حضرات عیسائی صاحبان اس جگہ روح حق سے روح القدس مراد لیتے ہیں اور اس طرف توجہ نہیں فرماتے کہ روح القدس تو ان کے اصول کے موافق خدا ہے تو پھر وہ کس سے سنے گا۔ حالانکہ لفظ پیشگوئی کے یہ ہیں کہ جو کچھ وہ سنے گی وہ کہے گی۔ اب پھر ہم اس پہلے مضمون کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ ڈپٹی صاحب موصوف نے تو حضرت مسیح کے خدا ہونے پر کوئی معقولی دلیل انجیل سے پیش نہ کی۔ لیکن ہم ایک اور دلیل قرآن کریم سے پیش کر دیتے ہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے
۱(پارہ ۲۱ رکوع ۷) یعنی اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ پھر تمہیں رزق دیا پھر تمہیں مارے گا پھر زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے معبودوں میں سے جو انسانوں میں سے ہیں کوئی ایسا کرسکتا ہے۔ پاک ہے خدا ان بہتانوں سے جو مشرک لوگ اس پر لگا رہے ہیں۔ پھر فرماتا ہے۔ کیا انہوں نے خدا تعالیٰ کے شریک ایسی صفات کے ٹھہرا رکھے ہیں کہ جیسے خدا تعالیٰ خالق ہے وہ بھی خالق ہیں تا اس دلیل سے انہوں نے ان کو خدا مان لیا۔ ان کو کہہ دے کہ ثابت شدہ یہی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہرایک چیز کا ہے اور وہی اکیلا ہرایک چیز پر غالب اور قاہر ہے۔ اس قرآنی دلیل کے موافق ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب سے میں نے دریافت کیا تھا کہ اگر آپ صاحبوں کی نظر میں درحقیقت حضرت مسیحؑ خدا ہیں تو ان کی خالقیت وغیرہؔ صفات الوہیت کا ثبوت دیجئے۔ کیونکہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ خدا اپنی صفات کو آسمان پر چھوڑ کر نرا مجرد اور برہنہ ہوکر دنیا میں آجائے اس کی صفات اس کی ذات سے لازم غیر منفک ہیں اور کبھی تعطل جائز نہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ خدا ہوکر پھر خدائی کی صفات کاملہ ظاہر کرنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 169
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 169
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/169/mode/1up
سے عاجز ہو اس کا جواب ڈپٹی صاحب موصوف مجھے یہ دیتے ہیں کہ جوکچھ زمین آسمان میںآفتاب و ماہتاب وغیرہ چیزیں مخلوق پائی جاتی ہیںیہ مسیح کی بنائی ہوئی ہیں۔ اب ناظرین اس جواب کی خوبی اور عمدگی کا آپ ہی اندازہ کرلیں کہ یہ ایک دلیل پیش کی گئی ہے یادوسراایک دعویٰ پیش کیاگیا ہے۔ کیا ایسا ہی ہندو صاحبان نہیں کہتے کہ جوکچھ آسمان و زمین میں مخلوق پائی جاتی ہے وہ راجہ رام چندر صاحب نے ہی بنائی ہوئی ہے۔ پھر اس کا فیصلہ کون کرے۔ پھر بعد اس کے ڈپٹی صاحب موصوف ایمانی نشانیوں کو کسی خاص وقت تک محدود قرار دیتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح ؑ صاف لفظوں سے فرما رہے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے برابر بھی ایمان ہو تو تم سے ایسی ایسی کرامات ظاہر ہوں۔ پھر ایک مقام یوحنّا ۱۴ باب ۱۲ میں آپ فرماتے ہیں۔ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے جو میں کام کرتا ہوں وہ بھی کرے گا اور ان سے بھی بڑے بڑے کام کرے گا۔ اب دیکھئے کہ وہ تاویلات آپ کی کہاں گئیں۔ اس آیت میں تو حضرت مسیحؑ نے صاف صاف فیصلہ ہی کردیا اور فرما دیاکہ مجھ پر ایمان لانے والا میرا ہمرنگ ہو جائے گا اور میرے جیسے کام بلکہ مجھ سے بڑھ کر کرے گا اور یہ فرمودہ حضرت مسیح کا نہایت صحیح اور سچا ہے کیونکہ انبیا اسی لئے آیا کرتے ہیں کہ ان کی پیروی کرنے سے انسان انہیں کے رنگ سے رنگین ہو جائے اور ان کے درخت کی ایک ڈالی بن کر وہی پھل اور وہی پھول لاوے جو وہ لاتے ہیں۔ ماسوا اس کے یہ بات ظاہر ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے اطمینان قلب کا محتاج ہوتا ہے اور ہر ایک زمانہ کو تاریکی کے پھیلنے کے وقت نشانوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ پھر یہ کیونکر ہو سکے کہ حضرت مسیحؑ کے مذہب قائم رکھنے کے لئے اوراس خلاف تحقیقات عقیدہ حضرت مسیحؑ کے ابن اللہ ٹھہرانے کے لئے کسی نشان کی کچھ بھی ضرورت نہ ہو اور دوسری قوم جن کو باطل پر خیال کیا جاتا ہے اور وہ نبی کریم صلعم جو قرآن کریم کو لایا اس کو خلاف حق سمجھا جاتا ہے اس کی پیروی کرنے والے تو قرآن کریم کے منشاء کے موافق خدا کی توفیق اور فضل سے نشان دکھلاویں مگر مسیحیوں کے نشان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہوں۔اگر مسیحیوں میں نشان نمائی کی توفیق اب موجود نہیں ہے تو پھر خود سوچ لیں کہ ان کا مذہب کیا شے ہے۔ میں پھر سہ بارہ عرض کرتا ہوں کہ جیسا کہ اللہؔ جلّ شانہٗکے سچے مذہب کی تین نشانیاں ٹھہرائی ہیں وہ اب بھی نمایاں طور پر اسلام میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 170
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 170
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/170/mode/1up
موجود ہیں۔ پھر کیا وجہ کہ آپ کا مذہب بے نشان ہوگیا اور کوئی سچائی کے نشان اس میں باقی نہیں رہے پھر آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ نے جو نشانی دکھلانے سے ایک جگہ انکار کیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے دکھلا چکے تھے میں کہتا ہوں کہ یہ آپ کا بیان صحیح نہیں ہے اگر وہ دکھلا چکتے تو اس کا حوالہ دیتے اور نیز میں یہ بھی کہتا ہوں کہ میں بھی تو آپ لوگوں کو دکھلا چکا ہوں۔
کیا آپ کو پرچہ نور افشاں ۱۰۔ مئی ۱۸۸۸ء یاد نہیں ہے جس میں بڑے دعوے کے ساتھ صاحب نور افشاں نے میری پیشگوئی کا انکار کر کے اس پرچہ میں مخالفانہ مضمون چھپوایا تھا اور وہ پیشگوئی بھی نقل کر دی تھی تو پھر وہ پیشگوئی اپنی میعاد میں پوری ہوگئی۔
اور آپ اقرار کرچکے ہیں کہ پیشگوئی بھی خوارق میں داخل ہے تو ہم نے تو ایک نشان ایسے طور پر آپ کو ثابت کر دیا کہ نور افشاں میں درج ہے۔ پھر اس کے بعد اگر آپ کی طرف سے کوئی حجت ہو تو وہ اسی حجت کے ہم رنگ ہوگی جو یہودیوں نے کی تھی جس کی تفصیل حضرت مسیح کی زبان سے آپ سن چکے ہیں مجھے کہنے کی حاجت نہیں۔ مگر میںآپ کے اقرار کے موافق کہ آپ نے مسلمان ہونے کا اقرار کیا تھا اس بات کے سننے کے لئے بہت مشتاق ہوں کہ اس پیشگوئی کو دیکھ کر آپ نے کس قدر حصہ اسلام کا قبول کر لیا ہے اور میں تو آئندہ بھی تیار ہوں۔ صرف درخواست اور تحریر شرائط کی دیر ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ گویا حضرت مسیحؑ کے حق میں َ میں نے گالی کا لفظ استعمال کرکے ایک گو نہ بے ادبی کی ہے۔ یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ میں حضرت مسیح کو ایک سچا نبی اور برگزیدہ اور خدا تعالیٰ کا ایک پیارا بندہ سمجھتا ہوں وہ تو ایک الزامی جواب آپ ہی کے مشرب کے موافق تھا اور آپ ہی پروہ الزام عائد ہوتا ہے نہ کہ مجھ پر۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ)
ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ)
ازجانب اہل اسلام
ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 171
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 171
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/171/mode/1up
ساتواںؔ پرچہ
مباحثہ ۲۹ مئی ۱۸۹۳ء
روئداد
آج پھر جلسہ منعقد ہوا۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے تجویز پیش کی کہ چونکہ مسٹرعبداللہ آتھم صاحب بیماری کی وجہ سے تشریف نہیں لاسکے اس لئے ان کی جگہ میں پیش ہوتا ہوں۔ اور میری جگہ پادری احسان اللہ صاحب میر مجلس عیسائی صاحبان مقرر کئے جاویں مرزاصاحب اور میر مجلس اہل اسلام کی اجازت سے تجویز منظور ہوئی۔
ڈاکٹر کلارک صاحب نے ۶ بجے ۱۶ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۱۵ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے ۷ بجے ۵۵ منٹ پر شروع کیا اور ۸ بجے ۵۵ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے ۹ بجے ۴۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ۳۵ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا۔ بعدازاں فریقین کی تحریروں پر پریزیڈنٹوں کے دستخط کئے گئے اور مباحثہ کے پہلے حصہ کا خاتمہ ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
احسان اللہ قائم مقام ہنری مارٹن کلارک
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
اہل اسلام
بیان ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب
قائم مقام ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب ۲۹ مئی ۹۳ ء
جناب مرزا صاحب کی کئی ایک باتیں سن کر میں بہت حیران ہوا ہوں لیکن سب سے زیادہ حیرت ان کے اس فرمانے سے ہوئی کہ آپ عقلاً کہہ سکتے ہیں کہ رام چندر اور کرشن بھی کیوں خدا تصوّر نہ کئے جائیں اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 172
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 172
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/172/mode/1up
اہل ؔ ہنود کی جو کتابیں ہیں ان کا ثبوت بھی قابل اعتبار نہ گنا جائے۔ مرزا صاحب یہ کیا آپ فرماتے ہیں انہوں نے کون سے کارِ الٰہی کئے اور ان کا کونسا دعویٰ پایہ ثبوت تک پہنچا ہوا ہے اور ایک اہل کتاب کی جو مجلس ہے اس میں ان کی نظیروں کی ضرورت کیا ہے۔ آیا عقلاً آپ المسیح اور رامچندر اور کرشن میں کوئی تمیز نہیں کرتے اور جلالی انجیل کو مقابل اہل ہنود کی کتابوں کے جانتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک نبی اللہ برحق کو اور اہل کتاب کے مسئلوں کو ُ بت پرستوں اور بت پرستوں کی کتابوں سے تشبیہ دینا ہی گناہ ہے اور اگر آپ ایسی تشبیہ دیویں تو اس کا جواب بھی آپ اللہ تعالیٰ کو دیویں۔ اہل ہنود کی جن کتابوں کا آپ نے ذکر کیا وہ تو تواریخی طور پر بھی درست نہیں ہیں۔اب ہم کس بات کو مد نظر رکھ کر زیادہ تر امتیاز کریں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ چونکہ بہت شخصوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم خدا ہیں اور ان کے یہ دعوے الوہیت کے باطل نکلے۔ لہذا مسیح نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے لہٰذا وہ بھی باطل ہے۔ جناب من یہ کیا فرماتے ہیں۔ چونکہ دس روپیہ میں نوکھوٹے ہوں آیا دسواں بھی ضرور کھوٹا ہوگا؟ اس طرح کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا موقعہ دیکھ کر اور خصوصیتیں جو ہیں سمجھ کر فتویٰ دینا چاہیئے۔ چونکہ جھوٹے دعوے ہیں آپ پر روشن ہوگا کہ سچا بھی کوئی ہوگا اگر سچے روپے نہ ہوتے تو نقلی بھی نہ ہوتے سوم ہم نے کئی پیشین گوئیاں مرزا صاحب کی خدمت میں عرض کر دی ہیں اور ان پر آپکا یہ اعتراض ہے کہ آپ دعوے کے ثبوت میں دعوے ہی پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ پیشین گوئیاں جس کا حوالہ دیتے ہو خود دعوے ہیں اور دعویٰ کا دعویٰ سے کیونکر ثبوت ہوسکتاہے۔ جناب من یہ آپ کی عجب غلط فہمی ہے۔ پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ کی کسی صورت میں دعویٰ نہیں گنی جاسکتیں بلکہ صداقتیں ہیں اور ہم ان کو دعوے کے طور نہیں تسلیم کرتے لیکن اپنے مالک کے فرمان کے طور قبول کرتے ہیں۔ کسی فرد بشر کی جرأت ہے کہ اپنے پیدا کنندہ اور پرورش کرنے والے کے فرمان کو دعوے کہے اور ان کو پرکھنا بھی ہمارا حق نہیں کیونکہ اگر ایک پیشگوئی ہے تو وہ علاقہ رکھتی ہے زمانہ استقبال سے نہ کہ زمانہ حال سے اب جس منزل تک ہم پہنچتے ہی نہیں ہیں وہاں کی باتوں کا ہم فیصلہ ہی کیا کریں۔ ہمارا حق ہے کہ نبی کو پرکھیں اورتسلی اپنی کرا لیں کہ یہ بالضرور نبی اللہ ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 173
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 173
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/173/mode/1up
اور جب ہم نے معلوم کر لیا پیغام جووہ ہمیں پہنچاتا ہے نہ اس کا جاں کے پر اس کے مالک اور اپنے مالک کا جان کے شکر اور ادب سے تسلیم کرنا چاہیئے۔ پیشگوئی جب نازل ہوتی ہے تو تسلیم کی جاتی ہے اور جب پوری ہوتو درجہؔ تکمیل تک پہنچتی ہے۔ جو باتیں حال وارد نہیں ہوئیں ان میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کون تمیز کرسکتا ہے۔ اب جناب من دیکھئے گا۔ عہد عتیق میں کئی نبی اللہ تعالیٰ کی اطلاع دیتے ہیں ازجانب اللہ کے کہ یہ یہ باتیں ہوں گی۔ عہد جدید جو وہ بھی کلام برحق ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے کئی اور تحریر فرماتے ہیں کہ یہ ہدایت خدا کی کہ وہ جو میرے فلانے فلانے بندے فلانے فلانے موقعہ پر کہہ گئے تھے آج اور اس موقعہ پر پورا ہوتا ہے۔ صاحب من ناگزیر ہے کہ ہم مانیں۔ گریزخلاف فطرت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت اور فرمان سب شہادتوں سے بڑھ کر ہے۔ جناب کی خدمت میں تین فہرست پیش کی گئی تھیں جن میں پرانے عہد نامہ کی پیشگوئیاں معہ حوالہ جات نئے عہد نامہ کے جہاں وہ پوری ہوتی ہیں لکھی گئی تھیں چھ سو سات سو آٹھ سو برس پیشتر جو اللہ کے نبی کہہ گئے نقطہ نقطہ پورے ہوتے دیکھے۔ مرزائے من اگر اب بھی دعویٰ مانیں تو سوائے ضد اور تعصب کے کچھ نہیں۔ آپ نے یہ بھی استفسار کیا تھا کہ آیاالمسیح نے خود کبھی اپنی ہی زبان مبارک سے ان پیشگوئیوں میں سے اپنے حق میں تسلیم کیا ہے یا نہیں۔ جناب من نہ ایک دفعہ نہ دو دفعہ بلکہ کئی دفعہ اور نہ ایک کو اور نہ دو کو بلکہ سب کو۔ دیکھئے متی کا ۲۲ باب آیت اکتالیس سے ۴۶ تک۔ یوحنا کے۵ ۳۹متی باب ۱۱۔ ۱۰ بالمقابل ملاکی نبی ۳ باب ۱ ۔لوقا باب ۲۴۔ ۲۷ متی باب ۶ ۔ ۱۷ چہارم۔ یوحنا باب۱۰۔ ۳۵ کے بارہ میں جناب نے استفسار فرمایا۔ بارہا خدمت میں عرض کی گئی۔ نہ معلوم کیا ماجرا ہے کہ خیال شریف میں بات نہیں آئی۔ آخری التماس میں یہ کرتا ہوں۔ اس آیت کو آپ اس لئے گرفت کرتے ہیں کہ اس میں الوہیت کا انکار ہے برعکس اس کے المسیح اس موقعہ پر اپنی الوہیت کا بہت ہی پختہ دعویٰ کرتا ہے۔ گو یہودیوں کو آپ یہ فرماتا ہے۔ ابتدا میں کلام تھا کلام خدا کے ساتھ تھا کلام خدا تھا۔ کلام مجسم ہوا وہ لوگ جن کے پاس کلام اللہ پہنچا اس کلام کی برکت سے الٰہی ہونے کے قابل ٹھہرائے گئے گویا کلام کی پیروی کی جاکر کے یہ برکت ان کو مل گئی۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 174
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 174
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/174/mode/1up
جن کے پاس کلام پہنچا اور ان کا اتنا درجہ ہوگیا تو تم کلام مجسم کو کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے حیف تمہاری عقلوں پر۔ وہ خاص لفظیں جو غور کے لائق ہیں دو ہیں مخصوص کیا اور بھیجا۔ آپ نے تو چند عبارات لکھائی تھیں کہ ان میں بھی یہ ہیں۔
لیکن تلاش کرنے سے پتہ ندارد آپ کے حوالہ غلط نکلے یونانی بھی جیسے آپ کی خدمت میں عرضؔ کردی۔ آپ نے فرمایا بہت اور حوالہ ہیں اطلاع نہ بخشی کسی کی۔ اس پر غور کریئے۔ بھیجا مسیح کا بھیجا جانا اور ہی طرح کا تھا۔ یوحنا باب ۲۸ ۱۶ باپ میں سے نکلا اور دنیا میں آیا ہوں۔ اگر اس میں الوہیت کا انکار ہے تو آپ فرمایئے کہ کسی بندہ نے کہا کہ’’میں باپ میں سے نکلا اور پھر باپ پاس جاتا ہوں‘‘۔
جناب کا یہ فرمانا کہ المسیح کو بھیجا ہے بجا نہیں۔ ہمارا حق نہیں کہنا کہ یوں ہو یا یوں۔ جو باتیں ہوچکی ہیں ان کے موجب فیصلہ کرنا ہے ورنہ ہم صاف کہہ دیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور ان کے بزرگ نبیوں سے دانا ہیں ہم ہوتے تو یوں کہتے۔ یہ دانائی نہیں یہ افترا ہے سکندر اعظم کے ایک جرنیل تھے بنام پارمینو۔ جب ایران کو سکندر اعظم نے فتح کر لیا پارمینو کہنے لگے میں اگر سکندر اعظم ہوتا تو دارا کی بیٹی کو اپنی شادی میں لے کے اس ملک سے باہر نہ جاتا۔ سکندر اعظم نے فرمایا کہ اگر میں پارمینیو ہوتا تو میں بھی ایسا ہی کرتا اور چونکہ میں سکندر اعظم ہوں نہ پارمینیو میں کچھ اور کروں گا۔ لہٰذا چونکہ اس وقت المسیح تھے نہ کہ مرزا صاحب۔ اور یاد رکھئے کہ فقط یہ ہی ایک گفتگو یہودیوں کی نہیں ہوئی کہ سب کچھ اسی وقت ہو جاوے تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
پنجم۵۔ اگر مسیح خالق تھے تو انہوں نے کیا بنایا۔ موجب فتویٰ الٰہی کے یوحنا باب اول جواب اس کا ہے سب کچھ۔ اگر اس فتوے سے مرزا صاحب گریز کرتے ہیں تو انجیل کو ہی رد کر دیویں تو اس کو ایک کتاب انسانی و نفسانی و جھوٹوں کی بھری ٹھہرا دیویں۔
ششم۶۔ جب آپ انسان بنے تو صفات اللہ کہاں گئی۔ یہ مرزا صاحب کا سوال ہے جواب بہت مختصر اور چھوٹا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تاابد مبارک تھے اور ہیں۔ انہوں نے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 175
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 175
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/175/mode/1up
اپنے آپ کو فرو کیا۔ موجب فلپیوں کی ۲ باب ۶ آیت۔
ساتواں۔ رائی کے دانہ پر آپ کے پیر پھر پھسلے اور پہاڑوں پر جا ٹھہرے اور کیسی عجب جوتی آپ نے پشمینہ میں لپیٹ کر ہمارے سر پر چلائی کہ جاگو اٹھو ورنہ رائی بھر ایمان نہیں رہتا۔ آپ نہ گھبرایئے ایمان کہیں نہیں جاتا ہے خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہ فرمانا صرف رسولوں کے لئے ہے نہ ہمارے لئے۔ بلکہ صاف پہلے قرنطیوں کے ۱۳ ۔ ۲ میں یہ آگیا کہ ایمان تو تم میں اتنا ہو کہ پہاڑ بھی ہل جاویں اور محبت نہ ہو تو عبث ہے اور معجزات کے حق میں جو آپ نے مرقس کے ۱۶ باب کوؔ بنیاد جان کر عمارت عالی شان تیار کی تھی سو ہیچ ہے اس لئے کہ بنیاد خام ہے۔صاف آپ پر ظاہر کیا گیا کہ رسول مسیح کے بے ایمانی کی حالت میں بھی ایمان لاتے ہیں ان کو فرمایا جاتا ہے کہ اب تمہارے ساتھ یہ نشانیاں ہوں گی۔ لفظ یونانی ہے۔ پس ٹی آئی اس کے معنے ہیں جو ایمان لائے ہیں حال میں اور صیغہ یہ ہرگز نہیں جو ایمان لاویں گے بلکہ رسولوں کے زمانہ میں اختیار ہر ایک کو نہ تھا بدن ایک عضو مختلف۔ حواری پوچھتا ہے کیا سب آنکھ ہیں سب کان ہیں اور فرماتا ہے کیا سب معجزہ دکھاتے ہیں اور کرامات کرتے ہیں اور بیماروں کو چنگا کرتے ہیں علٰی ہٰذا القیاس جیسے عرض کر چکا۔ اور پھر صاف لکھا ہے بہر حالت کہ یہ جو خاص عنایات ہیں بند ہو جائیں گی اور تا ابدجو رہے گی سو محبت ہے خداوند نے صاف صاف فرما دیا کہ دائمی نشان جس سے دنیا جانے گی کہ تم میرے ہو نہ کرامات و معجزہ پر محبت ہے دیکھو یوحنا کا ۱۳ باب ۳۴و۳۵۔ اس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔ آپ نے پھر پوچھا کہ یوحنا باب ۴۱۲ ۱ کے موجب آپ پر فرض ہے کہ جو کام مسیح نے کئے سو آپ کریں بلکہ اس سے بڑھ کر کریں۔
جناب من! آپ متن پرتو غور کریئے یہاں تو اپنے حواریوں سے مخاطب ہیں نہ مجھ سے نہ آپ سے۔ جو کام میں کرتا رہا۔ تم پھر کرتے رہو گے۔ آپ نے فرمایا۔ اور بلاشبہ انہوں نے کئی دیو نکالے۔ سانپ پکڑے۔ مردے جلائے۔
اور ان سے بڑھ کر تم کام کرو گے کیونکہ میں باپ پاس جاتا ہوں اور یہ حق ہے ایسا ہی ہوا۔ کیونکہ المسیح کی منادی سے تھوڑے ہی ایمان لائے۔ پطرس کی ایک منادی سے یک لخت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 176
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 176
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/176/mode/1up
تین ہزار ایمان لائے۔ اعمال کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ فقط یہودیوں میں منادی کرتے رہے۔ شاگرد اُن کے تمام جہان میں گئے۔ تاہم یاد رکھئے کہ شاگرد اپنے استادسے بڑھ کر نہیں۔
تم مجھ سے مانگو میں کردوں گا آپ فرماتے ہیں تمہارا کام دعا کرنا ہے ۔ لہٰذا صاف لکھا ہے یہ دعا مانگتے رہے اور خداوند یسوع انجام دیتا رہا اور دے رہا ہے۔
ہشتم۔ آپ کا استفسار ہے آیا ہر زمانہ میں نشانیاں ضرور نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ابتدا میں چاہئے لیکن ہمیشہ ابتدا نہیں ہے۔ نشانیاں و معجزہ تعلیم و دین کو کامل کرتے ہیں۔
اور جوشے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کامل کی گئی اسے ایسی نامکمل نہ بھیجتے کہ دوبارہ کامل کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ آخری نشان خداوند مسیح خود تھے اور یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ جب کوئی نئی تعلیم وارد ہو تو خاص شخص چاہیئے کہ جو پیغام پہنچاوے اور خاص نشانیاں ہوں جس سے اللہ تعالیٰ ثابت کرے کہ یہ میرا مرسلؔ ہے اور یہ تعلیم میری ہے۔ لیکن اب ہزار درجہ ہیں جس سے تحقیقات ہوسکتی ہے یعنی نقلی عقلی تواریخی وغیرہ۔ جہاں کوئی کام عام طور سے ہو سکے وہاں اللہ تعالیٰ خاص طور سے نہیں کرتا ہے۔
یہودیوں کو ان جنگلوں میں جہاں خوراک نہ تھی خوراک آسمانی ملتی رہی۔جس دن ایسے ملک میں پہنچے جہاں سامان دیگر مہیا تھا من بھی دفع ہوگیا۔
معجزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر ہیں کہ یہ بندہ میرا ہے اور یہ تعلیم میری ہے۔
پھر آگے کو نہ خاص بندہ ہوتا ہے نہ خاص مہر ہوتی ہے۔ پر وہ کارخانہ عام طور سے چلایا جاتا ہے چونکہ آپ کے عقیدہ کے موجب محمدؐ صاحب نبی اللہ تھے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ جبرئیل کی معرفت ان پر نازل کرتا رہا اور شروع میں حق ہے جو ایسا ہووے۔
لیکن اب محمدؐ صاحب کی امت اس تعلیم و دین کو پھیلاتی ہے نہ کہ محمدؐ صاحب خود۔ اور قرآن بذریعہ چھپائی کے شائع کئے جاتے ہیں نہ کہ بذریعہ فرشتگان کے۔
نہم۔ خداوند مسیح معجزہ دکھانے سے کیوں انکاری ہوئے اس کے حق میں تو آتھم صاحب خلاصتًہ ذکر کرچکے۔ اس وقت بھی انکاری نہ تھے کہتے ہیں نشان تم کو ملے گا یونس نبی کا۔ آپ نے یہ پڑھ کر نہ سنایا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 177
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 177
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/177/mode/1up
جیسا وہ تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ابن آدم بھی تین دن زمین کے رحم میں رہے گا۔ اپنی موت اور دفنانے اور جی اٹھنے کی نشانی دی اور اس سے بڑھ کر معجزہ کبھی دنیا میں ہوا نہیں انہوں نے ایک معجزہ دکھایا۔ یوحنا ۵۲۱ ۲
رسول کہتا ہے کئی اور کام اس نے کیئے اور اپنا کام کا واسطہ کیا دیتے ہیں۔ دیکھئے یوحنا باب ۱۱۱۴
دسواں۔ آپ کا یہ سوال ہے کہ وہ صلیب سے کیوں نہ اتر آئے۔ کس طرح اترتے؟ اسی کام کے لئے تو جہاں میں آئے تھے کہ اپنے تئیں جہاں کا کفارہ کریں۔ ہاں اسی طرح تو شیطان نے کہا تھا کہ تو پتھروں کی روٹی بنا اور نہ انہوں نے وہ کیا نہ یہ کیا۔ کیونکہ ان ہر کاموں میں شیطان کی پرستش تھی آپ فرماتے ہیں کہ اگر اتر آتے تو یہودی فوراً ایمان لاتے یہ آپ کو کیونکر معلوم ہے کونسا دیگر معجزہ دیکھ کر ایمان لائے تھے اور ان کو جی اٹھا دیکھ کر کونسے ایماندار بنے۔ صاحبِ من تمیز کسی معجزہ سے ایمان نہیں پیدا ہوتا۔حضرت موسیٰ نے فرعون کو تھوڑے معجزہ دکھائے۔ تو بھی وہ سنگدل کافرہی رہا۔ شرط نہیں کہ ساتھ معجزہ کے ایمان بھی ہوگا۔
یعنی ؔ دیکھنے والے میں ہو نہ ہو امر الٰہی ہے۔ فرعون کی میں نے نظیر دی ہے۔
لعزر نام ایک شخص کو المسیح نے مردوں میں سے زندہ کیا۔ یہودی ایسے قہر سے بھر گئے۔ تجویز کرنے لگے کہ ان دونوں کو ہلاک کر دیں۔ صاف انجیل جلالی میں آیا ہے اگر وہ موسیٰ اور نوشتوں پر ایمان نہ لائیں( تو ) مردوں میں سے کوئی جائے گا تو وہ ایمان نہ لائیں گے۔
گیارہواں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ انسان کا بدن چار چار سال کے بعد تبدیل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کفارہ کیونکر ہوا۔ چار برس کے بعد نہیں سات برس کے بعد وقوع میں ہوتا ہے۔ خیر بدن کی تبدیلی ہو وجود نہیں بدلتا۔ جناب کی رائے میں اس باعث سے کفارہ محال تھا اب تو شائد یہ بھی مانیں گے کہ سات برس کے بعد چار برس کے بعد مرد اپنی بی بی کا خاوند نہ ٹھہرتا اور نہ اپنے بچوں کا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 178
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 178
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/178/mode/1up
والد اور نہ اپنے مال کا مالک ہوسکتا ہے۔ جب وقت خاتمہ پر آیا کیا ہی پھر خوب ہو کہ دوبارہ
نکاح ازسرنو رجسٹریاں کراوے تاکہ اس کی عزت اور ملکیت بحال رہے۔
جناب! اس طرح کے سوال اعتراضات آپ کے روشن فہمی کے لائق ہیں۔
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
احسان اللہ قائم مقام ہنری مارٹن کلارک
غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
بیان جناب مرزا صاحب
۲۹ مئی ۱۸۹۳ء
آج ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ حضرت مسیح کی الوہیت کے ثبوت کے بارہ میں پیش کیا اس کے سننے سے مجھ کو کمال درجہ کا تعجب ہوا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے منہ سے ایسی باتیں نکلیں۔ جاننا چاہیئے کہ یہ دعویٰ الوہیت کا جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے یہ کوئی چھوٹا سا دعویٰ نہیں ایک عظیم الشان دعویٰ ہے حضرت عیسائی صاحبان کے عقیدہ کے رو سے جو شخص حضرت مسیحؑ کی الوہیت کا انکار کرے وہ ہمیشہ کے جہنم میں گرایا جاوے گا اور قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے جو شخص ایسا لفظ منہ پر لاوے کہ فلاں شخص درحقیقت خدا ہے یا درحقیقت میں ہی خدا ہوں وہ جہنم کے لائق ٹھہرےؔ گا جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗفرماتا ہے3333۱ یعنی جو شخص یہ بات کہے کہ میں خدا ہوں بجز اس سچے خدا کے تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے پھر اس کے اوپر کی آیت یہ ہے۔ 333۲ اور عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا بیٹا پکڑا پاک ہے وہ بیٹوں سے بلکہ یہ بندے عزت دار ہیں سیپارہ۱۷ رکوع ۲۔ اور پھر بعد اس کے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے ہاتھ میں کیا ثبوت ہے تو ہمیں ایک
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 179
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 179
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/179/mode/1up
ذخیرہ کثیر ثبوتوں کا نظر آتا ہے ایک طرف عقل سلیم انسان کی اس اعتقاد کو دھکے دے رہی ہے اور ایک طرف قیاس استقرائی شہادت دے رہا ہے
کہ اب تک اس کی نظیر بجز دعویٰ متنازعہ فیہ کے نہیں پائی گئی اور ایک طرف قرآن کریم جو بے شمار دلائل سے اپنی حقانیت ثابت کرتا ہے اس سے انکاری ہے جیسا کہ فرماتا ہے۔ 33333۱ (س۱۷ر۱۶)یعنی عبادت کرتے ہیں سوائے اللہ کے ایسی چیز کی جس کی خدائی پر اللہ تعالیٰ نے کوئی نشان نہیں بھیجا یعنے نبّوت پر تو نشان ہوتے ہی ہیں مگر وُہ خدائی کے کام میں نہیں آسکتے اور پھر فرماتا ہے کہ اس عقیدہ کیلئے اُنکے پاس کوئی علم بھی نہیں یعنے کوئی ایسی معقولی دلائل بھی نہیں ہے جن سے کوئی عقیدہ پختہ ہو سکے اور پھر فرماتا ہے ۔3۔3۔33333۔3۲ (س۱۶ر۹)اور کہتے ہیں کہ رحمان نے حضرت مسیح کو بیٹا بنا لیا ہے یہ تم نے اے عیسائیو ! ایک چیز بھاری کا دعویٰ کیا ۔ نزدیک ہے ، جو اِس سے آسمان و زمین پھٹ جاویں اور پہاڑ کانپنے لگیں کہ تم انسان کو خدا بناتے ہو پھر بعد اسکے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اِس خدا بنانے میں یہودی لوگ جو اوّل وارث توریت کے تھے جنکے عہد عتیق کی پیشگوئیاں سراسر غلط فہمی کی وجہ سے پیش کیجاتی ہیں کیا کبھی اُنہوں نے جو اپنی کتابوں کو روز تلاوت کرنیوالے تھے اور اُن پر غور کرنیوالے تھے اور حضرت مسیح بھی اُن کی تصدیق کرتے تھے کہ یہ کتابوں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں اُن کی باتوں کو مانو کیا کبھی اُنہوں نے ان بہت سی پیش کردہ پیشگو ئیوں میں سے ایک کے ساتھ اتفاق کرکے اقرارکیا کہ ہاں یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود کو خدا بتاتی ہے ۔ اور آنیوالاؔ مسیح انسان نہیں بلکہ خدا ہوگا ۔ تو اِس بات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا۔ ہر ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ اگر حضرت مسیح سے انکو کچھ بُخل اور بغض پیدا ہوتا تو اسوقت پیدا ہوتا جب حضرت مسیح تشریف لائے ۔ پہلے تو وہ لوگ بڑی محبت سے اور بڑی غور سے انصاف و آزادی سے اِن پیشگوئیوں کو دیکھا کرتے تھے اور ہر روز ان کتابوں کی تلاوت کرتے تھے اور تفسیریں لکھتے تھے ۔ پھر کیا غضب کی بات ہے کہ یہ مطلب ان سے بالکل پوشیدہ رہا۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 180
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 180
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/180/mode/1up
کُھلی کُھلی پیشگوئیاں حضرت مسیح کی خدائی کے لئے عہد عتیق میں موجود تھیں اب ہمیں تحیّر پر تحیّر ہوتا ہے اگر ایک پیشگوئی ہوتی اور یہودیوں کو سمجھ نہ آتی تو وہ معذور بھی ٹھہر سکتے تھے لیکن یہ کیا بات ہے کہ باوجود صد ہا پیشگوئیوں کے پائے جانے کے پھر بھی ایک بھی پیشگوئی اُن کو سمجھ نہ آئی اور کبھی کسی اور زمانہ میں اُنکا یہ عقیدہ نہ ہؤا کہ حضرت مسیح بحیثیت خدائی دُنیا میں آئیں گے اُن میں نبی بھی تھے اُن میں راہب بھی تھے اُن میں عابد بھی تھے مگر کسی نے اُن میں سے بطور شرح یہ نہ لکھا کہ ہاں ایک خدا بھی انسانی جامہ میں آنے والا ہے ۔
آپ تو جانتے ہیں کہ یہ تو ایک امر غیر ممکن ہے کہ ایسی قوم کا غلط فہمی پر اتفاق ہو جائے جس نے نقطہ نقطہ اور شوشہ شوشہ توریت کا اپنے ضبط میں کیا ہوا تھا کیا وُہ سارے ہی نا سمجھ تھے کیا وُہ سارے ہی بیوقوف تھے کیا سب کے سب متعصب تھے اور پھر اگر وہ متعصب تھے تو اس تعصب کی محرک حضرت مسیح کے ظہور سے پہلے کونسی چیز تھی یہ تو ظاہر ہے کہ تعصّبات بالمقابل ہوا کرتے ہیں جبکہ ابھی تک کسی نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا تھا پھر تعصّب کس کے ساتھ کیا جائے پس یہ اتفاق یہودیوں کا قبل ازز مانہ مسیح کے کہ آنیوالا ایک انسان ہے خدا نہیں ہے ایک طالب حق کیلئے کافی دلیل ہے ۔ اگر وہ اِسی بات کے شائق ہوتے کہ حق کو خواہ نخواہ چھپایا جاوے تو پھر نبی کے آنے کا کیوں اقرار کرتے ۔ ماسوا اسکے توریت کے دُوسرے مقامات اور بھی اس امر کے مؤید اور مصدق ہیں ۔ چنانچہ توریت میں صاف لکھا ہے کہ تم زمین کی کسی چیز کو اور یا آسمان کی کسی چیز کو جو دیکھو تو اسکو خدا مت بناؤ ۔ جیساکہ خروج ۲۰ باب ۳ میں یہ الفاظ ہیں کہ تو اپنے لئے کوئی مورت یا کسی چیز کی صُورت جو آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے ہے مت بنا ۔ اور پھر لکھا ہے اگر تمہارے درمیان کوئی نبی یا خواب دیکھنے والا ظاہر ہو اور تمہیں نشان یاکوئی ؔ معجزہ دِکھلادے اور اس نشان یا معجزہ کے مطابق جو اُس نے تمہیں دکھایا ہے بات واقعہ ہو اور وہ تمہیں کہے کہ آؤ ہم غیر معبودوں کی جنہیں تم نے نہیں جانا پَیروی کریں تو ہرگز اس نبی یا خواب دیکھنے والے کی بات پرکان مت دھریو ۔ اسی طرح اور بھی توریت میں بہت سے مقامات ہیں جن کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 181
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 181
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/181/mode/1up
لکھنے کی حاجت نہیں مگر سب سے بڑھ کر حضرت مسیح کا اپنا اقرار ملاحظہ کے لائق ہے وہ فرماتے ہیں سب حکموں میں اوّل یہ ہے کہ اے اسرائیل سُن وہ خداوند جو ہمارا خدا ہے ایک ہی خدا ہے پھر فرماتے ہیں حیات ابدی یہ ہے کہ وے تُجھ کو اکیلا سچا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تم نے بھیجا ہے جانیں ۔ یوحنّا ۳۱۷ ۔
اور بھیجا کا لفظ توریت کے کئی مقام میں انھیں معنوں پر بولا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی اپنے بندہ کو مامور کر کے اور اپنا نبی ٹھہرا کر بھیجتا ہے تواُسوقت کہا جاتا ہے کہ یہ وہ بندہ بھیجا گیا ہے اگر ڈاکٹر صاحب یہ بھیجا گیا کا لفظ بجز اِس معنے کے جہاں نبی کی نسبت بولا جاتا ہے مقام متنازعہ فیہ کے ماسوا کسی اور جگہ دوسرے معنوں پر ثابت کر دیں تو شرط کے طور پر جو چاہیں ہم سے وصول کر سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب پر واضح رہے کہ بھیجا گیا کالفظ اور ایسا ہی مخصوص کا لفظ انسان کے بارہ میں آیا ہے یہ سراسر تحکّم ہے کہ اب اسکے اور معنے کئے جاویں ماسوا اس کے حضرت مسیح کی الوہیت کے بارہ میں اگر حضرات عیسائی صاحبوں کا اصول ایمانیہ میں اتفاق ہوتا اور کوئی قوم اور فرقہ اُس اتفاق سے باہر نہ ہوتاتو تب بھی کسی قدر ناز کرنے کی جگہ تھی مگر اب تو اتنی بات بھی ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب فرماویں کہ کیا آپ کے مختلف فرقوں میں سے یونی ٹیرین کا فرقہ حضرت مسیح کو خدا جانتا ہے کیا وہ فرقہ اسی انجیل سے تمسک نہیں کرتا جس سے آپ کر رہے ہیں ۔ کیا وہ فرقہ ان پیشگوئیوں سے بے خبر ہے جنکی آپکو خبر ہے ۔ پھر جس حالت میں ایک طرف تو حضرت مسیح اپنے کفر کی بریّت ثابت کرنے کے لئے۔ یوحّنا باب ۱۰ میں اپنے تئیں خدا اطلاق پانے میں دوسروں کا ہمرنگ قرار دیں اور اپنے تئیں لا علم بھی قرار دیں کہ مجھے قیامت کی کچھ خبر نہیں کہ کب آئے گی اور یہ بھی روا نہ رکھیں کہ انکو کوئی نیک کہے اور جابجا یہ فرماویں کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور حواریوں کو یہ نصیحت دیں کہ پیشگوئیاں وغیرہ اُمور کے وہی معنےؔ کرو جو یہودی کیا کرتے ہیں اور اُنکی باتوں کو سنو اور مانو اور پھر ایک طرف مسیح کے معجزات بھی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 182
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 182
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/182/mode/1up
دوسرے نبیوں کے معجزات سے مشابہ ہوں بلکہ اُن سے کسی قدر کم ہوں بوجہ اُس تالاب کے قِصّہ کے جو ڈاکٹر صاحب کو خوب معلوم ہوگا جس میں غسل کرنیوالے اسی طرح ‘ طرح طرح کی بیماریوں سے اچھے ہو جایا کرتے تھے جیسا حضرت مسیح کی نسبت بیان کیا جاتا ہے اور پھر ایک طرف گھر میں ہی پھُوٹ پڑی ہوئی ہو ایک صاحب حضرات عیسائیوں میں سے تو حضرت مسیح کو خدا ٹھہراتے ہیں۔ اور دُوسرا فرقہ انکی تکذیب کر رہا ہے ادھر یہودی بھی سخت مکذّب ہوں اور عقل بھی اِن نامعقول خیالات کے مخالف ہو اور پھر وہ آخری نبی جس نے صد ہا دلائل اور نشانوں سے ثابت کردیا ہو کہ میں سچا نبی ہوں تو پھر باوجود اسقدر مخالفانہ ثبوتوں کے ایک خاص فرقہ کا خیال اور وہ بھی بے ثبوت کہ ضرور حضرت مسیح خدا ہی تھے کس کام آسکتا ہے اور کس عزّت دینے کے لائق ہے اِسی بنا پر میں نے کہا تھا کہ جس حالت میں اسقدر حملے بالاتفاق آپ کے اس عقیدہ پر ہو رہے ہیں تو اب حضرت مسیح کی خدائی ثابت کرنے کیلئے آپکو کوئی ایسا ثبوت دینا چاہیے جسکے اندر کوئی ظلمت اور تاریکی نہ ہو اور جس میں کوئی اختلاف نہ کر سکتا ہو مگر آپ نے اس طرف توجہ نہ کی اور آپ فرماتے ہیں جو پیشگوئیاں ہم پیش کرتے ہیں وہ دلائل ہیں دعاوی نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب آپ انصافاََ سوچیں کہ جس حالت میں اُن پیشگوئیوں کے سر پر اسقدر مکذّب اور مخالف کھڑے ہیں اور خود وہی لوگ ان کے معنے وہ نہیں مانتے جو آپ کرتے ہیں جو وارث عہد عتیق کے تھے اور آپکا خانگی اتفاق بھی نہیں پایا جاتا تو پھر وہ دعاوی ہوئے یا کچھ اور ہوئے یعنی جبکہ وہ آپ کے فرقوں8 میں خود متنازعہ فیہ امر ٹھہر گیا تو اوّل یہودیوں سے فیصلہ کیجئے پھر یونی ٹیرنوں سے فیصلہ کیجئے اور پھر جب سب اتفاق کرلیں کہ آنیوالا مسیح موعود خدا ہی ہے تو پھر مسلمانوں پر حجت کے طور پر پیش کیجئے اور پھر آپ فرماتے ہیں کہ اس زمانہ میں ہمارے لئے نشانوں کی ضرورت نہیں نشان پہلے زمانوں سے خاص ہوتے ہیں جب ایک مدعا ثابت ہوگیا تو پھر نشانوں کی کیا حاجت ۔
میں کہتا ہوں اگر یہ ثابت شدہ امر ہوتا توا تنے جھگڑے ہی کیوں پڑتے کیوں آپ کے فرقہ میں سے ان پیشگوئیوں کے ان معنوں کی تکذیب کرنے کیلئے موجود ہوتے پھر جبکہ ان پیشگوئیوں کی نہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 183
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 183
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/183/mode/1up
صحت ثابت نہ ادعاء حضرت مسیح ثابت اور نہ ان کے خاص معنوں پر اتفاق ثابت تو پھر کیونکر آپؔ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دلائل ہیں اور یہ بھی آپ کو یاد رہے کہ آپکا یہ فرمانا کہ نشان اسی وقت تک ضروری تھے جو حواریوں کا زمانہ تھا اور حواری اس کے مخاطب تھے یہ اس دوسری دلیل سے بھی خلاف واقعہ ٹھہرتا ہے کہ اگر کسی امر میں حواریوں کو مخاطب کرنا اُس امر کو اُنھیں تک محدود کر دینا ہے تو پھر تو اِس صورت میں ساری انجیل ہاتھ سے جاتی ہے کیونکہ تمام اخلاقی تعلیم جو حضرت مسیح نے کی اس کے مخاطب حواری تھے اب آپ کو خوب موقعہ مل سکتا ہے کہ ہمیں کچھ ضرورت نہیں کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دُوسرا بھی پھیردیں کیونکہ یہ تو حواریوں کے حق میں کہا گیا تھا اور آپکا یہ فرمانا کہ رامچندر اور کرشن سے حضرت مسیح کو کیا نسبت ہے اور کیا اگر دس آدمی ایک دعویٰ کریں تو ان میں سے ایک سچا نہیں ہوسکتا مجھے افسوس ہے کہ آپ نے یہ کیا لکھایا میرا تو مطلب صرف اتنا تھاکہ اگر صرف دعوے سے انسان سچا ہوسکتا ہے تو دعوے کرنے والے تو دُنیا میں اور بھی ہیں پس اگر ان میں سے کوئی سچا ہے تو چاہیئے کہ اپنی سچائی کے دلائل پیش کرے ورنہ ہمیں یا آپ کو دس دعویٰ کرنیوالوں میں سے ایک کو بغیر دلیل کے خاص کرلینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا یہی تو میں بار بار کہتا ہوں اور لکھتا ہوں کہ حضرت مسیح کی الوہیت پر ابھی تک آپ نے کوئی معقولی دلائل پیش نہیں کئے اور منقولی پیشگوئیاں جو آپ بار بار پیش کر رہے ہیں وہ تو کچھ بھی چیز نہیں ہیں خود امور متنازعہ فیہا ہیں جن کے آپ کچھ معنے کرتے ہیں یونی ٹیرین کچھ کرتے ہیں یہودی کچھ کرتے ہیں اہل اسلام کچھ کرتے ہیں ۔ پھر قطعیۃ الدلالت کیوں کرٹھہر جاویں اور آپ جانتے ہیں دلیل اس کوکہتے ہیں جو قطعیۃ الدلالت اور فی نفسہ روشن اور بدیہی ہو اور کسی امر کی مثبت ہو نہ کہ خود محتاج ثبوت ہو کیونکہ اندھا اندھے کو راہ نہیں دکھا سکتا اور پھر میں اپنی پہلی بات کا اعادہ کرکے لکھتا ہوں کہ آپ جانتے ہیں کہ اس پُر آشوب دُنیا میں انسان ہمیشہ تسلی اور معرفت تامہ کا محتاج ہے اور ہر ایک شخص یہی چاہتا ہے کہ جن دلائل کو تسلیم کرانا چاہتا ہے وہ ایسی شافیہ اور کافیہ دلائل ہوں کہ کوئی جرح ان پر وارد نہ ہو سکے اور خود ایک طالب حق جب اپنی موت کو یاد کرتا ہے اور درحالت بے دین و گمراہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 184
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 184
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/184/mode/1up
ہونے کے اُن سزاؤں کو تصور میں لاتاہے جو بے دینوں کو ملیں گی تو خود اس کا بدن کانپ اُٹھتا ہے اور اپنے تئیں اس بات کابھوکا اور پیاسا پاتا ہے کہ اگر کوئی نشان ہو تو اس سے تسلی پاوے اور اس کے سہارے کیلئے وہ اسکی دلیل ٹھہر جاوے تو پھر میں تعجب کرتا ہوں کہ یہ درخت عیسائی مذہب کا کیوںؔ کر بغیر پھلوں کے قرار دیا جاتا ہے اور کیوں تسلی کی راہ اس شخص کے مقابل پر پیش نہیں کی جاتی جو پیش کر رہا ہے اگر اللہ تعالیٰ کی عادت نشان دکھلانا نہیں ہے تو اِس دین اسلام کی تائید کیلئے کیوں نشان دکھلاتا ہے اس لئے کیا کبھی ممکن ہے کہ ظلمت نور پر غالب آجاوے ۔ آپ یہ سب باتیں جانے دیں میں خوب سمجھتا ہوں کہ آپکا دل ہرگز ہرگز آپ کے ان بیانات کے موافق نہ ہوگا بہتر تو یہ ہے کہ اس قصہ کے پاک کرنے کے لئے میرے ساتھ آپ کا ایک معاہدہ تحریری ہو جائے اگر میں اُن شرائط کے مطابق جو اس معاہدہ میں کہوں گا کوئی نشان اللہ جلّ شانہٗ کی مرضی کے موافق پیش نہ کر سکوں تو جس قسم کی سزا آپ چاہیں اس کے بھُگتنے کیلئے تیار ہوں بلکہ سزائے موت کیلئے بھی تیار ہوں لیکن اگر یہ ثابت ہو جاوے تو آپ کا فرض ہوگا کہ اللہ جلّ شانہٗسے ڈر کر دین اسلام کو اختیار کریں ڈاکٹر صاحب یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ عیسائی مذہب توسچاہو اور تائید دین اسلام کی ہو آپ بجائے خود حضرت مسیح سے دُعائیں کرتے رہیں کہ وہ اس شخص کو ذلیل اور لاجواب کرے اور میں اپنے خُدا سے دُعا کرونگا پھر جو سچا خدا ہے غالب آجائے گا۔
اس سے بہتر اور کونسی تصفیہ کی صورت ہوگی ۔ آپ کے دعاوی بلا دلیل کو کون تسلیم کرسکتا ہے کیوں آپ ان کوبار بار پیش کرتے ہیں ۔
کیا آپ کی قوم نے بالاتفاق اس کو قبول کرلیا ہے آپ براہ مہربانی سیدھے راہ پر آکر وہ طریق اختیار کریں جس سے حق وباطل میں فیصلہ ہو جاوے ۔
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی احسان اللہ
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام
قائم مقام ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 185
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 185
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/185/mode/1up
بیان ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک
جناب مرزا صاحب نے اپنے جواب میں زیادہ طول اہل یہود پر دی ہے اور ان کو ہم نہیں جانتےؔ کہ کس وجہ سے ہمارے اور اپنے درمیان منصف ٹھہرالیا ہے ۔ جناب من آپ کونسی تاریکی کے فرزندوں کا حوالہ دیتے ہیں اگر اُن کے نہ ماننے پر بات موقوف ہے تو آپ کے حضرت صاحب کی شان میں بھی بڑا فرق آتا ہے ۔ کیونکہ اُنکی مخالفت پر بھی ہمیشہ کمر باندھ کے منکر ہی رہے ۔ جناب من دار مدار کسی انسانی فیصلہ پر نہیں ہے ۔ کتابیں موجود ہیں زبان کوئی سمجھ سے باہر نہیں ہے۔عقل فقط خدا تعالیٰ نے اہل یہود کو عنایت نہیں کی تھی ۔ عبارت میں غلطی ہے بتا دیجئے گا ۔ معنوں میں ہے تو معنے صحیح ہمیں عنایت کیجئے ۔ اور یہودیوں کی کم بختی ہمارے سر پر کیوں تھوپتے ہیں آپ تو فرماتے ہیں کہ یہ قوم پارسا اور خدا پرست تھی توریت شریف اور انبیاء کے صحیفوں کو ملاحظہ کیجئے تو ان کا صحیح حال آپ پر روشن ہوگا ۔ دیکھئے یسعیاہ نبی کی کتاب کے ۳۶۵ میں خدا تعالیٰ کیافرماتا ہے ایسے گروہ کی طرف جو سدا میرے مُنہ کھجا کر مجھے غصّہ دلاتی تھی اور نبیوں کو دیکھئے کہتے ہیں گردن کش سنگدل حد سے زیادہ نبیوں کے قاتل اپنے خدا سے مُنہ پھیرنے والے ۔ یہ انکی صفات ہیں کلام اللہ میں جسے آپ پاک قوم سمجھ رہے ہیں بلکہ یہاں تک اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ گدھا اپنے مالک اور بیل اپنے چرنے کو جانتا ہے پر میری قوم مجھے نہیں جانتی جن کو اللہ تعالیٰ گدھے اور بیل سے بڑھ کر حماقت میں بناتا ہے ۔ آپ ان سے عدالت چاہتے ہیں ۔ مرزا صاحب یہ آپ سے ہرگز نہ ہوگا ۔ جناب من انھیں کی سنگدلی کی سزا میں خدا تعالیٰ نے اُنکے دِلوں کو تاریک کر دیا کہ وہ نہ سمجھیں ۔ یسعیاہ ۶۱۰ اور یہ *** خداوند یسوع مسیح کے وقت اُنکے سر پر تھی اور تا حال ہے ۔ متی ۱۳ واعمال ۲۸۲۷دوسرے قرنطیون کا ۱۵،۳۱۶ ان آیات کے ملاحظہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے منصفی کن پر ڈالی ہاں انکی بے ایمانی سے شہر اُن کا برباد اپنے ملک سے جلا وطن سارے جہان میں پراگندہ ضرب المثل اور انگشت نما ہو کے یہ آج تک پھرتے ہیں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 186
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 186
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/186/mode/1up
موجب پیشگوئی المسیح کے ۔
دوئم ۔ پھر آپ نے یونی ٹیرین کی بابت پیش کیا ۔ جناب من یہ عیسائیوں کے کسی فرقہ میں سے کوئی فرقہ نہیں ۔ سارے جہان کی حماقت اور کفر کا جواب آپ مجھ سے کیوں مانگتے ہیں اور رومن کیتھلک لوگ اپنے دل کے کفر سے مریم کو خدا کی ماں قرار دیتے ہیں اور ادہر یونی ٹیرین حماقت سے اور طرحؔ پر پورا کرتے ہیں میراان میں کیا واسطہ ہے ۔ کلام میرے ہاتھ میں ہے عبارت اسکی موجود ہے غلطی پر ہوں تو مجھے قائل کیجئے ۔ ورنہ ان تاریک فہموں کی آپ کیا نظیر دیتے ہیں ۔ ہمارا ایمان مسیح پر‘ فرقوں پر نہیں ۔ اس طرح کے اگر میں الزامی جواب دینے چاہوں تو اسلام پر کتنے فتوراس وقت پیش کر سکتا ہوں ۔ جناب من اپنے گھر کی حالت دیکھ کر تکلیف فرمایئے اور نہ کسی انسان کے ماننے اور نہ ماننے پر مدار رکھے لیکن کتاب اللہ پر ۔
جناب نے ایسی دلیل طلب کی ہے جس میں کسی کا شک نہ ہو ۔ صاف اقرار کرتا ہوں کہ میں نے کہ میں عاجز ہوں میں کیا بلکہ خدا بھی عاجز ہے ۔ اسکے وجود پاک سے بڑھ کرکوئی بات دنیا میں روشن ہے تو بھی آپکو ہزار احمق نہ ملیں گے جو کہیں گے کہ خدا کوئی چیز نہیں ۔ جب جناب باری کی ذات پاک میں آپ حرف لاتے ہیں اور اس معبود حق کی نسبت شک کرتے ہیں جس کے جلال سے سارا جہاں معمور ہے تو کونسی دلیل پیش کریں جسمیں اگلا حرف نہ لاوے ۔ آگے جناب کا یہ فرمانا تھا کہ مسیحی دین اگر بے پھل ہے تو پھر یہ کیوں حق ہے ۔ صاحب من یہ بے پھل نہیں اپنے موقعہ پر یعنی اسی ہفتہ میں آپ کی خدمت میں پھل پیش کئے جاویں گے ۔ لیکن یہاں آپ کے ساتھ میرا سخت تنازعہ ہے آپ نے مجھے کیوں منافق بنایا ۔ ریاکار ٹھہرایا کہ جو میں زبان سے کہتا ہوں وہ دل سے نہیں کہ آپ نے ایسا الزام مجھے لگا دیا ۔ پیغمبری کے دعوے تو میں آپ کےُ سنتا رہا لیکن یہ تو دعویٰ الٰہی ہے کہ آپ دلوں کے جانچنے والے ہیں ۔ آخری عرض یہ ہے کہ مناسب ہے کہ خالق کی ذات شریف مخلوق کی سمجھ میں نہ آوے۔ خدا تعالیٰ جو ہے ذات ہی ذات ہے اور اگر اس کی ذات پاک کو ہم سمجھ لیں تو پرے کیا رہا۔ ہم اسکے مساوی نہ ہوگئے بے شک ہو گئے ۔ اسی لئے میں محمدی وحدانیت کا قائل نہیں ہوسکتا تو بچہ بھی سمجھ سکتا ہے اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 187
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 187
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/187/mode/1up
میری عقل تو گواہی دیتی ہے کہ ذات پاک کو اس سے بڑھ کر ہونا چاہیئے آپ کی وحدانیت میں کونسامسئلہ سمجھ سے باہر ہے گویا محدود نے غیر محدود کو گھیر لیا ہے۔ لیکن کثرت فی الوحدت ایک ایسا مسئلہ ہے کہ نہ اِسکے سمجھنے والا پیدا ہوا نہ ہو گا۔ کیا صاحب جانا جا سکتا ہے کہ انسانی عقل اللہ تعالیٰ کو سمجھے ۔ توبہ توبہ۔ ذات الٰہی ایک ایسی شے ہے کہ نہ عقل سے ثابت کی جاسکتی ہے اور نہ عقل سے اس کی تردید کی جاسکتی ہے۔ معاملہ انسان کی عقل سے لاکھ ہادرجہ بڑھ کر ہے اور اس کا فیصلہ صاف اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے۔ خدا کی بات خدا ہی جانےؔ اور میرا اور آپ کا حق مرزاصاحب نہ دلائل عقلی کے دوڑانے پر ہے لیکن تسلیم کرنا ہے۔ اور صحیح تعلیم اللہ تعالیٰ کی کتابوں کی یہی ہے تین اقنوم اور ایک خدا واحد تا ابد مبارک ہے۔ مسیح خداوند کے حق میں نبی گواہی دیتے رہے نمونوں سے اللہ تعالیٰ ظاہر کرتا رہا۔ قربانیوں میں حلال وحرام میں ختنہ میں ہیکل میں اور پھر ظاہر کرتا رہا کہ مَیں حق تعالیٰ خود تمہارا نجات دہندہ ہوں ۔ اور وقت پر کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور نام اس کا تم نے رکھنا عمانوئیل یعنی خدا ہمارے ساتھ وقت پر آپ آئے پَیدا ہوئے۔
آگے سلسلہ چلتا ہے فرشتوں کی گواہی کا ۔ حواریوں کی گواہی کا۔ اپنے دعووں کا ۔ اپنی کرامت ومعجزوں کا۔ ہاں خدا تعالےٰ کا خود یحيٰ بپ ٹسما دینے والے کے ہاتھ سے بپ ٹسما پاکر آپ پانی سے نکلتے ہیں اور رُوح القدس کبوتر کی طرح ان پر آتی ہے اورخدا تعالیٰ آسمان بلند آواز سے فرماتا ہے یہ میرا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں دیکھئے باپ بیٹا روح القدس موجود کیونکہ یہ تینوں ایک ہیں۔
خیر میں زیادہ طول دینا نہیں چاہتا دشمنوں کی گواہی بھی موجودہے شیطانوں کی گواہی موجود ہے جو چلا چلا کر کہہ رہے تھے کہ تو خدا کا قدوس ہے۔ رومیوں کی گواہی موجود ہے۔ پلاٹوس کی گواہی موجود ہے۔ جناب انجیل شریف میں آپ کے لئے سب گواہیاں موجود ہیں اور یہودی بھی سارے بے ایمان نہ تھے آپ کے فرمانے کے مطابق حواری بھی یہودی تھے ایک ہی وعظ سے تین ہزار عیسائی ہوئے یک لخت۔
اگر چہ قوم مردود ہے قوم کا ہر ایک فرد مردودنہیں اور اب بھی ہزارہا لاکھ ہا یہودی مسیح خداوند
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 188
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 188
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/188/mode/1up
کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ اور جب آپ نے مسئلہ پیش کیا کہ جب مسیح نے پوچھا کہ مسیح کس کا بیٹا ہے اور داؤد کیوں اس کو خداوند کہتاہے۔تو چپ اور لاجواب ہو گئے۔ کوئی جواب نہ دے سکا۔ صاحب من عقل کو قائل کرنا تو کچھ مشکل نہیں لیکن دل کی ضد کو دفع کرنا اللہ کا کام ہے۔ پھر جناب کی تقریر تھی کہ کراماتیں اسلام کے ساتھ ہیں ہمیں دیکھنے سے کوئی گریز نہیں۔ ساتھ یہ بھی بتائیے بالفرض اگر کوئی یا کئی کرامت وارد بھی ہوں تو ہم کس طرح جانیں کہ یہ منجانب اللہ ہیں استثنا کے ۱،۲جناب نے ہی سنائے کہ بیشک تمہارے پرکھنے کے لئے جھوٹے نبی بھی آجائیں گے او ر کرامت پوری کریں گے۔ نیز مرقس کا ۲۲ سُنیے گا۔ گلیتوں ۱۸ سو جناب من نہ فقط کرامت کی ضرورت ہے بلکہؔ اس بات کی کہ ان نشانوں کو کیوں کر منجانب اللہ جانیں اورنہایت ادب سے عرض ہے کہ آپ کی کرامت سے مَیں دل شکستہ ہوںآپ فرما چکے ہیں کہ کرامت اور معجزہ میں فرق ہے نہیں جانتا کہ کیا۔ پھر آپ نے یہ فرمایا کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کانشان دکھلائے گا۔ اور پھر معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس طور کا نشان دکھلائے گا۔جناب صاحب اس میں تحدی ما قبل معجزہ اور کرامات سے صاف گریز ہے۔ حالانکہ آپ اپنے رسالہ حجۃ الاسلام کے ۱۴۔ ۱۵ ۔ ۱۶۔۱۷۔صفحہ میں اس بات کو تسلیم کر چکے تھے۔ قصہ کوتاہ مرزا صاحب کیاہی مبارک موقعہ پیش آیا تھا کہ آپ اپنے اس دعویٰ کو جس کی نسبت خم ٹھوک کر کئی روز سے دعویٰ کرتے ہیں پایہ ثبوت تک پہنچاتے۔ ہزار افسوس کہ آپ نے ایسے موقعہ کو ہاتھ سے جانے دیا اور اپنی لغو تاویلات کو لامعنی اور بات الزامی سے اس موقعہ کو ٹال دیا۔ آپ کی اس پہلو تہی سے اس عاجز کی عقل ناقص میں یہ آتا ہے کہ آپ کا یہ دعویٰ سامان ہیں جن سے آپ اپنے مقلدوں کو خوش کرتے ہوتے ہیں از راہ خاوندی کے عیسائیوں کے رو برو انکاذکر پھر نہ کرنا۔اور ناحق زک اٹھانی پڑتی ہے جناب من ہم تو آپ کے علم اور روشن ضمیری کا چرچا بہت ہی سنتے رہے ہیں اور ہم کو آپ سے بہت امید تھی۔ لیکن افسوس آپ نے وہی بحثیں اور وہی دلائل اور وہی باتیں پیش کیں ۔ جو کہ قریب چالیس سال سے اِس ملک کے بازاروں میں چکر کھارہی ہیں۔ مرزاصاحب
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 189
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 189
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/189/mode/1up
افسوس ہے کہ ہم آپ پر کسی طرح خوش نہ ہوئے۔ عقلی دلیل آپ نے مانگی بندہ نے پیش کر دی۔ نقلی جناب نے فرمائی حاضر کی گئی الہام پر آمادہ ہوئے سو بھی منظور اس موقعہ پر مجھ کو انجیل شریف کی ایک بات یاد آتی ہے متی کے ۱۶۔۱۷۔۱۹ میں ہے آخر الامر آپ کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ اول خداکے ابن وحید کا رسالت لے کر دنیا میں آنا دلیل استقرائی سے مستثنیٰ ہے جیسے کہ آدم و حوا کی پیدائش۔ جناب نے اس کا کیاجواب فرمایا ہیچ دوم الوہیت کے دعوےٰ اور اثبات بائیبل شریف سے معہ مفصل آیات کے پیش کئے گئے عقل سے امکان اور کلام الٰہی سے وقوع ثابت کیا ؔ گیا۔جناب نے کیا جواب دیا ہیچ۔ یوحنا کے دسویں باب پر آپ نے بار ہا زور بے جالگایا معقول دلیل دیکھیں تو پتہ ندارد پرانے عہد نامہ میں سے مسیح کے حق میں پیشگوئیاں اور نئے عہد نامہ میں ان کی تکمیل جناب کی خدمت میں پیش کی گئی جواب ہیچ پانچ پرانے عہد نامہ کے ایسے فقروں سے جیسا کہ ہم میں سے ایک کی مانند ہمتا۔ یہواصد قنو وغیرہ وغیرہ الوہیت کا استدلال کیاگیا جناب کاجواب ہیچ۔ بڑی پختہ دلائل سے مسیح کا کامل انسان و کامل خدا ہوناو مظہر اللہ ہونا پیش کیاگیا۔جواب ہیچ۔ ساتواں وہ جو آیات جناب نے پیش کی تھیں قیامت کے روز وغیرہ کے بارے میں انکے حق میں خوب گوش گذاری ہوئی جناب نے کوئی جواب نہ فرمایا۔
آٹھواں۔ جناب قرآن سے کئی حوالجات دیتے ہیں اور ان عاجزوں کے لئے وہ فضول ہیں کیونکہ ہم اس کو کتاب مستند نہیں سمجھتے۔
نہم۔ مرقس کی ۱۶ پر جناب نے بہت کچھ تقریر فرمائی اور معجزوں کے حق میں ہمیں قائل کرنا چاہا۔
لہٰذا اس کا بھی جواب ہوا اور خوب ہی ہوا۔ جناب نے کیا جواب دیا ہیچ۔
دس۔ نجات اور ذاتی الہام بے محل اور خلاف شرطوں کے تھا اس لئے ہم نے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 190
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 190
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/190/mode/1up
اس کابہت غور نہیں کیا۔
گیارہ۔ جناب کا صاحب کرامات ہونے کا دعویٰ نہایت ہی واضح طور پر غلط ثابت کیاگیا۔ جناب الزامی جواب دے کر پہلو تہی کر گئے۔ یہ ہفتہ گذشتہ کی کارروائیاں ہیں فرمائیے ہماری کونسی دلیل توڑی گئی۔ ہاں یک شوشہ یک نقطہ بھر اس میں فرق آیا؟۔جناب تو اپنی تاویلوں میں لگے رہے اور ہماری باتوں پر آپ نے توجہ نہ فرمائی۔ اب پھر اس مباحثہ کے پہلے حصہ کا آخری وقت ہے۔ میں خدا کا واسطہ دے کے عرض کرتا ہوں۔ بروئے کلام الٰہی خدا جو اگلے زمانوں میں نبیوں کے وسیلہ بولابالآخر اپنے بیٹے کے وسیلہ سے دین آسمانی اور راہ نجات اور گناہوں کی بخشش ہمیں عنایت کر چکا ہے۔ اور ہر ایک کو چاہیئے کہ تعصب کو دور کر کے خدا کی ر ضامندی کو اپناشا ملؔ کرے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ بے شک المسیح ابن وحید اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اور کلمہ مجسمہ اللہ کا ہے اور آخری دن کل آدمیوں کا انصاف کرنے والابھی ہوگا۔
مباہلہ کے حق میں مختصر عرض ہے کہ *** دینا یا چاہنا ہمارے خدا کی تعلیم نہیں وہ اپنی کسی مخلوق سے عداوت نہیں رکھتا اور مینہہ اور روشنی اپنے راستوں اور ناراستوں کو برابر بخشتاہے۔ جس مذہب میں لعنتیں جائز ہوں انکے پَیروؤں کو اختیار ہے مانیں او رمانگیں۔ لیکن ہم شاہ سلامتی کے فرزندہیں اور جیسا ہم اپنے لئے دعائے خیر اورر حمت اور بخشش کے طالب ہیں ویسا ہی بعوض *** کے ہم آپ صاحبوں کیلئے بھی خواہاں برکت کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی بے حد رحمت سے صراط مستقیم آپ کو عطاکرے اپنے امن اور ایمان میں لاوے۔ تاکہ جب اس جہان فانی سے ملک جاودانی کو آپ گزرکریں تو عاقبت بخیر ہووے ایک آخری عرض ہے جناب مرزاصاحب آپ حد سے قدم بڑھا کر چڑھ آئے ہیں۔ گستاخی معاف مَیں دل کی صفائی سے کہتا ہوں اور بروئے الہام نہ معلوم ازکجایافتہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 191
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 191
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/191/mode/1up
آپ فرماتے ہیں کہ اس جنگ میں مجھے فتح ہے ضروری فتح ہے۔ جناب امتیاز کر سکتے ہیں کہ صورت مذکورہ بالافتح کامل کی ہے یا معاملہ دیگر کی اور یہ جناب کی غلطی ہے فتح اور شکست کالحاظ ہرگز نہیں چاہیئے برعکس اسکے یہ کہ ہاں شکست ہو تو ہو۔ لیکن یا اللہ تیری راستی ظاہر کی جائے افسوس جناب میں وہ مزاج دیکھی نہ گئی۔ صاحب من عیسوی دین انیس سو برس سے جہان میں ہے اور ایک ایسا سندان ہے کہ اس پر بہت ہی مارتول گھس چکے ہیں اور اخیر تک گھستے رہیں گے۔ کیا انیس سو برس کی بات یہاں او رانھیں دنوں میں پلٹنے والی تھی جولوگ دین مسیح کے مخالف ہیں ان کو دیکھ کر مجھے ایک قصہ یونانی یاد آتاہے ایک سانپ کسی لوہار کے گھر میں جاگھسا زمین پر ریتی پڑی تھی زہر بھرا ہوا سانپ اس کے کاٹنے لگا۔ ریتی نے کہا کاٹ لے جہاں تک تیری مرضی ہے تیرے ہی دانت گھستے ہیں۔
صا ؔ حبِ من کوششیں توآپ نے سب کیں پر دلیل عقلی کا مقابلہ نہ نقلی جواب بن پڑا اورجس الہام و کرامت پر آپ کو ناز تھا وہ بھی خام اورلاحاصل ٹھہرایاگیا۔ کوششیں بہت لیکن مباحثہ کے اس حصہ کا نتیجہ معلوم اور ہر ایک منصف مزاج پر ظاہر ۔ مرزائے من آپ تو بلند آواز سے فتح پکارتے رہے لیکن یہ فتح کسی اور پر شگفتہ نہ ہوئی۔ جناب من اس جنگ میں او رہر جنگ میں امروز تا ابد شان و شوکت حشمت و جلال قدرت اختیار اور فتح المسیح تا ابدخدائے مبارک کی ہے۔ آمین۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
احسان اللہ قائم مقام ہنری مارٹن کلارک غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 192
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 192
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/192/mode/1up
دوسرؔ ا حصہ
روئیداد جلسہ
۳۰۔ مئی ۱۸۹۳ ء
آج پھر جلسہ منعقد ہوا ۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب آج اپنے اصلی عہدہ میر مجلسی پر واپس آگئے۔ اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے مباحثہ شروع کیا۔ ۶ بجے ۹ منٹ پر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے سوال لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۲۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیامرزا صاحب نے ۶ بجے ۲۷منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۲۷ منٹ پر تمام کیا۔ مرزاصاحب کے جواب لکھانے کے عرصہ میں میر مجلس عیسائی صاحبان نے بدوں میر مجلس اہل اسلام کے ساتھ اتفاق کرنے کے انھیں روکنے کی کوشش کی اور اپنے کاتبوں کو حکم دیا کہ وہ مضمون لکھنا بند کردیں مگر میر مجلس اہلِ اسلام کی اجازت سے مرزا صاحب برابر مضمون لکھاتے رہے اور انکے کاتب لکھتے رہے۔ میرمجلس عیسائی صاحبان کی یہ غرض تھی کہ مرزاصاحب مضمون کو بند کر یں اور میر مجلس عیسائی صاحبان ایک تحریک پیش کریں کیونکہ ان کی رائے میں مرزا صاحب خلاف شرط مضمون لکھاتے رہے تھے لیکن جب ان کی رائے میں مرزاصاحب شرط کے موافق مضمون لکھانے لگے تو انہوں نے اپنے کاتبوں کو مضمون لکھنے کا حکم دے دیا میر مجلس صاحب اہل اسلام کی یہ رائے تھی کہ جب تک مرزاصاحب مضمون ختم نہ کر لیں کوئی امر انہیں روکنے کی غرض سے پیش نہ کیاجائے کیونکہ انکی رائے میں کوئی امر مرزاصاحب سے خلاف شرائط ظہور میں نہیں آرہاتھا۔ چنانچہ مرزاصاحب برابر مضمون لکھاتے رہے اور اپنے وقت کے پورے ہونے پر ختم کیا اور مقابلہ کے وقت عیسائی کاتبوں نے اس حصہ مضمون کو جو وہ اپنے میر مجلس کے حکم کے بموجب چھوڑ گئے تھے بموجب ارشاد اپنے میر مجلس کے پھر لکھ لیا۔ اَب یہ امر پیش ہوا کہ مرزاصاحب نے جو جواب لکھایا ہے اس کے متعلق میر مجلس عیسائی صاحبان اور عیسائی جماعت کی یہ رائے ہے کہ وہ خلاف شرائط ہے کیونکہ اوّلًا اِس
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 193
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 193
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/193/mode/1up
ہفتہ میں وقت ہے کہ مسیحی اہل اسلام سے دین محمدی کے حق میں سوال کریں اورنہ یہ کہ محمدی صاحب مسیحوں سے دین عیسوی کے حق میں جواب طلب کریں ۔ ثانیًا فی الحال عبد اللہ آتھم صاحب کیطرف سے سوال مسئلہ رحم بلا مبادلہ در پیش ہے اور مرزاصاحب جواب طلب کرتے ہیں دربارہ الوہیت مسیح کے۔ میرمجلس صاحب اسلام کی یہ رائے تھی کہ خلاف شرائط ہرگز نہیں ہے بلکہ عین مطابق شرائط ہے اور ساتھ ہی مرزاصاحب نے بیان فرمایا کہ جواب ہرگز خلاف شرائط نہیں کیونکہ سوال رحم بلامبادلہ کی بنا الوہیت مسیح ہے۔اور ہم مسئلہ رحم بلامبادلہ کاؔ پور ا رد اس حالت میں کر سکتے ہیں کہ جب پہلے اس بنا کا استیصال کیاجاوے ۔بنا کو کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ بے تعلق ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ رحم بلا مبادلہ بنائے فاسد بر فاسد ہے۔ عیسائی جماعت تو مرزاصاحب کے مضمون کو خلاف شرائط قرار دینے پر زور دیتی رہی اور اسلامیہ جماعت اس مضمون کو مطابق شرائط قرار دیتی رہی پادری عماد الدین صاحب کی یہ رائے تھی اور انہوں نے کھڑے ہوکر صا ف لفظوں میں کہہ دیا کہ میر مجلسوں کا منصب نہیں کہ مباحثین کو جواب دینے سے روکیں مگر میرمجلس عیسائی صاحبان کے سوال کرنے پر انہوں نے بھی یہی کہا کہ مضمون مرزاصاحب کا خلاف شرط ہے اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے بھی کہا کہ کسی قدر خلاف شرط تو ہے تاہم در گذر کرنا چاہیئے۔ میر مجلس اہل اسلام نے کہا یہ مضمون ہرگز خلاف شرط نہیں اس لئے ہم آپ کا در گذر نہیں چاہتے۔ ایک عرصہ تک اس امر پر تنازعہ ہوتا رہا۔ اسی عرصہ میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے کہا کہ اگر میرے چیئر مین صاحب مجھے مرزاصاحب کے لفظ لفظ کا جواب دینے دیں گے تو میں دوں گا ورنہ میں نہیں دیتا۔ مگر میر مجلس صاحب اہلِ اسلام نے ڈپٹی صاحب کو کہا کہ آپ کو جواب لکھنے کیلئے میر مجلسوں سے ہدایت لینے کی کچھ ضرورت نہیں۔ آپ کو اختیار ہے کہ جس طرح چاہیں جواب دیں۔ لیکن میر مجلس عیسائی صاحبان نے ڈپٹی صاحب کو روکا اور کہا میں اجازت نہیں دیتا۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو میں میر مجلسی سے استعفادے دوں گاکیونکہ یہ خلاف شرط ہے پھر تھوڑی دیر کے لئے تنازعہ ہوتا رہا اور آخر کار یہ قرار پایا کہ آئندہ کے لئے مباحثین میں سے کسی کو جواب دینے سے روکا نہ جائے انہیں اختیار ہے کہ جیسا چاہیں جواب دیں ۔ بعد ازاں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 194
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 194
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/194/mode/1up
نے ۸ بجے ۵۳ منٹ پر جواب لکھنا شروع کیا اور ۹ بجے ۵۰ منٹ پر ختم کیااور مقابلہ کرکے بلند آواز سے سنایا گیا۔بعد ازاں تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اورچونکہ مرزاصاحب کے جواب کیلئے پورا وقت باقی نہ تھا۔اس لئے جلسہ برخواست ہوا۔ فقط۔
(دستخط بحروف انگریزی) (دستخط بحروف انگریزی )
ہنری مارٹن کلارک پریذیڈنٹ غلام قادر فصیح پریذیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہلِ اسلام
سوال ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
۳۰ ؍مئی ۱۸۹۳ ء
میرا پہلا سوال رحم بلا مبادلہ پرہے جس کے معنے یہ ہیں کہ رحم ہو اور تقاضا عدل کا لحاظ نہ ہو ۔اس کے لئے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا صفات عدل و صداقت کی غیر مقید الظہور بھی ہو سکتی ہیںیعنی ان پر یہ قید نہ رہی کہ وہ ظہور نہ کریں جیسا کہ عدل ہوا یا نہ ہوا۔ صداقت ہوئی یا نہ ہوئی۔ اعتراض اس میںیہ ہے کہ اگر ایسا ہووے تو محافظ قدوسی الٰہیؔ کا کون ہوسکتا ہے اور رحم اور خوبی مقید الظہور بھی کیا ہو سکتے ہیں اور اس میں اعتراض یہ ہے کہ اگر ہو سکتے ہیں توکیا وہ قرضہ دادنی کی صورت نہ پکڑیں گے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہر چہ گناہ جب تک باقی رہے تو صورت رہائی گناہ گار کی کون سی ہے اب جبکہ قرآن میں تین راہ نجات رکھے ہیں یعنی ایک یہ کہ گناہ کبائر سے اگر بچو گے تو صغائر رحم سے معاف ہو جائیں گے ۔ دوسرے یہ کہ اگر وزن افعال شنیعہ کا اعمال حسنہ پر نہ بڑھے گا تو رحم کے مستحق ہو جاؤ گے۔ تیسرے یہ کہ رحم کے مقابلہ میں عدل اپنے تقاضا سے دست بردار ہوجاتا ہے یعنی رحم غالب آتا ہے عدل کے اوپر۔ دو صورتیں اولین میں یہ اصول ڈالا گیا ہے کہ ادائے جزکا واسطے کل کے حاوی ہے تیسرے اصول میں یہ دکھلایا گیا ہے کہ عدل مقید الظہور نہیں بلکہ رحم مقید الظہور ہے۔ ان دونوں اصولوں میں جو اوپر بیان ہوئے ہیں بداہت کے برخلاف کچھ اس میں بیان ہے یا نہیں کیونکہ مبادلہ عدل کا کچھ نہ ہؤااور یہ رحم بلامبادلہ ہے جس نے دو صفات الٰہی کو ناقص کر دیا یعنی عدالت اور صداقت کو۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 195
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 195
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/195/mode/1up
اس کے جواب کا انتظار ہم جناب کی طرف سے کرتے ہیں اور یہ جواب اس کا ہونا چاہیئے کہ یہ دونوں اصول صداقت بالبداہت ہیں یا نہیں و یاکہ صداقتیں ہیں یا نہیں لیکن ہر جہ اد اہو جاتا ہے اور صفات وہ قائم رہتی ہیں اور میر اعرض کرنا اس بارہ میں اور کچھ ضرور نہیں ۔
میں امید کرتا ہوں کہ جیسے میرے یہ مختصر سوا ل ہیں ویسا ہی مختصر جوا ب ہونا چاہیئے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریذیڈنٹ غلام قادر فصیح پریذیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
بیان حضرت مرز ا صاحب
۳۰؍ مئی ۱۸۹۳ ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ڈپٹی صاحب نے رحم بلا مبادلہ کا جو سوا ل کیا ہے حقیقت میں اس کی بنیاد حضرت مسیح کی الوہیت ماننے پر رکھی گئی ہے اس لئے صفائی بیان کے لئے بہت ضروری ہے کہ پہلے برعایت اختصار اس کا کچھ ذکر کیا جائے ۔کیونکہ اگر حضرت مسیح کی الوہیت ثابت ہو جائے تو پھر اس لمبے جھگڑے کی کچھ ضرورت نہیں اور اگر دلائل قطعیہ سے صرف انسان ہونا ان کا ثابت ہو اور الوہیت کا بطلان ہو تو پھر جب تک ڈپٹی صاحب موصوف الوہیت کو ثابت نہ کریں تب تک داب مناظرہ سے بعید ہو گا کہ اور طرف رخ کر سکیں ڈپٹی صاحب موصوف اپنے بیانات سابقہ میں حضرت مسیح کی الوہیت ثابت کرنے کیلئے فرماتے ہیں کہ ؔ اور انسانوں کی تو ایک روح ہوتی ہے مگر حضرت مسیح کی دو روحیں تھیں ایک انسان کی اور ایک خدا تعالیٰ کی اور گویا حضرت مسیح کے جسم کی دو روحیں مدبر تھیں مگر یہ امر سمجھ میں نہیں آسکتا ایک جسم کے متعلق دو روحیں کیونکر ہو سکتی ہیں اور اگر صرف خدا تعالیٰ کی روح تھی تو پھر حضرت مسیحؑ انسان بلکہ انسان کامل کن معنوں سے کہلا سکتے ہیں کیا صرف جسم کے لحاظ سے انسان کہلاتے ہیں ۔ اور میں بیان کر چکا ہوں کہ جسم تو معرض تحلل میں ہے چند سال میں اور ہی جسم ہوجاتا ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 196
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 196
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/196/mode/1up
اور کوئی دانش مند جسم کے لحاظ سے کسی کو انسان نہیں کہہ سکتا جب تک روح انسانی اس میں داخل نہ ہو پھر اگر حضرت مسیح در حقیقت روح انسانی رکھتے تھے اور وہی روح مد ّ بر جسم تھی اور وہی روح مصلوب ہونے کے وقت بھی مصلوبی کے وقت نکلی اور ایلی ایلی کہہ کر حضرت مسیحؑ نے جان دی تو پھر روح خدا ئی کس حساب اور شمار میں آئی یہ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا اور نہ کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے۔ اگر درحقیقت روح کے لحاظ سے بھی حضرت مسیح انسان تھے تو پھر خدا نہ ہوئے اور اگر روح کے لحاظ سے خدا تھے تو پھر انسان نہ ہوئے ماسوا اس کے حضرات عیسائی صاحبان کا یہ عقیدہ ہے کہ باپ بھی کامل اور بیٹا بھی کامل روح القدس بھی کامل ۔ اب جب تینوں کامل ہوئے تو ان تینوں کے ملنے سے اکمل ہونا چاہیئے کیونکہ مثلًا جب تین چیزیں تین تین سیر فرض کی جائیں تو وہ سب مل کر نو سیر ہوں گی ۔ اس اعتراض کا جواب ڈپٹی صاحب سے پہلے بھی مانگا گیا تھا مگر افسوس کہ اب تک نہیں ملا اور ظاہر ہے کہ یہ ایک سخت اعتراض ہے جس سے قطعی طور پر حضرت مسیح کی الوہیت کا بطلان ہوتا ہے ۔ انہیں اعتراضات کو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اور اسی بناء پر میں نے یہ شرط کی تھی کہ حضرت مسیح کی الوہیت پر کوئی عقلی دلیل پیش ہونی چاہیئے مگر افسوس کہ اس شرط کا کچھ بھی لحاظ نہ ہؤا اور یہ بھی بیان کیاگیا تھا کہ آپ نے جس قدر پیشگوئیاں حضرت مسیح ؑ کی الوہیت ثابت کرنے کیلئے پیش کی ہیں وہ دعاوی ہیں دلائل نہیں ہیں اول تو ایک نامعقول امر جب تک معقول کرکے نہ دکھلایاجاوے منقولی حوالہ جات سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ مثلًا ایک گدھا جو ہماری نظر کے سامنے کھڑا ہے۔ اگر ہزار کتاب پیش کی جائے کہ انہوں نے اس کو انسان لکھ دیا ہے تو وہ کیونکر انسان بن جائے گا ۔ ماسوا اس کے وہ منقولی حوالجات بھی نرے نکمے ہیں جن کی کتابوں سے لئے جاتے ہیں وہ ان کو مانتے نہیں اور گھر میں خود پھوٹ پڑی ہوئی ہے اورحضرت مسیح ؑ فرماتے ہیں کہ یہودی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں ان کی باتوں کو مانو ۔
افسوس ہے کہ ان کے معنے قبول نہیں کئے جاتے اور عذر کیاجاتا ہے کہ یہودی فاسق بدکار ہیں حالانکہ انجیل حکم دیتی ہے کہ ان کی باتوں کو اور ان کے معنوں کو اول درجہ پر رکھو اور ہمیں تحکم کے طور پر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 197
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 197
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/197/mode/1up
کہا جاتا ہے کہ کتابیں موجود ہیں کتابوں کو پڑھو ۔ لیکن انصاف کرنے کا محل ہے کہ ہر ایک صداقت کو ہر ایک پہلو سے دیکھا جاتاہے۔ ہم یہودیوں کے اقوال کو بھی دیکھیں گے ۔ آپ کے اندرونی اختلافات پر بھی نظر ڈالیں گے۔ اور اگر آپ کا یہ شوق ہے کہ کتابیں دیکھی جاویں وہ بھی دیکھی جاویںؔ گی ۔ مگر اس صورت میں کہ یہودیوں کے معنے بھی جو وہ کرتے ہیں سنے جائیں اور آپ کے معنے بھی سنے جائیں اور ان کی لغات بھی دیکھی جائیں اور آپ کی لغات بھی دیکھی جائیں پھر جو اولیٰ و انسب ہے اس کو اختیار کیاجائے اور یہودیوں سے مراد وہی یہودی ہیں جو حضرت مسیح سے پہلے صدہا برس گذر چکے ہیں۔ غرض ہر ایک پہلو کو دیکھنا طالب حق کا منصب ہوتا ہے نہ کہ ایک پہلو کو ۔ ماسوا اس کے رحم بلامبادلہ کا جو سوال کیاجاتا ہے اس کا ایک پہلو تو ابھی میں بیان کر چکا ہوں اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کو دیکھا جائے گا کہ آیا رحم اور قہر کے نفاذ میں اس کی عادات کیونکر ظاہر ہے کہ رحم کے مقابل پر قہر ہے ۔ اگر رحم بلا مبادلہ جائز نہیں تو پھر قہر بلا مبادلہ بھی جائز نہ ہو گا۔ اب ایک نہایت مشکل اعتراض پیش آتا ہے ۔ اگر ڈپٹی صاحب اس کو حل کر دیں گے تو ڈپٹی صاحب کی اس فلاسفی سے حاضرین کو بہت فائدہ ہو گا اور قہر بلا مبادلہ کی صورت یہ ہے کہ ہم اسے دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ہزار ہا کیڑے مکوڑے اور ہزارہا حیوانات بغیر کسی جرم اور بغیر ثبوت کسی خطا کے قتل کئے جاتے ہیں ہلاک کئے جاتے ہیں ذبح کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک قطرہ پانی میں صدہا کیڑے ہم پی جاتے ہیں اگر غور کر کے دیکھا جائے تو ہمارے تمام امور معاشرت خدا تعالیٰ کے قہر بلا مبادلہ پر چل رہے ہیں یہاں تک کہ جو ریشم کے کپڑے بھی انسان استعمال کرتا ہے اس میں اندازہ کر لینا چاہیئے کہ کس قدر جانیں تلف ہوتی ہیں۔ اور حضرات عیسائی صاحبان جو ہر روز اچھے اچھے جانوروں کا عمدہ گوشت تناول فرماتے ہیں ہمیں کچھ پتا نہیں لگتا کہ یہ کس گناہ کے عوض میں ہو رہا ہے اب جبکہ یہ ثابت شدہ صداقت ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ بلامبادلہ قہر کرتا ہے اور اس کا کچھ عوض ملتا ہمیں معلوم نہیں ہوتا تو پھر اس صورت میں بلا مبادلہ رحم کرنا اخلاقی حالت سے انسب اور اولیٰ ہے۔ حضرت مسیح ؑ بھی گناہ بخشنے کے لئے وصیت فرماتے ہیں کہ تم اپنے گناہ گار کی خطا بخشو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 198
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 198
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/198/mode/1up
ظاہرہے کہ اگر اللہ تعالیٰ جلّ شانہٗ کی صفات کے بر خلاف ہے کہ کسی کا گناہ بخشا جائے تو انسان کو ایسی تعلیم کیوں ملتی ہے۔ بلکہ حضرت مسیح تو فرماتے ہیں کہ میں تجھے سات مرتبہ تک نہیں کہتا بلکہ ستر کے سات مرتبہ تک یعنی اس اندازہ تک کہ گناہوں کو بخشتا چلا جا ۔
اب دیکھئے کہ جب انسان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ گویا تو بے انتہا مراتب تک اپنے گناہ گاروں کو بلا عوض بخشتا چلاجا اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بلا عوض ہرگز نہ بخشوں گا ۔ تو پھر یہ تعلیم کیسی ہوئی حضرت مسیح نے تو ایک جگہ فرما دیا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے اخلاق کے موافق اپنے اخلاق کرو ۔ کیونکہ وہ بدوں اور نیکوں پر اپنا سورج چاند چڑھاتا ہے اور ہر ایک خطا کار اور بے خطا کو اپنی رحمتو ں کی بارشوں سے متمتع کرتا ہے۔ پھر جبکہ یہ حال ہے تو کیونکر ممکن تھا کہ حضرت مسیح ایسی تعلیم فرماتے جو اخلاق الٰہی کے مخالف ٹھہرتی ہے یعنی اگر خدا تعالیٰ کا یہی خلق ہے کہ جب تک سزا نہ دی جائے کوئی صورت رہائی کی نہیں تو پھر معافی کیلئے دوسروں کو کیوں نصیحت کرتاہے۔ ماسوا اسکے جب ہم نظر غور سے دیکھتےؔ ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ نیکوں کی شفاعت سے بدوں کے گناہ بخشے گئے ہیں دیکھو گنتی باب۱۴ ۔ایسا ہی گنتی ۱۲ ۔ استثنا ء ۹۱۹ خروج ۸۸ پھر ماسوا اس کے ہم پوچھتے ہیں کہ آپ نے جو گناہ کی تقسیم کی ہے وہ تین قسم معلوم ہوتی ہے۔ فطرتی۔حق اللہ۔حق العباد تو پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حق العباد کے تلف ہونے کا کیا سبب ہو سکتا ہے اور نیز یہ بھی آپ کو دیکھنا چاہیئے کہ فطرتی گناہ آپ کے اس قاعدہ کو توڑ رہا ہے۔ آپ کی توریت کے رو سے بہت سے مقامات ایسے ثابت ہوتے ہیں جس سے آپ کا مسئلہ رحم بلا مبادلہ باطل ٹھہرتا ہے ۔ پھر اگر آپ توریت کو حق اورمنجانب اللہ مانتے ہیں تو حضرت موسیٰ کی وہ شفاعتیں جن کے ذریعہ سے بہت مرتبہ بڑے بڑے گناہ گاروں کے گناہ بخشے گئے نکمی اور بیکار ٹھہرتی ہیں اور آپ کو معلوم رہے کہ قرآن شریف نے اس مسئلہ میں وہ انسب طریق اختیار کیا ہے جو کسی کا اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا یعنی حقوق دو قسم کے ٹھہر ادئیے ہیں۔ ایک حق اللہ اور ایک حق العباد۔ حق العباد میں یہ شرائط لازمی ٹھہرائی گئی ہیں کہ جب تک مظلوم اپنے حق کو نہیں پاتا یا حق کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 199
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 199
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/199/mode/1up
وہ حق قائم رہتا ہے اور حق اللہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جس طرح پر کسی نے شوخی اور بیباکی کر کے معصیت کا طریق اختیا رکیا ہے ۔ اسی طرح جب وہ پھر توبہ و استغفار کرتا ہے اور اپنے سچے خلوص کے ساتھ فرمانبرداروں کی جماعت میں داخل ہوجاتا ہے اور ہر ایک طور کا درد اور دکھ اٹھانے کیلئے تیار ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہ کو اس کے اس اخلاص کی وجہ سے بخش دیتا ہے کہ جیسا کہ اس نے نفسانی لذات کے حاصل کرنے کے لئے گناہ کی طرف قدم اٹھایا تھا۔ اب ایسا ہی اس نے گناہ کے ترک کرنے میں طرح طرح کے دکھوں کو اپنے سر پر لے لیاہے۔ پس یہ صورت معاوضہ ہے جو اس نے اپنے پر اطاعت الٰہی میں دکھوں کو قبول کر لیا ہے اور اس کوہم رحم بلامبادلہ ہرگز نہیں کہہ سکتے ۔ کیا انسان نے کچھ بھی کام نہیں کیا کیا یوں ہی رحم ہو گیا اس نے تو سچی توبہ سے ایک کامل قربانی کو ادا کر دیا ہے اور ہر طرح کے دکھوں کو یہاں تک کہ مرنے کوبھی اپنے نفس پر گوارا کر لیا ہے اور جو سزا دوسرے طور پر اس کو ملنی تھی وہ سزا اس نے آپ ہی اپنے نفس پر وارد کر لی ہے تو پھر اس کو رحم بلا مبادلہ کہنا اگر سخت غلطی نہیں تو اور کیا ہے۔ مگر وہ رحم بلا مبادلہ جس کو ڈپٹی صاحب پیش کرتے ہیں کہ گناہ کوئی کرے اور سزا کوئی پاوے ۔ حزقیل باب ۱۸آیت ۱ ۔ پھر حزقیل ۲۰ پھر سموئیل ۲۳ مکاشفات ۱۲ ۲۰ حزقیل ۲۷۔۳۰ ۱۹ یہ تو ایک نہایت مکروہ ظلم کی قسم ہے۔ اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی ظلم نہیں ہو گا ۔ سوائے اس کے (کہ) کیا خدا تعالیٰ کو یہ طریق معانی گناہوں کا صدہا برس سوچ سوچ کر پیچھے سے یاد آیا۔ ظاہر ہے کہ انتظام الٰہی جو انسان کی فطرت سے متعلق ہے وہ پہلے ہی ہوناؔ چاہیئے ۔ جب سے انسان دنیا میں آیا گناہ کی بنیاد اسی وقت سے پڑی ۔ پھر یہ کیا ہو گیا کہ گناہ تو اسی وقت زہر پھیلانے لگا مگر خدا تعالیٰ کو چار ہزار برس گزرنے کے بعد گناہ کا علاج یا د آیا ۔ نہیں صاحب یہ سراسر بناوٹ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جیسے ابتداء سے انسان کی فطرت میں ایک ملکہ گناہ کرنے کا رکھا۔ ایسا ہی گناہ کا علاج بھی اسی طرز سے اسکی فطرت میں رکھا گیا ہے جیسے کہ وہ خود فرماتاہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 200
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 200
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/200/mode/1up
۱(پارہ ۱ ر۱۳)یعنی جو شخص اپنے تمام وجود کو خدا تعالیٰ کی راہ میں سونپ دیوے اور پھر اپنے تئیں نیک کاموں میں لگا دیوے تو اس کو ان کا اجر اللہ تعالیٰ سے ملے گا۔ اور ایسے لوگ بے خوف اور بے غم ہیں ۔ اب دیکھئے کہ یہ قاعدہ کہ توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اپنی زندگی کو اس کی راہ میں وقف کر دینا یہ گناہ کے بخشے جانے کیلئے ایک ایسا صراط مستقیم ہے کہ کسی خاص زمانہ تک محدود نہیں جب سے انسان اس مسافر خانہ میں آیا تب سے اس قانون کو اپنے ساتھ لایا۔ جیسے اس کی فطرت میں ایک شق یہ موجود ہے کہ گناہ کی طرف رغبت کرتا ہے ایسا ہی یہ دوسرا شق بھی موجود ہے کہ گناہ سے نادم ہو کر اپنے اللہ کی راہ میں مرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے ۔ زہر بھی اسی میں ہے اور تریاق بھی اسی میں ہے۔ یہ نہیں کہ زہر اندر سے نکلے اور تریاق جنگلوں سے تلاش کرتے پھریں ماسوا اس کے میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے کہ حضرت مسیح کے کفارہ پر ایمان لا کر کوئی شخص خاص طور کی تبدیلی پا لیتا ہے تو اس کا کیوں ثبوت نہیں دیاگیا۔ مَیں نے بار ہا اس بات کو پیش کیا اور اب بھی کرتا ہوں کہ وہ خاص تبدیلی اور وہ خاص پاکیزگی اور وہ خاص نجات اور وہ خاص ایمان اور وہ خاص لقاء الٰہی صرف اسلام ہی کے ذریعہ سے ملتا ہے اور ایمانداری کی علامات اسلام لانے کے بعد ظاہر ہوتی ہیں ۔ اگر یہ کفارہ صحیح ہے اورکفارہ کے ذریعہ سے آپ صاحبان کو نجات مل گئی ہے اور حقیقی ایمان حاصل ہو گیا ہے تو پھر اس حقیقی ایمان کی علامات جو حضرت مسیح ؑ آپ لکھ گئے ہیں کیوں آپ لوگوں میں پائی نہیں جاتیں۔ اور یہ کہنا کہ وہ آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں ایک فضول بات ہے۔ اگر آپ ایماندار کہلاتے ہیں تو ایمانداروں کی علامات جو آپ کیلئے مقرر کی گئی ہیں آپ لوگوں میں ضرور پائی جانی چاہئیں۔ کیونکہ حضرت مسیح کا فرمودہ باطل نہیں ہو سکتا۔ مگرآپ غورؔ سے دیکھیں کہ وہ علامات دینِ اسلام میں ایسے نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں کہ آپ ان کے مقابلہ پر دم بھی تو نہیں مار سکتے میں نے انہیں کے لئے آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ آپ اگر بالمقابل کھڑے نہیں ہو سکتے تو ان علامتوں کو قرآن شریف کی تعلیم کے لحاظ سے پرکھو اور آزماؤ پھر اگر وہ واقعی سچی نکلیں تو راست بازوں کی طرح ان کو قبول کر لو مگر آپ نے بجز ہنسی اور ٹھٹھ کے اور کیا جواب دیا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 201
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 201
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/201/mode/1up
تین لولے ۔ لنگڑے وغیرہ میر ے سامنے کھڑے کر دئے کہ ان کو چنگے کرو۔ حالانکہ ان کا چنگا کرنا عیسائی ایمان کی علامتوں میں سے ہے ۔ ہمارے لئے تو وہ علامتیں ہیں جو قرآن شریف میں آچکی ہیں اور ہمیں کہیں نہیں کہا گیا کہ تم اپنے اقتدار سے علامتیں دکھا سکتے ہوبلکہ یہی کہا گیا کہ خدا تعالیٰ سے درخواست کرو ۔ پھر جس طرح کا نشان چاہے گا دکھلائے گا تو کیا آپ کی یہ بے انصافی نہیں کہ آپ نے مجھ سے وہ مطالبہ کیا جو آپ سے ہونا چاہیئے تھا اور پھر اس کا نام فتح رکھ لیا ۔ مَیں تو اب بھی حاضر ہوں ان شرائط کے مطابق جو ہماری کتاب ہم پر فرض کرتی ہے اور نیز آپ ان شرائط کے مطابق جو آپ کی کتاب آپ پر فرض کرتی ہے میرے سے نشانوں میں مقابلہ کیجئے پھر حق اور باطل خود بخود کھل جائے گا۔ پر ہنسی اور ٹھٹھا کرنا راستبازوں کا کام نہیں ہوتا ہے میرے پر اسی قدر فرض ہے جو قرآن کریم میرے پر فر ض کرتا ہے اور آپ پر وہ فرض ہے جو انجیل آپ پر فرض کرتی ہے رائی کے دانہ کا مقولہ آپ بار بار پڑھیں اور پھر آپ ہی انصاف کر لیں اور یہ رحم بلا مبادلہ کا سوال جو مجھ سے کیا گیا ہے اس کے جواب کا اور بھی حصہ باقی ہے جو پھر میں آپ کے جواب پانے کے بعد بیان کروں گا ۔ مگر آپ پر لازم ہے کہ اول اس سوال کو انجیل سے بموجب شرط قرار یافتہ کے ثابت کر کے مدلل طور پر پیش کریں کیونکہ جو بات انجیل میں نہیں وہ آپ کی طرف سے پیش ہونے کے لائق نہیں۔ میرے خیال میں اس سوال کے رد کرنے کے لئے انجیل ہی کافی ہے اور حضرت مسیحؑ کے اقوال اس کے استیصال کے لئے کفایت کرتے ہیں۔ آپ براہ مہربانی اس التزام سے جو اب الجواب دیں کہ لکھنے کے وقت انجیل کا حوالہ ساتھ ہو تاکہ ناظرین کو پتا لگے کہ انجیل کیا کہتی ہے اور اس سوال کا ذریعہ انجیل بنتی ہے یا دستبردار ہے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح ؔ پریذیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریذیڈنٹ
از جانب اہلِ اسلام از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 202
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 202
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/202/mode/1up
از ؔ طرف ڈپٹی عبد اللہ آ تھم صاحب
۳۰ ؍ مئی ۱۸۹۳ ء
مَیں آپ کے طرز جواب پرکچھ اعتراض کرتا ہوں۔
یہ جواب فرماتے ہیں کہ رحم بلامبادلہ کا مقدمہ سراسر ثبوت الوہیت مسیح کے اوپر مدار رکھتا ہے جس کو تم نے ثابت نہیں کیا۔ میری طرف سے عرض ہے کیا ثبوت آپ مجھ سے طلب فرماتے ہیں۔ میں تو عرض کر چکا ہوں کہ ہم تو اس مسیح کو جو مخلوق اور مرئی ہے اللہ نہیں کہتے مگر مظہر اللہ کہتے ہیں اور اِس بارہ میں دو امر کا ثبوت چاہیئے یعنی ایک امکان کا دوسرا وقوعہ کا اور کہ امکان ہم دلائل عقلی سے ثابت کر تے ہیں اور وقوعہ اس کا کلام الٰہی سے۔ پھر اورکیاآپ چاہتے ہیں وہ ہم پر ظاہر ہونا چاہیئے امکان پر ہم نے یہ عرض کیاتھا کہ کیا خدا قادر نہیں کہ اس ستون میں سے جومٹی واینٹوں کا بنا ہے جواب دیوے ۔ کیا چیز مانع اسکے ایسے کرنے کا اس میں ہوسکتی ہے۔ یعنی کون صفت الٰہی اس میں کٹتی ہے۔ اس کا دکھلانا جناب کے ذمہ تھا جو اب تک ادا نہیں ہوا۔ جیسا میں نے ستون کی مثال دی۔ ویساہی مخلوق میں سے بھی ظہور اس کا ہونا ممکن ہے۔ اور وہ جو بابت وقوعہ کے ہے اسکے واسطے ہم نے کلام کی آیات دی ہیں اگر آپ کو اس کتاب سے انکار ہے کہ یہ الہامی نہیں تو یہ دیگر بات ہے اور اگر ہم نے صحیح حوالہ نہیں دیا تو اِس کا مواخذہ ہم سے فرمائیے مگر کلام کو بھی تسلیم کرنا کہ یہ الہامی ہے اور حوالوں کو صرف اتنا ہی فرماکر گرادینا کہ کچھ نہیں یہ درست نہیں۔
دوم۔ وہ جو جناب نے استفسار کیا ہے کہ وجود مسیح میں آیا دو رُوحیں تھیں یاایک۔ اور ایک وجود میں دو رُوحیں کس طرح سے رہتی ہیں۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ مخلوق کامل مسیح میں ایک روح کامل تھی۔ لیکن خدا تعالیٰ اپنی ہستی سے بجہت اس کے بے حد ہے ہر جگہ اندر و باہر موجودہے۔ اور مظہر اللہ ہونے کے معنے یہ ہیں کہ اپنا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 203
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 203
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/203/mode/1up
ظہور خاص کسی جگہ سے کسی طرح سے کرے۔ تو اس میں دوسری روح کے مقید ہونے کی جسم مسیح میں کونسی ایما ہے اور خالی خدا سے ہونے پر کونسی ایما ہے۔ یہ تو معقولی مسئلہ ہے محتاجؔ کتاب کا نہیں اس میں آپ کس لئے اٹکتے ہیں۔
سوم۔ وہ جوجناب لطیف ضدی کے بارہ میں کشش وزن کی فرماتے ہیں تو اس کشش سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو جناب کثیف ٹھہراتے ہیں اور ہم یہ نہیں مانتے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کثیف ہے لہذا اس میں وزن کیونکر ہو۔ کیونکہ وزن نام کشش کا ہے اور کشش متعلق کثافت کے ہے ۔ آپ ہمارے مسئلہ کثرت فی الوحدت کو سمجھے نہیں کیونکہ ہم ماہیت کو تقسیم نہیں کرتے گو اقانیم کو مخلوط یک دیگر بھی نہیں کرتے۔ مثال ہماری کثرت فی الوحدت کی یہ ہے کہ جیسے صفت نظیری کی بے حدی سے نکلتی ہے اورنکلنا اس کا زمان ومکان کا کچھ فرق نہیں کر تا۔ بلکہ ایک صورت میں وہ ہر دو ایک ہی رہتے ہیں اور دوسری صورت میں بہت ہوتی ایسا ہی تین اقانیم میں اقنوم اولیٰ قائم فی نفسہ ہے ۔ اور دو اقانیم مابعد کے اس ایک کے لازم و ملزوم ہیں آپ تین اقانیم کا وزن تین جگہ کس طرح تقسیم فرماتے ہیں۔ لطیف ضدی کے ساتھ وزن کا علاقہ کیا ہے۔ لطیف ضدی ہم اسکو کہتے ہیں جو عین ضد کثافت پر ہونہ اس کو جو نسبت ایک کی دوسرالطیف ہو۔ جیسے مٹی کی نسبت پانی اور پانی کی نسبت ہوا اور ہوا کی نسبت آگ یہ ساری لطیف نسبتی ہیں اور فی الواقع کثیف ہی رہتے ہیں۔
کلام الٰہی کے بیان کو آپ صرف دعویٰ فرماتے ہیں اور اسکے ثبوت کے واسطے دلیل اور طلب کرتے ہیں تو اس سے یہ مراد آپ کی معلوم ہوتی ہے کہ آپ بابت عقیدہ کلام الٰہی کے یا تو متذبذب ہیں ویا مطلقًا یقین نہیں رکھتے۔ یہ امر طے ہولے تو ہم اس کا بھی جواب دینگے۔
چھارم۔ وہ رحم جو بلامبادلہ کی دلیل پر جناب نے فرمایا ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ جیسا رحم بلا مبادلہ فرماتا ہے ویسا ہی قہر بھی بلا مبادلہ فرماتاہے۔ چنانچہ وہ جانور معصوم ہو کرمارے جاتے ہیں کوئی کسی کی معیشت کے واسطے اورکوئی اور طرح پر۔ جواب سار ی شکایت اس امر میں دکھ کے اوپر ہے اور دکھ ہماری نظر میں تین قسم کے ہیں یعنی ایک وہ جو سزائیہ ہے دوسرا وہ جو مصقل سُکھ کا ہے۔ تیسرا وہ جو سامان امتحان کا ہے۔ تو جب آپ حیوانوں کے دُکھ سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں یہ قہر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 204
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 204
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/204/mode/1up
بلا ؔ مبادلہ یابلا وجہ ہے خیال فرمائیے کہ آپ کس قدر غلط ہیں۔ جو تین اقسام کو ایک ایک قسم سزا میں ڈالدیتے ہیں اور ما سوا اِس کے جو آپ فرماتے ہیں کہ قہر بھی بلا وجہ ہو سکتا ہے اور رحم بھی بلاوجہ تو خدائے مقدس کی خدا ئی یہ نہ ہوئی بلکہ دہریت کی اندھیر گردی ہوئی۔
پنجم۔ خدا وند مسیح نے ضرور کہا ہے کہ تم گناہوں کو معاف ہی کرتے رہو جو تمہارے برخلاف کریں اور انتقام نہ لو لیکن کلام انجیل میں یہ بھی لکھاہے کہ تم انتقام نہ لو۔ کیونکہ خداوند فرماتا ہے کہ انتقام لینا میرا کام ہے۔
اور چونکہ گناہوں کی اقسام گو کتنی ہی بیان ہوں مگر دراصل گناہ صرف خدا کے برخلاف ہوتا ہے اور وہ فرماتاہے کہ تم انتقام نہ لو اور ضرو رت ہو گی تو مَیں انتقام لوں گا۔ تو بھی اس میں تعلیم کفارہ کے بر خلاف کیا ہوا جس کا گناہ کیاگیا اسی نے ہر ایک کو منتقم اورجج اس کا نہیں بنایا۔
ششم۔ دُنیا وی عدالت نہ حقیقی عدالت کانام ہے محض نظامت کا نام ۔ کیونکہ ہرجہ کو واپس نہیں لاتی مگر جرائم کو رو بہ تنزل کرتی ہے۔ اور نہ دنیاوی شفاعت شفاعت کانام ہے بلکہ ایک مہلت طلبی کا نام ہے کیونکہ خدا وند کو اختیار ہے کہ گناہگار کو اس کے گناہوں میں یہاں ہی کاٹ ڈالے لیکن اپنے محبوبوں کی درخواست پر وہ مہلت توبہ کی بخش سکتا ہے۔ جو شفیع منصبی نہیں ہیں ان کا جواب ہم ادا کر چکے ہیں مگر بموجب اذن خدا کے مہلت بخشوانے کی شفاعت ہو سکتی ہے کہ مہلت بخشی جاوے کہ توبہ کرلے۔ فرائض ہمارے نزدیک دو ہی قسم کے اقسام ماتحت میں ہیں لیکن اصل میں ایک ہی قسم ہے جیسا کہ داؤد نبی فرماتا ہے کہ مَیں نے تیرا ہی گناہ کیا۔ پس حق العباد کا گناہ تو اسمیں آگیالیکن فطرتی گناہ شاید آپ موروثی گناہ کو فرماتے ہیں لیکن گناہ موروثی کے بارہ میں ہماری غرض یہ ہے کہ آدم کے گناہ میں گرنے کے باعث آدمزاد کاامتحان سخت تر ہوگیا کہ جسم میں تکالیف پیدا ہو ئیں اور موت ڈراؤنی ٹھہر گئی۔ اِن معنوں کر کے اِس کو آدم کا گناہ کہا جاتاہے ورنہ جیسا آپ نے حزقیل نبی کا حوالہ دیا وہی صحیح ہے کہ جو رُوح گناہ کرے گی وہی مرے گی۔ باپ دادوں کے انگور کھٹے کھائے ہوئے اولاد کے دانت کھٹے نہیں کریں گے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 205
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 205
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/205/mode/1up
ھفتمؔ ۔ جس منصوبہ کو جناب مکر وہ فرماتے ہیں کہ گناہ کوئی کرے اور سزاکوئی بھرے اس کا جواب یہ ہے کہ کیا دُنیا میں ایک شخص کا قرضہ دُوسرا اپنی دَولت سے نہیں ادا کر سکتا۔ ہاں ایک گناہگار دوسرے کے گناہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ وہ اپنے ہی گناہوں سے فارغ نہیں جیسا کہ جو خود قرضدار ہے وہ دوسرے کے قرضہ کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ پس یہ کراہت مسیح کے کفارہ میں کہاں سے آئی جو گناہگار نہ تھا اور ذخیرہ نجات میں غنی جس کو اس نے اپنے کفارہ سے پَیداکیاتھا۔
ھشتم۔ خداوند تعالیٰ نے اس نقشہ امتحان میں ہم کو یہ صورت دکھلائی ہے کہ امتحان اعمالی جو ایک ہی خطاپر ختم ہو جاتا تھا اور مہلت توبہ کی نہ دیتا تھا وہ موقوف کیا گیا بوسیلہ کفارہ مسیح کے بجائے اِسکے امتحان ایمانی قائم کیاگیا کہ جس میں بہت سی فرصت توبہ کی مل سکتی ہے۔ پس جو خدا وند میں مقبول ہیں وہ بھی اِس دُنیا میں امتحان ایمانی سے بَری نہیں ہوئے۔ لیکن اِس کے خاتمہ کا دن نزدیک ہے اور جب وہ آئے گا تو اس وقت انسان کامل نجات کو دیکھے گا۔ فی الحال اس اطمینان ہی کو دیکھتا ہے جو صادق کے وعدہ پر کوئی منتظر تاج و تخت کا ہو۔ جناب جو فرماتے ہیں ہم کو کوئی ایسا شخص دکھلاؤ جو نجات یافتہ ہو اِس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نجات جناب کسی ایسی چیز کو کہتے ہیں جیسے بڑا ڈھیلاآنکھوں سے محسوس ہوتا ہے۔ مگر اطمینان کی تو یہ شکل نہیں بلکہ وہ شکل ہے کہ جیسے ایک نوکد خدا لذتِ زفاف کو بیان نہیں کر سکتی لیکن حقیقت میں اُسکو عزیز سمجھتی ہے۔
نہم۔ جن امور کی یہ بار بار کشش ہوتی ہے کہ آپ بموجب آیات انجیلی کے معجزہ دِکھلاؤ ہمارا جواب یہ ہے کہ ہم بار بار ان مقامات کی شرح حقیقی دکھلاچکے۔ اگر جناب پھر اسی سوال کا تکرار کریں اور ہماری شرح کو ناقص نہ دکھلاسکیں تو انصاف کس کے گھر کے آگے ماتم کر رہا ہے اس کو منصف طبع آپ پہچان لیں گے۔ اَب ہمارا سوال جہاں کا تہاں موجود ہے کہ رحم بلا مبادلہ ہرگز جائز نہیں۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 206
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 206
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/206/mode/1up
نواںؔ پرچہ
روئیدادجلسہ مباحثہ۳۱۔ مئی ۱۸۹۳ ء
مرزاصاحب نے ۶ بجے ۶ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۶ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سُنایاگیا۔
مِسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے ۷ بجے ۵۲ منٹ پر شروع کیا اور ۸ بجے ۵۲ منٹ پر ختم کیا اور سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۶ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰ بجے ۲۶ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایاگیا۔ بعد ازاں مینجر نیشنل پریس کی درخواست پیش ہوئی کہ اُسے مباحثہ چھاپنے کی اجازت دی جائے۔ قرار پایا کہ اُسے اجازت دی جائے اِس شرط پر کہ وہ اُسی طرح مباحثہ چھاپے جس طرح کہ منیجر ر یاض ھند پریس چھاپ رہا ہے۔ یعنی بلا کمی و بیشی فریقین کی تحریریں باترتیب چھاپے۔ اِس کے بعد تحریروں پر میر مجلسوں کے دستخط ہوئے اور جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحرو ف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک
از جانب اہل اسلام از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 207
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 207
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/207/mode/1up
بیانؔ حضرت مرزا صاحب
۳۱ ۔ مئی ۱۸۹۳ ء
ڈپٹی صاحب کا کل کا سوال جو ہے کہ رحم بلا مبادلہ ہرگز جائز نہیں آج کسی قدر اس کاتفصیل سے جواب لکھا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ رحم بلا مبادلہ میں عیسائی صاحبوں کا یہ اصول ہے کہ خدا تعالےٰ میں صفت عدل کی بھی ہے اور رحم کی بھی ۔ صفت عدل کی یہ چاہتی ہے کہ کسی گناہگار کو بغیر سزاکے نہ چھوڑا جائے۔ اور صفت رحم کی یہ چاہتی ہے کہ سزا سے بچایاجائے اورچونکہ عدل کی صفت رحم کرنے سے روکتی ہے اِس لئے رحم بلا مبادلہ جائز نہیں۔
اورمسلمانوں کا یہ اصول ہے کہ رحم کی صفت عام اور اول مرتبہ پر ہے جو صفت عدل پر سبقت رکھتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱س۹ ر ۹۔پس اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے۔ اور غضب یعنی صفت عدل بعد کسی خصوصیت کے پَیدا ہوتی ہے یعنی یہ صفت قانون الٰہی سے تجاوز کرنے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے اور اِسکے لئے ضرور ہے کہ اوّل قانون الٰہی ہو۔ اور قانون الٰہی کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا ہو اور پھر یہ صفت ظہور میں آتی ہے اور اپنا تقاضا پورا کرناچاہتی ہے۔ اورجب تک قانون نہ ہو یاقانون کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا نہ ہو مثلًا کوئی شخص قانون الٰہی کے سمجھنے کے قابل نہ ہو ۔ جیسے بچّہ ہو یا دیوانہ ہو یا قِسم حیوانات سے ہو اُس وقت تک یہ صفت ظہور میں نہیں آتی ہاں خداتعالیٰ اپنی مالکیت کی وجہ سے جو چاہے سو کرے کیونکہ اُس کا اپنی ہر ایک مخلوق پر حق پہنچتا ہے تو اَب اِس تحقیق سے ثابت ہوا کہ عدل کو رحم کے ساتھ کچھ بھی علاقہ نہیں رحم تو اللہ تعالےٰ کی ازلی اوراوّل مرتبہ کی صفت ہے جیسا کہ حضرات عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 208
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 208
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/208/mode/1up
بھی اس بات کا اقرار رکھتے ہیں کہ خدا محبت ہے۔ کہیں یہ نہیں لِکھا کہ خد ا غضب ہے یعنی عدل ہے اور غضب کا لفظ عدل کے لفظ سے اِس لئے مترادف اورؔ ہم معنی ہے کہ خدا تعالیٰ کا غضب انسانوں کے غضب کا سانہیں کہ بلا وجہ اور یا چڑنے کے طورپر ظہور میں آجائے بلکہ وہ ٹھیک ٹھیک عدل کے موقعہ پر ظہور میں آتا ہے۔ اَب یہ دوسرا سوال ہے کہ جو شخص قانون الٰہی کی خلاف ورزی کرے اِس کی نسبت کیا حکم ہے تو اِسکا یہی جواب ہو گا کہ اس قانون کی شرائط کے مطابق عمل کیا جاوے گا۔ رحم کو اس جگہ کچھ تعلق نہیں ہوگا۔ یعنی رحم بلا مبادلہ کے مسئلہ کو اِس جگہ کچھ تعلق نہیں ہوگاکیونکہ گناہ کی فلاسفی یہی ہے کہ وہ قانون الٰہی کے توڑنے سے پَیدا ہوتا ہے پس ضرورہوا کہ پہلے قانون موجود ہو مگر قانون تو کسی خاص زمانہ میں موجودہوگااس لیے خداتعالیٰ کاعدل اس کے رحم کے دوش بدوش نہیں ہوسکتا بلکہ اس وقت پیداہوتا ہے کہ جب قانون نفاذپا کر اورپھر پہنچ کر اُس کی خلاف ورزی کی جائے۔ پس واضع قانون کو یہ عام اختیار ہے کہ جس طرح چاہے اپنے قانون کی خلا ف ورزی کی سزائیں مقرر کرے اور پھر ان سزاؤں کے معا ف کرنے کیلئے اپنی مرضی کے مطابق شرائط اورحدود ٹھہرائے لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ اب یہ مسئلہ رحم بلا مبادلہ کی مزاحمت سے اور صورت میں ہو کر بالکل صاف ہے ہاں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں یا طریق معافی کے مقرر کئے گئے ہیں یہ کس مذہب کی کتاب میں انسب و اولیٰ اور قرین بانصاف ہیں۔ اور اِس خوبی کے دیکھنے کے لئے رحم کالحاظ رکھنا بہت ضرور ی ہو گا۔ کیونکہ ابھی ہم ثابت کر چکے ہیں کہ رحم اصلی اورعام اور مقدم صفت ہے پس جس قدر کسی مذہب کا طریق سزا اور طریق معافی رحم کے قریب قریب ہو گا وہ انسب اور اولیٰ مذہب سمجھا جائے گا کیونکہ سزا دہی کے اصول اورقوانین میں حد سے زیادہ تشدّد کرنا اورایسی ایسی پابندیاں لگا دینا جو خود رحم کے برخلاف ہیں خداتعالیٰ کی صفات مقدسہ سے بہت دور ہیں سو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 209
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 209
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/209/mode/1up
اب منصف لوگ دیکھ لیں کہ قرآن کریم نے معافی کا کیا طریق ٹھہرایا اورانجیل شریف کے رو سے معافی کا کیا طریق بیان کیاجاتا ہے سو واضح ہو کہ قرآن کریم کی ہدایتیں کسی شخص کی معافی کے لئے کوئی بے جا تشدّد اورکوئی اصول جو ظلم تک منجر ہو بیان نہیں فرماتیں صرف اصلی اور طبعی طور پر یہ فرماتی ہیں۔ کہ جو شخص قانونؔ الٰہی کے توڑنے سے کِسی جرم کاارتکاب کرے۔ تو اس کے لئے یہ راہ کھلی ہے کہ وہ سچی توبہ کرکے اور اُن قوانین کی صحت اورحقّانیت پر ایمان لا کر پھر سر نو جدّ و جہد سے اِن قوانین کا پابند ہوجائے یہاں تک کہ ان کے راہ میں مَرنے سے بھی دریغ نہ کرے۔ ہاں یہ بھی لکھا ہے کہ شفاعت بھی مجرموں کے لئے فائدہ بخش ہے مگر خدا تعالیٰ کے اذن سے اور اعمال حسنہ بھی گناہوں کا تدارک کرتے ہیں اور ایمانی ترقی بھی اور نیز محبت اور عشق بھی گناہوں کے خس و خاشاک کو آگ کی طرح جلا دیتی ہے لیکن حضرات عیسائی صاحبوں کے اصول میں اوّل الدن دردی یہ ہے کہ گناہوں کی معافی کے لئے ایک بے گناہ کا مصلوب ہونا لازمی اور ضرور ی سمجھا گیاہے اب عقلمند منصف خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ ہر ایک جھگڑے اور تنازعہ کے فیصلہ کے لئے خدا تعالیٰ کا قانون قدرت موجود ہے یہ قانون قدرت صاف شہادت دے رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کا رحم بلامبادلہ قدیم سے جاری ہے جس قدر خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کر کے اور طرح طرح کی نعمتیں اِنسانوں کو بخش کر اپنا رحم ظاہر کیا ہے۔ کیا اِس سے کوئی انکار کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ ۱س ۱۳ ر ۱۷ ۔ یعنی اگر تم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ہرگز گن نہیں سکتے۔
ایسا ہی اسکی رحیمیت یعنی کسی نیکی کی پاداش میں جزادینا قانون قدرت سے صاف ثابت ہو رہا ہے کیونکہ جو شخص نیک راہوں پر چلتا ہے وہ ان کا نتیجہ بھگت لیتا ہے۔ ایسا ہی اس کی مالکیت بھی قانون قدرت کے روسے ثابت ہو رہی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 210
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 210
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/210/mode/1up
کل بیان کیا تھا کہ کروڑہا جانور انسان کے فائدہ کے لئے ہلاک کئے جاتے ہیں ۔ اورنیز تورات سے ثابت ہے کہ حضرت نوح کے طوفان میں بجز چند جانوروں کے باقی تمام حیوانات طوفان سے ہلاک کئے گئے۔ کیا ان کا کوئی گناہ تھا کوئی نہ تھا۔ صرف مالکیت کا تقاضا تھا۔ اور یہ بات کہ گناہ قانون سے پیدا ہوتا ہے یہ اِس آیت سے صاف ثابت ہے ۱س۱ر۴۔یعنی جو لوگ ہماری کتاب پہنچنے کے بعد کفر اختیار کریں اورتکذیب کریں وہ جہنمؔ میں گرائے جائیں گے۔ اور پھر خداتعالیٰ کا توبہ سے گناہ بخشنا اِس آیت سے ثابت ہے۔ ۲ س۲۴ر۶۔ اور خدا تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیت اِن آیات سے ثابت ہے۔۳ اوربقیہ جوابات ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کے ذیل میں لکھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح کی رُوح مخلوق تھی اورجسم بھی مخلوق تھا اور خدا تعالیٰ اِس طرح اُن سے تعلق رکھتا تھا جیسا کہ وہ ہرجگہ موجود ہے یہ فرمانا ڈپٹی صاحب کا مجھے سمجھ نہیں آتا جبکہ حضرت مسیح نرے انسان ہی تھے اوران میں کچھ بھی نہیں تھا تو پھر خدا تعالیٰ کاتعلق اورخدا تعالیٰ کا موجودہونا ہر ایک جگہ پایاجاتا ہے پھر باوجود اس کے آپ اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ حضرت مسیح مظہر اللہ ہیں۔ مَیں سوچتا ہوں کہ یہ مظہر اللہ کیسے ہوئے اِس سے تو لازم آیا کہ ہر ایک چیز مظہراللہ ہے۔ پھر میر ایہ سوال ہے کیایہ مظہر اللہ ہونا رُوح القدس کے نازل ہونے سے پہلے ہوا یارُوح القدس کے پیچھے ہوا۔ اگر پیچھے ہوا تو پھر آپ کی کیا خصوصیّت رہی۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کثیف ہے لہٰذا اس میں وزن کیونکر ہو۔ میرا جواب ہے کہ بیٹا یعنی حضرت عیسیٰ کا اقنوم مجسم ہونا ثابت ہے کیونکہ لکھا ہے کہ کلام مجسّم ہوا اوررُوح القدس بھی مجسم تھا کیونکہ لکھا ہے کہ کبوتر کی شکل میں اترا اور آپ کا خدا بھی مجسم ہے کیونکہ یعقوب سے کشتی کری اور دیکھابھی گیا اور بیٹا اِس کے دہنے ہاتھ جا بیٹھا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 211
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 211
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/211/mode/1up
پھر آپ اپنی کثرت فی الوحدت کا ذکر کرتے ہیں مگر مجھے سمجھ نہیں آتا ۔ کہ کثرت حقیقی اور وحدت حقیقی کیونکر ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں اور ایک کو اعتباری ٹھہرانا آپ کا مذہب نہیں اِس جگہ مَیں یہ بھی پوچھتا ہوں کہ حضرت مسیح جو مظہر اللہ ٹھہرائے گئے وہ ابتدا سے اخیر وقت تک مظہر اللہ تھے اور دائمی طور پر اُن میں مظہریت پائی جاتی تھی یا اتفاقی اور کبھی کبھی اگر دائمی تھی تو پھر آپ کو ثابت کرناپڑے گا کہ حضرت مسیح کا عالم الغیب ہونا اور قادر وغیرہ کی صفات اُن میں پائے جانا یہ دائمی طورپر تھا حالانکہ انجیل شریف اس کی مکذّب ہے۔ مجھے بار بار بیان کرنے کی حاجت نہیں۔
اِس جگہ یہ بھی مجھے پوچھنا پڑا کہ جس حالت میں بقول آپ کے حضرت مسیح میں دو روحیں نہیںؔ صرف ایک روح ہے جو انسان کی روح ہے جس میں الوہیت کی ذرہ بھی آمیزش نہیں۔
ہاں جیسے خدا تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اورجیسے کہ لکھا ہے کہ یوسف ؑ میں اس کی روح تھی حضرت مسیح ؑ کے ساتھ بھی موجود ہے۔ تو پھر حضرت مسیح اپنی ماہیّت ذاتی کے لحاظ سے کیونکر دُوسرے اقنوم ٹھہرے اوریہ بھی دریافت طلب ہے کہ حضرت مسیح کا آپ صاحبو ں کی نظر میں دُوسرا اقنوم ہونا یہ دَوری ہے یا دائمی ۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ وہ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم انتقام نہ لومَیں تعجب کرتا ہوں کہ انتقامی شریعت یعنی توریت تو خود آپ کی مسلمات میں سے ہے پھر کیونکر آپ انتقام سے گریز کرتے ہیں اور اِس بات کا مجھے ابھی تک آپ کے منہ سے جواب نہیں ملا کہ جس حالت میں تین اقنوم صفات کاملہ میں برابر درجہ کے ہیں تو ایک کامل اقنوم کے موجود ہونے کے ساتھ جو جمیع صٖفات کاملہ پر محیط ہے اور کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں کیوں دوسرے اقنوموں کی ضرورت ہے۔ اور پھر ان کاملوں کے ملنے کے بعد یا ملنے کے لحاظ سے جو اجتماعی حالت کا ایک ضروری نتیجہ ہونا چاہیئے وہ کیوں اِس جگہ پَیدانہیں ہوا۔ یعنی یہ کیا سبب ہے کہ باوجودیکہ ہر ایک اقنوم تمام کمالات مطلوبہ الوہیت کا جامع تھا پھرا ن تینوں جامعوں کے اکٹھاہونے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 212
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 212
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/212/mode/1up
سے الوہیت میں کوئی زیادہ قوت اور طاقت نہ بڑھی اگر کوئی بڑھی ہے اور مثلًا پہلے کامل تھی پھر ملنے سے یاملنے کے لحاظ سے اکمل کہلائے یا مثلًا پہلے قادر تھی اور پھر ملنے کے لحاظ سے اقدر نام رکھا گیا۔ یاپہلے خالق تھی اور پھر ملنے کے لحاظ سے خلّاق یااخلق کہا گیا۔ تو براہ مہربانی اس کا کوئی ثبوت دینا چاہیئے آپ کثیف جسموں کی طرف تو ناحق کھینچ کر لے گئے۔ مَیں نے تو ایک مثال دی تھی اور پھر وہ مثال بھی بفضلہ تعالیٰ آپ ہی کی کتابوں سے ثابت کر دِکھائی اور آپ کے یہ تمام بیانات بڑے افسوس کے لائق ہیں کیونکہ ہماری شرط کے مطابق نہ آپ دعویٰ انجیل کے الفاظ سے پیش کرتے ہیں اورنہ دلائل معقولی انجیل کے رو سے بیان فرماتے ہیں بھلا فرمائیے کہ رحم بلا مبادلہ کا لفظ انجیل شریف میں کہاں لکھا ہے اور اسکے معنے خود حضرت مسیح کے فرمودہ سے کب اورکس وقت آپ نے بیان فرمائے ہیں اِس عہد شکنی پر جس قدر اہل انصاف افسوس کریں وہ تھوڑا ہے۔ اورؔ کل جو مَیں نے قہر بلامبادلہ کا ذکر کیاتھا اس کا بھی آپ نے کوئی عمدہ جواب نہ دیا میرا مطلب تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت بغیر دیکھنے گناہ کے بجائے خود کام کر رہی ہے۔ مثلًا انسان کے بچوں کو دیکھو کہ صدہا صعب اور شدید اور ہولناک بیماریاں ہوتی ہیں اور بعض ایسے غرباء اور مساکین کے گھر میں پَیدا ہوتے ہیں کہ دانت نکلنے کے ساتھ طرح طرح کے فاقہ کو اٹھانا پڑتا ہے پھر بڑے ہوئے تو کسی کے سائیس بنائے گئے۔ اور دوسری طرف ایک شخص کسی بادشاہ کے گھر میں پَیدا ہوتا ہے پَیدا ہوتے ہی غلام اورکنیزکیں اور خادم دست بدست گود میں لئے پھرتے ہیں۔ بڑا ہو کر تخت پر بیٹھ جاتاہے۔ اِس کا کیا سبب ہے۔ کیا مالکیت سبب ہے یا آپ تناسخ کے قائل ہیں پھر اگرمالکیت ثابت ہے اور خدا تعالیٰ پر کسی کا بھی حق نہیں تو اتنا جوش کیوں دکھایاجاتاہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ موسیٰ کی شفاعتیں حقیقی شفاعتیں نہیں تھیں بلکہ ان پرمواخذہ قیامت کی پخ لگی ہوئی تھی اور گو خداتعالیٰ نے سرسری طور پر گناہ بخش دیئے اور کہدیا کہ مَیں نے موسیٰ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 213
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 213
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/213/mode/1up
کی خاطر بخش دئیے۔ لیکن اصل میں نہیں بخشے تھے پھر پکڑے گا اور چِڑ کرنے والوں کی طرح ناراض ہو کر جہنم میں ڈالے گا اِس کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے براہ مہربانی وہ ثبوت پیش کریں مگر توریت کے حوالہ سے جہاں یہ لکھا ہو کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ گو مَیں نے آج اِس نافرمانی کو بخش دیا مگر کل پھر مَیں مواخذہ کروں گا اِس جگہ آپ کی تاویل منظور نہیں ہو گی۔ اگر آپ سچ پر ہیں تو توریت کی آیت پیش کریں کیونکہ توریت کے کئی مقامات میں جوہم پیچھے سے لکھادیں گے۔ یہی صاف صاف لکھا ہے کہ خداتعالیٰ بعض نافرمانیوں کے وقت حضرت موسیٰ کی شفاعت سے ان نافرمانیوں سے درگذرکرتا رہا بلکہ بخش دینے کے الفاظ موجود ہیں۔ گنتی۱۴و ۱۲ استثنا ۹۱۹ سے ۲۲خروج ۸۸ پھر آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح کا دوسرے گناہگاروں کے عوض میں مصلوب ہونا قانون قدرت کے مخالف نہیں ایک شخص کاقرضہ دوسرا اپنی دَولت سے ادا کرسکتا ہے یہ آپ نے خوب ہی مثال دی ہے۔ پوچھا تو یہ گیا تھا کہ کیا ایک مجرم کے عوض میں دوسراشخص سزایاب ہو سکتا ہے ۔ اِس ؔ کی نظیر دُنیا میں کہاں ہے۔ آجکل انگریزی قوانین جو بڑی جستجو اور تحقیق اور رعایت انصاف سے بنائے جاتے ہیں کیا آپ نے جو ایک مدّت تک اکسٹرا اسسٹنٹ رہ چکے ہیں تعزیرات ہند وغیرہ میں کوئی ایسی بھی دفعہ لکھی ہوئی پائی ہے کہ زید کے گناہ کرنے سے بکر کو سُولی پر کھینچنا کافی ہے۔ (باقی آئندہ)
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 214
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 214
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/214/mode/1up
بیان ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
۳۱۔ مئی ۱۸۹۳ ء
جناب کا یہ فرمانا کہ رحم اوّل اورفائق درجہ پر ہے برخلاف بداہت ۷۵۳ کے ہے کیونکہ بداہت یہ حکم کرتی ہے کہ کوئی صفت کسی دوسری صفت سے کم نہیں بجائے خود ہر ایک پورامرتبہ رکھتی ہے۔یہ جناب نے حق فرمایا ہے کہ جب تک قانون کسی تک نہ پہنچے۔ وہ قانون شکن نہیں کہلاسکتا اور گناہ اس پر عائد نہیں ہوتا اِسی واسطے وہ بچے جو ماہیت گناہ سے واقف نہیں اور دیوانہ مادر زاد گناہ نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اگر کوئی شخص ماہیت کسی گناہ کی نہ جانتا ہو اور وہ اُس سے سرزد ہووے۔ مواخذہ عدل میں نہ آوے گا۔اور اس کا وہ فعل گناہ نہ تصور کیاجائے گا۔ خدا اپنی مالکیت کی وجہ سے خواص اپنی صفات کے برخلاف اگر کچھ مالکیت جتائے تو سارا نقشہ اس کی قدوسی کا درہم برہمؔ ہوجاتاہے۔ لہٰذا یہ صحیح نہیں کہ مالکیت کی وجہ سے جو چاہے سو کرے حتّٰی کہ ظلم تک۔ نیز عدل کو رحم سے اِس طرح کا علاقہ تو نہیں کہ جو رحم ہے وہ عدل نہیں اور جو عدل ہے وہ رحم نہیں۔ لیکن یہ ہر دو صفات واحد و اقدس خد ا کی ہیں۔ خدا غضب بے جا ہے یہ تو کلام الٰہی میں ہو نہیں سکتا مگر اس کو بھسم کرنے والی آگ بھی لکھا ہے جو گناہگاروں کو بھسم کرتی ہے۔ استثنا۴۲۴ قانون فعل مقنن ہے اور فعل
ضرور ہے کہ اپنے فاعل سے بعد میں ہو لیکن عدل جو قانون بناتا ہے قانون جس کا فعل ہے ازلی و ابدی صفت ہے وہ عارضی طور سے پیدا نہیں ہوئی اور نہ وہ عارضی طرح سے جاسکتی ہے۔ اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ عدل اسکو کہا جائے کہ ہر جہ باقی رہ جائے اور گنہ گار رہا ہوجائے واضح رہے کہ دنیا کی عدالت عدالت نہیں مگر نظامت کانام ہے کہ جس کا منشا یہ ہے کہ جرائم رو بہ تنزّل رہیں نہ یہ کہ سزا کامل ہو جائے کیا ایک قاتل کو پھانسی دینے سے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 215
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 215
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/215/mode/1up
مقتول جی اٹھتا ہے۔ اور اگر قاتل کو پھانسی دیں گے تو مقتول کو اس سے کیا ہے۔ خدا وند کی عدالت ایسی نہیں بلکہ یہ ہے کہ جب تک وہ ہرجہ گناہ واپس نہ ہو معاوضہ کی سزا سے بھی رہائی نہ ہووے۔
دوم۔ جو آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم نے معافی کا کیا طریق ٹھہرایا ہے ۔ اوّل تو آپ کا یہ کہنا ہی جائز نہیں اِس لئے کہ واحد خدا کی یہ ہر دوکلام ہو کر متبائن طریقہ نہیں بتا سکتی کہ اعمال حسنہ ادائے قرضہ کی صورت ہیں کیونکہ یہ فرض عین ہے کہ ہم اعمال حسنہ کریں۔ لیکن یہ بڑی ایک تعجب کی بات ہے کہ ادائے جزو کو کل پر حاوی تصوّر کر کے وہ قرضہ بیباق سمجھاجاوے جیسا کہ ایک شخص کو سو روپیہ کسی کے دینے ہیں اور اس میں سے پچیس روپیہ دے کر یہ کہے کہ تیرا حساب بیباق ہوا۔ کوئی عقلمند اس امر کو مانے گا کہ ادائے جز کا حاوی بر کل ہے لہذا اعمال حسنہ کا ذکر آپ تب تک نہ کریں جب تک آپ یہ نہ ثابت کر لیں کہ کوئی اعمالوں کے ذریعہ سب قرضہ ادا کر سکتاہے یعنی بے گناہ مطلق رہ سکتا ہے۔ توبہ اور ایمان بیرونی پھاٹک نجات کے ضرور ہیں جیسا کہ کوئی بغیر ان کے نجات میں داخل نہیں ہو سکتا لیکن پھاٹک اندرونہ شے کا نہیں ہو سکتا کیا اگر ہم ایک مکّھی کو مار کر سَو توبہ کریں وہ جی اُٹھتی ہے اورؔ ایمان کی بابت میں اگر ہم ایمان لاویں کہ خدائے قادر اس کو پھر جلا دے سکتا ہے یہ کچھ امکان سے بڑھ کر وقوعہ ہوجاتا ہے۔ محبت و عشق فرائض اِنسانی میں ہیں ان کا ذکر اعمال حسنہ میں آچکا۔ اور ضرور نہیں۔
سوم۔ یہ آپ صریح غلط فرماتے ہیں کہ قانون قدرت خدا تعالیٰ کا کہ رحم بلا مبادلہ قدیم سے جاری ہے۔ ہماری فطرت میں اِس امر کو صدا قت اولیٰ کر کے ثبت کیا گیا ہے کہ جو کسی کا کوئی ہرجہ کریگا اسکو معاوضہ اس کا دینا پڑیگا۔ مخلوق کاہر زمان اطاعت اللہ کے واسطے رکھا گیا ہے اور وہ بغاوت میں اگر گناہ کے کٹے تو اس وقت کا ہرجہ اس کو بھرنا پڑے گا۔ اور اس کا معاوضہ یہی ہے کہ روبابدرواں سزا میں گرفتار رہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 216
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 216
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/216/mode/1up
چہارم۔ مَیں نے کل بھی عرض کیا تھا کہ دُکھ تین قسم کے ہیں یعنی ایک وہ جس کو سزائیہ کہتے ہیں۔ جس کے معنے معاوضہ ہرجانہ کے ہیں اور جس کی حد یہ ہے کہ جب تک وہ ہرجہ ادا نہ ہو ہرجہ رساں کی رہائی بھی نہ ہو۔ دُوسری قسم مصقل سُکھ کی ہے جس سے میری مُراد یہ ہے کہ محتاج بالغیر علم کسی شے کا بغیر مقابلہ ضد اس کی کے۔ صاف نہیں پاتا۔ جیساکہ اندھا مادرزاد سفیدی کو تونہیں جانتا مگر تاریکی کو بھی بخوبی نہیں پہچانتا۔ گو وہ ہمیشہ اسکے سامنے ہے۔ ایسا ہی اگر آدمی کو بہشت میں بھیجا جائے اور مقابلہ کے واسطے اس نے کبھی دکھ نہ دیکھا ہو تو بہشت کی قدر و عافیت نہیں جانتا۔ تیسرا دکھ امتحان کا ہے یعنی اعمال بالقوہ کو بفعل لوانے کے واسطے باختیار اس شخص کے کہ جس کے وہ فعل ہیں ضرور ہے کہ اسکو ایسی دوشے کے درمیان رکھا جائے جو مساوی یک دگر ہوں و ضد فی الحاصل درآن واحد ہوں کہ جن میں سے احدی کارویا قبول کرنا بغیر توڑ اور دُکھ کے نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ تین اقسام صحیح ہیں تو آپ کا کیا حق ہے کہ جو جاندار دُنیا میں دُکھ پاتے ہیں ان کے دُکھ کو سزائیہ ہی قرار دیں۔
پنجم ۔جناب کا اِس امر کا نہ سمجھنا کہ مسیح میں خصوصیت ظہور کی کیا ہے جبکہ ہر شے مظہر الٰہی ہے اِس کا جواب عرض کرتا ہوں کہ خصوصیت یہ ہے کہ مسیح کے علاقہ سے اللہ تعالےٰ نے کفارہ کاکام پورا کرایا۔ خداتعالیٰ دُکھ اٹھانے سے بری مطلق ہے۔ مخلوق ؔ سب کا بوجھ اٹھاکر باقی نہیں رہ سکتا۔ یہاں پر خدا تعالیٰ نے یہ کیا کہ پاک انسان نے سب بوجھ اپنے سر پر اٹھایا اور اقنوم ثانی الوہیت کے لئے اس کو اٹھوایا اور یوں وہ دکھ پناہ ہوا۔ کیونکہ اس موقعہ پر مقابلہ روبا بدروان سزا کا ساتھ ازلی و ابدی اقنوم ثانی کے ہوا۔ یہ خصوصیت مظہریت کی اور کہاں ہے۔ آپ ہی اس کو دِکھلاویں اور اس خصوصیت کو مسیح میں ہماری زبانی آپ قبول نہ کریں مگر تا وقتیکہ بائیبل کو آپ ردّ نہ کریں تو آپ کا حق نہیں کہ اِس پر عذر کریں کہ کیا مسیح کا معجزہ ہی پَیدا ہونا ماراجانا جی اٹھنا اور صعود کرنا آسمان پر۔ ان کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 217
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 217
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/217/mode/1up
بھی کچھ معنے ہیں یانہیں جناب ہی فرماویں اورجبکہ لکھا ہے کہ خون بہانے بدوں نجات نہیں عبرانی ۹۲۲ و احبار ۷۱۱ اورکہ ساری قربانیاں توریت کی اسی پر ایما کرتی ہیں اور پھر لکھا ہے کہ آسمان کے نیچے دُوسرا نام نہیں دیاگیا کہ نجات ہو اعمال ۴۱۲ ۔ ان سب باتوں کے جناب کچھ معنے فرماویں اورایسے ہی سرسری بے جواب گذار نہ فرماویں۔
ششم ۔ جناب جو پُوچھتے ہیں کہ مظہر اللہ مسیح بعد نزول روح القدس کے ہوئی یا مابعد اسکے۔ ہمارا اِس جگہ پر جواب قیاسی ہے۔ رُوح القدس کے نازل ہونے کے وقت ہوئی کلام الٰہی میں اس کا وقت کوئی معین نہیں ہوا۔ خصوصیت کا انحصال آگے اور پیچھے مظہر اللہ ہونے پر کیا ہے جناب نے اِس امر کو مشرح نہیں فرمایا۔ اِسی لئے ہم اور زیادہ جواب نہیں دے سکتے۔
ہفتم۔ اگرچہ ہر سہ اقانیم کا مجسّم ہونا آپ نے بہت صحیح نہیں فرمایا لیکن تاہم مجسّم ہونے سے وہ وزنی ہو جاتے ہیں جیساکہ آپ نے یہ کہا ہے کہ برائے مثال ہر ایک تین تین سیر کا اقنوم ہو توجملہ اس کا نو سیر ہوتا ہے۔
ہشتم۔ توحید فی التثلیث کی تعلیم میں ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ایک ہی صُورت میں واحد اور ایک ہی صورت میں تثلیث ہے بلکہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ ایک صورت میں ایک اور دُوسری صورت میں تین ہیں۔ اور جب ہم نے عرض کیا کہ ان تین میں اس قسم کا علاقہ ہے کہ جیسے بے نظیری بے حدی سے نکل کر زمان ومکان دُوسرا نہیں چاہتے تاہم ان دو صفات کی تعریف علیحدہ علیحدہ ہے اور یہ دونوں صفات ایک جیسی ہیں ایسا ہی اقانیم کی صُورت ہے کہ ایک قائم فی نفسہٖ ہے اور دولازم ملزوم ساتھ اس ایک کے اِس کے سمجھنےؔ کے واسطے آپ اس بیان پر بھی توجہ فرماویں کہ انتقام جو ئے و صلح جوئے شخص واحد سے آنِ واحد میں محال مطلق ہے حالانکہ اگر گناہگار کی مغفرت ہو تو یہ ہر دو یکساں چلتے ہیں اور ایک اقنوم سے یہ ادا نہیں ہو سکتی اِس سے لازم آتا ہے کہ کم از کم دو اقانیم ہونے چاہئیں۔ وقت کم ہے بے نظیری کی ہم تعریف کچھ کرنا چاہتے ہیں بے نظیری مطلق وہ شے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 218
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 218
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/218/mode/1up
ہے جو امکان تک نظیرکامٹا دیوے ۔ اوریہ وہی کرسکتا ہے جو امکان گنجایش نظیر کا مٹا دیوے ۔ اب خدا تعالیٰ بے نظیر مطلق ہے پس ضرور ہے کہ وہ بے حد بھی ہو اور یہ بینظیری بے حدی سے نکلے بلا تفاوت زمان و مکان کے کثرت فی الوحدت کی مثالیں ہمارے پاس اور بھی معقول ہیں مگر صرف امکان دکھلانے والی اور کہ وقوعہ اس کا دکھلانا کلام الٰہی کا کام ہے۔ جس کی آیات کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں۔ چنانچہ ایک یہ ہے کہ دیکھو اِنسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا۔ پیدائش ۳۲۲ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف ا نگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
بیانؔ حضرت مرزا صاحب
پہلے میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ ڈپٹی صاحب نے باوجود میرے بار بار کے یاد دلانے کے کہ ہر ایک بات اور ہر ایک دعویٰ انجیل سے ہی پیش کرنا چاہیئے اور دلائل معقولی بھی انجیل سے ہی دکھلانی چاہئیں پھر بھی اس شرط کو ہر ایک محل میں چھوڑ دیا ہے اور ان کے بیانات ایسی آزادی سے چلے جاتے ہیں کہ گویا وہ ایک نئی انجیل بنا رہے ہیں اب سوچنا چاہیئے کہ انہوں نے میرے سوالات کا کیا جواب دیا پہلے تو میں نے یہ بطور شرط کے عرض کیا تھا کہ رحم بلامبادلہ کا لفظ انجیل میں کہاں ہے اور پھر اس کی معقولی طور پر حضرت مسیح سے تشریح اور تفصیل کہاں ہے مگر آپ عمداً اس بات سے انکار کر گئے اس لئے میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ آپ بحیثیت ایک پابند انجیل کے بحث نہیں کرتے بلکہ ایک اہل الرائے کی طرح اپنے خیالات
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 219
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 219
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/219/mode/1up
پیش کر رہے ہیں آپ میرے اس بیان کو کہ رحم ظہور میں اول اور فائق درجہ پر ہے قبل اس کے کہ اس کو سمجھیں قابل جرح قرار دیتے ہیں اگرچہ اس میں کلام نہیں کہ خدا تعالیٰ کی تمام صفات کاملہ ازلی و ابدی ہیں مگر اس عالم حادث میں ظہور کے وقت جیسا کہ موقعہ ہوتا ہے ضرورت کے رو سے تاخیر و تقدیم ہو جاتی ہے اس بات کو کون شخص سمجھ نہیں سکتا کہ باعتبار ظہور کے رحم پہلی مرتبہ پر ہے کیونکہ کسی کتاب کے نکلنے کا محتاج نہیں اور اس بات کی حاجت نہیں رکھتا کہ تمام لوگ عقلمند اور فہیم ہی ہو جائیں بلکہ وہ رحم جیسا عقلمندوں پر اپنا فیضان وارد کر رہا ہے ویسا ہی بچوں اور دیوانوں اور حیوانات پر بھی وہی رحم کام کر رہا ہے لیکن عدل کے ظہور کا وقت گو عدل کی صفت قدیم ہے اس وقت ہوتا ہے کہ جب قانون الٰہی نکل کر خلق اللہ پر اپنی حجت پوری کرے اور اپنا سچّا قانون ہونا اور منجانب اللہ ہونا ثابت کر دیوے۔ پھر اس کے بعد جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے تو وہ پکڑا جائے گا۔ یہی تو میرا سوال تھا کہ آپ کا سوال رحم بلامبادلہ کا تب ٹھیک بیٹھتا ہے کہ ظہور رحم اور ظہور عدل کے دونوں وقت ایک ہی زمانہ میں سمجھے جائیں اور ان میں ہر جگہ پر ایک تلازم رکھا جائے لیکن ظاہر ہے کہ رحم کا دائرہ تو بہت وسیع اورؔ چوڑا ہے اور وہ ابتدا سے جب سے دنیا ظہور میں آئی اپنے فیضان دکھلا رہا ہے پھر عدل کا رحم سے کیا تعلق ہوا اور ایک دوسرے کی مزاحمت کیونکر کر سکتے ہیں۔ آپ کے رحم بلامبادلہ کا بجز اس کے میں کوئی اور خلاصہ نہیں سمجھتا کہ عدل سزا کو چاہتا ہے رحم عفو اور درگزر کو چاہتا ہے لیکن جب کہ رحم اور عدل اپنے مظہروں میں مساوی اور ایک درجہ کے نہ ٹھہرے اور یہ ثابت ہو گیا کہ خدا تعالٰے کے رحم نے کسی کی راستبازی کی ضرورت نہیں سمجھی اور ہر ایک نیکو کار اور بدکار پر اس کی رحمانیت قدیم سے اثر ڈالتی چلی آئی ہے تو پھر یہ کیونکر ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ بدکاروں کو ایک ذرہ رحم کا مزہ چکھانا نہیں چاہتا۔ کیا قانون قدرت جو ہماری نظر کے سامنے پکار پکار کر شہادت نہیں دے رہا۔ کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 220
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 220
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/220/mode/1up
اس رحم کے لئے گناہ اور غفلت اور تقصیر داری بطور روک کے نہیں ہوسکتی اور اگر ہو تو ایک دم بھی انسان کی زندگی مشکل ہے پھر جب کہ یہ سلسلہ رحم کا بغیر شرط راستبازی اور معصومیت اور نیکوکاری انسانوں کی دنیا میں پایا جاتا ہے اور صریح قانون قدرت اس کی گواہی دے رہا ہے تو پھر کیونکر اس سے انکار کردیا جاوے اور اس نئے اور خلاف صحیفہ فطرت کے عقیدہ پر کیونکر ایمان لایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا رحم انسانوں کی راستبازی سے وابستہ ہے اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن شریف کے کئی مقامات میں نظیر کے طور پر وہ آیات پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کیونکر سلسلہ رحم کا نہایت وسیع دائرہ کے ساتھ تمام مخلوقات کو مستفیض کر رہا ہے چنانچہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ س ۱۳ ر ۱۷۔پھر فرماتا ہے۔ ۲ اورپھرفرماتاہے۔ 3۳اور پھر فرماتا ہے۔ ۴ ان تمام آیات سے خدا تعالیٰ نے اپنی کلام کریم میں صاف قانون قدرت کا ثبوت دے دیا ہے کہ اس کا رحم بلا شرط ہے کسیؔ کی راستبازی کی شرط نہیں ہاں جرائم کا سلسلہ قانون الٰہی کے نکلنے سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ آپ خود مانتے ہیں اور اسی وقت عدل کی صفت کے ظہور کا زمانہ آتا ہے گو عدل ایک ازلی صفت ہے مگر آپ اگر ذرہ زیادہ غورکریں گے تو سمجھ جائیں گے کہ صفات کے ظہور میں حادثات کی رعایت سے ضرور تقدیم تاخیرہوتی ہے پھر جب کہ گناہ اس وقت سے شروع ہوا کہ جب کتاب الٰہی نے دنیا میں نزول فرمایا اور پھر اس نے خوارق و نشانوں کے ساتھ اپنی سچّائی بھی ثابت کی تو پھر رحم بلامبادلہ کہاں رہا۔ کیونکہ رحم کا سلسلہ تو پہلے ہی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 221
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 221
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/221/mode/1up
سے بغیر شرط کسی کی راستبازی کے جاری ہے اور جو گناہ خدا تعالیٰ کی کتاب نے پیش کئے وہ مشروط بشرائط ہیں یعنی یہ کہ جس کو وہ احکام پہنچائے گئے ہیں اس پر وہ بطور حجت کے وارد ہوں اور وہ دیوانہ اور مجنون بھی نہ ہو۔ اور مالکیت پر آپ یہ جرح فرماتے ہیں کہ اگر مالکیت کو تسلیم کیا جائے تو سارا کارخانہ درہم برہم ہو جاتا ہے تو آپ کو سوچنا چاہیئے کہ یہ کارخانہ اپنی مد کی ذیل میں چل رہا ہے پھر درہم برہم ہونے کے کیا معنے ہیں مثلاً جو شخص خدا تعالیٰ کے قانون کی خلاف ورزی کرکے اس کے قانونی وعدہ کے موافق سزاوار کسی سزا کا ٹھہرتا ہے تو خدا تعالیٰ گو مالک ہے کہ اس کو بخش دیوے لیکن بلحاظ اپنے وعدہ کے جب تک وہ شخص ان طریقوں سے اپنے تئیں قابل معافی نہ ٹھہرا دے جو کتاب الٰہی مقرر کرتی ہے تب تک وہ مواخذہ سے بچ نہیں سکتا۔ کیونکہ وعدہ ہوچکا ہے لیکن اگر کتاب الٰہی مثلاً نازل نہ ہو یا کسی تک نہ پہنچے یا مثلاً وہ بچہ اور دیوانہ ہو تو تب اس کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے گا وہ مالکیت کا معاملہ ہوگا۔ اگر یہ نہیں تو پھر سخت اعتراض وارد ہوتا ہے کہ کیوں چھوٹے بچے مدتوں تک ہولناک دکھوں میں مبتلا رہ کر پھر ہلاک ہوتے ہیں اور کیوں کروڑہا حیوانات مارے جاتے ہیں ہمارے پاس بجز اس کے کوئی اور جواب بھی ہے کہ وہ مالک ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ پھر آپ اپنے پہلے قول پر ضد کرکے فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو کسی کی شفاعت سے گناہ بخشے جاتے ہیں وہ ایک انتظامی امر ہے افسوس کہ آپ اس وقت مقنن کیوں بن گئے اور توریت کی آیتوں کو کیوں منسوخ کرنے لگے اگر صرف انتظامی امر ہے اور حقیقت میں گناہ بخشے نہیں جاتے تو توریت سے اس کا ثبوتؔ دینا چاہیئے۔ توریت صاف کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ کی شفاعت سے کئی مرتبہ گناہ بخشے گئے۔ اور بائیبل کے تقریباً کل صحیفے خدا تعالیٰ کے رحیم اور توّاب ہونے پر ہمارے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں دیکھو یسعیا ۵۵ ۷ یرمیا ۳۳ ۱تواریخ دوم ۱۴۷زبور چہارم ۳۲۵ امثال۲۸ ۱۳ اسی
طرح لوقا۳۔۴۱۷ ولوقا ۴سے۲۴۱۵ لوقا ۲۵و۲۸۱۰مرقس ۱۶۱۶ اور پیدائش ۹و۷۶ کتاب ایوب۱۱
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 222
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 222
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/222/mode/1up
حزقیل ۱۴۱۴ دانیال۴۶ زبور ۳۱۳۰و۴و۷ زبور ۷۸۳۸میکا ۷۱۸ ۔
غرض کہاں تک لکھوں آپ ان کتابوں کو کھول کر پڑھیں اور دیکھیں کہ سب سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رحم بلامبادلہ کی کچھ ضرورت نہیں اور ہمیشہ سے خدا تعالیٰ مختلف ذرائع سے رحم کرتا چلا آیا ہے پھر آپ فرماتے ہیں کہ توبہ اور ایمان باہر کے پھاٹک ہیں یعنی باوجود توبہ اور ایمان کے پھر بھی کفارہ کی ضرورت ہے یہ آپ کا صرف دعویٰ ہے جو ان تمام کتابوں سے مخالف ہے جن کے میں نے حوالہ دے دئیے۔ ہاں اس قدر سچ ہے کہ جیسے اللہ جلّ شانہٗنے باوجود انسان کے خطا کار اور تقصیر وار ہونے کے اپنے رحم کو کم نہیں کیا ایسا ہی وہ توبہ کے قبول کرنے کے وقت بھی وہی رحم مدنظر رکھتا ہے اور فضل کی راہ سے انسان کی بضاعت مزجات کو کافی سمجھ کر قبول فرما لیتا ہے اس کی اس عادت کو اگر دوسرے لفظوں میں فضل کے ساتھ تعبیر کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ نجات فضل سے ہے تو عین مناسب ہے کیونکہ جیسے ایک غریب اور عاجز انسان ایک پھول تحفہ کے طور پر بادشاہ کی خدمت میں لے جاوے اور بادشاہ اپنی عنایات بے غایات سے اور اپنی حیثیت پر نظر کر کے اس کو وہ انعام دے جو پھول کی مقدار سے ہزارہا بلکہ کروڑ ہا درجہ بڑھ کر ہے تو یہ کچھ بعید بات نہیں ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کا معاملہ ہے وہ اپنے فضل کے ساتھ اپنی خدائی کے شان کے موافق ایک گدا ذلیل حقیر کو قبول کر لیتا ہے جیساکہ دیکھاجاتا ہے کہ دعاؤں کا قبول ہونا بھی فضل ہی پر موقوف ہے جس سے بائیبل بھری ہوئی ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگرچہ مسیح میں اور کچھ بھی زیادتی نہیں صرف ایک انسان ہے جیسے اور انسان ہیں اور خداتعالیٰ وہی علاقہ عام طور کا اس سے رکھتا ہے جو اوروں سے رکھتاہے لیکن ؔ کفارہ سے اور مسیح کے آسمان پر جانے سے اوراس کے بے باپ پَیدا ہونے سے اسکی خصوصیت ثابت ہوتی ہے اِس قول سے مجھے بڑا تعجب پیدا ہوا ۔کیادعووں کا پیش کرنا آپ کی کچھ عادت ہے ہم لوگ کب اِس بات کو مانتے ہیں کہ مسیح جی اُٹھا۔ ہاں حضرت مسیح کا وفات پا جانا قرآن شریف کے کئی مقام میں ثابت ہے لیکن اگر جی اٹھنے سے رُوحانی زندگی مُراد ہے تو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 223
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 223
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/223/mode/1up
اس طرح سے سارے نبی جیتے ہیں۔ مردہ کون ہے کیا انجیل میں نہیں لکھا کہ حواریوں نے حضرت موسیٰ اور الیاس کو دیکھا اور ایسا کہا کہ اے اُستاد اگر فرماویں تو آپ کے لئے جُدا خیمہ اور موسیٰ کے لئے جُدا اور الیاس کیلئے جُدا کھڑا کیا جائے پھر اگر حضرت موسیٰ مردہ تھے تو نظر کیوں آگئے کیا مردہ بھی حاضر ہوجایاکرتے ہیں پھر اسی انجیل میں لکھا ہوا ہے کہ لعاذر مرنے کے بعد حضرت ابراہیم کی گود میں بٹھایاگیا اگر حضرت ابراہیم مُردہ تھے تو کیا مُردہ کی گود میں بٹھایا گیا واضح رہے کہ ہم حضرت مسیح کی اس زندگی کی خصوصیت کو ہرگز نہیں مانتے بلکہ ہمارا یہ مذہب موافق کتاب و سنت کے ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حیات اقویٰ اور اعلیٰ رکھتے ہیں اور کسی نبی کی ایسی اعلیٰ درجہ کی حیات نہیں ہے جیسے آنحضرت صلعم کی۔ چنانچہ مَیں نے کئی دفعہ آنحضرت کو اِسی بیداری میں دیکھا ہے باتیں کی ہیں مسائل پوچھے ہیں اگر حضرت مسیح زندہ ہیں تو کیاکبھی کسی نے آپ لوگوں میں سے بیداری میں انکو دیکھا ہے پھر آپ کا یہ فرمانا کہ حضرت مسیح روح القدس کے نازل ہونے سے پہلے مظہر اللہ نہیں تھے یہ اقبالی ڈگری ہے۔ آپ نے مان لیا ہے کہ تیس برس تک تو حضرت مسیح خالص انسان تھے مظہر وغیرہ نام ونشان نہ تھا پھر تیس برس کے بعد جب روح القدس کبوتر کی شکل ہو کر ان میں اتراتو پھر مظہر اللہ بنے۔ مَیں اس جگہ اس وقت شکر کرتا ہوں کہ آج کے دن ایک فتح عظیم ہم کو میسر آئی کہ آپ نے خود اقرار کر لیا کہ تیس برس تک حضرت مسیح مظہر اللہ ہونے سے بالکل بے بہرہ رہے نرے انسان تھے۔ اَب بعد اِس کے یہ دعویٰ کرنا کہ پھر کبوتر اُترنے کے بعد مظہراللہ بن گئے یہ دعویٰ ناظرین کی توجہ کے لائق ہے کیونکہ اگر روح القدس کا اُترناانسان کو خدا اور مظہر اللہ بنا دیتا ہے تو حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا حضرت یوسف حضرت یوشع بن نون اور کل حواری خدا ٹھہر جائیں گے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ کیامجسم ہونے سے وزنی ہو سکتاہے۔ یہ عجب سوال ہے۔ کیا آپ کوئی ایسا جسم پیش کرؔ سکتے ہیں کہ اس کو جسم تو کہا جائے مگر جسمانی لوازمات سے بالکل مبرّا ہو۔ مگر شکر یہ تو آپ نے مان لیا کہ آپ کے باپ اور بیٹا اور رُوح القدس تینوں مجسم ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کثرت فی الوحدت اور وحدت میں کوئی تضاد نہیں ایک جگہ پائی جاتی ہیں یعنی بہ لحاظ جہات مختلفہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 224
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 224
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/224/mode/1up
کے یہ آپ کا خوب جواب ہے سوال تو یہ تھا کہ ان دونوں میں سے آپ حقیقی کس کو مانتے ہیں۔ آپ نے اس کا کچھ بھی جواب نہ دیا۔ پھر آپ دعوے کے طورپر فرماتے ہیں کہ آسمان کے نیچے دُوسرا نام نہیں جس سے نجات ہو اورنیز یہ بھی کہتے ہیں کہ مسیح گناہ سے پاک تھا اور دوسرے نبی گناہ سے پاک نہیں مگر تعجب کہ حضرت مسیح نے کسی مقام میں نہیں فرمایا کہ مَیں خداتعالیٰ کے حضور میں ہر ایک قصور اور ہر ایک خطا سے پاک ہوں اور یہ کہنا حضرت مسیح کا کہ کون تم میں سے مجھ پر الزام لگا سکتاہے یہ الگ بات ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ تمہارے مقابل پر اور تمہارے الزام سے میں مجرم اور مفتری نہیں ٹھہر سکتالیکن خداتعالیٰ کے حضور میں حضرت مسیح صاف اپنے تقصیر وار ہونے کا اقرار کرتے ہیں جیساکہ متی باب ۱۹ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنے نیک ہونے سے انکار کیا۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن اورانجیل دونوں کلام خداہو کر پھر دو مختلف طریقے نجات کے کیوں بیان کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ جو قرآن کے مخالف انجیل کے حوالہ سے طریقہ بیان کیاجاتا ہے وہ صرف آپ کا بے بنیاد خیال ہے۔ اب تک آپ نے ثابت کر کے نہیں دکھایا کہ حضرت مسیح کا قول ہے انجیل میں تو نہ بالصراحت و بالفاظ کہیں تثلیت کا لفظ موجودہے اور نہ رحم بلا مبادلہ کا۔قرآن کریم کی تصدیق کیلئے وہ حوالجات کافی ہیں جو ابھی ہم نے پیش کئے ہیں جبکہ قرآن اور عہد عتیق اورجدید کے بہت سے اقوال بالاتفاق آپ کے کفارہ کے مخالف ٹھہرے ہیں تو کم سے کم آپ کو یہ کہنا چاہیئے کہ اس عقیدہ میں آپ سے غلط فہمی ہو گئی ہے۔ کیونکہ ایک عبارت کے معنے کرنے میں کبھی انسان دھوکا بھی کھا جاتا ہے جیسا آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے بھائیوں رومن کیتھلک اور یونی ٹیرین نے انجیل کے سمجھنے میں دھوکا کھایا ہے اور وہ دونوں فریق آپکو دھوکہ پر سمجھتے ہیں۔ پھر جب گھر میں ہی پُھوٹ تو پھر آپ کا اتفاقی مسئلہ کو چھوڑ دینا اور اختلافی خبر کو پکڑ لینا کب جائز ہے۔ ( باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ از جانب اہل اسلام پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 225
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 225
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/225/mode/1up
دسواؔ ں پرچہ
مباحثہ یکم جون ۱۸۹۳ ء
روئیداد
آج پھر جلسہ منعقد ہوا اور ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے ۶ بجے ۸ منٹ پر سوال لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۴۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سُنایا گیا۔ بعدہ‘ مرزاصاحب نے ۸ بجے ایک منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۹ بجے ایک منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا بعد اسکے ڈپٹی صاحب نے ۹ بجے ۲۷ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰بجے ۶ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایاگیا بعد ازاں تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط ہو کر جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
بیان ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
مَیں نے کل کے بیانات فریق ثانی میں دو صدائیں عجیب و غریب سُنی ہیں۔ یعنی ایک یہ کہ گویا مَیں نے آپ کے کسی امر کا جواب نہیں دیا دُوسرا یہ کہ گویا مَیں نے اقبال کیا ہے کہ اقنوم ثانی الوہیت سے مسیح کی انسانیت تیس برس تک خالی رہی ہے۔ اگر یہ غلط فہمی ہے تو اِن دو امروں کی اصلاح اسوقت مَیں کرتا ہوں۔ پہلی غلطی کا میرا یہ جواب ہے کہ بعد طبع ہونے مباحثہ کل کے عام کے سامنے وہ رکھا جائے گا کہ منصف مزاج آپ ہی فیصلہ کرلیں گے کہ مَیں نے جواب نہیں دیا یاکہ فریق ثانی نے جواب نہیں دیا۔ دُوسرے بارہ میں میرا جواب یہ تھا کہ مسیحیت میں خصوصیت مظہریت کی نمودار اس وقت ہوئی کہ جب وہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 226
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 226
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/226/mode/1up
بپ ٹسماپا کر یردن میں سے نکلا اور جسوقت یہ صدا آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے مَیں اس سے راضی ہوں تمؔ اس کی سُنو۔ اسوقت سے وہ مسیح ہؤا۔ پس اُن دونوں صداؤں کو مَیں مشابہ پُھوٹے ڈھول یا پھٹے نقارہ کے قرار دیتا ہوں۔
دوئم۔فریق ثانی نے یقینًا میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ تقاضائے عدل الٰہی کیونکر پُورا ہوا اور نہ اسکے عدل کا کچھ لحاظ فرمایا۔ اسی لئے میں اس سوال پر اور کچھ نہ کہتا ہوں نہ سنتا ہوں۔ باقی سوال جو میرے ہیں ان کو پیش کرتاہوں۔ منجملہ ان سوالوں کے پہلا سوال میرا یہ ہے(س۴ر۷) ۱ کہتے ہیں کچھ بھی کام ہے ہمارے ہاتھ۔ توکہہ کہ سب کام ہیں اللہ کے ہاتھ۔انجیل میں ایسا تو لکھا ہے کہ پری ولج جسکا ترجمہ قریب قریب لفظ وسعت سے ہو سکتا ہے منجانب اللہ کے بخشے جاتے ہیں چنانچہ کسی کو ظرف یا عضو عزت کا بنایاگیاہے اور کسی کو ذلّت کا۔ پھر کسی کو مخدوم ہونا بخشا گیا ہے اور کسی کو خادم ہونا۔ لیکن جہنّم کسی کے نصیب نہیں کیا گیا۔ اور نہ تباہ شدنی کسی کو ٹھہرایا گیا ہے اور پھر یہ بھی لکھا ہے کہ فرعون کو اِسی لئے برپاہونے دیا گیا۔ (اصل لفظ ہے برپا کیاگیا۔ مُراد اسکی ہے برپاہونے دیا گیا)تاکہ اس میں جلال صفات الٰہی کا زیادہ ہو لیکن یہ نہیں لکھا کہ انسان کو کچھ بھی اختیار نہیں تاہم اسکے عملوں پر مواخذہ ہے۔ غرضیکہ قرآن و انجیل کی تعلیم میں یہ فرق ہے کہ قرآن تو اختیار انسانی کے متناقض تعلیم دیتا ہے اور انجیل پری ولجوں میں اور پرمشنوں میں اختیار فعل مختیاری انسان کا نقیض نہیں کرتی اور اگرچہ قرآن میں ساتھ جبر کے قدر بھی ہے لیکن یہ دونوں باہم متفق نہیں ہوسکتے۔
تیسرا سوال ہمارا یہ ہے کہ جبکہ قرآن کی سورۃ توبہ رکوع ۴ میں یُوں لکھا ہے کہ قتل کرو انکو جو اللہ اور دن قیامت کو نہیں مانتے اورنہ حرام کرتے اُس شے کو اپنے اوپر جس کو اللہ و رسول نے حرام کیا منجملہ انکے جو اہل کتاب ہیں جب تک دیتے رہیں جزیہ اپنے ہاتھوں سے اور ذلیل رہیں۔ اس میں ایمان بالجبر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 227
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 227
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/227/mode/1up
کا ہمارا الزام ہے۔ موسیٰ کے جہاد اور قسم کے تھے انمیں سے امان منحصر بہ ایمان کوئی نہ دکھلاسکے گا اور یہاں آیت مذکورہ میں نہ دفعیہ کا جہاد ہے نہ انتقام کا جہاد نہ انتظام کا جہادؔ بلکہ وہ جہادہے جو اُصول قرآنی کو نہ مانے وہ ماراجائے اِسی کا نام ہے ایمان بالجبر۔ ہمارے مکرم سر سیّد احمد خان بہادر نے جہاد بالجبر کو نہیں مانا۔ اُن کا فرمانا یہ ہے کہ یا مانو یا مرو یا جزیہ گذار ہو کر جیتے رہو۔ لیکن بابت تیسری شرط یعنی جزیہ کے ہمارا سوال ان سے یہ ہے کہ متعلق اہل کتاب کے اِس لفظ کو کیوں لکھا من الذین میں لفظ من کافاضل ہے اور اہل کتاب کا لفظ سارے اس کے متن سے مستثنیٰ ہے۔ پھر یہ کیا خوش فہمی نہیں کہ اِس تیسری شرط کو بھی عامہ قرار دیا جائے۔ اور وہ صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ جملہ3۱ سے سارا اعتراض ایمان بالجبر کا باطل ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ہم دکھلا سکیں کہ قرآن میں یہ حکم بھی ہے کہ اے مسلمانوں جب تمہارے سامنے کوئی سفید پوش آوے اور تم کو سلام علیک کرے تو تم اس کے کپڑے اتار لینے کے واسطے یُوں مت کہو کہ تو مکّار ہے درحقیقت مسلمان نہیں خدا تم کو دَولت اور طرح بہت دے دے گا۔ تو کیا یہ اکراہ نہیں کہ بہ بُہتان مکّاری اُس کے کپڑے اتار لیویں اور کیا یہ پالسی کے برخلاف نہیں جو ترقی دین کو روک دیتا ہے۔ علٰی ہٰذالقیاس اور بھی چند شق اس امر کے ہیں جو سمت مخالف سے پیش ہو سکتے ہیں جن کے پیش ہونے پر ہم اس کا جواب دینگے۔
سوم۔ نمونہ تعلیمات قرآن کا تو یہ ہے جو اوپر عرض ہوا تِسپر معجزات کا خفیف ساپردہ بھی کچھ نہیں جو کچھ دھوکہ دے سکے۔ چنانچہ محمد صاحب کو صاحب معجزہ ہونے کا انکار مطلق ہے۔
بعض محمدی صاحبان 3۲ میں ایک بڑا معجزہ فصاحت و بلاغت کا بیان کرتے ہیں مگر کس امر میں مثال طلب کی جاتی ہے اس آیت میں اس کا ذکر کچھ نہیں فصاحت وبلاغت کے دعویٰ کا قرآن میں کہیں لفظ تک نہیں۔غالبًا مراد قرآنی اِس دعویٰ میں یہ ہے کہ از آنجا قرآن خلاصہ کتب انبیاء سلف کا ہے جن کو خدا کے سواکوئی مخلوق نہیں بنا سکتا ۔ لہٰذا وہ بھی یعنی قرآن بے مثل ہے یعنی اس میں تقدس تعلیمات کا دعویٰ ہے فصاحت بلاغت کا نہیں بلکہ برخلاف فصاحت و بلاغت کے قرآن میں یوں بھی لکھا ہے کہ وہ آسان کیا گیا عربی زبان میں واسطے اہل عرب کے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 228
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 228
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/228/mode/1up
اور جو فصاحت بلاغت جدید مطلق ہووے تووہ محتاج تلقین کی ہوجاتی ہے اور آسانی کے برخلاف آسان نہیں رہتی۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ بروئے قرآن محمد صاحب اُمّی محض نہ تھے بلکہ قرآن میں یوں لِکھا ہے کہ جو اہل کتاب نہیں وہ اُمّی ہے اور فی الواقع علم عبرانی اوریونانی کا آنجناب کو حاصل نہیں معلوم ہوتا۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ لفظ کتاب کا باصطلاح قرآنی علی العموم بمعنے کتاب الہامی کے ہے کتاب دُنیاوی نہیں۔
چوتھاؔ ۔ جناب نے میرے کل کے ایک سوال کا جواب پورا نہیں دیا جس میں میرا استفسار تھا کہ مسیح کی پَیدائش معجزہ ہی تھی یا نہیں یعنی باپ اس کا نہیں تھا یا تھا۔ فرشتہ خاص کر جبرئیل مریم آپ کی والدہ کے پاس خوشخبری لائے تھے یانہیں۔ اور وہ جو جناب اپنی روایت کا ذِکر فرماتے ہیں کہ محمد صاحب سے ہمکلام ہو کے آئے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِس کا ثبوت جناب کے پیشواکے معراج سے کچھ زیادہ نہیں معلوم ہوتا۔ نیز یہ بھی ہمارا استفسار ہے کہ جناب یونی ٹیریوں اوررومن کیتھلک کو ہمارے اُوپر حاکم کیوں بناتے ہیں وہ مسیحی تو کہلاتے ہیں مگر ہم اُن کو بد معنے مسیحی کہتے ہیں۔ ہمارے آرچ بشپ ڈپٹی صاحب نے جب حلقہ اِس طرح کا کھینچا کہ دین مسیح کہاں تک مؤثر ہے تو اُنہوں نے تو اہلِ اسلام کو بھی مسیحیوں میں گِنا ہے۔ اور دلائل اِس کے قرآن سے دیئے ہیں لیکن ہم ان کو صحیح مسیحی نہیں مان سکتے۔ (باقی آئندہ)
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 229
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 229
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/229/mode/1up
بیان حضرت مرزا صاحب
یکم جون ۱۸۹۳ ء
ڈپٹی صاحب اوّل یہ فرماتے ہیں کہ میں نے اِس بات کا اقبال نہیں کیا کہ اقنوم ثانی یعنی حضرت مسیح تیس برس تک مظہر اللہ ہونے سے خالی رہے اِس کے جواب میں صرف ڈپٹی صاحب موصوف کی عبارت مرقومہ ۳۱۔ مئی ۱۸۹۳ ء کو سامنے رکھ دینا کافی ہے اور وہ یہ ہے:۔
ششم۔ جناب جو پوچھتے ہیں کہ مظہر اللہ مسیح بعد نزول روح القدس کے ہوئے یا ما بعد اُسکے ۔ ہمارا اِس جگہ پر جواب قیاسی ہے کہ رُوح القدس کے نازل ہونے کے وقت ہوئے۔ اَب سوچنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ کیا اِس عبارت کے بجُز اِس کے کوئی اور بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ حضرت مسیح رُوح القدس کے نازل ہونے سے پہلے جو کبوتر کی شکل میں اُن پر نازل ہوا مظہر اللہ نہیں تھے پیچھے سے مظہر اللہ بنے۔ پھر جب مظہر اللہ کی مطلق نفی بغیر کسی استثنا کے ڈپٹی صاحب موصوف نے کر دی تو کیا بجُز اِس کے کوئی اور بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ حضرت مسیح کبوتر نازل ہونے سے پہلے صرف انسان تھے کیونکہ مظہر اللہ کالفظ کسی تقسیم اور تجزیہ کے قابل نہیں اور اُن کی عبارت سے ہرگز یہ نکلتاؔ نہیں کہ مخفی طور پر پہلے مظہر اللہ تھے اور پھر علانیہ طور پر ہو گئے وہ تو صاف فرما رہے ہیں کہ بعد روح القدس کے مظہر اللہ ہوئے اَب یہ دُوسرا بیان پہلے بیان کی تفصیل نہیں ہے بلکہ صریح اِسکے مخالف اور اس کا ضد پڑ ا ہو ا ہے اور اقرار کے بعد انکار کرنا انصاف پسندوں کا کام نہیں بلا شبہ وہ اقرار کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح تیس برس تک مظہر اللہ ہونے سے بالکل بے بہرہ اور بے نصیب تھے کیونکہ ہمارا سوال تھاکہ رُوح القدس کے نازل ہونے سے پہلے مظہر اللہ تھے یا بعد اس کے ہوئے تو آپ نے قطعی طور پر بعد کو اختیار کیا اور صاف طور پر اقرار کر لیا کہ بعد میں مظہراللہ بنے۔ اَب اس میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں جب عام میں یہ سوال پھیلے گا او ر پبلک کے سامنے آئے گا تو خود لوگ سمجھ لیں گے کہ ڈپٹی صاحب نے یہ اقرار کے بعد انکار کیا ہے یا کوئی اور صُورت ہے اور اَب وہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 230
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 230
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/230/mode/1up
یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ اِس بارہ میں جو کچھ ہم نے کہنا تھا وہ کہہ دیا۔ بعد اِس کے کچھ نہیں کہیں گے مگر افسوس کہ اُنہوں نے یہ طرز حق پرستوں کی اختیار نہیں کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کودُوسروں کی تحریک اور نکتہ چینی سے بعد میں فکر پڑی کہ ہمارے اس قول سے مسیح کا انسان ہونا۔ اورمظہراللہ سے تیس برس تک خالی ہونا ثابت ہوگیا تو پھر اِس مصیبت پیش آمدہ کی وجہ سے آج اُنہوں نے یہ تاویل رکیک پیش کی مگر درحقیقت یہ تاویل نہیں بلکہ صاف صاف اور کُھلے کُھلے لفظوں میں انکار ہے پھر بعد اِس کے ڈپٹی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ میرے سوال کا جواب نہیں آیا یعنی تقاضائے عدل کیونکر پورا ہو ۔ مَیں نے کل کے بیان میں صاف لکھا دیا تھا کہ آپ کا یہ دعویٰ کہ رحم اور عدل دونوں دوش بدوش اور خداتعالیٰ کیلئے ایک ہی وقت میں لازم پڑے ہوئے ہیں یہ غلط خیال ہے پھر مکرّر کچھ لکھتا ہوں کہ رحم قانون قدرت کی شہادت سے اوّل مرتبہ پر ہے اور دائمی اور عام معلوم ہوتا ہے لیکن عدل کی حقیقت قانون الٰہی کے نازل ہونے کے بعد اور وعدہ کے بعد متحقق ہوتی ہے یعنی وعدہ کے پہلے عدل کچھ بھی چیز نہیں اس وقت تک مالکیت کام کرتی ہے۔ اگر وعدہ سے پہلے عدل کچھ چیز ہے تو ڈپٹی صاحب ہمارے کل کے سوال کا ذرہ متنبّہ ہو کرجواب دیویں کہ ہزاروں انسانوں کے بچّے اور پرند اور چرند اورکیڑے مکوڑے بے وجہ ہلاک کئے جاتے ہیں وہ باوجود عدل کی دائمی صفت کے کیوں کئے جاتے ہیں اور بموجب آپ کے قاعدہ کے کیوں عدل ان کے متعلق نہیں کیاجاتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ پر کسی چیز کا حق نہیں ہے انسان اپنے حق سے بہشت کو بھی نہیں پا سکتا صرف وعدہ سے یہ مرتبہ شروعؔ ہوتا ہے۔ جب کتاب الٰہی نازل ہو چکتی ہے اور اس میں وعدہ بھی ہوتے ہیں۔ اور وعید بھی ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ وعید کی رعایت سے ہر ایک نیک و بد سے معاملہ کرتا ہے ۔ اورجبکہ عدل فی ذاتہٖ کچھ بھی چیز نہیں بلکہ وعدہ وعید پر تمام مدار ہے اورخداوندتعالیٰ کے مقابل پرکسی چیز کا کوئی بھی حق نہیں تو پھر عدل کیونکر رکھا جاوے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 231
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 231
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/231/mode/1up
عدل کامفہوم ضرور اِس بات کو چاہتا ہے کہ اوّل جانبین میں حقوق قرار دیئے جائیں۔ لیکن مخلوق کا خداتعالیٰ پر جس نے عدم محض سے اُس کو پَیدا کیا کوئی حق نہیں ورنہ ایک کُتّا مثلًا کہہ سکتا ہے کہ مجھ کو بیل کیوں نہیں بنایا اور بیل کہہ سکتا ہے کہ مجھ کو انسان کیوں نہیں بنایا اور چونکہ یہ جانور اِسی دُنیا میں جہنّم کا نمونہ بُھگت رہے ہیں اگر عدل خداتعالیٰ پر ایک لازمی صفت تھوپ دی جائے تو ایسا سخت اعتراض ہوگا کہ جس کا جواب آپ سے کسی طور پر نہ بن پڑے گا۔ پھر آپ نے جبر قدر کا اعتراض پیش کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ قرآن سے جبر ثابت ہوتا ہے۔ اِس کے جواب میں واضح ہو کہ شاید آپ کی نظر سے یہ آیات نہیں گذریں جو انسان کے کسب و اختیار پر صریح دلالت کرتی ہیں اور یہ ہیں:۔
۱ (س۲۷ر۳)کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو سعی کرتا ہے جو اُس نے کوشش کی ہو یعنی عمل کرنا اجر پانے کے لئے ضروری ہے پھر فرماتا ہے۲ (س۲۲۔ر۵) یعنی خدا اگر لوگوں کے اعمال پر جو اپنے اختیار سے کرتے ہیں اُن کو پکڑتا تو کوئی زمین پر چلنے والا نہ چھوڑتا۔ اور پھر فرماتا ہے۳ (س۳ر۸) اُس کے لئے جو اُس نے کام اچھے کئے اور اُس پر جو اُس نے بُرے کا م کئے۔ پھر فرماتا ہے ۴ جو شخص اچھا کام کرے سو اسکے لئے اورجو بُرا کرے وہ اُس کے لئے۔ پھر فرماتاہے ۵ (س۵ر۶) یعنی کس طرح جس وقت پہنچے اُن کو مصیبت بوجہ اُن اعمال کے جو اُن کے ہاتھ کر چکے ہیں۔ اَب دیکھئے ان تمام آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے کاموں میں اختیار بھی رکھتا ہے اور اِس جگہ ڈپٹی صاحب نے جو یہ آیت پیش کی ہے۔۶ اور اِس سے ان کا مدعا یہ ہے کہ اس سے جبر ثابت ہوتا ہے یہ ان کی غلط فہمی ہے۔دراصل
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 232
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 232
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/232/mode/1up
بات یہ ہے کہ امر کے معنے حکم اور حکومت کے ہیں اور یہ بعض ان لوگوں کا خیال تھا جنہوںؔ نے کہا کہ کاش اگر حکومت میں ہمارا دخل ہوتا توہم ایسی تدابیر کرتے جس سے یہ تکلیف جو جنگ احد میں ہوئی ہے پیش نہ آتی۔ اِس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱ یعنی تمام امر خداتعالیٰ کے اختیار میں ہیں تمہیں اپنے رسول کریم کا تابع رہنا چاہیئے۔ اَب دیکھنا چاہیئے کہ اِس آیت کو قدر سے کیا تعلق ہے۔ سوال تو صرف بعض آدمیوں کا اِتنا تھا کہ اگر ہماری صلاح اور مشورہ لیاجاوے تو ہم اس کے مخالف صلاح دیں تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو منع فرمایا کہ اِس امر کی اجتہاد پر بنا نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے پھر بعد اس کے واضح رہے کہ تقدیر کے معنے صرف اندازہ کرنا ہے جیسے کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتاہے ۲س۱۸ر۱۶ یعنی ہر ایک چیز کو پیدا کیا تو پھر اس کے لئے ایک مقرر اندازہ ٹھہرا دیا اِس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے اختیارات سے روکا گیا ہے بلکہ وہ اختیارات بھی اسی اندازہ میں آگئے جب خداتعالیٰ نے انسانی فطرت اور انسانی خوئے کا اندازہ کیا تو اس کا نام تقدیر رکھا۔ اور اسی میںیہ مقرر کیا کہ فلاں حد تک انسان اپنے اختیار ات برت سکتا ہے یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ تقدیرکے لفظ کو ایسے طورپر سمجھا جائے کہ گویا انسان اپنے خدا داد قویٰ سے محروم رہنے کے لئے مجبور کیاجاتاہے۔ اِس جگہ تو ایک گھڑی کی مثال ٹھیک آتی ہے کہ گھڑی کا بنانے والا جس حد تک اس کا دَور مقرر کرتا ہے اس حد سے وہ زیادہ چل نہیں سکتی۔ یہی انسان کی مثال ہے کہ جو قویٰ اس کو دی گئی ہیں اُن سے زیادہ وہ کچھ کرنہیں سکتا اورجو عمر دی گئی ہے اس سے زیادہ جی نہیں سکتا۔ اوریہ سوال کہ خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں جبر کے طور پر بعضوں کو جہنمی ٹھہرادیا ہے اور خواہ نخواہ شیطان کا تسلّط ان پر لازمی طورپر رکھا گیا ہے یہ ایک شرمناک غلطی ہے اللہ جلّ شانہ‘ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔۳ کہ اے شیطان میرے بندوں پر تیراکچھ بھی تسلط نہیں دیکھئے کس طرح پر اللہ تعالےٰ انسان کی آزادی ظاہر کرتاہے۔ منصف کے لئے اگر کچھ دل میں انصاف رکھتا ہو تو یہی آیت کافی ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 233
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 233
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/233/mode/1up
لیکن انجیل متی سے تو اس کے برخلاف ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ انجیل متی سے یہ بات پایۂ ثبوت پر پہنچتی ہے کہ شیطان حضرت مسیح کو آزمائش کے لئے لے گیا۔ تو یہ ایک قسم کی حکومت شیطان کی ٹھہری کہ ایک مقدس نبی پر اس نے اس قدر جبر کیا کہ وہ کئی جگہ اس کو لئے پھرا۔ یہانتک کہ بے ادبی کی راہ سے اسے یہ بھی کہا کہ تو مجھے سجدہ کر۔ اور ایک بڑے اونچےؔ پہاڑ پر لے گیا اوردنیا کی ساری بادشاہتیں اوران کی شان و شوکت اسے دکھلائیں ۔ دیکھو متی ۴ اَور پھر غور کر کے دیکھو کہ اس جگہ پر شیطان کیا بلکہ خدا ئی جلوہ دکھلایا گیا ہے کہ اول وہ بھی اپنی مرضی سے مسیح کی خلاف مرضی ایک پہاڑ پر اسکو لے گیا اور دنیا کی بادشاہتیں دکھا دینا خداتعالیٰ کی طرح اُس کی قوت میں ٹھہرا۔اور بعد اس کے واضح ہو کہ یہ بات جو آپ کے خیال میں جم گئی ہے کہ گویا قرآن کریم نے خواہ نخواہ بعض لوگوں کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے یا خواہ نخواہ دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے یہ اس بات پر دلیل ہے کہ آپ لوگ کبھی انصاف کی پاک نظر کے ساتھ قرآن کریم کو نہیں دیکھتے۔دیکھو اللہ جلّ شانہ‘ کیا فرماتاہے۔ ۱ س۲۳ر۱۴ یعنی شیطان کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ مَیں جہنم کو تجھ سے اور اُن لوگوں سے جو تیری پیروی کریں بھروں گا۔ دیکھئیے اس آیت سے صاف طور پر کھل گیا اللہ تعالیٰ کا یہ منشانہیں ہے کہ خواہ نخواہ لوگوں کو جبر کے طورپر جہنم میں ڈالے بلکہ جو لوگ اپنی بداعمالیوں سے جہنم کے لائق ٹھہریں ان کو جہنم میں گرایا جاوے گا۔ اور پھر فرماتا ہے ۲ یعنی بہتوں کو اس کلام سے گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو یہ ہدایت دیتا ہے۔ مگر گمراہ ان کو کرتا ہے جو گمراہ ہونے کے کام کرتے ہیں ۔ اور فاسقانہ چالیں چلتے ہیں یعنی انسان اپنے ہی افعال کا نتیجہ خداتعالیٰ سے پا لیتا ہے جیسے کہ ایک شخص آفتاب کے سامنے کی کھڑکی جب کھول دیتا ہے تو ایک قدرتی اور فطرتی امر ہے کہ آفتاب کی روشنی اوراس کی کرنیں اس کے منہ پر پڑتی ہیں۔ لیکن جب وہ اس کھڑکی کو بند کر دیتا ہے تو اپنے ہی فعل سے اپنے لئے اندھیرا پیدا کرلیتا ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 234
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 234
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/234/mode/1up
چونکہ خداتعالیٰ علت العلل ہے بوجہ اپنے علت العلل ہونے کے ان دونوں فعلوں کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے لیکن اپنے پاک کلام میں اس نے بار ہا تصریح سے فرمادیا ہے کہ جو ضلالت کے اثر کسی کے دل میں پڑتے ہیں وہ اسی کی بد اعمالی کا نتیجہ ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر کوئی ظلم نہیں کرتا جیساکہ فرماتا ہے ۱ (س۲۸ر۹)پس جبکہ وہ کج ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو کج کر دیا۔ پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے ۔ ۲ ان کے دلوں میں مرض تھی خداتعالیٰ نے اس مرض کو زیادہ کیا یعنی امتحان میں ڈال کر ا س کی حقیقت ظاہر کردی پھر فرماتا ہے۔33۳ یعنی خداتعالیٰ نے بباعث ان کی بے ایمانیوں کے ان کے دلوں پر مہریں لگا دیں۔ لیکن یہ جبر کا اعتراض اگر ہو سکتا ہے تو آپکی کتب مقدسہ پر ہو گا۔ دیکھو خروج ۴۲۱ خدا نے موسیٰ کو کہا۔ مَیں فرعون کا دل سخت کروں گا اور جب سخت ہوا تو اس کا نتیجہؔ جہنم ہے یا کچھ اورہے۔ دیکھو خروج ۳۷ ا مثال باب ۴۱۶ پھر خروج ۳۱۰ استثنا۴۲۹ خدا نے تم کو وہ دل جو سمجھے اوروہ آنکھیں جودیکھیں اور وہ کان جو سنیں آج تک نہ دیئے۔ اب دیکھئے کیسے جبر کی صاف مثال ہے۔ پھر دیکھو زبور۱۴۸ اس نے ایک تقدیر مقدر کی جو ٹل نہیں سکتی رومیان۹۱۸ کاریگری کا کاریگر پر اعتراض نہیں کرسکتے۔ اب ان تمام آیات سے آپ کا اعتراض الٹ کر آپ ہی پر پڑا اور پھر بعد اس کے آپ نے جہاد پر اعتراض کر دیا ہے مگر یہ اعتراض طریق مناظرہ کے بالکل مخالف ہے اور آپ کی شرائط میں بھی یہی درج تھا کہ نمبر وار سوالات ہونگے بجز اسکے کیا مطلب تھا کہ پہلے سوال کا جواب ہو جائے تو پھر دوسرا پیش ہو اور خبط بحث نہ ہو۔ اور آپ کے پہلے سوال کا جواب جو آپ نے عدل پر کیا کچھ نتیجہ رہ گیا تھا وہ یہ ہے کہ آپ کے اِس خود ساختہ قانون کو حضرت مسیحؑ توڑتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے بیان کے مطابق نجات کا مدار وعدوں پر رکھتے ہیں اور احکام الٰہی جن کی جزا وعدہ کے طورپر بیان کی گئی پیش کرتے ہیں جیساکہ وہ فرماتے ہیں کہ مبارک وے جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 235
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 235
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/235/mode/1up
مبارک وے جو رحم دل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جاوے گا۔ مبارک وے جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔ اَب آپ کیا فرماتے ہیں کہ یہ وعدے جو غم گینوں اور رحم دلوں اور پاک دِلوں کے لئے وعدہ کئے گئے تھے یہ پورے ہوں گے یا نہیں۔ اگر پورے ہوں گے تو اِس جگہ تو کسی کفارہ کا ذکر تک بھی نہیں ۔ اور اگر پورے نہیں ہونگے تو تخلف وعدہ ٹھہرا۔ جو خُداتعالیٰ کی ہدایتوں کی نسبت تجویز کرنا ایک سخت گناہ ہے۔ غرض ہم نے آپ کے رحم بلا مبادلہ کو قرآن شریف کی کامل تعلیم اور قانون قدرت اور آپکی کتب مقدسہ سے بخوبی ردّ کر دیا ۔ اب ثابت شدہ امرکے برخلاف اگر ضدّ نہیں چھوڑیں گے تو منصفیں خود دیکھ لیں گے خداتعالیٰ کی تمام تعلیمیں قانون قدرت کے موافق ہیں اور بقول ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب قرآنی توحید ایسی صاف اور پاک اور مطابق قانون فطرت ہے جو بچے بھی اس کو سمجھ سکتے ہیں لیکن آپ کا یہ مسئلہ تثلیث بچے تو کیا آجکل کے فلاسفر بھی خلاف عقل ٹھہراتے ہیں۔ پھر کیا وہ تعلیم جو انسانی فطرت کے مطابق اور قانون قدرت کے موافق اور ایسی چمکتی ہے کہ بچے بھی اس کو قبول کرلیتے ہیں اور تمام مذاہب کے زوائد نکال کر وہی توحید باقی رہ جاتی ہے ۔ کیونکر ردکرنے کےؔ لائق ٹھہرتی ہے۔ اور آپ کے سوال جہادکا دوسرے موقعہ پر جواب دیا جاوے گا۔ مگرآپ نے داب مناظرہ کے برخلاف کیا جو سوال پر سوال کر دیا۔ اِس کو ناظرین خود دیکھ لیں گے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 236
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 236
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/236/mode/1up
اَز جانب ڈپٹی عَبد اللہ آتھم صاحب
یکم جون ۱۸۹۳ ء
۲۹۷
جناب کا یہ فرمانا کہ مسیح تیس بَرس تک الوہیّت سے خالی رہے بقول میرے یہ خوش فہمی ہے میرا کہنایہ ہی تھا کہ مسیحیت کے عہدہ پر وہ تب تک نہیں آئے۔ اور یہ صحیح ہے باقی جو کچھ آپ نے فرمایا وہ زائد ہے۔ بے حدی سے خالی ہونا تو کسی کا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ مسیح اس سے خالی رہے۔ اقنوم ثانی کا جو رشتہ انسانیت سے ہے واسطے مسیحیت کے ہے اقنوم ثانی گو ساتھ الوہیت کے ہو۔ تاہم وہ مسیح نہیں تھا جب تک کہ تیس برس کا ہوا۔
مظہر اللہ کے معنے کیاہیں اور کس مراد سے یہ کلمہ استعمال ہوا ہے۔ ہماری نظر میں تو یہ معنی ہیں جائے ظہور اللہ کی اور واسطے عہدہ مسیحیت کے ہیں پھر کیوں اس پر آپ تنازعہ کرتے ہیں ۔ رُوح القدس برائے گواہی اس امر کے آیا کہ یہ بیٹا خدا کا ہے خدا نے کہا مَیں اِس سے راضی ہوں نہ اِس لئے کہ اس وقت آن کر اس کے بیچ میں داخل ہوا۔
(۲)آپ کے دوسرے امر کا جواب یہ ہے کہ جو چاہو آپ فرماؤ۔ لیکن اِس کا جواب آپ نے نہیں دیا کہ تقاضائے عدل کا کیونکر پورا ہو۔ اگر آپ کے فرمانے کا یہ مطلب ہے تقاضائے عدل کچھ شے نہیں ہے تو ہمارا آپ سے اِس صداقت اولیٰ پر اتفاق نہیں۔
(۳) آپ فرماتے ہیں کہ جبر قرآن سے ثابت نہیں مجھے اس میں حیرانی ہے کہ آپ اُس آیتؔ کے لفظوں کی طرف توجہ نہیں فرماتے جس میں لکھا ہے کہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی کام ہمارے ہاتھ میں ہے اور بجواب اِس کے کہاجاتاہے کہ کہدے۔ سب کام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اور آیات تو مَیں اِس مقدمہ میں بہت قرآن سے دے سکتا ہوں لیکن حاجت نہیں۔ پھر آپ کا عقیدہ اِس میں جو لکھا ہے والقد ر خیرہ وشرہ من اللّٰہ تعالٰی خیر اور شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ نتیجہ منتخب
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 237
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 237
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/237/mode/1up
قرآن سے ہے۔ جو انجیل کی آیتوں کے اوپرآپ نے اپنا حاشیہ چڑھایاہے۔ سو صحیح نہیں ۔ مَیں نے عرض کر دیا ہے کہ بدی کے واسطے خدا کی طرف سے پر مشن ہوتا ہے یعنی اجازت اور پرولجوں کے واسطے وہاں ہی تک حد ہے کہ جس میں دوزخ اور بہشت کا کچھ ذکر نہیں۔ دُنیا کے اندر کمی اور زیادتی وسعت کا ذکر ہے۔ پھر ان کو آپ ممثلہ قرآن کا کیونکر کہتے ہیں۔ مَیں تو کہتا ہوں کہ قرآن میں جبراور قدر ہر دو ہیں لیکن یہ امر ہر دو باہم متفق نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ ایک دوسرے کے نقیض ہیں جیسا کہ یہ کہنا کہ اختیار ہے بھی اور نہیں بھی صاف نقیض ہے۔
(۴) خداوند مسیح کی آزمائش میں شیطان نے جو انسانیت کاامتحان کیا ہے آپ کا مطلب کیا ہے کچھ ظاہر نہیں۔ اِس میں جبر وقدرکا علاقہ کیا ہے۔
آپ کی مثال آفتاب کی نہ معلوم کیونکر بر محل ہے جب آپ کہتے ہیں کہ سبب ثانی کے افعال بھی خداتعالیٰ اپنی طرف جو سبب اولیٰ ہے منسوب کرتا ہے نہ معلوم کیوں کرتاہے کیا ضرورت اس کی تھی سبب ثانی کے افعال ایسی صورت میں سبب اُولیٰ سے منسوب ہو سکتے ہیں کہ جب کچھ دخل سبب اُولیٰ کا بھی اس میں ہو۔
سبب اُولیٰ نے ایک شخص کو فعل مختار بنایا فعل مختاری درخود جب تک کچھ اس سے ظہور نہ ہووے قابل مواخذہ کے نہیں لہٰذا وہ درحقیقت بری بھی نہیں بلکہ بھلی ہے اور سبب اولیٰ اگر اس میں دخل دیوے تو فعل مختاری کا نقیض ہوجاوے۔ یہ خود اس کے منصوبہ فعل مختار بنانے سے بعید ہے۔ اس کے معنے ہم نے کردیئے ہیں کہ فرعون کا دل کیونکر سخت کر دیا ہم نے اِس کے معنے پہلے عرض کر دیئے یعنی یہ کہ اس کو بدی کرنے سے روکا نہیں اور اپنے فضل کا ہاتھ اُس سے اٹھا لیا اسی طرح سے اس کا دل سخت ہو گیا۔ پھر اس میں خداتعالیٰ نے کچھ نہیں کیا مگر اجازت روکنے کی نہیں دی اس کو ہمارے ہاں پر مشن کہتے ہیں اوریہ کلام مجاز ہے کہ ان کو آنکھیں دیکھنے کی نہیں دیں یا کان سننے کے نہیں دیئے جس سے یہ مراد ہوئی ؔ کہ آنکھ اورکان رکھتے ہوئے جب وہ نہیں دیکھتے اورنہیں سنتے کہ خداتعالیٰ نے ان کو روکا نہیں ایسا ہی کلام مجاز یہ ہے کہ جس طرح باپ اپنے لڑکے سے ناراض ہو کر کہتا ہے کہ تو مر جائے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 238
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 238
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/238/mode/1up
اس کے معنے یہ نہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ مرجائے بلکہ یہ کہ اس کے افعال سے وہ ناراض ہے۔
(۵) میں نے دیکھا تھا کہ سوال چھوٹا ہے اور گنجائش دو کی ہے تو میں نے دو سوال کر دیئے۔ آپ جب چاہیں اس کا جواب دیویں ہم آپ کو اس میں عاجز نہ سمجھیں گے کہ آپ نے اسی وقت اس کا جواب نہیں دیا اور پھر جب آپ جواب چاہیں گے اس کا تکرار بھی کر دیں گے۔
(۶) آپ جو ان وعدوں میں کفارہ کا ذکر پوچھتے ہیں جو مسیح نے باب ۵ متی میں دیئے اس میں بڑا تعجب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کیا سارے مضامین ایک ہی جگہ جمع کئے جاتے ہیں۔ اگر اس جگہ میں ذکر نہیں تو بہت جگہوں میں ذکر ہے جن کے حوالہ ہم بار بار دے چکے آپ کے ذمہ یہ تھا کہ دکھلاویں کہ کفارہ کی نفی ان میں ہے۔ آپ اپنا بار ثبوت دوسرے پر کس لئے ڈالتے ہیں۔
(۷) اگر آپ نے رحم بلا مبادلہ کو قانون قدرت اورآیات قرآنی اور کتب مقدسہ سے رد کر دیا ہے توبس خوشی ہوئی ان امروں کا جب چھپ جائیں گے ہر ایک بجائے خود انصاف کر لے گا۔ ہم جو دلائل اِس کے دے چکے ہیں ان کا تکرار بار بار ہر وقت پانی بلونے کی جانتے ہیں۔
(۸) مسئلہ تثلیث کے بارہ میں جو ہم نے دلائل دیئے ہیں جب تک اُن کا ردّ آپ کی طرف سے مدلل ہو کے نہ آوے تو ہم اس پر توجہ نہیں کر سکتے۔ آپ نے یہ عادت اختیار فرمائی ہے کہ ثبوت کی طرف توجہ نہ کرنا اورپھر اُسی امر کا تکرار کر دینا۔
(۹) مجھے افسوس یہ ہے کہ آپ میرے سوالات کا جواب نہیں دیتے ہیں او نہ میرے جوابات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں آج بھی ہمارا ایک سوال یہ پڑا ہے کہ انجیل کے رُو سے مریم کے پاس جبرائیل کا آنا آپ مانتے ہیں یا نہیں اور کہ مسیح کی پَیدائش معجزہ ہی کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں۔ لیکن آپ نے اِس طرف کچھ توجہ نہیں فرمائی۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 239
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 239
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/239/mode/1up
گیارھواںؔ پرچہ
مباحثہ ۲۔ جون ۱۸۹۳ ء
روئیداد جلسہ
آج مرز ا صاحب نے ۶ بجے ۹ منٹ پر جواب لکھوانا شروع کیا اور ۷ بجے ۹ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے ۷ بجے ۴۰ منٹ پر جواب لکھوانا شروع کیا اور آٹھ بجے ۴۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے ۹ بجے ایک منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ایک منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایاگیا۔ بعد ازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلسوں کے دستخط ہو کے جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادرفصیح پریزیڈنٹ
ا ز جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
بیان حضرت مرزا صاحب
۱۳۔ جوان ۱۸۹۳ ء وقت۱۰۶
پھر ڈپٹی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’بے حدی سے خالی ہونا تو کسی کا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ مسیح اِس سے خالی رہے یعنی مسیح روح القدس کے نزول سے پہلے بھی مظہر اللہ ہی تھا کیونکہ عام معنوں سے تو تمام مخلوقات مظہر اللہ ہے۔‘‘ جواب مَیں کہتا ہوں کہ آپ کااَب بھی وہی اقرار ہے کہ خاص طور پر مسیح مظہر اللہ نزول روح القدس کے بعد ہوئے اور پہلے اوروں کی طرح عام مظہر تھے ۔ اورپھر ڈپٹی صاحب موصو ف تین اقنوم کا ذکر فرماتے ہیں اوریہ نہیں سمجھتے کہ یہ آپ کا ذکر بے ثبوت ہے آپ نے اس پر کوئی عقلی دلیل نہیں دی۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 240
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 240
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/240/mode/1up
اور یوں تو ہر ایک نبوت کے سلسلہ میں تین جزؤں کا ہونا ضروری ہے اور آپ صاحبوں کی یہ خوش فہمی ہے کہ اُن کا نام تین اقنوم رکھا۔رُوح القدس اسی طرح حضرت مسیح پر نازل ہوا جس طرح قدیم سے نبیوں پر نازل ہوتا تھا جس کا ثبوت ہم دے چکے نئی بات کونسی تھی۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی پہلے لکھا ہے کہ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ مَیں کہتاہوں کہ گویہ بات سچ ؔ ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے۱ ۱۲ خداتعالیٰ کی طرف ہی ہر ایک امر رجوع کرتا ہے مگر اِس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اِس سے انسان کی مجبوری لازم آتی ہے غلط فہمی ہے۔ یوں تو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ مَیں مینہ برساتا ہوں اور برق و صاعقہ کو پیداکرتا ہوں اورکھیتیاں اگاتا ہوں مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اسباب طبعیہ مینہ برسنے اوررعد و برق کے پَیدا ہونے کے جو ہیں اس سے اللہ تعالیٰ انکار کرتا ہے۔ بالکل فضول ہے۔ کیونکہ یہ مراتب بجائے خود بیان فرمائے گئے ہیں کہ یہ تمام چیزیں اسباب طبعیہ سے پَیدا ہوتے ہیں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے ایسے بیانات سے کہ میرے حکم سے بارشیں ہوتی ہیں اورمیرے حکم سے کھیتیاں اُگتی ہیں اور برق و صاعقہ پیدا ہوتا ہے اور پھل لگتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اور ہر ایک بات میرے ہی قبضہ اقتدار میں اور میرے ہی امر سے ہوتی ہے۔ یہ ثابت کرنا مقصودنہیں کہ سلسلہ کائنات کا مجبورمطلق ہے بلکہ اپنی عظمت اور اپنا علت العلل ہونا اوراپنا مسبب الاسباب ہونا مقصود ہے کیونکہ تعلیم قرآنی کا اصل موضوع توحید خالص کو دُنیا میں پھیلانا اورہر ایک قسم کے شرک کوجو پھیل رہا تھا مٹانا ہے۔ اور چونکہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے وقت عرب کے جزیرہ میں ایسے ایسے مشرکانہ عقائد پھیل رہے تھے کہ بعض بارشوں کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے تھے اور بعض دہریوں کی طرح تمام چیزوں کا ہونا اسباب طبعیہ تک محدود رکھتے تھے ۔ اور بعض دو خدا سمجھ کر اپنے ناملائم قضا وقدر کو اھرمن کی طرف منسوب کرتے تھے۔ اِس لئے یہ خداتعالیٰ کی کتاب کا فرض تھا جس کے لئے وہ نازل ہوئی کہ اُن خیالات کو مٹادے اور ظاہر کرے کہ اصل علّت العلل
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 241
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 241
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/241/mode/1up
اور مسبب الاسباب وہی ہے اور بعض ایسے بھی تھے جو مادہ اور رُوح کو قدیم سمجھ کر خداتعالیٰ کا علّت العلل ہونا بطور ضعیف اور ناقص کے خیال کرتے تھے۔ پس یہ الفاظ قرآن کریم کے کہ میرے ہی امر سے سب کچھ پَیدا ہوتا ہے۔ توحید محض کے قائم کرنے کے لئے تھے۔ ایسی آیات سے انسان کی مجبوری کا نتیجہ نکالنا تفسیر القول بما لا یرضی بہ قائلہ ہے۔ اور خداتعالیٰ کے قانون قدرت پر نظر ڈال کر یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ آزادی اور عدم مجبوری جس کا ڈپٹی صاحب موصوف دعویٰ کر رہے ہیں دُنیا میں پائی نہیں جاتی بلکہ کئی قسم کی مجبوریاں مشہود و محسوس ہو رہی ہیں۔ مثلًا بعض ایسے ہیں کہ اُن کا حافظہ اچھا نہیں وہ اپنے ضعیف حافظہ سے بڑھ کر کسی بات کے یاد کرنے میں مجبور ہیں بعض کا متفکرہ اچھا نہیں وہ صحیح نتیجہ نکالنے سے مجبور ہیں۔ بعض بہت چھوٹے سر والے جیسے وہ لوگ جنہیں دولہ شاہ کا چُوہا کہتے ہیں ایسے ہیں کہ وہ کسی امر کے سمجھنے کے قابل نہیں۔ ان سے بڑھ کر بعض دیوانے بھی ہیں اور خود اِنسان کے قویٰ ایک حد تک رکھے گئے ہیں جس حد سے آگے وہ کام اُن سے نہیں لے سکتے۔ یہ بھی ایک قسم کی مجبوری ہے۔
پھرؔ ڈپٹی صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ خیر اور شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے افسوس کہ ڈپٹی صاحب کیسے صحیح معنے سے پھر گئے۔ واضح ہو کہ اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ خداتعالیٰ شر کو بحیثیت شر پیدا کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے۔ 33 ۱ یعنی اے شیطان شر پہنچانے والے میرے بندوں پر تیرا تسلّط نہیں بلکہ اِس فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک چیز کے اسباب خواہ وہ چیز خیر میں داخل ہے یا شر میں خداتعالیٰ نے پَیدا کی ہیں۔ مثلًا اگر شراب کے اجزاء جن سے شراب بنتی ہے موجود نہ ہوں تو پھر شرابی کہاں سے شراب بنا سکیں اور پی سکیں لیکن اگر اعتراض کرنا ہے تو پہلے اس آیت پر اعتراض کیجئے کہ۔ ’’ سلامتی کوبناتا اور بلا کو پَیدا کرتا ہے ۔ ‘‘ یسعیا ۷۴۵۔
پھر آگے ڈپٹی صاحب موصوف فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے۔ توریت میں ایسا کوئی حکم نہیں کہ دوزخ کیلئے خُدا نے کسی کو مجبورکیا ہے۔ اِس کا یہی جواب ہے کہ فرعون کا دِل خدا نے سخت کیا آپ اِس کو مانتے ہیں۔ پھر انجام فرعون کا اِس سخت دلی سے جہنّم ہوا یا بہشت نصیب ہوا ۔ پھر دیکھو امثال
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 242
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 242
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/242/mode/1up
آپ کا خدا تعالیٰ کیا فرماتاہے۔ خدا وند نے ہر ایک چیز اپنے لئے بنائی ہاں شریروں کو بھی اُس نے بُرے دن کیلئے بنایا ۳۱۶ ۔ اب دیکھئے یہ تو گویا اقبالی ڈگری کیطرح آپ پر الزام وارد ہوگیا کہ شر یر دوزخ کیلئے بنائے گئے کیونکہ وہی تو بُرا دِن ہے۔ پھرآپ فرماتے ہیں کہ قرآن میں اگرچہ اختیارکی بھی تعلیم ہے مگر پھر مجبوری کی بھی تعلیم اور یہ ایک دُوسری کی نقیض ہیں اِس کے جواب میں مَیں لکھ چکا ہوں کہ آپ خلط مقاصد کرتے ہیں۔ جہاں آپ کو مجبوری کی تعلیم معلوم ہوتی ہے وہاں مذاہبِ باطلہ کا ردّ مقصود ہے اور ہر ایک فیض کا خُداتعالیٰ کو مبدا قرار دینا مدِّ نظر ہے۔
اور آپ فرماتے ہیں کہ شیطان جو حضرت مسیح کو لے گیا اُس میں کیا مجبوری تھی ۔ جواب یہی ہے کہ نُور سے ظلمت کی پَیروی کرائی گئی۔ نور بالطّبع ظلمت سے جُدا رہنا چاہتا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر اختیار کو ماناجائے تو پھر خُدا تعالیٰ کا علت العلل قرار دینا لغو ہے آپ کی تقریر کا یہ خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بکلی خداتعالیٰ کو معطل کر کے پورا پورا اقتدار اور اختیارچاہتے ہیں جبکہ ہمارے قویٰ اور ہمارے جو ارح کے قویٰ اور ہمارے خیالات کے مبلغ علم پر اُس کی خدائی کا تسلط ہے وہ کیونکر معطّل ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو علّت اور معلولات کا سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا۔ اور صانع حقیقی کی شناخت کرنے میں بہت سافتور آئے گااور دُعا کرنا بھی لغو ہوگا۔ کیونکہ جبکہ ہمؔ پورا اختیار رکھتے ہیں تو پھر دعا بے فائدہ ہے۔ آپ کو یادر ہے کہ خدا تعالےٰ کو علّت العلل ماننا مستلزم مجبوری نہیں یہی ایمان ہے یہی توحید ہے کہ اِس کو علت العلل مان لیا جاوے اور اپنی کمزوریوں کے دُور کرنے کے لئے اِس سے دُعائیں کی جائیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ یہ کلمہ کہ اُن کو آنکھیں دیکھنے کے لئے نہیں دیں۔ مجاز ہے۔ حضرت اگر یہ مجاز ہے تو پھر کہاں سے معلوم ہوا کہ دِلوں پر مُہر لگانا اور آنکھوں پر پَردہ ڈالنا حقیقت ہے۔ کیا اِس جگہ آپ کو مُہریں اورپَردے نظر آگئے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر آپ نے رحم بلا مبادلہ کو ردّ کر دیا ہے تو بس خوش ہو جئیے ۔ افسوس ابھی تک آپ میری بات کو نہ سمجھے یہ تو ظاہر ہے کہ عدل کا مفہوم جانبین کے حقوق کو قائم کرتا ہے یعنی اِس سے لازم آتا ہے کہ ایک خداتعالیٰ کا بندہ پر حق ہو جس حق کا وہ مطالبہ کرے ا ور ایک بندہ کا خداتعالیٰ پر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 243
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 243
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/243/mode/1up
حق ہوجس حق کا وہ مطالبہ کرے۔ لیکن یہ دونوں باتیں باطل ہیں کیونکہ بندہ کو خداتعالیٰ نے عدم محض سے پیدا کیا ہے اور جس طرح چاہا بنایا۔ مثلاًانسان یا گدھا یا بیل یا کوئی کیڑا مکوڑا۔ پھر حق کیسا۔ اور خداتعالیٰ کا حق اگرچہ غیر محدود ہے مگر مطالبہ کے کیا معنی۔ اگر یہ معنی ہیں کہ خداتعالیٰ کو بندوں کی فرمانبرداری کی ضرورتیں پیش آگئی ہیں اور تب ہی اس کی خدائی قائم رہتی ہے کہ ہر ایک بندہ نیک اور پاک دل ہو جائے ورنہ اس کی خدائی ہاتھ سے جاتی ہے۔ یہ تو بالکل بے ہودہ ہے کیونکہ اگر تمام دنیا نیک بن جائے تو اس کی خدائی کچھ بڑھ نہیں سکتی۔ اور اگر بد بن جائے تو کچھ کم نہیں ہوسکتی۔ پس حق کو بحیثیت حق قرار دے کر مطالبہ کرنا چہ معنی دارد۔ پس اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے جو غنی بے نیاز ہے اور اس سے برتر ہے کہ اپنی ذاتی حاجت سے کسی حق کا مطالبہ کرے۔ خود بندہ کے فائدہ کے لئے اور اپنی مالکیّت اور خالقیّت اور رحمانیّت اور رحیمیّت کے ظاہر کرنے کے لئے یہ سارا سامان کیا ہے۔ اول ربوبیّت یعنی خالقیّت کے تقاضا سے دنیا کو پیداکیاپھر رحمانیّت کے تقاضا سے وہ سب چیزیں انکو عطاکیں جن کے وہ محتاج تھے ۔ پھر رحیمیّت کے تقاضا سے ان کے کسب اور سعی میں برکت ڈالی او ر پھر مالکیّت کے تقاضا سے ان کو مامور کیا۔ اور امر معروف اور نہی منکر سے مکلف ٹھہرایا اور اس پر وعید اور مواعید لگا دیئے۔ اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ جو شخص بعد معصیت کے طریق ایمان اور توبہ و استغفار کا اختیار کرے۔ وہ بخشاجائےؔ گا۔ پھر اپنے وعدوں کے موافق روز حشر میں کاربند ہوگا اس جگہ رحم بلامبادلہ کا اعتراض کیا تعلق رکھتا ہے اور قائمی حقوق کا اور خداتعالیٰ سے متکبرانہ طور پر عدل کا خواستگار ہوناکیا علاقہ رکھتا ہے۔ سچی فلاسفی اس کی یہی ہے جو سورۂ فاتحہ میں بیان فرمائی گئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اب دیکھئے رحمن اور رحیم کے بعد بظاہر یہ سمجھا جاتا تھا کہ العادل کا لفظ لانا ان صفات کے مناسب حال ہے کہ رحم کے بعد عدل کا ذکر ہو لیکن خداتعالیٰ نے عدل سے عدول کرکے اپنی صفت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 244
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 244
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/244/mode/1up
ٹھہرائی تا معلوم ہو کہ حقوق کا مطالبہ اس سے جائز نہیں اور اس سے کوئی اپنے حق کا خواستگار نہیں ہوسکتا اور نہ وہ حاجت مند ہے کہ بحیثیت ایک ایسے حقدار کے جو بغیر وصول حق کے مرا جاتا ہے بندوں سے فرمانبرداری چاہتا ہے بلکہ بندوں کی عبادتیں اور بندوں کی طاعتیں درحقیقت انہیں کے فائدہ کے لئے ہیں جیسا کہ طبیب نسخہ کسی بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے تو یہ بات نہیں کہ اس نسخہ کو طبیب آپ پی لیتا ہے یا اس سے کوئی حظ اٹھاتا ہے یا کہ وہ بیمار کی بھلائی کے لئے ہے۔ اور پھر بعد اس کے آپ نے اسلام کے جہاد پر اعتراض کیا ہے مگر افسوس کہ آپ نے اسلامی جہاد کی فلاسفی کو ایک ذرہ بھی نہیں سمجھا اور آیات کی ترتیب کو نظر انداز کر کے بے ہودہ اعتراض کر دیئے ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام کی لڑائیاں ایسے طور سے نہیں ہوئیں کہ جیسے ایک زبردست بادشاہ کمزور لوگوں پر چڑھائی کر کے ان کو قتل کر ڈالتا ہے بلکہ صحیح نقشہ ان لڑائیوں کا یہ ہے کہ جب ایک مدت دراز تک خداتعالیٰ کا پاک نبی اور اس کے پیرو مخالفوں کے ہاتھ سے دکھ اٹھاتے رہے چنانچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور کئی برے برے عذابوں سے مارے گئے یہاں تک کہ ہمارے نبی صلعم کے قتل کر نے کے لئے منصوبہ کیا گیا اور یہ تمام کامیابیاں ان کے بتوں کے معبود برحق ہونے پر حمل کی گئیں اور ہجرت کی حالت میں بھی آنحضرت صلعمکو امن میں نہ چھوڑا گیا بلکہ خود آٹھ پڑاؤ تک چڑھائی کر کے خود جنگ کرنے کے لئے آئے تو اس وقت ان کے حملہ کے روکنے کے لئے اور نیز ان لوگوں کو امن میں لانے کے لئے جو اُن کے ہاتھ میں قیدیوں کی طرح تھے اور نیز اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے کہ ان کے معبود جن کی تائید پر یہ سابقہ کامیابیاں حمل کی گئی ہیں لڑائیاں کرنے کا حکم ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاؔ ہے۔ ۱ ۱۹
پھر فرماتا ہے۔۲ الی آخرہ ۵۷
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 245
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 245
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/245/mode/1up
پھر فرماتا ہے۔ ۱ ۲۸
پھر فرماتا ہے۔ ۲۲۱۰
پھر فرماتا ہے۔ ۳۲۱۷
پھر فرماتا ہے۔۴س ۱۴ اخیر رکوع
پھر فرماتا ہے۔۵ ۱۸۲۱
پھر فرماتا ہے۔ ۶ ۱۴
پھر فرماتا ہے۔ ۷ ۸۱۰
اب ترجمہ کے بعد آپ کو معلوم ہو گا کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ اور اگر یہ سوال ہو کہ کفار نے کیسے ہی دکھ دیئے تھے مگر صبر کرنا چاہیئے تھا تو اس کا یہ جواب ہے کہ وہ اپنی کامیابیوں کو اپنے لات و عزیٰ بتوں کی تائیدات پر حمل کرتے تھے جیسا کہ قرآن کریم اس سے بھرا پڑا ہے حالانکہ وہ صرف ایک مہلت کا زمانہ تھا۔ اس لئے خداتعالیٰ نے چاہا کہ یہ ثابت کرے کہ جیسے ان کے بت قرآن کریم کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں ایسا ہی تلوار کے ساتھ کامیاب کرا دینے سے بھی عاجز ہیں۔ سو جس قدر اسلام میں ان پر حملے کئے گئے اول مقصد ان کفار کے بتوں کا عاجز ہونا تھا اور یہ ہرگز نہیں کہ ان لڑائیوں میں کسی قسم کا یہ ارادہ تھا کہ قتل کی دھمکی دے کر ان لوگوں کو مسلمان کر دیا جائے بلکہ وہ طرح طرح کے جرائم اور خونریزیوں کے سبب سے پہلے سے واجب القتل ہو چکے تھے اور اسلامی رعایتوں میں سے جو ان کے ساتھ رب رحیم نے کیں ایک یہ بھی رعایت تھی کہ اگر کسی کو توفیق اسلام نصیب ہو تو وہ بچ سکتا ہے۔ اس میں جبر کہاں تھا عرب پر تو انہیں کے سابقہ جرائم کی وجہ سے فتویٰ قتل کاہوگیا تھا۔ ہاں باوجود اس کے یہ رعایتیں بھی تھیں کہ ان کے بچے نہ مارے جائیں ان کے بڈھے نہ مارے جائیں ان کی عورتیں نہ ماری جائیں اور ساتھ اس کے یہ بھی رعایت کہ بصورت ایمان لانے کے وہ بھی نہ مارے جائیں۔(باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی غلام قادر فصیح
دستخط بحروف انگریزی ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 246
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 246
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/246/mode/1up
بیان ؔ ڈپٹی صاحب عبداللہ آتھم
۲۔ جون ۱۸۹۳ء
وقت ۷۴۰
جواب اول عرض ہے کہ میں نے نہیں کہا کہ مظہر اللہ ہے بلکہ یہ کہا کہ اقنوم ثانی اور انسانیّت کا باہم علاقہ رہا ہے۔ مظہر اللہ تو تب ہی ظاہر ہوئے کہ جب مسیح ہوئے۔ یعنی ۳۰ برس کی عمر میں۔
دوم۔ کافی ثبوت تثلیث کا دیا گیا ہے عقل سے امکان اور کلام سے وقوعہ اس کا۔ اگر آپ نہیں مانتے تو طبع ہونے کے بعد ہر ایک بجائے خود انصاف کرلے گا۔
سوم۔ کسی نبی کے اوپر بشکل مجسم کبوتر کی مانند روح نازل ہوا۔ پھر آپ کوئی نشان نہیں دیتے کہ کون سا نبی اس کے مساوی ہے۔ اور ناحق کی حجت پیش کرتے ہیں۔
چہارم۔ میں نے جو آیت سند کی پیش کی ہے اس میں مسلمانوں کا تذکرہ یہ تھا کہ کیا کوئی بھی امر ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جواب اس کا یہ دیا گیا ہے کہ سب امر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ امر کے معنے جو حکم کے جناب نے کئے ہیں۔ امور جس کا جمع ہے وہ بھی امر ہے یعنی کام۔ تو معنے یہ ہوئے کہ ہر کام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بالضرور فعل مختاری انسان میں مداخلت ہے۔
جناب مرزا صاحب آپ جو حوالہ اشیاء مخلوق و مثل کھیتی و پانی وغیرہ کے دیتے ہیں وہ اختیارونااختیاری کی مثال نہیں۔ میں جناب کو یہ الزام نہیں دیتا کہ جناب فریب دیتے ہیں مگر فریب کھاتے ضرور ہیں۔
پنجم۔ توحید کا ثبوت اس سے کچھ نہیں ہوتا کہ سبب اولیٰ ہوکر خداتعالیٰ سبب ثانی کے واسطے کچھ گنجائش باقی نہ رکھے سبب اولیٰ اگر قادر مطلق ہے تو دوسرے کو فعل مختار بھی پیدا کر سکتا ہے اور جب فعل مختار بنا دیا تو اس کی فعل مختاری میں مداخلت کرنا اس کے منصوبہ بنانے کے برخلاف ہے۔
ششم۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ فعل مختاری انسان کی لاحد ہے مگر اپنے حدود میں وہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 247
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 247
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/247/mode/1up
فعل مختار مطلق ہے اور اس کا انکار آپ عبث کرتے ہیں۔
ہفتم۔یسعیا کا بیان کہ وہ سلامتی اور بلا پیدا کرتا ہے فعل مختاری کے برخلاف کچھ نہیں۔ نہ معلوم جناب نے کیوں حوالہ اس آیت کا دیا۔ فرعون کا دل سخت کیونکر ہوا- ہم نے اس کی شرح کل کردی ہے یعنی اس کو جب شرارت سے نہ روکا اور فضل کا ہاتھ پرے کر لیا تواس کا نتیجہ یہؔ ہے کہ وہ خواہ نخواہ سخت دل ہوگیا۔ کیا جناب اس امر کو نہیں سمجھتے کہ کرنے اور ہونے دینے میں بڑا فرق ہے۔ انگریزی میں صاف فرق ہے کہ کمشن اس کو کہتے ہیں کہ خود کرے اور پرمشن اس کو کہتے ہیں کہ ہونے دے۔ تو ہونے دینے کا کیا الزام مساوی اس کے ہے کہ اس نے کیا۔ اور اگر ایسا ہی الزام ہو تو صحیح نہیں ہوسکتا۔
ہشتم۔ آپ کی تیسری مثل میں کہ شریروں کو اپنے لئے بنایا اس کا مطلب صاف ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ شریر ہونے دیا۔ یہ بھی وہی پرمشن ہے نہ کہ کمشن۔ کلام مجازی کو اور عامہ کو چھوڑ کے آپ فلاسفی میں کس لئے گھستے ہیں۔کیا عوام سے جناب کلام اسی طرح پر کرتے ہیں کہ ہر ایک لفظ اس کا فلوز افیکل ہووے یعنی مطابق فلاسفی کے۔ تاہم وہ آیت جو زیر داب تنازعہ کے ہے۔ اس میں اصول قائم کیا گیا ہے کہ گویا خدا فرماتا ہے کہ ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے اور اس اصول کا بیان اس فروع پر ہے۔ جو کہتے تھے کچھ بھی کام ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یہاں یہ کلیہ کبریٰ ہے اور قیاس مرد مان صغریٰ ہے۔ نتیجہ جو اس کا ہے آپ انصاف کر لیجئے۔
نہم۔ مسیح بہ نسبت اپنی انسانیت کے سارے فرائض الٰہی ادا کرنے والا ہے پس وہ امتحان بھی دے گااور شیطان سے آزمایا بھی جائے گا۔ لہٰذا کیا ضرور ہے کہ اس امر کو اختیارونااختیاری کی بحث میں داخل کیا جائے۔
دہم۔ نہ ہم نے کہیں خدا کے اختیار کو کسی حد میں قید کیامگر وہ قیود جو ہر صفت پر اس کے خاصہ سے لازمی ہے۔ مثلاً ہم اس کو قادر مطلق کہتے ہیں۔ اس کے معنے یہ نہیں ہو سکتے کہ وہ نقیضین کو آن واحد میں جمع بھی کرسکتا ہے کیونکہ اجماع نقیضین دوسرا نام بطلان کا ہے اور بطلان کوئی صفت نہیں چاہتا ہے کہ جو اس کو بناوے۔ مگر صرف کھانا صداقت کا تو قادر مطلق کے یہ معنے ہیں کہ جو ممکن ہے اس کو بناوے اور جو ناممکن ہے اس کے بنانے کی احتیاج کچھ نہیں وہ تو صرف جھوٹ بولنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 248
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 248
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/248/mode/1up
سے ہوسکتا ہے۔ واضح ہو کہ جیسا ہم قدرت الٰہی کو حدودنا مناسب میں قید نہیں کرتے ویسے ہی فعل مختاری انسان کی حدود نا مناسب میں قید نہیں ہوسکتی۔
یازدہم۔ پورے اختیار پر دعا بے فائدہ ہے اس کے معنے یہ ہوئے کہ ہم علم و قدرت بھی اس کے ساتھ بے حد رکھتے ہوں۔ لیکن ہم نے کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ مگر یہ کہ اس کا علم اور اس کی قدرت اور اس کا اختیار کل محدود ہیں۔ پس آپ کے فرائض و مسلمات محض خیالی ہیں۔
دوازدہم۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ دلوں پر آنکھوں پر مہر کرنا کلام مجازی نہیں تو ہم پر اس کا اعتراض کیا ہے۔
سیزؔ دہم۔ ہم بالکل تسلیم کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی ذات مستغنی الذّات مطلق ہے۔ لیکن وہ وہیں تک آزاد ہے کہ جہاں تک اس کی ساری صفات بالاتفاق اجازت دیں۔ چنانچہ اگر وہ کسی پر ظلم کرنے کو چاہے توچاہیئے کہ عدل اس کا مانع ہوگا۔ یا کسی کے ایذاء ناحق میں وہ خوش ہووے تو صفت گڈنس کی اس کے مانع ہوگی۔ علیٰ ہذالقیاس بہت ہی صفات متبرکہ ا س کی ہیں جو ان کلیو سب ہو کر چل سکتی ہیں اوراکس کلیو سب ہوکر نہیں چل سکتیں جیسا کہ اگر ایک صفت کچھ کام کرتی ہے تو ساری بالاتفاق اس کی ممد ہیں۔ گو ظہور خاص اس ایک کا ہے جو کام کر رہی ہے۔ اور اگر کوئی صفت کام کرتی ہے تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اٹنک ہے اور کوئی صفت اس کے ساتھ نہیں اور مخالف ہونا تو نعوذ باللہ دو صفات میں کہیں بھی جائز نہیں کہ ایک دوسری کی مخالف ہو۔
چہاردہم۔ اول تو جناب ہمیشہ ان دو صفات کی تمیز کے بارہ میں جو ایک رحم ہے دوسری گڈنس لاعلمی دکھلاتے ہیں۔ اور تمیز اس میں یہ ہے کہ رحم کسی مواخذہ اور تکلیف پر آتا ہے اور گڈنس صرف اپنے متعلقین کو خوشنود رکھنے کے واسطے ہوتا ہے جیسا کہ اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں پکڑا ہوا ہووے اس کی رہائی کے واسطے رحم کی صفت ہے اور اگر کوئی اپنے جانوروں کو بھی بہرحال خوش رکھنے چاہتا ہے اور ان غذاؤں سے جن کے وہ لائق ہیں عمدہ تر غذائیں وہ ان کو دیتا ہے یہ گڈنس کے باعث ہے۔ چنانچہ اس لفظ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 249
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 249
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/249/mode/1up
گڈنسکا داؤد نبی نے ذکر کیا ہے جیسا کہ وہ لکھتا ہے کہ ارے آؤ۔ چکھو۔ دیکھو کہ یہی بھلا ہے۔ اب عدالت کا کام یہ ہے کہ جس وقت گناہ سرزد ہووے اس کا تدارک فرماوے اور رحم اس ماقبل نہیں مگر مابعد اس تدارک و مواخذہ سے رہائی کرنے کو آوے۔ اور جب تک کوئی گناہ صادر نہیں ہوا۔ جو بھلائی اس سے کی جاتی ہے وہ مطابق گڈنس کے کی جاتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ جو شئے عدم سے بوجود آئی ہے اس کا اپنے خالق پر یہ حق ہے کہ اس سے کہے فلانا دکھ مجھ کو کیوں ہوا کہ تو عادل اگر ہے اس بات کا عدل کر۔ بکری جو ذبح کی جاتی ہے اس کے واسطے یہ عذر کافی نہیں کہ تیرا خالق و مالک ہوں۔ تھوڑی سی ایذاء میں دوسروں کی معیشت کے واسطے تجھے دیتا ہوں تو ناحق کی شاکی نہ ہو۔ لے۔ عدل یہ نہیں چاہتا ہے کہ کسی کو ایذا ہووے جس کا وہ مستوجب نہیں یا ؔ کہ وہ ایذا اس کے واسطے کچھ زیادہ خوبی پیدا نہ کرے اور اسی لئے ہم نے اقسام دکھ تین بیان کر دیئے ہیں کہ جن کو آپ مٹا نہیں سکتے اور آپ پھر دکھ کو ایک ہی قسم کا تصور فرما کر آپ خالقیت اور مالکیت کے برقعہ میں اس کو ہرلائق و نالائق امر کی اجازت کس طرح دے سکتے ہیں۔ ہم نے بار بار جناب کو کہا کہ عدالت و صداقت غیر مفید الظہور نہیں ہوسکتی۔ پھر کس لئے تقاضائے عدل کا لحاظ آپ چھوڑتے ہیں کیا آپ کے چھوڑنے سے عدل بھی اس کو چھوڑ دے گا۔ یقیناً جب تک اس کا تقاضا پورا نہ ہو رحم نہ ہوسکے گا۔
پانزدہم۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں بقول آپ کے عدل کو عدول نہیں فرمایا اور نہ رحم کو عدل پر غالب کیا۔ بلکہ وہاں رحم کا آسرا لوگوں کو دلایا ہے اور یہ بجا ہے۔ باقی جو جناب خوش فہمیاں فرماویں آپ کا اختیار ہے۔
شانزدہم۔ یہ تو حق ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے چاہتا ہے کہ وہ ایسا یا ویسا کرے وہ اس کے فائدہ کے لئے بھی ہے۔ مگر اس سے حقوق الٰہی کا رد کرنا غلط ہے کیا کچھ حقوق الٰہی بھی عباد اللہ کے اوپر ہیں۔ اگر نہیں تو گناہوں میں کیا ہرجہ خداتعالیٰ کا ہے تو پھر کس لئے وہ تیغ عدل سے اس کو ڈرایا چاہتا ہے۔ جب ہرجہ ہی کچھ نہیں تو پھر سزا کس لئے ہو۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 250
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 250
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/250/mode/1up
تنبیہ پدری واسطے بھلائی پسر کے تو ہوتی ہے۔ لیکن سزا کا لفظ کیا بے معنے مطلق ہے تنبیہ کا مخرج رحم سے ہے اور سزا کا مخرج عدل سے۔ چنانچہ ہم بھی اپنے بچوں کو تنبیہہ کرتے مارتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مر ہی جائیں۔ اور جب ناخلف کرکے نکال دیں تو اس کا مطلب سزا ہے۔ یہ تیرے اعمال کی پاداش ہے۔ تو پس ان دو امر میں تمیز موجود ہے تو ان کو نظر انداز کس لئے کیا جائے۔
ہفدہم۔ اسلام کی لڑائیاں بہت قسم کی تھیں ہم تسلیم کرتے ہیں چنانچہ دافعیہ۔ انتقامیہ انتظامیہ وغیرہ۔ لیکن جو آیت داب مناظرہ میں ہے اس کی وجہ یہ دی گئی ہے کہ مارو ان کو جو اللہ و قیامت کو نہ مانیں اور حرام و حلال کا لحاظ نہ کریں۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
ازجانب عیسائی صاحبان
بیانؔ حضرت مرزا صاحب
۲۔ جون ۱۸۹۳ء
ڈپٹی صاحب فرماتے ہیں کہ مظہریت سے پہلے اقنوم ثانی کا علاقہ تھا مگر ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے جب تک وہ انجیل کی صریح عبارت پیش نہ کریں کہ مظہریت بعد میں آئی۔
اور اقنوم ثانی کا پہلے سے علاقہ تھا۔ اور پھر ان کا یہ فرمانا کہ عقل سے امکان تثلیث ہم نے ثابت کر دیا ہے اور کلام سے وقوعہ ثابت ہوگیا ہے۔ یہ دونوں ابھی تک دعویٰ ہی دعویٰ ہیں۔ ناظرین ان کے جوابات کی اوراق گردانی کرکے دیکھ لیں کہ کہاں عقل کے رو سے امکان تثلیث ثابت کر دیا ہے؟ عقل کا فیصلہ تو ہمیشہ کلی ہوتا ہے۔ اگر عقل کی رو سے حضرت مسیح کے لئے داخل تثلیث ہونا روا رکھا جائے تو پھر عقل اوروں کے لئے بھی امکان اس کا واجب کرے گی۔
پھر ڈپٹی صاحب فرماتے ہیں کہ کس نبی پر بشکل مجسم کبوتر کے روح القدس نازل ہوا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 251
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 251
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/251/mode/1up
میں کہتا ہوں کہ اگر روح القدس کسی عظیم الجثہ جانور کی شکل پر جیسے ہاتھی یا اونٹ حضرت مسیح پر نازل ہوتا توکچھ ناز کی جگہ تھی لیکن ایک چھوٹے سے پر ناز کرنا اور اس کو بے مثل کہنا بے محل ہے۔ دیکھو حواریوں پر بقول ان کے روح القدس بطور آگ کے شعلوں کے نازل ہوا اور شعلہ کبوتر پر غالب ہے۔ کیونکہ اگر کبوتر شعلہ میں پڑے تو جل جاتا ہے۔ اور آپ کا یہ فرمانا کہ کون سا نبی مسیح کے مساوی ہے صرف اپنی خوش اعتقادی ظاہر کرنا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کیا حضرت موسیٰ ؑ مسیحؑ سے بڑھ کر نہیں جن کے لئے بطور تابع اور مقتدی کے حضرت مسیح آئے اور ان کی شریعت کے تابع کہلائے۔ معجزات میں بعض نبی حضرت مسیحؑ سے ایسے بڑھے کہ بموجب آپ کی کتابوں کے ہڈیوں کے چھونے سے مردے زندہ ہو گئے اور مسیحؑ کے معجزات پراگندگی میں پڑے ہیں کیونکہ وہ تالاب جس کا یوحنا ۵ باب میں ذکر ہے۔ حضرت مسیح کے تمام معجزات کی رونق کھوتا ہے اور پیش گویاں کا تو آگے ہی بہت نرمؔ اور پتلا حال ہے اور پھر کس عملی اور فعلی فضیلت کی رو سے حضرت مسیح کا افضل ہونا ثابت ہوا۔ اگر وہ ضمناً افضل ہوتے تو حضرت یوحنا سے اصطباغ ہی کیوں پاتے۔ اس کے رو برو اپنے گناہوں کا اقرار ہی کیوں کرتے اور نیک ہونے سے کیوں انکار کرتے اگر الوہیت ہوتی تو شیطان کو یہ کیوں جواب دیتے کہ لکھا ہے بجز خدا کے کسی اور کو سجدہ مت کر۔ اور آپ نے جو میرے اس بیان پر جرح فرمایا ہے کہ قرآن شریف میں یہ آیت درج ہے کہ تمہارے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ یہ آپ کی غلط فہمی تو نہیں مگر تجاہل عارفانہ ہے۔ میں کل کے بیان میں لکھا چکا ہوں کہ اس کے وہ معنے نہیں جو آپ کرتے ہیں بلکہ صرف اس قدر مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے امر اور حکم کے موافق چلنا چاہئیے تمہیں کچھ بھی اختیار نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی دخل دو۔ اب دیکھئے کجا یہ بات کہ بندہ مجبور محض ہے اور کجا یہ بات کہ ایک موقعہ پر بعض لوگوں کو بے جا دخل سے روکا گیا۔ اور پھر میں کہتا ہوں چاہے آپ سنیں یا نہ سنیں کہ قرآن شریف نے بصراحت بارہا اس اختیار کا ذکر کر دیا ہے جس کی و جہ سے انسان مکلف ہے لیکن دوسرے مقامات میں بعض مذاہب باطلہ کے رد کرنے کے لئے جو عرب میں موجود تھے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 252
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 252
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/252/mode/1up
یہ بھی کہا گیا کہ جیسا کہ تم لوگوں کا خیال ہے کہ اور اور معبود بھی کارخانہ الوہیت میں کچھ دخل رکھتے ہیں یہ غلط محض ہے ہر ایک امر کا مرجع اور مبدء خدا ہے اور وہی علت العلل اور مسبب الاسباب ہے۔ یہی غرض تھی جس کے لحاظ سے بعض اوقات خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض درمیانی وسائط اٹھا کر اپنے علت العلل ہونے کا ذکر کیا جیسے کہ کہا۔ ’’کشتی جو دریا میں چلتی ہے یہ ہمارا ہی احسان ہے‘‘۔ غرض اس جگہ ہم نے آپ کو کافی جواب دے دیا ہے کہ قرآن شریف پر جبر کا اعتراض نہیں ہوسکتا اور نہ ہم جبر یہ کہلاتے ہیں۔ آپ کو اب تک مسلمانوں کے عقیدہ کی بھی کچھ خبر نہیں۔ یہ بھی آپ نہیں جانتے جس حالت میں اللہ تعالیٰ چور کے ہاتھ کاٹنے کے لئے اور زانی کے سنگسار کرنے کے لئے قرآن کریم میں صاف حکم فرماتا ہے تو پھر اگر جبری تعلیم ہوتی تو کون سنگسار ہوسکتا تھا۔ قرآن شریف میں نہ ایک نہ دو بلکہ صدہا آیات انسان کے اختیار کی پائی جاتی ہیں۔ اگر آپ چاہیں گے تو کوئی مکمل فہرست پیش کر دی جائے گی اور اس قدر تو آپ خود بھی مانتے ہیں کہؔ انسان من کل الوجوہ مختار مطلق نہیں اور اس کے قویٰ اور جوارح اور دوسرے اسباب بیرونی اور اندرونی پر خداتعالیٰ کی حکومت کا سلسلہ جاری ہے اور یہی مذہب ہمارا ہے تو پھر کیوں ناحق کج بحثی سے بات کو طول دیتے ہیں دیکھئے جب الزامی طور پر آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ توریت میں لکھا ہے کہ خدتعالیٰ نے فرعون کا دل سخت کردیا اورامثال میں لکھا ہے کہ شریر جہنم کے لئے بنائے گئے۔ تو آپ کیسی رکیک تاویلیں کرتے ہیں اور پھر تعجب کہ قرآن کریم کی آیات بیّنہ پر ایسی سخت گیری کر رہے ہیں جس نے ایک ناکردہ تعصب کی حد تک آپ کو پہنچا دیا ہے۔ کسی کا یہ مقولہ ٹھیک ہے۔ ’’گر حفظ مراتب نہ کنی‘‘۔ قرآن شریف صرف ایک شق کے بیان کرنے کے لئے نہیں آیا بلکہ ایسے ایسے موقعوں پر دونوں شقوں کا بیان کرنا اس کا فرض ہے۔ کبھی برعایت اپنے علت العلل ہونے کے اپنے تصرفات کا حال بیان کرتا ہے اور کبھی بلحاظ انسان کے مکلف بالاختیار ہونے کے اس کے اختیارات کا ذکر فرماتا ہے۔ پھر ایک بات کو دوسری بات میں دہسا دینا اور اپنے اپنے موقعہ پر چسپاں نہ رکھنا اگر تعصب نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اگر اعتراض اسی کو کہتے ہیں تو ہم ایک ذخیرہ اس قسم کی آیات کا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 253
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 253
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/253/mode/1up
آپ کی توریت و انجیل سے ایک فہرست مرتب کر کے پیش کرسکتے ہیں مگر ان فضول اور کج بحثیوں سے ہم کو سخت نفرت ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس مسئلہ میں بلاتفاوت توریت و انجیل اور قرآن کا لفظاً و معنیً پورا اتفاق ہے اور نزاع ایسے کھلے کھلے اتفاق میں ایک شرمناک جھگڑا ہے۔ دیکھئے کہ توریت کے لفظ یہ موجود ہیں کہ۔ ’’میں نے فرعون کا دل سخت کر دیا‘‘۔ اب آپ ان لفظوں کو کاٹ کر اور نئے لفظ بنا کر یہ فرماتے ہیں کہ ’’سخت نہیں کیا بلکہ اس کو شریر ہونے دیا‘‘۔ حالانکہ پھر بھی مال ایک جا ٹھہرتا ہے۔ ایک شخص کے رو برو ایک بچہ کوئیں کے قریب بیٹھا ہے اور گرنے کو ہے اور وہ اس کو بچا سکتا تھا۔ اور اس نے نہ بچایا تو کیا اس کا قصور نہیں۔ بہرحال جب آپ لفظوں پر گرفت کرتے ہیں کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم بھی گرفت کریں اگر قرآن کے لفظوں پر پکڑ ہوسکتی ہے تو ایسے ہی لفظ توریت میں بھی موجود ہیں۔ خاص کر امثال کا حوالہ آپ کی توجہ کے لائق ہے جس میں صاف لکھا ہے۔ ’’میں نے شریروں کو برے دن کے لئے بنایا‘‘۔ اب آپ یہ لکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کہتا ہے کہ۔ ’’میں نے شریروں کو اپنے لئے بنایا‘‘۔ دیکھئےؔ کجا برے دنوں کے لئے اور کجا اپنے لئے۔ یہ اگر تحریف نہیں تو اورکیا ہے۔ اور پھر آپ نے خداتعالیٰ کی مالکیت پر بے جا بحث شروع کرکے لوگوں کو دھوکا دینا چاہا ہے۔ آپ کو واضح ہو کہ خداتعالیٰ اگرچہ قدوس ہے لیکن بغیر نازل کرنے اپنے قانون کے کسی کو مواخذہ نہیں کرتا اور یہ بھی بات ہے کہ وہ بجز اس کے کہ بالذات یہ چاہتا ہے کہ کوئی شخص اس سے شرک نہ کرے اور کوئی اس کا نافرمان نہ ہو اور کوئی اس کے وجود سے انکار نہ کرے اور اقسام کے معاصی کو حقیقی معصیت بجز احکام نازل کرنے کے نہیں قرار دیتا۔ دیکھئے حضرت آدم کے وقت میں خداتعالیٰ اس بات پر راضی ہوگیا کہ حقیقی ہمشیروں کا ان کے بھائیوں سے نکاح ہو جائے اور پھر مختلف زمانوں میں کبھی شراب پینے پر راضی ہوا کبھی اس کی ممانعت کی اور کبھی طلاق دینے پر راضی ہوا اور کبھی طلاق کی ممانعت کی اور کبھی انتقام پر راضی ہوا اور کبھی انتقام سے ممانعت کی۔ اور یہ تو انسان کی نوع میں ہے۔ حیوانات کی نوع میں اگر دیکھا جائے تو ماں اور بہن وغیرہ میں کچھ بھی فرق نہیں۔ برابر اور ہر طرح سے خداتعالیٰ کی نظر کے سامنے ناجائز
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 254
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 254
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/254/mode/1up
کام ہوتے ہیں اور انہیں سے اولاد ہوتی ہے۔ پس اس سے ثابت ہے کہ کتاب کے نزول سے پہلے مواخذہ قائم نہیں ہوتا اور یہ تو آپ اقرار کر چکے ہیں کہ یہ تمام احکام بندہ کے فائدہ کیلئے ہوتے ہیں اور اس بات کا آپ نے کوئی صحیح جواب نہیں دیا کہ جس حالت میں ان تمام امور میں بندہ کا فائدہ ہی متصور ہے اور خداتعالیٰ کے وعد اور وعید سے پہلے مواخذہ بھی نہیں ہوتا۔ تو پھر جب کہ بڑے آسان طریق سے یہ طریق اس طرح پر چل سکتا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے وعدوں کے موافق توبہ کرنے والوں کی توبہ کو قبول کرے تو پھر کسی دوسرے نامعقول طریق کی کیا حاجت ہے اب بقیہ اس کا کسی دوسرے وقت میں بیان کیا جاوے گا اس وقت ہم جہاد کے بارہ میں جو باقی حصہ ہے بیان کرتے ہیں او روہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں جہاد کی بنا صرف امن قائم کرنے اور بتوں کی شان توڑنے اور حملہ مخالفانہ کے روکنے کے لئے ہے اور یہ آیت یعنی ۱ آپ کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے اور کونسا جبر اس سے ثابت ہوسکتا ہے اس کے معنے تو صاف ہیں کہ ان بے ایمانوں سے لڑو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے یعنی عملی طور پر فسق فجور میں مبتلا ہیں اور حرام کو حرام نہیں جانتے اور سچّائی کی راہیں اختیار نہیں کرتے جو اہل کتاب میں سے ہیں جب تک کہ وہ جزیہ اپنے ہاتھ سے دیں اور وہ ذلیل ہوں۔ دیکھو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے اس سے تو یہی ثابت ہواؔ کہ جو اپنی بغاوتوں کی وجہ سے حق کے روکنے والے ہیں اور ناجائز طریقوں سے حق پر حملہ کرنے والے ہیں ان سے لڑو اور ان سے دین کے طالبوں کو نجات دو۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ یہ لڑائی ابتداءً بغیر ان کے کسی حملہ کے ہوئی تھی۔ لڑائیوں کے سلسلہ کو دیکھنا ازبس ضروری ہے اور جب تک آپ سلسلہ کو نہ دیکھو گے اپنے تئیں عمداً یا سہواً بڑی غلطیوں میں ڈالو گے۔ سلسلہ تو یہ ہے کہ اول کفار نے ہمارے نبی صلعمکے قتل کا ارادہ کرکے آخر اپنے حملوں کی وجہ سے ان کو مکہ سے نکال دیا۔ اور پھر تعاقب کیااور جب تکلیف حد سے بڑھی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 255
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 255
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/255/mode/1up
تو پہلا حکم جو لڑائی کے لئے نازل ہوا وہ یہ تھا۔ ۱ (س۱۷ر۱۳)یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جن کے قتل کے لئے مخالفوں نے چڑھائی کی۔ اس وجہ سے اجازت دی گئی کہ ان پر ظلم ہوا اور خدا مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وطنوں سے ناحق نکالے گئے اور ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا جو ہمارا رب اللہ ہے دیکھئیکہ یہ پہلی آیت ہے جس سے سلسلہ لڑائیوں کا شروع ہوا اورپھر اس کے بعد خداتعالیٰ نے اس حالت میں کہ مخالف لڑائی کرنے سے باز نہ آئے یہ دوسری آیت نازل فرمائی۔۲یعنی جو لوگ تم سے لڑتے ہیں ان کا مقابلہ کرو اور پھر بھی حد سے مت بڑھو کیونکہ خداتعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور پھر فرمایا۔ ۳یعنی قتل کرو انہیں جہاں پاؤ اور اسی طرح نکالو جس طرح انہوں نے نکالا۔ پھر فرمایا۔ ۴ یعنی اس حد تک ان کا مقابلہ کرو کہ ان کی بغاوت دور ہو جاوے اور دین کی روکیں اٹھ جائیں اور حکومت اللہ کے دین کی ہو جائے۔ اور پھر فرمایا۔ ۵ یعنی شہر حرام میں قتل تو گناہ ہے لیکن خداتعالیٰ کی راہ سے روکنا اور کفر اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو مسجد حرام سے خارج کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اور بغاوت کو پھیلانا یعنی امن کا خلل انداز ہونا قتل سے بڑھ کر ہے اور ہمیشہ قتل کے لئے یہ لوگ مقابلہ کریں گے۔ تا اگر ممکن ہو تو تمہیں دین حق سے پھیر دیں۔ اور پھر فرمایا۔ ۶ الخ۔یعنی اگر اللہ تعالیٰ بعض کے شر کو بعض کی تائید کے ساتھ دفع نہ کرتا۔ تو زمین فاسد ہو جاتی اور پھر فرماؔ یا۔ ۷ یعنی اگر تم ان کا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 256
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 256
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/256/mode/1up
تعاقب کرو تو اسی قدر کرو جو انہوں نے کیا ہو۔۱اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لئے اچھا ہے اور پھر اہل کتاب کا گناہ جتلانے کے لئے فرمایا۔ ۲اے اہل کتاب کیوں ایمان لانے والوں کو ایمان لانے سے روکتے ہو اور کجی اختیار کرتے ہو۔ پس یہی باعث تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ لڑائی کرنی پڑی کیونکہ وہ دعوت حق کے مزاحم ہوئے اور مشرکوں کو انہوں نے مددیں کیں اور ان کے ساتھ مل کر اسلام کو نابود کرنا چاہا جیسا کہ مفصل ذکر اس کا قرآن شریف میں موجود ہے تو پھر بجز لڑنے اور دفع حملہ کے اور کیا تدبیر تھی مگر پھر بھی ان کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا ۳یعنی اس وقت تک ان سے لڑو جب تک یہ جزیہ ذلت کے ساتھ دے دیں اور صاف طور پر فرما دیا یعنی جہاد میں یعنی لڑنے میں اسلام سے ابتدا نہیں ہوئی جیسا کہ فرماتا ہے۔ ۴یعنی انہیں مخالفوں نے لڑنے میں ابتدا کی پھر جبکہ انہوں نے آپ ابتدا کی۔ وطن سے نکالا ۔ صدہا بے گناہوں کو قتل کیا تعاقب کیا اور اپنے بتوں کی کامیابی کی شہرت دی تو پھر بجز ان کی سرکوبی کے اور کونسا طریق حق اور حکمت کے مناسب حال تھا۔ اس کے مقابل حضرت موسیؑ کی لڑائیاں دیکھئے جن لوگوں کے ساتھ ہوئیں کون سی تکلیفیں اور دکھ ان سے پہنچے تھے اور کیسی بے رحمی ان لڑائیوں میں کی گئی کہ کئی لاکھ بچے بے گناہ قتل کئے گئے۔ دیکھو ۳۱ باب ۱۷ آیت گنتی۔ استثنا ۲۰ باب ۱۔ سموئیل اول ۱۸ پھر سموئیل اول ۲۵ پھر استثنا ۲۰ اور ان آیات کے رو سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ پہلے صلح کا پیغام بھی بھیجا جاتا تھا جیسا ۱ شب ۱۰۲ سے ظاہر ہے اور نیز جزیہ لینا بھی ثابت ہے جیسے قاضیوں کی کتاب باب اول۳۸، ۳۰و ۳۳و ۳۵۔ اور یوشع ۱۶ ۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام
ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 257
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 257
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/257/mode/1up
روئیدؔ اد جلسہ
۳۔ جون ۱۸۹۳ء
ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے ۶ بجے ۲ منٹ پر لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۴ منٹ پر ختم ہوا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے ۷ بجے ۲۷ منٹ پر لکھانا شروع کیا اور ۸ بجے ۲۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا اور تحریر وں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط ہوکر جلسہ برخواست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام
ازجانب عیسائی صاحبان
ازؔ جانب ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب
۳۔ جون ۱۸۹۳ء
یکم جون کا بقیہ :۔ ایمان بالجبر پر دیکھو (۱) سورہ انفال میں لکھا ہے کہ ۱یعنی قتل کرو ان کو یہاں تک کہ نہ رہے فتنہ اور دین ہوجاوے کل اللہ کے واسطے (سورہ توبہ کا رکوع ایک)
’’یعنی جب گذر جائیں مہینہ پناہ کے تو مارو مشرکوں کو اور ڈھونڈو ان کو اورگھات پر لگے رہو ان کے۔ اِلاّ اگر تائب ہوں اور نماز اور زکٰوۃ ادا کریں تو ان کی راہ کو چھوڑ دو۔اور اگر کوئی مشرک پناہ مانگے تو کلام اللہ کے سننے تک پناہ دو۔ پھر پہنچا دو ان کو جائے امن میں۔‘‘
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 258
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 258
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/258/mode/1up
پھر سورہ توبہ کے رکوع اول میں لکھا ہے کہ کہہ دے پیچھے رہے گنواروں کو کہ آگے تم کو مقابلہ کرنا ہوگا ایک سخت لڑا کے گروہ کا تم ان کو مارو گے ویا وہ مانیں گے۔ ماسواء آیت متنازعہ کے یہ اور آیات ہیں جو صاف صاف ایمان بالجبر پر ایما کرتی ہیں۔ ماسواء انکے وہ جو جہاد دفعیہ اور انتقامیہ اور انتظامیہ قرآن میں بہت سے بیان ہیں ان کا انکار ہم کو کبھی نہ تھا۔ اقسام جہاد سے یہ خاص قسم ہے جس پر ہمارا زور ہے اور جو ایمان بالجبر پر ایماء کرتی ہے۔ کیا معنے اس کے ہیں کہ یہاں تک قتل کر کہ مخالفت دین اللہ کی باقی نہ رہے اور کل دین اللہ کا ہی ہو جائے پھر کیا معنے اس کے ہیں کہ اگر تائب ہوں اور نماز و زکٰوۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ ورنہ ہر راہ سے ان کو مارو۔ پھر ان میں سے بھی اگر کوئی مشرک پناہ مانگے تو کلام اللہ کے سن لینے تک ان کو پناہ دے دو۔ اور بعد اس کے مامنہ میں پہنچا دو یعنی ایسے امن کی جگہ میں کہ غیر لوگ ان کو تکلیف نہ دیں۔ اور وہ اسلام سے پھر کر مسلمانوں کو تکلیف نہ دیں پھر کیا معنے اس کے ہیں کہ تم ان کو قتل کرو گے یا وہ تسلیم کریں گے۔ خلاصہ صاف صاف یہ کل امور ایمان بالجبر کے اوپر حکم کرتے ہیں۔
پرچہ دوم ۲ ؍جون کا بقیہ جواب:- پھر جناب نے کلام کے مجسم ہونے پر تکرار کیا ہے کلام یعنی اقنوم ثانی جب کہ پہلےؔ باب انجیل یوحنا میں ایسا لکھا ہے کہ کلام مجسم ہوا مگر مظہریت اس کی واسطے عہدہ مسیحیت کے تیس برس کی عمر میں ظاہر ہوئی۔ جب روح القدس نازل ہوا اور آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ میں اس سے راضی ہوں۔ جناب بار بار جو تثلیت فی التوحید کے مسئلہ پر اعتراض فرماتے ہیں جناب کو لازم ہے کہ پہلے توحید مطلق کو بدون صفات متعددہ کے اور کچھ ثابت کریں یا کسی شئے میں ماسوائے صفات متعددہ کے اور کچھ دکھلاویں۔ واضح رہے کہ صفت کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایک قوت ہو کہ جو خاص قسم واحد پر حاوی ہو۔ یعنی جیسے روشنی صرف روشنی ہی کا کام کرتی ہے۔ وغیرہ ویسے ہی ذات جو جامع صفات ہونے کا ایک ہی کام کرتی ہے۔
یہ نہ بھولنا کہ ہم صفت کو اقنوم قرار دیتے ہیں ہمارے معنے اقنوم کے شخص معیّن کے ہیں کہ جو مجموعہ صفات ہو اور ہماری دلیل جزو صفت سے جولی گئی ہے اس سے ایماء ہماری یہ ہے کہ جو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 259
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 259
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/259/mode/1up
جزو پر صادق آتا ہے وہ کل پر بھی آتا ہے۔ اقانیم ثلاثہ کے بارہ میں ہم یہ صورت بیان کرتے ہیں کہ جیسے ایک شئے قائم فی نفسہ ہوتی ہے۔ اور دوسری مساوی اس کے لازم و ملزوم اس میں ہوتی ہے ویسے ہی اول اقنوم کہ جس کواب کہتے ہیں قائم فی نفسہٖ ہے اور دوسرے اقانیم یعنی ابن اور روح القدس اس میں لازم و ملزوم ہیں اور ایسی چیزیں جو ایک قائم فی نفسہٖ ہو اور دوسری لازم ملزوم ماہیت کلی کو تقسیم نہیں کرتی گو تمیز اپنی علیحدہ علیحدہ رکھتی ہے۔
۳۔ روح القدس کے بشکل کبوتر نازل ہونے پر جناب نے ایک تمسخر کیا ہے کہ کبوتر کیا شئے ہے ایک چھوٹا سا جانور۔کیوں نہ ہاتھی اور اونٹ کی شکل میں اس نے نزول کیا تو اس کے جواب میں آپ کو واضح ہو کہ کبوتر کو بے آزار کر کے لکھا ہے اور خبر دہندہ امان کا وقت طوفان نوح کے۔ اس لئے اس کی ایماء یہ تھی کہ وہ کبوتر کی شکل میں اتری اور ہاتھی اور اونٹ کو توریت میں ناپاک جانور کرکے لکھے ہیں۔ ان کی شکل میں روح القدس نہیں آسکتی تھی مگر آپ کے لطافی پر اگر کوئی کہے کہ جناب کے پیشوا نبی عرب نے کس لئے چھوٹے سے وجود انسانی میں ظہور کیا۔ کیوں نہ سیمرغ میں ظہور فرمایا۔ تو آپ اس لطافی کو کیا کہیں گے۔
۴۔ موسیؑ جب کہ کہتا ہے کہ آنے والے نبی کی جو میری مانند درمیانت میں ہوگا اس کی سنوتو کون بڑاؔ ٹھہرا وہ جس کی سنی جائے یا وہ جس کا سننا بند ہو جائے۔ پھر خط عبرانیوں کے۳۳ میں یہ لکھا ہے کہ موسیٰ گھر کا خادم تھا اور یسوع المسیح مالک۔ اور پھر موسیٰ یسوع مسیح کو پہاڑ پر ملنے کو آیا۔ یسوع اس کے ملنے کو نہیں گیا تو بڑائی کس کی زیادہ ہے۔
۵۔ یہ جناب کا خیال غلط ہے کہ کوئی معجزہ چھوٹا اور کوئی بڑا بھی ہوتا ہے۔ ایک ہی دست قدرت کی دو کاری گریاں ہوتی ہیں۔ مکھی کا بنانا اور ہاتھی کا بنانا ایک ہی قدرت چاہتا ہے مگر مجھ کو بڑا تعجب یہاں یہ ہے کہ جناب نے نبی اسلام کا چھوٹا یا بڑا کوئی بھی معجزہ ثابت نہ کیاصرف دوسروں کے ہی معجزہ سے اپنا دل خوش فرمایا۔ یا اپنے کشف و کرامات کا ذکر کچھ کیا کہ جس کا ثبوت غیروں پر کبھی کچھ نہیں ہوا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 260
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 260
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/260/mode/1up
۶۔ یسوع مسیح نے کبھی اقرار اپنے گناہوں کا نہیں کیا نہ لفظاً نہ ضمناً اور نہ اس کے اوپر کبھی یہ فتویٰ لگا۔
یہ تو سچ ہے کہ قرآن انسان کو صرف جبر یہ ہی نہیں ٹھہراتا بلکہ ایک طرف جبریہ اور دوسری طرف قدریہ یعنی صاحب اختیار لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ جبر اس میں تقدیم رکھتا ہے- اور یہ دو باہم متنا قض بھی ہیں۔ چنانچہ جبر کے غلبہ کا حوالہ ہم اور آیات سے بھی دیتے ہیں۔
(۱) سورۂ نساء کے رکوع ۱۰ میں ہے جس کا حاصل معنے یہ ہیں جو کہتے ہیں کہ بھلائی اللہ کی طرف سے ہے اور برائی تیری طرف سے۔ تو کہہ ان سے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ (۲) پھر سورۂ نساء کے رکوع ۱۱ میں ہے کہ جس کو اللہ نے گمراہ کیا تم اس کو راہ پر نہیں لاسکتے اور اس کے واسطے کوئی راہ باقی نہیں۔ (۳) پھر سورۂ مائدہ کے رکوع ۷ میں ہے اگر خدا چاہتا تو ایک ہی دین ہر کو دیتا مگر اس کو آزمانا تمہارا مدنظر تھا۔ پھر سورۂ انعام کے ۱۷ رکوع میں ہے کہ کہتے ہیں کہ اگر چاہتا اللہ تو ہم شریک نہ ٹھہرا لیتے ایسا ہی پہلے بھی کافر کہتے رہے۔
۹۔ انسان کی فعل مختاری پر اِطلاق کا لفظ جناب نے غلط لگایا ہے بلکہ وہ اپنی حدود مُعینّہ میں پورا فعل مختار ہے۔ میں نے یہ کبھی نہیں مانا جو جناب فرماتے ہیں کہ فعل مختاری میں دخل غیر بھی کچھ ہے اورنہ میں کچھ کج بحثی کرتا ہوں مگر فکر ہر کس بقدر ہمت اوست یہ ضدفعل مختاری اور نامختاری انسان میں تو صرف قرآن میں ہی پائی جاتی ہے۔
۱۰۔ سختؔ دِلی فرعون کے معنی ہم بار بار کر چکے ہیں آیندہ اِسکا تکرار عبث ہے۔
۱۱۔امثال کے باب۴۱۶ میں یہ نہیں لکھا کہ شریر کو شرارت کے واسطے بنایا گیا مگر بُرے دن کی واسطے۔ جس کی شرح حزقیل کے ۲۳و۳۲ اور ۱۱ اور پطرس کے دوسرے خط ۹ ۳ میں اور پہلا طمطاؤس کے ۲۴ میں یہ لکھا ہے کہ شریروں کو مہلت نجات کی دی جاتی ہے اور خدا کی خوشی اس میں نہیں جیسا کہ قرآن آپ کے نبی کی بابت کہتا ہے کہ واستغفر لذنبک وللمؤمنین والمؤمنات معافی
مانگ اپنے گناہوں کیلئے اورمومن مَردں اور مومن عورتوں کے لئے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 261
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 261
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/261/mode/1up
بپتسما پانے میں یسوع نے اپنی مراد آپ ظاہر کر دی ہے یعنی یہ کل راستبازی پوری ہو یعنی متابعت شریعت موجودہ کی کی جائے۔ اور واضح رہے کہ شریعت موسوی اور انبیاء سلف کا عمل عید پٹنی کوسٹ کے دن تک رہا ہے جبکہ مسیح نے جی اُٹھ کر آسمان کی طرف صعود کیا تب سے شریعت عیسوی جاری ہوئی۔ ورنہ پہلے اس کے شریعت سلف کی تھی خلف کا ذکر تک نہ تھا اَب پھر جو جناب یوحنا کو بباعث بپتسما دینے یسوع کے بڑا فرماتے ہیں۔ یوحنا خودیہ کہتا ہے کہ مَیں اُس کے جوتے کا تسمہ کھولنے کے قابل نہیں اورکہ وہ برّہ ہے جو سب کے گناہوں کے واسطے ذبح ہو گا وہ جو جناب نے پھر لفظ نیک کے اوپر تکرار کیا ہے اس کا جواب بتکرار دیا گیا ہے اب اور کُچھ کہناضرور نہیں مگر اس قدر یاد دلانا کافی ہے کہ وہ خطاب جو اُس نے اُس جوان سے فرمایا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے۔ جبکہ نیک سوائے ایک خدا کے کوئی نہیں اِسی شخص سے یہ بھی اخیر میں فرمایا تھا کہ اگر تو کامل ہوا چاہتا ہے تو اپنا سارا مال عاجزوں کو تقسیم کر دے اورمیرے پیچھے ہو لے۔ لیکن وہ دلگیر ہو کے چلاگیا۔ اِ س سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ جانوں اور مالوں سب کا وہ مالک تھا اور وہ جوان نہیں مانتا تھا کہ یہ مالک ہے اس لئے اس کو متنبہ کیا گیا کہ از انجا تو مجھے خدا نہیں جانتا ۔ بروئے اعتقاد جمہور یہود کے نیک سوائے خداکے کوئی نہیں ہو سکتا تو پھر مکاری سے مجھے تو نیک کیوں کہتا ہے یہ اُس کی مکاری کی اصلاح تھی نہ کہ الوہیت سے انکار۔
۷۔ انسان مسیح کا شیطان سے آزمایا جانا کیا نقصان اُس کی الوہیت کو رکھتا ہے انسان ہو کر تو وے امتحان میں کھڑا کیا گیا اور جو آدم اُولیٰ گر کر کھو بیٹھا تھا اُس نے کھڑا رہ کر پا لیا پھر اس میں اعترؔ اض کی جگہ کونسی ہے اور شریر اپنی شرارت میں مر جائے ۔ پس یہ غلط ہے کہ شریر کو شریر بنایا گیا ہے جیسے یہ عام غلطی ہے کہ شیطان کو شیطان بنایا گیا ۔ صحیح یہ ہے کہ شیطان کومقدس فرشتہ بنایاگیا تھا پھر اس نے گناہ کرکے اپنے آپ کو شیطان بنا لیااور یہ بھی غلط ہے کہ شریر بنانے اور شریر ہونے دینے کا مآل ایک ہی ہے۔ اور وہ بچے کی مثال بھی جو جناب نے دی اس قدر اصلاح کے لائق ہے کہ اگر وہ نیک وبد کی ماہیت سے آگاہ نہیں یا طاقت نیکی کرنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 262
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 262
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/262/mode/1up
اور بدی کرنے کی نہیں رکھتا تو مواخذہ عدل سے بھی بری ہے اُس کا مرنا واسطے جنم کے نہیں ۔
۱۲۔ جناب نے مجھے دھوکہ باز جو ٹھہرایا ہے اس کے لئے میری طرف سے آپ کو سلام پہنچے اور آپ کے مانگنے بدوں ہی میری طرف سے معافی بھی ۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی ۔
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام از جانب عیسائی صاحبان
از جانب حضرت مرزا صاحب
ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے جس قدر پھر قرآن شریف کی ایسی آیتیں لکھی ہیں جس سے وہ ایمان بالجبر کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں۔ افسوس وہ اُن آیات کے پیش کرنے میں ایک ذرّہ انصاف سے کام نہیں لیتے ۔ ہم نے صاف طور پر تحریر گذشتہ میں جتلا دیا ہے کہ قرآن شریف میں ہرگز ہرگز جبر کی تعلیم نہیں ہے۔
پہلے کفار نے ابتداء کر کے صدہا مومنوں کو تکلیفیں دیں ۔ قتل کیا۔ وطنوں سے نکالا اور پھر تعاقب کیا اور جب اُن کا ظلم حد سے بڑھ گیا اور اُن کے جرائم خدائے تعالیٰ کی نظر میں سزا دہی کے لائق ٹھہر گئے تب اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل کی۔ ۱ (س۱۷ر۱۳)یعنی جن لوگوں پر یعنی مسلمانوں پر ظلم ہوا اور اُن کے قتل کرنے کے لئے اقدام کیا گیا۔ اب اللہ تعالیٰ بھی انھیں مقابلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ پھر چونکہ عرب کے لوگ بباعث ناحق کی خونریزیوں کے جو وہ پہلے کر چکے تھے اور بُری بُری ابتداؤں سے مسلمانوں کو قتل کر چکے تھے اِس لئے ایک شخصی قصاص کے وہ مستحقؔ ہو گئے تھے۔ اور اِ س لائق تھے کہ جیسا اُنہوں نے ناحق بے گناہوں کو بُرے بُرے عذاب پہنچاکر قتل کیا ایساہی ان کو بھی قتل کیا جائے۔ اورجیسا کہ انہوں نے مسلمانوں کو اپنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 263
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 263
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/263/mode/1up
وطنوں سے نکال کر تباہی میں ڈالا اور اُن کے مالوں اورجائدادوں اور گھروں پر قبضہ کر لیا اور ایسا ہی اُن کے ساتھ بھی کیا جائے ۔ لیکن خداتعالیٰ نے رحم کے طور پر جیسی اور رعائتیں کی ہیں کہ اُن کے بچّے نہ مارے جاویں اور اُنکی عورتیں قتل نہ ہوں ایسا ہی یہ بھی رعایت کر دی کہ اگر اُن میں سے کوئی مقتول ہونے سے پہلے خود بخود ایمان لے آوے تو وہ اس سزا سے بچایا جاوے جو بوجہ اس کے پہلے جرائم اور خونریزیوں کے اُس پر واجب ہوتی تھی۔ اس بیان سے سار ا قرآن شریف بھر ا ہوا ہے۔ جیسا کہ یہی آیت جو پیش کر چکا ہوں صاف صاف بیان فرما رہی ہے اور اِسکے ساتھ کی دُوسری آیت بھی یعنی اَ ۱ (۱۷)یعنی وے مظلوم جو اپنے وطنوں سے بے گناہ نکالے گئے ۔ صرف اِس بات پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔ پھر اِس کے بعد یہ آیت پیش کرتا ہوں یعنی ۲ یعنی عرب کے اُن مشرکوں کو قتل کرو یہاں تک کہ بغاوت باقی نہ رہ جاوے اور دین یعنی حکومت اللہ تعالیٰ کی ہو جائے۔ اِس سے کہاں جبر نکلتا ہے۔ اِس سے تو صرف اِس قدر پایاجاتا ہے کہ اُس حد تک لڑو کہ اُن کا زور ٹوٹ جائے اور شرارت اور فساد اُٹھ جائے اور بعض لوگ جیسے خفیہ طور پر اسلام لائے ہوئے ہیں ظاہر بھی اسلامی احکام اداکر سکیں۔ اگر اللہ جلّ شانہٗ کا ایمان بالجبر منشاء ہوتا جیسا کہ ڈپٹی صاحب سمجھ رہے ہیں تو پھر جزیہ اور صلح اور معاہدات کیوں جائز رکھے جاتے اور کیا وجہ تھی کہ یہود اور عیسائیوں کیلئے یہ اجازت دی جاتی کہ وہ جزیہ دے کر امن میں آجائیں اور مسلمانوں کے زیر سایہ امن کے ساتھ بسر کر یں اورڈپٹی صاحب موصوف نے جو مامنہ کے لفظ کی تشریح کی ہے وہ تشریح غلط ہے یعنی اس آیت کی جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مشرک قرآن شریف کو سُننا چاہے تو اُس کو اپنی پناہ میں لے آؤ۔
جب تک وہ کلام الٰہی کو سُنے پھر اُس کو اُسی کے مامن میں پہنچا دو اور اس آیت کے آگے یہ آیت ہے 3 (سُورہ توبہ رکوع۱)۳ یعنی یہ رعایت اِسلئے ہے کہؔ یہ قوم
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 264
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 264
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/264/mode/1up
بے خبر ہے ۔ اب ڈپٹی صاحب اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ گویا اس کو کلام الٰہی کے سننے کے بعد ایسی جگہ پہنچا دو جہاں سے بھاگ نہ سکے جبکہ انصاف اور فہم کایہ حال ہے تو نتیجہ بحث کا معلوم۔ آپ نہیں سمجھتے کہ کلام الٰہی کے تو یہ لفظ ہیں کہ ۱ یعنی پھر اس مُشرک کو اُس کی جگہ امن میں پہنچادے۔ اب ایسے صاف اور سیدھے اور کُھلے کُھلے لفظ کی تحریف کرنا اور یہ کہنا کہ ایسی جگہ پہنچا دوکہ وہ بھاگ نہ سکے اور مسلمانوں کے قبضہ میں رہے کس قدر ایک بدیہی صداقت کا خون کرناہے۔ پھر ڈپٹی صاحب اس آیت کو پیش کرتے ہیں کہ جس میں چار مہینے کے گذرنے پر قتل کا حکم ہے۔ اور نہیں سمجھتے کہ وہ تو اُن مجرموں کے متعلق ہے جو معاہدوں کو توڑتے تھے جیساکہ اللہ جلّ شانہ‘ فرماتا ہے۔ ۲( توبہ رکوع۲) جس کا مطلب یہی ہے کہ بعد عہدوں کے توڑنے کے اُن کے قول واقرار کا کیا اعتبار رہا اور پھر فرماتا ہے ۳ یہ مشرک نہ کسی عہد کا پاس کرتے ہیں اور نہ کسی قرابت کا اور حد سے نکل جانے والے ہیں اور پھر فرماتا ہے(توبہ ر ۲)۴ یعنی اگر یہ مشرک توڑیں قسمیں اپنی بعد عہد کرنے کے اور تمہارے دین میں طعن کریں تو تم کفر کے سرداروں سے لڑو کیونکہ وہ اپنی قسموں پر قائم نہیں رہے تاکہ وہ باز آجائیں کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور رسول کو نکال دینے کا قصد کیا اور اُنہوں نے ہی اوّل ایذاء اور قتل کے لئے اقدام کیا۔ اَب تمام ان آیات پر نظر غور ڈال کر ایک عقلمند سمجھ سکتاہے کہ اِس مقام سے جبرکو کچھ بھی تعلق نہیں بلکہ مُشرکین عرب نے اپنے ایذاء اور خونریزیوں کو یہاں تک پہنچاکر اپنے تئیں اِس لائق کر دیا تھا کہ جَیسا کہ اُنہوں نے مسلمانوں کے مَردوں کو قتل کیا اور اُن کی عورتوں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 265
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 265
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/265/mode/1up
کو سخت بے رحمی سے مارا اوراُن کے بچّوں کو قتل کیا۔ وہ اِس لائق ٹھہر گئے تھے کہ حضرت موسیٰ کےؔ قانون جہاد کے موافق اُن کی عورتیں بھی قتل کی جائیں اُن کے بچے بھی قتل کئے جائیں اور اُن کے جوان و بڈھے سب تہِ تیغ کئے جاویں اور ان کو اپنے وطنوں سے جلا وطن کرکے اُن کے شہروں اور دیہات کو پُھونکا جائے۔ لیکن ہمارے نبی صلعم نے ایسانہ کیا بلکہ ہر طرح سے اُن کو رعایت دی یہاں تک کہ باوجود اُن کے واجب القتل ہونے کے جو اپنی خونریزیوں کی وجہ سے وہ اِس کے لائق ہو گئے تھے ان کو یہ بھی رعایت دی گئی کہ اگر کوئی ان میں سے اپنی مرضی سے دین اسلام اختیار کرے تو امن میں آجائے۔
اب اِس نرم اور پُر رحم طریق پر اعتراض کیا جاتا ہے اور حضرت موسیٰؑ کی لڑائیوں کو مقدس سمجھاجاتاہے۔ افسوس ہزار افسوس اگر اس وقت انصاف ہو تو اِس فرق کا سمجھنا کچھ مُشکل نہ تھا۔ تعجب کہ وہ خدا جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دے دیا کہ تم مصر سے ناحق بے موجب لوگوں کے برتن اور زیور مستعار طورپر لے کر اور دروغ گوئی کے طورپر ان چیزوں کو اپنے قبضہ میں کر کے پھر اپنا مال سمجھ لو اور دشمنوں کے مقابل پر ایسی بے رحمی کرو کہ کئی لاکھ بچے اُن کے قتل کر دو اور لُوٹ کا مال لے لو اور ایک حصّہ خدا کا اُس میں سے نکالو اور حضرت موسیٰ ؑ جس عورت کو چاہیں اپنے لئے پسند کریں اور بعض صُورتوں میں جزیہ بھی لیاجائے اور مخالفوں کے شہر اور دیہات پُھونکے جائیں۔ اور وہی خُداہمارے نبی صلعم کے وقت میں باوجود اپنی ایسی نرمیوں کے فرماتاہے بچّوں کو قتل نہ کرو عورتوں کو قتل نہ کرو۔ راہبوں سے کچھ تعلق نہ رکھو۔ کھیتوں کو مت جلاؤ۔ گرجاؤں کو مسمار مت کرو۔ اور اُنہیں کا مقابلہ کرو جنہوں نے اول تمہارے قتل کرنے کے لئے پیش قدمی کی ہے اور پھر اگر وہ جزیہ دے دیں یا اگر عرب کے گروہ میں سے ہیں جو اپنی سابقہ خونریزیوں کی وجہ سے واجب القتل ہیں تو ایمان لانے پر اُن کو چھوڑ دو۔ اگر کوئی شخص کلام الٰہی سُننا چاہتا ہے تو اُس کواپنی پناہ میں لے آؤ اورجب وہ سن چکے تو اس کو اُس کی امن کی جگہ میں پہنچا دو۔ افسوس کہ اب وہی خدا مورد اعتراض ٹھہرایا گیا ہے۔ افسوس کہ ایسی عُمدہ اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 266
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 266
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/266/mode/1up
اعلیٰ تعلیم پر وہ لوگ اعتراض کر رہے ہیں جو توریت کی اُن خونریزیوں کو جن سے بچّے بھی باہر نہیں رہے خدائے تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں ۔پھر ڈپٹی صاحب نے اپنے رحمؔ بلامبادلہ کے بیان کی تائید میں فرمایاتھا کہ یہ بات غلط ہے کہ عدل سے پہلے رحم ہوتا ہے بلکہ عدل سے پہلے جو سلوک کیاجاتاہے اُس کا نام گوڈنس ہے۔ رحم عدل کے بعد شروع ہوتا ہے افسوس کہ ڈپٹی صاحب موصوف غلطی پر غلطی کر تے جاتے ہیں۔ مَیں اُن کی کس کس غلطی کی اصلاح کروں۔ واضح ہو کہ گوڈنس یعنی نیکی یا احسان صفات میں داخل نہیں ہے بلکہ ایک کیفیت کے نتائج و ثمرات میں سے ہے وہ چیز جس کا نام صفت رکھا جائے وہ اس جگہ بجُز رحم کے اسم سے اور کسی نام سے موسوم نہیں ہو سکتی ۔ اور رحم اس کیفیت کا نام ہے کہ جب انسان یا اللہ تعالیٰ کسی کوکمزور اورضعیف اور ناتوان یا مصیبت زدہ اور محتاج مدد پاکر اُس کی تائید کے لئے توجہ فرماتاہے۔ پھر وہ تائید خواہ کسی طور سے ظہور میں آوے اس کا نام گوڈنس رکھ لو۔ یا اس کونیکی اور احسان کہہ دو۔ ہوسکتاہے احسان کوئی صفت نہیں ہے اور کسی کیفیت راسخہ فی القلب کانام نہیں ہے بلکہ وہ اس کیفیت راسخہ یعنی رحم کا لازمی نتیجہ ہے مثلًا جب ایک بے دست و پا محتاج بھوکا ہماری نظر کے سامنے آئے گا تو اُس کی پہلی حالت ناتوانی اور ضعف کی دیکھ کر ہمارے دل میں ایک کیفیت رحم کی اس کے لئے پیدا ہوگی تب اس رحم کے جوش سے ہم نیکی کرنے کی توفیق پائیں گے اور آپ کا وہ گوڈنس ظہور میںآئے گا۔ تو اب دیکھو وہ گوڈنس رحم کی صفت کا ایک ثمرہ اورنتیجہ لازمی ہوا یا خود بجائے رحم کے ایک صفت ہے۔مُنصفین اس کو خود دیکھ لیں گے۔ اورپھرآپ فرماتے ہیں کہ رحم عدل کے بعد پَیدا ہوتاہے اِس تقریر سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ تا قرآن شریف یعنی سورہ فاتحہ میں جو آیت اَ3ہے اس پر ردّ کریں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اِس سے تو خود آپ کی حالت علمیّت کی پَردہ دری ہوئی جاتی ہے اِس بات کو کون نہیں جانتا کہ رحم جیسا کہ مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں ضعیف یا ناتوان یا مصیبت زدہ کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے یہ نہیں کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 267
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 267
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/267/mode/1up
عدل کے بعد ظہور میں آوے۔ ایساہی توریت میں ہے عزرا ۳۱۱ ونحمیاہ ۳۹ و ۹۱۹ زبور ۵۸۶ و ۱۱۰۶ ۔ اور نیز آپ کا یہ قول جو بار بار پیش کر رہے ہیں جو رحم اورعدل کی گویا باہم لڑائی ہے اور اس لڑائی کے فرو کرنے کے لئے کفارہ کی تجویز ہوئی یہ آپ کا بیان سراسر غلط ہے اِس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ گُناہ اُس وقت پَیدا ہوتا ہے کہ جب اوّل قانونؔ فرمانبرداری کا شائع ہو جائے کیونکہ نافرمانی فرمانبرداری کے بعد ہوا کرتی ہے۔ پھر جبکہ یہ صورت ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جب قانون نازل ہو گا اورخدائے تعالیٰ کی کتاب اپنے وعدوں کے مطابق عمل درآمد کریگی یعنی اس طرح کے احکام ہوں گے کہ فلاں شخص فلاں نیک کام کرے تو اُس کا اجر یہ ہو گا یا بدکام کرے تو اُس کی سزا یہ ہو گی تو اس صورت میں کفارہ کا دخل کسی طور سے جائز نہیں جبکہ وعدہ وعید کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے تو اس صورت میں ایک بیٹا نہیں اگر ہزار بیٹے بھی صلیب پر کھینچے جاویں تب بھی وعدہ میں تخلّف نہیں ہو سکتا اورکسی کتاب میں نہیں لکھا کہ خداتعالیٰ اپنے وعدوں کو توڑتا ہے اور جبکہ تمام مدار وعدوں پر ہے کسی حق پر نہیں ہے تو وعدوں کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیئے آپ کا یہ بار بار فرمانا کہ حقوق کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے مجھے تعجب دلاتاہے۔ آپ نہیں سوچتے کہ خداتعالیٰ کے مقابل کسی کا حق نہیں ہے اگر حق ہوتا تو پھر خداتعالیٰ پر صد ہا اعتراض ہر طرف سے قائم ہوتے جیسا کہ مَیں لِکھ چکا ہوں کہ کیڑے مکوڑے اورہر ایک قسم کے حیوانات جو خدائے تعالیٰ نے پیدا کئے کیا یہ مواخذہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں ایسا کیوں بنایا۔ اِسی طرح خداتعالیٰ بھی قبل از تنزیل کتاب یعنی کتاب بھیجنے سے پہلے کسی پر مواخذہ نہیں کرتا۔ اوریوں تو خدا تعالیٰ کے حقوق اُس کے بندوں پر اس قدر ہیں کہ جس قدر اُس کی نعمتیں ہیں یعنی شمار میں نہیںآسکتے لیکن گناہ صرف وہی کہلائیں گے جو کتاب نازل ہونے کے بعد نافرمانیوں کی َ مد میں آجائیں گے اور جبکہ یہ صورت ہے تو اِس سے ثابت ہوا کہ خدائے تعالیٰ دراصل عام طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرتا کیونکہ وہ لا تعداد لاتحصٰی ہیں بلکہ نافرمانیوں کا مواخذہ کرتاہے۔ اور نا فرمانیاں جیسا کہ میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 268
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 268
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/268/mode/1up
بیان کر چکا ہوں وعد اور وعید سے وابستہ ہیں یعنی اگر نیکی کرے تو اُس کو ضرور نیک جزا ملے گی۔ اور اگر بدی کرے تو اُس کو بدثمرہ ملے گا۔ اور ساتھ اِس کے یہ بھی وعدہ ہے کہ ایمان اور توبہ پر نجات ملے گی تو پھر اس صورت میں کفارہ کا کیا تعلق رہا۔ کیا کسی کے مصلوب ہونے سے اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں سے دست کش ہو سکتا ہے۔ صاحب یہ تو قانونی سزائیں ہیں جو انسانوں کو ملیں گی۔ حقوق کی سزائیں نہیں جیسا کہ آپ کا بھی یہی مذہب ہے پھرجبکہ یہ حالت ہے تو یہ جزائیں اور سزائیں صرف وعدو وعید کی رعایت سے ہوؔ سکتی ہیں اورکوئی صورت نہیں ہے جو اس کے برخلاف ہو۔ اوریہ بات سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ بدی پر راضی نہیں کفر پر راضی نہیں اِس سے کون انکار کرتا ہے۔ مگر جرائم اُسی وقت جرائم کہلاتے ہیں جب قانون اُن کو جرائم ٹھہراوے ورنہ دُنیا میں صدہا طور کے ناجائز اُمور ہوئے اور ہو رہے ہیں وہ اگر کتاب الٰہی سے خارج ہوں تو کیونکر جرائم ہو سکتے ہیں۔ مثلًا جیسے انسان قتل و خونریزی کرتا ہے ایک درندہ بھی مثلًا شیر ہمیشہ خونریزی کرکے اپنا پیٹ بھرتا ہے اورجیسے انسان کو اپنے اُمور نکاح کے متعلق ماں بہن اور رشتوں سے پرہیز ہوتا ہے جانوروں میں یہ بھی نہیں پایا جاتا اور یہ بھی ہے کہ انسانوں میں شریعت کے ذریعہ سے بھی ایسے احکام بدلتے رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ کو اجازت ہوئی کہ لڑائی میں جوعورتیں پکڑی جائیں اُن میں سے جس کو پسند کر لیں اپنے لئے رکھ لیں بچوں کو قتل کر دیں بیگانہ مال دروغ گوئی کے طور لے کر اپنے قبضہ میں کریں اور دُور دراز منازل تک اس پر اکل وشرب کا گذارہ ہو۔ لوگوں کے شہروں کو پُھونک دیں مگر یہ اجازت دوسری شریعتوں میں کہاں ہُوئی ۔(باقی آئندہ)
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 269
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 269
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/269/mode/1up
بیان ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
بقایا بیان سابقہ امروزہ:۔
۱۴۔ موسیٰ کی لڑائیوں میں امان بشرط ایمان جناب نہ دکھلاسکیں گے۔ اور وباؤں میں جیساکہ طوفان نوحؑ تھا یا اور مریان میں جناب نہیں کہہ سکتے کہ بحکم خدانہیں یا معصُوم ان میں مارے جانے سے نامعصوم ٹھہر جاتے ہیں۔پس یا تو انکار فرمائیے کہ توریت کلام اللہ نہیں یا اعتراضوں کو بند کیجئے۔ ہمارے اعتراض قرآن کے اُوپر صفات ربّانی کے مخالف ہونے کے باعث ہیں اور اس سے ہمارا نتیجہ یہ ہے کہ وہ کلام اللہ نہیں ہو سکتا اورنبی اسلام صلعم رسول اللہ نہیں ہو سکتے اوران اعتراضوں کے برخلاف ہم نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ وہ کلام الہامی ہے اوریہ رسول حقیقی ۔ پس یہ ویسے اعتراض نہیں کہ جیسے آپ توریت پر کرتے ہیں کہ جس کو آپ بروئے قرآن کلام اللہ بھی جانتے ہیں اورموسیٰ کو رسول اللہ بھی اورپھر معترض ہوتے ہیں۔ جیسے ہم نے صفات الٰہی کے مخالف تعلیمات قرآنی کو تھوڑا ساظاہر کیاؔ ہے۔ ہم چند تعلیمات قرآنی اور بھی بیان کرتے ہیں۔ مثلًا ایک یہ کہ قرآن بجائے حق پرستی کے ناحق کے خوف کی پرستش جائز کرتاہے جیسے کہ سورۂ نحل میں لکھا ہے کہ جو شخص ایمان اللہ کے بعد تکفیر بر نام اللہ کے کرے بشر طیکہ وہ مجبور نہ ہو اور اپنے دِل میں مطمئن ہو ایسے پر اللہ کا غضب ہے یعنی حالت مجبوری میں اوراطمینان دِلی میں بابت حق ہونے اللہ کے انکار اللہ سے قابل غضب الٰہی کے نہیں اور یہ صاف ناحق کی خوف پرستی ہے بجائے حق پرستی کے جو حق کہ قادر مطلق ہے اور پھر سورۂ کہف میں لکھا ہے کہ ذو القرنین جب عرب میں پہنچا تو اُس نے پایا کہ غروب ہونا سُورج کا دلدل کی ندی میں ہوتا ہے۔ اگرچہ یہاں پانا ذوالقرنین کا لکھا ہے لیکن کلام قرآنی کی تصدیق کے سوا نہیں یعنی تصدیق قرآنی اس کے ساتھ اور یہ امر واقعی نہیں پھر اس کو حق کے ساتھ کیونکر موافق کیاجائے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 270
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 270
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/270/mode/1up
(۳) روزہ کے رکھنے کی حدود زمانہ قرآن میں یہ بیان ہوئی ہیں کہ دن کی سفید دھاری کے نکلنے سے پہلے شروع کیاجائے اور شام کی سیاہی کی دھاری کے آنے تک اُس کو رکھا جائے اِ س میں سوال یہ ہے کہ اگرقرآن کل انسانوں کے واسطے ہے تو گرین لینڈ اور رآئس لینڈکا حال کیا ہو گا؟ جہاں چھ مہینے تک سُورج طلوع نہیں کرتا۔ اگر کہو کہ وہاں وقت کا اندازہ کر لینا چاہیئے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ قرآن وقت کا اندازہ خود کرتا ہے اور کسی دوسرے کو اِس کا اندازہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ چند برائے نمونہ وہ تعلیمات قرآنی ہیں جو بالبداہت صداقت کے برخلاف ہیں ۔
(۴)ماسواء اسکے ظاہر ہے کہ چھوٹا بڑے کی قسم کھا سکتا ہے اور معنی قسم کے یہ ہیں کہ اگر اِس کا بیان جھوٹا ہو تو اِ س بڑے کی مار اس پر پڑے۔ لیکن جبکہ قرآن میں اُونچی چھت اُبلتے پانی اورزیتون اور قلم وغیرہ کی قسمیں لکھی ہیں تو یہ چیزیں خُدا کو کیانقصان پہنچا سکتی ہیں اور ایسی قسمیں صرف ہنسی کی سی معلوم نہیں ہوتیں تو اور کیا ہیں۔
جواب امروزہ
۱۔ جناب فرماتے ہیں کہ ایمان بالجبرکی تعلیم قرآن میں نہیں ہے۔ اِس پر اور کچھ کہنا ضرور نہیں منصف ہر دو کے بیانوں کو دیکھ لیں گے ۔ خود ہی انصاف کر لیں گے۔ قہر الٰہی کے حکم کی تعمیلؔ اور بات ہے اور پالیسی کی تجویز کی تعبیر اور بات ہے مُوسیٰ کو حکم الٰہی تھا کہ ان سات قوموں کو بالکل عدم کر دو جیسے کہ طوفان کا حکم ہو یا خاص وبا کا حکم ہوکہ جس میں گناہ گارتو مارے جاتے ہیں اور بے گناہوں کا امتحان ختم ہو جاتا ہے اُن کو گناہ گار نہیں بنایا جاتا مگر جناب کے حکم پالیسی کے ہیں جس میں لکھا ہے کہ بچے اور عورتیں وغیرہ محفوظ رکھے جاویں اور جو شخص اسلام پر آجائے اُس کو امان دیاجاوے۔ پس یہی تو امان منحصر بر ایمان ہے جس پر اعتراض قائم ہوتا ہے اور خُدا کے وباؤں کے اُوپر خواہ کسی اسباب سے ہوں کوئی اعتراض قائم نہیں ہوتا۔
مامنہ کے معنے یہ نہیں کہ اُسی شخص کا وطن او رگھر امن کا ٹھہرایا جاوے بلکہ سُورہ انفال میں ایک آیت ہے جس کا حوالہ میں ابھی ڈھونڈ کے دوں گا کہ جو گھر چھوڑ کے ہمارے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 271
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 271
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/271/mode/1up
بیچ میں آکر نہ رہے ہمارے جنگ سے محفوظ نہیں۔ یہاں سے ثابت ہے کہ مامنہ وہی جگہ ہے کہ جہاں اُن پر غیر لوگ تکلیف نہ پہنچا سکیں اور اُن کو دین سے پھر جانے کا پھر موقع نہ ملے۔
ہم نے بہت قسم کے جہاد جناب کے تسلیم کر لئے ہیں ہمار ااعتراض جہاد ایمان بالجبری پر ہے جو اس سے سوا آپ نے فرمایاوہ سوا ہی ہے۔ ہماری آیات سند کاآپ نے اچھی طرح سے جواب نہیں دیا۔اوروہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ موسیٰ نے اچھی اچھی عورتیں جولُوٹ سے بچالی گئیں خود رکھ لیں۔ توریت سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ جو اُس نے ایک شادی رغوائیل یا تیروکی لڑکی سے شادی کی تھی اُس کے سوا اور کوئی شادی نہیں کی اور نہ لونڈی رکھی ۔ البتہ اُس نے بعض عورات کو جو لُوٹ میں بنی اسرائیل لائے۔ رکھ چھوڑنے کی اجازت دی لیکن اُن کا پیچھے رونے والا بھی کوئی نہ تھا کیونکہ سب کا قتل عام کا حکم تھا ۔ اورایسا ہی ہر وبا میں ہوتا ہے کہ بمشیت الٰہی بعضے بچ بھی جاتے ہیں۔ لیکن قرآن میں جو لُوٹ کی عورتیں اور خرید کی عورتیں جائز رکھی گئی ہیں اُن کو آپ کس طرح سے چُھپا سکتے ہیں کہ جن کے پیچھے رونے والے بھی موجود تھے۔ دیکھو سورۂ احزاب میں جس میں یہ لکھاہے۔ ۱ ۔ اس میں ملک ہونا بذریعہ خرید کے ہے اور فَئْ بذریعہ لُوٹ کے ہے۔ اورجو سر سید احمد خان صاحب نے اِس آیت کی تفسیر کی ہے اُس کا موقع ابھی نہیں مگر پیچھے سے اُن کی غلطی ہم دکھا دینگے۔
موسیٰؔ کی لڑائیوں میں ہم نے فرق دکھلایا کہ وہ بحکم الٰہی تھیں وبا نشان۔ اور قرآن کی لڑایاں ظاہر ہے کہ پالیسی کی تھیں جس کے واسطے کبھی تصدیق کسی معجزہ کی نہیں ہوئی اور تعظیمات اس کے برخلاف صفات ربّانی کے ہیں لہٰذا ہم اس کو الہامی نہیں کہہ سکتے۔
۲۔ یہ تو سچ ہے کہ برتن سونے چاندی کے بنی اسرائیل نے مصریوں سے مستعارلئے تھے لیکن وہ سوناچاندی جس حقیقی مالک کی ملک ہیں یعنی خدا کی۔ اُسی خدا نے اُن کو اجازت دی کہ اپنے پاس رہنے دو۔ پھر اس میں ظلم کون سا ہے ۔ اہل کتاب کے واسطے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 272
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 272
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/272/mode/1up
جزیہ گذاری اور ذلّت، قرآن نے قرار دی ہے وہ بے شک قتل عام سے تو مستثنیٰ کئے گئے ہیں لیکن آپ نہیں کہہ سکتے کہ جزیہ گذاری اور ذلت خواری سے گذارنا کوئی چٹکی نہیں اور وہ بے ایذا مطلق ہے۔ خواہ نخواہ کُچھ تو ایذا اس میں ہے۔ آگے ہم تواریخ کا حوالہ آپ کوکچھ نہ دیں گے کہ کیا کچھ گذرا ہے۔ ہم نے صرف قرآن کو لیا ہے اسی کے اُوپر اعتراض کرتے ہیں اورنہیں کرتے ہیں
۳۔ جناب گوڈنس کو شعبہ مرسی یعنے رحم کا قرار دیتے ہیں لیکن مجھ کو معاف رکھئے کہ یہ ایک ایسی غلطی ہے کہ عام غور کرنے والا سمجھ سکتا ہے گوڈنس وہ ہے جو حق سے زیادہ احسان دکھلاتی ہے اور رحم وہ ہے جو مواخذہ عدل سے چھوڑاتا ہے۔ لیکن جناب کو خواہ نخواہ مدِّنظر یہ ہے کہ کہیں تعلیم کفارہ کی ثابت نہ ہوجائے اِس لئے آپ ان باتوں کے سمجھنے کو پسندنہیں فرماتے۔
یہ ایک عجیب امر آپ فرماتے ہیں کہ رحم کو تقدیم ہے عدل کے اُوپر۔ اورعجب اِس میں یہ ہے کہ رحم مواخذہ پر آتا ہے یعنی مواخذۂ عدل پر تو اُس کو تقدیم کیونکر ہوئی۔ درست کہنا تو یہ ہے کہ ہر صفت اپنے اپنے موقع پر ظہور کرتی ہے اور وہ جو چند باتیں جناب رحم کے متعلق سمجھتے ہیں درحقیقت گوڈنس کے متعلق ہیں رحم سے ان کا علاقہ کچھ نہیں۔ تھوڑی سی شرح کے واسطے گوڈنس کی تعریف ہم اور بھی کر دیتے ہیں۔ مثال۔ اگر کوئی شخص اپنے جانوروں کو اچھی طرح سے نہلاتا۔ کھلاتا۔ پلاتاہے۔ اِس سے زیادہ کہ اگر اُس کو چھوڑ دیا جائے تو کبھی میسّر نہ ہو تویہ گوڈنس ہے ۔اور اگر کوئی شخص اپنے جانوروں کو جو اُس کی حفاظت میں ہیں ایذا دیوے اور اِس ایذا میں وہ خوش ہو۔ یہ وہ امر ہے کہ گوڈنس کے برخلاف ہے ہر ایک مخلوق جوعدم سے بوجود آتا ہے۔ اس کے کُچھ حقوق اپنے خالق پر ہیں۔ چنانچہ ایک یہ کہ وہ اُن کو ہر حاجت میں دکھ دینے والے سے بَری ؔ رکھے یہاں تک عدل ہے مگرجو اِس سے بڑھ کر اُن کو سُکھ کی افزونی دیوے یہ گوڈنس
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 273
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 273
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/273/mode/1up
ہے اور جب کوئی شخص اپنے اعمال سے جو اُس نے دیدہ و دانستہ و با ختیار خود کیا ہو مواخذہ عدل میں ہو اِس سے چھوڑانے کو رحم کہتے ہیں۔
۴۔ جانوروں کی بات میں جو شکم سیری و معیشت نفسی کی بابت فرمایا ہے اگراُن کے مفعولوں کو کچھ دُکھ ہے تو جناب کو ثابت کرنا چاہیئے کہ ان تین دُکھوں کے ما سوائے جوہم نے پہلے ذکرکیا ہے اور مواخذہ عدل کے لائق ہے ورنہ ان پر الزام ہی کیا ہے اور جو ماہیئت ظلم سے بھی آگاہ نہیں یا اتفاق جناب اس کو مواخذہ ہی کیونکر ہو سکتاہے۔ پس اِس فلاسفہ کے غواصی میں جناب چو طرف ایک شئے کے نہیں پھرے اور اندر باہر اس کے نظر نہیں کی۔ جب کلّی ماہیئت اِس کی معلوم کریں گے ۔ تب ایسے دلائل کو پیش
بھی نہ کریں گے۔
۵۔ ہم نے ایک سوال کیاتھا بابت فرشتوں اورپَیدائش مسیح کے اِس پر ہمارا بہت کچھ کہنا ہے۔ اِس کا جواب ہنوز آپ نے نہیں دیا۔ ہم انتظار اس کا کرتے ہیں۔
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام۔ از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 274
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 274
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/274/mode/1up
۵؍ ؔ جون ۱۸۹۳ ء
(روئداد جلسہ )
مرزا صاحب نے ۶ بجے ۱۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۱۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سُنایاگیا اور باہمی اتفاق سے قرار پایا کہ آج بحث ختم ہو اَور آج کا دن بحث کا آخری دن سمجھا جاوے۔
مسٹرعبد اللہ آتھم صاحب نے ۷ بجے ۵۵ منٹ پر شروع کیا اور ۸ بجے ۵۵ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سُنایاگیا۔
مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۳ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰ بجے ۳۳ منٹ پر ختم کیا۔
جناب خواجہ یوسف شاہ صاحب آنریری مجسٹریٹ امرتسر نے کھڑے ہو کر ایک مختصر تقریر فرمائی اورحاضرین جلسہ کی طرف سے دونوں میر مجلسوں کا خصوصًا ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی خوش اخلاقی اور عمدہ انتظام کی وجہ سے یہ جلسہ ۱۵ دن تک بڑی خوش اسلوبی اور خوبی کے ساتھ انجام پذیر ہوا اور اگر کسی امر پر اختلاف پیدا ہوا تو دونوں میر مجلسوں نے ایک امر پر اتفاق کرکے ہر دو فریق کو رضامند کیا اورہر طرح انصاف کو مد نظر رکھ کر صورت امن قائم رکھی بعدازاں تحریروں پر میر مجلسوں کے دستخط ہوکر جلسہ برخاست ہوا۔۵ جون ۱۸۹۳ ء
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ از جانب اہل اسلام ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ از جانب عیسائی صاحبان
از جانب حضرت مرزا صاحب
ڈپٹی صاحب اور میرے سوال وجواب بطور حرف عین اور غین سے ہیں یعنی ڈپٹی صاحب
سے مُراد ع اور مُجھ سے مراد غ ہے ۔
ع۔ قرآن میں لکھا ہے کہ وَ ۱ یعنی یہاں تک قتل کرو کہ کل دین اللہ ہی کا ہو جائے اور زمین
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 275
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 275
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/275/mode/1up
پرکفر باقی نہ رہے ۔
غ۔ اگر درحقیقت کُل دینوں سے قرآن نے یہی معاملہ کیا ہے کہ یا ایمان اور یا قتل تو آپ ایسے معنوں کے کرنے میں سچے ہیں ورنہ جو حال ہے سمجھ لیجئے۔
ع۔ اگر ایمان بالجبر نہ تھا تو عربوں کے لئے یہ کیوں شرط لگائی گئی کہ یا ایمان یا قتل۔
غ۔ قتل کا حکم عربوں کی نسبت اُن کی خونریزیوں کی وجہ سے تھا جو اسلامی لڑائیوں سے پہلے اُنہوں نے اسلام کے غریب اور گوشہ گزین جماعت کو قتل کرناشروع کیا اور ایمان پر رہائی دینااُن کے لئے ایک رعایت تھی جو صفات الٰہیہ کے مخالف نہیں۔ دیکھو کتنی دفعہؔ توبہ کے وقت یہودیوں کو خدا تعالیٰ نے اپنے قہر سے نجات دی اور نیز شفاعت سے بھی۔
ع۔ موسٰی ؑ کی لڑائیوں میں امان بشرط ایمان جناب دکھلانہ سکے۔ ۔
غ۔ امان بشرط جزیہ تو آپ دیکھ چکے۔ دیکھو قاضیون کی کتاب باب ۲۸ تا ۳۵ پھر صلح کا پیغام بھی سُن چکے اگر قہر تھا تو پھر صلح کیسی دیکھو استثناء ۲۰ صلح کرنے والا ایمان سے قریب ہوجاتا ہے اورپھر ایمان لانے سے کون روکتا ہے ۔
ع۔ معصوم بچّوں کو قتل کرنا وباؤں کی موت کی طرح ہے۔
غ۔ ننھے ننھے شیر خوار بچوں کو اُنکی ماؤں کے سامنے تلواروں اوربرچھیوں سے قتل کرنا ایک نہ دو بلکہ لاکھ ہا بچوں کو اگریہ خدائے تعالیٰ کے حکم سے ہے تو پھر قرآنی جہاد کیوں جائے اعتراض سمجھے جاتے ہیں۔ کیا خُداتعالیٰ کی یہ صفات ہیں اور وہ نہیں۔
ع۔موسٰیؑ کوحکم تھا کہ ان سات قوموں کو بالکل عدم کردیوے۔
غ۔ کہاں وہ قومیں عدم کی گئیں صلح کی گئی جزیہ پر چھوڑے گئے۔ عورتیں باقی رکھی گئیں۔
ع۔ اسلام لانے کے لئے جبر کیا گیاہے۔
غ۔ جس نے ۱ فرمایا۔ صلح کو قبول کیا جزیہ دینے پر امان دے دی۔ اس کوکون جائز کہہ سکتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 276
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 276
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/276/mode/1up
ع۔قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ یہ بہتان مکاری کپڑے اتار لیں میں نے ڈپٹی صاحب کے قول سے ایسا سمجھاہے۔
غ۔اگر یہی تعلیم ہے تو آیت قرآن شریف کی پیش کیجئیے بلکہ جنہوں نے تلواروں سے قتل کیا وہ تلواروں سے ہی مارے گئے۔ جنہوں نے ناحق غریبوں کو لوٹا وہ لوٹے گئے جیسا کیا ویسا پایا بلکہ ان کے ساتھ بہت نرمی کا برتاؤ ہوا جس پرآج اعتراض کیا جاتا ہے کہ کیوں ایسا برتاؤ ہوا سب کو قتل کیا ہوتا۔
ع۔قرآن نے جائز رکھا کہ خوف زدہ ایمان کا اظہار نہ کرے۔
غ۔اگر قرآن کی یہی تعلیم ہے تو پھر اسی قرآن میں یہ حکم کیوں ہے۔ ۱(سورۃتوبہ رکوع ۳)اور ۲ ۹۲۸ اور یہ کہ ۲۲۲ اصل بات یہ ہے کہ ایمانداروں کے مراتب ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۴ ۲۲ یعنی بعض مسلمانوں میں سے ایسے ہیں جن پر نفسانی جذبات غالب ہیں اور بعض درمیانی حالت کے ہیں اور بعض وہ ہیں کہ انتہاء کمالات ایمانیہ تک پہنچ گئے ہیں پھر اگر اللہ تعالیٰ نے برعایت اس طبقہ مسلمانوں کے جو ضعیف اور بزدل اور ناقص الایمان ہیں یہ فرمادیا کہ کسی جان کے خطرہ کی حالت میں اگروہ دل میں اپنے ایمان پر قائم رہیں اورزبان سے گوؔ اس ایمان کا اقرار نہ کریں تو ایسے آدمی معذور سمجھے جاویں گے مگر ساتھ اس کے یہ بھی توفرما دیاکہ وہ ایماندار بھی ہیں کہ بہادری سے دین کی راہ میں اپنی جانیں دیتے ہیں اورکسی سے نہیں ڈرتے اورپھرحضرت پولوس کا حال آپ پر پوشیدہ نہیں جو فرماتے ہیں کہ میں یہود یوں میں یہودی اور غیر قوموں میں غیر قوم ہوں اور حضرت پطرس صاحب نے بھی مخالفوں سے ڈرکرتین مرتبہ انکارکردیا۔ بلکہ ایک دفعہ نقل کفر کفرنباشد۔ حضرت مسیح ؑ پر *** بھیجی اوراب بھی میں نے تحقیقاً سنا ہے کہ بعض انگریزاسلامی ملکوں میں بعض مصالحہ کے لئے جاکراپنا مسلمان ہونا ظاہرکرتے ہیں۔
ع۔قرآن میں لکھا ہے کہ ذوالقرنین نے آفتاب کو دلدل میں غروب ہوتے پایا۔
غ۔یہ صرف ذوالقرنین کے وجدان کا بیان ہے آپ بھی اگرجہاز میں سوارہوں توآپ کوبھی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 277
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 277
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/277/mode/1up
معلوم ہو کہ سمندر سے ہی آفتاب نکلا اور سمندر میں ہی غروب ہوتا ہے۔ قرآن نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ علم ہیئت کے موافق بیان کیاجاتاہے ہر روز صدہا استعارہ بولے جاتے ہیں مثلًا اگر آپ یہ کہیں کہ آج مَیں ایک رکابی پلاؤ کی کھا کر آیا ہوں تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ آپ رکابی کو کھا گئے اگر آپ یہ کہیں کہ فلاں شخص شیر ہے کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ا س کے پنجے شیر کی طرح اور ایک دُم بھی ضرور ہو گی۔ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ زمین کے کنارہ سے سلیمان کی حکمت سُننے آئے حالانکہ زمین گول ہے کنارہ کے کیا معنے۔ پھر یسعیاہ باب۷۱۴ میں یہ آیت ہے ساری زمین آرام سے اور ساکن ہے مگر زمین کی تو جنبش ثابت ہو چکی۔
ع ۔ جہاں چھ ماہ تک سُورج نہیں چڑھتا روزہ کیوں کر رکھیں۔
غ۔ اگر ہم نے لوگوں کی طاقتوں پر اُن کی طاقتوں کو قیاس کرنا ہے تو انسانی قویٰ کی جڑھ جو حمل کا زمانہ ہے مطابق کر کے دِکھلانا چاہیئے پس ہمارے حساب کی اگر پابندی لازم ہے تو ان بلاد میں صرف ڈیڑھ دن میں حمل ہونا چاہیئے اور اگر اُن کے حساب کی تو دو سو چھیاسٹھ برس تک بچّہ پیٹ میں رہنا چاہیئے اور یہ ثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ حمل صرف ڈیڑھ دن تک رہتا ہے لیکن دو سو چھیاسٹھ برس کی حالت میں یہ تو ماننا کچھ بعید از قیاس نہیں کہ وہ چھ ماہ تک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ اُن کے دِن کا یہی مقدار ہے اوراس کے مطابق اُن کے قویٰ بھی ہیں۔
ع۔ رحم عدل کے بعد ہوتا ہے اور گوڈنس یعنی احسان پہلے۔
غ۔ احسان کوئی صفت نہیں بلکہ رحم کی صفت کا نتیجہ ہے مثلًا یہ کہیں گے کہ فلاں شخص پر مجھ کو رحم آیا۔ یہ نہیں کہیں گے کہ فلا ں شخص پر مجھ کو احسان آیا۔ رحم بیماروں پر آتا ہے۔ رحم کمزوروں پر آتا ہے ۔ رحم بچّوں پرآتا ہے ۔ اور اگر کسی بدمعاش قابل سزا پر بھی آوے تو ایسی حالت میں آتا ہے کہ جب وہ ضعیفوں اور نا توانوں کی طرح رجوع کرے۔ پھر اصل مورد رحم ضعف اورناتوانی ہوئی یا کچھ اورہوا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 278
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 278
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/278/mode/1up
ع۔ؔ انسان فعل مختار ہے۔
غ۔ اگر اس کے یہ معنے ہیں کہ جس حد تک اس کو قویٰ بخشے گئے ہیں اُس حد تک وہ اس قویٰ کے استعمال کا اختیار رکھتا ہے تو یہ قرآنی تعلیم کے مخالف نہیں۔ اللہ جلّ شانہ‘ فرماتا ہے۔ ۱ ۱۶یعنی وُہ خدا جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب حال قویٰ اورجوارح بخشے اورپھر ان کو استعمال میں لانے کی توفیق دی۔ ایسا ہی فرماتا ہے: ۲ ۹۱۵ یعنی ہر ایک اپنے قویٰ اور اشکال کے موافق عمل کرنے کی توفیق دیا جاتاہے اور اگر کچھ اورمعنے ہیں تو آپ کو خوشگوار رہیں ۔
ع۔ کیا خدائے تعالیٰ مالکیت کے برقعہ میں ناجائز کاموں کی اجازت دے سکتا ہے۔
غ۔ نالائق مت کہئے جو کچھ اس نے کیااورکر رہا ہے وہ سب لائق ہے۔ صحیفہ قدرت کو دیکھئے کہ وہ کروڑہا پرند اور چرند اوردوسرے جانوروں کی نسبت کیا کر رہا ہے اوراس کی عادت حیوانات کی نسبت کیا ثابت ہوتی ہے اگر غور سے آپ دیکھیں گے تو آپ اقرار کریں گے کہ وضع اِس دنیا کی اسی طرح پائی جاتی ہے کہ خُدائے تعالیٰ نے ہر ایک حیوان کو انسان پر قربان کر رکھا ہے اور اس کے منافع کے لئے بنایا ہے ۔
ع۔ کلام مجسّم ہوا۔
غ۔ اِس سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح ؑ کا جسم بھی خدا تھا لیجئے حضرت یک نہ شد دو شد۔
ع۔ اقنوم کے معنی شخص معین ہیں سو یہ تین جُداجُدا شخص اور ماہیئت ایک ہے اب قائم فی نفسہٖ اور ابن اور رُوح القدس اس میں لازم و ملزوم ہیں۔
غ۔ جبکہ یہ تینوں شخص اور تینوں کامل اورتینوں میں ارادہ کرنے کی صفت موجود ہے۔ اب ارادہ کرنے والا ابن اراد ہ کرنے والا روح القدس ارادہ کرنے والا ۔ تو پھر ہمیں سمجھاؤ کہ باوجود اس حقیقی تفریق کے اتحاد ماہیئت کیونکر اور نظیر بے حدی اور بے نظیری کی اس مقام سے کچھ تعلق نہیں رکھتی کیونکہ وہاں حقیقی تفریق قرار نہیں دی گئی۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 279
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 279
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/279/mode/1up
ع۔ نبی اسلام کا چھوٹا یا بڑا معجزہ ثابت نہیں ہوا۔
غ۔ قرآن معجزات سے بھرا ہے اور خود وہ معجزہ ہے توجہ سے دیکھیں اور پیشگوئیاں تو اس میں دریا کی طرح بہ رہی ہیں۔ اسلام کے غلبہ کی ضُعفِ اسلام کے وقت خبر دی۔ سلطنت روم کے غلبہ کی اُن کے مغلوب ہونے کے پہلے خبر دی۔ شق القمر کامعجزہ بھی موجود ہے اگر نظام کے مخالف وسوسہ گزرے تو یوشع بن نون اور یسعیاہ نبی کی نظیر دیکھ لیجئے مگر حضرت مسیح کے معجزات کا ہمیں کچھ پتہ نہیں لگتا۔ بیت حسدا کے حوض نے اُن کی رونق کھو دی۔ پیشگوئیاں نری اٹکل معلوم ہوتی ہیں اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ بعض پوری بھی نہ ہوئیں مثلًا یہ پیشگوئی کب اور کس وقت پُوری ہُوئی کہ تم سے ابھی بعض نہیں مریں گے کہ مَیں آسمان پر سے اُتر آؤں گا۔ بادشاہتؔ کہاں ملی جس کے لئے تلواریں خریدی گئی تھیں۔ بارہ حواریوں کو بہشتی تختوں کا وعدہ ہوا تھا یہودا اسکریوطی کو تخت کہاں ملا۔
ع۔ قرآن نے فصاحت و بلاغت کا دعویٰ نہیں کیا۔
غ۔ اگلے پرچہ میں دکھلادوں گا کہ کیاہے۔
ع۔ کیا ستون میں خدا نہیں بول سکتا۔
غ۔ کیوں نہیں بلکہ ستون میں بول کر بھی وُہ ستون سے بے علاقہ رہے گا اور ستون ابن اللہ نہیں کہلائے گا بلکہ جیسے پہلے تھا ویسے رہے گا او ایک ستون میں بولنا ایک ہی وقت میں دُوسرے ستون میں بولنے سے منع نہیں کرے گا بلکہ ایک ہی سیکنڈ میں کروڑہا ستونوں میں بول سکتا ہے مگر آپ کا اصول اس کے مطابق نہیں ۔
ع۔ کس نبی کے بارہ میں لکھا ہے کہ میر ا ہمتا۔
غ۔ جناب جب بعض نبیوں کو خدا کہا گیا تو کیا ہمتا پیچھے رہ گیا بلکہ خُدا کہنے سے تو قادِر مطلق وغیرہ سب صفات آگئے ۔
ع۔ مسیح کے مظہر اللہ ہونے میں بیبل میں بہت سی پیشگوئیاں ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 280
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 280
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/280/mode/1up
غ۔ پیش از وجود مسیح جو چودہ سو برس تک علماء یہود کی ان کتابوں کو پڑھتے ہیں اور قریبًا کروڑہا علماء کی نظرسے وہ کتابیں گذریں کیا کسی کاذہن اس طرف نہیں گیا کہ کوئی خُدا بھی آنے والاہے۔
کیا یہودی لُغت نہیں جانتے تھے کتابیں نہیں رکھتے تھے نبیوں کے شاگرد نہیں تھے پھر گھر کی پُھوٹ اور بعض علمائے عیسائی کا یہود سے متفق ہونا اور بھی اس کی تائید کرتاہے ۔
ع۔ شریعت موسوی نشانات تصویری کیسے تھے پھر قرآن کیا لایا۔
غ۔ قرآن نے مُردوں کو زندہ کیا۔ باطل خیالات کو مٹایا۔
ع۔ مذہب عیسوی میں تقدیری جبر کی تعلیم نہیں۔
غ۔ انجیل سے پایاجاتا ہے کہ شیاطین ضلالت پر مجبور ہیں اورناپاک رُوحیں ہیں اگر یہ بات صحیح نہیں تو ثابت کرو کہ حضرت مسیح کے ذریعہ سے کس شیطان نے نجات یافتہ ہونے کی خوشخبری پائی بلکہ وہ تو بکتے ہیں کہ وہ ابتدا سے قاتل تھا اور شیاطین میں سچائی نہیں حضرت مسیحؑ شیاطین کے لئے بھی کفّارہ تھے یا نہیں اس کاکیاثبوت ہے مگر قرآن جنّات کی ہدایت کا ذکر کرتا ہے
ع۔ مسیح زمین آسمان کا خالق ہے۔
غ۔ سوال یہ تھا کہ مسیح نے دُنیا میں آکر مظہر اللہ ہونے کی کون سی چیز بنائی۔ جواب یہ ملتا ہے کہ سب کچھ مسیح ہی کا بنایا ہواہے۔
ع۔ؔ نیک ہونے سے انکار اِس لئے کیا تھا کہ وہ مسیح کو خدا نہیں جانتا تھا۔
غ۔ انجیل سے اِس کا ثبوت دیجئے۔ مرقس میں تو صا ف لکھا ہے کہ اُس نے گھٹنے ٹیکے اور مسیح ؑ نے خدائی کا کچھ ذکر نہیں کیا بلکہ کہا کہ اگر تو کامل ہوناچاہتا ہے تو اپنا سارا مال غریبوں کو بانٹ دے۔
ع۔ مسیح کا بن باپ پَیدا ہونا مانتے ہیں یا نہیں۔
غ۔ مسیح کا بن باپ پَیدا ہونا میری نگاہ میں کچھ عجوبہ بات نہیں حضرت آدم ؑ ماں اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 281
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 281
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/281/mode/1up
باپ دونوں نہیں رکھتے تھے ۔ اب قریب برسات آتی ہے ضرور باہر جاکر دیکھیں کہ کتنے کیڑے مکوڑے بغیر ماں باپ کے پَیداہوجاتے ہیں پس اِس سے مسیح کی خدا ئی کا ثبوت نکالنا صرف غلطی ہے ۔
ع۔ صرف توبہ سے بے ادائے ہرجہ کیونکر گناہ بخشے جا سکتے ہیں ۔
غ۔ کسی کے گناہ سے خدا ئے تعالیٰ کا کوئی ہرجہ نہیں ہوتا اور گناہ پہلے قانون نازل ہونے کے کچھ وجود نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱ ۲۱۵ یعنی ہم گناہوں پر عذاب نہیں کیا کرتے جب تک رسول نہیں بھیجتے۔ اور جب رسول آیا اورخیر و شر کا راہ بتلایا تو اِس قانون کے وعدوں اوروعیدوں کے موافق عملدارآمد ہو گا کفارہ کی تلاش میں لگنا ہنسی کی بات ہے کیاکفارہ وعدوں کو توڑ سکتا ہے بلکہ وعدہ وعدہ سے بدلتاہے اور نہ کسی اور تدبیر سے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۲ ۷ ۱۲۔ اور یہ کہنا کہ اعمال حسنہ ادائے قرضہ کی صُورت میں ہیں غلط فہمی ہے قرضہ تو اُس صُورت میں ہوتا کہ جب حقوق کا مطالبہ ہوتا۔ اَب جبکہ گناہ صرف ترک قانون سے پَیداہوا نہ ترک حقوق سے اور عبادت صرف کتابی فرمانوں پر عمل کرنے کا نام ہے تو نجات عدم نجات کا صرف قانونی وعدوو عید پر مدار رہا۔
ع۔ قرآن کی قسمیں صرف ہنسی کی سی ہیں۔
غ۔ اِس کی حقیقت آپ کو معلوم نہیںیہ ایک خاص اصطلاح ہے جو قسموں کی صورت میں اللہ جلّ شانہ‘ ایک امر بدیہہ کو نظر ی ثبوت کے لئے پیش کرتا ہے یا ایک امر مسلّم کو غیر مسلّم کے تسلیم کرنے کے لئے بیان فرماتا ہے اورجس چیز کی قسم کھائی جاتی ہے وہ درحقیت قائم مقام شاہد ہوتی ہے جیسا کہ مَیں آیت ۳ میں مفصل بیان کر چکا ہوں۔ اگر تفصیل وار دیکھنا ہو تو آئینہ کمالات اسلام کو دیکھئے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 282
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 282
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/282/mode/1up
ع۔ دُکھ تین قسم کے ہوتے ہیں۔
غ۔ آپ پر تو یہ ثابت کرنا ہے کہ جو کروڑہا حیوانات بغیر الزام کسی گناہ کے ذبح کئے جاتے ہیں وہ اگر مالکیت کی وجہ سے نہیں تو کیوں ذبح ہوتے ہیں اورمَرنے کے بعد کس بہشت میں رکھا جائے گا۔(باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام ازجانب عیسائی صاحبان
اَزؔ جانب ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
جناب جو یہ فرماتے ہیں کہ وہ حکم قتل کا اُنہیں لوگوں کے واسطے تھا جنہوں نے ظلم کیا تھا اہلِ اِسلام پر۔ میراجواب یہ ہے کہ سُورہ توبہ کے رکوع ۴ میں یہ سبب قرار نہیں دیاگیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جو ایمان نہ لاوے اللہ پر اور دن قیامت پر اورجو خدا رسول نے حرام کیا ہے اُس کو حرام نہ مانے تو وہ قتل کیا جائے اوراس میں استثناء صرف اہل کتاب کے لئے ہے کہ اگر وہ ایمان لانے کو نہ چاہیں اورنہ تہ تیغ ہوں تو جزیہ گذار اورخوار ہو کر جیتے رہیں۔ ایسی ہی اور بھی آیات جن کا میں نے حوالہ دیا ان میں یہی منشاء پایا جاتا ہے اورایمان پر امان کا منحصر کرنا گو رعایت ہے لیکن ایمان بالجبر کو اور بھی قائم کرتاہے کہ وہ شفاعتیں اور بخششیں جو مُہلت زمانہ کے واسطے دی گئیں نظیر آپ کے ایمان بالجبر کی نہیں کیونکہ وہ فیصلہ عقبیٰ تک کرتے ہیں۔
۲۔ جہاد بانشان سات قوموں سے تھا چنانچہ ان کے نام بھی درج ہیں یعنی ہیتی۔ پبوسی وغیرہ ان سے ماسوا جو ملک موعود یا ابراہیم کے درمیان اور بھی بہت سی قومیں تھیں جن کو قتل کا حکم نہیں ہوا مگریہ کہ اگر وہ اطاعت قبول کریں تو کافی ہے اور اِس سے ہماری وہ دلیل اور بھی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 283
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 283
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/283/mode/1up
قائم ہوتی ہے کہ وہ سات قومیں ایسی زیر غضب الٰہی کے تھیں کہ جیسے نوح کے زمانہ میں اور لُوط کے زمانہ میں قہر آیا اور سب کو برباد کر گیا ایسا ہی ان کے واسطے بھی تیغ بنی اسرائیل سے بربادی کا حکم ہوا۔ معصوم بچوں کا جو آپ اعتراض پکڑتے ہیں کہ موسیٰ کی جنگوں میں ہوا ایسا ہی تو ہر وبا میں ہوتا ہے آپ کوماننا پڑے گا کہ یا تو موسیٰ کا بیان حکم الٰہی مانیں او ریا اِس سے بر کنار ہو کر فرماویں کہ توریت کلام الٰہی نہیں آپ ادھر میں نہیں لٹک سکتے۔
آپ کے مذہب پر یہ اعتراض اِس لئے ہے کہ شرط امان کی انحصار ایمان پر کرتی ہے۔ ان سات قوموں سے صلح نہیں کی گئی یہ آپ کا بیان غلط ہے اور عورتیں سب اُن کی نہیں رکھی گئیں مگر شاذ ونادر چند کے بچادینے کے لئے بنی اسرائیل کو اجازت دی گئی اور ایسی عورتوں کے واسطے اجازت دی گئی کہ جن کا پیچھے رونے والا کوئی نہ تھا۔ اور اگر اُن کے رکھنے کے واسطے اجازت نہ دی جاتی تو اُن کے مار ڈالنے سے یہ بد تر نہ ہوتا۔
۴۔ آپ تسلیم فرماتے ہیں کہ جس کو اجازت صلح کی دی گئی تو اگر ایمان کے واسطے ایسا کیاجائے تو کسی قدر جبر جائز مانا جائے گا۔ مگر فلسطیوں کی ان سات قوموں کے واسطے صلح کی اجازت کبھی نہیں دی گئی اورجزیہ دینا ان سے قبول کبھی نہیں ہوا۔ اور وہ مثل وباکے تہ تیغ ہی کئے گئے ۔ پھر جناب قرآن کی تعلیم کو اُن کی مثال اور انکو ممثلہ نہیں فرما سکتے۔
۵۔ؔ وہ جو آپ فرماتے ہیں کہ گویا میں نے کہا کہ قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ بہ بہانہ مکاری سفید پوشوں کے کپڑے اُتار لیں۔ بجواب اس کے عرض ہے کہ میں نے ایسا کبھی نہیں کہا جناب نے غلط فہمی کی ہے۔ یہ مَیں نے ضرور کہا۱ میں اکراہ وہ بھی تو متصوّر ہو سکتا ہے جو بعض اہل اسلام کسی سفید پوش کو دیکھ کر اور اُس سے سلام علیک سُن کر کہہ دیتے تھے کہ تو مسلمان نہیں تو مکاری سے سلام علیک کرتا ہے اور اُسے مار ڈالتے تھے اور کپڑے اتار لیتے تھے۔ ایسوں کے بارہ میں یہ آیت ہو سکتی ہے کہ ایسا اکراہ دین کے معاملہ میں مت کرو نہ وہ اکراہ جوایمان لانے کیلئے ہو جس کے واسطے ہم نے بہت سی آیات ناطق قرآن ہی سے پیش کی ہیں ۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 284
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 284
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/284/mode/1up
۶۔ قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ اگر کوئی مجبوری میں خدا کا انکار کر لیوے لیکن قلب اس کا حق کے اوپر مطمئن رہے بوجہ اس اکراہ کے اور اطمینان کے غضب الٰہی سے وہ محفوظ رہے گا۔ اس پر ہمارا اعتراض یہ تھا کہ یہ ناحق کی خوف پرستی ہے کہ جو قادر قدوس سکھلاتا ہے اور ایسا ہونا نہ چاہیئے۔ اس تعلیم کو سورہ نحل کی اس آیت میں دیکھ لیں گے کہ جس میں لکھا ہے کہ ۱ الخ۔
۷۔ پولوس کا یہ کہنا کہ میں یہودیوں میں یہودیوں سا ہوں اور غیر قوموں میں غیر قوم سا اس کے یہ معنے نہیں ہوسکتے کہ وہ بے ایمان دورنگا تھا بلکہ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ جہاں تک میں کسی سے اتفاق کرسکتا ہوں نفاق نہ کروں گا۔ چنانچہ اس موقع کو غور فرما کر دیکھ لیں۔ یہ پہلا قرنتی ۲۰۔۲۱۔۲۲ اور پطرس کا انکار صاف گناہ کا ہے اور مسیح پر اس نے *** نہیں کی تھی بلکہ اپنے اوپر معلوم نہیں کہ جناب کو کس گھبراہٹ نے پکڑا ہے کہ صحیح اقتباس کلام کا بھی نہیں فرماتے۔ آپ کیا حوالہ بے ایمان انگریزوں کا دیتے ہیں کیا وہ انجیل ہیں کلام بائبل اور قرآن کے اوپر ہے نہ بدعمل لوگوں کے اوپر۔
۸۔ میں جہاز پر سوار ہو آیا ہوں میں نے سورج کو کسی دلدل کی ندی میں غروب ہوتے نہیں دیکھا اور نہ کسی اور نے دیکھا۔ اور وہ جو اس آیت میں بیان ہے کہ اس نے پایا کہ سورج دلدل کی ندی میں غروب ہوجاتاہے تو اس کے ساتھ تصدیق خدائے قرآنی کی بھی ہے جو یہ کہتا ہے ۲ الخ یعنی تجھ سے سوال کرتے ہیں بابت ذولقرنین کی اور ان سے وعدہ ہوتا ہے کہ ہم ابھی بیان کریں گے۔ پس اس میں تصدیق اسی خدا کی ہے نہ صرف پانا ذوالقرنین کا۔ اس سے ظاہر ہو جیو کہ جناب اس اعتراض کو اٹھا نہیں سکتے ۔ یہ محاورہ کی بات نہیں بلکہ محاورہ کے برخلاف ہے کہ آفتاب دلدل کی ندی میں غروب کرگیا کیونکہ بدو نظر اور محاورہ کسی زبان یا مکان کا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سورج کسی دلدل کی ندی میں غروب کرتا ہے۔ ہاں البتہ یہ تو عام محاورہ اور مجاز ہے جو لوگ کہتے ہیں سورج نکلا اور سورج غروب ہوا۔ اور نہ وہ محاورہ جو آپ فرماتے ہیں اور جو امور بدونظر میں کچھ صورت ظہور کی دکھلاتے ہیں ان کا کلام اس صورت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 285
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 285
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/285/mode/1up
کے مجاز میں ہوتا ہے۔ جیساؔ رکابی پلاؤ کا کھانا ہر ایک سمجھتا ہے کہ بھری ہوئی رکابی میں سے کچھ نہ چھوڑنا یا جیسے کہتے ہیں کہ پتنالے چل رہے ہیں یا یہ کنوا ں میٹھا یا کھارا ہے۔یہ بھی ایسے محاورات ہیں جو عامہ ہیں۔ اور سباکی ملکہ جو زمین کے کنارہ سے آئی اس کے معنی صاف ظاہر ہیں کہ دوسرے ملک کے کنارے سے آئی جو فلسطین کے دوسری طرف تھا۔ اس میں جغرافیہ اور علم ہندسہ کا کیا علاقہ ہے یہ نظیریں جناب کے دلدل کی ندی غروب کے لئے پیدا نہیں کر سکیں گے۔ زمین کا ساکن ہونا بھی بد و نظر ہے اور عوام اس سے سوانہیں بولتے اور کلام الٰہی عوام کے لئے ہے۔
۹۔ جناب نے آئیس لینڈ اور گرین لینڈ کے دنوں کی کیا اچھی تعبیر فرمائی ہے اور وہ نظیر جو حمل کی اس میں دی ہے اس سے بھی بڑھ کر ہے مجھے حیرانی یہ ہے کہ کلام نص کو آپ چھوڑ کر کہاں جا پڑتے ہیں۔ قرآن کے کلام نص میں یہ لکھا ہے کہ دن کی سفیدی کی دھاری سے پہلے شروع کر کے شام کی سیاہی کی دھاری کے پیچھے روزہ افطار کرنا چاہئے کہ جن دونوں دھاریوں کا ان ملکوں میں نشان تک کچھ نہیں اور حمل کی بابت جو آپ نے نظیر دی ہے وہ زمانہ متعینہ ہمارا ہے نہ کسی کلام الٰہی کا۔
۱۰۔ جناب فرماتے ہیں کہ گوڈنس کوئی صفت نہیں تب جب ایک شخص جو کسی مواخذہ میں گرفتار نہیں وہ کسی خوش سلوکی کے لائق بھی نہیں ہے۔ رحم کی اصطلاح صاف یہ ظاہر کرتی ہے کہ کسی مواخذہ میں گرفتار ہے جس کو رحم سے چھوڑایا جاتا ہے۔ آپ کا اختیار ہے جتنا چاہیں ضد فرماویں مگر یہ امور بدیہی ہیں۔
۱۱۔ یہ ایک عجیب روک ہے کہ جو ایک امر بدیہی نالائق ہو اس کو نالائق نہ کہا جائے کیا اگر ہم فرض کر لیویں کہ خدا نے کوئی ظلم کیا یا جھوٹ بولا تواسی لحاظ سے یہ فرض خدا کی بابت میں ہے کہ ہم نالائقی اس کی کا ذکر نہ کریں گے۔ ہم تو ان افعالوں کو نالائق کہیں گے اور مفروضہ خدا کو جھوٹا خدا کہیں گے یہ تو ہم ایک امر واقعی دیکھتے ہیں کہ گوشت حیوانوں کا خدا تعالیٰ نے انسانوں کے واسطے کلام الٰہی میں مباح کر دیا ہے اور بعض بعض جانوروں کو بھی جیسا کہ شیر یا باز ہے فطرت نے مباح کردیا ہے۔ لیکن ایک واقعہ مرئی سے اس کا عدل مرئی مٹ نہیں سکتا۔ کوئی وجہ اس کے صادق ٹھہرانے کی ہوگی جو ہم کو نامعلوم ہو تو اس نامعلومی سے اس کی نفی نہیں ہوسکتی۔
۱۲۔ مجسم ہونے سے جسم کو بھی الوہیت ٹھہرانا جناب کی اصطلاح ہوگی ہمارے تو یہ معنی ہیں کہ مجسم ہونے سے مظہریت پرہی ایما ہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 286
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 286
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/286/mode/1up
۱۳۔ کیوں جناب آپ ہماری نظیر بے نظیری اور بے حدی کو باطل کس طرح ٹھہرا سکتے ہیں جو ایک واقعہ مصر ہے اور کیا ان دونوں صفات کی ایک ہی ماہیئت نہیں کیونکہ بے نظیر مطلق بے حدی سے نہیں ہوسکتا زمان اور مکان ان ہر دو کا ایک ہی رہتا ہے۔ جنابؔ غور فرما کر جواب دیں۔
۱۴۔ جب ثبوت دکھلاویں گے کہ قرآن میں معجزہ ہیں اور قرآن خود ہی ایک معجزہ ہے تو ہم مان لیں گے لیکن کسی شخص نے ایک بادشاہ کے سامنے ایک لطیفہ کہا تھا کہ سات رومال لپیٹے ہوئے کھول کر رکھ دئیے۔ اور کہا کہ جناب اس میں نور ظہور کی پگڑی ہے مگر وہ حرام کے کو نظر نہیں آتی۔ الّا حلال کے کو نظر آتی ہے۔ ایسا ہی اگرجناب کا فرمانا ہے کہ اگر ہم کو وہ معجزات نہ نظر آویں تو ہماری نظر کا قصور ہے تو ہم کو ایک گالی کھا لینا منظور ہے مگر جھوٹا اقرار کر لینا منظور نہیں۔ شق القمر کے معجزہ کی بابت میں جناب کو معلوم نہیں کہ شق القمر ہونا مستلزم ساتھ قرب قیامت کے ہے اور آگے اس کے صیغہ ان یّروا مضارع کا ہے اور اس معجزہ سے پہلے سے تحدی یاتعارض کسی کے نہیں ہوئی۔ پس ایسی نظیریں جناب دے کر کس کو اطمینان بخشیں گے۔ سوتو معلوم۔ البتہ پیشین گوئیاں قرآن میں بہت سی ہیں لیکن پیشن گوئیاں دو قسم کی ہیں ایک وہ پیشن گوئی جو علم الٰہی سے ہوتی ہیں اور دوسری وہ جو عقل عامہ سے ہوتی ہیں۔ جو علم الٰہی کا انحصار کرے۔ اس کی نظیر اگر جناب پیش کریں گے ہم اس پر غور کریں اور روم کے فارس سے مغلوب ہونے کی پیشن گوئی دور اندیشی عقل عامہ کی ہے (آگے بولنے نہ دیا کہ وقت پورا ہوگیا)
دستخط دستخط
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
مضمون آخری حضرت مرزا صاحب
(۵جون۔ ۱۸۹۳ء)
آج یہ میرا آخری پرچہ ہے جو میں ڈپٹی صاحب کے جواب میں لکھاتا ہوں مگر مجھے بہت افسوس ہے کہ جن شرائط کے ساتھ یہ بحث شروع کی گئی تھی ان شرائط کا ڈپٹی صاحب نے ذر ا پاس نہیں فرمایا۔ شرط یہ تھی کہ جیسے میں اپنا ہرایک دعویٰ اور ہر ایک دلیل قرآن شریف کی معقولی دلائل سے پیش کرتا گیا ہوں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 287
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 287
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/287/mode/1up
ڈپٹی صاحب بھی ایسا پیش کریں لیکن وہ کسی موقع پر اس شرط کو پورا نہیں کر سکے۔ خیر اب ناظرین خود دیکھ لیں گے۔ اس جواب کے جواب الجواب میں صرف اتنا کہنا مجھے کافی ہے کہ ڈپٹی صاحب نے یہ جو توبہ کی سورۃ کو پیش کر دیا ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ایمان لانے پر قتل کا حکم ہے یہ ان کی غلط فہمی ہے بلکہ اصل مدعا وہی اس آیتؔ سے ثابت ہوتا ہے جو ہم بیان کر چکے ہیں یعنی جو شخص اپنی مرضی سے باوجود واجب القتل ہونے کے ایمان لے آوے وہ رہائی پا جائے گا۔ سوا اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ جو لوگ رعایت سے فائدہ نہ اٹھاویں اور اپنی مرضی سے ایمان نہ لاویں ان کو سزائے موت اپنے پاداش کردار میں دی جائے گی اس جگہ یہ کہاں ثابت ہوا کہ ایمان لانے پر جبر ہے۔ بلکہ ایک رعایت ہے جو ان کی مرضی پر چھوڑی گئی ہے اور سات قوموں کا جو آپ ذکر فرماتے ہیں کہ ان کو قتل کیا گیا اور کوئی رعایت نہ کی گئی یہ تو آیت کی تشریح کے برخلاف ہے دیکھو قاضیوں ۲۸و۱۳۰ کہ کنعانیوں سے جو ان ساتوں قوموں سے ایک قوم ہے خراج لینا ثابت ہے۔ پھر دیکھو یشوع ۱۶ اور قاضیوں ۱۳۵ جو قوم اموریوں سے جزیہ لیا گیا۔
پھر آپ اعادہ اس بات کا کرتے ہیں کہ قرآن نے یہ تعلیم دی ہے کہ خوفزدہ ہونے کی حالت میں ایمان کو چھپاوے۔ میں لکھ چکا ہوں کہ قرآن کی یہ تعلیم نہیں ہے قرآن نے بعض ایسے لوگوں کو جن پر یہ واقعہ وارد ہو گیا تھا ادنیٰ درجہ کے مسلمان سمجھ کر ان کو مومنوں میں داخل رکھا ہے۔ آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک طبقہ کے ایماندار نہیں ہوا کرتے اور آپ اس سے بھی نہیں انکار کریں گے کہ بعض دفعہ حضرت مسیح یہودیوں کے پتھراؤ سے ڈر کر ان سے کنارہ کرگئے اور بعض دفعہ توریہ کے طور پر اصل بات کو چھپا دیا۔ اور متی ۱۶ میں لکھا ہے تب اس نے اپنے شاگردوں کو حکم کیا کہ کسوسے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں۔ اب انصاف سے کہیں کہ کیا یہ سچے ایمانداروں کا کام ہے اور ان کا کام ہے جو رسول اور مبلغ ہوکر دنیا میں آتے ہیں کہ اپنے تئیں چھپائیں۔ اس سے زیادہ آپ کو ملزم کرنے والی اور کونسی نظیر ہوگی بشرطیکہ آپ فکر کریں اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ دلدل میں آفتاب کا غروب ہونا سلسلہ مجازات میں داخل نہیں مگر عَیْنٍٍ حَمِءَۃٍ سے تو کالا پانی مراد ہے اور اس میں اب بھی لوگ یہی نظارہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور مجازات کی بنا مشاہدات عینیہ پر ہے جیسے ہم ستاروں کو کبھی نقطہ کے موافق کہہ دیتے ہیں اور آسمان کو کبود رنگ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 288
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 288
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/288/mode/1up
کہہ دیتے ہیں اور زمین کو ساکن کہہ دیتے ہیں پس جب کہ انہیں اقسام میں سے یہ بھی ہے تو اس سے کیوں انکار کیا جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ کلام مجسم بھی ایک استعارہ ہے مگر کوئی شخص ثبوت دے کہ دنیا میں یہ کہاں بولا جاتا ہے کہ فلاں شخص کلام مجسم ہو کر آیا ہے اورگوڈنس کی تاویل پھر آپ تکلف سے کرتے ہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ گوڈنس یعنی احسان کوئی صفت صفات ذاتیہ میں سے نہیں ہے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے رحم آتاہے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے احسان آتا ہے مگر آپ پوچھتے ہیں کہ اگریونہی بغیر کسی کی مصیبت دیکھنے کے اس سے خوش سلوکی کی جائے تو اس کو کیا کہیں گے۔ سو آپ کویاد رہے کہ وہ بھی رحم کے وسیع مفہوم میں داخل ہے کوئیؔ انسان کسی سے خوش سلوکی ایسی حالت میں کرے گا کہ جب اول کوئی قوت اس کے دل میں خوش سلوکی کے لیے وجوہات پیش کرے اور اس کو خوش سلوکی کرنے کے لئے رغبت دے تو پھر قوت رحم ہے جو نوع اِنسان کی ہر ایک قسم کی ہمدردی کے لئے جوش مارتی ہے اورجب تک کوئی شخص قابل خوش سلوکی کے قرار نہ پاوے اورکسی جہت سے قابل رحم نہ نظر آوے بلکہ قابلِ قہر نظر آوے تو کون اس سے خوش سلوکی کرتاہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ حیوانات کو قتل ہوتے دیکھ کر کیا ہم فرض کرلیں کہ خدانے ظلم کیا۔ مَیں کہتا ہوں مَیں نے کب اِس کا نام ظلم رکھا ہے مَیں تو کہتا ہوں کہ یہ عمل در آمد مالکیت کی بنا پر ہے۔ جب آپ اِس بات کو مان چکے کہ تفاوت مراتب مخلوقات یعنی انسان و حیوانات کا بوجہ مالکیت ہے اس کی تناسخ وجہ نہیں تو پھر اِس بات کو مانتے ہوئے کونسی سدّراہ ہے جو دُوسرے لوازم جو حیوان بننے سے پیش آگئے وہ بھی بوجہ مالکیت ہیں اور بالآخر قرآن کریم کے بارہ میں آپ پر ظاہر کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے اپنے کلام اللہ ہونے کی نسبت جو ثبوت دیئے ہیں۔ اگرچہ میں اس وقت اِن سب ثبوتوں کو تفصیل وار نہیں لکھ سکتا لیکن اِتنا کہتا ہوں کہ منجملہ ان ثبوتوں کے بیرونی دلائل جیسے پیش از وقت نبیوں کا خبر دینا جو انجیل میں بھی لکھاہوا آپ پاؤ گے۔ دوسرے ضرورت حقّہ کے وقت پر قرآن شریف کا آنا یعنی ایسے وقت پر جبکہ عملی حالت تمام دنیا کی بگڑ گئی تھی اورنیز اعتقادی حالت میں بھی بہت اختلاف آگئے تھے اور اخلاقی حالتوں میں بھی فتور آگیاتھا۔ تیسرے اِس کی حقّانیت کی دلیل اِس کی تعلیم کامل ہے کہ اس نے آکر ثابت کر دکھلایاکہ موسیٰ کی تعلیم بھی ناقص تھی جوایک شق سزا دہی پر زور ڈال رہی تھی اور مسیح ؑ کی تعلیم بھی ناقص تھی جو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 289
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 289
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/289/mode/1up
ایک شق عفو اوردرگذرپر زور ڈال رہی تھی اور گویا ان کتابوں نے انسانی درخت کی تمام شاخوں کی تربیت کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا صرف ایک ایک شاخ پر کفایت کی گئی تھی لیکن قرآن کریم انسانی درخت کی تمام شاخوں یعنی تمام قویٰ کو زیر بحث لایا اورتمام کی تربیت کے لئے اپنے اپنے محل و موقع پر حکم دیا۔ جِسکی تفصیل ہم اس تھوڑے سے وقت میں کر نہیں سکتے۔
انجیل کی کیا تعلیم تھی جس پر مدار رکھنے سے سلسلہ دُنیا کا ہی بگڑتا ہے اور پھر اگر یہی عفو اور درگذر عمدہ تعلیم کہلاتی ہے تو جین مت والے کئی نمبر اس سے بڑھے ہوئے ہیں جو کیڑے مکوڑوں اورجوؤں اور سانپوں تک آزار دینانہیں چاہتے۔ قرآنی تعلیم کا دوسرا کمال کمال تفہیم ہے ۔یعنی اس نے ان تمام راہوں کو سمجھانے کیلئے اختیار کیا ہے جو تصور میں آسکتے ہیں اگر ایک عامی ہے تو اپنی موٹی سمجھ کے موافق اس سے فائدہ اٹھا تا۔ اور اگر ایک فلسفی ہے تو اپنے دقیق خیال کے مطابق اس سے صداقتیں حاصل کرتا ہے اور اس نے تمام اصول ایمانیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے دکھلادیا ہے اور آیت ۱ ۳۱۵میں اہل کتاب پریہ حجت پوری کرتا ہے کہ اسلام وہ کامل مذہب ہے کہ زوائد اختلافی جو تمہارے ہاتھ ؔ میں ہیں یا تمام دنیا کے ہاتھ میں ہیں۔ ان زوائد کو نکال کر باقی اسلام ہی رہ جاتا ہے اور پھر قرآن کریم کے کمالات میں تیسرا حصّہ اس کی تاثیرات ہیں اگر حضرت مسیح کے حواریوں اورہمارے نبی صلعم کے صحابہ کا ایک نظر صاف سے مقابلہ کیا جائے تو ہمیں کچھ بتلانے کی حاجت نہیں اس مقابلہ سے صاف معلوم ہوجائے گا کہ کس تعلیم نے قُوّت ایمانی کو انتہا تک پہنچا دیاہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے اس تعلیم کی محبت سے اور رسول کے عشق سے اپنے وطنوں کو بڑی خوشی سے چھوڑ دیا اپنے آراموں کو بڑی راحت کے ساتھ ترک کر دیا۔ اپنی جانوں کو فدا کر دیا۔ اپنے خونوں کو اس راہ میں بہا دیا اورکس تعلیم کا یہ حال ہے۔ اس رسول کو یعنی حضرت مسیح کو جب یہودیوں نے پکڑا تو حواری ایک منٹ کے لئے بھی نہ ٹھہرسکے۔ اپنی اپنی راہ لی اور بعض نے تیس روپیہ کے کر اپنے نبی مقبول کو بیچ دیا۔ اور بعض نے تین دفعہ انکار کیااورانجیل کھول کر دیکھ لو کہ اس نے *** بھیج کر اور قسم کھا کر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 290
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 290
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/290/mode/1up
کہا کہ اِس شخص کو نہیں جانتا۔ پھر جبکہ ابتداسے زمانہ کا یہ حال تھا۔یہاں تک کہ تجہیز و تکفین تک میں بھی شریک نہ ہوئے تو پھر اس زمانہ کا کیا حال ہوگا جبکہ حضرت مسیح ان میں موجود نہ رہے۔ مجھے زیادہ لکھانے کی ضرورت نہیں۔ اِ س بارہ میں بڑے بڑے علماء عیسائیوں نے اِسی زمانہ میں گواہی دی ہے کہ حواریوں کی حالت صحابہ کی حالت سے جس وقت ہم مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں شرمندگی کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حواریوں کی حالت اُن کے مقابل پر ایک قابل شرم عمل تھا۔ پھر آپ قرآنی معجزات کا انکار کرتے ہیں آپ کو معلوم نہیں کہ وہ معجزات جس تواتر اور قطعیت سے ثابت ہو گئے اُن کے مقابل پر کسی دوسرے کے معجزات کا ذکر کرنا صر ف قصّہ ہے اِ س سے زیادہ نہیں۔ مثلًا ہمارے نبی صلعم کا اس زمانہ میں اپنی کامل کامیابیوں کی نسبت پیشگوئی کرنا جو قرآن شریف میں مندرج ہے یعنی ایسے زمانہ میں کہ جب کامیابی کے کچھ بھی آثار نظرنہیں آتے تھے۔ بلکہ کفار کی شہادتیں قرآن شریف میں موجود ہیں کہ وہ بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ اب یہ دین جلد تباہ ہو جائے گا اورناپدید ہوجائے گا ایسے وقتوں میں انکوسنایاگیاکہ ۱ ۱۰ یعنی یہ لوگ اپنے منہ کی لاف و گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو کبھی کامیابی نہ ہوگی یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہو جاویگا۔ لیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا اورنہیں چھوڑے گا جب تک اس کو پورا نہ کرے۔ پھر ایک اور آیت میں فرمایا ہے۔۔۔۲ الخ ۱۸ یعنی خدا ؔ وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلعم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا۔ یعنی جس طرح موسٰیؑ کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایساہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا۔اَب قرآن شریف موجود ہے حافظ بھی بیٹھے ہیں دیکھ لیجئے کہ کفار نے کس دعوے کے ساتھ اپنی رائیں ظاہر کیں کہ یہ دین ضرور معدوم ہو جائے گا اور ہم اس کو کالعدم کر دیں گے اور ان کے مقابل پر یہ پیشینگوئی کی گئی جو قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہرگز
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 291
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 291
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/291/mode/1up
تباہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک بڑے درخت کی طرح ہو جائے گا اور پھیل جائے گا اور اس میں بادشاہ ہونگے اور جیساکہ ۱ ۲۶ میں اشارہ ہے اور پھر فصاحت بلاغت کے بارہ میں فرمایا ۲ ۱۹اورپھر اس کی نظیر مانگی اور کہا کہ اگر تم کچھ کر سکتے ہو اس کی نظیر دو ۔ پس عربی مبین کے لفظ سے فصاحت بلاغت کے سوا اورکیامعنی ہو سکتے ہیں؟ خاص کر جب ایک شخص کہے کہ میں یہ تقریر ایسی زبان میں کرتا ہوں کہ تم اس کی نظیرپیش کرو۔ تو بجز اس کے کیا سمجھا جائے گا کہ وہ کمال بلاغت کا مدعی ہے اور مبین کا لفظ بھی اسی کو چاہتاہے۔ بالآخر چونکہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب قرآن شریف کے معجزات سے عمدًا منکر ہیں اور اس کی پیشیگوئی سے بھی انکاری ہیں اورمجھ سے بھی اسی مجلس میں تین بیمار پیش کر کے ٹھٹھا کیا گیا کہ اگر دینِ اسلام سچا ہے اورتم فی الحقیقت ملہم ہو تو ان تینوں کو اچھے کر کے دکھلاؤ حالانکہ میرا یہ دعویٰ نہ تھا کہ میں قادر مطلق ہوں نہ قرآن شریف کے مطابق مواخذہ تھا۔ بلکہ یہ تو عیسائی صاحبوں کے ایمان کی نشانی انجیل میں ٹھہرائی گئی تھی کہ اگر وہ سچے ایماندار ہوں تووہ ضرور لنگڑوں اور اندھوں اوربہروں کو اچھاکریں گے ۔ مگر تاہم مَیں اِس کے لئے دعا کرتا رہا۔ اور
آج رات جو مجھ پر کُھلاوہ یہ ہے کہ جب کہ مَیں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دُعا کی کہ تُو اِس امر میں فیصلہ کر اورہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اُس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طورپر دیاہے کہ اِس بحث میں دونوں فریقوں میں سے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 292
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 292
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/292/mode/1up
جو فریق عمدًا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اورسچے خدا ؔ کوچھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دِنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دِن ایک مہینہ لیکر یعنی ۱۵۔ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذِلّت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طر ف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اورسچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہو گی اور اس وقت جب یہ پیشیگوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سُوجاکھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اوربعض بہر ے سُننے لگیں گے۔
اِسی طرح پر جس طرح اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے سو الحمد للّٰہ والمنّۃ کہ اگر یہ پیشینگوئی اللہ تعالےٰ کی طرف سے ظہورنہ فرماتی تو ہمارے یہ پندرہ دن ضائع گئے تھے اِنسان ظالم کی عادت ہوتی ہے کہ باوجود دیکھنے کے نہیں دیکھتا اور باوجود سننے کے نہیں سنتا اور باوجود سمجھنے کے نہیں سمجھتا اور جُرأت کرتا ہے اور شوخی کرتا ہے اورنہیں جانتا کہ خدا ہے لیکن اَب مَیں جانتا ہوں کہ فیصلہ کا وقت آگیا۔ مَیں حیران تھا کہ اس بحث میں کیوں مجھے آنے کا اتفاق پڑا۔ معمولی بحثیں تو اَور لوگ بھی کرتے ہیں۔ اب یہ حقیقت کُھلی کہ اس نشان کیلئے تھا۔ مَیں اِسوقت اقرارکرتاہوں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 293
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 293
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/293/mode/1up
کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نِکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو مَیں ہر ایک سزا کے اُٹھانے کے لئے تیار ہوں مجھ کو ذلیل کیاجاوے۔ رُوسیاہ کیاجاوے۔ میرے گلے میں رسّہ ڈالدیاجاوے مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کیلئے تیار ہوں اور مَیں اللہ جلّ شانہ‘ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کریگا۔ ضرور کریگا۔ ضرورکریگا۔ زمین آسمان ٹل جائیں پر اسکی باتیں نہ ٹلیں گی۔
اَب ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشاؔ ن پورا ہوگیا تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق کامل پیشین گوئی اور خدا کی پیشین گوئی ٹھہرے گی یا نہیں ٹھہرے گی اور رسول اللہ صلعم کے سچے نبی ہونے کے بارہ میں جن کو اندرونہ بائبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں محکم دلیل ہوجائے گی یا نہیں ہو جائے گی۔ اب اس سے زیادہ میں کیا لکھ سکتا ہوں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ہی فیصلہ کر دیا ہے۔ اب ناحق ہنسنے کی جگہ نہیں اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو ۔ اور تمام شیطانوں اور بد کاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے *** قرار دو۔ لیکن اگر میں سچا ہوں ۔ تو انسان کو خدا مت بناؤ۔ توریت کو پڑھو کہ اس کی اوّل اورکھلی کھلی تعلیم کیا ہے اور تمام نبی کیا تعلیم دیتے آئے اور تمام دُنیا کِس طرف جُھک گئی۔ اَب میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں اِس سے زیادہ نہ کہوں گا۔ والسّلام علٰی من ا تبع الھدٰی ۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ از جانب ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام از جانب عیسا ئی صاحبان
تمام شد
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 294
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 294
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/294/mode/1up
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 83
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 83
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 84
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 84
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
روؔ ئیداد
جلسہ ۲۲ مئی ۱۸۹۳ ء
۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ء کو سوموار کے روز ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کی کوٹھی میں جلسہ مباحثہ منعقد ہوا۔ سوا چھ بجے کاروائی شروع ہوئی۔ مسلمانوں کی طرف سے منشی غلام قادر صاحب فصیح وائس پریزیڈنٹ میونسپل کمیٹی سیالکوٹ میر مجلس قرار پائے اور عیسائیوں کی طرف سے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب میر مجلس قرار پائے۔
مرزا صاحب کے معاون مولوی نور الدین صاحب حکیم۔ سید محمد احسن صاحب اور شیخ الہ دیا صاحب قرار پائے اور ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کے معاون پادری جے ایل ٹھاکر داس صاحب اور پادری عبداللہ صاحب اور پادری ٹامس ہاول صاحب قرار پائے۔ چونکہ پادری جے ایل ٹھاکر داس صاحب آج تشریف نہیں لائے تھے۔ اس لئے آج کے دن ان کی بجائے پادری احسان اللہ صاحب معاون مقرر کئے گئے۔ سوا چھ بجے مرزاصاحب نے سوال لکھانا شروع کیا اور سوا سات بجے ختم کیا۔ اور بلند آواز سے جلسہ کو سنایا گیا۔ پھر ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے اپنا اعتراض پیش کرنے میں صرف پانچ منٹ خرچ کئے پھر مرزا صاحب نے جواب الجواب لکھایا۔ مگر اس پر یہ اعتراض پیش ہوا کہ مرزا صاحب نے جو سوال لکھایا ہے وہ شرائط کی ترتیب کے موافق نہیں یعنی پہلا سوال الوہیت مسیح کے متعلق ہونا چاہئے اس پر شرائط کی طرف توجہ کی گئی انگریزی اصلی شرائط اور ترجمہ کا مقابلہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کے پاس جو ترجمہ ہے اس میں غلطی ہے بنا براں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ الوہیت مسیح پر سوال شروع کیا جائے اور جو کچھ اس سے پہلے لکھایا گیا ہے اپنے موقع پر پیش ہو۔
۸ بجے ۲۶ منٹ پر مرزا صاحب نے الوہیت مسیح پر سوال لکھانا شروع کیا۔ ۹ بجے ۱۵ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے نو بجے ۳۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ان کا جواب ختم نہ ہوا تھا کہ ان کا وقت گزر گیا۔ اس پر مرزا صاحب اور میر مجلس اہل اسلام کی طرف سے اجازت دی گئی کہ مسٹر موصوف اپنا جواب ختم کر لیں اور پانچ منٹ کے زائد عرصہ میں جواب ختم کیا۔ بعدازاں فریقین کی تحریروں پر پریزیڈنٹوں کے دستخط ہوئے اور مصدقہ تحریریں ایک دوسرے فریق کو دی گئیں اور جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان۔
دستخط بحروف انگریزی غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 85
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 85
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
تقریرؔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحَمْدُ للّٰہِ رَبِّ العٰلمِیْن والصلوۃ والسّلام علٰی رسُولہ مُحمّدٍ وَّآلہ واَصْحابہٖ اجمعین
امّا بَعْد واضح ہو کہ آج کا روز جو ۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ ء ہے اس مباحثہ اور مناظرہ کا دن ہے جو مجھ میں اور ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب میں قرار پایاہے۔ اور اس مباحثہ سے مدعا اور غرض یہ ہے کہ حق کے طالبوں پر یہ ظاہر ہو جائے کہ اسلام اور عیسائی مذہب میں سے کونسا مذہب سچا اور زندہ اور کامل اور منجانب اللہ ہے اور نیز حقیقی نجات کس مذہب کے ذریعہ سے مل سکتی ہے۔ اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے بطور کلام کلّی کے اسی امر میں جو مناظرہ کی علت غائی ہے انجیل شریف اور قرآن کریم کا مقابلہ اور موازنہ کیا جاوے لیکن یہ بات یاد رہے کہ اس مقابلہ اور موازنہ میں کسی فریق کا ہرگز یہ اختیار نہیں ہوگا کہ اپنی کتاب سے باہر جاوے یا اپنی طرف سے کوئی بات منہ پر لاوے بلکہ لازم اور ضروری ہوگا کہ جو دعویٰ کریں وہ دعویٰ اس الہامی کتاب کے حوالہ سے کیا جاوے جو الہامی قرار دی گئی ہے اور جو دلیل پیش کریں وہ دلیل بھی اسی کتاب کے حوالہ سے ہو کیونکہ یہ بات بالکل سچی اور کامل کتاب کی شان سے بعید ہے کہ اس کی وکالت اپنے تمام ساختہ پرداختہ سے کوئی دوسرا شخص کرے اور وہ کتاب بکلی خاموش اور ساکت ہو۔
اب واضح ہو کہ قرآن کریم نے اسلام کی نسبت جس کو وہ پیش کرتا ہے یہ فرمایا ہے ۱ (س۳ر۱۰) ۲(سیپارہ۳رکوع ۱۷) ترجمہ یعنی دین سچا اور کامل اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسلام ہے اور جو کوئی بجز اسلام کے کسی اور دین کو چاہے گا تو ہرگز قبول نہیں کیا جاوے گا اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں سے ہوگا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 86
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 86
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
پھرؔ فرماتا ہے۔ ۱ (سیپارہ۶رکوع۵)یعنی آج میں نے تمہارے لئے دین تمہارا کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور میں نے تمہاریلئے اسلام کو پسندیدہ کرلیا۔ ۲ (سیپارہ۲۶رکوع۱۲)وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت کے ساتھ اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا وہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے۔
پھر اللہ جلّ شانہٗ چند آیتیں قرآن کریم کی تعریف میں جو دین اسلام کو پیش کرتا ہے فرماتا ہے چونکہ قرآن کریم کی تعریف درحقیقت دین اسلام کی تعریف ہے اس لئے وہ آیتیں بھی ذیل میں لکھی جاتی ہیں۔
۳ (سیپارہ ۱۵ رکوع ۱۰) اور البتہ طرح طرح بیان کیا ہم نے واسطے لوگوں کے قرآن میں ہر ایک مثال سے پس انکار کیا اکثر لوگوں نے مگر کفر کرنا۔ یعنی ہم نے ہر ایک طور سے دلیل اور حجت کے ساتھ قرآن کو پورا کیا۔ مگر پھر بھی لوگ انکار سے باز نہ آئے۔ (س۲۵؍۳)
۴ (سیپارہ ۱۱ رکوع ۹) ۵ یعنی خدا وہ ہے جس نے کتاب یعنی قرآن شریف کو حق اور میزان کے ساتھ اتارا یعنی وہ ایسی کتاب ہے جو حق اور باطل کے پرکھنے کے لئے بطور میزان کے ہے۔
۶ (سیپارہ ۱۳ رکوع ۸) ترجمہ آسمان سے پانی اتارا پس ہر ایک وادی اپنے اپنے قدر میں بہ نکلا۔ ۷ (سیپارہ ۱۵ رکوع ۱)یہ قرآن اس تعلیم کی ہدایت کرتا ہے جو بہت سیدھی اور بہت کامل ہے۔
۸کہ اگرجن اورانس سب اس بات پر اتفاق کریں کہ اگر اور کتاب جو کمالات قرآنی کا مقابلہ کرسکے پیش کرسکیں تو نہیں پیش کر سکیں گے اگرچہ وہ ایک دوسرے کی مدد بھی کریں۔
پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے۔ ۹ (سیپارہ۷۔رکوع۱۰) یعنی تعلیمات ضروریہ میں سے کوئی چیز قرآن سے باہر نہیں رہی اور قرآن ایک مکمل کتاب ہے جو کسی دوسری مکمل کا منتظر نہیں بناتا۔ ۱۰ (سیپارہ ۳۰ رکوع ۱۱) ۱۱ (س ۲۷ر۸)قرآن قول فصل
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 87
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 87
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
جوہرؔ ایک امر میں سچا فیصلہ دیتا ہے۔ اور انتہائی درجہ کی حکمت ہے ۱(سیپارہ ۲۷ رکوع ۱۶) ۲ یعنی میں قسم کھاتا ہوں مطالع اورمناظر نجوم کی اور یہ قسم ایک بڑی قسم ہے۔ اگرتمہیں حقیقت پر اطلاع ہوکہ یہ قرآن ایک بزرگ اورعظیم الشان کتاب ہے اور اس کو وہی لوگ چھوتے ہیں جو پاک باطن ہیں۔ اور اس قسم کی مناسبت اس مقام میں یہ ہے کہ قرآن کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ کریم ہے یعنے روحانی بزرگیوں پر مشتمل ہے اور بباعث نہایت بلند اور رفیع دقائق حقائق کے بعض کوتاہ بینوں کی نظروں میں اسی وجہ سے چھوٹامعلوم ہوتا ہے جس وجہ سے ستارے چھوٹے اور نقطوں سے معلوم ہوتے ہیں اور یہ بات نہیں کہ درحقیقت وہ نقطوں کی مانند ہیں بلکہ چونکہ مقام ان کانہایت اعلیٰ وارفع ہے اس لئے جونظریں قاصر ہیں ان کی اصل ضخامت کو معلوم نہیں کرسکتیں۔3 3۳(سیپارہ ۲۵۔ر ۱۴) ہم نے قرآن کو ایک ایسی بابرکت رات میں اتارا ہے جس میں ہر ایک امر ُ پرحکمت تفصیل کے ساتھ بیان کیاگیا ہے اس سے مطلب یہ ہے کہ جیسے ایک رات بڑی ظلمت کے ساتھ نمودار ہوئی تھی۔ اسی کے مقابل پر اس کتاب میں انوارعظیمہ رکھے گئے ہیں جو ہر ایک قسم کے شک اور شبہ کی ظلمت کو ہٹاتے ہیں اور ہر ایک بات کا فیصلہ کرتے ہیں اور ہرایک قسم کی حکمت کی تعلیم کرتے ہیں ۴(سیپارہ ۳ رکوع ۲)اللہ دوستدار ہے ان لوگوں کا جو ایمان لائے اور ان کو اندھیرے سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ ۵ (س۲۹ر۵)۶(سیپارہ۲۷رکوع۱۶)۷ (س۳۰ر۶) یعنی قرآن متقیوں کو وہ سارے امور یاد دلاتا ہے جو ان کی فطرت میں مخفی اور مستور تھے اور یہ حق محض ہے جو انسان کو یقین تک پہنچاتا ہے اور یہ غیب کے عطا کرنے میں بخیل نہیں ہے یعنی بخیلوں کی طرح اس کایہ کام نہیں کہ صرف آپ ہی غیب بیان کرے اور دوسرے کو غیبی قوت نہ دے سکے بلکہ آپ بھی غیب پرمشتمل ہے۔ اور پیروی کرنے والے پر بھی فیضان غیب کرتا ہے۔ یہ قرآن کا دعویٰ ہے جس کو وہ اپنی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 88
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 88
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
تعلیم کی نسبت آپ بیان فرماتا ہے اور پھر آگے چل کر اس کا ثبوت بھی آپ ہی دے گا۔ لیکن چونکہ اب وقتؔ تھوڑا ہے اس لئے وہ ثبوت جواب الجواب میں لکھایا جاوے گا۔ بالفعل ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کی خدمت میں یہ التماس ہے کہ بپابندی ان امور کے جو ہم پہلے لکھ چکے ہیں۔ انجیل شریف کا دعویٰ بھی اسی طرز اور اسی شان کا پیش کریں کیونکہ ہر ایک منصف جانتا ہے کہ ایسا تو ہرگز ہو نہیں سکتا کہ مدعی سست اور گواہ چست۔ خاص کر اللہ جلّ شانہٗ جو قوی اور قادر اور نہایت درجہ کے علوم وسیع رکھتا ہے جس کتاب کو ہم اس کی طرف منسوب کریں وہ کتاب اپنی ذات کی آپ قیّوم چاہئے۔ انسانی کمزوریوں سے بالکل مبرّا اور منزّہ چاہئے۔ کیونکہ اگر وہ کسی دوسرے کے سہارا کی اپنے دعویٰ میں اور اثبات دعویٰ میں محتاج ہے تو وہ خدا کا کلام ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اور یہ مکرر یاد رہے کہ اس وقت صرف مدعا یہ ہے کہ جب قرآن کریم نے اپنی تعلیم کی جامعیت اور کاملیت کا دعویٰ کیا ہے۔ یہی دعویٰ انجیل کا وہ حصہ بھی کرتا ہو۔ جو حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اور کم سے کم اس قدر تو ہو کہ حضرت مسیحؑ اپنی تعلیم کو مختتم قرار دیتے ہوں اور کسی آئندہ وقت پر انتظار میں نہ چھوڑتے ہوں۔
نوٹ
یہ سوال اس قدر لکھا گیا تھا تو اس کے بعد فریق ثانی نے اس بات پر اصرار کیا کہ سوال نمبر ۲ بحث کے کسی دوسرے موقعہ میں پیش ہو۔ بالفعل الوہیت مسیح کے بارے میں سوال ہونا چاہئے چنانچہ ان کے اصرار کی وجہ سے یہ سوال جو ابھی غیر مختتم ہے اسی جگہ چھوڑا گیا بعد میں بقیہ اس کا شائع کیا جائے گا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 89
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 89
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
سوالؔ الوہیت مسیحؑ پر
۲۲؍ مئی ۱۸۹۳ ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط
اَلحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ والسَّلامُ عَلٰی رسُولِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ
امّا بعد واضح ہو کہ بموجب شرائط قرار دادہ پرچہ علیحدہ مورخہ ۲۴؍ اپریل ۱۸۹۳ ء پہلا سوال ہماری طرف سے یہ تجویز ہوا تھا کہ ہم الوہیت حضرت مسیح علیہ السلام کے بارہ میں مسٹر عبداللہ آتھم صاحب سے سوال کریں گے۔ چنانچہ مطابق اسی شرط کے ذیل میں لکھا جاتا ہے۔
واضح ہو کہ اس بحث میں یہ نہایت ضروری ہوگا کہ جو ہماری طرف سے کوئی سوال ہو۔ یا ڈپٹی عبداللہ آتھم کی طرف سے کوئی جواب ہو وہ اپنی طرف سے نہ ہو بلکہ اپنی اپنی الہا۱می کتاب کے حوالہ سے ہو جس کو فریق ثانی حجت سمجھتا ہو۔ اور ایسا ہی ہر ایک دلیل۲ اور ہر ایک دعو۳یٰ جو پیش کیا جاوے وہ بھی اسی التزام سے ہو غرض کوئی فریق اپنی اس کتاب کے بیان سے باہر نہ جائے جس کا بیان بطور حجت ہوسکتا ہے۔
بعد اس کے واضح ہو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے بارہ میں قرآن کریم میں بغرض رد کرنے خیالات ان صاحبوں کے جو حضرت موصوف کی نسبت خدا یا ابن اللہ کا اعتقاد رکھتے ہیں یہ آیات موجود ہیں۔
۱۔ سیپارہ۶ر ۱۴ ۔یعنی حضرت مسیح ابن مریم میں اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کہ وہ صرف ایک رسول ہے اور اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں اور یہ کلمہ کہ اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے ہیں۔ یہ قیا۴س استقرائی کے طور پر ایک استدلال لطیف ہے کیونکہ قیاسات کے جمیع اقسام میں سے استقراء کا مرتبہ وہ اعلیٰ شان کا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 90
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 90
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
مرتبہ ہے کہ اگر یقینی اور قطعی مرتبہ سے اس کو نظر اندار کر دیا جائے تو دین و دنیا کا تمام سلسلہ بگڑ جاتا ہے۔ اگر ہم غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ حصہ کثیرہ دنیا کا اور ازمنہ گذشتہ کے واقعات کا ثبوت اسی استقراء کے ذریعہؔ سے ہوا ہے۔ مثلاً ہم جو اس وقت کہتے ہیں کہ انسان منہ سے کھاتا اور آنکھوں سے دیکھتا اور کانوں سے سنتا اور ناک سے سونگھتا اور زبان سے بولتا ہے اگر کوئی شخص کوئی مقدس کتاب پیش کرے اور اس میں یہ لکھا ہوا ہو کہ یہ واقعات زمانہ گذشتہ کے متعلق نہیں ہیں۔
بلکہ پہلے زمانہ میں انسان آنکھوں کے ساتھ کھایا کرتا تھا اور کانوں کے ذریعہ سے بولتا تھا۔ اور ناک کے ذریعہ سے دیکھتا تھا ایسا ہی اور باتوں کو بھی بدل دے۔ یا مثلاً یہ کہے کہ کسی زمانہ میں انسان کی آنکھیں دو نہیں ہوتی تھیں بلکہ بیس ہوتی تھیں۔ دس تو سامنے چہرہ میں اور دس پشت پر لگی ہوئی تھیں تو اب ناظرین سوچ سکتے ہیں کہ گو فرض کے طورپر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ ان عجیب تحریروں کا لکھنے والا کوئی مقدس اور راستباز آدمی تھا۔ مگر ہم اس یقینی نتیجہ سے کہاں اور کدھر گریز کرسکتے ہیں جو قیاس استقرائی سے پیدا ہوا ہے۔ میری رائے میں ایسا بزرگ اگر نہ صرف ایک بلکہ کروڑ سے بھی زیادہ اور قیاس استقرائی سے نتائج قطعیہ یقینیہکو توڑنا چاہیں تو ہرگز ٹوٹ نہیں سکیں گے بلکہ اگر ہم منصف ہوں اور حق پسندی ہمارا شیوہ ہوتو اس حالت میں کہ اس بزرگ کو ہم درحقیقت ایک بزرگ سمجھتے ہیں اور اس کے الفاظ میں ایسے ایسے کلمات خلاف حقائق مشہودہ محسوسہ کے پاتے ہیں تو ہم اُس کی بزرگی کی خاطر سے صَرف عَنِ الظاھرکریں گے اور ایسی تاویل کریں گے جس سے اس بزرگ کی عزت قائم رہ جاوے۔ ورنہ یہ تو ہرگز نہ ہوگا کہ جو حقائق استقراء کے یقینی اور قطعی ذریعہ سے ثابت ہوچکے ہیں وہ ایک روایت دیکھ کر ٹال دیئے جاویں۔ اگر ایسا کسی کا خیال ہوتو یہ بار ثبوت اس کی گردن پر ہے کہ وہ استقراء مثبتہ موجودہ قطعیہ یقینیہ کے برخلاف اس روایت کی تائید اور تصدیق میں کوئی امر پیش کردیوے۔ مثلاً جو شخص اس بات پر بحث کرتا اور لڑتا جھگڑتا ہے کہ صاحب ضرور پہلے زمانہ میں لوگ زبان کے ساتھ دیکھتے اور ناک کے ساتھ باتیں کیا کرتے تھے تو اس کا ثبوت پیش کرے۔ اور جب تک ایسا ثبوت پیش نہ کرے تب تک ایک مہذّب عقلمند کی شان سے بہت بعید ہے کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 91
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 91
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ان تحریرات پر بھروسہ کرکے کہ جن کے بصورت صحت بھی بیس بیس معنے ہوسکتے ہیں وہ معنی اختیار کرے جو حقائق ثابت شدہ سے بالکل مغائر اور منافی پڑے ہوئے ہیں مثلاً اگر ایک ڈاکٹر ہی سے اس بات کا تذکرہ ہو کہ سم الفار اور وہ زہر جو تلخ بادام سے تیار کیا جاتا ہے اور بیش یہ تمام زہریں نہیں ہیں۔ اور اگر ان کو دو دو سیر کے قدر بھی انسان کے بچوں کو کھلایا جاوے تو کچھ ہرج نہیں۔ اورؔ اس کا ثبوت یہ دیوے کہ فلاں مقدس کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے اورراوی معتبر ہے تو کیا وہ ڈاکٹر صاحب اس مقد س کتاب کا لحاظ کرکے ایک ایسے امر کو چھوڑ دیں گے جو قیاس استقرائی سے ثابت ہوچکا ہے۔ غرض جب کہ قیاس استقرائی دنیا کے حقائق ثابت کرنے کے لئے اول درجہ کا مرتبہ رکھتا ہے تو اسی جہت سے اللہ جلّ شانہٗ نے سب سے پہلے قیاس استقرائی کو ہی پیش کیا۔ اور فرمایا ۱ یعنی حضرت مسیح علیہ السلام بیشک نبی تھے اور اللہ جلّ شانہٗ کے پیارے رسول تھے مگر وہ انسان تھے۔ تم نظر اٹھا کر دیکھو کہ جب سے یہ سلسلہ تبلیغ اور کلام الٰہی کے نازل کرنے کا شروع ہوا ہے ہمیشہ اور قدیم سے انسان ہی رسالت کا مرتبہ پاکر دنیا میں آتے رہے ہیں یا کبھی اللہ تعالیٰ کا بیٹا بھی آیا ہے اور خَلَتْکا لفظ اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جہاں تک تمہاری نظر تاریخی سلسلہ کو دیکھنے کے لئے وفا کرسکتی ہے اور گذشتہ لوگوں کا حال معلوم کرسکتے ہو خوب سوچو اور سمجھو کہ کبھی یہ سلسلہ ٹوٹا بھی ہے۔ کیا تم کوئی ایسی نظیر پیش کرسکتے ہو جس سے ثابت ہوسکے کہ یہ امر ممکنات میں سے ہے۔ پہلے بھی کبھی کبھی ہوتا ہی آیا ہے۔ سو عقلمند آدمی اس جگہ ذرہ ٹھہر کر اور اللہ جلّ شانہٗ کا خوف کرکے دل میں سوچے کہ حادثات کا سلسلہ اس بات کو چاہتا ہے کہ اس کی نظیر بھی کبھی کسی زمانہ میں پائی جاوے۔
ہاں اگر بائبل کے وہ تمام انبیاء اور صلحاء جن کی نسبت بائبل میں بھی الفاظ موجود ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے یا خدا تھے حقیقی معنوں پر حمل کر لئے جاویں تو بیشک اس صورت میں ہمیں اقرار کرنا پڑے گا کہ خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ وہ بیٹے بھی بھیجا کرتا ہے بلکہ بیٹے کیا کبھی کبھی بیٹیاں بھی۔ اور بظاہر یہ دلیل تو عمدہ معلوم ہوتی ہے اگر حضرات عیسائی صاحبان اس کو پسند فرماویں اور کوئی اس کو توڑ بھی نہیں سکتا کیونکہ حقیقی غیر حقیقی کا تو وہاں کوئی ذکر ہی نہیں بلکہ بعض کو تو پہلوٹا ہی لکھ دیا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 92
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 92
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہاں اس صورت میں بیٹوں کی میزان بہت بڑھ جائے گی۔ غرض کہ اللہجلّ شانہٗ نے سب سے پہلے ابطال الوہیت کے لئے بھی دلیل استقرائی پیش کی ہے۔ پھر بعد اس کے ایک اور دلیل پیش کرتا ہے ۱ یعنی والدہ حضرت مسیحؑ کی راستبازتھی۔ یہ تو ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیحؑ کو اللہجلّ شانہٗ کاحقیقی بیٹافرض کرلیاجاوے توپھریہ ضروری امر ہے کہ وہ دوسروں کی طرح ایسی والد۵ہ کے اپنے تولد میں محتاج نہ ہوں جو باتفاق فریقین انسان تھی کیونکہ یہ بات نہایتؔ ظاہراور کھلی کھلی ہے کہ قانون قدرت اللہ جلّ شانہٗ کا اسی طرح پر واقع ہے کہ ہر ایک جاندار کی اولاد اس کی نو۶ع کے موافق ہوا کرتی ہے مثلاً دیکھو کہ جس قدر جانور ہیں مثلاً انسان اور گھوڑا اور گدھا اور ہر ایک پرندہ وہ اپنی اپنی نوع کے لحاظ سے وجود پذیر ہوتے ہیں یہ تو نہیں ہوتا کہ انسان کسی پرندہ سے پیدا ہو جاوے یا پرند کسی انسان کے پیٹ سے نکلے۔ پھر ایک تیسری دلیل یہ پیش کی ہے۔ ۲ یعنی وہ دونوں حضرت مسیحؑ اور آپ کی والدہ صدیقہ کھانا کھایا کرتے تھے۔ اب آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کیوں کھانا کھاتا ہے اور کیوں کھانا کھانے کا محتاج ہے۔ اس میں اصل بھید یہ ہے کہ ہمیشہ انسان کے بدن میں سلسلہ تحلیل۷ کا جاری ہے یہاں تک کہ تحقیقا ت قدیمہ اور جدیدہ سے ثابت ہے کہ چند سال میں پہلا جسم تحلیل پاکر معدوم ہوجاتا ہے اور دوسرا بدن بدل ما یتحلل ہوجاتا ہے اور ہر ایک قسم کی جو غذا کھائی جاتی ہے اس کا بھی روح پر اثر ہوتا ہے کیونکہ یہ امر بھی ثابت شدہ ہے کہ کبھی روح جسم پراپنا اثر ڈالتی ہے اورکبھی جسم روح پر اپنا اثر ڈالتا ہے جیسے اگر روح کو یکدفعہ کوئی خوشی پہنچتی ہے تو اس خوشی کے آثار یعنی بشاشت اور چمک چہرہ پر بھی نمودار ہوتی ہے اور کبھی جسم کے آثار ہنسنے رونے کے روح پر پڑتے ہیں اب جب کہ یہ حال ہے تو کس قدر مرتبہ خدائی سے یہ بعید ہوگا کہ اپنے اللہ کا جسم بھی ہمیشہ اُڑتار ہے اور تین چار برس کے بعد اور جسم آوے ماسوا اس کے کھانے کا محتاج ہونا بالکل اس مفہوم کے مخالف ہے۔ جو خدا تعالیٰ کی ذات میں مسلّم ہے۔ اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیحؑ ان حاجتمندیوں سے بری نہیں تھے جو تمام انسان کو لگی ہوئی ہیں۔ پھر یہ ایک عمدہ دلیل اس بات کی ہے کہ وہ باوجود ان دردوں اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 93
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 93
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دکھوں کے خدا ہی تھے یا ابن اللہ تھے اور درد ہم نے اس لئے کہا کہ بھوک بھی ایک قسم درد کی ہے اور اگر زیادہ ہوجائے تو موت تک نوبت پہنچاتی ہے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
جواب از طرف مسٹر عبداللہ آتھم صاحب مسیحی
اگر یہ جناب کا قول صحیح ہے کہ ہر امر کی حقیقت تجربہ ہی پر مدار رکھتی ہے یعنی جو تجربہ کے برخلاف ہےؔ وہ باطل ہے۔ تب تو ہم کو صفت خالقہ کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ ہمارے تجربہ میں کوئی چیز خلق نہیں ہوتی اور آدم کا بغیر والدین پیدا ہونے کا بھی انکار کرنا پڑے گا اور ہم یہ نہیں جانتے کہ ایسا ہم کیوں کریں کیونکہ ناممکن مطلق ہم اس کو کہتے ہیں جو کوئی امر کسی صفت ربّانی کے مخالف ہو اور یہ چیزیں جو ہمارے تجربہ کے باہر ہیں مثلاً خلقت کا ہونا یعنی بلا سامان کے عدم سے وجود میں آنا اور آدم کا بخلاف سلسلہ موجودہ کے پیدا ہونا ہم کسی صفت مقدسہ خدائے تعالیٰ کے مخالف نہیں دیکھتے۔
دوم۔ بجواب آپ کے دوسرے مقدمہ کے آپ کو یقین ہونا چاہئے کہ ہم اس شے مرئی کو جو کھانے پینے وغیرہ حاجتوں کے ساتھ ہے اللہ نہیں مانتے بلکہ مظہر اللہ کہتے ہیں اور یہ ایک ایسا مقدمہ ہے جیسا قرآن میں بابت اس آگ کے جو جھاڑی میں نظر آتی تھی لکھا ہے کہ اے موسیٰ اپنے نعلین دور کر کیونکہ یہ وادی طویٰ ہے اور کہ میں تیرے باپ ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کا خدا ہوں موسیٰ نے اس کو تسلیم کیا ۔اب فرمائیے شے مرئی تو خدا نہیں ہوسکتی اور رویت مرئی تھی پس ہم اس کو مظہر اللہ کہتے ہیں۔ اللہ نہیں کہتے۔ ویسے ہی یسوع مخلوق کو ہم اللہ نہیں کہتے بلکہ مظہر اللہ کہتے ہیں۔ کیا یہ ستون جو خشت و خاک کا سامنے نظر کے ہے اس میں سے اگر خدا آواز دے کر کہنا چاہے کہ میں تمہارا خدا ہوں اور میری فلاں بات سنو۔ توگو تجربہ کے برخلاف یہ امر ہے۔ توکیا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 94
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 94
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
امکان کے برخلاف ہے کہ خدا ایسا نہیں کرسکتا۔(ہمارے نزدیک تو امکان کے برخلاف نہیں)۔
سوم۔ ہم نے ابن اللہ کو جسم نہیں مانا۔ ہم تو اللہ کو روح جانتے ہیں جسم نہیں۔
چہارم۔ امر کے بارہ میں ہماری التماس یہ ہے کہ بیشک تاویل طلب امر کو تاویل کرنا چاہئے لیکن حقیقت کو چاہئے کہ تاویل کو نہ بگاڑے۔ اگر کوئی حقیقت برخلاف امر واقعی کے ہے تو بالمرہ حکم بطلان کا اس پر دینا چاہئے نہ کہ بطلان کو مروڑ کے حق بنانا۔
پنجم۔ امر کے بارہ میں جناب کی خدمت میں واضح ہو کہ لفظ بیٹے اور پہلو ٹھے کا بائیبل میں دو طرح پر بیان ہوا ہے یعنی ایک تو یہ کہ وہ یک تن ساتھ خدا کے ہو،دوم یہ کہ یک من ساتھ رضاءِ الٰہی کے ہو۔ (یک تن وہ ہے جو ماہیت میں واحد ہو۔ اور یک من وہ ہے جو ماہیت کا شریک نہیں بلکہ رضا کا شریک ہو)۔ کس نبی یا بزرگ کے بارہ میں بائیبل میں یہ لکھا ہے کہ اے تلوار میرے چرواہے اورؔ ہمتا پر اٹھ (زکریا ۱۳ - ۷) اور پھر کس کے بارہ میں ایسا لکھا ہے کہ تخت داؤدی پر یہود اصدقنو آوے گا (یرمیا) اور کس نے یہ کہا کہ میں الفا اور میگاو قادر مطلق خداوند ہوں اور کس کے بارہ میں یہ لکھا گیا کہ میں جو حکمت ہوں قدیم سے خدا کے ساتھ رہتی تھی اور میرے وسیلہ سے یہ ساری خلقت ہوئی اور یہ کہ جو کچھ خلقت کا ظہور ہے اسی کے وسیلہ سے ہے خدا باپ کو کسی نے نہیں دیکھا لیکن اکلوتے (خدا) نے اسے ظاہر کردیا (یوحنا ۱ - ۱۸)
اب اس پر انصاف کیجیئے کہ یہ الفاظ متعلق یک تن کے ہیں یا یک من کے نیز یہ بھی ایک بات یاد رکھنے کے لائق ہے۔ یسعیاہ ۹ - ۶ میں کہ وہ جو بیٹا ہم کو بخشا جاتا ہے اور فرزند تولد ہوتا ہے وہ ان خطابوں سے مزیّن ہے یعنی خدائے قادر۔ اب ابدیت۔ شاہ سلامت۔ مشیر۔ عجوبہ۔ تخت داؤدی پر آنے والا جس کی سلطنت کا زوال کبھی نہ ہوگا۔
ششم جو آپ نے قرآن سے استدلال کیا ہے مجھے افسوس ہے کہ میں اب تک اس کے الہامی ہونے کا قائل نہیں جب آپ اس کو الہامی ثابت کرکے قائل کر دیں گے تو اس کی سندات آپ ہی مانی جائیں گی۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 95
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 95
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
ہفتم۔ جناب من فطرت یا خلقت فعل الٰہی ہے اور الہام قول الٰہی فعل اورقول میں تناقص نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی کلام مبہم معلوم ہووے یا بادی النظر میں مشکل معلوم ہووے تو اس کی تاویل ہم معقولات ہی سے کریں گے ورنہ کہاں جائیں گے؟ چنانچہ جناب نے خود ہی فرمایا کہ امور تاویل طلب کی تاویل واجب ہے۔ اور جناب اس سے بھی بڑھ کر فرماتے ہیں کہ تجربہ کے برخلاف ہم کچھ نہ لیویں گے تو گویا یہ بھی رجوع کرنا طرف فطرت کے ہے جس کے ہم کلیۃً متفق نہیں ہیں۔
ہشتم۔ بجواب آٹھویں کے اتنی ہی عرض ہے کہ جہاں بیٹے حقیقی اور غیر حقیقی کی امتیاز بائبل میں نہ ہو تو ہماری عقل کو روک نہیں کہ ہم اس میں امتیاز نہ کریں اور دوسروں کے ساتھ بھی اگر یہی صفات ملحقہ ہوں جیسے مسیح کے ساتھ ہیں تو ہم ان کو بھی مسیح جیسا مان لیں گے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 96
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 96
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
دوسرؔ ا پرچہ
مباحثہ ۲۳۔ مئی ۱۸۹۳ء
روئداد
آج پھر جلسہ منعقد ہوا ۔اور آج پادری جے ایل ٹھاکر داس صاحب بھی جلسہ میں تشریف لائے یہ تحریک پیش ہوئی اور باتفاق رائے منظور ہوئی کہ کوئی تحریر جو مباحثہ میں کوئی شخص اپنے طور پر قلمبند کرے قابل اعتبار نہ سمجھی جائے جب تک کہ اس پر ہر دو میر مجلس صاحبان کے دستخط نہ ہوں۔
اس کے بعد ۶ بجے ۳۰ منٹ اوپر مرزا صاحب نے اپنا سوال لکھانا شروع کیا اور ان کا جواب ختم نہ ہوا تھا کہ ان کا وقت گزر گیا۔ اور مسٹر عبداللہ آتھم صاحب اور میر مجلس عیسائی صاحبان کی طرف سے اجازت دی گئی کہ مرز صاحب اپنا جواب ختم کر لیں اور ۱۶ منٹ کے زائد عرصہ میں جواب ختم کیا بعدازاں یہ قرار پایا کہ مقررہ وقت سے زیادہ کسی کو نہ دیا جائے۔ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے آٹھ بجے ۱۱ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا۔ درمیان میں فہرست آیات کے پڑھے جانے کے متعلق تنازعہ میں صرف ہوا یعنی ۵ منٹ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کے وقت میں ایزاد کئے گئے۔ اور ۹ بجے ۱۶ منٹ پر جواب ختم ہوا۔
مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۷ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ۲۷ منٹ پر ختم ہوگیا۔ اور بعدازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اور تحریریں فریقین کو دی گئیں اور جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ) غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ)
ازجانب عیسائی صاحبان ازجانب اہل اسلامّ ّ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 97
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 97
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ
بیانؔ حضرت مرزا صاحب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
کل ۲۲۔ مئی ۱۸۹۳ ء کو جو میں نے حضرت مسیحؑ کی الوہیت کے بارہ میں ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب سے سوال کیا تھا۔ اس میں قابل جواب نو۹ ا مر تھے سب سے پہلے میں نے یہ لکھا تھا کہ فریقین پر لازم و واجب ہوگا کہ اپنی اپنی الہامی کتاب کے حوالہ سے سوال و جواب تحریر کریں۔ پھر ساتھ ہی اس کے یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ہر ایک دلیل یعنی دلیل عقلی اور دعویٰ جس کی تائید میں وہ دلیل پیش کی جائے اپنی اپنی کتاب کے حوالہ اور بیان سے دیا جائے۔ میرا اس میں یہ مدعا تھا کہ ہر ایک کتاب کی اس طور سے آزمائش ہوجائے کہ ان میں یہ قوت اعجازی پائی جاتی ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس زمانہ میں جو مثلاً قرآن کریم پر قریب تیرہ سو برس کے گذر گئے۔ جب وہ نازل ہوا تھا۔ ایسا ہی انجیل پر قریب انیس سو برس کے گذرتے ہیں۔ جب انجیل حواریوں کی تحریر کے مطابق شائع ہوئی۔ تو اس صورت میں صرف ان منقولات پر مدار رکھنا جو ان کتابوں میں لکھی گئی ہیں اس شخص کے لئے مفید ہوگا جو ان پر ایمان لاتا ہے اور ان کو صحیح سمجھتا ہے اور جو معنے ان کے کئے جاتے ہیں۔ ان معنوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں رکھتا۔ لیکن اگر معقولی سلسلہ اس کے ساتھ شامل ہو جاوے تو اس سلسلہ کے ذریعہ سے بہت جلد سمجھ آجائے گا کہ خدا تعالیٰ کا سچا اورپاک اور کامل اور زندہ کلام کون سا ہے سو میرا یہ مطلب تھا کہ جس کتاب کی نسبت یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فی حدّ ذاتہٖ کامل ہے اور تمام مراتب ثبوت کے وہ آپ پیش کرتی ہے تو پھر اسی کتاب کا یہ فرض ہوگا کہ اپنے اثبات دعاوی کے لئے دلائل معقولی بھی آپ ہی پیش کرے نہ یہ کہ کتاب پیش کرنے سے بالکل عاجز اور ساکت ہو اور کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوکر اس کی حمایت کرے اور ہر ایک منصف بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر اس طریق کا التزام فریقین اختیار کر لیں تو احقاق حق اور ابطال باطل بہت سہولیت سے ہوسکتا ہے۔ میں امید
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 98
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 98
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/98/mode/1up
رکھتا تھا کہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب جو پہلے سے یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ انجیل درحقیقت ایک کامل کتاب ہے وہ اس دعوے کے ساتھ ضرور اس بات کو مانتے ہوں گے کہ انجیل اپنی دعاوی کو معقولی طورؔ پر آپ پیش کرتی ہے۔ لیکن صاحب موصوف کے کل کے جواب سے مجھے بہت تعجب اور افسوس بھی ہوا کہ صاحب موصوف نے اس طرف ذرا توجہ نہیں فرمائی بلکہ اپنے جواب کی دفعہ ششم میں مجھ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ ’’آپ نے قرآن سے جو استدلال کیا ہے مجھے افسوس ہے کہ میں اب تک اس کے الہامی ہونے کا قائل نہیں جب آپ اس کو الہامی ثابت کر کے قائل کر دیں گے تو اس کی سندات آپ ہی مانی جائیں گی ‘‘۔ اب ہر ایک سوچنے والا غور کر سکتا ہے کہ میرا یہ منشاء کب تھا کہ وہ ہر ایک بات قرآن شریف کی بے تحقیق مان لیں۔ میں نے تو یہ لکھا تھا یعنی میرا یہ منشاء تھا کہ دلائل عقلیہ جو فریقین کی طرف سے پیش ہوں وہ اپنے ہی خیالات کے منصوبوں سے پیش نہیں ہونی چاہئیں بلکہ چاہئے کہ جس کتاب نے اپنے کامل ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ دعویٰ بھی بہ تصریح ثابت کر دیا جاوے اور پھر وہی کتاب اس دعویٰ کے ثابت کرنے کے لئے معقولی دلیل پیش کرے اور اس طور کے التزام سے جو کتاب اخیر پر غالب ثابت ہو گی اس کا یہ اعجاز ثابت ہو گا۔ کیونکہ قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ میں کامل کتاب ہوں جیسا کہ فرماتا ہے ۱ (سیپارہ۶رکوع۵)اور جیسا کہ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے ۲ (سیپارہ۱۵رکوع۱)دونوں آیتوں کا ترجمہ یہ ہے کہ آج میں نے دین تمہارا تمہارے لئے کامل کیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کیا۔ اور یہ قرآن ایک سیدھے اور کامل راہ کی طرف رہبری کرتا ہے یعنی رہبری میں کامل ہے اور رہبری میں جو لوازم ہونے چاہئیں دلائل عقلیہ اور برکات سماویہ میں سے وہ سب اس میں موجود ہیں اور حضرات عیسائی صاحبوں کا یہ خیال ہے کہ انجیل کامل کتاب ہے اور رہبری کے تمام لوازم انجیل میں موجود ہیں پھر جب کہ یہ بات ہے تو اب دیکھنا ضرور ہوا کہ اپنے دعویٰ میں صادق کون ہے۔ اسی بنا پر الوہیت حضرت مسیحؑ کے دلائل بھی جو معقولی طور پر ہوں انجیل سے پیش کرنے چاہئیں تھے جیسا کہ قرآن کریم نے ابطال الوہیت کے دلائل معقولی طور پر بھی علاوہ اور دلائل کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 99
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 99
http://www.alislam.org/library/brow...ain_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/99/mode/1up
جو برکات وغیرہ انوار سے اپنے اندر رکھتا ہے پیش کئے۔ سو اب امید کہ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب ہمارے سوال کا منشاء سمجھ گئے ہوں گے تو چاہئے کہ اس منشاء کے مطابق انجیل کی طاقت اور قوت سے ایسے دلائل پیش کئے جائیں نہ اپنی طرف سے اور جو شخص ہم فریقین میں سے اپنی طرف سے کوئی معقولی دلیل یا کوئی دعویٰ پیش کرے گا تو ایسا پیش کرنا اس کا اس بات پر نشان ہوگا کہ اس کی وہ ؔ کتاب کمزور ہے اور وہ طاقت اور قوت اپنے اندر نہیں رکھتی جو کامل کتاب میں ہونی چاہئے۔ لیکن یہ جائز ہوگا کہ اگر کوئی کتاب کسی معقولی دلیل کو اجمالی طور پر پیش کرے مگر ایسے طور سے کہ اس کا پیش کرنا کوئی امر مشتبہ نہ ہو اوراسی کے سیاق سباق اوراسی کے اور دوسرے مقامات سے پتہ مل سکتا ہوکہ اس کا یہی منشاء ہے کہ ایسی دلیل پیش کرے کہ گو وہ دلیل اجمالی ہو مگر ہر ایک فریق کو اختیار ہوگا کہ عوام کے سمجھانے کے لئے کچھ بسط کے ساتھ اس دلیل کے مقدمات بیان کر دیوے لیکن یہ ہرگز جائز نہیں ہوگا کہ اپنی طرف سے کوئی دلیل تراش خراش کر کے الہامی کتاب کی ایسے طور سے مدد دی جائے کہ جیسے ایک کمزور اور بے طاقت انسان کو یا ایک میت کو اپنے بازو اور اپنے ہاتھ کے سہارے چلایا جائے۔ پھر بعد اس کے استقراء کے بارے میں جو مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے جرح کیا ہے وہ جرح بھی قلت تدبر کی وجہ سے ہے وہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ قول یعنی دلیل استقراء صحیح سمجھی جائے جو قرآن کریم پیش کرتا ہے تو پھر آدم کا بغیر والدین پیدا ہونا قابل تسلیم نہیں ہوگا اور صفت خالقہ کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ افسوس کہ صاحب موصوف اس بات کے سمجھنے سے غافل رہے کہ دلائل استقرائیہ میں یہی قاعدہ مسلم الثبوت ہے کہ جب تک اس حقیقت ثابت شدہ کے مقابل پر جو بذریعہ دلیل استقرائی کے ثابت ہو چکی ہے کوئی امر اس کا مخالف اور مبائن پیش نہ کیا جائے جس کا ظاہر ہونا بھی بہ پایہ ثبوت پہنچ چکا ہے تب تک دلیل استقرائی ثابت اور برقرار رہے گی مثلاً انسان کا ایک سر ہوتا ہے اور دو آنکھ۔ تو اس کے مقابل پر صرف اس قدر کہنا کافی نہیں ہو گا کہ ممکن ہے کہ دنیا میں ایسے آدمی بھی موجود ہوں جن کے دس سر اور بیس آنکھ ہوں بلکہ ایسا انسان کہیں سے پکڑ کر دکھلا بھی دینا چاہئے۔ اس بات میں فریقین میں سے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 100
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 100
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/100/mode/1up
کس کو انکار ہے کہ حضرت آدمؑ بغیر باپ اور ماں کے پیدا ہوئے تھے اور ان کی نسبت سنت اللہ اسی طرح پر ثابت ہو چکی ہے۔ لیکن امر متنازعہ فیہ میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو فریقین کے نزدیک مسلّم اور ثابت شدہ قرار پائی ہو بلکہ فریق مخالف حضرات عیسائیوں کے جو کتاب ہے یعنی قرآن کریم وہ آپ سے یہ بات پیش کرتا ہے کہ دلیل استقرائی سے یہ امر باطل ہے۔ اب اگر یہ دلیل تام اور کامل نہیں ہے تو چاہئے کہ انجیل میں سے یعنی حضرت مسیحؑ کے کلام میں سے اس کے مخالف کوئی دلیل پیش کی جائے جس سے ثابت ہو کہؔ یہ دلیل پیش کردہ قرآن کی یہ ضعف رکھتی ہے اور خود ظاہر ہے کہ اگر دلائل استقرائیہ کو بغیر پیش کرنے نظیر مخالف کے یونہی رد کر دیا جائے تو تمام علوم و فنون ضائع ہو جائیں گے اور طریق تحقیق بند ہو جائے گا۔ مثلاً میں مسٹر عبداللہ آتھم صاحب سے دریافت کرتا ہوں کہ اگر آپ کسی اپنے ملازم کو ایک ہزار روپیہ بطور امانت کے رکھنے کو دیں اور وہ روپیہ صندوق میں بند ہو اور تالی اس کی اس ملازم کے پاس ہو اور کوئی صورت اور کوئی شبہ چوری (ہو)جانے مال کا نہ ہو اور وہ آپ کے پاس یہ عذر پیش کرے کہ حضرت وہ روپیہ پانی ہو کر بہہ گیا ہے یا ہوا ہو کر نکل گیا ہے تو کیا آپ یہ اس کا عذر قبول کر لیں گے۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب تک کوئی امر صفات الٰہیہ کے مخالف نہ پڑے تب تک ہم اس کو جائز اور ممکن کی ہی مد میں رکھیں گے۔ مگر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ آپ ایک مدت تک عہدہ اکسٹرا اسسٹنٹی پر مامور رہ کر مقدمات دیوانی و فوجداری وغیرہ کرتے رہے ہیں۔ کیا اس عجیب طرز کا بھی کوئی مقدمہ آپ نے کیا ہے کہ ایسے بے ہودہ عذر کو قابلِ اطمینان عدالت قرار دے کر فریق عذر کنندہ کے حق میں ڈگری کر دی ہو۔ حضرات آپ پھر ذرا توجہ سے غور کریں کہ یہ بات ہرگز درست نہیں ہے کہ جو شخص دلائل استقرائیہ کے برخلاف کوئی امر جدید اور خلاف دلائل استقراء پیش کرے تو اس امرکو بدوں اس کے کہ وہ نظائر سے ثابت کر دیا جائے قبول کر لیں اور یہ نظیر جو آپ نے پیش کی ہے کہ اس صورت میں ہم کو صفت خالقہ کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ میں حیران ہوں کہ یہ دلیل کیوں پیش کی ہے اور اس محل سے اس دلیل کو تعلق ہی کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کا اس
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 101
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 101
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/101/mode/1up
بات پر اتفاق ہے کہ صفات الٰہیہ جو اس کے افعال سے متعلق ہیں یعنی خلق وغیرہ سے وہ اپنے مفہوم میں قوت عموم کی رکھتی ہے یعنی ان کی نسبت یہ مان لیا گیا ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ ابدی ازلی طور پر ان صفات سے کام لے سکتا ہے۔ مثلاً حضرت آدمؑ کو جو اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پیدا کیا ہے تو کیا ہم فریقین میں کوئی اپنی کتاب کی رو سے ثبوت دے سکتا ہے کہ اس طرز کے پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قوت جو استقراء سے ثابت ہے اس حد تک ختم ہوچکی ہے۔ بلکہ فریقین کی کتابیں اس بات کو ظاہر کر رہی ہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ نے جو کچھ پیدا کیا ہے ایسا ہی وہ پھر بھی پیدا کر سکتا ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۱ (س۲۳ر۴)کیا وہ جس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اس بات پر قادر نہیں کہ ان تمام چیزوں کی مانند اور چیزیں بھی پیدا کرے بیشک قادر ہے اور وہ خلاق علیم ہے یعنی خالقیت میں وہ کامل ہے اور ہر ایک طور سے پیدا کرنا جانتا ہے۔ حکم اس کا اس سے زیادہ نہیں کہ جب کسی چیز کے ہونے کا ارادہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہو پس ساتھ ہی وہ ہو جاتی ہے۔ پس وہ ذات پاک ہے جس کے ہاتھ میں ہر ایک چیز کی بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم پھیرے جاؤ گے۔ پھر ایک دوسرے مقام میں فرماتا ہے۲یعنی تمام محامد اللہ کے لئے ثابت ہیں جو تمام عالموں کا رب ہے یعنی اس کی ربوبیت تمام عالموں پر محیط ہے۔ پھر ایک اور مقام میں فرماتا ہے ۳ یعنی وہ ہرطرح سے پیدا کرنا جانتا ہے اور ڈپٹی عبداللہ صاحب نے جو چند پیشگوئیاں اپنے تائید دعویٰ میں پیش کی ہیں وہ ہماری شرط سے بالکل مخالف ہیں۔ ہماری شرط میں یہ بات داخل ہے کہ ہر ایک دعویٰ اور دلیل اس کی الہامی کتاب آپ پیش کرے۔ ماسوا اس کے ڈپٹی صاحب کو اس بات کی خوب خبر ہے کہ یہ پیشگوئیاں صرف زبردستی کی راہ سے حضرت مسیحؑ پر جمائی جاتی ہیں اور ایسے طور کی یہ پیشگوئیاں نہیں ہیں کہ اول حضرت مسیحؑ نے آپ پوری پیشگوئی نقل کرکے ان کا مصداق
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 102
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 102
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/102/mode/1up
اپنے تئیں ٹھہرایا ہو ا ور مفسرین کا اس پر اتفاق بھی ہو اور اصل عبری زبان سے اسی طور سے ثابت ہوتی ہوں سو یہ بارثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ جب تک آپ اس التزام کے ساتھ اس کو ثابت نہ کردیں تب تک یہ بیان آپ کا ایک دعوے کے رنگ میں ہے جو خود دلیل کا محتاج ہے۔ چونکہ ہمیں ان پیشگوئیوں کی صحت اور پھر صحت تاویل اور پھر صحت ادعاء مسیحؑ میں آپ کے ساتھ اتفاق نہیں ہے اور آپ مدعی صحت ہیں تو یہ آپ پر لازم ہوگا کہ آپ ان مراتب کو مصفّا اور منقح کرکے ایسے طور سے دکھلاویں کہ جس سے ثابت ہو جائے کہ ان پیشگوئیوں کی تاویل میں یہودی جو اصل وارث توریت کے کہلاتے ہیں وہ بھی آپ کے ساتھ ہیں اور کل مفسر بھی آپ کے ساتھ ہیں اور حضرت مسیحؑ نے بھی تمام پیشگوئیاں جو آپ ذکر کرتے ہیں بحوالہ کتاب و باب و آیت پورے طور پر بیان کرکے اپنی طرف منسوب کی ہیں اور آپ کی رائے کے مخالف آج تک کسی وارث توریت نے اختلاف بیان نہیں کیا اور صاف طور پر حضرت مسیحؑ ابن مریم کے بارہ میں جن کو آپ خدائی کے رتبہ پر قرار دیتے ہیں قبول کرؔ لیا ہے اور ان کے خدا ہونے کے لئے یہ ثبوت کافی سمجھ لیا ہے تو پھر ہم اس کو قبول کر لیں گے اور بڑے شوق سے آپ کے اس ثبوت کو سنیں گے۔ لیکن اس نازک مسئلہ کی زیادہ تصریح کے لئے پھر یاد دلاتا ہوں کہ آپ جب تک ان تمام مراتب کو جو میں نے لکھے ہیں بغیر کسی اختلاف کے ثابت کرکے نہ دکھلاویں اور ساتھ ہی یہود کے علماء کی شہادت ان پیشگوئیوں کی بناء پر حضرت ابن مریم کے خدا ہونے کے لئے پیش نہ کریں۔ تب تک یہ قیاسی ڈھکوسلے آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔ دوسرا حصہ اس کا جواب الجواب میں بیان کیا جائے گا۔ اب وقت تھوڑا ہے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ) ھنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ)
ازجانب اہل اسلام ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 103
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 103
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/103/mode/1up
جواب از طرف مسٹر عبداللہ آتھم صاحب مسیحی
اوّل۔ بجواب آپ کے اے مرزا صاحب میرے مکرّم! میں لفظ استقراء کی شرح کا آپ سے طلب گار ہوں۔ کیا اس کی مراد تجربہ یا معمول سے نہیں جو اس کے سوا ہو وہ فرما دیجئے۔
دوم۔ آپ کے دوسرے مقدمہ میں جو آپ فرماتے ہیں کہ الہام شرح اپنی آپ ہی کرے اور اس کو محتاج معقولات کا نہ کیا جائے۔ بہت سا حصہ صحیح ہے مگر سمجھنے کے واسطے الہام اور عقل کی وہی تشبیہ ہے جو آنکھ اور روشنی کی ہے۔ روشنی ہواور آنکھ نہ ہو تو فائدہ نہیں ہے۔ آنکھ گوہو اور روشنی نہ ہو تب بھی فائدہ نہیں۔ سمجھنے کے واسطے عقل درکار ہے اور جس امر کو سمجھیں وہ چاہئے کہ الہامی ہو۔ مراد میری یہ ہے کہ وہ امر جو مدد نہیں پاتا الہام سے اور صرف انسانی خیال کی گھڑت ہو وہ البتہ الہام میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ مگر جو الہام میں ہے اور شمع الہامی نیچے رکھی ہوئی ہے تو اس کے واسطے عقل انسانی شمعدان ہوسکتی ہے؟
امر سوم۔ جناب یہودیوں کا اتفاق ہم سے کیوں طلب کرتے ہیں جب کہ لفظ موجود ہیں اور لغت موجودؔ ہے اور قواعد موجود ہیں خود معنی کر لیں جو معنی بن سکیں وہ ٹھیک ہیں۔ لفظ بلفظ کا میں ذمّہ نہیں اٹھا سکتا۔ مگر بالا جمال ساری نبوّتوں کو اس مقدمہ میں مسیح نے اپنے اوپر لیا ہے۔ چنانچہ یوحنا کے ۵ باب ۳۹ آیت میں اور لوقا کے ۲۴ باب ۲۷ آیت میں یہ امر مشرّح ہے۔ یوحنا۔ تم نوشتوں میں ڈھونڈھتے ہو کیونکہ تم گمان کرتے ہو کہ ان میں تمہارے لئے ہمیشہ کی زندگی ہے اور یہ وے ہی ہیں جو مجھے پر گواہی دیتے ہیں اور موسیٰ اور سب نبیوں سے شروع کرکے وہ باتیں جو سب کتابوں میں اس کے حق میں ہیں ان کے لئے تفسیر کیں۔
ماسوا اس کے بعض خاص نبوتیں بھی مسیح پر نوشتوں میں لگائی گئی ہیں۔ چنانچہ متی کے ۲۶ باب ۳۱ آیت میں اس پیش خبری کا جو بابت ہمتا کے ہے حوالہ دیا گیا۔ علٰی ھٰذَاالقیاس بہت سی اور بھی مثالیں ہیں جن کی فہرست ذیل میں دے دیتا ہوں:۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 104
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 104
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/104/mode/1up
یسعیا ۶ باب اسے ۱۲ بمقابلہ یوحنّا ۱۲ باب ۴۰،۴۱۔ اعمال ۲۸ باب ۲۶۔ پھر یسعیا ۴۰ باب ۳ ملاکی ۳ باب ۱ بمقابلہ متی ۳ باب ۳۔ زکریا ۱۲ باب ۱و ۱۰ بمقابلہ یوحنّا ۱۹ باب ۳۷۔ یرمیا ۳۱ باب ۳۱ - ۳۴ بمقابلہ عبرانی ۸ باب ۶ سے ۱۲۔ عبرانی ۱۰ باب ۱۲ سے ۱۹۔ خروج ۱۷ باب ۲ گنتی ۲۰ باب ۳و۴ گنتی ۲۱ باب ۴و۵۔ استثنا ۶ باب ۱۶۔ یہ چاروں مقام بمقابلہ پہلا قرنتی ۱۰ باب ۹ سے ۱۱۔ یسعیا ۴۱ باب۴و۴۴ باب ۶ بمقابلہ مکاشفات۸۔۱۱۱ ۔۱۷و۲۸و۲۱۶و۲۲۱۳ویوئیل۲۳۳بمقابلہ رومی ۹ سے۱۰ ۱۴ و یسعیا۷۱۴ و ۸۱۰ بمقابلہ متی ۱۲۳
زبان عبرانی سے جس امر کی آپ گرفت کریں موجود ہے ابھی پیش کیا جائے گا۔
چوتھا۔ لفظ کمال کی جو جناب گرفت فرماتے ہیں کہ انجیل درخود کامل ہونی چاہئے تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ کس امر میں کامل۔ کیا سنار کے کام میں لوہار کے کام میں؟ یہ تو دعویٰ ہی ان کتابوں کانہیں۔ مگر راہ نجات کے دکھلانے کے کام میں یہ دعویٰ ان کا ہے۔ انجیل نے جواس باب میں اپنا کمال دکھلایا وہ ہم پیش کردیتے ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ’’آسمان کے تلے آدمیوں کو کوئی دوسرا نام نہیں بخشا گیا جس سے ہم نجات پاسکیں سوائے مسیح کے‘‘۔
اور رومیوں کے خط میں لکھا ہے اگر نجات فضل سے ہے تو عمل عمل نہیں و اگر نجات عمل سے ہے تو فضل فضل نہیں۔ اس سے پھر وہی امر ثابت ہوا کہ مسیح نے خود کہا کہ ’’راہ حق اور زندگی مَیں ہی ہوں‘‘ (یوحنا ۱۴ باب ۶)۔ اور یادرکھنا چاہئے کہ کلام الٰہی میں اکثر خدا وند یہ فرمایا کرتا ہے کہ َ میں ؔ ہی ہوں۔ مَیں ہوں۔ اور اس کا ایماء اس نام پر ہے جو موسیٰ سے خدا نے کہا کہ میرا نام میں ہوں۔ سو ہوں اور اس نام سے میں پہلے معروف نہ تھا۔ یہ تجھ کو جتایا جاتا ہے۔
(خروج ۳ باب ۱۴ آیت)
(قلت وقت کے سبب جواب ناتمام رہا)
(دستخط بحروف انگریزی) ہنری مارٹن کلارک (دستخط بحروف انگریزی) غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 105
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 105
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/105/mode/1up
بقیہ بیانِ جواب حضرت مرزا صاحب
میرا جواب جو ناتمام رہ گیا تھا اب بقیہ حصہ اس کا لکھواتا ہوں۔ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب فرماتے ہیں ’’جو ہم جسمانی چیز کو جو مظہر اللہ تھی اللہ نہیں مانتے اور ہم نے ابن اللہ کو جسم نہیں مانا۔ ہم تو اللہ کو روح جانتے ہیں‘‘۔ صاحب موصوف کا یہ بیان بہت پیچیدہ اور دھوکہ دینے والا ہے۔ صاحب موصوف کو صاف لفظوں میں کہنا چاہئے تھا کہ ہم حضرت عیسٰیؑ کو خدا جانتے ہیں اور ابن اللہ مانتے ہیں کیونکہ یہ بات تو ہر ایک شخص سمجھتا اور جانتا ہے کہ جسم کو ارواح کے ساتھ ایسا ضروری تلازم نہیں ہے کہ تاجسم کو حصہ دار کسی شخص کا ٹھہرایا جائے مثلاً انسان کو جو ہم انسان جانتے ہیں تو کیا بوجہ اس کے ایک خاص جسم کے جو اس کو حاصل ہے انسان سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خیال تو ببداہت باطل ہے کیونکہ جسم ہمیشہ معرض تحلل میں پڑا ہوا ہے چند برس کے بعد گویا پہلا جسم دور ہوکر ایک نیا جسم آجاتا ہے اس صورت میں حضرت مسیحؑ کی کیا خصوصیت ہے۔ کوئی انسان بھی باعتبار جسم کے انسان نہیں ہے بلکہ باعتبار روح کے انسان کہلاتا ہے۔ اگر جسم کی شرط ضروری ہوتی تو چاہئے تھا کہ مثلاً زید جو ایک انسان ہے ساٹھ برس کی عمر پانے کے بعد زید نہ رہتا بلکہ کچھ اور بن جاتا کیونکہ ساٹھ برس کے عرصہ میں اس نے کئی جسم بدلے۔ یہی حال حضرت مسیحؑ کا ہے جو جسم مبارک ان کو پہلے ملا تھا جس کے ساتھ انہوں نے تولد پایا تھا وہ تو نہ کفارہ ہوسکا اور نہ کسی کام آیا۔ بلکہ قریباً تیس برس کے ہوکر انہوں نے ایک اور جسم پایا اور اسی جسم کی نسبت خیال کیا گیا کہ گویا وہ صلیب پر چڑھایا گیا اور پھر ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کے داہنے ہاتھ روح کے ساتھ شامل ہوکر بیٹھا ہے۔ اب جب کہ صاف اور صریح طور پر ثابت ہے کہ جسم کو روح کی صفات اور القاب سے کچھ تعلق نہیں اور انسان ہو یا حیوان ہو وہ باعتبار اپنی روح کےؔ انسان یا حیوان کہلاتا ہے اور جسم ہر وقت معرض تحلل میں ہے تو اس صورت میں اگر حضرات عیسائی صاحبان کا یہی عقیدہ ہے کہ مسیح درحقیقت خدا تعالیٰ ہے۔ تو مظہر اللہ کہنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 106
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 106
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/106/mode/1up
کی کیا ضرورت ہے۔ کیا ہم انسان کو مظہر انسان کہا کرتے ہیں۔ایسا ہی اگر حضرت مسیحؑ کی روح انسانی روح کی سی نہیں ہے اور انہوں نے مریم صدیقہ کے رحم میں اس طریق اور قانون قدرت سے روح حاصل نہیں کی جس طرح انسان حاصل کرتے ہیں۔ اور جو طریق طبابت اور ڈاکٹری کے ذریعہ سے مشاہدہ میں آچکا ہے۔ تو اول تو یہ ثبوت دینا چاہئے کہ ان کے جنین کا نشوونما پانا کسی نرالے طریق سے تھا اور پھر بعد اس کے اس عقیدہ کو چھپ چھپ کر خوفزدہ لوگوں کی طرح اور پیراؤں اور رنگوں میں کیوں ظاہر کریں۔ بلکہ صاف کہہ دینا چاہئے کہ ہمارا خدا مسیح ہے اور کوئی دوسرا خدا نہیں ہے جس حالت میں خدا اپنی صفات کاملہ میں تقسیم نہیں ہوسکتا اور اگر اس کی صفات تامہ اور کاملہ میں سے ایک صفت بھی باقی رہ جائے تب تک خدا کا لفظ اس پر اطلاق نہیں کرسکتے۔
تو اس صورت میں میری سمجھ میں نہیں آسکتا کہ تین کیونکر ہوگئے۔ جب آپ صاحبوں نے اس بات کو خود مان لیا اور تسلیم کر لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے لئے ضروری ہے کہ وہ مستجمعجمیع صفات کاملہ ہو تو اب یہ تقسیم جو کی گئی ہے کہ ابن اللہ کامل خدا۔ اور باپ کامل خدا۔ اور روح القدس کامل خدا اس کے کیامعنے ہیں اور کیا وجہ ہے کہ یہ تین نام رکھے جاتے ہیں۔ کیونکہ تفریق ناموں کی اس بات کوچاہتی ہے کہ کسی صفت کی کمی و بیشی ہو۔
مگر جب کہ آپ مان چکے کہ کسی صفت کی کمی و بیشی نہیں تو پھر وہ تینوں اقنوم میں مابہ الامتیاز کون ہے جو ابھی تک آپ لوگوں نے ظاہر نہیں فرمایا۔ جس امر کو آپ مابہ الامتیاز قرار دیں گے وہ بھی منجملہ صفات کاملہ کے ایک صفت ہوگی جو اس ذات میں پائی جانی چاہئے جو خدا کہلاتا ہے۔ اب جب کہ اس ذات میں پائی گئی جو خدا قرار دیا گیا تو پھر اس کے مقابل پر کوئی اور نام تجویز کرنا یعنی ابن اللہ کہنا یا روح القدس کہنا بالکل لغو اور بے ہودہ ہو جائے گا۔
آپ صاحب اس میرے بیان کو خوب سوچ لیں کیونکہ یہ دقیق مسئلہ ہے ایسا نہ ہو کہ جواب لکھنے کے وقت یہ امور نظر انداز ہوجائیں۔ خدا وہ ذات ہے جو مستجمع جمیع صفات کاملہ ہے اور غیر کا محتاج نہیں اور اپنے کمال میں دوسرے کا محتاج نہیں اور جو مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 107
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 107
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/107/mode/1up
دفعہؔ ۲ میں موسیٰ کی جھاڑی کی تمثیل پیش کی ہے۔ یہ محل متنازعہ فیہ سے کچھ علاقہ نہیں رکھتی۔ صاحب موصوف مہربانی فرما کر قرآن کریم سے ثابت کرکے دکھلاویں کہ کہاں لکھا ہے کہ وہ آگ ہی خدا تھی یا آگ ہی میں سے آواز آئی تھی۔ بلکہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں صاف فرماتا ہے۔ ۱ (سورۂ نملس۱۹۔ر ۱۶) یعنی جب موسیٰ آیا تو پکارا گیا کہ برکت دیا گیا ہے جو آگ میں ہے اور جو آگ کے گرد ہے اور اللہ تعالیٰ پاک ہے تجسم اور تحیز سے اور وہ رب ہے تمام عالموں کا۔ اب دیکھئے اس آیت میں صاف فرما دیا کہ جو آگ میں ہے اور جو اس کے گرد میں ہے اس کو برکت دی گئی۔ اور خداتعالیٰ نے پکارکر اس کو برکت دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ آگ میں وہ چیز تھی جس نے برکت پائی نہ کہ برکت دینے والا۔ وہ تو نودیکے لفظ میں آپ اشارہ فرمارہا ہے کہ اس نے آگ کے اندر اور گرد کو برکت دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ آگ میں خدا نہیں تھا اور نہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے بلکہ اللہ جلّ شانہٗ اس وہم کا خود دوسری آیت میں ازالہ فرماتا ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ اس حلول اور نزول سے پاک ہے وہ ہر ایک چیز کا ربّ ہے۔
اور اسی طرح خروج ۳باب آیت ۲ میں لکھا ہے کہ اس وقت خدا وند کا فرشتہ ایک بوٹے میں سے آگ کے شعلے میں سے اس پر ظاہر ہوا۔ اور مسٹر عبداللہ آتھم صاحب جو تحریر فرماتے ہیں کہ قرآن میں اس موقعہ پر یہ بھی لکھا ہے۔ ’’میں تیرے باپ اسحاقؑ اور ابراہیمؑ اور یعقوبؑ کا خدا ہوں‘‘۔ یہ بیان سراسر خلاف واقع ہے۔ قرآن میں ایسا کہیں نہیں لکھا۔ اگر صاحب موصوف کے حوالجات کا ایسا ہی حال ہے کہ ایک خلاف واقعہ امر جرأت کے ساتھ تحریر فرما دیتے ہیں تو پھر وہ حوالجات جو توریت اور انجیل کے تحریر فرمائے ہیں وہ بھی کتابیں پیش کرکے ملاحظہ کے لائق ہوں گی۔
اور پھر صاحب موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ توریت میں مسیح کو یک تن اور انبیاء کو یک من کرکے لکھا ہے۔
میں کہتاہوں کہ توریت میں نہ تو کہیں یک تن کالفظ ہے اورنہ یک من کا۔ صاحب موصوف کی بڑی مہربانی ہوگی کہ بتشریح توریت کے روسے ثابت کریں کہ توریت نے جب دوسرے انبیاء کا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 108
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 108
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/108/mode/1up
نام ابناء اللہ رکھا تو اس سے مراد یک من ہونا تھا۔ اور جب مسیح علیہ السلام کا نام ابن اللہ کہا۔ تو اس کا لقب یک تن رکھ دیا۔ میری دانست میں تو اور انبیاء حضرت مسیح علیہ السلام سے اس القاب یابی میںؔ بڑھے ہوئے ہیں۔ کیونکہ حضرت مسیحؑ خود اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میرے ابن اللہ کہنے میں تم کیوں رنجیدہ ہوگئے یہ کونسی بات تھی زبور میں تو لکھا ہے کہ تم سب الہ ہو۔
حضرت مسیحؑ کے اپنے الفاظ جو یوحنا ۱۰باب۳۵ میں لکھے ہیں یہ ہیں کہ میں نے کہاتم خدا ہو جبکہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔ اب منصف لوگ اللہ تعالیٰ سے خوف کرکے ان آیات پر غور کریں کہ کیا ایسے موقعہ پر کہ حضرت مسیحؑ کی ابنیت کے لئے سوال کیا گیا تھا حضرت مسیحؑ پریہ بات فرض نہ تھی کہ اگر وہ حقیقت میں ابن اللہ تھے تو انہیں یہ کہنا چاہئے تھا کہ دراصل خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں اور تم آدمی ہو۔ مگر انہوں نے تو ایسے طور سے الزام دیا جسے انہوں نے مہر لگا دی کہ میرے خطاب میں تم اعلیٰ درجہ کے شریک ہو مجھے تو بیٹا کہا گیا اور تمہیں خدا کہا گیا۔
پھر صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ توریت میں اگرچہ دوسروں کو بھی بیٹا کہا گیا ہے مگر مسیحؑ کی بہت بڑھ کر تعریفیں کی گئی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تعریفیں مسیح کے حق میں اس وقت قابل اعتبار سمجھی جائیں گی جس وقت ہماری شرائط پیش کردہ کے موافق اس کو ثابت کر دو گے۔ اور دوسری یہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام یوحنا ۱۰ باب میں آپ کی تاویل کے مخالف اور ہمارے بیان کے موافق ہیں۔ اور یہ خیالات آپ کے حضرت مسیح علیہ السّلام نے خود ردّ فرما دیئے ہیں۔
بقیہ کا جواب آپ کے جواب کے بعد لکھا جائے گا۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر۔ فصیح ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 109
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 109
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/109/mode/1up
تیسراؔ پرچہ
مباحثہ ۲۴۔ مئی ۱۸۹۳ ء
روئداد
آج سولہ منٹ اوپر چھ بجے مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے اپنا جواب لکھانا شروع کیا اور سولہ منٹ اوپر سات بجے ختم ہوا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے سات بجے پچاس منٹ اوپر جواب لکھانا شروع کیا اور آٹھ بجے چھیالیس منٹ پر ختم کیا اور پھر بلند آواز سے سنا دیاگیا۔
ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے نو بجے پچیس منٹ پر شروع کیا اور دس بجے پچیس منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ بعدازاں تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اور مصدقہ تحریریں فریقین کو دی گئیں۔ بعد ازاں چند ایک تجاویز صورت مباحثہ کے تبدیل کرنے کے متعلق پیش ہوئیں مگر سابقہ صورت ہی بحال رہی۔ اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا۔ دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
مورخہ ۲۴۔ مئی ۱۸۹۳ ء ازجانب
ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب
اول میں خوش ہوا یہ سن کر کہ پیدائش آدم و حوّ ا میں دلیل استقراء نہیں لگ سکتی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قاعدہ عامہ میں استثنا جائز ہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 110
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 110
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/110/mode/1up
اولؔ ۔ جناب جو فرماتے ہیں کہ مسیح کا جسم زوال پذیر تھا۔ اس واسطے نہ وہ کفارہ ہوسکا اور نہ کسی کام آیا اس کے جواب میں عرض ہے کہ ہم انسانی جسم مسیح کو مسیح قرار نہیں دیتے مگر سارا وجود انسانی جو گناہ سے پاک تھا اور سوائے گناہ کے اور سب باتوں میں ہمارے مساوی اور مخلوق تھا اور ماسوائے انسانیت کے وہ مظہر اللہ بھی تھا یعنی جائے ظہور اللہ کا جس پاک انسانیت میں بارگناہاں سب کا اپنے اوپر اٹھا لیا اور اقنوم ثانی اللہ نے وہ بار اٹھوا دیا۔ اور یوں معاوضہ گناہاں کا ہوکرکفارہ پورا ہوگیا پھر وجود ثانی کے قائم و دائم رہنے کی کیا ضرورت تھی۔
دوم۔ آپ کا دوسرا اعتراض مسیح خدا تعالیٰ ہے تو مظہر اللہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیا انسان کو مظہر انسان کہا کرتے ہیں۔ جواب۔ مسیح انسان کو اس کی الوہیت متعلقہ کے مشابہ کیوں کرتے ہیں انسان میں تو جسم علیحدہ چیز ہے اور روح علیحدہ چیز ہے اور جان ایک علیحدہ شے ہے۔ چنانچہ روح وہ شے ہے جس کے متعلق صفات علم اور ارادہ کے ہیں۔ جسم وہ شے ہے جس میں نہ علم ہے نہ ارادہ ہے۔ جان وہ قانون ہے جو نباتات میں بھی غذا کو بذریعہ رگ و ریشہ کے پہنچاتی ہے لیکن خدایا مظہر اللہ ان ساری علل سے علیحدہ ہے اور وہ قائم فی نفسہ ہے۔
سوم۔ جناب میرزا صاحب کے خیال میں مسیح کی روح قانون قدرت کے موافق مریم سے حاصل ہوئی تھی اسی لئے وہ خدا نہیں ہوسکتے۔ بجواب اس کے عرض ہے کہ مسیح کی انسانی روح اگرچہ قانون قدرت کے موافق نہیں پیدا ہوئی تاہم خلقیت میں مساوی ہے اور اشتقاق روح کا دوسری روح سے نہیں ہوتا جو مریم سے شق ہو کے وہ روح آئی ہو کیونکہ روح جو ہر فرد ہے اور کسی قانون اور آئین کا نام نہیں بلکہ شے جمع صفات و تعریف شخص کی ہے تو پھر آپ یوں کیوں فرماتے ہیں کہ مسیح کی روح مریم سے حاصل ہوئی تھی۔ کیوں نہ اس کو کہیں کہ نئی مخلوق ہوئی تھی۔ اور ماسوا اس کے الوہیت سے اس بات کا کیاعلاقہ ہے۔ ہم تو بار بار کہہ چکے کہ مظہر اللہ ماسوا اس کے انسانیت کی ہے۔
چہارم۔ جناب کا سوال ہے کہ خدا منقسم نہیں ہوسکتا پھر تین خدا کیونکر ہوئے اور اس تقسیم کی امتیاز کی بناء کیا ہے۔ بجواب اس کے عرض ہے کہ ہم یوں کہتے ہیں کہ تثلیث کا ِ سر صورت واحدہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 111
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 111
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/111/mode/1up
میں تو ایک ہے اور صورت ثانی میں تین ہیں اس کو ہم مشرح آئندہ تمہید میں کریں گے۔
صفت بے نظیری کی صفت بے حدی سے نکلی ہے کیونکہ بے نظیر مطلق وہ شے ہو سکتی ہے جو امکان تکؔ نظیر کا مٹا ڈالے اور یہ امکان تب مٹ سکتا ہے کہ جب مکان گنجائش نظیر کا مٹ سکے یعنی وہ شے بے حد بھی ہو جس کے بارہ میں کہا جاسکتا ہے کہ قدامت اور ماہیت بے حدی اور بے نظیری کی واحد ہے۔ کیونکہ نہیں کہہ سکتے کہ بے نظیری بے حدی سے کب نکلی اور کہاں رہتی ہے۔ کیونکہ وہ بے حدی سے علیحدہ نہیں ہوسکتی۔ پس اس نظیر سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک شے بمثل بے حدی کے قائم فی نفس ہے اور دوسری شے بمثل بے نظیری کے لازم اور ملزوم ساتھ اس بیحدی کے ہے اور خوب غور سے دیکھ لینا چاہیئے کہ ان دونوں صفتوں میں ایک تمہید ایسی واقع ہے جس کو بداہت کہا جاوے تو یہ ہر دو ایک صورت میں تو ایک سی ہیں اور دوسری صورت میں متفرق جیسے مثال ہم نے دو صفات سے دی ہے تو یہ صفات بجائے اجزاء شے ہونے کے حاوی برُکل شیء ہیں۔ ایسا ہی جس کوہم کہتے ہیں خدائے اب اور وہ بمثل بے حدی کے قائم فی نفسہٖ ہے اور جن کو ہم کہتے ہیں۔ ابن و روح القدس وہ لازم و ملزوم ساتھ خدائے اب کے ہیں۔
اب ہم نے ان کی یہ تمیز دکھلا دی ہے۔ ہم نہیں کہتے کہ ماہیت ان کی منقسمہ ہے۔ پس ہم مشرک بھی نہیں ہوسکتے کیونکہ ہم وحدہ لا شریک کے قائل ہیں۔ ہم تین خدا نہیں بناتے بلکہ ہم تینوں اقانیم یا شخص مساوی یک دیگر کو صفات الٰہیہ سے کلام میں مزیّن پاتے ہیں اور یہ ماہیت میں ایک ہیں اور فی نفسہ لازم ملزوم ہونے کے باعث تین ہیں۔
پنجم۔ جناب استفسار فرماتے ہیں کہ قرآن سے ثابت کر دکھلاؤ کہ وہ آگ ہی خدا تھی یا آگ میں سے آواز آئی تھی اور یہ آواز جو آئی تھی کہ میں ا براہیم اور اسحاق اور یعقوب کا خدا ہوں۔ بجواب اس کے عرض یہ ہے کہ آواز غیب سے جو آئی اور جو مخاطب ساتھ موسیٰ کے ہوئی اس کا ذکر ابھی ہم نہیں کرتے لیکن وہ آواز یہ تھی کہ تحقیق میں تیرا رب ہوں(س طٰہ ٰ ر۱) اگر جناب یہ کہیں کہ آگ میں سے یہ آواز نہ تھی تو قرینہ الفاظ تو یہ نہیں ظاہر کرتا کہ سوائے آگ کے اور جگہ سے ہووے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 112
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 112
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/112/mode/1up
اور سورہ قصص میں یوں لکھا ہے کہ اسی آواز کے بارے میں جو آگ یا جھاڑی میں سے آئی کہ تحقیق میں ہوں رب عالموں کا۔ اور تیسری آیہ ماسوائے ان دو آیات کے جو جناب نے پیش کی ہے یہ جملہ کہ میں ابراہیم و اسحاق و یعقوب کا خدا ہوں یہ فی الواقع توریت میں ہے کہ جس موقعہ کا قرآن میں یہ غلط اقتباس ہوا ہے اتنی میری غلطی مان لیں کہ میں نے توریت کے الفاظ قرآن میں بیان کر دیئے مگرؔ دراصل کچھ فرق نہیں کہ میں تیرا رب ہوں اور رب العالمین ہوں اور اسے جو توریت میں لکھا ہے کہ میں تیرے باپ ابراہیم و اسحاق و یعقوب کا خدا ہوں نہ کم ہیں نہ زیادہ۔ دلیل مظہر اللہ کی اس سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ شے مرئی خدا نہیں ہوسکتا۔
ششم۔ یہ جو جناب فرماتے ہیں کہ یک تن اور یک من یہ ہر دو الفاظ توریت میں پائے نہیں جاتے۔ بجواب اس کے ہماری عرض ہے کہ ہم نے یہ استنباط کیا تھا یعنی خلاصہ نکالا تھا۔ اگر ایسا ہی آپ گرفت فرمائیں گے تو یہ وہ نقل ہوجائے گی کہ ایک شخص محمد بخش نامی کو کسی نے کہا تھا کہ تو نماز کیوں نہیں پڑھا کرتا تو اس نے کہا کہ کہاں لکھا ہے محمد بخش نماز پڑھا کرے۔ اب یہ کوئی دلیل نہیں مگر لطیفہ ہے۔
ہفتم۔ آپ ان الفاظ سے جو مسیح خدا وند نے کہے کہ تم اس کو کفر نہیں کہتے ہو جو تمہاری قضات اور بزرگوں کو الوہیم کہا تب تو مجھ کو ابن اللہ کہنے سے کیوں الزام دیتے ہو۔ یہودی لوگوں سے خدا وند مسیح اپنے آپ کو کہتے تھے کہ میں بیٹا خدا کا ہوں تو سنگسار کرنے کو تیار ہوئے کہ تو اپنے آپ کو بیٹا خدا کا کہہ کے مساوی خدا کا بناتا ہے اور یہ کفر ہے اس لئے ہم تجھ کو سنگسار کرتے ہیں۔ ہمارے خدا وند نے ان کے زعم کو اس طرح پر ہٹایا کہ مساوی خدا خدا ہوا۔ اگر میں نے اپنے آپ کو خدا کہا تو تمہارے بزرگوں کو خدا یان کہا گیا وہاں تم نے ان کے کفر کا الزام کیوں نہ دیا۔ پس ان کی یہ دہان بندی خدا وند نے کر دی نہ کہ اپنی الوہیت کا اس نے انکار کردیا اور نہ اس کا کچھ ثبوت پیش کیا۔ گویا اس کی یہ علیحدہ بات رہی اور اس میں نہ کمی کا اقرار ہے اور نہ زیادتی کا۔
ہشتم۔ یہ جو جناب فرماتے ہیں کہ مسیح کی تعریفیں توریت میں اور انبیاء سے بڑھ کر بیان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 113
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 113
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/113/mode/1up
نہیں کی گئیں۔ بجواب اس کے عرض ہے کہ ان سب نے مدار نجات کا المسیح پر رکھا ہے پھر آپ ہی یہ کیونکر فرماتے ہیں کہ مسیح کی صفات اور نبیوں سے بڑھ کر نہیں کی گئیں۔ کس نبی کے بارہ میں بجز مسیح یہ کہا گیا کہ وہ ہمتائے خدا ہے۔ ذکر یا باب ۱۳ - ۷ - وہ یہوا صدقنو جو تخت داؤدی پر آنے والا ہے یرمیاہ باب ۲۳ - ۵و۶و۷۔ وہ خدائے قادر۔ اب ابدیت۔ شاہ سلامت ہے مشیر۔ مصلح جو تخت داؤدی پر ابد تک سلطنت کرے گا۔ یسعیا ۹ - ۶و۷
تتمتاً
بقایا دیر وزہ جس میں جناب نے فضیلت کلام انجیل کی پوچھی ہے ملاحظہ فرمایئے یوحنا کے باب۱۲۔ ۴۸ؔ
سے ۵۰ تک۔ انجیل وہ کلام ہے کہ جس کے موافق عدالت سب لوگوں کی ہوگی یعنی کل عالم کی۔(باقی آئندہ)
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
جواب حضرت مرزا صاحب
۲۴؍ مئی ۹۳ ء
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
کسی قدر کل کے سوالات کا بقیہ رہ گیا تھا۔ اب پہلے اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ مسٹر عبداللہ آتھم صاحب مجھ سے دریافت فرماتے ہیں کہ استقراء کیا چیز ہے اور استقراء کی کیا تعریف ہے؟ اس کے جواب میں واضح ہو کہ استقراء اس کو کہتے ہیں کہ جزئیات مشہودہ کا جہاں تک ممکن ہے تتبع کرکے باقی جزئیات کا انہیں پر قیاس کردیا جائے۔ یعنی جس قدر جزئیات ہماری نظر کے سامنے ہوں یا تاریخی سلسلہ میں ان کا ثبوت مل سکتا ہو تو جو ایک شان خاص اور ایک حالت خاص قدرتی طور پر وہ رکھتے ہیں اسی پرتمام جزئیات کا اس وقت تک قیاس کرلیں جب تک کہ ان کے مخالف کوئی اور جزئی ثابت ہوکر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 114
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 114
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/114/mode/1up
پیش نہ ہو۔ مثلاً جیسے کہ میں پہلے بیان کرچکا ہوں۔ نوع انسان کی تمام جزئیات کا تتبع جہاں تک حد امکان میں ہیں ہوکر یہ امر مسلّم الثبوت قرار پاچکا ہے کہ انسان کی دو آنکھیں ہوتی ہیں تو اب یہ دو آنکھیں ہونے کا مسئلہ اس وقت تک قائم اور برقرار سمجھا جائے گا جب تک اس کے مقابل پر مثلاً چار یا زیادہ آنکھوں کا ہونا ثابت نہ کر دیا جائے۔ اسی بنا پر میں نے کہا تھا کہ اللہ جلّ شانہٗ کی یہ دلیل معقولی کہ ۱ جو بطور استقراء کے بیان کی گئی ہے یہ ایک قطعی اور یقینی دلیل استقرائی ہے۔ جب تک کہ اس دلیل کو توڑ کر نہ دکھلایا جائے اور یہ ثابت نہ کیا جائے کہ خدا تعالیٰ کی رسالتوں کو لے کر خدا تعالیٰ کے بیٹے بھی آیا کرتے ہیں اس وقت تک حضرت مسیحؑ کا خدا تعالیٰ کا حقیقی بیٹا ہونا ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ اس دلیل میں صاف توجہ دلاتا ہے کہ تم مسیح سے لے کر انبیاء کے انتہائی سلسلہ تک دیکھ لو جہاں سے سلسلہ نبوت کا شروع ہوا ہے کہ بجز نوعؔ انسان کے کبھی خدایا خدا کا بیٹا بھی دنیا میں آیا ہے۔ اور اگر یہ کہو کہ آگے تو نہیں آیا مگر اب تو آگیا تو فن مناظرہ میں اس کا نام مصادر علی المطلوب ہے یعنی جو امر متنازعہ فیہ ہے اسی کو بطور دلیل پیش کردیا جائے مطلب یہ ہے کہ زیر بحث تو یہی امر ہے کہ حضرت مسیحؑ اس سلسلہ میں متصلہ مرفوعہ کو توڑ کر کیونکر بحیثیت ابن اللہ ہونے کے دنیا میں آگئے اور اگر یہ کہا جائے کہ حضرت آدم ؑ نے بھی اپنی طرز جدید پیدائش میں اس سلسلہ معمولی پیدائش کو توڑا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم تو خود اس بات کے قائل ہیں کہ اگر دلائل معقولی سے یا تاریخی سے سلسلہ استقراء کے مخالف کوئی امر خاص پیش کیا جائے اور اس کوا دلہ عقلیہ سے یا ادلہ تاریخیہ سے ثابت کر کے دکھلا دیا جائے تو ہم اس کو مان لیں گے یہ تو ظاہر ہے کہ فریقین نے حضرت آدمؑ کی اس پیدائش خاص کو مان لیا ہے گو یاوہ بھی ایک سنّت اللہ طرز پیدائش میں ثابت ہوچکی ہے۔ جیسا کہ نطفہ کے ذریعہ سے انسان کو پیدا کرنا ایک سنّت اللہ ہے اگر حضرت مسیحؑ کو حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ مشابہ کرنا ہے اور اس نظیر سے فائدہ اٹھانا مدنظر ہے تو چاہیئے کہ جس طرح پر اور جن دلائل عقلیہ سے انتہائی سلسلہ نوع انسان کا حضرت آدمؑ کی پیدائش خاص تسلیم کی گئی ہے اسی طرح پر حضرت مسیحؑ کا ابن اللہ ہونا یا خدا ہونا اور سلسلہ سابقہ مشہودہ مثبتہ کو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 115
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 115
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/115/mode/1up
توڑ کر بحیثیت خدائی و ابنیت خدا تعالیٰ دنیا میں آنا ثابت کر دکھلاویں پھر کوئی وجہ انکار کی نہ ہوگی کیونکہ سلسلہ استقراء کے مخالف جب کوئی امر ثابت ہو جائے تو وہ امر بھی قانون قدرت اور سنت اللہ میں داخل ہوجاتا ہے سو ثابت کرنا چاہیئے۔ مگر دلائل عقلیہ سے پھر مسٹر عبداللہ آتھم صاحب فرماتے ہیں کہ الہام چاہیئے کہ اپنی شرح آپ کرے سو واضح ہو کہ اس میں ہمارا اتفاق رائے ہے۔ بیشک الہام صحیح اور سچے کے لئے یہی شرط لازمی ہے کہ اس کے مقامات مجملہ کی تفصیل بھی اسی الہام کے ذریعہ سے کی جائے جیسا کہ قرآن کریم میں یعنی سورہ فاتحہ میں یہ آیت ہے۔ ۱ اب اس آیت میں جو3کا لفظ ہے یہ ایک مجمل لفظ تھا اور تشریح طلب تھا تو خدا تعالیٰ نے دوسرے مقام میں خود اس کی تشریح کر دی اور فرمایا کہ ۲ (سیپارہ ۵ ر ۶)
اور پھر ڈپٹی صاحب موصوف اپنی عبارت میں جس کا خلاصہ لکھتا ہوں یہ فرماتے ہیں کہ الہام الٰہی کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنے دعاوی کو دلائل عقلیہ سے ثابت کرے بلکہ اس کے لئے صرف بیا ن کر دینا کافیؔ ہوگا اور پھر اس کتاب کے پڑھنے والے دلائل آپ پیدا کر لیں گے۔ یہ بیان ڈپٹی صاحب کا اس روک اور حفاظت خود اختیاری کیلئے ہے کہ میں نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ خدا تعالیٰ کی سچی کتاب کی یہ ضروری علامت اور شرط ہے کہ وہ دعویٰ بھی آپ کرے اور اس دعویٰ کی دلیل بھی آپ بیان فرماوے تاکہ ہر ایک پڑھنے والا اس کا دلائل شافیہ پاکر اس کے دعاوی کو بخوبی سمجھ لیوے اور دعویٰ بلا دلیل نہ رہے کیونکہ یہ ہر ایک متکلّم کا ایک نقص سمجھا جاتا ہے کہ دعاوی کرتاچلا جائے اور ان پر کوئی دلیل نہ لکھے۔ اب ڈپٹی صاحب موصوف کو یہ شرط سن کر یہ فکر پڑی کہ ہماری انجیل اس مرتبہ عالیہ سے خالی ہے اور وہ کسی صورت میں قرآن کریم کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ بہتر ہے کہ کسی طرح سے اس کو ٹال ہی دیا جائے سو میری دانست میں ڈپٹی صاحب موصوف کا انجیل شریف پر یہ ایک احسان ہے جو آپ اس کی پردہ پوشی کی حمایت میں لگے ہوئے ہیں۔ افسوس کہ آپ نے ان کلمات کے لکھتے وقت اس بات کی طرف تو جہ نہیں فرمائی کہ آپ ایک زمانہ دراز تک اکسٹرا اسسٹنٹ رہ چکے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 116
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 116
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/116/mode/1up
ہیں اور آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ کیونکر ایک حاکم بحیثیت اپنی حکومت کے متخاصمین میں فیصلہ کیا کرتا ہے۔ کیا آپ نے کبھی ایسا بھی کیا ہے کہ صرف ڈگری یا ڈسمس کا حکم سنا کر روبکار اخیر کا لکھنا جس میں مدلل وجوہات سے صادق کو صادق اور کاذب کو کاذب ٹھہرایا جاوے فضول سمجھا ہو اور یہ تو دنیا کا کام ہے اس کے نقصان میں بھی چنداں ہرج نہیں ہے۔ لیکن اس خدا تعالیٰ کا کلام جو غلط فہمی پر جہنم ابدی کے وعید سناتا ہے کیا وہ ایسا ہونا چاہیئے کہ صرف دعویٰ سنا کر ایک عالم کو مصیبت میں ڈال دے اور اس دعویٰ کی براہین اور دلائل جن کا بیان کرنا خود اس کا ذمہ تھا بیان نہ فرماوے۔ کیا اس کی رحیمیت کا یہی تقاضا ہونا چاہئے۔ ماسوا اس کے آپ جانتے ہیں کہ انبیاء اس وقت میں آیا کرتے ہیں کہ جب دنیا تاریکی میں پڑی ہوتی ہے اور عقلیں ضعیف ہوتی ہیں اور فکر ناتمام ہوتے ہیں اور جذبات نفسانیہ کے دخان غلبہ اور جوش میں ہوتے ہیں۔ اب آپ انصاف کریں کہ کیا اس صورت میں خدا تعالیٰ کا حق نہیں ہے کہ وہ اپنے کلام کو ظلمت کے اٹھا ڈالنے کے لئے مدلل طور پر پیش کرے اور ظلمت سے نکالے نہ یہ کہ گول مول اور پیچیدہ بیانات پیش کرکے اور بھی ظلمت اور حیرت میں ڈال دیوے۔ ظاہر ہے کہ حضرت مسیحؑ سے پہلے یہود لوگ بنی اسرائیل سیدھے سادے طور پر خدا تعالیٰ کو مانتے تھے اور اس ماننے میں وہ بڑے مطمئن تھے اور ہر ایک دل بول رہا تھا کہ خداؔ حق ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور مصنوعات کا صانع حقیقی ہے اور واحدلا شریک ہے اور کسی قسم کا دغدغہ خدا شناسی میں کسی کو نہ تھا۔ پھر جب حضرت مسیحؑ تشریف لائے تو وہ آنحضرت علیہ السلام کے بیانات سن کر گھبرا گئے کہ یہ شخص کس خدا کو پیش کررہا ہے۔ توریت میں تو ایسے خدا کا کوئی پتہ نہیں لگتا۔ تب حضرت مسیحؑ نے کہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی اور اس کے پیارے اور برگزیدہ تھے۔ اس وہم باطل کو دور کرنے کے لئے کہ یہودیوں نے بباعث کو تہ اندیشی اپنی کے اپنے دلوں میں جما لیا تھا ۔وہ اپنے کلمات مبارکہ پیش کئے جو یوحنا ۱۰ باب ۲۹ - ۳۰ آیت میں موجود ہیں چنانچہ وہ عبارت بجنسہٖ ذیل میں لکھ دی جاتی ہے چاہئے کہ تمام حاضرین حضرت مسیحؑ کی اس عبارت کو غور سے اور توجہ سے سنیں کہ ہم میں اور حضرات عیسائی صاحبوں میں پورا پورا فیصلہ دیتی ہے اور وہ یہ ہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 117
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 117
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/117/mode/1up
میرا باپ جس نے انہیں مجھے دیا ہے سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں میرے باپ کے ہاتھ سے چھین نہیں لے سکتا میں اور باپ ایک ہیں۔ تب یہودیوں نے پھر پتھر اٹھائے کہ اس پر پتھراؤ کریں۔ یسوع نے انہیں جواب دیا کہ میں نے اپنے باپ کے بہت سے اچھے کام تمہیں دکھائے ہیں ان میں سے کس کام کے لئے تم مجھے پتھراؤ کرتے ہو۔ یہودیوں نے اسے جواب دیا اور کہا کہ ہم تجھے اچھے کام کے لئے نہیں بلکہ اس لئے تجھے پتھراؤ کرتے ہیں کہ تو کفر بکتا ہے اور انسان ہو کے اپنے تئیں خدا بناتا ہے یسوع نے انہیں جواب دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو جب کہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے کہ میں نے کہا میں خدا کا بیٹا ہوں۔
اب ہر ایک منصف اور ہر ایک متد ّ ین سمجھ سکتا ہے کہ یہودیوں کا یہ اعتراض تھا کہ انہوں نے باپ کا لفظ سن کر اور یہ کہ میں اور باپ ایک ہیں یہ خیال کر لیا کہ یہ اپنے تئیں خدا تعالیٰ کا حقیقی طور پر بیٹا قرار دیتا ہے تو اس کے جواب میں حضرت مسیحؑ نے صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ مجھ میں کوئی زیادہ بات نہیں۔ دیکھو تمہارے حق میں تو خدا کا اطلاق بھی ہوا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیحؑ درحقیقت اپنے تئیں ابن اللہ جانتے اور حقیقی طور سے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کا بیٹا تصوّر کرتے تو اس بحث اور پرخاش کے وقت میں جب یہودیوں نے ان پر الزام لگایا تھا مرد میدان ہوکر صاف اور کھلے کھلے طور پر کہہ دیتے کہ میں درحقیقت ابن اللہ ہوں اور حقیقی طور پر خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں۔ بھلا یہ کیا جواب تھا کہ اگر میں اپنے تئیںؔ بیٹا قرار دیتا ہوں تو تمہیں بھی تو خدا کہا گیا ہے بلکہ اس موقعہ پر تو خوب تقویت اپنے اثبات دعویٰ کی ان کو ملی تھی کہ وہ بقول ڈپٹی صاحب وہ تمام پیشین گوئیاں پیش کر دیتے جو ڈپٹی صاحب موصوف نے اپنے کل کے جواب میں لکھائی ہیں۔ بلکہ ایک فہرست بھی ساتھ دے دی ہے اور انہیں اس وقت کہنا چاہیئے تھا کہ تم تو اسی قدر بات پر ناراض ہوگئے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔ اور میں تو بموجب بیان تمہاری کتابوں کے اور بموجب فلاں فلاں پیشگوئی کے خدا بھی ہوں۔ قادر مطلق بھی ہوں خدا کا ہمتا بھی ہوں۔ کونسا مرتبہ خدائی کا ہے جو مجھ میں نہیں ہے۔ غرض کہ یہ مقام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 118
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 118
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/118/mode/1up
انجیل شریف کے تمام مقامات اور بائبل کی تمام پیشگوئیوں کو حل کرنے والا اور بطور ان کی تفسیر کے ہے۔ مگر اس کے لئے جو خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔
پھر ڈپٹی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ ’’یہودیوں کا اتفاق کیوں مانگا جائے‘‘۔ سو واضح ہو کہ یہودیوں کا اتفاق اس لئے مانگا جاتا ہے کہ وہ نبیوں کی اولاداورنبیوں سے مسلسل طور پر تعلیم پاتے آئے اور انجیل شریف بھی مقام شہادت دے رہا ہے کہ ہر ایک تعلیم نبیوں کی معرفت ان کو سمجھائی بلکہ حضرت عیسیٰؑ خود شہادت دیتے ہیں کہ ’’فقیہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں جو کچھ وہ تمہیں ماننے کو کہیں وہ عمل میں لاؤ۔ لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں پر کرتے نہیں‘‘۔ (متی ۲۳ باب۱)
اب حضرت مسیحؑ کے اس فرمودہ سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے متبعین اور شاگردوں کو نصیحت فرما رہے ہیں کہ یہودیوں کی رائے عہد عتیق کے بارہ میں ماننے کے لائق ہے تم ضرور اس کو مانا کرو کہ وہ حضرت موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس سے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہودیوں کی شہادت کو رد کرنا ایک قسم کی نافرمانی حضرت مسیحؑ کے حکم کی ہے۔ اور یہودی یہ تو اپنی تفسیروں میں کہیں نہیں لکھتے کہ کوئی حقیقی خدایا خدا کا بیٹا آئے گا۔ ہاں ایک سچے مسیح کے منتظر ہیں اور اس مسیح کو خدا نہیں سمجھتے۔ اگر سمجھتے ہیں تو ان کی کتابوں میں سے اس کا ثبوت دیں۔ (باقی آئندہ)
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ) ازجانب اہل اسلام ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ) ازجانب عیسائی صاحبان
بیانؔ ڈپٹی صاحب مسٹر عبداللہ آتھم
۲۴ ؍مئی ۱۸۹۳ ء
بقیہ جواب۔ خدا کے کلام کی فضیلت و کمالیت
پہلے۔ انجیل اس بات کی مدعی ہے کہ وہ لازوال کلام ہے حتیّٰ کہ لوگوں کی عدالت اسی کے موافق ہوگی۔ (یوحنا ۱۲ باب ۴۸ سے ۵۰ تک)
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 119
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 119
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/119/mode/1up
دوم۔ انجیل اپنے تئیں نجات کے ازلی بھید کا کاشف کہتی ہے۔ (رومی ۱۶ باب ۲۵و۲۶) (پطرس کا پہلا خط ۱۔ باب ۲۰)۔
سوم۔ انجیل اپنے تئیں خدا کی قدرت کہتی ہے۔ (رومی ایک باب ۱۶)۔
چہارم۔ انجیل اپنے تئیں زندگی اور بقا کی روشنی کرنے والی کہتی ہے (طمطاؤس کا دوسرا خط ۱ باب ۱۶)
پنجم۔ انجیل انسانی حکمت کا نہیں لیکن اپنے تئیں خدا کی روح کا فرمایا ہوا کلام فرماتی ہے۔ (قرنتیوں کے نام کا پہلا خط ۲ باب ۱۲و۱۳ و پطرس کا دوسرا خط پہلا باب ۱۹)
ششم۔ اس انجیل کے مقابل میں ہر ایک انجیل ہیچ ہے (گلاتی کے نام کا خط ۱ باب۸)
پس یہ وہ امور ہیں کہ جو کلام اللہ کی فضیلت و کاملیت و خوبی و فیض ر سانی پر دال ہیں نہ وہ امور جو معاشرت کے متعلق ہیں کہ جن کی نسبت حکیم و ڈاکٹر بھی انسان کو واجبی شرح بتا سکتے ہیں۔
جناب نے جو فرمایا قرآن میں لکھا ہے اکملت لکم دینکم غالباً بروئے متن کلام قرآن متعلق معاشرت کے ہے کہ جس میں حِل و حُرمت کا ذکر ہے۔
بجواب اعتراضات ۲۴۔ مئی ۱۸۹۳ ء
اوّل۔ استقراء کے معنے ہم سمجھ چکے ہیں کہ معمول اور گذشتہ پیوستہ میں جو تجربہ قانون بتاتا ہے اس کو استقراء کہتے ہیں۔ اس کے بارہ میں جناب مرزا صاحب کا فرمانا درست ہے کہ اگر کچھ استثناء اس کا ہو تو امکان محض اس کا ثابت کرنا کافی نہیں ہے مگر واقعی اس کا ثابت کرنا ضروری ہے۔ سو اس کے بارہ میں عرض اتنی ہے کہ مقدمہ مسیح کا بالکل استثنائی ہے جس کی واسطے ہم نے آیات کلام الٰہی پیش کی ہیں۔ مزید برآں ہم یہ دکھلانا چاہتے ہیں کہ کثرت فی الوحدت عہد عتیق میں موجود ہے اگر وہ موجود نہ ہوتی تو یہودی صادق ٹھہر سکتے تھے اور چونکہ یہ امر وہاں موجود ہے تو ان کو کچھ عذر نہ ہونا چاہئے۔ پس میں بطور مثال دو نظیرؔ یں پیش کرتا ہوں۔ اول یہ کہ پیدائش ۱باب ۲۶ میں لکھا ہے و یومر الوھیم نعشا آدام سلمنوقد میتونو یعنی کہا الوہیم خدا نے ہم بناویں آدم کو اوپر صورتوں اپنیوں کے اور اوپر شکلوں اپنیوں کے۔ دوم پیدائش۳۲۲میں ہے یہوا الوہیم نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 120
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 120
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/120/mode/1up
مانند ہوگیا- اس آیت میں جس جملہ کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا (عبرانی میں کا حد ممنو ہے) اس جملے متکلم مع الغیر کو دیکھ کر یہودیوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس موقعہ پر فرشتگان کو اپنی معیت میں لیتا ہے اور سرسید احمد خاں بہادر نے یہ لکھا ہے کہ غیر اس جملہ میں وہ آدم ہاطبقہ ماقبل آدم معروفہ کے ہیں جو گناہ کرکے تباہ ہوگئے۔ اور کلمہ لو ممنومیں متکلم مع الغیر نہیں بلکہ جمع غائب ہے۔ مراد ان دونوں صاحبوں کا یہ ہے کہ کثرت فی الوحدت کی تعلیم ثابت نہ ہونے پائے۔
دوم۔ اب ہم ان صاحبوں سے سوال ذیل رکھتے ہیں۔ اول یہودیوں سے یہ کہ آپ کے فرشتوں کا مرجوع متن کلام میں کہاں ہے۔ کیا صیغہ ہم کا اسم ضمیر نہیں؟ اور کیا اسم ضمیر کے لئے مرجوع کاہونا اس کے قرب میں ضرور نہیں؟ اور اگر کوئی کلام بغیرمرجوع کی نشاندہی کے درخود نہ ہو تو کیا اس کو مبہم اور مخبط نہیں کہتے؟ جیسا کہ اگر میں کسی سے کہوں کہ وہ بات یوں تھی اور قبل اور مابعد میں اس کا ذکر نہ ہو کہ کونسی بات۔ تو کیا یہ خبط کلامی نہیں؟ پس جب فرشتگان کا ذکر معیت میں کرتے ہیں تو ان کو متن ہی میں ان فرشتوں کو دکھانا چاہیئے۔ دوم اگر فرشتے ہی اس کے مصداق ہوویں تو ضرور ہے کہ بدی کا علم ان کا ذاتی ہو یا کسبی۔ اگر ذاتی ہو تو وہ مخلوق نہیں ہوسکتے کیونکہ علم ذاتی قائم بالذات کا ہوتا ہے اور اگر کسبی ہو تو یہ کسب ان کو ناپاک کر دیتا ہے تو پس وہ صحبت اقدس خالق کے لائق کیونکر ہوئی جو معیت میں اس کے لئے جاویں۔ سرسیدصاحب سے اول سوال ہمارا وہی ہے کہ متن میں مرجوع ان آدم ہاکا جو ماقبل آدم معروف کے متصور ہیں کہاں ہیں۔ فی متن تو درکنار جناب کے جیالوجی میں بھی کہاں ہے کہ جس کا فخر جناب کرتے ہوں ماسوا اس کے اگر جیالوجی سے گذر کر کسی اور سائینس میں ہووے تو اس کا پتہ دیویں۔ ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ ہرگز ایسا پتہ نہ دے سکیں گے اور نہ اس عہدہ برائی سے یہودی باہر آسکتے ہیں۔ مگر مسیحیوں کا منہ بندکرنے کے لئے خیالات باطلہ پیش کرتے ہیں اور اس سے صاف تو فقرہ کیا ہوسکتا ہے اور کیا تاویل ایسے فقرہ کی ہوسکتی ہے کہ دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا۔ لغت و اصطلاح منطق و معانی صرف و نحو اِن سارے معیاروں کے آگے ہم اس فقرہ کو رکھتے ہیں۔ سر سید احمد خاں بہادرنےؔ جو الوہیم میں جمع تعظیمی بیان کی۔ حضرت ہم کو کہیں سے دکھلا دیویں کہ نیچر میں یاواقعات میں اسماء خاص میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 121
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 121
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/121/mode/1up
بھی کہیں تعظیم و تذلیل ہوسکتی ہے۔ کیا سرسید کا نام سرسید احمد ان بھی ہوسکتا ہے؟ یہ ڈھکوسلہ بازی نہیں تو اور کیا ہے؟
سرسید صاحب نے فرمایا ہے کہ بعلیم اور استرا فیم میںیہ ی میم تعظیمیہ ہے وہ بھی باطل بلکہ ابطل ہے اس لئے یہ فرضی دیوتا تھے واقعی اشخاص نہ تھے اور بروئے مورتہائے ان کی کے متفرق جگہوں میں پوجے جاتے تھے اور کثرت مورتوں کے لحاظ سے کثرت ناموں میں رکھی گئی جیسے کہ جسمیر سے کرشن یارا م چندر کی مورتیں آتی ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ ہمارا بیوپار کرشنوں اور رام چندروں کا ہے۔
غرض ہماری یہ ہے کہ نام خاص میں تعظیم اور تذلیل کچھ نہیں۔
سوم۔ ایک امر جو ادراک سے باہرہو اس کا امکان تو عقل ہے ہم پیش کریں گے اور واقعہ ہونا کلام سے۔ سو الہامی کتابوں سے ہم نے الوہیت مسیح اور مسئلہ تثلیث فی التوحید کو بخوبی پیش کر دیا ہے اور امکان بھی عقل سے دکھلا دیا ہے ۔ پس اب ہمارے ذمّہ بارثبوت کچھ باقی نہیں۔
چہارم۔ الہام کا مشرح الہام ہی ہونا چاہیئے۔ اس بارہ میں آپ کا فرمانا بہت سا درست ہے اور افضل ہے کیونکہ اگر الہام کسی جگہ مجمل اور مبہم معلوم ہو تو دوسرے موقعہ الہام سے اس کی شرح اچھی طرح ہوسکتی ہے لیکن اگر کسی الہام میں کوئی تعلیم ایک ہی موقع پر ہو اور وہ بھی مشرح نہ ہو تو تاویل عقلی کو اس میں گنجائش ہے۔
ہم اس کو ردیات میں نہیں پھینک سکتے ہیں بلکہ وہاں اس کی تاویل عقلی کریں گے۔
پنجم۔ و ہ جو خدا وند مسیح نے کہا کہ تم میرے ابن اللہ کہنے پر کفر کا الزام کیوں لگاتے ہو کیا تمہارے قضات اور بزرگوں کو الوہیم نہیں کہا گیا۔ ان پر کفر کا الزام نہیں ہے تو مجھ پر کیوں؟ اس سے اس نے اپنی الوہیت کا انکار کچھ نہیں کیا۔ مگر ان کے غصہ کو بیجا ٹھہرایا اور تھام دیا۔ علاوہ براں متی کے ۱۶ باب ۱۳ تا ۱۶ میں اس خطاب کو خدا وند نے حواریوں سے منظور بھی فرمایا کہ وہ زندہ خدا کا بیٹا ہے۔ پھر متی ۲۶ ۔ ۶۳ میں مرقوم ہے تب سردار کاہن نے اسے کہا میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں۔ اگر تو مسیح خدا کا بیٹا ہے تو ہم سے کہہ۔ یسوع نے اسے کہا۔ ہاں۔ وہ جو تو کہتا ہے۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 122
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 122
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/122/mode/1up
چوؔ تھاپرچہ
مباحثہ ۲۵۔ مئی ۱۸۹۳ء
روئداد
آج چھ بجے ۸ منٹ پر میرزا صاحب نے اپنا جواب لکھانا شروع کیا اور سات بجے ۸ منٹ پر ختم کیا۔ اس موقعہ پر یہ تحریک پیش ہوئی اور باتفاق رائے پیش ہوئی کہ چونکہ مضمون سنائے جانے کے وقت کاتب تحریروں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں اس لئے ان کی روک ٹوک کی وجہ سے مضمون بے لطف ہوجاتا ہے اور سامعین کو مزہ نہیں آتا۔ بنا براں ایسا ہونا چاہئے کہ کاتب پیشتر مضمون سنائے جانے کے باہم تحریروں کا مقابلہ کرلیا کریں۔ پھر ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے ۷ بجے ۵۴ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور آٹھ بجے ۵۴ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا۔ پھر مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۴ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰ بجے ۱۲ ۲۴ منٹ پر ختم ہوا اور بلند آواز سے سنایا گیا ۔ بعدازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط ہوئے اور مصدقہ تحریریں فریقین کو دی گئیں اور جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی ہنری مارٹن کلارک دستخط بحروف انگریزی غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
۲۵ ؍مئی ۱۸۹۳ ء وقت ۶ بجے ۸ منٹ
بیان حضرت مرزا صاحب
ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے میرے پہلے بیان پر جو میں نے کتاب آسمانی کے لئے بطور ضروری اعجازی علامت کے یہ لکھا تھا کہ دونوں کتابیں انجیل اور قرآن شریف کا ان کے کمالات ذاتیہ میں مقابلہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 123
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 123
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/123/mode/1up
کیاؔ جائے تو ڈپٹی صاحب کمال کے لفظ پر گرفت فرماتے ہیں کہ کمال کیا چیز ہے کیا سنار اور لوہار کا کمال بلکہ راہ نجات دکھلانے کا کمال ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں لکھا جاتا ہے کہ راہ نجات دکھلانے کا دعویٰ اس صورت میں اوراس حالت میں کمال متصور ہوگا کہ جب اس کو ثابت کرکے دکھلادیا جاوے اور پہلے اس سے اس بات کا ذکر کرنا بھی میرے نزدیک بے محل ہے۔ اب واضح ہو کہ اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن کریم میں اپنی کمال تعلیم کا آپ دعویٰ فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۱ الخ کہ آج میں نے تمہارے لئے دین تمہارا کامل کیااور اپنی نعمت یعنی تعلیم قرآنی کو تم پر پورا کیا۔ اور ایک دوسرے محل میں اس اکمال کی تشریح کے لئے کہ اکمال کس کو کہتے ہیں فرماتا ہے ۲ (س ۱۳۔ ر ۱۶)کیا تو نے نہیں دیکھا کیونکر بیان کی اللہ نے مثال یعنی مثال دین کامل کی کہ بات پاکیزہ درخت پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑ ثابت ہو اور شاخیں اس کی آسمان میں ہوں اور وہ ہر ایک وقت اپنا پھل اپنی پروردگار کے حکم سے دیتا ہو اور یہ مثالیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تالوگ ان کو یاد کر لیں اور نصیحت پکڑ لیں۔ اور ناپاک کلمہ کی مثال اس ناپاک درخت کی ہے جو زمین پرسے اُکھڑا ہوا ہے اور اس کو قرار و ثبات نہیں۔ سو اللہ تعالیٰ مومنوں کو قول ثابت کے ساتھ یعنی جو قول ثابت شدہ اور مدلّل ہے اس دنیا کی زندگی اور آخرت میں ثابت قدم کرتا ہے اور جو لوگ ظلم اختیار کرتے ہیں ان کو گمراہ کرتا ہے یعنی ظالم خدا تعالیٰ سے ہدایت کی مدد نہیں پاتا جب تک ہدایت کا طالب نہ ہو۔
اب دیکھئے کہ ڈپٹی صاحب موصوف نے آیت اَکْمَلْتُ لَکُمْ کی تشریح میں صرف اتنا فرمایاتھا کہ یہ غالباً امورمعاشرت کے متعلق معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ڈپٹی صاحب موصوف اس بات کوتسلیم کرچکے ہیں کہ کسی آیت کے وہ معنے کرنے چاہئے کہ الہامی کتاب آپ کرے اورالہامی کتاب کی شرح
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 124
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 124
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/124/mode/1up
دوسری شرحوں پر مقدم ہے۔ اب اللہ تعالیٰ ان آیات میں کلام پاک اور مقدس کا کمال تین باتوں پر موقوف قرار دیتا ہے۔ اول یہ کہ اصلھا ثابت یعنی اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور فی حدِّ ذاتہٖ یقینؔ کامل کے درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں اور فطرت انسانی اس کو قبول کرے کیونکہ ارض کے لفظ سے اس جگہ فطرت انسانی مراد ہے جیسا کہ من فوق الارض کا لفظ صاف بیان کر رہا ہے اور ڈپٹی صاحب اس سے انکار نہیں کریں گے ۔ خلاصہ یہ کہ اصول ایمانیہ ایسے چاہئیں کہ ثابت شدہ اور انسانی فطرت کے موافق ہوں۔ پھر دوسری نشانی کمال کی یہ فرماتا ہے کہ فرعھا فی السماء یعنی اس کی شاخیں آسمان پر ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھیں یعنی صحیفۂ قدرت کو غور کی نگاہ سے مطالعہ کریں تو اس کی صداقت ان پر کھل جائے۔ اور دوسری یہ کہ وہ تعلیم یعنی فروعات اس تعلیم کے جیسے اعمال کا بیان۔ احکام کا بیان۔ اخلاق کا بیان یہ کمال درجہ پر پہنچے ہوئے ہوں جس پر کوئی زیادہ متصور نہ ہو۔ جیسا کہ ایک چیز جب زمین سے شروع ہوکر آسمان تک پہنچ جائے تو اس پر کوئی زیادہ متصور نہیں۔
پھر تیسری نشانی کمال کی یہ فرمائی کہ تؤ تی اکلھا کل حین ہرایک وقت اور ہمیشہ کے لئے وہ اپنا پھل دیتا رہے ایسا نہ ہو کہ کسی وقت خشک درخت کی طرح ہو جاوے جو پھل پھول سے بالکل خالی ہے۔ اب صاحبو دیکھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمودہ الیوم اکملت کی تشریح آپ ہی فرما دی کہ اس میں تین نشانیوں کا ہونا از بس ضروری ہے۔سو جیسا کہ اس نے یہ تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں اسی طرح پر اس نے ان کو ثابت کرکے بھی دکھلا دیا ہے اور اصول ایمانیہ جو پہلی نشانی ہے جس سے مراد کلمہ لا الہ الا اللّٰہ ہے اس کو اس قدر بسط سے قرآن شریف میں ذکر فرمایا گیا ہے کہ اگر میں تمام دلائل لکھوں تو پھر چند جزو میں بھی ختم نہ ہوں گے مگر تھوڑا سا ان میں سے بطور نمونہ کے ذیل میں لکھتا ہوں جیسا کہ ایک جگہ یعنی سیپارہ دوسرے سورۃ البقر میں فرماتا ہے۔ ۱
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 125
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 125
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/125/mode/1up
یعنی تحقیق آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے او ررات اور دن کے اختلاف اور ان کشتیوں کے چلنے میں جو دریا میں لوگوں کے نفع کے لئے چلتی ہیں اور جو کچھ خدا نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کیا۔ اور زمین میں ہر ایک قسم کے جانور بکھیر دیئے اور ہواؤں کو پھیرا اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں مسخرؔ کیا۔ یہ سب خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید اور اس کے الہام اور اس کے مدبّر بالارادہ ہونے پر نشانات ہیں۔ اب دیکھئے اس آیت میں اللہ جلّ شانہٗ نے اپنے اس اصول ایمانی پر کیسا استدلال اپنے اس قانون قدرت سے کیا یعنی اپنی ان مصنوعات سے جو زمین و آسمان میں پائی جاتی ہیں جن کے دیکھنے سے مطابق منشاء اس آیت کریمہ کے صاف صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بیشک اس عالم کا ایک صانع قدیم اور کامل اور وحدہٗ لاشریک اور مدبر بالارادہ اور اپنے رسولوں کو دنیا میں بھیجنے والا ہے وجہ یہ کہ خدا تعالیٰ کی تمام یہ مصنوعات اور یہ سلسلہ نظام عالم کا جو ہماری نظر کے سامنے موجود ہے۔ یہ صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ یہ عالم خود بخود نہیں بلکہ اس کا ایک موجد اور صانع ہے جس کے لئے یہ ضروری صفات ہیں کہ وہ رحمان بھی ہو اور رحیم بھی ہو اور قادر مطلق بھی ہو اور واحد لا شریک بھی ہو اور ازلی ابدی بھی ہو اور مد ّ بر بالارادہ بھی ہو اور مستجمع جمیع صفات کاملہ بھی ہو اور وحی کو نازل کرنے والا بھی ہو۔
دوسری نشانی یعنی فرعھا فی السماء جس کے معنے یہ ہیں کہ آسمان تک اس کی شاخیں پہنچی ہوئی ہیں اور آسمان پر نظر ڈالنے والے یعنی قانون قدرت کے مشاہدہ کرنے والے اس کو دیکھ سکیں اور نیز وہ انتہائی درجہ کی تعلیم ثابت ہو۔ اس کے ثبوت کا ایک حصہ تو اسی آیت موصوفہ بالا سے پیدا ہوتا ہے کس لئے کہ جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ نے مثلاً قرآن کریم میں یہ تعلیم بیان فرمائی ہے کہجس کے یہ معنے ہیں کہ اللّٰہجَلَّ شَانَہٗ تمام عالموں کا رب ہے یعنی علۃ العلل ہر ایک ربوبیت کا وہی ہے۔ دوسری یہ کہ وہ رحمان بھی ہے یعنی بغیر ضرورت کسی عمل کے اپنی طرف سے طرح طرح کے آلاء اور نعماء شامل حال اپنی مخلوق کے رکھتا ہے اور رحیم بھی ہے کہ اعمال صالحہ کے بجالانے والوں کا مددگار ہوتا ہے اور ان کے مقاصد
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 126
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 126
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/126/mode/1up
کو کمال تک پہنچاتا ہے اور مالک یوم الدین بھی ہے کہ ہر ایک جزا سزا اس کے ہاتھ میں ہے جس طرح پر چاہے اپنے بندہ سے معاملہ کرے۔ چاہے تو اس کو ایک عمل بد کے عوض میں وہ سزا دیوے جو اس عمل بد کے مناسب حال ہے اور چاہے تو اس کے لئے مغفرت کے سامان میسّر کرے اور یہ تمام امور اللہ جلّ شانہٗ کے اس نظام کو دیکھ کر صاف ثابت ہوتے ہیں۔
پھر تیسری نشانی جو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی تؤتی اکلھا کل حین یعنی کامل کتاب کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ جس پھل کا وہ وعدہ کرتی ہے وہ صرف وعدہ ہی وعدہ نہ ہو بلکہ وہ پھل ہمیشہ اورؔ ہر وقت میں دیتی رہے۔ اور پھل سے مراد اللہ جلّ شانہٗ نے اپنا لقامعہ اس کے تمام لوازم کے جو برکات سماوی اور مکالمات الٰہیہ اور ہر ایک قسم کی قبولیتیں اور خوارق ہیں رکھی ہیں جیسا کہ خود فرماتا ہے۔(س۲۴ر۱۸) وہ لوگ جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی یعنی اپنی بات سے نہ پھرے اور طرح طرح کے زلازل ان پر آئے مگر انہوں نے ثابت قدمی کو ہاتھ سے نہ دیا۔ ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم کچھ خوف نہ کرو اور نہ کچھ حزن اور اس بہشت سے خوش ہو جس کا تم وعدہ دیئے گئے تھے یعنی اب وہ بہشت تمہیں مل گیا اور بہشتی زندگی اب شروع ہوگئی۔ کس طرح شروع ہوگئی نحن اولیاء کم الخ اس طرح کہ ہم تمہارے متولّی ور متکفل ہوگئے اس دنیا میں اور آخرت میں اور تمہارے لئے اس بہشتی زندگی میں جو کچھ تم مانگو وہی موجود ہے یہ غفور رحیم کی طرف سے مہمانی ہے۔ مہمانی کے لفظ سے اس پھل کی طرف اشارہ کیا ہے جو آیت 3 3 ۲ میں فرمایا گیا تھا۔ اور آیت3 ۳ کے متعلق ایک بات ذکر کرنے سے رہ گئی کہ کمال اس تعلیم کا باعتبار اس کے انتہائی درجہ ترقی کے کیونکر ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن شریف سے پہلے جس قدر تعلیمیں آئیں درحقیقت وہ ایک قانون مختص القوم یا مختلف الزمان کی طرح تھیں اور عام افادہ کی قوت ان میں نہیں پائی جاتی تھی۔ لیکن قرآن کریم تمام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 127
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 127
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/127/mode/1up
قوموں اور تمام زمانوں کی تعلیم اور تکمیل کے لئے آیا ہے مثلاً نظیر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت موسیؑ کی تعلیم بڑا زور سزا دہی اور انتقام میں پایا جاتا ہے جیسا کہ دانت کے عوض دانت اور آنکھ کے عوض آنکھ کے فقروں سے معلوم ہوتا ہے۔ اور حضرت مسیح ؑ کی تعلیم میں بڑا زور عفواور درگذر پر پایا جاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ دونوں تعلیمیں ناقص ہیں نہ ہمیشہ انتقام سے کام چلتا ہے اور نہ ہمیشہ عفو سے بلکہ اپنے اپنے موقعہ پر نرمی اور درشتی کی ضرورت ہوا کرتی ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے ۱(س۵ر۵) یعنی اصل بات تو یہ ہے کہ بدی کا عوض تو اسی قدر بدی ہے جو پہنچ گئی ہے لیکن جو شخص عفو کرے اور عفو کا نتیجہ کوئی اصلاح ہو نہ کہ کوئی فساد۔ یعنی عفو اپنے محل پر ہو نہ غیر محل پر۔ پس اجر اس کا اللہ پر ہے یعنی یہ نہایت احسن طریق ہے۔
ابؔ دیکھئے اس سے بہتر اور کونسی تعلیم ہوگی کہ عفو کو عفو کی جگہ اور انتقام کو انتقام کی جگہ رکھا۔ا ور پھر فرمایا۲(س۱۴۔ر۱۹) یعنی اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ باوجود رعایت عدل کے احسان کرو اور احسان سے بڑھ کریہ ہے کہ تم ایسے طور سے لوگوں سے مروت کرو کہ جیسے کہ گویا وہ تمہارے پیارے اورذوالقربیٰ ہیں۔اب سوچنا چاہیے کہ مراتب تین ہی ہیں۔ اول انسان عدل کرتا ہے یعنی حق کے مقابل حق کی درخواست کرتا ہے۔ پھر اگر اس سے بڑھے تو مرتبہ احسان ہے۔اور اگر اس سے بڑھے تو احسان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور ایسی محبت سے لوگوں کی ہمدردی کرتاہے جیسے ماں اپنے بچہ کی ہمدردی کرتی ہے یعنی ایک طبعی جوش سے نہ کہ احسان کے ارادہ سے۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح۔ پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک۔ پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 128
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 128
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/128/mode/1up
بیان مسٹر عبداللہ آتھم صاحب
بقیہ دیروزہ ۲۵۔ مئی ۱۸۹۳ ء
جناب مرزا صاحب مکرم میرے جو فرماتے ہیں کہ جو امور تعلیمیہ کسی کتاب الہامی سے ہوں ان کا ثبوت بھی اسی کتاب کے بیان سے ہو یعنی اس قسم کی کھچڑی نہ ہو جائے کہ کچھ تو کتاب کی تعلیم سے پیدا ہو جائے اور کچھ ذہن اس شخص کے سے جو تائید کرنے کے واسطے اس تعلیم کے کھڑا ہے۔ جس کے جواب میں میری التماس یہ ہے کہ میں نے مختصر ایک فہرست بنا دی ہے کہ جس کو پادری ٹامس ہاول صاحب لکھوا دیویں کہ میں کمزورآدمی ہوں۔ وھو ھٰذا۔
اوّل کثرت فی الوحدت
یرمیا ۲۳ باب ۶۔ اس کے دنوں میں یہود انجات پاوے گا اور اسرائیل سلامتی سے سکونت کرے گا اور اس کا یہ نام رکھا جائے گا خداوند ہماری صداقت۔ اصل میں ہے یھوصدقنو۔ یسعیاؔ ۷ باب ۱۴،۸ باب ۱۰ دیکھو کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام ایمانوائیل رکھیں گے تم منصوبہ باندھو پر وہ باطل ہوگا۔ حکم سناؤ پر وہ نہ ٹھہرے گا کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ اس جگہ لفظ ایمانوایل ہے۔ یسعیا ۴۰ باب ۳۔ ملاکی ۳ باب ۱ بمقابلہ متی ۳ باب۳ زکریا ۱۲ باب۱و۱۰ بمقابلہ یوحنا۱۹باب ۳۷یسعیا۶باب ۵بمقابلہ یوحنّا ۱۲ باب ۳۷و۴۰و۴۱۔
دوم الوہیت کی لازمی صفات المسیح میں
اوّل ازلیّت یوحنّا ۱ باب ۱ سے ۳ تک۔ ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھایہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا سب چیزیں اس سے موجود ہوئیں اور کوئی چیز موجودہ نہ تھی جو بغیر اس کے ہوئی۔ یوحنّا ۸ باب ۵۸۔ یسوع نے انہیں کہا میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں پیشتر اس سے کہ ابراہام ہو میں ہوں۔ مکاشفات ۱ باب ۸۔ خداوندیوں فرماتا ہے کہ میں الفا اومیگا اول اور آخر جو ہے اور تھا اور آنے والا ہے قادر مطلق ہوں۔ یوحنّا ۱۷ باب ۵۔ یسعیا ۴۴ باب ۶
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 129
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 129
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/129/mode/1up
بمقابلہ مکاشفات ۲ باب ۸ ومیکہ ۵ باب ۲۰۔
دوم۔ خالقیت یوحنّا۳ و۱۱۰ سب چیزیں اس سے موجود ہوئیں کوئی چیز موجود نہ تھی جو بغیر اس کے ہوئی وہ جہان میں تھا اور جہان اسی سے موجود ہوا۔ اور جہان نے اسے نہ جانا۔ عبرانی۲و۳ ۱ان آخری دنوں میں ہم سے بیٹے کے وسیلہ سے بولا جس نے اس کو ساری چیزوں کا وارث ٹھہرایا اور جس کے وسیلے اس نے عالم بنائے وہ اس کے جلال کی رونق اور اس کی ماہیت کا نقش ہوکے سب کچھ اپنی ہی قدرت کے کلام سے سنبھال لیتا ہے۔ قلسی ۱۵و۱۱۶و۱۷ افسی ۳۹ مکاشفات ۴۱۱ ان سب کا مقابلہ ۱مثال ۸ باب سے۔
تیسرامحافظ کل ہستی
قلسی ۱۱۷ وہ سب سے آگے ہے اور اس سے ساری چیزیں بحال رہتی ہیں بمقابلہ یسعیا ۲۴ ۴۴عبرانی۱و۲و۳و۱۱۰
چوتھالا تبدیل عبرانی ۱۸ ۱۳یسوع مسیح کل اور آج اور ابد تک ایک سال ہے۔ مزمور ۲۵و۱۰۲۲۶و۲۷مقابلہ عبرانی ۸و۱۰و۱۱و۱۱۲
پانچواںؔ ہمہ دانیپہلا سلاطین۳۹ ۸تو اپنے مسکن آسمان پر سے سن اور بخش دے اور عمل کر اور ہر ایک آدمی کو جس کے دل کوتو جانتا ہے اس کی سب روش کے مطابق بدلہ دے اس لئے کہ تو ہاں تو ہی اکیلا سارے بنی آدم کے دلوں کو جانتا ہے۔ (یہ خدا تعالیٰ کی تعریف ہے)۔ بمقابلہ مکاشفات ۲۳ ۲اور سارے کلیساؤں کو معلوم ہوگا کہ میں وہی ہوں یعنی یسوع مسیح جو دلوں اور گردوں کا جانچے والا ہوں اور میں تم میں سے ہر ایک کو اس کے کاموں کے موافق بدلا دوں گا۔ متی ۲۷ و۱۱ ۹۴و ۲۵ ۲۱ لوقا ۸ ۶۔ ۹۴۷
یوحنّا ۱۴۸ ۔ ۱۶۳۰۔ ۲۱۱۷ قلسی ۳ ۲ ۔
ششم حاضر و ناظر (مکانی) متی ۲۰ ۱۸کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر اکٹھے ہوں۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 130
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 130
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/130/mode/1up
وہاں میں ان کے بیچ میں ہوں۔ یوحنّا ۳۱۳ اور کوئی آسمان پر نہیں گیا سوا اس شخص کے جو آسمان پر سے اترا یعنی ابن آدم جو آسمان پر ہے۔ (زمانی) متی ۲۰ ۲۸یوحنّا۱۴۸
ساتواں قادر مطلق یوحنّا ۵۲۱ جس طرح باپ مردوں کو اٹھاتا ہے اور جلاتا ہے بیٹا بھی جنہیں چاہتا ہے جلاتا ہے۔ مکاشفات ۱۸ میں الفا اور امیگا اول اور آخرجو ہے اور تھا اور آنے والا ہے قادر مطلق ہوں۔ متی۲۸۱۸ مرقس ۱۲۷ یوحنّا ۳۱۔۳۳۵، ۱۶۱۵ فلپی ۳۲۱ عبرانی ۷۲۵ اول پطرس ۳۲۲
آٹھواں ہمیشہ کی زندگی : یوحنّا۱۱۲۵ یسوع نے اسے کہا کہ قیامت اور زندگی میں ہی ہوں۔ پہلا یوحنّا ۵۲۰
سوم۔المسیح مالک کل ہے : رومی ۱۴ باب ۹ کہ مسیح اس لئے موا اور اٹھا اور جیا کہ مردوں اور زندوں کا بھی خداوند ہو پہلا تمطاؤس ۶۱۵ جسے وہ بروقت ظاہر کرے گا جو مبارک اور اکیلاحاکم بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند ہے اعمال ۱۰۳۶ افسی ۲۲و۲۳۱کاشفات۱۹۱۶
چہارم۔ کل عالم کا اختیار رکھتا ہے : ۲۸۱۸ اوریسوع نے پاس آکر اسے کہا کہآسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ متی ۱۱۷ عبرانی ۱۳
پنجم۔ المسیح کی پرستش : ان آیات میں جس لفظ کا ترجمہ سجدہ ہوا ہے۔ اصل زبان میں پراس اخومائیہے جس کے خاص معنی پرستش الٰہی کے ہیں۔ متی ۲۱۱و ۸۲و ۹۱۸و۱۴۳۳و۱۵۲۵و۲۰۲۰و۲۸۹۔ؔ مرقس ۵۶ پہلا تسبیلقون ۳۱۱ عبرانی ۱۶فلپی۱۰و۲۱۱ نبی اور بزرگ اور فرشتے ایسی پرستش اپنی سے سخت انکار کرتے رہے مگر مسیح نے انکار نہیں کیا۔ مکاشفات ۱۹۱۰ یوحنّا نے انکار کیا اعمال ۱۰۲۶ پطرس نے انکار کیا ۱۴۱۴ پولوس نے انکار کیا۔
ششم۔ المسیح سے دعا مانگی جاتی ہے : اعمال ۵۹ ۷ استفنس پر پتھراؤ کیا جو یہ کے دعا مانگتا تھا کہ اے خداوند یسوع میری روح کو قبول کر مرقس ۹۲۴ لوقا ۲۳۴۲ یوحنّا ۹۳۸ دوسری قرنتی ۸و۱۲۹ مکاشفات ۸ - ۱۲ - ۵۱۳
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 131
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 131
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/131/mode/1up
ہفتم۔ المسیح دنیا کی عدالت کرے گا متی ۱۶۲۷ کیونکہ ابن آدم اپنے باپ کے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ آوے گا۔ تب ہر ایک کو اس کے اعمال کے موافق بدلہ دے گا۔ دوسری قرنتی ۵۱۰ کیونکہ ہم سب کو ضرور ہے کہ مسیح کی مسند عدالت کے آگے حاضر ہوویں تاکہ ہر ایک جو کچھ اس نے بدن میں ہوکے کیا بھلایا برا مطابق اس کے پاوے۔ متی ۴۱و۴۱۳۲و۴۳ ۳۱سے۴۶۲۵ یوحنّا ۲۲و۲۳۵ اعمال ۱۰۴۲
ہشتم۔ المسیح گناہ بخشتا ہے متی ۹۶ لیکن تا کہ تم جانو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ لوقا ۲۰ سے۵ ۲۶ ۔ ۷۴۸
نہم۔ المسیح اپنے فرشتوں کو بھیجتا ہے۔ متی ۱۳۴۱ ابن آدم اپنے فرشتوں کو بھیجے گا۔
مکاشفات ۱۱، ۲۶۲
نوٹ۔اگر مسیح محض انسان ہی ہوتا تو صفات مذکورہ بالا جو فقط ذات باری تعالیٰ پر عائد ہوسکتی ہیں اس پر کس طرح عائد ہوتیں۔ علاوہ اس کے واضح ہو کہ انسان کی نجات و سزا وغیرہ کے متعلق المسیح کو وہ کام منسوب کئے گئے ہیں جو سوائے خالق کے مخلوق نہیں کرسکتا اور نہ بائیبل میں کسی اور کو منسوب کئے گئے۔
اب جناب کے ان امور کا جواب جو پہلے پورا نہ ہوا تھا سو یہ ہے کہ جناب نے مسیح کی الوہیت کے مخالف اس کا وہ بیان لیا ہے جو تمہاری کتب میں لکھا ہے تم سب خدا ہو تب تم میرے خدا ہونے کو کیوں رد کرتے ہو۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ مناسب تو یہ تھا کہ اس جگہ مسیح اپنے دعویٰ الوہیت کو مفصل پیش اور ثابت کرتا۔
جواب۔ میری التماس یہ ہے کہ ایک شخص کا کچھ بیان کرنا منجملہ اس کی وجوہات مضمنہ کے منافی اس کے مابقی مضمنہ کا نہیں یعنی الوہیت کا انکار اس میں نہیں۔ اس میں مراد المسیح کی صرف ان کے غصہؔ کو فرو کرنا تھا۔ کیونکہ وہ اس امر پر اس کو پتھراؤ کرنا چاہتے تھے کہ اس نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔ اور انہوں نے یہ معنے کئے اور صحیح کئے کہ تو اپنے آپ کو خدا کا بیٹا ٹھہرا کر خدا کا مساوی بنتا ہے۔ پس یہ تیرا کفر ہے ہم اس لئے تجھے پتھراؤ کرتے ہیں اس نے کہا کہ لفظ اللہ کہنے سے میرے پر کفر کس طرح عائد کرتے ہو کیا تمہارے ہاں کتب انبیاء میں نہیں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 132
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 132
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/132/mode/1up
لکھا کہ قضات اور بزرگ الوہیم کہلائے۔ اگر وہ الوہیم کہلائے اور کفر ان پر عائد نہ ہوا اور مجھ کو جسے خدا نے مخصوص کیا ہے کفر کا الزام لگاتے ہو۔ یہاں سے صاف نظر آتا ہے کہ ان کی دیوانگی کے شعلہ کو فرو کیا ہے اور اپنی الوہیت کا (ان لفظوں میں) نہ انکار کیا نہ اقرار۔ فقط (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ) غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ)
ازجانب عیسائی صاحبان ازجانب اہل اسلام
بیان حضرت مرزا صاحب
۲۵۔ مئی ۱۸۹۳ ء
ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے کمال کے لفظ پر گرفت کی تھی اس کا کسی قدر جواب برعایت اختصار دے چکا ہوں مگر ڈپٹی صاحب موصوف نے ساتھ اس کے یہ فقرہ بھی ملادیا ہے کہ نجات دینے میں کمال ہونا چاہئے۔ اور منجی حضرت مسیحؑ ہیں اور اس کی تائید میں ڈپٹی صاحب نے بہت سی پیشگوئیاں بائیبل اور نیز خطوط عبرانیوں وغیرہ سے لکھ کر پیش کی ہیں مگر میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ یہ درد سر بے فائدہ اٹھائی گئی۔ میری طرف سے یہ شرط ہوچکی تھی کہ فریقین میں سے جو صاحب اپنی الہامی کتاب کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہیں اس میں یہ قاعدہ ہونا چاہیئے کہ اگر وہ بیان از قسم دعویٰ ہو تو وہ دعویٰ بھی الہامی کتاب آپ پیش کرے اور اگر وہ بیان از قسم دلائل عقلیہ ہوتو چاہئے کہ الہامی کتاب دلائل عقلیہ آپ پیش کرے نہ یہ کہ الہامی کتاب پیش کرنے سے عاجز ہو اور اس کی حالت پر رحم کرکے اس کی مدد کی جائے ڈپٹی صاحب توجہ فرماویں کہ میں نے ابطال الوہیت کی جب دلیل پیش کی تو وہ اپنی طرؔ ف سے نہیں کی بلکہ وہ عقلی دلیل پیش کی جو قرآن کریم نے آپ فرمائی تھی۔ مگر میں دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ ڈپٹی صاحب موصوف نے مطابق شرائط قرار یافتہ کے عقلی دلائل میں سے کیا پیش کیا۔ اگر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 133
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 133
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/133/mode/1up
ڈپٹی صاحب یہ فرماویں کہ ہم نے ایک ذخیرہ کثیرہ پیشگوئیوں کا جو پیش کردیا تو اس سے زیادہ کیا پیش کیا جاتا تو اس کے جواب میں افسوس سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ وہ پیشگوئیاں دلائل عقلیہ میں سے نہیں ہیں وہ تو ہنوز دعاوی کے رنگ میں ہیں جو اپنے ثبوت کے بھی محتاج ہیں چہ جائیکہ دوسری چیز کی مثبت ہوسکیں اور میں شرط کر چکا ہوں کہ دلائل عقلیہ پیش کرنی چاہئں۔ ماسوا اسکے جس قدر پیش کیاگیا ہے حضرت مسیحؑ اس کی تصدیق سے انکار کررہے ہیں۔ اگرچہ میں اپنے کل کے بیان میں کسی قدر اس کا ثبوت دے چکا ہوں مگر ناظرین کی زیادت معرفت کی غرض سے پھر کسی قدر لکھتا ہوں کہ حضرت مسیحؑ یوحنّا باب ۱۰۳۰ میں ۳۷ تک صاف طور پر فرمارہے ہیں کہ مجھ میں اور دوسرے مقرّبوں اور مقدسوں میں ان الفاظ کی اطلاق میں جو بائیبل میں اکثر انبیاء وغیرہ کی نسبت بولے گئے ہیں جو ابن اللّٰہ ہیں یا خدا ہیں کوئی امتیاز اور خصوصیت نہیں۔ ذرا سوچ کر دیکھنا چاہئے کہ حضرت مسیحؑ پر یہودیوں نے یہ بات سن کر کہ وہ اپنے تئیں ابن اللہ کہتے ہیں یہ الزام لگایا تھا کہ تو کفر کہتا ہے یعنی کافر ہے اور پھر انہوں نے اس الزام کے لحاظ سے ان کو پتھراؤ کرنا چاہا اور بڑے افروختہ ہوئے۔ اب ظاہر ہے کہ ایسے موقعہ پر کہ جب حضرت مسیحؑ یہودیوں کی نظر میں اپنے ابن اللہ کہلانے کی وجہ سے کافر معلوم ہوتے تھے اور انہوں نے اسکو سنگسار کرنا چاہا۔ تو ایسے موقعہ پر کہ اپنی بریت یا اثبات دعویٰ کا موقعہ تھا مسیحؑ کا فرض کیا تھا؟ ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے کہ اس موقعہ پر کہ کافر بنایا گیا حملہ کیا گیا سنگسار کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ دو صورتوں میں سے ایک صورت اختیار کرنا مسیح کا کام تھا۔ اول یہ کہ اگر حقیقت میں حضرت مسیحؑ خدا تعالیٰ کے بیٹے ہی تھے تو یوں جواب دیتے کہ یہ میرا دعویٰ حقیقت میں سچاہے اور میں واقعی طور پر خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں اور اس دعویٰ کے ثابت کرنے کیلئے میرے پاس دو ثبوت ہیں ایک یہ کہ تمہاری کتابوں میں میری نسبت لکھا ہے کہ مسیح درحقیقت خدا تعالیٰ کا بیٹا ہے بلکہ خود خدا ہے۔ قادر مطلع ۱ ہے۔عالم الغیب ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے اگر تم کو شبہ ہے تو لاؤ کتابیں پیش کرو میں ان کتابوں سے اپنی خدائی کا ثبوت تمہیں دکھلادوں گا۔ یہ تمہاری غلط فہمی اورکم توجّہی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 134
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 134
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/134/mode/1up
اپنیؔ کتابوں کی نسبت ہے کہ تم مجھے کافر ٹھہراتے ہو تمہاری کتابیں ہی تو مجھے خدا بنا رہی ہیں اور قادر مطلق بتلا رہی ہیں پھر میں کافر کیونکر ہوا بلکہ تمہیں تو چاہیئے کہ اب میری پرستش اور پوجا شروع کر دو کہ میں خدا ہوں۔
پھر دوسرا ثبوت یہ دینا چاہیئے تھا کہ آؤ خدائی کی علامتیں مجھ میں دیکھ لو جیسے خدا تعالیٰ نے آفتاب ماہتاب۔ سیّارے۔ زمین وغیرہ پیدا کیا ہے۔ ایک قطعہ زمین کا یا کوئی ستارہ یا کوئی اور چیز میں نے بھی پیدا کی ہے اور اب بھی پیدا کرکے دکھلا سکتا ہوں اور نبیوں کے معمولی معجزات سے بڑھ کر مجھ میں قوت اور قدرت حاصل ہے۔ اور مناسب تھا کہ اپنے خدائی کے کاموں کی ایک مفصل فہرست ان کو دیتے کہ دیکھو آج تک یہ یہ کام میں نے خدائی کے کئے ہیں۔ کیا حضرت موسیٰ سے لے کر تمہارے کسی آخری نبی تک ایسے کام کسی اور نے بھی کئے ہیں اگر ایسا ثبوت دیتے تو یہودیوں کا منہ بند ہو جاتا اور اسی وقت تمام فقیہ اور فریسی آپ کے سامنے سجدہ میں گرتے کہ ہاں حضرت! ضرور آپ خدا ہی ہیں ہم بھولے ہوئے تھے۔ آپ نے اس آفتاب کے مقابل پر جو ابتداء سے چمکتا ہوا چلا آتا ہے اور دن کو روشن کرتا ہے اور اس ماہتاب کے مقابل پر جو ایک خوبصورت روشنی کے ساتھ رات کو طلوع کرتا ہے اور رات کو منوّر کردیتا ہے آپ نے ایک آفتاب اور ایک ماہتاب اپنی طرف سے بنا کر ہم کو دکھلا دیا ہے اور کتابیں کھول کر اپنی خدائی کاثبوت ہماری مقبولہ مسلّمہ کتابوں سے پیش کردیا ہے۔ اب ہماری کیا مجال ہے کہ بھلا آپ کو خدا نہ کہیں جہاں خدا نے اپنی قدرتوں کے ساتھ تجلّی کی وہاں عاجز بندہ کیا کرسکتا ہے۔ لیکن حضرت مسیحؑ نے ان دونوں ثبوتوں میں سے کسی ثبوت کو بھی پیش نہ کیا۔ اور پیش کیا تو ان عبارتوں کو پیش کیا سن لیجئے۔
تب یہودیوں نے پھر پتھر اٹھائے کہ اس پر پتھراؤ کریں۔ یسوع نے انہیں جو اب دیا کہ میں نے اپنے باپ کے بہت سے اچھے کام تمہیں دکھائے ہیں ان میں سے کس کام کے لئے تم مجھے پتھراؤ کرتے ہو۔ یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ ہم تجھے اچھے کام کے لئے نہیں بلکہ اس لئے تجھے پتھراؤ کرتے ہیں کہ تو کفر کہتا ہے اور انسان ہو کے اپنے تئیں خدا بناتا ہے۔ یسوع نے انہیں جواب دیا کہ کیا تمہاری
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 135
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 135
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/135/mode/1up
شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو جب کہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا اور ممکن نہیں کہ کتاب باطل ہو تم اسے جسے خدا نے مخصوص کیا اور جہان میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ؔ ہے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔
اب منصفین سوچ لیں کہ کیا الزام کفر کا دور کرنے کے لئے اور اپنے آپ کو حقیقی طور پر بیٹا اللہ تعالیٰ کا ثابت کرنے کے لئے یہی جواب تھا کہ اگر میں نے بیٹا کہلایا تو کیا ہرج ہوگیا تمہارے بزرگ بھی خدا کہلاتے رہے ہیں۔
ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب اس جگہ فرماتے ہیں کہ گویا حضرت مسیحؑ ان کے بلوے سے خوفناک ہوکر ڈر گئے اور اصلی جواب کو چھپا لیا اور تقیہ اختیار کیا مگر میں کہتا ہوں کہ کیا یہ ان نبیوں کا کام ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ کی راہ میں ہر وقت جان دینے کو تیار رہتے ہیں قرآن کریم میں اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے اَ ۱ یعنی اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبر جو اسکے پیغام پہنچاتے ہیں وہ پیغام رسانی میں کسی سے نہیں ڈرتے پس حضرت مسیح قادر مطلق کہلا کر کمزور یہودیوں سے کیوں کر ڈر گئے۔
اب اس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے حقیقی طور پر ابن اللہ ہونے کا یا خدا ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا اور اس دعویٰ میں اپنے تئیں ان تمام لوگوں کا ہمرنگ قرار دیا اور اس بات کا اقرار کیا کہ انہیں کے موافق یہ دعویٰ بھی ہے تو پھر اس صورت میں وہ پیشگوئیاں جو ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب پیش فرماتے ہیں وہ کیونکر بموجب شرط کے صحیح سمجھی جائیں گی۔ ایسا تو نہیں کرنا چاہئے کہ مدعی سست گواہ چست۔ حضرت مسیح تو کفر کے الزام سے بچنے کیلئے صرف یہ عذرپیش کرتے ہیں کہ میری نسبت اسی طرح بیٹا ہونے کا لفظ بولا گیا ہے جس طرح تمہارے بزرگوں کی نسبت بولا گیا ہے گویا یہ فرماتے ہیں کہ میں تو اس وقت قصوروار اور مستوجب کفر ہوتا کہ خاص طور پر بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا۔ بیٹا کہلانے اور خدا کہلانے سے تمہاری کتابیں بھری پڑی ہیں دیکھ لو۔ پھر حضرت مسیحؑ نے صرف اسی پر بس نہیں کی بلکہ آپ نے کئی مقامات انجیل میں اپنی انسانی کمزوریوں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 136
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 136
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/136/mode/1up
کا اقرار کیاجیسا کہ جب قیامت کا پتہ ان سے پوچھا گیا تو آپ نے اپنی لاعلمی ظاہر فرمائی اور کہا کہ بجز اللہ تعالیٰ کے قیامت کے وقت کو کوئی نہیں جانتا۔
اب صاف ظاہر ہے کہ علم روح کی صفات میں سے ہے نہ جسم کی صفات میں سے۔ اگر ان میں اللہ تعالیٰ کی روح تھی اور یہ خود اللہ تعالیٰ ہی تھے تو لاعلمی کے اقرار کی کیا وجہ۔ کیا خدا تعالیٰ بعد علم کے نادانؔ بھی ہوجایا کرتا ہے۔ پھر متی ۱۹ باب ۱۶ میں لکھا ہے۔ ’’دیکھو ایک نے آکے اسے (یعنی مسیح سے) کہا اے نیک استاد میں کونسا نیک کام کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں۔ اس نے اسے کہاتو کیوں نیک مجھے کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ پھر متی ۲۰۲۰ میں لکھا ہے کہ زبدی کے بیٹوں کی ماں نے اپنے بیٹوں کے حضرت مسیح کے دائیں بائیں بیٹھنے کی درخواست کی تو فرمایا اس میں میرا اختیار نہیں۔ اب فرمائیے قادر مطلق ہونا کہاں گیا۔ قادر مطلق بھی کبھی بے اختیار ہو جایا کرتا ہے اور جب کہ اس قدر تعارض صفات میں واقع ہوگیا کہ حضرات حواری تو آپ کو قادر مطلق خیال کرتے ہیں اور آپ قادر مطلق ہونے سے انکار کر رہے ہیں۔ تو ان پیش کردہ پیشگوئیوں کی کیا عزت اور کیا وقعت باقی رہی جس کے لئے یہ پیش کی جاتی ہیں وہی انکار کرتا ہے کہ میں قادر مطلق نہیں یہ خوب بات ہے۔ پھر متی ۳۸ ۲۶میں لکھا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ ’’مسیح نے تمام رات اپنے بچنے کے لئے دعا کی اور نہایت غمگین اور دلگیر ہوکر اور رو رو کر اللہ جلّ شانہٗ سے التماس کی کہ اگر ہوسکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذر جائے اور نہ صرف آپ بلکہ اپنے حواریوں سے بھی اپنے لئے دعا کرائی جیسے عام انسانوں میں جب کسی پرکوئی مصیبت پڑتی ہے اکثر مسجدوں وغیرہ میں اپنے لئے دعاکرایا کرتے ہیں لیکن تعجب یہ کہ باوجود اس کے کہ خواہ نخواہ قادر مطلق کی صفت ان پر تھوپی جاتی ہے اور ان کے کاموں کو اقتداری سمجھا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی وہ دعا منظور نہ ہوئی اور جو تقدیر میں لکھا تھا وہ ہو ہی گیا۔ اب دیکھو اگر وہ قادر مطلق ہوتے تو چاہیئے تھا کہ یہ اقتدار اور یہ قدرت کاملہ پہلے ان کو اپنے نفس کے لئے کام آتا۔ جب اپنے نفس کے لئے کام نہ آیا تو غیروں کو ان سے توقع رکھنا ایک طمع خام ہے۔
اب ہمارے اس بیان سے وہ تمام پیشگوئیاں جو ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے پیش کی ہیں رد
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 137
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 137
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/137/mode/1up
ہوگئیں اور صاف ثابت ہوگیا کہ حضرت مسیحؑ اپنے اقوال کے ذریعہ اور اپنے افعال کے ذریعہ سے اپنے تئیں عاجز ہی ٹھہراتے ہیں اور خدائی کی کوئی بھی صفت ان میں نہیں ایک عاجز انسان ہیں۔ ہاں نبی اللہ بے شک ہیں۔ خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں۔ اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۱ یعنی کیا تم نے دیکھاکہ جن لوگوں کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا معبود ٹھہرا رہے ہو انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا اور یا ان کو آسمان کی پیدائش میں کوئی شراکت ہے۔ اگر اس کا ثبوت تمہارے پاس ہے اور کوئی ایسی کتاب ہے جس میں یہ لکھا ہو کہ فلاں فلاں چیز تمہارے معبود نے پیدا کی ہے تو لاؤ وہ کتاب پیش کرو اگر تم سچے ہو یعنی یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یونہی کوئی شخص قادر مطلق کا نام رکھالے اور قدت کا کوئی نمونہ پیش نہ کرے اور خالق کہلائے اور خالقیت کا کوئی نمونہ ظاہر نہ کرے۔
اور پھر فرماتا ہے کہ اس شخص سے زیادہ تر گمراہ کون شخص ہے کہ ایسے شخص کو خدا کرکے پکارتا ہے جو اس کو قیامت تک جواب نہیں دے سکتا۔ بلکہ اس کے پکارنے سے بھی غافل ہے چہ جائیکہ اس کو جواب دے سکے۔
اب اس مقام پر ایک سچی گواہی میں دینا چاہتا ہوں جو میرے پر فرض ہے اور وہ یہ ہے جو میں اس اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہوں کہ جو بگفتن قادر مطلق نہیں۔ بلکہ حقیقی اور واقعی طور پر قادر مطلق ہے اور مجھے اس نے اپنے فضل وکرم سے اپنے خاص مکالمہ سے شرف بخشاہے اور مجھے اطلاع دیدی ہے کہ میں جو سچا اور کامل خدا ہوں میں ہرایک مقابلہ میں جو روحانی برکات اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 138
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 138
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/138/mode/1up
سماوی تائیدات میں کیا جائے تیرے ساتھ ہوں اور تجھ کو غلبہ ہوگا۔
اب میں اس مجلس میں ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب کی خدمت میں اور دوسرے تمام حضرات عیسائی صاحبوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اس بات کو اب طول دینے کی کیا حاجت ہے کہ آپ ایسی پیشگوئیاں پیش کریں جو حضرت مسیحؑ کے اپنے کاموں و فعل کے مخالف پڑی ہوئی ہیں۔ ایک سیدھا اور آسان فیصلہ ہے جو میں زندہ اور کامل خدا سے کسی نشان کے لئے دعا کرتا ہوں اور آپ حضرت مسیح سے دعا کریں۔ آپ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قادر مطلق ہے۔ پھر اگر وہ قادر مطلق ہے تو ضرور آپ کامیاب ہو جاویں گے۔ اور میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کے کہتا ہوں کہ اگر میں بالمقابل نشانؔ بتانے میں قاصر رہا تو ہر ایک سزا اپنے پر اٹھا لوں گا۔ اور اگر آپ نے مقابل پر کچھ دکھلایا تب بھی سزا اٹھا لوں گا۔ چاہیئے کہ آپ خلق اللہ پر رحم کریں۔ میں بھی اب پیرانہ سالی تک پہنچا ہوا ہوں اور آپ بھی بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ہمارا آخری ٹھکانا اب قبر ہے۔ آؤ اس طرح پر فیصلہ کر لیں۔ سچا اور کامل خدا بیشک سچے کی مدد کرے گا۔ اب اس سے زیادہ کیا عرض کروں۔ (باقی آئندہ)
دستخط دستخط
(بحروف انگریزی) (بحروف انگریزی)
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 139
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 139
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/139/mode/1up
پانچواںؔ پرچہ
مباحثہ ۲۶؍ مئی ۱۸۹۳ء
روئداد
آج چھ بجے گیارہ منٹ پر مسٹر عبداللہ آتھم صاحب نے جواب لکھانا شروع کیا ۷ بجے ۶ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے ۷ بجے ۲۲ منٹ پر شروع کیا اور آٹھ بجے ۲۲ منٹ پر ختم ہوا مرزا صاحب کا مضمون سنائے جانے کے بعد یہ سوال پیش ہوا کہ مرزا صاحب نے جو اپنے مضمون کے اخیر میں عیسائی جماعت کو عام طور پر مخاطب کیا ہے اس کے متعلق بعض عیسائی صاحبان کو جو خواہش رکھتے ہیں جو اب دینے کی اجازت ہو جاوے سب سے پہلے پادری ٹامس ہاول صاحب نے اجازت طلب کی اور مرزا صاحب نے اپنی طرف سے اجازت دے دی۔ اس کے بعد پادری احسان اللہ صاحب نے کہا کہ شرائط کے بموجب عیسائی صاحبان کی طرف سے کسی اور شخص کو بولنے کی اجازت نہیں اور اس سوال میں عیسائی صاحبان کو عام طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ اس لئے یہ سوال ناواجب ہی سمجھا جانا چاہیئے- اس پر میر مجلس اہل اسلام نے بیان کیا کہ جس ترتیب کے ساتھ سوال ہوا ہے اسی ترتیب کے ساتھ جواب دیا جانا چاہیئے۔ یعنی سوال بھی مسٹر عبداللہ آتھم صاحب کے ذریعہ عام طور پر عیسائی صاحبان سے کیا گیا ہے اور جواب بھی انہیں کے ذریعہ اسی ترتیب کے ساتھ دیا جائے یعنی اس سوال کے جواب کے موقعہ پر کسی عیسائی صاحب کو جو اجازت طلب کرتے ہیں پیش کردیں۔ اس پر میر مجلس عیسائی صاحبان نے بیان کیا کہ اس طریق سے مباحثہ کے انتظام میں نقص آئے گا۔ بہتر یہ ہے کہ اس سوال کو ہی نکال دیا جائے۔ اس پر مرزا صاحب نے بیان فرمایا کہ اس میں اتنی ترمیم کی جاسکتی ہے کہ اس سوال کو صرف مسٹر عبد اللہ آتھم تک ہی محدود کیا جائے۔ اور یہ ترمیم باتفاق رائے منظور ہوئی۔ بعد ازاں پادری جی ایل ٹھاکر داس صاحب نے اجازت لے کر بیان کیا کہ مرزا صاحب کو یہ سوال عیسائی صاحبان پر کرنے کا حق ہے مگر چونکہ اس سے پہلے اس امر کا تصفیہ ہوچکا تھا اس لئے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 140
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 140
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/140/mode/1up
وہی بحال رہا۔ پھر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے جواب ۸ بجے ۵۱ منٹ پر شروع کیا اور ۹ بجے ۲۲ منٹ پر ختم کیا۔ پھر مرزا صاحب نے ۹ بجے ۳۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ۳۰ منٹ پر ختم کیا۔ بعدازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اور مصدقہ تحریریں فریقین کو دی گئیں اور جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
بیانؔ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
ہمارا بیان یہ ہے کہ مسیح کامل انسان اور کامل مظہر اللہ ہے بروئے کلام الٰہی ان دو امروں کا انکار ہونا محال ہے لیکن بالیقین یہودی اس کو مظہر اللہ نہیں جانتے تھے پھر جب کبھی اس کے منہ سے اس کے مظہر اللہ ہونے کا کوئی لفظ نکل آتا تھا تو یہودی اس پر الزام کفر کا لگا کر سنگسار کرنے پر آمادہ ہوتے تھے۔ چنانچہ موقع متنازعہ کی بھی یہی صورت ہے اور اس موقعہ پر مسیح نے فرمایا کہ اگر میں اپنی انسانیت سے بھی اپنے آپ کو ابن اللہ کہوں تو اس سے زیادہ کچھ نہیں جیسے تمہارے نبی بھی خدا کہلائے تو میرا کہنا ان سے زیادہ بڑھ کر بہ نسبت اس کے انسانیت کے بھی نہیں ہے۔ پس یہاں اس نے اپنے مظہر اللہ ہونے کا انکار کیونکر کیا۔ مظہر اللہ ہونے کی آیات تو ہماری محولہ فہرست دیروزہ میں بھی موجود ہیں۔ اس کو کس خوش فہمی سے مرزا صاحب رد کرتے ہیں۔ کونسا امر ان میں اس کے بطلان کا پکڑا۔ کیا جو امر خاص متعلق مسیح کی انسانیت کے ہے وہ منافی اس کی الوہیت یا مظہر اللہ ہونے کا بھی ہوسکتا ہے۔ ہرگز کسی قانون سے نہیں۔ حق تو یہ ہے کہ وہ اپنی انسانیت میں بھی مخصوص اور مرسلہ شخص تھا۔ وہ لفظ جس کا ترجمہ مخصوص ہے یونانی میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 141
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 141
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/141/mode/1up
’’ہے گی ایڈزو‘‘ ہے جس کے معنی مقدس اور بھیجا گیا۔ جو لفظ ہے اس کا ایما اس پر ہے کہ وہ فرمایا کرتا تھا کہ میں آسمان پر سے ہوں تم زمینی ہو یعنی میں آسمان سے زمین پر بھیجا گیا ہوں اور ہمارے شارح اکثر اس کے معنے الوہیت کے کرتے ہیں۔ پھر کیا مرزا صاحب نے اسے باب ۱۰ یوحنّا میں یہ نہ دیکھا کہ جیسے مسیح نے اولاً یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں اور باپ ایک ہیں جس پر یہودیوں نے پتھر اٹھائے تھے اس زعم سے کہ وہ انسان مخلوق ہوکر دعویٰ اللہ ہونے کا کرتا ہے پھر جب اس نے اپنی انسانیت کو بھی اس الزام سے بچا لیا تو پھر وہی دعویٰ پیش کر دیا کہ میں اور باپ ایک ہیں۔ پس جناب یہ کیونکر فرماتے ہیں کہ وہ ڈر گیا۔ بجائے ڈرنے کے اور بھی اس نے کھلا کھلی دعویٰ الوہیت کو پیش کیا تو یہ صحیح ہے کہ ایک موقع پر خداوند مسیح نے فرمایا کہ میں اس گھڑی سے آگاہ نہیں اور دوسرے موقع پر فرمایا کہ میرے دائیں اور بائیں بٹھلانا میرا اختیاری نہیں لیکن یہ کلمات نسبت اس کی انسانیت سے رکھتے ہیں کیونکہ الوہیت کے کلمات اور ہیں چنانچہ یہ کہ زمین و آسمان کا اختیار مجھ کو حاصل ہے اور پھر یہ بھی صحیح ہے کہ ایک موقع پر خداوند نے فرمایا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے جب کہ نیک سوائے خدا کے کوئی نہیں مگر یہ فرمانا اس کا اس شخص سے تھا جو اس کو منجی اور مالک ہر شے کا نہیں مانتا تھا چنانچہ جب اس نے اخیر میں اس سے کہا کہ اگر تو کامل ہوا چاہتا ہے تو سارا اپنا مال غرباء کو دے ڈال اور میرے پیچھے ہولے مگر وہ اس سے دلگیر ہوکر چلا گیا اور اگر وہ اس کو خدا اور مالک جانتا اور یہ کہ وہ اس سے ہزار چند بخش سکتا ہے تو کبھی بھی دلگیر ہوکر نہ جاتا اس سے ظاہر کہ وہ قائل اس کی الوہیت کا نہ تھا۔ اسی واسطے خداوند نے فرمایا کہ تب تو مجھے نیک بھی کیوں کہتا ہے یعنی مکار کیوں بنتا ہے کیونکہ تو جانتا ہے کہ نیک سوائے خدا کے اور کوئی نہیں۔
(۲)ؔ جناب مرزا صاحب نے کمال ہونے راہ نجات پر قرآن سے کچھ نہیں فرمایا پھر ہماری اور کوئی چیز کس مصرف کی ہے بقول مسیح کہ اگر ہم جہان کو حاصل کریں اور جان کو کھودیں تو فائدہ کیا ہوا۔پس سب سے اول لازم اور واجب ہے کہ نجات کی بابت قرآن میں کمال دکھلایا جاوے۔ بیت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 142
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 142
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/142/mode/1up
وہ ہو تو یہ ہوتی ہو یا نہ ہو۔ وہ نا ہو تو سب کا سب فنا ہو۔ توحید کا علم تو بائبل میں بھی موجود تھا۔ اِلّا اس کلمہ توحید سے نجات کا کیا علاقہ ہے۔ کیا یعقوب حواری کے خط کے دوسرے باب ۱۹ میں یہ بہت ٹھیک اور واجباً نہیں فرمایا گیا کہ تو کہتا ہے کہ خدا ایک ہے۔ شیطان بھی کہتا ہے بلکہ ٹھہراتا بھی ہے۔ توریت کے مضمون کے چار حصہ میں ماسواء امور اثباتیہ کے یعنی شریعت اخلاقی۔ شریعت رسمیاتی۔ شریعت قضاتی اور قصص۔ اب یہ سارے امور ٹے پالوجی کے ہیں یعنی نشانات تصویری کے سے۔ چنانچہ اخلاقی میں احتیاج دکھلایا گیا ہے اور رسمیاتی میں مایحتاج دکھلایا گیا ہے اور قضاتی میں (تھی او کر سے) دکھلائی گئی۔ یعنی وہ سلطنت جو خدائے تعالیٰ بلاواسطہ غیر کے خود کرتا ہے اور قصص جن میں تصویر کے نشانات بھرے ہیں۔ ان مقامات کو اب اس جگہ اگر ہم لکھیں تو بہت طول ہوجاتا ہے ہم اس کے واسطے اپنی کتاب اندرونہ بائبل کوپیش کرتے ہیں کہ جس سے یہ سب حال ظاہرہو جائے گا۔ انجیل میں انہیں نشانات کا صاحب نشان دکھلایا ہے پس یہ متفرق شریعتیں کیونکر ہوئیں۔ البتہ قرآن کی شریعت ان کے سوا ہے جو مخصوص ساتھ قرآن کے ہے اس کا بار ہم پر کچھ نہیں لیکن آپ پر ہے۔
(۴) صداقت محتاج دلیل کی کیونکر ہے کیا وہ خود ہی اپنی مراد پر دال نہیں اس کے واسطے اور تصفیہ آپ کیا چاہتے ہیں کیا وہ آیات جو ہم نے اس فہرست میں پیش کی ہیں ان میں کوئی ناصاف بھی ہے۔
(۵) ہم سے جو استفسار یہ ہے کہ مسیح نے کیا بنایا تھا۔ خدا نے تو زمین و آسمان اور سب چیزیں بنائیں۔ بجواب اس کے عرض ہے کہ بہ حیثیت انسانیت کے تو اس نے کچھ نہیں بنایا۔ لیکن بحیثیت مظہر اقنوم ثانی کے باب۸۔ امثال و ایک باب یوحنّا میں یوں لکھا ہے جو کچھ بنا ہے اسی کے وسیلہ بنا ہے اور کہ باپ کو کسی نے دیکھا تک نہیں مگر بیٹے نے خلق کرنے کے وسیلہ سے اسے جتلا دیا۔
(۷) ہم نے خداوند مسیح کا ڈرنا نہیں کہا بلکہ ان کا بے جا غصہ فرو کرنا کہا ہے۔
(۸) مسیح نے تعلیم سلف کو پیچیدہ نہیں کیا بلکہ پیچیدہ کو صاف کیا ہے۔
چنانچہ اس نے مظہر اللہ ہوکر وہ صفات ظاہر کیں جو اور طرح سے ظاہر نہ ہو سکتی تھیں۔ جیسا کہ متی ۶۔ ۹ خدا کا باپ ہونا۔ یوحنّا ۳۔۱۶خدا محبت ہے۔ یوحنّا۴۲۴ خدا روح ہے۔ کثرت فی الوحدت توریت میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 143
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 143
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/143/mode/1up
صاف لکھی تھی جیسا کہؔ اس آیت میں ہے کہ دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔ تاہم یہودیوں کی آنکھ میں غفلت کا پردہ تھا اور خداوند نے اس پردہ کو اٹھایا۔
(۹) کلام الٰہی کی شرح کرنا یہودیوں کا خاص ورثہ نہیں ہے گو وہ انبیاؤں کی اولاد ہیں اور کلام کے امانت دار اور تواتر سے سننے والے۔ کیونکہ ان میں بغض اور تعصب بہت بھر گیا تھا اور جب خداوند یسوع نے یہ فرمایا کہ جو وہ کہتے ہیں سو کرو اور جو کرتے ہیں سو نہ کرو۔ اس کے معنی صاف یہ ہیں کہ کہنا ان کا الفاظ توریت سے ہے اور کرنا ان کا برخلاف اس کے۔
(۱۰) بدن مسیح کا زوال پذیر ہو یا نہ ہو۔ مگر اس سے کفارہ کا کیا علاقہ ہے فی الحال اور کچھ نہ کہوں گا۔ (باقی آئندہ)
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
بیان حضرت مرزا صاحب
میرے کل کے بیان میں نجات کے بارہ میں کچھ لکھنا رہ گیا تھا کہ نجات کی حقیقت کیا ہے اور سچے حقیقی طور پر کب اور کس وقت کسی کو کہہ سکتے ہیں کہ نجات پا گیا۔ اب جاننا چاہیئے کہ اللہ جلّ شانہٗ نے نجات کے بارہ میں قرآن کریم میں یہ فرمایا ہے۔ اور کہا انہوں نے کہ ہرگز بہشت میں داخل نہیں ہوگا یعنی نجات نہیں پائے گا مگر وہی شخص جو یہودی ہوگا یا نصرانی ہوگا یہ ان کی بے حقیقت آرزوئیں ہیں کہولاؤ برہان اپنی اگر تم سچے ہو یعنی تم دکھلاؤ کہ تمہیں کیا نجات حاصل ہوگئی ہے بلکہ نجات اس کو ملتی ہے جس نے اپنا سارا وجود اللہ کی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 144
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 144
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/144/mode/1up
راہ میں سونپ دیا۔ یعنی اپنی زندگی کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقفؔ کر دیا اور اس کی راہ میں لگا دیا۔ اور وہ بعد وقف کرنے اپنی زندگی کے نیک کاموں میں مشغول ہوگیا اور ہر ایک قسم کے اعمال حسنہ بجا لانے لگا پس وہی شخص ہے جس کو اس کا اجر اس کے رب کے پاس سے ملے گا اور ایسے لوگوں پر نہ کچھ ڈر ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے یعنی وہ پورے اور کامل طور پر نجات پا جائیں گے۔ اس مقام میں اللہ جلّ شانہٗنے عیسائیوں اور یہودیوں کی نسبت فرما دیا کہ جو وہ اپنی اپنی نجات یابی کا دعویٰ کرتے ہیں وہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں اور ان آرزوؤں کی حقیقت جو زندگی کی روح ہے ان میں ہرگز پائی نہیں جاتی بلکہ اصلی اور حقیقی نجات وہ ہے جو اسی دنیا میں اس کی حقیقت نجات یا بندہ کو محسوس ہو جائے اور وہ اس طرح پر ہے کہ نجات یا بندہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ توفیق عطا ہوجائے کہ وہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دے۔ اس طرح پر کہ اس کا مرنا اور جینا اور اس کے تمام اعمال خدا تعالیٰ کے لئے ہو جائیں اور اپنے نفس سے وہ بالکل کھویا جائے اور اس کی مرضی خدا تعالیٰ کی مرضی ہو جائے اور پھر نہ صرف دل کے عزم تک یہ بات محدود رہے بلکہ اس کی تمام جوارح اور اس کے تمام قویٰ اور اس کی عقل اور اس کا فکر اور اس کی تمام طاقتیں اسی راہ میں لگ جائیں تب اس کو کہا جائے گا کہ وہ محسن ہے یعنی خدمت گاری کا اور فرمانبرداری کا حق بجا لایا جہاں تک اس کی بشریت سے ہوسکتا تھا سو ایسا شخص نجات یاب ہے۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں اللہ فرماتا ہے(س ۸ سورہ انعام رکوع۷) کہہ نماز میری اور عبادتیں میری اور زندگی میری اور موت میری تمام اس اللہ کے واسطے ہیں جو رب ہے عالموں کا جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی درجہ کے حاصل کرنے کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں اول مسلمانوں کا ہوں۔
پھر بعد اس کے اللہ جلّ شانہٗ اس نجات کی علامات اپنی کتاب کریم میں لکھتا ہے کیونکہ گو جو کچھ فرمایا گیا وہ بھی ایک حقیقی ناجی کے لئے مابہ الامتیازہے لیکن چونکہ دنیا کی آنکھیں اس باطنی نجات اور وصول الی اللہ کو دیکھ نہیں سکتیں اور دنیا پر واصل اور غیر واصل کا امر مشتبہ ہو جاتا ہے اسلئے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 145
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 145
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/145/mode/1up
اس کی نشانیاں بھی بتلا دیں کیونکہ یوں تو دنیا میں کوئی بھی فرقہ نہیں کہ اپنے تئیں غیرناجی اور جہنمی قرار دیتا ہے کسی سے پوچھ کر دیکھ لیں بلکہ ہر ایک قوم کا آدمی جس کو پوچھو اپنی قوم کو اور اپنے مذہب کے لوگوںؔ کو اول درجہ کا نجات یافتہ قرار دے گا۔ اس صورت میں فیصلہ کیونکر ہو تو اس فیصلہ کے لئے خدا تعالیٰ نے حقیقی اور کامل ایمانداروں اور حقیقی اور کامل نجات یافتہ لوگوں کے لئے علامتیں مقرر کر دی ہیں اور نشانیاں قرار دے دی ہیں تادنیا شبہات میں مبتلا نہ رہے چنانچہ منجملہ ان نشانیوں کے بعض نشانیوں کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔33۔3۔3 33۱ (س۱۱ر۱۲ سورۂ یونس) یعنی خبردار ہو تحقیق وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے دوست ہیں ان پر نہ کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے وہی لوگ ہیں جو ایمان لائے یعنی اللہ رسول کے تابع ہو گئے اور پھر پرہیز گاری اختیار کی ان کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس دنیا کی زندگی اور نیز آخرت میں بشریٰ ہے یعنی خدا تعالیٰ خواب اور الہام کے ذریعہ سے اور نیز مکاشفات سے ان کو بشارتیں دیتا رہے گا خدا تعالیٰ کے وعدوں میں تخلف نہیں اور یہ بڑی کامیابی ہے جو ان کے لئے مقرر ہو گئی یعنی اس کامیابی کے ذریعہ سے ان میں اور غیروں میں فرق ہو جائے گا۔ اور جو سچے نجات یافتہ نہیں ان کے مقابل میں دم نہیں مار سکیں گے پھر دوسری جگہ فرماتا ہے۔۔(س ۲۴ ر ۱۸) یعنی جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت اختیار کی ان کی یہ نشانی ہے کہ ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ تم مت ڈرو اور کچھ غم نہ کرو اور خوشخبری سنو اس بہشت کی جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا تھا ہم تمہارے دوست اور متولی اس دنیا کی زندگی میں ہیں اور نیز آخرت میں اور تمہارے لئے اس بہشت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 146
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 146
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/146/mode/1up
میں وہ سب کچھ دیا گیا جو تم مانگو یہ مہمانی ہے غفور رحیم سے۔
اب دیکھئے اس آیت میں مکالمہ الٰہیہ اور قبولیت اور خدا تعالیٰ کا متولّی اور متکفل ہونا اور اسی دنیا میں بہشتی زندگی کی بنا ڈالنا اور ان کا حامی اور ناصر ہونا بطور نشان کے بیان فرمایا گیا۔
اور پھر اس آیت میں جس کا کل ہم ذکر کرچکے ہیں یعنی یہ کہ ۱ اسی نشانی کی طرف اشارہ ہے کہ سچی نجات کا پانے والا ہمیشہ اچھے پھل لاتا ہے اور آسمانی برکات کے پھل اس کو ہمیشہ ملتے رہتے ہیں اور پھر ایک اور مقام میں فرماتا ہے۲(س ۲ ر ۷) اور جب میرے بندے میرے بارہؔ میں سوال کریں تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں یعنی جب وہ لوگ جو اللہ رسول پر ایمان لائے ہیں یہ پتہ پوچھنا چاہیں کہ خدا تعالیٰ ہم سے کیا عنایات رکھتا ہے جو ہم سے مخصوص ہوں اور غیروں میں نہ پائی جاویں۔ تو ان کو کہہ دے کہ میں نزدیک ہوں یعنی تم میں اور تمہارے غیروں میں یہ فرق ہے کہ تم میرے مخصوص اور قریب ہو اور دوسرے مہجور اور دور ہیں جب کوئی دعا کرنے والوں میں سے جو تم میں سے دعا کرے دعا کرتے ہیں تو میں اس کا جواب دیتا ہوں یعنی میں اس کا ہمکلام ہو جاتا ہوں اور اس سے باتیں کرتا ہوں اور اس کی دعا کو پایہء قبولیت میں جگہ دیتا ہوں پس چاہیئے کہ قبول کریں حکم میرے کو اور ایمان لاویں تاکہ بھلائی پاویں ایسا ہی اور کئی مقامات میں اللہ جلّ شانہٗ نجات یافتہ لوگوں کے نشان بیان فرماتا ہے اگر وہ تمام لکھے جاویں تو طول ہوجائے گا جیسا کہ ان میں سے ایک یہ بھی آیت ہے ۳ (س۹ ر ۱۸ سورۃ الانفال) کہ اے ایمان والو اگر تم خدا تعالیٰ سے ڈرو تو خدا تم میں اور تمہارے غیروں میں مابہ الامتیاز رکھ دے گا۔
اب میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب سے بادب دریافت کرتا ہوں کہ اگر عیسائی مذہب میں طریق نجات کا کوئی لکھا ہے اور وہ طریق آپ کی نظر میں صحیح اور درست ہے اور اس طریق پر چلنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 147
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 147
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/147/mode/1up
والے نجات پا جاتے ہیں تو ضرور اس نجات یابی کی علامات بھی اس کتاب میں لکھی ہوں گی اور سچے ایماندار جو نجات پاکر اس دنیا کی ظلمت سے مخلصی پاجاتے ہیں ان کی نشانیاں ضرور انجیل میں کچھ لکھی ہوں گی۔ آپ براہ مہربانی مجھ کو مختصر جواب دیں کہ کیا وہ نشانیاں آپ صاحبوں کے گروہ میں یا بعض ایسے صاحبوں میں جو بڑے بڑے مقدس اور اس گروہ کے سردار اور پیشوا اور اول درجہ پر ہیں پائی جاتی ہیں اگر پائی جاتی ہیں تو ان کا ثبوت عنایت ہو اور اگر نہیں پائی جاتیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ جس چیز کی صحت اور درستی کی نشانی نہ پائی جائے تو کیا وہ چیز اپنے اصل پر محفوظ اور قائم سمجھی جائے گی مثلاً اگرتُربد یا سقمونیا یا سنا میں خاصہ اسہال کا نہ پایا جائے کہ وہ دست آور ثابت نہ ہو تو کیا اس تربد کو تربد موصوف یا سقمونیا خالص کہہ سکتے ہیں اور ماسوا اس کے جو آپ صاحبوں نے طریق نجات شمار کیا ہے جس وقت ہم اس طریق کواس دوسرے طریق کے ساتھ جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے مقابل کرکے دیکھتے ہیں تو صاف طور پر آپ کے طریق کا تصنع اور غیر طبعی ہونا ثابت ہوتا ہے اور یہ بات بہ پایہء ثبوت پہنچتی ہے کہ آپ کے طریق میں کوئی صحیح راہ نجات کا قائم نہیں کیا گیا مثلاً دیکھئے کہ اللہ جلّ شانہٗ قرآن کریم میں جو طریق پیش کرتا ہے وہ تو یہ ؔ ہے کہ انسان جب اپنے تمام وجود کو اور اپنی تمام زندگی کو خدا تعالیٰ کے راہ میں وقف کر دیتا ہے تو اس صورت میں ایک سچی اور پاک قربانی اپنے نفس کے قربان کرنے سے وہ ادا کر چکتا ہے۔ اور اس لائق ہو جاتا ہے کہ موت کے عوض میں حیات پاوے کیونکہ یہ آپ کی کتابوں میں بھی لکھا ہے کہ جو خداتعالیٰ کی راہ میں جان دیتا ہے وہ حیات کا وارث ہو جاتا ہے۔ پھر جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی تمام زندگی کو وقف کر دیا اور اپنے تمام جوارح اور اعضاء کو اس کی راہ میں لگا دیا تو کیا اب تک اس نے کوئی سچی قربانی ادا نہیں کی۔ کیا جان دینے کے بعد کوئی اور بھی چیز ہے جو اس نے باقی رکھ چھوڑی ہے لیکن آپ کے مذہب کا عدل تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ زید گناہ کرے اور بکر کو اس کے عوض میں سولی دیا جائے آپ اگر غور اور توجہ سے دیکھیں تو بے شک ایسا طریق قابل شرم آپ پر ثابت ہوگا خدا تعالیٰ نے جب سے انسان کو پیدا کیا انسان کی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 148
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 148
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/148/mode/1up
مغفرت کے لئے بھی قانون قدرت رکھا ہے جو ابھی میں نے بیان کیا ہے اور درحقیقت اس قانون قدرت میں جو طبعی اور ابتدا سے چلا آتا ہے ایسی خوبی اور عمدگی ہے جو ایک ہی انسان کی سرشت میں خدا تعالیٰ نے دونوں چیزیں رکھ دی ہیں جیسے اس کی سرشت میں گناہ رکھا ہے ویسا ہی اس گناہ کا علاج بھی رکھا اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایسے طور سے زندگی وقف کر دی جائے کہ جس کو سچی قربانی کہہ سکتے ہیں اب مختصر بیان یہ ہے کہ آپ کے نزدیک یہ طریق نجات کا جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے صحیح نہیں ہے تو اول آپ کو چاہیئے کہ اس طریق کے مقابل پر جو حضرت مسیح کی زبان سے ثابت ہوتا ہے اس کو ایساہی مدلل اور معقول طور پر ان کی تقریر کے حوالہ سے پیش کریں پھر بعد اس کے انہیں کے قول مبارک سے اس کی نشانیاں بھی پیش کریں تاکہ تمام حاضرین جو اس وقت موجود ہیں ابھی فیصلہ کر لیں۔ ڈپٹی صاحب! کوئی حقیقت بغیر نشانوں کے ثابت نہیں ہوسکتی دنیا میں بھی ایک معیار حقائق شناسی کا ہے کہ ان کو ان کی نشانیوں سے پرکھا جائے سو ہم نے تو وہ نشانیاں پیش کر دیں اور ان کا دعویٰ بھی اپنی نسبت پیش کر دیا اب یہ قرضہ ہمارا آپ کے ذمہ ہے اگر آپ پیش نہیں کریں گے اور ثابت کرکے نہیں دکھلائیں گے کہ یہ طریق نجات جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کس وجہ سے سچا اور صحیح اور کامل ہے تو اس وقت تک آپ کا یہ دعویٰ ہر گزصحیح نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ قرآن کریم نے جو کچھ بیان کیاہے وہ صحیح اور سچا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے صرف بیان ہی نہیں کیا بلکہ کر کے بھی دکھا دیا اور اس کا ثبوت میں پیش کر چکا ہوں آپ براہ مہربانی اب اس نجاتؔ ؔ کے قصہ کو بے دلیل اور بے وجہ صرف دعویٰ کے طور پر پیش نہ کریں۔ کوئی صاحب آپ میں سے کھڑے ہوکر اس وقت بولیں کہ میں بموجب فرمودہ حضرت مسیح کے نجات پاگیا ہوں اور وہ نشانیاں نجات کی اور کامل ایمانداری کی جو حضرت مسیح نے مقرر کی تھیں وہ مجھ میں موجود ہیں پس ہمیں کیا انکار ہے۔ ہم تو نجات ہی چاہتے ہیں لیکن زبان کی لسانی کو کوئی قبول نہیں کر سکتا۔ میں آپ کی خدمت میں عرض کرچکا ہوں کہ قرآن
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 149
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 149
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/149/mode/1up
کا نجات دینا میں نے بچشم خود دیکھ لیا ہے۔ اور میں پھر اللہ تعالیٰ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں بالمقابل اس بات کو دکھلانے کو حاضر ہوں لیکن اول آپ دو حرفی مجھے جواب دیں کہ آپ کے مذہب میں سچی نجات معہ اس کی علامت کے پائی جاتی ہے یا نہیں اگر پائی جاتی ہے تو دکھلاؤ۔ پھر اس کا مقابلہ کرو۔ اگر نہیں پائی جاتی تو آپ صرف اتنا کہہ دو کہ ہمارے مذہب میں نجات نہیں پائی جاتی۔ پھر میں یک طرفہ ثبوت دینے کے لئے مستعد ہوں۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
بیان ڈپٹی مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب
بقیہ جواب:جو مرزا صاحب نے فرمایا کہ مسیح نے اسی وقت ایسا یا ویسا ثبوت کیوں نہ دیا جب اس پر الزام کفر کا لگا کر پتھراؤ کرنا چاہتے تھے تاکہ ظاہر ہو جاتا کہ فی الواقع اللہ ہی ہے۔ مجھے اس پر ایک قصہ یاد آیا کہ ایک شخص نے مجھ سے کلام کرتے ہوئے یہ کہا کہ خدا تعالیٰ نے یہ کیا کوتاہ بینی کی کہ دو آنکھیں پیشانی کے نیچے ہی لگا دی ہیں ایک سر میں کیوں نہ لگا دی کہ وہ اوپر کی بلیّات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا اور ایک پیٹھ میں کیوں نہ لگا دی کہ پیچھے سے دیکھ سکتا اب اس میں حیرانی ہے کہ کیا ایک بے چون و چرا پر اس قسم کی چون و چرا جائز ہے یہ کہنا معقول نہیں ہے کہ ایسا اور ویسا کیوں نہ کیا مگر یہ معقول ہے کہ جو کیا گیا ہے اس کو بمعرض اعتراض لایا جائے۔ ہم پوچھتے ہیں کہؔ کیا یہودیوں کا الزام یہی نہ تھا کہ تو انسان ہو کر خدا بنتا ہے یہ کفر ہے۔ اور جواب اس کا یہ ہوا کہ میں انسان ہوکر بھی اپنے آپ کو ابن اللہ کہہ سکتا ہوں اور کفر نہیں ہوتا جیسے نبی اللہ بھی تو انسان تھے اور ان کو اللہ کہا گیا تو پس اس میں سوال اس کی الوہیت کے متعلق کونسا تھا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 150
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 150
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/150/mode/1up
دو۲سرا امر جناب مرزا صاحب جو فرماتے ہیں کہ مسیح نے اپنے لئے حواریوں سے دعا چاہی یہ تو سچ نہیں موقعہ کو دیکھ لیں اس میں یہ تو لکھا ہے کہ مسیح نے ان کو کہا کہ تم اپنے لئے دعا مانگو تاکہ تم امتحان میں نہ پڑو۔
تیسر۳ا جناب کے کل کے مباہلہ کا جواب یہ ہے کہ ہم مسیحی تو پرانی تعلیمات کے لئے نئے معجزات کی کچھ ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ ہم اس کی استطاعت اپنے اندردیکھتے ہیں بجز اس کے کہ ہم کووعدہ یہ ہوا ہے کہ جو درخواست بمطابق رضاء الٰہی کے تم کرو گے وہ تمہارے واسطے حاصل ہو جائے گی اور نشانات کا وعدہ ہم سے نہیں لیکن جناب کو اس کا بہت سا ناز ہے ہم بھی دیکھنے معجزہ سے انکار نہیں کرتے۔ اگر اسی میں مہربانی خلق اللہ کے اوپر ہے کہ نشان دکھلا کر فیصلہ کیا جائے تو ہم نے تو اپنا عجز بیان کیا جناب ہی کوئی معجزہ دکھلا دیں اور اس وقت آپ نے اپنے آخری مضمون دیروزہ میں کہا تھا اور کچھ آج بھی اس پر ایما ہے اب زیادہ گفتگو کی اس میں کیا ضرورت ہے ہم دونوں عمر رسیدہ ہیں آخر قبر ہمارا ٹھکانا ہے خلق اللہ پر رحم کرنا چاہیئے کہ آؤ کسی نشان آسمانی سے فیصلہ کر لیں۔ اور یہ بھی آپ نے کہا کہ مجھے خاص الہام ہوا ہے کہ اس میدان میں تجھے فتح ہے۔ اور ضرور خدائے راست ان کے ساتھ ہوگا جو راستی پر ہیں ضرور ضرور ہی ہوگا۔ آپ کی تحریر کے خلاصہ کا یہ جواب ہے جیسا کہ ہم آگے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہم آپ کو کوئی پیغمبر یا رسول یا شخص ملہم جان کر آپ سے مباحثہ نہیں کرتے آپ کے ذاتی خیالات اور وجوہات اور الہامات سے ہمارا کچھ سروکار نہیں ہم فقط آپ کو ایک محمدی شخص فرض کر کے دین عیسوی اور محمدیت کے بارہ میں بموجب ان قواعد و اسناد کے جو ان ہر دو میں عام مانی جاتی ہیں آپ سے گفتگو کر رہے ہیں خیر تاہم چونکہ آپ کو ایک خاص قدرت الٰہی دیکھانے پر آمادہ ہو کے ہم کو برائے مقابلہ بلاتے ہیں تو ہمیں دیکھنے سے گریز بھی نہیں یعنی معجزہ یا نشانی۔ پس ہم یہ تین شخص پیش کرتے ہیں جن میں ایک اندھا۔ ایک ٹانگ کٹا اور ایک گونگا ہے۔ ان میں سے جس کسی کو صحیح سالم کر سکو کر دو اور جو اس معجزہ سے ہم پر فرض و واجب ہوگا ہم ادا کریں گے آپ بقول خود ایسے خدا کے قائل ہیں جو گفتہ قادر نہیں لیکن درحقیقت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 151
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 151
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/151/mode/1up
قادر ہے تو وہ ان کو تندرست بھی کر سکے گا پھر اس میں تامل کی کیا ضرورت ہے اور ضرور بقول آپ کے را ستباز کے ساتھ ہوگا ضرور ہوگا۔ آپ خلق اللہ پرؔ رحم فرمایئے جلد فرمایئے اور آپ کو خبر ہوگی کہ آج یہ معاملہ پڑنا ہے جس خدا نے الہام سے آپ کو خبر دے دی کہ اس جنگ و میدان میں تجھے فتح ہے اس نے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہوگا کہ اندھے و دیگر مصیبت زدوں نے بھی پیش ہونا ہے۔ سو سب عیسائی صاحبان و محمدی صاحبان کے رو برو اسی وقت اپنا چیلنج پوراکیجئے۔
چہار۴م۔ نجات کے بارہ میں جو جناب نے قرآن سے فرمایا ہے اس کا خلاصہ افعال معینہ ہے اور اس امر کی پڑتال ہم ہفتہ آئندہ میں کریں گے کیونکہ موقع وہی ہے جب ہمارے حملہ شروع ہوں گے۔ اور آپ کے حملہ ختم ہولیں گے اور جو آپ نے اعمال متقین کا فدیہ پیش کیا ہے اس کو ہم جانچیں گے کہ کیا کامل ہے یا ناقص۔ عَلٰی ہٰذا القیاس مسیح کا طریقہ نجات بھی ہم اسی روز جانچیں گے۔
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
بیان حضرت مرزا صاحب
حضرت مسیح کے بارہ میں جو آپ نے عذر پیش کیا ہے کہ حضرت مسیح نے صرف یہودیوں کا غصّہ فرو کرنے کے لئے یہ کہہ دیا تھا کہ تمہاری شریعت میں بھی تمہارے نبیوں کی نسبت لکھا ہے کہ وہ خدا ہیں اور نیز اس جگہ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ مسیح نے اپنی انسانیت کے لحاظ سے ایسا جواب دیا یہ بیان آپ کا منصفین کی توجہ اور غور کے لائق ہے صاف ظاہر ہے کہ یہودیوں نے حضرت مسیح کا کلمہ کہ میں خدا تعالیٰ کا بیٹا ہوں ایک کفر کا کلمہ قرار دے کر اور نعوذ باللہ ان کو کافر سمجھ کر یہ سوال کیا تھا اور اس سوال کے جواب میں بے شک حضرت مسیح کا یہ فرض تھا کہ اگر وہ حقیقت میں انسانیت کی و جہ سے نہیں بلکہ خدائی کی وجہ سے اپنے تئیں خدا تعالیٰ کا بیٹا سمجھتے تھے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 152
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 152
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/152/mode/1up
تو اپنے مدعا کا پورا پورا اظہار کرتے اور اپنے ابن اللہ ہونے کا ا ن کو ثبوت دیتے کیونکہ اس وقت وہ ثبوت ہی مانگتے تھے لیکن حضرت مسیح نے تو اس طرف رخ نہ کیا اور اپنے دوسرے انبیاء کی طرح قرار دیکر عذر پیش کر دیا اور اس فرض سے سبکدوش نہ ہوئے جو ایک سچا مبلغ اور معلم سبکدوش ہونا چاہتا ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ مخصوص مقدس کو کہتے ہیں حضرت مسیح کی کوئی خصوصیت ثابت نہیں کرسکتا کیونکہ آپ کی بائبل میں مخصوص کا ؔ لفظ اور نبیوں وغیرہ کی نسبت بھی استعمال پاگیا ہے دیکھو یسعیا نبی ۱۳ باب ۳۔ اور جو آپ نے بھیجے ہوئے کے معنی الوہیت نکالے ہیں یہ بھی ایک عجیب معنی ہیں آپ دیکھیں کہ پہلے سمویل کے ۱۲ باب ۸ آیت میں لکھا ہے کہ موسیٰ اور ہارون کو بھیجا اور پھر پیدائش ۴۵ ۔ ۷ میں لکھا ہے۔ خدا نے مجھے یہاں بھیجا ہے پھر یرمیا ۳۵ باب ۱۳،۴۴ باب ۴ میں یہی آیت موجود ہے اب کیا اس جگہ بھی ان الفاظ کے معنی الوہیت کرنا چاہئے افسوس کہ آپ ایک سیدھے اور سادے حضرت مسیح کے بیان کو توڑ مروڑ کر اپنے منشاء کے مطابق کرنا چاہتے ہیں اور حضرت مسیح نے جو اپنی بریت کا ثبوت پیش کیا اس کو نکما اور مہمل کرنا آپ کا ارادہ ہے کیا حضرت مسیح یہودیوں کی نظر میں صرف اس قدر کہنے سے بری ہوسکتے تھے کہ میں اپنے خدا ہونے کی وجہ سے تو بے شک ابن اللہ ہی ہوں لیکن میں انسانیت کی وجہ سے دوسرے نبیوں کے مساوی ہوں اور جو انکے حق میں کہا گیا وہ ہی میرے حق میں کہا گیا۔ اور کیا یہودیوں کا الزام اس طور کے رکیک عذر سے حضرت مسیح کے سر پر سے دور ہوسکتا تھا اور کیا انہوں نے یہ تسلیم کیا ہوا تھا کہ حضرت مسیح اپنی خدائی کی وجہ سے تو بے شک ابن اللہ ہی ہیں اس میں ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہاں انسان ہونے کی وجہ میں کیوں اپنے تئیں ابن اللہ کہلاتے ہیں بلکہ صاف ظاہر ہے کہ اگر یہودیوں کے دل میں صرف اتنا ہی ہوتا کہ حضرت مسیح محض انسان ہونے کی و جہ سے دوسرے مقدس اور مخصوص انسانوں کی طرح اپنے تئیں ابن اللہ قرار دیتے ہیں تو وہ کافر ہی کیوں ٹھہراتے کیا وہ حضرت اسرائیل کو اور حضرت آدم اور دوسرے نبیوں کو جن کے حق میں ابن اللہ کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 153
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 153
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/153/mode/1up
لفظ آئے ہیں کافر خیال کرتے تھے نہیں بلکہ سوال ان کا تو یہی تھا کہ ان کو بھی دھوکا لگا تھا کہ حضرت مسیح حقیقت میں اپنے تئیں اللہ کا بیٹا سمجھتے ہیں اور چونکہ جواب مطابق سوال چاہیئے اس لیے حضرت مسیح کا فرض تھا کہ وہ اُنکے جواب میں وُہی طریق اختیار کرتے جس طریق کیلئے اُنکا استفسار تھا اگر حقیقت میں خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے تو وُہ پیشگوئیاں جو ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب بعد از وقت اس مجلس میں پیش کر رہے ہیں کے سامنے پیش کرتے اور چند نمونہ خدا ہونے کے دکھلادیتے تو فیصلہ ہو جاتا یہ بات ہر گز صحیح نہیں ہے کہ یہودیوں کا سوال حقیقی ابن اللہ کے دلائل دریافت کرنے کیلئے نہیں تھا ۔ اس مقام میں زیادہ لکھنے کی کچھ ضرورت نہیں اَ ب بعد اسکے واضح ہو کہ مَیں نے ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کی خدمت میں یہ تحریر کیا تھا کہ جیسے کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ نجات صرف مسیحی مذہب میں ہے ایسا ہی قرآن میں لکھا ہے کہ نجات صرف اسلام میں ہے اور آپکا تو صرف اپنے لفظوں کے ساتھ دعویٰ اور میں نے وہ آیات بھی پیش کر دی ہیں ۔ لیکن ظاہر ہے کہؔ دعویٰ بغیر ثبوت کے کچھ عزّت اور وقعت نہیں رکھتا ۔ سو اس بناء پر دریافت کیا گیا تھا کہ قرآن کریم میں تو نجات یا بندہ کی نشانیاں لکھی ہیں جن نشانوں کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ اس مقدس کتاب کی پَیروی کرنے والے نجات کو اسی زندگی میں پا لیتے ہیں مگر آپ کے مذہب میں حضرت عیسٰی ؑ نے جو نشانیاں نجات یا بندوں یعنی حقیقی ایمانداروں کی لکھی ہیں وہ آپ میں کہاں موجود ہیں ۔ مثلاََ جیسے کہ مرقس ۱۶۔ ۱۷ میں لکھا ہے ۔ اور وے جو ایمان لائیں گے اُن کے ساتھ یہ علامتیں ہونگی کہ وہ میرے نام سے دیووں کو نکالینگے اور نئی زبانیں بولینگے سانپوں کو اُٹھالینگے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پیئیں گے اُنہیں کچھ نقصان نہ ہو گا ۔ وے بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو چنگے ہوجائینگے ۔ تو اَب میں بادب التماس کرتا ہوں اور اگر ان الفاظ میں کچھ درشتی یا مرارت ہو تو اُسکی معافی چاہتا ہوں کہ یہ تین بیمار جو آپ نے پیش کئے ہیں یہ علامت تو بالخصوصیّت مسیحیوں کیلئے حضرت عیسٰی ؑ قرار دے چکے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگرتم سچے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 154
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 154
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/154/mode/1up
ایماندار ہو تو تمہاری یہی علامت ہے کہ بیمار پر ہاتھ رکھوگے تو وہ چنگا ہوجائیگا اب گستاخی معاف اگر آپ سچّے ایماندار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اِسوقت تین بیمار آپ ہی کے پیش کردہ موجود ہیں آپ اُن پر ہاتھ رکھدیں اگر وہ چنگے ہوگئے تو ہم قبول کرلیں گے کہ بیشک آپ سچّے ایماندار اور نجات یافتہ ہیں ورنہ کوئی قبول کرنے کی راہ نہیں کیونکہ حضرت مسیح تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے دانہ برابر بھی ایمان ہوتا تو اگر تم پہاڑ کو کہتے کہ یہاں سے چلا جاتو وہ چلا جاتا مگر خیر مَیں اس وقت پہاڑ کی نقل مکانی تو آپ سے نہیں چاہتا کیونکہ وہ ہماری اِس جگہ سے دور ہیں لیکن یہ تو بہت اچھی تقریب ہوگئی کہ بیمار تو آپ نے ہی پیش کردیئے اِب آپ ان پر ہاتھ رکھو اور چنگا کرکے دکھلاؤ ورنہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہاتھ سے جاتا رہے گا مگر آپ پر یہ واضح رہے کہ یہ الزام ہم پر عائدنہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن کریم میں ہماری یہ نشانی نہیں رکھی کہ بالخصوصیّت تمہاری یہی نشانی ہے کہ جب تم بیماروں پر ہاتھ رکھوگے تو اچھے ہوجائیں گے ہاں یہ فرمایا ہے کہ میں اپنی رضا اور مرضی کے موافق تمہاری دُعائیں قبول کرونگا اور کم سے کم یہ کہ اگر ایک دُعا قبول کرنے کے لائق نہ ہو اور مصلحتِ الٰہی کے مخالف ہو تو اس میں اطلاع دیجائیگی یہ کہیں نہیں فرمایا کہ تم کو یہ اقتدار دیا جائیگا کہ تم اقتداری طور پر جو چاہو وہی کر گذروگے ۔ مگر حضرت مسیح کا تو یہ حکم معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیماروں وغیرہؔ کے چنگا کرنے میں اپنے تابعین کو اختیار بخشتے ہیں جیسا کہ متی ۱۰ باب ۱ میں لکھا ہے پھر اُس نے بارہ شاگردوں کو پاس بلا کے انہیں قدرت بخشی کہ ناپاک رُوحوں کو نکالیں اور ہر طرح کی بیماری اور دُکھ درد کو دُور کریں ۔ اب یہ آپکا فرض اور آپکی ایمانداری کا ضرور نشان ہو گیا کہ آپ ان بیماروں کو چنگا کرکے دکھلادیں یا یہ اقرار کریں کہ ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ہم میں ایمان نہیں اور آپکو یاد رہے کہ ہر ایک شخص اپنی کتاب کے موافق مؤاخذہ کیا جاتا ہے ۔ ہمارے قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھاکہ تمہیں اقتدار
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 155
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 155
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/155/mode/1up
دیا جائیگا بلکہ صاف فرمادیا کہ ۱یعنی انکو کہدو کہ نشان اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں جس نشان کو چاہتا ہے اُسی نشان کو ظاہر کرتا ہے بندہ کا اُسپر زور نہیں ہے کہ جبر کے ساتھ اُس سے ایک نشان لیوے یہ جبر اور اقتدار تو آپ ہی کی کتابوں میں پایا جاتا ہے بقول آپ کے مسیح اقتداری معجزات دکھلاتا تھا اور اُس نے شاگردوں کو بھی اقتدار بخشا۔ اور آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ اب بھی حضرت مسیح زندہ حیّ قیّوم قادر مطلق عالم الغیب دن رات آپ کے ساتھ ہے جو چاہو وہی دے سکتا ہے پس آپ حضرت مسیح سے درخواست کریں کہ ان تینوں بیماروں کو آپ کے ہاتھ رکھنے سے اچھاکر دیویں تا نشانی ایمانداری کی آپ میں باقی رہ جاوے ورنہ یہ تو مناسب نہیں کہ ایک طرف اہل حق کے ساتھ بحیثیت سچے عیسائی ہونے کے مباحثہ کریں اور جب سچے عیسائی کے نشان مانگے جائیں تب کہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں اس بیان سے تو آپ اپنے پر ایک اقبالی ڈگری کراتے ہیں کہ آپ کا مذہب اسوقت زندہ مذہب نہیں ہے لیکن ہم جس طرح پر خدا تعالیٰ نے ہمارے سچے ایماندار ہونے کے نشان ٹھہرائے ہیں اس التزام سے نشان دکھلانے کو تیار ہیں اگر نشان نہ دکھلاسکیں تو جو سزا چاہیں دے دیں اور جس طرح کی چُھری چاہیں ہمارے گلے میں پھیر دیں اور وہ طریق نشان نمائی کا جسکے لئے ہم مامور ہیں وہ یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے جو ہمارا سچا اور قادر خدا ہے اس مقابلہ کے وقت جو ایک سچے اور کامل نبی کا انکار کیا جاتا ہے تضرع سے کوئی نشان مانگیں تو وُہ اپنی مرضی سے نہ ہمارا محکوم اور تابع ہو کر جس طرح سے چاہے گا نشان دکھلائے گا آپ خوب سوچیں کہ حضرت مسیح بھی باوجود آپ کے اس قدر غلو کے اقتدار ی نشانات کے دکھلانے سے عاجز رہے دیکھئے مرقس ب ۸۔۱۱،۱۲ ۔ آیت میں یہ لکھا ہے ۔ تب فریسی نکلے اور اس سے حجت کر کے یعنی جس طرح اب اسوقت مجھ سے حجت کی گئی ۔ اس کے امتحان کیلئے آسمان سے کوئی نشان چاہا اُس نے اپنے دل سے آہ کھینچ کے کہا کہ اس زمانہ کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جائیگا اَب دیکھئے کہ یہودیوں نے اسی طرز سے نشان مانگا تھا حضرت مسیح نے آہ کھینچ کر نشان دکھلانے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 156
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 156
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/156/mode/1up
سےؔ انکار کردیا پھر اس سے بھی عجب طرح کا ایک اور مقام دیکھئے کہ جب مسیح صلیب پر کھینچے گئے تو تب یہودیوں نے کہا کہ اُس نے اوروں کو بچایا پر آپ کو نہیں بچا سکتا اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب سے اُتر آوے تو ہم اسپر ایمان لاویں گے اب ذرا نظر غور سے اس آیت کو سوچیں کہ یہودیوں نے صاف عہد اور اقرار کر لیا تھا کہ اب صلیب سے اُتر آوے تو وہ ایمان لاوینگے لیکن حضرت مسیح اُتر نہیں سکے ان تمام مقامات سے صاف ظاہر ہے کہ نشان دکھلانا اقتداری طور پر انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ ایک اور مقام میں حضرت مسیح فرماتے ہیں یعنی متی ب۱۲۔ آیت ۳۸کہ اس زمانہ کے بد اور حرام کار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سواکوئی نشان دکھلایا نہ جائیگا اب دیکھئے کہ اِس جگہ حضرت مسیح نے اُنکی درخواست کو منظور نہیں کیا بلکہ وہ بات پیش کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُنکو معلوم تھی اِسی طرح مَیں بھی وہ بات پیش کرتا ہوں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو معلوم ہے میرا دعویٰ نہ خدائی کا اور نہ اقتدار کا اور میں ایک مسلمان آدمی ہوں جو قرآن شریف کی پَیروی کرتا ہوں اورقرآن شریف کی تعلیم کے رُو سے اس موجودہ نجات کا مدعی ہوں ۔ میرا نبّوت کا کوئی دعویٰ نہیں یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ نبی بھی ہو جائے میں تو محمدؐی اور کامل طور پر اللہ و رسول کا متبع ہوں اور ان نشانوں کا نام معجزہ رکھنا نہیں چاہتا بلکہ ہمارے مذہب کی رُو سے ان نشانوں کا نام کرامات ہے جو اللہ رسول ؐکی پیروی سے دیئے جاتے ہیں تو پھر مَیں دعوتِ حق کی غرض سے دوبارہ اتمام حُجّت کرتا ہوں کہ یہ حقیقی نجات اور حقیقی نجات کے برکات اور ثمرات صرف اُنھیں لوگوں میں موجود ہیں جو حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پَیروی کرنے والے اور قرآنِ کریم کے احکام کے سچے تابعدار ہیں اور میرا دعویٰ قرآن کریم کے مطابق صرف اِتنا ہے کہ اگر کوئی حضرت عیسائی صاحب اس نجات حقیقی کے مُنکر ہوں جو قرآن کریم
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 157
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 157
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/157/mode/1up
کے وسیلہ سے مل سکتی ہے تو انھیں اختیار ہے کہ وہ میرے مقابل پر نجات حقیقی کی آسمانی نشانیاں اپنے مسیح سے مانگ کر پیش کریں مگر اب بالخصوص رعایت شرائط بحث کے لحاظ سے میرے مخاطب اِس بارہ میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب ہیں ۔ صاحب موصوفؔ کو چاہیئے کہ انجیل شریف کی علامات قرار دادہ کے موافق سچا ایماندار ہونے کی نشانیاں اپنے وجود میں ثابت کریں اور اِس طرف میرے پر لازم ہوگا کہ مَیں سچا ایماندار ہونے کی نشانیاں قرآن کریم کے رُو سے اپنے وجود میں ثابت کروں مگر اِس جگہ یاد رہے کہ قرآن کریم ہمیں اقتدار نہیں بخشتا بلکہ ایسے کلمہ سے ہمارے بدن پر لرزہ آتا ہے ہم نہیں جانتے کہ وہ کِس قسم کا نشان دکھلائے گا وہی خدا ہے سوا اُسکے اور کوئی خدا نہیں ہاں یہ ہماری طرف سے اِس بات کا عہد پختہ ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ نے میرے پر ظاہر کردیا ہے کہ ضرور مقابلہ کے وقت میں فتح پاؤں گا ۔ مگر یہ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس طور سے نشان دکھلائے گا اصل مدعا تو یہ ہے کہ نشان ایسا ہوکہ انسانی طاقتوں سے بڑھ کر ہو یہ کیا ضرور ہے کہ ایک بندہ کو خدا ٹھہرا کر اقتدار کے طور پر اُس سے نشان مانگا جائے ہمار ایہ مذہب نہیں اور نہ ہمارا یہ عقیدہ ہے اللہ جلّ شانہٗ ہمیں صرف عموم اور کلّی طور پر نشان دکھلانے کا وعدہ دیتاہے اگر اِس میں مَیں جُھوٹا نِکلوں تو جو سزا تجویز کریں خواہ سزائے مَوت ہی کیوں نہ ہو مجھے منظور ہے لیکن اگر آپ حدِّ اعتدال و انصاف کو چھوڑ کر مجھ سے ایسے نشان چاہیں گے جس طرز سے حضور مسیح بھی دِکھلا نہیں سکتے بلکہ سوال کرنے والوں کو ایک دو گالیاں سُناویں تو ایسے نشان دکھلانے کا دم مارنا بھی میرے نزدیک کفر ہے۔
دستخط
بحروف انگریزی غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ از جانب اہل اسلام
دستخط
بحروف انگریزی ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 158
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 158
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/158/mode/1up
چھٹاؔ پرچہ
مباحثہ ۲۷ ؍مئی ۱۸۹۳ء
روئداد
آج پھر جلسہ منعقد ہوا ۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ چونکہ پادری جی ایل ٹھاکر داس صاحب بوجہ ضروری کام کے گوجرانوالہ میں تشریف لے گئے ہیں۔ اس لئے اُنکی بجائے ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب ناصر مقرر کئے جائیں ۔ تجویز منظور ہوئی ۔
پھر بہ تحریک ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب ناصر اور بتائید میر حامد شاہ صاحب اور باتفاق رائے حاضرین یہ تجویز منظور ہوئی کہ شرائط مباحثہ میں قرار دیا گیا تھا کہ ہر ایک تقریر پر تقریر کنندوں اور میر مجلس صاحبان کے دستخط ہونے چاہئیں ۔ بعوض اِسکے مَیں پیش کرتا ہوں کہ صاحب میر مجلس صاحبان کے دستخط ہی کافی متصوّر ہیں ۔
مباحثہ کے متعلق یہ قرار پایا کہ اہل اسلام کی طرف سے منشی غلام قادر صاحب فصیح اور مرزاخدا بخش صاحب اور عیسائی صاحبان کی طرف سے بابو فخر الدین اور شیخ وارث الدین صاحب ایک جگہ بیٹھ کر فیصلہ کریں اور رپورٹ کریں کہ مباحثہ کی کس قدر قیمت مناسب مقرر کی جا سکتی ہے ۔ اِسکے بعد عیسائی صاحبان کیطرف سے بتایا جائیگا کہ وہ کس قدر کاپیاں خرید سکیں گے اور یہ مباحثہ جسے عیسائی صاحبان خرید یں گے اس طرح چھپا ہوا ہو گا کہ روئداد اور مصدقہ مضامین فریقین کے لفظ بلفظ اُس میں مندرج ہونگے ۔ کسی فریق کی طرف سے اُس میں کمی بیشی وغیرہ نہیں کی جائیگی ۔
۶ بجے ۳۰ منٹ پر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے جواب لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۳۰ منٹ پر ختم ہوا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سُنایا گیا ۔ مرزا صاحب نے ۸ بجے ۵ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۹ بجے ۵ منٹ پر ختم ہوا ۔ اور اِسکے بعد ایک امر پر تنازعہ ہوتا رہا جس کا اُسی وقت فیصلہ کر کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 159
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 159
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/159/mode/1up
ہر دو میر مجلسوں کےؔ اُسپر دستخط کئے گئے جو اِس کارروائی کے ساتھ ملحق ہے ۔ فقط
دستخط
بحروف انگریزی ۔ ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ از جانب عیسائی صاحبان
دستخط
بحروف انگریزی ۔ غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ از جانب اہل اسلام
چونکہ مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب بیمار تھے اور انہوں نے اپنے آخری جواب میں ایک پہلے سے لکھی ہوئی تحریر پیش کر کے کہا کہ کوئی اور صاحب انکی طرف سے سُنا دیں ۔ اِسلئے میر مجلس اہل اسلام نے اِسپر اعتراض کیا کہ ایسی تحریر پہلے سے لِکھّی ہُوئی پیش کی جانی خلاف شرائط ہے چنانچہ اس پر ایک عرصہ تک تنازعہ ہوتا رہا ۔ آخر کار یہ قرار پایا کہ سوموار کا ایک دن اِس زمانہ مباحثہ میں ایزاد کیا جاوے اور ایسا ہی دُوسرے زمانہ میں بھی ایک دن اور بڑھا دیا جاوے ۔ علاوہ بریں یہ بھی مرزا صاحب کی رضامندی سے قرار پایا کہ اُس سوموار کے روز مسٹرعبد اللہ آتھم صاحب خدا نخواستہ صحت یاب نہ ہوں تو اُنکی جگہ کوئی اور صاحب مقرر کئے جاویں اور اِس امر کا اختیار ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کو ہوگا ۔ یہ بھی قرار پایا کہ ۲۹ تاریخ کو آخری جواب ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کا ہو اور دُوسرے زمانہ میں آخری جواب مرزا صاحب کا ہوگا ۔ وقت کا لحاظ نہ ہوگا اور گیارہ بجے کے اندر اندر کارروائی ختم ہوگی ۔ یعنی آخری زمانہ مجیب کا حق ہو گا کہ جواب دے اور اُسکے جواب کے بعد اگر وقت بچے تو سائل کو وقت نہیں دیا جاویگا اور جلسہ برخاست کیا جاویگا۔ چونکہ مذکورہ بالا اوّل الذکر امر فیصلہ طلب تھا اِس لئے اتفاق رائے سے اِسکا یُوں فیصلہ ہؤا کہ آئندہ کوئی مضمون تحریری پہلے کا لکھا ہؤا لفظ بہ لفظ نقل نہیں کرا یا جاسکتا اور یہ فیصلہ بہ تراضی فریقین ہؤا اور فریقین پر کوئی اعتراض نہیں ۔
۲۷ مئی ۱۸۹۳ ء
دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ)
دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ)
از جانب عیسائی صاحبان
از جانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 160
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 160
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/160/mode/1up
بیانؔ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
۲۷؍ مئی ۱۸۹۳ء
اوّل ۔ دربارہ راہ نجات و نشانات نجات یافتگان جو جناب مرزا صاحب نے بیان کئے ہیں ہم نے پہلے اِس سے بیان کر دیا ہے کہ ہفتہ آئندہ کے شروع میں اسکی بحث پوری شروع ہوگی اِس جگہ بھی ہم اِس قدر اشارہ کر دیتے ہیں کہ آپ کے لفظ نجا ت کی تعریف بہت ہی نامکمل ہے اور آپ کو ضرور نہ تھا کہ طریقہ نجات مسیحان کو مصنوعی اور غیر طبعی اور باطل فرماتے۔ بہر کیف جو آپ نے فرمایاہے وہ آگے دیکھا جائیگا جب ہماری باری اعتراضات کی ہوگی ۔
دوم ۔ انجیل یوحنّا کی باب ۱۰ پیش کردہ آیات کاہم کافی و وافی جواب دے چکے ہیں آپ نے بجائے اِسکے کہ اُس جواب کا کچھ نقص دکھلاتے محض بار بار تکرار ہی اسکا کیا ہے گویا کہ تکرار ہی کافی ہے اور طول کلامی ہی گویا صداقت ہے ۔یوحنّا کے باب ۱۰۔۳۶ میں جہاں لفظ مخصوص اور بھیجا ہؤا ترجمہ ہؤا ہے ہماری اس شرح پرکہ لفظ مخصوص کا اصل زبان میں بمعنے تقدیس کیا گیا ہے ۔ اور بھیجا ہوااسی پر ایماء کرتا ہے جو اُس نے فرمایا کہ مَیں آسمانی ہوں اور تم زمینی ہو ۔ یہ لفظ جتنے حوالہ آپ نے دیئے ہیں ا ور کسی بزرگ کے بارہ میں پائے نہیں جاتے ۔ یسعیا۱۳۳سطروں کے ترجمہ میں لفظ ارخومائیہے جس کے معنے بھیجا ہواہے ۔ پہلے سمویل۱۸۲ میں لفظ اپسنن ای لو معنے وہی ہیں ۔ پَیدایش ۴۵۷ میں بھی اور یرمیا ۳۵۱۳ میں لفظ بادی زی جس کے معنے جاکے ہیں اور یہ الفاظ مقام متنازعہ کے لفظ ھی گی آسے سے بہت ہی متفرق ہیں اور ان الفاظ کا تعلق مقام متنازعہ سے کچھ نہیں ہے اور جو ہم نے کہا وہ درست ہے ، کہ جس کو خدا نے مخصوص کیا اور بھیجا یعنی آسمان سے بھیجا۔
سوم ۔ کیا یہودی لوگ اسرائیل وغیرہ کو اسی لقب کے باعث کافر سمجھتے تھے ۔ یہ جناب کا سوال ہے ۔ جواب اِس کا ہم بار بار دے چکے مگر افسوس کہ جناب کسی باعث سے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 161
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 161
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/161/mode/1up
اِسؔ کو نہ سمجھے ۔ گزشتہ بحث پر جناب نظر غورپھر فرما کر دیکھ لیں اور یہ خصوصیت اور کسی بزرگ کے ساتھ نہ تھی جو مسیح کے ساتھ تھی ۔
چہارم ۔ اس کا بھی لوگ انصاف کر لیں گے جو مرزا صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے صرف لفظ کے ساتھ نجات کادعویٰ کیا ہے اور صرف لفظ ہی استعمال کیا ہے ۔ کیوں صاحب ہماری آیات محولہ کتب مقدسہ سے کس لئے بے توجگی رہی ۔ کیوں نہ ان کا کچھ نقص دکھلایا گیا پیشتر اس سے کہ بے توجگی رکھی جاتی ۔
پنجم ۔ مرقس کے باب ۱۶ کے بموجب جو مرزا صاحب ہم سے نشان طلب کرتے ہیں بجواب اُس کے واضح ہوکہ وعدہ کی عمومیت پر ہمارا کچھ عذر نہیں کہ جو ایمان لائے اُس کے ساتھ یہ علامتیں ہوں ۔ اِلّا سوال یہ ہے کہ اُس وعدہ کی عمومیت کے ساتھ کیا معرفت بھی عام ہے ؟ کیا حواری اس ضعفِ ایمانی کے واسطے کہ اُنہوں نے معتبر گواہوں کی گواہی اور خداوند کے وعدہ کی باتیں اور انبیاء سلف کی پیش خبریاں نہ مانی تھیں ؟ جھڑکی نہ کھائی تھی کہ اور کیا ہمارے خداوند کا یہ دستور نہ تھا کہ جس کو وہ تنبیہ فرماتا تھا اُسی کو تقویت بھی بخشتاتھا ۔
اور جب اُس نے ایسا فرمایا کہ تم جاؤ دنیا میں کہ جب کوئی ایمان لاوے گا ۔ اُسکے ساتھ یہ نشان ہونگے تو اِس کا مطلب یہ نہ ہوا کہ معجزہ کی بابت تم ضعیف الایمان ہوئے۔ اب آئندہ کو معجزات تمہارے ہاتھ سے بہ نکلیں گے ۔ کیا یہ جھڑکی ہمارے اس زمانہ کے پادریوں نے بھی کھائی تھی ۔ یہ تو ہم نے تسلیم کیا کہ وعدہ عام ہے لیکن اس کو دکھلاؤ کہ معرفت بھی عام ہے جسکے وسیلہ سے یہ امر پورا ہونیوالا ہے ۔ ہم نے باب ۱۶مرقس سارا آپ کو سُنا دیا ہے جو ہم نے بیان کیا ۔ یہی صُورت وہاں موجود ہے یا نہیں۔ پس جب معرفت خاص تھی تو حواریوں کے زمانہ کے بعد اس وعدہ کی کشش بے جا ہے کہ نہیں۔
تکمیل اس وعدہ کے بارہ میں اعمال ۸۱۴دیکھو کہ کیا یہ لکھا ہے یا نہیں کہ یوحنّا اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 162
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 162
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/162/mode/1up
پطرس رسول جب سامریا میں گئے اور بہت سے لوگوں کو مسیحی پایا تو اُن سے سوال کیا کہ تم نے رُوح القدس بھی پائی ہے یا نہیں ۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ رُوح القدس کی بابت ہم ؔ نے سُنا تک نہیں تب اُنہوں نے پُوچھا کہ تم نے کس کے ہاتھ سے بپتسما پایا اُنہوں نے کہا کہ یوحنّا اصطباغی کے ہاتھ سے ۔ تب اُنہوں نے ہاتھ اُن کے سر پر رکھے اور اُنکو رُوح القدس ملی ۔ اِس نظیر سے کیا ثابت نہ ہوا کہ ہماری شرح صحیح اور سچّی ہے اور کیا جناب کی کشش وعدہ عام معجزات کی تا ابد غلط ہے ۔
پہلے قرنتیوں کے ۱۲ باب میں ۴ آیت سے معلوم ہوتا ہے ۔ پر رُوح ایک ہی ہے اور خدمتیں بھی طرح طرح کی ہیں اور خدا وند ایک ہی ہے اور تاثیریں طرح طرح کی ہیں پر خدا ایک ہی ہے جو سبھوں میں سب کچھ کرتا ہے ۲۸۔ اور خُدا نے کلب میں کتنوں کو مقرب کیا اور پہلے رسولوں کو دوسرے نبیوں کو تیسرے اُستادوں کو بعد اس کے کرامتیں تب چنگا کرنے کی قدرتیں وغیرہ ۔ ۳ آیت مدد گاریاں پیشوایاں طرح طرح کی زبانیں کیا سب رسول ہیں ؟ کیا سب نبی ہیں کیا سب اُستاد ہیں ۔ کیا سب کرامتیں دکھاتے ہیں؟ کیا سب کو چنگا کرنے کی قدرت ہے ؟ کیا طرح طرح کی زبانیں سب بولتے ہیں ؟ کیا سب ترجمہ کرتے ہیں ۔ اِن امور سے صاف ظاہر ہے کہ اُس زمانہ میں کہ جب حواری موجود تھے ہر ایک مومن کسی بخشش کو عطیّہ الٰہی سے پیش کرتا تھا کہ کسی کو یہ امر آتا تھا اور کسی کو وہ اورکوئی بغیر معجزہ کے نہ تھا لیکن کلام الٰہی نے پہلے قرنتیوں ۲و۸۱۳ میں یہ فرمایا اور اگر میں نبّوت کروں اور اگر مَیں غیب کی سب باتیں اور سارے علم جانوں اور میرا ایمان کامل ہو یہاں تک کہ مَیں پہاڑوں کو چلاؤں پر محبّت نہ رکھوں تو میں کچھ نہیں ہوں محبت کبھی جاتی نہیں رہتی اگر نبوتیں ہیں تو موقوف ہونگی اگر زبانیں ہیں تو بند ہوجائیں گی اگر علم ہے تو لا حاصل ہوجائے گا۔ اور آخری آیت میں لکھا ہے ۔ اب تو ایمان اُمید اور محبت یہ تینوں موجود رہتی ہیں پر اِن میں جو بڑھ کر ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 163
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 163
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/163/mode/1up
محبت ہے ۔ کیونکہ ایمان جب دوبدو ہوگیا تو ایمان رہا امید جب حاصل ہوگئی تو اتمام پاگئی مگر محبت کبھی اتمام نہیں پاتی اور یہ بھی یاد رہے محبت خاص نام خدا کاہے کہ خدا محبت ہے ۔ ان سب امور سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ معجزات جیسے کہ ہمیشہ کے واسطے موعود نہیں ہوئے ویسے ہی نجات کے بارہ میں سب سے اُوپر اِن کا درجہؔ نہیں ۔ لیکن ایک وقت کے واسطے جب نئی تعلیم دی گئی اِس کی تصدیق اور قائمی کے واسطے معجزے بخشے گئے اور اگر ہمیشہ معجزے ہوا کریں تو تاثیر معجزہ ہونے کی کچھ نہ رہے خلاصہ جس آیت سے جناب نے وعدہ عام کی کشش کی ہے ہم یہ دکھلاتے ہیں کہ اسکے متعلق معرفت بھی ہے اور وہ معرفت محض خاص ہے ۔ اور متن کلام باب ۱۶ مرقس کو دیکھ کر جناب اِس بیان کو کسی طرح سے غلط نہ ٹھہرا سکیں گے ۔
ششم ۔جناب فرماتے ہیں کہ مسیح نے بھی اقتداری معجزے دکھلانے سے انکار کیا ۔ لیکن یہ جناب کی زیادتی ہے کہاں انکار کیا ؟ کیا جب لوگ نشان آسمانی کو دیکھ کر واسطے ٹھٹھ کرنے کے اور نشان آسمانی مانگتے تھے تو ارشاد ہوا کہ اس بد اور حرامکار گروہ کو کوئی نشان نہ دکھلایا جاوے گا ۔ اب انصاف فرمائیے کہ کیا نشان کے نہ دکھانے کے معنے یہ ہیں کہ نشان نہیں دکھلایا جاسکتا ۔ کیا کوئی قادر شخص اگر یہ کہے کہ میں فلاں امر نہ کروں گا ۔ تو اسکے معنے یہ ہیں کہ وہ نہیں کرسکتا ؟
متی ۹ اور یوحّنا ۱۱ اور لوقا۷ وغیرہ ابواب میں نظائر معجزات صاف صاف دیکھ لو ۔ مجھے تو جناب کے فہم و ذکا سے اِس سے زیادہ اُمّید تھی کہ آپ ایسے معنے نہ کریں ۔
ہفتم ۔ آپ جو فرماتے ہیں کہ مسیح نے دو گالیاں دیں ۔ کیا بد کو بد کہنا گالی ہے اور یا حرامزادہ کو حرامزادہ کہنا گالی ہے ۔ اگر جناب اسلام کے داب کلام کے موافق بھی کچھ کرتے تو ایک نبی اُولو العزم اور معصوم کے اُوپر ایسی بے مہذ بانہ کلام نہ کرتے ۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 164
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 164
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/164/mode/1up
اس کے واسطے ہم افسوس کرتے ہیں کہ نبیوں کی بابت یہ کہا جائے کہ گالیاں دیتے تھے ۔ (باقی آئندہ )
دستخط (بحروف انگریزی )
ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ)
دستخط
غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ)
از جانب عیسائی صاحبان
از جانب اہل اسلام
بیانؔ ؔ حضرت مرزا صاحب
ڈپٹی صاحب سے میرا یہ سوال تھا کہ آپ جو حضرت عیسٰی ؑ کو خدا ٹھہراتے ہیں تو آپ کے پاس حضرت موصوف کی الوہیت پر کیا دلیل ہے کیونکہ جبکہ دُنیا میں بہت سے فرقے اور قومیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ اُنہوں نے اپنے اپنے پیشواؤں اور رہبروں کو خُدا ٹھہرا رکھا ہے جیسے ہندوؤں کا فرقہ اور بُدھ مذہب کے لوگ اور وہ لوگ بھی اپنے اپنے پُرانوں اور شاستروں کے رُو سے اُنکی خدائی پر منقولی دلائل پیش کیا کرتے ہیں بلکہ اُنکے معجزات اور بہت سے خوارق بھی ایسی شدّومد سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس اُنکی نظیر نہیں جیسے کہ راجہ رامچندر صاحب اور راجہ کرشن صاحب اور برہما اور بشن اور مہا دیو کی کرامات جو وہ بیان کرتے ہیں آپ صاحبوں پر پوشیدہ نہیں تو پھر ایسی صورت میں ان متفرق خداؤں میں سے ایک سچا خدا ٹھہرانے کے لئے ضرور نہیں کہ بڑے بڑے معقولی دلائل کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ دعوے میں اور منقولی ثبوتوں کے پیش کرنے میں تو وہ سب صاحب آپکے شریک ہیں بلکہ منقولات کے بیان کرنے میں شریک غالب معلوم ہوتے ہیں اور مَیں نے ڈپٹی صاحب موصوف کو صرف اسی قدر بات کی طرف توجّہ نہیں دلائی بلکہ قرآن کریم سے عقلی دلائل نکال کر ابطال الوہیت مسیح پرپیش کئے کہ انسان جو اور تمام انسانوں کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 165
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 165
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/165/mode/1up
لوازم اپنے اندر رکھتا ہے کسی طرح خدا نہیں ٹھہر سکتا۔ اور نہ کبھی یہ ثابت ہوا کہ دُنیا میں خدا یا خدا کا بیٹا بھی نبیوں کی طرح وعظ اور اصلاح خلق کیلئے آیا ہومگر افسوس کہ ڈپٹی صاحب موصوف نے اس کا کوئی جواب شافی نہ دیا ۔ میری طرف سے یہ پہلے شرط ہوچکی تھی کہ ہم فریقین دعوےٰ بھی اپنی کتاب الہامی کا پیش کریں گے اور دلائل معقولی بھی اسی کتاب الہامی کی سُنائی جائیں گی۔ مگر ڈپٹی صاحب موصوف نے بجائے اِسکے کہ کوئی معقولی دلیل حضرت عیسٰی ؑ کے خدا یا خدا کا بیٹا ہونے پر پیش کرتے دعوے پر دعوے کرتے گئے اور بڑا ناز اِن کو اِن چند پیشگوئیوں پر ہے جو اُنہوں نے عبرانیوں کےؔ خطوط اور بعض مقامات بائیبل سے نکال کر پیش کئے ہیں مگر افسوس کہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایسی پیشگوئیاں جب تک ثابت نہ کی جاویں کہ درحقیقت وہ صحیح ہیں اور ان کا مصداق حضرت مسیحؑ نے اپنے تئیں ٹھہرالیا ہے اور اس پر دلائل عقلی دی ہیں تب تک وہ کسی طور سے دلائل کے طور پر پیش نہیں ہو سکتیں بلکہ وہ بھی ڈپٹی صاحب کے دعاوی ہیں جو محتاج ثبوت ہیں ۔ ان دعاوی کے سوائے ڈپٹی صاحب نے اب تک حضرت مسیح کی الوہیّت ثابت کرنے کے لئے کچھ بھی پیش نہیں کیا اور مَیں بیان کرچکا ہوں کہ حضرت مسیحؑ یوحّنا ۱۰ باب میں صاف طور سے اپنے تئیں خدا کا بیٹا کہلانے میں دُوسروں کا ہمرنگ سمجھتے ہیں اور کوئی خصوصیّت اپنے نفس کے لئے قائم نہیں کرتے حالانکہ وہ یہودی جنہوں نے حضرت مسیح کو کافر ٹھہرایا تھا اُن کا سوال یہی تھا ۔ اور یہی وجہ کافر ٹھہرانے کی بھی تھی کہ اگر آپ درحقیقت خدا کے بیٹے ہیں تو اپنی خدائی کا ثبوت دیجئے لیکن انہوں نے کچھ بھی ثبوت نہ دیا افسوس کہ ڈپٹی صاحب اِس بات کو کیوں سمجھتے نہیں کہ کیا ایسا ہونا ممکن تھا کہ سوال دیگر و جواب دیگر ۔ اگر حضرت مسیحؑ درحقیقت اپنے تئیں ابن اللہ ٹھہراتے تو ضرور یہی پیشن گوئیاں وہ پیش کرتے جو اَب ڈپٹی صاحب پیش کر رہے ہیں اور جبکہ اُنہوں نے وہ پیش نہیں کیں تو معلوم ہوا کہ اُن کا وہ دعویٰ نہیں تھا اگر اُنہوں نے کسی اور مقام میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 166
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 166
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/166/mode/1up
پیش کر دی ہیں اور کسی دوسرے مقام میں یہودیوں کے اس بار بار کے اعتراض کوا س طرح پر اٹھا دیا ہے کہ میں درحقیقت خدا اور خدا کا بیٹا ہوں اور یہ پیشگوئیاں میرے حق میں وارد ہیں اور خدائی کا ثبوت بھی اپنے افعال سے دکھلا دیا ہے تا اس متنازعہ فیہ پیشگوئی سے ان کوَ مخلصی حاصل ہو جاتی تو برائے مہربانی وہ مقام پیش کریں۔ اب کسی طور سے آپ اس مقام کو چھپا نہیں سکتے۔ اور آپ کی دوسری تاویلات تمام رکیک ہیں۔ سچ یہی بات ہے کہ مخصوص کا لفظ اور بھیجا گیا کا لفظ عہد عتیق میں اور نیز جدید میں عام طور پر استعمال پایا ہے۔ آپ پر یہ ایک ہمارا قرضہ ہے جو مجھے ادا ہوتا نظر نہیں آتا جو آپ نے حضرت مسیحؑ کی خدائی کا تو ذکر کیا لیکن ان کی خدائی کا معقولی طور پر کچھ بھی ثبوت نہ دے سکے اور دوسرے خداؤں کی نسبت اس میں کچھ مابہ الامتیاز عقلی طور پر قائم نہ کرسکے بھلا آپ فرماویں کہؔ عقلی طور پر اس بات پر کیا دلیل ہے کہ راجہ رام چندر اور راجہ کرشن اور بدھ یہ خدا نہ ہوں اور حضرت مسیحؑ خدا ہوں۔ اور مناسب ہے کہ اب بعد اس کے آپ بار بار ان پیشگوئیوں کا نام نہ لیں جوخود حضرت مسیحؑ کے طرز بیان سے رد ہوچکی ہیں اور حضرت مسیحؑ ضرورت کے وقت ان کو اپنے کام میں نہیں لائے بیشک ہر ایک دانا اس بات کو سمجھتا ہے کہ جب وہ کافر ٹھہرائے گئے اور ان پر حملہ کیا گیا اور ان پر پتھراؤ شروع ہوا تو ان کو اس وقت اپنی خدائی کے ثابت کرنے کے لئے ان پیشگوئیوں کی اگر وہ درحقیقت حضرت مسیحؑ کے حق میں تھیں اور ان کی خدائی پر گواہی دیتی تھیں سخت ضرورت پڑی تھی۔ کیونکہ اس وقت جان جانے کا اندیشہ تھا اور کافر تو قرار پا چکے تھے تو پھر ایسی ضروری اور کار آمد پیشگوئیاں کس دن کے لئے رکھی گئی تھیں کیوں نہیں پیش کیں۔ کیا آپ نے اس کا کوئی کبھی جواب دیا۔ پھر ہم ان پیشگوئیوں کو کیا کریں اور کس عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور کیونکر حضرت مسیحؑ کو دنیا کے دوسرے مصنوعی خداؤں سے الگ کرلیں۔اللہ جلّ شانہٗقرآن کریم میں فرماتا ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 167
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 167
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/167/mode/1up
۔۔۱(س ۱۰ ر۱۱) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہا بعض یہود نے کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور کہا نصاریٰ نے مسیح خدا کا بیٹا ہے یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں جن کا کوئی بھی ثبوت نہیں ریس کرنے لگے ان لوگوں کی جو پہلے اس سے کافر ہوچکے یعنی جو انسانوں کو خدا اور خدا کے بیٹے قرار دے چکے یہ ہلاک کئے جائیں کیسے یہ تعلیم سے پھر گئے۔ انہوں نے اپنے عالموں کو اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا پروردگار ٹھہرا لیا۔ اور ایسا ہی مسیح ابن مریم کو حالانکہ ہم نے یہ حکم کیا تھا کہ تم کسی کی بندگی نہ کرومگر ایک کی جو خدا ہے جس کاکوئی شریک نہیں۔ چاہتے ہیں کہ اپنے مونہوں کی پھونکوں سے حق کو بجھا ویں اور اللہ تعالیٰ باز نہیں رہے گا جب تک اپنے نور کو پورا نہ کرے اگرچہ کافر ناخوش ہوں وہ وہی خدا ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تا وہ دین سب دینوں پر غالب ہو جائے۔ اگرچہ مشرک ناخوش ہوں‘‘۔ اب دیکھئے کہ ان آیات کریمہ میں اللہ جلّ شانہٗ نے صاف طور پر فرمایا ہے کہ عیسائیوں سے پہلے یہودی یعنی بعض یہودی بھی عزیر کو ابن اللہ قرار دے چکے اور نہ صرف وہی بلکہ مقدم زمانہ کے کافر بھی اپنے پیشواؤں اور اپنے اماموں کو یہی منصب دے چکے پھر ان کے پاس اس بات پر کیا دلیل ہے کہ وہ لوگ اپنے اماموں کو خدا ٹھہرانے میں جھوٹے تھے اور یہ سچے ہیں۔ اور پھر اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ یہی خرابیاں دنیا میں پڑ گئی تھیں جن کی اصلاح کے لئے اس رسول کو بھیجا گیا تا کامل تعلیم کے ساتھ ان خرابیوں کو دور کرے کیونکہ اگر یہودیوں کے ہاتھ میں کوئی کامل تعلیم ہوتی۔ تو وہ برخلاف توریت کے اپنے عالموں اور درویشوں کو ہرگز خدا نہ ٹھہراتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ کامل تعلیم کے محتاج تھے۔ جیسا کہ حضرت مسیحؑ نے بھی اس بات کا اقرار کیا کہ ابھی بہت سی باتیں تعلیم کی باقی ہیں کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 168
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 168
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/168/mode/1up
تم ان کی برداشت نہیں کرسکتے یعنی جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتادے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن وہ جو کچھ سنے گی وہ کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی۔ حضرات عیسائی صاحبان اس جگہ روح حق سے روح القدس مراد لیتے ہیں اور اس طرف توجہ نہیں فرماتے کہ روح القدس تو ان کے اصول کے موافق خدا ہے تو پھر وہ کس سے سنے گا۔ حالانکہ لفظ پیشگوئی کے یہ ہیں کہ جو کچھ وہ سنے گی وہ کہے گی۔ اب پھر ہم اس پہلے مضمون کی طرف رجوع کرکے کہتے ہیں کہ ڈپٹی صاحب موصوف نے تو حضرت مسیح کے خدا ہونے پر کوئی معقولی دلیل انجیل سے پیش نہ کی۔ لیکن ہم ایک اور دلیل قرآن کریم سے پیش کر دیتے ہیں کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے
۱(پارہ ۲۱ رکوع ۷) یعنی اللہ وہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ پھر تمہیں رزق دیا پھر تمہیں مارے گا پھر زندہ کرے گا۔ کیا تمہارے معبودوں میں سے جو انسانوں میں سے ہیں کوئی ایسا کرسکتا ہے۔ پاک ہے خدا ان بہتانوں سے جو مشرک لوگ اس پر لگا رہے ہیں۔ پھر فرماتا ہے۔ کیا انہوں نے خدا تعالیٰ کے شریک ایسی صفات کے ٹھہرا رکھے ہیں کہ جیسے خدا تعالیٰ خالق ہے وہ بھی خالق ہیں تا اس دلیل سے انہوں نے ان کو خدا مان لیا۔ ان کو کہہ دے کہ ثابت شدہ یہی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہرایک چیز کا ہے اور وہی اکیلا ہرایک چیز پر غالب اور قاہر ہے۔ اس قرآنی دلیل کے موافق ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب سے میں نے دریافت کیا تھا کہ اگر آپ صاحبوں کی نظر میں درحقیقت حضرت مسیحؑ خدا ہیں تو ان کی خالقیت وغیرہؔ صفات الوہیت کا ثبوت دیجئے۔ کیونکہ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ خدا اپنی صفات کو آسمان پر چھوڑ کر نرا مجرد اور برہنہ ہوکر دنیا میں آجائے اس کی صفات اس کی ذات سے لازم غیر منفک ہیں اور کبھی تعطل جائز نہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ خدا ہوکر پھر خدائی کی صفات کاملہ ظاہر کرنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 169
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 169
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/169/mode/1up
سے عاجز ہو اس کا جواب ڈپٹی صاحب موصوف مجھے یہ دیتے ہیں کہ جوکچھ زمین آسمان میںآفتاب و ماہتاب وغیرہ چیزیں مخلوق پائی جاتی ہیںیہ مسیح کی بنائی ہوئی ہیں۔ اب ناظرین اس جواب کی خوبی اور عمدگی کا آپ ہی اندازہ کرلیں کہ یہ ایک دلیل پیش کی گئی ہے یادوسراایک دعویٰ پیش کیاگیا ہے۔ کیا ایسا ہی ہندو صاحبان نہیں کہتے کہ جوکچھ آسمان و زمین میں مخلوق پائی جاتی ہے وہ راجہ رام چندر صاحب نے ہی بنائی ہوئی ہے۔ پھر اس کا فیصلہ کون کرے۔ پھر بعد اس کے ڈپٹی صاحب موصوف ایمانی نشانیوں کو کسی خاص وقت تک محدود قرار دیتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح ؑ صاف لفظوں سے فرما رہے ہیں کہ اگر تم میں رائی کے برابر بھی ایمان ہو تو تم سے ایسی ایسی کرامات ظاہر ہوں۔ پھر ایک مقام یوحنّا ۱۴ باب ۱۲ میں آپ فرماتے ہیں۔ میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے جو میں کام کرتا ہوں وہ بھی کرے گا اور ان سے بھی بڑے بڑے کام کرے گا۔ اب دیکھئے کہ وہ تاویلات آپ کی کہاں گئیں۔ اس آیت میں تو حضرت مسیحؑ نے صاف صاف فیصلہ ہی کردیا اور فرما دیاکہ مجھ پر ایمان لانے والا میرا ہمرنگ ہو جائے گا اور میرے جیسے کام بلکہ مجھ سے بڑھ کر کرے گا اور یہ فرمودہ حضرت مسیح کا نہایت صحیح اور سچا ہے کیونکہ انبیا اسی لئے آیا کرتے ہیں کہ ان کی پیروی کرنے سے انسان انہیں کے رنگ سے رنگین ہو جائے اور ان کے درخت کی ایک ڈالی بن کر وہی پھل اور وہی پھول لاوے جو وہ لاتے ہیں۔ ماسوا اس کے یہ بات ظاہر ہے کہ انسان ہمیشہ اپنے اطمینان قلب کا محتاج ہوتا ہے اور ہر ایک زمانہ کو تاریکی کے پھیلنے کے وقت نشانوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ پھر یہ کیونکر ہو سکے کہ حضرت مسیحؑ کے مذہب قائم رکھنے کے لئے اوراس خلاف تحقیقات عقیدہ حضرت مسیحؑ کے ابن اللہ ٹھہرانے کے لئے کسی نشان کی کچھ بھی ضرورت نہ ہو اور دوسری قوم جن کو باطل پر خیال کیا جاتا ہے اور وہ نبی کریم صلعم جو قرآن کریم کو لایا اس کو خلاف حق سمجھا جاتا ہے اس کی پیروی کرنے والے تو قرآن کریم کے منشاء کے موافق خدا کی توفیق اور فضل سے نشان دکھلاویں مگر مسیحیوں کے نشان آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئے ہوں۔اگر مسیحیوں میں نشان نمائی کی توفیق اب موجود نہیں ہے تو پھر خود سوچ لیں کہ ان کا مذہب کیا شے ہے۔ میں پھر سہ بارہ عرض کرتا ہوں کہ جیسا کہ اللہؔ جلّ شانہٗکے سچے مذہب کی تین نشانیاں ٹھہرائی ہیں وہ اب بھی نمایاں طور پر اسلام میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 170
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 170
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/170/mode/1up
موجود ہیں۔ پھر کیا وجہ کہ آپ کا مذہب بے نشان ہوگیا اور کوئی سچائی کے نشان اس میں باقی نہیں رہے پھر آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ نے جو نشانی دکھلانے سے ایک جگہ انکار کیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ پہلے دکھلا چکے تھے میں کہتا ہوں کہ یہ آپ کا بیان صحیح نہیں ہے اگر وہ دکھلا چکتے تو اس کا حوالہ دیتے اور نیز میں یہ بھی کہتا ہوں کہ میں بھی تو آپ لوگوں کو دکھلا چکا ہوں۔
کیا آپ کو پرچہ نور افشاں ۱۰۔ مئی ۱۸۸۸ء یاد نہیں ہے جس میں بڑے دعوے کے ساتھ صاحب نور افشاں نے میری پیشگوئی کا انکار کر کے اس پرچہ میں مخالفانہ مضمون چھپوایا تھا اور وہ پیشگوئی بھی نقل کر دی تھی تو پھر وہ پیشگوئی اپنی میعاد میں پوری ہوگئی۔
اور آپ اقرار کرچکے ہیں کہ پیشگوئی بھی خوارق میں داخل ہے تو ہم نے تو ایک نشان ایسے طور پر آپ کو ثابت کر دیا کہ نور افشاں میں درج ہے۔ پھر اس کے بعد اگر آپ کی طرف سے کوئی حجت ہو تو وہ اسی حجت کے ہم رنگ ہوگی جو یہودیوں نے کی تھی جس کی تفصیل حضرت مسیح کی زبان سے آپ سن چکے ہیں مجھے کہنے کی حاجت نہیں۔ مگر میںآپ کے اقرار کے موافق کہ آپ نے مسلمان ہونے کا اقرار کیا تھا اس بات کے سننے کے لئے بہت مشتاق ہوں کہ اس پیشگوئی کو دیکھ کر آپ نے کس قدر حصہ اسلام کا قبول کر لیا ہے اور میں تو آئندہ بھی تیار ہوں۔ صرف درخواست اور تحریر شرائط کی دیر ہے اور آپ کا یہ فرمانا کہ گویا حضرت مسیحؑ کے حق میں َ میں نے گالی کا لفظ استعمال کرکے ایک گو نہ بے ادبی کی ہے۔ یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ میں حضرت مسیح کو ایک سچا نبی اور برگزیدہ اور خدا تعالیٰ کا ایک پیارا بندہ سمجھتا ہوں وہ تو ایک الزامی جواب آپ ہی کے مشرب کے موافق تھا اور آپ ہی پروہ الزام عائد ہوتا ہے نہ کہ مجھ پر۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح (پریزیڈنٹ)
ہنری مارٹن کلارک (پریزیڈنٹ)
ازجانب اہل اسلام
ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 171
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 171
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/171/mode/1up
ساتواںؔ پرچہ
مباحثہ ۲۹ مئی ۱۸۹۳ء
روئداد
آج پھر جلسہ منعقد ہوا۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے تجویز پیش کی کہ چونکہ مسٹرعبداللہ آتھم صاحب بیماری کی وجہ سے تشریف نہیں لاسکے اس لئے ان کی جگہ میں پیش ہوتا ہوں۔ اور میری جگہ پادری احسان اللہ صاحب میر مجلس عیسائی صاحبان مقرر کئے جاویں مرزاصاحب اور میر مجلس اہل اسلام کی اجازت سے تجویز منظور ہوئی۔
ڈاکٹر کلارک صاحب نے ۶ بجے ۱۶ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۱۵ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے ۷ بجے ۵۵ منٹ پر شروع کیا اور ۸ بجے ۵۵ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب نے ۹ بجے ۴۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ۳۵ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سنایا گیا۔ بعدازاں فریقین کی تحریروں پر پریزیڈنٹوں کے دستخط کئے گئے اور مباحثہ کے پہلے حصہ کا خاتمہ ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
احسان اللہ قائم مقام ہنری مارٹن کلارک
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
اہل اسلام
بیان ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب
قائم مقام ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب ۲۹ مئی ۹۳ ء
جناب مرزا صاحب کی کئی ایک باتیں سن کر میں بہت حیران ہوا ہوں لیکن سب سے زیادہ حیرت ان کے اس فرمانے سے ہوئی کہ آپ عقلاً کہہ سکتے ہیں کہ رام چندر اور کرشن بھی کیوں خدا تصوّر نہ کئے جائیں اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 172
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 172
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/172/mode/1up
اہل ؔ ہنود کی جو کتابیں ہیں ان کا ثبوت بھی قابل اعتبار نہ گنا جائے۔ مرزا صاحب یہ کیا آپ فرماتے ہیں انہوں نے کون سے کارِ الٰہی کئے اور ان کا کونسا دعویٰ پایہ ثبوت تک پہنچا ہوا ہے اور ایک اہل کتاب کی جو مجلس ہے اس میں ان کی نظیروں کی ضرورت کیا ہے۔ آیا عقلاً آپ المسیح اور رامچندر اور کرشن میں کوئی تمیز نہیں کرتے اور جلالی انجیل کو مقابل اہل ہنود کی کتابوں کے جانتے ہیں۔ میرے خیال میں ایک نبی اللہ برحق کو اور اہل کتاب کے مسئلوں کو ُ بت پرستوں اور بت پرستوں کی کتابوں سے تشبیہ دینا ہی گناہ ہے اور اگر آپ ایسی تشبیہ دیویں تو اس کا جواب بھی آپ اللہ تعالیٰ کو دیویں۔ اہل ہنود کی جن کتابوں کا آپ نے ذکر کیا وہ تو تواریخی طور پر بھی درست نہیں ہیں۔اب ہم کس بات کو مد نظر رکھ کر زیادہ تر امتیاز کریں۔ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ چونکہ بہت شخصوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہم خدا ہیں اور ان کے یہ دعوے الوہیت کے باطل نکلے۔ لہذا مسیح نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے لہٰذا وہ بھی باطل ہے۔ جناب من یہ کیا فرماتے ہیں۔ چونکہ دس روپیہ میں نوکھوٹے ہوں آیا دسواں بھی ضرور کھوٹا ہوگا؟ اس طرح کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا موقعہ دیکھ کر اور خصوصیتیں جو ہیں سمجھ کر فتویٰ دینا چاہیئے۔ چونکہ جھوٹے دعوے ہیں آپ پر روشن ہوگا کہ سچا بھی کوئی ہوگا اگر سچے روپے نہ ہوتے تو نقلی بھی نہ ہوتے سوم ہم نے کئی پیشین گوئیاں مرزا صاحب کی خدمت میں عرض کر دی ہیں اور ان پر آپکا یہ اعتراض ہے کہ آپ دعوے کے ثبوت میں دعوے ہی پیش کرتے ہیں کیونکہ یہ پیشین گوئیاں جس کا حوالہ دیتے ہو خود دعوے ہیں اور دعویٰ کا دعویٰ سے کیونکر ثبوت ہوسکتاہے۔ جناب من یہ آپ کی عجب غلط فہمی ہے۔ پیشگوئیاں اللہ تعالیٰ کی کسی صورت میں دعویٰ نہیں گنی جاسکتیں بلکہ صداقتیں ہیں اور ہم ان کو دعوے کے طور نہیں تسلیم کرتے لیکن اپنے مالک کے فرمان کے طور قبول کرتے ہیں۔ کسی فرد بشر کی جرأت ہے کہ اپنے پیدا کنندہ اور پرورش کرنے والے کے فرمان کو دعوے کہے اور ان کو پرکھنا بھی ہمارا حق نہیں کیونکہ اگر ایک پیشگوئی ہے تو وہ علاقہ رکھتی ہے زمانہ استقبال سے نہ کہ زمانہ حال سے اب جس منزل تک ہم پہنچتے ہی نہیں ہیں وہاں کی باتوں کا ہم فیصلہ ہی کیا کریں۔ ہمارا حق ہے کہ نبی کو پرکھیں اورتسلی اپنی کرا لیں کہ یہ بالضرور نبی اللہ ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 173
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 173
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/173/mode/1up
اور جب ہم نے معلوم کر لیا پیغام جووہ ہمیں پہنچاتا ہے نہ اس کا جاں کے پر اس کے مالک اور اپنے مالک کا جان کے شکر اور ادب سے تسلیم کرنا چاہیئے۔ پیشگوئی جب نازل ہوتی ہے تو تسلیم کی جاتی ہے اور جب پوری ہوتو درجہؔ تکمیل تک پہنچتی ہے۔ جو باتیں حال وارد نہیں ہوئیں ان میں سوائے اللہ تعالیٰ کے کون تمیز کرسکتا ہے۔ اب جناب من دیکھئے گا۔ عہد عتیق میں کئی نبی اللہ تعالیٰ کی اطلاع دیتے ہیں ازجانب اللہ کے کہ یہ یہ باتیں ہوں گی۔ عہد جدید جو وہ بھی کلام برحق ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے کئی اور تحریر فرماتے ہیں کہ یہ ہدایت خدا کی کہ وہ جو میرے فلانے فلانے بندے فلانے فلانے موقعہ پر کہہ گئے تھے آج اور اس موقعہ پر پورا ہوتا ہے۔ صاحب من ناگزیر ہے کہ ہم مانیں۔ گریزخلاف فطرت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شہادت اور فرمان سب شہادتوں سے بڑھ کر ہے۔ جناب کی خدمت میں تین فہرست پیش کی گئی تھیں جن میں پرانے عہد نامہ کی پیشگوئیاں معہ حوالہ جات نئے عہد نامہ کے جہاں وہ پوری ہوتی ہیں لکھی گئی تھیں چھ سو سات سو آٹھ سو برس پیشتر جو اللہ کے نبی کہہ گئے نقطہ نقطہ پورے ہوتے دیکھے۔ مرزائے من اگر اب بھی دعویٰ مانیں تو سوائے ضد اور تعصب کے کچھ نہیں۔ آپ نے یہ بھی استفسار کیا تھا کہ آیاالمسیح نے خود کبھی اپنی ہی زبان مبارک سے ان پیشگوئیوں میں سے اپنے حق میں تسلیم کیا ہے یا نہیں۔ جناب من نہ ایک دفعہ نہ دو دفعہ بلکہ کئی دفعہ اور نہ ایک کو اور نہ دو کو بلکہ سب کو۔ دیکھئے متی کا ۲۲ باب آیت اکتالیس سے ۴۶ تک۔ یوحنا کے۵ ۳۹متی باب ۱۱۔ ۱۰ بالمقابل ملاکی نبی ۳ باب ۱ ۔لوقا باب ۲۴۔ ۲۷ متی باب ۶ ۔ ۱۷ چہارم۔ یوحنا باب۱۰۔ ۳۵ کے بارہ میں جناب نے استفسار فرمایا۔ بارہا خدمت میں عرض کی گئی۔ نہ معلوم کیا ماجرا ہے کہ خیال شریف میں بات نہیں آئی۔ آخری التماس میں یہ کرتا ہوں۔ اس آیت کو آپ اس لئے گرفت کرتے ہیں کہ اس میں الوہیت کا انکار ہے برعکس اس کے المسیح اس موقعہ پر اپنی الوہیت کا بہت ہی پختہ دعویٰ کرتا ہے۔ گو یہودیوں کو آپ یہ فرماتا ہے۔ ابتدا میں کلام تھا کلام خدا کے ساتھ تھا کلام خدا تھا۔ کلام مجسم ہوا وہ لوگ جن کے پاس کلام اللہ پہنچا اس کلام کی برکت سے الٰہی ہونے کے قابل ٹھہرائے گئے گویا کلام کی پیروی کی جاکر کے یہ برکت ان کو مل گئی۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 174
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 174
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/174/mode/1up
جن کے پاس کلام پہنچا اور ان کا اتنا درجہ ہوگیا تو تم کلام مجسم کو کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے حیف تمہاری عقلوں پر۔ وہ خاص لفظیں جو غور کے لائق ہیں دو ہیں مخصوص کیا اور بھیجا۔ آپ نے تو چند عبارات لکھائی تھیں کہ ان میں بھی یہ ہیں۔
لیکن تلاش کرنے سے پتہ ندارد آپ کے حوالہ غلط نکلے یونانی بھی جیسے آپ کی خدمت میں عرضؔ کردی۔ آپ نے فرمایا بہت اور حوالہ ہیں اطلاع نہ بخشی کسی کی۔ اس پر غور کریئے۔ بھیجا مسیح کا بھیجا جانا اور ہی طرح کا تھا۔ یوحنا باب ۲۸ ۱۶ باپ میں سے نکلا اور دنیا میں آیا ہوں۔ اگر اس میں الوہیت کا انکار ہے تو آپ فرمایئے کہ کسی بندہ نے کہا کہ’’میں باپ میں سے نکلا اور پھر باپ پاس جاتا ہوں‘‘۔
جناب کا یہ فرمانا کہ المسیح کو بھیجا ہے بجا نہیں۔ ہمارا حق نہیں کہنا کہ یوں ہو یا یوں۔ جو باتیں ہوچکی ہیں ان کے موجب فیصلہ کرنا ہے ورنہ ہم صاف کہہ دیں کہ ہم اللہ تعالیٰ اور ان کے بزرگ نبیوں سے دانا ہیں ہم ہوتے تو یوں کہتے۔ یہ دانائی نہیں یہ افترا ہے سکندر اعظم کے ایک جرنیل تھے بنام پارمینو۔ جب ایران کو سکندر اعظم نے فتح کر لیا پارمینو کہنے لگے میں اگر سکندر اعظم ہوتا تو دارا کی بیٹی کو اپنی شادی میں لے کے اس ملک سے باہر نہ جاتا۔ سکندر اعظم نے فرمایا کہ اگر میں پارمینیو ہوتا تو میں بھی ایسا ہی کرتا اور چونکہ میں سکندر اعظم ہوں نہ پارمینیو میں کچھ اور کروں گا۔ لہٰذا چونکہ اس وقت المسیح تھے نہ کہ مرزا صاحب۔ اور یاد رکھئے کہ فقط یہ ہی ایک گفتگو یہودیوں کی نہیں ہوئی کہ سب کچھ اسی وقت ہو جاوے تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا۔
پنجم۵۔ اگر مسیح خالق تھے تو انہوں نے کیا بنایا۔ موجب فتویٰ الٰہی کے یوحنا باب اول جواب اس کا ہے سب کچھ۔ اگر اس فتوے سے مرزا صاحب گریز کرتے ہیں تو انجیل کو ہی رد کر دیویں تو اس کو ایک کتاب انسانی و نفسانی و جھوٹوں کی بھری ٹھہرا دیویں۔
ششم۶۔ جب آپ انسان بنے تو صفات اللہ کہاں گئی۔ یہ مرزا صاحب کا سوال ہے جواب بہت مختصر اور چھوٹا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تاابد مبارک تھے اور ہیں۔ انہوں نے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 175
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 175
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/175/mode/1up
اپنے آپ کو فرو کیا۔ موجب فلپیوں کی ۲ باب ۶ آیت۔
ساتواں۔ رائی کے دانہ پر آپ کے پیر پھر پھسلے اور پہاڑوں پر جا ٹھہرے اور کیسی عجب جوتی آپ نے پشمینہ میں لپیٹ کر ہمارے سر پر چلائی کہ جاگو اٹھو ورنہ رائی بھر ایمان نہیں رہتا۔ آپ نہ گھبرایئے ایمان کہیں نہیں جاتا ہے خدمت میں عرض کیا گیا کہ یہ فرمانا صرف رسولوں کے لئے ہے نہ ہمارے لئے۔ بلکہ صاف پہلے قرنطیوں کے ۱۳ ۔ ۲ میں یہ آگیا کہ ایمان تو تم میں اتنا ہو کہ پہاڑ بھی ہل جاویں اور محبت نہ ہو تو عبث ہے اور معجزات کے حق میں جو آپ نے مرقس کے ۱۶ باب کوؔ بنیاد جان کر عمارت عالی شان تیار کی تھی سو ہیچ ہے اس لئے کہ بنیاد خام ہے۔صاف آپ پر ظاہر کیا گیا کہ رسول مسیح کے بے ایمانی کی حالت میں بھی ایمان لاتے ہیں ان کو فرمایا جاتا ہے کہ اب تمہارے ساتھ یہ نشانیاں ہوں گی۔ لفظ یونانی ہے۔ پس ٹی آئی اس کے معنے ہیں جو ایمان لائے ہیں حال میں اور صیغہ یہ ہرگز نہیں جو ایمان لاویں گے بلکہ رسولوں کے زمانہ میں اختیار ہر ایک کو نہ تھا بدن ایک عضو مختلف۔ حواری پوچھتا ہے کیا سب آنکھ ہیں سب کان ہیں اور فرماتا ہے کیا سب معجزہ دکھاتے ہیں اور کرامات کرتے ہیں اور بیماروں کو چنگا کرتے ہیں علٰی ہٰذا القیاس جیسے عرض کر چکا۔ اور پھر صاف لکھا ہے بہر حالت کہ یہ جو خاص عنایات ہیں بند ہو جائیں گی اور تا ابدجو رہے گی سو محبت ہے خداوند نے صاف صاف فرما دیا کہ دائمی نشان جس سے دنیا جانے گی کہ تم میرے ہو نہ کرامات و معجزہ پر محبت ہے دیکھو یوحنا کا ۱۳ باب ۳۴و۳۵۔ اس سے سب جانیں گے کہ تم میرے شاگرد ہو۔ آپ نے پھر پوچھا کہ یوحنا باب ۴۱۲ ۱ کے موجب آپ پر فرض ہے کہ جو کام مسیح نے کئے سو آپ کریں بلکہ اس سے بڑھ کر کریں۔
جناب من! آپ متن پرتو غور کریئے یہاں تو اپنے حواریوں سے مخاطب ہیں نہ مجھ سے نہ آپ سے۔ جو کام میں کرتا رہا۔ تم پھر کرتے رہو گے۔ آپ نے فرمایا۔ اور بلاشبہ انہوں نے کئی دیو نکالے۔ سانپ پکڑے۔ مردے جلائے۔
اور ان سے بڑھ کر تم کام کرو گے کیونکہ میں باپ پاس جاتا ہوں اور یہ حق ہے ایسا ہی ہوا۔ کیونکہ المسیح کی منادی سے تھوڑے ہی ایمان لائے۔ پطرس کی ایک منادی سے یک لخت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 176
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 176
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/176/mode/1up
تین ہزار ایمان لائے۔ اعمال کی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ فقط یہودیوں میں منادی کرتے رہے۔ شاگرد اُن کے تمام جہان میں گئے۔ تاہم یاد رکھئے کہ شاگرد اپنے استادسے بڑھ کر نہیں۔
تم مجھ سے مانگو میں کردوں گا آپ فرماتے ہیں تمہارا کام دعا کرنا ہے ۔ لہٰذا صاف لکھا ہے یہ دعا مانگتے رہے اور خداوند یسوع انجام دیتا رہا اور دے رہا ہے۔
ہشتم۔ آپ کا استفسار ہے آیا ہر زمانہ میں نشانیاں ضرور نہیں۔ ہرگز نہیں۔ ابتدا میں چاہئے لیکن ہمیشہ ابتدا نہیں ہے۔ نشانیاں و معجزہ تعلیم و دین کو کامل کرتے ہیں۔
اور جوشے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کامل کی گئی اسے ایسی نامکمل نہ بھیجتے کہ دوبارہ کامل کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ آخری نشان خداوند مسیح خود تھے اور یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ جب کوئی نئی تعلیم وارد ہو تو خاص شخص چاہیئے کہ جو پیغام پہنچاوے اور خاص نشانیاں ہوں جس سے اللہ تعالیٰ ثابت کرے کہ یہ میرا مرسلؔ ہے اور یہ تعلیم میری ہے۔ لیکن اب ہزار درجہ ہیں جس سے تحقیقات ہوسکتی ہے یعنی نقلی عقلی تواریخی وغیرہ۔ جہاں کوئی کام عام طور سے ہو سکے وہاں اللہ تعالیٰ خاص طور سے نہیں کرتا ہے۔
یہودیوں کو ان جنگلوں میں جہاں خوراک نہ تھی خوراک آسمانی ملتی رہی۔جس دن ایسے ملک میں پہنچے جہاں سامان دیگر مہیا تھا من بھی دفع ہوگیا۔
معجزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر ہیں کہ یہ بندہ میرا ہے اور یہ تعلیم میری ہے۔
پھر آگے کو نہ خاص بندہ ہوتا ہے نہ خاص مہر ہوتی ہے۔ پر وہ کارخانہ عام طور سے چلایا جاتا ہے چونکہ آپ کے عقیدہ کے موجب محمدؐ صاحب نبی اللہ تھے اور قرآن کو اللہ تعالیٰ جبرئیل کی معرفت ان پر نازل کرتا رہا اور شروع میں حق ہے جو ایسا ہووے۔
لیکن اب محمدؐ صاحب کی امت اس تعلیم و دین کو پھیلاتی ہے نہ کہ محمدؐ صاحب خود۔ اور قرآن بذریعہ چھپائی کے شائع کئے جاتے ہیں نہ کہ بذریعہ فرشتگان کے۔
نہم۔ خداوند مسیح معجزہ دکھانے سے کیوں انکاری ہوئے اس کے حق میں تو آتھم صاحب خلاصتًہ ذکر کرچکے۔ اس وقت بھی انکاری نہ تھے کہتے ہیں نشان تم کو ملے گا یونس نبی کا۔ آپ نے یہ پڑھ کر نہ سنایا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 177
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 177
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/177/mode/1up
جیسا وہ تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ابن آدم بھی تین دن زمین کے رحم میں رہے گا۔ اپنی موت اور دفنانے اور جی اٹھنے کی نشانی دی اور اس سے بڑھ کر معجزہ کبھی دنیا میں ہوا نہیں انہوں نے ایک معجزہ دکھایا۔ یوحنا ۵۲۱ ۲
رسول کہتا ہے کئی اور کام اس نے کیئے اور اپنا کام کا واسطہ کیا دیتے ہیں۔ دیکھئے یوحنا باب ۱۱۱۴
دسواں۔ آپ کا یہ سوال ہے کہ وہ صلیب سے کیوں نہ اتر آئے۔ کس طرح اترتے؟ اسی کام کے لئے تو جہاں میں آئے تھے کہ اپنے تئیں جہاں کا کفارہ کریں۔ ہاں اسی طرح تو شیطان نے کہا تھا کہ تو پتھروں کی روٹی بنا اور نہ انہوں نے وہ کیا نہ یہ کیا۔ کیونکہ ان ہر کاموں میں شیطان کی پرستش تھی آپ فرماتے ہیں کہ اگر اتر آتے تو یہودی فوراً ایمان لاتے یہ آپ کو کیونکر معلوم ہے کونسا دیگر معجزہ دیکھ کر ایمان لائے تھے اور ان کو جی اٹھا دیکھ کر کونسے ایماندار بنے۔ صاحبِ من تمیز کسی معجزہ سے ایمان نہیں پیدا ہوتا۔حضرت موسیٰ نے فرعون کو تھوڑے معجزہ دکھائے۔ تو بھی وہ سنگدل کافرہی رہا۔ شرط نہیں کہ ساتھ معجزہ کے ایمان بھی ہوگا۔
یعنی ؔ دیکھنے والے میں ہو نہ ہو امر الٰہی ہے۔ فرعون کی میں نے نظیر دی ہے۔
لعزر نام ایک شخص کو المسیح نے مردوں میں سے زندہ کیا۔ یہودی ایسے قہر سے بھر گئے۔ تجویز کرنے لگے کہ ان دونوں کو ہلاک کر دیں۔ صاف انجیل جلالی میں آیا ہے اگر وہ موسیٰ اور نوشتوں پر ایمان نہ لائیں( تو ) مردوں میں سے کوئی جائے گا تو وہ ایمان نہ لائیں گے۔
گیارہواں۔ آپ نے فرمایا تھا کہ انسان کا بدن چار چار سال کے بعد تبدیل ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کفارہ کیونکر ہوا۔ چار برس کے بعد نہیں سات برس کے بعد وقوع میں ہوتا ہے۔ خیر بدن کی تبدیلی ہو وجود نہیں بدلتا۔ جناب کی رائے میں اس باعث سے کفارہ محال تھا اب تو شائد یہ بھی مانیں گے کہ سات برس کے بعد چار برس کے بعد مرد اپنی بی بی کا خاوند نہ ٹھہرتا اور نہ اپنے بچوں کا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 178
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 178
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/178/mode/1up
والد اور نہ اپنے مال کا مالک ہوسکتا ہے۔ جب وقت خاتمہ پر آیا کیا ہی پھر خوب ہو کہ دوبارہ
نکاح ازسرنو رجسٹریاں کراوے تاکہ اس کی عزت اور ملکیت بحال رہے۔
جناب! اس طرح کے سوال اعتراضات آپ کے روشن فہمی کے لائق ہیں۔
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
احسان اللہ قائم مقام ہنری مارٹن کلارک
غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
بیان جناب مرزا صاحب
۲۹ مئی ۱۸۹۳ء
آج ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ حضرت مسیح کی الوہیت کے ثبوت کے بارہ میں پیش کیا اس کے سننے سے مجھ کو کمال درجہ کا تعجب ہوا کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کے منہ سے ایسی باتیں نکلیں۔ جاننا چاہیئے کہ یہ دعویٰ الوہیت کا جو حضرت مسیح کی طرف منسوب کیا جاتا ہے یہ کوئی چھوٹا سا دعویٰ نہیں ایک عظیم الشان دعویٰ ہے حضرت عیسائی صاحبان کے عقیدہ کے رو سے جو شخص حضرت مسیحؑ کی الوہیت کا انکار کرے وہ ہمیشہ کے جہنم میں گرایا جاوے گا اور قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے جو شخص ایسا لفظ منہ پر لاوے کہ فلاں شخص درحقیقت خدا ہے یا درحقیقت میں ہی خدا ہوں وہ جہنم کے لائق ٹھہرےؔ گا جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗفرماتا ہے3333۱ یعنی جو شخص یہ بات کہے کہ میں خدا ہوں بجز اس سچے خدا کے تو ہم اس کو جہنم کی سزا دیں گے پھر اس کے اوپر کی آیت یہ ہے۔ 333۲ اور عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا بیٹا پکڑا پاک ہے وہ بیٹوں سے بلکہ یہ بندے عزت دار ہیں سیپارہ۱۷ رکوع ۲۔ اور پھر بعد اس کے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے ہاتھ میں کیا ثبوت ہے تو ہمیں ایک
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 179
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 179
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/179/mode/1up
ذخیرہ کثیر ثبوتوں کا نظر آتا ہے ایک طرف عقل سلیم انسان کی اس اعتقاد کو دھکے دے رہی ہے اور ایک طرف قیاس استقرائی شہادت دے رہا ہے
کہ اب تک اس کی نظیر بجز دعویٰ متنازعہ فیہ کے نہیں پائی گئی اور ایک طرف قرآن کریم جو بے شمار دلائل سے اپنی حقانیت ثابت کرتا ہے اس سے انکاری ہے جیسا کہ فرماتا ہے۔ 33333۱ (س۱۷ر۱۶)یعنی عبادت کرتے ہیں سوائے اللہ کے ایسی چیز کی جس کی خدائی پر اللہ تعالیٰ نے کوئی نشان نہیں بھیجا یعنے نبّوت پر تو نشان ہوتے ہی ہیں مگر وُہ خدائی کے کام میں نہیں آسکتے اور پھر فرماتا ہے کہ اس عقیدہ کیلئے اُنکے پاس کوئی علم بھی نہیں یعنے کوئی ایسی معقولی دلائل بھی نہیں ہے جن سے کوئی عقیدہ پختہ ہو سکے اور پھر فرماتا ہے ۔3۔3۔33333۔3۲ (س۱۶ر۹)اور کہتے ہیں کہ رحمان نے حضرت مسیح کو بیٹا بنا لیا ہے یہ تم نے اے عیسائیو ! ایک چیز بھاری کا دعویٰ کیا ۔ نزدیک ہے ، جو اِس سے آسمان و زمین پھٹ جاویں اور پہاڑ کانپنے لگیں کہ تم انسان کو خدا بناتے ہو پھر بعد اسکے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا اِس خدا بنانے میں یہودی لوگ جو اوّل وارث توریت کے تھے جنکے عہد عتیق کی پیشگوئیاں سراسر غلط فہمی کی وجہ سے پیش کیجاتی ہیں کیا کبھی اُنہوں نے جو اپنی کتابوں کو روز تلاوت کرنیوالے تھے اور اُن پر غور کرنیوالے تھے اور حضرت مسیح بھی اُن کی تصدیق کرتے تھے کہ یہ کتابوں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں اُن کی باتوں کو مانو کیا کبھی اُنہوں نے ان بہت سی پیش کردہ پیشگو ئیوں میں سے ایک کے ساتھ اتفاق کرکے اقرارکیا کہ ہاں یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود کو خدا بتاتی ہے ۔ اور آنیوالاؔ مسیح انسان نہیں بلکہ خدا ہوگا ۔ تو اِس بات کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا۔ ہر ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ اگر حضرت مسیح سے انکو کچھ بُخل اور بغض پیدا ہوتا تو اسوقت پیدا ہوتا جب حضرت مسیح تشریف لائے ۔ پہلے تو وہ لوگ بڑی محبت سے اور بڑی غور سے انصاف و آزادی سے اِن پیشگوئیوں کو دیکھا کرتے تھے اور ہر روز ان کتابوں کی تلاوت کرتے تھے اور تفسیریں لکھتے تھے ۔ پھر کیا غضب کی بات ہے کہ یہ مطلب ان سے بالکل پوشیدہ رہا۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 180
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 180
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/180/mode/1up
کُھلی کُھلی پیشگوئیاں حضرت مسیح کی خدائی کے لئے عہد عتیق میں موجود تھیں اب ہمیں تحیّر پر تحیّر ہوتا ہے اگر ایک پیشگوئی ہوتی اور یہودیوں کو سمجھ نہ آتی تو وہ معذور بھی ٹھہر سکتے تھے لیکن یہ کیا بات ہے کہ باوجود صد ہا پیشگوئیوں کے پائے جانے کے پھر بھی ایک بھی پیشگوئی اُن کو سمجھ نہ آئی اور کبھی کسی اور زمانہ میں اُنکا یہ عقیدہ نہ ہؤا کہ حضرت مسیح بحیثیت خدائی دُنیا میں آئیں گے اُن میں نبی بھی تھے اُن میں راہب بھی تھے اُن میں عابد بھی تھے مگر کسی نے اُن میں سے بطور شرح یہ نہ لکھا کہ ہاں ایک خدا بھی انسانی جامہ میں آنے والا ہے ۔
آپ تو جانتے ہیں کہ یہ تو ایک امر غیر ممکن ہے کہ ایسی قوم کا غلط فہمی پر اتفاق ہو جائے جس نے نقطہ نقطہ اور شوشہ شوشہ توریت کا اپنے ضبط میں کیا ہوا تھا کیا وُہ سارے ہی نا سمجھ تھے کیا وُہ سارے ہی بیوقوف تھے کیا سب کے سب متعصب تھے اور پھر اگر وہ متعصب تھے تو اس تعصب کی محرک حضرت مسیح کے ظہور سے پہلے کونسی چیز تھی یہ تو ظاہر ہے کہ تعصّبات بالمقابل ہوا کرتے ہیں جبکہ ابھی تک کسی نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا تھا پھر تعصّب کس کے ساتھ کیا جائے پس یہ اتفاق یہودیوں کا قبل ازز مانہ مسیح کے کہ آنیوالا ایک انسان ہے خدا نہیں ہے ایک طالب حق کیلئے کافی دلیل ہے ۔ اگر وہ اِسی بات کے شائق ہوتے کہ حق کو خواہ نخواہ چھپایا جاوے تو پھر نبی کے آنے کا کیوں اقرار کرتے ۔ ماسوا اسکے توریت کے دُوسرے مقامات اور بھی اس امر کے مؤید اور مصدق ہیں ۔ چنانچہ توریت میں صاف لکھا ہے کہ تم زمین کی کسی چیز کو اور یا آسمان کی کسی چیز کو جو دیکھو تو اسکو خدا مت بناؤ ۔ جیساکہ خروج ۲۰ باب ۳ میں یہ الفاظ ہیں کہ تو اپنے لئے کوئی مورت یا کسی چیز کی صُورت جو آسمان پر یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے ہے مت بنا ۔ اور پھر لکھا ہے اگر تمہارے درمیان کوئی نبی یا خواب دیکھنے والا ظاہر ہو اور تمہیں نشان یاکوئی ؔ معجزہ دِکھلادے اور اس نشان یا معجزہ کے مطابق جو اُس نے تمہیں دکھایا ہے بات واقعہ ہو اور وہ تمہیں کہے کہ آؤ ہم غیر معبودوں کی جنہیں تم نے نہیں جانا پَیروی کریں تو ہرگز اس نبی یا خواب دیکھنے والے کی بات پرکان مت دھریو ۔ اسی طرح اور بھی توریت میں بہت سے مقامات ہیں جن کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 181
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 181
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/181/mode/1up
لکھنے کی حاجت نہیں مگر سب سے بڑھ کر حضرت مسیح کا اپنا اقرار ملاحظہ کے لائق ہے وہ فرماتے ہیں سب حکموں میں اوّل یہ ہے کہ اے اسرائیل سُن وہ خداوند جو ہمارا خدا ہے ایک ہی خدا ہے پھر فرماتے ہیں حیات ابدی یہ ہے کہ وے تُجھ کو اکیلا سچا خدا اور یسوع مسیح کو جسے تم نے بھیجا ہے جانیں ۔ یوحنّا ۳۱۷ ۔
اور بھیجا کا لفظ توریت کے کئی مقام میں انھیں معنوں پر بولا گیا ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی اپنے بندہ کو مامور کر کے اور اپنا نبی ٹھہرا کر بھیجتا ہے تواُسوقت کہا جاتا ہے کہ یہ وہ بندہ بھیجا گیا ہے اگر ڈاکٹر صاحب یہ بھیجا گیا کا لفظ بجز اِس معنے کے جہاں نبی کی نسبت بولا جاتا ہے مقام متنازعہ فیہ کے ماسوا کسی اور جگہ دوسرے معنوں پر ثابت کر دیں تو شرط کے طور پر جو چاہیں ہم سے وصول کر سکتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب پر واضح رہے کہ بھیجا گیا کالفظ اور ایسا ہی مخصوص کا لفظ انسان کے بارہ میں آیا ہے یہ سراسر تحکّم ہے کہ اب اسکے اور معنے کئے جاویں ماسوا اس کے حضرت مسیح کی الوہیت کے بارہ میں اگر حضرات عیسائی صاحبوں کا اصول ایمانیہ میں اتفاق ہوتا اور کوئی قوم اور فرقہ اُس اتفاق سے باہر نہ ہوتاتو تب بھی کسی قدر ناز کرنے کی جگہ تھی مگر اب تو اتنی بات بھی ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب فرماویں کہ کیا آپ کے مختلف فرقوں میں سے یونی ٹیرین کا فرقہ حضرت مسیح کو خدا جانتا ہے کیا وہ فرقہ اسی انجیل سے تمسک نہیں کرتا جس سے آپ کر رہے ہیں ۔ کیا وہ فرقہ ان پیشگوئیوں سے بے خبر ہے جنکی آپکو خبر ہے ۔ پھر جس حالت میں ایک طرف تو حضرت مسیح اپنے کفر کی بریّت ثابت کرنے کے لئے۔ یوحّنا باب ۱۰ میں اپنے تئیں خدا اطلاق پانے میں دوسروں کا ہمرنگ قرار دیں اور اپنے تئیں لا علم بھی قرار دیں کہ مجھے قیامت کی کچھ خبر نہیں کہ کب آئے گی اور یہ بھی روا نہ رکھیں کہ انکو کوئی نیک کہے اور جابجا یہ فرماویں کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور حواریوں کو یہ نصیحت دیں کہ پیشگوئیاں وغیرہ اُمور کے وہی معنےؔ کرو جو یہودی کیا کرتے ہیں اور اُنکی باتوں کو سنو اور مانو اور پھر ایک طرف مسیح کے معجزات بھی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 182
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 182
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/182/mode/1up
دوسرے نبیوں کے معجزات سے مشابہ ہوں بلکہ اُن سے کسی قدر کم ہوں بوجہ اُس تالاب کے قِصّہ کے جو ڈاکٹر صاحب کو خوب معلوم ہوگا جس میں غسل کرنیوالے اسی طرح ‘ طرح طرح کی بیماریوں سے اچھے ہو جایا کرتے تھے جیسا حضرت مسیح کی نسبت بیان کیا جاتا ہے اور پھر ایک طرف گھر میں ہی پھُوٹ پڑی ہوئی ہو ایک صاحب حضرات عیسائیوں میں سے تو حضرت مسیح کو خدا ٹھہراتے ہیں۔ اور دُوسرا فرقہ انکی تکذیب کر رہا ہے ادھر یہودی بھی سخت مکذّب ہوں اور عقل بھی اِن نامعقول خیالات کے مخالف ہو اور پھر وہ آخری نبی جس نے صد ہا دلائل اور نشانوں سے ثابت کردیا ہو کہ میں سچا نبی ہوں تو پھر باوجود اسقدر مخالفانہ ثبوتوں کے ایک خاص فرقہ کا خیال اور وہ بھی بے ثبوت کہ ضرور حضرت مسیح خدا ہی تھے کس کام آسکتا ہے اور کس عزّت دینے کے لائق ہے اِسی بنا پر میں نے کہا تھا کہ جس حالت میں اسقدر حملے بالاتفاق آپ کے اس عقیدہ پر ہو رہے ہیں تو اب حضرت مسیح کی خدائی ثابت کرنے کیلئے آپکو کوئی ایسا ثبوت دینا چاہیے جسکے اندر کوئی ظلمت اور تاریکی نہ ہو اور جس میں کوئی اختلاف نہ کر سکتا ہو مگر آپ نے اس طرف توجہ نہ کی اور آپ فرماتے ہیں جو پیشگوئیاں ہم پیش کرتے ہیں وہ دلائل ہیں دعاوی نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب آپ انصافاََ سوچیں کہ جس حالت میں اُن پیشگوئیوں کے سر پر اسقدر مکذّب اور مخالف کھڑے ہیں اور خود وہی لوگ ان کے معنے وہ نہیں مانتے جو آپ کرتے ہیں جو وارث عہد عتیق کے تھے اور آپکا خانگی اتفاق بھی نہیں پایا جاتا تو پھر وہ دعاوی ہوئے یا کچھ اور ہوئے یعنی جبکہ وہ آپ کے فرقوں8 میں خود متنازعہ فیہ امر ٹھہر گیا تو اوّل یہودیوں سے فیصلہ کیجئے پھر یونی ٹیرنوں سے فیصلہ کیجئے اور پھر جب سب اتفاق کرلیں کہ آنیوالا مسیح موعود خدا ہی ہے تو پھر مسلمانوں پر حجت کے طور پر پیش کیجئے اور پھر آپ فرماتے ہیں کہ اس زمانہ میں ہمارے لئے نشانوں کی ضرورت نہیں نشان پہلے زمانوں سے خاص ہوتے ہیں جب ایک مدعا ثابت ہوگیا تو پھر نشانوں کی کیا حاجت ۔
میں کہتا ہوں اگر یہ ثابت شدہ امر ہوتا توا تنے جھگڑے ہی کیوں پڑتے کیوں آپ کے فرقہ میں سے ان پیشگوئیوں کے ان معنوں کی تکذیب کرنے کیلئے موجود ہوتے پھر جبکہ ان پیشگوئیوں کی نہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 183
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 183
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/183/mode/1up
صحت ثابت نہ ادعاء حضرت مسیح ثابت اور نہ ان کے خاص معنوں پر اتفاق ثابت تو پھر کیونکر آپؔ کہہ سکتے ہیں کہ یہ دلائل ہیں اور یہ بھی آپ کو یاد رہے کہ آپکا یہ فرمانا کہ نشان اسی وقت تک ضروری تھے جو حواریوں کا زمانہ تھا اور حواری اس کے مخاطب تھے یہ اس دوسری دلیل سے بھی خلاف واقعہ ٹھہرتا ہے کہ اگر کسی امر میں حواریوں کو مخاطب کرنا اُس امر کو اُنھیں تک محدود کر دینا ہے تو پھر تو اِس صورت میں ساری انجیل ہاتھ سے جاتی ہے کیونکہ تمام اخلاقی تعلیم جو حضرت مسیح نے کی اس کے مخاطب حواری تھے اب آپ کو خوب موقعہ مل سکتا ہے کہ ہمیں کچھ ضرورت نہیں کہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دُوسرا بھی پھیردیں کیونکہ یہ تو حواریوں کے حق میں کہا گیا تھا اور آپکا یہ فرمانا کہ رامچندر اور کرشن سے حضرت مسیح کو کیا نسبت ہے اور کیا اگر دس آدمی ایک دعویٰ کریں تو ان میں سے ایک سچا نہیں ہوسکتا مجھے افسوس ہے کہ آپ نے یہ کیا لکھایا میرا تو مطلب صرف اتنا تھاکہ اگر صرف دعوے سے انسان سچا ہوسکتا ہے تو دعوے کرنے والے تو دُنیا میں اور بھی ہیں پس اگر ان میں سے کوئی سچا ہے تو چاہیئے کہ اپنی سچائی کے دلائل پیش کرے ورنہ ہمیں یا آپ کو دس دعویٰ کرنیوالوں میں سے ایک کو بغیر دلیل کے خاص کرلینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا یہی تو میں بار بار کہتا ہوں اور لکھتا ہوں کہ حضرت مسیح کی الوہیت پر ابھی تک آپ نے کوئی معقولی دلائل پیش نہیں کئے اور منقولی پیشگوئیاں جو آپ بار بار پیش کر رہے ہیں وہ تو کچھ بھی چیز نہیں ہیں خود امور متنازعہ فیہا ہیں جن کے آپ کچھ معنے کرتے ہیں یونی ٹیرین کچھ کرتے ہیں یہودی کچھ کرتے ہیں اہل اسلام کچھ کرتے ہیں ۔ پھر قطعیۃ الدلالت کیوں کرٹھہر جاویں اور آپ جانتے ہیں دلیل اس کوکہتے ہیں جو قطعیۃ الدلالت اور فی نفسہ روشن اور بدیہی ہو اور کسی امر کی مثبت ہو نہ کہ خود محتاج ثبوت ہو کیونکہ اندھا اندھے کو راہ نہیں دکھا سکتا اور پھر میں اپنی پہلی بات کا اعادہ کرکے لکھتا ہوں کہ آپ جانتے ہیں کہ اس پُر آشوب دُنیا میں انسان ہمیشہ تسلی اور معرفت تامہ کا محتاج ہے اور ہر ایک شخص یہی چاہتا ہے کہ جن دلائل کو تسلیم کرانا چاہتا ہے وہ ایسی شافیہ اور کافیہ دلائل ہوں کہ کوئی جرح ان پر وارد نہ ہو سکے اور خود ایک طالب حق جب اپنی موت کو یاد کرتا ہے اور درحالت بے دین و گمراہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 184
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 184
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/184/mode/1up
ہونے کے اُن سزاؤں کو تصور میں لاتاہے جو بے دینوں کو ملیں گی تو خود اس کا بدن کانپ اُٹھتا ہے اور اپنے تئیں اس بات کابھوکا اور پیاسا پاتا ہے کہ اگر کوئی نشان ہو تو اس سے تسلی پاوے اور اس کے سہارے کیلئے وہ اسکی دلیل ٹھہر جاوے تو پھر میں تعجب کرتا ہوں کہ یہ درخت عیسائی مذہب کا کیوںؔ کر بغیر پھلوں کے قرار دیا جاتا ہے اور کیوں تسلی کی راہ اس شخص کے مقابل پر پیش نہیں کی جاتی جو پیش کر رہا ہے اگر اللہ تعالیٰ کی عادت نشان دکھلانا نہیں ہے تو اِس دین اسلام کی تائید کیلئے کیوں نشان دکھلاتا ہے اس لئے کیا کبھی ممکن ہے کہ ظلمت نور پر غالب آجاوے ۔ آپ یہ سب باتیں جانے دیں میں خوب سمجھتا ہوں کہ آپکا دل ہرگز ہرگز آپ کے ان بیانات کے موافق نہ ہوگا بہتر تو یہ ہے کہ اس قصہ کے پاک کرنے کے لئے میرے ساتھ آپ کا ایک معاہدہ تحریری ہو جائے اگر میں اُن شرائط کے مطابق جو اس معاہدہ میں کہوں گا کوئی نشان اللہ جلّ شانہٗ کی مرضی کے موافق پیش نہ کر سکوں تو جس قسم کی سزا آپ چاہیں اس کے بھُگتنے کیلئے تیار ہوں بلکہ سزائے موت کیلئے بھی تیار ہوں لیکن اگر یہ ثابت ہو جاوے تو آپ کا فرض ہوگا کہ اللہ جلّ شانہٗسے ڈر کر دین اسلام کو اختیار کریں ڈاکٹر صاحب یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ عیسائی مذہب توسچاہو اور تائید دین اسلام کی ہو آپ بجائے خود حضرت مسیح سے دُعائیں کرتے رہیں کہ وہ اس شخص کو ذلیل اور لاجواب کرے اور میں اپنے خُدا سے دُعا کرونگا پھر جو سچا خدا ہے غالب آجائے گا۔
اس سے بہتر اور کونسی تصفیہ کی صورت ہوگی ۔ آپ کے دعاوی بلا دلیل کو کون تسلیم کرسکتا ہے کیوں آپ ان کوبار بار پیش کرتے ہیں ۔
کیا آپ کی قوم نے بالاتفاق اس کو قبول کرلیا ہے آپ براہ مہربانی سیدھے راہ پر آکر وہ طریق اختیار کریں جس سے حق وباطل میں فیصلہ ہو جاوے ۔
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی احسان اللہ
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام
قائم مقام ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 185
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 185
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/185/mode/1up
بیان ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک
جناب مرزا صاحب نے اپنے جواب میں زیادہ طول اہل یہود پر دی ہے اور ان کو ہم نہیں جانتےؔ کہ کس وجہ سے ہمارے اور اپنے درمیان منصف ٹھہرالیا ہے ۔ جناب من آپ کونسی تاریکی کے فرزندوں کا حوالہ دیتے ہیں اگر اُن کے نہ ماننے پر بات موقوف ہے تو آپ کے حضرت صاحب کی شان میں بھی بڑا فرق آتا ہے ۔ کیونکہ اُنکی مخالفت پر بھی ہمیشہ کمر باندھ کے منکر ہی رہے ۔ جناب من دار مدار کسی انسانی فیصلہ پر نہیں ہے ۔ کتابیں موجود ہیں زبان کوئی سمجھ سے باہر نہیں ہے۔عقل فقط خدا تعالیٰ نے اہل یہود کو عنایت نہیں کی تھی ۔ عبارت میں غلطی ہے بتا دیجئے گا ۔ معنوں میں ہے تو معنے صحیح ہمیں عنایت کیجئے ۔ اور یہودیوں کی کم بختی ہمارے سر پر کیوں تھوپتے ہیں آپ تو فرماتے ہیں کہ یہ قوم پارسا اور خدا پرست تھی توریت شریف اور انبیاء کے صحیفوں کو ملاحظہ کیجئے تو ان کا صحیح حال آپ پر روشن ہوگا ۔ دیکھئے یسعیاہ نبی کی کتاب کے ۳۶۵ میں خدا تعالیٰ کیافرماتا ہے ایسے گروہ کی طرف جو سدا میرے مُنہ کھجا کر مجھے غصّہ دلاتی تھی اور نبیوں کو دیکھئے کہتے ہیں گردن کش سنگدل حد سے زیادہ نبیوں کے قاتل اپنے خدا سے مُنہ پھیرنے والے ۔ یہ انکی صفات ہیں کلام اللہ میں جسے آپ پاک قوم سمجھ رہے ہیں بلکہ یہاں تک اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ گدھا اپنے مالک اور بیل اپنے چرنے کو جانتا ہے پر میری قوم مجھے نہیں جانتی جن کو اللہ تعالیٰ گدھے اور بیل سے بڑھ کر حماقت میں بناتا ہے ۔ آپ ان سے عدالت چاہتے ہیں ۔ مرزا صاحب یہ آپ سے ہرگز نہ ہوگا ۔ جناب من انھیں کی سنگدلی کی سزا میں خدا تعالیٰ نے اُنکے دِلوں کو تاریک کر دیا کہ وہ نہ سمجھیں ۔ یسعیاہ ۶۱۰ اور یہ *** خداوند یسوع مسیح کے وقت اُنکے سر پر تھی اور تا حال ہے ۔ متی ۱۳ واعمال ۲۸۲۷دوسرے قرنطیون کا ۱۵،۳۱۶ ان آیات کے ملاحظہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ آپ نے منصفی کن پر ڈالی ہاں انکی بے ایمانی سے شہر اُن کا برباد اپنے ملک سے جلا وطن سارے جہان میں پراگندہ ضرب المثل اور انگشت نما ہو کے یہ آج تک پھرتے ہیں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 186
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 186
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/186/mode/1up
موجب پیشگوئی المسیح کے ۔
دوئم ۔ پھر آپ نے یونی ٹیرین کی بابت پیش کیا ۔ جناب من یہ عیسائیوں کے کسی فرقہ میں سے کوئی فرقہ نہیں ۔ سارے جہان کی حماقت اور کفر کا جواب آپ مجھ سے کیوں مانگتے ہیں اور رومن کیتھلک لوگ اپنے دل کے کفر سے مریم کو خدا کی ماں قرار دیتے ہیں اور ادہر یونی ٹیرین حماقت سے اور طرحؔ پر پورا کرتے ہیں میراان میں کیا واسطہ ہے ۔ کلام میرے ہاتھ میں ہے عبارت اسکی موجود ہے غلطی پر ہوں تو مجھے قائل کیجئے ۔ ورنہ ان تاریک فہموں کی آپ کیا نظیر دیتے ہیں ۔ ہمارا ایمان مسیح پر‘ فرقوں پر نہیں ۔ اس طرح کے اگر میں الزامی جواب دینے چاہوں تو اسلام پر کتنے فتوراس وقت پیش کر سکتا ہوں ۔ جناب من اپنے گھر کی حالت دیکھ کر تکلیف فرمایئے اور نہ کسی انسان کے ماننے اور نہ ماننے پر مدار رکھے لیکن کتاب اللہ پر ۔
جناب نے ایسی دلیل طلب کی ہے جس میں کسی کا شک نہ ہو ۔ صاف اقرار کرتا ہوں کہ میں نے کہ میں عاجز ہوں میں کیا بلکہ خدا بھی عاجز ہے ۔ اسکے وجود پاک سے بڑھ کرکوئی بات دنیا میں روشن ہے تو بھی آپکو ہزار احمق نہ ملیں گے جو کہیں گے کہ خدا کوئی چیز نہیں ۔ جب جناب باری کی ذات پاک میں آپ حرف لاتے ہیں اور اس معبود حق کی نسبت شک کرتے ہیں جس کے جلال سے سارا جہاں معمور ہے تو کونسی دلیل پیش کریں جسمیں اگلا حرف نہ لاوے ۔ آگے جناب کا یہ فرمانا تھا کہ مسیحی دین اگر بے پھل ہے تو پھر یہ کیوں حق ہے ۔ صاحب من یہ بے پھل نہیں اپنے موقعہ پر یعنی اسی ہفتہ میں آپ کی خدمت میں پھل پیش کئے جاویں گے ۔ لیکن یہاں آپ کے ساتھ میرا سخت تنازعہ ہے آپ نے مجھے کیوں منافق بنایا ۔ ریاکار ٹھہرایا کہ جو میں زبان سے کہتا ہوں وہ دل سے نہیں کہ آپ نے ایسا الزام مجھے لگا دیا ۔ پیغمبری کے دعوے تو میں آپ کےُ سنتا رہا لیکن یہ تو دعویٰ الٰہی ہے کہ آپ دلوں کے جانچنے والے ہیں ۔ آخری عرض یہ ہے کہ مناسب ہے کہ خالق کی ذات شریف مخلوق کی سمجھ میں نہ آوے۔ خدا تعالیٰ جو ہے ذات ہی ذات ہے اور اگر اس کی ذات پاک کو ہم سمجھ لیں تو پرے کیا رہا۔ ہم اسکے مساوی نہ ہوگئے بے شک ہو گئے ۔ اسی لئے میں محمدی وحدانیت کا قائل نہیں ہوسکتا تو بچہ بھی سمجھ سکتا ہے اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 187
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 187
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/187/mode/1up
میری عقل تو گواہی دیتی ہے کہ ذات پاک کو اس سے بڑھ کر ہونا چاہیئے آپ کی وحدانیت میں کونسامسئلہ سمجھ سے باہر ہے گویا محدود نے غیر محدود کو گھیر لیا ہے۔ لیکن کثرت فی الوحدت ایک ایسا مسئلہ ہے کہ نہ اِسکے سمجھنے والا پیدا ہوا نہ ہو گا۔ کیا صاحب جانا جا سکتا ہے کہ انسانی عقل اللہ تعالیٰ کو سمجھے ۔ توبہ توبہ۔ ذات الٰہی ایک ایسی شے ہے کہ نہ عقل سے ثابت کی جاسکتی ہے اور نہ عقل سے اس کی تردید کی جاسکتی ہے۔ معاملہ انسان کی عقل سے لاکھ ہادرجہ بڑھ کر ہے اور اس کا فیصلہ صاف اللہ تعالیٰ ہی کر سکتا ہے۔ خدا کی بات خدا ہی جانےؔ اور میرا اور آپ کا حق مرزاصاحب نہ دلائل عقلی کے دوڑانے پر ہے لیکن تسلیم کرنا ہے۔ اور صحیح تعلیم اللہ تعالیٰ کی کتابوں کی یہی ہے تین اقنوم اور ایک خدا واحد تا ابد مبارک ہے۔ مسیح خداوند کے حق میں نبی گواہی دیتے رہے نمونوں سے اللہ تعالیٰ ظاہر کرتا رہا۔ قربانیوں میں حلال وحرام میں ختنہ میں ہیکل میں اور پھر ظاہر کرتا رہا کہ مَیں حق تعالیٰ خود تمہارا نجات دہندہ ہوں ۔ اور وقت پر کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور نام اس کا تم نے رکھنا عمانوئیل یعنی خدا ہمارے ساتھ وقت پر آپ آئے پَیدا ہوئے۔
آگے سلسلہ چلتا ہے فرشتوں کی گواہی کا ۔ حواریوں کی گواہی کا۔ اپنے دعووں کا ۔ اپنی کرامت ومعجزوں کا۔ ہاں خدا تعالےٰ کا خود یحيٰ بپ ٹسما دینے والے کے ہاتھ سے بپ ٹسما پاکر آپ پانی سے نکلتے ہیں اور رُوح القدس کبوتر کی طرح ان پر آتی ہے اورخدا تعالیٰ آسمان بلند آواز سے فرماتا ہے یہ میرا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں دیکھئے باپ بیٹا روح القدس موجود کیونکہ یہ تینوں ایک ہیں۔
خیر میں زیادہ طول دینا نہیں چاہتا دشمنوں کی گواہی بھی موجودہے شیطانوں کی گواہی موجود ہے جو چلا چلا کر کہہ رہے تھے کہ تو خدا کا قدوس ہے۔ رومیوں کی گواہی موجود ہے۔ پلاٹوس کی گواہی موجود ہے۔ جناب انجیل شریف میں آپ کے لئے سب گواہیاں موجود ہیں اور یہودی بھی سارے بے ایمان نہ تھے آپ کے فرمانے کے مطابق حواری بھی یہودی تھے ایک ہی وعظ سے تین ہزار عیسائی ہوئے یک لخت۔
اگر چہ قوم مردود ہے قوم کا ہر ایک فرد مردودنہیں اور اب بھی ہزارہا لاکھ ہا یہودی مسیح خداوند
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 188
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 188
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/188/mode/1up
کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ اور جب آپ نے مسئلہ پیش کیا کہ جب مسیح نے پوچھا کہ مسیح کس کا بیٹا ہے اور داؤد کیوں اس کو خداوند کہتاہے۔تو چپ اور لاجواب ہو گئے۔ کوئی جواب نہ دے سکا۔ صاحب من عقل کو قائل کرنا تو کچھ مشکل نہیں لیکن دل کی ضد کو دفع کرنا اللہ کا کام ہے۔ پھر جناب کی تقریر تھی کہ کراماتیں اسلام کے ساتھ ہیں ہمیں دیکھنے سے کوئی گریز نہیں۔ ساتھ یہ بھی بتائیے بالفرض اگر کوئی یا کئی کرامت وارد بھی ہوں تو ہم کس طرح جانیں کہ یہ منجانب اللہ ہیں استثنا کے ۱،۲جناب نے ہی سنائے کہ بیشک تمہارے پرکھنے کے لئے جھوٹے نبی بھی آجائیں گے او ر کرامت پوری کریں گے۔ نیز مرقس کا ۲۲ سُنیے گا۔ گلیتوں ۱۸ سو جناب من نہ فقط کرامت کی ضرورت ہے بلکہؔ اس بات کی کہ ان نشانوں کو کیوں کر منجانب اللہ جانیں اورنہایت ادب سے عرض ہے کہ آپ کی کرامت سے مَیں دل شکستہ ہوںآپ فرما چکے ہیں کہ کرامت اور معجزہ میں فرق ہے نہیں جانتا کہ کیا۔ پھر آپ نے یہ فرمایا کہ ہم نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کانشان دکھلائے گا۔ اور پھر معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ کس طور کا نشان دکھلائے گا۔جناب صاحب اس میں تحدی ما قبل معجزہ اور کرامات سے صاف گریز ہے۔ حالانکہ آپ اپنے رسالہ حجۃ الاسلام کے ۱۴۔ ۱۵ ۔ ۱۶۔۱۷۔صفحہ میں اس بات کو تسلیم کر چکے تھے۔ قصہ کوتاہ مرزا صاحب کیاہی مبارک موقعہ پیش آیا تھا کہ آپ اپنے اس دعویٰ کو جس کی نسبت خم ٹھوک کر کئی روز سے دعویٰ کرتے ہیں پایہ ثبوت تک پہنچاتے۔ ہزار افسوس کہ آپ نے ایسے موقعہ کو ہاتھ سے جانے دیا اور اپنی لغو تاویلات کو لامعنی اور بات الزامی سے اس موقعہ کو ٹال دیا۔ آپ کی اس پہلو تہی سے اس عاجز کی عقل ناقص میں یہ آتا ہے کہ آپ کا یہ دعویٰ سامان ہیں جن سے آپ اپنے مقلدوں کو خوش کرتے ہوتے ہیں از راہ خاوندی کے عیسائیوں کے رو برو انکاذکر پھر نہ کرنا۔اور ناحق زک اٹھانی پڑتی ہے جناب من ہم تو آپ کے علم اور روشن ضمیری کا چرچا بہت ہی سنتے رہے ہیں اور ہم کو آپ سے بہت امید تھی۔ لیکن افسوس آپ نے وہی بحثیں اور وہی دلائل اور وہی باتیں پیش کیں ۔ جو کہ قریب چالیس سال سے اِس ملک کے بازاروں میں چکر کھارہی ہیں۔ مرزاصاحب
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 189
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 189
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/189/mode/1up
افسوس ہے کہ ہم آپ پر کسی طرح خوش نہ ہوئے۔ عقلی دلیل آپ نے مانگی بندہ نے پیش کر دی۔ نقلی جناب نے فرمائی حاضر کی گئی الہام پر آمادہ ہوئے سو بھی منظور اس موقعہ پر مجھ کو انجیل شریف کی ایک بات یاد آتی ہے متی کے ۱۶۔۱۷۔۱۹ میں ہے آخر الامر آپ کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ اول خداکے ابن وحید کا رسالت لے کر دنیا میں آنا دلیل استقرائی سے مستثنیٰ ہے جیسے کہ آدم و حوا کی پیدائش۔ جناب نے اس کا کیاجواب فرمایا ہیچ دوم الوہیت کے دعوےٰ اور اثبات بائیبل شریف سے معہ مفصل آیات کے پیش کئے گئے عقل سے امکان اور کلام الٰہی سے وقوع ثابت کیا ؔ گیا۔جناب نے کیا جواب دیا ہیچ۔ یوحنا کے دسویں باب پر آپ نے بار ہا زور بے جالگایا معقول دلیل دیکھیں تو پتہ ندارد پرانے عہد نامہ میں سے مسیح کے حق میں پیشگوئیاں اور نئے عہد نامہ میں ان کی تکمیل جناب کی خدمت میں پیش کی گئی جواب ہیچ پانچ پرانے عہد نامہ کے ایسے فقروں سے جیسا کہ ہم میں سے ایک کی مانند ہمتا۔ یہواصد قنو وغیرہ وغیرہ الوہیت کا استدلال کیاگیا جناب کاجواب ہیچ۔ بڑی پختہ دلائل سے مسیح کا کامل انسان و کامل خدا ہوناو مظہر اللہ ہونا پیش کیاگیا۔جواب ہیچ۔ ساتواں وہ جو آیات جناب نے پیش کی تھیں قیامت کے روز وغیرہ کے بارے میں انکے حق میں خوب گوش گذاری ہوئی جناب نے کوئی جواب نہ فرمایا۔
آٹھواں۔ جناب قرآن سے کئی حوالجات دیتے ہیں اور ان عاجزوں کے لئے وہ فضول ہیں کیونکہ ہم اس کو کتاب مستند نہیں سمجھتے۔
نہم۔ مرقس کی ۱۶ پر جناب نے بہت کچھ تقریر فرمائی اور معجزوں کے حق میں ہمیں قائل کرنا چاہا۔
لہٰذا اس کا بھی جواب ہوا اور خوب ہی ہوا۔ جناب نے کیا جواب دیا ہیچ۔
دس۔ نجات اور ذاتی الہام بے محل اور خلاف شرطوں کے تھا اس لئے ہم نے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 190
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 190
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/190/mode/1up
اس کابہت غور نہیں کیا۔
گیارہ۔ جناب کا صاحب کرامات ہونے کا دعویٰ نہایت ہی واضح طور پر غلط ثابت کیاگیا۔ جناب الزامی جواب دے کر پہلو تہی کر گئے۔ یہ ہفتہ گذشتہ کی کارروائیاں ہیں فرمائیے ہماری کونسی دلیل توڑی گئی۔ ہاں یک شوشہ یک نقطہ بھر اس میں فرق آیا؟۔جناب تو اپنی تاویلوں میں لگے رہے اور ہماری باتوں پر آپ نے توجہ نہ فرمائی۔ اب پھر اس مباحثہ کے پہلے حصہ کا آخری وقت ہے۔ میں خدا کا واسطہ دے کے عرض کرتا ہوں۔ بروئے کلام الٰہی خدا جو اگلے زمانوں میں نبیوں کے وسیلہ بولابالآخر اپنے بیٹے کے وسیلہ سے دین آسمانی اور راہ نجات اور گناہوں کی بخشش ہمیں عنایت کر چکا ہے۔ اور ہر ایک کو چاہیئے کہ تعصب کو دور کر کے خدا کی ر ضامندی کو اپناشا ملؔ کرے اور میں شہادت دیتا ہوں کہ بے شک المسیح ابن وحید اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اور کلمہ مجسمہ اللہ کا ہے اور آخری دن کل آدمیوں کا انصاف کرنے والابھی ہوگا۔
مباہلہ کے حق میں مختصر عرض ہے کہ *** دینا یا چاہنا ہمارے خدا کی تعلیم نہیں وہ اپنی کسی مخلوق سے عداوت نہیں رکھتا اور مینہہ اور روشنی اپنے راستوں اور ناراستوں کو برابر بخشتاہے۔ جس مذہب میں لعنتیں جائز ہوں انکے پَیروؤں کو اختیار ہے مانیں او رمانگیں۔ لیکن ہم شاہ سلامتی کے فرزندہیں اور جیسا ہم اپنے لئے دعائے خیر اورر حمت اور بخشش کے طالب ہیں ویسا ہی بعوض *** کے ہم آپ صاحبوں کیلئے بھی خواہاں برکت کے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی بے حد رحمت سے صراط مستقیم آپ کو عطاکرے اپنے امن اور ایمان میں لاوے۔ تاکہ جب اس جہان فانی سے ملک جاودانی کو آپ گزرکریں تو عاقبت بخیر ہووے ایک آخری عرض ہے جناب مرزاصاحب آپ حد سے قدم بڑھا کر چڑھ آئے ہیں۔ گستاخی معاف مَیں دل کی صفائی سے کہتا ہوں اور بروئے الہام نہ معلوم ازکجایافتہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 191
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 191
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/191/mode/1up
آپ فرماتے ہیں کہ اس جنگ میں مجھے فتح ہے ضروری فتح ہے۔ جناب امتیاز کر سکتے ہیں کہ صورت مذکورہ بالافتح کامل کی ہے یا معاملہ دیگر کی اور یہ جناب کی غلطی ہے فتح اور شکست کالحاظ ہرگز نہیں چاہیئے برعکس اسکے یہ کہ ہاں شکست ہو تو ہو۔ لیکن یا اللہ تیری راستی ظاہر کی جائے افسوس جناب میں وہ مزاج دیکھی نہ گئی۔ صاحب من عیسوی دین انیس سو برس سے جہان میں ہے اور ایک ایسا سندان ہے کہ اس پر بہت ہی مارتول گھس چکے ہیں اور اخیر تک گھستے رہیں گے۔ کیا انیس سو برس کی بات یہاں او رانھیں دنوں میں پلٹنے والی تھی جولوگ دین مسیح کے مخالف ہیں ان کو دیکھ کر مجھے ایک قصہ یونانی یاد آتاہے ایک سانپ کسی لوہار کے گھر میں جاگھسا زمین پر ریتی پڑی تھی زہر بھرا ہوا سانپ اس کے کاٹنے لگا۔ ریتی نے کہا کاٹ لے جہاں تک تیری مرضی ہے تیرے ہی دانت گھستے ہیں۔
صا ؔ حبِ من کوششیں توآپ نے سب کیں پر دلیل عقلی کا مقابلہ نہ نقلی جواب بن پڑا اورجس الہام و کرامت پر آپ کو ناز تھا وہ بھی خام اورلاحاصل ٹھہرایاگیا۔ کوششیں بہت لیکن مباحثہ کے اس حصہ کا نتیجہ معلوم اور ہر ایک منصف مزاج پر ظاہر ۔ مرزائے من آپ تو بلند آواز سے فتح پکارتے رہے لیکن یہ فتح کسی اور پر شگفتہ نہ ہوئی۔ جناب من اس جنگ میں او رہر جنگ میں امروز تا ابد شان و شوکت حشمت و جلال قدرت اختیار اور فتح المسیح تا ابدخدائے مبارک کی ہے۔ آمین۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
احسان اللہ قائم مقام ہنری مارٹن کلارک غلام قادر فصیح
پریزیڈنٹ پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 192
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 192
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/192/mode/1up
دوسرؔ ا حصہ
روئیداد جلسہ
۳۰۔ مئی ۱۸۹۳ ء
آج پھر جلسہ منعقد ہوا ۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب آج اپنے اصلی عہدہ میر مجلسی پر واپس آگئے۔ اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے مباحثہ شروع کیا۔ ۶ بجے ۹ منٹ پر مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے سوال لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۲۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیامرزا صاحب نے ۶ بجے ۲۷منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۲۷ منٹ پر تمام کیا۔ مرزاصاحب کے جواب لکھانے کے عرصہ میں میر مجلس عیسائی صاحبان نے بدوں میر مجلس اہل اسلام کے ساتھ اتفاق کرنے کے انھیں روکنے کی کوشش کی اور اپنے کاتبوں کو حکم دیا کہ وہ مضمون لکھنا بند کردیں مگر میر مجلس اہلِ اسلام کی اجازت سے مرزا صاحب برابر مضمون لکھاتے رہے اور انکے کاتب لکھتے رہے۔ میرمجلس عیسائی صاحبان کی یہ غرض تھی کہ مرزاصاحب مضمون کو بند کر یں اور میر مجلس عیسائی صاحبان ایک تحریک پیش کریں کیونکہ ان کی رائے میں مرزا صاحب خلاف شرط مضمون لکھاتے رہے تھے لیکن جب ان کی رائے میں مرزاصاحب شرط کے موافق مضمون لکھانے لگے تو انہوں نے اپنے کاتبوں کو مضمون لکھنے کا حکم دے دیا میر مجلس صاحب اہل اسلام کی یہ رائے تھی کہ جب تک مرزاصاحب مضمون ختم نہ کر لیں کوئی امر انہیں روکنے کی غرض سے پیش نہ کیاجائے کیونکہ انکی رائے میں کوئی امر مرزاصاحب سے خلاف شرائط ظہور میں نہیں آرہاتھا۔ چنانچہ مرزاصاحب برابر مضمون لکھاتے رہے اور اپنے وقت کے پورے ہونے پر ختم کیا اور مقابلہ کے وقت عیسائی کاتبوں نے اس حصہ مضمون کو جو وہ اپنے میر مجلس کے حکم کے بموجب چھوڑ گئے تھے بموجب ارشاد اپنے میر مجلس کے پھر لکھ لیا۔ اَب یہ امر پیش ہوا کہ مرزاصاحب نے جو جواب لکھایا ہے اس کے متعلق میر مجلس عیسائی صاحبان اور عیسائی جماعت کی یہ رائے ہے کہ وہ خلاف شرائط ہے کیونکہ اوّلًا اِس
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 193
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 193
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/193/mode/1up
ہفتہ میں وقت ہے کہ مسیحی اہل اسلام سے دین محمدی کے حق میں سوال کریں اورنہ یہ کہ محمدی صاحب مسیحوں سے دین عیسوی کے حق میں جواب طلب کریں ۔ ثانیًا فی الحال عبد اللہ آتھم صاحب کیطرف سے سوال مسئلہ رحم بلا مبادلہ در پیش ہے اور مرزاصاحب جواب طلب کرتے ہیں دربارہ الوہیت مسیح کے۔ میرمجلس صاحب اسلام کی یہ رائے تھی کہ خلاف شرائط ہرگز نہیں ہے بلکہ عین مطابق شرائط ہے اور ساتھ ہی مرزاصاحب نے بیان فرمایا کہ جواب ہرگز خلاف شرائط نہیں کیونکہ سوال رحم بلامبادلہ کی بنا الوہیت مسیح ہے۔اور ہم مسئلہ رحم بلامبادلہ کاؔ پور ا رد اس حالت میں کر سکتے ہیں کہ جب پہلے اس بنا کا استیصال کیاجاوے ۔بنا کو کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ بے تعلق ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ رحم بلا مبادلہ بنائے فاسد بر فاسد ہے۔ عیسائی جماعت تو مرزاصاحب کے مضمون کو خلاف شرائط قرار دینے پر زور دیتی رہی اور اسلامیہ جماعت اس مضمون کو مطابق شرائط قرار دیتی رہی پادری عماد الدین صاحب کی یہ رائے تھی اور انہوں نے کھڑے ہوکر صا ف لفظوں میں کہہ دیا کہ میر مجلسوں کا منصب نہیں کہ مباحثین کو جواب دینے سے روکیں مگر میرمجلس عیسائی صاحبان کے سوال کرنے پر انہوں نے بھی یہی کہا کہ مضمون مرزاصاحب کا خلاف شرط ہے اور مسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے بھی کہا کہ کسی قدر خلاف شرط تو ہے تاہم در گذر کرنا چاہیئے۔ میر مجلس اہل اسلام نے کہا یہ مضمون ہرگز خلاف شرط نہیں اس لئے ہم آپ کا در گذر نہیں چاہتے۔ ایک عرصہ تک اس امر پر تنازعہ ہوتا رہا۔ اسی عرصہ میں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے کہا کہ اگر میرے چیئر مین صاحب مجھے مرزاصاحب کے لفظ لفظ کا جواب دینے دیں گے تو میں دوں گا ورنہ میں نہیں دیتا۔ مگر میر مجلس صاحب اہلِ اسلام نے ڈپٹی صاحب کو کہا کہ آپ کو جواب لکھنے کیلئے میر مجلسوں سے ہدایت لینے کی کچھ ضرورت نہیں۔ آپ کو اختیار ہے کہ جس طرح چاہیں جواب دیں۔ لیکن میر مجلس عیسائی صاحبان نے ڈپٹی صاحب کو روکا اور کہا میں اجازت نہیں دیتا۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو میں میر مجلسی سے استعفادے دوں گاکیونکہ یہ خلاف شرط ہے پھر تھوڑی دیر کے لئے تنازعہ ہوتا رہا اور آخر کار یہ قرار پایا کہ آئندہ کے لئے مباحثین میں سے کسی کو جواب دینے سے روکا نہ جائے انہیں اختیار ہے کہ جیسا چاہیں جواب دیں ۔ بعد ازاں ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 194
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 194
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/194/mode/1up
نے ۸ بجے ۵۳ منٹ پر جواب لکھنا شروع کیا اور ۹ بجے ۵۰ منٹ پر ختم کیااور مقابلہ کرکے بلند آواز سے سنایا گیا۔بعد ازاں تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط کئے گئے اورچونکہ مرزاصاحب کے جواب کیلئے پورا وقت باقی نہ تھا۔اس لئے جلسہ برخواست ہوا۔ فقط۔
(دستخط بحروف انگریزی) (دستخط بحروف انگریزی )
ہنری مارٹن کلارک پریذیڈنٹ غلام قادر فصیح پریذیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہلِ اسلام
سوال ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
۳۰ ؍مئی ۱۸۹۳ ء
میرا پہلا سوال رحم بلا مبادلہ پرہے جس کے معنے یہ ہیں کہ رحم ہو اور تقاضا عدل کا لحاظ نہ ہو ۔اس کے لئے پہلا سوال یہ ہے کہ کیا صفات عدل و صداقت کی غیر مقید الظہور بھی ہو سکتی ہیںیعنی ان پر یہ قید نہ رہی کہ وہ ظہور نہ کریں جیسا کہ عدل ہوا یا نہ ہوا۔ صداقت ہوئی یا نہ ہوئی۔ اعتراض اس میںیہ ہے کہ اگر ایسا ہووے تو محافظ قدوسی الٰہیؔ کا کون ہوسکتا ہے اور رحم اور خوبی مقید الظہور بھی کیا ہو سکتے ہیں اور اس میں اعتراض یہ ہے کہ اگر ہو سکتے ہیں توکیا وہ قرضہ دادنی کی صورت نہ پکڑیں گے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ ہر چہ گناہ جب تک باقی رہے تو صورت رہائی گناہ گار کی کون سی ہے اب جبکہ قرآن میں تین راہ نجات رکھے ہیں یعنی ایک یہ کہ گناہ کبائر سے اگر بچو گے تو صغائر رحم سے معاف ہو جائیں گے ۔ دوسرے یہ کہ اگر وزن افعال شنیعہ کا اعمال حسنہ پر نہ بڑھے گا تو رحم کے مستحق ہو جاؤ گے۔ تیسرے یہ کہ رحم کے مقابلہ میں عدل اپنے تقاضا سے دست بردار ہوجاتا ہے یعنی رحم غالب آتا ہے عدل کے اوپر۔ دو صورتیں اولین میں یہ اصول ڈالا گیا ہے کہ ادائے جزکا واسطے کل کے حاوی ہے تیسرے اصول میں یہ دکھلایا گیا ہے کہ عدل مقید الظہور نہیں بلکہ رحم مقید الظہور ہے۔ ان دونوں اصولوں میں جو اوپر بیان ہوئے ہیں بداہت کے برخلاف کچھ اس میں بیان ہے یا نہیں کیونکہ مبادلہ عدل کا کچھ نہ ہؤااور یہ رحم بلامبادلہ ہے جس نے دو صفات الٰہی کو ناقص کر دیا یعنی عدالت اور صداقت کو۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 195
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 195
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/195/mode/1up
اس کے جواب کا انتظار ہم جناب کی طرف سے کرتے ہیں اور یہ جواب اس کا ہونا چاہیئے کہ یہ دونوں اصول صداقت بالبداہت ہیں یا نہیں و یاکہ صداقتیں ہیں یا نہیں لیکن ہر جہ اد اہو جاتا ہے اور صفات وہ قائم رہتی ہیں اور میر اعرض کرنا اس بارہ میں اور کچھ ضرور نہیں ۔
میں امید کرتا ہوں کہ جیسے میرے یہ مختصر سوا ل ہیں ویسا ہی مختصر جوا ب ہونا چاہیئے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریذیڈنٹ غلام قادر فصیح پریذیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
بیان حضرت مرز ا صاحب
۳۰؍ مئی ۱۸۹۳ ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ڈپٹی صاحب نے رحم بلا مبادلہ کا جو سوا ل کیا ہے حقیقت میں اس کی بنیاد حضرت مسیح کی الوہیت ماننے پر رکھی گئی ہے اس لئے صفائی بیان کے لئے بہت ضروری ہے کہ پہلے برعایت اختصار اس کا کچھ ذکر کیا جائے ۔کیونکہ اگر حضرت مسیح کی الوہیت ثابت ہو جائے تو پھر اس لمبے جھگڑے کی کچھ ضرورت نہیں اور اگر دلائل قطعیہ سے صرف انسان ہونا ان کا ثابت ہو اور الوہیت کا بطلان ہو تو پھر جب تک ڈپٹی صاحب موصوف الوہیت کو ثابت نہ کریں تب تک داب مناظرہ سے بعید ہو گا کہ اور طرف رخ کر سکیں ڈپٹی صاحب موصوف اپنے بیانات سابقہ میں حضرت مسیح کی الوہیت ثابت کرنے کیلئے فرماتے ہیں کہ ؔ اور انسانوں کی تو ایک روح ہوتی ہے مگر حضرت مسیح کی دو روحیں تھیں ایک انسان کی اور ایک خدا تعالیٰ کی اور گویا حضرت مسیح کے جسم کی دو روحیں مدبر تھیں مگر یہ امر سمجھ میں نہیں آسکتا ایک جسم کے متعلق دو روحیں کیونکر ہو سکتی ہیں اور اگر صرف خدا تعالیٰ کی روح تھی تو پھر حضرت مسیحؑ انسان بلکہ انسان کامل کن معنوں سے کہلا سکتے ہیں کیا صرف جسم کے لحاظ سے انسان کہلاتے ہیں ۔ اور میں بیان کر چکا ہوں کہ جسم تو معرض تحلل میں ہے چند سال میں اور ہی جسم ہوجاتا ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 196
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 196
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/196/mode/1up
اور کوئی دانش مند جسم کے لحاظ سے کسی کو انسان نہیں کہہ سکتا جب تک روح انسانی اس میں داخل نہ ہو پھر اگر حضرت مسیح در حقیقت روح انسانی رکھتے تھے اور وہی روح مد ّ بر جسم تھی اور وہی روح مصلوب ہونے کے وقت بھی مصلوبی کے وقت نکلی اور ایلی ایلی کہہ کر حضرت مسیحؑ نے جان دی تو پھر روح خدا ئی کس حساب اور شمار میں آئی یہ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا اور نہ کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے۔ اگر درحقیقت روح کے لحاظ سے بھی حضرت مسیح انسان تھے تو پھر خدا نہ ہوئے اور اگر روح کے لحاظ سے خدا تھے تو پھر انسان نہ ہوئے ماسوا اس کے حضرات عیسائی صاحبان کا یہ عقیدہ ہے کہ باپ بھی کامل اور بیٹا بھی کامل روح القدس بھی کامل ۔ اب جب تینوں کامل ہوئے تو ان تینوں کے ملنے سے اکمل ہونا چاہیئے کیونکہ مثلًا جب تین چیزیں تین تین سیر فرض کی جائیں تو وہ سب مل کر نو سیر ہوں گی ۔ اس اعتراض کا جواب ڈپٹی صاحب سے پہلے بھی مانگا گیا تھا مگر افسوس کہ اب تک نہیں ملا اور ظاہر ہے کہ یہ ایک سخت اعتراض ہے جس سے قطعی طور پر حضرت مسیح کی الوہیت کا بطلان ہوتا ہے ۔ انہیں اعتراضات کو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اور اسی بناء پر میں نے یہ شرط کی تھی کہ حضرت مسیح کی الوہیت پر کوئی عقلی دلیل پیش ہونی چاہیئے مگر افسوس کہ اس شرط کا کچھ بھی لحاظ نہ ہؤا اور یہ بھی بیان کیاگیا تھا کہ آپ نے جس قدر پیشگوئیاں حضرت مسیح ؑ کی الوہیت ثابت کرنے کیلئے پیش کی ہیں وہ دعاوی ہیں دلائل نہیں ہیں اول تو ایک نامعقول امر جب تک معقول کرکے نہ دکھلایاجاوے منقولی حوالہ جات سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ مثلًا ایک گدھا جو ہماری نظر کے سامنے کھڑا ہے۔ اگر ہزار کتاب پیش کی جائے کہ انہوں نے اس کو انسان لکھ دیا ہے تو وہ کیونکر انسان بن جائے گا ۔ ماسوا اس کے وہ منقولی حوالجات بھی نرے نکمے ہیں جن کی کتابوں سے لئے جاتے ہیں وہ ان کو مانتے نہیں اور گھر میں خود پھوٹ پڑی ہوئی ہے اورحضرت مسیح ؑ فرماتے ہیں کہ یہودی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں ان کی باتوں کو مانو ۔
افسوس ہے کہ ان کے معنے قبول نہیں کئے جاتے اور عذر کیاجاتا ہے کہ یہودی فاسق بدکار ہیں حالانکہ انجیل حکم دیتی ہے کہ ان کی باتوں کو اور ان کے معنوں کو اول درجہ پر رکھو اور ہمیں تحکم کے طور پر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 197
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 197
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/197/mode/1up
کہا جاتا ہے کہ کتابیں موجود ہیں کتابوں کو پڑھو ۔ لیکن انصاف کرنے کا محل ہے کہ ہر ایک صداقت کو ہر ایک پہلو سے دیکھا جاتاہے۔ ہم یہودیوں کے اقوال کو بھی دیکھیں گے ۔ آپ کے اندرونی اختلافات پر بھی نظر ڈالیں گے۔ اور اگر آپ کا یہ شوق ہے کہ کتابیں دیکھی جاویں وہ بھی دیکھی جاویںؔ گی ۔ مگر اس صورت میں کہ یہودیوں کے معنے بھی جو وہ کرتے ہیں سنے جائیں اور آپ کے معنے بھی سنے جائیں اور ان کی لغات بھی دیکھی جائیں اور آپ کی لغات بھی دیکھی جائیں پھر جو اولیٰ و انسب ہے اس کو اختیار کیاجائے اور یہودیوں سے مراد وہی یہودی ہیں جو حضرت مسیح سے پہلے صدہا برس گذر چکے ہیں۔ غرض ہر ایک پہلو کو دیکھنا طالب حق کا منصب ہوتا ہے نہ کہ ایک پہلو کو ۔ ماسوا اس کے رحم بلامبادلہ کا جو سوال کیاجاتا ہے اس کا ایک پہلو تو ابھی میں بیان کر چکا ہوں اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون قدرت کو دیکھا جائے گا کہ آیا رحم اور قہر کے نفاذ میں اس کی عادات کیونکر ظاہر ہے کہ رحم کے مقابل پر قہر ہے ۔ اگر رحم بلا مبادلہ جائز نہیں تو پھر قہر بلا مبادلہ بھی جائز نہ ہو گا۔ اب ایک نہایت مشکل اعتراض پیش آتا ہے ۔ اگر ڈپٹی صاحب اس کو حل کر دیں گے تو ڈپٹی صاحب کی اس فلاسفی سے حاضرین کو بہت فائدہ ہو گا اور قہر بلا مبادلہ کی صورت یہ ہے کہ ہم اسے دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ ہزار ہا کیڑے مکوڑے اور ہزارہا حیوانات بغیر کسی جرم اور بغیر ثبوت کسی خطا کے قتل کئے جاتے ہیں ہلاک کئے جاتے ہیں ذبح کئے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک قطرہ پانی میں صدہا کیڑے ہم پی جاتے ہیں اگر غور کر کے دیکھا جائے تو ہمارے تمام امور معاشرت خدا تعالیٰ کے قہر بلا مبادلہ پر چل رہے ہیں یہاں تک کہ جو ریشم کے کپڑے بھی انسان استعمال کرتا ہے اس میں اندازہ کر لینا چاہیئے کہ کس قدر جانیں تلف ہوتی ہیں۔ اور حضرات عیسائی صاحبان جو ہر روز اچھے اچھے جانوروں کا عمدہ گوشت تناول فرماتے ہیں ہمیں کچھ پتا نہیں لگتا کہ یہ کس گناہ کے عوض میں ہو رہا ہے اب جبکہ یہ ثابت شدہ صداقت ہے کہ اللہ جلّ شانہٗ بلامبادلہ قہر کرتا ہے اور اس کا کچھ عوض ملتا ہمیں معلوم نہیں ہوتا تو پھر اس صورت میں بلا مبادلہ رحم کرنا اخلاقی حالت سے انسب اور اولیٰ ہے۔ حضرت مسیح ؑ بھی گناہ بخشنے کے لئے وصیت فرماتے ہیں کہ تم اپنے گناہ گار کی خطا بخشو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 198
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 198
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/198/mode/1up
ظاہرہے کہ اگر اللہ تعالیٰ جلّ شانہٗ کی صفات کے بر خلاف ہے کہ کسی کا گناہ بخشا جائے تو انسان کو ایسی تعلیم کیوں ملتی ہے۔ بلکہ حضرت مسیح تو فرماتے ہیں کہ میں تجھے سات مرتبہ تک نہیں کہتا بلکہ ستر کے سات مرتبہ تک یعنی اس اندازہ تک کہ گناہوں کو بخشتا چلا جا ۔
اب دیکھئے کہ جب انسان کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ گویا تو بے انتہا مراتب تک اپنے گناہ گاروں کو بلا عوض بخشتا چلاجا اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بلا عوض ہرگز نہ بخشوں گا ۔ تو پھر یہ تعلیم کیسی ہوئی حضرت مسیح نے تو ایک جگہ فرما دیا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے اخلاق کے موافق اپنے اخلاق کرو ۔ کیونکہ وہ بدوں اور نیکوں پر اپنا سورج چاند چڑھاتا ہے اور ہر ایک خطا کار اور بے خطا کو اپنی رحمتو ں کی بارشوں سے متمتع کرتا ہے۔ پھر جبکہ یہ حال ہے تو کیونکر ممکن تھا کہ حضرت مسیح ایسی تعلیم فرماتے جو اخلاق الٰہی کے مخالف ٹھہرتی ہے یعنی اگر خدا تعالیٰ کا یہی خلق ہے کہ جب تک سزا نہ دی جائے کوئی صورت رہائی کی نہیں تو پھر معافی کیلئے دوسروں کو کیوں نصیحت کرتاہے۔ ماسوا اسکے جب ہم نظر غور سے دیکھتےؔ ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ نیکوں کی شفاعت سے بدوں کے گناہ بخشے گئے ہیں دیکھو گنتی باب۱۴ ۔ایسا ہی گنتی ۱۲ ۔ استثنا ء ۹۱۹ خروج ۸۸ پھر ماسوا اس کے ہم پوچھتے ہیں کہ آپ نے جو گناہ کی تقسیم کی ہے وہ تین قسم معلوم ہوتی ہے۔ فطرتی۔حق اللہ۔حق العباد تو پھر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حق العباد کے تلف ہونے کا کیا سبب ہو سکتا ہے اور نیز یہ بھی آپ کو دیکھنا چاہیئے کہ فطرتی گناہ آپ کے اس قاعدہ کو توڑ رہا ہے۔ آپ کی توریت کے رو سے بہت سے مقامات ایسے ثابت ہوتے ہیں جس سے آپ کا مسئلہ رحم بلا مبادلہ باطل ٹھہرتا ہے ۔ پھر اگر آپ توریت کو حق اورمنجانب اللہ مانتے ہیں تو حضرت موسیٰ کی وہ شفاعتیں جن کے ذریعہ سے بہت مرتبہ بڑے بڑے گناہ گاروں کے گناہ بخشے گئے نکمی اور بیکار ٹھہرتی ہیں اور آپ کو معلوم رہے کہ قرآن شریف نے اس مسئلہ میں وہ انسب طریق اختیار کیا ہے جو کسی کا اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا یعنی حقوق دو قسم کے ٹھہر ادئیے ہیں۔ ایک حق اللہ اور ایک حق العباد۔ حق العباد میں یہ شرائط لازمی ٹھہرائی گئی ہیں کہ جب تک مظلوم اپنے حق کو نہیں پاتا یا حق کو نہیں چھوڑتا اس وقت تک
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 199
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 199
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/199/mode/1up
وہ حق قائم رہتا ہے اور حق اللہ میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جس طرح پر کسی نے شوخی اور بیباکی کر کے معصیت کا طریق اختیا رکیا ہے ۔ اسی طرح جب وہ پھر توبہ و استغفار کرتا ہے اور اپنے سچے خلوص کے ساتھ فرمانبرداروں کی جماعت میں داخل ہوجاتا ہے اور ہر ایک طور کا درد اور دکھ اٹھانے کیلئے تیار ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کے گناہ کو اس کے اس اخلاص کی وجہ سے بخش دیتا ہے کہ جیسا کہ اس نے نفسانی لذات کے حاصل کرنے کے لئے گناہ کی طرف قدم اٹھایا تھا۔ اب ایسا ہی اس نے گناہ کے ترک کرنے میں طرح طرح کے دکھوں کو اپنے سر پر لے لیاہے۔ پس یہ صورت معاوضہ ہے جو اس نے اپنے پر اطاعت الٰہی میں دکھوں کو قبول کر لیا ہے اور اس کوہم رحم بلامبادلہ ہرگز نہیں کہہ سکتے ۔ کیا انسان نے کچھ بھی کام نہیں کیا کیا یوں ہی رحم ہو گیا اس نے تو سچی توبہ سے ایک کامل قربانی کو ادا کر دیا ہے اور ہر طرح کے دکھوں کو یہاں تک کہ مرنے کوبھی اپنے نفس پر گوارا کر لیا ہے اور جو سزا دوسرے طور پر اس کو ملنی تھی وہ سزا اس نے آپ ہی اپنے نفس پر وارد کر لی ہے تو پھر اس کو رحم بلا مبادلہ کہنا اگر سخت غلطی نہیں تو اور کیا ہے۔ مگر وہ رحم بلا مبادلہ جس کو ڈپٹی صاحب پیش کرتے ہیں کہ گناہ کوئی کرے اور سزا کوئی پاوے ۔ حزقیل باب ۱۸آیت ۱ ۔ پھر حزقیل ۲۰ پھر سموئیل ۲۳ مکاشفات ۱۲ ۲۰ حزقیل ۲۷۔۳۰ ۱۹ یہ تو ایک نہایت مکروہ ظلم کی قسم ہے۔ اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی ظلم نہیں ہو گا ۔ سوائے اس کے (کہ) کیا خدا تعالیٰ کو یہ طریق معانی گناہوں کا صدہا برس سوچ سوچ کر پیچھے سے یاد آیا۔ ظاہر ہے کہ انتظام الٰہی جو انسان کی فطرت سے متعلق ہے وہ پہلے ہی ہوناؔ چاہیئے ۔ جب سے انسان دنیا میں آیا گناہ کی بنیاد اسی وقت سے پڑی ۔ پھر یہ کیا ہو گیا کہ گناہ تو اسی وقت زہر پھیلانے لگا مگر خدا تعالیٰ کو چار ہزار برس گزرنے کے بعد گناہ کا علاج یا د آیا ۔ نہیں صاحب یہ سراسر بناوٹ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جیسے ابتداء سے انسان کی فطرت میں ایک ملکہ گناہ کرنے کا رکھا۔ ایسا ہی گناہ کا علاج بھی اسی طرز سے اسکی فطرت میں رکھا گیا ہے جیسے کہ وہ خود فرماتاہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 200
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 200
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/200/mode/1up
۱(پارہ ۱ ر۱۳)یعنی جو شخص اپنے تمام وجود کو خدا تعالیٰ کی راہ میں سونپ دیوے اور پھر اپنے تئیں نیک کاموں میں لگا دیوے تو اس کو ان کا اجر اللہ تعالیٰ سے ملے گا۔ اور ایسے لوگ بے خوف اور بے غم ہیں ۔ اب دیکھئے کہ یہ قاعدہ کہ توبہ کر کے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا اور اپنی زندگی کو اس کی راہ میں وقف کر دینا یہ گناہ کے بخشے جانے کیلئے ایک ایسا صراط مستقیم ہے کہ کسی خاص زمانہ تک محدود نہیں جب سے انسان اس مسافر خانہ میں آیا تب سے اس قانون کو اپنے ساتھ لایا۔ جیسے اس کی فطرت میں ایک شق یہ موجود ہے کہ گناہ کی طرف رغبت کرتا ہے ایسا ہی یہ دوسرا شق بھی موجود ہے کہ گناہ سے نادم ہو کر اپنے اللہ کی راہ میں مرنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے ۔ زہر بھی اسی میں ہے اور تریاق بھی اسی میں ہے۔ یہ نہیں کہ زہر اندر سے نکلے اور تریاق جنگلوں سے تلاش کرتے پھریں ماسوا اس کے میں پوچھتا ہوں کہ اگر یہ سچ ہے کہ حضرت مسیح کے کفارہ پر ایمان لا کر کوئی شخص خاص طور کی تبدیلی پا لیتا ہے تو اس کا کیوں ثبوت نہیں دیاگیا۔ مَیں نے بار ہا اس بات کو پیش کیا اور اب بھی کرتا ہوں کہ وہ خاص تبدیلی اور وہ خاص پاکیزگی اور وہ خاص نجات اور وہ خاص ایمان اور وہ خاص لقاء الٰہی صرف اسلام ہی کے ذریعہ سے ملتا ہے اور ایمانداری کی علامات اسلام لانے کے بعد ظاہر ہوتی ہیں ۔ اگر یہ کفارہ صحیح ہے اورکفارہ کے ذریعہ سے آپ صاحبان کو نجات مل گئی ہے اور حقیقی ایمان حاصل ہو گیا ہے تو پھر اس حقیقی ایمان کی علامات جو حضرت مسیح ؑ آپ لکھ گئے ہیں کیوں آپ لوگوں میں پائی نہیں جاتیں۔ اور یہ کہنا کہ وہ آگے نہیں بلکہ پیچھے رہ گئی ہیں ایک فضول بات ہے۔ اگر آپ ایماندار کہلاتے ہیں تو ایمانداروں کی علامات جو آپ کیلئے مقرر کی گئی ہیں آپ لوگوں میں ضرور پائی جانی چاہئیں۔ کیونکہ حضرت مسیح کا فرمودہ باطل نہیں ہو سکتا۔ مگرآپ غورؔ سے دیکھیں کہ وہ علامات دینِ اسلام میں ایسے نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں کہ آپ ان کے مقابلہ پر دم بھی تو نہیں مار سکتے میں نے انہیں کے لئے آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ آپ اگر بالمقابل کھڑے نہیں ہو سکتے تو ان علامتوں کو قرآن شریف کی تعلیم کے لحاظ سے پرکھو اور آزماؤ پھر اگر وہ واقعی سچی نکلیں تو راست بازوں کی طرح ان کو قبول کر لو مگر آپ نے بجز ہنسی اور ٹھٹھ کے اور کیا جواب دیا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 201
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 201
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/201/mode/1up
تین لولے ۔ لنگڑے وغیرہ میر ے سامنے کھڑے کر دئے کہ ان کو چنگے کرو۔ حالانکہ ان کا چنگا کرنا عیسائی ایمان کی علامتوں میں سے ہے ۔ ہمارے لئے تو وہ علامتیں ہیں جو قرآن شریف میں آچکی ہیں اور ہمیں کہیں نہیں کہا گیا کہ تم اپنے اقتدار سے علامتیں دکھا سکتے ہوبلکہ یہی کہا گیا کہ خدا تعالیٰ سے درخواست کرو ۔ پھر جس طرح کا نشان چاہے گا دکھلائے گا تو کیا آپ کی یہ بے انصافی نہیں کہ آپ نے مجھ سے وہ مطالبہ کیا جو آپ سے ہونا چاہیئے تھا اور پھر اس کا نام فتح رکھ لیا ۔ مَیں تو اب بھی حاضر ہوں ان شرائط کے مطابق جو ہماری کتاب ہم پر فرض کرتی ہے اور نیز آپ ان شرائط کے مطابق جو آپ کی کتاب آپ پر فرض کرتی ہے میرے سے نشانوں میں مقابلہ کیجئے پھر حق اور باطل خود بخود کھل جائے گا۔ پر ہنسی اور ٹھٹھا کرنا راستبازوں کا کام نہیں ہوتا ہے میرے پر اسی قدر فرض ہے جو قرآن کریم میرے پر فر ض کرتا ہے اور آپ پر وہ فرض ہے جو انجیل آپ پر فرض کرتی ہے رائی کے دانہ کا مقولہ آپ بار بار پڑھیں اور پھر آپ ہی انصاف کر لیں اور یہ رحم بلا مبادلہ کا سوال جو مجھ سے کیا گیا ہے اس کے جواب کا اور بھی حصہ باقی ہے جو پھر میں آپ کے جواب پانے کے بعد بیان کروں گا ۔ مگر آپ پر لازم ہے کہ اول اس سوال کو انجیل سے بموجب شرط قرار یافتہ کے ثابت کر کے مدلل طور پر پیش کریں کیونکہ جو بات انجیل میں نہیں وہ آپ کی طرف سے پیش ہونے کے لائق نہیں۔ میرے خیال میں اس سوال کے رد کرنے کے لئے انجیل ہی کافی ہے اور حضرت مسیحؑ کے اقوال اس کے استیصال کے لئے کفایت کرتے ہیں۔ آپ براہ مہربانی اس التزام سے جو اب الجواب دیں کہ لکھنے کے وقت انجیل کا حوالہ ساتھ ہو تاکہ ناظرین کو پتا لگے کہ انجیل کیا کہتی ہے اور اس سوال کا ذریعہ انجیل بنتی ہے یا دستبردار ہے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح ؔ پریذیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریذیڈنٹ
از جانب اہلِ اسلام از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 202
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 202
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/202/mode/1up
از ؔ طرف ڈپٹی عبد اللہ آ تھم صاحب
۳۰ ؍ مئی ۱۸۹۳ ء
مَیں آپ کے طرز جواب پرکچھ اعتراض کرتا ہوں۔
یہ جواب فرماتے ہیں کہ رحم بلامبادلہ کا مقدمہ سراسر ثبوت الوہیت مسیح کے اوپر مدار رکھتا ہے جس کو تم نے ثابت نہیں کیا۔ میری طرف سے عرض ہے کیا ثبوت آپ مجھ سے طلب فرماتے ہیں۔ میں تو عرض کر چکا ہوں کہ ہم تو اس مسیح کو جو مخلوق اور مرئی ہے اللہ نہیں کہتے مگر مظہر اللہ کہتے ہیں اور اِس بارہ میں دو امر کا ثبوت چاہیئے یعنی ایک امکان کا دوسرا وقوعہ کا اور کہ امکان ہم دلائل عقلی سے ثابت کر تے ہیں اور وقوعہ اس کا کلام الٰہی سے۔ پھر اورکیاآپ چاہتے ہیں وہ ہم پر ظاہر ہونا چاہیئے امکان پر ہم نے یہ عرض کیاتھا کہ کیا خدا قادر نہیں کہ اس ستون میں سے جومٹی واینٹوں کا بنا ہے جواب دیوے ۔ کیا چیز مانع اسکے ایسے کرنے کا اس میں ہوسکتی ہے۔ یعنی کون صفت الٰہی اس میں کٹتی ہے۔ اس کا دکھلانا جناب کے ذمہ تھا جو اب تک ادا نہیں ہوا۔ جیسا میں نے ستون کی مثال دی۔ ویساہی مخلوق میں سے بھی ظہور اس کا ہونا ممکن ہے۔ اور وہ جو بابت وقوعہ کے ہے اسکے واسطے ہم نے کلام کی آیات دی ہیں اگر آپ کو اس کتاب سے انکار ہے کہ یہ الہامی نہیں تو یہ دیگر بات ہے اور اگر ہم نے صحیح حوالہ نہیں دیا تو اِس کا مواخذہ ہم سے فرمائیے مگر کلام کو بھی تسلیم کرنا کہ یہ الہامی ہے اور حوالوں کو صرف اتنا ہی فرماکر گرادینا کہ کچھ نہیں یہ درست نہیں۔
دوم۔ وہ جو جناب نے استفسار کیا ہے کہ وجود مسیح میں آیا دو رُوحیں تھیں یاایک۔ اور ایک وجود میں دو رُوحیں کس طرح سے رہتی ہیں۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ مخلوق کامل مسیح میں ایک روح کامل تھی۔ لیکن خدا تعالیٰ اپنی ہستی سے بجہت اس کے بے حد ہے ہر جگہ اندر و باہر موجودہے۔ اور مظہر اللہ ہونے کے معنے یہ ہیں کہ اپنا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 203
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 203
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/203/mode/1up
ظہور خاص کسی جگہ سے کسی طرح سے کرے۔ تو اس میں دوسری روح کے مقید ہونے کی جسم مسیح میں کونسی ایما ہے اور خالی خدا سے ہونے پر کونسی ایما ہے۔ یہ تو معقولی مسئلہ ہے محتاجؔ کتاب کا نہیں اس میں آپ کس لئے اٹکتے ہیں۔
سوم۔ وہ جوجناب لطیف ضدی کے بارہ میں کشش وزن کی فرماتے ہیں تو اس کشش سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو جناب کثیف ٹھہراتے ہیں اور ہم یہ نہیں مانتے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کثیف ہے لہذا اس میں وزن کیونکر ہو۔ کیونکہ وزن نام کشش کا ہے اور کشش متعلق کثافت کے ہے ۔ آپ ہمارے مسئلہ کثرت فی الوحدت کو سمجھے نہیں کیونکہ ہم ماہیت کو تقسیم نہیں کرتے گو اقانیم کو مخلوط یک دیگر بھی نہیں کرتے۔ مثال ہماری کثرت فی الوحدت کی یہ ہے کہ جیسے صفت نظیری کی بے حدی سے نکلتی ہے اورنکلنا اس کا زمان ومکان کا کچھ فرق نہیں کر تا۔ بلکہ ایک صورت میں وہ ہر دو ایک ہی رہتے ہیں اور دوسری صورت میں بہت ہوتی ایسا ہی تین اقانیم میں اقنوم اولیٰ قائم فی نفسہ ہے ۔ اور دو اقانیم مابعد کے اس ایک کے لازم و ملزوم ہیں آپ تین اقانیم کا وزن تین جگہ کس طرح تقسیم فرماتے ہیں۔ لطیف ضدی کے ساتھ وزن کا علاقہ کیا ہے۔ لطیف ضدی ہم اسکو کہتے ہیں جو عین ضد کثافت پر ہونہ اس کو جو نسبت ایک کی دوسرالطیف ہو۔ جیسے مٹی کی نسبت پانی اور پانی کی نسبت ہوا اور ہوا کی نسبت آگ یہ ساری لطیف نسبتی ہیں اور فی الواقع کثیف ہی رہتے ہیں۔
کلام الٰہی کے بیان کو آپ صرف دعویٰ فرماتے ہیں اور اسکے ثبوت کے واسطے دلیل اور طلب کرتے ہیں تو اس سے یہ مراد آپ کی معلوم ہوتی ہے کہ آپ بابت عقیدہ کلام الٰہی کے یا تو متذبذب ہیں ویا مطلقًا یقین نہیں رکھتے۔ یہ امر طے ہولے تو ہم اس کا بھی جواب دینگے۔
چھارم۔ وہ رحم جو بلامبادلہ کی دلیل پر جناب نے فرمایا ہے کہ عادت اللہ یہی ہے کہ جیسا رحم بلا مبادلہ فرماتا ہے ویسا ہی قہر بھی بلا مبادلہ فرماتاہے۔ چنانچہ وہ جانور معصوم ہو کرمارے جاتے ہیں کوئی کسی کی معیشت کے واسطے اورکوئی اور طرح پر۔ جواب سار ی شکایت اس امر میں دکھ کے اوپر ہے اور دکھ ہماری نظر میں تین قسم کے ہیں یعنی ایک وہ جو سزائیہ ہے دوسرا وہ جو مصقل سُکھ کا ہے۔ تیسرا وہ جو سامان امتحان کا ہے۔ تو جب آپ حیوانوں کے دُکھ سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں یہ قہر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 204
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 204
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/204/mode/1up
بلا ؔ مبادلہ یابلا وجہ ہے خیال فرمائیے کہ آپ کس قدر غلط ہیں۔ جو تین اقسام کو ایک ایک قسم سزا میں ڈالدیتے ہیں اور ما سوا اِس کے جو آپ فرماتے ہیں کہ قہر بھی بلا وجہ ہو سکتا ہے اور رحم بھی بلاوجہ تو خدائے مقدس کی خدا ئی یہ نہ ہوئی بلکہ دہریت کی اندھیر گردی ہوئی۔
پنجم۔ خدا وند مسیح نے ضرور کہا ہے کہ تم گناہوں کو معاف ہی کرتے رہو جو تمہارے برخلاف کریں اور انتقام نہ لو لیکن کلام انجیل میں یہ بھی لکھاہے کہ تم انتقام نہ لو۔ کیونکہ خداوند فرماتا ہے کہ انتقام لینا میرا کام ہے۔
اور چونکہ گناہوں کی اقسام گو کتنی ہی بیان ہوں مگر دراصل گناہ صرف خدا کے برخلاف ہوتا ہے اور وہ فرماتاہے کہ تم انتقام نہ لو اور ضرو رت ہو گی تو مَیں انتقام لوں گا۔ تو بھی اس میں تعلیم کفارہ کے بر خلاف کیا ہوا جس کا گناہ کیاگیا اسی نے ہر ایک کو منتقم اورجج اس کا نہیں بنایا۔
ششم۔ دُنیا وی عدالت نہ حقیقی عدالت کانام ہے محض نظامت کا نام ۔ کیونکہ ہرجہ کو واپس نہیں لاتی مگر جرائم کو رو بہ تنزل کرتی ہے۔ اور نہ دنیاوی شفاعت شفاعت کانام ہے بلکہ ایک مہلت طلبی کا نام ہے کیونکہ خدا وند کو اختیار ہے کہ گناہگار کو اس کے گناہوں میں یہاں ہی کاٹ ڈالے لیکن اپنے محبوبوں کی درخواست پر وہ مہلت توبہ کی بخش سکتا ہے۔ جو شفیع منصبی نہیں ہیں ان کا جواب ہم ادا کر چکے ہیں مگر بموجب اذن خدا کے مہلت بخشوانے کی شفاعت ہو سکتی ہے کہ مہلت بخشی جاوے کہ توبہ کرلے۔ فرائض ہمارے نزدیک دو ہی قسم کے اقسام ماتحت میں ہیں لیکن اصل میں ایک ہی قسم ہے جیسا کہ داؤد نبی فرماتا ہے کہ مَیں نے تیرا ہی گناہ کیا۔ پس حق العباد کا گناہ تو اسمیں آگیالیکن فطرتی گناہ شاید آپ موروثی گناہ کو فرماتے ہیں لیکن گناہ موروثی کے بارہ میں ہماری غرض یہ ہے کہ آدم کے گناہ میں گرنے کے باعث آدمزاد کاامتحان سخت تر ہوگیا کہ جسم میں تکالیف پیدا ہو ئیں اور موت ڈراؤنی ٹھہر گئی۔ اِن معنوں کر کے اِس کو آدم کا گناہ کہا جاتاہے ورنہ جیسا آپ نے حزقیل نبی کا حوالہ دیا وہی صحیح ہے کہ جو رُوح گناہ کرے گی وہی مرے گی۔ باپ دادوں کے انگور کھٹے کھائے ہوئے اولاد کے دانت کھٹے نہیں کریں گے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 205
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 205
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/205/mode/1up
ھفتمؔ ۔ جس منصوبہ کو جناب مکر وہ فرماتے ہیں کہ گناہ کوئی کرے اور سزاکوئی بھرے اس کا جواب یہ ہے کہ کیا دُنیا میں ایک شخص کا قرضہ دُوسرا اپنی دَولت سے نہیں ادا کر سکتا۔ ہاں ایک گناہگار دوسرے کے گناہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ وہ اپنے ہی گناہوں سے فارغ نہیں جیسا کہ جو خود قرضدار ہے وہ دوسرے کے قرضہ کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ پس یہ کراہت مسیح کے کفارہ میں کہاں سے آئی جو گناہگار نہ تھا اور ذخیرہ نجات میں غنی جس کو اس نے اپنے کفارہ سے پَیداکیاتھا۔
ھشتم۔ خداوند تعالیٰ نے اس نقشہ امتحان میں ہم کو یہ صورت دکھلائی ہے کہ امتحان اعمالی جو ایک ہی خطاپر ختم ہو جاتا تھا اور مہلت توبہ کی نہ دیتا تھا وہ موقوف کیا گیا بوسیلہ کفارہ مسیح کے بجائے اِسکے امتحان ایمانی قائم کیاگیا کہ جس میں بہت سی فرصت توبہ کی مل سکتی ہے۔ پس جو خدا وند میں مقبول ہیں وہ بھی اِس دُنیا میں امتحان ایمانی سے بَری نہیں ہوئے۔ لیکن اِس کے خاتمہ کا دن نزدیک ہے اور جب وہ آئے گا تو اس وقت انسان کامل نجات کو دیکھے گا۔ فی الحال اس اطمینان ہی کو دیکھتا ہے جو صادق کے وعدہ پر کوئی منتظر تاج و تخت کا ہو۔ جناب جو فرماتے ہیں ہم کو کوئی ایسا شخص دکھلاؤ جو نجات یافتہ ہو اِس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نجات جناب کسی ایسی چیز کو کہتے ہیں جیسے بڑا ڈھیلاآنکھوں سے محسوس ہوتا ہے۔ مگر اطمینان کی تو یہ شکل نہیں بلکہ وہ شکل ہے کہ جیسے ایک نوکد خدا لذتِ زفاف کو بیان نہیں کر سکتی لیکن حقیقت میں اُسکو عزیز سمجھتی ہے۔
نہم۔ جن امور کی یہ بار بار کشش ہوتی ہے کہ آپ بموجب آیات انجیلی کے معجزہ دِکھلاؤ ہمارا جواب یہ ہے کہ ہم بار بار ان مقامات کی شرح حقیقی دکھلاچکے۔ اگر جناب پھر اسی سوال کا تکرار کریں اور ہماری شرح کو ناقص نہ دکھلاسکیں تو انصاف کس کے گھر کے آگے ماتم کر رہا ہے اس کو منصف طبع آپ پہچان لیں گے۔ اَب ہمارا سوال جہاں کا تہاں موجود ہے کہ رحم بلا مبادلہ ہرگز جائز نہیں۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 206
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 206
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/206/mode/1up
نواںؔ پرچہ
روئیدادجلسہ مباحثہ۳۱۔ مئی ۱۸۹۳ ء
مرزاصاحب نے ۶ بجے ۶ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۶ منٹ پر ختم کیا اور بعد مقابلہ بلند آواز سے سُنایاگیا۔
مِسٹر عبد اللہ آتھم صاحب نے ۷ بجے ۵۲ منٹ پر شروع کیا اور ۸ بجے ۵۲ منٹ پر ختم کیا اور سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۶ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰ بجے ۲۶ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایاگیا۔ بعد ازاں مینجر نیشنل پریس کی درخواست پیش ہوئی کہ اُسے مباحثہ چھاپنے کی اجازت دی جائے۔ قرار پایا کہ اُسے اجازت دی جائے اِس شرط پر کہ وہ اُسی طرح مباحثہ چھاپے جس طرح کہ منیجر ر یاض ھند پریس چھاپ رہا ہے۔ یعنی بلا کمی و بیشی فریقین کی تحریریں باترتیب چھاپے۔ اِس کے بعد تحریروں پر میر مجلسوں کے دستخط ہوئے اور جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحرو ف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک
از جانب اہل اسلام از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 207
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 207
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/207/mode/1up
بیانؔ حضرت مرزا صاحب
۳۱ ۔ مئی ۱۸۹۳ ء
ڈپٹی صاحب کا کل کا سوال جو ہے کہ رحم بلا مبادلہ ہرگز جائز نہیں آج کسی قدر اس کاتفصیل سے جواب لکھا جاتا ہے۔ واضح ہو کہ رحم بلا مبادلہ میں عیسائی صاحبوں کا یہ اصول ہے کہ خدا تعالےٰ میں صفت عدل کی بھی ہے اور رحم کی بھی ۔ صفت عدل کی یہ چاہتی ہے کہ کسی گناہگار کو بغیر سزاکے نہ چھوڑا جائے۔ اور صفت رحم کی یہ چاہتی ہے کہ سزا سے بچایاجائے اورچونکہ عدل کی صفت رحم کرنے سے روکتی ہے اِس لئے رحم بلا مبادلہ جائز نہیں۔
اورمسلمانوں کا یہ اصول ہے کہ رحم کی صفت عام اور اول مرتبہ پر ہے جو صفت عدل پر سبقت رکھتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱س۹ ر ۹۔پس اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے۔ اور غضب یعنی صفت عدل بعد کسی خصوصیت کے پَیدا ہوتی ہے یعنی یہ صفت قانون الٰہی سے تجاوز کرنے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے اور اِسکے لئے ضرور ہے کہ اوّل قانون الٰہی ہو۔ اور قانون الٰہی کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا ہو اور پھر یہ صفت ظہور میں آتی ہے اور اپنا تقاضا پورا کرناچاہتی ہے۔ اورجب تک قانون نہ ہو یاقانون کی خلاف ورزی سے گناہ پیدا نہ ہو مثلًا کوئی شخص قانون الٰہی کے سمجھنے کے قابل نہ ہو ۔ جیسے بچّہ ہو یا دیوانہ ہو یا قِسم حیوانات سے ہو اُس وقت تک یہ صفت ظہور میں نہیں آتی ہاں خداتعالیٰ اپنی مالکیت کی وجہ سے جو چاہے سو کرے کیونکہ اُس کا اپنی ہر ایک مخلوق پر حق پہنچتا ہے تو اَب اِس تحقیق سے ثابت ہوا کہ عدل کو رحم کے ساتھ کچھ بھی علاقہ نہیں رحم تو اللہ تعالےٰ کی ازلی اوراوّل مرتبہ کی صفت ہے جیسا کہ حضرات عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 208
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 208
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/208/mode/1up
بھی اس بات کا اقرار رکھتے ہیں کہ خدا محبت ہے۔ کہیں یہ نہیں لِکھا کہ خد ا غضب ہے یعنی عدل ہے اور غضب کا لفظ عدل کے لفظ سے اِس لئے مترادف اورؔ ہم معنی ہے کہ خدا تعالیٰ کا غضب انسانوں کے غضب کا سانہیں کہ بلا وجہ اور یا چڑنے کے طورپر ظہور میں آجائے بلکہ وہ ٹھیک ٹھیک عدل کے موقعہ پر ظہور میں آتا ہے۔ اَب یہ دوسرا سوال ہے کہ جو شخص قانون الٰہی کی خلاف ورزی کرے اِس کی نسبت کیا حکم ہے تو اِسکا یہی جواب ہو گا کہ اس قانون کی شرائط کے مطابق عمل کیا جاوے گا۔ رحم کو اس جگہ کچھ تعلق نہیں ہوگا۔ یعنی رحم بلا مبادلہ کے مسئلہ کو اِس جگہ کچھ تعلق نہیں ہوگاکیونکہ گناہ کی فلاسفی یہی ہے کہ وہ قانون الٰہی کے توڑنے سے پَیدا ہوتا ہے پس ضرورہوا کہ پہلے قانون موجود ہو مگر قانون تو کسی خاص زمانہ میں موجودہوگااس لیے خداتعالیٰ کاعدل اس کے رحم کے دوش بدوش نہیں ہوسکتا بلکہ اس وقت پیداہوتا ہے کہ جب قانون نفاذپا کر اورپھر پہنچ کر اُس کی خلاف ورزی کی جائے۔ پس واضع قانون کو یہ عام اختیار ہے کہ جس طرح چاہے اپنے قانون کی خلا ف ورزی کی سزائیں مقرر کرے اور پھر ان سزاؤں کے معا ف کرنے کیلئے اپنی مرضی کے مطابق شرائط اورحدود ٹھہرائے لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ اب یہ مسئلہ رحم بلا مبادلہ کی مزاحمت سے اور صورت میں ہو کر بالکل صاف ہے ہاں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں یا طریق معافی کے مقرر کئے گئے ہیں یہ کس مذہب کی کتاب میں انسب و اولیٰ اور قرین بانصاف ہیں۔ اور اِس خوبی کے دیکھنے کے لئے رحم کالحاظ رکھنا بہت ضرور ی ہو گا۔ کیونکہ ابھی ہم ثابت کر چکے ہیں کہ رحم اصلی اورعام اور مقدم صفت ہے پس جس قدر کسی مذہب کا طریق سزا اور طریق معافی رحم کے قریب قریب ہو گا وہ انسب اور اولیٰ مذہب سمجھا جائے گا کیونکہ سزا دہی کے اصول اورقوانین میں حد سے زیادہ تشدّد کرنا اورایسی ایسی پابندیاں لگا دینا جو خود رحم کے برخلاف ہیں خداتعالیٰ کی صفات مقدسہ سے بہت دور ہیں سو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 209
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 209
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/209/mode/1up
اب منصف لوگ دیکھ لیں کہ قرآن کریم نے معافی کا کیا طریق ٹھہرایا اورانجیل شریف کے رو سے معافی کا کیا طریق بیان کیاجاتا ہے سو واضح ہو کہ قرآن کریم کی ہدایتیں کسی شخص کی معافی کے لئے کوئی بے جا تشدّد اورکوئی اصول جو ظلم تک منجر ہو بیان نہیں فرماتیں صرف اصلی اور طبعی طور پر یہ فرماتی ہیں۔ کہ جو شخص قانونؔ الٰہی کے توڑنے سے کِسی جرم کاارتکاب کرے۔ تو اس کے لئے یہ راہ کھلی ہے کہ وہ سچی توبہ کرکے اور اُن قوانین کی صحت اورحقّانیت پر ایمان لا کر پھر سر نو جدّ و جہد سے اِن قوانین کا پابند ہوجائے یہاں تک کہ ان کے راہ میں مَرنے سے بھی دریغ نہ کرے۔ ہاں یہ بھی لکھا ہے کہ شفاعت بھی مجرموں کے لئے فائدہ بخش ہے مگر خدا تعالیٰ کے اذن سے اور اعمال حسنہ بھی گناہوں کا تدارک کرتے ہیں اور ایمانی ترقی بھی اور نیز محبت اور عشق بھی گناہوں کے خس و خاشاک کو آگ کی طرح جلا دیتی ہے لیکن حضرات عیسائی صاحبوں کے اصول میں اوّل الدن دردی یہ ہے کہ گناہوں کی معافی کے لئے ایک بے گناہ کا مصلوب ہونا لازمی اور ضرور ی سمجھا گیاہے اب عقلمند منصف خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ ہر ایک جھگڑے اور تنازعہ کے فیصلہ کے لئے خدا تعالیٰ کا قانون قدرت موجود ہے یہ قانون قدرت صاف شہادت دے رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کا رحم بلامبادلہ قدیم سے جاری ہے جس قدر خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کر کے اور طرح طرح کی نعمتیں اِنسانوں کو بخش کر اپنا رحم ظاہر کیا ہے۔ کیا اِس سے کوئی انکار کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ ۱س ۱۳ ر ۱۷ ۔ یعنی اگر تم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو ہرگز گن نہیں سکتے۔
ایسا ہی اسکی رحیمیت یعنی کسی نیکی کی پاداش میں جزادینا قانون قدرت سے صاف ثابت ہو رہا ہے کیونکہ جو شخص نیک راہوں پر چلتا ہے وہ ان کا نتیجہ بھگت لیتا ہے۔ ایسا ہی اس کی مالکیت بھی قانون قدرت کے روسے ثابت ہو رہی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 210
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 210
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/210/mode/1up
کل بیان کیا تھا کہ کروڑہا جانور انسان کے فائدہ کے لئے ہلاک کئے جاتے ہیں ۔ اورنیز تورات سے ثابت ہے کہ حضرت نوح کے طوفان میں بجز چند جانوروں کے باقی تمام حیوانات طوفان سے ہلاک کئے گئے۔ کیا ان کا کوئی گناہ تھا کوئی نہ تھا۔ صرف مالکیت کا تقاضا تھا۔ اور یہ بات کہ گناہ قانون سے پیدا ہوتا ہے یہ اِس آیت سے صاف ثابت ہے ۱س۱ر۴۔یعنی جو لوگ ہماری کتاب پہنچنے کے بعد کفر اختیار کریں اورتکذیب کریں وہ جہنمؔ میں گرائے جائیں گے۔ اور پھر خداتعالیٰ کا توبہ سے گناہ بخشنا اِس آیت سے ثابت ہے۔ ۲ س۲۴ر۶۔ اور خدا تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیت اِن آیات سے ثابت ہے۔۳ اوربقیہ جوابات ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب کے ذیل میں لکھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح کی رُوح مخلوق تھی اورجسم بھی مخلوق تھا اور خدا تعالیٰ اِس طرح اُن سے تعلق رکھتا تھا جیسا کہ وہ ہرجگہ موجود ہے یہ فرمانا ڈپٹی صاحب کا مجھے سمجھ نہیں آتا جبکہ حضرت مسیح نرے انسان ہی تھے اوران میں کچھ بھی نہیں تھا تو پھر خدا تعالیٰ کاتعلق اورخدا تعالیٰ کا موجودہونا ہر ایک جگہ پایاجاتا ہے پھر باوجود اس کے آپ اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ حضرت مسیح مظہر اللہ ہیں۔ مَیں سوچتا ہوں کہ یہ مظہر اللہ کیسے ہوئے اِس سے تو لازم آیا کہ ہر ایک چیز مظہراللہ ہے۔ پھر میر ایہ سوال ہے کیایہ مظہر اللہ ہونا رُوح القدس کے نازل ہونے سے پہلے ہوا یارُوح القدس کے پیچھے ہوا۔ اگر پیچھے ہوا تو پھر آپ کی کیا خصوصیّت رہی۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ ہم یہ نہیں مانتے کہ خدا تعالیٰ کی ذات کثیف ہے لہٰذا اس میں وزن کیونکر ہو۔ میرا جواب ہے کہ بیٹا یعنی حضرت عیسیٰ کا اقنوم مجسم ہونا ثابت ہے کیونکہ لکھا ہے کہ کلام مجسّم ہوا اوررُوح القدس بھی مجسم تھا کیونکہ لکھا ہے کہ کبوتر کی شکل میں اترا اور آپ کا خدا بھی مجسم ہے کیونکہ یعقوب سے کشتی کری اور دیکھابھی گیا اور بیٹا اِس کے دہنے ہاتھ جا بیٹھا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 211
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 211
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/211/mode/1up
پھر آپ اپنی کثرت فی الوحدت کا ذکر کرتے ہیں مگر مجھے سمجھ نہیں آتا ۔ کہ کثرت حقیقی اور وحدت حقیقی کیونکر ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں اور ایک کو اعتباری ٹھہرانا آپ کا مذہب نہیں اِس جگہ مَیں یہ بھی پوچھتا ہوں کہ حضرت مسیح جو مظہر اللہ ٹھہرائے گئے وہ ابتدا سے اخیر وقت تک مظہر اللہ تھے اور دائمی طور پر اُن میں مظہریت پائی جاتی تھی یا اتفاقی اور کبھی کبھی اگر دائمی تھی تو پھر آپ کو ثابت کرناپڑے گا کہ حضرت مسیح کا عالم الغیب ہونا اور قادر وغیرہ کی صفات اُن میں پائے جانا یہ دائمی طورپر تھا حالانکہ انجیل شریف اس کی مکذّب ہے۔ مجھے بار بار بیان کرنے کی حاجت نہیں۔
اِس جگہ یہ بھی مجھے پوچھنا پڑا کہ جس حالت میں بقول آپ کے حضرت مسیح میں دو روحیں نہیںؔ صرف ایک روح ہے جو انسان کی روح ہے جس میں الوہیت کی ذرہ بھی آمیزش نہیں۔
ہاں جیسے خدا تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اورجیسے کہ لکھا ہے کہ یوسف ؑ میں اس کی روح تھی حضرت مسیح ؑ کے ساتھ بھی موجود ہے۔ تو پھر حضرت مسیح اپنی ماہیّت ذاتی کے لحاظ سے کیونکر دُوسرے اقنوم ٹھہرے اوریہ بھی دریافت طلب ہے کہ حضرت مسیح کا آپ صاحبو ں کی نظر میں دُوسرا اقنوم ہونا یہ دَوری ہے یا دائمی ۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ وہ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم انتقام نہ لومَیں تعجب کرتا ہوں کہ انتقامی شریعت یعنی توریت تو خود آپ کی مسلمات میں سے ہے پھر کیونکر آپ انتقام سے گریز کرتے ہیں اور اِس بات کا مجھے ابھی تک آپ کے منہ سے جواب نہیں ملا کہ جس حالت میں تین اقنوم صفات کاملہ میں برابر درجہ کے ہیں تو ایک کامل اقنوم کے موجود ہونے کے ساتھ جو جمیع صٖفات کاملہ پر محیط ہے اور کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں کیوں دوسرے اقنوموں کی ضرورت ہے۔ اور پھر ان کاملوں کے ملنے کے بعد یا ملنے کے لحاظ سے جو اجتماعی حالت کا ایک ضروری نتیجہ ہونا چاہیئے وہ کیوں اِس جگہ پَیدانہیں ہوا۔ یعنی یہ کیا سبب ہے کہ باوجودیکہ ہر ایک اقنوم تمام کمالات مطلوبہ الوہیت کا جامع تھا پھرا ن تینوں جامعوں کے اکٹھاہونے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 212
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 212
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/212/mode/1up
سے الوہیت میں کوئی زیادہ قوت اور طاقت نہ بڑھی اگر کوئی بڑھی ہے اور مثلًا پہلے کامل تھی پھر ملنے سے یاملنے کے لحاظ سے اکمل کہلائے یا مثلًا پہلے قادر تھی اور پھر ملنے کے لحاظ سے اقدر نام رکھا گیا۔ یاپہلے خالق تھی اور پھر ملنے کے لحاظ سے خلّاق یااخلق کہا گیا۔ تو براہ مہربانی اس کا کوئی ثبوت دینا چاہیئے آپ کثیف جسموں کی طرف تو ناحق کھینچ کر لے گئے۔ مَیں نے تو ایک مثال دی تھی اور پھر وہ مثال بھی بفضلہ تعالیٰ آپ ہی کی کتابوں سے ثابت کر دِکھائی اور آپ کے یہ تمام بیانات بڑے افسوس کے لائق ہیں کیونکہ ہماری شرط کے مطابق نہ آپ دعویٰ انجیل کے الفاظ سے پیش کرتے ہیں اورنہ دلائل معقولی انجیل کے رو سے بیان فرماتے ہیں بھلا فرمائیے کہ رحم بلا مبادلہ کا لفظ انجیل شریف میں کہاں لکھا ہے اور اسکے معنے خود حضرت مسیح کے فرمودہ سے کب اورکس وقت آپ نے بیان فرمائے ہیں اِس عہد شکنی پر جس قدر اہل انصاف افسوس کریں وہ تھوڑا ہے۔ اورؔ کل جو مَیں نے قہر بلامبادلہ کا ذکر کیاتھا اس کا بھی آپ نے کوئی عمدہ جواب نہ دیا میرا مطلب تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفت مالکیت بغیر دیکھنے گناہ کے بجائے خود کام کر رہی ہے۔ مثلًا انسان کے بچوں کو دیکھو کہ صدہا صعب اور شدید اور ہولناک بیماریاں ہوتی ہیں اور بعض ایسے غرباء اور مساکین کے گھر میں پَیدا ہوتے ہیں کہ دانت نکلنے کے ساتھ طرح طرح کے فاقہ کو اٹھانا پڑتا ہے پھر بڑے ہوئے تو کسی کے سائیس بنائے گئے۔ اور دوسری طرف ایک شخص کسی بادشاہ کے گھر میں پَیدا ہوتا ہے پَیدا ہوتے ہی غلام اورکنیزکیں اور خادم دست بدست گود میں لئے پھرتے ہیں۔ بڑا ہو کر تخت پر بیٹھ جاتاہے۔ اِس کا کیا سبب ہے۔ کیا مالکیت سبب ہے یا آپ تناسخ کے قائل ہیں پھر اگرمالکیت ثابت ہے اور خدا تعالیٰ پر کسی کا بھی حق نہیں تو اتنا جوش کیوں دکھایاجاتاہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ موسیٰ کی شفاعتیں حقیقی شفاعتیں نہیں تھیں بلکہ ان پرمواخذہ قیامت کی پخ لگی ہوئی تھی اور گو خداتعالیٰ نے سرسری طور پر گناہ بخش دیئے اور کہدیا کہ مَیں نے موسیٰ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 213
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 213
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/213/mode/1up
کی خاطر بخش دئیے۔ لیکن اصل میں نہیں بخشے تھے پھر پکڑے گا اور چِڑ کرنے والوں کی طرح ناراض ہو کر جہنم میں ڈالے گا اِس کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے براہ مہربانی وہ ثبوت پیش کریں مگر توریت کے حوالہ سے جہاں یہ لکھا ہو کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ گو مَیں نے آج اِس نافرمانی کو بخش دیا مگر کل پھر مَیں مواخذہ کروں گا اِس جگہ آپ کی تاویل منظور نہیں ہو گی۔ اگر آپ سچ پر ہیں تو توریت کی آیت پیش کریں کیونکہ توریت کے کئی مقامات میں جوہم پیچھے سے لکھادیں گے۔ یہی صاف صاف لکھا ہے کہ خداتعالیٰ بعض نافرمانیوں کے وقت حضرت موسیٰ کی شفاعت سے ان نافرمانیوں سے درگذرکرتا رہا بلکہ بخش دینے کے الفاظ موجود ہیں۔ گنتی۱۴و ۱۲ استثنا ۹۱۹ سے ۲۲خروج ۸۸ پھر آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح کا دوسرے گناہگاروں کے عوض میں مصلوب ہونا قانون قدرت کے مخالف نہیں ایک شخص کاقرضہ دوسرا اپنی دَولت سے ادا کرسکتا ہے یہ آپ نے خوب ہی مثال دی ہے۔ پوچھا تو یہ گیا تھا کہ کیا ایک مجرم کے عوض میں دوسراشخص سزایاب ہو سکتا ہے ۔ اِس ؔ کی نظیر دُنیا میں کہاں ہے۔ آجکل انگریزی قوانین جو بڑی جستجو اور تحقیق اور رعایت انصاف سے بنائے جاتے ہیں کیا آپ نے جو ایک مدّت تک اکسٹرا اسسٹنٹ رہ چکے ہیں تعزیرات ہند وغیرہ میں کوئی ایسی بھی دفعہ لکھی ہوئی پائی ہے کہ زید کے گناہ کرنے سے بکر کو سُولی پر کھینچنا کافی ہے۔ (باقی آئندہ)
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 214
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 214
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/214/mode/1up
بیان ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
۳۱۔ مئی ۱۸۹۳ ء
جناب کا یہ فرمانا کہ رحم اوّل اورفائق درجہ پر ہے برخلاف بداہت ۷۵۳ کے ہے کیونکہ بداہت یہ حکم کرتی ہے کہ کوئی صفت کسی دوسری صفت سے کم نہیں بجائے خود ہر ایک پورامرتبہ رکھتی ہے۔یہ جناب نے حق فرمایا ہے کہ جب تک قانون کسی تک نہ پہنچے۔ وہ قانون شکن نہیں کہلاسکتا اور گناہ اس پر عائد نہیں ہوتا اِسی واسطے وہ بچے جو ماہیت گناہ سے واقف نہیں اور دیوانہ مادر زاد گناہ نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اگر کوئی شخص ماہیت کسی گناہ کی نہ جانتا ہو اور وہ اُس سے سرزد ہووے۔ مواخذہ عدل میں نہ آوے گا۔اور اس کا وہ فعل گناہ نہ تصور کیاجائے گا۔ خدا اپنی مالکیت کی وجہ سے خواص اپنی صفات کے برخلاف اگر کچھ مالکیت جتائے تو سارا نقشہ اس کی قدوسی کا درہم برہمؔ ہوجاتاہے۔ لہٰذا یہ صحیح نہیں کہ مالکیت کی وجہ سے جو چاہے سو کرے حتّٰی کہ ظلم تک۔ نیز عدل کو رحم سے اِس طرح کا علاقہ تو نہیں کہ جو رحم ہے وہ عدل نہیں اور جو عدل ہے وہ رحم نہیں۔ لیکن یہ ہر دو صفات واحد و اقدس خد ا کی ہیں۔ خدا غضب بے جا ہے یہ تو کلام الٰہی میں ہو نہیں سکتا مگر اس کو بھسم کرنے والی آگ بھی لکھا ہے جو گناہگاروں کو بھسم کرتی ہے۔ استثنا۴۲۴ قانون فعل مقنن ہے اور فعل
ضرور ہے کہ اپنے فاعل سے بعد میں ہو لیکن عدل جو قانون بناتا ہے قانون جس کا فعل ہے ازلی و ابدی صفت ہے وہ عارضی طور سے پیدا نہیں ہوئی اور نہ وہ عارضی طرح سے جاسکتی ہے۔ اور یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ عدل اسکو کہا جائے کہ ہر جہ باقی رہ جائے اور گنہ گار رہا ہوجائے واضح رہے کہ دنیا کی عدالت عدالت نہیں مگر نظامت کانام ہے کہ جس کا منشا یہ ہے کہ جرائم رو بہ تنزّل رہیں نہ یہ کہ سزا کامل ہو جائے کیا ایک قاتل کو پھانسی دینے سے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 215
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 215
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/215/mode/1up
مقتول جی اٹھتا ہے۔ اور اگر قاتل کو پھانسی دیں گے تو مقتول کو اس سے کیا ہے۔ خدا وند کی عدالت ایسی نہیں بلکہ یہ ہے کہ جب تک وہ ہرجہ گناہ واپس نہ ہو معاوضہ کی سزا سے بھی رہائی نہ ہووے۔
دوم۔ جو آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم نے معافی کا کیا طریق ٹھہرایا ہے ۔ اوّل تو آپ کا یہ کہنا ہی جائز نہیں اِس لئے کہ واحد خدا کی یہ ہر دوکلام ہو کر متبائن طریقہ نہیں بتا سکتی کہ اعمال حسنہ ادائے قرضہ کی صورت ہیں کیونکہ یہ فرض عین ہے کہ ہم اعمال حسنہ کریں۔ لیکن یہ بڑی ایک تعجب کی بات ہے کہ ادائے جزو کو کل پر حاوی تصوّر کر کے وہ قرضہ بیباق سمجھاجاوے جیسا کہ ایک شخص کو سو روپیہ کسی کے دینے ہیں اور اس میں سے پچیس روپیہ دے کر یہ کہے کہ تیرا حساب بیباق ہوا۔ کوئی عقلمند اس امر کو مانے گا کہ ادائے جز کا حاوی بر کل ہے لہذا اعمال حسنہ کا ذکر آپ تب تک نہ کریں جب تک آپ یہ نہ ثابت کر لیں کہ کوئی اعمالوں کے ذریعہ سب قرضہ ادا کر سکتاہے یعنی بے گناہ مطلق رہ سکتا ہے۔ توبہ اور ایمان بیرونی پھاٹک نجات کے ضرور ہیں جیسا کہ کوئی بغیر ان کے نجات میں داخل نہیں ہو سکتا لیکن پھاٹک اندرونہ شے کا نہیں ہو سکتا کیا اگر ہم ایک مکّھی کو مار کر سَو توبہ کریں وہ جی اُٹھتی ہے اورؔ ایمان کی بابت میں اگر ہم ایمان لاویں کہ خدائے قادر اس کو پھر جلا دے سکتا ہے یہ کچھ امکان سے بڑھ کر وقوعہ ہوجاتا ہے۔ محبت و عشق فرائض اِنسانی میں ہیں ان کا ذکر اعمال حسنہ میں آچکا۔ اور ضرور نہیں۔
سوم۔ یہ آپ صریح غلط فرماتے ہیں کہ قانون قدرت خدا تعالیٰ کا کہ رحم بلا مبادلہ قدیم سے جاری ہے۔ ہماری فطرت میں اِس امر کو صدا قت اولیٰ کر کے ثبت کیا گیا ہے کہ جو کسی کا کوئی ہرجہ کریگا اسکو معاوضہ اس کا دینا پڑیگا۔ مخلوق کاہر زمان اطاعت اللہ کے واسطے رکھا گیا ہے اور وہ بغاوت میں اگر گناہ کے کٹے تو اس وقت کا ہرجہ اس کو بھرنا پڑے گا۔ اور اس کا معاوضہ یہی ہے کہ روبابدرواں سزا میں گرفتار رہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 216
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 216
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/216/mode/1up
چہارم۔ مَیں نے کل بھی عرض کیا تھا کہ دُکھ تین قسم کے ہیں یعنی ایک وہ جس کو سزائیہ کہتے ہیں۔ جس کے معنے معاوضہ ہرجانہ کے ہیں اور جس کی حد یہ ہے کہ جب تک وہ ہرجہ ادا نہ ہو ہرجہ رساں کی رہائی بھی نہ ہو۔ دُوسری قسم مصقل سُکھ کی ہے جس سے میری مُراد یہ ہے کہ محتاج بالغیر علم کسی شے کا بغیر مقابلہ ضد اس کی کے۔ صاف نہیں پاتا۔ جیساکہ اندھا مادرزاد سفیدی کو تونہیں جانتا مگر تاریکی کو بھی بخوبی نہیں پہچانتا۔ گو وہ ہمیشہ اسکے سامنے ہے۔ ایسا ہی اگر آدمی کو بہشت میں بھیجا جائے اور مقابلہ کے واسطے اس نے کبھی دکھ نہ دیکھا ہو تو بہشت کی قدر و عافیت نہیں جانتا۔ تیسرا دکھ امتحان کا ہے یعنی اعمال بالقوہ کو بفعل لوانے کے واسطے باختیار اس شخص کے کہ جس کے وہ فعل ہیں ضرور ہے کہ اسکو ایسی دوشے کے درمیان رکھا جائے جو مساوی یک دگر ہوں و ضد فی الحاصل درآن واحد ہوں کہ جن میں سے احدی کارویا قبول کرنا بغیر توڑ اور دُکھ کے نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ تین اقسام صحیح ہیں تو آپ کا کیا حق ہے کہ جو جاندار دُنیا میں دُکھ پاتے ہیں ان کے دُکھ کو سزائیہ ہی قرار دیں۔
پنجم ۔جناب کا اِس امر کا نہ سمجھنا کہ مسیح میں خصوصیت ظہور کی کیا ہے جبکہ ہر شے مظہر الٰہی ہے اِس کا جواب عرض کرتا ہوں کہ خصوصیت یہ ہے کہ مسیح کے علاقہ سے اللہ تعالےٰ نے کفارہ کاکام پورا کرایا۔ خداتعالیٰ دُکھ اٹھانے سے بری مطلق ہے۔ مخلوق ؔ سب کا بوجھ اٹھاکر باقی نہیں رہ سکتا۔ یہاں پر خدا تعالیٰ نے یہ کیا کہ پاک انسان نے سب بوجھ اپنے سر پر اٹھایا اور اقنوم ثانی الوہیت کے لئے اس کو اٹھوایا اور یوں وہ دکھ پناہ ہوا۔ کیونکہ اس موقعہ پر مقابلہ روبا بدروان سزا کا ساتھ ازلی و ابدی اقنوم ثانی کے ہوا۔ یہ خصوصیت مظہریت کی اور کہاں ہے۔ آپ ہی اس کو دِکھلاویں اور اس خصوصیت کو مسیح میں ہماری زبانی آپ قبول نہ کریں مگر تا وقتیکہ بائیبل کو آپ ردّ نہ کریں تو آپ کا حق نہیں کہ اِس پر عذر کریں کہ کیا مسیح کا معجزہ ہی پَیدا ہونا ماراجانا جی اٹھنا اور صعود کرنا آسمان پر۔ ان کے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 217
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 217
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/217/mode/1up
بھی کچھ معنے ہیں یانہیں جناب ہی فرماویں اورجبکہ لکھا ہے کہ خون بہانے بدوں نجات نہیں عبرانی ۹۲۲ و احبار ۷۱۱ اورکہ ساری قربانیاں توریت کی اسی پر ایما کرتی ہیں اور پھر لکھا ہے کہ آسمان کے نیچے دُوسرا نام نہیں دیاگیا کہ نجات ہو اعمال ۴۱۲ ۔ ان سب باتوں کے جناب کچھ معنے فرماویں اورایسے ہی سرسری بے جواب گذار نہ فرماویں۔
ششم ۔ جناب جو پُوچھتے ہیں کہ مظہر اللہ مسیح بعد نزول روح القدس کے ہوئی یا مابعد اسکے۔ ہمارا اِس جگہ پر جواب قیاسی ہے۔ رُوح القدس کے نازل ہونے کے وقت ہوئی کلام الٰہی میں اس کا وقت کوئی معین نہیں ہوا۔ خصوصیت کا انحصال آگے اور پیچھے مظہر اللہ ہونے پر کیا ہے جناب نے اِس امر کو مشرح نہیں فرمایا۔ اِسی لئے ہم اور زیادہ جواب نہیں دے سکتے۔
ہفتم۔ اگرچہ ہر سہ اقانیم کا مجسّم ہونا آپ نے بہت صحیح نہیں فرمایا لیکن تاہم مجسّم ہونے سے وہ وزنی ہو جاتے ہیں جیساکہ آپ نے یہ کہا ہے کہ برائے مثال ہر ایک تین تین سیر کا اقنوم ہو توجملہ اس کا نو سیر ہوتا ہے۔
ہشتم۔ توحید فی التثلیث کی تعلیم میں ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ایک ہی صُورت میں واحد اور ایک ہی صورت میں تثلیث ہے بلکہ ہمارا ماننا یہ ہے کہ ایک صورت میں ایک اور دُوسری صورت میں تین ہیں۔ اور جب ہم نے عرض کیا کہ ان تین میں اس قسم کا علاقہ ہے کہ جیسے بے نظیری بے حدی سے نکل کر زمان ومکان دُوسرا نہیں چاہتے تاہم ان دو صفات کی تعریف علیحدہ علیحدہ ہے اور یہ دونوں صفات ایک جیسی ہیں ایسا ہی اقانیم کی صُورت ہے کہ ایک قائم فی نفسہٖ ہے اور دولازم ملزوم ساتھ اس ایک کے اِس کے سمجھنےؔ کے واسطے آپ اس بیان پر بھی توجہ فرماویں کہ انتقام جو ئے و صلح جوئے شخص واحد سے آنِ واحد میں محال مطلق ہے حالانکہ اگر گناہگار کی مغفرت ہو تو یہ ہر دو یکساں چلتے ہیں اور ایک اقنوم سے یہ ادا نہیں ہو سکتی اِس سے لازم آتا ہے کہ کم از کم دو اقانیم ہونے چاہئیں۔ وقت کم ہے بے نظیری کی ہم تعریف کچھ کرنا چاہتے ہیں بے نظیری مطلق وہ شے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 218
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 218
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/218/mode/1up
ہے جو امکان تک نظیرکامٹا دیوے ۔ اوریہ وہی کرسکتا ہے جو امکان گنجایش نظیر کا مٹا دیوے ۔ اب خدا تعالیٰ بے نظیر مطلق ہے پس ضرور ہے کہ وہ بے حد بھی ہو اور یہ بینظیری بے حدی سے نکلے بلا تفاوت زمان و مکان کے کثرت فی الوحدت کی مثالیں ہمارے پاس اور بھی معقول ہیں مگر صرف امکان دکھلانے والی اور کہ وقوعہ اس کا دکھلانا کلام الٰہی کا کام ہے۔ جس کی آیات کا حوالہ ہم پہلے دے چکے ہیں۔ چنانچہ ایک یہ ہے کہ دیکھو اِنسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہوگیا۔ پیدائش ۳۲۲ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف ا نگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
بیانؔ حضرت مرزا صاحب
پہلے میں افسوس سے لکھتا ہوں کہ ڈپٹی صاحب نے باوجود میرے بار بار کے یاد دلانے کے کہ ہر ایک بات اور ہر ایک دعویٰ انجیل سے ہی پیش کرنا چاہیئے اور دلائل معقولی بھی انجیل سے ہی دکھلانی چاہئیں پھر بھی اس شرط کو ہر ایک محل میں چھوڑ دیا ہے اور ان کے بیانات ایسی آزادی سے چلے جاتے ہیں کہ گویا وہ ایک نئی انجیل بنا رہے ہیں اب سوچنا چاہیئے کہ انہوں نے میرے سوالات کا کیا جواب دیا پہلے تو میں نے یہ بطور شرط کے عرض کیا تھا کہ رحم بلامبادلہ کا لفظ انجیل میں کہاں ہے اور پھر اس کی معقولی طور پر حضرت مسیح سے تشریح اور تفصیل کہاں ہے مگر آپ عمداً اس بات سے انکار کر گئے اس لئے میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ آپ بحیثیت ایک پابند انجیل کے بحث نہیں کرتے بلکہ ایک اہل الرائے کی طرح اپنے خیالات
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 219
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 219
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/219/mode/1up
پیش کر رہے ہیں آپ میرے اس بیان کو کہ رحم ظہور میں اول اور فائق درجہ پر ہے قبل اس کے کہ اس کو سمجھیں قابل جرح قرار دیتے ہیں اگرچہ اس میں کلام نہیں کہ خدا تعالیٰ کی تمام صفات کاملہ ازلی و ابدی ہیں مگر اس عالم حادث میں ظہور کے وقت جیسا کہ موقعہ ہوتا ہے ضرورت کے رو سے تاخیر و تقدیم ہو جاتی ہے اس بات کو کون شخص سمجھ نہیں سکتا کہ باعتبار ظہور کے رحم پہلی مرتبہ پر ہے کیونکہ کسی کتاب کے نکلنے کا محتاج نہیں اور اس بات کی حاجت نہیں رکھتا کہ تمام لوگ عقلمند اور فہیم ہی ہو جائیں بلکہ وہ رحم جیسا عقلمندوں پر اپنا فیضان وارد کر رہا ہے ویسا ہی بچوں اور دیوانوں اور حیوانات پر بھی وہی رحم کام کر رہا ہے لیکن عدل کے ظہور کا وقت گو عدل کی صفت قدیم ہے اس وقت ہوتا ہے کہ جب قانون الٰہی نکل کر خلق اللہ پر اپنی حجت پوری کرے اور اپنا سچّا قانون ہونا اور منجانب اللہ ہونا ثابت کر دیوے۔ پھر اس کے بعد جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے تو وہ پکڑا جائے گا۔ یہی تو میرا سوال تھا کہ آپ کا سوال رحم بلامبادلہ کا تب ٹھیک بیٹھتا ہے کہ ظہور رحم اور ظہور عدل کے دونوں وقت ایک ہی زمانہ میں سمجھے جائیں اور ان میں ہر جگہ پر ایک تلازم رکھا جائے لیکن ظاہر ہے کہ رحم کا دائرہ تو بہت وسیع اورؔ چوڑا ہے اور وہ ابتدا سے جب سے دنیا ظہور میں آئی اپنے فیضان دکھلا رہا ہے پھر عدل کا رحم سے کیا تعلق ہوا اور ایک دوسرے کی مزاحمت کیونکر کر سکتے ہیں۔ آپ کے رحم بلامبادلہ کا بجز اس کے میں کوئی اور خلاصہ نہیں سمجھتا کہ عدل سزا کو چاہتا ہے رحم عفو اور درگزر کو چاہتا ہے لیکن جب کہ رحم اور عدل اپنے مظہروں میں مساوی اور ایک درجہ کے نہ ٹھہرے اور یہ ثابت ہو گیا کہ خدا تعالٰے کے رحم نے کسی کی راستبازی کی ضرورت نہیں سمجھی اور ہر ایک نیکو کار اور بدکار پر اس کی رحمانیت قدیم سے اثر ڈالتی چلی آئی ہے تو پھر یہ کیونکر ثابت ہوا کہ خدا تعالیٰ بدکاروں کو ایک ذرہ رحم کا مزہ چکھانا نہیں چاہتا۔ کیا قانون قدرت جو ہماری نظر کے سامنے پکار پکار کر شہادت نہیں دے رہا۔ کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 220
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 220
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/220/mode/1up
اس رحم کے لئے گناہ اور غفلت اور تقصیر داری بطور روک کے نہیں ہوسکتی اور اگر ہو تو ایک دم بھی انسان کی زندگی مشکل ہے پھر جب کہ یہ سلسلہ رحم کا بغیر شرط راستبازی اور معصومیت اور نیکوکاری انسانوں کی دنیا میں پایا جاتا ہے اور صریح قانون قدرت اس کی گواہی دے رہا ہے تو پھر کیونکر اس سے انکار کردیا جاوے اور اس نئے اور خلاف صحیفہ فطرت کے عقیدہ پر کیونکر ایمان لایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا رحم انسانوں کی راستبازی سے وابستہ ہے اللہ جلّ شانہٗ نے قرآن شریف کے کئی مقامات میں نظیر کے طور پر وہ آیات پیش کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کیونکر سلسلہ رحم کا نہایت وسیع دائرہ کے ساتھ تمام مخلوقات کو مستفیض کر رہا ہے چنانچہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ س ۱۳ ر ۱۷۔پھر فرماتا ہے۔ ۲ اورپھرفرماتاہے۔ 3۳اور پھر فرماتا ہے۔ ۴ ان تمام آیات سے خدا تعالیٰ نے اپنی کلام کریم میں صاف قانون قدرت کا ثبوت دے دیا ہے کہ اس کا رحم بلا شرط ہے کسیؔ کی راستبازی کی شرط نہیں ہاں جرائم کا سلسلہ قانون الٰہی کے نکلنے سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ آپ خود مانتے ہیں اور اسی وقت عدل کی صفت کے ظہور کا زمانہ آتا ہے گو عدل ایک ازلی صفت ہے مگر آپ اگر ذرہ زیادہ غورکریں گے تو سمجھ جائیں گے کہ صفات کے ظہور میں حادثات کی رعایت سے ضرور تقدیم تاخیرہوتی ہے پھر جب کہ گناہ اس وقت سے شروع ہوا کہ جب کتاب الٰہی نے دنیا میں نزول فرمایا اور پھر اس نے خوارق و نشانوں کے ساتھ اپنی سچّائی بھی ثابت کی تو پھر رحم بلامبادلہ کہاں رہا۔ کیونکہ رحم کا سلسلہ تو پہلے ہی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 221
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 221
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/221/mode/1up
سے بغیر شرط کسی کی راستبازی کے جاری ہے اور جو گناہ خدا تعالیٰ کی کتاب نے پیش کئے وہ مشروط بشرائط ہیں یعنی یہ کہ جس کو وہ احکام پہنچائے گئے ہیں اس پر وہ بطور حجت کے وارد ہوں اور وہ دیوانہ اور مجنون بھی نہ ہو۔ اور مالکیت پر آپ یہ جرح فرماتے ہیں کہ اگر مالکیت کو تسلیم کیا جائے تو سارا کارخانہ درہم برہم ہو جاتا ہے تو آپ کو سوچنا چاہیئے کہ یہ کارخانہ اپنی مد کی ذیل میں چل رہا ہے پھر درہم برہم ہونے کے کیا معنے ہیں مثلاً جو شخص خدا تعالیٰ کے قانون کی خلاف ورزی کرکے اس کے قانونی وعدہ کے موافق سزاوار کسی سزا کا ٹھہرتا ہے تو خدا تعالیٰ گو مالک ہے کہ اس کو بخش دیوے لیکن بلحاظ اپنے وعدہ کے جب تک وہ شخص ان طریقوں سے اپنے تئیں قابل معافی نہ ٹھہرا دے جو کتاب الٰہی مقرر کرتی ہے تب تک وہ مواخذہ سے بچ نہیں سکتا۔ کیونکہ وعدہ ہوچکا ہے لیکن اگر کتاب الٰہی مثلاً نازل نہ ہو یا کسی تک نہ پہنچے یا مثلاً وہ بچہ اور دیوانہ ہو تو تب اس کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے گا وہ مالکیت کا معاملہ ہوگا۔ اگر یہ نہیں تو پھر سخت اعتراض وارد ہوتا ہے کہ کیوں چھوٹے بچے مدتوں تک ہولناک دکھوں میں مبتلا رہ کر پھر ہلاک ہوتے ہیں اور کیوں کروڑہا حیوانات مارے جاتے ہیں ہمارے پاس بجز اس کے کوئی اور جواب بھی ہے کہ وہ مالک ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ پھر آپ اپنے پہلے قول پر ضد کرکے فرماتے ہیں کہ دنیا میں جو کسی کی شفاعت سے گناہ بخشے جاتے ہیں وہ ایک انتظامی امر ہے افسوس کہ آپ اس وقت مقنن کیوں بن گئے اور توریت کی آیتوں کو کیوں منسوخ کرنے لگے اگر صرف انتظامی امر ہے اور حقیقت میں گناہ بخشے نہیں جاتے تو توریت سے اس کا ثبوتؔ دینا چاہیئے۔ توریت صاف کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ کی شفاعت سے کئی مرتبہ گناہ بخشے گئے۔ اور بائیبل کے تقریباً کل صحیفے خدا تعالیٰ کے رحیم اور توّاب ہونے پر ہمارے ساتھ اتفاق رکھتے ہیں دیکھو یسعیا ۵۵ ۷ یرمیا ۳۳ ۱تواریخ دوم ۱۴۷زبور چہارم ۳۲۵ امثال۲۸ ۱۳ اسی
طرح لوقا۳۔۴۱۷ ولوقا ۴سے۲۴۱۵ لوقا ۲۵و۲۸۱۰مرقس ۱۶۱۶ اور پیدائش ۹و۷۶ کتاب ایوب۱۱
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 222
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 222
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/222/mode/1up
حزقیل ۱۴۱۴ دانیال۴۶ زبور ۳۱۳۰و۴و۷ زبور ۷۸۳۸میکا ۷۱۸ ۔
غرض کہاں تک لکھوں آپ ان کتابوں کو کھول کر پڑھیں اور دیکھیں کہ سب سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رحم بلامبادلہ کی کچھ ضرورت نہیں اور ہمیشہ سے خدا تعالیٰ مختلف ذرائع سے رحم کرتا چلا آیا ہے پھر آپ فرماتے ہیں کہ توبہ اور ایمان باہر کے پھاٹک ہیں یعنی باوجود توبہ اور ایمان کے پھر بھی کفارہ کی ضرورت ہے یہ آپ کا صرف دعویٰ ہے جو ان تمام کتابوں سے مخالف ہے جن کے میں نے حوالہ دے دئیے۔ ہاں اس قدر سچ ہے کہ جیسے اللہ جلّ شانہٗنے باوجود انسان کے خطا کار اور تقصیر وار ہونے کے اپنے رحم کو کم نہیں کیا ایسا ہی وہ توبہ کے قبول کرنے کے وقت بھی وہی رحم مدنظر رکھتا ہے اور فضل کی راہ سے انسان کی بضاعت مزجات کو کافی سمجھ کر قبول فرما لیتا ہے اس کی اس عادت کو اگر دوسرے لفظوں میں فضل کے ساتھ تعبیر کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ نجات فضل سے ہے تو عین مناسب ہے کیونکہ جیسے ایک غریب اور عاجز انسان ایک پھول تحفہ کے طور پر بادشاہ کی خدمت میں لے جاوے اور بادشاہ اپنی عنایات بے غایات سے اور اپنی حیثیت پر نظر کر کے اس کو وہ انعام دے جو پھول کی مقدار سے ہزارہا بلکہ کروڑ ہا درجہ بڑھ کر ہے تو یہ کچھ بعید بات نہیں ہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کا معاملہ ہے وہ اپنے فضل کے ساتھ اپنی خدائی کے شان کے موافق ایک گدا ذلیل حقیر کو قبول کر لیتا ہے جیساکہ دیکھاجاتا ہے کہ دعاؤں کا قبول ہونا بھی فضل ہی پر موقوف ہے جس سے بائیبل بھری ہوئی ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگرچہ مسیح میں اور کچھ بھی زیادتی نہیں صرف ایک انسان ہے جیسے اور انسان ہیں اور خداتعالیٰ وہی علاقہ عام طور کا اس سے رکھتا ہے جو اوروں سے رکھتاہے لیکن ؔ کفارہ سے اور مسیح کے آسمان پر جانے سے اوراس کے بے باپ پَیدا ہونے سے اسکی خصوصیت ثابت ہوتی ہے اِس قول سے مجھے بڑا تعجب پیدا ہوا ۔کیادعووں کا پیش کرنا آپ کی کچھ عادت ہے ہم لوگ کب اِس بات کو مانتے ہیں کہ مسیح جی اُٹھا۔ ہاں حضرت مسیح کا وفات پا جانا قرآن شریف کے کئی مقام میں ثابت ہے لیکن اگر جی اٹھنے سے رُوحانی زندگی مُراد ہے تو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 223
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 223
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/223/mode/1up
اس طرح سے سارے نبی جیتے ہیں۔ مردہ کون ہے کیا انجیل میں نہیں لکھا کہ حواریوں نے حضرت موسیٰ اور الیاس کو دیکھا اور ایسا کہا کہ اے اُستاد اگر فرماویں تو آپ کے لئے جُدا خیمہ اور موسیٰ کے لئے جُدا اور الیاس کیلئے جُدا کھڑا کیا جائے پھر اگر حضرت موسیٰ مردہ تھے تو نظر کیوں آگئے کیا مردہ بھی حاضر ہوجایاکرتے ہیں پھر اسی انجیل میں لکھا ہوا ہے کہ لعاذر مرنے کے بعد حضرت ابراہیم کی گود میں بٹھایاگیا اگر حضرت ابراہیم مُردہ تھے تو کیا مُردہ کی گود میں بٹھایا گیا واضح رہے کہ ہم حضرت مسیح کی اس زندگی کی خصوصیت کو ہرگز نہیں مانتے بلکہ ہمارا یہ مذہب موافق کتاب و سنت کے ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حیات اقویٰ اور اعلیٰ رکھتے ہیں اور کسی نبی کی ایسی اعلیٰ درجہ کی حیات نہیں ہے جیسے آنحضرت صلعم کی۔ چنانچہ مَیں نے کئی دفعہ آنحضرت کو اِسی بیداری میں دیکھا ہے باتیں کی ہیں مسائل پوچھے ہیں اگر حضرت مسیح زندہ ہیں تو کیاکبھی کسی نے آپ لوگوں میں سے بیداری میں انکو دیکھا ہے پھر آپ کا یہ فرمانا کہ حضرت مسیح روح القدس کے نازل ہونے سے پہلے مظہر اللہ نہیں تھے یہ اقبالی ڈگری ہے۔ آپ نے مان لیا ہے کہ تیس برس تک تو حضرت مسیح خالص انسان تھے مظہر وغیرہ نام ونشان نہ تھا پھر تیس برس کے بعد جب روح القدس کبوتر کی شکل ہو کر ان میں اتراتو پھر مظہر اللہ بنے۔ مَیں اس جگہ اس وقت شکر کرتا ہوں کہ آج کے دن ایک فتح عظیم ہم کو میسر آئی کہ آپ نے خود اقرار کر لیا کہ تیس برس تک حضرت مسیح مظہر اللہ ہونے سے بالکل بے بہرہ رہے نرے انسان تھے۔ اَب بعد اِس کے یہ دعویٰ کرنا کہ پھر کبوتر اُترنے کے بعد مظہراللہ بن گئے یہ دعویٰ ناظرین کی توجہ کے لائق ہے کیونکہ اگر روح القدس کا اُترناانسان کو خدا اور مظہر اللہ بنا دیتا ہے تو حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا حضرت یوسف حضرت یوشع بن نون اور کل حواری خدا ٹھہر جائیں گے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ کیامجسم ہونے سے وزنی ہو سکتاہے۔ یہ عجب سوال ہے۔ کیا آپ کوئی ایسا جسم پیش کرؔ سکتے ہیں کہ اس کو جسم تو کہا جائے مگر جسمانی لوازمات سے بالکل مبرّا ہو۔ مگر شکر یہ تو آپ نے مان لیا کہ آپ کے باپ اور بیٹا اور رُوح القدس تینوں مجسم ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کثرت فی الوحدت اور وحدت میں کوئی تضاد نہیں ایک جگہ پائی جاتی ہیں یعنی بہ لحاظ جہات مختلفہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 224
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 224
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/224/mode/1up
کے یہ آپ کا خوب جواب ہے سوال تو یہ تھا کہ ان دونوں میں سے آپ حقیقی کس کو مانتے ہیں۔ آپ نے اس کا کچھ بھی جواب نہ دیا۔ پھر آپ دعوے کے طورپر فرماتے ہیں کہ آسمان کے نیچے دُوسرا نام نہیں جس سے نجات ہو اورنیز یہ بھی کہتے ہیں کہ مسیح گناہ سے پاک تھا اور دوسرے نبی گناہ سے پاک نہیں مگر تعجب کہ حضرت مسیح نے کسی مقام میں نہیں فرمایا کہ مَیں خداتعالیٰ کے حضور میں ہر ایک قصور اور ہر ایک خطا سے پاک ہوں اور یہ کہنا حضرت مسیح کا کہ کون تم میں سے مجھ پر الزام لگا سکتاہے یہ الگ بات ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ تمہارے مقابل پر اور تمہارے الزام سے میں مجرم اور مفتری نہیں ٹھہر سکتالیکن خداتعالیٰ کے حضور میں حضرت مسیح صاف اپنے تقصیر وار ہونے کا اقرار کرتے ہیں جیساکہ متی باب ۱۹ سے ظاہر ہے کہ انہوں نے اپنے نیک ہونے سے انکار کیا۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن اورانجیل دونوں کلام خداہو کر پھر دو مختلف طریقے نجات کے کیوں بیان کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ جو قرآن کے مخالف انجیل کے حوالہ سے طریقہ بیان کیاجاتا ہے وہ صرف آپ کا بے بنیاد خیال ہے۔ اب تک آپ نے ثابت کر کے نہیں دکھایا کہ حضرت مسیح کا قول ہے انجیل میں تو نہ بالصراحت و بالفاظ کہیں تثلیت کا لفظ موجودہے اور نہ رحم بلا مبادلہ کا۔قرآن کریم کی تصدیق کیلئے وہ حوالجات کافی ہیں جو ابھی ہم نے پیش کئے ہیں جبکہ قرآن اور عہد عتیق اورجدید کے بہت سے اقوال بالاتفاق آپ کے کفارہ کے مخالف ٹھہرے ہیں تو کم سے کم آپ کو یہ کہنا چاہیئے کہ اس عقیدہ میں آپ سے غلط فہمی ہو گئی ہے۔ کیونکہ ایک عبارت کے معنے کرنے میں کبھی انسان دھوکا بھی کھا جاتا ہے جیسا آپ فرماتے ہیں کہ آپ کے بھائیوں رومن کیتھلک اور یونی ٹیرین نے انجیل کے سمجھنے میں دھوکا کھایا ہے اور وہ دونوں فریق آپکو دھوکہ پر سمجھتے ہیں۔ پھر جب گھر میں ہی پُھوٹ تو پھر آپ کا اتفاقی مسئلہ کو چھوڑ دینا اور اختلافی خبر کو پکڑ لینا کب جائز ہے۔ ( باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ از جانب اہل اسلام پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 225
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 225
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/225/mode/1up
دسواؔ ں پرچہ
مباحثہ یکم جون ۱۸۹۳ ء
روئیداد
آج پھر جلسہ منعقد ہوا اور ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے ۶ بجے ۸ منٹ پر سوال لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۴۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سُنایا گیا۔ بعدہ‘ مرزاصاحب نے ۸ بجے ایک منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۹ بجے ایک منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا بعد اسکے ڈپٹی صاحب نے ۹ بجے ۲۷ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰بجے ۶ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایاگیا بعد ازاں تحریروں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط ہو کر جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
بیان ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
مَیں نے کل کے بیانات فریق ثانی میں دو صدائیں عجیب و غریب سُنی ہیں۔ یعنی ایک یہ کہ گویا مَیں نے آپ کے کسی امر کا جواب نہیں دیا دُوسرا یہ کہ گویا مَیں نے اقبال کیا ہے کہ اقنوم ثانی الوہیت سے مسیح کی انسانیت تیس برس تک خالی رہی ہے۔ اگر یہ غلط فہمی ہے تو اِن دو امروں کی اصلاح اسوقت مَیں کرتا ہوں۔ پہلی غلطی کا میرا یہ جواب ہے کہ بعد طبع ہونے مباحثہ کل کے عام کے سامنے وہ رکھا جائے گا کہ منصف مزاج آپ ہی فیصلہ کرلیں گے کہ مَیں نے جواب نہیں دیا یاکہ فریق ثانی نے جواب نہیں دیا۔ دُوسرے بارہ میں میرا جواب یہ تھا کہ مسیحیت میں خصوصیت مظہریت کی نمودار اس وقت ہوئی کہ جب وہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 226
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 226
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/226/mode/1up
بپ ٹسماپا کر یردن میں سے نکلا اور جسوقت یہ صدا آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے مَیں اس سے راضی ہوں تمؔ اس کی سُنو۔ اسوقت سے وہ مسیح ہؤا۔ پس اُن دونوں صداؤں کو مَیں مشابہ پُھوٹے ڈھول یا پھٹے نقارہ کے قرار دیتا ہوں۔
دوئم۔فریق ثانی نے یقینًا میرے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ تقاضائے عدل الٰہی کیونکر پُورا ہوا اور نہ اسکے عدل کا کچھ لحاظ فرمایا۔ اسی لئے میں اس سوال پر اور کچھ نہ کہتا ہوں نہ سنتا ہوں۔ باقی سوال جو میرے ہیں ان کو پیش کرتاہوں۔ منجملہ ان سوالوں کے پہلا سوال میرا یہ ہے(س۴ر۷) ۱ کہتے ہیں کچھ بھی کام ہے ہمارے ہاتھ۔ توکہہ کہ سب کام ہیں اللہ کے ہاتھ۔انجیل میں ایسا تو لکھا ہے کہ پری ولج جسکا ترجمہ قریب قریب لفظ وسعت سے ہو سکتا ہے منجانب اللہ کے بخشے جاتے ہیں چنانچہ کسی کو ظرف یا عضو عزت کا بنایاگیاہے اور کسی کو ذلّت کا۔ پھر کسی کو مخدوم ہونا بخشا گیا ہے اور کسی کو خادم ہونا۔ لیکن جہنّم کسی کے نصیب نہیں کیا گیا۔ اور نہ تباہ شدنی کسی کو ٹھہرایا گیا ہے اور پھر یہ بھی لکھا ہے کہ فرعون کو اِسی لئے برپاہونے دیا گیا۔ (اصل لفظ ہے برپا کیاگیا۔ مُراد اسکی ہے برپاہونے دیا گیا)تاکہ اس میں جلال صفات الٰہی کا زیادہ ہو لیکن یہ نہیں لکھا کہ انسان کو کچھ بھی اختیار نہیں تاہم اسکے عملوں پر مواخذہ ہے۔ غرضیکہ قرآن و انجیل کی تعلیم میں یہ فرق ہے کہ قرآن تو اختیار انسانی کے متناقض تعلیم دیتا ہے اور انجیل پری ولجوں میں اور پرمشنوں میں اختیار فعل مختیاری انسان کا نقیض نہیں کرتی اور اگرچہ قرآن میں ساتھ جبر کے قدر بھی ہے لیکن یہ دونوں باہم متفق نہیں ہوسکتے۔
تیسرا سوال ہمارا یہ ہے کہ جبکہ قرآن کی سورۃ توبہ رکوع ۴ میں یُوں لکھا ہے کہ قتل کرو انکو جو اللہ اور دن قیامت کو نہیں مانتے اورنہ حرام کرتے اُس شے کو اپنے اوپر جس کو اللہ و رسول نے حرام کیا منجملہ انکے جو اہل کتاب ہیں جب تک دیتے رہیں جزیہ اپنے ہاتھوں سے اور ذلیل رہیں۔ اس میں ایمان بالجبر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 227
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 227
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/227/mode/1up
کا ہمارا الزام ہے۔ موسیٰ کے جہاد اور قسم کے تھے انمیں سے امان منحصر بہ ایمان کوئی نہ دکھلاسکے گا اور یہاں آیت مذکورہ میں نہ دفعیہ کا جہاد ہے نہ انتقام کا جہاد نہ انتظام کا جہادؔ بلکہ وہ جہادہے جو اُصول قرآنی کو نہ مانے وہ ماراجائے اِسی کا نام ہے ایمان بالجبر۔ ہمارے مکرم سر سیّد احمد خان بہادر نے جہاد بالجبر کو نہیں مانا۔ اُن کا فرمانا یہ ہے کہ یا مانو یا مرو یا جزیہ گذار ہو کر جیتے رہو۔ لیکن بابت تیسری شرط یعنی جزیہ کے ہمارا سوال ان سے یہ ہے کہ متعلق اہل کتاب کے اِس لفظ کو کیوں لکھا من الذین میں لفظ من کافاضل ہے اور اہل کتاب کا لفظ سارے اس کے متن سے مستثنیٰ ہے۔ پھر یہ کیا خوش فہمی نہیں کہ اِس تیسری شرط کو بھی عامہ قرار دیا جائے۔ اور وہ صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ جملہ3۱ سے سارا اعتراض ایمان بالجبر کا باطل ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ہم دکھلا سکیں کہ قرآن میں یہ حکم بھی ہے کہ اے مسلمانوں جب تمہارے سامنے کوئی سفید پوش آوے اور تم کو سلام علیک کرے تو تم اس کے کپڑے اتار لینے کے واسطے یُوں مت کہو کہ تو مکّار ہے درحقیقت مسلمان نہیں خدا تم کو دَولت اور طرح بہت دے دے گا۔ تو کیا یہ اکراہ نہیں کہ بہ بُہتان مکّاری اُس کے کپڑے اتار لیویں اور کیا یہ پالسی کے برخلاف نہیں جو ترقی دین کو روک دیتا ہے۔ علٰی ہٰذالقیاس اور بھی چند شق اس امر کے ہیں جو سمت مخالف سے پیش ہو سکتے ہیں جن کے پیش ہونے پر ہم اس کا جواب دینگے۔
سوم۔ نمونہ تعلیمات قرآن کا تو یہ ہے جو اوپر عرض ہوا تِسپر معجزات کا خفیف ساپردہ بھی کچھ نہیں جو کچھ دھوکہ دے سکے۔ چنانچہ محمد صاحب کو صاحب معجزہ ہونے کا انکار مطلق ہے۔
بعض محمدی صاحبان 3۲ میں ایک بڑا معجزہ فصاحت و بلاغت کا بیان کرتے ہیں مگر کس امر میں مثال طلب کی جاتی ہے اس آیت میں اس کا ذکر کچھ نہیں فصاحت وبلاغت کے دعویٰ کا قرآن میں کہیں لفظ تک نہیں۔غالبًا مراد قرآنی اِس دعویٰ میں یہ ہے کہ از آنجا قرآن خلاصہ کتب انبیاء سلف کا ہے جن کو خدا کے سواکوئی مخلوق نہیں بنا سکتا ۔ لہٰذا وہ بھی یعنی قرآن بے مثل ہے یعنی اس میں تقدس تعلیمات کا دعویٰ ہے فصاحت بلاغت کا نہیں بلکہ برخلاف فصاحت و بلاغت کے قرآن میں یوں بھی لکھا ہے کہ وہ آسان کیا گیا عربی زبان میں واسطے اہل عرب کے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 228
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 228
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/228/mode/1up
اور جو فصاحت بلاغت جدید مطلق ہووے تووہ محتاج تلقین کی ہوجاتی ہے اور آسانی کے برخلاف آسان نہیں رہتی۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ بروئے قرآن محمد صاحب اُمّی محض نہ تھے بلکہ قرآن میں یوں لِکھا ہے کہ جو اہل کتاب نہیں وہ اُمّی ہے اور فی الواقع علم عبرانی اوریونانی کا آنجناب کو حاصل نہیں معلوم ہوتا۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ لفظ کتاب کا باصطلاح قرآنی علی العموم بمعنے کتاب الہامی کے ہے کتاب دُنیاوی نہیں۔
چوتھاؔ ۔ جناب نے میرے کل کے ایک سوال کا جواب پورا نہیں دیا جس میں میرا استفسار تھا کہ مسیح کی پَیدائش معجزہ ہی تھی یا نہیں یعنی باپ اس کا نہیں تھا یا تھا۔ فرشتہ خاص کر جبرئیل مریم آپ کی والدہ کے پاس خوشخبری لائے تھے یانہیں۔ اور وہ جو جناب اپنی روایت کا ذِکر فرماتے ہیں کہ محمد صاحب سے ہمکلام ہو کے آئے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِس کا ثبوت جناب کے پیشواکے معراج سے کچھ زیادہ نہیں معلوم ہوتا۔ نیز یہ بھی ہمارا استفسار ہے کہ جناب یونی ٹیریوں اوررومن کیتھلک کو ہمارے اُوپر حاکم کیوں بناتے ہیں وہ مسیحی تو کہلاتے ہیں مگر ہم اُن کو بد معنے مسیحی کہتے ہیں۔ ہمارے آرچ بشپ ڈپٹی صاحب نے جب حلقہ اِس طرح کا کھینچا کہ دین مسیح کہاں تک مؤثر ہے تو اُنہوں نے تو اہلِ اسلام کو بھی مسیحیوں میں گِنا ہے۔ اور دلائل اِس کے قرآن سے دیئے ہیں لیکن ہم ان کو صحیح مسیحی نہیں مان سکتے۔ (باقی آئندہ)
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 229
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 229
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/229/mode/1up
بیان حضرت مرزا صاحب
یکم جون ۱۸۹۳ ء
ڈپٹی صاحب اوّل یہ فرماتے ہیں کہ میں نے اِس بات کا اقبال نہیں کیا کہ اقنوم ثانی یعنی حضرت مسیح تیس برس تک مظہر اللہ ہونے سے خالی رہے اِس کے جواب میں صرف ڈپٹی صاحب موصوف کی عبارت مرقومہ ۳۱۔ مئی ۱۸۹۳ ء کو سامنے رکھ دینا کافی ہے اور وہ یہ ہے:۔
ششم۔ جناب جو پوچھتے ہیں کہ مظہر اللہ مسیح بعد نزول روح القدس کے ہوئے یا ما بعد اُسکے ۔ ہمارا اِس جگہ پر جواب قیاسی ہے کہ رُوح القدس کے نازل ہونے کے وقت ہوئے۔ اَب سوچنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ کیا اِس عبارت کے بجُز اِس کے کوئی اور بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ حضرت مسیح رُوح القدس کے نازل ہونے سے پہلے جو کبوتر کی شکل میں اُن پر نازل ہوا مظہر اللہ نہیں تھے پیچھے سے مظہر اللہ بنے۔ پھر جب مظہر اللہ کی مطلق نفی بغیر کسی استثنا کے ڈپٹی صاحب موصوف نے کر دی تو کیا بجُز اِس کے کوئی اور بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ حضرت مسیح کبوتر نازل ہونے سے پہلے صرف انسان تھے کیونکہ مظہر اللہ کالفظ کسی تقسیم اور تجزیہ کے قابل نہیں اور اُن کی عبارت سے ہرگز یہ نکلتاؔ نہیں کہ مخفی طور پر پہلے مظہر اللہ تھے اور پھر علانیہ طور پر ہو گئے وہ تو صاف فرما رہے ہیں کہ بعد روح القدس کے مظہر اللہ ہوئے اَب یہ دُوسرا بیان پہلے بیان کی تفصیل نہیں ہے بلکہ صریح اِسکے مخالف اور اس کا ضد پڑ ا ہو ا ہے اور اقرار کے بعد انکار کرنا انصاف پسندوں کا کام نہیں بلا شبہ وہ اقرار کر چکے ہیں کہ حضرت مسیح تیس برس تک مظہر اللہ ہونے سے بالکل بے بہرہ اور بے نصیب تھے کیونکہ ہمارا سوال تھاکہ رُوح القدس کے نازل ہونے سے پہلے مظہر اللہ تھے یا بعد اس کے ہوئے تو آپ نے قطعی طور پر بعد کو اختیار کیا اور صاف طور پر اقرار کر لیا کہ بعد میں مظہراللہ بنے۔ اَب اس میں زیادہ بحث کی ضرورت نہیں جب عام میں یہ سوال پھیلے گا او ر پبلک کے سامنے آئے گا تو خود لوگ سمجھ لیں گے کہ ڈپٹی صاحب نے یہ اقرار کے بعد انکار کیا ہے یا کوئی اور صُورت ہے اور اَب وہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 230
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 230
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/230/mode/1up
یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ اِس بارہ میں جو کچھ ہم نے کہنا تھا وہ کہہ دیا۔ بعد اِس کے کچھ نہیں کہیں گے مگر افسوس کہ اُنہوں نے یہ طرز حق پرستوں کی اختیار نہیں کی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کودُوسروں کی تحریک اور نکتہ چینی سے بعد میں فکر پڑی کہ ہمارے اس قول سے مسیح کا انسان ہونا۔ اورمظہراللہ سے تیس برس تک خالی ہونا ثابت ہوگیا تو پھر اِس مصیبت پیش آمدہ کی وجہ سے آج اُنہوں نے یہ تاویل رکیک پیش کی مگر درحقیقت یہ تاویل نہیں بلکہ صاف صاف اور کُھلے کُھلے لفظوں میں انکار ہے پھر بعد اِس کے ڈپٹی صاحب موصوف فرماتے ہیں کہ میرے سوال کا جواب نہیں آیا یعنی تقاضائے عدل کیونکر پورا ہو ۔ مَیں نے کل کے بیان میں صاف لکھا دیا تھا کہ آپ کا یہ دعویٰ کہ رحم اور عدل دونوں دوش بدوش اور خداتعالیٰ کیلئے ایک ہی وقت میں لازم پڑے ہوئے ہیں یہ غلط خیال ہے پھر مکرّر کچھ لکھتا ہوں کہ رحم قانون قدرت کی شہادت سے اوّل مرتبہ پر ہے اور دائمی اور عام معلوم ہوتا ہے لیکن عدل کی حقیقت قانون الٰہی کے نازل ہونے کے بعد اور وعدہ کے بعد متحقق ہوتی ہے یعنی وعدہ کے پہلے عدل کچھ بھی چیز نہیں اس وقت تک مالکیت کام کرتی ہے۔ اگر وعدہ سے پہلے عدل کچھ چیز ہے تو ڈپٹی صاحب ہمارے کل کے سوال کا ذرہ متنبّہ ہو کرجواب دیویں کہ ہزاروں انسانوں کے بچّے اور پرند اور چرند اورکیڑے مکوڑے بے وجہ ہلاک کئے جاتے ہیں وہ باوجود عدل کی دائمی صفت کے کیوں کئے جاتے ہیں اور بموجب آپ کے قاعدہ کے کیوں عدل ان کے متعلق نہیں کیاجاتا ہے۔اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ پر کسی چیز کا حق نہیں ہے انسان اپنے حق سے بہشت کو بھی نہیں پا سکتا صرف وعدہ سے یہ مرتبہ شروعؔ ہوتا ہے۔ جب کتاب الٰہی نازل ہو چکتی ہے اور اس میں وعدہ بھی ہوتے ہیں۔ اور وعید بھی ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ وعید کی رعایت سے ہر ایک نیک و بد سے معاملہ کرتا ہے ۔ اورجبکہ عدل فی ذاتہٖ کچھ بھی چیز نہیں بلکہ وعدہ وعید پر تمام مدار ہے اورخداوندتعالیٰ کے مقابل پرکسی چیز کا کوئی بھی حق نہیں تو پھر عدل کیونکر رکھا جاوے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 231
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 231
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/231/mode/1up
عدل کامفہوم ضرور اِس بات کو چاہتا ہے کہ اوّل جانبین میں حقوق قرار دیئے جائیں۔ لیکن مخلوق کا خداتعالیٰ پر جس نے عدم محض سے اُس کو پَیدا کیا کوئی حق نہیں ورنہ ایک کُتّا مثلًا کہہ سکتا ہے کہ مجھ کو بیل کیوں نہیں بنایا اور بیل کہہ سکتا ہے کہ مجھ کو انسان کیوں نہیں بنایا اور چونکہ یہ جانور اِسی دُنیا میں جہنّم کا نمونہ بُھگت رہے ہیں اگر عدل خداتعالیٰ پر ایک لازمی صفت تھوپ دی جائے تو ایسا سخت اعتراض ہوگا کہ جس کا جواب آپ سے کسی طور پر نہ بن پڑے گا۔ پھر آپ نے جبر قدر کا اعتراض پیش کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ قرآن سے جبر ثابت ہوتا ہے۔ اِس کے جواب میں واضح ہو کہ شاید آپ کی نظر سے یہ آیات نہیں گذریں جو انسان کے کسب و اختیار پر صریح دلالت کرتی ہیں اور یہ ہیں:۔
۱ (س۲۷ر۳)کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو سعی کرتا ہے جو اُس نے کوشش کی ہو یعنی عمل کرنا اجر پانے کے لئے ضروری ہے پھر فرماتا ہے۲ (س۲۲۔ر۵) یعنی خدا اگر لوگوں کے اعمال پر جو اپنے اختیار سے کرتے ہیں اُن کو پکڑتا تو کوئی زمین پر چلنے والا نہ چھوڑتا۔ اور پھر فرماتا ہے۳ (س۳ر۸) اُس کے لئے جو اُس نے کام اچھے کئے اور اُس پر جو اُس نے بُرے کا م کئے۔ پھر فرماتا ہے ۴ جو شخص اچھا کام کرے سو اسکے لئے اورجو بُرا کرے وہ اُس کے لئے۔ پھر فرماتاہے ۵ (س۵ر۶) یعنی کس طرح جس وقت پہنچے اُن کو مصیبت بوجہ اُن اعمال کے جو اُن کے ہاتھ کر چکے ہیں۔ اَب دیکھئے ان تمام آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے کاموں میں اختیار بھی رکھتا ہے اور اِس جگہ ڈپٹی صاحب نے جو یہ آیت پیش کی ہے۔۶ اور اِس سے ان کا مدعا یہ ہے کہ اس سے جبر ثابت ہوتا ہے یہ ان کی غلط فہمی ہے۔دراصل
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 232
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 232
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/232/mode/1up
بات یہ ہے کہ امر کے معنے حکم اور حکومت کے ہیں اور یہ بعض ان لوگوں کا خیال تھا جنہوںؔ نے کہا کہ کاش اگر حکومت میں ہمارا دخل ہوتا توہم ایسی تدابیر کرتے جس سے یہ تکلیف جو جنگ احد میں ہوئی ہے پیش نہ آتی۔ اِس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱ یعنی تمام امر خداتعالیٰ کے اختیار میں ہیں تمہیں اپنے رسول کریم کا تابع رہنا چاہیئے۔ اَب دیکھنا چاہیئے کہ اِس آیت کو قدر سے کیا تعلق ہے۔ سوال تو صرف بعض آدمیوں کا اِتنا تھا کہ اگر ہماری صلاح اور مشورہ لیاجاوے تو ہم اس کے مخالف صلاح دیں تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو منع فرمایا کہ اِس امر کی اجتہاد پر بنا نہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے پھر بعد اس کے واضح رہے کہ تقدیر کے معنے صرف اندازہ کرنا ہے جیسے کہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتاہے ۲س۱۸ر۱۶ یعنی ہر ایک چیز کو پیدا کیا تو پھر اس کے لئے ایک مقرر اندازہ ٹھہرا دیا اِس سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انسان اپنے اختیارات سے روکا گیا ہے بلکہ وہ اختیارات بھی اسی اندازہ میں آگئے جب خداتعالیٰ نے انسانی فطرت اور انسانی خوئے کا اندازہ کیا تو اس کا نام تقدیر رکھا۔ اور اسی میںیہ مقرر کیا کہ فلاں حد تک انسان اپنے اختیار ات برت سکتا ہے یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ تقدیرکے لفظ کو ایسے طورپر سمجھا جائے کہ گویا انسان اپنے خدا داد قویٰ سے محروم رہنے کے لئے مجبور کیاجاتاہے۔ اِس جگہ تو ایک گھڑی کی مثال ٹھیک آتی ہے کہ گھڑی کا بنانے والا جس حد تک اس کا دَور مقرر کرتا ہے اس حد سے وہ زیادہ چل نہیں سکتی۔ یہی انسان کی مثال ہے کہ جو قویٰ اس کو دی گئی ہیں اُن سے زیادہ وہ کچھ کرنہیں سکتا اورجو عمر دی گئی ہے اس سے زیادہ جی نہیں سکتا۔ اوریہ سوال کہ خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں جبر کے طور پر بعضوں کو جہنمی ٹھہرادیا ہے اور خواہ نخواہ شیطان کا تسلّط ان پر لازمی طورپر رکھا گیا ہے یہ ایک شرمناک غلطی ہے اللہ جلّ شانہ‘ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔۳ کہ اے شیطان میرے بندوں پر تیراکچھ بھی تسلط نہیں دیکھئے کس طرح پر اللہ تعالےٰ انسان کی آزادی ظاہر کرتاہے۔ منصف کے لئے اگر کچھ دل میں انصاف رکھتا ہو تو یہی آیت کافی ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 233
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 233
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/233/mode/1up
لیکن انجیل متی سے تو اس کے برخلاف ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ انجیل متی سے یہ بات پایۂ ثبوت پر پہنچتی ہے کہ شیطان حضرت مسیح کو آزمائش کے لئے لے گیا۔ تو یہ ایک قسم کی حکومت شیطان کی ٹھہری کہ ایک مقدس نبی پر اس نے اس قدر جبر کیا کہ وہ کئی جگہ اس کو لئے پھرا۔ یہانتک کہ بے ادبی کی راہ سے اسے یہ بھی کہا کہ تو مجھے سجدہ کر۔ اور ایک بڑے اونچےؔ پہاڑ پر لے گیا اوردنیا کی ساری بادشاہتیں اوران کی شان و شوکت اسے دکھلائیں ۔ دیکھو متی ۴ اَور پھر غور کر کے دیکھو کہ اس جگہ پر شیطان کیا بلکہ خدا ئی جلوہ دکھلایا گیا ہے کہ اول وہ بھی اپنی مرضی سے مسیح کی خلاف مرضی ایک پہاڑ پر اسکو لے گیا اور دنیا کی بادشاہتیں دکھا دینا خداتعالیٰ کی طرح اُس کی قوت میں ٹھہرا۔اور بعد اس کے واضح ہو کہ یہ بات جو آپ کے خیال میں جم گئی ہے کہ گویا قرآن کریم نے خواہ نخواہ بعض لوگوں کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے یا خواہ نخواہ دلوں پر مہریں لگا دیتا ہے یہ اس بات پر دلیل ہے کہ آپ لوگ کبھی انصاف کی پاک نظر کے ساتھ قرآن کریم کو نہیں دیکھتے۔دیکھو اللہ جلّ شانہ‘ کیا فرماتاہے۔ ۱ س۲۳ر۱۴ یعنی شیطان کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ مَیں جہنم کو تجھ سے اور اُن لوگوں سے جو تیری پیروی کریں بھروں گا۔ دیکھئیے اس آیت سے صاف طور پر کھل گیا اللہ تعالیٰ کا یہ منشانہیں ہے کہ خواہ نخواہ لوگوں کو جبر کے طورپر جہنم میں ڈالے بلکہ جو لوگ اپنی بداعمالیوں سے جہنم کے لائق ٹھہریں ان کو جہنم میں گرایا جاوے گا۔ اور پھر فرماتا ہے ۲ یعنی بہتوں کو اس کلام سے گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو یہ ہدایت دیتا ہے۔ مگر گمراہ ان کو کرتا ہے جو گمراہ ہونے کے کام کرتے ہیں ۔ اور فاسقانہ چالیں چلتے ہیں یعنی انسان اپنے ہی افعال کا نتیجہ خداتعالیٰ سے پا لیتا ہے جیسے کہ ایک شخص آفتاب کے سامنے کی کھڑکی جب کھول دیتا ہے تو ایک قدرتی اور فطرتی امر ہے کہ آفتاب کی روشنی اوراس کی کرنیں اس کے منہ پر پڑتی ہیں۔ لیکن جب وہ اس کھڑکی کو بند کر دیتا ہے تو اپنے ہی فعل سے اپنے لئے اندھیرا پیدا کرلیتا ہے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 234
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 234
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/234/mode/1up
چونکہ خداتعالیٰ علت العلل ہے بوجہ اپنے علت العلل ہونے کے ان دونوں فعلوں کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے لیکن اپنے پاک کلام میں اس نے بار ہا تصریح سے فرمادیا ہے کہ جو ضلالت کے اثر کسی کے دل میں پڑتے ہیں وہ اسی کی بد اعمالی کا نتیجہ ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ اس پر کوئی ظلم نہیں کرتا جیساکہ فرماتا ہے ۱ (س۲۸ر۹)پس جبکہ وہ کج ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو کج کر دیا۔ پھر دوسرے مقام میں فرماتا ہے ۔ ۲ ان کے دلوں میں مرض تھی خداتعالیٰ نے اس مرض کو زیادہ کیا یعنی امتحان میں ڈال کر ا س کی حقیقت ظاہر کردی پھر فرماتا ہے۔33۳ یعنی خداتعالیٰ نے بباعث ان کی بے ایمانیوں کے ان کے دلوں پر مہریں لگا دیں۔ لیکن یہ جبر کا اعتراض اگر ہو سکتا ہے تو آپکی کتب مقدسہ پر ہو گا۔ دیکھو خروج ۴۲۱ خدا نے موسیٰ کو کہا۔ مَیں فرعون کا دل سخت کروں گا اور جب سخت ہوا تو اس کا نتیجہؔ جہنم ہے یا کچھ اورہے۔ دیکھو خروج ۳۷ ا مثال باب ۴۱۶ پھر خروج ۳۱۰ استثنا۴۲۹ خدا نے تم کو وہ دل جو سمجھے اوروہ آنکھیں جودیکھیں اور وہ کان جو سنیں آج تک نہ دیئے۔ اب دیکھئے کیسے جبر کی صاف مثال ہے۔ پھر دیکھو زبور۱۴۸ اس نے ایک تقدیر مقدر کی جو ٹل نہیں سکتی رومیان۹۱۸ کاریگری کا کاریگر پر اعتراض نہیں کرسکتے۔ اب ان تمام آیات سے آپ کا اعتراض الٹ کر آپ ہی پر پڑا اور پھر بعد اس کے آپ نے جہاد پر اعتراض کر دیا ہے مگر یہ اعتراض طریق مناظرہ کے بالکل مخالف ہے اور آپ کی شرائط میں بھی یہی درج تھا کہ نمبر وار سوالات ہونگے بجز اسکے کیا مطلب تھا کہ پہلے سوال کا جواب ہو جائے تو پھر دوسرا پیش ہو اور خبط بحث نہ ہو۔ اور آپ کے پہلے سوال کا جواب جو آپ نے عدل پر کیا کچھ نتیجہ رہ گیا تھا وہ یہ ہے کہ آپ کے اِس خود ساختہ قانون کو حضرت مسیحؑ توڑتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے بیان کے مطابق نجات کا مدار وعدوں پر رکھتے ہیں اور احکام الٰہی جن کی جزا وعدہ کے طورپر بیان کی گئی پیش کرتے ہیں جیساکہ وہ فرماتے ہیں کہ مبارک وے جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 235
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 235
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/235/mode/1up
مبارک وے جو رحم دل ہیں کیونکہ ان پر رحم کیا جاوے گا۔ مبارک وے جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔ اَب آپ کیا فرماتے ہیں کہ یہ وعدے جو غم گینوں اور رحم دلوں اور پاک دِلوں کے لئے وعدہ کئے گئے تھے یہ پورے ہوں گے یا نہیں۔ اگر پورے ہوں گے تو اِس جگہ تو کسی کفارہ کا ذکر تک بھی نہیں ۔ اور اگر پورے نہیں ہونگے تو تخلف وعدہ ٹھہرا۔ جو خُداتعالیٰ کی ہدایتوں کی نسبت تجویز کرنا ایک سخت گناہ ہے۔ غرض ہم نے آپ کے رحم بلا مبادلہ کو قرآن شریف کی کامل تعلیم اور قانون قدرت اور آپکی کتب مقدسہ سے بخوبی ردّ کر دیا ۔ اب ثابت شدہ امرکے برخلاف اگر ضدّ نہیں چھوڑیں گے تو منصفیں خود دیکھ لیں گے خداتعالیٰ کی تمام تعلیمیں قانون قدرت کے موافق ہیں اور بقول ڈاکٹر مارٹن کلارک صاحب قرآنی توحید ایسی صاف اور پاک اور مطابق قانون فطرت ہے جو بچے بھی اس کو سمجھ سکتے ہیں لیکن آپ کا یہ مسئلہ تثلیث بچے تو کیا آجکل کے فلاسفر بھی خلاف عقل ٹھہراتے ہیں۔ پھر کیا وہ تعلیم جو انسانی فطرت کے مطابق اور قانون قدرت کے موافق اور ایسی چمکتی ہے کہ بچے بھی اس کو قبول کرلیتے ہیں اور تمام مذاہب کے زوائد نکال کر وہی توحید باقی رہ جاتی ہے ۔ کیونکر ردکرنے کےؔ لائق ٹھہرتی ہے۔ اور آپ کے سوال جہادکا دوسرے موقعہ پر جواب دیا جاوے گا۔ مگرآپ نے داب مناظرہ کے برخلاف کیا جو سوال پر سوال کر دیا۔ اِس کو ناظرین خود دیکھ لیں گے۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 236
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 236
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/236/mode/1up
اَز جانب ڈپٹی عَبد اللہ آتھم صاحب
یکم جون ۱۸۹۳ ء
۲۹۷
جناب کا یہ فرمانا کہ مسیح تیس بَرس تک الوہیّت سے خالی رہے بقول میرے یہ خوش فہمی ہے میرا کہنایہ ہی تھا کہ مسیحیت کے عہدہ پر وہ تب تک نہیں آئے۔ اور یہ صحیح ہے باقی جو کچھ آپ نے فرمایا وہ زائد ہے۔ بے حدی سے خالی ہونا تو کسی کا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ مسیح اس سے خالی رہے۔ اقنوم ثانی کا جو رشتہ انسانیت سے ہے واسطے مسیحیت کے ہے اقنوم ثانی گو ساتھ الوہیت کے ہو۔ تاہم وہ مسیح نہیں تھا جب تک کہ تیس برس کا ہوا۔
مظہر اللہ کے معنے کیاہیں اور کس مراد سے یہ کلمہ استعمال ہوا ہے۔ ہماری نظر میں تو یہ معنی ہیں جائے ظہور اللہ کی اور واسطے عہدہ مسیحیت کے ہیں پھر کیوں اس پر آپ تنازعہ کرتے ہیں ۔ رُوح القدس برائے گواہی اس امر کے آیا کہ یہ بیٹا خدا کا ہے خدا نے کہا مَیں اِس سے راضی ہوں نہ اِس لئے کہ اس وقت آن کر اس کے بیچ میں داخل ہوا۔
(۲)آپ کے دوسرے امر کا جواب یہ ہے کہ جو چاہو آپ فرماؤ۔ لیکن اِس کا جواب آپ نے نہیں دیا کہ تقاضائے عدل کا کیونکر پورا ہو۔ اگر آپ کے فرمانے کا یہ مطلب ہے تقاضائے عدل کچھ شے نہیں ہے تو ہمارا آپ سے اِس صداقت اولیٰ پر اتفاق نہیں۔
(۳) آپ فرماتے ہیں کہ جبر قرآن سے ثابت نہیں مجھے اس میں حیرانی ہے کہ آپ اُس آیتؔ کے لفظوں کی طرف توجہ نہیں فرماتے جس میں لکھا ہے کہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی کام ہمارے ہاتھ میں ہے اور بجواب اِس کے کہاجاتاہے کہ کہدے۔ سب کام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اور آیات تو مَیں اِس مقدمہ میں بہت قرآن سے دے سکتا ہوں لیکن حاجت نہیں۔ پھر آپ کا عقیدہ اِس میں جو لکھا ہے والقد ر خیرہ وشرہ من اللّٰہ تعالٰی خیر اور شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ نتیجہ منتخب
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 237
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 237
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/237/mode/1up
قرآن سے ہے۔ جو انجیل کی آیتوں کے اوپرآپ نے اپنا حاشیہ چڑھایاہے۔ سو صحیح نہیں ۔ مَیں نے عرض کر دیا ہے کہ بدی کے واسطے خدا کی طرف سے پر مشن ہوتا ہے یعنی اجازت اور پرولجوں کے واسطے وہاں ہی تک حد ہے کہ جس میں دوزخ اور بہشت کا کچھ ذکر نہیں۔ دُنیا کے اندر کمی اور زیادتی وسعت کا ذکر ہے۔ پھر ان کو آپ ممثلہ قرآن کا کیونکر کہتے ہیں۔ مَیں تو کہتا ہوں کہ قرآن میں جبراور قدر ہر دو ہیں لیکن یہ امر ہر دو باہم متفق نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ ایک دوسرے کے نقیض ہیں جیسا کہ یہ کہنا کہ اختیار ہے بھی اور نہیں بھی صاف نقیض ہے۔
(۴) خداوند مسیح کی آزمائش میں شیطان نے جو انسانیت کاامتحان کیا ہے آپ کا مطلب کیا ہے کچھ ظاہر نہیں۔ اِس میں جبر وقدرکا علاقہ کیا ہے۔
آپ کی مثال آفتاب کی نہ معلوم کیونکر بر محل ہے جب آپ کہتے ہیں کہ سبب ثانی کے افعال بھی خداتعالیٰ اپنی طرف جو سبب اولیٰ ہے منسوب کرتا ہے نہ معلوم کیوں کرتاہے کیا ضرورت اس کی تھی سبب ثانی کے افعال ایسی صورت میں سبب اُولیٰ سے منسوب ہو سکتے ہیں کہ جب کچھ دخل سبب اُولیٰ کا بھی اس میں ہو۔
سبب اُولیٰ نے ایک شخص کو فعل مختار بنایا فعل مختاری درخود جب تک کچھ اس سے ظہور نہ ہووے قابل مواخذہ کے نہیں لہٰذا وہ درحقیقت بری بھی نہیں بلکہ بھلی ہے اور سبب اولیٰ اگر اس میں دخل دیوے تو فعل مختاری کا نقیض ہوجاوے۔ یہ خود اس کے منصوبہ فعل مختار بنانے سے بعید ہے۔ اس کے معنے ہم نے کردیئے ہیں کہ فرعون کا دل کیونکر سخت کر دیا ہم نے اِس کے معنے پہلے عرض کر دیئے یعنی یہ کہ اس کو بدی کرنے سے روکا نہیں اور اپنے فضل کا ہاتھ اُس سے اٹھا لیا اسی طرح سے اس کا دل سخت ہو گیا۔ پھر اس میں خداتعالیٰ نے کچھ نہیں کیا مگر اجازت روکنے کی نہیں دی اس کو ہمارے ہاں پر مشن کہتے ہیں اوریہ کلام مجاز ہے کہ ان کو آنکھیں دیکھنے کی نہیں دیں یا کان سننے کے نہیں دیئے جس سے یہ مراد ہوئی ؔ کہ آنکھ اورکان رکھتے ہوئے جب وہ نہیں دیکھتے اورنہیں سنتے کہ خداتعالیٰ نے ان کو روکا نہیں ایسا ہی کلام مجاز یہ ہے کہ جس طرح باپ اپنے لڑکے سے ناراض ہو کر کہتا ہے کہ تو مر جائے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 238
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 238
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/238/mode/1up
اس کے معنے یہ نہیں کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ مرجائے بلکہ یہ کہ اس کے افعال سے وہ ناراض ہے۔
(۵) میں نے دیکھا تھا کہ سوال چھوٹا ہے اور گنجائش دو کی ہے تو میں نے دو سوال کر دیئے۔ آپ جب چاہیں اس کا جواب دیویں ہم آپ کو اس میں عاجز نہ سمجھیں گے کہ آپ نے اسی وقت اس کا جواب نہیں دیا اور پھر جب آپ جواب چاہیں گے اس کا تکرار بھی کر دیں گے۔
(۶) آپ جو ان وعدوں میں کفارہ کا ذکر پوچھتے ہیں جو مسیح نے باب ۵ متی میں دیئے اس میں بڑا تعجب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ کیا سارے مضامین ایک ہی جگہ جمع کئے جاتے ہیں۔ اگر اس جگہ میں ذکر نہیں تو بہت جگہوں میں ذکر ہے جن کے حوالہ ہم بار بار دے چکے آپ کے ذمہ یہ تھا کہ دکھلاویں کہ کفارہ کی نفی ان میں ہے۔ آپ اپنا بار ثبوت دوسرے پر کس لئے ڈالتے ہیں۔
(۷) اگر آپ نے رحم بلا مبادلہ کو قانون قدرت اورآیات قرآنی اور کتب مقدسہ سے رد کر دیا ہے توبس خوشی ہوئی ان امروں کا جب چھپ جائیں گے ہر ایک بجائے خود انصاف کر لے گا۔ ہم جو دلائل اِس کے دے چکے ہیں ان کا تکرار بار بار ہر وقت پانی بلونے کی جانتے ہیں۔
(۸) مسئلہ تثلیث کے بارہ میں جو ہم نے دلائل دیئے ہیں جب تک اُن کا ردّ آپ کی طرف سے مدلل ہو کے نہ آوے تو ہم اس پر توجہ نہیں کر سکتے۔ آپ نے یہ عادت اختیار فرمائی ہے کہ ثبوت کی طرف توجہ نہ کرنا اورپھر اُسی امر کا تکرار کر دینا۔
(۹) مجھے افسوس یہ ہے کہ آپ میرے سوالات کا جواب نہیں دیتے ہیں او نہ میرے جوابات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں آج بھی ہمارا ایک سوال یہ پڑا ہے کہ انجیل کے رُو سے مریم کے پاس جبرائیل کا آنا آپ مانتے ہیں یا نہیں اور کہ مسیح کی پَیدائش معجزہ ہی کو تسلیم کرتی ہے یا نہیں۔ لیکن آپ نے اِس طرف کچھ توجہ نہیں فرمائی۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
از جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 239
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 239
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/239/mode/1up
گیارھواںؔ پرچہ
مباحثہ ۲۔ جون ۱۸۹۳ ء
روئیداد جلسہ
آج مرز ا صاحب نے ۶ بجے ۹ منٹ پر جواب لکھوانا شروع کیا اور ۷ بجے ۹ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے ۷ بجے ۴۰ منٹ پر جواب لکھوانا شروع کیا اور آٹھ بجے ۴۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے ۹ بجے ایک منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۱۰ بجے ایک منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایاگیا۔ بعد ازاں فریقین کی تحریروں پر میر مجلسوں کے دستخط ہو کے جلسہ برخاست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ غلام قادرفصیح پریزیڈنٹ
ا ز جانب عیسائی صاحبان از جانب اہل اسلام
بیان حضرت مرزا صاحب
۱۳۔ جوان ۱۸۹۳ ء وقت۱۰۶
پھر ڈپٹی صاحب فرماتے ہیں کہ ’’بے حدی سے خالی ہونا تو کسی کا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ مسیح اِس سے خالی رہے یعنی مسیح روح القدس کے نزول سے پہلے بھی مظہر اللہ ہی تھا کیونکہ عام معنوں سے تو تمام مخلوقات مظہر اللہ ہے۔‘‘ جواب مَیں کہتا ہوں کہ آپ کااَب بھی وہی اقرار ہے کہ خاص طور پر مسیح مظہر اللہ نزول روح القدس کے بعد ہوئے اور پہلے اوروں کی طرح عام مظہر تھے ۔ اورپھر ڈپٹی صاحب موصو ف تین اقنوم کا ذکر فرماتے ہیں اوریہ نہیں سمجھتے کہ یہ آپ کا ذکر بے ثبوت ہے آپ نے اس پر کوئی عقلی دلیل نہیں دی۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 240
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 240
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/240/mode/1up
اور یوں تو ہر ایک نبوت کے سلسلہ میں تین جزؤں کا ہونا ضروری ہے اور آپ صاحبوں کی یہ خوش فہمی ہے کہ اُن کا نام تین اقنوم رکھا۔رُوح القدس اسی طرح حضرت مسیح پر نازل ہوا جس طرح قدیم سے نبیوں پر نازل ہوتا تھا جس کا ثبوت ہم دے چکے نئی بات کونسی تھی۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی پہلے لکھا ہے کہ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ مَیں کہتاہوں کہ گویہ بات سچ ؔ ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے۱ ۱۲ خداتعالیٰ کی طرف ہی ہر ایک امر رجوع کرتا ہے مگر اِس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اِس سے انسان کی مجبوری لازم آتی ہے غلط فہمی ہے۔ یوں تو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا ہے کہ مَیں مینہ برساتا ہوں اور برق و صاعقہ کو پیداکرتا ہوں اورکھیتیاں اگاتا ہوں مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اسباب طبعیہ مینہ برسنے اوررعد و برق کے پَیدا ہونے کے جو ہیں اس سے اللہ تعالیٰ انکار کرتا ہے۔ بالکل فضول ہے۔ کیونکہ یہ مراتب بجائے خود بیان فرمائے گئے ہیں کہ یہ تمام چیزیں اسباب طبعیہ سے پَیدا ہوتے ہیں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے ایسے بیانات سے کہ میرے حکم سے بارشیں ہوتی ہیں اورمیرے حکم سے کھیتیاں اُگتی ہیں اور برق و صاعقہ پیدا ہوتا ہے اور پھل لگتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ اور ہر ایک بات میرے ہی قبضہ اقتدار میں اور میرے ہی امر سے ہوتی ہے۔ یہ ثابت کرنا مقصودنہیں کہ سلسلہ کائنات کا مجبورمطلق ہے بلکہ اپنی عظمت اور اپنا علت العلل ہونا اوراپنا مسبب الاسباب ہونا مقصود ہے کیونکہ تعلیم قرآنی کا اصل موضوع توحید خالص کو دُنیا میں پھیلانا اورہر ایک قسم کے شرک کوجو پھیل رہا تھا مٹانا ہے۔ اور چونکہ قرآن شریف کے نازل ہونے کے وقت عرب کے جزیرہ میں ایسے ایسے مشرکانہ عقائد پھیل رہے تھے کہ بعض بارشوں کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے تھے اور بعض دہریوں کی طرح تمام چیزوں کا ہونا اسباب طبعیہ تک محدود رکھتے تھے ۔ اور بعض دو خدا سمجھ کر اپنے ناملائم قضا وقدر کو اھرمن کی طرف منسوب کرتے تھے۔ اِس لئے یہ خداتعالیٰ کی کتاب کا فرض تھا جس کے لئے وہ نازل ہوئی کہ اُن خیالات کو مٹادے اور ظاہر کرے کہ اصل علّت العلل
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 241
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 241
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/241/mode/1up
اور مسبب الاسباب وہی ہے اور بعض ایسے بھی تھے جو مادہ اور رُوح کو قدیم سمجھ کر خداتعالیٰ کا علّت العلل ہونا بطور ضعیف اور ناقص کے خیال کرتے تھے۔ پس یہ الفاظ قرآن کریم کے کہ میرے ہی امر سے سب کچھ پَیدا ہوتا ہے۔ توحید محض کے قائم کرنے کے لئے تھے۔ ایسی آیات سے انسان کی مجبوری کا نتیجہ نکالنا تفسیر القول بما لا یرضی بہ قائلہ ہے۔ اور خداتعالیٰ کے قانون قدرت پر نظر ڈال کر یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ آزادی اور عدم مجبوری جس کا ڈپٹی صاحب موصوف دعویٰ کر رہے ہیں دُنیا میں پائی نہیں جاتی بلکہ کئی قسم کی مجبوریاں مشہود و محسوس ہو رہی ہیں۔ مثلًا بعض ایسے ہیں کہ اُن کا حافظہ اچھا نہیں وہ اپنے ضعیف حافظہ سے بڑھ کر کسی بات کے یاد کرنے میں مجبور ہیں بعض کا متفکرہ اچھا نہیں وہ صحیح نتیجہ نکالنے سے مجبور ہیں۔ بعض بہت چھوٹے سر والے جیسے وہ لوگ جنہیں دولہ شاہ کا چُوہا کہتے ہیں ایسے ہیں کہ وہ کسی امر کے سمجھنے کے قابل نہیں۔ ان سے بڑھ کر بعض دیوانے بھی ہیں اور خود اِنسان کے قویٰ ایک حد تک رکھے گئے ہیں جس حد سے آگے وہ کام اُن سے نہیں لے سکتے۔ یہ بھی ایک قسم کی مجبوری ہے۔
پھرؔ ڈپٹی صاحب فرماتے ہیں کہ اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ خیر اور شر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے افسوس کہ ڈپٹی صاحب کیسے صحیح معنے سے پھر گئے۔ واضح ہو کہ اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ خداتعالیٰ شر کو بحیثیت شر پیدا کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے۔ 33 ۱ یعنی اے شیطان شر پہنچانے والے میرے بندوں پر تیرا تسلّط نہیں بلکہ اِس فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک چیز کے اسباب خواہ وہ چیز خیر میں داخل ہے یا شر میں خداتعالیٰ نے پَیدا کی ہیں۔ مثلًا اگر شراب کے اجزاء جن سے شراب بنتی ہے موجود نہ ہوں تو پھر شرابی کہاں سے شراب بنا سکیں اور پی سکیں لیکن اگر اعتراض کرنا ہے تو پہلے اس آیت پر اعتراض کیجئے کہ۔ ’’ سلامتی کوبناتا اور بلا کو پَیدا کرتا ہے ۔ ‘‘ یسعیا ۷۴۵۔
پھر آگے ڈپٹی صاحب موصوف فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے۔ توریت میں ایسا کوئی حکم نہیں کہ دوزخ کیلئے خُدا نے کسی کو مجبورکیا ہے۔ اِس کا یہی جواب ہے کہ فرعون کا دِل خدا نے سخت کیا آپ اِس کو مانتے ہیں۔ پھر انجام فرعون کا اِس سخت دلی سے جہنّم ہوا یا بہشت نصیب ہوا ۔ پھر دیکھو امثال
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 242
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 242
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/242/mode/1up
آپ کا خدا تعالیٰ کیا فرماتاہے۔ خدا وند نے ہر ایک چیز اپنے لئے بنائی ہاں شریروں کو بھی اُس نے بُرے دن کیلئے بنایا ۳۱۶ ۔ اب دیکھئے یہ تو گویا اقبالی ڈگری کیطرح آپ پر الزام وارد ہوگیا کہ شر یر دوزخ کیلئے بنائے گئے کیونکہ وہی تو بُرا دِن ہے۔ پھرآپ فرماتے ہیں کہ قرآن میں اگرچہ اختیارکی بھی تعلیم ہے مگر پھر مجبوری کی بھی تعلیم اور یہ ایک دُوسری کی نقیض ہیں اِس کے جواب میں مَیں لکھ چکا ہوں کہ آپ خلط مقاصد کرتے ہیں۔ جہاں آپ کو مجبوری کی تعلیم معلوم ہوتی ہے وہاں مذاہبِ باطلہ کا ردّ مقصود ہے اور ہر ایک فیض کا خُداتعالیٰ کو مبدا قرار دینا مدِّ نظر ہے۔
اور آپ فرماتے ہیں کہ شیطان جو حضرت مسیح کو لے گیا اُس میں کیا مجبوری تھی ۔ جواب یہی ہے کہ نُور سے ظلمت کی پَیروی کرائی گئی۔ نور بالطّبع ظلمت سے جُدا رہنا چاہتا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر اختیار کو ماناجائے تو پھر خُدا تعالیٰ کا علت العلل قرار دینا لغو ہے آپ کی تقریر کا یہ خلاصہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بکلی خداتعالیٰ کو معطل کر کے پورا پورا اقتدار اور اختیارچاہتے ہیں جبکہ ہمارے قویٰ اور ہمارے جو ارح کے قویٰ اور ہمارے خیالات کے مبلغ علم پر اُس کی خدائی کا تسلط ہے وہ کیونکر معطّل ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو علّت اور معلولات کا سلسلہ درہم برہم ہو جائے گا۔ اور صانع حقیقی کی شناخت کرنے میں بہت سافتور آئے گااور دُعا کرنا بھی لغو ہوگا۔ کیونکہ جبکہ ہمؔ پورا اختیار رکھتے ہیں تو پھر دعا بے فائدہ ہے۔ آپ کو یادر ہے کہ خدا تعالےٰ کو علّت العلل ماننا مستلزم مجبوری نہیں یہی ایمان ہے یہی توحید ہے کہ اِس کو علت العلل مان لیا جاوے اور اپنی کمزوریوں کے دُور کرنے کے لئے اِس سے دُعائیں کی جائیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ یہ کلمہ کہ اُن کو آنکھیں دیکھنے کے لئے نہیں دیں۔ مجاز ہے۔ حضرت اگر یہ مجاز ہے تو پھر کہاں سے معلوم ہوا کہ دِلوں پر مُہر لگانا اور آنکھوں پر پَردہ ڈالنا حقیقت ہے۔ کیا اِس جگہ آپ کو مُہریں اورپَردے نظر آگئے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر آپ نے رحم بلا مبادلہ کو ردّ کر دیا ہے تو بس خوش ہو جئیے ۔ افسوس ابھی تک آپ میری بات کو نہ سمجھے یہ تو ظاہر ہے کہ عدل کا مفہوم جانبین کے حقوق کو قائم کرتا ہے یعنی اِس سے لازم آتا ہے کہ ایک خداتعالیٰ کا بندہ پر حق ہو جس حق کا وہ مطالبہ کرے ا ور ایک بندہ کا خداتعالیٰ پر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 243
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 243
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/243/mode/1up
حق ہوجس حق کا وہ مطالبہ کرے۔ لیکن یہ دونوں باتیں باطل ہیں کیونکہ بندہ کو خداتعالیٰ نے عدم محض سے پیدا کیا ہے اور جس طرح چاہا بنایا۔ مثلاًانسان یا گدھا یا بیل یا کوئی کیڑا مکوڑا۔ پھر حق کیسا۔ اور خداتعالیٰ کا حق اگرچہ غیر محدود ہے مگر مطالبہ کے کیا معنی۔ اگر یہ معنی ہیں کہ خداتعالیٰ کو بندوں کی فرمانبرداری کی ضرورتیں پیش آگئی ہیں اور تب ہی اس کی خدائی قائم رہتی ہے کہ ہر ایک بندہ نیک اور پاک دل ہو جائے ورنہ اس کی خدائی ہاتھ سے جاتی ہے۔ یہ تو بالکل بے ہودہ ہے کیونکہ اگر تمام دنیا نیک بن جائے تو اس کی خدائی کچھ بڑھ نہیں سکتی۔ اور اگر بد بن جائے تو کچھ کم نہیں ہوسکتی۔ پس حق کو بحیثیت حق قرار دے کر مطالبہ کرنا چہ معنی دارد۔ پس اصل بات یہ ہے کہ خداتعالیٰ نے جو غنی بے نیاز ہے اور اس سے برتر ہے کہ اپنی ذاتی حاجت سے کسی حق کا مطالبہ کرے۔ خود بندہ کے فائدہ کے لئے اور اپنی مالکیّت اور خالقیّت اور رحمانیّت اور رحیمیّت کے ظاہر کرنے کے لئے یہ سارا سامان کیا ہے۔ اول ربوبیّت یعنی خالقیّت کے تقاضا سے دنیا کو پیداکیاپھر رحمانیّت کے تقاضا سے وہ سب چیزیں انکو عطاکیں جن کے وہ محتاج تھے ۔ پھر رحیمیّت کے تقاضا سے ان کے کسب اور سعی میں برکت ڈالی او ر پھر مالکیّت کے تقاضا سے ان کو مامور کیا۔ اور امر معروف اور نہی منکر سے مکلف ٹھہرایا اور اس پر وعید اور مواعید لگا دیئے۔ اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا کہ جو شخص بعد معصیت کے طریق ایمان اور توبہ و استغفار کا اختیار کرے۔ وہ بخشاجائےؔ گا۔ پھر اپنے وعدوں کے موافق روز حشر میں کاربند ہوگا اس جگہ رحم بلامبادلہ کا اعتراض کیا تعلق رکھتا ہے اور قائمی حقوق کا اور خداتعالیٰ سے متکبرانہ طور پر عدل کا خواستگار ہوناکیا علاقہ رکھتا ہے۔ سچی فلاسفی اس کی یہی ہے جو سورۂ فاتحہ میں بیان فرمائی گئی جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اب دیکھئے رحمن اور رحیم کے بعد بظاہر یہ سمجھا جاتا تھا کہ العادل کا لفظ لانا ان صفات کے مناسب حال ہے کہ رحم کے بعد عدل کا ذکر ہو لیکن خداتعالیٰ نے عدل سے عدول کرکے اپنی صفت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 244
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 244
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/244/mode/1up
ٹھہرائی تا معلوم ہو کہ حقوق کا مطالبہ اس سے جائز نہیں اور اس سے کوئی اپنے حق کا خواستگار نہیں ہوسکتا اور نہ وہ حاجت مند ہے کہ بحیثیت ایک ایسے حقدار کے جو بغیر وصول حق کے مرا جاتا ہے بندوں سے فرمانبرداری چاہتا ہے بلکہ بندوں کی عبادتیں اور بندوں کی طاعتیں درحقیقت انہیں کے فائدہ کے لئے ہیں جیسا کہ طبیب نسخہ کسی بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے تو یہ بات نہیں کہ اس نسخہ کو طبیب آپ پی لیتا ہے یا اس سے کوئی حظ اٹھاتا ہے یا کہ وہ بیمار کی بھلائی کے لئے ہے۔ اور پھر بعد اس کے آپ نے اسلام کے جہاد پر اعتراض کیا ہے مگر افسوس کہ آپ نے اسلامی جہاد کی فلاسفی کو ایک ذرہ بھی نہیں سمجھا اور آیات کی ترتیب کو نظر انداز کر کے بے ہودہ اعتراض کر دیئے ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام کی لڑائیاں ایسے طور سے نہیں ہوئیں کہ جیسے ایک زبردست بادشاہ کمزور لوگوں پر چڑھائی کر کے ان کو قتل کر ڈالتا ہے بلکہ صحیح نقشہ ان لڑائیوں کا یہ ہے کہ جب ایک مدت دراز تک خداتعالیٰ کا پاک نبی اور اس کے پیرو مخالفوں کے ہاتھ سے دکھ اٹھاتے رہے چنانچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور کئی برے برے عذابوں سے مارے گئے یہاں تک کہ ہمارے نبی صلعم کے قتل کر نے کے لئے منصوبہ کیا گیا اور یہ تمام کامیابیاں ان کے بتوں کے معبود برحق ہونے پر حمل کی گئیں اور ہجرت کی حالت میں بھی آنحضرت صلعمکو امن میں نہ چھوڑا گیا بلکہ خود آٹھ پڑاؤ تک چڑھائی کر کے خود جنگ کرنے کے لئے آئے تو اس وقت ان کے حملہ کے روکنے کے لئے اور نیز ان لوگوں کو امن میں لانے کے لئے جو اُن کے ہاتھ میں قیدیوں کی طرح تھے اور نیز اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے کہ ان کے معبود جن کی تائید پر یہ سابقہ کامیابیاں حمل کی گئی ہیں لڑائیاں کرنے کا حکم ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتاؔ ہے۔ ۱ ۱۹
پھر فرماتا ہے۔۲ الی آخرہ ۵۷
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 245
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 245
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/245/mode/1up
پھر فرماتا ہے۔ ۱ ۲۸
پھر فرماتا ہے۔ ۲۲۱۰
پھر فرماتا ہے۔ ۳۲۱۷
پھر فرماتا ہے۔۴س ۱۴ اخیر رکوع
پھر فرماتا ہے۔۵ ۱۸۲۱
پھر فرماتا ہے۔ ۶ ۱۴
پھر فرماتا ہے۔ ۷ ۸۱۰
اب ترجمہ کے بعد آپ کو معلوم ہو گا کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ اور اگر یہ سوال ہو کہ کفار نے کیسے ہی دکھ دیئے تھے مگر صبر کرنا چاہیئے تھا تو اس کا یہ جواب ہے کہ وہ اپنی کامیابیوں کو اپنے لات و عزیٰ بتوں کی تائیدات پر حمل کرتے تھے جیسا کہ قرآن کریم اس سے بھرا پڑا ہے حالانکہ وہ صرف ایک مہلت کا زمانہ تھا۔ اس لئے خداتعالیٰ نے چاہا کہ یہ ثابت کرے کہ جیسے ان کے بت قرآن کریم کا مقابلہ کرنے سے عاجز ہیں ایسا ہی تلوار کے ساتھ کامیاب کرا دینے سے بھی عاجز ہیں۔ سو جس قدر اسلام میں ان پر حملے کئے گئے اول مقصد ان کفار کے بتوں کا عاجز ہونا تھا اور یہ ہرگز نہیں کہ ان لڑائیوں میں کسی قسم کا یہ ارادہ تھا کہ قتل کی دھمکی دے کر ان لوگوں کو مسلمان کر دیا جائے بلکہ وہ طرح طرح کے جرائم اور خونریزیوں کے سبب سے پہلے سے واجب القتل ہو چکے تھے اور اسلامی رعایتوں میں سے جو ان کے ساتھ رب رحیم نے کیں ایک یہ بھی رعایت تھی کہ اگر کسی کو توفیق اسلام نصیب ہو تو وہ بچ سکتا ہے۔ اس میں جبر کہاں تھا عرب پر تو انہیں کے سابقہ جرائم کی وجہ سے فتویٰ قتل کاہوگیا تھا۔ ہاں باوجود اس کے یہ رعایتیں بھی تھیں کہ ان کے بچے نہ مارے جائیں ان کے بڈھے نہ مارے جائیں ان کی عورتیں نہ ماری جائیں اور ساتھ اس کے یہ بھی رعایت کہ بصورت ایمان لانے کے وہ بھی نہ مارے جائیں۔(باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی غلام قادر فصیح
دستخط بحروف انگریزی ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 246
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 246
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/246/mode/1up
بیان ؔ ڈپٹی صاحب عبداللہ آتھم
۲۔ جون ۱۸۹۳ء
وقت ۷۴۰
جواب اول عرض ہے کہ میں نے نہیں کہا کہ مظہر اللہ ہے بلکہ یہ کہا کہ اقنوم ثانی اور انسانیّت کا باہم علاقہ رہا ہے۔ مظہر اللہ تو تب ہی ظاہر ہوئے کہ جب مسیح ہوئے۔ یعنی ۳۰ برس کی عمر میں۔
دوم۔ کافی ثبوت تثلیث کا دیا گیا ہے عقل سے امکان اور کلام سے وقوعہ اس کا۔ اگر آپ نہیں مانتے تو طبع ہونے کے بعد ہر ایک بجائے خود انصاف کرلے گا۔
سوم۔ کسی نبی کے اوپر بشکل مجسم کبوتر کی مانند روح نازل ہوا۔ پھر آپ کوئی نشان نہیں دیتے کہ کون سا نبی اس کے مساوی ہے۔ اور ناحق کی حجت پیش کرتے ہیں۔
چہارم۔ میں نے جو آیت سند کی پیش کی ہے اس میں مسلمانوں کا تذکرہ یہ تھا کہ کیا کوئی بھی امر ہمارے ہاتھ میں ہے۔ جواب اس کا یہ دیا گیا ہے کہ سب امر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ امر کے معنے جو حکم کے جناب نے کئے ہیں۔ امور جس کا جمع ہے وہ بھی امر ہے یعنی کام۔ تو معنے یہ ہوئے کہ ہر کام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بالضرور فعل مختاری انسان میں مداخلت ہے۔
جناب مرزا صاحب آپ جو حوالہ اشیاء مخلوق و مثل کھیتی و پانی وغیرہ کے دیتے ہیں وہ اختیارونااختیاری کی مثال نہیں۔ میں جناب کو یہ الزام نہیں دیتا کہ جناب فریب دیتے ہیں مگر فریب کھاتے ضرور ہیں۔
پنجم۔ توحید کا ثبوت اس سے کچھ نہیں ہوتا کہ سبب اولیٰ ہوکر خداتعالیٰ سبب ثانی کے واسطے کچھ گنجائش باقی نہ رکھے سبب اولیٰ اگر قادر مطلق ہے تو دوسرے کو فعل مختار بھی پیدا کر سکتا ہے اور جب فعل مختار بنا دیا تو اس کی فعل مختاری میں مداخلت کرنا اس کے منصوبہ بنانے کے برخلاف ہے۔
ششم۔ ہم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ فعل مختاری انسان کی لاحد ہے مگر اپنے حدود میں وہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 247
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 247
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/247/mode/1up
فعل مختار مطلق ہے اور اس کا انکار آپ عبث کرتے ہیں۔
ہفتم۔یسعیا کا بیان کہ وہ سلامتی اور بلا پیدا کرتا ہے فعل مختاری کے برخلاف کچھ نہیں۔ نہ معلوم جناب نے کیوں حوالہ اس آیت کا دیا۔ فرعون کا دل سخت کیونکر ہوا- ہم نے اس کی شرح کل کردی ہے یعنی اس کو جب شرارت سے نہ روکا اور فضل کا ہاتھ پرے کر لیا تواس کا نتیجہ یہؔ ہے کہ وہ خواہ نخواہ سخت دل ہوگیا۔ کیا جناب اس امر کو نہیں سمجھتے کہ کرنے اور ہونے دینے میں بڑا فرق ہے۔ انگریزی میں صاف فرق ہے کہ کمشن اس کو کہتے ہیں کہ خود کرے اور پرمشن اس کو کہتے ہیں کہ ہونے دے۔ تو ہونے دینے کا کیا الزام مساوی اس کے ہے کہ اس نے کیا۔ اور اگر ایسا ہی الزام ہو تو صحیح نہیں ہوسکتا۔
ہشتم۔ آپ کی تیسری مثل میں کہ شریروں کو اپنے لئے بنایا اس کا مطلب صاف ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ شریر ہونے دیا۔ یہ بھی وہی پرمشن ہے نہ کہ کمشن۔ کلام مجازی کو اور عامہ کو چھوڑ کے آپ فلاسفی میں کس لئے گھستے ہیں۔کیا عوام سے جناب کلام اسی طرح پر کرتے ہیں کہ ہر ایک لفظ اس کا فلوز افیکل ہووے یعنی مطابق فلاسفی کے۔ تاہم وہ آیت جو زیر داب تنازعہ کے ہے۔ اس میں اصول قائم کیا گیا ہے کہ گویا خدا فرماتا ہے کہ ہر ایک امر میرے اختیار میں ہے اور اس اصول کا بیان اس فروع پر ہے۔ جو کہتے تھے کچھ بھی کام ہمارے ہاتھ میں ہے۔ یہاں یہ کلیہ کبریٰ ہے اور قیاس مرد مان صغریٰ ہے۔ نتیجہ جو اس کا ہے آپ انصاف کر لیجئے۔
نہم۔ مسیح بہ نسبت اپنی انسانیت کے سارے فرائض الٰہی ادا کرنے والا ہے پس وہ امتحان بھی دے گااور شیطان سے آزمایا بھی جائے گا۔ لہٰذا کیا ضرور ہے کہ اس امر کو اختیارونااختیاری کی بحث میں داخل کیا جائے۔
دہم۔ نہ ہم نے کہیں خدا کے اختیار کو کسی حد میں قید کیامگر وہ قیود جو ہر صفت پر اس کے خاصہ سے لازمی ہے۔ مثلاً ہم اس کو قادر مطلق کہتے ہیں۔ اس کے معنے یہ نہیں ہو سکتے کہ وہ نقیضین کو آن واحد میں جمع بھی کرسکتا ہے کیونکہ اجماع نقیضین دوسرا نام بطلان کا ہے اور بطلان کوئی صفت نہیں چاہتا ہے کہ جو اس کو بناوے۔ مگر صرف کھانا صداقت کا تو قادر مطلق کے یہ معنے ہیں کہ جو ممکن ہے اس کو بناوے اور جو ناممکن ہے اس کے بنانے کی احتیاج کچھ نہیں وہ تو صرف جھوٹ بولنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 248
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 248
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/248/mode/1up
سے ہوسکتا ہے۔ واضح ہو کہ جیسا ہم قدرت الٰہی کو حدودنا مناسب میں قید نہیں کرتے ویسے ہی فعل مختاری انسان کی حدود نا مناسب میں قید نہیں ہوسکتی۔
یازدہم۔ پورے اختیار پر دعا بے فائدہ ہے اس کے معنے یہ ہوئے کہ ہم علم و قدرت بھی اس کے ساتھ بے حد رکھتے ہوں۔ لیکن ہم نے کبھی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ مگر یہ کہ اس کا علم اور اس کی قدرت اور اس کا اختیار کل محدود ہیں۔ پس آپ کے فرائض و مسلمات محض خیالی ہیں۔
دوازدہم۔ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ دلوں پر آنکھوں پر مہر کرنا کلام مجازی نہیں تو ہم پر اس کا اعتراض کیا ہے۔
سیزؔ دہم۔ ہم بالکل تسلیم کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی ذات مستغنی الذّات مطلق ہے۔ لیکن وہ وہیں تک آزاد ہے کہ جہاں تک اس کی ساری صفات بالاتفاق اجازت دیں۔ چنانچہ اگر وہ کسی پر ظلم کرنے کو چاہے توچاہیئے کہ عدل اس کا مانع ہوگا۔ یا کسی کے ایذاء ناحق میں وہ خوش ہووے تو صفت گڈنس کی اس کے مانع ہوگی۔ علیٰ ہذالقیاس بہت ہی صفات متبرکہ ا س کی ہیں جو ان کلیو سب ہو کر چل سکتی ہیں اوراکس کلیو سب ہوکر نہیں چل سکتیں جیسا کہ اگر ایک صفت کچھ کام کرتی ہے تو ساری بالاتفاق اس کی ممد ہیں۔ گو ظہور خاص اس ایک کا ہے جو کام کر رہی ہے۔ اور اگر کوئی صفت کام کرتی ہے تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اٹنک ہے اور کوئی صفت اس کے ساتھ نہیں اور مخالف ہونا تو نعوذ باللہ دو صفات میں کہیں بھی جائز نہیں کہ ایک دوسری کی مخالف ہو۔
چہاردہم۔ اول تو جناب ہمیشہ ان دو صفات کی تمیز کے بارہ میں جو ایک رحم ہے دوسری گڈنس لاعلمی دکھلاتے ہیں۔ اور تمیز اس میں یہ ہے کہ رحم کسی مواخذہ اور تکلیف پر آتا ہے اور گڈنس صرف اپنے متعلقین کو خوشنود رکھنے کے واسطے ہوتا ہے جیسا کہ اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں پکڑا ہوا ہووے اس کی رہائی کے واسطے رحم کی صفت ہے اور اگر کوئی اپنے جانوروں کو بھی بہرحال خوش رکھنے چاہتا ہے اور ان غذاؤں سے جن کے وہ لائق ہیں عمدہ تر غذائیں وہ ان کو دیتا ہے یہ گڈنس کے باعث ہے۔ چنانچہ اس لفظ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 249
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 249
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/249/mode/1up
گڈنسکا داؤد نبی نے ذکر کیا ہے جیسا کہ وہ لکھتا ہے کہ ارے آؤ۔ چکھو۔ دیکھو کہ یہی بھلا ہے۔ اب عدالت کا کام یہ ہے کہ جس وقت گناہ سرزد ہووے اس کا تدارک فرماوے اور رحم اس ماقبل نہیں مگر مابعد اس تدارک و مواخذہ سے رہائی کرنے کو آوے۔ اور جب تک کوئی گناہ صادر نہیں ہوا۔ جو بھلائی اس سے کی جاتی ہے وہ مطابق گڈنس کے کی جاتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ جو شئے عدم سے بوجود آئی ہے اس کا اپنے خالق پر یہ حق ہے کہ اس سے کہے فلانا دکھ مجھ کو کیوں ہوا کہ تو عادل اگر ہے اس بات کا عدل کر۔ بکری جو ذبح کی جاتی ہے اس کے واسطے یہ عذر کافی نہیں کہ تیرا خالق و مالک ہوں۔ تھوڑی سی ایذاء میں دوسروں کی معیشت کے واسطے تجھے دیتا ہوں تو ناحق کی شاکی نہ ہو۔ لے۔ عدل یہ نہیں چاہتا ہے کہ کسی کو ایذا ہووے جس کا وہ مستوجب نہیں یا ؔ کہ وہ ایذا اس کے واسطے کچھ زیادہ خوبی پیدا نہ کرے اور اسی لئے ہم نے اقسام دکھ تین بیان کر دیئے ہیں کہ جن کو آپ مٹا نہیں سکتے اور آپ پھر دکھ کو ایک ہی قسم کا تصور فرما کر آپ خالقیت اور مالکیت کے برقعہ میں اس کو ہرلائق و نالائق امر کی اجازت کس طرح دے سکتے ہیں۔ ہم نے بار بار جناب کو کہا کہ عدالت و صداقت غیر مفید الظہور نہیں ہوسکتی۔ پھر کس لئے تقاضائے عدل کا لحاظ آپ چھوڑتے ہیں کیا آپ کے چھوڑنے سے عدل بھی اس کو چھوڑ دے گا۔ یقیناً جب تک اس کا تقاضا پورا نہ ہو رحم نہ ہوسکے گا۔
پانزدہم۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں بقول آپ کے عدل کو عدول نہیں فرمایا اور نہ رحم کو عدل پر غالب کیا۔ بلکہ وہاں رحم کا آسرا لوگوں کو دلایا ہے اور یہ بجا ہے۔ باقی جو جناب خوش فہمیاں فرماویں آپ کا اختیار ہے۔
شانزدہم۔ یہ تو حق ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے چاہتا ہے کہ وہ ایسا یا ویسا کرے وہ اس کے فائدہ کے لئے بھی ہے۔ مگر اس سے حقوق الٰہی کا رد کرنا غلط ہے کیا کچھ حقوق الٰہی بھی عباد اللہ کے اوپر ہیں۔ اگر نہیں تو گناہوں میں کیا ہرجہ خداتعالیٰ کا ہے تو پھر کس لئے وہ تیغ عدل سے اس کو ڈرایا چاہتا ہے۔ جب ہرجہ ہی کچھ نہیں تو پھر سزا کس لئے ہو۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 250
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 250
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/250/mode/1up
تنبیہ پدری واسطے بھلائی پسر کے تو ہوتی ہے۔ لیکن سزا کا لفظ کیا بے معنے مطلق ہے تنبیہ کا مخرج رحم سے ہے اور سزا کا مخرج عدل سے۔ چنانچہ ہم بھی اپنے بچوں کو تنبیہہ کرتے مارتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مر ہی جائیں۔ اور جب ناخلف کرکے نکال دیں تو اس کا مطلب سزا ہے۔ یہ تیرے اعمال کی پاداش ہے۔ تو پس ان دو امر میں تمیز موجود ہے تو ان کو نظر انداز کس لئے کیا جائے۔
ہفدہم۔ اسلام کی لڑائیاں بہت قسم کی تھیں ہم تسلیم کرتے ہیں چنانچہ دافعیہ۔ انتقامیہ انتظامیہ وغیرہ۔ لیکن جو آیت داب مناظرہ میں ہے اس کی وجہ یہ دی گئی ہے کہ مارو ان کو جو اللہ و قیامت کو نہ مانیں اور حرام و حلال کا لحاظ نہ کریں۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
ازجانب عیسائی صاحبان
بیانؔ حضرت مرزا صاحب
۲۔ جون ۱۸۹۳ء
ڈپٹی صاحب فرماتے ہیں کہ مظہریت سے پہلے اقنوم ثانی کا علاقہ تھا مگر ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے جب تک وہ انجیل کی صریح عبارت پیش نہ کریں کہ مظہریت بعد میں آئی۔
اور اقنوم ثانی کا پہلے سے علاقہ تھا۔ اور پھر ان کا یہ فرمانا کہ عقل سے امکان تثلیث ہم نے ثابت کر دیا ہے اور کلام سے وقوعہ ثابت ہوگیا ہے۔ یہ دونوں ابھی تک دعویٰ ہی دعویٰ ہیں۔ ناظرین ان کے جوابات کی اوراق گردانی کرکے دیکھ لیں کہ کہاں عقل کے رو سے امکان تثلیث ثابت کر دیا ہے؟ عقل کا فیصلہ تو ہمیشہ کلی ہوتا ہے۔ اگر عقل کی رو سے حضرت مسیح کے لئے داخل تثلیث ہونا روا رکھا جائے تو پھر عقل اوروں کے لئے بھی امکان اس کا واجب کرے گی۔
پھر ڈپٹی صاحب فرماتے ہیں کہ کس نبی پر بشکل مجسم کبوتر کے روح القدس نازل ہوا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 251
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 251
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/251/mode/1up
میں کہتا ہوں کہ اگر روح القدس کسی عظیم الجثہ جانور کی شکل پر جیسے ہاتھی یا اونٹ حضرت مسیح پر نازل ہوتا توکچھ ناز کی جگہ تھی لیکن ایک چھوٹے سے پر ناز کرنا اور اس کو بے مثل کہنا بے محل ہے۔ دیکھو حواریوں پر بقول ان کے روح القدس بطور آگ کے شعلوں کے نازل ہوا اور شعلہ کبوتر پر غالب ہے۔ کیونکہ اگر کبوتر شعلہ میں پڑے تو جل جاتا ہے۔ اور آپ کا یہ فرمانا کہ کون سا نبی مسیح کے مساوی ہے صرف اپنی خوش اعتقادی ظاہر کرنا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کیا حضرت موسیٰ ؑ مسیحؑ سے بڑھ کر نہیں جن کے لئے بطور تابع اور مقتدی کے حضرت مسیح آئے اور ان کی شریعت کے تابع کہلائے۔ معجزات میں بعض نبی حضرت مسیحؑ سے ایسے بڑھے کہ بموجب آپ کی کتابوں کے ہڈیوں کے چھونے سے مردے زندہ ہو گئے اور مسیحؑ کے معجزات پراگندگی میں پڑے ہیں کیونکہ وہ تالاب جس کا یوحنا ۵ باب میں ذکر ہے۔ حضرت مسیح کے تمام معجزات کی رونق کھوتا ہے اور پیش گویاں کا تو آگے ہی بہت نرمؔ اور پتلا حال ہے اور پھر کس عملی اور فعلی فضیلت کی رو سے حضرت مسیح کا افضل ہونا ثابت ہوا۔ اگر وہ ضمناً افضل ہوتے تو حضرت یوحنا سے اصطباغ ہی کیوں پاتے۔ اس کے رو برو اپنے گناہوں کا اقرار ہی کیوں کرتے اور نیک ہونے سے کیوں انکار کرتے اگر الوہیت ہوتی تو شیطان کو یہ کیوں جواب دیتے کہ لکھا ہے بجز خدا کے کسی اور کو سجدہ مت کر۔ اور آپ نے جو میرے اس بیان پر جرح فرمایا ہے کہ قرآن شریف میں یہ آیت درج ہے کہ تمہارے اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ یہ آپ کی غلط فہمی تو نہیں مگر تجاہل عارفانہ ہے۔ میں کل کے بیان میں لکھا چکا ہوں کہ اس کے وہ معنے نہیں جو آپ کرتے ہیں بلکہ صرف اس قدر مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے امر اور حکم کے موافق چلنا چاہئیے تمہیں کچھ بھی اختیار نہیں کہ اپنی طرف سے کوئی دخل دو۔ اب دیکھئے کجا یہ بات کہ بندہ مجبور محض ہے اور کجا یہ بات کہ ایک موقعہ پر بعض لوگوں کو بے جا دخل سے روکا گیا۔ اور پھر میں کہتا ہوں چاہے آپ سنیں یا نہ سنیں کہ قرآن شریف نے بصراحت بارہا اس اختیار کا ذکر کر دیا ہے جس کی و جہ سے انسان مکلف ہے لیکن دوسرے مقامات میں بعض مذاہب باطلہ کے رد کرنے کے لئے جو عرب میں موجود تھے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 252
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 252
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/252/mode/1up
یہ بھی کہا گیا کہ جیسا کہ تم لوگوں کا خیال ہے کہ اور اور معبود بھی کارخانہ الوہیت میں کچھ دخل رکھتے ہیں یہ غلط محض ہے ہر ایک امر کا مرجع اور مبدء خدا ہے اور وہی علت العلل اور مسبب الاسباب ہے۔ یہی غرض تھی جس کے لحاظ سے بعض اوقات خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض درمیانی وسائط اٹھا کر اپنے علت العلل ہونے کا ذکر کیا جیسے کہ کہا۔ ’’کشتی جو دریا میں چلتی ہے یہ ہمارا ہی احسان ہے‘‘۔ غرض اس جگہ ہم نے آپ کو کافی جواب دے دیا ہے کہ قرآن شریف پر جبر کا اعتراض نہیں ہوسکتا اور نہ ہم جبر یہ کہلاتے ہیں۔ آپ کو اب تک مسلمانوں کے عقیدہ کی بھی کچھ خبر نہیں۔ یہ بھی آپ نہیں جانتے جس حالت میں اللہ تعالیٰ چور کے ہاتھ کاٹنے کے لئے اور زانی کے سنگسار کرنے کے لئے قرآن کریم میں صاف حکم فرماتا ہے تو پھر اگر جبری تعلیم ہوتی تو کون سنگسار ہوسکتا تھا۔ قرآن شریف میں نہ ایک نہ دو بلکہ صدہا آیات انسان کے اختیار کی پائی جاتی ہیں۔ اگر آپ چاہیں گے تو کوئی مکمل فہرست پیش کر دی جائے گی اور اس قدر تو آپ خود بھی مانتے ہیں کہؔ انسان من کل الوجوہ مختار مطلق نہیں اور اس کے قویٰ اور جوارح اور دوسرے اسباب بیرونی اور اندرونی پر خداتعالیٰ کی حکومت کا سلسلہ جاری ہے اور یہی مذہب ہمارا ہے تو پھر کیوں ناحق کج بحثی سے بات کو طول دیتے ہیں دیکھئے جب الزامی طور پر آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا کہ توریت میں لکھا ہے کہ خدتعالیٰ نے فرعون کا دل سخت کردیا اورامثال میں لکھا ہے کہ شریر جہنم کے لئے بنائے گئے۔ تو آپ کیسی رکیک تاویلیں کرتے ہیں اور پھر تعجب کہ قرآن کریم کی آیات بیّنہ پر ایسی سخت گیری کر رہے ہیں جس نے ایک ناکردہ تعصب کی حد تک آپ کو پہنچا دیا ہے۔ کسی کا یہ مقولہ ٹھیک ہے۔ ’’گر حفظ مراتب نہ کنی‘‘۔ قرآن شریف صرف ایک شق کے بیان کرنے کے لئے نہیں آیا بلکہ ایسے ایسے موقعوں پر دونوں شقوں کا بیان کرنا اس کا فرض ہے۔ کبھی برعایت اپنے علت العلل ہونے کے اپنے تصرفات کا حال بیان کرتا ہے اور کبھی بلحاظ انسان کے مکلف بالاختیار ہونے کے اس کے اختیارات کا ذکر فرماتا ہے۔ پھر ایک بات کو دوسری بات میں دہسا دینا اور اپنے اپنے موقعہ پر چسپاں نہ رکھنا اگر تعصب نہیں تو اور کیا ہے۔ اور اگر اعتراض اسی کو کہتے ہیں تو ہم ایک ذخیرہ اس قسم کی آیات کا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 253
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 253
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/253/mode/1up
آپ کی توریت و انجیل سے ایک فہرست مرتب کر کے پیش کرسکتے ہیں مگر ان فضول اور کج بحثیوں سے ہم کو سخت نفرت ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس مسئلہ میں بلاتفاوت توریت و انجیل اور قرآن کا لفظاً و معنیً پورا اتفاق ہے اور نزاع ایسے کھلے کھلے اتفاق میں ایک شرمناک جھگڑا ہے۔ دیکھئے کہ توریت کے لفظ یہ موجود ہیں کہ۔ ’’میں نے فرعون کا دل سخت کر دیا‘‘۔ اب آپ ان لفظوں کو کاٹ کر اور نئے لفظ بنا کر یہ فرماتے ہیں کہ ’’سخت نہیں کیا بلکہ اس کو شریر ہونے دیا‘‘۔ حالانکہ پھر بھی مال ایک جا ٹھہرتا ہے۔ ایک شخص کے رو برو ایک بچہ کوئیں کے قریب بیٹھا ہے اور گرنے کو ہے اور وہ اس کو بچا سکتا تھا۔ اور اس نے نہ بچایا تو کیا اس کا قصور نہیں۔ بہرحال جب آپ لفظوں پر گرفت کرتے ہیں کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم بھی گرفت کریں اگر قرآن کے لفظوں پر پکڑ ہوسکتی ہے تو ایسے ہی لفظ توریت میں بھی موجود ہیں۔ خاص کر امثال کا حوالہ آپ کی توجہ کے لائق ہے جس میں صاف لکھا ہے۔ ’’میں نے شریروں کو برے دن کے لئے بنایا‘‘۔ اب آپ یہ لکھاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کہتا ہے کہ۔ ’’میں نے شریروں کو اپنے لئے بنایا‘‘۔ دیکھئےؔ کجا برے دنوں کے لئے اور کجا اپنے لئے۔ یہ اگر تحریف نہیں تو اورکیا ہے۔ اور پھر آپ نے خداتعالیٰ کی مالکیت پر بے جا بحث شروع کرکے لوگوں کو دھوکا دینا چاہا ہے۔ آپ کو واضح ہو کہ خداتعالیٰ اگرچہ قدوس ہے لیکن بغیر نازل کرنے اپنے قانون کے کسی کو مواخذہ نہیں کرتا اور یہ بھی بات ہے کہ وہ بجز اس کے کہ بالذات یہ چاہتا ہے کہ کوئی شخص اس سے شرک نہ کرے اور کوئی اس کا نافرمان نہ ہو اور کوئی اس کے وجود سے انکار نہ کرے اور اقسام کے معاصی کو حقیقی معصیت بجز احکام نازل کرنے کے نہیں قرار دیتا۔ دیکھئے حضرت آدم کے وقت میں خداتعالیٰ اس بات پر راضی ہوگیا کہ حقیقی ہمشیروں کا ان کے بھائیوں سے نکاح ہو جائے اور پھر مختلف زمانوں میں کبھی شراب پینے پر راضی ہوا کبھی اس کی ممانعت کی اور کبھی طلاق دینے پر راضی ہوا اور کبھی طلاق کی ممانعت کی اور کبھی انتقام پر راضی ہوا اور کبھی انتقام سے ممانعت کی۔ اور یہ تو انسان کی نوع میں ہے۔ حیوانات کی نوع میں اگر دیکھا جائے تو ماں اور بہن وغیرہ میں کچھ بھی فرق نہیں۔ برابر اور ہر طرح سے خداتعالیٰ کی نظر کے سامنے ناجائز
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 254
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 254
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/254/mode/1up
کام ہوتے ہیں اور انہیں سے اولاد ہوتی ہے۔ پس اس سے ثابت ہے کہ کتاب کے نزول سے پہلے مواخذہ قائم نہیں ہوتا اور یہ تو آپ اقرار کر چکے ہیں کہ یہ تمام احکام بندہ کے فائدہ کیلئے ہوتے ہیں اور اس بات کا آپ نے کوئی صحیح جواب نہیں دیا کہ جس حالت میں ان تمام امور میں بندہ کا فائدہ ہی متصور ہے اور خداتعالیٰ کے وعد اور وعید سے پہلے مواخذہ بھی نہیں ہوتا۔ تو پھر جب کہ بڑے آسان طریق سے یہ طریق اس طرح پر چل سکتا ہے کہ خداتعالیٰ اپنے وعدوں کے موافق توبہ کرنے والوں کی توبہ کو قبول کرے تو پھر کسی دوسرے نامعقول طریق کی کیا حاجت ہے اب بقیہ اس کا کسی دوسرے وقت میں بیان کیا جاوے گا اس وقت ہم جہاد کے بارہ میں جو باقی حصہ ہے بیان کرتے ہیں او روہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں بیان کرچکا ہوں جہاد کی بنا صرف امن قائم کرنے اور بتوں کی شان توڑنے اور حملہ مخالفانہ کے روکنے کے لئے ہے اور یہ آیت یعنی ۱ آپ کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے اور کونسا جبر اس سے ثابت ہوسکتا ہے اس کے معنے تو صاف ہیں کہ ان بے ایمانوں سے لڑو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے یعنی عملی طور پر فسق فجور میں مبتلا ہیں اور حرام کو حرام نہیں جانتے اور سچّائی کی راہیں اختیار نہیں کرتے جو اہل کتاب میں سے ہیں جب تک کہ وہ جزیہ اپنے ہاتھ سے دیں اور وہ ذلیل ہوں۔ دیکھو اس سے کیا ثابت ہوتا ہے اس سے تو یہی ثابت ہواؔ کہ جو اپنی بغاوتوں کی وجہ سے حق کے روکنے والے ہیں اور ناجائز طریقوں سے حق پر حملہ کرنے والے ہیں ان سے لڑو اور ان سے دین کے طالبوں کو نجات دو۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ یہ لڑائی ابتداءً بغیر ان کے کسی حملہ کے ہوئی تھی۔ لڑائیوں کے سلسلہ کو دیکھنا ازبس ضروری ہے اور جب تک آپ سلسلہ کو نہ دیکھو گے اپنے تئیں عمداً یا سہواً بڑی غلطیوں میں ڈالو گے۔ سلسلہ تو یہ ہے کہ اول کفار نے ہمارے نبی صلعمکے قتل کا ارادہ کرکے آخر اپنے حملوں کی وجہ سے ان کو مکہ سے نکال دیا۔ اور پھر تعاقب کیااور جب تکلیف حد سے بڑھی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 255
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 255
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/255/mode/1up
تو پہلا حکم جو لڑائی کے لئے نازل ہوا وہ یہ تھا۔ ۱ (س۱۷ر۱۳)یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی جن کے قتل کے لئے مخالفوں نے چڑھائی کی۔ اس وجہ سے اجازت دی گئی کہ ان پر ظلم ہوا اور خدا مظلوم کی حمایت کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے وطنوں سے ناحق نکالے گئے اور ان کا گناہ بجز اس کے اور کوئی نہ تھا جو ہمارا رب اللہ ہے دیکھئیکہ یہ پہلی آیت ہے جس سے سلسلہ لڑائیوں کا شروع ہوا اورپھر اس کے بعد خداتعالیٰ نے اس حالت میں کہ مخالف لڑائی کرنے سے باز نہ آئے یہ دوسری آیت نازل فرمائی۔۲یعنی جو لوگ تم سے لڑتے ہیں ان کا مقابلہ کرو اور پھر بھی حد سے مت بڑھو کیونکہ خداتعالیٰ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا اور پھر فرمایا۔ ۳یعنی قتل کرو انہیں جہاں پاؤ اور اسی طرح نکالو جس طرح انہوں نے نکالا۔ پھر فرمایا۔ ۴ یعنی اس حد تک ان کا مقابلہ کرو کہ ان کی بغاوت دور ہو جاوے اور دین کی روکیں اٹھ جائیں اور حکومت اللہ کے دین کی ہو جائے۔ اور پھر فرمایا۔ ۵ یعنی شہر حرام میں قتل تو گناہ ہے لیکن خداتعالیٰ کی راہ سے روکنا اور کفر اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کو مسجد حرام سے خارج کرنا یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اور بغاوت کو پھیلانا یعنی امن کا خلل انداز ہونا قتل سے بڑھ کر ہے اور ہمیشہ قتل کے لئے یہ لوگ مقابلہ کریں گے۔ تا اگر ممکن ہو تو تمہیں دین حق سے پھیر دیں۔ اور پھر فرمایا۔ ۶ الخ۔یعنی اگر اللہ تعالیٰ بعض کے شر کو بعض کی تائید کے ساتھ دفع نہ کرتا۔ تو زمین فاسد ہو جاتی اور پھر فرماؔ یا۔ ۷ یعنی اگر تم ان کا
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 256
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 256
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/256/mode/1up
تعاقب کرو تو اسی قدر کرو جو انہوں نے کیا ہو۔۱اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لئے اچھا ہے اور پھر اہل کتاب کا گناہ جتلانے کے لئے فرمایا۔ ۲اے اہل کتاب کیوں ایمان لانے والوں کو ایمان لانے سے روکتے ہو اور کجی اختیار کرتے ہو۔ پس یہی باعث تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ لڑائی کرنی پڑی کیونکہ وہ دعوت حق کے مزاحم ہوئے اور مشرکوں کو انہوں نے مددیں کیں اور ان کے ساتھ مل کر اسلام کو نابود کرنا چاہا جیسا کہ مفصل ذکر اس کا قرآن شریف میں موجود ہے تو پھر بجز لڑنے اور دفع حملہ کے اور کیا تدبیر تھی مگر پھر بھی ان کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا ۳یعنی اس وقت تک ان سے لڑو جب تک یہ جزیہ ذلت کے ساتھ دے دیں اور صاف طور پر فرما دیا یعنی جہاد میں یعنی لڑنے میں اسلام سے ابتدا نہیں ہوئی جیسا کہ فرماتا ہے۔ ۴یعنی انہیں مخالفوں نے لڑنے میں ابتدا کی پھر جبکہ انہوں نے آپ ابتدا کی۔ وطن سے نکالا ۔ صدہا بے گناہوں کو قتل کیا تعاقب کیا اور اپنے بتوں کی کامیابی کی شہرت دی تو پھر بجز ان کی سرکوبی کے اور کونسا طریق حق اور حکمت کے مناسب حال تھا۔ اس کے مقابل حضرت موسیؑ کی لڑائیاں دیکھئے جن لوگوں کے ساتھ ہوئیں کون سی تکلیفیں اور دکھ ان سے پہنچے تھے اور کیسی بے رحمی ان لڑائیوں میں کی گئی کہ کئی لاکھ بچے بے گناہ قتل کئے گئے۔ دیکھو ۳۱ باب ۱۷ آیت گنتی۔ استثنا ۲۰ باب ۱۔ سموئیل اول ۱۸ پھر سموئیل اول ۲۵ پھر استثنا ۲۰ اور ان آیات کے رو سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ پہلے صلح کا پیغام بھی بھیجا جاتا تھا جیسا ۱ شب ۱۰۲ سے ظاہر ہے اور نیز جزیہ لینا بھی ثابت ہے جیسے قاضیوں کی کتاب باب اول۳۸، ۳۰و ۳۳و ۳۵۔ اور یوشع ۱۶ ۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام
ازجانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 257
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 257
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/257/mode/1up
روئیدؔ اد جلسہ
۳۔ جون ۱۸۹۳ء
ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب نے ۶ بجے ۲ منٹ پر لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۴ منٹ پر ختم ہوا اور بلند آواز سے سنایا گیا۔ مرزا صاحب نے ۷ بجے ۲۷ منٹ پر لکھانا شروع کیا اور ۸ بجے ۲۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سنایا گیا اور تحریر وں پر میر مجلس صاحبان کے دستخط ہوکر جلسہ برخواست ہوا۔
دستخط بحروف انگریزی
دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
ازجانب اہل اسلام
ازجانب عیسائی صاحبان
ازؔ جانب ڈپٹی عبداللہ آتھم صاحب
۳۔ جون ۱۸۹۳ء
یکم جون کا بقیہ :۔ ایمان بالجبر پر دیکھو (۱) سورہ انفال میں لکھا ہے کہ ۱یعنی قتل کرو ان کو یہاں تک کہ نہ رہے فتنہ اور دین ہوجاوے کل اللہ کے واسطے (سورہ توبہ کا رکوع ایک)
’’یعنی جب گذر جائیں مہینہ پناہ کے تو مارو مشرکوں کو اور ڈھونڈو ان کو اورگھات پر لگے رہو ان کے۔ اِلاّ اگر تائب ہوں اور نماز اور زکٰوۃ ادا کریں تو ان کی راہ کو چھوڑ دو۔اور اگر کوئی مشرک پناہ مانگے تو کلام اللہ کے سننے تک پناہ دو۔ پھر پہنچا دو ان کو جائے امن میں۔‘‘
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 258
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 258
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/258/mode/1up
پھر سورہ توبہ کے رکوع اول میں لکھا ہے کہ کہہ دے پیچھے رہے گنواروں کو کہ آگے تم کو مقابلہ کرنا ہوگا ایک سخت لڑا کے گروہ کا تم ان کو مارو گے ویا وہ مانیں گے۔ ماسواء آیت متنازعہ کے یہ اور آیات ہیں جو صاف صاف ایمان بالجبر پر ایما کرتی ہیں۔ ماسواء انکے وہ جو جہاد دفعیہ اور انتقامیہ اور انتظامیہ قرآن میں بہت سے بیان ہیں ان کا انکار ہم کو کبھی نہ تھا۔ اقسام جہاد سے یہ خاص قسم ہے جس پر ہمارا زور ہے اور جو ایمان بالجبر پر ایماء کرتی ہے۔ کیا معنے اس کے ہیں کہ یہاں تک قتل کر کہ مخالفت دین اللہ کی باقی نہ رہے اور کل دین اللہ کا ہی ہو جائے پھر کیا معنے اس کے ہیں کہ اگر تائب ہوں اور نماز و زکٰوۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ ورنہ ہر راہ سے ان کو مارو۔ پھر ان میں سے بھی اگر کوئی مشرک پناہ مانگے تو کلام اللہ کے سن لینے تک ان کو پناہ دے دو۔ اور بعد اس کے مامنہ میں پہنچا دو یعنی ایسے امن کی جگہ میں کہ غیر لوگ ان کو تکلیف نہ دیں۔ اور وہ اسلام سے پھر کر مسلمانوں کو تکلیف نہ دیں پھر کیا معنے اس کے ہیں کہ تم ان کو قتل کرو گے یا وہ تسلیم کریں گے۔ خلاصہ صاف صاف یہ کل امور ایمان بالجبر کے اوپر حکم کرتے ہیں۔
پرچہ دوم ۲ ؍جون کا بقیہ جواب:- پھر جناب نے کلام کے مجسم ہونے پر تکرار کیا ہے کلام یعنی اقنوم ثانی جب کہ پہلےؔ باب انجیل یوحنا میں ایسا لکھا ہے کہ کلام مجسم ہوا مگر مظہریت اس کی واسطے عہدہ مسیحیت کے تیس برس کی عمر میں ظاہر ہوئی۔ جب روح القدس نازل ہوا اور آواز آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے۔ میں اس سے راضی ہوں۔ جناب بار بار جو تثلیت فی التوحید کے مسئلہ پر اعتراض فرماتے ہیں جناب کو لازم ہے کہ پہلے توحید مطلق کو بدون صفات متعددہ کے اور کچھ ثابت کریں یا کسی شئے میں ماسوائے صفات متعددہ کے اور کچھ دکھلاویں۔ واضح رہے کہ صفت کی تعریف یہ ہے کہ وہ ایک قوت ہو کہ جو خاص قسم واحد پر حاوی ہو۔ یعنی جیسے روشنی صرف روشنی ہی کا کام کرتی ہے۔ وغیرہ ویسے ہی ذات جو جامع صفات ہونے کا ایک ہی کام کرتی ہے۔
یہ نہ بھولنا کہ ہم صفت کو اقنوم قرار دیتے ہیں ہمارے معنے اقنوم کے شخص معیّن کے ہیں کہ جو مجموعہ صفات ہو اور ہماری دلیل جزو صفت سے جولی گئی ہے اس سے ایماء ہماری یہ ہے کہ جو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 259
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 259
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/259/mode/1up
جزو پر صادق آتا ہے وہ کل پر بھی آتا ہے۔ اقانیم ثلاثہ کے بارہ میں ہم یہ صورت بیان کرتے ہیں کہ جیسے ایک شئے قائم فی نفسہ ہوتی ہے۔ اور دوسری مساوی اس کے لازم و ملزوم اس میں ہوتی ہے ویسے ہی اول اقنوم کہ جس کواب کہتے ہیں قائم فی نفسہٖ ہے اور دوسرے اقانیم یعنی ابن اور روح القدس اس میں لازم و ملزوم ہیں اور ایسی چیزیں جو ایک قائم فی نفسہٖ ہو اور دوسری لازم ملزوم ماہیت کلی کو تقسیم نہیں کرتی گو تمیز اپنی علیحدہ علیحدہ رکھتی ہے۔
۳۔ روح القدس کے بشکل کبوتر نازل ہونے پر جناب نے ایک تمسخر کیا ہے کہ کبوتر کیا شئے ہے ایک چھوٹا سا جانور۔کیوں نہ ہاتھی اور اونٹ کی شکل میں اس نے نزول کیا تو اس کے جواب میں آپ کو واضح ہو کہ کبوتر کو بے آزار کر کے لکھا ہے اور خبر دہندہ امان کا وقت طوفان نوح کے۔ اس لئے اس کی ایماء یہ تھی کہ وہ کبوتر کی شکل میں اتری اور ہاتھی اور اونٹ کو توریت میں ناپاک جانور کرکے لکھے ہیں۔ ان کی شکل میں روح القدس نہیں آسکتی تھی مگر آپ کے لطافی پر اگر کوئی کہے کہ جناب کے پیشوا نبی عرب نے کس لئے چھوٹے سے وجود انسانی میں ظہور کیا۔ کیوں نہ سیمرغ میں ظہور فرمایا۔ تو آپ اس لطافی کو کیا کہیں گے۔
۴۔ موسیؑ جب کہ کہتا ہے کہ آنے والے نبی کی جو میری مانند درمیانت میں ہوگا اس کی سنوتو کون بڑاؔ ٹھہرا وہ جس کی سنی جائے یا وہ جس کا سننا بند ہو جائے۔ پھر خط عبرانیوں کے۳۳ میں یہ لکھا ہے کہ موسیٰ گھر کا خادم تھا اور یسوع المسیح مالک۔ اور پھر موسیٰ یسوع مسیح کو پہاڑ پر ملنے کو آیا۔ یسوع اس کے ملنے کو نہیں گیا تو بڑائی کس کی زیادہ ہے۔
۵۔ یہ جناب کا خیال غلط ہے کہ کوئی معجزہ چھوٹا اور کوئی بڑا بھی ہوتا ہے۔ ایک ہی دست قدرت کی دو کاری گریاں ہوتی ہیں۔ مکھی کا بنانا اور ہاتھی کا بنانا ایک ہی قدرت چاہتا ہے مگر مجھ کو بڑا تعجب یہاں یہ ہے کہ جناب نے نبی اسلام کا چھوٹا یا بڑا کوئی بھی معجزہ ثابت نہ کیاصرف دوسروں کے ہی معجزہ سے اپنا دل خوش فرمایا۔ یا اپنے کشف و کرامات کا ذکر کچھ کیا کہ جس کا ثبوت غیروں پر کبھی کچھ نہیں ہوا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 260
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 260
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/260/mode/1up
۶۔ یسوع مسیح نے کبھی اقرار اپنے گناہوں کا نہیں کیا نہ لفظاً نہ ضمناً اور نہ اس کے اوپر کبھی یہ فتویٰ لگا۔
یہ تو سچ ہے کہ قرآن انسان کو صرف جبر یہ ہی نہیں ٹھہراتا بلکہ ایک طرف جبریہ اور دوسری طرف قدریہ یعنی صاحب اختیار لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ جبر اس میں تقدیم رکھتا ہے- اور یہ دو باہم متنا قض بھی ہیں۔ چنانچہ جبر کے غلبہ کا حوالہ ہم اور آیات سے بھی دیتے ہیں۔
(۱) سورۂ نساء کے رکوع ۱۰ میں ہے جس کا حاصل معنے یہ ہیں جو کہتے ہیں کہ بھلائی اللہ کی طرف سے ہے اور برائی تیری طرف سے۔ تو کہہ ان سے کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ (۲) پھر سورۂ نساء کے رکوع ۱۱ میں ہے کہ جس کو اللہ نے گمراہ کیا تم اس کو راہ پر نہیں لاسکتے اور اس کے واسطے کوئی راہ باقی نہیں۔ (۳) پھر سورۂ مائدہ کے رکوع ۷ میں ہے اگر خدا چاہتا تو ایک ہی دین ہر کو دیتا مگر اس کو آزمانا تمہارا مدنظر تھا۔ پھر سورۂ انعام کے ۱۷ رکوع میں ہے کہ کہتے ہیں کہ اگر چاہتا اللہ تو ہم شریک نہ ٹھہرا لیتے ایسا ہی پہلے بھی کافر کہتے رہے۔
۹۔ انسان کی فعل مختاری پر اِطلاق کا لفظ جناب نے غلط لگایا ہے بلکہ وہ اپنی حدود مُعینّہ میں پورا فعل مختار ہے۔ میں نے یہ کبھی نہیں مانا جو جناب فرماتے ہیں کہ فعل مختاری میں دخل غیر بھی کچھ ہے اورنہ میں کچھ کج بحثی کرتا ہوں مگر فکر ہر کس بقدر ہمت اوست یہ ضدفعل مختاری اور نامختاری انسان میں تو صرف قرآن میں ہی پائی جاتی ہے۔
۱۰۔ سختؔ دِلی فرعون کے معنی ہم بار بار کر چکے ہیں آیندہ اِسکا تکرار عبث ہے۔
۱۱۔امثال کے باب۴۱۶ میں یہ نہیں لکھا کہ شریر کو شرارت کے واسطے بنایا گیا مگر بُرے دن کی واسطے۔ جس کی شرح حزقیل کے ۲۳و۳۲ اور ۱۱ اور پطرس کے دوسرے خط ۹ ۳ میں اور پہلا طمطاؤس کے ۲۴ میں یہ لکھا ہے کہ شریروں کو مہلت نجات کی دی جاتی ہے اور خدا کی خوشی اس میں نہیں جیسا کہ قرآن آپ کے نبی کی بابت کہتا ہے کہ واستغفر لذنبک وللمؤمنین والمؤمنات معافی
مانگ اپنے گناہوں کیلئے اورمومن مَردں اور مومن عورتوں کے لئے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 261
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 261
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/261/mode/1up
بپتسما پانے میں یسوع نے اپنی مراد آپ ظاہر کر دی ہے یعنی یہ کل راستبازی پوری ہو یعنی متابعت شریعت موجودہ کی کی جائے۔ اور واضح رہے کہ شریعت موسوی اور انبیاء سلف کا عمل عید پٹنی کوسٹ کے دن تک رہا ہے جبکہ مسیح نے جی اُٹھ کر آسمان کی طرف صعود کیا تب سے شریعت عیسوی جاری ہوئی۔ ورنہ پہلے اس کے شریعت سلف کی تھی خلف کا ذکر تک نہ تھا اَب پھر جو جناب یوحنا کو بباعث بپتسما دینے یسوع کے بڑا فرماتے ہیں۔ یوحنا خودیہ کہتا ہے کہ مَیں اُس کے جوتے کا تسمہ کھولنے کے قابل نہیں اورکہ وہ برّہ ہے جو سب کے گناہوں کے واسطے ذبح ہو گا وہ جو جناب نے پھر لفظ نیک کے اوپر تکرار کیا ہے اس کا جواب بتکرار دیا گیا ہے اب اور کُچھ کہناضرور نہیں مگر اس قدر یاد دلانا کافی ہے کہ وہ خطاب جو اُس نے اُس جوان سے فرمایا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے۔ جبکہ نیک سوائے ایک خدا کے کوئی نہیں اِسی شخص سے یہ بھی اخیر میں فرمایا تھا کہ اگر تو کامل ہوا چاہتا ہے تو اپنا سارا مال عاجزوں کو تقسیم کر دے اورمیرے پیچھے ہو لے۔ لیکن وہ دلگیر ہو کے چلاگیا۔ اِ س سے کیا ظاہر ہوتا ہے کہ جانوں اور مالوں سب کا وہ مالک تھا اور وہ جوان نہیں مانتا تھا کہ یہ مالک ہے اس لئے اس کو متنبہ کیا گیا کہ از انجا تو مجھے خدا نہیں جانتا ۔ بروئے اعتقاد جمہور یہود کے نیک سوائے خداکے کوئی نہیں ہو سکتا تو پھر مکاری سے مجھے تو نیک کیوں کہتا ہے یہ اُس کی مکاری کی اصلاح تھی نہ کہ الوہیت سے انکار۔
۷۔ انسان مسیح کا شیطان سے آزمایا جانا کیا نقصان اُس کی الوہیت کو رکھتا ہے انسان ہو کر تو وے امتحان میں کھڑا کیا گیا اور جو آدم اُولیٰ گر کر کھو بیٹھا تھا اُس نے کھڑا رہ کر پا لیا پھر اس میں اعترؔ اض کی جگہ کونسی ہے اور شریر اپنی شرارت میں مر جائے ۔ پس یہ غلط ہے کہ شریر کو شریر بنایا گیا ہے جیسے یہ عام غلطی ہے کہ شیطان کو شیطان بنایا گیا ۔ صحیح یہ ہے کہ شیطان کومقدس فرشتہ بنایاگیا تھا پھر اس نے گناہ کرکے اپنے آپ کو شیطان بنا لیااور یہ بھی غلط ہے کہ شریر بنانے اور شریر ہونے دینے کا مآل ایک ہی ہے۔ اور وہ بچے کی مثال بھی جو جناب نے دی اس قدر اصلاح کے لائق ہے کہ اگر وہ نیک وبد کی ماہیت سے آگاہ نہیں یا طاقت نیکی کرنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 262
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 262
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/262/mode/1up
اور بدی کرنے کی نہیں رکھتا تو مواخذہ عدل سے بھی بری ہے اُس کا مرنا واسطے جنم کے نہیں ۔
۱۲۔ جناب نے مجھے دھوکہ باز جو ٹھہرایا ہے اس کے لئے میری طرف سے آپ کو سلام پہنچے اور آپ کے مانگنے بدوں ہی میری طرف سے معافی بھی ۔ (باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی ۔
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام از جانب عیسائی صاحبان
از جانب حضرت مرزا صاحب
ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب نے جس قدر پھر قرآن شریف کی ایسی آیتیں لکھی ہیں جس سے وہ ایمان بالجبر کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں۔ افسوس وہ اُن آیات کے پیش کرنے میں ایک ذرّہ انصاف سے کام نہیں لیتے ۔ ہم نے صاف طور پر تحریر گذشتہ میں جتلا دیا ہے کہ قرآن شریف میں ہرگز ہرگز جبر کی تعلیم نہیں ہے۔
پہلے کفار نے ابتداء کر کے صدہا مومنوں کو تکلیفیں دیں ۔ قتل کیا۔ وطنوں سے نکالا اور پھر تعاقب کیا اور جب اُن کا ظلم حد سے بڑھ گیا اور اُن کے جرائم خدائے تعالیٰ کی نظر میں سزا دہی کے لائق ٹھہر گئے تب اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل کی۔ ۱ (س۱۷ر۱۳)یعنی جن لوگوں پر یعنی مسلمانوں پر ظلم ہوا اور اُن کے قتل کرنے کے لئے اقدام کیا گیا۔ اب اللہ تعالیٰ بھی انھیں مقابلہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ پھر چونکہ عرب کے لوگ بباعث ناحق کی خونریزیوں کے جو وہ پہلے کر چکے تھے اور بُری بُری ابتداؤں سے مسلمانوں کو قتل کر چکے تھے اِس لئے ایک شخصی قصاص کے وہ مستحقؔ ہو گئے تھے۔ اور اِ س لائق تھے کہ جیسا اُنہوں نے ناحق بے گناہوں کو بُرے بُرے عذاب پہنچاکر قتل کیا ایساہی ان کو بھی قتل کیا جائے۔ اورجیسا کہ انہوں نے مسلمانوں کو اپنے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 263
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 263
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/263/mode/1up
وطنوں سے نکال کر تباہی میں ڈالا اور اُن کے مالوں اورجائدادوں اور گھروں پر قبضہ کر لیا اور ایسا ہی اُن کے ساتھ بھی کیا جائے ۔ لیکن خداتعالیٰ نے رحم کے طور پر جیسی اور رعائتیں کی ہیں کہ اُن کے بچّے نہ مارے جاویں اور اُنکی عورتیں قتل نہ ہوں ایسا ہی یہ بھی رعایت کر دی کہ اگر اُن میں سے کوئی مقتول ہونے سے پہلے خود بخود ایمان لے آوے تو وہ اس سزا سے بچایا جاوے جو بوجہ اس کے پہلے جرائم اور خونریزیوں کے اُس پر واجب ہوتی تھی۔ اس بیان سے سار ا قرآن شریف بھر ا ہوا ہے۔ جیسا کہ یہی آیت جو پیش کر چکا ہوں صاف صاف بیان فرما رہی ہے اور اِسکے ساتھ کی دُوسری آیت بھی یعنی اَ ۱ (۱۷)یعنی وے مظلوم جو اپنے وطنوں سے بے گناہ نکالے گئے ۔ صرف اِس بات پر کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔ پھر اِس کے بعد یہ آیت پیش کرتا ہوں یعنی ۲ یعنی عرب کے اُن مشرکوں کو قتل کرو یہاں تک کہ بغاوت باقی نہ رہ جاوے اور دین یعنی حکومت اللہ تعالیٰ کی ہو جائے۔ اِس سے کہاں جبر نکلتا ہے۔ اِس سے تو صرف اِس قدر پایاجاتا ہے کہ اُس حد تک لڑو کہ اُن کا زور ٹوٹ جائے اور شرارت اور فساد اُٹھ جائے اور بعض لوگ جیسے خفیہ طور پر اسلام لائے ہوئے ہیں ظاہر بھی اسلامی احکام اداکر سکیں۔ اگر اللہ جلّ شانہٗ کا ایمان بالجبر منشاء ہوتا جیسا کہ ڈپٹی صاحب سمجھ رہے ہیں تو پھر جزیہ اور صلح اور معاہدات کیوں جائز رکھے جاتے اور کیا وجہ تھی کہ یہود اور عیسائیوں کیلئے یہ اجازت دی جاتی کہ وہ جزیہ دے کر امن میں آجائیں اور مسلمانوں کے زیر سایہ امن کے ساتھ بسر کر یں اورڈپٹی صاحب موصوف نے جو مامنہ کے لفظ کی تشریح کی ہے وہ تشریح غلط ہے یعنی اس آیت کی جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مشرک قرآن شریف کو سُننا چاہے تو اُس کو اپنی پناہ میں لے آؤ۔
جب تک وہ کلام الٰہی کو سُنے پھر اُس کو اُسی کے مامن میں پہنچا دو اور اس آیت کے آگے یہ آیت ہے 3 (سُورہ توبہ رکوع۱)۳ یعنی یہ رعایت اِسلئے ہے کہؔ یہ قوم
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 264
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 264
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/264/mode/1up
بے خبر ہے ۔ اب ڈپٹی صاحب اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ گویا اس کو کلام الٰہی کے سننے کے بعد ایسی جگہ پہنچا دو جہاں سے بھاگ نہ سکے جبکہ انصاف اور فہم کایہ حال ہے تو نتیجہ بحث کا معلوم۔ آپ نہیں سمجھتے کہ کلام الٰہی کے تو یہ لفظ ہیں کہ ۱ یعنی پھر اس مُشرک کو اُس کی جگہ امن میں پہنچادے۔ اب ایسے صاف اور سیدھے اور کُھلے کُھلے لفظ کی تحریف کرنا اور یہ کہنا کہ ایسی جگہ پہنچا دوکہ وہ بھاگ نہ سکے اور مسلمانوں کے قبضہ میں رہے کس قدر ایک بدیہی صداقت کا خون کرناہے۔ پھر ڈپٹی صاحب اس آیت کو پیش کرتے ہیں کہ جس میں چار مہینے کے گذرنے پر قتل کا حکم ہے۔ اور نہیں سمجھتے کہ وہ تو اُن مجرموں کے متعلق ہے جو معاہدوں کو توڑتے تھے جیساکہ اللہ جلّ شانہ‘ فرماتا ہے۔ ۲( توبہ رکوع۲) جس کا مطلب یہی ہے کہ بعد عہدوں کے توڑنے کے اُن کے قول واقرار کا کیا اعتبار رہا اور پھر فرماتا ہے ۳ یہ مشرک نہ کسی عہد کا پاس کرتے ہیں اور نہ کسی قرابت کا اور حد سے نکل جانے والے ہیں اور پھر فرماتا ہے(توبہ ر ۲)۴ یعنی اگر یہ مشرک توڑیں قسمیں اپنی بعد عہد کرنے کے اور تمہارے دین میں طعن کریں تو تم کفر کے سرداروں سے لڑو کیونکہ وہ اپنی قسموں پر قائم نہیں رہے تاکہ وہ باز آجائیں کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ دیا اور رسول کو نکال دینے کا قصد کیا اور اُنہوں نے ہی اوّل ایذاء اور قتل کے لئے اقدام کیا۔ اَب تمام ان آیات پر نظر غور ڈال کر ایک عقلمند سمجھ سکتاہے کہ اِس مقام سے جبرکو کچھ بھی تعلق نہیں بلکہ مُشرکین عرب نے اپنے ایذاء اور خونریزیوں کو یہاں تک پہنچاکر اپنے تئیں اِس لائق کر دیا تھا کہ جَیسا کہ اُنہوں نے مسلمانوں کے مَردوں کو قتل کیا اور اُن کی عورتوں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 265
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 265
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/265/mode/1up
کو سخت بے رحمی سے مارا اوراُن کے بچّوں کو قتل کیا۔ وہ اِس لائق ٹھہر گئے تھے کہ حضرت موسیٰ کےؔ قانون جہاد کے موافق اُن کی عورتیں بھی قتل کی جائیں اُن کے بچے بھی قتل کئے جائیں اور اُن کے جوان و بڈھے سب تہِ تیغ کئے جاویں اور ان کو اپنے وطنوں سے جلا وطن کرکے اُن کے شہروں اور دیہات کو پُھونکا جائے۔ لیکن ہمارے نبی صلعم نے ایسانہ کیا بلکہ ہر طرح سے اُن کو رعایت دی یہاں تک کہ باوجود اُن کے واجب القتل ہونے کے جو اپنی خونریزیوں کی وجہ سے وہ اِس کے لائق ہو گئے تھے ان کو یہ بھی رعایت دی گئی کہ اگر کوئی ان میں سے اپنی مرضی سے دین اسلام اختیار کرے تو امن میں آجائے۔
اب اِس نرم اور پُر رحم طریق پر اعتراض کیا جاتا ہے اور حضرت موسیٰؑ کی لڑائیوں کو مقدس سمجھاجاتاہے۔ افسوس ہزار افسوس اگر اس وقت انصاف ہو تو اِس فرق کا سمجھنا کچھ مُشکل نہ تھا۔ تعجب کہ وہ خدا جس نے حضرت موسیٰ ؑ کو حکم دے دیا کہ تم مصر سے ناحق بے موجب لوگوں کے برتن اور زیور مستعار طورپر لے کر اور دروغ گوئی کے طورپر ان چیزوں کو اپنے قبضہ میں کر کے پھر اپنا مال سمجھ لو اور دشمنوں کے مقابل پر ایسی بے رحمی کرو کہ کئی لاکھ بچے اُن کے قتل کر دو اور لُوٹ کا مال لے لو اور ایک حصّہ خدا کا اُس میں سے نکالو اور حضرت موسیٰ ؑ جس عورت کو چاہیں اپنے لئے پسند کریں اور بعض صُورتوں میں جزیہ بھی لیاجائے اور مخالفوں کے شہر اور دیہات پُھونکے جائیں۔ اور وہی خُداہمارے نبی صلعم کے وقت میں باوجود اپنی ایسی نرمیوں کے فرماتاہے بچّوں کو قتل نہ کرو عورتوں کو قتل نہ کرو۔ راہبوں سے کچھ تعلق نہ رکھو۔ کھیتوں کو مت جلاؤ۔ گرجاؤں کو مسمار مت کرو۔ اور اُنہیں کا مقابلہ کرو جنہوں نے اول تمہارے قتل کرنے کے لئے پیش قدمی کی ہے اور پھر اگر وہ جزیہ دے دیں یا اگر عرب کے گروہ میں سے ہیں جو اپنی سابقہ خونریزیوں کی وجہ سے واجب القتل ہیں تو ایمان لانے پر اُن کو چھوڑ دو۔ اگر کوئی شخص کلام الٰہی سُننا چاہتا ہے تو اُس کواپنی پناہ میں لے آؤ اورجب وہ سن چکے تو اس کو اُس کی امن کی جگہ میں پہنچا دو۔ افسوس کہ اب وہی خدا مورد اعتراض ٹھہرایا گیا ہے۔ افسوس کہ ایسی عُمدہ اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 266
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 266
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/266/mode/1up
اعلیٰ تعلیم پر وہ لوگ اعتراض کر رہے ہیں جو توریت کی اُن خونریزیوں کو جن سے بچّے بھی باہر نہیں رہے خدائے تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں ۔پھر ڈپٹی صاحب نے اپنے رحمؔ بلامبادلہ کے بیان کی تائید میں فرمایاتھا کہ یہ بات غلط ہے کہ عدل سے پہلے رحم ہوتا ہے بلکہ عدل سے پہلے جو سلوک کیاجاتاہے اُس کا نام گوڈنس ہے۔ رحم عدل کے بعد شروع ہوتا ہے افسوس کہ ڈپٹی صاحب موصوف غلطی پر غلطی کر تے جاتے ہیں۔ مَیں اُن کی کس کس غلطی کی اصلاح کروں۔ واضح ہو کہ گوڈنس یعنی نیکی یا احسان صفات میں داخل نہیں ہے بلکہ ایک کیفیت کے نتائج و ثمرات میں سے ہے وہ چیز جس کا نام صفت رکھا جائے وہ اس جگہ بجُز رحم کے اسم سے اور کسی نام سے موسوم نہیں ہو سکتی ۔ اور رحم اس کیفیت کا نام ہے کہ جب انسان یا اللہ تعالیٰ کسی کوکمزور اورضعیف اور ناتوان یا مصیبت زدہ اور محتاج مدد پاکر اُس کی تائید کے لئے توجہ فرماتاہے۔ پھر وہ تائید خواہ کسی طور سے ظہور میں آوے اس کا نام گوڈنس رکھ لو۔ یا اس کونیکی اور احسان کہہ دو۔ ہوسکتاہے احسان کوئی صفت نہیں ہے اور کسی کیفیت راسخہ فی القلب کانام نہیں ہے بلکہ وہ اس کیفیت راسخہ یعنی رحم کا لازمی نتیجہ ہے مثلًا جب ایک بے دست و پا محتاج بھوکا ہماری نظر کے سامنے آئے گا تو اُس کی پہلی حالت ناتوانی اور ضعف کی دیکھ کر ہمارے دل میں ایک کیفیت رحم کی اس کے لئے پیدا ہوگی تب اس رحم کے جوش سے ہم نیکی کرنے کی توفیق پائیں گے اور آپ کا وہ گوڈنس ظہور میںآئے گا۔ تو اب دیکھو وہ گوڈنس رحم کی صفت کا ایک ثمرہ اورنتیجہ لازمی ہوا یا خود بجائے رحم کے ایک صفت ہے۔مُنصفین اس کو خود دیکھ لیں گے۔ اورپھرآپ فرماتے ہیں کہ رحم عدل کے بعد پَیدا ہوتاہے اِس تقریر سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ تا قرآن شریف یعنی سورہ فاتحہ میں جو آیت اَ3ہے اس پر ردّ کریں لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اِس سے تو خود آپ کی حالت علمیّت کی پَردہ دری ہوئی جاتی ہے اِس بات کو کون نہیں جانتا کہ رحم جیسا کہ مَیں ابھی بیان کر چکا ہوں ضعیف یا ناتوان یا مصیبت زدہ کو دیکھ کر پیدا ہوتا ہے یہ نہیں کہ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 267
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 267
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/267/mode/1up
عدل کے بعد ظہور میں آوے۔ ایساہی توریت میں ہے عزرا ۳۱۱ ونحمیاہ ۳۹ و ۹۱۹ زبور ۵۸۶ و ۱۱۰۶ ۔ اور نیز آپ کا یہ قول جو بار بار پیش کر رہے ہیں جو رحم اورعدل کی گویا باہم لڑائی ہے اور اس لڑائی کے فرو کرنے کے لئے کفارہ کی تجویز ہوئی یہ آپ کا بیان سراسر غلط ہے اِس بات میں کچھ بھی شک نہیں کہ گُناہ اُس وقت پَیدا ہوتا ہے کہ جب اوّل قانونؔ فرمانبرداری کا شائع ہو جائے کیونکہ نافرمانی فرمانبرداری کے بعد ہوا کرتی ہے۔ پھر جبکہ یہ صورت ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جب قانون نازل ہو گا اورخدائے تعالیٰ کی کتاب اپنے وعدوں کے مطابق عمل درآمد کریگی یعنی اس طرح کے احکام ہوں گے کہ فلاں شخص فلاں نیک کام کرے تو اُس کا اجر یہ ہو گا یا بدکام کرے تو اُس کی سزا یہ ہو گی تو اس صورت میں کفارہ کا دخل کسی طور سے جائز نہیں جبکہ وعدہ وعید کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے تو اس صورت میں ایک بیٹا نہیں اگر ہزار بیٹے بھی صلیب پر کھینچے جاویں تب بھی وعدہ میں تخلّف نہیں ہو سکتا اورکسی کتاب میں نہیں لکھا کہ خداتعالیٰ اپنے وعدوں کو توڑتا ہے اور جبکہ تمام مدار وعدوں پر ہے کسی حق پر نہیں ہے تو وعدوں کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیئے آپ کا یہ بار بار فرمانا کہ حقوق کے مطابق فیصلہ ہوتا ہے مجھے تعجب دلاتاہے۔ آپ نہیں سوچتے کہ خداتعالیٰ کے مقابل کسی کا حق نہیں ہے اگر حق ہوتا تو پھر خداتعالیٰ پر صد ہا اعتراض ہر طرف سے قائم ہوتے جیسا کہ مَیں لِکھ چکا ہوں کہ کیڑے مکوڑے اورہر ایک قسم کے حیوانات جو خدائے تعالیٰ نے پیدا کئے کیا یہ مواخذہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں ایسا کیوں بنایا۔ اِسی طرح خداتعالیٰ بھی قبل از تنزیل کتاب یعنی کتاب بھیجنے سے پہلے کسی پر مواخذہ نہیں کرتا۔ اوریوں تو خدا تعالیٰ کے حقوق اُس کے بندوں پر اس قدر ہیں کہ جس قدر اُس کی نعمتیں ہیں یعنی شمار میں نہیںآسکتے لیکن گناہ صرف وہی کہلائیں گے جو کتاب نازل ہونے کے بعد نافرمانیوں کی َ مد میں آجائیں گے اور جبکہ یہ صورت ہے تو اِس سے ثابت ہوا کہ خدائے تعالیٰ دراصل عام طور پر اپنے حقوق کا مطالبہ نہیں کرتا کیونکہ وہ لا تعداد لاتحصٰی ہیں بلکہ نافرمانیوں کا مواخذہ کرتاہے۔ اور نا فرمانیاں جیسا کہ میں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 268
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 268
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/268/mode/1up
بیان کر چکا ہوں وعد اور وعید سے وابستہ ہیں یعنی اگر نیکی کرے تو اُس کو ضرور نیک جزا ملے گی۔ اور اگر بدی کرے تو اُس کو بدثمرہ ملے گا۔ اور ساتھ اِس کے یہ بھی وعدہ ہے کہ ایمان اور توبہ پر نجات ملے گی تو پھر اس صورت میں کفارہ کا کیا تعلق رہا۔ کیا کسی کے مصلوب ہونے سے اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں سے دست کش ہو سکتا ہے۔ صاحب یہ تو قانونی سزائیں ہیں جو انسانوں کو ملیں گی۔ حقوق کی سزائیں نہیں جیسا کہ آپ کا بھی یہی مذہب ہے پھرجبکہ یہ حالت ہے تو یہ جزائیں اور سزائیں صرف وعدو وعید کی رعایت سے ہوؔ سکتی ہیں اورکوئی صورت نہیں ہے جو اس کے برخلاف ہو۔ اوریہ بات سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ بدی پر راضی نہیں کفر پر راضی نہیں اِس سے کون انکار کرتا ہے۔ مگر جرائم اُسی وقت جرائم کہلاتے ہیں جب قانون اُن کو جرائم ٹھہراوے ورنہ دُنیا میں صدہا طور کے ناجائز اُمور ہوئے اور ہو رہے ہیں وہ اگر کتاب الٰہی سے خارج ہوں تو کیونکر جرائم ہو سکتے ہیں۔ مثلًا جیسے انسان قتل و خونریزی کرتا ہے ایک درندہ بھی مثلًا شیر ہمیشہ خونریزی کرکے اپنا پیٹ بھرتا ہے اورجیسے انسان کو اپنے اُمور نکاح کے متعلق ماں بہن اور رشتوں سے پرہیز ہوتا ہے جانوروں میں یہ بھی نہیں پایا جاتا اور یہ بھی ہے کہ انسانوں میں شریعت کے ذریعہ سے بھی ایسے احکام بدلتے رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ ؑ کو اجازت ہوئی کہ لڑائی میں جوعورتیں پکڑی جائیں اُن میں سے جس کو پسند کر لیں اپنے لئے رکھ لیں بچوں کو قتل کر دیں بیگانہ مال دروغ گوئی کے طور لے کر اپنے قبضہ میں کریں اور دُور دراز منازل تک اس پر اکل وشرب کا گذارہ ہو۔ لوگوں کے شہروں کو پُھونک دیں مگر یہ اجازت دوسری شریعتوں میں کہاں ہُوئی ۔(باقی آئندہ)
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 269
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 269
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/269/mode/1up
بیان ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
بقایا بیان سابقہ امروزہ:۔
۱۴۔ موسیٰ کی لڑائیوں میں امان بشرط ایمان جناب نہ دکھلاسکیں گے۔ اور وباؤں میں جیساکہ طوفان نوحؑ تھا یا اور مریان میں جناب نہیں کہہ سکتے کہ بحکم خدانہیں یا معصُوم ان میں مارے جانے سے نامعصوم ٹھہر جاتے ہیں۔پس یا تو انکار فرمائیے کہ توریت کلام اللہ نہیں یا اعتراضوں کو بند کیجئے۔ ہمارے اعتراض قرآن کے اُوپر صفات ربّانی کے مخالف ہونے کے باعث ہیں اور اس سے ہمارا نتیجہ یہ ہے کہ وہ کلام اللہ نہیں ہو سکتا اورنبی اسلام صلعم رسول اللہ نہیں ہو سکتے اوران اعتراضوں کے برخلاف ہم نے کبھی تسلیم نہیں کیا کہ وہ کلام الہامی ہے اوریہ رسول حقیقی ۔ پس یہ ویسے اعتراض نہیں کہ جیسے آپ توریت پر کرتے ہیں کہ جس کو آپ بروئے قرآن کلام اللہ بھی جانتے ہیں اورموسیٰ کو رسول اللہ بھی اورپھر معترض ہوتے ہیں۔ جیسے ہم نے صفات الٰہی کے مخالف تعلیمات قرآنی کو تھوڑا ساظاہر کیاؔ ہے۔ ہم چند تعلیمات قرآنی اور بھی بیان کرتے ہیں۔ مثلًا ایک یہ کہ قرآن بجائے حق پرستی کے ناحق کے خوف کی پرستش جائز کرتاہے جیسے کہ سورۂ نحل میں لکھا ہے کہ جو شخص ایمان اللہ کے بعد تکفیر بر نام اللہ کے کرے بشر طیکہ وہ مجبور نہ ہو اور اپنے دِل میں مطمئن ہو ایسے پر اللہ کا غضب ہے یعنی حالت مجبوری میں اوراطمینان دِلی میں بابت حق ہونے اللہ کے انکار اللہ سے قابل غضب الٰہی کے نہیں اور یہ صاف ناحق کی خوف پرستی ہے بجائے حق پرستی کے جو حق کہ قادر مطلق ہے اور پھر سورۂ کہف میں لکھا ہے کہ ذو القرنین جب عرب میں پہنچا تو اُس نے پایا کہ غروب ہونا سُورج کا دلدل کی ندی میں ہوتا ہے۔ اگرچہ یہاں پانا ذوالقرنین کا لکھا ہے لیکن کلام قرآنی کی تصدیق کے سوا نہیں یعنی تصدیق قرآنی اس کے ساتھ اور یہ امر واقعی نہیں پھر اس کو حق کے ساتھ کیونکر موافق کیاجائے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 270
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 270
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/270/mode/1up
(۳) روزہ کے رکھنے کی حدود زمانہ قرآن میں یہ بیان ہوئی ہیں کہ دن کی سفید دھاری کے نکلنے سے پہلے شروع کیاجائے اور شام کی سیاہی کی دھاری کے آنے تک اُس کو رکھا جائے اِ س میں سوال یہ ہے کہ اگرقرآن کل انسانوں کے واسطے ہے تو گرین لینڈ اور رآئس لینڈکا حال کیا ہو گا؟ جہاں چھ مہینے تک سُورج طلوع نہیں کرتا۔ اگر کہو کہ وہاں وقت کا اندازہ کر لینا چاہیئے تو اِس کا جواب یہ ہے کہ قرآن وقت کا اندازہ خود کرتا ہے اور کسی دوسرے کو اِس کا اندازہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ چند برائے نمونہ وہ تعلیمات قرآنی ہیں جو بالبداہت صداقت کے برخلاف ہیں ۔
(۴)ماسواء اسکے ظاہر ہے کہ چھوٹا بڑے کی قسم کھا سکتا ہے اور معنی قسم کے یہ ہیں کہ اگر اِس کا بیان جھوٹا ہو تو اِ س بڑے کی مار اس پر پڑے۔ لیکن جبکہ قرآن میں اُونچی چھت اُبلتے پانی اورزیتون اور قلم وغیرہ کی قسمیں لکھی ہیں تو یہ چیزیں خُدا کو کیانقصان پہنچا سکتی ہیں اور ایسی قسمیں صرف ہنسی کی سی معلوم نہیں ہوتیں تو اور کیا ہیں۔
جواب امروزہ
۱۔ جناب فرماتے ہیں کہ ایمان بالجبرکی تعلیم قرآن میں نہیں ہے۔ اِس پر اور کچھ کہنا ضرور نہیں منصف ہر دو کے بیانوں کو دیکھ لیں گے ۔ خود ہی انصاف کر لیں گے۔ قہر الٰہی کے حکم کی تعمیلؔ اور بات ہے اور پالیسی کی تجویز کی تعبیر اور بات ہے مُوسیٰ کو حکم الٰہی تھا کہ ان سات قوموں کو بالکل عدم کر دو جیسے کہ طوفان کا حکم ہو یا خاص وبا کا حکم ہوکہ جس میں گناہ گارتو مارے جاتے ہیں اور بے گناہوں کا امتحان ختم ہو جاتا ہے اُن کو گناہ گار نہیں بنایا جاتا مگر جناب کے حکم پالیسی کے ہیں جس میں لکھا ہے کہ بچے اور عورتیں وغیرہ محفوظ رکھے جاویں اور جو شخص اسلام پر آجائے اُس کو امان دیاجاوے۔ پس یہی تو امان منحصر بر ایمان ہے جس پر اعتراض قائم ہوتا ہے اور خُدا کے وباؤں کے اُوپر خواہ کسی اسباب سے ہوں کوئی اعتراض قائم نہیں ہوتا۔
مامنہ کے معنے یہ نہیں کہ اُسی شخص کا وطن او رگھر امن کا ٹھہرایا جاوے بلکہ سُورہ انفال میں ایک آیت ہے جس کا حوالہ میں ابھی ڈھونڈ کے دوں گا کہ جو گھر چھوڑ کے ہمارے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 271
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 271
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/271/mode/1up
بیچ میں آکر نہ رہے ہمارے جنگ سے محفوظ نہیں۔ یہاں سے ثابت ہے کہ مامنہ وہی جگہ ہے کہ جہاں اُن پر غیر لوگ تکلیف نہ پہنچا سکیں اور اُن کو دین سے پھر جانے کا پھر موقع نہ ملے۔
ہم نے بہت قسم کے جہاد جناب کے تسلیم کر لئے ہیں ہمار ااعتراض جہاد ایمان بالجبری پر ہے جو اس سے سوا آپ نے فرمایاوہ سوا ہی ہے۔ ہماری آیات سند کاآپ نے اچھی طرح سے جواب نہیں دیا۔اوروہ جو آپ نے فرمایا ہے کہ موسیٰ نے اچھی اچھی عورتیں جولُوٹ سے بچالی گئیں خود رکھ لیں۔ توریت سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ جو اُس نے ایک شادی رغوائیل یا تیروکی لڑکی سے شادی کی تھی اُس کے سوا اور کوئی شادی نہیں کی اور نہ لونڈی رکھی ۔ البتہ اُس نے بعض عورات کو جو لُوٹ میں بنی اسرائیل لائے۔ رکھ چھوڑنے کی اجازت دی لیکن اُن کا پیچھے رونے والا بھی کوئی نہ تھا کیونکہ سب کا قتل عام کا حکم تھا ۔ اورایسا ہی ہر وبا میں ہوتا ہے کہ بمشیت الٰہی بعضے بچ بھی جاتے ہیں۔ لیکن قرآن میں جو لُوٹ کی عورتیں اور خرید کی عورتیں جائز رکھی گئی ہیں اُن کو آپ کس طرح سے چُھپا سکتے ہیں کہ جن کے پیچھے رونے والے بھی موجود تھے۔ دیکھو سورۂ احزاب میں جس میں یہ لکھاہے۔ ۱ ۔ اس میں ملک ہونا بذریعہ خرید کے ہے اور فَئْ بذریعہ لُوٹ کے ہے۔ اورجو سر سید احمد خان صاحب نے اِس آیت کی تفسیر کی ہے اُس کا موقع ابھی نہیں مگر پیچھے سے اُن کی غلطی ہم دکھا دینگے۔
موسیٰؔ کی لڑائیوں میں ہم نے فرق دکھلایا کہ وہ بحکم الٰہی تھیں وبا نشان۔ اور قرآن کی لڑایاں ظاہر ہے کہ پالیسی کی تھیں جس کے واسطے کبھی تصدیق کسی معجزہ کی نہیں ہوئی اور تعظیمات اس کے برخلاف صفات ربّانی کے ہیں لہٰذا ہم اس کو الہامی نہیں کہہ سکتے۔
۲۔ یہ تو سچ ہے کہ برتن سونے چاندی کے بنی اسرائیل نے مصریوں سے مستعارلئے تھے لیکن وہ سوناچاندی جس حقیقی مالک کی ملک ہیں یعنی خدا کی۔ اُسی خدا نے اُن کو اجازت دی کہ اپنے پاس رہنے دو۔ پھر اس میں ظلم کون سا ہے ۔ اہل کتاب کے واسطے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 272
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 272
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/272/mode/1up
جزیہ گذاری اور ذلّت، قرآن نے قرار دی ہے وہ بے شک قتل عام سے تو مستثنیٰ کئے گئے ہیں لیکن آپ نہیں کہہ سکتے کہ جزیہ گذاری اور ذلت خواری سے گذارنا کوئی چٹکی نہیں اور وہ بے ایذا مطلق ہے۔ خواہ نخواہ کُچھ تو ایذا اس میں ہے۔ آگے ہم تواریخ کا حوالہ آپ کوکچھ نہ دیں گے کہ کیا کچھ گذرا ہے۔ ہم نے صرف قرآن کو لیا ہے اسی کے اُوپر اعتراض کرتے ہیں اورنہیں کرتے ہیں
۳۔ جناب گوڈنس کو شعبہ مرسی یعنے رحم کا قرار دیتے ہیں لیکن مجھ کو معاف رکھئے کہ یہ ایک ایسی غلطی ہے کہ عام غور کرنے والا سمجھ سکتا ہے گوڈنس وہ ہے جو حق سے زیادہ احسان دکھلاتی ہے اور رحم وہ ہے جو مواخذہ عدل سے چھوڑاتا ہے۔ لیکن جناب کو خواہ نخواہ مدِّنظر یہ ہے کہ کہیں تعلیم کفارہ کی ثابت نہ ہوجائے اِس لئے آپ ان باتوں کے سمجھنے کو پسندنہیں فرماتے۔
یہ ایک عجیب امر آپ فرماتے ہیں کہ رحم کو تقدیم ہے عدل کے اُوپر۔ اورعجب اِس میں یہ ہے کہ رحم مواخذہ پر آتا ہے یعنی مواخذۂ عدل پر تو اُس کو تقدیم کیونکر ہوئی۔ درست کہنا تو یہ ہے کہ ہر صفت اپنے اپنے موقع پر ظہور کرتی ہے اور وہ جو چند باتیں جناب رحم کے متعلق سمجھتے ہیں درحقیقت گوڈنس کے متعلق ہیں رحم سے ان کا علاقہ کچھ نہیں۔ تھوڑی سی شرح کے واسطے گوڈنس کی تعریف ہم اور بھی کر دیتے ہیں۔ مثال۔ اگر کوئی شخص اپنے جانوروں کو اچھی طرح سے نہلاتا۔ کھلاتا۔ پلاتاہے۔ اِس سے زیادہ کہ اگر اُس کو چھوڑ دیا جائے تو کبھی میسّر نہ ہو تویہ گوڈنس ہے ۔اور اگر کوئی شخص اپنے جانوروں کو جو اُس کی حفاظت میں ہیں ایذا دیوے اور اِس ایذا میں وہ خوش ہو۔ یہ وہ امر ہے کہ گوڈنس کے برخلاف ہے ہر ایک مخلوق جوعدم سے بوجود آتا ہے۔ اس کے کُچھ حقوق اپنے خالق پر ہیں۔ چنانچہ ایک یہ کہ وہ اُن کو ہر حاجت میں دکھ دینے والے سے بَری ؔ رکھے یہاں تک عدل ہے مگرجو اِس سے بڑھ کر اُن کو سُکھ کی افزونی دیوے یہ گوڈنس
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 273
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 273
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/273/mode/1up
ہے اور جب کوئی شخص اپنے اعمال سے جو اُس نے دیدہ و دانستہ و با ختیار خود کیا ہو مواخذہ عدل میں ہو اِس سے چھوڑانے کو رحم کہتے ہیں۔
۴۔ جانوروں کی بات میں جو شکم سیری و معیشت نفسی کی بابت فرمایا ہے اگراُن کے مفعولوں کو کچھ دُکھ ہے تو جناب کو ثابت کرنا چاہیئے کہ ان تین دُکھوں کے ما سوائے جوہم نے پہلے ذکرکیا ہے اور مواخذہ عدل کے لائق ہے ورنہ ان پر الزام ہی کیا ہے اور جو ماہیئت ظلم سے بھی آگاہ نہیں یا اتفاق جناب اس کو مواخذہ ہی کیونکر ہو سکتاہے۔ پس اِس فلاسفہ کے غواصی میں جناب چو طرف ایک شئے کے نہیں پھرے اور اندر باہر اس کے نظر نہیں کی۔ جب کلّی ماہیئت اِس کی معلوم کریں گے ۔ تب ایسے دلائل کو پیش
بھی نہ کریں گے۔
۵۔ ہم نے ایک سوال کیاتھا بابت فرشتوں اورپَیدائش مسیح کے اِس پر ہمارا بہت کچھ کہنا ہے۔ اِس کا جواب ہنوز آپ نے نہیں دیا۔ ہم انتظار اس کا کرتے ہیں۔
دستخط دستخط
بحروف انگریزی بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح ہنری مارٹن کلارک
پریزیڈنٹ پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام۔ از جانب عیسائی صاحبان
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 274
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 274
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/274/mode/1up
۵؍ ؔ جون ۱۸۹۳ ء
(روئداد جلسہ )
مرزا صاحب نے ۶ بجے ۱۰ منٹ پر جواب لکھانا شروع کیا اور ۷ بجے ۱۰ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سُنایاگیا اور باہمی اتفاق سے قرار پایا کہ آج بحث ختم ہو اَور آج کا دن بحث کا آخری دن سمجھا جاوے۔
مسٹرعبد اللہ آتھم صاحب نے ۷ بجے ۵۵ منٹ پر شروع کیا اور ۸ بجے ۵۵ منٹ پر ختم کیا اور بلند آواز سے سُنایاگیا۔
مرزا صاحب نے ۹ بجے ۲۳ منٹ پر شروع کیا اور ۱۰ بجے ۳۳ منٹ پر ختم کیا۔
جناب خواجہ یوسف شاہ صاحب آنریری مجسٹریٹ امرتسر نے کھڑے ہو کر ایک مختصر تقریر فرمائی اورحاضرین جلسہ کی طرف سے دونوں میر مجلسوں کا خصوصًا ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی خوش اخلاقی اور عمدہ انتظام کی وجہ سے یہ جلسہ ۱۵ دن تک بڑی خوش اسلوبی اور خوبی کے ساتھ انجام پذیر ہوا اور اگر کسی امر پر اختلاف پیدا ہوا تو دونوں میر مجلسوں نے ایک امر پر اتفاق کرکے ہر دو فریق کو رضامند کیا اورہر طرح انصاف کو مد نظر رکھ کر صورت امن قائم رکھی بعدازاں تحریروں پر میر مجلسوں کے دستخط ہوکر جلسہ برخاست ہوا۔۵ جون ۱۸۹۳ ء
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ از جانب اہل اسلام ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ از جانب عیسائی صاحبان
از جانب حضرت مرزا صاحب
ڈپٹی صاحب اور میرے سوال وجواب بطور حرف عین اور غین سے ہیں یعنی ڈپٹی صاحب
سے مُراد ع اور مُجھ سے مراد غ ہے ۔
ع۔ قرآن میں لکھا ہے کہ وَ ۱ یعنی یہاں تک قتل کرو کہ کل دین اللہ ہی کا ہو جائے اور زمین
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 275
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 275
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/275/mode/1up
پرکفر باقی نہ رہے ۔
غ۔ اگر درحقیقت کُل دینوں سے قرآن نے یہی معاملہ کیا ہے کہ یا ایمان اور یا قتل تو آپ ایسے معنوں کے کرنے میں سچے ہیں ورنہ جو حال ہے سمجھ لیجئے۔
ع۔ اگر ایمان بالجبر نہ تھا تو عربوں کے لئے یہ کیوں شرط لگائی گئی کہ یا ایمان یا قتل۔
غ۔ قتل کا حکم عربوں کی نسبت اُن کی خونریزیوں کی وجہ سے تھا جو اسلامی لڑائیوں سے پہلے اُنہوں نے اسلام کے غریب اور گوشہ گزین جماعت کو قتل کرناشروع کیا اور ایمان پر رہائی دینااُن کے لئے ایک رعایت تھی جو صفات الٰہیہ کے مخالف نہیں۔ دیکھو کتنی دفعہؔ توبہ کے وقت یہودیوں کو خدا تعالیٰ نے اپنے قہر سے نجات دی اور نیز شفاعت سے بھی۔
ع۔ موسٰی ؑ کی لڑائیوں میں امان بشرط ایمان جناب دکھلانہ سکے۔ ۔
غ۔ امان بشرط جزیہ تو آپ دیکھ چکے۔ دیکھو قاضیون کی کتاب باب ۲۸ تا ۳۵ پھر صلح کا پیغام بھی سُن چکے اگر قہر تھا تو پھر صلح کیسی دیکھو استثناء ۲۰ صلح کرنے والا ایمان سے قریب ہوجاتا ہے اورپھر ایمان لانے سے کون روکتا ہے ۔
ع۔ معصوم بچّوں کو قتل کرنا وباؤں کی موت کی طرح ہے۔
غ۔ ننھے ننھے شیر خوار بچوں کو اُنکی ماؤں کے سامنے تلواروں اوربرچھیوں سے قتل کرنا ایک نہ دو بلکہ لاکھ ہا بچوں کو اگریہ خدائے تعالیٰ کے حکم سے ہے تو پھر قرآنی جہاد کیوں جائے اعتراض سمجھے جاتے ہیں۔ کیا خُداتعالیٰ کی یہ صفات ہیں اور وہ نہیں۔
ع۔موسٰیؑ کوحکم تھا کہ ان سات قوموں کو بالکل عدم کردیوے۔
غ۔ کہاں وہ قومیں عدم کی گئیں صلح کی گئی جزیہ پر چھوڑے گئے۔ عورتیں باقی رکھی گئیں۔
ع۔ اسلام لانے کے لئے جبر کیا گیاہے۔
غ۔ جس نے ۱ فرمایا۔ صلح کو قبول کیا جزیہ دینے پر امان دے دی۔ اس کوکون جائز کہہ سکتا ہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 276
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 276
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/276/mode/1up
ع۔قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ یہ بہتان مکاری کپڑے اتار لیں میں نے ڈپٹی صاحب کے قول سے ایسا سمجھاہے۔
غ۔اگر یہی تعلیم ہے تو آیت قرآن شریف کی پیش کیجئیے بلکہ جنہوں نے تلواروں سے قتل کیا وہ تلواروں سے ہی مارے گئے۔ جنہوں نے ناحق غریبوں کو لوٹا وہ لوٹے گئے جیسا کیا ویسا پایا بلکہ ان کے ساتھ بہت نرمی کا برتاؤ ہوا جس پرآج اعتراض کیا جاتا ہے کہ کیوں ایسا برتاؤ ہوا سب کو قتل کیا ہوتا۔
ع۔قرآن نے جائز رکھا کہ خوف زدہ ایمان کا اظہار نہ کرے۔
غ۔اگر قرآن کی یہی تعلیم ہے تو پھر اسی قرآن میں یہ حکم کیوں ہے۔ ۱(سورۃتوبہ رکوع ۳)اور ۲ ۹۲۸ اور یہ کہ ۲۲۲ اصل بات یہ ہے کہ ایمانداروں کے مراتب ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۴ ۲۲ یعنی بعض مسلمانوں میں سے ایسے ہیں جن پر نفسانی جذبات غالب ہیں اور بعض درمیانی حالت کے ہیں اور بعض وہ ہیں کہ انتہاء کمالات ایمانیہ تک پہنچ گئے ہیں پھر اگر اللہ تعالیٰ نے برعایت اس طبقہ مسلمانوں کے جو ضعیف اور بزدل اور ناقص الایمان ہیں یہ فرمادیا کہ کسی جان کے خطرہ کی حالت میں اگروہ دل میں اپنے ایمان پر قائم رہیں اورزبان سے گوؔ اس ایمان کا اقرار نہ کریں تو ایسے آدمی معذور سمجھے جاویں گے مگر ساتھ اس کے یہ بھی توفرما دیاکہ وہ ایماندار بھی ہیں کہ بہادری سے دین کی راہ میں اپنی جانیں دیتے ہیں اورکسی سے نہیں ڈرتے اورپھرحضرت پولوس کا حال آپ پر پوشیدہ نہیں جو فرماتے ہیں کہ میں یہود یوں میں یہودی اور غیر قوموں میں غیر قوم ہوں اور حضرت پطرس صاحب نے بھی مخالفوں سے ڈرکرتین مرتبہ انکارکردیا۔ بلکہ ایک دفعہ نقل کفر کفرنباشد۔ حضرت مسیح ؑ پر *** بھیجی اوراب بھی میں نے تحقیقاً سنا ہے کہ بعض انگریزاسلامی ملکوں میں بعض مصالحہ کے لئے جاکراپنا مسلمان ہونا ظاہرکرتے ہیں۔
ع۔قرآن میں لکھا ہے کہ ذوالقرنین نے آفتاب کو دلدل میں غروب ہوتے پایا۔
غ۔یہ صرف ذوالقرنین کے وجدان کا بیان ہے آپ بھی اگرجہاز میں سوارہوں توآپ کوبھی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 277
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 277
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/277/mode/1up
معلوم ہو کہ سمندر سے ہی آفتاب نکلا اور سمندر میں ہی غروب ہوتا ہے۔ قرآن نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ علم ہیئت کے موافق بیان کیاجاتاہے ہر روز صدہا استعارہ بولے جاتے ہیں مثلًا اگر آپ یہ کہیں کہ آج مَیں ایک رکابی پلاؤ کی کھا کر آیا ہوں تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ آپ رکابی کو کھا گئے اگر آپ یہ کہیں کہ فلاں شخص شیر ہے کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ ا س کے پنجے شیر کی طرح اور ایک دُم بھی ضرور ہو گی۔ انجیل میں لکھا ہے کہ وہ زمین کے کنارہ سے سلیمان کی حکمت سُننے آئے حالانکہ زمین گول ہے کنارہ کے کیا معنے۔ پھر یسعیاہ باب۷۱۴ میں یہ آیت ہے ساری زمین آرام سے اور ساکن ہے مگر زمین کی تو جنبش ثابت ہو چکی۔
ع ۔ جہاں چھ ماہ تک سُورج نہیں چڑھتا روزہ کیوں کر رکھیں۔
غ۔ اگر ہم نے لوگوں کی طاقتوں پر اُن کی طاقتوں کو قیاس کرنا ہے تو انسانی قویٰ کی جڑھ جو حمل کا زمانہ ہے مطابق کر کے دِکھلانا چاہیئے پس ہمارے حساب کی اگر پابندی لازم ہے تو ان بلاد میں صرف ڈیڑھ دن میں حمل ہونا چاہیئے اور اگر اُن کے حساب کی تو دو سو چھیاسٹھ برس تک بچّہ پیٹ میں رہنا چاہیئے اور یہ ثبوت آپ کے ذمہ ہے۔ حمل صرف ڈیڑھ دن تک رہتا ہے لیکن دو سو چھیاسٹھ برس کی حالت میں یہ تو ماننا کچھ بعید از قیاس نہیں کہ وہ چھ ماہ تک روزہ بھی رکھ سکتے ہیں کیونکہ اُن کے دِن کا یہی مقدار ہے اوراس کے مطابق اُن کے قویٰ بھی ہیں۔
ع۔ رحم عدل کے بعد ہوتا ہے اور گوڈنس یعنی احسان پہلے۔
غ۔ احسان کوئی صفت نہیں بلکہ رحم کی صفت کا نتیجہ ہے مثلًا یہ کہیں گے کہ فلاں شخص پر مجھ کو رحم آیا۔ یہ نہیں کہیں گے کہ فلا ں شخص پر مجھ کو احسان آیا۔ رحم بیماروں پر آتا ہے۔ رحم کمزوروں پر آتا ہے ۔ رحم بچّوں پرآتا ہے ۔ اور اگر کسی بدمعاش قابل سزا پر بھی آوے تو ایسی حالت میں آتا ہے کہ جب وہ ضعیفوں اور نا توانوں کی طرح رجوع کرے۔ پھر اصل مورد رحم ضعف اورناتوانی ہوئی یا کچھ اورہوا۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 278
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 278
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/278/mode/1up
ع۔ؔ انسان فعل مختار ہے۔
غ۔ اگر اس کے یہ معنے ہیں کہ جس حد تک اس کو قویٰ بخشے گئے ہیں اُس حد تک وہ اس قویٰ کے استعمال کا اختیار رکھتا ہے تو یہ قرآنی تعلیم کے مخالف نہیں۔ اللہ جلّ شانہ‘ فرماتا ہے۔ ۱ ۱۶یعنی وُہ خدا جس نے ہر چیز کو اس کے مناسب حال قویٰ اورجوارح بخشے اورپھر ان کو استعمال میں لانے کی توفیق دی۔ ایسا ہی فرماتا ہے: ۲ ۹۱۵ یعنی ہر ایک اپنے قویٰ اور اشکال کے موافق عمل کرنے کی توفیق دیا جاتاہے اور اگر کچھ اورمعنے ہیں تو آپ کو خوشگوار رہیں ۔
ع۔ کیا خدائے تعالیٰ مالکیت کے برقعہ میں ناجائز کاموں کی اجازت دے سکتا ہے۔
غ۔ نالائق مت کہئے جو کچھ اس نے کیااورکر رہا ہے وہ سب لائق ہے۔ صحیفہ قدرت کو دیکھئے کہ وہ کروڑہا پرند اور چرند اوردوسرے جانوروں کی نسبت کیا کر رہا ہے اوراس کی عادت حیوانات کی نسبت کیا ثابت ہوتی ہے اگر غور سے آپ دیکھیں گے تو آپ اقرار کریں گے کہ وضع اِس دنیا کی اسی طرح پائی جاتی ہے کہ خُدائے تعالیٰ نے ہر ایک حیوان کو انسان پر قربان کر رکھا ہے اور اس کے منافع کے لئے بنایا ہے ۔
ع۔ کلام مجسّم ہوا۔
غ۔ اِس سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح ؑ کا جسم بھی خدا تھا لیجئے حضرت یک نہ شد دو شد۔
ع۔ اقنوم کے معنی شخص معین ہیں سو یہ تین جُداجُدا شخص اور ماہیئت ایک ہے اب قائم فی نفسہٖ اور ابن اور رُوح القدس اس میں لازم و ملزوم ہیں۔
غ۔ جبکہ یہ تینوں شخص اور تینوں کامل اورتینوں میں ارادہ کرنے کی صفت موجود ہے۔ اب ارادہ کرنے والا ابن اراد ہ کرنے والا روح القدس ارادہ کرنے والا ۔ تو پھر ہمیں سمجھاؤ کہ باوجود اس حقیقی تفریق کے اتحاد ماہیئت کیونکر اور نظیر بے حدی اور بے نظیری کی اس مقام سے کچھ تعلق نہیں رکھتی کیونکہ وہاں حقیقی تفریق قرار نہیں دی گئی۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 279
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 279
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/279/mode/1up
ع۔ نبی اسلام کا چھوٹا یا بڑا معجزہ ثابت نہیں ہوا۔
غ۔ قرآن معجزات سے بھرا ہے اور خود وہ معجزہ ہے توجہ سے دیکھیں اور پیشگوئیاں تو اس میں دریا کی طرح بہ رہی ہیں۔ اسلام کے غلبہ کی ضُعفِ اسلام کے وقت خبر دی۔ سلطنت روم کے غلبہ کی اُن کے مغلوب ہونے کے پہلے خبر دی۔ شق القمر کامعجزہ بھی موجود ہے اگر نظام کے مخالف وسوسہ گزرے تو یوشع بن نون اور یسعیاہ نبی کی نظیر دیکھ لیجئے مگر حضرت مسیح کے معجزات کا ہمیں کچھ پتہ نہیں لگتا۔ بیت حسدا کے حوض نے اُن کی رونق کھو دی۔ پیشگوئیاں نری اٹکل معلوم ہوتی ہیں اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ بعض پوری بھی نہ ہوئیں مثلًا یہ پیشگوئی کب اور کس وقت پُوری ہُوئی کہ تم سے ابھی بعض نہیں مریں گے کہ مَیں آسمان پر سے اُتر آؤں گا۔ بادشاہتؔ کہاں ملی جس کے لئے تلواریں خریدی گئی تھیں۔ بارہ حواریوں کو بہشتی تختوں کا وعدہ ہوا تھا یہودا اسکریوطی کو تخت کہاں ملا۔
ع۔ قرآن نے فصاحت و بلاغت کا دعویٰ نہیں کیا۔
غ۔ اگلے پرچہ میں دکھلادوں گا کہ کیاہے۔
ع۔ کیا ستون میں خدا نہیں بول سکتا۔
غ۔ کیوں نہیں بلکہ ستون میں بول کر بھی وُہ ستون سے بے علاقہ رہے گا اور ستون ابن اللہ نہیں کہلائے گا بلکہ جیسے پہلے تھا ویسے رہے گا او ایک ستون میں بولنا ایک ہی وقت میں دُوسرے ستون میں بولنے سے منع نہیں کرے گا بلکہ ایک ہی سیکنڈ میں کروڑہا ستونوں میں بول سکتا ہے مگر آپ کا اصول اس کے مطابق نہیں ۔
ع۔ کس نبی کے بارہ میں لکھا ہے کہ میر ا ہمتا۔
غ۔ جناب جب بعض نبیوں کو خدا کہا گیا تو کیا ہمتا پیچھے رہ گیا بلکہ خُدا کہنے سے تو قادِر مطلق وغیرہ سب صفات آگئے ۔
ع۔ مسیح کے مظہر اللہ ہونے میں بیبل میں بہت سی پیشگوئیاں ہیں۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 280
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 280
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/280/mode/1up
غ۔ پیش از وجود مسیح جو چودہ سو برس تک علماء یہود کی ان کتابوں کو پڑھتے ہیں اور قریبًا کروڑہا علماء کی نظرسے وہ کتابیں گذریں کیا کسی کاذہن اس طرف نہیں گیا کہ کوئی خُدا بھی آنے والاہے۔
کیا یہودی لُغت نہیں جانتے تھے کتابیں نہیں رکھتے تھے نبیوں کے شاگرد نہیں تھے پھر گھر کی پُھوٹ اور بعض علمائے عیسائی کا یہود سے متفق ہونا اور بھی اس کی تائید کرتاہے ۔
ع۔ شریعت موسوی نشانات تصویری کیسے تھے پھر قرآن کیا لایا۔
غ۔ قرآن نے مُردوں کو زندہ کیا۔ باطل خیالات کو مٹایا۔
ع۔ مذہب عیسوی میں تقدیری جبر کی تعلیم نہیں۔
غ۔ انجیل سے پایاجاتا ہے کہ شیاطین ضلالت پر مجبور ہیں اورناپاک رُوحیں ہیں اگر یہ بات صحیح نہیں تو ثابت کرو کہ حضرت مسیح کے ذریعہ سے کس شیطان نے نجات یافتہ ہونے کی خوشخبری پائی بلکہ وہ تو بکتے ہیں کہ وہ ابتدا سے قاتل تھا اور شیاطین میں سچائی نہیں حضرت مسیحؑ شیاطین کے لئے بھی کفّارہ تھے یا نہیں اس کاکیاثبوت ہے مگر قرآن جنّات کی ہدایت کا ذکر کرتا ہے
ع۔ مسیح زمین آسمان کا خالق ہے۔
غ۔ سوال یہ تھا کہ مسیح نے دُنیا میں آکر مظہر اللہ ہونے کی کون سی چیز بنائی۔ جواب یہ ملتا ہے کہ سب کچھ مسیح ہی کا بنایا ہواہے۔
ع۔ؔ نیک ہونے سے انکار اِس لئے کیا تھا کہ وہ مسیح کو خدا نہیں جانتا تھا۔
غ۔ انجیل سے اِس کا ثبوت دیجئے۔ مرقس میں تو صا ف لکھا ہے کہ اُس نے گھٹنے ٹیکے اور مسیح ؑ نے خدائی کا کچھ ذکر نہیں کیا بلکہ کہا کہ اگر تو کامل ہوناچاہتا ہے تو اپنا سارا مال غریبوں کو بانٹ دے۔
ع۔ مسیح کا بن باپ پَیدا ہونا مانتے ہیں یا نہیں۔
غ۔ مسیح کا بن باپ پَیدا ہونا میری نگاہ میں کچھ عجوبہ بات نہیں حضرت آدم ؑ ماں اور
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 281
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 281
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/281/mode/1up
باپ دونوں نہیں رکھتے تھے ۔ اب قریب برسات آتی ہے ضرور باہر جاکر دیکھیں کہ کتنے کیڑے مکوڑے بغیر ماں باپ کے پَیداہوجاتے ہیں پس اِس سے مسیح کی خدا ئی کا ثبوت نکالنا صرف غلطی ہے ۔
ع۔ صرف توبہ سے بے ادائے ہرجہ کیونکر گناہ بخشے جا سکتے ہیں ۔
غ۔ کسی کے گناہ سے خدا ئے تعالیٰ کا کوئی ہرجہ نہیں ہوتا اور گناہ پہلے قانون نازل ہونے کے کچھ وجود نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱ ۲۱۵ یعنی ہم گناہوں پر عذاب نہیں کیا کرتے جب تک رسول نہیں بھیجتے۔ اور جب رسول آیا اورخیر و شر کا راہ بتلایا تو اِس قانون کے وعدوں اوروعیدوں کے موافق عملدارآمد ہو گا کفارہ کی تلاش میں لگنا ہنسی کی بات ہے کیاکفارہ وعدوں کو توڑ سکتا ہے بلکہ وعدہ وعدہ سے بدلتاہے اور نہ کسی اور تدبیر سے جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۲ ۷ ۱۲۔ اور یہ کہنا کہ اعمال حسنہ ادائے قرضہ کی صُورت میں ہیں غلط فہمی ہے قرضہ تو اُس صُورت میں ہوتا کہ جب حقوق کا مطالبہ ہوتا۔ اَب جبکہ گناہ صرف ترک قانون سے پَیداہوا نہ ترک حقوق سے اور عبادت صرف کتابی فرمانوں پر عمل کرنے کا نام ہے تو نجات عدم نجات کا صرف قانونی وعدوو عید پر مدار رہا۔
ع۔ قرآن کی قسمیں صرف ہنسی کی سی ہیں۔
غ۔ اِس کی حقیقت آپ کو معلوم نہیںیہ ایک خاص اصطلاح ہے جو قسموں کی صورت میں اللہ جلّ شانہ‘ ایک امر بدیہہ کو نظر ی ثبوت کے لئے پیش کرتا ہے یا ایک امر مسلّم کو غیر مسلّم کے تسلیم کرنے کے لئے بیان فرماتا ہے اورجس چیز کی قسم کھائی جاتی ہے وہ درحقیت قائم مقام شاہد ہوتی ہے جیسا کہ مَیں آیت ۳ میں مفصل بیان کر چکا ہوں۔ اگر تفصیل وار دیکھنا ہو تو آئینہ کمالات اسلام کو دیکھئے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 282
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 282
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/282/mode/1up
ع۔ دُکھ تین قسم کے ہوتے ہیں۔
غ۔ آپ پر تو یہ ثابت کرنا ہے کہ جو کروڑہا حیوانات بغیر الزام کسی گناہ کے ذبح کئے جاتے ہیں وہ اگر مالکیت کی وجہ سے نہیں تو کیوں ذبح ہوتے ہیں اورمَرنے کے بعد کس بہشت میں رکھا جائے گا۔(باقی آئندہ)
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام ازجانب عیسائی صاحبان
اَزؔ جانب ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب
جناب جو یہ فرماتے ہیں کہ وہ حکم قتل کا اُنہیں لوگوں کے واسطے تھا جنہوں نے ظلم کیا تھا اہلِ اِسلام پر۔ میراجواب یہ ہے کہ سُورہ توبہ کے رکوع ۴ میں یہ سبب قرار نہیں دیاگیا بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جو ایمان نہ لاوے اللہ پر اور دن قیامت پر اورجو خدا رسول نے حرام کیا ہے اُس کو حرام نہ مانے تو وہ قتل کیا جائے اوراس میں استثناء صرف اہل کتاب کے لئے ہے کہ اگر وہ ایمان لانے کو نہ چاہیں اورنہ تہ تیغ ہوں تو جزیہ گذار اورخوار ہو کر جیتے رہیں۔ ایسی ہی اور بھی آیات جن کا میں نے حوالہ دیا ان میں یہی منشاء پایا جاتا ہے اورایمان پر امان کا منحصر کرنا گو رعایت ہے لیکن ایمان بالجبر کو اور بھی قائم کرتاہے کہ وہ شفاعتیں اور بخششیں جو مُہلت زمانہ کے واسطے دی گئیں نظیر آپ کے ایمان بالجبر کی نہیں کیونکہ وہ فیصلہ عقبیٰ تک کرتے ہیں۔
۲۔ جہاد بانشان سات قوموں سے تھا چنانچہ ان کے نام بھی درج ہیں یعنی ہیتی۔ پبوسی وغیرہ ان سے ماسوا جو ملک موعود یا ابراہیم کے درمیان اور بھی بہت سی قومیں تھیں جن کو قتل کا حکم نہیں ہوا مگریہ کہ اگر وہ اطاعت قبول کریں تو کافی ہے اور اِس سے ہماری وہ دلیل اور بھی
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 283
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 283
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/283/mode/1up
قائم ہوتی ہے کہ وہ سات قومیں ایسی زیر غضب الٰہی کے تھیں کہ جیسے نوح کے زمانہ میں اور لُوط کے زمانہ میں قہر آیا اور سب کو برباد کر گیا ایسا ہی ان کے واسطے بھی تیغ بنی اسرائیل سے بربادی کا حکم ہوا۔ معصوم بچوں کا جو آپ اعتراض پکڑتے ہیں کہ موسیٰ کی جنگوں میں ہوا ایسا ہی تو ہر وبا میں ہوتا ہے آپ کوماننا پڑے گا کہ یا تو موسیٰ کا بیان حکم الٰہی مانیں او ریا اِس سے بر کنار ہو کر فرماویں کہ توریت کلام الٰہی نہیں آپ ادھر میں نہیں لٹک سکتے۔
آپ کے مذہب پر یہ اعتراض اِس لئے ہے کہ شرط امان کی انحصار ایمان پر کرتی ہے۔ ان سات قوموں سے صلح نہیں کی گئی یہ آپ کا بیان غلط ہے اور عورتیں سب اُن کی نہیں رکھی گئیں مگر شاذ ونادر چند کے بچادینے کے لئے بنی اسرائیل کو اجازت دی گئی اور ایسی عورتوں کے واسطے اجازت دی گئی کہ جن کا پیچھے رونے والا کوئی نہ تھا۔ اور اگر اُن کے رکھنے کے واسطے اجازت نہ دی جاتی تو اُن کے مار ڈالنے سے یہ بد تر نہ ہوتا۔
۴۔ آپ تسلیم فرماتے ہیں کہ جس کو اجازت صلح کی دی گئی تو اگر ایمان کے واسطے ایسا کیاجائے تو کسی قدر جبر جائز مانا جائے گا۔ مگر فلسطیوں کی ان سات قوموں کے واسطے صلح کی اجازت کبھی نہیں دی گئی اورجزیہ دینا ان سے قبول کبھی نہیں ہوا۔ اور وہ مثل وباکے تہ تیغ ہی کئے گئے ۔ پھر جناب قرآن کی تعلیم کو اُن کی مثال اور انکو ممثلہ نہیں فرما سکتے۔
۵۔ؔ وہ جو آپ فرماتے ہیں کہ گویا میں نے کہا کہ قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ بہ بہانہ مکاری سفید پوشوں کے کپڑے اُتار لیں۔ بجواب اس کے عرض ہے کہ میں نے ایسا کبھی نہیں کہا جناب نے غلط فہمی کی ہے۔ یہ مَیں نے ضرور کہا۱ میں اکراہ وہ بھی تو متصوّر ہو سکتا ہے جو بعض اہل اسلام کسی سفید پوش کو دیکھ کر اور اُس سے سلام علیک سُن کر کہہ دیتے تھے کہ تو مسلمان نہیں تو مکاری سے سلام علیک کرتا ہے اور اُسے مار ڈالتے تھے اور کپڑے اتار لیتے تھے۔ ایسوں کے بارہ میں یہ آیت ہو سکتی ہے کہ ایسا اکراہ دین کے معاملہ میں مت کرو نہ وہ اکراہ جوایمان لانے کیلئے ہو جس کے واسطے ہم نے بہت سی آیات ناطق قرآن ہی سے پیش کی ہیں ۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 284
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 284
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/284/mode/1up
۶۔ قرآن کی یہ تعلیم ہے کہ اگر کوئی مجبوری میں خدا کا انکار کر لیوے لیکن قلب اس کا حق کے اوپر مطمئن رہے بوجہ اس اکراہ کے اور اطمینان کے غضب الٰہی سے وہ محفوظ رہے گا۔ اس پر ہمارا اعتراض یہ تھا کہ یہ ناحق کی خوف پرستی ہے کہ جو قادر قدوس سکھلاتا ہے اور ایسا ہونا نہ چاہیئے۔ اس تعلیم کو سورہ نحل کی اس آیت میں دیکھ لیں گے کہ جس میں لکھا ہے کہ ۱ الخ۔
۷۔ پولوس کا یہ کہنا کہ میں یہودیوں میں یہودیوں سا ہوں اور غیر قوموں میں غیر قوم سا اس کے یہ معنے نہیں ہوسکتے کہ وہ بے ایمان دورنگا تھا بلکہ اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ جہاں تک میں کسی سے اتفاق کرسکتا ہوں نفاق نہ کروں گا۔ چنانچہ اس موقع کو غور فرما کر دیکھ لیں۔ یہ پہلا قرنتی ۲۰۔۲۱۔۲۲ اور پطرس کا انکار صاف گناہ کا ہے اور مسیح پر اس نے *** نہیں کی تھی بلکہ اپنے اوپر معلوم نہیں کہ جناب کو کس گھبراہٹ نے پکڑا ہے کہ صحیح اقتباس کلام کا بھی نہیں فرماتے۔ آپ کیا حوالہ بے ایمان انگریزوں کا دیتے ہیں کیا وہ انجیل ہیں کلام بائبل اور قرآن کے اوپر ہے نہ بدعمل لوگوں کے اوپر۔
۸۔ میں جہاز پر سوار ہو آیا ہوں میں نے سورج کو کسی دلدل کی ندی میں غروب ہوتے نہیں دیکھا اور نہ کسی اور نے دیکھا۔ اور وہ جو اس آیت میں بیان ہے کہ اس نے پایا کہ سورج دلدل کی ندی میں غروب ہوجاتاہے تو اس کے ساتھ تصدیق خدائے قرآنی کی بھی ہے جو یہ کہتا ہے ۲ الخ یعنی تجھ سے سوال کرتے ہیں بابت ذولقرنین کی اور ان سے وعدہ ہوتا ہے کہ ہم ابھی بیان کریں گے۔ پس اس میں تصدیق اسی خدا کی ہے نہ صرف پانا ذوالقرنین کا۔ اس سے ظاہر ہو جیو کہ جناب اس اعتراض کو اٹھا نہیں سکتے ۔ یہ محاورہ کی بات نہیں بلکہ محاورہ کے برخلاف ہے کہ آفتاب دلدل کی ندی میں غروب کرگیا کیونکہ بدو نظر اور محاورہ کسی زبان یا مکان کا ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سورج کسی دلدل کی ندی میں غروب کرتا ہے۔ ہاں البتہ یہ تو عام محاورہ اور مجاز ہے جو لوگ کہتے ہیں سورج نکلا اور سورج غروب ہوا۔ اور نہ وہ محاورہ جو آپ فرماتے ہیں اور جو امور بدونظر میں کچھ صورت ظہور کی دکھلاتے ہیں ان کا کلام اس صورت
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 285
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 285
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/285/mode/1up
کے مجاز میں ہوتا ہے۔ جیساؔ رکابی پلاؤ کا کھانا ہر ایک سمجھتا ہے کہ بھری ہوئی رکابی میں سے کچھ نہ چھوڑنا یا جیسے کہتے ہیں کہ پتنالے چل رہے ہیں یا یہ کنوا ں میٹھا یا کھارا ہے۔یہ بھی ایسے محاورات ہیں جو عامہ ہیں۔ اور سباکی ملکہ جو زمین کے کنارہ سے آئی اس کے معنی صاف ظاہر ہیں کہ دوسرے ملک کے کنارے سے آئی جو فلسطین کے دوسری طرف تھا۔ اس میں جغرافیہ اور علم ہندسہ کا کیا علاقہ ہے یہ نظیریں جناب کے دلدل کی ندی غروب کے لئے پیدا نہیں کر سکیں گے۔ زمین کا ساکن ہونا بھی بد و نظر ہے اور عوام اس سے سوانہیں بولتے اور کلام الٰہی عوام کے لئے ہے۔
۹۔ جناب نے آئیس لینڈ اور گرین لینڈ کے دنوں کی کیا اچھی تعبیر فرمائی ہے اور وہ نظیر جو حمل کی اس میں دی ہے اس سے بھی بڑھ کر ہے مجھے حیرانی یہ ہے کہ کلام نص کو آپ چھوڑ کر کہاں جا پڑتے ہیں۔ قرآن کے کلام نص میں یہ لکھا ہے کہ دن کی سفیدی کی دھاری سے پہلے شروع کر کے شام کی سیاہی کی دھاری کے پیچھے روزہ افطار کرنا چاہئے کہ جن دونوں دھاریوں کا ان ملکوں میں نشان تک کچھ نہیں اور حمل کی بابت جو آپ نے نظیر دی ہے وہ زمانہ متعینہ ہمارا ہے نہ کسی کلام الٰہی کا۔
۱۰۔ جناب فرماتے ہیں کہ گوڈنس کوئی صفت نہیں تب جب ایک شخص جو کسی مواخذہ میں گرفتار نہیں وہ کسی خوش سلوکی کے لائق بھی نہیں ہے۔ رحم کی اصطلاح صاف یہ ظاہر کرتی ہے کہ کسی مواخذہ میں گرفتار ہے جس کو رحم سے چھوڑایا جاتا ہے۔ آپ کا اختیار ہے جتنا چاہیں ضد فرماویں مگر یہ امور بدیہی ہیں۔
۱۱۔ یہ ایک عجیب روک ہے کہ جو ایک امر بدیہی نالائق ہو اس کو نالائق نہ کہا جائے کیا اگر ہم فرض کر لیویں کہ خدا نے کوئی ظلم کیا یا جھوٹ بولا تواسی لحاظ سے یہ فرض خدا کی بابت میں ہے کہ ہم نالائقی اس کی کا ذکر نہ کریں گے۔ ہم تو ان افعالوں کو نالائق کہیں گے اور مفروضہ خدا کو جھوٹا خدا کہیں گے یہ تو ہم ایک امر واقعی دیکھتے ہیں کہ گوشت حیوانوں کا خدا تعالیٰ نے انسانوں کے واسطے کلام الٰہی میں مباح کر دیا ہے اور بعض بعض جانوروں کو بھی جیسا کہ شیر یا باز ہے فطرت نے مباح کردیا ہے۔ لیکن ایک واقعہ مرئی سے اس کا عدل مرئی مٹ نہیں سکتا۔ کوئی وجہ اس کے صادق ٹھہرانے کی ہوگی جو ہم کو نامعلوم ہو تو اس نامعلومی سے اس کی نفی نہیں ہوسکتی۔
۱۲۔ مجسم ہونے سے جسم کو بھی الوہیت ٹھہرانا جناب کی اصطلاح ہوگی ہمارے تو یہ معنی ہیں کہ مجسم ہونے سے مظہریت پرہی ایما ہے۔
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 286
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 286
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/286/mode/1up
۱۳۔ کیوں جناب آپ ہماری نظیر بے نظیری اور بے حدی کو باطل کس طرح ٹھہرا سکتے ہیں جو ایک واقعہ مصر ہے اور کیا ان دونوں صفات کی ایک ہی ماہیئت نہیں کیونکہ بے نظیر مطلق بے حدی سے نہیں ہوسکتا زمان اور مکان ان ہر دو کا ایک ہی رہتا ہے۔ جنابؔ غور فرما کر جواب دیں۔
۱۴۔ جب ثبوت دکھلاویں گے کہ قرآن میں معجزہ ہیں اور قرآن خود ہی ایک معجزہ ہے تو ہم مان لیں گے لیکن کسی شخص نے ایک بادشاہ کے سامنے ایک لطیفہ کہا تھا کہ سات رومال لپیٹے ہوئے کھول کر رکھ دئیے۔ اور کہا کہ جناب اس میں نور ظہور کی پگڑی ہے مگر وہ حرام کے کو نظر نہیں آتی۔ الّا حلال کے کو نظر آتی ہے۔ ایسا ہی اگرجناب کا فرمانا ہے کہ اگر ہم کو وہ معجزات نہ نظر آویں تو ہماری نظر کا قصور ہے تو ہم کو ایک گالی کھا لینا منظور ہے مگر جھوٹا اقرار کر لینا منظور نہیں۔ شق القمر کے معجزہ کی بابت میں جناب کو معلوم نہیں کہ شق القمر ہونا مستلزم ساتھ قرب قیامت کے ہے اور آگے اس کے صیغہ ان یّروا مضارع کا ہے اور اس معجزہ سے پہلے سے تحدی یاتعارض کسی کے نہیں ہوئی۔ پس ایسی نظیریں جناب دے کر کس کو اطمینان بخشیں گے۔ سوتو معلوم۔ البتہ پیشین گوئیاں قرآن میں بہت سی ہیں لیکن پیشن گوئیاں دو قسم کی ہیں ایک وہ پیشن گوئی جو علم الٰہی سے ہوتی ہیں اور دوسری وہ جو عقل عامہ سے ہوتی ہیں۔ جو علم الٰہی کا انحصار کرے۔ اس کی نظیر اگر جناب پیش کریں گے ہم اس پر غور کریں اور روم کے فارس سے مغلوب ہونے کی پیشن گوئی دور اندیشی عقل عامہ کی ہے (آگے بولنے نہ دیا کہ وقت پورا ہوگیا)
دستخط دستخط
ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ ازجانب عیسائی صاحبان غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ ازجانب اہل اسلام
مضمون آخری حضرت مرزا صاحب
(۵جون۔ ۱۸۹۳ء)
آج یہ میرا آخری پرچہ ہے جو میں ڈپٹی صاحب کے جواب میں لکھاتا ہوں مگر مجھے بہت افسوس ہے کہ جن شرائط کے ساتھ یہ بحث شروع کی گئی تھی ان شرائط کا ڈپٹی صاحب نے ذر ا پاس نہیں فرمایا۔ شرط یہ تھی کہ جیسے میں اپنا ہرایک دعویٰ اور ہر ایک دلیل قرآن شریف کی معقولی دلائل سے پیش کرتا گیا ہوں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 287
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 287
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/287/mode/1up
ڈپٹی صاحب بھی ایسا پیش کریں لیکن وہ کسی موقع پر اس شرط کو پورا نہیں کر سکے۔ خیر اب ناظرین خود دیکھ لیں گے۔ اس جواب کے جواب الجواب میں صرف اتنا کہنا مجھے کافی ہے کہ ڈپٹی صاحب نے یہ جو توبہ کی سورۃ کو پیش کر دیا ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ایمان لانے پر قتل کا حکم ہے یہ ان کی غلط فہمی ہے بلکہ اصل مدعا وہی اس آیتؔ سے ثابت ہوتا ہے جو ہم بیان کر چکے ہیں یعنی جو شخص اپنی مرضی سے باوجود واجب القتل ہونے کے ایمان لے آوے وہ رہائی پا جائے گا۔ سوا اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ جو لوگ رعایت سے فائدہ نہ اٹھاویں اور اپنی مرضی سے ایمان نہ لاویں ان کو سزائے موت اپنے پاداش کردار میں دی جائے گی اس جگہ یہ کہاں ثابت ہوا کہ ایمان لانے پر جبر ہے۔ بلکہ ایک رعایت ہے جو ان کی مرضی پر چھوڑی گئی ہے اور سات قوموں کا جو آپ ذکر فرماتے ہیں کہ ان کو قتل کیا گیا اور کوئی رعایت نہ کی گئی یہ تو آیت کی تشریح کے برخلاف ہے دیکھو قاضیوں ۲۸و۱۳۰ کہ کنعانیوں سے جو ان ساتوں قوموں سے ایک قوم ہے خراج لینا ثابت ہے۔ پھر دیکھو یشوع ۱۶ اور قاضیوں ۱۳۵ جو قوم اموریوں سے جزیہ لیا گیا۔
پھر آپ اعادہ اس بات کا کرتے ہیں کہ قرآن نے یہ تعلیم دی ہے کہ خوفزدہ ہونے کی حالت میں ایمان کو چھپاوے۔ میں لکھ چکا ہوں کہ قرآن کی یہ تعلیم نہیں ہے قرآن نے بعض ایسے لوگوں کو جن پر یہ واقعہ وارد ہو گیا تھا ادنیٰ درجہ کے مسلمان سمجھ کر ان کو مومنوں میں داخل رکھا ہے۔ آپ اس کو سمجھ سکتے ہیں کہ ایک طبقہ کے ایماندار نہیں ہوا کرتے اور آپ اس سے بھی نہیں انکار کریں گے کہ بعض دفعہ حضرت مسیح یہودیوں کے پتھراؤ سے ڈر کر ان سے کنارہ کرگئے اور بعض دفعہ توریہ کے طور پر اصل بات کو چھپا دیا۔ اور متی ۱۶ میں لکھا ہے تب اس نے اپنے شاگردوں کو حکم کیا کہ کسوسے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں۔ اب انصاف سے کہیں کہ کیا یہ سچے ایمانداروں کا کام ہے اور ان کا کام ہے جو رسول اور مبلغ ہوکر دنیا میں آتے ہیں کہ اپنے تئیں چھپائیں۔ اس سے زیادہ آپ کو ملزم کرنے والی اور کونسی نظیر ہوگی بشرطیکہ آپ فکر کریں اور پھر آپ لکھتے ہیں کہ دلدل میں آفتاب کا غروب ہونا سلسلہ مجازات میں داخل نہیں مگر عَیْنٍٍ حَمِءَۃٍ سے تو کالا پانی مراد ہے اور اس میں اب بھی لوگ یہی نظارہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور مجازات کی بنا مشاہدات عینیہ پر ہے جیسے ہم ستاروں کو کبھی نقطہ کے موافق کہہ دیتے ہیں اور آسمان کو کبود رنگ
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 288
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 288
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/288/mode/1up
کہہ دیتے ہیں اور زمین کو ساکن کہہ دیتے ہیں پس جب کہ انہیں اقسام میں سے یہ بھی ہے تو اس سے کیوں انکار کیا جائے۔ آپ فرماتے ہیں کہ کلام مجسم بھی ایک استعارہ ہے مگر کوئی شخص ثبوت دے کہ دنیا میں یہ کہاں بولا جاتا ہے کہ فلاں شخص کلام مجسم ہو کر آیا ہے اورگوڈنس کی تاویل پھر آپ تکلف سے کرتے ہیں۔ میں کہہ چکا ہوں کہ گوڈنس یعنی احسان کوئی صفت صفات ذاتیہ میں سے نہیں ہے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے رحم آتاہے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھے احسان آتا ہے مگر آپ پوچھتے ہیں کہ اگریونہی بغیر کسی کی مصیبت دیکھنے کے اس سے خوش سلوکی کی جائے تو اس کو کیا کہیں گے۔ سو آپ کویاد رہے کہ وہ بھی رحم کے وسیع مفہوم میں داخل ہے کوئیؔ انسان کسی سے خوش سلوکی ایسی حالت میں کرے گا کہ جب اول کوئی قوت اس کے دل میں خوش سلوکی کے لیے وجوہات پیش کرے اور اس کو خوش سلوکی کرنے کے لئے رغبت دے تو پھر قوت رحم ہے جو نوع اِنسان کی ہر ایک قسم کی ہمدردی کے لئے جوش مارتی ہے اورجب تک کوئی شخص قابل خوش سلوکی کے قرار نہ پاوے اورکسی جہت سے قابل رحم نہ نظر آوے بلکہ قابلِ قہر نظر آوے تو کون اس سے خوش سلوکی کرتاہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ حیوانات کو قتل ہوتے دیکھ کر کیا ہم فرض کرلیں کہ خدانے ظلم کیا۔ مَیں کہتا ہوں مَیں نے کب اِس کا نام ظلم رکھا ہے مَیں تو کہتا ہوں کہ یہ عمل در آمد مالکیت کی بنا پر ہے۔ جب آپ اِس بات کو مان چکے کہ تفاوت مراتب مخلوقات یعنی انسان و حیوانات کا بوجہ مالکیت ہے اس کی تناسخ وجہ نہیں تو پھر اِس بات کو مانتے ہوئے کونسی سدّراہ ہے جو دُوسرے لوازم جو حیوان بننے سے پیش آگئے وہ بھی بوجہ مالکیت ہیں اور بالآخر قرآن کریم کے بارہ میں آپ پر ظاہر کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے اپنے کلام اللہ ہونے کی نسبت جو ثبوت دیئے ہیں۔ اگرچہ میں اس وقت اِن سب ثبوتوں کو تفصیل وار نہیں لکھ سکتا لیکن اِتنا کہتا ہوں کہ منجملہ ان ثبوتوں کے بیرونی دلائل جیسے پیش از وقت نبیوں کا خبر دینا جو انجیل میں بھی لکھاہوا آپ پاؤ گے۔ دوسرے ضرورت حقّہ کے وقت پر قرآن شریف کا آنا یعنی ایسے وقت پر جبکہ عملی حالت تمام دنیا کی بگڑ گئی تھی اورنیز اعتقادی حالت میں بھی بہت اختلاف آگئے تھے اور اخلاقی حالتوں میں بھی فتور آگیاتھا۔ تیسرے اِس کی حقّانیت کی دلیل اِس کی تعلیم کامل ہے کہ اس نے آکر ثابت کر دکھلایاکہ موسیٰ کی تعلیم بھی ناقص تھی جوایک شق سزا دہی پر زور ڈال رہی تھی اور مسیح ؑ کی تعلیم بھی ناقص تھی جو
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 289
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 289
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/289/mode/1up
ایک شق عفو اوردرگذرپر زور ڈال رہی تھی اور گویا ان کتابوں نے انسانی درخت کی تمام شاخوں کی تربیت کا ارادہ ہی نہیں کیا تھا صرف ایک ایک شاخ پر کفایت کی گئی تھی لیکن قرآن کریم انسانی درخت کی تمام شاخوں یعنی تمام قویٰ کو زیر بحث لایا اورتمام کی تربیت کے لئے اپنے اپنے محل و موقع پر حکم دیا۔ جِسکی تفصیل ہم اس تھوڑے سے وقت میں کر نہیں سکتے۔
انجیل کی کیا تعلیم تھی جس پر مدار رکھنے سے سلسلہ دُنیا کا ہی بگڑتا ہے اور پھر اگر یہی عفو اور درگذر عمدہ تعلیم کہلاتی ہے تو جین مت والے کئی نمبر اس سے بڑھے ہوئے ہیں جو کیڑے مکوڑوں اورجوؤں اور سانپوں تک آزار دینانہیں چاہتے۔ قرآنی تعلیم کا دوسرا کمال کمال تفہیم ہے ۔یعنی اس نے ان تمام راہوں کو سمجھانے کیلئے اختیار کیا ہے جو تصور میں آسکتے ہیں اگر ایک عامی ہے تو اپنی موٹی سمجھ کے موافق اس سے فائدہ اٹھا تا۔ اور اگر ایک فلسفی ہے تو اپنے دقیق خیال کے مطابق اس سے صداقتیں حاصل کرتا ہے اور اس نے تمام اصول ایمانیہ کو دلائل عقلیہ سے ثابت کر کے دکھلادیا ہے اور آیت ۱ ۳۱۵میں اہل کتاب پریہ حجت پوری کرتا ہے کہ اسلام وہ کامل مذہب ہے کہ زوائد اختلافی جو تمہارے ہاتھ ؔ میں ہیں یا تمام دنیا کے ہاتھ میں ہیں۔ ان زوائد کو نکال کر باقی اسلام ہی رہ جاتا ہے اور پھر قرآن کریم کے کمالات میں تیسرا حصّہ اس کی تاثیرات ہیں اگر حضرت مسیح کے حواریوں اورہمارے نبی صلعم کے صحابہ کا ایک نظر صاف سے مقابلہ کیا جائے تو ہمیں کچھ بتلانے کی حاجت نہیں اس مقابلہ سے صاف معلوم ہوجائے گا کہ کس تعلیم نے قُوّت ایمانی کو انتہا تک پہنچا دیاہے۔ یہاں تک کہ ان لوگوں نے اس تعلیم کی محبت سے اور رسول کے عشق سے اپنے وطنوں کو بڑی خوشی سے چھوڑ دیا اپنے آراموں کو بڑی راحت کے ساتھ ترک کر دیا۔ اپنی جانوں کو فدا کر دیا۔ اپنے خونوں کو اس راہ میں بہا دیا اورکس تعلیم کا یہ حال ہے۔ اس رسول کو یعنی حضرت مسیح کو جب یہودیوں نے پکڑا تو حواری ایک منٹ کے لئے بھی نہ ٹھہرسکے۔ اپنی اپنی راہ لی اور بعض نے تیس روپیہ کے کر اپنے نبی مقبول کو بیچ دیا۔ اور بعض نے تین دفعہ انکار کیااورانجیل کھول کر دیکھ لو کہ اس نے *** بھیج کر اور قسم کھا کر
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 290
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 290
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/290/mode/1up
کہا کہ اِس شخص کو نہیں جانتا۔ پھر جبکہ ابتداسے زمانہ کا یہ حال تھا۔یہاں تک کہ تجہیز و تکفین تک میں بھی شریک نہ ہوئے تو پھر اس زمانہ کا کیا حال ہوگا جبکہ حضرت مسیح ان میں موجود نہ رہے۔ مجھے زیادہ لکھانے کی ضرورت نہیں۔ اِ س بارہ میں بڑے بڑے علماء عیسائیوں نے اِسی زمانہ میں گواہی دی ہے کہ حواریوں کی حالت صحابہ کی حالت سے جس وقت ہم مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں شرمندگی کے ساتھ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ حواریوں کی حالت اُن کے مقابل پر ایک قابل شرم عمل تھا۔ پھر آپ قرآنی معجزات کا انکار کرتے ہیں آپ کو معلوم نہیں کہ وہ معجزات جس تواتر اور قطعیت سے ثابت ہو گئے اُن کے مقابل پر کسی دوسرے کے معجزات کا ذکر کرنا صر ف قصّہ ہے اِ س سے زیادہ نہیں۔ مثلًا ہمارے نبی صلعم کا اس زمانہ میں اپنی کامل کامیابیوں کی نسبت پیشگوئی کرنا جو قرآن شریف میں مندرج ہے یعنی ایسے زمانہ میں کہ جب کامیابی کے کچھ بھی آثار نظرنہیں آتے تھے۔ بلکہ کفار کی شہادتیں قرآن شریف میں موجود ہیں کہ وہ بڑے دعوے سے کہتے ہیں کہ اب یہ دین جلد تباہ ہو جائے گا اورناپدید ہوجائے گا ایسے وقتوں میں انکوسنایاگیاکہ ۱ ۱۰ یعنی یہ لوگ اپنے منہ کی لاف و گزاف سے بکتے ہیں کہ اس دین کو کبھی کامیابی نہ ہوگی یہ دین ہمارے ہاتھ سے تباہ ہو جاویگا۔ لیکن خدا کبھی اس دین کو ضائع نہیں کرے گا اورنہیں چھوڑے گا جب تک اس کو پورا نہ کرے۔ پھر ایک اور آیت میں فرمایا ہے۔۔۔۲ الخ ۱۸ یعنی خدا ؔ وعدہ دے چکا ہے کہ اس دین میں رسول اللہ صلعم کے بعد خلیفے پیدا کرے گا اور قیامت تک اس کو قائم کرے گا۔ یعنی جس طرح موسٰیؑ کے دین میں مدت ہائے دراز تک خلیفے اور بادشاہ بھیجتا رہا ایساہی اس جگہ بھی کرے گا اور اس کو معدوم ہونے نہیں دے گا۔اَب قرآن شریف موجود ہے حافظ بھی بیٹھے ہیں دیکھ لیجئے کہ کفار نے کس دعوے کے ساتھ اپنی رائیں ظاہر کیں کہ یہ دین ضرور معدوم ہو جائے گا اور ہم اس کو کالعدم کر دیں گے اور ان کے مقابل پر یہ پیشینگوئی کی گئی جو قرآن شریف میں موجود ہے کہ ہرگز
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 291
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 291
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/291/mode/1up
تباہ نہیں ہوگا۔ یہ ایک بڑے درخت کی طرح ہو جائے گا اور پھیل جائے گا اور اس میں بادشاہ ہونگے اور جیساکہ ۱ ۲۶ میں اشارہ ہے اور پھر فصاحت بلاغت کے بارہ میں فرمایا ۲ ۱۹اورپھر اس کی نظیر مانگی اور کہا کہ اگر تم کچھ کر سکتے ہو اس کی نظیر دو ۔ پس عربی مبین کے لفظ سے فصاحت بلاغت کے سوا اورکیامعنی ہو سکتے ہیں؟ خاص کر جب ایک شخص کہے کہ میں یہ تقریر ایسی زبان میں کرتا ہوں کہ تم اس کی نظیرپیش کرو۔ تو بجز اس کے کیا سمجھا جائے گا کہ وہ کمال بلاغت کا مدعی ہے اور مبین کا لفظ بھی اسی کو چاہتاہے۔ بالآخر چونکہ ڈپٹی عبد اللہ آتھم صاحب قرآن شریف کے معجزات سے عمدًا منکر ہیں اور اس کی پیشیگوئی سے بھی انکاری ہیں اورمجھ سے بھی اسی مجلس میں تین بیمار پیش کر کے ٹھٹھا کیا گیا کہ اگر دینِ اسلام سچا ہے اورتم فی الحقیقت ملہم ہو تو ان تینوں کو اچھے کر کے دکھلاؤ حالانکہ میرا یہ دعویٰ نہ تھا کہ میں قادر مطلق ہوں نہ قرآن شریف کے مطابق مواخذہ تھا۔ بلکہ یہ تو عیسائی صاحبوں کے ایمان کی نشانی انجیل میں ٹھہرائی گئی تھی کہ اگر وہ سچے ایماندار ہوں تووہ ضرور لنگڑوں اور اندھوں اوربہروں کو اچھاکریں گے ۔ مگر تاہم مَیں اِس کے لئے دعا کرتا رہا۔ اور
آج رات جو مجھ پر کُھلاوہ یہ ہے کہ جب کہ مَیں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دُعا کی کہ تُو اِس امر میں فیصلہ کر اورہم عاجز بندے ہیں تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اُس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طورپر دیاہے کہ اِس بحث میں دونوں فریقوں میں سے
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 292
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 292
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/292/mode/1up
جو فریق عمدًا جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اورسچے خدا ؔ کوچھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے وہ انہی دِنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دِن ایک مہینہ لیکر یعنی ۱۵۔ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذِلّت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طر ف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اورسچے خدا کو مانتا ہے اس کی اس سے عزت ظاہر ہو گی اور اس وقت جب یہ پیشیگوئی ظہور میں آوے گی بعض اندھے سُوجاکھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اوربعض بہر ے سُننے لگیں گے۔
اِسی طرح پر جس طرح اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے سو الحمد للّٰہ والمنّۃ کہ اگر یہ پیشینگوئی اللہ تعالےٰ کی طرف سے ظہورنہ فرماتی تو ہمارے یہ پندرہ دن ضائع گئے تھے اِنسان ظالم کی عادت ہوتی ہے کہ باوجود دیکھنے کے نہیں دیکھتا اور باوجود سننے کے نہیں سنتا اور باوجود سمجھنے کے نہیں سمجھتا اور جُرأت کرتا ہے اور شوخی کرتا ہے اورنہیں جانتا کہ خدا ہے لیکن اَب مَیں جانتا ہوں کہ فیصلہ کا وقت آگیا۔ مَیں حیران تھا کہ اس بحث میں کیوں مجھے آنے کا اتفاق پڑا۔ معمولی بحثیں تو اَور لوگ بھی کرتے ہیں۔ اب یہ حقیقت کُھلی کہ اس نشان کیلئے تھا۔ مَیں اِسوقت اقرارکرتاہوں
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 293
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 293
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/293/mode/1up
کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نِکلی یعنی وہ فریق جو خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو مَیں ہر ایک سزا کے اُٹھانے کے لئے تیار ہوں مجھ کو ذلیل کیاجاوے۔ رُوسیاہ کیاجاوے۔ میرے گلے میں رسّہ ڈالدیاجاوے مجھ کو پھانسی دیا جاوے۔ ہر ایک بات کیلئے تیار ہوں اور مَیں اللہ جلّ شانہ‘ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کریگا۔ ضرور کریگا۔ ضرورکریگا۔ زمین آسمان ٹل جائیں پر اسکی باتیں نہ ٹلیں گی۔
اَب ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشاؔ ن پورا ہوگیا تو کیا یہ سب آپ کے منشاء کے موافق کامل پیشین گوئی اور خدا کی پیشین گوئی ٹھہرے گی یا نہیں ٹھہرے گی اور رسول اللہ صلعم کے سچے نبی ہونے کے بارہ میں جن کو اندرونہ بائبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد کرتے ہیں محکم دلیل ہوجائے گی یا نہیں ہو جائے گی۔ اب اس سے زیادہ میں کیا لکھ سکتا ہوں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ہی فیصلہ کر دیا ہے۔ اب ناحق ہنسنے کی جگہ نہیں اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو ۔ اور تمام شیطانوں اور بد کاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے *** قرار دو۔ لیکن اگر میں سچا ہوں ۔ تو انسان کو خدا مت بناؤ۔ توریت کو پڑھو کہ اس کی اوّل اورکھلی کھلی تعلیم کیا ہے اور تمام نبی کیا تعلیم دیتے آئے اور تمام دُنیا کِس طرف جُھک گئی۔ اَب میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں اِس سے زیادہ نہ کہوں گا۔ والسّلام علٰی من ا تبع الھدٰی ۔
دستخط بحروف انگریزی دستخط بحروف انگریزی
غلام قادر فصیح پریزیڈنٹ از جانب ہنری مارٹن کلارک پریزیڈنٹ
از جانب اہل اسلام از جانب عیسا ئی صاحبان
تمام شد
Ruhani Khazain Volume 6. Page: 294
روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد ۶- جنگ مُقدّس: صفحہ 294
http://www.alislam.org/library/brow...in_Computerised/?l=Urdu&p=6#page/294/mode/1up
Last edited: