سیرت حضرت اماں جان ۔ سیدۃ النساء حضرت نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا
سیرۃ حضرت سیّدۃُ النساء اُمُّ المؤمنِین
نصرت جہان بیگم صاحبہ
مصنف
محمود احمد عرفانی ایڈیٹر الحکم قادیان
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
الحمدللّٰہ
عزیزم مکرم محمود احمد عرفانی نے حضرت اُمُّ المومنین متعنا اللہ بطول حیاتہا یہ سیرۃ جن حالات میں لکھی ہے اکثر احباب اس سے واقف ہیں وہ کئی سال سے مریض چلا آتا ہے اور مختلف اوقات میں مرض کے خطرناک حملے ہوئے طبی مشورہ کامل آرام کا تھا اور ہے مگر اس نے خدا کے فضل پر بھروسہ کرکے عزم کیا تھا کہ اس بابرکت کتاب کی تالیف کی سعادت حاصل کرے اللہ تعالیٰ نے اِسے توفیق دی الحمدللّٰہ علی ذالک۔ بیماری کا پھر حملہ ہوا تو میں نے حکمًا اسے روک دیا اورکتاب کی ضخامت بھی بڑھ رہی تھی۔ اس لئے دو حصے کر دینا ضروری ہوا۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کتاب کی قبولیت کا نشان ہے کہ طبع ہونے سے پہلے تین ہزار کتاب فروخت ہو گئی جن احباب کو ابھی تک موقعہ نہیں ملا وہ ابھی سے درخواستیں دے دیں تا کہ دوسرا ایڈیشن شائع ہوتے ہی مل جاوے۔ یہ تین ہزار خریدار دوسرے حصہ کے مستقل خریدار متصور ہونگے۔ اس لئے جو احباب نئے خریدار ہوں وہ جلد اطلاع دیں تا کہ دوسرے حصہ اور دوسرے ایڈیشن کو اس تعداد میں چھاپا جاوے مجھے اعتراف ہے کہ بہت ممکن ہے چھاپہ کی بعض غلطیاں رہ گئی ہوں مگر دوسرے ایڈیشن میں انشاء اللہ اصلاح ہو جائے گی۔ دوسرا ایڈیشن پانچ ہزار چھاپنے کاارادہ ہے نیز یہ بھی افسوس ہے کہ وقت پر بلاکس تیار نہ ہونے کی وجہ سے وجہ تصاویر نہیں دی جا سکیں میں اُن تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے عزیز مکرم محمود احمد عرفانی کی اس خدمت کی قدر فرمائی۔ تفصیلی اظہار تشکر اور معاونین کی فہرست اس حصہ کے آخر میں انشاء اللہ وہ خود لکھیں گے میں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ عزیز مکرم کی صحت و توانائی توفیق تکمیل کیلئے دعا فرمائیں۔
خاکسار
یعقوب علی عرفانی کبیر
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھــــــــــوالنــــــــاصـــــــــــــــــر
انتساب
مَیں اِس قیمتی اور مبارک کتاب کو جو میری زندگی کا مایۂ ناز کام ہے اورجس کی برکتوں کو مَیں نے ایک ملموس حقیقت کی طرح دیکھا اور پایا کسی ایسے بے نفس بزرگ کے نام سے منسوب کرنی چاہتا تھا جس کی محبت اور وفاداری کی روح خود بخود اپنے لئے کوئی مقام بلند تیار کرلے۔
چنانچہ مَیں نے کتاب کی مکمل اشاعت تک انتظار کیااور خریداران یوسف کے ہر سرمایہ اور پونجی پر نظر ڈالی۔ مَیں نے ان کی رُوحِ مسابقت اور عشق و محبت کے ہر نشیب و فراز اور وادی کو خوب دیکھا جن کا ذکر بجائے خود لذیذاور دلچسپ ہے مگر یہاں اس کی گنجائش نہیں۔ بہت سے جو محبت کے کوچے میں مجھے آگے نظر آتے تھے بہت پیچھے نظر آئے اور بہت سے تھے جو بہت پیچھے نظر آتے تھے، مجھے بہت آگے نظر آئے اور ان آگے نظر آنے والوں میں سب سے آگے اور سب کے سالار الحاج حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین آف سکندر آباد نکلے۔ جنہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر کتاب پانچ ہزار چھپے گی تو وہ پانچ سو کتاب خرید لیں گے۔ نیز یہ بھی وعدہ فرمایا تھا کہ اس کی اشاعت میں ہر قسم کی مالی سہولت مہیا فرمائیں گے۔ حضرت سیٹھ صاحب نے جو کہا اسے پورا فرما دیا۔ میری محنت اور کوشش کبھی پروان نہ چڑھتی اگر حضرت سیٹھ صاحب کی یہ معاونت مجھے میسر نہ آتی۔
وہ خود، ان کی بیگم صاحبہ، ان کے بچے، سب اسی رنگ میں رنگین مجھے نظر آئے اس لئے میں ان کی محبت اور وفا کی تسجیل اس کتاب کو حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مدّظلّہ العالی کے نام نامی سے منتسب کرنے سے کرتا ہوں۔
سیٹھ صاحب کی ذاتِ گرامی ان چیزوں سے بالکل بالا ہے اور ان کا قلب نمود و نمائش سے بالکل خالی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی بھی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے پاکباز بندوں کے نام اور کام کو دنیا میں زندہ رکھا کرتا ہے اس لئے میرا یہ فعل سنتِ الٰہیہ سے باہر نہیں۔
حضرت سیٹھ صاحب کی ایک مناسبت
ہمارے سلسلہ کو نور کے ساتھ ایک بڑی مناسبت ہے۔ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحبؒ جو حضرت خواجہ میر دردؒ کے والد بزرگوار تھے، ان کو ایک پیشگوئی میں بتلایا گیا، کہ جو روشنی ان کو دی گئی ہے، یہ مسیح موعود ؑ کی روشنی میں گم ہو جائے گی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے متعلق یہی پیشگوئی تھی کہ وہ منار پر اُتریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کو نوروںکی تخم ریزی کرنے والے ٹھہرایا گیا۔ الغرض نور اور روشنی کو اس سلسلہ سے بڑی مناسبت ہے۔
حضرت سیٹھ صاحب کے متعلق حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ایک رئویا دیکھاتھا کہ وہ ایک تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ملائکہ اُن پر نور کی بارش کر رہے ہیں۔
پس اُن کے وجود کو اس نور سے جو مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دنیا کو ملا، ایک مناسبت ہے۔ اس لئے میرے نزدیک وہی ان فدا کاروں میں سے پہلے مستحق ہیں کہ اس مبارک کتاب کو اُن کے نامِ نامی سے منسوب کروں۔
اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ حضرت سیٹھ صاحب کی اس پاکیزہ قربانی اور دیگر تمام قربانیوں کو قبولیت کے ہاتھوں سے لے اور ان سب کا اجرعظیم دے۔ آمین
اسی سلسلہ میں مَیں حضرت سیٹھ صاحب سے یہ عرض کروں گا کہ عشق و محبت اور وفا کا مقام اتنا ہی آگے بڑھتا ہے جتنا کہ عاشقِ جانباز آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پس
نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز!
محمود احمد عرفانی
مصنف کتاب سیرۃ حضرت اُمُّ المومنین نصرت جہان بیگم
قادیان۔ دارالامان
۲۵۔ نومبر ۱۹۴۳ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھــــــــــوالنــــــــاصـــــــــــــــــر
تمہید
گذشتہ سال ۱۹۴۲ء میں مَیں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ایک کتاب ’’مرکز احمدیت قادیان‘‘ نامی تصنیف کی۔ جب مَیں یہ کتاب لکھ رہا تھا اُنہی ایام میں میرے قلب میں ایک زبردست لہر پیدا ہوتی تھی کہ مَیں دنیا کی اس ممتاز ترین خاتون کی سیرت و سوانح لکھوں جسے تیرہ صدیاں گذرنے کے بعد مومنوں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا اور جس کے وجود سے وہ نور پیدا ہوئے جن کے ذریعے سے آئندہ دنیا کی آبیاری کی جائے گی۔ مگر قدرت کی نیرنگیاں ہیں کہ مَیں جلسہ سالانہ کے بعد کھانسی کی تکلیف میں مبتلا ہو گیا۔ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ مَیں جنوری ۱۹۴۳ء کے آغاز میں ہی اس کام کو شروع کر سکوں گا مگر مشیّتِ الٰہی کچھ اور چاہتی تھی۔ اس لئے میری کھانسی کی یہ حالت ہوئی کہ۔ع
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواء کی
مرض نے بڑھتے بڑھتے مجھے اس حد تک لاچار کر دیا کہ مَیں بالکل چلنے پھرنے اور اُٹھنے بیٹھنے سے مجبور ہو گیا حتیّٰ کہ ڈاکٹروں کی رائے میں مَیں تپ دق کا بیمار قرار دیا گیا مجھے ان گھڑیوں میں جب کہ مَیں مرض کے شدید پنجے میں گرفتار تھا۔ جن امور کا رنج اور خیال تھا اُن میں سے ایک یہ امر بھی تھا کہ مَیں جو کام کرنا چاہتا تھا اس سے محروم رہتا ہوا نظر آتا ہوں۔ اِن امور کی وجہ سے میرے اندر ایک کرب کی کیفیت پیدا ہوتی تھی اور مَیں بیقرار ہو کر خدا سے دعا مانگتا تھا کہ وہ مجھے اپنے فضل سے صحت یاب کر دے۔ میرے بزرگ اور میرے احباب اور بھائی بھی بکثرت دعائوں میں مشغول تھے۔ اسی حالت میں مادرِ مہربان حضرت اُمُّ المؤمنین اطال اللہ عمر ہا نے بھی اپنی خادمہ کے ذریعے دو دفعہ میری حالت دریافت فرمائی اور اپنی شفقت کے اظہار کے لئے کہلوایا کہ آپ میرے لئے دعا فرما رہی ہیں۔ اِن الفاظ میں ایک بڑی برکت اور تسلی تھی جس نے میرے قلب کو ڈھارس دی اور مَیں روز بروز اپنی بیماری میںکمی اور اپنی صحت میں ترقی محسوس کرنے لگا۔ حتیّٰ کہ آج ۱۹/ مارچ ۱۹۴۳ء بروز جمعۃ المبارک اس قابل ہو گیا کہ مَیں اپنا قلم اُٹھا سکوں۔
سو میں نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس مبارک خاتون کی سیرت و سوانح کا آغاز کر دیا ہے۔ میرے معالج اگرچہ مجھے ابھی تک لکھنے کے کام کی اجازت نہیں دیتے مگر مَیں یقین کرتا ہوں کہ تھوڑا تھوڑا کام میرے لئے غذائے روح کا کام دے گا اور ایک بابرکت وجود کا ذکر میرے لئے بھی برکت کا باعث ہوگا۔ اس لئے باوجود بیماری اور کمزوری کے مَیں اس کام کو شروع کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ خود اس کی تکمیل کے سامان مہیا فرما دے گا کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کی معیت اور نصرت ہے اور خدا تعالیٰ نے بارہا اپنی وحی میں جو اپنے بندے، اس زمانہ کے راستباز مامور مرسل ؑپر نازل فرمائی اس معیّت اور نصرت کا وعدہ فرمایا ہے اور فرمایا کہ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ اور پھر فرمایا کہ اِنّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ۔ اس قسم کی صد ہا بشارتیں اور نصرتیں آپ کے وجود باجود کے لئے ازل سے مقدر ہیں۔ اس لئے میں یقین رکھتا ہوں کہ اس تصنیف کے ساتھ مجھے بھی برکت دی جائے گی اور کیا عجب کہ مَیں تنومند اور صحت مند کیا جائوں۔
میں اس قدر اس تمہید کو لکھ چکا تھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ بنصرہ العزیز کی خادمہ میرے نیچے کے کمرے کے سامنے آ کر کھڑی ہوگئی اور اس نے مجھے کہا کہ میں اماں جان کی طرف سے آپ کے لئے تبرک لے کر آئی ہوں۔ میرا سر نیاز مندی اور احسان کی روح سے جھک گیا۔
اِس تبرک کے بھیجے جانیکی وجہ یہ تھی کہ مَیں نے اپنی بیماری کے ایام میں ایک خواب دیکھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ نے مجھے اور مرزا سلیم بیگ صاحب کو ایک برتن میںکھانا دیا جو ہم دونوں نے کھایا۔ اِدھر میں نے یہ خواب دیکھا اُدھر حضرت والد صاحب نے سکندر آباد سے مجھے لکھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ بنصرہ العزیز کا تبرک منگوا کر کھائو کہ اس میں برکت اور شفاء ہوگی۔ اس خواب اور اس ارشاد کی تعمیل میں میری رفیقہ حیات حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے دعا کی درخواست کے بعد تبرک کی درخواست کی جو آپ نے بڑی خوشی سے منظور فرمائی۔ ان دنوں میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سندھ میںتشریف فرما ہیں۔ اس لئے حضرت اُمُّ المؤمنین ایدھا اللہ بنصرہ ِالعزیز اکثر وقت اپنے برادر محترم یعنی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن کے ہاں گذارا کرتی ہیں۔ آپ نے درخواست سن کر فرمایا کہ ہاں بہت اچھا، مگر جب کہ میں گھر یعنی الدار میں آ جائوں گی اُس وقت بھیجوں گی۔ چنانچہ اس بات پر تقریباً ۵،۶ دن گذر چکے تھے کہ حضرت ممدوحہ نے اپنے اس ناچیز خادم کی درخواست کو یاد رکھااور خود بخود ہی کھانا بھجوا دیا۔
یہ بات اگرچہ معمولی ہے مگر اس کے اندر جو روح اور جو شفقت کام کر رہی ہے وہ بہت بڑی ہے۔ حضرت ممدوحہ کی روح تو فیاضیوں سے بھری ہوئی ہے۔ آپ کے احسانات ہزار ہا لوگوں پر ہیں۔ اُن کاذکر بھی اصل کتاب میں اپنی جگہ آ جائے گا۔ وباللہ التوفیق۔ اور وہ جو کچھ ہوگا آپ کے جودو کرم کے سمندر سے ایک قطرہ ہی ہوگا۔
میری بچپن کی زندگی کا ایک واقعہ
میری پیدائش اکتوبر ۱۸۹۷ء میں ہوئی۔ ۱۸۹۸ء میں والد صاحب قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے۔ اُن کا معمول یہ تھا کہ وہ اخبار کے کام امرتسر جاتے رہتے تھے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمات کے سلسلہ میں گورداسپور جایا کرتے تھے۔ گھر میں مَیں ایک ننھا بچہ اور والدہ صاحبہ ہوتی تھیں۔ اس لئے تنہائی سے بچنے کے لئے حضرت والدہ صاحبہ مجھ کو لے کر حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ کے پاس چلی جایا کرتی تھیں۔ میری والدہ صاحبہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضرت اُمُّ المومنین اُن کو محبت سے ’’بہو ‘‘ کے لقب سے پکارا کرتی ہیں۔
مَیں اگرچہ دو اڑھائی سال کا بچہ تھا۔ مگر گوشت کو بہت پسند کرتا تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ کے باورچی خانے میںگوشت بھونا جا رہا تھا۔ مَیں یہ دیکھ کر رونے لگا اور ضد کرنے لگا۔ میری والدہ صاحبہ جنہوںنے بارہا ہنستے ہوئے مجھے یہ کہانی سنائی، فرمایا کرتی ہیں کہ مَیں تم کو اندر ہی اندر روکنے کی کوشش کرتی تھی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی نظر پڑ گئی۔ فرمایا بہو! بچہ کیوں روتا ہے؟ والدہ نے کہا۔ نہیں جی کچھ نہیں۔
فرمایا۔ نہیں۔ کچھ تو ہے۔ بتلائو۔ تب والدہ نے ندامت کے رنگ میں دبی زبان سے کہا کہ بوٹی مانگتا ہے۔ یہ سن کر پکانے والی کو حکم دیا کہ جلدی دو اور اپنے سامنے ایک برتن میں کچھ بوٹیاں نکلوا کر دے دیں۔ میری والدہ صاحبہ بتلایا کرتی ہیں کہ مَیں وہ گرم گرم بوٹیاں کھاتا جاتا تھا اور منہ سے رال سی ٹپکتی تھی۔ اس واقعہ کا مجھے بارہا لطف آیا اور مَیں نے اِس واقعہ کے اندر بارہا اس سیر چشمی اور کرم کو دیکھا جو آپ کی فیاضی طبیعت میں موجود تھا۔
عام طور پر ہم اپنے گھروں میں دیکھتے ہیں کہ گھر میں آنے والی مستورات کے بچوں کی ایسی خواہشوں کی طرف کبھی توجہ نہیں دی جاتی۔ مگر آپ کا ایک دو اڑھائی سال کے بچے کی خواہش کااس طرح کرید کر معلوم کرنا اور پھر اس کو سیر چشمی سے پورا کرنا۔ یہ آپ کی فیاضی فطرت کا ایک ادنیٰ نمونہ تھا۔ چنانچہ آج بھی جب تبرک آیا تو مجھے حضرت اماں جان کا وہ لطف و احسان جو مجھے آج سے چوالیس سال قبل ہوا تھا، یاد آیا اور پھر آج کا لطف و احسان بھی۔ تو میرے دل میں ان کے لئے شکرگذاری کے جذبات پیدا ہوئے اور مَیں نے شکر گذاری کے ساتھ اسی واقعہ کو اس کتاب کی تمہید میں درج کر دیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت ممدوحہ موصوفہ کی عمر اور صحت میں برکت دے اور ان کو ہر قسم کے انعاماتِ الٰہی سے دائمی ابدی طور پر مالا مال رکھے۔ آمین
۱۹/مارچ ۱۹۴۳ء محمود احمدعرفانی
ء…ء…ء
رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلُ الْبَیْتِ
اہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
مکرم و محترم جناب قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کی زبانِ قلم سے
اے خاندانِ حضرتِ مہدی امامِ حق
تم سے ہوا بلند زمانے میں نامِ حق
تم ہی تو ہو کہ جن کے مبارک وجود سے
پہنچاتے ہیں ملائکۃ اللہ۔ سلامِ حق
پھیلی تمہارے دم سے زمانے میں روشنی
پھوٹا ہے ایک چشمۂ نورِ کلامِ حق
تم ہو خدا کے ساتھ خدا ہے تمہارے ساتھ
ہم نے ہزار بار سنا یہ پیامِ حق
تم پر خدا کی رحمتِ خاصہ کا ہے نزول
قائم ہوا تمہیں سے یہ سارا نظامِ حق
لاریب تم ہو فارسی الاصل وہ رجال
وابستہ جن کی ذات سے ہوگا قیامِ حق
ایمان لانے والے ثریا سے تم ہی ہو
ہاں ہاں تمہیں نے آ کے دکھایا مقامِ حق
تم ہو امانِ اہل زمیں جانِ علمِ و دیں
تم سے ملے گا جس کو ملے گا مرامِ حق
تم ہو نجوم جن سے ہدایت کی رَہ ملی
محمود کا وجود ہے، ماہِ تمامِ حق
تطہیر پر تمہاری ہے شاہد خدائے پاک
تقویٰ سے بن گئے ہو، آئمّہ کرامِ حق
ہر رِجس سے ہو پاک سراپا ہی نور ہو
روشن تمہارے نام سے ہوتا ہے نامِ حق
بدگو وہی ہے جس کو برائی سے پیار ہے
جو نیک ہے کرے گا ضرور احترامِ حق
ازواج و اُمہات و بنات و بنینِ بیت
واللہ! سب کے سب ہیں مجسّم نظامِ حق
اے اُمِّ مومنین! تری شان ہے بلند
پہلو میں تیرے اُترا کیا ہے پیامِ حق
کیا وصف لکھ سکے۔ یہ حقیر و فقیرِ قوم
تو خَلق و خُلق میں ہے نشانِ دوامِ حق
روزِ ازل سے تابہ اَبَد کائنات میں
مخصوص ہے ترے لئے دارالسّلامِ حق
قوموںکی ماں ہے اُن کی ترقی کی جاں ہے تو
جاری رہے گا تجھ سے یہ فیضانِ عامِ حق
آئندہ آنے والی خواتین مبارکہ
اور ہونے والے سارے اَئمہّ عظامِ حق
تیرے ہی دم قدم سے ہیں وابستہ سب کے سب
بھیجا کریں گے تجھ پہ درُود و سلامِ حق
اُمید ہے کہ دل سے بھلایا نہ جائے گا
عاصی گناہ گار یہ اکمل غلامِ حق
اندھے نہیں ہیں، دیکھتے ہیں، عقل رکھتے ہیں
یہ گھر زمانے بھر میں ہے بیت الحرامِ حق
دامن تمہارا پاک ہے ہر نقص و عیب سے
وہ مُشک ہو کہ جس سے مُعَنبر مشّامِ حق
مدّاحِ اہل بیتِ مسیحؑ محمدی
اکمل تمہارا خادم و سرمستِ جامِ حق
٭…٭…٭
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت و سوانح لکھنے سے قبل کچھ
(۱)
اللہ تعالیٰ کی قدرتیں ایسی عجیب ہوتی ہیں کہ انسان ان کو دیکھ کر محوِ حیرت ہو جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کے گھرانے کا نجات دہندہ خدا کا پیارا نبی موسٰیؑ فرعون کے گھر میں پرورش پاتا ہے اور جب اُس کی ماں بنی اسرائیل کے دیگر بچوں کے انجام کو دیکھتی ہوئی گھبرائی تو الٰہی دستگیری سے اُسے دریائیِ نیل میں بہا دیتی ہے۔ جسے فرعونی خاندان کی ایک عورت بچا لیتی ہے اور باوجود فرعون کے فرمان کی موجودگی کے وہ اسرائیل جس کے لئے مقدر تھا کہ وہ اس فرعونی سلطنت کا خاتمہ کر دے گا، قصرِ فرعونی میں پرورش پاتا ہے۔
پھر دوسرے دَور میں وہ ایک کسمپرس انسان کی طرح مصر سے بھاگتا ہے۔ حضرت شعیبؑ کی بکریاں چراتا ہے کون جانتا تھا کہ یہ شخص جو آج سر چھپانے کے لئے جگہ نہیں پاتا وہ کل سارے بنی اسرائیل کا بادشاہ قرار دیا جائے گا اور اس کا وجود اسرائیل کے لئے ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھنے کا باعث قرار پایا جائے گا۔
(۲)
وادیٔ فلسطین میں زیتون کی جھاڑیوں کے پاس بیت المقدس کی پہاڑی پر ایک عورت کا بیٹا جو منشاء الٰہی سے پیدا ہوا تا کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی ایک خاص قدرت نمائی کا اظہار کرے۔ جب چلتا پھرتا نظر آتا تھا تو لوگ اس پر طعنہ زن ہوتے تھے۔ اس کی ہنسی اڑائی جاتی تھی۔ اس پر مذاق کیا جاتا تھا۔ بالآخر اس پر مقدمات بنائے گئے۔ عدالتوں میں کھینچا گیا۔ خدا کی وسیع زمین باوجود بڑی وسعت کے اس پر اس حد تک تنگ ہوئی کہ اس نے کہا:
’’پرندوں کیلئے بسیرے اور لومڑیوں کیلئے بھَٹ ہیں۔ مگر ابن آدم کے لئے سرچھپانے کی جگہ نہیں‘‘۔
اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا گیا۔ ا سکے منہ پر طمانچے مارے گئے۔ اس کی پیٹھ پر لکڑی کی بھاری صلیب لادی گئی۔ اور بالآخر صلیب پر لٹکا دیا گیا۔ گو خدا کے ہاتھ نے اسے موت سے بچا لیا مگر مارنے والوں نے اسے مردہ جان کر پھینک دیا۔لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ انسان جس پر آج زمین تنگ کی جارہی ہے۔ جو لوگوں کی نگاہ میں ذلیل اور حقیر ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس کی *** ایک آگ ہے جو یہودی قوم کو دنیا و آخرت میں جہنم کی بھٹیوں میں بھسم کر دے گی اور اس کے ماننے والوں کو دنیا کی ایک ایسی سیادت اور حکومت دی جائے گی کہ صدیوں تک قوموں پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔
افسوس ! ان مصیبتوں کے طوفان میں تھپیڑے کھانے والا مسیح عیسیٰ ابن مریم کسی کو اپنی درخشاں شان میں نظر نہ آتا تھا۔
(۳)
پھر ایک تیسرا نظارہ وادیٔ بطحا میں ہم دیکھتے ہیں۔ قوموں‘ ملکوں بلکہ دنیا کا نجات دہندہ شاہنشاہِ رسالت ہم کو کبھی بکریوں کے چرواہے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اور کبھی شام کے تاجروں میں خدیجہؓ کا مال تجارت لیکر بیٹھا ہوا۔ کبھی مکہ کی گلیوں میں آپؐ کی ایسی مخالفت ہوتی ہے کہ آپؐ کو اپنے دروازے بند کر کے محصور ہونا پڑتا ہے۔ آپؐ کے سرمبارک کی قیمتیں ڈالی جاتی ہیں اور ہر قسم کے مظالم کا آپؐ کو نشانہ ٗبننا پڑتا ہے۔ حتی کہ آپؐ مجبور ہوتے ہیں کہ وطن کو خیرباد کہہ دیں۔ یہ یتیم‘ غریب‘ فاقہ زدہ‘ غریب الوطن‘ مہاجر اور بظاہر مصیبتوں کے پہاڑ سر پر اٹھانے والا انسان لوگوں کو نظر نہ آتا تھا کہ یہ ہی نبیوں کا چاند ہے۔ اسی پر دنیا کی رستگاری کا انحصار ہے یہی ہے وہ جس کا مقام اس قدر بلند ہے کہ لولاک لماخلقت الافلاک کہا گیا ہے مگر ظاہربین آنکھوں کو یہ سب نورنظر نہ آئے۔ نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد ان کے لئے یہ مشکلات ایک حجاب اکبر بن کر رہ گئے۔
(۴)
خود اس زمانے کا راستباز احمد ؑنبی بھی لوگوں کو نظر نہ آیا۔ ان کے لئے آپؑ کی زمینداری‘ آپؑ کی اطاعت والدین کے سلسلہ میں باوجود شدید کراہت نفس کے کچھ عرصہ کی ملازمت۔ آپؑ کی ابتدائی زمانہ کی تنگی روک بنکر رہ گئی اور انہوں نے بلند وبالاآواز سے کہا کہ قادیان کے مغلوں میں سے جو کل ایک معمولی اہلکار تھا‘کیسے خدا کا نبی اور رسول ہو سکتا ہے۔
وہ بھُول گئے کہ نمرودیوں کی شریعت اور قانون کی رُو سے آگ میں جلایا جانے والا مجرم اگر اپنے زمانے کا سب سے بڑا نبی اور ابوالانبیاء بن سکتا۔ شعیبؑ کی بکریاں چرانے والا نوجوان جو قانونِ فرعونی کا مجرم سمجھا گیا تھا‘ اپنے زمانے کا سب سے بڑا نبی ہو سکتا ہے‘ اور بنی اسرائیل کا نجات دہندہ بن سکتا ہے۔
بنی اسرائیل کے طمانچے کھانے والا مسیح جس کے منہ پر تھوکا بھی گیا تھا اور جسے ذلیل کرنے کیلئے کانٹوں کا تاج پہنایا گیا تھا۔ وہ سچ مچ کا بادشاہ بن جائے گا اور اس کی سلطنت کو لوگ قیامت تک مانتے چلے جائیں گے۔تو کیوں اس زمانے کا مُرسَل اور نبی ان ظاہری ناموافق حالات کا اس زمانہ کا نجات دہندہ نہیں بن سکتا؟
ہاں تو ان نظائر اور امثلہ کے لکھنے سے میری غرض یہ ہے کہ خداتعالیٰ جب اپنی کسی خاص قدرت کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ تو وہ اس اظہارِ قدرت کے لئے بالکل ناموافق حالات کا ظہور عمل میں لایا کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کی یہ قدرت خواہ کسی خاص مرد کو عالمِ وجود میں لانے والی ہو‘ یا کسی خاص عورت کویا کسی اور انقلاب کو۔ تو ان ناموافق حالات میں سے ایک چیز پیدا ہوجاتی ہے۔ جوعدم بصیرت رکھنے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہے اور اہل بصیرت کے لئے باعث نجات۔ اس زمانہ کی سب سے بڑی خاتون یعنی حضرت اُمُّ المؤمنین‘ جن کا مقام حضرت مریمؑ یا حضرت خدیجہؓ یا حضرت عائشہؓ یا ان عورتوں کی طرح ہے۔جن کو خداتعالیٰ نے دو جہانوں میںفضیلتِ عظمیٰ عطا فرمائی ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اگرچہ بہت بڑے صحیح النسب سادات کے خاندان میں پیدا ہوئیں۔ مگر قدرت نے آپ کے خاندان کو ایسے حالات سے گذارا کہ کبھی کوئی یہ باور نہیں کر سکتا تھا کہ جو لڑکی ایسے خاندان میں پیدا ہوئی ہے جس کی تفصیل میں آگے چل کر بیان کروں گا وہ ایک دن اس زمانہ کے نبی اور رسول کی بیوی بن کر قیامت تک کیلئے مومنوں کی ماں بن جائے گی۔
حالات بالکل غیرسازگار تھے۔ صدہاحجاب اور پردے اس راستے میں حائل تھے۔ اگر نواب روشن الدولہ‘ رستمِ جنگ اگر نواب خانِ دوران منصور جنگ‘ نواب قمرالدین خان وزیراعظم سلطنت ِمغلیہ‘ نواب احتشام خان داروغہ محلات شاہی زندہ ہوتے‘ جن کے محلات پر ہاتھی کھڑے رہتے تھے۔ نوکرچاکر‘ خدم حشم‘ دولت و ثروت کے دریا بہتے تھے وہ شاید حضرت اُمُّ المومنین کا رشتہ حضرت مسیح موعود ؑ سے کرنے کیلئے تیار ہی نہ ہوتے۔
پھر غدّر کے پراگندہ اور پریشان حالات میں سے گذرنے والے ایک خاندان کی لڑکی جس کا باپ اپنے عقائد کے لحاظ سے کٹروہابی تھا اور پھر ایک خاندان دلی میں رہنے والا اور دوسرا پنجاب کے ایک ایسے گاؤں میں بستا تھا‘ جسے دور کا رہنے والا تو ایک طرف رہا‘ قریب کے علاقے میں رہنے والا انسان بھی نہیں جانتا تھا مگر قدرتِ الٰہی کے خوارق اور خاص نشانات اس تعلق میں بالکل اسی طرح نظر آتے ہیں۔ جیسے دیگر انبیاء ؑ کے حالات میں نظر آتے ہیں۔ اس لئے اس کتاب کو پڑھنے والے مرد اور عورتیں‘ بوڑھے اور بچے اس کو پڑہنے سے پہلے اپنے ذہن میں اس امر کو مستحضر کر لیں کہ یہ ایک ایسی باخدا خاتون کی سیرت و سوانح ہے جو اس زمانے کے نبی اور رسول کی بیوی بنی اور خدا تعالیٰ کی مشیّت خاص نے اسے خاص حالات میں پیدا کیا۔ اس کے خاندان پر غدر میں ایک تباہی آئی۔ وہ تباہی ایک خاص الٰہی نصرت کا ہی نتیجہ تھی۔ اس لڑکی کا باپ خاص حالات کے ماتحت پنجاب میں آیا اور پنجاب میں بھی اس علاقے میں جہاں آئندہ ہونے والے حالات کا شدید تعلق تھا۔
اس طرح بالکل عجیب طور پر اس خاندان کے اس زمانے کے ہونے والے نبی اور رسول کے خاندان سے یہاں تعلقات قائم ہو گئے اور بالآخر بالکل ناموافق حالات میں سے موافق صورت پیدا ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کی مشیت خاص اس لڑکی کو دلہن بنا کر اس گھر میں لے آئی۔ جو گھر آج بنی اسرائیل‘ بنی اسماعیل اور آنحضرت ﷺ کی نعمتوں کا وارث ہو رہا تھا۔ اس کے سر پر تاج نوعروسی سجایا گیا اور اسے اس دنیا کے آخری حصہ میں سب سے بڑے راستباز کی دلہن بنایا گیا اس کے بطن سے الٰہی نور پیدا ہوئے۔ کہ آئندہ دنیا کی نجات‘ امن اور روحانی اور دنیاوی ترقیوں کا انحصار ان کی ذات پر رکھا گیا۔ وہ الٰہی برکتوں کی آغوش میں بڑھی اس کو معیتِ الٰہی کا وعدہ دیا گیا۔ وہ نور ہی نور ہے وہ سراپا برکت ہی برکت ہے۔ وہ خدا کے نشانوں میں سے ایک زبردست نشان اور وہ تجلیاتِ الٰہیہ کا ایک مرکز قرار دی گئی اس کے وجود سے دین الٰہی کو بڑی قوت اور طاقت حاصل ہوئی اور ہوتی چلی جائے گی۔ کسی کو معلوم بھی نہ تھا کہ میرناصرنواب کے گھر میں پیدا ہونے والی لڑکی ایک دن قیامت تک کیلئے اُمُّ المؤمنین بن جائے گی۔ خداتعالیٰ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کے وجود سے بہت سی برکتیں عطا کرنے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ ایک اشتہار میں جو آپؑ نے ۲۰فروری ۱۸۸۶ء کو شائع فرمایا۔ لکھا:
’’تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا۔ تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذرّیت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہونگے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہو گا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اُجڑا ہؤا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذُرّیت منقطع نہیں ہو گی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے۔ عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلاؤں گا پر تیرا نام صفحۂ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور ترے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامُرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مُرادیںتجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبّوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس واموال میں برکت دوں گا اَور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تابروزقیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے۔ خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا۔اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظِلّی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔ اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا۔ یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو ا س نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو۔ اگر تم سچے ہو اور اگر تم بھی پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جونافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کیلئے تیار ہے۔ فقط۔‘‘
سیرت حضرت اُمُّ المؤمنین پڑھنے والے ان پیشگوئیوں کی روشنی میں سیرت کو پڑھیں اور دیکھیں کہ خدا کی نصرت کس کے شاملِ حال رہی اور کسے خدا نے اپنی نصرتوں‘ نعمتوں‘ برکتوں سے نوازا۔
زندہ باد! اماں جان نصرت جہاں بیگم
۲۸/اپریل ۱۹۴۳ء
’’بخارا سے ایک امانت ہندوستان لائی گئی‘‘
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
وعلی عبدہ المسیح الموعود
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھــــــــــوالنــــــــاصـــــــــــــــــر
’’بخارا سے ایک امانت ہندوستان لائی گئی‘‘
اللہ تعالیٰ کے تمام کاموں میں ایک نظام اور ایک ترتیب پائی جاتی ہے اور وہ ایک باقاعدہ پروگرام کے مطابق ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ نظام اور ترتیب کی مثال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّافِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا- ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَائِ فَسَوٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَھُوَبِکُلِّ شَیْیٍٔ عَلِیْمٌo
یعنی پہلے زمین اور زمین میں جو کچھ ہے وہ پیدا کیا۔ اس لئے کہ انسان کے رہنے کے قابل بن سکے۔ پھر آسمان کی طرف توجہ کی اور سات بلندیاں بنا دیں۔ یہی ترتیب تعمیر مکان میں ہوا کرتی ہے۔ اوّل زمین ہموار ہوتی ہے۔ پھر دیواریں اٹھتی ہیں۔ پھر چھت بنتی ہے۔ مجھے ا س جگہ یہ بحث نہیں کرنی کہ زمین کو کن ادوار میں سے گزرنا پڑا۔ لیکن یہ ہر صاحب علم انسان کو معلوم ہے کہ زمین کو قابلِ رہائش بننے کیلئے ہزارہا سال خرچ ہوئے۔ تب وہ آتشین کرہ سرد ہوا۔اور اس قابل ہوا کہ اس میں روئیدگی پیدا ہو۔اور ایسے جانور پیدا ہوں جو زہریلی ہواؤں اور بادِسموم کے جھونکوں اور تپتے ہوئے پہاڑوں یا زمین کے غیرموافق میدانوں میں سانس لے سکیں۔ ہزار ہا سال کے لمبے عرصے کے بعد یہ زمین اس قابل ہوئی کہ اس پر انسان پیدا ہو کر زندگی بسر کر سکے۔ یہ مثال نظام اور ترتیب کی ہے۔
پروگرام یا لائحہ عمل کی یہ مثال ہے کہ فرمایا :
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَۃِ اِنّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃٌ
خداتعالیٰ نے ملائکہ سے ذکر کیا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں خلیفہ سے مراد انسان ہی تھا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے ماتحت اس نے زمین اور آسمان کی تخلیق کی اور اس ساری کائنات کو ترتیب دیا۔ اب غور کیجیئے کہ انسانی ضرورت کو مدنظر رکھ کر زمین اور آسمان‘ لوہا‘پتھر‘ صدہاقسم کی دھاتیں‘ کوئلہ‘نباتات‘ حیوانات‘ سورج‘ چاند‘ ستارے‘ اجرام فلکی‘ زہریں اور ان کے تریاق ‘ ہوائیں اور مختلف قسم کی گیسیں ‘پانی اور بجلی الغرض لاکھوں‘ کروڑوں چیزیں جن کو اگر گنتے چلے جائیں تو کئی ضخیم جلدوں کی کتاب بن جائے۔ یہ سب کچھ کیوں بنایا اور کیوں ان کی تخلیق کی۔ صرف اور صرف اس لئے کہ انسان کو پیدا کیا جائے۔پس تخلیقِ انسان غرض تھی اس تمام کائنات کے پیدا کرنے کی ۔ پھر صرف انسان بھی اصل غرض نہ تھا۔ بلکہ اصل غرض وہ انسان کامل تھا جو انسان کی پیدائش سے ہزارہا سال بعد پیدا ہوا۔ جو محمد رسول اللہ ﷺ کے نام سے مبعوث ہوا اور جس کے لئے کہا گیا لولاک لما خلقت الافلاک جن کے لئے حدیث قدسی میں آیا ہے کہ آپؐ کا نور اُ س وقت سے بھی پہلے موجود تھا۔جبکہ آدم ابھی بینَ الطِّیْن وَالمَاء ہی تھا۔ تو اس سے بھی یہی امر ثابت ہوتا ہے کہ ابوالبشر کے پیدا کرنے سے بھی قبل آنحضرت ﷺ کے وجود باجود کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہو چکا تھا۔ اسی کا نام ہے پروگرام۔پس خداتعالیٰ نے ازل سے ابد تک کا ایک پروگرام تیار فرما کر یہ کَون پیدا کیا۔ اس میں بہت سی پیدائشیں تو ا سطرح ہوئی ہیں جیسے زمین جو مقصود بالذات تھی اس کی تخلیق اور قیام کے لئے ذرّے پیدا ہوتے ہیں۔ ذرّے پیدا بھی ہوتے ہیں اور ذرّے مٹتے بھی رہتے ہیں۔ ذرّہ جو باعث ہے زمین کے قیام کا اس کی طرف کسی کو دھیان بھی نہیں ہوتا۔ نہ اس کے بننے کی طرف توجہ ہوتی ہے اور نہ اس کے مٹنے کی طرف۔ اسی طرح انسانوں میں لاکھوں‘ کروڑوں انسان ایسے پیدا ہوتے ہیں کہ نہ ان کے پیدا ہونے سے کسی کو خاص توجہ ہوتی ہے اور نہ ان کے فنا ہونے سے لیکن ان میں سے بعض لوگ مقصود ہوتے ہیں اور ان کا وجود دنیا میں ایک عالمگیر انقلاب لانے کا باعث ہوتا ہے۔ یہ لوگ کبھی وہ ہوتے ہیں جو علمی دنیا میں انقلاب پیدا کرتے ہیں۔ کبھی وہ ہوتے ہیں جو سیاسی دنیا میں انقلاب کرتے ہیں کبھی وہ ہوتے ہیں جو ذہنی دنیا میں انقلاب پیدا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ مقصود تو ہوتے ہیں مگر مقصود بالذات نہیں ہوتے۔
مقصود بالذات صرف انبیاء ؑ کا وجود ہوتا ہے۔ جو روحانی دنیا میں انقلاب پیدا کرتے ہیں اور وہ باطل پرست دنیا میں انقلاب پیدا کر کے مخلوق کو خدا پرست بنا دیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خدا میں شامل کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ جن کا میں نے ابھی مقصود کے تحت میں ذکر کیا ہے۔ وہ انبیاؑء سے قبل دنیا میں آتے ہیں تاکہ بیداری پیدا کریں بیداری اپنی ذات میں ایک اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔ جس کے ساتھ ہزارہا منافع وابستہ ہیں۔ جیسے بادل اور بارش سے قبل ٹھنڈی ہوا ایک دلیل ہوتی ہے کہ بارش آئے گی اور جیسے ٹھنڈی ہوا سے قبل گرمی اور تلخی بندش ہوا دلیل ہوتی ہے کہ بادل آئیں گے۔
جیسے زمین میں مختلف جگہ پر زلزلوں کا پیدا ہونا دلیل ہوتا ہے کہ زمین اب اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثقَالھَا کی مصداق بن جائے گی۔ اسی طرح دنیا میں ایسے لوگوں کا وجود جو ذہنی بیداری کا باعث ہوں دلیل ہوتا ہے اس امر کی کہ اَب روحانی انقلاب لانے والا بھی کوئی شخص پیدا ہوا چاہتا ہے اور یہی لوگ مقصود بالذات ہوا کرتے ہیں ان لوگوں کی خاطر کبھی دنیا کے بعض حصے مٹا دیئے جاتے ہیں۔ کبھی بعض قومیں تباہ کر دی جاتی ہیںاور کبھی ایک قوم کو ایک ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں جن کو ظاہری آنکھ نہیں سمجھ سکتی۔ مگر کبھی اس واقعہ سے صدیوں بعد اور کبھی ہزار ہا سال بعد وہ ہستی جو مقصود بالذات ہے پیدا ہو جاتی ہے۔
دنیا کے تاریخ دان انقلاب امم کو محض قوموں کے قواء کی کمزوری اور مضبوطی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقتِ حال سے ناواقف ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں کہ ان قواء کی کمزوری اور مضبوطی تو ایک طَے شدہ چیز ہے۔ وہ ایک گھڑی کے پُرزوں کی طرح گارنٹی کی مدت مقررہ میں چلتے اور ختم ہو جاتے ہیں۔ دراصل ان کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہوا ہوتا ہے۔
وادی غیر ذی زرع میں حضرت ابراہیمؑ کا اپنی بیوی ہاجرہؑ اور اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو چھوڑنا کیا نتیجہ تھا ان خانگی جھگڑوں کا جو دو سَوتوں کے درمیان اکثر اوقات ہو جایا کرتا تھا۔ مؤرخ یہی کہے گا مگر اسرار الٰہیہ کا جاننے والا کہے گا کہ یہ دن یوم الفارق تھا بنی اسماعیل اور بنی اسحق دو قوموں کے درمیان۔ الٰہی تجویز کے ماتحت بنی اسحق کی عارضی ترقی اور بنی اسماعیل کو نشوونما دے کر ارض بطحا سے قوموں اور تمام بنی نوع کا شاہنشاہ پیدا کرنا مطلوب تھا ٹھیک اسی طرح ہم حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کے انقلابات دیکھتے ہیں کہ اس خاندان کے بزرگ بخارا سے ہندوستان ہجرت کر کے آئے۔ قوموں کی تاریخ لکھنے والا مُؤرخ اس کے اسباب وعِلل معلوم نہیں کیا بتلائے۔ وہ ممکن ہے کہ فراخی رزق کی تلاش اس کا سبب بتلائے یا ممکن ہے خانگی خانہ جنگی سمجھے یا ممکن ہے ملک کی سیاسی پیچیدگیاں اس کی وجہ قرار دے لیکن مَیں ان سب وجوہات کو غلط قرار دے کر ایک یہی وجہ قرار دوں گا کہ اس خاندان کے بزرگوں کی صُلب میں ایک امانت تھی جو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ سے تقریباً ۴۰ بزرگوں کی پشت میں منتقل ہوئی اور حضرت میر ناصر نواب کے ذریعہ عالم وجود میں آئی اور اس کا نام نامی و اسمِ گرامی نصرت جہاں بیگم رکھا گیا۔
مَیں ان وجوہات پر بحث نہیں کرتا جن کی بناء پر یہ خاندان عرب سے نکل کر بخارا میں چلا گیا مگر بخارا سے ہندوستان آنے کی وجہ یہ تھی کہ اس خاندان کے بزرگوں کو یہ امانت حضرت مسیح موعود و مہدیٔ مسعود کے حوالے کرنی تھی اور مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ازل کے پروگرام کے مطابق یہ مقدر تھا کہ وہ ہندوستان میں پیدا ہو اور یہی وجہ تھی کہ مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ بھی اس امانت کا بار اُٹھائے ہوئے جس کا نام مسیح موعود تھا سمرقندسے کچھ عرصہ پہلے بابر کے زمانہ میں ہندوستان آگئے تھے اور تھوڑا عرصہ بعد نصرت جہاں بیگم کے بزرگ اس دوسری امانت کا بار اُٹھائے ہوئے ہندوستان چلے آئے۔
یہ کیوں ہوا؟ خدا تعالیٰ نے روز اوّل سے مقدر کر دیا تھا کہ جب اُمت محمدیہ اپنے زوال کی انتہاء کو پہنچ جائے گی اُس وقت ایک مسیح محمدی پیدا کیا جائے گا۔ وہ ایک خاص خاتون سے شادی کرے گا اور اس خاتون کے بطن سے اولاد پیدا ہوگی۔ یہ اولاد ساری کی ساری مبشر ہوگی۔ وہ ایسے نور ہوں گے جن سے قومیں راہ دیکھیں گی اور دنیا کے امن کی بنیاد اُن پر رکھی جائے گی۔ پس مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی سمرقند سے ہجرت کا اصلی سبب مسیح موعود علیہ السلام کا ہندوستان میں پیدا ہونا تھا اور نصرت جہاں بیگم کے خاندان کی بخارا سے ہجرت کا اصل باعث ان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نکاح میں آنا تھا اور اس نکاح کی غرض ایک جدید قوم کو پیدا کرنا تھا جو دنیا کے آئندہ تمدن کو بدل کر چٹانِ امن پر لا کر کھڑا کر دے گی۔ اس غرض کو پورا کرنے کیلئے اُمُّ المؤمنین کے بزرگ ہجرت کر کے ہندوستان میں آئے۔
ء…ء…ء
حضرت اُمُّ المؤمنین کا آبائی خاندان
حضرت اُمُّ المؤمنین کا آبائی خاندان
۱۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
۲۔ حضرت خواجہ سیّد محمدطاہر صاحب
۳۔ خواجہ نواب فتح اللہ خان صاحب
۴۔ روشن الدولہ۔ رستم جنگ خواجہ سیّد نواب محمد ظفراللہ خان یارِ وفادار ہفت ہزاری
۵۔ خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب عندلیب
۶۔ حضرت خواجہ میر درد صاحب رحمۃ اللہ علیہ
۷۔ خواجہ صاحب میر صاحب ضیاء النّاصر
۸۔ خواجہ محمد نصیر صاحب محمدی
حضرت اُمُّ المؤمنین کے آبائی بزرگوں کا اجمالی تذکرہ
حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم کے بزرگوں کی ابتداء خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مبارک سے ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نورِ نظر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں اور آپؓ کے لختِ جگر حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھے۔ حضرت امام حسینؓ شہید کربلا کے لختِ جگر حضرت امام سیّد زین العابدین تھے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کا خاندان حسینی سادات کا خاندان تھا۔ اس طرح اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
حضرت امام حسینؓ کو جو نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے تھے۔ ان کی نیکی، تقویٰ، بزرگی، عَلُوِّمرتبت کو تمام مسلمان جانتے ہیں۔ میدانِ کربلا میں آپؓ نے جو ایثار اور قربانی کا نمونہ دکھایا اُس کی مثال دنیا میں کہیں نظر نہ آئے گی۔ خاندان کے بیشتر افراد ایک ایک کر کے اپنی آنکھوں کے سامنے کٹوا دیئے۔ مگر ظلم اور خلافِ حق کے سامنے اپنی گردن خم نہ کی۔ اس پر اکتفا نہ ہوا بلکہ اپنی عزیز جان بھی طرح طرح کے مصائب اور مظالم کو برداشت کرتے ہوئے قربان کر دی اور ایک فاسق فاجر انسان کی اطاعت کو قبول نہ کیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کوجنت کے سرداروں میں سے قرار دیا۔ انہوں نے دنیا کی تمام تلخیوں، شرارتوں اور بظاہر ناکامیوں کو قبول کر کے دنیا کو ایک سبق دیا کہ سچائی زندگی اور جان سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ اس قربانی کا جو انہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے خون سے دی یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اسلام کی خدمت کرنے والی جماعتیں آپؓ کی نسل میں پیدا کر دیں اور متقین کا امام بنا دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جو اس سے قبل اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ ان کو بھی اپنے ایک بیٹے اسماعیل علیہ السلام اور بیوی کی خداتعالیٰ کی رضاء کے لئے ایک قربانی دینی پڑی تھی۔ چنانچہ قرآن کریم نے ان کی ایک دعا کا ذکر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے:
رَبَّنَآ انِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَا جعَل اَفْئِدَۃً مِّنَ الناسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِم وَارْزُقْھُمْ مِنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ-۱؎
اس وادی غیر ذی زرع میں جہاں انسانی رہائش بالکل ناممکن تھی ان کا اپنی اولاد کوخدا تعالیٰ کی عظمت و جلال کے لئے چھوڑ دینا اِس امر کا باعث ہوگیا کہ اسماعیل ؑ کو ایک قوم کا باپ بنا دیا گیا اور اس قوم سے وہ انسان پیدا ہوا جو فخر انسانیت، فخر الانبیاء، جامع جمیع کمالات انسانی تھا۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور جب امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر حضرت اسماعیل ؑ جیسی قربانی کی تو ضروری تھا کہ ان کو بھی اس کا ویسا ہی بدلہ دیا جاتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک صلحاء اور راستبازوں کی ایک بڑی جماعت آپؓ کی نسل میں پیدا کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ چنانچہ حضرت امام زین العابدین، امام محمد باقر، امام جعفر، امام موسیٰ کاظم، امام موسیٰ رضا، امام علی نقی، امام علی تقی ، امام حسن عسکری رضی اللہ تعالیٰ عنہم جیسے برگزیدہ اور باخدا اور پاکباز لوگ نسل حسینؓ سے پیدا ہوئے اور باوجود اس کے کہ حادثہ کربلا میں دنیا آلِ حسینؓ پر تنگ ہوگئی تھی اور دشمن نے اس نسل کو مٹا دینے کا عملی فیصلہ کر لیا تھا مگر نسلِ حسینؓ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونوں میں پھیل گئی اور دنیا کی راہنمائی اور اصلاح کا کام ہر جگہ ان کے ذریعہ سے مختلف زمانوں اور مختلف مکانوں میںہوتا رہا۔ اسی اصل کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے نسلِ حسینؓ کی ایک شاخ کو بخارا کی طرف منتقل کر دیا۔ چنانچہ سیّد کمال الدین بخاری جو امام حسن عسکری کے دسویں پشت میں پوتے ہیں بخارے میں ہجرت کر گئے۔
تاریخ ان اسباب کو بیان نہیںکرتی جو ان کی ہجرت کے اسباب ہیں لیکن جیسے کہ مَیں لکھ چکا ہوں کہ ان تمام حرکتوں کے پیچھے الٰہی منشاء کام کر رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ سیّد کمال الدین بخاری کے خانوادہ میں ایک ایسا باکمال اور روشن ستارہ پیدا ہوا جس نے اپنے روحانی کمال سے ایک دفعہ دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا اور دراصل اسی ستارہ کو بخارا کی زمین سے پیدا کرانے کے لئے یہ ہجرت کرائی گئی تھی اور یہ تھے حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند۔
حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند اپنے زمانہ کے بہت بڑے رہبر کامل تھے۔ ان کے ذریعے ایک خاص صوفی فرقہ کی بنیاد رکھی گئی جو لوگ اس فرقہ میں شامل ہوتے تھے وہ نقشبندی کہلاتے تھے۔ نقشبندی طریقہ آہستہ آہستہ بخارا سے نکل کر ہندوستان، افغانستان، ایران، عراق، شام، مصر تک پھیل گیا۔ اس طریقہ کے ماننے والے لوگوں میںبڑے بڑے باخدا اور ولی اللہ لوگ پیدا ہوئے۔ چنانچہ خواجہ علاء الدین عطار، حضرت مولانا یعقوب چرخی، حضرت خواجہ عبید اللہ احرار، حضرت خواجہ مولانامحمد زاہد، حضرت خواجہ محمد درویش، حضرت خواجہ ا مکنکی، حضرت خواجہ محمد باقی، حضرت مجدد الف ثانی،حضرت خواجہ محمد معصوم، حضرت خواجہ حجۃ اللہ نقشبندثانی، حضرت خواجہ محمد زبیر اور اس قسم کے بہت سے بزرگ مختلف ملکوں میں اس سلسلہ نقشبندیہ کے ذریعے پیدا ہوئے اور انہوں نے درویشانہ طریق پر اسلام کی بڑی بڑی خدمتیں کیں۔ یہ سب لوگ مجاہدین اسلام تھے اور ان کی عمریںبے ریا خدمت میں گذر گئیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنے فضلوںکی بڑی بڑی بارشیں برسائے۔ آمین
اسی نقشبندی طریق کے حاملین میں سے گیارہویں صدی میں حضرت مجدد الف ثانی ایک ایسے بزرگ پیدا ہوئے جو اپنے زمانے کے مجدد تھے اور اسلام کے دورِ خزاں میں بہار پیدا کرنے کا باعث ہوئے۔ مگر حضرت مجدد الف ثانی حضرت خواجہ سیّد بہاء الدین نقشبندی کے صلبی بیٹے نہ تھے۔ ان کا تعلق صرف روحانی فیض سے وابستہ تھا۔ ہاں سیّد بہاء الدین نقشبند کی جسمانی اولاد بھی اس فیض روحانی سے محروم نہ تھی۔ پہلے بھی ان کی جسمانی اولاد میں سے اکثر باخدا لوگ پیدا ہوئے تھے مگر بارہویں صدی میں حضرت خواجہ محمد ناصر دہلوی پر پھر روحانی پرتوہ پڑا اور وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے ولی کامل مانے گئے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ایسے پاکباز بزرگ تھے کہ اگر مَیں ان کو تیرہویں صدی کا ایک باکمال ولی کہوں تو بیجا نہ ہوگا۔
ان بزرگوں کے مختصر اوصاف تو الگ الگ میں لکھوں گا لیکن یہاں مَیں اس قدر لکھ دینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ حضرت خواجہ میر درد بچپن سے فیض روحانی سے مالا مال ہو چکے تھے۔ پندرہ برس کی عمر میں انہوں نے ایک رسالہ تصنیف فرمایا جس کا نام ’’اسرار الصلوٰۃ‘‘ رکھا۔ جب اس مختصر سے رسالہ کو حضرت مولانا فخر الدین چشتی نظامی دہلوی اور حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے ملاحظہ فرمایا تو دونو بزرگ اصحاب نے فرمایا ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیہِ مَنْ یَّشَائُ یہ وہبی دولت ہے۔
الغرض حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب سے ایک نئے سلسلہ کی بنیاد پڑی جو سلسلہ محمدیہ کہلایا۔اس سلسلہ کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ یہ سلسلہ محمدیہ امام مہدیؑ کے آنے تک جاری رہے گا اور اس کے بعد امام مہدیؑ کے آنے کے بعد اس کی روشنی اس کے نور میں گم ہو جائے گی۔ چنانچہ جیسے پیشگوئی میں لکھا تھا بالکل اس کے مطابق ہوا۔ اس سلسلہ کے آخری خلیفہ حضرت میر ناصر امیر ہوئے۔ جو ۱۶/ ذوالحجہ ۱۲۷۰ـھ مطابق ۱۰/ستمبر ۱۸۵۴ء کو فوت ہوگئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جس میں حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود ؑ پیدا ہو چکے تھے اور آپؑ کی عمر ۲۰ سال کی ہو چکی تھی کیونکہ آپؑ کی پیدائش ۱۸۳۵ء میں ہوئی تھی اور آپ کے ظہور کا زمانہ قریب تھا اور وہ وقت بھی نزدیک تھا جب کہ فرقہ محمدیہ کی روشنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روشنی میں گم ہو جانے والی تھی۔ چنانچہ ۱۸۶۵ء میں حضرت میر ناصر امیر کے لختِ جگر حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشکوے معلی میں نصرت جہاں بیگم کی ولادت باسعادت ہوئی اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض حضرت فاطمہ علیہا السلام کے ذریعے اُن کی اولاد میں منتقل ہوا بالکل اسی طرح خاندان محمدیہ کی روشنی حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے ذریعے ۱۸۸۴ء میں حضرت مسیح موعود اور مہدیؑ مسعود کی روشنی میں گم ہوگئی اور آپ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نکاح میں اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے ماتحت لائی گئیں اور اس طرح ایک نئی اور پاکیزہ آسمانی روشنی میں مل کر یہ پہلی روشنی جلوہ گر ہوئی۔ حقیقت میں شمع وہی تھی فانوس دوسرا تھا۔ آفتاب وہی تھا مگر مطلع نیا تھا۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا ایک نئی نسل کا آغاز ہوجو قیامت تک اپنے نور سے دنیا کو منور رکھے گی اور اس طرح حضرت امام حسینؓ کو اس قربانی کا پھل مل گیا اور راستباز اور نیک خادمان دین الٰہی کی ایک بڑی جماعت بذریعہ نسل اور بذریعہ روح دی گئی اور اس آخری زمانہ میں جب کہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے اسلام کی تکمیل اشاعت کے لئے ایک بروز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا تو مشابہتِ تامہ کیلئے نسلِ حسینؓ سے ایک دوسری خدیجہؓ کو پیدا کیا تا کہ اس کی نسل سے پھر دوسرا دور شروع ہو اور تکمیل اشاعت دین کیلئے یہ لوگ جو ایک طرف نسلِ حسین سے بھی ہوں گے معلوم نہیں کہ کس قدر دکھ اُٹھائیں گے اور کتنی قربانیاں کریں گے اور ان کو حضرت امام حسینؓ سے کتنی قرب کی نسبتیں ہوں گی کہ مسیح موعود نے فرمایا:
کربلا ایست سَیر ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
نادانوں نے اسے حضرت امام حسینؓ کی توہین قرار دیا ہے جو شخص خود امام حسینؓ سے ایک نسبت خاص رکھتا ہو جو خود بروزِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو وہ امام حسین علیہ السلام کی توہین نہیں کر سکتا۔ میرے ذوق میںتو اس میں ایک پیشگوئی مخفی ہے جو ان تکالیف اور مشقتوں اور قربانیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اس بروز محمدؐ اور اس بروز خدیجہؓ کی اولاد اور نسل کو اشاعت دین کے راستے میں اٹھانی پڑیں گی۔ کتنی عظمت ہے اس خاتون کی جسے خدا تعالیٰ نے تیرہ سَو سال کے بعد پھر خدیجہؓ ثانیہ بنا کر بروز محمد کی بیوی بنا دیا اور کتنی عظمت ہے اس نسل کو جو تکمیل اشاعتِ دین کی غرض کیلئے دنیا کی آخری ہدایت اور نور قرار دی گئی۔ یہ نتیجہ تھا امام حسین کی قربانی کا۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعالیٰ عَنْہُ
حضرت سَیّد محمد طاہر
دَورِ اوّل
بخارا سے پہلا قافلہ
ہندوستان میں سب سے اوّل حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ کی نسل سے خواجہ محمد نصیر نقشبندی شاہجہان شہنشاہ ہند کے زمانہ میں بخارا
سے ہندوستان آئے۔ گویا یہ بخارا کے اس خاندان کا پہلا قافلہ تھا۔ شاہنشاہِ ہند نے ان کو بڑے اعزاز سے اپنے دربار میں بلا لیا اور ان کو ہر قسم کے اعزاز اور مناصب سے سرفراز فرمایا اور اپنے لختِ جگر شاہزادہ شجاع کے ساتھ جو اس زمانہ میں بنگال کے ناظم یعنی وائسرائے تھے وزیر کے منصب پر فائز کر کے بھیج دیا۔ جب تک شاہجہان بادشاہ برسرِ اقتدار رہا شجاع ناظم بنگال رہے اور جب اورنگ زیب کا دور آیا اور خاندانی جنگ کا آغاز ہوا تو شاہ شجاع بنگال سے اورنگ زیب کے مقابلہ کیلئے روانہ ہوا۔ شاہ شجاع کے ساتھ ۲۵ ہزار فوج اور توپخانہ تھا۔ بنگال سے چل کر اس فوج نے بنارس آ کر دم لیا اور بنارس سے کہجوہ پہنچ کر۔ اُدھر سے اورنگ زیب بڑھا آ رہا تھا۔ الہ آباد اور اٹاوہ کے بیچ دونو بھائیوں کے درمیان مڈبھیڑ ہوئی نتیجہ یہ ہوا کہ شاہ شجاع کی فوج کو شکست ہوئی اورنگ زیب کی فوج نے حملے کے جوش میں اندھے ہو کر زنانے خیموں کی طرف رُخ کیا۔ خواجہ محمد نصیر صاحب کو یہ امر سخت ناگوار گذرا اور وہ تلوار لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور خوب دل کھول کر دادِ شجاعت دی۔ بالآخر مستورات کے کیمپ کے باہر شہید ہوگئے۔ ۲؎
اس مختصر سے واقعہ سے مندرجہ ذیل امور منتج ہوتے ہیں:
اوّل: خاندانِ نقشبند کا پہلا قافلہ زیر قیادت خواجہ محمد نصیر صاحب دہلی آیا۔
دوم: یہ زمانہ شاہنشاہِ شاہجہان کا تھا جو مغلیہ سلطنت کے عین عروج کا زمانہ تھا۔
سوم: شاہنشاہِ ہند نے فوراً خواجہ محمد نصیر کو دربار میں اعزاز اور منصب سے سرفراز کیا جو اس امر کی دلیل ہے کہ یہ خاندان بخارا میں کوئی غیر معروف نہ تھا بلکہ ان کی بزرگی، علمی قابلیت، وجاہت، عالی نسبی کا اس سے بسہولت پتہ چلتا ہے۔
چہارم:ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حصولِ ملازمت کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ شاہجہان کے ایماء پر ہی آئے تھے۔ بخارا اُن ایام میں علومِ اسلامیہ ہی کا مرکز نہ تھا بلکہ وہاں خدا رسیدہ بزرگوں کی بھی جماعت تھی اور شاہجہان وہاں سے علوم دینیہ کے ماہر اور اہل دل لوگوں کو بلانے کے لئے خاص شوق رکھتا تھا اور عالی نسب، ذی علم، خدا پرست لوگوں کی جماعت جمع کرنا چاہتا تھا۔ اسی سلسلہ میں انہوں نے خواجہ محمد نصیر کو بلایا تھا۔ تبھی بغیر کسی تردّد کے ان کو اتنی جلدی فی الفور منصبِ وزارت جیسے وقیع منصب پر فائز کر دیا گیا۔
پنجم: وہ صرف صاحبِ سیاست ہی نہ تھے بلکہ صاحب السَیف بھی تھے۔ گویا کہ بیک وقت ایک اعلیٰ درجہ کے سیاستدان اور ایک عمدہ جرنیل تھے۔
اس سے اس خاندان کی عزت، عظمت کا بآسانی اندازہ لگ سکتا ہے خواجہ محمد نصیر صاحب وزیر صوبہ بنگال کے بعد اُن کے صاحبزادے سیّد عبدالقادر بالکل دنیا سے الگ ہو گئے۔ خواجہ محمد نصیر کا ذکر تو صرف اس قدر بتانے کے لئے کیا گیا کہ بخاری سادات نقشبندیہ کا پہلا قافلہ آپ کی قیادت میں آیا اور آپ بھی اپنے زمانے کے بہت بڑے سیاست دان اور بہت بڑے جرنیل تھے۔ مگر جس خاندان کا ذکر مقصود بالذات ہے وہ حضرت خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب کا خاندان ہے۔ یہ بزرگ بھی حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند کے خاندان سے تھے اور یہ حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام کے خاندان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔
حضرت خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب اس دوسرے قافلہ کے سردار تھے جو بخارا سے واردِ ہندوستان ہوا۔ یہ زمانہ شاہنشاہ اورنگ زیب کا زمانہ تھا۔ واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس قافلہ کی آمد پر پہلے ہی سے اورنگ زیب کی آنکھیں لگی ہوئی تھیںکیونکہ اورنگ زیب خود خواجہ خواجگان حضرت بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے طریقہ نقشبندیہ میں بیعت تھا اس لئے اورنگ زیب بادشاہ ہند نے ان کے فوراً ورودِ ہند ہونے پر ان کو دہلی کی مشہور تاریخی یادگار میں جو اس زمانہ میں دنیا کا بہت بڑا پُر رعب و جلال قلعہ تھا دعوت دی۔
لال قلعہ میں دعوت
میں یہاں لال قلعہ کی رونق اور شوکت اور عظمت و جلال کی تاریخ نہیں لکھنی چاہتا مگر ہر شخص جسے اسلامی ہند کی تاریخ سے ذرا بھی مس ہو وہ لال قلعہ کی عظمت سے بخوبی واقف ہوگا۔ لال قلعہ اُس وقت دنیا میں سب سے بڑا قصرِ شاہی تھا اس وقت مغلیہ سلطنت کا ڈنکہ چار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔ اورنگ زیب کی فوج ظفر موج کے سامنے اس وقت ہندوستان کی کوئی فوج ٹھہر نہ سکتی تھی۔ تمام ہندوستان پر اس کا چتر حکومت چھا رہا تھا۔ لال قلعہ اس زمانہ میں ایک نو عروس کی طرح سے سجا ہوا تھا۔ فوجوں کے پرے افسران کی بھڑکیلی وردیاں، درباریوں کا مؤدّب اور باوقار ہونا ہر شخص کے قلب میں ایک ہیبت طاری کرتا تھا۔ نوکر چاکر، لونڈیاںغلام اِدھر سے اُدھر بھاگے پھرتے تھے۔ شاہزادوں اور شاہزادیوں بیگمات اور خواصوں کے معطّر لباسوں سے قلعہ کی فضاء دنیا کی دیگر فضاء سے بالکل الگ معلوم ہوتی تھی۔ ایسے مقام عالی میں جہاں سے شاہنشاہِ ہند حکومت کرتا ہو جب کسی کی دعوت کرتا ہوگا تو اس وقت قلعہ معلّٰے کی کیا حالت ہوتی ہوگی اور کیسی گہما گہمی ہوتی ہوگی۔
الغرض بادشاہِ ہند شہنشاہِ اورنگ زیب نے اس اخلاص کی وجہ سے جو اُن کو اپنے پیرومرشد حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند سے تھا حضرت سیّد محمدطاہر صاحب کی لال قلعہ میں دعوت کی۔
شاہنشاہ درویش کے قدموں میں
شاہنشاہ نے بنفس نفیس اُن کا استقبال کیا اور بڑی تواضع اور ادب سے اُن کو مسند پر بٹھایا۔ چونکہ اورنگ زیب خود طریقہ نقشبندیہ میں مرید تھا اس لئے سیّد محمد طاہر کا وجود اس کے لئے اپنے پیرومرشد کے ہی قائم مقام تھا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد بادشاہ نے بہت کچھ نقد جنس حسبِ دستور شاہانِ مغلیہ اپنے مرشد زادہ کو پیش کرنا چاہا۔ مگر اُن کی نگاہ میں یہ زر و جواہر اور یہ دنیا کے مال و منال کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی اُن کی طرف نہ دیکھا اور اُن کو قبول نہ کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو جاتے ہیں اُن کی نگاہ میں دنیا کی ان قیمتی اشیاء کی قیمت ایک جیفہ ( مُردار) سے زیادہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار
خلاصہ یہ کہ جو خدا کے ہو رہتے ہیں اُن کو اس دنیا کی کسی چیز سے اُلفت نہیں ہوتی اور وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ الدنیا جِیْفَۃٌ وَطَالِبُھَا کلاب
الغرض حضرت خواجہ سیّد محمدطاہر صاحب نے شاہی عطاء کو قبول نہ کیا۔ اورنگ زیب نے کیا کچھ پیش کیا ہو گا اس کی تفصیل کسی کو معلوم نہیں مگر اس امر سے بخوبی اندازہ لگ سکتا ہے کہ اورنگ زیب خود شاہنشاہِ ہند تھا اور جس کو وہ پیشکش کر رہا تھا وہ اس کا مرشدزادہ بلکہ ایک رنگ میں مرشد ہی تھا کیونکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اورنگ زیب کو انہی کی دعا سے تاج و تخت ملا تھا۔ اس لئے اس نے جو کچھ پیش کیا ہو گا اس کا تصور بآسانی ہو سکتا ہے۔
حضرت خواجہ کے اس استغناء اور سیر چشمی نے اور بھی جادو کا سااثر کیا اور وہ ہمیشہ کے لئے ان کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا اور اس طرح شاہنشاہِ ہند ایک درویش کے قدموں میں آ گیا۔اس کی عقید تمندی کی یہ حالت تھی کہ وہ خود بنفسِ نفیس درِخواجہ پر حاضری دیا کرتا تھا۔ ۳؎
خواجہ سَیّد محمدطاہر کے بیٹوں کے نکاح میں مغل شاہزادیاں
کچھ عرصہ کے بعد خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ حرمین کو جانا چاہتے ہیں۔ اورنگ زیب ان کو اس پاک مقصد سے روک نہ سکتا تھا اور ان برکات سے بھی محروم نہ ہونا چاہتا تھا جو اس بزرگ خاندان کے قدموں کی برکت سے حاصل ہو رہی تھیں۔ اس لئے اس نے بصد اخلاص وارادت عرض کی کہ آپ اپنے تینوں صاحبزادے اور اپنے بھتیجہ کو میرے پاس چھوڑ جائیے تا کہ ان کی برکت سے لال قلعہ معمور رہے۔ شاہنشاہِ ہند کی یہ درخواست منظور ہوئی اور انہوں نے اپنے تین صاحبزادے خواجہ سیّد محمد صالح اور خواجہ سیّد محمدیعقو ب اور خواجہ سیّد فتح اللہ صاحب کو معہ اپنے ایک بھتیجہ کو جن کا نام معلوم نہیں ہو سکا حسبِ استدعا اورنگ زیب بادشاہِ ہند دہلی میں چھوڑا۔
بادشاہ نے ان چاروں کو بڑے بڑے عہدے اور بڑے بڑے منصب دے کر اورنگ زیبی دربار کے رُکن بنا لیا۔ اسی پر بس نہیں کی بلکہ خواجہ محمدصالح اور خواجہ محمد یعقوب کو جو کنوارے تھے اپنے حقیقی بھائی شہزادہ مراد کی دو خوبصورت حسینہ و جمیلہ بیٹیاں بیاہ دیں اور اس طرح اس خاندان سے نہ صرف اپنی عقیدت مندی کی تکمیل کی بلکہ اس خیال سے کہ لوگ ان کو محض درویش ہی خیال نہ کرتے رہیں اپنے برابر کر لیا۔
اس طرح اس خاندان درویش کو درویشی اور حکومت کی دونوں نعمتوں سے مالا مال کر دیا۔ اسی خاندان سے ایک بزرگ خواجہ سیّد محمد یعقوب بھی اس دوسرے قافلہ میں آئے تھے۔ ان کے بیٹے خواجہ سیّد موسیٰ کو اپنے پوتے شہزادہ معزالدین کی بیٹی فرخندہ اختر سے بیاہ دیا۔
مرشد زادے
اب یہ ایک قدرتی بات تھی کہ خیال پیدا ہو کہ جو بچے ان جوڑوں سے پیدا ہوں گے مغل شہزادوں کی نگاہ میں ان کا کیا مقام ہو گا کہیں وہ ان کو کم درجے کا خیال نہ
کرنے لگیں۔ اس لئے جو بچے ان سے پیدا ہوئے وہ قلعہ معلّٰے والوں کی اصطلاح میں مرشدزادے کہلاتے تھے اور ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔
نواب سیّد فتح اللہ خان
میں بتلا چکا ہوں کہ خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب نے دنیا کے مال و منال کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا اور بالآخر وہ حرمین الشریفین کی زیارت کے لئے چلے گئے اور یہ سفران کا ہندوستان سے دیارمحبوب میں ہجرت کا سفر تھا۔
ان کے صاحبزادوں کے متعلق بھی میں لکھ چکا ہوں کہ ان کو نہ صرف منصب اور مقام عالی نصیب ہوا بلکہ اورنگ زیب نے ان کو شاہی خاندان میں داخل کر لیا تھا اور یہ عزت سوائے اس خاندان کے کسی اور خاندان کو نصیب نہیں ہوئی۔ حضرت خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب کے تیسرے لختِ جگر سیّد فتح اللہ صاحب تھے۔ شاہنشاہ نے ان کو ’’نواب‘‘ اور ’’خان‘‘ کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔ اس طرح آپ نواب فتح اللہ خان کہلائے اور اس عہد میں خانی کا خطاب بہت بڑا درجہ اور اعزاز تھا۔ خطاب کے سوا منصب بھی دیا گیا اور یہ چاہا کہ ان کے بھائیوں کی طرح ان کی شادی بھی کسی شہزادی سے کر دی جائے مگر آپ نے شاہنشاہ سے کہہ دیا کہ اگرچہ شریعت غرّا میں اس امر کی اجازت ہے کہ ایک مغل یا پٹھان کو ایک سیّدزادی بیاہ دی جائے یا ایک سیّد کو ایک مغلانی یا پٹھانی بیاہ دی جائے مگر میں اپنے لئے پسند نہیں کرتا کہ میری بیوی مغلانی یا پٹھانی ہو۔ شاہنشاہ نے ان کی اس بات کو پسند کیا۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّد فتح اللہ بھی ان بزرگوں میں سے تھے جو اپنے اندر باوجود بلند منصبی کے درویشی کا رنگ رکھتے تھے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاہنشاہِ اورنگ زیب کو ان کا کس قدر پاس تھا کہ باوجود اس کے کہ ان کا انکار نہ صرف منشاء شاہی کے خلاف تھا بلکہ اگر کوئی بُرا مفہوم لینے والا ہوتا تو شاید اسے خاندانِ شاہی کی ہتک بھی خیال کر لیتا مگر چونکہ اورنگ زیب اس خاندان کی بے نفسی اور درویشی پر پورا یقین رکھتا تھا اس لئے اس نے ان کے منشاء کو مقدم کر لیا۔اگر یہ لوگ وجاہت طلبی کی تلاش میں ہندوستان آئے ہوتے تو ایسے موقعہ کو بسا غنیمت جان لیتے اور بلکہ وہ خود اس تلاش میں رہتے کہ کوئی ایسا موقعہ میسّر آئے لیکن ان کی حالت بالکل اس کے خلاف تھی کہ موقعہ میسّر آنے پر بھی انکار کر دیتے تھے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کا خاندان
یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ذکر کا تو کوئی موقعہ نہیں مگر ایک مناسبت سے میں ان کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ قدرتِ الٰہی نے چونکہ آگے چل کر دونوں خاندانوں کو ایک کر دینا تھا اس لئے ان دو نوں خاندانوں میں ایک مناسبت چلی آتی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے مورثِ اعلیٰ بڑی شان و شوکت سے بابری عہد میں واردِ ہندوستان ہوئے۔ بابر تیموری خاندان کا بادشاہ تھا اور خاندان مسیح موعود ؑ اوپر چل کر تیمور کے چچازاد بھائیوں کا خاندان تھا۔ اس لئے میرزا ہادی بیگ نسل کے لحاظ سے ایک ہی درخت کی دوسری شاخ تھا اور بابر سے ان کو نسبتِ اخوت تھی لیکن انہوں نے دِلّی کی رہائش کی بجائے دِلّی سے پانچ سو میل دُور پنجاب میں دریائے بیاس کے کنارے پر بالکل ایک گمنام اور اُجاڑ گوشہ میں رہائش اختیار کر لی اور دِلّی کی شان وشوکت سے ذرا بھی حصہ نہ لینا چاہا اور ان مناصب جلیلہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ ورنہ بہت ممکن تھا کہ بابری تخت کے قُرب میں یہ خاندان نہ صرف یہ کہ مناصب جلیلہ پر فائز ہوتا بلکہ کسی کمزوری کے وقت خود برسرِاقتدار ہو کر تختِ دہلی پر جلوہ افروز ہوتا۔ الغرض یہ ایک مناسبت تھی کہ خاندانِ مسیح موعودؑ بھی باوجود شاہی خاندان ہونے کے درویشی اور عزلت نشینی کو مقدم کرتا رہا۔
قصہ مختصر نواب سیّد فتح اللہ خان صاحب کے اس انکار پر شاہنشاہِ اورنگ زیب نے ان کی شادی نواب سربلند خان میر بخشی (کمانڈرانچیف افواج) کی حقیقی ہمشیرہ سے کروادی۔ نواب سربلند خاں صاحب صحیح النسب سَیّد تھے اور خواجہ سیّد بہاء الدین صاحب نقشبند کی اولاد میں ہی سے تھے۔ الغرض خواجہ نواب سیّد فتح اللہ خان صاحب نے پسند کیا کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنا تعلق دامادی شاہی محل سے پیدا کریں وہ اپنے خاندان سے باہر نہ جائیں۔
نواب سربلند خان میربخشی کا وجود بتلاتا ہے کہ اس خاندان پر اورنگ زیب کو انتہائی اعتماد تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت کے سول اور فوج کے بڑے بڑے عہدے اس خاندان کے اراکین کے سپرد تھے اور اس طرح دہلی ہی نہیں بلکہ ہندوستان بھر کی سیاست میں اس خاندان کا وقیع اثر تھا۔
نواب فتح اللہ خان سیّد محمد طاہر صاحب کے خاندان میں پہلے شخص تھے جو اس قدر بلند منصب پر فائز ہوئے اور ’’نوابی‘‘ اور ’’خانی‘‘ کے خطاب سے مفتخر کئے گئے۔
نواب ظفراللہ خان
روشن الدّولہ رُستمِ جنگ
نواب فتح اللہ خان صاحب کے مشکوئے معلّٰی میں اور نواب سربلند خان میربخشی کی ہمشیرہ کے بطن سے ایک نونہال پیدا ہوئے۔ جن کا نام خواجہ سیّد محمد ظفراللہ خان رکھا گیا۔ سیّد محمدظفراللہ خان اس خاندان میں پہلا شخص تھا جس کاباپ نواب تھا اور حکومت اورنگ زیب میں بہت بڑا دخل اور رسوخ رکھتا تھا اور اس کا ماموں بھی نوابی کے بلند و بالا خطاب سے مفتخر تھا اور کمانڈرانچیف افواجِ شاہنشاہی تھا اور نسبی عظمت کے لحاظ سے ددہیال اور ننھیال کی طرف سے ایک ہی خاندان کا نونہال تھا۔ یعنی حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند کے خاندان اور نسل سے سیّد محمد ظفراللہ خان نے رفیع الشان بن شاہ بن شہنشاہ اورنگ زیب کی سرکار سے معزز عہدے پائے اور جلد ترقی کر کے پانچصد سوار کا منصب حاصل کیا اور نواب ظفراللہ خان کا خطاب حاصل کیا۔ نواب ظفراللہ خان کو خاندان شاہی میں بہت اعتماد حاصل تھا اور وہ شاہی خاندان کے ساتھ ہمیشہ وفادارانہ طور پر رہے۔
نواب ظفراللہ خان تارِکُ الدُّنیا بن گئے
رفیع الشان اور جہان شاہ کے خلاف لاہور میں بغاوت ہوئی۔ عظیم الشان جہاندار شاہ کی افواج نے لاہور میں رفیع الشان اور جہان شاہ اور ان کی خوبصورت اولادوں کو خاک و خون میں ملا دیا۔ نواب ظفراللہ خان بھی اپنے خاندانی دستور کے مطابق اُن کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق دادِ شجاعت دی۔ مگر قدرتِ الٰہی کو کچھ اور منظور تھا۔ رفیع الشان اور جہان شاہ بمع اپنی اولادوں کے مٹ گئے۔ اس نظارے نے نواب ظفراللہ خان کے قلب کی حالت کو بالکل بدل دیا۔ دنیا کی ناپائیداری نے دل کو بالکل سرد کر دیا اور سب جاہ و حشم پر لات مار دی اور پھر نوابی پر درویشی کو مقدم کر لیا۔
حضرت میران شاہ بھیک صاحب
اس زمانہ کے درویش کامل حضرت میران شاہ بھیک صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے درویش بن گئے۔ حضرت میران شاہ بھیک سلسلہ چشتیہ صابریہ کے ایک بڑے کامل درویش تھے اور اس زمانہ میں مرجع خلائق بنے ہوئے تھے اور حضرت شاہ ابوالمعالی چشتی صابری جن کا مزار اب تک لاہور میں ایک خاص عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کے جانشین اور خلیفہ تھے۔ حضرت شاہ ابوالمعالی شیخ محمددائود گنگوہی کے مرید تھے جو شیخ محمد صادق صاحب گنگوہی کے مرید اور خلیفہ تھے۔ یہ سلسلہ درویشی و تصوف حضرت مخدوم علاء الدین صابر کلیری تک پہنچ جاتا ہے۔الغرض آپ سلسلہ چشتیہ صابریہ میں حضرت میران شاہ بھیک کے ہاتھ پر بیعت کر کے درویش ہو گئے۔ حضرت شاہ میران بھیک کھرے سیّد تھے۔ اور ہندی زبان کے خوش بیان شاعر بھی تھے۔ چنانچہ آپ نے بہت سے ہندی زبان میں دوہڑے موزون کئے تھے جن میں توحید اور اسرارِ معرفت و تصوّف بھرے ہوئے تھے،اور اہل دل ان کو سن کر یاد کر لیا کرتے تھے۔۴؎
درویش سے پھر میدان عمل میں
فرّخ سیر شاہنشاہِ ہند نے رفیع الشان اور جہان شاہ اور ان کی اولاد کی قتل کی خبر کو نہایت دردمند ی سے سُنا۔ اُس نے تہیّہ کر لیا۔ کہ وہ عظیم الشان جہاندار شاہ سے جو پنجاب پر حکومت کر رہا تھا ٗبدلہ لے گا۔ یاد رہے ۔ کہ خود فرّخ سیر عظیم الشان جہاندار شاہ کا بیٹا تھا۔ اور عظیم الشان جہاندارشاہ عالم بہادر شاہ کا بیٹاتھا۔اور بہادر شاہ خود شاہنشاہ اورنگ زیب کا بیٹا تھا۔ فرخ سیر نے اِس خونِ ناحق کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ہمرکاب سیّد حسین علی گورنر بہار۔سیّد عبداللہ گورنرالٰہ باد بھی تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بادشاہ گر کہلاتے تھے۔ سیّد میران بھیک جو اس وقت عالمِ درویشی میں فرد کامل تھے ،انہوں نے درویش ظفراللہ خان سے کہا۔ کہ ’’بھائی سیّد! اب تم بھی پھر اپنی کمر باندھ لو۔ اور فرّخ سیرکے پاس پہنچ جائو‘‘انہوں نے پیرومرشد سے عرض کی ’’میرا دل اِن جھگڑوں سے بیزار ہو گیاہے۔ میں اب اس عالمِ فانی کے دھندوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔درویشی کی لذت کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت کو بھی بے حقیقت جانتا ہوں‘‘مگر میران بھیک صاحب نے فرمایا:
’’اللہ کی یہی مرضی ہے۔ تم دل با یار اور دست باکار ہوگے ربّ العزت کو یہی منظورہے۔ کہ تم بادشاہی عہدہ دار بنکر اس کی مخلوق کو آرام پہنچائو۔ مگر تمہارا خاتمہ بالخیر ہے۔ تم کو جو باطنی دولت ہم نے بخشی ہے۔ اسے دُنیا کی دولت نہ مٹاسکے گی۔‘‘نواب ظفر اللہ خان نے پھر عرض کی۔’’ کہ یہ زمانہ طوائف الملوکی کا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ فرّخ سیر کے پاس جائوں اور اُسے مجھ سے کچھ بد گمانی ہو، اور لینے کے دینے پڑجائیں۔ کیونکہ سلاطین کی نگاہ میںآجکل امیروں وزیروں کا کچھ اعتبار نہیں رہا۔ اس پر حضرت میران بھیک صاحب نے فرمایا۔ کہ۔’’ افسوس ہے تم کو اب تک فقیروںکی بات پر بھروسہ نہیں پیدا ہوا مَیں کہتا ہوں کہ تو بے کھٹکے فرّخ سیر کے پاس چلا جا تیری ہر طرح ترقی اور عروج ہے‘‘۔ ۵؎
نواب صاحب کو اب مرشد کے حکم کے سامنے سرجھکاتے ہی بنی۔ کھلی ہوئی کمر کس لی اور اُتری ہوئی تلوار پھر حمائل کر لی اور اس طرح یہ درویش سپاہی پھر میدانِ جنگ کے لئے تیار ہو کر فرّخ سیر کے پاس پہنچا۔ سیّد عبداللہ خان اور سیّد حسین علی خان گورنران یو۔پی و بہار نے ان کی بڑی تعریف کی اور فرّخ سیر سے کہا کہ یہ خود معرکہ لاہور میں شریک تھے۔ فرّخ سیر بھی ان تعلقات سے ناواقف نہ تھاجو شاہنشاہِ اورنگ زیب کے عہد سے اب تک خاندانِ شاہی سے چلے آتے تھے۔ ۶؎
نواب ظفر اللہ خان بخشی سوم
شاہنشاہِ فرّخ سیر نے بھی آپ کی خدماتِ سابقہ اور اس وفاداری کو جو اَب ان سے ظاہر ہوئی سامنے رکھتے ہوئے از راہِ قدر دانی فوراً نواب ظفراللہ خان کو اپنی افواج کا بخشی سوم کر دیا۔ یعنی کمانڈر انچیف درجہ سوم۔
منصب پنج ہزاری
بخشی سوم کے لئے جن لوازمات اور اعزازات کی ضرورت تھی اُن کو بھی نظر انداز نہ کیا اور آپ کو پنج ہزاری کا منصب جلیلہ عطا فرما کر ان کی قدر افزائی کو چار چاند لگا دیئے۔ اِسی پر بس نہ کی نواب ظفر خان رستمِ جنگ کا خطاب بھی مرحمت فرمایا۔
الغرض فرّخ سیر کی جہاندار شاہ کی افواج سے جنگ ہوئی۔ نواب ظفر خان رستمِ جنگ نے نہایت بہادری، وفاداری اور شجاعت سے اس جنگ میں فرّخ سیر کا ساتھ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرّخ سیر کی فوج ظفر موج فتح و کامرانی کا پھریرا اُڑاتی ہوئی پنجاب پر قابض ہو گئی۔
روشن الدولہ نواب ظفراللہ خان کی خدمات کا صلہ فتح کے بعد مزید انعامات اور اعزازات کے رنگ میں ظہور پذیر ہوا اور نواب ظفر خان رستمِ جنگ روشن الدولہ کے عالی قدر خطاب اور منصب ہفت ہزاری پر فائز ہوئے۔ اس طرح حضرت میران بھیک کے حجرہ درویشی میں بیٹھا ہوا خلوت نشین درویش سلطنتِ مغلیہ کا ایک آزمودہ کار جرنیل اور ایک مدبر اور دانشمند مشیر ثابت ہوا اور اب اُس کا پورا نام پورے القابات سے یوں لکھا اور پڑھا جانے لگا۔ نواب ظفر اللہ خان رستمِ جنگ، روشن الدولہ ہفت ہزاری۔ اس سارے قصے سے مجھے اس خاندان کے افراد کے متعلق یہ بتلانا ہے کہ وہ کس طرح اپنے جسم پر دیباوحریر کی عبائیں پہنے ہوئے ہوتے تھے مگر اندر ان کے جسم پر قباء درویشی ہوا کرتا تھا۔ وہ بیک وقت صاحبِ سیف و قلم ہی نہیں صاحبِ دل بھی ہوتے تھے اور وہ اپنے زمانے کے ان لوگوں میں سے تھے جن پر ہندوستان کے امن کا قصر کھڑا تھا۔
سیر کی وفات
آخر وہ وقت آ گیا کہ فرّخ سیر اس جہان سے کوچ کر گیا اور محمد شاہ رنگیلا تخت نشین ہو گیا۔ محمد شاہ رنگیلا اگرچہ ایک رنگین مزاج بادشاہ تھا مگر اس نے بوڑھے جرنیل کو خوب سمجھا۔ اُسے ان کی وفاداری پر پورا بھروسہ تھا۔ اس لئے جو یہ کہتے وہی بادشاہ کرتے۔ اس سے بہت سے ارکانِ سلطنت ان سے جلنے لگے اور حسد کرنے لگے۔ بادشاہ فرّخ سیر نے ان کے سابقہ اعزازات میں یاروفادار کا اضافہ فرمایا۔آج یار وفادار وہ خطاب ہے جو برٹش سرکار میں صرف اعلیٰ حضرت حضور نظام دکن کو حاصل ہے۔ تو گویا مَیں کہہ سکتا ہوں کہ نواب ظفر اللہ خان کو آج کے لحاظ سے ہزایگزالٹڈ ہائی نس کا خطاب تھا اور اس طرح نواب ظفر اللہ خان نے اس وقت کا ہی نہیں بلکہ آج کے لحاظ سے بھی بڑے سے بڑا لقب اور بڑے سے بڑا منصب حاصل کیا۔ نواب ظفر اللہ خان کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے کہ اُن کی سواری بڑی شان سے نکلتی تھی۔ ان کے آگے سوار اشرفیاں بانٹتے چلا کرتے تھے۔ اُن کے سر پر کئی مرصّع جواہر طُرّے ہوا کرتے تھے۔ اُن کی سخاوت کی بڑی دھوم تھی۔۷؎
ان حالات سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ نواب ظفر اللہ خان اپنے زمانہ کے ایسے امیر کبیر تھے جو بادشاہ کے بعد امورِ سلطنت کے مدار المہام تھے اور جن کے گھر میں سونا چاندی اور زر و جواہر کا کوئی شمار نہ تھا۔
سُنہری مسجد
نواب ظفر اللہ خان کو اپنے مرشد سے بڑی عقیدت تھی اور وہ اپنی ساری ترقیوں کو ان کی دعا اور برکت کا نتیجہ یقین کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے ۱۱۳۴ھ میں حضرت میران بھیک کی وفات پر اُن کی یاد میں دہلی میں ایک مسجد چاندنی چوک میں کوتوالی کے قریب بنوائی اور اسے سر سے پائوں تک سونے میں غوطہ دے دیا کہتے ہیں کہ جب بادشاہ کی سواری چاندنی چوک سے گذرتی تو اس مسجد کو دیکھ کر بادشاہ خوش ہوتے تھے۔
اس مسجد کی تاریخی حیثیت
نادر شاہ ایران نے جب دہلی میں قتل عام کروایا تو وہ اس مسجد میں تلوار کھینچ کر آ بیٹھا تھا اور جب تک تلوار بے نیام کئے بیٹھا رہا قتل عام ہوتا رہا۔ اس واقعہ کی تفصیل کسی دوسری جگہ آئے گی۔ مگر یہاں اس قدر ذکر کرنا ضروری تھا کہ نادری قتلِ عام چونکہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس لئے تمام مؤرخین نے اس مسجد کا ذکر کیا ہے اور اب تک دنیا بھر سے آنے والے سیّاح اس مسجد کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس خوبصورت سنہری مسجد کی پیشانی پر یہ تاریخ کندہ ہے۔
بہ عہد بادشاہ ہفت کشور
سلیمان فر محمد شاہ داور
بہ نذر شاہ بھیک آن قطب آفاق
شد ایں مسجد بہ زینت در جہاں طاق
خدا ربّانی است لیک از روئے احسان
بنام روشن الدولہ ظفر خان
بہ تاریخش ز ہجرت تا شمار است
ہزار و یکصد و سی و چہار است
(۱۱۳۴ھ)
ایک اور سنہری مسجد
پہلی سنہری مسجد سے ۲۳ برس بعد رفاہِ عام کے لئے فیض بازار میں عین سڑک پر دوسری سنہری مسجد تعمیر کروائی۔ یہ مسجد اب پوشیدہ ہو گئی ہے اور غلط العام کی وجہ سے اب قاضیوںکی مسجد کہلاتی ہے۔ اس مسجد کی تاریخ یہ ہے:
روشن الدولہ ظفر خان صاحبِ جود و کرم
کرد تعمیر طلائی مسجد عرش اشتباہ
مسجدے کاندر فضائے قدریں آسمان
کرد از خط شعاعی مہر جاروبی پگاہ
حوض صاف اونشان از چشمۂ کوثر دہد
ہر کہ از آیش وضو ساز و شود پاک از گناہ
سال تاریخش رسائی یافت از الہامِ غیب
مسجد چوں بیت اقصیٰ مہبطِ نورِ الہ
(۱۱۵۷ھ)
لاہور کی سنہری مسجد
جہاں تک ہم کو معلوم ہو سکا ہے کہ لاہور ڈبی بازار کی مشہورسُنہری مسجد بھی روشن الدولہ نواب ظفر اللہ خان کی بنوائی ہوئی ہے۔ اس سے اس شوق کا پتہ چلتا ہے جو ان کے قلب میںموجزن تھا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ بکثرت مسجدیں بنوائیںاور مسجدیں بھی ایسی ہوں جو اپنی خوبصورتی میں یکتا ہوں۔ جو شخص مساجد کیلئے اس قدر شوق اور محبت رکھتا ہو اس کے دل میںنماز کی پابندی اور باقاعدگی کا کس قدر شوق ہوگا یہ ظاہر ہے اس سے بآسانی معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ بھی وہ لوگ تھے جنہوں نے کبھی بھی دنیا کو دین پر مقدم نہ کیا تھا۔ آپ نے چورانوے سال پانچ ماہ کی عمر پائی اور دسویں ذالحجہ ۱۲۶۱ھ طلوع آفتاب کے وقت تکبیر تحریمہ پڑھتے ہوئے مرض سرطان سے وفات پائی۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون- آپ کا مزار قدم شریف دہلی کے احاطہ میں ہے۔ سیر المتاخرین کے مصنف نے بوجہ متعصب شیعہ ہونے کے بہت کچھ ان کے خلاف لکھا ہے مگر اس کی کچھ حقیقت نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے ایک مناسبت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی بہت سی باتیں حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان سے ملتی ہیں جیسے کہ مَیں پہلے ایک مثال کا ذکر کر آیا ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کی درویشی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ اگرچہ شاہی خاندان کے لوگ تھے۔ ہندوستان میں ورود سے قبل بھی وہ صاحبِ حشمت تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے درویشی کو اپنا شعار رکھا۔
حضرت مرزا ہادی بیگ مورثِ اعلیٰ نے سلطنت کے جھمیلوں سے دور پنجاب کے ایک جنگل میں ایک بستی بسائی۔ اس کا نام اسلام پور رکھا۔ اس میں حفاظ اور علماء کا ایک جمگھٹا رہتا تھا۔ قال اللہ اور قال الرسول کے ہر وقت چرچے رہتے تھے۔۸؎
یہ تھی ان کی امیری میں درویشی اور یہی حال حضرت اُمُّ المؤمنین کے بزرگوں کا رہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کے مناصب سے حصہ وافر دیا تو اس وقت بھی یادِ الٰہی ان کے قلب سے محو نہ ہوئی۔
تیسری مناسبت
نواب ظفر اللہ خان روشن الدولہ رستمِ جنگ ہفت ہزاری شاہنشاہِ ہند فرّخ سیر کے زمانہ میں ہوئے ہیں۔ یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کے
مورثانِ اعلیٰ میں سے ایک تھے اور اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مورثانِ اعلیٰ میں عضد الدولہ میرزا فیض محمد خان صاحب ہفت ہزاری تھے۔ نواب ظفر اللہ خان نے بادشاہ کی مدد کے لئے تلوار اُٹھائی۔ مگر عضدالدولہ میرزا فیض محمد خان نے دو کام کئے۔ ایک تو یہ کہ اس خانہ جنگی سے فائدہ اُٹھا کر اپنی ایک خود مختار سلطنت کی بنیاد رکھنے کی کوشش نہیں کی باوجود اس کے کہ ۸۴ گائوں پر آپ کی حکومت تھی۔ علاقہ پر آپ کا اثر تھا آپ کے پاس باقاعدہ فوج تھی اور مال و دولت سے حصہ وافر تھا۔ الغرض وہ تمام چیزیں موجود تھیں جن کی وجہ سے کوئی صاحب اثر خاندان طوائف الملوکی کے وقت اپنی سلطنت و حکومت قائم کرے۔ مگر اس خاندان کی شرافت و نجابت اور بزرگی نے بادشاہانِ وقت سے غداری نہ کرنی چاہی اور نہ کی۔
دوسرے عضدالدولہ میرزا فیض محمد خان صاحب ہفت ہزاری جو سلکِ امراء میں اوّل درجہ کے امیر تھے انہوں نے فرّخ سیر شاہنشاہِ ہند کے حکم کے ماتحت لشکرِ فیروزی میں حاضر ہو کر مناسب خدمات سرانجام دیں جیسے فرمانِ شاہی سے واضح ہوتا ہے:
ترجمہ منشور محمد فرّخ سیر غازی شہنشاہ ہندوستان۔
محمد فرّخ سیر
بادشاہ غازی دسہ
حاجی علیخان
بزرگوں و ہمسروں میں برگزیدہ میرزا فیض محمد خان شاہی دلجوئی یافتہ ہو کر جان لیں کہ اس وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظل سبحانی آپ کی وفا کیشی اور خیر اندیشی اور جان نثاری سے نہایت خوش ہوئے ہیں۔ اس لئے حکم جہان مطاع عالم مطیع نے صدور کا شرف حاصل کیا ہے کہ اس اخلاص نشان کو ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منضبط کر کے اور جگہ دے کر عضدالدولہ کے خطاب سے مفتخر اور ممتاز کیا جاتا ہے۔چاہئے کہ اب لشکر فیروزی اثر میں اپنے آپ کو موجود اور حاضر کریں اور ہمیشہ عرش آشیانی کی درگاہ کے بندوںکی وفاکیشی اور خیر اندیشی میں مصروف اور ساعی رہیں۔۹؎
اس جگہ مَیں مناسب خیال کرتا ہوں کہ عضد الدولہ اور ہفت ہزاری کی اس تشریح کو بھی درج کروں جو جناب مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم نے سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ۱۵۲ اور صفحہ۱۵۳ کے آخر تک لکھی ہے۔
’’شہنشاہ ہند محمد فرّخ سیر کے منشور میں جو غفران مآب میرزا فیض محمد خان صاحب نور اللہ مرقدہٗ کے نام ہے تین لفظ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
’’پہلا لفظ ہفت ہزاری کا ہے۔ دربارِ اکبری میں اراکین سلطنت کے مناصب کی تقسیم اس طرح سے شروع ہوئی تھی کہ ہشت ہزاری کا منصب ولی عہد اور خاندان شاہی کے شہزادوں کے لئے خاص تھا اور اراکین دربار و وزراء سلطنت ہفت ہزاری منصب سے ممتاز ہوتے تھے۔ شش ہزاری منصب بھی امراء کو بہت جاں نثاری کے بعد ملتا تھا۔ جس وقت گولکنڈہ کے فرمانروا ابوالحسن تانا شاہ کی سرکوبی پر شہنشاہ اورنگ زیب محمد عالمگیر نے تمام افواج ہندوستان کے سپہ سالار نواب غازی الدین خان بہادر فیروز جنگ کو دکن کی مہم سر کرنے کے لئے مامور فرمایا تو ان کوشَش ہزاری کا عہدہ دیا۔ چنانچہ اُس وقت کا نامہ نگار نعمت خان متخلص بہ عالی اپنی مشہور کتاب وقائع نعمت خاں میں لکھتا ہے:
’’دو ششے کہ آں شش ہزاری شش ہزار سوار زدہ بود‘‘
’’اس فقرہ میں شش ہزاری کے لفظ سے مطلب ہے کہ فیروز جنگ کو عالمگیر نے یہ منصب دیا ہوا تھا جو ہفت ہزاری سے بہت ہی کم تھا۔ ہفت ہزاری منصب کی نسبت شاہانِ مغلیہ کے عہد میں ایک ضرب المثل مشہور تھی۔ ’’ ہفت ہزاری شووہرچہ خواہی بکن‘‘۔ یعنی ہفت ہزاری کا منصب ایسا عالی ہے کہ اگر تجھ کو حاصل ہو جائے تو تیرے کام میں کوئی دخل دینے والا نہیں رہے گا۔ الحاصل ہفت ہزاری کا منصب شاہانِ مغلیہ کے عہد میں بہت وقیع و رفیع سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ شاہد ہے۔
’’دوسرا لفظ عضد الدولہ کا خطاب ہے۔
’’تاریخ کی ورق گردانی سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ہارون و مامون و معتصم کے بعد بنی عباس کی خلافت میں ضعف آ گیا اور اسلامی دنیا کے بعض حصوں میں متفرق خاندانوں میں حکومتیں برپا ہو گئیں تو ان میں سے دیالمہ کا خاندان بھی تھا جس کے چمکتے ہوئے فرمانروائوں کو استمالتِ قلوب کی وجہ سے خلافتِ بغداد کے دربار نے عضد الدولہ اور اس کے بیٹے کو رکن الدولہ کا خطاب دیا تھا۔ غالباً اسلامی تاریخ میں عضدالدولہ دیلمی ہی پہلا شخص ہے جس نے یہ معزز خطاب حاصل کیا ہے۔ اس کے بعد سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کو خلیفہ بغداد نے یمین الدولہ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ ایرانی سلطنتیں بھی خلفائے بنی عباس کی اتباع سے اپنے امراء دربار کو اعتضاد الدولہ، احتشام الدولہ وغیرہ کے خطابات دیتی رہی ہیں۔ہندوستان کی افغانی کنگڈم بھی علاء الملک، عماد الملک، خان جہان، خان دوران کے خطابات سے اپنے اپنے امراء و رئوسا کی دلجوئی کرتی رہی ہیں۔
’’مغل ایمپائر کے زریں عہد میں فرمانروایانِ اودھ کو شاہ عالم ثانی کی سرکار سے شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کا خطاب ملا ہے۔ شاہ اکبر ثانی نے سرسیّد کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب دیا تھاجس کو سرسیّد کے ارادتمند آج تک ان کے نام کے ساتھ لکھتے چلے آئے ہیں۔
’’سرکار کمپنی نے بھی بغرض تالیفِ قلوب باتباع شاہانِ مغلیہ والیانِ ٹونک کو امیر الدولہ اور ان کے بیٹے کو وزیر الدولہ کا خطاب دیا تھا۔
’’اس داستان باستان کو طول دینے سے خاکسار کی غرض صرف یہ ہے کہ شہنشاہ فرّخ سیر کا منشور جو غفران مآب میرزا فیض محمد خان صاحب طاب اللہ ثراہ کے نام ہے۔ جس میں ان کو عضد الدولہ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا ہے وہ والیانِ اودھ شجاع الدولہ اور آصف الدولہ اور والیانِ ریاست ٹونک کے خطابات امیر الدولہ و وزیر الدولہ اور نواب بنگالہ سراج الدولہ کے خطاب سے اور سرسیّد کے خطاب جواد الدولہ سے زیادہ قدیم اور زیادہ وقیع ہے کیونکہ فرّخ سیر شاہنشاہ ہندوستان تھا۔ اس کے بیٹے محمد شاہ کے بعد سلاطین مغلیہ شاہ عالم ثانی و اکبر شاہ ثانی نام کے بادشاہ رہ گئے تھے۔ خطاب دینے والے بادشاہوں کے لحاظ سے غفران مآب کا خطاب ایک ذی شان شہنشاہ کی طرف سے ہے‘‘۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کے حالات پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ ایک خاندان سمر قند (بخارا) سے آیا تو دوسرا خاندان بھی بخارا کے کسی دوسرے حصے سے آیا۔ ایک دہلی میں بادشاہ کی خواہش کے مطابق آباد ہوا مگر عملی طور پر دہلی سے دور رہا۔ تو دوسرا دہلی سے ویسے ہی دور جا کر مقیم ہو گیا۔ ایک خاندان نے اولیاء پیدا کئے اور بالآخر اُمُّ المؤمنین جیسی عصر حاضر کی سب سے بڑی باخدا خاتون پیدا کی تو دوسرے خاندان نے اس زمانہ کے راستباز اور پاکباز حضرت مسیح موعود اور مہدی مسعود کو پیدا کیا اور بالآخر نئی اور پرانی پیشگوئیوں کے مطابق خدا تعالیٰ نے ان دونوں خاندانوں کو ایک جگہ پر جمع کر دیا جس کی تفصیل اپنی جگہ پر آ سکے گی۔
یہ حیرت کا مقام ہے۔ کسی انسان کے اختیار میں نہ تھا کہ وہ اس طرح دو الگ الگ خاندانوں کو ایک دور دراز ملک سے لا کر ہندوستان میں جمع کر دے اور پھر دونوں کو مختلف حالات میں سے گذار کر ایک کر دے تا کہ پرانے اور نئے نوشتے پورے ہوں۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ ایک طرف تو خواجہ محمد ناصر صاحب کو بتلایا جاتا ہے کہ :
’’یہ روشنی مسیح موعود کے نور میں گم ہو جائے گی‘‘۔
دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس رشتہ کی تحریک کی گئی اور اس تحریک کے متعلق مندرجہ ذیل امور سے آگاہی دی۔
۱۔ مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں۔
۲۔ یہ سب سامان مَیں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی۔
۳۔ وہ قوم کے شریف اور عالی نسب ہونگے۔
۴۔ اس شہر کا نام بھی بتلایا گیا جو دہلی ہے۔
۵۔ یہ بیوی ایک مبارک نسل کی ماں ہوگی۔
۶۔ اللہ تعالیٰ اس نسل سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا۔
۷۔ اور اس نسل سے ایک وہ شخص بھی پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔
۸۔ وہ بیوی کنواری شادی میں آئے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی عرصہ دراز تک زندہ رہے گی۔
۹۔ تیری نسل ملکوں میں پھیل جائے گی اور یہ ذریت منقطع نہ ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔
۱۰۔ اس نسل کو خاندان کے دوسرے افراد پر یہ امتیاز ہوگا کہ یہی بڑھیں گے اور جدی بھائیوں کی ہر ایک شاخ کاٹ دی جائے گی۔ ہاں جو توبہ کریں گے بچا لئے جائیں گے۔
یہ دس قسم کے نشانات جن کا ذکر تذکرہ میںموجود ہے جو اس شادی کے ساتھ وابستہ تھے اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت لفظ بلفظ اور حرف بحرف پورے ہو کر رہے۔ اس پیشگوئی کے اخیر میں فرمایا:
’’اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو۔ اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو اس نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو اور اگر تم بھی پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے‘‘۔۱۰؎
یہ آخری حصہ قرآن کریم کی اس تحدی کو پیش کر رہا ہے جو ان الفاظ میں ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ وَادْعُواْ شُہَدَائَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن- فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْافَا تَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ- ۱۱؎
یہ تحدی قرآن کریم کے متعلق تھی اور آج تک کوئی دشمنِ اسلام اس تحدی کے خلاف کھڑا نہ ہو سکا۔ بالکل اسی تحدی کا جلوہ اس آخری دور میں ہوا اور خدا تعالیٰ نے اس شادی کو ایک نشانِ خاص بنایا اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کیلئے وعدے دیئے۔ ان کی کثرت نسل کی شہادت دی ان کے بڑھنے اور پھلنے، پھولنے اور پھیلنے کی بشارت دی۔
پھر ایک موعود لڑکے کی بھی بشارت دی۔ یہ تحدی اس امر کی دلیل ہے کہ اس خاندان کا عالم وجود میں لانا ایک بہت بڑا نشان ہے۔ یہ نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک ابدی دلیل ہے بشرطیکہ کوئی دیدۂ بینا ہو۔ پس یہ خاندان شعائر اللہ میں سے ہے جس طرح دیگر شعائر اسلام کا احترام قیامِ ایمان کیلئے ضروری ہے اسی طرح ان کا احترام، اِن کی محبت، ہمارے ایمان کا ایک جزوِ لاینفک۔
حوالہ جات
۱؎ ابراہیم: ۳۸
۲؎ ماثر الامراء
۳؎ رسالہ ہوش افزاء مصنفہ حضرت خواجہ میر دردرحمۃ اللہ علیہ
۴؎ اقتباس الانوار مصنّفہ مولانا محمد اکرام صاحب براسوی، حدیقۃ الاولیاء
۵؎ میخانہ درد صفحہ۱۳
۶؎ تاریخ ہند دکاء اللہ خان
۷؎ ماثر الامراء
۸؎ ملاحظہ ہو حیات النبی حصہ اوّل
۹؎ ۱۹/ماہ شوال ۴ جلوس۔ سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ۱۴۸
۱۰؎ تذکرہ صفحہ۱۲۴
۱۱؎ البقرۃ: ۲۴،۲۵
حضرت خوا جہ سیّد محمدناصر صاحب عندلیب
حضرت خوا جہ محمد ناصر صاحب عندلیب
دور ثانی
نواب روشن الدولہ کی شادی سیّد لطف اللہ صاحب ابن سیّد شیر محمد صاحب قادری نبیرہ حضرت تاج الدین ابوبکر بن عبدالرزاق بن حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی دختر سے ہوئی تھی۔ اس نیک اور صاحبِ عصمت خاتون کے بطن سے حضرت خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب عندلیب پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش ۱۱۰۵ھ میں ہوئی۔ آپ کی تاریخ پیدائش شاہ بیدل نے یوں لکھی:
در وجود آمد چو ذاتِ آن ولی
شد کمالاتِ امامت از جلی
سال تاریخش مرا الہام شد
وارثِ علم امامین و علی
۱۱۰۵ھ
خواجہ محمد ناصر کی زندگی کا دَورِ اوّل
حضرت خواجہ محمد ناصر کی زندگی پر دو دور آئے۔
دورِ اوّل: پہلا دور تو یہ تھا کہ آپ ایک امیر ابن امیر اور نواب ابن نواب کے گھر میں گویا منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے۔ گھر میں زر و جواہر کے ڈھیر لگے ہوئے تھے چونکہ ایک طرف سے بلند مرتبہ سادات میں سے تھے اور دوسری طرف بلند مرتبہ ارکان حکومت میں سے اس لئے دنیا کی ہر قسم کی وجاہت حاصل تھی۔ گھر میں نوکر، چاکر، لونڈی، غلام موجود تھے اور دینی اعتبار سے عوام تو عوام شاہی خاندان کے دل میں بھی ادب تھا۔ ایسی صورت میں آپ کی شان و شوکت کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آپ خوبصورت بھی تھے۔ جب آپ کی سواری نکلتی تو تماشائیوں اورمشتاقان کا ہجوم جمع ہو جاتا اور عوام تو عوام بڑے رئیس بھی سلام کے لئے ٹھہر جاتے۔ یہ میرا ذوقی امر ہے کہ ان کے چہرہ پر روشنی و درخشانی اس امانت کی وجہ سے تھی جو وہ اپنے صلب میں حضرت اُمُّ المونین نصرت جہان بیگم کے نام سے لئے ہوئے تھے۔ یہ وہ چیزیں تھیں جو ایک نازو نعم میں پلے ہوئے انسان کو دنیا کا گرویدہ بنا دیتی ہیں اور وہ ایسا جکڑا جاتا ہے کہ اس کا ہر قدم خدا سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
تعلیم
اس زمانہ میں شُرفاء کی اولاد کی تعلیم گھروں پر ہی ہوتی تھی۔ اس دستور کے مطابق آپ نے علوم و فنون عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے دادا نواب فتح اللہ خان سے حاصل کی تھی۔ چونکہ
باپ دادا بڑے بڑے مناصب پر فائز تھے اس لئے سپہ گری کے فن کو بھی کمال خوبی سے سیکھا۔
فوج کی سرداری
بیس برس کی عمر میں آپ شاہی فوج کے سردار بنائے گئے۔ عرصہ تک آپ یہ خدمت سرانجام دیتے رہے اور ان خدمات کے صلے میں آپ نے ان مناصب کے برابر مناصب حاصل کر لئے تھے جو آپ کے دادا نواب فتح اللہ خان صاحب کو حاصل تھے۔ لیکن یہ تمام مناصب اوریہ وجاہت اور یہ عزت اُن کے قلب کو مطمئن نہ کر سکتی تھی اور وہ اس دنیاوی ترقی اور وجاہت سے سخت متنفر تھے مگر صرف اپنے بزرگوں کی خاطر اور حکم سے محض براً بالوالدین اس غیر مرغوب خدمت کو بجا لاتے رہے۔
حضرت خواجہ محمد ناصر کی اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات بہت ملتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری بزرگوں نے جب اپنی مختصر سی حکومت ضائع کر دی یا منشاء الٰہی سے ضائع ہو گئی تو آپؑ کے والد حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے اپنی ساری عمر اس جائیداد کے حصول اور دنیاوی ترقی کے لئے صرف کر دی۔ ان کے بڑے بیٹے مرزا غلام قادر صاحب ان کی منشاء کے مطابق دنیاوی کاروبار میں لگے ہوئے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کاموں سے سخت نفرت تھی وہ اپنی ایک الگ دنیا بنانی چاہتے تھے۔ جس میں سوائے خدا کے نام کے اور کچھ نہ ہو۔ مگر والد کی رضاء بھی ضروری تھی۔ وہ اس غیر مرغوب اور ناپسندیدہ کام کو ایک لمبے عرصے تک، کبھی ملازمت کی شکل میں، کبھی زمینداری کی شکل میں اور کبھی پیروی مقدمات کی شکل میں کرتے چلے گئے۔ مگر ان کادل کبھی نہ خوش ہوا اور نہ مطمئن۔ بالآخر مشیت الٰہی نے آپؑ کے والد کو اپنے حضور بلا لیا اب آپؑ آزاد تھے۔ آپؑ نے فوراً ہی خدمت دین کا کام جو اصل کام اور مقصدِ حیات ہے شروع کر دیا۔
حضرت اقدسؑ کا ایک عجیب مکتوب
ذیل میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا جو ایک گرامی قدر مکتوب درج کیا جاتا ہے۔ اس مکتوب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ حضور علیہ السلام کس طرح اوّل عمر میں ہی سے اس دنیا سے متنفر اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی فکر میں رہتے تھے۔ یہ مکتوب آپؑ نے اپنے والد ماجد میرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی خدمت میں ایسے وقت میں لکھا تھا جب آپؑ بدوشباب میں تھے۔ یہ مکتوب بھی آپؑ کی پاکیزہ فطرتی اور مطہر سیرۃ کا ایک جزو ہے اور وہ یہ ہے:
’’حضرت والد مخدومِ من سلامت! مراسمِ غلامانہ و قواعدِ فدویانہ بجا آوردہ معروض حضرت والا میکند۔ چونکہ دریں ایّام برای العین می بینم و بچشمِ سرمشاہدہ میکنم کہ درہمہ ممالک و بلاد ہر سال چناں وبائے می اُفتد۔ کہ دوستان را از دوستان و خویشان را از خویشاں جُدا میکند۔ وہیچ سالے نہ می بینم کہ ایں نائرہ عظیم و چنیں حادثہ ٔالیم در آن سال شورِ قیامت نیگفند۔ نظر برآن دل از دُنیا سرد شدہ ۔ و رُو از خوفِ جان زر د و اکثر ایں دو مصرع مصلح الدین سعدی شیرازی بیادمی آیندو اشکِ حسرت ریختہ می شود:
مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
ونیز ایں دو مصرعہ از دیوانِ فرخ قادیانی نمک پاش جراحتِ دل میشود:
بدنیائے دون دل مبند اے جواں
کہ وقتِ اجل میرسید ناگہان
لہذامی خواہم کہ بقیہ عمر درگوشہ تنہائی نشینم و دامن از صحبتِ مردم بچینم و بیادِ اوسبحانہ مشغول شوم۔ مگر گذشتہ را عذرے و مافات را تدار کے شود
عمر بگذشت و نماند است جز از گامے چند
بہ کہ دَر یاد کسے صبح کنم شامے چند
کہ دُنیا را اساسے محکم نیست و زندگی را اعتبارے نے
وائیس منخاف علٰی نفسہ من افت غیرہ والسلام‘‘
اس خط کو غور سے پڑھنے پر عجیب معرفت ہوتی ہے کہ آپؑ کو آخری الہام جو اپنی وفات کے متعلق ہوا وہ بھی یہی تھا۔
مکن تکیہ بر عمرِ ناپائیدار
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
اور آپؑ نے یادِ الٰہی میں مصروف ہونے کے لئے جس طرح پر والد مکرم سے اجازت چاہی، اس میں بھی اسی سے استدلال فرمایا۔
جلوت پر خلوت کو پسند کروں!
اِس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی شہرت و عظمت کے طلبگار نہ تھے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق صافی رکھتے تھے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ آپؑ کو گوشہ گزینی سے اس قدر محبت تھی کہ آپؑ کبھی جلوت میں نہ آتے اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل مدنظر نہ ہوتی چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا:
’’اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے۔ کہ خلوت اور جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا ہے۔ تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ مَیں خلوت کو اختیار کروں۔ مجھے تو کشاں کشاں میدانِ عالم میں انہوں نے نکالا ہے۔ جو لذت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے۔ مَیں قریباً ۲۵ سال تک خلوت میں بیٹھا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں چاہا۔ کہ دربار شہرت کی کرسی پر بیٹھوں۔ مجھے طبعاً اس سے کراہت رہی۔ کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں۔ مگر امرِ آمر سے مجبور ہوں۔ فرمایا مَیں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سَیر کرنے کو جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بناء پر ہے‘‘۔۱؎
بالکل اسی طرح جب نواب فتح اللہ خان اور روشن الدولہ نواب ظفر خان فوت ہوگئے خواجہ محمد ناصر صاحب نے وجاہتِ دنیا کو لات مار دی فوراً بادشاہ محمد شاہ کے پاس جا کر استعفیٰ دے دیا۔ بادشاہ نے بہت منع کیا اور سمجھایا۔ مگر آپ نے یہی کہا کہ مجھے معاف کیا جائے مَیں اب یہ خدمت سرانجام نہیں دے سکتا۔
الغرض اس نام و نمود اس منصب و جاہ اس دولت و حشمت کو۔ اس سلام و قلق کو، ان حکومت کی رنگینیوں کو یکدم چھوڑ کر نواب خواجہ محمد ناصر گھر کو آئے۔
دوسرا دَور
اب پھر اس خاندان کی زندگی پیچھے کی طرف لوٹی۔ درویشی کو حکومت پر فتح ہوئی۔ خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب نے گھر میں جو کچھ زر و جواہر تھا سب خدا کے راستے پر لٹا دیا اور فقیر ہو گئے۔ محلّات کو چھوڑا اور بیوی بچوںکو لے کر ایک کھنڈر میں آ کر عزلت گزین ہو گئے۔
میر عمدہ کا نالہ
دہلی سے جو اس وقت شاہجہان آباد کے نام سے مشہور تھی پہاڑ گنج سے جانبِ غرب ایک قصبہ تھا جس میں میر عمدہ رہا کرتے تھے۔ یہاں ایک نالہ بھی بہا کرتا تھا۔ اس لئے مَرُورِ ایام سے اس جگہ کا نام بِگڑ کر برمدہ کا نالہ ہو گیا تھا اس میں تمام سادات خوافیہ رہتے تھے۔ میر عمدہ کا اصل نام سیّد محمد صاحب قادری تھا جو خواجہ محمد ناصر صاحب کے خسر تھے۔ اس جگہ نواب روشن الدولہ کا فیل خانہ تھا۔ شتر خانہ اور طویلہ تھانیز اس جگہ ان کا دیوانِ خانہ اور زنانہ محل بھی تھے۔ خواجہ محمد ناصر صاحب اور ان کی اولاد کی پیدائش بھی اس جگہ ہوئی تھی۔
خواجہ محمد ناصر صاحب نے جب امارت اور دولت پر لات مار دی تو وہ پھر میر عمدہ کے نالہ پر آرہے جو شاہجہان آباد کے مقابل میں ایک کھنڈر سے زیادہ حقیقت نہ رکھتا تھا۔ ان بزرگوں کا یہاں ایک خاندانی قبرستان بھی تھا جہاں سب بزرگ دفن تھے۔الغرض اس قدیم خاندانی مقام پر آپ اپنے بیوی بچوں کو لے کر آگئے۔ اُن کے ساتھ اُن کے خاندان کے سب چھوٹے بڑوں نے جو شاہزادوں اور شاہزادیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے، درویشی کو اختیار کر لیا اور الفقر فخری کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔خواجہ محمد ناصر نے تلافی مافات کے لئے دن رات عبادت وریاضت کو اپنا معمول بنالیا۔
خواجہ محمد ناصر کی دُعا
خواجہ محمد ناصر نے مال و دولت اور منتعمانہ زندگی کو دین کے راستے میں سب سے بڑی ٹھوکر جانا۔ لِکھاہے۔کہ انہوں نے دعاکی کہ ’’ اے خدا! اگر میں سچ مچ بنی فاطمہؓ ہوں تو مجھے اتنا رزق نہ دے کہ میں لگاتار دو وقت کھانا کھائوں‘‘ چنانچہ بیا ن کرنے والے بیان کرتے ہیں۔ کہ ان کی یہ دعاقبول ہوئی۔اور تمام عمر آپ کے ہاں ایک وقت فاقہ ضرور ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھی دو دو دن تک بھی فاقہ رہتا۔ آپ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ اور بکثرت چلّے کیا کرتے تھے۔جو پُرانے زمانے میں صوفیا کا طریق تھا۔ عبادت الٰہی کا یہ حال،کہ سردی کی لمبی راتیں اور گرمی کے پہاڑ سے دن عبادت میں گزار دیا کرتے تھے۔
اپنی جان پر سختی
حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب حصولِ عرفان اور تلافی مافات کے لئے اپنی جان پر بڑی سختیاں کیا کرتے تھے۔ عشاء کی نماز کے بعد اپنے حجرہ میں داخل ہو جاتے تھے۔ اور حجرہ کا دروازہ بند کر لیتے اور دوزانو بیٹھ جاتے اور اپنے دونوں پائوں کو بالوں کی رسی سے مضبوط باندھ لیتے ۔ تاکہ جس جگہ بیٹھے ہیں وہاں سے جنبش نہ کر سکیں ۔یادِالٰہی میں ساری ساری رات جاگتے رہتے۔ اس پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے ایک لکڑی کا رول پاس رکھ لیتے۔ اگر کبھی نیند کا جھونکا آئے تو رول سے اپنے نفس کو خوب مارتے۔ اور مارتے مارتے نفس کو کہتے۔ کہ ’’ اے خطاکار! کیوں سو گیا تھا۔ آنکھ کیوں لگی اور خدا کی یاد سے کیوں غافل ہوا‘‘۔
محویّت اور استغراق
یہ حالت بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی ۔ کہ آپ پر کبھی محویّت اور استغراق کی حالت طاری ہو جاتی تھی۔ اور یہ حالت کئی کئی دن تک رہتی۔ مسجد کے نمازی اور گھر کے لوگ حجرہ سے جھانک کر دیکھا کرتے تھے۔ کہ کہیں فوت تو نہیں ہو گئے۔ مگر آپ کو یا تو وہ نماز میں اور یا مراقبے میں پاتے اسی قسم کی شدید ریاضت میں آپ کو بر سوں گزر گئے ۔
وقت آپہنچا
اسی طرح ایک دفعہ حجرہ میں بیٹھے بیٹھے سات دن اور چھ راتیں گذرگئیں۔ ساتویں رات بھی آدھی گذر چکی تھی ۔ موسم سخت گرم تھا۔ بُھوک اور پیاس کی سختی سے آپ پر ضعف کی حالت طاری تھی۔ طاقت ایک حدتک جواب دے چکی تھی۔ اسی کمزوری کی وجہ سے آپ کی آنکھ لگ گئی۔ کہ آپ نے رول اٹھا کر اپنے آپ کو مارنا شروع کر دیا۔ اسی وقت آزمائش کی گھڑی ختم ہوگئی۔ تاریک کمرہ یکدم غیر معمولی روشنی سے منور ہوگیا۔ اور ایک خوب صورت نوجوان جس کے سر پر ایک جواہر نگار تاج تھا۔ سامنے آیا اور آگے بڑھ کر آپ کا ہاتھ پکڑلیا۔ اور فرمایا۔ ’’اے محمد ناصر !یہ کیا جبر وستم ہے۔ جو تو اپنے نفس پر کرتا ہے۔ تجھے معلوم نہیں ہے۔ کہ تو ہمارا لخت جگر ہے۔ اور تیرے بدن کی چوٹیں ہمارے دل پر پڑتی ہیں۔ اور تیری تکلیف ہمارے جدّ علیہ التحیۃ والثناء کو تکلیف دیتی ہے۔ اس لئے ہر گز ہر گز ایسا نہ کرنا‘‘۔خواجہ محمد ناصر یہ جلوہ دیکھ کر تھرّا گئے ۔ آپ نے عرض کی۔ کہ یہ سب تکلیف حصولِ عرفان الٰہی کے لئے میں اُٹھا رہا ہوں۔
اس مکاشفہ میں انہوں نے دیکھا کہ اس بزرگ نے ان کو اپنے سینہ سے لگا کر علوم معرفت کو ان کے سینہ میں بھر دیا اور ان کی عالمِ روحانی میںبیعت بھی لی مگر اب تک خواجہ محمد ناصر صاحب کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ بزرگ کون ہیں۔ تب انہوں نے دریافت کیا کہ آپ اپنے اسم مبارک سے مجھے آگاہ فرمائیں اس پر انہوں نے فرمایا کہ:
’’میں حسنؓ مجتبیٰ بن علیؓ مرتضیٰ ہوں اور میں آنحضرت ﷺ کے منشاء کے ماتحت تمہارے پاس آیا ہوں تا تجھے ولایت اور معرفت سے مالا مال کروں۔‘‘
ایک عظیم الشان پیشگوئی
اس کے بعد حضرت امام حسنؓ نے فرمایا کہ:
’’ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہو گا۔ ہم خوشی سے تجھے اجازت دیتے ہیں کہ اس نعمت سے جہان کو سیراب کر اور جو تجھ سے طالب ہو اس کو فیض پہنچا تا یہ سلسلہ پھیلے اور یہ ساعت جو ابھی کچھ دیر باقی رہے گی نہایت ہی مبارک ہے۔ اِس وقت تو جس شخص کو اپنے ہاتھ پر بیعت کر یگا اسے بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہو گا اور قیامت تک اس کا نام آفتاب کی طرح چمکتا رہے گا‘‘۔
خواجہ محمد ناصر صاحب نے حضرت امام حسنؓ سے دریافت کیا کہ اس طریقہ کا نام کیا رکھا جائے تو انہوں نے اس کا نام طریقہ محمدیہ رکھا اور فرمایا:
’’ہمارا نام محمد ہے۔ ہمارا نشان محمد ہے۔ ہماری ذات ذاتِ محمد ہے اور ہماری صفات صفاتِ محمد ہیں۔ اس لئے اس طریقہ کا نام محمدیہ طریقہ ہے۔‘‘
پھر یہ بھی فرمایا:
’’کہ اگرچہ تم اپنی مراد کو پہنچ گئے ہو مگر چونکہ دنیاوی زندگی میں بیعت بھی سنت محمدیہ ہے۔ اس لئے عالمِ ظاہر میں بھی کسی بزرگ سے بیعت کر لینا۔ ‘‘
اس کے بعد وہ کشفی حالت جاتی رہی میں اس کشف کے متعلق پھر بحث کروں گا۔ اس وقت واقعات کا لکھنا مطلوب ہے۔
پہلا مُرید
حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو اس وقت یہ خواہش ہوئی کہ اگر اس وقت میرا منجھلا بیٹا ہو تو اسے میں اپنا مرید کر لوں تاکہ بقاباللہ کا مقام اس کو حاصل ہو۔ اس وقت حضرت خواجہ میردرد کی عمر ۱۳ سال کی تھی ان کو خیال آیا کہ وہ اپنی ماں کے پاس سو رہا ہو گا تاہم انہوں نے ارادہ کیا کہ خواجہ میر درد کو لا کر اپنی بیعت میں شامل کرلوں۔ حجرہ کا دروازہ کھولا باہر اندھیرا گُھپ تھا۔ نیچے پاؤں رکھا تو محسوس ہوا کہ حجرہ کی سیڑھی پر کوئی سو رہا ہے۔ دریافت کیا کون ہے؟ جواب آیا حضور میں ہوں خواجہ میر۔ خواجہ میر اپنے باپ کو زندہ دیکھ کر خوشی کے جوش میں رونے لگے۔ حضرت خواجہ محمد ناصر نے فرمایا کہ بیٹا روتے کیوں ہو۔ خداتعالیٰ نے ہم کو اپنی عنایت خاص سے عزت بخشی ہے۔ میرے ساتھ حجرہ میں آؤ۔ چنانچہ سارا واقعہ سنا کر اپنے تیرہ سالہ بچے خواجہ میر کو جو بعد میں میردرد کہلائے بقاباللہ کے مرتبہ پر روحانی طور پرتیرہ سال کی عمر میں بیعت کر کے فائز کر دیا۔
حضرت خواجہ میردرد نے اپنی کتاب علم الکتاب میں لکھا ہے کہ حضرت حسنؓ کی روح ان کے ساتھ حجرہ میں سات دن تک رہی۔
طریقہ محمدیہّ
اس دن سے دنیا میں عالمِ تصوّف میں ایک جدید طریقہ طریقہ محمدیہّ کے نام سے جاری ہوا جسے براہِ راست رسول اللہ ﷺ کے فیض سے حضرت امام حسنؓ کی روح مبارک کے ذریعے حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو عطا کیا اور حضرت خواجہ میردرد اس سلسلہ محمدیہ میں مرید اوّل ہوئے۔
اس واقعہ کا ذکر خواجہ میر اثر صاحب نے جو حضرت خواجہ میر ناصر عندلیب کے چھوٹے صاحبزادے تھے نے اپنی ایک کتاب بیان واقع میں اس مندرجہ بالا واقعہ کو فارسی نظم میں لکھا ہے۔ جس میں سے چند اشعار میں بطور نمونہ درج کر دیتا ہوں۔ فرماتے ہیں ؎
فیض خاصے یافت از روحِ حسنؓ
تخمِ آن را کشت اندر این چمن
ہفت روزوشب میانِ حُجرہ بود
پیش چشمش عالمے دیگر کشور
گشت نازل عالمِ روحانیان
در شہادت خارج از وہم وگمان
ہمچنان بر یک عبادت باوضو
اندریں مدت نشستہ قیدِاو
جُز برائے پنج مکتوبی نماز
کہ در حُجرہ نمیِ فرمود باز
گوش چون صوتِ اقامت می شنود
آمدہ بیرون امامت می نمود
چون صلوٰۃِ فرض را دادے سلام
می شد اندر حجرہ نے حرف و کلام
آشنائے خواب و خور اصلا نشد
ملتفت سوئے دگر اشیاء نشد
گوئیا او قیدِ جسمانی نبود
جُز ظہورِ نور رحمانی نبود
روزِ ہفتم چونکہ دررا باز کرد
پسر خود را وقفِ ایں راز کرد
صادق آمد راست بروئے ایں خبر
آنکہ می باشد پسر بہ پدر
کائے سعادت مند بشنو ایں سخن
داشت تشریف شریف این حسنؓ
ایں سبب پیوستہ بودم در نماز
حسبِ حکمِ عالیش کردم نماز
نسبتِ خاصے عنایت کردہ است
راہِ پیغمبر ہدایت کردہ است
امرشد تا دعوتِ اُمّت کنم
خلق را بر امر حق دعوت کنم
دینِ ما دینِ محمدؐ ہست و بس
خالص آئینِ محمدؐ ہست و بس
۲؎
اس واقعہ کشف پر ایک نظر
متصوفین ہندو دیگر بلا دوامصارکا یہ طریق رہا ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے لمبے مجاہدے اور بڑی بڑی محنتیں اور مشقتیں اپنے نفس پر وارد کر لی تھیں۔ وہ کم خوردن،کم گفتن،کم خفتن پر عمل کیا کرتے تھے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ روح جو ایک نورانی چیز ہے جسم کی دبیز اور موٹی چاردیواری میں قید ہے۔ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ جسم کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور جو سنتا ہے وہ جسم کے کان سے سنتا ہے اور جو حظِّ نفس اُٹھاتا ہے وہ جسم کے نفس سے اُٹھاتا ہے۔ اسے اِس کوچہ کی خبر بھی نہیں ہوتی جس میں روح کی لطافتیں جاگزیں ہوتی ہیں۔
رُوح کو خلود حاصل ہے اور جسم کو فنا۔ روح دنیا اور اس کے آخری کونوں تک دیکھ سکتی ہے اور سُن سکتی ہے۔ اس کی رَسائی دنیا کے کناروں اور آسمانوں تک ہو سکتی ہے۔ مگر انسان نے اسے کبھی چھوا تک نہیں اور اس کی طرف کبھی توجہ تک نہیں کی ۔ الاماشاء اللہ۔ لیکن صوفیائے کرام نے مختلف طریقوں سے جسم کو کمزور کیا اور روح کو نشونما دی تا کہ وہ ان بندھنوں سے آزاد ہو کر اپنا کام کر سکے۔ وہ ایک طرف تو جسم کو کم کھانے اور روزوں کے ذریعے کمزور کرتے۔ دوسری طرف عبادت و ریاضت سے روح کو قوت پہنچاتے تھے۔ چنانچہ اس اصل کے ماتحت حضرت خواجہ میرناصر نے اس جسم کو جس کا گوشت پوست سلطنت وحکومت کے نشہ اور مال و دولت سے پرورش شدہ تھا۔ خوب ہی عبادتوں و ریاضتوں کے ذریعے سے ہلاک و فنا کر دیا۔ تب الٰہی تجلی کا ظہور حضرت امام حسنؓ کے رنگ میں ان پر ہوا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے جمال کا پرتوہ انہی کے بزرگوں کے رنگ میں ڈالا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کو اپنے والد کی صورت پر دیکھا۔ اس لئے حضرت امام حسنؓ کی شکل و صورت پر تجلی الٰہی کا ہونا کوئی بعیداز قیاس امر نہیں اور وہ لوگ جو اس دنیا سے منقطع ہو جاتے ہیں۔ ان کو عالمِ بالا کے صدہا عجائبات دکھائے جاتے ہیں۔ جن کو وہ لوگ جو اہل بصیرت نہیں ہوتے نہیںسمجھ سکتے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے ان کو اپنے کلامِ پاک میں اعمیٰ قرار دیا ہے ۔ اس لئے کہ ان کی وہ آنکھ نہیں ہوتی جس سے وہ اس نُور میں دیکھ سکیں ان کی تمام حِسیّں مردہ ہوتی ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ ان کی نسبت فرماتا ہے:
صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَایَرْجِعُوْنَ
جو حواسِ خمسہ سے بے بہرہ ہو، اسے دنیا کی حقیقت کیا معلوم وہ ایک مُردہ لاش ہے جو گڑھے میں پھینک دی جائے گی۔ بالکل اسی طرح وہ لوگ جن کی روحانی حِسیّں مفقود ہو جاتی ہیں ۔ وہ عالمِ روحانیت میں مُردہ لاش کی طرح تصور کئے جاتے ہیں۔ کروڑوں کروڑ انسان ایسے ہیں۔ جن کو ماؤں نے تو جَن دیا مگر وہ عالمِ روحانیت میں کبھی پیدا نہیں ہوئے اور وہ اسی طرح مُردہ کے مُردہ ہی اس جہان سے اُٹھ جاتے ہیں۔
انبیاء کا وجود
اس لئے دنیا میں آتا ہے کہ وہ لوگوں کو ایک دوسری دنیا سے آگاہ کریں۔ جو عالمِ روحانیت کی دنیا ہے اور وہ ان قواء کو نشوونما دینے کے طریقے بتلائیں جن سے انسان عالمِ روحانیت میں جاگزین ہو سکنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
افسوس! کہ دنیا کو اس کوچہ کی خبر بھی نہیں اور اس حُسنُ و جمال سے آگاہ ہی نہیں جس کا تعلق روحانیت سے ہے اور جب انسان اس عالم میں پہنچ جاتا ہے تو وہ بے اختیار پکار اُٹھتا ہے
کِس قدر ظاہر ہے نور اُس مبداء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا
اُس بہارِ حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا
ہے عجب جلوہ تیری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے تیرے دیدار کا
چشمہ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا
یعنی وہ اس دنیا میں کسی چیز کو سوائے اس نئی دنیا کے کچھ اور دیکھ ہی نہیں سکتا۔ ہر چیز اسے خدا کی طرف بلاتی ہے اور اسے ہر جگہ سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے۔ خدا ۔خدا۔خدا۔ وہ نئے نئے نظارے دیکھا کرتا ہے جو روحانی آنکھ کے اندھوں کو نظر ہی نہیں آ سکتے۔
اس قریب کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں ان نظاروں کو ہم بکثرت دیکھتے ہیں۔ کبھی اللہ تعالیٰ کی تجلی ان کو اپنے والد کی شکل میں نظر آتی ہے اور کبھی حضرت فاطمہ اور حضرت علی اور حضرت امام حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اپنے مکان میں دیکھتے ہیں۔ ۳؎
کبھی رسول اللہ ﷺ سے بیداری میں ملاقاتیں ہوتی ہیں اور کبھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے اور ایک ہی برتن میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔کبھی حضرت نانکؒ سے باتیں ہوتی ہیں اور اپنے اسلام کا آپؑ پر اظہار کرتے ہیں۔ کبھی کرشن جی مہاراجؑ سے ملاقات ہوتی ہے۔پس جو اس کوچے کا واقف نہیں۔ اسے یہ باتیں ہنسی اور کھیل سے زیادہ نہ معلوم ہوں گی وہ ان لوگوں کی دماغی کیفیت کو ایک مجنون کی دماغی کیفیت سے ملانے میں دریغ نہ کرے گا۔ لیکن اسے کیا معلوم۔ کہ اس رنگین دنیا کے سوا ایک اور دنیا بھی ہے جو اسی دنیا میں پوشیدہ ہے اور اس جسم میں ایک اور جسم بھی ہے۔ جو اسی جسم میں پوشیدہ ہے۔ اس جسم کی آنکھیں بھی ہیں۔ جو اس وقت دیکھتی ہیں۔ جب یہ آنکھیںبند ہو جاتی ہیں اس کے کان بھی ہیں جو اس وقت سنتے ہیں۔ جب یہ کان بند ہو جاتے ہیں۔ اِسی لئے متصوفین کے نزدیک ایک اصطلاح یہ بھی ہے لب بندوگوش بندوہوش بند۔
میں اپنے ذوق کی لہروں میںکہاں سے کہاں چلا گیا میں تو یہ لکھ رہا تھا کہ اس روحانی عالم میں امام حسنؓ کی روح کا ظہور بھی ایک حقیقت ہے۔
روشنی سے کمرہ منور ہو گیا
یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ کِس سے پوشیدہ ہے۔ جب وہ جنگل میں اپنے اہل کو لیکر آ رہے تھے انہوں نے پہاڑ پر ایک آگ کو دیکھا۔ تو فرمایا۔
فَقَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْا اِنِّیْ اٰنَسْتُ نَارً الَّعَلِّیْ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدًیO
تم لوگ یہاں ٹھہر جاؤ۔ مجھے آگ نظر پڑی ہے۔ مَیں وہاں جاتا ہوں ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی چنگاری لا سکوں۔ یا مجھے وہاں سے آگ کا ہی کچھ پتہ مل سکے۔
پس یہ حقیقت ہے کہ عالمِ بالا کا روشنی کے ساتھ ایک بڑا تعلق ہے اور وہ اس سورج یا چاند یا ستاروں یا دوسری قسم کی روشنیوں کی مدد کا محتاج نہیں جب کسی انسان کو اس عالم میں لے جایا جاتا ہے۔ تو اسے روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہاں تاریکی کا کوئی مقام نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کشف
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ایسے بہت سے پاکیزہ مکاشفات دکھائے گئے۔ چنانچہ ایک واقعہ جو آپؑ نے تحریر فرمایا یوں ہے:
’’حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جب کہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمرّ پاک سیرت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کیلئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجا لاؤں۔ سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا… اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے……اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبزو سرخ ایسے دلکش اور دلستان طور پر نظر آتے تھے۔ جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے۔ وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے۔ جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے۔ ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہو گی۔ جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔ میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے۔ یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہو گئی۔ یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی۔ کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے۔
نوٹ: ’’یہ وقعہ اوائل ۱۸۷۶ء کا ہے۔‘‘ ۴؎
اس کشف میں ایک اور چیز جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو اسرارِ روحانی بغیر کسی ظاہری مُرشد کے سکھا دیئے گئے۔ بہت سے ظاہر پرست اس امر کی شدید مخالفت کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتامگریہ حقیقت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روحانیت ہمیشہ سے زندہ تھی۔ زندہ ہے اور زندہ رہے گی اس لئے وہ لوگ جو آپؐ کی ذات سے ایک تعلق پیدا کرتے رہے۔ یا کرتے ہیں یا کرتے رہیں گے۔ ان کو آنحضرت ﷺ کے فیض سے حصہ ملتا رہا ہے۔ ملتا ہے اور ملتا رہے گا اس کی ہزار ہا مثالیں موجود ہیں۔
میں ایک وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ اس کے منکر ہیں ان کو حضرت رسول اللہ ﷺ کے فیوض پر ایمان ہی نہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ مومنوں کو آنحضرتؐ پر درود بھیجنے کیلئے کیوں فرماتا۔
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً
جب ہم درود شریف کے پاکیزہ تحفے حضور پُرنورؐ کی بارگاہ میں بھیجتے ہیں تو ہم کو بھی آپؐ کی بارگاہ سے ہمارے اخلاص‘ قلب کی صفائی‘ نورایمان کے مطابق برکات سے حصہ ملتا ہے۔ اس زمانہ میں سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ایک ہی انسان تھا جسے خدا تعالیٰ نے ان برکات سے اس قدر مالا مال کیا کہ اسے بروز محمد ﷺ بنا دیا۔ چنانچہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطّر ہو گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد ؐ کی طرف بھیجے تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
’’ ایک مرتبہ الہام ہوا۔ جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں۔ یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے۔ لیکن ہنوز ملائِ اعلیٰ پر شخص مُحیٖ کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اس اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحیٖ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے یہ کہا
ھٰذَارَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلُ اللّٰہِ-
یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اَور اس قول سے مطلب یہ تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسولؐ ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔‘‘ ۵؎
پس آنحضرت ﷺ جو ایک زندہ نبی ہیں کے وجود سے اگر فیض نہ پہنچ سکتا ہوتا تو میں سمجھتا ہوں کہ درود شریف کی بھی ضرورت نہ رہتی۔
ایک عظیم الشان پیشگوئی
اس مکاشفہ میں ایک عظیم الشان پیشگوئی بھی فرمائی گئی کہ:
’’یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہو گا۔‘‘ ۶؎
اس پیشگوئی کے الفاظ پر غور کرنے سے بآسانی معلوم ہو سکے گا:
۱۔ ’یہ ایک خاص نعمت تھی۔‘
۲ ۔ ’جو اس خاندان کے لئے محفوظ چلی آتی تھی‘۔
۳۔ ’اس کی ابتداء حضرت خواجہ محمد ناصر سے ہوئی‘۔
۴۔ اور اس ’نعمت‘ کا انجام مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہو گا۔
اس پیشگوئی میں اس خاندان کی برکات کی مدت کو محدود کر دیا گیا کہ یہ برکت جو اَب تمہارے وجود سے شروع ہوتی ہے۔ ظہور حضرت مہدی ؑ تک رہے گی پھر یہ نعمت تمہارے خاندان سے ختم ہو جائے گی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ظہور مہدی ؑ کا وقت اس پیشگوئی کے بعد جلد ہونے کا اظہار کیا گیا۔
یہ پیشگوئی مکمل نہیں سمجھی جائے گی۔ جب تک میں حضرت خواجہ میردرد ؒ کی ایک تحریر کو اس کے ساتھ شامل نہ کر دوں۔ جو اس پہلی پیشگوئی کی تائید مزید اور تشریح مکمل ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ نسبت محمدیہ الخاصہ حضرت امام موعود علیہ السلام کی ذات پر ختم ہو گی اور تمام جہان ایک نُور سے روشن ہو گا اور اس نّیراعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گُم ہو جائے گی۔‘‘ ۷؎
اب دونوں پیشگوئیوں کو ملا کر پڑھنے سے یہ نتیجہ نکلے گا:
جو نعمت حضرت خواجہ محمد ناصر پر نازل ہوئی اس کا انجام حضرت مہدی موعودؑ کے ظہور کے وقت ہو گا۔ مہدی موعود ایک نّیراعظم ہو گا جس کے انوار میں باقی تمام فرقوں کی ’’روشنی گم ہو جائے گی۔‘‘
اللہ، اللہ کتنی واضح پیشگوئی تھی۔ جس میں یہ بھی بتلایا گیا کہ یہ طریقے، اور صوفیائے کرام کے طریقے ستاروں کا حکم رکھتے ہیں اور ستارے اِسی وقت اپنی روشنی سے منور کر سکتے ہیں جبکہ نیراعظم مطلعِ شہود پر نہ ہو۔ لیکن جب روشنی کا بادشاہ مطلعِ شہود پر جلوہ فگن ہوتا ہے۔ تو ستاروں کی روشنی پھر کسی کونظر نہیں آتی۔ بلکہ اس کی روشنی میں گُم ہو جاتی ہے۔ کیسی صاف اور واضح مثال سے اس پیشگوئی کو واضح کیا گیا۔
ایک خاص نتیجہ
اس پیشگوئی سے یہ بھی نکلتا ہے کہ محمدیّینّ کا حضرت مہدی موعود علیہ السلام سے کوئی خاص تعلق ہوگا کیونکہ محمدیّینّ پر اُتری ہوئی نعمت جہاں ایک طرف ختم ہو رہی ہوگی وہاں ایک دوسری نعمت کا آغاز ہو رہا ہوگا۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پہلی نعمت کا آخری سرا مہدی موعود علیہ السلام کی نعمت کے ابتدائی سرے سے مل کر پھر نئی صورت میں اس کا آغاز ہو جائے گا۔
چنانچہ بالکل ایسا ہی ہوا۔ حضرت خواجہ محمد امیر صاحب اس سلسلہ محمدیہ میں آخری خلیفہ تھے۔ جو ۱۰/ستمبر ۱۸۰۴ء کو فوت ہو گئے اور ان کے بعد کوئی حقیقی جانشین نہ ہو سکا۔ اگرچہ خانہ پُری کے طور پر حضرت محمد امیر صاحب کے بیٹے خواجہ ناصر وزیر کو گدی نشین کر دیا گیا۔ مگر اُن کے بعد خانہ پُری بھی نہ ہو سکی۔ اب اِس خلافت کے اصل وارث حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ تھے جو مہدی موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی نصرت جہان بیگم کو جو ان تمام برکات اور نوروں کی حامل تھیں جو حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ سے اُس وقت چلے آتے تھے۔ حضرت مسیح موعود مہدیٔ مسعود ؑ کے نکاح میں دے دیا۔ اس طرح وہ روشنی اس نیرِّ اعظم میں گم ہو گئی اور اس طرح اس خاندان کی روشنی کا آخری سرا جو خاتمہ کا سرا تھا مہدی موعودؑ کے ابتدائی سرے سے مل کر نئے روپ، نئی شان، نئے رنگ میں ظہور پذیر ہوا۔
جن کی آنکھیں ہیں دیکھیں اور جن کے کان ہیں سن لیں اور جن کو دل و دماغ میسّر ہیں وہ سوچیں کہ کیا یہ انسانی تدابیر ہیں۔ کیا یہ سوچا ہوا منصوبہ ہے۔ کیا کوئی اس طرح انسانی تدابیر سے خدا کی مقرر شدہ تقدیروں کو بدل سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ پس دیکھو آفتابِ صداقت چڑھ آیا ہے اس کو دیکھ کر تمہاری آنکھیں کیوں چندھیا گئیں اور کیوں تم قبولِ حق کے لئے آگے نہیں بڑھتے۔ یہ پیشگوئی جو بڑی وضاحت سے پوری ہوئی ایک اتمامِ حجت ہے۔ جس کے بعد کوئی جائے فرار نہ رہے گی۔
اب صوفیوں کا کوئی فرقہ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اس لئے کہ اب اُن کی روشنی اس نَیرِّ اعظم کی روشنی میں گم ہو چکی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے صوفیوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
وہ جو کہلاتے تھے صوفی کیں میںسب سے بڑھ گئے
کیا یہی عادت تھی شیخِ غزنوی کی یادگار
کہتے ہیں لوگوں کو ہم بھی زبدۃ الابرار ہیں
پڑتی ہے ہم پر بھی کچھ کچھ وحی رحماں کی پھوار
پھر وہی نافہم ملہم اوّل الاعداء ہوئے
ہو گیا تیرِ تعصّب اُن کے دل میں وار پار
دیکھتے ہرگز نہیں قدرت کو اس ستّار کی
گو سناویں ان کو وہ اپنی بجاتے ہیں ستار
صوفیا اب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ
آسماں سے آگئی میری شہادت بار بار
پھر فرمایا:
آسماں پر شور ہے پر کچھ نہیں تم کو خبر
دن تو روشن تھا مگر ہے بڑھ گئی گرد و غبار
سلسلہ محمدیہّ
اس سلسلہ کا نام کشفی حالت میں سلسلہ محمدیہّ خالصہ رکھا گیا۔ دراصل یہ لوگ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے لئے راستہ صاف کرنے والے تھے۔ اس نسبت محمدی کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایک بڑی نسبت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے۔
بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے قبل ہی لوگ تبلیغ دین اور خدمتِ اسلام کا کام کر رہے تھے۔ اس لئے اس خدمت کا یہ صلہ تو نہیں تھا کہ ان کو مٹا دیا جاتا بلکہ یہ تھا کہ ان کو اور مضبوط و مستحکم کیا جاتا۔ اسی کی طرف اس الہام الٰہی میں اشارہ تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام میں ہو کر ان محمدیان کا پائوں اور بھی بلند و محکم ہو گیا۔
روشنی اور منار
حضرت خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب کو کشف میں روشنی دکھائی گئی۔ روشنی دی گئی۔ مسیح موعود ؑ کا نام نَیرِّ اعظم (خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں آپ کو شمس و قمر کے نام سے بھی پکارا گیا) رکھا جو روشنی کا منبع اور مصدر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں جو لفظ منار رکھا گیا تھا اس کو اس روشنی سے نہ صرف ایک نسبت ہی تھی بلکہ اس روشنی کا مقام اونچا کر کے بھی دکھایا گیا۔ یہ باتیں اس کشف میں غور طلب ہیں اس لئے مَیں نے ایک لمبی اور مفصل بحث اس پر کی۔ ابھی اس کشف کے بعض دوسرے غوامِض بھی ہیں جو اپنی جگہ پر واضح کئے جائیںگے۔ وباللّٰہ التوفیق
یہ امر بھی یاد رہے کہ دنیا میں تصوف کے بہت سے طریقے ہیں۔ شادلی، رفاعی، چشتی، صابری، سہروردی، نظامی وغیرہ وغیرہ۔ مگر فرقہ محمدیہ صرف اور صرف ایک یہی تھا۔
حضرت شیخ سعداللہ صاحب عرف شاہ گلشن صاحب مجددی نقشبندی کی صُحبت
حضرت خواجہ میر محمد ناصر صاحب کو اس ارشاد کے ماتحت جو حضرت امام حسنؓ کے ذریعے حاصل ہوا تھا کہ ظاہری طور پر بھی کسی کی بیعت کر لینا۔ کسی بزرگ کی جستجو ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے یہ پسند کیا کہ وہ حضرت شاہ گلشن صاحب نقشبندی کی طرف رجوع کریں جو حضرت بہاء الدین نقشبند کے سلسلہ نقشبندیہ میں اس وقت دہلی میں شہرت کامل رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب نے ان کے پاس حاضر ہو کر سارا واقعہ عرض کیا۔ انہوں نے ان کی عظمت اور نیکی کے مقام کو جانتے ہوئے بیعت لینے سے عذر کیا۔ البتہ یہ کہا کہ آپ کبھی کبھی میرے فقیر خانہ پر تشریف لایا کریں۔ ۸؎
’’جو کچھ مجھے آتا ہے بغیر بیعت کے آپ کو بتا دونگا۔نیز چونکہ آپ صاحبِ مذاق شعر و شاعری کے بھی ہیں اور فقیر بھی موزون طبع ہے۔ اس لئے نظم و نثر کی بھی مشق رہے گی‘‘۔
اس زمانے میں تمام امراء کے بچے اور شاہزادے اور شعراء اور علماء فضلاء، ادباء، حکماء سب آپ کی مجلس میں حاضر ہواکرتے تھے اور بڑی علمی مجلسیں قائم ہوا کرتی تھیں۔ میرزا عبدالقادر صاحب بیدل جو اس زمانہ کے مشہور شعراء میں سے تھے، آپ کی مجلس میں مؤدّب بیٹھاکرتے تھے اور شمس ولی اللہ ولی جن کو مصنف آبِ حیات نے صفحہ۸۸ پر نظم اُردو کا آدم لکھا ہے۔ آپ کے مرید اور شاگرد تھے۔
ولی کے متعلق مولانا آزاد نے لکھا ہے:
کہ ولی اللہ کی برکت نے اُسے وہ زور بخشا کہ آج ہند کی شاعری نظم فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں۔ تمام بحریں فارسی کی اُردو میں لائے۔ شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا۔ ردیف وار دیوان بنایا۔ ساتھ اس کے رباعی، قطعہ مخمس اور مثنوی کا ستہ بھی نکالا۔ انہیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی نظم میں چاسر شاعر کو اور فارسی میں رودکی کو اور عربی میں مہلہل کو۔ ۹؎
ان کی وجہ سے اُردو زبان میں بڑی ترقی ہوئی تھی۔ وہ احمد آباد گجرات کے رہنے والے تھے۔ مگر دلّی میں سکونت پذیرہوگئے تھے۔ ایک شعر میں کہتے ہیں۔
دل ولی کا لے لیا دلّی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سون۱۰؎
الغرض شاہ گلشن کی صحبت میں ہر قسم کے باکمال علم و ادب جمع ہوا کرتے تھے۔ شاہ گلشن صاحب کے کہا جاتا ہے کہ دو لاکھ کے قریب شعر تھے مگر اب ان کا کوئی دیوان موجود نہیں۔ بعض اشعار ادھر اُدھر سے دستیاب ہوتے ہیں۔ آب حیات میں بھی دو شعر لکھے ہیں:
گشتم شہید تیغِ تغافل کشیدنت
جانم زدست بُرد غزالانہ دیدنت
بدقت میتوانی فہمد معنی ہائے نازِ او
کہ شرح حکمت العین است مژگانِ داز او
۱۱؎
ایسے علامہ اور فاضل اجل اور ادیب کبیر کی صحبت میں حضرت خواجہ محمد ناصر آنے جانے لگے۔
خواجہ محمد ناصر صاحب کی بیعت ظاہری
کچھ دنوں کے بعد جناب شاہ گلشن صاحب آپ کو اپنے مرشد زادہ خواجہ محمد زبیر صاحب کے پاس لے گئے۔ انہوں نے آپ کو دیکھ کر خندہ پیشانی سے اپنا مرید کر لیا۔ خواجہ محمد زبیر صاحب کا سلسلہ درویشی بھی سیّد خواجہ بہاء الدین صاحب نقشبند رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چلتا ہے۔ خواجہ محمد زبیر صاحب نے بیعت لے کر اسی وقت ان کو بھی بیعت لینے کی اجازت دے دی۔ ۱۲؎
ان کا یہ خاندان حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندان تھا۔ وہ اورنگ زیب کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور ۴/ ذیقعدہ ۱۱۵۲ھ کو محمد شاہ کے زمانہ میں دلّی میں فوت ہوئے اور سرہند میں دفن کئے گئے۔ اس طرح سے آپ کی ظاہری تکمیل بھی ہوگئی۔ مَیں لِکھ چکا ہوں کہ خواجہ محمد ناصر صاحب شاہجہان آباد کو چھوڑ کر میر عمدہ کے نالہ پر آ رہے تھے جو شاہجہان آباد کے مقابلہ میں ایک اُجاڑ اور قصبہ تھا۔ مگر ان کے خاندان کے قدیم مکانات اسی جگہ تھے۔ جب ان کی درویشی کا چرچہ اور شہرہ ہونے لگا تو بادشاہِ وقت نے برمدہ کے نالہ پر بنفسِ نفیس پہنچ کر خواجہ محمد ناصر اور خواجہ میر درد کی زیارت کی اور چاہا کہ وہ اس ویران مقام کو چھوڑ دیں۔ مگر آپ نے اسے پسند نہ فرمایا۔ اس وقت مشائخ و سادات عام طور پر شاہجہان آباد دلّی کو ایک چھائونی خیال کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ شرفاء کی بہو بیٹیوں کو چھائونیوں میں نہیں رہنا چاہئے۔ لیکن رفتہ رفتہ ہندو مسلم شرفاء پُرانی دلّی سے نکل کر شاہجہان آباد میں آباد ہونے لگے اور پرانی دلّی اُجڑتی چلی گئی حتیّٰ کہ پانی لانے کے لئے سقّے اور صفائی کے لئے حلال خوری تک نہ ملتی تھی۔ بنئے، بقال، کنجڑے، قصائی سب پرانی دلّی سے منتقل ہو کر شاہجہان آباد میں آ گئے مگر یہ گھرانا پھر بھی نہ اُٹھا۔ خواجہ محمد ناصر صاحب نے متعدد کتابیں تصنیف کی تھیں۔ مگر افسوس کہ وہ سب کتابیں غدر کے ایام میں مفقود ہو گئیں کیونکہ قلمی نسخے تھے۔ ایک کتاب نالۂ عندلیب جو ایک ہزار آٹھ سو صفحہ کی بڑی تقطیع پر لکھی تھی جسے نواب شاہجہان بیگم صاحبہ بیگم بھوپال نے طبع کرایا تھا اور اب یہ کتاب پھر تقریباً نایاب ہو گئی ہے۔ مگر ہمارے سلسلہ کی لائبریری جو احمدیہ جوبلی ہال میں ہے۔ وہاں حضرت مولانا ابوالحمید صاحب آزاد مرحوم وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد کی وقف شدہ کتابوں میں ایک نسخہ موجود ہے۔ کتاب فارسی زبان میں ہے۔ نالہ عندلیب تصوف کی کتاب ہے۔ مثنوی مولانا روم کی طرح بہت سی باتیں کہانیوں کے رنگ میں لکھی ہیں۔ جگہ جگہ فارسی اشعار سے اسے مزین کیا ہے۔ یہ اشعار ان کے اپنے ہی ہیں۔ انہوں نے کلام کو اور بھی جاذبِ نظر اور ملیح بنا دیا ہے۔ مثنوی مولانا روم تو نظم میں ہے۔ مگر یہ کتاب نثر میں ہے اور خوب ہے۔ اس مختصر کتاب میں ہم ان کی اس کتاب سے بہت کچھ لکھ نہیں سکتے تا ہم مختصر طور پر چند باتیں اس کتاب میں مَیں دوسری جگہ درج کر دوں گا تا کہ اُن کے خیالات اور فرقہ محمدیہّ کے حالات پر ایک نظر پڑ سکے۔ اس لئے بھی کہ اُن کے خیالات ہمارے سلسلہ کے خیالات سے بہت حد تک ملتے جلتے ہیں اور پڑھنے والوں کو ایک بڑی حد تک موازنہ اور مقارنہ کرنے کا موقع مل سکے گا۔ یہاں اس قدر درج کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسرارِ تصوف میں یہ ایک بے نظیر کتاب ہے۔ مصنف نے کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے:
’’کہ عرش سے فَرش تک جو کچھ کون و مکان میں ہے اس کی امثال اور نمونے اس کتاب میں بہم کئے ہیں‘‘۔ ۱۳؎
اور یہ بھی لکھا ہے:
’’کہ میری یہ کتاب الہامی کتا ب ہے اور مَیں نے جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ مکاشفہ اور معائنہ سے کیا ہے اور خوبی یہ ہے کہ تمام مکاشفے اور الہام قرآن پاک اور حدیث صاحبِ لولاک کے مطابق اور موافق ہیں اور مرکز شریعت سے بال برابر اِدھر اُدھر نہیں ہیں‘‘۔ ۱۴؎
اس بیان کے پڑھنے سے مندرجہ ذیل امور کی وضاحت ہوتی ہے۔
۱۔ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب الہامِ الٰہی کا دروازہ بند نہیں سمجھتے تھے۔
۲۔ نیز ان کے نزدیک کشف اور معائنہ کا دروازہ بھی کھلا تھا۔
۳۔ الہامات الٰہیہ کے جاننے کے لئے معیار قرآن کریم اور حدیث نبوی کو ہی ٹھہرایا گیا تھا جو الہامات قرآن کریم اور احادیث یا مرکز شریعت کے خلاف ہوں وہ کبھی بھی آسمانی کلام نہیں ہو سکتے۔
لیکن کیسے تعجب کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی اصل کو پیش فرمایا تو اس زمانے کے علمائِ سُوء نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔ وہ الہام کے قطعی منکر ہو گئے۔ ان کے نزدیک مکالمہ اور مکاشفہ الٰہیہ اب کسی کو حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ باتیں درست ہوتیں تو اس زمانہ کے بزرگ اور مقتدر علماء جن میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی اور حضرت مولانا محمد فخر الدین صاحب جیسے بزرگ جو ان کے معاصرین میں سے تھے اور انہی کے محلے میں رہتے تھے، کیوں خاموش رہتے۔ ان بزرگ علماء کی طرف سے یہ سننے کے بعد کہ خواجہ محمد ناصر مدعی الہام و مکاشفہ ہیں اور اپنی کتاب کو الہامی کتاب قرار دیتے ہیں خاموش رہنا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک ایسا دعویٰ کرنا شریعت الٰہیہ کے خلاف نہ تھا۔ پس یہ ایک حجت ہے کہ اس زمانے کے علماء اور صوفی اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اسلام ایک ایسا زندہ مذہب ہے کہ جو خدا دانی اورخدا نمائی کا ذریعہ ہے اور انسان اس مذہب کے ذریعے مکالمہ الٰہیہ اور مکاشفہ الٰہیہ سے مشرف ہو سکتا ہے۔ لیکن آج کل کے علمائِ سُوء جادۂ صواب سے منحرف ہو گئے جنہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ان دَعاوی کی مخالفت کی اور ان کو شریعتِ الٰہیہ کے خلاف قرار دیا۔
حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جو کچھ لکھا اور کہا وہ مکالمہ الٰہیہ اور مکاشفہ الٰہیہ اور ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کے بعد لکھا اور کہا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا
نُور ہے نُور اُٹھو دیکھو سنایا ہم نے
آج ان نُوروں کا اِک زور ہے اس عاجز میں
دل کو ان نُوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے
جب سے یہ نُور ملا نُورِ پیمبرؐ سے ہمیں
ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے
مصطفیؐ پر تیرا بیحد ہو سلام اور رحمت
اُسؐ سے یہ نُور لیا بار خدایا ہم نے
ربط ہے جانِ محمدؐ سے میری جاں کو مدام
دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس زمانے کے علماء اس زمانے کی نسبت زیادہ سیاہ دل ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو آسمان کی آواز سنائی نہ دی۔نالۂ عندلیب بڑی مقبول ہوئی۔ شاہان دہلی اور امرائے دہلی اور صوفیائے کرام نے اس کتاب کی نقلیں کروائیں اور سنہری اور لاجور دی جدولوں کے ساتھ ان کے اوراق سجائے گئے اور کتب خانوں میں رکھی گئیں۔
آپ کا ایک الہام
ایک دفعہ آپ کو یہ الہام ہوا:
’’ہم نے تمہارے نام کو پسند اور مقبول فرمالیا اور تمہاری اولاد، اور تمہارے معتقدین اور مُریدوں کے لئے اس میں دونوں جہان کی برکات داخل فرما دیں۔ جو شخص ازراہِ عقیدت لفظ ناصر کو اپنی یا اپنی اولاد کے نام میں شامل کرے گا۔ اس کی برکت سے ہمیشہ مظفر و منصور رہے گا اور آتش دوزخ اس پر حرام کر دی جائے گی اور جو شخص اپنی کتاب یا خط کی پیشانی پر ’’ھُوَالنَّاصِر‘‘ تحریر کرے گا۔ اس کتاب اور خط کے مطالب کو کامیابی ہو گی۔‘‘ ۱۵؎
اس بناء پر آپ نے یعنی حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب نے اپنا نام دلیل الناصر رکھا اور اس کے بعد آپ کی تمام اولاد ذکورواناث کے ناموں میں لفظ ناصر ایک جزو قرار دیا گیا۔ یہاں تک اپنے غلاموں کے نام بھی ناصر قلی اور ناصر بخش وغیرہ رکھے گئے۔ حتی کہ جس چیز پر وہ بیٹھ کر سہارا لیتے تھے اس کا نام بھی ناصری رکھ دیا گیا۔
ایک عجیب اتفاق
جیسے کہ پیشگوئی تھی کہ ’’یہ نسبت حضرت امام موعود علیہ السلام کی ذات پاک پر ختم ہو جائے گی اور تمام جہان ایک نور سے روشن ہو گا اور اس نَیرِّاعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گم ہو جائے گی۔‘‘
بالکل اس پیشگوئی کے مطابق سب فرقوں کی روشنی گم ہو گئی اور فرقہ محمدیہّ خالصہ بھی ختم ہو گیا اب ان کے ناموں میں بھی وہ بات نہ رہی۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہان بیگم کے ذریعے کسی خاص قصد سے نہیں بلکہ خود بخود یہ چیز سلسلہ احمدیہ اور خاندان نبوت میں منتقل ہو گئی۔ صاحبزادگان میں سے میرزا ناصر احمد صاحب، میرزا منصور احمد صاحب، صاحبزادیوں میں سے صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ، منصورہ بیگم صاحبہ۔ لفظ ناصر کے حامِل ہیں۔ ناصر آباد ایک محلہ کا نام رکھا گیا۔ نصرت گرلز سکول ایک مدرسہ کانام رکھا گیا۔ النصرت حضرت میرزا ناصر احمد صاحب کی کوٹھی کا نام رکھا گیا اور اس طرح وہ لفظ ناصر بھی سلسلہ محمدیہّ سے منتقل ہو کر سلسلہ احمدیہ میں آ گیا۔ جماعت میں ہزارہا افراد کے نام کے ساتھ ناصر کا لفظ استعمال ہونے لگا۔
عبداللہ ناصر مجھے یاد ہے کہ میرا ایک عزیز بھائی تھا۔ جس کا نام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل نے عبداللہ رکھا تھا۔ حضرت میرناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ازراہِ شفقت و محبت حضرت والد صاحب کے پاس اکثر تشریف لایا کرتے تھے نے دریافت فرمایا۔ بچے کا کیا نام رکھا ہے۔ حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ حضرت نے عبداللہ نام تجویز فرمایا ہے۔ اس پر حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ اس کے ساتھ ناصر کا اضافہ کر دو۔ چنانچہ ان کے فرمانے پر اس کا نام عبداللہ ناصر کر دیا گیا۔ خدا کی قدرت اس کی زندگی تھوڑی تھی وہ ڈوب کر فوت ہو گیا۔ ہمارے خاندان میں لفظ ناصر بہت پسند کیا گیا۔ چنانچہ عزیزم شیخ ابراہیم علی عرفانی میرے چھوٹے بھائی کے لڑکی ہوئی تو اس کا نام ناصرہ رکھا گیا۔ خدا کی قدرت یہ بچی بھی پندرہ سولہ سال کی ہو کر فوت ہو گئی۔ تب یہ دونوں نام عزیزم شیخ یوسف علی صاحب عرفانی کے بچوں کی طرف منتقل ہو گئے چنانچہ ان کے ایک لڑکے کا نام محمد زکریا ناصر رکھا گیا اور بچی کا نام صدیقہ ناصرہ۔
الغرض اس طرح سلسلہ احمدیہ میں لفظ ناصر بکثرت پھیل گیا اور مکانوں ،محلوں اور مدرسوں تک کے ناموں میں لفظ ناصر کا استعمال ہونے لگا۔
خطوں اور کتابوں کی پیشانی پرھُوَ النَّاصِر
محمدیہّ الخاصہ تو اب اپنے خطوں اور کتابوں پر اس پیشگوئی کے مطابق الناصر نہیں لکھتے مگر یہ چیز بھی سلسلہ احمدیہ میں منتقل ہو گئی۔حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اپنی تمام تحریروں پر اپنی ایک رؤیا مبارکہ کی بناء پر (اس رؤیا کا تفصیلی ذکر خود ان کی سوانح میں آئے گا) ہمیشہ یہ عبارت لکھا کرتے ہیں:
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھُوَالنَّاصِرُ
آپ کی ہر کتاب پر اور تصنیف پر یہ عبارت کنندہ ملے گی۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کے مضمون نگار اور مصنف بھی جب کوئی اہم تحریر لکھتے ہیں تو اس عبارت کا استعمال کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ قادیان کے محلہ جات میں پھرنے والے انسان کو بہت سے مکانوں کی پیشانی پر یہی عبارت لکھی ہوئی نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے مکان کی پیشانی کا ذکر کر سکتا ہوں اور خود ہمارے گھر میں عزیز مکرم یوسف علی عرفانی کے مکان پر ھُوَالنَّاصِرْ لکھا ہوا موجود ہے اور اسی طرح اور بہت سے احباب کے مکانوں پر بھی یہ لکھا ہوا ہے۔اس طرح خواجہ محمد ناصر کے گھرانہ کی ہرچیز اُمُّ المؤمنین کے وجود کے ساتھ ہی سلسلہ احمدیہ میں منتقل ہو آئی۔ ہر وہ شخص جسے ایک ذرہ بھی ایمان اور بصیرت سے حصہ ملا ہے وہ اس مقارنہ اور موازنہ سے اپنے ایمان میں ایک نئی لذت محسوس کرے گا۔یہ قدرت الٰہی کے نوشتے ہیں جو پورے ہو کر رہے۔ کس انسان کی طاقت تھی کہ وہ ان چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق بنا لے۔ اگر یہ انسانی تدابیراور ہوشیاریوں کا نتیجہ ہے تو چاہئے کہ کوئی اور شخص بھی اس میدان میں قدم رکھ کر دنیا کو محوِ حیرت بنائے۔ مگر نہیں! نہیں!! ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ انسانی مکرو دجل کا کام نہیں یہ خدا کی عین منشاء کے ماتحت ہونے والے امور ہیں جو پورے ہوئے۔اے سچائی کے طالبو! آؤ دیکھو کہ ہم تمہارے سامنے ایک سچائی کا چمکتا ہوا سورج رکھتے ہیںاگر تم روشنی سے پیار کرتے ہو تو دیکھو کہ نیّربیضا اپنی پوری تجلی سے چمک رہا ہے۔
خواجہ محمد ناصر صاحب کی روشن ضمیری
ایک قصہ جو خاندانِ خواجہ محمدناصر صاحب میں مشہور ہے۔اس کا بھی تذکرہ کر دینا کوئی بیجا نہ ہو گا۔ کہتے ہیں کہ ایک سیاح صاحب آئے اور وہ مولانا محمد فخرالدین صاحب کے ہاں مہمان ہوئے اُس سیاح نے کہا کہ یا حضرت آپ کو تو میں نے چشتیہ نظامیہ طریقہ کا آفتاب پایا ہے ۔ کیا یہاں کوئی نقشبند یہ طریقہ کا بھی کوئی کامل فقیر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں ہے ان کا نام خواجہ محمد ناصر ہے اور وہ اس طریقہ کے یکتادرویش ہیں۔ سیاح نے آپ سے ملنے کی خواہش کی۔ مولانا نے ساتھ چل کر ملانا منظور فرما لیا۔ وہ وقت دوپہر کا تھا۔ اس وقت حضرت خواجہ صاحب کا دسترخوان بچھا کرتا تھا اور جو مہمان آتا اسے الگ دستر خوان بچھا کر کھانا کھلایا کرتے تھے۔ اپنے ساتھ نہیں کھلایا کرتے تھے۔ مولانا فخرالدین نے فرمایا کہ ان کا یہ معمول ہے۔ کہیں آپ کو برا نہ معلوم ہو۔ سیاح نے کہا کہ میں ان کی روشن ضمیری کے امتحان کے لئے جا رہا ہوں۔ میں نے اپنے دل میں دو خواہشیں سوچ رکھی ہیں اگر وہ صاحب باطن ہوں گے تو دونوں خواہشوں کو پورا کر دیں گے۔مولانا فخرالدین صاحب نے پوچھا کہ وہ کیا خواہشات ہیں؟ سیاح نے کہا کہ ایک تو یہ کہ وہ مجھے اپنے ساتھ کھلائیں اور دوسرے مجھے ایک تربوز بھی کھلائیں۔
چنانچہ جب حضرت مولانا فخر الدین صاحب سیاح کو لیکرآپ کی بارہ دری میں آئے۔ تو آپ کھانا کھا رہے تھے۔ خواجہ صاحب نے مولانا فخر الدین صاحب کے لئے اپنے کندھے کی چادر اُتار کر بچھا دی کہ اس پر تشریف رکھیں اور سیاح صاحب کو زبردستی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لیا اور ایک خادم سے کہا۔ بازار سے تربوز لاؤ۔ ہمارے مہمان گرمی میں آئے ہیں اس سے کچھ تسکین ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول یہ تھا کہ وہ اپنے مہمانوں کو ساتھ لیکر کھانا کھایا کرتے تھے۔ آپؑ کے قلب کی صفائی کا حال تھا کہ آپؑ کے پاس بیٹھنے والے مریدین مخلصین کے دل میں کوئی بات آتی آپؑ فوراً اسے پورا کر دیتے۔ مثلاً کھانا کھاتے ہوئے کسی کے دل میں یہ خیال آتا کہ فلاں چیزمل جائے تو حضرت فوراً ہی بغیر سوال کے لا دیتے۔
مثلاً منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری جو ہمارے ہمسائے ہیں اور حضورؑ کے پرانے صحابی کی ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ میرے دل میں شہتوت کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ حضرتؑ اس دن سیر کو اپنے باغ میں تشریف لے گئے ۔ باغ میں سے شہتوت تڑوا کر ٹوکرے بھروائے۔ دوستوں کو کھانے کے لئے فرمایا۔ خود بھی کھانے لگے اور مجھے بار بار فرماتے۔ منشی صاحب! اچھی طرح کھاؤ۔منشی صاحب کا بیان ہے کہ مجھے کچھ شرمندگی سی ہونے لگی کہ کہیں حضرتؑ کو میری خواہش کا علم تو نہیں ہو گیا۔اسی طرح انہی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدسؑ ایک مقدمہ کے دوران میں گورداسپور گئے ہوئے تھے۔ حضرت کو کسی نے دودھ پیش کیا۔ بہت سے لوگ اردگرد تھے اور میں فاصلے پر تھا میرے دل میں آپؑ کا تبرک پینے کا خیال آیا۔ مگر ساتھ ہی خیال آیا کہ مجھے کیسے مل سکتا ہے۔ حضرتؑ نے دودھ پی کر باقی برتن میری طرف بڑھا کر کہا کہ لو منشی صاحب پی لو۔ اس طرح میں آپؑ کے تبرک کی نعمت سے مالا مال ہو گیا۔ایسے صدہاواقعات ہیں۔ ایک دوست نے ایک روایت میں لکھا کہ ایک دفعہ کھانے میں بیٹرے پک کر آئے۔ حضرتؑ نے بعض دوستوں کو کھانے کو دیئے۔ میرے دل میں بھی بٹیر کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ خیال کا آنا تھا کہ حضرتؑ نے اپنی تھالی سے بیٹر اُٹھا کر میری تھالی میں رکھ دیا۔*
*نوٹ: یہ روایات میں نے اپنے حافظہ کی بناء پر لکھی ہیں۔ اس لئے مفہوم تو درست ہے۔ الفاظ میرے اپنے ہی ہیں۔ اصل الفاظ نہیں ہیں۔ (محمود احمد عرفانی)
یہی حال سائل کا تھا کہ ایک سوال کسی کے دل میں پیدا ہوا اور حضور ؑ نے فوراً ہی اس کا جواب خود بخود اپنی تقریر میں دے دیا۔ سچ ہے کہ حضور اقدسؑ اس زمانے کے نیّراعظم تھے۔ جن میں سب ستاروں کی روشنیاں گم تھیں۔
حضرت خواجہ محمد ناصر کی وفات
آپ کی وفات ۲ شعبان ۱۱۷۲ ہجری کو ہفتہ کے دن ہوئی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جب آپ کی لاش کو قبرستان میں لایا گیا۔ حضرت خواجہ میردرد صاحب نے کشفی حالت میں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ بھی تشریف فرما ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہم خواجہ محمد ناصر کے جنازہ کے انتظار میں ہیں اور جب تک خواجہ صاحب کو دفن نہیں کیا گیا حضور کھڑے رہے۔ حضرت خواجہ میردرد نے جس جگہ حضورؐ پُرنور کو دیکھا تھا وہاں ایک سنگِ سرخ کا نشان لگوا دیا تھا۔ اس پتھر پر یہ رباعی کنندہ تھی۔
ایں ارضِ مقدس است بس پاک بود
رشکِ عرش و نجوم و افلاک بود
از بس زکرم داشتہ تشریف شریف
نقشِ قدم صاحبِ لولاک بود
آپ کے مزار کا کتبہ
آپ کے مزار پر حسبِ ذیل کتبہ لگا ہوا ہے:
محبوبِ خدا خواجہ محمد ناصر
حق راہ نما خواجہ محمد ناصر
ہادی و شفیع و دستگیرہمہ است
درد ہر دوسرا خواجہ محمد ناصر
ناصرالملت والدین امیرالمُحمدّیین الخالصین محمدی المتخلص بہ عندلیب۔ علیہ التحیات
ولادت ۲۵ شعبان۔ ع۔ وارثِ علمِ امامینؓ و علیؓ
رحلت۔ یوم شنبہ بعدالعصر۔ قرب شام
دوم ماہِ شعبان ۱۱۷۲ ہجری ۔ عمر شریف ۶۶ سال
آپ کی وفات کے بعد بادشاہِ دہلی نے آپ کا مقبرہ سنگ مرمر کا بنوانا چاہا مگر حضرت خواجہ میردرد صاحب نے منظور نہ کیا اور فرمایا:
’’اِن تکلفات سے فقیروں کو کیا سروکار‘‘
خواجہ میر اثر صاحب جو خواجہ محمد ناصر صاحب کے چھوٹے صاحزادے تھے۱۶؎ نے اپنے والد بزرگوار کے حالات ایک منظوم کتاب میں لکھے ہیں۔ جس کا نام بیان واقع ہے اس منظوم کلام کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ مندرجہ بالا حالات کا ماخذ بیان واقع اور بعض دوسری کتابیں ہیں۔جس میں خود نالہ عندلیبؔ اور بیانِ درد، سوزِدرد، شمع محفل وغیرہ رسائل شامل ہیں۔
خواجہ میر درد کے نزدیک خواجہ محمد ناصر کا مقام
خواجہ میر درد صاحب نے اپنی کتاب علم الکتاب میں خواجہ محمد ناصر صاحب کے مقام کا اظہار اِن الفاظ میں کیا ہے:
’’نسبت خالصِ محمدیہّ کہ درزمان آن سرور علیہ السلام بود۔ تا حضرت امام حسنؓ عسکری علیؓ جدہ علیہ السلام بطناً بعد بطنٍ رسیدہ می آمد۔ و بعد ازیں او باختفا آوردہ بود۔ باز از بعد یک ہزارویک صدوچند سال ہجری ازیں فیض خاص از متبع باطن سیّد بحق و مقتدائے احق آفتاب عالم تاب فلک سیادت نیّراعظم پسرولایت وارثِ منصبِ کمالاتِ نبوت خلیفہ مرتبہ الوہیت صاحب سجادہ قرب امامت مظہر انوارِ محمدیہّ صاحب شریعت واصلِ حقیقت واقفِ طریقت۔ کاشفِ معرفت خداوند حکمت الٰہیہ۔ حامی ملتِ مصطفویہ۔ اولوالعزم عالی جاہ بے نیاز کبریاء۔ دستگاہ سلالہ ورودجان نقشبندیہ وقادریہ۔ قدر افزائے طریقہ محمدیہّ۔ ناصرِ دینِ نبوی حضرت خواجہ محمد ناصررضی اللہ عنہ ظہور فرمود‘‘۔
خواجہ محمد ناصر کی تصانیف
خواجہ محمد ناصر صاحب کی کئی ایک تصانیف تھیں مگر افسوس غدر میں اکثر تلف ہو گئیں۔ آپ نے ایک رسالہ ہوش افزا تصنیف کیا تھا۔ یہ رسالہ صوفیانہ شطرنج بازی میں تھا۔ کہتے ہیں آپ کے خاندان کے بعض نوجوان اور بعض مرید شطرنج کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ آپ نے ان کو منع کیا مگر وہ نہ رُکے۔ اس لئے آپ نے ایک صوفیانہ شطرنج ایجاد کیا۔ جس میں بڑی پُرعبرت بازیاں رکھی گئیں تھیں۔ ان بچوں اور مُریدوں کو جب یہ رسالہ دیا گیا کہ شطرنج کھیلتے ہوئے ان امور کو ملحوظ رکھ لینا۔ جب انہوں نے پڑھا تو انہوں نے شطرنج سے توبہ کر لی۔ افسوس کہ غدرمیں یہ چیز بھی ضائع ہو گئی۔سنتا ہوں کہ اس کی ایک کاپی حضرت میرناصر نواب صاحب کے سوتیلے بھائی سیّدناصروزیر کے پاس تھی معلوم نہیں کہ اب تک ہے یا نہیں۔ ان کے ایک پوتے زندہ ہیں۔ جن کا نام سیّد ناصر جلیل ولد سیّد ناصر خلیل ولدسیّد ناصر وزیر ہے اور گلبرگہ میں ملازم ہیں۔ افسوس کہ ان کے ہاں بھی اس رسالہ کا پتہ نہیں مل سکا۔
ایجادات
خواجہ محمدناصر صاحب نے بہت سی چیزیں بھی ایجاد کی تھیں۔مثلاً خیمہ روان، خانہ روان، حمام ہر مقام، پلنگ سفری شمع بید مع چراغ ظلمت، سوزفانوس بے افسوس، حربہ لوائے محمدی، نصرت بخش کبیر، نصرت بخش صغیر وغیرہ۔ ان چیزوں کے نام و نشان کا پتہ کتاب نالہ عندلیب سے بخوبی ملتا ہے۔ ان سے بہت سی کرامات اور خارق عادت باتیں بطورنشان کے ظاہر ہوئیں تاکہ لوگوں کے لئے از دیادِ ایمان کا باعث ہوں۔ آپ کا تخلص عندلیب ؔتھا اور آپ فارسی زبان کے بڑے شاعر تھے۔
حضرت خواجہ میر درد
اس خاندان میں حضرت خواجہ میر درد ایک خاص بزرگ تھے۔ خواجہ محمد ناصر صاحب کی دوبیویاں تھیں۔ پہلی شادی حضرت شاہ میربن سیّد لطف اللہ صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادے محمد محفوظ صاحب پیدا ہوئے اور انیس سال کی عمر میں فوت ہو گئے ان کی والدہ محمد محفوظ سے قبل ان کو بچہ چھوڑ کر فوت ہو گئی تھیں۔
آپ نے دوسری شادی سیّدالعارفین سیّد محمد قادری بن نواب عظیم القدر میراحمد خان شہید کی صاحبزادی سے کی تھی۔ ان کے بطن سے تین لڑکے پیدا ہوئے۔ پہلے سیّد میرمحمدی تھے۔ دوسرے خواجہ میر درد۔ تیسرے خواجہ محمد میر اثر۔ سیّد میر محمدی صاحب نے بھی ۱۹ سال کی عمر میں وفات پائی۔ دوسرے درمیانی خواجہ میردرد اور خواجہ محمدمیراثر باقی رہے۔ان کی والدہ صاحبہ کا نامی بخش بیگم عرف منگا بیگم تھا۔
حضرت خواجہ میر درد کی ولادت نوز دہم ذیقعدہ ۱۱۳۳ ہجری بروز سہ شنبہ دہلی میں میرعمدہ کے نالہ پر ہوئی۔ آپ نے دو سال کی عمر میں باتیں کرنی شروع کر دی تھیں۔ آپ بڑی لطیف باتیں بچپن ہی سے کرتے تھے سننے والے بڑا لطف اُٹھاتے اور محظوظ ہوتے تھے۔ بچپن میں آپ کو رونے کی بڑی عادت تھی۔ گھر والوں کو پتہ نہ لگتا تھا کہ کیا تکلیف ہے۔ ہر ممکن ذریعے سے اُن کو چپ کرایا جاتا مگر چپ نہ ہوتے۔ جب ہر ممکن ذریعے سے چپ نہ کرتے تو اُن کے ابا جان کو بلایا جاتا تو آپ اُن کے سینے سے چمٹ جاتے اور کبھی کبھی اس امر کا اظہار کرتے کہ مَیں بعض ایسے نظارے دیکھتا ہوں جن کو مَیں برداشت نہیں کر سکتا۔ اُن کے والد صاحب اُن کو سینے سے لگاتے اور کچھ تسلی آمیز کلمات کہتے جس سے تسلی ہو جاتی۔
تعلیم
خاندان کے سب بچوںکی تعلیم دس برس کے بعد ہوتی تھی مگر خواجہ میر درد صاحب کی تعلیم کا خلافِ معمول بچپن ہی میں آغاز ہو گیا تھا۔ چنانچہ آپ نے تیرہ برس کی عمر میں علوم و فنون عربیہ کی تکمیل کر لی تھی اور یہ تکمیل اپنے والد صاحب سے ہی حاصل کی تھی۔ مگر فارسی کے علم ادب کے واسطے آپ نے خان آرزو سے فخر تلمذ حاصل کیا اور مثنوی مولانا روم، مفتی دولت صاحب سے پڑھی تھی۔
خواجہ میر درد کو اپنے والد سے بڑی محبت تھی اور اُن کے رنگ میں رنگین تھے۔ جب خواجہ محمد ناصر صاحب مجاہدات کیا کرتے تھے اور اپنے حجرہ میں بھوکے پیاسے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ خواجہ میر درد جن کی عمر اُس وقت تیرہ سال کی تھی حجرہ کے دروازہ پر بھوکے پیاسے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ اُن کا جذبہ یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ابا جان کسی ضرورت سے پکاریں اور مَیں پڑا سوتا رہوں۔ اِسی محبت اور جوش میں اکثر فاقے بھی ہو جایا کرتے تھے۔ اُن کی والدہ کو ان کی اس حالت سے بہت صدمہ ہوتا تھا وہ اس حالت کو دیکھ کر اکثر رو دیا کرتی تھیں کبھی کھانے کے وقت اُن کو پکڑ کر بلوا بھیجتیں اور اپنے سامنے کھانا کھلاتیں۔ خواجہ میر درد اکثر رو دیا کرتے اور کہہ دیتے کہ اماں جان! مجھ سے بغیر ابا جان کے ایک نوالہ نہیں کھایا جاتا۔ اُن کی اِس محبت کا اُن کے والد صاحب کے قلب پر بھی اثر تھا۔
خواجہ میر درد کی بیعت
جب خواجہ محمد ناصر صاحب کو محمدیہ فرقہ کی بناء رکھنے کا حکم ہوا تو اُس وقت اُن کو یہ بھی بشارت دی گئی کہ اِس وقت جس شخص کو تو بیعت کرے گا اُسے بقا باللہ کا مقام حاصل ہوگا۔ اس محبت کی وجہ سے اور ان آثار رشدو ہدایت کی وجہ سے جو خواجہ میر درد کے اندر ظہور پذیر تھے، خواجہ محمد ناصر کو خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنے لخت جگر کو اپنا مرید بنا کر بقا باللہ کا درجہ دلا دیں۔ چنانچہ ان کو خیال ہوا کہ وہ گھر میں اپنی والدہ کے پاس سو رہا ہوگا وہیں سے اس کو جگا کر لے آتا ہوں انہوں نے اپنے حجرہ کا دروازہ کھولا چونکہ اندھیرا تھا کچھ پتہ نہ لگتا تھا۔اِدھر خواجہ میر درد کی یہ حالت تھی کہ وہ حجرہ کی سیڑھی سے جدا نہ ہوتے۔ چنانچہ وہیں سو رہے تھے۔ خواجہ میر محمد ناصر صاحب نے دروازہ کھولا تو اُن کا پائوں بیٹے کے جسم پر پڑا۔ حیران ہو کر پوچھا کون سوتا ہے؟ خواجہ میر درد نے فوراً عرض کی۔ حضور مَیں ہوں۔ اور سا تھ ہی اپنے باپ کو زندہ دیکھ کر فرطِ محبت سے رونے لگے۔ خواجہ محمد ناصر صاحب نے اُن کو تسلی دی اور کہا کہ خدا نے ہم کو ایک عزت سے مشرف کیا ہے اور حجرہ میں لے جا کر سب حالات بتلا کر ان کی بیعت لے لی۔ اس طرح تیرہ سال کی عمر میں نہ صرف ظاہری علوم سے حصہ وافر حاصل کر لیا بلکہ روحانی فیض سے بھی فیض یاب ہوگئے۔
خواجہ میر درد کی دُعا کا اثر
جس روز خواجہ میر درد صاحب نے اپنے والد صاحب کی بیعت کی اُس کی صبح کو برمدہ کے نالہ میں ایک شخص آیا۔ اس کے ساتھ ایک زنانی ڈولی تھی۔ اُس نے لوگوں سے خواجہ میر درد کا گھر پوچھا۔ لوگوں کی توجہ اس طرف نہ ہوسکی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی خواجہ میر درد نہیں رہتا ایک لڑکا ۱۳،۱۴ سال کا ہے۔ اُس شخص نے کہا کہ ہاں وہی ہیں چنانچہ خواجہ محمد ناصر صاحب کے مکان کا پتہ دیا گیا۔ وہ خواجہ محمد ناصر صاحب کے مکان پر آیا اور عرض کی کہ میری بیوی سِل دق میں مبتلا ہے۔ مَیں روزانہ اس کی صحت کیلئے دعا کرتا تھا آج مجھے خواب میں کہا گیا کہ وہ خواجہ میر درد کی دعا سے اچھی ہوگی۔ چنانچہ وہ مریضہ خواجہ میر درد کی دعا سے اچھی ہوگئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دعویٰ سے قبل بہت سے ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ مثلاً لالہ ملاوامل جس کو تپ دق ہو گیا تھا وہ آپؑ کی دعا سے اچھے ہو گئے۔ ۱۷؎
اسی طرح جناب میرزا غلام قادر صاحب جو بالکل مُردہ ہوچکے تھے آپؑ کی دعا سے اچھے ہوگئے۔۱۸؎
پہلی تصنیف
حضرت خواجہ میر درد صاحب نے ۱۵ سال کی عمر میں پہلی تصنیف کی۔ یہ ایک چند اوراق کا رسالہ تھا جس کا نام اسرار الصلوٰۃ تھا۔ اس رسالہ کی لطافت اور عمدگی کا یہ عالم تھا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی اور مولانا فخر الدین صاحب چشتی نظامی دہلوی نے دیکھ کر بہت پسند فرمایا۔ اور فرمایا۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔ اس کے بعد انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جن کے حسب ذیل نام ہیں۔
رسالہ حرمت غنا، وارداتِ درد، علم الکتاب، آہِ سرد، نالہ درد، درد ِدل، شمع محفل، سوزدل۸، واقعاتِ درد، دیوانِ درد اُردو، دیوانِ درد فارسی۔ ممکن ہے اور بھی تصانیف ہوں کیونکہ ان کی بہت سی تحریریں غدر میں تلف ہو گئیں۔ اس طرح ۱۵ سال کی عمر میں انہوں نے قلم کو ہاتھ میں لیا اور ۶۸ سال کی عمر تک قلم کے ذریعے خدمتِ دین کرتے رہے۔
خواجہ میر درد کی شہرت
خواجہ میر درد کی شہرت بہت جلد دہلی میں پھیل گئی۔ چنانچہ خود بادشاہ دہلی بنفسِ نفیس برمدہ کے نالے پر تشریف لائے اور دونوں باپ بیٹے کی زیارت کی اور ان سے درخواست کی کہ آپ شاہجہان آباد میں چل کر رہئے مگر ان دونوں نے اسے منظور نہ کیا اور اسی اجاڑ جنگل میںجہاں صرف چند خال خال ہستیاں رہا کرتی تھیں رہنا پسند کیا۔ شہنشاہ اورنگ زیب کی بہو جس کا نام مہر پرور بیگم تھا خواجہ میر درد صاحب کی بہت معتقد تھی۔ اس نے بار بار خواہش ظاہر کی کہ آپ شہر چلے چلیں۔ مگر آپ ایک عرصہ تک اُسے ردّ ہی کرتے رہے اور ۱۸۳۸ء تک وہیں مقیم رہے۔
نادری قتل عام
حتیّٰ کہ وہ زمانہ بھی آ گیا جب کہ نادر شاہ ایران نے دہلی میں قتل عام کروایااُس وقت پھر شاہزادی مہر پرور بیگم نے بڑے ادب سے اپنے ایک خاص ایلچی کو بھیجا اور عرض کی کہ:
’’حضرت یوں تو سب جگہ خدا ہی حافظ و ناصر ہے مگر برمدے کا نالہ شاہجہان آباد کی شہر پناہ سے باہر ہے اور ایرانی فوجیں بے تمیز ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ حضرت کے دشمنوں کو کوئی گزند پہنچائیں اس لئے آپ مع اہل بیت کے شاہجہان آباد کے اندر چلے آئیں مَیں نے دو محل آپ کیلئے خالی کرا دیئے ہیں‘‘۔
حضرت خواجہ محمد ناصر اور خواجہ میر درد کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ:
’’جس خدا نے میدانِ کربلا میں اہلبیت کی حفاظت کی تھی وہی اب بھی اِن سیّدانیوں کے ناموس کی حفاظت کرے گا۔ یہ بھی انہیں کی ذریّت ہیں‘‘۔
اس واقعہ سے ان کی اس ایمانی قوت کا پتہ چلتا ہے جو اُن کے قلب میں موجزن تھی اور یہ کہ وہ ایک زندہ خدا پر ایمان رکھتے تھے۔ چنانچہ جیسے انہوں نے خدا پر بھروسہ رکھا تھا ویسا ہی ہوا۔ نادر شاہ نے دہلی میں قتل عام کیا اور صد ہا گھرانے زیر و زبر ہو گئے۔ مگر خدا تعالیٰ نے فرشتوں کے ہاتھوں سے ایک ایسی مضبوط دیواربرمدہ کے نالہ کے گرد کھینچوائی کہ کسی نے بھی اُدھر کا رخ نہ کیا اور یہ خاندان معجزانہ طور پر محفوظ رہا اور محفوظ کیوں نہ رہتا جب کہ وہ ابھی اُمُّ المؤمنین جیسی عظیم الشان امانت کو اپنے اندر سنبھالے ہوئے تھا جو اپنے وقت پر مہدی ؑ موعود کی طرف منتقل ہونے والی تھی۔
الغرض یہ وقت تو نکل گیا لیکن شاہزادی مہر پرور کا مطالبہ روز بروز بڑھنے لگا اور اس نے کہنا شروع کیا کہ آپ اس ویران محلہ کو چھوڑ دیجیئے۔ مہر پرور کے زور دینے پر بالآخر آپ نے دہلی کے اندر رہنا منظور کر لیا مگر ایک شرط پر کہ مَیں کسی محل میں نہیں رہوں گا بلکہ جیسے ہمارے یہ مکان ہیں ویسے ہی مکان بنوائے جائیں۔ شہزادی مہر پرور بیگم نے بخوشی اس شرط کو منظور کر لیا اور کوچہ چِیلوں میں ایک قطعہ لے کرنو مکان چھوٹے بڑے بنوائے اور ایک بارہ دری جس کا ایک بڑا صحن تھا اور ایک مسجد تیار کروائی۔ آٹھ مکانوں میں آپ کے اہل و عیال اور عزیز واقارب رہنے لگے۔ نویں حویلی حُجرہ بن گئی۔ بارہ دری میں مختلف قسم کی بزم آرائیاں ہوا کرتی تھیں اور کبھی کبھی مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔ اس واقعہ سے خواجہ میر درد کی قناعت اور درویشی پر بخوبی روشنی پڑتی ہے۔ اُن کے دل میں اگر دنیا اور جاہ طلبی کی خواہش ہوتی وہ محلات میں چلے جاتے۔ مگر انہوں نے نادری قتل عام کے وقت بھی لال قلعہ کی مضبوط دیواروں کی طرف نہ دیکھا اور مہر پرور بیگم کے مجبور کرنے پر اگر قبول کیا تو یہ کہ جیسے ہمارے فقیرانہ مکان ہیں ویسے بنوا دو۔
محمد شاہ بادشاہ
اُس وقت دہلی کے تخت پر محمد شاہ بیٹھا ہوا تھا جب اُس نے حضرت میر درد کی شہرت سنی تو اُس نے چاہا کہ آپ قلعہ میں تشریف لائیں۔ مگر اُسے معلوم ہو گیا کہ آپ بادشاہوں کی مجلس اور صحبت سے بہت دور رہتے ہیں۔ اس لئے ایک دن بغیر اطلاع دیئے ہوئے ہاتھی پر سوار ہو کر خواجہ صاحب کی بارہ دری میں تشریف لے آیا۔ مگر آپ نے بادشاہ سے کسی قسم کا تملق نہیں کیا۔ بادشاہ آپ کی زیارت سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ کوئی خدمت میرے لائق ہو تو اس سے سرفراز فرمایا جائے۔ حضرت خواجہ میر درد نے ارشاد شاہی سن کر فرمایا:
’’آپ کے لائق یہی خدمت ہے کہ اب کبھی فقیر خانہ پر تشریف نہ لائیے گا کیونکہ آپ کے آنے سے فقیر کا نفس موٹا ہوتا ہے‘‘۔
محمد شاہ اُٹھ کر خاموشی سے چلے گئے اور بارہ دری سے نکل کر کہا بیشک یہ آلِ رسول ہیں حضرت خواجہ میر درد کا یہ استغناء قابلِ رشک ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے مقام کا اظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔
آن کس کہ بتو رسد شہاں راچہ کند
حضرت خواجہ میر درد نے اپنی عُمر فاقوں میں بسر کی اور بعض اوقات کئی کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ خود ہی غیب سے سامان مہیا فرما دیا کرتا۔ خواجہ میر درد نے تمام عمر کسی امیر، وزیر اور شاہزادے کے پاس جانا پسند نہ کیا۔ ہاں اپنے والد خواجہ محمد ناصر کے مزار پر روزانہ بلا ناغہ جایا کرتے تھے۔ حتیّٰ کہ جس دن نادر شاہ دہلی تک آیا دہلی کے چاروں طرف قتل اور لوٹ کا بازار گرم تھا۔ اُس دن بھی باوجود گھر والوں کے روکنے کے آپ نادر شاہ کے سپاہیوں میں سے ہو کر گذر گئے اور اپنے معمول میں فرق نہ آنے دیا۔ وہاں آپ نے یہ رباعی پڑھی:
در کوئے تو اے مُونسِ جان می آیم
تاجان باقی ست بے گمان می آیم
گرم شام کشان کشان برندم زینجا
چون صبح شود باز ہمان می آیم
آپ اپنے زمانے کے ولی کامل تھے
آپ نے مقامِ ولایت کے متعلق خود لکھا ہے کہ:
’’برکت جامعیّتِ محمدیہ کی تمام نسبتیں فقر کی خدا تعالیٰ نے میری ذات میں جمع فرمائی ہیں اور مجھے حق و باطل میں ، فقر میں فارق بنایا ہے… اور مجھے نجابتِ طرفین اور سیادتِ والدین کی طرف سے مشرف فرمایا تا کہ مَیں محمدیہ خالص کے طریقہ کو رواج دوں اور مجھے جہان کیلئے صفی اور خلیفہ تجویز فرمایا اور آدم علیہ السلام کا مقامِ ولایت عطا کیا اور مکا یٔدِ نفس و شیطان سے نجات دی‘‘۔
پھر فرمایا:
’’مجھے حضرت دائود علیہ السلام کی ولایت کا مقام بخشا۔…… حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقامِ ولایت مجھے دیا۔ ……حضرت ابراہیم علیہ السلام کامقامِ ولایت مجھے دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مقامِ ولایت مرحمت فرمایا۔ پھر…… حضرت یوسف علیہ السلام کا بھی مقامِ ولایت عطا فرمایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقامِ ولایت بھی عنایت کیا اور پھر اس جامعیّت کا کمال اور اختتام کے لئے ولایت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف فرمایا اور محمدیت خالص کی رِدا میں مجھے چھپا لیا اور رسول پاکؐ کی ذات میں مجھے فنا کر دیا۔ پس نہ مَیں رہا اور نہ میرا نام و نشان‘‘۔
پھر فرمایا:
’’مجھے خدا تعالیٰ نے عقل کامل و نفس کامل اور روح کامل اور جسد کامل کے ساتھ مظہر اپنے تمام اسماء کا پیدا کیا تا کہ مَیں مومنین کو طریقہ خالصہ محمدیہ کی دعوت دوں‘‘۔
پھر فرمایا:
’’ ہر فرد انسان بقدرِ عقل و فہم و استعدادِ شخصی کے علومِ کلیّہ اضافیہ کو اخذ کرتا ہے اور طاقتِ بشریہ کے موافق ہر امر کا ادراک کرتا ہے اور ہر شخص واحد کو معانی اور مراد میں بہت سے اختلاف مثل اُن کی اشکال مختلفہ بایک دِگر کے لاحق ہوتے ہیں اور اس حیثیت سے فرقہ فرقہ اور گروہ گروہ جداگانہ قائم ہو جاتے ہیں اور ملّتِ واحدہ میں اگرچہ باعتبار نوعیت کے ایک ہوتے ہیں مگر صور استعدادی کے اختلاف کی وجہ سے آدمیوں اور رنگوں کی طرح اسے رنگا رنگ کر ڈالتے ہیں اور اصلی دین کو قیود اضافی میں مقید کر کے وحدت پر قائم نہیں رکھتے اور انتزاجات نفسانی کے ساتھ اسے ممتزج کر کے اسے متفرق کر دیتے ہیں اور وہ ایک مِلّت جس پر ربانی مِلّت کے عہد میں سب متفق باقی نہیں رہتے۔ اس لئے ضرور ہے، کہ ہر زمانہ میں خدا کی طرف سے ایک فرد اکمل آتا رہتا ہے تا کہ مِلّتِ حقیقی کی نوعیت اور اصلیت کو سنوارتا رہے۔ اس لئے اُمتِ محمدیہ میں ایک ولی کامل کا وقت مقررہ پر آنا جو دینِ متین کو از سرِ نو زندہ کر دیتا ہے اور اس کی تجدید ہو جاتی تھی۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے حضرت امیر المحمدیّین خواجہ محمد ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارہویں صدی کے آغاز میں اس خدمت کے لئے مامور فرمایا اور آپ نے اس دین مبین کے آفتاب کو نصف النہار میں پہنچا دیا اور محمدیہ خالصہ کے انوار سے جہان کو منور کر دیا… یہی فرقہ ناجیہ ہے۔ اسی اصل نسبت سے تعلق رکھتا ہے جو جناب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جاری تھا اور زمانہ اسے فراموش کر چکا تھا اور مَیں کہ اوّل المحمدیّین ہوں اسی نسبت خاصہ خالصہ کا دروازہ ہوں……فیاقوم لا تکونوا کالّذی فرّقوا دین اللّٰہ الذی لہ الدّین الخالص وماثلثۃ و سبعین فرقۃ واختلفوا بالاختلاف المنکرۃ المبتدعۃ۔
’’اور یہ نسبت محمدیہ الخاصہ حضرت امام موعودعلیہ السلام کی ذات پاک پر ختم ہو گئی اور تمام جہان ایک نور سے روشن ہوگا اور اس نیرِ اعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گُم ہو جائے گی‘‘۔ ۱۹؎
اس بیان کو پڑھ جانے سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کو سب انبیاء کا مقامِ ولایت دیا گیا اور بالآخر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقامِ ولایت بھی دیا گیا اور آپ کو رسول کریمؐ کی ذات سے ایک ایسی نسبت تھی کہ آپ پر ردأ محمدی ڈال دی گئی اور آپ وجودِ محمدی میں فنا ہو گئے۔
دوسرے: آپ اس حدیث کے ماتحت یاتی علی کل رأس مائۃ سنۃ من یجدّدنا دینھا۔ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد کی آمد کو تسلیم کرتے تھے۔ بلکہ بارہویں صدی کے مجدد حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو اعتقاد کرتے تھے۔
تیسرے: اور ان کا یہی اعتقاد تھا کہ جو لوگ وقت کے مجدد کو نہیں مانتے وہ ناجی نہیں ہیں جیسے کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ من لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ الجاھلیّۃ۔
چوتھے: اُن کا یہ مذہب تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ ایک نیرِّ اعظم ہیں جن کی آمد پر سب فرقوں کی روشنی گُم ہو جائے گی اور یہ نسبت محمدیہ الخاصہ بھی ختم ہو جائے گی۔
یہ وہ اعتقادات ہیں جو بالکل سلسلہ احمدیہ کے ساتھ ملتے جلتے ہیں۔ آج ہم بھی اس امر کو مانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اُمت محمدیہ میں فیض کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہیں اور ولایت ہی کا نہیںبلکہ نبوت کا مقام بھی آپؐ کی برکت اور فیض سے حاصل ہو سکتا ہے۔ جب حضرت خواجہ میر درد کو تمام انبیاء کا مقامِ ولایت حاصل تھا جو آسمانِ مجددیت پر ایک ستارہ تھا۔ اس نیرِ اعظم کو جسے وہ خود نیرِ اعظم کہتے ہیں جس میں سب ستاروں کی روشنی گم ہونے والی تھی کیا کہا جائے گا؟ کیا اس کے لئے نبوت کے سوا اور کوئی مقام باقی رہ جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی اس مسئلہ کو حل فرما دیا۔
غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے
وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار
مَیں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
اک شجر ہوں جس کو دائودی صفت کے پھل لگے
مَیں ہوا دائود اور جالوت ہے میرا شکار
پر مسیحا بن کے مَیں بھی دیکھتا روئے صلیب
گر نہ ہوتا نام احمدؐ جس پہ میرا سب مدار
سر سے میرے پائوں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کرکے مجھ پہ وار ۲۰؎
اس مسئلہ پر حضرت مسیح موعود علیہالسلام نے بہت بڑی روشنی اپنی کتب میں ڈالی ہے۔ مگر افسوس! کہ کاغذ کی نایابی اور حصولِ اشیاء کی دِقت مجھے مجبور کرتی ہے کہ مَیں اس موضوع پر زیادہ نہ لکھوں۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سارے انبیاء کا مقامِ نبوت عطا کیا گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں آپؑ کو جری اللہ فی حلل الانبیاء کا خطاب دیا اور اپنی وحی میں آپ کو شمس و قمر بھی فرمایا جو حضرت خواجہ میر درد رضی اللہ عنہ کو نیرِّ اعظم دکھایا گیا۔
حضرت خواجہ میر درد فنافی الرسول کے مقام پر اپنے آپ کو بیان کرتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے دونوں مقاموں پر فائز تھے۔ آپؑ اپنی محبت رسول کا ذکر اپنی کتابوں میں صدہا جگہ فرما چکے ہیں۔ مگر مختصر طور پر آپؑ فرماتے ہیں:
بعد از خدا بعشقِ محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
……
نقشِ ہستی تیری اُلفت سے مٹایا ہم نے
اپنا ہر ذرہ تری راہ میں اُڑایا ہم نے
……
دلبرا مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی
آپ کو تیری محبت میںبُھلایا ہم نے
……
بخدا دل سے مرے مٹ گئے سب غیروں کے نقش
جب سے دل میں یہ تیرا نقش جمایا ہم نے
دیکھ کر تجھ کو عجب نور کا جلوہ دیکھا
نور سے تیرے شیاطیں کو جلایا ہم نے
اس طرح بہت سا کلام آپؑ کے عربی، فارسی، اُردو اشعار میں اور اس کے علاوہ عربی، اُردو، فارسی نثر میں موجود ہے۔ جس سے اس عشق و محبت کا پتہ چلتا ہے۔ جو آپؑ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا اور اس خصوص میں آپؑ کا مقام اس قدر بلند ہوا کہ آپؑ کامل طور پر بروز محمدہوگئے اور خدا سے علم پا کر آپ نے فرمایا۔’’من فرّق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وما اری‘‘ یعنی اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی ؐمیں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا۔ ۲۱؎
آپ فنا فی اللہ کے مقام پر
آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’مَیں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ مَیں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں اور میرا اپنا کوئی ارادہ اور کوئی خیال اور کوئی عمل نہیں رہا اور مَیں ایک سوراخ دار برتن کی طرح ہو گیا ہوں یا اس شے کی طرح جسے کسی دوسری شے نے اپنی بغل میں دبا لیا ہو اور اسے اپنے اندر بالکل مخفی کر لیا ہو۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہ گیا ہو۔ اس اثناء میں مَیں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی روح مجھ پر محیط ہوگئی اور میرے جسم پر مستولی ہو کر اپنے وجود میں مجھے پنہاں کر لیا۔ یہاں تک میرا کوئی ذرّہ بھی باقی نہ رہا۔ اور مَیں نے اپنے جسم کو دیکھا تو میرے اعضاء اس کے اعضاء اور میری آنکھ اس کی آنکھ اور میرے کان اس کے کان، اور میری زبان اس کی زبان بن گئی تھی۔ میرے رب نے مجھے پکڑا اور ایسا پکڑا۔ کہ مَیں بالکل اس میں محو ہو گیا اور مَیں نے دیکھا کہ اس کی قدرت اور قوت مجھ میں جوش مارتی ہے۔ اور اس کی الوہیت مجھ میں موجزن ہے۔ حضرتِ عزت کے خیمے میرے دل کے چاروں طرف لگائے گئے۔ اور سلطان جبروت نے میرے نفس کو پیس ڈالا۔ سو نہ تو مَیں ہی رہا اور نہ میری کوئی تمنا ہی باقی رہی۔ میری اپنی عمارت گِر گئی اور رب العالمین کی عمارت نظر آنے لگی اور الوہیت بڑے زور کے ساتھ مجھ پر غالب ہوئی اور مَیں سر کے بالوں سے ناخن پا تک اس کی طرف کھینچا گیا۔ پھر میں ہمہ مغز ہو گیا جس میں کوئی پوست نہ تھا اور ایسا تیل بن گیا جس میں کوئی مَیل نہیں تھی اور مجھ میں اور میرے نفس میں جدائی ڈال دی گئی۔ پس مَیں اُس شے کی طرح ہو گیا جو نظر نہیں آتی۔ یا اس قطرہ کی طرح جو دریا میں جا ملے اور دریا اس کو اپنی چادر کے نیچے چھپا لے۔ اس حالت میں مَیں نہیں جانتا تھا۔ کہ اس سے پہلے مَیں کیا تھا اور میرا وجود کیا تھا۔ الوہیّت میری رگوں اور پٹھوں میں سرایت کر گئی۔ اور مَیںبالکل اپنے آپ سے کھویا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے میرے سب اعضاء اپنے کام میں لگائے۔ اور اس زور سے اپنے قبضہ میں کر لیا کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ چنانچہ اس کی گرفت سے مَیں بالکل معدوم ہو گیا اور مَیں اس وقت یقین کرتا تھا کہ میرے اعضاء میرے نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے اعضاء ہیں اور مَیں خیال کرتاتھا کہ مَیں اپنے سارے وجود سے معدوم اور اپنی ہویّت سے قطعًا نکل چکا ہوں اب کوئی شریک اور منازع روک کرنے والا نہیں رہا۔ خدا تعالیٰ میرے وجود میں داخل ہو گیا اور میرا غضب اور حلم اور تلخی اور شیرینی اور حرکت اور سکون سب اسی کا ہو گیا۔ اور اس حالت میں مَیں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو مَیں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی۔ پھر مَیں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب اور تفریق کی۔ اور مَیں دیکھتا تھا کہ مَیں اُس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر مَیں نے آسمانِ دنیا کو پیدا کیا اور کہا کہ اِنَّا زَیّنَا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ پھر مَیں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔ پھر میری حالتِ کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی اور میری زبان پر جاری ہوا۔ اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلَفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم‘‘۲۲؎
اس کشف کی عظمت سے معلوم ہوتا ہے کہ کس مقام پر حضرت مسیح موعود ؑ فائز تھے اور کتنا فرق تھا اُس ستارہ میں اور اِس نیرِّ اعظم میں۔ خدا تعالیٰ نے خود آپؑ کی وحی میں بھی آپؑ کا نام یاشمس یا قمر بھی رکھا۔ یعنی نیرِّ اعظم ۔ اور یہ بھی فرمایا۔ انت منی بمنزلۃِ توحیدی و تفریدی۔ ۲۳؎
مسئلہ کفر اسلام
حضرت خواجہ میر درد صاحب نے اس فرقہ کو جو مجدّدِ وقت کو مانے، ناجی فرقہ قرار دیا ہے اور حدیث نبوی بھی یہی کہتی ہے۔ من لم یعرف امام زمانہ فقدمات میتۃ الجاھلیّۃ اس ایک بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو اس نیرِّ اعظم کا انکار کرے گا اس کا ناجی ہونا کیسے یقین کیا جا سکتا ہے؟
حضرت خواجہ میردرد صاحب فرماتے ہیں:
’’درویشی فقط قُربِ الٰہی کا نام ہے اور فقیری شعبدہ بازی اور بھنڈیلہ پن کا نام۔‘‘
وہ تمام ان امور کو جو شریعت کے خلاف تھے ناجائز قرار دیتے تھے۔ حضرت خواجہ میردرد کو موسیقی میں کمال دستگاہ حاصل تھی۔ ان کے پاس بڑے بڑے موسیقار جمع ہوا کرتے تھے۔ اس زمانہ کا مشہور موسیقار فیروز خان آپ کے فنِ موسیقی کا بڑا مداح تھا۔ ہر ماہ کی دوسری تاریخ کو بارہ دری میں خواجہ محمد ناصر صاحب کی یاد میں محفلِ موسیقی ہوا کرتی تھی اور اس کا بڑا شاندار انتظام کیا جاتا تھا۔ ہزارہا لوگوں کا مجمع ہو جاتا۔ خواجہ میردرد بھی تشریف لے آتے۔آپ کی مجلس میں سب لوگ دوزانو ہو کر بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ شاہ عالم بادشاہ دہلی آپ کی مجلس میں آئے اور دوزانونہ بیٹھے آپ نے بادشاہ سے کہا کہ اگر آپ فقیروں کی محفل میں آیا کریں تو دوزانو ہو کر بیٹھا کریں۔ بادشاہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آج میرے پاؤں میں درد تھا اس وجہ سے بیٹھ نہ سکا۔اس سے اس جرأت اور شجاعت کا پتہ لگتا ہے جو حضرت میر درد میں تھی اور یہ شرفِ سعادت اس خاندان میں چلی آئی۔ حضرت میرناصر نواب رضی اللہ عنہ کی جرأت و صاف گوئی مشہور اور زبان زد ہے۔ وہ حق گو تھے اور اِس کے کہنے میں دلیر۔
آپ کا مقولہ تھا کہ میں نغمہ و سرود کو عالموں فاضلوں کی طرح سنتا ہوں۔ جو علم ریاضی و طبیعی پڑھتے پڑھاتے ہیں اور اس کے دقائق کو خوب جانتے ہیں مگر حکماء کی طرح اس کا اعتقاد نہیں رکھتے اسی طرح میں بھی موسیقی کے ساتھ تو غسل کیا کرتا ہوں کیونکہ موسیقی ریاضی کی ایک پُرمیوہ شاخ ہے۔ وہ اسے علمی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ نہ کہ ذریعہ حظِّ نفس۔ پھر فرمایا:
’’میں نے نہ آج تک اپنے کسی مرید کو راگ سننے کی اجازت دی نہ اپنی اولاد کو کیونکہ جو چیز ہماری شریعت میں ممنوع اور ہمارے طریقہ میں مکروہ ہو اس کیلئے میں کب کسی کو اجازت دے سکتا ہوں۔ میں اپنے تئیں گناہگار جانتا ہوں اور ہمیشہ اسی دھیان میں ہوں کہ راگ سننے سے توبہ کروں جو لوگ راگ نہیں سنتے ہیں میں انہیں اپنے سے اچھا جانتا ہوں۔‘‘۲۴؎
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو کبھی موسیقی نہیں سنی۔ البتہ آپؑ کی مجلس میں کبھی کبھی کوئی شاعر اپنے اشعار خوش گلوئی سے سنا دیتا تھا۔ آپؑ کے ایک مرید شیخ محمد اسمٰعیل صاحب سرساوی جو صوفیانہ طرز کے آدمی ہیں کی ایک روایت ہے کہ میں چونکہ قوالی سن لیا کرتا تھا ایک دفعہ حضو ؑر نے مجھے فرمایا۔ میاں اسمٰعیل! قوالی کی لذت کتنی دیر رہتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور کچھ بھی نہیں جب تک سنتے رہو۔ فرمایا۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ لذت ہو جو ہمیشہ قائم رہے۔ اس طرح حضو ؑر نے موسیقی کی اس کمی کا اظہار فرمایا جسے صوفی کمال سمجھ رہے تھے۔
اُردو علم ادب پر آپ کا احسان
حضرت خواجہ میر درد کو عربی،اُردو، فارسی میں کامل دستگاہ تھی۔ اُردو زبان پر آپ کا بڑا احسان تھا کہ آپ نے اس زبان کو صاف کیا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’اے اُردو گھبرانا نہیں تو فقیروں کا لگایا ہوا پودا ہے خوب پھلے پھولے گی۔ تو پروان چڑھے گی۔ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن حدیث تیری آغوش میں آ کر آرام کریں گے۔ بادشاہی قانون اور حکیموں کی طباعت تجھ میں آ جائے گی اور تو سارے ہندوستان کی زبان مانی جائے گی۔‘‘ ۲۵؎
یہ ایک پیشگوئی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں پوری ہوئی جبکہ قرآن و حدیث نے آ کر آرام حاصل کیا۔
بارہ دری میں مہینہ میں ایک دو دفعہ مشاعرہ ضرور ہو جایا کرتا تھا۔ میر حسن دہلوی، جھمن لال، شاہ محمدی، شیخ محمد قیام، حکیم ثناء اللہ خان، لطیف علی، میرزا اسمٰعیل، شیخ محمد بقا، محمد پناہ خان، لالہ مکند لال، میرزا محمد جان، لالہ نرائین داس، علی نقی وغیرہ شاعری میں اُن کے شاگرد تھے۔
وفات
حضرت خواجہ میردرد صاحب اپنی پیشگوئی کے مطابق ۱۱۹۹ہجری میں صفر ۲۴ کو صبح صادق کے وقت ۶۸ برس کی عمر میں عالم قدسی کی طرف رحلت فرما گئے۔ آپ کو آپ کے والد کے داہنے پہلو میں دفن کیا گیا۔
آپ کی اولاد
آپ کا ایک ہی فرزند تھا جس کا نام خواجہ صاحب میر اور لقب ضیاء الناصر اور المؔ تخلص تھا اور آپ کی دوصاحبزادیاں تھیں۔ ایک براتی بیگم صاحبہ تھیں اور دوسری زینت النساء بیگم صاحبہ تھیں۔
خواجہ میر درد صاحب کی وفات کے بعد ان کے بھائی خواجہ ظہورالناصر سیّد میر اثر صاحب ان کے خلیفہ اور جانشین ہوئے اور صفر ۱۲۰۹ہجری میں وفات پائی۔
ان کی ایک ہی دختر تھیں جس کا نام بیگما جان تھا۔ جس کی شادی نواب سیّد اسد اللہ خان بن نواب سیّد جعفر علی خان صاحب سے ہوئی تھی۔ ان کی وفات کے بعد خواجہ سیّد ضیاء النّاصر المعروف بہ سیّد صاحب میر۔ متخلص بہ المؔ آپ کے خلیفہ ہوئے۔ آپ کی وفات ۲۱ جمادی ا لآخر ۱۲۱۵ہجری کو ہوئی۔ خواجہ میردرد صاحب کے پائیں میں دفن ہوئے۔
ان کی اولاد
ان کے ایک صاحبزادے میر محمد بخش نام اور ایک صاحبزادی بی امانی بیگم تھیں۔
میرمحمد بخش
میر محمد بخش صاحب جو حضرت خواجہ میر درد کے پوتے تھے۔ بڑینچ نامی جگہ میں کمپنی کی حکومت کی طرف سے حاکم تھے۔ ان کے پاس ایک نوکر تھا جس نے چوری کی اور گرفتا ر ہوا اسے خیال تھا کہ میرا مالک میری مدد کرے گا مگر آپ نے فرمایا کہ میں چور کا حامی نہیں ہوں اسے سزا ہو گئی وہ قید سے جب آزاد ہوا اس نے آپ کو آپ ہی کی تلوار سے سوتے میں قتل کر دیا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر کل تیس برس کی تھی۔ ان کی لاش دہلی لائی گی اور خاندانی قبرستان میں دفن ہوئی۔
امانی بیگم صاحبہ
امانی بیگم صاحبہ خواجہ صاحب میر کی بیٹی تھیں مگر ان کی والدہ میر محمد بخش صاحب کی والدہ نہ تھیں بلکہ بی عزت النساء صاحبہ جو اُمّ سلمہ کر کے مشہور تھیں اور خواجہ صاحب میر صاحب کی دوسری بیوی تھیں کے بطن سے تھیں۔اٹھوانسی پیدا ہوئی تھیں مگر لمبی عمر پائی۔ ۱۲۰۳ ہجری کو پیدا ہوئیں اور ۱۲۷۲ہجری میں ۱۱ربیع الاوّل کو وفات پائی۔
خواجہ محمد نصیر صاحب
خواجہ میر درد کے بعد ان کے بھائی صاحب ان کے جانشین ہوئے پھر خواجہ میردرد کے بیٹے جانشین ہوئے۔خواجہ میردرد کے پوتے میر محمد بخش صاحب اپنے باپ کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے اس کے بعد ان کے ہاں اولاد نرینہ نہ ہوئی اور نہ میرمحمد بخش صاحب ہی کی کوئی اولاد تھی۔ اس لئے خلافت کا مسئلہ کچھ الجھن میں پڑ گیا مگر اس کا حل یہ پیدا ہوا کہ خلافت خواجہ میر درد صاحب کی لڑکی کی اولاد میں منتقل کی جائے چنانچہ خواجہ صاحب کی دو لڑکیاں تھیں بڑی کا نام براتی بیگم تھا جن کی شادی مولوی عبدالحی صاحب سے ہوئی تھی جو خواجہ میردرد صاحب کے چچازاد بھائی تھے۔ مولوی عبدالحی صاحب کلکتہ میں سرکار کمپنی کے مجلس واضع قوانین کے رُکن تھے۔ بڑی آمدنی تھی۔ آپ نے بنارس کے قریب ایک تعلقہ بھی خریدا تھا۔
ناصری گنج
ایک قصبہ خواجہ محمد ناصر صاحب کی یادگار کے طور پر آباد کیا تھا جس کا نام ناصری گنج رکھا۔ جب تک وہ زندہ رہے اپنی بیوی کو ایک ہزار روپیہ ماہانہ بھیجا کرتے تھے وہ ایک ہی دن میں اسے بانٹ کر ختم کر دیتیں۔ چاندی کے روپے تقسیم کرتے کرتے ہاتھ کالے ہو جاتے تو آپ فرماتیں:
’’خدا اس سفید ڈائن کی محبت کسی مسلمان کو نہ دے۔ جس طرح اس کے چھونے سے ہاتھ کالے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اس کی محبت سے آدمی کا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔‘‘
مولوی عبدالحی صاحب لا ولد فوت ہو گئے۔ ناصری گنج کا علاقہ از روئے وصیت اپنے ورثاء میں تقسیم کر گئے۔ جس میں سے اب تک ایک گاؤں کا بڑا حصہ حضرت میرناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کے پاس موجود ہے اور کچھ تھوڑا سا بِک بھی گیا ہے۔
زینت النساء بیگم
زینت النساء بیگم دوسری صاحبزادی کی شادی میرکلّو صاحب سے ہوئی تھی۔ جو میرنعمان بدخشانی کی اولاد میں سے تھے۔ میرنعمان صاحب بڑے مرتبہ کے درویش تھے۔ ان کا ذکر شیخ عبدالقدوس صاحب گنگوہی چشتی صابری کے مکتوبات میں بکثرت ملتا ہے۔ ان کا مقبرہ بھی آگرہ میں اب تک موجود ہے۔ خواجہ شاہ محمد نصیر صاحب زینت النساء بنت خواجہ میردرد رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے تھے۔ ۱۱۹۹ ہجری میں پیدا ہوئے تھے خواجہ محمد نصیر صاحب اپنے ماموں کے لاولد رہ جانے کی وجہ سے خلیفہ بنائے گئے۔ خواجہ محمد نصیر صاحب بھی شاعر تھے اور رنج تخلص کیا کرتے تھے۔
خواجہ رنج صاحب کو بھی فنِ موسیقی میں بڑا کمال حاصل تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ہمت خان گویّا جو دہلی کا ممتاز ترین گویہ تھا اپنا گانا بغرض اصلاح حضرت رنج کو سنایا کرتا تھا۔
خواجہ محمد نصیر صاحب نے خواجہ میردرد صاحب کے خاندان کے مفصل حالات پر ایک کتاب لکھی تھی جو افسوس ہے غدر ۱۸۵۷ء میں تلف ہو گئی۔
خواجہ محمد نصیر کی وفات ۲ شوال کو ۱۲۶۱ ہجری میں ہوئی۔ ان کی وفات پر مومن خان نے یہ تاریخ لکھی۔
شیخِ زمان شد ز دہر روزپئے سال وفات
فکر بلندم رہ جنت ماویٰ گرفت
گفت بمومن ملک خواجہ محمد نصیر
در قدم ناصر و درد نِکوجا گرفت
ان کی عمر بہتر۷۲ سال کی ہوئی۔ آپ خواجہ صاحب میر اپنے ماموں کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ان کے اشعار میں سے ایک شعر بطور نمونہ درج کرتا ہوں۔
خط دیکھ کر ادھر تو میرا دم اُلٹ گیا
قاصد ادھر بدیدہ پرنم اُلٹ گیا
خواجہ سیّد محمد نصیر صاحب کی اولاد
آپ کی دو بیویاں تھیں پہلی بیوی سے ایک لڑکا خواجہ سیّد ناصر جان اور دختر بی نصیرہ بیگم صاحبہ دو ہی اولادیں ہوئیں۔ دوسری بیوی سے دو صاحبزادیاں پیدا ہوئیں ایک کا نام اشرف النساء بیگم صاحبہ اور دوسری کا انجمن النساء بیگم صاحبہ تھا ۔
خواجہ سیّد ناصر جان
خواجہ سیّد ناصر جان جو آپ کے صاحبزادے تھے کی شادی خواجہ میر درد صاحب کی پوتی امانی بیگم صاحبہ سے ہوئی تھی۔ میر ناصر جان بھی شاعر تھے اور اپنا تخلص محزون ؔ کرتے تھے۔ آپ کو فنِ ریاضی میں بڑا کمال حاصل تھا۔ یہ علم آپ نے نواب فرید الدین احمد خان صاحب ہمدانی دہلوی سے حاصل کیاتھا۔ آپ اسی فن ریاضی کی وجہ سے سرکار کمپنی کے بعض حکام کی نظروں میں بہت معزز تھے اور انہوں نے آپ کو گڑینی میں منصف مقرر کرا دیا تھا۔ جہاں وہ ۱۳ جنوری ۱۸۴۶ء مطابق ۲رمضان ۱۲۴۹ھ میں فوت ہو گئے۔
ان کا خیال تھا کہ میں اپنے بزرگوں کی سب کتابیں خود شائع کروں گا چنانچہ آپ نے اس غرض کے لئے ایک مطبع بھی خرید لیا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی۔ ان کی شاعری کے نمونہ کے لئے ایک شعر یہاں درج کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
نہ تو نامہ ہی نہ پیغام زبانی آیا
حیف محزونؔ تجھے یارانِ وطن بھول گئے۔
آپ کی لاش وہاں سے دہلی لائی گئی اور خاندانی قبرستان میں دفن کی گئی۔
صاحبزادی بی نصیرہ بیگم صاحبہ
صاحبزادی بی نصیرہ بیگم صاحبہ کی شادی نواب خان دوران خان صاحب کے پوتے میرہاشم علی صاحب کے ساتھ ہوئی جو ایک صحیح النسب سیّد تھے۔
خواجہ میر ناصر امیر صاحب
ان کے بطن سے ایک صاحبزادے خواجہ ناصر امیر صاحب پیدا ہوئے اور ایک دختر فرحت النساء بیگم پیدا ہوئیں۔ میر ناصر امیر صاحب کی شادی میربھکاری صاحب کی دختر بلند اختر سے ہوئی۔ جن کا نام سعیدہ بیگم صاحبہ تھا۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادہ پیدا ہوئے۔ جن کا نام سیّد ناصر وزیر تھا۔ خواجہ ناصر امیر صاحب نے ایک اور شادی بھی کی تھی جو میر شفیع احمد صاحب ساکن فراشخانہ کی دختر بلند اختر سے ہوئی۔ ان محترمہ کا نام بی بی روشن آراء بیگم صاحبہ تھا۔ ان کے بطن سے وہ عظیم الشان بزرگ پیدا ہوا جو اس مقدس امانت کو جو بخارا سے لائی گئی تھی۔ اپنی صُلب میں اٹھائے ہوئے تھا اور سلسلہ بسلسلہ یہ امانت منتقل ہوتی آئی تھی اور انقلاب آفرین زمانہ میں شاید خدا نے اس کے طفیل سے اس خاندان کو محفوظ رکھا۔ یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،آپ کی دو ہمشیرگان بھی تھیں۔ جن کے نام رفعت النساء بیگم صاحبہ اور انجمن آراء بیگم صاحبہ تھے۔ پہلی کی شادی قصبہ جلیسر میں پیرجی بشیرالدین صاحب سے ہوئی اور دوسری کی شادی مولوی محمد یوسف صاحب ولد مولوی عبدالقیوم صاحب دہلوی سے ہوئی جو شاہ اسحاق صاحب محدث دہلوی کے نواسے تھے اور بھوپال میں رہتے تھے۔
سیّد محمد نصیر کی وفات کے بعد پھر خلافت کا مسئلہ اٹھا کیونکہ ان کے بیٹے تو پہلے ہی فوت ہو چکے تھے اس لئے مشورہ کے بعد یہ قرار پایا کہ بی امانی بیگم سے پوچھا جائے جو خواجہ میر درد صاحب کی پوتی تھیں۔ تما م مشایخ ڈیوڑھی پر جمع ہوئے اور یہ سوال کیا۔ آپ نے فرمایا:
’’جس رتبہ کے بزرگ خواجہ میردرد صاحب اور میراثر صاحب اور میرے والد خواجہ صاحب میر تھے۔ ویسا تو اب خاندان میں کوئی نظر نہیں آتا۔ اگر تھے تو میرے شوہر مولوی ناصر جان مگر وہ رحلت فرما چکے ہیں۔ اب رسمی سجادہ نشین باقی رہ گئے ہیں۔ وہ میں اپنے داماد کو دلوانی نہیں چاہتی۔ میرے نزدیک میاں ناصر امیر خواجہ محمد نصیر صاحب کے نواسہ گدی پر بٹھا دیئے جائیں۔‘‘
چنانچہ بی امانی بیگم کے اِس ارشاد کو سب نے قبول کیا اور خواجہ ناصر امیر خلیفہ منتخب ہو گئے اور یہاں سے خلافت اور درویشی اور طریقہ محمدیہ کا سلسلہ منتقل ہو کر بالکل ایک دوسرے خاندان میں آ گیا جو ماں کی طرف سے حضرت خواجہ میردرد کا خاندان تھا اور باپ کی طرف سے نواب خانِ دوران کا خاندان تھا۔
حضرت خواجہ میر درد کی پوتی بی امانی بیگم کا ارشاد قابل غور ہے کہ انہوں نے کس اخلاص سے امرِ خلافت کا فیصلہ فرمایا اور جو حقدار تھا اسی کا نام لیا یعنی جس میںاہلیت تھی اور یہ منشاء الٰہی کے ماتحت ہوا کیونکہ آخر یہ خلافت محمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں ختم ہو جانے والی تھی اس کا ظہور ابتدائی اس رنگ میںہوا۔ پہلا انتقالِ خلافتِ محمدیہ باپ کے سلسلہ میں منقطع ہو کر بیٹی کے خاندان میں چلا گیا اور حضرت ناصر امیر پر ختم ہو گیا اس سلسلہ میں وہی آخری خلیفہ تھے۔
اس لئے قبل اس کے کہ ہم نواب خانِ دوران کے خاندان کا ذکر کریں ہم خواجہ میردرد کے خاندان کے ذکر کو ختم کر دیتے ہیں اور مختصر سا شجرہ نسب شامل کر دیتے ہیں تاکہ یکجائی طور پر نظر ڈالی جا سکے۔
اگرچہ ایک رنگ کی خلافت بعد میں بھی جاری رہی اور ہے مگر یہ صرف عرس وغیرہ کرانے کے لئے ہے چنانچہ خواجہ ناصر امیر کے بعد ان کے بیٹے ناصر وزیر خلیفہ ہوئے اور اب بھی ناصر عزیز خلیفہ ہیں۔
ء…ء…ء
شجرہ نسب حضرت خواجہ میر درد صاحب
و حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب
نمبر۱
۱
خواجہ میر درد
بن
۲
خواجہ محمد ناصر
بن
۳
نواب روشن الدولہ
بن
۴
خواجہ فتح اللہ خان
بن
۵
خواجہ محمد طاہر
بن
۶
خواجہ عوض بخاری
بن
خواجہ سلطان احمد
بن
۸
خواجہ میرک
بن
۹
سلطان احمد ثانی
بن
۱۰
خواجہ قاسم
بن
۱۱
خواجہ شعبان
بن
۱۲
خواجہ عبداللہ
بن
۱۳
خواجہ زین العابدین
بن
۱۴
حضرت بہائوالدین نقشبند
بن
۱۵
خواجہ عبداللہ بخاری
بن
۱۶
خواجہ جلال الدین بخاری
بن
۱۷
سید کمال الدین بخاری
بن
۱۸
سید حسین ملقب بہ محبوب
بن
۱۹
سید حسین اکبر
بن
۲۰
سید عبداللہ
بن
۲۱
سید فخر الدین
بن
۲۲
سید یلاق
بن
۲۳
سید محمود اعلیٰ
بن
۲۴
سید حسین مقبول
بن
۲۵
سید حسین محمد تقی
بن
۲۶
سید حسین محمدنقی
بن
۲۷
سید عبداللہ
بن
۲۸
سید جامع
بن
۲۹
سید علی اکبر
بن
۳۰
امام حسن عسکری
بن
۳۱
امام علی تقیؓ
بن
۳۲
امام علی نقیؓ
بن
۳۳
امام موسیٰ رضا
بن
۳۴
امام موسیٰ کاظم
بن
۳۵
امام جعفرؓ
بن
۳۶
امام باقرؓ
بن
۳۷
امام زین العابدین
بن
۳۸
امام حسینؓ
بن
۳۹
حضرت علیؓ
بن
۴۰
ابوطالبؓ
اس طرح انتالیسویں پشت میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ یہ شجرہ تفصیلات کا حامل نہیں ہے۔
شجرہ نمبر۲
حضرت خواجہ محمد ناصر عندلیب
نوٹ: حضرت میر ناصر نواب صاحب سے جو نسل چلی اس کا نقشہ دوسری جگہ دیا جائے گا۔
توضیح
۱۔ بی بی زینت النساء بیگم صاحبہ جو حضرت خواجہ میردرد کی دوسری بیٹی تھیں وہ شاہ محمد نصیر کی والدہ تھیں اور شاہ محمد نصیر کے نواسہ ناصر امیر تھے جن کے دو بیٹے ہوئے ایک ناصر وزیر اور دوسرے حضرت میرناصر نواب صاحب جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خسر اور آپؑ کی اولاد کے نانا ہونے کا فخر حاصل ہوا اور جن کے وجود باجود کے ذریعہ حضرت اُمُّ المؤمنین علیھا السلام کا وجود دنیا میں ظہور پذیر ہوا اور جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں خُدَیْجَتِیْ فرمایا اور آپ کو نعمت عظمیٰ قرار دیا جس کی تصریحات اپنے مقام پر آئیں گی۔
۲۔ خواجہ میردرد کا جو خاندان کہلاتا ہے وہ ان کی بیٹیوں سے ہی چلا ہے کیونکہ خواجہ میر درد کے بیٹے ضیاء الناصر سے کوئی نرینہ اولاد نہیں چلی۔
۳۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کے دُدھیال کے خاندان کا جو شجرہ ہم کو دستیاب ہو سکا وہ نواب خانِ دورانِ خان منصور جنگ سے شروع ہوتا ہے اوپر مورثانِ اعلیٰ حضرت علاؤ الدین عطارؒ نقشبندی ہیں۔
۴۔ نواب خانِ دوران منصور جنگ کے ناناعزیز میرزا گوکلتاش تھے جو افواجِ مغلیّہ میں شاہنشاہ اکبر کے زمانہ سے افواج مغلیّہ کے کمانڈرانچیف تھے اور ان کو خانِ زمان کا خطاب بھی تھا اور تاریخ ہند میں ان کے ذکر سے صفحات کے صفحات پُر ہیں۔
۵۔ نواب خانِ زمان کے چھوٹے بھائی نواب اعظم خان تھے جو خود بھی افواج مغلیّہ کے ارکان حرب میں سے تھے اور تاریخ ان کے ذکر کو بھی محفوظ رکھنے پر مجبور ہے۔
۶۔ نواب خانِ دوران کے دو بھائی تھے۔ ایک کا نام مظفر خان تھا۔ جو صوبہ دار گجرات بھی رہ چکے تھے۔ اور بعد میں افسر بارودخانہ مقرر ہو گئے تھے۔ ان کے عہدہ کا نام میرآتش تھا۔ دوسرے بھائی خواجہ جعفر تھے جو درویشی کے رنگ میں تھے۔ تاریخ ہند مصنفہ مولوی ذکاء اللہ صاحب میں ان کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
۷۔ نواب خانِ دوران کے زمانہ میں ارکان حرب حسب ذیل تھے۔
الف ۔ صمصام الدّولہ امیرالامراء نواب خانِ دَوران۔ منصور جنگ بخشی اوّل
ب۔ نواب اعتماد الدّولہ معزالدین خان۔ بخشی دوم
ج۔ نواب روشن الدّولہ رستم جنگ۔ بخشی سوم
د۔ سیّد صلابت خان۔ بخشی چہارم
حوالہ جات
۱؎ حیات النبی حصہ اوّل صفحہ۷۲،۷۳
۲؎ بیانِ واقع
۳؎ تذکرہ صفحہ ۲۱،۲۲ بحوالہ براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۰۳ حاشیہ در حاشیہ
۴؎ تذکرہ صفحہ ۲۲،۲۳ کتاب البریہ صفحہ ۱۶۴تا ۱۶۷
۵؎ تذکرہ صفحہ۷۶،۷۷ و براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ۵۰۲،۵۰۳
۶؎ میخانہ درد صفحہ۱۲۸
۷؎ میخانہ دردصفحہ ۱۲۸
۸؎ نالہ عندلیب صفحہ۲
۹؎ آب حیات صفحہ۸۸
۱۰؎ آب حیات صفحہ۹۳
۱۱؎ حاشیہ آب حیات صفحہ۹۰
۱۲؎ نالہ عندلیب صفحہ۳
۱۳؎ نالہ عندلیب صفحہ۶
۱۴؎ نالہ عندلیب صفحہ۶،۷
۱۵؎ میخانہ درد صفحہ ۹۲
۱۶؎ دیکھو تذکرہ شعرائے ہند مصنفہ میر حسن دہلوی (مصنفہ مولوی حبیب الرحمن شروانی انجمن ترقی اردو
۱۷؎ تذکرہ صفحہ۳۸
۱۸؎ تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ۷
۱۹؎ میخانہ درد صفحہ ۱۲۵ تا صفحہ۱۲۸
۲۰؎ درثمین
۲۱؎ خطبہ الہامیہ صفحہ۱۷۱
۲۲؎ تذکرہ صفحہ۱۹۴ و صفحہ۱۹۶ و آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ۵۶۴ تا ۵۶۶
۲۳؎ تذکرہ صفحہ۶۴
۲۴؎ میخانہ درد صفحہ۱۵۰
۲۵؎ میخانہ درد صفحہ ۱۵۳
امیر الامراء صمصام الدّولہ نواب خانِ دَوران بہادر میر بخشی منصور جنگ کمانڈرانچیف افواج مغلیّہ
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کا جدّی خاندان
اس وقت تک ہم نے حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ننھیال کے خاندان کا ذکر کیا تھا اب ہم آپ کے ددھیال کا مختصر ذکر کریں گے۔
نواب خانِ دَوران
حضرت میر ناصرنواب صاحب کے جدی بزرگوں کا سلسلہ خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ اس سلسلہ کی درمیانی کڑیوں کی مَیں تلاش نہیں کر سکا۔ مگر اس سلسلہ میں سب سے قریب کے زمانے میں جس نامور بزرگ کا پتہ چلتا ہے وہ نواب خانِ دَوران ہیں۔ نواب خانِ دَوران کا اصلی نام خواجہ محمد عاصم تھا اور ان کے والد کا نام خواجہ محمد قاسم تھا مگر تاریخ ہند مصنفہ مولوی ذکاء اللہ صاحب جلد دہم مطبوعہ ۱۸۹۸ء کے صفحہ ۹۵ پر ان کا اصلی نام خواجہ حسن خان لکھا ہے مگر میرا خیال ہے کہ خواجہ محمد عاصم زیادہ درست اور صحیح نام معلوم ہوتا ہے اور سیرالمتاخرین جلد۲ صفحہ۱۱ پر خواجہ عاصم ہی نام لکھا ہے۔ مغلیّہ سلطنت میں سادات کرام کو فوج میں بڑے مناصب بآسانی مل جایا کرتے تھے۔ تاریخی کاغذات اور قلمی وثائق کے غدر ۱۸۵۷ء میں گم ہو جانے سے بہت سی قیمتی اور تاریخی معلومات دنیا سے ناپید ہو گئیں۔
اس لئے ہمارے لئے یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہوگا کہ یہ خاندان جو حضرت علاء الدین عطارؒ کا خاندان تھا، کب واردِ ہند ہوا۔ مگر قرائن اس قدر بتلاتے ہیں کہ سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت علائو الدین عطار خواجہ محمد ناصر سے گیارہ پشت اُوپر کے بزرگوں میں سے ہیں۔ اس طرح خواجہ میر درد کے خاندان کو حضرت عطارؒ سے تعلق ارادت تھا۔ پھر سلسلہ نسب میں دونوں خاندانِ سادات میں سے تھے۔ اس لئے قیاس یہی ہے کہ کچھ نہ کچھ تعلق رشتہ داری پہلے سے چلا آتا ہوگا۔ لیکن تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ نواب خانِ دَوران کے نانا جو پہلے اکبر پھر بہادر شاہ اور پھر عزیز میرزا گوکلتاش معزالدین جہاندار شاہ کے زمانے میں فوج کے اعلیٰ عہدے دار تھے۔ معز الدین جہاندار شاہ کے مزاج میں اُن کو بڑا دخل تھا اور جو چاہتے تھے کرتے تھے اور جو چاہتے تھے بادشاہ سے کراتے تھے۔ گوکلتاش خان اُن کا خطاب تھا اور وہ اسی نام سے مشہور تھے۔ چنانچہ مولوی ذکاء اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ ’’بادشاہ کا ایمان تھا کہ وہ گوکلتاش خان کی خاطر داری کرے۔ اس لئے وہ ذوالفقار خان کی کچھ نہ سنتا تھا‘‘۔ ۱؎
اسی طرح سیر المتاخرین نے بھی لکھا ہے کہ معز الدین جہاندار شاہ نے گوکلتاش کو خانِ جہان کا خطاب دیا تھا اور اس پر جو اعتماد تھا اس میں روز بروز اضافہ کرتا جاتا تھا۔ ۲؎
خان جہان گوکلتاش کو بادشاہ کسی وقت اپنے سے الگ نہیں کرتا تھا اس لئے جب فرخ سیر جہاندار شاہ سے لڑنے کے لئے آیا تو اس وقت ۱۲/ ذیقعدہ ۱۱۲۴ھ دوشنبہ کی شب کے دو بجے جہاندار شاہ شاہجہان آباد سے لڑنے کے لئے اکبر آباد کی طرف روانہ ہوا۔ ہراول کی فوج کا افسر ذوالفقار خان تھا۔ گوکلتاش خان جہاندار کے ساتھ تھا۔ ستر اسّی ہزار فوج ساتھ تھی۔ ۳؎
فرخ سیر اور جہاندار شاہ کی جنگ
۱۴/ ذی الحج کو میدانِ جنگ میں دونو طرف کی فوجیں جم گئیں۔ خانِ جہان بمع اعظم خان و جانی خان ہمراہیان کے دستِ راست پر تھے۔ اُن کے مقابل پر خانِ زمان اور جھیلہ رام ٹھاکر صف آرا ہوئے۔ ۴؎
جنگ نے نازک صورت اختیار کر لی خانِ جہان جہاندار شاہ کی طرف جا رہے تھے کہ خان زمان اور جھیلہ رام کمین گاہ سے نکل کر حملہ آور ہوئے اور خانِ جہان کو مجروح اَور بے دست وپا کر دیا۔ ۵؎
چونکہ تاریخ میں اس واقعہ کے بعد خانِ جہان کا ذکر نہیں آتا۔ اس لئے اغلب خیال ہے کہ وہ زخموں سے چور ہو کر مر گئے۔ مَیں لکھ چکا ہوں کہ خانِ جہان کے ساتھ جو افسرانِ فوج اعظم خان اور جانی خان تھے۔ اعظم خان کے متعلق سیرالمتاخرین کے مصنف نے لکھا ہے کہ وہ گوکلتاش خان کے بھائی تھے۔ ۶؎ وہ بھی اِس جنگ میں زخمی ہو کر مارے گئے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب خانِ دَوران کے دیگر عزیز رشتہ دار اکبر و بہادر شاہ کے زمانے یا اس سے بھی پہلے سے حکومت کے مناصبِ جلیلہ پر فائز تھے۔ بادشاہانِ وقت کو ان پر پورا پورا اعتماد تھا اور باوجود اس کے کہ وہ زمانہ وساوسں اور فتنہ سازی کا زمانہ تھا۔ مگر ان لوگوںکا مقام اس قدر مضبوط تھا کہ ان کو کسی قسم کا خطرہ کبھی دامن گیر نہ ہوا۔
خانِ دَوران خان
اغلباً بہادر شاہ کے زمانہ میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ اُن کے ابتدائی مناصب کا علم نہیں۔ جب فرخ سیر جہاندار شاہ سے لڑنے آیا۔ اُس وقت خانِ دَوران کا منصب پنج ہزاری تھا۔ معز الدین جہاندار شاہ نے اُس وقت خانِ دَوران کا منصب بڑھا کر ہفت ہزاری بنا دیا نیز جب تک وہ پنج ہزاری تھے۔ اُس وقت تک وہ اپنے اصلی نام ہی سے یاد کئے جاتے تھے۔ مگر ہفت ہزاری ہونے کے ساتھ ہی اُن کو خانِ دَوران کا خطاب دیا گیا۔
میرا خیال یہ ہے کہ چونکہ اُن کے نانا جو ابھی زندہ تھے اور ان کو خانِ جہان کا خطاب تھا اس لئے اسی مناسبت سے اُن کو خانِ دَوران کا خطاب دیا گیا اور اپنے شاہزادے کا بھی اُن کو مربی تجویز کیا اور تمام فوج اور توپ خانے کا اختیار دیا گیا۔ ۷؎
اگرچہ خان جہان مر گیا۔ مگر خانِ دَوران کا ڈنکہ بدستور بجتا رہا۔ خانِ دَوران خان متعدد لڑائیوں میں لڑتا رہا۔ مگر جہاندار شاہ کو شکست ہوئی اور اس شکست کا اصل سبب بدنظمی اور افسران کی بد اعتمادی تھی۔ اس کے نتیجہ میں فرخ سیر بادشاہ ہو گیا۔فرخ سیر نے اپنے وفاداروں کو نئے منصب اور خطابات دیئے۔ چنانچہ سیّد عبداللہ خان قطب الملک یار وفادار ظفر جنگ کا خطاب ملا۔ ہفت ہزاری ہفت ہزار سوار، دواسپہ سہ اسپہ کا منصب اور وزارت عظمیٰ دی گئی۔ سیّد حسین علی خان کو امیر الامراء بہادر فیروز جنگ ہفت ہزاری ہفت ہزار سوار کا منصب اور میر بخشی محمد امین خان کو اعتماد الدولہ کا خطاب ہزاری ہزار کا منصب نظام الملک فتح جنگ کا خطاب اور دکن کا صوبہ دار مقرر کیا۔
قاضی عبد اللہ تورانی کو خانخاناں میر جملہ کا خطاب، ہفت ہزاری اور ہفت ہزار سوار کا منصب ملا۔ ۸؎
اس سلسلہ میں جہاندار شاہ کے مقربین نے بھی کسی نہ کسی طرح عذر معذرت کر کے رسوخ حاصل کیا۔ چنانچہ نواب خانِ دَوران کو صمصام الدولہ خانِ دَوران کا خطاب عطا ہوا اور منصب ہفت ہزار شش ہزار سوار عطا ہوا۔ ۹؎
فرخ سیر کے زمانے میں بھی صمصام الدولہ نواب خانِ دَوران خان کا ستارہ عروج پر چڑھتا چلا گیا۔ بادشاہ کے مزاج میں اُن کو بڑا دخل ہوا۔ ۱۱۴۹ہجری ۸/ذیقعدہ بروز یک شنبہ کا تقرر باجی رائو مرہٹہ کی سرکوبی کیلئے ہوا اس وقت ان کے خطابات میں مزید اضافہ ہو چکا تھا اور وہ امیرالامراء اور منصور جنگ کے گراں قدر خطابات کے حامل ہو چکے تھے اور اب ان کا نامِ نامی اس طرح لکھا جاتا تھا۔ امیر الامراء صمصام الدولہ خانِ دَوران خان بہادر، منصور جنگ اس وقت نواب خانِ دَوران کی یہ عظمت تھی کہ وہ بادشاہ کے علم کے بغیر گورنروں تک کے عزل و نصب کے احکام جاری کر دیتے تھے۔ ۱۰؎
امیر الامراء کے معاصرین
امیر الامراء کا لقب معمولی لقب نہ تھا اور یہ ہر کس و ناکس کو نہیں دیا جاتا تھا۔ قطب الملک، نظام الملک، آصف جاہ اوّل جیسے بڑے بڑے عمائدین نواب خانِ دَوران کے معاصرین میں سے تھے۔ اس زمانہ میں نواب روشن الدولہ رستم جنگ بھی ان کے معاصرین میں تھے جو خواجہ میر درد کے بزرگوں میں سے تھے۔ نواب روشن الدولہ کا تذکرہ مَیں پہلے کر چکا ہوں۔ مگر یہاں صمصام الدولہ کے ذکر کے ساتھ اس قدر ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ نواب روشن الدولہ افسر خزانہ تھے۔ کابل کے محاصیل جو بارہ لاکھ سالانہ تھے اُنہی کے پاس آتے تھے۔نواب روشن الدولہ کے گرانے کیلئے ان کے دشمن سازشیں کرتے رہتے تھے۔ آخر فرخ سیر کے دل میں بھی شک پیدا ہوا تو اس نے روشن الدولہ سے چارج لینے کا کام بھی صمصام الدولہ کے سپرد کیا اور اس طرح روشن الدولہ کے بعد اُن کو افسر خزانہ اور افسر محاصیل افغانستان بھی مقرر کر دیا گیا۔ ۱۱؎
فخر الدولہ صوبہ دار عظیم آباد پٹنہ
فخر الدولہ جو نواب روشن الدولہ رستم جنگ کا حقیقی بھائی تھا، بھی حکومت مغلیّہ میں بڑا بااثر شخص تھا۔ وہ صوبہ عظیم آباد پٹنہ کا گورنر تھا۔ اس زمانہ کی گورنری ایک مطلق العنان بادشاہ سے کم نہ ہوتی تھی۔ ایک دفعہ جب کہ وہ اپنے علاقہ حکومت سے آیا ہوا تھا اس نے خواجہ معتصم سے کوئی ایسا سلوک کیا جو اُسے ناگوار گزرا۔ خواجہ معتصم ایک باشان و شوکت انسان تھا۔ مگر وہ فقراء اور مشائخ کے رنگ میں رنگین تھا۔ یہ نواب صمصام الدولہ کا بھائی تھا۔ اس نے اپنے بھائی صمصام الدولہ سے اس بے ادبی کا ذکر کیا جسے سن کر صمصام الدولہ اس قدر برہم ہوا کہ فخر الدولہ کو وہاں سے بدل دیا گیا۔ ۱۲؎
اس سے بآسانی اِس امر کا پتہ چل سکتا ہے کہ اُس وقت صمصام الدولہ کی کیا طاقت تھی اور اُسے بادشاہ کی طبیعت میں کس قدر دخل تھا۔
مظفر خان میر آتشی
۱۱۳۸ ہجری میں مظفر خان صاحب جو نواب خانِ دَوران کے بھائی تھے کو میر آتشی یعنی بارود خانہ کی افسری کا عہدہ سرفراز کیا گیا۔ ۱۳؎ ۱۱۴۶ ہجری میں مرہٹوں نے گجرات اور مالوہ کے صوبوں کو تسخیر کر لیا تھا۔ اُن کی سرکوبی کیلئے مظفر خان میر آتشی کو بھیجا گیا۔ بائیس امیر مع سپاہ کے ساتھ تھے۔ مگر مرہٹوں نے کسی جگہ مظفر خان کے لشکر سے جنگ نہ کی۔ ۱۴؎ بالآخر اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے ۷/ذیقعدہ ۱۱۴۹ہجری میں صمصام الدولہ خود تیس چالیس ہزار سوار مع توپ خانہ کے گئے اور ہندوستان کے بعض عمدہ راجے بھی ہمراہ تھے۔ بادشاہ کے حضور صمصام الدولہ کی اس قدر عزت تھی کہ اس کی مرضی کے خلاف کسی کی بات نہ سنتا تھا اور جو بادشاہ کے دل میں آتا، اُسے لکھ بھیجا کرتا تھا۔ ۱۵؎
محمد شاہ کا زمانہ
فرخ سیر کا زمانہ بھی گذر گیا۔ اب محمد شاہ کا زمانہ آ گیا۔ مگر نواب خانِ دَوران ابھی تک بدستور کمانڈر انچیف افواجِ مغلیّہ تھا۔ محمد شاہ بھی اُن کی ہر ایک بات مانتا تھا۔ حتیّٰ کہ نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ تاریخ کی عام کتابوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نادر شاہ کا مقابلہ کرنال کے قریب خانِ دَوران خان سے ہوا مگر ایک کتاب جس کا نام ہی نادر شاہ ہے اور ۱۷۴۳ء میں لنڈن میں طبع ہوئی تھی اور اب بالکل نادر ہے اس کا ایک نسخہ مَیں نے جناب مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب ریٹائرڈ جج ہائی کورٹ حیدرآباد دکن کی لائبریری میں دیکھاتھا جس میں لکھا ہوا ہے کہ خانِ دَوران نے نادر شاہ کا دو دفعہ مقابلہ کیا۔ ایک تو جب کہ وہ کابل سے گزر کر ہندوستان میں داخل ہو رہا تھا۔ اٹک میں اس سے جنگ ہوئی مگر خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔
دوسرے جب نادر خان دہلی کے قریب آ گیا تو خانِ دَوران خان اپنے دو بیٹوں سمیت کرنال کے قریب اس سے لڑنے کیلئے نکلا۔ دہلی کے تمام عمائدین اُس وقت اپنے حوصلے ہار چکے تھے۔ اطلاع آئی کہ چند قزلباش برہان الملک کے ڈیروں پر ہاتھ مار گئے۔ یہ سن کر برہان الملک تلوار ٹیک کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ:
’’صاحب اب کونسی بات باقی ہے جس کا انتظار کیا جائے‘‘
اُسی وقت فوج لے کر لڑنے کو روانہ ہوا۔ نواب خانِ دَوران نے اس واقعہ کی اطلاع بادشاہ کو دی۔ انہوں نے آصف جاہ اوّل کو خبر کی۔ آصف جاہ نے کہا پہر دن باقی ہے۔ اس لئے برہان الملک کو روکنا چاہئے کیونکہ اُن کا لشکر منزلیں مارتا ہوا آیا ہے۔ اس وقت بے موقع جرأت کرنی مناسب نہیں۔ کل توپخانہ سامنے رکھ کر اور سب لشکر کو ترتیب دے کر بندوبست سے لڑیں۔ بادشاہ نے یہی بات خانِ دَوران کو کہلا بھیجی۔ خانِ دَوران سنتے ہی بِگڑ کر اُٹھ بیٹھا اور کہا کہ بڑے حیف کی بات ہے۔ ایسا جوانمرد سردار آقا کے نمک پر نثار ہونے جائے اور ہم پہلو میں بیٹھے اس کے مرنے کا تماشا دیکھا کریں۔ اُسی وقت ہاتھی پر سوار ہو کر فوج لے کر روانہ ہوا۔ نادر خان کی فوج سے جنگ ہوئی۔ خانِ دَوران زخمی ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں تمام ڈیرے خیمے لٹ گئے۔ بادشاہ کو خبر ہوئی تو بادشاہ کی طرف سے خواجہ سراء آئے اور آصف جاہ وغیرہ امراء عیادت کو آئے۔ خانِ دَوران خان نے آنکھ کھولی اور کہا:
’’ہم نے تو اپنا کام کر لیا۔ اب تم جانو اور تمہارا کام۔ مگر کہتے ہیں کہ بادشاہ کو نادر کے پاس اور نادر کو شہر میں نہ لے جانا‘‘۔ ۱۶؎
سیرالمتاخرین کے مصنف نے اس سارے واقعہ پر اس قدر اضافہ کیا ہے کہ اُس کا بھائی مظفر خان اور اُس کا بڑا لڑکا بھی اس جنگ میں تھا۔ ملاحظہ ہو صفحہ۱۰۷ جلد۲ نادر شاہ مطبوعہ لنڈن میں خانِ دَوران خان کے دو لڑکوں کا ذکر ہے۔
تاریخ اسلام مصنفہ ذاکر حسین جعفر مطبوعہ ۱۳۴۴ ہجری نے صفحہ۱۴۹ میں لکھا ہے کہ نادر شاہ سے صمصام الدولہ کی فوجوں کی جنگ ۱۷۳۹ء میں کرنال پر ہوئی۔ یہ مختصر سے واقعات اُن لمبے واقعات سے لئے گئے ہیں تا کہ یہ بتلایا جا سکے کہ نواب خانِ دَوران اپنے زمانہ میںکس پایہ کے آدمی تھے۔ وہ فوج کے افسر اعلیٰ تھے۔ وہ خزانہ کے افسر اعلیٰ تھے۔ ان کا سارا خاندان نانا، بھائی، بیٹے وغیرہ فوج میں سربرآوردہ عہدوں پر فائز تھے۔ وہ ہر وقت حکومت وقت کے لئے فدا کارانہ جذبہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر سلطنت کی مضبوطی کی کوشش کی۔ اُن کے دروازوں پر ہاتھی جھومتے تھے۔ سونے چاندی کی نہریں اُن کے محلات میں بہا کرتی تھیں۔ نوکر چاکر، خدم حشم سب کچھ موجود تھا اور کسی چیز کی کمی نہ تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ نواب خانِ دَوران کے دو ہی بیٹے تھے۔ بڑے کا نام قمر الدین خان تھا جو محمد شاہ کا وزیر اعظم تھا اور چھوٹے کا نام احتشام علی خان تھا جو شاہی محلات کا داروغہ تھا۔ احتشام علی خان کا ذکر مسٹر جیمس فریزر نے اپنی کتاب موسومہ نادر شاہ میں احتشام خان کے نام سے کیا ہے اور امیر الامراء کا خطاب جو اُس وقت سلطنت کے سب سے بڑے آدمی کو حاصل تھا، اس خاندان سے نکل کر نواب آصف جاہ اوّل کی طرف منتقل ہو گیا اور بالآخر یہ خطاب ہی سلطنت کی تباہی کا باعث ہوا۔ بُرہان الملک کو امید تھی کہ یہ خطاب مجھے ملے گا۔ مگر جب آصف جاہ اوّل کو مل گیا تو برہان الملک نے وہ کچھ کیا جو غدّاری کے مفہوم میں داخل ہو گیا۔
آخری واقعہ نواب خانِ دَوران کا اس شجاعت اور بہادری کا ثبوت دیتا ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ اس کی غیرت نے پسند نہ کیا کہ وہ برہان الملک کی فوج کو موت کے منہ میں جھونک دے۔ وہ خود مٹ گیا مگر اپنے خون سے تاریخ میں یہ ثبت کر گیا۔
ثبت است برجریدۂ عالَم دوامِ ما
صمصام الدولہ دن کو ایک بہادر سپاہی تھا اور رات کو اس کی مجلس میں علماء حکماء، شعراء جمع ہوا کرتے تھے۔ وہ خود بھی شعر و شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ ایک دفعہ فرخ سیر بادشاہ کے سامنے آئینہ تھا اور وہ بار بار آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھتے تھے۔ نواب خانِ دَوران خان نے فی البدیہہ ایک غزل کہی جس کا مطلع ہے۔
سحر خورشید لرزاں برسہ کوئے تو می آید
دلِ آئینہ را نازم کہ بر روئے تو می آید
الغرض اس طرح امیر الامراء صمصام الدولہ نواب خانِ دَوران بہادر میر بخشی منصور جنگ ایک لمبی مدت تک اپنی حکومت، اپنی صولت و جاہ اپنی شوکت و طاقت و حکومت کا چار دانگِ عالم میں دُہل بجوا کر ۱۱۵۰ہجری راہے ملکِ بقا ہوئے۔ دہلی میں اُن کی یادگا ایک شاندار مسجد ہے۔ اُسی کے ایک پہلو میں اُن کا مرقد بنا ہوا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
میر ہاشم علی صاحب
مَیں لکھ چکا ہوں کہ نواب خانِ دَوران نادر شاہ کی جنگ میں مار ے گئے اُن کے ساتھ اُن کے بھائی مظفر خان اور اُن کے دو بیٹے بھی اس جنگ میں لڑ رہے تھے۔ جن میں سے بڑے کا نام قمر الدین خان اور چھوٹے کا نام احتشام علی خان تھا۔ احتشام علی خان کے بیٹے میر ہاشم علی خان تھے… میر ہاشم علی صاحب غالباً کسی سرکاری منصب پر نہ تھے۔ باپ دادا کی جائیداد اُن کے گزارے کیلئے کافی ہوئی۔ غدر ۵۷ء میں اُن کی عمر اسّی سال کی ہو چکی تھی اور حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے کہ:
’’دادا اسّی سالہ ضعیف تھے اور کچھ جائیداد بھی نہ رکھتے تھے اور جو جائیداد تھی وہ ہمارے خاندان سے جا چکی تھی‘‘۔ ۱۷؎
میر ہاشم علی صاحب کی اولاد
میر ہاشم علی صاحب کے ایک صاحبزادے تھے جن کا نام خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب تھا۔ خواجہ سیّد ناصر امیر کی والدہ بی نصیرہ بیگم صاحبہ تھیں جو شاہ محمد نصیر صاحب رنج کی بیٹی تھیں۔ بی نصیرہ بیگم کے بطن اور میر ہاشم علی صاحب کی صُلب سے ایک صاحبزادی فرحت النساء بیگم اور ایک صاحبزادے یعنی سیّد ناصر امیر صاحب پیدا ہوئے۔ فرحت النساء بیگم کی شادی حافظ منیرالدین صاحب سے ہوئی جو قصبہ جلیسر میں رہتے تھے۔ اُن کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ جن کا نام حاجی کبیر الدین احمد صاحب اور پیر جی بشیر الدین احمد صاحب ہے۔ یہ پیری مریدی کا سلسلہ رکھتے ہیں۔ اِن دونو حضرات کا بفضلہ سلسلہ نسل چل رہا ہے۔
سیّد ناصر امیر صاحب
سیّد ناصر امیر صاحب بن میر ہاشم علی صاحب کے جوان ہونے پر اُن کی پہلی شادی میر بھکاری صاحب کی دختر سعیدہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ یہ سعیدہ بیگم صاحبہ خواجہ محمد نصیر صاحب رنج کے نواسہ کی بیٹی تھیں۔ اُن کے بطن سے ایک لڑکا سیّد ناصر وزیر پیدا ہوا۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے دوسری شادی میر شفیع احمد صاحب ساکن فراشخانہ کی دختر بلند اختر سے کی۔ اُن کا نام بی روشن آراء بیگم صاحبہ تھا۔ بی روشن آراء بیگم کے متعلق خاندان کے تمام افراد یہی بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے نام کی طرح روشن آراء ہی تھیں۔ وہ بڑی بزرگ اور مقدسہ خاتون تھیں۔ بڑی نیک بخت اور عبادت گذار تھیں۔ اُن کے بطن سے ایک صاحبزادے جو ہمارے واجب الاحترام بزرگ ہوئے، پیدا ہوئے۔ یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ۔ ان کی دو ہمشیرگان بھی تھیں۔ ایک کا نام رفعت النساء بیگم صاحبہ تھا جن کی شادی حافظ منیر الدین صاحب کے صاحبزادے پیر جی بشیر الدین صاحب سے قصبہ جلیسر میں ہوئی اور دوسری صاحبزادی کا نام بی انجمن آراء بیگم صاحبہ تھا۔ اُن کی شادی مولوی محمد یوسف صاحب بن مولوی عبدالقیوم صاحب سے ہوئی جو شاہ محمد اسحاق صاحب محدث کے نواسے تھے اور بھوپال میں سکونت پذیر تھے۔
خواجہ ناصر امیر صاحب کی سجادہ نشینی
جب خواجہ سیّد محمد نصیر صاحب کی وفات ہوگئی تو مسئلہ سجادہ نشینی بہت پیچیدہ ہو گیا۔ خواجہ سیّد محمد نصیر صاحب کے بیٹے مولوی سیّد ناصر جان اُن کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ بالآخر تمام مشائخ بارہ دری میں جمع ہوئے اور مشورے کے بعد طَے ہوا کہ بی امانی بیگم صاحبہ کیونکہ امانی بیگم صاحبہ خواجہ صاحب میر کی بیٹی اورخواجہ میر درد صاحب کی پوتی تھیں۔ ان سے استصواب کیا گیا۔ یہ مولوی سیّد ناصر جان کی بیوہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ :
’’جس رُتبہ کے بزرگ خواجہ میر درد صاحب، خواجہ میر اثر صاحب اور میرے والد خواجہ صاحب میر صاحب تھے۔ ویسا تو اب خاندان میں مجھے کوئی نظر نہیں آتا۔ میرے شوہر تھے وہ تو رحلت کر گئے ہیں۔ اس لئے میرے نزدیک میاں ناصر امیر خواجہ محمد نصیر صاحب کے نواسہ کو گدی پر بٹھا دیا جائے‘‘۔
چنانچہ اس مشورے کے ماتحت سب مشائخ نے سیّد ناصر امیر صاحب کو سجادہ نشین تسلیم کر لیا۔ اس طرح خواجہ محمد ناصر کے گھر میں جو نور آیا تھا وہ منتقل ہو کر منشاء الٰہی کے ماتحت سیّد ناصر امیر صاحب کے گھر میں آ گیا۔
سیّد ناصر امیر صاحب کی گدی نشینی کی مخالفت
شاہ محمد نصیر صاحب کی ایک اور بیوی تھیں۔ جن کے بطن سے دو لڑکیاں پیدا ہوئیں جن کا نام تھا انجمن النساء اور اشرف النساء۔ انجمن النساء صاحبہ کی شادی حکیم مومن خان صاحب مشہور شاعر سے ہوئی۔ چونکہ حکیم مومن صاحب شاہ محمد نصیر صاحب کے داماد تھے اس لئے اُن کو سیّد ناصر امیر صاحب کی سجادہ نشینی سخت ناگوار گزری۔ ان کاخیال تھا کہ وہ شاہ محمد نصیر صاحب کی جگہ گدی نشین ہوتے۔ مگر وہ خود بھی اپنے آپ کو اس کا اہل خیال نہ کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے ہم زلف مولوی سیّد یوسف علی صاحب مدراسی کو آمادہ کیا۔ جمعہ کے دن ان کے گلے میں کفنی ڈالی اور ایک ناصری اُن کے کندھے پر رکھی جو خواجہ میر درد کے خاندان کی خاص علامت ہے اور اُن کو جامعہ مسجد میں لے گئے۔ جمہور مسلمانوں سے کہا گیا کہ یہ خواجہ محمد نصیر صاحب کی جگہ گدی نشین ہوئے ہیں۔ مگر دلی کے لوگ ان کی طرف ذرا بھی متوجہ نہ ہوئے اور یہ جادو بھی نہ چل سکا۔ ۱۸؎
اس ناکامی کے بعد حکیم مومن نے اپنی بیوی اور سالی کی طرف سے یہ دعویٰ کر دیا کہ بارہ دری اور اس کے متعلق تمام جائیداد ہماری ہے۔ اس مقدمہ بازی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بارہ دری اور حجرہ یعنی خواجہ میر درد کا عبادت خانہ تو وقف ہو کر دعویٰ سے مستثنیٰ ہو گیا اور باقی جائیداد کا دعویٰ خارج ہو گیا کہ یہ تمام جائیداد خواجہ محمد نصیر کی نہیں بلکہ خواجہ میر درد کی متروکہ ہے البتہ خواجہ محمد نصیر صاحب کا چوتھائی حصہ تسلیم کیا گیا۔ اس مقدمہ بازی کا یہ نتیجہ ہوا کہ حکیم مومن کی بیوی اور سالی کے مکانات مصارف مقدمہ میں بِک گئے۔
اب چوتھائی حصہ کے لئے پھر دعویٰ ہوا۔ اس میں مومن خان کو کامیابی ہوئی۔ خاندان کی جائیداد اِس مقدمہ میں تباہ ہو گئی۔ کئی مکانات نیلام ہو گئے اور اس طرح اس جائیداد کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔
ناصری گنج کی طرف نظر
اب ان کی آنکھوں کے سامنے صرف ناصری گنج کی جائیداد تھی اس کے لئے مومن خان صاحب نے مولوی یوسف علی صاحب کو ناصری گنج بھیجا تا کہ میر عبدالناصر صاحب پر نالش کر کے وہاں چوتھا حصہ وصول کیا جائے۔ مگر میر عبدالناصر صاحب نے پہلے ہی بائیس کے بائیس گائوں اپنی بیوی کے نام مہر پر لکھ دیئے تھے۔ اس لئے وہاں جانا سوائے زیر باری کے اور کوئی نتیجہ پیدا نہ کر سکا۔ ہاں اس چھیڑ چھاڑ کا یہ نتیجہ ہوا کہ میر عبدالناصر صاحب جو روپیہ بی امانی بیگم صاحبہ اور دیگر حقداروں کو بھیجا کرتے تھے وہ بھی بندکر دیا اس لئے ان سب متعلقین کو تکلیف ہو گئی۔ اسی سلسلہ میں خواجہ ناصر امیر صاحب بھی ناصری گنج تشریف لے گئے تا کہ نالش کر کے اپنے حقوق حاصل کریں۔ مگر قضاء الٰہی کے ماتحت وہ ۱۶/ذوالحجہ ۱۲۷۰ ہجری مطابق ۱۰/ستمبر ۱۸۵۴ء کو مرض ہیضہ میں مبتلا ہو کر فوت ہو گئے۔
خواجہ سیّد ناصر وزیر صاحب
خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب کی وفات کے بعد بی امانی بیگم کے مشورے سے سیّد ناصر امیر کے بڑے بیٹے ناصر وزیر صاحب کو گدی نشین کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنے طریقہ محمدیہ کے علاوہ طریقہ مجددیہ نقشبندیہ اور سہروردیہ اور قادریہ کو بھی حاصل کیا۔ فقہ حدیث بھی پڑھی۔ خط نسخ، نستعلیق، شفیعہ، شکستہ و خط ناخن وغیرہ میں کمال حاصل کیا۔ مسجد میر درد کی تجدید کرائی۔ آپ نے عرسوں وغیرہ کو خوب ترقی دی۔ آپ ۱۲۹۸ ہجری ماہ شعبان میں حج سے واپس آ کر مرض اسہال کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ سیّد ناصر وزیر کی شادی نواب امین الدین خان صاحب جاگیر دار لوہارو کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔
آپ کی اولاد
آپ کے تین لڑکے پیدا ہوئے۔ جن کے حسب ذیل نام ہیں۔
سیّد ناصر خلیل عرف کلن، سیّد ناصر سعید عرف ابن، چھوٹے کا نام سیّد ناصر وحید تھا۔ یہ تینوں اصحاب بھی فوت ہوچکے ہیں۔ البتہ سیّد ناصر خلیل صاحب کے بیٹے سیّد ناصر جلیل صاحب گلبرگہ دکن میں ملازم ہیں اور صاحب اولاد ہیں۔
سیّد ناصر وزیر صاحب کی تین صاحبزادیاں تھیں۔ بڑی لڑکی جناب محی الدین صاحب کو بیاہی گئیں۔ وہ خود فوت ہو گئی ہیں۔ اُن کی اولاد موجود ہے۔ دوسری لڑکی مومن خان کے نواسہ سے بیاہی گئیں۔ یہ بھی صاحبِ اولاد ہیں۔ تیسری لڑکی کی شادی میرزا محمد سعید بیگ صاحب بن میرزا مہر علی بیگ صاحب ساکن کوچہ پنڈت دہلی سے ہوئی۔ ان کے بطن سے ایک لڑکی اور دو لڑکے پیدا ہوئے۔
آخری انجام
خواجہ ناصر وزیر کی وفات کے بعد خواجہ ناصر خلیل اور ناصر سعید میں جھگڑا ہو گیا۔ اس جھگڑے کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواجہ میر درد صاحب کا عبادتخانہ جسے حجرہ کہتے تھے بِک گیا اور بارہ دری جو عبادت خانہ کے ساتھ وقف تھی مکان مسکونہ بنا لی گئی اور اس طرح مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کے ساتھ ہی وہ ظاہری آثار بھی گم ہو گئے اور اب اس بارہ دری میں ناصر سعید صاحب کی اولاد رہتی ہے۔ یہ حالات دیدۂ بینا کے لئے بہت کچھ حقائق اور بصیرت افروز امور اپنے اندر لئے ہوئے ہیں۔ کس شان و شوکت سے جس چیز کا آغاز ہوا تھا کیسا بھیانک اس کا انجام ہوا۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ اس خاندان کے لئے یہی مقدر تھا کہ اس کی روشنی اس نیر اعظم میں جس کا نام مسیح موعود علیہ السلام ہے گم ہو جائے گی۔ کاش! دنیا سمجھے اور سوچے اور عبرت پکڑے۔ خواجہ میر درد صاحب کی درگاہ کے ساتھ ایک بڑی شاندار باغیچی تھی یہیں اُن کا قبرستان بھی تھا اور عید گاہ بھی تھی۔ خواجہ میر درد اسی جگہ عید پڑھنے جایا کرتے تھے۔ قبرستان میں عام مسلمانوںکے مُردے بھی دفن ہوتے تھے۔ باغیچی سَو سال تک خوب بہار اور رونق پر رہی۔ ایک چلّہ خانہ بھی یہاں تھا جہاں صوفی لوگ چلّہ کشی کرتے تھے۔ اسی چلّہ خانہ کے اوپر بارہ دری بنی ہوئی تھی اس ساری زمین کو بڑی رونق تھی۔ لاکھوں بندگانِ خدا آتے تھے۔ ذکرِ الٰہی ہوتا تھا بادشاہ، امراء حاضر ہوتے تھے۔ مگر آج یہ سب کچھ ویران ہے۔ درخت کلہاڑوں اور آروں کی نظر ہوگئے۔ قبروں پر گائے، بیل چرنے لگے اور وہاں نہ کوئی عمارت رہی اور نہ کوئی رونق اور نہ درخت۔ وحشت اور ویرانگی چھا گئی۔ وہ محفلیں جو کل نظر آتی تھیں۔ آج اُن کی خاک اُڑتی بھی نظر نہیں آتی۔ یہ سب کیوں ہوا؟ تا کہ الٰہی نوشتے پورے ہوں۔ حضرت میر درد کا اپنا ایک شعر ہے جو اس ساری حالت پر گویا بطور پیشگوئی کہا گیا تھا خوب صادق آتا ہے۔ فرماتے ہیں۔
گُزروں ہوں جس خرابہ پہ کہتے ہیں واں کے لوگ
ہے کوئی دِن کی بات یہ گھر تھا وہ باغ تھا ۱۹؎
حوالہ جات
۱؎ تاریخ ہند صفحہ۹۹، سیر المتاخرین صفحہ ۵۵
۲؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ ۳۸
۳؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۴۹
۴؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۱
۵؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۲
۶؎ تسیر المتاخرین صفحہ۵۳
۷؎ تاریخ ہند صفحہ۹۴، ۹۵ مصنفہ ذکاء اللہ، سیر المتاخرین صفحہ۳۸
۸؎ تاریخ ہند صفحہ۱۰۸ مصنفہ ذکاء اللہ جلد دہم۔ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۵
۹؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۵
۱۰؎ سیر المتاخرین صفحہ ۱۶ جلد۲
۱۱؎ تاریخ ہند جلد دہم مصنفہ ذکاء اللہ صفحہ۲۲۵
۱۲؎ سیر المتاخرین صفحہ۱۲ جلد۲
۱۳؎ تاریخ ہند جلد دہم مصنفہ ذکاء اللہ صفحہ۳۵
۱۴؎ تاریخ ہند صفحہ ۲۳۶
۱۵؎ تاریخ ہند صفحہ ۲۴۱
۱۶؎ سیر المتاخرین صفحہ۲۴۳۔ تاریخ ہند جلد دہم صفحہ۲۵۴
۱۷؎ حیات ناصر صفحہ۳
۱۸؎ میخانہ درد صفحہ۲۰۶
۱۹؎ میخانہ درد صفحہ۲۴۲
حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت میر ناصر نواب صاحب
اب ہم اس بزرگ انسان کا ذکر کرتے ہیں جس کا وجود ان تمام برکتوں کا جامع تھا جو ایک طرف خواجہ میردرد کے گھرانے کو حاصل تھیںاور دوسری طرف خواجہ علائو الدین عطارؒ نقشبندی کے گھرانے کو حاصل تھیں یہ وہی بزرگ انسان تھا جس کے لئے مقدر تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جری اللہ فی حلل الانبیاء کا خسر کہلائے اور جس کی بیٹی کے لئے مقدر تھا کہ وہ رسول کریم ﷺ کی بعثتِ ثانیہ میں مومنوں کی ماں کہلائے۔ یہی وہ خاتون تھی جسے میں نے بخارا سے آنے والی امانت قرار دیا تھا۔ جس کو ہندوستان میں لانے کے لئے جہاں مسیح موعود ؑ نے پیدا ہونا تھا یہ خاندان جو محمدیین کا خاندان کہلایا ہندوستان ہجرت کر کے آیا تھا۔
حضرت میر ناصر نواب میر ناصر امیر صاحب کے دوسرے بیٹے تھے اور دوسری بیوی محترمہ روشن آراء بیگم کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ حضرت میرناصر نواب صاحب کے سن پیدائش کا صحیح علم نہیں ۔ البتہ ایک قیاسی حساب کی رو سے ۱۸۴۶ء آپ کا سن پیدائش بنتا ہے اور وہ قیاسی حساب یہ ہے کہ غدر ۱۸۵۷ء حضرت میر صاحب نے دیکھا تھا غدر کے بعد جب آپ کی عمر ۱۶ سال کی ہوئی تو اس وقت آپ کی شادی ہوئی۔ اس لحاظ سے اگر غدر کا زمانہ چار سال قبل کا رکھا جائے تو ان کو ۱۴ سال کی عمر میں غدر کا حادثہ پیش آیا اور دو سال بعد شادی قرار دی جائے تو سولہ سال کی عمر بن جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ۱۸۴۵ء یا ۱۸۴۶ء کے قریب کا زمانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایک دوسرا قرینہ حضرت میر صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے:
’’ایک زمانہ آیا کہ میں پیدا ہوا اور دہلی شہر میں جنم لیا۔ خواجہ میردرد صاحب علیہ الرحمۃ کے گھرانے میں پیدا ہو کر نشوونما پایا اور ان کی بارہ دری میں کھیل کود کر بڑا ہوا ۔ان کی مسجد میں پڑھا کرتا تھا۔ ماں باپ کے سایہ میں پرورش پا رہا تھا۔ کوئی فکرواندیشہ دامن گیر نہ تھا کہ ناگہان میرے حال میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی۔ جس کا بظاہر کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ اتفاقاً میرے والد ماجد کسی کام کے لئے بنارس تشریف لے گئے اور شاہ آباد آرہ میں ہیضہ سے ان کا انتقال ہو گیا اور میں مع اپنی دو ہمشیرہ کے یتیم رہ گیا۔‘‘ ۱؎
خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب کی وفات ۱۰ ستمبر ۱۸۵۴ء میں ہوئی۔ زمانہ تعلیم کا آغاز چونکہ پانچ چھ سال سے ہوتا ہے۔ اس لئے یہی قیاس لگایا جا سکتا ہے کہ والد کی وفات کے وقت ان کی عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی۔ ان کی وفات سے دو اڑھائی سال بعد غدر ہوا اور غدر کے سال ڈیڑھ سال بعد آپ کی شادی ہوئی تو قرین قیاس یہی ہے کہ ۱۸۴۵ء یا ۱۸۴۶ء کے اندر آپ کی پیدائش ہوئی ہو گی۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے گھر میں سجاد گی تھی۔ آپ کے والد صاحب خواجہ میردرد کی گدی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اگرچہ وہ شان و شوکت تو نہ تھی جو نواب خانِ دوران منصور جنگ کے زمانہ میں تھی۔ مگر تاہم شریفانہ طور پر گھر کا کام چل رہا تھا کیونکہ حضرت میر صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’سامانِ معیشت بظاہر کچھ نہ رہا۔ فقط اللہ ہی کا آسرا تھا۔ دادا صاحب اگرچہ موجود تھے مگر وہ اسی سالہ ضعیف تھے اور کچھ جائیداد بھی نہ رکھتے تھے اور جو جائیداد تھی وہ ہمارے خاندان سے جا چکی تھی اور مفلس محض رہ گئے تھے۔ اس پر ظاہر آراستہ رکھنا بھی ضروری تھا۔‘‘ ۲؎
یہ آخری فقرہ اس وقت کی حالت پر خوب روشنی ڈالتا ہے۔ باوجود دولت و شوکت کے چلے جانے کے بعد خاندان کا رویہ ایسا تھا کہ دیکھنے والے جانتے تھے کہ جس طرح شرفاء اور باحیاء اپنی تکلیف کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے بالکل اسی طرح کسی کو معلوم نہ تھا کہ خاندان کی مالی حالت کیسی ہے۔ایسی حالت میں حضرت میر صاحب کے کنبہ کی کفالت کا بوجھ نانا صاحب میرشفیع احمد صاحب ساکن فراشخانہ نے اُٹھایا۔ حضرت میرصاحب کے دو ماموں تھے بڑے ماموں ڈپٹی کلکٹر انہار تھے اور دوسرے جن کا نام میر ناصر حسین صاحب تھا وہ بھی مادھوپور ضلع گورداسپور میں محکمہ نہر ہی میں ملازم تھے۔ ماموں صاحبان نے اس وقت مدد کی۔
غدر کی مصیبت
ابھی داغ یتیمی کا اثر دور نہیں ہوا تھا کہ ۱۸۵۷ء میں دہلی میں غدر ہو گیا۔ غدر کی داستان بہت طویل ہے وہ اس مختصر کتاب میں نہیں آ سکتی۔ مگر مختصرکیفیت اور وہ بھی حضرت میر صاحب کی زبانی یوں ہے کہ دلّی غدرمیں اُجڑ گئی اور تو اور شاہی خاندان بھی تباہ وبرباد ہو گیا۔ شہزادوں تک کو برسرِعام قتل کر دیا گیا ہر شخص کو اپنی جان و مال کا دغدغہ لگا ہوا تھا۔ دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہو گیا تھا۔ جوں جوں محاصرہ تنگ ہوتا جاتا تھا۔ تو ں توں شہر کی آفت بڑھتی جاتی تھی۔ شہر پر اس قدر گولے پڑتے تھے کہ فصیل اور متصلہ مکانات چھلنی ہو گئے تھے۔ بعض لوگ گولوں سے ہلاک بھی ہوتے جاتے تھے۔ چند ماہ کے محاصرہ کے بعد دلّی انگریزوں نے فتح کر لی اور باغی فوج وہاں سے بھاگ گئی۔ دلّی والوں کی شامت آ گئی۔ کر گیا ڈاڑھی والا۔ پکڑا گیا مونچھوں والا۔ نانی نے خصم کیا اور نواسہ پر جرمانہ ہوا۔ فتح مندوں نے شہر کو برباد کر دیا اور فتح کے شکریہ میں صدہا آدمیوں کو پھانسی چڑھا دیا۔ مجرم اور غیرمجرم میں تمیز نہ تھی چھوٹا بڑا ادنیٰ اعلیٰ برباد ہو گیا سوائے چوہڑے ،چماروں، سقوں وغیرہ کے یا ہندوؤں کے خاص محلوں کے کوئی لوٹ مار سے نہیں بچا۔ ایک طوفان تھا کہ جس میں کچھ نظر نہیں آتا تھا غرضیکہ گہیوں کے ساتھ جَو کا گھن بھی پس گیا۔ شہر کے لوگ ڈر کے مارے شہر سے نکل گئے اور جو نہ نکلے تھے وہ جبراً نکالے گئے اور قتل کئے گئے۔
اس حالت سے یہ معزز خاندان بھی بچ نہ سکا چنانچہ حضرت میر صاحب خود لکھتے ہیں کہ:
’’یہ عاجز بھی ہمراہ اپنے کنبہ کے دلّی دروازہ کی راہ سے باہر گیا چلتے وقت لوگوں نے اپنی عزیز چیزیں جن کو اٹھا سکے ہمراہ لے لیں۔ میری والدہ صاحبہ نے اللہ ان کو جنت نصیب کرے میرے والد کا قرآن شریف جو اب تک میرے پاس ان کی نشانی موجود ہے اٹھا لیا۔ شہر سے نکل کر ہمارا قافلہ سربصحرا چل نکلا اور رفتہ رفتہ قطب صاحب تک جو دلّی سے گیارہ میل پر ایک مشہور خانقاہ ہے جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر ایک دو روز ایک حویلی میں آرام سے بیٹھے رہتے تھے کہ دنیا نے ایک اور نقشہ بدلا۔ یکایک ہڈسن صاحب افسر رسالہ مع مختصر اردل کے قضاء کی طرح ہمارے سر پر آ پہنچے اور دروازہ کھلوا کر ہمارے مَردوں پر بندوقوں کی ایک باڑ ماری اور جس کو گولی نہ لگی اس کو تلوار سے قتل کیا یہ نہیں پوچھا کہ تم کون ہو ہماری طرف کے ہو یا دشمنوں کے طرفدار ہو۔ اسی یک طرفہ لڑائی میں میرے چند عزیز راہی ملک عدم ہو گئے۔ پھر حکم ملا کہ فوراً یہاں سے نکل جاؤ حکم حاکم مرگِ مفاجات ہم سب زن ومرد و بچہ اپنے مُردوں کو بے گوروکفن چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں حیران وپریشان وہاں سے روانہ ہوئے لیکن بہ سبب رات کے اندھیرے اور سخت واژگون کی تیرگی کے رات بھر قطب صاحب کی لاٹ کے گرد طواف کرتے رہے۔ صبح کو معلوم ہوا کہ تیلی کے بَیل کی طرح وہیں کے وہیں ہیں۔ ایک کوس بھی سفر طے نہیں ہوا۔
صبح کو نظام الدین اولیاءؒ کی بستی میں پہنچے اور وہاں رہ کر چند روز اپنے مقتولوں کو روتے رہے۔ زیادہ دقت یہ پیش آئی کہ اب بعض کے پاس کچھ کھانے کو بھی نہ رہا تھاکہ ناگہاں رحمت الٰہی نے دستگیری فرمائی۔ ایک میرے ماموں صاحب محکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے ان کا کنبہ ہم سے پہلے پانی پت میں پہنچ چکا تھا۔ جب ان کو ہماری پریشانی کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو چند چھکڑے دے کر ہمارے لینے کیلئے بھیجا وہ ہم سب کو ان چھکڑوں میں بٹھا کر پانی پت لے گئے وہاں پہنچ کر ذرا ہمیں آرام و اطمینان ملا۔‘‘ ۳؎
اس دردناک واقعہ سے اس کیفیت اور حالات کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ جس میں سے حضرت میر صاحب کو گذرنا پڑا پہلے یتیمی،پھر غدر کے مصائب، آنکھوں کے سامنے عزیزواقارب کا قتل، بھوک پیاس کی شدت، صحرا کی خانہ بدوشی وہ کیا کچھ مصائب نہ تھے جو چھوٹی اور ننھی عمر میں آپ کو برداشت نہ کرنے پڑے۔
ان کی والدہ صاحبہ حضرت روشن آراء بیگم کی نیکی، عفت، پاکیزگی اور خدا سے محبت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے آباد گھر میں سے اگر کوئی چیز اٹھائی تو وہ خدا تعالیٰ کا کلام پاک تھا اس کے سوا ان کو ہر ایک چیز اس محشرستان میں ہیچ نظر آئی۔ یہ تھی وہ ماں جس کا نورِ نظر تھا یہ بزرگ جس کی پشت سے وہ خاتون اعظم پیدا ہونے والی تھی جس کے ذریعہ سے دنیا کے نجات دہندے اور تاریکی کو دور کرنے والے نور پیدا ہونے والے تھے۔ ان حالات میں آپ کی زندگی کا آغاز ہوا۔
تعلیم
تعلیم کا آغاز تو والد صاحب کی زندگی میں گھریلو مکتب میں ہی ہوا۔جب غدر وغیرہ کی طوفانی حالت سے سکون ہوا اور لوگ دلّی واپس آئے تو اس وقت حالت یہ تھی کہ لوگوں نے گھروں کی چوکھٹیں تک اُتار لی تھیں حضرت میر صاحب کے ایک ارشاد کے ماتحت اس وقت آپ کی عمر بارہ سال کی تھی ۔ تو اس لحاظ سے غدر کا واقعہ دس سال کی عمر میں ہوا ہو گا دو اڑھائی سال میں پھر دلی آباد ہوئی اس طرح واپسی کے وقت آپ کی عمر بارہ سال کی ہو جاتی ہے۔ دہلی سے آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کو آپ کے ماموں میر ناصر حسین صاحب کے پاس صوبہ پنجاب میں ضلع گورداسپور کے مقام مادھوپور میں بھیج دیا۔ یہاں حضرت میر صاحب نے کس قدر تعلیمی ترقی کی اس کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ان کو خود اعتراف ہے کہ کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ آپ کے ماموں رتر چھتر والوں کے مرید تھے اور آپ کے سوتیلے بھائی خود گدی نشین تھے اور ان کی حالت مذہبی ایسی ہو گئی تھی کہ حضرت میر صاحب کا نور ایمان اس کا نام ’’بدعت‘‘ رکھتا تھا اور اس میں شک بھی نہیں کہ وہ طرح طرح کی بدعتوں میں مبتلا ہو چکے تھے اور وہاں بھی وہی قوالیاں اور عرس اور دین سے دور لے جانے والی باتیں ہو رہی تھیں۔ حضرت میر صاحب کا قلب ان بدعتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ اس لئے آپ نے اس چھوٹی سی عمر میں سب امور کا موازنہ کیا اور آپ اہلحدیث ہو گئے اور یہ سب سولہ سال کی عمر سے قبل ہی ہو گا۔
شادی خانہ آبادی
۱۶ سال کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ نے ایک شریف سادات کے خاندان میں آپ کی شادی کر دی۔ حضرت میر صاحب اپنی بیوی سے ہمیشہ خوش رہے۔ اس کا ہم الگ ذکر کریں گے۔ شادی کے بعد آپ نے مولوی عبداللہ غزنوی کی بیعت کر لی اور آپ کے ساتھ ہی آپ کی حرم محترم نے بھی ان کی بیعت کر لی۔
اُس وقت آمدنی کا کوئی خاص انتظام نہ تھا مگر ناصری گنج کے علاقے سے ایک پانچ ہزار کی جائیداد ان کو مل گئی تھی جس کی آمدنی پندرہ روپیہ ماہوار تھی۔
ملازمت
۲۱سال کی عمر میں یعنی ۱۸۶۵ء کے قریب آپ کی والدہ نے آپ کو پھر آپ کے ماموں ناصر حسین صاحب کے پاس بغرض کارآموزی بھیجا۔ وہ اب لاہور میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے آپ کو نقشہ نویسی اور نہر کا کام سکھلا کر آپ کو ۱۸۶۶ء میں محکمہ نہر میں بعہدہ اوورسیر ملازم کر دیا اور آپ کی تعیناتی امرتسر میں ہوئی۔ اسی سلسلہ ملازمت میں آپ کی تبدیلی موضع سٹھیالی اورکاہنووان اور موضع تتلہ میں ہوئی جو متصل قادیان دیہات تھے۔ حضرت میر صاحب محکمہ نہر میں ملازم تھے اور یہ محکمہ جس قدر اپنی رشوت ستانی کی وجہ سے بدنام ہے اسے ہر شخص جانتا ہے۔ مگر حضرت میر صاحب جن پر پچپن ہی سے وہابیت کا رنگ چڑھ گیا تھا۔ وہ کب اس قسم کی حرام دولت کو لے سکتے تھے۔
حضرت عرفانی کبیر نے ان کی سوانح حیاتِ ناصر میں ان کی پاکیزہ زندگی پر لکھتے ہوئے ایک واقعہ لکھا ہے۔ جو ان کی دیانت داری اور پاکیزگی کی شان کو دوبالا کرتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:
’’وہ محکمہ نہر میں ملازم تھے۔ افسران نہر نے ایک قاعدہ کے ماتحت ان سے سَو روپیہ نقد کی ضمانت طلب کی۔ ان کے معاصرین نے زرِضمانت داخل کر دیا مگر میر صاحب نے کہا کہ میرے پاس روپیہ نہیں ہے اور فی الحقیقت نہیں تھا۔جو کام ان کے سپرد تھا (اوورسیری کا) وہ اس میں ہزاروں روپے پیدا کر سکتے تھے اور لوگ کرتے تھے۔ مگر وہ حلال اور حرام میں خدا کے فضل سے امتیاز کرتے تھے اور ان کی ملازمت کا عہد رشوت ستانی کے داغ سے بالکل پاک رہا اور اکل حلال ان کا عام شیوہ تھا۔ غرض انہوں نے صاف کہا کہ میرے پاس روپیہ نہیں دوستوں نے، افسروں نے ہر چند کہا۔ کہ آپ روپیہ کسی سے قرض لیکر داخل کر دیں۔ آپ یہی کہتے رہے کہ میں قرض ادا کہاں سے کروں گا۔ میری ذاتی آمدنی سے قرض ادا نہیں ہو سکتا اور رشوت میں لیتا نہیں۔ آخر ان کو نوٹس دیا گیا کہ یا تو روپیہ داخل کرو ورنہ علیحدہ کئے جاؤ گے۔ انہوں نے عزم کر لیا کہ علیحدگی منظور ہے مگر معاملہ چیف انجنیئرتک پہنچا۔ جب اس نے کاغذات کو دیکھا تو اسے بہت ہی خوشی ہوئی کہ اس کے محکمہ میں ایسا امین موجود ہے۔ وہ جانتا تھا کہ سب اوورسیر ہزاروں روپیہ کما لیتے ہیں۔ جو شخص ایک سَو روپیہ داخل نہیں کر سکتا اور اسے علم ہے کہ اس عدم ادخال کا نتیجہ ملازمت سے علیحدگی ہے قرض بھی نہیں لیتا کہ اس کے ادا کرنے کا ذریعہ اس کے پاس نہیں۔ وہ یقینا امین ہے اور میر صاحب کو ادخالِ ضمانت سے اس نے مثتثنیٰ کر دیا۔ یہ تھا اثر ان کی دیانتداری اور راستبازی کا تمام محکمہ کو اس پر حیرت تھی۔‘‘ ۴؎
اس واقعہ سے حضرت میر صاحب کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ ان کی راستبازی،دیانت،ادائے فرض کا فکر، عہدکی پابندی، یہ سب امور اس واقعہ سے ظاہر ہوتے ہیں اور یہی ہیں جن حالات میں سے حضرت میر صاحب گزرے تھے۔ ان کا عام تقاضا یہی تھا کہ وہ ایک تکلیف کی حالت میں سے گزرے ہوئے شخص کی طرح دولت جمع کرنے کے درپے ہو جاتے۔ مگر ان کا کیریکٹر اس قدر مضبوط تھا کہ انہوں نے اپنے لئے کبھی یہ پسند نہ کیا کہ وہ اکلِ حرام کا تر لقمہ قبول کریں۔ ان کی زندگی میں جس قدر غذا اُن کے جسم میں داخل ہوئی وہ سب حلال اور طیب تھی اور اس سے جس قدر خون پیدا ہوا وہ صالح تھا اور اسی حلال، طیب زرق سے انہوں نے اپنے بال بچوں کی پرورش کی۔
ایک ایسا شخص جس کے گردوپیش ادنیٰ و اعلیٰ سب رشوت ستانی میں مبتلا ہوں اور وہ اس فعل میں اپنے ساتھیوں کا شریک نہ ہو اس کے لئے کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ان حالات میںحضرت میر صاحب کو جن دشوار گذار گھاٹیوں سے گزرنا پڑا ہو گا وہ ظاہر ہی ہے مگر انہوں نے دنیا کی زندگی کو مالی تنگی میں گزارنے کو اس فراوانی ء رزق پر ترجیح دی اس سے ان کے اس مقام تقویٰ کا پتہ چل سکتا ہے۔ جس پر وہ ابتداء سے ہی گامزن تھے۔ ایسے متقی شخص کیلئے جس نے باوجود آسانی سے ملنے کے ناجائز روپیہ پیدا نہ کیا اور ساری عمر تنخواہ پر بسر کی۔ اس کے متعلق اگر کبھی کوئی شخص زبانِ طعن دراز کرتے ہوئے یہ کہے کہ اس نے سلسلہ کا روپیہ تباہ کیا تو یہ اس کی اپنی سیاہ باطنی کی ایک کھلی تصویر ہو گا اور سوائے اس کے کہ یہ اس کی اپنی سیاہ بختی کی تصویر ہو اور کیا ہو سکتا ہے۔
رسول کریم ﷺ جو اپنی قوم میں راستباز اور امین مشہور تھے انہوں نے یہی چیز بطور دلیل کے پیش فرمائی۔ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ کہ جو شخص ساری عمر تم میں امین اور راستباز مشہور رہا۔ وہ یک بیک خدا پر کیسے افتراء کر سکتا ہے۔
پس بالکل یہی دلیل حضرت میر صاحب قبلہ کی نیکی اور پارسائی اور دیانت و امانت پر دلیل ہے کہ جس نے باوجود ضرورت کے باوجود تکلیف کے کبھی ایک پیسہ اپنی زندگی میں ناجائز قبول نہ کیا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری حصہ میں سلسلہ کے روپیہ میں کیسے تصرف کر سکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ تیرہ قلب لوگوں کو خود بخود اپنی ہی ایسی تصویریں نظر آتی ہیں ورنہ یہ پاک لوگ تو پاک ہی ہوتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی پیدائش
۱۸۶۵ء میں حضرت میر صاحب کی شادی کے تین سال بعد وہ بااقبال لڑکی پیدا ہوئی جس کی پیدائش کی صدیوں سے انتظار تھی اور جس کی پیدائش کا فیصلہ روزِ ازل سے ہی الٰہی پروگرام کے ماتحت مقدر ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تخلیق میں اس کی اصلاح کے لئے انبیاء ؑ اور مرسلین مبعوث فرمائے۔ اس نے سلسلہ موسویہ اور سلسلہ محمدیہ قائم کیا۔ سلسلہ موسویہ کی اصلاح کیلئے ایک مسیح کو مبعوث فرمایا جو احیائِ دین موسوی کے لئے مبعوث ہوا پھر سلسلہ محمدیہ قائم کیا اور اس سلسلہ کو سلسلہ موسویہ کے بالکل متوازی قائم کیا اور اس کے لئے یہ مقدر کیا کہ جب یہ سلسلہ بنی اسرائیل کی طرح بِگڑ جائے گا تب ایک مسیح بروزِ محمدؐ بنا کر بھیجا جائے گا جو اتباع محمد ﷺ میں اس قدر محو ہو گا کہ اس میں اور اس کے متبوع میں کوئی فرق نہ رہے گا۔ حتی کہ وہ خود پکار اُٹھے گا کہ: مَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ الْمُصْطَفٰی فَمَا عَرَفَنِیْ وَمَا رَاٰی اس پر محمدیت کی چادر ڈال دی جائے گی۔ اور وہ اس قدر اس میں محو ہو گا کہ وہ زندگی تو زندگی مرنے کے بعد بھی رسول کریم ﷺ کی قبر میں ہی مدفون ہو گا۔
اس کے لئے مقدر تھا کہ وہ ایک شادی کرے گا اور اس شادی سے ایسی اولاد پیدا ہو گی جن کے وجود سے اسلام کو بڑی تقویت ملے گی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا: یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ اسی شادی کی طرف خواجہ محمد ناصر صاحب کو پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ اس نور کی روشنی جو تم کو دی گی مسیح موعود ؑ کے نور میں گم ہو جائے گی اور اس کی طرف نعمت اللہ ولی ؒ نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
پسرش یاد گار مے بینم
اور اسی کی طرف خود خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا: اُشْکُزنِعْمَتِیْ رَأَیْتُ خَدِیْجَتِیْ ۵؎ ان تمام پیشگوئیوں سے اس عظمت اور شان کا بآسانی پتہ لگ سکتا ہے جو اس خاتون اعظم کو اللہ تعالیٰ اور ملائکہ اور راستبازوں کی دنیا میں حاصل ہونے والی تھی وہ ایک خاص مقصد کے لئے دنیا میں لائی جا رہی تھی وہ ایک نئی نسل کی بنیاد رکھنے کے لئے پیدا کی جا رہی تھی۔
وہ ان ذمہ واریوں کو برداشت کرنے کے لئے لائی جا رہی تھی جو ذمہ واریاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بروزِ محمد ﷺ کی ذاتِ گرامی کے ذریعہ آپ کے وجود پر اصلاح خلق کیلئے عائد ہونیوالی تھیں۔ جس طرح مسیح موعود ؑ کی طرف روحانی دنیا کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں بالکل اسی طرح اس پاک خاتون کی طرف بھی لگی ہوئی تھیں جس نے ایک طرف ان ذمہ واریوں کا بوجھ اُٹھانا تھا اور دوسری طرف اس پاک نسل کو عالمِ وجود میں لانا تھا۔
قدرت الٰہی نے اس امر کا فیصلہ کر رکھا تھا کہ ایسی خاتون خود محمد الرسول اللہ ﷺ کی اپنی نسل ہی سے ہو۔ وہ فاطمہؓ کی بیٹی ہو اور ان تمام اَئمۃ اور اولیاء کے ساتھ اس کو خون کا رشتہ ہو تاکہ نیک اور پاک خون کا ایک مسلسل تعلق چلتا ہوا آنحضرت ﷺ تک پہنچ جائے اور اس سے اعلیٰ اور بہتر اور کوئی رشتہ خدا کے مسیح کے لئے نہیں ہو سکتا تھا۔ جس طرح حضرت علی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے تعلق کی وجہ سے اہل بیت میں داخل ہو گئے۔ اسی طرح سَلْمَانَ مِنْ اَھْلِ الْبَیْتِفارسی النسل مسیح موعود اس خاتون کے تعلق کے ساتھ جسمانی طور پر بھی اہلبیت میں داخل ہو گئے۔ اتنی بڑی شان کی خاتون ۱۸۶۵ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کے گھر میں پیدا ہوئی۔
آپ کی پیدائش کی پہلی برکت
حضرت میر ناصر نواب صاحب کے والد صاحب خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب ناصری گنج کی جائیداد میں سے اپنا حصہ لینے کے لئے گئے۔ مگر ان کو وہاں نہ صرف یہ کہ کامیابی نہ ہوئی بلکہ وہ وہیں فوت ہوگئے مگر اس پیدائش کے بعد پہلی برکت یہ نازل ہوئی کہ حضرت میر صاحب کو پانچ ہزار کی جائیداد بغیر کسی قسم کی سعی کے مل گئی جس کی آمدنی پندرہ روپے ماہوار تھی۔ ۵؎
اس کے بعد حضرت میر صاحب کی بیکاری کا زمانہ ختم ہوا۔ اور ملازمت کا دور شروع ہوگیا۔ اس طرح سے آپ کا وجود خاندان کے لئے خیرو برکت کا باعث ہوا۔
آپ کا نام
حضرت اُمُّ المؤمنین کا نام حضرت میر صاحب نے نصرت جہان بیگم رکھا۔ یہ نام اپنے اندر خود بھی بہت سی برکات رکھتا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب تریاق القلوب صفحہ ۶۴،۶۵ میں تحریر فرمایا ہے:
’’ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا۔ اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی۔ اس کا نام نصرت جہان بیگم ہے۔ یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے۔‘‘ ۷؎
قارئین کرام سے میں توقع رکھتا ہوں کہ وہ ان پیشگوئیوں کو اپنے ذہن میں رکھیں گے۔ جو حضرت اُمُّ المؤمنین کی ذات کے متعلق وقتاً فوقتاً درج کی جاری ہیں۔ اِن پیشگوئیوں پر بحث اور ان سے استدلال تو اپنی جگہ پر ہو گا یہاں صرف اس قدر بتلانا مطلوب تھا کہ آپ کے نام میں حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک پیشگوئی کو مستور پایا۔ اور وہ پیشگوئی یہ تھی کہ جو خاندان نصرت جہان بیگم کے ذریعے چلے گا اس خاندان کے ذریعے تمام جہان کی مدد کی جائے گی۔
پس اس شان اور عظمت کی خاتون حضرت میر ناصر نواب صاحب کے گھر میں ۱۸۶۵ء میںپیدا ہوئی اور اس فضل کے لئے خدا تعالیٰ نے اس انسان کو چُنا جو آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی یتیم ہو گیا تھا اور بچپن ہی میں صدہا قسم کی تکلیفوں کو عبور کر چکا تھا۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب کی آزمائش
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی آزمائش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثََّمَرٰتِ
اس آیت شریفہ کے ماتحت والد کی وفات سے خوف، غدر کے وجود سے جوع اور نقص من الاموال کی آزمائشوں میں سے آپ کو گذرنا پڑا۔ مگر اب ایک اور آخری آزمائش بھی آپ کے سامنے کھڑی تھی اور وہ ثمرات کا نقصان تھا۔
حضرت میرناصر نواب صاحب کے ہاں سیّدہ نصرت جہان بیگم کے بعد پانچ بچے پیدا ہوئے اور سب ہی مشیت الٰہی نے اپنے پاس بلا لئے مگر پانچ بچوں کا داغ جدائی کھا کر بھی ثابت قدم ناصر نواب اپنے رب کا عبدشکور رہا اور اس کے اخلاص اور ثبات میں کوئی کمی نہ آئی۔ تب خدا تعالیٰ نے ۱۸۸۱ء میں اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ایک زندہ رہنے والا اور نافع الناس بچہ عطا فرمایا جس کا نام محمد اسماعیل رکھا گیا جو بعد میں اپنے وقت کا ایک خاص آدمی ثابت ہوا اور ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے ترقی کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن کہلایا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کا ذکر ہم الگ کسی جگہ تفصیل سے کریں گے اس لئے صرف اسی قدر پر اکتفاء کرتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا نکاح
۱۸۸۴ء میں حضرت میر صاحب نے حضرت اُمُّ المؤمنین کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نکاح کر دیا اس نکاح کی تفصیلات بھی الگ ایک باب میں آئیں گی۔
حضرت میر محمد اسحق صاحب کی پیدائش
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی پیدائش کے بعد بھی حضرت میر صاحب کے پانچ بچے اور پیدا ہوئے جو سب کے سب اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْنَ۔حضرت میر صاحب نے ان سب کی وفات پر رضاء بالقضاء کا ثبوت دیا۔ تب ۱۸۹۰ء میں اللہ تعالیٰ نے بمقام لدھیانہ ایک اور بچہ عطا فرمایا۔ اس کا نام حضرت میر صاحب نے محمد اسحق رکھا۔
وجہ تسمیہ
حضرت میر صاحب کو مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی سے بڑی محبت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مولوی نذیر حسین صاحب حضرت میر صاحب کے استاد بھی تھے اور دہلی کے اہلحدیث کے سرگروہ بھی تھے۔ ایک دفعہ مولوی نذیر حسین صاحب لدھیانہ میںحضرت میر صاحب سے ملنے آئے جہاں وہ بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔
حضرت میر صاحب میر محمد اسماعیل صاحب کو جو ابھی بچے ہی تھے ملانے کیلئے لے گئے۔ مولوی سیّد نذیر حسین صاحب نے ازراہِ شفقت سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
برائے کردن تنبیہ فُسّاق
دوبارہ آمدِ اسماعیل و اسحاق
اس بناء پر جب حضرت میر محمد اسحق صاحب پیدا ہوئے تو حضرت میر صاحب نے ان کا نام محمد اسحق رکھا اور خدا کی قدرت کہ وہ شعر جو اس وقت اتفاقی طور پر ان کے منہ سے نکلا وہ ایک حقیقت بن کر عالم وجود میں آ گیا۔
سلسلہ ملازمت میںتبدیلیاں
حضرت میر صاحب سلسلہ ملازمت میں بہت جگہ رہے۔ ضلع گورداسپور میں سٹھیالی، کاہنووان، تَتلہ وغیرہ میں رہے۔ پھر آپ کی تبدیلی ضلع لاہور میں ہو گئی اور وہاں سے انبالہ چھاؤنی میں ہو گئی۔ وہاں سے لدھیانہ ، لدھیانہ سے پٹیالہ اور پٹیالہ سے پھر لدھیانہ اور وہاں سے پھر پٹیالہ میںتبدیلی ہو گئی۔ پٹیالہ سے پھر فیروز پور تبدیلی ہوئی۔ یہ ۱۸۹۳ء کا زمانہ تھا۔ فیروزپور سے آپ کی تبدیلی آتھم کے رشتہ داروں نے ہوتی مردان میں کرا دی۔ حضرت میر صاحب کو مردان پسند نہ آیا۔ طبعیت اُچاٹ رہتی تھی اس لئے فَرلو لے لی اور قادیان آ گئے اور اسی فَرلو کے بعد آپ کی پنشن ہو گئی اور آپ ہمیشہ کیلئے قادیان کے ہو گئے۔
یہ مختصر حالات ان کی ملازمت کے ایام کے ہیں۔ تفصیل کے لئے حضرت عرفانی کبیر کی کتاب ’’حیاتِ ناصر‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقات کا آغاز
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے میں بالکل لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل تھے مگر میرزا غلام قادر صاحب جو ابتداء میں محکمہ نہر میں ملازم تھے اور بعد میں بعض دیگر ملازمتوں میں بھی رہے۔ بحیثیت ایک اہلکار ہونے کے ضلع کے تمام اہلکاروں سے میل جول اور تعلق رکھتے تھے۔ میر ناصر حسین صاحب سے جو حضرت میر صاحب کے ماموں تھے مراسم دوستی رکھتے تھے۔ ان کی وجہ ہی سے حضرت میر صاحب کی بھی ان سے واقفیت ہو چکی تھی۔ میر صاحب جب موضع تَتلہ میں نہر کی کُھدوائی کروارہے تھے ان دنوں حضرت نانی اماں یعنی حضرت اُمُّ المؤمنین کی والدہ کچھ بیمار ہو گئیں تو میرزا غلام قادر صاحب نے جو اکثر گورداسپور سے آتے ہوئے ادھر سے گزرا کرتے تھے۔ میر صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کو بغرض طبّی مشورہ قادیان حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے پاس لے جائیں۔ چنانچہ بغرض طبّی مشورہ آپ قادیان آئے۔
یہ قادیان میں پہلی آمد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے تعارف کے سلسلہ میں ایک مزید قدم تھا مگر دراصل یہ بیماری تو ایک بہانہ تھی ورنہ مشیت ایزدی اس کے پیچھے کھڑی ہنس رہی تھی۔
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
اس واقعہ کو حضرت نانی اماں صاحبہ مرحومہ نے حضرت میاں بشیر احمد صاحب سے یوں بیان کیا جسے انہوں نے اپنی قیمتی تصنیف سیرۃ المہدی حصہ دوم کے صفحہ ۱۰۹ پر درج فرمایا ہے:
’’خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمہارے ناناجان کی اس نہر کے بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیان سے غرب کی طرف دو ڈھائی میل کے فاصلہ پر سے گزرتی ہے (یعنی موضع تَتلہ کی نہر) تو اس وقت تمہارے تایا میرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے ان دنوں میں کچھ بیمار ہوئی تو تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ میرے والد صاحب بہت ماہر طبیب ہیں آپ ان سے علاج کرائیں۔ چنانچہ تمہارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے۔
جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمہارے تایا مجلس لگائے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ اُن کے آپس پاس ایک نیچے کی کوٹھڑی میں تمہارے ابا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآنِ شریف پڑھ رہے تھے اور اوپر کی منزل میں تمہارے دادا صاحب تھے۔ تمہارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دلّی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے۔ (یہ واقعہ ۱۸۷۶ء کا ہے) اس کے بعد جب میں دوسری دفعہ قادیان آئی تو تمہارے دادا فوت ہو چکے تھے اور ان کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جا رہی تھی۔ چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھانا وغیرہ آیا تھا۔ اس دفعہ تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تَتلہ میں رہتے ہیں وہاں آپ کو تکلیف ہوتی ہو گی اور وہ گاؤں بھی بدمعاش لوگوں کا گاؤں ہے۔ بہتر ہے آپ یہاں ہمارے مکان میں آجائیں۔ میں گورداسپور رہتا ہوں۔ غلام احمد (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) بھی گھر میں کم آتا ہے۔ اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہ ہو گی۔ چنانچہ میر صاحب نے مان لیا اور ہم یہاں آ کر رہنے لگے۔ ۸؎
ان دنوں حضرت اُمُّ المؤمنین کی عمر تیرہ سال کی تھی۔
اس واقعہ سے جہاں اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت میر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح قادیان تک پہنچایا۔ وہاں حضرت میر صاحب کی سادہ زندگی اور شرافتِ نفس کا پتہ بھی چلتا ہے۔ کیونکہ موضع تَتلہ آج پون صدی گزر جانے کے بعد بھی اس قابل نہیں کہ کوئی پڑھا لکھا آدمی وہاں رہ سکے۔ تمدن کی ہر منزل سے دور وہاں کے لوگ آج بھی بالکل گنوار اور اُجڈ ہیں ان کے مکان بالکل دیہاتی وضع قطع کے ہیں۔ چہ جائیکہ ایک دہلی کا معزز انسان جو نہ صرف اپنے حسب و نسب کی وجہ سے ہی بڑا آدمی تھا۔ بلکہ اس شان و شوکت کے لحاظ سے جس کا نقشہ ہم پچھلے اوراق میں دکھا چکے ہیں ایک بڑے خاندان کا ایک فرد تھا۔ ان کے گھر کے لوگ اس قسم کی دیہاتی زندگی کے قطعاً عادی نہ تھے مگر حضرت میر صاحب نے ان گنواروں میں ہی ایک مدت گزار دی۔
جناب میرزا غلام قادر صاحب جو ان ایام میں ضلع کے افسروں میں سے ہونے کے علاوہ اپنے علاقہ کے رئیس تھے ان کا اس گاؤں کے لوگوں کو بدمعاش کہنا اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا تھا مگر یہ ان لوگوں کا کمال نہ تھا کہ انہوں نے حضرت میر صاحب کو کوئی گزنذ نہیں پہنچایا۔ بلکہ حضرت میر صاحب کا کمال اور ان کی شرافت ذاتی کا نتیجہ تھا کہ اس قسم کے لوگ بھی ان کے سامنے مسخر ہو کر رہتے۔
الغرض حضرت میر صاحب کو اللہ تعالیٰ ملازمت کے سلسلہ میں قادیان سے دو میل کے فاصلہ پر لے آیا اور پھر نانی اماں کی بیماری کے سلسلہ میں ان کو قادیان لے آیا۔ اور پھر حالات نے ذرا اور صورت بدل لی اور حضرت میر صاحب قادیان میں ہی آ رہے اور نہ صرف قادیان میں ہی آ رہے بلکہ خود حضرت مسیح موعود ؑ کے گھرمیں اور یہ اس لئے ہوا کہ حضرت میر صاحب اور ان کی حرم محترم قریب سے ہو کر اس برگزیدہ انسان کو دیکھ سکیں جو کل کو حضرت میر صاحب سے نسبت ِدامادی حاصل کرنے والا تھا۔ چنانچہ نانی اماں فرماتی ہیں:
’’ان دنوں میں جب بھی تمہارے تایا گورداسپور سے قادیان آتے تھے تو ہمارے لئے پان لایا کرتے تھے اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا سا کھانا وغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کے لئے تیار کئے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں۔ جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں۔ میں ان کے چھوٹے بھائی کو بھجوا دیتی ہوں۔ چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمہارے ابا کو کباب بھجوا دیئے اور نائن نے مجھے آ کر کہا کہ وہ بہت ہی شکر گزار ہوئے اور انہوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اور اس دن انہوں نے گھر سے آیا ہوا کھانا نہیں کھایا۔ اس کے بعد میں ہر دوسرے تیسرے دن کو کچھ کھانا بنا کر بھیج دیا کرتی اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے تھے لیکن جب اس بات کی اطلاع تمہاری تائی کو ہوئی تو انہوں نے بہت بُرا منایا کہ میں کیوں ان کو کھانا بھیجتی ہوں۔ کیونکہ وہ اس زمانہ میں تمہارے ابا کی سخت مخالف تھیں اور چونکہ گھر کا سارا انتظام ان کے ہاتھ میں تھا وہ ہر بات میں ان کو تکلیف پہنچاتی تھیں۔ مگر تمہارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو برداشت کرتے تھے۔
ان دنوں میں گو میر صاحب کا زیادہ تعلق تمہارے تایا سے تھا مگر وہ کبھی کبھی گھر میں آکر کہا کرتے تھے کہ میرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی آدمی ہے۔ اس کے بعد ہم رخصت پر دہلی گئے۔‘‘ ۹؎
روایت کے اس ٹکڑے سے بھی بہت سے امور کا استدلال ہوتا ہے قبل اس کے کہ ہم اس استدلال کو لکھیں۔ یہاں اس قدر توضیح کی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ حضرت نانی اماں نے اپنی روایت میں جو یہ لکھا ہے کہ ہم قادیان سے رخصت پر دہلی گئے۔ یہ ان کو ذہول ہوا ہے۔ کیونکہ حضرت نانا جان نے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھا ہے کہ:
’’چند ماہ کے بعد اس عاجز کی بدلی قادیان سے لاہور کے ضلع میں ہو گئی۔ اس وقت چند روز کے لئے بندہ اپنے اہل و عیال کو حضرت میرزا صاحبؑ کے مشورے سے ان کے دولت خانہ چھوڑ گیا تھا اور جب وہاں مکان کا بندوبست ہو گیا تو آ کر لے گیا۔ میں نے اپنے گھر والوں سے سنا کہ جب تک میرے گھر کے لوگ میرزا صاحبؑ کے گھر میں رہے میرزا صاحبؑ کبھی گھر میں داخل نہیں ہوئے بلکہ باہر کے مکان میں رہے۔ اس قدر ان کو میری عزت کا خیال تھا۔ وہ بھی عجب وقت تھا۔ حضرت صاحبؑ گوشہ نشین تھے عبادت اور تصنیف میں مشغول رہتے تھے۔‘‘ ۱۰؎
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحب کی تبدیلی قادیان سے ضلع لاہور میں ہوئی تھی اور حضرت میر صاحب قادیان سے لاہور ہی کو تشریف لے گئے تھے نہ کہ دہلی کو۔الغرض اس طرح حضرت میر صاحب ایک نہایت عجیب طریق سے الٰہی منشاء کے ماتحت حضرت صاحب کے گھر میں آئے۔ یہاں اُن پر اور اُن کی حرم محترم پر جو اثر پڑا اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔
۱۔ ایک بہت نیک اور بزرگ انسان تھے۔
۲۔ گھر کے لوگ اُن سے شدید نقار رکھتے تھے یہاں تک کہ وہ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ کوئی دوسرا بھی اُن سے کسی قسم کا نیک سلوک کرے۔
۳۔ وہ ان تکالیف کے مقابل میں کسی قسم کی بدسلوکی نہ کرتے تھے بلکہ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے تھے۔
۴۔ میر صاحب قبلہ اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بڑا تعلق نہ رکھتے تھے مگر اس کے باوجود اُن پر یہی اثر تھا کہ آپؑ بہت نیک اور متقی ہیں۔
۵۔ جب میر صاحب قبلہ باہر چلے گئے تو آپؑ کی نیکی نے یہاں تک تقاضا کیا کہ گھر میں قدم تک نہ رکھا تا کہ مستورات کو اجنبی مرد کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو۔
۶۔ اُس زمانہ میں حضرت صاحبؑ کا وقت عبادت اور تصنیف میں گذرتا تھا۔
یہ تأثرات جو قدرتی طور پر اس واقعہ سے نکلتے ہیں وہ اس رشتہ کیلئے اندر ہی اندر مؤید ہوگئے تھے۔ جن کی تشریح و توضیح حضرت اُمُّ المؤمنین کی شادی کے تذکرے میں آ سکے گی۔ یہ واقعات ۱۸۷۷ء کے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا نکاح
یہاں تفصیلی حالات لکھنے مقصود نہیں ہیں مگر اس قدر بطور تاریخی واقعہ کے لکھتا ہوں کہ:
حضرت میر صاحب کا یہاں سے جانے کے بعد کوئی خاص تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نہ رہا۔ مگر جب براہین احمدیہ طبع ہوئی تو حضرت میر صاحب نے براہین احمدیہ کا ایک نسخہ منگوایا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت میر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض امور کیلئے دعا منگوانے کیلئے خط لکھاجن میں سے ایک امر یہ تھا۔
’’دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطا کرے‘‘۔
خدا تعالیٰ کا یہ عجیب کام تھا کہ اس نے حضرت میر صاحب کے دل میں یہ تحریک ڈالی کہ وہ حضرت اقدس ؑ کو دعا کے لئے تحریک کریں اور اُدھر حضرت اقدس ؑ کو نئی شادی کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے تحریکیں ہو رہی تھیں اور خدا تعالیٰ اپنے عرش سے فرما رہا تھا۔
۱۔ الحمدللّٰہ الذی جعل لکم الصھروالنسب ۱۱؎
۲۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں۔ یہ سب سامان مَیں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی۔ اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے۔
۳۔ ہرچہ باید نو عروسی راہمہ سامان کنم وآنچہ مطلوبِ شماباشد عطائے آں کنم ۱۲؎
اِس پر حضرت اقدس ؑ نے اپنی طرف سے تحریک کر دی اور یہ تحریک بہت کچھ تردّد کے بعد منظور ہوگئی۔
اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی دعویٰ نہ تھا البتہ آپؑ تائید اسلام کے کام میں پورے زور سے منہمک تھے۔ براہین احمدیہ لکھی جا رہی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ
۱۸۸۹ء میں آپؑ نے لدھیانہ میں بیعتِ اُولیٰ لی۔ اُس وقت اگرچہ حضرت میر صاحب کو حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام سے قلبی عقیدت تھی اور وہ آپؑ کو بڑا راستباز سمجھتے تھے مگر انہوں نے آپؑ کے دعویٰ کو قبول نہیں کیا۔
حضرت میر صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کو قبول نہ کرنا اُن کی نیکی اور صفائی قلب کی ایک دلیل تھا کیونکہ حضرت میر صاحب اپنے پرانے عقاید کی وجہ سے یہ سمجھے ہوئے تھے کہ مسیح غالباً آسمان سے اُترے گا۔
قدیم اعتقادات جو لوگوں کے قلوب میں ایک فولادی میخ کی طرح جمے ہوئے تھے اور لوگوں کا ان قدیم اعتقادات کے خلاف فوراً نئی تبدیلی پیدا کر لینا بہت مشکل تھا۔ بالکل اسی خیال کے مطابق حضرت میر صاحب اپنے خیالات پر جمے رہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے نہایت سختی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خیالات کی مخالفت کی اور اس پر مضمون بھی لکھے اور نظمیں بھی لکھیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے جس چیز کو سچائی سمجھا، اس کے لئے کسی چیز کی پرواہ نہ کی حتیّٰ کہ اس امر کی بھی پرواہ نہ کی کہ حضرت صاحب سے میرے کیا تعلقات ہیں۔ اگر کوئی دنیا دار آدمی ہوتا تو وہ اپنے گرد و پیش کے حالات کو دیکھ کر اگر حضرت صاحب کے دعویٰ کو قبول نہ کرتا تو اس کی مخالفت پر کمر بستہ بھی نہ ہوتا۔
ممکن ہے کسی شخص کو حضرت میر صاحب کی یہ مخالفت ایک بُرا فعل نظر آئے۔ مگر اس واقعہ نے میرے دل میں تو اُن کی بڑی عزت پیدا کر دی اور مَیں اس امر کو ان کی صفائی قلب کی ایک بڑی دلیل سمجھتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ میر صاحب کا طُرۂ امتیاز اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ تھا۔ انہوں نے جس چیز کو سچائی جانا اُسے بہادری سے قبول کیا اور جس چیز کو غلط سجھا اُسے پوری طاقت سے مٹانے کی کوشش کی اور یہی اُن کی زندگی بھر کا کیریکٹر تھا۔ سلسلہ کے اندر آ کر جس کسی شخص کے فعل کو انہوں نے سلسلہ کے مفاد کے خلاف جانا یا منافقت پر مبنی سمجھا اس کی پوری شدت سے مخالفت کی اور کبھی اس امر کی پرواہ نہیں کی کہ یہ فعل کس شخص سے سرزد ہوا ہے۔ انہوں نے غلطی کو غلطی جانا خواہ وہ بڑے سے بڑے آدمی سے سرزد ہو۔ اُن کا یہ وصف جو اُن کی زندگی کا عین کمال تھا لوگوں کی نگاہ میں خار کی طرح کھٹکا کرتا تھا۔ اس لئے اُن کا نظریہ حضرت میر صاحب کی نسبت ایسا غلط ٹھہر گیا کہ انہوں نے ان کی نسبت طرح طرح کی غلط فہمیوں میں لوگوں کو مبتلا کرنا چاہا مگر ایک مؤرخ جو واقعات کی چھان بین کرنے کا عادی ہوتا ہے وہ سرسری نگاہ سے دیکھ کر لوگوں کے نظریے قبول نہیں کر سکتا۔ حضرت میر صاحب نے خود بھی اس حقیقت سے پردہ اُٹھایا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ:
’’۱۸۸۹ء میں سلسلہ بیعت (یہ بیعت اولیٰ تھی جو حضرت منشی احمد جان صاحب کے مکان پر ہوئی) لدھیانہ میں شروع ہوا۔ اُس وقت مَیں احمدی نہیں ہوا تھا اور نہ مَیں حضرت صاحبؑ کو مسیح و مہدی مانتا تھا۔ لہٰذامَیں نے بیعت نہیں کی تھی۔ مَیں منافق نہیں تھا کہ بظاہر بیعت کر لیتا اور دل میں مرزا صاحبؑ کو سچا نہ سمجھتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے راستباز اور صاف گو بنایا ہے۔ یہ بھی مجھ پر اللہ تعالیٰ کے افضال میں سے ایک بڑا فضل ہے‘‘۔ ۱۳؎
الغرض حضرت میر صاحب نے اُس وقت بیعت نہیں کی۔
حضرت میر صاحبؓ کی بیعت
۱۸۹۲ء ٭؎ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے پہلے سالانہ جلسہ کی بنیاد قادیان میں رکھی گئی۔ اس جلسہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حضرت میر صاحب کو مکرر، سہ کرر لکھ کر سالانہ جلسہ پر آنے کی دعوت دی۔
٭ دراصل پہلا جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں ہوا تھا۔ (عرفانی کبیر)
حضرت میر صاحب نے اس سارے واقعہ کو خود لکھا ہے۔ چونکہ یہ تحریر بہت ہی بصیرت افروز ہے اور ممکن ہے کہ بہتوں کی راہنمائی کا باعث ہو اس لئے مَیں باوجود اس کے طویل ہونے کے شائع کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
’’مرزا صاحب نے مجھے بھی باوجود یہ کہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مَیں ان کا مخالف ہوں۔ نہ صرف مخالف بلکہ بدگو بھی اور یہ مکرر سہ کرر مجھ سے وقوع میں آ چکا ہے۔ جلسہ پر بلایا اور چند خطوط جن میں ایک رجسٹری بھی تھا بھیجے۔ اگرچہ پیشتر بسبب جہالت اور مخالفت کے میرا ارادہ جانے کا نہ تھا لیکن مرزا صاحب کے بار بار لکھنے سے میرے دل میں ایک تحریک پیدا ہوئی۔ اگر مرزا صاحب اس قدر شفقت سے نہ لکھتے تو مَیں ہر گز نہ جاتا اور محروم رہتا۔ مگر یہ انہیں کا حوصلہ تھا۔ آج کل کے مولوی تو اپنے سگے باپ سے بھی اِس شفقت اور عزت سے پیش نہیں آتے۔ مَیں ۲۷/تاریخ کو دوپہر سے پہلے قادیان میں پہنچا۔ اُس وقت مولوی حکیم نور الدین صاحب مرزا صاحبؑ کی تائید میں بیان کر رہے تھے اور قریب ختم کے تھے۔ افسوس کہ مَیں نے پورا نہ سنا۔ لوگوں سے سنا کہ بہت عمدہ بیان تھا۔ پھر حامد شاہ صاحبؓ نے اپنے اشعار مرزا صاحبؑ کی صداقت اور تعریف میں پڑھے لیکن چونکہ مجھے ہنوز رغبت نہیں تھی اور میرا دل غبار آلودہ تھا۔ کچھ شوق اور محبت سے نہیںسنا لیکن اشعار عمدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزائے خیر عنایت فرماوے۔
’’جب مَیں مرزا صاحبؑ سے ملا اور وہ اخلاق سے پیش آئے تو میرا دل نرم ہوا۔ گویا مرزا صاحب کی نظر سرمہ کی سلائی تھی جس سے غبارِ کدورت میرے دل کی آنکھوں سے دُور ہو گیا اور غیظ و غضب کے نزلہ کا پانی خشک ہونے لگا اور کچھ کچھ دھندلا سا مجھے حق نظر آنا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ باطنی بینائی درست ہوئی مرزا صاحبؑ کے سوا اور کئی بھائی اس جلسہ میں ایسے تھے کہ جن کو مَیں حقارت اور عداوت سے دیکھتا تھا۔ اب ان کو محبت اور الفت سے دیکھنے لگا اور یہ حال ہوا کہ کل اہل جلسہ میں جو مرزا صاحب کے زیادہ محب تھے وہ مجھے بھی زیادہ عزیز معلوم ہونے لگے۔ بعد عصر مرزا صاحبؑ نے کچھ بیان فرمایا جس کے سننے سے میرے تمام شبہات رفع ہو گئے اور آنکھیں کھل گئیں۔ دوسرے روز صبح کے وقت ایک امرتسری وکیل صاحب (یہ بابو محکم الدین صاحب وکیل سے مراد ہے۔ عرفانی) نے اپنا عجیب قصہ سنایا۔ جس سے مرزا صاحبؑ کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ثابت ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وکیل صاحب پہلے سنت جماعت مسلمان تھے۔ جب جوان ہوئے رسمی علم پڑھا تو دل میں بسبب مذہبی علم سے ناواقفیت اور علمائے وقت و پیرانِ زمانہ کے باعمل نہ ہونے کے شبہات پیدا ہوئے اور تسلی بخش جواب کہیں سے نہ ملنے کے باعث سے چند بار مذہب تبدیل کیا۔ سنی سے شیعہ بنے۔ وہاں بجز تبرّا بازی اور تعزیہ سازی کچھ نظر نہ آیا۔ آریہ ہوئے چند روز وہاں کا بھی مزہ چکھا مگر لطف نہ آیا۔ برہمو سماج میں شامل ہوئے ان کا طریق اختیار کیا لیکن وہاں بھی مزا نہ پایا۔ نیچری بنے لیکن اندرونی صفائی یا خدا کی محبت، کچھ نورانیت کہیں بھی نظر نہ آئی۔ آخر مرزا صاحبؑ سے ملے اور بہت بیباکانہ پیش آئے مگر مرزا صاحبؑ نے لطف سے مہربانی سے کلام کیا اور ایسا اچھا نمونہ دکھایا کہ آخر کار اسلام پر پورے پورے جم گئے اور نمازی بھی ہوگئے۔ اللہ اور رسولؐ کے تابعدار بن گئے اب مرزا صاحبؑ کے بڑے معتقد ہیں۔
’’رات کو مرزا صاحبؑ نے نواب صاحب (نواب صاحب مالیر کوٹلہ جو اس وقت مع چند اپنے ہمراہیوں کے شریک جلسہ تھے۱۲) کے مقام پر بہت عمدہ تقریر کی اور چند اپنے خواب اور الہام بیان فرمائے۔ چند لوگوں نے صداقت الہام کی گواہیاں دیں جن کے روبرو وہ الہام پورے ہوئے۔ ایک صاحب نے صبح کو بعدنماز فجر عبداللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خواب سنایا جب کہ عبداللہ صاحب خَیْردِیْ گائوں میں تشریف رکھتے تھے۔ عبداللہ صاحب نے فرمایا ہم نے محمدحسین بٹالوی کو ایک لمبا کرتہ پہنے دیکھا اور وہ کرتہ پارہ پارہ ہو گیا۔ یہ بھی عبداللہ صاحب نے فرمایا تھا کہ کرتے سے مراد علم ہے۔ آگے پارہ پارہ ہونے سے عقلمند خود سمجھ سکتا ہے کہ گویاعلم کی پردہ دری مراد ہے جو آج کل ہو رہی ہے اور معلوم نہیں کہاں تک ہوگی۔ جو اللہ تعالیٰ کے ولی کو ستاتا ہے گویا اللہ تعالیٰ سے لڑتا ہے آخر پچھڑے گا۔
’’اب مجھے بخوبی ثابت ہوا کہ وہ لوگ بڑے بے انصاف ہیں۔ جو بغیر ملاقات اور گفتگو کے مرزا صاحب کو دور سے بیٹھے دجال، کذاب بنا رہے ہیں اور ان کے کلام کے غلط معنی گھڑ رہے ہیں یا کسی دوسرے کی تعلیم کو بغیر تفتیش مان لیتے ہیں اور مرزا صاحب سے اس کی بابت تحقیق نہیں کرتے۔ مرزا صاحب جو آسمانی شہد اُگل رہے ہیں اس کو وہ شیطانی زہر بتاتے ہیں اور بسبب سخت قلبی اور حجابِ عداوت کے دور ہی سے گلاب کو پیشاب کہتے ہیں اور عوام اپنے خواص کے تابع ہو کر اس کے کھانے پینے سے باز رہتے ہیں اور اپنا سراسر نقصان کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس عاجز کے قدیمی دوست یا پرانے مقتداء مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لوگوں کو مرزا صاحب سے ہٹانے اور نفرت دلانے میں مصروف ہیں جن کو پہلے پہل مرزا صاحب سے بندہ نے بدظن کیا تھا۔ جس کے عوض مِیں اس دفعہ انہوں نے مجھے بہکایا اور صراطِ مستقیم سے جدا کر دیا۔ چلو برابر ہوگئے۔ مگر مولوی صاحب ابھی درپے ہیں۔ اب جو جلسہ پر مرزا صاحب نے مجھے طلب کیا تو مولوی صاحب کو بھی ایک مخبر نے خبر کر دی۔ انہوں نے اپنے وکیل کی معرفت مجھے ایک خط لکھا جس میں ناصح مشفق نے مرزا صاحب کو اس قدر بُرا بھلا لکھا اور ناشائستہ الفاظ قلم سے نکالے کہ جن کا اعادہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مولوی صاحب نے یہ بھی لحاظ نہ کیا کہ علاوہ بزرگ ہونے کے مرزا صاحب میرے کس قدر قریبی رشتہ دار ہیں۔ پھر دعویٰ محبت ہے۔ افسوس!
’’اس جلسہ پر تین سو سے زیادہ شریف اور نیک لوگ جمع تھے جن کے چہروں سے مسلمانی نور ٹپک رہا تھا۔ امیر، غریب، نواب، انجنیئر، تھانہ دار، تحصیلدار، زمیندار، سوداگر، حکیم غرض ہر قسم کے لوگ تھے۔ ہاں چند مولوی بھی تھے مگر مسکین مولوی۔ مولوی کے ساتھ مسکین اور منکسر کا لفظ، یہ مرزا صاحب کی کرامت ہے کہ مرزا صاحبؑ سے مل کر مولوی بھی مسکین بن جاتے ہیں۔ ورنہ آج کل مسکین مولوی اور بِدعات سے بچنے والا صوفی، کبریت احمر اور کیمیائے سعادت کا حکم رکھتا ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب اپنے دل میں غور فرما کر دیکھیں کہ وہ کہاں تک مسکینی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اُن میں اگر مسکینی ہوتی تو اس قدر فساد ہی کیوں ہوتا یہ نوبت بھی کیوں گذرتی۔ اس قدر ان کے متبعین کو ان سے عداوت اور نفرت کیوں ہوتی۔ اہلحدیث اکثر ان سے بیزار کیوں ہو جاتے۔ اگر مولوی صاحب اس میرے بیان کو غلط خیال فرماویں تو مَیں انہیں پر حوالہ کرتا ہوں۔ انصافًا و ایمانًا اپنے احباب کی فہرست تو لکھ کر چھپوا دیں کہ جو ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسا کہ مرزا صاحبؑ کے مرید مرزا صاحبؑ سے محبت رکھتے ہیں۔ مجھے قیافہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو عنقریب ہے کہ جناب مرزا صاحب کی خاکِ پا کو اہل بصیرت آنکھوں میں جگہ دیں اور اکسیر سے بہتر سمجھیں اور تبرک خیال کریں۔ مرزا صاحبؑ کے سینکڑوں ایسے صادق دوست ہیں جو مرزا صاحبؑ پر دل و جان سے قربان ہیں۔ اختلاف کا تو کیا ذکر ہے۔ رُوبرو اُف تک نہیں کرتے۔
سرِ تسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے
مولوی محمد حسین صاحب زیادہ نہیں چار پانچ آدمی تو ایسے اپنے شاگرد یا دوست بتاویں جو پوری پوری (خدا کے واسطے) مولوی صاحب سے محبت رکھتے ہوں اور دل و جان سے فدا ہوں اور اپنے مال کو مولوی صاحب پر قربان کر دیں اور اپنی عزت کو مولوی صاحب کی عزت پر نثار کرنے کے لئے مستعد ہوں۔ اگر مولوی صاحب یہ فرماویں کہ سچوں اور نیکوں سے لوگوں کو محبت نہیں ہوتی بلکہ جھوٹوں اور مکاّروں سے لوگوں کو اُلفت ہوتی ہے تو مَیں پوچھتا ہوں کہ اصحاب و اہلبیت کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی یا نہیں؟ وہ حضرتؐ کے پورے پورے تابع تھے یا ان کو اختلاف تھا۔ بہت نزدیک کی ایک بات یاد دلاتا ہوں کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جو میرے اور نیز محمد حسین صاحب کے پیرو مرشد تھے۔ اُن کے مرید اُن سے کس قدر محبت رکھتے تھے اور کس قدر اُن کے تابع فرمان تھے۔ سنا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے ایک خاص مرید کو کہا کہ تم نجد واقعہ مُلک عرب میں جا کر رسائل توحید مصنفہ محمد عبدالوہاب نقل کرلائو۔ وہ مرید فوراً رخصت ہوا۔ ایک دم کا بھی توقف نہ کیا۔ حالانکہ خرچ راہ و سواری بھی اُس کے پاس نہ تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب اگر اپنے کسی دوست کو بازار سے پیسہ دے کر دہی لانے کو فرماویں تو شاید منظور نہ کرے اور اگر منظور کرے تو ناراض ہو کر اور شاید غیبت میں لوگوں سے گلہ بھی کرے۔ع
ببیں تفاوتِ راہ از کجا است تا بکُجا
’’یہ نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ہر صدی میں ہزاروں اولیاء (جن پر اُن کے زمانہ میں کفر کے فتوے بھی ہوتے رہے ہیں) گذرے ہیں اور کم و بیش اُن کے مرید اُن کے فرمانبردار اور جان نثار ہوئے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے نیکوں کی خدا کے ساتھ دلی محبت کا۔
’’مرزا صاحبؑ کو چونکہ سچی محبت اپنے مولا سے ہے۔ اس لئے آسمان سے قبولیت اُتری ہے اور رفتہ رفتہ باوجود مولویوںکی سخت مخالفت کے سعید لوگوں کے دلوں میں مرزا صاحب کی اُلفت ترقی کرتی جا رہی ہے۔ (اگرچہ ابوسعید صاحب خفا ہی کیوں نہ ہوں) اب اس کے مقابل میں مولوی صاحب جو آج ماشاء اللہ آفتابِ پنجاب بنے ہوئے ہیں۔ اپنے حال میں غور فرماویں کہ کس قدر سچے محب اُن کے ہیں اور اُن کے سچے دوستوں کا اندرونی کیا حال ہے؟ شروع شروع میں کہتے ہیں مولوی صاحب کبھی اچھے شخص تھے۔ مگر اب تو انہیں حبِّ جاہ اور علم و فضل کے فخر نے عرشِ عزت سے خاکِ مذلّت پر گرا دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
’’اب مولوی صاحب غور فرماویں کہ یہ کیا پتھر پڑ گئے کہ مولوی اور خصوصاً مولوی محمد حسین صاحب سرآمد علمائِ پنجاب (بزعمِ خود) سے لوگوں کو اس قدر نفرت کہ جس کے باعث مولوی صاحب کو لاہور چھوڑنا پڑا۔ موحّدین کی جامع مسجد میں اگر اتفاقًا لاہور میں تشریف لے جاویں تو مارے ضد اور شرم کے داخل نہیں ہو سکتے اور مرزا صاحبؑ کے پاس (جو بزعم مولوی صاحب کافر بلکہ اکفر اور دجال ہیں)گھر بیٹھے لاہور، امرتسر، پشاور، کشمیر، جموں، سیالکوٹ، کپور تھلہ، لدھیانہ، بمبئی، ممالک شمال و مغرب، اودھ، مکہ معظمہ وغیرہ بلاد سے لوگ گھر سے بوریا بندھنا باندھے چلے آتے ہیں۔ پھر آنے والے بدعتی نہیں، مشرک نہیں، جاہل نہیں، کنگال نہیں، بلکہ مؤحد، اہلحدیث، مولوی، مفتی، پیرزادے، شریف، امیر، نواب، وکیل۔ اب ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ باوجود مولوی محمد حسین صاحب کے گرانے کے اور اکثر مولویوں سے کفر کے فتوے پر مہریں لگوانے کے اللہ جلشانہٗ نے مرزا صاحبؑ کو کس قدر چڑھایا اور کس قدر خلقِ خدا کے دلوں کو متوجہ کر دیا کہ اپنا آرام چھوڑ کر، وطن سے جدا ہو کر، روپیہ خرچ کر کے قادیان میں آ کر زمین پر سوتے، بلکہ ریل میں ایک دو رات جاگتے بھی ضرور ہونگے اور کئی پیادہ چل کر بھی حاضر ہوئے۔ مَیں نے ایک شخص کے بھی منہ سے کسی قسم کی شکایت نہیں سنی۔ مرزا صاحب کے گرد ایسے جمع ہوتے تھے جیسے شمع کے گرد پروانے۔ جب مرزا صاحب کچھ فرماتے تھے تو ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے۔ قریباً چالیس پچاس شخص اس جلسہ پر مُرید ہوئے۔ مرزا احمد بیگ کے انتقال کی پیشگوئی کے پوری ہونے کا ذکر بھی مرزا صاحبؑ نے ساری خلقت کے رُوبرو سنایا جس کے بارے میں نور افشاں نے مرزا صاحبؑ کو بہت کچھ بُرا بھلا کہا تھا۔
’’اب نور افشاں خیال کرے کہ پیشگوئیاں اس طرح پوری ہوتی ہیں۔ یہ بات بجز اہل اسلام کے کسی دین والے کو آج کل حاصل نہیں اور مسلمان خصوصًا مخالفین سوچیں کہ یہ خوب بات ہے کہ کافر، اکفر، دجال، مکار کی پیشگوئیاں باوجود یکہ اللہ تعالیٰ پر افترائوں کے طومار باندھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پوری کر دے اور رسول اللہ صلعم کے (بزعمِ خود) نائبین کی باتوں میں خاک بھی اثر نہ دے اور ان کو ایسا ذلیل کرے کہ لاہور چھوڑ کر بٹالہ میں آنا پڑے۔ افسوس، صدافسوس، آج کل کے ان مولویوں کی نابینائی پر جو العلم حجاب الاکبر کے نیچے دبے پڑے ہیں اور بایں وجہ ایک ایسے برگزیدہ بندہ کا نام دجال و کافر رکھتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ کو ایسی محبت ہے کہ دین کی خدمت پر مقرر کر رکھا ہے اور وہ بندۂ خدا آریہ، برہمو، عیسائیوں، نیچریوں سے لڑ رہا ہے۔ کوئی کافر تابِ مقابلہ نہیں لا سکتا۔ نہ کوئی مولوی باوجود کافر، ملعون، دجال بنانے کے خلقت کے دلوں کو اُن کی طرف سے ہٹا سکتا ہے۔ معاذ اللہ
’’عصاء موسیٰ و یدِ بیضاء کو بزعمِ مولویان پسپا اور رسوا کر رہا ہے۔ نائبین رسول مقبول میں کوئی برکت کچھ نورانیت نہیں رہی اتنا بھی سلیقہ نہیں کہ اپنے چند شاگردوں کو بھی قابو میں رکھ سکیں اور خُلقِ محمدی کا نمونہ دکھا کر اپنا شیفتہ بنا لیں۔ کسی ملک میں ہدایت پھیلانا اور مخالفینِ اسلام کو زیر کرنا تو درکنار ایک شہر بلکہ ایک محلہ کو بھی درست نہیں کر سکتے۔ برخلاف اس کے مرزا صاحبؑ نے شرقًا غربًا مخالفینِ اسلام کو دعوتِ اسلام کی اور ایسا نیچا دکھایا کہ کوئی مقابل آنے جوگا نہیں رہا۔ اکثر نیچریوں کو جو مولوی صاحبان سے ہرگز اصلاح پر نہیں آ سکتے۔ توبہ کرائی اور پنجاب سے نیچریت کا اثر بہت کم کر دیا۔ اب وہی نیچری ہیں جو مسلمان صورت بھی نہیں تھے۔ مرزا صاحبؑ کے ملنے سے مومن سیرت ہو گئے۔ اہلکاروں، تھانہ داروں نے رشوتیں لینی چھوڑ دیں۔ نشہ بازوں نے نشے ترک کر دیئے۔ کئی لوگوں نے حُقّہ تک ترک کر دیا۔ مرزا صاحب کے شیعہ مریدوں نے (یعنی چند مرید مرزا صاحبؑ کے ایسے بھی ہیں جو پہلے شیعہ مذہب رکھتے تھے) تبرّا ترک کر دیا صحابہؓ سے محبت کرنے لگے۔ تعزیہ داری، مرثیہ خوانی موقوف کر دی۔ بعض پیرزادے جو مولوی محمد حسین بٹالوی بلکہ محمد اسماعیل شہید کو بھی کافر سمجھتے تھے مرزا صاحبؑ کے معتقد ہونے کے بعد مولانا اسماعیل شہید کو اپنا پیشوا اور بزرگ سمجھنے لگے۔ اگر یہ تاثیریں، دجّالین، کذابین میں ہوتی ہیں اور نائبین رسول مقبولؐ نیک تاثیروں سے محروم ہیں تو بصد خوشی ہمیں دجّالی ہونا منظور ہے۔
’’پھلوں ہی سے تو درخت پہچانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بھی لوگوں نے صفات سے پہچانا۔ ورنہ اس کی ذات کسی کو نظر نہیں آتی۔ کسی تندرست ہٹے کٹے کا نام اگر بیمار رکھ لیں تو واقعی وہ بیمار نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن پاکباز ہے اور جس کے دل میں اللہ اور رسولؐ کی محبت ہے اس کو کوئی منافق کافر، دجال وغیرہ لقب دے تو کیا حرج ہے۔ سفید کسی کے کالا کہنے سے کالا نہیں ہو سکتا اور چمگادڑ کی دشمنی سے آفتاب لائق مذمت نہیں۔ یزیدی عملداری سے حسینی گروہ اگرچہ تکالیف تو پا سکتا ہے مگر نابود نہیں ہو سکتا۔ رفتہ رفتہ تکالیف برداشت کر کے ترقی کرے گا اور کرتا جاتا ہے۔ یعنی مولویوں کے سدِّ راہ ہونے سے مرزا صاحبؑ کا گروہ مٹ نہیں سکتا۔ بلکہ ایسا حال ہے جیسا دریا میں بند باندھنے سے دریارُک نہیں سکتا لیکن چند روز رُکا معلوم ہوتا ہے۔ آخر بند ٹوٹے گا اور نہایت زور سے دریا بہہ نکلے گا اور آس پاس کے مخالفین کی بستیوں کو بھی بہا لے جاوے گا۔ آندھی اور ابر سورج کو چھپا نہیں سکتے۔ خود ہی چند روز میں گم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح چند روز میں یہ غُل غپاڑہ فرو ہو جائے گا اور مرزا صاحبؑ کی صداقت کا سورج چمکتا ہوا نکل آوے گا۔ پھر نیک بخت تو افسوس کر کے مرزا صاحبؑ سے موافق ہو جاویں گے اور پچھلی غلطی پر پچھتاویں گے اور مرزا صاحبؑ کی کشتی میں جو مثل سفینہ نوح علیہ السلام کے ہے سوار ہو جائیں گے۔ لیکن بدنصیب اپنے مولویوں کے مکر او رغلط بیانی کے پہاڑوں پر چڑھ کر جان بچانا چاہیں گے۔ مگر ایک ہی موج میں غرق بحرِ ضلالت ہو کر فنا ہو جاویں گے۔
’’یا الٰہی ہمیں اپنی پناہ میں رکھ اور فہمِ کامل عنایت فرما۔ اُمّتِ محمدی کا تو ہی نگہبان ہے۔ حجابوں کو اُٹھا دے۔ صداقت کو ظاہر فرما دے۔ مسلمانوں کو اختلاف سے راہِ راست پر لگا دے۔ آمین یا رب العلمین۔
’’العلم حجاب الاکبر جو مشہور قول ہے اس کی صداقت آج کل بخوبی ظاہر ہو رہی ہے۔ پہلے اس قول سے مجھے اتفاق نہ تھا لیکن اب اس پر پورا یقین ہوگیا۔ جس قدر مرزا صاحبؑ کے مخالف مولوی ہیں اس قدر اور کوئی نہیں بلکہ اوروں کو عالموں ہی نے بہکایا ہے۔ ورنہ آج تک ہزاروں بیعت کر لیتے اور ایک جم غفیر مرزا صاحبؑ کے ساتھ ہو جاتا۔ لیکن مخالفت کا ہونا کچھ تعجب نہیں کیونکہ اگر ایسا زمانہ جس میں اس قسم کے فساد ہیں جس کی نظیر پچھلی صدیوں میں نامعلوم ہے۔ نہ آتا۔ تو ایسا مصلح بھی کیوں پیدا ہوتا۔ دجال ہی کے قتل کو عیسیٰ تشریف لائے ہیں۔ اگر دجال نہ ہوتا تو عیسیٰ کا آنا محال تھا اور دنیا گمراہ نہ ہو جاتی تو مہدی کی کیا ضرورت تھی۔اللہ تعالیٰ ہر ایک کام کو اس کے وقت پر کرتا ہے۔
’’یا اللہ! تو ہمیں اپنے رسولؐ کی، اپنے اولیاء کی محبت عنایت کر اور بے یقینی اور تردّدات سے امان بخش، صادقین کے ساتھ ہمیں اُلفت دے، کاذبوں سے پناہ میں رکھ۔ ہماری انانیت دُور کر دے اور حرص و حواس سے نجات بخش۔ آمین یا رب العلمین‘‘۔ ۱۴؎
حضرت میر صاحب سلسلہ کی خدمت میں
حضرت میر صاحب قادیان آ کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے تھے۔ جیسے انہوں نے خود تحریر فرمایا ہے کہ:
’’گویا مَیں اُن کا پرائیویٹ سیکرٹری تھا۔ خدمتگار تھا، انجنیئرتھا، مالی تھا، زمین کا مختار تھا، معاملہ وصول کیا کرتا تھا‘‘۔ ۱۴؎
گویا کہ تمام وہ کام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دینی انہماک کی وجہ سے یونہی پڑے ہوئے تھے، وہ حضرت میر صاحب نے سنبھال لئے تھے۔ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت میر صاحب کی توجہ سے ایک زمانہ میں حضرت اقدس ؑ کا باغ گلزار بنا ہوا تھا۔ ہزار ہا گملوں میں لگے ہوئے پھولوں کے پودے مختلف قسم کے خوشبو دار پھول، دیواروں اور دروازوں پر چڑھنے والی پھولوںکی بیلیں، انگوروں کی بیلیں، ہر قسم کے پھل دار درخت، رنگا رنگ کے آم، لوکاٹ، شہتوت، امرود وغیرہ باغ میں بڑی محنت سے لگوائے گئے۔
ایام زلزلہ میں جو ۱۹۰۵ء کے دن تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں اصحابؓ کے ساتھ مقیم تھے۔ اُس وقت باغ کی رونق کے کیا کہنے تھے۔ باغ پورے جوبن پر تھا۔ مدرسہ وہیں لگا کرتا تھا۔ خدا تعالیٰ کا محبوب اس زمانے کا ہادی اور راہنما اپنے عشّاق کے حلقے میں وہاں جلوہ افروز ہوا کرتا تھا۔ باغ کی ٹھنڈک اور سایہ۔ پتوں میں سے دھوپ کا چھن چھن کر آنا۔ پھولوں کی مہک اور اُن کا پورا جوبن ایک پُرکیف صورت پیدا کرتا تھا۔ باغ کی یہ کیفیت حضرت میر صاحب کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھا۔ آپ کو باغ کی صفائی اور ترقی کا اس حد تک خیال تھا کہ ایک دفعہ آپ کو الہام ہوا۔
’’کہاں تک کرے گا صفائیے باغ‘‘
گویا کہ اس صفائی کے انہماک کا ذکر خود خدا تعالیٰ کو بھی اپنے عرش سے کرنا پڑا۔ کھیتوں میں سبزی ترکاری کا سلسلہ بھی حضرت میر صاحب نے شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ باغ کے علاوہ بھی جہاں جہاں زمین اس غرض کے لئے مل سکی حضرت میر صاحب نے کارآمد بنا ڈالی۔ مدرسہ احمدیہ کے متّصل جہاں اب جناب قاضی اکمل صاحب کا مکان اور تشحیذالاذہان کا دفتر تھا، وہاں بھی مدتوں سبزی وغیرہ پیدا کی جاتی رہی۔ یہ کھیت حضرت میر صاحب کی ’’پَیلی‘‘ یعنی کھیت کے نام سے زبان زد تھا۔
حضرت صاحب کے الدار میں کوئی تعمیر ہوتی، تو حضرت میر صاحب قبلہ سارا سارا دن کھڑے تعمیر کا کام کراتے رہتے تھے۔ عمالیق جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے محض خدا واسطے کا بغض رکھتے تھے۔ اُن کی فہمائش بھی کبھی کبھی حضرت میر صاحب کے ذریعے ہو جایا کرتی تھی۔ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ہر ایک چیز کی حفاظت اپنا فرض خیال کرتے تھے۔ وہ یہ سب کام ایک عشق کے ساتھ کرتے تھے اور مَیں پورے وثوق اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک فضل تھا کہ اُس نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت کے لئے حضرت میر صاحب جیسا ایک انسان بھیج دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر ایک چیز کو اپنی جان کر ان کی نگہداشت کرتا تھا۔ ان کی ترقی کے لئے کوشاں تھا۔ دشمنوں سے ان کی حفاظت کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زندگی تو بالکل ایک ایسے انسان کی تھی جو بالکل ہی یتیم ہو۔ انہوں نے خود لکھا ہے۔
لَفَاظَاتِ الْموَائِدِ کَانَ اُکْلِیْ
گھر کی بچی کھچی چیزیں میرے کھانے کیلے آتی تھیں۔
ان کو خود ان زمینوں اور جائیدادوں کی طرف توجہ نہ تھی اور وہ اس مخمصہ میں پڑ کر دین کے کاموں میں روک نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔
ان کی جائیداد ان بچوں کے خزانہ کی طرح پڑی تھی جس پر گرنے والی دیوار تھی اور خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑاور خضر ؑ کو بھیج کر اس کی اصلاح کرا دی اور اس طرح اس خزانہ کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت میر صاحب کو بھیج دیا کہ وہ ان چیزوں کی حفاظت کریں جو کسی وقت سلسلہ کے لئے ایک شاندار جائیداد بننے والی تھیں۔ گویا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دنیاوی چیزوں کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لی اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس کوئی آدمی ایسا موجود نہ تھا جو ایک درد اور ایک عشق سے ان کاموں کا بوجھ اپنے اوپر لے لیتا تو خدا تعالیٰ نے خود حضرت میر صاحب کو بھیج دیا جو جوانوں سے بڑھ کر باہمت تھے، جو بڑے تجربہ کار تھے۔ بڑے امین تھے۔ جن کے لئے یہ گھر اب اپنا گھر ہو گیا تھا۔ اُن سے بڑھ کر اور کون درد خواہ ہو سکتا تھا۔
حضرت میر صاحب حضرت اقدس ؑ کواور سلسلہ کو دو الگ وجود خیال نہ کرتے تھے اور یہ تھی بھی ایک حقیقت۔ اس لئے حضرت میر صاحب حضرت صاحب کے خدمتگاروں کو لنگر سے کبھی روٹی وغیرہ دے دیاکرتے تھے۔
ہمیشہ ہر جگہ کچھ طبائع ایسی آ جاتی ہیں جو صرف اپنی ترقی کے سوا کسی دوسرے کی ترقی کو دیکھ نہیں سکتیں۔ حضرت میر صاحب سادہ زندگی بسر کرنے والے درویشانہ رنگ کے بزرگ تھے۔ وہ ایسے لوگوں کو کب پسند آ سکتے تھے۔ ان کو حضرت میر صاحب کی ہر کام میں پیش قدمی ناگوار معلوم ہوتی۔ چنانچہ ہم کو سلسلہ کے لٹریچر سے سب سے پہلا اعتراض یہ نظر آتا ہے کہ اصحابِ نمود اندر ہی اندر اس امر سے جلا کرتے تھے کہ سلسلہ کے اموال کا خرچ ہمارے ہاتھ میں کیوں نہیں دے دیا جاتا ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ابتداء میں جرأت نہ ہوتی تھی اس لئے تبر کا نشانہ پہلے حضرت میر صاحب کو بنایا گیا اور ان لوگوں کے ایک لیڈر نے جو بعد میں کھل نکلے۔ یہ اعتراض کیا:
’’کہ میر صاحب مالیوں کو یوں روٹیاں دیتے ہیں اور باغ کے کتے کو یوں گوشت دیا جاتا ہے‘‘۔ ۱۶؎
یہ اعتراض بہت بڑے فتنے کا پیش خیمہ تھا۔ اس کی تہہ میں مالی اعتراض چھپا ہوا تھا۔ گویا کہ وہ رقوم جو چندے کے طور پر آتی ہیں وہ ناجائز طور پر صَرف کی جاتی ہیں (العیاذ باللہ) ورنہ لنگر خانہ تو نہ صرف مہمانوں کے لئے ہی تھا بلکہ اس سے بہت سے غریب لوگ بھی پرورش پاتے تھے اور حضرت اقدس ؑ پسند کرتے تھے کہ لنگر پر آنے والے سائلوں کو بھی رد نہ کیا جائے۔ چنانچہ مَیں نے جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی سے بارہا سنا کہ وہ ایک زمانہ میں مہمانوں کے کھانا کھلانے پر مامور تھے۔ اس زمانہ میں مارواڑ میں سخت قحط پڑا۔ بہت سے لوگ یہاں بھی آ گئے اور وہ مانگنے کے لئے لنگر پر آ جایا کرتے تھے۔ شیخ صاحب ان کو کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے۔ اس امر کی کسی نے شکایت کر دی تو حضرت صاحبؑ سن کر خاموش ہو رہے۔ مگر شیخ صاحب کو جب شکایت کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضور! اس کام پر کسی اور کو مقرر کر دیا جائے۔ حضرت نے فرمایا کیوں میاں اسماعیل! تھک گئے! انہوں نے کہا۔ نہیں حضرت۔ اس طرح لوگ آتے ہیں تو مَیں پسند نہیں کرتا کہ حضور کے لنگر سے کوئی محروم جائے۔ اس لئے کسی کو چوتھا حصہ کسی کو نصف کسی کو پوری روٹی دے دیا کرتا ہوں اور اس کی پھر شکایت ہوتی ہے۔ حضور نے فرمایا:
’’ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ فی کس ایک روٹی دے دیا کرو اور فرمایا کہ میاں! یہ اللہ تعالیٰ ہی بھیجتا ہے کسی کو خالی نہ جانے دیا کرو‘‘۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لنگر کی عطاء بہت وسیع تھی اور مَیں نے خود ایام جلسہ میں کام کر کے دیکھا ہے کہ مزدور اور محنت کرنے والے لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو خواہ مزدوری کم دی جائے مگر ان کو کھانا دیا جائے۔ ابتدائی ایام میں جب کہ قادیان کے لوگ غربت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اُن کے لئے لنگر سے روٹی مل جانی ایک نعمتِ غیر مترقبہ تھی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں کام کرنے والے مالی کو اس کی درخواست پر اگر روٹی لنگر سے مل گئی تو یہ ایسی چیز نہ تھی کہ جو حضرت میر صاحب کیلئے باعثِ اعتراض بن سکتی۔ حضرت میر صاحب کا اگر الگ کوئی کاروبار ہوتا۔ اُن کا ذاتی کوئی باغ ہوتا تو جو مقام اُن کو صہری ابوت کا حاصل تھا اس لحاظ سے بھی میرے نزدیک اُن کا اپنے نوکروں کیلئے روٹی لے لینا بھی ناجائز نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نوکر کو یا ان کے کسی کتے کو لنگر سے روٹی لے کر ڈال دینے پر اعتراض کرنا تو محض شقاوت قلبی ہے اور یہ ایسی ہی بات تھی جیسے مدینہ کے چند نوجوانوں نے فتح مکہ کے بعد یہ اعتراض کر دیا کہ:
’’خون تو ہماری تلواروں سے ٹپکتا ہے اور مالِ غنیمت مکے والے لے گئے‘‘۔
اِن اعتراض کرنے والوں کے اعتراض میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عدل و انصاف پر ایک اعتراض پوشیدہ تھا۔ اگرچہ مدینہ کے مخلص صحابہؓ نے اس کی ہر طرح تردید کی اور معذرت کی۔ مگر دنیا میں اس کا اجر لینے سے محروم ہوگئے۔
پس یہ اعتراض بظاہر ایک معمولی بات تھی مگر اس اعتراض کا وار دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تھا اور یہ اعتراض پہلا کیڑا تھا جو ان کے قلب کے اندر گھن کے کیڑے کی طرح داخل ہوا اور جس نے اندر ہی اندر اُن کے سارے قلب کی حالت کو بدل دیا اور کھا لیا۔
لنگر کا انتظام ابتداء میں ایسا تھا کہ حضرت اقدس ؑ یہ چاہتے تھے کہ ہر احمدی لنگر خانہ سے ہی کھائے۔ چنانچہ سلسلہ کے سب عمائدین حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ، حضرت مولوی محمد احسن صاحبؓ، حضرت مولوی فضل دین صاحبؓ وغیرہ وغیرہ ابتداء میں سب کے ہاں لنگر سے ہی کھانا جاتا تھا۔ ایسی حالت میں لنگر کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ جب کہ سینکڑوں آدمی لنگر سے کھانا کھا رہے تھے۔ حضرتؑ کے باغ کے مالی کی روٹی کو اعتراض کا ذریعہ بنا لینا ان کی اندرونی اور نفسی حالت کا آئینہ دار ہو سکتا ہے۔ الغرض اس طرح حضرت میر صاحب بعض لوگوں کی نگاہ میں بلاوجہ کھٹکے اور ان کو حضرت اقدس ؑ پر اعتراض کرنے کا پہلا زینہ بنایا گیا۔
دوسرا قدم
حضرت میر صاحب پر یہ اعتراض سن کر سننے والے نے کہا:
’’پھر آپ لوگ اس کو روکتے نہیں۔ تو خواجہ صاحب نے ماتھا پیٹ کر کہا کہ اگر ہم کہیں تو پھر کچھ بھی کام نہیں کر سکتے اور اگر کہہ سکتے تو بات ہی کیا تھی۔ یہ تو آپ جیسے بزرگوں کا کام ہے اور اسی وجہ سے آپ سے ذکر کیا ہے۔ تب اُس نے وعدہ کیا کہ اچھا، پھر مَیں اس کا ذکر کروں گا‘‘۔ ۱۷؎
اِس بالائی عبارت کا مفہوم بھی بالکل واضح ہے کہ اس طریق پر لوگوں کو تیار کیا جاتا تھا کہ وہ حضرت میر صاحب کے خلاف آواز اٹھائیں۔ گویا حاسد لوگوں نے سلسلہ کے اموال کو اپنے قبضے میں لینے کیلئے حضرت میر صاحب کو زینہ بنایا اور یہ طریق عام انسانی اخلاق کی حد سے بھی گرا ہوا تھا۔ چہ جائیکہ اس کا کوئی تعلق تقویٰ کی کسی راہ سے ہو۔
چنانچہ انسانی فطرت اپنی عادت کے مطابق کام کرتی ہے اور جب ایک قدم اُٹھ جاتا ہے تو پھر دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اُٹھتا چلا جاتا ہے اور انسان یہ نہیں معلوم کر سکتا کہ وہ ہلاکت کے گڑھے کی طرف جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح معترض لیڈر کا دوسرا قدم اُٹھا اور یہ قدم حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کے خلاف براہِ راست تھا۔ ۱۹۰۶ء میں مسجد مبارک کی توسیع ہو رہی تھی اس غرض کے لئے ایک وفد تین اصحاب پر مشتمل گجرات اور کڑیانوالہ کی طرف بغرض حصول چندہ جا رہا تھا تو وفد کے لیڈر نے ایک لمبا سوال شروع کیا۔ جو ۳۶ میل کے سفر میں طَے ہوا اس سوال کا خلاصہ یہ تھا۔
’’پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ انبیاء اور صحابہؓ والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم اور خشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اللہ کی راہ میں دے دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے۔ غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچاتے تھے اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آ کر ہمارے سر چڑھ گئیں کہ تم بڑے جُھوٹے ہو۔ ہم نے تو قادیان میں جا کر خود انبیاء اور صحابہؓ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے۔ جس قدر آرام کی زندگی اورتعیّش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے اس کا تو عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ اپنا کمایا ہوا ہوتا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے‘‘۔
بعض زیورات اور بعض کپڑوں کی خرید کا مفصل ذکر کیا۔۱۸؎
اس اعتراض کو پڑھیئے اور پھر خط کشیدہ عبارت کوغور سے ملاحظہ فرمائیے اور پھر سوچئے کہ جس دماغ کے یہ خیالات ہوں کیا اس کے قلب میں اپنے مرشد پر کوئی ایمان معلوم ہوتا ہے؟
۱۔ خاندانِ مسیح موعود ؑکی زندگی پرتعیّش کا اعتراض۔
۲۔ صحابہؓ کی زندگی سے بالکل مختلف زندگی بسر کرنے کا نقشہ پیش کرنے والے۔
۳۔ قومی روپیہ کو کھا جانے والے۔
۴۔ قومی روپیہ سے زیوارت اور کپڑے بنانے والے۔
یہ کن کو قرار دیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کی مقدس بیوی کو۔ کسی مذہب کے آدمی سے دریافت کرو۔ وہ جس شخص کو اپنا ہادی اور راہنما تسلیم کرتا ہوگا۔ اس کے کسی فعل پر اعتراض نہیں کرے گا اور اگر کوئی شخص اس کے فعل پر اعتراض کرتا ہوگا تو وہ اس کو یقینا مسلوب الایمان سمجھے گا۔ اس امر کی حقیقت سے تو مَیں حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے باب میں پردہ اُٹھائوں گا۔ مگر یہاں صرف اس قدر کہنا کافی ہوگا کہ یہ دوسرا قدم تھا جو حضرت میر صاحب کے بعد ان گم گشتہ طریق لوگوں نے اُٹھایا اور اپنے آپ کو تباہی کے گڑھے میں ڈال دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحب پر اعتراض ہی اُن کو اس نتیجہ کی طرف لے گیا کہ وہ سلسلہ سے کٹ گئے۔ عبرت! عبرت! عبرت!!!
مدرسہ تعلیم الاسلام کے پہلے ناظم
سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضرورت دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مدرسہ تعلیم الاسلام کی بنیاد رکھنے کا ۱۸۹۷ء میں فیصلہ فرمایا اور ۱۸۹۸ء میں اس مدرسہ کا آغاز فرمایا۔ مدرسہ تعلیم الاسلام کی تعمیر کیلئے جو لوگ بنیادی پتھر قرار دیئے گئے ان میں سے حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ تھے جو مدرسہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ تھے جو مدرسہ کے ناظم مقرر ہوئے اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ بنیادی تعمیر میں حصہ لینے والے لوگوں کو کس قدر محنت کرنی پڑتی ہے وہ ایک واضح امر ہے۔
ڈھابوں کی بھرتی کا کام
مدرسہ احمدیہ جس جگہ واقع ہے۔ یہ سب جگہ پانی میں ڈوبی ہوئی تھی اور یہاں بہت بڑی ڈھاب تھی۔ حضرت میر صاحبؓ کی دُور رس نگاہ نے اس جگہ کی قدرکو جانا اور سلسلہ کی ترقی اور ضرورت کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھا۔ انہوں نے سلسلہ کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اس ڈھاب میں جہاں ہاتھی غرق ہوتا تھا مٹی ڈلوانے کاانتظام کیا۔ چنانچہ بھرتی پڑنے لگ گئی۔ بھرتی پڑرہی تھی کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور اُن کے رفقاء لاہور سے آئے انہوں نے ان بھرتیوں کو دیکھ کر کہنا شروع کیا کہ:
’’میر صاحب سلسلہ کا روپیہ غرق کر رہے ہیں‘‘۔
یہ اعتراض بھی اسی پہلے اعتراض کی ہی کڑی تھا۔ ورنہ میر صاحب کا مقام تو ان تمام اعتراضوں سے بہت بالا تھا۔ میر صاحب نے جب سنا تو فرمایا:
’’میں غرق کرتا ہوں تو تم سے لے کر نہیں۔ حضرت صاحب کا روپیہ ہے تم کون ہو جو مجھ پر اعتراض کرتے ہو۔ جائو حضرت صاحب کو کہو‘‘۔ ۱۹؎
بالآخر حضرت اقدس ؑ سے اس امر کا ذکر کیا گیا۔ حضور ؑ نے فرمایا:
’’کہ میر صاحب کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہئے‘‘۔
بعد کے واقعات نے بتلایا کہ اگر حضرت میر صاحب نے ان زمینوںکو پانی سے نکال کر سلسلہ کے لئے ایک قیمتی جائیداد نہ بنا لیاہوتا تو مرکزِ سلسلہ میں بہت مشکلات کا اضافہ ہو جاتا۔ آج وہ زمین سلسلہ کے مرکزی کاموں کے لئے کام آئی اور آج علوم عربیہ اور دینیہ کے پھیلانے کیلئے ایک ایسا مرکز بنی ہوئی ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں سے علم اور معرفت کی نہریں بَہہ رہی ہیں۔ جب تک دنیا رہے گی اور جب تک دنیا کو اس زمین سے فیض پہنچتا رہے گا۔ اُس وقت تک خدا کے نیک بندے حضرت میر صاحب کی اس خدمت کو یاد کر کے ان کے لئے دعا کرتے رہیں گے اور ان معترضین کے اس قول کو نفرت سے دیکھتے رہیں گے کہ میر صاحب قوم کا روپیہ غرق کر رہے ہیں۔
سلسلہ کی عمارات
جہاں تک میرا علم ہے۔ مہمانخانہ، مدرسہ وغیرہ کی عمارتوں کا کام بھی حضرت میر صاحب کی نگرانی میں ہوا۔ گول کمرے کے سامنے کا صحن کھلا پڑا تھا۔ حضرت میر صاحب نے کچھ پرانی اینٹیں جو زمین میں مدفون تھیں کھدوا کر نکلوائیں اور گول کمرے کے سامنے دیوار بنوا دی۔ حضرت میر صاحب جب زمین سے یہ مدفون اینٹیں نکلوا رہے تھے۔ اُس وقت بعض کوتاہ اندیشوںنے کہا کہ میر صاحب لغو کام کر رہے ہیں۔ مگر بعد میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ لغو کام کس قدر مفید اور بابرکت ثابت ہوا۔ حضرت عرفانی کبیر نے حیاتِ ناصر کے صفحہ۳۰ پر لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں وہی تعمیراتِ سلسلہ کے ناظم تھے اور اس کام کو انہوں نے نہایت دیانت اور درد اور اخلاص سے سرانجام دیا۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں بھی کبھی عار نہ ہوتا تھا اور نہ پیدل سفر کرنے سے پرہیز، نہایت کفایت شعاری سے وہ سلسلہ کے اموال کو جو اُن کے ہاتھ میں ہوتے خرچ کرتے تھے۔ ایک دنیا دار کی نظر میں اسے بے حیثیت کہا جائے مگر سچ یہ ہے کہ وہ ان اموال کے امین تھے۔
حضرت نانا جان نے جس دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو اداکیا وہ ہمیشہ آنے والی نسلیں عزت سے یاد کریں گی۔ انہوں نے کبھی اپنے آرام کی پرواہ نہ کی۔ کڑکتی دھوپ میں نگرانی کر رہے ہیں۔ پسینہ سر سے لے کر پائوں تک جا رہا ہے۔ برستی بارش میں اگر کوئی خطرہ ہوا ہے تو کھڑے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ان کی یہ ہمت اور یہ فرض شناسی اور اموالِ سلسلہ کی دیانت سے خرچ کرنے کی مثال ہمارے لئے سبق ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ یہ تمام کام وہ آنریری طور پر کرتے تھے۔ کوئی معاوضہ ان کاموں کا دنیا کے کسی سکہ کی شکل میں نہ لیا اور نہ خواہش کی۔
حضرت میر صاحبؓ کی شاعری
حضرت میر صاحبؓ شاعر بھی تھے۔ اُن کے اشعار بہت آسان اور سلیس زبان میں ہوتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ گوندھی ہوئی مٹی ان کے سامنے پڑی ہے اور وہ اس سے حسبِ منشاء جو چاہتے ہیں بناتے جاتے ہیں۔ سلسلہ کی تائید میں حمد الٰہی، نعت نبیؐ اور اپنے سفر نامے اور بعض تحریکیں انہوں نے شعر میں لکھے۔ یہ بجائے خود ایک طویل مضمون ہے۔ وہ اپنی شاعری میں خیالی باتوں کی طرف نہ جاتے تھے۔ دشمنانِ سلسلہ کے خلاف منہ توڑ اشعار بھی لکھا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دشمن کے متعلق لکھا:
اک سگِ٭ دیوانہ لدھیانہ میں ہے
آج کل وہ خر شتر خانہ میں ہے
الغرض اس طرح اُن کے دن اور رات خدمتِ سلسلہ میں لگے ہوئے تھے اور وہ بے غرض خدمت میں منہمک تھے کہ ان کی دنیا میں ایک نئی تبدیلی ہوئی اور ۱۹۰۸ء کا زمانہ آ گیا۔
۲۶/ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون اور حضرت میر صاحبؓ کے کاموں کی نوعیت بدل گئی۔ حضرت میر صاحب نے خود لکھا ہے کہ:
’’اب میرے متعلق کوئی کام نہ رہا کیونکہ وہ کام لینے والا ہی نہ رہا۔ دنیا سے اُٹھ گیا۔ میرصاحب، میر صاحب کی صدائیں اب مدھم پڑ گئیں بلکہ کئی اور میر صاحب پیدا ہو گئے۔ شکر ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا غرور مجھ سے دور ہوا اور ناز جاتا رہا کیونکہ کوئی ناز بردار نہ رہا۔ حضرت صاحب کی جدائی کے غم اور آپ کے سلسلہ کے کاموں سے سبکدوشی نے مجھے پریشان کر دیا‘‘۔ ۲۰؎
مسجد مبارک کی توسیع
اگرچہ مجھے اس امر کا ذکر پہلے کرنا چاہئے تھا مگر مَیں بھول گیا اور اس امر کا ذکر رہ گیا کہ مسجد مبارک کی توسیع جو ۱۹۰۶ء سے ۱۹۰۷ء تک جاری رہی۔ اُن معترضین کو جو میر صاحب کی مسابقت فی الدین کو بُری نگاہ سے دیکھتے تھے یہ چیز بھی تکلیف دے رہی تھی۔ مگر بے بس تھے۔ بعض کھڑکیوں وغیرہ کے متعلق جھگڑا ہوا۔ حضرتؑ تک معاملہ گیا۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ میر صاحبؓ نے ’’جہاں کھڑکیاں دروازے رکھ دیئے ہیں وہیں رہنے دیئے جائیں‘‘۔
اس سے اُس مقام کا پتہ چل سکتا ہے جو حضرت کے دل میں حضرت میر صاحبؓ کا تھا۔
بھرتیوں کے معاملہ میں فرمایا:
’’میر صاحب کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہئے‘‘۔
٭ بہ سگِ دیوانہ لودھانہ کے ایک محلہ شتر خانہ میں رہتا تھا۔ (عرفانی کبیر)
اور اس موقعہ پر فرمایا:
کہ جو کھڑکی وغیرہ میر صاحب نے جہاں رکھ دی ہے وہیں رہنے دی جائے۔
کاش! وہ معترضین اس امر سے اس پاک نفس بزرگ کے مقام کو سمجھ لیتے اور ٹھوکر سے بچ جاتے۔یہ تھی شان حضرت میر صاحبؓ کی اور اس مقام کا تھا وہ انسان۔
ایک اور موقعہ
حضرت میر صاحبؓ نے ایک دفعہ ایک کوٹ جو مستعمل تھا۔ اپنے ایک عزیز کو بھیجا مگر اس عزیز نے مستعمل کوٹ لینے سے انکار کر دیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کے نبی اور مامور کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے وہ کوٹ محض اس لئے رکھ لیا کہ کہیں میر صاحبؓ کو اس واپسی سے رنج نہ ہو۔ یہ تھا حضرت میر صاحب کا احترام اور اُن کے جذبات کا احساس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلب میں۔
عہد خلافت اولیٰ اور حضرت میر صاحبؓ
خلافتِ اولیٰ کے ایام میں حضرت میر صاحبؓ نے قادیان کے غرباء کی حالت کا اندازہ لگا کر یہ چاہا کہ ان کی بہتری کی کوئی تجویز کی جائے۔ چنانچہ اس غرض کے ماتحت حضرت میر صاحب نے مسجد نور، ناصر وارڈ، ہسپتال مردانہ، زنانہ، دارالفعفاء کو مدنظر رکھ کر سارے ملک میں پھر کر چندہ جمع کرنا شروع کیا۔ حضرت میر صاحب نے اس کام کے لئے شب و روز ایک کر دیا اور پیدل چل چل کر یہ کام کیا۔ چنانچہ آپ نے دو حصوں میں اپنا سفر نامہ تصنیف فرمایا جو نظم میں ہے۔ اس کے چند ٹکڑے نمونے کے طور پر یہاں درج کرتا ہوں۔ جن سے ان کی محنت، سعی اور تکلیف کا بخوبی پتہ لگ سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
قصبۂ قادیان کو کیوں چھوڑا
کیوں عزیزوں سے اپنا منہ موڑا
کیوں سفر اختیار تو نے کیا
کیوں انہیں دلفگار تو نے کیا
دین کے کام کے لئے مَیں چلا
تا جماعت سے لائوں میں چندا
احمدی بھائیوں سے لائوں مال
دینی کاموں پہ وہ لگائوں مال
چار کاموں کا ہے خیال مجھے
واسطے ان کے ہے ملال مجھے
مسجد و ہسپتال مردانہ
اک زنانہ بھی ہے شفاخانہ
کچھ غریبوں کے واسطے ہیں مکاں
امن و آرام سے بسیں وہ جہاں
مَیں نے کی ہے یہ اس لئے تکلیف
میرا مالک قوی ہے مَیں ہوں ضعیف
میرے دکھ کو خدا کرے آسان
غیب سے بخشے وہ مجھے سامان
…………
پانچ تاریخ تھی ستمبر کی
مجھ کو توفیق جب خدا نے دی
قادیان سے چلا بسوئے سفر
کی سواری سے میں نے قطع نظر
پاپیادہ چلا بٹالہ کو
اس سے مقصد تھے میرے دل میں دو
اپنی قوت کو آزمائوں مَیں
ریل تک پا پیادہ جائوں مَیں
دوسرے کچھ کرایہ بچ جائے
راہِ مولیٰ میں وہ بھی کام آئے
مجھ کو دُکھ ہووے قوم سُکھ پائے
میری خدمت یہ اس کو یاد آئے
لاہور کی طرف روانگی
فرمایا:
تیسرے درجہ کا ٹکٹ لے کر
فضل حق سے چلا مَیں بسوئے سفر
پہلے لاہور تک کا قصد کیا
ابر و باراں نے میرا ساتھ دیا
خوف آتا تھا سخت بارش سے
دل ڈراتے ہوا کے دھکے تھے
اسی بارش میں پہنچے ہم لاہور
نظر آتے تھے طَور کچھ بے طَور
اسی کیچڑ میں مَیں گیا لاہور
میری ہمت پہ آپ کیجئے غور
سفر میں گرمی کی تکلیف
فرمایا:
وہاں سے بھلوال میں مَیں جا اُترا
سخت گرمی تھی اُس جگہ بخدا
انسپکٹر کے ڈیرے پر جو گیا
نہ ملا مجھ کو کچھ بھی اُن کا پتا
اسی گرمی میں پہنچا چک پنیار
گرمی اور ماندگی سے تھا ناچار
ایک چک میں مَیں ہو گیا داخل
ہوا آرام نہ کچھ وہاں حاصل
کیونکہ احباب تھے گئے باہر
عورتیں بس گھروں کے تھیں اندر
ایک مسجد میں ایک مکتب تھا
اس جگہ مَیں غریب بیٹھ گیا
پانی مانگا تو وہاں ملی لسی
ہو کے ناچار مَیں نے پی لسّی
اس سفر کی تکالیف کا ذکر
آخرش جنڈ میں مَیں جب پہنچا
بے خبر ریل سے جو مَیں اُترا
مَیں گرا اپنے ہی ٹرنک پہ جب
پڑ گیا میری پسلیوں پہ غضب
دَ ہنی جانب کو سخت چوٹ آئی
دَرد سے ہو گیا مَیں سودائی
یار تھا اور نہ کوئی یاور تھا
ساتھ بس اک خدائے برتر تھا
فضل سے اس کے بچ گئی میری جان
بچ گیا مَیں یہ اس کا ہے احسان
میرے ہمراہ اک سوار ہوا
میرے صدمہ میں غمگسار ہوا
اس نے ہاتھوں سے میری خدمت کی
اور زباں سے مجھے تسلّی دی
پانچ گھنٹے وہاں رہا ناچار
خاک پر پڑ گیا بحالتِ زار
تھا نہ بستر نہ چار پائی تھی
مَیں نے تکلیف سخت پائی تھی
رمضان اور عید کیسے گذرے
آج ہے عید بس گیا رمضان
ہائے افسوس! چل دیا مہمان
سارا رمضان مَیں سفر میں رہا
اسی چندہ کے درد سر میں رہا
صبح سے شام تک رہا چلتا
ایبٹ آباد رات کو پہنچا
ایک جگہ فرماتے ہیں:
میرے مولیٰ نے مجھ پہ فضل کیا
تَن دیا اور وہ تندرست دیا
شکر حق پر تواں ہوا ہوں مَیں
سیرۃ حضرت سیّدۃُ النساء اُمُّ المؤمنِین
نصرت جہان بیگم صاحبہ
مصنف
محمود احمد عرفانی ایڈیٹر الحکم قادیان
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
الحمدللّٰہ
عزیزم مکرم محمود احمد عرفانی نے حضرت اُمُّ المومنین متعنا اللہ بطول حیاتہا یہ سیرۃ جن حالات میں لکھی ہے اکثر احباب اس سے واقف ہیں وہ کئی سال سے مریض چلا آتا ہے اور مختلف اوقات میں مرض کے خطرناک حملے ہوئے طبی مشورہ کامل آرام کا تھا اور ہے مگر اس نے خدا کے فضل پر بھروسہ کرکے عزم کیا تھا کہ اس بابرکت کتاب کی تالیف کی سعادت حاصل کرے اللہ تعالیٰ نے اِسے توفیق دی الحمدللّٰہ علی ذالک۔ بیماری کا پھر حملہ ہوا تو میں نے حکمًا اسے روک دیا اورکتاب کی ضخامت بھی بڑھ رہی تھی۔ اس لئے دو حصے کر دینا ضروری ہوا۔ یہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کتاب کی قبولیت کا نشان ہے کہ طبع ہونے سے پہلے تین ہزار کتاب فروخت ہو گئی جن احباب کو ابھی تک موقعہ نہیں ملا وہ ابھی سے درخواستیں دے دیں تا کہ دوسرا ایڈیشن شائع ہوتے ہی مل جاوے۔ یہ تین ہزار خریدار دوسرے حصہ کے مستقل خریدار متصور ہونگے۔ اس لئے جو احباب نئے خریدار ہوں وہ جلد اطلاع دیں تا کہ دوسرے حصہ اور دوسرے ایڈیشن کو اس تعداد میں چھاپا جاوے مجھے اعتراف ہے کہ بہت ممکن ہے چھاپہ کی بعض غلطیاں رہ گئی ہوں مگر دوسرے ایڈیشن میں انشاء اللہ اصلاح ہو جائے گی۔ دوسرا ایڈیشن پانچ ہزار چھاپنے کاارادہ ہے نیز یہ بھی افسوس ہے کہ وقت پر بلاکس تیار نہ ہونے کی وجہ سے وجہ تصاویر نہیں دی جا سکیں میں اُن تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے عزیز مکرم محمود احمد عرفانی کی اس خدمت کی قدر فرمائی۔ تفصیلی اظہار تشکر اور معاونین کی فہرست اس حصہ کے آخر میں انشاء اللہ وہ خود لکھیں گے میں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ عزیز مکرم کی صحت و توانائی توفیق تکمیل کیلئے دعا فرمائیں۔
خاکسار
یعقوب علی عرفانی کبیر
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھــــــــــوالنــــــــاصـــــــــــــــــر
انتساب
مَیں اِس قیمتی اور مبارک کتاب کو جو میری زندگی کا مایۂ ناز کام ہے اورجس کی برکتوں کو مَیں نے ایک ملموس حقیقت کی طرح دیکھا اور پایا کسی ایسے بے نفس بزرگ کے نام سے منسوب کرنی چاہتا تھا جس کی محبت اور وفاداری کی روح خود بخود اپنے لئے کوئی مقام بلند تیار کرلے۔
چنانچہ مَیں نے کتاب کی مکمل اشاعت تک انتظار کیااور خریداران یوسف کے ہر سرمایہ اور پونجی پر نظر ڈالی۔ مَیں نے ان کی رُوحِ مسابقت اور عشق و محبت کے ہر نشیب و فراز اور وادی کو خوب دیکھا جن کا ذکر بجائے خود لذیذاور دلچسپ ہے مگر یہاں اس کی گنجائش نہیں۔ بہت سے جو محبت کے کوچے میں مجھے آگے نظر آتے تھے بہت پیچھے نظر آئے اور بہت سے تھے جو بہت پیچھے نظر آتے تھے، مجھے بہت آگے نظر آئے اور ان آگے نظر آنے والوں میں سب سے آگے اور سب کے سالار الحاج حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین آف سکندر آباد نکلے۔ جنہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگر کتاب پانچ ہزار چھپے گی تو وہ پانچ سو کتاب خرید لیں گے۔ نیز یہ بھی وعدہ فرمایا تھا کہ اس کی اشاعت میں ہر قسم کی مالی سہولت مہیا فرمائیں گے۔ حضرت سیٹھ صاحب نے جو کہا اسے پورا فرما دیا۔ میری محنت اور کوشش کبھی پروان نہ چڑھتی اگر حضرت سیٹھ صاحب کی یہ معاونت مجھے میسر نہ آتی۔
وہ خود، ان کی بیگم صاحبہ، ان کے بچے، سب اسی رنگ میں رنگین مجھے نظر آئے اس لئے میں ان کی محبت اور وفا کی تسجیل اس کتاب کو حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب مدّظلّہ العالی کے نام نامی سے منتسب کرنے سے کرتا ہوں۔
سیٹھ صاحب کی ذاتِ گرامی ان چیزوں سے بالکل بالا ہے اور ان کا قلب نمود و نمائش سے بالکل خالی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی بھی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے پاکباز بندوں کے نام اور کام کو دنیا میں زندہ رکھا کرتا ہے اس لئے میرا یہ فعل سنتِ الٰہیہ سے باہر نہیں۔
حضرت سیٹھ صاحب کی ایک مناسبت
ہمارے سلسلہ کو نور کے ساتھ ایک بڑی مناسبت ہے۔ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحبؒ جو حضرت خواجہ میر دردؒ کے والد بزرگوار تھے، ان کو ایک پیشگوئی میں بتلایا گیا، کہ جو روشنی ان کو دی گئی ہے، یہ مسیح موعود ؑ کی روشنی میں گم ہو جائے گی۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے متعلق یہی پیشگوئی تھی کہ وہ منار پر اُتریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کو نوروںکی تخم ریزی کرنے والے ٹھہرایا گیا۔ الغرض نور اور روشنی کو اس سلسلہ سے بڑی مناسبت ہے۔
حضرت سیٹھ صاحب کے متعلق حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ایک رئویا دیکھاتھا کہ وہ ایک تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ملائکہ اُن پر نور کی بارش کر رہے ہیں۔
پس اُن کے وجود کو اس نور سے جو مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دنیا کو ملا، ایک مناسبت ہے۔ اس لئے میرے نزدیک وہی ان فدا کاروں میں سے پہلے مستحق ہیں کہ اس مبارک کتاب کو اُن کے نامِ نامی سے منسوب کروں۔
اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ حضرت سیٹھ صاحب کی اس پاکیزہ قربانی اور دیگر تمام قربانیوں کو قبولیت کے ہاتھوں سے لے اور ان سب کا اجرعظیم دے۔ آمین
اسی سلسلہ میں مَیں حضرت سیٹھ صاحب سے یہ عرض کروں گا کہ عشق و محبت اور وفا کا مقام اتنا ہی آگے بڑھتا ہے جتنا کہ عاشقِ جانباز آگے بڑھتا جاتا ہے۔ پس
نِرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز!
محمود احمد عرفانی
مصنف کتاب سیرۃ حضرت اُمُّ المومنین نصرت جہان بیگم
قادیان۔ دارالامان
۲۵۔ نومبر ۱۹۴۳ء
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھــــــــــوالنــــــــاصـــــــــــــــــر
تمہید
گذشتہ سال ۱۹۴۲ء میں مَیں نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ایک کتاب ’’مرکز احمدیت قادیان‘‘ نامی تصنیف کی۔ جب مَیں یہ کتاب لکھ رہا تھا اُنہی ایام میں میرے قلب میں ایک زبردست لہر پیدا ہوتی تھی کہ مَیں دنیا کی اس ممتاز ترین خاتون کی سیرت و سوانح لکھوں جسے تیرہ صدیاں گذرنے کے بعد مومنوں کی ماں بننے کا شرف حاصل ہوا اور جس کے وجود سے وہ نور پیدا ہوئے جن کے ذریعے سے آئندہ دنیا کی آبیاری کی جائے گی۔ مگر قدرت کی نیرنگیاں ہیں کہ مَیں جلسہ سالانہ کے بعد کھانسی کی تکلیف میں مبتلا ہو گیا۔ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ مَیں جنوری ۱۹۴۳ء کے آغاز میں ہی اس کام کو شروع کر سکوں گا مگر مشیّتِ الٰہی کچھ اور چاہتی تھی۔ اس لئے میری کھانسی کی یہ حالت ہوئی کہ۔ع
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواء کی
مرض نے بڑھتے بڑھتے مجھے اس حد تک لاچار کر دیا کہ مَیں بالکل چلنے پھرنے اور اُٹھنے بیٹھنے سے مجبور ہو گیا حتیّٰ کہ ڈاکٹروں کی رائے میں مَیں تپ دق کا بیمار قرار دیا گیا مجھے ان گھڑیوں میں جب کہ مَیں مرض کے شدید پنجے میں گرفتار تھا۔ جن امور کا رنج اور خیال تھا اُن میں سے ایک یہ امر بھی تھا کہ مَیں جو کام کرنا چاہتا تھا اس سے محروم رہتا ہوا نظر آتا ہوں۔ اِن امور کی وجہ سے میرے اندر ایک کرب کی کیفیت پیدا ہوتی تھی اور مَیں بیقرار ہو کر خدا سے دعا مانگتا تھا کہ وہ مجھے اپنے فضل سے صحت یاب کر دے۔ میرے بزرگ اور میرے احباب اور بھائی بھی بکثرت دعائوں میں مشغول تھے۔ اسی حالت میں مادرِ مہربان حضرت اُمُّ المؤمنین اطال اللہ عمر ہا نے بھی اپنی خادمہ کے ذریعے دو دفعہ میری حالت دریافت فرمائی اور اپنی شفقت کے اظہار کے لئے کہلوایا کہ آپ میرے لئے دعا فرما رہی ہیں۔ اِن الفاظ میں ایک بڑی برکت اور تسلی تھی جس نے میرے قلب کو ڈھارس دی اور مَیں روز بروز اپنی بیماری میںکمی اور اپنی صحت میں ترقی محسوس کرنے لگا۔ حتیّٰ کہ آج ۱۹/ مارچ ۱۹۴۳ء بروز جمعۃ المبارک اس قابل ہو گیا کہ مَیں اپنا قلم اُٹھا سکوں۔
سو میں نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس مبارک خاتون کی سیرت و سوانح کا آغاز کر دیا ہے۔ میرے معالج اگرچہ مجھے ابھی تک لکھنے کے کام کی اجازت نہیں دیتے مگر مَیں یقین کرتا ہوں کہ تھوڑا تھوڑا کام میرے لئے غذائے روح کا کام دے گا اور ایک بابرکت وجود کا ذکر میرے لئے بھی برکت کا باعث ہوگا۔ اس لئے باوجود بیماری اور کمزوری کے مَیں اس کام کو شروع کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ خود اس کی تکمیل کے سامان مہیا فرما دے گا کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کی معیت اور نصرت ہے اور خدا تعالیٰ نے بارہا اپنی وحی میں جو اپنے بندے، اس زمانہ کے راستباز مامور مرسل ؑپر نازل فرمائی اس معیّت اور نصرت کا وعدہ فرمایا ہے اور فرمایا کہ اِنِّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ اور پھر فرمایا کہ اِنّیْ مَعَکَ وَمَعَ اَھْلِکَ ھٰذِہٖ۔ اس قسم کی صد ہا بشارتیں اور نصرتیں آپ کے وجود باجود کے لئے ازل سے مقدر ہیں۔ اس لئے میں یقین رکھتا ہوں کہ اس تصنیف کے ساتھ مجھے بھی برکت دی جائے گی اور کیا عجب کہ مَیں تنومند اور صحت مند کیا جائوں۔
میں اس قدر اس تمہید کو لکھ چکا تھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ بنصرہ العزیز کی خادمہ میرے نیچے کے کمرے کے سامنے آ کر کھڑی ہوگئی اور اس نے مجھے کہا کہ میں اماں جان کی طرف سے آپ کے لئے تبرک لے کر آئی ہوں۔ میرا سر نیاز مندی اور احسان کی روح سے جھک گیا۔
اِس تبرک کے بھیجے جانیکی وجہ یہ تھی کہ مَیں نے اپنی بیماری کے ایام میں ایک خواب دیکھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ نے مجھے اور مرزا سلیم بیگ صاحب کو ایک برتن میںکھانا دیا جو ہم دونوں نے کھایا۔ اِدھر میں نے یہ خواب دیکھا اُدھر حضرت والد صاحب نے سکندر آباد سے مجھے لکھا کہ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ بنصرہ العزیز کا تبرک منگوا کر کھائو کہ اس میں برکت اور شفاء ہوگی۔ اس خواب اور اس ارشاد کی تعمیل میں میری رفیقہ حیات حضرت اُمُّ المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے دعا کی درخواست کے بعد تبرک کی درخواست کی جو آپ نے بڑی خوشی سے منظور فرمائی۔ ان دنوں میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سندھ میںتشریف فرما ہیں۔ اس لئے حضرت اُمُّ المؤمنین ایدھا اللہ بنصرہ ِالعزیز اکثر وقت اپنے برادر محترم یعنی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن کے ہاں گذارا کرتی ہیں۔ آپ نے درخواست سن کر فرمایا کہ ہاں بہت اچھا، مگر جب کہ میں گھر یعنی الدار میں آ جائوں گی اُس وقت بھیجوں گی۔ چنانچہ اس بات پر تقریباً ۵،۶ دن گذر چکے تھے کہ حضرت ممدوحہ نے اپنے اس ناچیز خادم کی درخواست کو یاد رکھااور خود بخود ہی کھانا بھجوا دیا۔
یہ بات اگرچہ معمولی ہے مگر اس کے اندر جو روح اور جو شفقت کام کر رہی ہے وہ بہت بڑی ہے۔ حضرت ممدوحہ کی روح تو فیاضیوں سے بھری ہوئی ہے۔ آپ کے احسانات ہزار ہا لوگوں پر ہیں۔ اُن کاذکر بھی اصل کتاب میں اپنی جگہ آ جائے گا۔ وباللہ التوفیق۔ اور وہ جو کچھ ہوگا آپ کے جودو کرم کے سمندر سے ایک قطرہ ہی ہوگا۔
میری بچپن کی زندگی کا ایک واقعہ
میری پیدائش اکتوبر ۱۸۹۷ء میں ہوئی۔ ۱۸۹۸ء میں والد صاحب قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے۔ اُن کا معمول یہ تھا کہ وہ اخبار کے کام امرتسر جاتے رہتے تھے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدمات کے سلسلہ میں گورداسپور جایا کرتے تھے۔ گھر میں مَیں ایک ننھا بچہ اور والدہ صاحبہ ہوتی تھیں۔ اس لئے تنہائی سے بچنے کے لئے حضرت والدہ صاحبہ مجھ کو لے کر حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ کے پاس چلی جایا کرتی تھیں۔ میری والدہ صاحبہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضرت اُمُّ المومنین اُن کو محبت سے ’’بہو ‘‘ کے لقب سے پکارا کرتی ہیں۔
مَیں اگرچہ دو اڑھائی سال کا بچہ تھا۔ مگر گوشت کو بہت پسند کرتا تھا۔ حضرت اُمُّ المؤمنین ایدہا اللہ کے باورچی خانے میںگوشت بھونا جا رہا تھا۔ مَیں یہ دیکھ کر رونے لگا اور ضد کرنے لگا۔ میری والدہ صاحبہ جنہوںنے بارہا ہنستے ہوئے مجھے یہ کہانی سنائی، فرمایا کرتی ہیں کہ مَیں تم کو اندر ہی اندر روکنے کی کوشش کرتی تھی کہ حضرت اُمُّ المؤمنین کی نظر پڑ گئی۔ فرمایا بہو! بچہ کیوں روتا ہے؟ والدہ نے کہا۔ نہیں جی کچھ نہیں۔
فرمایا۔ نہیں۔ کچھ تو ہے۔ بتلائو۔ تب والدہ نے ندامت کے رنگ میں دبی زبان سے کہا کہ بوٹی مانگتا ہے۔ یہ سن کر پکانے والی کو حکم دیا کہ جلدی دو اور اپنے سامنے ایک برتن میں کچھ بوٹیاں نکلوا کر دے دیں۔ میری والدہ صاحبہ بتلایا کرتی ہیں کہ مَیں وہ گرم گرم بوٹیاں کھاتا جاتا تھا اور منہ سے رال سی ٹپکتی تھی۔ اس واقعہ کا مجھے بارہا لطف آیا اور مَیں نے اِس واقعہ کے اندر بارہا اس سیر چشمی اور کرم کو دیکھا جو آپ کی فیاضی طبیعت میں موجود تھا۔
عام طور پر ہم اپنے گھروں میں دیکھتے ہیں کہ گھر میں آنے والی مستورات کے بچوں کی ایسی خواہشوں کی طرف کبھی توجہ نہیں دی جاتی۔ مگر آپ کا ایک دو اڑھائی سال کے بچے کی خواہش کااس طرح کرید کر معلوم کرنا اور پھر اس کو سیر چشمی سے پورا کرنا۔ یہ آپ کی فیاضی فطرت کا ایک ادنیٰ نمونہ تھا۔ چنانچہ آج بھی جب تبرک آیا تو مجھے حضرت اماں جان کا وہ لطف و احسان جو مجھے آج سے چوالیس سال قبل ہوا تھا، یاد آیا اور پھر آج کا لطف و احسان بھی۔ تو میرے دل میں ان کے لئے شکرگذاری کے جذبات پیدا ہوئے اور مَیں نے شکر گذاری کے ساتھ اسی واقعہ کو اس کتاب کی تمہید میں درج کر دیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت ممدوحہ موصوفہ کی عمر اور صحت میں برکت دے اور ان کو ہر قسم کے انعاماتِ الٰہی سے دائمی ابدی طور پر مالا مال رکھے۔ آمین
۱۹/مارچ ۱۹۴۳ء محمود احمدعرفانی
ء…ء…ء
رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرکَاتُہٗ عَلَیْکُمْ اَھْلُ الْبَیْتِ
اہل بیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
مکرم و محترم جناب قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کی زبانِ قلم سے
اے خاندانِ حضرتِ مہدی امامِ حق
تم سے ہوا بلند زمانے میں نامِ حق
تم ہی تو ہو کہ جن کے مبارک وجود سے
پہنچاتے ہیں ملائکۃ اللہ۔ سلامِ حق
پھیلی تمہارے دم سے زمانے میں روشنی
پھوٹا ہے ایک چشمۂ نورِ کلامِ حق
تم ہو خدا کے ساتھ خدا ہے تمہارے ساتھ
ہم نے ہزار بار سنا یہ پیامِ حق
تم پر خدا کی رحمتِ خاصہ کا ہے نزول
قائم ہوا تمہیں سے یہ سارا نظامِ حق
لاریب تم ہو فارسی الاصل وہ رجال
وابستہ جن کی ذات سے ہوگا قیامِ حق
ایمان لانے والے ثریا سے تم ہی ہو
ہاں ہاں تمہیں نے آ کے دکھایا مقامِ حق
تم ہو امانِ اہل زمیں جانِ علمِ و دیں
تم سے ملے گا جس کو ملے گا مرامِ حق
تم ہو نجوم جن سے ہدایت کی رَہ ملی
محمود کا وجود ہے، ماہِ تمامِ حق
تطہیر پر تمہاری ہے شاہد خدائے پاک
تقویٰ سے بن گئے ہو، آئمّہ کرامِ حق
ہر رِجس سے ہو پاک سراپا ہی نور ہو
روشن تمہارے نام سے ہوتا ہے نامِ حق
بدگو وہی ہے جس کو برائی سے پیار ہے
جو نیک ہے کرے گا ضرور احترامِ حق
ازواج و اُمہات و بنات و بنینِ بیت
واللہ! سب کے سب ہیں مجسّم نظامِ حق
اے اُمِّ مومنین! تری شان ہے بلند
پہلو میں تیرے اُترا کیا ہے پیامِ حق
کیا وصف لکھ سکے۔ یہ حقیر و فقیرِ قوم
تو خَلق و خُلق میں ہے نشانِ دوامِ حق
روزِ ازل سے تابہ اَبَد کائنات میں
مخصوص ہے ترے لئے دارالسّلامِ حق
قوموںکی ماں ہے اُن کی ترقی کی جاں ہے تو
جاری رہے گا تجھ سے یہ فیضانِ عامِ حق
آئندہ آنے والی خواتین مبارکہ
اور ہونے والے سارے اَئمہّ عظامِ حق
تیرے ہی دم قدم سے ہیں وابستہ سب کے سب
بھیجا کریں گے تجھ پہ درُود و سلامِ حق
اُمید ہے کہ دل سے بھلایا نہ جائے گا
عاصی گناہ گار یہ اکمل غلامِ حق
اندھے نہیں ہیں، دیکھتے ہیں، عقل رکھتے ہیں
یہ گھر زمانے بھر میں ہے بیت الحرامِ حق
دامن تمہارا پاک ہے ہر نقص و عیب سے
وہ مُشک ہو کہ جس سے مُعَنبر مشّامِ حق
مدّاحِ اہل بیتِ مسیحؑ محمدی
اکمل تمہارا خادم و سرمستِ جامِ حق
٭…٭…٭
حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت و سوانح لکھنے سے قبل کچھ
(۱)
اللہ تعالیٰ کی قدرتیں ایسی عجیب ہوتی ہیں کہ انسان ان کو دیکھ کر محوِ حیرت ہو جاتا ہے۔ بنی اسرائیل کے گھرانے کا نجات دہندہ خدا کا پیارا نبی موسٰیؑ فرعون کے گھر میں پرورش پاتا ہے اور جب اُس کی ماں بنی اسرائیل کے دیگر بچوں کے انجام کو دیکھتی ہوئی گھبرائی تو الٰہی دستگیری سے اُسے دریائیِ نیل میں بہا دیتی ہے۔ جسے فرعونی خاندان کی ایک عورت بچا لیتی ہے اور باوجود فرعون کے فرمان کی موجودگی کے وہ اسرائیل جس کے لئے مقدر تھا کہ وہ اس فرعونی سلطنت کا خاتمہ کر دے گا، قصرِ فرعونی میں پرورش پاتا ہے۔
پھر دوسرے دَور میں وہ ایک کسمپرس انسان کی طرح مصر سے بھاگتا ہے۔ حضرت شعیبؑ کی بکریاں چراتا ہے کون جانتا تھا کہ یہ شخص جو آج سر چھپانے کے لئے جگہ نہیں پاتا وہ کل سارے بنی اسرائیل کا بادشاہ قرار دیا جائے گا اور اس کا وجود اسرائیل کے لئے ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھنے کا باعث قرار پایا جائے گا۔
(۲)
وادیٔ فلسطین میں زیتون کی جھاڑیوں کے پاس بیت المقدس کی پہاڑی پر ایک عورت کا بیٹا جو منشاء الٰہی سے پیدا ہوا تا کہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی ایک خاص قدرت نمائی کا اظہار کرے۔ جب چلتا پھرتا نظر آتا تھا تو لوگ اس پر طعنہ زن ہوتے تھے۔ اس کی ہنسی اڑائی جاتی تھی۔ اس پر مذاق کیا جاتا تھا۔ بالآخر اس پر مقدمات بنائے گئے۔ عدالتوں میں کھینچا گیا۔ خدا کی وسیع زمین باوجود بڑی وسعت کے اس پر اس حد تک تنگ ہوئی کہ اس نے کہا:
’’پرندوں کیلئے بسیرے اور لومڑیوں کیلئے بھَٹ ہیں۔ مگر ابن آدم کے لئے سرچھپانے کی جگہ نہیں‘‘۔
اس کے سر پر کانٹوں کا تاج رکھا گیا۔ ا سکے منہ پر طمانچے مارے گئے۔ اس کی پیٹھ پر لکڑی کی بھاری صلیب لادی گئی۔ اور بالآخر صلیب پر لٹکا دیا گیا۔ گو خدا کے ہاتھ نے اسے موت سے بچا لیا مگر مارنے والوں نے اسے مردہ جان کر پھینک دیا۔لیکن ان کو کیا معلوم تھا کہ یہ انسان جس پر آج زمین تنگ کی جارہی ہے۔ جو لوگوں کی نگاہ میں ذلیل اور حقیر ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس کی *** ایک آگ ہے جو یہودی قوم کو دنیا و آخرت میں جہنم کی بھٹیوں میں بھسم کر دے گی اور اس کے ماننے والوں کو دنیا کی ایک ایسی سیادت اور حکومت دی جائے گی کہ صدیوں تک قوموں پر حکمرانی کرتے رہیں گے۔
افسوس ! ان مصیبتوں کے طوفان میں تھپیڑے کھانے والا مسیح عیسیٰ ابن مریم کسی کو اپنی درخشاں شان میں نظر نہ آتا تھا۔
(۳)
پھر ایک تیسرا نظارہ وادیٔ بطحا میں ہم دیکھتے ہیں۔ قوموں‘ ملکوں بلکہ دنیا کا نجات دہندہ شاہنشاہِ رسالت ہم کو کبھی بکریوں کے چرواہے کی شکل میں نظر آتا ہے۔ اور کبھی شام کے تاجروں میں خدیجہؓ کا مال تجارت لیکر بیٹھا ہوا۔ کبھی مکہ کی گلیوں میں آپؐ کی ایسی مخالفت ہوتی ہے کہ آپؐ کو اپنے دروازے بند کر کے محصور ہونا پڑتا ہے۔ آپؐ کے سرمبارک کی قیمتیں ڈالی جاتی ہیں اور ہر قسم کے مظالم کا آپؐ کو نشانہ ٗبننا پڑتا ہے۔ حتی کہ آپؐ مجبور ہوتے ہیں کہ وطن کو خیرباد کہہ دیں۔ یہ یتیم‘ غریب‘ فاقہ زدہ‘ غریب الوطن‘ مہاجر اور بظاہر مصیبتوں کے پہاڑ سر پر اٹھانے والا انسان لوگوں کو نظر نہ آتا تھا کہ یہ ہی نبیوں کا چاند ہے۔ اسی پر دنیا کی رستگاری کا انحصار ہے یہی ہے وہ جس کا مقام اس قدر بلند ہے کہ لولاک لماخلقت الافلاک کہا گیا ہے مگر ظاہربین آنکھوں کو یہ سب نورنظر نہ آئے۔ نہ ان سے پہلے اور نہ ان کے بعد ان کے لئے یہ مشکلات ایک حجاب اکبر بن کر رہ گئے۔
(۴)
خود اس زمانے کا راستباز احمد ؑنبی بھی لوگوں کو نظر نہ آیا۔ ان کے لئے آپؑ کی زمینداری‘ آپؑ کی اطاعت والدین کے سلسلہ میں باوجود شدید کراہت نفس کے کچھ عرصہ کی ملازمت۔ آپؑ کی ابتدائی زمانہ کی تنگی روک بنکر رہ گئی اور انہوں نے بلند وبالاآواز سے کہا کہ قادیان کے مغلوں میں سے جو کل ایک معمولی اہلکار تھا‘کیسے خدا کا نبی اور رسول ہو سکتا ہے۔
وہ بھُول گئے کہ نمرودیوں کی شریعت اور قانون کی رُو سے آگ میں جلایا جانے والا مجرم اگر اپنے زمانے کا سب سے بڑا نبی اور ابوالانبیاء بن سکتا۔ شعیبؑ کی بکریاں چرانے والا نوجوان جو قانونِ فرعونی کا مجرم سمجھا گیا تھا‘ اپنے زمانے کا سب سے بڑا نبی ہو سکتا ہے‘ اور بنی اسرائیل کا نجات دہندہ بن سکتا ہے۔
بنی اسرائیل کے طمانچے کھانے والا مسیح جس کے منہ پر تھوکا بھی گیا تھا اور جسے ذلیل کرنے کیلئے کانٹوں کا تاج پہنایا گیا تھا۔ وہ سچ مچ کا بادشاہ بن جائے گا اور اس کی سلطنت کو لوگ قیامت تک مانتے چلے جائیں گے۔تو کیوں اس زمانے کا مُرسَل اور نبی ان ظاہری ناموافق حالات کا اس زمانہ کا نجات دہندہ نہیں بن سکتا؟
ہاں تو ان نظائر اور امثلہ کے لکھنے سے میری غرض یہ ہے کہ خداتعالیٰ جب اپنی کسی خاص قدرت کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ تو وہ اس اظہارِ قدرت کے لئے بالکل ناموافق حالات کا ظہور عمل میں لایا کرتا ہے۔ خداتعالیٰ کی یہ قدرت خواہ کسی خاص مرد کو عالمِ وجود میں لانے والی ہو‘ یا کسی خاص عورت کویا کسی اور انقلاب کو۔ تو ان ناموافق حالات میں سے ایک چیز پیدا ہوجاتی ہے۔ جوعدم بصیرت رکھنے والوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہے اور اہل بصیرت کے لئے باعث نجات۔ اس زمانہ کی سب سے بڑی خاتون یعنی حضرت اُمُّ المؤمنین‘ جن کا مقام حضرت مریمؑ یا حضرت خدیجہؓ یا حضرت عائشہؓ یا ان عورتوں کی طرح ہے۔جن کو خداتعالیٰ نے دو جہانوں میںفضیلتِ عظمیٰ عطا فرمائی ہے۔
حضرت اُمُّ المؤمنین اگرچہ بہت بڑے صحیح النسب سادات کے خاندان میں پیدا ہوئیں۔ مگر قدرت نے آپ کے خاندان کو ایسے حالات سے گذارا کہ کبھی کوئی یہ باور نہیں کر سکتا تھا کہ جو لڑکی ایسے خاندان میں پیدا ہوئی ہے جس کی تفصیل میں آگے چل کر بیان کروں گا وہ ایک دن اس زمانہ کے نبی اور رسول کی بیوی بن کر قیامت تک کیلئے مومنوں کی ماں بن جائے گی۔
حالات بالکل غیرسازگار تھے۔ صدہاحجاب اور پردے اس راستے میں حائل تھے۔ اگر نواب روشن الدولہ‘ رستمِ جنگ اگر نواب خانِ دوران منصور جنگ‘ نواب قمرالدین خان وزیراعظم سلطنت ِمغلیہ‘ نواب احتشام خان داروغہ محلات شاہی زندہ ہوتے‘ جن کے محلات پر ہاتھی کھڑے رہتے تھے۔ نوکرچاکر‘ خدم حشم‘ دولت و ثروت کے دریا بہتے تھے وہ شاید حضرت اُمُّ المومنین کا رشتہ حضرت مسیح موعود ؑ سے کرنے کیلئے تیار ہی نہ ہوتے۔
پھر غدّر کے پراگندہ اور پریشان حالات میں سے گذرنے والے ایک خاندان کی لڑکی جس کا باپ اپنے عقائد کے لحاظ سے کٹروہابی تھا اور پھر ایک خاندان دلی میں رہنے والا اور دوسرا پنجاب کے ایک ایسے گاؤں میں بستا تھا‘ جسے دور کا رہنے والا تو ایک طرف رہا‘ قریب کے علاقے میں رہنے والا انسان بھی نہیں جانتا تھا مگر قدرتِ الٰہی کے خوارق اور خاص نشانات اس تعلق میں بالکل اسی طرح نظر آتے ہیں۔ جیسے دیگر انبیاء ؑ کے حالات میں نظر آتے ہیں۔ اس لئے اس کتاب کو پڑھنے والے مرد اور عورتیں‘ بوڑھے اور بچے اس کو پڑہنے سے پہلے اپنے ذہن میں اس امر کو مستحضر کر لیں کہ یہ ایک ایسی باخدا خاتون کی سیرت و سوانح ہے جو اس زمانے کے نبی اور رسول کی بیوی بنی اور خدا تعالیٰ کی مشیّت خاص نے اسے خاص حالات میں پیدا کیا۔ اس کے خاندان پر غدر میں ایک تباہی آئی۔ وہ تباہی ایک خاص الٰہی نصرت کا ہی نتیجہ تھی۔ اس لڑکی کا باپ خاص حالات کے ماتحت پنجاب میں آیا اور پنجاب میں بھی اس علاقے میں جہاں آئندہ ہونے والے حالات کا شدید تعلق تھا۔
اس طرح بالکل عجیب طور پر اس خاندان کے اس زمانے کے ہونے والے نبی اور رسول کے خاندان سے یہاں تعلقات قائم ہو گئے اور بالآخر بالکل ناموافق حالات میں سے موافق صورت پیدا ہو گئی اور اللہ تعالیٰ کی مشیت خاص اس لڑکی کو دلہن بنا کر اس گھر میں لے آئی۔ جو گھر آج بنی اسرائیل‘ بنی اسماعیل اور آنحضرت ﷺ کی نعمتوں کا وارث ہو رہا تھا۔ اس کے سر پر تاج نوعروسی سجایا گیا اور اسے اس دنیا کے آخری حصہ میں سب سے بڑے راستباز کی دلہن بنایا گیا اس کے بطن سے الٰہی نور پیدا ہوئے۔ کہ آئندہ دنیا کی نجات‘ امن اور روحانی اور دنیاوی ترقیوں کا انحصار ان کی ذات پر رکھا گیا۔ وہ الٰہی برکتوں کی آغوش میں بڑھی اس کو معیتِ الٰہی کا وعدہ دیا گیا۔ وہ نور ہی نور ہے وہ سراپا برکت ہی برکت ہے۔ وہ خدا کے نشانوں میں سے ایک زبردست نشان اور وہ تجلیاتِ الٰہیہ کا ایک مرکز قرار دی گئی اس کے وجود سے دین الٰہی کو بڑی قوت اور طاقت حاصل ہوئی اور ہوتی چلی جائے گی۔ کسی کو معلوم بھی نہ تھا کہ میرناصرنواب کے گھر میں پیدا ہونے والی لڑکی ایک دن قیامت تک کیلئے اُمُّ المؤمنین بن جائے گی۔ خداتعالیٰ نے حضرت اُمُّ المؤمنین کے وجود سے بہت سی برکتیں عطا کرنے کا وعدہ فرمایا۔ چنانچہ ایک اشتہار میں جو آپؑ نے ۲۰فروری ۱۸۸۶ء کو شائع فرمایا۔ لکھا:
’’تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ سے جن میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا۔ تیری نسل بہت ہو گی اور میں تیری ذرّیت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا مگر بعض ان میں سے کم عمری میں فوت بھی ہونگے اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی اور ہر یک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی اور وہ جلد لاولد رہ کر ختم ہو جائے گی۔ اگر وہ توبہ نہ کریں گے تو خدا ان پر بلا پر بلا نازل کرے گا یہاں تک کہ وہ نابود ہو جائیں گے اُن کے گھر بیواؤں سے بھر جائیں گے اور ان کی دیواروں پر غضب نازل ہو گا۔ لیکن اگر وہ رجوع کریں گے تو خدا رحم کے ساتھ رجوع کرے گا خدا تیری برکتیں اردگرد پھیلائے گا اور ایک اُجڑا ہؤا گھر تجھ سے آباد کرے گا اور ایک ڈراؤنا گھر برکتوں سے بھر دے گا۔ تیری ذُرّیت منقطع نہیں ہو گی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے۔ عزت کے ساتھ قائم رکھے گا اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا۔ میں تجھے اٹھاؤں گا اور اپنی طرف بلاؤں گا پر تیرا نام صفحۂ زمین سے کبھی نہیں اٹھے گا اور ایسا ہو گا کہ سب وہ لوگ جو تیری ذلت کی فکر میں لگے ہوئے ہیں اور تیرے ناکام رہنے کے درپے اور ترے نابود کرنے کے خیال میں ہیں وہ خود ناکام رہیں گے اور ناکامی اور نامُرادی میں مریں گے لیکن خدا تجھے بکلّی کامیاب کرے گا اور تیری ساری مُرادیںتجھے دے گا۔ میں تیرے خالص اور دلی محبّوں کا گروہ بھی بڑھاؤں گا اور ان کے نفوس واموال میں برکت دوں گا اَور ان میں کثرت بخشوں گا اور وہ مسلمانوں کے اس دوسرے گروہ پر تابروزقیامت غالب رہیں گے جو حاسدوں اور معاندوں کا گروہ ہے۔ خدا انہیں نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا۔اور وہ علیٰ حسب الاخلاص اپنا اپنا اجر پائیں گے۔ تو مجھ سے ایسا ہے جیسے انبیاء بنی اسرائیل (یعنی ظِلّی طور پر ان سے مشابہت رکھتا ہے) تو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید تو مجھ سے اور میں تجھ سے ہوں۔ اور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا۔ یہاں تک کہ وہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔ اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو ا س نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو۔ اگر تم سچے ہو اور اگر تم بھی پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو کہ جونافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کیلئے تیار ہے۔ فقط۔‘‘
سیرت حضرت اُمُّ المؤمنین پڑھنے والے ان پیشگوئیوں کی روشنی میں سیرت کو پڑھیں اور دیکھیں کہ خدا کی نصرت کس کے شاملِ حال رہی اور کسے خدا نے اپنی نصرتوں‘ نعمتوں‘ برکتوں سے نوازا۔
زندہ باد! اماں جان نصرت جہاں بیگم
۲۸/اپریل ۱۹۴۳ء
’’بخارا سے ایک امانت ہندوستان لائی گئی‘‘
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
وعلی عبدہ المسیح الموعود
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھــــــــــوالنــــــــاصـــــــــــــــــر
’’بخارا سے ایک امانت ہندوستان لائی گئی‘‘
اللہ تعالیٰ کے تمام کاموں میں ایک نظام اور ایک ترتیب پائی جاتی ہے اور وہ ایک باقاعدہ پروگرام کے مطابق ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ نظام اور ترتیب کی مثال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ ھُوَالَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّافِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا- ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَائِ فَسَوٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَھُوَبِکُلِّ شَیْیٍٔ عَلِیْمٌo
یعنی پہلے زمین اور زمین میں جو کچھ ہے وہ پیدا کیا۔ اس لئے کہ انسان کے رہنے کے قابل بن سکے۔ پھر آسمان کی طرف توجہ کی اور سات بلندیاں بنا دیں۔ یہی ترتیب تعمیر مکان میں ہوا کرتی ہے۔ اوّل زمین ہموار ہوتی ہے۔ پھر دیواریں اٹھتی ہیں۔ پھر چھت بنتی ہے۔ مجھے ا س جگہ یہ بحث نہیں کرنی کہ زمین کو کن ادوار میں سے گزرنا پڑا۔ لیکن یہ ہر صاحب علم انسان کو معلوم ہے کہ زمین کو قابلِ رہائش بننے کیلئے ہزارہا سال خرچ ہوئے۔ تب وہ آتشین کرہ سرد ہوا۔اور اس قابل ہوا کہ اس میں روئیدگی پیدا ہو۔اور ایسے جانور پیدا ہوں جو زہریلی ہواؤں اور بادِسموم کے جھونکوں اور تپتے ہوئے پہاڑوں یا زمین کے غیرموافق میدانوں میں سانس لے سکیں۔ ہزار ہا سال کے لمبے عرصے کے بعد یہ زمین اس قابل ہوئی کہ اس پر انسان پیدا ہو کر زندگی بسر کر سکے۔ یہ مثال نظام اور ترتیب کی ہے۔
پروگرام یا لائحہ عمل کی یہ مثال ہے کہ فرمایا :
وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰئِکَۃِ اِنّی جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃٌ
خداتعالیٰ نے ملائکہ سے ذکر کیا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں خلیفہ سے مراد انسان ہی تھا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا ایک پروگرام تھا۔ اس پروگرام کے ماتحت اس نے زمین اور آسمان کی تخلیق کی اور اس ساری کائنات کو ترتیب دیا۔ اب غور کیجیئے کہ انسانی ضرورت کو مدنظر رکھ کر زمین اور آسمان‘ لوہا‘پتھر‘ صدہاقسم کی دھاتیں‘ کوئلہ‘نباتات‘ حیوانات‘ سورج‘ چاند‘ ستارے‘ اجرام فلکی‘ زہریں اور ان کے تریاق ‘ ہوائیں اور مختلف قسم کی گیسیں ‘پانی اور بجلی الغرض لاکھوں‘ کروڑوں چیزیں جن کو اگر گنتے چلے جائیں تو کئی ضخیم جلدوں کی کتاب بن جائے۔ یہ سب کچھ کیوں بنایا اور کیوں ان کی تخلیق کی۔ صرف اور صرف اس لئے کہ انسان کو پیدا کیا جائے۔پس تخلیقِ انسان غرض تھی اس تمام کائنات کے پیدا کرنے کی ۔ پھر صرف انسان بھی اصل غرض نہ تھا۔ بلکہ اصل غرض وہ انسان کامل تھا جو انسان کی پیدائش سے ہزارہا سال بعد پیدا ہوا۔ جو محمد رسول اللہ ﷺ کے نام سے مبعوث ہوا اور جس کے لئے کہا گیا لولاک لما خلقت الافلاک جن کے لئے حدیث قدسی میں آیا ہے کہ آپؐ کا نور اُ س وقت سے بھی پہلے موجود تھا۔جبکہ آدم ابھی بینَ الطِّیْن وَالمَاء ہی تھا۔ تو اس سے بھی یہی امر ثابت ہوتا ہے کہ ابوالبشر کے پیدا کرنے سے بھی قبل آنحضرت ﷺ کے وجود باجود کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہو چکا تھا۔ اسی کا نام ہے پروگرام۔پس خداتعالیٰ نے ازل سے ابد تک کا ایک پروگرام تیار فرما کر یہ کَون پیدا کیا۔ اس میں بہت سی پیدائشیں تو ا سطرح ہوئی ہیں جیسے زمین جو مقصود بالذات تھی اس کی تخلیق اور قیام کے لئے ذرّے پیدا ہوتے ہیں۔ ذرّے پیدا بھی ہوتے ہیں اور ذرّے مٹتے بھی رہتے ہیں۔ ذرّہ جو باعث ہے زمین کے قیام کا اس کی طرف کسی کو دھیان بھی نہیں ہوتا۔ نہ اس کے بننے کی طرف توجہ ہوتی ہے اور نہ اس کے مٹنے کی طرف۔ اسی طرح انسانوں میں لاکھوں‘ کروڑوں انسان ایسے پیدا ہوتے ہیں کہ نہ ان کے پیدا ہونے سے کسی کو خاص توجہ ہوتی ہے اور نہ ان کے فنا ہونے سے لیکن ان میں سے بعض لوگ مقصود ہوتے ہیں اور ان کا وجود دنیا میں ایک عالمگیر انقلاب لانے کا باعث ہوتا ہے۔ یہ لوگ کبھی وہ ہوتے ہیں جو علمی دنیا میں انقلاب پیدا کرتے ہیں۔ کبھی وہ ہوتے ہیں جو سیاسی دنیا میں انقلاب کرتے ہیں کبھی وہ ہوتے ہیں جو ذہنی دنیا میں انقلاب پیدا کرتے ہیں۔ یہ لوگ اگرچہ مقصود تو ہوتے ہیں مگر مقصود بالذات نہیں ہوتے۔
مقصود بالذات صرف انبیاء ؑ کا وجود ہوتا ہے۔ جو روحانی دنیا میں انقلاب پیدا کرتے ہیں اور وہ باطل پرست دنیا میں انقلاب پیدا کر کے مخلوق کو خدا پرست بنا دیتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ خدا میں شامل کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ جن کا میں نے ابھی مقصود کے تحت میں ذکر کیا ہے۔ وہ انبیاؑء سے قبل دنیا میں آتے ہیں تاکہ بیداری پیدا کریں بیداری اپنی ذات میں ایک اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔ جس کے ساتھ ہزارہا منافع وابستہ ہیں۔ جیسے بادل اور بارش سے قبل ٹھنڈی ہوا ایک دلیل ہوتی ہے کہ بارش آئے گی اور جیسے ٹھنڈی ہوا سے قبل گرمی اور تلخی بندش ہوا دلیل ہوتی ہے کہ بادل آئیں گے۔
جیسے زمین میں مختلف جگہ پر زلزلوں کا پیدا ہونا دلیل ہوتا ہے کہ زمین اب اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثقَالھَا کی مصداق بن جائے گی۔ اسی طرح دنیا میں ایسے لوگوں کا وجود جو ذہنی بیداری کا باعث ہوں دلیل ہوتا ہے اس امر کی کہ اَب روحانی انقلاب لانے والا بھی کوئی شخص پیدا ہوا چاہتا ہے اور یہی لوگ مقصود بالذات ہوا کرتے ہیں ان لوگوں کی خاطر کبھی دنیا کے بعض حصے مٹا دیئے جاتے ہیں۔ کبھی بعض قومیں تباہ کر دی جاتی ہیںاور کبھی ایک قوم کو ایک ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسے اسباب پیدا کئے جاتے ہیں جن کو ظاہری آنکھ نہیں سمجھ سکتی۔ مگر کبھی اس واقعہ سے صدیوں بعد اور کبھی ہزار ہا سال بعد وہ ہستی جو مقصود بالذات ہے پیدا ہو جاتی ہے۔
دنیا کے تاریخ دان انقلاب امم کو محض قوموں کے قواء کی کمزوری اور مضبوطی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ یہ لوگ حقیقتِ حال سے ناواقف ہیں۔ ان کو یہ معلوم نہیں کہ ان قواء کی کمزوری اور مضبوطی تو ایک طَے شدہ چیز ہے۔ وہ ایک گھڑی کے پُرزوں کی طرح گارنٹی کی مدت مقررہ میں چلتے اور ختم ہو جاتے ہیں۔ دراصل ان کے پیچھے بہت کچھ چھپا ہوا ہوتا ہے۔
وادی غیر ذی زرع میں حضرت ابراہیمؑ کا اپنی بیوی ہاجرہؑ اور اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو چھوڑنا کیا نتیجہ تھا ان خانگی جھگڑوں کا جو دو سَوتوں کے درمیان اکثر اوقات ہو جایا کرتا تھا۔ مؤرخ یہی کہے گا مگر اسرار الٰہیہ کا جاننے والا کہے گا کہ یہ دن یوم الفارق تھا بنی اسماعیل اور بنی اسحق دو قوموں کے درمیان۔ الٰہی تجویز کے ماتحت بنی اسحق کی عارضی ترقی اور بنی اسماعیل کو نشوونما دے کر ارض بطحا سے قوموں اور تمام بنی نوع کا شاہنشاہ پیدا کرنا مطلوب تھا ٹھیک اسی طرح ہم حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کے انقلابات دیکھتے ہیں کہ اس خاندان کے بزرگ بخارا سے ہندوستان ہجرت کر کے آئے۔ قوموں کی تاریخ لکھنے والا مُؤرخ اس کے اسباب وعِلل معلوم نہیں کیا بتلائے۔ وہ ممکن ہے کہ فراخی رزق کی تلاش اس کا سبب بتلائے یا ممکن ہے خانگی خانہ جنگی سمجھے یا ممکن ہے ملک کی سیاسی پیچیدگیاں اس کی وجہ قرار دے لیکن مَیں ان سب وجوہات کو غلط قرار دے کر ایک یہی وجہ قرار دوں گا کہ اس خاندان کے بزرگوں کی صُلب میں ایک امانت تھی جو حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ سے تقریباً ۴۰ بزرگوں کی پشت میں منتقل ہوئی اور حضرت میر ناصر نواب کے ذریعہ عالم وجود میں آئی اور اس کا نام نامی و اسمِ گرامی نصرت جہاں بیگم رکھا گیا۔
مَیں ان وجوہات پر بحث نہیں کرتا جن کی بناء پر یہ خاندان عرب سے نکل کر بخارا میں چلا گیا مگر بخارا سے ہندوستان آنے کی وجہ یہ تھی کہ اس خاندان کے بزرگوں کو یہ امانت حضرت مسیح موعود و مہدیٔ مسعود کے حوالے کرنی تھی اور مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ازل کے پروگرام کے مطابق یہ مقدر تھا کہ وہ ہندوستان میں پیدا ہو اور یہی وجہ تھی کہ مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ بھی اس امانت کا بار اُٹھائے ہوئے جس کا نام مسیح موعود تھا سمرقندسے کچھ عرصہ پہلے بابر کے زمانہ میں ہندوستان آگئے تھے اور تھوڑا عرصہ بعد نصرت جہاں بیگم کے بزرگ اس دوسری امانت کا بار اُٹھائے ہوئے ہندوستان چلے آئے۔
یہ کیوں ہوا؟ خدا تعالیٰ نے روز اوّل سے مقدر کر دیا تھا کہ جب اُمت محمدیہ اپنے زوال کی انتہاء کو پہنچ جائے گی اُس وقت ایک مسیح محمدی پیدا کیا جائے گا۔ وہ ایک خاص خاتون سے شادی کرے گا اور اس خاتون کے بطن سے اولاد پیدا ہوگی۔ یہ اولاد ساری کی ساری مبشر ہوگی۔ وہ ایسے نور ہوں گے جن سے قومیں راہ دیکھیں گی اور دنیا کے امن کی بنیاد اُن پر رکھی جائے گی۔ پس مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی سمرقند سے ہجرت کا اصلی سبب مسیح موعود علیہ السلام کا ہندوستان میں پیدا ہونا تھا اور نصرت جہاں بیگم کے خاندان کی بخارا سے ہجرت کا اصل باعث ان کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نکاح میں آنا تھا اور اس نکاح کی غرض ایک جدید قوم کو پیدا کرنا تھا جو دنیا کے آئندہ تمدن کو بدل کر چٹانِ امن پر لا کر کھڑا کر دے گی۔ اس غرض کو پورا کرنے کیلئے اُمُّ المؤمنین کے بزرگ ہجرت کر کے ہندوستان میں آئے۔
ء…ء…ء
حضرت اُمُّ المؤمنین کا آبائی خاندان
حضرت اُمُّ المؤمنین کا آبائی خاندان
۱۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
۲۔ حضرت خواجہ سیّد محمدطاہر صاحب
۳۔ خواجہ نواب فتح اللہ خان صاحب
۴۔ روشن الدولہ۔ رستم جنگ خواجہ سیّد نواب محمد ظفراللہ خان یارِ وفادار ہفت ہزاری
۵۔ خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب عندلیب
۶۔ حضرت خواجہ میر درد صاحب رحمۃ اللہ علیہ
۷۔ خواجہ صاحب میر صاحب ضیاء النّاصر
۸۔ خواجہ محمد نصیر صاحب محمدی
حضرت اُمُّ المؤمنین کے آبائی بزرگوں کا اجمالی تذکرہ
حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہاں بیگم کے بزرگوں کی ابتداء خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود مبارک سے ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نورِ نظر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں اور آپؓ کے لختِ جگر حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما تھے۔ حضرت امام حسینؓ شہید کربلا کے لختِ جگر حضرت امام سیّد زین العابدین تھے۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کا خاندان حسینی سادات کا خاندان تھا۔ اس طرح اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
حضرت امام حسینؓ کو جو نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے تھے۔ ان کی نیکی، تقویٰ، بزرگی، عَلُوِّمرتبت کو تمام مسلمان جانتے ہیں۔ میدانِ کربلا میں آپؓ نے جو ایثار اور قربانی کا نمونہ دکھایا اُس کی مثال دنیا میں کہیں نظر نہ آئے گی۔ خاندان کے بیشتر افراد ایک ایک کر کے اپنی آنکھوں کے سامنے کٹوا دیئے۔ مگر ظلم اور خلافِ حق کے سامنے اپنی گردن خم نہ کی۔ اس پر اکتفا نہ ہوا بلکہ اپنی عزیز جان بھی طرح طرح کے مصائب اور مظالم کو برداشت کرتے ہوئے قربان کر دی اور ایک فاسق فاجر انسان کی اطاعت کو قبول نہ کیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کوجنت کے سرداروں میں سے قرار دیا۔ انہوں نے دنیا کی تمام تلخیوں، شرارتوں اور بظاہر ناکامیوں کو قبول کر کے دنیا کو ایک سبق دیا کہ سچائی زندگی اور جان سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔ اس قربانی کا جو انہوں نے اپنے اور اپنے خاندان کے خون سے دی یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک اسلام کی خدمت کرنے والی جماعتیں آپؓ کی نسل میں پیدا کر دیں اور متقین کا امام بنا دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جو اس سے قبل اس خاندان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔ ان کو بھی اپنے ایک بیٹے اسماعیل علیہ السلام اور بیوی کی خداتعالیٰ کی رضاء کے لئے ایک قربانی دینی پڑی تھی۔ چنانچہ قرآن کریم نے ان کی ایک دعا کا ذکر فرمایا ہے۔ فرماتا ہے:
رَبَّنَآ انِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ المُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ فَا جعَل اَفْئِدَۃً مِّنَ الناسِ تَھْوِیْ اِلَیْھِم وَارْزُقْھُمْ مِنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ-۱؎
اس وادی غیر ذی زرع میں جہاں انسانی رہائش بالکل ناممکن تھی ان کا اپنی اولاد کوخدا تعالیٰ کی عظمت و جلال کے لئے چھوڑ دینا اِس امر کا باعث ہوگیا کہ اسماعیل ؑ کو ایک قوم کا باپ بنا دیا گیا اور اس قوم سے وہ انسان پیدا ہوا جو فخر انسانیت، فخر الانبیاء، جامع جمیع کمالات انسانی تھا۔ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور جب امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر حضرت اسماعیل ؑ جیسی قربانی کی تو ضروری تھا کہ ان کو بھی اس کا ویسا ہی بدلہ دیا جاتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک صلحاء اور راستبازوں کی ایک بڑی جماعت آپؓ کی نسل میں پیدا کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ چنانچہ حضرت امام زین العابدین، امام محمد باقر، امام جعفر، امام موسیٰ کاظم، امام موسیٰ رضا، امام علی نقی، امام علی تقی ، امام حسن عسکری رضی اللہ تعالیٰ عنہم جیسے برگزیدہ اور باخدا اور پاکباز لوگ نسل حسینؓ سے پیدا ہوئے اور باوجود اس کے کہ حادثہ کربلا میں دنیا آلِ حسینؓ پر تنگ ہوگئی تھی اور دشمن نے اس نسل کو مٹا دینے کا عملی فیصلہ کر لیا تھا مگر نسلِ حسینؓ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونوں میں پھیل گئی اور دنیا کی راہنمائی اور اصلاح کا کام ہر جگہ ان کے ذریعہ سے مختلف زمانوں اور مختلف مکانوں میںہوتا رہا۔ اسی اصل کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے نسلِ حسینؓ کی ایک شاخ کو بخارا کی طرف منتقل کر دیا۔ چنانچہ سیّد کمال الدین بخاری جو امام حسن عسکری کے دسویں پشت میں پوتے ہیں بخارے میں ہجرت کر گئے۔
تاریخ ان اسباب کو بیان نہیںکرتی جو ان کی ہجرت کے اسباب ہیں لیکن جیسے کہ مَیں لکھ چکا ہوں کہ ان تمام حرکتوں کے پیچھے الٰہی منشاء کام کر رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ سیّد کمال الدین بخاری کے خانوادہ میں ایک ایسا باکمال اور روشن ستارہ پیدا ہوا جس نے اپنے روحانی کمال سے ایک دفعہ دنیا کو اپنی طرف کھینچ لیا اور دراصل اسی ستارہ کو بخارا کی زمین سے پیدا کرانے کے لئے یہ ہجرت کرائی گئی تھی اور یہ تھے حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند۔
حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند اپنے زمانہ کے بہت بڑے رہبر کامل تھے۔ ان کے ذریعے ایک خاص صوفی فرقہ کی بنیاد رکھی گئی جو لوگ اس فرقہ میں شامل ہوتے تھے وہ نقشبندی کہلاتے تھے۔ نقشبندی طریقہ آہستہ آہستہ بخارا سے نکل کر ہندوستان، افغانستان، ایران، عراق، شام، مصر تک پھیل گیا۔ اس طریقہ کے ماننے والے لوگوں میںبڑے بڑے باخدا اور ولی اللہ لوگ پیدا ہوئے۔ چنانچہ خواجہ علاء الدین عطار، حضرت مولانا یعقوب چرخی، حضرت خواجہ عبید اللہ احرار، حضرت خواجہ مولانامحمد زاہد، حضرت خواجہ محمد درویش، حضرت خواجہ ا مکنکی، حضرت خواجہ محمد باقی، حضرت مجدد الف ثانی،حضرت خواجہ محمد معصوم، حضرت خواجہ حجۃ اللہ نقشبندثانی، حضرت خواجہ محمد زبیر اور اس قسم کے بہت سے بزرگ مختلف ملکوں میں اس سلسلہ نقشبندیہ کے ذریعے پیدا ہوئے اور انہوں نے درویشانہ طریق پر اسلام کی بڑی بڑی خدمتیں کیں۔ یہ سب لوگ مجاہدین اسلام تھے اور ان کی عمریںبے ریا خدمت میں گذر گئیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنے فضلوںکی بڑی بڑی بارشیں برسائے۔ آمین
اسی نقشبندی طریق کے حاملین میں سے گیارہویں صدی میں حضرت مجدد الف ثانی ایک ایسے بزرگ پیدا ہوئے جو اپنے زمانے کے مجدد تھے اور اسلام کے دورِ خزاں میں بہار پیدا کرنے کا باعث ہوئے۔ مگر حضرت مجدد الف ثانی حضرت خواجہ سیّد بہاء الدین نقشبندی کے صلبی بیٹے نہ تھے۔ ان کا تعلق صرف روحانی فیض سے وابستہ تھا۔ ہاں سیّد بہاء الدین نقشبند کی جسمانی اولاد بھی اس فیض روحانی سے محروم نہ تھی۔ پہلے بھی ان کی جسمانی اولاد میں سے اکثر باخدا لوگ پیدا ہوئے تھے مگر بارہویں صدی میں حضرت خواجہ محمد ناصر دہلوی پر پھر روحانی پرتوہ پڑا اور وہ اپنے زمانے کے بہت بڑے ولی کامل مانے گئے۔ ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ایسے پاکباز بزرگ تھے کہ اگر مَیں ان کو تیرہویں صدی کا ایک باکمال ولی کہوں تو بیجا نہ ہوگا۔
ان بزرگوں کے مختصر اوصاف تو الگ الگ میں لکھوں گا لیکن یہاں مَیں اس قدر لکھ دینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ حضرت خواجہ میر درد بچپن سے فیض روحانی سے مالا مال ہو چکے تھے۔ پندرہ برس کی عمر میں انہوں نے ایک رسالہ تصنیف فرمایا جس کا نام ’’اسرار الصلوٰۃ‘‘ رکھا۔ جب اس مختصر سے رسالہ کو حضرت مولانا فخر الدین چشتی نظامی دہلوی اور حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے ملاحظہ فرمایا تو دونو بزرگ اصحاب نے فرمایا ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوْتِیہِ مَنْ یَّشَائُ یہ وہبی دولت ہے۔
الغرض حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب سے ایک نئے سلسلہ کی بنیاد پڑی جو سلسلہ محمدیہ کہلایا۔اس سلسلہ کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی کہ یہ سلسلہ محمدیہ امام مہدیؑ کے آنے تک جاری رہے گا اور اس کے بعد امام مہدیؑ کے آنے کے بعد اس کی روشنی اس کے نور میں گم ہو جائے گی۔ چنانچہ جیسے پیشگوئی میں لکھا تھا بالکل اس کے مطابق ہوا۔ اس سلسلہ کے آخری خلیفہ حضرت میر ناصر امیر ہوئے۔ جو ۱۶/ ذوالحجہ ۱۲۷۰ـھ مطابق ۱۰/ستمبر ۱۸۵۴ء کو فوت ہوگئے۔
یہ وہ زمانہ تھا جس میں حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود ؑ پیدا ہو چکے تھے اور آپؑ کی عمر ۲۰ سال کی ہو چکی تھی کیونکہ آپؑ کی پیدائش ۱۸۳۵ء میں ہوئی تھی اور آپ کے ظہور کا زمانہ قریب تھا اور وہ وقت بھی نزدیک تھا جب کہ فرقہ محمدیہ کی روشنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روشنی میں گم ہو جانے والی تھی۔ چنانچہ ۱۸۶۵ء میں حضرت میر ناصر امیر کے لختِ جگر حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشکوے معلی میں نصرت جہاں بیگم کی ولادت باسعادت ہوئی اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض حضرت فاطمہ علیہا السلام کے ذریعے اُن کی اولاد میں منتقل ہوا بالکل اسی طرح خاندان محمدیہ کی روشنی حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے ذریعے ۱۸۸۴ء میں حضرت مسیح موعود اور مہدیؑ مسعود کی روشنی میں گم ہوگئی اور آپ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے نکاح میں اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے ماتحت لائی گئیں اور اس طرح ایک نئی اور پاکیزہ آسمانی روشنی میں مل کر یہ پہلی روشنی جلوہ گر ہوئی۔ حقیقت میں شمع وہی تھی فانوس دوسرا تھا۔ آفتاب وہی تھا مگر مطلع نیا تھا۔ یہ اس لئے ہوا کہ تا ایک نئی نسل کا آغاز ہوجو قیامت تک اپنے نور سے دنیا کو منور رکھے گی اور اس طرح حضرت امام حسینؓ کو اس قربانی کا پھل مل گیا اور راستباز اور نیک خادمان دین الٰہی کی ایک بڑی جماعت بذریعہ نسل اور بذریعہ روح دی گئی اور اس آخری زمانہ میں جب کہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے اسلام کی تکمیل اشاعت کے لئے ایک بروز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا تو مشابہتِ تامہ کیلئے نسلِ حسینؓ سے ایک دوسری خدیجہؓ کو پیدا کیا تا کہ اس کی نسل سے پھر دوسرا دور شروع ہو اور تکمیل اشاعت دین کیلئے یہ لوگ جو ایک طرف نسلِ حسین سے بھی ہوں گے معلوم نہیں کہ کس قدر دکھ اُٹھائیں گے اور کتنی قربانیاں کریں گے اور ان کو حضرت امام حسینؓ سے کتنی قرب کی نسبتیں ہوں گی کہ مسیح موعود نے فرمایا:
کربلا ایست سَیر ہر آنم
صد حسین است در گریبانم
نادانوں نے اسے حضرت امام حسینؓ کی توہین قرار دیا ہے جو شخص خود امام حسینؓ سے ایک نسبت خاص رکھتا ہو جو خود بروزِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہو وہ امام حسین علیہ السلام کی توہین نہیں کر سکتا۔ میرے ذوق میںتو اس میں ایک پیشگوئی مخفی ہے جو ان تکالیف اور مشقتوں اور قربانیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اس بروز محمدؐ اور اس بروز خدیجہؓ کی اولاد اور نسل کو اشاعت دین کے راستے میں اٹھانی پڑیں گی۔ کتنی عظمت ہے اس خاتون کی جسے خدا تعالیٰ نے تیرہ سَو سال کے بعد پھر خدیجہؓ ثانیہ بنا کر بروز محمد کی بیوی بنا دیا اور کتنی عظمت ہے اس نسل کو جو تکمیل اشاعتِ دین کی غرض کیلئے دنیا کی آخری ہدایت اور نور قرار دی گئی۔ یہ نتیجہ تھا امام حسین کی قربانی کا۔ رَضِیَ اللّٰہُ تَعالیٰ عَنْہُ
حضرت سَیّد محمد طاہر
دَورِ اوّل
بخارا سے پہلا قافلہ
ہندوستان میں سب سے اوّل حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ کی نسل سے خواجہ محمد نصیر نقشبندی شاہجہان شہنشاہ ہند کے زمانہ میں بخارا
سے ہندوستان آئے۔ گویا یہ بخارا کے اس خاندان کا پہلا قافلہ تھا۔ شاہنشاہِ ہند نے ان کو بڑے اعزاز سے اپنے دربار میں بلا لیا اور ان کو ہر قسم کے اعزاز اور مناصب سے سرفراز فرمایا اور اپنے لختِ جگر شاہزادہ شجاع کے ساتھ جو اس زمانہ میں بنگال کے ناظم یعنی وائسرائے تھے وزیر کے منصب پر فائز کر کے بھیج دیا۔ جب تک شاہجہان بادشاہ برسرِ اقتدار رہا شجاع ناظم بنگال رہے اور جب اورنگ زیب کا دور آیا اور خاندانی جنگ کا آغاز ہوا تو شاہ شجاع بنگال سے اورنگ زیب کے مقابلہ کیلئے روانہ ہوا۔ شاہ شجاع کے ساتھ ۲۵ ہزار فوج اور توپخانہ تھا۔ بنگال سے چل کر اس فوج نے بنارس آ کر دم لیا اور بنارس سے کہجوہ پہنچ کر۔ اُدھر سے اورنگ زیب بڑھا آ رہا تھا۔ الہ آباد اور اٹاوہ کے بیچ دونو بھائیوں کے درمیان مڈبھیڑ ہوئی نتیجہ یہ ہوا کہ شاہ شجاع کی فوج کو شکست ہوئی اورنگ زیب کی فوج نے حملے کے جوش میں اندھے ہو کر زنانے خیموں کی طرف رُخ کیا۔ خواجہ محمد نصیر صاحب کو یہ امر سخت ناگوار گذرا اور وہ تلوار لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور خوب دل کھول کر دادِ شجاعت دی۔ بالآخر مستورات کے کیمپ کے باہر شہید ہوگئے۔ ۲؎
اس مختصر سے واقعہ سے مندرجہ ذیل امور منتج ہوتے ہیں:
اوّل: خاندانِ نقشبند کا پہلا قافلہ زیر قیادت خواجہ محمد نصیر صاحب دہلی آیا۔
دوم: یہ زمانہ شاہنشاہِ شاہجہان کا تھا جو مغلیہ سلطنت کے عین عروج کا زمانہ تھا۔
سوم: شاہنشاہِ ہند نے فوراً خواجہ محمد نصیر کو دربار میں اعزاز اور منصب سے سرفراز کیا جو اس امر کی دلیل ہے کہ یہ خاندان بخارا میں کوئی غیر معروف نہ تھا بلکہ ان کی بزرگی، علمی قابلیت، وجاہت، عالی نسبی کا اس سے بسہولت پتہ چلتا ہے۔
چہارم:ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ حصولِ ملازمت کے لئے نہیں آئے تھے بلکہ شاہجہان کے ایماء پر ہی آئے تھے۔ بخارا اُن ایام میں علومِ اسلامیہ ہی کا مرکز نہ تھا بلکہ وہاں خدا رسیدہ بزرگوں کی بھی جماعت تھی اور شاہجہان وہاں سے علوم دینیہ کے ماہر اور اہل دل لوگوں کو بلانے کے لئے خاص شوق رکھتا تھا اور عالی نسب، ذی علم، خدا پرست لوگوں کی جماعت جمع کرنا چاہتا تھا۔ اسی سلسلہ میں انہوں نے خواجہ محمد نصیر کو بلایا تھا۔ تبھی بغیر کسی تردّد کے ان کو اتنی جلدی فی الفور منصبِ وزارت جیسے وقیع منصب پر فائز کر دیا گیا۔
پنجم: وہ صرف صاحبِ سیاست ہی نہ تھے بلکہ صاحب السَیف بھی تھے۔ گویا کہ بیک وقت ایک اعلیٰ درجہ کے سیاستدان اور ایک عمدہ جرنیل تھے۔
اس سے اس خاندان کی عزت، عظمت کا بآسانی اندازہ لگ سکتا ہے خواجہ محمد نصیر صاحب وزیر صوبہ بنگال کے بعد اُن کے صاحبزادے سیّد عبدالقادر بالکل دنیا سے الگ ہو گئے۔ خواجہ محمد نصیر کا ذکر تو صرف اس قدر بتانے کے لئے کیا گیا کہ بخاری سادات نقشبندیہ کا پہلا قافلہ آپ کی قیادت میں آیا اور آپ بھی اپنے زمانے کے بہت بڑے سیاست دان اور بہت بڑے جرنیل تھے۔ مگر جس خاندان کا ذکر مقصود بالذات ہے وہ حضرت خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب کا خاندان ہے۔ یہ بزرگ بھی حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند کے خاندان سے تھے اور یہ حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام کے خاندان کے مورثِ اعلیٰ تھے۔
حضرت خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب اس دوسرے قافلہ کے سردار تھے جو بخارا سے واردِ ہندوستان ہوا۔ یہ زمانہ شاہنشاہ اورنگ زیب کا زمانہ تھا۔ واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس قافلہ کی آمد پر پہلے ہی سے اورنگ زیب کی آنکھیں لگی ہوئی تھیںکیونکہ اورنگ زیب خود خواجہ خواجگان حضرت بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کے طریقہ نقشبندیہ میں بیعت تھا اس لئے اورنگ زیب بادشاہ ہند نے ان کے فوراً ورودِ ہند ہونے پر ان کو دہلی کی مشہور تاریخی یادگار میں جو اس زمانہ میں دنیا کا بہت بڑا پُر رعب و جلال قلعہ تھا دعوت دی۔
لال قلعہ میں دعوت
میں یہاں لال قلعہ کی رونق اور شوکت اور عظمت و جلال کی تاریخ نہیں لکھنی چاہتا مگر ہر شخص جسے اسلامی ہند کی تاریخ سے ذرا بھی مس ہو وہ لال قلعہ کی عظمت سے بخوبی واقف ہوگا۔ لال قلعہ اُس وقت دنیا میں سب سے بڑا قصرِ شاہی تھا اس وقت مغلیہ سلطنت کا ڈنکہ چار دانگ عالم میں بج رہا تھا۔ اورنگ زیب کی فوج ظفر موج کے سامنے اس وقت ہندوستان کی کوئی فوج ٹھہر نہ سکتی تھی۔ تمام ہندوستان پر اس کا چتر حکومت چھا رہا تھا۔ لال قلعہ اس زمانہ میں ایک نو عروس کی طرح سے سجا ہوا تھا۔ فوجوں کے پرے افسران کی بھڑکیلی وردیاں، درباریوں کا مؤدّب اور باوقار ہونا ہر شخص کے قلب میں ایک ہیبت طاری کرتا تھا۔ نوکر چاکر، لونڈیاںغلام اِدھر سے اُدھر بھاگے پھرتے تھے۔ شاہزادوں اور شاہزادیوں بیگمات اور خواصوں کے معطّر لباسوں سے قلعہ کی فضاء دنیا کی دیگر فضاء سے بالکل الگ معلوم ہوتی تھی۔ ایسے مقام عالی میں جہاں سے شاہنشاہِ ہند حکومت کرتا ہو جب کسی کی دعوت کرتا ہوگا تو اس وقت قلعہ معلّٰے کی کیا حالت ہوتی ہوگی اور کیسی گہما گہمی ہوتی ہوگی۔
الغرض بادشاہِ ہند شہنشاہِ اورنگ زیب نے اس اخلاص کی وجہ سے جو اُن کو اپنے پیرومرشد حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند سے تھا حضرت سیّد محمدطاہر صاحب کی لال قلعہ میں دعوت کی۔
شاہنشاہ درویش کے قدموں میں
شاہنشاہ نے بنفس نفیس اُن کا استقبال کیا اور بڑی تواضع اور ادب سے اُن کو مسند پر بٹھایا۔ چونکہ اورنگ زیب خود طریقہ نقشبندیہ میں مرید تھا اس لئے سیّد محمد طاہر کا وجود اس کے لئے اپنے پیرومرشد کے ہی قائم مقام تھا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد بادشاہ نے بہت کچھ نقد جنس حسبِ دستور شاہانِ مغلیہ اپنے مرشد زادہ کو پیش کرنا چاہا۔ مگر اُن کی نگاہ میں یہ زر و جواہر اور یہ دنیا کے مال و منال کوئی حقیقت نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی اُن کی طرف نہ دیکھا اور اُن کو قبول نہ کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو جاتے ہیں اُن کی نگاہ میں دنیا کی ان قیمتی اشیاء کی قیمت ایک جیفہ ( مُردار) سے زیادہ نہیں ہوتی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا
مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار
خلاصہ یہ کہ جو خدا کے ہو رہتے ہیں اُن کو اس دنیا کی کسی چیز سے اُلفت نہیں ہوتی اور وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ الدنیا جِیْفَۃٌ وَطَالِبُھَا کلاب
الغرض حضرت خواجہ سیّد محمدطاہر صاحب نے شاہی عطاء کو قبول نہ کیا۔ اورنگ زیب نے کیا کچھ پیش کیا ہو گا اس کی تفصیل کسی کو معلوم نہیں مگر اس امر سے بخوبی اندازہ لگ سکتا ہے کہ اورنگ زیب خود شاہنشاہِ ہند تھا اور جس کو وہ پیشکش کر رہا تھا وہ اس کا مرشدزادہ بلکہ ایک رنگ میں مرشد ہی تھا کیونکہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اورنگ زیب کو انہی کی دعا سے تاج و تخت ملا تھا۔ اس لئے اس نے جو کچھ پیش کیا ہو گا اس کا تصور بآسانی ہو سکتا ہے۔
حضرت خواجہ کے اس استغناء اور سیر چشمی نے اور بھی جادو کا سااثر کیا اور وہ ہمیشہ کے لئے ان کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا اور اس طرح شاہنشاہِ ہند ایک درویش کے قدموں میں آ گیا۔اس کی عقید تمندی کی یہ حالت تھی کہ وہ خود بنفسِ نفیس درِخواجہ پر حاضری دیا کرتا تھا۔ ۳؎
خواجہ سَیّد محمدطاہر کے بیٹوں کے نکاح میں مغل شاہزادیاں
کچھ عرصہ کے بعد خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ حرمین کو جانا چاہتے ہیں۔ اورنگ زیب ان کو اس پاک مقصد سے روک نہ سکتا تھا اور ان برکات سے بھی محروم نہ ہونا چاہتا تھا جو اس بزرگ خاندان کے قدموں کی برکت سے حاصل ہو رہی تھیں۔ اس لئے اس نے بصد اخلاص وارادت عرض کی کہ آپ اپنے تینوں صاحبزادے اور اپنے بھتیجہ کو میرے پاس چھوڑ جائیے تا کہ ان کی برکت سے لال قلعہ معمور رہے۔ شاہنشاہِ ہند کی یہ درخواست منظور ہوئی اور انہوں نے اپنے تین صاحبزادے خواجہ سیّد محمد صالح اور خواجہ سیّد محمدیعقو ب اور خواجہ سیّد فتح اللہ صاحب کو معہ اپنے ایک بھتیجہ کو جن کا نام معلوم نہیں ہو سکا حسبِ استدعا اورنگ زیب بادشاہِ ہند دہلی میں چھوڑا۔
بادشاہ نے ان چاروں کو بڑے بڑے عہدے اور بڑے بڑے منصب دے کر اورنگ زیبی دربار کے رُکن بنا لیا۔ اسی پر بس نہیں کی بلکہ خواجہ محمدصالح اور خواجہ محمد یعقوب کو جو کنوارے تھے اپنے حقیقی بھائی شہزادہ مراد کی دو خوبصورت حسینہ و جمیلہ بیٹیاں بیاہ دیں اور اس طرح اس خاندان سے نہ صرف اپنی عقیدت مندی کی تکمیل کی بلکہ اس خیال سے کہ لوگ ان کو محض درویش ہی خیال نہ کرتے رہیں اپنے برابر کر لیا۔
اس طرح اس خاندان درویش کو درویشی اور حکومت کی دونوں نعمتوں سے مالا مال کر دیا۔ اسی خاندان سے ایک بزرگ خواجہ سیّد محمد یعقوب بھی اس دوسرے قافلہ میں آئے تھے۔ ان کے بیٹے خواجہ سیّد موسیٰ کو اپنے پوتے شہزادہ معزالدین کی بیٹی فرخندہ اختر سے بیاہ دیا۔
مرشد زادے
اب یہ ایک قدرتی بات تھی کہ خیال پیدا ہو کہ جو بچے ان جوڑوں سے پیدا ہوں گے مغل شہزادوں کی نگاہ میں ان کا کیا مقام ہو گا کہیں وہ ان کو کم درجے کا خیال نہ
کرنے لگیں۔ اس لئے جو بچے ان سے پیدا ہوئے وہ قلعہ معلّٰے والوں کی اصطلاح میں مرشدزادے کہلاتے تھے اور ان کا بڑا احترام کیا جاتا تھا۔
نواب سیّد فتح اللہ خان
میں بتلا چکا ہوں کہ خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب نے دنیا کے مال و منال کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا اور بالآخر وہ حرمین الشریفین کی زیارت کے لئے چلے گئے اور یہ سفران کا ہندوستان سے دیارمحبوب میں ہجرت کا سفر تھا۔
ان کے صاحبزادوں کے متعلق بھی میں لکھ چکا ہوں کہ ان کو نہ صرف منصب اور مقام عالی نصیب ہوا بلکہ اورنگ زیب نے ان کو شاہی خاندان میں داخل کر لیا تھا اور یہ عزت سوائے اس خاندان کے کسی اور خاندان کو نصیب نہیں ہوئی۔ حضرت خواجہ سیّد محمد طاہر صاحب کے تیسرے لختِ جگر سیّد فتح اللہ صاحب تھے۔ شاہنشاہ نے ان کو ’’نواب‘‘ اور ’’خان‘‘ کے خطاب سے سرفراز فرمایا۔ اس طرح آپ نواب فتح اللہ خان کہلائے اور اس عہد میں خانی کا خطاب بہت بڑا درجہ اور اعزاز تھا۔ خطاب کے سوا منصب بھی دیا گیا اور یہ چاہا کہ ان کے بھائیوں کی طرح ان کی شادی بھی کسی شہزادی سے کر دی جائے مگر آپ نے شاہنشاہ سے کہہ دیا کہ اگرچہ شریعت غرّا میں اس امر کی اجازت ہے کہ ایک مغل یا پٹھان کو ایک سیّدزادی بیاہ دی جائے یا ایک سیّد کو ایک مغلانی یا پٹھانی بیاہ دی جائے مگر میں اپنے لئے پسند نہیں کرتا کہ میری بیوی مغلانی یا پٹھانی ہو۔ شاہنشاہ نے ان کی اس بات کو پسند کیا۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّد فتح اللہ بھی ان بزرگوں میں سے تھے جو اپنے اندر باوجود بلند منصبی کے درویشی کا رنگ رکھتے تھے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاہنشاہِ اورنگ زیب کو ان کا کس قدر پاس تھا کہ باوجود اس کے کہ ان کا انکار نہ صرف منشاء شاہی کے خلاف تھا بلکہ اگر کوئی بُرا مفہوم لینے والا ہوتا تو شاید اسے خاندانِ شاہی کی ہتک بھی خیال کر لیتا مگر چونکہ اورنگ زیب اس خاندان کی بے نفسی اور درویشی پر پورا یقین رکھتا تھا اس لئے اس نے ان کے منشاء کو مقدم کر لیا۔اگر یہ لوگ وجاہت طلبی کی تلاش میں ہندوستان آئے ہوتے تو ایسے موقعہ کو بسا غنیمت جان لیتے اور بلکہ وہ خود اس تلاش میں رہتے کہ کوئی ایسا موقعہ میسّر آئے لیکن ان کی حالت بالکل اس کے خلاف تھی کہ موقعہ میسّر آنے پر بھی انکار کر دیتے تھے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کا خاندان
یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ذکر کا تو کوئی موقعہ نہیں مگر ایک مناسبت سے میں ان کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ قدرتِ الٰہی نے چونکہ آگے چل کر دونوں خاندانوں کو ایک کر دینا تھا اس لئے ان دو نوں خاندانوں میں ایک مناسبت چلی آتی ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ کے مورثِ اعلیٰ بڑی شان و شوکت سے بابری عہد میں واردِ ہندوستان ہوئے۔ بابر تیموری خاندان کا بادشاہ تھا اور خاندان مسیح موعود ؑ اوپر چل کر تیمور کے چچازاد بھائیوں کا خاندان تھا۔ اس لئے میرزا ہادی بیگ نسل کے لحاظ سے ایک ہی درخت کی دوسری شاخ تھا اور بابر سے ان کو نسبتِ اخوت تھی لیکن انہوں نے دِلّی کی رہائش کی بجائے دِلّی سے پانچ سو میل دُور پنجاب میں دریائے بیاس کے کنارے پر بالکل ایک گمنام اور اُجاڑ گوشہ میں رہائش اختیار کر لی اور دِلّی کی شان وشوکت سے ذرا بھی حصہ نہ لینا چاہا اور ان مناصب جلیلہ کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ ورنہ بہت ممکن تھا کہ بابری تخت کے قُرب میں یہ خاندان نہ صرف یہ کہ مناصب جلیلہ پر فائز ہوتا بلکہ کسی کمزوری کے وقت خود برسرِاقتدار ہو کر تختِ دہلی پر جلوہ افروز ہوتا۔ الغرض یہ ایک مناسبت تھی کہ خاندانِ مسیح موعودؑ بھی باوجود شاہی خاندان ہونے کے درویشی اور عزلت نشینی کو مقدم کرتا رہا۔
قصہ مختصر نواب سیّد فتح اللہ خان صاحب کے اس انکار پر شاہنشاہِ اورنگ زیب نے ان کی شادی نواب سربلند خان میر بخشی (کمانڈرانچیف افواج) کی حقیقی ہمشیرہ سے کروادی۔ نواب سربلند خاں صاحب صحیح النسب سَیّد تھے اور خواجہ سیّد بہاء الدین صاحب نقشبند کی اولاد میں ہی سے تھے۔ الغرض خواجہ نواب سیّد فتح اللہ خان صاحب نے پسند کیا کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنا تعلق دامادی شاہی محل سے پیدا کریں وہ اپنے خاندان سے باہر نہ جائیں۔
نواب سربلند خان میربخشی کا وجود بتلاتا ہے کہ اس خاندان پر اورنگ زیب کو انتہائی اعتماد تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت کے سول اور فوج کے بڑے بڑے عہدے اس خاندان کے اراکین کے سپرد تھے اور اس طرح دہلی ہی نہیں بلکہ ہندوستان بھر کی سیاست میں اس خاندان کا وقیع اثر تھا۔
نواب فتح اللہ خان سیّد محمد طاہر صاحب کے خاندان میں پہلے شخص تھے جو اس قدر بلند منصب پر فائز ہوئے اور ’’نوابی‘‘ اور ’’خانی‘‘ کے خطاب سے مفتخر کئے گئے۔
نواب ظفراللہ خان
روشن الدّولہ رُستمِ جنگ
نواب فتح اللہ خان صاحب کے مشکوئے معلّٰی میں اور نواب سربلند خان میربخشی کی ہمشیرہ کے بطن سے ایک نونہال پیدا ہوئے۔ جن کا نام خواجہ سیّد محمد ظفراللہ خان رکھا گیا۔ سیّد محمدظفراللہ خان اس خاندان میں پہلا شخص تھا جس کاباپ نواب تھا اور حکومت اورنگ زیب میں بہت بڑا دخل اور رسوخ رکھتا تھا اور اس کا ماموں بھی نوابی کے بلند و بالا خطاب سے مفتخر تھا اور کمانڈرانچیف افواجِ شاہنشاہی تھا اور نسبی عظمت کے لحاظ سے ددہیال اور ننھیال کی طرف سے ایک ہی خاندان کا نونہال تھا۔ یعنی حضرت سیّد بہاء الدین نقشبند کے خاندان اور نسل سے سیّد محمد ظفراللہ خان نے رفیع الشان بن شاہ بن شہنشاہ اورنگ زیب کی سرکار سے معزز عہدے پائے اور جلد ترقی کر کے پانچصد سوار کا منصب حاصل کیا اور نواب ظفراللہ خان کا خطاب حاصل کیا۔ نواب ظفراللہ خان کو خاندان شاہی میں بہت اعتماد حاصل تھا اور وہ شاہی خاندان کے ساتھ ہمیشہ وفادارانہ طور پر رہے۔
نواب ظفراللہ خان تارِکُ الدُّنیا بن گئے
رفیع الشان اور جہان شاہ کے خلاف لاہور میں بغاوت ہوئی۔ عظیم الشان جہاندار شاہ کی افواج نے لاہور میں رفیع الشان اور جہان شاہ اور ان کی خوبصورت اولادوں کو خاک و خون میں ملا دیا۔ نواب ظفراللہ خان بھی اپنے خاندانی دستور کے مطابق اُن کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے اپنی ہمت اور طاقت کے مطابق دادِ شجاعت دی۔ مگر قدرتِ الٰہی کو کچھ اور منظور تھا۔ رفیع الشان اور جہان شاہ بمع اپنی اولادوں کے مٹ گئے۔ اس نظارے نے نواب ظفراللہ خان کے قلب کی حالت کو بالکل بدل دیا۔ دنیا کی ناپائیداری نے دل کو بالکل سرد کر دیا اور سب جاہ و حشم پر لات مار دی اور پھر نوابی پر درویشی کو مقدم کر لیا۔
حضرت میران شاہ بھیک صاحب
اس زمانہ کے درویش کامل حضرت میران شاہ بھیک صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے درویش بن گئے۔ حضرت میران شاہ بھیک سلسلہ چشتیہ صابریہ کے ایک بڑے کامل درویش تھے اور اس زمانہ میں مرجع خلائق بنے ہوئے تھے اور حضرت شاہ ابوالمعالی چشتی صابری جن کا مزار اب تک لاہور میں ایک خاص عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، کے جانشین اور خلیفہ تھے۔ حضرت شاہ ابوالمعالی شیخ محمددائود گنگوہی کے مرید تھے جو شیخ محمد صادق صاحب گنگوہی کے مرید اور خلیفہ تھے۔ یہ سلسلہ درویشی و تصوف حضرت مخدوم علاء الدین صابر کلیری تک پہنچ جاتا ہے۔الغرض آپ سلسلہ چشتیہ صابریہ میں حضرت میران شاہ بھیک کے ہاتھ پر بیعت کر کے درویش ہو گئے۔ حضرت شاہ میران بھیک کھرے سیّد تھے۔ اور ہندی زبان کے خوش بیان شاعر بھی تھے۔ چنانچہ آپ نے بہت سے ہندی زبان میں دوہڑے موزون کئے تھے جن میں توحید اور اسرارِ معرفت و تصوّف بھرے ہوئے تھے،اور اہل دل ان کو سن کر یاد کر لیا کرتے تھے۔۴؎
درویش سے پھر میدان عمل میں
فرّخ سیر شاہنشاہِ ہند نے رفیع الشان اور جہان شاہ اور ان کی اولاد کی قتل کی خبر کو نہایت دردمند ی سے سُنا۔ اُس نے تہیّہ کر لیا۔ کہ وہ عظیم الشان جہاندار شاہ سے جو پنجاب پر حکومت کر رہا تھا ٗبدلہ لے گا۔ یاد رہے ۔ کہ خود فرّخ سیر عظیم الشان جہاندار شاہ کا بیٹا تھا۔ اور عظیم الشان جہاندارشاہ عالم بہادر شاہ کا بیٹاتھا۔اور بہادر شاہ خود شاہنشاہ اورنگ زیب کا بیٹا تھا۔ فرخ سیر نے اِس خونِ ناحق کا بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ہمرکاب سیّد حسین علی گورنر بہار۔سیّد عبداللہ گورنرالٰہ باد بھی تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بادشاہ گر کہلاتے تھے۔ سیّد میران بھیک جو اس وقت عالمِ درویشی میں فرد کامل تھے ،انہوں نے درویش ظفراللہ خان سے کہا۔ کہ ’’بھائی سیّد! اب تم بھی پھر اپنی کمر باندھ لو۔ اور فرّخ سیرکے پاس پہنچ جائو‘‘انہوں نے پیرومرشد سے عرض کی ’’میرا دل اِن جھگڑوں سے بیزار ہو گیاہے۔ میں اب اس عالمِ فانی کے دھندوں میں نہیں پڑنا چاہتا۔درویشی کی لذت کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت کو بھی بے حقیقت جانتا ہوں‘‘مگر میران بھیک صاحب نے فرمایا:
’’اللہ کی یہی مرضی ہے۔ تم دل با یار اور دست باکار ہوگے ربّ العزت کو یہی منظورہے۔ کہ تم بادشاہی عہدہ دار بنکر اس کی مخلوق کو آرام پہنچائو۔ مگر تمہارا خاتمہ بالخیر ہے۔ تم کو جو باطنی دولت ہم نے بخشی ہے۔ اسے دُنیا کی دولت نہ مٹاسکے گی۔‘‘نواب ظفر اللہ خان نے پھر عرض کی۔’’ کہ یہ زمانہ طوائف الملوکی کا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ فرّخ سیر کے پاس جائوں اور اُسے مجھ سے کچھ بد گمانی ہو، اور لینے کے دینے پڑجائیں۔ کیونکہ سلاطین کی نگاہ میںآجکل امیروں وزیروں کا کچھ اعتبار نہیں رہا۔ اس پر حضرت میران بھیک صاحب نے فرمایا۔ کہ۔’’ افسوس ہے تم کو اب تک فقیروںکی بات پر بھروسہ نہیں پیدا ہوا مَیں کہتا ہوں کہ تو بے کھٹکے فرّخ سیر کے پاس چلا جا تیری ہر طرح ترقی اور عروج ہے‘‘۔ ۵؎
نواب صاحب کو اب مرشد کے حکم کے سامنے سرجھکاتے ہی بنی۔ کھلی ہوئی کمر کس لی اور اُتری ہوئی تلوار پھر حمائل کر لی اور اس طرح یہ درویش سپاہی پھر میدانِ جنگ کے لئے تیار ہو کر فرّخ سیر کے پاس پہنچا۔ سیّد عبداللہ خان اور سیّد حسین علی خان گورنران یو۔پی و بہار نے ان کی بڑی تعریف کی اور فرّخ سیر سے کہا کہ یہ خود معرکہ لاہور میں شریک تھے۔ فرّخ سیر بھی ان تعلقات سے ناواقف نہ تھاجو شاہنشاہِ اورنگ زیب کے عہد سے اب تک خاندانِ شاہی سے چلے آتے تھے۔ ۶؎
نواب ظفر اللہ خان بخشی سوم
شاہنشاہِ فرّخ سیر نے بھی آپ کی خدماتِ سابقہ اور اس وفاداری کو جو اَب ان سے ظاہر ہوئی سامنے رکھتے ہوئے از راہِ قدر دانی فوراً نواب ظفراللہ خان کو اپنی افواج کا بخشی سوم کر دیا۔ یعنی کمانڈر انچیف درجہ سوم۔
منصب پنج ہزاری
بخشی سوم کے لئے جن لوازمات اور اعزازات کی ضرورت تھی اُن کو بھی نظر انداز نہ کیا اور آپ کو پنج ہزاری کا منصب جلیلہ عطا فرما کر ان کی قدر افزائی کو چار چاند لگا دیئے۔ اِسی پر بس نہ کی نواب ظفر خان رستمِ جنگ کا خطاب بھی مرحمت فرمایا۔
الغرض فرّخ سیر کی جہاندار شاہ کی افواج سے جنگ ہوئی۔ نواب ظفر خان رستمِ جنگ نے نہایت بہادری، وفاداری اور شجاعت سے اس جنگ میں فرّخ سیر کا ساتھ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرّخ سیر کی فوج ظفر موج فتح و کامرانی کا پھریرا اُڑاتی ہوئی پنجاب پر قابض ہو گئی۔
روشن الدولہ نواب ظفراللہ خان کی خدمات کا صلہ فتح کے بعد مزید انعامات اور اعزازات کے رنگ میں ظہور پذیر ہوا اور نواب ظفر خان رستمِ جنگ روشن الدولہ کے عالی قدر خطاب اور منصب ہفت ہزاری پر فائز ہوئے۔ اس طرح حضرت میران بھیک کے حجرہ درویشی میں بیٹھا ہوا خلوت نشین درویش سلطنتِ مغلیہ کا ایک آزمودہ کار جرنیل اور ایک مدبر اور دانشمند مشیر ثابت ہوا اور اب اُس کا پورا نام پورے القابات سے یوں لکھا اور پڑھا جانے لگا۔ نواب ظفر اللہ خان رستمِ جنگ، روشن الدولہ ہفت ہزاری۔ اس سارے قصے سے مجھے اس خاندان کے افراد کے متعلق یہ بتلانا ہے کہ وہ کس طرح اپنے جسم پر دیباوحریر کی عبائیں پہنے ہوئے ہوتے تھے مگر اندر ان کے جسم پر قباء درویشی ہوا کرتا تھا۔ وہ بیک وقت صاحبِ سیف و قلم ہی نہیں صاحبِ دل بھی ہوتے تھے اور وہ اپنے زمانے کے ان لوگوں میں سے تھے جن پر ہندوستان کے امن کا قصر کھڑا تھا۔
سیر کی وفات
آخر وہ وقت آ گیا کہ فرّخ سیر اس جہان سے کوچ کر گیا اور محمد شاہ رنگیلا تخت نشین ہو گیا۔ محمد شاہ رنگیلا اگرچہ ایک رنگین مزاج بادشاہ تھا مگر اس نے بوڑھے جرنیل کو خوب سمجھا۔ اُسے ان کی وفاداری پر پورا بھروسہ تھا۔ اس لئے جو یہ کہتے وہی بادشاہ کرتے۔ اس سے بہت سے ارکانِ سلطنت ان سے جلنے لگے اور حسد کرنے لگے۔ بادشاہ فرّخ سیر نے ان کے سابقہ اعزازات میں یاروفادار کا اضافہ فرمایا۔آج یار وفادار وہ خطاب ہے جو برٹش سرکار میں صرف اعلیٰ حضرت حضور نظام دکن کو حاصل ہے۔ تو گویا مَیں کہہ سکتا ہوں کہ نواب ظفر اللہ خان کو آج کے لحاظ سے ہزایگزالٹڈ ہائی نس کا خطاب تھا اور اس طرح نواب ظفر اللہ خان نے اس وقت کا ہی نہیں بلکہ آج کے لحاظ سے بھی بڑے سے بڑا لقب اور بڑے سے بڑا منصب حاصل کیا۔ نواب ظفر اللہ خان کے متعلق مؤرخین نے لکھا ہے کہ اُن کی سواری بڑی شان سے نکلتی تھی۔ ان کے آگے سوار اشرفیاں بانٹتے چلا کرتے تھے۔ اُن کے سر پر کئی مرصّع جواہر طُرّے ہوا کرتے تھے۔ اُن کی سخاوت کی بڑی دھوم تھی۔۷؎
ان حالات سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ نواب ظفر اللہ خان اپنے زمانہ کے ایسے امیر کبیر تھے جو بادشاہ کے بعد امورِ سلطنت کے مدار المہام تھے اور جن کے گھر میں سونا چاندی اور زر و جواہر کا کوئی شمار نہ تھا۔
سُنہری مسجد
نواب ظفر اللہ خان کو اپنے مرشد سے بڑی عقیدت تھی اور وہ اپنی ساری ترقیوں کو ان کی دعا اور برکت کا نتیجہ یقین کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے ۱۱۳۴ھ میں حضرت میران بھیک کی وفات پر اُن کی یاد میں دہلی میں ایک مسجد چاندنی چوک میں کوتوالی کے قریب بنوائی اور اسے سر سے پائوں تک سونے میں غوطہ دے دیا کہتے ہیں کہ جب بادشاہ کی سواری چاندنی چوک سے گذرتی تو اس مسجد کو دیکھ کر بادشاہ خوش ہوتے تھے۔
اس مسجد کی تاریخی حیثیت
نادر شاہ ایران نے جب دہلی میں قتل عام کروایا تو وہ اس مسجد میں تلوار کھینچ کر آ بیٹھا تھا اور جب تک تلوار بے نیام کئے بیٹھا رہا قتل عام ہوتا رہا۔ اس واقعہ کی تفصیل کسی دوسری جگہ آئے گی۔ مگر یہاں اس قدر ذکر کرنا ضروری تھا کہ نادری قتلِ عام چونکہ ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس لئے تمام مؤرخین نے اس مسجد کا ذکر کیا ہے اور اب تک دنیا بھر سے آنے والے سیّاح اس مسجد کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس خوبصورت سنہری مسجد کی پیشانی پر یہ تاریخ کندہ ہے۔
بہ عہد بادشاہ ہفت کشور
سلیمان فر محمد شاہ داور
بہ نذر شاہ بھیک آن قطب آفاق
شد ایں مسجد بہ زینت در جہاں طاق
خدا ربّانی است لیک از روئے احسان
بنام روشن الدولہ ظفر خان
بہ تاریخش ز ہجرت تا شمار است
ہزار و یکصد و سی و چہار است
(۱۱۳۴ھ)
ایک اور سنہری مسجد
پہلی سنہری مسجد سے ۲۳ برس بعد رفاہِ عام کے لئے فیض بازار میں عین سڑک پر دوسری سنہری مسجد تعمیر کروائی۔ یہ مسجد اب پوشیدہ ہو گئی ہے اور غلط العام کی وجہ سے اب قاضیوںکی مسجد کہلاتی ہے۔ اس مسجد کی تاریخ یہ ہے:
روشن الدولہ ظفر خان صاحبِ جود و کرم
کرد تعمیر طلائی مسجد عرش اشتباہ
مسجدے کاندر فضائے قدریں آسمان
کرد از خط شعاعی مہر جاروبی پگاہ
حوض صاف اونشان از چشمۂ کوثر دہد
ہر کہ از آیش وضو ساز و شود پاک از گناہ
سال تاریخش رسائی یافت از الہامِ غیب
مسجد چوں بیت اقصیٰ مہبطِ نورِ الہ
(۱۱۵۷ھ)
لاہور کی سنہری مسجد
جہاں تک ہم کو معلوم ہو سکا ہے کہ لاہور ڈبی بازار کی مشہورسُنہری مسجد بھی روشن الدولہ نواب ظفر اللہ خان کی بنوائی ہوئی ہے۔ اس سے اس شوق کا پتہ چلتا ہے جو ان کے قلب میںموجزن تھا۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ بکثرت مسجدیں بنوائیںاور مسجدیں بھی ایسی ہوں جو اپنی خوبصورتی میں یکتا ہوں۔ جو شخص مساجد کیلئے اس قدر شوق اور محبت رکھتا ہو اس کے دل میںنماز کی پابندی اور باقاعدگی کا کس قدر شوق ہوگا یہ ظاہر ہے اس سے بآسانی معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ بھی وہ لوگ تھے جنہوں نے کبھی بھی دنیا کو دین پر مقدم نہ کیا تھا۔ آپ نے چورانوے سال پانچ ماہ کی عمر پائی اور دسویں ذالحجہ ۱۲۶۱ھ طلوع آفتاب کے وقت تکبیر تحریمہ پڑھتے ہوئے مرض سرطان سے وفات پائی۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون- آپ کا مزار قدم شریف دہلی کے احاطہ میں ہے۔ سیر المتاخرین کے مصنف نے بوجہ متعصب شیعہ ہونے کے بہت کچھ ان کے خلاف لکھا ہے مگر اس کی کچھ حقیقت نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے ایک مناسبت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی بہت سی باتیں حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان سے ملتی ہیں جیسے کہ مَیں پہلے ایک مثال کا ذکر کر آیا ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان کی درویشی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ اگرچہ شاہی خاندان کے لوگ تھے۔ ہندوستان میں ورود سے قبل بھی وہ صاحبِ حشمت تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے درویشی کو اپنا شعار رکھا۔
حضرت مرزا ہادی بیگ مورثِ اعلیٰ نے سلطنت کے جھمیلوں سے دور پنجاب کے ایک جنگل میں ایک بستی بسائی۔ اس کا نام اسلام پور رکھا۔ اس میں حفاظ اور علماء کا ایک جمگھٹا رہتا تھا۔ قال اللہ اور قال الرسول کے ہر وقت چرچے رہتے تھے۔۸؎
یہ تھی ان کی امیری میں درویشی اور یہی حال حضرت اُمُّ المؤمنین کے بزرگوں کا رہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کے مناصب سے حصہ وافر دیا تو اس وقت بھی یادِ الٰہی ان کے قلب سے محو نہ ہوئی۔
تیسری مناسبت
نواب ظفر اللہ خان روشن الدولہ رستمِ جنگ ہفت ہزاری شاہنشاہِ ہند فرّخ سیر کے زمانہ میں ہوئے ہیں۔ یہ حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کے
مورثانِ اعلیٰ میں سے ایک تھے اور اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مورثانِ اعلیٰ میں عضد الدولہ میرزا فیض محمد خان صاحب ہفت ہزاری تھے۔ نواب ظفر اللہ خان نے بادشاہ کی مدد کے لئے تلوار اُٹھائی۔ مگر عضدالدولہ میرزا فیض محمد خان نے دو کام کئے۔ ایک تو یہ کہ اس خانہ جنگی سے فائدہ اُٹھا کر اپنی ایک خود مختار سلطنت کی بنیاد رکھنے کی کوشش نہیں کی باوجود اس کے کہ ۸۴ گائوں پر آپ کی حکومت تھی۔ علاقہ پر آپ کا اثر تھا آپ کے پاس باقاعدہ فوج تھی اور مال و دولت سے حصہ وافر تھا۔ الغرض وہ تمام چیزیں موجود تھیں جن کی وجہ سے کوئی صاحب اثر خاندان طوائف الملوکی کے وقت اپنی سلطنت و حکومت قائم کرے۔ مگر اس خاندان کی شرافت و نجابت اور بزرگی نے بادشاہانِ وقت سے غداری نہ کرنی چاہی اور نہ کی۔
دوسرے عضدالدولہ میرزا فیض محمد خان صاحب ہفت ہزاری جو سلکِ امراء میں اوّل درجہ کے امیر تھے انہوں نے فرّخ سیر شاہنشاہِ ہند کے حکم کے ماتحت لشکرِ فیروزی میں حاضر ہو کر مناسب خدمات سرانجام دیں جیسے فرمانِ شاہی سے واضح ہوتا ہے:
ترجمہ منشور محمد فرّخ سیر غازی شہنشاہ ہندوستان۔
محمد فرّخ سیر
بادشاہ غازی دسہ
حاجی علیخان
بزرگوں و ہمسروں میں برگزیدہ میرزا فیض محمد خان شاہی دلجوئی یافتہ ہو کر جان لیں کہ اس وقت حضور فیض گنجور عرش آشیانی ظل سبحانی آپ کی وفا کیشی اور خیر اندیشی اور جان نثاری سے نہایت خوش ہوئے ہیں۔ اس لئے حکم جہان مطاع عالم مطیع نے صدور کا شرف حاصل کیا ہے کہ اس اخلاص نشان کو ہفت ہزاری امراء کی سلک میں منضبط کر کے اور جگہ دے کر عضدالدولہ کے خطاب سے مفتخر اور ممتاز کیا جاتا ہے۔چاہئے کہ اب لشکر فیروزی اثر میں اپنے آپ کو موجود اور حاضر کریں اور ہمیشہ عرش آشیانی کی درگاہ کے بندوںکی وفاکیشی اور خیر اندیشی میں مصروف اور ساعی رہیں۔۹؎
اس جگہ مَیں مناسب خیال کرتا ہوں کہ عضد الدولہ اور ہفت ہزاری کی اس تشریح کو بھی درج کروں جو جناب مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم نے سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ۱۵۲ اور صفحہ۱۵۳ کے آخر تک لکھی ہے۔
’’شہنشاہ ہند محمد فرّخ سیر کے منشور میں جو غفران مآب میرزا فیض محمد خان صاحب نور اللہ مرقدہٗ کے نام ہے تین لفظ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔
’’پہلا لفظ ہفت ہزاری کا ہے۔ دربارِ اکبری میں اراکین سلطنت کے مناصب کی تقسیم اس طرح سے شروع ہوئی تھی کہ ہشت ہزاری کا منصب ولی عہد اور خاندان شاہی کے شہزادوں کے لئے خاص تھا اور اراکین دربار و وزراء سلطنت ہفت ہزاری منصب سے ممتاز ہوتے تھے۔ شش ہزاری منصب بھی امراء کو بہت جاں نثاری کے بعد ملتا تھا۔ جس وقت گولکنڈہ کے فرمانروا ابوالحسن تانا شاہ کی سرکوبی پر شہنشاہ اورنگ زیب محمد عالمگیر نے تمام افواج ہندوستان کے سپہ سالار نواب غازی الدین خان بہادر فیروز جنگ کو دکن کی مہم سر کرنے کے لئے مامور فرمایا تو ان کوشَش ہزاری کا عہدہ دیا۔ چنانچہ اُس وقت کا نامہ نگار نعمت خان متخلص بہ عالی اپنی مشہور کتاب وقائع نعمت خاں میں لکھتا ہے:
’’دو ششے کہ آں شش ہزاری شش ہزار سوار زدہ بود‘‘
’’اس فقرہ میں شش ہزاری کے لفظ سے مطلب ہے کہ فیروز جنگ کو عالمگیر نے یہ منصب دیا ہوا تھا جو ہفت ہزاری سے بہت ہی کم تھا۔ ہفت ہزاری منصب کی نسبت شاہانِ مغلیہ کے عہد میں ایک ضرب المثل مشہور تھی۔ ’’ ہفت ہزاری شووہرچہ خواہی بکن‘‘۔ یعنی ہفت ہزاری کا منصب ایسا عالی ہے کہ اگر تجھ کو حاصل ہو جائے تو تیرے کام میں کوئی دخل دینے والا نہیں رہے گا۔ الحاصل ہفت ہزاری کا منصب شاہانِ مغلیہ کے عہد میں بہت وقیع و رفیع سمجھا جاتا تھا۔ تاریخ شاہد ہے۔
’’دوسرا لفظ عضد الدولہ کا خطاب ہے۔
’’تاریخ کی ورق گردانی سے ثابت ہوتا ہے کہ جب ہارون و مامون و معتصم کے بعد بنی عباس کی خلافت میں ضعف آ گیا اور اسلامی دنیا کے بعض حصوں میں متفرق خاندانوں میں حکومتیں برپا ہو گئیں تو ان میں سے دیالمہ کا خاندان بھی تھا جس کے چمکتے ہوئے فرمانروائوں کو استمالتِ قلوب کی وجہ سے خلافتِ بغداد کے دربار نے عضد الدولہ اور اس کے بیٹے کو رکن الدولہ کا خطاب دیا تھا۔ غالباً اسلامی تاریخ میں عضدالدولہ دیلمی ہی پہلا شخص ہے جس نے یہ معزز خطاب حاصل کیا ہے۔ اس کے بعد سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کو خلیفہ بغداد نے یمین الدولہ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ ایرانی سلطنتیں بھی خلفائے بنی عباس کی اتباع سے اپنے امراء دربار کو اعتضاد الدولہ، احتشام الدولہ وغیرہ کے خطابات دیتی رہی ہیں۔ہندوستان کی افغانی کنگڈم بھی علاء الملک، عماد الملک، خان جہان، خان دوران کے خطابات سے اپنے اپنے امراء و رئوسا کی دلجوئی کرتی رہی ہیں۔
’’مغل ایمپائر کے زریں عہد میں فرمانروایانِ اودھ کو شاہ عالم ثانی کی سرکار سے شجاع الدولہ اور آصف الدولہ کا خطاب ملا ہے۔ شاہ اکبر ثانی نے سرسیّد کو جواد الدولہ عارف جنگ کا خطاب دیا تھاجس کو سرسیّد کے ارادتمند آج تک ان کے نام کے ساتھ لکھتے چلے آئے ہیں۔
’’سرکار کمپنی نے بھی بغرض تالیفِ قلوب باتباع شاہانِ مغلیہ والیانِ ٹونک کو امیر الدولہ اور ان کے بیٹے کو وزیر الدولہ کا خطاب دیا تھا۔
’’اس داستان باستان کو طول دینے سے خاکسار کی غرض صرف یہ ہے کہ شہنشاہ فرّخ سیر کا منشور جو غفران مآب میرزا فیض محمد خان صاحب طاب اللہ ثراہ کے نام ہے۔ جس میں ان کو عضد الدولہ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا ہے وہ والیانِ اودھ شجاع الدولہ اور آصف الدولہ اور والیانِ ریاست ٹونک کے خطابات امیر الدولہ و وزیر الدولہ اور نواب بنگالہ سراج الدولہ کے خطاب سے اور سرسیّد کے خطاب جواد الدولہ سے زیادہ قدیم اور زیادہ وقیع ہے کیونکہ فرّخ سیر شاہنشاہ ہندوستان تھا۔ اس کے بیٹے محمد شاہ کے بعد سلاطین مغلیہ شاہ عالم ثانی و اکبر شاہ ثانی نام کے بادشاہ رہ گئے تھے۔ خطاب دینے والے بادشاہوں کے لحاظ سے غفران مآب کا خطاب ایک ذی شان شہنشاہ کی طرف سے ہے‘‘۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اُمُّ المؤمنین کے خاندان کے حالات پہلو بہ پہلو چلتے ہیں۔ ایک خاندان سمر قند (بخارا) سے آیا تو دوسرا خاندان بھی بخارا کے کسی دوسرے حصے سے آیا۔ ایک دہلی میں بادشاہ کی خواہش کے مطابق آباد ہوا مگر عملی طور پر دہلی سے دور رہا۔ تو دوسرا دہلی سے ویسے ہی دور جا کر مقیم ہو گیا۔ ایک خاندان نے اولیاء پیدا کئے اور بالآخر اُمُّ المؤمنین جیسی عصر حاضر کی سب سے بڑی باخدا خاتون پیدا کی تو دوسرے خاندان نے اس زمانہ کے راستباز اور پاکباز حضرت مسیح موعود اور مہدی مسعود کو پیدا کیا اور بالآخر نئی اور پرانی پیشگوئیوں کے مطابق خدا تعالیٰ نے ان دونوں خاندانوں کو ایک جگہ پر جمع کر دیا جس کی تفصیل اپنی جگہ پر آ سکے گی۔
یہ حیرت کا مقام ہے۔ کسی انسان کے اختیار میں نہ تھا کہ وہ اس طرح دو الگ الگ خاندانوں کو ایک دور دراز ملک سے لا کر ہندوستان میں جمع کر دے اور پھر دونوں کو مختلف حالات میں سے گذار کر ایک کر دے تا کہ پرانے اور نئے نوشتے پورے ہوں۔ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے۔ کیا یہ تعجب کا مقام نہیں کہ ایک طرف تو خواجہ محمد ناصر صاحب کو بتلایا جاتا ہے کہ :
’’یہ روشنی مسیح موعود کے نور میں گم ہو جائے گی‘‘۔
دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس رشتہ کی تحریک کی گئی اور اس تحریک کے متعلق مندرجہ ذیل امور سے آگاہی دی۔
۱۔ مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں۔
۲۔ یہ سب سامان مَیں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی۔
۳۔ وہ قوم کے شریف اور عالی نسب ہونگے۔
۴۔ اس شہر کا نام بھی بتلایا گیا جو دہلی ہے۔
۵۔ یہ بیوی ایک مبارک نسل کی ماں ہوگی۔
۶۔ اللہ تعالیٰ اس نسل سے ایک بڑی بنیاد حمایت اسلام کی ڈالے گا۔
۷۔ اور اس نسل سے ایک وہ شخص بھی پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا۔
۸۔ وہ بیوی کنواری شادی میں آئے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی عرصہ دراز تک زندہ رہے گی۔
۹۔ تیری نسل ملکوں میں پھیل جائے گی اور یہ ذریت منقطع نہ ہوگی اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی۔
۱۰۔ اس نسل کو خاندان کے دوسرے افراد پر یہ امتیاز ہوگا کہ یہی بڑھیں گے اور جدی بھائیوں کی ہر ایک شاخ کاٹ دی جائے گی۔ ہاں جو توبہ کریں گے بچا لئے جائیں گے۔
یہ دس قسم کے نشانات جن کا ذکر تذکرہ میںموجود ہے جو اس شادی کے ساتھ وابستہ تھے اور خدا تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت لفظ بلفظ اور حرف بحرف پورے ہو کر رہے۔ اس پیشگوئی کے اخیر میں فرمایا:
’’اے منکرو اور حق کے مخالفو! اگر تم میرے بندے کی نسبت شک میں ہو۔ اگر تمہیں اس فضل و احسان سے کچھ انکار ہے جو ہم نے اپنے بندے پر کیا تو اس نشانِ رحمت کی مانند تم بھی اپنی نسبت کوئی سچا نشان پیش کرو اگر تم سچے ہو اور اگر تم بھی پیش نہ کر سکو اور یاد رکھو کہ ہرگز پیش نہ کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جو نافرمانوں اور جھوٹوں اور حد سے بڑھنے والوں کے لئے تیار ہے‘‘۔۱۰؎
یہ آخری حصہ قرآن کریم کی اس تحدی کو پیش کر رہا ہے جو ان الفاظ میں ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ وَادْعُواْ شُہَدَائَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن- فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْافَا تَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ- ۱۱؎
یہ تحدی قرآن کریم کے متعلق تھی اور آج تک کوئی دشمنِ اسلام اس تحدی کے خلاف کھڑا نہ ہو سکا۔ بالکل اسی تحدی کا جلوہ اس آخری دور میں ہوا اور خدا تعالیٰ نے اس شادی کو ایک نشانِ خاص بنایا اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کیلئے وعدے دیئے۔ ان کی کثرت نسل کی شہادت دی ان کے بڑھنے اور پھلنے، پھولنے اور پھیلنے کی بشارت دی۔
پھر ایک موعود لڑکے کی بھی بشارت دی۔ یہ تحدی اس امر کی دلیل ہے کہ اس خاندان کا عالم وجود میں لانا ایک بہت بڑا نشان ہے۔ یہ نشان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک ابدی دلیل ہے بشرطیکہ کوئی دیدۂ بینا ہو۔ پس یہ خاندان شعائر اللہ میں سے ہے جس طرح دیگر شعائر اسلام کا احترام قیامِ ایمان کیلئے ضروری ہے اسی طرح ان کا احترام، اِن کی محبت، ہمارے ایمان کا ایک جزوِ لاینفک۔
حوالہ جات
۱؎ ابراہیم: ۳۸
۲؎ ماثر الامراء
۳؎ رسالہ ہوش افزاء مصنفہ حضرت خواجہ میر دردرحمۃ اللہ علیہ
۴؎ اقتباس الانوار مصنّفہ مولانا محمد اکرام صاحب براسوی، حدیقۃ الاولیاء
۵؎ میخانہ درد صفحہ۱۳
۶؎ تاریخ ہند دکاء اللہ خان
۷؎ ماثر الامراء
۸؎ ملاحظہ ہو حیات النبی حصہ اوّل
۹؎ ۱۹/ماہ شوال ۴ جلوس۔ سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ۱۴۸
۱۰؎ تذکرہ صفحہ۱۲۴
۱۱؎ البقرۃ: ۲۴،۲۵
حضرت خوا جہ سیّد محمدناصر صاحب عندلیب
حضرت خوا جہ محمد ناصر صاحب عندلیب
دور ثانی
نواب روشن الدولہ کی شادی سیّد لطف اللہ صاحب ابن سیّد شیر محمد صاحب قادری نبیرہ حضرت تاج الدین ابوبکر بن عبدالرزاق بن حضرت سیّد عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی دختر سے ہوئی تھی۔ اس نیک اور صاحبِ عصمت خاتون کے بطن سے حضرت خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب عندلیب پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش ۱۱۰۵ھ میں ہوئی۔ آپ کی تاریخ پیدائش شاہ بیدل نے یوں لکھی:
در وجود آمد چو ذاتِ آن ولی
شد کمالاتِ امامت از جلی
سال تاریخش مرا الہام شد
وارثِ علم امامین و علی
۱۱۰۵ھ
خواجہ محمد ناصر کی زندگی کا دَورِ اوّل
حضرت خواجہ محمد ناصر کی زندگی پر دو دور آئے۔
دورِ اوّل: پہلا دور تو یہ تھا کہ آپ ایک امیر ابن امیر اور نواب ابن نواب کے گھر میں گویا منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے۔ گھر میں زر و جواہر کے ڈھیر لگے ہوئے تھے چونکہ ایک طرف سے بلند مرتبہ سادات میں سے تھے اور دوسری طرف بلند مرتبہ ارکان حکومت میں سے اس لئے دنیا کی ہر قسم کی وجاہت حاصل تھی۔ گھر میں نوکر، چاکر، لونڈی، غلام موجود تھے اور دینی اعتبار سے عوام تو عوام شاہی خاندان کے دل میں بھی ادب تھا۔ ایسی صورت میں آپ کی شان و شوکت کا آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آپ خوبصورت بھی تھے۔ جب آپ کی سواری نکلتی تو تماشائیوں اورمشتاقان کا ہجوم جمع ہو جاتا اور عوام تو عوام بڑے رئیس بھی سلام کے لئے ٹھہر جاتے۔ یہ میرا ذوقی امر ہے کہ ان کے چہرہ پر روشنی و درخشانی اس امانت کی وجہ سے تھی جو وہ اپنے صلب میں حضرت اُمُّ المونین نصرت جہان بیگم کے نام سے لئے ہوئے تھے۔ یہ وہ چیزیں تھیں جو ایک نازو نعم میں پلے ہوئے انسان کو دنیا کا گرویدہ بنا دیتی ہیں اور وہ ایسا جکڑا جاتا ہے کہ اس کا ہر قدم خدا سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔
تعلیم
اس زمانہ میں شُرفاء کی اولاد کی تعلیم گھروں پر ہی ہوتی تھی۔ اس دستور کے مطابق آپ نے علوم و فنون عربی اور فارسی کی تعلیم اپنے دادا نواب فتح اللہ خان سے حاصل کی تھی۔ چونکہ
باپ دادا بڑے بڑے مناصب پر فائز تھے اس لئے سپہ گری کے فن کو بھی کمال خوبی سے سیکھا۔
فوج کی سرداری
بیس برس کی عمر میں آپ شاہی فوج کے سردار بنائے گئے۔ عرصہ تک آپ یہ خدمت سرانجام دیتے رہے اور ان خدمات کے صلے میں آپ نے ان مناصب کے برابر مناصب حاصل کر لئے تھے جو آپ کے دادا نواب فتح اللہ خان صاحب کو حاصل تھے۔ لیکن یہ تمام مناصب اوریہ وجاہت اور یہ عزت اُن کے قلب کو مطمئن نہ کر سکتی تھی اور وہ اس دنیاوی ترقی اور وجاہت سے سخت متنفر تھے مگر صرف اپنے بزرگوں کی خاطر اور حکم سے محض براً بالوالدین اس غیر مرغوب خدمت کو بجا لاتے رہے۔
حضرت خواجہ محمد ناصر کی اس بات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ بات بہت ملتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری بزرگوں نے جب اپنی مختصر سی حکومت ضائع کر دی یا منشاء الٰہی سے ضائع ہو گئی تو آپؑ کے والد حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحب نے اپنی ساری عمر اس جائیداد کے حصول اور دنیاوی ترقی کے لئے صرف کر دی۔ ان کے بڑے بیٹے مرزا غلام قادر صاحب ان کی منشاء کے مطابق دنیاوی کاروبار میں لگے ہوئے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کاموں سے سخت نفرت تھی وہ اپنی ایک الگ دنیا بنانی چاہتے تھے۔ جس میں سوائے خدا کے نام کے اور کچھ نہ ہو۔ مگر والد کی رضاء بھی ضروری تھی۔ وہ اس غیر مرغوب اور ناپسندیدہ کام کو ایک لمبے عرصے تک، کبھی ملازمت کی شکل میں، کبھی زمینداری کی شکل میں اور کبھی پیروی مقدمات کی شکل میں کرتے چلے گئے۔ مگر ان کادل کبھی نہ خوش ہوا اور نہ مطمئن۔ بالآخر مشیت الٰہی نے آپؑ کے والد کو اپنے حضور بلا لیا اب آپؑ آزاد تھے۔ آپؑ نے فوراً ہی خدمت دین کا کام جو اصل کام اور مقصدِ حیات ہے شروع کر دیا۔
حضرت اقدسؑ کا ایک عجیب مکتوب
ذیل میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا جو ایک گرامی قدر مکتوب درج کیا جاتا ہے۔ اس مکتوب کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ حضور علیہ السلام کس طرح اوّل عمر میں ہی سے اس دنیا سے متنفر اور اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی فکر میں رہتے تھے۔ یہ مکتوب آپؑ نے اپنے والد ماجد میرزا غلام مرتضیٰ صاحب مرحوم کی خدمت میں ایسے وقت میں لکھا تھا جب آپؑ بدوشباب میں تھے۔ یہ مکتوب بھی آپؑ کی پاکیزہ فطرتی اور مطہر سیرۃ کا ایک جزو ہے اور وہ یہ ہے:
’’حضرت والد مخدومِ من سلامت! مراسمِ غلامانہ و قواعدِ فدویانہ بجا آوردہ معروض حضرت والا میکند۔ چونکہ دریں ایّام برای العین می بینم و بچشمِ سرمشاہدہ میکنم کہ درہمہ ممالک و بلاد ہر سال چناں وبائے می اُفتد۔ کہ دوستان را از دوستان و خویشان را از خویشاں جُدا میکند۔ وہیچ سالے نہ می بینم کہ ایں نائرہ عظیم و چنیں حادثہ ٔالیم در آن سال شورِ قیامت نیگفند۔ نظر برآن دل از دُنیا سرد شدہ ۔ و رُو از خوفِ جان زر د و اکثر ایں دو مصرع مصلح الدین سعدی شیرازی بیادمی آیندو اشکِ حسرت ریختہ می شود:
مکن تکیہ بر عمر ناپائیدار
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
ونیز ایں دو مصرعہ از دیوانِ فرخ قادیانی نمک پاش جراحتِ دل میشود:
بدنیائے دون دل مبند اے جواں
کہ وقتِ اجل میرسید ناگہان
لہذامی خواہم کہ بقیہ عمر درگوشہ تنہائی نشینم و دامن از صحبتِ مردم بچینم و بیادِ اوسبحانہ مشغول شوم۔ مگر گذشتہ را عذرے و مافات را تدار کے شود
عمر بگذشت و نماند است جز از گامے چند
بہ کہ دَر یاد کسے صبح کنم شامے چند
کہ دُنیا را اساسے محکم نیست و زندگی را اعتبارے نے
وائیس منخاف علٰی نفسہ من افت غیرہ والسلام‘‘
اس خط کو غور سے پڑھنے پر عجیب معرفت ہوتی ہے کہ آپؑ کو آخری الہام جو اپنی وفات کے متعلق ہوا وہ بھی یہی تھا۔
مکن تکیہ بر عمرِ ناپائیدار
مباش ایمن از بازیٔ روزگار
اور آپؑ نے یادِ الٰہی میں مصروف ہونے کے لئے جس طرح پر والد مکرم سے اجازت چاہی، اس میں بھی اسی سے استدلال فرمایا۔
جلوت پر خلوت کو پسند کروں!
اِس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی شہرت و عظمت کے طلبگار نہ تھے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق صافی رکھتے تھے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ آپؑ کو گوشہ گزینی سے اس قدر محبت تھی کہ آپؑ کبھی جلوت میں نہ آتے اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل مدنظر نہ ہوتی چنانچہ ایک مرتبہ فرمایا:
’’اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے۔ کہ خلوت اور جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا ہے۔ تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ مَیں خلوت کو اختیار کروں۔ مجھے تو کشاں کشاں میدانِ عالم میں انہوں نے نکالا ہے۔ جو لذت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے۔ مَیں قریباً ۲۵ سال تک خلوت میں بیٹھا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں چاہا۔ کہ دربار شہرت کی کرسی پر بیٹھوں۔ مجھے طبعاً اس سے کراہت رہی۔ کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں۔ مگر امرِ آمر سے مجبور ہوں۔ فرمایا مَیں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سَیر کرنے کو جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بناء پر ہے‘‘۔۱؎
بالکل اسی طرح جب نواب فتح اللہ خان اور روشن الدولہ نواب ظفر خان فوت ہوگئے خواجہ محمد ناصر صاحب نے وجاہتِ دنیا کو لات مار دی فوراً بادشاہ محمد شاہ کے پاس جا کر استعفیٰ دے دیا۔ بادشاہ نے بہت منع کیا اور سمجھایا۔ مگر آپ نے یہی کہا کہ مجھے معاف کیا جائے مَیں اب یہ خدمت سرانجام نہیں دے سکتا۔
الغرض اس نام و نمود اس منصب و جاہ اس دولت و حشمت کو۔ اس سلام و قلق کو، ان حکومت کی رنگینیوں کو یکدم چھوڑ کر نواب خواجہ محمد ناصر گھر کو آئے۔
دوسرا دَور
اب پھر اس خاندان کی زندگی پیچھے کی طرف لوٹی۔ درویشی کو حکومت پر فتح ہوئی۔ خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب نے گھر میں جو کچھ زر و جواہر تھا سب خدا کے راستے پر لٹا دیا اور فقیر ہو گئے۔ محلّات کو چھوڑا اور بیوی بچوںکو لے کر ایک کھنڈر میں آ کر عزلت گزین ہو گئے۔
میر عمدہ کا نالہ
دہلی سے جو اس وقت شاہجہان آباد کے نام سے مشہور تھی پہاڑ گنج سے جانبِ غرب ایک قصبہ تھا جس میں میر عمدہ رہا کرتے تھے۔ یہاں ایک نالہ بھی بہا کرتا تھا۔ اس لئے مَرُورِ ایام سے اس جگہ کا نام بِگڑ کر برمدہ کا نالہ ہو گیا تھا اس میں تمام سادات خوافیہ رہتے تھے۔ میر عمدہ کا اصل نام سیّد محمد صاحب قادری تھا جو خواجہ محمد ناصر صاحب کے خسر تھے۔ اس جگہ نواب روشن الدولہ کا فیل خانہ تھا۔ شتر خانہ اور طویلہ تھانیز اس جگہ ان کا دیوانِ خانہ اور زنانہ محل بھی تھے۔ خواجہ محمد ناصر صاحب اور ان کی اولاد کی پیدائش بھی اس جگہ ہوئی تھی۔
خواجہ محمد ناصر صاحب نے جب امارت اور دولت پر لات مار دی تو وہ پھر میر عمدہ کے نالہ پر آرہے جو شاہجہان آباد کے مقابل میں ایک کھنڈر سے زیادہ حقیقت نہ رکھتا تھا۔ ان بزرگوں کا یہاں ایک خاندانی قبرستان بھی تھا جہاں سب بزرگ دفن تھے۔الغرض اس قدیم خاندانی مقام پر آپ اپنے بیوی بچوں کو لے کر آگئے۔ اُن کے ساتھ اُن کے خاندان کے سب چھوٹے بڑوں نے جو شاہزادوں اور شاہزادیوں کی طرح زندگی بسر کرتے تھے، درویشی کو اختیار کر لیا اور الفقر فخری کو اپنا مقصد حیات بنا لیا۔خواجہ محمد ناصر نے تلافی مافات کے لئے دن رات عبادت وریاضت کو اپنا معمول بنالیا۔
خواجہ محمد ناصر کی دُعا
خواجہ محمد ناصر نے مال و دولت اور منتعمانہ زندگی کو دین کے راستے میں سب سے بڑی ٹھوکر جانا۔ لِکھاہے۔کہ انہوں نے دعاکی کہ ’’ اے خدا! اگر میں سچ مچ بنی فاطمہؓ ہوں تو مجھے اتنا رزق نہ دے کہ میں لگاتار دو وقت کھانا کھائوں‘‘ چنانچہ بیا ن کرنے والے بیان کرتے ہیں۔ کہ ان کی یہ دعاقبول ہوئی۔اور تمام عمر آپ کے ہاں ایک وقت فاقہ ضرور ہوا کرتا تھا۔ کبھی کبھی دو دو دن تک بھی فاقہ رہتا۔ آپ روزے بکثرت رکھا کرتے تھے۔ اور بکثرت چلّے کیا کرتے تھے۔جو پُرانے زمانے میں صوفیا کا طریق تھا۔ عبادت الٰہی کا یہ حال،کہ سردی کی لمبی راتیں اور گرمی کے پہاڑ سے دن عبادت میں گزار دیا کرتے تھے۔
اپنی جان پر سختی
حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب حصولِ عرفان اور تلافی مافات کے لئے اپنی جان پر بڑی سختیاں کیا کرتے تھے۔ عشاء کی نماز کے بعد اپنے حجرہ میں داخل ہو جاتے تھے۔ اور حجرہ کا دروازہ بند کر لیتے اور دوزانو بیٹھ جاتے اور اپنے دونوں پائوں کو بالوں کی رسی سے مضبوط باندھ لیتے ۔ تاکہ جس جگہ بیٹھے ہیں وہاں سے جنبش نہ کر سکیں ۔یادِالٰہی میں ساری ساری رات جاگتے رہتے۔ اس پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے ایک لکڑی کا رول پاس رکھ لیتے۔ اگر کبھی نیند کا جھونکا آئے تو رول سے اپنے نفس کو خوب مارتے۔ اور مارتے مارتے نفس کو کہتے۔ کہ ’’ اے خطاکار! کیوں سو گیا تھا۔ آنکھ کیوں لگی اور خدا کی یاد سے کیوں غافل ہوا‘‘۔
محویّت اور استغراق
یہ حالت بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی ۔ کہ آپ پر کبھی محویّت اور استغراق کی حالت طاری ہو جاتی تھی۔ اور یہ حالت کئی کئی دن تک رہتی۔ مسجد کے نمازی اور گھر کے لوگ حجرہ سے جھانک کر دیکھا کرتے تھے۔ کہ کہیں فوت تو نہیں ہو گئے۔ مگر آپ کو یا تو وہ نماز میں اور یا مراقبے میں پاتے اسی قسم کی شدید ریاضت میں آپ کو بر سوں گزر گئے ۔
وقت آپہنچا
اسی طرح ایک دفعہ حجرہ میں بیٹھے بیٹھے سات دن اور چھ راتیں گذرگئیں۔ ساتویں رات بھی آدھی گذر چکی تھی ۔ موسم سخت گرم تھا۔ بُھوک اور پیاس کی سختی سے آپ پر ضعف کی حالت طاری تھی۔ طاقت ایک حدتک جواب دے چکی تھی۔ اسی کمزوری کی وجہ سے آپ کی آنکھ لگ گئی۔ کہ آپ نے رول اٹھا کر اپنے آپ کو مارنا شروع کر دیا۔ اسی وقت آزمائش کی گھڑی ختم ہوگئی۔ تاریک کمرہ یکدم غیر معمولی روشنی سے منور ہوگیا۔ اور ایک خوب صورت نوجوان جس کے سر پر ایک جواہر نگار تاج تھا۔ سامنے آیا اور آگے بڑھ کر آپ کا ہاتھ پکڑلیا۔ اور فرمایا۔ ’’اے محمد ناصر !یہ کیا جبر وستم ہے۔ جو تو اپنے نفس پر کرتا ہے۔ تجھے معلوم نہیں ہے۔ کہ تو ہمارا لخت جگر ہے۔ اور تیرے بدن کی چوٹیں ہمارے دل پر پڑتی ہیں۔ اور تیری تکلیف ہمارے جدّ علیہ التحیۃ والثناء کو تکلیف دیتی ہے۔ اس لئے ہر گز ہر گز ایسا نہ کرنا‘‘۔خواجہ محمد ناصر یہ جلوہ دیکھ کر تھرّا گئے ۔ آپ نے عرض کی۔ کہ یہ سب تکلیف حصولِ عرفان الٰہی کے لئے میں اُٹھا رہا ہوں۔
اس مکاشفہ میں انہوں نے دیکھا کہ اس بزرگ نے ان کو اپنے سینہ سے لگا کر علوم معرفت کو ان کے سینہ میں بھر دیا اور ان کی عالمِ روحانی میںبیعت بھی لی مگر اب تک خواجہ محمد ناصر صاحب کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ بزرگ کون ہیں۔ تب انہوں نے دریافت کیا کہ آپ اپنے اسم مبارک سے مجھے آگاہ فرمائیں اس پر انہوں نے فرمایا کہ:
’’میں حسنؓ مجتبیٰ بن علیؓ مرتضیٰ ہوں اور میں آنحضرت ﷺ کے منشاء کے ماتحت تمہارے پاس آیا ہوں تا تجھے ولایت اور معرفت سے مالا مال کروں۔‘‘
ایک عظیم الشان پیشگوئی
اس کے بعد حضرت امام حسنؓ نے فرمایا کہ:
’’ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہو گا۔ ہم خوشی سے تجھے اجازت دیتے ہیں کہ اس نعمت سے جہان کو سیراب کر اور جو تجھ سے طالب ہو اس کو فیض پہنچا تا یہ سلسلہ پھیلے اور یہ ساعت جو ابھی کچھ دیر باقی رہے گی نہایت ہی مبارک ہے۔ اِس وقت تو جس شخص کو اپنے ہاتھ پر بیعت کر یگا اسے بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہو گا اور قیامت تک اس کا نام آفتاب کی طرح چمکتا رہے گا‘‘۔
خواجہ محمد ناصر صاحب نے حضرت امام حسنؓ سے دریافت کیا کہ اس طریقہ کا نام کیا رکھا جائے تو انہوں نے اس کا نام طریقہ محمدیہ رکھا اور فرمایا:
’’ہمارا نام محمد ہے۔ ہمارا نشان محمد ہے۔ ہماری ذات ذاتِ محمد ہے اور ہماری صفات صفاتِ محمد ہیں۔ اس لئے اس طریقہ کا نام محمدیہ طریقہ ہے۔‘‘
پھر یہ بھی فرمایا:
’’کہ اگرچہ تم اپنی مراد کو پہنچ گئے ہو مگر چونکہ دنیاوی زندگی میں بیعت بھی سنت محمدیہ ہے۔ اس لئے عالمِ ظاہر میں بھی کسی بزرگ سے بیعت کر لینا۔ ‘‘
اس کے بعد وہ کشفی حالت جاتی رہی میں اس کشف کے متعلق پھر بحث کروں گا۔ اس وقت واقعات کا لکھنا مطلوب ہے۔
پہلا مُرید
حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو اس وقت یہ خواہش ہوئی کہ اگر اس وقت میرا منجھلا بیٹا ہو تو اسے میں اپنا مرید کر لوں تاکہ بقاباللہ کا مقام اس کو حاصل ہو۔ اس وقت حضرت خواجہ میردرد کی عمر ۱۳ سال کی تھی ان کو خیال آیا کہ وہ اپنی ماں کے پاس سو رہا ہو گا تاہم انہوں نے ارادہ کیا کہ خواجہ میر درد کو لا کر اپنی بیعت میں شامل کرلوں۔ حجرہ کا دروازہ کھولا باہر اندھیرا گُھپ تھا۔ نیچے پاؤں رکھا تو محسوس ہوا کہ حجرہ کی سیڑھی پر کوئی سو رہا ہے۔ دریافت کیا کون ہے؟ جواب آیا حضور میں ہوں خواجہ میر۔ خواجہ میر اپنے باپ کو زندہ دیکھ کر خوشی کے جوش میں رونے لگے۔ حضرت خواجہ محمد ناصر نے فرمایا کہ بیٹا روتے کیوں ہو۔ خداتعالیٰ نے ہم کو اپنی عنایت خاص سے عزت بخشی ہے۔ میرے ساتھ حجرہ میں آؤ۔ چنانچہ سارا واقعہ سنا کر اپنے تیرہ سالہ بچے خواجہ میر کو جو بعد میں میردرد کہلائے بقاباللہ کے مرتبہ پر روحانی طور پرتیرہ سال کی عمر میں بیعت کر کے فائز کر دیا۔
حضرت خواجہ میردرد نے اپنی کتاب علم الکتاب میں لکھا ہے کہ حضرت حسنؓ کی روح ان کے ساتھ حجرہ میں سات دن تک رہی۔
طریقہ محمدیہّ
اس دن سے دنیا میں عالمِ تصوّف میں ایک جدید طریقہ طریقہ محمدیہّ کے نام سے جاری ہوا جسے براہِ راست رسول اللہ ﷺ کے فیض سے حضرت امام حسنؓ کی روح مبارک کے ذریعے حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو عطا کیا اور حضرت خواجہ میردرد اس سلسلہ محمدیہ میں مرید اوّل ہوئے۔
اس واقعہ کا ذکر خواجہ میر اثر صاحب نے جو حضرت خواجہ میر ناصر عندلیب کے چھوٹے صاحبزادے تھے نے اپنی ایک کتاب بیان واقع میں اس مندرجہ بالا واقعہ کو فارسی نظم میں لکھا ہے۔ جس میں سے چند اشعار میں بطور نمونہ درج کر دیتا ہوں۔ فرماتے ہیں ؎
فیض خاصے یافت از روحِ حسنؓ
تخمِ آن را کشت اندر این چمن
ہفت روزوشب میانِ حُجرہ بود
پیش چشمش عالمے دیگر کشور
گشت نازل عالمِ روحانیان
در شہادت خارج از وہم وگمان
ہمچنان بر یک عبادت باوضو
اندریں مدت نشستہ قیدِاو
جُز برائے پنج مکتوبی نماز
کہ در حُجرہ نمیِ فرمود باز
گوش چون صوتِ اقامت می شنود
آمدہ بیرون امامت می نمود
چون صلوٰۃِ فرض را دادے سلام
می شد اندر حجرہ نے حرف و کلام
آشنائے خواب و خور اصلا نشد
ملتفت سوئے دگر اشیاء نشد
گوئیا او قیدِ جسمانی نبود
جُز ظہورِ نور رحمانی نبود
روزِ ہفتم چونکہ دررا باز کرد
پسر خود را وقفِ ایں راز کرد
صادق آمد راست بروئے ایں خبر
آنکہ می باشد پسر بہ پدر
کائے سعادت مند بشنو ایں سخن
داشت تشریف شریف این حسنؓ
ایں سبب پیوستہ بودم در نماز
حسبِ حکمِ عالیش کردم نماز
نسبتِ خاصے عنایت کردہ است
راہِ پیغمبر ہدایت کردہ است
امرشد تا دعوتِ اُمّت کنم
خلق را بر امر حق دعوت کنم
دینِ ما دینِ محمدؐ ہست و بس
خالص آئینِ محمدؐ ہست و بس
۲؎
اس واقعہ کشف پر ایک نظر
متصوفین ہندو دیگر بلا دوامصارکا یہ طریق رہا ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے لمبے مجاہدے اور بڑی بڑی محنتیں اور مشقتیں اپنے نفس پر وارد کر لی تھیں۔ وہ کم خوردن،کم گفتن،کم خفتن پر عمل کیا کرتے تھے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ روح جو ایک نورانی چیز ہے جسم کی دبیز اور موٹی چاردیواری میں قید ہے۔ انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ جسم کی آنکھ سے دیکھتا ہے اور جو سنتا ہے وہ جسم کے کان سے سنتا ہے اور جو حظِّ نفس اُٹھاتا ہے وہ جسم کے نفس سے اُٹھاتا ہے۔ اسے اِس کوچہ کی خبر بھی نہیں ہوتی جس میں روح کی لطافتیں جاگزیں ہوتی ہیں۔
رُوح کو خلود حاصل ہے اور جسم کو فنا۔ روح دنیا اور اس کے آخری کونوں تک دیکھ سکتی ہے اور سُن سکتی ہے۔ اس کی رَسائی دنیا کے کناروں اور آسمانوں تک ہو سکتی ہے۔ مگر انسان نے اسے کبھی چھوا تک نہیں اور اس کی طرف کبھی توجہ تک نہیں کی ۔ الاماشاء اللہ۔ لیکن صوفیائے کرام نے مختلف طریقوں سے جسم کو کمزور کیا اور روح کو نشونما دی تا کہ وہ ان بندھنوں سے آزاد ہو کر اپنا کام کر سکے۔ وہ ایک طرف تو جسم کو کم کھانے اور روزوں کے ذریعے کمزور کرتے۔ دوسری طرف عبادت و ریاضت سے روح کو قوت پہنچاتے تھے۔ چنانچہ اس اصل کے ماتحت حضرت خواجہ میرناصر نے اس جسم کو جس کا گوشت پوست سلطنت وحکومت کے نشہ اور مال و دولت سے پرورش شدہ تھا۔ خوب ہی عبادتوں و ریاضتوں کے ذریعے سے ہلاک و فنا کر دیا۔ تب الٰہی تجلی کا ظہور حضرت امام حسنؓ کے رنگ میں ان پر ہوا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کبھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اپنے جمال کا پرتوہ انہی کے بزرگوں کے رنگ میں ڈالا کرتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کو اپنے والد کی صورت پر دیکھا۔ اس لئے حضرت امام حسنؓ کی شکل و صورت پر تجلی الٰہی کا ہونا کوئی بعیداز قیاس امر نہیں اور وہ لوگ جو اس دنیا سے منقطع ہو جاتے ہیں۔ ان کو عالمِ بالا کے صدہا عجائبات دکھائے جاتے ہیں۔ جن کو وہ لوگ جو اہل بصیرت نہیں ہوتے نہیںسمجھ سکتے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے ان کو اپنے کلامِ پاک میں اعمیٰ قرار دیا ہے ۔ اس لئے کہ ان کی وہ آنکھ نہیں ہوتی جس سے وہ اس نُور میں دیکھ سکیں ان کی تمام حِسیّں مردہ ہوتی ہیں ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ ان کی نسبت فرماتا ہے:
صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَایَرْجِعُوْنَ
جو حواسِ خمسہ سے بے بہرہ ہو، اسے دنیا کی حقیقت کیا معلوم وہ ایک مُردہ لاش ہے جو گڑھے میں پھینک دی جائے گی۔ بالکل اسی طرح وہ لوگ جن کی روحانی حِسیّں مفقود ہو جاتی ہیں ۔ وہ عالمِ روحانیت میں مُردہ لاش کی طرح تصور کئے جاتے ہیں۔ کروڑوں کروڑ انسان ایسے ہیں۔ جن کو ماؤں نے تو جَن دیا مگر وہ عالمِ روحانیت میں کبھی پیدا نہیں ہوئے اور وہ اسی طرح مُردہ کے مُردہ ہی اس جہان سے اُٹھ جاتے ہیں۔
انبیاء کا وجود
اس لئے دنیا میں آتا ہے کہ وہ لوگوں کو ایک دوسری دنیا سے آگاہ کریں۔ جو عالمِ روحانیت کی دنیا ہے اور وہ ان قواء کو نشوونما دینے کے طریقے بتلائیں جن سے انسان عالمِ روحانیت میں جاگزین ہو سکنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
افسوس! کہ دنیا کو اس کوچہ کی خبر بھی نہیں اور اس حُسنُ و جمال سے آگاہ ہی نہیں جس کا تعلق روحانیت سے ہے اور جب انسان اس عالم میں پہنچ جاتا ہے تو وہ بے اختیار پکار اُٹھتا ہے
کِس قدر ظاہر ہے نور اُس مبداء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمالِ یار کا
اُس بہارِ حسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے ترک یا تاتار کا
ہے عجب جلوہ تیری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے تیرے دیدار کا
چشمہ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا
یعنی وہ اس دنیا میں کسی چیز کو سوائے اس نئی دنیا کے کچھ اور دیکھ ہی نہیں سکتا۔ ہر چیز اسے خدا کی طرف بلاتی ہے اور اسے ہر جگہ سے ایک ہی آواز سنائی دیتی ہے۔ خدا ۔خدا۔خدا۔ وہ نئے نئے نظارے دیکھا کرتا ہے جو روحانی آنکھ کے اندھوں کو نظر ہی نہیں آ سکتے۔
اس قریب کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں ان نظاروں کو ہم بکثرت دیکھتے ہیں۔ کبھی اللہ تعالیٰ کی تجلی ان کو اپنے والد کی شکل میں نظر آتی ہے اور کبھی حضرت فاطمہ اور حضرت علی اور حضرت امام حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو اپنے مکان میں دیکھتے ہیں۔ ۳؎
کبھی رسول اللہ ﷺ سے بیداری میں ملاقاتیں ہوتی ہیں اور کبھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوتی ہے اور ایک ہی برتن میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔کبھی حضرت نانکؒ سے باتیں ہوتی ہیں اور اپنے اسلام کا آپؑ پر اظہار کرتے ہیں۔ کبھی کرشن جی مہاراجؑ سے ملاقات ہوتی ہے۔پس جو اس کوچے کا واقف نہیں۔ اسے یہ باتیں ہنسی اور کھیل سے زیادہ نہ معلوم ہوں گی وہ ان لوگوں کی دماغی کیفیت کو ایک مجنون کی دماغی کیفیت سے ملانے میں دریغ نہ کرے گا۔ لیکن اسے کیا معلوم۔ کہ اس رنگین دنیا کے سوا ایک اور دنیا بھی ہے جو اسی دنیا میں پوشیدہ ہے اور اس جسم میں ایک اور جسم بھی ہے۔ جو اسی جسم میں پوشیدہ ہے۔ اس جسم کی آنکھیں بھی ہیں۔ جو اس وقت دیکھتی ہیں۔ جب یہ آنکھیںبند ہو جاتی ہیں اس کے کان بھی ہیں جو اس وقت سنتے ہیں۔ جب یہ کان بند ہو جاتے ہیں۔ اِسی لئے متصوفین کے نزدیک ایک اصطلاح یہ بھی ہے لب بندوگوش بندوہوش بند۔
میں اپنے ذوق کی لہروں میںکہاں سے کہاں چلا گیا میں تو یہ لکھ رہا تھا کہ اس روحانی عالم میں امام حسنؓ کی روح کا ظہور بھی ایک حقیقت ہے۔
روشنی سے کمرہ منور ہو گیا
یہ بھی ایک حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ کِس سے پوشیدہ ہے۔ جب وہ جنگل میں اپنے اہل کو لیکر آ رہے تھے انہوں نے پہاڑ پر ایک آگ کو دیکھا۔ تو فرمایا۔
فَقَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْا اِنِّیْ اٰنَسْتُ نَارً الَّعَلِّیْ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدًیO
تم لوگ یہاں ٹھہر جاؤ۔ مجھے آگ نظر پڑی ہے۔ مَیں وہاں جاتا ہوں ممکن ہے کہ میں وہاں سے کوئی چنگاری لا سکوں۔ یا مجھے وہاں سے آگ کا ہی کچھ پتہ مل سکے۔
پس یہ حقیقت ہے کہ عالمِ بالا کا روشنی کے ساتھ ایک بڑا تعلق ہے اور وہ اس سورج یا چاند یا ستاروں یا دوسری قسم کی روشنیوں کی مدد کا محتاج نہیں جب کسی انسان کو اس عالم میں لے جایا جاتا ہے۔ تو اسے روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہاں تاریکی کا کوئی مقام نہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کشف
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ایسے بہت سے پاکیزہ مکاشفات دکھائے گئے۔ چنانچہ ایک واقعہ جو آپؑ نے تحریر فرمایا یوں ہے:
’’حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جب کہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا۔ ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمرّ پاک سیرت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کیلئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے۔ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجا لاؤں۔ سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا… اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے……اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبزو سرخ ایسے دلکش اور دلستان طور پر نظر آتے تھے۔ جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے۔ وہ نورانی ستون جو سیدھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے۔ جن میں سے بعض چمکدار سفید اور بعض سبز اور بعض سرخ تھے۔ ان کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہو گی۔ جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی۔ میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے۔ یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نور تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہو گئی۔ یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی۔ کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے۔
نوٹ: ’’یہ وقعہ اوائل ۱۸۷۶ء کا ہے۔‘‘ ۴؎
اس کشف میں ایک اور چیز جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو اسرارِ روحانی بغیر کسی ظاہری مُرشد کے سکھا دیئے گئے۔ بہت سے ظاہر پرست اس امر کی شدید مخالفت کرتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتامگریہ حقیقت ہے کہ آنحضرت ﷺ کی روحانیت ہمیشہ سے زندہ تھی۔ زندہ ہے اور زندہ رہے گی اس لئے وہ لوگ جو آپؐ کی ذات سے ایک تعلق پیدا کرتے رہے۔ یا کرتے ہیں یا کرتے رہیں گے۔ ان کو آنحضرت ﷺ کے فیض سے حصہ ملتا رہا ہے۔ ملتا ہے اور ملتا رہے گا اس کی ہزار ہا مثالیں موجود ہیں۔
میں ایک وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جو لوگ اس کے منکر ہیں ان کو حضرت رسول اللہ ﷺ کے فیوض پر ایمان ہی نہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ مومنوں کو آنحضرتؐ پر درود بھیجنے کیلئے کیوں فرماتا۔
یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً
جب ہم درود شریف کے پاکیزہ تحفے حضور پُرنورؐ کی بارگاہ میں بھیجتے ہیں تو ہم کو بھی آپؐ کی بارگاہ سے ہمارے اخلاص‘ قلب کی صفائی‘ نورایمان کے مطابق برکات سے حصہ ملتا ہے۔ اس زمانہ میں سب سے زیادہ درود بھیجنے والا ایک ہی انسان تھا جسے خدا تعالیٰ نے ان برکات سے اس قدر مالا مال کیا کہ اسے بروز محمد ﷺ بنا دیا۔ چنانچہ آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس مقام میں مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطّر ہو گیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آبِ زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لئے آتے ہیں اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد ؐ کی طرف بھیجے تھے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘
’’ ایک مرتبہ الہام ہوا۔ جس کے معنی یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں۔ یعنی ارادہ الٰہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے۔ لیکن ہنوز ملائِ اعلیٰ پر شخص مُحیٖ کی تعیین ظاہر نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ اختلاف میں ہے۔ اس اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحیٖ کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اس نے یہ کہا
ھٰذَارَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلُ اللّٰہِ-
یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اَور اس قول سے مطلب یہ تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسولؐ ہے سو وہ اس شخص میں متحقق ہے۔‘‘ ۵؎
پس آنحضرت ﷺ جو ایک زندہ نبی ہیں کے وجود سے اگر فیض نہ پہنچ سکتا ہوتا تو میں سمجھتا ہوں کہ درود شریف کی بھی ضرورت نہ رہتی۔
ایک عظیم الشان پیشگوئی
اس مکاشفہ میں ایک عظیم الشان پیشگوئی بھی فرمائی گئی کہ:
’’یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہو گا۔‘‘ ۶؎
اس پیشگوئی کے الفاظ پر غور کرنے سے بآسانی معلوم ہو سکے گا:
۱۔ ’یہ ایک خاص نعمت تھی۔‘
۲ ۔ ’جو اس خاندان کے لئے محفوظ چلی آتی تھی‘۔
۳۔ ’اس کی ابتداء حضرت خواجہ محمد ناصر سے ہوئی‘۔
۴۔ اور اس ’نعمت‘ کا انجام مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ہو گا۔
اس پیشگوئی میں اس خاندان کی برکات کی مدت کو محدود کر دیا گیا کہ یہ برکت جو اَب تمہارے وجود سے شروع ہوتی ہے۔ ظہور حضرت مہدی ؑ تک رہے گی پھر یہ نعمت تمہارے خاندان سے ختم ہو جائے گی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ظہور مہدی ؑ کا وقت اس پیشگوئی کے بعد جلد ہونے کا اظہار کیا گیا۔
یہ پیشگوئی مکمل نہیں سمجھی جائے گی۔ جب تک میں حضرت خواجہ میردرد ؒ کی ایک تحریر کو اس کے ساتھ شامل نہ کر دوں۔ جو اس پہلی پیشگوئی کی تائید مزید اور تشریح مکمل ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ نسبت محمدیہ الخاصہ حضرت امام موعود علیہ السلام کی ذات پر ختم ہو گی اور تمام جہان ایک نُور سے روشن ہو گا اور اس نّیراعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گُم ہو جائے گی۔‘‘ ۷؎
اب دونوں پیشگوئیوں کو ملا کر پڑھنے سے یہ نتیجہ نکلے گا:
جو نعمت حضرت خواجہ محمد ناصر پر نازل ہوئی اس کا انجام حضرت مہدی موعودؑ کے ظہور کے وقت ہو گا۔ مہدی موعود ایک نّیراعظم ہو گا جس کے انوار میں باقی تمام فرقوں کی ’’روشنی گم ہو جائے گی۔‘‘
اللہ، اللہ کتنی واضح پیشگوئی تھی۔ جس میں یہ بھی بتلایا گیا کہ یہ طریقے، اور صوفیائے کرام کے طریقے ستاروں کا حکم رکھتے ہیں اور ستارے اِسی وقت اپنی روشنی سے منور کر سکتے ہیں جبکہ نیراعظم مطلعِ شہود پر نہ ہو۔ لیکن جب روشنی کا بادشاہ مطلعِ شہود پر جلوہ فگن ہوتا ہے۔ تو ستاروں کی روشنی پھر کسی کونظر نہیں آتی۔ بلکہ اس کی روشنی میں گُم ہو جاتی ہے۔ کیسی صاف اور واضح مثال سے اس پیشگوئی کو واضح کیا گیا۔
ایک خاص نتیجہ
اس پیشگوئی سے یہ بھی نکلتا ہے کہ محمدیّینّ کا حضرت مہدی موعود علیہ السلام سے کوئی خاص تعلق ہوگا کیونکہ محمدیّینّ پر اُتری ہوئی نعمت جہاں ایک طرف ختم ہو رہی ہوگی وہاں ایک دوسری نعمت کا آغاز ہو رہا ہوگا۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پہلی نعمت کا آخری سرا مہدی موعود علیہ السلام کی نعمت کے ابتدائی سرے سے مل کر پھر نئی صورت میں اس کا آغاز ہو جائے گا۔
چنانچہ بالکل ایسا ہی ہوا۔ حضرت خواجہ محمد امیر صاحب اس سلسلہ محمدیہ میں آخری خلیفہ تھے۔ جو ۱۰/ستمبر ۱۸۰۴ء کو فوت ہو گئے اور ان کے بعد کوئی حقیقی جانشین نہ ہو سکا۔ اگرچہ خانہ پُری کے طور پر حضرت محمد امیر صاحب کے بیٹے خواجہ ناصر وزیر کو گدی نشین کر دیا گیا۔ مگر اُن کے بعد خانہ پُری بھی نہ ہو سکی۔ اب اِس خلافت کے اصل وارث حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ تھے جو مہدی موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی نصرت جہان بیگم کو جو ان تمام برکات اور نوروں کی حامل تھیں جو حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ سے اُس وقت چلے آتے تھے۔ حضرت مسیح موعود مہدیٔ مسعود ؑ کے نکاح میں دے دیا۔ اس طرح وہ روشنی اس نیرِّ اعظم میں گم ہو گئی اور اس طرح اس خاندان کی روشنی کا آخری سرا جو خاتمہ کا سرا تھا مہدی موعودؑ کے ابتدائی سرے سے مل کر نئے روپ، نئی شان، نئے رنگ میں ظہور پذیر ہوا۔
جن کی آنکھیں ہیں دیکھیں اور جن کے کان ہیں سن لیں اور جن کو دل و دماغ میسّر ہیں وہ سوچیں کہ کیا یہ انسانی تدابیر ہیں۔ کیا یہ سوچا ہوا منصوبہ ہے۔ کیا کوئی اس طرح انسانی تدابیر سے خدا کی مقرر شدہ تقدیروں کو بدل سکتا ہے۔ ہر گز نہیں۔ پس دیکھو آفتابِ صداقت چڑھ آیا ہے اس کو دیکھ کر تمہاری آنکھیں کیوں چندھیا گئیں اور کیوں تم قبولِ حق کے لئے آگے نہیں بڑھتے۔ یہ پیشگوئی جو بڑی وضاحت سے پوری ہوئی ایک اتمامِ حجت ہے۔ جس کے بعد کوئی جائے فرار نہ رہے گی۔
اب صوفیوں کا کوئی فرقہ خدا تک پہنچانے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ اس لئے کہ اب اُن کی روشنی اس نَیرِّ اعظم کی روشنی میں گم ہو چکی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے صوفیوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:
وہ جو کہلاتے تھے صوفی کیں میںسب سے بڑھ گئے
کیا یہی عادت تھی شیخِ غزنوی کی یادگار
کہتے ہیں لوگوں کو ہم بھی زبدۃ الابرار ہیں
پڑتی ہے ہم پر بھی کچھ کچھ وحی رحماں کی پھوار
پھر وہی نافہم ملہم اوّل الاعداء ہوئے
ہو گیا تیرِ تعصّب اُن کے دل میں وار پار
دیکھتے ہرگز نہیں قدرت کو اس ستّار کی
گو سناویں ان کو وہ اپنی بجاتے ہیں ستار
صوفیا اب ہیچ ہے تیری طرح تیری تراہ
آسماں سے آگئی میری شہادت بار بار
پھر فرمایا:
آسماں پر شور ہے پر کچھ نہیں تم کو خبر
دن تو روشن تھا مگر ہے بڑھ گئی گرد و غبار
سلسلہ محمدیہّ
اس سلسلہ کا نام کشفی حالت میں سلسلہ محمدیہّ خالصہ رکھا گیا۔ دراصل یہ لوگ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے لئے راستہ صاف کرنے والے تھے۔ اس نسبت محمدی کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایک بڑی نسبت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے۔
بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں بر منار بلند تر محکم افتاد۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے قبل ہی لوگ تبلیغ دین اور خدمتِ اسلام کا کام کر رہے تھے۔ اس لئے اس خدمت کا یہ صلہ تو نہیں تھا کہ ان کو مٹا دیا جاتا بلکہ یہ تھا کہ ان کو اور مضبوط و مستحکم کیا جاتا۔ اسی کی طرف اس الہام الٰہی میں اشارہ تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام میں ہو کر ان محمدیان کا پائوں اور بھی بلند و محکم ہو گیا۔
روشنی اور منار
حضرت خواجہ سیّد محمد ناصر صاحب کو کشف میں روشنی دکھائی گئی۔ روشنی دی گئی۔ مسیح موعود ؑ کا نام نَیرِّ اعظم (خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں آپ کو شمس و قمر کے نام سے بھی پکارا گیا) رکھا جو روشنی کا منبع اور مصدر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں جو لفظ منار رکھا گیا تھا اس کو اس روشنی سے نہ صرف ایک نسبت ہی تھی بلکہ اس روشنی کا مقام اونچا کر کے بھی دکھایا گیا۔ یہ باتیں اس کشف میں غور طلب ہیں اس لئے مَیں نے ایک لمبی اور مفصل بحث اس پر کی۔ ابھی اس کشف کے بعض دوسرے غوامِض بھی ہیں جو اپنی جگہ پر واضح کئے جائیںگے۔ وباللّٰہ التوفیق
یہ امر بھی یاد رہے کہ دنیا میں تصوف کے بہت سے طریقے ہیں۔ شادلی، رفاعی، چشتی، صابری، سہروردی، نظامی وغیرہ وغیرہ۔ مگر فرقہ محمدیہ صرف اور صرف ایک یہی تھا۔
حضرت شیخ سعداللہ صاحب عرف شاہ گلشن صاحب مجددی نقشبندی کی صُحبت
حضرت خواجہ میر محمد ناصر صاحب کو اس ارشاد کے ماتحت جو حضرت امام حسنؓ کے ذریعے حاصل ہوا تھا کہ ظاہری طور پر بھی کسی کی بیعت کر لینا۔ کسی بزرگ کی جستجو ہوئی۔ چنانچہ انہوں نے یہ پسند کیا کہ وہ حضرت شاہ گلشن صاحب نقشبندی کی طرف رجوع کریں جو حضرت بہاء الدین نقشبند کے سلسلہ نقشبندیہ میں اس وقت دہلی میں شہرت کامل رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب نے ان کے پاس حاضر ہو کر سارا واقعہ عرض کیا۔ انہوں نے ان کی عظمت اور نیکی کے مقام کو جانتے ہوئے بیعت لینے سے عذر کیا۔ البتہ یہ کہا کہ آپ کبھی کبھی میرے فقیر خانہ پر تشریف لایا کریں۔ ۸؎
’’جو کچھ مجھے آتا ہے بغیر بیعت کے آپ کو بتا دونگا۔نیز چونکہ آپ صاحبِ مذاق شعر و شاعری کے بھی ہیں اور فقیر بھی موزون طبع ہے۔ اس لئے نظم و نثر کی بھی مشق رہے گی‘‘۔
اس زمانے میں تمام امراء کے بچے اور شاہزادے اور شعراء اور علماء فضلاء، ادباء، حکماء سب آپ کی مجلس میں حاضر ہواکرتے تھے اور بڑی علمی مجلسیں قائم ہوا کرتی تھیں۔ میرزا عبدالقادر صاحب بیدل جو اس زمانہ کے مشہور شعراء میں سے تھے، آپ کی مجلس میں مؤدّب بیٹھاکرتے تھے اور شمس ولی اللہ ولی جن کو مصنف آبِ حیات نے صفحہ۸۸ پر نظم اُردو کا آدم لکھا ہے۔ آپ کے مرید اور شاگرد تھے۔
ولی کے متعلق مولانا آزاد نے لکھا ہے:
کہ ولی اللہ کی برکت نے اُسے وہ زور بخشا کہ آج ہند کی شاعری نظم فارسی سے ایک قدم پیچھے نہیں۔ تمام بحریں فارسی کی اُردو میں لائے۔ شعر کو غزل اور غزل کو قافیہ ردیف سے سجایا۔ ردیف وار دیوان بنایا۔ ساتھ اس کے رباعی، قطعہ مخمس اور مثنوی کا ستہ بھی نکالا۔ انہیں ہندوستان کی نظم میں وہی رتبہ ہے جو انگریزی نظم میں چاسر شاعر کو اور فارسی میں رودکی کو اور عربی میں مہلہل کو۔ ۹؎
ان کی وجہ سے اُردو زبان میں بڑی ترقی ہوئی تھی۔ وہ احمد آباد گجرات کے رہنے والے تھے۔ مگر دلّی میں سکونت پذیرہوگئے تھے۔ ایک شعر میں کہتے ہیں۔
دل ولی کا لے لیا دلّی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سون۱۰؎
الغرض شاہ گلشن کی صحبت میں ہر قسم کے باکمال علم و ادب جمع ہوا کرتے تھے۔ شاہ گلشن صاحب کے کہا جاتا ہے کہ دو لاکھ کے قریب شعر تھے مگر اب ان کا کوئی دیوان موجود نہیں۔ بعض اشعار ادھر اُدھر سے دستیاب ہوتے ہیں۔ آب حیات میں بھی دو شعر لکھے ہیں:
گشتم شہید تیغِ تغافل کشیدنت
جانم زدست بُرد غزالانہ دیدنت
بدقت میتوانی فہمد معنی ہائے نازِ او
کہ شرح حکمت العین است مژگانِ داز او
۱۱؎
ایسے علامہ اور فاضل اجل اور ادیب کبیر کی صحبت میں حضرت خواجہ محمد ناصر آنے جانے لگے۔
خواجہ محمد ناصر صاحب کی بیعت ظاہری
کچھ دنوں کے بعد جناب شاہ گلشن صاحب آپ کو اپنے مرشد زادہ خواجہ محمد زبیر صاحب کے پاس لے گئے۔ انہوں نے آپ کو دیکھ کر خندہ پیشانی سے اپنا مرید کر لیا۔ خواجہ محمد زبیر صاحب کا سلسلہ درویشی بھی سیّد خواجہ بہاء الدین صاحب نقشبند رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے چلتا ہے۔ خواجہ محمد زبیر صاحب نے بیعت لے کر اسی وقت ان کو بھی بیعت لینے کی اجازت دے دی۔ ۱۲؎
ان کا یہ خاندان حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجدد الف ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندان تھا۔ وہ اورنگ زیب کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور ۴/ ذیقعدہ ۱۱۵۲ھ کو محمد شاہ کے زمانہ میں دلّی میں فوت ہوئے اور سرہند میں دفن کئے گئے۔ اس طرح سے آپ کی ظاہری تکمیل بھی ہوگئی۔ مَیں لِکھ چکا ہوں کہ خواجہ محمد ناصر صاحب شاہجہان آباد کو چھوڑ کر میر عمدہ کے نالہ پر آ رہے تھے جو شاہجہان آباد کے مقابلہ میں ایک اُجاڑ اور قصبہ تھا۔ مگر ان کے خاندان کے قدیم مکانات اسی جگہ تھے۔ جب ان کی درویشی کا چرچہ اور شہرہ ہونے لگا تو بادشاہِ وقت نے برمدہ کے نالہ پر بنفسِ نفیس پہنچ کر خواجہ محمد ناصر اور خواجہ میر درد کی زیارت کی اور چاہا کہ وہ اس ویران مقام کو چھوڑ دیں۔ مگر آپ نے اسے پسند نہ فرمایا۔ اس وقت مشائخ و سادات عام طور پر شاہجہان آباد دلّی کو ایک چھائونی خیال کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ شرفاء کی بہو بیٹیوں کو چھائونیوں میں نہیں رہنا چاہئے۔ لیکن رفتہ رفتہ ہندو مسلم شرفاء پُرانی دلّی سے نکل کر شاہجہان آباد میں آباد ہونے لگے اور پرانی دلّی اُجڑتی چلی گئی حتیّٰ کہ پانی لانے کے لئے سقّے اور صفائی کے لئے حلال خوری تک نہ ملتی تھی۔ بنئے، بقال، کنجڑے، قصائی سب پرانی دلّی سے منتقل ہو کر شاہجہان آباد میں آ گئے مگر یہ گھرانا پھر بھی نہ اُٹھا۔ خواجہ محمد ناصر صاحب نے متعدد کتابیں تصنیف کی تھیں۔ مگر افسوس کہ وہ سب کتابیں غدر کے ایام میں مفقود ہو گئیں کیونکہ قلمی نسخے تھے۔ ایک کتاب نالۂ عندلیب جو ایک ہزار آٹھ سو صفحہ کی بڑی تقطیع پر لکھی تھی جسے نواب شاہجہان بیگم صاحبہ بیگم بھوپال نے طبع کرایا تھا اور اب یہ کتاب پھر تقریباً نایاب ہو گئی ہے۔ مگر ہمارے سلسلہ کی لائبریری جو احمدیہ جوبلی ہال میں ہے۔ وہاں حضرت مولانا ابوالحمید صاحب آزاد مرحوم وکیل ہائی کورٹ حیدر آباد کی وقف شدہ کتابوں میں ایک نسخہ موجود ہے۔ کتاب فارسی زبان میں ہے۔ نالہ عندلیب تصوف کی کتاب ہے۔ مثنوی مولانا روم کی طرح بہت سی باتیں کہانیوں کے رنگ میں لکھی ہیں۔ جگہ جگہ فارسی اشعار سے اسے مزین کیا ہے۔ یہ اشعار ان کے اپنے ہی ہیں۔ انہوں نے کلام کو اور بھی جاذبِ نظر اور ملیح بنا دیا ہے۔ مثنوی مولانا روم تو نظم میں ہے۔ مگر یہ کتاب نثر میں ہے اور خوب ہے۔ اس مختصر کتاب میں ہم ان کی اس کتاب سے بہت کچھ لکھ نہیں سکتے تا ہم مختصر طور پر چند باتیں اس کتاب میں مَیں دوسری جگہ درج کر دوں گا تا کہ اُن کے خیالات اور فرقہ محمدیہّ کے حالات پر ایک نظر پڑ سکے۔ اس لئے بھی کہ اُن کے خیالات ہمارے سلسلہ کے خیالات سے بہت حد تک ملتے جلتے ہیں اور پڑھنے والوں کو ایک بڑی حد تک موازنہ اور مقارنہ کرنے کا موقع مل سکے گا۔ یہاں اس قدر درج کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسرارِ تصوف میں یہ ایک بے نظیر کتاب ہے۔ مصنف نے کتاب کے دیباچہ میں لکھا ہے:
’’کہ عرش سے فَرش تک جو کچھ کون و مکان میں ہے اس کی امثال اور نمونے اس کتاب میں بہم کئے ہیں‘‘۔ ۱۳؎
اور یہ بھی لکھا ہے:
’’کہ میری یہ کتاب الہامی کتا ب ہے اور مَیں نے جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ مکاشفہ اور معائنہ سے کیا ہے اور خوبی یہ ہے کہ تمام مکاشفے اور الہام قرآن پاک اور حدیث صاحبِ لولاک کے مطابق اور موافق ہیں اور مرکز شریعت سے بال برابر اِدھر اُدھر نہیں ہیں‘‘۔ ۱۴؎
اس بیان کے پڑھنے سے مندرجہ ذیل امور کی وضاحت ہوتی ہے۔
۱۔ حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب الہامِ الٰہی کا دروازہ بند نہیں سمجھتے تھے۔
۲۔ نیز ان کے نزدیک کشف اور معائنہ کا دروازہ بھی کھلا تھا۔
۳۔ الہامات الٰہیہ کے جاننے کے لئے معیار قرآن کریم اور حدیث نبوی کو ہی ٹھہرایا گیا تھا جو الہامات قرآن کریم اور احادیث یا مرکز شریعت کے خلاف ہوں وہ کبھی بھی آسمانی کلام نہیں ہو سکتے۔
لیکن کیسے تعجب کی بات ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی اصل کو پیش فرمایا تو اس زمانے کے علمائِ سُوء نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔ وہ الہام کے قطعی منکر ہو گئے۔ ان کے نزدیک مکالمہ اور مکاشفہ الٰہیہ اب کسی کو حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ باتیں درست ہوتیں تو اس زمانہ کے بزرگ اور مقتدر علماء جن میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی، حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی اور حضرت مولانا محمد فخر الدین صاحب جیسے بزرگ جو ان کے معاصرین میں سے تھے اور انہی کے محلے میں رہتے تھے، کیوں خاموش رہتے۔ ان بزرگ علماء کی طرف سے یہ سننے کے بعد کہ خواجہ محمد ناصر مدعی الہام و مکاشفہ ہیں اور اپنی کتاب کو الہامی کتاب قرار دیتے ہیں خاموش رہنا اس امر کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک ایسا دعویٰ کرنا شریعت الٰہیہ کے خلاف نہ تھا۔ پس یہ ایک حجت ہے کہ اس زمانے کے علماء اور صوفی اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اسلام ایک ایسا زندہ مذہب ہے کہ جو خدا دانی اورخدا نمائی کا ذریعہ ہے اور انسان اس مذہب کے ذریعے مکالمہ الٰہیہ اور مکاشفہ الٰہیہ سے مشرف ہو سکتا ہے۔ لیکن آج کل کے علمائِ سُوء جادۂ صواب سے منحرف ہو گئے جنہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ان دَعاوی کی مخالفت کی اور ان کو شریعتِ الٰہیہ کے خلاف قرار دیا۔
حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی جو کچھ لکھا اور کہا وہ مکالمہ الٰہیہ اور مکاشفہ الٰہیہ اور ذاتی تجربہ اور مشاہدہ کے بعد لکھا اور کہا۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا
نُور ہے نُور اُٹھو دیکھو سنایا ہم نے
آج ان نُوروں کا اِک زور ہے اس عاجز میں
دل کو ان نُوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے
جب سے یہ نُور ملا نُورِ پیمبرؐ سے ہمیں
ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے
مصطفیؐ پر تیرا بیحد ہو سلام اور رحمت
اُسؐ سے یہ نُور لیا بار خدایا ہم نے
ربط ہے جانِ محمدؐ سے میری جاں کو مدام
دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس زمانے کے علماء اس زمانے کی نسبت زیادہ سیاہ دل ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو آسمان کی آواز سنائی نہ دی۔نالۂ عندلیب بڑی مقبول ہوئی۔ شاہان دہلی اور امرائے دہلی اور صوفیائے کرام نے اس کتاب کی نقلیں کروائیں اور سنہری اور لاجور دی جدولوں کے ساتھ ان کے اوراق سجائے گئے اور کتب خانوں میں رکھی گئیں۔
آپ کا ایک الہام
ایک دفعہ آپ کو یہ الہام ہوا:
’’ہم نے تمہارے نام کو پسند اور مقبول فرمالیا اور تمہاری اولاد، اور تمہارے معتقدین اور مُریدوں کے لئے اس میں دونوں جہان کی برکات داخل فرما دیں۔ جو شخص ازراہِ عقیدت لفظ ناصر کو اپنی یا اپنی اولاد کے نام میں شامل کرے گا۔ اس کی برکت سے ہمیشہ مظفر و منصور رہے گا اور آتش دوزخ اس پر حرام کر دی جائے گی اور جو شخص اپنی کتاب یا خط کی پیشانی پر ’’ھُوَالنَّاصِر‘‘ تحریر کرے گا۔ اس کتاب اور خط کے مطالب کو کامیابی ہو گی۔‘‘ ۱۵؎
اس بناء پر آپ نے یعنی حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب نے اپنا نام دلیل الناصر رکھا اور اس کے بعد آپ کی تمام اولاد ذکورواناث کے ناموں میں لفظ ناصر ایک جزو قرار دیا گیا۔ یہاں تک اپنے غلاموں کے نام بھی ناصر قلی اور ناصر بخش وغیرہ رکھے گئے۔ حتی کہ جس چیز پر وہ بیٹھ کر سہارا لیتے تھے اس کا نام بھی ناصری رکھ دیا گیا۔
ایک عجیب اتفاق
جیسے کہ پیشگوئی تھی کہ ’’یہ نسبت حضرت امام موعود علیہ السلام کی ذات پاک پر ختم ہو جائے گی اور تمام جہان ایک نور سے روشن ہو گا اور اس نَیرِّاعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گم ہو جائے گی۔‘‘
بالکل اس پیشگوئی کے مطابق سب فرقوں کی روشنی گم ہو گئی اور فرقہ محمدیہّ خالصہ بھی ختم ہو گیا اب ان کے ناموں میں بھی وہ بات نہ رہی۔ مگر حضرت اُمُّ المؤمنین نصرت جہان بیگم کے ذریعے کسی خاص قصد سے نہیں بلکہ خود بخود یہ چیز سلسلہ احمدیہ اور خاندان نبوت میں منتقل ہو گئی۔ صاحبزادگان میں سے میرزا ناصر احمد صاحب، میرزا منصور احمد صاحب، صاحبزادیوں میں سے صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ، منصورہ بیگم صاحبہ۔ لفظ ناصر کے حامِل ہیں۔ ناصر آباد ایک محلہ کا نام رکھا گیا۔ نصرت گرلز سکول ایک مدرسہ کانام رکھا گیا۔ النصرت حضرت میرزا ناصر احمد صاحب کی کوٹھی کا نام رکھا گیا اور اس طرح وہ لفظ ناصر بھی سلسلہ محمدیہّ سے منتقل ہو کر سلسلہ احمدیہ میں آ گیا۔ جماعت میں ہزارہا افراد کے نام کے ساتھ ناصر کا لفظ استعمال ہونے لگا۔
عبداللہ ناصر مجھے یاد ہے کہ میرا ایک عزیز بھائی تھا۔ جس کا نام حضرت خلیفۃ المسیح اوّل نے عبداللہ رکھا تھا۔ حضرت میرناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ازراہِ شفقت و محبت حضرت والد صاحب کے پاس اکثر تشریف لایا کرتے تھے نے دریافت فرمایا۔ بچے کا کیا نام رکھا ہے۔ حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ حضرت نے عبداللہ نام تجویز فرمایا ہے۔ اس پر حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ اس کے ساتھ ناصر کا اضافہ کر دو۔ چنانچہ ان کے فرمانے پر اس کا نام عبداللہ ناصر کر دیا گیا۔ خدا کی قدرت اس کی زندگی تھوڑی تھی وہ ڈوب کر فوت ہو گیا۔ ہمارے خاندان میں لفظ ناصر بہت پسند کیا گیا۔ چنانچہ عزیزم شیخ ابراہیم علی عرفانی میرے چھوٹے بھائی کے لڑکی ہوئی تو اس کا نام ناصرہ رکھا گیا۔ خدا کی قدرت یہ بچی بھی پندرہ سولہ سال کی ہو کر فوت ہو گئی۔ تب یہ دونوں نام عزیزم شیخ یوسف علی صاحب عرفانی کے بچوں کی طرف منتقل ہو گئے چنانچہ ان کے ایک لڑکے کا نام محمد زکریا ناصر رکھا گیا اور بچی کا نام صدیقہ ناصرہ۔
الغرض اس طرح سلسلہ احمدیہ میں لفظ ناصر بکثرت پھیل گیا اور مکانوں ،محلوں اور مدرسوں تک کے ناموں میں لفظ ناصر کا استعمال ہونے لگا۔
خطوں اور کتابوں کی پیشانی پرھُوَ النَّاصِر
محمدیہّ الخاصہ تو اب اپنے خطوں اور کتابوں پر اس پیشگوئی کے مطابق الناصر نہیں لکھتے مگر یہ چیز بھی سلسلہ احمدیہ میں منتقل ہو گئی۔حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اپنی تمام تحریروں پر اپنی ایک رؤیا مبارکہ کی بناء پر (اس رؤیا کا تفصیلی ذکر خود ان کی سوانح میں آئے گا) ہمیشہ یہ عبارت لکھا کرتے ہیں:
خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھُوَالنَّاصِرُ
آپ کی ہر کتاب پر اور تصنیف پر یہ عبارت کنندہ ملے گی۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کے مضمون نگار اور مصنف بھی جب کوئی اہم تحریر لکھتے ہیں تو اس عبارت کا استعمال کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ قادیان کے محلہ جات میں پھرنے والے انسان کو بہت سے مکانوں کی پیشانی پر یہی عبارت لکھی ہوئی نظر آئے گی۔ مثال کے طور پر میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے مکان کی پیشانی کا ذکر کر سکتا ہوں اور خود ہمارے گھر میں عزیز مکرم یوسف علی عرفانی کے مکان پر ھُوَالنَّاصِرْ لکھا ہوا موجود ہے اور اسی طرح اور بہت سے احباب کے مکانوں پر بھی یہ لکھا ہوا ہے۔اس طرح خواجہ محمد ناصر کے گھرانہ کی ہرچیز اُمُّ المؤمنین کے وجود کے ساتھ ہی سلسلہ احمدیہ میں منتقل ہو آئی۔ ہر وہ شخص جسے ایک ذرہ بھی ایمان اور بصیرت سے حصہ ملا ہے وہ اس مقارنہ اور موازنہ سے اپنے ایمان میں ایک نئی لذت محسوس کرے گا۔یہ قدرت الٰہی کے نوشتے ہیں جو پورے ہو کر رہے۔ کس انسان کی طاقت تھی کہ وہ ان چیزوں کو اپنی مرضی کے مطابق بنا لے۔ اگر یہ انسانی تدابیراور ہوشیاریوں کا نتیجہ ہے تو چاہئے کہ کوئی اور شخص بھی اس میدان میں قدم رکھ کر دنیا کو محوِ حیرت بنائے۔ مگر نہیں! نہیں!! ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ انسانی مکرو دجل کا کام نہیں یہ خدا کی عین منشاء کے ماتحت ہونے والے امور ہیں جو پورے ہوئے۔اے سچائی کے طالبو! آؤ دیکھو کہ ہم تمہارے سامنے ایک سچائی کا چمکتا ہوا سورج رکھتے ہیںاگر تم روشنی سے پیار کرتے ہو تو دیکھو کہ نیّربیضا اپنی پوری تجلی سے چمک رہا ہے۔
خواجہ محمد ناصر صاحب کی روشن ضمیری
ایک قصہ جو خاندانِ خواجہ محمدناصر صاحب میں مشہور ہے۔اس کا بھی تذکرہ کر دینا کوئی بیجا نہ ہو گا۔ کہتے ہیں کہ ایک سیاح صاحب آئے اور وہ مولانا محمد فخرالدین صاحب کے ہاں مہمان ہوئے اُس سیاح نے کہا کہ یا حضرت آپ کو تو میں نے چشتیہ نظامیہ طریقہ کا آفتاب پایا ہے ۔ کیا یہاں کوئی نقشبند یہ طریقہ کا بھی کوئی کامل فقیر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں ہے ان کا نام خواجہ محمد ناصر ہے اور وہ اس طریقہ کے یکتادرویش ہیں۔ سیاح نے آپ سے ملنے کی خواہش کی۔ مولانا نے ساتھ چل کر ملانا منظور فرما لیا۔ وہ وقت دوپہر کا تھا۔ اس وقت حضرت خواجہ صاحب کا دسترخوان بچھا کرتا تھا اور جو مہمان آتا اسے الگ دستر خوان بچھا کر کھانا کھلایا کرتے تھے۔ اپنے ساتھ نہیں کھلایا کرتے تھے۔ مولانا فخرالدین نے فرمایا کہ ان کا یہ معمول ہے۔ کہیں آپ کو برا نہ معلوم ہو۔ سیاح نے کہا کہ میں ان کی روشن ضمیری کے امتحان کے لئے جا رہا ہوں۔ میں نے اپنے دل میں دو خواہشیں سوچ رکھی ہیں اگر وہ صاحب باطن ہوں گے تو دونوں خواہشوں کو پورا کر دیں گے۔مولانا فخرالدین صاحب نے پوچھا کہ وہ کیا خواہشات ہیں؟ سیاح نے کہا کہ ایک تو یہ کہ وہ مجھے اپنے ساتھ کھلائیں اور دوسرے مجھے ایک تربوز بھی کھلائیں۔
چنانچہ جب حضرت مولانا فخر الدین صاحب سیاح کو لیکرآپ کی بارہ دری میں آئے۔ تو آپ کھانا کھا رہے تھے۔ خواجہ صاحب نے مولانا فخر الدین صاحب کے لئے اپنے کندھے کی چادر اُتار کر بچھا دی کہ اس پر تشریف رکھیں اور سیاح صاحب کو زبردستی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لیا اور ایک خادم سے کہا۔ بازار سے تربوز لاؤ۔ ہمارے مہمان گرمی میں آئے ہیں اس سے کچھ تسکین ہو گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول یہ تھا کہ وہ اپنے مہمانوں کو ساتھ لیکر کھانا کھایا کرتے تھے۔ آپؑ کے قلب کی صفائی کا حال تھا کہ آپؑ کے پاس بیٹھنے والے مریدین مخلصین کے دل میں کوئی بات آتی آپؑ فوراً اسے پورا کر دیتے۔ مثلاً کھانا کھاتے ہوئے کسی کے دل میں یہ خیال آتا کہ فلاں چیزمل جائے تو حضرت فوراً ہی بغیر سوال کے لا دیتے۔
مثلاً منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری جو ہمارے ہمسائے ہیں اور حضورؑ کے پرانے صحابی کی ایک روایت ہے کہ ایک دفعہ میرے دل میں شہتوت کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ حضرتؑ اس دن سیر کو اپنے باغ میں تشریف لے گئے ۔ باغ میں سے شہتوت تڑوا کر ٹوکرے بھروائے۔ دوستوں کو کھانے کے لئے فرمایا۔ خود بھی کھانے لگے اور مجھے بار بار فرماتے۔ منشی صاحب! اچھی طرح کھاؤ۔منشی صاحب کا بیان ہے کہ مجھے کچھ شرمندگی سی ہونے لگی کہ کہیں حضرتؑ کو میری خواہش کا علم تو نہیں ہو گیا۔اسی طرح انہی کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدسؑ ایک مقدمہ کے دوران میں گورداسپور گئے ہوئے تھے۔ حضرت کو کسی نے دودھ پیش کیا۔ بہت سے لوگ اردگرد تھے اور میں فاصلے پر تھا میرے دل میں آپؑ کا تبرک پینے کا خیال آیا۔ مگر ساتھ ہی خیال آیا کہ مجھے کیسے مل سکتا ہے۔ حضرتؑ نے دودھ پی کر باقی برتن میری طرف بڑھا کر کہا کہ لو منشی صاحب پی لو۔ اس طرح میں آپؑ کے تبرک کی نعمت سے مالا مال ہو گیا۔ایسے صدہاواقعات ہیں۔ ایک دوست نے ایک روایت میں لکھا کہ ایک دفعہ کھانے میں بیٹرے پک کر آئے۔ حضرتؑ نے بعض دوستوں کو کھانے کو دیئے۔ میرے دل میں بھی بٹیر کھانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ خیال کا آنا تھا کہ حضرتؑ نے اپنی تھالی سے بیٹر اُٹھا کر میری تھالی میں رکھ دیا۔*
*نوٹ: یہ روایات میں نے اپنے حافظہ کی بناء پر لکھی ہیں۔ اس لئے مفہوم تو درست ہے۔ الفاظ میرے اپنے ہی ہیں۔ اصل الفاظ نہیں ہیں۔ (محمود احمد عرفانی)
یہی حال سائل کا تھا کہ ایک سوال کسی کے دل میں پیدا ہوا اور حضور ؑ نے فوراً ہی اس کا جواب خود بخود اپنی تقریر میں دے دیا۔ سچ ہے کہ حضور اقدسؑ اس زمانے کے نیّراعظم تھے۔ جن میں سب ستاروں کی روشنیاں گم تھیں۔
حضرت خواجہ محمد ناصر کی وفات
آپ کی وفات ۲ شعبان ۱۱۷۲ ہجری کو ہفتہ کے دن ہوئی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جب آپ کی لاش کو قبرستان میں لایا گیا۔ حضرت خواجہ میردرد صاحب نے کشفی حالت میں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ بھی تشریف فرما ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہم خواجہ محمد ناصر کے جنازہ کے انتظار میں ہیں اور جب تک خواجہ صاحب کو دفن نہیں کیا گیا حضور کھڑے رہے۔ حضرت خواجہ میردرد نے جس جگہ حضورؐ پُرنور کو دیکھا تھا وہاں ایک سنگِ سرخ کا نشان لگوا دیا تھا۔ اس پتھر پر یہ رباعی کنندہ تھی۔
ایں ارضِ مقدس است بس پاک بود
رشکِ عرش و نجوم و افلاک بود
از بس زکرم داشتہ تشریف شریف
نقشِ قدم صاحبِ لولاک بود
آپ کے مزار کا کتبہ
آپ کے مزار پر حسبِ ذیل کتبہ لگا ہوا ہے:
محبوبِ خدا خواجہ محمد ناصر
حق راہ نما خواجہ محمد ناصر
ہادی و شفیع و دستگیرہمہ است
درد ہر دوسرا خواجہ محمد ناصر
ناصرالملت والدین امیرالمُحمدّیین الخالصین محمدی المتخلص بہ عندلیب۔ علیہ التحیات
ولادت ۲۵ شعبان۔ ع۔ وارثِ علمِ امامینؓ و علیؓ
رحلت۔ یوم شنبہ بعدالعصر۔ قرب شام
دوم ماہِ شعبان ۱۱۷۲ ہجری ۔ عمر شریف ۶۶ سال
آپ کی وفات کے بعد بادشاہِ دہلی نے آپ کا مقبرہ سنگ مرمر کا بنوانا چاہا مگر حضرت خواجہ میردرد صاحب نے منظور نہ کیا اور فرمایا:
’’اِن تکلفات سے فقیروں کو کیا سروکار‘‘
خواجہ میر اثر صاحب جو خواجہ محمد ناصر صاحب کے چھوٹے صاحزادے تھے۱۶؎ نے اپنے والد بزرگوار کے حالات ایک منظوم کتاب میں لکھے ہیں۔ جس کا نام بیان واقع ہے اس منظوم کلام کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ مندرجہ بالا حالات کا ماخذ بیان واقع اور بعض دوسری کتابیں ہیں۔جس میں خود نالہ عندلیبؔ اور بیانِ درد، سوزِدرد، شمع محفل وغیرہ رسائل شامل ہیں۔
خواجہ میر درد کے نزدیک خواجہ محمد ناصر کا مقام
خواجہ میر درد صاحب نے اپنی کتاب علم الکتاب میں خواجہ محمد ناصر صاحب کے مقام کا اظہار اِن الفاظ میں کیا ہے:
’’نسبت خالصِ محمدیہّ کہ درزمان آن سرور علیہ السلام بود۔ تا حضرت امام حسنؓ عسکری علیؓ جدہ علیہ السلام بطناً بعد بطنٍ رسیدہ می آمد۔ و بعد ازیں او باختفا آوردہ بود۔ باز از بعد یک ہزارویک صدوچند سال ہجری ازیں فیض خاص از متبع باطن سیّد بحق و مقتدائے احق آفتاب عالم تاب فلک سیادت نیّراعظم پسرولایت وارثِ منصبِ کمالاتِ نبوت خلیفہ مرتبہ الوہیت صاحب سجادہ قرب امامت مظہر انوارِ محمدیہّ صاحب شریعت واصلِ حقیقت واقفِ طریقت۔ کاشفِ معرفت خداوند حکمت الٰہیہ۔ حامی ملتِ مصطفویہ۔ اولوالعزم عالی جاہ بے نیاز کبریاء۔ دستگاہ سلالہ ورودجان نقشبندیہ وقادریہ۔ قدر افزائے طریقہ محمدیہّ۔ ناصرِ دینِ نبوی حضرت خواجہ محمد ناصررضی اللہ عنہ ظہور فرمود‘‘۔
خواجہ محمد ناصر کی تصانیف
خواجہ محمد ناصر صاحب کی کئی ایک تصانیف تھیں مگر افسوس غدر میں اکثر تلف ہو گئیں۔ آپ نے ایک رسالہ ہوش افزا تصنیف کیا تھا۔ یہ رسالہ صوفیانہ شطرنج بازی میں تھا۔ کہتے ہیں آپ کے خاندان کے بعض نوجوان اور بعض مرید شطرنج کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ آپ نے ان کو منع کیا مگر وہ نہ رُکے۔ اس لئے آپ نے ایک صوفیانہ شطرنج ایجاد کیا۔ جس میں بڑی پُرعبرت بازیاں رکھی گئیں تھیں۔ ان بچوں اور مُریدوں کو جب یہ رسالہ دیا گیا کہ شطرنج کھیلتے ہوئے ان امور کو ملحوظ رکھ لینا۔ جب انہوں نے پڑھا تو انہوں نے شطرنج سے توبہ کر لی۔ افسوس کہ غدرمیں یہ چیز بھی ضائع ہو گئی۔سنتا ہوں کہ اس کی ایک کاپی حضرت میرناصر نواب صاحب کے سوتیلے بھائی سیّدناصروزیر کے پاس تھی معلوم نہیں کہ اب تک ہے یا نہیں۔ ان کے ایک پوتے زندہ ہیں۔ جن کا نام سیّد ناصر جلیل ولد سیّد ناصر خلیل ولدسیّد ناصر وزیر ہے اور گلبرگہ میں ملازم ہیں۔ افسوس کہ ان کے ہاں بھی اس رسالہ کا پتہ نہیں مل سکا۔
ایجادات
خواجہ محمدناصر صاحب نے بہت سی چیزیں بھی ایجاد کی تھیں۔مثلاً خیمہ روان، خانہ روان، حمام ہر مقام، پلنگ سفری شمع بید مع چراغ ظلمت، سوزفانوس بے افسوس، حربہ لوائے محمدی، نصرت بخش کبیر، نصرت بخش صغیر وغیرہ۔ ان چیزوں کے نام و نشان کا پتہ کتاب نالہ عندلیب سے بخوبی ملتا ہے۔ ان سے بہت سی کرامات اور خارق عادت باتیں بطورنشان کے ظاہر ہوئیں تاکہ لوگوں کے لئے از دیادِ ایمان کا باعث ہوں۔ آپ کا تخلص عندلیب ؔتھا اور آپ فارسی زبان کے بڑے شاعر تھے۔
حضرت خواجہ میر درد
اس خاندان میں حضرت خواجہ میر درد ایک خاص بزرگ تھے۔ خواجہ محمد ناصر صاحب کی دوبیویاں تھیں۔ پہلی شادی حضرت شاہ میربن سیّد لطف اللہ صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادے محمد محفوظ صاحب پیدا ہوئے اور انیس سال کی عمر میں فوت ہو گئے ان کی والدہ محمد محفوظ سے قبل ان کو بچہ چھوڑ کر فوت ہو گئی تھیں۔
آپ نے دوسری شادی سیّدالعارفین سیّد محمد قادری بن نواب عظیم القدر میراحمد خان شہید کی صاحبزادی سے کی تھی۔ ان کے بطن سے تین لڑکے پیدا ہوئے۔ پہلے سیّد میرمحمدی تھے۔ دوسرے خواجہ میر درد۔ تیسرے خواجہ محمد میر اثر۔ سیّد میر محمدی صاحب نے بھی ۱۹ سال کی عمر میں وفات پائی۔ دوسرے درمیانی خواجہ میردرد اور خواجہ محمدمیراثر باقی رہے۔ان کی والدہ صاحبہ کا نامی بخش بیگم عرف منگا بیگم تھا۔
حضرت خواجہ میر درد کی ولادت نوز دہم ذیقعدہ ۱۱۳۳ ہجری بروز سہ شنبہ دہلی میں میرعمدہ کے نالہ پر ہوئی۔ آپ نے دو سال کی عمر میں باتیں کرنی شروع کر دی تھیں۔ آپ بڑی لطیف باتیں بچپن ہی سے کرتے تھے سننے والے بڑا لطف اُٹھاتے اور محظوظ ہوتے تھے۔ بچپن میں آپ کو رونے کی بڑی عادت تھی۔ گھر والوں کو پتہ نہ لگتا تھا کہ کیا تکلیف ہے۔ ہر ممکن ذریعے سے اُن کو چپ کرایا جاتا مگر چپ نہ ہوتے۔ جب ہر ممکن ذریعے سے چپ نہ کرتے تو اُن کے ابا جان کو بلایا جاتا تو آپ اُن کے سینے سے چمٹ جاتے اور کبھی کبھی اس امر کا اظہار کرتے کہ مَیں بعض ایسے نظارے دیکھتا ہوں جن کو مَیں برداشت نہیں کر سکتا۔ اُن کے والد صاحب اُن کو سینے سے لگاتے اور کچھ تسلی آمیز کلمات کہتے جس سے تسلی ہو جاتی۔
تعلیم
خاندان کے سب بچوںکی تعلیم دس برس کے بعد ہوتی تھی مگر خواجہ میر درد صاحب کی تعلیم کا خلافِ معمول بچپن ہی میں آغاز ہو گیا تھا۔ چنانچہ آپ نے تیرہ برس کی عمر میں علوم و فنون عربیہ کی تکمیل کر لی تھی اور یہ تکمیل اپنے والد صاحب سے ہی حاصل کی تھی۔ مگر فارسی کے علم ادب کے واسطے آپ نے خان آرزو سے فخر تلمذ حاصل کیا اور مثنوی مولانا روم، مفتی دولت صاحب سے پڑھی تھی۔
خواجہ میر درد کو اپنے والد سے بڑی محبت تھی اور اُن کے رنگ میں رنگین تھے۔ جب خواجہ محمد ناصر صاحب مجاہدات کیا کرتے تھے اور اپنے حجرہ میں بھوکے پیاسے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ خواجہ میر درد جن کی عمر اُس وقت تیرہ سال کی تھی حجرہ کے دروازہ پر بھوکے پیاسے بیٹھے رہا کرتے تھے۔ اُن کا جذبہ یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ابا جان کسی ضرورت سے پکاریں اور مَیں پڑا سوتا رہوں۔ اِسی محبت اور جوش میں اکثر فاقے بھی ہو جایا کرتے تھے۔ اُن کی والدہ کو ان کی اس حالت سے بہت صدمہ ہوتا تھا وہ اس حالت کو دیکھ کر اکثر رو دیا کرتی تھیں کبھی کھانے کے وقت اُن کو پکڑ کر بلوا بھیجتیں اور اپنے سامنے کھانا کھلاتیں۔ خواجہ میر درد اکثر رو دیا کرتے اور کہہ دیتے کہ اماں جان! مجھ سے بغیر ابا جان کے ایک نوالہ نہیں کھایا جاتا۔ اُن کی اِس محبت کا اُن کے والد صاحب کے قلب پر بھی اثر تھا۔
خواجہ میر درد کی بیعت
جب خواجہ محمد ناصر صاحب کو محمدیہ فرقہ کی بناء رکھنے کا حکم ہوا تو اُس وقت اُن کو یہ بھی بشارت دی گئی کہ اِس وقت جس شخص کو تو بیعت کرے گا اُسے بقا باللہ کا مقام حاصل ہوگا۔ اس محبت کی وجہ سے اور ان آثار رشدو ہدایت کی وجہ سے جو خواجہ میر درد کے اندر ظہور پذیر تھے، خواجہ محمد ناصر کو خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنے لخت جگر کو اپنا مرید بنا کر بقا باللہ کا درجہ دلا دیں۔ چنانچہ ان کو خیال ہوا کہ وہ گھر میں اپنی والدہ کے پاس سو رہا ہوگا وہیں سے اس کو جگا کر لے آتا ہوں انہوں نے اپنے حجرہ کا دروازہ کھولا چونکہ اندھیرا تھا کچھ پتہ نہ لگتا تھا۔اِدھر خواجہ میر درد کی یہ حالت تھی کہ وہ حجرہ کی سیڑھی سے جدا نہ ہوتے۔ چنانچہ وہیں سو رہے تھے۔ خواجہ میر محمد ناصر صاحب نے دروازہ کھولا تو اُن کا پائوں بیٹے کے جسم پر پڑا۔ حیران ہو کر پوچھا کون سوتا ہے؟ خواجہ میر درد نے فوراً عرض کی۔ حضور مَیں ہوں۔ اور سا تھ ہی اپنے باپ کو زندہ دیکھ کر فرطِ محبت سے رونے لگے۔ خواجہ محمد ناصر صاحب نے اُن کو تسلی دی اور کہا کہ خدا نے ہم کو ایک عزت سے مشرف کیا ہے اور حجرہ میں لے جا کر سب حالات بتلا کر ان کی بیعت لے لی۔ اس طرح تیرہ سال کی عمر میں نہ صرف ظاہری علوم سے حصہ وافر حاصل کر لیا بلکہ روحانی فیض سے بھی فیض یاب ہوگئے۔
خواجہ میر درد کی دُعا کا اثر
جس روز خواجہ میر درد صاحب نے اپنے والد صاحب کی بیعت کی اُس کی صبح کو برمدہ کے نالہ میں ایک شخص آیا۔ اس کے ساتھ ایک زنانی ڈولی تھی۔ اُس نے لوگوں سے خواجہ میر درد کا گھر پوچھا۔ لوگوں کی توجہ اس طرف نہ ہوسکی۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی خواجہ میر درد نہیں رہتا ایک لڑکا ۱۳،۱۴ سال کا ہے۔ اُس شخص نے کہا کہ ہاں وہی ہیں چنانچہ خواجہ محمد ناصر صاحب کے مکان کا پتہ دیا گیا۔ وہ خواجہ محمد ناصر صاحب کے مکان پر آیا اور عرض کی کہ میری بیوی سِل دق میں مبتلا ہے۔ مَیں روزانہ اس کی صحت کیلئے دعا کرتا تھا آج مجھے خواب میں کہا گیا کہ وہ خواجہ میر درد کی دعا سے اچھی ہوگی۔ چنانچہ وہ مریضہ خواجہ میر درد کی دعا سے اچھی ہوگئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں دعویٰ سے قبل بہت سے ایسے واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ مثلاً لالہ ملاوامل جس کو تپ دق ہو گیا تھا وہ آپؑ کی دعا سے اچھے ہو گئے۔ ۱۷؎
اسی طرح جناب میرزا غلام قادر صاحب جو بالکل مُردہ ہوچکے تھے آپؑ کی دعا سے اچھے ہوگئے۔۱۸؎
پہلی تصنیف
حضرت خواجہ میر درد صاحب نے ۱۵ سال کی عمر میں پہلی تصنیف کی۔ یہ ایک چند اوراق کا رسالہ تھا جس کا نام اسرار الصلوٰۃ تھا۔ اس رسالہ کی لطافت اور عمدگی کا یہ عالم تھا کہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی اور مولانا فخر الدین صاحب چشتی نظامی دہلوی نے دیکھ کر بہت پسند فرمایا۔ اور فرمایا۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔ اس کے بعد انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں جن کے حسب ذیل نام ہیں۔
رسالہ حرمت غنا، وارداتِ درد، علم الکتاب، آہِ سرد، نالہ درد، درد ِدل، شمع محفل، سوزدل۸، واقعاتِ درد، دیوانِ درد اُردو، دیوانِ درد فارسی۔ ممکن ہے اور بھی تصانیف ہوں کیونکہ ان کی بہت سی تحریریں غدر میں تلف ہو گئیں۔ اس طرح ۱۵ سال کی عمر میں انہوں نے قلم کو ہاتھ میں لیا اور ۶۸ سال کی عمر تک قلم کے ذریعے خدمتِ دین کرتے رہے۔
خواجہ میر درد کی شہرت
خواجہ میر درد کی شہرت بہت جلد دہلی میں پھیل گئی۔ چنانچہ خود بادشاہ دہلی بنفسِ نفیس برمدہ کے نالے پر تشریف لائے اور دونوں باپ بیٹے کی زیارت کی اور ان سے درخواست کی کہ آپ شاہجہان آباد میں چل کر رہئے مگر ان دونوں نے اسے منظور نہ کیا اور اسی اجاڑ جنگل میںجہاں صرف چند خال خال ہستیاں رہا کرتی تھیں رہنا پسند کیا۔ شہنشاہ اورنگ زیب کی بہو جس کا نام مہر پرور بیگم تھا خواجہ میر درد صاحب کی بہت معتقد تھی۔ اس نے بار بار خواہش ظاہر کی کہ آپ شہر چلے چلیں۔ مگر آپ ایک عرصہ تک اُسے ردّ ہی کرتے رہے اور ۱۸۳۸ء تک وہیں مقیم رہے۔
نادری قتل عام
حتیّٰ کہ وہ زمانہ بھی آ گیا جب کہ نادر شاہ ایران نے دہلی میں قتل عام کروایااُس وقت پھر شاہزادی مہر پرور بیگم نے بڑے ادب سے اپنے ایک خاص ایلچی کو بھیجا اور عرض کی کہ:
’’حضرت یوں تو سب جگہ خدا ہی حافظ و ناصر ہے مگر برمدے کا نالہ شاہجہان آباد کی شہر پناہ سے باہر ہے اور ایرانی فوجیں بے تمیز ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ حضرت کے دشمنوں کو کوئی گزند پہنچائیں اس لئے آپ مع اہل بیت کے شاہجہان آباد کے اندر چلے آئیں مَیں نے دو محل آپ کیلئے خالی کرا دیئے ہیں‘‘۔
حضرت خواجہ محمد ناصر اور خواجہ میر درد کی طرف سے یہ جواب دیا گیا کہ:
’’جس خدا نے میدانِ کربلا میں اہلبیت کی حفاظت کی تھی وہی اب بھی اِن سیّدانیوں کے ناموس کی حفاظت کرے گا۔ یہ بھی انہیں کی ذریّت ہیں‘‘۔
اس واقعہ سے ان کی اس ایمانی قوت کا پتہ چلتا ہے جو اُن کے قلب میں موجزن تھی اور یہ کہ وہ ایک زندہ خدا پر ایمان رکھتے تھے۔ چنانچہ جیسے انہوں نے خدا پر بھروسہ رکھا تھا ویسا ہی ہوا۔ نادر شاہ نے دہلی میں قتل عام کیا اور صد ہا گھرانے زیر و زبر ہو گئے۔ مگر خدا تعالیٰ نے فرشتوں کے ہاتھوں سے ایک ایسی مضبوط دیواربرمدہ کے نالہ کے گرد کھینچوائی کہ کسی نے بھی اُدھر کا رخ نہ کیا اور یہ خاندان معجزانہ طور پر محفوظ رہا اور محفوظ کیوں نہ رہتا جب کہ وہ ابھی اُمُّ المؤمنین جیسی عظیم الشان امانت کو اپنے اندر سنبھالے ہوئے تھا جو اپنے وقت پر مہدی ؑ موعود کی طرف منتقل ہونے والی تھی۔
الغرض یہ وقت تو نکل گیا لیکن شاہزادی مہر پرور کا مطالبہ روز بروز بڑھنے لگا اور اس نے کہنا شروع کیا کہ آپ اس ویران محلہ کو چھوڑ دیجیئے۔ مہر پرور کے زور دینے پر بالآخر آپ نے دہلی کے اندر رہنا منظور کر لیا مگر ایک شرط پر کہ مَیں کسی محل میں نہیں رہوں گا بلکہ جیسے ہمارے یہ مکان ہیں ویسے ہی مکان بنوائے جائیں۔ شہزادی مہر پرور بیگم نے بخوشی اس شرط کو منظور کر لیا اور کوچہ چِیلوں میں ایک قطعہ لے کرنو مکان چھوٹے بڑے بنوائے اور ایک بارہ دری جس کا ایک بڑا صحن تھا اور ایک مسجد تیار کروائی۔ آٹھ مکانوں میں آپ کے اہل و عیال اور عزیز واقارب رہنے لگے۔ نویں حویلی حُجرہ بن گئی۔ بارہ دری میں مختلف قسم کی بزم آرائیاں ہوا کرتی تھیں اور کبھی کبھی مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔ اس واقعہ سے خواجہ میر درد کی قناعت اور درویشی پر بخوبی روشنی پڑتی ہے۔ اُن کے دل میں اگر دنیا اور جاہ طلبی کی خواہش ہوتی وہ محلات میں چلے جاتے۔ مگر انہوں نے نادری قتل عام کے وقت بھی لال قلعہ کی مضبوط دیواروں کی طرف نہ دیکھا اور مہر پرور بیگم کے مجبور کرنے پر اگر قبول کیا تو یہ کہ جیسے ہمارے فقیرانہ مکان ہیں ویسے بنوا دو۔
محمد شاہ بادشاہ
اُس وقت دہلی کے تخت پر محمد شاہ بیٹھا ہوا تھا جب اُس نے حضرت میر درد کی شہرت سنی تو اُس نے چاہا کہ آپ قلعہ میں تشریف لائیں۔ مگر اُسے معلوم ہو گیا کہ آپ بادشاہوں کی مجلس اور صحبت سے بہت دور رہتے ہیں۔ اس لئے ایک دن بغیر اطلاع دیئے ہوئے ہاتھی پر سوار ہو کر خواجہ صاحب کی بارہ دری میں تشریف لے آیا۔ مگر آپ نے بادشاہ سے کسی قسم کا تملق نہیں کیا۔ بادشاہ آپ کی زیارت سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ کوئی خدمت میرے لائق ہو تو اس سے سرفراز فرمایا جائے۔ حضرت خواجہ میر درد نے ارشاد شاہی سن کر فرمایا:
’’آپ کے لائق یہی خدمت ہے کہ اب کبھی فقیر خانہ پر تشریف نہ لائیے گا کیونکہ آپ کے آنے سے فقیر کا نفس موٹا ہوتا ہے‘‘۔
محمد شاہ اُٹھ کر خاموشی سے چلے گئے اور بارہ دری سے نکل کر کہا بیشک یہ آلِ رسول ہیں حضرت خواجہ میر درد کا یہ استغناء قابلِ رشک ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے مقام کا اظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں۔
آن کس کہ بتو رسد شہاں راچہ کند
حضرت خواجہ میر درد نے اپنی عُمر فاقوں میں بسر کی اور بعض اوقات کئی کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ خود ہی غیب سے سامان مہیا فرما دیا کرتا۔ خواجہ میر درد نے تمام عمر کسی امیر، وزیر اور شاہزادے کے پاس جانا پسند نہ کیا۔ ہاں اپنے والد خواجہ محمد ناصر کے مزار پر روزانہ بلا ناغہ جایا کرتے تھے۔ حتیّٰ کہ جس دن نادر شاہ دہلی تک آیا دہلی کے چاروں طرف قتل اور لوٹ کا بازار گرم تھا۔ اُس دن بھی باوجود گھر والوں کے روکنے کے آپ نادر شاہ کے سپاہیوں میں سے ہو کر گذر گئے اور اپنے معمول میں فرق نہ آنے دیا۔ وہاں آپ نے یہ رباعی پڑھی:
در کوئے تو اے مُونسِ جان می آیم
تاجان باقی ست بے گمان می آیم
گرم شام کشان کشان برندم زینجا
چون صبح شود باز ہمان می آیم
آپ اپنے زمانے کے ولی کامل تھے
آپ نے مقامِ ولایت کے متعلق خود لکھا ہے کہ:
’’برکت جامعیّتِ محمدیہ کی تمام نسبتیں فقر کی خدا تعالیٰ نے میری ذات میں جمع فرمائی ہیں اور مجھے حق و باطل میں ، فقر میں فارق بنایا ہے… اور مجھے نجابتِ طرفین اور سیادتِ والدین کی طرف سے مشرف فرمایا تا کہ مَیں محمدیہ خالص کے طریقہ کو رواج دوں اور مجھے جہان کیلئے صفی اور خلیفہ تجویز فرمایا اور آدم علیہ السلام کا مقامِ ولایت عطا کیا اور مکا یٔدِ نفس و شیطان سے نجات دی‘‘۔
پھر فرمایا:
’’مجھے حضرت دائود علیہ السلام کی ولایت کا مقام بخشا۔…… حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقامِ ولایت مجھے دیا۔ ……حضرت ابراہیم علیہ السلام کامقامِ ولایت مجھے دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا مقامِ ولایت مرحمت فرمایا۔ پھر…… حضرت یوسف علیہ السلام کا بھی مقامِ ولایت عطا فرمایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقامِ ولایت بھی عنایت کیا اور پھر اس جامعیّت کا کمال اور اختتام کے لئے ولایت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف فرمایا اور محمدیت خالص کی رِدا میں مجھے چھپا لیا اور رسول پاکؐ کی ذات میں مجھے فنا کر دیا۔ پس نہ مَیں رہا اور نہ میرا نام و نشان‘‘۔
پھر فرمایا:
’’مجھے خدا تعالیٰ نے عقل کامل و نفس کامل اور روح کامل اور جسد کامل کے ساتھ مظہر اپنے تمام اسماء کا پیدا کیا تا کہ مَیں مومنین کو طریقہ خالصہ محمدیہ کی دعوت دوں‘‘۔
پھر فرمایا:
’’ ہر فرد انسان بقدرِ عقل و فہم و استعدادِ شخصی کے علومِ کلیّہ اضافیہ کو اخذ کرتا ہے اور طاقتِ بشریہ کے موافق ہر امر کا ادراک کرتا ہے اور ہر شخص واحد کو معانی اور مراد میں بہت سے اختلاف مثل اُن کی اشکال مختلفہ بایک دِگر کے لاحق ہوتے ہیں اور اس حیثیت سے فرقہ فرقہ اور گروہ گروہ جداگانہ قائم ہو جاتے ہیں اور ملّتِ واحدہ میں اگرچہ باعتبار نوعیت کے ایک ہوتے ہیں مگر صور استعدادی کے اختلاف کی وجہ سے آدمیوں اور رنگوں کی طرح اسے رنگا رنگ کر ڈالتے ہیں اور اصلی دین کو قیود اضافی میں مقید کر کے وحدت پر قائم نہیں رکھتے اور انتزاجات نفسانی کے ساتھ اسے ممتزج کر کے اسے متفرق کر دیتے ہیں اور وہ ایک مِلّت جس پر ربانی مِلّت کے عہد میں سب متفق باقی نہیں رہتے۔ اس لئے ضرور ہے، کہ ہر زمانہ میں خدا کی طرف سے ایک فرد اکمل آتا رہتا ہے تا کہ مِلّتِ حقیقی کی نوعیت اور اصلیت کو سنوارتا رہے۔ اس لئے اُمتِ محمدیہ میں ایک ولی کامل کا وقت مقررہ پر آنا جو دینِ متین کو از سرِ نو زندہ کر دیتا ہے اور اس کی تجدید ہو جاتی تھی۔ یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے حضرت امیر المحمدیّین خواجہ محمد ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارہویں صدی کے آغاز میں اس خدمت کے لئے مامور فرمایا اور آپ نے اس دین مبین کے آفتاب کو نصف النہار میں پہنچا دیا اور محمدیہ خالصہ کے انوار سے جہان کو منور کر دیا… یہی فرقہ ناجیہ ہے۔ اسی اصل نسبت سے تعلق رکھتا ہے جو جناب سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جاری تھا اور زمانہ اسے فراموش کر چکا تھا اور مَیں کہ اوّل المحمدیّین ہوں اسی نسبت خاصہ خالصہ کا دروازہ ہوں……فیاقوم لا تکونوا کالّذی فرّقوا دین اللّٰہ الذی لہ الدّین الخالص وماثلثۃ و سبعین فرقۃ واختلفوا بالاختلاف المنکرۃ المبتدعۃ۔
’’اور یہ نسبت محمدیہ الخاصہ حضرت امام موعودعلیہ السلام کی ذات پاک پر ختم ہو گئی اور تمام جہان ایک نور سے روشن ہوگا اور اس نیرِ اعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گُم ہو جائے گی‘‘۔ ۱۹؎
اس بیان کو پڑھ جانے سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کو سب انبیاء کا مقامِ ولایت دیا گیا اور بالآخر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقامِ ولایت بھی دیا گیا اور آپ کو رسول کریمؐ کی ذات سے ایک ایسی نسبت تھی کہ آپ پر ردأ محمدی ڈال دی گئی اور آپ وجودِ محمدی میں فنا ہو گئے۔
دوسرے: آپ اس حدیث کے ماتحت یاتی علی کل رأس مائۃ سنۃ من یجدّدنا دینھا۔ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد کی آمد کو تسلیم کرتے تھے۔ بلکہ بارہویں صدی کے مجدد حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کو اعتقاد کرتے تھے۔
تیسرے: اور ان کا یہی اعتقاد تھا کہ جو لوگ وقت کے مجدد کو نہیں مانتے وہ ناجی نہیں ہیں جیسے کہ حدیث شریف میں آیا ہے۔ من لم یعرف امام زمانہ فقد مات میتۃ الجاھلیّۃ۔
چوتھے: اُن کا یہ مذہب تھا کہ حضرت مسیح موعود ؑ ایک نیرِّ اعظم ہیں جن کی آمد پر سب فرقوں کی روشنی گُم ہو جائے گی اور یہ نسبت محمدیہ الخاصہ بھی ختم ہو جائے گی۔
یہ وہ اعتقادات ہیں جو بالکل سلسلہ احمدیہ کے ساتھ ملتے جلتے ہیں۔ آج ہم بھی اس امر کو مانتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے اُمت محمدیہ میں فیض کے بڑے بڑے دروازے کھلے ہیں اور ولایت ہی کا نہیںبلکہ نبوت کا مقام بھی آپؐ کی برکت اور فیض سے حاصل ہو سکتا ہے۔ جب حضرت خواجہ میر درد کو تمام انبیاء کا مقامِ ولایت حاصل تھا جو آسمانِ مجددیت پر ایک ستارہ تھا۔ اس نیرِ اعظم کو جسے وہ خود نیرِ اعظم کہتے ہیں جس میں سب ستاروں کی روشنی گم ہونے والی تھی کیا کہا جائے گا؟ کیا اس کے لئے نبوت کے سوا اور کوئی مقام باقی رہ جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی اس مسئلہ کو حل فرما دیا۔
غیر کیا جانے کہ دلبر سے ہمیں کیا جوڑ ہے
وہ ہمارا ہو گیا اس کے ہوئے ہم جاں نثار
مَیں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں
نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار
اک شجر ہوں جس کو دائودی صفت کے پھل لگے
مَیں ہوا دائود اور جالوت ہے میرا شکار
پر مسیحا بن کے مَیں بھی دیکھتا روئے صلیب
گر نہ ہوتا نام احمدؐ جس پہ میرا سب مدار
سر سے میرے پائوں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے مرے بدخواہ کرنا ہوش کرکے مجھ پہ وار ۲۰؎
اس مسئلہ پر حضرت مسیح موعود علیہالسلام نے بہت بڑی روشنی اپنی کتب میں ڈالی ہے۔ مگر افسوس! کہ کاغذ کی نایابی اور حصولِ اشیاء کی دِقت مجھے مجبور کرتی ہے کہ مَیں اس موضوع پر زیادہ نہ لکھوں۔
الغرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سارے انبیاء کا مقامِ نبوت عطا کیا گیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں آپؑ کو جری اللہ فی حلل الانبیاء کا خطاب دیا اور اپنی وحی میں آپ کو شمس و قمر بھی فرمایا جو حضرت خواجہ میر درد رضی اللہ عنہ کو نیرِّ اعظم دکھایا گیا۔
حضرت خواجہ میر درد فنافی الرسول کے مقام پر اپنے آپ کو بیان کرتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کے دونوں مقاموں پر فائز تھے۔ آپؑ اپنی محبت رسول کا ذکر اپنی کتابوں میں صدہا جگہ فرما چکے ہیں۔ مگر مختصر طور پر آپؑ فرماتے ہیں:
بعد از خدا بعشقِ محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
……
نقشِ ہستی تیری اُلفت سے مٹایا ہم نے
اپنا ہر ذرہ تری راہ میں اُڑایا ہم نے
……
دلبرا مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی
آپ کو تیری محبت میںبُھلایا ہم نے
……
بخدا دل سے مرے مٹ گئے سب غیروں کے نقش
جب سے دل میں یہ تیرا نقش جمایا ہم نے
دیکھ کر تجھ کو عجب نور کا جلوہ دیکھا
نور سے تیرے شیاطیں کو جلایا ہم نے
اس طرح بہت سا کلام آپؑ کے عربی، فارسی، اُردو اشعار میں اور اس کے علاوہ عربی، اُردو، فارسی نثر میں موجود ہے۔ جس سے اس عشق و محبت کا پتہ چلتا ہے۔ جو آپؑ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا اور اس خصوص میں آپؑ کا مقام اس قدر بلند ہوا کہ آپؑ کامل طور پر بروز محمدہوگئے اور خدا سے علم پا کر آپ نے فرمایا۔’’من فرّق بینی و بین المصطفی فما عرفنی وما اری‘‘ یعنی اور جو شخص مجھ میں اور مصطفی ؐمیں تفریق کرتا ہے اس نے مجھے نہیں دیکھا ہے اور نہیں پہچانا۔ ۲۱؎
آپ فنا فی اللہ کے مقام پر
آپؑ تحریر فرماتے ہیں:
’’مَیں نے اپنے ایک کشف میں دیکھا کہ مَیں خود خدا ہوں اور یقین کیا کہ وہی ہوں اور میرا اپنا کوئی ارادہ اور کوئی خیال اور کوئی عمل نہیں رہا اور مَیں ایک سوراخ دار برتن کی طرح ہو گیا ہوں یا اس شے کی طرح جسے کسی دوسری شے نے اپنی بغل میں دبا لیا ہو اور اسے اپنے اندر بالکل مخفی کر لیا ہو۔ یہاں تک کہ اس کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہ گیا ہو۔ اس اثناء میں مَیں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی روح مجھ پر محیط ہوگئی اور میرے جسم پر مستولی ہو کر اپنے وجود میں مجھے پنہاں کر لیا۔ یہاں تک میرا کوئی ذرّہ بھی باقی نہ رہا۔ اور مَیں نے اپنے جسم کو دیکھا تو میرے اعضاء اس کے اعضاء اور میری آنکھ اس کی آنکھ اور میرے کان اس کے کان، اور میری زبان اس کی زبان بن گئی تھی۔ میرے رب نے مجھے پکڑا اور ایسا پکڑا۔ کہ مَیں بالکل اس میں محو ہو گیا اور مَیں نے دیکھا کہ اس کی قدرت اور قوت مجھ میں جوش مارتی ہے۔ اور اس کی الوہیت مجھ میں موجزن ہے۔ حضرتِ عزت کے خیمے میرے دل کے چاروں طرف لگائے گئے۔ اور سلطان جبروت نے میرے نفس کو پیس ڈالا۔ سو نہ تو مَیں ہی رہا اور نہ میری کوئی تمنا ہی باقی رہی۔ میری اپنی عمارت گِر گئی اور رب العالمین کی عمارت نظر آنے لگی اور الوہیت بڑے زور کے ساتھ مجھ پر غالب ہوئی اور مَیں سر کے بالوں سے ناخن پا تک اس کی طرف کھینچا گیا۔ پھر میں ہمہ مغز ہو گیا جس میں کوئی پوست نہ تھا اور ایسا تیل بن گیا جس میں کوئی مَیل نہیں تھی اور مجھ میں اور میرے نفس میں جدائی ڈال دی گئی۔ پس مَیں اُس شے کی طرح ہو گیا جو نظر نہیں آتی۔ یا اس قطرہ کی طرح جو دریا میں جا ملے اور دریا اس کو اپنی چادر کے نیچے چھپا لے۔ اس حالت میں مَیں نہیں جانتا تھا۔ کہ اس سے پہلے مَیں کیا تھا اور میرا وجود کیا تھا۔ الوہیّت میری رگوں اور پٹھوں میں سرایت کر گئی۔ اور مَیںبالکل اپنے آپ سے کھویا گیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے میرے سب اعضاء اپنے کام میں لگائے۔ اور اس زور سے اپنے قبضہ میں کر لیا کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ چنانچہ اس کی گرفت سے مَیں بالکل معدوم ہو گیا اور مَیں اس وقت یقین کرتا تھا کہ میرے اعضاء میرے نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے اعضاء ہیں اور مَیں خیال کرتاتھا کہ مَیں اپنے سارے وجود سے معدوم اور اپنی ہویّت سے قطعًا نکل چکا ہوں اب کوئی شریک اور منازع روک کرنے والا نہیں رہا۔ خدا تعالیٰ میرے وجود میں داخل ہو گیا اور میرا غضب اور حلم اور تلخی اور شیرینی اور حرکت اور سکون سب اسی کا ہو گیا۔ اور اس حالت میں مَیں یوں کہہ رہا تھا کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں۔ سو مَیں نے پہلے تو آسمان اور زمین کو اجمالی صورت میں پیدا کیا جس میں کوئی ترتیب اور تفریق نہ تھی۔ پھر مَیں نے منشاء حق کے موافق اس کی ترتیب اور تفریق کی۔ اور مَیں دیکھتا تھا کہ مَیں اُس کے خلق پر قادر ہوں۔ پھر مَیں نے آسمانِ دنیا کو پیدا کیا اور کہا کہ اِنَّا زَیّنَا السَّمَآئَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ پھر مَیں نے کہا اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے۔ پھر میری حالتِ کشف سے الہام کی طرف منتقل ہوگئی اور میری زبان پر جاری ہوا۔ اَرَدْتُ اَنْ اَسْتَخْلَفَ فَخَلَقْتُ اٰدَمَ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم‘‘۲۲؎
اس کشف کی عظمت سے معلوم ہوتا ہے کہ کس مقام پر حضرت مسیح موعود ؑ فائز تھے اور کتنا فرق تھا اُس ستارہ میں اور اِس نیرِّ اعظم میں۔ خدا تعالیٰ نے خود آپؑ کی وحی میں بھی آپؑ کا نام یاشمس یا قمر بھی رکھا۔ یعنی نیرِّ اعظم ۔ اور یہ بھی فرمایا۔ انت منی بمنزلۃِ توحیدی و تفریدی۔ ۲۳؎
مسئلہ کفر اسلام
حضرت خواجہ میر درد صاحب نے اس فرقہ کو جو مجدّدِ وقت کو مانے، ناجی فرقہ قرار دیا ہے اور حدیث نبوی بھی یہی کہتی ہے۔ من لم یعرف امام زمانہ فقدمات میتۃ الجاھلیّۃ اس ایک بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو اس نیرِّ اعظم کا انکار کرے گا اس کا ناجی ہونا کیسے یقین کیا جا سکتا ہے؟
حضرت خواجہ میردرد صاحب فرماتے ہیں:
’’درویشی فقط قُربِ الٰہی کا نام ہے اور فقیری شعبدہ بازی اور بھنڈیلہ پن کا نام۔‘‘
وہ تمام ان امور کو جو شریعت کے خلاف تھے ناجائز قرار دیتے تھے۔ حضرت خواجہ میردرد کو موسیقی میں کمال دستگاہ حاصل تھی۔ ان کے پاس بڑے بڑے موسیقار جمع ہوا کرتے تھے۔ اس زمانہ کا مشہور موسیقار فیروز خان آپ کے فنِ موسیقی کا بڑا مداح تھا۔ ہر ماہ کی دوسری تاریخ کو بارہ دری میں خواجہ محمد ناصر صاحب کی یاد میں محفلِ موسیقی ہوا کرتی تھی اور اس کا بڑا شاندار انتظام کیا جاتا تھا۔ ہزارہا لوگوں کا مجمع ہو جاتا۔ خواجہ میردرد بھی تشریف لے آتے۔آپ کی مجلس میں سب لوگ دوزانو ہو کر بیٹھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ شاہ عالم بادشاہ دہلی آپ کی مجلس میں آئے اور دوزانونہ بیٹھے آپ نے بادشاہ سے کہا کہ اگر آپ فقیروں کی محفل میں آیا کریں تو دوزانو ہو کر بیٹھا کریں۔ بادشاہ نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ آج میرے پاؤں میں درد تھا اس وجہ سے بیٹھ نہ سکا۔اس سے اس جرأت اور شجاعت کا پتہ لگتا ہے جو حضرت میر درد میں تھی اور یہ شرفِ سعادت اس خاندان میں چلی آئی۔ حضرت میرناصر نواب رضی اللہ عنہ کی جرأت و صاف گوئی مشہور اور زبان زد ہے۔ وہ حق گو تھے اور اِس کے کہنے میں دلیر۔
آپ کا مقولہ تھا کہ میں نغمہ و سرود کو عالموں فاضلوں کی طرح سنتا ہوں۔ جو علم ریاضی و طبیعی پڑھتے پڑھاتے ہیں اور اس کے دقائق کو خوب جانتے ہیں مگر حکماء کی طرح اس کا اعتقاد نہیں رکھتے اسی طرح میں بھی موسیقی کے ساتھ تو غسل کیا کرتا ہوں کیونکہ موسیقی ریاضی کی ایک پُرمیوہ شاخ ہے۔ وہ اسے علمی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ نہ کہ ذریعہ حظِّ نفس۔ پھر فرمایا:
’’میں نے نہ آج تک اپنے کسی مرید کو راگ سننے کی اجازت دی نہ اپنی اولاد کو کیونکہ جو چیز ہماری شریعت میں ممنوع اور ہمارے طریقہ میں مکروہ ہو اس کیلئے میں کب کسی کو اجازت دے سکتا ہوں۔ میں اپنے تئیں گناہگار جانتا ہوں اور ہمیشہ اسی دھیان میں ہوں کہ راگ سننے سے توبہ کروں جو لوگ راگ نہیں سنتے ہیں میں انہیں اپنے سے اچھا جانتا ہوں۔‘‘۲۴؎
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو کبھی موسیقی نہیں سنی۔ البتہ آپؑ کی مجلس میں کبھی کبھی کوئی شاعر اپنے اشعار خوش گلوئی سے سنا دیتا تھا۔ آپؑ کے ایک مرید شیخ محمد اسمٰعیل صاحب سرساوی جو صوفیانہ طرز کے آدمی ہیں کی ایک روایت ہے کہ میں چونکہ قوالی سن لیا کرتا تھا ایک دفعہ حضو ؑر نے مجھے فرمایا۔ میاں اسمٰعیل! قوالی کی لذت کتنی دیر رہتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور کچھ بھی نہیں جب تک سنتے رہو۔ فرمایا۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ لذت ہو جو ہمیشہ قائم رہے۔ اس طرح حضو ؑر نے موسیقی کی اس کمی کا اظہار فرمایا جسے صوفی کمال سمجھ رہے تھے۔
اُردو علم ادب پر آپ کا احسان
حضرت خواجہ میر درد کو عربی،اُردو، فارسی میں کامل دستگاہ تھی۔ اُردو زبان پر آپ کا بڑا احسان تھا کہ آپ نے اس زبان کو صاف کیا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’اے اُردو گھبرانا نہیں تو فقیروں کا لگایا ہوا پودا ہے خوب پھلے پھولے گی۔ تو پروان چڑھے گی۔ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ قرآن حدیث تیری آغوش میں آ کر آرام کریں گے۔ بادشاہی قانون اور حکیموں کی طباعت تجھ میں آ جائے گی اور تو سارے ہندوستان کی زبان مانی جائے گی۔‘‘ ۲۵؎
یہ ایک پیشگوئی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں پوری ہوئی جبکہ قرآن و حدیث نے آ کر آرام حاصل کیا۔
بارہ دری میں مہینہ میں ایک دو دفعہ مشاعرہ ضرور ہو جایا کرتا تھا۔ میر حسن دہلوی، جھمن لال، شاہ محمدی، شیخ محمد قیام، حکیم ثناء اللہ خان، لطیف علی، میرزا اسمٰعیل، شیخ محمد بقا، محمد پناہ خان، لالہ مکند لال، میرزا محمد جان، لالہ نرائین داس، علی نقی وغیرہ شاعری میں اُن کے شاگرد تھے۔
وفات
حضرت خواجہ میردرد صاحب اپنی پیشگوئی کے مطابق ۱۱۹۹ہجری میں صفر ۲۴ کو صبح صادق کے وقت ۶۸ برس کی عمر میں عالم قدسی کی طرف رحلت فرما گئے۔ آپ کو آپ کے والد کے داہنے پہلو میں دفن کیا گیا۔
آپ کی اولاد
آپ کا ایک ہی فرزند تھا جس کا نام خواجہ صاحب میر اور لقب ضیاء الناصر اور المؔ تخلص تھا اور آپ کی دوصاحبزادیاں تھیں۔ ایک براتی بیگم صاحبہ تھیں اور دوسری زینت النساء بیگم صاحبہ تھیں۔
خواجہ میر درد صاحب کی وفات کے بعد ان کے بھائی خواجہ ظہورالناصر سیّد میر اثر صاحب ان کے خلیفہ اور جانشین ہوئے اور صفر ۱۲۰۹ہجری میں وفات پائی۔
ان کی ایک ہی دختر تھیں جس کا نام بیگما جان تھا۔ جس کی شادی نواب سیّد اسد اللہ خان بن نواب سیّد جعفر علی خان صاحب سے ہوئی تھی۔ ان کی وفات کے بعد خواجہ سیّد ضیاء النّاصر المعروف بہ سیّد صاحب میر۔ متخلص بہ المؔ آپ کے خلیفہ ہوئے۔ آپ کی وفات ۲۱ جمادی ا لآخر ۱۲۱۵ہجری کو ہوئی۔ خواجہ میردرد صاحب کے پائیں میں دفن ہوئے۔
ان کی اولاد
ان کے ایک صاحبزادے میر محمد بخش نام اور ایک صاحبزادی بی امانی بیگم تھیں۔
میرمحمد بخش
میر محمد بخش صاحب جو حضرت خواجہ میر درد کے پوتے تھے۔ بڑینچ نامی جگہ میں کمپنی کی حکومت کی طرف سے حاکم تھے۔ ان کے پاس ایک نوکر تھا جس نے چوری کی اور گرفتا ر ہوا اسے خیال تھا کہ میرا مالک میری مدد کرے گا مگر آپ نے فرمایا کہ میں چور کا حامی نہیں ہوں اسے سزا ہو گئی وہ قید سے جب آزاد ہوا اس نے آپ کو آپ ہی کی تلوار سے سوتے میں قتل کر دیا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر کل تیس برس کی تھی۔ ان کی لاش دہلی لائی گی اور خاندانی قبرستان میں دفن ہوئی۔
امانی بیگم صاحبہ
امانی بیگم صاحبہ خواجہ صاحب میر کی بیٹی تھیں مگر ان کی والدہ میر محمد بخش صاحب کی والدہ نہ تھیں بلکہ بی عزت النساء صاحبہ جو اُمّ سلمہ کر کے مشہور تھیں اور خواجہ صاحب میر صاحب کی دوسری بیوی تھیں کے بطن سے تھیں۔اٹھوانسی پیدا ہوئی تھیں مگر لمبی عمر پائی۔ ۱۲۰۳ ہجری کو پیدا ہوئیں اور ۱۲۷۲ہجری میں ۱۱ربیع الاوّل کو وفات پائی۔
خواجہ محمد نصیر صاحب
خواجہ میر درد کے بعد ان کے بھائی صاحب ان کے جانشین ہوئے پھر خواجہ میردرد کے بیٹے جانشین ہوئے۔خواجہ میردرد کے پوتے میر محمد بخش صاحب اپنے باپ کی زندگی میں فوت ہو گئے تھے اس کے بعد ان کے ہاں اولاد نرینہ نہ ہوئی اور نہ میرمحمد بخش صاحب ہی کی کوئی اولاد تھی۔ اس لئے خلافت کا مسئلہ کچھ الجھن میں پڑ گیا مگر اس کا حل یہ پیدا ہوا کہ خلافت خواجہ میر درد صاحب کی لڑکی کی اولاد میں منتقل کی جائے چنانچہ خواجہ صاحب کی دو لڑکیاں تھیں بڑی کا نام براتی بیگم تھا جن کی شادی مولوی عبدالحی صاحب سے ہوئی تھی جو خواجہ میردرد صاحب کے چچازاد بھائی تھے۔ مولوی عبدالحی صاحب کلکتہ میں سرکار کمپنی کے مجلس واضع قوانین کے رُکن تھے۔ بڑی آمدنی تھی۔ آپ نے بنارس کے قریب ایک تعلقہ بھی خریدا تھا۔
ناصری گنج
ایک قصبہ خواجہ محمد ناصر صاحب کی یادگار کے طور پر آباد کیا تھا جس کا نام ناصری گنج رکھا۔ جب تک وہ زندہ رہے اپنی بیوی کو ایک ہزار روپیہ ماہانہ بھیجا کرتے تھے وہ ایک ہی دن میں اسے بانٹ کر ختم کر دیتیں۔ چاندی کے روپے تقسیم کرتے کرتے ہاتھ کالے ہو جاتے تو آپ فرماتیں:
’’خدا اس سفید ڈائن کی محبت کسی مسلمان کو نہ دے۔ جس طرح اس کے چھونے سے ہاتھ کالے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اس کی محبت سے آدمی کا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔‘‘
مولوی عبدالحی صاحب لا ولد فوت ہو گئے۔ ناصری گنج کا علاقہ از روئے وصیت اپنے ورثاء میں تقسیم کر گئے۔ جس میں سے اب تک ایک گاؤں کا بڑا حصہ حضرت میرناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کے پاس موجود ہے اور کچھ تھوڑا سا بِک بھی گیا ہے۔
زینت النساء بیگم
زینت النساء بیگم دوسری صاحبزادی کی شادی میرکلّو صاحب سے ہوئی تھی۔ جو میرنعمان بدخشانی کی اولاد میں سے تھے۔ میرنعمان صاحب بڑے مرتبہ کے درویش تھے۔ ان کا ذکر شیخ عبدالقدوس صاحب گنگوہی چشتی صابری کے مکتوبات میں بکثرت ملتا ہے۔ ان کا مقبرہ بھی آگرہ میں اب تک موجود ہے۔ خواجہ شاہ محمد نصیر صاحب زینت النساء بنت خواجہ میردرد رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے تھے۔ ۱۱۹۹ ہجری میں پیدا ہوئے تھے خواجہ محمد نصیر صاحب اپنے ماموں کے لاولد رہ جانے کی وجہ سے خلیفہ بنائے گئے۔ خواجہ محمد نصیر صاحب بھی شاعر تھے اور رنج تخلص کیا کرتے تھے۔
خواجہ رنج صاحب کو بھی فنِ موسیقی میں بڑا کمال حاصل تھا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ہمت خان گویّا جو دہلی کا ممتاز ترین گویہ تھا اپنا گانا بغرض اصلاح حضرت رنج کو سنایا کرتا تھا۔
خواجہ محمد نصیر صاحب نے خواجہ میردرد صاحب کے خاندان کے مفصل حالات پر ایک کتاب لکھی تھی جو افسوس ہے غدر ۱۸۵۷ء میں تلف ہو گئی۔
خواجہ محمد نصیر کی وفات ۲ شوال کو ۱۲۶۱ ہجری میں ہوئی۔ ان کی وفات پر مومن خان نے یہ تاریخ لکھی۔
شیخِ زمان شد ز دہر روزپئے سال وفات
فکر بلندم رہ جنت ماویٰ گرفت
گفت بمومن ملک خواجہ محمد نصیر
در قدم ناصر و درد نِکوجا گرفت
ان کی عمر بہتر۷۲ سال کی ہوئی۔ آپ خواجہ صاحب میر اپنے ماموں کے پہلو میں دفن ہوئے۔ ان کے اشعار میں سے ایک شعر بطور نمونہ درج کرتا ہوں۔
خط دیکھ کر ادھر تو میرا دم اُلٹ گیا
قاصد ادھر بدیدہ پرنم اُلٹ گیا
خواجہ سیّد محمد نصیر صاحب کی اولاد
آپ کی دو بیویاں تھیں پہلی بیوی سے ایک لڑکا خواجہ سیّد ناصر جان اور دختر بی نصیرہ بیگم صاحبہ دو ہی اولادیں ہوئیں۔ دوسری بیوی سے دو صاحبزادیاں پیدا ہوئیں ایک کا نام اشرف النساء بیگم صاحبہ اور دوسری کا انجمن النساء بیگم صاحبہ تھا ۔
خواجہ سیّد ناصر جان
خواجہ سیّد ناصر جان جو آپ کے صاحبزادے تھے کی شادی خواجہ میر درد صاحب کی پوتی امانی بیگم صاحبہ سے ہوئی تھی۔ میر ناصر جان بھی شاعر تھے اور اپنا تخلص محزون ؔ کرتے تھے۔ آپ کو فنِ ریاضی میں بڑا کمال حاصل تھا۔ یہ علم آپ نے نواب فرید الدین احمد خان صاحب ہمدانی دہلوی سے حاصل کیاتھا۔ آپ اسی فن ریاضی کی وجہ سے سرکار کمپنی کے بعض حکام کی نظروں میں بہت معزز تھے اور انہوں نے آپ کو گڑینی میں منصف مقرر کرا دیا تھا۔ جہاں وہ ۱۳ جنوری ۱۸۴۶ء مطابق ۲رمضان ۱۲۴۹ھ میں فوت ہو گئے۔
ان کا خیال تھا کہ میں اپنے بزرگوں کی سب کتابیں خود شائع کروں گا چنانچہ آپ نے اس غرض کے لئے ایک مطبع بھی خرید لیا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی۔ ان کی شاعری کے نمونہ کے لئے ایک شعر یہاں درج کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
نہ تو نامہ ہی نہ پیغام زبانی آیا
حیف محزونؔ تجھے یارانِ وطن بھول گئے۔
آپ کی لاش وہاں سے دہلی لائی گئی اور خاندانی قبرستان میں دفن کی گئی۔
صاحبزادی بی نصیرہ بیگم صاحبہ
صاحبزادی بی نصیرہ بیگم صاحبہ کی شادی نواب خان دوران خان صاحب کے پوتے میرہاشم علی صاحب کے ساتھ ہوئی جو ایک صحیح النسب سیّد تھے۔
خواجہ میر ناصر امیر صاحب
ان کے بطن سے ایک صاحبزادے خواجہ ناصر امیر صاحب پیدا ہوئے اور ایک دختر فرحت النساء بیگم پیدا ہوئیں۔ میر ناصر امیر صاحب کی شادی میربھکاری صاحب کی دختر بلند اختر سے ہوئی۔ جن کا نام سعیدہ بیگم صاحبہ تھا۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادہ پیدا ہوئے۔ جن کا نام سیّد ناصر وزیر تھا۔ خواجہ ناصر امیر صاحب نے ایک اور شادی بھی کی تھی جو میر شفیع احمد صاحب ساکن فراشخانہ کی دختر بلند اختر سے ہوئی۔ ان محترمہ کا نام بی بی روشن آراء بیگم صاحبہ تھا۔ ان کے بطن سے وہ عظیم الشان بزرگ پیدا ہوا جو اس مقدس امانت کو جو بخارا سے لائی گئی تھی۔ اپنی صُلب میں اٹھائے ہوئے تھا اور سلسلہ بسلسلہ یہ امانت منتقل ہوتی آئی تھی اور انقلاب آفرین زمانہ میں شاید خدا نے اس کے طفیل سے اس خاندان کو محفوظ رکھا۔ یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،آپ کی دو ہمشیرگان بھی تھیں۔ جن کے نام رفعت النساء بیگم صاحبہ اور انجمن آراء بیگم صاحبہ تھے۔ پہلی کی شادی قصبہ جلیسر میں پیرجی بشیرالدین صاحب سے ہوئی اور دوسری کی شادی مولوی محمد یوسف صاحب ولد مولوی عبدالقیوم صاحب دہلوی سے ہوئی جو شاہ اسحاق صاحب محدث دہلوی کے نواسے تھے اور بھوپال میں رہتے تھے۔
سیّد محمد نصیر کی وفات کے بعد پھر خلافت کا مسئلہ اٹھا کیونکہ ان کے بیٹے تو پہلے ہی فوت ہو چکے تھے اس لئے مشورہ کے بعد یہ قرار پایا کہ بی امانی بیگم سے پوچھا جائے جو خواجہ میر درد صاحب کی پوتی تھیں۔ تما م مشایخ ڈیوڑھی پر جمع ہوئے اور یہ سوال کیا۔ آپ نے فرمایا:
’’جس رتبہ کے بزرگ خواجہ میردرد صاحب اور میراثر صاحب اور میرے والد خواجہ صاحب میر تھے۔ ویسا تو اب خاندان میں کوئی نظر نہیں آتا۔ اگر تھے تو میرے شوہر مولوی ناصر جان مگر وہ رحلت فرما چکے ہیں۔ اب رسمی سجادہ نشین باقی رہ گئے ہیں۔ وہ میں اپنے داماد کو دلوانی نہیں چاہتی۔ میرے نزدیک میاں ناصر امیر خواجہ محمد نصیر صاحب کے نواسہ گدی پر بٹھا دیئے جائیں۔‘‘
چنانچہ بی امانی بیگم کے اِس ارشاد کو سب نے قبول کیا اور خواجہ ناصر امیر خلیفہ منتخب ہو گئے اور یہاں سے خلافت اور درویشی اور طریقہ محمدیہ کا سلسلہ منتقل ہو کر بالکل ایک دوسرے خاندان میں آ گیا جو ماں کی طرف سے حضرت خواجہ میردرد کا خاندان تھا اور باپ کی طرف سے نواب خانِ دوران کا خاندان تھا۔
حضرت خواجہ میر درد کی پوتی بی امانی بیگم کا ارشاد قابل غور ہے کہ انہوں نے کس اخلاص سے امرِ خلافت کا فیصلہ فرمایا اور جو حقدار تھا اسی کا نام لیا یعنی جس میںاہلیت تھی اور یہ منشاء الٰہی کے ماتحت ہوا کیونکہ آخر یہ خلافت محمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روشنی میں ختم ہو جانے والی تھی اس کا ظہور ابتدائی اس رنگ میںہوا۔ پہلا انتقالِ خلافتِ محمدیہ باپ کے سلسلہ میں منقطع ہو کر بیٹی کے خاندان میں چلا گیا اور حضرت ناصر امیر پر ختم ہو گیا اس سلسلہ میں وہی آخری خلیفہ تھے۔
اس لئے قبل اس کے کہ ہم نواب خانِ دوران کے خاندان کا ذکر کریں ہم خواجہ میردرد کے خاندان کے ذکر کو ختم کر دیتے ہیں اور مختصر سا شجرہ نسب شامل کر دیتے ہیں تاکہ یکجائی طور پر نظر ڈالی جا سکے۔
اگرچہ ایک رنگ کی خلافت بعد میں بھی جاری رہی اور ہے مگر یہ صرف عرس وغیرہ کرانے کے لئے ہے چنانچہ خواجہ ناصر امیر کے بعد ان کے بیٹے ناصر وزیر خلیفہ ہوئے اور اب بھی ناصر عزیز خلیفہ ہیں۔
ء…ء…ء
شجرہ نسب حضرت خواجہ میر درد صاحب
و حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب
نمبر۱
۱
خواجہ میر درد
بن
۲
خواجہ محمد ناصر
بن
۳
نواب روشن الدولہ
بن
۴
خواجہ فتح اللہ خان
بن
۵
خواجہ محمد طاہر
بن
۶
خواجہ عوض بخاری
بن
خواجہ سلطان احمد
بن
۸
خواجہ میرک
بن
۹
سلطان احمد ثانی
بن
۱۰
خواجہ قاسم
بن
۱۱
خواجہ شعبان
بن
۱۲
خواجہ عبداللہ
بن
۱۳
خواجہ زین العابدین
بن
۱۴
حضرت بہائوالدین نقشبند
بن
۱۵
خواجہ عبداللہ بخاری
بن
۱۶
خواجہ جلال الدین بخاری
بن
۱۷
سید کمال الدین بخاری
بن
۱۸
سید حسین ملقب بہ محبوب
بن
۱۹
سید حسین اکبر
بن
۲۰
سید عبداللہ
بن
۲۱
سید فخر الدین
بن
۲۲
سید یلاق
بن
۲۳
سید محمود اعلیٰ
بن
۲۴
سید حسین مقبول
بن
۲۵
سید حسین محمد تقی
بن
۲۶
سید حسین محمدنقی
بن
۲۷
سید عبداللہ
بن
۲۸
سید جامع
بن
۲۹
سید علی اکبر
بن
۳۰
امام حسن عسکری
بن
۳۱
امام علی تقیؓ
بن
۳۲
امام علی نقیؓ
بن
۳۳
امام موسیٰ رضا
بن
۳۴
امام موسیٰ کاظم
بن
۳۵
امام جعفرؓ
بن
۳۶
امام باقرؓ
بن
۳۷
امام زین العابدین
بن
۳۸
امام حسینؓ
بن
۳۹
حضرت علیؓ
بن
۴۰
ابوطالبؓ
اس طرح انتالیسویں پشت میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ یہ شجرہ تفصیلات کا حامل نہیں ہے۔
شجرہ نمبر۲
حضرت خواجہ محمد ناصر عندلیب
نوٹ: حضرت میر ناصر نواب صاحب سے جو نسل چلی اس کا نقشہ دوسری جگہ دیا جائے گا۔
توضیح
۱۔ بی بی زینت النساء بیگم صاحبہ جو حضرت خواجہ میردرد کی دوسری بیٹی تھیں وہ شاہ محمد نصیر کی والدہ تھیں اور شاہ محمد نصیر کے نواسہ ناصر امیر تھے جن کے دو بیٹے ہوئے ایک ناصر وزیر اور دوسرے حضرت میرناصر نواب صاحب جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خسر اور آپؑ کی اولاد کے نانا ہونے کا فخر حاصل ہوا اور جن کے وجود باجود کے ذریعہ حضرت اُمُّ المؤمنین علیھا السلام کا وجود دنیا میں ظہور پذیر ہوا اور جس کو خدا تعالیٰ نے اپنی وحی میں خُدَیْجَتِیْ فرمایا اور آپ کو نعمت عظمیٰ قرار دیا جس کی تصریحات اپنے مقام پر آئیں گی۔
۲۔ خواجہ میردرد کا جو خاندان کہلاتا ہے وہ ان کی بیٹیوں سے ہی چلا ہے کیونکہ خواجہ میر درد کے بیٹے ضیاء الناصر سے کوئی نرینہ اولاد نہیں چلی۔
۳۔ حضرت اُمُّ المؤمنین کے دُدھیال کے خاندان کا جو شجرہ ہم کو دستیاب ہو سکا وہ نواب خانِ دورانِ خان منصور جنگ سے شروع ہوتا ہے اوپر مورثانِ اعلیٰ حضرت علاؤ الدین عطارؒ نقشبندی ہیں۔
۴۔ نواب خانِ دوران منصور جنگ کے ناناعزیز میرزا گوکلتاش تھے جو افواجِ مغلیّہ میں شاہنشاہ اکبر کے زمانہ سے افواج مغلیّہ کے کمانڈرانچیف تھے اور ان کو خانِ زمان کا خطاب بھی تھا اور تاریخ ہند میں ان کے ذکر سے صفحات کے صفحات پُر ہیں۔
۵۔ نواب خانِ زمان کے چھوٹے بھائی نواب اعظم خان تھے جو خود بھی افواج مغلیّہ کے ارکان حرب میں سے تھے اور تاریخ ان کے ذکر کو بھی محفوظ رکھنے پر مجبور ہے۔
۶۔ نواب خانِ دوران کے دو بھائی تھے۔ ایک کا نام مظفر خان تھا۔ جو صوبہ دار گجرات بھی رہ چکے تھے۔ اور بعد میں افسر بارودخانہ مقرر ہو گئے تھے۔ ان کے عہدہ کا نام میرآتش تھا۔ دوسرے بھائی خواجہ جعفر تھے جو درویشی کے رنگ میں تھے۔ تاریخ ہند مصنفہ مولوی ذکاء اللہ صاحب میں ان کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
۷۔ نواب خانِ دوران کے زمانہ میں ارکان حرب حسب ذیل تھے۔
الف ۔ صمصام الدّولہ امیرالامراء نواب خانِ دَوران۔ منصور جنگ بخشی اوّل
ب۔ نواب اعتماد الدّولہ معزالدین خان۔ بخشی دوم
ج۔ نواب روشن الدّولہ رستم جنگ۔ بخشی سوم
د۔ سیّد صلابت خان۔ بخشی چہارم
حوالہ جات
۱؎ حیات النبی حصہ اوّل صفحہ۷۲،۷۳
۲؎ بیانِ واقع
۳؎ تذکرہ صفحہ ۲۱،۲۲ بحوالہ براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ ۵۰۳ حاشیہ در حاشیہ
۴؎ تذکرہ صفحہ ۲۲،۲۳ کتاب البریہ صفحہ ۱۶۴تا ۱۶۷
۵؎ تذکرہ صفحہ۷۶،۷۷ و براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ۵۰۲،۵۰۳
۶؎ میخانہ درد صفحہ۱۲۸
۷؎ میخانہ دردصفحہ ۱۲۸
۸؎ نالہ عندلیب صفحہ۲
۹؎ آب حیات صفحہ۸۸
۱۰؎ آب حیات صفحہ۹۳
۱۱؎ حاشیہ آب حیات صفحہ۹۰
۱۲؎ نالہ عندلیب صفحہ۳
۱۳؎ نالہ عندلیب صفحہ۶
۱۴؎ نالہ عندلیب صفحہ۶،۷
۱۵؎ میخانہ درد صفحہ ۹۲
۱۶؎ دیکھو تذکرہ شعرائے ہند مصنفہ میر حسن دہلوی (مصنفہ مولوی حبیب الرحمن شروانی انجمن ترقی اردو
۱۷؎ تذکرہ صفحہ۳۸
۱۸؎ تذکرہ ایڈیشن اوّل صفحہ۷
۱۹؎ میخانہ درد صفحہ ۱۲۵ تا صفحہ۱۲۸
۲۰؎ درثمین
۲۱؎ خطبہ الہامیہ صفحہ۱۷۱
۲۲؎ تذکرہ صفحہ۱۹۴ و صفحہ۱۹۶ و آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ۵۶۴ تا ۵۶۶
۲۳؎ تذکرہ صفحہ۶۴
۲۴؎ میخانہ درد صفحہ۱۵۰
۲۵؎ میخانہ درد صفحہ ۱۵۳
امیر الامراء صمصام الدّولہ نواب خانِ دَوران بہادر میر بخشی منصور جنگ کمانڈرانچیف افواج مغلیّہ
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کا جدّی خاندان
اس وقت تک ہم نے حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ننھیال کے خاندان کا ذکر کیا تھا اب ہم آپ کے ددھیال کا مختصر ذکر کریں گے۔
نواب خانِ دَوران
حضرت میر ناصرنواب صاحب کے جدی بزرگوں کا سلسلہ خواجہ علاء الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے۔ اس سلسلہ کی درمیانی کڑیوں کی مَیں تلاش نہیں کر سکا۔ مگر اس سلسلہ میں سب سے قریب کے زمانے میں جس نامور بزرگ کا پتہ چلتا ہے وہ نواب خانِ دَوران ہیں۔ نواب خانِ دَوران کا اصلی نام خواجہ محمد عاصم تھا اور ان کے والد کا نام خواجہ محمد قاسم تھا مگر تاریخ ہند مصنفہ مولوی ذکاء اللہ صاحب جلد دہم مطبوعہ ۱۸۹۸ء کے صفحہ ۹۵ پر ان کا اصلی نام خواجہ حسن خان لکھا ہے مگر میرا خیال ہے کہ خواجہ محمد عاصم زیادہ درست اور صحیح نام معلوم ہوتا ہے اور سیرالمتاخرین جلد۲ صفحہ۱۱ پر خواجہ عاصم ہی نام لکھا ہے۔ مغلیّہ سلطنت میں سادات کرام کو فوج میں بڑے مناصب بآسانی مل جایا کرتے تھے۔ تاریخی کاغذات اور قلمی وثائق کے غدر ۱۸۵۷ء میں گم ہو جانے سے بہت سی قیمتی اور تاریخی معلومات دنیا سے ناپید ہو گئیں۔
اس لئے ہمارے لئے یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہوگا کہ یہ خاندان جو حضرت علاء الدین عطارؒ کا خاندان تھا، کب واردِ ہند ہوا۔ مگر قرائن اس قدر بتلاتے ہیں کہ سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت علائو الدین عطار خواجہ محمد ناصر سے گیارہ پشت اُوپر کے بزرگوں میں سے ہیں۔ اس طرح خواجہ میر درد کے خاندان کو حضرت عطارؒ سے تعلق ارادت تھا۔ پھر سلسلہ نسب میں دونوں خاندانِ سادات میں سے تھے۔ اس لئے قیاس یہی ہے کہ کچھ نہ کچھ تعلق رشتہ داری پہلے سے چلا آتا ہوگا۔ لیکن تاریخ ہم کو بتلاتی ہے کہ نواب خانِ دَوران کے نانا جو پہلے اکبر پھر بہادر شاہ اور پھر عزیز میرزا گوکلتاش معزالدین جہاندار شاہ کے زمانے میں فوج کے اعلیٰ عہدے دار تھے۔ معز الدین جہاندار شاہ کے مزاج میں اُن کو بڑا دخل تھا اور جو چاہتے تھے کرتے تھے اور جو چاہتے تھے بادشاہ سے کراتے تھے۔ گوکلتاش خان اُن کا خطاب تھا اور وہ اسی نام سے مشہور تھے۔ چنانچہ مولوی ذکاء اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ ’’بادشاہ کا ایمان تھا کہ وہ گوکلتاش خان کی خاطر داری کرے۔ اس لئے وہ ذوالفقار خان کی کچھ نہ سنتا تھا‘‘۔ ۱؎
اسی طرح سیر المتاخرین نے بھی لکھا ہے کہ معز الدین جہاندار شاہ نے گوکلتاش کو خانِ جہان کا خطاب دیا تھا اور اس پر جو اعتماد تھا اس میں روز بروز اضافہ کرتا جاتا تھا۔ ۲؎
خان جہان گوکلتاش کو بادشاہ کسی وقت اپنے سے الگ نہیں کرتا تھا اس لئے جب فرخ سیر جہاندار شاہ سے لڑنے کے لئے آیا تو اس وقت ۱۲/ ذیقعدہ ۱۱۲۴ھ دوشنبہ کی شب کے دو بجے جہاندار شاہ شاہجہان آباد سے لڑنے کے لئے اکبر آباد کی طرف روانہ ہوا۔ ہراول کی فوج کا افسر ذوالفقار خان تھا۔ گوکلتاش خان جہاندار کے ساتھ تھا۔ ستر اسّی ہزار فوج ساتھ تھی۔ ۳؎
فرخ سیر اور جہاندار شاہ کی جنگ
۱۴/ ذی الحج کو میدانِ جنگ میں دونو طرف کی فوجیں جم گئیں۔ خانِ جہان بمع اعظم خان و جانی خان ہمراہیان کے دستِ راست پر تھے۔ اُن کے مقابل پر خانِ زمان اور جھیلہ رام ٹھاکر صف آرا ہوئے۔ ۴؎
جنگ نے نازک صورت اختیار کر لی خانِ جہان جہاندار شاہ کی طرف جا رہے تھے کہ خان زمان اور جھیلہ رام کمین گاہ سے نکل کر حملہ آور ہوئے اور خانِ جہان کو مجروح اَور بے دست وپا کر دیا۔ ۵؎
چونکہ تاریخ میں اس واقعہ کے بعد خانِ جہان کا ذکر نہیں آتا۔ اس لئے اغلب خیال ہے کہ وہ زخموں سے چور ہو کر مر گئے۔ مَیں لکھ چکا ہوں کہ خانِ جہان کے ساتھ جو افسرانِ فوج اعظم خان اور جانی خان تھے۔ اعظم خان کے متعلق سیرالمتاخرین کے مصنف نے لکھا ہے کہ وہ گوکلتاش خان کے بھائی تھے۔ ۶؎ وہ بھی اِس جنگ میں زخمی ہو کر مارے گئے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب خانِ دَوران کے دیگر عزیز رشتہ دار اکبر و بہادر شاہ کے زمانے یا اس سے بھی پہلے سے حکومت کے مناصبِ جلیلہ پر فائز تھے۔ بادشاہانِ وقت کو ان پر پورا پورا اعتماد تھا اور باوجود اس کے کہ وہ زمانہ وساوسں اور فتنہ سازی کا زمانہ تھا۔ مگر ان لوگوںکا مقام اس قدر مضبوط تھا کہ ان کو کسی قسم کا خطرہ کبھی دامن گیر نہ ہوا۔
خانِ دَوران خان
اغلباً بہادر شاہ کے زمانہ میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ اُن کے ابتدائی مناصب کا علم نہیں۔ جب فرخ سیر جہاندار شاہ سے لڑنے آیا۔ اُس وقت خانِ دَوران کا منصب پنج ہزاری تھا۔ معز الدین جہاندار شاہ نے اُس وقت خانِ دَوران کا منصب بڑھا کر ہفت ہزاری بنا دیا نیز جب تک وہ پنج ہزاری تھے۔ اُس وقت تک وہ اپنے اصلی نام ہی سے یاد کئے جاتے تھے۔ مگر ہفت ہزاری ہونے کے ساتھ ہی اُن کو خانِ دَوران کا خطاب دیا گیا۔
میرا خیال یہ ہے کہ چونکہ اُن کے نانا جو ابھی زندہ تھے اور ان کو خانِ جہان کا خطاب تھا اس لئے اسی مناسبت سے اُن کو خانِ دَوران کا خطاب دیا گیا اور اپنے شاہزادے کا بھی اُن کو مربی تجویز کیا اور تمام فوج اور توپ خانے کا اختیار دیا گیا۔ ۷؎
اگرچہ خان جہان مر گیا۔ مگر خانِ دَوران کا ڈنکہ بدستور بجتا رہا۔ خانِ دَوران خان متعدد لڑائیوں میں لڑتا رہا۔ مگر جہاندار شاہ کو شکست ہوئی اور اس شکست کا اصل سبب بدنظمی اور افسران کی بد اعتمادی تھی۔ اس کے نتیجہ میں فرخ سیر بادشاہ ہو گیا۔فرخ سیر نے اپنے وفاداروں کو نئے منصب اور خطابات دیئے۔ چنانچہ سیّد عبداللہ خان قطب الملک یار وفادار ظفر جنگ کا خطاب ملا۔ ہفت ہزاری ہفت ہزار سوار، دواسپہ سہ اسپہ کا منصب اور وزارت عظمیٰ دی گئی۔ سیّد حسین علی خان کو امیر الامراء بہادر فیروز جنگ ہفت ہزاری ہفت ہزار سوار کا منصب اور میر بخشی محمد امین خان کو اعتماد الدولہ کا خطاب ہزاری ہزار کا منصب نظام الملک فتح جنگ کا خطاب اور دکن کا صوبہ دار مقرر کیا۔
قاضی عبد اللہ تورانی کو خانخاناں میر جملہ کا خطاب، ہفت ہزاری اور ہفت ہزار سوار کا منصب ملا۔ ۸؎
اس سلسلہ میں جہاندار شاہ کے مقربین نے بھی کسی نہ کسی طرح عذر معذرت کر کے رسوخ حاصل کیا۔ چنانچہ نواب خانِ دَوران کو صمصام الدولہ خانِ دَوران کا خطاب عطا ہوا اور منصب ہفت ہزار شش ہزار سوار عطا ہوا۔ ۹؎
فرخ سیر کے زمانے میں بھی صمصام الدولہ نواب خانِ دَوران خان کا ستارہ عروج پر چڑھتا چلا گیا۔ بادشاہ کے مزاج میں اُن کو بڑا دخل ہوا۔ ۱۱۴۹ہجری ۸/ذیقعدہ بروز یک شنبہ کا تقرر باجی رائو مرہٹہ کی سرکوبی کیلئے ہوا اس وقت ان کے خطابات میں مزید اضافہ ہو چکا تھا اور وہ امیرالامراء اور منصور جنگ کے گراں قدر خطابات کے حامل ہو چکے تھے اور اب ان کا نامِ نامی اس طرح لکھا جاتا تھا۔ امیر الامراء صمصام الدولہ خانِ دَوران خان بہادر، منصور جنگ اس وقت نواب خانِ دَوران کی یہ عظمت تھی کہ وہ بادشاہ کے علم کے بغیر گورنروں تک کے عزل و نصب کے احکام جاری کر دیتے تھے۔ ۱۰؎
امیر الامراء کے معاصرین
امیر الامراء کا لقب معمولی لقب نہ تھا اور یہ ہر کس و ناکس کو نہیں دیا جاتا تھا۔ قطب الملک، نظام الملک، آصف جاہ اوّل جیسے بڑے بڑے عمائدین نواب خانِ دَوران کے معاصرین میں سے تھے۔ اس زمانہ میں نواب روشن الدولہ رستم جنگ بھی ان کے معاصرین میں تھے جو خواجہ میر درد کے بزرگوں میں سے تھے۔ نواب روشن الدولہ کا تذکرہ مَیں پہلے کر چکا ہوں۔ مگر یہاں صمصام الدولہ کے ذکر کے ساتھ اس قدر ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ نواب روشن الدولہ افسر خزانہ تھے۔ کابل کے محاصیل جو بارہ لاکھ سالانہ تھے اُنہی کے پاس آتے تھے۔نواب روشن الدولہ کے گرانے کیلئے ان کے دشمن سازشیں کرتے رہتے تھے۔ آخر فرخ سیر کے دل میں بھی شک پیدا ہوا تو اس نے روشن الدولہ سے چارج لینے کا کام بھی صمصام الدولہ کے سپرد کیا اور اس طرح روشن الدولہ کے بعد اُن کو افسر خزانہ اور افسر محاصیل افغانستان بھی مقرر کر دیا گیا۔ ۱۱؎
فخر الدولہ صوبہ دار عظیم آباد پٹنہ
فخر الدولہ جو نواب روشن الدولہ رستم جنگ کا حقیقی بھائی تھا، بھی حکومت مغلیّہ میں بڑا بااثر شخص تھا۔ وہ صوبہ عظیم آباد پٹنہ کا گورنر تھا۔ اس زمانہ کی گورنری ایک مطلق العنان بادشاہ سے کم نہ ہوتی تھی۔ ایک دفعہ جب کہ وہ اپنے علاقہ حکومت سے آیا ہوا تھا اس نے خواجہ معتصم سے کوئی ایسا سلوک کیا جو اُسے ناگوار گزرا۔ خواجہ معتصم ایک باشان و شوکت انسان تھا۔ مگر وہ فقراء اور مشائخ کے رنگ میں رنگین تھا۔ یہ نواب صمصام الدولہ کا بھائی تھا۔ اس نے اپنے بھائی صمصام الدولہ سے اس بے ادبی کا ذکر کیا جسے سن کر صمصام الدولہ اس قدر برہم ہوا کہ فخر الدولہ کو وہاں سے بدل دیا گیا۔ ۱۲؎
اس سے بآسانی اِس امر کا پتہ چل سکتا ہے کہ اُس وقت صمصام الدولہ کی کیا طاقت تھی اور اُسے بادشاہ کی طبیعت میں کس قدر دخل تھا۔
مظفر خان میر آتشی
۱۱۳۸ ہجری میں مظفر خان صاحب جو نواب خانِ دَوران کے بھائی تھے کو میر آتشی یعنی بارود خانہ کی افسری کا عہدہ سرفراز کیا گیا۔ ۱۳؎ ۱۱۴۶ ہجری میں مرہٹوں نے گجرات اور مالوہ کے صوبوں کو تسخیر کر لیا تھا۔ اُن کی سرکوبی کیلئے مظفر خان میر آتشی کو بھیجا گیا۔ بائیس امیر مع سپاہ کے ساتھ تھے۔ مگر مرہٹوں نے کسی جگہ مظفر خان کے لشکر سے جنگ نہ کی۔ ۱۴؎ بالآخر اس فتنہ کی سرکوبی کیلئے ۷/ذیقعدہ ۱۱۴۹ہجری میں صمصام الدولہ خود تیس چالیس ہزار سوار مع توپ خانہ کے گئے اور ہندوستان کے بعض عمدہ راجے بھی ہمراہ تھے۔ بادشاہ کے حضور صمصام الدولہ کی اس قدر عزت تھی کہ اس کی مرضی کے خلاف کسی کی بات نہ سنتا تھا اور جو بادشاہ کے دل میں آتا، اُسے لکھ بھیجا کرتا تھا۔ ۱۵؎
محمد شاہ کا زمانہ
فرخ سیر کا زمانہ بھی گذر گیا۔ اب محمد شاہ کا زمانہ آ گیا۔ مگر نواب خانِ دَوران ابھی تک بدستور کمانڈر انچیف افواجِ مغلیّہ تھا۔ محمد شاہ بھی اُن کی ہر ایک بات مانتا تھا۔ حتیّٰ کہ نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کر دیا۔ تاریخ کی عام کتابوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نادر شاہ کا مقابلہ کرنال کے قریب خانِ دَوران خان سے ہوا مگر ایک کتاب جس کا نام ہی نادر شاہ ہے اور ۱۷۴۳ء میں لنڈن میں طبع ہوئی تھی اور اب بالکل نادر ہے اس کا ایک نسخہ مَیں نے جناب مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب ریٹائرڈ جج ہائی کورٹ حیدرآباد دکن کی لائبریری میں دیکھاتھا جس میں لکھا ہوا ہے کہ خانِ دَوران نے نادر شاہ کا دو دفعہ مقابلہ کیا۔ ایک تو جب کہ وہ کابل سے گزر کر ہندوستان میں داخل ہو رہا تھا۔ اٹک میں اس سے جنگ ہوئی مگر خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی۔
دوسرے جب نادر خان دہلی کے قریب آ گیا تو خانِ دَوران خان اپنے دو بیٹوں سمیت کرنال کے قریب اس سے لڑنے کیلئے نکلا۔ دہلی کے تمام عمائدین اُس وقت اپنے حوصلے ہار چکے تھے۔ اطلاع آئی کہ چند قزلباش برہان الملک کے ڈیروں پر ہاتھ مار گئے۔ یہ سن کر برہان الملک تلوار ٹیک کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ:
’’صاحب اب کونسی بات باقی ہے جس کا انتظار کیا جائے‘‘
اُسی وقت فوج لے کر لڑنے کو روانہ ہوا۔ نواب خانِ دَوران نے اس واقعہ کی اطلاع بادشاہ کو دی۔ انہوں نے آصف جاہ اوّل کو خبر کی۔ آصف جاہ نے کہا پہر دن باقی ہے۔ اس لئے برہان الملک کو روکنا چاہئے کیونکہ اُن کا لشکر منزلیں مارتا ہوا آیا ہے۔ اس وقت بے موقع جرأت کرنی مناسب نہیں۔ کل توپخانہ سامنے رکھ کر اور سب لشکر کو ترتیب دے کر بندوبست سے لڑیں۔ بادشاہ نے یہی بات خانِ دَوران کو کہلا بھیجی۔ خانِ دَوران سنتے ہی بِگڑ کر اُٹھ بیٹھا اور کہا کہ بڑے حیف کی بات ہے۔ ایسا جوانمرد سردار آقا کے نمک پر نثار ہونے جائے اور ہم پہلو میں بیٹھے اس کے مرنے کا تماشا دیکھا کریں۔ اُسی وقت ہاتھی پر سوار ہو کر فوج لے کر روانہ ہوا۔ نادر خان کی فوج سے جنگ ہوئی۔ خانِ دَوران زخمی ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں تمام ڈیرے خیمے لٹ گئے۔ بادشاہ کو خبر ہوئی تو بادشاہ کی طرف سے خواجہ سراء آئے اور آصف جاہ وغیرہ امراء عیادت کو آئے۔ خانِ دَوران خان نے آنکھ کھولی اور کہا:
’’ہم نے تو اپنا کام کر لیا۔ اب تم جانو اور تمہارا کام۔ مگر کہتے ہیں کہ بادشاہ کو نادر کے پاس اور نادر کو شہر میں نہ لے جانا‘‘۔ ۱۶؎
سیرالمتاخرین کے مصنف نے اس سارے واقعہ پر اس قدر اضافہ کیا ہے کہ اُس کا بھائی مظفر خان اور اُس کا بڑا لڑکا بھی اس جنگ میں تھا۔ ملاحظہ ہو صفحہ۱۰۷ جلد۲ نادر شاہ مطبوعہ لنڈن میں خانِ دَوران خان کے دو لڑکوں کا ذکر ہے۔
تاریخ اسلام مصنفہ ذاکر حسین جعفر مطبوعہ ۱۳۴۴ ہجری نے صفحہ۱۴۹ میں لکھا ہے کہ نادر شاہ سے صمصام الدولہ کی فوجوں کی جنگ ۱۷۳۹ء میں کرنال پر ہوئی۔ یہ مختصر سے واقعات اُن لمبے واقعات سے لئے گئے ہیں تا کہ یہ بتلایا جا سکے کہ نواب خانِ دَوران اپنے زمانہ میںکس پایہ کے آدمی تھے۔ وہ فوج کے افسر اعلیٰ تھے۔ وہ خزانہ کے افسر اعلیٰ تھے۔ ان کا سارا خاندان نانا، بھائی، بیٹے وغیرہ فوج میں سربرآوردہ عہدوں پر فائز تھے۔ وہ ہر وقت حکومت وقت کے لئے فدا کارانہ جذبہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر سلطنت کی مضبوطی کی کوشش کی۔ اُن کے دروازوں پر ہاتھی جھومتے تھے۔ سونے چاندی کی نہریں اُن کے محلات میں بہا کرتی تھیں۔ نوکر چاکر، خدم حشم سب کچھ موجود تھا اور کسی چیز کی کمی نہ تھی۔
معلوم ہوتا ہے کہ نواب خانِ دَوران کے دو ہی بیٹے تھے۔ بڑے کا نام قمر الدین خان تھا جو محمد شاہ کا وزیر اعظم تھا اور چھوٹے کا نام احتشام علی خان تھا جو شاہی محلات کا داروغہ تھا۔ احتشام علی خان کا ذکر مسٹر جیمس فریزر نے اپنی کتاب موسومہ نادر شاہ میں احتشام خان کے نام سے کیا ہے اور امیر الامراء کا خطاب جو اُس وقت سلطنت کے سب سے بڑے آدمی کو حاصل تھا، اس خاندان سے نکل کر نواب آصف جاہ اوّل کی طرف منتقل ہو گیا اور بالآخر یہ خطاب ہی سلطنت کی تباہی کا باعث ہوا۔ بُرہان الملک کو امید تھی کہ یہ خطاب مجھے ملے گا۔ مگر جب آصف جاہ اوّل کو مل گیا تو برہان الملک نے وہ کچھ کیا جو غدّاری کے مفہوم میں داخل ہو گیا۔
آخری واقعہ نواب خانِ دَوران کا اس شجاعت اور بہادری کا ثبوت دیتا ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ اس کی غیرت نے پسند نہ کیا کہ وہ برہان الملک کی فوج کو موت کے منہ میں جھونک دے۔ وہ خود مٹ گیا مگر اپنے خون سے تاریخ میں یہ ثبت کر گیا۔
ثبت است برجریدۂ عالَم دوامِ ما
صمصام الدولہ دن کو ایک بہادر سپاہی تھا اور رات کو اس کی مجلس میں علماء حکماء، شعراء جمع ہوا کرتے تھے۔ وہ خود بھی شعر و شاعری کا ذوق رکھتے تھے۔ ایک دفعہ فرخ سیر بادشاہ کے سامنے آئینہ تھا اور وہ بار بار آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھتے تھے۔ نواب خانِ دَوران خان نے فی البدیہہ ایک غزل کہی جس کا مطلع ہے۔
سحر خورشید لرزاں برسہ کوئے تو می آید
دلِ آئینہ را نازم کہ بر روئے تو می آید
الغرض اس طرح امیر الامراء صمصام الدولہ نواب خانِ دَوران بہادر میر بخشی منصور جنگ ایک لمبی مدت تک اپنی حکومت، اپنی صولت و جاہ اپنی شوکت و طاقت و حکومت کا چار دانگِ عالم میں دُہل بجوا کر ۱۱۵۰ہجری راہے ملکِ بقا ہوئے۔ دہلی میں اُن کی یادگا ایک شاندار مسجد ہے۔ اُسی کے ایک پہلو میں اُن کا مرقد بنا ہوا ہے۔ رہے نام اللہ کا۔
میر ہاشم علی صاحب
مَیں لکھ چکا ہوں کہ نواب خانِ دَوران نادر شاہ کی جنگ میں مار ے گئے اُن کے ساتھ اُن کے بھائی مظفر خان اور اُن کے دو بیٹے بھی اس جنگ میں لڑ رہے تھے۔ جن میں سے بڑے کا نام قمر الدین خان اور چھوٹے کا نام احتشام علی خان تھا۔ احتشام علی خان کے بیٹے میر ہاشم علی خان تھے… میر ہاشم علی صاحب غالباً کسی سرکاری منصب پر نہ تھے۔ باپ دادا کی جائیداد اُن کے گزارے کیلئے کافی ہوئی۔ غدر ۵۷ء میں اُن کی عمر اسّی سال کی ہو چکی تھی اور حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے کہ:
’’دادا اسّی سالہ ضعیف تھے اور کچھ جائیداد بھی نہ رکھتے تھے اور جو جائیداد تھی وہ ہمارے خاندان سے جا چکی تھی‘‘۔ ۱۷؎
میر ہاشم علی صاحب کی اولاد
میر ہاشم علی صاحب کے ایک صاحبزادے تھے جن کا نام خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب تھا۔ خواجہ سیّد ناصر امیر کی والدہ بی نصیرہ بیگم صاحبہ تھیں جو شاہ محمد نصیر صاحب رنج کی بیٹی تھیں۔ بی نصیرہ بیگم کے بطن اور میر ہاشم علی صاحب کی صُلب سے ایک صاحبزادی فرحت النساء بیگم اور ایک صاحبزادے یعنی سیّد ناصر امیر صاحب پیدا ہوئے۔ فرحت النساء بیگم کی شادی حافظ منیرالدین صاحب سے ہوئی جو قصبہ جلیسر میں رہتے تھے۔ اُن کے بطن سے دو بیٹے پیدا ہوئے۔ جن کا نام حاجی کبیر الدین احمد صاحب اور پیر جی بشیر الدین احمد صاحب ہے۔ یہ پیری مریدی کا سلسلہ رکھتے ہیں۔ اِن دونو حضرات کا بفضلہ سلسلہ نسل چل رہا ہے۔
سیّد ناصر امیر صاحب
سیّد ناصر امیر صاحب بن میر ہاشم علی صاحب کے جوان ہونے پر اُن کی پہلی شادی میر بھکاری صاحب کی دختر سعیدہ بیگم صاحبہ سے ہوئی۔ یہ سعیدہ بیگم صاحبہ خواجہ محمد نصیر صاحب رنج کے نواسہ کی بیٹی تھیں۔ اُن کے بطن سے ایک لڑکا سیّد ناصر وزیر پیدا ہوا۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے دوسری شادی میر شفیع احمد صاحب ساکن فراشخانہ کی دختر بلند اختر سے کی۔ اُن کا نام بی روشن آراء بیگم صاحبہ تھا۔ بی روشن آراء بیگم کے متعلق خاندان کے تمام افراد یہی بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے نام کی طرح روشن آراء ہی تھیں۔ وہ بڑی بزرگ اور مقدسہ خاتون تھیں۔ بڑی نیک بخت اور عبادت گذار تھیں۔ اُن کے بطن سے ایک صاحبزادے جو ہمارے واجب الاحترام بزرگ ہوئے، پیدا ہوئے۔ یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ۔ ان کی دو ہمشیرگان بھی تھیں۔ ایک کا نام رفعت النساء بیگم صاحبہ تھا جن کی شادی حافظ منیر الدین صاحب کے صاحبزادے پیر جی بشیر الدین صاحب سے قصبہ جلیسر میں ہوئی اور دوسری صاحبزادی کا نام بی انجمن آراء بیگم صاحبہ تھا۔ اُن کی شادی مولوی محمد یوسف صاحب بن مولوی عبدالقیوم صاحب سے ہوئی جو شاہ محمد اسحاق صاحب محدث کے نواسے تھے اور بھوپال میں سکونت پذیر تھے۔
خواجہ ناصر امیر صاحب کی سجادہ نشینی
جب خواجہ سیّد محمد نصیر صاحب کی وفات ہوگئی تو مسئلہ سجادہ نشینی بہت پیچیدہ ہو گیا۔ خواجہ سیّد محمد نصیر صاحب کے بیٹے مولوی سیّد ناصر جان اُن کی زندگی میں ہی فوت ہوگئے تھے۔ بالآخر تمام مشائخ بارہ دری میں جمع ہوئے اور مشورے کے بعد طَے ہوا کہ بی امانی بیگم صاحبہ کیونکہ امانی بیگم صاحبہ خواجہ صاحب میر کی بیٹی اورخواجہ میر درد صاحب کی پوتی تھیں۔ ان سے استصواب کیا گیا۔ یہ مولوی سیّد ناصر جان کی بیوہ تھیں۔ انہوں نے کہا کہ :
’’جس رُتبہ کے بزرگ خواجہ میر درد صاحب، خواجہ میر اثر صاحب اور میرے والد خواجہ صاحب میر صاحب تھے۔ ویسا تو اب خاندان میں مجھے کوئی نظر نہیں آتا۔ میرے شوہر تھے وہ تو رحلت کر گئے ہیں۔ اس لئے میرے نزدیک میاں ناصر امیر خواجہ محمد نصیر صاحب کے نواسہ کو گدی پر بٹھا دیا جائے‘‘۔
چنانچہ اس مشورے کے ماتحت سب مشائخ نے سیّد ناصر امیر صاحب کو سجادہ نشین تسلیم کر لیا۔ اس طرح خواجہ محمد ناصر کے گھر میں جو نور آیا تھا وہ منتقل ہو کر منشاء الٰہی کے ماتحت سیّد ناصر امیر صاحب کے گھر میں آ گیا۔
سیّد ناصر امیر صاحب کی گدی نشینی کی مخالفت
شاہ محمد نصیر صاحب کی ایک اور بیوی تھیں۔ جن کے بطن سے دو لڑکیاں پیدا ہوئیں جن کا نام تھا انجمن النساء اور اشرف النساء۔ انجمن النساء صاحبہ کی شادی حکیم مومن خان صاحب مشہور شاعر سے ہوئی۔ چونکہ حکیم مومن صاحب شاہ محمد نصیر صاحب کے داماد تھے اس لئے اُن کو سیّد ناصر امیر صاحب کی سجادہ نشینی سخت ناگوار گزری۔ ان کاخیال تھا کہ وہ شاہ محمد نصیر صاحب کی جگہ گدی نشین ہوتے۔ مگر وہ خود بھی اپنے آپ کو اس کا اہل خیال نہ کرتے تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے ہم زلف مولوی سیّد یوسف علی صاحب مدراسی کو آمادہ کیا۔ جمعہ کے دن ان کے گلے میں کفنی ڈالی اور ایک ناصری اُن کے کندھے پر رکھی جو خواجہ میر درد کے خاندان کی خاص علامت ہے اور اُن کو جامعہ مسجد میں لے گئے۔ جمہور مسلمانوں سے کہا گیا کہ یہ خواجہ محمد نصیر صاحب کی جگہ گدی نشین ہوئے ہیں۔ مگر دلی کے لوگ ان کی طرف ذرا بھی متوجہ نہ ہوئے اور یہ جادو بھی نہ چل سکا۔ ۱۸؎
اس ناکامی کے بعد حکیم مومن نے اپنی بیوی اور سالی کی طرف سے یہ دعویٰ کر دیا کہ بارہ دری اور اس کے متعلق تمام جائیداد ہماری ہے۔ اس مقدمہ بازی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بارہ دری اور حجرہ یعنی خواجہ میر درد کا عبادت خانہ تو وقف ہو کر دعویٰ سے مستثنیٰ ہو گیا اور باقی جائیداد کا دعویٰ خارج ہو گیا کہ یہ تمام جائیداد خواجہ محمد نصیر کی نہیں بلکہ خواجہ میر درد کی متروکہ ہے البتہ خواجہ محمد نصیر صاحب کا چوتھائی حصہ تسلیم کیا گیا۔ اس مقدمہ بازی کا یہ نتیجہ ہوا کہ حکیم مومن کی بیوی اور سالی کے مکانات مصارف مقدمہ میں بِک گئے۔
اب چوتھائی حصہ کے لئے پھر دعویٰ ہوا۔ اس میں مومن خان کو کامیابی ہوئی۔ خاندان کی جائیداد اِس مقدمہ میں تباہ ہو گئی۔ کئی مکانات نیلام ہو گئے اور اس طرح اس جائیداد کو تباہ و برباد کر دیا گیا۔
ناصری گنج کی طرف نظر
اب ان کی آنکھوں کے سامنے صرف ناصری گنج کی جائیداد تھی اس کے لئے مومن خان صاحب نے مولوی یوسف علی صاحب کو ناصری گنج بھیجا تا کہ میر عبدالناصر صاحب پر نالش کر کے وہاں چوتھا حصہ وصول کیا جائے۔ مگر میر عبدالناصر صاحب نے پہلے ہی بائیس کے بائیس گائوں اپنی بیوی کے نام مہر پر لکھ دیئے تھے۔ اس لئے وہاں جانا سوائے زیر باری کے اور کوئی نتیجہ پیدا نہ کر سکا۔ ہاں اس چھیڑ چھاڑ کا یہ نتیجہ ہوا کہ میر عبدالناصر صاحب جو روپیہ بی امانی بیگم صاحبہ اور دیگر حقداروں کو بھیجا کرتے تھے وہ بھی بندکر دیا اس لئے ان سب متعلقین کو تکلیف ہو گئی۔ اسی سلسلہ میں خواجہ ناصر امیر صاحب بھی ناصری گنج تشریف لے گئے تا کہ نالش کر کے اپنے حقوق حاصل کریں۔ مگر قضاء الٰہی کے ماتحت وہ ۱۶/ذوالحجہ ۱۲۷۰ ہجری مطابق ۱۰/ستمبر ۱۸۵۴ء کو مرض ہیضہ میں مبتلا ہو کر فوت ہو گئے۔
خواجہ سیّد ناصر وزیر صاحب
خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب کی وفات کے بعد بی امانی بیگم کے مشورے سے سیّد ناصر امیر کے بڑے بیٹے ناصر وزیر صاحب کو گدی نشین کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنے طریقہ محمدیہ کے علاوہ طریقہ مجددیہ نقشبندیہ اور سہروردیہ اور قادریہ کو بھی حاصل کیا۔ فقہ حدیث بھی پڑھی۔ خط نسخ، نستعلیق، شفیعہ، شکستہ و خط ناخن وغیرہ میں کمال حاصل کیا۔ مسجد میر درد کی تجدید کرائی۔ آپ نے عرسوں وغیرہ کو خوب ترقی دی۔ آپ ۱۲۹۸ ہجری ماہ شعبان میں حج سے واپس آ کر مرض اسہال کی وجہ سے فوت ہوگئے۔ سیّد ناصر وزیر کی شادی نواب امین الدین خان صاحب جاگیر دار لوہارو کی صاحبزادی سے ہوئی تھی۔
آپ کی اولاد
آپ کے تین لڑکے پیدا ہوئے۔ جن کے حسب ذیل نام ہیں۔
سیّد ناصر خلیل عرف کلن، سیّد ناصر سعید عرف ابن، چھوٹے کا نام سیّد ناصر وحید تھا۔ یہ تینوں اصحاب بھی فوت ہوچکے ہیں۔ البتہ سیّد ناصر خلیل صاحب کے بیٹے سیّد ناصر جلیل صاحب گلبرگہ دکن میں ملازم ہیں اور صاحب اولاد ہیں۔
سیّد ناصر وزیر صاحب کی تین صاحبزادیاں تھیں۔ بڑی لڑکی جناب محی الدین صاحب کو بیاہی گئیں۔ وہ خود فوت ہو گئی ہیں۔ اُن کی اولاد موجود ہے۔ دوسری لڑکی مومن خان کے نواسہ سے بیاہی گئیں۔ یہ بھی صاحبِ اولاد ہیں۔ تیسری لڑکی کی شادی میرزا محمد سعید بیگ صاحب بن میرزا مہر علی بیگ صاحب ساکن کوچہ پنڈت دہلی سے ہوئی۔ ان کے بطن سے ایک لڑکی اور دو لڑکے پیدا ہوئے۔
آخری انجام
خواجہ ناصر وزیر کی وفات کے بعد خواجہ ناصر خلیل اور ناصر سعید میں جھگڑا ہو گیا۔ اس جھگڑے کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواجہ میر درد صاحب کا عبادتخانہ جسے حجرہ کہتے تھے بِک گیا اور بارہ دری جو عبادت خانہ کے ساتھ وقف تھی مکان مسکونہ بنا لی گئی اور اس طرح مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کے ساتھ ہی وہ ظاہری آثار بھی گم ہو گئے اور اب اس بارہ دری میں ناصر سعید صاحب کی اولاد رہتی ہے۔ یہ حالات دیدۂ بینا کے لئے بہت کچھ حقائق اور بصیرت افروز امور اپنے اندر لئے ہوئے ہیں۔ کس شان و شوکت سے جس چیز کا آغاز ہوا تھا کیسا بھیانک اس کا انجام ہوا۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ اس خاندان کے لئے یہی مقدر تھا کہ اس کی روشنی اس نیر اعظم میں جس کا نام مسیح موعود علیہ السلام ہے گم ہو جائے گی۔ کاش! دنیا سمجھے اور سوچے اور عبرت پکڑے۔ خواجہ میر درد صاحب کی درگاہ کے ساتھ ایک بڑی شاندار باغیچی تھی یہیں اُن کا قبرستان بھی تھا اور عید گاہ بھی تھی۔ خواجہ میر درد اسی جگہ عید پڑھنے جایا کرتے تھے۔ قبرستان میں عام مسلمانوںکے مُردے بھی دفن ہوتے تھے۔ باغیچی سَو سال تک خوب بہار اور رونق پر رہی۔ ایک چلّہ خانہ بھی یہاں تھا جہاں صوفی لوگ چلّہ کشی کرتے تھے۔ اسی چلّہ خانہ کے اوپر بارہ دری بنی ہوئی تھی اس ساری زمین کو بڑی رونق تھی۔ لاکھوں بندگانِ خدا آتے تھے۔ ذکرِ الٰہی ہوتا تھا بادشاہ، امراء حاضر ہوتے تھے۔ مگر آج یہ سب کچھ ویران ہے۔ درخت کلہاڑوں اور آروں کی نظر ہوگئے۔ قبروں پر گائے، بیل چرنے لگے اور وہاں نہ کوئی عمارت رہی اور نہ کوئی رونق اور نہ درخت۔ وحشت اور ویرانگی چھا گئی۔ وہ محفلیں جو کل نظر آتی تھیں۔ آج اُن کی خاک اُڑتی بھی نظر نہیں آتی۔ یہ سب کیوں ہوا؟ تا کہ الٰہی نوشتے پورے ہوں۔ حضرت میر درد کا اپنا ایک شعر ہے جو اس ساری حالت پر گویا بطور پیشگوئی کہا گیا تھا خوب صادق آتا ہے۔ فرماتے ہیں۔
گُزروں ہوں جس خرابہ پہ کہتے ہیں واں کے لوگ
ہے کوئی دِن کی بات یہ گھر تھا وہ باغ تھا ۱۹؎
حوالہ جات
۱؎ تاریخ ہند صفحہ۹۹، سیر المتاخرین صفحہ ۵۵
۲؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ ۳۸
۳؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۴۹
۴؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۱
۵؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۲
۶؎ تسیر المتاخرین صفحہ۵۳
۷؎ تاریخ ہند صفحہ۹۴، ۹۵ مصنفہ ذکاء اللہ، سیر المتاخرین صفحہ۳۸
۸؎ تاریخ ہند صفحہ۱۰۸ مصنفہ ذکاء اللہ جلد دہم۔ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۵
۹؎ سیر المتاخرین طبع اوّل صفحہ۵۵
۱۰؎ سیر المتاخرین صفحہ ۱۶ جلد۲
۱۱؎ تاریخ ہند جلد دہم مصنفہ ذکاء اللہ صفحہ۲۲۵
۱۲؎ سیر المتاخرین صفحہ۱۲ جلد۲
۱۳؎ تاریخ ہند جلد دہم مصنفہ ذکاء اللہ صفحہ۳۵
۱۴؎ تاریخ ہند صفحہ ۲۳۶
۱۵؎ تاریخ ہند صفحہ ۲۴۱
۱۶؎ سیر المتاخرین صفحہ۲۴۳۔ تاریخ ہند جلد دہم صفحہ۲۵۴
۱۷؎ حیات ناصر صفحہ۳
۱۸؎ میخانہ درد صفحہ۲۰۶
۱۹؎ میخانہ درد صفحہ۲۴۲
حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت میر ناصر نواب صاحب
اب ہم اس بزرگ انسان کا ذکر کرتے ہیں جس کا وجود ان تمام برکتوں کا جامع تھا جو ایک طرف خواجہ میردرد کے گھرانے کو حاصل تھیںاور دوسری طرف خواجہ علائو الدین عطارؒ نقشبندی کے گھرانے کو حاصل تھیں یہ وہی بزرگ انسان تھا جس کے لئے مقدر تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جری اللہ فی حلل الانبیاء کا خسر کہلائے اور جس کی بیٹی کے لئے مقدر تھا کہ وہ رسول کریم ﷺ کی بعثتِ ثانیہ میں مومنوں کی ماں کہلائے۔ یہی وہ خاتون تھی جسے میں نے بخارا سے آنے والی امانت قرار دیا تھا۔ جس کو ہندوستان میں لانے کے لئے جہاں مسیح موعود ؑ نے پیدا ہونا تھا یہ خاندان جو محمدیین کا خاندان کہلایا ہندوستان ہجرت کر کے آیا تھا۔
حضرت میر ناصر نواب میر ناصر امیر صاحب کے دوسرے بیٹے تھے اور دوسری بیوی محترمہ روشن آراء بیگم کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ حضرت میرناصر نواب صاحب کے سن پیدائش کا صحیح علم نہیں ۔ البتہ ایک قیاسی حساب کی رو سے ۱۸۴۶ء آپ کا سن پیدائش بنتا ہے اور وہ قیاسی حساب یہ ہے کہ غدر ۱۸۵۷ء حضرت میر صاحب نے دیکھا تھا غدر کے بعد جب آپ کی عمر ۱۶ سال کی ہوئی تو اس وقت آپ کی شادی ہوئی۔ اس لحاظ سے اگر غدر کا زمانہ چار سال قبل کا رکھا جائے تو ان کو ۱۴ سال کی عمر میں غدر کا حادثہ پیش آیا اور دو سال بعد شادی قرار دی جائے تو سولہ سال کی عمر بن جاتی ہے۔ اس لحاظ سے ۱۸۴۵ء یا ۱۸۴۶ء کے قریب کا زمانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایک دوسرا قرینہ حضرت میر صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے:
’’ایک زمانہ آیا کہ میں پیدا ہوا اور دہلی شہر میں جنم لیا۔ خواجہ میردرد صاحب علیہ الرحمۃ کے گھرانے میں پیدا ہو کر نشوونما پایا اور ان کی بارہ دری میں کھیل کود کر بڑا ہوا ۔ان کی مسجد میں پڑھا کرتا تھا۔ ماں باپ کے سایہ میں پرورش پا رہا تھا۔ کوئی فکرواندیشہ دامن گیر نہ تھا کہ ناگہان میرے حال میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی۔ جس کا بظاہر کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ اتفاقاً میرے والد ماجد کسی کام کے لئے بنارس تشریف لے گئے اور شاہ آباد آرہ میں ہیضہ سے ان کا انتقال ہو گیا اور میں مع اپنی دو ہمشیرہ کے یتیم رہ گیا۔‘‘ ۱؎
خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب کی وفات ۱۰ ستمبر ۱۸۵۴ء میں ہوئی۔ زمانہ تعلیم کا آغاز چونکہ پانچ چھ سال سے ہوتا ہے۔ اس لئے یہی قیاس لگایا جا سکتا ہے کہ والد کی وفات کے وقت ان کی عمر بارہ تیرہ سال کی ہو گی۔ ان کی وفات سے دو اڑھائی سال بعد غدر ہوا اور غدر کے سال ڈیڑھ سال بعد آپ کی شادی ہوئی تو قرین قیاس یہی ہے کہ ۱۸۴۵ء یا ۱۸۴۶ء کے اندر آپ کی پیدائش ہوئی ہو گی۔ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کے گھر میں سجاد گی تھی۔ آپ کے والد صاحب خواجہ میردرد کی گدی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اگرچہ وہ شان و شوکت تو نہ تھی جو نواب خانِ دوران منصور جنگ کے زمانہ میں تھی۔ مگر تاہم شریفانہ طور پر گھر کا کام چل رہا تھا کیونکہ حضرت میر صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’سامانِ معیشت بظاہر کچھ نہ رہا۔ فقط اللہ ہی کا آسرا تھا۔ دادا صاحب اگرچہ موجود تھے مگر وہ اسی سالہ ضعیف تھے اور کچھ جائیداد بھی نہ رکھتے تھے اور جو جائیداد تھی وہ ہمارے خاندان سے جا چکی تھی اور مفلس محض رہ گئے تھے۔ اس پر ظاہر آراستہ رکھنا بھی ضروری تھا۔‘‘ ۲؎
یہ آخری فقرہ اس وقت کی حالت پر خوب روشنی ڈالتا ہے۔ باوجود دولت و شوکت کے چلے جانے کے بعد خاندان کا رویہ ایسا تھا کہ دیکھنے والے جانتے تھے کہ جس طرح شرفاء اور باحیاء اپنی تکلیف کسی پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے بالکل اسی طرح کسی کو معلوم نہ تھا کہ خاندان کی مالی حالت کیسی ہے۔ایسی حالت میں حضرت میر صاحب کے کنبہ کی کفالت کا بوجھ نانا صاحب میرشفیع احمد صاحب ساکن فراشخانہ نے اُٹھایا۔ حضرت میرصاحب کے دو ماموں تھے بڑے ماموں ڈپٹی کلکٹر انہار تھے اور دوسرے جن کا نام میر ناصر حسین صاحب تھا وہ بھی مادھوپور ضلع گورداسپور میں محکمہ نہر ہی میں ملازم تھے۔ ماموں صاحبان نے اس وقت مدد کی۔
غدر کی مصیبت
ابھی داغ یتیمی کا اثر دور نہیں ہوا تھا کہ ۱۸۵۷ء میں دہلی میں غدر ہو گیا۔ غدر کی داستان بہت طویل ہے وہ اس مختصر کتاب میں نہیں آ سکتی۔ مگر مختصرکیفیت اور وہ بھی حضرت میر صاحب کی زبانی یوں ہے کہ دلّی غدرمیں اُجڑ گئی اور تو اور شاہی خاندان بھی تباہ وبرباد ہو گیا۔ شہزادوں تک کو برسرِعام قتل کر دیا گیا ہر شخص کو اپنی جان و مال کا دغدغہ لگا ہوا تھا۔ دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہو گیا تھا۔ جوں جوں محاصرہ تنگ ہوتا جاتا تھا۔ تو ں توں شہر کی آفت بڑھتی جاتی تھی۔ شہر پر اس قدر گولے پڑتے تھے کہ فصیل اور متصلہ مکانات چھلنی ہو گئے تھے۔ بعض لوگ گولوں سے ہلاک بھی ہوتے جاتے تھے۔ چند ماہ کے محاصرہ کے بعد دلّی انگریزوں نے فتح کر لی اور باغی فوج وہاں سے بھاگ گئی۔ دلّی والوں کی شامت آ گئی۔ کر گیا ڈاڑھی والا۔ پکڑا گیا مونچھوں والا۔ نانی نے خصم کیا اور نواسہ پر جرمانہ ہوا۔ فتح مندوں نے شہر کو برباد کر دیا اور فتح کے شکریہ میں صدہا آدمیوں کو پھانسی چڑھا دیا۔ مجرم اور غیرمجرم میں تمیز نہ تھی چھوٹا بڑا ادنیٰ اعلیٰ برباد ہو گیا سوائے چوہڑے ،چماروں، سقوں وغیرہ کے یا ہندوؤں کے خاص محلوں کے کوئی لوٹ مار سے نہیں بچا۔ ایک طوفان تھا کہ جس میں کچھ نظر نہیں آتا تھا غرضیکہ گہیوں کے ساتھ جَو کا گھن بھی پس گیا۔ شہر کے لوگ ڈر کے مارے شہر سے نکل گئے اور جو نہ نکلے تھے وہ جبراً نکالے گئے اور قتل کئے گئے۔
اس حالت سے یہ معزز خاندان بھی بچ نہ سکا چنانچہ حضرت میر صاحب خود لکھتے ہیں کہ:
’’یہ عاجز بھی ہمراہ اپنے کنبہ کے دلّی دروازہ کی راہ سے باہر گیا چلتے وقت لوگوں نے اپنی عزیز چیزیں جن کو اٹھا سکے ہمراہ لے لیں۔ میری والدہ صاحبہ نے اللہ ان کو جنت نصیب کرے میرے والد کا قرآن شریف جو اب تک میرے پاس ان کی نشانی موجود ہے اٹھا لیا۔ شہر سے نکل کر ہمارا قافلہ سربصحرا چل نکلا اور رفتہ رفتہ قطب صاحب تک جو دلّی سے گیارہ میل پر ایک مشہور خانقاہ ہے جا پہنچا۔ وہاں پہنچ کر ایک دو روز ایک حویلی میں آرام سے بیٹھے رہتے تھے کہ دنیا نے ایک اور نقشہ بدلا۔ یکایک ہڈسن صاحب افسر رسالہ مع مختصر اردل کے قضاء کی طرح ہمارے سر پر آ پہنچے اور دروازہ کھلوا کر ہمارے مَردوں پر بندوقوں کی ایک باڑ ماری اور جس کو گولی نہ لگی اس کو تلوار سے قتل کیا یہ نہیں پوچھا کہ تم کون ہو ہماری طرف کے ہو یا دشمنوں کے طرفدار ہو۔ اسی یک طرفہ لڑائی میں میرے چند عزیز راہی ملک عدم ہو گئے۔ پھر حکم ملا کہ فوراً یہاں سے نکل جاؤ حکم حاکم مرگِ مفاجات ہم سب زن ومرد و بچہ اپنے مُردوں کو بے گوروکفن چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں حیران وپریشان وہاں سے روانہ ہوئے لیکن بہ سبب رات کے اندھیرے اور سخت واژگون کی تیرگی کے رات بھر قطب صاحب کی لاٹ کے گرد طواف کرتے رہے۔ صبح کو معلوم ہوا کہ تیلی کے بَیل کی طرح وہیں کے وہیں ہیں۔ ایک کوس بھی سفر طے نہیں ہوا۔
صبح کو نظام الدین اولیاءؒ کی بستی میں پہنچے اور وہاں رہ کر چند روز اپنے مقتولوں کو روتے رہے۔ زیادہ دقت یہ پیش آئی کہ اب بعض کے پاس کچھ کھانے کو بھی نہ رہا تھاکہ ناگہاں رحمت الٰہی نے دستگیری فرمائی۔ ایک میرے ماموں صاحب محکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے ان کا کنبہ ہم سے پہلے پانی پت میں پہنچ چکا تھا۔ جب ان کو ہماری پریشانی کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو چند چھکڑے دے کر ہمارے لینے کیلئے بھیجا وہ ہم سب کو ان چھکڑوں میں بٹھا کر پانی پت لے گئے وہاں پہنچ کر ذرا ہمیں آرام و اطمینان ملا۔‘‘ ۳؎
اس دردناک واقعہ سے اس کیفیت اور حالات کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ جس میں سے حضرت میر صاحب کو گذرنا پڑا پہلے یتیمی،پھر غدر کے مصائب، آنکھوں کے سامنے عزیزواقارب کا قتل، بھوک پیاس کی شدت، صحرا کی خانہ بدوشی وہ کیا کچھ مصائب نہ تھے جو چھوٹی اور ننھی عمر میں آپ کو برداشت نہ کرنے پڑے۔
ان کی والدہ صاحبہ حضرت روشن آراء بیگم کی نیکی، عفت، پاکیزگی اور خدا سے محبت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے آباد گھر میں سے اگر کوئی چیز اٹھائی تو وہ خدا تعالیٰ کا کلام پاک تھا اس کے سوا ان کو ہر ایک چیز اس محشرستان میں ہیچ نظر آئی۔ یہ تھی وہ ماں جس کا نورِ نظر تھا یہ بزرگ جس کی پشت سے وہ خاتون اعظم پیدا ہونے والی تھی جس کے ذریعہ سے دنیا کے نجات دہندے اور تاریکی کو دور کرنے والے نور پیدا ہونے والے تھے۔ ان حالات میں آپ کی زندگی کا آغاز ہوا۔
تعلیم
تعلیم کا آغاز تو والد صاحب کی زندگی میں گھریلو مکتب میں ہی ہوا۔جب غدر وغیرہ کی طوفانی حالت سے سکون ہوا اور لوگ دلّی واپس آئے تو اس وقت حالت یہ تھی کہ لوگوں نے گھروں کی چوکھٹیں تک اُتار لی تھیں حضرت میر صاحب کے ایک ارشاد کے ماتحت اس وقت آپ کی عمر بارہ سال کی تھی ۔ تو اس لحاظ سے غدر کا واقعہ دس سال کی عمر میں ہوا ہو گا دو اڑھائی سال میں پھر دلی آباد ہوئی اس طرح واپسی کے وقت آپ کی عمر بارہ سال کی ہو جاتی ہے۔ دہلی سے آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کو آپ کے ماموں میر ناصر حسین صاحب کے پاس صوبہ پنجاب میں ضلع گورداسپور کے مقام مادھوپور میں بھیج دیا۔ یہاں حضرت میر صاحب نے کس قدر تعلیمی ترقی کی اس کے متعلق کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ان کو خود اعتراف ہے کہ کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔ آپ کے ماموں رتر چھتر والوں کے مرید تھے اور آپ کے سوتیلے بھائی خود گدی نشین تھے اور ان کی حالت مذہبی ایسی ہو گئی تھی کہ حضرت میر صاحب کا نور ایمان اس کا نام ’’بدعت‘‘ رکھتا تھا اور اس میں شک بھی نہیں کہ وہ طرح طرح کی بدعتوں میں مبتلا ہو چکے تھے اور وہاں بھی وہی قوالیاں اور عرس اور دین سے دور لے جانے والی باتیں ہو رہی تھیں۔ حضرت میر صاحب کا قلب ان بدعتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ اس لئے آپ نے اس چھوٹی سی عمر میں سب امور کا موازنہ کیا اور آپ اہلحدیث ہو گئے اور یہ سب سولہ سال کی عمر سے قبل ہی ہو گا۔
شادی خانہ آبادی
۱۶ سال کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ نے ایک شریف سادات کے خاندان میں آپ کی شادی کر دی۔ حضرت میر صاحب اپنی بیوی سے ہمیشہ خوش رہے۔ اس کا ہم الگ ذکر کریں گے۔ شادی کے بعد آپ نے مولوی عبداللہ غزنوی کی بیعت کر لی اور آپ کے ساتھ ہی آپ کی حرم محترم نے بھی ان کی بیعت کر لی۔
اُس وقت آمدنی کا کوئی خاص انتظام نہ تھا مگر ناصری گنج کے علاقے سے ایک پانچ ہزار کی جائیداد ان کو مل گئی تھی جس کی آمدنی پندرہ روپیہ ماہوار تھی۔
ملازمت
۲۱سال کی عمر میں یعنی ۱۸۶۵ء کے قریب آپ کی والدہ نے آپ کو پھر آپ کے ماموں ناصر حسین صاحب کے پاس بغرض کارآموزی بھیجا۔ وہ اب لاہور میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے آپ کو نقشہ نویسی اور نہر کا کام سکھلا کر آپ کو ۱۸۶۶ء میں محکمہ نہر میں بعہدہ اوورسیر ملازم کر دیا اور آپ کی تعیناتی امرتسر میں ہوئی۔ اسی سلسلہ ملازمت میں آپ کی تبدیلی موضع سٹھیالی اورکاہنووان اور موضع تتلہ میں ہوئی جو متصل قادیان دیہات تھے۔ حضرت میر صاحب محکمہ نہر میں ملازم تھے اور یہ محکمہ جس قدر اپنی رشوت ستانی کی وجہ سے بدنام ہے اسے ہر شخص جانتا ہے۔ مگر حضرت میر صاحب جن پر پچپن ہی سے وہابیت کا رنگ چڑھ گیا تھا۔ وہ کب اس قسم کی حرام دولت کو لے سکتے تھے۔
حضرت عرفانی کبیر نے ان کی سوانح حیاتِ ناصر میں ان کی پاکیزہ زندگی پر لکھتے ہوئے ایک واقعہ لکھا ہے۔ جو ان کی دیانت داری اور پاکیزگی کی شان کو دوبالا کرتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:
’’وہ محکمہ نہر میں ملازم تھے۔ افسران نہر نے ایک قاعدہ کے ماتحت ان سے سَو روپیہ نقد کی ضمانت طلب کی۔ ان کے معاصرین نے زرِضمانت داخل کر دیا مگر میر صاحب نے کہا کہ میرے پاس روپیہ نہیں ہے اور فی الحقیقت نہیں تھا۔جو کام ان کے سپرد تھا (اوورسیری کا) وہ اس میں ہزاروں روپے پیدا کر سکتے تھے اور لوگ کرتے تھے۔ مگر وہ حلال اور حرام میں خدا کے فضل سے امتیاز کرتے تھے اور ان کی ملازمت کا عہد رشوت ستانی کے داغ سے بالکل پاک رہا اور اکل حلال ان کا عام شیوہ تھا۔ غرض انہوں نے صاف کہا کہ میرے پاس روپیہ نہیں دوستوں نے، افسروں نے ہر چند کہا۔ کہ آپ روپیہ کسی سے قرض لیکر داخل کر دیں۔ آپ یہی کہتے رہے کہ میں قرض ادا کہاں سے کروں گا۔ میری ذاتی آمدنی سے قرض ادا نہیں ہو سکتا اور رشوت میں لیتا نہیں۔ آخر ان کو نوٹس دیا گیا کہ یا تو روپیہ داخل کرو ورنہ علیحدہ کئے جاؤ گے۔ انہوں نے عزم کر لیا کہ علیحدگی منظور ہے مگر معاملہ چیف انجنیئرتک پہنچا۔ جب اس نے کاغذات کو دیکھا تو اسے بہت ہی خوشی ہوئی کہ اس کے محکمہ میں ایسا امین موجود ہے۔ وہ جانتا تھا کہ سب اوورسیر ہزاروں روپیہ کما لیتے ہیں۔ جو شخص ایک سَو روپیہ داخل نہیں کر سکتا اور اسے علم ہے کہ اس عدم ادخال کا نتیجہ ملازمت سے علیحدگی ہے قرض بھی نہیں لیتا کہ اس کے ادا کرنے کا ذریعہ اس کے پاس نہیں۔ وہ یقینا امین ہے اور میر صاحب کو ادخالِ ضمانت سے اس نے مثتثنیٰ کر دیا۔ یہ تھا اثر ان کی دیانتداری اور راستبازی کا تمام محکمہ کو اس پر حیرت تھی۔‘‘ ۴؎
اس واقعہ سے حضرت میر صاحب کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ ان کی راستبازی،دیانت،ادائے فرض کا فکر، عہدکی پابندی، یہ سب امور اس واقعہ سے ظاہر ہوتے ہیں اور یہی ہیں جن حالات میں سے حضرت میر صاحب گزرے تھے۔ ان کا عام تقاضا یہی تھا کہ وہ ایک تکلیف کی حالت میں سے گزرے ہوئے شخص کی طرح دولت جمع کرنے کے درپے ہو جاتے۔ مگر ان کا کیریکٹر اس قدر مضبوط تھا کہ انہوں نے اپنے لئے کبھی یہ پسند نہ کیا کہ وہ اکلِ حرام کا تر لقمہ قبول کریں۔ ان کی زندگی میں جس قدر غذا اُن کے جسم میں داخل ہوئی وہ سب حلال اور طیب تھی اور اس سے جس قدر خون پیدا ہوا وہ صالح تھا اور اسی حلال، طیب زرق سے انہوں نے اپنے بال بچوں کی پرورش کی۔
ایک ایسا شخص جس کے گردوپیش ادنیٰ و اعلیٰ سب رشوت ستانی میں مبتلا ہوں اور وہ اس فعل میں اپنے ساتھیوں کا شریک نہ ہو اس کے لئے کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ان حالات میںحضرت میر صاحب کو جن دشوار گذار گھاٹیوں سے گزرنا پڑا ہو گا وہ ظاہر ہی ہے مگر انہوں نے دنیا کی زندگی کو مالی تنگی میں گزارنے کو اس فراوانی ء رزق پر ترجیح دی اس سے ان کے اس مقام تقویٰ کا پتہ چل سکتا ہے۔ جس پر وہ ابتداء سے ہی گامزن تھے۔ ایسے متقی شخص کیلئے جس نے باوجود آسانی سے ملنے کے ناجائز روپیہ پیدا نہ کیا اور ساری عمر تنخواہ پر بسر کی۔ اس کے متعلق اگر کبھی کوئی شخص زبانِ طعن دراز کرتے ہوئے یہ کہے کہ اس نے سلسلہ کا روپیہ تباہ کیا تو یہ اس کی اپنی سیاہ باطنی کی ایک کھلی تصویر ہو گا اور سوائے اس کے کہ یہ اس کی اپنی سیاہ بختی کی تصویر ہو اور کیا ہو سکتا ہے۔
رسول کریم ﷺ جو اپنی قوم میں راستباز اور امین مشہور تھے انہوں نے یہی چیز بطور دلیل کے پیش فرمائی۔ وَلَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ کہ جو شخص ساری عمر تم میں امین اور راستباز مشہور رہا۔ وہ یک بیک خدا پر کیسے افتراء کر سکتا ہے۔
پس بالکل یہی دلیل حضرت میر صاحب قبلہ کی نیکی اور پارسائی اور دیانت و امانت پر دلیل ہے کہ جس نے باوجود ضرورت کے باوجود تکلیف کے کبھی ایک پیسہ اپنی زندگی میں ناجائز قبول نہ کیا۔ وہ اپنی زندگی کے آخری حصہ میں سلسلہ کے روپیہ میں کیسے تصرف کر سکتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ تیرہ قلب لوگوں کو خود بخود اپنی ہی ایسی تصویریں نظر آتی ہیں ورنہ یہ پاک لوگ تو پاک ہی ہوتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کی پیدائش
۱۸۶۵ء میں حضرت میر صاحب کی شادی کے تین سال بعد وہ بااقبال لڑکی پیدا ہوئی جس کی پیدائش کی صدیوں سے انتظار تھی اور جس کی پیدائش کا فیصلہ روزِ ازل سے ہی الٰہی پروگرام کے ماتحت مقدر ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تخلیق میں اس کی اصلاح کے لئے انبیاء ؑ اور مرسلین مبعوث فرمائے۔ اس نے سلسلہ موسویہ اور سلسلہ محمدیہ قائم کیا۔ سلسلہ موسویہ کی اصلاح کیلئے ایک مسیح کو مبعوث فرمایا جو احیائِ دین موسوی کے لئے مبعوث ہوا پھر سلسلہ محمدیہ قائم کیا اور اس سلسلہ کو سلسلہ موسویہ کے بالکل متوازی قائم کیا اور اس کے لئے یہ مقدر کیا کہ جب یہ سلسلہ بنی اسرائیل کی طرح بِگڑ جائے گا تب ایک مسیح بروزِ محمدؐ بنا کر بھیجا جائے گا جو اتباع محمد ﷺ میں اس قدر محو ہو گا کہ اس میں اور اس کے متبوع میں کوئی فرق نہ رہے گا۔ حتی کہ وہ خود پکار اُٹھے گا کہ: مَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ الْمُصْطَفٰی فَمَا عَرَفَنِیْ وَمَا رَاٰی اس پر محمدیت کی چادر ڈال دی جائے گی۔ اور وہ اس قدر اس میں محو ہو گا کہ وہ زندگی تو زندگی مرنے کے بعد بھی رسول کریم ﷺ کی قبر میں ہی مدفون ہو گا۔
اس کے لئے مقدر تھا کہ وہ ایک شادی کرے گا اور اس شادی سے ایسی اولاد پیدا ہو گی جن کے وجود سے اسلام کو بڑی تقویت ملے گی۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا: یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُلَہٗ اسی شادی کی طرف خواجہ محمد ناصر صاحب کو پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ اس نور کی روشنی جو تم کو دی گی مسیح موعود ؑ کے نور میں گم ہو جائے گی اور اس کی طرف نعمت اللہ ولی ؒ نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
پسرش یاد گار مے بینم
اور اسی کی طرف خود خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا: اُشْکُزنِعْمَتِیْ رَأَیْتُ خَدِیْجَتِیْ ۵؎ ان تمام پیشگوئیوں سے اس عظمت اور شان کا بآسانی پتہ لگ سکتا ہے جو اس خاتون اعظم کو اللہ تعالیٰ اور ملائکہ اور راستبازوں کی دنیا میں حاصل ہونے والی تھی وہ ایک خاص مقصد کے لئے دنیا میں لائی جا رہی تھی وہ ایک نئی نسل کی بنیاد رکھنے کے لئے پیدا کی جا رہی تھی۔
وہ ان ذمہ واریوں کو برداشت کرنے کے لئے لائی جا رہی تھی جو ذمہ واریاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بروزِ محمد ﷺ کی ذاتِ گرامی کے ذریعہ آپ کے وجود پر اصلاح خلق کیلئے عائد ہونیوالی تھیں۔ جس طرح مسیح موعود ؑ کی طرف روحانی دنیا کی آنکھیں لگی ہوئی تھیں بالکل اسی طرح اس پاک خاتون کی طرف بھی لگی ہوئی تھیں جس نے ایک طرف ان ذمہ واریوں کا بوجھ اُٹھانا تھا اور دوسری طرف اس پاک نسل کو عالمِ وجود میں لانا تھا۔
قدرت الٰہی نے اس امر کا فیصلہ کر رکھا تھا کہ ایسی خاتون خود محمد الرسول اللہ ﷺ کی اپنی نسل ہی سے ہو۔ وہ فاطمہؓ کی بیٹی ہو اور ان تمام اَئمۃ اور اولیاء کے ساتھ اس کو خون کا رشتہ ہو تاکہ نیک اور پاک خون کا ایک مسلسل تعلق چلتا ہوا آنحضرت ﷺ تک پہنچ جائے اور اس سے اعلیٰ اور بہتر اور کوئی رشتہ خدا کے مسیح کے لئے نہیں ہو سکتا تھا۔ جس طرح حضرت علی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے تعلق کی وجہ سے اہل بیت میں داخل ہو گئے۔ اسی طرح سَلْمَانَ مِنْ اَھْلِ الْبَیْتِفارسی النسل مسیح موعود اس خاتون کے تعلق کے ساتھ جسمانی طور پر بھی اہلبیت میں داخل ہو گئے۔ اتنی بڑی شان کی خاتون ۱۸۶۵ء میں حضرت میر ناصر نواب صاحب کے گھر میں پیدا ہوئی۔
آپ کی پیدائش کی پہلی برکت
حضرت میر ناصر نواب صاحب کے والد صاحب خواجہ سیّد ناصر امیر صاحب ناصری گنج کی جائیداد میں سے اپنا حصہ لینے کے لئے گئے۔ مگر ان کو وہاں نہ صرف یہ کہ کامیابی نہ ہوئی بلکہ وہ وہیں فوت ہوگئے مگر اس پیدائش کے بعد پہلی برکت یہ نازل ہوئی کہ حضرت میر صاحب کو پانچ ہزار کی جائیداد بغیر کسی قسم کی سعی کے مل گئی جس کی آمدنی پندرہ روپے ماہوار تھی۔ ۵؎
اس کے بعد حضرت میر صاحب کی بیکاری کا زمانہ ختم ہوا۔ اور ملازمت کا دور شروع ہوگیا۔ اس طرح سے آپ کا وجود خاندان کے لئے خیرو برکت کا باعث ہوا۔
آپ کا نام
حضرت اُمُّ المؤمنین کا نام حضرت میر صاحب نے نصرت جہان بیگم رکھا۔ یہ نام اپنے اندر خود بھی بہت سی برکات رکھتا تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب تریاق القلوب صفحہ ۶۴،۶۵ میں تحریر فرمایا ہے:
’’ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا۔ اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہوگی۔ اس کا نام نصرت جہان بیگم ہے۔ یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے۔‘‘ ۷؎
قارئین کرام سے میں توقع رکھتا ہوں کہ وہ ان پیشگوئیوں کو اپنے ذہن میں رکھیں گے۔ جو حضرت اُمُّ المؤمنین کی ذات کے متعلق وقتاً فوقتاً درج کی جاری ہیں۔ اِن پیشگوئیوں پر بحث اور ان سے استدلال تو اپنی جگہ پر ہو گا یہاں صرف اس قدر بتلانا مطلوب تھا کہ آپ کے نام میں حضرت مسیح موعود ؑ نے ایک پیشگوئی کو مستور پایا۔ اور وہ پیشگوئی یہ تھی کہ جو خاندان نصرت جہان بیگم کے ذریعے چلے گا اس خاندان کے ذریعے تمام جہان کی مدد کی جائے گی۔
پس اس شان اور عظمت کی خاتون حضرت میر ناصر نواب صاحب کے گھر میں ۱۸۶۵ء میںپیدا ہوئی اور اس فضل کے لئے خدا تعالیٰ نے اس انسان کو چُنا جو آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی یتیم ہو گیا تھا اور بچپن ہی میں صدہا قسم کی تکلیفوں کو عبور کر چکا تھا۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب کی آزمائش
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی آزمائش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثََّمَرٰتِ
اس آیت شریفہ کے ماتحت والد کی وفات سے خوف، غدر کے وجود سے جوع اور نقص من الاموال کی آزمائشوں میں سے آپ کو گذرنا پڑا۔ مگر اب ایک اور آخری آزمائش بھی آپ کے سامنے کھڑی تھی اور وہ ثمرات کا نقصان تھا۔
حضرت میرناصر نواب صاحب کے ہاں سیّدہ نصرت جہان بیگم کے بعد پانچ بچے پیدا ہوئے اور سب ہی مشیت الٰہی نے اپنے پاس بلا لئے مگر پانچ بچوں کا داغ جدائی کھا کر بھی ثابت قدم ناصر نواب اپنے رب کا عبدشکور رہا اور اس کے اخلاص اور ثبات میں کوئی کمی نہ آئی۔ تب خدا تعالیٰ نے ۱۸۸۱ء میں اپنے فضل اور رحم کے ساتھ ایک زندہ رہنے والا اور نافع الناس بچہ عطا فرمایا جس کا نام محمد اسماعیل رکھا گیا جو بعد میں اپنے وقت کا ایک خاص آدمی ثابت ہوا اور ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے ترقی کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن کہلایا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کا ذکر ہم الگ کسی جگہ تفصیل سے کریں گے اس لئے صرف اسی قدر پر اکتفاء کرتے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا نکاح
۱۸۸۴ء میں حضرت میر صاحب نے حضرت اُمُّ المؤمنین کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نکاح کر دیا اس نکاح کی تفصیلات بھی الگ ایک باب میں آئیں گی۔
حضرت میر محمد اسحق صاحب کی پیدائش
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی پیدائش کے بعد بھی حضرت میر صاحب کے پانچ بچے اور پیدا ہوئے جو سب کے سب اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُوْنَ۔حضرت میر صاحب نے ان سب کی وفات پر رضاء بالقضاء کا ثبوت دیا۔ تب ۱۸۹۰ء میں اللہ تعالیٰ نے بمقام لدھیانہ ایک اور بچہ عطا فرمایا۔ اس کا نام حضرت میر صاحب نے محمد اسحق رکھا۔
وجہ تسمیہ
حضرت میر صاحب کو مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی سے بڑی محبت تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مولوی نذیر حسین صاحب حضرت میر صاحب کے استاد بھی تھے اور دہلی کے اہلحدیث کے سرگروہ بھی تھے۔ ایک دفعہ مولوی نذیر حسین صاحب لدھیانہ میںحضرت میر صاحب سے ملنے آئے جہاں وہ بسلسلہ ملازمت مقیم تھے۔
حضرت میر صاحب میر محمد اسماعیل صاحب کو جو ابھی بچے ہی تھے ملانے کیلئے لے گئے۔ مولوی سیّد نذیر حسین صاحب نے ازراہِ شفقت سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
برائے کردن تنبیہ فُسّاق
دوبارہ آمدِ اسماعیل و اسحاق
اس بناء پر جب حضرت میر محمد اسحق صاحب پیدا ہوئے تو حضرت میر صاحب نے ان کا نام محمد اسحق رکھا اور خدا کی قدرت کہ وہ شعر جو اس وقت اتفاقی طور پر ان کے منہ سے نکلا وہ ایک حقیقت بن کر عالم وجود میں آ گیا۔
سلسلہ ملازمت میںتبدیلیاں
حضرت میر صاحب سلسلہ ملازمت میں بہت جگہ رہے۔ ضلع گورداسپور میں سٹھیالی، کاہنووان، تَتلہ وغیرہ میں رہے۔ پھر آپ کی تبدیلی ضلع لاہور میں ہو گئی اور وہاں سے انبالہ چھاؤنی میں ہو گئی۔ وہاں سے لدھیانہ ، لدھیانہ سے پٹیالہ اور پٹیالہ سے پھر لدھیانہ اور وہاں سے پھر پٹیالہ میںتبدیلی ہو گئی۔ پٹیالہ سے پھر فیروز پور تبدیلی ہوئی۔ یہ ۱۸۹۳ء کا زمانہ تھا۔ فیروزپور سے آپ کی تبدیلی آتھم کے رشتہ داروں نے ہوتی مردان میں کرا دی۔ حضرت میر صاحب کو مردان پسند نہ آیا۔ طبعیت اُچاٹ رہتی تھی اس لئے فَرلو لے لی اور قادیان آ گئے اور اسی فَرلو کے بعد آپ کی پنشن ہو گئی اور آپ ہمیشہ کیلئے قادیان کے ہو گئے۔
یہ مختصر حالات ان کی ملازمت کے ایام کے ہیں۔ تفصیل کے لئے حضرت عرفانی کبیر کی کتاب ’’حیاتِ ناصر‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلقات کا آغاز
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانے میں بالکل لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل تھے مگر میرزا غلام قادر صاحب جو ابتداء میں محکمہ نہر میں ملازم تھے اور بعد میں بعض دیگر ملازمتوں میں بھی رہے۔ بحیثیت ایک اہلکار ہونے کے ضلع کے تمام اہلکاروں سے میل جول اور تعلق رکھتے تھے۔ میر ناصر حسین صاحب سے جو حضرت میر صاحب کے ماموں تھے مراسم دوستی رکھتے تھے۔ ان کی وجہ ہی سے حضرت میر صاحب کی بھی ان سے واقفیت ہو چکی تھی۔ میر صاحب جب موضع تَتلہ میں نہر کی کُھدوائی کروارہے تھے ان دنوں حضرت نانی اماں یعنی حضرت اُمُّ المؤمنین کی والدہ کچھ بیمار ہو گئیں تو میرزا غلام قادر صاحب نے جو اکثر گورداسپور سے آتے ہوئے ادھر سے گزرا کرتے تھے۔ میر صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کو بغرض طبّی مشورہ قادیان حضرت میرزا غلام مرتضیٰ صاحب کے پاس لے جائیں۔ چنانچہ بغرض طبّی مشورہ آپ قادیان آئے۔
یہ قادیان میں پہلی آمد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے تعارف کے سلسلہ میں ایک مزید قدم تھا مگر دراصل یہ بیماری تو ایک بہانہ تھی ورنہ مشیت ایزدی اس کے پیچھے کھڑی ہنس رہی تھی۔
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
اس واقعہ کو حضرت نانی اماں صاحبہ مرحومہ نے حضرت میاں بشیر احمد صاحب سے یوں بیان کیا جسے انہوں نے اپنی قیمتی تصنیف سیرۃ المہدی حصہ دوم کے صفحہ ۱۰۹ پر درج فرمایا ہے:
’’خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمہارے ناناجان کی اس نہر کے بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیان سے غرب کی طرف دو ڈھائی میل کے فاصلہ پر سے گزرتی ہے (یعنی موضع تَتلہ کی نہر) تو اس وقت تمہارے تایا میرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے ان دنوں میں کچھ بیمار ہوئی تو تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ میرے والد صاحب بہت ماہر طبیب ہیں آپ ان سے علاج کرائیں۔ چنانچہ تمہارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے۔
جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمہارے تایا مجلس لگائے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ اُن کے آپس پاس ایک نیچے کی کوٹھڑی میں تمہارے ابا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآنِ شریف پڑھ رہے تھے اور اوپر کی منزل میں تمہارے دادا صاحب تھے۔ تمہارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دلّی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف صاحب سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے۔ (یہ واقعہ ۱۸۷۶ء کا ہے) اس کے بعد جب میں دوسری دفعہ قادیان آئی تو تمہارے دادا فوت ہو چکے تھے اور ان کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جا رہی تھی۔ چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھانا وغیرہ آیا تھا۔ اس دفعہ تمہارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تَتلہ میں رہتے ہیں وہاں آپ کو تکلیف ہوتی ہو گی اور وہ گاؤں بھی بدمعاش لوگوں کا گاؤں ہے۔ بہتر ہے آپ یہاں ہمارے مکان میں آجائیں۔ میں گورداسپور رہتا ہوں۔ غلام احمد (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) بھی گھر میں کم آتا ہے۔ اس لئے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہ ہو گی۔ چنانچہ میر صاحب نے مان لیا اور ہم یہاں آ کر رہنے لگے۔ ۸؎
ان دنوں حضرت اُمُّ المؤمنین کی عمر تیرہ سال کی تھی۔
اس واقعہ سے جہاں اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ حضرت میر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کس طرح قادیان تک پہنچایا۔ وہاں حضرت میر صاحب کی سادہ زندگی اور شرافتِ نفس کا پتہ بھی چلتا ہے۔ کیونکہ موضع تَتلہ آج پون صدی گزر جانے کے بعد بھی اس قابل نہیں کہ کوئی پڑھا لکھا آدمی وہاں رہ سکے۔ تمدن کی ہر منزل سے دور وہاں کے لوگ آج بھی بالکل گنوار اور اُجڈ ہیں ان کے مکان بالکل دیہاتی وضع قطع کے ہیں۔ چہ جائیکہ ایک دہلی کا معزز انسان جو نہ صرف اپنے حسب و نسب کی وجہ سے ہی بڑا آدمی تھا۔ بلکہ اس شان و شوکت کے لحاظ سے جس کا نقشہ ہم پچھلے اوراق میں دکھا چکے ہیں ایک بڑے خاندان کا ایک فرد تھا۔ ان کے گھر کے لوگ اس قسم کی دیہاتی زندگی کے قطعاً عادی نہ تھے مگر حضرت میر صاحب نے ان گنواروں میں ہی ایک مدت گزار دی۔
جناب میرزا غلام قادر صاحب جو ان ایام میں ضلع کے افسروں میں سے ہونے کے علاوہ اپنے علاقہ کے رئیس تھے ان کا اس گاؤں کے لوگوں کو بدمعاش کہنا اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا تھا مگر یہ ان لوگوں کا کمال نہ تھا کہ انہوں نے حضرت میر صاحب کو کوئی گزنذ نہیں پہنچایا۔ بلکہ حضرت میر صاحب کا کمال اور ان کی شرافت ذاتی کا نتیجہ تھا کہ اس قسم کے لوگ بھی ان کے سامنے مسخر ہو کر رہتے۔
الغرض حضرت میر صاحب کو اللہ تعالیٰ ملازمت کے سلسلہ میں قادیان سے دو میل کے فاصلہ پر لے آیا اور پھر نانی اماں کی بیماری کے سلسلہ میں ان کو قادیان لے آیا۔ اور پھر حالات نے ذرا اور صورت بدل لی اور حضرت میر صاحب قادیان میں ہی آ رہے اور نہ صرف قادیان میں ہی آ رہے بلکہ خود حضرت مسیح موعود ؑ کے گھرمیں اور یہ اس لئے ہوا کہ حضرت میر صاحب اور ان کی حرم محترم قریب سے ہو کر اس برگزیدہ انسان کو دیکھ سکیں جو کل کو حضرت میر صاحب سے نسبت ِدامادی حاصل کرنے والا تھا۔ چنانچہ نانی اماں فرماتی ہیں:
’’ان دنوں میں جب بھی تمہارے تایا گورداسپور سے قادیان آتے تھے تو ہمارے لئے پان لایا کرتے تھے اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا سا کھانا وغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کے لئے تیار کئے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں۔ جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں۔ میں ان کے چھوٹے بھائی کو بھجوا دیتی ہوں۔ چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمہارے ابا کو کباب بھجوا دیئے اور نائن نے مجھے آ کر کہا کہ وہ بہت ہی شکر گزار ہوئے اور انہوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اور اس دن انہوں نے گھر سے آیا ہوا کھانا نہیں کھایا۔ اس کے بعد میں ہر دوسرے تیسرے دن کو کچھ کھانا بنا کر بھیج دیا کرتی اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے تھے لیکن جب اس بات کی اطلاع تمہاری تائی کو ہوئی تو انہوں نے بہت بُرا منایا کہ میں کیوں ان کو کھانا بھیجتی ہوں۔ کیونکہ وہ اس زمانہ میں تمہارے ابا کی سخت مخالف تھیں اور چونکہ گھر کا سارا انتظام ان کے ہاتھ میں تھا وہ ہر بات میں ان کو تکلیف پہنچاتی تھیں۔ مگر تمہارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو برداشت کرتے تھے۔
ان دنوں میں گو میر صاحب کا زیادہ تعلق تمہارے تایا سے تھا مگر وہ کبھی کبھی گھر میں آکر کہا کرتے تھے کہ میرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی آدمی ہے۔ اس کے بعد ہم رخصت پر دہلی گئے۔‘‘ ۹؎
روایت کے اس ٹکڑے سے بھی بہت سے امور کا استدلال ہوتا ہے قبل اس کے کہ ہم اس استدلال کو لکھیں۔ یہاں اس قدر توضیح کی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ حضرت نانی اماں نے اپنی روایت میں جو یہ لکھا ہے کہ ہم قادیان سے رخصت پر دہلی گئے۔ یہ ان کو ذہول ہوا ہے۔ کیونکہ حضرت نانا جان نے اپنی خود نوشت سوانح میں لکھا ہے کہ:
’’چند ماہ کے بعد اس عاجز کی بدلی قادیان سے لاہور کے ضلع میں ہو گئی۔ اس وقت چند روز کے لئے بندہ اپنے اہل و عیال کو حضرت میرزا صاحبؑ کے مشورے سے ان کے دولت خانہ چھوڑ گیا تھا اور جب وہاں مکان کا بندوبست ہو گیا تو آ کر لے گیا۔ میں نے اپنے گھر والوں سے سنا کہ جب تک میرے گھر کے لوگ میرزا صاحبؑ کے گھر میں رہے میرزا صاحبؑ کبھی گھر میں داخل نہیں ہوئے بلکہ باہر کے مکان میں رہے۔ اس قدر ان کو میری عزت کا خیال تھا۔ وہ بھی عجب وقت تھا۔ حضرت صاحبؑ گوشہ نشین تھے عبادت اور تصنیف میں مشغول رہتے تھے۔‘‘ ۱۰؎
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحب کی تبدیلی قادیان سے ضلع لاہور میں ہوئی تھی اور حضرت میر صاحب قادیان سے لاہور ہی کو تشریف لے گئے تھے نہ کہ دہلی کو۔الغرض اس طرح حضرت میر صاحب ایک نہایت عجیب طریق سے الٰہی منشاء کے ماتحت حضرت صاحب کے گھر میں آئے۔ یہاں اُن پر اور اُن کی حرم محترم پر جو اثر پڑا اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔
۱۔ ایک بہت نیک اور بزرگ انسان تھے۔
۲۔ گھر کے لوگ اُن سے شدید نقار رکھتے تھے یہاں تک کہ وہ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ کوئی دوسرا بھی اُن سے کسی قسم کا نیک سلوک کرے۔
۳۔ وہ ان تکالیف کے مقابل میں کسی قسم کی بدسلوکی نہ کرتے تھے بلکہ صبر سے سب کچھ برداشت کرتے تھے۔
۴۔ میر صاحب قبلہ اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بڑا تعلق نہ رکھتے تھے مگر اس کے باوجود اُن پر یہی اثر تھا کہ آپؑ بہت نیک اور متقی ہیں۔
۵۔ جب میر صاحب قبلہ باہر چلے گئے تو آپؑ کی نیکی نے یہاں تک تقاضا کیا کہ گھر میں قدم تک نہ رکھا تا کہ مستورات کو اجنبی مرد کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ ہو۔
۶۔ اُس زمانہ میں حضرت صاحبؑ کا وقت عبادت اور تصنیف میں گذرتا تھا۔
یہ تأثرات جو قدرتی طور پر اس واقعہ سے نکلتے ہیں وہ اس رشتہ کیلئے اندر ہی اندر مؤید ہوگئے تھے۔ جن کی تشریح و توضیح حضرت اُمُّ المؤمنین کی شادی کے تذکرے میں آ سکے گی۔ یہ واقعات ۱۸۷۷ء کے ہیں۔
حضرت اُمُّ المؤمنین کا نکاح
یہاں تفصیلی حالات لکھنے مقصود نہیں ہیں مگر اس قدر بطور تاریخی واقعہ کے لکھتا ہوں کہ:
حضرت میر صاحب کا یہاں سے جانے کے بعد کوئی خاص تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نہ رہا۔ مگر جب براہین احمدیہ طبع ہوئی تو حضرت میر صاحب نے براہین احمدیہ کا ایک نسخہ منگوایا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ حضرت میر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض امور کیلئے دعا منگوانے کیلئے خط لکھاجن میں سے ایک امر یہ تھا۔
’’دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطا کرے‘‘۔
خدا تعالیٰ کا یہ عجیب کام تھا کہ اس نے حضرت میر صاحب کے دل میں یہ تحریک ڈالی کہ وہ حضرت اقدس ؑ کو دعا کے لئے تحریک کریں اور اُدھر حضرت اقدس ؑ کو نئی شادی کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے تحریکیں ہو رہی تھیں اور خدا تعالیٰ اپنے عرش سے فرما رہا تھا۔
۱۔ الحمدللّٰہ الذی جعل لکم الصھروالنسب ۱۱؎
۲۔ میں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری ایک اور شادی کروں۔ یہ سب سامان مَیں خود ہی کروں گا اور تمہیں کسی بات کی تکلیف نہ ہوگی۔ اس میں یہ ایک فارسی فقرہ بھی ہے۔
۳۔ ہرچہ باید نو عروسی راہمہ سامان کنم وآنچہ مطلوبِ شماباشد عطائے آں کنم ۱۲؎
اِس پر حضرت اقدس ؑ نے اپنی طرف سے تحریک کر دی اور یہ تحریک بہت کچھ تردّد کے بعد منظور ہوگئی۔
اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی دعویٰ نہ تھا البتہ آپؑ تائید اسلام کے کام میں پورے زور سے منہمک تھے۔ براہین احمدیہ لکھی جا رہی تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ
۱۸۸۹ء میں آپؑ نے لدھیانہ میں بیعتِ اُولیٰ لی۔ اُس وقت اگرچہ حضرت میر صاحب کو حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام سے قلبی عقیدت تھی اور وہ آپؑ کو بڑا راستباز سمجھتے تھے مگر انہوں نے آپؑ کے دعویٰ کو قبول نہیں کیا۔
حضرت میر صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کو قبول نہ کرنا اُن کی نیکی اور صفائی قلب کی ایک دلیل تھا کیونکہ حضرت میر صاحب اپنے پرانے عقاید کی وجہ سے یہ سمجھے ہوئے تھے کہ مسیح غالباً آسمان سے اُترے گا۔
قدیم اعتقادات جو لوگوں کے قلوب میں ایک فولادی میخ کی طرح جمے ہوئے تھے اور لوگوں کا ان قدیم اعتقادات کے خلاف فوراً نئی تبدیلی پیدا کر لینا بہت مشکل تھا۔ بالکل اسی خیال کے مطابق حضرت میر صاحب اپنے خیالات پر جمے رہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے نہایت سختی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خیالات کی مخالفت کی اور اس پر مضمون بھی لکھے اور نظمیں بھی لکھیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے جس چیز کو سچائی سمجھا، اس کے لئے کسی چیز کی پرواہ نہ کی حتیّٰ کہ اس امر کی بھی پرواہ نہ کی کہ حضرت صاحب سے میرے کیا تعلقات ہیں۔ اگر کوئی دنیا دار آدمی ہوتا تو وہ اپنے گرد و پیش کے حالات کو دیکھ کر اگر حضرت صاحب کے دعویٰ کو قبول نہ کرتا تو اس کی مخالفت پر کمر بستہ بھی نہ ہوتا۔
ممکن ہے کسی شخص کو حضرت میر صاحب کی یہ مخالفت ایک بُرا فعل نظر آئے۔ مگر اس واقعہ نے میرے دل میں تو اُن کی بڑی عزت پیدا کر دی اور مَیں اس امر کو ان کی صفائی قلب کی ایک بڑی دلیل سمجھتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ میر صاحب کا طُرۂ امتیاز اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَالْبُغْضُ لِلّٰہِ تھا۔ انہوں نے جس چیز کو سچائی جانا اُسے بہادری سے قبول کیا اور جس چیز کو غلط سجھا اُسے پوری طاقت سے مٹانے کی کوشش کی اور یہی اُن کی زندگی بھر کا کیریکٹر تھا۔ سلسلہ کے اندر آ کر جس کسی شخص کے فعل کو انہوں نے سلسلہ کے مفاد کے خلاف جانا یا منافقت پر مبنی سمجھا اس کی پوری شدت سے مخالفت کی اور کبھی اس امر کی پرواہ نہیں کی کہ یہ فعل کس شخص سے سرزد ہوا ہے۔ انہوں نے غلطی کو غلطی جانا خواہ وہ بڑے سے بڑے آدمی سے سرزد ہو۔ اُن کا یہ وصف جو اُن کی زندگی کا عین کمال تھا لوگوں کی نگاہ میں خار کی طرح کھٹکا کرتا تھا۔ اس لئے اُن کا نظریہ حضرت میر صاحب کی نسبت ایسا غلط ٹھہر گیا کہ انہوں نے ان کی نسبت طرح طرح کی غلط فہمیوں میں لوگوں کو مبتلا کرنا چاہا مگر ایک مؤرخ جو واقعات کی چھان بین کرنے کا عادی ہوتا ہے وہ سرسری نگاہ سے دیکھ کر لوگوں کے نظریے قبول نہیں کر سکتا۔ حضرت میر صاحب نے خود بھی اس حقیقت سے پردہ اُٹھایا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ:
’’۱۸۸۹ء میں سلسلہ بیعت (یہ بیعت اولیٰ تھی جو حضرت منشی احمد جان صاحب کے مکان پر ہوئی) لدھیانہ میں شروع ہوا۔ اُس وقت مَیں احمدی نہیں ہوا تھا اور نہ مَیں حضرت صاحبؑ کو مسیح و مہدی مانتا تھا۔ لہٰذامَیں نے بیعت نہیں کی تھی۔ مَیں منافق نہیں تھا کہ بظاہر بیعت کر لیتا اور دل میں مرزا صاحبؑ کو سچا نہ سمجھتا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے راستباز اور صاف گو بنایا ہے۔ یہ بھی مجھ پر اللہ تعالیٰ کے افضال میں سے ایک بڑا فضل ہے‘‘۔ ۱۳؎
الغرض حضرت میر صاحب نے اُس وقت بیعت نہیں کی۔
حضرت میر صاحبؓ کی بیعت
۱۸۹۲ء ٭؎ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے پہلے سالانہ جلسہ کی بنیاد قادیان میں رکھی گئی۔ اس جلسہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حضرت میر صاحب کو مکرر، سہ کرر لکھ کر سالانہ جلسہ پر آنے کی دعوت دی۔
٭ دراصل پہلا جلسہ سالانہ ۱۸۹۱ء میں ہوا تھا۔ (عرفانی کبیر)
حضرت میر صاحب نے اس سارے واقعہ کو خود لکھا ہے۔ چونکہ یہ تحریر بہت ہی بصیرت افروز ہے اور ممکن ہے کہ بہتوں کی راہنمائی کا باعث ہو اس لئے مَیں باوجود اس کے طویل ہونے کے شائع کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
’’مرزا صاحب نے مجھے بھی باوجود یہ کہ ان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ مَیں ان کا مخالف ہوں۔ نہ صرف مخالف بلکہ بدگو بھی اور یہ مکرر سہ کرر مجھ سے وقوع میں آ چکا ہے۔ جلسہ پر بلایا اور چند خطوط جن میں ایک رجسٹری بھی تھا بھیجے۔ اگرچہ پیشتر بسبب جہالت اور مخالفت کے میرا ارادہ جانے کا نہ تھا لیکن مرزا صاحب کے بار بار لکھنے سے میرے دل میں ایک تحریک پیدا ہوئی۔ اگر مرزا صاحب اس قدر شفقت سے نہ لکھتے تو مَیں ہر گز نہ جاتا اور محروم رہتا۔ مگر یہ انہیں کا حوصلہ تھا۔ آج کل کے مولوی تو اپنے سگے باپ سے بھی اِس شفقت اور عزت سے پیش نہیں آتے۔ مَیں ۲۷/تاریخ کو دوپہر سے پہلے قادیان میں پہنچا۔ اُس وقت مولوی حکیم نور الدین صاحب مرزا صاحبؑ کی تائید میں بیان کر رہے تھے اور قریب ختم کے تھے۔ افسوس کہ مَیں نے پورا نہ سنا۔ لوگوں سے سنا کہ بہت عمدہ بیان تھا۔ پھر حامد شاہ صاحبؓ نے اپنے اشعار مرزا صاحبؑ کی صداقت اور تعریف میں پڑھے لیکن چونکہ مجھے ہنوز رغبت نہیں تھی اور میرا دل غبار آلودہ تھا۔ کچھ شوق اور محبت سے نہیںسنا لیکن اشعار عمدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزائے خیر عنایت فرماوے۔
’’جب مَیں مرزا صاحبؑ سے ملا اور وہ اخلاق سے پیش آئے تو میرا دل نرم ہوا۔ گویا مرزا صاحب کی نظر سرمہ کی سلائی تھی جس سے غبارِ کدورت میرے دل کی آنکھوں سے دُور ہو گیا اور غیظ و غضب کے نزلہ کا پانی خشک ہونے لگا اور کچھ کچھ دھندلا سا مجھے حق نظر آنا شروع ہوا اور رفتہ رفتہ باطنی بینائی درست ہوئی مرزا صاحبؑ کے سوا اور کئی بھائی اس جلسہ میں ایسے تھے کہ جن کو مَیں حقارت اور عداوت سے دیکھتا تھا۔ اب ان کو محبت اور الفت سے دیکھنے لگا اور یہ حال ہوا کہ کل اہل جلسہ میں جو مرزا صاحب کے زیادہ محب تھے وہ مجھے بھی زیادہ عزیز معلوم ہونے لگے۔ بعد عصر مرزا صاحبؑ نے کچھ بیان فرمایا جس کے سننے سے میرے تمام شبہات رفع ہو گئے اور آنکھیں کھل گئیں۔ دوسرے روز صبح کے وقت ایک امرتسری وکیل صاحب (یہ بابو محکم الدین صاحب وکیل سے مراد ہے۔ عرفانی) نے اپنا عجیب قصہ سنایا۔ جس سے مرزا صاحبؑ کی اعلیٰ درجہ کی کرامت ثابت ہوئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وکیل صاحب پہلے سنت جماعت مسلمان تھے۔ جب جوان ہوئے رسمی علم پڑھا تو دل میں بسبب مذہبی علم سے ناواقفیت اور علمائے وقت و پیرانِ زمانہ کے باعمل نہ ہونے کے شبہات پیدا ہوئے اور تسلی بخش جواب کہیں سے نہ ملنے کے باعث سے چند بار مذہب تبدیل کیا۔ سنی سے شیعہ بنے۔ وہاں بجز تبرّا بازی اور تعزیہ سازی کچھ نظر نہ آیا۔ آریہ ہوئے چند روز وہاں کا بھی مزہ چکھا مگر لطف نہ آیا۔ برہمو سماج میں شامل ہوئے ان کا طریق اختیار کیا لیکن وہاں بھی مزا نہ پایا۔ نیچری بنے لیکن اندرونی صفائی یا خدا کی محبت، کچھ نورانیت کہیں بھی نظر نہ آئی۔ آخر مرزا صاحبؑ سے ملے اور بہت بیباکانہ پیش آئے مگر مرزا صاحبؑ نے لطف سے مہربانی سے کلام کیا اور ایسا اچھا نمونہ دکھایا کہ آخر کار اسلام پر پورے پورے جم گئے اور نمازی بھی ہوگئے۔ اللہ اور رسولؐ کے تابعدار بن گئے اب مرزا صاحبؑ کے بڑے معتقد ہیں۔
’’رات کو مرزا صاحبؑ نے نواب صاحب (نواب صاحب مالیر کوٹلہ جو اس وقت مع چند اپنے ہمراہیوں کے شریک جلسہ تھے۱۲) کے مقام پر بہت عمدہ تقریر کی اور چند اپنے خواب اور الہام بیان فرمائے۔ چند لوگوں نے صداقت الہام کی گواہیاں دیں جن کے روبرو وہ الہام پورے ہوئے۔ ایک صاحب نے صبح کو بعدنماز فجر عبداللہ صاحب غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خواب سنایا جب کہ عبداللہ صاحب خَیْردِیْ گائوں میں تشریف رکھتے تھے۔ عبداللہ صاحب نے فرمایا ہم نے محمدحسین بٹالوی کو ایک لمبا کرتہ پہنے دیکھا اور وہ کرتہ پارہ پارہ ہو گیا۔ یہ بھی عبداللہ صاحب نے فرمایا تھا کہ کرتے سے مراد علم ہے۔ آگے پارہ پارہ ہونے سے عقلمند خود سمجھ سکتا ہے کہ گویاعلم کی پردہ دری مراد ہے جو آج کل ہو رہی ہے اور معلوم نہیں کہاں تک ہوگی۔ جو اللہ تعالیٰ کے ولی کو ستاتا ہے گویا اللہ تعالیٰ سے لڑتا ہے آخر پچھڑے گا۔
’’اب مجھے بخوبی ثابت ہوا کہ وہ لوگ بڑے بے انصاف ہیں۔ جو بغیر ملاقات اور گفتگو کے مرزا صاحب کو دور سے بیٹھے دجال، کذاب بنا رہے ہیں اور ان کے کلام کے غلط معنی گھڑ رہے ہیں یا کسی دوسرے کی تعلیم کو بغیر تفتیش مان لیتے ہیں اور مرزا صاحب سے اس کی بابت تحقیق نہیں کرتے۔ مرزا صاحب جو آسمانی شہد اُگل رہے ہیں اس کو وہ شیطانی زہر بتاتے ہیں اور بسبب سخت قلبی اور حجابِ عداوت کے دور ہی سے گلاب کو پیشاب کہتے ہیں اور عوام اپنے خواص کے تابع ہو کر اس کے کھانے پینے سے باز رہتے ہیں اور اپنا سراسر نقصان کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس عاجز کے قدیمی دوست یا پرانے مقتداء مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لوگوں کو مرزا صاحب سے ہٹانے اور نفرت دلانے میں مصروف ہیں جن کو پہلے پہل مرزا صاحب سے بندہ نے بدظن کیا تھا۔ جس کے عوض مِیں اس دفعہ انہوں نے مجھے بہکایا اور صراطِ مستقیم سے جدا کر دیا۔ چلو برابر ہوگئے۔ مگر مولوی صاحب ابھی درپے ہیں۔ اب جو جلسہ پر مرزا صاحب نے مجھے طلب کیا تو مولوی صاحب کو بھی ایک مخبر نے خبر کر دی۔ انہوں نے اپنے وکیل کی معرفت مجھے ایک خط لکھا جس میں ناصح مشفق نے مرزا صاحب کو اس قدر بُرا بھلا لکھا اور ناشائستہ الفاظ قلم سے نکالے کہ جن کا اعادہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مولوی صاحب نے یہ بھی لحاظ نہ کیا کہ علاوہ بزرگ ہونے کے مرزا صاحب میرے کس قدر قریبی رشتہ دار ہیں۔ پھر دعویٰ محبت ہے۔ افسوس!
’’اس جلسہ پر تین سو سے زیادہ شریف اور نیک لوگ جمع تھے جن کے چہروں سے مسلمانی نور ٹپک رہا تھا۔ امیر، غریب، نواب، انجنیئر، تھانہ دار، تحصیلدار، زمیندار، سوداگر، حکیم غرض ہر قسم کے لوگ تھے۔ ہاں چند مولوی بھی تھے مگر مسکین مولوی۔ مولوی کے ساتھ مسکین اور منکسر کا لفظ، یہ مرزا صاحب کی کرامت ہے کہ مرزا صاحبؑ سے مل کر مولوی بھی مسکین بن جاتے ہیں۔ ورنہ آج کل مسکین مولوی اور بِدعات سے بچنے والا صوفی، کبریت احمر اور کیمیائے سعادت کا حکم رکھتا ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب اپنے دل میں غور فرما کر دیکھیں کہ وہ کہاں تک مسکینی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ اُن میں اگر مسکینی ہوتی تو اس قدر فساد ہی کیوں ہوتا یہ نوبت بھی کیوں گذرتی۔ اس قدر ان کے متبعین کو ان سے عداوت اور نفرت کیوں ہوتی۔ اہلحدیث اکثر ان سے بیزار کیوں ہو جاتے۔ اگر مولوی صاحب اس میرے بیان کو غلط خیال فرماویں تو مَیں انہیں پر حوالہ کرتا ہوں۔ انصافًا و ایمانًا اپنے احباب کی فہرست تو لکھ کر چھپوا دیں کہ جو ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسا کہ مرزا صاحبؑ کے مرید مرزا صاحبؑ سے محبت رکھتے ہیں۔ مجھے قیافہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو عنقریب ہے کہ جناب مرزا صاحب کی خاکِ پا کو اہل بصیرت آنکھوں میں جگہ دیں اور اکسیر سے بہتر سمجھیں اور تبرک خیال کریں۔ مرزا صاحبؑ کے سینکڑوں ایسے صادق دوست ہیں جو مرزا صاحبؑ پر دل و جان سے قربان ہیں۔ اختلاف کا تو کیا ذکر ہے۔ رُوبرو اُف تک نہیں کرتے۔
سرِ تسلیم خم ہے، جو مزاجِ یار میں آئے
مولوی محمد حسین صاحب زیادہ نہیں چار پانچ آدمی تو ایسے اپنے شاگرد یا دوست بتاویں جو پوری پوری (خدا کے واسطے) مولوی صاحب سے محبت رکھتے ہوں اور دل و جان سے فدا ہوں اور اپنے مال کو مولوی صاحب پر قربان کر دیں اور اپنی عزت کو مولوی صاحب کی عزت پر نثار کرنے کے لئے مستعد ہوں۔ اگر مولوی صاحب یہ فرماویں کہ سچوں اور نیکوں سے لوگوں کو محبت نہیں ہوتی بلکہ جھوٹوں اور مکاّروں سے لوگوں کو اُلفت ہوتی ہے تو مَیں پوچھتا ہوں کہ اصحاب و اہلبیت کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی یا نہیں؟ وہ حضرتؐ کے پورے پورے تابع تھے یا ان کو اختلاف تھا۔ بہت نزدیک کی ایک بات یاد دلاتا ہوں کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جو میرے اور نیز محمد حسین صاحب کے پیرو مرشد تھے۔ اُن کے مرید اُن سے کس قدر محبت رکھتے تھے اور کس قدر اُن کے تابع فرمان تھے۔ سنا ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے ایک خاص مرید کو کہا کہ تم نجد واقعہ مُلک عرب میں جا کر رسائل توحید مصنفہ محمد عبدالوہاب نقل کرلائو۔ وہ مرید فوراً رخصت ہوا۔ ایک دم کا بھی توقف نہ کیا۔ حالانکہ خرچ راہ و سواری بھی اُس کے پاس نہ تھا۔ مولوی محمد حسین صاحب اگر اپنے کسی دوست کو بازار سے پیسہ دے کر دہی لانے کو فرماویں تو شاید منظور نہ کرے اور اگر منظور کرے تو ناراض ہو کر اور شاید غیبت میں لوگوں سے گلہ بھی کرے۔ع
ببیں تفاوتِ راہ از کجا است تا بکُجا
’’یہ نمونہ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ہر صدی میں ہزاروں اولیاء (جن پر اُن کے زمانہ میں کفر کے فتوے بھی ہوتے رہے ہیں) گذرے ہیں اور کم و بیش اُن کے مرید اُن کے فرمانبردار اور جان نثار ہوئے ہیں۔ یہ نتیجہ ہے نیکوں کی خدا کے ساتھ دلی محبت کا۔
’’مرزا صاحبؑ کو چونکہ سچی محبت اپنے مولا سے ہے۔ اس لئے آسمان سے قبولیت اُتری ہے اور رفتہ رفتہ باوجود مولویوںکی سخت مخالفت کے سعید لوگوں کے دلوں میں مرزا صاحب کی اُلفت ترقی کرتی جا رہی ہے۔ (اگرچہ ابوسعید صاحب خفا ہی کیوں نہ ہوں) اب اس کے مقابل میں مولوی صاحب جو آج ماشاء اللہ آفتابِ پنجاب بنے ہوئے ہیں۔ اپنے حال میں غور فرماویں کہ کس قدر سچے محب اُن کے ہیں اور اُن کے سچے دوستوں کا اندرونی کیا حال ہے؟ شروع شروع میں کہتے ہیں مولوی صاحب کبھی اچھے شخص تھے۔ مگر اب تو انہیں حبِّ جاہ اور علم و فضل کے فخر نے عرشِ عزت سے خاکِ مذلّت پر گرا دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
’’اب مولوی صاحب غور فرماویں کہ یہ کیا پتھر پڑ گئے کہ مولوی اور خصوصاً مولوی محمد حسین صاحب سرآمد علمائِ پنجاب (بزعمِ خود) سے لوگوں کو اس قدر نفرت کہ جس کے باعث مولوی صاحب کو لاہور چھوڑنا پڑا۔ موحّدین کی جامع مسجد میں اگر اتفاقًا لاہور میں تشریف لے جاویں تو مارے ضد اور شرم کے داخل نہیں ہو سکتے اور مرزا صاحبؑ کے پاس (جو بزعم مولوی صاحب کافر بلکہ اکفر اور دجال ہیں)گھر بیٹھے لاہور، امرتسر، پشاور، کشمیر، جموں، سیالکوٹ، کپور تھلہ، لدھیانہ، بمبئی، ممالک شمال و مغرب، اودھ، مکہ معظمہ وغیرہ بلاد سے لوگ گھر سے بوریا بندھنا باندھے چلے آتے ہیں۔ پھر آنے والے بدعتی نہیں، مشرک نہیں، جاہل نہیں، کنگال نہیں، بلکہ مؤحد، اہلحدیث، مولوی، مفتی، پیرزادے، شریف، امیر، نواب، وکیل۔ اب ذرا سوچنے کا مقام ہے کہ باوجود مولوی محمد حسین صاحب کے گرانے کے اور اکثر مولویوں سے کفر کے فتوے پر مہریں لگوانے کے اللہ جلشانہٗ نے مرزا صاحبؑ کو کس قدر چڑھایا اور کس قدر خلقِ خدا کے دلوں کو متوجہ کر دیا کہ اپنا آرام چھوڑ کر، وطن سے جدا ہو کر، روپیہ خرچ کر کے قادیان میں آ کر زمین پر سوتے، بلکہ ریل میں ایک دو رات جاگتے بھی ضرور ہونگے اور کئی پیادہ چل کر بھی حاضر ہوئے۔ مَیں نے ایک شخص کے بھی منہ سے کسی قسم کی شکایت نہیں سنی۔ مرزا صاحب کے گرد ایسے جمع ہوتے تھے جیسے شمع کے گرد پروانے۔ جب مرزا صاحب کچھ فرماتے تھے تو ہمہ تن گوش ہو جاتے تھے۔ قریباً چالیس پچاس شخص اس جلسہ پر مُرید ہوئے۔ مرزا احمد بیگ کے انتقال کی پیشگوئی کے پوری ہونے کا ذکر بھی مرزا صاحبؑ نے ساری خلقت کے رُوبرو سنایا جس کے بارے میں نور افشاں نے مرزا صاحبؑ کو بہت کچھ بُرا بھلا کہا تھا۔
’’اب نور افشاں خیال کرے کہ پیشگوئیاں اس طرح پوری ہوتی ہیں۔ یہ بات بجز اہل اسلام کے کسی دین والے کو آج کل حاصل نہیں اور مسلمان خصوصًا مخالفین سوچیں کہ یہ خوب بات ہے کہ کافر، اکفر، دجال، مکار کی پیشگوئیاں باوجود یکہ اللہ تعالیٰ پر افترائوں کے طومار باندھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پوری کر دے اور رسول اللہ صلعم کے (بزعمِ خود) نائبین کی باتوں میں خاک بھی اثر نہ دے اور ان کو ایسا ذلیل کرے کہ لاہور چھوڑ کر بٹالہ میں آنا پڑے۔ افسوس، صدافسوس، آج کل کے ان مولویوں کی نابینائی پر جو العلم حجاب الاکبر کے نیچے دبے پڑے ہیں اور بایں وجہ ایک ایسے برگزیدہ بندہ کا نام دجال و کافر رکھتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ کو ایسی محبت ہے کہ دین کی خدمت پر مقرر کر رکھا ہے اور وہ بندۂ خدا آریہ، برہمو، عیسائیوں، نیچریوں سے لڑ رہا ہے۔ کوئی کافر تابِ مقابلہ نہیں لا سکتا۔ نہ کوئی مولوی باوجود کافر، ملعون، دجال بنانے کے خلقت کے دلوں کو اُن کی طرف سے ہٹا سکتا ہے۔ معاذ اللہ
’’عصاء موسیٰ و یدِ بیضاء کو بزعمِ مولویان پسپا اور رسوا کر رہا ہے۔ نائبین رسول مقبول میں کوئی برکت کچھ نورانیت نہیں رہی اتنا بھی سلیقہ نہیں کہ اپنے چند شاگردوں کو بھی قابو میں رکھ سکیں اور خُلقِ محمدی کا نمونہ دکھا کر اپنا شیفتہ بنا لیں۔ کسی ملک میں ہدایت پھیلانا اور مخالفینِ اسلام کو زیر کرنا تو درکنار ایک شہر بلکہ ایک محلہ کو بھی درست نہیں کر سکتے۔ برخلاف اس کے مرزا صاحبؑ نے شرقًا غربًا مخالفینِ اسلام کو دعوتِ اسلام کی اور ایسا نیچا دکھایا کہ کوئی مقابل آنے جوگا نہیں رہا۔ اکثر نیچریوں کو جو مولوی صاحبان سے ہرگز اصلاح پر نہیں آ سکتے۔ توبہ کرائی اور پنجاب سے نیچریت کا اثر بہت کم کر دیا۔ اب وہی نیچری ہیں جو مسلمان صورت بھی نہیں تھے۔ مرزا صاحبؑ کے ملنے سے مومن سیرت ہو گئے۔ اہلکاروں، تھانہ داروں نے رشوتیں لینی چھوڑ دیں۔ نشہ بازوں نے نشے ترک کر دیئے۔ کئی لوگوں نے حُقّہ تک ترک کر دیا۔ مرزا صاحب کے شیعہ مریدوں نے (یعنی چند مرید مرزا صاحبؑ کے ایسے بھی ہیں جو پہلے شیعہ مذہب رکھتے تھے) تبرّا ترک کر دیا صحابہؓ سے محبت کرنے لگے۔ تعزیہ داری، مرثیہ خوانی موقوف کر دی۔ بعض پیرزادے جو مولوی محمد حسین بٹالوی بلکہ محمد اسماعیل شہید کو بھی کافر سمجھتے تھے مرزا صاحبؑ کے معتقد ہونے کے بعد مولانا اسماعیل شہید کو اپنا پیشوا اور بزرگ سمجھنے لگے۔ اگر یہ تاثیریں، دجّالین، کذابین میں ہوتی ہیں اور نائبین رسول مقبولؐ نیک تاثیروں سے محروم ہیں تو بصد خوشی ہمیں دجّالی ہونا منظور ہے۔
’’پھلوں ہی سے تو درخت پہچانا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو بھی لوگوں نے صفات سے پہچانا۔ ورنہ اس کی ذات کسی کو نظر نہیں آتی۔ کسی تندرست ہٹے کٹے کا نام اگر بیمار رکھ لیں تو واقعی وہ بیمار نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مومن پاکباز ہے اور جس کے دل میں اللہ اور رسولؐ کی محبت ہے اس کو کوئی منافق کافر، دجال وغیرہ لقب دے تو کیا حرج ہے۔ سفید کسی کے کالا کہنے سے کالا نہیں ہو سکتا اور چمگادڑ کی دشمنی سے آفتاب لائق مذمت نہیں۔ یزیدی عملداری سے حسینی گروہ اگرچہ تکالیف تو پا سکتا ہے مگر نابود نہیں ہو سکتا۔ رفتہ رفتہ تکالیف برداشت کر کے ترقی کرے گا اور کرتا جاتا ہے۔ یعنی مولویوں کے سدِّ راہ ہونے سے مرزا صاحبؑ کا گروہ مٹ نہیں سکتا۔ بلکہ ایسا حال ہے جیسا دریا میں بند باندھنے سے دریارُک نہیں سکتا لیکن چند روز رُکا معلوم ہوتا ہے۔ آخر بند ٹوٹے گا اور نہایت زور سے دریا بہہ نکلے گا اور آس پاس کے مخالفین کی بستیوں کو بھی بہا لے جاوے گا۔ آندھی اور ابر سورج کو چھپا نہیں سکتے۔ خود ہی چند روز میں گم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح چند روز میں یہ غُل غپاڑہ فرو ہو جائے گا اور مرزا صاحبؑ کی صداقت کا سورج چمکتا ہوا نکل آوے گا۔ پھر نیک بخت تو افسوس کر کے مرزا صاحبؑ سے موافق ہو جاویں گے اور پچھلی غلطی پر پچھتاویں گے اور مرزا صاحبؑ کی کشتی میں جو مثل سفینہ نوح علیہ السلام کے ہے سوار ہو جائیں گے۔ لیکن بدنصیب اپنے مولویوں کے مکر او رغلط بیانی کے پہاڑوں پر چڑھ کر جان بچانا چاہیں گے۔ مگر ایک ہی موج میں غرق بحرِ ضلالت ہو کر فنا ہو جاویں گے۔
’’یا الٰہی ہمیں اپنی پناہ میں رکھ اور فہمِ کامل عنایت فرما۔ اُمّتِ محمدی کا تو ہی نگہبان ہے۔ حجابوں کو اُٹھا دے۔ صداقت کو ظاہر فرما دے۔ مسلمانوں کو اختلاف سے راہِ راست پر لگا دے۔ آمین یا رب العلمین۔
’’العلم حجاب الاکبر جو مشہور قول ہے اس کی صداقت آج کل بخوبی ظاہر ہو رہی ہے۔ پہلے اس قول سے مجھے اتفاق نہ تھا لیکن اب اس پر پورا یقین ہوگیا۔ جس قدر مرزا صاحبؑ کے مخالف مولوی ہیں اس قدر اور کوئی نہیں بلکہ اوروں کو عالموں ہی نے بہکایا ہے۔ ورنہ آج تک ہزاروں بیعت کر لیتے اور ایک جم غفیر مرزا صاحبؑ کے ساتھ ہو جاتا۔ لیکن مخالفت کا ہونا کچھ تعجب نہیں کیونکہ اگر ایسا زمانہ جس میں اس قسم کے فساد ہیں جس کی نظیر پچھلی صدیوں میں نامعلوم ہے۔ نہ آتا۔ تو ایسا مصلح بھی کیوں پیدا ہوتا۔ دجال ہی کے قتل کو عیسیٰ تشریف لائے ہیں۔ اگر دجال نہ ہوتا تو عیسیٰ کا آنا محال تھا اور دنیا گمراہ نہ ہو جاتی تو مہدی کی کیا ضرورت تھی۔اللہ تعالیٰ ہر ایک کام کو اس کے وقت پر کرتا ہے۔
’’یا اللہ! تو ہمیں اپنے رسولؐ کی، اپنے اولیاء کی محبت عنایت کر اور بے یقینی اور تردّدات سے امان بخش، صادقین کے ساتھ ہمیں اُلفت دے، کاذبوں سے پناہ میں رکھ۔ ہماری انانیت دُور کر دے اور حرص و حواس سے نجات بخش۔ آمین یا رب العلمین‘‘۔ ۱۴؎
حضرت میر صاحب سلسلہ کی خدمت میں
حضرت میر صاحب قادیان آ کر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے تھے۔ جیسے انہوں نے خود تحریر فرمایا ہے کہ:
’’گویا مَیں اُن کا پرائیویٹ سیکرٹری تھا۔ خدمتگار تھا، انجنیئرتھا، مالی تھا، زمین کا مختار تھا، معاملہ وصول کیا کرتا تھا‘‘۔ ۱۴؎
گویا کہ تمام وہ کام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دینی انہماک کی وجہ سے یونہی پڑے ہوئے تھے، وہ حضرت میر صاحب نے سنبھال لئے تھے۔ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت میر صاحب کی توجہ سے ایک زمانہ میں حضرت اقدس ؑ کا باغ گلزار بنا ہوا تھا۔ ہزار ہا گملوں میں لگے ہوئے پھولوں کے پودے مختلف قسم کے خوشبو دار پھول، دیواروں اور دروازوں پر چڑھنے والی پھولوںکی بیلیں، انگوروں کی بیلیں، ہر قسم کے پھل دار درخت، رنگا رنگ کے آم، لوکاٹ، شہتوت، امرود وغیرہ باغ میں بڑی محنت سے لگوائے گئے۔
ایام زلزلہ میں جو ۱۹۰۵ء کے دن تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں اصحابؓ کے ساتھ مقیم تھے۔ اُس وقت باغ کی رونق کے کیا کہنے تھے۔ باغ پورے جوبن پر تھا۔ مدرسہ وہیں لگا کرتا تھا۔ خدا تعالیٰ کا محبوب اس زمانے کا ہادی اور راہنما اپنے عشّاق کے حلقے میں وہاں جلوہ افروز ہوا کرتا تھا۔ باغ کی ٹھنڈک اور سایہ۔ پتوں میں سے دھوپ کا چھن چھن کر آنا۔ پھولوں کی مہک اور اُن کا پورا جوبن ایک پُرکیف صورت پیدا کرتا تھا۔ باغ کی یہ کیفیت حضرت میر صاحب کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھا۔ آپ کو باغ کی صفائی اور ترقی کا اس حد تک خیال تھا کہ ایک دفعہ آپ کو الہام ہوا۔
’’کہاں تک کرے گا صفائیے باغ‘‘
گویا کہ اس صفائی کے انہماک کا ذکر خود خدا تعالیٰ کو بھی اپنے عرش سے کرنا پڑا۔ کھیتوں میں سبزی ترکاری کا سلسلہ بھی حضرت میر صاحب نے شروع کر دیا تھا۔ چنانچہ باغ کے علاوہ بھی جہاں جہاں زمین اس غرض کے لئے مل سکی حضرت میر صاحب نے کارآمد بنا ڈالی۔ مدرسہ احمدیہ کے متّصل جہاں اب جناب قاضی اکمل صاحب کا مکان اور تشحیذالاذہان کا دفتر تھا، وہاں بھی مدتوں سبزی وغیرہ پیدا کی جاتی رہی۔ یہ کھیت حضرت میر صاحب کی ’’پَیلی‘‘ یعنی کھیت کے نام سے زبان زد تھا۔
حضرت صاحب کے الدار میں کوئی تعمیر ہوتی، تو حضرت میر صاحب قبلہ سارا سارا دن کھڑے تعمیر کا کام کراتے رہتے تھے۔ عمالیق جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے محض خدا واسطے کا بغض رکھتے تھے۔ اُن کی فہمائش بھی کبھی کبھی حضرت میر صاحب کے ذریعے ہو جایا کرتی تھی۔ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی ہر ایک چیز کی حفاظت اپنا فرض خیال کرتے تھے۔ وہ یہ سب کام ایک عشق کے ساتھ کرتے تھے اور مَیں پورے وثوق اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک فضل تھا کہ اُس نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدمت کے لئے حضرت میر صاحب جیسا ایک انسان بھیج دیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہر ایک چیز کو اپنی جان کر ان کی نگہداشت کرتا تھا۔ ان کی ترقی کے لئے کوشاں تھا۔ دشمنوں سے ان کی حفاظت کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زندگی تو بالکل ایک ایسے انسان کی تھی جو بالکل ہی یتیم ہو۔ انہوں نے خود لکھا ہے۔
لَفَاظَاتِ الْموَائِدِ کَانَ اُکْلِیْ
گھر کی بچی کھچی چیزیں میرے کھانے کیلے آتی تھیں۔
ان کو خود ان زمینوں اور جائیدادوں کی طرف توجہ نہ تھی اور وہ اس مخمصہ میں پڑ کر دین کے کاموں میں روک نہیں ڈالنا چاہتے تھے۔
ان کی جائیداد ان بچوں کے خزانہ کی طرح پڑی تھی جس پر گرنے والی دیوار تھی اور خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑاور خضر ؑ کو بھیج کر اس کی اصلاح کرا دی اور اس طرح اس خزانہ کو ضائع ہونے سے بچا لیا۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت میر صاحب کو بھیج دیا کہ وہ ان چیزوں کی حفاظت کریں جو کسی وقت سلسلہ کے لئے ایک شاندار جائیداد بننے والی تھیں۔ گویا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دنیاوی چیزوں کی طرف سے اپنی توجہ ہٹا لی اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس کوئی آدمی ایسا موجود نہ تھا جو ایک درد اور ایک عشق سے ان کاموں کا بوجھ اپنے اوپر لے لیتا تو خدا تعالیٰ نے خود حضرت میر صاحب کو بھیج دیا جو جوانوں سے بڑھ کر باہمت تھے، جو بڑے تجربہ کار تھے۔ بڑے امین تھے۔ جن کے لئے یہ گھر اب اپنا گھر ہو گیا تھا۔ اُن سے بڑھ کر اور کون درد خواہ ہو سکتا تھا۔
حضرت میر صاحب حضرت اقدس ؑ کواور سلسلہ کو دو الگ وجود خیال نہ کرتے تھے اور یہ تھی بھی ایک حقیقت۔ اس لئے حضرت میر صاحب حضرت صاحب کے خدمتگاروں کو لنگر سے کبھی روٹی وغیرہ دے دیاکرتے تھے۔
ہمیشہ ہر جگہ کچھ طبائع ایسی آ جاتی ہیں جو صرف اپنی ترقی کے سوا کسی دوسرے کی ترقی کو دیکھ نہیں سکتیں۔ حضرت میر صاحب سادہ زندگی بسر کرنے والے درویشانہ رنگ کے بزرگ تھے۔ وہ ایسے لوگوں کو کب پسند آ سکتے تھے۔ ان کو حضرت میر صاحب کی ہر کام میں پیش قدمی ناگوار معلوم ہوتی۔ چنانچہ ہم کو سلسلہ کے لٹریچر سے سب سے پہلا اعتراض یہ نظر آتا ہے کہ اصحابِ نمود اندر ہی اندر اس امر سے جلا کرتے تھے کہ سلسلہ کے اموال کا خرچ ہمارے ہاتھ میں کیوں نہیں دے دیا جاتا ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ابتداء میں جرأت نہ ہوتی تھی اس لئے تبر کا نشانہ پہلے حضرت میر صاحب کو بنایا گیا اور ان لوگوں کے ایک لیڈر نے جو بعد میں کھل نکلے۔ یہ اعتراض کیا:
’’کہ میر صاحب مالیوں کو یوں روٹیاں دیتے ہیں اور باغ کے کتے کو یوں گوشت دیا جاتا ہے‘‘۔ ۱۶؎
یہ اعتراض بہت بڑے فتنے کا پیش خیمہ تھا۔ اس کی تہہ میں مالی اعتراض چھپا ہوا تھا۔ گویا کہ وہ رقوم جو چندے کے طور پر آتی ہیں وہ ناجائز طور پر صَرف کی جاتی ہیں (العیاذ باللہ) ورنہ لنگر خانہ تو نہ صرف مہمانوں کے لئے ہی تھا بلکہ اس سے بہت سے غریب لوگ بھی پرورش پاتے تھے اور حضرت اقدس ؑ پسند کرتے تھے کہ لنگر پر آنے والے سائلوں کو بھی رد نہ کیا جائے۔ چنانچہ مَیں نے جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب سرساوی سے بارہا سنا کہ وہ ایک زمانہ میں مہمانوں کے کھانا کھلانے پر مامور تھے۔ اس زمانہ میں مارواڑ میں سخت قحط پڑا۔ بہت سے لوگ یہاں بھی آ گئے اور وہ مانگنے کے لئے لنگر پر آ جایا کرتے تھے۔ شیخ صاحب ان کو کچھ نہ کچھ دے دیا کرتے تھے۔ اس امر کی کسی نے شکایت کر دی تو حضرت صاحبؑ سن کر خاموش ہو رہے۔ مگر شیخ صاحب کو جب شکایت کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضور! اس کام پر کسی اور کو مقرر کر دیا جائے۔ حضرت نے فرمایا کیوں میاں اسماعیل! تھک گئے! انہوں نے کہا۔ نہیں حضرت۔ اس طرح لوگ آتے ہیں تو مَیں پسند نہیں کرتا کہ حضور کے لنگر سے کوئی محروم جائے۔ اس لئے کسی کو چوتھا حصہ کسی کو نصف کسی کو پوری روٹی دے دیا کرتا ہوں اور اس کی پھر شکایت ہوتی ہے۔ حضور نے فرمایا:
’’ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ فی کس ایک روٹی دے دیا کرو اور فرمایا کہ میاں! یہ اللہ تعالیٰ ہی بھیجتا ہے کسی کو خالی نہ جانے دیا کرو‘‘۔
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لنگر کی عطاء بہت وسیع تھی اور مَیں نے خود ایام جلسہ میں کام کر کے دیکھا ہے کہ مزدور اور محنت کرنے والے لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کو خواہ مزدوری کم دی جائے مگر ان کو کھانا دیا جائے۔ ابتدائی ایام میں جب کہ قادیان کے لوگ غربت کی زندگی بسر کرتے تھے۔ اُن کے لئے لنگر سے روٹی مل جانی ایک نعمتِ غیر مترقبہ تھی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں کام کرنے والے مالی کو اس کی درخواست پر اگر روٹی لنگر سے مل گئی تو یہ ایسی چیز نہ تھی کہ جو حضرت میر صاحب کیلئے باعثِ اعتراض بن سکتی۔ حضرت میر صاحب کا اگر الگ کوئی کاروبار ہوتا۔ اُن کا ذاتی کوئی باغ ہوتا تو جو مقام اُن کو صہری ابوت کا حاصل تھا اس لحاظ سے بھی میرے نزدیک اُن کا اپنے نوکروں کیلئے روٹی لے لینا بھی ناجائز نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نوکر کو یا ان کے کسی کتے کو لنگر سے روٹی لے کر ڈال دینے پر اعتراض کرنا تو محض شقاوت قلبی ہے اور یہ ایسی ہی بات تھی جیسے مدینہ کے چند نوجوانوں نے فتح مکہ کے بعد یہ اعتراض کر دیا کہ:
’’خون تو ہماری تلواروں سے ٹپکتا ہے اور مالِ غنیمت مکے والے لے گئے‘‘۔
اِن اعتراض کرنے والوں کے اعتراض میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عدل و انصاف پر ایک اعتراض پوشیدہ تھا۔ اگرچہ مدینہ کے مخلص صحابہؓ نے اس کی ہر طرح تردید کی اور معذرت کی۔ مگر دنیا میں اس کا اجر لینے سے محروم ہوگئے۔
پس یہ اعتراض بظاہر ایک معمولی بات تھی مگر اس اعتراض کا وار دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تھا اور یہ اعتراض پہلا کیڑا تھا جو ان کے قلب کے اندر گھن کے کیڑے کی طرح داخل ہوا اور جس نے اندر ہی اندر اُن کے سارے قلب کی حالت کو بدل دیا اور کھا لیا۔
لنگر کا انتظام ابتداء میں ایسا تھا کہ حضرت اقدس ؑ یہ چاہتے تھے کہ ہر احمدی لنگر خانہ سے ہی کھائے۔ چنانچہ سلسلہ کے سب عمائدین حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ، حضرت مولوی محمد احسن صاحبؓ، حضرت مولوی فضل دین صاحبؓ وغیرہ وغیرہ ابتداء میں سب کے ہاں لنگر سے ہی کھانا جاتا تھا۔ ایسی حالت میں لنگر کی وسعت کا بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔ جب کہ سینکڑوں آدمی لنگر سے کھانا کھا رہے تھے۔ حضرتؑ کے باغ کے مالی کی روٹی کو اعتراض کا ذریعہ بنا لینا ان کی اندرونی اور نفسی حالت کا آئینہ دار ہو سکتا ہے۔ الغرض اس طرح حضرت میر صاحب بعض لوگوں کی نگاہ میں بلاوجہ کھٹکے اور ان کو حضرت اقدس ؑ پر اعتراض کرنے کا پہلا زینہ بنایا گیا۔
دوسرا قدم
حضرت میر صاحب پر یہ اعتراض سن کر سننے والے نے کہا:
’’پھر آپ لوگ اس کو روکتے نہیں۔ تو خواجہ صاحب نے ماتھا پیٹ کر کہا کہ اگر ہم کہیں تو پھر کچھ بھی کام نہیں کر سکتے اور اگر کہہ سکتے تو بات ہی کیا تھی۔ یہ تو آپ جیسے بزرگوں کا کام ہے اور اسی وجہ سے آپ سے ذکر کیا ہے۔ تب اُس نے وعدہ کیا کہ اچھا، پھر مَیں اس کا ذکر کروں گا‘‘۔ ۱۷؎
اِس بالائی عبارت کا مفہوم بھی بالکل واضح ہے کہ اس طریق پر لوگوں کو تیار کیا جاتا تھا کہ وہ حضرت میر صاحب کے خلاف آواز اٹھائیں۔ گویا حاسد لوگوں نے سلسلہ کے اموال کو اپنے قبضے میں لینے کیلئے حضرت میر صاحب کو زینہ بنایا اور یہ طریق عام انسانی اخلاق کی حد سے بھی گرا ہوا تھا۔ چہ جائیکہ اس کا کوئی تعلق تقویٰ کی کسی راہ سے ہو۔
چنانچہ انسانی فطرت اپنی عادت کے مطابق کام کرتی ہے اور جب ایک قدم اُٹھ جاتا ہے تو پھر دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اُٹھتا چلا جاتا ہے اور انسان یہ نہیں معلوم کر سکتا کہ وہ ہلاکت کے گڑھے کی طرف جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح معترض لیڈر کا دوسرا قدم اُٹھا اور یہ قدم حضرت اُمُّ المؤمنین علیہا السلام اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کے خلاف براہِ راست تھا۔ ۱۹۰۶ء میں مسجد مبارک کی توسیع ہو رہی تھی اس غرض کے لئے ایک وفد تین اصحاب پر مشتمل گجرات اور کڑیانوالہ کی طرف بغرض حصول چندہ جا رہا تھا تو وفد کے لیڈر نے ایک لمبا سوال شروع کیا۔ جو ۳۶ میل کے سفر میں طَے ہوا اس سوال کا خلاصہ یہ تھا۔
’’پہلے ہم اپنی عورتوں کو یہ کہہ کر کہ انبیاء اور صحابہؓ والی زندگی اختیار کرنی چاہئے کہ وہ کم اور خشک کھاتے اور خشن پہنتے تھے اور باقی بچا کر اللہ کی راہ میں دے دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ہم کو بھی کرنا چاہئے۔ غرض ایسے وعظ کر کے کچھ روپیہ بچاتے تھے اور پھر وہ قادیان بھیجتے تھے لیکن جب ہماری بیبیاں خود قادیان گئیں وہاں پر رہ کر اچھی طرح وہاں کا حال معلوم کیا تو واپس آ کر ہمارے سر چڑھ گئیں کہ تم بڑے جُھوٹے ہو۔ ہم نے تو قادیان میں جا کر خود انبیاء اور صحابہؓ کی زندگی کو دیکھ لیا ہے۔ جس قدر آرام کی زندگی اورتعیّش وہاں پر عورتوں کو حاصل ہے اس کا تو عشر عشیر بھی باہر نہیں۔ حالانکہ ہمارا روپیہ اپنا کمایا ہوا ہوتا ہے اور ان کے پاس جو روپیہ جاتا ہے وہ قومی اغراض کے لئے قومی روپیہ ہوتا ہے‘‘۔
بعض زیورات اور بعض کپڑوں کی خرید کا مفصل ذکر کیا۔۱۸؎
اس اعتراض کو پڑھیئے اور پھر خط کشیدہ عبارت کوغور سے ملاحظہ فرمائیے اور پھر سوچئے کہ جس دماغ کے یہ خیالات ہوں کیا اس کے قلب میں اپنے مرشد پر کوئی ایمان معلوم ہوتا ہے؟
۱۔ خاندانِ مسیح موعود ؑکی زندگی پرتعیّش کا اعتراض۔
۲۔ صحابہؓ کی زندگی سے بالکل مختلف زندگی بسر کرنے کا نقشہ پیش کرنے والے۔
۳۔ قومی روپیہ کو کھا جانے والے۔
۴۔ قومی روپیہ سے زیوارت اور کپڑے بنانے والے۔
یہ کن کو قرار دیا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کی مقدس بیوی کو۔ کسی مذہب کے آدمی سے دریافت کرو۔ وہ جس شخص کو اپنا ہادی اور راہنما تسلیم کرتا ہوگا۔ اس کے کسی فعل پر اعتراض نہیں کرے گا اور اگر کوئی شخص اس کے فعل پر اعتراض کرتا ہوگا تو وہ اس کو یقینا مسلوب الایمان سمجھے گا۔ اس امر کی حقیقت سے تو مَیں حضرت اُمُّ المؤمنین کی سیرت کے باب میں پردہ اُٹھائوں گا۔ مگر یہاں صرف اس قدر کہنا کافی ہوگا کہ یہ دوسرا قدم تھا جو حضرت میر صاحب کے بعد ان گم گشتہ طریق لوگوں نے اُٹھایا اور اپنے آپ کو تباہی کے گڑھے میں ڈال دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر صاحب پر اعتراض ہی اُن کو اس نتیجہ کی طرف لے گیا کہ وہ سلسلہ سے کٹ گئے۔ عبرت! عبرت! عبرت!!!
مدرسہ تعلیم الاسلام کے پہلے ناظم
سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضرورت دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مدرسہ تعلیم الاسلام کی بنیاد رکھنے کا ۱۸۹۷ء میں فیصلہ فرمایا اور ۱۸۹۸ء میں اس مدرسہ کا آغاز فرمایا۔ مدرسہ تعلیم الاسلام کی تعمیر کیلئے جو لوگ بنیادی پتھر قرار دیئے گئے ان میں سے حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ تھے جو مدرسہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ تھے جو مدرسہ کے ناظم مقرر ہوئے اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ بنیادی تعمیر میں حصہ لینے والے لوگوں کو کس قدر محنت کرنی پڑتی ہے وہ ایک واضح امر ہے۔
ڈھابوں کی بھرتی کا کام
مدرسہ احمدیہ جس جگہ واقع ہے۔ یہ سب جگہ پانی میں ڈوبی ہوئی تھی اور یہاں بہت بڑی ڈھاب تھی۔ حضرت میر صاحبؓ کی دُور رس نگاہ نے اس جگہ کی قدرکو جانا اور سلسلہ کی ترقی اور ضرورت کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھا۔ انہوں نے سلسلہ کی ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اس ڈھاب میں جہاں ہاتھی غرق ہوتا تھا مٹی ڈلوانے کاانتظام کیا۔ چنانچہ بھرتی پڑنے لگ گئی۔ بھرتی پڑرہی تھی کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور اُن کے رفقاء لاہور سے آئے انہوں نے ان بھرتیوں کو دیکھ کر کہنا شروع کیا کہ:
’’میر صاحب سلسلہ کا روپیہ غرق کر رہے ہیں‘‘۔
یہ اعتراض بھی اسی پہلے اعتراض کی ہی کڑی تھا۔ ورنہ میر صاحب کا مقام تو ان تمام اعتراضوں سے بہت بالا تھا۔ میر صاحب نے جب سنا تو فرمایا:
’’میں غرق کرتا ہوں تو تم سے لے کر نہیں۔ حضرت صاحب کا روپیہ ہے تم کون ہو جو مجھ پر اعتراض کرتے ہو۔ جائو حضرت صاحب کو کہو‘‘۔ ۱۹؎
بالآخر حضرت اقدس ؑ سے اس امر کا ذکر کیا گیا۔ حضور ؑ نے فرمایا:
’’کہ میر صاحب کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہئے‘‘۔
بعد کے واقعات نے بتلایا کہ اگر حضرت میر صاحب نے ان زمینوںکو پانی سے نکال کر سلسلہ کے لئے ایک قیمتی جائیداد نہ بنا لیاہوتا تو مرکزِ سلسلہ میں بہت مشکلات کا اضافہ ہو جاتا۔ آج وہ زمین سلسلہ کے مرکزی کاموں کے لئے کام آئی اور آج علوم عربیہ اور دینیہ کے پھیلانے کیلئے ایک ایسا مرکز بنی ہوئی ہے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہاں سے علم اور معرفت کی نہریں بَہہ رہی ہیں۔ جب تک دنیا رہے گی اور جب تک دنیا کو اس زمین سے فیض پہنچتا رہے گا۔ اُس وقت تک خدا کے نیک بندے حضرت میر صاحب کی اس خدمت کو یاد کر کے ان کے لئے دعا کرتے رہیں گے اور ان معترضین کے اس قول کو نفرت سے دیکھتے رہیں گے کہ میر صاحب قوم کا روپیہ غرق کر رہے ہیں۔
سلسلہ کی عمارات
جہاں تک میرا علم ہے۔ مہمانخانہ، مدرسہ وغیرہ کی عمارتوں کا کام بھی حضرت میر صاحب کی نگرانی میں ہوا۔ گول کمرے کے سامنے کا صحن کھلا پڑا تھا۔ حضرت میر صاحب نے کچھ پرانی اینٹیں جو زمین میں مدفون تھیں کھدوا کر نکلوائیں اور گول کمرے کے سامنے دیوار بنوا دی۔ حضرت میر صاحب جب زمین سے یہ مدفون اینٹیں نکلوا رہے تھے۔ اُس وقت بعض کوتاہ اندیشوںنے کہا کہ میر صاحب لغو کام کر رہے ہیں۔ مگر بعد میں دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ لغو کام کس قدر مفید اور بابرکت ثابت ہوا۔ حضرت عرفانی کبیر نے حیاتِ ناصر کے صفحہ۳۰ پر لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں وہی تعمیراتِ سلسلہ کے ناظم تھے اور اس کام کو انہوں نے نہایت دیانت اور درد اور اخلاص سے سرانجام دیا۔ اپنے ہاتھ سے کام کرنے میں بھی کبھی عار نہ ہوتا تھا اور نہ پیدل سفر کرنے سے پرہیز، نہایت کفایت شعاری سے وہ سلسلہ کے اموال کو جو اُن کے ہاتھ میں ہوتے خرچ کرتے تھے۔ ایک دنیا دار کی نظر میں اسے بے حیثیت کہا جائے مگر سچ یہ ہے کہ وہ ان اموال کے امین تھے۔
حضرت نانا جان نے جس دیانت اور امانت کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کو اداکیا وہ ہمیشہ آنے والی نسلیں عزت سے یاد کریں گی۔ انہوں نے کبھی اپنے آرام کی پرواہ نہ کی۔ کڑکتی دھوپ میں نگرانی کر رہے ہیں۔ پسینہ سر سے لے کر پائوں تک جا رہا ہے۔ برستی بارش میں اگر کوئی خطرہ ہوا ہے تو کھڑے ہیں اور کام کر رہے ہیں۔ ان کی یہ ہمت اور یہ فرض شناسی اور اموالِ سلسلہ کی دیانت سے خرچ کرنے کی مثال ہمارے لئے سبق ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ یہ تمام کام وہ آنریری طور پر کرتے تھے۔ کوئی معاوضہ ان کاموں کا دنیا کے کسی سکہ کی شکل میں نہ لیا اور نہ خواہش کی۔
حضرت میر صاحبؓ کی شاعری
حضرت میر صاحبؓ شاعر بھی تھے۔ اُن کے اشعار بہت آسان اور سلیس زبان میں ہوتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ گوندھی ہوئی مٹی ان کے سامنے پڑی ہے اور وہ اس سے حسبِ منشاء جو چاہتے ہیں بناتے جاتے ہیں۔ سلسلہ کی تائید میں حمد الٰہی، نعت نبیؐ اور اپنے سفر نامے اور بعض تحریکیں انہوں نے شعر میں لکھے۔ یہ بجائے خود ایک طویل مضمون ہے۔ وہ اپنی شاعری میں خیالی باتوں کی طرف نہ جاتے تھے۔ دشمنانِ سلسلہ کے خلاف منہ توڑ اشعار بھی لکھا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دشمن کے متعلق لکھا:
اک سگِ٭ دیوانہ لدھیانہ میں ہے
آج کل وہ خر شتر خانہ میں ہے
الغرض اس طرح اُن کے دن اور رات خدمتِ سلسلہ میں لگے ہوئے تھے اور وہ بے غرض خدمت میں منہمک تھے کہ ان کی دنیا میں ایک نئی تبدیلی ہوئی اور ۱۹۰۸ء کا زمانہ آ گیا۔
۲۶/ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون اور حضرت میر صاحبؓ کے کاموں کی نوعیت بدل گئی۔ حضرت میر صاحب نے خود لکھا ہے کہ:
’’اب میرے متعلق کوئی کام نہ رہا کیونکہ وہ کام لینے والا ہی نہ رہا۔ دنیا سے اُٹھ گیا۔ میرصاحب، میر صاحب کی صدائیں اب مدھم پڑ گئیں بلکہ کئی اور میر صاحب پیدا ہو گئے۔ شکر ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا غرور مجھ سے دور ہوا اور ناز جاتا رہا کیونکہ کوئی ناز بردار نہ رہا۔ حضرت صاحب کی جدائی کے غم اور آپ کے سلسلہ کے کاموں سے سبکدوشی نے مجھے پریشان کر دیا‘‘۔ ۲۰؎
مسجد مبارک کی توسیع
اگرچہ مجھے اس امر کا ذکر پہلے کرنا چاہئے تھا مگر مَیں بھول گیا اور اس امر کا ذکر رہ گیا کہ مسجد مبارک کی توسیع جو ۱۹۰۶ء سے ۱۹۰۷ء تک جاری رہی۔ اُن معترضین کو جو میر صاحب کی مسابقت فی الدین کو بُری نگاہ سے دیکھتے تھے یہ چیز بھی تکلیف دے رہی تھی۔ مگر بے بس تھے۔ بعض کھڑکیوں وغیرہ کے متعلق جھگڑا ہوا۔ حضرتؑ تک معاملہ گیا۔ حضرت اقدس ؑ نے فرمایا کہ میر صاحبؓ نے ’’جہاں کھڑکیاں دروازے رکھ دیئے ہیں وہیں رہنے دیئے جائیں‘‘۔
اس سے اُس مقام کا پتہ چل سکتا ہے جو حضرت کے دل میں حضرت میر صاحبؓ کا تھا۔
بھرتیوں کے معاملہ میں فرمایا:
’’میر صاحب کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہئے‘‘۔
٭ بہ سگِ دیوانہ لودھانہ کے ایک محلہ شتر خانہ میں رہتا تھا۔ (عرفانی کبیر)
اور اس موقعہ پر فرمایا:
کہ جو کھڑکی وغیرہ میر صاحب نے جہاں رکھ دی ہے وہیں رہنے دی جائے۔
کاش! وہ معترضین اس امر سے اس پاک نفس بزرگ کے مقام کو سمجھ لیتے اور ٹھوکر سے بچ جاتے۔یہ تھی شان حضرت میر صاحبؓ کی اور اس مقام کا تھا وہ انسان۔
ایک اور موقعہ
حضرت میر صاحبؓ نے ایک دفعہ ایک کوٹ جو مستعمل تھا۔ اپنے ایک عزیز کو بھیجا مگر اس عزیز نے مستعمل کوٹ لینے سے انکار کر دیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا کے نبی اور مامور کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے وہ کوٹ محض اس لئے رکھ لیا کہ کہیں میر صاحبؓ کو اس واپسی سے رنج نہ ہو۔ یہ تھا حضرت میر صاحب کا احترام اور اُن کے جذبات کا احساس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلب میں۔
عہد خلافت اولیٰ اور حضرت میر صاحبؓ
خلافتِ اولیٰ کے ایام میں حضرت میر صاحبؓ نے قادیان کے غرباء کی حالت کا اندازہ لگا کر یہ چاہا کہ ان کی بہتری کی کوئی تجویز کی جائے۔ چنانچہ اس غرض کے ماتحت حضرت میر صاحب نے مسجد نور، ناصر وارڈ، ہسپتال مردانہ، زنانہ، دارالفعفاء کو مدنظر رکھ کر سارے ملک میں پھر کر چندہ جمع کرنا شروع کیا۔ حضرت میر صاحب نے اس کام کے لئے شب و روز ایک کر دیا اور پیدل چل چل کر یہ کام کیا۔ چنانچہ آپ نے دو حصوں میں اپنا سفر نامہ تصنیف فرمایا جو نظم میں ہے۔ اس کے چند ٹکڑے نمونے کے طور پر یہاں درج کرتا ہوں۔ جن سے ان کی محنت، سعی اور تکلیف کا بخوبی پتہ لگ سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
قصبۂ قادیان کو کیوں چھوڑا
کیوں عزیزوں سے اپنا منہ موڑا
کیوں سفر اختیار تو نے کیا
کیوں انہیں دلفگار تو نے کیا
دین کے کام کے لئے مَیں چلا
تا جماعت سے لائوں میں چندا
احمدی بھائیوں سے لائوں مال
دینی کاموں پہ وہ لگائوں مال
چار کاموں کا ہے خیال مجھے
واسطے ان کے ہے ملال مجھے
مسجد و ہسپتال مردانہ
اک زنانہ بھی ہے شفاخانہ
کچھ غریبوں کے واسطے ہیں مکاں
امن و آرام سے بسیں وہ جہاں
مَیں نے کی ہے یہ اس لئے تکلیف
میرا مالک قوی ہے مَیں ہوں ضعیف
میرے دکھ کو خدا کرے آسان
غیب سے بخشے وہ مجھے سامان
…………
پانچ تاریخ تھی ستمبر کی
مجھ کو توفیق جب خدا نے دی
قادیان سے چلا بسوئے سفر
کی سواری سے میں نے قطع نظر
پاپیادہ چلا بٹالہ کو
اس سے مقصد تھے میرے دل میں دو
اپنی قوت کو آزمائوں مَیں
ریل تک پا پیادہ جائوں مَیں
دوسرے کچھ کرایہ بچ جائے
راہِ مولیٰ میں وہ بھی کام آئے
مجھ کو دُکھ ہووے قوم سُکھ پائے
میری خدمت یہ اس کو یاد آئے
لاہور کی طرف روانگی
فرمایا:
تیسرے درجہ کا ٹکٹ لے کر
فضل حق سے چلا مَیں بسوئے سفر
پہلے لاہور تک کا قصد کیا
ابر و باراں نے میرا ساتھ دیا
خوف آتا تھا سخت بارش سے
دل ڈراتے ہوا کے دھکے تھے
اسی بارش میں پہنچے ہم لاہور
نظر آتے تھے طَور کچھ بے طَور
اسی کیچڑ میں مَیں گیا لاہور
میری ہمت پہ آپ کیجئے غور
سفر میں گرمی کی تکلیف
فرمایا:
وہاں سے بھلوال میں مَیں جا اُترا
سخت گرمی تھی اُس جگہ بخدا
انسپکٹر کے ڈیرے پر جو گیا
نہ ملا مجھ کو کچھ بھی اُن کا پتا
اسی گرمی میں پہنچا چک پنیار
گرمی اور ماندگی سے تھا ناچار
ایک چک میں مَیں ہو گیا داخل
ہوا آرام نہ کچھ وہاں حاصل
کیونکہ احباب تھے گئے باہر
عورتیں بس گھروں کے تھیں اندر
ایک مسجد میں ایک مکتب تھا
اس جگہ مَیں غریب بیٹھ گیا
پانی مانگا تو وہاں ملی لسی
ہو کے ناچار مَیں نے پی لسّی
اس سفر کی تکالیف کا ذکر
آخرش جنڈ میں مَیں جب پہنچا
بے خبر ریل سے جو مَیں اُترا
مَیں گرا اپنے ہی ٹرنک پہ جب
پڑ گیا میری پسلیوں پہ غضب
دَ ہنی جانب کو سخت چوٹ آئی
دَرد سے ہو گیا مَیں سودائی
یار تھا اور نہ کوئی یاور تھا
ساتھ بس اک خدائے برتر تھا
فضل سے اس کے بچ گئی میری جان
بچ گیا مَیں یہ اس کا ہے احسان
میرے ہمراہ اک سوار ہوا
میرے صدمہ میں غمگسار ہوا
اس نے ہاتھوں سے میری خدمت کی
اور زباں سے مجھے تسلّی دی
پانچ گھنٹے وہاں رہا ناچار
خاک پر پڑ گیا بحالتِ زار
تھا نہ بستر نہ چار پائی تھی
مَیں نے تکلیف سخت پائی تھی
رمضان اور عید کیسے گذرے
آج ہے عید بس گیا رمضان
ہائے افسوس! چل دیا مہمان
سارا رمضان مَیں سفر میں رہا
اسی چندہ کے درد سر میں رہا
صبح سے شام تک رہا چلتا
ایبٹ آباد رات کو پہنچا
ایک جگہ فرماتے ہیں:
میرے مولیٰ نے مجھ پہ فضل کیا
تَن دیا اور وہ تندرست دیا
شکر حق پر تواں ہوا ہوں مَیں