غیر احمدی علماء کے اعتراضات کے جوابات
(الہامات پر اعتراضات )
۱۔اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ۔
اعتراض ۔ انت منی و انا منک الہام اللہ کی توہین ہے ۔
جواب:۔الف۔حضرت مسیح موعودؑنے اس کو ’’استعارہ‘‘ قرار دیا ہے ۔(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۸۹حاشیہ) ’’تَفْسِیْرُ الْقَوْلِ بِمَا لَا یَرْضٰی بِہٖ قَائِلُہٗ ‘‘ درست نہیں ہوتی ۔
ب۔عربی زبان میں یہ محاورہ اتحاد ومحبت کے معنوں میں مستعمل ہے ۔قرآن میں ہے (البقرۃ:۲۵۰)یعنی جو اس نہر میں سے پانی پئے گا وہ مجھ سے نہیں اور (ابراہیم :۳۷)یعنی جو میری پیروی کرے گا وہ مجھ سے ہوگا ۔
ج۔حدیث شریف میں بھی ہے ۔(۱)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کو فرمایا اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب المناقب والفضائل باب مناقب علی الفصل الاول صفحہ۴۲۸ وبخاری کتاب الصلح باب کَیْفَ یُکْتَبُ ھٰذَا)
(۲)اشعری قبیلہ کو فرمایا ھُمْ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْھُمْ (بخاری کتاب المغازی باب قدوم الاشعریین قصہ عمان والبحرین۔ وترمذی ابواب المناقب باب فی ثقیف و بنی حنیفۃو بخاری کتاب المظالم باب شرکت فی الطعام)یعنی وہ مجھ سے ہیں او ر میں ان سے ۔
(۳)حدیث میں ہے:۔ اَنَا مِنَ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَالْمُؤْمِنُوْنَ مِنِّیْ فَمَنْ اَذٰی مُؤْمِنًا فَقَدْ اَذَانِیْ وَمَنْ اَذَانِیْ فَقَدْ اَذَی اللّٰہَ عَزَّ وَ جَلَّ
(فردوس الاخبا ر دیلمی صفحہ۱۱باب الف راوی حضرت عبداﷲ بن جرا د ؓ )
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خدائے عزّو جلّ سے ہوں اور مومن مجھ سے ہیں۔ پس جو شخص کسی مومن کو ایذا دیتا ہے وہ مجھ کو ایذا دیتا ہے اور جو مجھ کو ایذا دیتا ہے اس نے گویا خدا کو ایذا پہنچائی ۔
(۴)مندرجہ ذیل حدیث اس سے بھی واضح ہے۔ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ اَلسَّخِیُّ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ (فردوس الاخبار دیلمی صفحہ۲۹۱سطر ۴ باب الیاء راوی انسؓ بن مالک )آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ سخی مجھ سے ہے اور میں سخی سے ہوں۔‘‘ اس حوالہ میں اﷲ تعالیٰ نے ’’مِنْ‘‘ کا محاورہ انسانوں کے متعلق استعمال فرمایا ہے ۔
(۵)ایک اور حدیث میں ہے۔ ’’اَلْعَبْدُ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَمِنْہُ۔ ‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان بحوالہ جامع الصغیر لامام سیوطیؒ باب العین جلد ۲ صفحہ۶۸مصری حدیث نمبر۵۶۶۷)یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غلام یا بندہ خدا میں سے ہے۔ اور خدا بندے سے ۔
(۶)ایک اور روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اَبُوْ بَکْرٍ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ۔‘‘ (فردوس الاخبار دیلمی بحوالہ جامع الصغیر امام سیوطیؒ باب الالف جلد ۱ صفحہ۲۸ حدیث نمبر۷۲)
(۷)ایک اور حدیث ہے:۔’’اِنَّ الْعَبَّاسَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہُ۔ ‘‘
(مسند امام احمد بن حنبلؒ جلد اوّل صفحہ ۴۹۴ مسند عبداﷲ بن عباس بحوالہ کنوز الحقائق فی حدیث خیر الخلائق مصنفہ امام عبد الرؤف المنادی باب الالف بر حاشیہ جامع الصغیر جلد ۱ صفحہ۶۵مصری )
(۸)ایک حدیث میں ہے:۔’’ بَنُوْ نَاجِیَۃٍ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْھُمْ۔ ‘‘
(کنوز الحقائق باب الباء برحاشیہ جامع الصغیر جلد ۱ صفحہ۸۸)
د۔دیگر حوالے :۔
(۱)تفسیر بیضاوی میں آیت (البقرۃ:۲۵۰)کی شرح میں لکھا ہے:۔ ’’اَیْ لَیْسَ بِمُتَّحِدٍ بِ یْ‘‘(بیضاوی زیر آیت بالا )یعنی جو پانی پئے گا اس کا مجھ سے اتحادنہ ہوگا ۔
(۲)تفسیر ابی السعود میں آیت بالا البقرۃ:۲۴۹کے ماتحت لکھا ہے:۔
’’لَیْسَ بِمُتَّصِلٍ بِیْ وَمُتَّحِدٍ مَعِیْ مِنْ قَوْلِھِمْ فَلَانٌ مِنِّیْ کَاَنَّہٗ بَعْضُہٗ لِکَمَالِ اخْتِلَاطِھَمَا۔ ‘‘ (برحاشیہ تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت مَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔ البقرۃ:۲۴۹)
(۳)حدیث کی شرح میں لکھا ہے:۔ قَوْلُہٗ ھُمْ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْھُمْ۔ یُرَادُ بِہِ الْاِتِّصَالُ اَعْنِیْ ھُمْ مُتَّصِلُوْنَ بِیْ (حاشیہ بخاری کتاب المغازی باب قدوم الاشعریین واھل الیمن )کہ اس سے مراد اتصال ہے یعنی وہ میرے قریب ہیں ۔
(۴)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے علم، حسن خلق اور پرہیز گاری کے متعلق فرمایا:۔ ’’ثَلَاثٌ مَنْ لَمْ تَکُنْ فِیْہِ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَلَا مِنَ اللّٰہِ۔ (معجم الصغیر الطبرانی جلد۱ زیر من اسمہ عبدالوہاب)
(۵) وفیات الاعیان لابن خلکان میں ہے:۔ بَلْ ھٰذَا کَمَا یُقَالُ مَا اَنَا مِنْ فُلَانٍ وَلَافَلَانٌ مِنِّیْ یُرِیْدُوْنَ بِہٖ الْبُعْدُ مِنْہُ وَالْاَنِفَۃُ وَمِنْ ھٰذَا قَوْلُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَدُ الزِّنَا لَیْسَ مِنَّا وَعَلِیٌّ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْہَُ (وفیات الاعیان ۔ذکر ابو تمام الطائی )کہ ابو تمام کا قول لَسْتُ مِنْ سَعُوْدٍ اسی طرح ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ میں فلاں آدمی سے نہیں ہوں ۔اور نہ وہ مجھ سے ہے۔ اہل زبان کی مراد اس سے اس شخص سے بُعد اور نفر ت کا اظہار ہوتا ہے اور ایسا ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول ہے کہ ولد الزّنا ہم میں سے نہیں اور یہ کہ علیؓ مجھ سے ہے اور میں علیؓ سے ہوں ۔
(۶)عرب شاعر عمرو بن شاش اپنی بیوی سے کہتا ہے ۔
فَاِنْ کُنْتِ مِنِّیْ اَوْ تُرِیْدِیْنِ صُحْبَتِیْ (دیوان الحماسہ صفحہ۴۳ مکتبہ اشرفیہ۔ قول عمرو بن شاس)
کہ اگر تو مجھ سے ہے اور میری مصاحبت چاہتی ہے ۔
پس اَنْتَ مِنِّیْ وَاَنَا مِنْکَ کا مطلب یہ ہے کہ تجھے مجھ سے محبت ہے اور مجھے تجھ سے۔ تیرا وہی مقصد ہے جو میرا ہے ۔
(۷)مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسر ی آیت (البقرۃ:۲۵۰)کا ترجمہ اپنی تفسیر ثنائی میں یوں کرتے ہیں :۔ ’’جو شخص اس (نہر) سے پئے گا وہ میری جماعت سے نہ ہوگا اور جو نہ پئے گا تو وہ میرا ہمراہی ہو گا ۔‘‘
(تفسیر ثنائی جلد ۱ تفسیر زیر آیت مَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ البقرۃ:۲۴۹)
۲۔ الف۔اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ اَوْلَادِیْ
ب۔اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ
اعتراض۔ انت منی بمنزلۃ ولدی ۔ تم مجھے سے بیٹوں کی مانند ہو ۔ توحید کا انکار اور اللہ کی توہین ہے۔
جواب:۔۱۔حضرت مرزا صاحبؑ فرماتے ہیں :۔
’’خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے ‘‘ (حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۸۹ حاشیہ)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس الہام کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’یادرہے کہ خدا تعالیٰ بیٹوں سے پاک ہے۔ نہ اس کا کوئی شریک ہے اور نہ بیٹا ہے اور نہ کسی کو حق پہنچتا ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں خدا ہوں یا خدا کابیٹا ہوں۔ لیکن یہ فقرہ اس جگہ قبیلِ مجاز اور استعارہ میں سے ہے ۔خدا تعالیٰ قرآن شریف میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنا ہاتھ قرار دیتا ہے۔ اور فرمایا (الفتح :۱۱)ایسا ہی بجائے قُلْ یٰعِبَادَ اللّٰ ہِ(یعنی کہہ دے اے اﷲ کے بندو! خادمؔ) کے (الزمر:۵۴) (یعنی اے نبی! ان سے کہہ۔ اے میرے بندو!)اور یہ بھی فرمایا (البقرۃ :۲۰۱)پس اس خدا کے کلام کو ہشیاری اور احتیاط سے پڑھو او راز قبیل متشابہات سمجھ کر ایمان لاؤ۔ اور یقین رکھو کہ خدا اتخاذ ولد سے پاک ہے اور میری نسبت بینات میں سے یہ الہام ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ اَنَّمَا اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَاحِدٌ وَالْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ (اربعین نمبر ۲ صفحہ۸ بحوالہ براہین احمدیہ صفحہ۴۱۱) (یعنی کہہ دے کہ میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں جس پر وحی ہوتی ہے بیشک تمہارا ایک ہی خدا ہے اور سب خیر وخوبی قرآن میں ہے ۔) (دافع البلاء روحانی خزائن جلد۱۸ حاشیہ صفحہ۶ تذکرہ صفحہ۳۹۷مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
۲۔قرآن مجید میں ہے۔ کہ خدا کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو۔ گویا خدا ہمارا باپ نہیں ہے مگر بمنزلۂ باپ ہے۔ جس طرح ایک بیٹا اپنا ایک ہی باپ مانتا ہے او راس رنگ میں اس کی توحید کا قائل ہوتا ہے۔اسی طرح خدا بھی چاہتا ہے کہ اس کو ’’وحدہٗ لاشریک‘‘ یقین کیا جائے اور جو اس رنگ میں خد ا تعالیٰ کی توحید کا قائل اور اس کے لئے غیرت رکھنے والا ہووہ خداتعالیٰ کو بمنزلہ اولاد ہوگا ۔
۳۔ الہام میں اَنْتَ وَلَدِیْ نہیں بلکہ بِمَنْزِلَۃِ وَلَدِیْ ہے جو صریح طور پر خدا کے بیٹے کی نفی کرتا ہے ۔
۴۔ حدیث میں ہے۔ (الف) ’’اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عَیَالِہٖ ‘‘(مشکوٰۃ کتاب الآداب باب الشفعہ الفصل الثالث )کہ تمام لوگ اﷲ کا کنبہ ہیں۔ پس بہترین انسان وہ ہے جو خدا کے کنبہ کے ساتھ بہترین سلوک کرے ۔
(ب)’’اَنَّ الْفُقَرَآءَ عَیَالُ اللّٰہِ ‘‘ (تفسیر کبیر امام رازی زیرآیت اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاکِیْنِ (التوبۃ:۶۰)کہ غرباء خدا کے بال بچے یا کنبہ ہیں۔ (نیز دیکھو جامع الصغیر امام السیوطیؒ مطبوعہ مصر جلد ۲ صفحہ۱۲)
۵۔شاہ ولی اﷲ صاحب محدّث دہلوی لفظ ’’ابن اﷲ‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:۔ ’’اگر لفظ ابنا بجائے محبوبان ذکر شدہ باشدچہ عجب‘‘ (الفوز الکبیرصفحہ۸)نیز دیکھو الحجۃ البالغۃ باب ۳۶ جلد۱۔ اردو ترجمہ موسومہ بہ شموس اﷲ البازغہ مطبوعہ حمایت اسلام پریس لاہو رجلد ۱صفحہ۱۰۹فرماتے ہیں:۔فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ لَمْ یَفْطَنُوْا الْوَجْہَ التَّسْمِیَّۃَ وَکَادُوْا یَجْعَلُوْنَ الْبُنُوَّۃَ حَقِیْقِیَّۃً۔‘ ‘ یعنی ابتدائی نصاریٰ کے بعد ان کے ناخلف پیدا ہوئے جنہوں نے مسیح علیہ السلام کے ابن اﷲ ہونے کی و جہ تسمیہ کو نہ سمجھااور وہ بیٹے کے لفظ سے حقیقی معنوں میں بیٹا سمجھے ۔‘‘
۶۔جناب مولوی رحمت اﷲ صاحب مہاجر مکی اپنی کتاب ’’ازالۃ الاوہام‘‘میں فرماتے ہیں:۔
’’فرزند عبارت از عیسیٰ علیہ السلام است کہ نصارٰی آنجناب را حقیقۃ ابن اﷲ میدانند واہلِ اسلام ہمہ آنجناب را ابن اﷲ بمعنی عزیز وبرگزیدۂ خدامی شمارند ۔‘‘ (ازالۃ الاوہام صفحہ۵۲۰)
کہ فرزند سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جن کو عیسائی خدا کا حقیقی بیٹا سمجھتے ہیں مگر تمام اہلِ اسلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’’ابن اﷲ‘‘ بمعنی خدا کا پیارا وبرگزیدہ مانتے ہیں۔ گویا ’’ابن اﷲ‘‘ کے معنی خدا کا پیارا اور برگزیدہ ہوئے۔ اور ان معنون میں مسلمان بھی مسیح کو ابن اﷲ مانتے ہیں ۔
Last edited: