صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام
پر عیسائیوں کے اعتراضات
پر عیسائیوں کے اعتراضات
پہلا ا عتراض:۔ مسیح ناصری نے آسمان سے آنا تھا۔مرزا صاحب مسیح کیسے ہو سکتے ہیں؟
الجواب نمبر ۱:۔ یہ کہنا کہ مسیح ناصری خود آئے گا غلط ہے۔خود مسیح نے کہہ دیا ہے کہ میں اب واپس دنیا میں نہیں آؤں گا بلکہ جو کوئی آئے گا ’’میرے نام پر ‘‘ آئے گا۔ دیکھویوحنا ۱۶/۱۰۔ ’’میں باپ کے پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھوگے۔‘‘ متی ۲۳/۳۹ میں ہے۔ ’’اب سے مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک وہ جو خداوند کے نام پر آتاہے۔‘‘ (متی ۲۳/۳۹)
جواب نمبر۲:۔ جس طرح یوحنا ایلیاہ ہو سکتا ہے ۔حضرت مرزا صاحبؑ بھی مسیح ہو سکتے ہیں۔
توریت میں ہے :۔ ’’ایلیاہ رتھ سمیت آسمان پر چڑھ گیا۔‘‘(۲۔سلاطین ۲/۱۱) پھر لکھا ہے:۔ ’’ایلیاہ دوبارہ دنیا میں آئے گا۔‘‘ (ملاکی ۴/۵)
مگر وہ آسمان سے نازل نہ ہوا۔یسوع نے یوحنا کو جو پیدا ہوا تھا ’’ایلیاہ‘‘ قرار دیا۔(متی ۱۱/۱۴) اسی طرح آج تم کہتے ہو کہ مسیح آسمان سیآئے گا۔
جواب نمبر۳:۔ انجیل سے ثابت ہے کہ مسیح موعود پیدا ہوگا۔چنانچہ لکھا ہے کہ جب ابنِ آدم (یسوع) نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔ (متی ۱۹/۲۸)
دوسرا اعتراض:۔ مسیح تو جلال کے ساتھ آسمان سے اترے گا اور سب لوگ اس پر ایمان لے آویں گے۔
الجواب:۔ غلط ہے۔ (الف) یسوع نے تو صاف کہا ہے:۔ ’’لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آچکا۔ انہوں نے اس کو نہ پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا۔اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دُکھ اٹھائے گا۔‘‘(متی ۱۷/۱۲) گویا جس طرح انہوں نے ایلیاہ کو جو آنے والا تھا’’یوحنا‘‘ کی شکل میں نہ پہنچا اور اس کی تکذیب کی۔اسی طرح مسیح موعود کی بھی تکذیب کریں گے اور وہی پرانا اعتراض پیش کریں گے کہ اس نے آسمان سے نازل ہونا تھا۔
(ب)پھر یسوع کہتا ہے:۔ کہ خدا کی بادشاہت ظاہری طور پر نہ آئے گی۔ (لوقا ۱۷/۲۰) لہٰذا آسمان سے جلال کے ساتھ نازل ہونا چہ معنی دارد۔
(ج) مسیح کی آمد چور کی طرح ہوگی۔ (۲۔پطرس ۳/۱۰ و ۱۔ تھسلینکیوں۵/۲ و لوقا۱۲/۳۹ و متی۲۴/۴۳) چور رات کو چھپ کر اور لباس بدل کر آتا ہے یا جلال کے ساتھ اپنی اصلی شکل میں۔ اسی طرح مسیح نے بھی بھیس بدل کر اپنے مثیل کے رنگ میں آنا تھامگر تم نے اس کے کلام کو نہ سمجھا۔
تیسرا اعتراض:۔ مسیح نے کہا :۔ بہت سے جھوٹے مسیح آئیں گے تم ان پر ایمان نہ لانا۔ مرزا صاحب بھی انہیں میں سے ہیں۔خواہ کتنے نشان دکھائیں ہم نہیں مانیں گے ۔
الجواب :۔ یسوع نے جن جھوٹے مدعیان مسیحیت و نبوت کا ذکر کیا ہے وہ وہی ہیں جو یسوع کو ’’خداوند‘‘ کہتے ہیں اور اس کے نام سے بد روحوں کونکالنے کے اور اس کے فیض اور اسی کی برکت سے مسیحیت کے مدعی ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’جھوٹے نبیوں سے خبردار رہو۔جو تمہارے پاس بھیڑوں کے لباس میں آتے ہیں مگر باطن میں پھاڑنے والے بھیڑیے ہیں۔ ان کے پھلوں سے تم انہیں پہچان لو گے……جو مجھ سے اے خداوند! اے خداوند! کہتے ہیں اس دن بہتیرے مجھ سے کہیں گے اے خداوند، اے خداوند کیا ہم نے تیرے نام سے نبوت نہیں کی؟ اور تیرے نام سے بدروحوں کو نہیں نکالا۔اور تیرے نام سے بہت سے معجزے نہیں دکھائے۔‘‘ (متی۱۵تا۷/۲۲)
گویا وہ جھوٹے نبی (۱) بُرے پھلوں والے (۲) یسوع کو خداوند کہنے والے (۳) اسی کی برکت سے سب کچھ کرنے والے ہوں گے۔
مرزا صاحب میں یہ تینوں باتیں نہیں پائی جاتیں۔ آپ تو یسوع کی الوہیت کے سب سے بڑے دشمن تھے۔آپ نے تحفہ قیصریہ میں مسیح کے نام سے آنے والا اپنے آپ کو کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں۔اصل مسیح چونکہفوت ہو گیا ہے اس لیے آنے والا مثیل مسیح حضور علیہ السلام ہی کا وجود با جود ہے۔ ورنہ آپ نے یسوع کے فیض سے نبوت پانے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔ہاں یسوع کی عبارت مندرجہ متی۷/۱۸ میں ڈوئی جیسے عیسائی مدعیانِ مسیحیت و نبوت شامل ہیں جو الوہیتِ مسیح کے قائل اور اسی کے نام سے سب کچھ کرنے کے مدعی ہیں۔ (مثلاً تھیوداس اور یہوداہ گلیلی دیکھو اعمال ۳۶،۵/۳۷)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر اس پیشگوئی کو چسپاں کرنا سراسر ظلم ہے۔آپ کی اولاد اور جماعت کو دیکھو۔
چوتھا اعتراض:۔ مَری پڑنا۔لڑائیوں کا ہونا۔بھونچال آنا۔چاند سورج کا تاریک ہونا وغیرہ۔یہ نشان تو مسیح کی آمد ثانی کے پہلے ہونے ہیں نہ کہ اس کی آمد کے بعد۔
الجواب:۔ یہ عقلاً غلط ہے۔سزا ہمیشہ قانون کی خلاف ورزی کے بعد ہوتی ہے نہ کہ اس سے قبل؟ دنیا میں عالمگیر عذاب ہمیشہ نبی کی بعثت اور اس کی تکذیب کے بعد ہی آیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں بھی ہے (بنی اسرائیل:۱۶)
مَّنِ ٱهۡتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَہۡتَدِى لِنَفۡسِهِۦۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيۡہَاۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ۬ وِزۡرَ أُخۡرَىٰۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبۡعَثَ رَسُولاً۬ (١٥) (بنی اسرائیل:۱۶)
اور یہی بات آپ کی توریت میں بھی لکھی ہے۔ ’’اور یہ ہوگا کہ جو شخص اس نبی کی نہ سنے گا وہ امت میں سے نیست و نابود ہو جائے گا۔‘‘ (استثنا ۱۸/۱۹ و اعمال ۳/۲۳)
لہٰذا آپ کی انجیل کے کاتب نے اتنی غلطی کی ہے کہ پیچھے واقع ہونے والی بات کو پہلے لکھ دیا۔ پس کاتب کا قلم باطل ہے۔ (یرمیاہ:۸/۸)
اور انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کی آمد اچانک ہو گی اور اس کا اس سے قبل کسی کو علم نہ ہو گا۔ پس اس سے پہلے بیماریاں پڑنا غلط ثابت ہوا۔ ( متی۳۲تا۴۳؍۲۴ مرقس۳۲تا۳۷؍۱۳)
پانچواں اعتراض:۔ مرزا صاحب کو ان کے گھر میں قبولیت نہ ہوئی۔قادیان میں بھی سب لوگ احمدی نہیں ہوئے۔پنجاب اور ہندوستان نے ان کو قبول نہیں کیا۔
الجواب :۔ یہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کی دلیل ہے نہ کہ کذب کی۔خود یسوع کہتا ہے:۔
(الف) میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ کوئی نبی اپنے وطن میں مقبول نہیں ہوتا۔ (لوقا۴/۲۴)
(ب) نبی اپنے وطن اور اپنے گھر کے سوا کہیں بے عزت نہیں ہوتا۔ (متی۱۳/۵۷)
(ج) یہی تو مسیح ناصری کی پیشگوئی تھی کہ مسیح کی آمد ثانی کے وقت اس کی تکذیب ہوگی اور لوگ اسے نہیں مانیں گے۔
۱۔ ’’لیکن پہلے ضرور ہے کہ بہت دُکھ اٹھائے اور اس زمانہ کے لوگ اسے رد کریں……ابنِ آدم کے ظاہر ہونے کے دن بھی ایسا ہی ہوگا۔‘‘ (لوقا ۱۷/۲۵)
۲۔ ’’لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ ایلیاہ تو آچکا اور انہوں نے اس کو نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا۔اسی طرح ابن آدم بھی ان کے ہاتھ سے دُکھ اٹھائے گا۔‘‘ (متی۱۷/۱۲)
(د) نئے عہد نامے میں صاف لفظوں میں موجود ہے کہ تکذ یب ہونا اور دکھ پہنچنا سچے نبیوں کی علامت ہے۔ملاحظہ ہو۔یعقوب ۵/۱۰۔ ’’جن نبیوں نے خداوند کے نام سے کلام کیا ان کو دُکھ اٹھانے اور صبر کرنے کا نمونہ سمجھو……تم نے ایوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے۔‘‘
چھٹا اعتراض:۔ مرزا صاحب کی پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیں۔محمدی بیگم وغیرہ۔
الجواب:۔ محمدی بیگم وغیرہ پیشگوئیاں تفصیل سے دوسری جگہ درج ہیں۔یہ سب پیشگوئیاں انذاری تھیں اور پوری ہوئیں، لیکن تمہاری بائیبل سے ثابت ہے کہ انذاری پیشگوئیاں ٹل جایا کرتی ہیں۔ یونس نبی کی چالیس یومی پیشگوئی دیکھو یوناہ باب ۳ آیت ۴ ۔ اسی طرح اپنے پولوس رسول کی پیشگوئی دیکھو اعمال۱۰تا۲/۲۵
پہلے کہا:۔ ’’اس سفر میں بہت تکلیف اور نقصان ہو گا۔نہ صرف مال اور جہاز کا بلکہ ہماری جانوں کا بھی۔‘‘ (اعمال ۲۷/۱۰)لیکن بعد میں کہا۔خاطر جمع رکھو کیونکہ تم میں سے کسی کی جان کا نقصان نہ ہوگامگر جہاز کا……ان سب کی خدا نے تیری خاطر جان بخشی کی۔ (اعمال ۲۲تا۲۷/۲۴)
یسوع کی پیشگوئیوں کا حال مضمون’’قرآنی مسیح و انجیلی یسوع‘‘میں مذکور ہے۔دیکھوصفحہ۱۲۸۔
تم یسوع کی ایک پیشگوئی انجیل سے سچی ثابت کردو ہم اسکے مقابلہ میں حضرت مرزا صاحبؑ کی دو پیش کریں گے۔آؤ میدان میں نکل کر مقابلہ کرو۔دیدہ باید
جیسا کہ خود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے عیسائیوں کو انعامی چیلنج بھی دیا مگر کسی عیسائی کو مقابلہ پر آنے کی جرأت نہ ہوئی۔حضرت علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔
’’میرا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یسوع کی پیشگوئیوں کی نسبت میری پیشگوئیاں اور میرے نشان زیادہ ثابت ہیں۔اگر کوئی پادری میری پیشگوئیوں اور میرے نشانوں کی نسبت یسوع کی پیشگوئیاں اور نشان ثبوت کے رو سے قوی تر دکھلاسکے تو میں اسکو ایک ہزار روپیہ نقد دونگا‘‘ ( اشتہار مشمولہ رسالہ انجام آتھم و تبلیغ رسالت جلد۶۔ ص۱۷)
ساتواں اعتراض :۔ مرزا صاحب کی وفات کے بعد ان کی جماعت میں اختلاف پھیل گیا۔
الجواب:۔ ذرا انجیل پڑھو۔یسوع کی وفات کے تھوڑا ہی عرصہ بعد پولوس کرنتھیوں کو یوں مخاطب کرتا ہے:۔ ’’اے بھائیو! ……تم میں جھگڑے ہو رہے ہیں۔‘‘ (۱۔کرنتھیوں۱/۱۱)
’’تم میں بڑا نقص یہ ہے کہ آپس میں مقدمہ بازی کرتے ہو۔‘‘ (۱۔کرنتھیوں۶/۷)
آٹھواں اعتراض:۔ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو مریم قرار دیا۔وہ عورت کس طرح بن گئے؟
الجواب :۔ انجیل پڑھو۔پولوس عیسائیوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے :۔
۱۔’’ میں نے ایک ہی شوہر کے ساتھ تمہاری نسبت کی ہے تاکہ پاکدامن کنواری کی مانند تم کو مسیح کے پاس حاضر کروں۔‘‘ (۲کرنتھیوں۱۱/۲)
گویا عیسائی یسوع کی بیویاں ہیں۔
۲۔’’میں تجھے دلہن کے برّے کی بیوی دکھاؤں۔‘‘(مکاشفہ۲۱/۹) اس میں یسوع کے بارہ شاگردوں کو یسوع کی بیویاں قرار دیا گیا ہے۔
۳۔یسوع نے اپنے شاگردوں کی طرف ہاتھ بڑھا کر کہا ہے۔یہ ہے میری ماں۔ (لوقا۸/۲۱)