• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

سائنس اور ٹیکنالوجی میں اسلام کا کردار

سید طفیل احمد شہباز

مندرج
مستقل رکن
سائنس کی تاریخ میں مسلمانوں نے پانچ سو سال کےعرصے میں شاندار کارنامے سرانجام دئے۔سائنس پر کسی ایک قوم یا علاقے کی اجارہ داری نہیں رہی ہے بلکہ چینیوں، ہندوئوں ،ایرانیوں ،یونانیوں ،مسلمانوں اور آج کےدور میں اہل یورپ و امریکہ نےاس میں برابر کا حصہ لیا ہے۔سائنس انسانیت کی مشترکہ میراث ہے جس میں مسلمانوں کا بڑا حصہ ہے۔کائنات کے سربستہ رازوں کی تہیں جوں جوں کھلتی جارہی ہیں، توں توں انسان کی حیرتوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ نہ صر ف یہ، بلکہ سائنسی انکشافات انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت و مطلق العنانی کا بھی قائل کرتے جا رہے ہیں اور ان سے قرآنی پیشگوئیوں کی تصدیق بھی ہوتی جارہی ہے۔ نیز اس طرح دین اسلام کی صداقت اور ہمہ گیریت بھی ثابت ہورہی ہے۔ مگر سب سے زیادہ مبہوت کردینے والی حقیقت یہ ہے کہ ذہن انسانی کی رسائی کی کوئی حد نہیں، تحقیق و جستجو سے ذہنِ انسانی نے وہ کمالات دکھائے ہیں کہ دنیا ورطۂ حیرت میں مبتلاہے، ہر نیا انکشاف انسان کو اور زیادہ مبہوت کردیتا ہے اور اپنی ہمہ دانی پر فخر کرنے والا یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اُسے توکچھ بھی معلوم نہیں
مغربی دُنیا اپنے جن سائنسی کمالات پر فخر کررہی ہے، اس کی بنیاد دراصل مسلمان سائنس دانوں اور علما کی تحقیق و جستجو پر ہے۔ ہیئت دانی میں مسلمان کسی طرح بھی پیچھے نہیں تھے۔ اگر تحقیق و جستجو کا ذوق و شوق مسلمانوں میں ختم نہ ہوتا اور وہ اپنے اسلاف کی سائنسی و علمی میراث کو سنبھال کر رکھتے تو آج سائنسی دنیا میں بھی سربلند و سرخرو ہوتے۔
مغرب کے جن کارناموں سے دُنیا آج سخت مرعوب اور متاثر ہے، ان کے اُصولوں کو مرتب و منضبط کرنے اور ان کی بنیادی تحقیق اور دریافت کا سہرا ان مسلم علما ، سائنسدانوں اور ماہرین کیمیا کے سر ہے جنہوں نے خداداد ذہانت اور تحقیق و تجسس سے کام لے کر زندگی کے مختلف میدانوں اور علم کے مختلف شعبوں میں ترقی کی نئی راہیں کھولیں۔
یورپ نے اندلس (موجودہ اسپین) میں مسلمانوں کے زوال اور عیسائیت کے غلبے کے نتیجے میں نہایت بیش قیمت علمی تحقیقات و تصنیفات کے ذخیرے حاصل کئے۔ پھر ان کے انگریزی، فرانسیسی، جرمنی اور اطالوی زبانوں میں تراجم کئے اور اُنہیں تحقیقات کو بنیاد بناکر سائنس کے میدان میںپیش قدمی کی اور کیمیا، ریاضی اور طبعیات کے میدان میں وہ ترقی کی کہ ساری دُنیا کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ انتہا تو یہ ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی سائنسی تحقیقات، اکتشافات اور ایجادات سے بالکل لاعلم اور بے خبر ہیں۔
آج کی ایک بڑی ضرورت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اس مرعوبیت اور احساسِ کمتری کو دور کیا جائے اوراُ نہیں بتایا جائے کہ طب، سائنس ، ریاضی، علم الافلاک اور علم نجوم میں مسلمان علماو محققین ہی نے مختلف حقائق دریافت کئے۔ بے بہا اکتشافات کے لئے مسلمان علما و حکما نے بجلی، وائرلیس، جوہری توانائی اور فضا میں پرواز کے لئے ذہنوں کے دروازے کھولے اور جدید ترین ایجادات کی راہیں ہموار کیں۔یہ توسائنس کی ابتدائی زندگی کا ایک جائزہ ہے ، جس میں مسلمانوں نے اپنی انمٹ چھاپ چھوڑی ہے ۔
صدر ابن سینا اکیڈمی آف میڈ یول میڈیسن اینڈ سائنس کتاب ’’مسلمانوں کےسائنسی کارنامے‘‘ کے دیباچہ میں تحریر کرتے ہیں کہ سائنس کا مسلمان طالب علم جب یہ دیکھتا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہےاور سائنس کی ساری دریافتیںاور ایجادیں یورپ اور امریکہ کی رہینِ منت ہیں تو اسے بہت مایوسی ہوتی ہے۔سائنس کےنقشے میں مسلمانوں کو نہ دیکھ کر اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگوں نے دینیات اور شعر وادب کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کوئی قابل ذکر کام انجام نہیںد یا ہے۔دوسری قومیں ہم سے علمی و سائنسی لحاظ سے امتیاز رکھتی ہیں اور دنیا کی سائنسی تاریخ ان کے کارناموں سے منور ہے۔
یہ خیال سائنس کےنوجوان طلبہ ہی کے دل میں نہیں پیدا ہوتا، بہت سے پڑھے لکھے افراد کےذہنوں میںبھی یہ بات رہتی ہیکہ مسلمانوں کا سائنس سےکوئی رشتہ نہیں ہے۔اس کا تعلق محض مغربی اقوام سے ہے اور یورپ اور امریکہ ہی کے محققین نے سائنس کی مختلف شاخوں میں نت نئی دریافتیں کی ہیں اور سائنس کا ہر مضمون ان کے گراں بہا احسانات کا اسیر ہے۔
دراصل اس احساس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ایک ،تاریخ سائنس سے بے خبری اور مسلمانوں کے عظیم الشان علمی کارناموں سے مکمل طور پر نا واقفیت ،دوسرے ،اہل مغرب کی طرف سے انہیں چھپانے کی منظّم کوششیں ،تیسرے موجودہ زمانے میں سائنس ،ٹیکنالوجی اور طب کے میدان میں محیرالعقول کارناموں اور اکتشافات میں کسی بھی دوسری قوم کے مقابلے یورپ اور امریکہ کے سائنس دانوں کو حاصل بھاری سبقت اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ان کی تشہیر۔
سائنس کے اس عہد میں تاریخ گردانی پدرم سلطان بود کی بات نہیں ہے۔ اس کے مطالبے سے اسلاف کے وہ کارنامے سامنے آتے ہیں جو انہوں نے گزشتہ ادوار میں سائنس کی ترقی و پیش رفت کے لئے انجام دیے ہیں۔کوئی دریافت اچانک ظہور میں نہیں آتی،وہ بڑے اتا رچڑھائو اور ایک ارتقائی تسلسل کا نتیجہ ہوتی ہے،اس کی تہہ میں بہت سی معلوم و نامعلوم کاوشوں کو دخل ہوتا ہے اور اس کی مکمل و ترقی یافتہ شکل بہت سے تجربوں اور مرحلوں سے گزرنے کے بعد وجود پذیر ہوتی ہے۔اس کے عہد بہ عہد ارتقا کا مطالعہ ظاہر کرتا ہےکہ سائنس کے انکشافات کے لئے راستہ ہموار کرنے میں کس طرح پیش رو محققین نے اپنی زندگیاں کھپائی ہیں اور کس عزم و حوصلے سے نامساعد اور دشوار حالات میں اس کی شمع کو انہوں نےروشن رکھا ہے۔ان کے خون جگر کے بغیر سائنس کایہ نقش ناتمام رہتا اور کوئی دریافت اتنی جلدی منصہ شہود پر نہ آتی۔
جب بطحا کی سنگلاخ پہاڑیوں سے ساتویں صدی میں اسلام کا آفتاب طلوع ہوا تو اس وقت باز نطینی حکومت یعنی ایسٹرن رومن ایمپائر(Eastern Roman Empire جس کا دارالحکومت استنبول تھا ،اپنےعروج پر تھی ۔ افسوس کہ اس دورِ حکومت میں بادشاہوں کو علم سےکوئی دلچسپی نہ تھی۔چنانچہ ایک بادشاہ تھیوڈوسیئس دوئم(Theodosius) کے حکم پر اسکندریہ کی شہرہ آفاق لائبریری کو نذرِ آتش کردیاگیا۔پھر اس کے بعد ایک اور بادشاہ زینو (Zeno) کے حکم پر رُہا یعنی اڈیسہ(Edessa) کے شہر میںموجود اسکول کوبند کروادیا گیا جو دوسری صدی سے سریانی زبان اور یونانی علوم کی تعلیم کا مرکز چلا آرہا تھا۔ ایک اور بادشاہ جسٹن (Justin)نے ایتھنز (Athens)کے شہر میں موجود افلاطون (Ploto)کی اکیڈمی اور اسکندر یہ کی اکیڈمی کے دروازوں پر قفل لگوادیے۔
اڈیسہ اور ناصبیہ (Nasibia)کے شہروں کے نسطوری (Nastorian)راہب اور اسکندریہ کے فلسفی جب بازنطینی اربابِ اقتدار کے اذیت ناک سلوک سے تنگ آگئے تو وہ ایران ہجرت کرگئے جہاں اس وقت سا سانی بادشاہ برسراقتدار تھے۔یہاں آکر انہوں نے اپنی مذہبی اور یونانی عالموں کی کتابوں کے ترجمے کرنے شروع کردیے ۔ چنانچہ جب مسلمانوں نے شام اور ایران کو فتح کیا تو ان کو یہاں یونانی علمی ورثے کے بیش قیمت خزینےہاتھ آئے۔عربوں نے ان مفتوحہ علاقوں میں جو علمی خزانے پائے۔انہیں عربی میں منتقل کرنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ ایک سو سال (۷۵۰۔۸۵۰ء) تک جاری رہا اور اس کے بعد ان کتب کے تراجم شروع کیے جن کے تراجم ابھی تک سریانی اور کلدانی زبانوں میں نہیں ہوئے تھے۔
یونان کے علاوہ مسلمانوں نے ہندوستانی ،چینی اور ایرانی علوم سے بھی استفادہ کیا ۔ یونانی اور مسلم سائنس دانوں میں نمایاں فرق یہ تھا کہ اہل یونان کےعلوم نظریاتی تھے جبکہ مسلم سائنس دانوں نے اطلاقی علوم کی بنیاد مشاہدات اور تجربات پر رکھی۔
اگلے پانچ سو سال تک اسلامی دنیا علم و فن اور سائنس و ٹیکنالوجی کا مرکز بنی رہی جس کا دارالخلافہ بغداد تھا۔ اس عرصے میں کوئی علم ایسا نہ تھا۔جس کے فروغ میں مسلمانوں نےحصہ نہ ادا کیاہو۔ کوئی ایجاد یا دریافت ایسی نہ تھی جس کا سہرا مسلمانوں کےسر نہ رہاہو۔پوری دنیا کےعالم اور سائنس داں ان کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کرنےلگے۔اس امر کا ذکر مشہور مصنف میکس مائرہاف(Max Myerhof) نےیوں کیا ہے:
’’ڈوبتے ہوئے یونانی سورج (علم ) کی روشنی کو لے کر اسلامی سائنس کا چاند اب چمکنےلگا اور اس نے یورپ کے عہدوسطیٰ کی تاریک ترین رات کو روشن کیا۔یہ چاند بعد میں یورپ کے نشاۃ ثانیہ کا دن طلوع ہونے کے بعد ماند پڑگیا۔‘‘
( Monthly " Science" (in urdu) September 1996)
 

سید طفیل احمد شہباز

مندرج
مستقل رکن
اس بارے میں محترم محمد زکریا ورک اور کئی دوسری کتب کا سہارا لیکر ایک کتاب مرتب کی گئی ہے۔ جو بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے نافع الناس بنائے۔ آمین
 
Top