فضائل القرآن ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیرالدین محمود احمد رض
فضائل القران(۶)
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
فضائل القرآن (۶)
ترتیبِ قرآن کا مسئلہ اور استعارات کی حقیقت
اِستعارات اور تشبیہات سے پیدا شُدہ غلط فہمیوں کے ازالہ کا طریق
(تقریر فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۶ء برموقع جلسہ سالانہ)
تشہّد ‘ تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمَاَ۔ وَقَالَا الْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَo وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَال یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِوَ اُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَا لْفَضْلُ الْمُبِیْنُo وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَھُمْ یُوْزَعُوْنَo حَتّٰی اِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِالنَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰأَیَّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَایَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ وَھُمْ لَایَشْعُرُوْنَo فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِھَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحَیْنَo وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَالِیَ لَآ اَرَی الْھُدْھُدَ اَمْ کَانَ مِنَ الْغَائِبِیْنَo لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْلَااَذْبَحَنَّہٗ اَوْلَیَأْ تِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍo فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَالَمْ تُحِطْ بِہٖ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَأٍ بِنَبَأٍ یَّقِیْنٍo اِنِّیْ وَجَدْتُ امْرَأَۃً تَمْلِکُھُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ وَّلَھَا عَرْشٌ عَظِیْمٌo وَجَدْتُّھَا وَ قَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَایَھْتَدُوْنَo اَلاَّ یَسْجُدُوْالِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْ ئَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَاتُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَo اَللّٰہَ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھَوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ أَمْ کُنْتَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَo اِذْھَبْ بِّکِتٰبِیْ ھٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَیْھِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْھُمْ فَانْظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَo ۱؎
اس کے بعد فرمایا:۔
میرا آج کا مضمون پھر اُسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو تین سال پہلے میں بیان کر رہا تھا یعنی فضائل القرآن۔ درمیان میں تین سال اِس میں ناغہ ہو گیا کیونکہ رمضان کی وجہ سے لمبی تقریر نہیں کی جا سکتی تھی۔ اِس دفعہ بھی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مَیں لمبی تقریر نہیں کر سکتا لیکن چونکہ میں اِس مضمون کے بیان کرنے کا ارادہ کر چکا تھا اِس لئے مَیں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس مضمون کا کوئی حصہ اختصار کے ساتھ بیان کر دیا جائے۔
قرآن کریم کے سِوا اور کسی کتاب کو اَفْضَلُ الکُتب ہونیکا دعویٰ نہیں
تمام مذاہب جو دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ اپنی فضیلت اور برتری کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اپنی مذہبی کتب
کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ اَفْضَلُ الکتب ہیں لیکن اُن کی کتب کو یہ دعویٰ نہیں۔ مَیں نے آج تک سوائے قرآن کریم کے کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جس میں یہ لکھا ہو کہ وہ دوسری مذہبی کتب سے افضل ہے۔ ہاں قرآن کریم بے شک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تمام الہامی کتابوں پر فضیلت رکھتا ہے مگر یہ کہ وہ کس طرح افضل ہے یہ ایک سوال ہے جس کا جواب دینا مسلمانوں کے ذمّے ہے۔ غیر مذاہب والے یا تو قرآن پڑھتے نہیں یا بوجہ اِس کے کہ قرآن تعصّب کی نگاہ سے پڑھتے ہیں صاف دل لے کر اِس کا مطالعہ نہیں کرتے۔ یا بوجہ اس کے کہ وہ قلبِ مطہر نہیں رکھتے اور قرآن فرماتا ہے کہ لَایَمَسُّہٗ اِلَّاالْمُطَھَّرُوْنَ ۲؎ میرے مطالب اور معانی مطہر قلوب پر ہی کُھل سکتے ہیںقرآن کریم کے مطالب اُن پر نہیں کُھلتے۔ پس یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن تک قرآن کریم کے مطالب پہنچائیں اور ثابت کریںکہ قرآن کریم نہ صرف ایک اعلیٰ کتاب ہے بلکہ وہ ساری الہامی کتابوں پر فضیلت رکھتی ہے۔ اس سلسلہ میں پانچ لیکچر مَیں پہلے دے چکا ہوں۔ ایک ۱۹۲۸ء میں تمہیدی طور پر مَیں نے دیا تھا مگر اُس وقت طبیعت بہت علیل تھی اس لئے صرف گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہی میں نے بعض باتیں بیان کی تھیں۔ پھر ۱۹۲۹ئ، ۱۹۳۰ئ، ۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء میں چار تفصیلی لیکچر مَیں نے فضائل القرآن پر دیئے گو بعض حصے اُس وقت بھی چھوڑنے پڑے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک کتاب براہین احمدیہ لکھی ہے۔ اس میں آپ نے اپنے اِس ارادہ کا اظہار فرمایا ہے کہ اسلام کی سچائی اور برتری ثابت کرنے کیلئے مَیں تین سَو دلائل دوں گا۔ مَیں نے جب اس مضمون پر غور کیا تو گو میں نے دلائل کو گِنا نہیں مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اسلام کی برتری اور فضیلت کے تین سَو دلائل ان نوٹس میں موجود ہیں جو مَیں نے اِس مضمون کے سلسلہ میں تیار کئے ہیں۔ اگر کوئی شخص میرے اِن نوٹوں کو پڑھ لے تو میں سمجھتا ہوں بہت سی باتیں اُس پر واضح ہو جائیں گی۔ یہ مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا میں نہیں جانتا کہ مَیں اِس مضمون کو مکمّل بیان کر سکوں یا نہ کر سکوں اس لئے میں نے ذکر کر دیا ہے۔ یہ تمام مصالحہ نہایت اختصار کے ساتھ بلکہ بعض جگہ محض اشارات میں ۱۹۲۸ء اور ۱۹۲۹ء میں مَیں نے جمع کر دیا تھا اور جلسہ سالانہ کے موقع پر انہیں بیان بھی کر دیا تھا۔ مجھے اُن دلائل کی تعداد تو یاد نہیں جو بیان کر چکا ہوں اس لئے میں نمبر کا نام نہیں لے سکتا صرف ضمناً بغیر نمبر دینے کے مَیں آج فضیلتِ قرآن کے ایک خاص پہلو کا ذکر کر دیتا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس مضمون کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو اوّل تو یہ قرآن کریم کی تفسیر کا ایک نہایت اعلیٰ دیباچہ ہوگا دوسرے براہین احمدیہ کی تکمیل بھی ہو جائے گی۔ یعنی اُس رنگ میں جس کا شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اظہار فرمایا تھا گو بعد میں اس کی تکمیل اور رنگ میں بھی ہوگئی یعنی وحی اور الہام اور آپ کی ماموریت اور نبوت کی شان نے اسلام کو جس رنگ میں تمام مذاہب پر غالب ثابت کیا وہ تین سَو دلائل کے اثر سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ پھر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی تحریر فرما دیا تھا کہ اب یہ سلسلہ تالیفِ کتاب بوجہ الہاماتِ الٰہیہ دوسرا رنگ پکڑ گیا ہے اور اب ہماری طرف سے کوئی شرط نہیں بلکہ جس طرز پر خدا تعالیٰ مناسب سمجھے گا بغیر لحاظ پہلی شرائط کے اس کو انجام دے گا۔ کیونکہ اَب اِس کتاب کا وہ خود متولّی ہے اور اُس کی مشیّت کسی اَور رنگ میں اِس کی تکمیل چاہتی ہے۔ لیکن اگر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ پہلی خواہش بھی پوری ہو جائے تو دشمنوں کا یہ اعتراض مٹ جاتا ہے کہ آپ نے براہین احمدیہ کو مکمل نہیں کیا اور وعدہ کے باوجود قرآن کریم کی فضیلت کے تین سَو دلائل پیش نہیں کئے۔
براہین احمدیہ اور مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی
آجکل تو ’’زمیندار‘‘
اور ’’احسان‘‘ وغیرہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدرآبادی تھے وہ آپ کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ جب تک اُن کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپ بھی کتاب لکھتے رہے مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیئے تو آپ کی کتاب بھی ختم ہو گئی۔ گو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہوگیا کہ اُنہیں جو اچھا نکتہ سُوجھتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھ کر بھیج دیتے اور اِدھر اُدھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے۔ آخر مولوی چراغ علی صاحب مصنّف ہیں۔ براہین احمدیہ کے مقابلہ میں اُن کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسرے کو تو ایسا مضمون لکھ کر دے سکتے تھے جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اُس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی۔ پس اوّل تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے؟ اور اگر بھیجتے تو عُمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے۔ جیسے ذوقؔ کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفرؔ کو نظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے۔ مگر ’’دیوانِ ذوق‘‘ اور دیوانِ ظفر‘‘ آجکل دونوں پائے جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوقؔ کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے وہ ظفرؔ کے کلام میں نہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفرؔ کو کوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے حالانکہ ظفر بادشاہ تھا۔ غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کومضامین بھیجا کرتے تھے تو انہیں چاہئے تھاکہ معرفت کے عُمدہ عُمدہ نکتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھ کر بھیجتے۔ مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی کتابیں بھی۔ انہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لو کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ انہوں نے تو اپنی کتابوں میں صرف بائیبل کے حوالے جمع کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کئے ہیں جو تیرہ سَوسال میں کسی مسلمان کو نہیں سُوجھے۔ اور اِن معارف اور علوم کا سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کی کتابوں میں نہیں۔
الہامی کتب کے سمجھنے میں ایک دِقّت
میرا آج کا مضمون اِس بات پر ہے کہ ہر الہامی کتاب میں بعض ایسے مُشکل مضامین
ہوتے ہیں جن کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شُبہات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ آسانی سے حل نہیں ہوتے یا ان کے متعلق آپس میں بحث شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے اِس کا یہ مطلب ہے اور کوئی کہتا ہے اِس کا وہ مطلب ہے۔ ایسی صاف بات نہیں ہوتی جیسے مثلاً یہ حُکم ہے کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ نماز قائم کرو۔ جو شخص عربی جانتا اور اسلام سے واقفیت رکھتا ہے وہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ سنتے ہی فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز قائم کرو۔ یہ جھگڑا پیدا نہیں ہوتا کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ سے مراد نماز نہیں روزہ ہے یا روزہ نہیں حج ہے۔ آگے نماز کی کیفیات میں فرق ہو سکتا ہے خشوع خضوع میں فرق ہو سکتا ہے عرفان میں فرق ہو سکتا ہے مگر اس بات میں کوئی اخلاف نہیں ہو سکتا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز قائم کرو۔ بلکہ جونہی کسی کے منہ سے یہ فقرہ نکلے گا کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ یا قرآن کریم میں یہ حُکم دیکھے گا فوراً سمجھ جائے گا کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ نمازیں پڑھو۔ مگر جو مشکل مسائل ہوتے ہیں اُن کو بعض لوگ سمجھتے ہیں اور بعض نہیں سمجھتے اور اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ جو باخبر ہیں اُنہیں وہ مسائل سمجھائیں۔ خواہ اِس وجہ سے کہ وہ خود غور نہیں کرتے یا اِس وجہ سے کہ ان کا دل کسی گناہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ یہ مشکل مضامین بِالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں ایک علمی مضامین جو باریک فلسفے پر مبنی ہوتے ہیں مثلاً توحید ہے اس کا اتنا حصہ تو ہر شخص سمجھ سکتاہے کہ خدا ایک ہے مگر آگے یہ صوفیانہ باریکیاں کہ کس طرح انسان کے ہر فعل پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اثر پڑتا ہے اس کیلئے ایک عارف کی ضرورت ہوگی اور یہ مسائل دوسرے کو سمجھانے کیلئے کوئی عالِم درکار ہوگا ہر شخص یہ باریکیاں نہیں نکال سکتا لیکن اتنی بات ضرور سمجھ لے گا کہ قرآن دوسرے خدا کا قائل نہیں۔ دوسرے یہ مشکلات ایسے مطالب کے متعلق پیدا ہوتی ہیں جو علمی تو نہ ہوں مگر وہ اُس زبان میں بیان کئے گئے ہوں جسے تشبیہہ اور استعارہ کہتے ہیں۔
استعارات کو حقیقت قرار دینے کا نتیجہ
استعارہ میں جب بھی بات کی جائے تو گو وہ باریک نہیں ہوتی
مگر عوام الناس اُس زبان کو نہ جاننے کی وجہ سے اس کے ایسے معنی کر لیتے ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک واقعہ پیش آیا۔ جب شام کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو سالارِ لشکر بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ اگر زید مارے جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمان لے لیں اور اگر جعفر مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ کمان لے لیں تو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی وقوع میں آیا اور حضرت زیدؓ اور حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہؓ تینوں شہید ہو گئے اور حضرت خالد بن ولیدؓ لشکر کو اپنی کمان میں لے کر بحفاظت اُسے واپس لے آئے۔ جس وقت مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو جن عورتوں کے خاوند مارے گئے تھے یا جن والدین کے بچے اِس جنگ میں شہید ہوئے تھے اُنہوں نے جس حد تک کہ شریعت اجازت دیتی ہے رونا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اظہارِ افسوس کیلئے نہ اس لئے کہ عورتیں جمع ہو کر رونا شروع کر دیں فرمایا۔ جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں۔ میرے نزدیک اِس فقرہ سے آپ کا یہ منشا ہر گز نہیں تھا کہ کوئی جعفر کو روئے بلکہ مطلب یہ تھا کہ ہمارا بھائی بھی آخر اِس جنگ میں مارا گیا ہے جب ہم نہیں روئے تو تمہیں بھی صبر کرنا چاہئے۔ کیونکہ حضرت جعفرؓ کے رشتہ دار وہاں یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے یا حضرت علیؓ تھے اور یہ جس پایہ کے آدمی تھے اس کے لحاظ سے ان کی چیخیں نہیں نکل سکتی تھیں۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباًاس بات کے اظہار کیلئے کہ میرا بھائی جعفرؓ بھی مارا گیا ہے مگر مَیں نہیں رویا فرمایا جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں۔ انصار نے جب یہ بات سُنی تو چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو پورا کرنے کا بے حد شوق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے اپنے گھر جا کر عورتوں سے کہنا شروع کیا کہ یہاں رونا دھونا چھوڑو اور جعفرؓ کے گھر چل کر روئو۔ چنانچہ سب عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر میں اکٹھی ہوگئیں اور سب نے ایک کُہرام مچا دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آواز سُنی تو فرمایا کیا ہوا؟ انصار نے عرض کیا۔ یا رَسُوْلَ اللہ! ﷺ آپ نے جو فرمایا تھا کہ جعفرؓ پر کوئی رونے والا نہیں اس لئے ہم نے اپنی عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر بھیج دی ہیں اور وہ رو رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔ جائو انہیں منع کرو۔ چنانچہ ایک شخص گیا اور اُس نے انہیں منع کیا۔ وہ کہنے لگیں تم ہمیں کون روکنے والے ہو؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آج افسوس کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جعفرؓ کو رونے والا کوئی نہیں اور تُو ہمیں منع کرتا ہے۔ وہ یہ جواب سُن کر پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ کیونکہ بعض لوگوں کو دوسروں کی ذرا ذرا سی بات پُہنچانے کا شوق ہوتا ہے اور عرض کیا وہ مانتی نہیں۔آپ نے فرمایا۔ اُن کے سروں پر مٹی ڈالو۔ مطلب یہ تھا کہ چھوڑو اور اُنہیں کچھ نہ کہو خود ہی رو دھو کر خاموش ہو جائیں گی۔ مگر اُس کو خدا دے اُس نے اپنی چادر میں مٹی بھرلی اور اُن عورتوں کے سَروں پر ڈالنی شروع کر دی۔ انہوں نے کہا پاگل کیا کرتا ہے؟ وہ کہنے لگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مٹی ڈالو۔ اس لئے مَیں تو ضرور ڈالوں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اُسے ڈانٹا اور فرمایا تُو بات کو تو سمجھا ہی نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا تو یہ تھا کہ ان کا ذکر چھوڑو اور جانے دو۔۳؎ وہ خود ہی خاموش ہو جائیں گی۔ یہ مطلب تو نہیں تھا کہ تم مٹی ڈالنا شروع کر دو۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک استعارۃً کلام تھا مگر وہ واقعہ میں مٹی ڈالنے لگ گیا۔ تو بعض دفعہ لوگ استعارہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور بعض دفعہ لفظی معنے ایسے لے لیتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں اور اس طرح بات کہیںکی کہیں پہنچ جاتی ہے۔
خیطِ ابیض اور خیطِ اَسود کا غلط مفہوم
میں نے یہ عرب کی مثال آپ لوگوں کے سامنے پیش کی ہے اب میں پنجاب کی
ایک مثال دے دیتا ہوں۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ سحری کا وقت اُس وقت تک ہے جب تک سفید دھاگا سیاہ دھاگا سے الگ نظر نہیں آتا۔ یہ ایک استعارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پَو پھٹ نہ جائے کھاتے پیتے رہو۔ مگر پنجاب میں بہت سے زمیندار رمضان کی راتوں میں سفید اور سیاہ دھاگا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور چونکہ دھاگا اچھی روشنی میں نظر آتا ہے اس لئے وہ دن چڑھے تک خوب کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ اب یہ اسی استعارہ کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے اور چونکہ بعض لوگوں کی نگاہ نسبتاً کمزور ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے وہ دن چڑھنے کے بعد بھی اس آیت کی رُو سے کھانے پینے کا جواز ثابت کر لیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی میں ہی اِس فرق کا پتہ لگ سکتا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب جب اپنے طالب علمی کے زمانہ میں لاہور پڑھتے تھے تو ایک احمدی دوست کے گھر پر رہتے تھے۔ رمضان کے دن تھے۔ ایک رات انہوں نے یہ خیال کر کے کہ یہ بچہ ہے اُسے کیا جگانا ہے روزے کیلئے نہ جگایا مگر میر صاحب کو جیسا کہ بچوں کا عام طریق ہے روزے رکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اُن کی آنکھ ایسے وقت میں کھُلی جب کہ سحری کا وقت گذر چکا تھا اور روشنی پھیل گئی تھی۔ اِدھر گھر کے مالک کو خیال آیا کہ ان کا دل میلا ہوگا انہیں روٹی کھِلا دینی چاہئے۔ چنانچہ میر صاحب دروازہ کھولنے لگے تو وہ کہنے لگا ہیں! ہیں! کھولنا نہیں روشنی آئے گی مَیں اندر سے کھانا پکڑادیتا ہوں۔
انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی استعارات پائے جاتے ہیں
غرض بعض لوگ استعارہ کے اس طرز پرمعنی کرتے ہیں کہ اس کو حقیقت بنا لیتے ہیں اور پھر اس کا کچھ کا کچھ مفہوم ہو جاتا ہے۔ اور الہامی
کتابوں میں تو بِالخصوص بہت مشکل پیش آتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اس کی کسی آیت کے دوسرے معنی ہم نہیں کرنے دیں گے۔ اسی طرح نبیوں کی پیشگوئیوں میں استعارات پائے جاتے ہیں بلکہ ہر انسان روزانہ استعارے استعمال کرتا ہے مگر نبیوں کے کلام میں جب کوئی استعارہ آ جائے گا تو لوگ کہیں گے کہ ہم اس کے کوئی اور معنی نہیں کرنے دیں گے ورنہ یہ ثابت ہوگا کہ نَعُوذُ بِاللّٰہِ نبی بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ بلکہ خدا اور اُس کے انبیاء کا کلام تو الگ رہا لوگ بزرگوں کے کلام میں بھی انتہا درجہ کی سختی سے کام لیتے ہیں اور اُن کے استعارات کو سمجھنے کی بجائے حقیقت قرار دیتے ہیں۔
ایک لطیفہ
ہمارے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ’’سِلکِ مروارید‘‘ نام سے ایک ناول لکھا ہے جس میں قصہ کے طور پر ایک عورت کا ذکر کیا ہے جو بڑی بڑی
بحثیں کرتی اور مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتی تھی۔ ہماری کاٹھگڑھ کی جماعت کے ایک دوست تھے انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو ایک دفعہ جب کہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا زمانہ تھا، دوستوں نے اُن سے پوچھا کہ کیوں بھئی! جلسہ پر چلو گے؟ انہوں نے کہا اب کے تو کہیں اور جانے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے پوچھا کہاں جائو گے؟ تو پہلے تو انہوں نے نہ بتایا مگر آخر اصرار پر کہا کہ اِس دفعہ میرا ارادہ سہارنپور جانے کا ہے کیونکہ وہاں ایک بڑی بزرگ اور عاملہ عورت رہتی ہیں جن کا ذکر ’’سِلکِ مروارید‘‘ میں ہے اُن کی زیارت کا شوق ہے۔ (شیخ یعقوب علی صاحب نے ناول میں لکھا تھا کہ وہ سہارنپور کی ہیں) انہوں نے کہا۔ نیک بخت! وہ تو شیخ صاحب نے ایک ناول لکھا ہے جس میں فرضی طور پر سہارنپور کی ایک عورت کا ذکر کیا ہے یہ تو نہیں کہ سہارنپور میں واقعہ میں کوئی ایسی عورت رہتی ہے۔ وہ کہنے لگا۔ اچھا! تم شیخ یعقوب علی صاحب کو جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابی ہیں جھوٹا سمجھتے ہو۔ وہ کہنے لگے کہ اِس میں جھوٹا سمجھنے کی کیا بات ہے وہ تو ایک قصہ ہے اور قصوں میں بات اسی طرح بیان کی جاتی ہے۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ پہلے تو اُسے ہماری بات پر یقین نہ آیا مگر جب ہم نے بار بار اُسے یقین دلایا تو کہنے لگا۔ اچھا! یہ بات ہے؟ مجھے قادیان پہنچنے دو۔ میں جاتے ہی حضرت صاحب سے کہوں گا کہ ایسے جھوٹے شخص کو ایک منٹ کیلئے بھی جماعت میں نہ رہنے دیں فوراً خارج کر دیں۔ میں تو پیسے جمع کر کر کے تھک گیا اور میرا پختہ ارادہ تھا کہ سہارنپور جائوں گامگر اب معلوم ہواکہ یہ سب جھوٹ تھا۔ اب اس بیچارے کے لئے یہی سمجھنا مشکل ہو گیا کہ ایسی عورت کوئی نہیں یہ ایک فرضی قصہ ہے جو اس لئے بنایا گیا ہے کہ تا وہ لوگ جو قصے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ اس رنگ میں احمدیت کے مسائل سے واقف ہو جائیں۔
استعارات کو نہ سمجھنے والے طبقہ کی ذہنیت
غرض مذہبی کتابوں میں یہ مشکل ہوتی ہے کہ جہاں کوئی استعارہ
آیا وہاں ایک طبقہ کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ہم آگے چلنے نہیں دیں گے جب تک تم اِس بات کو اُنہی الفاظ میں تسلیم نہ کرو جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں۔ دودھ کی نہروں کا ذکر آ جائے تو جب تک وہ یہ تسلیم نہ کر لیں کہ منٹگمری اور لاہور اور شیخوپورہ کی بھینسیں خدا تعالیٰ نے رکھی ہوئی ہونگی انہیں دودھ کی نہروں کا یقین ہی نہیں آتا۔ کیلے کا ذکر آ جائے تو جب تک بمبئی کا کیلا جنت میں نہ مانیں اُن کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ شراب کا ذکر آ جائے تو گو وہ یہ ماننے کیلئے تیار ہو جائیں گے کہ جنت کی شراب زیادہ صاف ہوگی مگر یہ نہیں مانیں گے کہ شراب سے مراد کوئی اور چیز بھی ہو سکتی ہے اور اگر حورو غِلمان کا ذکر آ جائے تو پھر تو ان کے منہ سے رالیں ٹپک پڑتی ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے عہدِ خلافت میں ایک دفعہ میں مدارس دیکھنے کیلئے لکھنؤ گیا۔ اتفاقاً وہاں ندوۃ العلماء کا جلسہ تھا۔ مَیں بھی جلسہ دیکھنے کیلئے چلا گیا۔ ایک مولوی عبدالکریم صاحب پروفیسر تھے۔ اُن کی تقریر اُس وقت نماز کی خوبیوں کے متعلق تھی۔ سامعین اگرچہ کم تھے مگر اُن میں سے اکثر مسلمان تھے اور وہ بھی مولوی طرز کے۔ ایک مسلمان بیرسٹر بھی شریک تھے جو میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب نے تقریر شروع کی اور کہا کہ لوگو! نماز پڑھنی چاہئے۔ نماز کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کو جنت ملتی ہے اور جنت کیا ہوتا ہے؟ اس کے بعد انہوں نے جنت کی جو کیفیت بیان کرنی شروع کی اُس کا ذکر میرے لئے ناممکن ہے۔ اس کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا مَیں بیان کر دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ وہاں بہترین شکل کی خوبصورت تصویریں ہونگی اور جس تصویر کو دیکھ کر انسان کا دل للچائے گا وہ فوراً خوبصورت عورت بن جائے گی اور پھر مرد و عورت کے تعلقات شروع ہو جائیں گے اور ان تعلقات کا جنت کی طرح اختتام نہیں ہوگا۔ یہ نقص اِسی بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے قرآن میں دو چار لفظ حور کے پڑھ لئے اور نتیجہ نکال لیا کہ جو کچھ یہاں ہے وہی کچھ وہاں بھی ہوگا۔ میرے پاس جو بیرسٹر بیٹھے تھے وہ کہنے لگے۔ اچھا ہؤا یہ لیکچر رات کو رکھا گیا اگر دن کو رکھا جاتا اور لوگ زیادہ تعداد میں شامل ہو جاتے تو ہماری بڑی ذلّت ہوتی۔ تو الہامی کتابوں میں خصوصاً یہ مشکل پیش آتی ہے کہ لوگ کہہ دیتے ہیں یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس میں جو تشبیہہ یا استعارہ استعمال ہوا ہے وہ حقیقت ہے اس کے دوسرے معنی ہو ہی نہیں سکتے۔
علمی مضامین کے سمجھنے میں عوام کی مشکلات
اسی طرح الہامی کتابوں کے اعلیٰ علمی مضامین کا سمجھنا بھی
عام لوگوں کیلئے بڑا مشکل ہوتا ہے جس کی کئی وجوہ ہیں۔
اوّل الہامی کتابوں کی ترتیب عام کتابوں سے جُدا ہوتی ہے۔ عام کتابوں میں تو یہ ہوتا ہے کہ مثلاً پہلے مسائلِ وضو بیان کئے جائیں گے پھر مسائلِ عبادت بیان کئے جائیں گے پھر ایک باب میں مسائلِ نکاح بیان کیے جائیں گے اسی طرح کسی باب میں طلاق اور خلع کا اور کسی میں کسی اور چیز کا ذکر ہوگا اور جس جگہ مسائل بیان ہونگے اکٹھے ہونگے۔ مگر الہامی کتابوں میں یہ رنگ نہیں ہوتا اور اُن کی ترتیب بالکل اور قسم کی ہوتی ہے جو دُنیوی کتب کی ترتیب سے نرالی ہوتی ہے یہاں تک کہ جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اِس میں ترتیب ہے ہی نہیں۔
الہامی کتب کی نرالی ترتیب میں حکمتیں
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ الہامی کتابوں میں دنیا کی تمام کتابوں
سے نرالی ترتیب کیوں رکھی جاتی ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اِس میں بھی کئی حکمتیں ہیں۔
(الف) اِس ترتیب سے سارے کلام سے دلچسپی پیدا کرانی مدِّنظر ہوتی ہے۔ اگر الہامی کتاب کی ترتیب اُسی طرح ہو جس طرح مثلاً قدوری کی ترتیب ہے کہ وضو کے مسائل یہ ہیں نکاح کے مسائل وہ، تو عام لوگ اپنے اپنے مذاق کے مطابق اُنہی حصوں کو الگ کر کے ان پرعمل کرنا شروع کر دیتے اور باقی قرآن کو نہ پڑھتے مگر اب اللہ تعالیٰ نے سارے مسائل کو اس طرح پھیلا کر رکھ دیا ہے کہ جب تک انسان سارے قرآن کو نہ پڑھ لے مکمل علم اُسے حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔
(ب) لوگوں کو غوروفکر کی عادت ڈالنے کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب اختیار کی ہے۔ اگر عام کتابوں کی طرح اس میں مسائل بیان کر دیئے جاتے تو لوگوں کا ذہن اِس طرف منتقل نہ ہوتا کہ ان مسائل کے باریک مطالب بھی ہیں۔ وہ صرف سطحی نظر رکھتے اور غوروفکر سے محروم رہتے۔ مگر اب اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو اس طرح پھیلا دیا اور ایک دوسرے میں داخل کر دیا ہے کہ انسان کو ان کے نکالنے کیلئے غوروفکر کرنا پڑتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سمندر ہے۔
(ج) یہ ترتیب اس لئے بھی اختیار کی گئی ہے تا خشیت الٰہی پیدا ہو کیونکہ خشیت الٰہی پیدا کرنے کیلئے یہ ترتیب ضروری تھی۔ مثلاً اگر یوں مسائل بیان ہوتے کہ وضو یوں کرو ،کُلّی اس طرح کرو، عبادت اس طرح کرو، اِتنی رکعتیں پڑھو تو خشیت الٰہی پیدا نہ ہوتی۔ جیسے عبادت وغیرہ کے تمام مسائل قدوری اور ہدایہ وغیرہ میں بھی مذکور ہیں مگر قدوری اور ہدایہ پڑھ کر کوئی خشیت اللہ پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن وہی مسئلہ جب قرآن میں آتا ہے تو انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے لبریز ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ قرآن ان مسائل کو خشیت اللہ کا ایک جُزو بنا کر بیان کرتا ہے الگ نہیں۔ اور دراصل نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ مسائل کا اصل مقصد تقوی ہی ہے۔ پس قرآن تقوی کو مقدّم رکھتا ہے تا جب انسان کو یہ کہا جائے کہ وضو کرو تو وہ وضو کرنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو۔ اسی طرح جب کہا جائے کہ نماز پڑھو تو انسان نماز پڑھنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو۔ اگر قرآن میں نماز کا الگ باب ہوتا تو اُسے پڑھ کر خشیت اللہ پیدا نہ ہوتی۔ پس الہامی کتاب چونکہ اصلاح کو مقدم رکھتی ہے اس لئے وہ سطحی ترتیب کو چھوڑ کر ایک نئی ترتیب پیدا کرتی ہے جو جذباتی ہوتی ہے۔ یعنی قلب میں جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں الہامی کتاب اُن کا ذکر کرتی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ وضو کے بعد نماز کا ذکر کرے بلکہ وہ وضو سے روحانیت، طہارت اور خداتعالیٰ کے قُرب کی طرف انسان کو متوجہ کرے گی۔ کیونکہ وضو سے طہارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں پھر جب نماز کا مسئلہ آئے گا تو یہ نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نماز کے مسائل بیان کرنا شروع کر دے بلکہ سجدہ اور رکوع کے ذکر سے جو جذبات انسانی قلب میں پیدا ہوتے ہیں اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اُسے اپنی طرف متوجہ کرے گا تا جو جذبات بھی انسان کے اندر پیدا ہوں اُن سے وہ ایسا اثر لے جو اُسے خداتعالیٰ کے قریب کر دے۔
قلبی واردات کی دو مثالیں
پس ترتیبِ قرآن ظاہر پر مبنی نہیںبلکہ قلب کے جذبات کی لہروں پر مبنی ہے اور یہ لہریں مختلف ہوتی
ہیں۔ مَیں اِس کے متعلق دو مثالیں دے دیتا ہوں۔ ایک اچھی اور ایک بُری۔ کہتے ہیںکسی مسجد کا مُلّا ایک دن جماعت کرانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ مقتدی آسودہ حال ہیں۔ اِس پر نماز میں ہی اسے خیال پیدا ہؤا کہ اگر یہ مجھے تحفے تحائف دیں تو میرے پاس بڑا مال اکٹھاہو جائے۔ پھر جب مال جمع ہو گیا تو میں اُس سے تجارتی سامان خریدوں گا اور خوب تجارت کروں گا۔ کبھی دلّی میں اپنی اشیاء لے جاؤں گا کبھی کلکتے چیزیں لے جاؤں گا۔ غرض اِسی طرح وہ خیالات دَوڑاتا چلا گیا۔ پھر ہندوستان اور بخارا کے درمیان اُس نے تجارت کی سکیم بنانی شروع کر دی۔ اب بظاہر وہ رکوع اور سجدہ کر رہا تھا مگر خیالات کہیں کے کہیں تھے۔ ایک بزرگ بھی اُن مقتدیوں میں شامل تھے۔ اُن پر کشفی حالت طاری ہوئی اور اُنہیں امام کے تمام خیالات بتا دیئے گئے۔ اِس پر وہ نماز توڑ کر الگ ہو گئے۔ جب اُس مُلّا نے نماز ختم کی تو وہ اُن پر ناراض ہؤا اور کہنے لگا۔ تمہیں یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ نماز امام کے پیچھے پڑھا کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگے مسئلہ تو مجھے معلوم ہے مگر میری صحت کچھ کمزور ہے میں آپ کے ساتھ چلا اور دلّی تک گیا۔ پھر دلّی سے بخارا گیا اور میں تھک کر رہ گیا اور چونکہ اتنے لمبے سفر کی مَیں برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لئے آپ سے الگ ہو گیا۔ اس پر وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا۔
اب یہ بیہودہ خیالات تھے جو اُس کے دل میں پیدا ہوئے مگر ان خیالات میں بھی وہی ترتیب رہی جو اس کے جذباتِ قلب پر مبنی تھی۔ یہی حال نیک خیالات کا ہے اور وہ بھی اسی رنگ میں پیدا ہوتے ہیں۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہو گا کہ مثلاً تم سجدہ میں گئے ہو اور تم سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہتے ہو تو اُس وقت تمہارا دل بھی حاضر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی سبوحیّت کا نقشہ تمہارے سامنے آنے لگتا ہے۔ اُس وقت گو تمہارے منہ سے دوسری اور تیسری دفعہ بھی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی نکل رہا ہوتاہے مگر تمہارا دل پہلے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کو ہی چھوڑنے کو نہیں چاہتا۔ یا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہتے ہو اور اُس وقت تمہارا دل حاضر ہوتا ہے تو اُس وقت حمد کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے احسانات تمہارے سامنے یکے بعد دیگرے آنے شروع ہو جاتے ہیں اور تم انہی احسانات کی یاد میں محو ہو جاتے ہو۔ اب اگر ایسی حالت میں تم کسی کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہو تو گو تم اُس کی اقتدا میں کبھی سجدہ کرو گے، کبھی رکوع میں جائو گے اور منہ سے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم وغیرہ بھی کہو گے مگر تمہارے دل پر حمد ہی جاری ہوگی۔ تو قلوب پر بعض روحانی واردات آتی ہیں اور وہی حقیقی نماز ہوتی ہیں۔ اُس وقت انسان گو الفاظ منہ سے نکال رہا ہوتا ہے مگر اُس کے جذبات روحانیت کے لحاظ سے ایک خاص رستہ پر چل رہے ہوتے ہیں۔ پس وہ واردات جو انسانِ مومن پر آتی ہیں قرآن کریم کی ترتیب ان پر مبنی ہے۔ وہ نماز کے بعد روزہ کا ذکر نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میری یہ ہدایت پڑھنے کے بعد کیا کیا خیالات انسان کے اندر پیدا ہونگے۔ پس وہ خیالات جو اس کے نتیجہ میں انسانی قلب میں پیدا ہو سکتے ہیں قرآن کریم ان کو بیان کرے گا۔ غرض بِالعموم مذہبی کتابوں کی ترتیب خصوصاً قرآن مجید کی ترتیب ظاہری تعلق پر نہیںبلکہ اُن جذبات پر ہے جو قرآن کریم پڑھتے وقت پیدا ہوتے ہیں۔ اور چونکہ خدائے عالم الغیب جانتا تھا کہ فلاں آیت یا فلاں حُکم کے نتیجہ میں کس کس قسم کے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں اس لئے بجائے ظاہری ترتیب کے اُس نے قرآن کریم کی ترتیب اُن جذبات پر رکھی جو قلبِ مومن میں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر اِس کا نتیجہ یہ ضرور نکلتا ہے کہ جو لوگ غور سے اور محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ قرآن مجید کو نہیں پڑھتے اُنہیں یہ کتاب پھِیکی معلوم ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ کیا ہوا کہ ابھی موسیٰ ؑکا ذکر تھا پھر نوحؑ کا ذکر شروع کر دیا پھر شعیبؑ کے حالات بیان ہونے لگ گئے ابھی سُود کا ذکر تھا کہ ساتھ نماز کا ذکر آگیا۔ ان کے نزدیک یہ باتیں اتنی بے جوڑ ہوتی ہیں کہ وہ اِن کا آپس میں کوئی تعلق سمجھ ہی نہیں سکتے۔ مگر وہی مضمون جب کسی عالِم کے پاس پہنچتا ہے تو وہ سنتا ہے اور سر دھنتا ہے۔
قرآنی علوم سے فائدہ اُٹھانے کا اصول
اگر کہو کہ پھر اس کا علاج کیا ہے؟ تو گو میرے مضمون سے اِس کا کوئی
تعلق نہیں مگر چونکہ میں نے بتایا ہے کہ انسان بسا اوقات جذبات کی رَو میں بہہ جاتا ہے اس لئے مَیں بھی جذبات کے ماتحت دو تین علاج بتا دیتا ہوں۔
پہلا علاج یہ ہے کہ انسان سارے کلام کو پڑھے اور بار بار پڑھے یہ نہیں کہ کوئی خاص حصہ چن لیا اور اُسے پڑھنا شروع کر دیا۔
دوم اُس وقت پڑھے جب اُس کے دل میں محبت اور اخلاص کا جوش ہو۔ جن لوگوں کا جذبۂ محبت ہر وقت کامل رہتا ہو اُن کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ صبح یا شام کا وقت تلاوت کیلئے مقرر کر لیں مگر جن کا جذبۂ محبت ایسا کامل نہ ہو وہ اُس وقت تلاوت کیا کریں جب اُن کے دل میں محبت کے جذبات اُبھر رہے ہوں۔ چاہے دوپہر کو اُبھریں یا کسی اَور وقت۔
سوم قرآن کریم کو اِس یقین کے ساتھ پڑھا جائے کہ اس کے اندر غیر محدود خزانہ ہے۔ جو شخص قرآن کریم کو اِس نیت کے ساتھ پڑھتا ہے کہ جو کچھ مولوی مجھے اِس کا مطلب بتائیں گے یا پہلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے وہیں تک اِس کے معارف ہیں اُس کے لئے یہ کتاب بند رہتی ہے۔ مگر جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اِس میں خزانے موجود ہیں وہ اِس کے معارف اور علوم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
کوئی سال ڈیڑھ سال کی بات ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ایک سوال پوچھنا ہے۔ مجھے اُس وقت جلدی تھی میں نے کہا کوئی مختصر سوال ہے یا تفصیل طلب؟ وہ کہنے لگا میں مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت چاہتا ہوں۔ میں نے کہا مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت سارے قرآن سے ملتا ہے۔ کہنے لگا کوئی آیت بتائیں۔ میں نے کہا ممکن ہے مَیں جو آیت بتائوں آپ کہیں کہ اِس کا یہ مطلب نہیں وہ مطلب ہے۔ اس لئے آپ ہی قرآن کی کوئی آیت پڑھ دیں۔ مَیں اس سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت کر دونگا۔ اُس نے جلدی سے یہ آیت پڑھ دی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ۔ ۴؎ مَیں نے مختصراًاس آیت کا مضمون بیان کر کے اُسے بتایا کہ اِس آیت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ مَیں نے کہا۔ آپ بتائیں آجکل مسجدوں میں لوگ کتنے جاتے ہیں؟ کہنے لگا بہت کم۔ مَیں نے کہا پھر جو نماز پڑھنے جاتے ہیں ان میں سے نماز کی حقیقت سے کتنے آگاہ ہوتے ہیں؟ کہنے لگا بہت ہی کم۔ پھر مَیں نے کہا ان میں سے جو باقاعدہ پانچ وقت نمازیں پڑھتے ہیں ان کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ کہنے لگا ان کی تعداد تو اور بھی تھوڑی ہوتی ہے۔ میں نے کہا خدا اِس آیت میں یہ کہتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ اب آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ آیت جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اُتری آج بھی اپنے مضمون کی صداقت ظاہر کر رہی ہے۔ پھر اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بدیاں آج پیدا ہوگئی ہیں تو کیا اِن بدیوں کو دُور کرنے کیلئے مصلح نہیں آنا چاہئے تھا؟ آخر یہ آیت اِسی لئے قرآن میں آئی ہے تا اللہ تعالیٰ بتائے کہ ایسے گندے لوگ چونکہ دنیا میں موجود ہیں اِس لئے ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ پھر اگر ایسے لوگوں کی اصلاح کیلئے قرآن کی ضرورت تھی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت تھی تو جب کہ موجودہ زمانہ میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں اور آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اِس آیت کا مضمون لوگوں کے عمل سے نظر آتا ہے تو جس اصلاح کا سامان خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا تھا وہ بھی ہونا چاہئے۔ اِس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا۔ تو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم میں ایسے وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں کہ اگر انسان غور کرے تو وہ خزانہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ ہاں جو لوگ اِسے بند کتاب سمجھ لیتے ہیں اورخیال کرتے ہیں کہ اِس میں سے نئے معارف نہیں نکل سکتے اُن پر واقعہ میں کوئی بات نہیں کُھلتی۔ جس طرح اگر تم کسی جنگل میں سے گذر رہے ہو تو تمہارے سامنے ہزاروں درخت آئیں گے مگر تم کسی کو غور سے نہیں دیکھو گے لیکن اگر محکمہ جنگلات کا افسر معائنہ کرنے کیلئے آ جائے تو وہ بیسیوں نئی باتیں معلوم کر لیتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اِس نیت سے قرآن پڑھتا ہے کہ یہ غیر محدود خزانہ ہے وہ اِس سے فائدہ اُٹھا لیتا ہے اور جو اِس نیت سے نہیں پڑھتا وہ محروم رہتا ہے۔
ہر زبان میں تشبیہہ اور استعارہ کا استعمال
الہامی کتابوں کے مطالب کے متعلق دوسری مشکل جیسا کہ میں
بتا چکا ہوں تشبیہہ اور استعارہ کی ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں تشبیہہ اور تمثیل کا استعمال موجود ہے۔ ہر اعلیٰ علمی کتاب میں تشبیہات و تمثیلات بیان ہوتی ہیں۔ ہر ملک میں استعاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں محاورہ ہے کہ ’’آنکھ بیٹھ گئی‘‘ مگر کوئی نہیں کہتا کہ کیا آنکھ کی بھی ٹانگیں ہیں؟ یا وہ بیٹھی ہے تو کس پلنگ اور کرسی پر۔ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ آنکھ بیٹھنے کے معنی یہ ہیں کہ آنکھ ضائع ہو گئی اور پھُوٹ گئی۔ اِسی طرح اور بیسیوں نہیں سینکڑوں محاورے زبانِ اُردو میں استعمال کئے جاتے ہیں اور یہ استعارے زبان کے کمال پر دلالت کرتے ہیں۔
غرض تشبیہہ اور استعارہ ایسی ضرور چیز ہے کہ اس کے بغیر گذارہ ہی نہیں ہو سکتا۔ اور چونکہ اِس کے استعمال سے مضامین خوبصورت اور مزین ہو جاتے ہیں اس لئے الہامی کتابیں بھی اسے استعمال کرتی ہیں۔ اور اس طرح وہ اِس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ تشبیہہ اور استعارہ بڑی ضروری چیز ہے۔
الہامی کتب کے بارہ میں لوگوںکی مشکلات
لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے الہامی کتابوں کو چونکہ
بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے اس لئے لوگ اس کے لفظ لفظ پر بیٹھ جاتے ہیں اور تشبیہہ اور استعارہ کی وجہ سے غلطی خوردہ لوگ دو انتہائوں کو پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو تشبیہہ اور استعارہ کو بالکل نظر انداز کر کے اسے حقیقت پر محمول قرار دے دیتے ہیں۔ اگر قرآن میں خدا کے ہاتھ کا ذکر آئے تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بس اسی طرح چمڑے کا ہے جس طرح ہمارا ہاتھ ہے۔ اُس کی بھی انگلیاں ہیں اور انگوٹھا ہے۔ اور اگر انہیں کہا جائے کہ ہاتھ سے مراد خدا کی طاقت ہے تو وہ کہیں گے تم تاویلیں کرتے ہو جب خدا نے ہاتھ کا لفظ استعمال کیا ہے تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم اس کی کوئی اور تاویل کرو۔ اسی طرح خدا کی آنکھ کا ذکر آئے تو وہ کہیں گے اس کے بھی ڈیلے ہیں۔ اور اگر اس کے کوئی اور معنی کئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو تاویلیں ہوئیں۔ ایسے معنی کرنا خدا کی ہتک ہے۔ اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کے متعلق اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۵؎کے الفاظ آ جائیں تو وہ کہیں گے کہ جب تک خدا تعالیٰ کو ایک سنگِ مرمر کے تخت پر بیٹھا ہؤا تسلیم نہ کیا جائے قرآن سچا نہیں ہو سکتا۔ یا اگر حدیثوں میں بعض ایسے ہی الفاظ آ جائیں کہ خدا اپنا پائوں دوزخ میں ڈالے گا۔ یا قرآن میں اُنہیں یہ دکھائی دے کہ یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ ۶؎ تو جب تک وہ یہ تسلیم نہ کریں کہ خدا نے بھی پاجامہ پہنا ہوا ہوگا اور وہ اپنی پنڈلی سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اپنا پاجامہ اُٹھائے گا اُس وقت تک ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ پس وہ تشبیہہ اور استعارہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ٹھوکر کھا گئے اور خدا تعالیٰ کے تجسّم کے قائل ہو گئے اور کسی نے ان الفاظ کی حکمت پر غور نہ کیا۔
وارفتکی کا استثنا
بے شک بعض دفعہ جذبات کی رَو میں بھی انسان ایسے الفاظ منہ سے نکال دیتا ہے جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی مجسّم ہے مگر
وہ ایک عارضی حالت ہوتی ہے جو وارفتکی کے وقت انسان پر وارد ہوتی ہے جیسے مثنوی رومی والے لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ جنگل سے گذر رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک گڈریے کو دیکھا جو مزے لے لے کر کہہ رہا تھا کہ خدایا! اگر تُو مجھے مل جائے تو میں تجھے بکری کا تازہ تازہ دودھ پلائوں، تیری جوئیں نکالوں، تجھے مَل مَل کر نہلائوں، تیرے پائوں میں کانٹے چُبھ جائیں تو میں نکالوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ باتیں سنیں تو انہوں نے اُسے سونٹا مارا اور کہا۔ نالائق! تُوخدا تعالیٰ کی گستاخی کرتا ہے۔ اُسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام ہوا کہ اے موسیٰ! اِس بندے کو تو میری کسی کتاب یا الہام کا پتہ نہ تھا اسے کیا خبر تھی کہ میری کیا شان ہے یہ تو جذبۂ محبت میں سرشارہو کر مجھ سے باتیں کر رہا تھا تیرا کیا بِگڑتا تھا اگر یہ اسی طرح مجھ سے باتیں کرتا رہتا۔ تو دنیا میں ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کا عام انسانوں پر قیاس کر لیتے ہیں اور جب اُنہیں محبت کا جوش اُٹھتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا مل جائے تو ہم اُس کی خدمت کریں حالانکہ خدا تعالیٰ خدمت سے بالا ہستی ہے لیکن بہرحال یہ ایک وارفتکی کی کیفیت ہے اور اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ کہنے والا خدا تعالیٰ کے تجسّم کا قائل ہے۔ لیکن بعض پڑھے لکھے ایسے بھی ہوتے ہیں جو الفاظ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ظاہری ہاتھ اور اُس کی آنکھ سے ظاہری آنکھ مراد لے لیتے ہیں۔
فلسفی مزاج لوگوں کا حدود سے تجاوز
اس کے مقابلہ میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے اندر محبت کا جوش نہیں
ہوتا بلکہ فلسفہ اُن کے اندر جوش مار رہا ہوتا ہے۔ وہ جب سنتے ہیں کہ ایک شخص کہتا ہے خدا کی آنکھیں ہیں اور دوسرا کہتا ہے اِس سے آنکھیں مراد نہیں بلکہ فلاں چیز مراد ہے یا خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ظاہری ہاتھ مراد نہیں بلکہ طاقت و قوت مراد ہے تو وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ سارا قرآن ہی استعارہ ہے۔ ایسے لوگوں کو جب کہا جاتا ہے کہ قرآن کہتا ہے نماز پڑھو تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نماز پڑھی جائے بلکہ یہ ہے کہ خدا سے محبت پیدا کی جائے۔ اسی طرح جب قرآن کہتا ہے روزے رکھو تو وہ کہتے ہیں اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بھوکے رہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ حرام خوری نہ کرو۔ اسی طرح جب حج کا ذکر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ خواہ مخواہ مکّے جائو بلکہ اس حُکم کا مقصد یہ ہے کہ جہاں بھی قومی ضروریات اجتماع چاہتی ہوں وہاں انسان چلا جائے۔ خواہ علیگڑھ چلا جائے یا کسی اور جگہ۔ حتیّٰ کہ بعض نے تو اِس حد تک استعارات کو بڑھایا ہے کہ میں نے ایک تفسیر دیکھی جس میں تمام قرآن کو استعارہ اور مجاز ہی قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی جگہ موسیٰ کا نام آیا ہے تو اِس کے کچھ اور ہی معنی لئے ہیں اور اگر آدم کا لفظ آیا ہے تو اِس کے بھی کچھ اور معنی لئے گئے ہیں۔ ایسا آدمی بالکل سَوفسطائی بن جاتا ہے اور اِس کی مثال اُس شخص کی سی ہو جاتی ہے جو بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! ہر چیز وہم ہی وہم ہے۔ بادشاہ نے اُسے نیچے صحن میں کھڑا کر کے مست ہاتھی چھوڑ دیا اور احتیاطاً ایک سیڑھی بھی لگا دی تا کہ وہ اس کے حملہ سے بچ کر سیڑھی پر چڑھ جائے۔ جس وقت ہاتھی نے حملہ کیا تو وہ بھاگا اور دَوڑ کر سیڑھی پر چڑھنے لگا۔ بادشاہ کہنے لگا کہاں جاتے ہو؟ ہاتھی واتھی کوئی نہیں یہ تو وہم ہی وہم ہے۔ وہ بھی کچھ کم چالاک نہ تھا کہنے لگا بادشاہ سلامت! کون بھاگ رہا ہے یہ بھی تو وہم ہی ہے۔ تو بعض لوگ استعارہ کو اس حد تک لے جاتے ہیں کہ کوئی کلام بغیر استعارہ پر محمول کئے نہیں چھوڑتے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک خدا ایک طاقت کا نام ہے۔ فرشتے اخلاق کا نام ہیں۔ جنت اور دوزخ قومی ترقی اور تنزّل کے نام ہیں اور اُن کے نزدیک یہ سب عبادتیں نَعُوْذُ بِاللّٰہِ لوگوں کو بہلانے کیلئے رکھی گئی ہیں۔
عیسائیوں کی مذہبی کیفیت
بعض قوموں میں ایک ہی وقت میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں یعنی بعض باتوں کے متعلق تو وہ یہ کہتی ہیں
کہ یہ استعارے ہیں اور بعض باتوں کے متعلق کہتی ہیں کہ یہ استعارے نہیں۔ اور بعض ایسی قومیں ہیں جن کا اگر استعارہ میں فائدہ ہو تو استعارہ مراد لے لیتی ہیں اور حقیقت میں فائدہ ہو تو حقیقت مراد لے لیتی ہیں۔ عیسائی اِسی قسم کے شُتر مُرغ ہیں۔ اُنہیں جس چیز میں فائدہ نظر آتا ہے وہ اختیار کر لیتے ہیں۔ حضرت مسیحؑ نے اپنے متعلق کہا کہ مَیں خدا کا بیٹا ہوں۔ یہ ایک استعارہ تھا مگر عیسائیوں نے اسے حقیقت قرار دے کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت عیسیٰ سچ مُچ خدا کے بیٹے تھے مگر جب مسیح نے روزے رکھنے اور عبادت کرنے کا حُکم دیا تو کہہ دیا کہ یہ استعارہ ہے۔ گویا جس میں اپنا فائدہ دیکھا وہی رَوش خود اختیار کر لی۔ جیسے کہتے ہیں کوئی پوربن تھی جس کا خاوند مر گیا۔ پوربن نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور اپنی بے کسی ظاہر کرنے کیلئے کہنے لگی۔ میرے خاوند نے فلاں سے اتنے روپے وصول کرنے تھے وہ اب کون وصول کرے گا؟ ایک پوربیہ جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا کہنے لگا۔ ’’اری ہم ری ہم‘‘ وہ کہنے لگی فلاں جگہ اتنی زمین اور جائیداد ہے اب اُس پر کون قبضہ کرے گا؟ تو وہ پھر بولا۔ ’’اری ہم ری ہم‘‘ پھر وہ کہنے لگی اُس نے فلاں کاسَو روپیہ دینا تھا وہ کون دے گا؟ تو وہ کہنے لگا۔ ارے بھئی! میں ہی بولتا جائوں یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا۔ تو عیسائیوں نے اپنا مذہب ایسا ہی بنایا ہوا ہے۔ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ کہتے ہیں کہ مَیں خدا کا بیٹا ہوں وہاں کہتے ہیں بالکل ٹھیک۔ مگر جب وہ کہتے ہیں کہ بُھوتوں کے نکالنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ روزے رکھے جائیں تو وہ کہہ دیتے ہیں یہ استعارہ ہے۔
استعارات کی ضرورت
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب استعارات میں اس قدر خطرے ہیں تو الہامی کتابوں نے اسے استعمال کیوں کیا؟
کیونکہ خرابیاں یا تو استعارہ کو محدود کر دینے سے پیدا ہوتی ہیں یا اسے وسیع کر دینے سے۔ اگر استعارہ رکھا ہی نہ جاتا تو اس میں کیا حرج تھا؟
اِس کا جواب یہ ہے کہ استعارہ کی کئی ضرورتیں ہیں۔
اوّل اس کی ضرورت اختصار ہے۔ تشبیہہ اور استعارہ میں جس قدر اختصار پیدا ہو سکتا ہے وہ اور کسی طریق سے نہیں ہو سکتا۔ اس طرح لمبے لمبے مضامین بعض دفعہ صرف ایک فقرہ میں آ جاتے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ وہ فَالِقُ الْاَصْبَاحِ ۷؎ یعنی صُبحوں کا پھاڑنے والا ہے۔ اِس جگہ اَصْبَاح جمع کا لفظ رکھا ہے اور پھر اس کے ساتھ فَالِق کا لفظ رکھا ہے اور گو بظاہر یہ دو لفظ نظر آتے ہیں لیکن اِس مضمون کو اگر دیکھیں جو اِس میں بیان کیا گیا ہے تو وہ بہت لمبا ہے۔ یعنی دنیا میں قسم قسم کی تاریکیاں ہوتی ہیں اور ان تمام تاریکیوں کو دُور کرنے کے کچھ ذرائع ہوتے ہیں جن کی آخری کڑی خدا ہے۔ جب وہ کڑی تیار ہو جاتی ہے تو تاریکی دُور ہو جاتی ہے اور فلقِ صبح ہو جاتا ہے۔ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ لوگ بیمار ہوتے ہیں اور ڈاکٹر اُن کا علاج کرتے ہیں مگر کیا ان کے علاج سے سارے مریض اچھے ہو جاتے ہیں؟ یقینا تمام قسم کا علاج کرنے کے باوجود بعض مریضوں پر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب ڈاکٹر کہہ دیتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہی حال ہر پیشے کا ہے۔ وکیل کو لے لو تو اُسے وکالت میں، انجنیئر کو لے لو تو اسے انجنیئرنگ میں ایک جگہ پہنچ کر رستہ بالکل بند نظر آتا ہے۔ اور سوائے اِس کے اور کوئی صورت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ اُس کی غیب سے مدد کرے۔ پس ایسی حالت میں سوائے خدا کے اور کوئی مصیبت دُور نہیں کر سکتا۔ اور اسی کو فَالِقُ الْاَصْبَاح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے لیکن اگر خالی یہ کہا جاتا کہ اللہ مشکلات کو دور کرنے والا ہے تو اس سے وہ مضمون ادا نہ ہوتا جو فَالِقُ اْلاَصْبَاح کے الفاظ میں ادا ہوا ہے اور جو رات اور صبح کی کیفیت سے پیدا ہوتا ہے پس اس استعارہ نے لمبے مضامین کو نہایت مختصر الفاظ میں ادا کر دیا۔
دوسرے استعارہ سے وُسعتِ نظر پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہودیوں کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بندر اور سؤر بنا دیا۔ اب اگر قرآن کریم یہ کہتا کہ ہم نے انہیں بے حیا بنا دیا تو ان الفاظ میں اس مضمون کا ہزارواں حصہ بھی ادا نہ ہوتا جو قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ میں ادا ہوا ہے۔ کیونکہ قِرَدَہً اور خَنَازِیْر کی بیسیوں خصوصیتیں ہیں کوئی ایک خصوصیت نہیں۔ مثلا بے حیائی بھی ایک خصوصیت ہے۔ گندگی بھی ایک خصوصیت ہے۔ خنزیر نہایت ہی گندہ ہوتا ہے اور یہودی بھی حد درجہ غلیظ ہوتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ جہاز کا سفر کیا تو کچھ یہودی بھی اس جہاز میں سوار ہوگئے۔ میں نے اُنہیںدیکھا تو وہ اتنے گندے تھے کہ گویا چوہڑے ہیں۔ مگر جب بمبئی جہاز پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ نہایت زرق برق لباس پہنے بیٹھے ہیں۔ میں کچھ حیران سا ہوا کہ یہ کہاں سے آ گئے مگر پھر معلوم ہوا کہ یہ وہی یہودی ہیں جو سارے سفر میں ساتھ رہے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے جو قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو اِسی لئے کہ بتائے کہ بندر اور سؤر میں جو خصوصیتیں پائی جاتی ہیں وہ سب ان میں پائی جاتی ہیں۔ اگر صرف اتنا کہہ دیتا کہ یہودی گندے اور بدکار ہیں تو وہ مضمون ادا نہ ہو سکتا۔ غرض قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ سے مضمون کو حیرت انگیز وُسعت ہوئی ہے حتیّٰ کہ قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کی بعض خصوصیات آج معلوم ہو رہی ہیں اور وہ خصوصیات بھی یہودی قوم میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بندر میں نقّالی کا مادہ ہوتاہے اور یہودیوں میں بھی نقل کا مادہ کمال درجہ پر پہنچا ہوا ہے۔ پس یہودیوں کے متعلق بتایا کہ وہ صرف بدکار ہی نہیں بلکہ نقّال بھی ہیں۔ اسی طرح بندر پانی سے ڈرتا ہے۔ یہود بھی ہمیشہ خشکی میں رہتے ہیں سمندر میں سفر نہیں کرتے۔ اسی طرح درجن سے زیادہ خصوصیات ایسی ہیں جو یہود میں پائی جاتی ہیں مگر وہ سب قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ کے اندر خدا تعالیٰ نے بیان کر دیں۔ اگر قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ اللہ تعالیٰ استعمال نہ کرتا اور الگ الگ ان کی خصوصیات بیان کرتا تو اِس کے لئے ایک مکمل سورۃ چاہئے تھی۔ اب رہے خَنَازِیْر- تو خَنَازِیْر میں بھی کئی عیب ہیں۔ مثلاً ایک عیب تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سیدھا جاتا ہے رستہ نہیں بدلتا حتیّٰ کہ حملہ بھی کرتا ہے تو سیدھا کرتا ہے۔ یہود میں بھی یہ عیب پایا جاتا ہے وہ بھی اپنی زندگی کے شعبے تبدیل نہیں کر سکتے۔ اسی طرح خَنْزِیْر میں گندگی پائی جاتی ہے اور یہود بھی حد درجہ گندے ہوتے ہیں۔ پھر بعض امراض بھی خَنْزِیْر میں ہوتی ہیں جو یہودیوں میں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں مگر میں اُن کا ذکر نہیں کرتا۔
تیسرے تشبیہہ اور استعارہ کی ضرورت تبعید کیلئے ہوتی ہے یعنی مضمون کو اُونچا کر دینا اور نظر کو وسیع کر دینا استعارہ کا مقصود ہوتا ہے۔ مثلاً یہ استعارہ تھا کہ خواب میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھائیوںکو سورج، چاند اور ستاروں کی صورت میں دیکھا۔ اب خالی بھائی کہہ دینے سے وہ مضمون ادا نہ ہوتا جو ستاروں میں ادا ہوا ہے یا جیسے سورج اور چاند کے الفاظ میں ادا ہوا ہے کیونکہ سورج، چاند اور ستارے ایک وسیع مضمون رکھتے ہیں۔ مثلاً یہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ تیرے بھائی باوجود اِس کے کہ اِس وقت تیرے مخالف ہیں اور ان کی عملی حالت اچھی نہیں اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں سے دنیا کی ایسی ہی راہنمائی کرے گا جس طرح ستارے راہنمائی کرتے ہیں۔ اب یہ ایک وسیع مضمون تھا جو بھائی کہہ کر ادا نہیں ہو سکتا تھا مگر ستارے کہہ کر ادا ہو گیا۔
چوتھے تقریبِ مضمون کیلئے بھی استعارہ ضروری ہوتا ہے۔ یعنی بعض دفعہ مضمون اتنا وسیع ہوتا ہے کہ انسان اُسے سمجھ نہیں سکتا جب تک کسی خاص طریق سے اُسے ذہن کے قریب نہ کر دیں۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑی محبت کرتا ہے تو اس پر بچہ پوچھتا ہے کہ کتنی محبت کرتا ہے؟ تو اگر ہم اُسے کہہ دیں کہ ماں سے بھی زیادہ تو وہ فوراً بات سمجھ جائے گا۔ حالانکہ ماں کی محبت اور خدا تعالیٰ کی محبت میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسی لئے بعض مذاہب نے یہ کہہ دیا ہے کہ خدا ماں ہے، خدا باپ ہے۔ کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا جب تک استعارہ کے رنگ میں اسے ادا نہ کیا جائے۔ تو استعارہ اور تشبیہہ نہایت ضروری چیز ہے اور کلام کا ویسا ہی اہم جزو ہے جیسے اور الفاظ اور اسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں وُسعتِ مضمون ہوگی اور جہاں تھوڑے الفاظ میں مضامین کا ادا کرنا ناممکن ہوگا وہاں استعارہ ہی استعمال کرنا پڑے گا۔ بلکہ خود الفاظ بھی ایک قسم کا استعارہ ہی ہیں۔ مثلاً جب ہم گھوڑا کہتے ہیں تو یہ خود ایک استعارہ ہوتا ہے۔ ورنہ گ ھ و ڑ اور الف کا گھوڑے سے کیا تعلق ہے؟پس یہ ایک تشبیہہ اور استعارہ ہے جو انسانی کلام میں تجویز کیا گیا۔ ورنہ اگر گھوڑے کی تشریح کی جاتی تو بڑی مشکل پیش آ جاتی۔ جیسے مشہور ہے کہ کوئی حافظ صاحب تھے جنہوں نے کبھی کھِیر نہیں کھائی تھی۔ ایک دن کسی نے اُن کی دعوت کی اور شاگرد نے آکر بتایا کہ آج اُس نے کھِیر پکائی ہے۔ وہ کہنے لگے کھِیر کیا کھانا ہوتا ہے؟ اُس نے بتایا کہ میٹھا میٹھا اور سفید سفید ہوتا ہے۔ اب حافظ صاحب نے چونکہ رنگ بھی کبھی نہ دیکھے تھے اس لئے انہوں نے پوچھا کہ سفید رنگ کس طرح کا ہوتا ہے؟ شاگرد کہنے لگا بگلے کی طرح ہوتا ہے۔ حافظ صاحب پوچھنے لگے بگلا کس طرح کا ہوتا ہے؟ اس پر شاگرد نے ہاتھ کی شکل بگلے کی طرح بنائی اور اُس پر حافظ صاحب کا ہاتھ پھیر دیا۔ حافظ صاحب نے فوراً شور مچا دیا اور کہنے لگے جائو جائو میں ایسی دعوت میں شریک نہیں ہو سکتا۔ یہ کھِیر تو میرے گلے میں اٹک کر مجھے مار ڈالے گی۔ یہ ہے تو ایک لطیفہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ بگلے سے فلاں چیز مراد ہے، گھوڑے سے فلاں چیز مراد اور گدھے سے فلاں چیز تو کوئی گھوڑے کو گدھا سمجھے گا اور بھینس کو گھوڑا۔ پس استعارہ انسانی کلام کا ایک ضروری جزو ہے اور اسے کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیاجا سکتا۔
استعاروں کے بغیر بعض مضامین ادا ہی نہیں ہو سکتے
حقیقت یہ ہے کہ استعارہ کے صحیح
استعمال کے بغیر مضمون صحیح طور پر ادا ہی نہیں ہو سکتا۔ مثلاً عام طور پر جب کسی شخص سے کوئی حماقت کا کام سرزد ہو تو اُسے گدھا کہہ دیا جاتا ہے۔ یا کوئی بہادر شخص ہو تو اُس کے متعلق ہم شیر کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں۔ اب اگر ہم شیر کا لفظ استعمال نہ کریں اور خالی بہادر کہہ دیں تو جو شخص استعارہ کو سمجھنے کی طاقت رکھتا ہے وہ بہادر کے لفظ سے کبھی وہ مفہوم نہیں سمجھ سکتا جو شیر کے لفظ سے سمجھ سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی استعارہ غلط استعمال کر دے۔ مثلاً گدھا ہے گدھا ہمیشہ بے موقع کام کرنے والا ہوتا ہے۔ راہ چلتے ہوئے باقی جانوروں کو ہٹائو تو وہ ایک طرف ہو جائیں گے مگر گدھے کو ہٹائو تو وہ ٹیڑھا کھڑا ہو جائے گا اور رستہ روک لے گا۔ اب اگر ہم کسی کو بیوقوف کہیں تو اِس بیوقوف کے لفظ سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ وہ بے موقع کام کرتا ہے لیکن گدھے کا لفظ استعمال کرنے سے فوراً دوسرا شخص سمجھ جائے گا کہ یہ بے موقع کام کرتا ہے۔ اسی طرح گدھے سے بوجھ اُٹھانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اِسی وجہ سے علمائے یہود کی مذمّت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اب جو لوگ اِس نکتہ کو سمجھتے ہیں کہ کسی کو گدھا کہنے سے ایک مقصد اس امر کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ وہ بدعمل ہے وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ جسے گدھا کہا گیا ہے وہ نہ صرف بے موقع کام کرتا ہے بلکہ بے عمل بھی ہے۔ لیکن خالی احمق یا بیوقوف کا لفظ کہنے سے یہ مضمون ادا نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو مضمون کسی کو شیر کہنے سے ادا ہوتا ہے وہ خالی بہادر کہنے سے ادا نہیں ہوتا۔ کیونکہ شیر کی خوبی یہ ہے کہ وہ بِلاوجہ حملہ نہیں کرتا۔ دوسرے وہ زیر دست سے چشم پوشی کرتا ہے۔ اگر شیر کے آگے لیٹ جائیں تو وہ حملہ نہیں کرتا سوائے اِس کے کہ اُس کے منہ کو خون لگ چکا ہو۔ یہ خوبی شیر میں یہاں تک دیکھی گئی ہے کہ بعض جگہ چھوٹے بچے لیٹے ہوئے تھے کہ اتفاقاً وہاں شیر آ گیا۔ ایسی حالت میں بجائے اُن پر حملہ کرنے کے وہ اُنہیں چاٹنے لگ گیا۔ اسی طرح اس میں خوف بالکل نہیں ہوتا۔ یہ خصوصیات ہیں جو شیر میں پائی جاتی ہیں۔ اب اگر ہم کسی کے متعلق محض بہادر کا لفظ استعمال کریں تو گو اِس سے اُس کی جرأت اور دلیری کا اظہار ہو جائے گا مگر یہ اظہار نہیں ہو گا کہ وہ بِلاوجہ حملہ نہیں کرتا۔ وہ زیرِدست سے چشم پوشی کرتا ہے اور ڈر اور خوف اس میں بالکل نہیں۔ تیسرے اس میں ہیبت ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت بھی ایسی ہے جو شیر میں ہی پائی جاتی ہے کہ اس میں خداتعالیٰ نے ایسی ہیبت پیدا کردی ہے کہ حملہ سے نہیں بلکہ اُس کی شکل سے ہی دوسرے کو ڈر لگنے جاتا ہے۔
غرض استعارہ مضمون میں وُسعت پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ اِس کا ثبوت کہ یہ ضروری چیز ہے یہ ہے کہ رؤیا میں نوّے فیصدی استعارات سے کام لیا جاتا ہے۔ انسان دیکھتا ہے کہ میں بینگن کھا رہا ہوں اور اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اُسے کوئی غم پہنچے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ فلاں عزیز مر گیا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو گی۔ وہ دیکھتا ہے کہ اپنے بچے کو ذبح کر رہا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے دین کیلئے وقف کر دے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں بکرا ذبح کر رہا ہوں اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کا کوئی بچہ مر جائے گا۔ میں اِس بحث میں اِس وقت نہیں پڑتا کہ رؤیا خداتعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہیں یا دماغی کیفیت کا ایک نتیجہ ہیں۔ لیکن بہرحال اگر رؤیاایک دماغی کیفیت ہے تب بھی سب دماغوںنے متفقہ طور پر فیصلہ کردیا ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیں۔ اور اگر رؤیا خداتعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہے تب بھی خداتعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیں۔ پس بنی نوع انسان اور خداتعالیٰ کی متفقہ شہادت اس امر پر ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیںہو سکتا۔ باقی رہے خطرات سو میں انہیں تسلیم کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ استعاروں کو نہ سمجھ کر ہی عیسائی گمراہ ہو گئے۔ کہیں انہوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا قرار دے لیا تو کہیں شریعت کو *** قرار دے دیا۔ لیکن اگر کوئی ذریعہ ایسا ہو جس سے یہ خطرات دُور کئے جا سکیں تو اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو کلام ان خطرات کا ازالہ کر دے وہ بہترین کلام سمجھا جائے گا۔ (میں اِس وقت انسانی کلام پر گفتگو نہیں کر رہا بلکہ الہامی کتابوں کا ذکر کر رہا ہوں)
غلط فہمیاں دُور کرنے کے ذرائع
پہلی الہامی کتابوں نے بے شک استعارے استعمال کئے ہیں مگر ان کے خطرات کو دُور
کرنے کیلئے بعد میں نبی آتے رہے۔ اور جب بھی لوگوں کو کوئی غلطی لگی‘آنے والے نبیوں کے ذریعہ اس کا ازالہ ہوتا رہا۔ لیکن اِن استعارات کو سمجھنے کے لئے ان میں اندرونی شہادت موجود نہیں ہوتی تھی۔ مثلاً انجیل میں حضرت مسیح کو ابن اللہ کہا گیا ہے مگر اِس استعارہ کو حل کرنے کیلئے اندرونی شہادت اس میں موجود نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ ایک عارضی تعلیم ہے جب اس کے ذریعہ لوگوں کو دھوکا لگا تو پھر ایک مکمل شریعت اُتاری جائے گی جیسے گورنمنٹیں جب عارضی طور پر پُل بناتی ہیں تو ایسے سامان سے بناتی ہیں جو تھوڑے عرصہ تک کام دے سکے۔ زیادہ پائیدار اور پختہ سامان نہیں لگاتیں۔ اِسی طرح پہلی تعلیمیں چونکہ عارضی تھیں اور اللہ تعالیٰ اُن کو منسوخ کر کے ایک کامل تعلیم اُتارنے کا ارادہ کر چکا تھا اِس لئے ان کتب میں اندرونی شہادت نہ رکھی صرف بیرونی شہادت سے خطرات کا ازالہ کرتا رہا۔ اس لئے جب بیرونی شہادت بند ہو گئی تو سابقہ الہامی کتب بھی منسوخ کر دی گئیں۔ لیکن قرآن کریم چونکہ ابدی ہدایت نامہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِس قسم کے خطرات کے ازالہ کیلئے دو صورتیں رکھی ہیں۔ اوّل بعثت مامورین۔ دوم اندورنی شہادت۔ تاکہ کسی وقت بھی ایسی غلطیاں مسلمانوں میں پیدا نہ ہوں جو سب کو گمراہ کر دیں۔ پہلی کتب کے ساتھ چونکہ یہ حفاظت کے اسباب نہیں تھے اس لئے ان کے بعض مضامین سے لوگوں کو ٹھوکر لگی اور بعض مضامین کو وہ سمجھ ہی نہ سکے۔ مثلاً بائیبل کی کئی آیات ان ہدایات پر مشتمل ہیں کہ اگر کپڑے کو کوڑھ ہو جائے تو تم کیا کرو۔ ۸؎
اب یہ امر کہ کپڑے کو کوڑھ کس طرح ہو سکتا ہے انسانی عقل سے بالا ہے۔ ڈاکٹر بھی اس بات سے ناواقف ہیں مگر بائیبل کی کتاب گِنتی میں باقاعدہ کپڑوں کے کوڑھ کی قسمیں بیان کی گئی ہیں اور پھر اِس کوڑھ کا علاج بتایا گیا ہے۔ اب یقینا یہ کوئی استعارہ ہو گا۔ مثلاً ممکن ہے کپڑوں سے مراد دل ہوں اور کپڑے کے کوڑھ سے مراد دل کی گندگی ہو۔ جیسے قرآن کریم میں بھی آتا ہے۔ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ ۹؎ لیکن چونکہ اندرونی شہادت اِس میں موجود نہیں اور نبی آنے بند ہو گئے اس لئے اب انسان ان باتوں کو پڑھتا اور ہنستا ہے۔ گزشتہ دِنوں ایک جرمن اُستانی مَیں نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینے کیلئے رکھی۔ اُسے انگریزی کم آتی تھی میں نے سمجھا اُسے انگریزی نہیں آتی تو اس سے جرمن زبان ہی سیکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ کچھ عرصہ پڑھاتی رہی۔ ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور میں نے اُسے تبلیغ کی تو وہ کہنے لگی۔ ہر کتاب میں ہدایت کی باتیں ہیں۔ تو ریت میں بھی بڑی بڑی کام کی باتیں ہیں پھر قرآن کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا ہدایت ہونے پر تو کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض تو اس امر پر ہے کہ اس میں بعض ایسی باتیں بھی پائی جاتی ہیں جو لغو ہیں۔ چنانچہ میں نے کہا کیا کپڑے کو بھی کوڑھ ہو سکتا ہے ؟اُس نے کہا نہیں۔ میں نے کہا بائیبل میں یہ لکھاہے چنانچہ بائیبل منگوا کر اُس کے سامنے رکھی گئی اور وہ باب نکال کر اُسے دکھایا گیا۔ وہ سارا دن سر ڈالے بار بار اُسے پڑھتی اور سوچتی رہی۔ آخر مجھے کہنے لگی یہ بات میری عقل سے باہر ہے۔ مَیں کسی پادری کو اِس کے متعلق لکھوں گی اور جو جواب اِس کاآئے گا وہ میں آپ کو بتاؤں گی۔ میں نے کہا۔ پادری بھی اِس کا مطلب کچھ نہیں بتا سکتا مگر خیر اُس نے ایک پادری کو خط لکھ دیا۔ کوئی دو مہینے کے بعد اُس کا جواب آیا مگر وہ بھی اُس نے خود نہیں لکھا بلکہ اُس کی کسی سہیلی سے لکھوایا۔ اور جواب یہ تھا کہ اگر سچ مچ تمہیں اسلام پسند آ جائے تو اسے اختیار کر لو ورنہ قومی مذہب ہی اچھا ہوتا ہے اور اِس قسم کی باتیں جو بائیبل میں آتی ہیں یہ ہر ایک کو سمجھانے والی نہیں ہوتیں۔ تو اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک استعارہ تھا مگر چونکہ اندرونی شہادت موجود نہیں اور اِس کی تشریح کیلئے جو نبی آیا کرتے تھے اُن کا سلسلہ بند ہو گیا اس لئے لوگوں کے لئے ان باتوں کا سمجھنا بڑا مشکل ہو گیا۔ لیکن قرآن نے اپنے استعارات کے حل کے متعلق دونوں شہادتیں رکھی ہیں یعنی اندرونی بھی اور بیرونی بھی۔ پس پہلی کتب اور قرآن کریم میں یہ فرق ہے کہ گو تشبیہہ اور استعارہ دونوں کتب میں استعمال ہوئے ہیں مگر پہلی کتب سے جو غلطی پیدا ہو جاتی تھی وہ ان کتب سے دُور نہیں ہو سکتی تھی مگر قرآن کریم کی کسی بات سے اگر کوئی غلطی لگے تو وہ قرآن سے ہی دُور ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے استعاروںکو کوئی حقیقت نہیں بنا سکتا اور نہ حقیقت کو استعارہ بنا سکتا ہے۔ مَیں یہ مانتا ہوں کہ اِس امر کا امکان ہے کہ کسی وقت مسلمان غلط فہمی سے لاکھ دو لاکھ یا چار لاکھ کی تعداد میں بِگڑ جائیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے بِگڑ جائیں حالانکہ عیسائی سب کے سب بِگڑ گئے۔
قرآن کریم اپنے استعاروں کو آپ حل کرتا ہے
چنانچہ یہ دعویٰ جو مَیں نے کیا ہے کہ
قرآن کریم اپنے استعارات کو آپ حل کرتا ہے اِس کو قرآن کریم نے خود پیش کیا ہے۔ وہ فرماتا ہے ھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَاتَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَائَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَائَ تَاْوِیْلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلاَّ اللّٰہُ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّابِہِ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلاَّ اَوْلُوالْاَلْبَابِo ۱۰؎ فرماتا ہے قرآن کے جو مضامین ہیں ان میں سے کچھ تومُحکم ہیں یعنی ان میں استعارہ استعمال نہیں ہوا مگر کچھ آیتیں ایسی ہیں جن میں استعارے استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی الفاظ تو ہیں مگر ان میں تشابہ ہے۔ مثلاً انسان کو بندر اور سؤر کہہ دیا گیا ہے۔ فرماتا ہے وہ لوگ جو کجی چاہتے ہیں وہ استعاروں والی آیات کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہی حقیقت ہے۔ اگر یہود کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ خداتعالیٰ نے انہیں بندر بنا دیا تو وہ کہتے ہیں کہ واقعہ میں انسانی شکل مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا تھا۔ اور اگر یہ آئے کہ انہیں سؤر بنا دیا گیا تھا تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ واقعہ میں وہ سؤر بن گئے تھے۔ اگر یہ ذکر آئے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہے تو یہ کہنے لگ جائیں گے کہ اس کے واقعہ میں گُھٹنے ہیں اور وہ کسی تخت پر بیٹھا ہے اور اس سے غرض ان کی یہ ہوتی ہے کہ وہ فتنہ پیدا کریں۔ وَابْتِغَائَ تَاْوِیْلِہٖ اور حقیقت سے پھِرانے کیلئے وہ ایسا کرتے ہیں۔ تاویل کے معنی پھِرانے کے ہوتے ہیں چاہے حقیقت سے دُور لے جانے کے معنوں میں ہو یا حقیقت کی طرف لے جانے کے معنوں میں ہو مگر یہاں وَابْتِغَائَ تَاْوِیْلِہٖ کے معنی حقیقت سے دُور لے جانے کے ہیں۔ یعنی استعارے کو وہ حقیقت قرار دے کر لوگوں کو اصل معنوں سے دُورلے جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ استعارہ ہوتا ہے اور استعارہ کی وجہ سے اس کا مفہوم خدا ہی بیان کر سکتا ہے جو عالم الغیب ہے۔ تم خود کس طرح سمجھ سکتے ہو۔ اگر کہو کہ پھر ہمیں استعاروں کے مفہوم کا کس طرح پتہ لگے؟ تو فرمایا وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ ہم نے اِن کا مفہوم قرآن میں بیان کر دیا جو سمجھنے والے ہیں اُن کے سامنے جب دونوں آیات آتی ہیں وہ بھی جن میں استعارہ ہوتا ہے اور وہ بھی جن میں حقیقت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کُلٌّ مِّنْ عِنْدِرَبِّنَا۔ وہ آیت بھی خدا کی طرف سے ہے جو استعارے والی ہے اور وہ آیت بھی اس کی طرف سے ہے جو اسے حل کرنے والی ہے اور ناممکن ہے کہ ان دونوں میں اختلاف ہو۔ مثلاً اگر ہم کہیں کہ زید گدھا ہے اور پھر کہیں کہ زید نے فلاں کتاب نقل کر کے دی ہے تو اِس صورت میں اگر کوئی دوسرا اس استعارے کو حقیقت قرار دیتے ہوئے سوال کرے کہ کیا زید چوپایہ ہے؟ تو اُسے دوسرے فقرہ کو جس میں اُس کی طرف کتاب کا نقل کرنا منسوب کیا گیا ہے جھٹلانا پڑے گا۔ لیکن اگر ہم کہہ دیں کہ دونوں فقرے صحیح ہیں تو لازماً استعارہ کو استعارہ کے معنوں میں لانا پڑے گا اور حقیقت کو حقیقت کے معنوں میں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یہ کہتے ہیں کہ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِرَبِّنَا۔ یعنی اے بھلے مانسو! جو استعارے کو حقیقت قرار دیتے ہو کیا تم اس امر کو نہیں جانتے کہ جب تم استعارہ کو حقیقت قرار دو گے تو قرآن کریم کی بعض آیات جھوٹی ہو جائیں گی اور وہ سچی ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک استعارہ کو استعارہ کی حد میں نہ رکھا جائے۔ حالانکہ وہ دونوں خدا کی طرف سے ہیں اور دونوں سچی ہیں اور جب دونوں باتیں سچی ہیں تو لازماً ماننا پڑے گا کہ ان میں سے ایک حقیقت ہے اور ایک استعارہ۔ وَمَایَذَّکَّرُاِلاَّاُولُوالْاَلْبَابِ- مگر یہ فائدہ عقلمند لوگ ہی اُٹھاتے ہیں۔
حضرت مسیحؑ کا معجزہ احیائے موتی
اِس ضمن میں کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر ایک موٹی مثال احیائے موتی کی ہے۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مُردے زندہ کیا کرتے تھے اور دوسری طرف قرآن میں ہی لکھا ہے کہ مُردے کی روح اِس جہان میں واپس نہیں آتی۔ اب اگر ہم مُردوں کو زندہ کرنے سے حقیقی مُردوں کا اِحیاء مُراد لیں تو ان میں سے ایک آیت کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا ماننا پڑتا ہے۔ لیکن اگر مُردوں سے روحانی مُردے مُراد لیں تو دونوں آیتیں سچی ہو جاتی ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ مُردے زندہ کرو اور دوسری طرف کہہ دیا کہ مُردے واپس نہیں آتے۔ اس طرح جو استعارہ کا فائدہ تھا وہ بھی حاصل ہو گیا اور جو نقصان تھا وہ بھی دُور ہو گیا۔ احیائے موتی کے الفاظ استعمال کرنے سے مضمون میں جو وُسعت پیدا کرنا مدِّنظر تھا وہ وُسعت بھی پیدا ہو گئی اور جو خطرہ تھا کہ جاہل مسلمان اُنہیں خدا قرار نہ دے لیں اسے بھی دُور کر دیا۔
مجاز اور استعارہ کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد
اِن معنوں کی تائید ایکحدیث سے بھی ہوتی ہے۔ عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ
نے کچھ لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ مُحکمات و متشابہات کے بارہ میں جھگڑتے اور استعارہ اور حقیقت میں فرق نہ سمجھتے ہوئے قابلِ اعتراض باتیں کرتے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اسی اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں حالانکہ خداتعالیٰ کی کتاب اس لئے اُتری ہے کہ اس کی ہر آیت دوسری کی تصدیق کرے۱۱؎ ۔ پس جو آیت دوسری آیت کی تصدیق نہ کرے اس کے معنی بدلنے چاہئیں اور دونوں آیات کے مضمون میں مطابقت پیدا کرنی چاہئے۔ پس کبھی قرآن کے وہ معنی نہ کرو جو اس کی کسی دوسری آیت کو جھٹلاتے ہوں۔ اگر مطلب سمجھ میں نہ آئے تو جانے دو اور کسی عالمِ قرآن سے دریافت کرو وہ تمہیں اس کا مطلب بتا دے گا۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتا دیا کہ قرآن کریم کی آیات آپس میں مخالف نہیں اگر استعارہ سمجھ میں آ جائے تو اُسے محکم آیات کے مطابق کرو اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو کسی واقف کے پاس جائو اور اُس سے دریافت کرو کہ کیا بات ہے وہ تمہاری عُقدہ کشائی کر دے گا۔
غرض اس اصل کے ماتحت جو قرآن کریم نے بتایا ہے اور حدیث کے بھی ماتحت ہے جہاں دوسری کتب میں بعض خلافِ عقل اور خلافِ سنت باتیں پائی جاتی ہیں وہاں قرآن کریم ان باتوں سے پاک ہے کیونکہ مستعمل استعاروں کا حل قرآن میں موجود ہے۔
قرآنی استعارات کی ایک مثال
اس سلسلہ میں اگرچہ قرآن کریم کی بیسیوں باتیں بیان کی جا سکتی ہیں مگر چونکہ مَیں قرآن
کی تفسیرنہیں کر رہا اس لئے مثال کے طور پر مَیں صرف ایک امر بیان کر دیتا ہوں۔ اور وہ وہی ہے جس کا ذکر سورہ نمل کے اُس رکوع میں کیا گیا ہے جس کی آج ہی مَیں نے تقریر شروع کرنے سے قبل تلاوت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے۔ ہم نے دائود ؑ اور سلیمان ؑ کو علم عطا کیا اور ان دونوں نے کہا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍمِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ۱۲؎ اللہ تعالیٰ ہی تمام تعریفوں کا مستحق ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ اور سلیمان ؑ دائود ؑ کا وارث بنا اور اس نے کہا اے لوگو! مجھے اور میرے باپ کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم کو ہر ایک چیز دی گئی ہے اور ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔ اور سلیمان ؑ کیلئے لشکر جمع کئے گئے۔ وہ لشکر انسانوں کے بھی تھے اور جنوں کے بھی اور پرندوں کے بھی۔ گویا ہر ایک کی الگ الگ کمپنی تھی۔ حَتّٰی اِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِالنَّمْلِ۔ پھر حضرت سلیمان ؑ اپنا لشکر لے کر چلے یہاں تک کہ وہ وَادِالنَّمْلِ یعنی چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے۔ ایک چیونٹی نے اُنہیں دیکھ کر کہا۔ اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جائو ایسا نہ ہو کہ سلیمان ؑ اور اس کا لشکر غیر شعوری حالت میں تمہیں اپنے پَیروں کے نیچے مسل دیں۔ حضرت سلیمان ؑ اُس کا یہ قول سن کر ہنس پڑے اور انہوں نے کہا۔ اے میرے خدا! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کر سکوں۔ وہ نعمتیں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیں اور یہ کہ میں نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو جائے اور مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں داخل فرما۔ پھر حضرت سلیمان ؑ نے جب پرندوں والے لشکر کی دیکھ بھال کی تو فرمایا۔ یہ کیا بات ہے کہ ہُد ہُد نظر نہیں آتا۔ میں اُسے سخت عذاب دونگا ورنہ وہ دلیل پیش کرے اور وجہ بتائے کہ کیوں غیر حاضر ہوا؟ تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ہُد ہُد آ گیا اور اُس نے کہا کہ حضور! ناراض نہ ہوں۔ میں ایسی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو علم نہیں۔ میں سبا کے ملک سے ایک یقینی خبر لایا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا جو ان کی ساری قوم پر حکومت کر رہی ہے اور ہر نعمت اُسے حاصل ہے اور اُس کا ایک بڑا تخت ہے اور میں نے اُسے اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور شیطان نے اُن کے اعمال اُن کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں اور اُن کو سچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے اور اس بات پر مُصر ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کریں گے وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ تقدیر کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ تم چُھپاتے اور ظاہر کرتے ہو اُسے جانتا ہے حالانکہ اللہ وہ ہے جس کے سِوا کوئی معبود نہیں اور وہ ایک بڑے تخت کا مالک ہے۔ حضرت سلیمانؑ نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ بولا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔ تو میرا یہ خط لے جا اور اِسے اُن کے سامنے جا کر پیش کر دے اور پھر ادب سے پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔
اِسی قسم کا مضمون سورہ سبا رکوع۲ میں بھی آتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ وَاَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَo اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۱۳؎ یعنی ہم نے دائود ؑ پر بھی بڑا فضل کیا اور اُس کے زمانہ میں ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ اے پہاڑو! اس کے ساتھ چلو اور پرندوں کو بھی حُکم دے دیا کہ اُس کے ساتھ رہیں اور اس کے لئے ہم نے لوہا نرم کر دیا اور اُسے کہا کہ اس لوہے سے زِرہیں بنائو اور ان کے حلقے چھوٹے رکھو اور نیک اعمال بجا لائو میں تمہارے کاموں سے خوب واقف ہوں۔
اسی طرح سورہ انبیاء رکوع۶ میں فرماتا ہے۔ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ وَکُنَّا فٰعِلِیْنَo وَعَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسِ لَّکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْ بَأْسِکُمْ فَھَلْ اَنْتُمْ شَاکِرُوْنَ۔ ۱۴؎ ہم نے دائود ؑ کے لئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو ہر وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندے مسخرکر دیئے اور ہم یہ سب کچھ کرنے پر قادر تھے اور ہم نے اس کو تمہارے لئے لباس کا بنانا سکھلایا تا کہ وہ تمہیں لڑائی میں تکلیفوں سے بچائے پس کیا تم شکر گذار بنو گے؟
پھر سورہ صٓ رکوع ۲ میں آتا ہے۔ وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِ اِنُّہٗ اَوَّابٌo اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِo وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً کُلٌّ لَّہٗ اَوَّابٌo وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰہٗ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ۱۵؎ یعنی ہمارے بندے دائود کو یاد کرو جو بڑی طاقت کا مالک تھا اور ہماری درگاہ میں بار بار جُھکتا تھا ہم نے اُس کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے جو صبح و شام تسبیح کرتے تھے۔ اسی طرح پرندے اُس کی خاطر اکٹھے کر دیئے تھے اور وہ سب کے سب خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے تھے۔ اور ہم نے اُس کی سلطنت کو خوب مضبوط بنا دیا تھا اور اُسے حکمت دی تھی اور ایسے دلائل سکھائے تھے جو دشمن کا منہ بند کر دیں۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے قبضہ میں جِنّ بھی تھے، پرندے بھی تھے، پہاڑ بھی تھے۔ وہ چیونٹیوں کی زبان بھی جانتے تھے۔ ایک ہُدہُد بھی انہوں نے رکھا ہوا تھا جو اُن کے بڑے بڑے کام کرتا تھا۔
مفسّرین کی عجیب و غریب قیاس آرائیاں
اب جن لوگوں نے متشابہہ کو محکم سے پڑھنے کی کوشش نہیں
کی وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان ؑ اور حضرت داؤد ؑ کے قبضے میں پہاڑ تھے۔ جِنّ تھے، پرندے تھے، حیوانات تھے اور سب مل کر حضرت دائود ؑ کے ساتھ ذکرِ الٰہی کرتے تھے۔ جب وہ کہتے سُبْحَانَ اللّٰہِ تو پہاڑ بھی اور پرندے بھی اور جِنّ بھی اور حیوانات بھی سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنے لگ جاتے۔ جیسے کشمیری واعظوں کا دستور ہے کہ لیکچر دیتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سَستانے کیلئے کہہ دیتے ہیں۔ پڑھو درود۔ وہ بھی گویا اِسی طرح کرتے تھے۔ جب خود ذکرِ الٰہی کرتے کرتے تھک جاتے تو کہتے ہمالیہ! پڑھو درود۔ اور وہ درود پڑھنے لگ جاتا۔ پھر جب انہیں آرام آ جاتا تو کہتے چپ کرو اَب میں خود درود پڑھتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں پہاڑوں وغیرہ کا سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا کونسی بڑی بات ہے وہ تو باقاعدہ رکوع و سجود بھی کرتے تھے۔ جب حضرت دائود سجدہ میں جاتے تو سارے پہاڑ، پرند اور چرند بھی سجدہ میں چلے جاتے اور جب وہ رکوع کرتے تو سب رکوع کرنے لگ جاتے۔ بعض کو اِس تاویل سے بھی مزا نہیں آیا وہ کہتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ حضرت دائود جہاں بھی جاتے پہاڑ آپ کے ساتھ چل پڑتے۔ حضرت دائود ؑ تو شام میں تھے اور یہ ہمالیہ، شوالکؔ اور الپسؔ سب آپ کے ساتھ ساتھ پِھرا کرتے تھے۔ اسی طرح پرندے بھی مل کر تسبیح کرتے تھے۔ اُن دِنوں چِڑیاں بھی چوں چوں نہیں کرتی تھیں، بکریاں مَیں مَیں نہیں کرتی تھیں بلکہ سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا کرتی تھیں۔ کوئی یہ نہ پوچھے کہ بکری کس طرح پرندہ ہوگیا؟ کیونکہ تفسیروں میں اِسی طرح لکھا ہے۔ غرض وہ عجیب زمانہ تھا۔ اسی طرح سلیمانؑ پر خدا تعالیٰ نے ایک اور مہربانی کی اور وہ یہ کہ جِنّ اُن کے حوالے کر دیئے جو اُن کے اشارے پر کام کرتے۔ جب چلتے تو پرندے اُن کے سر پر اپنے پَر پَھیلا کر سایہ کر دیتے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت دائود ؑ بڑے شکی طبیعت کے آدمی تھے۔ جب کہیں باہر جاتے تو اپنی بیویوں کو گھر میں بند کر کے جاتے۔ ایک دفعہ گھر میں آئے تو دیکھا کہ ایک جوان مضبوط آدمی اندر پھر رہا ہے۔ وہ اُسے دیکھ کر سخت خفا ہوئے اور کہنے لگے۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ اندر آگیا ہے۔ پھر اُس سے پوچھا کہ جب مکان کے تمام دروازے بند تھے تو تو اندر کس طرح آ گیا؟ وہ کہنے لگا مَیں وہ ہوں جسے دروازوں کی ضرورت نہیں۔ آپ نے پوچھا کیا تو ملک الموت ہے؟ اُس نے کہا ہاں۔ اور یہ کہتے ہی اُس نے آپ کی جان نکال لی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب دفن کرنے لگے تو تمام پرندے اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے آپ پر اپنے پَروں سے سایہ کیا۔
کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام تمام پرندوں کی بولیاں جانتے تھے۔ کسی نے کہا کہ کیا جانوروں کی بولیاں جانتے تھے یا نہیں؟ تو مفسّرین نے اِس کا جواب یہ دیا ہے کہ جانتے تو تھے مگر اختصار کے لحاظ سے صرف پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے حضرت سلیمانؑ سے کہا چلیں اِسْتِسقاء کی نماز پڑھائیں۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ گھبرائو نہیں بارش ہو جائے گی۔ کیونکہ ایک چیونٹی پیٹھ کے بَل کھڑی ہو کر کہہ رہی تھی کہ خدایا! اگر بارش نہ ہوئی تو ہم مر جائیں گی۔ ایک دفعہ وہ وادیٔ النمل میں سے گذرے تو چیونٹیوں کی ملکہ نے سب کو حُکم دیا کہ اپنے اپنے بِلوں میں گھس جائو۔ مگر مفسّرین نے یہیں تک اپنی تحقیق نہیں رہنے دی انہوں نے چیونٹیوں کے قبیلوں کا بھی پتہ لگایا ہے اور کہتے ہیں جس طرح انسانوں میں مغل، راجپوت اور پٹھان وغیرہ ہوتے ہیں اِسی طرح چیونٹیوں کی قومیں اور قبائل ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ علم آپ کے کام آئے گا کہ چیونٹیوں کے ایک قبیلے کا نام شیسان ہے جو مفسرین نے لکھا ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کی جو سردار چیونٹی تھی وہ ایک پائوں سے لنگڑی تھی اور اُس کا قد بھیڑ کے برابر تھا۔ یہ وہ واقعات ہیں جو استعارہ اور تشبیہہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مفسّرین کو گھڑنے پڑے ہیں۔ حالانکہ بات بالکل صاف تھی۔ چنانچہ مَیں باری باری ہر واقعہ کو لیتا ہوں اور سب سے پہلے میں حضرت دائودعلیہ السلام کا قصہ لیتا ہوں۔
پہاڑوں کی تسخیر سے کیا مراد ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے دائود ؑ کیلئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو تسبیح کرتے تھے۔ اب
ہم دیکھتے ہیں کہکیا ایسے قصوں کی ضرورت ہے؟ حضرت دائود علیہ السلام کے متعلق اگر خدا نے یہ کہا ہے کہ ہم نے اُس کیلئے پہاڑ مسخر کر دیئے تو اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ وَسَخَّرَلَکُمْ مَّافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۱۶؎ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مومنو! اور اے کافرو اور منافقو! ہم نے تم میں سے ہر ایک کیلئے سمندر مسخر کر دیئے ہیں جس میںکشتیاں اُس کے حُکم سے چلتی ہیں تا کہ تم خدا کا فضل تلاش کرو۔ اور صرف سمندر ہی نہیں آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔ اور اس میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے بڑے بڑے نشانات ہیں۔ اب اس آیت سے حضرت دائود ؑ والی آیت بالکل حل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں خواہ دریا ہیں یا پہاڑ سب انسان کیلئے مسخر ہیں۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ پہاڑ میرے لئے بھی مسخر ہوں مگر میرے ساتھ ہمالیہ کی ایک اینٹ بھی نہ چلے اور دائود کے ساتھ پہاڑ کا پہاڑ چلنے لگ جائے۔ اگر دائود کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی ہونے چاہئیں۔ اور اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوتے تو صاف پتہ لگ گیا کہ حضرت دائود ؑ کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوتاتھا۔
پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کے معنے
اب رہا سوال تسبیح کا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں تو لکھا ہے پہاڑ اور پرندے
حضرت دائود ؑ کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے کیا اب بھی یہ چیزیں تسبیح کرتی ہیں؟ سو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے سورۃ جمعہ میں دے دیا ہے۔ فرماتا ہے۔ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ۱۷؎ یعنی سورج بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے۔ چاند بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے۔ ستارے بھی تسبیح کر رہے ہیں۔ اسی طرح مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب تسبیح کر رہے ہیں۔ یہ لیمپ بھی تسبیح کر رہا ہے۔ لائوڈ سپیکر بھی تسبیح کر رہا ہے۔ اسی طرح درخت بھی تسبیح کر رہے ہیں۔ اس کے پتے بھی تسبیح کر رہے ہیں۔ آم بھی تسبیح کر رہا ہے۔ کیلا بھی تسبیح کر رہا ہے بلکہ کیلے کا چِھلکا جس کو ہم اُتار کر پھینک دیتے ہیں وہ بھی تسبیح کر رہا ہے۔ روٹی بھی تسبیح کر رہی ہے۔ تھالی بھی تسبیح کر رہی ہے۔ جب تم چائے پیتے ہو تو تمہارے ہونٹ بھی تسبیح کر رہے ہوتے ہیں۔ چائے بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ مِصری یا کھانڈ بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ پیالی بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ پِرچ بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح مکان بھی، چھت بھی، دیواریں بھی، دروازے بھی، وہ بستر جس پر تم لیٹتے ہو اُس بستر کی چادر بھی اور توشک اور رضائی بھی سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ رہی ہوتی ہیں اور جب ہر چیز سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ رہی ہے تو حضرت دائود ؑ کے لئے اگر یہی الفاظ آ جائیں تو اس کے نئے معنی کیوں بن جاتے ہیں۔ دیکھ لو وہ دونوں باتیں جو حضرت دائود ؑ کے متعلق کہی گئی تھیں ہمارے لئے بھی موجود ہیں۔ ہمارے لئے بھی خدا کہتا ہے کہ مَیں نے ہر چیز مسخر کر دی اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر چیز تسبیح کر رہی ہے۔ بلکہ حضرت دائود ؑکیلئے تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے تھے مگر ہمارے لئے تو یہ کہا گیا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب تسبیح کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز یہ ثابت کر رہی ہے کہ خدا بے عیب ہے۔ چونکہ اسلام نے دنیا بھر سے عیب دُور کرنے تھے اس لئے مسلمانوں کو یہ بتایا گیا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ تسبیح کر رہا ہے لیکن حضرت دائود نے چونکہ صرف جِبال سے عیب دور کرنے تھے اور وہ ساری دنیا کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک محدود مقام کی طرف تھے اس لئے حضرت دائود ؑ کے زمانہ میں صرف جِبال نے تسبیح کی۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سارے جہان کی طرف تھے اس لئے آپ نے فرمایا۔ جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا۱۸؎ زمین کا ایک ٹکڑا بھی ایسا نہیں جو تسبیح نہیں کر رہا۔ اس لئے ہم جہاں جائیں گے وہ مسجد بن جائے گی، پس یُسَبِّحُ لِلّٰہِ والے مضمون کو دائود کے مضمون میں محدود کر کے صرف پہاڑوں تک رکھا گیا۔ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ کے لئے تھے اور حضرت دائود ؑ صرف چند جِبال کیلئے۔
باقی رہا اَوِّبِیْ مَعَہٗ کے الفاظ سے یہ استدلال کہ پہاڑ حضرت دائود ؑ کے ساتھ ان کی تسبیح میں شامل ہو جاتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دنیا کا ذرّہ ذرّہ تسبیح میں شامل ہے۔ کوئی کہے کہ پھر حضرت دائود ؑکی خصوصیت کیا رہی؟ تو یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں تو ان کی کوئی خصوصیت نہیں کہ پہاڑ اُن کیلئے مسخر تھے۔ کیونکہ میں قرآن کریم سے ثابت کر چکا ہوں کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے یہ سب کا سب خدا تعالیٰ نے انسان کیلئے مسخر کر دیا ہے۔ ہاں جس ملک کا خدا تعالیٰ کسی کو بادشاہ بنا دیتا ہے اُس میں اُسے عام انسانوں سے زیادہ عظمت حاصل ہوتی ہے۔ پس گو زمین و آسمان کی چیزیں حضرت دائود ؑکیلئے اسی طرح مسخر تھیں جس طرح عام بنی نوع انسان کیلئے۔ لیکن حضرت دائود ؑکو ایک زائد خصوصیت یہ حاصل تھی کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بھی بنا دیا تھا۔ پس گو تسخیر بعینہٖ وہی ہے جو ہمارے لئے ہے مگر اس تسخیر کی عظمت میں فرق ہے۔
جِبال سردارانِ قوم کو بھی کہتے ہیں
اب مَیں لُغت سے بتاتا ہوں کہ اس کے اور معنے بھی ہیں۔ چنانچہ جَبَلٌ کے معنے لُغت میں
سَیِّدُ الْقَوْمِ کے لکھے ہیں۔۱۹؎ پس حضرت دائود ؑ کیلئے جِبَال مسخر کر دیئے کے معنی یہ تھے کہ حضرت دائود علیہ السلام یہود کے وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے اِردگرد کے قبائل پر فتح پائی اور وہ ان کے ماتحت ہوگئے۔ حضرت دائود علیہ السلام سے پہلے کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہوا جس نے اپنی قوم کے علاوہ دوسری اقوام پر بھی حکومت کی ہو۔ لیکن حضرت دائود ؑ پہلے بادشاہ ہیں جن کے اِردگرد کے حکمران ان کے مُطیع ہوگئے تھے۔ اگر کوئی کہے کہ قرآن میں تو یُسَبِّحْنَ کا لفظ آتا ہے۔ تم اس کے معنے مطیع کے کس طرح کرتے ہو؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ جِبَال چونکہ مؤنث ہے اس لئے یُسَبِّحْنَ کا لفظ آیا ہے ورنہ سردارانِ قوم کے معنے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ قومیں آپ کی مطیع ہو گئی تھیں۔
پرندوں کی تسبیح کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں
باقی رہے طَیْر۔ سو ان کیلئے تسبیح قرآن میں آئی ہی نہیں۔
اور اِس امر کا کہیں ذکر نہیں کہ وہ حضرت دائود ؑکے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے۔ دراصل لوگوں کو عربی زبان کے ایک معمولی قاعدہ سے ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا لگ گیا اور وہ خیال کرنے لگے کہ جِبَال کے ساتھ طَیْر بھی تسبیح کیا کرتے تھے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ یہاں طَیْرَ پر زبر ہے اور زبر دینے والا سَخَّرَ کا لفظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے دائود کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے جو تسبیح کرتے تھے۔ اسی طرح ہم نے طَیْر بھی مسخر کر دیئے یہاں کسی تسبیح کا ذکر نہیں۔ صرف اتنے معنے لئے جا سکتے ہیں کہ انہیںپرندوں سے کام لینے کا علم آتا تھا۔ جیسے کبوتروں سے خبر رسانی وغیرہ کا کام لے لیا جاتا ہے۔ پس قرآن میں سَخَّرْنَا الطَّیْرَ ہے یُسَبِّحْنَ الطَّیْرَ نہیں ہے۔
دوسری آیت یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ۔ وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً یہاں بھی طَیْرَ کا نَاصِبْ سَخَّرَ ہے اور میں حیران ہوں کہ مفسرین نے پرندوں کے تسبیح کرنے کے معنے کہاں سے لئے۔
تیسری آیت یہ ہے وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا یٰجِبَاُل اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ۔ ہم نے دائود ؑ پر بڑا فضل کیا اور پہاڑوں سے کہا اے پہاڑو! تم بھی اس کی تسبیح کا تسبیح سے جواب دیا کرو۔ اسی طرح ہم نے اسے پرندے بھی دیئے۔ گویا یہاں اٰتَیْنَا الطَّیْرَ فرمایا گیا ہے یہ نہیں کہا گیا کہ پرندے تسبیح کیا کرتے تھے۔ غرض طَیْرَ کا ناصب یا سَخَّرَ ہے یا اٰتٰی ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے حضرت دائود ؑ کو طَیْر بھی دیئے تھے۔ لیکن میں کہتا ہوں اگر اس کے معنے تسبیح کے بھی کر لو تو جب زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو پرندوں کی تسبیح میں کونسی بڑی بات ہوسکتی ہے۔ مجھے ہمیشہ آجکل کے علماء پر تعجب آیا کرتا ہے کہ جب حضرت دائود ؑ یا حضرت سلیمانؑ یا حضرت عیسیٰ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ کے متعلق کوئی آیت آئے تو اس کے وہ اور معنی لے لیتے ہیں۔ لیکن اگر ویسی ہی آیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے آ جائے تو اس کے معنی اور کر لیتے ہیں۔ حضرت دائود ؑکے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہاڑ اس کے ساتھ ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ تو کہتے ہیں۔ پہاڑ واقعہ میں سُبْحَانَ اللّٰہِ سَبْحَانَ اللّٰہِ کیا کرتے تھے۔ اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ کہے کہ ہم نے زمین و آسمان آپ کیلئے مسخر کر دیئے تو کہیں گے یہاں تشبیہہ مراد ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ ذکر آئے کہ انہوں نے مُردے زندہ کئے تو کہیں گے یہاں مُردوں سے روحانی مُردے مراد ہیں۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اگر یہ الفاظ آ جائیں تو جب تک وہ یہ نہ منوا لیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مُردوں کے نتھنوں میں پھُونک مار کر انہیں زندہ کر دیا تھا، اُس وقت تک انہیں چَین ہی نہیں آتا۔
جنات کا ذکر
اِس کے بعد مَیں جنوں کو لیتا ہوں۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ اِس وقت میرے سامنے ایک ایسے دوست بیٹھے ہیں جو جنوں کے قابض کہلاتے ہیں
اور بائیں طرف وہ بیٹھے ہیں جو کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جن اُن کے قبضہ میں آ جائیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ اگر میں ان کے خلافِ طبیعت کوئی بات کہہ دوں تو وہ مجھے معاف کریں گے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی یا بُری کوئی مخلوق جِنّ ضرور ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مگر سوال یہ نہیں کہ جِنّ کوئی مخلوق ہے یا نہیں بلکہ سوال اُن جنوں کا ہے جو حضرت سلیمانؑ کے ساتھ تھے اور حضرت سلیمانؑ کے متعلق اُن جنوں کا ذکر ہے جن کا باقاعدہ لشکر تھا۔ وہ خبریں لا لا کر دیا کرتے تھے، وہ باقاعدہ لڑائیوں میں ساتھ جاتے تھے حتیّٰ کہ جنوں کے پَیروں کے نیچے چیونٹیاں بھی کچلی جاتی تھیں۔ پس اِس وقت سوال اُن جنوں کا ہے جو ہر وقت حاضر رہتے تھے اور جن کی فوجیں رائٹ لیفٹ کرتی رہتی تھیں۔
رسول کریم ﷺ کے پاس جنوں کی آمد
اب سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا قرآن میں حضرت
سلیمان کے متعلق ہی یہ ذکر آیا ہے یا اور کسی نبی کے متعلق بھی لکھا ہے کہ اُس کے پاس جِنّ آئے۔ سو جب ہم اس غرض کیلئے قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو سورہ احقاف میں ہمیں یہ آیات نظر آتی ہیں۔ وَاِذْصَرَفْنَا اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْا اَنْصِتُوْا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِلٰی قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَ۔ قَالُوْا یٰـقَوْمَنَا اِنَّا سَمِعْنَا کِتٰـبًا اُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَھْدِیْ اِلَی الْحَقِّ وَاِلَی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ یٰـقَوْمَنَا اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰہِ وَاٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَ یُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ۲۰؎ یعنی اُس وقت کو بھی یاد کرو جب ہم جنوں میں سے کچھ لوگ جو قرآن سننے کی خواہش رکھتے تھے تیری طرف پھیر کر لے آئے۔ جب وہ تیری مجلس میں پہنچے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔ خاموش ہو جائو تا کہ قرآن کی آواز ہمارے کانوں میں اچھی طرح پڑے۔ جب قرآن کی تلاوت ختم ہو گئی تو وہ اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت شروع کر دی۔ اور اپنی قوم سے کہا اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب کی تلاوت سُنی ہے جو موسیٰ کے بعد اُتاری گئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسٰی سچا نبی تھا اور اُس نے جو کچھ کہا تھا خدا کی طرف سے کہا تھا یہ کتاب حق کی طرف بُلاتی ہے اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے مُنادی کی آواز کو سنو اور اُسے قبول کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جِنّ تورات پر، حضرت موسیٰ پر، قرآن پر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے۔ پس حضرت سلیمانؑ ہی ایک ایسے نبی نہیں جن پر جِنّ ایمان لائے بلکہ موسٰی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جنات آپ پر ایمان لائے مگر افسوس اُن لوگوں پر جو سلیمانؑ کے جنوں کے تو عجیب عجیب قصے سناتے ہیں۔ کہتے ہیںحضرت سلیمان علیہ السلام قالین پر بیٹھ جاتے اور چار جنوں کو چاروں کونے پکڑوا دیتے اور وہ انہیں اُڑا کر آسمانوں کی سیر کراتے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جِنّ ایمان لائے اُن کے متعلق یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی ایسی مدد کی ہو۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا کر سفر کرتے تھے۔ آپ کے صحابہؓ کو کئی دفعہ سواریاں نہ ملتیں اور وہ روتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لئے کسی سواری کا انتظام فرما دیجئے تو ہم جانے کیلئے حاضر ہیں۔ کئی دفعہ صحابہؓ نے ننگے پَیر لمبے لمبے سفر کئے ہیں مگر یہ تمام دُکھ اور تکلیفیں دیکھنے کے باوجود اُن سنگدل جنوں کا دل نہ پسیجا اور انہوں نے آپ کی کوئی مدد نہ کی۔ حضرت سلیمانؑ کے وقت تو لشکر کا لشکر اُٹھا کر وہ دوسری جگہ پہنچا دیتے تھے اور یہاں ان سے اتنا بھی نہ ہوا کہ دس بیس مہاجرین کو ہی اُٹھا کر میدانِ جنگ میں پہنچا دیتے۔
ان الفاظ کو استعارہ نہ سمجھنے والوں کی ایک دلیل
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جِنّ غیر از انسان وجود
ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمانؑ پر ایمان لائے تھے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان معنوں کو قرآن کریم تسلیم کرتا ہے۔ اگر یہ ایک استعارہ ہے تو یقینا قرآن کریم نے اس کو اپنی کسی دوسری آیت میں حل کیا ہوگا۔ اور استعارہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قرآن کریم کی دو آیتیں باہم ٹکرا جائیں گی اور اِس طرح قرآن میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔ پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس کو استعارہ تسلیم نہ کرنے سے قرآن میں اختلاف پیدا ہوتا ہے یا استعارہ تسلیم کر کے۔ جو لوگ استعارہ نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہی لفظ ہے جیسے شیطان کا لفظ آتا ہے۔ جس طرح شیطان سے مراد ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے علیحدہ ہے اسی طرح جِنّ بھی ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے الگ ہے حالانکہ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ ۲۱؎ میں مفسّرین بِالاتفاق لکھتے ہیں کہ اس جگہ شیاطین سے مراد یہودی اور اُن کے بڑے بڑے سردار ہیں۔ پس اگر انسان شیطان بن سکتا ہے تو انسان جِنّ کیوں نہیں بن سکتا؟
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلُِ نَبِیٍ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ الٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ۲۲؎ یعنی ہم نے ہر نبی کے دشمن بنائے ہیں شیطان آدمیوں میں سے بھی اور جنوں میں سے بھی جو لوگوں کو مخالفت پر اُکساتے اور انہیں نبی اور اُس کی جماعت کے خلاف برانگیختہ کرتے رہتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دیاہے کہ انسان بھی شیطان ہوتے ہیں۔ پس اگر شیاطین الاِْنس ہو سکتے ہیں تو جِنّ الْاِنس کیوں نہیں ہو سکتے۔ یعنی جس طرح انسانوں میںسے شیطان کہلانے والے پیدا ہو سکتے ہیں اسی طرح ان میں سے جِنّ کہلانے والے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ پس قرآن سے ہی پتہ لگ گیا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں ہی جِنّ نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰ ؑاور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جِنّ ایمان لائے تھے۔
رسول کریم ﷺ کی بعثت انسانوں کی طرف تھی نہ کہ جنوں کی طرف
اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کِن کی طرف ہوئی تھی؟ اللہ تعالیٰ سورۃ نساء
میں فرماتا ہے۔ وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلاً ۲۳؎ یعنی ہم نے تجھے تمام انسانوں کیلئے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس آیت میں صاف طور پر بتایا ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آدمیوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے حالانکہ اگر آدمیوں کے علاوہ کوئی اور نرالی مخلوق بھی جسے جِنّ کہتے ہیں آپ پر ایمان لائی تھی تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ ارْسَلْنٰکَ لِلنَّاِس وَالْجِنِّ مگر وہ یہ نہیںفرماتابلکہ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے آدمیوں کیلئے بھیجا ہے۔ پس جب آدمیوں کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے تھے تو صاف پتہ لگ گیا کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ جِنّ آپ پر ایمان لائے وہاں ان سے جِنّ الاِْنس ہی مراد ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰـقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِ کُمُ الْعِجْلَ ۲۴؎ یعنی اے میری قوم! تم نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا کہ ایک بچھڑے کو پوجا۔ اب یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بنی اسرائیل تھے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی، جِنّ نہیں تھے حالانکہ قرآن سے ثابت ہے کہ جِنّ آپ پر ایمان لائے تھے۔ پس صاف ثابت ہوا کہ ان جنوں سے آدمی جِنّ ہی مراد تھے نہ کہ وہ جِنّ جن کا نقشہ عام لوگوں کے دماغوں میں ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت جابر بن عبداللہؓ ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے پانچ ایسی خصوصیتیں دی گئی ہیں جو پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً کہ پہلے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ کَافَّۃً ۲۵؎ مگر مَیں روئے زمین کے تمام آدمیوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قطعی طور پر بیان فرماتے ہیں کہ انبیائے سابقین میں ایک نبی بھی ایسا نہیں جو اپنی قوم کے سِوا کسی اور قوم کی طرف مبعوث ہوا ہو۔ لیکن مسلمان یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ جنوں اور طیور کی طرف بھیجے گئے تھے۔ اگر واقعہ میں حضرت سلیمانؑ جنوں اور طیور کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ درجہ میں بڑھ گئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو صرف انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔
جنوں کے انسان ہونے پر بعض اور دلائل
پھر اگر یہ جِنّ غیر از انسان ہیں تو وہ مخاطب کیونکر ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے۔ وَیَوْمَ یَحْشُرْھُمْ جَمِیْعًا یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِاسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ ۲۶؎ فرماتا ہے جب قیامت کے دن سب لوگ جمع ہونگے تو ہم جنوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ اے جنوں کے گروہ! تم نے انسانوں میں سے اکثر لوگوں کو اپنے قابو میں کیا ہوا تھا۔ ہم تو جنوں کو تلاش کرتے کرتے تھک گئے مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ جنوں نے اکثروں کو اپنے قابو میں کیا ہوا ہے حالانکہ ہم تلاش کرتے ہیں تو ملتے نہیں۔ لوگ وظیفے پڑھتے ہیں، چِلّہ کشیاں کرتے ہیں اور جب ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور خشکی سے کان بجنے لگتے ہیںتو کہتے ہیں جِنّ آ گیا حالانکہ اُس وقت ان کا دماغ بِگڑ چکا ہوتا ہے۔ تروتازہ دماغ کے ہوتے ہوئے جِنّ کبھی انسان کے پاس نہیں آتے۔
اس جگہ جنوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَدِاسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ کہ ان کے اکثر انسانوں سے تعلقات ہیں۔ اور انسان بھی کہیں گے کہ ہم ان سے بڑا فائدہ اُٹھاتے رہے مگر تم اپنے محلے اور گائوں میں پھر کر لوگوں سے دریافت کر لو کہ کیا پچاس یا اکاون فیصدی لوگ جنوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ سَو میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہتا ہو کہ میں جنوں سے فائدہ اُٹھاتا ہوں اور میرے ان سے تعلقات ہیں۔ جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس جگہ جِنّ سے مراد انسانوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق نہیں بلکہ انسانوںمیں سے ہی بعض جِنّ مراد ہیں اور انسانی جنوں کی دوستیاں بڑی کثرت سے نظر آتی ہیں۔
قرآن کریم سے ثبوت کہ جِنّ انسانوں کے گروہ کا ہی نام ہے
پھر اس سے بڑھ کر ایک اور دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ قیامت کے دن دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ
یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ ۲۷؎ یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! جو ہمارے سامنے کھڑے ہو بتائو کہ کیاتمہارے پاس ایسے رسول جو تم ہی میں سے تھے نہیں آئے؟ اب بتائو جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر بعض جِنّ بھی ایمان لائے اور دوسری طرف یہ فرماتا ہے کہ ہمارا رسول بھی ان ہی میں سے تھا تو کیا اس سے صاف ثابت نہیں ہوتا کہ وہ جِنّ بھی انسان تھے کوئی غیر مرئی وجود نہیں تھے۔ پھر یہیں تک بات ختم نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَائَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا ۲۸؎ وہ تمہیں انذار بھی کرتے تھے اور اس دن سے ڈراتے تھے۔ گویا حضرت موسٰی، حضرت سلیمان اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کو ڈرایا بھی کرتے تھے اور انہیں یومِ آخرت اور اللہ تعالیٰ کا خوف دلایا کرتے تھے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ جِنّ جِنّ الْاِنس تھے جس طرح شیاطین الْاِنس ہوتے ہیں کوئی علیحدہ قسم کی مخلوق نہیں تھے۔
مؤمن جنوں نے رسول کریم ﷺ کی مدد کیوں نہ کی؟
اب ایک اور بات سنو۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وُّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا- لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَتُعِزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ۲۹؎ یعنی اے رسول! ہم نے تجھے اپنی صفات کیلئے گواہ اور مومنوں کیلئے مبشر اور کافروں کیلئے نذیر بنا کر بھیجا ہے تا کہ تم اس کے ذریعہ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائو اور اس کی مدد کرو اور اس کی عزت بجا لائو۔ اب جب کہ جِنّ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے تو کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ ان جنوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی مدد کی ہو۔ ایک معمولی مُلاّ کیلئے تو جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے وہ انگور کے خوشے لے آتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وہ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہ لائے۔ اور آپ کو بسا اوقات کئی کئی وقت کے فاقے برداشت کرنے پڑے۔ ایک دفعہ آپ کے چہرہ پر ضُعف کے آثار دیکھ کر صحابہؓ نے سمجھا کہ آپ کو بھوک لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ ایک صحابیؓ نے بکری ذبح کی اور آپ کو اور بعض اور صحابہؓ کو کھانا کھلایا۔ مگر ایسے مواقع میں سے کسی ایک موقع پر بھی جنوں نے مدد نہیں کی۔ میں سمجھتا ہوں وہ بڑے ہی شقی القلب جِنّ تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن پر وہ ایمان لائے تھے ان کو تو انہوں نے ایک روٹی بھی نہ کھلائی اور آجکل کے مولویوں کو سیب اور انگور کھلاتے ہیں پھر وہ مومن کس طرح ہوگئے؟ وہ تو پکے کافر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ جِنّ کوئی ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے نرالی ہے۔ وہ جِنّ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ بھی انسان ہی تھے۔ اور جس طرح اور لوگوں نے آپ کی مدد کی وہ بھی مدد کرتے رہے۔ اگر کوئی نرالی مخلوق مانی جائے تو پھر اس سوال کا حل کرنا اُن لوگوں کے ذمہ ہوگا جو جنات کے قائل ہیں کہ وجہ کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مدد نہ کی حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے۔ اور قرآن میں انہیں یہ حُکم تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدد کریں۔
بنی نوع انسان کے علاوہ دوسری مخلوق شریعت پر ایمان لانے کی پابند نہیں
پھر اِس سے بڑھ کر ایک اور دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ احزاب میں بطور قاعدہ کُلّیہ کے فرماتا ہے۔ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ
عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَ حَمَلَھَا اِلْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا ۳۰؎ یعنی ہم نے اپنی شریعت اور کلام کو آسمانوں اور زمین کی مخلوق کے سامنے پیش کیا اور کہا کوئی ہے جو اِسے مانے اور اس پرعمل کرے؟ اس پر تمام آسمانی مخلوق نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم یہ بارِ امانت اُٹھانے کے ہرگز اہل نہیں۔ پھر ہم نے زمینوں کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا اور کہا۔ لو! یہ بوجھ اُٹھاتے ہو؟ انہوں نے بھی کہا ہرگز نہیں۔ پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے بھی انکار کیا۔ حالانکہ لوگ عام طور پر یہ کہا کرتے ہیں کہ جِنّ پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا سارے ڈر گئے اور کسی نے بھی اس ذمہ داری کو اُٹھانے کی جرأت نہ کی فَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ۔ صرف ایک انسان آگے بڑھا اور اس نے کہا۔ مجھے شریعت دیجئے مَیں اِس پر عمل کر کے دکھا دونگا۔ فرماتا ہے اِنَّہُ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا۔ انسان نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا کیونکہ وہ ہمارے عشق میں سرشار اور عواقب سے بے پروا تھا۔ اُس نے یہ نہیں دیکھا کہ بوجھ کتنا بڑا ہے بلکہ شوق سے اُسے اُٹھانے کیلئے آگے نکل آیا۔ اب دیکھو یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ شریعت کو اُٹھانے والا صرف انسان ہے اور کوئی شریعت کا مکلّف نہیں۔ پھر جب کہ انسان کو ہی خدا نے شریعت دی تو سوال یہ ہے کہ اگر جِنّ غیر از انسان ہیں تو وہ کہاں سے نکل آئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر اپنے ایمان کا کیوں اظہار کیا؟ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ غیراز انسان تھے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انسان کے سِوا سب مخلوق نے اِس شریعت پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور جب کہ قرآن سے یہ ثابت ہے کہ جِنّ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو صاف طور پر معلوم ہوگیا کہ یہاں جِنّ سے مراد جِنّ الْاِنس ہی ہیں۔ ایسی مخلوق مراد نہیں جو انسانوں کے علاوہ ہو اور نہ میں ایسے جنوں کا قائل ہوں جو انسانوں سے آ کر چمٹ جاتے ہیں۔ میرے سامنے ہی اِس وقت ایک دوست بیٹھے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جِنّ آتے ہیں اور وہ آپ پر ایمان لانے کیلئے تیار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُنہیں لکھا کہ آپ جنوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کو کیوں ستاتے ہو اگر ستانا ہی ہے تو مولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ کو جا کر ستائیں ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ؟ بیشک کئی ایسے لوگ ہونگے جو انگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اِس امر کے قائل ہوں کہ ایسے جنات کا کوئی وجود نہیں لیکن مومن کے سامنے یہ سوال نہیں ہوتا کہ اُس کی عقل کیا کہتی ہے بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کیا کہتا ہے۔ اگر قرآن کہتا ہے کہ جِنّ موجود ہیں تو ہم کہیں گے اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا اور اگر قرآن سے ثابت ہو کہ انسانوں کے علاوہ جِنّ کوئی مخلوق نہیں تو پھر ہمیں یہی بات ماننی پڑے گی۔
متکبر قوموں اور امراء کو بھی جِنّ کہا جاتا ہے
اصل بات یہ ہے کہ بعض قومیں بڑی متکبر ہوتی ہیں اور وہ اپنے
آپ کو دوسروں سے اونچا اور بلند مرتبہ سمجھتی ہیں۔ ایسی قوموں کے بڑے بڑے صنادید کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے دروازے پر لے آتا ہے اس لئے یہ لوگ جِنّ کہلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کا ہی واقعہ ہے۔ ایک نہایت جاہل شخص یہاں ہوا کرتا تھا پِیرا اُس کا نام تھا۔ اُسے دو چار آنے کے پیسے اگر کوئی شخص دے دیتا تو وہ دال میں مٹی کے تیل کی آدھی بوتل ڈال کر کھا جاتا۔ دین کی معمولی معمولی باتوں سے بھی اتنا ناواقف تھا کہ حضرت خلیفہ اوّل نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ وہ اُس وقت تو خاموش رہا مگر دوسرے تیسرے دن آپ کے پاس ایک کارڈ لایا کہ ہمارے گائوں کے نمبردار کو لکھ دیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لکھنا ہے؟ تو وہ کہنے لگاآپ نے جو میرا مذہب دریافت کیا تھا۔ میں نمبردار کو لکھ کر دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مذہب کیا ہے؟ حضرت خلیفہ اوّل ہمیشہ اُس کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ نماز پڑھو مگر وہ کہتا کہ مجھے نماز نہیں آتی صرف سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا آتا ہے۔ خیر ایک دن حضرت خلیفہ اوّل نے پِیرے سے کہا کہ اگر تم ایک دن پورے پانچ وقت کی نمازیں جماعت سے ادا کرو تو میں تمہیں دو روپے انعام دونگا۔ اُس نے عشاء سے نماز شروع کی اور اگلی مغرب کو پوری پانچ ہوتی تھیں۔ اُن دنوں مہمان چونکہ تھوڑے ہوتے تھے اس لئے اُن کا کھانا ہمارے گھر میں ہی تیار ہوتا تھا۔ مغرب کے وقت جب کھانا تیار ہوا تو اندر سے خادمہ نے آواز دی کہ پِیرے! کھانا لے جائو۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا اور یہ اُس کی پانچویں نماز تھی لیکن بُلانے والی عورت کو اِس کا علم نہ تھا اِس لئے وہ برابر آوازیں دیتی گئی۔ اِس پر پِیرا نماز میں ہی زور سے کہنے لگا۔ ’’ٹھیرجا۔ التحیات ختم کر کے آنداہاں‘‘۔
ایک دفعہ کسی کام کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُسے بٹالہ بھیجا۔ وہاں اسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مل گئے۔ وہ اکثر لوگوں کو قادیان آنے سے باز رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اُس دن اتفاقاً انہیںاور کوئی نہ ملا تو انہوں نے پِیرے کو ہی پکڑ لیا اور کہا۔ پِیرے! تو کیوں قادیان بیٹھا ہے؟ پِیرے نے جواب دیا مولوی صاحب! میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں، ہاں ایک بات ہے جو میں جانتا ہوں اور وہ یہ کہ مرزا صاحب قادیان میں بیٹھے ہیں اور لوگ دُور دُور سے یکّوں میں دھکّے کھا کھا کے ان کے پاس پہنچتے ہیں۔ مگر آپ بٹالہ میں رہتے ہیں جہاں لوگ آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں مگر آپ کے پاس کوئی نہیں آتا۔ حتیّٰ کہ روزانہ لوگوں کو سمجھانے کیلئے آپ خود سٹیشن پر آتے ہیں اور شاید اِس کوشش میں آپ کی جوتی بھی گھِس گئی ہوگی لیکن لوگ آپ کی بات نہیں مانتے۔ آخر کوئی بات تو ہے کہ لوگ مرزا صاحب کی طرف اِس طرح کِھچے چلے جاتے ہیں اور آپ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ غرض اِس قسم کے آدمی ہی جِنّ ہوتے ہیں جو کسی کی بات نہیں مانتے اور دوسرے کی اطاعت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ مگر جب انبیاء کے سامنے آتے ہیں تو یکدم ان کی حالت بدل جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ کو ہی دیکھ لو۔ وہ ابتدا میں اسلام کی کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اور ایک دفعہ تو انہیں یہاں تک جوش آیا کہ تلوار سونت لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ کے قدموں میں گر گئے۔ تو بعض طبائع ناری ہوتی ہیں مگر جب نبیوں کے سامنے جاتی ہیں تو ٹھنڈی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ایسی طبیعت رکھنے والے انسانوں کو عربی زبان میں جِنّ کہتے ہیں۔ اسی طرح بڑے لوگوں کو اس لحاظ سے بھی جِنّ کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نگاہ سے بِالعموم مخفی رہتے ہیں۔ بڑی بڑی کوٹھیوں میں اُن کی رہائش ہوتی ہے اور اُن کے دروازہ پر لوگ آسانی سے نہیں پہنچ سکتے۔
نملہ سے کیا مراد ہے؟
اب اس کے بعد مَیں نملہ کو لیتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں کہ حَتّٰی اِذَا اَتَوْاَ
عَلٰی وَادِالنَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰأَیَّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَایَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ وَھُمْ لَایَشْعُرُوْنَ جب وہ وادی نملہ میں پہنچے تو ایک نملہ نے کہا اے نملہ قوم! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جائو۔ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تمہارے حالات کو نہ جانتے ہوئے تمہیں اپنے پائوں کے نیچے مَسل دیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ نملہ سے کیا مراد ہے؟
پہلی بات جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نملہ سے مراد چیونٹی نہیں یہ ہے کہ ذکر تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو مَنْطِقَ الطَّیْر سکھائی مگر اس کی دلیل یہ دی گئی کہ چیونٹی بولی تو حضرت سلیمانؑ سمجھ گئے کہ اُس نے کیا کہا ہے۔ حالانکہ جب دعویٰ یہ تھا کہ حضرت سلیمانؑ کو پرندوں کی بولی آتی تھی تو دلیل میں مثلاً یہ بات پیش کرنی چاہئے تھی کہ فلاں موقع پر بلبل بولی اور حضرت سلیمانؑ نے کہا بلبل یہ کہہ رہی ہے مگر وہ کہتے ہیں چیونٹی بولی توحضرت سلیمانؑ کو سمجھ آگئی حالانکہ چیونٹی پرندہ نہیں۔ پس نملہ سے مراد اگر چیونٹی لی جائے تو یہ دلیل بالکل عقل میں نہیں آ سکتی کیونکہ قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو مَنْطِقَ الطَّیْر آتی تھی اور وہ اس کو سمجھتے تھے مگر بولنے لگ جاتی ہے نملہ اور وہ اس کی بات کو سمجھ جاتے ہیں۔ غرض پہلی بات جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نملہ کیا چیز ہے؟
دوسری چیز یہ دیکھنے والی ہے کہ یہاں حَطَمَ کا لفظ آیا ہے اور حَطَمَ کے معنی ہوتے ہیں توڑنے اور غصہ سے حملہ کرنے کے۔ عام طور پر لوگ اِس کا ترجمہ یہ کر دیتے ہیں کہ سلیمانؑ اور اُس کا لشکر تمہیں اپنے پَیروں کے نیچے نہ مَسل دے مگر یہ حَطَمَ کے صحیح معنی نہیں۔ عربی میں حطم کے معنی توڑ دینے اور غصہ میں حملہ کر دینے کے ہیں۔۳۱؎ چنانچہ قرآن کریم میں دوزخ کی آگ کا ایک نام حطمہ بھی رکھا گیا ہے کیونکہ وہ جلا دیتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ آگ کے پاؤں ہو گئے اور وہ دوزخیوں کو اپنے پَیروں کے نیچے مَسل ڈالے گی۔ تو لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنی یہ ہوئے کہ ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اُس کا لشکر تمہیں توڑ دے یا غصّہ سے تم پر حملہ کر دے اور تمہیں تباہ کر دے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ جو اِتنے بڑے نبی تھے جن کے پاس جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکردرلشکر تھے کیا اُن کا سارا غُصّہ چیونٹیوں پر ہی نکلنا تھا اور کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ چیونٹیوں پر حملہ کرنے لگ جائیں گے؟ میں بتا چکا ہوں کہ لَایَحْطِمَنَّکُمْکے معنی پَیروں میں مَسل دینے کے نہیں بلکہ طاقت کو توڑ دینے اور حملہ آور ہونے کے ہیں۔ اسی لئے عربی زبان میں قحط کو حاطوم کہتے ہیں ۳۲؎ کیونکہ اس سے ملک کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے۔ اگر یہ معنی کئے جائیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ چیونٹیوں نے ایک دوسری سے کہا کہ اپنے اپنے بِلوں میں گُھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اُس کا لشکر کدالیں لیکر آجائے اور ہماری بِلوں کو کھود کھود کر غلّہ کے دانے نکال لے اور اِس طرح ہماری طاقت کو توڑ دے۔ مگر کیا عقلمند ان معنوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟
تیسری دلیل جو نہایت ہی بیّن اور واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جتنے صیغے استعمال کئے ہیں سب وہ ہیں جو ذَوِی الْعقول کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً اُدْخُلُوْا کا لفظ آیا ہے حالانکہ چیونٹیوں کے لحاظ سے اُدْخُلُنَّ کا لفظ آنا چاہئے تھا۔ اسی طرح لَایَحْطِمَنَّکُمْ میں کُمْ کا لفظ آتا ہے حالانکہ کُنَّ کا لفظ آنا چاہئے تھا۔ پس قرآن مجید کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ کوئی انسان تھے جن کے لئے کُمْ اور اُدْخُلُوْا وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور یہ جو کہا گیا ہے کہ گھروں میں گُھس جاؤ اِس کا ثبوت حدیث سے بھی ملتا ہے۔ یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی لشکر کہیں سے گذرے اور وہاں کے لوگ اپنے گھروں میں گُھس جائیں اور دروازے بند کر لیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے یہ اعلان کرا دیا تھا کہ جو لوگ اپنے اپنے گھروں میں گُھس جائیں گے اور دروازے بند کر لیں گے ان سے کوئی باز پُرس نہیں ہو گی۔ یہی نملہ نے کہا کہ اپنے اپنے گھروں میں جاؤ اور دروازے بند کر لو۔ حضرت سلیمانؑ سمجھ جائیں گے کہ یہ میرا مقابلہ کرنا نہیں چاہتے۔ اگر ہم باہر رہیں گے تو ممکن ہے وہ حملہ کر دیں۔ حضرت سلیمانؑ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو وہ ہنسے اور انہوں نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میری نیکی اور تقویٰ کی کتنی دُور دُور خبر پہنچی ہوئی ہے یہ قوم بھی جو اتنی دُور رہتی ہے سمجھتی ہے کہ سلیمانؑ ظالمانہ طور پر حملے نہیں کیا کرتا۔ اگر ہم اپنے دروازے بند کر لیں گے تو یہ ہم پر حملہ نہیں کرے گا اور ہماری کسی چیز کو نقصان نہیں پُہنچے گا۔
وادی النمل کی تحقیق
باقی رہا وَادِالنَّمْل کے الفاظ سو یادر رکھنا چاہئے کہ تاج العروس جو لُغت کی مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ شام کے ملک میں
جبرین اور عسقلان کے درمیان ایک علاقہ ہے جسے وادی النمل کہا جاتا ہے۔ ۳۳؎ اور عسقلان کے متعلق تقویم البلدان صفحہ ۲۳۸ پر لکھا ہے کہ عسقلان ساحل سمندر کے بڑے بڑے شہروں میں سے ایک شہر تھا جو غزّ سے جو سینا کے ملحق فلسطین کی ایک بندرگاہ ہے بارہ میل اوپر شمال کی طرف واقع ہے۔ اور جبرین شمال کی طرف کا ایک شہر معلوم ہوتا ہے جو ولایتِ دمشق میں واقع ہے۔ ۳۴؎ پس وادی النمل ساحلِ سمندر پر یروشلم کے مقابل پر یا اس کے قریب دمشق سے حجاز کی طرف آتے ہوئے ایک وادی ہے جو اندازاً دمشق سے سَو میل نیچے کی طرف ہو گی۔ ان علاقوں میں حضرت سلیمانؑ کے وقت تک عرب اور مدین کے قبائل بہت بستے تھے۔ (مقام کی وضاحت کیلئے دیکھو نقشہ فلسطین و شام بعہد قدیم وعہد جدید نیلسنز انسائیکلوپیڈیا)
اب رہ گیا نملہ سو قاموس میں البرق کے ماتحت لکھا ہے۔ والابرقۃ من میاہ نملۃ۳۵؎ یعنی ابرقہ ایک وادی ہے جہاں نملہ قوم کے چشمے ہیں۔ غرض نملہ قوم بھی مل گئی‘ وَادِی النمل کا بھی پتہ لگ گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ علاقہ شام میں حضرت سلمانؑ کے علاقہ کے نزدیک تھا اور یہ عجیب بات ہے کہ اس قسم کے نام پُرانے زمانہ میں بڑے مقبول تھے۔ چنانچہ جنوبی امریکہ میں بعض قوموں کے نام بھیڑیا‘ سانپ‘ بچھو اور کنکھجور وغیرہ ہؤا کرتے تھے بلکہ ہمارے ملک میں ہی ایک قوم کا نام کاڈھا ہے۔ نورالدین کاڈھا لاہورکے ایک مشہور شخص ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک قوم کا نام کیڑے ہے ایک کا نام مکوڑے ہے۔ کشمیر میں ایک قوم کا نام ہاپت ہے جس کے معنی ریچھ کے ہیں اِسی طرح حضرت سلیمانؑ جس جگہ سے گذرے وہاں جو قوم رہتی تھی اُس کا نام نملہ تھا۔
خَلقِ طَیْرکا مسئلہ
اب مَیں طَیْر کی بحث کو لیتا ہوں۔ طَیْر کے متعلق جو امور قابلِ غور ہیں ان میں سے ایک اہم امر خَلقِ طَیْر کا مسئلہ ہے۔ مَیں اس
کے متعلق گذشتہ سے پیوستہ سال جلسہ سالانہ کی تقریر میں روشنی ڈال چکا ہوں۔ لیکن مضمون کی تکمیل کے لئے پھر مختصراً اسے دُہرا دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرۃَ وَالْاِنْجِیْلَ۔ وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰ یَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنْ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ۔۳۶؎ یعنی ہم نے مریم کوالہام کیا کہ ہم تجھے ایک بیٹا عطا کریں گے جسے اللہ تعالیٰ کتاب اور حکمت کی باتیںسکھائے گا اور بنی اسرائیل کی طرف اُسے اِس پیغام کے ساتھ رسول بنا کر بھیجے گا کہ مَیں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے یہ نشان لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے فائدہ کیلئے پانی ملی ہوئی مٹی یعنی طِینی خصلت رکھنے والوں میں سے پرندہ کے پیدا کرنے کی طرح ایک مخلوق تجویز کروں گا۔ پھر مَیں اُس میں ایک نئی روح پھونکوں گا جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے حُکم کے ماتحت اُڑنے والے ہو جائیں گے۔ دوسری جگہ فرماتا ہے وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَاِذْتَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِیْ ۳۷؎ یعنی اللہ تعالیٰ حضرت مسیحؑ سے فرمائے گا کہ تو اُس وقت کو بھی یاد کر جب کہ میں نے تجھے کتاب اور حکمت سکھائی اِسی طرح توراۃ اور انجیل سکھائی اور اُس وقت کو بھی یاد کر جبکہ تو میرے حُکم سے طِینی خصلت رکھنے والے افراد میں سے پرندہ کے پیدا کرنے کی طرح ایک مخلوق تجویز کرتا تھا پھر تو اُس میں پھونک مارتا تھا جس سے وہ میرے حُکم سے اُڑنے کے قابل ہو جاتا۔
اب یہاں دونوں جگہ پرندے کا ذکر آتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ استعارہ ہے یا حقیقت؟ اگر حقیقتاً پرندہ مان کر کوئی دوسری آیت باطل ہوتی ہے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ استعارہ ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم قرآن کی اور آیات پر نگاہ دَوڑاتے ہیں تو ایک آیت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَائَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَیْھِمْ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْ ئٍ وَّھُوَالْوَاحِدُ الْقَھَّارُ ۳۸؎ یعنی کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ایسے شریک تجویز کئے ہیں جنہوں نے اُس جیسی کچھ مخلوق پیدا کی ہے جس کی وجہ سے اُس کی اور دوسروں کی پیدا کردہ مخلوق آپس میں مل گئی ہے اور ان کیلئے مشتبہ صورت پیدا ہوگئی ہے۔ تو اُن سے کہہ دے کہ اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اور وہ کامل طور پر یکتا اور ہر ایک چیز پر کامل اقتدار رکھنے والا ہے۔ اب دیکھو! اس آیت میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو خدا کا شریک قرار دیا جاتا ہے اور جن کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے اندر صفتِ خلق رکھتے ہیں ان کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا محض بُہتان ہے۔ جس قسم کی پیدائش خدا تعالیٰ کرتا ہے اُس قسم کی پیدائش اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اب اگر یہ مانا جائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ میں پرندے پیدا کیا کرتے تھے تو سورۃ رعد کی یہ آیت غلط ہو جاتی ہے اور اگر یہ آیت سچی ہو تو لازماً ماننا پڑے گا کہ خَلقِ طَیر کے وہ معنی غلط ہیں جو عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں اور ماننا پڑے گا کہ یہ کوئی استعارہ ہے۔ تبھی یہ آیتیں آپس میں متضاد نظر آتی ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی کیا تشریح ہے؟
کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ کا مفہوم
سو اس کی تشریح کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ کے الفاظ آتے ہیں
اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح پرندہ بچے پیدا کیا کرتا ہے اسی طرح میںبھی کرتا ہوں۔ مگر لوگوں نے غلطی سے اس کے یہ معنی سمجھ لئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے۔ اب یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ پرندہ پہلے انڈے لیتا ہے پھر اس پر بیٹھتا اور انہیں گرمی پہنچاتا ہے تب ان سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں بھی ایسے لوگوں کو جن کی مٹی میں الہام کا پانی شامل ہو اپنی صُحبت میں لیتا ہوں اور اپنے بازوئوں کے نیچے رکھ کر ایسی روحانیت ان میں پیدا کر دیتا ہوں کہ تھوڑے ہی دِنوں میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف پرواز کرنے لگ جاتے ہیں۔ اب دیکھو قرآن کریم کا مضمون کتنا بلند ہوگیا اور اس کے معنی کیسے اعلیٰ ہوگئے۔ وہ بھی کیا معنی تھے کہ آپ چمگادڑیں بناتے پھرتے تھے۔ اور پھر قرآن میں حضرت مسیحؑ نے کہیں نہیں فرمایا کہ مَیں پرندے بناتا ہوں بلکہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ مَیں کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بناتا ہوں یعنی جس طرح پرندہ انڈوں کو سیتا ہے اسی طرح مَیں بھی لوگوں کو اپنی تربیت میں لیتا ہوں اور جن میں ترقی کی قابلیت ہوتی ہے وہ اُڑنے لگ جاتے ہیں۔ پھر زیادہ سے زیادہ پرندے چالیس دن تک انڈوں کو سیتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو اس سے بھی کم عرصہ میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور غالباً اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اعلان کیا کہ جو شخص میرے معجزات کا منکر ہو، وہ چالیس دن میرے پاس رہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور کوئی نہ کوئی معجزہ دکھا دے گا۔ اب جو شخص فطرتِ صحیحہ رکھتا ہے وہ تو بہت جلد نبی کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے مگر جس طرح سخت چِھلکے کا انڈا چالیس دن لیتا ہے اسی طرح نبی کی صحبت میں اگر کوئی سخت دل انسان بھی چالیس دن رہے تو وہ کوئی نہ کوئی معجزہ دیکھ لیتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے نصیحت فرمائی ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ۳۹؎ یعنی اے وہ لوگو! جن میں نیکی کی قابلیت تو ہے مگر تم ابھی انڈے کی حد تک ہی ہو پرندے نہیں بنے تم کسی صادق کے پَروں کے نیچے چلے جائو تم تھوڑے دنوں میں ہی پرندے بن جائو گے۔
ایک لطیفہ
تَشَابَہَ الْخَلْقُ کے الفاظ پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِسی آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی مولوی کو سمجھاتے
ہوئے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو پرندے بنائے تھے وہ کہاں چلے گئے؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ ممکن ہے اِس کا ذہن اِس طرف چلا جائے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی پرندے بنائے ہیں اور خدا نے بھی تو پھر تو تَشَابہ فِی الْخَلْق ہوگیا اور یہ قرآن کے خلاف ہے کہنے لگا کہ ’’وچے ہی رَل مِل گئے ہیں‘‘۔
ترتیبِ مضامین کے لحاظ سے غور
اَب مَیں بتاتا ہوں کہ خود یہی آیت اُن معنوں کو ردّ کرتی ہے جو عام لوگ لیتے ہیں۔
یہ ساری آیت یوں ہے حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں۔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیٰۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیْکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُبْریُٔ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُنَبِّئُکُمْ بِمَاتَاکُلُوْنَ وَمَاتَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مَّوْمِنِیْنَ ۴۰؎ اس آیت کی ترتیب اپنے مدنظر رکھ لو اور پھر سوچو کہ آیا پرندے بنانے والے معنی کسی صورت میں بھی یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں؟ یہ صاف بات ہے کہ قرآن کریم کا کوئی لفظ ترتیب سے خالی نہیں۔ فرض کرو ہم مان بھی لیں کہ اس جگہ پرندہ سے مراد پرندہ بنانا ہی ہے تو دیکھنا یہ چاہئے کہ ان معنوں کو تسلیم کر لینے کے بعد اس آیت میں کوئی ترتیب بھی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس آیت میں کوئی ترتیب نہیں مگر ہم اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ اس میں ترتیب ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ آیت دو جگہوں میں آتی ہے ایک سورۃ ال عمران میں اور دوسرے سورۃ مائدہ میں اور دونوں جگہ الفاظ اِسی ترتیب سے رکھے گئے ہیں۔ اب دونوں جگہ ان الفاظ کا اسی ترتیب سے رکھا جانا بتاتا ہے کہ اس میں کوئی خاص مقصد ہے۔ ہم تو قرآن کریم کی ہر آیت میں ترتیب کے قائل ہیں مگر جو لوگ اس کے قائل نہیں انہیں بھی اگر کسی اور جگہ نہیں تو اِس جگہ ترتیب ضرور ماننی پڑتی ہے کیونکہ پہلے خَلْقِ طَیْر کا ذکر ہے پھر اَکْمَہَ کا ذکر ہے پھر اَبْرَصَ کا اور پھر اِحْیَائے مَوْتٰیکا۔ اور ان کا ذکر ایک جگہ نہیں بلکہ دونوں جگہ اِسی ترتیب سے کیا گیا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ترتیب میں دو باتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کبھی چھوٹی بات پہلے بتائی جاتی ہے پھر اُس سے بڑی بات بتائی جاتی ہے اور پھر اُس سے بڑی۔ اور کبھی پہلے سب سے بڑی بات بتائی جاتی ہے پھر اُس سے چھوٹی بات بتائی جاتی ہے اور پھر اُس سے چھوٹی اور ان دونوں ترتیبوں میں مخاطب کا فائدہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ یعنی جس رنگ میں وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہو اُسی رنگ میں بات بیان کر دی جاتی ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ معنی کئے جائیں جو ہمارے مخالف لیتے ہیں تو ان معنوں میں کوئی ترتیب ہی نظر نہیں آتی۔ کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں پہلے سب سے بڑی بات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے چھوٹی بات کو اور پھر اس سے چھوٹی بات کو تو اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ سب سے بڑی چیز پرندوں کا پیدا کرنا ہے۔ اس سے اُتر کر اندھوں کو آنکھیں بخشنا۔ اس سے اُتر کر کوڑھیوں کو اچھا کرنا اور اس سے اُتر کر مُردوں کو زندہ کرنا۔ حالانکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مُردہ زندہ کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ پس یہ ترتیب صحیح نہیں ہو سکتی اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ پہلے سب سے چھوٹی بات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے بڑی بات کو اور پھر اس سے بڑی بات کو تو اس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ سب سے آسان کام دنیا میں پرندے بنانا ہے۔ اس سے مشکل کام اندھوں کو آنکھیں دینا ہے۔ اس سے مشکل کام کوڑھی کو اچھا کرنا ہے اور اس سے مشکل کام مُردے زندہ کرنا ہے۔ گویا اس صورت میں سب سے آسان تر بات پرندے بنانا ٹھہرتی ہے۔ اب اگر یہ درست ہے تو کوئی مولوی ہمیں دو چار پرندے ہی بنا کر دکھا دے۔
دوسری مشکل ان معنوں میں یہ پیش آتی ہے کہ قرآن کریم نے ایک اور جگہ اِحْیائے مَوْتٰی کو ادنیٰ اور پیدائش کو اعلیٰ قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَضَرَبَ لَنَا مَثَـلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ۔ قُلْ یُحْیِیْھَا الَّذِیْ اَنْشَأَھَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَھُوَبِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ۔ ۴۱؎ یعنی انسان کا یہ طریق ہے کہ وہ ہماری ہستی کے متعلق باتیں بنانے لگ جاتا ہے اور اپنی پیدائش کو بُھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی تو پھر ان کو کون زندہ کرے گا؟ فرماتا ہے تم اِحْیائے مَوْتٰی کا انکار اسی لئے کرتے ہو کہ تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہڈیاں گل سڑ کر پھر کس طرح اصل شکل و صورت میں آ جائیں گی۔ حالانکہ جب اُس نے تمہیں ایک دفعہ پیدا کیا ہے تو دوسری دفعہ پیدا کرنا اُس کے لئے کیا مشکل ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ ان لوگوں سے کہہ دے کہ ایسی ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کی حالت سے خوب واقف ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ مُردہ زندہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ادنیٰ قرار دیا ہے اور پیدائش کو اعلیٰ قرار دیا ہے مگر اُوپر کی ترتیب تسلیم کر لینے کی صورت میں پیدائش کو ادنیٰ ماننا پڑتا ہے اور اِحْیائے مَوْتٰی کو اعلیٰ۔
پھر اس ترتیب سے کوڑھیوں کو اچھا کرنا پرندے پیدا کرنے کی نسبت زیادہ مشکل قرار پاتا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر بھی چالموگرا آئیل کی پچکاریوں اور مالش وغیرہ سے کئی کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے ہیں۔ اب چاہئے تھا کہ جب کوڑھی اچھے ہو رہے ہیں تو ان کوڑھیوں کے اچھا ہونے سے پہلے چِڑیاں اور کبوتر بھی بننے شروع ہو جاتے حالانکہ انہیں کوئی انسان نہیں بنا سکتا۔ اگر کہا جائے کہ اس ترتیب سے مخاطب کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے تو یہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ اگر ایک یہودی کے سامنے حضرت مسیحؑ چِڑیا پیدا کرتے تو کیا وہ اس سے زیادہ متاثر ہو سکتا تھا یا اس سے زیادہ متاثر ہو سکتا تھاکہ آپ کسی کوڑھی یا مادر زاد اندھے کو اچھا کر دیتے۔ پس جس چیز سے وہ زیادہ متاثر ہو سکتا تھا چاہئے تھا کہ اسے پہلے رکھا جاتا مگر رکھا اسے بعد میں ہے۔
ترتیبِ قرآنی کے لحاظ سے خَلقِ طَیر اور اِحْیائے مَوْتی کے معنی
غرض ہمارے مخالف علماء جو معنی لیتے ہیں وہ ہر ترتیب کی رو سے غلط ٹھہرتے ہیں مگر ہمارے معنوں کی رو سے ترتیب پر کسی قسم کا
اعتراض نہیں پڑتا۔ ہم پرندے پیدا کرنے سے مراد روحانی آدمی پیدا کرنا لیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص یہ پوچھے کہ مرزا صاحب نے کیا کیا؟ اور اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ انہوں نے ایک کام کرنے والی جماعت دنیا میں پیدا کر دی ہے تو بِالعموم وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ کونسا بڑا کام ہے۔ کیونکہ لوگوں کی نگاہ میں روحانی آدمی پیدا کرناسب سے کم حیثیت رکھتا ہے اسی لئے اس کو پہلے رکھا۔ پھر اَکْمَہَ یعنی اندھراتے کا علاج ہے یہ چونکہ ایک جسمانی چیز ہے اور ہر ایک کو نظر آ جاتی ہے اس لئے اسے بعد میں رکھا۔ اور برص چونکہ اس سے زیادہ سخت ہے اس لئے اَکْمَہَ کے بعد اَبْرَصَ کا ذکر کر دیا۔ اور اِحْیائے مَوْتٰی کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بِالکل مُردہ ہونے کی حالت تک پہنچ جائے اور دعا سے زندہ ہو جائے۔ برص والے اور اندھراتے والے کو گو سخت مرض ہوتا ہے مگر طاقت قائم ہوتی ہے۔ لیکن جس کی نبضیں چُھوٹ جائیں اور پھر کسی نبی یا پاکباز انسان کی دعا سے زندہ ہو جائے وہ بڑا معجزہ ہوتا ہے۔ پس ہمارے معنے تسلیم کرنے کی صورت میں یہ ترتیب بالکل درست رہتی ہے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں پڑتا۔
ھُد ھُد کوئی پرندہ نہیں بلکہ انسان تھا
طَیْر کا دوسرا ذکر حضرت سلیمانؑ کے حالات کے بیان میں آتا ہے اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ عُلِمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ اے لوگو! ہمیں پرندوں کی زبان سکھائی گئی ہے۔ اب یہاں بھی طَیر سے مراد تمام قسم کے پرندے نہیں اس لئے کہ:۔
(۱) جس وقت ہُد ہُد کہیں جاتا ہے حضرت سلیمانؑ سخت ناراض ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْلَاَ اَذْبَحَنَّہٗ اَوْلَیَأْ تِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ یعنی ہُد ہُد چونکہ غائب ہے اس لئے جب وہ آیا تو مَیں اُسے سخت سزا دوں گا، میں اُسے ذبح کر ڈالوں گا ورنہ وہ دلیل پیش کرے اور بتائے کہ کیوں غائب رہا۔ اب بتائو کیا قرآن سے یہی پتہ لگتا ہے کہ پرندے ایسی عقل کے مالک ہیں کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہو تو آدمی تلوار لے کر کھڑا ہو جائے اور اُسے کہے کہ وجہ بیان کرو ورنہ ابھی تیرا سرکاٹ دوں گا۔ یا کبھی تم نے دیکھا کہ تمہارا کوئی ہمسایہ ہُدہُد کو پکڑ کر اُسے سوٹیاں مار رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ میرے دانے تو کیوں کھا گیا؟ اور اگر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم اُسے پاگل قرار نہیں دو گے؟ پھر وہ لوگ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف یہ اَمر منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے ہُد ہُد کے متعلق یہ کہا وہ اپنے عمل سے یہی فتویٰ حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی لگاتے ہیں بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مَیں اُسے سخت ترین سزا دوں گا اَوْلَیَأْ تِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ورنہ وہ ایسی دلیل پیش کرے جو نہایت ہی واضح اور منطقی ہو۔ گویا وہ ہُد ہُد، سقراط، بقراط اور افلاطون کی طرح دلائل بھی جانتا تھا اور حضرت سلیمانؑ اس سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنے دلائل پیش کرے گا۔
(۲) پھر قرآن تو یہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے پاس جنوں، انسانوں اور طَیْر کے لشکر تھے۔ مگر حضرت سلیمانؑ کی نظر صرف ہُد ہُد کی طرف جاتی ہے اور فرماتے ہیں مَالِیْ لَااَرَی الْھُدْھُدَ کیا ہوا کہ اس لشکر میں ہُد ہُد کہیں نظر نہیں آتا۔ حکومت کے نزدیک تو جس کا قد پانچ فٹ سے کم ہو وہ فوج میں بھرتی کے قابل نہیں سمجھا جاتا مگر حضرت سلیمانؑ نے یہ عجیب بھرتی شروع کر دی تھی کہ ہُد ہُد بھی ان کے لشکر میں شامل تھا۔ پھر ہُد ہُد کی کوئی فوج آپ کے پاس ہوتی تب بھی کوئی بات تھی۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ ہُد ہُد صرف ایک آپ کے پاس تھا اس ایک ہُد ہُد نے بھلا کیا کام کرنا تھا اور ایک جانور ساتھ لے جانے سے آپ کی غرض کیا تھی؟
(۳) تیسری بات یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے۔ ہُد ہُد نے واپس آ کر یہ یہ باتیں بیان کیں اور معجزہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوںکی بولی سمجھتے تھے حالانکہ اصولی طور پر یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ بیان ہونا چاہئے تھا مگر بیان ہُد ہُد کا معجزہ ہوتا ہے جو سلیمانؑ کے معجزہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ پھر پرندوں کی بولی سمجھنا حضرت سلیمانؑ سے ہی مخصوص نہیں تمام شکاری پرندوں کی آوازیں سمجھتے ہیں۔
(۴) ایک اور بات یہ ہے کہ ہُد ہُد اُن جانوروں میں سے نہیں جو تیز پرواز ہوں اور اس قدر دُور کے سفر کرتے ہوں۔ یہ جہاں پیدا ہوتا ہے وہیں مرتا ہے مگر قرآن یہ بتلاتا ہے کہ ہُدہُد دمشق سے اُڑا اور ۸ سَو میل اُڑتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ سبا کے ملک تک پہنچا اور پھر وہاں سے خبر بھی لے آیا۔ گویا وہ ہُدہُد آجکل کے ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ تیز رفتار تھا اور معجزہ دکھلانے والا ہُدہُد تھا نہ کہ حضرت سلیمانؑ۔ حالانکہ بتانا یہ مقصود تھا کہ حضرت سلیمانؑ نے معجزہ دکھایا۔
(۵) اِسی ہُدہُد کا دوسرا معجزہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شرک اور توحید کے باریک اسرار سے واقف تھا اور اس کو وہ وہ مسائل معلوم تھے جو آجکل کے مولویوں کو بھی معلوم نہیں۔ کتنی اعلیٰ توحید وہ بیان کرتا ہے۔ کہتا ہے۔ وَجَدْتُّھَا وَ قَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَایَھْتَدُوْنَ یعنی میں نے اُس کو اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کے آگے سجدہ کرتے دیکھا اور شیطان نے اُن کے عمل اُن کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں اور اُن کو سچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے۔ پھر اس کی غیرتِ دینی دیکھو۔ آجکل مولویوں کے اپنے ہمسایہ میں بُت پرستی ہو رہی ہو تو وہ اس کے روکنے کی کوشش نہیں کرتے مگر ہُدہُد چاروں طرف دَوڑا پھرتا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر لا کر دیتا ہے کہ فلاں جگہ شرک ہے فلاں جگہ بُت پرستی ہے۔
(۶) پھر وہ سیاسیات سے بھی واقف تھا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ یعنی ملکہ سبا میں بادشاہت کی تمام صفات موجود ہیں اور اسے لوازمِ حکومت میں سے ہر چیز ملی ہوئی ہے۔ گویا وہ اُس کے تمام خزانے اور محکمے چیک کر کے آیا اور اس نے رپورٹ کی کہ تمام وہ چیزیں جن کی حکومت کیلئے ضرورت ہوا کرتی ہے وہ اُس کے پاس موجود ہیں۔
(۷) پھر شیطان اور اُس کی کارروائیوں سے بھی وہ خوب واقف ہے کیونکہ وہ کہتا ہے مَیں جانتا ہوں کہ انسان کا جب شیطان سے تعلق پیدا ہو جائے تو بُرے خیالات اُس کے دل میں پیدا ہو جاتے ہیں بلکہ اِن خیالات کے نتائج سے بھی واقف تھا کیونکہ کہتا ہے کہ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ ایسے خیالات کے نتیجہ میں انسان کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قُرب کے راستہ سے دُور جا پڑتا ہے۔ یہ ہُد ہُد کیا ہؤا اچھا خاصہ عالِم ٹھہرا۔ ایسا ہُدہُد تو اگر آج مل جائے تو اسی کو مُفتی بنا دینا چاہئے۔
(۸) ہاں ایک بات رہ گئی اور وہ یہ کہ وہ تختِ سلطنت کی حقیقت سے بھی خوب واقف تھا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ ملکہ سبا کے پاس ایک ایسا عظیم الشان تخت ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ گویا وہ لالچ بھی دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس پر حملہ کیجئے۔
شریعت کا بوجھ انسان کے سِوا کسی اور پر نہیں ڈالا گیا
یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ
ہُد ہُد کوئی پرندہ نہیں تھا کیونکہ قرآن میں صاف لکھا ہے کہ وہ امانت جسے فرشتے بھی نہ اُٹھا سکے، جسے آسمان اور زمین کی کوئی چیز اُٹھانے کیلئے تیار نہ ہوئی اسے انسان نے اُٹھا لیا۔ وہی ہے جو ہماری شریعت کے اسرار کو جانتا ہے۔ فرشتہ صرف ایک ہی بات سمجھتا ہے یعنی نیکی کی بات کو۔ مگر انسان بدی اور نیکی دونوں پہلوئوں کو جانتا ہے اور تمام حالات پر مکمل نگاہ رکھتا ہے۔ مفسّرین کہتے ہیں کہ ہُدہُد کوئی جانور تھا حالانکہ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ والی آیت موجود ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کے سِوا اور کوئی مخلوق اسرارِ شریعت کی حامل نہیں۔ پس جب کہ ہُدہُد بھی اسرارِ شریعت سے واقف تھا تو لازماً وہ بھی انسان ہی تھا نہ کہ پرندہ۔
طَیرکی مختلف اقسام
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا طَیْر کے متعلق قرآن کریم میں کوئی اشارہ پایا جاتا ہے یا نہیں؟ سو جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے
ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ طَیر کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَا حَیْہِ اِلاَّ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ ۴۲؎ یعنی زمین پر چلنے والے جانور اور دونوں پَروں سے اُڑنے والے پرندے سب تمہاری طرح کی جماعتیں ہیں۔ اب یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے پرندوں کیلئے یہ شرط لگائی ہے کہ یَطِیْرُ بِجَنَا حَیْہِ کہ وہ پرندے جو اپنے دونوں پَروں کے ساتھ اُڑتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایساپرندہ بھی ہوتا ہے جو پَروں سے نہیں اُڑتا۔
پھر اس سے بھی واضح آیت ہمیں ایک اور ملتی ہے جس سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ واقعہ میں طَیْر کسی اور چیز کا نام ہے۔ سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰفّٰتٌ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ ۴۳؎ یعنی کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وہ تمام ذَوِی العقول کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اور ان ذَوِی العقول میں سے جو طَیْر ہیں وہ صفیں باندھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور ان گروہوں میں سے ہر ایک کو نماز اور تسبیح کا طریق معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ ان ذَوِی العقول کے تمام اعمال سے واقف ہے۔ یہاں تین دلیلیں اس بات کی موجود ہیں کہ طَیْر سے مراد پرندے نہیں۔
اوّل: یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں سے اللہ تعالیٰ نے طَیر کیوں نکال ڈالے اور ان کا الگ کیوں ذکر کیا؟ پھر مَنْ کا لفظ ہمیشہ ذوِی العقول کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ غیر ذَوِی العقول کیلئے نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے صرف طَیْر کو کیوں نکالا؟ جنات اور دوسری مخلوق کا الگ ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا اس سے صاف طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ طَیْر کوئی الگ چیز ہے؟
پھر فرماتا ہے کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ ان میں سے ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کو جانتا ہے۔ اب سارے قرآن میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پرندے بھی نمازیں پڑھا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خالی تسبیح ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں نماز کا بھی علم ہے اور وہ صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہیں۔ آخر میں فرمایا وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ اور یَفْعَلُوْنَ کا صیغہ پھر ذَوِی العقول کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ آخر تم نے کبھی ایسے طَیْر دیکھے ہیں جو صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہوں؟ ایسے طَیْر تو دنیا میں صرف مسلمان ہی ہیں اور کوئی نہیں۔ پس مَنْ کا استعمال کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ کا استعمال اور وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ کا ذکر بتا رہا ہے کہ اس میں انسانوں کا ہی ذکر ہے خصوصاً اُن مؤمنوں کا جو باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں۔
مومنوں کو طَیْرکیوں کہا گیا؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر طَیْر سے مراد اس جگہ مومن ہی ہیں تو پھر انہیں طَیْر کیوں کہا گیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی اعمال کا جو نتیجہ ہو اُسے عربی میں طائر کہتے ہیں اور اس کا ذکر قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ اعراف میں فرماتا ہے۔ فَاذَا جَائَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہِ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیَئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ اَلَا اِنَّمَا طٰئِرُ ھُمْ عِنْدَاللّٰہِ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ ۴۴؎ یعنی جب اُن کو کوئی خوشی پہنچتی ہے اور ان پر خوشحالی کا دَور آتا ہے تو کہتے ہیں یہ ہمارا حق ہے اور جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں موسیٰ اور اُس کے ساتھیوں کی نحوست کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَا اِنَّمَا طٰئِرُ ھُمْ عِنْدَاللّٰہِسنو! اُن کا پرندہ یعنی اُن کے وہ اعمال جنہیں وہ بجا لاتے ہیں خدا کے پاس موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پر موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی وجہ سے عذاب آیا اور خدا کہتا ہے کہ ان کا پرندہ ہمارے پاس موجود ہے۔ بظاہر اس کا آپس میں چونکہ کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا اس لئے لغت والے لکھتے ہیں کہ طائر کے ایک معنی انسانی اعمال کے بھی ہیں۔ چنانچہ امام راغب لکھتے ہیں۔ وَکَلُّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ کے معنی ہیں عملہ الَّذِیْ طَارَعَنْہُ مِنْ خَیْرٍوَّشَرٍّ ۴۵؎ یعنی اِس جگہ طائر سے مراد ہر اچھا یا بُرا عمل ہے جو انسان سے سرزد ہوتا اور پھر اُڑ کر نظروں سے غائب ہو جاتا ہے۔ اقرب میں بھی طائر کے ایک معنی عملہ الَّذِیْ قلدہ وَ طَارَ عَنْہُ مِنْ خَیْرِ اَوْشَرِّ ۴۶؎ کے لکھے ہیں یعنی انسانی عمل خواہ اچھا ہو یا بُرا۔
پھر فرماتا ہے قَالُوا اطَّیَّرنَابِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَ قَالَ طَائِرُکُمْ عِنْدَاللّٰہِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ ۴۷؎ جب ثمود کے پاس حضرت صالح علیہ السلام آئے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے بُرے اعمال کی نحوست کی وجہ سے ہم تباہ ہوئے ہیں جیسے آجکل کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی نحوست کی وجہ سے ہی طاعون اور دوسری وبائیں آئیں۔ فرماتا ہے ان کے نبی نے ان کو جواب دیا کہ طَائِرُکُمْ عِنْدَاللّٰہِ تمہارا طائر تو اللہ کے پاس ہے بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم ہو جسے آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔
پھر تین رسولوں کا سورۃ یٰسن میں ذکر کر کے فرماتا ہے قَالُوْا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَھُوْا لَنَرْ جُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ- قَالُوْا طَائِرُکُمْ مَّعَکُمْ اَئِنْ ذُکِّرْ تُمْ بَلْ اَنْتُمْ قُوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ ۴۸؎ یعنی جب وہ مصلح اور رسول ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری وجہ سے بڑی تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں اور تمہارا آنا ہم منحوس سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے۔ انہوں نے کہا تمہارا پرندہ تو تمہارے ساتھ ہے یعنی تم جہاں بھی ہوگے تمہارے اعمالِ بد کا نتیجہ تم ہی کو تباہ کرے گا ہمیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اور کیا تم یہ بات اس لئے کہتے ہو کہ ہم تمہیں اچھے کام یاد دلاتے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ تم حد سے گذرنے والی قوم ہو اِس لئے تم اپنے اعمال کی ضرور سزا پائو گے۔ اس جگہ بھی طائر کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قوتِ عملیہ اور نتیجہ عمل کے معنوں میں ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس لفظ کے استعمال کی حقیقت کیا ہے اور اس کی انسان کے ساتھ نسبت کیا ہے؟ سو اس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں سورۃ بنی اسرائیل میں ایک آیت نظر آتی ہے جو ہمیں اس مضمون کے بہت زیادہ قریب کر دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِـتَبًایَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا- اِقْرَأْ کِتٰـبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔ مَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَانَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَلَاتَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا ۴۹؎ یعنی ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک پرندہ اُس کی گردن کے نیچے باندھا ہوا ہے اور ہم قیامت کے دن اُس کے اعمال نامہ کو اُس کے سامنے لائیں گے جسے وہ بِالکل کُھلا ہؤا پائے گا اور اُسے کہا جائے گا اِسے پڑھ کر دیکھ لے اور اپنی نیکی بدی کا آپ حساب کر لے کیونکہ آج تیرا نفس ہی تیرا حساب لینے کیلئے کافی ہے۔ اور یاد رکھو کہ جو ہدایت پاتا ہے وہ اپنے لئے پاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے اس کا نقصان بھی اُسی کو ہوتا ہے کوئی کسی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا اور ہم اُس وقت تک لوگوں کو عذاب نہیں دیتے جب تک کہ اُن کی طرف کوئی رسول مبعوث نہ کرلیں۔
یہاں قرآن نے طائر کے نہایت لطیف معنی کئے ہیں اور بتایا ہے کہ ہر انسان کی گردن کے نیچے اُس کا پرندہ بندھا ہؤا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا مفہوم کیا ہے؟ سو جب ہمیں خداتعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ یہ پرندہ ہر انسان کی گردن کے نیچے ہے تو ہمیں یہ تو نظر آ رہا ہے کہ کوئی پرندہ گردن کے نیچے نہیں ہوتا۔ پس صاف معلوم ہوا کہ اس پرندے سے مراد کوئی اور چیز ہے اور وہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ قوتِ عمل یا نتیجہ عمل کا نام خدا تعالیٰ نے طائر رکھا ہے۔ پس جس قسم کے بھی انسان اعمال بجا لاتا ہے اُن کی پرندے والی شکل بنتی چلی جاتی ہے۔ اگر تو انسان نیک اعمال بجا لاتا ہے تو وہ انسان کو آسمانِ روحانیت کی طرف اُڑا کر لے جاتے ہیں جیسے ہوائی جہاز فضائے آسمانی میں اُڑا کر لے جاتا ہے۔ اور اگر اعمال بُرے ہونگے تو لازماً پرندہ بھی کمزور ہوگا اور انسان بجائے اُوپر اُڑنے کے نیچے کی طرف گِرے گا۔ اب قرآن کریم ایک طرف تو یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک طائر باندھ رکھا ہے اگر وہ اچھے عمل کرے گا تو وہ طائر اسے اوپر اُڑا کر لے جائے گا اور اگر بُرے اعمال کرے گا تو وہ اُسے نیچے گرا دے گا۔ اور دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مضمون کو ان الفاظ میں ادا فرماتے ہیں کہ مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖ ۵۰؎ کہ ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے فطرت صحیحہ پر پیدا کیا ہے پھر ماں باپ اُسے یہودی یا مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں گویا انسان میں اُڑنے کی طاقت موجود ہے اور اُسے پرواز کے پَر عطا کئے گئے ہیں۔ یہی مضمون َکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اُس کا پرندہ بھی اُس کے ساتھ پیدا کر دیا جاتا ہے۔ پھر بعض ماں باپ تو اُس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور بعض جو بچ جاتے ہیں اُن کیلئے پرواز کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور عملِ نیک کی وجہ سے اُن کا طائر یعنی فطرتی مادۂ سعادت ترقی کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطر میں فرماتا ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا اُوْلِیْ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَرُبٰعَ۵۱؎ یعنی سب تعریفیں اُس اللہ کی ہیں جو آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے اور فرشتوں کو ایسی حالت میں رسول بنا کر بھیجنے والا ہے جب کہ کبھی تو اُن کے دو دو پَر ہوتے ہیں کبھی تین تین اور کبھی چار چار۔ پھر وہ انسانوں کی طرف آتا ہے اور فرماتا ہے۔ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فِللّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاتِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَکْرُ اُوْلٰئِکَ ھُوَیَبْورُ ۵۲؎ فرماتا ہے تمہیں یہ تو معلوم ہو گیا کہ مختلف فرشتوں کی ترقی کیلئے ہم نے کئی کئی پَر بنائے ہوئے ہیں۔ مگر اے انسانو! تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تمہارے لئے بھی ترقی کے مواقع موجود ہیں بلکہ اگر تم چاہو تو فرشتوں سے بھی آگے بڑھ سکتے ہو۔ پس تم میں سے جو کوئی عزت حاصل کرنا چاہتا ہے اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ تمام عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اُسی کی طرف سچی اور پاکیزہ روحیں بلند ہوتی ہیں۔ اَلْکَلِمُ الطَّیِّبُ یعنی خدا کا کلام جن کو میسر ہو وہ ترقی کر جاتے ہیں مگر خالی کلام نہیں بلکہ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ اعمالِ صالحہ کا اُسے سہارا چاہئے۔ گویا اَلْکَلِمُ الطَّیِّبُ ایک پرندہ ہے مگر وہ اکیلا نہیں اُڑ سکتا بلکہ اعمالِ صالحہ کی مدد سے صعود کرتا ہے۔ اسی طرح اُس کے دو پَر بن جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ آسمانِ روحانیت کی طرف پرواز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پرندے کی دو خاصیتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اونچا جاتا ہے یعنی فضا میں اُڑتا ہے دوسرے یہ کہ اُس کا آشیانہ ہمیشہ اونچا ہوتا ہے۔ جو پرندے آشیانوں میں رہتے ہیں وہ درختوں کی ٹہنیوں پر آشیانہ بناتے ہیں اور جو بغیر آشیانے کے رہتے ہیں وہ بھی درخت پر بسیرا کرتے ہیں نیچے نہیں بیٹھتے۔ اب یہی دو خاصیتیں قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا لْعِلْمَ دَرَجٰتٍ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۵۳؎ اے مومنو! جب تمہیں کہا جائے کہ اٹھو! تو فوراً اُٹھ کھڑے ہوا کرو اور نبی یا اُس کے خلیفہ کی آواز پر دَوڑ پڑا کرو کیونکہ یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا لْعِلْمَ دَرَجٰتٍ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو تم میں سے مومن ہیں اور علمِ حقیقی رکھنے والے ہیں اونچا کر دے گا اور انہیں درجات میں بڑھا دے گا۔ گویا اوپر اُڑنے کی خاصیت کا مومنوں کے تعلق میں ذکر آگیا۔
دوسری خاصیت یہ تھی کہ پرندہ ہمیشہ اپنا آشیانہ اونچا بناتا ہے اس کا بھی مومنوں میں پایا جانا قرآن کریم سے ثابت ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَلْاٰصَالِ۔ رِجَالٌ لاَّتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکٰوۃِ ۵۴؎ یہ نور کچھ گھروں میں ہے جن کے متعلق ہمارا حُکم ہے کہ انہیں اونچا کر دیا جائے۔ ان گھروں میں خدا کا نام لیا جاتا ہے اور صبح و شام اس کی تسبیح کی جاتی ہے۔ مگر فرماتا ہے رِجَالٌ ہماری مراد گھروں سے نہیں بلکہ آدمیوں کو اونچا کرنے سے ہے ایسے آدمیوں کو جن کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ بیع۔ گویا پرندے کی جو دو خاصیتیں تھیں ان دونوں کا مومنوں کے اندر پایا جانا بھی بیان کر دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ عملِ صالح مومن کو اُڑا کر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے۔ حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ جب کوئی مومن مرتا ہے تو اُس کی روح کو فرشتے آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دروازے کھول دو ایک مومن کی روح آتی ہے مگر جب کافر مرتا ہے تو اُس کی روح اُٹھائی نہیں جاتی بلکہ نیچے پھینکی جاتی ہے۔
غرض طَیْر سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی روحیں ہیں جو دین کیلئے ہر قسم کی بلندیوں پر چڑھنے کیلئے تیار رہتی ہیں وہ مشکلات کی پرواہ نہیں کرتیں اور نہ مصائب سے گھبراتی ہیں بلکہ ہر قسم کی قربانیوں کیلئے آمادہ اور تیار رہتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے جنگِ بدر کے موقع پر کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ حُکم دیجئے ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈالنے کیلئے تیار ہیں اور ذرا بھی ہمارے اندر ہچکچاہٹ پیدا نہیں ہوگی کہ حضور نے یہ حُکم کیوں دیا؟ گویا مومن کو پرندہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اُن قابلیتوں کا ذکر کیا ہے جو مومنوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور بتایا ہے کہ وہ سِفلی زندگی کی بجائے علوی زندگی اختیار کرتے اور نیچے جُھکنے کی بجائے اوپر کی طرف پرواز کرتے ہیں۔
ہُدہُد کے متعلق تاریخی تحقیق
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ہُدہُد نام کیوں رکھا گیا ہے؟ اور گو اس کا عقلی جواب مَیں
قرآن کریم سے ہی دے چکا ہوں مگر اَب بتاتا ہوں کہ ہُد ہُد سے مراد کیا ہے؟
ہُدہُد کا پتہ لینے کیلئے جب ہم بنی اسرائیل کی کتابیں دیکھتے ہیں اور اِس امر پر غور کرتے ہیں کہ کیا اِن میں کسی ہُد ہُد کا ذکر آتا ہے یا نہیں۔ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں یہودیوں میں کثرت سے ہُدَد نام ہوا کرتا تھا جو عبرانی سے عربی میں بدل کر ہُدہُد ہو گیا۔ جیسے عبرانی میں ابراہام کہا جاتا ہے مگر جب یہ لفظ عربی میں آیا تو ابراہیم بن گیا۔ اسی طرح عبرانی میں یسوع کہا جاتا ہے مگر عربی میں عیسیٰ کہتے ہیں۔ اسی طرح عبرانی میں موشے کہا جاتا ہے مگر عربی میں یہی نام موسیٰ ہو گیا۔ اب بھی کسی اہلِ عرب کو لکھنؤ کہنا پڑے تو وہ لکھنؤ نہیں بلکہ ’’لکھنا ہو‘‘ کہے گا۔ اسی طرح عبرانی میں ہُدَد کہا جاتا تھا مگر چونکہ قرآن عربی میں ہے اس لئے جب یہ نام اس میں آیا تو ہُدہُد ہوگیا۔
درحقیقت تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ھدد کئی ادومی بادشاہوں کا نام تھا اور اس کے معنی بڑے شور کے ہوتے ہیں۔ عربی زبان میں بھی ھَدَّ کے ایک معنی اَلصَّوْتُ الْغَلِیْظُ ۵۵؎ یعنی بڑی بلند آواز کے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اونچی آواز والے لڑکے کا نام ہُدد یا ہُدہُد رکھ دیتے تھے۔ پھر یہ نام تیسرے ادومی بادشاہ کا بھی تھا جس نے مدین کو شکست دی تھی اور آخری بادشاہ کا بھی یہی نام تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک لڑکے کا نام بھی ہُدہُد تھا۔ بائیبل کی کتاب نمبر۱ سلاطین باب۱۱ آیت۱۴ میں بھی ادوم کے خاندان کے ایک شہزادہ کا ذکر آتا ہے جس کا نام ہُدد تھا۔ اور جو یوآب کے قتل عام سے ڈر کر مصر بھاگ گیا تھا۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ پُرانے عہد نامہ میں جب یہ لفظ اکیلا آئے اور اس کے ساتھ کوئی صفاتی فعل یا لفظ نہ ہو تو اس کے معنی ادومی خاندان کے آدمی کے ہوتے ہیں۔ غرض یہ ہُد ہُد عبرانی زبان کا لفظ ھُدد ہے جو عربی میں آ کر ہُدہُد ہوگیا۔ چونکہ مفسّرین کو یہ شوق ہوتا ہے کہ اپنی تفسیر کو دلچسپ بنائیں اس لئے وہ بعض دفعہ بیہودہ قصّے بھی اپنی تفسیروں میں درج کر دیتے ہیں۔ چنانچہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ضبّ عربی میں گوہ کو کہتے ہیں مگر ضَبّ عرب کے ایک قبیلے کے سردار کا بھی نام تھا اور یہ ایسا ہی نام ہے جیسے ہندوئوں میں طوطا رام نام ہوتا ہے۔ وہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا اور اُس نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا۔ اب وعظ کی کتابوں میں اس بات کو ایک قصّہ کا رنگ دیتے ہوئے یوں بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ رستہ میں ایک سوراخ سے گوہ نکلی اور اُس نے قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا۔ اب جن لوگوں نے یہ بنا لیا کہ ایک گوہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں قصیدہ پڑھا تھا اُن کے لئے ہُدہُد کا پرندہ بنا لینا کونسا مشکل کام تھا۔
بہرحال قرآن کریم میں کئی مقامات پر مجاز اور استعارہ بھی استعمال کیا گیا ہے مگر چونکہ قرآن کریم دائمی شریعت ہے اس لئے اُس نے ساتھ ہی مُحکم آیات بھی رکھ دی ہیں جو کوئی دوسرے معنی کرنے ہی نہیں دیتیں۔ جب استعارے کو استعارے کی حد تک محدود رکھا جائے گا تو اس کے معنی ٹھیک رہیں گے مگر جب استعارہ کو حقیقت قرار دے دیا جائے گا تو دو آیتیں آپس میں ٹکرا جائیں گی۔
غرض قرآن کریم کا یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کے مقابلہ میں باقی الہامی کتب قطعاً نہیں ٹھہر سکتیں۔ افسوس ہے کہ باوجود ایسی عظیم الشان کتاب پاس رکھنے کے مسلمانوں کو پھر بھی ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے عجیب و غریب قصّے گھڑ لئے۔ چنانچہ چیونٹی کا واقعہ جو وہ بیان کرتے ہیں اِسی کے ضمن میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ کو جب وہ چیونٹی ملی تو آپ نے اس سے پوچھا کہ بتا مجھ سے بڑا آدمی بھی تو نے کبھی دیکھا ہے؟ وہ کہنے لگی یہ کوئی اچھی بات معلوم نہیں ہوتی کہ آپ تخت پر بیٹھے ہوں اور مَیں زمین پر۔ آپ مجھے اپنے پاس بٹھائیں پھر آپ کی بات کا مَیں جواب بھی دے دونگی۔ انہوں نے اُسے اُٹھا کر تخت پر بٹھا لیا۔ وہ کہنے لگی اب بھی مَیں بہت نیچے ہوں آپ ذرا اَور اوپر کریں۔ چنانچہ انہوں نے اُسے اپنے ہاتھ پر اُٹھا لیا۔ اِس پر وہ کہنے لگی بڑے آپ نہیں بلکہ مَیں بڑی ہوں جو سلیمان کے ہاتھ پر بیٹھی ہوں۔ تو ایسے ایسے لطائف انہوں نے لکھے ہیں جنہیں سُن کر ہنسی آتی ہے۔
بے شک پہلی کتب میں بھی استعارے استعمال کئے گئے ہیں مگر ان کتب میں ان استعاروں کے لئے اندرونی حل موجود نہیں تھا۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کریم میں بھی استعارے ہیں مگر ساتھ ہی اس نے حل بھی رکھ دیا ہے تا کہ اگر کسی کو ٹھوکر لگے تو عالمِ قرآن اُس کو سمجھا سکے۔
غرض قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ اُس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو مَیں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی وید کا پَیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی توریت کا پَیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی انجیل کا پَیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو مَیں بھی استعارہ سمجھوں۔ پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی نہ پیش کر دوں تو وہ بیشک مجھے اِس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اُسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سِوا دنیا کی اور کوئی کتاب اِس خصوصیت کی حامل نہیں۔
اِس وقت تک مَیں نے قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق آٹھ دس باتیں ہی بیان کی ہیں۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ تین سَو بلکہ اِس سے بھی زیادہ دلائل ایسے دیئے جا سکتے ہیں جن سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور جن کے مقابلہ میں عام انسانی کتابیں تو الگ رہیں الہامی کتابیں بھی نہیں ٹھہر سکتیں۔ لیکن ان کا لکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ ……… کام اتنا زیادہ ہو گیا ہے اور پھر صحت ایسی خراب رہتی ہے کہ اِس کو دیکھتے ہوئے یہ کام بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔
اِس کے بعد مَیں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دوستوں کو اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ جلسے پر آئے، تقریریں سنیں اور جلسہ ختم ہو گیا۔ اِس جگہ آنے اور تقریریں سننے کا آخر کوئی فائدہ ہونا چاہئے ورنہ آکر خالی ہاتھ چلے جانا تو اپنے اوقات اور اموال کو ضائع کرنا ہے۔ پس جلسہ سالانہ سے فائدہ اُٹھائو اور اِس دفعہ مَیں نے جو مضمون بیان کیا ہے اس کی مناسبت سے کوشش کرو کہ تم طَیْر بن جائو۔ اور ہُد ہُد والے کمال تم میں آ جائیں۔ اگر سلیمانؑ کی اُمت میں سے ایک شخص جس کا نام ہُد ہُد تھا اتنے کمال اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے کہ توحید کے باریک اَسرار کا اُسے علم ہو جاتا ہے، سیاست سے وہ واقف ہوتا ہے، سلیمانؑ شام میں ہوتے ہیں اور وہ یمن کی خبر انہیں پہنچا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں جو شرک نظر آتا ہے اُس کو دور کرنا چاہئے حالانکہ سلیمانؑ صرف ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ قوم جسے خدا نے یہ کہا ہے کہ جائو اور ساری دنیا میں میرا پیغام پہنچائو اُس کے افراد کے اندر اگر اپنے مذہب کا درد نہ ہو تو یہ کتنی شرم کی بات ہوگی۔ غالباً اِسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو شرمانے کیلئے یہ قصّہ بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے مقابلہ میں تو سلیمانؑ کی اُمت ایسی ہی ہے جیسے باز کے مقابلہ میں ہُدہُد۔ پس جب ہُدہُد یہ کمال دکھا سکتا ہے تو بازوں کو اپنے اندر جو کمالات پیدا کرنے چاہئیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہوسکتے۔
پس اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو! اپنے اندر جوشِ اخلاص اور ہمت پیدا کرو۔ تم آسمان کی طرف اُڑو کیونکہ تمہارا خدا اوپر ہے تم نیچے مت دیکھو۔ اور معمولی معمولی باتوں کے پیچھے مت پڑو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں طائر بنانا چاہتا ہے۔ کتنی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر تمہیں ابتلاء آ جاتے ہیں۔ کہیں اِس بات پر لڑائی ہو جاتی ہے کہ فلاں عُہدہ مجھے کیوں نہیں ملا، کہیں اس بات پر کوئی شخص ٹھوکر کھا جاتا ہے کہ انجمن کا سیکرٹری فلاں کیوں بنا مجھے کیوں نہ بنایا گیا۔ گویا ہر وقت اُن کی نظر نیچی رہتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تم کو طائر بنانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ہم نے ہر انسان کی گردن کے نیچے ایک طائر باندھ رکھا ہے۔ اب بتائو جس کی گردن کے نیچے کوئی چیز باندھ دی جائے اُس کی نگاہ کبھی نیچی بھی ہو سکتی ہے وہ تو ہمیشہ اوپر کی طرف دیکھے گا۔ پس اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تم اپنی نگاہیں ہمیشہ اونچی رکھو۔ کیونکہ تم مسلمان ہو اور مسلمان کے برابر دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا۔
پس فائدہ اُٹھائو میرے اِس وعظ و نصیحت سے۔ اور جب اپنے گھروں میں جائو تو اِس ارادے اور نیت کے ساتھ جائو کہ آئندہ ہم چوہے اور چھپکلیاں نہیں بنیں گے بلکہ وہ طائر بنیں گے جو ہوائوں میں اُڑتے پھرتے ہیں اور اپنے خدا کی آواز سننے کی کوشش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا
اِس کے بعد مَیں دعا کروں گا دوست بھی دعا کریں۔ اپنے لئے بھی، اپنے رشتہ داروں کیلئے
بھی کیونکہ یہ جامع دعا ہوتی ہے۔ جو احمدی ہیں اُن کیلئے بھی کہ انہیں روحانی ترقی نصیب ہو اور جو غیراحمدی ہیں ان کے لئے بھی کہ انہیں ہدایت حاصل ہو۔ اِسی طرح اپنے شہر والوں کیلئے، اپنے ہمسایوں کیلئے اور اپنے ملک والوں کیلئے دعائیں کرو اور خصوصیت سے جماعت کیلئے یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں سچا تقویٰ، پرہیز گاری اور تقدس پیدا کرے کیونکہ بغیر اِس کے کہ ہم اسلام کا عملی نمونہ ہوں ہماری زندگیاں کسی کام کی نہیں۔ پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایسی محبت پیدا کر دے جس کے مقابلہ میں اور تمام محبتیں سرد ہو جائیں۔ اور ہمیں ہر جگہ وہی نظر آئے۔ اگر ہم بیویوں سے محبت کریں تو خدا کیلئے، اگر ہم ماں باپ سے محبت کریں تو خدا کیلئے، اگر ہم اپنی جانوں سے محبت کریں تو خدا کیلئے، اور اگر ہم مال سے محبت کریں تو خدا کیلئے۔ ہماری مثال حضرت علیؓ کی سی ہو جائے کہ اُن سے جب اُن کے بیٹے امام حسنؓ نے ایک دفعہ پوچھا کہ کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو انہوں نے کہا ہاں! پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ خدا سے بھی محبت کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ یہ سن کر حضرت حسنؓ کہنے لگے۔ کیا یہ شرک نہیں کہ آپ خدا کی محبت میں میری محبت کو بھی شریک کرتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے فرمایا۔ اے میرے بیٹے! یہ شرک نہیں کیونکہ اگر خدا کی محبت کے مقابلہ میں تیری محبت آجائے تو میں اُسے اُٹھا کر پرے پھینک دوں گا۔
پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت دے اور اگر مَاسِوَی اللہ کی محبت ہمارے دلوں میں ہو تو محض اُس کی وجہ سے ہو مستقل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اچھے کاموں کی توفیق دے ہمیں دناء ت، کمینگی اور پست ہمتی سے محفوظ رکھے۔ ہمارے خیالات میں وسعت دے، ہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور ہماری قربانیوں کو زیادہ کر ے۔ اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلام کی اشاعت کے لئے رات اور دن کام کرتے چلے جائیں مگر ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر وہ ہمیں اپنے فضل سے اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی زندگیاں اُس کے دین کے لئے وقف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے لالچ اور حِرص نکال دے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے ظلم کا مادہ نکال دے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے بدظنی اور اپنے بھائیوں کی عیب جوئی اور اُن پر طعنہ زنی کا مادہ نکال دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر عیب سے بچائے۔ ہمارے اندر رحم پیدا کرے۔ ہمیں قرآن کا علم دے۔ اس کے پڑھنے کی توفیق بخشے اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ اور اپنے کلام کی ایسی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے کہ اس کا کلام ہماری روح کی غذا بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں نور پیدا کرے۔ وہ ہماری آنکھوں، ہمارے کانوں، ہمارے دماغوں، ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پائوں میں نور پیدا کرے۔ ہمارے آگے بھی نور ہو ہمارے پیچھے بھی نور ہو۔ ہمارے دائیں بھی نور ہو ہمارے بائیں بھی نور ہو۔ ہمارے اندر بھی نور ہو ہمارے باہر بھی نور ہو یہاں تک کہ ہم مکمل نور بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ تمام تاریکیوں اور ظلمتوں سے ہمیں محفوظ رکھے اور ہمیں اپنی پناہ میں لے لے۔ وہ ہر قسم کے دشمنوں کے حملوں سے ہمیں بچائے۔ اپنے فضلوں کے دروازے ہم پر کھول دے اور ہمارے قلوب کو اتنا پاک اور مصفّٰی کر دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظِلّ اس پر پڑنے لگے۔ یہاں تک کہ ہم اس کے وہ بندے بن جائیں جن کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَاَدْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۵۶؎۔
پھر دعا کرو اُن مبلّغوں کیلئے جو باہر گئے ہوئے ہیں۔ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اُن کوششوں میں جو وہ سلسلہ کی حفاظت اور ترقی کیلئے کر رہے ہیں برکت ڈالے اور ان کے تھوڑے کام کو بھی بہت بنا دے۔ اُن کی زبانوں میں تاثیر ڈالے، اُن کے قلوب میں درد پیدا کرے، اُن کے دماغوں میں خدا کی محبت کی کیفیات موجزن ہوں اور اُن کی زندگیاں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول ہو جائیں۔
پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی پاک بنائے جو ہم میں نقص ہیں وہ ان میں نہ جائیں مگر ہم میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کے وارث ہوں۔ آمین ثم آمین
اس کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی اور یہ مبارک جلسہ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔
(مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
۱؎ النمل: ۱۶ تا ۲۹ ۲؎ الواقعۃ: ۸۰
۳؎ بخاری کتاب الجنائز باب من جلس عندا المصیبۃ یعرف فیہ الحزن (مفہوماً)
۴؎ البقرۃ: ۹ ۵؎ الاعراف: ۵۵ ۶؎ القلم: ۴۳
۷؎ الانعام: ۹۷
۸؎ احبار باب ۱۳ آیت ۴۷ تا ۵۹
۹؎ المدثر: ۵ ۱۰؎ اٰل عمران: ۸
۱۱؎
۱۲؎ النمل: ۱۶ ۱۳؎ سبا: ۱۱‘۱۲ ۱۴؎ الانبیائ: ۸۰‘۸۱
۱۵؎ ص: ۱۸ تا ۲۱ ۱۶؎ الجاثیۃ: ۱۳‘۱۴ ۱۷؎ الجمعۃ: ۲
۱۸؎ بخاری کتاب الصلٰوۃ باب قول النبی جعلت لی الارض…
۱۹؎ اقرب الموارد الجزء الاوّل صفحہ۱۰۱ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۲۰؎ الاحقاف: ۳۰ تا ۳۲ ۲۱؎ البقرۃ: ۱۵ ۲۲؎ الانعام: ۱۱۳
۲۳؎ النسائ: ۸۰ ۲۴؎ البقرۃ: ۵۵
۲۵؎ نسائی کتاب الطہارۃ باب التیمم بالصعید
۲۶؎ الانعام: ۱۲۹ ۲۷‘۲۸؎ الانعام: ۱۳۱ ۲۹؎ الفتح: ۹‘۱۰
۳۰؎ الاحزاب: ۷۳
۳۱؎ لسان العرب المجلد الثالث صفحہ ۲۲۶،۲۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء
۳۲؎ المنجد عربی اُردو صفحہ۲۱۹ مطبوعہ کراچی ۱۹۷۵ء
۳۳؎
۳۴؎
۳۵؎ القاموس الجزء الثانی صفحہ۶۲۴ نولکشور لکھنو ۱۲۸۹ھ
۳۶؎ اٰل عمران: ۴۹‘۵۰ ۳۷؎ المائدۃ: ۱۱۱ ۳۸؎ الرعد: ۱۷
۳۹؎ التوبۃ: ۱۱۹ ۴۰؎ اٰل عمران: ۵۰ ۴۱؎ یٰسن: ۷۹،۸۰
۴۲؎ الانعام: ۳۹ ۴۳؎ النور: ۴۲ ۴۴؎ الاعراف: ۱۳۲
۴۵؎ المفردات فی غریب القراٰن صفحہ۳۱۰ مطبوعہ کراچی
۴۶؎ اقرب الموارد الجزء الاوّل صفحہ۷۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۴۷؎ النمل: ۴۸ ۴۸؎ یٰسن: ۱۹‘۲۰ ۴۹؎ بنی اسرائیل: ۱۴ تا ۱۶
۵۰؎ الجامع الصغیر للسیوطی
۵۱؎ فاطر: ۲ ۵۲؎ فاطر: ۱۱ ۵۳؎ المجادلۃ: ۱۲
۵۴؎ النور: ۳۷‘ ۳۸
۵۵؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ۱۳۷۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۶؎ الفجر: ۳۰‘ ۳۱
فضائل القران(۶)
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
فضائل القرآن (۶)
ترتیبِ قرآن کا مسئلہ اور استعارات کی حقیقت
اِستعارات اور تشبیہات سے پیدا شُدہ غلط فہمیوں کے ازالہ کا طریق
(تقریر فرمودہ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۶ء برموقع جلسہ سالانہ)
تشہّد ‘ تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمَاَ۔ وَقَالَا الْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَo وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ وَقَال یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِوَ اُوْتِیْنَا مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ اِنَّ ھٰذَا لَھُوَا لْفَضْلُ الْمُبِیْنُo وَحُشِرَ لِسُلَیْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْرِ فَھُمْ یُوْزَعُوْنَo حَتّٰی اِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِالنَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰأَیَّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَایَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ وَھُمْ لَایَشْعُرُوْنَo فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِھَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَ اَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحَیْنَo وَتَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَالِیَ لَآ اَرَی الْھُدْھُدَ اَمْ کَانَ مِنَ الْغَائِبِیْنَo لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْلَااَذْبَحَنَّہٗ اَوْلَیَأْ تِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍo فَمَکَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَالَمْ تُحِطْ بِہٖ وَجِئْتُکَ مِنْ سَبَأٍ بِنَبَأٍ یَّقِیْنٍo اِنِّیْ وَجَدْتُ امْرَأَۃً تَمْلِکُھُمْ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ وَّلَھَا عَرْشٌ عَظِیْمٌo وَجَدْتُّھَا وَ قَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَایَھْتَدُوْنَo اَلاَّ یَسْجُدُوْالِلّٰہِ الَّذِیْ یُخْرِجُ الْخَبْ ئَ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَیَعْلَمُ مَاتُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَo اَللّٰہَ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھَوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِo قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ أَمْ کُنْتَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَo اِذْھَبْ بِّکِتٰبِیْ ھٰذَا فَاَلْقِہْ اِلَیْھِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْھُمْ فَانْظُرْ مَاذَا یَرْجِعُوْنَo ۱؎
اس کے بعد فرمایا:۔
میرا آج کا مضمون پھر اُسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو تین سال پہلے میں بیان کر رہا تھا یعنی فضائل القرآن۔ درمیان میں تین سال اِس میں ناغہ ہو گیا کیونکہ رمضان کی وجہ سے لمبی تقریر نہیں کی جا سکتی تھی۔ اِس دفعہ بھی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے مَیں لمبی تقریر نہیں کر سکتا لیکن چونکہ میں اِس مضمون کے بیان کرنے کا ارادہ کر چکا تھا اِس لئے مَیں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس مضمون کا کوئی حصہ اختصار کے ساتھ بیان کر دیا جائے۔
قرآن کریم کے سِوا اور کسی کتاب کو اَفْضَلُ الکُتب ہونیکا دعویٰ نہیں
تمام مذاہب جو دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ اپنی فضیلت اور برتری کا دعویٰ کرتے ہیں اور وہ اپنی مذہبی کتب
کے متعلق بھی یہی کہتے ہیں کہ وہ اَفْضَلُ الکتب ہیں لیکن اُن کی کتب کو یہ دعویٰ نہیں۔ مَیں نے آج تک سوائے قرآن کریم کے کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جس میں یہ لکھا ہو کہ وہ دوسری مذہبی کتب سے افضل ہے۔ ہاں قرآن کریم بے شک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ تمام الہامی کتابوں پر فضیلت رکھتا ہے مگر یہ کہ وہ کس طرح افضل ہے یہ ایک سوال ہے جس کا جواب دینا مسلمانوں کے ذمّے ہے۔ غیر مذاہب والے یا تو قرآن پڑھتے نہیں یا بوجہ اِس کے کہ قرآن تعصّب کی نگاہ سے پڑھتے ہیں صاف دل لے کر اِس کا مطالعہ نہیں کرتے۔ یا بوجہ اس کے کہ وہ قلبِ مطہر نہیں رکھتے اور قرآن فرماتا ہے کہ لَایَمَسُّہٗ اِلَّاالْمُطَھَّرُوْنَ ۲؎ میرے مطالب اور معانی مطہر قلوب پر ہی کُھل سکتے ہیںقرآن کریم کے مطالب اُن پر نہیں کُھلتے۔ پس یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اُن تک قرآن کریم کے مطالب پہنچائیں اور ثابت کریںکہ قرآن کریم نہ صرف ایک اعلیٰ کتاب ہے بلکہ وہ ساری الہامی کتابوں پر فضیلت رکھتی ہے۔ اس سلسلہ میں پانچ لیکچر مَیں پہلے دے چکا ہوں۔ ایک ۱۹۲۸ء میں تمہیدی طور پر مَیں نے دیا تھا مگر اُس وقت طبیعت بہت علیل تھی اس لئے صرف گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ہی میں نے بعض باتیں بیان کی تھیں۔ پھر ۱۹۲۹ئ، ۱۹۳۰ئ، ۱۹۳۱ء اور ۱۹۳۲ء میں چار تفصیلی لیکچر مَیں نے فضائل القرآن پر دیئے گو بعض حصے اُس وقت بھی چھوڑنے پڑے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک کتاب براہین احمدیہ لکھی ہے۔ اس میں آپ نے اپنے اِس ارادہ کا اظہار فرمایا ہے کہ اسلام کی سچائی اور برتری ثابت کرنے کیلئے مَیں تین سَو دلائل دوں گا۔ مَیں نے جب اس مضمون پر غور کیا تو گو میں نے دلائل کو گِنا نہیں مگر میں خیال کرتا ہوں کہ اسلام کی برتری اور فضیلت کے تین سَو دلائل ان نوٹس میں موجود ہیں جو مَیں نے اِس مضمون کے سلسلہ میں تیار کئے ہیں۔ اگر کوئی شخص میرے اِن نوٹوں کو پڑھ لے تو میں سمجھتا ہوں بہت سی باتیں اُس پر واضح ہو جائیں گی۔ یہ مَیں اس لئے کہتا ہوں کہ انسان کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا میں نہیں جانتا کہ مَیں اِس مضمون کو مکمّل بیان کر سکوں یا نہ کر سکوں اس لئے میں نے ذکر کر دیا ہے۔ یہ تمام مصالحہ نہایت اختصار کے ساتھ بلکہ بعض جگہ محض اشارات میں ۱۹۲۸ء اور ۱۹۲۹ء میں مَیں نے جمع کر دیا تھا اور جلسہ سالانہ کے موقع پر انہیں بیان بھی کر دیا تھا۔ مجھے اُن دلائل کی تعداد تو یاد نہیں جو بیان کر چکا ہوں اس لئے میں نمبر کا نام نہیں لے سکتا صرف ضمناً بغیر نمبر دینے کے مَیں آج فضیلتِ قرآن کے ایک خاص پہلو کا ذکر کر دیتا ہوں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اِس مضمون کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو اوّل تو یہ قرآن کریم کی تفسیر کا ایک نہایت اعلیٰ دیباچہ ہوگا دوسرے براہین احمدیہ کی تکمیل بھی ہو جائے گی۔ یعنی اُس رنگ میں جس کا شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اظہار فرمایا تھا گو بعد میں اس کی تکمیل اور رنگ میں بھی ہوگئی یعنی وحی اور الہام اور آپ کی ماموریت اور نبوت کی شان نے اسلام کو جس رنگ میں تمام مذاہب پر غالب ثابت کیا وہ تین سَو دلائل کے اثر سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ پھر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے خود بھی تحریر فرما دیا تھا کہ اب یہ سلسلہ تالیفِ کتاب بوجہ الہاماتِ الٰہیہ دوسرا رنگ پکڑ گیا ہے اور اب ہماری طرف سے کوئی شرط نہیں بلکہ جس طرز پر خدا تعالیٰ مناسب سمجھے گا بغیر لحاظ پہلی شرائط کے اس کو انجام دے گا۔ کیونکہ اَب اِس کتاب کا وہ خود متولّی ہے اور اُس کی مشیّت کسی اَور رنگ میں اِس کی تکمیل چاہتی ہے۔ لیکن اگر حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ پہلی خواہش بھی پوری ہو جائے تو دشمنوں کا یہ اعتراض مٹ جاتا ہے کہ آپ نے براہین احمدیہ کو مکمل نہیں کیا اور وعدہ کے باوجود قرآن کریم کی فضیلت کے تین سَو دلائل پیش نہیں کئے۔
براہین احمدیہ اور مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی
آجکل تو ’’زمیندار‘‘
اور ’’احسان‘‘ وغیرہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدرآبادی تھے وہ آپ کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ جب تک اُن کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپ بھی کتاب لکھتے رہے مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیئے تو آپ کی کتاب بھی ختم ہو گئی۔ گو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہوگیا کہ اُنہیں جو اچھا نکتہ سُوجھتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھ کر بھیج دیتے اور اِدھر اُدھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے۔ آخر مولوی چراغ علی صاحب مصنّف ہیں۔ براہین احمدیہ کے مقابلہ میں اُن کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسرے کو تو ایسا مضمون لکھ کر دے سکتے تھے جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اُس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی۔ پس اوّل تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے؟ اور اگر بھیجتے تو عُمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے۔ جیسے ذوقؔ کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفرؔ کو نظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے۔ مگر ’’دیوانِ ذوق‘‘ اور دیوانِ ظفر‘‘ آجکل دونوں پائے جاتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوقؔ کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے وہ ظفرؔ کے کلام میں نہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفرؔ کو کوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے حالانکہ ظفر بادشاہ تھا۔ غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام کومضامین بھیجا کرتے تھے تو انہیں چاہئے تھاکہ معرفت کے عُمدہ عُمدہ نکتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھ کر بھیجتے۔ مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کی کتابیں بھی۔ انہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لو کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ انہوں نے تو اپنی کتابوں میں صرف بائیبل کے حوالے جمع کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کئے ہیں جو تیرہ سَوسال میں کسی مسلمان کو نہیں سُوجھے۔ اور اِن معارف اور علوم کا سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کی کتابوں میں نہیں۔
الہامی کتب کے سمجھنے میں ایک دِقّت
میرا آج کا مضمون اِس بات پر ہے کہ ہر الہامی کتاب میں بعض ایسے مُشکل مضامین
ہوتے ہیں جن کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شُبہات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ آسانی سے حل نہیں ہوتے یا ان کے متعلق آپس میں بحث شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی کہتا ہے اِس کا یہ مطلب ہے اور کوئی کہتا ہے اِس کا وہ مطلب ہے۔ ایسی صاف بات نہیں ہوتی جیسے مثلاً یہ حُکم ہے کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ نماز قائم کرو۔ جو شخص عربی جانتا اور اسلام سے واقفیت رکھتا ہے وہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ سنتے ہی فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز قائم کرو۔ یہ جھگڑا پیدا نہیں ہوتا کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ سے مراد نماز نہیں روزہ ہے یا روزہ نہیں حج ہے۔ آگے نماز کی کیفیات میں فرق ہو سکتا ہے خشوع خضوع میں فرق ہو سکتا ہے عرفان میں فرق ہو سکتا ہے مگر اس بات میں کوئی اخلاف نہیں ہو سکتا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نماز قائم کرو۔ بلکہ جونہی کسی کے منہ سے یہ فقرہ نکلے گا کہ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ یا قرآن کریم میں یہ حُکم دیکھے گا فوراً سمجھ جائے گا کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ نمازیں پڑھو۔ مگر جو مشکل مسائل ہوتے ہیں اُن کو بعض لوگ سمجھتے ہیں اور بعض نہیں سمجھتے اور اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرے لوگ جو باخبر ہیں اُنہیں وہ مسائل سمجھائیں۔ خواہ اِس وجہ سے کہ وہ خود غور نہیں کرتے یا اِس وجہ سے کہ ان کا دل کسی گناہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ یہ مشکل مضامین بِالعموم دو طرح کے ہوتے ہیں ایک علمی مضامین جو باریک فلسفے پر مبنی ہوتے ہیں مثلاً توحید ہے اس کا اتنا حصہ تو ہر شخص سمجھ سکتاہے کہ خدا ایک ہے مگر آگے یہ صوفیانہ باریکیاں کہ کس طرح انسان کے ہر فعل پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اثر پڑتا ہے اس کیلئے ایک عارف کی ضرورت ہوگی اور یہ مسائل دوسرے کو سمجھانے کیلئے کوئی عالِم درکار ہوگا ہر شخص یہ باریکیاں نہیں نکال سکتا لیکن اتنی بات ضرور سمجھ لے گا کہ قرآن دوسرے خدا کا قائل نہیں۔ دوسرے یہ مشکلات ایسے مطالب کے متعلق پیدا ہوتی ہیں جو علمی تو نہ ہوں مگر وہ اُس زبان میں بیان کئے گئے ہوں جسے تشبیہہ اور استعارہ کہتے ہیں۔
استعارات کو حقیقت قرار دینے کا نتیجہ
استعارہ میں جب بھی بات کی جائے تو گو وہ باریک نہیں ہوتی
مگر عوام الناس اُس زبان کو نہ جاننے کی وجہ سے اس کے ایسے معنی کر لیتے ہیں جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوتے۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک واقعہ پیش آیا۔ جب شام کی جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ کو سالارِ لشکر بنا کر بھیجا اور فرمایا کہ اگر زید مارے جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمان لے لیں اور اگر جعفر مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ کمان لے لیں تو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی وقوع میں آیا اور حضرت زیدؓ اور حضرت جعفرؓ اور حضرت عبداللہؓ تینوں شہید ہو گئے اور حضرت خالد بن ولیدؓ لشکر کو اپنی کمان میں لے کر بحفاظت اُسے واپس لے آئے۔ جس وقت مدینہ میں یہ خبر پہنچی تو جن عورتوں کے خاوند مارے گئے تھے یا جن والدین کے بچے اِس جنگ میں شہید ہوئے تھے اُنہوں نے جس حد تک کہ شریعت اجازت دیتی ہے رونا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اظہارِ افسوس کیلئے نہ اس لئے کہ عورتیں جمع ہو کر رونا شروع کر دیں فرمایا۔ جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں۔ میرے نزدیک اِس فقرہ سے آپ کا یہ منشا ہر گز نہیں تھا کہ کوئی جعفر کو روئے بلکہ مطلب یہ تھا کہ ہمارا بھائی بھی آخر اِس جنگ میں مارا گیا ہے جب ہم نہیں روئے تو تمہیں بھی صبر کرنا چاہئے۔ کیونکہ حضرت جعفرؓ کے رشتہ دار وہاں یا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے یا حضرت علیؓ تھے اور یہ جس پایہ کے آدمی تھے اس کے لحاظ سے ان کی چیخیں نہیں نکل سکتی تھیں۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباًاس بات کے اظہار کیلئے کہ میرا بھائی جعفرؓ بھی مارا گیا ہے مگر مَیں نہیں رویا فرمایا جعفرؓ پر تو کوئی رونے والا نہیں۔ انصار نے جب یہ بات سُنی تو چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو پورا کرنے کا بے حد شوق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے اپنے اپنے گھر جا کر عورتوں سے کہنا شروع کیا کہ یہاں رونا دھونا چھوڑو اور جعفرؓ کے گھر چل کر روئو۔ چنانچہ سب عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر میں اکٹھی ہوگئیں اور سب نے ایک کُہرام مچا دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ آواز سُنی تو فرمایا کیا ہوا؟ انصار نے عرض کیا۔ یا رَسُوْلَ اللہ! ﷺ آپ نے جو فرمایا تھا کہ جعفرؓ پر کوئی رونے والا نہیں اس لئے ہم نے اپنی عورتیں حضرت جعفرؓ کے گھر بھیج دی ہیں اور وہ رو رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ میرا یہ مطلب تو نہیں تھا۔ جائو انہیں منع کرو۔ چنانچہ ایک شخص گیا اور اُس نے انہیں منع کیا۔ وہ کہنے لگیں تم ہمیں کون روکنے والے ہو؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو آج افسوس کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جعفرؓ کو رونے والا کوئی نہیں اور تُو ہمیں منع کرتا ہے۔ وہ یہ جواب سُن کر پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا۔ کیونکہ بعض لوگوں کو دوسروں کی ذرا ذرا سی بات پُہنچانے کا شوق ہوتا ہے اور عرض کیا وہ مانتی نہیں۔آپ نے فرمایا۔ اُن کے سروں پر مٹی ڈالو۔ مطلب یہ تھا کہ چھوڑو اور اُنہیں کچھ نہ کہو خود ہی رو دھو کر خاموش ہو جائیں گی۔ مگر اُس کو خدا دے اُس نے اپنی چادر میں مٹی بھرلی اور اُن عورتوں کے سَروں پر ڈالنی شروع کر دی۔ انہوں نے کہا پاگل کیا کرتا ہے؟ وہ کہنے لگا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مٹی ڈالو۔ اس لئے مَیں تو ضرور ڈالوں گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اُسے ڈانٹا اور فرمایا تُو بات کو تو سمجھا ہی نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا تو یہ تھا کہ ان کا ذکر چھوڑو اور جانے دو۔۳؎ وہ خود ہی خاموش ہو جائیں گی۔ یہ مطلب تو نہیں تھا کہ تم مٹی ڈالنا شروع کر دو۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک استعارۃً کلام تھا مگر وہ واقعہ میں مٹی ڈالنے لگ گیا۔ تو بعض دفعہ لوگ استعارہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور بعض دفعہ لفظی معنے ایسے لے لیتے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہوتے ہیں اور اس طرح بات کہیںکی کہیں پہنچ جاتی ہے۔
خیطِ ابیض اور خیطِ اَسود کا غلط مفہوم
میں نے یہ عرب کی مثال آپ لوگوں کے سامنے پیش کی ہے اب میں پنجاب کی
ایک مثال دے دیتا ہوں۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ سحری کا وقت اُس وقت تک ہے جب تک سفید دھاگا سیاہ دھاگا سے الگ نظر نہیں آتا۔ یہ ایک استعارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک پَو پھٹ نہ جائے کھاتے پیتے رہو۔ مگر پنجاب میں بہت سے زمیندار رمضان کی راتوں میں سفید اور سیاہ دھاگا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور چونکہ دھاگا اچھی روشنی میں نظر آتا ہے اس لئے وہ دن چڑھے تک خوب کھاتے پیتے رہتے ہیں۔ اب یہ اسی استعارہ کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے اور چونکہ بعض لوگوں کی نگاہ نسبتاً کمزور ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے وہ دن چڑھنے کے بعد بھی اس آیت کی رُو سے کھانے پینے کا جواز ثابت کر لیں کیونکہ انہیں سورج کی روشنی میں ہی اِس فرق کا پتہ لگ سکتا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب جب اپنے طالب علمی کے زمانہ میں لاہور پڑھتے تھے تو ایک احمدی دوست کے گھر پر رہتے تھے۔ رمضان کے دن تھے۔ ایک رات انہوں نے یہ خیال کر کے کہ یہ بچہ ہے اُسے کیا جگانا ہے روزے کیلئے نہ جگایا مگر میر صاحب کو جیسا کہ بچوں کا عام طریق ہے روزے رکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اُن کی آنکھ ایسے وقت میں کھُلی جب کہ سحری کا وقت گذر چکا تھا اور روشنی پھیل گئی تھی۔ اِدھر گھر کے مالک کو خیال آیا کہ ان کا دل میلا ہوگا انہیں روٹی کھِلا دینی چاہئے۔ چنانچہ میر صاحب دروازہ کھولنے لگے تو وہ کہنے لگا ہیں! ہیں! کھولنا نہیں روشنی آئے گی مَیں اندر سے کھانا پکڑادیتا ہوں۔
انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی استعارات پائے جاتے ہیں
غرض بعض لوگ استعارہ کے اس طرز پرمعنی کرتے ہیں کہ اس کو حقیقت بنا لیتے ہیں اور پھر اس کا کچھ کا کچھ مفہوم ہو جاتا ہے۔ اور الہامی
کتابوں میں تو بِالخصوص بہت مشکل پیش آتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے اس کی کسی آیت کے دوسرے معنی ہم نہیں کرنے دیں گے۔ اسی طرح نبیوں کی پیشگوئیوں میں استعارات پائے جاتے ہیں بلکہ ہر انسان روزانہ استعارے استعمال کرتا ہے مگر نبیوں کے کلام میں جب کوئی استعارہ آ جائے گا تو لوگ کہیں گے کہ ہم اس کے کوئی اور معنی نہیں کرنے دیں گے ورنہ یہ ثابت ہوگا کہ نَعُوذُ بِاللّٰہِ نبی بھی جھوٹ بولتے ہیں۔ بلکہ خدا اور اُس کے انبیاء کا کلام تو الگ رہا لوگ بزرگوں کے کلام میں بھی انتہا درجہ کی سختی سے کام لیتے ہیں اور اُن کے استعارات کو سمجھنے کی بجائے حقیقت قرار دیتے ہیں۔
ایک لطیفہ
ہمارے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ’’سِلکِ مروارید‘‘ نام سے ایک ناول لکھا ہے جس میں قصہ کے طور پر ایک عورت کا ذکر کیا ہے جو بڑی بڑی
بحثیں کرتی اور مولویوں کا ناطقہ بند کر دیتی تھی۔ ہماری کاٹھگڑھ کی جماعت کے ایک دوست تھے انہوں نے یہ کتاب پڑھی تو ایک دفعہ جب کہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کا زمانہ تھا، دوستوں نے اُن سے پوچھا کہ کیوں بھئی! جلسہ پر چلو گے؟ انہوں نے کہا اب کے تو کہیں اور جانے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے پوچھا کہاں جائو گے؟ تو پہلے تو انہوں نے نہ بتایا مگر آخر اصرار پر کہا کہ اِس دفعہ میرا ارادہ سہارنپور جانے کا ہے کیونکہ وہاں ایک بڑی بزرگ اور عاملہ عورت رہتی ہیں جن کا ذکر ’’سِلکِ مروارید‘‘ میں ہے اُن کی زیارت کا شوق ہے۔ (شیخ یعقوب علی صاحب نے ناول میں لکھا تھا کہ وہ سہارنپور کی ہیں) انہوں نے کہا۔ نیک بخت! وہ تو شیخ صاحب نے ایک ناول لکھا ہے جس میں فرضی طور پر سہارنپور کی ایک عورت کا ذکر کیا ہے یہ تو نہیں کہ سہارنپور میں واقعہ میں کوئی ایسی عورت رہتی ہے۔ وہ کہنے لگا۔ اچھا! تم شیخ یعقوب علی صاحب کو جو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابی ہیں جھوٹا سمجھتے ہو۔ وہ کہنے لگے کہ اِس میں جھوٹا سمجھنے کی کیا بات ہے وہ تو ایک قصہ ہے اور قصوں میں بات اسی طرح بیان کی جاتی ہے۔ وہ دوست کہتے ہیں کہ پہلے تو اُسے ہماری بات پر یقین نہ آیا مگر جب ہم نے بار بار اُسے یقین دلایا تو کہنے لگا۔ اچھا! یہ بات ہے؟ مجھے قادیان پہنچنے دو۔ میں جاتے ہی حضرت صاحب سے کہوں گا کہ ایسے جھوٹے شخص کو ایک منٹ کیلئے بھی جماعت میں نہ رہنے دیں فوراً خارج کر دیں۔ میں تو پیسے جمع کر کر کے تھک گیا اور میرا پختہ ارادہ تھا کہ سہارنپور جائوں گامگر اب معلوم ہواکہ یہ سب جھوٹ تھا۔ اب اس بیچارے کے لئے یہی سمجھنا مشکل ہو گیا کہ ایسی عورت کوئی نہیں یہ ایک فرضی قصہ ہے جو اس لئے بنایا گیا ہے کہ تا وہ لوگ جو قصے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں وہ اس رنگ میں احمدیت کے مسائل سے واقف ہو جائیں۔
استعارات کو نہ سمجھنے والے طبقہ کی ذہنیت
غرض مذہبی کتابوں میں یہ مشکل ہوتی ہے کہ جہاں کوئی استعارہ
آیا وہاں ایک طبقہ کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ہم آگے چلنے نہیں دیں گے جب تک تم اِس بات کو اُنہی الفاظ میں تسلیم نہ کرو جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں۔ دودھ کی نہروں کا ذکر آ جائے تو جب تک وہ یہ تسلیم نہ کر لیں کہ منٹگمری اور لاہور اور شیخوپورہ کی بھینسیں خدا تعالیٰ نے رکھی ہوئی ہونگی انہیں دودھ کی نہروں کا یقین ہی نہیں آتا۔ کیلے کا ذکر آ جائے تو جب تک بمبئی کا کیلا جنت میں نہ مانیں اُن کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ شراب کا ذکر آ جائے تو گو وہ یہ ماننے کیلئے تیار ہو جائیں گے کہ جنت کی شراب زیادہ صاف ہوگی مگر یہ نہیں مانیں گے کہ شراب سے مراد کوئی اور چیز بھی ہو سکتی ہے اور اگر حورو غِلمان کا ذکر آ جائے تو پھر تو ان کے منہ سے رالیں ٹپک پڑتی ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے عہدِ خلافت میں ایک دفعہ میں مدارس دیکھنے کیلئے لکھنؤ گیا۔ اتفاقاً وہاں ندوۃ العلماء کا جلسہ تھا۔ مَیں بھی جلسہ دیکھنے کیلئے چلا گیا۔ ایک مولوی عبدالکریم صاحب پروفیسر تھے۔ اُن کی تقریر اُس وقت نماز کی خوبیوں کے متعلق تھی۔ سامعین اگرچہ کم تھے مگر اُن میں سے اکثر مسلمان تھے اور وہ بھی مولوی طرز کے۔ ایک مسلمان بیرسٹر بھی شریک تھے جو میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے۔ مولوی صاحب نے تقریر شروع کی اور کہا کہ لوگو! نماز پڑھنی چاہئے۔ نماز کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کو جنت ملتی ہے اور جنت کیا ہوتا ہے؟ اس کے بعد انہوں نے جنت کی جو کیفیت بیان کرنی شروع کی اُس کا ذکر میرے لئے ناممکن ہے۔ اس کا ایک چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا مَیں بیان کر دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا۔ وہاں بہترین شکل کی خوبصورت تصویریں ہونگی اور جس تصویر کو دیکھ کر انسان کا دل للچائے گا وہ فوراً خوبصورت عورت بن جائے گی اور پھر مرد و عورت کے تعلقات شروع ہو جائیں گے اور ان تعلقات کا جنت کی طرح اختتام نہیں ہوگا۔ یہ نقص اِسی بات کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے قرآن میں دو چار لفظ حور کے پڑھ لئے اور نتیجہ نکال لیا کہ جو کچھ یہاں ہے وہی کچھ وہاں بھی ہوگا۔ میرے پاس جو بیرسٹر بیٹھے تھے وہ کہنے لگے۔ اچھا ہؤا یہ لیکچر رات کو رکھا گیا اگر دن کو رکھا جاتا اور لوگ زیادہ تعداد میں شامل ہو جاتے تو ہماری بڑی ذلّت ہوتی۔ تو الہامی کتابوں میں خصوصاً یہ مشکل پیش آتی ہے کہ لوگ کہہ دیتے ہیں یہ اللہ کی کتاب ہے اور اس میں جو تشبیہہ یا استعارہ استعمال ہوا ہے وہ حقیقت ہے اس کے دوسرے معنی ہو ہی نہیں سکتے۔
علمی مضامین کے سمجھنے میں عوام کی مشکلات
اسی طرح الہامی کتابوں کے اعلیٰ علمی مضامین کا سمجھنا بھی
عام لوگوں کیلئے بڑا مشکل ہوتا ہے جس کی کئی وجوہ ہیں۔
اوّل الہامی کتابوں کی ترتیب عام کتابوں سے جُدا ہوتی ہے۔ عام کتابوں میں تو یہ ہوتا ہے کہ مثلاً پہلے مسائلِ وضو بیان کئے جائیں گے پھر مسائلِ عبادت بیان کئے جائیں گے پھر ایک باب میں مسائلِ نکاح بیان کیے جائیں گے اسی طرح کسی باب میں طلاق اور خلع کا اور کسی میں کسی اور چیز کا ذکر ہوگا اور جس جگہ مسائل بیان ہونگے اکٹھے ہونگے۔ مگر الہامی کتابوں میں یہ رنگ نہیں ہوتا اور اُن کی ترتیب بالکل اور قسم کی ہوتی ہے جو دُنیوی کتب کی ترتیب سے نرالی ہوتی ہے یہاں تک کہ جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ اِس میں ترتیب ہے ہی نہیں۔
الہامی کتب کی نرالی ترتیب میں حکمتیں
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ الہامی کتابوں میں دنیا کی تمام کتابوں
سے نرالی ترتیب کیوں رکھی جاتی ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اِس میں بھی کئی حکمتیں ہیں۔
(الف) اِس ترتیب سے سارے کلام سے دلچسپی پیدا کرانی مدِّنظر ہوتی ہے۔ اگر الہامی کتاب کی ترتیب اُسی طرح ہو جس طرح مثلاً قدوری کی ترتیب ہے کہ وضو کے مسائل یہ ہیں نکاح کے مسائل وہ، تو عام لوگ اپنے اپنے مذاق کے مطابق اُنہی حصوں کو الگ کر کے ان پرعمل کرنا شروع کر دیتے اور باقی قرآن کو نہ پڑھتے مگر اب اللہ تعالیٰ نے سارے مسائل کو اس طرح پھیلا کر رکھ دیا ہے کہ جب تک انسان سارے قرآن کو نہ پڑھ لے مکمل علم اُسے حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔
(ب) لوگوں کو غوروفکر کی عادت ڈالنے کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب اختیار کی ہے۔ اگر عام کتابوں کی طرح اس میں مسائل بیان کر دیئے جاتے تو لوگوں کا ذہن اِس طرف منتقل نہ ہوتا کہ ان مسائل کے باریک مطالب بھی ہیں۔ وہ صرف سطحی نظر رکھتے اور غوروفکر سے محروم رہتے۔ مگر اب اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو اس طرح پھیلا دیا اور ایک دوسرے میں داخل کر دیا ہے کہ انسان کو ان کے نکالنے کیلئے غوروفکر کرنا پڑتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سمندر ہے۔
(ج) یہ ترتیب اس لئے بھی اختیار کی گئی ہے تا خشیت الٰہی پیدا ہو کیونکہ خشیت الٰہی پیدا کرنے کیلئے یہ ترتیب ضروری تھی۔ مثلاً اگر یوں مسائل بیان ہوتے کہ وضو یوں کرو ،کُلّی اس طرح کرو، عبادت اس طرح کرو، اِتنی رکعتیں پڑھو تو خشیت الٰہی پیدا نہ ہوتی۔ جیسے عبادت وغیرہ کے تمام مسائل قدوری اور ہدایہ وغیرہ میں بھی مذکور ہیں مگر قدوری اور ہدایہ پڑھ کر کوئی خشیت اللہ پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن وہی مسئلہ جب قرآن میں آتا ہے تو انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے لبریز ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ قرآن ان مسائل کو خشیت اللہ کا ایک جُزو بنا کر بیان کرتا ہے الگ نہیں۔ اور دراصل نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ مسائل کا اصل مقصد تقوی ہی ہے۔ پس قرآن تقوی کو مقدّم رکھتا ہے تا جب انسان کو یہ کہا جائے کہ وضو کرو تو وہ وضو کرنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو۔ اسی طرح جب کہا جائے کہ نماز پڑھو تو انسان نماز پڑھنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو۔ اگر قرآن میں نماز کا الگ باب ہوتا تو اُسے پڑھ کر خشیت اللہ پیدا نہ ہوتی۔ پس الہامی کتاب چونکہ اصلاح کو مقدم رکھتی ہے اس لئے وہ سطحی ترتیب کو چھوڑ کر ایک نئی ترتیب پیدا کرتی ہے جو جذباتی ہوتی ہے۔ یعنی قلب میں جو تغیرات پیدا ہوتے ہیں الہامی کتاب اُن کا ذکر کرتی ہے۔ یہ نہیں کہ وہ وضو کے بعد نماز کا ذکر کرے بلکہ وہ وضو سے روحانیت، طہارت اور خداتعالیٰ کے قُرب کی طرف انسان کو متوجہ کرے گی۔ کیونکہ وضو سے طہارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں پھر جب نماز کا مسئلہ آئے گا تو یہ نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نماز کے مسائل بیان کرنا شروع کر دے بلکہ سجدہ اور رکوع کے ذکر سے جو جذبات انسانی قلب میں پیدا ہوتے ہیں اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اُسے اپنی طرف متوجہ کرے گا تا جو جذبات بھی انسان کے اندر پیدا ہوں اُن سے وہ ایسا اثر لے جو اُسے خداتعالیٰ کے قریب کر دے۔
قلبی واردات کی دو مثالیں
پس ترتیبِ قرآن ظاہر پر مبنی نہیںبلکہ قلب کے جذبات کی لہروں پر مبنی ہے اور یہ لہریں مختلف ہوتی
ہیں۔ مَیں اِس کے متعلق دو مثالیں دے دیتا ہوں۔ ایک اچھی اور ایک بُری۔ کہتے ہیںکسی مسجد کا مُلّا ایک دن جماعت کرانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ مقتدی آسودہ حال ہیں۔ اِس پر نماز میں ہی اسے خیال پیدا ہؤا کہ اگر یہ مجھے تحفے تحائف دیں تو میرے پاس بڑا مال اکٹھاہو جائے۔ پھر جب مال جمع ہو گیا تو میں اُس سے تجارتی سامان خریدوں گا اور خوب تجارت کروں گا۔ کبھی دلّی میں اپنی اشیاء لے جاؤں گا کبھی کلکتے چیزیں لے جاؤں گا۔ غرض اِسی طرح وہ خیالات دَوڑاتا چلا گیا۔ پھر ہندوستان اور بخارا کے درمیان اُس نے تجارت کی سکیم بنانی شروع کر دی۔ اب بظاہر وہ رکوع اور سجدہ کر رہا تھا مگر خیالات کہیں کے کہیں تھے۔ ایک بزرگ بھی اُن مقتدیوں میں شامل تھے۔ اُن پر کشفی حالت طاری ہوئی اور اُنہیں امام کے تمام خیالات بتا دیئے گئے۔ اِس پر وہ نماز توڑ کر الگ ہو گئے۔ جب اُس مُلّا نے نماز ختم کی تو وہ اُن پر ناراض ہؤا اور کہنے لگا۔ تمہیں یہ مسئلہ معلوم نہیں کہ نماز امام کے پیچھے پڑھا کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگے مسئلہ تو مجھے معلوم ہے مگر میری صحت کچھ کمزور ہے میں آپ کے ساتھ چلا اور دلّی تک گیا۔ پھر دلّی سے بخارا گیا اور میں تھک کر رہ گیا اور چونکہ اتنے لمبے سفر کی مَیں برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لئے آپ سے الگ ہو گیا۔ اس پر وہ شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا۔
اب یہ بیہودہ خیالات تھے جو اُس کے دل میں پیدا ہوئے مگر ان خیالات میں بھی وہی ترتیب رہی جو اس کے جذباتِ قلب پر مبنی تھی۔ یہی حال نیک خیالات کا ہے اور وہ بھی اسی رنگ میں پیدا ہوتے ہیں۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہو گا کہ مثلاً تم سجدہ میں گئے ہو اور تم سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہتے ہو تو اُس وقت تمہارا دل بھی حاضر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی سبوحیّت کا نقشہ تمہارے سامنے آنے لگتا ہے۔ اُس وقت گو تمہارے منہ سے دوسری اور تیسری دفعہ بھی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی نکل رہا ہوتاہے مگر تمہارا دل پہلے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کو ہی چھوڑنے کو نہیں چاہتا۔ یا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہتے ہو اور اُس وقت تمہارا دل حاضر ہوتا ہے تو اُس وقت حمد کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے احسانات تمہارے سامنے یکے بعد دیگرے آنے شروع ہو جاتے ہیں اور تم انہی احسانات کی یاد میں محو ہو جاتے ہو۔ اب اگر ایسی حالت میں تم کسی کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہو تو گو تم اُس کی اقتدا میں کبھی سجدہ کرو گے، کبھی رکوع میں جائو گے اور منہ سے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم وغیرہ بھی کہو گے مگر تمہارے دل پر حمد ہی جاری ہوگی۔ تو قلوب پر بعض روحانی واردات آتی ہیں اور وہی حقیقی نماز ہوتی ہیں۔ اُس وقت انسان گو الفاظ منہ سے نکال رہا ہوتا ہے مگر اُس کے جذبات روحانیت کے لحاظ سے ایک خاص رستہ پر چل رہے ہوتے ہیں۔ پس وہ واردات جو انسانِ مومن پر آتی ہیں قرآن کریم کی ترتیب ان پر مبنی ہے۔ وہ نماز کے بعد روزہ کا ذکر نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میری یہ ہدایت پڑھنے کے بعد کیا کیا خیالات انسان کے اندر پیدا ہونگے۔ پس وہ خیالات جو اس کے نتیجہ میں انسانی قلب میں پیدا ہو سکتے ہیں قرآن کریم ان کو بیان کرے گا۔ غرض بِالعموم مذہبی کتابوں کی ترتیب خصوصاً قرآن مجید کی ترتیب ظاہری تعلق پر نہیںبلکہ اُن جذبات پر ہے جو قرآن کریم پڑھتے وقت پیدا ہوتے ہیں۔ اور چونکہ خدائے عالم الغیب جانتا تھا کہ فلاں آیت یا فلاں حُکم کے نتیجہ میں کس کس قسم کے خیالات پیدا ہو سکتے ہیں اس لئے بجائے ظاہری ترتیب کے اُس نے قرآن کریم کی ترتیب اُن جذبات پر رکھی جو قلبِ مومن میں پیدا ہوتے ہیں۔ مگر اِس کا نتیجہ یہ ضرور نکلتا ہے کہ جو لوگ غور سے اور محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ قرآن مجید کو نہیں پڑھتے اُنہیں یہ کتاب پھِیکی معلوم ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ کیا ہوا کہ ابھی موسیٰ ؑکا ذکر تھا پھر نوحؑ کا ذکر شروع کر دیا پھر شعیبؑ کے حالات بیان ہونے لگ گئے ابھی سُود کا ذکر تھا کہ ساتھ نماز کا ذکر آگیا۔ ان کے نزدیک یہ باتیں اتنی بے جوڑ ہوتی ہیں کہ وہ اِن کا آپس میں کوئی تعلق سمجھ ہی نہیں سکتے۔ مگر وہی مضمون جب کسی عالِم کے پاس پہنچتا ہے تو وہ سنتا ہے اور سر دھنتا ہے۔
قرآنی علوم سے فائدہ اُٹھانے کا اصول
اگر کہو کہ پھر اس کا علاج کیا ہے؟ تو گو میرے مضمون سے اِس کا کوئی
تعلق نہیں مگر چونکہ میں نے بتایا ہے کہ انسان بسا اوقات جذبات کی رَو میں بہہ جاتا ہے اس لئے مَیں بھی جذبات کے ماتحت دو تین علاج بتا دیتا ہوں۔
پہلا علاج یہ ہے کہ انسان سارے کلام کو پڑھے اور بار بار پڑھے یہ نہیں کہ کوئی خاص حصہ چن لیا اور اُسے پڑھنا شروع کر دیا۔
دوم اُس وقت پڑھے جب اُس کے دل میں محبت اور اخلاص کا جوش ہو۔ جن لوگوں کا جذبۂ محبت ہر وقت کامل رہتا ہو اُن کیلئے یہ کافی ہے کہ وہ صبح یا شام کا وقت تلاوت کیلئے مقرر کر لیں مگر جن کا جذبۂ محبت ایسا کامل نہ ہو وہ اُس وقت تلاوت کیا کریں جب اُن کے دل میں محبت کے جذبات اُبھر رہے ہوں۔ چاہے دوپہر کو اُبھریں یا کسی اَور وقت۔
سوم قرآن کریم کو اِس یقین کے ساتھ پڑھا جائے کہ اس کے اندر غیر محدود خزانہ ہے۔ جو شخص قرآن کریم کو اِس نیت کے ساتھ پڑھتا ہے کہ جو کچھ مولوی مجھے اِس کا مطلب بتائیں گے یا پہلی کتابوں میں لکھا ہوا ہے وہیں تک اِس کے معارف ہیں اُس کے لئے یہ کتاب بند رہتی ہے۔ مگر جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اِس میں خزانے موجود ہیں وہ اِس کے معارف اور علوم کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
کوئی سال ڈیڑھ سال کی بات ہے کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ایک سوال پوچھنا ہے۔ مجھے اُس وقت جلدی تھی میں نے کہا کوئی مختصر سوال ہے یا تفصیل طلب؟ وہ کہنے لگا میں مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت چاہتا ہوں۔ میں نے کہا مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت سارے قرآن سے ملتا ہے۔ کہنے لگا کوئی آیت بتائیں۔ میں نے کہا ممکن ہے مَیں جو آیت بتائوں آپ کہیں کہ اِس کا یہ مطلب نہیں وہ مطلب ہے۔ اس لئے آپ ہی قرآن کی کوئی آیت پڑھ دیں۔ مَیں اس سے مرزا صاحب کی صداقت ثابت کر دونگا۔ اُس نے جلدی سے یہ آیت پڑھ دی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ۔ ۴؎ مَیں نے مختصراًاس آیت کا مضمون بیان کر کے اُسے بتایا کہ اِس آیت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ مَیں نے کہا۔ آپ بتائیں آجکل مسجدوں میں لوگ کتنے جاتے ہیں؟ کہنے لگا بہت کم۔ مَیں نے کہا پھر جو نماز پڑھنے جاتے ہیں ان میں سے نماز کی حقیقت سے کتنے آگاہ ہوتے ہیں؟ کہنے لگا بہت ہی کم۔ پھر مَیں نے کہا ان میں سے جو باقاعدہ پانچ وقت نمازیں پڑھتے ہیں ان کی تعداد کتنی ہوتی ہے؟ کہنے لگا ان کی تعداد تو اور بھی تھوڑی ہوتی ہے۔ میں نے کہا خدا اِس آیت میں یہ کہتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ مومن نہیں ہوتے۔ اب آپ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ آیت جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اُتری آج بھی اپنے مضمون کی صداقت ظاہر کر رہی ہے۔ پھر اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بدیاں آج پیدا ہوگئی ہیں تو کیا اِن بدیوں کو دُور کرنے کیلئے مصلح نہیں آنا چاہئے تھا؟ آخر یہ آیت اِسی لئے قرآن میں آئی ہے تا اللہ تعالیٰ بتائے کہ ایسے گندے لوگ چونکہ دنیا میں موجود ہیں اِس لئے ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔ پھر اگر ایسے لوگوں کی اصلاح کیلئے قرآن کی ضرورت تھی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت تھی تو جب کہ موجودہ زمانہ میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں اور آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ اِس آیت کا مضمون لوگوں کے عمل سے نظر آتا ہے تو جس اصلاح کا سامان خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کیا تھا وہ بھی ہونا چاہئے۔ اِس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا۔ تو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم میں ایسے وسیع مطالب بیان کئے گئے ہیں کہ اگر انسان غور کرے تو وہ خزانہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔ ہاں جو لوگ اِسے بند کتاب سمجھ لیتے ہیں اورخیال کرتے ہیں کہ اِس میں سے نئے معارف نہیں نکل سکتے اُن پر واقعہ میں کوئی بات نہیں کُھلتی۔ جس طرح اگر تم کسی جنگل میں سے گذر رہے ہو تو تمہارے سامنے ہزاروں درخت آئیں گے مگر تم کسی کو غور سے نہیں دیکھو گے لیکن اگر محکمہ جنگلات کا افسر معائنہ کرنے کیلئے آ جائے تو وہ بیسیوں نئی باتیں معلوم کر لیتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اِس نیت سے قرآن پڑھتا ہے کہ یہ غیر محدود خزانہ ہے وہ اِس سے فائدہ اُٹھا لیتا ہے اور جو اِس نیت سے نہیں پڑھتا وہ محروم رہتا ہے۔
ہر زبان میں تشبیہہ اور استعارہ کا استعمال
الہامی کتابوں کے مطالب کے متعلق دوسری مشکل جیسا کہ میں
بتا چکا ہوں تشبیہہ اور استعارہ کی ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں تشبیہہ اور تمثیل کا استعمال موجود ہے۔ ہر اعلیٰ علمی کتاب میں تشبیہات و تمثیلات بیان ہوتی ہیں۔ ہر ملک میں استعاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں محاورہ ہے کہ ’’آنکھ بیٹھ گئی‘‘ مگر کوئی نہیں کہتا کہ کیا آنکھ کی بھی ٹانگیں ہیں؟ یا وہ بیٹھی ہے تو کس پلنگ اور کرسی پر۔ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ آنکھ بیٹھنے کے معنی یہ ہیں کہ آنکھ ضائع ہو گئی اور پھُوٹ گئی۔ اِسی طرح اور بیسیوں نہیں سینکڑوں محاورے زبانِ اُردو میں استعمال کئے جاتے ہیں اور یہ استعارے زبان کے کمال پر دلالت کرتے ہیں۔
غرض تشبیہہ اور استعارہ ایسی ضرور چیز ہے کہ اس کے بغیر گذارہ ہی نہیں ہو سکتا۔ اور چونکہ اِس کے استعمال سے مضامین خوبصورت اور مزین ہو جاتے ہیں اس لئے الہامی کتابیں بھی اسے استعمال کرتی ہیں۔ اور اس طرح وہ اِس امر کی شہادت دیتی ہیں کہ تشبیہہ اور استعارہ بڑی ضروری چیز ہے۔
الہامی کتب کے بارہ میں لوگوںکی مشکلات
لیکن جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے الہامی کتابوں کو چونکہ
بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے اس لئے لوگ اس کے لفظ لفظ پر بیٹھ جاتے ہیں اور تشبیہہ اور استعارہ کی وجہ سے غلطی خوردہ لوگ دو انتہائوں کو پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو تشبیہہ اور استعارہ کو بالکل نظر انداز کر کے اسے حقیقت پر محمول قرار دے دیتے ہیں۔ اگر قرآن میں خدا کے ہاتھ کا ذکر آئے تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ بس اسی طرح چمڑے کا ہے جس طرح ہمارا ہاتھ ہے۔ اُس کی بھی انگلیاں ہیں اور انگوٹھا ہے۔ اور اگر انہیں کہا جائے کہ ہاتھ سے مراد خدا کی طاقت ہے تو وہ کہیں گے تم تاویلیں کرتے ہو جب خدا نے ہاتھ کا لفظ استعمال کیا ہے تو تمہارا کیا حق ہے کہ تم اس کی کوئی اور تاویل کرو۔ اسی طرح خدا کی آنکھ کا ذکر آئے تو وہ کہیں گے اس کے بھی ڈیلے ہیں۔ اور اگر اس کے کوئی اور معنی کئے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ تو تاویلیں ہوئیں۔ ایسے معنی کرنا خدا کی ہتک ہے۔ اسی طرح اگر خدا تعالیٰ کے متعلق اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ ۵؎کے الفاظ آ جائیں تو وہ کہیں گے کہ جب تک خدا تعالیٰ کو ایک سنگِ مرمر کے تخت پر بیٹھا ہؤا تسلیم نہ کیا جائے قرآن سچا نہیں ہو سکتا۔ یا اگر حدیثوں میں بعض ایسے ہی الفاظ آ جائیں کہ خدا اپنا پائوں دوزخ میں ڈالے گا۔ یا قرآن میں اُنہیں یہ دکھائی دے کہ یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ ۶؎ تو جب تک وہ یہ تسلیم نہ کریں کہ خدا نے بھی پاجامہ پہنا ہوا ہوگا اور وہ اپنی پنڈلی سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ اپنا پاجامہ اُٹھائے گا اُس وقت تک ان کی تسلی ہی نہیں ہوتی۔ پس وہ تشبیہہ اور استعارہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ٹھوکر کھا گئے اور خدا تعالیٰ کے تجسّم کے قائل ہو گئے اور کسی نے ان الفاظ کی حکمت پر غور نہ کیا۔
وارفتکی کا استثنا
بے شک بعض دفعہ جذبات کی رَو میں بھی انسان ایسے الفاظ منہ سے نکال دیتا ہے جن سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی مجسّم ہے مگر
وہ ایک عارضی حالت ہوتی ہے جو وارفتکی کے وقت انسان پر وارد ہوتی ہے جیسے مثنوی رومی والے لکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دفعہ جنگل سے گذر رہے تھے کہ اُنہوں نے ایک گڈریے کو دیکھا جو مزے لے لے کر کہہ رہا تھا کہ خدایا! اگر تُو مجھے مل جائے تو میں تجھے بکری کا تازہ تازہ دودھ پلائوں، تیری جوئیں نکالوں، تجھے مَل مَل کر نہلائوں، تیرے پائوں میں کانٹے چُبھ جائیں تو میں نکالوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ باتیں سنیں تو انہوں نے اُسے سونٹا مارا اور کہا۔ نالائق! تُوخدا تعالیٰ کی گستاخی کرتا ہے۔ اُسی وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کو الہام ہوا کہ اے موسیٰ! اِس بندے کو تو میری کسی کتاب یا الہام کا پتہ نہ تھا اسے کیا خبر تھی کہ میری کیا شان ہے یہ تو جذبۂ محبت میں سرشارہو کر مجھ سے باتیں کر رہا تھا تیرا کیا بِگڑتا تھا اگر یہ اسی طرح مجھ سے باتیں کرتا رہتا۔ تو دنیا میں ایسے انسان بھی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کا عام انسانوں پر قیاس کر لیتے ہیں اور جب اُنہیں محبت کا جوش اُٹھتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا مل جائے تو ہم اُس کی خدمت کریں حالانکہ خدا تعالیٰ خدمت سے بالا ہستی ہے لیکن بہرحال یہ ایک وارفتکی کی کیفیت ہے اور اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ کہنے والا خدا تعالیٰ کے تجسّم کا قائل ہے۔ لیکن بعض پڑھے لکھے ایسے بھی ہوتے ہیں جو الفاظ پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ظاہری ہاتھ اور اُس کی آنکھ سے ظاہری آنکھ مراد لے لیتے ہیں۔
فلسفی مزاج لوگوں کا حدود سے تجاوز
اس کے مقابلہ میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کے اندر محبت کا جوش نہیں
ہوتا بلکہ فلسفہ اُن کے اندر جوش مار رہا ہوتا ہے۔ وہ جب سنتے ہیں کہ ایک شخص کہتا ہے خدا کی آنکھیں ہیں اور دوسرا کہتا ہے اِس سے آنکھیں مراد نہیں بلکہ فلاں چیز مراد ہے یا خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ظاہری ہاتھ مراد نہیں بلکہ طاقت و قوت مراد ہے تو وہ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ سارا قرآن ہی استعارہ ہے۔ ایسے لوگوں کو جب کہا جاتا ہے کہ قرآن کہتا ہے نماز پڑھو تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نماز پڑھی جائے بلکہ یہ ہے کہ خدا سے محبت پیدا کی جائے۔ اسی طرح جب قرآن کہتا ہے روزے رکھو تو وہ کہتے ہیں اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بھوکے رہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ حرام خوری نہ کرو۔ اسی طرح جب حج کا ذکر آتا ہے تو وہ کہتے ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ خواہ مخواہ مکّے جائو بلکہ اس حُکم کا مقصد یہ ہے کہ جہاں بھی قومی ضروریات اجتماع چاہتی ہوں وہاں انسان چلا جائے۔ خواہ علیگڑھ چلا جائے یا کسی اور جگہ۔ حتیّٰ کہ بعض نے تو اِس حد تک استعارات کو بڑھایا ہے کہ میں نے ایک تفسیر دیکھی جس میں تمام قرآن کو استعارہ اور مجاز ہی قرار دیا گیا ہے۔ اگر کسی جگہ موسیٰ کا نام آیا ہے تو اِس کے کچھ اور ہی معنی لئے ہیں اور اگر آدم کا لفظ آیا ہے تو اِس کے بھی کچھ اور معنی لئے گئے ہیں۔ ایسا آدمی بالکل سَوفسطائی بن جاتا ہے اور اِس کی مثال اُس شخص کی سی ہو جاتی ہے جو بادشاہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بادشاہ سلامت! ہر چیز وہم ہی وہم ہے۔ بادشاہ نے اُسے نیچے صحن میں کھڑا کر کے مست ہاتھی چھوڑ دیا اور احتیاطاً ایک سیڑھی بھی لگا دی تا کہ وہ اس کے حملہ سے بچ کر سیڑھی پر چڑھ جائے۔ جس وقت ہاتھی نے حملہ کیا تو وہ بھاگا اور دَوڑ کر سیڑھی پر چڑھنے لگا۔ بادشاہ کہنے لگا کہاں جاتے ہو؟ ہاتھی واتھی کوئی نہیں یہ تو وہم ہی وہم ہے۔ وہ بھی کچھ کم چالاک نہ تھا کہنے لگا بادشاہ سلامت! کون بھاگ رہا ہے یہ بھی تو وہم ہی ہے۔ تو بعض لوگ استعارہ کو اس حد تک لے جاتے ہیں کہ کوئی کلام بغیر استعارہ پر محمول کئے نہیں چھوڑتے۔ ایسے لوگوں کے نزدیک خدا ایک طاقت کا نام ہے۔ فرشتے اخلاق کا نام ہیں۔ جنت اور دوزخ قومی ترقی اور تنزّل کے نام ہیں اور اُن کے نزدیک یہ سب عبادتیں نَعُوْذُ بِاللّٰہِ لوگوں کو بہلانے کیلئے رکھی گئی ہیں۔
عیسائیوں کی مذہبی کیفیت
بعض قوموں میں ایک ہی وقت میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں یعنی بعض باتوں کے متعلق تو وہ یہ کہتی ہیں
کہ یہ استعارے ہیں اور بعض باتوں کے متعلق کہتی ہیں کہ یہ استعارے نہیں۔ اور بعض ایسی قومیں ہیں جن کا اگر استعارہ میں فائدہ ہو تو استعارہ مراد لے لیتی ہیں اور حقیقت میں فائدہ ہو تو حقیقت مراد لے لیتی ہیں۔ عیسائی اِسی قسم کے شُتر مُرغ ہیں۔ اُنہیں جس چیز میں فائدہ نظر آتا ہے وہ اختیار کر لیتے ہیں۔ حضرت مسیحؑ نے اپنے متعلق کہا کہ مَیں خدا کا بیٹا ہوں۔ یہ ایک استعارہ تھا مگر عیسائیوں نے اسے حقیقت قرار دے کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ حضرت عیسیٰ سچ مُچ خدا کے بیٹے تھے مگر جب مسیح نے روزے رکھنے اور عبادت کرنے کا حُکم دیا تو کہہ دیا کہ یہ استعارہ ہے۔ گویا جس میں اپنا فائدہ دیکھا وہی رَوش خود اختیار کر لی۔ جیسے کہتے ہیں کوئی پوربن تھی جس کا خاوند مر گیا۔ پوربن نے رونا پیٹنا شروع کر دیا اور اپنی بے کسی ظاہر کرنے کیلئے کہنے لگی۔ میرے خاوند نے فلاں سے اتنے روپے وصول کرنے تھے وہ اب کون وصول کرے گا؟ ایک پوربیہ جو پاس ہی بیٹھا ہوا تھا کہنے لگا۔ ’’اری ہم ری ہم‘‘ وہ کہنے لگی فلاں جگہ اتنی زمین اور جائیداد ہے اب اُس پر کون قبضہ کرے گا؟ تو وہ پھر بولا۔ ’’اری ہم ری ہم‘‘ پھر وہ کہنے لگی اُس نے فلاں کاسَو روپیہ دینا تھا وہ کون دے گا؟ تو وہ کہنے لگا۔ ارے بھئی! میں ہی بولتا جائوں یا برادری میں سے کوئی اور بھی بولے گا۔ تو عیسائیوں نے اپنا مذہب ایسا ہی بنایا ہوا ہے۔ جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ کہتے ہیں کہ مَیں خدا کا بیٹا ہوں وہاں کہتے ہیں بالکل ٹھیک۔ مگر جب وہ کہتے ہیں کہ بُھوتوں کے نکالنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ روزے رکھے جائیں تو وہ کہہ دیتے ہیں یہ استعارہ ہے۔
استعارات کی ضرورت
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب استعارات میں اس قدر خطرے ہیں تو الہامی کتابوں نے اسے استعمال کیوں کیا؟
کیونکہ خرابیاں یا تو استعارہ کو محدود کر دینے سے پیدا ہوتی ہیں یا اسے وسیع کر دینے سے۔ اگر استعارہ رکھا ہی نہ جاتا تو اس میں کیا حرج تھا؟
اِس کا جواب یہ ہے کہ استعارہ کی کئی ضرورتیں ہیں۔
اوّل اس کی ضرورت اختصار ہے۔ تشبیہہ اور استعارہ میں جس قدر اختصار پیدا ہو سکتا ہے وہ اور کسی طریق سے نہیں ہو سکتا۔ اس طرح لمبے لمبے مضامین بعض دفعہ صرف ایک فقرہ میں آ جاتے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ وہ فَالِقُ الْاَصْبَاحِ ۷؎ یعنی صُبحوں کا پھاڑنے والا ہے۔ اِس جگہ اَصْبَاح جمع کا لفظ رکھا ہے اور پھر اس کے ساتھ فَالِق کا لفظ رکھا ہے اور گو بظاہر یہ دو لفظ نظر آتے ہیں لیکن اِس مضمون کو اگر دیکھیں جو اِس میں بیان کیا گیا ہے تو وہ بہت لمبا ہے۔ یعنی دنیا میں قسم قسم کی تاریکیاں ہوتی ہیں اور ان تمام تاریکیوں کو دُور کرنے کے کچھ ذرائع ہوتے ہیں جن کی آخری کڑی خدا ہے۔ جب وہ کڑی تیار ہو جاتی ہے تو تاریکی دُور ہو جاتی ہے اور فلقِ صبح ہو جاتا ہے۔ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ لوگ بیمار ہوتے ہیں اور ڈاکٹر اُن کا علاج کرتے ہیں مگر کیا ان کے علاج سے سارے مریض اچھے ہو جاتے ہیں؟ یقینا تمام قسم کا علاج کرنے کے باوجود بعض مریضوں پر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب ڈاکٹر کہہ دیتا ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہی حال ہر پیشے کا ہے۔ وکیل کو لے لو تو اُسے وکالت میں، انجنیئر کو لے لو تو اسے انجنیئرنگ میں ایک جگہ پہنچ کر رستہ بالکل بند نظر آتا ہے۔ اور سوائے اِس کے اور کوئی صورت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ اُس کی غیب سے مدد کرے۔ پس ایسی حالت میں سوائے خدا کے اور کوئی مصیبت دُور نہیں کر سکتا۔ اور اسی کو فَالِقُ الْاَصْبَاح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے لیکن اگر خالی یہ کہا جاتا کہ اللہ مشکلات کو دور کرنے والا ہے تو اس سے وہ مضمون ادا نہ ہوتا جو فَالِقُ اْلاَصْبَاح کے الفاظ میں ادا ہوا ہے اور جو رات اور صبح کی کیفیت سے پیدا ہوتا ہے پس اس استعارہ نے لمبے مضامین کو نہایت مختصر الفاظ میں ادا کر دیا۔
دوسرے استعارہ سے وُسعتِ نظر پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہودیوں کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں بندر اور سؤر بنا دیا۔ اب اگر قرآن کریم یہ کہتا کہ ہم نے انہیں بے حیا بنا دیا تو ان الفاظ میں اس مضمون کا ہزارواں حصہ بھی ادا نہ ہوتا جو قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ میں ادا ہوا ہے۔ کیونکہ قِرَدَہً اور خَنَازِیْر کی بیسیوں خصوصیتیں ہیں کوئی ایک خصوصیت نہیں۔ مثلا بے حیائی بھی ایک خصوصیت ہے۔ گندگی بھی ایک خصوصیت ہے۔ خنزیر نہایت ہی گندہ ہوتا ہے اور یہودی بھی حد درجہ غلیظ ہوتے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ جہاز کا سفر کیا تو کچھ یہودی بھی اس جہاز میں سوار ہوگئے۔ میں نے اُنہیںدیکھا تو وہ اتنے گندے تھے کہ گویا چوہڑے ہیں۔ مگر جب بمبئی جہاز پہنچا تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ نہایت زرق برق لباس پہنے بیٹھے ہیں۔ میں کچھ حیران سا ہوا کہ یہ کہاں سے آ گئے مگر پھر معلوم ہوا کہ یہ وہی یہودی ہیں جو سارے سفر میں ساتھ رہے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے جو قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو اِسی لئے کہ بتائے کہ بندر اور سؤر میں جو خصوصیتیں پائی جاتی ہیں وہ سب ان میں پائی جاتی ہیں۔ اگر صرف اتنا کہہ دیتا کہ یہودی گندے اور بدکار ہیں تو وہ مضمون ادا نہ ہو سکتا۔ غرض قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ سے مضمون کو حیرت انگیز وُسعت ہوئی ہے حتیّٰ کہ قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کی بعض خصوصیات آج معلوم ہو رہی ہیں اور وہ خصوصیات بھی یہودی قوم میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً بندر میں نقّالی کا مادہ ہوتاہے اور یہودیوں میں بھی نقل کا مادہ کمال درجہ پر پہنچا ہوا ہے۔ پس یہودیوں کے متعلق بتایا کہ وہ صرف بدکار ہی نہیں بلکہ نقّال بھی ہیں۔ اسی طرح بندر پانی سے ڈرتا ہے۔ یہود بھی ہمیشہ خشکی میں رہتے ہیں سمندر میں سفر نہیں کرتے۔ اسی طرح درجن سے زیادہ خصوصیات ایسی ہیں جو یہود میں پائی جاتی ہیں مگر وہ سب قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ کے اندر خدا تعالیٰ نے بیان کر دیں۔ اگر قِرَدَۃً اور خَنَازِیْر کے الفاظ اللہ تعالیٰ استعمال نہ کرتا اور الگ الگ ان کی خصوصیات بیان کرتا تو اِس کے لئے ایک مکمل سورۃ چاہئے تھی۔ اب رہے خَنَازِیْر- تو خَنَازِیْر میں بھی کئی عیب ہیں۔ مثلاً ایک عیب تو یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سیدھا جاتا ہے رستہ نہیں بدلتا حتیّٰ کہ حملہ بھی کرتا ہے تو سیدھا کرتا ہے۔ یہود میں بھی یہ عیب پایا جاتا ہے وہ بھی اپنی زندگی کے شعبے تبدیل نہیں کر سکتے۔ اسی طرح خَنْزِیْر میں گندگی پائی جاتی ہے اور یہود بھی حد درجہ گندے ہوتے ہیں۔ پھر بعض امراض بھی خَنْزِیْر میں ہوتی ہیں جو یہودیوں میں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں مگر میں اُن کا ذکر نہیں کرتا۔
تیسرے تشبیہہ اور استعارہ کی ضرورت تبعید کیلئے ہوتی ہے یعنی مضمون کو اُونچا کر دینا اور نظر کو وسیع کر دینا استعارہ کا مقصود ہوتا ہے۔ مثلاً یہ استعارہ تھا کہ خواب میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھائیوںکو سورج، چاند اور ستاروں کی صورت میں دیکھا۔ اب خالی بھائی کہہ دینے سے وہ مضمون ادا نہ ہوتا جو ستاروں میں ادا ہوا ہے یا جیسے سورج اور چاند کے الفاظ میں ادا ہوا ہے کیونکہ سورج، چاند اور ستارے ایک وسیع مضمون رکھتے ہیں۔ مثلاً یہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بتا دیا تھا کہ تیرے بھائی باوجود اِس کے کہ اِس وقت تیرے مخالف ہیں اور ان کی عملی حالت اچھی نہیں اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں سے دنیا کی ایسی ہی راہنمائی کرے گا جس طرح ستارے راہنمائی کرتے ہیں۔ اب یہ ایک وسیع مضمون تھا جو بھائی کہہ کر ادا نہیں ہو سکتا تھا مگر ستارے کہہ کر ادا ہو گیا۔
چوتھے تقریبِ مضمون کیلئے بھی استعارہ ضروری ہوتا ہے۔ یعنی بعض دفعہ مضمون اتنا وسیع ہوتا ہے کہ انسان اُسے سمجھ نہیں سکتا جب تک کسی خاص طریق سے اُسے ذہن کے قریب نہ کر دیں۔ مثلاً جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بڑی محبت کرتا ہے تو اس پر بچہ پوچھتا ہے کہ کتنی محبت کرتا ہے؟ تو اگر ہم اُسے کہہ دیں کہ ماں سے بھی زیادہ تو وہ فوراً بات سمجھ جائے گا۔ حالانکہ ماں کی محبت اور خدا تعالیٰ کی محبت میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ اسی لئے بعض مذاہب نے یہ کہہ دیا ہے کہ خدا ماں ہے، خدا باپ ہے۔ کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی محبت کو سمجھ ہی نہیں سکتا تھا جب تک استعارہ کے رنگ میں اسے ادا نہ کیا جائے۔ تو استعارہ اور تشبیہہ نہایت ضروری چیز ہے اور کلام کا ویسا ہی اہم جزو ہے جیسے اور الفاظ اور اسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں وُسعتِ مضمون ہوگی اور جہاں تھوڑے الفاظ میں مضامین کا ادا کرنا ناممکن ہوگا وہاں استعارہ ہی استعمال کرنا پڑے گا۔ بلکہ خود الفاظ بھی ایک قسم کا استعارہ ہی ہیں۔ مثلاً جب ہم گھوڑا کہتے ہیں تو یہ خود ایک استعارہ ہوتا ہے۔ ورنہ گ ھ و ڑ اور الف کا گھوڑے سے کیا تعلق ہے؟پس یہ ایک تشبیہہ اور استعارہ ہے جو انسانی کلام میں تجویز کیا گیا۔ ورنہ اگر گھوڑے کی تشریح کی جاتی تو بڑی مشکل پیش آ جاتی۔ جیسے مشہور ہے کہ کوئی حافظ صاحب تھے جنہوں نے کبھی کھِیر نہیں کھائی تھی۔ ایک دن کسی نے اُن کی دعوت کی اور شاگرد نے آکر بتایا کہ آج اُس نے کھِیر پکائی ہے۔ وہ کہنے لگے کھِیر کیا کھانا ہوتا ہے؟ اُس نے بتایا کہ میٹھا میٹھا اور سفید سفید ہوتا ہے۔ اب حافظ صاحب نے چونکہ رنگ بھی کبھی نہ دیکھے تھے اس لئے انہوں نے پوچھا کہ سفید رنگ کس طرح کا ہوتا ہے؟ شاگرد کہنے لگا بگلے کی طرح ہوتا ہے۔ حافظ صاحب پوچھنے لگے بگلا کس طرح کا ہوتا ہے؟ اس پر شاگرد نے ہاتھ کی شکل بگلے کی طرح بنائی اور اُس پر حافظ صاحب کا ہاتھ پھیر دیا۔ حافظ صاحب نے فوراً شور مچا دیا اور کہنے لگے جائو جائو میں ایسی دعوت میں شریک نہیں ہو سکتا۔ یہ کھِیر تو میرے گلے میں اٹک کر مجھے مار ڈالے گی۔ یہ ہے تو ایک لطیفہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ بگلے سے فلاں چیز مراد ہے، گھوڑے سے فلاں چیز مراد اور گدھے سے فلاں چیز تو کوئی گھوڑے کو گدھا سمجھے گا اور بھینس کو گھوڑا۔ پس استعارہ انسانی کلام کا ایک ضروری جزو ہے اور اسے کسی صورت میں بھی ترک نہیں کیاجا سکتا۔
استعاروں کے بغیر بعض مضامین ادا ہی نہیں ہو سکتے
حقیقت یہ ہے کہ استعارہ کے صحیح
استعمال کے بغیر مضمون صحیح طور پر ادا ہی نہیں ہو سکتا۔ مثلاً عام طور پر جب کسی شخص سے کوئی حماقت کا کام سرزد ہو تو اُسے گدھا کہہ دیا جاتا ہے۔ یا کوئی بہادر شخص ہو تو اُس کے متعلق ہم شیر کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں۔ اب اگر ہم شیر کا لفظ استعمال نہ کریں اور خالی بہادر کہہ دیں تو جو شخص استعارہ کو سمجھنے کی طاقت رکھتا ہے وہ بہادر کے لفظ سے کبھی وہ مفہوم نہیں سمجھ سکتا جو شیر کے لفظ سے سمجھ سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کوئی استعارہ غلط استعمال کر دے۔ مثلاً گدھا ہے گدھا ہمیشہ بے موقع کام کرنے والا ہوتا ہے۔ راہ چلتے ہوئے باقی جانوروں کو ہٹائو تو وہ ایک طرف ہو جائیں گے مگر گدھے کو ہٹائو تو وہ ٹیڑھا کھڑا ہو جائے گا اور رستہ روک لے گا۔ اب اگر ہم کسی کو بیوقوف کہیں تو اِس بیوقوف کے لفظ سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ وہ بے موقع کام کرتا ہے لیکن گدھے کا لفظ استعمال کرنے سے فوراً دوسرا شخص سمجھ جائے گا کہ یہ بے موقع کام کرتا ہے۔ اسی طرح گدھے سے بوجھ اُٹھانے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں اِسی وجہ سے علمائے یہود کی مذمّت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اُن کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اب جو لوگ اِس نکتہ کو سمجھتے ہیں کہ کسی کو گدھا کہنے سے ایک مقصد اس امر کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ وہ بدعمل ہے وہ فوراً سمجھ جائیں گے کہ جسے گدھا کہا گیا ہے وہ نہ صرف بے موقع کام کرتا ہے بلکہ بے عمل بھی ہے۔ لیکن خالی احمق یا بیوقوف کا لفظ کہنے سے یہ مضمون ادا نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو مضمون کسی کو شیر کہنے سے ادا ہوتا ہے وہ خالی بہادر کہنے سے ادا نہیں ہوتا۔ کیونکہ شیر کی خوبی یہ ہے کہ وہ بِلاوجہ حملہ نہیں کرتا۔ دوسرے وہ زیر دست سے چشم پوشی کرتا ہے۔ اگر شیر کے آگے لیٹ جائیں تو وہ حملہ نہیں کرتا سوائے اِس کے کہ اُس کے منہ کو خون لگ چکا ہو۔ یہ خوبی شیر میں یہاں تک دیکھی گئی ہے کہ بعض جگہ چھوٹے بچے لیٹے ہوئے تھے کہ اتفاقاً وہاں شیر آ گیا۔ ایسی حالت میں بجائے اُن پر حملہ کرنے کے وہ اُنہیں چاٹنے لگ گیا۔ اسی طرح اس میں خوف بالکل نہیں ہوتا۔ یہ خصوصیات ہیں جو شیر میں پائی جاتی ہیں۔ اب اگر ہم کسی کے متعلق محض بہادر کا لفظ استعمال کریں تو گو اِس سے اُس کی جرأت اور دلیری کا اظہار ہو جائے گا مگر یہ اظہار نہیں ہو گا کہ وہ بِلاوجہ حملہ نہیں کرتا۔ وہ زیرِدست سے چشم پوشی کرتا ہے اور ڈر اور خوف اس میں بالکل نہیں۔ تیسرے اس میں ہیبت ہوتی ہے۔ یہ خصوصیت بھی ایسی ہے جو شیر میں ہی پائی جاتی ہے کہ اس میں خداتعالیٰ نے ایسی ہیبت پیدا کردی ہے کہ حملہ سے نہیں بلکہ اُس کی شکل سے ہی دوسرے کو ڈر لگنے جاتا ہے۔
غرض استعارہ مضمون میں وُسعت پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ اِس کا ثبوت کہ یہ ضروری چیز ہے یہ ہے کہ رؤیا میں نوّے فیصدی استعارات سے کام لیا جاتا ہے۔ انسان دیکھتا ہے کہ میں بینگن کھا رہا ہوں اور اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اُسے کوئی غم پہنچے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ فلاں عزیز مر گیا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو گی۔ وہ دیکھتا ہے کہ اپنے بچے کو ذبح کر رہا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اسے دین کیلئے وقف کر دے گا۔ وہ دیکھتا ہے کہ میں بکرا ذبح کر رہا ہوں اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کا کوئی بچہ مر جائے گا۔ میں اِس بحث میں اِس وقت نہیں پڑتا کہ رؤیا خداتعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہیں یا دماغی کیفیت کا ایک نتیجہ ہیں۔ لیکن بہرحال اگر رؤیاایک دماغی کیفیت ہے تب بھی سب دماغوںنے متفقہ طور پر فیصلہ کردیا ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیں۔ اور اگر رؤیا خداتعالیٰ کی طرف سے دکھائی جاتی ہے تب بھی خداتعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیں۔ پس بنی نوع انسان اور خداتعالیٰ کی متفقہ شہادت اس امر پر ہے کہ استعارہ کے بغیر گذارہ نہیںہو سکتا۔ باقی رہے خطرات سو میں انہیں تسلیم کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ استعاروں کو نہ سمجھ کر ہی عیسائی گمراہ ہو گئے۔ کہیں انہوں نے حضرت عیسیٰ کو خدا قرار دے لیا تو کہیں شریعت کو *** قرار دے دیا۔ لیکن اگر کوئی ذریعہ ایسا ہو جس سے یہ خطرات دُور کئے جا سکیں تو اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو کلام ان خطرات کا ازالہ کر دے وہ بہترین کلام سمجھا جائے گا۔ (میں اِس وقت انسانی کلام پر گفتگو نہیں کر رہا بلکہ الہامی کتابوں کا ذکر کر رہا ہوں)
غلط فہمیاں دُور کرنے کے ذرائع
پہلی الہامی کتابوں نے بے شک استعارے استعمال کئے ہیں مگر ان کے خطرات کو دُور
کرنے کیلئے بعد میں نبی آتے رہے۔ اور جب بھی لوگوں کو کوئی غلطی لگی‘آنے والے نبیوں کے ذریعہ اس کا ازالہ ہوتا رہا۔ لیکن اِن استعارات کو سمجھنے کے لئے ان میں اندرونی شہادت موجود نہیں ہوتی تھی۔ مثلاً انجیل میں حضرت مسیح کو ابن اللہ کہا گیا ہے مگر اِس استعارہ کو حل کرنے کیلئے اندرونی شہادت اس میں موجود نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ یہ ایک عارضی تعلیم ہے جب اس کے ذریعہ لوگوں کو دھوکا لگا تو پھر ایک مکمل شریعت اُتاری جائے گی جیسے گورنمنٹیں جب عارضی طور پر پُل بناتی ہیں تو ایسے سامان سے بناتی ہیں جو تھوڑے عرصہ تک کام دے سکے۔ زیادہ پائیدار اور پختہ سامان نہیں لگاتیں۔ اِسی طرح پہلی تعلیمیں چونکہ عارضی تھیں اور اللہ تعالیٰ اُن کو منسوخ کر کے ایک کامل تعلیم اُتارنے کا ارادہ کر چکا تھا اِس لئے ان کتب میں اندرونی شہادت نہ رکھی صرف بیرونی شہادت سے خطرات کا ازالہ کرتا رہا۔ اس لئے جب بیرونی شہادت بند ہو گئی تو سابقہ الہامی کتب بھی منسوخ کر دی گئیں۔ لیکن قرآن کریم چونکہ ابدی ہدایت نامہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِس قسم کے خطرات کے ازالہ کیلئے دو صورتیں رکھی ہیں۔ اوّل بعثت مامورین۔ دوم اندورنی شہادت۔ تاکہ کسی وقت بھی ایسی غلطیاں مسلمانوں میں پیدا نہ ہوں جو سب کو گمراہ کر دیں۔ پہلی کتب کے ساتھ چونکہ یہ حفاظت کے اسباب نہیں تھے اس لئے ان کے بعض مضامین سے لوگوں کو ٹھوکر لگی اور بعض مضامین کو وہ سمجھ ہی نہ سکے۔ مثلاً بائیبل کی کئی آیات ان ہدایات پر مشتمل ہیں کہ اگر کپڑے کو کوڑھ ہو جائے تو تم کیا کرو۔ ۸؎
اب یہ امر کہ کپڑے کو کوڑھ کس طرح ہو سکتا ہے انسانی عقل سے بالا ہے۔ ڈاکٹر بھی اس بات سے ناواقف ہیں مگر بائیبل کی کتاب گِنتی میں باقاعدہ کپڑوں کے کوڑھ کی قسمیں بیان کی گئی ہیں اور پھر اِس کوڑھ کا علاج بتایا گیا ہے۔ اب یقینا یہ کوئی استعارہ ہو گا۔ مثلاً ممکن ہے کپڑوں سے مراد دل ہوں اور کپڑے کے کوڑھ سے مراد دل کی گندگی ہو۔ جیسے قرآن کریم میں بھی آتا ہے۔ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ ۹؎ لیکن چونکہ اندرونی شہادت اِس میں موجود نہیں اور نبی آنے بند ہو گئے اس لئے اب انسان ان باتوں کو پڑھتا اور ہنستا ہے۔ گزشتہ دِنوں ایک جرمن اُستانی مَیں نے اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینے کیلئے رکھی۔ اُسے انگریزی کم آتی تھی میں نے سمجھا اُسے انگریزی نہیں آتی تو اس سے جرمن زبان ہی سیکھ لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ کچھ عرصہ پڑھاتی رہی۔ ایک دن ایک شخص میرے پاس آیا اور میں نے اُسے تبلیغ کی تو وہ کہنے لگی۔ ہر کتاب میں ہدایت کی باتیں ہیں۔ تو ریت میں بھی بڑی بڑی کام کی باتیں ہیں پھر قرآن کو ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا ہدایت ہونے پر تو کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض تو اس امر پر ہے کہ اس میں بعض ایسی باتیں بھی پائی جاتی ہیں جو لغو ہیں۔ چنانچہ میں نے کہا کیا کپڑے کو بھی کوڑھ ہو سکتا ہے ؟اُس نے کہا نہیں۔ میں نے کہا بائیبل میں یہ لکھاہے چنانچہ بائیبل منگوا کر اُس کے سامنے رکھی گئی اور وہ باب نکال کر اُسے دکھایا گیا۔ وہ سارا دن سر ڈالے بار بار اُسے پڑھتی اور سوچتی رہی۔ آخر مجھے کہنے لگی یہ بات میری عقل سے باہر ہے۔ مَیں کسی پادری کو اِس کے متعلق لکھوں گی اور جو جواب اِس کاآئے گا وہ میں آپ کو بتاؤں گی۔ میں نے کہا۔ پادری بھی اِس کا مطلب کچھ نہیں بتا سکتا مگر خیر اُس نے ایک پادری کو خط لکھ دیا۔ کوئی دو مہینے کے بعد اُس کا جواب آیا مگر وہ بھی اُس نے خود نہیں لکھا بلکہ اُس کی کسی سہیلی سے لکھوایا۔ اور جواب یہ تھا کہ اگر سچ مچ تمہیں اسلام پسند آ جائے تو اسے اختیار کر لو ورنہ قومی مذہب ہی اچھا ہوتا ہے اور اِس قسم کی باتیں جو بائیبل میں آتی ہیں یہ ہر ایک کو سمجھانے والی نہیں ہوتیں۔ تو اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک استعارہ تھا مگر چونکہ اندرونی شہادت موجود نہیں اور اِس کی تشریح کیلئے جو نبی آیا کرتے تھے اُن کا سلسلہ بند ہو گیا اس لئے لوگوں کے لئے ان باتوں کا سمجھنا بڑا مشکل ہو گیا۔ لیکن قرآن نے اپنے استعارات کے حل کے متعلق دونوں شہادتیں رکھی ہیں یعنی اندرونی بھی اور بیرونی بھی۔ پس پہلی کتب اور قرآن کریم میں یہ فرق ہے کہ گو تشبیہہ اور استعارہ دونوں کتب میں استعمال ہوئے ہیں مگر پہلی کتب سے جو غلطی پیدا ہو جاتی تھی وہ ان کتب سے دُور نہیں ہو سکتی تھی مگر قرآن کریم کی کسی بات سے اگر کوئی غلطی لگے تو وہ قرآن سے ہی دُور ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے استعاروںکو کوئی حقیقت نہیں بنا سکتا اور نہ حقیقت کو استعارہ بنا سکتا ہے۔ مَیں یہ مانتا ہوں کہ اِس امر کا امکان ہے کہ کسی وقت مسلمان غلط فہمی سے لاکھ دو لاکھ یا چار لاکھ کی تعداد میں بِگڑ جائیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ سارے بِگڑ جائیں حالانکہ عیسائی سب کے سب بِگڑ گئے۔
قرآن کریم اپنے استعاروں کو آپ حل کرتا ہے
چنانچہ یہ دعویٰ جو مَیں نے کیا ہے کہ
قرآن کریم اپنے استعارات کو آپ حل کرتا ہے اِس کو قرآن کریم نے خود پیش کیا ہے۔ وہ فرماتا ہے ھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَاتَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَائَ الْفِتْنَۃِ وَابْتِغَائَ تَاْوِیْلِہٖ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ اِلاَّ اللّٰہُ وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّابِہِ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا یَذَّکَّرُ اِلاَّ اَوْلُوالْاَلْبَابِo ۱۰؎ فرماتا ہے قرآن کے جو مضامین ہیں ان میں سے کچھ تومُحکم ہیں یعنی ان میں استعارہ استعمال نہیں ہوا مگر کچھ آیتیں ایسی ہیں جن میں استعارے استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی الفاظ تو ہیں مگر ان میں تشابہ ہے۔ مثلاً انسان کو بندر اور سؤر کہہ دیا گیا ہے۔ فرماتا ہے وہ لوگ جو کجی چاہتے ہیں وہ استعاروں والی آیات کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہی حقیقت ہے۔ اگر یہود کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ خداتعالیٰ نے انہیں بندر بنا دیا تو وہ کہتے ہیں کہ واقعہ میں انسانی شکل مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا تھا۔ اور اگر یہ آئے کہ انہیں سؤر بنا دیا گیا تھا تو وہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ واقعہ میں وہ سؤر بن گئے تھے۔ اگر یہ ذکر آئے کہ خدا عرش پر بیٹھا ہے تو یہ کہنے لگ جائیں گے کہ اس کے واقعہ میں گُھٹنے ہیں اور وہ کسی تخت پر بیٹھا ہے اور اس سے غرض ان کی یہ ہوتی ہے کہ وہ فتنہ پیدا کریں۔ وَابْتِغَائَ تَاْوِیْلِہٖ اور حقیقت سے پھِرانے کیلئے وہ ایسا کرتے ہیں۔ تاویل کے معنی پھِرانے کے ہوتے ہیں چاہے حقیقت سے دُور لے جانے کے معنوں میں ہو یا حقیقت کی طرف لے جانے کے معنوں میں ہو مگر یہاں وَابْتِغَائَ تَاْوِیْلِہٖ کے معنی حقیقت سے دُور لے جانے کے ہیں۔ یعنی استعارے کو وہ حقیقت قرار دے کر لوگوں کو اصل معنوں سے دُورلے جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ استعارہ ہوتا ہے اور استعارہ کی وجہ سے اس کا مفہوم خدا ہی بیان کر سکتا ہے جو عالم الغیب ہے۔ تم خود کس طرح سمجھ سکتے ہو۔ اگر کہو کہ پھر ہمیں استعاروں کے مفہوم کا کس طرح پتہ لگے؟ تو فرمایا وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ ہم نے اِن کا مفہوم قرآن میں بیان کر دیا جو سمجھنے والے ہیں اُن کے سامنے جب دونوں آیات آتی ہیں وہ بھی جن میں استعارہ ہوتا ہے اور وہ بھی جن میں حقیقت ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کُلٌّ مِّنْ عِنْدِرَبِّنَا۔ وہ آیت بھی خدا کی طرف سے ہے جو استعارے والی ہے اور وہ آیت بھی اس کی طرف سے ہے جو اسے حل کرنے والی ہے اور ناممکن ہے کہ ان دونوں میں اختلاف ہو۔ مثلاً اگر ہم کہیں کہ زید گدھا ہے اور پھر کہیں کہ زید نے فلاں کتاب نقل کر کے دی ہے تو اِس صورت میں اگر کوئی دوسرا اس استعارے کو حقیقت قرار دیتے ہوئے سوال کرے کہ کیا زید چوپایہ ہے؟ تو اُسے دوسرے فقرہ کو جس میں اُس کی طرف کتاب کا نقل کرنا منسوب کیا گیا ہے جھٹلانا پڑے گا۔ لیکن اگر ہم کہہ دیں کہ دونوں فقرے صحیح ہیں تو لازماً استعارہ کو استعارہ کے معنوں میں لانا پڑے گا اور حقیقت کو حقیقت کے معنوں میں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یہ کہتے ہیں کہ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِرَبِّنَا۔ یعنی اے بھلے مانسو! جو استعارے کو حقیقت قرار دیتے ہو کیا تم اس امر کو نہیں جانتے کہ جب تم استعارہ کو حقیقت قرار دو گے تو قرآن کریم کی بعض آیات جھوٹی ہو جائیں گی اور وہ سچی ثابت نہیں ہو سکتیں جب تک استعارہ کو استعارہ کی حد میں نہ رکھا جائے۔ حالانکہ وہ دونوں خدا کی طرف سے ہیں اور دونوں سچی ہیں اور جب دونوں باتیں سچی ہیں تو لازماً ماننا پڑے گا کہ ان میں سے ایک حقیقت ہے اور ایک استعارہ۔ وَمَایَذَّکَّرُاِلاَّاُولُوالْاَلْبَابِ- مگر یہ فائدہ عقلمند لوگ ہی اُٹھاتے ہیں۔
حضرت مسیحؑ کا معجزہ احیائے موتی
اِس ضمن میں کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر ایک موٹی مثال احیائے موتی کی ہے۔
قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مُردے زندہ کیا کرتے تھے اور دوسری طرف قرآن میں ہی لکھا ہے کہ مُردے کی روح اِس جہان میں واپس نہیں آتی۔ اب اگر ہم مُردوں کو زندہ کرنے سے حقیقی مُردوں کا اِحیاء مُراد لیں تو ان میں سے ایک آیت کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ جھوٹا ماننا پڑتا ہے۔ لیکن اگر مُردوں سے روحانی مُردے مُراد لیں تو دونوں آیتیں سچی ہو جاتی ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ مُردے زندہ کرو اور دوسری طرف کہہ دیا کہ مُردے واپس نہیں آتے۔ اس طرح جو استعارہ کا فائدہ تھا وہ بھی حاصل ہو گیا اور جو نقصان تھا وہ بھی دُور ہو گیا۔ احیائے موتی کے الفاظ استعمال کرنے سے مضمون میں جو وُسعت پیدا کرنا مدِّنظر تھا وہ وُسعت بھی پیدا ہو گئی اور جو خطرہ تھا کہ جاہل مسلمان اُنہیں خدا قرار نہ دے لیں اسے بھی دُور کر دیا۔
مجاز اور استعارہ کے بارہ میں رسول کریم ﷺ کا ارشاد
اِن معنوں کی تائید ایکحدیث سے بھی ہوتی ہے۔ عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ
نے کچھ لوگوں کے متعلق سنا کہ وہ مُحکمات و متشابہات کے بارہ میں جھگڑتے اور استعارہ اور حقیقت میں فرق نہ سمجھتے ہوئے قابلِ اعتراض باتیں کرتے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ تم سے پہلی قومیں اسی اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں حالانکہ خداتعالیٰ کی کتاب اس لئے اُتری ہے کہ اس کی ہر آیت دوسری کی تصدیق کرے۱۱؎ ۔ پس جو آیت دوسری آیت کی تصدیق نہ کرے اس کے معنی بدلنے چاہئیں اور دونوں آیات کے مضمون میں مطابقت پیدا کرنی چاہئے۔ پس کبھی قرآن کے وہ معنی نہ کرو جو اس کی کسی دوسری آیت کو جھٹلاتے ہوں۔ اگر مطلب سمجھ میں نہ آئے تو جانے دو اور کسی عالمِ قرآن سے دریافت کرو وہ تمہیں اس کا مطلب بتا دے گا۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتا دیا کہ قرآن کریم کی آیات آپس میں مخالف نہیں اگر استعارہ سمجھ میں آ جائے تو اُسے محکم آیات کے مطابق کرو اور اگر سمجھ میں نہ آئے تو کسی واقف کے پاس جائو اور اُس سے دریافت کرو کہ کیا بات ہے وہ تمہاری عُقدہ کشائی کر دے گا۔
غرض اس اصل کے ماتحت جو قرآن کریم نے بتایا ہے اور حدیث کے بھی ماتحت ہے جہاں دوسری کتب میں بعض خلافِ عقل اور خلافِ سنت باتیں پائی جاتی ہیں وہاں قرآن کریم ان باتوں سے پاک ہے کیونکہ مستعمل استعاروں کا حل قرآن میں موجود ہے۔
قرآنی استعارات کی ایک مثال
اس سلسلہ میں اگرچہ قرآن کریم کی بیسیوں باتیں بیان کی جا سکتی ہیں مگر چونکہ مَیں قرآن
کی تفسیرنہیں کر رہا اس لئے مثال کے طور پر مَیں صرف ایک امر بیان کر دیتا ہوں۔ اور وہ وہی ہے جس کا ذکر سورہ نمل کے اُس رکوع میں کیا گیا ہے جس کی آج ہی مَیں نے تقریر شروع کرنے سے قبل تلاوت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان آیات میں فرماتا ہے۔ ہم نے دائود ؑ اور سلیمان ؑ کو علم عطا کیا اور ان دونوں نے کہا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍمِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ۱۲؎ اللہ تعالیٰ ہی تمام تعریفوں کا مستحق ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے وَوَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ اور سلیمان ؑ دائود ؑ کا وارث بنا اور اس نے کہا اے لوگو! مجھے اور میرے باپ کو پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے اور ہم کو ہر ایک چیز دی گئی ہے اور ہم پر یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے۔ اور سلیمان ؑ کیلئے لشکر جمع کئے گئے۔ وہ لشکر انسانوں کے بھی تھے اور جنوں کے بھی اور پرندوں کے بھی۔ گویا ہر ایک کی الگ الگ کمپنی تھی۔ حَتّٰی اِذَا اَتَوْا عَلٰی وَادِالنَّمْلِ۔ پھر حضرت سلیمان ؑ اپنا لشکر لے کر چلے یہاں تک کہ وہ وَادِالنَّمْلِ یعنی چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے۔ ایک چیونٹی نے اُنہیں دیکھ کر کہا۔ اے چیونٹیو! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جائو ایسا نہ ہو کہ سلیمان ؑ اور اس کا لشکر غیر شعوری حالت میں تمہیں اپنے پَیروں کے نیچے مسل دیں۔ حضرت سلیمان ؑ اُس کا یہ قول سن کر ہنس پڑے اور انہوں نے کہا۔ اے میرے خدا! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کر سکوں۔ وہ نعمتیں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیں اور یہ کہ میں نیک کام کروں جن سے تو راضی ہو جائے اور مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں داخل فرما۔ پھر حضرت سلیمان ؑ نے جب پرندوں والے لشکر کی دیکھ بھال کی تو فرمایا۔ یہ کیا بات ہے کہ ہُد ہُد نظر نہیں آتا۔ میں اُسے سخت عذاب دونگا ورنہ وہ دلیل پیش کرے اور وجہ بتائے کہ کیوں غیر حاضر ہوا؟ تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ہُد ہُد آ گیا اور اُس نے کہا کہ حضور! ناراض نہ ہوں۔ میں ایسی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو علم نہیں۔ میں سبا کے ملک سے ایک یقینی خبر لایا ہوں اور وہ یہ کہ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا جو ان کی ساری قوم پر حکومت کر رہی ہے اور ہر نعمت اُسے حاصل ہے اور اُس کا ایک بڑا تخت ہے اور میں نے اُسے اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور شیطان نے اُن کے اعمال اُن کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں اور اُن کو سچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے اور اس بات پر مُصر ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کریں گے وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ تقدیر کو ظاہر کرتا ہے اور جو کچھ تم چُھپاتے اور ظاہر کرتے ہو اُسے جانتا ہے حالانکہ اللہ وہ ہے جس کے سِوا کوئی معبود نہیں اور وہ ایک بڑے تخت کا مالک ہے۔ حضرت سلیمانؑ نے کہا اچھا ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ بولا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے۔ تو میرا یہ خط لے جا اور اِسے اُن کے سامنے جا کر پیش کر دے اور پھر ادب سے پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو جا اور دیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔
اِسی قسم کا مضمون سورہ سبا رکوع۲ میں بھی آتا ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا یٰجِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ وَاَلَنَّالَہُ الْحَدِیْدَo اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۱۳؎ یعنی ہم نے دائود ؑ پر بھی بڑا فضل کیا اور اُس کے زمانہ میں ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ اے پہاڑو! اس کے ساتھ چلو اور پرندوں کو بھی حُکم دے دیا کہ اُس کے ساتھ رہیں اور اس کے لئے ہم نے لوہا نرم کر دیا اور اُسے کہا کہ اس لوہے سے زِرہیں بنائو اور ان کے حلقے چھوٹے رکھو اور نیک اعمال بجا لائو میں تمہارے کاموں سے خوب واقف ہوں۔
اسی طرح سورہ انبیاء رکوع۶ میں فرماتا ہے۔ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ وَکُنَّا فٰعِلِیْنَo وَعَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسِ لَّکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْ بَأْسِکُمْ فَھَلْ اَنْتُمْ شَاکِرُوْنَ۔ ۱۴؎ ہم نے دائود ؑ کے لئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو ہر وقت تسبیح کرتے تھے اور پرندے مسخرکر دیئے اور ہم یہ سب کچھ کرنے پر قادر تھے اور ہم نے اس کو تمہارے لئے لباس کا بنانا سکھلایا تا کہ وہ تمہیں لڑائی میں تکلیفوں سے بچائے پس کیا تم شکر گذار بنو گے؟
پھر سورہ صٓ رکوع ۲ میں آتا ہے۔ وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوٗدَ ذَا الْاَیْدِ اِنُّہٗ اَوَّابٌo اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِo وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً کُلٌّ لَّہٗ اَوَّابٌo وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰہٗ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ ۱۵؎ یعنی ہمارے بندے دائود کو یاد کرو جو بڑی طاقت کا مالک تھا اور ہماری درگاہ میں بار بار جُھکتا تھا ہم نے اُس کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے جو صبح و شام تسبیح کرتے تھے۔ اسی طرح پرندے اُس کی خاطر اکٹھے کر دیئے تھے اور وہ سب کے سب خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے تھے۔ اور ہم نے اُس کی سلطنت کو خوب مضبوط بنا دیا تھا اور اُسے حکمت دی تھی اور ایسے دلائل سکھائے تھے جو دشمن کا منہ بند کر دیں۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے قبضہ میں جِنّ بھی تھے، پرندے بھی تھے، پہاڑ بھی تھے۔ وہ چیونٹیوں کی زبان بھی جانتے تھے۔ ایک ہُدہُد بھی انہوں نے رکھا ہوا تھا جو اُن کے بڑے بڑے کام کرتا تھا۔
مفسّرین کی عجیب و غریب قیاس آرائیاں
اب جن لوگوں نے متشابہہ کو محکم سے پڑھنے کی کوشش نہیں
کی وہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان ؑ اور حضرت داؤد ؑ کے قبضے میں پہاڑ تھے۔ جِنّ تھے، پرندے تھے، حیوانات تھے اور سب مل کر حضرت دائود ؑ کے ساتھ ذکرِ الٰہی کرتے تھے۔ جب وہ کہتے سُبْحَانَ اللّٰہِ تو پہاڑ بھی اور پرندے بھی اور جِنّ بھی اور حیوانات بھی سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنے لگ جاتے۔ جیسے کشمیری واعظوں کا دستور ہے کہ لیکچر دیتے ہوئے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سَستانے کیلئے کہہ دیتے ہیں۔ پڑھو درود۔ وہ بھی گویا اِسی طرح کرتے تھے۔ جب خود ذکرِ الٰہی کرتے کرتے تھک جاتے تو کہتے ہمالیہ! پڑھو درود۔ اور وہ درود پڑھنے لگ جاتا۔ پھر جب انہیں آرام آ جاتا تو کہتے چپ کرو اَب میں خود درود پڑھتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں پہاڑوں وغیرہ کا سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا کونسی بڑی بات ہے وہ تو باقاعدہ رکوع و سجود بھی کرتے تھے۔ جب حضرت دائود سجدہ میں جاتے تو سارے پہاڑ، پرند اور چرند بھی سجدہ میں چلے جاتے اور جب وہ رکوع کرتے تو سب رکوع کرنے لگ جاتے۔ بعض کو اِس تاویل سے بھی مزا نہیں آیا وہ کہتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ حضرت دائود جہاں بھی جاتے پہاڑ آپ کے ساتھ چل پڑتے۔ حضرت دائود ؑ تو شام میں تھے اور یہ ہمالیہ، شوالکؔ اور الپسؔ سب آپ کے ساتھ ساتھ پِھرا کرتے تھے۔ اسی طرح پرندے بھی مل کر تسبیح کرتے تھے۔ اُن دِنوں چِڑیاں بھی چوں چوں نہیں کرتی تھیں، بکریاں مَیں مَیں نہیں کرتی تھیں بلکہ سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کیا کرتی تھیں۔ کوئی یہ نہ پوچھے کہ بکری کس طرح پرندہ ہوگیا؟ کیونکہ تفسیروں میں اِسی طرح لکھا ہے۔ غرض وہ عجیب زمانہ تھا۔ اسی طرح سلیمانؑ پر خدا تعالیٰ نے ایک اور مہربانی کی اور وہ یہ کہ جِنّ اُن کے حوالے کر دیئے جو اُن کے اشارے پر کام کرتے۔ جب چلتے تو پرندے اُن کے سر پر اپنے پَر پَھیلا کر سایہ کر دیتے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت دائود ؑ بڑے شکی طبیعت کے آدمی تھے۔ جب کہیں باہر جاتے تو اپنی بیویوں کو گھر میں بند کر کے جاتے۔ ایک دفعہ گھر میں آئے تو دیکھا کہ ایک جوان مضبوط آدمی اندر پھر رہا ہے۔ وہ اُسے دیکھ کر سخت خفا ہوئے اور کہنے لگے۔ تجھے شرم نہیں آتی کہ اندر آگیا ہے۔ پھر اُس سے پوچھا کہ جب مکان کے تمام دروازے بند تھے تو تو اندر کس طرح آ گیا؟ وہ کہنے لگا مَیں وہ ہوں جسے دروازوں کی ضرورت نہیں۔ آپ نے پوچھا کیا تو ملک الموت ہے؟ اُس نے کہا ہاں۔ اور یہ کہتے ہی اُس نے آپ کی جان نکال لی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب دفن کرنے لگے تو تمام پرندے اکٹھے ہوگئے اور انہوں نے آپ پر اپنے پَروں سے سایہ کیا۔
کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام تمام پرندوں کی بولیاں جانتے تھے۔ کسی نے کہا کہ کیا جانوروں کی بولیاں جانتے تھے یا نہیں؟ تو مفسّرین نے اِس کا جواب یہ دیا ہے کہ جانتے تو تھے مگر اختصار کے لحاظ سے صرف پرندوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ بارش نہ ہوئی تو لوگوں نے حضرت سلیمانؑ سے کہا چلیں اِسْتِسقاء کی نماز پڑھائیں۔ حضرت سلیمان نے کہا کہ گھبرائو نہیں بارش ہو جائے گی۔ کیونکہ ایک چیونٹی پیٹھ کے بَل کھڑی ہو کر کہہ رہی تھی کہ خدایا! اگر بارش نہ ہوئی تو ہم مر جائیں گی۔ ایک دفعہ وہ وادیٔ النمل میں سے گذرے تو چیونٹیوں کی ملکہ نے سب کو حُکم دیا کہ اپنے اپنے بِلوں میں گھس جائو۔ مگر مفسّرین نے یہیں تک اپنی تحقیق نہیں رہنے دی انہوں نے چیونٹیوں کے قبیلوں کا بھی پتہ لگایا ہے اور کہتے ہیں جس طرح انسانوں میں مغل، راجپوت اور پٹھان وغیرہ ہوتے ہیں اِسی طرح چیونٹیوں کی قومیں اور قبائل ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ علم آپ کے کام آئے گا کہ چیونٹیوں کے ایک قبیلے کا نام شیسان ہے جو مفسرین نے لکھا ہے۔ وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کی جو سردار چیونٹی تھی وہ ایک پائوں سے لنگڑی تھی اور اُس کا قد بھیڑ کے برابر تھا۔ یہ وہ واقعات ہیں جو استعارہ اور تشبیہہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مفسّرین کو گھڑنے پڑے ہیں۔ حالانکہ بات بالکل صاف تھی۔ چنانچہ مَیں باری باری ہر واقعہ کو لیتا ہوں اور سب سے پہلے میں حضرت دائودعلیہ السلام کا قصہ لیتا ہوں۔
پہاڑوں کی تسخیر سے کیا مراد ہے
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے دائود ؑ کیلئے پہاڑوں کو مسخر کر دیا جو تسبیح کرتے تھے۔ اب
ہم دیکھتے ہیں کہکیا ایسے قصوں کی ضرورت ہے؟ حضرت دائود علیہ السلام کے متعلق اگر خدا نے یہ کہا ہے کہ ہم نے اُس کیلئے پہاڑ مسخر کر دیئے تو اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَللّٰہُ الَّذِیْ سَخَّرَ لَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِیَ الْفُلْکُ فِیْہِ بِاَمْرِہٖ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ۔ وَسَخَّرَلَکُمْ مَّافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ۱۶؎ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مومنو! اور اے کافرو اور منافقو! ہم نے تم میں سے ہر ایک کیلئے سمندر مسخر کر دیئے ہیں جس میںکشتیاں اُس کے حُکم سے چلتی ہیں تا کہ تم خدا کا فضل تلاش کرو۔ اور صرف سمندر ہی نہیں آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ بھی ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے۔ اور اس میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے بڑے بڑے نشانات ہیں۔ اب اس آیت سے حضرت دائود ؑ والی آیت بالکل حل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان میں جس قدر چیزیں ہیں خواہ دریا ہیں یا پہاڑ سب انسان کیلئے مسخر ہیں۔ اب یہ عجیب بات ہے کہ پہاڑ میرے لئے بھی مسخر ہوں مگر میرے ساتھ ہمالیہ کی ایک اینٹ بھی نہ چلے اور دائود کے ساتھ پہاڑ کا پہاڑ چلنے لگ جائے۔ اگر دائود کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی ہونے چاہئیں۔ اور اگر ہمارے ساتھ نہیں ہوتے تو صاف پتہ لگ گیا کہ حضرت دائود ؑ کے ساتھ بھی ایسا نہیں ہوتاتھا۔
پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کے معنے
اب رہا سوال تسبیح کا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ قرآن میں تو لکھا ہے پہاڑ اور پرندے
حضرت دائود ؑ کے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے کیا اب بھی یہ چیزیں تسبیح کرتی ہیں؟ سو اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے سورۃ جمعہ میں دے دیا ہے۔ فرماتا ہے۔ یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِیْزِ الْحَکِیْمِ۱۷؎ یعنی سورج بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے۔ چاند بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہا ہے۔ ستارے بھی تسبیح کر رہے ہیں۔ اسی طرح مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب تسبیح کر رہے ہیں۔ یہ لیمپ بھی تسبیح کر رہا ہے۔ لائوڈ سپیکر بھی تسبیح کر رہا ہے۔ اسی طرح درخت بھی تسبیح کر رہے ہیں۔ اس کے پتے بھی تسبیح کر رہے ہیں۔ آم بھی تسبیح کر رہا ہے۔ کیلا بھی تسبیح کر رہا ہے بلکہ کیلے کا چِھلکا جس کو ہم اُتار کر پھینک دیتے ہیں وہ بھی تسبیح کر رہا ہے۔ روٹی بھی تسبیح کر رہی ہے۔ تھالی بھی تسبیح کر رہی ہے۔ جب تم چائے پیتے ہو تو تمہارے ہونٹ بھی تسبیح کر رہے ہوتے ہیں۔ چائے بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ مِصری یا کھانڈ بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ پیالی بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ پِرچ بھی تسبیح کر رہی ہوتی ہے۔ اسی طرح مکان بھی، چھت بھی، دیواریں بھی، دروازے بھی، وہ بستر جس پر تم لیٹتے ہو اُس بستر کی چادر بھی اور توشک اور رضائی بھی سب سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ رہی ہوتی ہیں اور جب ہر چیز سُبْحَانَ اللّٰہِ کہہ رہی ہے تو حضرت دائود ؑ کے لئے اگر یہی الفاظ آ جائیں تو اس کے نئے معنی کیوں بن جاتے ہیں۔ دیکھ لو وہ دونوں باتیں جو حضرت دائود ؑ کے متعلق کہی گئی تھیں ہمارے لئے بھی موجود ہیں۔ ہمارے لئے بھی خدا کہتا ہے کہ مَیں نے ہر چیز مسخر کر دی اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر چیز تسبیح کر رہی ہے۔ بلکہ حضرت دائود ؑکیلئے تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے تھے مگر ہمارے لئے تو یہ کہا گیا ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب تسبیح کرتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز یہ ثابت کر رہی ہے کہ خدا بے عیب ہے۔ چونکہ اسلام نے دنیا بھر سے عیب دُور کرنے تھے اس لئے مسلمانوں کو یہ بتایا گیا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ تسبیح کر رہا ہے لیکن حضرت دائود نے چونکہ صرف جِبال سے عیب دور کرنے تھے اور وہ ساری دنیا کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے بلکہ ایک محدود مقام کی طرف تھے اس لئے حضرت دائود ؑ کے زمانہ میں صرف جِبال نے تسبیح کی۔ لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ سارے جہان کی طرف تھے اس لئے آپ نے فرمایا۔ جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا۱۸؎ زمین کا ایک ٹکڑا بھی ایسا نہیں جو تسبیح نہیں کر رہا۔ اس لئے ہم جہاں جائیں گے وہ مسجد بن جائے گی، پس یُسَبِّحُ لِلّٰہِ والے مضمون کو دائود کے مضمون میں محدود کر کے صرف پہاڑوں تک رکھا گیا۔ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ کے لئے تھے اور حضرت دائود ؑ صرف چند جِبال کیلئے۔
باقی رہا اَوِّبِیْ مَعَہٗ کے الفاظ سے یہ استدلال کہ پہاڑ حضرت دائود ؑ کے ساتھ ان کی تسبیح میں شامل ہو جاتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل دنیا کا ذرّہ ذرّہ تسبیح میں شامل ہے۔ کوئی کہے کہ پھر حضرت دائود ؑکی خصوصیت کیا رہی؟ تو یاد رکھنا چاہئے کہ اس میں تو ان کی کوئی خصوصیت نہیں کہ پہاڑ اُن کیلئے مسخر تھے۔ کیونکہ میں قرآن کریم سے ثابت کر چکا ہوں کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے یہ سب کا سب خدا تعالیٰ نے انسان کیلئے مسخر کر دیا ہے۔ ہاں جس ملک کا خدا تعالیٰ کسی کو بادشاہ بنا دیتا ہے اُس میں اُسے عام انسانوں سے زیادہ عظمت حاصل ہوتی ہے۔ پس گو زمین و آسمان کی چیزیں حضرت دائود ؑکیلئے اسی طرح مسخر تھیں جس طرح عام بنی نوع انسان کیلئے۔ لیکن حضرت دائود ؑکو ایک زائد خصوصیت یہ حاصل تھی کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بھی بنا دیا تھا۔ پس گو تسخیر بعینہٖ وہی ہے جو ہمارے لئے ہے مگر اس تسخیر کی عظمت میں فرق ہے۔
جِبال سردارانِ قوم کو بھی کہتے ہیں
اب مَیں لُغت سے بتاتا ہوں کہ اس کے اور معنے بھی ہیں۔ چنانچہ جَبَلٌ کے معنے لُغت میں
سَیِّدُ الْقَوْمِ کے لکھے ہیں۔۱۹؎ پس حضرت دائود ؑ کیلئے جِبَال مسخر کر دیئے کے معنی یہ تھے کہ حضرت دائود علیہ السلام یہود کے وہ پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے اِردگرد کے قبائل پر فتح پائی اور وہ ان کے ماتحت ہوگئے۔ حضرت دائود علیہ السلام سے پہلے کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہوا جس نے اپنی قوم کے علاوہ دوسری اقوام پر بھی حکومت کی ہو۔ لیکن حضرت دائود ؑ پہلے بادشاہ ہیں جن کے اِردگرد کے حکمران ان کے مُطیع ہوگئے تھے۔ اگر کوئی کہے کہ قرآن میں تو یُسَبِّحْنَ کا لفظ آتا ہے۔ تم اس کے معنے مطیع کے کس طرح کرتے ہو؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ جِبَال چونکہ مؤنث ہے اس لئے یُسَبِّحْنَ کا لفظ آیا ہے ورنہ سردارانِ قوم کے معنے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ قومیں آپ کی مطیع ہو گئی تھیں۔
پرندوں کی تسبیح کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں
باقی رہے طَیْر۔ سو ان کیلئے تسبیح قرآن میں آئی ہی نہیں۔
اور اِس امر کا کہیں ذکر نہیں کہ وہ حضرت دائود ؑکے ساتھ تسبیح کیا کرتے تھے۔ دراصل لوگوں کو عربی زبان کے ایک معمولی قاعدہ سے ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا لگ گیا اور وہ خیال کرنے لگے کہ جِبَال کے ساتھ طَیْر بھی تسبیح کیا کرتے تھے۔ حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ یہاں طَیْرَ پر زبر ہے اور زبر دینے والا سَخَّرَ کا لفظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے دائود کے لئے پہاڑ مسخر کر دیئے جو تسبیح کرتے تھے۔ اسی طرح ہم نے طَیْر بھی مسخر کر دیئے یہاں کسی تسبیح کا ذکر نہیں۔ صرف اتنے معنے لئے جا سکتے ہیں کہ انہیںپرندوں سے کام لینے کا علم آتا تھا۔ جیسے کبوتروں سے خبر رسانی وغیرہ کا کام لے لیا جاتا ہے۔ پس قرآن میں سَخَّرْنَا الطَّیْرَ ہے یُسَبِّحْنَ الطَّیْرَ نہیں ہے۔
دوسری آیت یہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ۔ وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً یہاں بھی طَیْرَ کا نَاصِبْ سَخَّرَ ہے اور میں حیران ہوں کہ مفسرین نے پرندوں کے تسبیح کرنے کے معنے کہاں سے لئے۔
تیسری آیت یہ ہے وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا یٰجِبَاُل اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ۔ ہم نے دائود ؑ پر بڑا فضل کیا اور پہاڑوں سے کہا اے پہاڑو! تم بھی اس کی تسبیح کا تسبیح سے جواب دیا کرو۔ اسی طرح ہم نے اسے پرندے بھی دیئے۔ گویا یہاں اٰتَیْنَا الطَّیْرَ فرمایا گیا ہے یہ نہیں کہا گیا کہ پرندے تسبیح کیا کرتے تھے۔ غرض طَیْرَ کا ناصب یا سَخَّرَ ہے یا اٰتٰی ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے حضرت دائود ؑ کو طَیْر بھی دیئے تھے۔ لیکن میں کہتا ہوں اگر اس کے معنے تسبیح کے بھی کر لو تو جب زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو پرندوں کی تسبیح میں کونسی بڑی بات ہوسکتی ہے۔ مجھے ہمیشہ آجکل کے علماء پر تعجب آیا کرتا ہے کہ جب حضرت دائود ؑ یا حضرت سلیمانؑ یا حضرت عیسیٰ عَلَیْھِمُ السَّلَامُ کے متعلق کوئی آیت آئے تو اس کے وہ اور معنی لے لیتے ہیں۔ لیکن اگر ویسی ہی آیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے آ جائے تو اس کے معنی اور کر لیتے ہیں۔ حضرت دائود ؑکے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہاڑ اس کے ساتھ ساتھ تسبیح کرتے تھے۔ تو کہتے ہیں۔ پہاڑ واقعہ میں سُبْحَانَ اللّٰہِ سَبْحَانَ اللّٰہِ کیا کرتے تھے۔ اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ کہے کہ ہم نے زمین و آسمان آپ کیلئے مسخر کر دیئے تو کہیں گے یہاں تشبیہہ مراد ہے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ ذکر آئے کہ انہوں نے مُردے زندہ کئے تو کہیں گے یہاں مُردوں سے روحانی مُردے مراد ہیں۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اگر یہ الفاظ آ جائیں تو جب تک وہ یہ نہ منوا لیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے مُردوں کے نتھنوں میں پھُونک مار کر انہیں زندہ کر دیا تھا، اُس وقت تک انہیں چَین ہی نہیں آتا۔
جنات کا ذکر
اِس کے بعد مَیں جنوں کو لیتا ہوں۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ اِس وقت میرے سامنے ایک ایسے دوست بیٹھے ہیں جو جنوں کے قابض کہلاتے ہیں
اور بائیں طرف وہ بیٹھے ہیں جو کوشش کرتے رہتے ہیں کہ جن اُن کے قبضہ میں آ جائیں۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ اگر میں ان کے خلافِ طبیعت کوئی بات کہہ دوں تو وہ مجھے معاف کریں گے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی یا بُری کوئی مخلوق جِنّ ضرور ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ مگر سوال یہ نہیں کہ جِنّ کوئی مخلوق ہے یا نہیں بلکہ سوال اُن جنوں کا ہے جو حضرت سلیمانؑ کے ساتھ تھے اور حضرت سلیمانؑ کے متعلق اُن جنوں کا ذکر ہے جن کا باقاعدہ لشکر تھا۔ وہ خبریں لا لا کر دیا کرتے تھے، وہ باقاعدہ لڑائیوں میں ساتھ جاتے تھے حتیّٰ کہ جنوں کے پَیروں کے نیچے چیونٹیاں بھی کچلی جاتی تھیں۔ پس اِس وقت سوال اُن جنوں کا ہے جو ہر وقت حاضر رہتے تھے اور جن کی فوجیں رائٹ لیفٹ کرتی رہتی تھیں۔
رسول کریم ﷺ کے پاس جنوں کی آمد
اب سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ آیا قرآن میں حضرت
سلیمان کے متعلق ہی یہ ذکر آیا ہے یا اور کسی نبی کے متعلق بھی لکھا ہے کہ اُس کے پاس جِنّ آئے۔ سو جب ہم اس غرض کیلئے قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو سورہ احقاف میں ہمیں یہ آیات نظر آتی ہیں۔ وَاِذْصَرَفْنَا اِلَیْکَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ فَلَمَّا حَضَرُوْہُ قَالُوْا اَنْصِتُوْا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا اِلٰی قَوْمِھِمْ مُّنْذِرِیْنَ۔ قَالُوْا یٰـقَوْمَنَا اِنَّا سَمِعْنَا کِتٰـبًا اُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَھْدِیْ اِلَی الْحَقِّ وَاِلَی طَرِیْقٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ یٰـقَوْمَنَا اَجِیْبُوْا دَاعِیَ اللّٰہِ وَاٰمِنُوْا بِہٖ یَغْفِرْلَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ وَ یُجِرْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ۲۰؎ یعنی اُس وقت کو بھی یاد کرو جب ہم جنوں میں سے کچھ لوگ جو قرآن سننے کی خواہش رکھتے تھے تیری طرف پھیر کر لے آئے۔ جب وہ تیری مجلس میں پہنچے تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا۔ خاموش ہو جائو تا کہ قرآن کی آواز ہمارے کانوں میں اچھی طرح پڑے۔ جب قرآن کی تلاوت ختم ہو گئی تو وہ اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے اور انہوں نے اسلام کی اشاعت شروع کر دی۔ اور اپنی قوم سے کہا اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب کی تلاوت سُنی ہے جو موسیٰ کے بعد اُتاری گئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ موسٰی سچا نبی تھا اور اُس نے جو کچھ کہا تھا خدا کی طرف سے کہا تھا یہ کتاب حق کی طرف بُلاتی ہے اور سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔ اے ہماری قوم کے لوگو! اللہ تعالیٰ کے مُنادی کی آواز کو سنو اور اُسے قبول کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے تمام گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے گا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جِنّ تورات پر، حضرت موسیٰ پر، قرآن پر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے۔ پس حضرت سلیمانؑ ہی ایک ایسے نبی نہیں جن پر جِنّ ایمان لائے بلکہ موسٰی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جنات آپ پر ایمان لائے مگر افسوس اُن لوگوں پر جو سلیمانؑ کے جنوں کے تو عجیب عجیب قصے سناتے ہیں۔ کہتے ہیںحضرت سلیمان علیہ السلام قالین پر بیٹھ جاتے اور چار جنوں کو چاروں کونے پکڑوا دیتے اور وہ انہیں اُڑا کر آسمانوں کی سیر کراتے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جِنّ ایمان لائے اُن کے متعلق یہ نہیں بتاتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی ایسی مدد کی ہو۔ حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھا کر سفر کرتے تھے۔ آپ کے صحابہؓ کو کئی دفعہ سواریاں نہ ملتیں اور وہ روتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اور عرض کرتے کہ ہمارے لئے کسی سواری کا انتظام فرما دیجئے تو ہم جانے کیلئے حاضر ہیں۔ کئی دفعہ صحابہؓ نے ننگے پَیر لمبے لمبے سفر کئے ہیں مگر یہ تمام دُکھ اور تکلیفیں دیکھنے کے باوجود اُن سنگدل جنوں کا دل نہ پسیجا اور انہوں نے آپ کی کوئی مدد نہ کی۔ حضرت سلیمانؑ کے وقت تو لشکر کا لشکر اُٹھا کر وہ دوسری جگہ پہنچا دیتے تھے اور یہاں ان سے اتنا بھی نہ ہوا کہ دس بیس مہاجرین کو ہی اُٹھا کر میدانِ جنگ میں پہنچا دیتے۔
ان الفاظ کو استعارہ نہ سمجھنے والوں کی ایک دلیل
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جِنّ غیر از انسان وجود
ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمانؑ پر ایمان لائے تھے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان معنوں کو قرآن کریم تسلیم کرتا ہے۔ اگر یہ ایک استعارہ ہے تو یقینا قرآن کریم نے اس کو اپنی کسی دوسری آیت میں حل کیا ہوگا۔ اور استعارہ تسلیم نہ کرنے کی صورت میں قرآن کریم کی دو آیتیں باہم ٹکرا جائیں گی اور اِس طرح قرآن میں اختلاف پیدا ہو جائے گا۔ پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ اس کو استعارہ تسلیم نہ کرنے سے قرآن میں اختلاف پیدا ہوتا ہے یا استعارہ تسلیم کر کے۔ جو لوگ استعارہ نہیں سمجھتے وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہی لفظ ہے جیسے شیطان کا لفظ آتا ہے۔ جس طرح شیطان سے مراد ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے علیحدہ ہے اسی طرح جِنّ بھی ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے الگ ہے حالانکہ وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ ۲۱؎ میں مفسّرین بِالاتفاق لکھتے ہیں کہ اس جگہ شیاطین سے مراد یہودی اور اُن کے بڑے بڑے سردار ہیں۔ پس اگر انسان شیطان بن سکتا ہے تو انسان جِنّ کیوں نہیں بن سکتا؟
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلُِ نَبِیٍ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ الٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ۲۲؎ یعنی ہم نے ہر نبی کے دشمن بنائے ہیں شیطان آدمیوں میں سے بھی اور جنوں میں سے بھی جو لوگوں کو مخالفت پر اُکساتے اور انہیں نبی اور اُس کی جماعت کے خلاف برانگیختہ کرتے رہتے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دیاہے کہ انسان بھی شیطان ہوتے ہیں۔ پس اگر شیاطین الاِْنس ہو سکتے ہیں تو جِنّ الْاِنس کیوں نہیں ہو سکتے۔ یعنی جس طرح انسانوں میںسے شیطان کہلانے والے پیدا ہو سکتے ہیں اسی طرح ان میں سے جِنّ کہلانے والے بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ پس قرآن سے ہی پتہ لگ گیا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں ہی جِنّ نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰ ؑاور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جِنّ ایمان لائے تھے۔
رسول کریم ﷺ کی بعثت انسانوں کی طرف تھی نہ کہ جنوں کی طرف
اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کِن کی طرف ہوئی تھی؟ اللہ تعالیٰ سورۃ نساء
میں فرماتا ہے۔ وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلاً ۲۳؎ یعنی ہم نے تجھے تمام انسانوں کیلئے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ اس آیت میں صاف طور پر بتایا ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آدمیوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے حالانکہ اگر آدمیوں کے علاوہ کوئی اور نرالی مخلوق بھی جسے جِنّ کہتے ہیں آپ پر ایمان لائی تھی تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ ارْسَلْنٰکَ لِلنَّاِس وَالْجِنِّ مگر وہ یہ نہیںفرماتابلکہ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے آدمیوں کیلئے بھیجا ہے۔ پس جب آدمیوں کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے تھے تو صاف پتہ لگ گیا کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ جِنّ آپ پر ایمان لائے وہاں ان سے جِنّ الاِْنس ہی مراد ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن کریم میں آتا ہے۔ وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰـقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِ کُمُ الْعِجْلَ ۲۴؎ یعنی اے میری قوم! تم نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا کہ ایک بچھڑے کو پوجا۔ اب یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ بنی اسرائیل تھے جنہوں نے بچھڑے کی پرستش کی، جِنّ نہیں تھے حالانکہ قرآن سے ثابت ہے کہ جِنّ آپ پر ایمان لائے تھے۔ پس صاف ثابت ہوا کہ ان جنوں سے آدمی جِنّ ہی مراد تھے نہ کہ وہ جِنّ جن کا نقشہ عام لوگوں کے دماغوں میں ہے۔ اسی طرح ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت جابر بن عبداللہؓ ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے پانچ ایسی خصوصیتیں دی گئی ہیں جو پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً کہ پہلے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ کَافَّۃً ۲۵؎ مگر مَیں روئے زمین کے تمام آدمیوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قطعی طور پر بیان فرماتے ہیں کہ انبیائے سابقین میں ایک نبی بھی ایسا نہیں جو اپنی قوم کے سِوا کسی اور قوم کی طرف مبعوث ہوا ہو۔ لیکن مسلمان یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ جنوں اور طیور کی طرف بھیجے گئے تھے۔ اگر واقعہ میں حضرت سلیمانؑ جنوں اور طیور کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ درجہ میں بڑھ گئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو صرف انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔
جنوں کے انسان ہونے پر بعض اور دلائل
پھر اگر یہ جِنّ غیر از انسان ہیں تو وہ مخاطب کیونکر ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے۔ وَیَوْمَ یَحْشُرْھُمْ جَمِیْعًا یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِاسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ ۲۶؎ فرماتا ہے جب قیامت کے دن سب لوگ جمع ہونگے تو ہم جنوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ اے جنوں کے گروہ! تم نے انسانوں میں سے اکثر لوگوں کو اپنے قابو میں کیا ہوا تھا۔ ہم تو جنوں کو تلاش کرتے کرتے تھک گئے مگر قرآن یہ کہتا ہے کہ جنوں نے اکثروں کو اپنے قابو میں کیا ہوا ہے حالانکہ ہم تلاش کرتے ہیں تو ملتے نہیں۔ لوگ وظیفے پڑھتے ہیں، چِلّہ کشیاں کرتے ہیں اور جب ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اور خشکی سے کان بجنے لگتے ہیںتو کہتے ہیں جِنّ آ گیا حالانکہ اُس وقت ان کا دماغ بِگڑ چکا ہوتا ہے۔ تروتازہ دماغ کے ہوتے ہوئے جِنّ کبھی انسان کے پاس نہیں آتے۔
اس جگہ جنوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَدِاسْتَکْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِ کہ ان کے اکثر انسانوں سے تعلقات ہیں۔ اور انسان بھی کہیں گے کہ ہم ان سے بڑا فائدہ اُٹھاتے رہے مگر تم اپنے محلے اور گائوں میں پھر کر لوگوں سے دریافت کر لو کہ کیا پچاس یا اکاون فیصدی لوگ جنوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ سَو میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہتا ہو کہ میں جنوں سے فائدہ اُٹھاتا ہوں اور میرے ان سے تعلقات ہیں۔ جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ اس جگہ جِنّ سے مراد انسانوں کے علاوہ کوئی اور مخلوق نہیں بلکہ انسانوںمیں سے ہی بعض جِنّ مراد ہیں اور انسانی جنوں کی دوستیاں بڑی کثرت سے نظر آتی ہیں۔
قرآن کریم سے ثبوت کہ جِنّ انسانوں کے گروہ کا ہی نام ہے
پھر اس سے بڑھ کر ایک اور دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ قیامت کے دن دوزخیوں سے کہا جائے گا کہ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ
یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ ۲۷؎ یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! جو ہمارے سامنے کھڑے ہو بتائو کہ کیاتمہارے پاس ایسے رسول جو تم ہی میں سے تھے نہیں آئے؟ اب بتائو جب اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر بعض جِنّ بھی ایمان لائے اور دوسری طرف یہ فرماتا ہے کہ ہمارا رسول بھی ان ہی میں سے تھا تو کیا اس سے صاف ثابت نہیں ہوتا کہ وہ جِنّ بھی انسان تھے کوئی غیر مرئی وجود نہیں تھے۔ پھر یہیں تک بات ختم نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَائَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا ۲۸؎ وہ تمہیں انذار بھی کرتے تھے اور اس دن سے ڈراتے تھے۔ گویا حضرت موسٰی، حضرت سلیمان اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنوں کو ڈرایا بھی کرتے تھے اور انہیں یومِ آخرت اور اللہ تعالیٰ کا خوف دلایا کرتے تھے اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ جِنّ جِنّ الْاِنس تھے جس طرح شیاطین الْاِنس ہوتے ہیں کوئی علیحدہ قسم کی مخلوق نہیں تھے۔
مؤمن جنوں نے رسول کریم ﷺ کی مدد کیوں نہ کی؟
اب ایک اور بات سنو۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا وُّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا- لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَتُعِزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ۲۹؎ یعنی اے رسول! ہم نے تجھے اپنی صفات کیلئے گواہ اور مومنوں کیلئے مبشر اور کافروں کیلئے نذیر بنا کر بھیجا ہے تا کہ تم اس کے ذریعہ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائو اور اس کی مدد کرو اور اس کی عزت بجا لائو۔ اب جب کہ جِنّ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے تو کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ ان جنوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی مدد کی ہو۔ ایک معمولی مُلاّ کیلئے تو جیسا کہ لوگوں میں مشہور ہے وہ انگور کے خوشے لے آتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے وہ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہ لائے۔ اور آپ کو بسا اوقات کئی کئی وقت کے فاقے برداشت کرنے پڑے۔ ایک دفعہ آپ کے چہرہ پر ضُعف کے آثار دیکھ کر صحابہؓ نے سمجھا کہ آپ کو بھوک لگی ہوئی ہے۔ چنانچہ ایک صحابیؓ نے بکری ذبح کی اور آپ کو اور بعض اور صحابہؓ کو کھانا کھلایا۔ مگر ایسے مواقع میں سے کسی ایک موقع پر بھی جنوں نے مدد نہیں کی۔ میں سمجھتا ہوں وہ بڑے ہی شقی القلب جِنّ تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن پر وہ ایمان لائے تھے ان کو تو انہوں نے ایک روٹی بھی نہ کھلائی اور آجکل کے مولویوں کو سیب اور انگور کھلاتے ہیں پھر وہ مومن کس طرح ہوگئے؟ وہ تو پکے کافر تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال ہی غلط ہے کہ جِنّ کوئی ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے نرالی ہے۔ وہ جِنّ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ بھی انسان ہی تھے۔ اور جس طرح اور لوگوں نے آپ کی مدد کی وہ بھی مدد کرتے رہے۔ اگر کوئی نرالی مخلوق مانی جائے تو پھر اس سوال کا حل کرنا اُن لوگوں کے ذمہ ہوگا جو جنات کے قائل ہیں کہ وجہ کیا ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مدد نہ کی حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا چکے تھے۔ اور قرآن میں انہیں یہ حُکم تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدد کریں۔
بنی نوع انسان کے علاوہ دوسری مخلوق شریعت پر ایمان لانے کی پابند نہیں
پھر اِس سے بڑھ کر ایک اور دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ احزاب میں بطور قاعدہ کُلّیہ کے فرماتا ہے۔ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ
عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَ حَمَلَھَا اِلْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا ۳۰؎ یعنی ہم نے اپنی شریعت اور کلام کو آسمانوں اور زمین کی مخلوق کے سامنے پیش کیا اور کہا کوئی ہے جو اِسے مانے اور اس پرعمل کرے؟ اس پر تمام آسمانی مخلوق نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم یہ بارِ امانت اُٹھانے کے ہرگز اہل نہیں۔ پھر ہم نے زمینوں کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا اور کہا۔ لو! یہ بوجھ اُٹھاتے ہو؟ انہوں نے بھی کہا ہرگز نہیں۔ پہاڑوں پر پیش کیا تو انہوں نے بھی انکار کیا۔ حالانکہ لوگ عام طور پر یہ کہا کرتے ہیں کہ جِنّ پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا سارے ڈر گئے اور کسی نے بھی اس ذمہ داری کو اُٹھانے کی جرأت نہ کی فَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ۔ صرف ایک انسان آگے بڑھا اور اس نے کہا۔ مجھے شریعت دیجئے مَیں اِس پر عمل کر کے دکھا دونگا۔ فرماتا ہے اِنَّہُ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا۔ انسان نے اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا کیونکہ وہ ہمارے عشق میں سرشار اور عواقب سے بے پروا تھا۔ اُس نے یہ نہیں دیکھا کہ بوجھ کتنا بڑا ہے بلکہ شوق سے اُسے اُٹھانے کیلئے آگے نکل آیا۔ اب دیکھو یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ شریعت کو اُٹھانے والا صرف انسان ہے اور کوئی شریعت کا مکلّف نہیں۔ پھر جب کہ انسان کو ہی خدا نے شریعت دی تو سوال یہ ہے کہ اگر جِنّ غیر از انسان ہیں تو وہ کہاں سے نکل آئے اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر اپنے ایمان کا کیوں اظہار کیا؟ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ وہ غیراز انسان تھے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ٹھہرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انسان کے سِوا سب مخلوق نے اِس شریعت پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور جب کہ قرآن سے یہ ثابت ہے کہ جِنّ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو صاف طور پر معلوم ہوگیا کہ یہاں جِنّ سے مراد جِنّ الْاِنس ہی ہیں۔ ایسی مخلوق مراد نہیں جو انسانوں کے علاوہ ہو اور نہ میں ایسے جنوں کا قائل ہوں جو انسانوں سے آ کر چمٹ جاتے ہیں۔ میرے سامنے ہی اِس وقت ایک دوست بیٹھے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جِنّ آتے ہیں اور وہ آپ پر ایمان لانے کیلئے تیار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُنہیں لکھا کہ آپ جنوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کو کیوں ستاتے ہو اگر ستانا ہی ہے تو مولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ کو جا کر ستائیں ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ؟ بیشک کئی ایسے لوگ ہونگے جو انگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اِس امر کے قائل ہوں کہ ایسے جنات کا کوئی وجود نہیں لیکن مومن کے سامنے یہ سوال نہیں ہوتا کہ اُس کی عقل کیا کہتی ہے بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کیا کہتا ہے۔ اگر قرآن کہتا ہے کہ جِنّ موجود ہیں تو ہم کہیں گے اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا اور اگر قرآن سے ثابت ہو کہ انسانوں کے علاوہ جِنّ کوئی مخلوق نہیں تو پھر ہمیں یہی بات ماننی پڑے گی۔
متکبر قوموں اور امراء کو بھی جِنّ کہا جاتا ہے
اصل بات یہ ہے کہ بعض قومیں بڑی متکبر ہوتی ہیں اور وہ اپنے
آپ کو دوسروں سے اونچا اور بلند مرتبہ سمجھتی ہیں۔ ایسی قوموں کے بڑے بڑے صنادید کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے دروازے پر لے آتا ہے اس لئے یہ لوگ جِنّ کہلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کا ہی واقعہ ہے۔ ایک نہایت جاہل شخص یہاں ہوا کرتا تھا پِیرا اُس کا نام تھا۔ اُسے دو چار آنے کے پیسے اگر کوئی شخص دے دیتا تو وہ دال میں مٹی کے تیل کی آدھی بوتل ڈال کر کھا جاتا۔ دین کی معمولی معمولی باتوں سے بھی اتنا ناواقف تھا کہ حضرت خلیفہ اوّل نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ وہ اُس وقت تو خاموش رہا مگر دوسرے تیسرے دن آپ کے پاس ایک کارڈ لایا کہ ہمارے گائوں کے نمبردار کو لکھ دیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لکھنا ہے؟ تو وہ کہنے لگاآپ نے جو میرا مذہب دریافت کیا تھا۔ میں نمبردار کو لکھ کر دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مذہب کیا ہے؟ حضرت خلیفہ اوّل ہمیشہ اُس کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ نماز پڑھو مگر وہ کہتا کہ مجھے نماز نہیں آتی صرف سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنا آتا ہے۔ خیر ایک دن حضرت خلیفہ اوّل نے پِیرے سے کہا کہ اگر تم ایک دن پورے پانچ وقت کی نمازیں جماعت سے ادا کرو تو میں تمہیں دو روپے انعام دونگا۔ اُس نے عشاء سے نماز شروع کی اور اگلی مغرب کو پوری پانچ ہوتی تھیں۔ اُن دنوں مہمان چونکہ تھوڑے ہوتے تھے اس لئے اُن کا کھانا ہمارے گھر میں ہی تیار ہوتا تھا۔ مغرب کے وقت جب کھانا تیار ہوا تو اندر سے خادمہ نے آواز دی کہ پِیرے! کھانا لے جائو۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا اور یہ اُس کی پانچویں نماز تھی لیکن بُلانے والی عورت کو اِس کا علم نہ تھا اِس لئے وہ برابر آوازیں دیتی گئی۔ اِس پر پِیرا نماز میں ہی زور سے کہنے لگا۔ ’’ٹھیرجا۔ التحیات ختم کر کے آنداہاں‘‘۔
ایک دفعہ کسی کام کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُسے بٹالہ بھیجا۔ وہاں اسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مل گئے۔ وہ اکثر لوگوں کو قادیان آنے سے باز رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اُس دن اتفاقاً انہیںاور کوئی نہ ملا تو انہوں نے پِیرے کو ہی پکڑ لیا اور کہا۔ پِیرے! تو کیوں قادیان بیٹھا ہے؟ پِیرے نے جواب دیا مولوی صاحب! میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں، ہاں ایک بات ہے جو میں جانتا ہوں اور وہ یہ کہ مرزا صاحب قادیان میں بیٹھے ہیں اور لوگ دُور دُور سے یکّوں میں دھکّے کھا کھا کے ان کے پاس پہنچتے ہیں۔ مگر آپ بٹالہ میں رہتے ہیں جہاں لوگ آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں مگر آپ کے پاس کوئی نہیں آتا۔ حتیّٰ کہ روزانہ لوگوں کو سمجھانے کیلئے آپ خود سٹیشن پر آتے ہیں اور شاید اِس کوشش میں آپ کی جوتی بھی گھِس گئی ہوگی لیکن لوگ آپ کی بات نہیں مانتے۔ آخر کوئی بات تو ہے کہ لوگ مرزا صاحب کی طرف اِس طرح کِھچے چلے جاتے ہیں اور آپ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ غرض اِس قسم کے آدمی ہی جِنّ ہوتے ہیں جو کسی کی بات نہیں مانتے اور دوسرے کی اطاعت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ مگر جب انبیاء کے سامنے آتے ہیں تو یکدم ان کی حالت بدل جاتی ہے۔ حضرت عمرؓ کو ہی دیکھ لو۔ وہ ابتدا میں اسلام کی کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ اور ایک دفعہ تو انہیں یہاں تک جوش آیا کہ تلوار سونت لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ کے قدموں میں گر گئے۔ تو بعض طبائع ناری ہوتی ہیں مگر جب نبیوں کے سامنے جاتی ہیں تو ٹھنڈی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ ایسی طبیعت رکھنے والے انسانوں کو عربی زبان میں جِنّ کہتے ہیں۔ اسی طرح بڑے لوگوں کو اس لحاظ سے بھی جِنّ کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نگاہ سے بِالعموم مخفی رہتے ہیں۔ بڑی بڑی کوٹھیوں میں اُن کی رہائش ہوتی ہے اور اُن کے دروازہ پر لوگ آسانی سے نہیں پہنچ سکتے۔
نملہ سے کیا مراد ہے؟
اب اس کے بعد مَیں نملہ کو لیتا ہوں کہ یہ کیا چیز ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں کہ حَتّٰی اِذَا اَتَوْاَ
عَلٰی وَادِالنَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یّٰأَیَّھَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَایَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ وَھُمْ لَایَشْعُرُوْنَ جب وہ وادی نملہ میں پہنچے تو ایک نملہ نے کہا اے نملہ قوم! اپنے اپنے گھروں میں داخل ہو جائو۔ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تمہارے حالات کو نہ جانتے ہوئے تمہیں اپنے پائوں کے نیچے مَسل دیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ نملہ سے کیا مراد ہے؟
پہلی بات جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نملہ سے مراد چیونٹی نہیں یہ ہے کہ ذکر تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو مَنْطِقَ الطَّیْر سکھائی مگر اس کی دلیل یہ دی گئی کہ چیونٹی بولی تو حضرت سلیمانؑ سمجھ گئے کہ اُس نے کیا کہا ہے۔ حالانکہ جب دعویٰ یہ تھا کہ حضرت سلیمانؑ کو پرندوں کی بولی آتی تھی تو دلیل میں مثلاً یہ بات پیش کرنی چاہئے تھی کہ فلاں موقع پر بلبل بولی اور حضرت سلیمانؑ نے کہا بلبل یہ کہہ رہی ہے مگر وہ کہتے ہیں چیونٹی بولی توحضرت سلیمانؑ کو سمجھ آگئی حالانکہ چیونٹی پرندہ نہیں۔ پس نملہ سے مراد اگر چیونٹی لی جائے تو یہ دلیل بالکل عقل میں نہیں آ سکتی کیونکہ قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو مَنْطِقَ الطَّیْر آتی تھی اور وہ اس کو سمجھتے تھے مگر بولنے لگ جاتی ہے نملہ اور وہ اس کی بات کو سمجھ جاتے ہیں۔ غرض پہلی بات جس پر غور کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ نملہ کیا چیز ہے؟
دوسری چیز یہ دیکھنے والی ہے کہ یہاں حَطَمَ کا لفظ آیا ہے اور حَطَمَ کے معنی ہوتے ہیں توڑنے اور غصہ سے حملہ کرنے کے۔ عام طور پر لوگ اِس کا ترجمہ یہ کر دیتے ہیں کہ سلیمانؑ اور اُس کا لشکر تمہیں اپنے پَیروں کے نیچے نہ مَسل دے مگر یہ حَطَمَ کے صحیح معنی نہیں۔ عربی میں حطم کے معنی توڑ دینے اور غصہ میں حملہ کر دینے کے ہیں۔۳۱؎ چنانچہ قرآن کریم میں دوزخ کی آگ کا ایک نام حطمہ بھی رکھا گیا ہے کیونکہ وہ جلا دیتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ آگ کے پاؤں ہو گئے اور وہ دوزخیوں کو اپنے پَیروں کے نیچے مَسل ڈالے گی۔ تو لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنی یہ ہوئے کہ ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اُس کا لشکر تمہیں توڑ دے یا غصّہ سے تم پر حملہ کر دے اور تمہیں تباہ کر دے۔ اب سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ جو اِتنے بڑے نبی تھے جن کے پاس جنوں اور انسانوں اور پرندوں کے لشکردرلشکر تھے کیا اُن کا سارا غُصّہ چیونٹیوں پر ہی نکلنا تھا اور کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ چیونٹیوں پر حملہ کرنے لگ جائیں گے؟ میں بتا چکا ہوں کہ لَایَحْطِمَنَّکُمْکے معنی پَیروں میں مَسل دینے کے نہیں بلکہ طاقت کو توڑ دینے اور حملہ آور ہونے کے ہیں۔ اسی لئے عربی زبان میں قحط کو حاطوم کہتے ہیں ۳۲؎ کیونکہ اس سے ملک کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے۔ اگر یہ معنی کئے جائیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ چیونٹیوں نے ایک دوسری سے کہا کہ اپنے اپنے بِلوں میں گُھس جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اُس کا لشکر کدالیں لیکر آجائے اور ہماری بِلوں کو کھود کھود کر غلّہ کے دانے نکال لے اور اِس طرح ہماری طاقت کو توڑ دے۔ مگر کیا عقلمند ان معنوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟
تیسری دلیل جو نہایت ہی بیّن اور واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جتنے صیغے استعمال کئے ہیں سب وہ ہیں جو ذَوِی الْعقول کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً اُدْخُلُوْا کا لفظ آیا ہے حالانکہ چیونٹیوں کے لحاظ سے اُدْخُلُنَّ کا لفظ آنا چاہئے تھا۔ اسی طرح لَایَحْطِمَنَّکُمْ میں کُمْ کا لفظ آتا ہے حالانکہ کُنَّ کا لفظ آنا چاہئے تھا۔ پس قرآن مجید کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہ کوئی انسان تھے جن کے لئے کُمْ اور اُدْخُلُوْا وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور یہ جو کہا گیا ہے کہ گھروں میں گُھس جاؤ اِس کا ثبوت حدیث سے بھی ملتا ہے۔ یہ قاعدہ ہے کہ جب کوئی لشکر کہیں سے گذرے اور وہاں کے لوگ اپنے گھروں میں گُھس جائیں اور دروازے بند کر لیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم ﷺ نے یہ اعلان کرا دیا تھا کہ جو لوگ اپنے اپنے گھروں میں گُھس جائیں گے اور دروازے بند کر لیں گے ان سے کوئی باز پُرس نہیں ہو گی۔ یہی نملہ نے کہا کہ اپنے اپنے گھروں میں جاؤ اور دروازے بند کر لو۔ حضرت سلیمانؑ سمجھ جائیں گے کہ یہ میرا مقابلہ کرنا نہیں چاہتے۔ اگر ہم باہر رہیں گے تو ممکن ہے وہ حملہ کر دیں۔ حضرت سلیمانؑ نے جب یہ نظارہ دیکھا تو وہ ہنسے اور انہوں نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ میری نیکی اور تقویٰ کی کتنی دُور دُور خبر پہنچی ہوئی ہے یہ قوم بھی جو اتنی دُور رہتی ہے سمجھتی ہے کہ سلیمانؑ ظالمانہ طور پر حملے نہیں کیا کرتا۔ اگر ہم اپنے دروازے بند کر لیں گے تو یہ ہم پر حملہ نہیں کرے گا اور ہماری کسی چیز کو نقصان نہیں پُہنچے گا۔
وادی النمل کی تحقیق
باقی رہا وَادِالنَّمْل کے الفاظ سو یادر رکھنا چاہئے کہ تاج العروس جو لُغت کی مشہور کتاب ہے اس میں لکھا ہے کہ شام کے ملک میں
جبرین اور عسقلان کے درمیان ایک علاقہ ہے جسے وادی النمل کہا جاتا ہے۔ ۳۳؎ اور عسقلان کے متعلق تقویم البلدان صفحہ ۲۳۸ پر لکھا ہے کہ عسقلان ساحل سمندر کے بڑے بڑے شہروں میں سے ایک شہر تھا جو غزّ سے جو سینا کے ملحق فلسطین کی ایک بندرگاہ ہے بارہ میل اوپر شمال کی طرف واقع ہے۔ اور جبرین شمال کی طرف کا ایک شہر معلوم ہوتا ہے جو ولایتِ دمشق میں واقع ہے۔ ۳۴؎ پس وادی النمل ساحلِ سمندر پر یروشلم کے مقابل پر یا اس کے قریب دمشق سے حجاز کی طرف آتے ہوئے ایک وادی ہے جو اندازاً دمشق سے سَو میل نیچے کی طرف ہو گی۔ ان علاقوں میں حضرت سلیمانؑ کے وقت تک عرب اور مدین کے قبائل بہت بستے تھے۔ (مقام کی وضاحت کیلئے دیکھو نقشہ فلسطین و شام بعہد قدیم وعہد جدید نیلسنز انسائیکلوپیڈیا)
اب رہ گیا نملہ سو قاموس میں البرق کے ماتحت لکھا ہے۔ والابرقۃ من میاہ نملۃ۳۵؎ یعنی ابرقہ ایک وادی ہے جہاں نملہ قوم کے چشمے ہیں۔ غرض نملہ قوم بھی مل گئی‘ وَادِی النمل کا بھی پتہ لگ گیا اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ علاقہ شام میں حضرت سلمانؑ کے علاقہ کے نزدیک تھا اور یہ عجیب بات ہے کہ اس قسم کے نام پُرانے زمانہ میں بڑے مقبول تھے۔ چنانچہ جنوبی امریکہ میں بعض قوموں کے نام بھیڑیا‘ سانپ‘ بچھو اور کنکھجور وغیرہ ہؤا کرتے تھے بلکہ ہمارے ملک میں ہی ایک قوم کا نام کاڈھا ہے۔ نورالدین کاڈھا لاہورکے ایک مشہور شخص ہوئے ہیں۔ اسی طرح ایک قوم کا نام کیڑے ہے ایک کا نام مکوڑے ہے۔ کشمیر میں ایک قوم کا نام ہاپت ہے جس کے معنی ریچھ کے ہیں اِسی طرح حضرت سلیمانؑ جس جگہ سے گذرے وہاں جو قوم رہتی تھی اُس کا نام نملہ تھا۔
خَلقِ طَیْرکا مسئلہ
اب مَیں طَیْر کی بحث کو لیتا ہوں۔ طَیْر کے متعلق جو امور قابلِ غور ہیں ان میں سے ایک اہم امر خَلقِ طَیْر کا مسئلہ ہے۔ مَیں اس
کے متعلق گذشتہ سے پیوستہ سال جلسہ سالانہ کی تقریر میں روشنی ڈال چکا ہوں۔ لیکن مضمون کی تکمیل کے لئے پھر مختصراً اسے دُہرا دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرۃَ وَالْاِنْجِیْلَ۔ وَرَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰ یَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنْ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ۔۳۶؎ یعنی ہم نے مریم کوالہام کیا کہ ہم تجھے ایک بیٹا عطا کریں گے جسے اللہ تعالیٰ کتاب اور حکمت کی باتیںسکھائے گا اور بنی اسرائیل کی طرف اُسے اِس پیغام کے ساتھ رسول بنا کر بھیجے گا کہ مَیں تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے یہ نشان لے کر آیا ہوں کہ میں تمہارے فائدہ کیلئے پانی ملی ہوئی مٹی یعنی طِینی خصلت رکھنے والوں میں سے پرندہ کے پیدا کرنے کی طرح ایک مخلوق تجویز کروں گا۔ پھر مَیں اُس میں ایک نئی روح پھونکوں گا جس پر وہ اللہ تعالیٰ کے حُکم کے ماتحت اُڑنے والے ہو جائیں گے۔ دوسری جگہ فرماتا ہے وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَاِذْتَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْھَا فَتَکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِیْ ۳۷؎ یعنی اللہ تعالیٰ حضرت مسیحؑ سے فرمائے گا کہ تو اُس وقت کو بھی یاد کر جب کہ میں نے تجھے کتاب اور حکمت سکھائی اِسی طرح توراۃ اور انجیل سکھائی اور اُس وقت کو بھی یاد کر جبکہ تو میرے حُکم سے طِینی خصلت رکھنے والے افراد میں سے پرندہ کے پیدا کرنے کی طرح ایک مخلوق تجویز کرتا تھا پھر تو اُس میں پھونک مارتا تھا جس سے وہ میرے حُکم سے اُڑنے کے قابل ہو جاتا۔
اب یہاں دونوں جگہ پرندے کا ذکر آتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ استعارہ ہے یا حقیقت؟ اگر حقیقتاً پرندہ مان کر کوئی دوسری آیت باطل ہوتی ہے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ استعارہ ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم قرآن کی اور آیات پر نگاہ دَوڑاتے ہیں تو ایک آیت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰہِ شُرَکَائَ خَلَقُوْا کَخَلْقِہٖ فَتَشَابَہَ الْخَلْقُ عَلَیْھِمْ قُلِ اللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْ ئٍ وَّھُوَالْوَاحِدُ الْقَھَّارُ ۳۸؎ یعنی کیا ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ایسے شریک تجویز کئے ہیں جنہوں نے اُس جیسی کچھ مخلوق پیدا کی ہے جس کی وجہ سے اُس کی اور دوسروں کی پیدا کردہ مخلوق آپس میں مل گئی ہے اور ان کیلئے مشتبہ صورت پیدا ہوگئی ہے۔ تو اُن سے کہہ دے کہ اللہ ہی ہر ایک چیز کا خالق ہے اور وہ کامل طور پر یکتا اور ہر ایک چیز پر کامل اقتدار رکھنے والا ہے۔ اب دیکھو! اس آیت میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو خدا کا شریک قرار دیا جاتا ہے اور جن کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ بھی اپنے اندر صفتِ خلق رکھتے ہیں ان کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا محض بُہتان ہے۔ جس قسم کی پیدائش خدا تعالیٰ کرتا ہے اُس قسم کی پیدائش اور کوئی نہیں کر سکتا۔ اب اگر یہ مانا جائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام واقعہ میں پرندے پیدا کیا کرتے تھے تو سورۃ رعد کی یہ آیت غلط ہو جاتی ہے اور اگر یہ آیت سچی ہو تو لازماً ماننا پڑے گا کہ خَلقِ طَیر کے وہ معنی غلط ہیں جو عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں اور ماننا پڑے گا کہ یہ کوئی استعارہ ہے۔ تبھی یہ آیتیں آپس میں متضاد نظر آتی ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی کیا تشریح ہے؟
کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ کا مفہوم
سو اس کی تشریح کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن مجید میں کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ کے الفاظ آتے ہیں
اور اس کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح پرندہ بچے پیدا کیا کرتا ہے اسی طرح میںبھی کرتا ہوں۔ مگر لوگوں نے غلطی سے اس کے یہ معنی سمجھ لئے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے۔ اب یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ پرندہ پہلے انڈے لیتا ہے پھر اس پر بیٹھتا اور انہیں گرمی پہنچاتا ہے تب ان سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں بھی ایسے لوگوں کو جن کی مٹی میں الہام کا پانی شامل ہو اپنی صُحبت میں لیتا ہوں اور اپنے بازوئوں کے نیچے رکھ کر ایسی روحانیت ان میں پیدا کر دیتا ہوں کہ تھوڑے ہی دِنوں میں وہ خدا تعالیٰ کی طرف پرواز کرنے لگ جاتے ہیں۔ اب دیکھو قرآن کریم کا مضمون کتنا بلند ہوگیا اور اس کے معنی کیسے اعلیٰ ہوگئے۔ وہ بھی کیا معنی تھے کہ آپ چمگادڑیں بناتے پھرتے تھے۔ اور پھر قرآن میں حضرت مسیحؑ نے کہیں نہیں فرمایا کہ مَیں پرندے بناتا ہوں بلکہ آپ یہ فرماتے ہیں کہ مَیں کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ بناتا ہوں یعنی جس طرح پرندہ انڈوں کو سیتا ہے اسی طرح مَیں بھی لوگوں کو اپنی تربیت میں لیتا ہوں اور جن میں ترقی کی قابلیت ہوتی ہے وہ اُڑنے لگ جاتے ہیں۔ پھر زیادہ سے زیادہ پرندے چالیس دن تک انڈوں کو سیتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو اس سے بھی کم عرصہ میں پیدا ہو جاتے ہیں۔ اور غالباً اسی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اعلان کیا کہ جو شخص میرے معجزات کا منکر ہو، وہ چالیس دن میرے پاس رہے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور کوئی نہ کوئی معجزہ دکھا دے گا۔ اب جو شخص فطرتِ صحیحہ رکھتا ہے وہ تو بہت جلد نبی کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے مگر جس طرح سخت چِھلکے کا انڈا چالیس دن لیتا ہے اسی طرح نبی کی صحبت میں اگر کوئی سخت دل انسان بھی چالیس دن رہے تو وہ کوئی نہ کوئی معجزہ دیکھ لیتا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے نصیحت فرمائی ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ ۳۹؎ یعنی اے وہ لوگو! جن میں نیکی کی قابلیت تو ہے مگر تم ابھی انڈے کی حد تک ہی ہو پرندے نہیں بنے تم کسی صادق کے پَروں کے نیچے چلے جائو تم تھوڑے دنوں میں ہی پرندے بن جائو گے۔
ایک لطیفہ
تَشَابَہَ الْخَلْقُ کے الفاظ پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِسی آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی مولوی کو سمجھاتے
ہوئے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے جو پرندے بنائے تھے وہ کہاں چلے گئے؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ ممکن ہے اِس کا ذہن اِس طرف چلا جائے کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی پرندے بنائے ہیں اور خدا نے بھی تو پھر تو تَشَابہ فِی الْخَلْق ہوگیا اور یہ قرآن کے خلاف ہے کہنے لگا کہ ’’وچے ہی رَل مِل گئے ہیں‘‘۔
ترتیبِ مضامین کے لحاظ سے غور
اَب مَیں بتاتا ہوں کہ خود یہی آیت اُن معنوں کو ردّ کرتی ہے جو عام لوگ لیتے ہیں۔
یہ ساری آیت یوں ہے حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں۔ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیٰۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیْکُوْنُ طَیْرًا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُبْریُٔ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاُنَبِّئُکُمْ بِمَاتَاکُلُوْنَ وَمَاتَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مَّوْمِنِیْنَ ۴۰؎ اس آیت کی ترتیب اپنے مدنظر رکھ لو اور پھر سوچو کہ آیا پرندے بنانے والے معنی کسی صورت میں بھی یہاں چسپاں ہو سکتے ہیں؟ یہ صاف بات ہے کہ قرآن کریم کا کوئی لفظ ترتیب سے خالی نہیں۔ فرض کرو ہم مان بھی لیں کہ اس جگہ پرندہ سے مراد پرندہ بنانا ہی ہے تو دیکھنا یہ چاہئے کہ ان معنوں کو تسلیم کر لینے کے بعد اس آیت میں کوئی ترتیب بھی پائی جاتی ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس آیت میں کوئی ترتیب نہیں مگر ہم اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ اس میں ترتیب ہے۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہ آیت دو جگہوں میں آتی ہے ایک سورۃ ال عمران میں اور دوسرے سورۃ مائدہ میں اور دونوں جگہ الفاظ اِسی ترتیب سے رکھے گئے ہیں۔ اب دونوں جگہ ان الفاظ کا اسی ترتیب سے رکھا جانا بتاتا ہے کہ اس میں کوئی خاص مقصد ہے۔ ہم تو قرآن کریم کی ہر آیت میں ترتیب کے قائل ہیں مگر جو لوگ اس کے قائل نہیں انہیں بھی اگر کسی اور جگہ نہیں تو اِس جگہ ترتیب ضرور ماننی پڑتی ہے کیونکہ پہلے خَلْقِ طَیْر کا ذکر ہے پھر اَکْمَہَ کا ذکر ہے پھر اَبْرَصَ کا اور پھر اِحْیَائے مَوْتٰیکا۔ اور ان کا ذکر ایک جگہ نہیں بلکہ دونوں جگہ اِسی ترتیب سے کیا گیا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ ترتیب میں دو باتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ کبھی چھوٹی بات پہلے بتائی جاتی ہے پھر اُس سے بڑی بات بتائی جاتی ہے اور پھر اُس سے بڑی۔ اور کبھی پہلے سب سے بڑی بات بتائی جاتی ہے پھر اُس سے چھوٹی بات بتائی جاتی ہے اور پھر اُس سے چھوٹی اور ان دونوں ترتیبوں میں مخاطب کا فائدہ مدنظر رکھا جاتا ہے۔ یعنی جس رنگ میں وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہو اُسی رنگ میں بات بیان کر دی جاتی ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر وہ معنی کئے جائیں جو ہمارے مخالف لیتے ہیں تو ان معنوں میں کوئی ترتیب ہی نظر نہیں آتی۔ کیونکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت میں پہلے سب سے بڑی بات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے چھوٹی بات کو اور پھر اس سے چھوٹی بات کو تو اس کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ سب سے بڑی چیز پرندوں کا پیدا کرنا ہے۔ اس سے اُتر کر اندھوں کو آنکھیں بخشنا۔ اس سے اُتر کر کوڑھیوں کو اچھا کرنا اور اس سے اُتر کر مُردوں کو زندہ کرنا۔ حالانکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ مُردہ زندہ کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ پس یہ ترتیب صحیح نہیں ہو سکتی اور اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ پہلے سب سے چھوٹی بات کو بیان کیا گیا ہے اور پھر اس سے بڑی بات کو اور پھر اس سے بڑی بات کو تو اس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ سب سے آسان کام دنیا میں پرندے بنانا ہے۔ اس سے مشکل کام اندھوں کو آنکھیں دینا ہے۔ اس سے مشکل کام کوڑھی کو اچھا کرنا ہے اور اس سے مشکل کام مُردے زندہ کرنا ہے۔ گویا اس صورت میں سب سے آسان تر بات پرندے بنانا ٹھہرتی ہے۔ اب اگر یہ درست ہے تو کوئی مولوی ہمیں دو چار پرندے ہی بنا کر دکھا دے۔
دوسری مشکل ان معنوں میں یہ پیش آتی ہے کہ قرآن کریم نے ایک اور جگہ اِحْیائے مَوْتٰی کو ادنیٰ اور پیدائش کو اعلیٰ قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے۔ وَضَرَبَ لَنَا مَثَـلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ۔ قُلْ یُحْیِیْھَا الَّذِیْ اَنْشَأَھَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَھُوَبِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ۔ ۴۱؎ یعنی انسان کا یہ طریق ہے کہ وہ ہماری ہستی کے متعلق باتیں بنانے لگ جاتا ہے اور اپنی پیدائش کو بُھول جاتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ جب ہماری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی تو پھر ان کو کون زندہ کرے گا؟ فرماتا ہے تم اِحْیائے مَوْتٰی کا انکار اسی لئے کرتے ہو کہ تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ ہڈیاں گل سڑ کر پھر کس طرح اصل شکل و صورت میں آ جائیں گی۔ حالانکہ جب اُس نے تمہیں ایک دفعہ پیدا کیا ہے تو دوسری دفعہ پیدا کرنا اُس کے لئے کیا مشکل ہے۔ چنانچہ فرمایا۔ ان لوگوں سے کہہ دے کہ ایسی ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اور وہ ہر مخلوق کی حالت سے خوب واقف ہے۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ مُردہ زندہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ادنیٰ قرار دیا ہے اور پیدائش کو اعلیٰ قرار دیا ہے مگر اُوپر کی ترتیب تسلیم کر لینے کی صورت میں پیدائش کو ادنیٰ ماننا پڑتا ہے اور اِحْیائے مَوْتٰی کو اعلیٰ۔
پھر اس ترتیب سے کوڑھیوں کو اچھا کرنا پرندے پیدا کرنے کی نسبت زیادہ مشکل قرار پاتا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر بھی چالموگرا آئیل کی پچکاریوں اور مالش وغیرہ سے کئی کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے ہیں۔ اب چاہئے تھا کہ جب کوڑھی اچھے ہو رہے ہیں تو ان کوڑھیوں کے اچھا ہونے سے پہلے چِڑیاں اور کبوتر بھی بننے شروع ہو جاتے حالانکہ انہیں کوئی انسان نہیں بنا سکتا۔ اگر کہا جائے کہ اس ترتیب سے مخاطب کو زیادہ فائدہ پہنچتا ہے تو یہ بھی درست نہیں۔ کیونکہ اگر ایک یہودی کے سامنے حضرت مسیحؑ چِڑیا پیدا کرتے تو کیا وہ اس سے زیادہ متاثر ہو سکتا تھا یا اس سے زیادہ متاثر ہو سکتا تھاکہ آپ کسی کوڑھی یا مادر زاد اندھے کو اچھا کر دیتے۔ پس جس چیز سے وہ زیادہ متاثر ہو سکتا تھا چاہئے تھا کہ اسے پہلے رکھا جاتا مگر رکھا اسے بعد میں ہے۔
ترتیبِ قرآنی کے لحاظ سے خَلقِ طَیر اور اِحْیائے مَوْتی کے معنی
غرض ہمارے مخالف علماء جو معنی لیتے ہیں وہ ہر ترتیب کی رو سے غلط ٹھہرتے ہیں مگر ہمارے معنوں کی رو سے ترتیب پر کسی قسم کا
اعتراض نہیں پڑتا۔ ہم پرندے پیدا کرنے سے مراد روحانی آدمی پیدا کرنا لیتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی شخص یہ پوچھے کہ مرزا صاحب نے کیا کیا؟ اور اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ انہوں نے ایک کام کرنے والی جماعت دنیا میں پیدا کر دی ہے تو بِالعموم وہ کہہ دیتا ہے کہ یہ کونسا بڑا کام ہے۔ کیونکہ لوگوں کی نگاہ میں روحانی آدمی پیدا کرناسب سے کم حیثیت رکھتا ہے اسی لئے اس کو پہلے رکھا۔ پھر اَکْمَہَ یعنی اندھراتے کا علاج ہے یہ چونکہ ایک جسمانی چیز ہے اور ہر ایک کو نظر آ جاتی ہے اس لئے اسے بعد میں رکھا۔ اور برص چونکہ اس سے زیادہ سخت ہے اس لئے اَکْمَہَ کے بعد اَبْرَصَ کا ذکر کر دیا۔ اور اِحْیائے مَوْتٰی کے معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص بِالکل مُردہ ہونے کی حالت تک پہنچ جائے اور دعا سے زندہ ہو جائے۔ برص والے اور اندھراتے والے کو گو سخت مرض ہوتا ہے مگر طاقت قائم ہوتی ہے۔ لیکن جس کی نبضیں چُھوٹ جائیں اور پھر کسی نبی یا پاکباز انسان کی دعا سے زندہ ہو جائے وہ بڑا معجزہ ہوتا ہے۔ پس ہمارے معنے تسلیم کرنے کی صورت میں یہ ترتیب بالکل درست رہتی ہے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض نہیں پڑتا۔
ھُد ھُد کوئی پرندہ نہیں بلکہ انسان تھا
طَیْر کا دوسرا ذکر حضرت سلیمانؑ کے حالات کے بیان میں آتا ہے اللہ تعالیٰ
فرماتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا یٰٓأَیُّھَا النَّاسُ عُلِمْنَا مَنْطِقَ الطَّیْرِ اے لوگو! ہمیں پرندوں کی زبان سکھائی گئی ہے۔ اب یہاں بھی طَیر سے مراد تمام قسم کے پرندے نہیں اس لئے کہ:۔
(۱) جس وقت ہُد ہُد کہیں جاتا ہے حضرت سلیمانؑ سخت ناراض ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں لَاُعَذِّبَنَّہٗ عَذَابًا شَدِیْدًا اَوْلَاَ اَذْبَحَنَّہٗ اَوْلَیَأْ تِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ یعنی ہُد ہُد چونکہ غائب ہے اس لئے جب وہ آیا تو مَیں اُسے سخت سزا دوں گا، میں اُسے ذبح کر ڈالوں گا ورنہ وہ دلیل پیش کرے اور بتائے کہ کیوں غائب رہا۔ اب بتائو کیا قرآن سے یہی پتہ لگتا ہے کہ پرندے ایسی عقل کے مالک ہیں کہ اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہو تو آدمی تلوار لے کر کھڑا ہو جائے اور اُسے کہے کہ وجہ بیان کرو ورنہ ابھی تیرا سرکاٹ دوں گا۔ یا کبھی تم نے دیکھا کہ تمہارا کوئی ہمسایہ ہُدہُد کو پکڑ کر اُسے سوٹیاں مار رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ میرے دانے تو کیوں کھا گیا؟ اور اگر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم اُسے پاگل قرار نہیں دو گے؟ پھر وہ لوگ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف یہ اَمر منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے ہُد ہُد کے متعلق یہ کہا وہ اپنے عمل سے یہی فتویٰ حضرت سلیمان علیہ السلام پر بھی لگاتے ہیں بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام تو یہاں تک کہتے ہیں کہ مَیں اُسے سخت ترین سزا دوں گا اَوْلَیَأْ تِیَنِّیْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ ورنہ وہ ایسی دلیل پیش کرے جو نہایت ہی واضح اور منطقی ہو۔ گویا وہ ہُد ہُد، سقراط، بقراط اور افلاطون کی طرح دلائل بھی جانتا تھا اور حضرت سلیمانؑ اس سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنے دلائل پیش کرے گا۔
(۲) پھر قرآن تو یہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے پاس جنوں، انسانوں اور طَیْر کے لشکر تھے۔ مگر حضرت سلیمانؑ کی نظر صرف ہُد ہُد کی طرف جاتی ہے اور فرماتے ہیں مَالِیْ لَااَرَی الْھُدْھُدَ کیا ہوا کہ اس لشکر میں ہُد ہُد کہیں نظر نہیں آتا۔ حکومت کے نزدیک تو جس کا قد پانچ فٹ سے کم ہو وہ فوج میں بھرتی کے قابل نہیں سمجھا جاتا مگر حضرت سلیمانؑ نے یہ عجیب بھرتی شروع کر دی تھی کہ ہُد ہُد بھی ان کے لشکر میں شامل تھا۔ پھر ہُد ہُد کی کوئی فوج آپ کے پاس ہوتی تب بھی کوئی بات تھی۔ بتایا یہ جاتا ہے کہ ہُد ہُد صرف ایک آپ کے پاس تھا اس ایک ہُد ہُد نے بھلا کیا کام کرنا تھا اور ایک جانور ساتھ لے جانے سے آپ کی غرض کیا تھی؟
(۳) تیسری بات یہ ہے کہ قرآن کہتا ہے۔ ہُد ہُد نے واپس آ کر یہ یہ باتیں بیان کیں اور معجزہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوںکی بولی سمجھتے تھے حالانکہ اصولی طور پر یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ بیان ہونا چاہئے تھا مگر بیان ہُد ہُد کا معجزہ ہوتا ہے جو سلیمانؑ کے معجزہ سے بھی بڑھ کر ہے۔ پھر پرندوں کی بولی سمجھنا حضرت سلیمانؑ سے ہی مخصوص نہیں تمام شکاری پرندوں کی آوازیں سمجھتے ہیں۔
(۴) ایک اور بات یہ ہے کہ ہُد ہُد اُن جانوروں میں سے نہیں جو تیز پرواز ہوں اور اس قدر دُور کے سفر کرتے ہوں۔ یہ جہاں پیدا ہوتا ہے وہیں مرتا ہے مگر قرآن یہ بتلاتا ہے کہ ہُدہُد دمشق سے اُڑا اور ۸ سَو میل اُڑتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ سبا کے ملک تک پہنچا اور پھر وہاں سے خبر بھی لے آیا۔ گویا وہ ہُدہُد آجکل کے ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ تیز رفتار تھا اور معجزہ دکھلانے والا ہُدہُد تھا نہ کہ حضرت سلیمانؑ۔ حالانکہ بتانا یہ مقصود تھا کہ حضرت سلیمانؑ نے معجزہ دکھایا۔
(۵) اِسی ہُدہُد کا دوسرا معجزہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ شرک اور توحید کے باریک اسرار سے واقف تھا اور اس کو وہ وہ مسائل معلوم تھے جو آجکل کے مولویوں کو بھی معلوم نہیں۔ کتنی اعلیٰ توحید وہ بیان کرتا ہے۔ کہتا ہے۔ وَجَدْتُّھَا وَ قَوْمَھَا یَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَایَھْتَدُوْنَ یعنی میں نے اُس کو اور اُس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کے آگے سجدہ کرتے دیکھا اور شیطان نے اُن کے عمل اُن کو خوبصورت کر کے دکھائے ہیں اور اُن کو سچے راستہ سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے۔ پھر اس کی غیرتِ دینی دیکھو۔ آجکل مولویوں کے اپنے ہمسایہ میں بُت پرستی ہو رہی ہو تو وہ اس کے روکنے کی کوشش نہیں کرتے مگر ہُدہُد چاروں طرف دَوڑا پھرتا ہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر لا کر دیتا ہے کہ فلاں جگہ شرک ہے فلاں جگہ بُت پرستی ہے۔
(۶) پھر وہ سیاسیات سے بھی واقف تھا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ وَاُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ یعنی ملکہ سبا میں بادشاہت کی تمام صفات موجود ہیں اور اسے لوازمِ حکومت میں سے ہر چیز ملی ہوئی ہے۔ گویا وہ اُس کے تمام خزانے اور محکمے چیک کر کے آیا اور اس نے رپورٹ کی کہ تمام وہ چیزیں جن کی حکومت کیلئے ضرورت ہوا کرتی ہے وہ اُس کے پاس موجود ہیں۔
(۷) پھر شیطان اور اُس کی کارروائیوں سے بھی وہ خوب واقف ہے کیونکہ وہ کہتا ہے مَیں جانتا ہوں کہ انسان کا جب شیطان سے تعلق پیدا ہو جائے تو بُرے خیالات اُس کے دل میں پیدا ہو جاتے ہیں بلکہ اِن خیالات کے نتائج سے بھی واقف تھا کیونکہ کہتا ہے کہ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ ایسے خیالات کے نتیجہ میں انسان کے دل پر زنگ لگ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے قُرب کے راستہ سے دُور جا پڑتا ہے۔ یہ ہُد ہُد کیا ہؤا اچھا خاصہ عالِم ٹھہرا۔ ایسا ہُدہُد تو اگر آج مل جائے تو اسی کو مُفتی بنا دینا چاہئے۔
(۸) ہاں ایک بات رہ گئی اور وہ یہ کہ وہ تختِ سلطنت کی حقیقت سے بھی خوب واقف تھا کیونکہ وہ کہتا ہے کہ ملکہ سبا کے پاس ایک ایسا عظیم الشان تخت ہے جو آپ کے پاس نہیں۔ گویا وہ لالچ بھی دلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس پر حملہ کیجئے۔
شریعت کا بوجھ انسان کے سِوا کسی اور پر نہیں ڈالا گیا
یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ
ہُد ہُد کوئی پرندہ نہیں تھا کیونکہ قرآن میں صاف لکھا ہے کہ وہ امانت جسے فرشتے بھی نہ اُٹھا سکے، جسے آسمان اور زمین کی کوئی چیز اُٹھانے کیلئے تیار نہ ہوئی اسے انسان نے اُٹھا لیا۔ وہی ہے جو ہماری شریعت کے اسرار کو جانتا ہے۔ فرشتہ صرف ایک ہی بات سمجھتا ہے یعنی نیکی کی بات کو۔ مگر انسان بدی اور نیکی دونوں پہلوئوں کو جانتا ہے اور تمام حالات پر مکمل نگاہ رکھتا ہے۔ مفسّرین کہتے ہیں کہ ہُدہُد کوئی جانور تھا حالانکہ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ والی آیت موجود ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کے سِوا اور کوئی مخلوق اسرارِ شریعت کی حامل نہیں۔ پس جب کہ ہُدہُد بھی اسرارِ شریعت سے واقف تھا تو لازماً وہ بھی انسان ہی تھا نہ کہ پرندہ۔
طَیرکی مختلف اقسام
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا طَیْر کے متعلق قرآن کریم میں کوئی اشارہ پایا جاتا ہے یا نہیں؟ سو جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے
ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ طَیر کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا مِنْ دَابَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طَائِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَا حَیْہِ اِلاَّ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ ۴۲؎ یعنی زمین پر چلنے والے جانور اور دونوں پَروں سے اُڑنے والے پرندے سب تمہاری طرح کی جماعتیں ہیں۔ اب یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے پرندوں کیلئے یہ شرط لگائی ہے کہ یَطِیْرُ بِجَنَا حَیْہِ کہ وہ پرندے جو اپنے دونوں پَروں کے ساتھ اُڑتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ایساپرندہ بھی ہوتا ہے جو پَروں سے نہیں اُڑتا۔
پھر اس سے بھی واضح آیت ہمیں ایک اور ملتی ہے جس سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ واقعہ میں طَیْر کسی اور چیز کا نام ہے۔ سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰفّٰتٌ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ ۴۳؎ یعنی کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح وہ تمام ذَوِی العقول کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اور ان ذَوِی العقول میں سے جو طَیْر ہیں وہ صفیں باندھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں اور ان گروہوں میں سے ہر ایک کو نماز اور تسبیح کا طریق معلوم ہے اور اللہ تعالیٰ ان ذَوِی العقول کے تمام اعمال سے واقف ہے۔ یہاں تین دلیلیں اس بات کی موجود ہیں کہ طَیْر سے مراد پرندے نہیں۔
اوّل: یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ میں سے اللہ تعالیٰ نے طَیر کیوں نکال ڈالے اور ان کا الگ کیوں ذکر کیا؟ پھر مَنْ کا لفظ ہمیشہ ذوِی العقول کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ غیر ذَوِی العقول کیلئے نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے صرف طَیْر کو کیوں نکالا؟ جنات اور دوسری مخلوق کا الگ ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا اس سے صاف طور پر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ طَیْر کوئی الگ چیز ہے؟
پھر فرماتا ہے کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ ان میں سے ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کو جانتا ہے۔ اب سارے قرآن میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ پرندے بھی نمازیں پڑھا کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خالی تسبیح ہی نہیں کرتے بلکہ انہیں نماز کا بھی علم ہے اور وہ صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہیں۔ آخر میں فرمایا وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ اور یَفْعَلُوْنَ کا صیغہ پھر ذَوِی العقول کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ آخر تم نے کبھی ایسے طَیْر دیکھے ہیں جو صفیں باندھ باندھ کر نمازیں پڑھتے ہوں؟ ایسے طَیْر تو دنیا میں صرف مسلمان ہی ہیں اور کوئی نہیں۔ پس مَنْ کا استعمال کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ کا استعمال اور وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ کا ذکر بتا رہا ہے کہ اس میں انسانوں کا ہی ذکر ہے خصوصاً اُن مؤمنوں کا جو باجماعت نمازیں ادا کرتے ہیں۔
مومنوں کو طَیْرکیوں کہا گیا؟
اب سوال یہ ہے کہ اگر طَیْر سے مراد اس جگہ مومن ہی ہیں تو پھر انہیں طَیْر کیوں کہا گیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی اعمال کا جو نتیجہ ہو اُسے عربی میں طائر کہتے ہیں اور اس کا ذکر قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ اعراف میں فرماتا ہے۔ فَاذَا جَائَ تْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہِ وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیَئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ اَلَا اِنَّمَا طٰئِرُ ھُمْ عِنْدَاللّٰہِ وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ ۴۴؎ یعنی جب اُن کو کوئی خوشی پہنچتی ہے اور ان پر خوشحالی کا دَور آتا ہے تو کہتے ہیں یہ ہمارا حق ہے اور جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں موسیٰ اور اُس کے ساتھیوں کی نحوست کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَا اِنَّمَا طٰئِرُ ھُمْ عِنْدَاللّٰہِسنو! اُن کا پرندہ یعنی اُن کے وہ اعمال جنہیں وہ بجا لاتے ہیں خدا کے پاس موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم پر موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی وجہ سے عذاب آیا اور خدا کہتا ہے کہ ان کا پرندہ ہمارے پاس موجود ہے۔ بظاہر اس کا آپس میں چونکہ کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا اس لئے لغت والے لکھتے ہیں کہ طائر کے ایک معنی انسانی اعمال کے بھی ہیں۔ چنانچہ امام راغب لکھتے ہیں۔ وَکَلُّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ کے معنی ہیں عملہ الَّذِیْ طَارَعَنْہُ مِنْ خَیْرٍوَّشَرٍّ ۴۵؎ یعنی اِس جگہ طائر سے مراد ہر اچھا یا بُرا عمل ہے جو انسان سے سرزد ہوتا اور پھر اُڑ کر نظروں سے غائب ہو جاتا ہے۔ اقرب میں بھی طائر کے ایک معنی عملہ الَّذِیْ قلدہ وَ طَارَ عَنْہُ مِنْ خَیْرِ اَوْشَرِّ ۴۶؎ کے لکھے ہیں یعنی انسانی عمل خواہ اچھا ہو یا بُرا۔
پھر فرماتا ہے قَالُوا اطَّیَّرنَابِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَ قَالَ طَائِرُکُمْ عِنْدَاللّٰہِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ ۴۷؎ جب ثمود کے پاس حضرت صالح علیہ السلام آئے تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تیرے اور تیرے ساتھیوں کے بُرے اعمال کی نحوست کی وجہ سے ہم تباہ ہوئے ہیں جیسے آجکل کہتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کی نحوست کی وجہ سے ہی طاعون اور دوسری وبائیں آئیں۔ فرماتا ہے ان کے نبی نے ان کو جواب دیا کہ طَائِرُکُمْ عِنْدَاللّٰہِ تمہارا طائر تو اللہ کے پاس ہے بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم ہو جسے آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔
پھر تین رسولوں کا سورۃ یٰسن میں ذکر کر کے فرماتا ہے قَالُوْا اِنَّا تَطَیَّرْنَا بِکُمْ لَئِنْ لَّمْ تَنْتَھُوْا لَنَرْ جُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ- قَالُوْا طَائِرُکُمْ مَّعَکُمْ اَئِنْ ذُکِّرْ تُمْ بَلْ اَنْتُمْ قُوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ ۴۸؎ یعنی جب وہ مصلح اور رسول ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا کہ ہم تمہاری وجہ سے بڑی تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں اور تمہارا آنا ہم منحوس سمجھتے ہیں اگر تم باز نہ آئے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے۔ انہوں نے کہا تمہارا پرندہ تو تمہارے ساتھ ہے یعنی تم جہاں بھی ہوگے تمہارے اعمالِ بد کا نتیجہ تم ہی کو تباہ کرے گا ہمیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ اور کیا تم یہ بات اس لئے کہتے ہو کہ ہم تمہیں اچھے کام یاد دلاتے ہیں بلکہ حق یہ ہے کہ تم حد سے گذرنے والی قوم ہو اِس لئے تم اپنے اعمال کی ضرور سزا پائو گے۔ اس جگہ بھی طائر کا لفظ استعمال ہوا ہے جو قوتِ عملیہ اور نتیجہ عمل کے معنوں میں ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس لفظ کے استعمال کی حقیقت کیا ہے اور اس کی انسان کے ساتھ نسبت کیا ہے؟ سو اس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں سورۃ بنی اسرائیل میں ایک آیت نظر آتی ہے جو ہمیں اس مضمون کے بہت زیادہ قریب کر دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ وَنُخْرِجُ لَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ کِـتَبًایَّلْقٰہُ مَنْشُوْرًا- اِقْرَأْ کِتٰـبَکَ کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْبًا۔ مَنِ اھْتَدٰی فَاِنَّمَا یَھْتَدِیْ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ ضَلَّ فَانَّمَا یَضِلُّ عَلَیْھَا وَلَاتَزِرُوَازِرَۃٌ وِّزْرَاُخْرٰی وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا ۴۹؎ یعنی ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک پرندہ اُس کی گردن کے نیچے باندھا ہوا ہے اور ہم قیامت کے دن اُس کے اعمال نامہ کو اُس کے سامنے لائیں گے جسے وہ بِالکل کُھلا ہؤا پائے گا اور اُسے کہا جائے گا اِسے پڑھ کر دیکھ لے اور اپنی نیکی بدی کا آپ حساب کر لے کیونکہ آج تیرا نفس ہی تیرا حساب لینے کیلئے کافی ہے۔ اور یاد رکھو کہ جو ہدایت پاتا ہے وہ اپنے لئے پاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے اس کا نقصان بھی اُسی کو ہوتا ہے کوئی کسی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا اور ہم اُس وقت تک لوگوں کو عذاب نہیں دیتے جب تک کہ اُن کی طرف کوئی رسول مبعوث نہ کرلیں۔
یہاں قرآن نے طائر کے نہایت لطیف معنی کئے ہیں اور بتایا ہے کہ ہر انسان کی گردن کے نیچے اُس کا پرندہ بندھا ہؤا ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس کا مفہوم کیا ہے؟ سو جب ہمیں خداتعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ یہ پرندہ ہر انسان کی گردن کے نیچے ہے تو ہمیں یہ تو نظر آ رہا ہے کہ کوئی پرندہ گردن کے نیچے نہیں ہوتا۔ پس صاف معلوم ہوا کہ اس پرندے سے مراد کوئی اور چیز ہے اور وہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ قوتِ عمل یا نتیجہ عمل کا نام خدا تعالیٰ نے طائر رکھا ہے۔ پس جس قسم کے بھی انسان اعمال بجا لاتا ہے اُن کی پرندے والی شکل بنتی چلی جاتی ہے۔ اگر تو انسان نیک اعمال بجا لاتا ہے تو وہ انسان کو آسمانِ روحانیت کی طرف اُڑا کر لے جاتے ہیں جیسے ہوائی جہاز فضائے آسمانی میں اُڑا کر لے جاتا ہے۔ اور اگر اعمال بُرے ہونگے تو لازماً پرندہ بھی کمزور ہوگا اور انسان بجائے اُوپر اُڑنے کے نیچے کی طرف گِرے گا۔ اب قرآن کریم ایک طرف تو یہ مضمون بیان کرتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کے ساتھ ایک طائر باندھ رکھا ہے اگر وہ اچھے عمل کرے گا تو وہ طائر اسے اوپر اُڑا کر لے جائے گا اور اگر بُرے اعمال کرے گا تو وہ اُسے نیچے گرا دے گا۔ اور دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مضمون کو ان الفاظ میں ادا فرماتے ہیں کہ مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ اَوْیُمَجِّسَانِہٖ ۵۰؎ کہ ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے فطرت صحیحہ پر پیدا کیا ہے پھر ماں باپ اُسے یہودی یا مجوسی یا نصرانی بنا دیتے ہیں گویا انسان میں اُڑنے کی طاقت موجود ہے اور اُسے پرواز کے پَر عطا کئے گئے ہیں۔ یہی مضمون َکُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے اُس کا پرندہ بھی اُس کے ساتھ پیدا کر دیا جاتا ہے۔ پھر بعض ماں باپ تو اُس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں اور بعض جو بچ جاتے ہیں اُن کیلئے پرواز کی صورت پیدا ہو جاتی ہے اور عملِ نیک کی وجہ سے اُن کا طائر یعنی فطرتی مادۂ سعادت ترقی کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۃ فاطر میں فرماتا ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰئِکَۃِ رُسُلًا اُوْلِیْ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَرُبٰعَ۵۱؎ یعنی سب تعریفیں اُس اللہ کی ہیں جو آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والا ہے اور فرشتوں کو ایسی حالت میں رسول بنا کر بھیجنے والا ہے جب کہ کبھی تو اُن کے دو دو پَر ہوتے ہیں کبھی تین تین اور کبھی چار چار۔ پھر وہ انسانوں کی طرف آتا ہے اور فرماتا ہے۔ مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فِللّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ وَالَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاتِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَمَکْرُ اُوْلٰئِکَ ھُوَیَبْورُ ۵۲؎ فرماتا ہے تمہیں یہ تو معلوم ہو گیا کہ مختلف فرشتوں کی ترقی کیلئے ہم نے کئی کئی پَر بنائے ہوئے ہیں۔ مگر اے انسانو! تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تمہارے لئے بھی ترقی کے مواقع موجود ہیں بلکہ اگر تم چاہو تو فرشتوں سے بھی آگے بڑھ سکتے ہو۔ پس تم میں سے جو کوئی عزت حاصل کرنا چاہتا ہے اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ تمام عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اُسی کی طرف سچی اور پاکیزہ روحیں بلند ہوتی ہیں۔ اَلْکَلِمُ الطَّیِّبُ یعنی خدا کا کلام جن کو میسر ہو وہ ترقی کر جاتے ہیں مگر خالی کلام نہیں بلکہ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ اعمالِ صالحہ کا اُسے سہارا چاہئے۔ گویا اَلْکَلِمُ الطَّیِّبُ ایک پرندہ ہے مگر وہ اکیلا نہیں اُڑ سکتا بلکہ اعمالِ صالحہ کی مدد سے صعود کرتا ہے۔ اسی طرح اُس کے دو پَر بن جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ آسمانِ روحانیت کی طرف پرواز کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ پرندے کی دو خاصیتیں ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اونچا جاتا ہے یعنی فضا میں اُڑتا ہے دوسرے یہ کہ اُس کا آشیانہ ہمیشہ اونچا ہوتا ہے۔ جو پرندے آشیانوں میں رہتے ہیں وہ درختوں کی ٹہنیوں پر آشیانہ بناتے ہیں اور جو بغیر آشیانے کے رہتے ہیں وہ بھی درخت پر بسیرا کرتے ہیں نیچے نہیں بیٹھتے۔ اب یہی دو خاصیتیں قرآن کریم میں مومنوں کے متعلق بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا لْعِلْمَ دَرَجٰتٍ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۵۳؎ اے مومنو! جب تمہیں کہا جائے کہ اٹھو! تو فوراً اُٹھ کھڑے ہوا کرو اور نبی یا اُس کے خلیفہ کی آواز پر دَوڑ پڑا کرو کیونکہ یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا لْعِلْمَ دَرَجٰتٍ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو تم میں سے مومن ہیں اور علمِ حقیقی رکھنے والے ہیں اونچا کر دے گا اور انہیں درجات میں بڑھا دے گا۔ گویا اوپر اُڑنے کی خاصیت کا مومنوں کے تعلق میں ذکر آگیا۔
دوسری خاصیت یہ تھی کہ پرندہ ہمیشہ اپنا آشیانہ اونچا بناتا ہے اس کا بھی مومنوں میں پایا جانا قرآن کریم سے ثابت ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَلْاٰصَالِ۔ رِجَالٌ لاَّتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَائِ الزَّکٰوۃِ ۵۴؎ یہ نور کچھ گھروں میں ہے جن کے متعلق ہمارا حُکم ہے کہ انہیں اونچا کر دیا جائے۔ ان گھروں میں خدا کا نام لیا جاتا ہے اور صبح و شام اس کی تسبیح کی جاتی ہے۔ مگر فرماتا ہے رِجَالٌ ہماری مراد گھروں سے نہیں بلکہ آدمیوں کو اونچا کرنے سے ہے ایسے آدمیوں کو جن کو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز کے قیام اور زکوٰۃ کی ادائیگی سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ بیع۔ گویا پرندے کی جو دو خاصیتیں تھیں ان دونوں کا مومنوں کے اندر پایا جانا بھی بیان کر دیا گیا اور بتا دیا گیا کہ عملِ صالح مومن کو اُڑا کر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جاتا ہے۔ حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ جب کوئی مومن مرتا ہے تو اُس کی روح کو فرشتے آسمانوں کی طرف لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دروازے کھول دو ایک مومن کی روح آتی ہے مگر جب کافر مرتا ہے تو اُس کی روح اُٹھائی نہیں جاتی بلکہ نیچے پھینکی جاتی ہے۔
غرض طَیْر سے مراد وہ اعلیٰ درجہ کی روحیں ہیں جو دین کیلئے ہر قسم کی بلندیوں پر چڑھنے کیلئے تیار رہتی ہیں وہ مشکلات کی پرواہ نہیں کرتیں اور نہ مصائب سے گھبراتی ہیں بلکہ ہر قسم کی قربانیوں کیلئے آمادہ اور تیار رہتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ ایک صحابیؓ نے جنگِ بدر کے موقع پر کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ حُکم دیجئے ہم اپنے گھوڑے سمندر میں ڈالنے کیلئے تیار ہیں اور ذرا بھی ہمارے اندر ہچکچاہٹ پیدا نہیں ہوگی کہ حضور نے یہ حُکم کیوں دیا؟ گویا مومن کو پرندہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اُن قابلیتوں کا ذکر کیا ہے جو مومنوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور بتایا ہے کہ وہ سِفلی زندگی کی بجائے علوی زندگی اختیار کرتے اور نیچے جُھکنے کی بجائے اوپر کی طرف پرواز کرتے ہیں۔
ہُدہُد کے متعلق تاریخی تحقیق
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ہُدہُد نام کیوں رکھا گیا ہے؟ اور گو اس کا عقلی جواب مَیں
قرآن کریم سے ہی دے چکا ہوں مگر اَب بتاتا ہوں کہ ہُد ہُد سے مراد کیا ہے؟
ہُدہُد کا پتہ لینے کیلئے جب ہم بنی اسرائیل کی کتابیں دیکھتے ہیں اور اِس امر پر غور کرتے ہیں کہ کیا اِن میں کسی ہُد ہُد کا ذکر آتا ہے یا نہیں۔ تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں یہودیوں میں کثرت سے ہُدَد نام ہوا کرتا تھا جو عبرانی سے عربی میں بدل کر ہُدہُد ہو گیا۔ جیسے عبرانی میں ابراہام کہا جاتا ہے مگر جب یہ لفظ عربی میں آیا تو ابراہیم بن گیا۔ اسی طرح عبرانی میں یسوع کہا جاتا ہے مگر عربی میں عیسیٰ کہتے ہیں۔ اسی طرح عبرانی میں موشے کہا جاتا ہے مگر عربی میں یہی نام موسیٰ ہو گیا۔ اب بھی کسی اہلِ عرب کو لکھنؤ کہنا پڑے تو وہ لکھنؤ نہیں بلکہ ’’لکھنا ہو‘‘ کہے گا۔ اسی طرح عبرانی میں ہُدَد کہا جاتا تھا مگر چونکہ قرآن عربی میں ہے اس لئے جب یہ نام اس میں آیا تو ہُدہُد ہوگیا۔
درحقیقت تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ھدد کئی ادومی بادشاہوں کا نام تھا اور اس کے معنی بڑے شور کے ہوتے ہیں۔ عربی زبان میں بھی ھَدَّ کے ایک معنی اَلصَّوْتُ الْغَلِیْظُ ۵۵؎ یعنی بڑی بلند آواز کے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اونچی آواز والے لڑکے کا نام ہُدد یا ہُدہُد رکھ دیتے تھے۔ پھر یہ نام تیسرے ادومی بادشاہ کا بھی تھا جس نے مدین کو شکست دی تھی اور آخری بادشاہ کا بھی یہی نام تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک لڑکے کا نام بھی ہُدہُد تھا۔ بائیبل کی کتاب نمبر۱ سلاطین باب۱۱ آیت۱۴ میں بھی ادوم کے خاندان کے ایک شہزادہ کا ذکر آتا ہے جس کا نام ہُدد تھا۔ اور جو یوآب کے قتل عام سے ڈر کر مصر بھاگ گیا تھا۔ جیوش انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ پُرانے عہد نامہ میں جب یہ لفظ اکیلا آئے اور اس کے ساتھ کوئی صفاتی فعل یا لفظ نہ ہو تو اس کے معنی ادومی خاندان کے آدمی کے ہوتے ہیں۔ غرض یہ ہُد ہُد عبرانی زبان کا لفظ ھُدد ہے جو عربی میں آ کر ہُدہُد ہوگیا۔ چونکہ مفسّرین کو یہ شوق ہوتا ہے کہ اپنی تفسیر کو دلچسپ بنائیں اس لئے وہ بعض دفعہ بیہودہ قصّے بھی اپنی تفسیروں میں درج کر دیتے ہیں۔ چنانچہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ضبّ عربی میں گوہ کو کہتے ہیں مگر ضَبّ عرب کے ایک قبیلے کے سردار کا بھی نام تھا اور یہ ایسا ہی نام ہے جیسے ہندوئوں میں طوطا رام نام ہوتا ہے۔ وہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا اور اُس نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا۔ اب وعظ کی کتابوں میں اس بات کو ایک قصّہ کا رنگ دیتے ہوئے یوں بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ رستہ میں ایک سوراخ سے گوہ نکلی اور اُس نے قصیدہ پڑھنا شروع کر دیا۔ اب جن لوگوں نے یہ بنا لیا کہ ایک گوہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں قصیدہ پڑھا تھا اُن کے لئے ہُدہُد کا پرندہ بنا لینا کونسا مشکل کام تھا۔
بہرحال قرآن کریم میں کئی مقامات پر مجاز اور استعارہ بھی استعمال کیا گیا ہے مگر چونکہ قرآن کریم دائمی شریعت ہے اس لئے اُس نے ساتھ ہی مُحکم آیات بھی رکھ دی ہیں جو کوئی دوسرے معنی کرنے ہی نہیں دیتیں۔ جب استعارے کو استعارے کی حد تک محدود رکھا جائے گا تو اس کے معنی ٹھیک رہیں گے مگر جب استعارہ کو حقیقت قرار دے دیا جائے گا تو دو آیتیں آپس میں ٹکرا جائیں گی۔
غرض قرآن کریم کا یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کے مقابلہ میں باقی الہامی کتب قطعاً نہیں ٹھہر سکتیں۔ افسوس ہے کہ باوجود ایسی عظیم الشان کتاب پاس رکھنے کے مسلمانوں کو پھر بھی ٹھوکر لگ گئی اور انہوں نے عجیب و غریب قصّے گھڑ لئے۔ چنانچہ چیونٹی کا واقعہ جو وہ بیان کرتے ہیں اِسی کے ضمن میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ کو جب وہ چیونٹی ملی تو آپ نے اس سے پوچھا کہ بتا مجھ سے بڑا آدمی بھی تو نے کبھی دیکھا ہے؟ وہ کہنے لگی یہ کوئی اچھی بات معلوم نہیں ہوتی کہ آپ تخت پر بیٹھے ہوں اور مَیں زمین پر۔ آپ مجھے اپنے پاس بٹھائیں پھر آپ کی بات کا مَیں جواب بھی دے دونگی۔ انہوں نے اُسے اُٹھا کر تخت پر بٹھا لیا۔ وہ کہنے لگی اب بھی مَیں بہت نیچے ہوں آپ ذرا اَور اوپر کریں۔ چنانچہ انہوں نے اُسے اپنے ہاتھ پر اُٹھا لیا۔ اِس پر وہ کہنے لگی بڑے آپ نہیں بلکہ مَیں بڑی ہوں جو سلیمان کے ہاتھ پر بیٹھی ہوں۔ تو ایسے ایسے لطائف انہوں نے لکھے ہیں جنہیں سُن کر ہنسی آتی ہے۔
بے شک پہلی کتب میں بھی استعارے استعمال کئے گئے ہیں مگر ان کتب میں ان استعاروں کے لئے اندرونی حل موجود نہیں تھا۔ اس کے مقابلہ میں قرآن کریم میں بھی استعارے ہیں مگر ساتھ ہی اس نے حل بھی رکھ دیا ہے تا کہ اگر کسی کو ٹھوکر لگے تو عالمِ قرآن اُس کو سمجھا سکے۔
غرض قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعویٰ ہو کہ اُس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو مَیں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی وید کا پَیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی توریت کا پَیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے۔ اگر کوئی انجیل کا پَیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو مَیں بھی استعارہ سمجھوں۔ پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی نہ پیش کر دوں تو وہ بیشک مجھے اِس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے لیکن اگر پیش کر دوں تو اُسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سِوا دنیا کی اور کوئی کتاب اِس خصوصیت کی حامل نہیں۔
اِس وقت تک مَیں نے قرآن کریم کی فضیلت کے متعلق آٹھ دس باتیں ہی بیان کی ہیں۔ لیکن میرا اندازہ ہے کہ تین سَو بلکہ اِس سے بھی زیادہ دلائل ایسے دیئے جا سکتے ہیں جن سے قرآن کریم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور جن کے مقابلہ میں عام انسانی کتابیں تو الگ رہیں الہامی کتابیں بھی نہیں ٹھہر سکتیں۔ لیکن ان کا لکھنا میرے بس کی بات نہیں۔ ……… کام اتنا زیادہ ہو گیا ہے اور پھر صحت ایسی خراب رہتی ہے کہ اِس کو دیکھتے ہوئے یہ کام بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔
اِس کے بعد مَیں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دوستوں کو اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگ جلسے پر آئے، تقریریں سنیں اور جلسہ ختم ہو گیا۔ اِس جگہ آنے اور تقریریں سننے کا آخر کوئی فائدہ ہونا چاہئے ورنہ آکر خالی ہاتھ چلے جانا تو اپنے اوقات اور اموال کو ضائع کرنا ہے۔ پس جلسہ سالانہ سے فائدہ اُٹھائو اور اِس دفعہ مَیں نے جو مضمون بیان کیا ہے اس کی مناسبت سے کوشش کرو کہ تم طَیْر بن جائو۔ اور ہُد ہُد والے کمال تم میں آ جائیں۔ اگر سلیمانؑ کی اُمت میں سے ایک شخص جس کا نام ہُد ہُد تھا اتنے کمال اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے کہ توحید کے باریک اَسرار کا اُسے علم ہو جاتا ہے، سیاست سے وہ واقف ہوتا ہے، سلیمانؑ شام میں ہوتے ہیں اور وہ یمن کی خبر انہیں پہنچا دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہاں جو شرک نظر آتا ہے اُس کو دور کرنا چاہئے حالانکہ سلیمانؑ صرف ایک قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو وہ قوم جسے خدا نے یہ کہا ہے کہ جائو اور ساری دنیا میں میرا پیغام پہنچائو اُس کے افراد کے اندر اگر اپنے مذہب کا درد نہ ہو تو یہ کتنی شرم کی بات ہوگی۔ غالباً اِسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو شرمانے کیلئے یہ قصّہ بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے مقابلہ میں تو سلیمانؑ کی اُمت ایسی ہی ہے جیسے باز کے مقابلہ میں ہُدہُد۔ پس جب ہُدہُد یہ کمال دکھا سکتا ہے تو بازوں کو اپنے اندر جو کمالات پیدا کرنے چاہئیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہوسکتے۔
پس اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو! اپنے اندر جوشِ اخلاص اور ہمت پیدا کرو۔ تم آسمان کی طرف اُڑو کیونکہ تمہارا خدا اوپر ہے تم نیچے مت دیکھو۔ اور معمولی معمولی باتوں کے پیچھے مت پڑو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہیں طائر بنانا چاہتا ہے۔ کتنی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن پر تمہیں ابتلاء آ جاتے ہیں۔ کہیں اِس بات پر لڑائی ہو جاتی ہے کہ فلاں عُہدہ مجھے کیوں نہیں ملا، کہیں اس بات پر کوئی شخص ٹھوکر کھا جاتا ہے کہ انجمن کا سیکرٹری فلاں کیوں بنا مجھے کیوں نہ بنایا گیا۔ گویا ہر وقت اُن کی نظر نیچی رہتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ تم کو طائر بنانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰہُ طٰئِرَہٗ فِیْ عُنُقِہٖ ہم نے ہر انسان کی گردن کے نیچے ایک طائر باندھ رکھا ہے۔ اب بتائو جس کی گردن کے نیچے کوئی چیز باندھ دی جائے اُس کی نگاہ کبھی نیچی بھی ہو سکتی ہے وہ تو ہمیشہ اوپر کی طرف دیکھے گا۔ پس اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اِس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تم اپنی نگاہیں ہمیشہ اونچی رکھو۔ کیونکہ تم مسلمان ہو اور مسلمان کے برابر دنیا میں اور کوئی نہیں ہوتا۔
پس فائدہ اُٹھائو میرے اِس وعظ و نصیحت سے۔ اور جب اپنے گھروں میں جائو تو اِس ارادے اور نیت کے ساتھ جائو کہ آئندہ ہم چوہے اور چھپکلیاں نہیں بنیں گے بلکہ وہ طائر بنیں گے جو ہوائوں میں اُڑتے پھرتے ہیں اور اپنے خدا کی آواز سننے کی کوشش کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا
اِس کے بعد مَیں دعا کروں گا دوست بھی دعا کریں۔ اپنے لئے بھی، اپنے رشتہ داروں کیلئے
بھی کیونکہ یہ جامع دعا ہوتی ہے۔ جو احمدی ہیں اُن کیلئے بھی کہ انہیں روحانی ترقی نصیب ہو اور جو غیراحمدی ہیں ان کے لئے بھی کہ انہیں ہدایت حاصل ہو۔ اِسی طرح اپنے شہر والوں کیلئے، اپنے ہمسایوں کیلئے اور اپنے ملک والوں کیلئے دعائیں کرو اور خصوصیت سے جماعت کیلئے یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت میں سچا تقویٰ، پرہیز گاری اور تقدس پیدا کرے کیونکہ بغیر اِس کے کہ ہم اسلام کا عملی نمونہ ہوں ہماری زندگیاں کسی کام کی نہیں۔ پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں ایسی محبت پیدا کر دے جس کے مقابلہ میں اور تمام محبتیں سرد ہو جائیں۔ اور ہمیں ہر جگہ وہی نظر آئے۔ اگر ہم بیویوں سے محبت کریں تو خدا کیلئے، اگر ہم ماں باپ سے محبت کریں تو خدا کیلئے، اگر ہم اپنی جانوں سے محبت کریں تو خدا کیلئے، اور اگر ہم مال سے محبت کریں تو خدا کیلئے۔ ہماری مثال حضرت علیؓ کی سی ہو جائے کہ اُن سے جب اُن کے بیٹے امام حسنؓ نے ایک دفعہ پوچھا کہ کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں تو انہوں نے کہا ہاں! پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ خدا سے بھی محبت کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ یہ سن کر حضرت حسنؓ کہنے لگے۔ کیا یہ شرک نہیں کہ آپ خدا کی محبت میں میری محبت کو بھی شریک کرتے ہیں؟ حضرت علیؓ نے فرمایا۔ اے میرے بیٹے! یہ شرک نہیں کیونکہ اگر خدا کی محبت کے مقابلہ میں تیری محبت آجائے تو میں اُسے اُٹھا کر پرے پھینک دوں گا۔
پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی محبت دے اور اگر مَاسِوَی اللہ کی محبت ہمارے دلوں میں ہو تو محض اُس کی وجہ سے ہو مستقل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اچھے کاموں کی توفیق دے ہمیں دناء ت، کمینگی اور پست ہمتی سے محفوظ رکھے۔ ہمارے خیالات میں وسعت دے، ہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور ہماری قربانیوں کو زیادہ کر ے۔ اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلام کی اشاعت کے لئے رات اور دن کام کرتے چلے جائیں مگر ہم یہ سمجھیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ پھر وہ ہمیں اپنے فضل سے اِس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی زندگیاں اُس کے دین کے لئے وقف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے لالچ اور حِرص نکال دے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے ظلم کا مادہ نکال دے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں سے بدظنی اور اپنے بھائیوں کی عیب جوئی اور اُن پر طعنہ زنی کا مادہ نکال دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر عیب سے بچائے۔ ہمارے اندر رحم پیدا کرے۔ ہمیں قرآن کا علم دے۔ اس کے پڑھنے کی توفیق بخشے اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ اور اپنے کلام کی ایسی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دے کہ اس کا کلام ہماری روح کی غذا بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں نور پیدا کرے۔ وہ ہماری آنکھوں، ہمارے کانوں، ہمارے دماغوں، ہمارے ہاتھوں اور ہمارے پائوں میں نور پیدا کرے۔ ہمارے آگے بھی نور ہو ہمارے پیچھے بھی نور ہو۔ ہمارے دائیں بھی نور ہو ہمارے بائیں بھی نور ہو۔ ہمارے اندر بھی نور ہو ہمارے باہر بھی نور ہو یہاں تک کہ ہم مکمل نور بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ تمام تاریکیوں اور ظلمتوں سے ہمیں محفوظ رکھے اور ہمیں اپنی پناہ میں لے لے۔ وہ ہر قسم کے دشمنوں کے حملوں سے ہمیں بچائے۔ اپنے فضلوں کے دروازے ہم پر کھول دے اور ہمارے قلوب کو اتنا پاک اور مصفّٰی کر دے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظِلّ اس پر پڑنے لگے۔ یہاں تک کہ ہم اس کے وہ بندے بن جائیں جن کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَاَدْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۵۶؎۔
پھر دعا کرو اُن مبلّغوں کیلئے جو باہر گئے ہوئے ہیں۔ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کی اُن کوششوں میں جو وہ سلسلہ کی حفاظت اور ترقی کیلئے کر رہے ہیں برکت ڈالے اور ان کے تھوڑے کام کو بھی بہت بنا دے۔ اُن کی زبانوں میں تاثیر ڈالے، اُن کے قلوب میں درد پیدا کرے، اُن کے دماغوں میں خدا کی محبت کی کیفیات موجزن ہوں اور اُن کی زندگیاں خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول ہو جائیں۔
پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہماری آئندہ نسلوں کو بھی پاک بنائے جو ہم میں نقص ہیں وہ ان میں نہ جائیں مگر ہم میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کے وارث ہوں۔ آمین ثم آمین
اس کے بعد حضور نے لمبی دعا فرمائی اور یہ مبارک جلسہ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا۔
(مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)
۱؎ النمل: ۱۶ تا ۲۹ ۲؎ الواقعۃ: ۸۰
۳؎ بخاری کتاب الجنائز باب من جلس عندا المصیبۃ یعرف فیہ الحزن (مفہوماً)
۴؎ البقرۃ: ۹ ۵؎ الاعراف: ۵۵ ۶؎ القلم: ۴۳
۷؎ الانعام: ۹۷
۸؎ احبار باب ۱۳ آیت ۴۷ تا ۵۹
۹؎ المدثر: ۵ ۱۰؎ اٰل عمران: ۸
۱۱؎
۱۲؎ النمل: ۱۶ ۱۳؎ سبا: ۱۱‘۱۲ ۱۴؎ الانبیائ: ۸۰‘۸۱
۱۵؎ ص: ۱۸ تا ۲۱ ۱۶؎ الجاثیۃ: ۱۳‘۱۴ ۱۷؎ الجمعۃ: ۲
۱۸؎ بخاری کتاب الصلٰوۃ باب قول النبی جعلت لی الارض…
۱۹؎ اقرب الموارد الجزء الاوّل صفحہ۱۰۱ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۲۰؎ الاحقاف: ۳۰ تا ۳۲ ۲۱؎ البقرۃ: ۱۵ ۲۲؎ الانعام: ۱۱۳
۲۳؎ النسائ: ۸۰ ۲۴؎ البقرۃ: ۵۵
۲۵؎ نسائی کتاب الطہارۃ باب التیمم بالصعید
۲۶؎ الانعام: ۱۲۹ ۲۷‘۲۸؎ الانعام: ۱۳۱ ۲۹؎ الفتح: ۹‘۱۰
۳۰؎ الاحزاب: ۷۳
۳۱؎ لسان العرب المجلد الثالث صفحہ ۲۲۶،۲۲۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء
۳۲؎ المنجد عربی اُردو صفحہ۲۱۹ مطبوعہ کراچی ۱۹۷۵ء
۳۳؎
۳۴؎
۳۵؎ القاموس الجزء الثانی صفحہ۶۲۴ نولکشور لکھنو ۱۲۸۹ھ
۳۶؎ اٰل عمران: ۴۹‘۵۰ ۳۷؎ المائدۃ: ۱۱۱ ۳۸؎ الرعد: ۱۷
۳۹؎ التوبۃ: ۱۱۹ ۴۰؎ اٰل عمران: ۵۰ ۴۱؎ یٰسن: ۷۹،۸۰
۴۲؎ الانعام: ۳۹ ۴۳؎ النور: ۴۲ ۴۴؎ الاعراف: ۱۳۲
۴۵؎ المفردات فی غریب القراٰن صفحہ۳۱۰ مطبوعہ کراچی
۴۶؎ اقرب الموارد الجزء الاوّل صفحہ۷۲۵ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۴۷؎ النمل: ۴۸ ۴۸؎ یٰسن: ۱۹‘۲۰ ۴۹؎ بنی اسرائیل: ۱۴ تا ۱۶
۵۰؎ الجامع الصغیر للسیوطی
۵۱؎ فاطر: ۲ ۵۲؎ فاطر: ۱۱ ۵۳؎ المجادلۃ: ۱۲
۵۴؎ النور: ۳۷‘ ۳۸
۵۵؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ۱۳۷۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۶؎ الفجر: ۳۰‘ ۳۱