روح و مادہ
عقلی دلائل حدوث روح و مادہ پر
عقلی دلائل حدوث روح و مادہ پر
دلیل اوّل:۔ وہ قادر مطلق ہے۔سرب شکتی مان ہے۔پس چونکہ وہ قادرِ مطلق ہے اس لئے ہرکام وہ کرسکتا ہے۔ (البقرۃ :۱۴۹)
وَلِكُلٍّ۬ وِجۡهَةٌ هُوَ مُوَلِّيہَاۖ فَٱسۡتَبِقُواْ ٱلۡخَيۡرَٲتِۚ أَيۡنَ مَا تَكُونُواْ يَأۡتِ بِكُمُ ٱللَّهُ جَمِيعًاۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ۬ (١٤٨) (البقرۃ :۱۴۹)
اعتراض:۔خدا اپنے جیسا خدا نہیں بنا سکتا ۔نہ وہ مر سکتا ہے؟
جواب نمبر۱:۔ تمام صفات مساوی ہیں ۔اپنی مثل بنانا قدرت نہیں بلکہ کمزوری ہے کیونکہ دوسری صفات کٹتی ہیں۔چونکہ اس کی صفات میں سے حیّ ہونا اور واحد ہونا ہے۔اگر وہ مثل بنائے تو واحد نہیں رہتا۔اپنے آپ کو ماردے تو حیّ نہیں رہتا مگر مادہ اور روح میں کونسی صفت کٹتی ہے؟
جواب نمبر۲:۔ کوئی معیار پیش کرو ورنہ قادر مطلق نہ مانو۔ہاں انسان سے زیادہ قادر مانو۔ اسی طرح انسان بمقابلہ حیوان کے اور ڈاکٹر بمقابلہ کمپونڈر کے قادرِ مطلق ہے۔
دلیل نمبر۲:۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے (الرعد:۱۷)
قُلۡ مَن رَّبُّ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ قُلِ ٱللَّهُۚ قُلۡ أَفَٱتَّخَذۡتُم مِّن دُونِهِۦۤ أَوۡلِيَآءَ لَا يَمۡلِكُونَ لِأَنفُسِهِمۡ نَفۡعً۬ا وَلَا ضَرًّ۬اۚ قُلۡ هَلۡ يَسۡتَوِى ٱلۡأَعۡمَىٰ وَٱلۡبَصِيرُ أَمۡ هَلۡ تَسۡتَوِى ٱلظُّلُمَـٰتُ وَٱلنُّورُۗ أَمۡ جَعَلُواْ لِلَّهِ شُرَكَآءَ خَلَقُواْ كَخَلۡقِهِۦ فَتَشَـٰبَهَ ٱلۡخَلۡقُ عَلَيۡہِمۡۚ قُلِ ٱللَّهُ خَـٰلِقُ كُلِّ شَىۡءٍ۬ وَهُوَ ٱلۡوَٲحِدُ ٱلۡقَهَّـٰرُ (١٦) (الرعد:۱۷)
۱۔یہ کہ اﷲ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے کیونکہ اگر وہ بعض چیزوں کا خالق نہ ہو تو واحد نہ ہوگا۔یعنی واحد فی الصّفات۔
۲۔اگر وہ ہر چیز کا خالق نہیں تو وہ ان اشیاء پر غلبہ جائز طور پر پانے کا مستحق نہیں۔اسی کی تائید کرتی ہے یہ آیت (الانعام:۶۲)
وَهُوَ ٱلۡقَاهِرُ فَوۡقَ عِبَادِهِۦۖ وَيُرۡسِلُ عَلَيۡكُمۡ حَفَظَةً حَتَّىٰٓ إِذَا جَآءَ أَحَدَكُمُ ٱلۡمَوۡتُ تَوَفَّتۡهُ رُسُلُنَا وَهُمۡ لَا يُفَرِّطُونَ (٦١) (الانعام:۶۲)
اعتراض:۔ انسان بھی اکثر اشیاء کا مالک ہے ۔اور اسے غلبہ حاصل ہے۔بدوں خَلق کے۔
جواب نمبر۱:۔ خدا کی اجازت سے ۔
جواب نمبر۲:۔ (الشورٰی:۱۲) پس اُس کی مِلک اور انسان کی مِلک میں فرق ہونا چاہیے۔
فَاطِرُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِۚ جَعَلَ لَكُم مِّنۡ أَنفُسِكُمۡ أَزۡوَٲجً۬ا وَمِنَ ٱلۡأَنۡعَـٰمِ أَزۡوَٲجً۬اۖ يَذۡرَؤُكُمۡ فِيهِۚ لَيۡسَ كَمِثۡلِهِۦ شَىۡءٌ۬ۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡبَصِيرُ (١١) (الشورٰی:۱۲)
اعتراض:۔ ہم بھی موجود ہیں ۔خدا بھی موجود ہے۔ ہم بھی ابدی ہیں۔خدا بھی ابدی ہے تو توحید فی الصفات کیسے ہوئی بلکہ اشتراک ثابت ہوا۔
جواب:۔ ہم اس کے قائم رکھنے سے موجود ہوئے وہ خود قدیم ہے مگر روح و مادہ کا وجود حادث ہے۔دلیل یہ ہے کہ خدا چاہے تو قائم نہ رکھے یا ابدی نہ بنائے مگر روح کو نہیں مٹائے گا۔ (دیکھو سورۃ ہود رکوع ۹ آیت ۱۰۳تا۱۰۹)
وَكَذَٲلِكَ أَخۡذُ رَبِّكَ إِذَآ أَخَذَ ٱلۡقُرَىٰ وَهِىَ ظَـٰلِمَةٌۚ إِنَّ أَخۡذَهُ ۥۤ أَلِيمٌ۬ شَدِيدٌ (١٠٢) إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً۬ لِّمَنۡ خَافَ عَذَابَ ٱلۡأَخِرَةِۚ ذَٲلِكَ يَوۡمٌ۬ مَّجۡمُوعٌ۬ لَّهُ ٱلنَّاسُ وَذَٲلِكَ يَوۡمٌ۬ مَّشۡهُودٌ۬ (١٠٣) وَمَا نُؤَخِّرُهُ ۥۤ إِلَّا لِأَجَلٍ۬ مَّعۡدُودٍ۬ (١٠٤) يَوۡمَ يَأۡتِ لَا تَڪَلَّمُ نَفۡسٌ إِلَّا بِإِذۡنِهِۦۚ فَمِنۡهُمۡ شَقِىٌّ۬ وَسَعِيدٌ۬ (١٠٥) فَأَمَّا ٱلَّذِينَ شَقُواْ فَفِى ٱلنَّارِ لَهُمۡ فِيہَا زَفِيرٌ۬ وَشَهِيقٌ (١٠٦)خَـٰلِدِينَ فِيہَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَٲتُ وَٱلۡأَرۡضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَۚ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ۬ لِّمَا يُرِيدُ (١٠٧) ۞ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ سُعِدُواْ فَفِى ٱلۡجَنَّةِ خَـٰلِدِينَ فِيہَا مَا دَامَتِ ٱلسَّمَـٰوَٲتُ وَٱلۡأَرۡضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَۖ عَطَآءً غَيۡرَ مَجۡذُوذٍ۬ (١٠٨) (سورۃ ہود آیت ۱۰۳تا۱۰۹)
(البقرۃ:۲۵۶) حیّ پر اعتراض تھا مگر قَیُّوْم نے دور کر دیا۔
ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلۡحَىُّ ٱلۡقَيُّومُۚ لَا تَأۡخُذُهُ ۥ سِنَةٌ۬ وَلَا نَوۡمٌ۬ۚ لَّهُ ۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلۡأَرۡضِۗ مَن ذَا ٱلَّذِى يَشۡفَعُ عِندَهُ ۥۤ إِلَّا بِإِذۡنِهِۦۚ يَعۡلَمُ مَا بَيۡنَ أَيۡدِيهِمۡ وَمَا خَلۡفَهُمۡۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَىۡءٍ۬ مِّنۡ عِلۡمِهِۦۤ إِلَّا بِمَا شَآءَۚ وَسِعَ كُرۡسِيُّهُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضَۖ وَلَا يَـُٔودُهُ ۥ حِفۡظُهُمَاۚ وَهُوَ ٱلۡعَلِىُّ ٱلۡعَظِيمُ (٢٥٥) (البقرۃ:۲۵۶)
دلیل نمبر۳:۔ (الفرقان:۳) یعنی ہر چیز سوائے باری تعالیٰ کے مخلوق ہے کیونکہ محدود ہے اورمحدود کا محدّد چاہیے اور روح اور مادہ بھی محدود ہیں۔
ٱلَّذِى لَهُ ۥ مُلۡكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَلَمۡ يَتَّخِذۡ وَلَدً۬ا وَلَمۡ يَكُن لَّهُ ۥ شَرِيكٌ۬ فِى ٱلۡمُلۡكِ وَخَلَقَ ڪُلَّ شَىۡءٍ۬ فَقَدَّرَهُ ۥ تَقۡدِيرً۬ا (٢) الفرقان:۳)
(دیکھو ستیارتھ ب۸دفعہ ۱)
دلیل نمبر۴:۔اگر روح پیدا نہیں ہوسکتی تو لازماً خدا نجات یافتہ لوگوں کو دنیا میں بھیجے گا اور یہ ظلم ہے۔دیانند جی کو دقّت پیش آئی تو وہ مکتی کو قید سے تعبیر کرنے لگے۔
دلیل نمبر۵:۔ روح و مادہ کو اور ان کے خواص کو قدیم ماننے سے ذاتِ باری پر دلیل قائم نہیں رہتی کیونکہ جب بڑا کام خود ہواتو چھوٹا کام کیوں نہ خود ہوا؟
دلیل نمبر۶:۔ صفات کی فنا ذات کی فنا ہے۔اس لئے آریوں کے نزدیک جس طرح روح کی ذات مخلوق نہیں اسی طرح صفات بھی مخلوق نہیں۔
پس اگر ثابت ہو کہ صفات میں تغیر ہے تو ذات میں بھی تغیر ماننا پڑے گااور ہر متغیّرقائم بالذّات ہے صفات کا تغیر۔دیکھو نیک سے بداور بد سے نیک۔جاہل سے عالم اور عالم سے جاہل۔
دلیل نمبر۷:۔ خدا ظرف ہے۔روح مظروف ہے ،ظرف پہلے ہونا چاہیے۔
دلیل نمبر۸:۔ روح و مادہ محتاج الغیر ہیں یا نہیں؟اگر محتاج ہیں تو قدیم نہ ہوئے۔اگر محتاج نہیں تو پھر ماتحت نہیں ہو سکتے۔
دلیل نمبر۹:۔ تین چیزیں ازلی ہیں۔(ستیارتھ ب۸ دفعہ۲ سوال۳) پھر پانچ ازلی (ستیارتھ ب۸دفعہ۳۹) دلیل کہ اکاش ازلی ہے (ستیارتھ ب۸ دفعہ) اکاش مخلوق ہے (بھومکاصفحہ۷۶) پھر زمانہ فانی ہے(صفحہ ۱۲ ستیارتھ)اور اکاش فانی ہے(ستیارتھ ب۹ دفعہ۹) سب سے پہلے خدا کاہونا ضروری ہے۔(ستیارتھ ب۷ دفعہ۷)
زمانہ جس طرح دوبارہ پیدا ہوتا ہے بغیر علّت مادی کے اسی طرح مادہ بھی بغیر علّت مادی کے پیدا ہو سکتا ہے۔ (دیکھو حوالجات رگ وید بھومکاصفحہ ۵۳،۷۰،۷۳،۷۸)
دلیل نمبر۱۰:۔ اگر وہ خَلق نہیں کر سکتا تو وہ عالم نہیں۔اگر وہ عالم ہے تو خالق بھی ہے۔ (یٰسٓ:۸۰)
قُلۡ يُحۡيِيہَا ٱلَّذِىٓ أَنشَأَهَآ أَوَّلَ مَرَّةٍ۬ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلۡقٍ عَلِيمٌ (٧٩) (یٰسٓ:۸۰)
پس جبکہ کامل علم خالق ہونے کا مقتضی ہے تو پھر اﷲ تعالیٰ کا خالق نہ ہونا اُس کے نقص علم پر دلیل ہے۔