فقہ المسیح ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصول فقہ
فِقہ المسیح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کے فضل اوررحم کے ساتھ
’’ھوالناصر‘‘
فِقہ المسیح
اصولِ شریعت اور فقہی مسائل سے متعلق
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
عرض حال
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت و اجازت سے حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فتاویٰ جو مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے گئے حضور علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات میں مندرج ہیں ان کو یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔
مسیح موعود کے لئے پہلے سے خبر دی گئی ہے کہ وہ اسلام کے مختلف فرقوں اور تمام دنیا کے لئے حکم ہو کر آئے گا اور اپنے تمام قول اور فعل میں عادل ہوگا۔
حضرت امام الزماں فرماتے ہیں:۔
اب تم خود یہ سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود، حکم، عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو۔ وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے۔ وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا۔ وہ حکم عدل ہوگا۔ اگر اس پر تسلی نہیں ہوتی تو کب ہوگی۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۲)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ کی الگ کتابی صورت میں اشاعت سے غرض یہ ہے کہ تا احباب کو دینی اور فقہی مسائل کے بارہ میں یکجائی طور پر ارشادات پڑھنے اور جاننے میں آسانی ہو اور بوقت ضرورت اس کی تلاش کی سہولت میسر ہو۔ یہ ایک قیمتی اور گرانقدر سرمایہ ہے جو مشعل راہ ہے۔ اگر اس سے کما حقہ استفادہ کیاجائے تو کتاب اللہ کے احکامات اور اسوہ رسول کی پیروی و اطاعت اور مامور زمانہ کی تعلیمات کو جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان ہدایات کو دلنشیں کرنے اور حرز جان بنانے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کی سعادت بخشے۔ آمین
اس کتاب کی ترتیب و تحقیق اور تدوین کا جملہ کام محترم انتصار احمد نذر صاحب استاذ الجامعہ نے سر انجام دیا۔ انہوں نے بڑے شوق اور محنت اور احتیاط سے اس کی تکمیل کی۔ آپ جامعہ احمدیہ میں فقہ کے استاد ہیں اس لحاظ سے مواد کے اخذ و اختیار میں بڑی احتیاط اور توجہ دی ہے۔ یہ مسودّہ محترم مولانا مبشر احمد کاہلوں کو دکھایا گیا آپ نے محترم فضل احمد ساجد صاحب مربی سلسلہ دارالافتاء کے بنظر غائر مطالعہ اور ان کی آراء کو ملاحظہ فرما کر بڑے مفید مشوروں سے نوازا۔ مؤلف نے ان سے فائدہ اٹھایا، ان کو ملحوظ رکھ کر نظر ثانی کی ۔ فجزاہم اللّٰہ احسن الجزاء
خالد مسعود
ناظر اشاعت
حرفِ آغاز۔حَکَم عَدل کا فقہی اسلوب
کچھ فقہ المسیح کے بارے میں
{فقہ احمدیہ کے مآخذ}
1
قرآن کریم اور حدیث بطور حجت شرعیہ
5
ہر قسم کی احادیث کے لئے قرآن مِحَک ہے
6
احادیث صرف مفید ظن ہیں
7
بخاری اور مسلم کی احادیث ظنی طورپر صحیح ہیں
7
مذاہب اربعہ کا اختلاف احادیث کی بنیاد پر
8
ادب کی راہ سے حدیث کی تاویل کی جائے
9
بخاری اور مسلم محدثین کا اجتہاد ہے
10
بخاری اور مسلم کی احادیث پر اجماع ہونے کی دلیل
11
بخاری، مسلم کی صحت پر ہرگز اجماع نہیں ہوا
12
کیا بخاری مسلم کی کوئی حدیث موضوع ہے
13
سلف صالحین میں سے آپ کا امام کون ہے؟
13
الہام ملہم کے لئے حجت شرعی کے قائمقام
14
کسی حدیث کے صحیح ہونے کا مطلب
14
احکام صوم و صلوٰۃ کو ظنّی کیوں نہ سمجھا جائے؟
15
احادیث کے دو حصے
16
مراتب صحت میں تمام حدیثیں یکساں نہیں
17
تعامل حجت قوی ہے!
17
تعا مل کے درجے
17
بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع نہیں
18
خبر واحد سے قرآن پر زیادت ہوسکتی ہے
19
حدیث سے کیا مراد ہے؟
19
حدیث ، جو معارض قرآن نہ ہو قابل قبول
19
اجماع کی تعریف از فقہاء
20
اجماع کی تعریف از حضرت مسیح موعود ؑ
22
اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا
23
قرآن مجید کے خلاف اجماع نا قابلِ قبول
23
صحابہؓ کا پہلا اجماع تمام انبیاء کی وفات پر
23
حیاتِ مسیح پر اجماع نہیں ہوا
24
اجماع کے معنوں میں اختلاف
24
اجماع صحابہ ؓ کی اتباع ضروری ہے
24
ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں
25
شرعی حجت صرف اجماع صحابہ ؓہے
25
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد
25
کیا خبرواحد واجب العمل ہے؟
25
مخالف قرآن احاد احادیث ناقابل قبول
26
قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں!
26
جماعت کے لئے لائحہ عمل
27
ہماری مسلمہ کتابیں
28
بخاری اور مسلم کا مقام
28
{علم فقہ اور فقہاء }
31
تَفَقُّہ فِی الدِّین کی ضرورت
31
اَئمہ اربعہ اسلام کے لئے چاردیواری
31
اَئمہ اربعہ برکت کا نشان تھے
32
حضرت امام ابو حنیفہ کا عالی مقام
32
فخرالأئمہ ،امام اعظم ابو حنیفہؓ
34
حنفی مذہب پر عمل کی مشروط ہدایت
34
مسیح موعود ؑکے حنفی مذہب پر ہونے سے مراد
34
مجددین ضرورت وقت کے مطابق آتے ہیں
35
غیر مقلدین سے بھی تعصب نہ رکھو
35
خانہ کعبہ میں چاروں مذاہب فقہ کے مُصلّے
35
تقلید کی بھی کسی قدر ضرورت ہے
36
اختلافِ فقہاء
37
جائز قیاس، جو قرآن و سنت سے مستنبط ہو
38
سنّت صحیحہ معلوم کرنے کا طریق
38
قیاس کی حجت
39
مقلدوں اور غیر مقلدوں کے اختلافات
40
عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف وجوہ کفر
40
وہابیوں کی ظاہرپرستی
41
وہابیوں اور چکڑالویوں کا افراط و تفریط
43
احناف کا احوال
44
شافعی فرقے کے طوراطوار
45
جزئی مسائل میں مباحثے پر ناپسندیدگی
45
فقہی اختلافات کی بنیاد پر کافر نہ کہو
46
حضرت مولوی نورالدینؓ کا حنفی ہونے کا اعلان
47
اہل حدیث طریق کی ناپسندیدگی
48
کتبِ فقہ پرنظرثانی کی ضرورت
49
{ نمازکی حکمتیں }
50
اوقاتِ نماز کی فلاسفی
50
باجماعت نماز کی حکمت
51
ارکان نماز پُر حکمت ہیں
52
شراب کے پانچ اوقات کی جگہ پانچ نمازیں
53
{ اذان }
54
اذان خدا کی طرف بلانے کا عمدہ طریق
54
اذان کے وقت خاموش رہنا لازمی نہیں
54
بچے کے کان میں اذان
55
کیا اذان جماعت کے لئے ضروری ہے
55
{ وضو}
56
ظاہری پاکیزگی کا اثر باطن پر
56
وضو کی حقیقت اور فلاسفی
56
وضو کے طبّی فوائد
57
وضو میں پاؤں دھونا ضروری ہے
58
مضرِ صحت پانی کو استعمال نہ کریں
58
گندے جوہڑ کے پانی سے وضو درست نہیں
59
کنوئیں کو پاک کرنے کا مسئلہ
59
حضرت مسیح موعود ؑ کے وضو کا طریق
60
مَوزوں پر مَسح
61
پھٹی ہوئی جراب پر مسح کرنا
61
بیمار کا مسلسل اخراج ِ ریح ناقضِ وضو نہیں
61
شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا
62
کپڑے صاف نہ ہونے کاشک
62
سجدہ والی جگہ پاک ہو تو نماز ہوجاتی ہے
63
{ ارکانِ نماز }
64
ارکانِ نماز کی حقیقت
64
تکبیر تحریمہ
65
بسم اللہ جھرًا یا سِرًّا دونوں طرح جائزہے
65
رفع یدین
66
رفع یدین پر عمل چھڑوادیا
67
فاتحہ خلف الامام
68
فاتحہ خلف الامام پڑھنا افضل ہے
68
مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری
69
رکوع میں مِلنے والے کی رکعت ہوجاتی ہے
73
تشہد کے وقت انگلی اُٹھانا
74
تشہّد میں انگلی اُٹھانے کی حکمت
75
رکوع و سجود میں قرآنی دُعا کرنا
75
سینے پر ہاتھ باندھنا
76
نماز میں ہاتھ ناف سے اوپر باندھنا
76
رکوع و سجود میں قرآنی دعاؤں کی ممانعت
77
{ نماز با جماعت }
78
امام کہاں کھڑا ہو؟
78
امام مقتدیوں کا خیال رکھے
78
بیماری کے باوجود حکیم فضل دین ؓ کو امام بنانا
79
غسّال کے پیچھے نماز
79
امامت کو بطور پیشہ اختیار کرنا
80
اجرت پر امام الصلوٰۃ مقرر کرنا
80
دوسری جماعت
81
بعض صورتوں میں دو جماعتوں کی ممانعت
81
بلا وجہ جماعت الگ الگ ٹکڑوں میں نہ ہو
82
امام الصلوٰۃ کے لئے ہدایت
82
مکفّرین ومکذبین کے پیچھے نماز پڑھنا حرام
83
غیر احمدی امام کا اقتداء ناجائز
83
غیر احمدی کے پیچھے نماز
83
غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔ الگ پڑھو!
84
غیروں کے پیچھے نماز
84
امام بطور وکیل کے ہوتا ہے
85
غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی حِکمت
85
غیروں کی مساجد میں نماز
85
تنہا احمدیوں کے لئے ہدایت
86
پیشہ ورامام کے پیچھے نماز درست نہیں
86
غیروں کے پیچھے نماز
86
مصدّق کے پیچھے نماز
87
{ متفرق مسائل نماز }
88
نمازوں کی ترتیب ضروری ہے
88
نماز باجماعت کھڑ ی ہونے پر سنتیں پوری کرنا؟
89
سنتوں کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کا معمول
91
مسجد کے ستونوں کے درمیان نماز
92
طلوعِ فجر کے بعد سورج نکلنے تک نوافل جائز نہیں
92
امام کے سلام پھیرنے سے قبل سلام پھیرنا
92
بآواز بلند اپنی زبان میں دعا
93
جھرًا دعائیں پڑھنا
94
سجدہ میں قرآنی دعائیں پڑھنامنع کیوں ؟
95
الہامی کلمات نماز میں بطور دعا پڑھنا
96
.6الہامی دعائیں واحد کی بجائے جمع کے صیغہ میں پڑھنا
96
حالات کے مطابق دعا کے الفا ظ میں تبدیلی
97
قرآنی دعاؤں میںتبدیلی مناسب نہیں
97
دعا میں رقت آمیز الفاظ کا استعمال
98
وتر کیسے پڑھے جائیں
98
بہتر ہے اول وقت وتر پڑھ لیں
98
حضرت مسیح موعود ؑ کا وتر پڑھنے کا طریق
99
وتر اور دعائے قنوت
99
تہجد کی نماز کا طریق
100
تہجد کا اوّ ل وقت
101
ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا
101
نماز اشراق پر مداومت ثابت نہیں
101
تعداد رکعات
102
نماز کے بعد تسبیح
103
غیر معمولی اوقات والے علاقوں میں نماز
104
نماز جمع کرنے کی صورت میں سنتیں معاف
105
نماز میں قرآن شریف کھول کر پڑھنا مناسب نہیں
107
امامِ وقت کے بلانے پر نماز توڑنا
107
ضرورتًا نماز توڑنا
108
سخت مجبوری میں نماز توڑناجائز ہے
108
جوتا پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے
109
پان منہ میں رکھ کر نماز ادا کرنا
109
عورت مرد کے پیچھے الگ صف میں نماز پڑھے
109
نماز میں عورتوں کی الگ صف
110
نماز میں مجبورًاعورت کو ساتھ کھڑا کرنا
110
امام کاجھرًا بسم اللہ پڑھنا اور قنوت کرنا
111
نمازوں میں قنوت کی دعائیں
111
مخصوص حالات میں قنوت پڑھنا
112
نمازکے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کرنا
113
نماز میںاپنی زبان میں دعاکرنا جائز ہے
114
نماز میں اپنی زبان میںبھی دعا کرو
115
نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کرواناچھوڑ دیا
116
نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکردعا کرنا بدعت ہے
118
کسی اور زبان میں نماز پڑھنا درست نہیں
122
{ نمازیں جمع کر نا }
123
مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی
123
بیماری کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا
123
جمع بین الصلوٰتین مہدی کی علامت ہے
124
مسیح موعودؑ کیلئے نمازیں جمع کئے جانے کی پیشگوئی
126
جمع بین الصلوٰتین کی رخصت سے فائدہ اٹھانا
127
تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃ کے نشان کا ظہور
127
جمع صلوٰتین میں افراط اور تفریط سے بچنا چاہئے
128
کس قدر مسافت پر نماز جمع کی جائے
129
سخت تنگی کے وقت نمازیں جمع کرنا
130
غزوئہ خندق کے موقع پر کتنی نمازیں جمع کی گئیں
130
{ نماز استخارہ }
132
استخارہ کی اہمیت
132
سفر سے پہلے استخارہ کا طریق
132
ہر اہم کام سے پہلے استخارہ کرنا
133
نماز عصر میں استخارہ
134
استخارہ میں کونسی سورتیں پڑھیں
134
حضرت مسیح موعود ؑکا طریق استخارہ
135
استخارہ کا ایک آسان طریق
136
کھلے نشانات دیکھ استخارہ کرنا جائز نہیں
137
{ نماز استسقاء }
138
{ نماز کسوف }
139
{ قصر نماز }
140
سفر کی تعریف
140
سفر کی حد کیا ہے؟
140
مرکز میں نمازوں کا قصرجائز ہے
141
کتنے دنوں کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے؟
142
ملازمت پیشہ دوران سفر قصر نہ کرے
144
سفر سے پہلے نمازوں کا جمع کرنا
145
مقیم پوری نماز ادا کرے
145
سفر میں قصر کی حد
146
قصرنماز کا تعلق خوف اور ہر سفر کے ساتھ ہے
147
{ حضرت مسیح موعود ؑکا طریق نماز}
148
حضرت مسیح موعود ؑ کی نمازکا تفصیلی نقشہ
152
{ نماز جمعہ اور عید }
157
جمعہ کا اہتمام
157
نمازجمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنا
157
کیادوافراد کا جمعہ ہوسکتا ہے؟
158
جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے
159
اپنا جمعہ الگ پڑھو
159
نمازِ جمعہ کے بعد احتیاطی نماز
159
جمعہ دو جگہوں پر
161
قادیان میں دو جمعے اوراس کی وجہ
162
سفر میں نمازِ جمعہ
163
جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کی تجویز
164
تعطیل جمعہ کے لئے حکومت کومیموریل بھیجنا
164
اگر جمعہ کا خطبہ ثانیہ نہ آتا ہو
167
قضاء عمری
167
عورتوں کے لئے جمعہ کا استثناء
168
قادیان میں عیدالفطر
168
عیدین کی تکبیرات
169
خطیب اور امام الگ الگ ہوسکتے ہیں
169
{مساجد }
170
مساجد کیسی ہوں
170
مسجد کا ایک حصہ مکان میں ملانا
171
ایک مسجد کے لئے چندہ کی درخواست
171
{ نمازجنازہ اور تدفین }
172
سورۃ یٰسین کی سنت پر عمل کرنا
172
وفات کے متعلق عوام کے بعض غلط تصورات
172
غسل میت۔ بیری کے پتوں کا استعمال
173
سب کا جنازہ پڑھ دیا
173
حضرت مسیح ناصریؑ کا جنازہ
174
خاندانی قبرستان میں دعا
174
چہلم کی حکمت
175
مزاروں کی زیارت
175
مُردہ سے مدد مانگنا جائز نہیں
176
قبرستان میں جاکر منتیں مانگنا
177
میت کوگاڑی پر قبرستان لے جانا
177
صبح کے وقت زیارت قبورسنت ہے
178
قبر پر جاکر کیا دعا کرنی چاہئے؟
179
حفاظت کے خیال سے پختہ قبر بنانا جائزہے
180
قبروں کی حفاظت اور درستگی کروانا
181
کیافاتحہ خوانی جائز ہے
182
کھانے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے
182
میت کی طرف سے صدقہ کرنا اور قرآن پڑھنا؟
183
جس کے ہاں ماتم ہو اُس کے ساتھ ہمدردی
184
کسی احمدی کا طاعون سے مرنا
185
احمدی شہید کا جنازہ فرشتے پڑھتے ہیں
185
غیر احمدیوں کی نمازِ جنازہ پڑھنا
186
طاعون سے مرنے والے مخالفین کا جنازہ
187
غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنے کا مسئلہ
187
مشتبہ الحال شخص کا جنازہ
190
کشفی قوت کے ذریعہ میّت سے کلام
191
مُردوں سے استفاضہ
192
نعش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا
192
امانتًا دفن شدہ میت کا چہرہ دیکھنا
192
تدفین کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا
193
{ روزہ اور رمضان }
194
رؤیت ہلال
194
چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟
195
چاند دیکھنے کی گواہی
195
چاند دیکھنے کی گواہی
196
سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال
198
سفر میں روزہ ۔حکم ہے اختیار نہیں
198
مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں
199
ظہر کے وقت روزے کھلوادئیے
202
عصر کے بعد روزہ کھلوادیا
202
سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا
202
سفر میں روزہ کھول دینا
203
سفر میں رخصت ۔ ملامت کی پرواہ نہ کی
204
مسافر کا حالت قیام میں روزہ رکھنا
205
بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا
208
معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت
208
بیماری میں روزہ کے متعلق حضور ؑ کا معمول
209
مسافر اور مریض فدیہ دیں
210
فدیہ دینے کی کیا غرض ہے ؟
210
فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا
211
فدیہ کسے دیں؟
212
مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے
212
روزہ کس عمر سے رکھا جائے
212
کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت
214
شوّال کے چھ روزوں کا التزام
215
روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا
216
روزہ کی حالت میںسر یا داڑھی کو تیل لگانا
216
روزہ کی حالت میںآنکھ میں دوائی ڈالنا
216
روزہ دارکاخوشبو لگانا
216
روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
217
نمازِ تراویح
217
تراویح کی رکعات
217
تراویح دراصل نماز تہجد ہی ہے
218
نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا
218
بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
219
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا
219
کیامحرم کے روزے ضروری ہیں ؟
219
اعتکاف
219
اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا
220
اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات
220
اعتکاف میں مقدمہ کی پیشی پر جانا؟
220
{ زکوٰۃ }
221
روزے، حج اورزکوٰۃ کی تاکید
221
زکوٰۃ کا نام رکھنے کی وجہ
221
صدقہ کی حقیقت
221
زیور پر زکوٰۃ
222
قرض پر زکوٰۃ
222
مُعلّق مال پر زکوٰۃ واجب نہیں
222
سیّد کے لئے زکوٰۃ؟
222
زکوٰۃ کی رقم سے حضور ؑ کی کتب خرید کر تقسیم کرنا
223
صاحب توفیق کے لئے زکوٰۃجائز نہیں
223
زکوٰۃ مرکز میں بھیجی جائے
224
مکان اور جواہرات پر زکوٰۃ نہیں
224
صدقہ کا گوشت صرف غرباء کا حق ہے
224
صدقہ کی جنس خریدنا جائز ہے
225
حضورؑ نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ لینا جائز قرار نہ دیا
225
{ حج }
226
حج کی تاکید
226
ارکان حج کی حکمتیں
226
حج کی شرائط
228
حضورؑ کے حج نہ کرنے کی وجوہات
229
حج کی مشکلات سے نہ گھبراؤ
231
مسیح موعود کی زیارت کو حج پر ترجیح دینا
233
مامور من اللہ کی صحبت کا ثواب نفلی حج سے زیادہ ہے
233
حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے حج بدل
234
{ قربانی کے مسائل }
235
قربانی کی حکمت
235
دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے
235
قربانی میںدیگرمذاہب پر اسلام کی فضیلت
235
قربانی صرف صاحب استطاعت پر واجب
236
غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر قربانی کرنا
236
بکرے کی عمر کتنی ہو؟
237
ناقص جانور قربانی کے لئے ذبح نہ کیا جائے
237
عیدالاضحی کاروزہ
237
عقیقہ کس دِن کرنا چاہئے
238
حضورؑ کا ایک دوست کی طرف سے عقیقہ کرنا
238
عقیقہ کے واسطے کتنے بکرے مطلوب ہیں؟
239
عقیقہ کی سنت دو بکرے ہی ہیں
239
{ نکاح }
240
نکاح کی اغراض
240
عورتوں کو کھیتی کہنے کی حکمت
241
منگنی نکاح کے قائم مقام نہیں
242
نکاح میں لڑکی کی رضامندی ضروری ہے
242
احمدی لڑکی کاغیر احمدی سے نکاح جائز نہیں
243
غیر احمدی کو لڑکی دینے میں گناہ ہے
243
مخالفوں کو لڑکی ہرگز نہ دو
243
رشتہ کے لئے لڑکیوں کا دِکھانا
244
ہم کفو رشتہ بہتر ہے لیکن لازمی نہیں
245
نکاح طبعی ا وراضطراری تقاضاہے
245
کم عمری کی شادی جائز ہے
246
حضرت عائشہؓ کی شادی پر اعتراض کا جواب
248
تعدّد ازدواج میں عدل کے تقاضے
249
اسلام نے کثرتِ ازدواج کا راستہ روکا ہے
251
تعدّد ازدواج کی ضرورت اور حکمت
251
تعدد ازدواج ۔حکم نہیں بلکہ اجازت ہے
256
بیویوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے
257
عورتوں کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے
258
تعدد ازدواج برائیوں سے روکنے کا ذریعہ ہے
260
پہلی بیوی کی موجودگی میں رشتہ کرنا
261
مہر کی مقدار
261
حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہو
262
واجب الادا مہر کی ادائیگی لازمی ہے
262
مہر کی ادائیگی سے قبل مہر کی معافی نہیں ہوسکتی
263
اعلانِ نکاح ضروری ہے
263
ولیمہ
265
شادی کے موقعہ پر لڑکیوں کا گانا
265
نکاح پر باجا اور آتش بازی
266
مہرنامہ رجسٹری کروانا
267
نکاح کے موقع پر زائد شرط رکھنا
268
حضورؑ کا ایک لڑکی کی طرف سے ولی بننا
268
بیوگان کا نکاح کرلینا بہتر ہے
269
سکھ عورت مسلمان کے نکاح میں رہ سکتی ہے
270
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کاکم عمری میں نکاح
271
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
271
حلالہ حرام ہے
272
نکاح خواں کو تحفہ دینا
274
حیض کے دنوں میں عورتوں سے کیسے تعلقات ہوں
275
وٹے سٹے کی شادی اگر مہر دے کر ہو تو جائز
275
نکاح متعہ کی ممانعت
276
اسلام میں متعہ کا کوئی حکم نہیں
276
اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا
278
متبنّٰی حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا
279
متبنّٰی کی مطلقہ سے نکاح کا جواز
282
{ طلاق }
284
طلاق کی اجازت دینے میں حکمت
284
طلاق کا اختیار مرد کو کیوں دیا؟
284
عورت نکاح توڑنے کی مجاز کیوں نہیں ؟
285
طلاق کا موجب صرف زنا نہیں
286
طلاق کے بعد مہر عورت کا حق ہے
286
طلاق کا قانون باعث رحمت ہے
287
طلاق کی ضرورت
287
وجوہ طلاق ظاہر کرنا ضروری نہیں
289
کیا بوڑھی عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے؟
289
طلاق میں جلدی نہ کرو
291
شرطی طلاق
292
طلاق اور حلالہ
293
طلاق وقفے وقفے سے دی جائے
294
ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینا ناجائز ہے
295
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
296
نابالغ کی طرف سے اس کا ولی طلاق دے سکتا ہے
297
{ خلع }
298
عورت کو خلع کا اختیار حاصل ہے
298
حاکمِ وقت کے ذریعے خلع حاصل کرنے کی وجہ
299
خلع میں جلدی نہیں کرنی چاہئے
299
{ وراثت }
301
فاسقہ کا حقِ وراثت
301
متبنّٰی کو وارث بنانا جائز نہیں
301
یتیم پوتے کا مسئلہ
302
لڑکی کو نصف حصہ دینے کی حکمت
303
{ پردہ }
304
پردہ کی فلاسفی
304
پردہ پر ہونے والے اعتراض کا جواب
305
خاص حالات میں پردہ کی رعایت
306
پردہ میں حد درجہ تکلّف ضروری نہیں
306
پردہ کی حدود
307
امہات المومنین کا پردہ
308
پردے میں بے جا سختی نہ کی جائے
308
نامحرم عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں
309
اضطرار میں پردہ کی رعایت
209
{ خریدوفروخت ؍ کاروباری امور }
311
ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے
311
بیع و شراء میں عرف کی حیثیت
311
.6بیچنے والے کو اپنی چیز کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ہے
312
تجارتی روپیہ پر منافع
312
نیک نیتی میں برکت ہے
313
رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانا جائز
313
رہن میں وقت مقرر کرنا
314
رہن باقبضہ ہواور تحریر لینا بھی ضروری ہے
315
تیس سال کے لئے باغ رہن رکھوانا
315
زمین کی تقسیم کے لئے قرعہ ڈالنا
317
مجبور لوگوں کو مہنگے داموں غلہ فروخت کرنا جائز نہیں
318
آبکاری کی تحصیلداری
318
نوٹوں پر کمیشن
319
{ سود ، انشورنس ، بینکنگ }
320
سود
320
سود در سود
320
پراویڈنٹ فنڈ
320
تجارت کے لئے سودی روپیہ لینے کی ممانعت
321
.6بینکوں کا سود اشاعت اسلام کے لیے خرچ کرنا
323
انشورنس یا بیمہ
327
لائف انشورنس
327
سیونگ بنک اور تجارتی کارخانوں کے سود
328
کسی قیمت پرسودی قرضہ نہ لے
329
سودکی مصیبت سے بچنے کے لئے سود لینا
330
بیمہ زندگی
331
اخبار کی پیشگی قیمت کم اور مابعد زیادہ
332
{ حکومت کی اطاعت }
333
حضرت مسیح موعود ؑ کے پانچ اصول
333
حکام برادری سے حسن سلوک
333
انگریزوں کی حکومت میں رہنے کا مسئلہ
334
اُولوالامرکون ہے
336
اولو الامر کی اطاعت
337
دو انگریزوں کے قتل ناحق پر اظہار ناراضگی
338
حکومت کی طرف سے دی گئی آزادی
340
کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟
341
ہر قسم کی بغاوت سے بچو
344
طلباء کو ہڑتال ختم کرنے کی نصیحت
348
ہڑتال میں شمولیت پرسخت تنبیہ
349
حکام اورسب مذاہب والوں سے نیکی کرو
351
رشوت کی تعریف
352
گورنمنٹ کے حقوق تلف نہ ہوں
352
قومی اور حکومتی زبان سیکھو
353
پٹواریوں کیلئے زمینداروں کے نذرانے
353
شہر کے والی ؍ حاکم کے لئے دعائیہ نوافل
353
گورنمنٹ کے قوانین کی اطاعت کرو
355
حکومت کی مخالفت میں ہڑتال کی ممانعت
355
{ حلّت وحرمت }
356
پاک چیزیں حلال ہیں
356
دریائی جانوروں کی حلت کا اصول
356
اصل میں اشیاء حلال ہیں
356
خرگوش حلال ہے
357
شراب اور جوئے کی حرمت
357
دوسری قوموں سے سود لینا بھی حرام ہے
357
شراب کی حرمت
358
شر اب کی مضر اثرات
358
حرمت خنزیر اور اس کی وجوہات
359
تورات و انجیل میں سؤر کی حرمت
360
حلت و حرمت میں زیادہ تفتیش نہ کرو
361
رضاعت سے حرمت
362
رشوت کی تعریف
363
زنا تضییع نسل کا موجب ہے
363
تکبیر پڑھ کر پرندہ شکار کرنا
364
جانور کو ذبح کرنا ضروری ہے
364
نجاست خور گائے کا گوشت حرام ہے
365
علاج کے طورپر ممنوع چیزوں کا استعمال
365
نشہ آور چیزیں مضر ایمان ہیں
366
تمام نشہ آور اشیاء کے استعمال کی ممانعت
366
نشہ آور اشیا کا استعما ل عمر کو گھٹا دیتا ہے
367
افیون کے مضراثرات
367
نشہ آور چیزوں سے بچنے کا عملی نمونہ
367
تمباکو نوشی کے مضراثرات
368
حقہ نوشی پر ناپسندیدگی کا اظہار
369
حقہ آہستہ آہستہ چھوڑدو
370
تمباکو ؍ زردہ کا استعمال
371
مقوی صحت ادویات کا استعمال جائز
372
طیبات کا استعمال
373
تصویر کی حرمت کا مسئلہ
374
{ بدعات اور بد رسومات }
377
سماع
377
مزامیر
377
نظربٹّو
379
صوفیاء کے طریقوں کوحسن ظنی سے دیکھنا
379
عورتوں کو خصوصی نصائح
381
محرم میں رسومات سے بچو
386
فوت شدگان کے نام پر روٹی تقسیم کرنا
387
نقشبندی صوفیاء کے ذکر واذکارکے طریق
387
.6بدعات سے روکنے کے لئے ناجائز طریق اختیار کرنا.6
389
بعض رسوم فوائد بھی رکھتی ہیں
389
فاتحہ خوانی اور اسقاط
390
میّت کے لئے اسقاط
390
قل خوانی
391
میت کے لئے فاتحہ خوانی
391
ختم اور فا تحہ خوانی
391
چہلم کی رسم ناجائز ہے
392
مسجدکی امامت اور ختم پر اجرت لینا
392
طاعون سے محفوظ رہنے کے لئے زیارتیں لیکر نکلنا
393
یا شیخ عبدالقادر جیلانی کہنا کیسا ہے
394
مولودخوانی
395
گدی نشینوں کی بدعات
397
سر ودکی رسم
398
فقراء کے نت نئے طور طریقے
399
بہترین ریاضت
401
آج کل کے پیر
401
جھنڈ یا بودی رکھنا
402
میّت کے نام پر قبرستان میں کھانا تقسیم کرنا
402
محرم پر تابوت بنانا اور اس میں شامل ہونا
403
دسویں محرم کو شربت اور چاول کی تقسیم
403
ذکر اَرَّہ کرنا کیسا ہے؟
403
تسبیح کا استعمال کیسا ہے؟
404
سورہ فاتحہ کے تعویذ کی برکت
405
تعویذ گنڈوں کے فوائدتصوراتی ہیں
407
دلائل الخیرات کا ورد
408
بابا بُلّھے شاہ کی کافیاں
408
بسم اللہ کی رسم
409
کلام پڑھ کر پھونکنا
410
کشف قبورکا دعویٰ بے ہودہ بات ہے
410
خودساختہ وظائف واذکار
410
تصورِ شیخ
413
قلب جاری ہو جانے کا مسئلہ
414
حبس دم
417
نصف شعبان کی رسوم
417
برآمدگی مراد کے لئے ذبیحہ دینا
417
{ نئی ایجادات،فوٹو گرافی ،ٹیکہ،ریل}
418
اسباب سے استفادہ جائز ہے
418
خادمِ شریعت فن جائز ہے
418
فوٹو گرافی
419
تصویر مفسد نمازنہیں
420
حضرت مسیح موعود ؑ کی تصویرکارڈپرچھپوانا
422
فوٹوبنوانے کی غرض
424
فوٹو گرافی کا جوازاور اس کی ضرورت
425
ضرورت کیلئے تصویر کا جواز
426
حضور کی نظموں کی ریکارڈنگ
426
کفارکی مصنوعات کا استعمال جائز ہے
427
ریل کا سفر ہمارے فائدہ کے لئے ہے
427
{ امورِ معاشرت، رہن سہن، باہمی تعاون }
428
وحدت قومی سے وحدت اقوامی تک
428
مخا لفوں کو سلام کہنا
431
غیر تہذیب یافتہ لوگوں کیساتھ برتاؤ
431
شادی پر عورتوں کا مل کر گیت گانا
432
بعض مواقع پر غیر معمولی خوشی کا اظہار کرنا
432
ایک ہندومہمان کے ساتھ خوش خلقی
433
ہندوئوں سے ہمدردی
434
اہلِ کتاب کا کھانا
434
وجودی فرقے کا ذبیحہ کھانا
437
خواب کو پورا کرنا
437
طبیب ہمدردی کرے اور احتیاط بھی
437
طاعون سے مرنے والے کو غسل کیسے دیں؟
438
طاعون زدہ علاقوں کے احمدیوں کیلئے حکم
438
نشان کے پورا ہونے پر دعوت دینا جائز
440
مجالس مشاعرہ
441
نسل افزائی کیلئے سانڈرکھنا
441
بدامنی کی جگہ پر احمدی کا کردار
442
تشبّہ بالکفار
442
کھانے کے لئے چھری کانٹے کا استعمال
443
اپریل فول ایک گندی رسم ہے
444
عیسائیوں کے کنویں کا پانی نہ لیا
445
دینی غیرت کا اظہار ؍ مٹھائی نہیں کھائی
445
بدگومخالفین سے معانقہ ناجائز
446
ناول لکھنا اور پڑھنا
447
غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا
447
عیسائیوں کا کھانا جائز ہے
447
ہندوئوں کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا
448
ہندو رئیسہ کی دعوت اور نذرقبول کرنا
448
ہندوساہوکار کی دعوت میں شرکت
449
ہندوؤں کے ساتھ لین دین ؍ معاشرت
450
مقد مات میں مصنوعی گواہ بنانا
450
اشعار اور نظم پڑھنا
451
شعر کہنا
451
آتش بازی
452
آتش بازی ؍ باجا
453
سکھوں اور ہندوئوں کا اذان دلوانا
454
سونے چاندی او ریشم کا استعمال
454
رشوت کے روپیہ سے بنائی گئی جا ئیداد
455
طاعون زدہ علاقہ میں جانے کی ممانعت
455
بھاجی قبول نہ کرنا
456
بچے کی ولادت پر مٹھائی بانٹنا
456
بیعت کے موقعہ پر شیرینی تقسیم کرنا
457
بچے کی پیدائش پر شکرانہ کے لڈو
458
گانے بجانے کی مجلس سے علیحدگی
458
ٹنڈ کروانے کی ناپسندیدگی
459
حضرت مسیح موعود ؑ کے مصافحہ کاطریق
461
لباس میں سادگی
461
لباس۔ سبز پگڑی پہننا
463
حضرت مسیح موعود ؑ کی بعض عاداتِ مبارکہ
463
حضرت مسیح موعود ؑ کا وسمہ اور مہندی استعمال کرنا
465
{ متفرق }
466
قرآن شریف کی جامعیت
466
قرآن کریم میں سب قوانین موجود ہیں
466
قرآن کریم اورسائنس
467
قرآن کا صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی نہیں
467
نماز اور قرآن شریف کا ترجمہ جاننا ضروری
467
تکلف سے قرآن پڑھنے کی ناپسندیدگی
468
کلام پڑھ کر پھونکنا
468
قرآن شریف پڑھ کر بخشنا ثابت نہیں
468
قرآن شریف سے فال لینے کی ناپسندیدگی
469
تلاوت کے دوران اگر وضو ساقط ہوجائے
469
ایام حیض میں قرآن کریم نہ پڑھیں
469
قرآن شریف کے اوراق کا ادب
470
آمین کی تقریب پر تحدیث نعمت
470
تعظیمِ قبلہ
471
سورۃ فاتحہ کا دَم
471
تعویذاوردَم
472
شکرانہ کی نیت سے نذر ماننا درست ہے
473
چندہ دینے کی نیت سے نذر ماننا
474
قسم توڑنا
476
ایک خواب کی بنیاد پر کیا جانے والاوظیفہ
477
دین اسلام کے پانچ مجاہدات
478
سخت مجاہدات کرنے پر ناپسندیدگی
479
اپنی عمر دوسرے کو لگا دینے کی دعا کا جواز
479
مسمریزم/ عمل الترب
480
متعدی بیماریوں سے بچاؤ کرنا چاہئے
482
متعدی بیماری سے بچاؤکی تدبیر
482
طاعون زدہ علاقہ سے باہر نکل جاؤ
482
زلزلہ کے وقت سجدہ ریز ہوجانا
483
برتھ کنٹرول
483
لونڈیاں کیوں بنائی گئیں؟
484
زنا کی گواہی
486
مہندی لگانا سُنت ہے
486
والدین کی فرمانبرداری کس حد تک ؟
487
داروغہ نہ بنو
490
بڑی عمر میں ختنہ کرواناضروری نہیں
491
حضرت مسیح موعود ؑ کی بعض خصوصیات
491
حضرت مسیح موعود ؑ کی اولاد کیلئے صدقہ ناجائز
492
رسول اللہ ﷺ کے لئے سلامتی کی دعا
492
ہر نو مسلم کے نام کی تبدیلی ضروری نہیں
493
حضرت مسیح موعود ؑ کا تبرک دینا
494
حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ کا تبرک
495
داڑھی رکھنا انبیاء کا طریق ہے
495
داڑھی تراشنے کا جواز
495
داڑھی کیسی ہو؟
496
حرام مال اشاعت اسلام میں خرچ کرنا
497
حاکم پر رعب ڈالنے کا وظیفہ
498
کھانے کے لئے خاص طریق اختیار کرنا
499
ایک پیر کے بعددوسرے کی بیعت کرنا
500
خدا کی طرف سے بیعت لینے کا حکم
500
بیعت کا طریق
500
ارواح سے کلام
501
خدا کے حکم سے مجاہدات بجا لانا
502
اپنی تجویزسے شدید ریاضتیں نہ کرو
503
سینہ پر دَم کردیا
504
اگر حیلہ خدا سمجھائے تو شرع میں جائز ہے
505
ریڈیو کے ذریعے گانا سننا
505
زندوں کا توسل جائز ہے
506
تعبیر کرنے والے کی رائے کااثر؟
506
کسی نام سے فال لینا
506
کسی کتاب سے فال لینا
507
کسی نام سے بُری فال لینا جائز نہیں
507
ہم تعویذ گنڈے نہیں کرتے
508
سجدئہ تعظیمی کی ممانعت
508
غیر ضروری تفتیش کرنا منع ہے
509
توریہ کا جواز اور اس کی حقیقت
509
مذہبی آزادی ضروری ہے
513
{ جہادکی حقیقت }
514
جہاد بالقتال کی ممانعت کا فتوی
514
لفظ جہد کی تحقیق
514
کفار کی جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں
516
خدا کی طرف سے مقابلہ کی اجازت
517
جہاد کا موجودہ غلط تصور
518
اب جہاد کیوں حرام ہوگیا؟
520
صحابہؓ کے صدق اور صبر کے نمونے
522
موجودہ تصور جہاد نفسانی اغراض پر مبنی
523
اپنی جماعت کو نصیحت
526
اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے
527
حکمران علماء کے ذریعہ عوام کو سمجھائیں
530
محسن گورنمنٹ کی خدمت میں گزارش
532
حضرت اقدس کا التوائے جہادکافیصلہ
537
{ جلسہ سالانہ کا انعقاد }
541
جلسہ سالانہ کاانعقاد بدعت نہیں
541
اس زمانہ کے علماء کی حالت
541
جلسہ سالانہ کے انعقاد کاپس منظر
542
لاہور کی ایک مسجد کے امام کاعجیب استفتاء
542
طلبِ علمِ دین کے لئے سفر کی فضیلت
543
مختلف اغراض کے لئے سفر
544
قرآن و حدیث میں مختلف سفروں کی ترغیب
545
جلسہ کے لئے خاص تاریخ کیوں مقرر کی؟
547
تبلیغ کے لئے حسن انتظام بدعت نہیں
548
ہر زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے
552
حضرت عمرؓ کے محدثات
553
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرفِ آغاز
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدیٔ معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت امتِ مسلمہ کی اصلاح کے لئے حَکَم عَدل بنا کر بھیجا جب امتِ مسلمہ باہمی افتراق و انتشار کا شکار تھی اور تمام غیر مذاہب اسلام پر حملہ آور تھے اوروہ مسلمانوں کی سیاسی اورمذہبی پستی کا فائدہ اُٹھاکر مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کررہے تھے۔
وہ امت واحدہ جو جسد واحد کی طرح تھی لیکن باہمی اختلافات کی وجہ سے بہتّر فرقوں میں بٹ چکی تھی اورعجیب بات یہ تھی کہ اختلاف کی وجوہ بنیادی اصول میں نہیں بلکہ فروعی مسائل تھے۔
خدا کا کلام قرآن کریم اللہ کی رسّی کی شکل میں موجود تو تھامگر باہمی تنازعات کی وجہ سے ہر فرقہ الگ الگ تفسیر کرتا تھا۔ فقہی اور مسلکی اختلافات میں شدّت آچکی تھی۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ بارہ تیرہ سوسال سے فقہی مذاہب نہروں کی شکل میں ساتھ ساتھ بہہ رہے تھے اوران میں باہمی بحث مباحثے اور مناظرے بھی ہوتے تھے تاہم اس دور میں ہر کوئی اپنے آپ کواپنے اپنے مؤقف میں قلعہ بند کر چکا تھا اور دوسروں کی بات سننے کا بھی روادار نہیں تھا۔ اس صورتحال کو حضرت مسیح موعود ؑ نے یوں بیان فرمایا ہے:۔
’’اِفْتَرَقَتِ الْأُمَّۃُ، وَتَشَاجَرَتِ الْمِلَّۃُ فَمِنْہُمْ حَنْبَلِیٌّ وَشَافِعِیٌّ وَ مَالِکِیٌّ وَحَنَفِیٌّ وَحِزْبُ الْمُتَشَیِِّعِیْنَ۔ وَ لَا شَکَّ اَنَّ التَّعْلِیْمَ کَانَ وَاحِدًا وَّلٰکِنِ اخْتَلَفَتِ الْاَحْزَابُ بَعْدَ ذَالِکَ فَتَرَوْنَ کُلَّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحِیْنَ۔ وَ کُلُّ فِرْقَۃٍ بَنٰی لِمَذْھَبِہِ قَلْعَۃً وَلَا یُرِیْدُ أَنْ یَّخْرُجَ مِنْھَا وَلَوْ وَجَدَ اَحْسَنَ مِنْھَا صُوْرَۃً وَکَانُوْا لِعَمَاسِ اِخْوَانِھِمْ مُتَحَصِّنِیْنَ فَاَرْسَلَنِیَ اللّٰہُ لِأَٔسْتَخْلِصَ الصِّیَاصِی وَأَسْتَدْنِیَ الْقَاصِی، وَاُنْذِرَ الْعَاصِی، وَیَرْتَفِعَ الْاِخْتِلَافُ وَیَکُوْنَ الْقُرْآنُ مَالِکَ النَّوَاصِی وَ قِبْلَۃَ الدِّیْنِ۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ559،560)
ترجمہ: امتِ مسلمہ افتراق و انتشار کا شکار ہوگئی ہے ان میں سے بعض حنبلی ، شافعی، مالکی ، حنفی اور شیعہ بن گئے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں تعلیم تو ایک ہی تھی لیکن بعد میں کئی گروہ بن گئے اورہرگروہ اپنے نقطہ نظر پر خوش ہوگیا۔
ہرفرقہ نے اپنے اپنے مذہب کو ایک قلعہ بنارکھا ہے اور وہ اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ،خواہ دوسری طرف انہیںبہتر صورتحال ملے اور وہ اپنے بھائیوں کی بے دلیل باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں۔پس اللہ نے اس صورتحال میں مجھے بھیجا تاکہ میں ایسے قلعوں سے انہیں باہر نکالوں اور جو دورہوچکے ہیں انہیں نزدیک لے آؤں اور نافرمانوں کو ہوشیار کردوں اور اس طرح اختلاف رفع ہوجائے اور قرآن کریم ہی پیشانیوں کا مالک اور دین کا قبلہ بن جائے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتِ مسلمہ کے افتراق اورانتشار اورگمراہی کے دور میں خدا کی طرف سے مامور بن کر آئے۔ چنانچہ آپ نے خدا کے حکم سے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں ہی وہ موعود مسیح اورمہدی ہوں جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر رکھی ہے۔
بخاری کتاب الانبیاء کی یہ مشہور حدیث دراصل آپ کے بابرکت وجود کے بارہ میں ہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ أَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا ، فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیْضُ الْمَالُ حَتَّی لَا یَقْبَلُہٗ اَحَدٌ حَتَّی تَکُوْنَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا ‘‘
(بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم حدیث نمبر3448)
ترجمہ: اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ ابن مریم حَکَم عدل بن کر تم میں نازل ہوں، وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو موقوف کردیں گے اورمال اس کثرت سے ہوگا کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا حتَّی کہ ایک سجدہ دنیاومافیہا سے بہتر ہوجائے گا۔
اسی طرح سنن ابن ماجہ کی روایت میں حَکَمًا مُقسِطًا اوراِمَامًا عَدْلًا کے الفاظ آئے ہیں یعنی منصف مزاج حَکَم اورعادل امام ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی بن مریم )
پیشگوئی کے عین مطابق آپ نے دعویٰ فرمایا کہ
’’میں خداتعالیٰ کی طرف سے آیاہوں اورحَکَم ہوکر آیاہوں۔ ابھی بہت زمانہ نہیں گزرا کہ مقلّد غیر مقلّدوںکی غلطیاں نکالتے اوروہ اُن کی غلطیاں ظاہر کرتے اوراس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے ایک دوسرے کو کافر کہتے اورنجس بتاتے تھے۔ اگر کوئی تسلّی کی راہ موجود تھی تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہوچکی تھیں اورلوگ حقیقت کی راہ سے دور جاپڑے تھے۔ ایسے اختلاف کے وقت ضرورتھا کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کرتا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اورایک حَکَم ان میں بھیج دیا۔‘‘
(الحکم 30ستمبر1904ء صفحہ2،3)
امت مسلمہ کے مسلکی اور فقہی اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ حَکَم غیر جانبدار ہو ۔ اگرحَکَم پہلے سے کسی فرقہ کی طرف منسوب ہو یا اپنے آپ کو مطیع اور مقلّد کہتا ہو تو پھراس کا فیصلہ کون تسلیم کرتا۔ فرمایا
’’ ہم بطورحَکَم کے آئے ہیں کیا حَکَم کو یہ لازم ہے کہ کسی خاص فرقہ کا مرید بن جاوے ۔بہتّر فرقوں میں سے کس کی حدیثوں کو مانے۔حَکَم تو بعض احادیث کو مردود اور متروک قراردے گااوربعض کوصحیح۔ ‘‘
(الحکم 10فروری 1905ء صفحہ۴)
ایک اور جگہ فرمایا
’’آنے والے مسیح کا نام حَکَم رکھا گیا ہے۔ یہ نام خود اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت غلطیاں ہوں گی اورمختلف الرائے۔۔۔۔لوگ موجود ہوں گے۔پھر اُسی کا فیصلہ ناطق ہوگا۔اگر اسے ہر قسم کی باتیں مان لینی تھیں تو اس کا نام حَکَم ہی کیوں رکھا گیا؟
(الحکم 17نومبر1902ء صفحہ2)
آپؑ نے بتایاکہ حَکَم دراصل حرم کے مشابہہ ہے جس کا کام لوگوں کو اختلافات سے بچا کرامن دینا ہے ۔فرمایا
اللہ نے اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان حَکَم بن کر فیصلہ کردے جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے اورتاکہ وہ اسے فاتح قراردیں اور وہ اس کی ہر بات اچھی طرح تسلیم کرلیں اوراس کے فیصلوں پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اوریہ وہی حَکَمہے جو (خدا کی طرف سے) آیا ہے۔ ۔۔۔۔ اے لوگو!تم مسیح کا انتظار کرتے تھے اوراللہ نے جس طرح چاہا اُسے ظاہر کردیا۔ پس اپنے چہروں کو اپنے رب کی طرف پھیر لواوراپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔تم احرام کی حالت میں شکار نہیں کرتے تواب تم اپنی متفرق آراء کی پیروی کس طرح کر سکتے ہوجبکہ تمہارے پاس حَکَم موجود ہے٭۔
٭ حاشیہ: متفرق آراء پرندوں کے مشابہہ ہیں جو ہوا میں ہوتے ہیں اور حَکَم اس امن والے حرم کے مشابہہہے جو غلطیوں سے امن دیتا ہے جس طرح اللہ کی مقدس سرزمین کی عزت کی خاطر حرم میں شکار منع ہے اسی طرح متفرق آراء کی پیروی … اس حَکَم کی موجودگی کی وجہ سے حرام ہے۔وہ حَکَم جو معصوم ہے اور خدائے عزّوجل کی طرف سے حَرَم کی جگہ پر ہے۔ اب ادب کا تقاضا ہے کہ ہر بات اس کے سامنے پیش کی جائے اوراُسی کے ہاتھوں سے ہی اب ہر چیزوصول کی جائے۔
(الھُدٰی والتبصرۃُ لِمَن ْ یَرٰی ۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ338،339۔عربی سے ترجمہ)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امت مسلمہ کی ہر پہلو سے رہنمائی فرمائی اور جن عقائد اوراعمال میں بگاڑ پیدا ہوچکاتھا ان کی اصلاح فرمائی۔آپ ؑ کی بعثت کے وقت امت مسلمہ مختلف فرقوں اورجماعتوں میں بٹی ہوئی تھی اور فقہی اختلافات کے لحاظ سے بھی بہت شدّت آچکی تھی اوربرصغیر پاک و ہند میں حنفی اورغیرحنفی کی تقسیم واضح صورت اختیار کرچکی تھی۔ حنفی اپنے حنفی ہونے پر فخر کرتے تھے اور دین میں اجتہاد کے راستے کو ازخود بند کرچکے تھے اوراپنے ائمہ کی فخریہ تقلید کرتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف اہلحدیث فرقہ، حنفیوں کی سخت مخالفت کرتا تھا اور فروعی مسائل میں باہمی مباحثے ہوتے تھے۔ اہلحدیث موحّد کہلاتے تھے اور حدیث کی اہمیت اوردرجے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے اوربخاری اورمسلم کو عملًا قرآن کے برابر قراردیتے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہردوگروہوں کی اصلاح فرمائی اورانہیں صحیح راستہ دکھایا۔ فرمایا
’’جب ہم اس امر میں غور کریں کہ کیوں ان کتابوں(بخاری و مسلم۔ناقل) کو واجب العمل خیال کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ وجوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے حنفیوں کے نزدیک اس بات کا وجوب ہے کہ امام اعظم صاحب کے یعنی حنفی مذہب کے تمام مجتہدات واجب العمل ہیں! لیکن ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ یہ وجوب شرعی نہیں بلکہ کچھ زمانہ سے ایسے خیالات کے اثر سے اپنی طرف سے یہ وجوب گھڑا گیا ہے جس حالت میں حنفیمذہب پر آپ لوگ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نصوص بیّنہ شرعیہ کو چھوڑ کر بے اصل اجتہادات کو محکم پکڑتے اور ناحق تقلید شخصی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں ہوسکتا کہ آپ بھی کیوں بے وجہ تقلید پر زور مار رہے ہیں ؟ حقیقی بصیرت اور معرفت کے کیوں طالب نہیں ہوتے ؟ ہمیشہ آپ لوگ بیان کرتے تھے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جو غیر صحیح ہو اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔اب کیوں آپ مقلدین کے رنگ پر تمام احادیث کو بلا شرط صحیح خیال کر بیٹھے ہیں ؟ اس پر آپ کے پاس شرعی ثبوت کیا ہے؟‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ20،21)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مامور زمانہ کی حیثیت سے ایک نیا فقہی اسلوب دیا جو فقہ احمدیہ کی بنیاد بنا۔آپ کے فقہی اسلوب کے بنیادی خدّوخال ،آپ کی تحریرات اورملفوظات میں ہمیں ملتے ہیں۔ آپ نے اصول اور مسائل فقہ میں ہر پہلو سے ہماری رہنمائی فرمائی اورمیزان اور اعتدال کا راستہ دکھایا اورصراط مستقیم پر ہمیں قائم فرمایا ۔ آپ ؑ کے فقہی اسلوب کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔قرآن کریم ہی اصل میزان، معیار اورمِحَک ہے
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہمیں شریعت کی اصل بنیاد پر نئے سرے سے قائم فرمایا اور خدا کی اس رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کی ہدایت کی جسے لوگ چھوڑچکے تھے۔ چنانچہ آپ نے باہمی اختلافات کو دورکرنے کے لئے یہ رہنمائی فرمائی کہ قرآن کریم ہی میزان، معیار اورمِحَک ہے۔ فرمایا:
’’ کتاب و سنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تووہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جوکتاب اللہ کی نص بیّن سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ11،12)
2۔ سنّت اور تعامل کی حجیّت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے قرآن کریم کو معیار قراردیا اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے اس موضوع پر آپ کا ایک مباحثہ ہواجو ’’الحق مباحثہ لدھیانہ ‘‘ کے نام سے روحانی خزائن جلد4میں موجود ہے۔ آپ نے حدیث کے صحیح مقام کو واضح کیا اور بتایا کہ سنت اور حدیث میں فرق ہے۔ سنت الگ چیز ہے اورحدیث الگ چیز۔ سنت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش کا نام ہے جو تعامل کے رنگ میں امتِ مسلمہ میں مسلسل جاری رہی ہے اس لئے ہم اسے نہایت اہمیت دیتے ہیں اوراس کے بارہ میں یہ معیار قرارنہیں دیتے کہ اسے قرآن کریم پر پرکھا جائے۔ہاں حدیث کو قرآن کریم پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔
سنت اور حدیث کا فرق واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:۔
’’ہم حدیث اورسنت کو ایک چیز قرارنہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدّثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اورسنت الگ چیز ہے۔ سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اورابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی۔ یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا کا قول ہے اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل۔ ‘‘
(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔روحانی خزائن جلد19صفحہ209،210)
نیزفرمایا
’’ ان لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ سنت اور حدیث کو ایک ہی قراردیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں الگ ہیں اور اگر حدیث جو آپؐ کے بعد ڈیڑھ سو دو سو برس بعد لکھی گئی نہ بھی ہوتی تب بھی سنت مفقود نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ یہ سلسلہ توجب سے قرآن نازل ہونا شروع ہوا ساتھ ساتھ چلا آتا ہے اورحدیث وہ اقوال ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے اور پھر آپ کے بعد دوسری صدی میں لکھے گئے۔‘‘ (الحکم 17نومبر1902ء صفحہ2)
حضرت مسیح موعود ؑ نے حدیث کے مقابلے میں سنت اور تعامل کو بڑی اہمیت دی اور فرمایا:۔
’’ یہ ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال کرلیا جائے کہ احادیث کے ذریعہ سے صوم و صلوٰۃ وغیرہ کی تفاصیل معلوم ہوئی ہیں بلکہ وہ سلسلہ تعامل کی وجہ سے معلوم ہوتی چلی آئی ہیں اوردرحقیقت اس سلسلہ کو فن حدیث سے کچھ تعلق نہیں وہ توطبعی طورپر ہرایک مذہب کو لازم ہوتا ہے۔ ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ26)
آپ نے سنت اور تعامل کے باہمی تعلق کو واضح کرکے دکھایا اور سنت کی زیادہ اہمیت کی وجہ بتائی کہ اُسے سلسلہ تعامل نے حجت قوی بنادیاہے۔فرمایا
’’احادیث کے دو حصّہ ہیں ایک وہ حصّہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طورپرآگیا ہے یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اورقوی اورلاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اورمرتبہ یقین تک پہنچادیا ہے جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اورعقود اور معاملات اوراحکام شرع متین داخل ہیں۔ ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ35)
3۔ انسانی اجتہاد پر حدیث فضیلت رکھتی ہے
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک طرف قرآن کریم کو حدیثوں کو پرکھنے کے لئے معیار قراردیا اور سنت اورتعامل کو حدیث پر اہمیت دی اور اسے قطعی اور یقینی درجہ دیا ۔دوسری طرف محدّثین کے خود ساختہ معیار کے مطابق ضعیف قراردی جانے والی احادیث کو بھی انسان کے اجتہاد اور فقہ پر ترجیح دی کیونکہ بہرحال وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں اس حوالے سے آپ نے اپنی جماعت کو بھی خصوصی نصیحت فرمائی۔
فرمایا
’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اورانسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں۔ ‘‘
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ212)
4۔ شریعت کی اصل روح کا احیاء
حضرت مسیح موعود ؑ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا :
’’ یُحْيِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ ‘‘
ترجمہ: وہ دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ79)
اس الہام میں یہ پیغام دیا گیا کہ آپ ؑ کے ذریعے دین کااحیاء ہوگا اور شریعت کو اصل شکل میں قائم کیا جائے گا۔چنانچہ آپ نے شریعت کے منافی تمام باتوں کی مناہی فرمائی اور انہیں بدعات قراردے کر اپنی جماعت کو ان سے بچنے کی نصیحت کی۔فرمایا
’’کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ سب بدعت ہے اورسب بدعت فی النار ہے۔ اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھراُدھر بالکل نہ جاوے ۔ کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے۔۔۔۔
ہمارا اصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اورطریق سنت کے سِوا نہیں۔
(البدر 13مارچ1903ء صفحہ59)
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا
’’پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجائے اوروظائف اور کافیاں پڑھنا یا اعمال صالحہ کی بجائے قِسم قِسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذتِ روح کے لئے نہیںہے بلکہ لذتِ نفس کے لئے ہے۔ ‘‘
(الحکم 31جولائی 1902ء صفحہ8)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر طرح کی بدعات سے منع کرتے ہوئے اصل سنت کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔ چنانچہ آپؑ نے قل خوانی، فاتحہ خوانی، چہلم، مولودخوانی، تصورِ شیخ، اسقاط، ختم، دسویں محرّم کی رسوم سمیت سب بدرسوم سے اپنی جماعت کوبچنے کی نصیحت فرمائی اور خدااور رسولؐ کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اورصرف ظاہری مسائل پر ہی ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کے انداز کو ناپسندفرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے ایمان دلوں میں قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ صرف ظاہری مسائل پر ہی عمل کرنا اور حقیقت کو نہ سمجھنا یہ بڑی غلطی ہے ۔مجھے خدا نے مجدّد بنا کر بھیجا ہے جو وقت کی ضرورت کے مطابق رہنمائی کرتا ہے۔فرمایا
’’مجدد جو آیا کرتا ہے وہ ضرورت وقت کے لحاظ سے آیاکرتا ہے نہ استنجے اور وضو کے مسائل بتلانے۔ ‘‘ (الحکم 19مئی 1899ء صفحہ4)
اسی طرح آپ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا
’’یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجدّد ہے۔ تجدید کے یہ معنے نہیں ہیں کہ کم یا زیادہ کیا جاوے۔ اس کا نام تو نسخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنے ہیں کہ جوعقائد حقّہ میں فتور آگیاہے اور طرح طرح کے زوائد اُن کے ساتھ لگ گئے ہیں یا جو اعمال صالحہ کے ادا کرنے میں سُستی وقوع میں آگئی ہے یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کے طرق اور قواعد محفوظ نہیں رہے اُن کو مجدّدًا تاکیدًا بالاصل بیان کیا جائے۔ ‘‘
(الحکم 24جون1900ء صفحہ3)
5۔ قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نیحَکَم عَدل کی حیثیت سے باہمی تنازعات کا فیصلہ فرمایا اورجن امور میں امتِ مسلمہ میں اختلاف پایا جاتا تھا اور باہمی بحث مباحثے بھی ہوتے تھے اُن میں آپ ؑ نے صحیح اور معتدل راستہ دکھایا۔ اس کے علاوہ مسلّمہ اور متداول فقہی مسائل میں امتِ مسلمہ کے اجتہاد کوبھی بڑی اہمیت دی۔خاص طور پرایسے مسائل کو جومُطَہَّر بزرگان امت کے اجتہاد پر مبنی ہیں اور امت مسلمہ ان پرصدیوں سے عمل کر رہی ہے۔ فرمایا
’’ میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حُکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام بیّنہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلّمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتاہوں۔ ‘‘ (الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ82)
6۔بزرگان سلف کا احترام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حَکَم عدل کی حیثیت سے بہت سے اختلافی مسائل میں اپنا فیصلہ دیا اوراپناوزن کسی خاص موقف کے حق میں ڈالا تو اس پر بعض لوگوں نے ایسے سوال کئے جن سے بعض مسلّمہ بزرگان دین پر اعتراض ہوتا تھا۔ ایسی صورت حال میں آپؑ نے زیادہ تفصیل میں جانے سے منع فرمایا۔مثلًا
ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں آیا یہ جائز ہے؟فرمایا
’’ اس طرح بزرگان دین پر بد ظنی کرنا اچھا نہیں ، حسن ظن سے کام لینا چاہئے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سُنے تھے۔ ‘‘ (البدر17نومبر1905ء صفحہ6)
اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے نقش بندی صوفیاء کے بعض خاص طریقوں کے حوالے سے سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ ہم ایسے طریقوں کی ضرورت خیال نہیں کرتے ۔ اس پر اس نے کہا کہ اگر یہ امورخلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلّمہ اورمشاہیر جن میں حضرت احمدسرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوں نے مجدّد الف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اورلوگوں کو ایسے امور کی ترغیب و تعلیم دینے والے ہوئے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا
’’اسلام پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اورسامانِ تعیّش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خدا کے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ اُن کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالے کردینا مناسب ہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد2صفحہ69،70)
بزرگانِ سلف کے بعض معتقدات سے اختلاف کے باوجود آپ نے اُن کی عزت اور قبولیت کو بہت اہمیت دی اوراُن کے عالی مقام کا بھی تذکرہ کیا۔ خاص طورپر یہ شرف حضرت امام ابو حنیفہؒ کوحاصل ہوا جن پرگزشتہ بارہ تیرہ سو سال سے اُن کے مخالف علماء اہل الرائے ہونے کا الزام لگاتے تھے اور اہل حدیث تو بار بار اس بات کو پیش کرتے تھے کہ امام صاحب نے قیاس سے کام لے کر گویاشریعت میں دخل دیا ہے۔
الحق مباحثہ لدھیانہ میں ایک ایسے ہی موقعہ پر حضرت مسیح موعود ؑ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
’’اے حضرت مولوی صاحب آپ ناراض نہ ہوں آپ صاحبوں کو امام بزرگ ابوحنیفہ ؒسے اگر ایک ذرہ بھی حسن ظن ہوتا تو آپ اس قدر ُسبکی اور استخفاف کے الفاظ استعمال نہ کرتے آپ کو امام صاحب کی شان معلوم نہیں وہ ایک بحراعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اسکا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابوحنیفہؒ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں یدطولیٰ تھا خداتعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے انہوں نے مکتوب صفحہ ۳۰۷ میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنیوالے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے۔‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ101)
حضرت امام ابو حنیفہؓ کو استخراج مسائل قرآن میں خاص دسترس تھی اس وجہ سے آپ بعض احادیث کی تاویل کرتے تھے یا انہیں چھوڑ دیتے تھے۔اس پر آپ کے مخالفین کی طرف سے اعتراض کیا جاتا تھا۔ حقیقت میں آپ کے فتاویٰ قرآن و حدیث کے منافی نہیں تھے۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں اَئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطر ت کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔ سبحان اللہ اس زیرک اور ربّانی امام نے کیسی ایک آیت کے ایک اشارہ کی عزت اعلیٰ وارفع سمجھ کر بہت سی حدیثوں کو جو اس کے مخالف تھیں ردّی کی طرح سمجھ کر چھوڑ دیا اور جہلا کے طعن کا کچھ اندیشہ نہ کیا۔‘‘
(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد3 صفحہ385)
7۔ احکام شریعت پُرحکمت ہیں
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بڑے زور کے ساتھ ان مفاسد کو دورکردیا جو اس زمانے میں اسلام کے مخالفین کی طرف سے پھیلائے جارہے تھے اوراسلام کی تعلیم پر طرح طرح کے اعتراضات کئے جارہے تھے۔ آپ نے اسلام کی مدافعت کا حق ادا کردیا ۔ آپؑ کی معرکۃ الآراء کتاب کا تعارف تو اس کے نام سے ظاہر ہے۔
’’اَلْبَرَاہِیْنُ الْاَحْمَدِیَّۃُ عَلٰی حَقِیَّۃِ کِتَابِ اللّٰہِ الْقُرَْآنِ وَالنَّبُوَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ ‘‘
یعنی کتاب اللہ کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر احمدی دلائل اوربراہین۔
اس کتاب میں آپ نے اسلام کی پاکیزہ تعلیم کے سچے اور برحق ہونے کے ناقابل تردید شواہد پیش فرمائے اور یہ ثابت فرمایا کہ اسلام کی تعلیم عین فطرتی تعلیم ہے اس کے تمام مسائل انسان کی بھلائی اورانسانی فطرت اورزندگی کے عین مطابق ہیں گویا تمام احکام حق محض ہیں۔آپ نے فرمایا
’’ آج رُوئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلامِ الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔جس کے اصول نجات کے ،بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں۔ جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہریک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں توحید اور تعظیم الٰہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جنابِ الٰہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبّہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہرایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے۔ اور ہریک اصول کی حقیّت پر دلائل واضح بیان کرکے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے۔ اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں، ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کاجاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہریک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دِلی اور بصیرتِ قلبی کے لئے ایک آفتابِ چشم افروز ہے ۔‘ ‘
(براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد1صفحہ81،82)
اپنے موقف کے حق میں آپ نے زورداردلائل بیان فرمائے۔تعدّد ازدواج ہو یا ورثہ کی تعلیم جہاں عورتوں کے لئے نصف حصہ جائیداد میں مقرر ہے سب کے عقلی جواب دئیے۔ متعہ کا اعتراض ہو یا متبنّی بنانے کا مسئلہ ہر ایک بات کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ نیوگ پر آپ کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اعتراضات ہوں یا اُن کے جواب میں حلالہ کے مسئلہ کی آڑ لے کر دشمنوں کا جوابی اعتراض ہوہر مسئلہ کو نکھار کر رکھ دیا۔
آپ نے ارکانِ نماز کی حکمتیں بیان فرمائیں اور وضو اور نماز کے باطنی فوائد کے علاوہ ظاہری طبّی فوائد بھی بیان فرمائے۔ اوقات نماز کی فلاسفی بیان فرمائی اورثابت فرمایا کہ نماز کے متفرق اوقات زندگی کے حقائق اورحالات کے مطابق ہیں۔ بچے کے کان میں اذان دینے کا مسئلہ ہو یا نماز باجماعت میں ظاہری مضمر فوائد ہوں اورحج کی حکمتیں سب مسائل کو عقلی دلائل سے پیش فرمایا۔
آپ نے اپنی تحریرات اور تقاریر میںمنقولی اور معقولی ہردو طرح کے دلائل پیش فرماتے ہوئے اعتراضات کے جواب دئیے۔اورایسے معترضین کو جومنقولی دلائل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے عقلی دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کی۔ فرمایا
’’ یہ بات اجلیٰ بدیہات ہے جو سرگشتۂ عقل کو عقل ہی سے تسلّی ہوسکتی ہے اور جو عقل کا رہزدہ ہے وہ عقل ہی کے ذریعہ سے راہ پر آسکتا ہے۔ ‘‘
(براہین احمدیہ ہرچہارحصص روحانی خزائن جلد1صفحہ67)
پردہ کے مسئلہ کو معقول اور فطرت کے عین مطابق قراردیتے ہوئے آپؑ نے انسانی ضرورتوں کی مثال پیش فرمائی ۔فرمایا
’’جیسے بہت سے تجارب کے بعد طلاق کا قانون پاس ہوگیا ہے اسی طرح کسی دن دیکھ لو گے کہ تنگ آکراسلامی پردہ کے مشابہ یورپ میں بھی کوئی قانون شائع ہوگا۔ ورنہ انجام یہ ہوگا کہ چارپایوں کی طرح عورتیں اورمرد ہوجائیں گے اور مشکل ہوگا کہ یہ شناخت کیا جائے کہ فلاں شخص کس کا بیٹا ہے۔ ‘‘
(نسیم دعوت ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ434)
8۔ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کی عزت و تکریم
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے شریعت کی بعض ایسی رخصتوں اور سہولتوں پر عمل فرمایا جنہیں خدا نے جائز قراردیا ہے لیکن لوگوں نے از خود ایسی باتوں پر عمل چھوڑدیا تھا۔ مثلًا نمازوں کا جمع کرنا انسانوں کی سہولت کے پیشِ نظر جائز رکھا گیا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علاوہ سفروں اورموسمی خرابیوں کے خالص دینی ضروریات کے لئے بھی نمازیں جمع کرنی پڑیں اور بعض اوقات کئی مہینے تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ بعض معترضین نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے بڑی نرمی اور محبت سے اس بات کوسمجھایا کہ میں شریعت کے حکم کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم پیشگوئی کو پورا کرنے کی خاطر نمازیں جمع کرتا ہوں اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو خدانخواستہ استخفاف کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ فرمایا
’’ اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تواصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم ، القاء اورالہام کے بِدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں۔ جہاں تک خدا نے مجھ پر اس جمع بین الصلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُجْمَعُ لَہُ الصَّلوٰۃُ کی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جواَب پوری ہورہی ہے۔‘‘
(الحکم 24نومبر1902ء صفحہ1)
ایک اور موقعہ پر فرمایا
’’دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی حدیث بھی پوری ہورہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔ سو اب ایسا ہی ہوتاہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے۔ اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارکے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایساہوگا۔ چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خِفّت کی نگاہ سے دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیئے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہورہی ہیں ورنہ ایک دودن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا۔ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘ (الحکم 17فروری 1901ء صفحہ13،14)
9۔ شریعت کی رخصتوں پر بھی عمل ضروری ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی شریعت کی حقیقت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور احکام کی غرض وغایت پر زوردیا۔خدا تعالیٰ نے انسان کو شریعت کے احکام دے کر تنگی اور تکلیف میں نہیں ڈالا بلکہ بعض جگہ رخصتیں اوررعایتیں بھی دی ہیں۔لیکن لوگ عمومًا تنگی والے راستے کو اختیار کرتے ہیں۔ آپؑ نے اپنی جماعت کو سمجھایا کہ خدا کی طرف سے دی گئی رخصتیںبھی اس کے احکام کی طرح اہم ہیںاوراُن پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔
ایک ایسے ہی موقع پر جبکہ ایک مہمان کی مہمان نوازی کے بارہ میں آپ نے ہدایت فرمائی اوراس سے آپ نے پوچھا کہ آپ مسافر ہیں آپ نے روزہ تو نہیں رکھاہوگا۔ اس نے کہا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس پر آپؑ نے فرمایا
’’ اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالتِ سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اوراللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔‘‘ (الحکم 31جنوری 1907، صفحہ14)
خدا تعالیٰ کی رخصتوں پر عمل کر نے کے ضمن میں آپ نے شریعت کے اس نقطہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی حرج اورتنگی نہیں رکھی۔ فرمایا
’’شریعت کی بناء نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے۔ ‘‘
(الحکم10اگست 1903ء صفحہ20)
10۔ شعائراللہ کا احترام اور دینی غیرت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ میں ہمیںیہ خصوصی انداز نظر آتا ہے کہ آپ مسائل کی صرف ظاہری صورتوں پر ہی نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ تحدیثِ نعمت اور اظہارِ شکرگزاری کا جذبہ ہمیشہ پیشِ نظر رہتا تھا۔ اسی وجہ سیبعض دفعہ آپ نے اپنی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پرشکرگزاری کے اظہار کے طورپر پر تکلف دعوت بھی کی۔
حضور علیہ السلام اپنے بچوں کو بھی شعائراللہ میں سے سمجھتے تھے۔ اسی حوالے سے یہ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ جون 1897ء میں آپ نے اپنے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدؓصاحب کی آمین کی تقریب منعقد کی جس میں آپ نے اپنے احباب کو پرتکلف دعوت دی اوراس موقعہ پر آپ نے ایک نظم لکھی
حمدوثناء اسی کو جو ذات جاودانی
یہ نظم آمین کی تقریب میں پڑھ کر سنائی گئی اندرزنانہ میں خواتین پڑھتی تھیں اورباہر مرد اوربچے پڑھتے تھے۔ (تاریخ احمدیت جلد1صفحہ611، 612)
اس کے بعد دسمبر1901ء میں حضور ؑنے اپنے بچوں صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ ، صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ اورصاحبزادی نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ کی تقریبِ آمین منعقد کی۔ اس موقعہ پر حضرت نواب محمد علی خانؓ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اقدس میں تحریرکیا کہ
’’حضور کے ہاں جو بشیر، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ہوئی ہے اس میں جو تکلفات ہوئے ہیں وہ گو خاص صورت رکھتے ہیں کیونکہ مخدوم زادگان پیشگوئیوں کے ذریعے پیدا ہوئے۔ ان کے ایسے مواقع پر جواظہارِ خوشی کی جائے وہ کم ہے مگر ہم لوگوں کے لئے کیونکہ حضور ؑ بروزِ محمد ؐ ہیں اس لئے ہمارے لئے سنت ہوجائیں گے۔ اس پر سیر میں کچھ فرمایا جائے۔‘‘
اس پرحضرت اقدس نے سیر کرتے ہوئے تقریر فرمائی کہ
’’ الاعمال بالنیات ایک مسلّمہ مسئلہ اور صحیح ترین حدیث ہے۔ اگر کوئی ریاء سے اظہار علی الخلق اور تفوّق علی الخلق کی غرض سے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے توایسا کھانا وغیرہ حرام ہے یا معاوضہ کی غرض سے جیسے بھاجی وغیرہ۔ مگر اگر کوئی تشکّر اور اللہ کی رضاجوئی کی نیّت سے خرچ کرتا ہے بلا ریاومعاوضہ تواس میں حرج نہیں۔‘‘
(اصحابِ احمد جلد2صفحہ551۔ سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب۔نیا ایڈیشن )
اسی طرح ایک موقع پر آپ نے فرمایا
’’میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے لا انتہاء فضل اورانعام ہیں ۔ ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میںجب کوئی کام کرتاہوں تو میری غرض اورنیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہارہوتی ہے۔ ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے۔ یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیںاس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدرکرنی فرض سمجھتا ہوں۔‘‘ (الحکم 10اپریل 1903ء صفحہ2)
اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دینی غیرت اورحمیّت کے جذبہ کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اسی جذبہ کے پیشِ نظر اسلام کی طرف سے مدافعت کا خوب حق ادا کیا۔ جب دشمنانِ اسلام، اسلام پر حملہ آور ہورہے تھے آپ نے تحریری او رتقریری ہر دو ذریعوں سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب دئیے اور بعض مواقع پر آپ کے ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مباحثات بھی ہوئے۔ ایک ایسے ہی موقع پر جب آپ کا پادری عبداللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ ہوا تو وہ گرمی کا موسم تھا۔ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی کی روایت ہے کہ
’’ پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا۔عیسائیوں کے چاہ (کنوئیں)کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے لہٰذا اِن کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد2صفحہ198 )
عام طورپرعیسائیوں،ہندوؤںاور دیگر اقوام کے ساتھ معاشرت کے لحاظ سے تعلقات رکھے جاتے تھے لیکن جہاں دینی غیرت کا معاملہ آتا تھا وہاں اس حد تک ان سے قطع تعلق کیا جاتا تھا جب تک کہ وہ اپنے طریق عمل کونہ بدل لیں۔ ایک ایسے ہی موقعہ پرحضور سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اورمعانقہ کرنا جائز ہے ؟ حضور نے فرمایا:
’’ میرے نزدیک ہرگز جائز نہیں یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اورہم اُن سے معانقہ کریں۔ قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اورپھر یہ لوگ خنزیرخور ہیں۔ ان کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟ (الحکم17؍اگست 1902ء صفحہ10)
11۔ خشک مسائل سے اجتناب
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اسلام کی سچی اور حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی ہدایت دی۔ عام طورپر لوگ جزوی ، فروعی اورخشک مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے اور حقیقت سے دور جاپڑتے تھے۔ حضورؑ نے ایسے بعض پیش آمدہ مسائل میں غیر حقیقی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ روایتی کتب فقہ میں چونکہ ایسے مسائل موجود تھے جنہیںپڑھ کر بعض لوگ سمجھتے تھے کہ ہمیں بہت علم حاصل ہوگیا ہے اور اب ہم فقہ کے ماہربن گئے ہیں اس لئے وہ ان مسائل کی ظاہری صورتوں پرہی زور دیتے رہتے تھے ۔خاص طورپرحنفیوں میں یہ کمزوری تھی اوراپنے اس طرزِ عمل پر وہ بے جا فخر بھی کرتے تھے اور اپنے آپ کو مقلّد کہتے تھے ۔ اسی لئے آپ نے بعض ایسے روایتی فقہی مسائل سے احتراز فرمایا۔مثلًا
آپ ؑ سے سوال کیا گیا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہا یا بلّی یا مرغی یا بکری یا آدمی کنوئیںمیں مرجائیں تو اتنے دَلوْ (ڈول) پانی نکالنا چاہئے۔ اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ کیونکہ پہلے تو ہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ ، بو، مزانہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا
’’ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے یہ جوحساب ہے کہ اتنے دَلْو نکالو اگر فلاں جانور پڑے اوراتنے اگر فلاں پڑے، یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس پر ہمارا عمل ہے ۔‘‘
عرض کیا گیا کہ حضور ؑ نے فرمایا ہے جہاں سنت صحیحہ سے پتا نہ ملے وہاں فقہ حنفی پرعمل کرلو۔ فرمایا
’’فقہ کی معتبر کتابوں میںبھی کب ایسا تعیُّن ہے ہاں نجات المومنین میں لکھا ہے۔ سو اس میں تو یہ بھی لکھا ہے ۔
سر ٹوئے وچ دے کے بیٹھ نماز کرے
کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جبکہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے۔ پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو۔مَیں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے وَالْرُّجْزَ فَاھْجُرْ (المدثر:۶) جب پانی کی حالت اس قسم کی ہوجائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہئے۔ مثلًا پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ۔ (حالانکہ اس پریہ مُلّاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے) باقی یہ کوئی مقدار مقرر نہیں۔ جب تک رنگ و بو ومزا نجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے۔‘‘ (بدر یکم اگست 1907ء صفحہ12)
اسی طرح آپ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ
میرا بھائی فوت ہوگیا ہے میں اس کی قبر پکّی بناؤں یا نہ بناؤں ؟اس پر آپؑ نے فرمایا
’’ اگر نمود اوردکھلاؤ کے واسطے پکّی قبریں اور نقش و نگار اورگنبد بنائے جاویں تو یہ حرام ہیں لیکن اگر خشک مُلّا کی طرح یہ کہا جاوے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جاوے تو یہ بھی حرام ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ عمل نیّت پر موقوف ہیں۔‘‘ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ253)
12۔ اشدّ ضرورتوں میں حُکم بدل جاتے ہیں
شریعت نے جہاں ہمیں زندگی کے ہراہم پہلو کے لئے مفصل تعلیم دی ہے وہاں انسانی مجبوریوں اورمعذوریوں کا بھی لحاظ رکھا ہے اور اضطرار کے حالات میں رعایت اور سہولت کو بھی مدّنظر رکھا گیا ہے۔افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خان صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اورباہر سے اس کا افسر آجائے اور دروازہ کو ہلا ہلاکر اورٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں کیا کرنا چاہئے ؟ اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہوکر ہندوستان واپس چلا گیا ہے۔اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ
’’ ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا ۔ ( یہ ہسپتال کا واقعہ ہے ۔ اِ س لئے فرمایا ) کیونکہ اگر اس کے التواء سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی۔ احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ایسے ہی اگرلڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اورجانور کو ماردینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی بلکہ بعضوں نے یہ بھی لِکھا ہے کہ گھوڑا کھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسدِ نماز نہیں ہے۔ کیونکہ وقت کے اندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے۔ ‘‘ (البدر24نومبر،یکم دسمبر1904ء صفحہ4)
سونے چاندی اور ریشم کا ضرورتًا استعمال تو معروف مسئلہ ہے۔ اسی حوالے سے آپ سے سوال کیا گیا کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ اس پر آپ نے فرمایا
’’ تین ، چارماشہ تک توحرج نہیں،لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے۔اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے۔ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں۔جیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سونے کے برتن میں کھانا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کرسکتا ہے۔ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا۔اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں۔آپؐ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں۔ (ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے)۔ ‘‘
(البدر24؍اگست 1904ء صفحہ8)
13۔ عُرف کا خیال رکھنا ضروری ہے
احکام شریعت میں موقع و محل کی رعایت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اوربہت سے ایسے مسائل ہیں کہ اگر ان میں معروضی حالات کو مدّ نظر نہ رکھا جائے تو احکام شریعت پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔مثلًا شریعت نے بیمار اور مسافر کے لئے روزہ رکھنے میں رخصت دی ہے تاہم بیماری کی تفاصیل اورسفر کی حدود کاذکر نہیں کیا۔ اسی طرح سفر میں نماز قصرکرنے کی اجازت دی ہے لیکن سفر کی حدّ بیان نہیں فرمائی ۔اس بارہ میں فقہاء کی آراء کی روشنی میں یہ بحثیں ہوتی تھیں کہ کتنا سفر ہو تو سفر کہلائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے عُرف کے اصول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل فرمادیا ۔
ایک شخص نے پوچھا کہ مجھے دس پندرہ کوس تک اِدھر اُدھر جانا پڑتا ہے۔میں کس کوسفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں؟ فرمایا
’’میرامذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اُوپر نہ ڈال لے۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ دوتین کوس ہی ہو۔ اس میں قصروسفر کے مسائل پر عمل کرے۔اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتاکہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بِنا دِقّت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عُرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے۔‘‘ (الحکم 17؍فروری 1901ء صفحہ13)
اسی طرح خریدوفروخت کے معاملات میں بھی عُرف کا خیال رکھنا ضروری ہے جو مروجہ قانون ہو اور سب لوگ اس پر عمل کررہے ہوں اور کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہ ہو تو اس عُرف پر بھی عمل کرنا چاہئے۔
ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرز وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیراسّی روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے اکاسی روپیہ کا ہیں کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا
’’ جن معاملات بیع وشراء میں مقدمات نہ ہوں، فساد نہ ہوں تراضی فریقین ہو اورسرکار نے بھی جُرم نہ رکھا ہو عُرف میں جائز ہو وہ جائز ہے۔ ‘‘
(الحکم 10اگست 1903ء صفحہ19)
14۔ حکومتِ وقت کی اطاعت کی تعلیم
مسلمانوں کے جس ادبار اور پستی کے وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مبعوث ہوئے اس دور میں مسلمان سیاسی ، سماجی، مذہبی ، ہرلحاظ سے پسماندہ ہوچکے تھے ۔ اپنے سابقہ شاندار ماضی کو یادکرتے ہوئے محکومی اورکمزوری ان کے لئے بھاری ہورہی تھی۔ جس دور میں خلافت بنو امیہ،بنوعباس اورعثمانی حکومتیں بڑے بڑے علاقوں پر حکومت کرتی تھیں اس دور میں مذہبی مسائل میں بھی بہت سی جگہوں پر بادشاہ وقت کا ذکر ہوتا تھا اور بعض مسائل میں امامت کا حقدار بادشاہ وقت کو قراردیا جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی مسلمان صدیوں تک حکمران رہے لیکن بعد میں پستی اورذلّت بھی دیکھنی پڑی۔ چونکہ ماضی میں دارالاسلام اوردارالحرب جیسی اصطلاحیں وضع ہوچکی تھیں اس لئے برصغیر میں مسلمانوں کو اپنی حکومت نہ ہونے سے یہ احساس تھا کہ یہ دارالاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے اورخصوصًا 1857ء کے غدر کی بنیادمیں بھی یہ ایک غلط تصوّر تھا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر قسم کی بغاوت ، فساد، اورنافرمانی سے بچنے اورسچے دل سے حکومت وقت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی۔ آپ نے یہ مسئلہ باربار اور کھول کر واضح کیا کہ چونکہ انگریزی حکومت میں مسلمانوں کی نہ صرف جان و مال محفوظ ہے بلکہ مذہبی آزادی اورامن بھی حاصل ہے۔ اس لئے اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہر قسم کی بغاوت اورفساد سے بچنا چاہئے اور حکومت کے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہئے۔ آپ ؑ نے فرمایاکہ میرے پانچ بڑے اصول ہیں۔ان اصولوں میںسے چوتھے اصول کی یوں تفصیل بیان فرمائی کہ
’’یہ کہ اس گورنمنٹ مُحسنہ کی نسبت جس کے ہم زیرِ سایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اورخلوصِ دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا۔ ‘‘ (کتاب البریۃ۔ روحانی خزائن جلد13صفحہ348)
اسی طرح حکومت کی اطاعت کے بارہ میں فرمایا
’’ حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔ میں اس کو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے۔ ‘‘
(الحکم 31جولائی،10اگست 1904ء صفحہ13)
قرآن کریم نے اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنکُم کا جو حکم دیا ہے بعض لوگ اس کی یہ تشریح کرتے تھے کہ اللہ، رسول اور اپنے حکام کی اطاعت کرنی چاہئے یعنی صرف مسلمان حکمران کی اطاعت کرنی جائز ہے!
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی حکم کا حوالہ دے کر’’مِنْکُمْ‘‘ میں ان تمام حکمرانوں کو بھی شامل فرمایا جو خلافِ شریعت حکم پر عمل کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ فرمایا
’’اولی الامر کی اطاعت کا صاف حکم ہے اور اگر کوئی کہے کہ گورنمنٹ ’’مِنْکُمْ‘‘میں داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے۔ گورنمنٹ جو بات شریعت کے موافق کرتی ہے۔ وہ مِنْکُمْمیں داخل ہے۔ جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے۔ اشارۃ النص کے طورپر قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئیاوراس کی باتیں مان لینی چاہئیں۔‘‘
(رسالہ الانذارصفحہ 15۔تقریر حضرت اقدس ؑ فرمودہ 2مئی 1898ء ۔ ملفوظات جلد1صفحہ171)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کی پاکیزہ تعلیم کی حقیقت واضح کرنے کے لئے تحریری اورتقریری ہر طرح سے زوردار کوششیں کیں ۔خاص طورپر آپؑ نے ایک رسالہ لکھا
’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ جوروحانی خزائن کی جلد17میں موجود ہے۔اس میں آپ نے جہاد کی تعلیم کی پوری تفصیل بیان فرمائی اورانگریزوں کے ساتھ جہاد کرنے اوران کی حکومت کے خلاف باغیانہ روش اختیار کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی اور آپ نے اس مسئلہ کو اپنے منظوم میں بھی پیش فرمایا۔فرماتے ہیں:۔؎
اب چھوڑدو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے
دیں کی تمام جنگوں کااب اختتام ہے
15۔ نئی ایجادات سے فائدہ اُٹھانا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب زمانہ اپنے رنگ ڈھنگ بدل رہا تھا۔انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی ایجادات میں اس قدر تیزی آئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ نت نئی ایجادات نے زندگی کا منظر نامہ بالکل بدل کر رکھ دیا۔ تار، ریل، چھاپہ خانے، فوٹوگرافی، فونوگراف، ٹیکہ، وغیرہ ایسی ایجادات تھیں جس کا خاص تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ تھا۔ حضورؑ نے بار بار فرمایا کہ اس دور میں روحانی اورجسمانی ہردوبرکات کی بارش ہورہی ہے۔نئی ایجادات نے دنیا کو قریب ترکردیا۔پریس کی ایجاد نے ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایک جوش پیدا کردیا کہ وہ اپنے مذہب کی خوب اشاعت کریں۔ اس ایجاد سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عیسائی پادریوں نے اسلام کے خلاف کثرت کے ساتھ کتابیں لکھ کر شائع کروائیں اورانہیں سارے ہندوستان میں پھیلادیا۔ اسی طرح ہندوؤں نے بھی اسلام کواپنا تختہ مشق بنایا اورکثرت سے اعتراضات سے بھری ہوئی کتابیں لکھیںلیکن دوسری طرف مسلمانوں کی پستی کا یہ حال تھا کہ مدافعت تو درکنار ایسی ایجادات کو بھی خلافِ اسلام قراردینے پر تُل گئے۔ خاص طورپر فوٹوگرافی پر بہت اعتراض کئے گئے اورجب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فوٹو اتروائی تو ایک شور مچ گیا کہ دیکھو اس نے ایک حرام کام کیا ہے۔
آپ نے قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کو واضح فرمایاکہ حدیث میں جن تصویروں کی ممانعت آئی ہے اس کاموجودہ دور کی فوٹوگرافی سے تعلق نہیں۔ فوٹو توایک عکس ہے جیسے آنکھ میں تصویر بنتی ہے، پانی میں عکس بنتا ہے۔ فرمایا
’’ یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھااور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وَجعُ المَفَاصِل و نَقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ366)
اسی طرح ریل کی سواری کی ایجاد سے بھی آپ نے فائدہ اُٹھایا اوراسے اپنے لئے نشان قراردیا۔ فونوگراف میں نظم ریکارڈ کی گئی جو آپ نے خاص اس مقصد کے لئے لکھی تھی جس کا پہلا شعریہ تھا
آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے
ڈھونڈو خدا کو دِل سے نہ لاف و گزاف سے
ہر نئی ایجاد اورفن کو حضور نے اس شرط پر درست اورجائز قراردیا کہ اگر اسے شریعت کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے تو ایسا کام جائز ہے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ عکسی تصویر لینا شرعًا جائز ہے؟
فرمایاکہ
’’یہ ایک نئی ایجاد ہے پہلی کتب میں اس کاذکر نہیں۔ بعض اشیاء میں ایک منجانب اللہ خاصیت ہے جس سے تصویر اتر آتی ہے۔ اگر اس فن کو خادم شریعت بنایا جاوے تو جائز ہے۔‘‘ (بدر24، 31دسمبر1908ء صفحہ5)
16۔ نئے اجتہاد کی ضرورت ہے
جیسا کہ پہلے ذکرہوچکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت پر ہوئی جب دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ تغیرات برپاہورہے تھے۔ رہن سہن اورتمدّن کی صورتیں بدل رہی تھیں۔ حکومتوں کے انداز اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں تبدیلیاں ہورہی تھیں۔ قومیت کی جگہ بین الاقوامیت کا تصور ابھر رہا تھا۔ ملکوں کی جغرافیائی حدود میں تبدیلیاں ہورہی تھیں اورغیراقوام کے محکوم عوام میں آزادی کے خیالات پیدا ہورہے تھے۔ خریدوفروخت کے انداز میں ایسی تبدیلیاں پیداہوچکی تھیں جو گزشتہ حالات سے بالکل مختلف تھیں۔اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی اور لباس اور خوراک میں بھی ایسی تبدیلیاں ہوئیں جن سے نئے سوالات نے جنم لیا ۔ سُود جسے اسلام نے قطعی حرام قراردیا ہے کئی ملکوں میں قانونی شکل اختیار کرگیا اورمختلف ممالک میں بینکنگ کا تصور عملی شکل میں سامنے آیا جہاں سارالین دین ہی سود کی بنیادپر ہورہاتھا۔ ایسے بدلے ہوئے حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی راہنمائی فرمائی اورانہیں آئندہ کے لئے لائحہ عمل دیا۔
بعض ایسے مسائل تھے جن میں واضح طورپر سود لیا اوردیا جاتاتھا اوربعض ایسے مسائل تھے جن میں سود کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اگر یقین نہ بھی ہوتوشک ضرورپایاجاتا تھا۔ ایک ایسے موقعہ پر جب آپ سے سوال کیا گیاتو آپ نے فرمایا
’’ اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہوگئے ہیں۔ کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے اسی لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ ‘‘
(البدر یکم و8نومبر1904ء صفحہ8)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت ابو حنیفہ کے ساتھ ایک طبعی وفطرتی مناسبت تھی اورفقہ حنفی کے مسائل کو آپ نے اہمیت بھی دی ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے فرمایا کہ چونکہ زمانہ میں تغیّرات ہوچکے ہیں اس لئے بہت سی جگہوں پر فقہ حنفی کے مسائل سے بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں احمدی علماء اپنے خداداداجتہاد سے کام لیں ۔ فرمایا
’’ ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں۔ اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اورنہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔‘‘
(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ212)
کچھ’’ فِقہ المسیح ‘‘کے بارے میں
سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حَکَم عدل اور مامور زمانہ بناکر بھیجا اور آپؑ کے سپرد عظیم دینی مہمّات کی گئیں ۔ آپؑ کا مقام ایک عام مفتی کامقام نہیں تھابلکہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا۔مرورِ زمانہ سے اور فقہی مسالک کی کثرت اور باہمی تنازعات کی وجہ سے مسلمان جہاں جہاں راہِ سداد سے ہٹ چکے تھے حضور ؑ نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پاکر اُن کو دوبارہ اُنہی اصولوں پر قائم کرنے کی کوشش کی جو شریعتِ حقہ کا مقصود ہے۔آپ ؑ نے قرآن شریف ، سنت اور تعامل نیز حدیث کا حقیقی مرتبہ واضح کرتے ہوئے تمام معاملات کا اصل مرجع قرآن کریم کو ٹھہرایااورفروعی معاملات میں اختلافات کو زیادہ ہوا نہ دینے کی تلقین فرمائی۔بعض مسائل میں آپؑ نے ایک طریق کو اوّلیت دی مگر دوسرے رائج طریقوں کوبھی ردّ نہ فرمایا کیونکہ آپؑ کے فقہی انداز میں وسعت تھی اسی لئے آپؑ نے امتِ مسلمہ کے تعامل کو بہت اہمیت دی ۔
حضور علیہ السلام کی زندگی میں یہ دستور تھا کہ باہر سے آنے والے مہمان آپؑ کی مجالس میں سوالات کرتے اور آپؑ ان کے جواب دیتے۔ اسی طرح سیر کے دوران بھی گفتگو اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا اورخطوط سے آمدہ سوالات کے جوابات بھی آپؑ لکھواتے تھے۔
عام طور پر فقہی مسائل سے متعلق سوالات کے آپؑ خود بھی جواب دیتے تھے اور کبھی حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب ؓ اور حضرت مولوی سید محمد احسن امروہی صاحبؓ کو بھی جواب دینے کے لئے ارشاد فرماتے۔ چنانچہ الحکم اور بدر میں جہاں حضرت مسیح موعود ؑ کے فتاویٰ چھپتے وہاں بعض دفعہ ان ہر دو بزگان کے فتاویٰ بھی چھپتے تھے۔بعض دفعہ حضور ؑ کی مجلس میں سوال پوچھا جاتا اور آپؑ ان بزرگان میں سے کسی کی طرف اشارہ کرتے اور وہ جواب دے دیتے اورپھر آپ ؑ اس کی توثیق فرمادیتے۔
اس کتاب کی تیاری میں یہ بات مدّ نظر رکھی گئی ہے کہ نہ صرف حضرت مسیح موعود ؑ کے فقہی مسائل کے بارہ میں جملہ ارشادات کوجمع کیا جائے بلکہ اصولِ فقہ اور شریعت کی حکمتوں پر مشتمل آپ ؑ کے ارشادات بھی اس میں شامل کئے جائیں کیونکہ حضور ؑ نے جہاں اسلام کی تعلیم کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں پیش فرمایا ہے وہاں شریعت کے احکام کا پُر حکمت ہونا اور عین فطرت کے مطابق ہونا قراردیا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی جملہ کتب، مکتوبات ، اشتہارات اورملفوظات جو ساتھ ساتھ الحکم اور بدر میں چھپتے تھے ۔ اسی طرح کتب سیرت اور’’اصحاب احمد‘‘ اور صحابہ کی روایات سے مواد جمع کیا گیاہے تاکہ حضور علیہ السلام کے اصل کام کو نمایاں کیا جاسکے۔ سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کرکے کوشش کی گئی ہے کہ کوئی اہم حوالہ رہ نہ جائے تاہم اضافوں کی گنجائش موجود ہے۔
اس کتاب میں تمام حوالہ جات کو اصل مآخذ سے لیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ملفوظات کی بجائے الحکم اور بدر سے براہِ راست حوالہ جات اخذ کئے گئے ہیں۔ الحکم یا بدر میں بعض جگہوں پر ایسی لفظی غلطیاں ملتی ہیں جن کی تصحیح ملفوظات میں کردی گئی ہے ایسی صورت میں ملفوظات کی تصحیح کے مطابق الفاظ درج کئے گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قادیان سے دو اخبار نکلتے تھے۔ الحکم 1897ء میں چھپنا شروع ہوا اورالبدر1902ء میں۔ ان دونوں اخباروں میں حضور علیہ السلام کے ملفوظات چھپتے تھے۔ اخبار بدر 13؍اپریل 1905ء تک البدر کے نام سے چھپتا رہا جبکہ 20؍اپریل 1905ء سے یہ بدر کے نام سے چھپنا شروع ہوا۔ حوالہ جات میں اسی کے مطابق کہیں البدر اور کہیں بدر لکھا گیا ہے۔
اس کتاب کی تدوین میں خاکسار کو بہت سے احباب کا خصوصی تعاون میسّر رہا جن کا ذکر کرنا شکرگزاری کے اظہار کے طورپر ضروری سمجھتا ہوں۔
(1) سب سے پہلے خاکسار مکرم فضل احمد ساجد صاحب مربی سلسلہ دارالافتاء کا خصوصی طورپرشکر گزار ہے کہ انہوں نے ’’فقہ المسیح ‘‘ کے مسودے کو دو مرتبہ بالاستیعاب پڑھا اور انتہائی مفید مشورے دئیے۔ اہم امور پر وہ مکرم مولانا مبشراحمد صاحب کاہلوں مفتی سلسلہ سے مشورہ بھی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بعض ضروری حوالہ جات بھی مہیافرمائے جو اس کتاب میں شامل ہیں۔
(2) مکرم وحیداحمد رفیق صاحب مربی سلسلہ استاد فقہ جامعہ احمدیہ کا تعاون بھی خاکسار کو مہیا رہا۔ اسی طرح جامعہ احمدیہ میں زیرِ تعلیم طلباء عزیزان حافظ فہیم احمد قریشی، محمد دانیال اورسجیل احمد شفیق نے پروف ریڈنگ کے کام میں خصوصی معاونت کی۔نیز سید عامر پرویز شاہ صاحب کارکن لائبریری جامعہ نے بھی گاہے گاہے خصوصی تعاون کیا۔
(3) اس کتاب کی کمپوز نگ اور ابتدائی سیٹنگ مکرم محمد آصف عدیم صاحب مربی سلسلہ نے پرخلوص محنت اور دلی شوق کے ساتھ کی اور آخری سیٹنگ مکرم کلیم احمد صاحب طاہر مربی سلسلہ نے بڑی محبت اور لگن سے کی ۔ ہر دو مربیان سلسلہ خاکسار کے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب معاونین کو اجر عظیم عطا کرے اور اس خدمت کو قبول فرمائے۔ آمین
بعض بزرگان کی حوصلہ افزائی اور اس کتاب کی تدوین میں خصوصی دلچسپی پر خاکسار جذبات تشکر سے معمور ہے۔ اس فہرست میں مکرم ملک خالد مسعود صاحب ناظر اشاعت، مکرم نصیر احمد صاحب چوہدری نائب ناظم دارالقضاء ربوہ ، مکرم عبدالسمیع خانصاحب ایڈیٹر الفضل ربوہ، مکرم نصیر احمد صاحب قمر ایڈیشنل وکیل اشاعت لندن اور مکرم شبیر احمد صاحب ثاقب صدر شعبہ حدیث جامعہ احمدیہ ربوہ شامل ہیں۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
خاکسار
انتصاراحمدنذر مربی سلسلہ احمدیہ
صدر شعبہ فقہ جامعہ احمدیہ ربوہ
15؍ اپریل 2015ء
نمازیں جمع کرنا
مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی
فرمایا:۔
ہزار شکر کا مقام ہے کہ اس موقعہ پر(ستر دنوں میں تفسیر سورۃ فاتحہ لکھنے کے موقع پر۔ ناقل) ایک پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پوری ہوئی اور وہ یہ ہے کہ اس ستر دن کے عرصہ میںکچھ بباعث امراض لاحقہ اور کچھ بباعث اس کے بوجہ بیماری بہت سے دن تفسیر لکھنے سے سخت معذوری رہی اُن نمازوں کو جو جمع ہو سکتی ہیں جمع کرنا پڑا اور اس سے آنحضرت ـصلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو در منثور اور فتح باری اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ کتب میں ہے کہ تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ یعنی مسیح موعود کے لئے نماز جمع کی جائے گی۔ اب ہمارے مخالف علماء یہ بھی بتلا ویں کہ کیا وہ اس بات کو مانتے ہیں یا نہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو کر مسیح موعود کی وہ علامت بھی ظہور میں آگئی اور اگر نہیں مانتے تو کوئی نظیر پیش کر یں کہ کسی نے مسیح موعود کا دعویٰ کر کے دو ماہ تک نمازیں جمع کی ہوں یا بغیر دعویٰ ہی نظیر پیش کرو۔
(مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ497)
بیماری کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا
نوٹ از ایڈیٹر تشحیذ:۔ چونکہ کچھ مدت سے حضرت کی طبیعت دن کے دوسرے حصہ میں اکثر خراب ہو جاتی ہے۔ اس لئے نماز مغرب اور عشاء گھر میں باجماعت پڑھ لیتے ہیں۔ باہر تشریف نہیں لا سکتے۔ ایک دن نماز مغرب کے بعد چند عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا جو سننے کے قابل ہے۔
فرمایا:۔
کوئی یہ نہ دل میں گمان کر لے کہ یہ روز گھر میں جمع کرکے نماز پڑھا دیتے ہیں اور باہر نہیں جاتے ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی کہ آنے والا شخص نماز جمع کیا کرے گا۔ سو چھ مہینہ تک تو باہر جمع کرواتارہاہوں ۔ اب میں نے کہا کہ عورتوں میں بھی اس پیشگوئی کو پورا کر دینا چاہئے چونکہ بغیر ضرورت کے نماز جمع کرنا ناجائز ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھ کو بیمار کر دیا اور اس طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کر دیا۔ ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرے ۔ کیونکہ وہ پورا نہ ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔ اس لئے ہر ایک کو وہ بات جو اس کے اختیار میں ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کے موافق پوری کر دینی چاہئے اور خدا تعالیٰ خود بھی سامان مہیا کر دیتاہے جیسا کہ مجھ کو بیمار کر دیا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کر دے ۔ جیسا کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیؓ سے فرمایا کہ تیرا اس وقت کیا حال ہوگا جبکہ تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب کسریٰ کا ملک فتح ہوا۔ تو حضرت عمرؓ نے اس کو سونے کے کڑے جو لُوٹ میں آئے تھے پہنائے ۔ حالانکہ سونے کے کڑے یا کوئی اورچیز سونے کی مردوں کے لئے ایسی ہی حرام ہے جیسا کہ اور حرام چیزیں ۔ لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ بات نکلی تھی اس لئے پوری کی گئی ۔ اسی طرح ہر ایک دوسرے انسان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ (بدر 7جون1906ء صفحہ5)
جمع بین الصلوٰتین مہدی کی علامت ہے
سب صاحبوں کو معلوم ہو ایک مدت سے خدا جانے قریباًچھ ماہ سے یا کم و بیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے ۔ میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نماز جمع کی جاتی ہے ایک نو وارد یا نو مرید کو جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں گے، جیسے بعض غیر مقلد ذرا ابر ہو یا کسی عدالت میں جانا ہوا تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذربھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعاً اور فطرتا ً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اور نماز موقوتہ کے مسئلے کو نہایت عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اگرچہ شیعوں اور غیر مقلدوں نے اس پربڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر ان سے کام لیتے ہیں او رمشکل کوموضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں ہمارا یہ مدعا نہیں بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہ رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل کر لینا چاہیے۔
اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم القا اور الہام کے بدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں جہاں تک خدا تعالیٰ نے مجھ پر اس جمع صلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی بھی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو اب پوری ہو رہی ہے میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علماء ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ہی ٹھہراویں گے مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا ۔اگرچہ خدا تعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لَامَہْدِی اِلَّا عِیْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور میرا یہ مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہل کشف یا ا ہل الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے۔ خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید کے پابند نہیں ہوتے ہیں۔تو جب یہ حالت ہے پھر میں صاف صاف کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کرتا ہوں خداتعالیٰ کے القاء اوراشارہ سے کرتاہوں ۔ یہ پیشگوئی جو اس حدیث تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ میں کی گئی ہے یہ مسیح موعود ؑاور مہدی کی ایک علامت ہے ۔ یعنی وہ ایسی دینی خدمات اورکاموں میں مصروف ہوگاکہ اس کے لئے نماز جمع کی جائے گی۔ اب یہ علامت جبکہ پوری ہوگئی ہے اورایسے واقعات پیش آگئے پھر اس کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے نہ کہ استہزاء اورانکار کے رنگ میں۔
(الحکم 24نومبر1902ء صفحہ2-1)
مسیح موعودؑ کی خاطر نمازیں جمع کئے جانے کی پیشگوئی
جیساکہ خداکے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے ۔ ویسا ہی اُس کی رُخصتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ فرض بھی خداکی طرف سے ہیں اوررخصت بھی خدا کی طرف سے۔
دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی حدیث بھی پوری ہورہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔ سو اب ایسا ہی ہوتاہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے۔ اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارکے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایساہوگا۔ چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خِفّت کی نگاہ سے دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیئے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہورہی ہیں ورنہ ایک دودن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا۔ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں۔
(الحکم 17فروری 1901ء صفحہ13،14)
جمع بین الصلوٰتین کی رخصت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے
فرمایا:
یہ عاجز صرف چند روز تک مسافرانہ طور پر علیگڑھ میں ٹھہرا تھا اور جو کچھ مسافروں کے لئے شریعت اسلام نے رخصتیں عطاکی ہیں اوراُن سے دائمی طور پر انحراف کرنا ایک الحاد کا طریق قرار دیا ہے ان سب امور کی رعایت میرے لئے ایک ضروری امر تھا سو میں نے وہی کیا جو کرنا چاہیئے تھا اور میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے اُس چند روزہ اقامت کی حالت میں بعض دفعہ مسنون طور پر دو نمازوں کو جمع کر لیا ہے اور کبھی ظہر کے اخیر وقت پر ظہر اور عصر دونوں نمازوں کو اکٹھی کر کے پڑھا ہے مگرحضرات مؤحدین توکبھی کبھی گھر میں بھی نمازوں کو جمع کر کے پڑھ لیتے ہیںاور بِلَا سَفَرٍ وَمَطَرٍ پر عمل درآمد رہتا ہے۔ میں اس سے بھی انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے اِن چند دنوں میں مسجدوں میں حاضر ہونے کا بکلّی التزام نہیں کیا مگر باوجود اپنی علالت طبع اور سفر کی حالت کے بکلی ترک بھی نہیں کیا۔ (فتح اسلام۔روحانی خزائن جلد3صفحہ25 حاشیہ)
تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃ کے نشان کا ظہور
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہدِ مبارک میں ایک دفعہ قادیان میں زیادہ عرصہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی نورالدین صاحب کو خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہوگئے ہیں۔ لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیا جواب دیں گے۔ حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ اُسی سے پوچھو(یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے) مولوی انوارحسین صاحب شاہ آبادی اس خط و کتابت میں قاصد تھے۔ اُن سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا۔ تو میں نے حضرت صاحب سے جاکر عرض کردی۔ اس وقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصر جب حضور معمولًا مسجد کی چھت پر تشریف فرماتھے تو آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اُٹھتے ہیں۔ کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ نماز جمع کرے گا۔ ویسے تو نماز جمع کا حکم عام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہوگا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی۔ اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رو رہے تھے اور توبہ کر رہے تھے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ119)
جمع صلوٰتین میں افراط اور تفریط دونوں سے بچنا چاہئے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے جب لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو میں نے اُس خلوت کو غنیمت جان کر حضور سے استفسار کیاکہ خاکسار نقش بند یہ طریق میں بیعت ہونے سے قبل فرقہ اہل حدیث جس کو عام لوگ وہابی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں،میں بھی شامل رہا ہے۔ اُس وقت سے نمازوں کو جمع کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے۔
حضور نے فرمایا کہ جمع صلاتین کے بارہ میں میرے نزدیک مخالف و موافق ہر دو فریق نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے۔ ایک طرف اس پر عاملین کا تو یہ حال ہے کہ بلا عذر شرعی یا جائز ضرورت کے نمازیں جمع کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ حقہ ذرا اچھا چل رہا ہے ۔ یا تاش وغیرہ کھیل رہے ہیں ۔ اذان ہوئی تو ان کو چھوڑ کر کون جائے۔ جھٹ نماز جمع کرنے کی ٹھان لیتے ہیں چاہے دوسری نماز بھی ادا ہوجائے یا دونوں ضائع ہوجائیں۔ فرمایا! یہ بہت بُری بات ہے۔ نماز جیسے ضروری فرض میں کوتاہی اور غفلت ایمان کی کمزوری پردال ہے اور دوسری طرف حنفی صاحبان کا یہ حال ہے کہ کیسی ہی ضرورت اور عذر جائز ہو نماز قضاء تو کردیں گے مگراہلِ حدیث کی ضد اور مخالفت میں جمع نہ کریںگے۔ فرمایا کہ کوئی ان لوگوںسے پوچھے کہ حج کے موقعہ پر ایک نماز ہر حاجی کو ٹھیک ادائے رسوم حج کے وقت لازمی طورپر جمع کرنی پڑتی ہے۔ اگر یہ فعل ایسا ہی ممنوع ہوتا ۔ جیسا آپ لوگوں کے عمل سے ہویدا ہے تو ایسے مقدس مقام پر اس کی اجازت کیسے ہوتی۔ دراصل ضرورت اور عدم ضرورت کا سوال ہے اور یہی اس بارہ میں معیار ہے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ87)
کس قدر مسافت پر نماز جمع کی جائے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ سے کپور تھلہ تشریف لائے تو صرف ایک دن قیام فرما کر قادیان کو تشریف لے گئے۔ ہم کرتارپور کے اسٹیشن پر پہنچانے گئے۔ یعنی منشی اروڑا صاحب، محمد خاں صاحب اور میں۔ اگر کوئی اوربھی ساتھ کرتارپور گیا ہوتو مجھے یاد نہیں۔ کرتارپور کے اسٹیشن پر ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ ظہروعصر کی نماز جمع کی۔ نماز کے بعد میں نے عرض کی کہ کس قدر مسافت پر نماز جمع کرسکتے ہیں اور قصر کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا انسان کی حالت کے اوپر یہ بات ہے۔ ایک شخص ناطاقت اور ضعیف العمر ہو تو وہ پانچ چھ میل پر بھی قصر کرسکتا ہے اور مثال دی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مزدلفہ میں نماز قصرکی۔ حالانکہ وہ مکہ شریف سے قریب جگہ ہے۔ (سیرت المہدی جلد 2صفحہ34،35)
سخت تنگی کے وقت نمازیں جمع کرنا
ایک صاحب نے ذکر کیا کہ ان کا ایک افسر سخت مزاج تھا روانگی نماز میں اکثر چیں بجبیں ہوا کرتا تھا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ
خدا تعالیٰ نے ضرورتوں کے وقت جمع صلوٰتین رکھا ہے ظہراورعصرکی نمازیں ایسی حالت میں جمع کر کے پڑھ لیں۔ (البدر 9جنوری 1903ء صفحہ82)
غزوئہ خندق کے موقع پر کتنی نمازیں جمع کی گئیں؟
مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودتے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں۔ اوّل آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اے نادان! قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں۔ ترک نماز کا نام قضا ہرگز نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے۔ اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بیوقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی قضا کے معنی بھی معلوم نہیں۔ جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور دقیقہ پر نکتہ چینی کرسکے۔ باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں۔ اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو۔ اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے۔مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار (نمازیں) جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی۔ اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم ذراآپ کو بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں۔ چار نمازیں تو خود شرع کے رو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشائ۔ ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کر کے پڑھی گئیں تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو ردّ کرتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی۔
(نورالقرآن ۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ389،390)
نماز استخارہ
استخارہ کی اہمیت
فرمایا:
آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کر دیا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ امر میں استخارہ فرما لیا کرتے تھے۔ سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ تھا۔ چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لیے لوگ اپنے علم و فضل پر نازاں ہو کر کوئی کام شروع کر لیتے ہیں اور پھر نہاں درنہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہوتا نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اصل میں یہ استخارہ ان بدر سومات کے عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتدا سے پہلے کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمان اُسے بھول گئے حالانکہ استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے ۔ جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ بعض لوگ کوئی کام خود ہی اپنی رائے سے شروع کر بیٹھتے ہیں اور پھر درمیان میں آکر ہم سے صلاح پوچھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں جس علم و عقل سے پہلے شروع کیا تھا اسی سے نبھا ئیں۔ اخیر میں مشورے کی کیا ضرورت؟
(بدر 13جون 1907ء صفحہ3)
سفر سے پہلے استخارہ کا طریق
حضرت اقدس ؑ نے ایک مہمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ :۔
آپ استخارہ کر لیویں۔استخارہ اہل اسلام میں بجائے مہورت کے ہے چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہو کر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لئے اہل اسلام نے ان کو منع کر کے استخارہ رکھا۔اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو رکعت نماز نفل پڑھے۔اول رکعت میں سورۃ قُلْ یٰاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ پڑھ لے اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ ۔ التحیات میں یہ دعا کرے۔
یا الٰہی !میں تیرے علم کے ذریعہ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتا ہوں کیونکہ تجھ ہی کو سب قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں اور تجھے سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور تو ہی چھپی باتوں کو جاننے والا ہے۔ الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ امرمیرے حق میںبہتر ہے بلحاظ دین اور دنیا کے، تو تُو اسے میرے لئے مقدر کر دے اوراسے آسان کر دے اور اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ امرمیرے لئے دین اور دنیا میں شر ہے تو مجھ کو اس سے باز رکھ۔
اگر وہ امر اس کے لئے بہتر ہوگا تو خد اتعالیٰ اس کے لئے اس کے دل کو کھول دے گا ورنہ طبیعت میں قبض ہو جائے گی۔ دل بھی عجیب شے ہے جیسے ہاتھوں پر انسان کا تصرف ہوتا ہے کہ جب چاہے حرکت دے۔دل اس طرح اختیار میں نہیں ہوتا۔اس پہ اﷲ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ ایک وقت میں ایک بات کی خواہش کرتا ہے پھر تھوڑی دیر کے بعد اسے نہیں چاہتا۔یہ ہوائیں اندر سے ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے چلتی ہیں۔
(البدر 2جنوری 1903ء صفحہ78)
ہر اہم کام سے پہلے استخارہ کرنا
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ روایت کرتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ طریق عمل تھا۔ کہ ہر ایک اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے ضرور دعا کیا کرتے تھے اور دعا بطریق مسنون دعائے استخارہ ہوتی تھی۔ استخارہ کے معنی ہیں خدا تعالیٰ سے طلب خیر کرنا۔ استخارہ کے نتیجے میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کوئی خواب آجائے جیسا کہ آج کل کے بعض صوفی استخارہ کرتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرتے ہیں یہ طریق مسنون نہیں۔ اصل مقصد تو یہ ہونا چاہئے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے خیر حاصل ہو اور دعائے استخارہ سے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پید اکردیتا ہے کہ جو کام ہمارے لئے بہتری اور بھلائی کا ہو وہ آسان ہوجاتا ہے۔ بغیر دقتوں کے حاصل ہوجاتا ہے اور قلب میں اس کے متعلق انشراح اور انبساط پیدا ہوجاتا ہے ۔
عمومًا استخارہ رات کے وقت بعد نماز عشا ء کیا جاتا ہے۔ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر التحیات میں درود شریف اور دیگر مسنون دعاؤں کے بعد دعائے استخارہ پڑھی جاتی ہے اور اس کے بعد فورًا سو رہنا چاہئے اور باتوں میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہوتا لیکن حسبِ ضرورت دوسرے وقت بھی استخارہ کیا جاسکتا ہے۔
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ509-508)
نماز عصر میں استخارہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دورانِ ایام مقدمہ کرم دین میں ایک صاحب ابو سعید نامی کو جو ابو سعید عرب کے نام سے مشہور تھے۔ لاہور سے بعض اخباروں کے پرچے لانے کے واسطے بھیجا گیا۔ انہیں کہا گیا کہ آپ سفر سے قبل استخارہ کرلیں۔ اس وقت نماز عصر ہونے والی تھی اور بیت مبارک میں احباب جمع تھے۔ وہاں ہی ان کے سفر کے متعلق تجویز قرارپائی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ابو سعید صاحب سے فرمایا کہ آپ نماز عصر میں ہی استخارہ کرلیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر لاہور چلے گئے اور جس مقصد کے واسطے بھیجے گئے۔ اس میں کامیاب ہو کرواپس آئے۔
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ ازحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 509)
استخارہ میں کونسی سورتیں پڑھیں
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو اِستخارہ کا یہ طریق بھی بتلایا کہ پہلی رکعت میں سورۃ قُلْ یٰاَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ پڑھیں۔دوسری رکعت میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اور اَلتَّحْیَات میں اپنے مطلب کے واسطے دعا کریں۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ231 )
حضرت مسیح موعود ؑکا طریق استخارہ
حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کے نام مکتوب میں حضرت مسیح موعود ؑ نے تحریر کیاکہ
امید کہ بعد تین دن کے استخارہ مسنونہ جو سفر کے لئے ضروری ہے، اس طرف کا قصد فرماویں۔بغیر استخارہ کے کوئی سفر جائز نہیں۔ ہمارا اس میں طریق یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ پہلی رکعت میں سورۃ قُلْ یٰاَیّھَا الْکَافِرُوْنَپڑھیں۔ یعنی الحمدتمام پڑھنے کے بعد ملالیں۔ جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ ملایا کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر سورۃ اخلاص یعنی قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ملا لیں اور پھر التحیات میں آخر میں اپنے سفر کے لئے دعا کریں کہ یا الٰہی! میں تجھ سے کہ تو صاحب فضل اور خیر اور قدرت ہے، اس سفر کے لئے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو عواقب الامور کو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو ہر ایک امر پر قادر ہے اور میں قادر نہیں۔ سو یا الٰہی! اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ سفر سراسر میرے لئے مبارک ہے، میری دنیا کیلئے، میرے دین کیلئے اور میرے انجام امر کیلئے اور اس میں کوئی شر نہیں۔ تو یہ سفر میرے لئے میسر کر دے اور پھر اس میں برکت ڈال دے اور ہر ایک شر سے بچا۔ اور اگر تُو جانتا ہے کہ یہ سفر میرا میری دنیا یا میرے دین کے لئے مضر ہے اور اس میں کوئی مکروہ دِہ امر ہے تو اس سے میرے دل کو پھیر دے۔ اور اس سے مجھ کو پھیر دے آمین۔ یہ دعا ہے جو کی جاتی ہے۔ تین دن کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تا بار بار کرنے سے اخلاص میسر آوے۔ آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لاپرواہ ہیں۔ حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے۔ سو یہ اس عاجز کا طریق ہے کہ اگرچہ دس کوس کا سفر ہو تب بھی استخارہ کیا جاوے۔ سفروں میں ہزاروں بلائوں کا احتمال ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ استخارہ کے بعد متولّی اور متکفّل ہو جاتا ہے اوراس کے فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں جب تک اپنی منزل تک نہ پہنچے۔ اگرچہ یہ دعا تمام عربی میں موجود ہے۔ لیکن اگر یاد نہ ہو تو اپنی زبان میں کافی ہے اور سفر کا نام لے لینا چاہئے کہ فلاں جگہ کے لئے سفر ہے۔
(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ349۔350)
استخارہ کا ایک آسان طریق
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مرزا دین محمدصاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کے پاس میری آمدورفت اچھی طرح ہوگئی اور مَیں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا۔ تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اوربخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کرکے سویا کریں اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پوچھ لیا کرو اور مجھ سے بھی استخارہ کراتے تھے۔ استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے’’ یَا خَبِیْرُ اَخْبِرْنِیْ ‘‘ پڑھا کرو اور پڑھتے پڑھتے سوجایا کرو اور درمیان میں بات نہ کیا کرو۔ مَیں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خوابیں پوچھتا تھا اور حضرت صاحب کو آکر اطلاع دیتا تھا۔ پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اورمَیں سب کو جاکر اطلاع دیتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب حقیقی بھائی تھے۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد تھے اور مرزا غلام محی الدین صاحب چچا تھے۔ اس زمانہ میں بس انہی دو گھروں میں ساراخاندان تقسیم شدہ تھا۔ اب مرزا غلام محی الدین صاحب کی اولاد میں سے صرف مرزا گل محمد ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ استخارہ کی اصل مسنون دُعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لئے آپ نے انہیں یہ مختصر الفاظ سکھا دئیے ہوں گے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ628،629)
کھلے نشانات کو دیکھ کر استخارہ کرنا جائز نہیں
ایک شخص کا خط آیا کہ میں آپ کے متعلق استخارہ کرنا چاہتا ہوں کہ آیا آپ حق پر ہیں یا نہیں؟ فرمایا:
ایک وقت تھا کہ ہم نے خود اپنی کتاب میں استخارہ لکھا تھا کہ لوگ اس طرح سے کریں۔ تو خدا تعالیٰ ان پر حق کو کھول دے گا۔ مگراب استخاروں کی کیا ضرورت ہے جب کہ نشانات الٰہی بارش کی طرح برس رہے ہیں اور ہزاروں کرامات اور معجزات ظاہر ہوچکے ہیں۔ کیا ایسے وقت میں استخاروں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟کھلے نشانات کو دیکھ کر پھر استخارہ کرنا خدا تعالیٰ کے حضور میں گستاخی ہے ۔ کیا اب جائز ہے کہ کوئی شخص استخارہ کرے کہ اسلام کا مذہب سچا ہے یا جھوٹا اور استخارہ کرے کہ آنحضرت ﷺ خداکی طرف سے سچے نبی تھے یا نہیں تھے۔ اس قدر نشانات کے بعد استخاروں کی طرف توجہ کرنا جائز نہیں۔
(بدر 2مئی1907ء صفحہ2)
نماز استسقاء
سخت گرمی پڑنے اور برسات کے نہ ہونے کا ذکر تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا:
ایسے موقع پر نماز استسقاء کا پڑھنا سنت ہے۔ میں جماعت کے ساتھ بھی سنت ادا کروں گا مگر میرا ارادہ ہے کہ باہر جاکر علیحدگی میں نماز پڑھوں اور دعا کروں۔ خلوت میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے اور دعا مانگنے کا جو لطف ہے وہ لوگوں میں بیٹھ کر نہیں ہے۔
(بدر 10 اگست 1905ء صفحہ 2)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مکرمی مفتی محمدصادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ نماز استسقاء ہوئی تھی جس میں حضرت صاحب بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمد احسن صاحب مرحوم امام ہوئے تھے۔ لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے مگر حضرت صاحب میں چونکہ ضبط کمال کا تھا اس لئے آپ کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہوگئی تھی بلکہ شاید اسی دن بارش ہوگئی تھی۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ393)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب اس موقع کے بارہ میں ایک روایت تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرتبہ نماز استسقاء ہوئی تھی۔ یہ نماز اس بڑ کے درخت کے نیچے ہوئی تھی جہاں گزشتہ سالوں میں جلسہ گاہ مستورات تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس بڑ کے نیچے اوراس کے ساتھ والے میدان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کئی دفعہ عیدبھی ہوئی تھی اور جنازے بھی اکثریہیں ہوا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ622،623)
نماز کسوف
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب اپنے بھائی کے ساتھ رمضان میں چاند گرہن لگنے کے بعد اس شوق میں قادیان آئے کہ سورج گرہن کا عظیم نشان حضرت اقدس ؑ کے ساتھ دیکھیںاورنمازِ کسوف ادا کریں۔اس حوالے سے وہ ذکر کرتے ہیں کہ
صبح حضرت اقدسؑ کے ساتھ کسوف کی نماز پڑھی جو کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے مسجد مبارک کی چھت پر پڑھائی اور قریبًا تین گھنٹہ یہ نماز وغیرہ جاری رہی۔ کئی دوستوں نے شیشے پر سیاہی لگائی ہوئی تھی جس میں سے وہ گرہن دیکھنے میں مشغول تھے ابھی خفیف سی سیاہی شیشے پر شروع ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود ؑ کوکسی نے کہا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے ۔ آپؑ نے اس شیشہ میں سے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی۔حضور نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے فرمایاکہ گرہن کو ہم نے تو دیکھ لیا مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائے گااوراس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہوجائے گا۔ حضور نے کئی بار اس کا ذکر کیا تھوڑی دیر بعد سیاہی بڑھنی شروع ہوئی حتّٰی کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہوگیا۔ تب حضور نے فرمایا کہ ہم نے آج خواب میں پیاز دیکھا تھا اس کی تعبیر غم ہوتی ہے ۔ سو شروع میں سیاہی کے خفیف رہنے سے ظہور میں آیا۔ (اصحابِ احمد جلد 1صفحہ93،94۔نیا ایڈیشن )
قصر نماز
سفر کی تعریف
ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہو اکہ مجھے دس پندرہ کوس تک ادھراُدھر جانا پڑتا ہے۔ مَیں کس کو سفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا:۔
میرامذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اُوپر نہ ڈال لے۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ دوتین کوس ہی ہو۔ اس میں قصروسفر کے مسائل پر عمل کرے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتاکہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے۔
(الحکم 17؍فروری 1901ء صفحہ13)
سفر کی حد کیا ہے؟
سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی تین کوس سفر پر جائے تو کیا نمازوں کو قصر کرے؟
فرمایا:۔
ہاں، دیکھو اپنی نیّت کو خوب دیکھ لو۔ ایسی تمام باتوں میں تقویٰ کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص ہرروز معمولی کاروبار یا سفر کے لئے جاتا ہے تو وہ سفر نہیں بلکہ سفر وہ ہے جسے انسان خصوصیّت سے اختیار کرے اور صرف اس کام کے لئے گھر چھوڑ کر جائے اور عُرف میں وہ سفر کہلاتا ہو۔ دیکھو۔ یوں تو ہم ہر روز سیر کے لئے دو دو مِیل نِکل جاتے ہیں مگر یہ سفر نہیں۔ ایسے موقعہ پر دل کے اطمینان کو دیکھ لینا چاہئے کہ اگر وہ بغیر کسی خلجان کے فتویٰ دے کہ یہ سفر ہے تو قصر کرے۔ اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ (اپنے دل سے فتویٰ لو۔ ) پر عمل چاہئے۔ ہزار فتویٰ ہو پھر بھی مومن کا نیک نیتی سے قلبی اطمینان عمدہ شے ہے۔
عرض کیا گیا کہ انسانوں کے حالات مختلف ہیں۔ بعض نو دس کوس کو بھی سفر نہیں سمجھتے۔ بعض کے لئے تین چار کوس بھی سفر ہے۔ فرمایا:۔
شریعت نے ان باتوں کا اعتبار نہیں کیا۔ صحابۂ کرام نے تین کوس کو بھی سفر سمجھا ہے۔
عرض کیا گیا۔حضور بٹالہ جاتے ہیں تو قصرفرماتے ہیں:۔فرمایا:۔
ہاں کیونکہ وہ سفر ہے۔ ہم تویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی طبیب یا حاکم بطور دورہ کئی گاؤں میں پھرتا رہے تو وہ اپنے تمام سفر کو جمع کرکے اسے سفر نہیں کہہ سکتا۔(بدر 23جنوری 1908ء صفحہ2)
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ نماز قصر کتنی دور کے لئے کرنی چاہئے۔ فرمایا
ایک تو سفر ہوتا ہے اور ایک سیر ہوتی ہے سفر کی نیت سے اگر تین کوس جانا ہو جیسے لودھیانہ سے پھلور تو نماز قصر کرنی چاہئے ۔ یہی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول تھا اوربعض ضعیف پیرفرتوت اور حاملہ عورتیں ہیں۔ ان کے لئے تو کوس بھر ہی سفر ہوجاتا ہے۔ ہاں سیر کے لئے تو چاہے آٹھ کوس چلا جائے تو نماز قصر نہیں ہے۔
(تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 116،117)
مرکز میں نمازوں کا قصرجائز ہے
نماز کے قصر کرنے کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو شخص یہاں آتے ہیں وہ قصر کریں یا نہ؟ فرمایا:۔
جو شخص تین دن کے واسطے یہا ں آوے اس کے واسطے قصر جائز ہے میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو پھر خواہ وہ تین چار کوس ہی کا سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائزہے۔یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے۔ہاں اگر امام مقیم ہو تو اس کے پیچھے پوری ہی نماز پڑھنی پڑے گی۔ حکام کادورہ سفر نہیں ہو سکتا ۔وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے با غ کی سیر کرتا ہے۔خواہ نخواہ قصر کرنے کا تو کو ئی وجودنہیں ۔اگر دوروں کی وجہ سے انسا ن قصر کر نے لگے تو پھر یہ دائمی قصر ہو گا جس کا کوئی ثبوت ہما رے پا س نہیں ہے حکا م کہاں مسافر کہلاسکتے ہیں۔سعدیؒ نے بھی کہاہے
منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت خیمہ ز د و خوابگاہ ساخت
(الحکم 24اپریل 1903ء صفحہ10)
کتنے دنوں کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے؟
سوال: ۔ نماز کس وقت تک قصر کی جاوے؟
اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
جب تک سفر ہو قصر کر سکتے ہیں اوراگر کہیں ٹھہرناہواورپندرہ دن سے کم ٹھہرنا ہو تو بھی قصر کریں اور اگر زیادہ ٹھہرنا ہو تو پوری پڑھیں۔ (الفضل 18مارچ1916ء صفحہ15 )
ایک سفر کے موقعہ پر نماز قصر کرتے ہوئے آپ ؓنے فرمایا:۔
میں نماز قصر کرکے پڑھاؤں گا اورگو مجھے یہاں آئے چودہ دن ہوگئے ہیں مگر چونکہ علم نہیں کہ کب واپس جانا ہوگا۔ اس لئے میں نماز قصر کرکے پڑھاؤں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ گورداسپور میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک قصر نماز پڑھتے رہے کیونکہ آپ کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کب واپس جانا ہوگا۔
(الفضل 25مئی1944ء صفحہ4)
چودہ دن تک قیام کے ارادہ کی صورت میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے مندرجہ ذیل فتویٰ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے ایک فیصلے کا ذکر ملتا ہے ۔
(یہ فتویٰ محترم ناظر صاحب تعلیم و تربیت قادیان نے2دسمبر1937ء کو حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب مفتی سلسلہ سے پوچھا تھا۔)
سوال:۔سفر کے متعلق جناب حافظ صاحب مرحوم نے(حضرت حافظ روشن علیؓ صاحب مراد ہیں۔ ناقل )14 دن قیام تک قصر کرنے کا فتویٰ دیا ہے۔اور حضرت اقدس حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلیفہ اولؓ سے مروی ہے کہ صرف تین دِن کے واسطے قصرہے۔ چار دن کے قصد سے مسافر مقیم ہوجاتا ہے ۔ حافظ صاحب ہمارے مفتی تھے ان کے قول کا ردّہم نے نہیں پڑھا۔ ہم کس پر عمل کریں ۔ بعض کا قول ہے مفتی کا قول توڑا نہیں جاسکتا، یہ تو فتویٰ ہے۔ فرمان تو فتویٰ کے مطابق ہی ہوگا مگر نبی اور خلیفہ سے اختلاف کرتے ہوئے کیا حجت رکھتے ہیں۔ ہم بہرحال نظام کے پابند ہیں۔ مگر اس اختلاف کا کیا ازالہ ہے۔ اگر ہم سے کوئی پوچھے ہم تو مجبور ہیں۔
اس سوال کے جواب میں حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب نے مندرجہ ذیل فتویٰ دیا۔
جواب:۔ جس طرح خلیفہ کے فیصلہ اور مفتی کے فتویٰ میں اختلاف ہو جائے تو خلیفہ کے فیصلہ پر عمل ہونا چاہئے کیونکہ در حقیقت اصل مفتی خلیفہ وقت ہی ہوتا ہے اور مفتی اس کا مقرر کردہ مفتی اور افتاء میں اس کا نائب ہوتا ہے۔ اسی طرح خلیفہ اور بانی سلسلہ میں اگر لاعلمی کی وجہ سے اختلاف ہو جائے تو ترجیح بانی سلسلہ کے قول کو دی جاتی ہے۔ کیونکہ اصل وہی ہے اورخلیفہ اس کا نائب اور نائب اصل کا تابع نہ متبوع اورنہ مساوی۔ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ احمدیت سے پہلے اہلحدیث گروہوں میں شامل تھے اوراہلحدیث کا یہ مذہب ہے کہ تین دن کے ارادہ اقامت سے مسافر مقیم ہوجاتا ہے۔ اس لئے آپ کا احمدی ہونے کے بعد بھی یہی فتویٰ تھا لیکن جن دنوں میں سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کا لیکچر لاہورمیں ہوا تھا۔ان دنوں میں حضور کرم دین والے مقدمہ کی وجہ سے گورداسپور میں رہتے تھے اور محض تبدیلی آب و ہوا کے لئے لاہور تشریف لے گئے اور مسافر ہونے کی وجہ سے عمومًا نمازیں جمع کی جاتی تھیں اور قصر کی جاتی تھیں۔ غالبًا تیسرے دن لاہور کی جماعت نے حضور سے لیکچر کی درخواست کی اور
حضورؑنے منظور فرمائی ۔ بعد ازاں جناب خواجہ کمال الدین صاحب جناب ڈپٹی کمشنر کے پاس اجازت لینے کے لئے اور دعوتِ شرکت دینے کے لئے گئے تو صاحب بہادر نے اجازت تو دے دی مگر کہا کہ فلاں وجہ سے میں اس اتوار کو شامل نہیں ہوسکتا اور اگر آئندہ اتوار کو ہوتا تو میں خود بھی اورسپرنٹنڈنٹ پولیس بھی ضرور شامل ہوتے۔ تو خواجہ صاحب نے حضور کی خدمت میں صاحب بہادر کے جواب اور خواہش شرکت کا ذکر کیا تو حضور نے فرمایا تاریخِ مقدمہ دور ہے، لہٰذا ہم ٹھہر سکتے ہیں۔ تو اس لحاظ سے حضور کو دس دن قیام کرنا پڑا۔ جس وقت حضور نے ٹھہرنے کا فیصلہ فرمایا اس وقت حضور کی طبیعت علیل تھی اندرہی سے اس فیصلہ کی اطلاع دے دی تھی اور باہر تشریف نہیں لائے۔ اس کے بعد ظہر کی اذان ہوئی تو حضور نے کہلا بھیجا کہ نمازمیں نہیں آسکتا، نماز پڑھ لو۔ چنانچہ اقامت ہوئی اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ کی اقتداء میں دو رکعتوں کے بعد کے قعدہ میں عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ تک پڑھ چکے تو صف میں سے کسی نے سبحان اللہ کہا یعنی پوری نماز پڑھو اورایک اور سلام پھیرنے کے بعد حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو کہا میاں جاکر اپنے ابا جی سے دریافت کریں کہ یہاں پر اگلے اتوار تک ٹھہرنے کے فیصلہ کے بعد ہمیں نماز پوری پڑھنی چاہئے یا کہ دو گانہ؟ چنانچہ گئے اور واپس آکر فرمایا ابا جی کہتے ہیں کہ دو رکعت ہی پڑھیں، ہم نے کوئی پندرہ دن ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہیں کیا۔ چنانچہ اسی وقت عصر کی نماز جمع کرتے ہوئے دو رکعت نماز پڑھی گئی۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے اس فیصلہ کے بعد سلسلہ احمدیہ میں یہی فتویٰ قائم ہوگیا کہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ کے قیام کے ارادہ سے مسافر مقیم ہوجاتا ہے اور اس سے کم ارادہ کے قیام سے مسافر ہی رہتا ہے۔
(دستخط حضرت سیدمحمد سرور شا ہ صاحب مفتی سلسلہ فتویٰ نمبر 55/2-12-1937منقول از رجسٹر فتاویٰ دارالافتاء ربوہ)
ملازمت پیشہ دورانِ سفر قصر نہ کرے
ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو شخص بسبب ملازمت کے ہمیشہ دورہ میں رہتا ہو اس کو نمازوں میں قصر کرنی جائز ہے یا نہیں ؟
فرمایا: جو شخص رات دن دورہ پر رہتا ہے وہ اسی بات کا ملازم ہے۔ وہ حالت دورہ میں مسافر نہیں کہلاسکتا۔ اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئے۔ (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
ایک صاحب محمد سعیدالدین کا ایک سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں اور میرے بھائی ہمیشہ تجارت عطریات وغیرہ میں سفرکرتے رہتے ہیں کیا ہم نماز قصر کیا کریں۔ فرمایا:۔
سفر تو وہ ہے جو ضرورتًا گاہے گاہے ایک شخص کو پیش آوے نہ یہ کہ اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ آج یہاں کل وہاں اپنی تجارت کرتا پھرے۔ یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ ایسا آدمی آپ کو مسافروں میں شامل کر کے ساری عمر نماز قصر کرنے میں ہی گذار دے۔
(بدر28مارچ 1907ء صفحہ4)
سفر سے پہلے نمازوں کا جمع کرنا
آج ظہر اور عصر کی نمازجمع کرکے حضرت اقدس گورداسپور کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ کے ہمراہ صاحبزادہ میاں بشیرالدین محمودبھی تھے۔ سٹیشن کے قریب جو سرائے تھی۔ اس میں حضور علیہ السلام نے نزول فرمایا۔ مغرب اورعشاء کی نمازیں یہاں جمع کر کے پڑھی گئیں۔ (البدر 28اگست 1903ء صفحہ250)
مقیم پوری نماز ادا کرے
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب گورداسپور میں مقیم تھے اور احمدی جماعت نزیل قادیان بہ باعث سفر میں ہونے کے نماز جمع کرکے ادا کرتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ پوچھا۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:
مقیم پوری نماز ادا کریں
وہ اس طرح ہوتی رہی کہ جماعت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نماز ادا کرتے۔ جماعت دو رکعت ادا کرتی، لیکن ڈاکٹر صاحب باقی کی دو رکعت بعد از جماعت ادا کرلیتے۔ ایک دفعہ حضرت اقدس نے دیکھ کرکہ ڈاکٹر صاحب نے ابھی دورکعت ادا کرنی ہے۔ فرمایاکہ:۔
’’ ٹھہر جاؤ۔ ڈاکٹر صاحب دو رکعت ادا کرلیویں۔‘‘
پھر اس کے بعد جماعت دوسری نماز کی ہوئی۔ ایسی حالتِ جمع میں سنّت اور نوافل نہیں اداکئے جاتے۔ (البدر یکم اگست 1904ء صفحہ4)
سفر میں قصر کی حدّ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر ذکر کیا کہ ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قصر نماز کے متعلق سوال کیا۔ حضور نے فرمایا۔ جس کو تم پنجابی میں وانڈھا کہتے ہو۔ بس اس میں قصر ہونا چاہئے ۔ مَیں نے عرض کیا کہ کیا کوئی میلوں کی بھی شر ط ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ بس جس کو تم وانڈھا کہتے ہو وہی سفر ہے جس میں قصر جائز ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں سیکھواں سے قادیان آتا ہوں۔ کیا اس وقت نماز قصر کرسکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ۔ ہاں۔ بلکہ میرے نزدیک اگر ایک عورت قادیان سے ننگل جائے تو وہ بھی قصر کرسکتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیکھواں قادیان سے غالبًا چار میل کے فاصلہ پر ہے اور ننگل تو شاید ایک میل سے بھی کم ہے۔ ننگل کے متعلق جو حضور نے قصر کی اجازت فرمائی ہے ۔ اس سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان سفر کے ارادہ سے قادیان سے نکلے تو خواہ ابھی ننگل تک ہی گیا ہو اس کے لئے قصر جائز ہوجائے گا۔ یہ مراد نہیں ہے کہ کسی کام کے لئے صرف ننگل تک آنے جانے میں قصر جائز ہوجاتا ہے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ننگل تک آنے جانے کو صرف عورت کے لئے سفر قراردیا ہو کیونکہ عورت کمزور جنس ہے۔ واللہ اعلم ۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ551،552)
قصرنماز کا تعلق صرف خوف کے ساتھ نہیں بلکہ ہر سفر کے ساتھ ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ مَیں اوائل میں اس بات کا قائل تھا کہ سفر میں قصر نماز عام حالات میں جائز نہیں بلکہ صرف جنگ کی حالت میں فتنہ کے خوف کے وقت جائز ہے اور اس معاملہ میں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) کے ساتھ بہت بحث کیا کرتا تھا۔ قاضی صاحب نے بیان کیا کہ جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گورداسپور میں مقدمہ تھا ایک دفعہ میں بھی وہاں گیا۔ حضرت صاحب کے ساتھ وہاں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) اورمولوی عبدالکریم صاحب بھی تھے۔ مگر ظہر کی نماز کا وقت آیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ قاضی صاحب آپ نماز پڑھائیں۔ میں نے دل میں پختہ ارادہ کیا کہ آج مجھے موقعہ ملا ہے میں قصر نہیں کروں گا۔ بلکہ پوری پڑھوں گاتا اس مسئلہ کا کچھ فیصلہ ہو۔ قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ ارادہ کرکے ہاتھ اُٹھائے کہ قصر نہیں کروں گا۔ حضرت صاحب میرے پیچھے دائیں طرف کھڑے تھے۔ آپ نے فورًا قدم آگے بڑھاکر میرے کان کے پاس منہ کرکے فرمایا قاضی صاحب دو ہی پڑھیں گے نا؟ میں نے عرض کیا حضور دو ہی پڑھوں گا۔ بس اس وقت سے ہمارا مسئلہ حل ہوگیا اور میں نے اپنا خیال ترک کردیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ24،25)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاطریقِ نماز
حضرت مفتی محمد صادق ؓصاحب تحریر کرتے ہیں:۔
شروع میں جب قادیان میں نماز کے وقت تین چار آدمی سے زیادہ نہ ہُوا کرتے تھے۔ مسجد مبارک میں حافظ معین الدین صاحب مرحوم اور مسجد اقصیٰ میں میاں جان محمد صاحب کشمیری نماز کے پیش امام ہوا کرتے تھے۔ سنا گیا ہے کہ کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بھی نماز میں پیش امام ہوتے تھے مگر یہ میرے یہاں آجانے سے قبل ہوا۔ زِندگی کے آخری سالوں میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عمومًا باہر تشریف نہ لاسکتے تھے۔ اس وقت اندر عورتوں میں نماز مغرب اورعشاء جمع کرکے پڑھایا کرتے تھے۔ حضورؑ امامت کے وقت بسم اللہ بالجہر نہ پڑھا کرتے تھے اور رفع یدین بھی نہ کرتے تھے۔ مگر ہاتھ سینہ پر باندھتے تھے۔ اور تشہد میں سبابہ کی انگلی اُٹھاتے تھے۔ باقی نماز ظاہری طریق میں حنفیوں کے طرز پر ہوتی تھی۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم ہمیشہ نماز میں بسم اللہ بالجہر پڑھتے تھے اور آخری رکعت میں بعد رکوع کھڑے ہوکر بآواز بلند دعائیں (قنوت) کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اوردیگر بزرگانِ دین نے سالہا سال حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے بعض اصحاب جیسا کہ صُوفی غلام محمد ؐ صاحب واعظ ماریشس ابتک یہی رویّہ رکھتے ہیں۔ ‘‘
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمدصادق صاحب صفحہ24)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیاکہ جب میں شروع شروع میں قادیان آیا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے وقت پہلی صف میں دوسرے مقتدیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ لیکن پھر بعض باتیں ایسی ہوئیں کہ آپ نے اندر حجرہ میں امام کے ساتھ کھڑا ہونا شروع کردیا اورجب حجرہ گرا کر تمام مسجد ایک کی گئی تو پھر بھی آپ بدستور امام کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں مسجد مبارک بہت چھوٹی ہوتی تھی اورلمبی قلمدان کی صورت میں تھی جس کے غربی حصہ میں ایک چھوٹا حجرہ تھا۔ جو مسجد کا حصہ ہی تھا لیکن درمیانی دیوار کی وجہ سے علیحدہ صورت میں تھا۔ امام اس حجرہ کے اندر کھڑا ہوتا تھا اور مقتدی پیچھے بڑے حصہ میں ہوتے تھے۔ بعد میں جب مسجد کی توسیع کی گئی تو اس غربی حجرہ کی دیوار اڑا کر اسے مسجد کے ساتھ ایک کردیا گیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ270، 271)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ کی نماز تو مولوی عبدالکریم صاحب پڑھاتے تھے۔ مگر عیدین کی نماز ہمیشہ حضرت مولوی نورالدین صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ الّا ماشاء اللہ اورجنازوں کی نماز عمومًا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خود پڑھاتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ440)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فریضہ نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے اور بعد کی سنتیں بھی عمومًا گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نماز کو لمبا کرتے تھے یا خفیف؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ عمومًا خفیف پڑھتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ4،5)
حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی روایت کرتے ہیں
ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کرنے کا موقعہ ملا۔ جمعہ کی نماز غالبًا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے پڑھائی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبر کے قریب بیٹھ گئے۔ میں بھی موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے آپ کے پاس بیٹھ گیا اور دیکھتا رہا کہ حضور کس طرح نماز ادا فرماتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے اس طرح سینہ پر ہاتھ باندھے کہ انگلیاں کہنی تک نہیں پہنچتی تھیں۔ آپ کی گردن ذرا دائیں طرف جھکی رہتی تھی۔ جب آپ قعدے میں ہوتے تو دائیں ہاتھ کی انگلیاں بند رکھتے اور جب کلمۂ شہادت پڑھتے تو شہادت کی انگلی کھڑی کرتے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ۔آپ آمین بالجہر کرتے تھے۔
اسی دن دوسری بات یہ پیش آئی کہ جب نماز جمعہ پڑھ چکے غالبًا موسم اچھا نہیں تھا۔ یا اور کوئی بات تھی ۔ تو یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا عصر کی نماز جمعہ کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے یا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے دریافت فرمایا۔آپ نے کیا جواب دیا۔ وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عصر کی نماز جمع کرکے پڑھ لو۔ چنانچہ وہ دونوں نمازیں جمع کرکے ادا کی گئیں۔
(روایت حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی ؓ اصحاب احمد جلد3صفحہ192،193)
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی روایت کرتے ہیں
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز باجماعت کے علاوہ سنن و نوافل اندرون خانہ ادا کرتے تھے۔ پہلی سنتیں عمومًا گھر سے پڑھ کرتشریف لاتے اورپچھلی سنتیں گھر میں تشریف لے جاکر ادا فرماتے تھے۔ البتہ ابتدائی زمانہ میں جبکہ حضور شام کی نماز کے بعد عشاء کی نماز تک مسجد ہی میں تشریف فرمایا کرتے تھے۔ حضور شام کی نماز کی سنتیں مسجد ہی میں ادا کرتے تھے۔ دوسنت ادافرماتے تھے جو ہلکی ہوتی تھیں مگر سنوارکر پڑھی جاتی تھیں۔ کوئی جلدی یا تیزی ان میں نہ ہوتی تھی۔ بلکہ ایک اطمینان ہوتا تھا مگر وہ زیادہ لمبی نماز نہ ہوتی تھی۔
ان کے علاوہ بھی کبھی کبھار حضور کو مسجد مبارک میں سنت ادا کرتے دیکھا مگر ہمیشہ حضور کی نماز آسان اور ہلکی ہوا کرتی تھی۔ چند مرتبہ حضور کی اقتداء میں نماز باجماعت ادا کرنے کا شرف ملا ہے اور اس کے لئے ابتدائی زمانہ میں ہی ہمیں خاص اہتمام کی ضرورت پڑا کرتی تھی اور ہم میں سے اکثر کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ حضور کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کی جگہ حاصل کریں۔
حضور کو میں نے نماز میں کبھی بھی رفع یدین کرتے نہیں دیکھا۔اورنہ ہی آمین بالجہر کرتے سنا۔ تشہد میں حضور شہادت کی انگلی سے اشارہ ضرور کیا کرتے تھے مگر میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور نے انگلی کو اکڑا یا یا پھرایا ہو۔ صرف ہلکا سا اشارہ ہوتا تھا جو عمومًا ایک ہی مرتبہ اوربعض اوقات دومرتبہ بھی ہوتا تھا۔ جو میرے خیال میں امام کے تشہد کو لمبا کرنے کی وجہ سے حضور کلمہ شہادت دوہراتے ہوئے کیا کرتے ہوں گے۔
حضور نماز میں ہاتھ ہمیشہ سینہ پر باندھتے تھے۔ زیر ناف بلکہ ناف پر بھی میں نے کبھی حضور کو ہاتھ باندھے نماز ادا کرتے نہیں دیکھا۔
حضور پُر نور خود امام نہ بنا کرتے تھے بلکہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مرحوم و مغفور کو حضور نے نمازوں کی امامت کا منصب عطا فرمایا ہوا تھا۔ نماز جمعہ بھی حضور خود نہ پڑھاتے تھے بلکہ عمومًا مولوی صاحب موصوف ہی پڑھایا کرتے تھے اور شاذونادر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھایا کرتے تھے اورکبھی کبھی مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی بھی پڑھاتے تھے۔ ایک زمانہ میں دو جگہ جمعہ کی نماز ہوتی تھی۔ مسجد اقصیٰ میں بھی جو کہ جامع مسجد ہے اورمسجد مبارک میں بھی۔ مگر دونوں جگہ امام الصلوٰۃ حضور نہ ہوتے تھے ۔ عیدین کی نماز بھی سوائے شاذ کے حضو ر خود نہ پڑھاتے تھے۔ نماز جنازہ عمومًا حضورخود پڑھاتے تھے۔ اور حضور کو میں نے نماز جنازہ کسی کے پیچھے پڑھتے نہیں دیکھا یا کم از کم میری یاد میں نہیں۔
(روایت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اصحاب احمد جلد9صفحہ155، 156نیا ایڈیشن )
حضرت مسیح موعود ؑ کی نمازکا تفصیلی نقشہ
حضرت سید محمدسرورشاہ صاحبؓ نے ایک روایت میں حضرت مسیح موعودؑ کی نماز کا تفصیلی نقشہ کھینچا ہے۔چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں :۔
یہاں پر میں اس قدر بیان کروں گا کہ خدا کا برگزیدہ اس عبادت کو اس طریق پر ادا کرتا ہے تاکہ یہ طریق عقل مندوں کے نزدیک اثبات کے لئے کافی اور رفع نزاع کے لئے وافی ہو اوربجائے اس کے کہ میں ہر ایک مسئلہ کے ساتھ یہ لکھوں کہ حضرت اقدس ؑکا یہی معمول بِھا ہے۔ ابتداء ہی میں مَیں یہ بتا دیتا ہوں کہ صلوٰۃ کی جو کیفیت میں یہاں پر لکھوں گا وہ حضرت اقدس ؑ کے عمل کے مطابق ہوگی۔
اور وہ یہ ہے کہ جب صلوٰۃ پڑھتے ہیں تو کعبہ کی طرف رُخ کرکے اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ انگلیاں دونوں کانوں کے برابر ہوجاتی ہیں اورپھردونوں کو نیچے لاکر سینہ یعنی دونوں پستانوں کے اوپر یا ان کے متصل نیچے اس طور پر باندھ دیتے ہیں کہ بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں اوپر ہوتا ہے اورعمومًا ایسا ہوتا ہے کہ داہنے ہاتھ کی تینوں درمیانی انگلیوں کے سرے بائیں کہنی تک یا اس سے کچھ پیچھے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں اور انگوٹھے اورکنارے کی انگلی سے پکڑا ہوتا ہے اور اگر اس کے خلاف اوپر یا نیچے یا آگے بڑھا کر یا پیچھے ہٹاکر یا ساری انگلیوں سے کوئی پکڑ کر ہاتھ باندھتا ہے تو کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا۔
ہاتھ باندھ کر سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ ۔۔۔۔یا اَللّٰہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اَللّٰہُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّیْ الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ اَللّٰہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَآئِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ۔۔۔۔۔ (اس کے بعد اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ (تا) وَلَا الضَّآلِّیْنَ ۔ آمین پڑھنے کا ذکر کرکے لکھتے ہیں۔ مؤلف ) اس کے بعد کوئی سورۃ یا قرآن مجید کی کچھ آیتیں پڑھتے ہیں اور فاتحہ میں جو اِھْدِنَا کی دعا ہے اس کو بہت توجہ سے اوربعض دفعہ بار بار پڑھتے ہیں اور فاتحہ کے اول یا بعد سورۃ کے پہلے یا پیچھے۔ غرض کھڑے ہوتے ہوئے اپنی زبان میں یا عربی زبان میں علاوہ فاتحہ کے اور اور دعائیں بڑی عاجزی و زاری اورتوجہ سے مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جاتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں گھٹنوں کو انگلیاں پھیلا کر پکڑتے ہیں اوردونوں بازوؤں کو سیدھا رکھتے ہیں اورپیٹھ اورسرکو برابر رکھتے ہیں اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ۔۔۔۔ یا سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِيْ ۔۔۔۔۔ تین یا تین سے زیادہ دفعہ پڑھتے ہیں اور رکوع کی حالت میں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا کرنا چاہیں کرتے ہیں اس کے بعد سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ ۔۔۔۔۔کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں اورکھڑے کھڑے رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔۔۔۔ یا اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔۔۔۔ یا اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًامُبَارَکًا فِیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی یا اس کے سوا اورکوئی ماثور کلمات کہتے ہیں۔ اس کے بعد جو دعا کرنی چاہتے ہیں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں کرتے ہیں اورپھر اللہ اکبر کہتے ہوئے نیچے جاتے ہیں اور پہلے گھٹنے اورپھر ہاتھ اورپھر ناک اورپیشانی یا پہلے ہاتھ اورپھر گھٹنے اورپھر ناک اورپھر پیشانی اورپھر ناک اور پیشانی زمین پر رکھ کر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔۔۔۔ یا سُبحَانَکَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَاوَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِيْ ۔۔۔۔ کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ طاق پڑھتے ہیں اور چونکہ صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ سجدہ میں بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ سجدہ میں دعا بہت قبول ہوتی ہے ۔ لہٰذا سجدہ میں اپنی زبان یا عربی زبان میں بہت دعائیں کرتے ہیں اور سجدہ کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا رکھتے ہیں اور ان کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان سر رکھتے ہیں اور دونوں بازوؤں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا کرکے اوردونوں کہنیوں کو زمین سے اٹھا کر رکھتے ہیں۔ ہاں جب لمبا سجدہ کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں تو اپنی دونوں کہنیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھ کر سہارا لے لیتے ہیں۔
اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے سراُٹھاکر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں۔ اس طور پر کہ داہناں پاؤں کھڑا رکھتے ہیں اور بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں اورا پنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے ہیں اور بیٹھ کر اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاھْدِنِیْ وَعَافِنِیْ وَارْفَعْنِیْ وَاجْبُرْنِیْ وَارْزُقْنِیْ ۔۔۔۔ یا اللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ تین دفعہ پڑھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا چاہتے ہیں دعا مانگتے ہیں اورپھر اللہ اکبر کہتے ہوئے پہلے سجدہ کی مانند سجدہ کرتے ہیں اور پہلے سجدہ کی مانند اس میں وہی کچھ پڑھتے ہیں۔۔۔۔اور دوسرے سجدہ میں بھی دعائیں مانگتے ہیں اورپھر اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سوائے پہلی تکبیر اور سُبْحَانَکَ اللّٰہُ اور اَعُوْذُ بِاللّٰہِ کے بعینہٖ پہلی رکعت کی مانند دوسری رکعت پڑھتے ہیں اوردونوں سجدوں کے بعد اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جیسا کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا کرتے ہیں ۔ ہاں اس قدر فرق ہوتا ہے کہ پہلے سجدہ کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طور پر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اور دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب اُٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طورپر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں ۔ دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب اُٹھتے ہیں تو اپنے بائیں ہاتھ کو تو ویسا ہی رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو ہتھیلی سے ملا لیتے ہیں اوردرمیانی انگلی اورانگوٹھے سے حلقہ باندھ لیتے ہیں اوران دونوں کے درمیان کی انگلی کو سیدھا رکھتے ہیں اورپھراَلتَّحِیَّات پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ (اور یہ کہتے ہوئے اس انگلی کو اُٹھاکر اشارہ کرتے ہیں اورپھر ویسی ہی رکھ دیتے ہیں جیسی کہ پہلے رکھی ہوئی تھی) وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ۔۔۔۔
پس اگر تین چار رکعتیں پڑھنی ہوتی ہیں تو اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اورپھر باقی رکعتوں کو ویسا ہی پڑھتے ہیں جیسا کہ دوسری رکعت کو پڑھا تھا اورپھر ان کو ختم کرکے اخیر میں پھر اسی طریق سے یاداہنے پاؤں کو کھڑا کرکے اوربائیں پاؤں کو داہنے کی طرف نکال کر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور یہی اَلتَّحِیَّات پڑھتے ہیں اور اگر دو ہی رکعت والی نماز ہوئی تو یہی آخری بیٹھنا ہوتا ہے اور آخری بیٹھنے میں اَلتَّحِیَّاتمذکورہ کے بعد پڑھتے ہیں اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔۔۔اس کے بعد پھر کوئی دعا مقرر نہیں بلکہ جو چاہتے ہیں وہ دعا مانگتے ہیں اورضرورمانگتے ہیں اس کے بعد داہنے طرف منہ پھیر کر کہتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ۔۔۔۔ اور پھر بائیں طرف بھی اسی طرح منہ پھیر کر کہتے ہیںاَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ۔
پس اللہ اکبر سے نماز شروع ہوتی ہے اوراَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ پرختم ہوجاتی ہے یہ وہ نماز ہے جو کہ حضرت مسیح موعود ؑ اور ان کے اہل علم اور مخلص مہاجر اوررات دن ساتھ رہنے والے اصحاب پڑھتے ہیں جیسا میں نے بیان کیا ہے کہ ہاتھ باندھنے میں اختلاف ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ اوران کے مذکورہ بالاخدام فلاں طرز پر باندھتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی جاننا چاہئے کہ رفع یدین میں بھی اختلاف ہے۔ (یعنی رکوع کو جاتے ہوئے اور اُٹھنے کے بعد نیچے جاتے ہوئے اور دوسری رکعت کے بعد بیٹھ کر پھر اُٹھتے ہوئے تکبیر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھوں کو اس طرح اُٹھانا جیسا کہ پہلی تکبیر کے وقت اُٹھاتے ہیں ) اوراختلاف یہ ہے کہ بعض ان مقاموں پر ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور بعض نہیں اُٹھاتے اورحضرت مسیح موعود ؑاور ان کے مذکورہ بالاخدام ان مقاموں پر رفع یدین نہیں کرتے۔ ہاں اگر کوئی ان کے سامنے کرے تو اس پر اعتراض بھی نہیں کرتے۔۔۔۔۔
امام ہمام کے ساتھ نماز پڑھنے کی حالت میں ایک اور مسئلہ میں بھی بہت کچھ نزاع ہے اور وہ ہے بلند آواز سے آمین کہنے کا لیکن حضرت مسیح موعود ؑ کا عمل درآمد(جو کہ ترجیح اور ثبوت کے لئے حجّت قاطعہ ہے اور حجّت قاطعہ بھی ایسی کہ جس پر ہر ایک عقل مند مومن حلف کھا سکتا ہے کہ خدائے علیم کو یہ پسند ہے) یہی ہے کہ آپ بلند آواز سے آمین نہیں کہتے اورنہ کسی کہنے والے پر کوئی اعتراض کرتا ہے۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود اپنی جماعت کو سخت تاکید فرماتے ہیں کہ وہ کسی غیر احمدی کے پیچھے صلوٰۃ ادا نہ کریں۔۔۔۔۔۔ (اصحاب احمد جلد5صفحہ542تا545نیا ایڈیشن )
نماز جمعہ اور عید
جمعہ کا اہتمام
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگاتے اور کپڑے بدلتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ61)
نمازجمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ میں دو رکعت ہی پڑھتے ہوئے بار ہا دیکھا ہے۔ عام طورپر لوگ قبل از نماز جمعہ چار رکعت پڑھتے ہیں لیکن حضور علیہ السلام کو دو رکعت ہی پڑھتے دیکھا ہے شاید وہ دو رکعت تحیۃ المسجد ہوں کیونکہ باقی نمازوں میں سُنتیں گھر میں ہی پڑھ کر مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ258)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کی پہلی سنتوں کے متعلق ایک دفعہ فرمایا کہ یہ تَحِیَّۃُ الْمَسْجِدْ ہیں۔ اس لئے آپ دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ804)
جمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنے کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں: ۔
بے شک یہ حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں آکر جمعہ کی نماز سے قبل دو رکعت پڑھیں لیکن ایک اور حدیث ہے جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت گھر میں پڑھ کر آتے تھے گو بخاری و مسلم نے چار سنتوں والی روایات کو ترجیح دی ہے لیکن دو سنتیں پڑھنا بھی جائز ہے ۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ظہر کی جماعت سے پہلے ہمیشہ چار سنتیں پڑھا کرتے تھے۔ میں بھی چار ہی پڑھتا ہوں کیونکہ اللہ نے طاقت دی ہے تو کیوں نہ پڑھیں لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو میں نے سینکڑوں دفعہ دیکھا ہے اور متواتر دیکھا ہے ۔آپ ظہر سے پہلے ہمیشہ دو رکعت سنت پڑھا کرتے تھے۔دراصل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی یہ دو رکعت ہماری ہزاروں رکعتوں کے برابر تھیں۔گویاحضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حدیث سے جو اقل سنتیں ثابت ہیں وہی پڑھی ہیں تاکہ باقی وقت آپ تبلیغِ اسلام میں صرف کریں۔
(الفضل 10دسمبر1929ء صفحہ7)
کیادوافراد کا جمعہ ہوسکتا ہے؟
یہ مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ؟
مولوی محمد احسن صاحب سے خطاب فرمایاتو انہوں نے عرض کیا کہ دوسے جماعت ہوجاتی ہے۔ اس لئے جمعہ بھی ہو جاتا ہے فرمایا
ہاں پڑھ لیا کریں۔ فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کرکے تعداد پوری کر سکتا ہے۔ (بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)
اسی طرح ایک دوسرے موقع پر سوال پیش ہوا کہ نماز جمعہ کے واسطے اگر کسی جگہ صرف ایک دو مرد احمدی ہوں اور کچھ عورتیں ہوں تو کیا یہ جائز ہے کہ عورتوں کو جماعت میں شامل کرکے نماز جمعہ ادا کی جائے۔
حضرت نے فرمایا ’’ جائز ہے۔ ‘‘ (بدر 5ستمبر1907ء صفحہ3)
جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے
ایک صاحب نے بذریعہ خط استفسار فرمایا تھاکہ وہ صرف اکیلے ہی اس مقام پر حضرت اقدس سے بیعت ہیں جمعہ تنہا پڑھ لیا کریں یا نہ پڑھا کریں حضرت اقدس نے فرمایا کہ
جمعہ کے لئے جماعت کاہونا ضروری ہے ۔ اگر دو آدمی مقتدی اور تیسرا امام اپنی جماعت کے ہوں تو نماز جمعہ پڑھ لیا کریں۔ وَاِلَّا نہ(سوائے احمدی احباب کے دوسرے کے ساتھ جماعت اور جمعہ جائز نہیں۔ ) (البدر 9جنوری 1903ء صفحہ83 )
اپنا جمعہ الگ پڑھو
سوال پیش ہوا کہ بعض مساجد اس قسم کی ہیں کہ وہاں احمدی اور غیر احمدی کو اپنی جماعت اپنے امام کے ساتھ الگ الگ کرا لینے کا اختیار قانونًایا باہمی مصالحت سے حاصل ہوتا ہے تو ایسی جگہ جمعہ کے واسطے کیا کیا جاوے؟ کیونکہ ایک مسجد میں دو جُمعے جائز نہیں ہوسکتے۔
فرمایا:۔
جو لوگ تم کو کافر کہتے ہیں اور تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے وہ تو بہرحال تمہاری اذان اورتمہاری نماز جمعہ کو اذان اور نماز سمجھتے ہی نہیں اس واسطے وہ تو پڑھ ہی لیں گے اور چونکہ وہ مومن کو کافر کہہ کر بموجب حدیث خود کافر ہوچکے ہیں۔ اس واسطے تمہارے نزدیک بھی ان کی اذان اور نماز کا عدم وجود برابر ہے۔ تم اپنی اذان کہو اور اپنے امام کے ساتھ اپناجمعہ پڑھو۔ (بدر 2مئی1907ء صفحہ2)
نمازِ جمعہ کے بعد احتیاطی نماز
ایک شخص کاسوال پیش ہوا کہ بعض لوگ جمعہ کے بعد احتیاطی پڑھتے ہیں۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ فرمایا:۔
قرآن شریف کے حکم سے جمعہ کی نماز سب مسلمانوں پر فرض ہے جبکہ جمعہ کی نماز پڑھ لی تو حکم ہے کہ جاؤ اب اپنے کاروبار کرو۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انگریزوں کی سلطنت میں جمعہ کی نماز اور خطبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ بادشاہ مسلمان نہیں ہے تعجب ہے کہ خود بڑے امن کے ساتھ خطبہ اور نماز جمعہ پڑھتے بھی ہیں اورپھر کہتے ہیں کہ نہیں ہوسکتا پھر کہتے ہیں کہ احتمال ہے کہ جمعہ ہوا یا نہیں۔ اس واسطے ظُہر کی نماز بھی پڑھتے ہیں اور اس کا نام احتیاطی رکھا ہے۔ ایسے لوگ ایک شک میں گرفتار ہیں ۔ ان کا جمعہ بھی شک میں گیا اور ظہر بھی شک میں گئی۔ نہ یہ حاصل ہوا اور نہ وہ ۔ اصل بات یہ ہے کہ نما ز جمعہ پڑھو اوراحتیاطی کی کوئی ضرورت نہیں۔ (بدر 6جون1907ء صفحہ8)
اہلِ اسلام میں سے بعض ایسے بھولے بھالے بھی ہیں کہ جمعہ کے دن ایک تو جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں پھر اس کے بعداس احتیاط سے کہ شاید جمعہ ادا نہ ہوا ہو۔ ظہر کی نماز بھی پوری ادا کرتے ہیں اس کا نام انہوں نے احتیاطی رکھا ہے۔ اس کے ذکر پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ غلطی ہے اور اس طرح سے کوئی نماز بھی نہیں ہوتی کیونکہ نیّت میں اس امر کا یقین ہونا ضروری ہے کہ مَیں فلاں نماز ادا کرتا ہوں اور جب نیّت میں شک ہوا تو پھر وہ نماز کیا ہوئی؟
(البدر مؤرخہ 11ستمبر1903ء صفحہ366)
ایک اور موقعہ پر فرمایا
’’ احتیاطی نماز کیا ہوتی ہے۔ جُمعہ کے تو دو ہی فرض ہیں۔ احتیاطی فرض کچھ چیز نہیں۔ ‘‘
فرمایا:’’ لدھیانہ میں ایک بار میاں شہاب الدین بڑے پکّے موحّد نے جمعہ کے بعد احتیاطی نماز پڑھی ۔ مَیں نے ناراض ہوکر کہا کہ یہ تم نے کیا کیا؟ تم تو بڑے پکّے موحّد تھے۔ اُس نے کہا کہ مَیں نے جُمعہ کی احتیاطی نہیں پڑھی، بلکہ مَیں نے مار کھانے کی احتیاطی پڑھی ہے۔‘‘ (الحکم 10؍اگست 1901ء صفحہ7 )
حضرت مفتی محمدصادق ؓصاحب روایت کرتے ہیں کہ شروع زمانہ میں جبکہ احمدیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ۱۸۹۳ء یا اِس کے قریب کا واقعہ ہے ایک غریب احمدی کسی گاؤں کی مسجد میں بطورِ درویش کے رہا کرتا تھا اور کبھی کبھی قادیان آتا تھا۔ اُس نے عرض کی کہ جمعہ کے دِن لوگ دو رکعت نماز جمعہ پڑھتے ہیں اوراس کے علاوہ چار رکعت نماز ظہر بھی پڑھتے ہیں۔ اس کا نام اِحتیاطی رکھتے ہیں۔ اِس کا کیا حُکم ہے۔ فرمایا
نماز جمعہ کے بعد ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ جو لوگ شُبہ میں ہیں اُن کا جمعہ اور ظہر اور ہر دوشبہ میں گئے، نہ یہ ہوا نہ وہ ہوا۔ احتیاطی ایک فضول بات ہے مگر تم غریب اورکمزور آدمی ہو تم اِس نیّت کی احتیاطی پڑھ لیا کرو کہ کوئی شخص ناحق ناراض ہوکر تمہیں مارنے نہ لگ جائے۔ (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمدصادق صاحب صفحہ40،41)
جمعہ دو جگہوں پر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی اذان کہا کرتے تھے اورخود ہی نماز میں امام ہوا کرتے تھے۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ بعد میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب امام نماز مقرر ہوئے اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دراصل حضرت مولوی نورالدین صاحب کو امام مقرر کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کو کروادیا۔ چنانچہ اپنی وفات تک جو ۱۹۰۵ء میں ہوئی مولوی عبدالکریم صاحب ہی امام رہے۔ حضرت صاحب مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے اور باقی مقتدی پیچھے ہوتے تھے ۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی غیر حاضری میں نیز ان کی وفات کے بعد مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔ جمعہ کے متعلق یہ طریق تھا کہ اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی جب حضرت صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا تھا جس کو عمومًا لوگ مسجد اقصیٰ کہتے ہیں اورمولوی عبدالکریم صاحب امام ہوتے تھے۔ بعد میں جب حضرت کی طبیعت عمومًا ناساز رہتی تھی۔ مولوی عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کے لئے مسجد مبارک میں جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھاتے تھے۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد مسجد مبارک میں مولوی محمد احسن صاحب اور ان کی غیر حاضری میں مولوی محمد سرور شاہ صاحب امام جمعہ ہوتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔ حضرت صاحب کی وفات تک یہی طریق رہا ۔ عید کی نماز میں عمومًا مولوی عبدالکریم صاحب اوران کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔ جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعو د ؑ جب آپ شریک نمازہوں خود پڑھایا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ148)
قادیان میں دو جمعے اوراس کی وجہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام میں نماز جمعہ دو جگہ ہوتی تھی ۔ایک مسجد مبارک میں جس میں حضرت صاحب خود شریک ہوتے تھے اور امام صلوٰۃ مولوی سید محمد احسن صاحب یا مولوی سیّد سرورشاہ صاحب ہوتے تھے اور دوسرے مسجد اقصیٰ میں جس میں حضرت خلیفہ اولؓ امام ہوتے تھے ۔ دو جمعوں کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود بوجہ طبیعت کی خرابی کے عمومًا مسجد اقصیٰ میں تشریف نہیں لے جاسکتے تھے اور مسجد مبارک چونکہ بہت تنگ تھی اس لئے اس میں سارے نمازی سما نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا دو جگہ جمعہ ہوتا تھا۔ واقعہ مندرجہ روایت مذکورہ بالا ان دنوں کا ہے ۔ جبکہ مسجد مبارک میں توسیع کے لئے عمارت لگی ہوئی تھی۔ ان ایام میں مسجد مبارک والا جمعہ میرے موجودہ مکان کے جنوبی دالان میں ہوا کرتا تھا۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ588،589)
حضرت مصلح موعودؓ اسی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
بعض حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک ہی وقت میں مسجد مبارک میں بھی جمعہ کی نماز پڑھی جاتی تھی اورمسجد اقصیٰ میں بھی اور یہ اس صورت میں ہوتا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی تکلیف وغیرہ کی وجہ سے مسجد اقصیٰ میں تشریف نہیں لے جاسکتے تھے۔ (روزنامہ الفضل 18ستمبر1930ء صفحہ5)
سفر میں نمازِ جمعہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
سفر میں جمعہ کی نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور چھوڑنا بھی جائز ہے۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر میں پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی دیکھا ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمہ کے موقعہ پر گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ آج جمعہ نہیں ہوگا کیونکہ ہم سفر پر ہیں۔
ایک صاحب جن کی طبیعت میں بے تکلفی ہے وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سنا ہے حضور نے فرمایا آج جمعہ نہیں ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓیوں تو ان دنوں گورداسپور میں ہی تھے مگر اس روز کسی کام کے لئے قادیان آئے تھے۔ ان صاحب نے خیال کیا کہ شائدجمعہ نہ پڑھے جانے کا ارشاد آپ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ مولوی صاحب یہاں نہیں ہیں۔ اس لئے کہا حضور مجھے بھی جمعہ پڑھانا آتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں آتا ہوگا مگر ہم تو سفر پر ہیں۔ ان صاحب نے کہا کہ حضور مجھے اچھی طرح جمعہ پڑھانا آتا ہے اور میں نے بہت دفعہ پڑھایا بھی ہے۔ آپ نے جب دیکھا کہ ان صاحب کو جمعہ پڑھانے کی بہت خواہش ہے تو فرمایا کہ اچھا آج جمعہ ہوجائے ۔ تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوسفر کے موقع پر جمعہ پڑھتے بھی دیکھا ہے اورچھوڑتے بھی اور جب سفر میں جمعہ پڑھا جائے تو میں پہلی سنتیں پڑھاکر تاہوں اورمیری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ وہ عام سنن سے مختلف ہیں اور وہ جمعہ کے احترام کے طورپر ہیں۔ (الفضل 24؍جنوری1942 صفحہ1)
جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کی تجویز
حضرت مفتی محمد صادق ؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
۹۶،۱۸۹۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گورنمنٹ میں ایک تحریک کرنی چاہی تھی کہ سرکاری دفاتر کے مسلمانوں کو نماز جمعہ کے ادا کرنے کے واسطے جمعہ کے دن دو گھنٹہ کے لئے رُخصت ہوا کرے۔ اِس کے لئے حضرت صاحبؑ نے ایک میموریل لکھا۔ جس پر مسلمانوں کے دستخط ہونے شروع ہوئے۔ مگر مولوی محمد حسین صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا کہ یہ کام تو اچھّا ہے۔ لیکن مرزا صاحب ؑ کو یہ کام نہیں کرناچاہئے۔ ہم خود اِس کام کو سرانجام دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بذریعہ اعلان مشتہر کردیا کہ ہماری غرض نام سے نہیں بلکہ کام سے ہے۔ اگر مولوی صاحب اس کام کو سرانجام دیتے ہیں تو ہم اس کے متعلق اپنی کارروائی کو بند کردیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحبؑ نے اپنی کارروائی بند کردی مگر افسوس ہے مولوی محمد حسین صاحب یا کسی دوسرے مسلمان عالم نے اِس کے متعلق کچھ کارروائی نہ کی اور یہ کام اسی طرح درمیان میں رہ گیا۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 42،43)
تعطیل جمعہ کے لئے حکومت کومیموریل بھیجنا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کے لئے متعدد کوششیں کیں۔اس غرض کے لئے آپ نے وائسرائے ہندلارڈ کرزن کی خدمت میں میموریل بھی بھیجااور اُن کی سلطنت کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ نے تحریرفرمایاکہ
یہ سلطنت اسلام کے لئے درحقیقت چشمہ فیض ہے اور نہایت خوشی کی بات ہے کہ حضور لارڈکرزن بالقابہ نے ایسی نمایاں کارروائیاں کی ہیں کہ مسلمانوں کو کبھی نہیں بھولیں گی جیسا کہ لاہور کے قلعہ کی مسجد کا مسلمانوں کو عطا کرنا اور ایک باہر کی مسجد جس پر ریل والوں کا قبضہ تھا مسلمانوں کو عنایت فرمانااورنیزاپنی طرف سے لاہور کی شاہی مسجد کے لئے ایک قیمتی لالٹین اپنی جیب سے مرحمت فرمانا۔ ان فیاضانہ کارروائیوں سے جس قدر مسلمان شکرگزار اور گرویدہ ہیں اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا لیکن ایک تمنا ان کی ہنوز باقی ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ جن ہاتھوں سے یہ مُرادیں پوری ہوئی ہیں وہ تمنابھی انہیں ہاتھوں سے پوری ہوگی اور وہ آرزو یہ ہے کہ روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کرکے اس دن کو تعطیل کا دِن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورۃ الجمعۃ ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے تو تم دنیا کاہر ایک کام بند کردو اور مسجدوں میں جمع ہوجاؤ اورنماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرواور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گنہ گار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہواور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدر عید کی نماز کی بھی تاکید نہیں۔ اسی غرض سے قدیم سے اور جب سے کہ اسلام ظاہر ہوا ہے جمعہ کی تعطیل مسلمانوں میں چلی آئی ہے اوراس ملک میں بھی برابر آٹھ سو برس تک یعنی جب تک کہ اس ملک میں اسلام کی سلطنت رہی جمعہ میں تعطیل ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے ریاست پٹیالہ میں جمعہ کی تعطیل ان دنوں تک ہوتی رہی اوراس ملک میں تین قومیں ہیں۔ ہندو، عیسائی، مسلمان۔ہندوؤں اور عیسائیوں کو ان کے مذہبی رسوم کا دن گورنمنٹ نے دیا ہوا ہے یعنی اتوار جس میں وہ اپنے مذہبی رسوم ادا کرتے ہیںجس کی تعطیل عام طورپر ہوتی ہے لیکن یہ تیسرا فرقہ یعنی مسلمان اپنے تہوار کے دن سے یعنی جمعہ سے محروم ہیں۔برٹش انڈیا میں کون مسلمان ہے جو آہ مار کر یہ نہیں کہتا کہ کاش جمعہ کی تعطیل ہوتی لیکن اس کرزنی دور میں جبکہ لارڈ کرزن اس ملک کے وائسرائے ہیں مسلمانوں کو اس تمنا کے پورے ہونے میں بہت کچھ امید بڑھ گئی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جبکہ لارڈ موصوف نے دلی فیاضی اور ہمدردی سے ان کی مساجد واگذار کرادی ہیں توپھر وہ امر جو مسجدوں کی علت غائی ہے یعنی نماز جمعہ ،یہ امر بھی انہی ہاتھوں سے انجام پذیر ہوگا۔ مسجد تو مثل دسترخوان یا میز کے ہے جس پر روٹی رکھی جاتی ہے مگر نماز جمعہ اصل روٹی ہے۔ تمام مساجدکی بڑی بھاری غرض نماز جمعہ ہے پس کیاہمارے عالی ہمت وائسرائے لارڈ کرزن یہ روا رکھیں گے کہ وہ ہمیں دسترخوان تو دیں مگر روٹی نہ دیں۔ ایسی دعوت تو ناقص ہے اورامید نہیں کہ ایسا فیاض دل جوانمرد ایسی کمی کو اپنے پر گوارا کرے اوراگر ایسا ہمدرد وائسرائے جس کے بعد کم امید ہے کہ اس کی نظیر ملے اس فیاضی کی طرف توجہ نہ فرماوے تو پھر اس کے بعد عقل تجویز نہیں کرسکتی کہ مسلمانوں کے لئے کبھی وہ دن آوے کہ دوسرے وائسرائے سے یہ مراد پاسکیں۔ یہ ایک ایسی مراد ہے کہ اس کا انجام پذیر ہونا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ برطانیہ کی محبت کی طرف ایک زبردست کشش سے کھینچ لے گااور ان احسانوں کی فہرست میں جو اس گورنمنٹ نے مسلمانوں پر کئے ہیں اگر یہ احسان بھی کیا گیا کہ عام طورپر جمعہ کی تعطیل دی جائے تو یہ ایسااحسان ہوگا کہ جوآبِ زر سے لکھنے کے لائق ہوگا۔۔۔۔۔ اگر گورنمنٹ اس مبارک دن کی یادگار کے لئے مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل کھول دے یا اگر نہ ہوسکے تو نصف دن کی ہی تعطیل دے دے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ عام دلوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے زیادہ کوئی کارروائی ہے مگر چونکہ گورنمنٹ کی فیاضی کا تنگ دائرہ نہیں ہے اور اگر توجہ پیدا ہوتو اس کی کچھ پروا نہیں ہے اس لئے صرف نصف دن کی تعطیل ایک ادنیٰ بات ہے ۔ یقین ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس مبارک یادگار میں پورے دن کی تعطیل عنایت فرمائے گی اوریہی مسلمانوں کو توقع ہے۔
(الحکم 24جنوری 1903ء صفحہ6-5)
اگر جمعہ کا خطبہ ثانیہ نہ آتا ہو
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتا اور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے۔میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا ۔ حضور ؑنے فرمایا: کوئی رکوع پڑھ کر اوربیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو۔ انہی دنوں الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ ، عبدالحق اکاؤنٹنٹ اورحافظ محمد یوسف سب اوور سیئر تینوں مولوی عبدالحق صاحب غزنوی کے مرید تھے۔ یہ بہت آیا کرتے تھے۔ اکثر ایسا موقعہ ہوا ہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی وہاں ہوتے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ29)
قضاء عمری
ایک صاحب نے سوال کیا کہ یہ قضاء عمری کیا شے ہے جو کہ لوگ (عیدالاضحی ) کے پیشتر جمعہ کو ادا کرتے ہیں۔ فرمایا:۔
میرے نزدیک یہ فضول باتیں ہیں۔ ان کی نسبت وہی جواب ٹھیک ہے جو کہ حضرت علیؓ نے ایک شخص کودیا تھا جبکہ ایک شخص ایک ایسے وقت نماز ادا کررہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں۔ اس کی شکایت حضرت علیؓ کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ مَیں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا۔ أَرَأَ یْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی عَبْدًا اِذَا صَلّٰی (العلق :10-11) یعنی تونے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے۔نماز جو رہ جاوے اس کا تدارک نہیں ہوسکتا ہاں روزہ کا ہوسکتا ہے۔
اورجوشخص عمداً سال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضا عمری والے دن اداکرلوں گا وہ تو گنہگار ہے اور جوشخص نادم ہوکر توبہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں۔ ہم تواس معاملہ میں حضرت علیؓ ہی کا جواب دیتے ہیں۔ (البدر یکم مئی 1903ء صفحہ114 )
ایک شخص نے سوال کیاکہ میں چھ ماہ تک تارکِ صلوٰۃ تھا۔اب میں نے توبہ کی ہے کیا وہ سب نمازیں اب پڑھوں؟ فرمایا
نماز کی قضا ء نہیں ہوتی۔اب اس کا علاج توبہ ہی کافی ہے ۔
(بدر 24تا31دسمبر1908ء صفحہ5)
عورتوں کے لئے جمعہ کا استثناء
ایک صاحب نے عورتوں پر جمعہ کی فرضیت کا سوال کیا۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
اس میں تعامل کو دیکھ لیا جاوے اور جو امر سنّت اورحدیث سے ثابت ہے۔ اس سے زیادہ ہم اس کی تفسیر کیا کرسکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کردیا ہے تو پھر یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہی رہا۔ (البدر 11ستمبر1903ء صفحہ366)
قادیان میں عیدالفطر
اخبار البدر قادیان نے عیدالفطر کی تقریبِ سعید کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لنگرخانہ میں نماز عید سے پیشتر احباب کے لئے میٹھے چاول تیار کروائے اور سب احباب نے تناول فرمائے۔مدرسہ تعلیم الاسلام کے ایک دو ماسٹروں نے مدرسہ کے مکین اور یتیم طلباء کے واسطے صدقہ فطر جمع کیا جو کہ عید کی نماز سے پیشتر ہی ہر ایک مومن کو ادا کردینا چاہئے۔ گیارہ بجے کے قریب خدا کا برگزیدہ جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِسادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لایا جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑدوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی اورعید کی مبارک باد دی۔ اتنے میں حکیم نورالدین صاحب تشریف لائے اور آپ نے نمازعید کی پڑھائی اور ہر دو رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پیشتر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام نے گوش مبارک تک حسبِ دستوراپنے ہاتھ اُٹھائے۔
(البدر 9جنوری 1903ء صفحہ85 )
عیدین کی تکبیرات
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب ؓ ’’پیارے احمد کی پیاری پیاری باتیں‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں : ۔
مجھے خوب یاد ہے نماز عیدین تو حضرت خلیفہ اولؓ ہی پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بڑ کے درخت کے نیچے جاکر فرمایاکہ ہمیشہ تو مولوی نورالدین صاحب نماز پڑھاتے ہیں۔ آج سید محمد احسن صاحب کو کہہ دیں کہ یہ نما ز پڑھادیں اور خطبہ بھی یہی پڑھادیں۔ میں نے یہ بات خلیفہ اولؓ سے کہہ دی، انہوں نے فرمایا کہ بہتر ہے۔ پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب (امروہی) آج تم نماز پڑھاؤ۔ پس مولوی صاحب نے نماز پڑھائی۔ نماز سے پہلے مولوی صاحب نے عرض کیا کہ بخاری میں اول رکعت میں سات تکبیریں اوردوسری میں پانچ تکبیریں بھی آئی ہیں ۔ ارشاد ہو تو کروں؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ کیا مضائقہ ہے، بے شک اب ایسا ہی کرو۔ بات یہ ہے کہ ہمیشہ اسی طرح سے عید کی نماز پڑھی جاتی تھی جیسے کہ حنفی تین تکبیریں کہتے ہیں۔ مگر اس سال سے سات اور پانچ تکبیریں عام رائج ہوگئیں۔ ( الحکم مورخہ 14تا21مئی 1919صفحہ6)
خطیب اور امام الگ الگ ہوسکتے ہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر حسبِ معمول مخدومنا حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی اقتداء میں نماز عید ایک خاصے مجمع سمیت ادا فرمائی مگر خطبہ عید حضرت اقدس ؑ نے دیا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ367)
مساجد
مساجد کیسی ہوں
فرمایا:۔
اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانہ خدا ہوتا ہے جس گائوں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔اگر کوئی ایسا گائوں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے پھر خد اخود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔محض لِلّٰہِ اُسے کیا جاوے۔نفسانی اغراض یا کسی شرکو ہرگز دخل نہ ہو،تب خدابرکت دے گا۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصع اورپکی عمارت کی ہو۔بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو۔خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔آنحضرت ﷺ کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھااپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتا ہے۔شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے ور جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں۔جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔پراگند گی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ سی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔
(البدر 24؍اگست 1904ء صفحہ8 )
مسجد کا ایک حصہ مکان میں ملانا
ایک شخص نے سوال لکھ کر بھیجا تھا کہ میرے دادا نے مکان کے ایک حِصّہ ہی کو مسجد بنایا تھا اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی تو کیا اس کو مکان میں ملا لیا جاوے؟ فرمایا
’’ ہاں، ملا لیا جاوے۔ ‘‘ (الحکم 17؍اکتوبر1902ء صفحہ11 )
ایک مسجد کے لئے چندہ کی درخواست
کہیں سے خط آیا کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبرکًا آپ سے بھی چندہ چاہتے ہیں۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :
ہم تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں مگر جبکہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں جن کے مقابل میں اس قسم کے خرچوںمیں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے تو ہم کس طرح سے شامل ہوں۔ یہاں جو مسجد خدا بنا رہا ہے اور وہی مسجد اقصٰی ہے وہ سب سے مقدم ہے۔ اب لوگوں کو چاہئے کہ اس کے واسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں۔ ہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانے نہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے۔
حضرت امام ابو حنیفہؓ کے پاس ایک شخص آیا کہ ہم ایک مسجد بنانے لگے ہیں۔ آپ بھی اِس میں کچھ چندہ دیں۔ انہوں نے عذر کیا کہ مَیں اس میں کچھ نہیں دے سکتا۔ حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دیتے۔ اس شخص نے کہا کہ ہم آپ سے بہت نہیں مانگتے صرف تبرکًا کچھ دے دیجئے۔ آخر انہوں نے ایک دَوَنی کے قریب سکہ دیا۔ شام کے وقت وہ شخص دَوَنی لے کر واپس آیا اورکہنے لگا کہ حضرت! یہ تو کھوٹی نِکلی ہے۔ وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا خوب ہوا۔ دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ مَیں کچھ دوں ۔ مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اس میں اسراف معلوم ہوتا ہے۔ (الحکم 24مئی 1901ء صفحہ9)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فقہ احمدیہ کے مآخذ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں۔
(1) سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے۔۔۔۔۔ سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد19صفحہ26)
قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے۔ وہ شک اور ظنّ کی آلائشوں سے پاک ہے۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔روحانی خزائن جلد 19صفحہ209)
(عربی سے ترجمہ)خدا کا کلام لفظًا لفظًا تواتر سے ثابت ہے ۔ وہ وحی متلوقطعی اور یقینی ہے اوراس کی قطعیت میں شک کرنے والا ہمارے نزدیک کافر مردود اور فاسق ہے اور یہ صرف قرآن کریم کی ہی صفت ہے اوراس کا مرتبہ ہر کتاب اورہر وحی سے بلند ہے۔
(تحفۂ بغداد۔ روحانی خزائن جلد7صفحہ31)
(2) دوسرا ذریعہ ہدایت کا جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے سنّت ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی کارروائیاں جو آپ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھلائیں مثلاً قرآن شریف میں بظاہر نظر پنجگانہ نمازوں کی رکعات معلوم نہیں ہوتیں کہ صبح کس قدر اور دوسرے وقتوں میں کس کس تعداد پر لیکن سنّت نے سب کچھ کھول دیا ہے ۔یہ دھوکہ نہ لگے کہ سنّت اور حدیث ایک چیز ہے کیونکہ حدیث تو سَو ڈیڑھ سَو برس کے بعد جمع کی گئی مگر سنّت کا قرآن شریف کے ساتھ ہی وجود تھا مسلمانوں پر قرآن شریف کے بعد بڑا احسان سنّت کا ہے۔ خدا اور رسول کی ذمہ واری کا فرض صرف دو امرپر تھے اوروہ یہ کہ خدا تعالیٰ قرآن کو نازل کر کے مخلوقات کو بذریعہ اپنے قول کے اپنے منشاء سے اطلاع دے یہ تو خدا کے قانون کا فرض تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ خدا کے کلام کو عملی طور پر دکھلا کر بخوبی لوگوں کو سمجھا دیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گفتنی باتیں کردنی کے پیرایہ میں دکھلا دیں اور اپنی سنّت یعنی عملی کارروائی سے معضلات اور مشکلات مسائل کو حل کر دیا۔ (کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ61)
جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سُنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سُنّتِ معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجا لائے۔
(ریویو بر مباحثہ چکڑالوی و بٹالوی۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ210)
سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اورابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہرہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اورسُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے عملی فعل سے یعنی عملی طورپر اس قول کی تفسیر کردیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں۔ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ210-209)
(3) تیسراذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سے اِسلام کے تاریخی اوراخلاقی اور فقہ کے امور کو حدیثیں کھول کر بیان کرتی ہیں اور نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خادم اور سُنّت کی خادم ہے۔
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد19صفحہ61)
سُنّت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سُنّت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتا ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے اورجس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سُنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سُنّتِ معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجا لائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا۔ مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرتؐ نے خدا تعالیٰ کے اِس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلادیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں۔ ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اِس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جو اب تک اُمّت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اِسی کا نام سنّت ہے۔ لیکن حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رُوبرو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کیلئے کوئی اہتمام کیا۔۔۔۔۔پھر جب وہ دَور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے تب حدیثیں جمع ہوئیں۔ اِس میں شک نہیں ہوسکتاکہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متّقی اور پرہیزگار تھے اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھاحدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی۔ بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اِس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے۔ تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بیخبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنّت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہوگیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلادیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مُدّت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اِسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا۔ تا ہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نورٌ علٰی نور ہوگیا اور حدیثیں قرآن اور سنّت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہوگئے اُن میں سے سچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ210،211)
(مندرجہ بالا تین رہنما محکم اصولوں کے بعد جن پر تمام شریعتِ حقّہ کی بنیاد ہے اگر کوئی مسئلہ حل طلب رہ جائے یا اس کے حل میں مزید روشنی اورراہنمائی کی ضرورت ہو یا کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوجائے تو ان مسائل کے حل کے لئے جماعت کے مجتہدین اور راسخین فی العلم کو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی حسبِ ذیل ہدایت ہے۔)
ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالفِ قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو، اس پر وہ عمل کریں اورانسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کوترجیح دیں اوراگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ212)
قرآن کریم اور حدیث بطور حجت شرعیہ
کتاب و سنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تووہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جوکتاب اللہ کی نص بیّن سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے کیونکہ اللہ جلَّ شانہٗ فرماتا ہے فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ اللّٰہِ وَ اٰیَاتِہٖ یُؤْمِنُوْنَ (الجاثیہ:7) یعنی تم بعد اللہ اور اس کی آیات کے کس حدیث پر ایمان لائو گے۔ اس آیت میں صریح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر قرآن کریم کسی امر کی نسبت قطعی اور یقینی فیصلہ دیوے یہاں تک کہ اس فیصلہ میں کسی طور سے شک باقی نہ رہ جاوے اور منشاء اچھی طرح سے کھل جائے تو پھر بعد اس کے کسی ایسی حدیث پر ایمان لانا جو صریح اس کے مخالف پڑی ہو مومن کا کام نہیں ہے۔ پھر فرماتا ہے۔ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ(الاعراف:186) ان دونوں آیتوں کے ایک ہی معنی ہیں اس لئے اس جگہ تصریح کی ضرورت نہیں۔ سو آیات متذکرہ بالا کے رو سے ہر ایک مومن کا یہ ہی مذہب ہونا چاہئے کہ وہ کتاب اللہ کو بلا شرط اور حدیث کو شرطی طور پر حجت شرعی قرار دیوے اور یہی میرا مذہب ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ11،12)
قولی، فعلی اور تقریری احادیث کے لئے بھی مِحَک قرآن کریم ہے
جو امر قول یا فعل یا تقریر کے طور پر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ ہم اس امر کو بھی اسی محک سے آزمائیں گے اور دیکھیں گے کہ حسب آیہ شریفہفَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ وہ حدیث قولی یا فعلی قرآن کریم کی کسی صریح اور بین آیت سے مخالف تو نہیں۔ اگر مخالف نہیں ہوگی تو ہم بسر و چشم اس کو قبول کریں گے اور اگر بظاہر مخالف نظر آئے گی تو ہم حتی الوسع اس کی تطبیق اور توفیق کیلئے کوشش کریں گے اور اگر ہم باوجود پوری پوری کوشش کے اس امر تطبیق میں ناکام رہیں گے اور صاف صاف کھلے طور پر ہمیں مخالف معلوم ہوگی تو ہم افسوس کے ساتھ اس حدیث کو ترک کردیں گے۔ کیونکہ حدیث کا پایہ قرآن کریم کے پایہ اور مرتبہ کو نہیں پہنچتا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ12)
احادیث صرف مفید ظن ہیں
حدیثیں غایت کار ظنی ہیں اور جب کہ وہ مفید ظن ہیں تو ہم کیونکر روایت کی رو سے بھی ان کو وہ مرتبہ دے سکتے ہیں جو قرآن کریم کا مرتبہ ہے۔ جس طور سے حدیثیں جمع کی گئی ہیں اس طریق پر ہی نظر ڈالنے سے ہریک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ہرگز ممکن ہی نہیں کہ ہم اس یقین کے ساتھ انکی صحت روایت پر ایمان لاویں کہ جو قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں مثلاً اگر کوئی حدیث بخاری یامسلم کی ہے لیکن قرآن کریم کے کھلے کھلے منشاء سے برخلاف ہے تو کیا ہمارے لئے یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہم اسکی مخالفت کی حالت میں قرآن کریم کو اپنے ثبوت میں مقدم قرار دیں؟ پس آپ کا یہ کہنا کہ احادیث اصول روایت کی رو سے ماننے کے لائق ہیں، یہ ایک دھوکا دینے والا قول ہے کیونکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حدیث کے ماننے میں جو مرتبہ یقین کا ہمیں حاصل ہے وہ مرتبہ قرآن کریم کے ثبوت سے ہموزن ہے یا نہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ مرتبہ ثبوت کا قرآن کریم کے مرتبہ ثبوت سے ہم وزن ہے تو بلاشبہ ہمیں اسی پایہ پر حدیث کو مان لینا چاہئے مگر یہ تو کسی کا بھی مذہب نہیں تمام مسلمانوں کا یہی مذہب ہے کہ اکثر احادیث مفید ظن ہیں۔ وَالظَّنُّ لَایُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ14)
بخاری اور مسلم کی احادیث ظنی طورپر صحیح ہیں
آپ خود مانتے ہیں (مراد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں)کہ حدیثیں اپنے روایتی ثبوت کی رو سے اعلیٰ مرتبہ ثبوت سے گری ہوئی ہیں اور غایت کار مفید ظن ہیں تو آپ اس بات پر کیوں زور دیتے ہیں کہ اسی مرتبہ یقین پر انہیں مان لینا چاہئے جس مرتبہ پر قرآن کریم مانا جاتا ہے۔ پس صحیح اور سچا طریق تو یہی ہے کہ جیسے حدیثیں صرف ظن کے مرتبہ تک ہیں بجز چند حدیثوں کے۔ تو اسی طرح ہمیں ان کی نسبت ظن کی حد تک ہی ایمان رکھنا چاہئے ۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ15)
آپ خود اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھ چکے ہیں کہ احادیث کی نسبت بعض اکابر کا یہ مذہب ہوا ہے۔ ’’کہ ایک ملہم شخص ایک صحیح حدیث کو بالہام الٰہی موضوع ٹھہرا سکتا ہے اور ایک موضوع حدیث کو بالہام الٰہی صحیح ٹھہرا سکتا ہے۔‘‘ اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب کہ یہ حال ہے کہ کوئی حدیث بخاری یا مسلم کی بذریعہ کشف کے موضوع ٹھہر سکتی ہے تو پھر کیونکر ہم ایسی حدیثوں کو ہم پایہ قرآن کریم مان لیں گے ؟ ہاں یہ تو ہمارا ایمان ہے کہ ظنی طور پر بخاری اور مسلم کی حدیثیں بڑے اہتمام سے لکھی گئی ہیں اور غالباً اکثر ان میں صحیح ہوں گی۔ لیکن کیونکر ہم اس بات پر حلف اٹھا سکتے ہیں کہ بلاشبہ وہ ساری حدیثیں صحیح ہیں جب کہ وہ صرف ظنی طور پر صحیح ہیں نہ یقینی طور پر تو پھر یقینی طور پر ان کا صحیح ہونا کیونکر مان سکتے ہیں!
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ15)
مذاہب اربعہ کا اختلاف احادیث کی بنیاد پر ہی ہے
میرا مذہب یہی ہے کہ البتہ بخاری اور مسلم کی حدیثیں ظنی طور پر صحیح ہیں۔ مگر جو حدیث صریح طور پر ان میں سے مبائن و مخالف قرآن کریم کے واقع ہوگی وہ صحت سے باہر ہوجائے گی۔ آخر بخاری اور مسلم پر وحی تو نازل نہیں تھی بلکہ جس طریق سے انہوں نے حدیثوں کو جمع کیا ہے اس طریق پر نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ بلاشبہ وہ طریق ظنی ہے اور ان کی نسبت یقین کا ادّعا کرنا ادّعائے باطل ہے۔ دنیا میں جو اس قدر مخالف فرقے اہل اسلام میں ہیں خاص کر مذاہب اربعہ ان چاروں مذہبوںکے اماموں نے اپنے عملی طریق سے خود گواہی دے دی ہے کہ یہ احادیث ظنی ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اکثر حدیثیں ان کو ملی ہوں گی مگر ان کی رائے میں وہ حدیثیں صحیح نہیں تھیں۔ بھلا آپ فرماویں کہ اگر کوئی شخص بخاری کی کسی حدیث سے انکار کرے کہ یہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ اکثر مقلدین انکار کرتے ہیں تو کیا وہ شخص آپ کے نزدیک کافر ہوجائے گا؟ پھر جس حالت میں وہ کافر نہیں ہوسکتا تو آپ کیونکر ان حدیثوں کو روایتی ثبوت کے رو سے یقینی ٹھہرا سکتے ہیں؟ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ16-15)
پہلے ادب کی راہ سے حدیث کی تاویل کی جائے
جس کو خداتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے فہم قرآن عطا کرے اور تفہیم الٰہی سے وہ مشرف ہوجاوے اور اس پر ظاہر کردیا جائے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت سے فلاں حدیث مخالف ہے اور یہ علم اس کا کمال یقین اور قطعیت تک پہنچ جائے تو اس کیلئے یہی لازم ہوگا کہ حتی الوسع اول ادب کی راہ سے اس حدیث کی تاویل کر کے قرآن شریف سے مطابق کرے۔ اور اگر مطابقت محالات میں سے ہو اور کسی صورت سے نہ ہوسکے تو بدرجہ ناچاری اس حدیث کے غیر صحیح ہونے کا قائل ہو۔ کیونکہ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم بحالت مخالفت قرآن شریف حدیث کی تاویل کی طرف رجوع کریں۔ لیکن یہ سراسر الحاد اور کفر ہوگا کہ ہم ایسی حدیثوں کی خاطر سے کہ جو انسان کے ہاتھوں سے ہم کو ملی ہیں اور انسانوں کی باتوں کا ان میں ملنا نہ صرف احتمالی امر ہے بلکہ یقینی طور پر پایا جاتا ہے قرآن کو چھوڑ دیں !!! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تفہیم الٰہی میرے شامل حال ہے اور وہ عزّاسمہٗ جس وقت چاہتا ہے بعض معارف قرآنی میرے پر کھولتا ہے اور اصل منشاء بعض آیات کا معہ اُن کے ثبوت کے میرے پر ظاہر فرماتا ہے اور میخ آ ہنی کی طرح میرے دل کے اندر داخل کردیتا ہے اَب میں اِس خداداد نعمت کو کیونکر چھوڑ دوں اور جو فیض بارش کی طرح میرے پر ہورہا ہے کیونکر اس سے انکار کروں! (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ21)
بخاری اور مسلم محدّثین کا اجتہاد ہے
آپ کا سوال(مراد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں۔ناقل) جو اس تحریر اور پہلی تحریروں سے سمجھا جاتا ہے یہ ہے کہ احادیث کتب حدیث خصوصاً صحیح بخاری و صحیح مسلم صحیح و واجب العمل ہیں یا غیر صحیح و ناقابل عمل اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ میرے منہ سے یہ کہلانا چاہتے ہیں کہ میں اس بات کا اقرار کروں کہ یہ سب کتابیں صحیح اور واجب العمل ہیں۔ اگر میں ایسا کروں تو غالباً آپ خوش ہوجائیں گے اور فرمائیں گے کہ اب میرے سوال کا جواب پورا پورا آگیا۔ لیکن میں سوچ میں ہوں کہ میں کِس شرعی قاعدہ کے رو سے ان تمام حدیثوں کو بغیر تحقیق و تفتیش کے واجب العمل یا صحیح قرار دے سکتا ہوں ؟ طریق تقویٰ یہ ہے کہ جب تک فراست کاملہ اور بصیرت صحیحہ حاصل نہ ہو تب تک کسی چیز کے ثبوت یا عدم ثبوت کی نسبت حکم نافذ نہ کیا جاوے اللہ جلَّ شانہٗ فرماتا ہے۔ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل: 37)سو اگر میں دلیری کر کے اس معاملہ میں دخل دوں اور یہ کہوں کہ میرے نزدیک جو کچھ محدثین خصوصاً امامین بخاری اور مسلم نے تنقید احادیث میں تحقیق کی ہے اور جس قدر احادیث وہ اپنی صحیحوںمیں لائے ہیں وہ بلاشبہ بغیر حاجت کسی آزمائش کے صحیح ہیں تو میرا ایسا کہنا کن شرعی وجوہات و دلائل پر مبنی ہوگا؟ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ یہ تمام ائمہ حدیثوں کے جمع کرنے میں ایک قسم کا اجتہاد کام میں لائے ہیں اور مجتہد کبھی مصیب اور کبھی مخطیبھی ہوتا ہے۔ جب میں سوچتا ہوں کہ ہمارے بھائی مسلمان موحدین نے کس قانون قطعی اور یقینی کی رو سے ان تمام احادیث کو واجب العمل ٹھہرایا ہے؟ تو میرے اندر سے نور قلب یہی شہادت دیتا ہے کہ صرف یہی اک وجہ ان کے واجب العمل ہونے کی پائی جاتی ہے کہ یہ خیال کر لیا گیا ہے کہ علاوہ اس خاص تحقیق کے جو تنقید احادیث میں ائمہ حدیث نے کی ہے۔ وہ حدیثیں قرآن کریم کی کسی آیہ محکمہ اور بیّنہ سے منافی اور متغائر نہیں ہیں اور نیز اکثر احادیث جو احکام شرعی کے متعلق ہیں تعامل کے سلسلہ سے قطعیت اور یقین تام کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں۔ورنہ اگر ان دونوں وجوہ سے قطع نظر کی جائے تو پھر کوئی وجہ ان کے یقینی الثبوت ہونے کی معلوم نہیں ہوتی۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ18،19)
کیا بخاری اور مسلم کی احادیث پر اجماع ہوجانے کی دلیل قابلِ قبول ہے
حضرت مسیح موعودؑ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ بخاری اور مسلم کی احادیث کے یقینی الثبوت ہونے کی ایک یہ وجہ پیش کی جائے گی کہ اس پر اجماع ہو گیا ہے اس کا جواب دیتے ہوئے آپؑ نے فرمایا’’ آپ ہی ریویو براہین احمدیہ کے صفحہ ۳۳۰ میں اجماع کی نسبت لکھ چکے ہیں کہ اجماع اتفاقی دلیل نہیں ہے‘‘ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:۔
اجماع میں اولاً یہ اختلاف ہے کہ یہ ممکن یعنی ہو بھی سکتا ہے یا نہیں بعضے اس کے امکان کو ہی نہیں مانتے۔ پھر ماننے والوں کا اس میں اختلاف ہے کہ اس کا علم ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ایک جماعت امکان علم کے بھی منکر ہیں۔ امام فخر الدین رازی نے کتاب محصول میں یہ اختلاف بیان کر کے فرمایا ہیکہ انصاف یہی ہے کہ بجز اجماع زمانہ صحابہ جب کہ مومنین اہل اجماع بہت تھوڑے تھے اور ان سب کی معرفت تفصیلی ممکن تھی اور زمانہ کے اجماعوں کے حصول علم کی کوئی سبیل نہیں۔
اسی کے مطابق کتاب حصول المامول میں ہے جو کتاب ارشاد الفحول شوکانی سے ملخص ہے اس میں کہا۔ ’’جو یہ دعویٰ کرے کہ ناقل اجماع ان سب علماء دنیا کی جو اجماع میں معتبر ہیں معرفت پر قادر ہے وہ اس دعویٰ میں حد سے نکل گیا اور جو کچھ اس نے کہا اٹکل سے کہا۔‘‘ خدا امام احمد حنبل پر رحم کرے کہ انہوں نے صاف فرما دیا ہے کہ جو دعویٰ اجماع کا مدعی ہے وہ جھوٹا ہے۔ فقط۔
اب میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ بخاری اور مسلم کی احادیث کی نسبت جو اجماع کا دعویٰ کیا جاتا ہے یہ دعویٰ کیونکر راستی کے رنگ سے رنگین سمجھ سکیں؟ حالانکہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ صحابہ کے بعد کوئی اجماع حجت نہیں ہوسکتا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ19،20)
بخاری اور مسلم کی صحت پر ہرگز اجماع نہیں ہوا
بہت سے فرقے مسلمانوں کے بخاری اور مسلم کی اکثر حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتے۔ پھر جب کہ ان حدیثوں کا یہ حال ہے تو کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ بغیر کسی شرط کے وہ تمام حدیثیں واجب العمل اور قطعی الصحت ہیں ؟ ایسا خیال کرنے میں دلیل شرعی کونسی ہے؟ کیا کوئی قرآن کریم میں ایسی آیت پائی جاتی ہے کہ تم نے بخاری اور مسلم کو قطعی الثبوت سمجھنا؟ اور اس کی کسی حدیث کی نسبت اعتراض نہ کرنا ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی کوئی وصیت تحریری موجود ہے جس میں ان کتابوں کو بلالحاظ کسی شرط اور بغیر توسط محک کلام الٰہی کے واجب العمل ٹھہرایا گیا ہو؟ جب ہم اس امر میں غور کریں کہ کیوں ان کتابوں کو واجب العمل خیال کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ وجوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے حنفیوں کے نزدیک اس بات کا وجوب ہے کہ امام اعظم صاحب کے یعنی حنفی مذہب کے تمام مجتہدات واجب العمل ہیں! لیکن ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ یہ وجوب شرعی نہیں بلکہ کچھ زمانہ سے ایسے خیالات کے اثر سے اپنی طرف سے یہ وجوب گھڑا گیا ہے جس حالت میں حنفیمذہب پر آپ لوگ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نصوص بیّنہ شرعیہ کو چھوڑ کر بے اصل اجتہادات کو محکم پکڑتے اور ناحق تقلید شخصی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں ہوسکتا کہ آپ بھی کیوں بے وجہ تقلید پر زور مار رہے ہیں ؟ حقیقی بصیرت اور معرفت کے کیوں طالب نہیں ہوتے ؟ ہمیشہ آپ لوگ بیان کرتے تھے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جو غیر صحیح ہو اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔اب کیوں آپ مقلدین کے رنگ پر تمام احادیث کو بلا شرط صحیح خیال کر بیٹھے ہیں ؟
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ20،21)
کیا بخاری اور مسلم کی کوئی حدیث موضوع ہے؟
یہ بات جو آپ نے(مراد مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ہیں۔ناقل) مجھ سے دریافت فرمائی ہے کہ اب تک کسی حدیث بخاری یا مسلم کو میں نے موضوع قرار دیا ہے یا نہیں۔ سو میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ میں نے اپنی کتاب میں کسی حدیث بخاری یا مسلم کو ابھی تک موضوع قرار نہیں دیا۔ بلکہ اگر کسی حدیث کو میں نے قرآن کریم سے مخالف پایا ہے تو خداتعالیٰ نے تاویل کا باب میرے پر کھول دیا ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ21،22)
صحت احادیث کا معیار ٹھہرانے میں سلف صالحین میں سے آپ کا امام کون ہے؟
اور آپ نے(مراد مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ہیں۔ناقل) یہ سوال جو مجھ سے کیا ہے کہ صحت احادیث کا معیار ٹھہرانے میں سلف صالحین سے آپ کاکون امام ہے۔ میری اس کے جواب میں یہ عرض ہے کہ اس بات کا بار ثبوت میرے ذمہ نہیں۔ بلکہ میں تو ہر ایک ایسے شخص کو جو قرآن کریم پر ایمان لاتا ہے خواہ وہ گذر چکا ہے یا موجود ہے اسی اعتقاد کا پابند جانتا ہوں کہ وہ احادیث کے پرکھنے کیلئے قرآن کریم کو میزان اور معیار اور محک سمجھتا ہوگا کیونکہ جس حالت میں قرآن کریم خود یہ منصب اپنے لئے تجویز فرماتا ہے اور کہتا ہے فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ (الاعراف:186) اور فرماتا ہے قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْھُدٰی (البقرہ:121) اور فرماتا ہے وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا (آل عمران:104) اور فرماتا ہے ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی (البقرہ:186)اور فرماتا ہے اَنْزَلَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ (الشوریٰ:118) اور فرماتا ہے۔اِنَّہُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (الطارق:14) لَا رَیبَ فِیْہِ (البقرہ:3) تو پھر اس کے بعد کون ایسا مومن ہے جو قرآن شریف کو حدیثوں کے لئے حَکَم مقرر نہ کرے؟ اور جب کہ وہ خود فرماتا ہے کہ یہ کلام حَکَم ہے اور قول فصل ہے اور حق اور باطل کی شناخت کیلئے فرقان ہے اور میزان ہے تو کیا یہ ایمانداری ہوگی کہ ہم خداتعالیٰ کے ایسے فرمودہ پر ایمان نہ لائیں؟ اور اگر ہم ایمان لاتے ہیں تو ہمارا ضرور یہ مذہب ہونا چاہئے کہ ہم ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول کو قرآن کریم پر عرض کریں تا ہمیں معلوم ہو کہ وہ واقعی طور پر اسی مشکوٰۃ وحی سے نور حاصل کرنیوالے ہیں جس سے قرآن نکلا ہے یا اس کے مخالف ہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ22)
الہام ملہم کے لئے حجت شرعی کے قائمقام ہے
(مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ) صاف تسلیم کر آئے ہیں کہ الہام ملہم کیلئے حجت شرعی کے قائم مقام ہوتا ہے علاوہ اس کے آپ تو صاف طور پر مان چکے ہیں بلکہ بحو الہ حدیث بخاری بہ تصریح بیان کرچکے ہیں کہ الہام محدث کا شیطانی دخل سے منزہ کیا جاتا ہے۔ ماسوا اس کے میں اس بات کیلئے آپ کو مجبورنہیں کرتا کہ آپ الہام کو حجت سمجھ لیں مگر یہ تو آپ اپنے ریویو میں خود تسلیم کرتے ہیں کہ ملہم کیلئے وہ الہام حجت ہوجاتا ہے۔ سو میرا دعویٰ اسی قدر سے ثابت ہے۔ میں بھی آپ کو مجبور کرنا نہیںچاہتا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ24)
کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ من کلّ الوجوہ
مرتبہ کمال تک پہنچ گئی ہے
ائمہ حدیث جس طور سے صحیح اور غیرصحیح حدیثوں میں فرق کرتے ہیں اور جو قاعدہ تنقید احادیث انہوں نے بنایا ہوا ہے وہ تو ہر ایک پر ظاہر ہے کہ وہ راویوں کے حالات پر نظر ڈال کر باعتبار اُن کے صدق یاکذب اور سلامت فہم یا عدم سلامت اور باعتبار اُن کے قوت حافظہ یاعدم حافظہ وغیرہ امور کے جن کا ذکر اس جگہ موجب تطویل ہے کسی حدیث کے صحیح یاغیر صحیح ہونے کی نسبت حکم دیتے ہیں مگر ان کا کسی حدیث کی نسبت یہ کہنا کہ یہ صحیح ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ حدیث من کل الوجوہ مرتبہ ثبوت کامل تک پہنچ گئی ہے جس میں امکان غلطی کا نہیں بلکہ ان کا مطلب صحیح کہنے سے صرف اس قدر ہوتا ہے کہ وہ بخیال ان کے ان آفات اور عیوب سے مبرّا ہے جو غیر صحیح حدیثوں میں پائی جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ ایک حدیث باوجود صحیح ہونے کے پھر بھی واقعی اور حقیقی طور پر صحیح نہ ہو ۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ25،26)
اگر احادیث کا مرتبہ ظنی ہے تو احکام صوم و صلوٰۃ کو بھی ظنّی کیوں نہ سمجھا جائے
علم حدیث ایک ظنّی علم ہے جو مفید ظن ہے۔ اگر کوئی اس جگہ یہ اعتراض کرے کہ اگر احادیث صرف مرتبہ ظن تک محدود ہیں تو پھر اس سے لازم آتا ہے کہ صوم و صلوٰۃ و حج و زکوٰۃ وغیرہ اعمال جو محض حدیثوں کے ذریعہ سے مفصل طور پر دریافت کئے گئے ہیں وہ سب ظنی ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بڑے دھوکے کی بات ہے کہ ایسا سمجھا جائے کہ یہ تمام اعمال محض روایتی طور پر دریافت کئے گئے ہیں و بس۔ بلکہ ان کے یقینی ہونے کا یہ موجب ہے کہ سلسلہ تعامل ساتھ ساتھ چلا آیا ہے اگر فرض کر لیں کہ یہ فن حدیث دنیا میں پیدا نہ ہوتا پھر بھی یہ سب اعمال و فرائض دین سلسلہ تعامل کے ذریعہ سے یقینی طور پر معلوم ہوتے۔خیال کرنا چاہئے کہ جس زمانہ تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں کیا اس وقت لوگ حج نہیں کرتے تھے؟ یا نماز نہیں پڑھتے تھے؟ یا زکوٰۃ نہیں دیتے تھے؟ ہاں اگر یہ صورت پیش آتی کہ لوگ ان تمام احکام و اعمال کو یک دفعہ چھوڑ بیٹھتے اور صرف روایتوں کے ذریعہ سے وہ باتیں جمع کی جاتیں تو بے شک یہ درجہ یقینی و ثبوت تام جو اب ان میں پایا جاتا ہے ہرگز نہ ہوتا سو یہ ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال کر لیا جائے کہ احادیث کے ذریعہ سے صوم و صلوٰۃ وغیرہ کی تفاصیل معلوم ہوئی ہیں بلکہ وہ سلسلہ تعامل کے ذریعہ سے معلوم ہوتی چلی آئی ہیں اور درحقیقت اس سلسلہ کو فن حدیث سے کچھ تعلق نہیں وہ تو طبعی طور پر ہر ایک مذہب کو لازم ہوتا ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ26)
احادیث کے دو حصے
احادیث کے دو حصہ ہیں ایک وہ حصہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طور پر آگیا ہے۔ یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اور قوی اور لاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اور مرتبہ یقین تک پہنچا دیا ہے۔ جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اور عقود اور معاملات اور احکام شرع متین داخل ہیں۔ سو ایسی حدیثیں تو بلاشبہ یقین اور کامل ثبوت کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور جو کچھ ان حدیثوں کو قوت حاصل ہے وہ قوت فن حدیث کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوئی اور نہ وہ احادیث منقولہ کی ذاتی قوت ہے اور نہ وہ راویوں کے و ثاقت اور اعتبار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے بلکہ وہ قوت ببرکت و طفیل سلسلہ تعامل پیدا ہوئی ہے۔ سو میں ایسی حدیثوں کو جہاں تک ان کو سلسلۂ تعامل سے قوت ملی ہے ایک مرتبہ یقین تک تسلیم کرتا ہوں لیکن دوسرا حصہ حدیثوں کا جن کو سلسلۂ تعامل سے کچھ تعلق اور رشتہ نہیں ہے اور صرف راویوں کے سہارے سے اور ان کی راست گوئی کے اعتبار پر قبول کی گئی ہیں ان کو میں مرتبہ ظن سے بڑھ کر خیال نہیں کرتا اور غایت کار مفید ظن ہوسکتی ہیں کیونکہ جس طریق سے وہ حاصل کی گئی ہیں وہ یقینی اور قطعی الثبوت طریق نہیں ہے بلکہ بہت سی آویزش کی جگہ ہے۔ وجہ یہ کہ ان حدیثوں کا فی الواقع صحیح اور راست ہونا تمام راویوں کی صداقت اور نیک چلنی اور سلامت فہم اور سلامت حافظہ اور تقویٰ و طہارت وغیرہ شرائط پر موقوف ہے۔ اور ان تمام امور کا کماحقہ اطمینان کے موافق فیصلہ ہونا اور کامل درجہ کے ثبوت پر جو حکم رویت کا رکھتا ہے پہنچنا حکم محال کا رکھتا ہے اور کسی کو طاقت نہیں کہ ایسی حدیثوں کی نسبت ایسا ثبوت کامل پیش کرسکے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ35)
مراتب صحت میں تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں
جس قدر حدیثیں تعامل کے سلسلہ سے فیض یاب ہیں وہ حسب استفاضہ اور بقدر اپنی فیضیابی کے یقین کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں لیکن باقی حدیثیں ظن کے مرتبہ سے زیادہ نہیں۔غایت کار بعض حدیثیں ظن غالب کے مرتبہ تک ہیں۔ اس لئے میرا مذہب بخاری اور مسلم وغیرہ کتب حدیث کی نسبت یہی ہے جو میں نے بیان کردیا ہے یعنی مراتب صحت میں یہ تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں۔ بعض بوجہ تعلق سلسلہ تعامل یقین کی حد تک پہنچ گئی ہیں اور بعض بباعث محروم رہنے کے اس تعلق سے ظن کی حالت میں ہیں۔ لیکن اس حالت میں مَیں حدیث کو جب تک قرآن کے صریح مخالف نہ ہو موضوع قرار نہیں دے سکتا۔ اور میں سچے دل سے اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ حدیثوں کے پرکھنے کیلئے قرآن کریم سے بڑھ کر اور کوئی معیار ہمارے پاس نہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ35،36)
تعامل حجت قوی ہے!
میری غرض تو صرف اس قدر ہے کہ حدیث کو قرآن کریم سے مطابق ہونا چاہئے ، ہاں اگر سلسلہ تعامل کے رو سے کسی حدیث کا مضمون قرآن کے کسی خاص حکم سے بظاہر منافی معلوم ہو تو اس کو بھی تسلیم کر سکتا ہوں کیونکہ سلسلہ تعامل حجت قوی ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ42)
تعا مل کے درجے
تعامل کے متعلق جو احکام ہیں وہ سب ثبوت کے لحاظ سے ایک درجہ پر نہیں جن امور کی مواظبت اور مداومت بلافتور و اختلاف چلی آئی ہے وہ اول درجہ پر ہیں اور جس قدر احکام اپنے ساتھ اختلاف لے کر تعامل کے دائرہ میں داخل ہوئے ہیں وہ بحسب اختلاف اس پہلے نمبر سے کم درجہ پر ہیں مثلاً رفع یدین یا عدم رفع یدین جود و طور کا تعامل چلا آتا ہے ان دونوں طوروں سے جو تعامل قرن اول سے آج تک کثرت سے پایا جاتا ہے اس کا درجہ زیادہ ہوگا اور باایں ہمہ دوسرے کو بدعت نہیں ٹھہرائیں گے بلکہ ان دونوں عملوں کی تطبیق کی غرض سے یہ خیال ہوگا کہ باوجود مسلسل تعامل کے پھر اس اختلاف کا پایا جانا اس بات پر دلیل ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہفت قراء ت کی طرح طُرق ادائے صلوٰۃ میں رفع تکلیف امت کیلئے وسعت دیدی ہوگی اور اس اختلاف کو خود دانستہ رخصت میں داخل کردیا ہوگا تا امت پر حرج نہ ہو۔غرض اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ سلسلۂ تعامل سے احادیثِ نبویہ کو قوت پہنچتی ہے اور سنتِ متوارثہ متعاملہ کا اُن کو لقب ملتا ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ87)
سنن متوارثہ متعاملہ
سلسلۂ تعامل کی حدیثیں یعنی سنن متوارثہ متعاملہ جو عاملین اور آمرین کے زیرنظر چلی آئی ہیں اور علیٰ قدر مراتب تاکید مسلمانوں کی عملیات دین میں قرناً بعد قرنٍ وعصراً بعد عصرٍ داخل رہی ہیں وہ ہرگز میری آویزش کا مورد نہیں اور نہ قرآن کریم کو ان کا معیار ٹھہرانے کی ضرورت ہے اور اگر ان کے ذریعہ سے کچھ زیادت تعلیم قرآن پر ہوتو اس سے مجھے انکار نہیں۔ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ80،81)
کیا بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع ہوچکا ہے!
آپ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع ہوچکا ہے! اب ان کو بہرحال آنکھیں بند کر کے صحیح مان لینا چاہئے! لیکن میں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ اجماع کن لوگوں نے کیا ہے اور کس وجہ سے واجب العمل ہوگیا ہے؟ دنیا میں حنفی لوگ پندرہ کروڑ کے قریب ہیں وہ اس اجماع سے منکر ہیں۔ ماسوا اس کے آپ صاحبان ہی فرمایا کرتے ہیں کہ حدیث کو بشرط صحت ماننا چاہئے اور قرآن کریم پر بغیر کسی شرط کے ایمان لانا فرض ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ41)
خبر واحد سے قرآن پر زیادت ہوسکتی ہے
میرا مذہب امام شافعی اور امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے مذہب کی نسبت حدیث کی بہت رعایت رکھنے والا ہے کیونکہ میں صحیحین کی خبر واحد کو بھی جو تعامل کے سلسلہ سے مؤکّد ہے اور احکام اور حدود اور فرائض میں سے ہو نہ حصہ دوم میں سے اس لائق قرار دیتا ہوں کہ قرآن پر اس سے زیادتی کی جائے اور یہ مذہب ائمہ ثلاثہ کا نہیں۔ مگر یاد رہے کہ میں واقعی زیادتی کا قائل نہیں بلکہ میرا ایمان اِنَّا اَنْزَلْنَا الْکِتَابَ تِبْیَانًالِّکُلِّ شَیْئٍ پر ہے جیسا کہ میں ظاہر کرچکا ہوں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ100)
حدیث سے مراد۔واقعاتِ ماضیہ واخبار گزشتہ وآئندہ
ایسی احاد حدیثیں جو سنن متوارثہ متعاملہ میں سے نہیں ہیں اور سلسلۂ تعامل سے کوئی معتدبہ تعلق نہیں رکھتیں وہ اس درجہ صحت سے گری ہوئی ہیں۔ اب ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی حدیثیں صرف اخبار گزشتہ و قصص ماضیہ یا آئندہ ہیں ۔۔۔۔اور ظاہر ہے کہ سنن متوارثہ متعاملہ اور احکام متداولہ کے نکالنے کے بعد جو احادیث بکلی فرضیت تعامل سے باہر رہ جاتے ہیں وہ یہی واقعات و اخبارو قصص ہیں جو تعامل کے تاکیدی سلسلہ سے باہر ہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ82)
حدیث ، جو معارض قرآن نہ ہو قابلِ قبول ہے
اگر نہایت ہی نرمی کریں تو ان حدیثوں کو ظنّ کا مرتبہ دے سکتے ہیں اور یہی محدثین کا مذہب ہے اور ظنّ وہ ہے جس کے ساتھ کذب کا احتمال لگا ہوا ہے۔ پھر ایمان کی بنیاد محض ظنّ پر رکھنا اور خدا کے قطعی یقینی کلام کو پسِ پُشت ڈال دینا کونسی عقلمندی اور ایمانداری ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام حدیثوں کو ردّی کی طرح پھینک دو بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اُن میں سے وہ قبول کرو جو قرآن کے منافی اور معارض نہ ہوں تا ہلاک نہ ہو جاؤ۔
(اعجاز احمدی ۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ138)
اجماع کی تعریف(کتب اصولِ فقہ کی روشنی میں)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتبِ اصولِ فقہ میں مندرج اجماع کی مختلف تعریفوں کاذکر کرتے ہوئے تحریرفرمایا:۔
اَلْْاِجْمَاعُ اِتِّفَاقُ مُجْتَھِدِیْنَ صَالِحِیْنَ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ مُصْطَفٰٰی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فِیْ عَصْرٍ وَاحِدٍ وَالْاَوْلٰی اَنْ یَّکُوْنَ فِیْ کُلِّ عَصْرٍ عَلٰی اَمْرٍقَوْلِیٍّ اَوْفِعْلِیٍّ ۔۔۔۔۔
یعنی اجماع اس اتفاق کا نام ہے جو امت محمدیہ کے مجتہدین صالحین میں زمانہ واحد میں پیدا ہو اور بہتر تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں پایا جائے اور جس امر پر اتفاق ہو برابر ہے کہ وہ امر قولی ہویافعلی۔
٭ اور اجماع کی دو نوع ہیں ایک وہ ہے جس کو عزیمت کہتے ہیں اور عزیمت اس بات کانام ہے کہ اجماع کرنیوالے صریح تکلم سے اپنے اجماع کا اقرار کریں کہ ہم اس قول یافعل پر متفق ہوگئے۔ لیکن فعل میں شرط ہے کہ اس فعل کا کرنا بھی وہ شروع کردیں۔
٭ دوسری نوع اجماع کی وہ ہے جس کو رخصت کہتے ہیں اور وہ اس بات کانام ہے کہ اگر اجماع کسی قول پر ہے تو بعض اپنے اتفاق کو زبان سے ظاہر کریں اور بعض چپ رہیں اور اگر اجماع کسی فعل پر ہے تو بعض اسی فعل کا کرنا شروع کردیں اور بعض فعلی مخالفت سے دستکش رہیں۔ گو اس فعل کو بھی نہ کریں اور تین دن تک اپنی مخالفت قول یا فعل سے ظاہر نہ کریں یا اس مدت تک مخالفت ظاہر نہ کریں جو عادتاً اس بات کے سمجھنے کیلئے دلیل ہوسکتی ہے کہ اگر کوئی اس جگہ مخالف ہوتا تو ضرور اپنا خلاف ظاہر کرتا اور اس اجماع کا نام اجماع سکوتی ہے اور اس میں یہ ضروری ہے کہ کل کا اتفاق ہے۔
٭ مگر بعض سب کے اتفاق کو ضروری نہیں سمجھتے تا مَنْ شَذَّ شُذَّ کی حدیث کا مورد باقی رہے اور حدیث باطل نہ ہوجائے۔
٭ اور بعض اس طرف گئے ہیں کہ مجتہدین کاہونا ضروری شرط نہیں بلکہ انعقاد اجماع کیلئے عوام کا قول کافی ہے جیسا کہ باقلانی کا یہی مذہب ہے ۔
٭ اور بعض کے نزدیک اجماع کیلئے یہ ضروری شرط ہے کہ اجماع صحابہ کا ہو نہ کسی اور کا۔
٭ اور بعض کے نزدیک اجماع وہی ہے جو عترت یعنی اہل قرابت رسول اللہؐ کا اجماع ہو۔
٭ اور بعض کے نزدیک یہ لازم شرط ہے کہ اجماع کرنے والے خاص مدینہ کے رہنے والے ہوں۔
٭ اور بعض کے نزدیک تحقیق اجماع کیلئے یہ شرط ہے کہ اجماع کا زمانہ گذر جائے۔ چنانچہ شافعی کے نزدیک یہ شرط ضروری ہے وہ کہتا ہے کہ اجماع تب متحقق ہوگا کہ اجماع کے زمانہ کی صف لپیٹی جائے اور وہ تمام لوگ مر جائیں جنہوں نے اجماع کیا تھا اور جب تک وہ سب نہ مریں تب تک اجماع صحیح نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے قول سے رجوع کرے اور یہ ثابت ہونا ضروری ہے کہ کسی نے اپنے قول سے رجوع تو نہیں کیا اور نقل اجماع پر بھی اجماع چاہئے۔ یعنی جو لوگ کسی امر کے بارہ میں اجماع کے قائل ہیں ان میں بھی اجماع ہو۔
٭ اور اجماع لاحق مع اختلاف سابق جائز ہے یعنی اگر ایک امر پہلے لوگوں نے اجماع نہ کیا اور پھر کسی دوسرے زمانہ میں اجماع ہوگیا ہو تو وہ اجماع بھی معتبر ہے اور بہتر اجماع میں یہ ہے کہ ہر زمانہ اس کا سلسلہ چلا جائے ۔
٭ اور بعض معتزلہ کا قول ہے کہ اتفاق اکثر سے بھی اجماع ہوسکتا ہے بدلیل مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ
٭ اور بعض نے کہا ہے کہ اجماع کوئی چیز نہیں اور اپنی جمیع شرائط کے ساتھ متحقق نہیں ہوسکتا۔ دیکھو کتب اصول فقہ ائمہ اربعہ۔
اب اس تمام تقریر سے ظاہر ہے کہ علماء کا اس تعریف اجماع پر بھی اجماع نہیں اور انکار اور تسلیم کے دونوں دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ116تا118)
حضرت مسیح موعود ؑ کے نزدیک اجماع کی تعریف
میرے نزدیک اجماع کا لفظ اس حالت پر صادق آسکتا ہے کہ جب صحابہ میں سے مشاہیر صحابہ ایک اپنی رائے کو شائع کریں اور دوسرے باوجود سننے اس رائے کے مخالفت ظاہر نہ فرماویں تو یہی اجماع ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اسی صحابی نے جو امیر المومنین تھے ابن صیاد کے دجال معہود ہونے کی نسبت قسم کھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو اپنی رائے ظاہر کی اور آنحضرت نے اس سے انکار نہیں کیا اور نہ کسی صحابی نے اور پھر اسی امر کے بارے میں ابن عمر نے بھی قسم کھائی اور جابر نے بھی اور کئی صحابیوں نے یہی رائے ظاہر کی تو ظاہر ہے کہ یہ امر باقی صحابہ سے پوشیدہ نہیں رہا ہوگا، سو میرے نزدیک یہی اجماع ہے۔ اور کون سی اجماع کی تعریف مجھ سے آپ دریافت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کے نزدیک یہ اجماع نہیں تو اور جس قدر ابن صیاد کے دجال معہود ہونے پر صحابہ نے قسمیں کھا کر اس کا دجال معہود ہونا بیان کیا ہے یا بغیر قسم کے اس بارے میں شہادت دی ہے دونوں قسم کی شہادتیں بالمقابل پیش کریں اور اگر آپ پیش نہ کرسکیں تو آپ پر حجت من کل الوجوہ ثابت ہے کہ ضرور اجماع ہوگیا ہوگا کیونکہ اگر انکار پر قسمیں کھائی جاتیں تو ضرور وہ بھی نقل کی جاتیں آنحضرت صلعم کا قسم کو سن کر چپ رہنا ہزار اجماع سے افضل ہے اور تمام صحابہ کی شہادت سے کامل تر شہادت ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ43)
اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا
اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا پھر فیج اعوج کا زمانہ شروع ہوگیا اور لوگ صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور اس وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ رحمان خدا کی طرف سے ایک حَکَم مبعوث ہو۔ (لجۃ النور۔ روحانی خزائن جلد16صفحہ416-415 ترجمہ از عربی عبارت)
قرآن مجید کے خلاف کوئی اجماع قابلِ قبول نہیں
وَلَا نَقْبَلُ اِجْمَاعًا یُخَالِفُ الْقُرْآنَ وَحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ وَلَا نَسْمَعُ قَوْلَ الْآخَرِیْنَ
ترجمہ: اورہم کسی ایسے اجماع کو قبول نہیں کریں گے جو قرآن کریم کے مخالف ہو اورہمارے لئے تو اللہ کی کتاب کافی ہے اورہم (اس کے مقابلے میں) دوسروں کے اقوال نہیں سُنیں گے۔
(انجام آتھم۔روحانی خزائن جلد11صفحہ133 ترجمہ از عربی عبارت)
صحابہؓ کا پہلا اجماع تمام انبیاء کی وفات پر ہوا
حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا اگر وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں اکٹھے کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی۔ کیونکہ ایسی صورت میں اس زمانے کے مفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں۔ مگر اب صدیق اکبر کی آیت ممدوحہ پیش کرنے سے اس بات پر کل صحابہ کا اجماع ہو چکا کہ کل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس اجماع پر شعر بنائے گئے۔ ابو بکر کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں رحمتوں کی بارش کرے اُس نے تمام روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور اس اِجماع میں تمام صحابہ شریک تھے۔ ایک فرد بھی ان میں سے باہر نہ تھا۔ اور یہ صحابہ کا پہلا اجماع تھا اور نہایت قابل شکر کارروائی تھی۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔روحانی خزائن جلد21 صفحہ286-285حاشیہ)
حیاتِ مسیح پر اجماع نہیں ہوا
اگر یہ سوال ہو کہ اس امر پر اجماع ہوا ہے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب کے خلاف عمل نہ کیا جائے تو ہم اجماع کی حقیقت خوب کھول چکے ہیں۔۔۔ امام احمد بن حنبل جو خدا سے ڈرتے تھے اور اس کی اطاعت کرتے تھے اُن کے اس قول کو یاد کرو کہ جو اجماع کا دعویٰ کرے وہ کاذب ہے۔ بہت سے اختلافات جزئیہ ائمہ اربعہ میں موجود ہیں اورائمہ کے اجماع سے خارج ہیںاور اگر تم سمجھتے ہو کہ حیاتِ عیسیٰ ؑپر سندِ صحیح سے اور واضح بیان سے اجماع ہوچکا ہے تو یہ تمہارا اورتم جیسے دوسرے لوگوں کا افتراء ہے۔
(اتمام الحجۃ ۔ روحانی خزائن جلد8صفحہ280 ترجمہ از عربی عبارت)
اجماع کے معنوں میں اختلاف
خود اجماع کے معنوں میں ہی اختلاف ہے ۔ بعض صحابہؓ تک ہی محدود رکھتے ہیں بعض قرون ثلاثہ تک بعض ائمہ اربعہ تک مگر صحابہ اورائمہ کا حال تو معلوم ہوچکا اوراجماع کے توڑنے کے لئے ایک فردکا باہررہنا بھی کافی ہوتا ہے۔چہ جائیکہ امام مالک رضی اللہ عنہ جیسا عظیم الشان امام جس کے قول کے کروڑہا آدمی تابع ہوں گے حضرت عیسیٰ کی وفات کا صریح قائل ہواورپھر یہ لوگ کہیں کہ ان کی حیات پر اجماع ہے۔
(اتمام الحجۃ ۔ روحانی خزائن جلد8صفحہ295 )
اجماع صحابہ ؓ کی اتباع ضروری ہے
ہماری جماعت میں وہی داخل ہوگا جو دینِ اسلام میں داخل ہو اور کتاب اللہ اور سنتِ رسولؐ کا متبع ہو اور اللہ اور اس کے رسول اورحشرونشر اورجنت و دوزخ پر ایمان رکھے اور یہ وعدہ اور اقرارکرے کہ وہ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین نہیں چاہتا اور وہ اس دین پر مرے جو دینِ فطرت ہے اوراللہ کی کتاب کو پکڑے رکھے اورسنت اور قرآن اوراجماعِ صحابہؓ سے جو ثابت ہو، اس پر عمل کرے اورجس نے ان تین چیزوں کو چھوڑاتو اس نے گویا اپنے نفس کو آگ میں چھوڑا۔
(مواہب الرحمان۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ315ترجمہ از عربی عبارت )
ایک صحابی کی رائے شرعی حجّت نہیں
یہ مسلّم امر ہے کہ ایک صحابیؓ کی رائے شرعی حجّت نہیں ہوسکتی۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہؓ ہے۔سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع صحابہؓ ہوچکا ہے کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ410)
شرعی حجّت صرف اجماع صحابہ ؓہے
صاحب تفسیر (تفسیر ثنائی ۔ ناقل) لکھتا ہے کہ ’’ ابوہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے۔ ابوہریرہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔ ‘‘ ……
کئی مقام میں محدثین نے ثابت کیا ہے کہ جو امور فہم اور درایت کے متعلق ہیں اکثر ابو ہریرہؓ ان کے سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے اور غلطی کرتا ہے ۔ یہ مسلّم امر ہے کہ ایک صحابیؓ کی رائے شرعی حجّت نہیں ہوسکتی۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہؓ ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ410)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔کا اجتہادسب اجتہادوں سے اسلم اور اقویٰ اور اصحّ ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ169)
کیا خبرواحد واجب العمل ہے؟
حنفیوں کا ہرگز یہ مذہب نہیں کہ مخالفت قرآن کی حالت میں خبر واحد واجب العمل ہے اور نہ شافعی کا یہ مذہب ہے بلکہ فقہ حنفیہ کا تو یہ اصول ہے کہ جب تک اکثر قرنوں میں تواتر حدیث کا ثابت نہ ہو گو پہلے قرن میں نہیں مگر جب تک بعد میں اخیر تک تواتر نہ ہو تب تک ایسی حدیث کے ساتھ قرآن پر زیادت جائز نہیں اور شافعی کا یہ مذہب ہے کہ اگر حدیث آیت کے مخالف ہو تو باوجود تواتر کے بھی کالعدم ہے۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ94)
احاد احادیث مخالف قرآن ہوں تو قابلِ قبول نہیں
علماء حنفیہ خبر واحد سے گو وہ بخاری ہو یا مسلم قرآن کریم کے کسی حکم کو ترک نہیں کرتے اور نہ اس پر زیادت کرتے ہیں اور امام شافعی حدیث متواتر کو بھی بمقابلہ آیت کالعدم سمجھتا ہے اور امام مالک کے نزدیک خبر واحد سے بشرط نہ ملنے آیت کے قیاس مقدم ہے۔ دیکھو صفحہ ۱۵۰ کتاب نورالانوار اصول فقہ۔
اس صورت میں جو کچھ ان اماموں کی نظر میں درصورت قرآن کے مخالف ہونے کے احادیث کی عزت ہوسکتی ہے عیاں ہے خواہ اس قسم کی حدیثیں اب بخاری میں ہوں یامسلم میں۔ یہ ظاہر ہے کہ بخاری اور مسلم اکثر مجموعہ احاد کا ہے اور جب احاد کی نسبت امام مالک اور امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کی یہی رائے ہے کہ وہ قرآن کے مخالف ہونے کی حالت میں ہرگز قبول کے لائق نہیں تو اب فرمائیے کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان بزرگوں کے نزدیک وہ حدیثیں بہرحال واجب العمل ہیں؟ اول حنفیوں اور مالکیوں وغیرہ سے ان سب پر عمل کرائے اور پھر یہ بات منہ پر لائے۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ99)
قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں!
میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام بینہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتا ہوں۔ صرف بعض اخبار گزشتہ و مستقبلہ کی نسبت الہام الٰہی کی وجہ سے جس کو میں نے قرآن سے بکلّی مطابق پایا ہے بعض اخبار حدیثیہ کے میں اس طرح پر معنی نہیں کرتا جو حال کے علماء کرتے ہیں کیونکہ ایسے معنے کرنے سے وہ احادیث نہ صرف قرآن کریم کے مخالف ٹھہرتی ہیں بلکہ دوسری احادیث کی بھی جو صحت میں ان کے برابر ہیں مغائر و مبائن قرار پاتی ہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ82)
جماعت کے لئے لائحہ عمل
ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔ یاد رکھیں کہ ہماری جماعت بہ نسبت عبداللہ کے اہلحدیث سے اقرب ہے اور عبداللہ چکڑالوی کے بیہودہ خیالات سے ہمیں کچھ بھی مناسبت نہیں۔ ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اُسے یہی چاہئے کہ وہ عبداللہ چکڑالوی کے عقیدوں سے جو حدیثوں کی نسبت وہ رکھتا ہے بدِل متنفّر اور بیزار ہو اور ایسے لوگوں کی صحبت سے حتی الوسع نفرت رکھیں کہ یہ دوسرے مخالفوں کی نسبت زیادہ برباد شدہ فرقہ ہے اور چاہئے کہ نہ وہ مولوی محمد حسین کے گروہ کی طرح حدیث کے بارہ میں افراط کی طرف جھکیں اور نہ عبداللہ کی طرح تفریط کی طرف مائل ہوں بلکہ اِس بارہ میں وسط کا طریق اپنا مذہب سمجھ لیں یعنی نہ تو ایسے طور سے بکلّی حدیثوں کو اپنا قبلہ و کعبہ قرار دیں جس سے قرآن متروک اور مہجور کی طرح ہو جائے اور نہ ایسے طور سے اُن حدیثوں کو معطل اور لغو قرار دیدیں جن سے احادیث نبویہ بکلّی ضائع ہو جائیں۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔روحانی خزائن جلد19صفحہ212،213)
ہماری مسلمہ کتابیں
ہماری کتبِ مسلّمہ مقبولہ جن پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں بہ تفصیلِ ذیل ہیں۔
اوّل، قرآن شریف۔ مگر یاد رہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں۔کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اورنیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسّر نہ آسکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسّر ہو۔ غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں۔ پس ہر یک معترض پر لازم ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے۔
دوم، دوسری کتابیں جو ہماری مسلّم کتابیں ہیں اُن میں اوّل درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جوقرآن شریف سے مخالف نہیں اور اُن میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو۔ اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی، ابن ماجہ ، مؤطا، نسائی ، ابوداؤد ، دارقطنی کتب حدیث ہیں جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں۔ یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی رو سے ہمارا عمل ہے۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 86،87)
بخاری اور مسلم کا مقام
آپؑ بخاری کا مقام بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:۔
مسلمانوں کے لئے صحیح بخاری نہایت متبرک اورمفید کتاب ہے ۔۔۔۔۔ایسا ہی مسلم اوردوسری احادیث کی کتابیں بہت سے معارف اور مسائل کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتی ہیں۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ65)
مزید فرمایا
بخاری کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں برکت اور نور ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں رسول اللہؐ کے منہ سے نکلی ہیں۔ (الحکم 17 اگست1902ء صفحہ11)
آپ ؑنے صحیح مسلم کے بارہ میں فرمایا
صحیح مسلم اس شرط سے وثوق کے لائق ہے کہ جب قرآن یا بخاری سے مخالف نہ ہو اور بخاری میں صرف ایک شرط ہے کہ قرآن کے احکام اور نصوص صریحہ بینہ سے مخالف نہ ہو اور دوسری کتب حدیث صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ60حاشیہ)
حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم کے مقابل پر صحیح بخاری اور مسلم کے بارے میں فرمایا
میرا مذہب یہی ہے کہ البتہ بخاری اور مسلم کی حدیثیں ظنی طور پر صحیح ہیں۔ مگر جو حدیث صریح طور پر ان میں سے مبائن و مخالف قرآن کریم کے واقع ہوگی وہ صحت سے باہر ہوجائے گی۔ آخر بخاری اور مسلم پر وحی تو نازل نہیں تھی۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ15)
مزید فرمایا:۔
امام بخاری اور مسلم کی عظمت ِ شان اور ان کی کتابوں کا امت میں قبول کیا جانا اگر مان بھی لیا جاوے تب بھی اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ وہ کتابیں قطعی اور یقینی ہیں۔ کیونکہ امت نے ان کے مرتبہ قطع اور یقین پر ہرگز اجماع نہیں کیا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ98)
بخاری کتاب الطب باب السحرمیں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں نعوذ باللہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یادداشت متاثر ہوگئی تھی۔ حضرت مسیح موعود کے سامنے جب اس کا ذکر کیا گیا تو حضورؑ نے فرمایا:۔
آنکھ بند کرکے بخاری اور مسلم کو مانتے جانا یہ ہمارے مسلک کے برخلاف ہے۔ یہ تو عقل بھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے عالی شان نبی پر جادو اثر کر گیا ہو،ایسی ایسی باتیں کہ اس جادو سے (معاذاللہ )آنحضرتؐ کا حافظہ جاتا رہا یہ ہوگیا اور وہ ہوگیاکسی صورت میں صحیح نہیں ہوسکتیں۔معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملادی ہیں۔ گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کودیکھتے ہیں ، لیکن جو حدیث قرآن کریم کے برخلاف، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کے برخلاف ہو، اس کو ہم کب مان سکتے ہیں ۔ اُس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا گوانہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا۔ مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے۔ وہ جمع کرنے کا وقت تھا۔ لیکن اب نظر اور غور کرنے کاوقت ہے۔ آثار نبی جمع کرنا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جمع کرنے والے خوب غور سے کام نہیں لے سکتے۔اب ہر ایک کو اختیار ہے کہ خوب غور اور فکر سے کام لے جو ماننے والی ہو وہ مانے اور جو چھوڑنے والی ہو وہ چھوڑ دے۔
(الحکم 10نومبر1907ء صفحہ 8)
قرآن شریف کی اور احادیث کی جو پیغمبرخدا سے ثابت ہیں۔ اتباع کریں۔ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشرطیکہ وہ قرآن شریف کے مخالف نہ ہو، ہم واجب العمل سمجھتے ہیں۔ اوربخاری اور مسلم کو بعد کتاب اللہ اصح الکتب مانتے ہیں۔
(البدر8ستمبر1904ء صفحہ 8)
نمازجنازہ اور تدفین
سورۃ یٰسین کی سنت پر عمل کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ نے بیان کیا کہ بشیر اوّل کی پیدائش کے وقت مَیں قادیان میں تھا۔ قریبًا آدھی رات کے وقت حضرت مسیح موعودؑ مسجد میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا میاں عبداللہ اس وقت ہمارے گھر میں دردِ زِہ کی بہت تکلیف ہے۔ آپ یہاں یٰسین پڑھیں اور میں اندر جاکر پڑھتا ہوں اور فرمایا کہ یٰسین کا پڑھنا بیمار کی تکلیف کو کم کرتا ہے ۔ چنانچہ نزع کی حالت میں بھی اسی لئے یٰسین پڑھی جاتی ہے کہ مرنے والے کو تکلیف نہ ہو اوریٰسین کے ختم ہونے سے پہلے تکلیف دور ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے اورمیں یٰسین پڑھنے لگ گیا تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے ابھی یٰسین ختم نہیں کی تھی۔ آپ مسکراتے ہوئے پھر مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ہمارے گھر لڑکاپیدا ہوا ہے۔ اس کے بعد حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے اورمیں خوشی کے جوش میں مسجد کے اوپر چڑھ کر بلند آواز سے مبارک باد مبارک باد کہنے لگ گیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ66)
وفات کے متعلق عوام کے بعض غلط تصورات
فرمایا:
جمعہ کے دن مرنا، مرتے وقت ہوش کا قائم رہنا یا چہرہ کا رنگ اچھا ہونا ۔ان علامات کو ہم قاعدہ کلیہ کے طور سے ایمان کا نشان نہیں کہہ سکتے کیونکہ کئی دہریہ بھی اس دن مرتے ہیں ۔ان کا ہوش قائم اور چہرہ سفید رہتا ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ بعض امراض ہی ایسے ہیں مثلاً دق وسل کہ ان کے مریضوں کا اخیر تک ہوش قائم رہتا ہے بلکہ طاعون کی بعض قسمیں بھی ایسی ہی ہیں ۔ہم نے بعض دفعہ دیکھا کہ مریضوں کو کلمہ پڑھایا گیا اوریٰسین بھی سنائی ۔بعدا زاں وہ بچ گیا اور پھر وہی برے کام شروع کر دئیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدق دل سے ایمان نہیں لایا ۔ اگر سچی توبہ کرتا تو کبھی ایسا کام نہ کرتا اصل میں اس وقت کا کلمہ پڑھنا ایمان لانا نہیں۔یہ تو خوف کا ایمان ہے جو مقبول نہیں۔ (بدر16جنوری1908ء صفحہ3)
غسلِ میت۔ بیری کے پتوں کا استعمال
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت مَیں لاہور میں تھا اور خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہا کرتا تھا۔ جب آپ فوت ہوئے تو مَیں اور ایک اوراحمدی نوجوان حضرت صاحب کے غسل دینے کے لئے بیری کے پتے لینے گئے۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ کس بزرگ نے پتے لانے کے لئے کہا تھا۔ مَیں روتا جارہا تھا اور اسلامیہ کالج کے پشت پر کچھ بیریاں تھیںوہاں سے پتے توڑ کر لایا تھا۔ گرم پانی میں ان پتوں کو کھولا کر اس پانی سے حضور کو غسل دیا گیا تھا۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ749)
سب کا جنازہ پڑھ دیا
قاضی سیّد امیرحسین صاحب کا ایک چھوٹا بچّہ فوت ہونے پر جنازے کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لے گئے اور خود ہی جنازہ پڑھایا۔ عمومًا جنازے کی نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر موجود ہوتے ، تو خود ہی امامت کرتے۔ اس وقت نماز جنازہ میں شامل ہونے والے دس پندرہ آدمی ہی تھے۔ بعد سلام کسی نے عرض کی کہ حضورؑ میرے لئے بھی دعا کریں۔ فرمایا: میں نے تو سب کا ہی جنازہ پڑھ دیاہے۔ مراد یہ تھی کہ جتنے لوگ نماز جنازہ میں شامل ہوئے تھے،اُن سب کے لئے نماز جنازہ کے اندر حضرت صاحبؑ نے دُعائیں کردی تھیں۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 161۔162)
حضرت مسیح ناصری ؑکا جنازہ
ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب رعیہ نے عرض کی کہ ایک شخص منشی رحیم بخش عرضی نویس بڑا سخت مخالف تھا مگر اب تحفہ گولڑویہ پڑھ کر اس نے مسیح کی موت کا تو اعتراف کر لیا ہے اور یہ بھی مجھ سے کہا کہ مسیح کا جنازہ پڑھیں؟ میں نے تو یہی کہا کہ بعد استصواب واستمزاج حضرت اقدس جواب دوں گا۔ فرمایا:۔
’ ’ جنازہ میت کے لئے دعا ہی ہے کچھ حرج نہیں۔ وہ پڑھ لیں۔ ‘‘
(الحکم 10نومبر1902ء صفحہ7)
خاندانی قبرستان میں دعا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیاکہ حضرت صاحب ایک دفعہ غیر معمولی طورپر غرب کی طرف سیر کو گئے تو راستے سے ہٹ کر عیدگاہ والے قبرستان میں تشریف لے گئے اور پھر آپ نے قبرستان کے جنوب کی طرف کھڑے ہوکر دیر تک دعا فرمائی۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے کوئی خاص قبر سامنے رکھی تھی ؟ مولوی صاحب نے کہا میں نے ایسا نہیں خیال کیا اورمیں نے اس وقت دل میں یہ سمجھاتھا کہ چونکہ اس قبرستان میں حضرت صاحب کے رشتہ داروں کی قبریں ہیں اس لئے حضرت صاحب نے دعا کی ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ وہاں ایک دفعہ حضرت صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کی قبر پر دعا کی تھی۔ مولوی صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کی لڑکی امۃ النصیر فوت ہوئی تو حضرت صاحب اسے اسی قبرستان میں دفنانے کے لئے لے گئے تھے اور آپ خود اسے اُٹھا کر قبر کے پاس لے گئے۔ کسی نے آگے بڑھ کر حضور سے لڑکی کو لینا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ میں خود لے جاؤں گا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے وہاں اپنے کسی بزرگ کی قبر بھی دکھائی تھی۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ203،204)
چہلم کی حکمت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ یہ ذکر تھا کہ یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مُردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں غیر مقلد اس کے بہت مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کھانا کھلانا ہو تو کسی اوردن کھلادیا جائے۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ چالیسویں دن غربامیں کھانا تقسیم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ یہ مردے کی روح کے رخصت ہونے کا دن ہے۔پس جس طرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مُردے کی روح کی رخصت پر بھی غرباء میںکھانا دیاجاتا ہے تااسے اس کا ثواب پہنچے۔ گویا روح کا تعلق اس دنیا سے پورے طورپر چالیس دن میں قطع ہوتا ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ صرف حضرت صاحب نے اس رسم کی حکمت بیان کی تھی ورنہ آپ خود ایسی رسوم کے پابند نہ تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ167،168)
مزاروں کی زیارت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہمحترمہ کنیزفاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب ۱۹۰۵ء میں دہلی میں تھے اور وہاں جمعہ کو میری بھی بیعت لی۔ اور دعا فرمائی۔ باہر دشمنوں کا بھاری ہجوم تھا۔ میں بار بار آپؑ کے چہرے کی طرف دیکھتی تھی کہ باہر اس قدر شور ہے اورحضرت صاحبؑ ایک شیر کی طرح بیٹھے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا ’’ شیخ یعقوب علی صاحب کو بلا لاؤ۔ گاڑی لائیں۔‘‘ میر صاحب نے کہا حضور گاڑی کیا کرنی ہے؟ آپ نے فرمایا’’قطب صاحب جانا ہے۔ ‘‘ میں نے کہا حضور اس قدر خلقت ہے ۔ آپ ان میں سے کیسے گزریں گے؟ آپ ؑ نے فرمایا’’ دیکھ لینا میں ان میں سے نکل جاؤں گا۔ ‘‘ میرصاحب کی اپنی فٹن بھی تھی، دو گاڑیاں اورآگئیں۔ ہم سب حضرت صاحب ؑ کے خاندان کے ساتھ گاڑیوں میں بھرکر چلے گئے۔پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے والد کے مزار پر تشریف لے گئے اوربہت دیر تک دعا فرمائی اور آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہے۔ اس کے بعد آپ حضرت نظام الدین اولیاء کے مقبرہ پر تشریف لے گئے ۔ آپ ؑ نے تمام مقبرہ کو خوب اچھی طرح سے دیکھا۔ پھر مقبرہ کے مجاوروں نے حضورؑ سے پوچھا۔ آپ حضرت نظام الدین صاحب کو کیا خیال فرماتے ہیں؟ آپ ؑ نے فرمایا : ’’ہم انہیں بزرگ آدمی خیال کرتے ہیں۔‘‘ پھر آپؑ نے مقبرہ کے مجاوروں کو کچھ رقم بھی دی جو مجھے یاد نہیں کتنی تھی۔ پھر آپؑ مع مجاوروں کے قطب صاحب تشریف لے گئے۔وہاں کے مجاوروں نے آپ کو بڑی عزت سے گاڑی سے اتارا اورمقبرہ کے اندر لے گئے کیونکہ مقبرہ نظام الدین اولیاء میں تو عورتیں اندر چلی جاتی ہیں لیکن قطب صاحب میں عورتوں کو اندر نہیں جانے دیتے۔ ان لوگوں نے حضور ؑکو کھانے کے لئے کہا۔ حضور ؑ نے فرمایا’’ ہم پرہیزی کھانا کھاتے ہیں ۔ آپ کی مہربانی ہے۔ ‘‘ وہاں کے مجاوروں کو بھی حضورؑ نے کچھ دیا۔ پھر حضور علیہ السلام وہاں سے شام کو واپس گھر تشریف لے آئے۔ مجاور کچھ راستہ تک ساتھ آئے۔ ( سیر ت المہدی جلد2صفحہ199،200)
مُردہ سے مدد مانگنا جائز نہیں
فرمایا:۔
مُردوںسے مددمانگنے کا خدا نے کہیں ذکر نہیں کیابلکہ زندوں ہی کا ذکرفرمایا۔خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا جو اسلام کو زندوں کے سپرد کیا ۔اگر اسلام کو مُردوں پر ڈالتا تو نہیں معلوم کیاآفت آتی۔مُردوں کی قبریں کہاں کم ہیں۔کیا ملتان میں تھوڑی قبریں ہیں’’گردو گرما گداو گورستان‘‘ اس کی نسبت مشہور ہے۔ میں بھی ایک بار ملتان گیا۔جہاں کسی قبر پر جاؤ مجاور کپڑے اتارنے کو گرد ہو جاتے ہیں۔پاک پٹن میں مردوں کے فیضان سے دیکھ لو کیا ہو رہا ہے؟اجمیر میں جا کر دیکھو بد عات اور محدثات کا بازار کیا گرم ہے۔غرض مُردوں کو دیکھو گے تواس نتیجہ پر پہنچو گے کہ ان کے مشاہدمیں سوا بد عات اور ارتکاب مناہی کے کچھ نہیں۔خدا تعالیٰ نے جو صراط المستقیم مقرر فرمایا ہے وہ زندوں کی راہ ہے،مُردوںکی راہ نہیں۔پس جو چاہتا ہے کہ خدا کو پائے اور حیّ وقیوم خدا کوملے،تو وہ زندوں کو تلاش کرے،کیونکہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے نہ مُردہ،جن کا خدا مردہ ہے ، جن کی کتاب مُردہ،وہ مُردوں سے برکت چاہیںتو کیا تعجب ہے۔ لیکن اگر سچا مسلمان جس کا خدا زندہ خدا،جس کا نبی زندہ نبی،جس کی کتاب زندہ کتا ب ہے اور جس دین میں ہمیشہ زندوں کا سلسلہ جاری ہو اور ہر زمانہ میں ایک زندہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان پیدا کرنے والا آتا ہو۔وہ اگر اس زندہ کو چھوڑ کر بوسیدہ ہڈیوںاور قبروںکی تلاش میں سر گرداںہو تو البتہ تعجب اور حیرت کی بات ہے!!!
(الحکم 24جولائی1902ء صفحہ10، 11)
قبرستان میں جاکر منتیں مانگنا
سوال:۔ قبرستان میں جانا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب :۔نذر ونیاز کے لیے قبروں پر جانا اور وہاں جاکر منتیں مانگنا درست نہیں ہے ہاں وہاں جاکر عبرت سیکھے اور اپنی موت کو یاد کرے تو جائز ہے ۔
(الحکم 31مئی 1903ء صفحہ9حاشیہ)
میت کوگاڑی پر قبرستان لے جانا
فرمایا :
جو خدا نخواستہ اس بیماری(یعنی طاعون۔ناقل) سے مرجائے وہ شہید ہے۔ اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے وہی کپڑے رہنے دو اور ہو سکے تو ایک سفید چادر اس پر ڈال دو اور چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہریلا اثر زیادہ ترقی پکڑتاہے اس واسطے سب لوگ اس کے اردگرد جمع نہ ہوں۔ حسبِ ضرورت دو تین آدمی اس کی چارپائی کو اُٹھائیں اور باقی سب دور کھڑے ہوکر مثلاً ایک سو گزکے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں۔ جنازہ ایک دُعا ہے اور اس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو۔ جہاں قبرستان دور ہو مثلاً لاہور میں سامان ہو سکے تو کسی گاڑی یا چھکڑے پر میت کو لاد کر لے جاویں اور میت پر کسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے۔ خدا تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے ۔
(بدر4اپریل1907ء صفحہ6)
صبح کے وقت زیارتِ قبورسنت ہے
حضرت مسیح موعود ؑ کے سفرِ دہلی کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب اخبار بدر لکھتے ہیں:۔
صبح حضرت مسیح موعود ؑ مردانہ مکان میں تشریف لائے۔ دہلی کی سیر کا ذکر درمیان میں آیا۔ فرمایا لہو و لعب کے طور پر پھر نا درست نہیں البتہ یہاں بعض بزرگ اولیاء اﷲ کی قبریں ہیں۔ ان پر ہم بھی جائیں گے۔ فرمایا :۔
ایسے بزرگوں کی فہرست بنائو تا کہ جانے کے متعلق انتظام کیا جائے۔
حاضرین نے یہ نام لکھائے۔ (ا) شاہ ولی اﷲ صاحب (۲)خواجہ نظام الدین صاحب
(۳) جناب قطب الدین صاحب (۴)خواجہ باقی باﷲ صاحب (۵) خواجہ میر درد صاحب
(۶)جناب نصیر الدین صاحب چراغ دہلی۔
چنانچہ گاڑیوں کا انتظام کیا گیا اور حضرت بمع خدام گاڑیوں میں سوار ہو کر سب سے اوّل حضرت خواجہ باقی باﷲ کے مزار پر پہنچے۔ راستہ میں حضرت نے زیارتِ قبور کے متعلق فرمایا :
قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارتِ قبور کے لیے ایک سنت ہے۔ یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آجاتا ہے۔ انسان اس دنیا میں مسافر ہے۔ آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان قبر پر جاوے تو کہے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَااَھْلَ الْقُبُوْرِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّااِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلََاحِقُوْنَ ۔
(بدر 31 ؍ اکتوبر 1905ء صفحہ1)
قبر پر جاکر کیا دعا کرنی چاہئے؟
حضرت مسیح موعود ؑ کے سفرِ دہلی کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب اخبار بدر لکھتے ہیں:۔
خواجہ باقی باﷲ کی مزار پر جب ہم پہنچے تو وہاں بہت سی قبریں ایک دوسرے کے قریب قریب اور اکثر زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھیں۔ میں نے غور سے دیکھا کہ حضرت اقدس نہایت احتیاط سے ان قبروں کے درمیان سے چلتے تھے تا کہ کسی کے اوپر پائوں نہ پڑے۔ قبر خواجہ صاحب پر پہنچ کر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور دعا کو لمبا کیا۔ بعد دعا میں نے عرض کی کہ قبر پر کیا دعا کرنی چاہیے تو فرمایا کہ
صاحبِ قبر کے واسطے دعائے مغفرت کرنی چاہیے اور اپنے واسطے بھی خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے۔ انسان ہر وقت خدا کے حضور دعا کرنے کا محتاج ہے۔
قبر کے سرہانے کی طرف ایک نظم خواجہ صاحب مرحوم کے متعلق لکھی ہے۔ بعد دعا آپ نے وہ نظم پڑھی اور عاجز راقم کو حکم دیا کہ اس کو نقل کرلو۔
(بدر31؍اکتوبر1905ء صفحہ1)
ایک اور موقع پراخبار بدر کے ڈائری نویس لکھتے ہیں کہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مع خدام سیر کرنے کے واسطے صبح باہر نکلے تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی قبر پر تشریف لے گئے جہاں آپ نے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی ۔ بعد دعا کے ایک شخص نے چند سوال کئے جواس کالم میں درج کرنے کے لائق ہیں۔
سوال۔ قبر پر کھڑے ہو کر کیا پڑھنا چاہئے؟
جواب۔ میت کے واسطے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس کے ان قصوروں اور گناہوں کو بخشے جو اُس نے اس دنیا میں کئے تھے اور اس کے پس ماندگان کے واسطے بھی دعا کرنی چاہئے ۔
سوال۔ دعا میں کونسی آیت پڑھنی چاہئے؟
جواب۔ یہ تکلفات ہیں۔ تم اپنی ہی زبان میں جس کو بخوبی جانتے ہواور جس میں تم کو جوش پیدا ہوتاہے۔ میت کے واسطے دعا کرو۔
(بدر19 جنوری 1906ء صفحہ6)
حفاظت کے خیال سے پختہ قبر بنانا جائز ہے
ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میرا بھائی فوت ہوگیا ہے میں اس کی قبر پکی بناؤں یا نہ بناؤں۔ فرمایا:
اگر نمود اور دکھلاوے کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اورگنبد بنائے جائیں تو یہ حرام ہے لیکن اگر خشک مُلّا کی طرح یہ کہا جائے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جائے تو یہ بھی حرام ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ عمل نیت پر موقوف ہے۔ ہمارے نزدیک بعض وجوہ میں پکی کرنا درست ہے مثلاً بعض جگہ سیلاب آتا ہے ، بعض جگہ قبر میں سے میت کو کتے اور بجو وغیرہ نکال لے جاتے ہیں۔ مُردے کے لئے بھی ایک عزت ہوتی ہے۔ اگر ایسے وجوہ پیش آجائیں تو اس حد تک کہ نمود اور شان نہ ہو بلکہ صدمے سے بچانے کے واسطے قبر کا پکا کرنا جائز ہے۔ اللہ اور رسول نے مومن کی لاش کے واسطے بھی عزت رکھی ہے ۔ ورنہ عزت ضروری نہیں تو غسل دینے ،کفن دینے، خوشبو لگانے کی کیاضرورت ہے۔ مجوسیوں کی طرح جانوروں کے آگے پھینک دو۔ مومن اپنے لئے ذلت نہیں چاہتا، حفاظت ضروری ہے ۔ جہاں تک نیت صحیح ہے خدا تعالیٰ مؤاخذہ نہیں کرتا۔ دیکھو مصلحت الٰہی نے یہی چاہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبرکے پختہ گنبد ہو اور کئی بزرگوں کے مقبرے پختہ ہیں مثلًا نظام الدین ، فریدالدین ، قطب الدین ، معین الدین رحمۃ اللہ علیہم۔ یہ سب صلحاء تھے۔
(الحکم 17مئی 1901ء صفحہ12)
قبروں کی حفاظت اور درستگی کروانا
حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض قبروں کی درستگی کے لئے ایک خط لکھا جس میں آپ نے لکھا
مقبرہ بہشتی میں قبروں کی بُری حالت ہے ایک تو قبروں میں نالیوں کی وجہ سے سیلاب ویسے ہی رہتا ہے اور یہ نالیاں درختوں کے لئے ضروری ہیں پھر اس پر یہ زیادہ ہے۔ پانی جو آیا کرتا ہے اس کی سطح سے یہ قبریں کوئی دو فٹ نیچی ہیں۔ اب معمولی آب پاشی ہے اور ان بارشوں سے اکثر قبریں دَب جاتی ہیں۔ پہلے صاحب نور اور غوثاں کی قبریں دَب گئی تھیں ان کو میں (نے) درست کرا دیا تھا۔ اب پھر یہ قبریں دب گئی ہیں اور یہ پانی صاف نظر آتا ہے کہ نالیوں کے ذریعہ گیا ہے۔ پس اس کے متعلق کوئی ایسی تجویز تو میر صاحب فرمائیں گے کہ جس سے روز کے قبروں (کے) دبنے کا اندیشہ جاتا رہے مگر میرا مطلب اس وقت اس عریضہ سے یہ ہے کہ ابھی تو معمولی بارش سے یہ قبریں دبی ہیں پھر معلوم نہیںکوئی رَو آ گیا تو کیاحالت ہوگی۔
اس لئے نہایت ادب سے عرض ہے کہ اگر حضور حکم دیں تو میں اپنے گھر کے لوگوں کی قبر کو پختہ کر دوں اور ایک (دو)دوسری قبریں بھی یا (جیسا) حضور حکم دیں ویسا کیا جائے۔
اس کے جواب میں حضور ؑ نے تحریرفرمایا:۔
’’ میرے نزدیک اندیشہ کی وجہ سے کہ تا سیلاب کے صدمہ کی وجہ سے نقصان (نہ ہو) پختہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں معلوم ہوتا کیونکہ اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات باقی رہے مخالف لوگوں کے اعتراضات تو وہ تو کسی طرح کم نہیں ہو سکتے۔‘‘
(مکتوبات احمد جلددوم صفحہ310)
کیافاتحہ خوانی جائز ہے
سوال پیش ہو ا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ فاتحہ خوانی ایک دعائے مغفرت ہے پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟ فرمایا :
ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بے ہودہ بکواس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریمؐ یا صحابہ کرام ؓ و ائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں، ناجائز ہے۔ جو جنازہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں۔
(بدر9مئی1907ء صفحہ5)
کھانے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے
ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہواکہ محرم کے دنوں، اِمَا مَین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا:
عام طورپر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میت کوپہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شِرک کی رسومات نہیں چاہئیں۔ رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا ناجائز ہے۔
(الحکم 17مئی1901ء صفحہ12)
ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی شخص حضرت سید عبدالقادر کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر کھانا پکاکر کھلادے تو کیا یہ جائز ہے؟
حضرت نے فرمایا :
طعام کا ثواب مُردوں کو پہنچتاہے ۔ گذشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے لیکن ہر ایک امرنیت پر موقوف ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح کے کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لیے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بُت ہے اور ایسے کھانے کا لینا دینا سب حرام ہے اور شرک میں داخل ہے۔ پھر تاریخ کے تعین میں بھی نیت کا دیکھنا ہی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ملازم ہے اور اُسے مثلاً جمعہ کے دن ہی رخصت مل سکتی ہے تو ہر ج نہیں کہ وہ اپنے ایسے کاموں کے واسطے جمعہ کا دن مقررکرے ۔ غرض جب تک کوئی ایسا فعل نہ ہو جس میں شرک پایا جائے صرف کسی کو ثواب پہنچانے کی خاطر طعام کھلانا جائز ہے۔ (بدر8؍اگست 1907ء صفحہ5)
میت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا اور قرآن شریف کا پڑھنا
سوال ۔ کیا میّت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتا ہے ؟
جواب ۔ میّت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتاہے ۔ لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ سے ثابت نہیں ہے۔ اس کی بجائے دُعا ہے جو میت کے حق میں کرنی چاہئے۔ میت کے حق میں صدقہ خیرات اور دُعا کاکرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے۔ لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگاتاہے ۔‘‘
(بدر19جنوری 1906ء صفحہ6)
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب ؓ ’’پیارے احمدکی پیاری پیاری باتیں‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیںکہ
ایک دفعہ صبح کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں حسبِ دستور حضرت اقدس علیہ السلام تشریف رکھتے تھے۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ حضرت یہ لوگ جو قرآن شریف پڑھ کر مُردوں کی روح کو ثواب پہنچاتے ہیں، اس کا ثواب پہنچتا ہے یا نہیں ؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا
پہلے علماء میں اختلاف ہے۔۔۔۔ کلام اور کلام اللہ کا ثواب ہمارے نزدیک مُردوں کو نہیں پہنچتا۔ قرآن شریف عمل کرنے کے واسطے آیا ہے نہ کہ طوطے کی طرح پڑھنا۔۔۔۔ثواب پہنچانے کے واسطے اگر یہ ہوتا بھی تو قرآن شریف میں ذکر ہوتا۔
دیکھو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ قرآن شریف نازل ہوا ہے وہ اس کے اَوَّلُ الْمُسْتَحِقِّیْن تھے۔ آپ کی نسبت اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْن تو آگیا ہے اور دیکھو قرآن شریف میں آیا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلَائِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب:57) یعنی اللہ اوراس کے ملائکہ نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، ایمان والو تم بھی درود بھیجو اور سلام بھیجو۔ درود کے معنی دعا ہی کے ہیں اور سلام کے معنی دعا ہی کے ہیں۔ دعا ہی آئی ہے۔ یہ نہیں آیا کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر قرآن پڑھ پڑھ کر ثواب پہنچاتے ہیں اے ایمان والو تم بھی قرآن پڑھ پڑھ کر نبی کی روح کو سلام پہنچایا کرو۔۔۔۔قرآن کا ثواب نہیں پہنچتا ، دعا کرنی چاہئے اور دعا ہی حدیثوں میں آئی ہے۔ چنانچہ اَلسَّلََامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ الخ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود شریف اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ الخ یہ عمل کرنے کے واسطے ہے تاکہ اس پر عمل کرکے خدا تک انسان پہنچ جاوے۔ اور خدا سے پختہ پیوند و تعلق ہوجاوے اورمنازل سلوک طے ہوجاویں وغیرہ وغیرہ۔ ہاں صدقات و خیرات کا ثواب پہنچتا ہے۔ (الحکم مورخہ 14 تا 21 مئی 1919 صفحہ8)
جس کے ہاں ماتم ہو اُس کے ساتھ ہمدردی
حضرت کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ کیا یہ جائز ہے کہ جب کارِ قضا کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہو جائے تو دوسرے دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیارکریں۔فرمایا
نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے راہ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جاوے۔
(بدر11جولائی 1907ء صفحہ3)
کسی احمدی کا طاعون سے مرنا
فرمایا:۔
مخالفین کا یہ اعتراض کہ بعض ہماری جماعت کے آدمی طاعون سے کیوں مرتے ہیں بالکل ناجائز ہے ۔ ہم نے کبھی کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کی کہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرنے والا کوئی شخص کبھی طاعون میں گرفتار نہ ہوگا۔ ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ اول طبقہ کے لوگ اس قسم کی بیماری میں گرفتار ہو کر نہیں مرتے ۔ کوئی نبی ، صدیق ، ولی کبھی طاعون سے ہلاک نہیں ہوا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی طاعون ہوئی تھی۔ مگر کیا حضرت عمرؓ پر بھی اس کاکوئی اثر ہوا تھا؟ عظیم الشان صحابہؓ میں سے کوئی طاعون میں گرفتار نہیں ہوا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گذرے ہیں ۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی طاعون سے مرا ہے ؟ ہاں اس میں شک نہیں کہ ایسی بیماری کے وقت بعض ادنیٰ طبقہ کے مومنین (طاعون۔ناقل) میں گرفتار ہوتے ہیں مگر وہ شہید ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی کمزوریوں اور گناہوں کو اس طرح سے غفر کرتا ہے جیسا کہ ان جہادوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ساتھ کئے۔ اگرچہ پہلے سے پیشگوئی تھی کہ ان جہادوں میں کفار جہنم میں گرائے جائیں گے ۔ تا ہم بعض مسلمان بھی قتل کئے گئے مگر اعلیٰ طبقہ کے صحابہ مثلاً حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ جیسوں میں سے کوئی شہیدنہیں ہوا، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے جنگ میں شہادت میں اعلیٰ درجہ کے لوگ شامل نہیں ہوتے اسی طرح طاعون میں بھی اگر ہماری جماعت کا کوئی آدمی گرفتار ہو جائے تو یہ اس کے واسطے شہادت ہے اور خدا تعالیٰ اس کا اس کو اجر دے گا۔ (بدر16مئی1907ء صفحہ3 )
احمدی شہید کا جنازہ فرشتے پڑھتے ہیں
ذکر تھاکہ بعض جگہ چھوٹے گائوں میں ایک ہی احمدی گھر ہے اور مخالف ایسے متعصب ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی احمدی مرجائے گا تو ہم جنازہ بھی نہ پڑھیں گے ۔ حضرت نے فرمایا کہ :۔
ایسے مخالفوں کا جنازہ پڑھا کر احمدی نے کیا لینا ہے ۔ جنازہ تو دُعا ہے ۔ جو شخص خود ہی خدا تعالیٰ کے نزدیک مَغْضُوْب عَلَیْھِم میں ہے۔ اس کی دُعا کا کیا اثر ہے؟ احمدی شہید کا جنازہ خود فرشتے پڑھیں گے ۔ ایسے لوگوں کی ہرگز پروانہ کرو اور اپنے خدا پر بھروسہ کرو۔
(بدر16مئی1907ء صفحہ3)
غیر احمدیوں کی نمازِ جنازہ پڑھنا
فرمایا:۔
اگر مُتوفّٰی بالجہر مکفّر اور مکذّب نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ علّام الغیوب خدا کی پاک ذات ہے۔
فرمایا۔ جو لوگ ہمارے مکفّر ہیں اور ہم کو صریحًا گالیاں دیتے ہیں۔ اُن سے السلام علیکم مت لو اور نہ اُن سے مِل کر کھانا کھاؤ۔ ہاں خریدوفروخت جائز ہے اس میں کسی کا احسان نہیں۔
جو شخص ظاہر کرتا ہے کہ مَیں نہ اُدھر کا ہوں اور نہ اِدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذّب ہے اور جو ہمارا مصدِّق نہیں اور کہتا ہے کہ مَیں ان کو اچھا جانتا ہوں۔ وہ بھی مخالف ہے ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہوتے ہیں۔ اُن کا یہ اصول ہوتا ہے کہ
بامسلماں اللہ اللہ بابرہمن رام رام
ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلّق نہیں ہوتا۔ بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانانہیں چاہتے ۔ مگر یاد رکھو کہ جو شخص ایک طرف کا ہوگا اس سے کسی نہ کسی کا دل ضرور دُکھے گا۔
(البدر 24؍اپریل 1903ء صفحہ105)
ایک اور موقعہ پر آپؑ نے فرمایا
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منافق کو کُرتہ دیا اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھی ممکن ہے اس نے غرغرہ کے وقت توبہ کر لی ہو، مومن کا کام ہے کہ حسن ظن رکھے اسی لئے نماز جنازہ کا جواز رکھا ہے کہ ہر ایک کی پڑھ لی جاوے ہاں اگر کوئی سخت معاند ہو یا فساد کا اندیشہ ہے تو پھر نہ پڑھنی چاہئے ہماری جماعت کے سر پر فرضیت نہیں ہے بطور احسان کے ہماری جماعت دوسرے غیر ازجماعت کا جنازہ پڑھ سکتی ہے وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (التوبۃ : ۱۰۴)
اس میں صلوٰۃ سے مراد جنازہ کی نماز ہے اور سَکَنٌ لَّھُمْ دلالت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا گنہگار کو سکینت اور ٹھنڈک بخشتی تھی۔
(البدر14 نومبر1902ء صفحہ19 )
طاعون سے مرنے والے مخالفین کا جنازہ
ایک صاحب نے پوچھا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اوراکثر مخالف مکذّب مرتے ہیں ان کا جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ؟ فرمایا:۔
یہ فرض کفایہ ہے اگر کنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلا جاوے تو ہوجاتا ہے ۔ مگر اب یہاں ایک تو طاعون زدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتا ہے ۔ دوسرے وہ مخالف ہے خواہ نخواہ تداخل جائز نہیں ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑ دو اور اگر وہ چاہے گا تو اُن کو خود دوست بنا دے گا یعنی مسلمان ہوجاویں گے۔ خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو چلایا ہے ۔ مداہنہ سے ہرگز فائدہ نہ ہوگا۔ بلکہ اپنا حصہ ایمان کا بھی گنواؤ گے۔ (البدر 15مئی 1903ء صفحہ130)
غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنے کا مسئلہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں:۔
ایک سوال غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے متعلق کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک یہ مشکل پیش کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض صورتوں میں جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض حوالے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اورایک خط بھی ملا ہے جس پر غور کیا جائے گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل اس کے برخلاف ہے۔ چنانچہ آپ کا ایک بیٹا فوت ہوگیا جو آپ کی زبانی طورپر تصدیق بھی کرتا تھا جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اورفرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے۔ ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اورشدت مرض میں مجھے غش آگیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رو رہا تھا۔ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھا لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے۔۔۔۔۔۔
قرآن شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو بظاہر اسلام لے آیا ہے لیکن یقینی طورپر اس کے دل کا کفر معلوم ہوگیا ہے تو اس کا جنازہ بھی جائز نہیں۔ پھر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔ (انوار خلافت ۔انوارالعلوم جلد 3 صفحہ149-148)
ایک اور موقع پر حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :۔
کہا جاتا ہے کہ فلاں غیر احمدی کا جنازہ حضرت مسیح موعود ؑ نے پڑھایا تھا ۔ ممکن ہے آپ نے کسی کی درخواست پر پڑھایا ہو لیکن کوئی خدا کی قسم کھاکر کہہ دے کہ میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہوگیا ہے ۔ آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کو کہا گیا کہ فلاں کا جنازہ پڑھ دیں اور آپ نے یہ سمجھ کر کہ وہ احمدی ہوگا پڑھ دیا۔ اس طرح ہوا ہوگا۔ میرے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ میں کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں سمجھتا۔ لیکن مجھے بھی اس طرح کی ایک بات پیش آئی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ایک طالب علم ہے ۔ اس نے مجھے کہا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اس کا جنازہ پڑھ دیں۔ میں نے پڑھ دیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غیر احمدی تھی۔ وہ لڑکا مجھ سے اپنی والدہ کے لئے دعا بھی کراتا رہا کہ وہ احمدی ہوجائے لیکن اس وقت مجھے یاد نہ رہا۔ اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی کا جنازہ پڑھ دیا تو وہ ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔ ہاں اگر چند معتبر آدمی حلفیہ بیان کریں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہوگیا ہے۔ آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں اورپھر آپ نے پڑھ دیا تو ہم مان لیں گے۔ کیا کوئی ایسے شاہد ہیں۔
پس جب تک کوئی اس طرح نہ کرے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی کہ آپ نے کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز قراردیا ہے اورہمارے پاس غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ایک بہت بڑا ثبوت ہے اور وہ یہ کہ یہاں حضرت مسیح موعود ؑ کے اپنے بیٹے کی لاش لائی گئی اور آپ کو جنازہ پڑھنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے انکار کردیا۔ پھر سرسید کے جنازہ پڑھنے کے متعلق مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کا خط موجود ہے کہ آپ نے اس کا جنازہ نہیںپڑھا۔ کیا وہ آپ کو کافر کہتے تھے ہرگز نہیں۔ ان کا تو مذہب ہی یہ تھا کہ کوئی کافر نہیں ہے۔ جب ان کے جنازہ کے متعلق خط لکھا گیا تو جیسا کہ مولوی عبدالکریم صاحب نے مندرجہ ذیل خط میں ایک دوست کو تحریر فرماتے ہیں آپ نے اس پر خفگی کا اظہار فرمایا:۔
’’متوفّٰی کی خبر وفات سن کر خاموش رہے۔ ہماری لاہور جماعت نیمتفقًازورشور سے عرضداشت بھیجی کہ وہاں جنازہ پڑھا جائے اور پھر نوٹس دیا جائے کہ سب لوگ جماعت کے ہرشہر میں اسی تقلید پر جنازہ پڑھا جائے اور اس سے نوجوانوں کو یقین ہوگا کہ ہمارا فرقہ صلح کُل فرقہ ہے۔ اس پر حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ فرمایا اور لوگ نفاق سے کوئی کارروائی کریں تو بچ بھی جائیں مگر ہم پرتو ضرور غضبِ الٰہی نازل ہو۔ اور فرمایا ہم تو ایک محرک کے تحت میں ہیں۔بغیر اس کی تحریک کے کچھ نہیں کرسکتے نہ ہم کوئی کلمہ بد اس کے حق میں کہتے ہیں اور نہ کچھ اور کرتے ہیں۔ تفویض الی اللہ کرتے ہیں ۔ فرمایا جس تبدیلی کے ہم منتظر بیٹھے ہیں ۔ اگر ساری دنیا خوش ہوجائے اورایک خدا خوش نہ ہوتو کبھی ہم مقصود حاصل نہیں کرسکتے۔ ‘‘
(الفضل 28؍مارچ1915ء صفحہ8 )
پس ہم کس طرح کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز سمجھ سکتے ہیں۔
(تقریر جلسہ سالانہ 27دسمبر1916ء ۔انوارالعلوم جلد3صفحہ423-422)
مشتبہ الحال شخص کا جنازہ
سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:۔
اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں بُرا کہتا اور سمجھتا تھا تواس کا جنازہ نہ پڑھو، اوراگر خاموش تھا اور درمیانی حالت میں تھا تواس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے۔ بشرطیکہ نماز جنازہ کا امام تم میں سے کوئی ہوورنہ کوئی ضرورت نہیں۔
سوال ہوا کہ اگر کسی جگہ نماز کا امام حضور ؑ کے حالات سے واقف نہیں تواس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں۔ فرمایا
پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو۔ پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اُس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو۔ اوراگرکوئی خاموش رہے ، نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو وہ بھی منافق ہے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔
اگر کوئی ایسا آدمی مر جائے جو تم میں سے نہیں اوراس کا جنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے غیر لوگ موجود ہوں اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ تم میں سے کوئی جنازہ کا پیش امام بنے اور جھگڑے کا خطرہ ہو تو ایسے مقام کو تر ک کرو۔اور اپنے کسی نیک کام میں مصروف ہو جاؤ۔
(الحکم 30اپریل 1902ء صفحہ 7)
(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں مجلس افتاء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فتویٰ کی روشنی میں سفارش پیش کی جسے حضور ؓ نے منظور فرمایا )
مجلس کے نزدیک اس خط میں مشتبہ الحال شخص سے مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ باقاعدہ طورپر جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکذّب بھی نہ ہو بلکہ احمدیوں سے میل جول رکھتا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ان کی ہاں میں ہاں ملا کر ایک گونہ تصدیق کرتا ہوایسے شخص کے جنازہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہرًا کوئی حرج نہیں سمجھا۔ اگرچہ انقطاع کو بہتر قراردیا ہے۔
جماعت احمدیہ کا عمل ایسے شخص کے بارہ میں بھی حضور کے ارشاد کے آخری حصہ پر ہے۔ یعنی انقطاع کو بہرحال بہتر خیال کیا گیا ہے۔مناسب حالات میں پہلے حصے پر بھی عمل کرنے میں کچھ حرج نہیں (جس کی اجازت لی جاسکتی ہے) بشرطیکہ امام احمدیوں میں سے ہو۔ اگر نماز جنازہ میں امام احمدی نہ ہوسکتا ہو تو پھر ایسے شخص کے جنازہ کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط مؤرخہ ۲۳ ؍ فروری ۱۹۰۲ء
’’جو شخص صریح گالیاں دینے والا، کافر کہنے والا اورسخت مکذّب ہے اس کا جنازہ تو کسی طرح درست نہیں مگر جس شخص کا حال مشتبہ ہے گویامنافقوں کے رنگ میں ہے۔ اُس کے لئے کچھ ظاہرًا حرج نہیں ہے۔ کیونکہ جنازہ صرف دعا ہے اور انقطاع بہرحال بہتر ہے۔ ‘‘
(فیصلہ مجلس افتاء جسے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے منظور فرمایابحوالہ فرمودات مصلح موعودؓ صفحہ119)
کشفی قوت کے ذریعہ میّت سے کلام ہوسکتا ہے
حضرت مفتی محمد صادق ؓ صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑفرمایا کرتے تھے:۔
ارواح کا قبور سے تعلق ہے اور ہم اپنے ذاتی تجربہ سے کہتے ہیں کہ مُردوں سے کلام ہو سکتاہے۔ مگر اس کے لئے کشفی قوت اورحس کی ضرورت ہے ۔ ہر شخص کو یہ بات حاصل نہیں ۔ روح کا تعلق قبر کے ساتھ بھی ہوتا ہے اوررُوح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے ۔ جہاں اُسے ایک مقام ملتاہے۔ (ذکرِ حبیب حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ187)
مُردوں سے استفاضہ
ایک شخص نے سوال کیا کہ زندگی میں کسی مردے سے تعلق ہو یا مرید کا اپنے پیر سے ہو۔ کیا وہ بھی اس سے فیض پا لیتا ہے؟فرمایا :۔
صوفی تو کہتے ہیں کہ انسان مرنے کے بعد بھی فیض پاتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں ایک دائرہ کے اندر محدود ہوتا ہے اور مرنے کے بعد وہ دائرہ وسیع ہو جاتا ہے اس کے سب قائل ہیں چنانچہ یہاں تک بھی مانا ہے کہ حضرت عیسیٰ جب آسمان سے آئیں گے تو چونکہ وہ علومِ عربیہ سے ناواقف ہوں گے، کیا کریں گے؟ بعض کہتے ہیں کہ وہ علومِ عربیہ پڑھیں گے اور حدیث اور فقہ بھی پڑھیں گے۔بعض کہتے ہیں کہ یہ امر تو ان کے لیے موجب عار ہے کہ وہ کسی مولوی کے شاگرد ہوں۔اس لیے مانا ہے کہ آنحضرت ﷺکی قبر میں بیٹھیں گے اور وہاں بیٹھ کر استفا ضہ کریں گے۔ مگر اصل میں یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ مگر اس سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ قبور سے استفاضہ ہو سکتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ امر بطریق شرک نہ ہو جیسا کہ عام طو رپر دیکھا جاتا ہے۔ (الحکم 10دسمبر1905ء صفحہ2تا4)
نعش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ تحریر کرتے ہیں کہ :۔
مرزا ایوب بیگ صاحب ایک ہی ایسے خوش نصیب آدمی ہیں جن کی وفات مقبرہ بہشتی کے قیام سے کئی سال پہلے ہو چکی تھی مگر حضرت صاحب نے اجازت دی کہ ان کی ہڈیاں فاضلکا ضلع فیروز پور سے صندوق میں لاکر مقبرہ بہشتی میں دفن کی جائیں۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں بلند درجات نصیب کرے۔ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ7 حاشیہ)
امانتًا دفن شدہ میت کا چہرہ دیکھنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خدمت میں کسی نے سوال کیا کہ میری والدہ کی وفات پر تقریبًا چھ مہینے گزر چکے ہیں۔ اب تابوت ربوہ لانے کا ارادہ ہے۔ وفات کے وقت میں گھر پر موجود نہیں تھا کیا اب تابوت کھول کر چہرہ دیکھ سکتا ہوں؟
جواب:۔ فرمایا۔ دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا ایوب بیگ کی نعش کو دیکھنے کی اجازت دی تھی اور وہ تابوت میں بھی نہ تھی مگر لاش کی حالت کے متعلق ڈاکٹر بتا سکتا ہے، مفتی نہیں بتا سکتا۔ اگر لاش کی حالت خراب ہو تو اس سے بُرا اثر پڑتا ہے۔
( فرمودات مصلح موعودؓ دربارہ فقہی مسائل صفحہ131)
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی کی نعش کو جب قبرستان میں سے نکال کر بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیاتو اس وقت بھی بعض لوگوں نے چہرہ دیکھنے کی خواہش کی۔ چنانچہ حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ تحریرکرتے ہیں کہ :۔
جس دن مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کا جنازہ نکالا اور مقبرہ بہشتی میں لے جانے کا ارادہ کیا تو بہت سے لوگوں نے درخواست کی کہ جنازہ صندوق کے اندر سے دیکھ لیں۔ ۔۔۔ مگر آپؑ نے اس بات کو پسند نہ فرمایا۔ جب انہوں نے بہت ہی اصرار کیا تو آپؑ نے کراہت سے اجازت دی مگر مجھے یہ بات نہیں معلوم کہ انہوں نے دیکھا یا نہ دیکھا کیونکہ میں بھی اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ ایک لغوامر ہے جس کے پیچھے یہ پڑے ہوئے ہیں اور حضرت اقدس علیہ السلام کی نافرمانی بھی تھی۔ ( الحکم مؤرخہ 14تا21مئی 1919صفحہ7)
تدفین کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی کی نعش جس دن قبرستان سے نکال کر بہشتی مقبرہ میں دفن کی گئی تو اس دن آپ ؑ نے جنازہ نکالنے سے قبل ہاتھ اُٹھاکر قبر کے پاس کھڑے ہوکر دعا کی اور دفن کرنے کے بعد بھی ہاتھ اُٹھاکر دعا کی۔ (الحکم 14 تا21 مئی 1919ء صفحہ7)
روزہ اور رمضان
فرمایا :
اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو، اورہرایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اورجس پرحج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ15)
رؤیت ہلال
خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا مثلاً روزہ رکھنے کیلئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہوگا یا تیس کا۔ تب تک رویت کا ہرگز اعتبار نہ کرو اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالایطاق ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں سو یہ بڑی سیدھی بات اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رویت پر مدار رکھیں صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت میں عندالعقل رویت کو قیاساتِ ریاضیہ پر فوقیت ہے۔ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رویت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی ایجادکئے اور بذریعہ رویت تھوڑے ہی دنوں میں اجرام علوی و سفلی کے متعلق وہ صداقتیں معلوم کرلیں کہ جو ہندوئوں بیچاروں کو اپنی قیاسی اٹکلوں سے ہزاروں برسوں میں بھی معلوم نہیں ہوئی تھیں اب آپ نے دیکھا کہ رویت میں کیا کیا برکتیں ہیں انہیں برکتوں کی بنیاد ڈالنے کے لئے خدائے تعالیٰ نے رویت کی ترغیب دی۔ ذرہ سوچ کرکے دیکھ لو کہ اگر اہل یورپ بھی رویت کو ہندوئوں کی طرح ایک ناچیز اور بے سود خیال کرکے اور صرف قیاسی حسابوں پر جو کسی اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھ کر لکھے گئے مدار رکھتے تو کیونکر یہ تازہ اور جدید معلومات چاند اور سورج اور نئے نئے ستاروں کی نسبت انہیں معلوم ہوجاتے سو مکرر ہم لکھتے ہیں کہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ رویت میں کیا کیا برکات ہیں اور انجام کار کیا کیا نیک نتائج اس سے نکلتے ہیں۔
(سرمہ چشمِ آریہ ۔ روحانی خزائن جلد2صفحہ192،193)
چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟
سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے (جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہوچکا تھا۔ ناقل) اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا تھا۔ اب ہم کو کیا کرنا چاہئے؟ فرمایا :
’’ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک اور روزہ رکھنا چاہئے۔ ‘‘
(بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7)
چاند دیکھنے کی گواہی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیااور اسی دن (ہم) قادیان قریبًا ظہر کے وقت پہنچے اوریہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے۔اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غورہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہوا تھا۔ اسی دوران میں ہم سے سوال ہوا کہ ’’ کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ بعض غیراحمدیوں نے دیکھا تھا۔‘‘ ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ ’’چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا‘‘ کتاب کو تہہ کردیا اور فرمایا کہ ’’ ہم نے سمجھا تھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے۔ اس لئے تحقیقات شروع کی تھی۔‘‘
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ265)
سحری میں تاخیر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا ۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ دیکھ کر فرمایا۔ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں ؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھاناان کے لئے تیار کیا جائے ۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھانا کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ127)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۵ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفا ق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے ۔ جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک اوردوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراء ت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اکثر پڑھتے تھے۔ اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سُن سکتا تھا نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اوراس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہوجاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہوجائے سحری کھانا جائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے ۔ اس لئے لوگ عمومًا سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں ۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہوجاتی ہو۔اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طورپرصبح صادق کا آغاز ہواس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے۔چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کررہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو۔ کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہوگئی ہے، صبح ہوگئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ295،296)
سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اورفرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ اذان کی آواز آئی۔ اس لئے وہ گلاس مَیں نے وہیںرکھ دیا۔ کسی شخص نے عرض کی۔ کہ حضور ابھی تو کھانے پینے کا وقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت اگر درست ہے تو حضور نے اس وقت اپنی ذات کے لئے یہ احتیاط برتی ہوگی۔ ورنہ حضور کا طریق یہی تھا کہ وقت کا شمار اذان سے نہیں بلکہ سحری کے نمودار ہونے سے فرماتے تھے۔ اوراس میں بھی اس پہلو کو غلبہ دیتے تھے کہ فجر واضح طورپرظاہر ہوجاوے۔ جیسا کہ قرآنی آیت کا منشاء ہے مگر بزرگوں کا قول ہے کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ520)
سفر میں روزہ ، حکم ہے اختیار نہیں
آپ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا کہ:
قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍِ اُخَرَ (البقرۃ : ۱۸۵) یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔اس میں امر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایاکہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے۔میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیںاس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔
اس پر مولوی نور الدین صاحبؓ نے فرمایا کہ یوں بھی توانسان کو مہینے میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں۔
ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدس نے بھی فرمایاتھا کہ سفر میں تکالیف اٹھا کرجو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا۔یہ غلطی ہے۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے۔
(الحکم31جنوری 1899ء صفحہ7)
مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ معلوم کر کے کہ لاہور سے شیخ محمد چٹو آئے ہیں اور احباب بھی آئے ہیں۔ محض اپنے خلق عظیم کی بناء پر باہر نکلے غرض یہ تھی کہ باہر سیر کو نکلیں گے۔ احباب سے ملاقات کی تقریب ہوگی۔ چونکہ پہلے سے لوگوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ حضرت اقدس باہر تشریف لائیں گے اس لئے اکثر احباب چھوٹی مسجد میں موجود تھے۔ جب حضرت اقدس اپنے دروازے سے باہر آئے تومعمول کے موافق خدام پر وانہ وار آپ کی طرف دوڑے ۔ آپ نے شیخ صاحب کی طرف دیکھ کر بعد سلام مسنون فرمایا:۔
حضرت اقدس ۔ آپ اچھی طرح سے ہیں ؟ آپ تو ہمارے پرانے ملنے والوں میں سے ہیں۔
بابا چٹو۔ شکر ہے۔
حضرت اقدس:۔ (حکیم محمد حسین قریشی کو مخاطب کر کے )یہ آپ کا فرض ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ان کے کھانے ٹھہرنے کا پورا انتظام کردو۔ جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو اور میاں نجم الدین کو تاکید کردو کہ ان کے کھانے کے لئے جو مناسب ہو اور پسند کریں وہ تیار کرے۔
حکیم محمد حسین :۔ بہت اچھا حضور۔ انشاء اللہ کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔
حضرت اقدس:۔ (بابا چٹو کو خطاب کر کے ) آپ تو مسافر ہیں۔ روزہ تو نہیں رکھا ہوگا؟
بابا چٹو:۔ نہیں مجھے تو روزہ ہے میں نے رکھ لیا ہے ۔
حضرت اقدس:۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہیے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے۔ کیوں کہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضاہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیا ہے مَنْ کَانَ مِنْکُمْْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ (البقرہ:۱۸۵) اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یاا یسی بیماری ہو ۔ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں۔ چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا۔ چلنے پھرنے سے بیماری میں کچھ کمی ہوتی ہے اس لئے باہر جائوں گا۔ کیا آپ بھی چلیں گے۔
بابا چٹو:۔ نہیں میں تو نہیں جاسکتا۔ آپ ہو آئیں۔ یہ حکم تو بے شک ہے مگر سفر میں کوئی تکلیف نہیں پھر کیوں روزہ نہ رکھا جاوے۔
حضرت اقدس:۔ یہ تو آپ کی اپنی رائے ہے ۔ قرآن شریف نے تو تکلیف یا عدم تکلیف کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اب آپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں۔ زندگی کا اعتبار کچھ نہیں۔ انسان کو وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاوے اور صراط مستقیم مل جاوے۔
بابا چٹو:۔ میں تو اسی لئے آیا ہوں کہ آپ سے کچھ فائدہ اٹھائوں۔ اگر یہی راہ سچی ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت ہی میں مرجاویں۔
حضرت اقدس:۔ ہاں یہ بہت عمدہ بات ہے۔ میں تھوڑی دور ہو آئوں ۔ آپ آرام کریں۔ (یہ کہہ کر حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے۔ ) (الحکم 31جنوری 1907ء صفحہ14)
بیمار اور مسافر کے روزہ رکھنے کا ذکر تھا ۔حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ شیخ ابن عربی کا قول ہے کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر روزہ کے دنوں میں روزہ رکھ لے تو پھر بھی اسے صحت پانے پر ماہ رمضان کے گذرنے کے بعد روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّ ۃٌ مّنْ اَیَّامٍِ اُخَرَ ( البقرۃ : ۱۸۵)جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ماہ رمضان کے بعد کے دنوں میں روزے رکھے ۔اس میں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو مریض یا مسافر اپنی ضد سے یا اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہی ایام میں روزے رکھے تو پھر بعد میں رکھنے کی اس کو ضرورت نہیں ۔ خد تعالیٰ کا صریح حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھے ۔بعد کے روزے اس پر بہر حال فرض ہیں ۔ درمیان کے روزے اگر وہ رکھے تو یہ امرز ائد ہے اور اس کے دل کی خواہش ہے ۔ اس سے خدا تعالیٰ کا وہ حکم جو بعد میں رکھنے کے متعلق ہے ٹل نہیں سکتا ۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ :۔
جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہِ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے ۔خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے ۔ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حا صل کر سکتا ہے ۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے، مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توا ن پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔ (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
ظہر کے وقت روزے کھلوادئیے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام لدھیانہ تشریف لائے۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا۔۔۔۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا، یا کسی اور سے معلوم ہوا(یہ مجھے یاد نہیں) کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں ۔ حضور ؑ نے فرمایا میاں عبداللہ! خدا کا حُکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے۔ آپ سب روزے افطار کردیں۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ125)
عصر کے بعد روزہ کھلوادیا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا۔ اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا۔حضرت صاحب نے اسے فرمایاآپ روزہ کھول دیں۔ اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سادن رہ گیا ہے۔ اب کیا کھولنا ہے۔ حضور ؑنے فرمایا آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔ جب اس نے فرمادیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہیے۔اس پر اس نے روزہ کھول دیا۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ97)
سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا
حضرت منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی تحریر کرتے ہیں کہ :۔
ایک مرتبہ میں اور حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت خان صاحب محمد خاں صاحب لدھیانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اورمیرے رفقاء نے نہیں رکھا تھا۔ جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تھوڑا سا وقت غروب آفتاب میں باقی تھا۔ حضرت کو انہوں نے کہا کہ ظفر احمد نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ حضرت فوراً اندر تشریف لے گئے اور شربت کا ایک گلاس لے کر آئے اورفرمایا روزہ کھول دو۔ سفر میں روزہ نہیں چاہئے۔میں نے تعمیل ارشاد کی اوراس کے بعد بوجہ مقیم ہونے کے ہم روزہ رکھنے لگے۔ افطاری کے وقت حضرت اقدس خود تین گلاس ایک بڑے تھال میں رکھ کر لائے۔ ہم روزہ کھولنے لگے۔میں نے عرض کیا کہ حضور منشی جی کو (منشی اروڑے خاں صاحب کو) ایک گلاس میں کیا ہوتا ہے۔حضرت مسکرائے اورجھٹ اندر تشریف لے گئے۔ اور ایک بڑا لوٹا شربت کا بھر کر لائے اورمنشی جی کو پلایا۔ منشی جی یہ سمجھ کر حضرت اقدس کے ہاتھ سے شربت پی رہا ہوں پیتے رہے اور ختم کردیا۔
(روایت حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی ؓ اصحاب احمد جلد4صفحہ224نیا ایڈیشن )
سفر میں روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلّہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھاریوال میں جانا پڑا۔ گرمی کا موسم تھا اوررمضان کا مہینہ تھا۔ بہت دوست اردگرد سے موضع دھاریوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مشہور سردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہور سرداروں میں سے ہے حضور کی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا۔ حضور نے دعوت منظور فرمائی۔ سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی۔ بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی ۔ فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑدئیے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ303)
سفر میں رخصت، ملامت کی پرواہ نہ کی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر میں تشریف لائے اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیا لعل(جس کا نام اب بندے ماترم پال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی پھر وہ اور آگے ہوئے ۔ پھر بھی حضور مصروفِ لیکچر رہے۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کردی تو حضور نے لے کر چائے پی لی اس پر لوگوں نے شور مچادیا۔ یہ ہے رمضان شریف کا احترام ، روزے نہیں رکھتے اوربہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی اور حضوراس میں داخل ہوگئے۔ لوگوں نے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اوربہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیامگر حضور بخیر وعافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اوربعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا کہ ’’ اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادِتّا‘‘ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سُنا۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اوران کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں ۔ تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کو مارتے تھے۔ مجھے کون مارتا ہے۔ چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑبڑ ہوئی تھی۔ اس لئے سب آدمی ان کو کہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بھی ان کو ایسا کہا۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبدالخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا تو حضور نے فرمایا: مفتی صاحب نے کوئی بُرا کام نہیں کیا، اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقع پیدا کردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ147)
مسافر کا حالتِ قیام میں روزہ رکھنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں :
سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے روزہ کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔
ادھر الفضل میں میرایہ اعلان شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو سالانہ جلسہ پر آئیں وہ یہاں آکر روزے رکھ سکتے ہیں مگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔
اس کے متعلق اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتویٰ الفضل میں شائع نہیں ہوا ۔ ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا میری روایت سے چھپا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں ،مَیں سفر میں روزہ رکھنے سے منع کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا مرزا یعقوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اورانہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جبکہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر روزہ کھلوا دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا ناجائز ہے۔ اس پر اتنی لمبی بحث اورگفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر لگ جائے۔ اس لئے آپ ابن عربی کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کرکے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں۔
اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری یہاں رمضان گزارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں مگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اورانہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے ۔ اس دوران میں ،مَیں روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے۔ گو مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اورلوگوں کی اس بارے میں شہادت لی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے۔ البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا۔پھر جب اس دفعہ رمضان میں سالانہ جلسہ آنے والا تھا اور سوال اُٹھا کہ آنے والوں کو روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں تو ایک صاحب نے بتایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب جلسہ رمضان میں آیا توہم نے خود مہمانوں کو سحری کھلائی تھی۔ان حالات میں جب میں نے یہاں جلسہ پر آنے والوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی فتویٰ ہے۔پہلے علماء تو سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز قراردیتے رہے ہیںاور آج کل کے سفر کو تو غیر احمدی مولوی سفر ہی نہیں قرار دیتے، لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔پھر آپ نے ہی یہ بھی فرمایاکہ یہاں قادیان میں آکر روزہ رکھنا جائز ہے۔ اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کا ایک فتویٰ تولے لیں اور دوسراچھوڑدیں۔
(الفضل 4؍جنوری1934ء صفحہ4-3)
(اس مسئلہ پر سیرت المہدی سے بھی ایک روایت ملتی ہے)
حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۳ء کاذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔ چاردن کی رخصت تھی۔حضور ؑ نے پوچھا: ’’سفرمیں توروزہ نہیں تھا؟‘‘ ہم نے کہا نہیں۔ حضور ؑ نے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا :ہم روزہ رکھیں گے۔ آپؑ نے فرمایا ’’ بہت اچھا! آ پ سفر میں ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ حضور ؑ! چند روز قیام کرناہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔ آپؑ نے فرمایا۔ ’’ اچھا!ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیں گے۔‘ ‘ ہم نے خیال کیا کشمیری پراٹھے خدا جانے کیسے ہوں گے؟ جب سحری کا وقت ہوا اورہم تہجد و نوافل سے فار غ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے۔ (جو کہ مکان کی نچلی منزل میں تھا) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے۔ کشمیری تھیں اورپراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں۔ حضور ؑ نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔ پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اورحضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اورفرماتے تھے۔ ’’ اچھی طرح کھاؤ۔‘‘ مجھے تو شرم آتی تھی اورڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضور ؑ کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہورہا تھا۔ اتنے میں اذان ہوگئی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ اورکھاؤ ،ابھی بہت وقت ہے ۔‘‘ فرمایا : ’’ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:۱۸۸)اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔آپ کھائیں ابھی وقت بہت ہے ۔ مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔ ‘‘ جب تک ہم کھاتے رہے حضور ؑ کھڑے رہے اورٹہلتے رہے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضورؑ تشریف رکھیں ،میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑلوں گا یا میری بیوی لے لیں گی مگر حضورؑ نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔ اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے۔
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ202،203)
حضرت سید محمد سرورشاہ صاحب تحریرفرماتے ہیں :۔
روزوں کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک جگہ پر تین دن سے زائد اقامت کرنی ہوتو پھر وہ روزے رکھے اور اگر تین دن سے کم اقامت کرنی ہو تو روزے نہ رکھے اور اگر قادیان میں کم دن ٹھہرنے کے باوجود روزے رکھ لے تو پھر روزے دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ (فتاوٰی حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رجسٹر نمبر5دارالافتاء ربوہ)
بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھاہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اورہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ اس وقت غروبِ آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فورًا روزہ توڑدیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیارفرمایا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ637)
معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت
حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ :۔
ایک دفعہ میں نے رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گذارا۔ ان دنوں میں حضور علیہ السلام کو تپ لرزہ یومیہ آتا تھا۔ ظہر کے بعد لرزہ سے تپ ہوجاتا تھا۔ اس لئے ظہر کے وقت حضور جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے اور باقی نمازوں میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ ظہر سے پہلے کبھی کبھی بانتظار نمازیاں بیٹھتے تھے۔میری عادت تھی کہ میں ضرور اس جگہ پہنچ جایا کرتا تھا جہاں حضور بیٹھتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں دور رہا ہوں ۔ اگر ایسا اتفاق ہوتا بھی جو صرف ایک دفعہ ہوا تو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان کردیتا کہ میں قریب پہنچ جاؤں۔ غرض جب حضور ظہر کی نماز کے واسطے تشریف لاتے میں طبیعت کا حال دریافت کرتا تو فرماتے کہ سردی معلوم ہو رہی ہے۔ بعض دفعہ فرماتے کہ نماز پڑھو۔ سردی زیادہ معلوم ہورہی ہے مگر باوجود علالت کے حضور روزہ برابر رکھتے تھے ۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ تپ کی تکلیف ہے اور کئی دن ہوگئے ہیں۔ اگر روزہ افطار کردیا(یعنی بوقت بخار کھول یا توڑ لیا )کریں(تو بہتر ہو) فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ آرام معلوم ہوتا ہے۔ بھوک پیاس کچھ معلوم نہیں ہوتی۔ رات کو البتہ کچھ زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے روزہ رکھ لیتا ہوں۔ صبح کو تپ اتر جاتا تھا تو حضور سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔(قلمی کاپی صفحہ ۵۲تا۵۴)
(اصحابِ احمد جلد10صفحہ397،398نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب )
بیماری میں روزہ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا معمول
حضرت مصلح موعود ؓ سے سوال پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ بیماررہتے تھے کیا روزہ رکھتے تھے؟ آپؓ نے فرمایا:
حضرت صاحب خوب روزہ رکھتے تھے مگر چونکہ آخر میں کمزور زیادہ ہو گئے تھے اورمرض میں بھی زیادتی تھی اس لئے تین سال کے روزے نہیں رکھے، یعنی ۵،۶،۷ (۱۹۰۵، ۱۹۰۶ اور ۱۹۰۷ء مراد ہے۔ ناقل)
(الفضل 12جون1922ء صفحہ7)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نیبیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔ دوسرا رمضان آیا تو
آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دَورہ ہوا۔ اس لئے باقی چھوڑ دئیے اور فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیاتو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعدجو رمضان آیاتو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتدا دوروں کے زمانہ میں روز ے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کردیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود ؑ کو دورانِ سر اور بردِاطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہوگئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کرنے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھرشوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرمادیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کردیتے تھے اوربقیہ کا فدیہ ادا کردیتے تھے۔ واللّٰہ اعلم۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ59)
مسافر اور مریض فدیہ دیں
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بناء آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہو ں ۔ ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں ۔ فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
فدیہ دینے کی کیا غرض ہے ؟
ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے ۔خد اتعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔
(البدر12دسمبر1902ء صفحہ52)
فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا
حضرت مصلح موعودؓ تحریرفرماتے ہیں:
فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہوجاتابلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ اِن مبارک ایّام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بناء پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کرسکے۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ بشرطِ استطاعت اِن دونوں حالتوں میںدینا چاہئے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اُس کی صحت اجازت دے اُسے پھر روزے رکھنے ہوں گے۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اورصحت ہونے کے بعد ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اِس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طورپر خراب ہوجائے۔ باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتا ہواگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایّام میں روزے رکھے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اِسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے۔ (تفسیر کبیر جلد 2صفحہ389)
فدیہ کسے دیں؟
سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہیئے۔ اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟
فرمایا:۔
ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے ۔
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے
(۱) بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتاہے کہ کاشت کاروں سے جبکہ کام کی کثرت مثل تخم ریزی و درودگی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گذارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھاجاتاان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمایا:۔
اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے ۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتاہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے ۔ پھر جب میسر ہو رکھ لے۔
(۲) اور وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ (البقرۃ:۱۸۵) کی نسبت فرمایا کہ :۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے ۔ (بدر26ستمبر1907ء صفحہ7)
روزہ کس عمر سے رکھا جائے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔
مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اوربجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔
(الفضل 11؍اپریل1925 ء صفحہ7 )
حضرت مصلح موعود ؓ تحریرفرماتے ہیں ۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچّوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرورکرانی چاہئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچّوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے ۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اورروزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت اُن کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنّت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اِس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے ۔اِس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچّوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں ۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچّہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اِسی طرح بعض بچّے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچّوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیںکہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں ایسے بچّے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اِس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچّہ غالبًا پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے اِن الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا اورنہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اِسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچّہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اُس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے۔ (تفسیر کبیر جلد2صفحہ385)
کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت
حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ تحریرفرماتی ہیں:۔
قبل بلوغت کم عمری میں آپ ؑ روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے ۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوتِ افطار دی تھی۔یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں میں نے روزہ رکھ لیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایاکہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپؑ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔غالبًا حضرت اماں جانؓ بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔آپ نے ایک پان اُٹھاکر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھالو۔تم کمزورہو،ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔میں نے پان تو کھالیامگر آپ سے کہاکہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ)نے بھی رکھا ہے۔اُن کا بھی تڑوادیں۔فرمایا بلاؤ اس کو ابھی۔میں بُلا لائی۔وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھاکر دیا اورفرمایا لو یہ کھالو۔تمہارا روزہ نہیں ہے ۔ میری عمر دس سال کی ہوگی غالبًا۔ (تحریراتِ مبارکہ صفحہ227،228)
شوّال کے چھ روزوں کا التزام
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکرفرمایاکرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں۔ فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگاتار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں۔ صبح کا کھاناجب گھر سے آتا تھا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھااور شام کا خود کھالیتا تھا۔ میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟والدہ صاحبہ نے کہاکہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے۔ خصوصًا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے۔ اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے۔ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے۔)
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ14)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے۔ اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔
ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال آپ نے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سُن لیں اورجو غفلت میں ہوں ہوشیار ہوجائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں۔ چھ روزے رکھیں۔ اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں۔
(الفضل 8جون 1922ء صفحہ7)
روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا:
’’جائز ہے ۔‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ کی حالت میں سر یا داڑھی کو تیل لگانا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ حالت ِ روزہ میں سر کو یا داڑھی کوتیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’جائز ہے ۔‘‘ (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ کی حالت میںآنکھ میں دوائی ڈالنا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہوتو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’ یہ سوا ل ہی غلط ہے ۔ بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں۔ ‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ دارکاخوشبو لگانا
سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا:
’’جائز ہے ۔ ‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے ؟
فرمایا:
’’مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے ۔ رات کو سرمہ لگا سکتاہے ۔‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
نمازِ تراویح
اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اُٹھنے اورنماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عمومًا محنتی، مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجالانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اوّل شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جائیں تو کیا یہ جائز ہوگا۔
حضرت اقدس ؑ نے جواب میں فرمایا
’’کچھ حرج نہیں ، پڑھ لیں۔ ‘‘
(بدر 18؍اکتوبر1906ء صفحہ4)
تراویح کی رکعات
تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو بیس رکعات پڑھنے کی نسبت کیاا رشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے ۔ فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہے اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اوریہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اوّل حصے میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی۔
(بدر مؤرخہ 6فروری 1908ء صفحہ7)
تراویح دراصل نماز تہجد ہی ہے
ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سفر میں نماز کس طرح پڑھنی چاہیے اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے ؟ فرمایا :
’’سفر میں دو گانہ سنت ہے ۔تروایح بھی سنت ہے پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے کوئی نئی نماز نہیں ۔ وتر جس طرح پڑھتے ہو بیشک پڑھو ۔‘‘
(بدر26دسمبر1907ء صفحہ6)
نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا
رمضان شریف میں تراویح کے لئے کسی غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر حافظ کو بتلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا:
میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ اس کے متعلق نہیں دیکھا۔ اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جائز قراردیا ہے۔
فرمایا : جائز ہے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اوراس کے لئے یہ انتظام بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی شخص تمام تراویح میں بیٹھ کر نہ سنتا رہے بلکہ چار آدمی دو دو رکعت کے لئے سنیں اس طرح ان کی بھی چھ چھ رکعتیں ہو جائیں گی۔
عرض کیا گیا فقہ اس صورت کو جائز ٹھہراتی ہے؟فرمایا:
اصل غرض تو یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم سننے کی عادت ڈالی جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ تو ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے ہے جیسے کوئی کھڑا ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر ہی پڑھ لے اوربیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے یا جس طرح کسی شخص کے کپڑے کو غلاظت لگی ہو اوروہ اسے دھو نہ سکے تو اسی طرح نماز پڑھ لے، یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ضرورت کی بات ہے۔
(الفضل21؍فروری1930ء صفحہ 12 )
بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
خط سے سوال پیش ہوا کہ میں بوقتِ سحر بماہ رمضان اندر بیٹھا ہوا بے خبری سے کھاتا پیتا رہا۔ جب باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سفیدی ظاہر ہوگئی ہے۔ کیا وہ روزہ میرے اوپر رکھنا لازم ہے یا نہیں؟ فرمایا :
’’ بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزہ کے بدلہ میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا۔ ‘‘
(الحکم 24فروری 1907ء صفحہ14)
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا
سوا ل : کیا آنحضرت ؐ کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟ فرمایا:
’’ ضروری نہیں۔ ‘‘
(بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)
کیامحرم کے روزے ضروری ہیں ؟
سوا ل پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کاروزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟ فرمایا:
’’ضروری نہیں ہے۔ ‘‘
(بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)
اعتکاف
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود ؑ کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ62)
اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا
سوال: جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کرسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: سخت ضرورت کے سبب کرسکتا ہے اوربیمار کی عیادت کے لئے اورحوائج ضروری کے واسطے باہر جاسکتا ہے ۔
(بدر 21فروری 1907ء صفحہ5)
اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات
ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسر اور خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر (جو دونوں معتکف تھے) کو مخاطب کرکے فرمایا :
اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اوربالکل کہیں آئے جائے ہی نہ۔ چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جاکر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اورہر ایک ضروری بات کرسکتے ہیں۔ ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے ۔ (البدر2جنوری 1903ء صفحہ74 )
اعتکاف چھوڑ کر مقدمہ کی پیشی پر جانے کو ناپسند فرمایا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دِنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے باہر جانا پڑ گیا۔ چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصر کے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟
(سیرت المہدی جلد1صفحہ97)
زکوٰۃ
روزے، حج اورزکوٰۃ کی تاکید
فرمایا:
اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اورجس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔
(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ15)
زکوٰۃ کا نام رکھنے کی وجہ
فرمایا:
زکوٰۃ کا نام اسی لئے زکوٰۃ ہے کہ انسان اس کی بجا آوری سے یعنی اپنے مال کو جو اس کو بہت پیارا ہے لِلّٰہ دینے سے بخل کی پلیدی سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور جب بخل کی پلیدی جس سے انسان طبعاً بہت تعلق رکھتا ہے انسان کے اندر سے نکل جاتی ہے تو وہ کسی حد تک پاک بن کرخدا سے جو اپنی ذات میںپاک ہے ایک مناسبت پیدا کرلیتا ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21صفحہ203، 204)
صدقہ کی حقیقت
فرمایا:
صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا۔ بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے۔ غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلادیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ354)
زیور پر زکوٰۃ
ایک شخص نے عرض کیا کہ زیور پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟فرمایا
جو زیور استعمال میں آتا ہے اور مثلًا کوئی بیاہ شادی پر مانگ کر لے جاتا ہے تو دے دیا جاوے۔ وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے۔ (الحکم 30؍اپریل 1902ء صفحہ7 )
قرض پر زکوٰۃ
سوال پیش ہوا کہ جو روپیہ کسی شخص نے کسی کو قرضہ دیا ہوا ہے کیا اس پر اس کو زکوٰۃ دینی لازم ہے؟ فرمایا:
’’نہیں۔‘‘ ( بدر21فروری 1907ء صفحہ5)
مُعلّق مال پر زکوٰۃ واجب نہیں
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ تجارت کا مال جو ہے جس میں بہت سا حصہ خریداروں کی طرف ہوتاہے اور اُگراہی میں پڑا ہوتاہے اس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا:
جو مال معلّق ہے اس پر زکوٰۃ نہیں جب تک کہ اپنے قبضہ میں نہ آجائے لیکن تاجر کو چاہیے کہ حیلے بہانے سے زکوٰۃ کو نہ ٹال دے۔ آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخراجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتاہے۔ تقویٰ کے ساتھ اپنے مال موجودہ اور معلّق پر نگاہ ڈالے اور مناسب زکوٰۃ دے کر خد اتعالیٰ کو خوش کرتا رہے۔ بعض لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے ۔ (بدر 11جولائی1907ء صفحہ5)
سید کے لئے زکوٰۃ؟
اس سوال کے جواب میں کہ کیا سیدکے لئے زکوٰۃ جائزہے فرمایا:
اصل میں منع ہے اگر اضطراری حالت ہو فاقہ پر فاقہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِلَّا مَااضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ حدیث سے فتویٰ تو یہ ہے کہ نہ دینی چاہئے ۔ اگر سید کو اور قسم کا رزق آتا ہو تو اسے زکوٰۃ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ہاں اگر اضطراری حالت ہو تو اوربات ہے ۔ (الحکم 24؍اگست 1907ء صفحہ5)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر چہ صدقہ اورزکوٰۃ سادات کے لئے منع ہے ۔ مگر اس زمانہ میں جب ان کے گذارہ کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ تو اس حالت میں اگر کوئی سیّد بھوکا مرتا ہواورکوئی اور صورت انتظام کی نہ ہو تو بے شک اُسے زکوٰۃ یا صدقہ میں سے دے دیا جائے۔ ایسے حالات میں ہرج نہیں ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ718)
زکوٰۃ کے روپے سے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب خرید کر تقسیم کرنا
فرمایا:
اگر میری جماعت میں ایسے احباب ہوں جو ان پر بوجہ املاک و اموال و زیورات وغیرہ کے زکوٰۃ فرض ہو تو ان کو سمجھنا چاہئے کہ اس وقت دین اسلام جیسا غریب اور یتیم اور بے کس کوئی بھی نہیں اور زکوٰۃ نہ دینے میں جس قدر تہدید شرع وارد ہے وہ بھی ظاہر ہے اور عنقریب ہے جو منکر زکوٰۃ کافر ہوجائے پس فرض عین ہے جو اسی راہ میں اعانت اسلام میں زکوٰۃ دی جاوے۔ زکوٰۃ میں کتابیں خریدی جائیں اور مفت تقسیم کی جائیں۔ (نشانِ آسمانی۔ روحانی خزائن جلد 4صفحہ409)
صاحب توفیق کے لئے زکوٰۃجائز نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جیسے زکوٰۃ یا صدقہ سادات کے لئے منع ہے ویسا ہی صاحب توفیق کے لئے بھی اس کا لینا جائز نہیں ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے یہ سُنا ہوا ہے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آج کل سخت اضطرار کی حالت میں جبکہ کوئی اور صورت نہ ہو۔ ایک سیّد بھی زکوٰۃ لے سکتا ہے ۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ566)
زکوٰۃ مرکز میں بھیجی جائے
’’چاہئیے کہ زکوٰۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوٰۃ بھیجے۔ ‘‘
(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ83)
مکان اور جواہرات پر زکوٰۃ نہیں
خط سے سوال پیش ہوا کہ مکان میں میرا پانچ سو روپے کا حصہ ہے اس حصہ میں مجھ پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’جواہرات ومکانات پر کوئی زکوٰۃ نہیں ۔ ‘‘
(الحکم 24فروری 1907ء صفحہ13)
اخبار بدر میں اسی سوال کا جواب کسی قدر تفصیل سے درج ہے ۔چنانچہ اخبار نے لکھا کہ ایک شخص کے سوال کے جواب میںفرمایا:
مکان خواہ کتنے ہزار روپے کا ہو، اس پر زکوٰۃ نہیں۔اگر کرایہ پر چلتا ہو تو آمد پر زکوٰۃ ہے۔ایسا ہی تجارتی مال پر جو مکان میں رکھا ہے زکوٰۃ نہیں۔حضرت عمرؓ چھ ماہ کے بعد حساب کر لیا کرتے تھے اور روپیہ پر زکوٰۃ لگائی جاتی تھی۔
(بدر14فروری 1907ء صفحہ8)
صدقہ کا گوشت صرف غرباء کا حق ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ عبدالعزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں یہاں قادیان میں بیمار ہوگئی اور دو جانور صدقہ کئے اور حضور ؑ کی خدمت میں عرض کی کہ کیا صدقہ کا گوشت لنگرخانہ میں بھیجا جاوے۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ غرباء کا حق ہے۔ غرباء کو تقسیم کیا جاوے۔ ‘‘ چنانچہ غرباء کو تقسیم کیا گیا۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ191)
صدقہ کی جنس خریدنا جائز ہے
ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں مُرغیاں رکھتا ہوں اوران کا دسواں حصہ خدا تعالیٰ کے نام پر دیتا ہوں اورگھر سے روزانہ تھوڑا تھوڑا آٹا صدقہ کے واسطے الگ کیا جاتا ہے کیا یہ جائز ہے کہ وہ چوزے اوروہ آٹاخود ہی خریدکر لوںاوراس کی قیمت مدِّمتعلقہ میں بھیج دوں؟ فرمایا:
’’ایسا کرنا جائز ہے ۔ ‘‘
نوٹ: لیکن اس میں یہ خیال کر لینا چاہئے کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسی اشیاء کو اس واسطے خود ہی خرید کرے گا کہ چونکہ خریدوفروخت ہر دو اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں۔ جیسی تھوڑی قیمت سے چاہے خرید لے ۔ تو یہ اس کے واسطے گناہ ہوگا۔
(بدر24؍اکتوبر1907ء صفحہ3)
حضرت مسیح موعود ؑ کااپنی اولاد کے لئے صدقہ ناجائز قراردینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے صدقہ ناجائز خیال فرماتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ619)
حج
حج کی تاکید
فرمایا:
’’ اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو، ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ ‘‘
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ15)
ارکان حج کی حکمتیں
اسلام کے احکام کے بارہ میں مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:۔
مضمون پڑھنے والے نے اس اعتراض کے ساتھ یہ اعتراض بھی جڑ دیا ہے کہ مسلمانوں کے اعتقاد میں حجراسود ایک ایسا پتھر ہے جو آسمان سے گرا تھا معلوم نہیں کہ اس اعتراض سے اُس کو کیا فائدہ ہے۔ استعارہ کے رنگ میں بعض یہ روایتیں ہیں کہ وہ بہشتی پتھر ہے مگر قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بہشت میں کوئی پتھر نہیں ہے بہشت ایسا مقام ہے کہ اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اور اس دنیا کی کوئی چیز بھی بہشت میں نہیں ہے بلکہ بہشتی نعمتیں ایسی نعمتیں ہیں کہ جو نہ کبھی آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سنیں اور نہ دل میں گذریں اور خانہ کعبہ کا پتھر یعنی حجر اسود ایک روحانی امر کے لئے نمونہ قائم کیا گیا ہے٭۔(٭حاشیہ ۔ خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو ۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الحج:38) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے ۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جائو اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جائو ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے ۔ منہ ) اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو نہ خانہ کعبہ بناتا اور نہ اس میں حجر اسود رکھتا لیکن چونکہ اس کی عادت ہے کہ روحانی اُمور کے مقابل پر جسمانی اُمور بھی نمونہ کے طور پر پیدا کر دیتا ہے تا وہ روحانی اُمور پر دلالت کریں اسی عادت کے موافق خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی گئی۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور عبادت دو قسم کی ہے۔ (۱) ایک تذلّل اور انکسار (۲) دوسری محبت اور ایثار۔ تذلل اور انکسار کے لئے اُس نماز کا حکم ہوا جو جسمانی رنگ میں انسان کے ہر ایک عضو کو خشوع اورخضوع کی حالت میں ڈالتی ہے یہاں تک کہ دِلی سجدہ کے مقابل پر اس نماز میں جسم کا بھی سجدہ رکھا گیا تا جسم اور رُوح دونوں اس عبادت میں شامل ہوں اور واضح ہو کہ جسم کا سجدہ بیکار اور لغو نہیں اوّل تو یہ امر مسلّم ہے کہ خدا جیسا کہ روح کا پیدا کرنے والا ہے ایسا ہی وہ جسم کا بھی پیدا کرنے والا ہے اوردونوں پر اُس کا حق خالقیت ہے ماسوا اس کے جسم اور رُوح ایک دوسرے کی تاثیر قبول کرتے ہیں بعض وقت جسم کا سجدہ رُوح کے سجدہ کا محرک ہو جاتا ہے اور بعض وقت روح کا سجدہ جسم میں سجدہ کی حالت پیدا کر دیتا ہے کیونکہ جسم اور رُوح دونوں باہم مرایا متقابلہ کی طرح ہیں۔ مثلاً ایک شخص جب محض تکلف سے اپنے جسم میں ہنسنے کی صورت بناتا ہے تو بسا اوقات وہ سچی ہنسی بھی آجاتی ہے کہ جو رُوح کے انبساط سے متعلق ہے ایسا ہی جب ایک شخص تکلف سے اپنے جسم میں یعنی آنکھوں میں ایک رونے کی صورت بناتا ہے تو بسا اوقات حقیقت میں رونا ہی آجاتا ہے جو رُوح کی درد اوررقت سے متعلق ہے۔ پس جبکہ یہ ثابت ہوچکا کہ عبادت کی اس قسم میں جو تذلل اور انکسار ہے جسمانی افعال کا رُوح پراثر پڑتا ہے اورروحانی افعال کا جسم پر اثر پڑتا ہے۔ پس ایسا ہی عبادت کی دوسری قسم میں بھی جو محبت اور ایثار ہے انہیں تاثیرات کا جسم اوررُوح میں عوض معاوضہ ہے۔ محبت کے عالم میں انسانی روح ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی ہے اور اس کے آستانہ کو بوسہ دیتی ہے۔ ایسا ہی خانہ کعبہ جسمانی طور پر محبان صادق کے لئے ایک نمونہ دیا گیا ہے اور خدا نے فرمایا کہ دیکھو یہ میرا گھر ہے اور یہ حجرِ اسود میرے آستانہ کا پتھرہے ( حاشیہ :۔ خدا کا آستانہ مصدر فیوض ہے یعنی اسی کے آستانہ سے ہریک فیض ملتا ہے پس اسی کے لئے معبّرینلکھتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں حجر اسود کو بوسہ دے تو علوم روحانیہ اس کو حاصل ہوتے ہیں کیونکہ حجر اسود سے مراد منبعِ علم و فیض ہے ۔ منہ)اور ایسا حکم اِس لئے دیا کہ تا انسان جسمانی طور پر اپنے ولولہ عشق اور محبت کو ظاہر کرے سو حج کرنے والے حج کے مقام میں جسمانی طور پر اُس گھر کے گرد گھومتے ہیں ایسی صورتیں بناکر کہ گویا خدا کی محبت میں دیوانہ اور مست ہیں۔زینت دُور کردیتے ہیں سر منڈوا دیتے ہیں اور مجذوبوں کی شکل بناکراس کے گھر کے گرد عاشقانہ طواف کرتے ہیں اور اس پتھر کو خدا کے آستانہ کا پتھر تصور کرکے بوسہ دیتے ہیں اور یہ جسمانی ولولہ رُوحانی تپش اور محبت کو پیدا کر دیتا ہے اور جسم اس گھر کے گرد طواف کرتا ہے اور سنگ آستانہ کو چومتا ہے اور رُوح اُس وقت محبوب حقیقی کے گرد طواف کرتی ہے اور اس کے رُوحانی آستانہ کو چومتی ہے اور اس طریق میں کوئی شرک نہیں ایک دوست ایک دوست جانی کا خط پاکر بھی اُس کو چومتا ہے کوئی مسلمان خانہ کعبہ کی پرستش نہیں کرتا اور نہ حجر اسودسے مرادیں مانگتا ہے بلکہ صرف خدا کا قراردادہ ایک جسمانی نمونہ سمجھا جاتا ہے وبس۔ جس طرح ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں مگر وہ سجدہ زمین کے لئے نہیں ایسا ہی ہم حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں مگروہ بوسہ اس پتھر کے لئے نہیں پتھر تو پتھر ہے جو نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ مگر اُس محبوب کے ہاتھ کا ہے جس نے اُس کو اپنے آستانہ کا نمونہ ٹھہرایا۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ99تا101)
حج کی شرائط
اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دئیے ہیں۔ بعض اُن میں سے ایسے ہیں کہ اُن کی بجا آوری ہر ایک کو میسر نہیں ہے ،مثلًا حج۔یہ اُس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو،پھر راستہ میں امن ہو ،پیچھے جو متعلقین ہیں اُن کے گذارہ کا بھی معقول انتظام ہواوراس قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کرسکتا ہے۔ (الحکم 31جولائی 1902ء صفحہ6)
حضرت مسیح موعود ؑکے حج نہ کرنے کی وجوہات
مخالفوں کے اس اعتراض پر کہ حضرت مرزا صاحب کیوں حج نہیں کرتے ۔ فر ما یا :
کیا وہ یہ چا ہتے ہیں کہ جو خدمت خدا تعالیٰ نے اول رکھی ہے اس کو پس انداز کر کے دوسرا کام شروع کر دیوے۔ یہ یادرکھنا چا ہیے کہ عام لوگوں کی خدمات کی طرح ملہمین کی عادت کام کرنے کی نہیں ہو تی وہ خدا کی ہدا یت اور رہنما ئی سے ہرایک امر کو بجا لا تے ہیں اگر چہ شرعی تمام احکام پر عمل کرتے ہیں مگر ہرایک حکم کی تقدیم وتاخیر ، الٰہی ارادہ سے کرتے ہیں۔اب اگر ہم حج کو چلے جاویں تو گو یا اس خدا کے حکم کی مخالفت کر نیوالے ٹھہریں گے اور مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (اٰل عمران :۹۸) کے بارے میں کتا ب حجج الکرامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر نماز کے فوت ہو نے کا اندیشہ ہو تو حج سا قط ہے حالا نکہ اب جو لوگ جاتے ہیں ان کی کئی نمازیں فوت ہو تی ہیں۔ مامورین کا اوّل فرض تبلیغ ہو تا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال مکہ میں رہے آپؐ نے کتنی دفعہ حج کئے تھے ؟ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا ۔
(البدر 8مئی1903ء صفحہ122 )
ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟
فرمایا: یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ میں رہے ۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے۔ لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے ۔ کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے ؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟اچھا یہ تمام مسلمان علماء اول ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کرکے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے ۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تاکہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو۔ ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے ۔ یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتاہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا۔
(بدر8؍اگست 1907ء صفحہ8)
مخالفین کے اس ا عتراض پر کہ آپ نے باوجود مقدرت کے حج نہیں کیاجواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا
اس اعتراض سے آپ کی شریعت دانی معلوم ہو گئی۔ گویا آپ کے نزدیک مانع حج صرف ایک ہی امر ہے کہ زَادِ راہ نہ ہو۔ آپ کو بوجہ اس کے کہ دنیا کی کشمکش میں عمر کو ضائع کیا اس قدر سہل اور آسان مسئلہ بھی جو قرآن اور احادیث اور فقہ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے معلوم نہ ہوا کہ حج کا مانع صرف زاد راہ نہیں اور بہت سے امور ہیں جو عند اﷲ حج نہ کرنے کے لئے عذرِ صحیح ہیں۔چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہونا ہے۔ اور نیز اُن میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکّہ میں امن کی صورت نہ ہو۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (آلِ عمران:98)عجیب حالت ہے کہ ایک طرف بد اندیش علماء مکّہ سے فتویٰ لاتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے اور پھر کہتے ہیں کہ حج کے لئے جائو اور خود جانتے ہیں کہ جب کہ مکّہ والوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا تو اب مکہ فتنہ سے خالی نہیں اور خدا فرماتا ہے کہ جہاں فتنہ ہو اُس جگہ جانے سے پرہیز کرو۔ سو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسا اعتراض ہے۔ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ فتنہ کے دنوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی حج نہیں کیا اور حدیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ فتنہ کے مقامات میں جانے سے پرہیز کرو۔ یہ کس قسم کی شرارت ہے کہ مکہ والوں میں ہمارا کفر مشہور کرنا اور پھر بار بار حج کے بارے میں اعتراض کرنا۔ نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ شُرُوْرِہِمْ۔ ذرہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے حج کی ان لوگوں کو کیوں فکر پڑ گئی۔ کیا اس میں بجز اس بات کے کوئی اور بھید بھی ہے کہ میری نسبت ان کے دل میں یہ منصوبہ ہے کہ یہ مکّہ کو جائیں اور پھر چند اشرار الناس پیچھے سے مکہ میں پہنچ جائیں اور شورِ قیامت ڈال دیں کہ یہ کافر ہے اسے قتل کرنا چاہیے۔ سو بروقت ورود حکم الٰہی اِن احتیاطوں کی پروا نہیں کی جائے گی مگر قبل اس کے شریعت کی پابندی لازم ہے اور مواضع فتن سے اپنے تئیں بچانا سنّتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ مکہ میں عنانِ حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ان مکفرین کے ہم مذہب ہیں۔ جب یہ لوگ ہمیں واجب القتل ٹھہراتے ہیں تو کیا وہ لوگ ایذاسے کچھ فرق کریں گے اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرہ: 196) پس ہم گناہ گار ہوںگے اگر دیدہ ودانستہ تہلکہ کی طرف قدم اٹھائیں گے اور حج کو جائیں گے۔ اور خدا کے حکم کے بر خلاف قدم اٹھانا معصیت ہے حج کرنا مشروط بشرائط ہے مگر فتنہ اور تہلکہ سے بچنے کے لئے قطعی حکم ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں۔اب خود سوچ لوکہ کیا ہم قرآن کے قطعی حکم کی پیروی کریں یا اس حکم کی جس کی شرط موجود ہے۔ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ415،416)
حج کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات سے نہ گھبراؤ
اخبار الحکم کے ایڈیٹر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ فضل کریم صاحب جنہوں نے اسی سال حج کعبۃ اللہ کا شرف حاصل کیا ہے چند روز سے دارالامان میں تشریف رکھتے ہیں ۔قبل ظہر حضرت اقدس سے ملاقات ہوئی اورانہوں نے اس سال کے ناقابل برداشت تکالیف کا جو حجاج کو برداشت کرنی پڑیں ساراحال بیان کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ انگلش حدود سے نکل کر ٹرکش حدود میں داخل ہوتے ہی ایسی مشکلات کا سامنا ہوا کہ جن کی وجہ سے یقینا کہا جاسکتا ہے کہ یہ مشکلات ایسی ہیں جن سے حج کے بالکل بند ہوجانے کا اندیشہ ہے خصوصاً اہل ہند کے واسطے ۔انہوں نے بیان کیا کہ ٹرکی حدود میں کورنٹائن کی ناقابل برداشت سختیاں وہاں کے ڈاکٹروں اورحاکموں کا سخت درجہ کا حریص اورطامع ہونا اور اپنے فائدے کے لئے ہزاروں جانوں کی ذرہ بھر پرواہ نہ کرنا ‘لوگوں کا سامان خوراک پوشاک وغیرہ بھپارہ میں ضائع کردینا یا نقدی کا ضائع جانا اورپھر جو چیز ایک مصری حاجی دس روپے میں حاصل کرسکتا ہے وہ ہندیوں کو تیس روپے تک بھی بمشکل دینا۔ راستوں میں باوجود یکہ سلطان المعظم نے ہر دومیل پر کنواں تیارکروارکھا ہے عمال اورکارکنوں کا بغیر دوچارآنے کے لئے پانی کا گلاس تک نہ دینا اور پھر راستہ میں باوجود چوکی پہروں کے انتظام کے جو کہ سلطان المعظم کی طرف سے کیا گیا ہے پر لے درجہ کی بدامنی کا ہونا یہانتک کہ انسان اگر راستے سے دوچارگز بھی ادھر ادھر ہو جاوے تو پھر وہ زندہ نہیں بچ سکتا اور پھر ہندیوں سے خصوصاً سخت برتائو ہونا،بات بات پرپٹ جانا اور کوئی داد فریا د نہیں۔ بات بات پر کذّاب،بطال اورالفاظ حقارت سے مخاطب کیا جانا وغیرہ وغیرہ ایسے سامان ہیں کہ بہت ہی مصیبت کا سامنا نظر آتا ہے۔ یہ سارا ماجرا سن کر حضرت اقدس نے فرمایا :
ہم آپ کو ایک نصیحت کرتے ہیں ۔ ایسا ہوکہ ان تمام امور تکالیف سے آ پ کی قوت ایمانی میں کسی قسم کا فرق اورتزلزل نہ آوے ۔ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ابتلاء ہے ۔اس سے پاک عقائد پر اثر نہیں پڑنا چاہیے ۔ ان باتوں سے اس متبرک مقام کی عظمت دلوں میں کم نہ ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بدتر ایک زمانہ گذرا ہے کہ یہی مقدس مقام نجس مشرکوں کے قبضہ میں تھا اور انہوںنے اسے بت خانہ بنارکھا تھا۔ بلکہ یہ تمام مشکلات اور مصائب خوش آئندہ زمانے اورزندگی کے درجات ہیں ۔ دیکھو آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے سے پہلے بھی زمانہ کی حالت کتنی خطر ناک ہوگئی تھی اور کفروشرک اورفساد اور ناپاکی حد سے بڑھ گئے تھے تو اس ظلمت کے بعد بھی ایک نور دنیا میں ظاہر ہوا تھا ۔ اسی طرح اب بھی امید کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان مشکلات کے بعد کوئی بہتری کے سامان بھی پیدا کردے گا اور خداتعالیٰ کوئی سامان اصلاح پیداکردیگا بلکہ اسی متبرک اور مقدس مقام پر ایک اوربھی ایسا ہی خطرناک اورنازک وقت گذر چکا تھا جس کی طرف آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی تھی ۔اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ (الفیل:۲)غرض یہ اب تیسرا واقعہ ہے۔ ا س کی طرف بھی اللہ تعالیٰ ضرور توجہ کرے گا اورخداکا توجہ کرنا تو پھر قہری رنگ میں ہی ہوگا۔ (الحکم 22؍اپریل 1908ء صفحہ1)
مسیح موعود کی زیارت کو حج پر ترجیح دینا
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے متعلق فرمایا :
چونکہ وہ میری نسبت شناخت کر چکے تھے کہ یہی شخص مسیح موعود ہے۔ اس لئے میری صحبت میں رہنا اُن کو مقدم معلوم ہوا اوربموجب نص اَطِیْعُوااللّٰہَ وَ اَطِیعُوْا الرَّسُوْلَ (النسائ:60) حج کا ارادہ انہوں نے کسی دوسرے سال پر ڈال دیا اور ہر ایک دل اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لئے اگر یہ بات پیش آ جائے کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو برس سے اہل اسلام میں انتظار ہے توبموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جا سکتا۔ ہاں باجازت اس کے کسی دوسرے وقت میں جا سکتا ہے۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد20صفحہ49)
مامور من اللہ کی صحبت کا ثواب نفلی حج سے زیادہ ہے
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے بعض استفسارات کے جواب میں حضورؑ نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
اگر آپ چالیس روز تک رُو بحق ہو کر بشرائط مندرجہ نشان آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو تا میری توجہ زیادہ ہو۔ آپ پر کچھ ہی مشکل نہیں لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربّانی۔
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ351،352 )
حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے حج بدل
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیاکہ ایک دفعہ آخری ایام میں حضرت مسیح موعود نے میرے سامنے حج کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ چنانچہ میں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی طرف سے حج کروادیا۔ (حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ احمداللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحب کی طرف سے حج بدل کروایا تھا)۔ اورحافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے۔ حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہوچکے ہیں۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ45)
ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حافظ احمداللہ خان صاحب حج بدل سے پہلے خود بھی حج کرچکے تھے۔ (سیرت حضرت اماں جان حصہ دوم از شیخ محموداحمدصاحب عرفانی صفحہ 249 )
حضرت مسیح موعود ؑ سے حج بدل کے بارہ میں ایک سوال بھی پوچھا گیا تھا ۔چنانچہ خوشاب سے ایک مرحوم احمدی کے ورثاء نے حضرت کی خدمت میں خط لکھا کہ مرحوم کا ارادہ پختہ حج پر جانے کا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی۔ کیا جائز ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی آدمی خرچ دے کر بھیج دیا جاوے؟ فرمایا:
جائز ہے ۔ اس سے متوفّی کو ثواب حج کا حاصل ہوجائے گا۔ (بدر 2مئی1907ء صفحہ2)
قربانی کے مسائل
قربانی کی حکمت
فرمایا:
خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو ۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الحج :38) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے ۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جائو اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو ۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جائو ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے ۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ99 حاشیہ)
دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے
(الحج:38)یعنی دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے گوشت اور خون سچی قربانی نہیں جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ424)
قربانی میںدیگرمذاہب پر اسلام کی فضیلت
عیدالاضحیہ کا خطبہ دیتے ہوئے(جو خطبہ الہامیہ کے نام سے معروف ہے) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
(عربی عبارت سے ترجمہ)میرا گمان ہے کہ یہ قربانیاں جو ہماری اس روشن شریعت میں ہوتی ہیں احاطہ شمار سے باہر ہیں۔ اور ان کو اُن قربانیوں پر سبقت ہے کہ جو نبیوں کی پہلی امتوں کے لوگ کیاکرتے تھے اورقربانیوں کی کثرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے خونوں سے زمین کا منہ چھپ گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اُن کے خون جمع کئے جائیں اور اُن کے جاری کرنے کا ارادہ کیا جائے تو البتہ ان سے نہریں جاری ہو جائیں اور دریا بہہ نکلیںاور زمین کے تمام نشیبوں اور وادیوں میں خون رواں ہونے لگے ۔ اور یہ کام ہمارے دین میں ان کاموں میں سے شمار کیا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوتے ہیں ۔
(خطبہ الہامیہ ۔ روحانی خزائن جلد16صفحہ32۔33)
قربانی صرف صاحبِ استطاعت پر واجب ہے
ایک شخص کا خط حضور ؑ کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی ، مگر اُن لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کردیاہے۔کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو میری قربانی ہوجائے گی؟ فرمایا:
قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہوسکتی۔ اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکراقربانی کرو۔ اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیںتو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں۔ (بدر 14فروری 1907ء صفحہ8)
غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر قربانی کرنا
ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ہم غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر یعنی تھوڑے تھوڑے روپے ڈال کر کوئی جانور مثلًا گائے ذبح کریں تو جائز ہے؟ فرمایا:
ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ تم غیروں کے ساتھ شامل ہوتے ہو۔اگر تم پر قربانی فرض ہے تو بکرا ذبح کرسکتے ہواوراگر اتنی بھی توفیق نہیں تو تم پر قربانی فرض ہی نہیں۔ وہ غیر جو تم کو اپنے سے نکالتے ہیں اور کافر قرار دیتے ہیں وہ تو پسند نہیں کرتے کہ تمہارے ساتھ شامل ہوں تو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ اُن کے ساتھ شامل ہو۔ خدا پر توکل کرو۔ (بدر14فروری1907ء صفحہ8)
بکرے کی عمر کتنی ہو ؟
سوال پیش ہوا ایک سال کا بکرا بھی قربانی کے لئے جائز ہے ؟
فرمایا: مولوی صاحب سے پوچھ لو۔ اہلحدیث و حنفاء کا اس میں اختلاف ہے۔
نوٹ ایڈیٹر صاحب بدر: مولوی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ دو سال سے کم کا بکراقربانی کے لئے اہلحدیث کے نزدیک جائز نہیں۔ (بدرمورخہ23جنوری 1908ء صفحہ2)
کیا ناقص جانور بھی قربانی کے لئے ذبح کیا جاسکتا ہے؟
ایک شخص نے حضرت سے دریافت کیا کہ اگر جانور مطابق علامات مذکورہ درحدیث نہ ملے تو کیا ناقص کو ذبح کرسکتے ہیں؟
فرمایا: مجبوری کے وقت تو جائز ہے مگر آج کل ایسی مجبوری کیا ہے ۔ انسان تلاش کرسکتا ہے اوردن کافی ہوتے ہیں خواہ مخواہ حجت کرنا یا تساہل کرنا جائز نہیں۔
(بدر23جنوری 1908ء صفحہ2)
عیدالاضحی کاروزہ
عیدالاضحیہ کے دن قربانی کرکے اُس کا گوشت کھانے تک جوروزہ رکھا جاتا ہے اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:
مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھے لکھا ہے کہ جو روزہ اس عید کے موقع پر رکھاجاتا ہے وہ سنت نہیں، اس کا اعلان کر دیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق ثابت ہے کہ آپ صحت کی حالت میں قربانی کرکے کھاتے تھے تاہم یہ کوئی ایسا روزہ نہیں کہ کوئی نہ رکھے تو گنہگار ہوجائے یہ کوئی فرض نہیں بلکہ نفلی روزہ ہے اورمستحب ہے جو رکھ سکتا ہو رکھے مگر جو بیمار، بوڑھا یا دوسرا بھی نہ رکھ سکے وہ مکلّف نہیں اورنہ رکھنے سے گنہگار نہیں ہوگا مگر یہ بالکل بے حقیقت بھی نہیں جیسا کہ مولوی بقاپوری صاحب نے لکھا ہے مَیں نے صحت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے پھر مسلمانوں میںیہ کثرت سے رائج ہے اور یہ یونہی نہیں بنالیا گیا بلکہ مستحب نفل ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعامل رہا اور جس پر عمل کرنے والا ثواب پاتا ہے مگر جونہ کرسکے اسے گناہ نہیں۔
(روزنامہ الفضل 17 جنوری 1941ء صفحہ4)
عقیقہ کس دن کرنا چاہیے؟
عقیقہ کی نسبت سوال ہوا کہ کس دن کرنا چاہیے؟
فرمایا:۔ ساتویں دن۔ اگر نہ ہوسکے تو پھر جب خدا توفیق دے۔ ایک روایت میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ چالیس سال کی عمر میں کیا تھا۔ ایسی روایات کو نیک ظن سے دیکھنا چاہیے جب تک قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف نہ ہوں۔
(بدر 13فروری 1908ء صفحہ10)
حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک دوست کی طرف سے عقیقہ کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں قادیان میں تقریبًا ایک ماہ تک ٹھہرا رہا۔ مولوی عبداللہ صاحب سنوری بھی وہاں تھے۔ مولوی صاحب نے میرے لئے جانے کی اجازت چاہی اورمیں نے اُن کے لئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ابھی نہ جائیں۔ اس عرصہ میں مولوی صاحب کو ان کے گھر سے لڑکے کی ولادت کا خط آیا۔ جس پر مولوی صاحب نے عقیقہ کی غرض سے جانے کی اجازت چاہی۔ حضور نے فرمایا ۔ اس غرض کے لئے جانالازمی نہیں۔ آپ ساتویں دن ہمیں یاد دلادیں اورگھر خط لکھ دیں کہ ساتویں دن اس کے بال منڈوادیں۔ چنانچہ ساتویں روز حضور نے دو بکرے منگوا کر ذبح کرادئیے اورفرمایا گھر خط لکھ دو۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ38)
عقیقہ کے واسطے کتنے بکرے مطلوب ہیں؟
ایک صاحب کا حضرت اقدس کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ اگر کسی کے گھر میں لڑکا پیدا ہو تو کیا یہ جائز ہے کہ وہ عقیقہ پر صرف ایک بکرا ہی ذبح کرے؟
فرمایا: عقیقہ میں لڑکے کے واسطے دو بکرے ہی ضروری ہیں۔ لیکن یہ اس کے واسطے ہے جو صاحبِ مقدرت ہے ۔ اگر کوئی شخص دو بکروں کے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا اور ایک خرید سکتا ہے تو اس کے واسطے جائز ہے کہ ایک ہی ذبح کرے اوراگر ایسا ہی غریب ہو کہ وہ ایک بھی قربانی نہیں کرسکتا تو اس پر فرض نہیں کہ خواہ مخواہ قربانی کرے۔ مسکین کو معاف ہے۔
(بدر 26دسمبر1907ء صفحہ2)
عقیقہ کی سنت دو بکرے ہی ہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے تولد فرزند کے عقیقہ کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا:
’’ لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو بکرے قربان کرنے چاہئیں‘‘
میں نے عرض کی کہ ایک بکرا بھی جائز ہے ؟ حضور نے جواب نہ دیا ۔ میرے دوبارہ سوال پر ہنس کر فرمایا: ’’اس سے بہتر ہے کہ عقیقہ نہ ہی کیا جاوے۔‘‘ ایک بکرا کے جواز کا فتویٰ نہ دیا۔ میری غرض یہ تھی کہ بعض کم حیثیت والے ایک بکرا قربانی کرکے بھی عقیقہ کرسکیں۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ155)
نکاح
نکاح کی اغراض
فرمایا:
اسلام نے نکاح کرنے سے علت غائی ہی یہی رکھی ہے کہ تا انسان کو وجہ حلال سے نفسانی شہوات کا وہ علاج میسر آوے جو ابتدا سے خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میںرکھا گیا ہے اور اس طرح اس کو عفت اور پرہیزگاری حاصل ہوکر ناجائز اور حرام شہوت رانیوں سے بچا رہے کیا جس نے اپنی پاک کلام میں فرمایاکہ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ (البقرہ:224) یعنی تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیںاس کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ اس کی غرض صرف یہ تھی کہ تا لوگ شہوت رانی کریں اور کوئی مقصد نہ ہو کیا کھیتی سے صرف لہو و لعب ہی غرض ہوتی ہے یا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو بیج بویا گیا ہے اس کو کامل طور پر حاصل کرلیں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ کیا جس نے اپنی مقدس کلام میں فرمایا مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ(النسائ:45) یعنی تمہارے نکاح کا یہ مقصود ہونا چاہئے کہ تمہیں عفت اور پرہیزگاری حاصل ہو اور شہوات کے بدنتائج سے بچ جائو۔ یہ نہیں مقصود ہونا چاہئے کہ تم حیوانات کی طرح بغیر کسی پاک غرض کے شہوت کے بندے ہو کر اس کام میں مشغول ہو کیا اس حکیم خدا کی نسبت یہ خیال کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی تعلیم میں مسلمانوں کو صرف شہوت پرست بنانا چاہا اور یہ باتیں فقط قرآن شریف میں نہیں بلکہ ہماری معتبر حدیث کی دو کتابیں بخاری اور مسلم میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی روایت ہے اور اعادہ کی حاجت نہیں ہم اسی رسالہ میں لکھ چکے ہیںقرآن کریم تو اسی غرض سے نازل ہوا کہ تا ان کو جو بندہ شہوت تھے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع دلا وے اور ہریک بے اعتدالی کو دور کرے۔ (آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ44)
عورتوں کو کھیتی کہنے کی حکمت
فرمایا:۔
قرآن شریف میں۔۔۔ یہ آیت ہے۔ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ أَ نّٰی شِئْتُمْ (البقرۃ:224)یعنی تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا ہونے کے لئے ایک کھیتی ہیں۔ پس تم اپنی کھیتی کی طرف جس طور سے چاہو آئو۔ صرف کھیتی ہونے کا لحاظ رکھو یعنی اس طور سے صحبت نہ کرو جو اولاد کی مانع ہو۔ بعض آدمی اسلام کے اوائل زمانہ میں صحبت کے وقت انزال کرنے سے پرہیز کرتے تھے اور باہر انزال کر دیتے تھے۔ اس آیت میں خدا نے اُن کو منع فرمایا اور عورتوں کانام کھیتی رکھا یعنی ایسی زمین جس میں ہر قسم کا اناج اُگتا ہے پس اس آیت میں ظاہر فرمایا کہ چونکہ عورت درحقیقت کھیتی کی مانند ہے جس سے اناج کی طر ح اولاد پیدا ہوتی ہے سو یہ جائز نہیں کہ اُس کھیتی کو اولاد پیدا ہونے سے روکا جاوے۔ ہاں اگرعورت بیمار ہو اور یقین ہوکہ حمل ہونے سے اُس کی موت کا خطرہ ہوگا ایسا ہی صحتِ نیّت سے کوئی اور مانع ہو تو یہ صورتیں مستثنیٰ ہیں ورنہ عند الشرع ہرگز جائز نہیں کہ اولاد ہونے سے روکا جائے۔
غرض جب کہ خدا تعالیٰ نے عورت کا نام کھیتی رکھا تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اسی واسطے اُس کا نام کھیتی رکھا کہ اولاد پیدا ہونے کی جگہ اُس کو قرار دیا اور نکاح کے اغراض میں سے ایک یہ بھی غرض رکھی کہ تااس نکاح سے خدا کے بندے پیدا ہوں جو اُس کو یاد کریں۔ دوسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بھی قرار دی ہے کہ تا مرد اپنی بیوی کے ذریعہ اور بیوی اپنے خاوند کے ذریعہ سے بدنظری اور بدعملی سے محفوظ رہے۔ تیسری غرض یہ بھی قرار دی ہے کہ تا باہم اُنس ہوکر تنہائی کے رنج سے محفوظ رہیں۔ یہ سب آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں ہم کہاں تک کتاب کو طول دیتے جائیں۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزئن جلد23صفحہ292، 293 )
منگنی نکاح کے قائم مقام نہیں
سوال:۔ ہمارے ملک کا رواج ہے کہ جب باقاعدہ منگنی ہو جائے اور لڑکی کو زیور اورکپڑے پہنا دئیے جائیں تو وہ نکاح کا قائم مقام سمجھی جاتی ہے اس واسطے اس لڑکی کا کسی اور جگہ نکاح نہیں ہوسکتا؟
جواب:۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا:۔
’’ یہ کوئی دعویٰ نہیں۔ نہ منگنی کوئی شرعی بات ہے جب والدین راضی اور لڑکی راضی ہے تو کسی تیسرے شخص کو بولنے کا حق نہیں۔ ‘‘ (رجسٹر ہدایات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی۔۔۔۔۔ ۵۴۔۶۔۲۶)
(فیصلہ بلوغ کی صورت میں) اگر لڑکی چاہتی ہے کہ اس کا نکاح توڑ دیا جاوے تو۔۔۔۔۔ اس قدر جھگڑے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ ابھی دونوں آپس میں ملے نہ تھے۔ اس وقت اگر باہمی تنازع پیدا ہو گیا تھا تو ان کو خوشی سے اس نکاح کو توڑ دینا چاہئے تھا کیونکہ ایسا نکاح درحقیقت ایک رنگ منگنی کا رکھتا ہے اور یہی فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مجھے زبانی پہنچا ہے۔
(فرمودات ِمصلح موعوددربارہ فقہی مسائل صفحہ191،192)
نکاح میں لڑکی کی رضامندی ضروری ہے
ایک لڑکی کے دوبھائی تھے اور ایک والدہ ۔ ایک بھائی اور والدہ ایک لڑکے کے ساتھ اس لڑکی کے نکاح کے لئے راضی تھے مگر ایک بھائی مخالف تھا۔ وہ اَور جگہ رشتہ پسند کرتا تھا اورلڑکی بھی بالغ تھی۔ اس کی نسبت مسئلہ دریافت کیا گیا کہ اس لڑکی کا نکاح کہا ں کیا جاوے۔ حضرت اقد س علیہ السلام نے دریافت کیا کہ وہ لڑکی کس بھائی کی رائے سے اتفاق کرتی ہے؟ جواب دیا گیاکہ اپنے اس بھائی کے ساتھ جس کے ساتھ والدہ بھی متفق ہے۔ فرمایا :
پھر وہاں ہی اس کا رشتہ ہو جہاں لڑکی اور اس کا بھائی دونوں متفق ہیں۔
(الحکم 10جولائی 1903ء صفحہ1)
احمدی لڑکی کاغیر احمدی سے نکاح جائز نہیں
سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی لڑکی ہے جس کے والدین غیراحمدی ہیں۔والدین اس کی غیراحمدی کے ساتھ شادی کرناچاہتے تھے اورلڑکی ایک احمدی کے ساتھ کرنا چاہتی تھی ۔ والدین نے اصرار کیا، عمر اس کی اسی اختلاف میںبائیس سال تک پہنچ گئی۔ لڑکی نے تنگ آکر والدین کی اجازت کے بغیر ایک احمدی سے نکاح کرلیا ۔ نکاح جائز ہوا یا نہیں؟ فرمایا :
’’ نکاح جائز ہوگیا۔ ‘‘
(بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7)
غیر احمدی کو لڑکی دینے میں گناہ ہے
فرمایا :
غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے ۔ کیونکہ اہلِ کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائزہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتا ہے ۔ اپنی لڑکی کسی غیر احمدی کو نہ دینی چاہیے۔ اگر ملے تو لے بیشک لو۔ لینے میں حرج نہیں اوردینے میں گناہ ہے۔
(الحکم 14؍اپریل 1908ء صفحہ2)
مخالفوں کو لڑکی ہرگز نہ دو
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلّہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا بیٹا عبدالغفور ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کی نانی اپنی پوتی کا رشتہ اس کو دینے کے لئے مجھے زور دے رہی تھی اور میں منظور نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ ایک دن موقعہ پاکر حضور ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی اورکہا کہ حضور ؑ میں اپنی پوتی کا رشتہ اپنے نواسہ کو دیتی ہوں اور یہ میرا بیٹا پسند نہیں کرتا۔ حضور ؑ نے مجھے بلایا اورکہا کہ ’’ یہ رشتہ تم کیوں نہیں لیتے؟‘‘ میں نے عرض کی کہ حضور! یہ لوگ مخالف ہیں اورسخت گوئی کرتے ہیں اس واسطے میں انکار کرتا ہوں۔ حضور ؑنے فرمایا کہ ’’مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دو نہیں‘‘ یعنی مخالفوں کی لڑکی لے لو اور مخالفوں کو دینی نہیں چاہیے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ170،171)
رشتہ کے لئے لڑکیوں کا دِکھانا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ مدت کی بات ہے کہ جب میاں ظفراحمدصاحب کپورتھلوی کی پہلی بیوی فوت ہوگئی اور اُن کو دوسری کی تلاش ہوئی تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے اُن سے کہا کہ ہمارے گھر میں دولڑکیاں رہتی ہیں ۔ ان کو میں لاتا ہوں، آپ اُن کو دیکھ لیں۔ پھر اُن میں سے جو آپ کوپسند ہو اس سے آپ کی شادی کردی جاوے۔ چنانچہ حضرت صاحب گئے اور ان دو لڑکیوں کو بُلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کردیا۔ اورپھر اندر آکر کہا کہ وہ باہر کھڑی ہیں۔ آپ چِک کے اندر سے دیکھ لیں۔ چنانچہ میاں ظفراحمدصاحب نے اُن کو دیکھ لیا اورپھر حضرت صاحب نے اُن کو رخصت کردیا اور اس کے بعد میاں ظفراحمدصاحب سے پوچھنے لگے کہ اب بتاؤ تمہیں کون سی لڑکی پسند ہے۔ وہ نام تو کسی کا جانتے نہ تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے۔ اس کے بعد حضرت صاحب نے میری رائے لی ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے تو نہیں دیکھا۔ پھر آپ خود فرمانے لگے کہ ہمارے خیال میں تو دوسری لڑکی بہتر ہے جس کا منہ گول ہے۔ پھر فرمایا جس شخص کا چہرہ لمبا ہوتا ہے وہ بیماری وغیرہ کے بعد عمومًا بد نما ہوجاتا ہے مگر گول چہرہ کی خوبصورتی قائم رہتی ہے۔ میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ اس وقت حضرت صاحب اور میاں ظفراحمدصاحب اورمیرے سوا اورکوئی شخص وہاں نہ تھا۔ اور نیز یہ کہ حضرت صاحب ان لڑکیوں کو کسی احسن طریق سے وہاں لائے تھے۔ اورپھر ان کو مناسب طریق پر رخصت کردیا تھا، جس سے ان کو کچھ معلوم نہیں ہوا۔ مگر ان میں سے کسی کے ساتھ میاں ظفراحمد صاحب کا رشتہ نہیں ہوا۔ یہ مدت کی بات ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ 240،241)
ہم کفو رشتہ بہتر ہے لیکن لازمی نہیں
ایک دوست کا سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی اپنی ایک لڑکی غیر کفو کے ایک احمدی کے ہاں دینا چاہتا ہے حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے۔اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟
اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
اگر حسبِ مراد رشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنابہ نسبت غیر کفو کے بہتر ہے لیکن یہ امر ایسا نہیں کہ بطور فرض کے ہو۔ ہر ایک شخص ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھ سکتا ہے۔اگر کفو میں وہ کسی کو اس لائق نہیں دیکھتا تو دوسری جگہ دینے میں حرج نہیں اور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہرحال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے ،جائز نہیں ہے۔
(بدر11اپریل 1907ء صفحہ3)
نکاح طبعی ا وراضطراری تقاضاہے
پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
آپ حضرت عائشہ صدیقہؓ کانام لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ جناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن سے بدن لگانا اور زبان چوسنا خلاف شرع تھا۔ اب اس ناپاک تعصب پر کہاں تک روویں۔ اے نادان! جو حلال اور جائز نکاح ہیں ان میں یہ سب باتیں جائز ہوتی ہیں۔ یہ اعتراض کیسا ہے۔ کیا تمہیں خبر نہیں کہ مردی اور رجولّیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے۔ ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں ہے۔ جیسے بہرہ اور گونگاہونا کسی خوبی میں داخل نہیں۔ ہاں! یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے بے نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حُسنِ معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے۔ اس لئے یورپ کی عورتیں نہایت قابل شرم آزادی سے فائدہ اُٹھا کر اعتدال کے دائرہ سے اِدھر اُدھر نکل گئیں اور آخر ناگفتنی فسق و فجور تک نوبت پہنچی۔
اے نادان! فطرت انسانی اوراس کے سچے پاک جذبات سے اپنی بیویوں سے پیار کرنا اور حُسنِ معاشرت کے ہر قسم جائز اسباب کو برتنا انسان کا طبعی اور اضطراری خاصہ ہے۔ اسلام کے بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اُسے برتا اور اپنی جماعت کو نمونہ دیا۔ مسیح نے اپنے نقص تعلیم کی وجہ سے اپنے ملفوظات اور اعمال میں یہ کمی رکھ دی۔ مگر چونکہ طبعی تقاضا تھا اس لئے یورپ اور عیسویت نے خود اس کے لئے ضوابط نکالے۔ اب تم خود انصاف سے دیکھ لو کہ گندی سیاہ بدکاری اور ملک کا ملک رنڈیوں کا ناپاک چکلہ بن جانا، ہائیڈ پارکوں میں ہزاروں ہزار کا روز روشن میںکتوں اور کتیوں کی طرح اوپر تلے ہونا اور آخر اس ناجائز آزادی سے تنگ آ کر آہ و فغاں کرنا اور برسوں دَیُّوثیوں اور سیاہ روئیوں کے مصائب جھیل کر اخیر میں مسودۂ طلاق پاس کرانا، یہ کس بات کا نتیجہ ہے؟ کیا اس مقدّس مطہّر، مزکّی، نبیٔ اُمّیصلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرت کے اس نمونہ کا جس پر خباثت باطنی کی تحریک سے آپ معترض ہیں، یہ نتیجہ ہے اور ممالک اسلامیہ میں یہ تعفّن اور زہریلی ہوا پھیلی ہوئی ہے یا ایک سخت ناقص، نالائق کتاب، پولوسی انجیل کی مخالف فطرت اور ادھوری تعلیم کا یہ اثر ہے؟اب دو زانو ہو کر بیٹھو اور یوم الجزاء کی تصویر کھینچ کر غور کرو۔ (نورالقرآن روحانی خزائن جلد 9صفحہ392، 393)
کم عمری کی شادی جائز ہے
پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرکے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے۔ اول تو نو برس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے۔ صرف ایک راوی سے منقول ہے۔ عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ اُمّی تھے اور دو تین برس کیکمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے۔ جیسے کہ ہمارے ملک میں بھی اکثر ناخواندہ لوگ دو چار برس کے فرق کو اچھی طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں۔ کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نوبرس ہی تھے۔ لیکن پھر بھی کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرے گا مگر احمق کا کوئی علاج نہیں ہم آپ کو اپنے رسالہ میں ثابت کر کے دکھا دیں گے کہ حال کے محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ نوبرس تک بھی لڑکیاں بالغ ہوسکتی ہیں۔ بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہوسکتی ہے اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صدہا لوگوں کی یہ بات چشم دید ہے کہ اسی ملک میں آٹھآٹھ نو نو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے مگر آپ پر تو کچھ بھی افسوس نہیں اور نہ کرنا چاہئے کیونکہ آپ صرف متعصب ہی نہیں بلکہ اول درجہ کے احمق بھی ہیں۔ آپ کو اب تک اتنی بھی خبر نہیں کہ گورنمنٹ کے قانون عوام کی درخواست کے موافق ان کی رسم اور سوسائٹی کی عام وضع کی بِنا پر تیار ہوتے ہیں۔ ان میں فلاسفروں کی طرز پر تحقیقات نہیں ہوتی اور جو بار بار آپ گورنمنٹ انگریزی کا ذکر کرتے ہیں یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے شکر گذار ہیں اور اس کے خیرہ خواہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں رہیں گے مگر تاہم ہم اس کو خطا سے معصوم نہیں سمجھتے اور نہ اس کے قوانین کو حکیمانہ تحقیقاتوں پر مبنی سمجھتے ہیں بلکہ قوانین بنانے کا اصول رعایا کی کثرت رائے ہے۔ گورنمنٹ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تا وہ اپنے قوانین میں غلطی نہ کرے اگر ایسے ہی قوانین محفوظ ہوتے تو ہمیشہ نئے نئے قانون کیوں بنتے رہتے انگلستان میں لڑکیوں کے بلوغ کا زمانہ (۱۸) برس قرار دیا ہے اور گرم ملکوں میں تو لڑکیاں بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں۔ آپ اگر گورنمنٹ کے قوانین کو کالوحی من السماء سمجھتے ہیں کہ ان میں امکان غلطی نہیں۔ تو ہمیں بواپسی ڈاک اطلاع دیں تا انجیل اور قانون کا تھوڑا سا مقابلہ کر کے آپ کی کچھ خدمت کی جائے۔ غرض گورنمنٹ نے اب تک کوئی اشتہار نہیں دیا کہ ہمارے قوانین بھی توریت اور انجیل کی طرح خطا اور غلطی سے خالی ہیں اگر آپ کو کوئی اشتہار پہنچا ہو تو اس کی ایک نقل ہمیں بھی بھیج دیں پھر اگر گورنمنٹ کے قوانین خدا کی کتابوں کی طرح خطا سے خالی نہیں تو ان کا ذکر کرنا یا تو حمق کی وجہ سے ہے یا تعصب کے سبب سے مگر آپ معذور ہیں اگر گورنمنٹ کو اپنے قانون پر اعتماد تھا تو کیوں ان ڈاکٹروں کو سزا نہیں دی جنہوں نے حال میں یورپ میں بڑی تحقیقات سے نو۹ برس بلکہ سات برس کو بھی بعض عورتوں کے بلوغ کا زمانہ قرار دے دیا ہے اور نو ۹برس کی عمر کے متعلق آپ اعتراض کر کے پھر توریت یا انجیل کا کوئی حوالہ نہ دے سکے صرف گورنمنٹ کے قانون کا ذکر کیا اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا توریت اور انجیل پر ایمان نہیں رہا۔ ورنہ نو برس کی حرمت یا تو توریت سے ثابت کرتے یا انجیل سے ثابت کرنی چاہئے تھی۔
(نورالقرآن۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ377تا379)
حضرت عائشہؓ کی آنحضرت ﷺ کے ساتھ شادی پر اعتراض کا جواب
ہندوؤں کے اس اعتراض ،کہ حضرت رسول خدا محمدؐ صاحب کا اپنی بیوی حضرت عائشہ نو سالہ سے ہم بستر ہونا کیا اولاد پیدا کرنے کی نیت سے تھا، کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:۔
یہ اعتراض محض جہالت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ کاش اگر نادان معترض پہلے کسی محقق ڈاکٹر یا طبیب سے پوچھ لیتا تو اس اعتراض کرنے کے وقت بجز اس کے کسی اور نتیجہ کی توقع نہ رکھتا کہ ہریک حقیقت شناس کی نظر میں نادان اور احمق ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر مون صاحب جو علوم طبعی اور طبابت کے ماہر اور انگریزوں میں بہت مشہور محقق ہیں وہ لکھتے ہیں کہ گرم ملکوں میں عورتیں آٹھ یا نو برس کی عمر میں شادی کے لائق ہو جاتی ہیں۔ کتاب موجود ہے تم بھی اسی جگہ ہو اگر طلب حق ہے تو آکر دیکھ لو۔ اور حال میں ایک ڈاکٹر صاحب جنہوںنے کتاب معدن الحکمت تالیف کی ہے۔ وہ اپنی کتاب تدبیر بقاء نسل میں بعینہ یہی قول لکھتے ہیں جو اوپر نقل ہو چکا اور صفحہ ۴۶ میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی تحقیقات سے یہ ثابت ہے کہ نو یا آٹھ یا پانچ یا چھ برس کی لڑکیوں کو حیض آیا۔ یہ کتاب بھی میرے پاس موجود ہے جو چاہے دیکھ لے۔ ان کتابوں میں کئی اور ڈاکٹروں کا نام لے کر حوالہ دیا گیا ہے اور چونکہ یہ تحقیقاتیں بہت مشہور ہیں اور کسی دانا پر مخفی نہیں اس لئے زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں۔ اور حضرت عائشہ کا نو سالہ ہونا تو صرف بے سروپا اقوال میں آیا ہے۔ کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں لیکن ڈاکٹر واہ صاحب کا ایک چشم دید قصہ لینسٹ نمبر ۱۵ مطبوعہ اپریل ۱۸۸۱ء میں اس طرح لکھا ہے کہ انہوں نے ایسی عورت کو جنایا جس کو ایک برس کی عمر سے حیض آنے لگا تھا اور آٹھویں برس حاملہ ہوئی اور آٹھ۸ برس دس۱۰ مہینہ کی عمر میں لڑکا پیدا ہوا۔ (آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ63،64)
تعدّدِازدواج میں عدل کے تقاضے
ایک احمدی نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعدّد ازدواج میں جو عدل کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ (النساء : 35) کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویسا سلوک اس سے کرے یا کچھ اور معنی ہیں؟حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے مثلاً پارچہ جات، خرچ خوراک ،معاشرت حتیٰ کہ مباشرت میں بھی مساوات بَرتے۔یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوارہنا پسند کرے۔خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی اُن کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے۔ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے،تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔تعدّد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کامیلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے۔تو رات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اُس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہانتک کرنی چاہیے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواجِ ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اُس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لیے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔۔۔۔
خدا کے قانون کو اس کی منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اُس سے ایسا فائدہ اُٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سِپربن جاوے ۔ یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہوبلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو۔اگر شریعت کوسِپر بناکرشہوات کی اتباع کے لئے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔ زناکانام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طورپر دِل میں پڑ جانا گناہ ہے۔ دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہئے ،تاکہ فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّالْیَبْکُوْا کَثِیْرًا (توبہ :82) یعنی ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت، کا مصداق بنو۔ لیکن جس شخص کی دنیاوی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اُس کو رقّت اور رونا کب نصیب ہوگا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دور جاپڑتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اگرچہ بعض اشیاء جائز تو کردی ہیں مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے۔خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًاوَّقِیَامًا (الفرقان:65) کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں۔اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے۔ وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لئے شریک پیدا کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی نوبیویاں تھیں اورباوجود اُن کے پھر بھی آپ ؐ ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے۔ایک رات آپؐ کی باری عائشہ صدیقہ ؓکے پاس تھی ، کچھ حصہ رات کا گزر گیا تو عائشہؓ کی آنکھ کھلی۔ دیکھا کہ آپ ؐ موجود نہیں، اُسے شبہ ہوا کہ شاید آپ ؐ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ اُس نے اُٹھ کر ہرایک کے گھر میں تلاش کیا مگر آپؐ نہ ملے ۔آخر دیکھا کہ آپؐ قبرستان میں ہیں اورسجدہ میں رو رہے ہیں۔ اب دیکھو کہ آپؐ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھوڑ کر مُردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپؐ کی بیویاں حظّ نفس یا اتباع شہوت کی بناء پر ہوسکتی ہیں؟ غرض کہ خوب یادرکھوکہ خدا کااصل منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقوٰی کی تکمیل کے لئے اگر ضرورت حقہ پیش آوے تو اور بیوی کرلو۔
(البدر 8جولائی 1904ء صفحہ2)
اسلام نے کثرتِ ازدواج کا راستہ روکا ہے
کثرتِ ازدواج کے اعتراض میں ہماری طرف سے وہی معمولی جواب ہوگا کہ اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اورہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعدّد ازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ۔بلکہ یہ قرآن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی اور بے قیدی کو ردّ کردیا ہے۔ (حجۃ الاسلام۔روحانی خزائن جلد6صفحہ47)
تعدّد ازدواج کی ضرورت اور حکمت
آریہ سماج والے تعدّد ازدواج کونظر نفرت سے دیکھتے ہیں مگر بلا شبہ وہ اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں جس کے لئے اکثر انسان تعدد ازدواج کے لئے مجبور ہوتا ہے ۔ اور وہ یہ کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ اپنی نسل باقی رہنے کے لئے کوئی احسن طریق اختیار کرے اور لاولد رہنے سے اپنے تئیں بچاوے اور یہ ظاہر ہے کہ بسا اوقات ایک بیوی سے اولاد نہیں ہوتی اور یاہوتی ہے اور بباعث لاحق ہونے کسی بیماری کے مر مرجاتی ہے اور یا لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیںاورایسی صورت میں مرد کو دوسری بیوی کی نکاح کے لئے ضرورت پیش آتی ہے۔خاص کر ایسے مرد جن کی نسل کا مفقود ہونا قابلِ افسوس ہوتا ہے اوراُن کی ملکیت اورریاست کو بہت حرج اور نقصان پہنچتا ہے ۔ ایسا ہی اور بہت سے وجوہ تعدد نکاح کے لئے پیش آتے ہیں۔۔۔۔۔۔قرآن شریف میں انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے تعددازدواج کو روا رکھا ہے اور من جملہ ان ضرورتوں کے ایک یہ بھی ہے کہ تابعض صورتوں میں تعددازدواج نسل قائم رہنے کا موجب ہو جائے کیونکہ جس طرح قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے اسی طرح نسل سے بھی قومیں بنتی ہیں اوراس میں کچھ شک نہیں کثرتِ نسل کے لئے نہایت عمدہ طریق تعدّد ازدواج ہے۔پس وہ برکت جس کا دوسرے لفظوں میں نام کثرتِ نسل ہے اس کا بڑا بھاری ذریعہ تعدد ازدواج ہی ہے ۔ ۔۔۔۔ہندوؤں کے وہ بزرگ جو اوتار کہلاتے تھے ان کا تعدّد ازدواج بھی ثابت ہے ۔ چنانچہ کرشن جی کی ہزاروںبیویاں بیان کی جاتی ہیںاور اگر ہم اس بیان کو مبالغہ خیال کریں تو اس میں شک نہیں کہ دس بیس تو ضرور ہوں گی۔راجہ رام چندر کے باپ کی بھی دو بیویاں تھیں اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے وید میں کہیں تعدد ازدواج کی ممانعت نہیں پائی جاتی ورنہ یہ بزرگ لوگ ایسا کام کیوں کرتے جو وید کے برخلاف تھا۔ایساہی باوانانک صاحب جو ہندو قوم میں ایک بڑے مقدس آدمی شمار کئے گئے ہیں ان کی بھی دو بیویاں تھیں۔
اس جگہ مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعدد ازدواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا۔ اعتدال اسی میں ہے کہ ایک مرد کے لئے ایک ہی بیوی ہومگر مجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالات میں کیوں خوانخواہ مداخلت کرتے ہیں جبکہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے۔مگر جبر کسی پر نہیںاورہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تویہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرالیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا اوراگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بے شک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جُرم نقضِ عہد کا مرتکب ہوگا۔لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھاوے اورحکم شرع پر راضی ہووے تواس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بے جا ہوگااوراس جگہ یہ مثل صادق آئے گی کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ہرایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تعدّد ازدواج فرض واجب نہیں کیا ہے ۔خدا کے حکم کی رو سے صرف جائز ہے۔پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اُٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رُو سے ہے اوراس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تواس بیوی کے لئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے اوراگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہو تواس کے لئے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دے دے۔کسی پر جبر تو نہیں لیکن اگر وہ دونوں عورتیں اس نکاح پر راضی ہو جاویں اس صورت میں کسی آریہ کو خوانخواہ دخل دینے اور اعتراض کرنے کا کیاحق ہے۔۔۔۔۔یہ مسئلہ حقوق عباد کے متعلق ہے اور جو شخص دو بیویاں کرتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کا حرج نہیں۔ اگر حرج ہے تو اس بیوی کا جو پہلی بیوی ہے یادوسری بیوی کا ۔پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پاسکتی ہے اوراگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکمِ وقت وہ خلع کراسکتی ہے۔ اوراگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج سمجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھتی ہے ۔ پس یہ اعتراض کرنا کہ اس طور سے اعتدال ہاتھ سے جاتا ہے خوانخواہ کا دخل ہے اوربایں ہمہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو وصیت فرمائی ہے کہ اگر ان کی چند بیویاں ہوں تو ان میں اعتدال رکھیں ورنہ ایک ہی بیوی پر قناعت کریں۔
اور یہ کہنا کہ تعدد ازدواج شہوت پرستی سے ہوتا ہے یہ بھی سراسر جاہلانہ اورمتعصبانہ خیال ہے ۔ہم نے تو اپنی آنکھوں کے تجربہ سے دیکھا ہے کہ جن لوگوں پر شہوت پرستی غالب ہے اگر وہ تعدّد ازدواج کی مبارک رسم کے پابند ہوجائیں تب تو وہ فسق و فجور اورزناکاری اور بدکاری سے رک جاتے ہیں اور یہ طریق ان کو متقی اور پرہیزگار بنادیتا ہے۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ244تا247)
عرب میں صدہا بیویوں تک نکاح کر لیتے تھے اور پھر ان کے درمیان اعتدال بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے ایک مصیبت میں عورتیں پڑی ہوئی تھیں جیسا کہ اس کا ذکر جان ڈیون پورٹ اور دوسرے بہت سے انگریزوں نے بھی لکھا ہے۔ قرآن کریم نے ان صدہا نکاحوں کے عدد کو گھٹا کر چار تک پہنچا دیا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا (النسائ:4)یعنی اگر تم ان میں اعتدال نہ رکھو تو پھر ایک ہی رکھو۔ پس اگر کوئی قرآن کے زمانہ پر ایک نظر ڈال کر دیکھے کہ دنیا میں تعدد ازدواج کس افراط تک پہنچ گیا تھا اور کیسی بے اعتدالیوں سے عورتوں کے ساتھ برتائو ہوتا تھا تو اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ قرآن نے دنیا پر یہ احسان کیا کہ ان تمام بے اعتدالیوں کو موقوف کر دیا لیکن چونکہ قانون قدرت ایسا ہی پڑا ہے کہ بعض اوقات انسان کو اولاد کی خواہش اور بیوی کے عقیمہ ہونے کے سبب سے یا بیوی کے دائمی بیمار ہونے کی وجہ سے یا بیوی کی ایسی بیماری کے عارضہ سے جس میں مباشرت ہرگز ناممکن ہے جیسی بعض صورتیںخروج رحم کی جن میں چھونے کے ساتھ ہی عورت کی جان نکلتی ہے اور کبھی دس دس سال ایسی بیماریاں رہتی ہیں اوریا بیوی کا زمانہ پیری جلد آنے سے یا اس کے جلد جلد حمل دار ہونے کے باعث سے فطرتاً دوسری بیوی کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے اس قدر تعدد کے لئے جواز کا حکم دے دیا اور ساتھ اس کے اعتدال کی شرط لگا دی سو یہ انسان کی حالت پر رحم ہے تا وہ اپنی فطری ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت الٰہی حکمت کے تدارک سے محروم نہ رہے جن کو اس بات کا علم نہیں کہ عرب کے باشندے قرآن شریف سے پہلے کثرت ازدواج میں کس بے اعتدالی تک پہنچے ہوئے تھے ایسے بیوقوف ضرور کثرت ازدواجی کا الزام اسلام پر لگائیں گے مگر تاریخ کے جاننے والے اس بات کا اقرار کریں گے کہ قرآن نے ان رسموں کو گھٹایا ہے نہ کہ بڑھایا۔ (آریہ دھرم روحانی خزائن جلد 10صفحہ44،45)
کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کیلئے جاری نہیں رہ سکتا بلکہ کسی نہ کسی فرد سلسلہ میں یہ دقت آ پڑتی ہے کہ ایک جورو عقیمہ اور ناقابل اولاد نکلتی ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ دراصل بنی آدم کی نسل ازدواج مکرر سے ہی قائم و دائم چلی آتی ہے۔ اگر ایک سے زیادہ بیوی کرنا منع ہوتا تو اب تک نوع انسان قریب قریب خاتمہ کے پہنچ جاتی۔ تحقیق سے ظاہر ہوگا کہ اس مبارک اور مفید طریق نے انسان کی کہاں تک حفاظت کی ہے اور کیسے اس نے اجڑے ہوئے گھروں کو بیک دفعہ آباد کردیا ہے اور انسان کے تقویٰ کیلئے یہ فعل کیسا زبردست ممدومعین ہے۔ خاوندوں کی حاجت براری کے بارے میں جو عورتوں کی فطرت میں ایک نقصان پایا جاتا ہے جیسے ایام حمل اور حیض نفاس میں یہ طریق بابرکت اس نقصان کا تدارک تام کرتا ہے اور جس حق کا مطالبہ مرد اپنی فطرت کی رو سے کرسکتا ہے وہ اسے بخشتا ہے۔ ایسا ہی مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کیلئے مجبور ہوتا ہے مثلاً اگر مرد کی ایک بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بدشکل ہوجائے تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار عورت کی کاروائی کا ہے بے کار اور معطل ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر مرد بدشکل ہو تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کاروائی کی َکل مرد کو دی گئی ہے اور عورت کی تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے۔ ہاں اگر مرد اپنی قوت مردی میں قصور یا عجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کے رو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے۔ اور اگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کرسکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے۔ کیونکہ مرد کی ہر روزہ حاجتوں کی عورت ذمہ دار اور کار برار نہیں ہوسکتی اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کیلئے قائم رہتا ہے۔ جو لوگ قوی الطاقت اور متقی اور پارسا طبع ہیں ان کیلئے یہ طریق نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ281،282)
تعدد ازدواج ،حکم نہیں بلکہ اجازت ہے
ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اسلا م میں جو چا ر بیو یا ںرکھنے کا حکم ہے یہ بہت خراب ہے اور سا ری بد اخلا قیو ں کا سر چشمہ ہے ۔ فر ما یا :
چا ر بیو یا ں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجا زت دی ہے کہ چا ر تک رکھ سکتا ہے اس سے یہ تو لا زم نہیں آتا کہ چا ر ہی کو گلے کا ڈھو ل بنا لے۔ قر آن کا منشا ء تو یہ ہے کہ چو نکہ انسا نی ضروریات مختلف ہو تی ہیں اس واسطے ایک سے لیکر چا ر تک اجا زت دی ہے ایسے لو گ جو ایک اعتر اض کو اپنی طر ف سے پیش کر تے ہیں اور پھر وہ خو د اسلا م کا دعو یٰ بھی کر تے ہیں میں نہیں جا نتا کہ ان کا ایما ن کیسے قائم رہ جا تا ہے ۔وہ تو اسلا م کے معتر ض ہیں ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانو ن بنا نے کے وقت کن کن با تو ں کا لحا ظ ہو تا ہے ۔ بھلا اگرکسی شخص کی ایک بیو ی ہے اسے جذا م ہو گیا ہے یا آتشک میں مبتلا ہے یا اند ھی ہو گئی ہے یا اس قا بل ہی نہیں کہ اولاد اس سے حا صل ہو سکے وغیر ہ وغیر ہ عوارض میں مبتلا ہوجا وے تو اس حا لت میں اب اس خاوند کو کیا کر نا چا ہیئے کیا اسی بیو ی پر قنا عت کر ے ؟ایسی مشکلا ت کے وقت کیا تد بیر پیش کرتے ہیں ۔ یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بد معا شی زنا وغیر ہ میں مبتلا ہو گئی تو کیا اب اس خا وند کی غیر ت تقا ضا کر ے گی کہ اسی کو اپنی پر عصمت بیو ی کا خطا ب دے رکھے ؟ خدا جا نے یہ اسلا م پر ا عتر اض کر تے وقت اندھے کیو ں ہو جا تے ہیں ۔ یہ با ت ہما ر ی سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسا نی ضروریا ت کو ہی پو را نہیں کر سکتا ۔ اب ان مذکو رہ حالتوں میںعیسویت کیا تدبیر بتا تی ہے ؟ قرآن شریف کی عظمت ثا بت ہو تی ہے کہ انسا نی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قا نو ن نہ بنا دیا ہو ۔ اب تو انگلستا ن میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثر ت از دواج اور طلا ق شروع ہو تا جا تا ہے ۔ ابھی ایک لا رڈ کی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسر ی بیو ی کر لی آخر اسے سزا بھی ہو ئی مگر وہ امریکہ میںجا رہا۔
غو ر سے دیکھو کہ انسا ن کے واسطے ایسی ضر ور تیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ یہ ایک سے زیادہ بیویاں کر لے جب ایسی ضرور تیں ہو ں اور انکا علا ج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پو را کر نے کو قرآن شر یف جیسی اتم اکمل کتا ب بھیجی ہے ۔
(الحکم 28فروری 1903ء صفحہ15)
بیویوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے
کثرت ازدواج کے متعلق صاف الفاظ قرآن کریم میں دودو ،تین تین،چار چار کر کے ہی آرہے ہیں مگر اسی آیت میں اعتدال کی بھی ہدایت ہے۔اگر اعتدال نہ ہو سکے اور محبت ایک طرف زیادہ ہو جاوے یا آمدنی کم ہو اور یا قوائے رجولیت ہی کمزورہوں تو پھر ایک سے تجاوز کرنا نہیں چاہیے۔ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے،کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (البقرہ:۱۹۱)۔۔۔۔غرض اگر حلال کو حلال سمجھ کر انسان بیویوں ہی کا بندہ ہو جائے ،تو بھی غلطی کرتا ہے۔ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی منشاء کو نہیں سمجھ سکتا۔اس کا یہ منشاء نہیں کہ بالکل زن مرید ہو کر نفس پرست ہی ہو جائو اوروہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ رہبانیت اختیار کرو بلکہ اعتدال سے کام لو اور اپنے تئیں بے جا کار وائیوں میں نہ ڈالو۔
انبیاء علیہم السلام کے لئے کوئی نہ کوئی تخصیص اگر اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے،تو یہ کوتاہ اندیش لوگوں کی ابلہ فریبی اور غلطی ہے کہ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔دیکھو تورایت میں کاہنوں کے فرقے کے ساتھ مراعات ملحوظ رکھی گئی ہیںاور ہندوؤں کے برہمنوں کے لئے خاص رعائتیں ہیں۔پس یہ نادانی ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی کسی تخصیص پر اعتراض کیا جاوے۔ان کا نبی ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے جو اور لوگوں میں موجود نہیں۔
(الحکم 6مارچ1898ء صفحہ2 )
عورتوں کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے
فرمایا :
ہم اپنی جماعت کو کثرتِ ازدواج کی تاکید کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ کثرتِ ازدواج سے اولاد بڑھاؤ تاکہ اُمت زیادہ ہو۔ نیز بعض اشخاص کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ وہ بدکاری اوربد نظری سے بچنے کے واسطے ایک سے زیادہ شادی کریں یا کوئی اور شرعی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ کثرتِ ازدواج کی اجازت بطور علاج اور دوا کے ہے۔ یہ اجازت عیش وعشرت کی غرض سے نہیں ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ انسان کے ہر امر کا مدار اُس کی نیت پر ہے۔ اگر کسی کی نیت لذات کی نہیں بلکہ نیت یہ ہے کہ اس طرح خدامِ دین پیدا ہوںتو کوئی حرج نہیں۔ محبت کو قطع نظر کرکے اور بالائے طاق رکھ کر یہ اختیاری امر نہیں، باقی امور میں سب بیویوں کوبرابر رکھنا چاہیے مثلًا پارچات، خرچ، خوراک، مکان،معاشرت حتّٰی کہ مباشرت میں مساوات ہونی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان حقوق کو پورے طورپر ادا نہیں کرسکتا تواس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کثرتِ ازدواج کرے۔ بلکہ عورتوں کے حقوق ادا کرنا ایسا تاکیدی فرض ہے کہ اگر کوئی شخص ان کو ادا نہیں کرسکتا تواس کے واسطے بہتر ہے کہ وہ مجرد ہی رہے۔ ایسے لذات میں پڑنے کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پررہے یہ بہتر ہے کہ اِنسان تلخ زندگی بسر کرے اور معصیت میں پڑنے سے بچا رہے۔ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوت کی طرف دیکھے کہ اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہے تو اس معصیت سے بچنے کے واسطے بھی جائز ہے کہ انسان دوسری شادی کرلے۔ لیکن اس صورت میں پہلی بیوی کے حقوق کو ہرگز تلف نہ کرے بلکہ چاہیے کہ پہلی بیوی کی دلداری پہلے سے زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ انسان نے اس کے ساتھ گذاراہوا ہوتا ہے ۔ اورایک گہرا تعلق اس کے ساتھ قائم ہوچکا ہوا ہوتا ہے۔ پہلی بیوی کی رعایت اوردلداری یہاں تک ضروری ہے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دُوسری بیوی کے کرنے سے اُس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اورحد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے ۔ تو اگر وہ صبر کرسکے اورمعصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو اورکسی شرعی ضرورت کا اس سے خون نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر انسان اپنی ضرورتوں کی قربانی اپنی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کردے اورایک ہی بیوی پر اکتفاء کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ اس صورت میں دوسری شادی نہ کرے۔ قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو تقویٰ پر قائم رکھے اور دوسرے اغراض مثل اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اورخویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو۔ اورانہی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چارعورتوں تک نکاح کرلو۔ لیکن اگر اُن میں عدل نہ کرسکو تو پھر یہ فسق ہوگا اوربجائے ثواب کے عذاب حاصِل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے۔دل دکھانا بڑا گناہ ہے اورلڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں۔ جب والدین اُن کو اپنے سے جدا اوردوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا اُمیدیں اُن کے دِلوں میں ہوتی ہیں۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 205،206)
تعدد ازدواج برائیوں سے روکنے کا ذریعہ ہے
(مخالفینِ اسلام)اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے بہت عورتوں کی اجازت دی ہے۔ہم کہتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا دلیر اور مرد میدان معترض ہے جو ہم کو یہ دکھلا سکے کہ قرآن کہتا ہے کہ ضرور ضرور ایک سے زیادہ عورتیں کرو۔ ہاں یہ ایک سچی بات ہے اور بالکل طبعی امر ہے کہ اکثر اوقات انسان کو ضرورت پیش آجاتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتیں کرے۔مثلاً عورت اندھی ہو گئی ہے یا اور کسی خطر ناک مرض میں مبتلا ہو کر اس قابل ہو گئی کہ خانہ داری کے امور سر انجام نہیں دے سکتی اور مرد از راہ ہمدردی یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے علیحدہ کرے یا رحم کی خطر ناک بیماریوں کا شکار ہو کر مرد کی طبعی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی تو ایسی صورت میں نکاح ثانی کی اجازت نہ ہوتو بتلاؤ کہ کیا اس سے بدکاری اور بد اخلاقی کو ترقی نہ ہو گی؟پھر اگر کوئی مذہب یا شریعت کثرت ازواج کو روکتی ہے تو یقیناً وہ بد کاری اور بداخلاقی کی مؤید ہے لیکن اسلام جو دنیا سے بد اخلاقی اور بد کاری کو دور کرنا چاہتا ہے، اجازت دیتا ہے کہ ایسی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک سے زیادہ بیویاں کرے۔ایسا ہی اولاد کے نہ ہونے پر جبکہ لا ولد کے پس مرگ خاندان میں بہت سے ہنگامے اور کشت وخون ہونے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ایک ضروری امر ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کر کے اولاد پیدا کرے بلکہ ایسی صورت میں نیک اور شریف بیبیاں خود اجازت دے دیتی ہیں،پس جس قدر غور کرو گے یہ مسئلہ صاف اور روشن نظر آئے گا۔عیسائی کو تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ اس مسئلہ پر نکتہ چینی کرے کیونکہ ان کے مسلمہ نبی اور ملہم بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بزرگوں نے سات سات سو اور تین تین سو بیبیاں کیں اور اگر وہ کہیں کہ وہ فاسق فاجر تھے،تو پھر ان کو اس بات کا جواب دینا مشکل ہو گا کہ ان کے الہام خدا کے الہام کیوں کر ہو سکتے ہیں؟عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو نبیوں کی شان میں ایسی گستاخیاں جائز نہیں رکھتے ۔علاوہ ازیں انجیل میں صراحت سے اس مسئلہ کو بیان ہی نہیں کیا گیا۔لنڈن کی عورتوں کا زور ایک باعث ہو گیا کہ دوسری عورت نہ کریں۔پھر اس کے نتائج خود دیکھ لو کہ لنڈن اور پیرس میں عفت اور تقویٰ کی کیسی قدر ہے۔
(الحکم 10جنوری 1899ء صفحہ8 )
پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے رشتہ کرنے کو معیوب سمجھنا ٹھیک نہیں
سوال پیش ہوا کہ بعض لوگ یہ عذرکرتے ہیں کہ جس کی عورت آگے موجود ہو اس کو ہم ناطہ نہیں دیتے۔ فرمایا :
’’ پھر وہ اس سے تو مَثْنٰی وثُلََاثَ وَ رُبَاعَ کو بند کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘
(الحکم 10فروری 1907ء صفحہ4)
مہر کی مقدار
مہر کے متعلق ایک شخص نے پو چھا کہ اس کی تعداد کس قدر ہو نی چا ہیے ؟فر ما یا
تر اضی طرفین سے جو ہو اس پر کو ئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقر ر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لو گوں کے مر وجہ مہر سے ہوا کر تی ہے ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہو تی ہے اور محض نمود کے لیے لا کھ لا کھ رو پے کا مہر ہو تا ہے صرف ڈراوے کے لیے یہ لکھا جا یا کرتاہے کہ مردقابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہو تی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی ۔
میر امذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنا زعہ آپڑے تو جب تک اس کی نیت یہ ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا ورغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقر ر شدہ ہے تب تک مقررشدہ نہ دلا یا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مد نظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیو نکہ بد نیتی کی اتباع نہ شریعت کر تی ہے اور نہ قانون ۔
(بدر8مئی1903ء صفحہ123)
حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہو
سوال:۔ ایک عورت اپنا مہرنہیں بخشتی ۔
جواب:۔ یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چا ہیے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کر نا چاہیے،پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر اپنا مہر خاوند کو بخش دیتی ہیں۔یہ صرف رواج ہے جو مروت پر دلالت کرتا ہے۔
سوال:۔ اور جن عورتوں کا مہر مچھر کی دومن چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے ؟
جواب:۔ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ:۲۸۷)
اس کا خیال مہر میں ضرور ہو نا چاہیئے خاوند کی حیثیت کو مد نظر رکھنا چاہیئے اگر اس کی حیثیت دس روپے کی نہ ہو تو وہ ایک لاکھ روپے کا مہر کیسے ادا کر یگا اور مچھروں کی چربی تو کوئی مہر ہی نہیں یہ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا میںداخل ہے ۔
(البدر 16؍مارچ1904ء صفحہ6)
واجب الادا مہر کی ادائیگی لازمی ہے
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتی تھی تُو اپنی نصف نیکیاں مجھے دے دے تو بخش دُوں۔ خاوند کہتا رہا کہ میرے پاس حسنات بہت کم ہیں بلکہ بالکل ہی نہیں ہیں۔ اب وہ عورت مرگئی ہے خاوند کیا کرے؟
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ :۔
اسے چاہیے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دے دے۔ اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں میں شرعی حصہ لے سکتی ہے اور علی ہٰذا القیاس خاوند بھی لے سکتا ہے ۔
(البدر 5مارچ1905ء صفحہ2)
مہر کی ادائیگی سے قبل مہر کی معافی نہیں ہوسکتی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
عورت کو مہر ادا کئے جانے سے پہلے معافی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔وہ مال اس کا حق ہے اس کو پہلے وہ مال ملنا چاہئے۔ پھر اگر وہ چاہے تو واپس کردے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ ہے۔ آپ نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم کے بیان کرنے پر کہ ان کی بیویوں نے مہر معاف کردیا ہے۔ فرمایا کہ پہلے ان کو مہر دے دو۔ پھر وہ واپس دے دیں تو سمجھو کہ معاف کردیا ہے۔ جب انہوں نے روپیہ دیا تو بیویوں نے لے لیا اورکہا کہ اب تو ہم معاف نہیں کرتیں۔
بعض فقہاء کا قول ہے کہ مہر دے کر فورًا بھی واپس ہوجائے تو جائز نہیں کچھ مدت تک عورت کے پاس رہے ۔ تب واپس کرے توجائز سمجھا جائے گا۔
( فرمودات مصلح موعودؓ دربارہ فقہی مسائل صفحہ209)
ایک مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے تحریرفرمایا:۔
میں فیصلہ کرتا ہوں کہ مہرسالم پانچ سو روپیہ مدعیہ کو دلایا جائے کیونکہ شریعت کی رو سے عورت کا حق ہے اور بسا اوقات اس کی معافی بھی قابل تسلیم نہیں کیونکہ اس کی ایک رنگ میں ماتحت حالت اس کی معافی کی وقعت کو اصول شرعیہ کے رو سے بہت کچھ گرادیتی ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے۔ پس قبل از ادائیگی مہر معافی کوئی حقیقت نہیں رکھتی خصوصًا جبکہ ہمارے ملک میں عورتوں میں یہ عام خیال ہو کہ مہر صرف نام کا ہوتا ہے بلکہ بعض اس کی وصولی کو ہتک خیال کرتی ہیں۔ ( فرمودات مصلح موعود ؓ دربارہ فقہی مسائل۔ صفحہ212)
اعلانِ نکاح ضروری ہے
میاں اﷲ بخش صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ حضور یہ جو براتوں کے ساتھ باجے بجائے جاتے ہیں۔اس کے متعلق حضور کیا حکم دیتے ہیں۔فرمایا :
فقہاء نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اور یہ اس لیے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے۔ہم کو مقصودبالذات لینا چاہئے ۔اعلان کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے یا کوئی اپنی شیخی اور تعلّی کااظہار مقصود ہے۔دیکھا گیا ہے کہ بعض چپ چاپ شادیوں میں نقصان پیدا ہوئے ہیں۔یعنی جب مقدمات ہوئے ہیں تو اس قسم کے سوال اُٹھائے گئے ہیں۔غرض ان خرابیوں کو روکنے کے لیے اور شہادت کے لیے اعلان بالدّف جائز ہے اور اس صورت میں باجا بجانا منع نہیں ہے،بلکہ نسبتوں کی تقریب پر جو شکر وغیرہ بانٹتے ہیں۔دراصل یہ بھی اسی غرض کے لیے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔مگراب یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے اور اس میں بھی بہت سی باتیں اور پیدا کی گئی ہیں۔پس ان کو رسوم نہ قرار دیا جاوے بلکہ یہ رشتہ ناطہ کو جائز کرنے کے لیے ضروری امور ہیں۔یاد رکھو جن امور سے مخلوق کو فائدہ پہنچتاہے،شرع اس پر ہرگز زد نہیں کرتی۔کیونکہ شرع کی خود یہ غرض ہے کہ مخلوق کو فائدہ پہنچے۔
آتشبازی اور تماشا وغیرہ یہ بالکل منع ہیں،کیونکہ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیں ہے۔اور باجابجانا بھی اسی صورت میں جائز ہے،جبکہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جاوے اور نسب محفوظ رہے،کیونکہ اگر نسب محفوظ نہ رہے تو زنا کا اندیشہ ہوتا ہے۔جس پر خدا نے بہت ناراضی ظاہر کی ہے۔یہاں تک کہ زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔اس لیے اعلان کا انتظام ضروری ہے؛البتہ ریاکاری،فسق فجور کے لیے یا صلاح و تقویٰ کے خلاف کوئی منشا ہو تو منع ہے۔شریعت کا مدار نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے۔
لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا (البقرہ:۲۸۷)باجا کے متعلق حرمت کا کوئی نشان بجز اس کے کہ وہ صلاح وتقویٰ کے خلاف اور ریاکاری اور فسق و فجور کے لیے ہے،پایا نہیں جاتا اور پھر اعلان بالدّف کو فقہاء نے جائز رکھا ہے اور اصل اشیاء حلّت ہے،اس لیے شادی میں اعلان کے لیے جائز ہے۔ (الحکم17؍اکتوبر1902ء صفحہ7،8 )
ولیمہ
تعریفِ ولیمہ پوچھی گئی تو فرمایا :
ولیمہ یہ ہے کہ نکاح کرنے والا نکاح کے بعد اپنے احباب کو کھانا کھلائے۔
(الحکم 10فروری 1907ء صفحہ11)
اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا:
نکاح میں کوئی خرچ نہیں، طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہوگیا۔ بعدازاں ولیمہ سنت ہے۔ سو اگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے۔
(بدر 6فروری 1908ء صفحہ6)
شادی کے موقعہ پر لڑکیوں کا گانا
سوال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گھر میں گاتی ہیں۔وہ کیسا ہے؟ فرمایا :
اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے۔اگر گیت گندے اور ناپاک نہ ہوں،تو کوئی حرج نہیں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے۔
مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمرؓ نے ان کو منع کیا۔اس نے کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے ہیں۔تو آپؐ نے منع نہیں کیابلکہ آپؐ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو آپؐ نے اس کے لیے ’’رحمت اﷲ‘‘ فرمایا اور جس کو آپؐ یہ فرمایا کرتے تھے وہ شہید ہو جایا کرتا تھا۔غرض اس طرح پر اگر فسق و فجور کے گیت نہ ہوںتو منع نہیں۔مگر مردوں کو نہیں چاہیے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں۔یہ یادرکھو کہ جہاں ذرا بھی مظنّہ فسق و فجور کا ہو وہ منع ہے۔
بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفیٰ
یہ ایسی باتیں ہیں کہ انسان ان میں خود فتویٰ لے سکتا ہے جو امر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے،مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے وہ منع ہے۔اور پھر جو اسراف کرتا ہے،وہ سخت گناہ کرتا ہے۔اگر ریاکاری کرتا ہے،تو گناہ ہے۔غرض کوئی ایسا امر جس میں اسراف، ریا،فسق،ایذائے خلق کا شائبہ ہو وہ منع ہے اور جو اُن سے صاف ہو وہ منع نہیں،گناہ نہیں۔ کیونکہ اصل اشیاء کی حلّت ہے۔ (الحکم 17؍اکتوبر1902ء صفحہ8)
نکاح پر باجا اور آتش بازی
نکاح پرباجا بجانے اورآتش بازی چلانے کے متعلق سوال ہوا فر ما یا کہ :۔
ہما رے دین کی بنایُسر پر ہے عسرپرنہیں اور پھر اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ضروری چیزہے باجوں کا وجود آنحضرت ﷺکے زما نہ میں نہ تھا۔اعلان نکاح جس میں فسق وفجورنہ ہو۔جائزہے بلکہ بعض صورتوں میںضروری شے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے پھر وراثت پراثر پڑتا ہے ۔اس لیے اعلان کر نا ضروری ہے مگر اس میںکو ئی ایسا امرنہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو۔رنڈی کا تما شا یاآتش با زی فسق وفجوراور اسراف ہے یہ جائزنہیں ۔
با جے کے ساتھ اعلان پر پوچھا گیا کہ جب برات لڑکے والوں کے گھرسے چلتی ہے کیا اسی وقت سے با جا بجتا جاوے یا نکاح کے بعد ؟فر ما یا :۔ایسے سوالات اورجزو دَر جزو نکالنابے فائدہ ہے۔اپنی نیت کو دیکھو کہ کیا ہے اگر اپنی شان وشوکت دکھانا مقصود ہے تو فضول ہے اور اگر یہ غرض ہے کہ نکاح کا صرف اعلان ہو تو اگر گھر سے بھی با جا بجتا جاوے توکچھ حرج نہیںہے۔ اسلامی جنگوں میں بھی توباجابجتا ہے وہ بھی ایک اعلان ہی ہو تا ہے ۔(الحکم24؍اپریل1903ء صفحہ10)
مہرنامہ رجسٹری کروانا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح حضرت صاحب نے نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ کیا تو مہر چھپن ہزار (۵۶۰۰۰)روپیہ مقرر کیا گیا تھا اور حضرت صاحب نے مہرنامہ کوباقاعدہ رجسٹری کرواکر اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں اورجب حضرت صاحب کی وفات کے بعد ہماری چھوٹی ہمشیرہ امۃ الحفیظ بیگم کا نکاح خان محمد عبداللہ خان صاحب کے ساتھ ہوا تو مہر(۱۵۰۰۰) مقرر کیا گیا اوریہ مہرنامہ بھی باقاعدہ رجسٹری کرایا گیا تھا۔ لیکن ہم تینوں بھائیوں میں سے جن کی شادیاں حضرت صاحب کی زندگی میں ہوگئی تھیں کسی کا مہرنامہ تحریرہوکر رجسٹر ی نہیں ہوا اور مہر ایک ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا۔ دراصل مہرکی تعداد زیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت اورکسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی تھی اورمہرنامہ کا باقاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونا یہ شخصی حالات پر موقوف ہے۔ چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیداد سرکار انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اوراس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کا احتمال ہوسکتا تھا۔ اس لئے حضرت صاحب نے مہرنامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میں یہی بہتر ہوتا ہے کہ مہرنامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہوتو کم از کم باقاعدہ طورپر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگوں کی شہادتیں اس پر ثبت ہوجاویں۔ کیونکہ دراصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے۔ پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبطِ تحریر میں آجاوے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ338،339)
نکاح کے موقع پر زائد شرط رکھنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہمیاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسماۃ تابی حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک خادمہ تھی۔ اس کی ایک نواسی کا نکاح ایک شخص مسمی فقیرمحمد سکنہ قادیان سے تجویز ہوا۔ حضرت صاحب نے فقیرمحمد کو ایک اشٹام کا کاغذ لانے کی ہدایت فرمائی۔ جب وہ کاغذ لے آیا تو حضرت صاحب نے گول کمرہ میں میری موجودگی میں فقیر محمد کی طرف سے تحریر ہونے کے لئے مضمون بنایا۔ کہ میں اس عورت سے نکاح کرتا ہوں اور ۔/۵۰۰ روپیہ مہر ہوگا اور اس کے اخراجات کا مَیں ذِمہ دار ہوں گا اور اس کی رضامندی کے بغیر (یا یہ فقرہ تھا کہ اس کی حیات تک) دوسرا نکاح نہ کروں گا۔ یہ کاغذ آپ نے مجھے اشٹام پر نقل کرنے کے لئے دیا۔ چنانچہ مَیں نے وہیں نقل کردیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ نکاح میں زائد شرائط مقرر کرنا جائز ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے ۔۔۔۔کہ نکاحِ ثانی کے متعلق عورت کی طرف سے یہ شرط بھی ہوسکتی ہے کہ میرا خاوند میرے ہوتے ہوئے نکاح ثانی نہیں کرے گا۔ کیونکہ تعدد ازدواج اسلام میں جائز ہے نہ یہ کہ اس کا حکم ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ590)
حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک لڑکی کی طرف سے ولی بننا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میر ے نکاح کا خطبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پڑھا تھا لیکن حضرت مسیح موعود ؑ نے خود میری اہلیہ کی طرف سے اپنی زبان مبارک سے ایجاب و قبول کیا تھا۔ کیونکہ حضور ولی تھے۔ میں اس کو اپنی نہایت ہی خوش قسمتی سمجھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ نکاح تو حضور نے کئی ایک کے پڑھائے ہوں گے لیکن اس طرح کا معاملہ شاید ہی کسی اور سے ہوا ہو۔ سب کچھ والد صاحب مرحوم و مغفور پر حضرت اقدس کی خاص شفقت کانتیجہ تھا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ125،126)
بیوگان کا نکاح کرلینا بہتر ہے
عورتوں کو خصوصی نصائح کرتے ہوئے فرمایا:۔
اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو۔ دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیساکوئی بڑا بھار ا گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ یا رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہو گئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے۔عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کرلینا نہایت ثواب کی بات ہے۔ ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے۔ ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود *** اور شیطان کی چیلیاں ہیں۔ جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے۔ جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے، اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلا ش کرے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے۔ ( الحکم 10جولائی 1902ء صفحہ7)
ایک شخص کا سوال حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے ۔اس کے نکاح کے وقت عمر، اولاد، موجودہ اسباب ، نان ونفقہ کا لحاظ رکھنا چاہیے یاکہ نہیں؟یعنی کیا بیوہ باوجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جائے؟ فرمایا:۔
ُُبیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکا ح کا حکم ہے ۔ چونکہ بعض قومیں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے ۔اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر بیوہ کا نکا ح کیا جائے ۔ نکاح تو اسی کا ہو گا جو نکاح کے لائق ہے ۔ اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے ۔بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہو تی ہیں۔بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں۔ مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق حال ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یاایک بیوہ کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے ۔ ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑکر خاوند کرایا جاوے ۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دینا چاہیے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔
(بدر 10؍اکتوبر 1907ء صفحہ11)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بیواؤں کے نکاح ثانی کے متعلق جب پشاور سے چارعورتیں آئی تھیں دو اُن میں سے بیوہ، جوان اور مال دار تھیں۔ مَیں ان کو حضرت ؑ کے پاس لے گئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ جوان عورتوں کو نکاح کرلینا چاہیے‘‘میں نے کہا جن کا دِل نہ چاہے وہ کیا کریں؟ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کا کون ذمہ دار ہو؟آپ نے فرمایااگر عورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اورتقویٰ سے گذارسکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کرلے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ231)
سکھ عورت مسلمان کے نکاح میں رہ سکتی ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سردار سُندرسنگھ صاحب ساکن دھرم کوٹ بگہ تحصیل بٹالہ جب مسلمان ہوگئے تو ان کا اسلامی نام فضل حق رکھا گیا تھا۔ ان کی بیوی اپنے آبائی سکھ مذہب پر مصر تھی ۔ سردار فضل حق صاحب چاہتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہوجائے۔ ایک دن حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ اگر وہ مسلمان نہیں ہوتی تو نہ ہووے ، اپنے مذہب پر رہتے ہوئے آپ کے گھر میں آباد رہے، اسلام میں جائز ہے ۔ ‘‘ کوشش کی گئی لیکن وہ سردار صاحب کے پاس نہ آئی۔ آخر سردار فضل حق صاحب کی شادی لاہور میں ہوگئی جس سے اولاد ہوئی۔
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ257)
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کاکم عمری میں نکاح
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کا نکاح سیدہ مریم بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب مرحوم و مغفور(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) سے ہوا تو میں آگر ہ سے آئی ہوئی تھی۔ مغرب کے بعد نکاح ہوا۔ مَیں مبارک دینے آئی تو کوئی عورت سیدہ مریم بیگم کو گود میں اٹھاکر حضور ؑ کے پاس لائی۔ حضور علیہ السلام اس وقت اُمّ ناصراحمدصاحب کے صحن میں پلنگ پر استراحت فرماتھے۔ حضور علیہ السلام نے سیدہ مریم بیگم کے سرپر ہاتھ پھیرا اورمسکرائے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ244،245)
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمار ے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے۔ میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسّو کو طلاق دے دی ہوئی تھی۔ حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جاکر رات رہے اوردوبارہ نکاح کرادیا اوررات کو دیر تک وعظ بھی کیا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ116،117)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دے دی۔ پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں ۔ چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے۔ اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہوگیا۔ (یہاں رجعی اور بائن کے الفاظ اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں ہوئے۔ یہاں بائن سے مراد دراصل طلاق بتّہ ہے۔ناقل )
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اورحضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہوجائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک کرکے شادی کروائی تھی۔ (سیرت المہدی جلد1 صفحہ761 )
حلالہ حرام ہے
اسلام سے پہلے عرب میں حلالہ کی رسم تھی لیکن اسلام نے اس ناپاک رسم کو قطعاً حرام کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے لوگوں پر *** بھیجی ہے جو حلالہ کے پابند ہوں چنانچہ ابن عمر سے مروی ہے کہ حلالہ زنا میں داخل ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حلالہ کرنے کرانے والے سنگسار کئے جاویں۔ اگر کوئی مطلقہ سے نکاح کرے تو نکاح تب درست ہوگا کہ جب واقعی طور پر اس کو اپنی جورو بنا لے اور اگر دل میں یہ خیال ہوکہ وہ اس حیلہ کے لئے اس کو جورو بناتا ہے کہ تا اس کی طلاق کے بعد دوسرے پر حلال ہو جائے تو ایسا نکاح ہرگز درست نہیں اور ایسا نکاح کرنے والا اس عورت سے زنا کرتا ہے اور جو ایسے فعل کی ترغیب دے وہ اس سے زنا کرواتا ہے۔ غرض حلالہ علمائے اسلام کے اتفاق سے حرام ہے اور اَئمہ اور علماء سلف جیسے حضرت قتادہ۔ عطا اور امام حسن اور ابراہیم نخعی اور حسن بصری اور مجاہد اور شعبی اور سعید بن مسیب اور امام مالک، لیث، ثوری، امام احمد بن حنبل وغیرہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور سب محققین علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں اور شریعت اسلام اور نیز لغت عرب میں بھی زوج اس کو کہتے ہیں کہ کسی عورت کو فی الحقیقت اپنی جورو بنانے کے لئے تمام حقوق کو مدنظر رکھ کر اپنے نکاح میں لاوے اور نکاح کا معاہدہ حقیقی اور واقعی ہو نہ کہ کسی دوسرے کے لئے ایک حیلہ ہو اور قرآن شریف میں جو آیا ہے حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ( البقرۃ:231 ) اس کے یہی معنے ہیں کہ جیسے دنیا میںنیک نیتی کے ساتھ اپنے نفس کی اغراض کے لئے نکاح ہوتے ہیں ایسا ہی جب تک ایک مطلقہ کے ساتھ کسی کا نکاح نہ ہو اور وہ پھر اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے تب تک پہلے طلاق دینے والے سے دوبارہ اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ ( نوٹ۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ شرط جو ہے کہ اگر تین طلاق تین طہر میں جو تین مہینہ ہوتے ہیں دی جائیں۔ تو پھر ایسی عورت خاوند سے بالکل جدا ہو جاوے گی اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا خاوند اس کا اس کو طلاق دیدے تو صرف اسی صورت میں پہلے خاوند کے نکاح میں آ سکتی ہے ورنہ نہیں یہ شرط طلاق سے روکنے کے لئے ہے تا ہریک شخض طلاق دینے میں دلیری نہ کرے اور وہی شخص طلاق دے جس کو کوئی ایسی مصیبت پیش آگئی ہے جس سے وہ ہمیشہ کی جدائی پر راضی ہوگیا اور تین مہینے بھی اس لئے رکھے گئے تا اگر کوئی مثلاً غصہ سے طلاق دینا چاہتا ہو تو اس کا غصہ اتر جائے۔ منہ) ۔ سو آیت کا یہ منشاء نہیں ہے کہ جورو کرنے والا پہلے خاوند کے لئے ایک راہ بنادے اور آپ نکاح کرنے کے لئے سچی نیت نہ رکھتا ہو بلکہ نکاح صرف اس صورت میں ہوگا کہ اپنے پختہ اور مستقل ارادہ سے اپنے صحیح اغراض کو مدنظر رکھ کر نکاح کرے ورنہ اگر کسی حیلہ کی غرض سے نکاح کرے گا تو عندالشرع وہ نکاح ہرگز درست نہیں ہوگا اور زنا کے حکم میں ہوگا۔ لہٰذا ایسا شخص جو اسلام پر حلالہ کی تہمت لگانا چاہتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ مذہب نہیں ہے اور قرآن اور صحیح بخاری اور مسلم اور دیگر احادیث صحیحہ کی رو سے حلالہ قطعی حرام ہے اور مرتکب اس کا زانی کی طرح مستوجب سزا ہے۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ66،67)
نکاح خواں کو تحفہ دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میری شادی سے پہلے حضرت صاحب کومعلوم ہوا تھا کہ آپ کی دوسری شادی دلّی میں ہوگی ۔ چنانچہ آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس اس کا ذکر کیا تو چونکہ اس وقت اس کے پاس تمام اہل حدیث لڑکیوں کی فہرست رہتی تھی اورمیرصاحب بھی اہلِ حدیث تھے اور اس سے بہت میل ملاقات رکھتے تھے ۔ اس لئے اس نے حضرت صاحب کے پاس میر صاحب کا نام لیا۔ آپ نے میر صاحب کو لکھا۔ شروع میں میر صاحب نے اس تجویز کو بوجہ تفاوتِ عمر ناپسند کیا مگر آخر رضامند ہوگئے اورپھر حضرت صاحب مجھے بیاہنے دلّی گئے۔ آپ کے ساتھ شیخ حامد علی اور لالہ ملاوامل بھی تھے۔ نکاح مولوی نذیر حسین نے پڑھا تھا۔ یہ ۲۷؍محرم ۱۳۰۲ھ بروز پیر کی بات ہے ۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت صاحب نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین کو پانچ روپے اور ایک مصلّٰی نذردیا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود کی عمر پچاس سال کے قریب ہوگی۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے تایا میرے نکاح سے ڈیڑھ دو سال پہلے فوت ہو چکے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ تایاصاحب ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے تھے جو کہ تصنیف براہین کا آخری زمانہ تھا اور والدہ صاحبہ کی شادی نومبر ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی اورمجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے شادی کا دن اتوار مقرر ہوا تھا مگر حضرت صاحب نے کہہ کر پیر کروادِیا تھا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ51)
حیض کے دنوں میں عورتوں سے کیسے تعلقات ہوں
سوال : مسلمان حیض کے دنوں میں بھی عورت سے جدا نہیں ہوتے۔
الجواب۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان بہتان طراز لوگوں کا یہ کیسا اعتراض ہے یہ لوگ جھوٹ بولنے کے وقت کیوںخدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِی الْمَحِیْضِ وَ لَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ ( البقرۃ :۲۲۳) یعنی حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کرو اور ان کے نزدیک مت جائو یعنی صحبت کے ارادہ سے جب تک کہ وہ پاک ہولیں۔ اگر ایسی صفائی سے کنارہ کشی کا بیان وید میں بھی ہو تو کوئی صاحب پیش کریں لیکن ان آیات سے یہ مراد نہیں کہ خاوند کو بغیر ارادہ صحبت کے اپنی عورت کو ہاتھ لگانا بھی حرام ہے یہ تو حماقت اور بیوقوفی ہوگی کہ بات کو اس قدر دور کھینچا جائے کہ تمدن کے ضرورات میں بھی حرج واقع ہو اور عورت کو ایام حیض میں ایک ایسی زہر قاتل کی طرح سمجھا جائے جس کے چھونے سے فی الفور موت نتیجہ ہے۔ اگر بغیر ارادہ صحبت عورت کو چھونا حرام ہوتا تو بیچاری عورتیں بڑی مصیبت میں پڑ جاتیں۔ بیمار ہوتیں تو کوئی نبض بھی دیکھ نہ سکتا، گرتیں تو کوئی ہاتھ سے اٹھا نہ سکتا اگر کسی درد میں ہاتھ پیر دبانے کی محتاج ہوتیں تو کوئی دبا نہ سکتا اگر مرتیں تو کوئی دفن نہ کر سکتا کیونکہ ایسی پلید ہوگئیں کہ اب ہاتھ لگانا ہی حرام ہے سو یہ سب نافہموں کی جہالتیں ہیں اور سچ یہی ہے کہ خاوند کو ایام حیض میں صحبت حرام ہو جاتی ہے لیکن اپنی عورت سے محبت اور آثار محبت حرام نہیں ہوتے۔
(آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ48،49 )
وٹے سٹے کی شادی اگر مہر دے کر ہو تو جائز ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
اسلام نے اس قسم کی شادی کو ناپسند کیا ہے کہ ایک شخص اپنی لڑکی دوسرے شخص کے لڑکے کو اس شرط پر دے کہ اس کے بدلہ میں وہ بھی اپنی لڑکی اس کے لڑکے کو دے۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے اگر طرفین کے فیصلے الگ الگ اوقات میں ہوئے ہوں اور ایک دوسرے کو لڑکی دینے کی شرط پر نہ ہوئے ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
(الفضل 15جنوری 1918ء صفحہ 4)
نکاح متعہ کی ممانعت
خدا نے قرآن شریف میں بجز نکاح کے ہمیں اور کوئی ہدایت نہیں دی ،ہاں شیعہ مذہب میں سے ایک فرقہ ہے کہ وہ موقّت طورپر نکاح کر لیتے ہیں یعنی فلاں وقت تک نکاح اور پھر طلاق ہوگی اور اس کا نام متعہ رکھتے ہیں۔ مگرخدا تعالیٰ کے کلام سے ان کے پاس کوئی سند نہیں بہرحال وہ تو ایک نکاح ہے جس کی طلاق کا زمانہ معلوم ہے اور نیوگ کو طلاق کے مسئلہ سے کچھ تعلق نہیں۔
(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد19صفحہ442،443)
ایسا نکاح بھی جس کا وقت طلاق ٹھیرایا جائے ہمارے مذہب میں منع ہے ۔ قرآن شریف صاف اس کی ممانعت فرماتا ہے۔ عرب کے لوگوں میں اسلام سے پہلے ایک وقت تک ایسے نکاح ہوتے تھے قرآن شریف نے منع کردیا اور قرآن شریف کے اترنے سے وہ حرام ہوگئے۔ صرف بعض شیعوں کے فرقے اس کے پابندہیں مگر وہ جاہلیت کی رسم میں گرفتار ہیں اور کسی دانشمند کے لئے جائز نہیں کہ اپنی غلطی کی پردہ پوشی کے لئے کسی دوسرے کی غلطی کا حوالہ دیں۔
(سناتن دھرم۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ470)
اسلام میں متعہ کا کوئی حکم نہیں
متعہ صرف اس نکاح کا نام ہے جو ایک خاص عرصہ تک محدود کر دیا گیا ہو پھر ماسوا اس کے متعہ اوائل اسلام میں یعنی اس وقت میں جبکہ مسلمان بہت تھوڑے تھے صرف تین دن کے لئے جائز ہوا تھا اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ وہ جواز اس قسم کا تھا جیسا کہ تین دن کے بھوکے کے لئے مردارکھانا نہایت بے قراری کی حالت میں جائز ہو جاتا ہے اور پھر
متعہ ایسا حرام ہوگیا جیسے سؤر کا گوشت اور شراب حرام ہے اور نکاح کے احکام نے متعہ کے لئے قدم رکھنے کی جگہ باقی نہیں رکھی۔ قرآن شریف میں نکاح کے بیان میں مردوں کے حق عورتوں پر اور عورتوں کے حق مردوں پر قائم کئے گئے ہیں اورمتعہ کے مسائل کا کہیں ذکر بھی نہیں۔ اگر اسلام میں متعہ ہوتا تو قرآن میں نکاح کے مسائل کی طرح متعہ کے مسائل بھی بسط اور تفصیل سے لکھے جاتے لیکن کسی محقق پر پوشیدہ نہیں کہ نہ تو قرآن میں اور نہ احادیث میں متعہ کے مسائل کا نام و نشان ہے لیکن نکاح کے مسائل بسط اور تفصیل سے موجود ہیں۔۔۔۔۔ قرآن اور حدیث کے دیکھنے والوں پر ظاہر ہوگا کہ اسلام میں متعہ کے احکام ہرگز مذکور نہیں نہ قرآن میں اور نہ احادیث میں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر متعہ شریعت اسلام کے احکام میں سے ایک حکم ہوتا تو اس کے احکام بھی ضرور لکھے جاتے اور وراثت کے قواعد میں اس کا بھی کچھ ذکر ہوتا۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ متعہ اسلامی مسائل میں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر بعض احاد حدیثوں پر اعتبار کیا جائے تو صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ جب بعض صحابہ اپنے وطنوں اور اپنی جورئوں سے دور تھے تو ایک دفعہ ان کی سخت ضرورت کی وجہ سے تین دن تک متعہ ان کے لئے جائز رکھا گیا تھا اور پھر بعد اس کے ایسا ہی حرام ہوگیا جیسا کہ اسلام میں خنزیر و شراب وغیرہ حرام ہیں اور چونکہ اضطراری حکم جس کی ابدیت شارع کا مقصودنہیں شریعت میں داخل نہیں ہوتے اس لئے متعہ کے احکام قرآن اور حدیث میں درج نہیں ہوئے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے متعہ عرب میں نہ صرف جائز بلکہ عام رواج رکھتا تھا اور شریعت اسلامی نے آہستہ آہستہ عرب کی رسوم کی تبدیلی کی ہے سو جس وقت بعض صحابہ متعہ کے لئے بیقرار ہوئے سو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتظامی اور اجتہادی طور پر اس رسم کے موافق بعض صحابہ کو اجازت دے دی کیونکہ قرآن میں ابھی اس رسم کے بارے میں کوئی ممانعت نہیں آئی تھی پھر ساتھ ہی چند روز کے بعد نکاح کی مفصل اور مبسوط ہدایتیں قرآن میں نازل ہوئیں جو متعہ کے مخالف اور متضاد تھیں
اس لئے ان آیات سے متعہ کی قطعی طور پر حرمت ثابت ہوگئی۔ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ گو متعہ صرف تین دن تک تھا مگر وحی اور الہام نے اس کے جواز کا دروازہ نہیں کھولا بلکہ وہ پہلے سے ہی عرب میں عام طور پر رائج تھا اور جب صحابہ کو بے وطنی کی حالت میں اس کی ضرورت پڑی تو آنحضرتؐ نے دیکھا کہ متعہ ایک نکاح مؤقّت ہے۔ کوئی حرام کاری اس میں نہیں کوئی ایسی بات نہیں کہ جیسی خاوند والی عورت دوسرے سے ہم بستر ہو جاوے بلکہ درحقیقت بیوہ یا باکرہ سے ایک نکاح ہے جو ایک وقت تک مقرر کیا جاتا ہے تو آپ نے اس خیال سے کہ نفس متعہ میں کوئی بات خلاف نکاح نہیں۔ اجتہادی طور پر پہلی رسم کے لحاظ سے اجازت دیدی لیکن خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تھا کہ جیسا کہ اور صدہا عرب کی بیہودہ رسمیں دور کر دی گئیں ایسا ہی متعہ کی رسم کو بھی عرب میں سے اٹھا دیا جاوے سو خدا نے قیامت تک متعہ کو حرام کر دیا۔ ماسوا اس کے یہ بھی سوچنا چاہئے۔ کہ نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت ہے نیوگ پر تو ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اس میں خاوند والی عورت باوجود زندہ ہونے خاوند کے دوسرے سے ہم بستر کرائی جاتی ہے۔ لیکن متعہ کی عورت تو کسی دوسرے کے نکاح میں نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک باکرہ یا بیوہ ہوتی ہے جس کا ایک مقررہ وقت تک ایک شخص سے نکاح پڑھا جاتا ہے۔ سو خود سوچ لو کہ متعہ کو نیوگ سے کیا نسبت ہے اور نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت۔
(آریہ دھرم ۔روحانی خزائن جلد10صفحہ67تا70)
اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا
عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
نادان عیسائیوں کو معلوم نہیں کہ اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا بلکہ جہاں تک ممکن تھا اس کو دنیا میں سے گھٹایا۔ اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں بلکہ دنیا کی اکثر قوموں میں متعہ کی رسم تھی یعنی یہ کہ ایک وقت خاص تک نکاح کرنا پھر طلاق دے دینا اور اس رسم کے پھیلانے والے اسباب میں سے ایک یہ بھی سبب تھا کہ جو لوگ لشکروں میں منسلک ہوکر دوسرے ملکوں میں جاتے تھے یا بطریق تجارت ایک مدت تک دوسرے ملک میں رہتے تھے۔ ان کو مؤقت نکاح یعنی متعہ کی ضرورت پڑتی تھی اور کبھی یہ بھی باعث ہوتا کہ غیرملک کی عورتیں پہلے سے بتلا دیتی تھیں کہ وہ ساتھ جانے پر راضی نہیں اس لئے اسی نیت سے نکاح ہوتا تھا کہ فلاں تاریخ طلاق دی جائے گی۔ پس یہ سچ ہے کہ ایک دفعہ یا دو دفعہ اس قدیم رسم پر بعض مسلمانوں نے بھی عمل کیا۔مگر وحی اور الہام سے نہیں بلکہ جو قوم میں پرانی رسم تھی معمولی طور پر اس پر عمل ہوگیا لیکن متعہ میں بجز اس کے اور کوئی بات نہیں کہ وہ ایک تاریخ مقررہ تک نکاح ہوتا ہے اور وحی الٰہی نے آخر اس کو حرام کر دیا۔
(نورالقرآن نمبر2 ۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ450)
متبنّٰی حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا
آریوں کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے آپ ؑ نے فرمایا:
اب ہم ان آریوں کے اس پر افترا اعتراض کی بیخ کنی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انہوں نے زینب کے نکاح کی نسبت تراشا ہے۔ ان مفتری لوگوں نے اعتراض کی بنا دو باتیں ٹھہرائی ہیں (ا) یہ کہ متبنّٰی اگر اپنی جورو کو طلاق دے دیوے تو متبنّٰی کرنے والے کو اس عورت سے نکاح جائز نہیں (۲) یہ کہ زینب آنحضرت کے نکاح سے ناراض تھی تو گویا آنحضرت نے زینب کے معقول عذر پر یہ بہانہ گھڑا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے سو ہم ان دو باتوں کا ذیل میں جواب دیتے ہیں۔
امر اوّل کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ متبنّٰیکرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ سراسر لغو اور باطل ہے کہ وہ حقیقت میں بیٹا ہو جاتا ہے اور بیٹوں کے تمام احکام اس کے متعلق ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ قانون قدرت اس بیہودہ دعویٰ کو رد کرتا ہے اس لئے کہ جس کا نطفہ ہوتا ہے اسی کے اعضاء میں سے بچہ کے اعضاء حصہ لیتے ہیں اسی کے قویٰ کے مشابہ اس کے قویٰ ہوتے ہیں اور اگر وہ انگریزوں کی طرح سفیدرنگ رکھتا ہے تو یہ بھی اس سفیدی سے حصہ لیتا ہے اگر وہ حبشی ہے تو اس کو بھی اس سیاہی کا بخرہ ملتا ہے اگر وہ آتشک زدہ ہے تو یہ بیچارہ بھی اسی بلا میں پھنس جاتا ہے۔ غرض جس کا حقیقت میں نطفہ ہے اسی کے آثار بچہ میں ظاہر ہوتے ہیں جیسی گیہوں سے گیہوں پیدا ہوتی ہے اور چنے سے چنا نکلتا ہے پس اس صورت میں ایک کے نطفہ کو اس کے غیر کا بیٹا قرار دینا واقعات صحیحہ کے مخالف ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف منہ کے دعویٰ سے واقعات حقیقیہ بدل نہیں سکتے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے سم الفار کے ایک ٹکڑہ کو طباشیر کا ٹکڑہ سمجھ لیا تو وہ اس کے کہنے سے طباشیر نہیں ہو جائے گا اور اگر وہ اس وہم کی بناء پر اسے کھائے گا تو ضرور مرے گا جس حالت میں خدا نے زید کو بکر کے نطفہ سے پیدا کر کے بکر کا بیٹا بنا دیا تو پھر کسی انسان کی فضول گوئی سے وہ خالد کا بیٹا نہیں بن سکتا اور اگر بکر اور خالد ایک مکان میں اکٹھے بیٹھے ہوں اور اس وقت حکم حاکم پہنچے کہ زید جس کا حقیقت میں بیٹا ہے اس کو پھانسی دیا جائے تو اس وقت خالد فی الفور عذر کر دے گا کہ زید حقیقت میں بکر کا بیٹا ہے میرا اس سے کچھ تعلق نہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ کسی شخص کے دو باپ تو نہیں ہو سکتے پس اگر متبنٰی بنانے والا حقیقت میں باپ ہوگیا ہے تو یہ فیصلہ ہونا چاہئے کہ اصلی باپ کس دلیل سے لا دعویٰ کیا گیا ہے۔
غرض اس سے زیادہ کوئی بات بھی بیہودہ نہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی حقیقتوں کو بدل ڈالنے کا قصد کریں۔۔۔۔ اب چونکہ عقل کسی طرح قبول نہیں کر سکتی کہ متبنیٰ درحقیقت اپنا ہی لڑکا ہو جاتا ہے اس لئے ایسے اعتراض کرنے والے پر واجب ہے کہ اعتراض سے پہلے اس دعوے کو ثابت کرے اور درحقیقت اعتراض تو ہمارا حق ہے کہ کیونکر غیر کا نطفہ جو غیر کے خواص اپنے اندر رکھتا ہے اپنا نطفہ بن سکتا ہے پہلے اس اعتراض کا جواب دیں اور پھر ہم پر اعتراض کریں اور یہ بھی یاد رہے کہ زید جو زینب کا پہلا خاوند تھا وہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا آپ نے اپنے کرم ذاتی کی وجہ سے اس کو آزاد کر دیا اور بعض دفعہ اس کو بیٹا کہا تا غلامی کا داغ اس پر سے جاتا رہے چونکہ آپ کریم النفس تھے اس لئے زید کو قوم میں عزت دینے کے لئے آپ کی یہ حکمت عملی تھی مگر عرب کے لوگوں میں یہ رسم پڑ گئی تھی کہ اگر کسی کا استاد یا آقا یا مالک اس کو بیٹا کر کے پکارتا تو وہ بیٹا ہی سمجھا جاتا یہ رسم نہایت خراب تھی اور نیز ایک بیہودہ وہم پر اس کی بنا تھی کیونکہ جبکہ تمام انسان بنی نوع ہیں تو اس لحاظ سے جو برابر کے آدمی ہیں وہ بھائیوں کی طرح ہیں اور جو بڑے ہیں وہ باپوں کی مانند ہیں اور چھوٹے بیٹوں کی طرح ہیں لیکن اس خیال سے اگر مثلاً کوئی ہندو ادب کی راہ سے قوم کے کسی مُسِنّ آدمی کو باپ کہہ دے یا کسی ہم عمر کو بھائی کہہ دے تو کیا اس سے یہ لازم آئے گا کہ وہ قول ایک سند متصور ہو کر اس ہندو کی لڑکی اس پر حرام ہوجائے گی یا اس کی بہن سے شادی نہیں ہو سکے گی اور یہ خیال کیا جائے گا کہ اتنی بات میں وہ حقیقی ہمشیرہ بن گئیں اور اس کے مال کی وارث ہوگئیں یا یہ ان کے مال کا وارث ہوگیا۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک شریر آدمی ایک لاولد اور مالدار کو اپنے منہ سے باپ کہہ کر اس کے تمام مال کا وارث بن جاتا کیونکہ اگر صرف منہ سے کہنے کے ساتھ کوئی کسی کا بیٹا بن سکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف منہ سے کہنے سے باپ نہ بن جائے پس اگر یہی سچ ہے تو مفلسوں ناداروں کے لئے نقب زنی یا ڈاکہ مارنے سے بھی یہ عمدہ تر نسخہ ہو جائے گا یعنی ایسے لوگ کسی آدمی کو دیکھ کر جو کئی لاکھ یا کئی کروڑ کی جائیداد رکھتا ہو اور لاولد ہو کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تجھ کو باپ بنایا پس اگر وہ حقیقت میں باپ ہوگیا ہے تو ایسے مذہب کی رو سے لازم آئے گا کہ اس لاولد کے مرنے کے بعد سارا مال اس شخص کو مل جائے اور اگر وہ باپ نہیں بن سکا تو اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ مسئلہ ہی جھوٹا ہے اور نیز ایسا ہی ایک شخص کسی کو بیٹا کہہ کر ایسا ہی فریب کر سکتا ہے۔
(آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 55تا58 )
متبنّٰی کی مطلقہ سے نکاح کا جواز
خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے ہی یہ حکم فرما دیا تھا کہ تم پر صرف ان بیٹوں کی عورتیں حرام ہیں جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں۔ جیسا کہ یہ آیت ہے۔
(النسائ:24)یعنی تم پر فقط ان بیٹوں کی جورؤان حرام ہیں جو تمہاری پشت اور تمہارے نطفہ سے ہوں۔ پھر جبکہ پہلے سے یہی قانون تعلیم قرآنی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہو چکا ہے اور یہ زینب کا قصہ ایک مدت بعد اس کے ظہور میں آیا۔ تو اب ہریک سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے یہ فیصلہ اسی قانون کے مطابق کیا جو اس سے پہلے منضبط ہو چکا تھا۔ قرآن کھولو اور دیکھو کہ زینب کا قصہ اخیری حصہ قرآن میں ہے مگر یہ قانون کہ متبنّٰی کی جورو حرام نہیں ہوسکتی یہ پہلے حصہ میں ہی موجود ہے اور اس وقت کا یہ قانون ہے کہ جب زینب کا زید سے ابھی نکاح بھی نہیں ہوا تھا تم آپ ہی قرآن شریف کو کھول کر ان دونوں مقاموں کو دیکھ لو اور ذرہ شرم کو کام میں لائو۔
اور پھر بعد اس کے سورۃ الاحزاب میں فرمایا مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْْنِ فِیْ جَوْفِہِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَکُمُ اللَّا ئِیْ تُظَاہِرُوْنَ مِنْہُنَّ أُمَّہَاتِکُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَآئَ کُمْ أَبْنَائَ کُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ وَاللَّہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِیْ السَّبِیْلَ اُدْعُوہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللّٰہِ (الاحزاب:5 ، 6) یعنی خدا تعالیٰ نے کسی کے پیٹ میں دو دل نہیں بنائے پس اگر تم کسی کو کہو کہ تو میرا دل ہے تو اس کے پیٹ میں دو دل نہیں ہو جائیں گے دل تو ایک ہی رہے گا اسی طرح جس کو تم ماں کہہ بیٹھے وہ تمہاری ماں نہیں بن سکتی اور اسی طرح خدا نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقت میں تمہارے بیٹے نہیں کر دیا۔ یہ تو تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور خدا سچ کہتا ہے اور سیدھی راہ دکھلاتا ہے۔ تم اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو یہ تو قرآنی تعلیم ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اپنے پاک نبی کا نمونہ اس میں قائم کر کے پورانی رسم کی کراہت کو دلوں سے دور کر دے سو یہ نمونہ خدا تعالیٰ نے قائم کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام آزاد کردہ کی بیوی کی اپنے خاوند سے سخت ناسازش ہوگئی آخر طلاق تک نوبت پہنچی۔ پھر جب خاوند کی طرف سے طلاق مل گئی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پیوند نکاح کردیا۔ اور خدا تعالیٰ کے نکاح پڑھنے کے یہ معنی نہیں کہ زینب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایجاب قبول نہ ہوا اور جبرًا خلاف مرضی زینب کے اس کو گھر میں آباد کر لیا یہ تو ان لوگوں کی بدذاتی اور ناحق کا افترا ہے جو خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے بھلا اگر وہ سچے ہیں تو اس افترا کا حدیث صحیح یا قرآن سے ثبوت تو دیں۔ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اسلام میں نکاح پڑھنے والے کو یہ منصب نہیں ہوتا کہ جبرًا نکاح کردے بلکہ نکاح پڑھنے سے پہلے فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ اب خلاصہ یہ کہ صرف منہ کی بات سے نہ تو بیٹا بن سکتا ہے نہ ماں بن سکتی ہے۔ مثلاً ہم آریوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی شخص غصہ میں آکر یا کسی دھوکہ سے اپنی عورت کو ماں کہہ بیٹھے تو کیا اس کی عورت اس پر حرام ہوجائے گی اور طلاق پڑ جائے گی اور خود یہ خیال بالبداہت باطل ہے کیونکہ طلاق تو آریوں کے مذہب میں کسی طور سے پڑ ہی نہیں سکتی خواہ اپنی بیوی کو نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ ماں کہہ دیں یا دادی کہہ دیں تو پھر جبکہ صرف منہ کے کہنے سے کوئی عورت ماں یا دادی نہیں بن سکتی تو پھر صرف منہ کی بات سے کوئی غیر کا نطفہ بیٹا کیونکر بن سکتا ہے اور کیونکر قبول کیا جاتا ہے کہ درحقیقت بیٹا ہوگیا اور اس کی عورت اپنے پر حرام ہوگئی۔ خدا کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا پس بلاشبہ یہ بات صحیح ہے کہ اگر صرف منہ کی بات سے ایک آریہ کی عورت اس کی ماں نہیں بن سکتی تو اسی طرح صرف منہ کی بات سے غیر کا بیٹا بیٹابھی نہیں بن سکتا۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ58تا60 )
طلاق
طلاق کی اجازت دینے میں حکمت
اگر کوئی عورت اذیت اور مصیبت کا باعث ہو تو ہم کو کیونکر یہ خیال کرنا چاہئے کہ خدا ہم سے ایسی عورت کے طلاق دینے سے ناخوش ہوگا۔ میں دل کی سختی کو اس شخص سے منسوب کرتا ہوں جو اس عورت کو اپنے پاس رہنے دے نہ اس شخص سے جو اس کو ایسی صورتوں میں اپنے گھر سے نکال دے ناموافقت سے عورت کو رکھنا ایسی سختی ہے جس میں طلاق سے زیادہ بے رحمی ہے۔ طلاق ایک مصیبت ہے جو ایک بدتر مصیبت کے عوض اختیار کی جاتی ہے۔ تمام معاہدے بدعہدی سے ٹوٹ جاتے ہیں پھر اس پر کون سی معقول دلیل ہے کہ نکاح کا معاہدہ ٹوٹ نہیں سکتا۔اور کیا وجہ کہ نکاح کی نوعیت تمام معاہدوں سے مختلف ہے۔ عیسیٰ نے زنا کی شرط سے طلاق کی اجازت دی مگر آخر اجازت تو دیدی۔ نکاح ملاپ کے لئے ہے اس لئے نہیں کہ ہم دائمی تردد اور نزاع کے باعث سے پریشان خاطر رہیں۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ54-53حاشیہ)
طلاق کا اختیار مرد کو کیوں دیا؟
(معترض نے۔ ناقل) ایک یہ اعتراض قرآن شریف پر پیش کیا کہ خاوند کی مرضی پر طلاق رکھی ہے، اس سے شاید اس کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ عقل کی رُو سے مرد اور عورت درجہ میں برابر ہیں تو پھر اس صورت میں طلاق کا اختیار محض مرد کے ہاتھ میں رکھنا بلاشبہ قابل اعتراض ہوگا۔ پس اس اعتراض کا یہی جواب ہے کہ مرد اورعورت درجہ میں ہرگز برابر نہیں۔ دنیا کے قدیم تجربہ نے یہی ثابت کیا ہے کہ مرد اپنی جسمانی اور علمی طاقتوں میں عورتوں سے بڑھ کر ہیں اور شاذ و نادر حکم معدوم کا رکھتا ہے پس جب مرد کا درجہ باعتبار اپنے ظاہری اور باطنی قوتوں کے عورت سے بڑھ کر ہے تو پھر یہی قرین انصاف ہے کہ مرد اور عورت کے علیحدہ ہونے کی حالت میں عنانِ اختیار مرد کے ہاتھ میں ہی رکھی جائے ۔۔۔۔
تمام دنیا میں انسانی فطرت نے یہی پسند کیا ہے کہ ضرورتوں کے وقت میں مرد عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اورمرد کا عورت پر ایک حق زائد بھی ہے کہ مرد عورت کی زندگی کے تمام اقسام آسائش کا متکفّل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ(البقرہ : 234) یعنی یہ بات مردوں کے ذمہ ہے کہ جوعورتوں کو کھانے کے لئے ضرورتیں ہوں یا پہننے کے لئے ضرورتیں ہوں وہ سب اُن کے لئے مہیا کریں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مرد عورت کا مربی اور محسن او رذمہ وار آسائش کا ٹھہرایا گیا ہے اور وہ عورت کے لئے بطور آقا اور خداوند نعمت کے ہے اسی طرح مرد کو بہ نسبت عورت کے فطرتی قویٰ زبردست دئیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے مرد عورت پر حکومت کرتا چلا آیا ہے اور مرد کی فطرت کو جس قدر باعتبار کمال قوتوں کے انعام عطا کیا گیا ہے وہ عورت کی قوتوں کو عطا نہیں کیا گیا اور قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگرمرد اپنی عورت کو مروّت اور احسان کی رُو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھہرایا گیا ہے اور بہرحال مردوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النسائ:20) یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقلمند معلوم کرسکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروّت سے پیش آتے ہو۔
(چشمۂ معرفت۔روحانی خزائن جلد23صفحہ286تا288)
عورت خود بخود نکاح توڑنے کی مجاز کیوں نہیں ؟
مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خودبخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خودبخود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کرا سکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے ۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ37)
طلاق کا موجب صرف زنا نہیں
انجیل کہتی ہے کہ اپنی بیوی کو بجز زنا کے ہرگز طلاق نہ دے۔ مگر قرآن شریف اس بات کی مصلحت دیکھتاہے کہ طلاق صرف زنا سے مخصوص نہیں بلکہ اگرمرد اورعورت میں باہم دشمنی پیدا ہوجاوے اور موافقت نہ رہے یا مثلاً اندیشہء جان ہو یا اگرچہ عورت زانیہ نہیں مگر زنا کے مقدمات اُس سے صادر ہوتے ہیں اور غیر مردوں کو ملتی ہے تو اِن تمام صورتوں میں خاوند کی رائے پر حصر رکھا گیا ہے کہ اگر وہ مناسب دیکھے تو چھوڑ دے۔ مگر پھر بھی تاکید ہے اور نہایت سخت تاکید ہے کہ طلاق دینے میں جلدی نہ کرے۔ اب ظاہر ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم انسانی حاجات کے مطابق ہے اور اُن کے ترک کرنے سے کبھی نہ کبھی کوئی خرابی ضرور پیش آئے گی۔اسی وجہ سے بعض یورپ کی گورنمنٹوں کوجواز طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا۔
(چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ413،414)
طلاق کے بعد مہر عورت کا حق ہے
اگر یہ کہو کہ مسلمان بے وجہ بھی عورتوں کو طلاق دے دیتے ہیں تو تمہیں معلوم ہے کہ ایشر نے مسلمانوں کو لغو کام کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(المومنون: 4)اور قرآن میں بے وجہ طلاق دینے والوں کو بہت ہی ڈرایا ہے۔ ماسوا اس کے تم اس بات کو بھی تو ذرا سوچو کہ مسلمان اپنی حیثیت کے موافق بہت سا مال خرچ کر کے ایک عورت سے شادی کرتے ہیں اور ایک رقم کثیر عورت کے مہر کی ان کے ذمہ ہوتی ہے اور بعضوں کے مہر کئی ہزار اور بعض کے ایک لاکھ یا کئی لاکھ ہوتے ہیں اور یہ مہر عورت کا حق ہوتا ہے اور طلاق کے وقت بہرحال اس کا اختیار ہوتا ہے کہ وصول کرے اور نیز قرآن میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کو طلاق دی جائے تو جس قدر مال عورت کو طلاق سے پہلے دیا گیا ہے وہ عورت کا ہی رہے گا۔ اور اگر عورت صاحب اولاد ہو تو بچوں کے تعہد کی مشکلات اس کے علاوہ ہیں اسی واسطے کوئی مسلمان جب تک اس کی جان پر ہی عورت کی وجہ سے کوئی وبال نہ پڑے تب تک طلاق کا نام نہیں لیتا ۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ40)
طلاق کا قانون باعث رحمت ہے
انجیل میں طلاق کے مسئلہ کی بابت صرف زنا کی شرط تھی اور دوسرے صدہا طرح کے اسباب جو مرد اور عورت میں جانی دشمنی پیدا کردیتے ہیں ان کا کچھ ذکر نہ تھا۔ اس لئے عیسائی قوم اس خامی کی برداشت نہ کرسکی اور آخر امریکہ میں ایک طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا۔سو اب سوچو کہ اس قانون سے انجیل کدھر گئی۔اوراے عورتو! فکر نہ کرو جو تمہیں کتاب ملی ہے وہ انجیل کی طرح انسانی تصرف کی محتاج نہیں اور اس کتاب میں جیسے مردوں کے حقوق محفوظ ہیں عورتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں۔ اگر عورت مرد کے تعدّد ازدواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم خلع کراسکتی ہے۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ80،81 )
طلاق کی ضرورت
قدرتی طور پر ایسی آفات ہریک قوم کے لئے ہمیشہ ممکن الظہور ہیں جن سے بچنا بجز طلاق کے متصور نہیں۔ مثلاً اگر کوئی عورت زانیہ ہو تو کس طرح اس کے خاوند کی غیرت اس کو اجازت دے سکتی ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی کہلا کر پھر دن رات زناکاری کی حالت میں مشغول رہے۔ ایسا ہی اگر کسی کی جورو اس قدر دشمنی میں ترقی کرے کہ اس کی جان کی دشمن ہو جاوے اور اس کے مارنے کی فکر میں لگی رہے تو کیا وہ ایسی عورت سے امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے۔ بلکہ ایک غیرت مند انسان جب اپنی عورت میں اس قدر خرابی بھی دیکھے کہ اجنبی شہوت پرست اس کو پکڑتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں اور اس سے ہم بغل ہوتے ہیں اور وہ خوشی سے یہ سب کام کراتی ہے تو گو تحقیق کے رو سے ابھی زنا تک نوبت نہ پہنچی ہو بلکہ وہ فاسقہ موقع کے انتظار میں ہو تاہم کوئی غیرت مند ایسی ناپاک خیال عورت سے نکاح کا تعلق رکھنا نہیں چاہتا۔۔۔۔ عورت کا جوڑاا پنے خاوند سے پاکدامنی اور فرماں برداری اور باہم رضامندی پر موقوف ہے اور اگر ان تین۳ باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی فرق آجاوے تو پھر یہ جوڑ قائم رہنا محالات میں سے ہو جاتا ہے۔ انسان کی بیوی اس کے اعضاء کی طرح ہے۔ پس اگر کوئی عضو سڑ گل جائے یا ہڈی ایسی ٹوٹ جائے کہ قابل پیوند نہ ہو تو پھر بجز کاٹنے کے اور کیا علاج ہے۔ اپنے عضو کو اپنے ہاتھ سے کاٹنا کوئی نہیں چاہتا کوئی بڑی ہی مصیبت پڑتی ہے تب کاٹپا جاتا ہے۔(٭ حاشیہ۔ خدا تعالیٰ نے جو ضرورتوں کے وقت میں مرد کو طلاق دینے کی اجازت دی اور کھول کر یہ نہ کہا کہ عورت کی زناکاری سے یا کسی اور بدمعاشی کے وقت اس کو طلاق دی جاوے اس میں حکمت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ستّاری نے چاہا کہ عورت کی تشہیر نہ ہو۔ اگر طلاق کے لئے زنا وغیرہ جرائم کا اعلان کیا جاتا تو لوگ سمجھتے کہ اس عورت پر کسی بدکاری کا شبہ ہے یا فلاں فلاں بدکاری کی قسموں میں سے ضرور اس نے کوئی بدکاری کی ہوگی مگر اب یہ راز خاوند تک محدود رہتا ہے۔) پس جس حکیم مطلق نے انسان کے مصالح کے لئے نکاح تجویز کیا ہے اور چاہاہے کہ مرد اور عورت ایک ہو جائیں۔ اُسی نے مفاسد ظاہر ہونے کے وقت اجازت دی ہے کہ اگر آرام اس میں متصور ہو کہ کرم خوردہ دانت یا سڑے ہوئے عضو یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کی طرح موذی کو علیحدہ کر دیا جائے تو اسی طرح کاربند ہوکر اپنے تئیں فوق الطاقت آفت سے بچالیں کیونکہ جس جوڑ سے وہ فوائد مترتب نہیں ہو سکتے کہ جو اس جوڑ کی علت غائی ہیں بلکہ ان کی ضد پیدا ہوتی ہے تو وہ جوڑ درحقیقت جوڑ نہیں ہے۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ65،66)
وجوہ طلاق ظاہر کرنا ضروری نہیں
ایک صاحب نے اپنی عورت کو طلاق دی عورت کے رشتہ داروں نے حضرت کی خد مت میں شکایت کی کہ بے وجہ اور بے سبب طلاق دی گئی ہے مرد کے بیانوں سے یہ بات پا ئی گئی کہ اگر اسے کو ئی ہی سزا دی جاوے مگر وہ اس عورت کو بسانے پر ہرگز آمادہ نہیں ہے عورت کے رشتہ داروں نے جو شکا یت کی تھی ان کا منشا ء تھا کہ پھر آبادی ہو اس پر حضرت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
عورت مرد کا معاملہ آپس میں جو ہو تا ہے اس پر دوسرے کو کا مل اطلاع نہیں ہو تی بعض وقت ایسا بھی ہو تا ہے کہ کو ئی فحش عیب عورتوں میں نہیں ہو تا مگرتا ہم مزاجوں کی نا موافقت ہو تی ہے جو کہ با ہمی معاشرت کی مخل ہو تی ہے ایسی صورت میں مرد طلاق دے سکتا ہے۔بعض وقت عورت گو ولی ہو اور بڑی عابد اور پر ہیز گار اور پاکدامن ہو۔۔۔۔ اور اس کو طلاق دینے میں خاوند کو بھی رحم آتا ہو بلکہ وہ روتا بھی ہو مگر پھر بھی چو نکہ اس کی طرف سے کراہت ہو تی ہے اس لیے وہ طلاق دے سکتا ہے مزاجوں کا آپس میں موافق نہ ہو نا یہ بھی ایک شرعی امر ہے اس لیے ہم اب اس میںدخل نہیں دے سکتے جو ہوا سوہوا ۔مہر کا جو جھگڑا ہووہ آپس میں فیصلہ کر لیا جاوے ۔
(البدریکم مئی 1903ء صفحہ117)
کیا بوڑھی عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے؟
اور یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کے لئے مستعد ہوگئے تھے۔ سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جن لوگوں نے ایسی روائتیں کی ہیں وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکے کہ کس شخص کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ارادہ ظاہر کیا پس اصل حقیقت جیسا کہ کتب معتبرہ احادیث میں مذکور ہے یہ ہے کہ خود سودہ نے ہی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے دل میں یہ خوف کیا کہ اب
میری حالت قابل رغبت نہیں رہی ایسا نہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بباعث طبعی کراہت کے جو منشاء بشریت کو لازم ہے مجھ کو طلاق دے دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر کراہت کا بھی اس نے اپنے دل میں سمجھ لیا ہو اور اس سے طلاق کا اندیشہ دل میں جم گیا ہو۔ کیونکہ عورتوں کے مزاج میں ایسے معاملات میں وہم اور وسوسہ بہت ہوا کرتا ہے اس لئے اس نے خود بخود ہی عرض کر دیا کہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میر احشر ہو۔ چنانچہ نیل الاوطار کے ص۱۴۰ میں یہ حدیث ہے: اِنَّ ا لسَّوْدَۃَ بِنْت زَمعۃ حِیْنَ اَسَنَّتْ وَ خَافَتْ اَنْ یُفَارِقَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَھَبْتُ یَوْمِیْ لِعَائِشَۃَ فَقَبِلَ ذٰلِکَ مِنْہَا۔۔۔ و رواہ ایضًا سعد و سعید ابن منصور والترمذی و عبد الرزاق قال الحافظ فی الفتح فتواردت ھذہ الروایات علٰی انھا خشیت الطلاق۔ یعنی سودہ بنت زمعہ کو جب اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس بات کا خوف ہوا کہ اب شائد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جائوں گی تو اس نے کہا یا رسول اللہ میں نے اپنی نوبت عائشہ کو بخش دی۔ آپ نے یہ اس کی درخواست قبول فرما لی۔ ابن سعد اور سعید ابن منصور اور ترمذی اور عبد الرزاق نے بھی یہی روایت کی ہے اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسی پر روایتوں کا توارد ہے کہ سودہ کو آپ ہی طلاق کا اندیشہ ہواتھا۔ اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارادہ ظاہر نہیں ہوا بلکہ سودہ نے اپنی پیرانہ سالی کی حالت پر نظر کرکے خود ہی اپنے دل میں یہ خیال قائم کر لیا تھا اور اگر ان روایات کے توارد اور تظاہر کو نظر انداز کر کے فرض بھی کر لیں کہ آنحضرتؐ نے طبعی کراہت کے باعث سودہ کو پیرانہ سالی کی حالت میں پاکر طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس میںبھی کوئی برائی نہیں۔ اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے۔ کیونکہ جس امر پر عورت مرد کے تعلقات مخالطت موقوف ہیں۔ اگر اس میں کسی نوع سے کوئی ایسی روک پیدا ہو جائے کہ اس کے سبب سے مرد اس تعلق کے حقوق کی بجا آوری پر قادر نہ ہوسکے تو ایسی حالت میں اگر وہ اصول تقویٰ کے لحاظ سے کوئی کاروائی کرے تو عند العقل کچھ جائے اعتراض نہیں۔
(نورالقرآن ۔روحانی خزائن جلد9صفحہ380تا382)
طلاق میں جلدی نہ کرو
حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:۔
روحانی اور جسمانی طورپر اپنی بیویوں سے نیکی کرو ان کے لئے دعا کرتے رہو اورطلاق سے پرہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو۔
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد17صفحہ75)
ایڈیٹرصاحب بدر تحریرکرتے ہیں کہ
بار ہا دیکھا گیا اور تجر بہ کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص خفیف عذرات پر عورت سے قطع تعلق کر نا چاہتا ہے تو یہ امر حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے ملال کا موجب ہو تا ہے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص سفر میں تھا اس نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر وہ بدیدن خط جلدی اس کی طرف روانہ نہ ہو گی تو اُسے طلاق دے دی جاوے گی ۔
سُنا گیا ہے کہ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فر مایا تھا کہ :۔
جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم کیسے اُمید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکا تعلق ہے ۔
ایساہی ایک واقعہ اب چند دنوں سے پیش تھا کہ ایک صاحب نے اوّل بڑے چاہ سے ایک شریف لڑکی کے ساتھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت سے خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی انہوں نے چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جاوے ۔اس پر حضرت اقدس علیہ السلام کو بہت سخت ملال ہو ا اور فر مایا :
مجھے اس قدر غصہ ہے کہ میَں اسے بر داشت نہیں کر سکتا اور ہماری جماعت میں ہو کر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے ۔چنانچہ دوسرے دن پھر حضورعلیہ السلام نے یہ فیصلہ صادر فر مایا کہ وہ صاحب اپنی اس نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں جو کچھ زوجہ اوّل کو دیویں وہی اسے دیویں ایک شب اُدھر رہیں تو ایک شب اِدھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لونڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اُسے زوجہ اوّل کا دستِ نگر کر کے نہ رکھا جاوے ۔
ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پیشتر کئی سال ہوئے گزر چکا ہے کہ ایک صاحب نے حصولِ اولاد کی نیت سے نکاح ثانی کیا اور بعد نکاح رقابت کے خیال سے زوجہ اوّل کو جو صد مہ ہوا ۔اور نیز خانگی تنازعات نے ترقی پکڑی تو انہوں نے گھبرا کر زوجہ ثانی کو طلاق دے دی ۔اس پر حضرت اقدس نے ناراضگی ظاہر فر مائی ۔چنانچہ اس خاوندنے پھر اس زوجہ کی طرف میلان کر کے اسے اپنے نکاح میں لیا اور وہ بیچاری بفضل خدا اس دن سے اب تک اپنے گھر میں آباد ہے۔ (البدر 26جون1903ء صفحہ178)
شرطی طلاق
فرمایا :۔
اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اوروہ بات ہوجائے تو پھر واقعی طلاق ہوجاتی ہے ۔ جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اورپھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ (البدر12جون1903ء صفحہ162)
حضرت پیر سراج الحق ؓ صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ مباحثے کے دوران ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
مولوی صاحب کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے۔ ناظرین !سننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہوچکا تھا اور یہ کلامِ الٰہی تھا اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں اور وہ مرتبہ اوردرجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے کیونکہ یہ روایت درروایت پہنچی ہیں اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآن شریف کا حرف حرف کلامِ الٰہی ہے اور جو یہ کلام الٰہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے تو شرعًا اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہوسکتا۔ اورجو حدیث کی نسبت قسم کھالے اورکہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے ۔ اگر نہیں ہے تو میری جورو پر طلاق ہے تو بے شک و شبہ اس کی بیوی پر طلا ق پڑ جاوے گا۔ یہ حضرت اقدس کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے۔ (تذکرۃ المہدی صفحہ161)
طلاق اور حلالہ
ایک صاحب نے سوال کیا کہ جو لوگ ایک ہی دفعہ تین طلا ق لکھ دیتے ہیںان کی وہ طلا ق جائزہو تی ہے یا نہیں ؟اس کے جو اب میں فرما یا :
قرآن شریف کے فر مو دہ کی رُو سے تین طلاق دی گئی ہوںاور ان میںسے ہر ایک کے درمیان اتناہی وقفہ رکھا گیا جو قرآن شریف نے بتایا ہے تو ان تینوںکی عدّت کے گذرنے کے بعداس خاوند کا کوئی تعلق اس بیوی سے نہیں رہتا ہا ں اگر کوئی اور شخص اس عورت سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے اور پھراتفاقًا وہ اس کو طلاق دیدے تو اس خاوند اوّل کو جائزہے کہ اس بیوی سے نکاح کرلے مگر اگر دوسرا خاوند ،خاوندِاوّل کی خاطر سے یا لحاظ سے اس بیوی کو طلاق دے تا وہ پہلا خاوند اس سے نکاح کرلے تو یہ حلالہ ہوتا ہے اور یہ حرام ہے ۔ لیکن اگر تین طلاق ایک ہی وقت میںدی گئی ہو ں تو اس خاوند کو یہ فائدہ دیا گیا ہے کہ وہ عدت کے گذرنے کے بعد بھی اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے کیونکہ یہ طلاق ناجائزطلاق تھااور اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے موافق نہ دیا گیا تھا۔
دراصل قرآن شریف میںغور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ امر نہایت ہی ناگوار ہے کہ پُرانے تعلقات والے خاوند اور بیوی آپس کے تعلقات کو چھوڑکر الگ الگ ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے طلاق کے واسطے بڑے بڑے شرائط لگائے ہیں۔ وقفہ کے بعدتین طلاق کا دینااور ان کا ایک ہی جگہ رہناوغیرہ یہ امور سب اس واسطے ہیں کہ شاید کسی وقت اُن کے دلی رنج دورہو کرآپس میںصلح ہو جاوے ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کبھی کوئی قریبی رشتہ دار وغیرہ آپس میں لڑائی کرتے ہیں اور تازے جوش کے وقت میںحکام کے پاس عرضی پرچے لے کر آتے ہیں توآخر دانا حکام اس وقت ان کو کہہ دیتے ہیں کہ ایک ہفتہ کے بعد آنا ۔اصل غر ض ان کی صرف یہی ہو تی ہے کہ یہ آپس میں صلح کر لیں گے اور ان کے یہ جو ش فروہوںگے تو پھر ان کی مخالفت با قی نہ رہے گی ۔اسی واسطے وہ اس وقت ان کی وہ درخواست لینا مصلحت کے خلاف جانتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی مرداور عورت کے الگ ہو نے کے واسطے ایک کا فی موقعہ رکھ دیا ہے یہ ایک ایسا موقعہ ہے کہ طرفین کو اپنی بھلا ئی برائی کے سوچنے کا موقعہ مل سکتا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے: اَلطَّلََاقُ مَرَّتَانَ (البقرۃ:۲۳۰) یعنی دودفعہ کی طلا ق ہو نے کے بعدیا اسے اچھی طرح سے رکھ لیا جا وے یا احسا ن سے جداکردیا جا وے۔ اگر اتنے لمبے عرصہ میں بھی ان کی آپس میں صلح نہیں ہوتی تو پھر ممکن نہیں کہ وہ اصلا ح پذیرہوں۔
(الحکم 10؍اپریل 1903ء صفحہ14)
طلاق وقفے وقفے سے دی جائے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں مذکور طلاق کے متعلق درج ذیل آیات درج فرماکر ان کی تفسیر بیان فرمائی:۔
وَالْمَطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْئٍ( البقرۃ:230،233) اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ۔۔۔۔(الطلاق:2 تا 6) ۔۔۔۔اور چاہئے کہ جن عورتوں کو طلاق دی گئی وہ رجوع کی امید کے لئے تین حیض تک انتظار کریں اور ان تین حیض میں جو قریباً تین مہینے ہیں دو دفعہ طلاق ہوگی یعنی ہر یک حیض کے بعد خاوند عورت کو طلاق دے اور جب تیسرا مہینہ آوے تو خاوند کو ہوشیار ہو جانا چاہئے کہ اب یا تو تیسری طلاق دے کر احسان کے ساتھ دائمی جدائی اور قطع تعلق ہے اور یا تیسری طلاق سے رک جائے اور عورت کو حسن معاشرت کے ساتھ اپنے گھر میں آباد کرے اور یہ جائز نہیں ہوگا کہ جو مال طلاق سے پہلے عورت کو دیا تھا وہ واپس لے لے اور اگر تیسری طلاق جو تیسرے حیض کے بعد ہوتی ہے دیدے تو اب وہ عورت اس کی عورت نہیں رہی اور جب تک وہ دوسرا خاوند نہ کرلے تب تک نیا نکاح اس سے نہیں ہوسکتا۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ53-52)
ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینا ناجائز ہے
ایک شخص کے سوال پر فرمایا :
طلا ق ایک وقت میں کا مل نہیں ہو سکتی ۔طلاق میں تین طہرہو نے ضروری ہیں۔فقہاء نے ایک ہی مرتبہ تین طلاق دے دینی جائزرکھی ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ رعایت بھی ہے کہ عدّت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کرسکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کرسکتی ہے ۔
قرآن کریم کی روسے جب تین طلاق دے دی جاویں تو پہلاخاوند اس عورت سے نکاح نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ کسی اور کے نکا ح میں آوے اور پھر وہ دوسرا خاوند بِلاعمداُسے طلاق دیدے ۔اگر وہ عمدًا اسی لیے طلاق دیگا کہ اپنے پہلے خاوند سے و ہ پھر نکاح کرلیوے تویہ حرام ہوگا کیونکہ اسی کانا م حلالہ ہے جوکہ حرام ہے ۔فقہاء نے جو ایک دم کی تین طلاقوں کو جائز رکھا ہے اور پھر عدّت کے گذرنے کے بعد اسی خاوند سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اوّل اسے شرعی طریق سے طلاق نہیں دی۔
قرآن شریف سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا تعالیٰ کو طلاق بہت ناگوارہے کیونکہ اس سے میاں بیوی دونوں کی خا نہ بربادی ہو جا تی ہے اس واسطے تین طلاق اور تین طہر کی مدت مقررکی ہے کہ اس عرصہ میںدونوںاپنا نیک وبدسمجھ کراگر صلح چاہیں توکرلیں۔
(البدر 24؍اپریل1903ء صفحہ105)
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود ؑ کو خط لکھا اور فتویٰ طلب کیا کہ ایک شخص نے ازحد غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو تین دفعہ طلاق دی، دلی منشاء نہ تھا۔اب ہر دو پریشان اوراپنے تعلقات کو توڑنا نہیں چاہتے۔ حضرت نے جواب میں تحریرفرمایا :
فتویٰ یہ ہے کہ جب کوئی ایک ہی جِلسہ میں طلاق دے تو یہ طلاق ناجائز ہے اور قرآن کے برخلاف ہے اس لئے رجوع ہوسکتا ہے۔صرف دوبارہ نکاح ہو جانا چاہئے اوراسی طرح ہم ہمیشہ فتویٰ دیتے ہیں اور یہی حق ہے ۔
(بدر31جنوری 1907ء صفحہ4)
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمار ے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے۔ میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسّو کو طلاق دے دی ہوئی تھی۔ حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جاکر رات رہے اوردوبارہ نکاح کرادیا اور رات کو دیر تک وعظ بھی کیا۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ116،117)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دے دی۔ پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا۔ تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں ۔ چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے۔ اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہوگیا۔ (یہاں بائن سے مراد دراصل طلاق بتّہ ہے۔ناقل )
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اورحضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہوجائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک کرکے شادی کروائی تھی۔
(سیرت المہدی جلد1 صفحہ761 )
نابالغ کی طرف سے اس کا ولی طلاق دے سکتا ہے
سوال : اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح اس کا ولی کردے اور ہنوز وہ نابالغ ہی ہو اور ایسی ضرورت پیش آوے تو کیا طلاق بھی ولی دے سکتا ہے؟
جواب : فرمایا:
’’دے سکتا ہے۔ ‘‘
(بدر 25 جولائی 1907ء صفحہ 11)
خلع
عورت کو خلع کا اختیار حاصل ہے
فرمایا:۔
شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دے دے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیاردے دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے۔ اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تواسلامی اصطلاح میں اس کانام خُلع ہے۔ جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اُس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے ناقابلِ برداشت بدسلوکی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے ناموافقت ہو یا وہ مرد دراصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اُس کے گھر میں آباد رہنا ناگوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اُس کے کسی ولی کو چاہئے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہوگا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کردے اور نکاح کو توڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلانا ضروری ہوگا کہ کیوں نہ اُس کی عورت کو اُس سے علیحدہ کیا جائے۔
اب دیکھو کہ یہ کس قدر انصاف کی بات ہے کہ جیسا کہ اسلام نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اُس کا باپ یا بھائی یا اور کوئی عزیز ہوخود بخود اپنانکاح کسی سے کرلے ایسا ہی یہ بھی پسند نہیں کیا کہ عورت خود بخود مرد کی طرح اپنے شوہر سے علیحدہ ہو جائے بلکہ جدا ہونے کی حالت میں نکاح سے بھی زیادہ احتیاط کی ہے کہ حاکم وقت کا ذریعہ بھی فرض قرار دیا ہے تا عورت اپنے نقصان عقل کی وجہ سے اپنے تئیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ288،289)
تعدد ازدواج پر ہونے والے اعتراض کے ضمن میں عورت کے حق خلع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
جو شخص دو بیویاں کرتاہے اس میں خدا تعالیٰ کاحرج نہیں اگر حرج ہے تو اس بیوی کاجو پہلی بیوی ہے یادوسری بیوی کا۔ پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پاسکتی ہے اور اگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکم وقت وہ خلع کراسکتی ہے اور اگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج سمجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھتی ہے ۔
(چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ247)
حاکم وقت کے ذریعے خلع حاصل کرنے کی وجہ ؟
فرمایا:۔
مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خودبخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خودبخود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کرا سکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے ۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ37)
خلع میں جلدی نہیں کرنی چاہئے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں معراج الدین صاحب عمر کے ساتھ ایک نومسلمہ چوہڑی لاہور سے آئی۔ اس کے نکاح کا ذکر ہوا تو حافظ عظیم بخش صاحب مرحوم پٹیالوی نے عرض کی کہ مجھ سے کردیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دے دی اورنکاح ہوگیا۔ دوسرے روز اس مسماۃ نے حافظ صاحب کے ہاں جانے سے انکارکردیا اور خلع کی خواہش مند ہوئی۔ خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری نے حضرت صاحب کی خدمت میں مسجد مبارک میں یہ معاملہ پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اتنی جلدی نہیں۔ ابھی صبر کرے ۔ پھر اگر کسی طرح گذارہ نہ ہو تو خلع ہوسکتاہے اس پر خلیفہ صاحب نے جو بہت بے تکلف آدمی تھے حضرت صاحب کے سامنے ہاتھ کی ایک حرکت سے اشارہ کرکے کہا کہ حضور وہ کہتی ہے کہ حافظ صاحب کی یہ حالت ہے۔ (یعنی قوتِ رجولیت بالکل معدوم ہے) اس پر حضرت صاحب نے خلع کی اجازت دے دی ۔ مگر احتیاطًا ایک دفعہ پھر دونوں کو اکٹھا کیا گیا۔ لیکن وہ عورت راضی نہ ہوئی۔ بالآخر خلع ہوگیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ740،741)
وراثت
فاسقہ کا حقِ وراثت
ایک شخص نے بذریعہ خط حضرت سے دریافت کیا کہ ایک شخص مثلاً زید نام لا ولد فوت ہوگیا ہے۔ زید کی ایک ہمشیرہ تھی جو زید کے حین ِ حیات میں بیاہی گئی تھی۔ بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئی اپنے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور وہیں رہی یہاں تک کہ زید مرگیا ۔ زید کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغیر اس کے کہ پہلے خاوند سے باقاعدہ طلاق حاصل کرتی ایک اور شخص سے نکاح کر لیا جو کہ ناجائز ہے ۔ زید کے ترکہ میں جو لوگ حقدار ہیں کیا ان کے درمیان اس کی ہمشیرہ بھی شامل ہے یا اس کو حصہ نہیں ملنا چاہئے؟
حضرت نے فرمایا کہ:۔
اس کو حصہ شرعی ملنا چاہیے کیونکہ بھائی کی زندگی میں وہ اس کے پاس رہی اور فاسق ہو جانے سے اس کا حق وراثت باطل نہیں ہوسکتا۔ شرعی حصہ اس کو برابر ملنا چاہئے باقی معاملہ اس کا خدا کے ساتھ ہے۔ اس کا پہلا خاوند بذریعہ گورنمنٹ باضابطہ کارروائی کرسکتاہے۔ اس کے شرعی حق میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ (بدر26ستمبر1907ء صفحہ6)
متبنّٰی کو وارث بنانا جائز نہیں
کسی کا ذکر تھا کہ اس کی اولاد نہ تھی اور اس نے ایک اور شخص کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا کر اپنی جائیداد کا وارث کردیا تھا۔
فرمایا:۔ یہ فعل شرعًا حرام ہے ۔
شریعتِ اسلام کے مطابق دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بناناقطعًا حرام ہے ۔
(بدر 17؍اکتوبر1907ء صفحہ7)
یتیم پوتے کا مسئلہ
رنگون سے تشریف لائے ہوئے دوست مکرم ابو سعید عرب صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ شریعت اسلام میں پوتے کے واسطے کوئی حصہ وصیت میں نہیں ہے۔اگرایک شخص کا پوتا یتیم ہے توجب وہ مرتا ہے تو اس کے دوسرے بیٹے حصہ لیتے ہیں اور اگر چہ وہ بھی اس کے بیٹے کی اولاد ہے مگر وہ محروم رہتا ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
دادے کا اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دیدے بلکہ جو چاہے دیدے اور باپ کے بعد بیٹے وارث قرار دیئے گئے ہیں کہ تا ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ کیاجاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو اور پھر آگے اس کی اولاد ہو تو وہ وارث ہو۔اس صورت میں دادے کا کیا گناہ ہے۔یہ خدا کا قانون ہے اور اس سے حرج نہیں ہوا کرتا ورنہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں تو ہم کو چاہئے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کریں۔چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جا کر کمزوری ہو جاتی ہے اور آخر ایک حد پر آکر تو برائے نام رہ جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اور ناطہ میں ہو جاتی ہے اس لئے یہ قانون رکھا ہے۔ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر خدا تعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے جیسے قرآن شریف میں ہے
وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُوْلُوْا الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنُ فَارْزُقُوہُمْ مِّنْہُ وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(النسائ:۹)
(یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خویش و اقارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو انکو کچھ دیا کرو) تو وہ پوتا جس کا باپ مرگیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رحم کا ہے اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں (جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا) خدا تعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتہ میں کمزوری بڑھتی جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے۔
(البدر2جنوری 1903ء صفحہ76 )
لڑکی کو نصف حصہ دینے کی حکمت
قرآن کریم کا حکم ہے کہ تمہاری اولاد کے حصوں کے بارے میں خدا کی یہ وصیت ہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا کرو۔ اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:۔
یہ اس لئے ہے کہ لڑکی سسرال میں جاکر ایک حصہ لیتی ہے۔ پس اس طرح سے ایک حصہ ماں باپ کے گھر سے پاکر اور ایک حصہ سُسرال سے پاکر اس کا حصہ لڑکے کے برابر ہوجاتا ہے۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ212حاشیہ)
پردہ
پردہ کی فلاسفی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غضِ بصر اور پردہ کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے۔ اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔
اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے۔ خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے۔ یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے۔ بالآخر یاد رہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غضِّ بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہیزگار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا ۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ343،344)
پردہ پر ہونے والے اعتراض کا جواب
اسلامی پردہ پر اعتراض کرنا اُن کی جہالت ہے اللہ تعالیٰ نے پردہ کا ایسا حکم دیا ہی نہیں،جس پر اعتراض واردہو۔
قرآن مسلمان مردوں اور عورتوںکو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غض بصر کریں۔جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں،تو محفوظ رہیں گے۔یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ۔افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے؟نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے۔اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ اُن لوگوں سے مخفی نہیںہے جو اخبارات پڑھتے ہیں اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کیے جاتے ہیں۔
اسلامی پردہ سے یہ ہر گز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں۔وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی اُمور کے لیے پڑے،اُن کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیںہے،وہ بیشک جائیں،لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔مساوات کے لیے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ اُن کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میںمشابہت نہ کریں۔اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو۔اسلام شہوات کی بناء کو کاٹتا ہے۔یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کتیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں۔یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟کیا پردہ داری یاپردہ دری کا۔
(تقریرجلسہ سالانہ 28دسمبر1899ء ۔ملفوظات جلد1صفحہ297،298 )
خاص حالات میں پردہ کی رعایت
فرمایا:۔
ایسی صورت اور حالت میں کہ قہر خدا نازل ہو رہا ہو اور ہزاروں لوگ مر رہے ہوں۔پردہ کا اتنا تشدد جائز نہیںہے۔کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ کی بیوی مر گئی،تو کوئی اس کو اٹھانے والا بھی نہ رہا۔اب اس حالت میں پردہ کیا کر سکتا تھا۔مثل مشہور ہے۔مرتا کیا نہ کرتا۔مردوں ہی نے جنازہ اٹھایا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتا ہے۔دین اسلام میں تنگی و حرج نہیں۔جو شخص خوا مخواہ تنگی وحرج کرتا ہے،وہ اپنی نئی شریعت بناتا ہے۔گورنمنٹ نے بھی پردے میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دئے ہیں۔جو جو تجاویز اور اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ اسے توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے موافق عمل کرتی ہے۔کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع کیا ہے۔ (رسالہ الانذار،تقریرحضرت اقدس ؑ 2مئی1898ء بحوالہ ملفوظات جلداوّل صفحہ171)
پردہ میں حد درجہ تکلّف ضروری نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی روایت کرتے ہیں کہ سیدنا امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام قیام لاہور کے ایام میں سیر کے لئے تشریف لے جانے سے قبل مجھ غلام کو یاد فرماتے اور جب میں اطلاع کرتا ، تشریف لاتے تھے۔ یہی حضور کا معمول تھا اور میں بھی نہایت پابندی اور تعہّد سے ان اوقا ت کا انتظام اورانتظار کیا کرتا تھا۔ رتھ کے پیچھے میرے واسطے حضور نے حکم دے کر ایک سیٹ بنوادی تھی تو فٹن کی سواری میں پیچھے کی طرف کا پائیدان میرا مخصوص مقام تھا جہاں ابتداء ً مَیں پیچھے کو منہ کرکے الٹاکھڑا ہوا کرتا تھا۔ ایسا کہ میری پیٹھ حضرت اوربیگمات کی طرف ہوا کرتی تھی۔ اس خیال سے کہ بیگمات کو تکلیف نہ ہو۔ کیونکہ عمومًا سیدۃ النساء اورکوئی اور خواتین مبارکہ بھی حضرت کے ساتھ کوچوان کی طرف والی نشست پر تشریف فرما ہوتیں تو ان کی تکلیف یا پردہ کا خیال میرے الٹا کھڑے ہونے کا موجب و محرک ہوا کرتا تھا۔ مگر ایک روز کہیں حضور کا خیال میری اس حرکت کی طرف مبذول ہو گیا تو حکم دیا کہ میاں عبدالرحمن !یوں تکلّف کرکے اُلٹا کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ سفروں میں نہ اتنا سخت پردہ کرنے کا حکم ہے اور نہ ہی اس تکلف کی ضرورت۔ اَلدِّیْنُ یُسْرٌ اور جس طرح عورتوں کو پردہ کا حکم ہے اسی طرح مردوں کو بھی غضِ بصر کرکے پردہ کی تاکید ہے۔ آپ بے تکلف سیدھے کھڑے ہوا کریں۔
چنانچہ اس کے بعد پھرمیں ہمیشہ سیدھا کھڑا ہوا کرتا تھا برعائت پردہ۔ بعض بیگمات کی گودی میں بچے ہوا کرتے تھے۔ گاڑی سے اُترتے وقت ان کے اُٹھانے میں بھی میں بہت حد تک تکلف کیا کرتا تھا مگر اس سے بھی حضورؑ نے روک دیا اورمیں بچوں کو محتاط طریق سے بیگمات کی گودیوں میں سے بسہولت لے دے لیا کرتا تھا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ384،385)
پردہ کی حدود
حضرت نواب محمد علی خان صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پردہ کے متعلق دریافت کیا۔۔۔۔۔ حضور نے اپنی دستار کے شملہ سے مجھے ناک کے نیچے کا حصّہ اور مُنہ چھپا کر بتایا کہ ماتھے کو ڈھانک کر اس طرح ہونا چاہئے ۔ گویا آنکھیں کھُلی رہیں اور باقی حصہ ڈھکا رہے۔ اس سے قبل حضرت مولانا نورالدین صاحب سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا تھا تو آپ نے گھونگھٹ نکال کر دکھلایا تھا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ48)
امہات المومنین کا پردہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک لیکچر میں فرمایا کہ یہ پردہ جو گھروں میں بند ہوکربیٹھنے والا ہے جس کے لئے وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ امہات المومنین سے خاص تھا۔ دوسری مومنات کے لئے ایسا پردہ نہیں ہے ۔ بلکہ ان کے لئے صرف اخفاء زینت والا پردہ ہے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ766)
پردے میں بے جا سختی نہ کی جائے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اولؓ نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کسی سفر میں تھے۔سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیرتھی۔ آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اورپھر غیر لوگ ادھراُدھر پھرتے ہیں ۔ آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ ناچار مولوی عبدالکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں۔ بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا جاؤ جی میں ایسے پردہ کا قائل نہیں ہوں۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب سر نیچے ڈالے میری طرف آئے ۔ میں نے کہا مولوی صاحب ! جواب لے آئے؟
(سیرت المہدی جلد1صفحہ56)
نامحرم عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹرمحمد اسماعیل خان صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود ؑ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفاخانہ میں ایک انگریز لیڈی ڈاکٹر کام کرتی ہے اور وہ ایک بوڑھی عورت ہے۔ وہ کبھی کبھی میرے ساتھ مصافحہ کرتی ہے ۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جائز نہیں ہے۔ آپ کو عذر کردینا چاہئے کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ362،363)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :
عورتوں کو ہاتھ لگانا منع ہے۔ احسن طریق سے پہلے لوگوں کو بتا دیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب ایک یورپین عورت ملنے آئی تو آپ نے اسے یہی بات کہلا بھیجی تھی۔ رسول کریم ﷺ سے بھی عورتوں کا ہاتھ پکڑ کر بیعت لینے کا سوال ہوا تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ یہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ اس میں عورتوں کی ہتک نہیں۔
(الفضل 14 ستمبر 1915ء صفحہ 5)
اضطرار میں پردہ کی رعایت
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
اگر کسی موقعہ پر انتہائی مجبوری کی وجہ سے مردار یا سؤر کا گوشت استعمال کر لیا جائے تو جن زہریلے اثرات کی وجہ سے شریعت نے اِن چیزوں کو حرام قراردیا ہے وہ بہرحال ایک مومن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج کا تدارک اسی صورت میں ہو سکتاہے کہ انسان غفور اوررحیم خدا کا دامن مضبوطی سے پکڑ لے اوراُسے کہے کہ اے خدا!مَیں نے تو تیری اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لئے اِس زہریلے کھانے کو کھا لیا ہے لیکن اب تُو ہی فضل فرمااوراُن مہلک اثرات سے میری رُوح اور جسم کو بچا جو اُس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اِسی حکمت کے باعث آخر میں اِنَّ اللَّہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ کہا گیا ہے تاکہ انسان مطمئن نہ ہو جائے بلکہ بعد میں بھی وہ اُس کی تلافی کی کوشش کرتا رہے اور خدا تعالیٰ سے اُس کی حفاظت طلب کرتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غالبًا شریعت کی اِسی رخصت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کسی حاملہ عورت کی حالت ایسی ہوجائے کہ مرد ڈاکٹر کی مددکے بغیر اُس کا بچہ پیدا نہ ہو سکتا ہو اوروہ ڈاکٹر کی مدد نہ لے اوراُسی حال میں مر جائے تو اس عورت کی موت خود کشی سمجھی جائے گی ۔ اِسی طرح اگر انسان کی ایسی حالت ہو جائے کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگے اور وہ سؤر یا مردار کا گوشت کسی قدر کھالے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔
(تفسیر کبیر جلد2صفحہ345،346)
خریدوفروخت اور کاروباری امور
ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے
کسی نے پوچھا کہ بعض آدمی غلہ کی تجارت کرتے ہیں اور خرید کر اُسے رکھ چھوڑتے ہیں جب مہنگا ہو جاوے تو اسے بیچتے ہیں کیا ایسی تجارت جائز ہے؟
فرمایا:اس کو مکروہ سمجھا گیا ہے۔ میں اس کو پسند نہیں کرتا۔ میرے نزدیک شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے۔ ایک آن کی بدنیتی بھی جائز نہیں اور یہ ایک قسم کی بد نیتی ہے۔ ہماری غرض یہ ہے کہ بد نیتی دور ہو۔
امام اعظم رحمۃاﷲ علیہ کی بابت لکھاہے کہ آپ ایک مرتبہ بہت ہی تھوڑی سی نجاست جواُن کے کپڑے پر تھی دھورہے تھے۔کسی نے کہا کہ آپ نے اس قدر کے لیے توفتویٰ نہیں دیا۔ اس پر آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ آن فتویٰ است وایں تقویٰ۔پس انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہیے، سلامتی اسی میں ہے ۔اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروانہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنادیں گی اور طبیعت میں کسل اور لاپروائی پیدا ہو کر ہلاک ہو جائے گا۔ تم اپنے زیرِ نظر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لیے دقائق تقویٰ کی رعایت ضروری ہے۔ (الحکم10نومبر1905ء صفحہ5)
بیع و شراء میں عرف کی حیثیت
ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرز وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیر ۸۰ روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے ۸۱ روپے کا ہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا:۔
جن معاملات میں بیع و شراء میں مقدمات نہ ہوں ۔ فساد نہ ہوں۔ تراضی فریقین ہو اور سرکارنے بھی جُرم نہ رکھا ہو۔ عُرف میں جائز ہو ۔ وہ جائز ہے۔ (الحکم 10؍اگست 1903ء صفحہ19)
بیچنے والے کو اپنی چیز کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ہے
سوال پیش ہوا کہ بعض تاجر گلی کوچوں میں یا بازار میں اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ ایک ہی چیز کی قیمت کسی سے کم لیتے ہیں اور کسی سے زیادہ،کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا
مالک شے کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کی قیمت جو چاہے لگائے اورمانگے ،لیکن وقتِ ضرورت تراضی طرفین ہواور بیچنے والا کسی قسم کا دھوکہ نہ کرے۔ مثلًا ایسا نہ ہو کہ چیز کے خواص وہ نہ ہوں جو بیان کئے جاویںیااورکسی قسم کا دغا خریدار سے کیا جاوے اور جھوٹ بولا جاوے اور یہ بھی جائز نہیں کہ بچے یا ناواقف کو پائے تودھوکہ دے کر قیمت زیادہ لے لے اورجس کو اس ملک میں ’’لگادا‘‘ لگانا کہتے ہیں یہ ناجائز ہے۔ (بدر16مئی1907ء صفحہ10)
تجارتی روپیہ پر منافع
ایک صاحب کی خاطر حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے ایک مسئلہ حضرت اقدس ؑ سے دریافت کیا کہ یہ ایک شخص ہیں جن کے پاس بیس بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے۔ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجارت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لیے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے۔اسی طرح ہر ایک شے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آوے وہ امانت رہے۔سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سو روپیہ ان کو منافع کا دے دیا کرے گا۔یہ اس غرض سے یہاں فتویٰ دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو اُن کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کرلی جاوے۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا :
چونکہ اُنہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے اس لئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ہوا کرتی ہے۔دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں۔لہٰذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو اُن کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے۔اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں۔سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں) لیا جاتا ہے۔اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہو گئے ہیں۔کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ (البدر یکم و 8نومبر1904ء صفحہ8)
نیک نیتی میں برکت ہے
ایک زرگرکی طرف سے سوال ہو اکہ پہلے ہم زیوروں کے بنانے کی مزدوری کم لیتے تھے اور ملاوٹ ملادیتے تھے ۔اب ملاوٹ چھوڑدی ہے اور مزدوری زیا دہ مانگتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم مزدوری وہی دینگے جو پہلے دیتے تھے تم ملاوٹ ملالو۔ایسا کا م ہم ان کے کہنے سے کریں یا نہ کریں ؟فر ما یا :۔
کھوٹ والا کام ہرگز نہیں کر نا چاہئے اور لوگوں کو کہہ دیا کروکہ اب ہم نے تو بہ کرلی ہے جو ایسا کہتے ہیں کہ کھوٹ ملادو وہ گناہ کی رغبت دلاتے ہیں ۔پس ایسا کام اُن کے کہنے پر بھی ہرگز نہ کرو ۔بر کت دینے والا خدا ہے اور جب آدمی نیک نیتی کے ساتھ ایک گناہ سے بچتا ہے تو خدا ضرور بر کت دیتا ہے۔ (الحکم24؍اپریل1903ء صفحہ10)
رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے
رہن کے متعلق سوال ہو ا۔ آپ ؑ نے فر مایا کہ :۔
موجودہ تجاویز رہن جائز ہیں گذشتہ زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر فصل ہو گئی تو حکا م زمینداروں سے معاملہ وصول کر لیا کر تے تھے اگر نہ ہوتی تو معاف ہو جا تا اور اب خواہ فصل ہو یا نہ ہو حکام اپنا مطالبہ وصول کر ہی لیتے ہیں پس چونکہ حکامِ وقت اپنا مطالبہ کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تو اسی طر ح یہ رہن بھی جائز رہا کیو نکہ کبھی فصل ہو تی اور کبھی نہیں ہو تی تو دونوں صورتوں میں مر تہن نفع ونقصان کا ذمہ دار ہے ۔پس رہن عدل کی صورت میں جائز ہے ۔آجکل گور نمنٹ کے معاملے زمینداروں سے ٹھیکہ کی صورت میں ہو گئے ہیں اور اس صورت میں زمینداروں کو کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہو تا ہے توایسی صورت عدل میں رہن بیشک جائز ہے ۔
جب دودھ والا جانور اور سواری کا گھوڑا رہن با قبضہ ہو سکتا ہے اور اس کے دودھ اور سواری سے مر تہن فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو پھر زمین کا رہن تو آپ ہی حاصل ہو گیا ۔
پھر زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو فر مایا :۔
زیور ہو کچھ ہو جب انتفا ع جائز ہے تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بناتے جاویں ۔اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اُٹھا تا ہے تو اس کی زکوٰۃبھی اس کے ذمہ ہے زیور کی زکوٰۃ بھی فر ض ہے چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوٰۃ ڈیڑھ سو روپیہ دیا ہے۔پس اگر زیور استعمال کر تا ہے تو اس کی زکوٰۃ دے اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی دے۔ (الحکم24؍اپریل 1903ء صفحہ11)
رہن میں وقت مقرر کرنا
سوال:۔ ایک شخص دو ہزار روپے میں ایک مکان رہن لیتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دو سال تک راہن سے روپیہ واپس نہ لے۔ کیا رہن کرتے وقت اس قسم کی شرط رکھی جاسکتی ہے یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں۔
فقہاء کا مذہب تو یہ ہے کہ وقت کی پابندی جائز نہیں ۔ جب بھی راہن روپیہ دے وہ مکان مرتہن سے چھڑا سکتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پابندی کو جائز قراردیا ہے۔ چنانچہ جب مرزا نظام الدین صاحب کی دوکانیں حضرت ام المومنین نے رہن لیں تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ کیا وقت معین کیا جاسکتا ہے تو آپ ؑ نے اسے جائز قرار دیا۔ پس یہ شرط میرے نزدیک جائز ہے بشرطیکہ رہن جائز ہو۔ اگر رہن ہی ناجائز ہے تو پھر سال دو سال وغیرہ کی مدت کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ وہ پہلے دن سے ہی ناجائز ہے۔
فِقہ المسیح
بسم اللہ الرحمن الرحیم
خدا کے فضل اوررحم کے ساتھ
’’ھوالناصر‘‘
فِقہ المسیح
اصولِ شریعت اور فقہی مسائل سے متعلق
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
عرض حال
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت و اجازت سے حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فتاویٰ جو مختلف مواقع پر ارشاد فرمائے گئے حضور علیہ السلام کی کتب اور ملفوظات میں مندرج ہیں ان کو یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔
مسیح موعود کے لئے پہلے سے خبر دی گئی ہے کہ وہ اسلام کے مختلف فرقوں اور تمام دنیا کے لئے حکم ہو کر آئے گا اور اپنے تمام قول اور فعل میں عادل ہوگا۔
حضرت امام الزماں فرماتے ہیں:۔
اب تم خود یہ سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود، حکم، عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو۔ وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہوگا۔ لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے۔ وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا۔ وہ حکم عدل ہوگا۔ اگر اس پر تسلی نہیں ہوتی تو کب ہوگی۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ ۵۲)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ کی الگ کتابی صورت میں اشاعت سے غرض یہ ہے کہ تا احباب کو دینی اور فقہی مسائل کے بارہ میں یکجائی طور پر ارشادات پڑھنے اور جاننے میں آسانی ہو اور بوقت ضرورت اس کی تلاش کی سہولت میسر ہو۔ یہ ایک قیمتی اور گرانقدر سرمایہ ہے جو مشعل راہ ہے۔ اگر اس سے کما حقہ استفادہ کیاجائے تو کتاب اللہ کے احکامات اور اسوہ رسول کی پیروی و اطاعت اور مامور زمانہ کی تعلیمات کو جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان ہدایات کو دلنشیں کرنے اور حرز جان بنانے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کی سعادت بخشے۔ آمین
اس کتاب کی ترتیب و تحقیق اور تدوین کا جملہ کام محترم انتصار احمد نذر صاحب استاذ الجامعہ نے سر انجام دیا۔ انہوں نے بڑے شوق اور محنت اور احتیاط سے اس کی تکمیل کی۔ آپ جامعہ احمدیہ میں فقہ کے استاد ہیں اس لحاظ سے مواد کے اخذ و اختیار میں بڑی احتیاط اور توجہ دی ہے۔ یہ مسودّہ محترم مولانا مبشر احمد کاہلوں کو دکھایا گیا آپ نے محترم فضل احمد ساجد صاحب مربی سلسلہ دارالافتاء کے بنظر غائر مطالعہ اور ان کی آراء کو ملاحظہ فرما کر بڑے مفید مشوروں سے نوازا۔ مؤلف نے ان سے فائدہ اٹھایا، ان کو ملحوظ رکھ کر نظر ثانی کی ۔ فجزاہم اللّٰہ احسن الجزاء
خالد مسعود
ناظر اشاعت
حرفِ آغاز۔حَکَم عَدل کا فقہی اسلوب
کچھ فقہ المسیح کے بارے میں
{فقہ احمدیہ کے مآخذ}
1
قرآن کریم اور حدیث بطور حجت شرعیہ
5
ہر قسم کی احادیث کے لئے قرآن مِحَک ہے
6
احادیث صرف مفید ظن ہیں
7
بخاری اور مسلم کی احادیث ظنی طورپر صحیح ہیں
7
مذاہب اربعہ کا اختلاف احادیث کی بنیاد پر
8
ادب کی راہ سے حدیث کی تاویل کی جائے
9
بخاری اور مسلم محدثین کا اجتہاد ہے
10
بخاری اور مسلم کی احادیث پر اجماع ہونے کی دلیل
11
بخاری، مسلم کی صحت پر ہرگز اجماع نہیں ہوا
12
کیا بخاری مسلم کی کوئی حدیث موضوع ہے
13
سلف صالحین میں سے آپ کا امام کون ہے؟
13
الہام ملہم کے لئے حجت شرعی کے قائمقام
14
کسی حدیث کے صحیح ہونے کا مطلب
14
احکام صوم و صلوٰۃ کو ظنّی کیوں نہ سمجھا جائے؟
15
احادیث کے دو حصے
16
مراتب صحت میں تمام حدیثیں یکساں نہیں
17
تعامل حجت قوی ہے!
17
تعا مل کے درجے
17
بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع نہیں
18
خبر واحد سے قرآن پر زیادت ہوسکتی ہے
19
حدیث سے کیا مراد ہے؟
19
حدیث ، جو معارض قرآن نہ ہو قابل قبول
19
اجماع کی تعریف از فقہاء
20
اجماع کی تعریف از حضرت مسیح موعود ؑ
22
اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا
23
قرآن مجید کے خلاف اجماع نا قابلِ قبول
23
صحابہؓ کا پہلا اجماع تمام انبیاء کی وفات پر
23
حیاتِ مسیح پر اجماع نہیں ہوا
24
اجماع کے معنوں میں اختلاف
24
اجماع صحابہ ؓ کی اتباع ضروری ہے
24
ایک صحابی کی رائے شرعی حجت نہیں
25
شرعی حجت صرف اجماع صحابہ ؓہے
25
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد
25
کیا خبرواحد واجب العمل ہے؟
25
مخالف قرآن احاد احادیث ناقابل قبول
26
قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں!
26
جماعت کے لئے لائحہ عمل
27
ہماری مسلمہ کتابیں
28
بخاری اور مسلم کا مقام
28
{علم فقہ اور فقہاء }
31
تَفَقُّہ فِی الدِّین کی ضرورت
31
اَئمہ اربعہ اسلام کے لئے چاردیواری
31
اَئمہ اربعہ برکت کا نشان تھے
32
حضرت امام ابو حنیفہ کا عالی مقام
32
فخرالأئمہ ،امام اعظم ابو حنیفہؓ
34
حنفی مذہب پر عمل کی مشروط ہدایت
34
مسیح موعود ؑکے حنفی مذہب پر ہونے سے مراد
34
مجددین ضرورت وقت کے مطابق آتے ہیں
35
غیر مقلدین سے بھی تعصب نہ رکھو
35
خانہ کعبہ میں چاروں مذاہب فقہ کے مُصلّے
35
تقلید کی بھی کسی قدر ضرورت ہے
36
اختلافِ فقہاء
37
جائز قیاس، جو قرآن و سنت سے مستنبط ہو
38
سنّت صحیحہ معلوم کرنے کا طریق
38
قیاس کی حجت
39
مقلدوں اور غیر مقلدوں کے اختلافات
40
عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف وجوہ کفر
40
وہابیوں کی ظاہرپرستی
41
وہابیوں اور چکڑالویوں کا افراط و تفریط
43
احناف کا احوال
44
شافعی فرقے کے طوراطوار
45
جزئی مسائل میں مباحثے پر ناپسندیدگی
45
فقہی اختلافات کی بنیاد پر کافر نہ کہو
46
حضرت مولوی نورالدینؓ کا حنفی ہونے کا اعلان
47
اہل حدیث طریق کی ناپسندیدگی
48
کتبِ فقہ پرنظرثانی کی ضرورت
49
{ نمازکی حکمتیں }
50
اوقاتِ نماز کی فلاسفی
50
باجماعت نماز کی حکمت
51
ارکان نماز پُر حکمت ہیں
52
شراب کے پانچ اوقات کی جگہ پانچ نمازیں
53
{ اذان }
54
اذان خدا کی طرف بلانے کا عمدہ طریق
54
اذان کے وقت خاموش رہنا لازمی نہیں
54
بچے کے کان میں اذان
55
کیا اذان جماعت کے لئے ضروری ہے
55
{ وضو}
56
ظاہری پاکیزگی کا اثر باطن پر
56
وضو کی حقیقت اور فلاسفی
56
وضو کے طبّی فوائد
57
وضو میں پاؤں دھونا ضروری ہے
58
مضرِ صحت پانی کو استعمال نہ کریں
58
گندے جوہڑ کے پانی سے وضو درست نہیں
59
کنوئیں کو پاک کرنے کا مسئلہ
59
حضرت مسیح موعود ؑ کے وضو کا طریق
60
مَوزوں پر مَسح
61
پھٹی ہوئی جراب پر مسح کرنا
61
بیمار کا مسلسل اخراج ِ ریح ناقضِ وضو نہیں
61
شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو نہیں ٹوٹتا
62
کپڑے صاف نہ ہونے کاشک
62
سجدہ والی جگہ پاک ہو تو نماز ہوجاتی ہے
63
{ ارکانِ نماز }
64
ارکانِ نماز کی حقیقت
64
تکبیر تحریمہ
65
بسم اللہ جھرًا یا سِرًّا دونوں طرح جائزہے
65
رفع یدین
66
رفع یدین پر عمل چھڑوادیا
67
فاتحہ خلف الامام
68
فاتحہ خلف الامام پڑھنا افضل ہے
68
مقتدی کے لئے سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری
69
رکوع میں مِلنے والے کی رکعت ہوجاتی ہے
73
تشہد کے وقت انگلی اُٹھانا
74
تشہّد میں انگلی اُٹھانے کی حکمت
75
رکوع و سجود میں قرآنی دُعا کرنا
75
سینے پر ہاتھ باندھنا
76
نماز میں ہاتھ ناف سے اوپر باندھنا
76
رکوع و سجود میں قرآنی دعاؤں کی ممانعت
77
{ نماز با جماعت }
78
امام کہاں کھڑا ہو؟
78
امام مقتدیوں کا خیال رکھے
78
بیماری کے باوجود حکیم فضل دین ؓ کو امام بنانا
79
غسّال کے پیچھے نماز
79
امامت کو بطور پیشہ اختیار کرنا
80
اجرت پر امام الصلوٰۃ مقرر کرنا
80
دوسری جماعت
81
بعض صورتوں میں دو جماعتوں کی ممانعت
81
بلا وجہ جماعت الگ الگ ٹکڑوں میں نہ ہو
82
امام الصلوٰۃ کے لئے ہدایت
82
مکفّرین ومکذبین کے پیچھے نماز پڑھنا حرام
83
غیر احمدی امام کا اقتداء ناجائز
83
غیر احمدی کے پیچھے نماز
83
غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔ الگ پڑھو!
84
غیروں کے پیچھے نماز
84
امام بطور وکیل کے ہوتا ہے
85
غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کی حِکمت
85
غیروں کی مساجد میں نماز
85
تنہا احمدیوں کے لئے ہدایت
86
پیشہ ورامام کے پیچھے نماز درست نہیں
86
غیروں کے پیچھے نماز
86
مصدّق کے پیچھے نماز
87
{ متفرق مسائل نماز }
88
نمازوں کی ترتیب ضروری ہے
88
نماز باجماعت کھڑ ی ہونے پر سنتیں پوری کرنا؟
89
سنتوں کے متعلق حضرت مسیح موعود ؑ کا معمول
91
مسجد کے ستونوں کے درمیان نماز
92
طلوعِ فجر کے بعد سورج نکلنے تک نوافل جائز نہیں
92
امام کے سلام پھیرنے سے قبل سلام پھیرنا
92
بآواز بلند اپنی زبان میں دعا
93
جھرًا دعائیں پڑھنا
94
سجدہ میں قرآنی دعائیں پڑھنامنع کیوں ؟
95
الہامی کلمات نماز میں بطور دعا پڑھنا
96
.6الہامی دعائیں واحد کی بجائے جمع کے صیغہ میں پڑھنا
96
حالات کے مطابق دعا کے الفا ظ میں تبدیلی
97
قرآنی دعاؤں میںتبدیلی مناسب نہیں
97
دعا میں رقت آمیز الفاظ کا استعمال
98
وتر کیسے پڑھے جائیں
98
بہتر ہے اول وقت وتر پڑھ لیں
98
حضرت مسیح موعود ؑ کا وتر پڑھنے کا طریق
99
وتر اور دعائے قنوت
99
تہجد کی نماز کا طریق
100
تہجد کا اوّ ل وقت
101
ایک رکعت میں قرآن ختم کرنا
101
نماز اشراق پر مداومت ثابت نہیں
101
تعداد رکعات
102
نماز کے بعد تسبیح
103
غیر معمولی اوقات والے علاقوں میں نماز
104
نماز جمع کرنے کی صورت میں سنتیں معاف
105
نماز میں قرآن شریف کھول کر پڑھنا مناسب نہیں
107
امامِ وقت کے بلانے پر نماز توڑنا
107
ضرورتًا نماز توڑنا
108
سخت مجبوری میں نماز توڑناجائز ہے
108
جوتا پہن کر نماز پڑھنا جائز ہے
109
پان منہ میں رکھ کر نماز ادا کرنا
109
عورت مرد کے پیچھے الگ صف میں نماز پڑھے
109
نماز میں عورتوں کی الگ صف
110
نماز میں مجبورًاعورت کو ساتھ کھڑا کرنا
110
امام کاجھرًا بسم اللہ پڑھنا اور قنوت کرنا
111
نمازوں میں قنوت کی دعائیں
111
مخصوص حالات میں قنوت پڑھنا
112
نمازکے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کرنا
113
نماز میںاپنی زبان میں دعاکرنا جائز ہے
114
نماز میں اپنی زبان میںبھی دعا کرو
115
نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکر دعا کرواناچھوڑ دیا
116
نماز کے بعد ہاتھ اُٹھاکردعا کرنا بدعت ہے
118
کسی اور زبان میں نماز پڑھنا درست نہیں
122
{ نمازیں جمع کر نا }
123
مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی
123
بیماری کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا
123
جمع بین الصلوٰتین مہدی کی علامت ہے
124
مسیح موعودؑ کیلئے نمازیں جمع کئے جانے کی پیشگوئی
126
جمع بین الصلوٰتین کی رخصت سے فائدہ اٹھانا
127
تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃ کے نشان کا ظہور
127
جمع صلوٰتین میں افراط اور تفریط سے بچنا چاہئے
128
کس قدر مسافت پر نماز جمع کی جائے
129
سخت تنگی کے وقت نمازیں جمع کرنا
130
غزوئہ خندق کے موقع پر کتنی نمازیں جمع کی گئیں
130
{ نماز استخارہ }
132
استخارہ کی اہمیت
132
سفر سے پہلے استخارہ کا طریق
132
ہر اہم کام سے پہلے استخارہ کرنا
133
نماز عصر میں استخارہ
134
استخارہ میں کونسی سورتیں پڑھیں
134
حضرت مسیح موعود ؑکا طریق استخارہ
135
استخارہ کا ایک آسان طریق
136
کھلے نشانات دیکھ استخارہ کرنا جائز نہیں
137
{ نماز استسقاء }
138
{ نماز کسوف }
139
{ قصر نماز }
140
سفر کی تعریف
140
سفر کی حد کیا ہے؟
140
مرکز میں نمازوں کا قصرجائز ہے
141
کتنے دنوں کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے؟
142
ملازمت پیشہ دوران سفر قصر نہ کرے
144
سفر سے پہلے نمازوں کا جمع کرنا
145
مقیم پوری نماز ادا کرے
145
سفر میں قصر کی حد
146
قصرنماز کا تعلق خوف اور ہر سفر کے ساتھ ہے
147
{ حضرت مسیح موعود ؑکا طریق نماز}
148
حضرت مسیح موعود ؑ کی نمازکا تفصیلی نقشہ
152
{ نماز جمعہ اور عید }
157
جمعہ کا اہتمام
157
نمازجمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنا
157
کیادوافراد کا جمعہ ہوسکتا ہے؟
158
جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے
159
اپنا جمعہ الگ پڑھو
159
نمازِ جمعہ کے بعد احتیاطی نماز
159
جمعہ دو جگہوں پر
161
قادیان میں دو جمعے اوراس کی وجہ
162
سفر میں نمازِ جمعہ
163
جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کی تجویز
164
تعطیل جمعہ کے لئے حکومت کومیموریل بھیجنا
164
اگر جمعہ کا خطبہ ثانیہ نہ آتا ہو
167
قضاء عمری
167
عورتوں کے لئے جمعہ کا استثناء
168
قادیان میں عیدالفطر
168
عیدین کی تکبیرات
169
خطیب اور امام الگ الگ ہوسکتے ہیں
169
{مساجد }
170
مساجد کیسی ہوں
170
مسجد کا ایک حصہ مکان میں ملانا
171
ایک مسجد کے لئے چندہ کی درخواست
171
{ نمازجنازہ اور تدفین }
172
سورۃ یٰسین کی سنت پر عمل کرنا
172
وفات کے متعلق عوام کے بعض غلط تصورات
172
غسل میت۔ بیری کے پتوں کا استعمال
173
سب کا جنازہ پڑھ دیا
173
حضرت مسیح ناصریؑ کا جنازہ
174
خاندانی قبرستان میں دعا
174
چہلم کی حکمت
175
مزاروں کی زیارت
175
مُردہ سے مدد مانگنا جائز نہیں
176
قبرستان میں جاکر منتیں مانگنا
177
میت کوگاڑی پر قبرستان لے جانا
177
صبح کے وقت زیارت قبورسنت ہے
178
قبر پر جاکر کیا دعا کرنی چاہئے؟
179
حفاظت کے خیال سے پختہ قبر بنانا جائزہے
180
قبروں کی حفاظت اور درستگی کروانا
181
کیافاتحہ خوانی جائز ہے
182
کھانے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے
182
میت کی طرف سے صدقہ کرنا اور قرآن پڑھنا؟
183
جس کے ہاں ماتم ہو اُس کے ساتھ ہمدردی
184
کسی احمدی کا طاعون سے مرنا
185
احمدی شہید کا جنازہ فرشتے پڑھتے ہیں
185
غیر احمدیوں کی نمازِ جنازہ پڑھنا
186
طاعون سے مرنے والے مخالفین کا جنازہ
187
غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنے کا مسئلہ
187
مشتبہ الحال شخص کا جنازہ
190
کشفی قوت کے ذریعہ میّت سے کلام
191
مُردوں سے استفاضہ
192
نعش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا
192
امانتًا دفن شدہ میت کا چہرہ دیکھنا
192
تدفین کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا
193
{ روزہ اور رمضان }
194
رؤیت ہلال
194
چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟
195
چاند دیکھنے کی گواہی
195
چاند دیکھنے کی گواہی
196
سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال
198
سفر میں روزہ ۔حکم ہے اختیار نہیں
198
مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں
199
ظہر کے وقت روزے کھلوادئیے
202
عصر کے بعد روزہ کھلوادیا
202
سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا
202
سفر میں روزہ کھول دینا
203
سفر میں رخصت ۔ ملامت کی پرواہ نہ کی
204
مسافر کا حالت قیام میں روزہ رکھنا
205
بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا
208
معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت
208
بیماری میں روزہ کے متعلق حضور ؑ کا معمول
209
مسافر اور مریض فدیہ دیں
210
فدیہ دینے کی کیا غرض ہے ؟
210
فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا
211
فدیہ کسے دیں؟
212
مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے
212
روزہ کس عمر سے رکھا جائے
212
کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت
214
شوّال کے چھ روزوں کا التزام
215
روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا
216
روزہ کی حالت میںسر یا داڑھی کو تیل لگانا
216
روزہ کی حالت میںآنکھ میں دوائی ڈالنا
216
روزہ دارکاخوشبو لگانا
216
روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
217
نمازِ تراویح
217
تراویح کی رکعات
217
تراویح دراصل نماز تہجد ہی ہے
218
نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا
218
بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
219
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا
219
کیامحرم کے روزے ضروری ہیں ؟
219
اعتکاف
219
اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا
220
اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات
220
اعتکاف میں مقدمہ کی پیشی پر جانا؟
220
{ زکوٰۃ }
221
روزے، حج اورزکوٰۃ کی تاکید
221
زکوٰۃ کا نام رکھنے کی وجہ
221
صدقہ کی حقیقت
221
زیور پر زکوٰۃ
222
قرض پر زکوٰۃ
222
مُعلّق مال پر زکوٰۃ واجب نہیں
222
سیّد کے لئے زکوٰۃ؟
222
زکوٰۃ کی رقم سے حضور ؑ کی کتب خرید کر تقسیم کرنا
223
صاحب توفیق کے لئے زکوٰۃجائز نہیں
223
زکوٰۃ مرکز میں بھیجی جائے
224
مکان اور جواہرات پر زکوٰۃ نہیں
224
صدقہ کا گوشت صرف غرباء کا حق ہے
224
صدقہ کی جنس خریدنا جائز ہے
225
حضورؑ نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ لینا جائز قرار نہ دیا
225
{ حج }
226
حج کی تاکید
226
ارکان حج کی حکمتیں
226
حج کی شرائط
228
حضورؑ کے حج نہ کرنے کی وجوہات
229
حج کی مشکلات سے نہ گھبراؤ
231
مسیح موعود کی زیارت کو حج پر ترجیح دینا
233
مامور من اللہ کی صحبت کا ثواب نفلی حج سے زیادہ ہے
233
حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے حج بدل
234
{ قربانی کے مسائل }
235
قربانی کی حکمت
235
دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے
235
قربانی میںدیگرمذاہب پر اسلام کی فضیلت
235
قربانی صرف صاحب استطاعت پر واجب
236
غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر قربانی کرنا
236
بکرے کی عمر کتنی ہو؟
237
ناقص جانور قربانی کے لئے ذبح نہ کیا جائے
237
عیدالاضحی کاروزہ
237
عقیقہ کس دِن کرنا چاہئے
238
حضورؑ کا ایک دوست کی طرف سے عقیقہ کرنا
238
عقیقہ کے واسطے کتنے بکرے مطلوب ہیں؟
239
عقیقہ کی سنت دو بکرے ہی ہیں
239
{ نکاح }
240
نکاح کی اغراض
240
عورتوں کو کھیتی کہنے کی حکمت
241
منگنی نکاح کے قائم مقام نہیں
242
نکاح میں لڑکی کی رضامندی ضروری ہے
242
احمدی لڑکی کاغیر احمدی سے نکاح جائز نہیں
243
غیر احمدی کو لڑکی دینے میں گناہ ہے
243
مخالفوں کو لڑکی ہرگز نہ دو
243
رشتہ کے لئے لڑکیوں کا دِکھانا
244
ہم کفو رشتہ بہتر ہے لیکن لازمی نہیں
245
نکاح طبعی ا وراضطراری تقاضاہے
245
کم عمری کی شادی جائز ہے
246
حضرت عائشہؓ کی شادی پر اعتراض کا جواب
248
تعدّد ازدواج میں عدل کے تقاضے
249
اسلام نے کثرتِ ازدواج کا راستہ روکا ہے
251
تعدّد ازدواج کی ضرورت اور حکمت
251
تعدد ازدواج ۔حکم نہیں بلکہ اجازت ہے
256
بیویوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے
257
عورتوں کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے
258
تعدد ازدواج برائیوں سے روکنے کا ذریعہ ہے
260
پہلی بیوی کی موجودگی میں رشتہ کرنا
261
مہر کی مقدار
261
حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہو
262
واجب الادا مہر کی ادائیگی لازمی ہے
262
مہر کی ادائیگی سے قبل مہر کی معافی نہیں ہوسکتی
263
اعلانِ نکاح ضروری ہے
263
ولیمہ
265
شادی کے موقعہ پر لڑکیوں کا گانا
265
نکاح پر باجا اور آتش بازی
266
مہرنامہ رجسٹری کروانا
267
نکاح کے موقع پر زائد شرط رکھنا
268
حضورؑ کا ایک لڑکی کی طرف سے ولی بننا
268
بیوگان کا نکاح کرلینا بہتر ہے
269
سکھ عورت مسلمان کے نکاح میں رہ سکتی ہے
270
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کاکم عمری میں نکاح
271
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
271
حلالہ حرام ہے
272
نکاح خواں کو تحفہ دینا
274
حیض کے دنوں میں عورتوں سے کیسے تعلقات ہوں
275
وٹے سٹے کی شادی اگر مہر دے کر ہو تو جائز
275
نکاح متعہ کی ممانعت
276
اسلام میں متعہ کا کوئی حکم نہیں
276
اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا
278
متبنّٰی حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا
279
متبنّٰی کی مطلقہ سے نکاح کا جواز
282
{ طلاق }
284
طلاق کی اجازت دینے میں حکمت
284
طلاق کا اختیار مرد کو کیوں دیا؟
284
عورت نکاح توڑنے کی مجاز کیوں نہیں ؟
285
طلاق کا موجب صرف زنا نہیں
286
طلاق کے بعد مہر عورت کا حق ہے
286
طلاق کا قانون باعث رحمت ہے
287
طلاق کی ضرورت
287
وجوہ طلاق ظاہر کرنا ضروری نہیں
289
کیا بوڑھی عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے؟
289
طلاق میں جلدی نہ کرو
291
شرطی طلاق
292
طلاق اور حلالہ
293
طلاق وقفے وقفے سے دی جائے
294
ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینا ناجائز ہے
295
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
296
نابالغ کی طرف سے اس کا ولی طلاق دے سکتا ہے
297
{ خلع }
298
عورت کو خلع کا اختیار حاصل ہے
298
حاکمِ وقت کے ذریعے خلع حاصل کرنے کی وجہ
299
خلع میں جلدی نہیں کرنی چاہئے
299
{ وراثت }
301
فاسقہ کا حقِ وراثت
301
متبنّٰی کو وارث بنانا جائز نہیں
301
یتیم پوتے کا مسئلہ
302
لڑکی کو نصف حصہ دینے کی حکمت
303
{ پردہ }
304
پردہ کی فلاسفی
304
پردہ پر ہونے والے اعتراض کا جواب
305
خاص حالات میں پردہ کی رعایت
306
پردہ میں حد درجہ تکلّف ضروری نہیں
306
پردہ کی حدود
307
امہات المومنین کا پردہ
308
پردے میں بے جا سختی نہ کی جائے
308
نامحرم عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں
309
اضطرار میں پردہ کی رعایت
209
{ خریدوفروخت ؍ کاروباری امور }
311
ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے
311
بیع و شراء میں عرف کی حیثیت
311
.6بیچنے والے کو اپنی چیز کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ہے
312
تجارتی روپیہ پر منافع
312
نیک نیتی میں برکت ہے
313
رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانا جائز
313
رہن میں وقت مقرر کرنا
314
رہن باقبضہ ہواور تحریر لینا بھی ضروری ہے
315
تیس سال کے لئے باغ رہن رکھوانا
315
زمین کی تقسیم کے لئے قرعہ ڈالنا
317
مجبور لوگوں کو مہنگے داموں غلہ فروخت کرنا جائز نہیں
318
آبکاری کی تحصیلداری
318
نوٹوں پر کمیشن
319
{ سود ، انشورنس ، بینکنگ }
320
سود
320
سود در سود
320
پراویڈنٹ فنڈ
320
تجارت کے لئے سودی روپیہ لینے کی ممانعت
321
.6بینکوں کا سود اشاعت اسلام کے لیے خرچ کرنا
323
انشورنس یا بیمہ
327
لائف انشورنس
327
سیونگ بنک اور تجارتی کارخانوں کے سود
328
کسی قیمت پرسودی قرضہ نہ لے
329
سودکی مصیبت سے بچنے کے لئے سود لینا
330
بیمہ زندگی
331
اخبار کی پیشگی قیمت کم اور مابعد زیادہ
332
{ حکومت کی اطاعت }
333
حضرت مسیح موعود ؑ کے پانچ اصول
333
حکام برادری سے حسن سلوک
333
انگریزوں کی حکومت میں رہنے کا مسئلہ
334
اُولوالامرکون ہے
336
اولو الامر کی اطاعت
337
دو انگریزوں کے قتل ناحق پر اظہار ناراضگی
338
حکومت کی طرف سے دی گئی آزادی
340
کیا ہندوستان دارالحرب ہے؟
341
ہر قسم کی بغاوت سے بچو
344
طلباء کو ہڑتال ختم کرنے کی نصیحت
348
ہڑتال میں شمولیت پرسخت تنبیہ
349
حکام اورسب مذاہب والوں سے نیکی کرو
351
رشوت کی تعریف
352
گورنمنٹ کے حقوق تلف نہ ہوں
352
قومی اور حکومتی زبان سیکھو
353
پٹواریوں کیلئے زمینداروں کے نذرانے
353
شہر کے والی ؍ حاکم کے لئے دعائیہ نوافل
353
گورنمنٹ کے قوانین کی اطاعت کرو
355
حکومت کی مخالفت میں ہڑتال کی ممانعت
355
{ حلّت وحرمت }
356
پاک چیزیں حلال ہیں
356
دریائی جانوروں کی حلت کا اصول
356
اصل میں اشیاء حلال ہیں
356
خرگوش حلال ہے
357
شراب اور جوئے کی حرمت
357
دوسری قوموں سے سود لینا بھی حرام ہے
357
شراب کی حرمت
358
شر اب کی مضر اثرات
358
حرمت خنزیر اور اس کی وجوہات
359
تورات و انجیل میں سؤر کی حرمت
360
حلت و حرمت میں زیادہ تفتیش نہ کرو
361
رضاعت سے حرمت
362
رشوت کی تعریف
363
زنا تضییع نسل کا موجب ہے
363
تکبیر پڑھ کر پرندہ شکار کرنا
364
جانور کو ذبح کرنا ضروری ہے
364
نجاست خور گائے کا گوشت حرام ہے
365
علاج کے طورپر ممنوع چیزوں کا استعمال
365
نشہ آور چیزیں مضر ایمان ہیں
366
تمام نشہ آور اشیاء کے استعمال کی ممانعت
366
نشہ آور اشیا کا استعما ل عمر کو گھٹا دیتا ہے
367
افیون کے مضراثرات
367
نشہ آور چیزوں سے بچنے کا عملی نمونہ
367
تمباکو نوشی کے مضراثرات
368
حقہ نوشی پر ناپسندیدگی کا اظہار
369
حقہ آہستہ آہستہ چھوڑدو
370
تمباکو ؍ زردہ کا استعمال
371
مقوی صحت ادویات کا استعمال جائز
372
طیبات کا استعمال
373
تصویر کی حرمت کا مسئلہ
374
{ بدعات اور بد رسومات }
377
سماع
377
مزامیر
377
نظربٹّو
379
صوفیاء کے طریقوں کوحسن ظنی سے دیکھنا
379
عورتوں کو خصوصی نصائح
381
محرم میں رسومات سے بچو
386
فوت شدگان کے نام پر روٹی تقسیم کرنا
387
نقشبندی صوفیاء کے ذکر واذکارکے طریق
387
.6بدعات سے روکنے کے لئے ناجائز طریق اختیار کرنا.6
389
بعض رسوم فوائد بھی رکھتی ہیں
389
فاتحہ خوانی اور اسقاط
390
میّت کے لئے اسقاط
390
قل خوانی
391
میت کے لئے فاتحہ خوانی
391
ختم اور فا تحہ خوانی
391
چہلم کی رسم ناجائز ہے
392
مسجدکی امامت اور ختم پر اجرت لینا
392
طاعون سے محفوظ رہنے کے لئے زیارتیں لیکر نکلنا
393
یا شیخ عبدالقادر جیلانی کہنا کیسا ہے
394
مولودخوانی
395
گدی نشینوں کی بدعات
397
سر ودکی رسم
398
فقراء کے نت نئے طور طریقے
399
بہترین ریاضت
401
آج کل کے پیر
401
جھنڈ یا بودی رکھنا
402
میّت کے نام پر قبرستان میں کھانا تقسیم کرنا
402
محرم پر تابوت بنانا اور اس میں شامل ہونا
403
دسویں محرم کو شربت اور چاول کی تقسیم
403
ذکر اَرَّہ کرنا کیسا ہے؟
403
تسبیح کا استعمال کیسا ہے؟
404
سورہ فاتحہ کے تعویذ کی برکت
405
تعویذ گنڈوں کے فوائدتصوراتی ہیں
407
دلائل الخیرات کا ورد
408
بابا بُلّھے شاہ کی کافیاں
408
بسم اللہ کی رسم
409
کلام پڑھ کر پھونکنا
410
کشف قبورکا دعویٰ بے ہودہ بات ہے
410
خودساختہ وظائف واذکار
410
تصورِ شیخ
413
قلب جاری ہو جانے کا مسئلہ
414
حبس دم
417
نصف شعبان کی رسوم
417
برآمدگی مراد کے لئے ذبیحہ دینا
417
{ نئی ایجادات،فوٹو گرافی ،ٹیکہ،ریل}
418
اسباب سے استفادہ جائز ہے
418
خادمِ شریعت فن جائز ہے
418
فوٹو گرافی
419
تصویر مفسد نمازنہیں
420
حضرت مسیح موعود ؑ کی تصویرکارڈپرچھپوانا
422
فوٹوبنوانے کی غرض
424
فوٹو گرافی کا جوازاور اس کی ضرورت
425
ضرورت کیلئے تصویر کا جواز
426
حضور کی نظموں کی ریکارڈنگ
426
کفارکی مصنوعات کا استعمال جائز ہے
427
ریل کا سفر ہمارے فائدہ کے لئے ہے
427
{ امورِ معاشرت، رہن سہن، باہمی تعاون }
428
وحدت قومی سے وحدت اقوامی تک
428
مخا لفوں کو سلام کہنا
431
غیر تہذیب یافتہ لوگوں کیساتھ برتاؤ
431
شادی پر عورتوں کا مل کر گیت گانا
432
بعض مواقع پر غیر معمولی خوشی کا اظہار کرنا
432
ایک ہندومہمان کے ساتھ خوش خلقی
433
ہندوئوں سے ہمدردی
434
اہلِ کتاب کا کھانا
434
وجودی فرقے کا ذبیحہ کھانا
437
خواب کو پورا کرنا
437
طبیب ہمدردی کرے اور احتیاط بھی
437
طاعون سے مرنے والے کو غسل کیسے دیں؟
438
طاعون زدہ علاقوں کے احمدیوں کیلئے حکم
438
نشان کے پورا ہونے پر دعوت دینا جائز
440
مجالس مشاعرہ
441
نسل افزائی کیلئے سانڈرکھنا
441
بدامنی کی جگہ پر احمدی کا کردار
442
تشبّہ بالکفار
442
کھانے کے لئے چھری کانٹے کا استعمال
443
اپریل فول ایک گندی رسم ہے
444
عیسائیوں کے کنویں کا پانی نہ لیا
445
دینی غیرت کا اظہار ؍ مٹھائی نہیں کھائی
445
بدگومخالفین سے معانقہ ناجائز
446
ناول لکھنا اور پڑھنا
447
غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا
447
عیسائیوں کا کھانا جائز ہے
447
ہندوئوں کے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا
448
ہندو رئیسہ کی دعوت اور نذرقبول کرنا
448
ہندوساہوکار کی دعوت میں شرکت
449
ہندوؤں کے ساتھ لین دین ؍ معاشرت
450
مقد مات میں مصنوعی گواہ بنانا
450
اشعار اور نظم پڑھنا
451
شعر کہنا
451
آتش بازی
452
آتش بازی ؍ باجا
453
سکھوں اور ہندوئوں کا اذان دلوانا
454
سونے چاندی او ریشم کا استعمال
454
رشوت کے روپیہ سے بنائی گئی جا ئیداد
455
طاعون زدہ علاقہ میں جانے کی ممانعت
455
بھاجی قبول نہ کرنا
456
بچے کی ولادت پر مٹھائی بانٹنا
456
بیعت کے موقعہ پر شیرینی تقسیم کرنا
457
بچے کی پیدائش پر شکرانہ کے لڈو
458
گانے بجانے کی مجلس سے علیحدگی
458
ٹنڈ کروانے کی ناپسندیدگی
459
حضرت مسیح موعود ؑ کے مصافحہ کاطریق
461
لباس میں سادگی
461
لباس۔ سبز پگڑی پہننا
463
حضرت مسیح موعود ؑ کی بعض عاداتِ مبارکہ
463
حضرت مسیح موعود ؑ کا وسمہ اور مہندی استعمال کرنا
465
{ متفرق }
466
قرآن شریف کی جامعیت
466
قرآن کریم میں سب قوانین موجود ہیں
466
قرآن کریم اورسائنس
467
قرآن کا صرف ترجمہ پڑھ لینا کافی نہیں
467
نماز اور قرآن شریف کا ترجمہ جاننا ضروری
467
تکلف سے قرآن پڑھنے کی ناپسندیدگی
468
کلام پڑھ کر پھونکنا
468
قرآن شریف پڑھ کر بخشنا ثابت نہیں
468
قرآن شریف سے فال لینے کی ناپسندیدگی
469
تلاوت کے دوران اگر وضو ساقط ہوجائے
469
ایام حیض میں قرآن کریم نہ پڑھیں
469
قرآن شریف کے اوراق کا ادب
470
آمین کی تقریب پر تحدیث نعمت
470
تعظیمِ قبلہ
471
سورۃ فاتحہ کا دَم
471
تعویذاوردَم
472
شکرانہ کی نیت سے نذر ماننا درست ہے
473
چندہ دینے کی نیت سے نذر ماننا
474
قسم توڑنا
476
ایک خواب کی بنیاد پر کیا جانے والاوظیفہ
477
دین اسلام کے پانچ مجاہدات
478
سخت مجاہدات کرنے پر ناپسندیدگی
479
اپنی عمر دوسرے کو لگا دینے کی دعا کا جواز
479
مسمریزم/ عمل الترب
480
متعدی بیماریوں سے بچاؤ کرنا چاہئے
482
متعدی بیماری سے بچاؤکی تدبیر
482
طاعون زدہ علاقہ سے باہر نکل جاؤ
482
زلزلہ کے وقت سجدہ ریز ہوجانا
483
برتھ کنٹرول
483
لونڈیاں کیوں بنائی گئیں؟
484
زنا کی گواہی
486
مہندی لگانا سُنت ہے
486
والدین کی فرمانبرداری کس حد تک ؟
487
داروغہ نہ بنو
490
بڑی عمر میں ختنہ کرواناضروری نہیں
491
حضرت مسیح موعود ؑ کی بعض خصوصیات
491
حضرت مسیح موعود ؑ کی اولاد کیلئے صدقہ ناجائز
492
رسول اللہ ﷺ کے لئے سلامتی کی دعا
492
ہر نو مسلم کے نام کی تبدیلی ضروری نہیں
493
حضرت مسیح موعود ؑ کا تبرک دینا
494
حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ کا تبرک
495
داڑھی رکھنا انبیاء کا طریق ہے
495
داڑھی تراشنے کا جواز
495
داڑھی کیسی ہو؟
496
حرام مال اشاعت اسلام میں خرچ کرنا
497
حاکم پر رعب ڈالنے کا وظیفہ
498
کھانے کے لئے خاص طریق اختیار کرنا
499
ایک پیر کے بعددوسرے کی بیعت کرنا
500
خدا کی طرف سے بیعت لینے کا حکم
500
بیعت کا طریق
500
ارواح سے کلام
501
خدا کے حکم سے مجاہدات بجا لانا
502
اپنی تجویزسے شدید ریاضتیں نہ کرو
503
سینہ پر دَم کردیا
504
اگر حیلہ خدا سمجھائے تو شرع میں جائز ہے
505
ریڈیو کے ذریعے گانا سننا
505
زندوں کا توسل جائز ہے
506
تعبیر کرنے والے کی رائے کااثر؟
506
کسی نام سے فال لینا
506
کسی کتاب سے فال لینا
507
کسی نام سے بُری فال لینا جائز نہیں
507
ہم تعویذ گنڈے نہیں کرتے
508
سجدئہ تعظیمی کی ممانعت
508
غیر ضروری تفتیش کرنا منع ہے
509
توریہ کا جواز اور اس کی حقیقت
509
مذہبی آزادی ضروری ہے
513
{ جہادکی حقیقت }
514
جہاد بالقتال کی ممانعت کا فتوی
514
لفظ جہد کی تحقیق
514
کفار کی جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیاں
516
خدا کی طرف سے مقابلہ کی اجازت
517
جہاد کا موجودہ غلط تصور
518
اب جہاد کیوں حرام ہوگیا؟
520
صحابہؓ کے صدق اور صبر کے نمونے
522
موجودہ تصور جہاد نفسانی اغراض پر مبنی
523
اپنی جماعت کو نصیحت
526
اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے
527
حکمران علماء کے ذریعہ عوام کو سمجھائیں
530
محسن گورنمنٹ کی خدمت میں گزارش
532
حضرت اقدس کا التوائے جہادکافیصلہ
537
{ جلسہ سالانہ کا انعقاد }
541
جلسہ سالانہ کاانعقاد بدعت نہیں
541
اس زمانہ کے علماء کی حالت
541
جلسہ سالانہ کے انعقاد کاپس منظر
542
لاہور کی ایک مسجد کے امام کاعجیب استفتاء
542
طلبِ علمِ دین کے لئے سفر کی فضیلت
543
مختلف اغراض کے لئے سفر
544
قرآن و حدیث میں مختلف سفروں کی ترغیب
545
جلسہ کے لئے خاص تاریخ کیوں مقرر کی؟
547
تبلیغ کے لئے حسن انتظام بدعت نہیں
548
ہر زمانہ انتظامات جدیدہ کو چاہتا ہے
552
حضرت عمرؓ کے محدثات
553
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حرفِ آغاز
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ومہدیٔ معہود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس وقت امتِ مسلمہ کی اصلاح کے لئے حَکَم عَدل بنا کر بھیجا جب امتِ مسلمہ باہمی افتراق و انتشار کا شکار تھی اور تمام غیر مذاہب اسلام پر حملہ آور تھے اوروہ مسلمانوں کی سیاسی اورمذہبی پستی کا فائدہ اُٹھاکر مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کررہے تھے۔
وہ امت واحدہ جو جسد واحد کی طرح تھی لیکن باہمی اختلافات کی وجہ سے بہتّر فرقوں میں بٹ چکی تھی اورعجیب بات یہ تھی کہ اختلاف کی وجوہ بنیادی اصول میں نہیں بلکہ فروعی مسائل تھے۔
خدا کا کلام قرآن کریم اللہ کی رسّی کی شکل میں موجود تو تھامگر باہمی تنازعات کی وجہ سے ہر فرقہ الگ الگ تفسیر کرتا تھا۔ فقہی اور مسلکی اختلافات میں شدّت آچکی تھی۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ بارہ تیرہ سوسال سے فقہی مذاہب نہروں کی شکل میں ساتھ ساتھ بہہ رہے تھے اوران میں باہمی بحث مباحثے اور مناظرے بھی ہوتے تھے تاہم اس دور میں ہر کوئی اپنے آپ کواپنے اپنے مؤقف میں قلعہ بند کر چکا تھا اور دوسروں کی بات سننے کا بھی روادار نہیں تھا۔ اس صورتحال کو حضرت مسیح موعود ؑ نے یوں بیان فرمایا ہے:۔
’’اِفْتَرَقَتِ الْأُمَّۃُ، وَتَشَاجَرَتِ الْمِلَّۃُ فَمِنْہُمْ حَنْبَلِیٌّ وَشَافِعِیٌّ وَ مَالِکِیٌّ وَحَنَفِیٌّ وَحِزْبُ الْمُتَشَیِِّعِیْنَ۔ وَ لَا شَکَّ اَنَّ التَّعْلِیْمَ کَانَ وَاحِدًا وَّلٰکِنِ اخْتَلَفَتِ الْاَحْزَابُ بَعْدَ ذَالِکَ فَتَرَوْنَ کُلَّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحِیْنَ۔ وَ کُلُّ فِرْقَۃٍ بَنٰی لِمَذْھَبِہِ قَلْعَۃً وَلَا یُرِیْدُ أَنْ یَّخْرُجَ مِنْھَا وَلَوْ وَجَدَ اَحْسَنَ مِنْھَا صُوْرَۃً وَکَانُوْا لِعَمَاسِ اِخْوَانِھِمْ مُتَحَصِّنِیْنَ فَاَرْسَلَنِیَ اللّٰہُ لِأَٔسْتَخْلِصَ الصِّیَاصِی وَأَسْتَدْنِیَ الْقَاصِی، وَاُنْذِرَ الْعَاصِی، وَیَرْتَفِعَ الْاِخْتِلَافُ وَیَکُوْنَ الْقُرْآنُ مَالِکَ النَّوَاصِی وَ قِبْلَۃَ الدِّیْنِ۔‘‘ (آئینہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ559،560)
ترجمہ: امتِ مسلمہ افتراق و انتشار کا شکار ہوگئی ہے ان میں سے بعض حنبلی ، شافعی، مالکی ، حنفی اور شیعہ بن گئے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں تعلیم تو ایک ہی تھی لیکن بعد میں کئی گروہ بن گئے اورہرگروہ اپنے نقطہ نظر پر خوش ہوگیا۔
ہرفرقہ نے اپنے اپنے مذہب کو ایک قلعہ بنارکھا ہے اور وہ اس سے باہر نکلنا نہیں چاہتے ،خواہ دوسری طرف انہیںبہتر صورتحال ملے اور وہ اپنے بھائیوں کی بے دلیل باتوں پر ڈٹ جاتے ہیں۔پس اللہ نے اس صورتحال میں مجھے بھیجا تاکہ میں ایسے قلعوں سے انہیں باہر نکالوں اور جو دورہوچکے ہیں انہیں نزدیک لے آؤں اور نافرمانوں کو ہوشیار کردوں اور اس طرح اختلاف رفع ہوجائے اور قرآن کریم ہی پیشانیوں کا مالک اور دین کا قبلہ بن جائے۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام امتِ مسلمہ کے افتراق اورانتشار اورگمراہی کے دور میں خدا کی طرف سے مامور بن کر آئے۔ چنانچہ آپ نے خدا کے حکم سے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں ہی وہ موعود مسیح اورمہدی ہوں جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کر رکھی ہے۔
بخاری کتاب الانبیاء کی یہ مشہور حدیث دراصل آپ کے بابرکت وجود کے بارہ میں ہی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
’’وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُوْشِکَنَّ أَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمُ ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلًا ، فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیْضُ الْمَالُ حَتَّی لَا یَقْبَلُہٗ اَحَدٌ حَتَّی تَکُوْنَ السَّجْدَۃُ الْوَاحِدَۃُ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَافِیْھَا ‘‘
(بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسی بن مریم حدیث نمبر3448)
ترجمہ: اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ ابن مریم حَکَم عدل بن کر تم میں نازل ہوں، وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کو موقوف کردیں گے اورمال اس کثرت سے ہوگا کہ اسے کوئی قبول نہیں کرے گا حتَّی کہ ایک سجدہ دنیاومافیہا سے بہتر ہوجائے گا۔
اسی طرح سنن ابن ماجہ کی روایت میں حَکَمًا مُقسِطًا اوراِمَامًا عَدْلًا کے الفاظ آئے ہیں یعنی منصف مزاج حَکَم اورعادل امام ۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال وخروج عیسی بن مریم )
پیشگوئی کے عین مطابق آپ نے دعویٰ فرمایا کہ
’’میں خداتعالیٰ کی طرف سے آیاہوں اورحَکَم ہوکر آیاہوں۔ ابھی بہت زمانہ نہیں گزرا کہ مقلّد غیر مقلّدوںکی غلطیاں نکالتے اوروہ اُن کی غلطیاں ظاہر کرتے اوراس طرح پر دوسرے فرقے آپس میں درندوں کی طرح لڑتے جھگڑتے تھے ایک دوسرے کو کافر کہتے اورنجس بتاتے تھے۔ اگر کوئی تسلّی کی راہ موجود تھی تو پھر اس قدر اختلاف اور تفرقہ ایک ہی قوم میں کیوں تھا؟ غلطیاں واقع ہوچکی تھیں اورلوگ حقیقت کی راہ سے دور جاپڑے تھے۔ ایسے اختلاف کے وقت ضرورتھا کہ خدا تعالیٰ خود فیصلہ کرتا۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اورایک حَکَم ان میں بھیج دیا۔‘‘
(الحکم 30ستمبر1904ء صفحہ2،3)
امت مسلمہ کے مسلکی اور فقہی اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لئے ضروری تھا کہ حَکَم غیر جانبدار ہو ۔ اگرحَکَم پہلے سے کسی فرقہ کی طرف منسوب ہو یا اپنے آپ کو مطیع اور مقلّد کہتا ہو تو پھراس کا فیصلہ کون تسلیم کرتا۔ فرمایا
’’ ہم بطورحَکَم کے آئے ہیں کیا حَکَم کو یہ لازم ہے کہ کسی خاص فرقہ کا مرید بن جاوے ۔بہتّر فرقوں میں سے کس کی حدیثوں کو مانے۔حَکَم تو بعض احادیث کو مردود اور متروک قراردے گااوربعض کوصحیح۔ ‘‘
(الحکم 10فروری 1905ء صفحہ۴)
ایک اور جگہ فرمایا
’’آنے والے مسیح کا نام حَکَم رکھا گیا ہے۔ یہ نام خود اشارہ کرتا ہے کہ اس وقت غلطیاں ہوں گی اورمختلف الرائے۔۔۔۔لوگ موجود ہوں گے۔پھر اُسی کا فیصلہ ناطق ہوگا۔اگر اسے ہر قسم کی باتیں مان لینی تھیں تو اس کا نام حَکَم ہی کیوں رکھا گیا؟
(الحکم 17نومبر1902ء صفحہ2)
آپؑ نے بتایاکہ حَکَم دراصل حرم کے مشابہہ ہے جس کا کام لوگوں کو اختلافات سے بچا کرامن دینا ہے ۔فرمایا
اللہ نے اپنے ایک بندے کو بھیجا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان حَکَم بن کر فیصلہ کردے جن باتوں میں وہ اختلاف کرتے تھے اورتاکہ وہ اسے فاتح قراردیں اور وہ اس کی ہر بات اچھی طرح تسلیم کرلیں اوراس کے فیصلوں پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اوریہ وہی حَکَمہے جو (خدا کی طرف سے) آیا ہے۔ ۔۔۔۔ اے لوگو!تم مسیح کا انتظار کرتے تھے اوراللہ نے جس طرح چاہا اُسے ظاہر کردیا۔ پس اپنے چہروں کو اپنے رب کی طرف پھیر لواوراپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔تم احرام کی حالت میں شکار نہیں کرتے تواب تم اپنی متفرق آراء کی پیروی کس طرح کر سکتے ہوجبکہ تمہارے پاس حَکَم موجود ہے٭۔
٭ حاشیہ: متفرق آراء پرندوں کے مشابہہ ہیں جو ہوا میں ہوتے ہیں اور حَکَم اس امن والے حرم کے مشابہہہے جو غلطیوں سے امن دیتا ہے جس طرح اللہ کی مقدس سرزمین کی عزت کی خاطر حرم میں شکار منع ہے اسی طرح متفرق آراء کی پیروی … اس حَکَم کی موجودگی کی وجہ سے حرام ہے۔وہ حَکَم جو معصوم ہے اور خدائے عزّوجل کی طرف سے حَرَم کی جگہ پر ہے۔ اب ادب کا تقاضا ہے کہ ہر بات اس کے سامنے پیش کی جائے اوراُسی کے ہاتھوں سے ہی اب ہر چیزوصول کی جائے۔
(الھُدٰی والتبصرۃُ لِمَن ْ یَرٰی ۔ روحانی خزائن جلد18صفحہ338،339۔عربی سے ترجمہ)
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امت مسلمہ کی ہر پہلو سے رہنمائی فرمائی اور جن عقائد اوراعمال میں بگاڑ پیدا ہوچکاتھا ان کی اصلاح فرمائی۔آپ ؑ کی بعثت کے وقت امت مسلمہ مختلف فرقوں اورجماعتوں میں بٹی ہوئی تھی اور فقہی اختلافات کے لحاظ سے بھی بہت شدّت آچکی تھی اوربرصغیر پاک و ہند میں حنفی اورغیرحنفی کی تقسیم واضح صورت اختیار کرچکی تھی۔ حنفی اپنے حنفی ہونے پر فخر کرتے تھے اور دین میں اجتہاد کے راستے کو ازخود بند کرچکے تھے اوراپنے ائمہ کی فخریہ تقلید کرتے تھے۔ جبکہ دوسری طرف اہلحدیث فرقہ، حنفیوں کی سخت مخالفت کرتا تھا اور فروعی مسائل میں باہمی مباحثے ہوتے تھے۔ اہلحدیث موحّد کہلاتے تھے اور حدیث کی اہمیت اوردرجے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے تھے اوربخاری اورمسلم کو عملًا قرآن کے برابر قراردیتے تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہردوگروہوں کی اصلاح فرمائی اورانہیں صحیح راستہ دکھایا۔ فرمایا
’’جب ہم اس امر میں غور کریں کہ کیوں ان کتابوں(بخاری و مسلم۔ناقل) کو واجب العمل خیال کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ وجوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے حنفیوں کے نزدیک اس بات کا وجوب ہے کہ امام اعظم صاحب کے یعنی حنفی مذہب کے تمام مجتہدات واجب العمل ہیں! لیکن ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ یہ وجوب شرعی نہیں بلکہ کچھ زمانہ سے ایسے خیالات کے اثر سے اپنی طرف سے یہ وجوب گھڑا گیا ہے جس حالت میں حنفیمذہب پر آپ لوگ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نصوص بیّنہ شرعیہ کو چھوڑ کر بے اصل اجتہادات کو محکم پکڑتے اور ناحق تقلید شخصی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں ہوسکتا کہ آپ بھی کیوں بے وجہ تقلید پر زور مار رہے ہیں ؟ حقیقی بصیرت اور معرفت کے کیوں طالب نہیں ہوتے ؟ ہمیشہ آپ لوگ بیان کرتے تھے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جو غیر صحیح ہو اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔اب کیوں آپ مقلدین کے رنگ پر تمام احادیث کو بلا شرط صحیح خیال کر بیٹھے ہیں ؟ اس پر آپ کے پاس شرعی ثبوت کیا ہے؟‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ20،21)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مامور زمانہ کی حیثیت سے ایک نیا فقہی اسلوب دیا جو فقہ احمدیہ کی بنیاد بنا۔آپ کے فقہی اسلوب کے بنیادی خدّوخال ،آپ کی تحریرات اورملفوظات میں ہمیں ملتے ہیں۔ آپ نے اصول اور مسائل فقہ میں ہر پہلو سے ہماری رہنمائی فرمائی اورمیزان اور اعتدال کا راستہ دکھایا اورصراط مستقیم پر ہمیں قائم فرمایا ۔ آپ ؑ کے فقہی اسلوب کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔قرآن کریم ہی اصل میزان، معیار اورمِحَک ہے
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ہمیں شریعت کی اصل بنیاد پر نئے سرے سے قائم فرمایا اور خدا کی اس رسّی کو مضبوطی سے پکڑنے کی ہدایت کی جسے لوگ چھوڑچکے تھے۔ چنانچہ آپ نے باہمی اختلافات کو دورکرنے کے لئے یہ رہنمائی فرمائی کہ قرآن کریم ہی میزان، معیار اورمِحَک ہے۔ فرمایا:
’’ کتاب و سنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تووہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جوکتاب اللہ کی نص بیّن سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ11،12)
2۔ سنّت اور تعامل کی حجیّت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے قرآن کریم کو معیار قراردیا اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے اس موضوع پر آپ کا ایک مباحثہ ہواجو ’’الحق مباحثہ لدھیانہ ‘‘ کے نام سے روحانی خزائن جلد4میں موجود ہے۔ آپ نے حدیث کے صحیح مقام کو واضح کیا اور بتایا کہ سنت اور حدیث میں فرق ہے۔ سنت الگ چیز ہے اورحدیث الگ چیز۔ سنت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش کا نام ہے جو تعامل کے رنگ میں امتِ مسلمہ میں مسلسل جاری رہی ہے اس لئے ہم اسے نہایت اہمیت دیتے ہیں اوراس کے بارہ میں یہ معیار قرارنہیں دیتے کہ اسے قرآن کریم پر پرکھا جائے۔ہاں حدیث کو قرآن کریم پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔
سنت اور حدیث کا فرق واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:۔
’’ہم حدیث اورسنت کو ایک چیز قرارنہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدّثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اورسنت الگ چیز ہے۔ سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اورابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی۔ یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا کا قول ہے اورسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل۔ ‘‘
(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔روحانی خزائن جلد19صفحہ209،210)
نیزفرمایا
’’ ان لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ سنت اور حدیث کو ایک ہی قراردیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں الگ ہیں اور اگر حدیث جو آپؐ کے بعد ڈیڑھ سو دو سو برس بعد لکھی گئی نہ بھی ہوتی تب بھی سنت مفقود نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ یہ سلسلہ توجب سے قرآن نازل ہونا شروع ہوا ساتھ ساتھ چلا آتا ہے اورحدیث وہ اقوال ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلے اور پھر آپ کے بعد دوسری صدی میں لکھے گئے۔‘‘ (الحکم 17نومبر1902ء صفحہ2)
حضرت مسیح موعود ؑ نے حدیث کے مقابلے میں سنت اور تعامل کو بڑی اہمیت دی اور فرمایا:۔
’’ یہ ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال کرلیا جائے کہ احادیث کے ذریعہ سے صوم و صلوٰۃ وغیرہ کی تفاصیل معلوم ہوئی ہیں بلکہ وہ سلسلہ تعامل کی وجہ سے معلوم ہوتی چلی آئی ہیں اوردرحقیقت اس سلسلہ کو فن حدیث سے کچھ تعلق نہیں وہ توطبعی طورپر ہرایک مذہب کو لازم ہوتا ہے۔ ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ26)
آپ نے سنت اور تعامل کے باہمی تعلق کو واضح کرکے دکھایا اور سنت کی زیادہ اہمیت کی وجہ بتائی کہ اُسے سلسلہ تعامل نے حجت قوی بنادیاہے۔فرمایا
’’احادیث کے دو حصّہ ہیں ایک وہ حصّہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طورپرآگیا ہے یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اورقوی اورلاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اورمرتبہ یقین تک پہنچادیا ہے جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اورعقود اور معاملات اوراحکام شرع متین داخل ہیں۔ ‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ35)
3۔ انسانی اجتہاد پر حدیث فضیلت رکھتی ہے
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے ایک طرف قرآن کریم کو حدیثوں کو پرکھنے کے لئے معیار قراردیا اور سنت اورتعامل کو حدیث پر اہمیت دی اور اسے قطعی اور یقینی درجہ دیا ۔دوسری طرف محدّثین کے خود ساختہ معیار کے مطابق ضعیف قراردی جانے والی احادیث کو بھی انسان کے اجتہاد اور فقہ پر ترجیح دی کیونکہ بہرحال وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہیں اس حوالے سے آپ نے اپنی جماعت کو بھی خصوصی نصیحت فرمائی۔
فرمایا
’’ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سنت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اورانسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کو ترجیح دیں۔ ‘‘
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ212)
4۔ شریعت کی اصل روح کا احیاء
حضرت مسیح موعود ؑ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا :
’’ یُحْيِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃَ ‘‘
ترجمہ: وہ دین کو زندہ کرے گا اور شریعت کو قائم کرے گا۔
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ79)
اس الہام میں یہ پیغام دیا گیا کہ آپ ؑ کے ذریعے دین کااحیاء ہوگا اور شریعت کو اصل شکل میں قائم کیا جائے گا۔چنانچہ آپ نے شریعت کے منافی تمام باتوں کی مناہی فرمائی اور انہیں بدعات قراردے کر اپنی جماعت کو ان سے بچنے کی نصیحت کی۔فرمایا
’’کتاب اللہ کے برخلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ سب بدعت ہے اورسب بدعت فی النار ہے۔ اسلام اس بات کا نام ہے کہ بجز اس قانون کے جو مقرر ہے ادھراُدھر بالکل نہ جاوے ۔ کسی کا کیا حق ہے کہ بار بار ایک شریعت بناوے۔۔۔۔
ہمارا اصول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کتاب قرآن کے سوا اورطریق سنت کے سِوا نہیں۔
(البدر 13مارچ1903ء صفحہ59)
اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا
’’پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجاد کرنا اور قرآن شریف کی بجائے اوروظائف اور کافیاں پڑھنا یا اعمال صالحہ کی بجائے قِسم قِسم کے ذکر اذکار نکال لینا یہ لذتِ روح کے لئے نہیںہے بلکہ لذتِ نفس کے لئے ہے۔ ‘‘
(الحکم 31جولائی 1902ء صفحہ8)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر طرح کی بدعات سے منع کرتے ہوئے اصل سنت کو اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی۔ چنانچہ آپؑ نے قل خوانی، فاتحہ خوانی، چہلم، مولودخوانی، تصورِ شیخ، اسقاط، ختم، دسویں محرّم کی رسوم سمیت سب بدرسوم سے اپنی جماعت کوبچنے کی نصیحت فرمائی اور خدااور رسولؐ کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی اورصرف ظاہری مسائل پر ہی ضرورت سے زیادہ توجہ دینے کے انداز کو ناپسندفرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے ایمان دلوں میں قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ صرف ظاہری مسائل پر ہی عمل کرنا اور حقیقت کو نہ سمجھنا یہ بڑی غلطی ہے ۔مجھے خدا نے مجدّد بنا کر بھیجا ہے جو وقت کی ضرورت کے مطابق رہنمائی کرتا ہے۔فرمایا
’’مجدد جو آیا کرتا ہے وہ ضرورت وقت کے لحاظ سے آیاکرتا ہے نہ استنجے اور وضو کے مسائل بتلانے۔ ‘‘ (الحکم 19مئی 1899ء صفحہ4)
اسی طرح آپ نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا
’’یہ عاجز شریعت اور طریقت دونوں میں مجدّد ہے۔ تجدید کے یہ معنے نہیں ہیں کہ کم یا زیادہ کیا جاوے۔ اس کا نام تو نسخ ہے بلکہ تجدید کے یہ معنے ہیں کہ جوعقائد حقّہ میں فتور آگیاہے اور طرح طرح کے زوائد اُن کے ساتھ لگ گئے ہیں یا جو اعمال صالحہ کے ادا کرنے میں سُستی وقوع میں آگئی ہے یا جو وصول اور سلوک الی اللہ کے طرق اور قواعد محفوظ نہیں رہے اُن کو مجدّدًا تاکیدًا بالاصل بیان کیا جائے۔ ‘‘
(الحکم 24جون1900ء صفحہ3)
5۔ قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نیحَکَم عَدل کی حیثیت سے باہمی تنازعات کا فیصلہ فرمایا اورجن امور میں امتِ مسلمہ میں اختلاف پایا جاتا تھا اور باہمی بحث مباحثے بھی ہوتے تھے اُن میں آپ ؑ نے صحیح اور معتدل راستہ دکھایا۔ اس کے علاوہ مسلّمہ اور متداول فقہی مسائل میں امتِ مسلمہ کے اجتہاد کوبھی بڑی اہمیت دی۔خاص طور پرایسے مسائل کو جومُطَہَّر بزرگان امت کے اجتہاد پر مبنی ہیں اور امت مسلمہ ان پرصدیوں سے عمل کر رہی ہے۔ فرمایا
’’ میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حُکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام بیّنہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلّمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتاہوں۔ ‘‘ (الحق مباحثہ لدھیانہ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ82)
6۔بزرگان سلف کا احترام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حَکَم عدل کی حیثیت سے بہت سے اختلافی مسائل میں اپنا فیصلہ دیا اوراپناوزن کسی خاص موقف کے حق میں ڈالا تو اس پر بعض لوگوں نے ایسے سوال کئے جن سے بعض مسلّمہ بزرگان دین پر اعتراض ہوتا تھا۔ ایسی صورت حال میں آپؑ نے زیادہ تفصیل میں جانے سے منع فرمایا۔مثلًا
ذکر آیا کہ بعض بزرگ راگ سنتے ہیں آیا یہ جائز ہے؟فرمایا
’’ اس طرح بزرگان دین پر بد ظنی کرنا اچھا نہیں ، حسن ظن سے کام لینا چاہئے ۔ حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اشعار سُنے تھے۔ ‘‘ (البدر17نومبر1905ء صفحہ6)
اسی طرح ایک مرتبہ کسی نے نقش بندی صوفیاء کے بعض خاص طریقوں کے حوالے سے سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ ہم ایسے طریقوں کی ضرورت خیال نہیں کرتے ۔ اس پر اس نے کہا کہ اگر یہ امورخلاف شرع ہیں تو بڑے بڑے مسلّمہ اورمشاہیر جن میں حضرت احمدسرہندی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اولیاء بھی ہیں جنہوں نے مجدّد الف ثانی ہونے کا دعویٰ بھی کیا ہے ۔ یہ سب لوگ بدعت کے مرتکب ہوئے اورلوگوں کو ایسے امور کی ترغیب و تعلیم دینے والے ہوئے۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا
’’اسلام پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ فتوحات کے بڑھ جانے اور دنیاوی دولت اورسامانِ تعیّش کی فراوانی سے لوگوں کے دلوں سے خدا کے نام کی گرمی سرد پڑتی جارہی تھی۔ اس وقت اگر ان بزرگوں نے بعض ایسے اعمال اختیار کئے ہوں جو اُن کے خیال میں اس وقت اس روحانی وبائی مرض میں مفید تھے تو وہ ایک وقتی ضرورت تھی اور بوجہ اُن کی نیک نیتی کے اس کو خدا کے حوالے کردینا مناسب ہے۔‘‘ (سیرت المہدی جلد2صفحہ69،70)
بزرگانِ سلف کے بعض معتقدات سے اختلاف کے باوجود آپ نے اُن کی عزت اور قبولیت کو بہت اہمیت دی اوراُن کے عالی مقام کا بھی تذکرہ کیا۔ خاص طورپر یہ شرف حضرت امام ابو حنیفہؒ کوحاصل ہوا جن پرگزشتہ بارہ تیرہ سو سال سے اُن کے مخالف علماء اہل الرائے ہونے کا الزام لگاتے تھے اور اہل حدیث تو بار بار اس بات کو پیش کرتے تھے کہ امام صاحب نے قیاس سے کام لے کر گویاشریعت میں دخل دیا ہے۔
الحق مباحثہ لدھیانہ میں ایک ایسے ہی موقعہ پر حضرت مسیح موعود ؑ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا
’’اے حضرت مولوی صاحب آپ ناراض نہ ہوں آپ صاحبوں کو امام بزرگ ابوحنیفہ ؒسے اگر ایک ذرہ بھی حسن ظن ہوتا تو آپ اس قدر ُسبکی اور استخفاف کے الفاظ استعمال نہ کرتے آپ کو امام صاحب کی شان معلوم نہیں وہ ایک بحراعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اسکا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابوحنیفہؒ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن میں یدطولیٰ تھا خداتعالیٰ حضرت مجدد الف ثانی پر رحمت کرے انہوں نے مکتوب صفحہ ۳۰۷ میں فرمایا ہے کہ امام اعظم صاحب کی آنیوالے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی مناسبت ہے۔‘‘
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد4صفحہ101)
حضرت امام ابو حنیفہؓ کو استخراج مسائل قرآن میں خاص دسترس تھی اس وجہ سے آپ بعض احادیث کی تاویل کرتے تھے یا انہیں چھوڑ دیتے تھے۔اس پر آپ کے مخالفین کی طرف سے اعتراض کیا جاتا تھا۔ حقیقت میں آپ کے فتاویٰ قرآن و حدیث کے منافی نہیں تھے۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’ امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں اَئمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل واعلیٰ تھے اور اُن کی خداداد قوت فیصلہ ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ وہ ثبوت عدم ثبوت میں بخوبی فرق کرنا جانتے تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور اُن کی فطر ت کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد واستنباط میں اُن کے لئے وہ درجہ علیا مسلّم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔ سبحان اللہ اس زیرک اور ربّانی امام نے کیسی ایک آیت کے ایک اشارہ کی عزت اعلیٰ وارفع سمجھ کر بہت سی حدیثوں کو جو اس کے مخالف تھیں ردّی کی طرح سمجھ کر چھوڑ دیا اور جہلا کے طعن کا کچھ اندیشہ نہ کیا۔‘‘
(ازالہ اوہام۔روحانی خزائن جلد3 صفحہ385)
7۔ احکام شریعت پُرحکمت ہیں
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بڑے زور کے ساتھ ان مفاسد کو دورکردیا جو اس زمانے میں اسلام کے مخالفین کی طرف سے پھیلائے جارہے تھے اوراسلام کی تعلیم پر طرح طرح کے اعتراضات کئے جارہے تھے۔ آپ نے اسلام کی مدافعت کا حق ادا کردیا ۔ آپؑ کی معرکۃ الآراء کتاب کا تعارف تو اس کے نام سے ظاہر ہے۔
’’اَلْبَرَاہِیْنُ الْاَحْمَدِیَّۃُ عَلٰی حَقِیَّۃِ کِتَابِ اللّٰہِ الْقُرَْآنِ وَالنَّبُوَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ ‘‘
یعنی کتاب اللہ کی سچائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر احمدی دلائل اوربراہین۔
اس کتاب میں آپ نے اسلام کی پاکیزہ تعلیم کے سچے اور برحق ہونے کے ناقابل تردید شواہد پیش فرمائے اور یہ ثابت فرمایا کہ اسلام کی تعلیم عین فطرتی تعلیم ہے اس کے تمام مسائل انسان کی بھلائی اورانسانی فطرت اورزندگی کے عین مطابق ہیں گویا تمام احکام حق محض ہیں۔آپ نے فرمایا
’’ آج رُوئے زمین پر سب الہامی کتابوں میں سے ایک فرقان مجید ہی ہے کہ جس کا کلامِ الٰہی ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔جس کے اصول نجات کے ،بالکل راستی اور وضع فطرتی پر مبنی ہیں۔ جس کے عقائد ایسے کامل اور مستحکم ہیں جو براہین قویہ ان کی صداقت پر شاہد ناطق ہیں جس کے احکام حق محض پر قائم ہیں جس کی تعلیمات ہریک طرح کی آمیزش شرک اور بدعت اور مخلوق پرستی سے بکلی پاک ہیں جس میں توحید اور تعظیم الٰہی اور کمالات حضرت عزت کے ظاہر کرنے کے لئے انتہا کا جوش ہے جس میں یہ خوبی ہے کہ سراسر وحدانیت جنابِ الٰہی سے بھرا ہوا ہے اور کسی طرح کا دھبّہ نقصان اور عیب اور نالائق صفات کا ذاتِ پاک حضرت باری تعالیٰ پر نہیں لگاتا اور کسی اعتقاد کو زبردستی تسلیم کرانا نہیں چاہتا بلکہ جو تعلیم دیتا ہے اس کی صداقت کی وجوہات پہلے دکھلا لیتا ہے اور ہرایک مطلب اور مدعا کو حجج اور براہین سے ثابت کرتا ہے۔ اور ہریک اصول کی حقیّت پر دلائل واضح بیان کرکے مرتبہ یقین کامل اور معرفت تام تک پہنچاتا ہے۔ اور جو جو خرابیاں اور ناپاکیاں اور خلل اور فساد لوگوں کے عقائد اور اعمال اور اقوال اور افعال میں پڑے ہوئے ہیں، ان تمام مفاسد کو روشن براہین سے دور کرتا ہے اور وہ تمام آداب سکھاتا ہے کہ جن کاجاننا انسان کو انسان بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور ہریک فساد کی اسی زور سے مدافعت کرتا ہے کہ جس زور سے وہ آج کل پھیلا ہوا ہے۔ اس کی تعلیم نہایت مستقیم اور قوی اور سلیم ہے گویا احکام قدرتی کا ایک آئینہ ہے اور قانونِ فطرت کی ایک عکسی تصویر ہے اور بینائی دِلی اور بصیرتِ قلبی کے لئے ایک آفتابِ چشم افروز ہے ۔‘ ‘
(براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد1صفحہ81،82)
اپنے موقف کے حق میں آپ نے زورداردلائل بیان فرمائے۔تعدّد ازدواج ہو یا ورثہ کی تعلیم جہاں عورتوں کے لئے نصف حصہ جائیداد میں مقرر ہے سب کے عقلی جواب دئیے۔ متعہ کا اعتراض ہو یا متبنّی بنانے کا مسئلہ ہر ایک بات کی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ نیوگ پر آپ کی طرف سے اُٹھائے جانے والے اعتراضات ہوں یا اُن کے جواب میں حلالہ کے مسئلہ کی آڑ لے کر دشمنوں کا جوابی اعتراض ہوہر مسئلہ کو نکھار کر رکھ دیا۔
آپ نے ارکانِ نماز کی حکمتیں بیان فرمائیں اور وضو اور نماز کے باطنی فوائد کے علاوہ ظاہری طبّی فوائد بھی بیان فرمائے۔ اوقات نماز کی فلاسفی بیان فرمائی اورثابت فرمایا کہ نماز کے متفرق اوقات زندگی کے حقائق اورحالات کے مطابق ہیں۔ بچے کے کان میں اذان دینے کا مسئلہ ہو یا نماز باجماعت میں ظاہری مضمر فوائد ہوں اورحج کی حکمتیں سب مسائل کو عقلی دلائل سے پیش فرمایا۔
آپ نے اپنی تحریرات اور تقاریر میںمنقولی اور معقولی ہردو طرح کے دلائل پیش فرماتے ہوئے اعتراضات کے جواب دئیے۔اورایسے معترضین کو جومنقولی دلائل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے عقلی دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کی۔ فرمایا
’’ یہ بات اجلیٰ بدیہات ہے جو سرگشتۂ عقل کو عقل ہی سے تسلّی ہوسکتی ہے اور جو عقل کا رہزدہ ہے وہ عقل ہی کے ذریعہ سے راہ پر آسکتا ہے۔ ‘‘
(براہین احمدیہ ہرچہارحصص روحانی خزائن جلد1صفحہ67)
پردہ کے مسئلہ کو معقول اور فطرت کے عین مطابق قراردیتے ہوئے آپؑ نے انسانی ضرورتوں کی مثال پیش فرمائی ۔فرمایا
’’جیسے بہت سے تجارب کے بعد طلاق کا قانون پاس ہوگیا ہے اسی طرح کسی دن دیکھ لو گے کہ تنگ آکراسلامی پردہ کے مشابہ یورپ میں بھی کوئی قانون شائع ہوگا۔ ورنہ انجام یہ ہوگا کہ چارپایوں کی طرح عورتیں اورمرد ہوجائیں گے اور مشکل ہوگا کہ یہ شناخت کیا جائے کہ فلاں شخص کس کا بیٹا ہے۔ ‘‘
(نسیم دعوت ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ434)
8۔ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کی عزت و تکریم
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے شریعت کی بعض ایسی رخصتوں اور سہولتوں پر عمل فرمایا جنہیں خدا نے جائز قراردیا ہے لیکن لوگوں نے از خود ایسی باتوں پر عمل چھوڑدیا تھا۔ مثلًا نمازوں کا جمع کرنا انسانوں کی سہولت کے پیشِ نظر جائز رکھا گیا ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو علاوہ سفروں اورموسمی خرابیوں کے خالص دینی ضروریات کے لئے بھی نمازیں جمع کرنی پڑیں اور بعض اوقات کئی مہینے تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ بعض معترضین نے اس پر اعتراض کیا تو آپ نے بڑی نرمی اور محبت سے اس بات کوسمجھایا کہ میں شریعت کے حکم کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم پیشگوئی کو پورا کرنے کی خاطر نمازیں جمع کرتا ہوں اور نماز موقوتہ کے مسئلہ کو خدانخواستہ استخفاف کی نظر سے نہیں دیکھتا۔ فرمایا
’’ اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تواصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم ، القاء اورالہام کے بِدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں۔ جہاں تک خدا نے مجھ پر اس جمع بین الصلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُجْمَعُ لَہُ الصَّلوٰۃُ کی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جواَب پوری ہورہی ہے۔‘‘
(الحکم 24نومبر1902ء صفحہ1)
ایک اور موقعہ پر فرمایا
’’دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی حدیث بھی پوری ہورہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔ سو اب ایسا ہی ہوتاہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے۔ اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارکے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایساہوگا۔ چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خِفّت کی نگاہ سے دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیئے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہورہی ہیں ورنہ ایک دودن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا۔ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘ (الحکم 17فروری 1901ء صفحہ13،14)
9۔ شریعت کی رخصتوں پر بھی عمل ضروری ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی شریعت کی حقیقت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور احکام کی غرض وغایت پر زوردیا۔خدا تعالیٰ نے انسان کو شریعت کے احکام دے کر تنگی اور تکلیف میں نہیں ڈالا بلکہ بعض جگہ رخصتیں اوررعایتیں بھی دی ہیں۔لیکن لوگ عمومًا تنگی والے راستے کو اختیار کرتے ہیں۔ آپؑ نے اپنی جماعت کو سمجھایا کہ خدا کی طرف سے دی گئی رخصتیںبھی اس کے احکام کی طرح اہم ہیںاوراُن پر عمل کرنا بھی ضروری ہے ۔
ایک ایسے ہی موقع پر جبکہ ایک مہمان کی مہمان نوازی کے بارہ میں آپ نے ہدایت فرمائی اوراس سے آپ نے پوچھا کہ آپ مسافر ہیں آپ نے روزہ تو نہیں رکھاہوگا۔ اس نے کہا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ اس پر آپؑ نے فرمایا
’’ اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پر بھی تو عمل رکھنا چاہئے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالتِ سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے کیونکہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے نہ اپنی مرضی اوراللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔‘‘ (الحکم 31جنوری 1907، صفحہ14)
خدا تعالیٰ کی رخصتوں پر عمل کر نے کے ضمن میں آپ نے شریعت کے اس نقطہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ نے دین میں کوئی حرج اورتنگی نہیں رکھی۔ فرمایا
’’شریعت کی بناء نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے۔ ‘‘
(الحکم10اگست 1903ء صفحہ20)
10۔ شعائراللہ کا احترام اور دینی غیرت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فتاویٰ میں ہمیںیہ خصوصی انداز نظر آتا ہے کہ آپ مسائل کی صرف ظاہری صورتوں پر ہی نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ تحدیثِ نعمت اور اظہارِ شکرگزاری کا جذبہ ہمیشہ پیشِ نظر رہتا تھا۔ اسی وجہ سیبعض دفعہ آپ نے اپنی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پرشکرگزاری کے اظہار کے طورپر پر تکلف دعوت بھی کی۔
حضور علیہ السلام اپنے بچوں کو بھی شعائراللہ میں سے سمجھتے تھے۔ اسی حوالے سے یہ واقعہ قابلِ ذکر ہے کہ جون 1897ء میں آپ نے اپنے صاحبزادہ حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدؓصاحب کی آمین کی تقریب منعقد کی جس میں آپ نے اپنے احباب کو پرتکلف دعوت دی اوراس موقعہ پر آپ نے ایک نظم لکھی
حمدوثناء اسی کو جو ذات جاودانی
یہ نظم آمین کی تقریب میں پڑھ کر سنائی گئی اندرزنانہ میں خواتین پڑھتی تھیں اورباہر مرد اوربچے پڑھتے تھے۔ (تاریخ احمدیت جلد1صفحہ611، 612)
اس کے بعد دسمبر1901ء میں حضور ؑنے اپنے بچوں صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ ، صاحبزادہ مرزا شریف احمدؓ اورصاحبزادی نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ کی تقریبِ آمین منعقد کی۔ اس موقعہ پر حضرت نواب محمد علی خانؓ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت اقدس میں تحریرکیا کہ
’’حضور کے ہاں جو بشیر، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین ہوئی ہے اس میں جو تکلفات ہوئے ہیں وہ گو خاص صورت رکھتے ہیں کیونکہ مخدوم زادگان پیشگوئیوں کے ذریعے پیدا ہوئے۔ ان کے ایسے مواقع پر جواظہارِ خوشی کی جائے وہ کم ہے مگر ہم لوگوں کے لئے کیونکہ حضور ؑ بروزِ محمد ؐ ہیں اس لئے ہمارے لئے سنت ہوجائیں گے۔ اس پر سیر میں کچھ فرمایا جائے۔‘‘
اس پرحضرت اقدس نے سیر کرتے ہوئے تقریر فرمائی کہ
’’ الاعمال بالنیات ایک مسلّمہ مسئلہ اور صحیح ترین حدیث ہے۔ اگر کوئی ریاء سے اظہار علی الخلق اور تفوّق علی الخلق کی غرض سے کھانا وغیرہ کھلاتا ہے توایسا کھانا وغیرہ حرام ہے یا معاوضہ کی غرض سے جیسے بھاجی وغیرہ۔ مگر اگر کوئی تشکّر اور اللہ کی رضاجوئی کی نیّت سے خرچ کرتا ہے بلا ریاومعاوضہ تواس میں حرج نہیں۔‘‘
(اصحابِ احمد جلد2صفحہ551۔ سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب۔نیا ایڈیشن )
اسی طرح ایک موقع پر آپ نے فرمایا
’’میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے لا انتہاء فضل اورانعام ہیں ۔ ان کی تحدیث مجھ پر فرض ہے پس میںجب کوئی کام کرتاہوں تو میری غرض اورنیت اللہ تعالیٰ کے جلال کا اظہارہوتی ہے۔ ایسا ہی اس آمین کی تقریب پر بھی ہوا ہے۔ یہ لڑکے چونکہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہیں اور ہر ایک ان میں سے خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کا زندہ نمونہ ہیںاس لئے میں اللہ تعالیٰ کے ان نشانوں کی قدرکرنی فرض سمجھتا ہوں۔‘‘ (الحکم 10اپریل 1903ء صفحہ2)
اسی طرح حضرت مسیح موعودعلیہ السلام دینی غیرت اورحمیّت کے جذبہ کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے اسی جذبہ کے پیشِ نظر اسلام کی طرف سے مدافعت کا خوب حق ادا کیا۔ جب دشمنانِ اسلام، اسلام پر حملہ آور ہورہے تھے آپ نے تحریری او رتقریری ہر دو ذریعوں سے اسلام پر ہونے والے اعتراضات کے جواب دئیے اور بعض مواقع پر آپ کے ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مباحثات بھی ہوئے۔ ایک ایسے ہی موقع پر جب آپ کا پادری عبداللہ آتھم کے ساتھ مباحثہ ہوا تو وہ گرمی کا موسم تھا۔ حضرت میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی کی روایت ہے کہ
’’ پانی کی ضرورت پڑتی تھی لیکن پانی اپنے ساتھ لے جایا جاتا تھا۔عیسائیوں کے چاہ (کنوئیں)کا پانی نہیں لیا جاتا تھا کیونکہ عیسائی قوم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کرنے والی ہے لہٰذا اِن کے چاہ کا پانی پینا حضور پسند نہ فرماتے تھے۔‘‘
(سیرت المہدی جلد2صفحہ198 )
عام طورپرعیسائیوں،ہندوؤںاور دیگر اقوام کے ساتھ معاشرت کے لحاظ سے تعلقات رکھے جاتے تھے لیکن جہاں دینی غیرت کا معاملہ آتا تھا وہاں اس حد تک ان سے قطع تعلق کیا جاتا تھا جب تک کہ وہ اپنے طریق عمل کونہ بدل لیں۔ ایک ایسے ہی موقعہ پرحضور سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اورمعانقہ کرنا جائز ہے ؟ حضور نے فرمایا:
’’ میرے نزدیک ہرگز جائز نہیں یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے کہ وہ لوگ ہمارے نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اورہم اُن سے معانقہ کریں۔ قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اورپھر یہ لوگ خنزیرخور ہیں۔ ان کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہوسکتا ہے ؟ (الحکم17؍اگست 1902ء صفحہ10)
11۔ خشک مسائل سے اجتناب
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو اسلام کی سچی اور حقیقی تعلیم پر عمل کرنے کی ہدایت دی۔ عام طورپر لوگ جزوی ، فروعی اورخشک مسائل پر زیادہ توجہ دیتے تھے اور حقیقت سے دور جاپڑتے تھے۔ حضورؑ نے ایسے بعض پیش آمدہ مسائل میں غیر حقیقی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ روایتی کتب فقہ میں چونکہ ایسے مسائل موجود تھے جنہیںپڑھ کر بعض لوگ سمجھتے تھے کہ ہمیں بہت علم حاصل ہوگیا ہے اور اب ہم فقہ کے ماہربن گئے ہیں اس لئے وہ ان مسائل کی ظاہری صورتوں پرہی زور دیتے رہتے تھے ۔خاص طورپرحنفیوں میں یہ کمزوری تھی اوراپنے اس طرزِ عمل پر وہ بے جا فخر بھی کرتے تھے اور اپنے آپ کو مقلّد کہتے تھے ۔ اسی لئے آپ نے بعض ایسے روایتی فقہی مسائل سے احتراز فرمایا۔مثلًا
آپ ؑ سے سوال کیا گیا کہ یہ جو مسئلہ ہے کہ جب چوہا یا بلّی یا مرغی یا بکری یا آدمی کنوئیںمیں مرجائیں تو اتنے دَلوْ (ڈول) پانی نکالنا چاہئے۔ اس کے متعلق حضور کا کیا ارشاد ہے؟ کیونکہ پہلے تو ہمارا یہی عمل تھا کہ جب تک رنگ ، بو، مزانہ بدلے پانی کو پاک سمجھتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے فرمایا
’’ہمارا تو وہی مذہب ہے جو احادیث میں آیا ہے یہ جوحساب ہے کہ اتنے دَلْو نکالو اگر فلاں جانور پڑے اوراتنے اگر فلاں پڑے، یہ ہمیں تو معلوم نہیں اور نہ اس پر ہمارا عمل ہے ۔‘‘
عرض کیا گیا کہ حضور ؑ نے فرمایا ہے جہاں سنت صحیحہ سے پتا نہ ملے وہاں فقہ حنفی پرعمل کرلو۔ فرمایا
’’فقہ کی معتبر کتابوں میںبھی کب ایسا تعیُّن ہے ہاں نجات المومنین میں لکھا ہے۔ سو اس میں تو یہ بھی لکھا ہے ۔
سر ٹوئے وچ دے کے بیٹھ نماز کرے
کیا اس پر کوئی عمل کرتا ہے اور کیا یہ جائز ہے جبکہ حیض و نفاس کی حالت میں نماز منع ہے۔ پس ایسا ہی یہ مسئلہ بھی سمجھ لو۔مَیں تمہیں ایک اصل بتا دیتا ہوں کہ قرآنِ مجید میں آیا ہے وَالْرُّجْزَ فَاھْجُرْ (المدثر:۶) جب پانی کی حالت اس قسم کی ہوجائے جس سے صحت کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو صاف کر لینا چاہئے۔ مثلًا پتے پڑ جاویں یا کیڑے وغیرہ۔ (حالانکہ اس پریہ مُلّاں نجس ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے) باقی یہ کوئی مقدار مقرر نہیں۔ جب تک رنگ و بو ومزا نجاست سے نہ بدلے وہ پانی پاک ہے۔‘‘ (بدر یکم اگست 1907ء صفحہ12)
اسی طرح آپ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ
میرا بھائی فوت ہوگیا ہے میں اس کی قبر پکّی بناؤں یا نہ بناؤں ؟اس پر آپؑ نے فرمایا
’’ اگر نمود اوردکھلاؤ کے واسطے پکّی قبریں اور نقش و نگار اورگنبد بنائے جاویں تو یہ حرام ہیں لیکن اگر خشک مُلّا کی طرح یہ کہا جاوے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جاوے تو یہ بھی حرام ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ عمل نیّت پر موقوف ہیں۔‘‘ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ صفحہ253)
12۔ اشدّ ضرورتوں میں حُکم بدل جاتے ہیں
شریعت نے جہاں ہمیں زندگی کے ہراہم پہلو کے لئے مفصل تعلیم دی ہے وہاں انسانی مجبوریوں اورمعذوریوں کا بھی لحاظ رکھا ہے اور اضطرار کے حالات میں رعایت اور سہولت کو بھی مدّنظر رکھا گیا ہے۔افریقہ سے ڈاکٹر محمد علی خان صاحب نے استفسار کیا کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اورباہر سے اس کا افسر آجائے اور دروازہ کو ہلا ہلاکر اورٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں کیا کرنا چاہئے ؟ اسی وجہ سے ایک شخص نوکری سے محروم ہوکر ہندوستان واپس چلا گیا ہے۔اس پر حضرت اقدسؑ نے فرمایاکہ
’’ ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا ۔ ( یہ ہسپتال کا واقعہ ہے ۔ اِ س لئے فرمایا ) کیونکہ اگر اس کے التواء سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے تو یہ سخت معصیت ہوگی۔ احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی ۔ایسے ہی اگرلڑکے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو تو لڑکے کو بچانا اورجانور کو ماردینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی بلکہ بعضوں نے یہ بھی لِکھا ہے کہ گھوڑا کھل گیا ہو تو اُسے باندھ دینا بھی مفسدِ نماز نہیں ہے۔ کیونکہ وقت کے اندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے۔ ‘‘ (البدر24نومبر،یکم دسمبر1904ء صفحہ4)
سونے چاندی اور ریشم کا ضرورتًا استعمال تو معروف مسئلہ ہے۔ اسی حوالے سے آپ سے سوال کیا گیا کہ چاندی وغیرہ کے بٹن استعمال کئے جاویں؟ اس پر آپ نے فرمایا
’’ تین ، چارماشہ تک توحرج نہیں،لیکن زیادہ کا استعمال منع ہے۔اصل میں سونا چاندی عورتوں کی زینت کے لیے جائز رکھا ہے۔ہاں علاج کے طور پر ان کا استعمال منع نہیں۔جیسے کسی شخص کو کوئی عارضہ ہو اور چاندی سونے کے برتن میں کھانا طبیب بتلاوے تو بطور علاج کے صحت تک وہ استعمال کرسکتا ہے۔ایک شخص آنحضرت ﷺ کے پاس آیا۔اُسے جوئیں بہت پڑی ہوئی تھیں۔آپؐ نے حکم دیا کہ تو ریشم کا کرتہ پہنا کر اس سے جوئیں نہیں پڑتیں۔ (ایسے ہی خارش والے کے لیے ریشم کا لباس مفید ہے)۔ ‘‘
(البدر24؍اگست 1904ء صفحہ8)
13۔ عُرف کا خیال رکھنا ضروری ہے
احکام شریعت میں موقع و محل کی رعایت کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اوربہت سے ایسے مسائل ہیں کہ اگر ان میں معروضی حالات کو مدّ نظر نہ رکھا جائے تو احکام شریعت پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔مثلًا شریعت نے بیمار اور مسافر کے لئے روزہ رکھنے میں رخصت دی ہے تاہم بیماری کی تفاصیل اورسفر کی حدود کاذکر نہیں کیا۔ اسی طرح سفر میں نماز قصرکرنے کی اجازت دی ہے لیکن سفر کی حدّ بیان نہیں فرمائی ۔اس بارہ میں فقہاء کی آراء کی روشنی میں یہ بحثیں ہوتی تھیں کہ کتنا سفر ہو تو سفر کہلائے گا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے عُرف کے اصول کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل فرمادیا ۔
ایک شخص نے پوچھا کہ مجھے دس پندرہ کوس تک اِدھر اُدھر جانا پڑتا ہے۔میں کس کوسفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں؟ فرمایا
’’میرامذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اُوپر نہ ڈال لے۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ دوتین کوس ہی ہو۔ اس میں قصروسفر کے مسائل پر عمل کرے۔اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتاکہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بِنا دِقّت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عُرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے۔‘‘ (الحکم 17؍فروری 1901ء صفحہ13)
اسی طرح خریدوفروخت کے معاملات میں بھی عُرف کا خیال رکھنا ضروری ہے جو مروجہ قانون ہو اور سب لوگ اس پر عمل کررہے ہوں اور کوئی لڑائی جھگڑا بھی نہ ہو تو اس عُرف پر بھی عمل کرنا چاہئے۔
ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرز وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیراسّی روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے اکاسی روپیہ کا ہیں کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا
’’ جن معاملات بیع وشراء میں مقدمات نہ ہوں، فساد نہ ہوں تراضی فریقین ہو اورسرکار نے بھی جُرم نہ رکھا ہو عُرف میں جائز ہو وہ جائز ہے۔ ‘‘
(الحکم 10اگست 1903ء صفحہ19)
14۔ حکومتِ وقت کی اطاعت کی تعلیم
مسلمانوں کے جس ادبار اور پستی کے وقت حضرت مسیح موعودعلیہ السلام مبعوث ہوئے اس دور میں مسلمان سیاسی ، سماجی، مذہبی ، ہرلحاظ سے پسماندہ ہوچکے تھے ۔ اپنے سابقہ شاندار ماضی کو یادکرتے ہوئے محکومی اورکمزوری ان کے لئے بھاری ہورہی تھی۔ جس دور میں خلافت بنو امیہ،بنوعباس اورعثمانی حکومتیں بڑے بڑے علاقوں پر حکومت کرتی تھیں اس دور میں مذہبی مسائل میں بھی بہت سی جگہوں پر بادشاہ وقت کا ذکر ہوتا تھا اور بعض مسائل میں امامت کا حقدار بادشاہ وقت کو قراردیا جاتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند میں بھی مسلمان صدیوں تک حکمران رہے لیکن بعد میں پستی اورذلّت بھی دیکھنی پڑی۔ چونکہ ماضی میں دارالاسلام اوردارالحرب جیسی اصطلاحیں وضع ہوچکی تھیں اس لئے برصغیر میں مسلمانوں کو اپنی حکومت نہ ہونے سے یہ احساس تھا کہ یہ دارالاسلام نہیں بلکہ دارالحرب ہے اورخصوصًا 1857ء کے غدر کی بنیادمیں بھی یہ ایک غلط تصوّر تھا۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی جماعت کو ہر قسم کی بغاوت ، فساد، اورنافرمانی سے بچنے اورسچے دل سے حکومت وقت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی۔ آپ نے یہ مسئلہ باربار اور کھول کر واضح کیا کہ چونکہ انگریزی حکومت میں مسلمانوں کی نہ صرف جان و مال محفوظ ہے بلکہ مذہبی آزادی اورامن بھی حاصل ہے۔ اس لئے اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو ہر قسم کی بغاوت اورفساد سے بچنا چاہئے اور حکومت کے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہئے۔ آپ ؑ نے فرمایاکہ میرے پانچ بڑے اصول ہیں۔ان اصولوں میںسے چوتھے اصول کی یوں تفصیل بیان فرمائی کہ
’’یہ کہ اس گورنمنٹ مُحسنہ کی نسبت جس کے ہم زیرِ سایہ ہیں یعنی گورنمنٹ انگلشیہ کوئی مفسدانہ خیالات دل میں نہ لانا اورخلوصِ دل سے اس کی اطاعت میں مشغول رہنا۔ ‘‘ (کتاب البریۃ۔ روحانی خزائن جلد13صفحہ348)
اسی طرح حکومت کی اطاعت کے بارہ میں فرمایا
’’ حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے ۔ وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔ میں اس کو بڑی بے ایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے۔ ‘‘
(الحکم 31جولائی،10اگست 1904ء صفحہ13)
قرآن کریم نے اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنکُم کا جو حکم دیا ہے بعض لوگ اس کی یہ تشریح کرتے تھے کہ اللہ، رسول اور اپنے حکام کی اطاعت کرنی چاہئے یعنی صرف مسلمان حکمران کی اطاعت کرنی جائز ہے!
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی حکم کا حوالہ دے کر’’مِنْکُمْ‘‘ میں ان تمام حکمرانوں کو بھی شامل فرمایا جو خلافِ شریعت حکم پر عمل کرنے پر مجبور نہیں کرتے۔ فرمایا
’’اولی الامر کی اطاعت کا صاف حکم ہے اور اگر کوئی کہے کہ گورنمنٹ ’’مِنْکُمْ‘‘میں داخل نہیں تو یہ اس کی صریح غلطی ہے۔ گورنمنٹ جو بات شریعت کے موافق کرتی ہے۔ وہ مِنْکُمْمیں داخل ہے۔ جو ہماری مخالفت نہیں کرتا وہ ہم میں داخل ہے۔ اشارۃ النص کے طورپر قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کی اطاعت کرنی چاہئیاوراس کی باتیں مان لینی چاہئیں۔‘‘
(رسالہ الانذارصفحہ 15۔تقریر حضرت اقدس ؑ فرمودہ 2مئی 1898ء ۔ ملفوظات جلد1صفحہ171)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کی پاکیزہ تعلیم کی حقیقت واضح کرنے کے لئے تحریری اورتقریری ہر طرح سے زوردار کوششیں کیں ۔خاص طورپر آپؑ نے ایک رسالہ لکھا
’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ جوروحانی خزائن کی جلد17میں موجود ہے۔اس میں آپ نے جہاد کی تعلیم کی پوری تفصیل بیان فرمائی اورانگریزوں کے ساتھ جہاد کرنے اوران کی حکومت کے خلاف باغیانہ روش اختیار کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی اور آپ نے اس مسئلہ کو اپنے منظوم میں بھی پیش فرمایا۔فرماتے ہیں:۔؎
اب چھوڑدو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے
دیں کی تمام جنگوں کااب اختتام ہے
15۔ نئی ایجادات سے فائدہ اُٹھانا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب زمانہ اپنے رنگ ڈھنگ بدل رہا تھا۔انیسویں صدی عیسوی میں سائنسی ایجادات میں اس قدر تیزی آئی جو اس سے پہلے کبھی نہیں آئی تھی۔ نت نئی ایجادات نے زندگی کا منظر نامہ بالکل بدل کر رکھ دیا۔ تار، ریل، چھاپہ خانے، فوٹوگرافی، فونوگراف، ٹیکہ، وغیرہ ایسی ایجادات تھیں جس کا خاص تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ تھا۔ حضورؑ نے بار بار فرمایا کہ اس دور میں روحانی اورجسمانی ہردوبرکات کی بارش ہورہی ہے۔نئی ایجادات نے دنیا کو قریب ترکردیا۔پریس کی ایجاد نے ہر مذہب کے ماننے والوں میں ایک جوش پیدا کردیا کہ وہ اپنے مذہب کی خوب اشاعت کریں۔ اس ایجاد سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عیسائی پادریوں نے اسلام کے خلاف کثرت کے ساتھ کتابیں لکھ کر شائع کروائیں اورانہیں سارے ہندوستان میں پھیلادیا۔ اسی طرح ہندوؤں نے بھی اسلام کواپنا تختہ مشق بنایا اورکثرت سے اعتراضات سے بھری ہوئی کتابیں لکھیںلیکن دوسری طرف مسلمانوں کی پستی کا یہ حال تھا کہ مدافعت تو درکنار ایسی ایجادات کو بھی خلافِ اسلام قراردینے پر تُل گئے۔ خاص طورپر فوٹوگرافی پر بہت اعتراض کئے گئے اورجب حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فوٹو اتروائی تو ایک شور مچ گیا کہ دیکھو اس نے ایک حرام کام کیا ہے۔
آپ نے قرآن کریم اور حدیث کی روشنی میں دلائل کے ساتھ اس مسئلہ کو واضح فرمایاکہ حدیث میں جن تصویروں کی ممانعت آئی ہے اس کاموجودہ دور کی فوٹوگرافی سے تعلق نہیں۔ فوٹو توایک عکس ہے جیسے آنکھ میں تصویر بنتی ہے، پانی میں عکس بنتا ہے۔ فرمایا
’’ یہ آلہ جس کے ذریعہ سے اب تصویر لی جاتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ایجاد نہیں ہوا تھااور یہ نہایت ضروری آلہ ہے جس کے ذریعہ سے بعض امراض کی تشخیص ہو سکتی ہے ایک اور آلہ تصویر کا نکلا ہے جس کے ذریعہ سے انسان کی تمام ہڈیوں کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور وَجعُ المَفَاصِل و نَقرس وغیرہ امراض کی تشخیص کے لئے اس آلہ کے ذریعہ سے تصویر کھینچتے ہیں اور مرض کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہی فوٹو کے ذریعہ سے بہت سے علمی فوائد ظہور میں آئے ہیں۔ ‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ366)
اسی طرح ریل کی سواری کی ایجاد سے بھی آپ نے فائدہ اُٹھایا اوراسے اپنے لئے نشان قراردیا۔ فونوگراف میں نظم ریکارڈ کی گئی جو آپ نے خاص اس مقصد کے لئے لکھی تھی جس کا پہلا شعریہ تھا
آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے
ڈھونڈو خدا کو دِل سے نہ لاف و گزاف سے
ہر نئی ایجاد اورفن کو حضور نے اس شرط پر درست اورجائز قراردیا کہ اگر اسے شریعت کی ہدایت کے مطابق استعمال کیا جائے تو ایسا کام جائز ہے۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ عکسی تصویر لینا شرعًا جائز ہے؟
فرمایاکہ
’’یہ ایک نئی ایجاد ہے پہلی کتب میں اس کاذکر نہیں۔ بعض اشیاء میں ایک منجانب اللہ خاصیت ہے جس سے تصویر اتر آتی ہے۔ اگر اس فن کو خادم شریعت بنایا جاوے تو جائز ہے۔‘‘ (بدر24، 31دسمبر1908ء صفحہ5)
16۔ نئے اجتہاد کی ضرورت ہے
جیسا کہ پہلے ذکرہوچکا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ایک ایسے وقت پر ہوئی جب دنیا میں بڑی تیزی کے ساتھ تغیرات برپاہورہے تھے۔ رہن سہن اورتمدّن کی صورتیں بدل رہی تھیں۔ حکومتوں کے انداز اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں تبدیلیاں ہورہی تھیں۔ قومیت کی جگہ بین الاقوامیت کا تصور ابھر رہا تھا۔ ملکوں کی جغرافیائی حدود میں تبدیلیاں ہورہی تھیں اورغیراقوام کے محکوم عوام میں آزادی کے خیالات پیدا ہورہے تھے۔ خریدوفروخت کے انداز میں ایسی تبدیلیاں پیداہوچکی تھیں جو گزشتہ حالات سے بالکل مختلف تھیں۔اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت کی جگہ کرنسی نوٹوں نے لے لی اور لباس اور خوراک میں بھی ایسی تبدیلیاں ہوئیں جن سے نئے سوالات نے جنم لیا ۔ سُود جسے اسلام نے قطعی حرام قراردیا ہے کئی ملکوں میں قانونی شکل اختیار کرگیا اورمختلف ممالک میں بینکنگ کا تصور عملی شکل میں سامنے آیا جہاں سارالین دین ہی سود کی بنیادپر ہورہاتھا۔ ایسے بدلے ہوئے حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کی راہنمائی فرمائی اورانہیں آئندہ کے لئے لائحہ عمل دیا۔
بعض ایسے مسائل تھے جن میں واضح طورپر سود لیا اوردیا جاتاتھا اوربعض ایسے مسائل تھے جن میں سود کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اگر یقین نہ بھی ہوتوشک ضرورپایاجاتا تھا۔ ایک ایسے موقعہ پر جب آپ سے سوال کیا گیاتو آپ نے فرمایا
’’ اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہوگئے ہیں۔ کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے اسی لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ ‘‘
(البدر یکم و8نومبر1904ء صفحہ8)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت ابو حنیفہ کے ساتھ ایک طبعی وفطرتی مناسبت تھی اورفقہ حنفی کے مسائل کو آپ نے اہمیت بھی دی ہے لیکن اس کے باوجود آپ نے فرمایا کہ چونکہ زمانہ میں تغیّرات ہوچکے ہیں اس لئے بہت سی جگہوں پر فقہ حنفی کے مسائل سے بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں احمدی علماء اپنے خداداداجتہاد سے کام لیں ۔ فرمایا
’’ ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں۔ اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اورنہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔‘‘
(ریویو برمباحثہ بٹالوی و چکڑالوی۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ212)
کچھ’’ فِقہ المسیح ‘‘کے بارے میں
سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حَکَم عدل اور مامور زمانہ بناکر بھیجا اور آپؑ کے سپرد عظیم دینی مہمّات کی گئیں ۔ آپؑ کا مقام ایک عام مفتی کامقام نہیں تھابلکہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ نے زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا۔مرورِ زمانہ سے اور فقہی مسالک کی کثرت اور باہمی تنازعات کی وجہ سے مسلمان جہاں جہاں راہِ سداد سے ہٹ چکے تھے حضور ؑ نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پاکر اُن کو دوبارہ اُنہی اصولوں پر قائم کرنے کی کوشش کی جو شریعتِ حقہ کا مقصود ہے۔آپ ؑ نے قرآن شریف ، سنت اور تعامل نیز حدیث کا حقیقی مرتبہ واضح کرتے ہوئے تمام معاملات کا اصل مرجع قرآن کریم کو ٹھہرایااورفروعی معاملات میں اختلافات کو زیادہ ہوا نہ دینے کی تلقین فرمائی۔بعض مسائل میں آپؑ نے ایک طریق کو اوّلیت دی مگر دوسرے رائج طریقوں کوبھی ردّ نہ فرمایا کیونکہ آپؑ کے فقہی انداز میں وسعت تھی اسی لئے آپؑ نے امتِ مسلمہ کے تعامل کو بہت اہمیت دی ۔
حضور علیہ السلام کی زندگی میں یہ دستور تھا کہ باہر سے آنے والے مہمان آپؑ کی مجالس میں سوالات کرتے اور آپؑ ان کے جواب دیتے۔ اسی طرح سیر کے دوران بھی گفتگو اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا اورخطوط سے آمدہ سوالات کے جوابات بھی آپؑ لکھواتے تھے۔
عام طور پر فقہی مسائل سے متعلق سوالات کے آپؑ خود بھی جواب دیتے تھے اور کبھی حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب ؓ اور حضرت مولوی سید محمد احسن امروہی صاحبؓ کو بھی جواب دینے کے لئے ارشاد فرماتے۔ چنانچہ الحکم اور بدر میں جہاں حضرت مسیح موعود ؑ کے فتاویٰ چھپتے وہاں بعض دفعہ ان ہر دو بزگان کے فتاویٰ بھی چھپتے تھے۔بعض دفعہ حضور ؑ کی مجلس میں سوال پوچھا جاتا اور آپؑ ان بزرگان میں سے کسی کی طرف اشارہ کرتے اور وہ جواب دے دیتے اورپھر آپ ؑ اس کی توثیق فرمادیتے۔
اس کتاب کی تیاری میں یہ بات مدّ نظر رکھی گئی ہے کہ نہ صرف حضرت مسیح موعود ؑ کے فقہی مسائل کے بارہ میں جملہ ارشادات کوجمع کیا جائے بلکہ اصولِ فقہ اور شریعت کی حکمتوں پر مشتمل آپ ؑ کے ارشادات بھی اس میں شامل کئے جائیں کیونکہ حضور ؑ نے جہاں اسلام کی تعلیم کو دیگر مذاہب کے مقابلے میں پیش فرمایا ہے وہاں شریعت کے احکام کا پُر حکمت ہونا اور عین فطرت کے مطابق ہونا قراردیا ہے۔
حضرت مسیح موعود ؑ کی جملہ کتب، مکتوبات ، اشتہارات اورملفوظات جو ساتھ ساتھ الحکم اور بدر میں چھپتے تھے ۔ اسی طرح کتب سیرت اور’’اصحاب احمد‘‘ اور صحابہ کی روایات سے مواد جمع کیا گیاہے تاکہ حضور علیہ السلام کے اصل کام کو نمایاں کیا جاسکے۔ سلسلہ کے لٹریچر کا مطالعہ کرکے کوشش کی گئی ہے کہ کوئی اہم حوالہ رہ نہ جائے تاہم اضافوں کی گنجائش موجود ہے۔
اس کتاب میں تمام حوالہ جات کو اصل مآخذ سے لیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ملفوظات کی بجائے الحکم اور بدر سے براہِ راست حوالہ جات اخذ کئے گئے ہیں۔ الحکم یا بدر میں بعض جگہوں پر ایسی لفظی غلطیاں ملتی ہیں جن کی تصحیح ملفوظات میں کردی گئی ہے ایسی صورت میں ملفوظات کی تصحیح کے مطابق الفاظ درج کئے گئے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قادیان سے دو اخبار نکلتے تھے۔ الحکم 1897ء میں چھپنا شروع ہوا اورالبدر1902ء میں۔ ان دونوں اخباروں میں حضور علیہ السلام کے ملفوظات چھپتے تھے۔ اخبار بدر 13؍اپریل 1905ء تک البدر کے نام سے چھپتا رہا جبکہ 20؍اپریل 1905ء سے یہ بدر کے نام سے چھپنا شروع ہوا۔ حوالہ جات میں اسی کے مطابق کہیں البدر اور کہیں بدر لکھا گیا ہے۔
اس کتاب کی تدوین میں خاکسار کو بہت سے احباب کا خصوصی تعاون میسّر رہا جن کا ذکر کرنا شکرگزاری کے اظہار کے طورپر ضروری سمجھتا ہوں۔
(1) سب سے پہلے خاکسار مکرم فضل احمد ساجد صاحب مربی سلسلہ دارالافتاء کا خصوصی طورپرشکر گزار ہے کہ انہوں نے ’’فقہ المسیح ‘‘ کے مسودے کو دو مرتبہ بالاستیعاب پڑھا اور انتہائی مفید مشورے دئیے۔ اہم امور پر وہ مکرم مولانا مبشراحمد صاحب کاہلوں مفتی سلسلہ سے مشورہ بھی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے بعض ضروری حوالہ جات بھی مہیافرمائے جو اس کتاب میں شامل ہیں۔
(2) مکرم وحیداحمد رفیق صاحب مربی سلسلہ استاد فقہ جامعہ احمدیہ کا تعاون بھی خاکسار کو مہیا رہا۔ اسی طرح جامعہ احمدیہ میں زیرِ تعلیم طلباء عزیزان حافظ فہیم احمد قریشی، محمد دانیال اورسجیل احمد شفیق نے پروف ریڈنگ کے کام میں خصوصی معاونت کی۔نیز سید عامر پرویز شاہ صاحب کارکن لائبریری جامعہ نے بھی گاہے گاہے خصوصی تعاون کیا۔
(3) اس کتاب کی کمپوز نگ اور ابتدائی سیٹنگ مکرم محمد آصف عدیم صاحب مربی سلسلہ نے پرخلوص محنت اور دلی شوق کے ساتھ کی اور آخری سیٹنگ مکرم کلیم احمد صاحب طاہر مربی سلسلہ نے بڑی محبت اور لگن سے کی ۔ ہر دو مربیان سلسلہ خاکسار کے خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب معاونین کو اجر عظیم عطا کرے اور اس خدمت کو قبول فرمائے۔ آمین
بعض بزرگان کی حوصلہ افزائی اور اس کتاب کی تدوین میں خصوصی دلچسپی پر خاکسار جذبات تشکر سے معمور ہے۔ اس فہرست میں مکرم ملک خالد مسعود صاحب ناظر اشاعت، مکرم نصیر احمد صاحب چوہدری نائب ناظم دارالقضاء ربوہ ، مکرم عبدالسمیع خانصاحب ایڈیٹر الفضل ربوہ، مکرم نصیر احمد صاحب قمر ایڈیشنل وکیل اشاعت لندن اور مکرم شبیر احمد صاحب ثاقب صدر شعبہ حدیث جامعہ احمدیہ ربوہ شامل ہیں۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء
خاکسار
انتصاراحمدنذر مربی سلسلہ احمدیہ
صدر شعبہ فقہ جامعہ احمدیہ ربوہ
15؍ اپریل 2015ء
نمازیں جمع کرنا
مسیح موعود کے لئے نمازیں جمع کی جائیں گی
فرمایا:۔
ہزار شکر کا مقام ہے کہ اس موقعہ پر(ستر دنوں میں تفسیر سورۃ فاتحہ لکھنے کے موقع پر۔ ناقل) ایک پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی پوری ہوئی اور وہ یہ ہے کہ اس ستر دن کے عرصہ میںکچھ بباعث امراض لاحقہ اور کچھ بباعث اس کے بوجہ بیماری بہت سے دن تفسیر لکھنے سے سخت معذوری رہی اُن نمازوں کو جو جمع ہو سکتی ہیں جمع کرنا پڑا اور اس سے آنحضرت ـصلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو در منثور اور فتح باری اور تفسیر ابن کثیر وغیرہ کتب میں ہے کہ تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ یعنی مسیح موعود کے لئے نماز جمع کی جائے گی۔ اب ہمارے مخالف علماء یہ بھی بتلا ویں کہ کیا وہ اس بات کو مانتے ہیں یا نہیں کہ یہ پیشگوئی پوری ہو کر مسیح موعود کی وہ علامت بھی ظہور میں آگئی اور اگر نہیں مانتے تو کوئی نظیر پیش کر یں کہ کسی نے مسیح موعود کا دعویٰ کر کے دو ماہ تک نمازیں جمع کی ہوں یا بغیر دعویٰ ہی نظیر پیش کرو۔
(مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ497)
بیماری کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا
نوٹ از ایڈیٹر تشحیذ:۔ چونکہ کچھ مدت سے حضرت کی طبیعت دن کے دوسرے حصہ میں اکثر خراب ہو جاتی ہے۔ اس لئے نماز مغرب اور عشاء گھر میں باجماعت پڑھ لیتے ہیں۔ باہر تشریف نہیں لا سکتے۔ ایک دن نماز مغرب کے بعد چند عورتوں کو مخاطب کرکے فرمایا جو سننے کے قابل ہے۔
فرمایا:۔
کوئی یہ نہ دل میں گمان کر لے کہ یہ روز گھر میں جمع کرکے نماز پڑھا دیتے ہیں اور باہر نہیں جاتے ۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی کہ آنے والا شخص نماز جمع کیا کرے گا۔ سو چھ مہینہ تک تو باہر جمع کرواتارہاہوں ۔ اب میں نے کہا کہ عورتوں میں بھی اس پیشگوئی کو پورا کر دینا چاہئے چونکہ بغیر ضرورت کے نماز جمع کرنا ناجائز ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے مجھ کو بیمار کر دیا اور اس طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کر دیا۔ ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرے ۔ کیونکہ وہ پورا نہ ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ جھوٹے ٹھہرتے ہیں۔ اس لئے ہر ایک کو وہ بات جو اس کے اختیار میں ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کے موافق پوری کر دینی چاہئے اور خدا تعالیٰ خود بھی سامان مہیا کر دیتاہے جیسا کہ مجھ کو بیمار کر دیا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کر دے ۔ جیسا کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیؓ سے فرمایا کہ تیرا اس وقت کیا حال ہوگا جبکہ تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب کسریٰ کا ملک فتح ہوا۔ تو حضرت عمرؓ نے اس کو سونے کے کڑے جو لُوٹ میں آئے تھے پہنائے ۔ حالانکہ سونے کے کڑے یا کوئی اورچیز سونے کی مردوں کے لئے ایسی ہی حرام ہے جیسا کہ اور حرام چیزیں ۔ لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے یہ بات نکلی تھی اس لئے پوری کی گئی ۔ اسی طرح ہر ایک دوسرے انسان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ (بدر 7جون1906ء صفحہ5)
جمع بین الصلوٰتین مہدی کی علامت ہے
سب صاحبوں کو معلوم ہو ایک مدت سے خدا جانے قریباًچھ ماہ سے یا کم و بیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے ۔ میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نماز جمع کی جاتی ہے ایک نو وارد یا نو مرید کو جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں گے، جیسے بعض غیر مقلد ذرا ابر ہو یا کسی عدالت میں جانا ہوا تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذربھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعاً اور فطرتا ً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اور نماز موقوتہ کے مسئلے کو نہایت عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اگرچہ شیعوں اور غیر مقلدوں نے اس پربڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر ان سے کام لیتے ہیں او رمشکل کوموضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں ہمارا یہ مدعا نہیں بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہ رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل کر لینا چاہیے۔
اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم القا اور الہام کے بدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں جہاں تک خدا تعالیٰ نے مجھ پر اس جمع صلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی بھی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو اب پوری ہو رہی ہے میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلاً کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علماء ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ہی ٹھہراویں گے مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا ۔اگرچہ خدا تعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لَامَہْدِی اِلَّا عِیْسٰی والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور میرا یہ مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ اہل کشف یا ا ہل الہام لوگ محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے۔ خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید کے پابند نہیں ہوتے ہیں۔تو جب یہ حالت ہے پھر میں صاف صاف کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کرتا ہوں خداتعالیٰ کے القاء اوراشارہ سے کرتاہوں ۔ یہ پیشگوئی جو اس حدیث تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ میں کی گئی ہے یہ مسیح موعود ؑاور مہدی کی ایک علامت ہے ۔ یعنی وہ ایسی دینی خدمات اورکاموں میں مصروف ہوگاکہ اس کے لئے نماز جمع کی جائے گی۔ اب یہ علامت جبکہ پوری ہوگئی ہے اورایسے واقعات پیش آگئے پھر اس کو بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے نہ کہ استہزاء اورانکار کے رنگ میں۔
(الحکم 24نومبر1902ء صفحہ2-1)
مسیح موعودؑ کی خاطر نمازیں جمع کئے جانے کی پیشگوئی
جیساکہ خداکے فرائض پر عمل کیا جاتا ہے ۔ ویسا ہی اُس کی رُخصتوں پر عمل کرنا چاہیے۔ فرض بھی خداکی طرف سے ہیں اوررخصت بھی خدا کی طرف سے۔
دیکھو ہم بھی رخصتوں پر عمل کرتے ہیں۔ نمازوں کو جمع کرتے ہوئے کوئی دو ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں۔بہ سبب بیماری کے اور تفسیر سورۂ فاتحہ کے لکھنے میں بہت مصروفیت کے ایساہورہا ہے اور ان نمازوں کے جمع کرنے میں تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃُ کی حدیث بھی پوری ہورہی ہے کہ مسیح کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ مسیح موعود نماز کے وقت پیش امام نہ ہوگا، بلکہ کوئی اور ہوگا اور وہ پیش امام مسیح کی خاطر نمازیں جمع کرائے گا۔ سو اب ایسا ہی ہوتاہے جس دن ہم زیادہ بیماری کی وجہ سے بالکل نہیں آسکتے۔ اس دن نمازیں جمع نہیں ہوتیں اور اس حدیث کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیارکے طریق سے یہ فرمایا ہے کہ اُس کی خاطر ایساہوگا۔ چاہیے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی عزت و تحریم کریں اور ان سے بے پرواہ نہ ہوویں ورنہ یہ ایک گناہِ کبیرہ ہوگا کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو خِفّت کی نگاہ سے دیکھیں۔ خداتعالیٰ نے ایسے ہی اسباب پیدا کردیئے کہ اتنے عرصے سے نمازیں جمع ہورہی ہیں ورنہ ایک دودن کے لئے یہ بات ہوتی تو کوئی نشان نہ ہوتا۔ ہم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ لفظ اور حرف حرف کی تعظیم کرتے ہیں۔
(الحکم 17فروری 1901ء صفحہ13،14)
جمع بین الصلوٰتین کی رخصت سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے
فرمایا:
یہ عاجز صرف چند روز تک مسافرانہ طور پر علیگڑھ میں ٹھہرا تھا اور جو کچھ مسافروں کے لئے شریعت اسلام نے رخصتیں عطاکی ہیں اوراُن سے دائمی طور پر انحراف کرنا ایک الحاد کا طریق قرار دیا ہے ان سب امور کی رعایت میرے لئے ایک ضروری امر تھا سو میں نے وہی کیا جو کرنا چاہیئے تھا اور میں اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے اُس چند روزہ اقامت کی حالت میں بعض دفعہ مسنون طور پر دو نمازوں کو جمع کر لیا ہے اور کبھی ظہر کے اخیر وقت پر ظہر اور عصر دونوں نمازوں کو اکٹھی کر کے پڑھا ہے مگرحضرات مؤحدین توکبھی کبھی گھر میں بھی نمازوں کو جمع کر کے پڑھ لیتے ہیںاور بِلَا سَفَرٍ وَمَطَرٍ پر عمل درآمد رہتا ہے۔ میں اس سے بھی انکار نہیں کر سکتا کہ میں نے اِن چند دنوں میں مسجدوں میں حاضر ہونے کا بکلّی التزام نہیں کیا مگر باوجود اپنی علالت طبع اور سفر کی حالت کے بکلی ترک بھی نہیں کیا۔ (فتح اسلام۔روحانی خزائن جلد3صفحہ25 حاشیہ)
تُجْمَعُ لَہُ الصَّلٰوۃ کے نشان کا ظہور
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفر احمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہدِ مبارک میں ایک دفعہ قادیان میں زیادہ عرصہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں۔ مولوی محمد احسن صاحب نے مولوی نورالدین صاحب کو خط لکھا کہ بہت دن نمازیں جمع کرتے ہوگئے ہیں۔ لوگ اعتراض کریں گے تو ہم اس کا کیا جواب دیں گے۔ حضرت مولوی صاحب نے جواب دیا کہ اُسی سے پوچھو(یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے) مولوی انوارحسین صاحب شاہ آبادی اس خط و کتابت میں قاصد تھے۔ اُن سے مجھے اس کا حال معلوم ہوا۔ تو میں نے حضرت صاحب سے جاکر عرض کردی۔ اس وقت تو حضور نے کچھ نہ فرمایا لیکن بعد عصر جب حضور معمولًا مسجد کی چھت پر تشریف فرماتھے تو آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ ایسے اعتراض دل میں کیوں اُٹھتے ہیں۔ کیا حدیثوں میں نہیں آیا کہ وہ نماز جمع کرے گا۔ ویسے تو نماز جمع کا حکم عام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے کاموں میں اس قدر منہمک ہوگا کہ اس کو نمازیں جمع کرنی پڑیں گی۔ اس وقت سید محمد احسن صاحب زار زار رو رہے تھے اور توبہ کر رہے تھے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ119)
جمع صلوٰتین میں افراط اور تفریط دونوں سے بچنا چاہئے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ کرم الٰہی صاحب پٹیالوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے جب لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو میں نے اُس خلوت کو غنیمت جان کر حضور سے استفسار کیاکہ خاکسار نقش بند یہ طریق میں بیعت ہونے سے قبل فرقہ اہل حدیث جس کو عام لوگ وہابی کے لفظ سے یاد کرتے ہیں،میں بھی شامل رہا ہے۔ اُس وقت سے نمازوں کو جمع کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اس بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے۔
حضور نے فرمایا کہ جمع صلاتین کے بارہ میں میرے نزدیک مخالف و موافق ہر دو فریق نے افراط و تفریط سے کام لیا ہے۔ ایک طرف اس پر عاملین کا تو یہ حال ہے کہ بلا عذر شرعی یا جائز ضرورت کے نمازیں جمع کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ حقہ ذرا اچھا چل رہا ہے ۔ یا تاش وغیرہ کھیل رہے ہیں ۔ اذان ہوئی تو ان کو چھوڑ کر کون جائے۔ جھٹ نماز جمع کرنے کی ٹھان لیتے ہیں چاہے دوسری نماز بھی ادا ہوجائے یا دونوں ضائع ہوجائیں۔ فرمایا! یہ بہت بُری بات ہے۔ نماز جیسے ضروری فرض میں کوتاہی اور غفلت ایمان کی کمزوری پردال ہے اور دوسری طرف حنفی صاحبان کا یہ حال ہے کہ کیسی ہی ضرورت اور عذر جائز ہو نماز قضاء تو کردیں گے مگراہلِ حدیث کی ضد اور مخالفت میں جمع نہ کریںگے۔ فرمایا کہ کوئی ان لوگوںسے پوچھے کہ حج کے موقعہ پر ایک نماز ہر حاجی کو ٹھیک ادائے رسوم حج کے وقت لازمی طورپر جمع کرنی پڑتی ہے۔ اگر یہ فعل ایسا ہی ممنوع ہوتا ۔ جیسا آپ لوگوں کے عمل سے ہویدا ہے تو ایسے مقدس مقام پر اس کی اجازت کیسے ہوتی۔ دراصل ضرورت اور عدم ضرورت کا سوال ہے اور یہی اس بارہ میں معیار ہے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ87)
کس قدر مسافت پر نماز جمع کی جائے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ سے کپور تھلہ تشریف لائے تو صرف ایک دن قیام فرما کر قادیان کو تشریف لے گئے۔ ہم کرتارپور کے اسٹیشن پر پہنچانے گئے۔ یعنی منشی اروڑا صاحب، محمد خاں صاحب اور میں۔ اگر کوئی اوربھی ساتھ کرتارپور گیا ہوتو مجھے یاد نہیں۔ کرتارپور کے اسٹیشن پر ہم نے حضرت صاحب کے ساتھ ظہروعصر کی نماز جمع کی۔ نماز کے بعد میں نے عرض کی کہ کس قدر مسافت پر نماز جمع کرسکتے ہیں اور قصر کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا انسان کی حالت کے اوپر یہ بات ہے۔ ایک شخص ناطاقت اور ضعیف العمر ہو تو وہ پانچ چھ میل پر بھی قصر کرسکتا ہے اور مثال دی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مزدلفہ میں نماز قصرکی۔ حالانکہ وہ مکہ شریف سے قریب جگہ ہے۔ (سیرت المہدی جلد 2صفحہ34،35)
سخت تنگی کے وقت نمازیں جمع کرنا
ایک صاحب نے ذکر کیا کہ ان کا ایک افسر سخت مزاج تھا روانگی نماز میں اکثر چیں بجبیں ہوا کرتا تھا۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ
خدا تعالیٰ نے ضرورتوں کے وقت جمع صلوٰتین رکھا ہے ظہراورعصرکی نمازیں ایسی حالت میں جمع کر کے پڑھ لیں۔ (البدر 9جنوری 1903ء صفحہ82)
غزوئہ خندق کے موقع پر کتنی نمازیں جمع کی گئیں؟
مخالفین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
آپ کا یہ شیطانی وسوسہ کہ خندق کھودتے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں۔ اوّل آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اے نادان! قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں۔ ترک نماز کا نام قضا ہرگز نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے تو اس کا نام فوت ہے۔ اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بیوقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی قضا کے معنی بھی معلوم نہیں۔ جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امور دقیقہ پر نکتہ چینی کرسکے۔ باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں۔ اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو۔ اس لئے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے۔مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار (نمازیں) جمع کرنے کا ذکر نہیں بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰۃ العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی۔ اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم ذراآپ کو بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں۔ چار نمازیں تو خود شرع کے رو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر اور مغرب اور عشائ۔ ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کر کے پڑھی گئیں تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو ردّ کرتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی۔
(نورالقرآن ۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ389،390)
نماز استخارہ
استخارہ کی اہمیت
فرمایا:
آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کر دیا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیش آمدہ امر میں استخارہ فرما لیا کرتے تھے۔ سلف صالحین کا بھی یہی طریقہ تھا۔ چونکہ دہریت کی ہوا پھیلی ہوئی ہے اس لیے لوگ اپنے علم و فضل پر نازاں ہو کر کوئی کام شروع کر لیتے ہیں اور پھر نہاں درنہاں اسباب سے جن کا انہیں علم نہیں ہوتا نقصان اُٹھاتے ہیں۔ اصل میں یہ استخارہ ان بدر سومات کے عوض میں رائج کیا گیا تھا جو مشرک لوگ کسی کام کی ابتدا سے پہلے کیا کرتے تھے لیکن اب مسلمان اُسے بھول گئے حالانکہ استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے ۔ جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ بعض لوگ کوئی کام خود ہی اپنی رائے سے شروع کر بیٹھتے ہیں اور پھر درمیان میں آکر ہم سے صلاح پوچھتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں جس علم و عقل سے پہلے شروع کیا تھا اسی سے نبھا ئیں۔ اخیر میں مشورے کی کیا ضرورت؟
(بدر 13جون 1907ء صفحہ3)
سفر سے پہلے استخارہ کا طریق
حضرت اقدس ؑ نے ایک مہمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ :۔
آپ استخارہ کر لیویں۔استخارہ اہل اسلام میں بجائے مہورت کے ہے چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہو کر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لئے اہل اسلام نے ان کو منع کر کے استخارہ رکھا۔اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو رکعت نماز نفل پڑھے۔اول رکعت میں سورۃ قُلْ یٰاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ پڑھ لے اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ ۔ التحیات میں یہ دعا کرے۔
یا الٰہی !میں تیرے علم کے ذریعہ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت سے قدرت مانگتا ہوں کیونکہ تجھ ہی کو سب قدرت ہے مجھے کوئی قدرت نہیں اور تجھے سب علم ہے مجھے کوئی علم نہیں اور تو ہی چھپی باتوں کو جاننے والا ہے۔ الٰہی اگر تو جانتا ہے کہ یہ امرمیرے حق میںبہتر ہے بلحاظ دین اور دنیا کے، تو تُو اسے میرے لئے مقدر کر دے اوراسے آسان کر دے اور اس میں برکت دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ امرمیرے لئے دین اور دنیا میں شر ہے تو مجھ کو اس سے باز رکھ۔
اگر وہ امر اس کے لئے بہتر ہوگا تو خد اتعالیٰ اس کے لئے اس کے دل کو کھول دے گا ورنہ طبیعت میں قبض ہو جائے گی۔ دل بھی عجیب شے ہے جیسے ہاتھوں پر انسان کا تصرف ہوتا ہے کہ جب چاہے حرکت دے۔دل اس طرح اختیار میں نہیں ہوتا۔اس پہ اﷲ تعالیٰ کا تصرف ہے۔ ایک وقت میں ایک بات کی خواہش کرتا ہے پھر تھوڑی دیر کے بعد اسے نہیں چاہتا۔یہ ہوائیں اندر سے ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے چلتی ہیں۔
(البدر 2جنوری 1903ء صفحہ78)
ہر اہم کام سے پہلے استخارہ کرنا
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ روایت کرتے ہیں:
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ طریق عمل تھا۔ کہ ہر ایک اہم کام کے شروع کرنے سے پہلے ضرور دعا کیا کرتے تھے اور دعا بطریق مسنون دعائے استخارہ ہوتی تھی۔ استخارہ کے معنی ہیں خدا تعالیٰ سے طلب خیر کرنا۔ استخارہ کے نتیجے میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کوئی خواب آجائے جیسا کہ آج کل کے بعض صوفی استخارہ کرتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرتے ہیں یہ طریق مسنون نہیں۔ اصل مقصد تو یہ ہونا چاہئے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے خیر حاصل ہو اور دعائے استخارہ سے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پید اکردیتا ہے کہ جو کام ہمارے لئے بہتری اور بھلائی کا ہو وہ آسان ہوجاتا ہے۔ بغیر دقتوں کے حاصل ہوجاتا ہے اور قلب میں اس کے متعلق انشراح اور انبساط پیدا ہوجاتا ہے ۔
عمومًا استخارہ رات کے وقت بعد نماز عشا ء کیا جاتا ہے۔ دو رکعت نماز نفل پڑھ کر التحیات میں درود شریف اور دیگر مسنون دعاؤں کے بعد دعائے استخارہ پڑھی جاتی ہے اور اس کے بعد فورًا سو رہنا چاہئے اور باتوں میں مشغول ہونا مناسب نہیں ہوتا لیکن حسبِ ضرورت دوسرے وقت بھی استخارہ کیا جاسکتا ہے۔
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ509-508)
نماز عصر میں استخارہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دورانِ ایام مقدمہ کرم دین میں ایک صاحب ابو سعید نامی کو جو ابو سعید عرب کے نام سے مشہور تھے۔ لاہور سے بعض اخباروں کے پرچے لانے کے واسطے بھیجا گیا۔ انہیں کہا گیا کہ آپ سفر سے قبل استخارہ کرلیں۔ اس وقت نماز عصر ہونے والی تھی اور بیت مبارک میں احباب جمع تھے۔ وہاں ہی ان کے سفر کے متعلق تجویز قرارپائی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ابو سعید صاحب سے فرمایا کہ آپ نماز عصر میں ہی استخارہ کرلیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اور پھر لاہور چلے گئے اور جس مقصد کے واسطے بھیجے گئے۔ اس میں کامیاب ہو کرواپس آئے۔
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ ازحضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 509)
استخارہ میں کونسی سورتیں پڑھیں
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو اِستخارہ کا یہ طریق بھی بتلایا کہ پہلی رکعت میں سورۃ قُلْ یٰاَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ پڑھیں۔دوسری رکعت میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اور اَلتَّحْیَات میں اپنے مطلب کے واسطے دعا کریں۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ231 )
حضرت مسیح موعود ؑکا طریق استخارہ
حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کے نام مکتوب میں حضرت مسیح موعود ؑ نے تحریر کیاکہ
امید کہ بعد تین دن کے استخارہ مسنونہ جو سفر کے لئے ضروری ہے، اس طرف کا قصد فرماویں۔بغیر استخارہ کے کوئی سفر جائز نہیں۔ ہمارا اس میں طریق یہ ہے کہ اچھی طرح وضو کر کے دو رکعت نماز کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ پہلی رکعت میں سورۃ قُلْ یٰاَیّھَا الْکَافِرُوْنَپڑھیں۔ یعنی الحمدتمام پڑھنے کے بعد ملالیں۔ جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد دوسری سورۃ ملایا کرتے ہیں اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر سورۃ اخلاص یعنی قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ملا لیں اور پھر التحیات میں آخر میں اپنے سفر کے لئے دعا کریں کہ یا الٰہی! میں تجھ سے کہ تو صاحب فضل اور خیر اور قدرت ہے، اس سفر کے لئے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو عواقب الامور کو جانتا ہے اور میں نہیں جانتا اور تو ہر ایک امر پر قادر ہے اور میں قادر نہیں۔ سو یا الٰہی! اگر تیرے علم میں یہ بات ہے کہ یہ سفر سراسر میرے لئے مبارک ہے، میری دنیا کیلئے، میرے دین کیلئے اور میرے انجام امر کیلئے اور اس میں کوئی شر نہیں۔ تو یہ سفر میرے لئے میسر کر دے اور پھر اس میں برکت ڈال دے اور ہر ایک شر سے بچا۔ اور اگر تُو جانتا ہے کہ یہ سفر میرا میری دنیا یا میرے دین کے لئے مضر ہے اور اس میں کوئی مکروہ دِہ امر ہے تو اس سے میرے دل کو پھیر دے۔ اور اس سے مجھ کو پھیر دے آمین۔ یہ دعا ہے جو کی جاتی ہے۔ تین دن کرنے میں حکمت یہ ہے کہ تا بار بار کرنے سے اخلاص میسر آوے۔ آج کل اکثر لوگ استخارہ سے لاپرواہ ہیں۔ حالانکہ وہ ایسا ہی سکھایا گیا ہے جیسا کہ نماز سکھائی گئی ہے۔ سو یہ اس عاجز کا طریق ہے کہ اگرچہ دس کوس کا سفر ہو تب بھی استخارہ کیا جاوے۔ سفروں میں ہزاروں بلائوں کا احتمال ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ استخارہ کے بعد متولّی اور متکفّل ہو جاتا ہے اوراس کے فرشتے اس کے نگہبان رہتے ہیں جب تک اپنی منزل تک نہ پہنچے۔ اگرچہ یہ دعا تمام عربی میں موجود ہے۔ لیکن اگر یاد نہ ہو تو اپنی زبان میں کافی ہے اور سفر کا نام لے لینا چاہئے کہ فلاں جگہ کے لئے سفر ہے۔
(مکتوباتِ احمد جلد دوم صفحہ349۔350)
استخارہ کا ایک آسان طریق
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مرزا دین محمدصاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کے پاس میری آمدورفت اچھی طرح ہوگئی اور مَیں آپ سے پڑھنے بھی لگ گیا۔ تو حضور نے مجھے حکم دیا کہ ہر دو گھروں میں یعنی بخانہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اوربخانہ مرزا غلام محی الدین صاحب کہہ دیا کرو کہ سب لوگ ہر روز سوتے وقت استخارہ کرکے سویا کریں اور جو خواب آئے وہ صبح ان سے پوچھ لیا کرو اور مجھ سے بھی استخارہ کراتے تھے۔ استخارہ یہ سکھایا تھا کہ سوتے ہوئے’’ یَا خَبِیْرُ اَخْبِرْنِیْ ‘‘ پڑھا کرو اور پڑھتے پڑھتے سوجایا کرو اور درمیان میں بات نہ کیا کرو۔ مَیں صبح سب گھر والوں میں پھر کر خوابیں پوچھتا تھا اور حضرت صاحب کو آکر اطلاع دیتا تھا۔ پھر حضرت صاحب سب کی تعبیر بتاتے اورمَیں سب کو جاکر اطلاع دیتا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اور مرزا غلام محی الدین صاحب حقیقی بھائی تھے۔ مرزا غلام مرتضیٰ صاحب حضرت صاحب کے والد تھے اور مرزا غلام محی الدین صاحب چچا تھے۔ اس زمانہ میں بس انہی دو گھروں میں ساراخاندان تقسیم شدہ تھا۔ اب مرزا غلام محی الدین صاحب کی اولاد میں سے صرف مرزا گل محمد ہیں۔ نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ استخارہ کی اصل مسنون دُعا تو لمبی ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مرزا دین محمد صاحب کی سہولت کے لئے آپ نے انہیں یہ مختصر الفاظ سکھا دئیے ہوں گے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ628،629)
کھلے نشانات کو دیکھ کر استخارہ کرنا جائز نہیں
ایک شخص کا خط آیا کہ میں آپ کے متعلق استخارہ کرنا چاہتا ہوں کہ آیا آپ حق پر ہیں یا نہیں؟ فرمایا:
ایک وقت تھا کہ ہم نے خود اپنی کتاب میں استخارہ لکھا تھا کہ لوگ اس طرح سے کریں۔ تو خدا تعالیٰ ان پر حق کو کھول دے گا۔ مگراب استخاروں کی کیا ضرورت ہے جب کہ نشانات الٰہی بارش کی طرح برس رہے ہیں اور ہزاروں کرامات اور معجزات ظاہر ہوچکے ہیں۔ کیا ایسے وقت میں استخاروں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے؟کھلے نشانات کو دیکھ کر پھر استخارہ کرنا خدا تعالیٰ کے حضور میں گستاخی ہے ۔ کیا اب جائز ہے کہ کوئی شخص استخارہ کرے کہ اسلام کا مذہب سچا ہے یا جھوٹا اور استخارہ کرے کہ آنحضرت ﷺ خداکی طرف سے سچے نبی تھے یا نہیں تھے۔ اس قدر نشانات کے بعد استخاروں کی طرف توجہ کرنا جائز نہیں۔
(بدر 2مئی1907ء صفحہ2)
نماز استسقاء
سخت گرمی پڑنے اور برسات کے نہ ہونے کا ذکر تھا۔ اس پر آپ نے فرمایا:
ایسے موقع پر نماز استسقاء کا پڑھنا سنت ہے۔ میں جماعت کے ساتھ بھی سنت ادا کروں گا مگر میرا ارادہ ہے کہ باہر جاکر علیحدگی میں نماز پڑھوں اور دعا کروں۔ خلوت میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کرنے اور دعا مانگنے کا جو لطف ہے وہ لوگوں میں بیٹھ کر نہیں ہے۔
(بدر 10 اگست 1905ء صفحہ 2)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مکرمی مفتی محمدصادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ نماز استسقاء ہوئی تھی جس میں حضرت صاحب بھی شامل ہوئے تھے اور شاید مولوی محمد احسن صاحب مرحوم امام ہوئے تھے۔ لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے مگر حضرت صاحب میں چونکہ ضبط کمال کا تھا اس لئے آپ کو میں نے روتے نہیں دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس کے بعد بہت جلد بادل آکر بارش ہوگئی تھی بلکہ شاید اسی دن بارش ہوگئی تھی۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ393)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب اس موقع کے بارہ میں ایک روایت تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مرتبہ نماز استسقاء ہوئی تھی۔ یہ نماز اس بڑ کے درخت کے نیچے ہوئی تھی جہاں گزشتہ سالوں میں جلسہ گاہ مستورات تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس بڑ کے نیچے اوراس کے ساتھ والے میدان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کئی دفعہ عیدبھی ہوئی تھی اور جنازے بھی اکثریہیں ہوا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ622،623)
نماز کسوف
حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب اپنے بھائی کے ساتھ رمضان میں چاند گرہن لگنے کے بعد اس شوق میں قادیان آئے کہ سورج گرہن کا عظیم نشان حضرت اقدس ؑ کے ساتھ دیکھیںاورنمازِ کسوف ادا کریں۔اس حوالے سے وہ ذکر کرتے ہیں کہ
صبح حضرت اقدسؑ کے ساتھ کسوف کی نماز پڑھی جو کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے مسجد مبارک کی چھت پر پڑھائی اور قریبًا تین گھنٹہ یہ نماز وغیرہ جاری رہی۔ کئی دوستوں نے شیشے پر سیاہی لگائی ہوئی تھی جس میں سے وہ گرہن دیکھنے میں مشغول تھے ابھی خفیف سی سیاہی شیشے پر شروع ہوئی تھی کہ حضرت مسیح موعود ؑ کوکسی نے کہا کہ سورج کو گرہن لگ گیا ہے ۔ آپؑ نے اس شیشہ میں سے دیکھا تو نہایت ہی خفیف سی سیاہی معلوم ہوئی۔حضور نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے فرمایاکہ گرہن کو ہم نے تو دیکھ لیا مگر یہ ایسا خفیف ہے کہ عوام کی نظر سے اوجھل رہ جائے گااوراس طرح ایک عظیم الشان پیشگوئی کا نشان مشتبہ ہوجائے گا۔ حضور نے کئی بار اس کا ذکر کیا تھوڑی دیر بعد سیاہی بڑھنی شروع ہوئی حتّٰی کہ آفتاب کا زیادہ حصہ تاریک ہوگیا۔ تب حضور نے فرمایا کہ ہم نے آج خواب میں پیاز دیکھا تھا اس کی تعبیر غم ہوتی ہے ۔ سو شروع میں سیاہی کے خفیف رہنے سے ظہور میں آیا۔ (اصحابِ احمد جلد 1صفحہ93،94۔نیا ایڈیشن )
قصر نماز
سفر کی تعریف
ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہو اکہ مجھے دس پندرہ کوس تک ادھراُدھر جانا پڑتا ہے۔ مَیں کس کو سفر سمجھوں اور نمازوں میں قصر کے متعلق کس بات پر عمل کروں۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا:۔
میرامذہب یہ ہے کہ انسان بہت دقتیں اپنے اُوپر نہ ڈال لے۔ عرف میں جس کو سفر کہتے ہیں، خواہ وہ دوتین کوس ہی ہو۔ اس میں قصروسفر کے مسائل پر عمل کرے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ بعض دفعہ ہم دو دو تین تین میل اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں، مگر کسی کے دل میں خیال نہیں آتاکہ ہم سفر میں ہیں لیکن جب انسان اپنی گٹھری اُٹھا کر سفر کی نیت سے چل پڑتا ہے تو وہ مسافر ہوتاہے۔ شریعت کی بنا دقت پر نہیں ہے۔ جس کو تم عرف میں سفر سمجھو، وہی سفر ہے۔
(الحکم 17؍فروری 1901ء صفحہ13)
سفر کی حد کیا ہے؟
سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی تین کوس سفر پر جائے تو کیا نمازوں کو قصر کرے؟
فرمایا:۔
ہاں، دیکھو اپنی نیّت کو خوب دیکھ لو۔ ایسی تمام باتوں میں تقویٰ کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی شخص ہرروز معمولی کاروبار یا سفر کے لئے جاتا ہے تو وہ سفر نہیں بلکہ سفر وہ ہے جسے انسان خصوصیّت سے اختیار کرے اور صرف اس کام کے لئے گھر چھوڑ کر جائے اور عُرف میں وہ سفر کہلاتا ہو۔ دیکھو۔ یوں تو ہم ہر روز سیر کے لئے دو دو مِیل نِکل جاتے ہیں مگر یہ سفر نہیں۔ ایسے موقعہ پر دل کے اطمینان کو دیکھ لینا چاہئے کہ اگر وہ بغیر کسی خلجان کے فتویٰ دے کہ یہ سفر ہے تو قصر کرے۔ اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ (اپنے دل سے فتویٰ لو۔ ) پر عمل چاہئے۔ ہزار فتویٰ ہو پھر بھی مومن کا نیک نیتی سے قلبی اطمینان عمدہ شے ہے۔
عرض کیا گیا کہ انسانوں کے حالات مختلف ہیں۔ بعض نو دس کوس کو بھی سفر نہیں سمجھتے۔ بعض کے لئے تین چار کوس بھی سفر ہے۔ فرمایا:۔
شریعت نے ان باتوں کا اعتبار نہیں کیا۔ صحابۂ کرام نے تین کوس کو بھی سفر سمجھا ہے۔
عرض کیا گیا۔حضور بٹالہ جاتے ہیں تو قصرفرماتے ہیں:۔فرمایا:۔
ہاں کیونکہ وہ سفر ہے۔ ہم تویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی طبیب یا حاکم بطور دورہ کئی گاؤں میں پھرتا رہے تو وہ اپنے تمام سفر کو جمع کرکے اسے سفر نہیں کہہ سکتا۔(بدر 23جنوری 1908ء صفحہ2)
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ نماز قصر کتنی دور کے لئے کرنی چاہئے۔ فرمایا
ایک تو سفر ہوتا ہے اور ایک سیر ہوتی ہے سفر کی نیت سے اگر تین کوس جانا ہو جیسے لودھیانہ سے پھلور تو نماز قصر کرنی چاہئے ۔ یہی حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول تھا اوربعض ضعیف پیرفرتوت اور حاملہ عورتیں ہیں۔ ان کے لئے تو کوس بھر ہی سفر ہوجاتا ہے۔ ہاں سیر کے لئے تو چاہے آٹھ کوس چلا جائے تو نماز قصر نہیں ہے۔
(تذکرۃ المہدی حصہ اول صفحہ 116،117)
مرکز میں نمازوں کا قصرجائز ہے
نماز کے قصر کرنے کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو شخص یہاں آتے ہیں وہ قصر کریں یا نہ؟ فرمایا:۔
جو شخص تین دن کے واسطے یہا ں آوے اس کے واسطے قصر جائز ہے میری دانست میں جس سفر میں عزم سفر ہو پھر خواہ وہ تین چار کوس ہی کا سفر کیوں نہ ہو اس میں قصر جائزہے۔یہ ہماری سیر سفر نہیں ہے۔ہاں اگر امام مقیم ہو تو اس کے پیچھے پوری ہی نماز پڑھنی پڑے گی۔ حکام کادورہ سفر نہیں ہو سکتا ۔وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنے با غ کی سیر کرتا ہے۔خواہ نخواہ قصر کرنے کا تو کو ئی وجودنہیں ۔اگر دوروں کی وجہ سے انسا ن قصر کر نے لگے تو پھر یہ دائمی قصر ہو گا جس کا کوئی ثبوت ہما رے پا س نہیں ہے حکا م کہاں مسافر کہلاسکتے ہیں۔سعدیؒ نے بھی کہاہے
منعم بکوہ و دشت و بیاباں غریب نیست
ہر جا کہ رفت خیمہ ز د و خوابگاہ ساخت
(الحکم 24اپریل 1903ء صفحہ10)
کتنے دنوں کے سفر میں نماز قصر کی جاسکتی ہے؟
سوال: ۔ نماز کس وقت تک قصر کی جاوے؟
اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
جب تک سفر ہو قصر کر سکتے ہیں اوراگر کہیں ٹھہرناہواورپندرہ دن سے کم ٹھہرنا ہو تو بھی قصر کریں اور اگر زیادہ ٹھہرنا ہو تو پوری پڑھیں۔ (الفضل 18مارچ1916ء صفحہ15 )
ایک سفر کے موقعہ پر نماز قصر کرتے ہوئے آپ ؓنے فرمایا:۔
میں نماز قصر کرکے پڑھاؤں گا اورگو مجھے یہاں آئے چودہ دن ہوگئے ہیں مگر چونکہ علم نہیں کہ کب واپس جانا ہوگا۔ اس لئے میں نماز قصر کرکے پڑھاؤں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ گورداسپور میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک قصر نماز پڑھتے رہے کیونکہ آپ کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کب واپس جانا ہوگا۔
(الفضل 25مئی1944ء صفحہ4)
چودہ دن تک قیام کے ارادہ کی صورت میں نماز قصر کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے مندرجہ ذیل فتویٰ میں حضرت مسیح موعود ؑ کے ایک فیصلے کا ذکر ملتا ہے ۔
(یہ فتویٰ محترم ناظر صاحب تعلیم و تربیت قادیان نے2دسمبر1937ء کو حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب مفتی سلسلہ سے پوچھا تھا۔)
سوال:۔سفر کے متعلق جناب حافظ صاحب مرحوم نے(حضرت حافظ روشن علیؓ صاحب مراد ہیں۔ ناقل )14 دن قیام تک قصر کرنے کا فتویٰ دیا ہے۔اور حضرت اقدس حضرت مسیح موعود علیہ السلام و خلیفہ اولؓ سے مروی ہے کہ صرف تین دِن کے واسطے قصرہے۔ چار دن کے قصد سے مسافر مقیم ہوجاتا ہے ۔ حافظ صاحب ہمارے مفتی تھے ان کے قول کا ردّہم نے نہیں پڑھا۔ ہم کس پر عمل کریں ۔ بعض کا قول ہے مفتی کا قول توڑا نہیں جاسکتا، یہ تو فتویٰ ہے۔ فرمان تو فتویٰ کے مطابق ہی ہوگا مگر نبی اور خلیفہ سے اختلاف کرتے ہوئے کیا حجت رکھتے ہیں۔ ہم بہرحال نظام کے پابند ہیں۔ مگر اس اختلاف کا کیا ازالہ ہے۔ اگر ہم سے کوئی پوچھے ہم تو مجبور ہیں۔
اس سوال کے جواب میں حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب نے مندرجہ ذیل فتویٰ دیا۔
جواب:۔ جس طرح خلیفہ کے فیصلہ اور مفتی کے فتویٰ میں اختلاف ہو جائے تو خلیفہ کے فیصلہ پر عمل ہونا چاہئے کیونکہ در حقیقت اصل مفتی خلیفہ وقت ہی ہوتا ہے اور مفتی اس کا مقرر کردہ مفتی اور افتاء میں اس کا نائب ہوتا ہے۔ اسی طرح خلیفہ اور بانی سلسلہ میں اگر لاعلمی کی وجہ سے اختلاف ہو جائے تو ترجیح بانی سلسلہ کے قول کو دی جاتی ہے۔ کیونکہ اصل وہی ہے اورخلیفہ اس کا نائب اور نائب اصل کا تابع نہ متبوع اورنہ مساوی۔ حضرت خلیفۃ المسیح اولؓ احمدیت سے پہلے اہلحدیث گروہوں میں شامل تھے اوراہلحدیث کا یہ مذہب ہے کہ تین دن کے ارادہ اقامت سے مسافر مقیم ہوجاتا ہے۔ اس لئے آپ کا احمدی ہونے کے بعد بھی یہی فتویٰ تھا لیکن جن دنوں میں سیدنا حضرت مسیح موعود ؑ کا لیکچر لاہورمیں ہوا تھا۔ان دنوں میں حضور کرم دین والے مقدمہ کی وجہ سے گورداسپور میں رہتے تھے اور محض تبدیلی آب و ہوا کے لئے لاہور تشریف لے گئے اور مسافر ہونے کی وجہ سے عمومًا نمازیں جمع کی جاتی تھیں اور قصر کی جاتی تھیں۔ غالبًا تیسرے دن لاہور کی جماعت نے حضور سے لیکچر کی درخواست کی اور
حضورؑنے منظور فرمائی ۔ بعد ازاں جناب خواجہ کمال الدین صاحب جناب ڈپٹی کمشنر کے پاس اجازت لینے کے لئے اور دعوتِ شرکت دینے کے لئے گئے تو صاحب بہادر نے اجازت تو دے دی مگر کہا کہ فلاں وجہ سے میں اس اتوار کو شامل نہیں ہوسکتا اور اگر آئندہ اتوار کو ہوتا تو میں خود بھی اورسپرنٹنڈنٹ پولیس بھی ضرور شامل ہوتے۔ تو خواجہ صاحب نے حضور کی خدمت میں صاحب بہادر کے جواب اور خواہش شرکت کا ذکر کیا تو حضور نے فرمایا تاریخِ مقدمہ دور ہے، لہٰذا ہم ٹھہر سکتے ہیں۔ تو اس لحاظ سے حضور کو دس دن قیام کرنا پڑا۔ جس وقت حضور نے ٹھہرنے کا فیصلہ فرمایا اس وقت حضور کی طبیعت علیل تھی اندرہی سے اس فیصلہ کی اطلاع دے دی تھی اور باہر تشریف نہیں لائے۔ اس کے بعد ظہر کی اذان ہوئی تو حضور نے کہلا بھیجا کہ نمازمیں نہیں آسکتا، نماز پڑھ لو۔ چنانچہ اقامت ہوئی اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ کی اقتداء میں دو رکعتوں کے بعد کے قعدہ میں عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ تک پڑھ چکے تو صف میں سے کسی نے سبحان اللہ کہا یعنی پوری نماز پڑھو اورایک اور سلام پھیرنے کے بعد حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو کہا میاں جاکر اپنے ابا جی سے دریافت کریں کہ یہاں پر اگلے اتوار تک ٹھہرنے کے فیصلہ کے بعد ہمیں نماز پوری پڑھنی چاہئے یا کہ دو گانہ؟ چنانچہ گئے اور واپس آکر فرمایا ابا جی کہتے ہیں کہ دو رکعت ہی پڑھیں، ہم نے کوئی پندرہ دن ٹھہرنے کا کوئی ارادہ نہیں کیا۔ چنانچہ اسی وقت عصر کی نماز جمع کرتے ہوئے دو رکعت نماز پڑھی گئی۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے اس فیصلہ کے بعد سلسلہ احمدیہ میں یہی فتویٰ قائم ہوگیا کہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ کے قیام کے ارادہ سے مسافر مقیم ہوجاتا ہے اور اس سے کم ارادہ کے قیام سے مسافر ہی رہتا ہے۔
(دستخط حضرت سیدمحمد سرور شا ہ صاحب مفتی سلسلہ فتویٰ نمبر 55/2-12-1937منقول از رجسٹر فتاویٰ دارالافتاء ربوہ)
ملازمت پیشہ دورانِ سفر قصر نہ کرے
ایک شخص کا سوال حضرت صاحب کی خدمت میں پیش ہوا کہ جو شخص بسبب ملازمت کے ہمیشہ دورہ میں رہتا ہو اس کو نمازوں میں قصر کرنی جائز ہے یا نہیں ؟
فرمایا: جو شخص رات دن دورہ پر رہتا ہے وہ اسی بات کا ملازم ہے۔ وہ حالت دورہ میں مسافر نہیں کہلاسکتا۔ اس کو پوری نماز پڑھنی چاہئے۔ (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
ایک صاحب محمد سعیدالدین کا ایک سوال حضرت کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں اور میرے بھائی ہمیشہ تجارت عطریات وغیرہ میں سفرکرتے رہتے ہیں کیا ہم نماز قصر کیا کریں۔ فرمایا:۔
سفر تو وہ ہے جو ضرورتًا گاہے گاہے ایک شخص کو پیش آوے نہ یہ کہ اس کا پیشہ ہی یہ ہو کہ آج یہاں کل وہاں اپنی تجارت کرتا پھرے۔ یہ تقویٰ کے خلاف ہے کہ ایسا آدمی آپ کو مسافروں میں شامل کر کے ساری عمر نماز قصر کرنے میں ہی گذار دے۔
(بدر28مارچ 1907ء صفحہ4)
سفر سے پہلے نمازوں کا جمع کرنا
آج ظہر اور عصر کی نمازجمع کرکے حضرت اقدس گورداسپور کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ کے ہمراہ صاحبزادہ میاں بشیرالدین محمودبھی تھے۔ سٹیشن کے قریب جو سرائے تھی۔ اس میں حضور علیہ السلام نے نزول فرمایا۔ مغرب اورعشاء کی نمازیں یہاں جمع کر کے پڑھی گئیں۔ (البدر 28اگست 1903ء صفحہ250)
مقیم پوری نماز ادا کرے
ڈاکٹر محمد اسمٰعیل خان صاحب گورداسپور میں مقیم تھے اور احمدی جماعت نزیل قادیان بہ باعث سفر میں ہونے کے نماز جمع کرکے ادا کرتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مسئلہ پوچھا۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:
مقیم پوری نماز ادا کریں
وہ اس طرح ہوتی رہی کہ جماعت کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نماز ادا کرتے۔ جماعت دو رکعت ادا کرتی، لیکن ڈاکٹر صاحب باقی کی دو رکعت بعد از جماعت ادا کرلیتے۔ ایک دفعہ حضرت اقدس نے دیکھ کرکہ ڈاکٹر صاحب نے ابھی دورکعت ادا کرنی ہے۔ فرمایاکہ:۔
’’ ٹھہر جاؤ۔ ڈاکٹر صاحب دو رکعت ادا کرلیویں۔‘‘
پھر اس کے بعد جماعت دوسری نماز کی ہوئی۔ ایسی حالتِ جمع میں سنّت اور نوافل نہیں اداکئے جاتے۔ (البدر یکم اگست 1904ء صفحہ4)
سفر میں قصر کی حدّ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے مجھ سے بذریعہ تحریر ذکر کیا کہ ایک دفعہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قصر نماز کے متعلق سوال کیا۔ حضور نے فرمایا۔ جس کو تم پنجابی میں وانڈھا کہتے ہو۔ بس اس میں قصر ہونا چاہئے ۔ مَیں نے عرض کیا کہ کیا کوئی میلوں کی بھی شر ط ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ بس جس کو تم وانڈھا کہتے ہو وہی سفر ہے جس میں قصر جائز ہے۔ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں سیکھواں سے قادیان آتا ہوں۔ کیا اس وقت نماز قصر کرسکتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ۔ ہاں۔ بلکہ میرے نزدیک اگر ایک عورت قادیان سے ننگل جائے تو وہ بھی قصر کرسکتی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ سیکھواں قادیان سے غالبًا چار میل کے فاصلہ پر ہے اور ننگل تو شاید ایک میل سے بھی کم ہے۔ ننگل کے متعلق جو حضور نے قصر کی اجازت فرمائی ہے ۔ اس سے یہ مراد معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان سفر کے ارادہ سے قادیان سے نکلے تو خواہ ابھی ننگل تک ہی گیا ہو اس کے لئے قصر جائز ہوجائے گا۔ یہ مراد نہیں ہے کہ کسی کام کے لئے صرف ننگل تک آنے جانے میں قصر جائز ہوجاتا ہے۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ننگل تک آنے جانے کو صرف عورت کے لئے سفر قراردیا ہو کیونکہ عورت کمزور جنس ہے۔ واللہ اعلم ۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ551،552)
قصرنماز کا تعلق صرف خوف کے ساتھ نہیں بلکہ ہر سفر کے ساتھ ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا ہم سے قاضی امیر حسین صاحب نے کہ مَیں اوائل میں اس بات کا قائل تھا کہ سفر میں قصر نماز عام حالات میں جائز نہیں بلکہ صرف جنگ کی حالت میں فتنہ کے خوف کے وقت جائز ہے اور اس معاملہ میں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) کے ساتھ بہت بحث کیا کرتا تھا۔ قاضی صاحب نے بیان کیا کہ جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گورداسپور میں مقدمہ تھا ایک دفعہ میں بھی وہاں گیا۔ حضرت صاحب کے ساتھ وہاں مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اوّل) اورمولوی عبدالکریم صاحب بھی تھے۔ مگر ظہر کی نماز کا وقت آیا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ قاضی صاحب آپ نماز پڑھائیں۔ میں نے دل میں پختہ ارادہ کیا کہ آج مجھے موقعہ ملا ہے میں قصر نہیں کروں گا۔ بلکہ پوری پڑھوں گاتا اس مسئلہ کا کچھ فیصلہ ہو۔ قاضی صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ ارادہ کرکے ہاتھ اُٹھائے کہ قصر نہیں کروں گا۔ حضرت صاحب میرے پیچھے دائیں طرف کھڑے تھے۔ آپ نے فورًا قدم آگے بڑھاکر میرے کان کے پاس منہ کرکے فرمایا قاضی صاحب دو ہی پڑھیں گے نا؟ میں نے عرض کیا حضور دو ہی پڑھوں گا۔ بس اس وقت سے ہمارا مسئلہ حل ہوگیا اور میں نے اپنا خیال ترک کردیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ24،25)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاطریقِ نماز
حضرت مفتی محمد صادق ؓصاحب تحریر کرتے ہیں:۔
شروع میں جب قادیان میں نماز کے وقت تین چار آدمی سے زیادہ نہ ہُوا کرتے تھے۔ مسجد مبارک میں حافظ معین الدین صاحب مرحوم اور مسجد اقصیٰ میں میاں جان محمد صاحب کشمیری نماز کے پیش امام ہوا کرتے تھے۔ سنا گیا ہے کہ کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بھی نماز میں پیش امام ہوتے تھے مگر یہ میرے یہاں آجانے سے قبل ہوا۔ زِندگی کے آخری سالوں میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام عمومًا باہر تشریف نہ لاسکتے تھے۔ اس وقت اندر عورتوں میں نماز مغرب اورعشاء جمع کرکے پڑھایا کرتے تھے۔ حضورؑ امامت کے وقت بسم اللہ بالجہر نہ پڑھا کرتے تھے اور رفع یدین بھی نہ کرتے تھے۔ مگر ہاتھ سینہ پر باندھتے تھے۔ اور تشہد میں سبابہ کی انگلی اُٹھاتے تھے۔ باقی نماز ظاہری طریق میں حنفیوں کے طرز پر ہوتی تھی۔
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ مرحوم ہمیشہ نماز میں بسم اللہ بالجہر پڑھتے تھے اور آخری رکعت میں بعد رکوع کھڑے ہوکر بآواز بلند دعائیں (قنوت) کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اوردیگر بزرگانِ دین نے سالہا سال حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت کے بعض اصحاب جیسا کہ صُوفی غلام محمد ؐ صاحب واعظ ماریشس ابتک یہی رویّہ رکھتے ہیں۔ ‘‘
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمدصادق صاحب صفحہ24)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیاکہ جب میں شروع شروع میں قادیان آیا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے وقت پہلی صف میں دوسرے مقتدیوں کے ساتھ مل کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ لیکن پھر بعض باتیں ایسی ہوئیں کہ آپ نے اندر حجرہ میں امام کے ساتھ کھڑا ہونا شروع کردیا اورجب حجرہ گرا کر تمام مسجد ایک کی گئی تو پھر بھی آپ بدستور امام کے ساتھ ہی کھڑے ہوتے رہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ اوائل میں مسجد مبارک بہت چھوٹی ہوتی تھی اورلمبی قلمدان کی صورت میں تھی جس کے غربی حصہ میں ایک چھوٹا حجرہ تھا۔ جو مسجد کا حصہ ہی تھا لیکن درمیانی دیوار کی وجہ سے علیحدہ صورت میں تھا۔ امام اس حجرہ کے اندر کھڑا ہوتا تھا اور مقتدی پیچھے بڑے حصہ میں ہوتے تھے۔ بعد میں جب مسجد کی توسیع کی گئی تو اس غربی حجرہ کی دیوار اڑا کر اسے مسجد کے ساتھ ایک کردیا گیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ270، 271)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پانچ وقت کی نماز اور جمعہ کی نماز تو مولوی عبدالکریم صاحب پڑھاتے تھے۔ مگر عیدین کی نماز ہمیشہ حضرت مولوی نورالدین صاحب پڑھایا کرتے تھے۔ الّا ماشاء اللہ اورجنازوں کی نماز عمومًا حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خود پڑھاتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ440)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فریضہ نماز کی ابتدائی سنتیں گھر میں ادا کرتے تھے اور بعد کی سنتیں بھی عمومًا گھر میں اور کبھی کبھی مسجد میں پڑھتے تھے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ حضرت صاحب نماز کو لمبا کرتے تھے یا خفیف؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ عمومًا خفیف پڑھتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ4،5)
حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی روایت کرتے ہیں
ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ ادا کرنے کا موقعہ ملا۔ جمعہ کی نماز غالبًا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح اوّلؓ نے پڑھائی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبر کے قریب بیٹھ گئے۔ میں بھی موقعہ غنیمت سمجھتے ہوئے آپ کے پاس بیٹھ گیا اور دیکھتا رہا کہ حضور کس طرح نماز ادا فرماتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے اس طرح سینہ پر ہاتھ باندھے کہ انگلیاں کہنی تک نہیں پہنچتی تھیں۔ آپ کی گردن ذرا دائیں طرف جھکی رہتی تھی۔ جب آپ قعدے میں ہوتے تو دائیں ہاتھ کی انگلیاں بند رکھتے اور جب کلمۂ شہادت پڑھتے تو شہادت کی انگلی کھڑی کرتے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ۔آپ آمین بالجہر کرتے تھے۔
اسی دن دوسری بات یہ پیش آئی کہ جب نماز جمعہ پڑھ چکے غالبًا موسم اچھا نہیں تھا۔ یا اور کوئی بات تھی ۔ تو یہ سوال پیدا ہوا کہ آیا عصر کی نماز جمعہ کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے یا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ سے دریافت فرمایا۔آپ نے کیا جواب دیا۔ وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عصر کی نماز جمع کرکے پڑھ لو۔ چنانچہ وہ دونوں نمازیں جمع کرکے ادا کی گئیں۔
(روایت حضرت منشی برکت علی صاحب شملوی ؓ اصحاب احمد جلد3صفحہ192،193)
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی روایت کرتے ہیں
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز باجماعت کے علاوہ سنن و نوافل اندرون خانہ ادا کرتے تھے۔ پہلی سنتیں عمومًا گھر سے پڑھ کرتشریف لاتے اورپچھلی سنتیں گھر میں تشریف لے جاکر ادا فرماتے تھے۔ البتہ ابتدائی زمانہ میں جبکہ حضور شام کی نماز کے بعد عشاء کی نماز تک مسجد ہی میں تشریف فرمایا کرتے تھے۔ حضور شام کی نماز کی سنتیں مسجد ہی میں ادا کرتے تھے۔ دوسنت ادافرماتے تھے جو ہلکی ہوتی تھیں مگر سنوارکر پڑھی جاتی تھیں۔ کوئی جلدی یا تیزی ان میں نہ ہوتی تھی۔ بلکہ ایک اطمینان ہوتا تھا مگر وہ زیادہ لمبی نماز نہ ہوتی تھی۔
ان کے علاوہ بھی کبھی کبھار حضور کو مسجد مبارک میں سنت ادا کرتے دیکھا مگر ہمیشہ حضور کی نماز آسان اور ہلکی ہوا کرتی تھی۔ چند مرتبہ حضور کی اقتداء میں نماز باجماعت ادا کرنے کا شرف ملا ہے اور اس کے لئے ابتدائی زمانہ میں ہی ہمیں خاص اہتمام کی ضرورت پڑا کرتی تھی اور ہم میں سے اکثر کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ حضور کے ساتھ مل کر کھڑے ہونے کی جگہ حاصل کریں۔
حضور کو میں نے نماز میں کبھی بھی رفع یدین کرتے نہیں دیکھا۔اورنہ ہی آمین بالجہر کرتے سنا۔ تشہد میں حضور شہادت کی انگلی سے اشارہ ضرور کیا کرتے تھے مگر میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور نے انگلی کو اکڑا یا یا پھرایا ہو۔ صرف ہلکا سا اشارہ ہوتا تھا جو عمومًا ایک ہی مرتبہ اوربعض اوقات دومرتبہ بھی ہوتا تھا۔ جو میرے خیال میں امام کے تشہد کو لمبا کرنے کی وجہ سے حضور کلمہ شہادت دوہراتے ہوئے کیا کرتے ہوں گے۔
حضور نماز میں ہاتھ ہمیشہ سینہ پر باندھتے تھے۔ زیر ناف بلکہ ناف پر بھی میں نے کبھی حضور کو ہاتھ باندھے نماز ادا کرتے نہیں دیکھا۔
حضور پُر نور خود امام نہ بنا کرتے تھے بلکہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ؓ مرحوم و مغفور کو حضور نے نمازوں کی امامت کا منصب عطا فرمایا ہوا تھا۔ نماز جمعہ بھی حضور خود نہ پڑھاتے تھے بلکہ عمومًا مولوی صاحب موصوف ہی پڑھایا کرتے تھے اور شاذونادر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھایا کرتے تھے اورکبھی کبھی مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی بھی پڑھاتے تھے۔ ایک زمانہ میں دو جگہ جمعہ کی نماز ہوتی تھی۔ مسجد اقصیٰ میں بھی جو کہ جامع مسجد ہے اورمسجد مبارک میں بھی۔ مگر دونوں جگہ امام الصلوٰۃ حضور نہ ہوتے تھے ۔ عیدین کی نماز بھی سوائے شاذ کے حضو ر خود نہ پڑھاتے تھے۔ نماز جنازہ عمومًا حضورخود پڑھاتے تھے۔ اور حضور کو میں نے نماز جنازہ کسی کے پیچھے پڑھتے نہیں دیکھا یا کم از کم میری یاد میں نہیں۔
(روایت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اصحاب احمد جلد9صفحہ155، 156نیا ایڈیشن )
حضرت مسیح موعود ؑ کی نمازکا تفصیلی نقشہ
حضرت سید محمدسرورشاہ صاحبؓ نے ایک روایت میں حضرت مسیح موعودؑ کی نماز کا تفصیلی نقشہ کھینچا ہے۔چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں :۔
یہاں پر میں اس قدر بیان کروں گا کہ خدا کا برگزیدہ اس عبادت کو اس طریق پر ادا کرتا ہے تاکہ یہ طریق عقل مندوں کے نزدیک اثبات کے لئے کافی اور رفع نزاع کے لئے وافی ہو اوربجائے اس کے کہ میں ہر ایک مسئلہ کے ساتھ یہ لکھوں کہ حضرت اقدس ؑکا یہی معمول بِھا ہے۔ ابتداء ہی میں مَیں یہ بتا دیتا ہوں کہ صلوٰۃ کی جو کیفیت میں یہاں پر لکھوں گا وہ حضرت اقدس ؑ کے عمل کے مطابق ہوگی۔
اور وہ یہ ہے کہ جب صلوٰۃ پڑھتے ہیں تو کعبہ کی طرف رُخ کرکے اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اوپر اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ انگلیاں دونوں کانوں کے برابر ہوجاتی ہیں اورپھردونوں کو نیچے لاکر سینہ یعنی دونوں پستانوں کے اوپر یا ان کے متصل نیچے اس طور پر باندھ دیتے ہیں کہ بایاں ہاتھ نیچے اور دایاں اوپر ہوتا ہے اورعمومًا ایسا ہوتا ہے کہ داہنے ہاتھ کی تینوں درمیانی انگلیوں کے سرے بائیں کہنی تک یا اس سے کچھ پیچھے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں اور انگوٹھے اورکنارے کی انگلی سے پکڑا ہوتا ہے اور اگر اس کے خلاف اوپر یا نیچے یا آگے بڑھا کر یا پیچھے ہٹاکر یا ساری انگلیوں سے کوئی پکڑ کر ہاتھ باندھتا ہے تو کوئی اس پر اعتراض نہیں کرتا۔
ہاتھ باندھ کر سُبْحَانَکَ اللّٰہُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ ۔۔۔۔یا اَللّٰہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اَللّٰہُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّیْ الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِنَ الدَّنَسِ اَللّٰہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِالْمَآئِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ۔۔۔۔۔ (اس کے بعد اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ (تا) وَلَا الضَّآلِّیْنَ ۔ آمین پڑھنے کا ذکر کرکے لکھتے ہیں۔ مؤلف ) اس کے بعد کوئی سورۃ یا قرآن مجید کی کچھ آیتیں پڑھتے ہیں اور فاتحہ میں جو اِھْدِنَا کی دعا ہے اس کو بہت توجہ سے اوربعض دفعہ بار بار پڑھتے ہیں اور فاتحہ کے اول یا بعد سورۃ کے پہلے یا پیچھے۔ غرض کھڑے ہوتے ہوئے اپنی زبان میں یا عربی زبان میں علاوہ فاتحہ کے اور اور دعائیں بڑی عاجزی و زاری اورتوجہ سے مانگتے ہیں اور پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے رکوع میں جاتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں گھٹنوں کو انگلیاں پھیلا کر پکڑتے ہیں اوردونوں بازوؤں کو سیدھا رکھتے ہیں اورپیٹھ اورسرکو برابر رکھتے ہیں اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ۔۔۔۔ یا سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِيْ ۔۔۔۔۔ تین یا تین سے زیادہ دفعہ پڑھتے ہیں اور رکوع کی حالت میں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا کرنا چاہیں کرتے ہیں اس کے بعد سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ ۔۔۔۔۔کہتے ہوئے سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں اورکھڑے کھڑے رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔۔۔۔ یا اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔۔۔۔ یا اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًامُبَارَکًا فِیْہِ کَمَا یُحِبُّ رَبُّنَا وَیَرْضَی یا اس کے سوا اورکوئی ماثور کلمات کہتے ہیں۔ اس کے بعد جو دعا کرنی چاہتے ہیں اپنی زبان میں یا عربی زبان میں کرتے ہیں اورپھر اللہ اکبر کہتے ہوئے نیچے جاتے ہیں اور پہلے گھٹنے اورپھر ہاتھ اورپھر ناک اورپیشانی یا پہلے ہاتھ اورپھر گھٹنے اورپھر ناک اورپھر پیشانی اورپھر ناک اور پیشانی زمین پر رکھ کر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی۔۔۔۔ یا سُبحَانَکَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَاوَبِحَمْدِکَ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِيْ ۔۔۔۔ کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ طاق پڑھتے ہیں اور چونکہ صحیح حدیثوں میں آیا ہے کہ سجدہ میں بندہ اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے اور یہ بھی آیا ہے کہ سجدہ میں دعا بہت قبول ہوتی ہے ۔ لہٰذا سجدہ میں اپنی زبان یا عربی زبان میں بہت دعائیں کرتے ہیں اور سجدہ کی حالت میں اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا رکھتے ہیں اور ان کی انگلیوں کو قبلہ کی طرف متوجہ رکھتے ہیں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان سر رکھتے ہیں اور دونوں بازوؤں کو اپنے دونوں پہلوؤں سے جدا کرکے اوردونوں کہنیوں کو زمین سے اٹھا کر رکھتے ہیں۔ ہاں جب لمبا سجدہ کرتے ہوئے تھک جاتے ہیں تو اپنی دونوں کہنیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھ کر سہارا لے لیتے ہیں۔
اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے سراُٹھاکر گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے ہیں۔ اس طور پر کہ داہناں پاؤں کھڑا رکھتے ہیں اور بایاں پاؤں بچھا کر اس کے اوپر بیٹھ جاتے ہیں اورا پنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لیتے ہیں اور بیٹھ کر اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاھْدِنِیْ وَعَافِنِیْ وَارْفَعْنِیْ وَاجْبُرْنِیْ وَارْزُقْنِیْ ۔۔۔۔ یا اللّٰہُمَّ اغْفِرْلِیْ۔ تین دفعہ پڑھتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اپنی زبان میں یا عربی زبان میں جو دعا چاہتے ہیں دعا مانگتے ہیں اورپھر اللہ اکبر کہتے ہوئے پہلے سجدہ کی مانند سجدہ کرتے ہیں اور پہلے سجدہ کی مانند اس میں وہی کچھ پڑھتے ہیں۔۔۔۔اور دوسرے سجدہ میں بھی دعائیں مانگتے ہیں اورپھر اللہ اکبر کہتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سوائے پہلی تکبیر اور سُبْحَانَکَ اللّٰہُ اور اَعُوْذُ بِاللّٰہِ کے بعینہٖ پہلی رکعت کی مانند دوسری رکعت پڑھتے ہیں اوردونوں سجدوں کے بعد اس طرح بیٹھ جاتے ہیں جیسا کہ دو سجدوں کے درمیان بیٹھا کرتے ہیں ۔ ہاں اس قدر فرق ہوتا ہے کہ پہلے سجدہ کے بعد جب بیٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طور پر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں اور دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب اُٹھتے ہیں تو دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر اس طورپر رکھتے ہیں کہ دونوں ہاتھ کھلے ہوتے ہیں ۔ دونوں کی انگلیاں قبلہ کی طرف سیدھی ہوتی ہیں اور دوسری رکعت کے دونوں سجدوں کے بعد جب اُٹھتے ہیں تو اپنے بائیں ہاتھ کو تو ویسا ہی رکھتے ہیں اور دائیں ہاتھ کی تین انگلیوں کو ہتھیلی سے ملا لیتے ہیں اوردرمیانی انگلی اورانگوٹھے سے حلقہ باندھ لیتے ہیں اوران دونوں کے درمیان کی انگلی کو سیدھا رکھتے ہیں اورپھراَلتَّحِیَّات پڑھتے ہیں اور وہ یہ ہے اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالنَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ (اور یہ کہتے ہوئے اس انگلی کو اُٹھاکر اشارہ کرتے ہیں اورپھر ویسی ہی رکھ دیتے ہیں جیسی کہ پہلے رکھی ہوئی تھی) وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ۔۔۔۔
پس اگر تین چار رکعتیں پڑھنی ہوتی ہیں تو اس کے بعد اللہ اکبر کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اورپھر باقی رکعتوں کو ویسا ہی پڑھتے ہیں جیسا کہ دوسری رکعت کو پڑھا تھا اورپھر ان کو ختم کرکے اخیر میں پھر اسی طریق سے یاداہنے پاؤں کو کھڑا کرکے اوربائیں پاؤں کو داہنے کی طرف نکال کر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں اور یہی اَلتَّحِیَّات پڑھتے ہیں اور اگر دو ہی رکعت والی نماز ہوئی تو یہی آخری بیٹھنا ہوتا ہے اور آخری بیٹھنے میں اَلتَّحِیَّاتمذکورہ کے بعد پڑھتے ہیں اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰہُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ ۔۔۔اس کے بعد پھر کوئی دعا مقرر نہیں بلکہ جو چاہتے ہیں وہ دعا مانگتے ہیں اورضرورمانگتے ہیں اس کے بعد داہنے طرف منہ پھیر کر کہتے ہیں اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ۔۔۔۔ اور پھر بائیں طرف بھی اسی طرح منہ پھیر کر کہتے ہیںاَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ۔
پس اللہ اکبر سے نماز شروع ہوتی ہے اوراَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ پرختم ہوجاتی ہے یہ وہ نماز ہے جو کہ حضرت مسیح موعود ؑ اور ان کے اہل علم اور مخلص مہاجر اوررات دن ساتھ رہنے والے اصحاب پڑھتے ہیں جیسا میں نے بیان کیا ہے کہ ہاتھ باندھنے میں اختلاف ہے اور حضرت مسیح موعود ؑ اوران کے مذکورہ بالاخدام فلاں طرز پر باندھتے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی جاننا چاہئے کہ رفع یدین میں بھی اختلاف ہے۔ (یعنی رکوع کو جاتے ہوئے اور اُٹھنے کے بعد نیچے جاتے ہوئے اور دوسری رکعت کے بعد بیٹھ کر پھر اُٹھتے ہوئے تکبیر کہتے ہوئے کانوں تک ہاتھوں کو اس طرح اُٹھانا جیسا کہ پہلی تکبیر کے وقت اُٹھاتے ہیں ) اوراختلاف یہ ہے کہ بعض ان مقاموں پر ہاتھ اُٹھاتے ہیں اور بعض نہیں اُٹھاتے اورحضرت مسیح موعود ؑاور ان کے مذکورہ بالاخدام ان مقاموں پر رفع یدین نہیں کرتے۔ ہاں اگر کوئی ان کے سامنے کرے تو اس پر اعتراض بھی نہیں کرتے۔۔۔۔۔
امام ہمام کے ساتھ نماز پڑھنے کی حالت میں ایک اور مسئلہ میں بھی بہت کچھ نزاع ہے اور وہ ہے بلند آواز سے آمین کہنے کا لیکن حضرت مسیح موعود ؑ کا عمل درآمد(جو کہ ترجیح اور ثبوت کے لئے حجّت قاطعہ ہے اور حجّت قاطعہ بھی ایسی کہ جس پر ہر ایک عقل مند مومن حلف کھا سکتا ہے کہ خدائے علیم کو یہ پسند ہے) یہی ہے کہ آپ بلند آواز سے آمین نہیں کہتے اورنہ کسی کہنے والے پر کوئی اعتراض کرتا ہے۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود اپنی جماعت کو سخت تاکید فرماتے ہیں کہ وہ کسی غیر احمدی کے پیچھے صلوٰۃ ادا نہ کریں۔۔۔۔۔۔ (اصحاب احمد جلد5صفحہ542تا545نیا ایڈیشن )
نماز جمعہ اور عید
جمعہ کا اہتمام
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن خوشبو لگاتے اور کپڑے بدلتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ61)
نمازجمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضور علیہ السلام کو جمعہ کے روز مسجد اقصیٰ میں دو رکعت ہی پڑھتے ہوئے بار ہا دیکھا ہے۔ عام طورپر لوگ قبل از نماز جمعہ چار رکعت پڑھتے ہیں لیکن حضور علیہ السلام کو دو رکعت ہی پڑھتے دیکھا ہے شاید وہ دو رکعت تحیۃ المسجد ہوں کیونکہ باقی نمازوں میں سُنتیں گھر میں ہی پڑھ کر مسجد مبارک میں تشریف لاتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ258)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کی پہلی سنتوں کے متعلق ایک دفعہ فرمایا کہ یہ تَحِیَّۃُ الْمَسْجِدْ ہیں۔ اس لئے آپ دو رکعت پڑھا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ804)
جمعہ سے قبل دو سنتیں پڑھنے کے بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں: ۔
بے شک یہ حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں آکر جمعہ کی نماز سے قبل دو رکعت پڑھیں لیکن ایک اور حدیث ہے جو حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت گھر میں پڑھ کر آتے تھے گو بخاری و مسلم نے چار سنتوں والی روایات کو ترجیح دی ہے لیکن دو سنتیں پڑھنا بھی جائز ہے ۔
حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ظہر کی جماعت سے پہلے ہمیشہ چار سنتیں پڑھا کرتے تھے۔ میں بھی چار ہی پڑھتا ہوں کیونکہ اللہ نے طاقت دی ہے تو کیوں نہ پڑھیں لیکن حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو میں نے سینکڑوں دفعہ دیکھا ہے اور متواتر دیکھا ہے ۔آپ ظہر سے پہلے ہمیشہ دو رکعت سنت پڑھا کرتے تھے۔دراصل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی یہ دو رکعت ہماری ہزاروں رکعتوں کے برابر تھیں۔گویاحضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حدیث سے جو اقل سنتیں ثابت ہیں وہی پڑھی ہیں تاکہ باقی وقت آپ تبلیغِ اسلام میں صرف کریں۔
(الفضل 10دسمبر1929ء صفحہ7)
کیادوافراد کا جمعہ ہوسکتا ہے؟
یہ مسئلہ پیش ہوا کہ دو احمدی کسی گاؤں میں ہوں تو وہ بھی جمعہ پڑھ لیا کریں یا نہ؟
مولوی محمد احسن صاحب سے خطاب فرمایاتو انہوں نے عرض کیا کہ دوسے جماعت ہوجاتی ہے۔ اس لئے جمعہ بھی ہو جاتا ہے فرمایا
ہاں پڑھ لیا کریں۔ فقہاء نے تین آدمی لکھے ہیں اگر کوئی اکیلا ہو تو وہ اپنی بیوی وغیرہ کو پیچھے کھڑا کرکے تعداد پوری کر سکتا ہے۔ (بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)
اسی طرح ایک دوسرے موقع پر سوال پیش ہوا کہ نماز جمعہ کے واسطے اگر کسی جگہ صرف ایک دو مرد احمدی ہوں اور کچھ عورتیں ہوں تو کیا یہ جائز ہے کہ عورتوں کو جماعت میں شامل کرکے نماز جمعہ ادا کی جائے۔
حضرت نے فرمایا ’’ جائز ہے۔ ‘‘ (بدر 5ستمبر1907ء صفحہ3)
جمعہ کے لئے جماعت ضروری ہے
ایک صاحب نے بذریعہ خط استفسار فرمایا تھاکہ وہ صرف اکیلے ہی اس مقام پر حضرت اقدس سے بیعت ہیں جمعہ تنہا پڑھ لیا کریں یا نہ پڑھا کریں حضرت اقدس نے فرمایا کہ
جمعہ کے لئے جماعت کاہونا ضروری ہے ۔ اگر دو آدمی مقتدی اور تیسرا امام اپنی جماعت کے ہوں تو نماز جمعہ پڑھ لیا کریں۔ وَاِلَّا نہ(سوائے احمدی احباب کے دوسرے کے ساتھ جماعت اور جمعہ جائز نہیں۔ ) (البدر 9جنوری 1903ء صفحہ83 )
اپنا جمعہ الگ پڑھو
سوال پیش ہوا کہ بعض مساجد اس قسم کی ہیں کہ وہاں احمدی اور غیر احمدی کو اپنی جماعت اپنے امام کے ساتھ الگ الگ کرا لینے کا اختیار قانونًایا باہمی مصالحت سے حاصل ہوتا ہے تو ایسی جگہ جمعہ کے واسطے کیا کیا جاوے؟ کیونکہ ایک مسجد میں دو جُمعے جائز نہیں ہوسکتے۔
فرمایا:۔
جو لوگ تم کو کافر کہتے ہیں اور تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھتے وہ تو بہرحال تمہاری اذان اورتمہاری نماز جمعہ کو اذان اور نماز سمجھتے ہی نہیں اس واسطے وہ تو پڑھ ہی لیں گے اور چونکہ وہ مومن کو کافر کہہ کر بموجب حدیث خود کافر ہوچکے ہیں۔ اس واسطے تمہارے نزدیک بھی ان کی اذان اور نماز کا عدم وجود برابر ہے۔ تم اپنی اذان کہو اور اپنے امام کے ساتھ اپناجمعہ پڑھو۔ (بدر 2مئی1907ء صفحہ2)
نمازِ جمعہ کے بعد احتیاطی نماز
ایک شخص کاسوال پیش ہوا کہ بعض لوگ جمعہ کے بعد احتیاطی پڑھتے ہیں۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ فرمایا:۔
قرآن شریف کے حکم سے جمعہ کی نماز سب مسلمانوں پر فرض ہے جبکہ جمعہ کی نماز پڑھ لی تو حکم ہے کہ جاؤ اب اپنے کاروبار کرو۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ انگریزوں کی سلطنت میں جمعہ کی نماز اور خطبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ بادشاہ مسلمان نہیں ہے تعجب ہے کہ خود بڑے امن کے ساتھ خطبہ اور نماز جمعہ پڑھتے بھی ہیں اورپھر کہتے ہیں کہ نہیں ہوسکتا پھر کہتے ہیں کہ احتمال ہے کہ جمعہ ہوا یا نہیں۔ اس واسطے ظُہر کی نماز بھی پڑھتے ہیں اور اس کا نام احتیاطی رکھا ہے۔ ایسے لوگ ایک شک میں گرفتار ہیں ۔ ان کا جمعہ بھی شک میں گیا اور ظہر بھی شک میں گئی۔ نہ یہ حاصل ہوا اور نہ وہ ۔ اصل بات یہ ہے کہ نما ز جمعہ پڑھو اوراحتیاطی کی کوئی ضرورت نہیں۔ (بدر 6جون1907ء صفحہ8)
اہلِ اسلام میں سے بعض ایسے بھولے بھالے بھی ہیں کہ جمعہ کے دن ایک تو جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں پھر اس کے بعداس احتیاط سے کہ شاید جمعہ ادا نہ ہوا ہو۔ ظہر کی نماز بھی پوری ادا کرتے ہیں اس کا نام انہوں نے احتیاطی رکھا ہے۔ اس کے ذکر پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ
یہ غلطی ہے اور اس طرح سے کوئی نماز بھی نہیں ہوتی کیونکہ نیّت میں اس امر کا یقین ہونا ضروری ہے کہ مَیں فلاں نماز ادا کرتا ہوں اور جب نیّت میں شک ہوا تو پھر وہ نماز کیا ہوئی؟
(البدر مؤرخہ 11ستمبر1903ء صفحہ366)
ایک اور موقعہ پر فرمایا
’’ احتیاطی نماز کیا ہوتی ہے۔ جُمعہ کے تو دو ہی فرض ہیں۔ احتیاطی فرض کچھ چیز نہیں۔ ‘‘
فرمایا:’’ لدھیانہ میں ایک بار میاں شہاب الدین بڑے پکّے موحّد نے جمعہ کے بعد احتیاطی نماز پڑھی ۔ مَیں نے ناراض ہوکر کہا کہ یہ تم نے کیا کیا؟ تم تو بڑے پکّے موحّد تھے۔ اُس نے کہا کہ مَیں نے جُمعہ کی احتیاطی نہیں پڑھی، بلکہ مَیں نے مار کھانے کی احتیاطی پڑھی ہے۔‘‘ (الحکم 10؍اگست 1901ء صفحہ7 )
حضرت مفتی محمدصادق ؓصاحب روایت کرتے ہیں کہ شروع زمانہ میں جبکہ احمدیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ۱۸۹۳ء یا اِس کے قریب کا واقعہ ہے ایک غریب احمدی کسی گاؤں کی مسجد میں بطورِ درویش کے رہا کرتا تھا اور کبھی کبھی قادیان آتا تھا۔ اُس نے عرض کی کہ جمعہ کے دِن لوگ دو رکعت نماز جمعہ پڑھتے ہیں اوراس کے علاوہ چار رکعت نماز ظہر بھی پڑھتے ہیں۔ اس کا نام اِحتیاطی رکھتے ہیں۔ اِس کا کیا حُکم ہے۔ فرمایا
نماز جمعہ کے بعد ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔ جو لوگ شُبہ میں ہیں اُن کا جمعہ اور ظہر اور ہر دوشبہ میں گئے، نہ یہ ہوا نہ وہ ہوا۔ احتیاطی ایک فضول بات ہے مگر تم غریب اورکمزور آدمی ہو تم اِس نیّت کی احتیاطی پڑھ لیا کرو کہ کوئی شخص ناحق ناراض ہوکر تمہیں مارنے نہ لگ جائے۔ (ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمدصادق صاحب صفحہ40،41)
جمعہ دو جگہوں پر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود ہی اذان کہا کرتے تھے اورخود ہی نماز میں امام ہوا کرتے تھے۔ خاکسار عرض کرتاہے کہ بعد میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب امام نماز مقرر ہوئے اور سنا گیا ہے کہ حضرت صاحب نے دراصل حضرت مولوی نورالدین صاحب کو امام مقرر کیا تھا لیکن مولوی صاحب نے مولوی عبدالکریم صاحب کو کروادیا۔ چنانچہ اپنی وفات تک جو ۱۹۰۵ء میں ہوئی مولوی عبدالکریم صاحب ہی امام رہے۔ حضرت صاحب مولوی عبدالکریم صاحب کے ساتھ دائیں طرف کھڑے ہوا کرتے تھے اور باقی مقتدی پیچھے ہوتے تھے ۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی غیر حاضری میں نیز ان کی وفات کے بعد مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔ جمعہ کے متعلق یہ طریق تھا کہ اوائل میں اور بعض اوقات آخری ایام میں بھی جب حضرت صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تھی جمعہ بڑی مسجد میں ہوتا تھا جس کو عمومًا لوگ مسجد اقصیٰ کہتے ہیں اورمولوی عبدالکریم صاحب امام ہوتے تھے۔ بعد میں جب حضرت کی طبیعت عمومًا ناساز رہتی تھی۔ مولوی عبدالکریم صاحب حضرت صاحب کے لئے مسجد مبارک میں جمعہ پڑھاتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب جمعہ پڑھاتے تھے۔ مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد مسجد مبارک میں مولوی محمد احسن صاحب اور ان کی غیر حاضری میں مولوی محمد سرور شاہ صاحب امام جمعہ ہوتے تھے اور بڑی مسجد میں حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔ حضرت صاحب کی وفات تک یہی طریق رہا ۔ عید کی نماز میں عمومًا مولوی عبدالکریم صاحب اوران کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب امام ہوتے تھے۔ جنازہ کی نماز حضرت مسیح موعو د ؑ جب آپ شریک نمازہوں خود پڑھایا کرتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ148)
قادیان میں دو جمعے اوراس کی وجہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آخری ایام میں نماز جمعہ دو جگہ ہوتی تھی ۔ایک مسجد مبارک میں جس میں حضرت صاحب خود شریک ہوتے تھے اور امام صلوٰۃ مولوی سید محمد احسن صاحب یا مولوی سیّد سرورشاہ صاحب ہوتے تھے اور دوسرے مسجد اقصیٰ میں جس میں حضرت خلیفہ اولؓ امام ہوتے تھے ۔ دو جمعوں کی وجہ یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود بوجہ طبیعت کی خرابی کے عمومًا مسجد اقصیٰ میں تشریف نہیں لے جاسکتے تھے اور مسجد مبارک چونکہ بہت تنگ تھی اس لئے اس میں سارے نمازی سما نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا دو جگہ جمعہ ہوتا تھا۔ واقعہ مندرجہ روایت مذکورہ بالا ان دنوں کا ہے ۔ جبکہ مسجد مبارک میں توسیع کے لئے عمارت لگی ہوئی تھی۔ ان ایام میں مسجد مبارک والا جمعہ میرے موجودہ مکان کے جنوبی دالان میں ہوا کرتا تھا۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ588،589)
حضرت مصلح موعودؓ اسی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
بعض حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک ہی وقت میں مسجد مبارک میں بھی جمعہ کی نماز پڑھی جاتی تھی اورمسجد اقصیٰ میں بھی اور یہ اس صورت میں ہوتا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی تکلیف وغیرہ کی وجہ سے مسجد اقصیٰ میں تشریف نہیں لے جاسکتے تھے۔ (روزنامہ الفضل 18ستمبر1930ء صفحہ5)
سفر میں نمازِ جمعہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
سفر میں جمعہ کی نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور چھوڑنا بھی جائز ہے۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر میں پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی دیکھا ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمہ کے موقعہ پر گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ آج جمعہ نہیں ہوگا کیونکہ ہم سفر پر ہیں۔
ایک صاحب جن کی طبیعت میں بے تکلفی ہے وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سنا ہے حضور نے فرمایا آج جمعہ نہیں ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓیوں تو ان دنوں گورداسپور میں ہی تھے مگر اس روز کسی کام کے لئے قادیان آئے تھے۔ ان صاحب نے خیال کیا کہ شائدجمعہ نہ پڑھے جانے کا ارشاد آپ نے اسی لئے فرمایا ہے کہ مولوی صاحب یہاں نہیں ہیں۔ اس لئے کہا حضور مجھے بھی جمعہ پڑھانا آتا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں آتا ہوگا مگر ہم تو سفر پر ہیں۔ ان صاحب نے کہا کہ حضور مجھے اچھی طرح جمعہ پڑھانا آتا ہے اور میں نے بہت دفعہ پڑھایا بھی ہے۔ آپ نے جب دیکھا کہ ان صاحب کو جمعہ پڑھانے کی بہت خواہش ہے تو فرمایا کہ اچھا آج جمعہ ہوجائے ۔ تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوسفر کے موقع پر جمعہ پڑھتے بھی دیکھا ہے اورچھوڑتے بھی اور جب سفر میں جمعہ پڑھا جائے تو میں پہلی سنتیں پڑھاکر تاہوں اورمیری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ وہ عام سنن سے مختلف ہیں اور وہ جمعہ کے احترام کے طورپر ہیں۔ (الفضل 24؍جنوری1942 صفحہ1)
جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کی تجویز
حضرت مفتی محمد صادق ؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ
۹۶،۱۸۹۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گورنمنٹ میں ایک تحریک کرنی چاہی تھی کہ سرکاری دفاتر کے مسلمانوں کو نماز جمعہ کے ادا کرنے کے واسطے جمعہ کے دن دو گھنٹہ کے لئے رُخصت ہوا کرے۔ اِس کے لئے حضرت صاحبؑ نے ایک میموریل لکھا۔ جس پر مسلمانوں کے دستخط ہونے شروع ہوئے۔ مگر مولوی محمد حسین صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا کہ یہ کام تو اچھّا ہے۔ لیکن مرزا صاحب ؑ کو یہ کام نہیں کرناچاہئے۔ ہم خود اِس کام کو سرانجام دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بذریعہ اعلان مشتہر کردیا کہ ہماری غرض نام سے نہیں بلکہ کام سے ہے۔ اگر مولوی صاحب اس کام کو سرانجام دیتے ہیں تو ہم اس کے متعلق اپنی کارروائی کو بند کردیتے ہیں۔ چنانچہ حضرت صاحبؑ نے اپنی کارروائی بند کردی مگر افسوس ہے مولوی محمد حسین صاحب یا کسی دوسرے مسلمان عالم نے اِس کے متعلق کچھ کارروائی نہ کی اور یہ کام اسی طرح درمیان میں رہ گیا۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 42،43)
تعطیل جمعہ کے لئے حکومت کومیموریل بھیجنا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جمعہ کے روز تعطیل رکھنے کے لئے متعدد کوششیں کیں۔اس غرض کے لئے آپ نے وائسرائے ہندلارڈ کرزن کی خدمت میں میموریل بھی بھیجااور اُن کی سلطنت کی خوبیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ نے تحریرفرمایاکہ
یہ سلطنت اسلام کے لئے درحقیقت چشمہ فیض ہے اور نہایت خوشی کی بات ہے کہ حضور لارڈکرزن بالقابہ نے ایسی نمایاں کارروائیاں کی ہیں کہ مسلمانوں کو کبھی نہیں بھولیں گی جیسا کہ لاہور کے قلعہ کی مسجد کا مسلمانوں کو عطا کرنا اور ایک باہر کی مسجد جس پر ریل والوں کا قبضہ تھا مسلمانوں کو عنایت فرمانااورنیزاپنی طرف سے لاہور کی شاہی مسجد کے لئے ایک قیمتی لالٹین اپنی جیب سے مرحمت فرمانا۔ ان فیاضانہ کارروائیوں سے جس قدر مسلمان شکرگزار اور گرویدہ ہیں اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا لیکن ایک تمنا ان کی ہنوز باقی ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ جن ہاتھوں سے یہ مُرادیں پوری ہوئی ہیں وہ تمنابھی انہیں ہاتھوں سے پوری ہوگی اور وہ آرزو یہ ہے کہ روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کرکے اس دن کو تعطیل کا دِن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورۃ قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورۃ الجمعۃ ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے تو تم دنیا کاہر ایک کام بند کردو اور مسجدوں میں جمع ہوجاؤ اورنماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرواور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گنہ گار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہواور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدر عید کی نماز کی بھی تاکید نہیں۔ اسی غرض سے قدیم سے اور جب سے کہ اسلام ظاہر ہوا ہے جمعہ کی تعطیل مسلمانوں میں چلی آئی ہے اوراس ملک میں بھی برابر آٹھ سو برس تک یعنی جب تک کہ اس ملک میں اسلام کی سلطنت رہی جمعہ میں تعطیل ہوتی تھی۔ اسی وجہ سے ریاست پٹیالہ میں جمعہ کی تعطیل ان دنوں تک ہوتی رہی اوراس ملک میں تین قومیں ہیں۔ ہندو، عیسائی، مسلمان۔ہندوؤں اور عیسائیوں کو ان کے مذہبی رسوم کا دن گورنمنٹ نے دیا ہوا ہے یعنی اتوار جس میں وہ اپنے مذہبی رسوم ادا کرتے ہیںجس کی تعطیل عام طورپر ہوتی ہے لیکن یہ تیسرا فرقہ یعنی مسلمان اپنے تہوار کے دن سے یعنی جمعہ سے محروم ہیں۔برٹش انڈیا میں کون مسلمان ہے جو آہ مار کر یہ نہیں کہتا کہ کاش جمعہ کی تعطیل ہوتی لیکن اس کرزنی دور میں جبکہ لارڈ کرزن اس ملک کے وائسرائے ہیں مسلمانوں کو اس تمنا کے پورے ہونے میں بہت کچھ امید بڑھ گئی ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جبکہ لارڈ موصوف نے دلی فیاضی اور ہمدردی سے ان کی مساجد واگذار کرادی ہیں توپھر وہ امر جو مسجدوں کی علت غائی ہے یعنی نماز جمعہ ،یہ امر بھی انہی ہاتھوں سے انجام پذیر ہوگا۔ مسجد تو مثل دسترخوان یا میز کے ہے جس پر روٹی رکھی جاتی ہے مگر نماز جمعہ اصل روٹی ہے۔ تمام مساجدکی بڑی بھاری غرض نماز جمعہ ہے پس کیاہمارے عالی ہمت وائسرائے لارڈ کرزن یہ روا رکھیں گے کہ وہ ہمیں دسترخوان تو دیں مگر روٹی نہ دیں۔ ایسی دعوت تو ناقص ہے اورامید نہیں کہ ایسا فیاض دل جوانمرد ایسی کمی کو اپنے پر گوارا کرے اوراگر ایسا ہمدرد وائسرائے جس کے بعد کم امید ہے کہ اس کی نظیر ملے اس فیاضی کی طرف توجہ نہ فرماوے تو پھر اس کے بعد عقل تجویز نہیں کرسکتی کہ مسلمانوں کے لئے کبھی وہ دن آوے کہ دوسرے وائسرائے سے یہ مراد پاسکیں۔ یہ ایک ایسی مراد ہے کہ اس کا انجام پذیر ہونا مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ برطانیہ کی محبت کی طرف ایک زبردست کشش سے کھینچ لے گااور ان احسانوں کی فہرست میں جو اس گورنمنٹ نے مسلمانوں پر کئے ہیں اگر یہ احسان بھی کیا گیا کہ عام طورپر جمعہ کی تعطیل دی جائے تو یہ ایسااحسان ہوگا کہ جوآبِ زر سے لکھنے کے لائق ہوگا۔۔۔۔۔ اگر گورنمنٹ اس مبارک دن کی یادگار کے لئے مسلمانوں کے لئے جمعہ کی تعطیل کھول دے یا اگر نہ ہوسکے تو نصف دن کی ہی تعطیل دے دے تو میں سمجھ نہیں سکتا کہ عام دلوں کو خوش کرنے کے لئے اس سے زیادہ کوئی کارروائی ہے مگر چونکہ گورنمنٹ کی فیاضی کا تنگ دائرہ نہیں ہے اور اگر توجہ پیدا ہوتو اس کی کچھ پروا نہیں ہے اس لئے صرف نصف دن کی تعطیل ایک ادنیٰ بات ہے ۔ یقین ہے کہ گورنمنٹ عالیہ اس مبارک یادگار میں پورے دن کی تعطیل عنایت فرمائے گی اوریہی مسلمانوں کو توقع ہے۔
(الحکم 24جنوری 1903ء صفحہ6-5)
اگر جمعہ کا خطبہ ثانیہ نہ آتا ہو
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپور تھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے بعد میں قادیان جاتا رہا۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا رہا کہ جمعہ کی نماز میں پڑھاتا اور حضرت صاحب اور حافظ حامد علی صرف مقتدی ہوتے۔میں نے کہا مجھے خطبہ پڑھنا نہیں آتا ۔ حضور ؑنے فرمایا: کوئی رکوع پڑھ کر اوربیٹھ کر کچھ درود شریف پڑھ دو۔ انہی دنوں الٰہی بخش اکاؤنٹنٹ ، عبدالحق اکاؤنٹنٹ اورحافظ محمد یوسف سب اوور سیئر تینوں مولوی عبدالحق صاحب غزنوی کے مرید تھے۔ یہ بہت آیا کرتے تھے۔ اکثر ایسا موقعہ ہوا ہے کہ میں قادیان گیا ہوں تو یہ بھی وہاں ہوتے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ29)
قضاء عمری
ایک صاحب نے سوال کیا کہ یہ قضاء عمری کیا شے ہے جو کہ لوگ (عیدالاضحی ) کے پیشتر جمعہ کو ادا کرتے ہیں۔ فرمایا:۔
میرے نزدیک یہ فضول باتیں ہیں۔ ان کی نسبت وہی جواب ٹھیک ہے جو کہ حضرت علیؓ نے ایک شخص کودیا تھا جبکہ ایک شخص ایک ایسے وقت نماز ادا کررہا تھا جس وقت میں نماز جائز نہیں۔ اس کی شکایت حضرت علیؓ کے پاس ہوئی تو آپ نے اسے جواب دیا کہ مَیں اس آیت کا مصداق نہیں بننا چاہتا۔ أَرَأَ یْتَ الَّذِیْ یَنْھٰی عَبْدًا اِذَا صَلّٰی (العلق :10-11) یعنی تونے دیکھا اس کو جو ایک نماز پڑھتے بندے کو منع کرتا ہے۔نماز جو رہ جاوے اس کا تدارک نہیں ہوسکتا ہاں روزہ کا ہوسکتا ہے۔
اورجوشخص عمداً سال بھر اس لئے نماز کو ترک کرتا ہے کہ قضا عمری والے دن اداکرلوں گا وہ تو گنہگار ہے اور جوشخص نادم ہوکر توبہ کرتا ہے اور اس نیت سے پڑھتا ہے کہ آئندہ نماز ترک نہ کروں گا تو اس کے لئے حرج نہیں۔ ہم تواس معاملہ میں حضرت علیؓ ہی کا جواب دیتے ہیں۔ (البدر یکم مئی 1903ء صفحہ114 )
ایک شخص نے سوال کیاکہ میں چھ ماہ تک تارکِ صلوٰۃ تھا۔اب میں نے توبہ کی ہے کیا وہ سب نمازیں اب پڑھوں؟ فرمایا
نماز کی قضا ء نہیں ہوتی۔اب اس کا علاج توبہ ہی کافی ہے ۔
(بدر 24تا31دسمبر1908ء صفحہ5)
عورتوں کے لئے جمعہ کا استثناء
ایک صاحب نے عورتوں پر جمعہ کی فرضیت کا سوال کیا۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
اس میں تعامل کو دیکھ لیا جاوے اور جو امر سنّت اورحدیث سے ثابت ہے۔ اس سے زیادہ ہم اس کی تفسیر کیا کرسکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کردیا ہے تو پھر یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہی رہا۔ (البدر 11ستمبر1903ء صفحہ366)
قادیان میں عیدالفطر
اخبار البدر قادیان نے عیدالفطر کی تقریبِ سعید کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لنگرخانہ میں نماز عید سے پیشتر احباب کے لئے میٹھے چاول تیار کروائے اور سب احباب نے تناول فرمائے۔مدرسہ تعلیم الاسلام کے ایک دو ماسٹروں نے مدرسہ کے مکین اور یتیم طلباء کے واسطے صدقہ فطر جمع کیا جو کہ عید کی نماز سے پیشتر ہی ہر ایک مومن کو ادا کردینا چاہئے۔ گیارہ بجے کے قریب خدا کا برگزیدہ جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَآئِسادے لباس میں ایک چوغہ زیب تن کئے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تشریف لایا جس قدر احباب تھے انہوں نے دوڑدوڑ کر حضرت اقدس کی دست بوسی اورعید کی مبارک باد دی۔ اتنے میں حکیم نورالدین صاحب تشریف لائے اور آپ نے نمازعید کی پڑھائی اور ہر دو رکعت میں سورۃ فاتحہ سے پیشتر سات اور پانچ تکبیریں کہیں اور ہر تکبیر کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام نے گوش مبارک تک حسبِ دستوراپنے ہاتھ اُٹھائے۔
(البدر 9جنوری 1903ء صفحہ85 )
عیدین کی تکبیرات
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب ؓ ’’پیارے احمد کی پیاری پیاری باتیں‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیں : ۔
مجھے خوب یاد ہے نماز عیدین تو حضرت خلیفہ اولؓ ہی پڑھایا کرتے تھے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بڑ کے درخت کے نیچے جاکر فرمایاکہ ہمیشہ تو مولوی نورالدین صاحب نماز پڑھاتے ہیں۔ آج سید محمد احسن صاحب کو کہہ دیں کہ یہ نما ز پڑھادیں اور خطبہ بھی یہی پڑھادیں۔ میں نے یہ بات خلیفہ اولؓ سے کہہ دی، انہوں نے فرمایا کہ بہتر ہے۔ پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب (امروہی) آج تم نماز پڑھاؤ۔ پس مولوی صاحب نے نماز پڑھائی۔ نماز سے پہلے مولوی صاحب نے عرض کیا کہ بخاری میں اول رکعت میں سات تکبیریں اوردوسری میں پانچ تکبیریں بھی آئی ہیں ۔ ارشاد ہو تو کروں؟ حضرت اقدس نے فرمایا کہ کیا مضائقہ ہے، بے شک اب ایسا ہی کرو۔ بات یہ ہے کہ ہمیشہ اسی طرح سے عید کی نماز پڑھی جاتی تھی جیسے کہ حنفی تین تکبیریں کہتے ہیں۔ مگر اس سال سے سات اور پانچ تکبیریں عام رائج ہوگئیں۔ ( الحکم مورخہ 14تا21مئی 1919صفحہ6)
خطیب اور امام الگ الگ ہوسکتے ہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ میں پہنچ کر حسبِ معمول مخدومنا حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی اقتداء میں نماز عید ایک خاصے مجمع سمیت ادا فرمائی مگر خطبہ عید حضرت اقدس ؑ نے دیا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ367)
مساجد
مساجد کیسی ہوں
فرمایا:۔
اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے۔یہ خانہ خدا ہوتا ہے جس گائوں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی۔اگر کوئی ایسا گائوں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو ایک مسجد بنادینی چاہیے پھر خد اخود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیامِ مسجد میں نیت بہ اخلاص ہو۔محض لِلّٰہِ اُسے کیا جاوے۔نفسانی اغراض یا کسی شرکو ہرگز دخل نہ ہو،تب خدابرکت دے گا۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرصع اورپکی عمارت کی ہو۔بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو۔خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا۔آنحضرت ﷺ کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں کی تھی اور اسی طرح چلی آئی پھر حضرت عثمانؓ نے اس لیے کہ ان کو عمارت کا شوق تھااپنے زمانہ میں اسے پختہ بنوایا۔مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ اور عثمانؓ کا قافیہ خوب ملتا ہے۔شاید اسی مناسبت سے ان کو ان باتوں کا شوق تھا۔غرضیکہ جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے ور جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں۔جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔پراگند گی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیے اور ادنیٰ ادنیٰ سی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔
(البدر 24؍اگست 1904ء صفحہ8 )
مسجد کا ایک حصہ مکان میں ملانا
ایک شخص نے سوال لکھ کر بھیجا تھا کہ میرے دادا نے مکان کے ایک حِصّہ ہی کو مسجد بنایا تھا اور اب اس کی ضرورت نہیں رہی تو کیا اس کو مکان میں ملا لیا جاوے؟ فرمایا
’’ ہاں، ملا لیا جاوے۔ ‘‘ (الحکم 17؍اکتوبر1902ء صفحہ11 )
ایک مسجد کے لئے چندہ کی درخواست
کہیں سے خط آیا کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبرکًا آپ سے بھی چندہ چاہتے ہیں۔اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :
ہم تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں مگر جبکہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں جن کے مقابل میں اس قسم کے خرچوںمیں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے تو ہم کس طرح سے شامل ہوں۔ یہاں جو مسجد خدا بنا رہا ہے اور وہی مسجد اقصٰی ہے وہ سب سے مقدم ہے۔ اب لوگوں کو چاہئے کہ اس کے واسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں۔ ہمارا دوست وہ ہے جو ہماری بات کو مانے نہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے۔
حضرت امام ابو حنیفہؓ کے پاس ایک شخص آیا کہ ہم ایک مسجد بنانے لگے ہیں۔ آپ بھی اِس میں کچھ چندہ دیں۔ انہوں نے عذر کیا کہ مَیں اس میں کچھ نہیں دے سکتا۔ حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دیتے۔ اس شخص نے کہا کہ ہم آپ سے بہت نہیں مانگتے صرف تبرکًا کچھ دے دیجئے۔ آخر انہوں نے ایک دَوَنی کے قریب سکہ دیا۔ شام کے وقت وہ شخص دَوَنی لے کر واپس آیا اورکہنے لگا کہ حضرت! یہ تو کھوٹی نِکلی ہے۔ وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا خوب ہوا۔ دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ مَیں کچھ دوں ۔ مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اس میں اسراف معلوم ہوتا ہے۔ (الحکم 24مئی 1901ء صفحہ9)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فقہ احمدیہ کے مآخذ
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
میرا مذہب یہ ہے کہ تین چیزیں ہیں کہ جو تمہاری ہدایت کے لئے خدا نے تمہیں دی ہیں۔
(1) سب سے اوّل قرآن ہے جس میں خدا کی توحید اور جلال اور عظمت کا ذکر ہے۔۔۔۔۔ سو تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد19صفحہ26)
قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کر ہاتھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے۔ وہ شک اور ظنّ کی آلائشوں سے پاک ہے۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔روحانی خزائن جلد 19صفحہ209)
(عربی سے ترجمہ)خدا کا کلام لفظًا لفظًا تواتر سے ثابت ہے ۔ وہ وحی متلوقطعی اور یقینی ہے اوراس کی قطعیت میں شک کرنے والا ہمارے نزدیک کافر مردود اور فاسق ہے اور یہ صرف قرآن کریم کی ہی صفت ہے اوراس کا مرتبہ ہر کتاب اورہر وحی سے بلند ہے۔
(تحفۂ بغداد۔ روحانی خزائن جلد7صفحہ31)
(2) دوسرا ذریعہ ہدایت کا جو مسلمانوں کو دیا گیا ہے سنّت ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی کارروائیاں جو آپ نے قرآن شریف کے احکام کی تشریح کے لئے کر کے دکھلائیں مثلاً قرآن شریف میں بظاہر نظر پنجگانہ نمازوں کی رکعات معلوم نہیں ہوتیں کہ صبح کس قدر اور دوسرے وقتوں میں کس کس تعداد پر لیکن سنّت نے سب کچھ کھول دیا ہے ۔یہ دھوکہ نہ لگے کہ سنّت اور حدیث ایک چیز ہے کیونکہ حدیث تو سَو ڈیڑھ سَو برس کے بعد جمع کی گئی مگر سنّت کا قرآن شریف کے ساتھ ہی وجود تھا مسلمانوں پر قرآن شریف کے بعد بڑا احسان سنّت کا ہے۔ خدا اور رسول کی ذمہ واری کا فرض صرف دو امرپر تھے اوروہ یہ کہ خدا تعالیٰ قرآن کو نازل کر کے مخلوقات کو بذریعہ اپنے قول کے اپنے منشاء سے اطلاع دے یہ تو خدا کے قانون کا فرض تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرض تھا کہ خدا کے کلام کو عملی طور پر دکھلا کر بخوبی لوگوں کو سمجھا دیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گفتنی باتیں کردنی کے پیرایہ میں دکھلا دیں اور اپنی سنّت یعنی عملی کارروائی سے معضلات اور مشکلات مسائل کو حل کر دیا۔ (کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ61)
جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سُنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سُنّتِ معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجا لائے۔
(ریویو بر مباحثہ چکڑالوی و بٹالوی۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ210)
سنت سے مراد ہماری صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فعلی روش ہے جو اپنے اندر تواتر رکھتی ہے اورابتداء سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہرہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اورسُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادت اللہ یہی ہے کہ انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کے لئے لاتے ہیں تو اپنے عملی فعل سے یعنی عملی طورپر اس قول کی تفسیر کردیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں۔ (ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ210-209)
(3) تیسراذریعہ ہدایت کا حدیث ہے کیونکہ بہت سے اِسلام کے تاریخی اوراخلاقی اور فقہ کے امور کو حدیثیں کھول کر بیان کرتی ہیں اور نیز بڑا فائدہ حدیث کا یہ ہے کہ وہ قرآن کی خادم اور سُنّت کی خادم ہے۔
(کشتی نوح ۔روحانی خزائن جلد19صفحہ61)
سُنّت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سُنّت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتا ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے اورجس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سُنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سُنّتِ معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجا لائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا۔ مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرتؐ نے خدا تعالیٰ کے اِس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلادیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں۔ ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اِس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جو اب تک اُمّت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اِسی کا نام سنّت ہے۔ لیکن حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رُوبرو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کیلئے کوئی اہتمام کیا۔۔۔۔۔پھر جب وہ دَور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے تب حدیثیں جمع ہوئیں۔ اِس میں شک نہیں ہوسکتاکہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متّقی اور پرہیزگار تھے اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھاحدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی۔ بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اِس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے۔ تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بیخبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنّت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہوگیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلادیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مُدّت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اِسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا۔ تا ہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نورٌ علٰی نور ہوگیا اور حدیثیں قرآن اور سنّت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہوگئے اُن میں سے سچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ210،211)
(مندرجہ بالا تین رہنما محکم اصولوں کے بعد جن پر تمام شریعتِ حقّہ کی بنیاد ہے اگر کوئی مسئلہ حل طلب رہ جائے یا اس کے حل میں مزید روشنی اورراہنمائی کی ضرورت ہو یا کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوجائے تو ان مسائل کے حل کے لئے جماعت کے مجتہدین اور راسخین فی العلم کو حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی حسبِ ذیل ہدایت ہے۔)
ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالفِ قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو، اس پر وہ عمل کریں اورانسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اس کوترجیح دیں اوراگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کریں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ212)
قرآن کریم اور حدیث بطور حجت شرعیہ
کتاب و سنت کے حجج شرعیہ ہونے میں میرا یہ مذہب ہے کہ کتاب اللہ مقدم اور امام ہے۔ جس امر میں احادیث نبویہ کے معانی جو کئے جاتے ہیں کتاب اللہ کے مخالف واقع نہ ہوں تووہ معانی بطور حجت شرعیہ کے قبول کئے جائیں گے لیکن جو معانی نصوص بینہ قرآنیہ سے مخالف واقع ہوں گے ان معنوں کو ہم ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ جہاں تک ہمارے لئے ممکن ہوگا ہم اس حدیث کے ایسے معانی کریں گے جوکتاب اللہ کی نص بیّن سے موافق و مطابق ہوں اور اگر ہم کوئی ایسی حدیث پائیں گے جو مخالف نص قرآن کریم ہوگی اور کسی صورت سے ہم اس کی تاویل کرنے پر قادر نہیں ہوسکیں گے تو ایسی حدیث کو ہم موضوع قرار دیں گے کیونکہ اللہ جلَّ شانہٗ فرماتا ہے فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَ اللّٰہِ وَ اٰیَاتِہٖ یُؤْمِنُوْنَ (الجاثیہ:7) یعنی تم بعد اللہ اور اس کی آیات کے کس حدیث پر ایمان لائو گے۔ اس آیت میں صریح اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اگر قرآن کریم کسی امر کی نسبت قطعی اور یقینی فیصلہ دیوے یہاں تک کہ اس فیصلہ میں کسی طور سے شک باقی نہ رہ جاوے اور منشاء اچھی طرح سے کھل جائے تو پھر بعد اس کے کسی ایسی حدیث پر ایمان لانا جو صریح اس کے مخالف پڑی ہو مومن کا کام نہیں ہے۔ پھر فرماتا ہے۔ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ(الاعراف:186) ان دونوں آیتوں کے ایک ہی معنی ہیں اس لئے اس جگہ تصریح کی ضرورت نہیں۔ سو آیات متذکرہ بالا کے رو سے ہر ایک مومن کا یہ ہی مذہب ہونا چاہئے کہ وہ کتاب اللہ کو بلا شرط اور حدیث کو شرطی طور پر حجت شرعی قرار دیوے اور یہی میرا مذہب ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ11،12)
قولی، فعلی اور تقریری احادیث کے لئے بھی مِحَک قرآن کریم ہے
جو امر قول یا فعل یا تقریر کے طور پر جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ ہم اس امر کو بھی اسی محک سے آزمائیں گے اور دیکھیں گے کہ حسب آیہ شریفہفَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ وہ حدیث قولی یا فعلی قرآن کریم کی کسی صریح اور بین آیت سے مخالف تو نہیں۔ اگر مخالف نہیں ہوگی تو ہم بسر و چشم اس کو قبول کریں گے اور اگر بظاہر مخالف نظر آئے گی تو ہم حتی الوسع اس کی تطبیق اور توفیق کیلئے کوشش کریں گے اور اگر ہم باوجود پوری پوری کوشش کے اس امر تطبیق میں ناکام رہیں گے اور صاف صاف کھلے طور پر ہمیں مخالف معلوم ہوگی تو ہم افسوس کے ساتھ اس حدیث کو ترک کردیں گے۔ کیونکہ حدیث کا پایہ قرآن کریم کے پایہ اور مرتبہ کو نہیں پہنچتا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ12)
احادیث صرف مفید ظن ہیں
حدیثیں غایت کار ظنی ہیں اور جب کہ وہ مفید ظن ہیں تو ہم کیونکر روایت کی رو سے بھی ان کو وہ مرتبہ دے سکتے ہیں جو قرآن کریم کا مرتبہ ہے۔ جس طور سے حدیثیں جمع کی گئی ہیں اس طریق پر ہی نظر ڈالنے سے ہریک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ہرگز ممکن ہی نہیں کہ ہم اس یقین کے ساتھ انکی صحت روایت پر ایمان لاویں کہ جو قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں مثلاً اگر کوئی حدیث بخاری یامسلم کی ہے لیکن قرآن کریم کے کھلے کھلے منشاء سے برخلاف ہے تو کیا ہمارے لئے یہ ضروری نہیں ہوگا کہ ہم اسکی مخالفت کی حالت میں قرآن کریم کو اپنے ثبوت میں مقدم قرار دیں؟ پس آپ کا یہ کہنا کہ احادیث اصول روایت کی رو سے ماننے کے لائق ہیں، یہ ایک دھوکا دینے والا قول ہے کیونکہ ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حدیث کے ماننے میں جو مرتبہ یقین کا ہمیں حاصل ہے وہ مرتبہ قرآن کریم کے ثبوت سے ہموزن ہے یا نہیں؟ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہ مرتبہ ثبوت کا قرآن کریم کے مرتبہ ثبوت سے ہم وزن ہے تو بلاشبہ ہمیں اسی پایہ پر حدیث کو مان لینا چاہئے مگر یہ تو کسی کا بھی مذہب نہیں تمام مسلمانوں کا یہی مذہب ہے کہ اکثر احادیث مفید ظن ہیں۔ وَالظَّنُّ لَایُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ14)
بخاری اور مسلم کی احادیث ظنی طورپر صحیح ہیں
آپ خود مانتے ہیں (مراد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں)کہ حدیثیں اپنے روایتی ثبوت کی رو سے اعلیٰ مرتبہ ثبوت سے گری ہوئی ہیں اور غایت کار مفید ظن ہیں تو آپ اس بات پر کیوں زور دیتے ہیں کہ اسی مرتبہ یقین پر انہیں مان لینا چاہئے جس مرتبہ پر قرآن کریم مانا جاتا ہے۔ پس صحیح اور سچا طریق تو یہی ہے کہ جیسے حدیثیں صرف ظن کے مرتبہ تک ہیں بجز چند حدیثوں کے۔ تو اسی طرح ہمیں ان کی نسبت ظن کی حد تک ہی ایمان رکھنا چاہئے ۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ15)
آپ خود اپنے رسالہ اشاعۃ السنہ میں لکھ چکے ہیں کہ احادیث کی نسبت بعض اکابر کا یہ مذہب ہوا ہے۔ ’’کہ ایک ملہم شخص ایک صحیح حدیث کو بالہام الٰہی موضوع ٹھہرا سکتا ہے اور ایک موضوع حدیث کو بالہام الٰہی صحیح ٹھہرا سکتا ہے۔‘‘ اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جب کہ یہ حال ہے کہ کوئی حدیث بخاری یا مسلم کی بذریعہ کشف کے موضوع ٹھہر سکتی ہے تو پھر کیونکر ہم ایسی حدیثوں کو ہم پایہ قرآن کریم مان لیں گے ؟ ہاں یہ تو ہمارا ایمان ہے کہ ظنی طور پر بخاری اور مسلم کی حدیثیں بڑے اہتمام سے لکھی گئی ہیں اور غالباً اکثر ان میں صحیح ہوں گی۔ لیکن کیونکر ہم اس بات پر حلف اٹھا سکتے ہیں کہ بلاشبہ وہ ساری حدیثیں صحیح ہیں جب کہ وہ صرف ظنی طور پر صحیح ہیں نہ یقینی طور پر تو پھر یقینی طور پر ان کا صحیح ہونا کیونکر مان سکتے ہیں!
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ15)
مذاہب اربعہ کا اختلاف احادیث کی بنیاد پر ہی ہے
میرا مذہب یہی ہے کہ البتہ بخاری اور مسلم کی حدیثیں ظنی طور پر صحیح ہیں۔ مگر جو حدیث صریح طور پر ان میں سے مبائن و مخالف قرآن کریم کے واقع ہوگی وہ صحت سے باہر ہوجائے گی۔ آخر بخاری اور مسلم پر وحی تو نازل نہیں تھی بلکہ جس طریق سے انہوں نے حدیثوں کو جمع کیا ہے اس طریق پر نظر ڈالنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ بلاشبہ وہ طریق ظنی ہے اور ان کی نسبت یقین کا ادّعا کرنا ادّعائے باطل ہے۔ دنیا میں جو اس قدر مخالف فرقے اہل اسلام میں ہیں خاص کر مذاہب اربعہ ان چاروں مذہبوںکے اماموں نے اپنے عملی طریق سے خود گواہی دے دی ہے کہ یہ احادیث ظنی ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اکثر حدیثیں ان کو ملی ہوں گی مگر ان کی رائے میں وہ حدیثیں صحیح نہیں تھیں۔ بھلا آپ فرماویں کہ اگر کوئی شخص بخاری کی کسی حدیث سے انکار کرے کہ یہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ اکثر مقلدین انکار کرتے ہیں تو کیا وہ شخص آپ کے نزدیک کافر ہوجائے گا؟ پھر جس حالت میں وہ کافر نہیں ہوسکتا تو آپ کیونکر ان حدیثوں کو روایتی ثبوت کے رو سے یقینی ٹھہرا سکتے ہیں؟ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ16-15)
پہلے ادب کی راہ سے حدیث کی تاویل کی جائے
جس کو خداتعالیٰ اپنے فضل وکرم سے فہم قرآن عطا کرے اور تفہیم الٰہی سے وہ مشرف ہوجاوے اور اس پر ظاہر کردیا جائے کہ قرآن کریم کی فلاں آیت سے فلاں حدیث مخالف ہے اور یہ علم اس کا کمال یقین اور قطعیت تک پہنچ جائے تو اس کیلئے یہی لازم ہوگا کہ حتی الوسع اول ادب کی راہ سے اس حدیث کی تاویل کر کے قرآن شریف سے مطابق کرے۔ اور اگر مطابقت محالات میں سے ہو اور کسی صورت سے نہ ہوسکے تو بدرجہ ناچاری اس حدیث کے غیر صحیح ہونے کا قائل ہو۔ کیونکہ ہمارے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم بحالت مخالفت قرآن شریف حدیث کی تاویل کی طرف رجوع کریں۔ لیکن یہ سراسر الحاد اور کفر ہوگا کہ ہم ایسی حدیثوں کی خاطر سے کہ جو انسان کے ہاتھوں سے ہم کو ملی ہیں اور انسانوں کی باتوں کا ان میں ملنا نہ صرف احتمالی امر ہے بلکہ یقینی طور پر پایا جاتا ہے قرآن کو چھوڑ دیں !!! میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ تفہیم الٰہی میرے شامل حال ہے اور وہ عزّاسمہٗ جس وقت چاہتا ہے بعض معارف قرآنی میرے پر کھولتا ہے اور اصل منشاء بعض آیات کا معہ اُن کے ثبوت کے میرے پر ظاہر فرماتا ہے اور میخ آ ہنی کی طرح میرے دل کے اندر داخل کردیتا ہے اَب میں اِس خداداد نعمت کو کیونکر چھوڑ دوں اور جو فیض بارش کی طرح میرے پر ہورہا ہے کیونکر اس سے انکار کروں! (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ21)
بخاری اور مسلم محدّثین کا اجتہاد ہے
آپ کا سوال(مراد مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہیں۔ناقل) جو اس تحریر اور پہلی تحریروں سے سمجھا جاتا ہے یہ ہے کہ احادیث کتب حدیث خصوصاً صحیح بخاری و صحیح مسلم صحیح و واجب العمل ہیں یا غیر صحیح و ناقابل عمل اور معلوم ہوتا ہے کہ آپ میرے منہ سے یہ کہلانا چاہتے ہیں کہ میں اس بات کا اقرار کروں کہ یہ سب کتابیں صحیح اور واجب العمل ہیں۔ اگر میں ایسا کروں تو غالباً آپ خوش ہوجائیں گے اور فرمائیں گے کہ اب میرے سوال کا جواب پورا پورا آگیا۔ لیکن میں سوچ میں ہوں کہ میں کِس شرعی قاعدہ کے رو سے ان تمام حدیثوں کو بغیر تحقیق و تفتیش کے واجب العمل یا صحیح قرار دے سکتا ہوں ؟ طریق تقویٰ یہ ہے کہ جب تک فراست کاملہ اور بصیرت صحیحہ حاصل نہ ہو تب تک کسی چیز کے ثبوت یا عدم ثبوت کی نسبت حکم نافذ نہ کیا جاوے اللہ جلَّ شانہٗ فرماتا ہے۔ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل: 37)سو اگر میں دلیری کر کے اس معاملہ میں دخل دوں اور یہ کہوں کہ میرے نزدیک جو کچھ محدثین خصوصاً امامین بخاری اور مسلم نے تنقید احادیث میں تحقیق کی ہے اور جس قدر احادیث وہ اپنی صحیحوںمیں لائے ہیں وہ بلاشبہ بغیر حاجت کسی آزمائش کے صحیح ہیں تو میرا ایسا کہنا کن شرعی وجوہات و دلائل پر مبنی ہوگا؟ یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ یہ تمام ائمہ حدیثوں کے جمع کرنے میں ایک قسم کا اجتہاد کام میں لائے ہیں اور مجتہد کبھی مصیب اور کبھی مخطیبھی ہوتا ہے۔ جب میں سوچتا ہوں کہ ہمارے بھائی مسلمان موحدین نے کس قانون قطعی اور یقینی کی رو سے ان تمام احادیث کو واجب العمل ٹھہرایا ہے؟ تو میرے اندر سے نور قلب یہی شہادت دیتا ہے کہ صرف یہی اک وجہ ان کے واجب العمل ہونے کی پائی جاتی ہے کہ یہ خیال کر لیا گیا ہے کہ علاوہ اس خاص تحقیق کے جو تنقید احادیث میں ائمہ حدیث نے کی ہے۔ وہ حدیثیں قرآن کریم کی کسی آیہ محکمہ اور بیّنہ سے منافی اور متغائر نہیں ہیں اور نیز اکثر احادیث جو احکام شرعی کے متعلق ہیں تعامل کے سلسلہ سے قطعیت اور یقین تام کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں۔ورنہ اگر ان دونوں وجوہ سے قطع نظر کی جائے تو پھر کوئی وجہ ان کے یقینی الثبوت ہونے کی معلوم نہیں ہوتی۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ18،19)
کیا بخاری اور مسلم کی احادیث پر اجماع ہوجانے کی دلیل قابلِ قبول ہے
حضرت مسیح موعودؑ نے یہ ذکر کرنے کے بعد کہ بخاری اور مسلم کی احادیث کے یقینی الثبوت ہونے کی ایک یہ وجہ پیش کی جائے گی کہ اس پر اجماع ہو گیا ہے اس کا جواب دیتے ہوئے آپؑ نے فرمایا’’ آپ ہی ریویو براہین احمدیہ کے صفحہ ۳۳۰ میں اجماع کی نسبت لکھ چکے ہیں کہ اجماع اتفاقی دلیل نہیں ہے‘‘ چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ:۔
اجماع میں اولاً یہ اختلاف ہے کہ یہ ممکن یعنی ہو بھی سکتا ہے یا نہیں بعضے اس کے امکان کو ہی نہیں مانتے۔ پھر ماننے والوں کا اس میں اختلاف ہے کہ اس کا علم ہوسکتا ہے یا نہیں۔ ایک جماعت امکان علم کے بھی منکر ہیں۔ امام فخر الدین رازی نے کتاب محصول میں یہ اختلاف بیان کر کے فرمایا ہیکہ انصاف یہی ہے کہ بجز اجماع زمانہ صحابہ جب کہ مومنین اہل اجماع بہت تھوڑے تھے اور ان سب کی معرفت تفصیلی ممکن تھی اور زمانہ کے اجماعوں کے حصول علم کی کوئی سبیل نہیں۔
اسی کے مطابق کتاب حصول المامول میں ہے جو کتاب ارشاد الفحول شوکانی سے ملخص ہے اس میں کہا۔ ’’جو یہ دعویٰ کرے کہ ناقل اجماع ان سب علماء دنیا کی جو اجماع میں معتبر ہیں معرفت پر قادر ہے وہ اس دعویٰ میں حد سے نکل گیا اور جو کچھ اس نے کہا اٹکل سے کہا۔‘‘ خدا امام احمد حنبل پر رحم کرے کہ انہوں نے صاف فرما دیا ہے کہ جو دعویٰ اجماع کا مدعی ہے وہ جھوٹا ہے۔ فقط۔
اب میں آپ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ بخاری اور مسلم کی احادیث کی نسبت جو اجماع کا دعویٰ کیا جاتا ہے یہ دعویٰ کیونکر راستی کے رنگ سے رنگین سمجھ سکیں؟ حالانکہ آپ اس بات کے قائل ہیں کہ صحابہ کے بعد کوئی اجماع حجت نہیں ہوسکتا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ19،20)
بخاری اور مسلم کی صحت پر ہرگز اجماع نہیں ہوا
بہت سے فرقے مسلمانوں کے بخاری اور مسلم کی اکثر حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتے۔ پھر جب کہ ان حدیثوں کا یہ حال ہے تو کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ بغیر کسی شرط کے وہ تمام حدیثیں واجب العمل اور قطعی الصحت ہیں ؟ ایسا خیال کرنے میں دلیل شرعی کونسی ہے؟ کیا کوئی قرآن کریم میں ایسی آیت پائی جاتی ہے کہ تم نے بخاری اور مسلم کو قطعی الثبوت سمجھنا؟ اور اس کی کسی حدیث کی نسبت اعتراض نہ کرنا ؟ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم کی کوئی وصیت تحریری موجود ہے جس میں ان کتابوں کو بلالحاظ کسی شرط اور بغیر توسط محک کلام الٰہی کے واجب العمل ٹھہرایا گیا ہو؟ جب ہم اس امر میں غور کریں کہ کیوں ان کتابوں کو واجب العمل خیال کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ وجوب ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے حنفیوں کے نزدیک اس بات کا وجوب ہے کہ امام اعظم صاحب کے یعنی حنفی مذہب کے تمام مجتہدات واجب العمل ہیں! لیکن ایک دانا سوچ سکتا ہے کہ یہ وجوب شرعی نہیں بلکہ کچھ زمانہ سے ایسے خیالات کے اثر سے اپنی طرف سے یہ وجوب گھڑا گیا ہے جس حالت میں حنفیمذہب پر آپ لوگ یہی اعتراض کرتے ہیں کہ وہ نصوص بیّنہ شرعیہ کو چھوڑ کر بے اصل اجتہادات کو محکم پکڑتے اور ناحق تقلید شخصی کی راہ اختیار کرتے ہیں تو کیا یہی اعتراض آپ پر نہیں ہوسکتا کہ آپ بھی کیوں بے وجہ تقلید پر زور مار رہے ہیں ؟ حقیقی بصیرت اور معرفت کے کیوں طالب نہیں ہوتے ؟ ہمیشہ آپ لوگ بیان کرتے تھے کہ جو حدیث صحیح ثابت ہے اس پر عمل کرنا چاہئے اور جو غیر صحیح ہو اس کو چھوڑ دینا چاہئے۔اب کیوں آپ مقلدین کے رنگ پر تمام احادیث کو بلا شرط صحیح خیال کر بیٹھے ہیں ؟
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ20،21)
کیا بخاری اور مسلم کی کوئی حدیث موضوع ہے؟
یہ بات جو آپ نے(مراد مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ہیں۔ناقل) مجھ سے دریافت فرمائی ہے کہ اب تک کسی حدیث بخاری یا مسلم کو میں نے موضوع قرار دیا ہے یا نہیں۔ سو میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ میں نے اپنی کتاب میں کسی حدیث بخاری یا مسلم کو ابھی تک موضوع قرار نہیں دیا۔ بلکہ اگر کسی حدیث کو میں نے قرآن کریم سے مخالف پایا ہے تو خداتعالیٰ نے تاویل کا باب میرے پر کھول دیا ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ21،22)
صحت احادیث کا معیار ٹھہرانے میں سلف صالحین میں سے آپ کا امام کون ہے؟
اور آپ نے(مراد مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب ہیں۔ناقل) یہ سوال جو مجھ سے کیا ہے کہ صحت احادیث کا معیار ٹھہرانے میں سلف صالحین سے آپ کاکون امام ہے۔ میری اس کے جواب میں یہ عرض ہے کہ اس بات کا بار ثبوت میرے ذمہ نہیں۔ بلکہ میں تو ہر ایک ایسے شخص کو جو قرآن کریم پر ایمان لاتا ہے خواہ وہ گذر چکا ہے یا موجود ہے اسی اعتقاد کا پابند جانتا ہوں کہ وہ احادیث کے پرکھنے کیلئے قرآن کریم کو میزان اور معیار اور محک سمجھتا ہوگا کیونکہ جس حالت میں قرآن کریم خود یہ منصب اپنے لئے تجویز فرماتا ہے اور کہتا ہے فَبِاَیِّ حَدِیْثٍ بَعْدَہُ یُؤْمِنُوْنَ (الاعراف:186) اور فرماتا ہے قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْھُدٰی (البقرہ:121) اور فرماتا ہے وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا (آل عمران:104) اور فرماتا ہے ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْھُدٰی (البقرہ:186)اور فرماتا ہے اَنْزَلَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِیْزَانَ (الشوریٰ:118) اور فرماتا ہے۔اِنَّہُ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (الطارق:14) لَا رَیبَ فِیْہِ (البقرہ:3) تو پھر اس کے بعد کون ایسا مومن ہے جو قرآن شریف کو حدیثوں کے لئے حَکَم مقرر نہ کرے؟ اور جب کہ وہ خود فرماتا ہے کہ یہ کلام حَکَم ہے اور قول فصل ہے اور حق اور باطل کی شناخت کیلئے فرقان ہے اور میزان ہے تو کیا یہ ایمانداری ہوگی کہ ہم خداتعالیٰ کے ایسے فرمودہ پر ایمان نہ لائیں؟ اور اگر ہم ایمان لاتے ہیں تو ہمارا ضرور یہ مذہب ہونا چاہئے کہ ہم ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول کو قرآن کریم پر عرض کریں تا ہمیں معلوم ہو کہ وہ واقعی طور پر اسی مشکوٰۃ وحی سے نور حاصل کرنیوالے ہیں جس سے قرآن نکلا ہے یا اس کے مخالف ہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ22)
الہام ملہم کے لئے حجت شرعی کے قائمقام ہے
(مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ) صاف تسلیم کر آئے ہیں کہ الہام ملہم کیلئے حجت شرعی کے قائم مقام ہوتا ہے علاوہ اس کے آپ تو صاف طور پر مان چکے ہیں بلکہ بحو الہ حدیث بخاری بہ تصریح بیان کرچکے ہیں کہ الہام محدث کا شیطانی دخل سے منزہ کیا جاتا ہے۔ ماسوا اس کے میں اس بات کیلئے آپ کو مجبورنہیں کرتا کہ آپ الہام کو حجت سمجھ لیں مگر یہ تو آپ اپنے ریویو میں خود تسلیم کرتے ہیں کہ ملہم کیلئے وہ الہام حجت ہوجاتا ہے۔ سو میرا دعویٰ اسی قدر سے ثابت ہے۔ میں بھی آپ کو مجبور کرنا نہیںچاہتا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ24)
کسی حدیث کے صحیح ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ من کلّ الوجوہ
مرتبہ کمال تک پہنچ گئی ہے
ائمہ حدیث جس طور سے صحیح اور غیرصحیح حدیثوں میں فرق کرتے ہیں اور جو قاعدہ تنقید احادیث انہوں نے بنایا ہوا ہے وہ تو ہر ایک پر ظاہر ہے کہ وہ راویوں کے حالات پر نظر ڈال کر باعتبار اُن کے صدق یاکذب اور سلامت فہم یا عدم سلامت اور باعتبار اُن کے قوت حافظہ یاعدم حافظہ وغیرہ امور کے جن کا ذکر اس جگہ موجب تطویل ہے کسی حدیث کے صحیح یاغیر صحیح ہونے کی نسبت حکم دیتے ہیں مگر ان کا کسی حدیث کی نسبت یہ کہنا کہ یہ صحیح ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ وہ حدیث من کل الوجوہ مرتبہ ثبوت کامل تک پہنچ گئی ہے جس میں امکان غلطی کا نہیں بلکہ ان کا مطلب صحیح کہنے سے صرف اس قدر ہوتا ہے کہ وہ بخیال ان کے ان آفات اور عیوب سے مبرّا ہے جو غیر صحیح حدیثوں میں پائی جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ ایک حدیث باوجود صحیح ہونے کے پھر بھی واقعی اور حقیقی طور پر صحیح نہ ہو ۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ25،26)
اگر احادیث کا مرتبہ ظنی ہے تو احکام صوم و صلوٰۃ کو بھی ظنّی کیوں نہ سمجھا جائے
علم حدیث ایک ظنّی علم ہے جو مفید ظن ہے۔ اگر کوئی اس جگہ یہ اعتراض کرے کہ اگر احادیث صرف مرتبہ ظن تک محدود ہیں تو پھر اس سے لازم آتا ہے کہ صوم و صلوٰۃ و حج و زکوٰۃ وغیرہ اعمال جو محض حدیثوں کے ذریعہ سے مفصل طور پر دریافت کئے گئے ہیں وہ سب ظنی ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بڑے دھوکے کی بات ہے کہ ایسا سمجھا جائے کہ یہ تمام اعمال محض روایتی طور پر دریافت کئے گئے ہیں و بس۔ بلکہ ان کے یقینی ہونے کا یہ موجب ہے کہ سلسلہ تعامل ساتھ ساتھ چلا آیا ہے اگر فرض کر لیں کہ یہ فن حدیث دنیا میں پیدا نہ ہوتا پھر بھی یہ سب اعمال و فرائض دین سلسلہ تعامل کے ذریعہ سے یقینی طور پر معلوم ہوتے۔خیال کرنا چاہئے کہ جس زمانہ تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں کیا اس وقت لوگ حج نہیں کرتے تھے؟ یا نماز نہیں پڑھتے تھے؟ یا زکوٰۃ نہیں دیتے تھے؟ ہاں اگر یہ صورت پیش آتی کہ لوگ ان تمام احکام و اعمال کو یک دفعہ چھوڑ بیٹھتے اور صرف روایتوں کے ذریعہ سے وہ باتیں جمع کی جاتیں تو بے شک یہ درجہ یقینی و ثبوت تام جو اب ان میں پایا جاتا ہے ہرگز نہ ہوتا سو یہ ایک دھوکہ ہے کہ ایسا خیال کر لیا جائے کہ احادیث کے ذریعہ سے صوم و صلوٰۃ وغیرہ کی تفاصیل معلوم ہوئی ہیں بلکہ وہ سلسلہ تعامل کے ذریعہ سے معلوم ہوتی چلی آئی ہیں اور درحقیقت اس سلسلہ کو فن حدیث سے کچھ تعلق نہیں وہ تو طبعی طور پر ہر ایک مذہب کو لازم ہوتا ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ26)
احادیث کے دو حصے
احادیث کے دو حصہ ہیں ایک وہ حصہ جو سلسلہ تعامل کی پناہ میں کامل طور پر آگیا ہے۔ یعنی وہ حدیثیں جن کو تعامل کے محکم اور قوی اور لاریب سلسلہ نے قوت دی ہے اور مرتبہ یقین تک پہنچا دیا ہے۔ جس میں تمام ضروریات دین اور عبادات اور عقود اور معاملات اور احکام شرع متین داخل ہیں۔ سو ایسی حدیثیں تو بلاشبہ یقین اور کامل ثبوت کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور جو کچھ ان حدیثوں کو قوت حاصل ہے وہ قوت فن حدیث کے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوئی اور نہ وہ احادیث منقولہ کی ذاتی قوت ہے اور نہ وہ راویوں کے و ثاقت اور اعتبار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے بلکہ وہ قوت ببرکت و طفیل سلسلہ تعامل پیدا ہوئی ہے۔ سو میں ایسی حدیثوں کو جہاں تک ان کو سلسلۂ تعامل سے قوت ملی ہے ایک مرتبہ یقین تک تسلیم کرتا ہوں لیکن دوسرا حصہ حدیثوں کا جن کو سلسلۂ تعامل سے کچھ تعلق اور رشتہ نہیں ہے اور صرف راویوں کے سہارے سے اور ان کی راست گوئی کے اعتبار پر قبول کی گئی ہیں ان کو میں مرتبہ ظن سے بڑھ کر خیال نہیں کرتا اور غایت کار مفید ظن ہوسکتی ہیں کیونکہ جس طریق سے وہ حاصل کی گئی ہیں وہ یقینی اور قطعی الثبوت طریق نہیں ہے بلکہ بہت سی آویزش کی جگہ ہے۔ وجہ یہ کہ ان حدیثوں کا فی الواقع صحیح اور راست ہونا تمام راویوں کی صداقت اور نیک چلنی اور سلامت فہم اور سلامت حافظہ اور تقویٰ و طہارت وغیرہ شرائط پر موقوف ہے۔ اور ان تمام امور کا کماحقہ اطمینان کے موافق فیصلہ ہونا اور کامل درجہ کے ثبوت پر جو حکم رویت کا رکھتا ہے پہنچنا حکم محال کا رکھتا ہے اور کسی کو طاقت نہیں کہ ایسی حدیثوں کی نسبت ایسا ثبوت کامل پیش کرسکے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ35)
مراتب صحت میں تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں
جس قدر حدیثیں تعامل کے سلسلہ سے فیض یاب ہیں وہ حسب استفاضہ اور بقدر اپنی فیضیابی کے یقین کے درجہ تک پہنچ گئی ہیں لیکن باقی حدیثیں ظن کے مرتبہ سے زیادہ نہیں۔غایت کار بعض حدیثیں ظن غالب کے مرتبہ تک ہیں۔ اس لئے میرا مذہب بخاری اور مسلم وغیرہ کتب حدیث کی نسبت یہی ہے جو میں نے بیان کردیا ہے یعنی مراتب صحت میں یہ تمام حدیثیں یکساں نہیں ہیں۔ بعض بوجہ تعلق سلسلہ تعامل یقین کی حد تک پہنچ گئی ہیں اور بعض بباعث محروم رہنے کے اس تعلق سے ظن کی حالت میں ہیں۔ لیکن اس حالت میں مَیں حدیث کو جب تک قرآن کے صریح مخالف نہ ہو موضوع قرار نہیں دے سکتا۔ اور میں سچے دل سے اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ حدیثوں کے پرکھنے کیلئے قرآن کریم سے بڑھ کر اور کوئی معیار ہمارے پاس نہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ35،36)
تعامل حجت قوی ہے!
میری غرض تو صرف اس قدر ہے کہ حدیث کو قرآن کریم سے مطابق ہونا چاہئے ، ہاں اگر سلسلہ تعامل کے رو سے کسی حدیث کا مضمون قرآن کے کسی خاص حکم سے بظاہر منافی معلوم ہو تو اس کو بھی تسلیم کر سکتا ہوں کیونکہ سلسلہ تعامل حجت قوی ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ42)
تعا مل کے درجے
تعامل کے متعلق جو احکام ہیں وہ سب ثبوت کے لحاظ سے ایک درجہ پر نہیں جن امور کی مواظبت اور مداومت بلافتور و اختلاف چلی آئی ہے وہ اول درجہ پر ہیں اور جس قدر احکام اپنے ساتھ اختلاف لے کر تعامل کے دائرہ میں داخل ہوئے ہیں وہ بحسب اختلاف اس پہلے نمبر سے کم درجہ پر ہیں مثلاً رفع یدین یا عدم رفع یدین جود و طور کا تعامل چلا آتا ہے ان دونوں طوروں سے جو تعامل قرن اول سے آج تک کثرت سے پایا جاتا ہے اس کا درجہ زیادہ ہوگا اور باایں ہمہ دوسرے کو بدعت نہیں ٹھہرائیں گے بلکہ ان دونوں عملوں کی تطبیق کی غرض سے یہ خیال ہوگا کہ باوجود مسلسل تعامل کے پھر اس اختلاف کا پایا جانا اس بات پر دلیل ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہفت قراء ت کی طرح طُرق ادائے صلوٰۃ میں رفع تکلیف امت کیلئے وسعت دیدی ہوگی اور اس اختلاف کو خود دانستہ رخصت میں داخل کردیا ہوگا تا امت پر حرج نہ ہو۔غرض اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ سلسلۂ تعامل سے احادیثِ نبویہ کو قوت پہنچتی ہے اور سنتِ متوارثہ متعاملہ کا اُن کو لقب ملتا ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ87)
سنن متوارثہ متعاملہ
سلسلۂ تعامل کی حدیثیں یعنی سنن متوارثہ متعاملہ جو عاملین اور آمرین کے زیرنظر چلی آئی ہیں اور علیٰ قدر مراتب تاکید مسلمانوں کی عملیات دین میں قرناً بعد قرنٍ وعصراً بعد عصرٍ داخل رہی ہیں وہ ہرگز میری آویزش کا مورد نہیں اور نہ قرآن کریم کو ان کا معیار ٹھہرانے کی ضرورت ہے اور اگر ان کے ذریعہ سے کچھ زیادت تعلیم قرآن پر ہوتو اس سے مجھے انکار نہیں۔ہر چند میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ80،81)
کیا بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع ہوچکا ہے!
آپ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بخاری اور مسلم کے صحیح ہونے پر اجماع ہوچکا ہے! اب ان کو بہرحال آنکھیں بند کر کے صحیح مان لینا چاہئے! لیکن میں سمجھ نہیں سکتا کہ یہ اجماع کن لوگوں نے کیا ہے اور کس وجہ سے واجب العمل ہوگیا ہے؟ دنیا میں حنفی لوگ پندرہ کروڑ کے قریب ہیں وہ اس اجماع سے منکر ہیں۔ ماسوا اس کے آپ صاحبان ہی فرمایا کرتے ہیں کہ حدیث کو بشرط صحت ماننا چاہئے اور قرآن کریم پر بغیر کسی شرط کے ایمان لانا فرض ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ41)
خبر واحد سے قرآن پر زیادت ہوسکتی ہے
میرا مذہب امام شافعی اور امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے مذہب کی نسبت حدیث کی بہت رعایت رکھنے والا ہے کیونکہ میں صحیحین کی خبر واحد کو بھی جو تعامل کے سلسلہ سے مؤکّد ہے اور احکام اور حدود اور فرائض میں سے ہو نہ حصہ دوم میں سے اس لائق قرار دیتا ہوں کہ قرآن پر اس سے زیادتی کی جائے اور یہ مذہب ائمہ ثلاثہ کا نہیں۔ مگر یاد رہے کہ میں واقعی زیادتی کا قائل نہیں بلکہ میرا ایمان اِنَّا اَنْزَلْنَا الْکِتَابَ تِبْیَانًالِّکُلِّ شَیْئٍ پر ہے جیسا کہ میں ظاہر کرچکا ہوں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ100)
حدیث سے مراد۔واقعاتِ ماضیہ واخبار گزشتہ وآئندہ
ایسی احاد حدیثیں جو سنن متوارثہ متعاملہ میں سے نہیں ہیں اور سلسلۂ تعامل سے کوئی معتدبہ تعلق نہیں رکھتیں وہ اس درجہ صحت سے گری ہوئی ہیں۔ اب ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی حدیثیں صرف اخبار گزشتہ و قصص ماضیہ یا آئندہ ہیں ۔۔۔۔اور ظاہر ہے کہ سنن متوارثہ متعاملہ اور احکام متداولہ کے نکالنے کے بعد جو احادیث بکلی فرضیت تعامل سے باہر رہ جاتے ہیں وہ یہی واقعات و اخبارو قصص ہیں جو تعامل کے تاکیدی سلسلہ سے باہر ہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ82)
حدیث ، جو معارض قرآن نہ ہو قابلِ قبول ہے
اگر نہایت ہی نرمی کریں تو ان حدیثوں کو ظنّ کا مرتبہ دے سکتے ہیں اور یہی محدثین کا مذہب ہے اور ظنّ وہ ہے جس کے ساتھ کذب کا احتمال لگا ہوا ہے۔ پھر ایمان کی بنیاد محض ظنّ پر رکھنا اور خدا کے قطعی یقینی کلام کو پسِ پُشت ڈال دینا کونسی عقلمندی اور ایمانداری ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ تمام حدیثوں کو ردّی کی طرح پھینک دو بلکہ ہم کہتے ہیں کہ اُن میں سے وہ قبول کرو جو قرآن کے منافی اور معارض نہ ہوں تا ہلاک نہ ہو جاؤ۔
(اعجاز احمدی ۔ روحانی خزائن جلد19 صفحہ138)
اجماع کی تعریف(کتب اصولِ فقہ کی روشنی میں)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتبِ اصولِ فقہ میں مندرج اجماع کی مختلف تعریفوں کاذکر کرتے ہوئے تحریرفرمایا:۔
اَلْْاِجْمَاعُ اِتِّفَاقُ مُجْتَھِدِیْنَ صَالِحِیْنَ مِنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ مُصْطَفٰٰی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فِیْ عَصْرٍ وَاحِدٍ وَالْاَوْلٰی اَنْ یَّکُوْنَ فِیْ کُلِّ عَصْرٍ عَلٰی اَمْرٍقَوْلِیٍّ اَوْفِعْلِیٍّ ۔۔۔۔۔
یعنی اجماع اس اتفاق کا نام ہے جو امت محمدیہ کے مجتہدین صالحین میں زمانہ واحد میں پیدا ہو اور بہتر تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں پایا جائے اور جس امر پر اتفاق ہو برابر ہے کہ وہ امر قولی ہویافعلی۔
٭ اور اجماع کی دو نوع ہیں ایک وہ ہے جس کو عزیمت کہتے ہیں اور عزیمت اس بات کانام ہے کہ اجماع کرنیوالے صریح تکلم سے اپنے اجماع کا اقرار کریں کہ ہم اس قول یافعل پر متفق ہوگئے۔ لیکن فعل میں شرط ہے کہ اس فعل کا کرنا بھی وہ شروع کردیں۔
٭ دوسری نوع اجماع کی وہ ہے جس کو رخصت کہتے ہیں اور وہ اس بات کانام ہے کہ اگر اجماع کسی قول پر ہے تو بعض اپنے اتفاق کو زبان سے ظاہر کریں اور بعض چپ رہیں اور اگر اجماع کسی فعل پر ہے تو بعض اسی فعل کا کرنا شروع کردیں اور بعض فعلی مخالفت سے دستکش رہیں۔ گو اس فعل کو بھی نہ کریں اور تین دن تک اپنی مخالفت قول یا فعل سے ظاہر نہ کریں یا اس مدت تک مخالفت ظاہر نہ کریں جو عادتاً اس بات کے سمجھنے کیلئے دلیل ہوسکتی ہے کہ اگر کوئی اس جگہ مخالف ہوتا تو ضرور اپنا خلاف ظاہر کرتا اور اس اجماع کا نام اجماع سکوتی ہے اور اس میں یہ ضروری ہے کہ کل کا اتفاق ہے۔
٭ مگر بعض سب کے اتفاق کو ضروری نہیں سمجھتے تا مَنْ شَذَّ شُذَّ کی حدیث کا مورد باقی رہے اور حدیث باطل نہ ہوجائے۔
٭ اور بعض اس طرف گئے ہیں کہ مجتہدین کاہونا ضروری شرط نہیں بلکہ انعقاد اجماع کیلئے عوام کا قول کافی ہے جیسا کہ باقلانی کا یہی مذہب ہے ۔
٭ اور بعض کے نزدیک اجماع کیلئے یہ ضروری شرط ہے کہ اجماع صحابہ کا ہو نہ کسی اور کا۔
٭ اور بعض کے نزدیک اجماع وہی ہے جو عترت یعنی اہل قرابت رسول اللہؐ کا اجماع ہو۔
٭ اور بعض کے نزدیک یہ لازم شرط ہے کہ اجماع کرنے والے خاص مدینہ کے رہنے والے ہوں۔
٭ اور بعض کے نزدیک تحقیق اجماع کیلئے یہ شرط ہے کہ اجماع کا زمانہ گذر جائے۔ چنانچہ شافعی کے نزدیک یہ شرط ضروری ہے وہ کہتا ہے کہ اجماع تب متحقق ہوگا کہ اجماع کے زمانہ کی صف لپیٹی جائے اور وہ تمام لوگ مر جائیں جنہوں نے اجماع کیا تھا اور جب تک وہ سب نہ مریں تب تک اجماع صحیح نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے قول سے رجوع کرے اور یہ ثابت ہونا ضروری ہے کہ کسی نے اپنے قول سے رجوع تو نہیں کیا اور نقل اجماع پر بھی اجماع چاہئے۔ یعنی جو لوگ کسی امر کے بارہ میں اجماع کے قائل ہیں ان میں بھی اجماع ہو۔
٭ اور اجماع لاحق مع اختلاف سابق جائز ہے یعنی اگر ایک امر پہلے لوگوں نے اجماع نہ کیا اور پھر کسی دوسرے زمانہ میں اجماع ہوگیا ہو تو وہ اجماع بھی معتبر ہے اور بہتر اجماع میں یہ ہے کہ ہر زمانہ اس کا سلسلہ چلا جائے ۔
٭ اور بعض معتزلہ کا قول ہے کہ اتفاق اکثر سے بھی اجماع ہوسکتا ہے بدلیل مَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ
٭ اور بعض نے کہا ہے کہ اجماع کوئی چیز نہیں اور اپنی جمیع شرائط کے ساتھ متحقق نہیں ہوسکتا۔ دیکھو کتب اصول فقہ ائمہ اربعہ۔
اب اس تمام تقریر سے ظاہر ہے کہ علماء کا اس تعریف اجماع پر بھی اجماع نہیں اور انکار اور تسلیم کے دونوں دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ116تا118)
حضرت مسیح موعود ؑ کے نزدیک اجماع کی تعریف
میرے نزدیک اجماع کا لفظ اس حالت پر صادق آسکتا ہے کہ جب صحابہ میں سے مشاہیر صحابہ ایک اپنی رائے کو شائع کریں اور دوسرے باوجود سننے اس رائے کے مخالفت ظاہر نہ فرماویں تو یہی اجماع ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اسی صحابی نے جو امیر المومنین تھے ابن صیاد کے دجال معہود ہونے کی نسبت قسم کھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو اپنی رائے ظاہر کی اور آنحضرت نے اس سے انکار نہیں کیا اور نہ کسی صحابی نے اور پھر اسی امر کے بارے میں ابن عمر نے بھی قسم کھائی اور جابر نے بھی اور کئی صحابیوں نے یہی رائے ظاہر کی تو ظاہر ہے کہ یہ امر باقی صحابہ سے پوشیدہ نہیں رہا ہوگا، سو میرے نزدیک یہی اجماع ہے۔ اور کون سی اجماع کی تعریف مجھ سے آپ دریافت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کے نزدیک یہ اجماع نہیں تو اور جس قدر ابن صیاد کے دجال معہود ہونے پر صحابہ نے قسمیں کھا کر اس کا دجال معہود ہونا بیان کیا ہے یا بغیر قسم کے اس بارے میں شہادت دی ہے دونوں قسم کی شہادتیں بالمقابل پیش کریں اور اگر آپ پیش نہ کرسکیں تو آپ پر حجت من کل الوجوہ ثابت ہے کہ ضرور اجماع ہوگیا ہوگا کیونکہ اگر انکار پر قسمیں کھائی جاتیں تو ضرور وہ بھی نقل کی جاتیں آنحضرت صلعم کا قسم کو سن کر چپ رہنا ہزار اجماع سے افضل ہے اور تمام صحابہ کی شہادت سے کامل تر شہادت ہے۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔روحانی خزائن جلد 4صفحہ43)
اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا
اجماع صرف صحابہؓ کے زمانہ تک تھا پھر فیج اعوج کا زمانہ شروع ہوگیا اور لوگ صراط مستقیم سے بھٹک گئے اور اس وجہ سے ضرورت محسوس ہوئی کہ رحمان خدا کی طرف سے ایک حَکَم مبعوث ہو۔ (لجۃ النور۔ روحانی خزائن جلد16صفحہ416-415 ترجمہ از عربی عبارت)
قرآن مجید کے خلاف کوئی اجماع قابلِ قبول نہیں
وَلَا نَقْبَلُ اِجْمَاعًا یُخَالِفُ الْقُرْآنَ وَحَسْبُنَا کِتَابُ اللّٰہِ وَلَا نَسْمَعُ قَوْلَ الْآخَرِیْنَ
ترجمہ: اورہم کسی ایسے اجماع کو قبول نہیں کریں گے جو قرآن کریم کے مخالف ہو اورہمارے لئے تو اللہ کی کتاب کافی ہے اورہم (اس کے مقابلے میں) دوسروں کے اقوال نہیں سُنیں گے۔
(انجام آتھم۔روحانی خزائن جلد11صفحہ133 ترجمہ از عربی عبارت)
صحابہؓ کا پہلا اجماع تمام انبیاء کی وفات پر ہوا
حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا اس امت پر اتنا بڑا احسان ہے کہ اس کا شکر نہیں ہو سکتا اگر وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد نبوی میں اکٹھے کر کے یہ آیت نہ سناتے کہ تمام گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں تو یہ امت ہلاک ہو جاتی۔ کیونکہ ایسی صورت میں اس زمانے کے مفسد علماء یہی کہتے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی مذہب تھا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں۔ مگر اب صدیق اکبر کی آیت ممدوحہ پیش کرنے سے اس بات پر کل صحابہ کا اجماع ہو چکا کہ کل گزشتہ نبی فوت ہو چکے ہیں بلکہ اس اجماع پر شعر بنائے گئے۔ ابو بکر کی روح پر خدا تعالیٰ ہزاروں رحمتوں کی بارش کرے اُس نے تمام روحوں کو ہلاکت سے بچالیا اور اس اِجماع میں تمام صحابہ شریک تھے۔ ایک فرد بھی ان میں سے باہر نہ تھا۔ اور یہ صحابہ کا پہلا اجماع تھا اور نہایت قابل شکر کارروائی تھی۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔روحانی خزائن جلد21 صفحہ286-285حاشیہ)
حیاتِ مسیح پر اجماع نہیں ہوا
اگر یہ سوال ہو کہ اس امر پر اجماع ہوا ہے کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب کے خلاف عمل نہ کیا جائے تو ہم اجماع کی حقیقت خوب کھول چکے ہیں۔۔۔ امام احمد بن حنبل جو خدا سے ڈرتے تھے اور اس کی اطاعت کرتے تھے اُن کے اس قول کو یاد کرو کہ جو اجماع کا دعویٰ کرے وہ کاذب ہے۔ بہت سے اختلافات جزئیہ ائمہ اربعہ میں موجود ہیں اورائمہ کے اجماع سے خارج ہیںاور اگر تم سمجھتے ہو کہ حیاتِ عیسیٰ ؑپر سندِ صحیح سے اور واضح بیان سے اجماع ہوچکا ہے تو یہ تمہارا اورتم جیسے دوسرے لوگوں کا افتراء ہے۔
(اتمام الحجۃ ۔ روحانی خزائن جلد8صفحہ280 ترجمہ از عربی عبارت)
اجماع کے معنوں میں اختلاف
خود اجماع کے معنوں میں ہی اختلاف ہے ۔ بعض صحابہؓ تک ہی محدود رکھتے ہیں بعض قرون ثلاثہ تک بعض ائمہ اربعہ تک مگر صحابہ اورائمہ کا حال تو معلوم ہوچکا اوراجماع کے توڑنے کے لئے ایک فردکا باہررہنا بھی کافی ہوتا ہے۔چہ جائیکہ امام مالک رضی اللہ عنہ جیسا عظیم الشان امام جس کے قول کے کروڑہا آدمی تابع ہوں گے حضرت عیسیٰ کی وفات کا صریح قائل ہواورپھر یہ لوگ کہیں کہ ان کی حیات پر اجماع ہے۔
(اتمام الحجۃ ۔ روحانی خزائن جلد8صفحہ295 )
اجماع صحابہ ؓ کی اتباع ضروری ہے
ہماری جماعت میں وہی داخل ہوگا جو دینِ اسلام میں داخل ہو اور کتاب اللہ اور سنتِ رسولؐ کا متبع ہو اور اللہ اور اس کے رسول اورحشرونشر اورجنت و دوزخ پر ایمان رکھے اور یہ وعدہ اور اقرارکرے کہ وہ اسلام کے علاوہ کوئی اور دین نہیں چاہتا اور وہ اس دین پر مرے جو دینِ فطرت ہے اوراللہ کی کتاب کو پکڑے رکھے اورسنت اور قرآن اوراجماعِ صحابہؓ سے جو ثابت ہو، اس پر عمل کرے اورجس نے ان تین چیزوں کو چھوڑاتو اس نے گویا اپنے نفس کو آگ میں چھوڑا۔
(مواہب الرحمان۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ315ترجمہ از عربی عبارت )
ایک صحابی کی رائے شرعی حجّت نہیں
یہ مسلّم امر ہے کہ ایک صحابیؓ کی رائے شرعی حجّت نہیں ہوسکتی۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہؓ ہے۔سو ہم بیان کر چکے ہیں کہ اس بات پر اجماع صحابہؓ ہوچکا ہے کہ تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ410)
شرعی حجّت صرف اجماع صحابہ ؓہے
صاحب تفسیر (تفسیر ثنائی ۔ ناقل) لکھتا ہے کہ ’’ ابوہریرہ فہم قرآن میں ناقص ہے اور اس کی درایت پر محدثین کو اعتراض ہے۔ ابوہریرہ میں نقل کرنے کا مادہ تھا اور درایت اور فہم سے بہت ہی کم حصہ رکھتا تھا۔ ‘‘ ……
کئی مقام میں محدثین نے ثابت کیا ہے کہ جو امور فہم اور درایت کے متعلق ہیں اکثر ابو ہریرہؓ ان کے سمجھنے میں ٹھوکر کھاتا ہے اور غلطی کرتا ہے ۔ یہ مسلّم امر ہے کہ ایک صحابیؓ کی رائے شرعی حجّت نہیں ہوسکتی۔ شرعی حجت صرف اجماع صحابہؓ ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ410)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔کا اجتہادسب اجتہادوں سے اسلم اور اقویٰ اور اصحّ ہے۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ169)
کیا خبرواحد واجب العمل ہے؟
حنفیوں کا ہرگز یہ مذہب نہیں کہ مخالفت قرآن کی حالت میں خبر واحد واجب العمل ہے اور نہ شافعی کا یہ مذہب ہے بلکہ فقہ حنفیہ کا تو یہ اصول ہے کہ جب تک اکثر قرنوں میں تواتر حدیث کا ثابت نہ ہو گو پہلے قرن میں نہیں مگر جب تک بعد میں اخیر تک تواتر نہ ہو تب تک ایسی حدیث کے ساتھ قرآن پر زیادت جائز نہیں اور شافعی کا یہ مذہب ہے کہ اگر حدیث آیت کے مخالف ہو تو باوجود تواتر کے بھی کالعدم ہے۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ94)
احاد احادیث مخالف قرآن ہوں تو قابلِ قبول نہیں
علماء حنفیہ خبر واحد سے گو وہ بخاری ہو یا مسلم قرآن کریم کے کسی حکم کو ترک نہیں کرتے اور نہ اس پر زیادت کرتے ہیں اور امام شافعی حدیث متواتر کو بھی بمقابلہ آیت کالعدم سمجھتا ہے اور امام مالک کے نزدیک خبر واحد سے بشرط نہ ملنے آیت کے قیاس مقدم ہے۔ دیکھو صفحہ ۱۵۰ کتاب نورالانوار اصول فقہ۔
اس صورت میں جو کچھ ان اماموں کی نظر میں درصورت قرآن کے مخالف ہونے کے احادیث کی عزت ہوسکتی ہے عیاں ہے خواہ اس قسم کی حدیثیں اب بخاری میں ہوں یامسلم میں۔ یہ ظاہر ہے کہ بخاری اور مسلم اکثر مجموعہ احاد کا ہے اور جب احاد کی نسبت امام مالک اور امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کی یہی رائے ہے کہ وہ قرآن کے مخالف ہونے کی حالت میں ہرگز قبول کے لائق نہیں تو اب فرمائیے کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان بزرگوں کے نزدیک وہ حدیثیں بہرحال واجب العمل ہیں؟ اول حنفیوں اور مالکیوں وغیرہ سے ان سب پر عمل کرائے اور پھر یہ بات منہ پر لائے۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ99)
قیاسات مسلّمہ مجتہدین واجب العمل ہیں!
میں تمام مسلمانوں کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے کسی ایک حکم میں بھی دوسرے مسلمانوں سے علیحدگی نہیں جس طرح سارے اہل اسلام احکام بینہ قرآن کریم و احادیث صحیحہ و قیاسات مسلمہ مجتہدین کو واجب العمل جانتے ہیں اسی طرح میں بھی جانتا ہوں۔ صرف بعض اخبار گزشتہ و مستقبلہ کی نسبت الہام الٰہی کی وجہ سے جس کو میں نے قرآن سے بکلّی مطابق پایا ہے بعض اخبار حدیثیہ کے میں اس طرح پر معنی نہیں کرتا جو حال کے علماء کرتے ہیں کیونکہ ایسے معنے کرنے سے وہ احادیث نہ صرف قرآن کریم کے مخالف ٹھہرتی ہیں بلکہ دوسری احادیث کی بھی جو صحت میں ان کے برابر ہیں مغائر و مبائن قرار پاتی ہیں۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ82)
جماعت کے لئے لائحہ عمل
ہماری جماعت کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ اگر کوئی حدیث معارض اور مخالف قرآن اور سُنّت نہ ہو تو خواہ کیسے ہی ادنیٰ درجہ کی حدیث ہو اُس پر وہ عمل کریں اور انسان کی بنائی ہوئی فقہ پر اُس کو ترجیح دیں اور اگر حدیث میں کوئی مسئلہ نہ ملے اور نہ سنّت میں اور نہ قرآن میں مل سکے تو اس صورت میں فقہ حنفی پر عمل کرلیں کیونکہ اس فرقہ کی کثرت خدا کے ارادہ پر دلالت کرتی ہے اور اگر بعض موجودہ تغیرات کی وجہ سے فقہ حنفی کوئی صحیح فتویٰ نہ دے سکے تو اِس صورت میں علماء اس سلسلہ کے اپنے خدا داد اجتہاد سے کام لیں لیکن ہوشیار رہیں کہ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی طرح بے وجہ احادیث سے انکار نہ کریں ہاں جہاں قرآن اور سنّت سے کسی حدیث کو معارض پاویں تو اُس حدیث کو چھوڑ دیں۔ یاد رکھیں کہ ہماری جماعت بہ نسبت عبداللہ کے اہلحدیث سے اقرب ہے اور عبداللہ چکڑالوی کے بیہودہ خیالات سے ہمیں کچھ بھی مناسبت نہیں۔ ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اُسے یہی چاہئے کہ وہ عبداللہ چکڑالوی کے عقیدوں سے جو حدیثوں کی نسبت وہ رکھتا ہے بدِل متنفّر اور بیزار ہو اور ایسے لوگوں کی صحبت سے حتی الوسع نفرت رکھیں کہ یہ دوسرے مخالفوں کی نسبت زیادہ برباد شدہ فرقہ ہے اور چاہئے کہ نہ وہ مولوی محمد حسین کے گروہ کی طرح حدیث کے بارہ میں افراط کی طرف جھکیں اور نہ عبداللہ کی طرح تفریط کی طرف مائل ہوں بلکہ اِس بارہ میں وسط کا طریق اپنا مذہب سمجھ لیں یعنی نہ تو ایسے طور سے بکلّی حدیثوں کو اپنا قبلہ و کعبہ قرار دیں جس سے قرآن متروک اور مہجور کی طرح ہو جائے اور نہ ایسے طور سے اُن حدیثوں کو معطل اور لغو قرار دیدیں جن سے احادیث نبویہ بکلّی ضائع ہو جائیں۔
(ریویو بر مباحثہ بٹالوی وچکڑالوی ۔روحانی خزائن جلد19صفحہ212،213)
ہماری مسلمہ کتابیں
ہماری کتبِ مسلّمہ مقبولہ جن پر ہم عقیدہ رکھتے ہیں اور جن کو ہم معتبر سمجھتے ہیں بہ تفصیلِ ذیل ہیں۔
اوّل، قرآن شریف۔ مگر یاد رہے کہ کسی قرآنی آیت کے معنے ہمارے نزدیک وہی معتبر اور صحیح ہیں جس پر قرآن کے دوسرے مقامات بھی شہادت دیتے ہوں۔کیونکہ قرآن کی بعض آیات بعض کی تفسیر ہیں اورنیز قرآن کے کامل اور یقینی معنوں کے لئے اگر وہ یقینی مرتبہ قرآن کے دوسرے مقامات سے میسّر نہ آسکے یہ بھی شرط ہے کہ کوئی حدیث صحیح مرفوع متصل بھی اس کی مفسّر ہو۔ غرض ہمارے مذہب میں تفسیر بالرائے ہرگز جائز نہیں۔ پس ہر یک معترض پر لازم ہوگا کہ کسی اعتراض کے وقت اس طریق سے باہر نہ جائے۔
دوم، دوسری کتابیں جو ہماری مسلّم کتابیں ہیں اُن میں اوّل درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی وہ تمام احادیث ہمارے نزدیک حجت ہیں جوقرآن شریف سے مخالف نہیں اور اُن میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو۔ اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی، ابن ماجہ ، مؤطا، نسائی ، ابوداؤد ، دارقطنی کتب حدیث ہیں جن کی حدیثوں کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں۔ یہ کتابیں ہمارے دین کی کتابیں ہیں اور یہ شرائط ہیں جن کی رو سے ہمارا عمل ہے۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 86،87)
بخاری اور مسلم کا مقام
آپؑ بخاری کا مقام بیان کرتے ہوئے تحریرفرماتے ہیں:۔
مسلمانوں کے لئے صحیح بخاری نہایت متبرک اورمفید کتاب ہے ۔۔۔۔۔ایسا ہی مسلم اوردوسری احادیث کی کتابیں بہت سے معارف اور مسائل کا ذخیرہ اپنے اندر رکھتی ہیں۔
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ65)
مزید فرمایا
بخاری کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں برکت اور نور ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں رسول اللہؐ کے منہ سے نکلی ہیں۔ (الحکم 17 اگست1902ء صفحہ11)
آپ ؑنے صحیح مسلم کے بارہ میں فرمایا
صحیح مسلم اس شرط سے وثوق کے لائق ہے کہ جب قرآن یا بخاری سے مخالف نہ ہو اور بخاری میں صرف ایک شرط ہے کہ قرآن کے احکام اور نصوص صریحہ بینہ سے مخالف نہ ہو اور دوسری کتب حدیث صرف اس صورت میں قبول کے لائق ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ60حاشیہ)
حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم کے مقابل پر صحیح بخاری اور مسلم کے بارے میں فرمایا
میرا مذہب یہی ہے کہ البتہ بخاری اور مسلم کی حدیثیں ظنی طور پر صحیح ہیں۔ مگر جو حدیث صریح طور پر ان میں سے مبائن و مخالف قرآن کریم کے واقع ہوگی وہ صحت سے باہر ہوجائے گی۔ آخر بخاری اور مسلم پر وحی تو نازل نہیں تھی۔ (الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ15)
مزید فرمایا:۔
امام بخاری اور مسلم کی عظمت ِ شان اور ان کی کتابوں کا امت میں قبول کیا جانا اگر مان بھی لیا جاوے تب بھی اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ وہ کتابیں قطعی اور یقینی ہیں۔ کیونکہ امت نے ان کے مرتبہ قطع اور یقین پر ہرگز اجماع نہیں کیا۔
(الحق مباحثہ لدھیانہ ۔ روحانی خزائن جلد4صفحہ98)
بخاری کتاب الطب باب السحرمیں یہ ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا۔ جس کے نتیجہ میں نعوذ باللہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یادداشت متاثر ہوگئی تھی۔ حضرت مسیح موعود کے سامنے جب اس کا ذکر کیا گیا تو حضورؑ نے فرمایا:۔
آنکھ بند کرکے بخاری اور مسلم کو مانتے جانا یہ ہمارے مسلک کے برخلاف ہے۔ یہ تو عقل بھی تسلیم نہیں کر سکتی کہ ایسے عالی شان نبی پر جادو اثر کر گیا ہو،ایسی ایسی باتیں کہ اس جادو سے (معاذاللہ )آنحضرتؐ کا حافظہ جاتا رہا یہ ہوگیا اور وہ ہوگیاکسی صورت میں صحیح نہیں ہوسکتیں۔معلوم ہوتا ہے کہ کسی خبیث آدمی نے اپنی طرف سے ایسی باتیں ملادی ہیں۔ گو ہم نظر تہذیب سے احادیث کودیکھتے ہیں ، لیکن جو حدیث قرآن کریم کے برخلاف، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت کے برخلاف ہو، اس کو ہم کب مان سکتے ہیں ۔ اُس وقت احادیث جمع کرنے کا وقت تھا گوانہوں نے سوچ سمجھ کر احادیث کو درج کیا تھا۔ مگر پوری احتیاط سے کام نہیں لے سکے۔ وہ جمع کرنے کا وقت تھا۔ لیکن اب نظر اور غور کرنے کاوقت ہے۔ آثار نبی جمع کرنا بڑے ثواب کا کام ہے لیکن یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جمع کرنے والے خوب غور سے کام نہیں لے سکتے۔اب ہر ایک کو اختیار ہے کہ خوب غور اور فکر سے کام لے جو ماننے والی ہو وہ مانے اور جو چھوڑنے والی ہو وہ چھوڑ دے۔
(الحکم 10نومبر1907ء صفحہ 8)
قرآن شریف کی اور احادیث کی جو پیغمبرخدا سے ثابت ہیں۔ اتباع کریں۔ضعیف سے ضعیف حدیث بھی بشرطیکہ وہ قرآن شریف کے مخالف نہ ہو، ہم واجب العمل سمجھتے ہیں۔ اوربخاری اور مسلم کو بعد کتاب اللہ اصح الکتب مانتے ہیں۔
(البدر8ستمبر1904ء صفحہ 8)
نمازجنازہ اور تدفین
سورۃ یٰسین کی سنت پر عمل کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوریؓ نے بیان کیا کہ بشیر اوّل کی پیدائش کے وقت مَیں قادیان میں تھا۔ قریبًا آدھی رات کے وقت حضرت مسیح موعودؑ مسجد میں تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا میاں عبداللہ اس وقت ہمارے گھر میں دردِ زِہ کی بہت تکلیف ہے۔ آپ یہاں یٰسین پڑھیں اور میں اندر جاکر پڑھتا ہوں اور فرمایا کہ یٰسین کا پڑھنا بیمار کی تکلیف کو کم کرتا ہے ۔ چنانچہ نزع کی حالت میں بھی اسی لئے یٰسین پڑھی جاتی ہے کہ مرنے والے کو تکلیف نہ ہو اوریٰسین کے ختم ہونے سے پہلے تکلیف دور ہوجاتی ہے ۔ اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے اورمیں یٰسین پڑھنے لگ گیا تھوڑی دیر کے بعد جب میں نے ابھی یٰسین ختم نہیں کی تھی۔ آپ مسکراتے ہوئے پھر مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا ہمارے گھر لڑکاپیدا ہوا ہے۔ اس کے بعد حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے اورمیں خوشی کے جوش میں مسجد کے اوپر چڑھ کر بلند آواز سے مبارک باد مبارک باد کہنے لگ گیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ66)
وفات کے متعلق عوام کے بعض غلط تصورات
فرمایا:
جمعہ کے دن مرنا، مرتے وقت ہوش کا قائم رہنا یا چہرہ کا رنگ اچھا ہونا ۔ان علامات کو ہم قاعدہ کلیہ کے طور سے ایمان کا نشان نہیں کہہ سکتے کیونکہ کئی دہریہ بھی اس دن مرتے ہیں ۔ان کا ہوش قائم اور چہرہ سفید رہتا ہے ۔اصل بات یہ ہے کہ بعض امراض ہی ایسے ہیں مثلاً دق وسل کہ ان کے مریضوں کا اخیر تک ہوش قائم رہتا ہے بلکہ طاعون کی بعض قسمیں بھی ایسی ہی ہیں ۔ہم نے بعض دفعہ دیکھا کہ مریضوں کو کلمہ پڑھایا گیا اوریٰسین بھی سنائی ۔بعدا زاں وہ بچ گیا اور پھر وہی برے کام شروع کر دئیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صدق دل سے ایمان نہیں لایا ۔ اگر سچی توبہ کرتا تو کبھی ایسا کام نہ کرتا اصل میں اس وقت کا کلمہ پڑھنا ایمان لانا نہیں۔یہ تو خوف کا ایمان ہے جو مقبول نہیں۔ (بدر16جنوری1908ء صفحہ3)
غسلِ میت۔ بیری کے پتوں کا استعمال
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت مَیں لاہور میں تھا اور خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان میں رہا کرتا تھا۔ جب آپ فوت ہوئے تو مَیں اور ایک اوراحمدی نوجوان حضرت صاحب کے غسل دینے کے لئے بیری کے پتے لینے گئے۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ کس بزرگ نے پتے لانے کے لئے کہا تھا۔ مَیں روتا جارہا تھا اور اسلامیہ کالج کے پشت پر کچھ بیریاں تھیںوہاں سے پتے توڑ کر لایا تھا۔ گرم پانی میں ان پتوں کو کھولا کر اس پانی سے حضور کو غسل دیا گیا تھا۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ749)
سب کا جنازہ پڑھ دیا
قاضی سیّد امیرحسین صاحب کا ایک چھوٹا بچّہ فوت ہونے پر جنازے کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لے گئے اور خود ہی جنازہ پڑھایا۔ عمومًا جنازے کی نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر موجود ہوتے ، تو خود ہی امامت کرتے۔ اس وقت نماز جنازہ میں شامل ہونے والے دس پندرہ آدمی ہی تھے۔ بعد سلام کسی نے عرض کی کہ حضورؑ میرے لئے بھی دعا کریں۔ فرمایا: میں نے تو سب کا ہی جنازہ پڑھ دیاہے۔ مراد یہ تھی کہ جتنے لوگ نماز جنازہ میں شامل ہوئے تھے،اُن سب کے لئے نماز جنازہ کے اندر حضرت صاحبؑ نے دُعائیں کردی تھیں۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 161۔162)
حضرت مسیح ناصری ؑکا جنازہ
ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب رعیہ نے عرض کی کہ ایک شخص منشی رحیم بخش عرضی نویس بڑا سخت مخالف تھا مگر اب تحفہ گولڑویہ پڑھ کر اس نے مسیح کی موت کا تو اعتراف کر لیا ہے اور یہ بھی مجھ سے کہا کہ مسیح کا جنازہ پڑھیں؟ میں نے تو یہی کہا کہ بعد استصواب واستمزاج حضرت اقدس جواب دوں گا۔ فرمایا:۔
’ ’ جنازہ میت کے لئے دعا ہی ہے کچھ حرج نہیں۔ وہ پڑھ لیں۔ ‘‘
(الحکم 10نومبر1902ء صفحہ7)
خاندانی قبرستان میں دعا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے مولوی شیر علی صاحب نے بیان کیاکہ حضرت صاحب ایک دفعہ غیر معمولی طورپر غرب کی طرف سیر کو گئے تو راستے سے ہٹ کر عیدگاہ والے قبرستان میں تشریف لے گئے اور پھر آپ نے قبرستان کے جنوب کی طرف کھڑے ہوکر دیر تک دعا فرمائی۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے کوئی خاص قبر سامنے رکھی تھی ؟ مولوی صاحب نے کہا میں نے ایسا نہیں خیال کیا اورمیں نے اس وقت دل میں یہ سمجھاتھا کہ چونکہ اس قبرستان میں حضرت صاحب کے رشتہ داروں کی قبریں ہیں اس لئے حضرت صاحب نے دعا کی ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ وہاں ایک دفعہ حضرت صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کی قبر پر دعا کی تھی۔ مولوی صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ جب حضرت صاحب کی لڑکی امۃ النصیر فوت ہوئی تو حضرت صاحب اسے اسی قبرستان میں دفنانے کے لئے لے گئے تھے اور آپ خود اسے اُٹھا کر قبر کے پاس لے گئے۔ کسی نے آگے بڑھ کر حضور سے لڑکی کو لینا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ میں خود لے جاؤں گا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس وقت حضرت صاحب نے وہاں اپنے کسی بزرگ کی قبر بھی دکھائی تھی۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ203،204)
چہلم کی حکمت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ ایک دفعہ یہ ذکر تھا کہ یہ جو چہلم کی رسم ہے یعنی مُردے کے مرنے سے چالیسویں دن کھانا کھلا کر تقسیم کرتے ہیں غیر مقلد اس کے بہت مخالف ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر کھانا کھلانا ہو تو کسی اوردن کھلادیا جائے۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ چالیسویں دن غربامیں کھانا تقسیم کرنے میں یہ حکمت ہے کہ یہ مردے کی روح کے رخصت ہونے کا دن ہے۔پس جس طرح لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ دیا جاتا ہے اسی طرح مُردے کی روح کی رخصت پر بھی غرباء میںکھانا دیاجاتا ہے تااسے اس کا ثواب پہنچے۔ گویا روح کا تعلق اس دنیا سے پورے طورپر چالیس دن میں قطع ہوتا ہے ۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ صرف حضرت صاحب نے اس رسم کی حکمت بیان کی تھی ورنہ آپ خود ایسی رسوم کے پابند نہ تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ167،168)
مزاروں کی زیارت
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہمحترمہ کنیزفاطمہ صاحبہ اہلیہ میر قاسم علی صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ حضرت صاحب ۱۹۰۵ء میں دہلی میں تھے اور وہاں جمعہ کو میری بھی بیعت لی۔ اور دعا فرمائی۔ باہر دشمنوں کا بھاری ہجوم تھا۔ میں بار بار آپؑ کے چہرے کی طرف دیکھتی تھی کہ باہر اس قدر شور ہے اورحضرت صاحبؑ ایک شیر کی طرح بیٹھے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا ’’ شیخ یعقوب علی صاحب کو بلا لاؤ۔ گاڑی لائیں۔‘‘ میر صاحب نے کہا حضور گاڑی کیا کرنی ہے؟ آپ نے فرمایا’’قطب صاحب جانا ہے۔ ‘‘ میں نے کہا حضور اس قدر خلقت ہے ۔ آپ ان میں سے کیسے گزریں گے؟ آپ ؑ نے فرمایا’’ دیکھ لینا میں ان میں سے نکل جاؤں گا۔ ‘‘ میرصاحب کی اپنی فٹن بھی تھی، دو گاڑیاں اورآگئیں۔ ہم سب حضرت صاحب ؑ کے خاندان کے ساتھ گاڑیوں میں بھرکر چلے گئے۔پہلے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کے والد کے مزار پر تشریف لے گئے اوربہت دیر تک دعا فرمائی اور آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہے۔ اس کے بعد آپ حضرت نظام الدین اولیاء کے مقبرہ پر تشریف لے گئے ۔ آپ ؑ نے تمام مقبرہ کو خوب اچھی طرح سے دیکھا۔ پھر مقبرہ کے مجاوروں نے حضورؑ سے پوچھا۔ آپ حضرت نظام الدین صاحب کو کیا خیال فرماتے ہیں؟ آپ ؑ نے فرمایا : ’’ہم انہیں بزرگ آدمی خیال کرتے ہیں۔‘‘ پھر آپؑ نے مقبرہ کے مجاوروں کو کچھ رقم بھی دی جو مجھے یاد نہیں کتنی تھی۔ پھر آپؑ مع مجاوروں کے قطب صاحب تشریف لے گئے۔وہاں کے مجاوروں نے آپ کو بڑی عزت سے گاڑی سے اتارا اورمقبرہ کے اندر لے گئے کیونکہ مقبرہ نظام الدین اولیاء میں تو عورتیں اندر چلی جاتی ہیں لیکن قطب صاحب میں عورتوں کو اندر نہیں جانے دیتے۔ ان لوگوں نے حضور ؑکو کھانے کے لئے کہا۔ حضور ؑ نے فرمایا’’ ہم پرہیزی کھانا کھاتے ہیں ۔ آپ کی مہربانی ہے۔ ‘‘ وہاں کے مجاوروں کو بھی حضورؑ نے کچھ دیا۔ پھر حضور علیہ السلام وہاں سے شام کو واپس گھر تشریف لے آئے۔ مجاور کچھ راستہ تک ساتھ آئے۔ ( سیر ت المہدی جلد2صفحہ199،200)
مُردہ سے مدد مانگنا جائز نہیں
فرمایا:۔
مُردوںسے مددمانگنے کا خدا نے کہیں ذکر نہیں کیابلکہ زندوں ہی کا ذکرفرمایا۔خدا تعالیٰ نے بڑا فضل کیا جو اسلام کو زندوں کے سپرد کیا ۔اگر اسلام کو مُردوں پر ڈالتا تو نہیں معلوم کیاآفت آتی۔مُردوں کی قبریں کہاں کم ہیں۔کیا ملتان میں تھوڑی قبریں ہیں’’گردو گرما گداو گورستان‘‘ اس کی نسبت مشہور ہے۔ میں بھی ایک بار ملتان گیا۔جہاں کسی قبر پر جاؤ مجاور کپڑے اتارنے کو گرد ہو جاتے ہیں۔پاک پٹن میں مردوں کے فیضان سے دیکھ لو کیا ہو رہا ہے؟اجمیر میں جا کر دیکھو بد عات اور محدثات کا بازار کیا گرم ہے۔غرض مُردوں کو دیکھو گے تواس نتیجہ پر پہنچو گے کہ ان کے مشاہدمیں سوا بد عات اور ارتکاب مناہی کے کچھ نہیں۔خدا تعالیٰ نے جو صراط المستقیم مقرر فرمایا ہے وہ زندوں کی راہ ہے،مُردوںکی راہ نہیں۔پس جو چاہتا ہے کہ خدا کو پائے اور حیّ وقیوم خدا کوملے،تو وہ زندوں کو تلاش کرے،کیونکہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے نہ مُردہ،جن کا خدا مردہ ہے ، جن کی کتاب مُردہ،وہ مُردوں سے برکت چاہیںتو کیا تعجب ہے۔ لیکن اگر سچا مسلمان جس کا خدا زندہ خدا،جس کا نبی زندہ نبی،جس کی کتاب زندہ کتا ب ہے اور جس دین میں ہمیشہ زندوں کا سلسلہ جاری ہو اور ہر زمانہ میں ایک زندہ انسان خدا تعالیٰ کی ہستی پر زندہ ایمان پیدا کرنے والا آتا ہو۔وہ اگر اس زندہ کو چھوڑ کر بوسیدہ ہڈیوںاور قبروںکی تلاش میں سر گرداںہو تو البتہ تعجب اور حیرت کی بات ہے!!!
(الحکم 24جولائی1902ء صفحہ10، 11)
قبرستان میں جاکر منتیں مانگنا
سوال:۔ قبرستان میں جانا جائز ہے یا ناجائز؟
جواب :۔نذر ونیاز کے لیے قبروں پر جانا اور وہاں جاکر منتیں مانگنا درست نہیں ہے ہاں وہاں جاکر عبرت سیکھے اور اپنی موت کو یاد کرے تو جائز ہے ۔
(الحکم 31مئی 1903ء صفحہ9حاشیہ)
میت کوگاڑی پر قبرستان لے جانا
فرمایا :
جو خدا نخواستہ اس بیماری(یعنی طاعون۔ناقل) سے مرجائے وہ شہید ہے۔ اس کے واسطے ضرورت غسل کی نہیں اور نہ نیا کفن پہنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے وہی کپڑے رہنے دو اور ہو سکے تو ایک سفید چادر اس پر ڈال دو اور چونکہ مرنے کے بعد میت کے جسم میں زہریلا اثر زیادہ ترقی پکڑتاہے اس واسطے سب لوگ اس کے اردگرد جمع نہ ہوں۔ حسبِ ضرورت دو تین آدمی اس کی چارپائی کو اُٹھائیں اور باقی سب دور کھڑے ہوکر مثلاً ایک سو گزکے فاصلہ پر جنازہ پڑھیں۔ جنازہ ایک دُعا ہے اور اس کے واسطے ضروری نہیں کہ انسان میت کے سر پر کھڑا ہو۔ جہاں قبرستان دور ہو مثلاً لاہور میں سامان ہو سکے تو کسی گاڑی یا چھکڑے پر میت کو لاد کر لے جاویں اور میت پر کسی قسم کی جزع فزع نہ کی جاوے۔ خدا تعالیٰ کے فعل پر اعتراض کرنا گناہ ہے ۔
(بدر4اپریل1907ء صفحہ6)
صبح کے وقت زیارتِ قبورسنت ہے
حضرت مسیح موعود ؑ کے سفرِ دہلی کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب اخبار بدر لکھتے ہیں:۔
صبح حضرت مسیح موعود ؑ مردانہ مکان میں تشریف لائے۔ دہلی کی سیر کا ذکر درمیان میں آیا۔ فرمایا لہو و لعب کے طور پر پھر نا درست نہیں البتہ یہاں بعض بزرگ اولیاء اﷲ کی قبریں ہیں۔ ان پر ہم بھی جائیں گے۔ فرمایا :۔
ایسے بزرگوں کی فہرست بنائو تا کہ جانے کے متعلق انتظام کیا جائے۔
حاضرین نے یہ نام لکھائے۔ (ا) شاہ ولی اﷲ صاحب (۲)خواجہ نظام الدین صاحب
(۳) جناب قطب الدین صاحب (۴)خواجہ باقی باﷲ صاحب (۵) خواجہ میر درد صاحب
(۶)جناب نصیر الدین صاحب چراغ دہلی۔
چنانچہ گاڑیوں کا انتظام کیا گیا اور حضرت بمع خدام گاڑیوں میں سوار ہو کر سب سے اوّل حضرت خواجہ باقی باﷲ کے مزار پر پہنچے۔ راستہ میں حضرت نے زیارتِ قبور کے متعلق فرمایا :
قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارتِ قبور کے لیے ایک سنت ہے۔ یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آجاتا ہے۔ انسان اس دنیا میں مسافر ہے۔ آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان قبر پر جاوے تو کہے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَااَھْلَ الْقُبُوْرِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّااِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلََاحِقُوْنَ ۔
(بدر 31 ؍ اکتوبر 1905ء صفحہ1)
قبر پر جاکر کیا دعا کرنی چاہئے؟
حضرت مسیح موعود ؑ کے سفرِ دہلی کا ذکر کرتے ہوئے ایڈیٹر صاحب اخبار بدر لکھتے ہیں:۔
خواجہ باقی باﷲ کی مزار پر جب ہم پہنچے تو وہاں بہت سی قبریں ایک دوسرے کے قریب قریب اور اکثر زمین کے ساتھ ملی ہوئی تھیں۔ میں نے غور سے دیکھا کہ حضرت اقدس نہایت احتیاط سے ان قبروں کے درمیان سے چلتے تھے تا کہ کسی کے اوپر پائوں نہ پڑے۔ قبر خواجہ صاحب پر پہنچ کر آپ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور دعا کو لمبا کیا۔ بعد دعا میں نے عرض کی کہ قبر پر کیا دعا کرنی چاہیے تو فرمایا کہ
صاحبِ قبر کے واسطے دعائے مغفرت کرنی چاہیے اور اپنے واسطے بھی خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے۔ انسان ہر وقت خدا کے حضور دعا کرنے کا محتاج ہے۔
قبر کے سرہانے کی طرف ایک نظم خواجہ صاحب مرحوم کے متعلق لکھی ہے۔ بعد دعا آپ نے وہ نظم پڑھی اور عاجز راقم کو حکم دیا کہ اس کو نقل کرلو۔
(بدر31؍اکتوبر1905ء صفحہ1)
ایک اور موقع پراخبار بدر کے ڈائری نویس لکھتے ہیں کہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مع خدام سیر کرنے کے واسطے صبح باہر نکلے تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی قبر پر تشریف لے گئے جہاں آپ نے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی ۔ بعد دعا کے ایک شخص نے چند سوال کئے جواس کالم میں درج کرنے کے لائق ہیں۔
سوال۔ قبر پر کھڑے ہو کر کیا پڑھنا چاہئے؟
جواب۔ میت کے واسطے دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ اس کے ان قصوروں اور گناہوں کو بخشے جو اُس نے اس دنیا میں کئے تھے اور اس کے پس ماندگان کے واسطے بھی دعا کرنی چاہئے ۔
سوال۔ دعا میں کونسی آیت پڑھنی چاہئے؟
جواب۔ یہ تکلفات ہیں۔ تم اپنی ہی زبان میں جس کو بخوبی جانتے ہواور جس میں تم کو جوش پیدا ہوتاہے۔ میت کے واسطے دعا کرو۔
(بدر19 جنوری 1906ء صفحہ6)
حفاظت کے خیال سے پختہ قبر بنانا جائز ہے
ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ میرا بھائی فوت ہوگیا ہے میں اس کی قبر پکی بناؤں یا نہ بناؤں۔ فرمایا:
اگر نمود اور دکھلاوے کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اورگنبد بنائے جائیں تو یہ حرام ہے لیکن اگر خشک مُلّا کی طرح یہ کہا جائے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جائے تو یہ بھی حرام ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ عمل نیت پر موقوف ہے۔ ہمارے نزدیک بعض وجوہ میں پکی کرنا درست ہے مثلاً بعض جگہ سیلاب آتا ہے ، بعض جگہ قبر میں سے میت کو کتے اور بجو وغیرہ نکال لے جاتے ہیں۔ مُردے کے لئے بھی ایک عزت ہوتی ہے۔ اگر ایسے وجوہ پیش آجائیں تو اس حد تک کہ نمود اور شان نہ ہو بلکہ صدمے سے بچانے کے واسطے قبر کا پکا کرنا جائز ہے۔ اللہ اور رسول نے مومن کی لاش کے واسطے بھی عزت رکھی ہے ۔ ورنہ عزت ضروری نہیں تو غسل دینے ،کفن دینے، خوشبو لگانے کی کیاضرورت ہے۔ مجوسیوں کی طرح جانوروں کے آگے پھینک دو۔ مومن اپنے لئے ذلت نہیں چاہتا، حفاظت ضروری ہے ۔ جہاں تک نیت صحیح ہے خدا تعالیٰ مؤاخذہ نہیں کرتا۔ دیکھو مصلحت الٰہی نے یہی چاہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبرکے پختہ گنبد ہو اور کئی بزرگوں کے مقبرے پختہ ہیں مثلًا نظام الدین ، فریدالدین ، قطب الدین ، معین الدین رحمۃ اللہ علیہم۔ یہ سب صلحاء تھے۔
(الحکم 17مئی 1901ء صفحہ12)
قبروں کی حفاظت اور درستگی کروانا
حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض قبروں کی درستگی کے لئے ایک خط لکھا جس میں آپ نے لکھا
مقبرہ بہشتی میں قبروں کی بُری حالت ہے ایک تو قبروں میں نالیوں کی وجہ سے سیلاب ویسے ہی رہتا ہے اور یہ نالیاں درختوں کے لئے ضروری ہیں پھر اس پر یہ زیادہ ہے۔ پانی جو آیا کرتا ہے اس کی سطح سے یہ قبریں کوئی دو فٹ نیچی ہیں۔ اب معمولی آب پاشی ہے اور ان بارشوں سے اکثر قبریں دَب جاتی ہیں۔ پہلے صاحب نور اور غوثاں کی قبریں دَب گئی تھیں ان کو میں (نے) درست کرا دیا تھا۔ اب پھر یہ قبریں دب گئی ہیں اور یہ پانی صاف نظر آتا ہے کہ نالیوں کے ذریعہ گیا ہے۔ پس اس کے متعلق کوئی ایسی تجویز تو میر صاحب فرمائیں گے کہ جس سے روز کے قبروں (کے) دبنے کا اندیشہ جاتا رہے مگر میرا مطلب اس وقت اس عریضہ سے یہ ہے کہ ابھی تو معمولی بارش سے یہ قبریں دبی ہیں پھر معلوم نہیںکوئی رَو آ گیا تو کیاحالت ہوگی۔
اس لئے نہایت ادب سے عرض ہے کہ اگر حضور حکم دیں تو میں اپنے گھر کے لوگوں کی قبر کو پختہ کر دوں اور ایک (دو)دوسری قبریں بھی یا (جیسا) حضور حکم دیں ویسا کیا جائے۔
اس کے جواب میں حضور ؑ نے تحریرفرمایا:۔
’’ میرے نزدیک اندیشہ کی وجہ سے کہ تا سیلاب کے صدمہ کی وجہ سے نقصان (نہ ہو) پختہ کرنے میں کچھ نقصان نہیں معلوم ہوتا کیونکہ اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات باقی رہے مخالف لوگوں کے اعتراضات تو وہ تو کسی طرح کم نہیں ہو سکتے۔‘‘
(مکتوبات احمد جلددوم صفحہ310)
کیافاتحہ خوانی جائز ہے
سوال پیش ہو ا کہ کسی کے مرنے کے بعد چند روز لوگ ایک جگہ جمع رہتے اور فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ فاتحہ خوانی ایک دعائے مغفرت ہے پس اس میں کیا مضائقہ ہے؟ فرمایا :
ہم تو دیکھتے ہیں وہاں سوائے غیبت اور بے ہودہ بکواس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ پھر یہ سوال ہے کہ آیا نبی کریمؐ یا صحابہ کرام ؓ و ائمہ عظام میں سے کسی نے یوں کیا؟ جب نہیں کیا تو کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ بدعات کا دروازہ کھولنے کی؟ ہمارا مذہب تو یہی ہے کہ اس رسم کی کچھ ضرورت نہیں، ناجائز ہے۔ جو جنازہ میں شامل نہ ہو سکیں وہ اپنے طور سے دعا کریں یا جنازہ غائب پڑھ دیں۔
(بدر9مئی1907ء صفحہ5)
کھانے کا ثواب میت کو پہنچتا ہے
ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہواکہ محرم کے دنوں، اِمَا مَین کی روح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا:
عام طورپر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میت کوپہنچتا ہے لیکن اس کے ساتھ شِرک کی رسومات نہیں چاہئیں۔ رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا ناجائز ہے۔
(الحکم 17مئی1901ء صفحہ12)
ایک شخص کا سوال پیش ہوا کہ اگر کوئی شخص حضرت سید عبدالقادر کی روح کو ثواب پہنچانے کی خاطر کھانا پکاکر کھلادے تو کیا یہ جائز ہے؟
حضرت نے فرمایا :
طعام کا ثواب مُردوں کو پہنچتاہے ۔ گذشتہ بزرگوں کو ثواب پہنچانے کی خاطر اگر طعام پکا کر کھلایا جائے تو یہ جائز ہے لیکن ہر ایک امرنیت پر موقوف ہے۔ اگر کوئی شخص اس طرح کے کھانے کے واسطے کوئی خاص تاریخ مقرر کرے اور ایسا کھانا کھلانے کو اپنے لیے قاضی الحاجات خیال کرے تو یہ ایک بُت ہے اور ایسے کھانے کا لینا دینا سب حرام ہے اور شرک میں داخل ہے۔ پھر تاریخ کے تعین میں بھی نیت کا دیکھنا ہی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ملازم ہے اور اُسے مثلاً جمعہ کے دن ہی رخصت مل سکتی ہے تو ہر ج نہیں کہ وہ اپنے ایسے کاموں کے واسطے جمعہ کا دن مقررکرے ۔ غرض جب تک کوئی ایسا فعل نہ ہو جس میں شرک پایا جائے صرف کسی کو ثواب پہنچانے کی خاطر طعام کھلانا جائز ہے۔ (بدر8؍اگست 1907ء صفحہ5)
میت کی طرف سے صدقہ خیرات کرنا اور قرآن شریف کا پڑھنا
سوال ۔ کیا میّت کو صدقہ خیرات اور قرآن شریف کا پڑھنا پہنچ سکتا ہے ؟
جواب ۔ میّت کو صدقہ خیرات جو اس کی خاطر دیا جاوے پہنچ جاتاہے ۔ لیکن قرآن شریف کا پڑھ کر پہنچانا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ سے ثابت نہیں ہے۔ اس کی بجائے دُعا ہے جو میت کے حق میں کرنی چاہئے۔ میت کے حق میں صدقہ خیرات اور دُعا کاکرنا ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کی سنت سے ثابت ہے۔ لیکن صدقہ بھی وہ بہتر ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے دے جائے کیونکہ اس کے ذریعہ سے انسان اپنے ایمان پر مہر لگاتاہے ۔‘‘
(بدر19جنوری 1906ء صفحہ6)
حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب ؓ ’’پیارے احمدکی پیاری پیاری باتیں‘‘ کے عنوان کے تحت تحریر فرماتے ہیںکہ
ایک دفعہ صبح کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں حسبِ دستور حضرت اقدس علیہ السلام تشریف رکھتے تھے۔ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ حضرت یہ لوگ جو قرآن شریف پڑھ کر مُردوں کی روح کو ثواب پہنچاتے ہیں، اس کا ثواب پہنچتا ہے یا نہیں ؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا
پہلے علماء میں اختلاف ہے۔۔۔۔ کلام اور کلام اللہ کا ثواب ہمارے نزدیک مُردوں کو نہیں پہنچتا۔ قرآن شریف عمل کرنے کے واسطے آیا ہے نہ کہ طوطے کی طرح پڑھنا۔۔۔۔ثواب پہنچانے کے واسطے اگر یہ ہوتا بھی تو قرآن شریف میں ذکر ہوتا۔
دیکھو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ قرآن شریف نازل ہوا ہے وہ اس کے اَوَّلُ الْمُسْتَحِقِّیْن تھے۔ آپ کی نسبت اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْن تو آگیا ہے اور دیکھو قرآن شریف میں آیا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلَائِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (الاحزاب:57) یعنی اللہ اوراس کے ملائکہ نبی پر رحمت بھیجتے ہیں، ایمان والو تم بھی درود بھیجو اور سلام بھیجو۔ درود کے معنی دعا ہی کے ہیں اور سلام کے معنی دعا ہی کے ہیں۔ دعا ہی آئی ہے۔ یہ نہیں آیا کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر قرآن پڑھ پڑھ کر ثواب پہنچاتے ہیں اے ایمان والو تم بھی قرآن پڑھ پڑھ کر نبی کی روح کو سلام پہنچایا کرو۔۔۔۔قرآن کا ثواب نہیں پہنچتا ، دعا کرنی چاہئے اور دعا ہی حدیثوں میں آئی ہے۔ چنانچہ اَلسَّلََامُ عَلَیْکُمْ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ الخ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود شریف اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ الخ یہ عمل کرنے کے واسطے ہے تاکہ اس پر عمل کرکے خدا تک انسان پہنچ جاوے۔ اور خدا سے پختہ پیوند و تعلق ہوجاوے اورمنازل سلوک طے ہوجاویں وغیرہ وغیرہ۔ ہاں صدقات و خیرات کا ثواب پہنچتا ہے۔ (الحکم مورخہ 14 تا 21 مئی 1919 صفحہ8)
جس کے ہاں ماتم ہو اُس کے ساتھ ہمدردی
حضرت کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ کیا یہ جائز ہے کہ جب کارِ قضا کسی بھائی کے گھر میں ماتم ہو جائے تو دوسرے دوست اپنے گھر میں اس کا کھانا تیارکریں۔فرمایا
نہ صرف جائز بلکہ برادرانہ ہمدردی کے راہ سے یہ ضروری ہے کہ ایسا کیا جاوے۔
(بدر11جولائی 1907ء صفحہ3)
کسی احمدی کا طاعون سے مرنا
فرمایا:۔
مخالفین کا یہ اعتراض کہ بعض ہماری جماعت کے آدمی طاعون سے کیوں مرتے ہیں بالکل ناجائز ہے ۔ ہم نے کبھی کوئی ایسی پیشگوئی نہیں کی کہ ہمارے ہاتھ پر بیعت کرنے والا کوئی شخص کبھی طاعون میں گرفتار نہ ہوگا۔ ہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ اول طبقہ کے لوگ اس قسم کی بیماری میں گرفتار ہو کر نہیں مرتے ۔ کوئی نبی ، صدیق ، ولی کبھی طاعون سے ہلاک نہیں ہوا۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بھی طاعون ہوئی تھی۔ مگر کیا حضرت عمرؓ پر بھی اس کاکوئی اثر ہوا تھا؟ عظیم الشان صحابہؓ میں سے کوئی طاعون میں گرفتار نہیں ہوا۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر گذرے ہیں ۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی طاعون سے مرا ہے ؟ ہاں اس میں شک نہیں کہ ایسی بیماری کے وقت بعض ادنیٰ طبقہ کے مومنین (طاعون۔ناقل) میں گرفتار ہوتے ہیں مگر وہ شہید ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی کمزوریوں اور گناہوں کو اس طرح سے غفر کرتا ہے جیسا کہ ان جہادوں میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ساتھ کئے۔ اگرچہ پہلے سے پیشگوئی تھی کہ ان جہادوں میں کفار جہنم میں گرائے جائیں گے ۔ تا ہم بعض مسلمان بھی قتل کئے گئے مگر اعلیٰ طبقہ کے صحابہ مثلاً حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ جیسوں میں سے کوئی شہیدنہیں ہوا، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے جنگ میں شہادت میں اعلیٰ درجہ کے لوگ شامل نہیں ہوتے اسی طرح طاعون میں بھی اگر ہماری جماعت کا کوئی آدمی گرفتار ہو جائے تو یہ اس کے واسطے شہادت ہے اور خدا تعالیٰ اس کا اس کو اجر دے گا۔ (بدر16مئی1907ء صفحہ3 )
احمدی شہید کا جنازہ فرشتے پڑھتے ہیں
ذکر تھاکہ بعض جگہ چھوٹے گائوں میں ایک ہی احمدی گھر ہے اور مخالف ایسے متعصب ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی احمدی مرجائے گا تو ہم جنازہ بھی نہ پڑھیں گے ۔ حضرت نے فرمایا کہ :۔
ایسے مخالفوں کا جنازہ پڑھا کر احمدی نے کیا لینا ہے ۔ جنازہ تو دُعا ہے ۔ جو شخص خود ہی خدا تعالیٰ کے نزدیک مَغْضُوْب عَلَیْھِم میں ہے۔ اس کی دُعا کا کیا اثر ہے؟ احمدی شہید کا جنازہ خود فرشتے پڑھیں گے ۔ ایسے لوگوں کی ہرگز پروانہ کرو اور اپنے خدا پر بھروسہ کرو۔
(بدر16مئی1907ء صفحہ3)
غیر احمدیوں کی نمازِ جنازہ پڑھنا
فرمایا:۔
اگر مُتوفّٰی بالجہر مکفّر اور مکذّب نہ ہو تو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ علّام الغیوب خدا کی پاک ذات ہے۔
فرمایا۔ جو لوگ ہمارے مکفّر ہیں اور ہم کو صریحًا گالیاں دیتے ہیں۔ اُن سے السلام علیکم مت لو اور نہ اُن سے مِل کر کھانا کھاؤ۔ ہاں خریدوفروخت جائز ہے اس میں کسی کا احسان نہیں۔
جو شخص ظاہر کرتا ہے کہ مَیں نہ اُدھر کا ہوں اور نہ اِدھر کا ہوں اصل میں وہ بھی ہمارا مکذّب ہے اور جو ہمارا مصدِّق نہیں اور کہتا ہے کہ مَیں ان کو اچھا جانتا ہوں۔ وہ بھی مخالف ہے ایسے لوگ اصل میں منافق طبع ہوتے ہیں۔ اُن کا یہ اصول ہوتا ہے کہ
بامسلماں اللہ اللہ بابرہمن رام رام
ان لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلّق نہیں ہوتا۔ بظاہر کہتے ہیں کہ ہم کسی کا دل دکھانانہیں چاہتے ۔ مگر یاد رکھو کہ جو شخص ایک طرف کا ہوگا اس سے کسی نہ کسی کا دل ضرور دُکھے گا۔
(البدر 24؍اپریل 1903ء صفحہ105)
ایک اور موقعہ پر آپؑ نے فرمایا
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منافق کو کُرتہ دیا اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھی ممکن ہے اس نے غرغرہ کے وقت توبہ کر لی ہو، مومن کا کام ہے کہ حسن ظن رکھے اسی لئے نماز جنازہ کا جواز رکھا ہے کہ ہر ایک کی پڑھ لی جاوے ہاں اگر کوئی سخت معاند ہو یا فساد کا اندیشہ ہے تو پھر نہ پڑھنی چاہئے ہماری جماعت کے سر پر فرضیت نہیں ہے بطور احسان کے ہماری جماعت دوسرے غیر ازجماعت کا جنازہ پڑھ سکتی ہے وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (التوبۃ : ۱۰۴)
اس میں صلوٰۃ سے مراد جنازہ کی نماز ہے اور سَکَنٌ لَّھُمْ دلالت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا گنہگار کو سکینت اور ٹھنڈک بخشتی تھی۔
(البدر14 نومبر1902ء صفحہ19 )
طاعون سے مرنے والے مخالفین کا جنازہ
ایک صاحب نے پوچھا کہ ہمارے گاؤں میں طاعون ہے اوراکثر مخالف مکذّب مرتے ہیں ان کا جنازہ پڑھا جاوے کہ نہ؟ فرمایا:۔
یہ فرض کفایہ ہے اگر کنبہ میں سے ایک آدمی بھی چلا جاوے تو ہوجاتا ہے ۔ مگر اب یہاں ایک تو طاعون زدہ ہے کہ جس کے پاس جانے سے خدا روکتا ہے ۔ دوسرے وہ مخالف ہے خواہ نخواہ تداخل جائز نہیں ہے۔ خدا فرماتا ہے کہ تم ایسے لوگوں کو بالکل چھوڑ دو اور اگر وہ چاہے گا تو اُن کو خود دوست بنا دے گا یعنی مسلمان ہوجاویں گے۔ خدا تعالیٰ نے منہاج نبوت پر اس سلسلہ کو چلایا ہے ۔ مداہنہ سے ہرگز فائدہ نہ ہوگا۔ بلکہ اپنا حصہ ایمان کا بھی گنواؤ گے۔ (البدر 15مئی 1903ء صفحہ130)
غیر احمدیوں کا جنازہ پڑھنے کا مسئلہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓفرماتے ہیں:۔
ایک سوال غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے متعلق کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک یہ مشکل پیش کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض صورتوں میں جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض حوالے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے اورایک خط بھی ملا ہے جس پر غور کیا جائے گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل اس کے برخلاف ہے۔ چنانچہ آپ کا ایک بیٹا فوت ہوگیا جو آپ کی زبانی طورپر تصدیق بھی کرتا تھا جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اورفرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے۔ ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اورشدت مرض میں مجھے غش آگیا۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رو رہا تھا۔ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھا لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے۔۔۔۔۔۔
قرآن شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو بظاہر اسلام لے آیا ہے لیکن یقینی طورپر اس کے دل کا کفر معلوم ہوگیا ہے تو اس کا جنازہ بھی جائز نہیں۔ پھر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا کس طرح جائز ہوسکتا ہے۔ (انوار خلافت ۔انوارالعلوم جلد 3 صفحہ149-148)
ایک اور موقع پر حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں :۔
کہا جاتا ہے کہ فلاں غیر احمدی کا جنازہ حضرت مسیح موعود ؑ نے پڑھایا تھا ۔ ممکن ہے آپ نے کسی کی درخواست پر پڑھایا ہو لیکن کوئی خدا کی قسم کھاکر کہہ دے کہ میں نے حضرت مسیح موعود ؑ کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہوگیا ہے ۔ آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کو کہا گیا کہ فلاں کا جنازہ پڑھ دیں اور آپ نے یہ سمجھ کر کہ وہ احمدی ہوگا پڑھ دیا۔ اس طرح ہوا ہوگا۔ میرے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ میں کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں سمجھتا۔ لیکن مجھے بھی اس طرح کی ایک بات پیش آئی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ایک طالب علم ہے ۔ اس نے مجھے کہا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اس کا جنازہ پڑھ دیں۔ میں نے پڑھ دیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غیر احمدی تھی۔ وہ لڑکا مجھ سے اپنی والدہ کے لئے دعا بھی کراتا رہا کہ وہ احمدی ہوجائے لیکن اس وقت مجھے یاد نہ رہا۔ اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی کا جنازہ پڑھ دیا تو وہ ہمارے لئے حجت نہیں ہے۔ ہاں اگر چند معتبر آدمی حلفیہ بیان کریں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہوگیا ہے۔ آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں اورپھر آپ نے پڑھ دیا تو ہم مان لیں گے۔ کیا کوئی ایسے شاہد ہیں۔
پس جب تک کوئی اس طرح نہ کرے یہ بات ثابت نہیں ہوسکتی کہ آپ نے کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز قراردیا ہے اورہمارے پاس غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ایک بہت بڑا ثبوت ہے اور وہ یہ کہ یہاں حضرت مسیح موعود ؑ کے اپنے بیٹے کی لاش لائی گئی اور آپ کو جنازہ پڑھنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے انکار کردیا۔ پھر سرسید کے جنازہ پڑھنے کے متعلق مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کا خط موجود ہے کہ آپ نے اس کا جنازہ نہیںپڑھا۔ کیا وہ آپ کو کافر کہتے تھے ہرگز نہیں۔ ان کا تو مذہب ہی یہ تھا کہ کوئی کافر نہیں ہے۔ جب ان کے جنازہ کے متعلق خط لکھا گیا تو جیسا کہ مولوی عبدالکریم صاحب نے مندرجہ ذیل خط میں ایک دوست کو تحریر فرماتے ہیں آپ نے اس پر خفگی کا اظہار فرمایا:۔
’’متوفّٰی کی خبر وفات سن کر خاموش رہے۔ ہماری لاہور جماعت نیمتفقًازورشور سے عرضداشت بھیجی کہ وہاں جنازہ پڑھا جائے اور پھر نوٹس دیا جائے کہ سب لوگ جماعت کے ہرشہر میں اسی تقلید پر جنازہ پڑھا جائے اور اس سے نوجوانوں کو یقین ہوگا کہ ہمارا فرقہ صلح کُل فرقہ ہے۔ اس پر حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ فرمایا اور لوگ نفاق سے کوئی کارروائی کریں تو بچ بھی جائیں مگر ہم پرتو ضرور غضبِ الٰہی نازل ہو۔ اور فرمایا ہم تو ایک محرک کے تحت میں ہیں۔بغیر اس کی تحریک کے کچھ نہیں کرسکتے نہ ہم کوئی کلمہ بد اس کے حق میں کہتے ہیں اور نہ کچھ اور کرتے ہیں۔ تفویض الی اللہ کرتے ہیں ۔ فرمایا جس تبدیلی کے ہم منتظر بیٹھے ہیں ۔ اگر ساری دنیا خوش ہوجائے اورایک خدا خوش نہ ہوتو کبھی ہم مقصود حاصل نہیں کرسکتے۔ ‘‘
(الفضل 28؍مارچ1915ء صفحہ8 )
پس ہم کس طرح کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز سمجھ سکتے ہیں۔
(تقریر جلسہ سالانہ 27دسمبر1916ء ۔انوارالعلوم جلد3صفحہ423-422)
مشتبہ الحال شخص کا جنازہ
سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:۔
اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں بُرا کہتا اور سمجھتا تھا تواس کا جنازہ نہ پڑھو، اوراگر خاموش تھا اور درمیانی حالت میں تھا تواس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے۔ بشرطیکہ نماز جنازہ کا امام تم میں سے کوئی ہوورنہ کوئی ضرورت نہیں۔
سوال ہوا کہ اگر کسی جگہ نماز کا امام حضور ؑ کے حالات سے واقف نہیں تواس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں۔ فرمایا
پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو۔ پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اُس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو۔ اوراگرکوئی خاموش رہے ، نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو وہ بھی منافق ہے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو۔
اگر کوئی ایسا آدمی مر جائے جو تم میں سے نہیں اوراس کا جنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے غیر لوگ موجود ہوں اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ تم میں سے کوئی جنازہ کا پیش امام بنے اور جھگڑے کا خطرہ ہو تو ایسے مقام کو تر ک کرو۔اور اپنے کسی نیک کام میں مصروف ہو جاؤ۔
(الحکم 30اپریل 1902ء صفحہ 7)
(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں مجلس افتاء نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل فتویٰ کی روشنی میں سفارش پیش کی جسے حضور ؓ نے منظور فرمایا )
مجلس کے نزدیک اس خط میں مشتبہ الحال شخص سے مراد ایسا شخص ہے جو اگرچہ باقاعدہ طورپر جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکذّب بھی نہ ہو بلکہ احمدیوں سے میل جول رکھتا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ان کی ہاں میں ہاں ملا کر ایک گونہ تصدیق کرتا ہوایسے شخص کے جنازہ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ظاہرًا کوئی حرج نہیں سمجھا۔ اگرچہ انقطاع کو بہتر قراردیا ہے۔
جماعت احمدیہ کا عمل ایسے شخص کے بارہ میں بھی حضور کے ارشاد کے آخری حصہ پر ہے۔ یعنی انقطاع کو بہرحال بہتر خیال کیا گیا ہے۔مناسب حالات میں پہلے حصے پر بھی عمل کرنے میں کچھ حرج نہیں (جس کی اجازت لی جاسکتی ہے) بشرطیکہ امام احمدیوں میں سے ہو۔ اگر نماز جنازہ میں امام احمدی نہ ہوسکتا ہو تو پھر ایسے شخص کے جنازہ کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط مؤرخہ ۲۳ ؍ فروری ۱۹۰۲ء
’’جو شخص صریح گالیاں دینے والا، کافر کہنے والا اورسخت مکذّب ہے اس کا جنازہ تو کسی طرح درست نہیں مگر جس شخص کا حال مشتبہ ہے گویامنافقوں کے رنگ میں ہے۔ اُس کے لئے کچھ ظاہرًا حرج نہیں ہے۔ کیونکہ جنازہ صرف دعا ہے اور انقطاع بہرحال بہتر ہے۔ ‘‘
(فیصلہ مجلس افتاء جسے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے منظور فرمایابحوالہ فرمودات مصلح موعودؓ صفحہ119)
کشفی قوت کے ذریعہ میّت سے کلام ہوسکتا ہے
حضرت مفتی محمد صادق ؓ صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑفرمایا کرتے تھے:۔
ارواح کا قبور سے تعلق ہے اور ہم اپنے ذاتی تجربہ سے کہتے ہیں کہ مُردوں سے کلام ہو سکتاہے۔ مگر اس کے لئے کشفی قوت اورحس کی ضرورت ہے ۔ ہر شخص کو یہ بات حاصل نہیں ۔ روح کا تعلق قبر کے ساتھ بھی ہوتا ہے اوررُوح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے ۔ جہاں اُسے ایک مقام ملتاہے۔ (ذکرِ حبیب حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ187)
مُردوں سے استفاضہ
ایک شخص نے سوال کیا کہ زندگی میں کسی مردے سے تعلق ہو یا مرید کا اپنے پیر سے ہو۔ کیا وہ بھی اس سے فیض پا لیتا ہے؟فرمایا :۔
صوفی تو کہتے ہیں کہ انسان مرنے کے بعد بھی فیض پاتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ زندگی میں ایک دائرہ کے اندر محدود ہوتا ہے اور مرنے کے بعد وہ دائرہ وسیع ہو جاتا ہے اس کے سب قائل ہیں چنانچہ یہاں تک بھی مانا ہے کہ حضرت عیسیٰ جب آسمان سے آئیں گے تو چونکہ وہ علومِ عربیہ سے ناواقف ہوں گے، کیا کریں گے؟ بعض کہتے ہیں کہ وہ علومِ عربیہ پڑھیں گے اور حدیث اور فقہ بھی پڑھیں گے۔بعض کہتے ہیں کہ یہ امر تو ان کے لیے موجب عار ہے کہ وہ کسی مولوی کے شاگرد ہوں۔اس لیے مانا ہے کہ آنحضرت ﷺکی قبر میں بیٹھیں گے اور وہاں بیٹھ کر استفا ضہ کریں گے۔ مگر اصل میں یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ مگر اس سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ قبور سے استفاضہ ہو سکتا ہے لیکن یہ یاد رہے کہ یہ امر بطریق شرک نہ ہو جیسا کہ عام طو رپر دیکھا جاتا ہے۔ (الحکم 10دسمبر1905ء صفحہ2تا4)
نعش کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا
حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ تحریر کرتے ہیں کہ :۔
مرزا ایوب بیگ صاحب ایک ہی ایسے خوش نصیب آدمی ہیں جن کی وفات مقبرہ بہشتی کے قیام سے کئی سال پہلے ہو چکی تھی مگر حضرت صاحب نے اجازت دی کہ ان کی ہڈیاں فاضلکا ضلع فیروز پور سے صندوق میں لاکر مقبرہ بہشتی میں دفن کی جائیں۔اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں بلند درجات نصیب کرے۔ (ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ7 حاشیہ)
امانتًا دفن شدہ میت کا چہرہ دیکھنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی خدمت میں کسی نے سوال کیا کہ میری والدہ کی وفات پر تقریبًا چھ مہینے گزر چکے ہیں۔ اب تابوت ربوہ لانے کا ارادہ ہے۔ وفات کے وقت میں گھر پر موجود نہیں تھا کیا اب تابوت کھول کر چہرہ دیکھ سکتا ہوں؟
جواب:۔ فرمایا۔ دیکھنے کی اجازت ہوتی ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مرزا ایوب بیگ کی نعش کو دیکھنے کی اجازت دی تھی اور وہ تابوت میں بھی نہ تھی مگر لاش کی حالت کے متعلق ڈاکٹر بتا سکتا ہے، مفتی نہیں بتا سکتا۔ اگر لاش کی حالت خراب ہو تو اس سے بُرا اثر پڑتا ہے۔
( فرمودات مصلح موعودؓ دربارہ فقہی مسائل صفحہ131)
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی کی نعش کو جب قبرستان میں سے نکال کر بہشتی مقبرہ میں دفن کیا گیاتو اس وقت بھی بعض لوگوں نے چہرہ دیکھنے کی خواہش کی۔ چنانچہ حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ تحریرکرتے ہیں کہ :۔
جس دن مولوی عبدالکریم سیالکوٹی کا جنازہ نکالا اور مقبرہ بہشتی میں لے جانے کا ارادہ کیا تو بہت سے لوگوں نے درخواست کی کہ جنازہ صندوق کے اندر سے دیکھ لیں۔ ۔۔۔ مگر آپؑ نے اس بات کو پسند نہ فرمایا۔ جب انہوں نے بہت ہی اصرار کیا تو آپؑ نے کراہت سے اجازت دی مگر مجھے یہ بات نہیں معلوم کہ انہوں نے دیکھا یا نہ دیکھا کیونکہ میں بھی اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ ایک لغوامر ہے جس کے پیچھے یہ پڑے ہوئے ہیں اور حضرت اقدس علیہ السلام کی نافرمانی بھی تھی۔ ( الحکم مؤرخہ 14تا21مئی 1919صفحہ7)
تدفین کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ سیالکوٹی کی نعش جس دن قبرستان سے نکال کر بہشتی مقبرہ میں دفن کی گئی تو اس دن آپ ؑ نے جنازہ نکالنے سے قبل ہاتھ اُٹھاکر قبر کے پاس کھڑے ہوکر دعا کی اور دفن کرنے کے بعد بھی ہاتھ اُٹھاکر دعا کی۔ (الحکم 14 تا21 مئی 1919ء صفحہ7)
روزہ اور رمضان
فرمایا :
اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو، اورہرایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اورجس پرحج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ15)
رؤیت ہلال
خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا مثلاً روزہ رکھنے کیلئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہوگا یا تیس کا۔ تب تک رویت کا ہرگز اعتبار نہ کرو اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالایطاق ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں سو یہ بڑی سیدھی بات اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رویت پر مدار رکھیں صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقت میں عندالعقل رویت کو قیاساتِ ریاضیہ پر فوقیت ہے۔ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رویت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی ایجادکئے اور بذریعہ رویت تھوڑے ہی دنوں میں اجرام علوی و سفلی کے متعلق وہ صداقتیں معلوم کرلیں کہ جو ہندوئوں بیچاروں کو اپنی قیاسی اٹکلوں سے ہزاروں برسوں میں بھی معلوم نہیں ہوئی تھیں اب آپ نے دیکھا کہ رویت میں کیا کیا برکتیں ہیں انہیں برکتوں کی بنیاد ڈالنے کے لئے خدائے تعالیٰ نے رویت کی ترغیب دی۔ ذرہ سوچ کرکے دیکھ لو کہ اگر اہل یورپ بھی رویت کو ہندوئوں کی طرح ایک ناچیز اور بے سود خیال کرکے اور صرف قیاسی حسابوں پر جو کسی اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھ کر لکھے گئے مدار رکھتے تو کیونکر یہ تازہ اور جدید معلومات چاند اور سورج اور نئے نئے ستاروں کی نسبت انہیں معلوم ہوجاتے سو مکرر ہم لکھتے ہیں کہ ذرا آنکھ کھول کر دیکھو کہ رویت میں کیا کیا برکات ہیں اور انجام کار کیا کیا نیک نتائج اس سے نکلتے ہیں۔
(سرمہ چشمِ آریہ ۔ روحانی خزائن جلد2صفحہ192،193)
چاند دیکھنے میں غلطی ہو جائے تو کیا کریں؟
سیالکوٹ سے ایک دوست نے دریافت کیا ہے کہ یہاں چاند منگل کی شام کو نہیں دیکھا گیا بلکہ بدھ کو دیکھا گیا ہے (جبکہ رمضان بدھ کو شروع ہوچکا تھا۔ ناقل) اس واسطے پہلا روزہ جمعرات کو رکھا گیا تھا۔ اب ہم کو کیا کرنا چاہئے؟ فرمایا :
’’ اس کے عوض میں ماہ رمضان کے بعد ایک اور روزہ رکھنا چاہئے۔ ‘‘
(بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7)
چاند دیکھنے کی گواہی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ماہ رمضان کا روزہ خود چاند دیکھ کر تو نہیں بعض غیر احمدیوں کی شہادت پر روزہ رکھ لیااور اسی دن (ہم) قادیان قریبًا ظہر کے وقت پہنچے اوریہ ذکر کیا کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے اور حضور علیہ السلام بھی مسجد میں تشریف لے آئے۔اسی وقت احادیث کی کتابیں مسجد میں ہی منگوائی گئیں اور بڑی توجہ سے غورہونا شروع ہو گیا کیونکہ قادیان میں اس روز روزہ نہیں رکھا ہوا تھا۔ اسی دوران میں ہم سے سوال ہوا کہ ’’ کیا چاند تم نے خود دیکھ کر روزہ رکھا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ’’ بعض غیراحمدیوں نے دیکھا تھا۔‘‘ ہمارے اس فقرے کے کہنے پر کہ ’’چاند غیر احمدیوں نے دیکھا تھا‘‘ کتاب کو تہہ کردیا اور فرمایا کہ ’’ ہم نے سمجھا تھا کہ تم نے خود چاند دیکھ کر روزہ رکھا ہے۔ اس لئے تحقیقات شروع کی تھی۔‘‘
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ265)
سحری میں تاخیر
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میں قادیان میں مسجد مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا ۔ میں ایک دفعہ سحری کھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے۔ دیکھ کر فرمایا۔ آپ دال سے روٹی کھاتے ہیں ؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟یہاں ہمارے جس قدر احباب ہیں وہ سفر میں نہیں۔ ہر ایک سے معلوم کرو کہ اُن کو کیا کیا کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند کرتے ہیں۔ ویسا ہی کھاناان کے لئے تیار کیا جائے ۔ پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لایا مگر میں کھانا کھا چکا تھا اور اذان بھی ہو گئی تھی۔ حضور نے فرمایا کھالو۔ اذان جلد دی گئی ہے۔ اس کا خیال نہ کرو۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ127)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۵ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفا ق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے ۔ جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک اوردوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراء ت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اکثر پڑھتے تھے۔ اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سُن سکتا تھا نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اوراس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے اذان ہوجاتی تھی اور آپ بعض اوقات اذان کے ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ دراصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب تک صبح صادق افق مشرق سے نمودار نہ ہوجائے سحری کھانا جائز ہے اذان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ صبح کی اذان کا وقت بھی صبح صادق کے ظاہر ہونے پر مقرر ہے ۔ اس لئے لوگ عمومًا سحری کی حد اذان ہونے کو سمجھ لیتے ہیں ۔ قادیان میں چونکہ صبح کی اذان صبح صادق کے پھوٹتے ہی ہو جاتی ہے بلکہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی اور بے احتیاطی سے اس سے بھی قبل ہوجاتی ہو۔اس لئے ایسے موقعوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اذان کا چنداں خیال نہ فرماتے تھے اور صبح صادق کے تبیّن تک سحری کھاتے رہتے تھے اور دراصل شریعت کا منشاء بھی اس معاملہ میں یہ نہیں ہے کہ جب علمی اور حسابی طورپرصبح صادق کا آغاز ہواس کے ساتھ ہی کھانا ترک کر دیا جاوے بلکہ منشاء یہ ہے کہ جب عام لوگوں کی نظر میں صبح کی سفیدی ظاہر ہو جاوے اس وقت کھانا چھوڑ دیا جاوے۔چنانچہ تبیّن کا لفظ اسی بات کو ظاہر کررہا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال کی اذان پر سحری نہ چھوڑا کرو بلکہ ابن مکتوم کی اذان تک بیشک کھاتے پیتے رہا کرو۔ کیونکہ ابن مکتوم نابینا تھے اور جب تک لوگوں میں شور نہ پڑ جاتا تھا کہ صبح ہوگئی ہے، صبح ہوگئی ہے اس وقت تک اذان نہ دیتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ295،296)
سحری کے وقت احتیاط کی ایک مثال
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک نے مجھ سے بیان کیا۔ کہ ایک دفعہ ماہ رمضان میں سحری کے وقت کسی شخص نے اصل وقت سے پہلے اذان دے دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لے آئے اورفرمایا کہ میں نے دودھ کا گلاس منہ کے قریب کیا ہی تھا کہ اذان کی آواز آئی۔ اس لئے وہ گلاس مَیں نے وہیںرکھ دیا۔ کسی شخص نے عرض کی۔ کہ حضور ابھی تو کھانے پینے کا وقت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا دل نہیں چاہتا کہ بعد اذان کچھ کھایا جائے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ روایت اگر درست ہے تو حضور نے اس وقت اپنی ذات کے لئے یہ احتیاط برتی ہوگی۔ ورنہ حضور کا طریق یہی تھا کہ وقت کا شمار اذان سے نہیں بلکہ سحری کے نمودار ہونے سے فرماتے تھے۔ اوراس میں بھی اس پہلو کو غلبہ دیتے تھے کہ فجر واضح طورپرظاہر ہوجاوے۔ جیسا کہ قرآنی آیت کا منشاء ہے مگر بزرگوں کا قول ہے کہ فتویٰ اور ہے اور تقویٰ اور۔ (سیرت المہدی جلد 1صفحہ520)
سفر میں روزہ ، حکم ہے اختیار نہیں
آپ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟آپ نے فرمایا کہ:
قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍِ اُخَرَ (البقرۃ : ۱۸۵) یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔اس میں امر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایاکہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے۔میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پر اکثر لوگ رکھ لیتے ہیںاس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر عِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ کا پھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔
اس پر مولوی نور الدین صاحبؓ نے فرمایا کہ یوں بھی توانسان کو مہینے میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں۔
ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدس نے بھی فرمایاتھا کہ سفر میں تکالیف اٹھا کرجو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زور بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا۔یہ غلطی ہے۔اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے۔
(الحکم31جنوری 1899ء صفحہ7)
مسافر اور مریض روزہ نہ رکھیں
حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ معلوم کر کے کہ لاہور سے شیخ محمد چٹو آئے ہیں اور احباب بھی آئے ہیں۔ محض اپنے خلق عظیم کی بناء پر باہر نکلے غرض یہ تھی کہ باہر سیر کو نکلیں گے۔ احباب سے ملاقات کی تقریب ہوگی۔ چونکہ پہلے سے لوگوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ حضرت اقدس باہر تشریف لائیں گے اس لئے اکثر احباب چھوٹی مسجد میں موجود تھے۔ جب حضرت اقدس اپنے دروازے سے باہر آئے تومعمول کے موافق خدام پر وانہ وار آپ کی طرف دوڑے ۔ آپ نے شیخ صاحب کی طرف دیکھ کر بعد سلام مسنون فرمایا:۔
حضرت اقدس ۔ آپ اچھی طرح سے ہیں ؟ آپ تو ہمارے پرانے ملنے والوں میں سے ہیں۔
بابا چٹو۔ شکر ہے۔
حضرت اقدس:۔ (حکیم محمد حسین قریشی کو مخاطب کر کے )یہ آپ کا فرض ہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ان کے کھانے ٹھہرنے کا پورا انتظام کردو۔ جس چیز کی ضرورت ہو مجھ سے کہو اور میاں نجم الدین کو تاکید کردو کہ ان کے کھانے کے لئے جو مناسب ہو اور پسند کریں وہ تیار کرے۔
حکیم محمد حسین :۔ بہت اچھا حضور۔ انشاء اللہ کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔
حضرت اقدس:۔ (بابا چٹو کو خطاب کر کے ) آپ تو مسافر ہیں۔ روزہ تو نہیں رکھا ہوگا؟
بابا چٹو:۔ نہیں مجھے تو روزہ ہے میں نے رکھ لیا ہے ۔
حضرت اقدس:۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن شریف کی رخصتوں پر عمل کرنا بھی تقویٰ ہے۔ خدا تعالیٰ نے مسافر اور بیمار کو دوسرے وقت رکھنے کی اجازت اور رخصت دی ہے اس لئے اس حکم پربھی تو عمل رکھنا چاہیے۔ میں نے پڑھا ہے کہ اکثر اکابر اس طرف گئے ہیں کہ اگر کوئی حالت سفر یا بیماری میں روزہ رکھتا ہے تو یہ معصیت ہے۔ کیوں کہ غرض تو اللہ تعالیٰ کی رضاہے نہ اپنی مرضی اور اللہ تعالیٰ کی رضا فرمانبرداری میں ہے جو حکم وہ دے اس کی اطاعت کی جاوے اور اپنی طرف سے اس پر حاشیہ نہ چڑھایا جاوے۔ اس نے تو یہی حکم دیا ہے مَنْ کَانَ مِنْکُمْْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرْ (البقرہ:۱۸۵) اس میں کوئی قید اور نہیں لگائی کہ ایسا سفر ہو یاا یسی بیماری ہو ۔ میں سفر کی حالت میں روزہ نہیں رکھتا اور ایسا ہی بیماری کی حالت میں۔ چنانچہ آج بھی میری طبیعت اچھی نہیں اور میں نے روزہ نہیں رکھا۔ چلنے پھرنے سے بیماری میں کچھ کمی ہوتی ہے اس لئے باہر جائوں گا۔ کیا آپ بھی چلیں گے۔
بابا چٹو:۔ نہیں میں تو نہیں جاسکتا۔ آپ ہو آئیں۔ یہ حکم تو بے شک ہے مگر سفر میں کوئی تکلیف نہیں پھر کیوں روزہ نہ رکھا جاوے۔
حضرت اقدس:۔ یہ تو آپ کی اپنی رائے ہے ۔ قرآن شریف نے تو تکلیف یا عدم تکلیف کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اب آپ بہت بوڑھے ہوگئے ہیں۔ زندگی کا اعتبار کچھ نہیں۔ انسان کو وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوجاوے اور صراط مستقیم مل جاوے۔
بابا چٹو:۔ میں تو اسی لئے آیا ہوں کہ آپ سے کچھ فائدہ اٹھائوں۔ اگر یہی راہ سچی ہے تو ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت ہی میں مرجاویں۔
حضرت اقدس:۔ ہاں یہ بہت عمدہ بات ہے۔ میں تھوڑی دور ہو آئوں ۔ آپ آرام کریں۔ (یہ کہہ کر حضرت اقدس سیر کو تشریف لے گئے۔ ) (الحکم 31جنوری 1907ء صفحہ14)
بیمار اور مسافر کے روزہ رکھنے کا ذکر تھا ۔حضرت مولوی نورالدین صاحب نے فرمایا کہ شیخ ابن عربی کا قول ہے کہ اگر کوئی بیمار یا مسافر روزہ کے دنوں میں روزہ رکھ لے تو پھر بھی اسے صحت پانے پر ماہ رمضان کے گذرنے کے بعد روزہ رکھنا فرض ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍِ فَعِدَّ ۃٌ مّنْ اَیَّامٍِ اُخَرَ ( البقرۃ : ۱۸۵)جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو وہ ماہ رمضان کے بعد کے دنوں میں روزے رکھے ۔اس میں خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جو مریض یا مسافر اپنی ضد سے یا اپنے دل کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے انہی ایام میں روزے رکھے تو پھر بعد میں رکھنے کی اس کو ضرورت نہیں ۔ خد تعالیٰ کا صریح حکم یہ ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھے ۔بعد کے روزے اس پر بہر حال فرض ہیں ۔ درمیان کے روزے اگر وہ رکھے تو یہ امرز ائد ہے اور اس کے دل کی خواہش ہے ۔ اس سے خدا تعالیٰ کا وہ حکم جو بعد میں رکھنے کے متعلق ہے ٹل نہیں سکتا ۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ :۔
جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہِ صیام میں روزہ رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے ۔خدا تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے ۔ خدا تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات فضل سے ہے نہ کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حا صل کر سکتا ہے ۔ خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہئے، مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے توا ن پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔ (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
ظہر کے وقت روزے کھلوادئیے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور علیہ السلام لدھیانہ تشریف لائے۔ رمضان شریف کا مہینہ تھا۔۔۔۔ ہم سب غوث گڑھ سے ہی روزہ رکھ کر لدھیانہ گئے تھے۔ حضور نے والد صاحب مرحوم سے خود دریافت فرمایا، یا کسی اور سے معلوم ہوا(یہ مجھے یاد نہیں) کہ یہ سب غوث گڑھ سے آنے والے روزہ دار ہیں ۔ حضور ؑ نے فرمایا میاں عبداللہ! خدا کا حُکم جیسا روزہ رکھنے کا ہے ویسا ہی سفر میں نہ رکھنے کا ہے۔ آپ سب روزے افطار کردیں۔ ظہر کے بعد کا یہ ذکر ہے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ125)
عصر کے بعد روزہ کھلوادیا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے کہ اوائل زمانہ کی بات ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں کوئی مہمان یہاں حضرت صاحب کے پاس آیا۔ اسے اس وقت روزہ تھا اور دن کا زیادہ حصہ گذر چکا تھا بلکہ شاید عصر کے بعد کا وقت تھا۔حضرت صاحب نے اسے فرمایاآپ روزہ کھول دیں۔ اس نے عرض کیا کہ اب تھوڑا سادن رہ گیا ہے۔ اب کیا کھولنا ہے۔ حضور ؑنے فرمایا آپ سینہ زوری سے خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سینہ زوری سے نہیں بلکہ فرمانبرداری سے راضی ہوتا ہے۔ جب اس نے فرمادیا ہے کہ مسافر روزہ نہ رکھے تو نہیں رکھنا چاہیے۔اس پر اس نے روزہ کھول دیا۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ97)
سفر میں روزہ رکھنے پر روزہ کھلوا دیا
حضرت منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی تحریر کرتے ہیں کہ :۔
ایک مرتبہ میں اور حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت خان صاحب محمد خاں صاحب لدھیانہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اورمیرے رفقاء نے نہیں رکھا تھا۔ جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تو تھوڑا سا وقت غروب آفتاب میں باقی تھا۔ حضرت کو انہوں نے کہا کہ ظفر احمد نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ حضرت فوراً اندر تشریف لے گئے اور شربت کا ایک گلاس لے کر آئے اورفرمایا روزہ کھول دو۔ سفر میں روزہ نہیں چاہئے۔میں نے تعمیل ارشاد کی اوراس کے بعد بوجہ مقیم ہونے کے ہم روزہ رکھنے لگے۔ افطاری کے وقت حضرت اقدس خود تین گلاس ایک بڑے تھال میں رکھ کر لائے۔ ہم روزہ کھولنے لگے۔میں نے عرض کیا کہ حضور منشی جی کو (منشی اروڑے خاں صاحب کو) ایک گلاس میں کیا ہوتا ہے۔حضرت مسکرائے اورجھٹ اندر تشریف لے گئے۔ اور ایک بڑا لوٹا شربت کا بھر کر لائے اورمنشی جی کو پلایا۔ منشی جی یہ سمجھ کر حضرت اقدس کے ہاتھ سے شربت پی رہا ہوں پیتے رہے اور ختم کردیا۔
(روایت حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی ؓ اصحاب احمد جلد4صفحہ224نیا ایڈیشن )
سفر میں روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دکاندار محلّہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھاریوال میں جانا پڑا۔ گرمی کا موسم تھا اوررمضان کا مہینہ تھا۔ بہت دوست اردگرد سے موضع دھاریوال میں گئے اور بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے۔ وہاں ایک مشہور سردارنی نے جو موضع کھنڈے میں مشہور سرداروں میں سے ہے حضور کی خدمت اقدس میں دعوت کا پیغام بھیجا۔ حضور نے دعوت منظور فرمائی۔ سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت دی۔ بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی ۔ فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ چنانچہ اس وقت سب دوستوں نے روزے چھوڑدئیے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ303)
سفر میں رخصت، ملامت کی پرواہ نہ کی
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ملک مولا بخش صاحب پنشنر نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رمضان شریف میں امرتسر میں تشریف لائے اور آپ کا لیکچر منڈوہ بابو گھنیا لعل(جس کا نام اب بندے ماترم پال ہے) میں ہوا۔ بوجہ سفر کے حضور کو روزہ نہ تھا لیکچر کے دوران مفتی فضل الرحمن صاحب نے چائے کی پیالی پیش کی۔ حضور نے توجہ نہ فرمائی پھر وہ اور آگے ہوئے ۔ پھر بھی حضور مصروفِ لیکچر رہے۔ پھر مفتی صاحب نے پیالی بالکل قریب کردی تو حضور نے لے کر چائے پی لی اس پر لوگوں نے شور مچادیا۔ یہ ہے رمضان شریف کا احترام ، روزے نہیں رکھتے اوربہت بکواس کرنا شروع کردیا۔ لیکچر بند ہوگیا اور حضور پس پردہ ہوگئے۔ گاڑی دوسرے دروازے کے سامنے لائی گئی اور حضوراس میں داخل ہوگئے۔ لوگوں نے اینٹ پتھر وغیرہ مارنے شروع کئے اوربہت ہلّڑ مچایا۔ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیامگر حضور بخیر وعافیت قیام گاہ پر پہنچ گئے اوربعد میں سنا گیا کہ ایک غیر احمدی مولوی یہ کہتا تھا کہ ’’ اَج لوکاں نے مرزے نوں نبی بنادِتّا‘‘ یہ میں نے خود اس کے منہ سے نہیں سُنا۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے ساتھ ہم باہر نکلے اوران کی خدمت میں عرض کی کہ لوگ اینٹ پتھر مارتے ہیں۔ ذرا ٹھہر جائیں ۔ تو آپ نے فرمایا وہ گیا جس کو مارتے تھے۔ مجھے کون مارتا ہے۔ چونکہ مفتی فضل الرحمن صاحب کے چائے پیش کرنے پر یہ سب گڑبڑ ہوئی تھی۔ اس لئے سب آدمی ان کو کہتے تھے کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔ میں نے بھی ان کو ایسا کہا۔ وہ بیچارے تنگ آگئے اور بعد میں میاں عبدالخالق صاحب مرحوم احمدی نے مجھے بتلایا کہ جب یہ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا کہ مفتی صاحب نے خواہ مخواہ لیکچر خراب کردیا تو حضور نے فرمایا: مفتی صاحب نے کوئی بُرا کام نہیں کیا، اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے فعل سے اس حکم کی اشاعت کا موقع پیدا کردیا۔ پھر تو مفتی صاحب شیر ہوگئے۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ147)
مسافر کا حالتِ قیام میں روزہ رکھنا
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں :
سوال پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے روزہ کے متعلق یہ فتویٰ دیا ہے کہ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔
ادھر الفضل میں میرایہ اعلان شائع کیا گیا ہے کہ احمدی احباب جو سالانہ جلسہ پر آئیں وہ یہاں آکر روزے رکھ سکتے ہیں مگر جو نہ رکھیں اور بعد میں رکھیں ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔
اس کے متعلق اول تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میرا کوئی فتویٰ الفضل میں شائع نہیں ہوا ۔ ہاں ایک فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا میری روایت سے چھپا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں ،مَیں سفر میں روزہ رکھنے سے منع کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے دیکھا مرزا یعقوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اورانہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جبکہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر روزہ کھلوا دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا ناجائز ہے۔ اس پر اتنی لمبی بحث اورگفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اولؓ نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر لگ جائے۔ اس لئے آپ ابن عربی کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کرکے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں۔
اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان میں مولوی عبداللہ صاحب سنوری یہاں رمضان گزارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں مگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اورانہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے ۔ اس دوران میں ،مَیں روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے۔ گو مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اورلوگوں کی اس بارے میں شہادت لی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے۔ البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا۔پھر جب اس دفعہ رمضان میں سالانہ جلسہ آنے والا تھا اور سوال اُٹھا کہ آنے والوں کو روزہ رکھنا چاہئے یا نہیں تو ایک صاحب نے بتایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب جلسہ رمضان میں آیا توہم نے خود مہمانوں کو سحری کھلائی تھی۔ان حالات میں جب میں نے یہاں جلسہ پر آنے والوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی فتویٰ ہے۔پہلے علماء تو سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز قراردیتے رہے ہیںاور آج کل کے سفر کو تو غیر احمدی مولوی سفر ہی نہیں قرار دیتے، لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا۔پھر آپ نے ہی یہ بھی فرمایاکہ یہاں قادیان میں آکر روزہ رکھنا جائز ہے۔ اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کا ایک فتویٰ تولے لیں اور دوسراچھوڑدیں۔
(الفضل 4؍جنوری1934ء صفحہ4-3)
(اس مسئلہ پر سیرت المہدی سے بھی ایک روایت ملتی ہے)
حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریرکرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ۱۹۰۳ء کاذکر ہے کہ میں اور ڈاکٹر صاحب مرحوم رُڑکی سے آئے۔ چاردن کی رخصت تھی۔حضور ؑ نے پوچھا: ’’سفرمیں توروزہ نہیں تھا؟‘‘ ہم نے کہا نہیں۔ حضور ؑ نے ہمیں گلابی کمرہ رہنے کو دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا :ہم روزہ رکھیں گے۔ آپؑ نے فرمایا ’’ بہت اچھا! آ پ سفر میں ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ حضور ؑ! چند روز قیام کرناہے دل چاہتا ہے روزہ رکھوں۔ آپؑ نے فرمایا۔ ’’ اچھا!ہم آپ کو کشمیری پراٹھے کھلائیں گے۔‘ ‘ ہم نے خیال کیا کشمیری پراٹھے خدا جانے کیسے ہوں گے؟ جب سحری کا وقت ہوا اورہم تہجد و نوافل سے فار غ ہوئے اور کھانا آیا تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود گلابی کمرے میں تشریف لائے۔ (جو کہ مکان کی نچلی منزل میں تھا) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مکان کی اوپر والی تیسری منزل پر رہا کرتے تھے۔ ان کی بڑی اہلیہ کریم بی بی صاحبہ جن کو مولویانی کہا کرتے تھے۔ کشمیری تھیں اورپراٹھے اچھے پکایا کرتی تھیں۔ حضور ؑ نے یہ پراٹھے ان سے ہمارے واسطے پکوائے تھے۔ پراٹھے گرما گرم اوپر سے آتے تھے اورحضور علیہ السلام خود لے کر ہمارے آگے رکھتے تھے اورفرماتے تھے۔ ’’ اچھی طرح کھاؤ۔‘‘ مجھے تو شرم آتی تھی اورڈاکٹر صاحب بھی شرمسار تھے مگر ہمارے دلوں پر جو اثر حضور ؑ کی شفقت اور عنایت کا تھا اس سے روئیں روئیں میں خوشی کا لرزہ پیدا ہورہا تھا۔ اتنے میں اذان ہوگئی تو حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ اورکھاؤ ،ابھی بہت وقت ہے ۔‘‘ فرمایا : ’’ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : کُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ (البقرۃ:۱۸۸)اس پر لوگ عمل نہیں کرتے۔آپ کھائیں ابھی وقت بہت ہے ۔ مؤذن نے وقت سے پہلے اذان دے دی ہے۔ ‘‘ جب تک ہم کھاتے رہے حضور ؑ کھڑے رہے اورٹہلتے رہے۔ ہر چند ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضورؑ تشریف رکھیں ،میں خود خادمہ سے پراٹھے پکڑلوں گا یا میری بیوی لے لیں گی مگر حضورؑ نے نہ مانا اور ہماری خاطر تواضع میں لگے رہے۔ اس کھانے میں عمدہ سالن اور دودھ سویاں وغیرہ کھانے بھی تھے۔
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ202،203)
حضرت سید محمد سرورشاہ صاحب تحریرفرماتے ہیں :۔
روزوں کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص نے ایک جگہ پر تین دن سے زائد اقامت کرنی ہوتو پھر وہ روزے رکھے اور اگر تین دن سے کم اقامت کرنی ہو تو روزے نہ رکھے اور اگر قادیان میں کم دن ٹھہرنے کے باوجود روزے رکھ لے تو پھر روزے دوبارہ رکھنے کی ضرورت نہیں۔ (فتاوٰی حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب رجسٹر نمبر5دارالافتاء ربوہ)
بیمار ہونے پر روزہ کھول دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ لدھیانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رمضان کا روزہ رکھاہوا تھا کہ دل گھٹنے کا دَورہ ہوا اورہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے۔ اس وقت غروبِ آفتاب کا وقت بہت قریب تھا مگر آپ نے فورًا روزہ توڑدیا۔ آپ ہمیشہ شریعت میں سہل راستہ کو اختیارفرمایا کرتے تھے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ حدیث میں حضرت عائشہؓ کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی یہی ذکر آتا ہے کہ آپ ہمیشہ دو جائز رستوں میں سے سہل رستہ کو پسند فرماتے تھے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ637)
معمولی بیماری میں روزہ رکھنے کی اجازت
حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ :۔
ایک دفعہ میں نے رمضان شریف کا آخری عشرہ قادیان میں گذارا۔ ان دنوں میں حضور علیہ السلام کو تپ لرزہ یومیہ آتا تھا۔ ظہر کے بعد لرزہ سے تپ ہوجاتا تھا۔ اس لئے ظہر کے وقت حضور جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے اور باقی نمازوں میں شریک نہیں ہوسکتے تھے۔ ظہر سے پہلے کبھی کبھی بانتظار نمازیاں بیٹھتے تھے۔میری عادت تھی کہ میں ضرور اس جگہ پہنچ جایا کرتا تھا جہاں حضور بیٹھتے تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں دور رہا ہوں ۔ اگر ایسا اتفاق ہوتا بھی جو صرف ایک دفعہ ہوا تو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی سامان کردیتا کہ میں قریب پہنچ جاؤں۔ غرض جب حضور ظہر کی نماز کے واسطے تشریف لاتے میں طبیعت کا حال دریافت کرتا تو فرماتے کہ سردی معلوم ہو رہی ہے۔ بعض دفعہ فرماتے کہ نماز پڑھو۔ سردی زیادہ معلوم ہورہی ہے مگر باوجود علالت کے حضور روزہ برابر رکھتے تھے ۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ تپ کی تکلیف ہے اور کئی دن ہوگئے ہیں۔ اگر روزہ افطار کردیا(یعنی بوقت بخار کھول یا توڑ لیا )کریں(تو بہتر ہو) فرمایا کہ روزہ کی وجہ سے کچھ تکلیف محسوس نہیں ہوتی ہے بلکہ آرام معلوم ہوتا ہے۔ بھوک پیاس کچھ معلوم نہیں ہوتی۔ رات کو البتہ کچھ زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے روزہ رکھ لیتا ہوں۔ صبح کو تپ اتر جاتا تھا تو حضور سیر کو تشریف لے جایا کرتے تھے۔(قلمی کاپی صفحہ ۵۲تا۵۴)
(اصحابِ احمد جلد10صفحہ397،398نیا ایڈیشن روایت حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب )
بیماری میں روزہ کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کا معمول
حضرت مصلح موعود ؓ سے سوال پوچھا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام چونکہ بیماررہتے تھے کیا روزہ رکھتے تھے؟ آپؓ نے فرمایا:
حضرت صاحب خوب روزہ رکھتے تھے مگر چونکہ آخر میں کمزور زیادہ ہو گئے تھے اورمرض میں بھی زیادتی تھی اس لئے تین سال کے روزے نہیں رکھے، یعنی ۵،۶،۷ (۱۹۰۵، ۱۹۰۶ اور ۱۹۰۷ء مراد ہے۔ ناقل)
(الفضل 12جون1922ء صفحہ7)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نیبیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو دورے پڑنے شروع ہوئے تو آپ نے اس سال سارے رمضان کے روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔ دوسرا رمضان آیا تو
آپ نے روزے رکھنے شروع کئے مگر آٹھ نو روزے رکھے تھے کہ پھر دَورہ ہوا۔ اس لئے باقی چھوڑ دئیے اور فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعد جو رمضان آیاتو اس میں آپ نے دس گیارہ روزے رکھے تھے کہ پھر دورہ کی وجہ سے روزے ترک کرنے پڑے اور آپ نے فدیہ ادا کردیا۔ اس کے بعدجو رمضان آیاتو آپ کا تیرھواں روزہ تھا کہ مغرب کے قریب آپ کو دورہ پڑا اور آپ نے روزہ توڑ دیا اور باقی روزے نہیں رکھے اور فدیہ ادا کردیا۔اس کے بعد جتنے رمضان آئے آپ نے سب روزے رکھے مگر پھر وفات سے دو تین سال قبل کمزوری کی وجہ سے روزے نہیں رکھ سکے اور فدیہ ادا فرماتے رہے۔ خاکسار نے دریافت کیا کہ جب آپ نے ابتدا دوروں کے زمانہ میں روز ے چھوڑے تو کیا پھر بعد میں ان کو قضاء کیا؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ نہیں صرف فدیہ ادا کردیا تھا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب شروع شروع میں حضرت مسیح موعود ؑ کو دورانِ سر اور بردِاطراف کے دورے پڑنے شروع ہوئے تو اس زمانہ میں آپ بہت کمزور ہوگئے تھے اور صحت خراب رہتی تھی اس لئے جب آپ روزے چھوڑتے تھے تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ پھر دوسرے رمضان تک ان کے پورا کرنے کی طاقت نہ پاتے تھے مگر جب اگلا رمضان آتا تو پھرشوق عبادت میں روزے رکھنے شروع فرمادیتے تھے لیکن پھر دورہ پڑتا تھا تو ترک کردیتے تھے اوربقیہ کا فدیہ ادا کردیتے تھے۔ واللّٰہ اعلم۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ59)
مسافر اور مریض فدیہ دیں
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شریعت کی بناء آسانی پر رکھی ہے جو مسافر اور مریض صاحب مقدرت ہو ں ۔ ان کو چاہئے کہ روزہ کی بجائے فدیہ دے دیں ۔ فدیہ یہ ہے کہ ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔ (بدر17اکتوبر1907ء صفحہ 7)
فدیہ دینے کی کیا غرض ہے ؟
ایک دفعہ میرے دل میں آیا کہ فدیہ کس لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا تعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہئے ۔خد اتعالیٰ تو قادر مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔پس میرے نزدیک خوب ہے کہ دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا تعالیٰ طاقت بخش دے گا۔
(البدر12دسمبر1902ء صفحہ52)
فدیہ دینے سے روزہ ساقط نہیں ہوتا
حضرت مصلح موعودؓ تحریرفرماتے ہیں:
فدیہ دے دینے سے روزہ اپنی ذات میں ساقط نہیں ہوجاتابلکہ یہ محض اس بات کا فدیہ ہے کہ اِن مبارک ایّام میں وہ کسی جائز شرعی عذر کی بناء پر باقی مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ عبادت ادا نہیں کرسکے۔ آگے یہ عذر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک عارضی اور ایک مستقل۔ فدیہ بشرطِ استطاعت اِن دونوں حالتوں میںدینا چاہئے۔ غرضیکہ خواہ کوئی فدیہ بھی دے دے بہرحال سال دو سال یا تین سال کے بعد جب بھی اُس کی صحت اجازت دے اُسے پھر روزے رکھنے ہوں گے۔ سوائے اس صورت کے کہ پہلے مرض عارضی تھا اورصحت ہونے کے بعد ارادہ ہی کرتا رہا کہ آج رکھتا ہوں کل رکھتا ہوں کہ اِس دوران میں اس کی صحت پھر مستقل طورپر خراب ہوجائے۔ باقی جو بھی کھانا کھلانے کی طاقت رکھتا ہواگر وہ مریض یا مسافر ہے تو اُس کے لئے ضروری ہے کہ رمضان میں ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے اور دوسرے ایّام میں روزے رکھے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مذہب تھا اور آپ ہمیشہ فدیہ بھی دیتے تھے اور بعد میں روزے بھی رکھتے تھے اور اِسی کی دوسروں کو تاکید فرمایا کرتے تھے۔ (تفسیر کبیر جلد 2صفحہ389)
فدیہ کسے دیں؟
سوال پیش ہوا کہ جو شخص روزہ رکھنے کے قابل نہ ہو، اس کے عوض مسکین کو کھانا کھلانا چاہیئے۔ اس کھانے کی رقم قادیان کے یتیم فنڈ میں بھیجنا جائز ہے یا نہیں؟
فرمایا:۔
ایک ہی بات ہے خواہ اپنے شہر میں مسکین کو کھلائے یا یتیم اور مسکین فنڈ میں بھیج دے ۔
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
مزدور بھی مریض کے حکم میں ہے
(۱) بعض اوقات رمضان ایسے موسم میں آتاہے کہ کاشت کاروں سے جبکہ کام کی کثرت مثل تخم ریزی و درودگی ہوتی ہے ۔ ایسے ہی مزدوروں سے جن کا گذارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھاجاتاان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟ فرمایا:۔
اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے ۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتاہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے ۔ پھر جب میسر ہو رکھ لے۔
(۲) اور وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ (البقرۃ:۱۸۵) کی نسبت فرمایا کہ :۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ جو طاقت نہیں رکھتے ۔ (بدر26ستمبر1907ء صفحہ7)
روزہ کس عمر سے رکھا جائے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
بارہ سال سے کم عمر کے بچے سے روزہ رکھوانا تو میرے نزدیک جرم ہے اور بارہ سال سے پندرہ سال کی عمر کے بچے کو اگر کوئی روزہ رکھواتا ہے تو غلطی کرتا ہے۔ پندرہ سال کی عمر سے روزہ رکھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور اٹھارہ سال کی عمر میں روزے فرض سمجھنے چاہئیں۔
مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے تھے ہمیں بھی روزہ رکھنے کا شوق ہوتا تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں روزہ نہیں رکھنے دیتے تھے اوربجائے اس کے کہ ہمیں روزہ رکھنے کے متعلق کسی قسم کی تحریک کرنا پسند کریں ہمیشہ ہم پر روزہ کا رعب ڈالتے تھے۔
(الفضل 11؍اپریل1925 ء صفحہ7 )
حضرت مصلح موعود ؓ تحریرفرماتے ہیں ۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچّوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرورکرانی چاہئے۔ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی۔ لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچّوں سے روزہ رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا۔ یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشوونما کی ہوتی ہے ۔ ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اورروزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت اُن کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت اور سنّت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں۔ یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہوجائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی۔ اِس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے ۔اِس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں۔ پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیے کہ بچّوں کو جرأت دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں ۔ اور دیکھنے والوں کو بھی اِس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا۔ کیونکہ اگر بچّہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا۔ اِسی طرح بعض بچّے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچّوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیںکہ اس کی عمر پندرہ سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں ایسے بچّے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں۔ اِس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچّہ غالبًا پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر وہ میرے اِن الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا اورنہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا۔ اِسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچّہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اُس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے۔ (تفسیر کبیر جلد2صفحہ385)
کم عمری میں روزہ رکھنے کی ممانعت
حضرت نواب مبارکہ بیگم ؓصاحبہ تحریرفرماتی ہیں:۔
قبل بلوغت کم عمری میں آپ ؑ روزہ رکھوانا پسند نہیں کرتے تھے ۔ بس ایک آدھ رکھ لیا کافی ہے۔ حضرت اماں جان نے میرا پہلا روزہ رکھوایا تو بڑی دعوتِ افطار دی تھی۔یعنی جو خواتین جماعت تھیں سب کو بلایا تھا۔اس رمضان کے بعد دوسرے یا تیسرے رمضان میں میں نے روزہ رکھ لیا اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایاکہ آج میرا روزہ پھر ہے۔ آپؑ حجرہ میں تشریف رکھتے تھے۔پاس سٹول پر دو پان لگے رکھے تھے۔غالبًا حضرت اماں جانؓ بنا کر رکھ گئی ہوں گی۔آپ نے ایک پان اُٹھاکر مجھے دیا کہ لو یہ پان کھالو۔تم کمزورہو،ابھی روزہ نہیں رکھنا۔ توڑ ڈالو روزہ۔میں نے پان تو کھالیامگر آپ سے کہاکہ صالحہ (یعنی ممانی جان مرحومہ چھوٹے ماموں جان کی اہلیہ محترمہ)نے بھی رکھا ہے۔اُن کا بھی تڑوادیں۔فرمایا بلاؤ اس کو ابھی۔میں بُلا لائی۔وہ آئیں تو اُن کو بھی دوسرا پان اُٹھاکر دیا اورفرمایا لو یہ کھالو۔تمہارا روزہ نہیں ہے ۔ میری عمر دس سال کی ہوگی غالبًا۔ (تحریراتِ مبارکہ صفحہ227،228)
شوّال کے چھ روزوں کا التزام
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی جوانی کا ذکرفرمایاکرتے تھے کہ اس زمانہ میں مجھ کو معلوم ہوا یا فرمایا اشارہ ہوا کہ اس راہ میں ترقی کرنے کے لئے روزے رکھنے بھی ضروری ہیں۔ فرماتے تھے پھر میں نے چھ ماہ لگاتار روزے رکھے اور گھر میں یا باہر کسی شخص کو معلوم نہ تھا کہ میں روزہ رکھتا ہوں۔ صبح کا کھاناجب گھر سے آتا تھا تو میں کسی حاجتمند کو دے دیتا تھااور شام کا خود کھالیتا تھا۔ میں نے حضرت والدہ صاحبہ سے پوچھا کہ آخر عمر میں بھی آپ نفلی روزے رکھتے تھے یا نہیں؟والدہ صاحبہ نے کہاکہ آخر عمر میں بھی آپ روزے رکھا کرتے تھے۔ خصوصًا شوال کے چھ روزے التزام کے ساتھ رکھتے تھے۔ اور جب کبھی آپ کو کسی خاص کام کے متعلق دعا کرنا ہوتی تھی تو آپ روزہ رکھتے تھے۔ہاں مگر آخری دو تین سالوں میں بوجہ ضعف و کمزوری رمضان کے روزے بھی نہیں رکھ سکتے تھے۔ (خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب البریہ میں حضرت صاحب نے روزوں کا زمانہ آٹھ نو ماہ بیان کیا ہے۔)
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ14)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ شوال کے مہینے میں عید کا دن گزرنے کے بعد چھ روزے رکھتے تھے۔ اس طریق کا احیاء ہماری جماعت کا فرض ہے۔
ایک دفعہ حضرت صاحب نے اس کا اہتمام کیا تھا کہ تمام قادیان میں عید کے بعد چھ دن تک رمضان ہی کی طرح اہتمام تھا۔ آخر میں چونکہ حضرت صاحب کی عمر زیادہ ہو گئی تھی اور بیمار بھی رہتے تھے اس لئے دو تین سال آپ نے روزے نہیں رکھے۔ جن لوگوں کو علم نہ ہو وہ سُن لیں اورجو غفلت میں ہوں ہوشیار ہوجائیں کہ سوائے ان کے جو بیمار اور کمزور ہونے کی وجہ سے معذور ہیں۔ چھ روزے رکھیں۔ اگر مسلسل نہ رکھ سکیں تو وقفہ ڈال کر بھی رکھ سکتے ہیں۔
(الفضل 8جون 1922ء صفحہ7)
روزہ کی حالت میں آئینہ دیکھنا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے یا نہیں۔ فرمایا:
’’جائز ہے ۔‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ کی حالت میں سر یا داڑھی کو تیل لگانا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ حالت ِ روزہ میں سر کو یا داڑھی کوتیل لگانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’جائز ہے ۔‘‘ (بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ کی حالت میںآنکھ میں دوائی ڈالنا
حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کی آنکھ بیمار ہوتو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’ یہ سوا ل ہی غلط ہے ۔ بیمار کے واسطے روزہ رکھنے کا حکم نہیں۔ ‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ دارکاخوشبو لگانا
سوال پیش ہوا کہ روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا:
’’جائز ہے ۔ ‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
روزہ دار کا آنکھوں میں سرمہ ڈالنا
سوال پیش ہوا کہ روزہ دار آنکھوں میں سرمہ ڈالے یا نہ ڈالے ؟
فرمایا:
’’مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے ۔ رات کو سرمہ لگا سکتاہے ۔‘‘
(بدر 7فروری 1907ء صفحہ4)
نمازِ تراویح
اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اُٹھنے اورنماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عمومًا محنتی، مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجالانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اوّل شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جائیں تو کیا یہ جائز ہوگا۔
حضرت اقدس ؑ نے جواب میں فرمایا
’’کچھ حرج نہیں ، پڑھ لیں۔ ‘‘
(بدر 18؍اکتوبر1906ء صفحہ4)
تراویح کی رکعات
تراویح کے متعلق عرض ہوا کہ جب یہ تہجد ہے تو بیس رکعات پڑھنے کی نسبت کیاا رشاد ہے کیونکہ تہجد تو مع وتر گیارہ یا تیرہ رکعت ہے ۔ فرمایا:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت دائمی تو وہی آٹھ رکعات ہے اور آپ تہجد کے وقت ہی پڑھا کرتے تھے اوریہی افضل ہے مگر پہلی رات بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے رات کے اوّل حصے میں اُسے پڑھا۔ بیس رکعات بعد میں پڑھی گئیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت وہی تھی جو پہلے بیان ہوئی۔
(بدر مؤرخہ 6فروری 1908ء صفحہ7)
تراویح دراصل نماز تہجد ہی ہے
ایک صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں خط لکھا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ سفر میں نماز کس طرح پڑھنی چاہیے اور تراویح کے متعلق کیا حکم ہے ؟ فرمایا :
’’سفر میں دو گانہ سنت ہے ۔تروایح بھی سنت ہے پڑھا کریں اور کبھی گھر میں تنہائی میں پڑھ لیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد ہے کوئی نئی نماز نہیں ۔ وتر جس طرح پڑھتے ہو بیشک پڑھو ۔‘‘
(بدر26دسمبر1907ء صفحہ6)
نماز تراویح میں غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر لقمہ دینا
رمضان شریف میں تراویح کے لئے کسی غیر حافظ کا قرآن دیکھ کر حافظ کو بتلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا:
میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ اس کے متعلق نہیں دیکھا۔ اس پر مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے جائز قراردیا ہے۔
فرمایا : جائز ہے تو اس سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے اوراس کے لئے یہ انتظام بھی ہوسکتا ہے کہ ایک ہی شخص تمام تراویح میں بیٹھ کر نہ سنتا رہے بلکہ چار آدمی دو دو رکعت کے لئے سنیں اس طرح ان کی بھی چھ چھ رکعتیں ہو جائیں گی۔
عرض کیا گیا فقہ اس صورت کو جائز ٹھہراتی ہے؟فرمایا:
اصل غرض تو یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم سننے کی عادت ڈالی جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ تو ضرورت اور مجبوری کی وجہ سے ہے جیسے کوئی کھڑا ہوکر نماز نہ پڑھ سکے تو بیٹھ کر ہی پڑھ لے اوربیٹھ کر نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر پڑھ لے یا جس طرح کسی شخص کے کپڑے کو غلاظت لگی ہو اوروہ اسے دھو نہ سکے تو اسی طرح نماز پڑھ لے، یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ضرورت کی بات ہے۔
(الفضل21؍فروری1930ء صفحہ 12 )
بے خبری میں کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا
خط سے سوال پیش ہوا کہ میں بوقتِ سحر بماہ رمضان اندر بیٹھا ہوا بے خبری سے کھاتا پیتا رہا۔ جب باہر نکل کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ سفیدی ظاہر ہوگئی ہے۔ کیا وہ روزہ میرے اوپر رکھنا لازم ہے یا نہیں؟ فرمایا :
’’ بے خبری میں کھایا پیا تو اس پر اس روزہ کے بدلہ میں دوسرا روزہ لازم نہیں آتا۔ ‘‘
(الحکم 24فروری 1907ء صفحہ14)
رسول اللہ ﷺ کے وصال کے دن روزہ رکھنا
سوا ل : کیا آنحضرت ؐ کے وصال کے دن روزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟ فرمایا:
’’ ضروری نہیں۔ ‘‘
(بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)
کیامحرم کے روزے ضروری ہیں ؟
سوا ل پیش ہوا کہ محرم کے پہلے دس دن کاروزہ رکھنا ضروری ہے کہ نہیں؟ فرمایا:
’’ضروری نہیں ہے۔ ‘‘
(بدر 14مارچ1907ء صفحہ5)
اعتکاف
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود ؑ کو اعتکاف بیٹھتے نہیں دیکھا۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بھی مجھ سے یہی بیان کیا ہے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ62)
اعتکاف کے دوران بات چیت کرنا
سوال: جب آدمی اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار کے متعلق بات کرسکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: سخت ضرورت کے سبب کرسکتا ہے اوربیمار کی عیادت کے لئے اورحوائج ضروری کے واسطے باہر جاسکتا ہے ۔
(بدر 21فروری 1907ء صفحہ5)
اعتکاف کے متعلق بعض ہدایات
ڈاکٹر عباداللہ صاحب امرتسر اور خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر (جو دونوں معتکف تھے) کو مخاطب کرکے فرمایا :
اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اوربالکل کہیں آئے جائے ہی نہ۔ چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جاکر آپ بیٹھ سکتے ہیں کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے اورہر ایک ضروری بات کرسکتے ہیں۔ ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے اور یوں تو ہر ایک کام (مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے ۔ (البدر2جنوری 1903ء صفحہ74 )
اعتکاف چھوڑ کر مقدمہ کی پیشی پر جانے کو ناپسند فرمایا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت صاحب کے زمانہ میں حکیم فضل الدین صاحب بھیروی اعتکاف بیٹھے مگر اعتکاف کے دِنوں میں ہی ان کو کسی مقدمہ میں پیشی کے واسطے باہر جانا پڑ گیا۔ چنانچہ وہ اعتکاف توڑ کر عصر کے قریب یہاں سے جانے لگے تو حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ کو مقدمہ میں جانا تھا تو اعتکاف بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی؟
(سیرت المہدی جلد1صفحہ97)
زکوٰۃ
روزے، حج اورزکوٰۃ کی تاکید
فرمایا:
اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو۔ ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اورجس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔
(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ15)
زکوٰۃ کا نام رکھنے کی وجہ
فرمایا:
زکوٰۃ کا نام اسی لئے زکوٰۃ ہے کہ انسان اس کی بجا آوری سے یعنی اپنے مال کو جو اس کو بہت پیارا ہے لِلّٰہ دینے سے بخل کی پلیدی سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور جب بخل کی پلیدی جس سے انسان طبعاً بہت تعلق رکھتا ہے انسان کے اندر سے نکل جاتی ہے تو وہ کسی حد تک پاک بن کرخدا سے جو اپنی ذات میںپاک ہے ایک مناسبت پیدا کرلیتا ہے۔
(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21صفحہ203، 204)
صدقہ کی حقیقت
فرمایا:
صدقہ کا لفظ صدق سے مشتق ہے۔ پس اگر دل میں صدق اور اخلاص نہ رہے تو وہ صدقہ صدقہ نہیں رہتا۔ بلکہ ایک ریاکاری کی حرکت ہوجاتی ہے۔ غرض احسان کرنے والے میں یہ ایک خامی ہوتی ہے کہ کبھی غصہ میں آکر اپنا احسان بھی یاد دلادیتا ہے اسی وجہ سے خدا تعالیٰ نے احسان کرنے والوں کو ڈرایا۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ354)
زیور پر زکوٰۃ
ایک شخص نے عرض کیا کہ زیور پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟فرمایا
جو زیور استعمال میں آتا ہے اور مثلًا کوئی بیاہ شادی پر مانگ کر لے جاتا ہے تو دے دیا جاوے۔ وہ زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے۔ (الحکم 30؍اپریل 1902ء صفحہ7 )
قرض پر زکوٰۃ
سوال پیش ہوا کہ جو روپیہ کسی شخص نے کسی کو قرضہ دیا ہوا ہے کیا اس پر اس کو زکوٰۃ دینی لازم ہے؟ فرمایا:
’’نہیں۔‘‘ ( بدر21فروری 1907ء صفحہ5)
مُعلّق مال پر زکوٰۃ واجب نہیں
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ تجارت کا مال جو ہے جس میں بہت سا حصہ خریداروں کی طرف ہوتاہے اور اُگراہی میں پڑا ہوتاہے اس پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا:
جو مال معلّق ہے اس پر زکوٰۃ نہیں جب تک کہ اپنے قبضہ میں نہ آجائے لیکن تاجر کو چاہیے کہ حیلے بہانے سے زکوٰۃ کو نہ ٹال دے۔ آخر اپنی حیثیت کے مطابق اپنے اخراجات بھی تو اسی مال میں سے برداشت کرتاہے۔ تقویٰ کے ساتھ اپنے مال موجودہ اور معلّق پر نگاہ ڈالے اور مناسب زکوٰۃ دے کر خد اتعالیٰ کو خوش کرتا رہے۔ بعض لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی حیلے بہانے کرتے ہیں۔ یہ درست نہیں ہے ۔ (بدر 11جولائی1907ء صفحہ5)
سید کے لئے زکوٰۃ؟
اس سوال کے جواب میں کہ کیا سیدکے لئے زکوٰۃ جائزہے فرمایا:
اصل میں منع ہے اگر اضطراری حالت ہو فاقہ پر فاقہ ہو تو ایسی مجبوری کی حالت میں جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِلَّا مَااضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ حدیث سے فتویٰ تو یہ ہے کہ نہ دینی چاہئے ۔ اگر سید کو اور قسم کا رزق آتا ہو تو اسے زکوٰۃ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ ہاں اگر اضطراری حالت ہو تو اوربات ہے ۔ (الحکم 24؍اگست 1907ء صفحہ5)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر چہ صدقہ اورزکوٰۃ سادات کے لئے منع ہے ۔ مگر اس زمانہ میں جب ان کے گذارہ کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ تو اس حالت میں اگر کوئی سیّد بھوکا مرتا ہواورکوئی اور صورت انتظام کی نہ ہو تو بے شک اُسے زکوٰۃ یا صدقہ میں سے دے دیا جائے۔ ایسے حالات میں ہرج نہیں ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ718)
زکوٰۃ کے روپے سے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب خرید کر تقسیم کرنا
فرمایا:
اگر میری جماعت میں ایسے احباب ہوں جو ان پر بوجہ املاک و اموال و زیورات وغیرہ کے زکوٰۃ فرض ہو تو ان کو سمجھنا چاہئے کہ اس وقت دین اسلام جیسا غریب اور یتیم اور بے کس کوئی بھی نہیں اور زکوٰۃ نہ دینے میں جس قدر تہدید شرع وارد ہے وہ بھی ظاہر ہے اور عنقریب ہے جو منکر زکوٰۃ کافر ہوجائے پس فرض عین ہے جو اسی راہ میں اعانت اسلام میں زکوٰۃ دی جاوے۔ زکوٰۃ میں کتابیں خریدی جائیں اور مفت تقسیم کی جائیں۔ (نشانِ آسمانی۔ روحانی خزائن جلد 4صفحہ409)
صاحب توفیق کے لئے زکوٰۃجائز نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ جیسے زکوٰۃ یا صدقہ سادات کے لئے منع ہے ویسا ہی صاحب توفیق کے لئے بھی اس کا لینا جائز نہیں ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ مَیں نے یہ سُنا ہوا ہے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ آج کل سخت اضطرار کی حالت میں جبکہ کوئی اور صورت نہ ہو۔ ایک سیّد بھی زکوٰۃ لے سکتا ہے ۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ566)
زکوٰۃ مرکز میں بھیجی جائے
’’چاہئیے کہ زکوٰۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوٰۃ بھیجے۔ ‘‘
(کشتی نوح ۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ83)
مکان اور جواہرات پر زکوٰۃ نہیں
خط سے سوال پیش ہوا کہ مکان میں میرا پانچ سو روپے کا حصہ ہے اس حصہ میں مجھ پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا:
’’جواہرات ومکانات پر کوئی زکوٰۃ نہیں ۔ ‘‘
(الحکم 24فروری 1907ء صفحہ13)
اخبار بدر میں اسی سوال کا جواب کسی قدر تفصیل سے درج ہے ۔چنانچہ اخبار نے لکھا کہ ایک شخص کے سوال کے جواب میںفرمایا:
مکان خواہ کتنے ہزار روپے کا ہو، اس پر زکوٰۃ نہیں۔اگر کرایہ پر چلتا ہو تو آمد پر زکوٰۃ ہے۔ایسا ہی تجارتی مال پر جو مکان میں رکھا ہے زکوٰۃ نہیں۔حضرت عمرؓ چھ ماہ کے بعد حساب کر لیا کرتے تھے اور روپیہ پر زکوٰۃ لگائی جاتی تھی۔
(بدر14فروری 1907ء صفحہ8)
صدقہ کا گوشت صرف غرباء کا حق ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ اہلیہ صاحبہ عبدالعزیز صاحب سابق پٹواری سیکھواں نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں یہاں قادیان میں بیمار ہوگئی اور دو جانور صدقہ کئے اور حضور ؑ کی خدمت میں عرض کی کہ کیا صدقہ کا گوشت لنگرخانہ میں بھیجا جاوے۔ حضور ؑ نے فرمایا کہ ’’ یہ غرباء کا حق ہے۔ غرباء کو تقسیم کیا جاوے۔ ‘‘ چنانچہ غرباء کو تقسیم کیا گیا۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ191)
صدقہ کی جنس خریدنا جائز ہے
ایک شخص نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ میں مُرغیاں رکھتا ہوں اوران کا دسواں حصہ خدا تعالیٰ کے نام پر دیتا ہوں اورگھر سے روزانہ تھوڑا تھوڑا آٹا صدقہ کے واسطے الگ کیا جاتا ہے کیا یہ جائز ہے کہ وہ چوزے اوروہ آٹاخود ہی خریدکر لوںاوراس کی قیمت مدِّمتعلقہ میں بھیج دوں؟ فرمایا:
’’ایسا کرنا جائز ہے ۔ ‘‘
نوٹ: لیکن اس میں یہ خیال کر لینا چاہئے کہ اعمال نیت پر موقوف ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسی اشیاء کو اس واسطے خود ہی خرید کرے گا کہ چونکہ خریدوفروخت ہر دو اس کے اپنے ہاتھ میں ہیں۔ جیسی تھوڑی قیمت سے چاہے خرید لے ۔ تو یہ اس کے واسطے گناہ ہوگا۔
(بدر24؍اکتوبر1907ء صفحہ3)
حضرت مسیح موعود ؑ کااپنی اولاد کے لئے صدقہ ناجائز قراردینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے صدقہ ناجائز خیال فرماتے تھے۔
(سیرت المہدی جلد 1صفحہ619)
حج
حج کی تاکید
فرمایا:
’’ اپنے روزوں کو خدا کے لئے صدق کے ساتھ پورے کرو، ہر ایک جو زکوٰۃ کے لائق ہے وہ زکوٰۃ دے اور جس پر حج فرض ہوچکا ہے اور کوئی مانع نہیں وہ حج کرے۔ ‘‘
(کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ15)
ارکان حج کی حکمتیں
اسلام کے احکام کے بارہ میں مخالفین کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:۔
مضمون پڑھنے والے نے اس اعتراض کے ساتھ یہ اعتراض بھی جڑ دیا ہے کہ مسلمانوں کے اعتقاد میں حجراسود ایک ایسا پتھر ہے جو آسمان سے گرا تھا معلوم نہیں کہ اس اعتراض سے اُس کو کیا فائدہ ہے۔ استعارہ کے رنگ میں بعض یہ روایتیں ہیں کہ وہ بہشتی پتھر ہے مگر قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بہشت میں کوئی پتھر نہیں ہے بہشت ایسا مقام ہے کہ اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں پائی جاتی اور اس دنیا کی کوئی چیز بھی بہشت میں نہیں ہے بلکہ بہشتی نعمتیں ایسی نعمتیں ہیں کہ جو نہ کبھی آنکھوں نے دیکھیں اور نہ کانوں نے سنیں اور نہ دل میں گذریں اور خانہ کعبہ کا پتھر یعنی حجر اسود ایک روحانی امر کے لئے نمونہ قائم کیا گیا ہے٭۔(٭حاشیہ ۔ خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو ۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الحج:38) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے ۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جائو اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جائو ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے ۔ منہ ) اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو نہ خانہ کعبہ بناتا اور نہ اس میں حجر اسود رکھتا لیکن چونکہ اس کی عادت ہے کہ روحانی اُمور کے مقابل پر جسمانی اُمور بھی نمونہ کے طور پر پیدا کر دیتا ہے تا وہ روحانی اُمور پر دلالت کریں اسی عادت کے موافق خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی گئی۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور عبادت دو قسم کی ہے۔ (۱) ایک تذلّل اور انکسار (۲) دوسری محبت اور ایثار۔ تذلل اور انکسار کے لئے اُس نماز کا حکم ہوا جو جسمانی رنگ میں انسان کے ہر ایک عضو کو خشوع اورخضوع کی حالت میں ڈالتی ہے یہاں تک کہ دِلی سجدہ کے مقابل پر اس نماز میں جسم کا بھی سجدہ رکھا گیا تا جسم اور رُوح دونوں اس عبادت میں شامل ہوں اور واضح ہو کہ جسم کا سجدہ بیکار اور لغو نہیں اوّل تو یہ امر مسلّم ہے کہ خدا جیسا کہ روح کا پیدا کرنے والا ہے ایسا ہی وہ جسم کا بھی پیدا کرنے والا ہے اوردونوں پر اُس کا حق خالقیت ہے ماسوا اس کے جسم اور رُوح ایک دوسرے کی تاثیر قبول کرتے ہیں بعض وقت جسم کا سجدہ رُوح کے سجدہ کا محرک ہو جاتا ہے اور بعض وقت روح کا سجدہ جسم میں سجدہ کی حالت پیدا کر دیتا ہے کیونکہ جسم اور رُوح دونوں باہم مرایا متقابلہ کی طرح ہیں۔ مثلاً ایک شخص جب محض تکلف سے اپنے جسم میں ہنسنے کی صورت بناتا ہے تو بسا اوقات وہ سچی ہنسی بھی آجاتی ہے کہ جو رُوح کے انبساط سے متعلق ہے ایسا ہی جب ایک شخص تکلف سے اپنے جسم میں یعنی آنکھوں میں ایک رونے کی صورت بناتا ہے تو بسا اوقات حقیقت میں رونا ہی آجاتا ہے جو رُوح کی درد اوررقت سے متعلق ہے۔ پس جبکہ یہ ثابت ہوچکا کہ عبادت کی اس قسم میں جو تذلل اور انکسار ہے جسمانی افعال کا رُوح پراثر پڑتا ہے اورروحانی افعال کا جسم پر اثر پڑتا ہے۔ پس ایسا ہی عبادت کی دوسری قسم میں بھی جو محبت اور ایثار ہے انہیں تاثیرات کا جسم اوررُوح میں عوض معاوضہ ہے۔ محبت کے عالم میں انسانی روح ہر وقت اپنے محبوب کے گرد گھومتی ہے اور اس کے آستانہ کو بوسہ دیتی ہے۔ ایسا ہی خانہ کعبہ جسمانی طور پر محبان صادق کے لئے ایک نمونہ دیا گیا ہے اور خدا نے فرمایا کہ دیکھو یہ میرا گھر ہے اور یہ حجرِ اسود میرے آستانہ کا پتھرہے ( حاشیہ :۔ خدا کا آستانہ مصدر فیوض ہے یعنی اسی کے آستانہ سے ہریک فیض ملتا ہے پس اسی کے لئے معبّرینلکھتے ہیں کہ اگر کوئی خواب میں حجر اسود کو بوسہ دے تو علوم روحانیہ اس کو حاصل ہوتے ہیں کیونکہ حجر اسود سے مراد منبعِ علم و فیض ہے ۔ منہ)اور ایسا حکم اِس لئے دیا کہ تا انسان جسمانی طور پر اپنے ولولہ عشق اور محبت کو ظاہر کرے سو حج کرنے والے حج کے مقام میں جسمانی طور پر اُس گھر کے گرد گھومتے ہیں ایسی صورتیں بناکر کہ گویا خدا کی محبت میں دیوانہ اور مست ہیں۔زینت دُور کردیتے ہیں سر منڈوا دیتے ہیں اور مجذوبوں کی شکل بناکراس کے گھر کے گرد عاشقانہ طواف کرتے ہیں اور اس پتھر کو خدا کے آستانہ کا پتھر تصور کرکے بوسہ دیتے ہیں اور یہ جسمانی ولولہ رُوحانی تپش اور محبت کو پیدا کر دیتا ہے اور جسم اس گھر کے گرد طواف کرتا ہے اور سنگ آستانہ کو چومتا ہے اور رُوح اُس وقت محبوب حقیقی کے گرد طواف کرتی ہے اور اس کے رُوحانی آستانہ کو چومتی ہے اور اس طریق میں کوئی شرک نہیں ایک دوست ایک دوست جانی کا خط پاکر بھی اُس کو چومتا ہے کوئی مسلمان خانہ کعبہ کی پرستش نہیں کرتا اور نہ حجر اسودسے مرادیں مانگتا ہے بلکہ صرف خدا کا قراردادہ ایک جسمانی نمونہ سمجھا جاتا ہے وبس۔ جس طرح ہم زمین پر سجدہ کرتے ہیں مگر وہ سجدہ زمین کے لئے نہیں ایسا ہی ہم حجر اسود کو بوسہ دیتے ہیں مگروہ بوسہ اس پتھر کے لئے نہیں پتھر تو پتھر ہے جو نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے نہ نقصان۔ مگر اُس محبوب کے ہاتھ کا ہے جس نے اُس کو اپنے آستانہ کا نمونہ ٹھہرایا۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ99تا101)
حج کی شرائط
اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دئیے ہیں۔ بعض اُن میں سے ایسے ہیں کہ اُن کی بجا آوری ہر ایک کو میسر نہیں ہے ،مثلًا حج۔یہ اُس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو،پھر راستہ میں امن ہو ،پیچھے جو متعلقین ہیں اُن کے گذارہ کا بھی معقول انتظام ہواوراس قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کرسکتا ہے۔ (الحکم 31جولائی 1902ء صفحہ6)
حضرت مسیح موعود ؑکے حج نہ کرنے کی وجوہات
مخالفوں کے اس اعتراض پر کہ حضرت مرزا صاحب کیوں حج نہیں کرتے ۔ فر ما یا :
کیا وہ یہ چا ہتے ہیں کہ جو خدمت خدا تعالیٰ نے اول رکھی ہے اس کو پس انداز کر کے دوسرا کام شروع کر دیوے۔ یہ یادرکھنا چا ہیے کہ عام لوگوں کی خدمات کی طرح ملہمین کی عادت کام کرنے کی نہیں ہو تی وہ خدا کی ہدا یت اور رہنما ئی سے ہرایک امر کو بجا لا تے ہیں اگر چہ شرعی تمام احکام پر عمل کرتے ہیں مگر ہرایک حکم کی تقدیم وتاخیر ، الٰہی ارادہ سے کرتے ہیں۔اب اگر ہم حج کو چلے جاویں تو گو یا اس خدا کے حکم کی مخالفت کر نیوالے ٹھہریں گے اور مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (اٰل عمران :۹۸) کے بارے میں کتا ب حجج الکرامہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر نماز کے فوت ہو نے کا اندیشہ ہو تو حج سا قط ہے حالا نکہ اب جو لوگ جاتے ہیں ان کی کئی نمازیں فوت ہو تی ہیں۔ مامورین کا اوّل فرض تبلیغ ہو تا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال مکہ میں رہے آپؐ نے کتنی دفعہ حج کئے تھے ؟ایک دفعہ بھی نہیں کیا تھا ۔
(البدر 8مئی1903ء صفحہ122 )
ایک شخص نے عرض کی کہ مخالف مولوی اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب حج کو کیوں نہیں جاتے؟
فرمایا: یہ لوگ شرارت کے ساتھ ایسا اعتراض کرتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس سال مدینہ میں رہے ۔ صرف دو دن کا راستہ مدینہ اور مکہ میں تھا مگر آپ نے دس سال میں کوئی حج نہ کیا۔ حالانکہ آپ سواری وغیرہ کا انتظام کر سکتے تھے۔ لیکن حج کے واسطے صرف یہی شرط نہیں کہ انسان کے پاس کافی مال ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی قسم کے فتنہ کا خوف نہ ہو۔ وہاں تک پہنچنے اور امن کے ساتھ حج ادا کرنے کے وسائل موجود ہوں۔ جب وحشی طبع علماء اس جگہ ہم پر قتل کا فتویٰ لگا رہے ہیں اور گورنمنٹ کا بھی خوف نہیں کرتے تو وہاں یہ لوگ کیا نہ کریں گے۔ لیکن ان لوگوں کو اس امر سے کیا غرض ہے کہ ہم حج نہیں کرتے ۔ کیا اگر ہم حج کریں گے تو وہ ہم کو مسلمان سمجھ لیں گے ؟ اور ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے؟اچھا یہ تمام مسلمان علماء اول ایک اقرار نامہ لکھ دیں کہ اگر ہم حج کر آویں تو وہ سب کے سب ہمارے ہاتھ پر توبہ کرکے ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں گے اور ہمارے مرید ہو جائیں گے ۔ اگر وہ ایسا لکھ دیں اور اقرار حلفی کریں تو ہم حج کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے واسطے اسباب آسانی کے پیدا کر دے گا تاکہ آئندہ مولویوں کا فتنہ رفع ہو۔ ناحق شرارت کے ساتھ اعتراض کرنا اچھا نہیں ہے ۔ یہ اعتراض ان کا ہم پر نہیں پڑتا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پڑتاہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صرف آخری سال میں حج کیا تھا۔
(بدر8؍اگست 1907ء صفحہ8)
مخالفین کے اس ا عتراض پر کہ آپ نے باوجود مقدرت کے حج نہیں کیاجواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا
اس اعتراض سے آپ کی شریعت دانی معلوم ہو گئی۔ گویا آپ کے نزدیک مانع حج صرف ایک ہی امر ہے کہ زَادِ راہ نہ ہو۔ آپ کو بوجہ اس کے کہ دنیا کی کشمکش میں عمر کو ضائع کیا اس قدر سہل اور آسان مسئلہ بھی جو قرآن اور احادیث اور فقہ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے معلوم نہ ہوا کہ حج کا مانع صرف زاد راہ نہیں اور بہت سے امور ہیں جو عند اﷲ حج نہ کرنے کے لئے عذرِ صحیح ہیں۔چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہونا ہے۔ اور نیز اُن میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکّہ میں امن کی صورت نہ ہو۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا (آلِ عمران:98)عجیب حالت ہے کہ ایک طرف بد اندیش علماء مکّہ سے فتویٰ لاتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے اور پھر کہتے ہیں کہ حج کے لئے جائو اور خود جانتے ہیں کہ جب کہ مکّہ والوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا تو اب مکہ فتنہ سے خالی نہیں اور خدا فرماتا ہے کہ جہاں فتنہ ہو اُس جگہ جانے سے پرہیز کرو۔ سو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسا اعتراض ہے۔ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ فتنہ کے دنوں میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کبھی حج نہیں کیا اور حدیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ فتنہ کے مقامات میں جانے سے پرہیز کرو۔ یہ کس قسم کی شرارت ہے کہ مکہ والوں میں ہمارا کفر مشہور کرنا اور پھر بار بار حج کے بارے میں اعتراض کرنا۔ نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ شُرُوْرِہِمْ۔ ذرہ سوچنا چاہیے کہ ہمارے حج کی ان لوگوں کو کیوں فکر پڑ گئی۔ کیا اس میں بجز اس بات کے کوئی اور بھید بھی ہے کہ میری نسبت ان کے دل میں یہ منصوبہ ہے کہ یہ مکّہ کو جائیں اور پھر چند اشرار الناس پیچھے سے مکہ میں پہنچ جائیں اور شورِ قیامت ڈال دیں کہ یہ کافر ہے اسے قتل کرنا چاہیے۔ سو بروقت ورود حکم الٰہی اِن احتیاطوں کی پروا نہیں کی جائے گی مگر قبل اس کے شریعت کی پابندی لازم ہے اور مواضع فتن سے اپنے تئیں بچانا سنّتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ مکہ میں عنانِ حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ان مکفرین کے ہم مذہب ہیں۔ جب یہ لوگ ہمیں واجب القتل ٹھہراتے ہیں تو کیا وہ لوگ ایذاسے کچھ فرق کریں گے اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرہ: 196) پس ہم گناہ گار ہوںگے اگر دیدہ ودانستہ تہلکہ کی طرف قدم اٹھائیں گے اور حج کو جائیں گے۔ اور خدا کے حکم کے بر خلاف قدم اٹھانا معصیت ہے حج کرنا مشروط بشرائط ہے مگر فتنہ اور تہلکہ سے بچنے کے لئے قطعی حکم ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں۔اب خود سوچ لوکہ کیا ہم قرآن کے قطعی حکم کی پیروی کریں یا اس حکم کی جس کی شرط موجود ہے۔ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14صفحہ415،416)
حج کے راستے میں پیش آنے والی مشکلات سے نہ گھبراؤ
اخبار الحکم کے ایڈیٹر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ شیخ فضل کریم صاحب جنہوں نے اسی سال حج کعبۃ اللہ کا شرف حاصل کیا ہے چند روز سے دارالامان میں تشریف رکھتے ہیں ۔قبل ظہر حضرت اقدس سے ملاقات ہوئی اورانہوں نے اس سال کے ناقابل برداشت تکالیف کا جو حجاج کو برداشت کرنی پڑیں ساراحال بیان کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ انگلش حدود سے نکل کر ٹرکش حدود میں داخل ہوتے ہی ایسی مشکلات کا سامنا ہوا کہ جن کی وجہ سے یقینا کہا جاسکتا ہے کہ یہ مشکلات ایسی ہیں جن سے حج کے بالکل بند ہوجانے کا اندیشہ ہے خصوصاً اہل ہند کے واسطے ۔انہوں نے بیان کیا کہ ٹرکی حدود میں کورنٹائن کی ناقابل برداشت سختیاں وہاں کے ڈاکٹروں اورحاکموں کا سخت درجہ کا حریص اورطامع ہونا اور اپنے فائدے کے لئے ہزاروں جانوں کی ذرہ بھر پرواہ نہ کرنا ‘لوگوں کا سامان خوراک پوشاک وغیرہ بھپارہ میں ضائع کردینا یا نقدی کا ضائع جانا اورپھر جو چیز ایک مصری حاجی دس روپے میں حاصل کرسکتا ہے وہ ہندیوں کو تیس روپے تک بھی بمشکل دینا۔ راستوں میں باوجود یکہ سلطان المعظم نے ہر دومیل پر کنواں تیارکروارکھا ہے عمال اورکارکنوں کا بغیر دوچارآنے کے لئے پانی کا گلاس تک نہ دینا اور پھر راستہ میں باوجود چوکی پہروں کے انتظام کے جو کہ سلطان المعظم کی طرف سے کیا گیا ہے پر لے درجہ کی بدامنی کا ہونا یہانتک کہ انسان اگر راستے سے دوچارگز بھی ادھر ادھر ہو جاوے تو پھر وہ زندہ نہیں بچ سکتا اور پھر ہندیوں سے خصوصاً سخت برتائو ہونا،بات بات پرپٹ جانا اور کوئی داد فریا د نہیں۔ بات بات پر کذّاب،بطال اورالفاظ حقارت سے مخاطب کیا جانا وغیرہ وغیرہ ایسے سامان ہیں کہ بہت ہی مصیبت کا سامنا نظر آتا ہے۔ یہ سارا ماجرا سن کر حضرت اقدس نے فرمایا :
ہم آپ کو ایک نصیحت کرتے ہیں ۔ ایسا ہوکہ ان تمام امور تکالیف سے آ پ کی قوت ایمانی میں کسی قسم کا فرق اورتزلزل نہ آوے ۔ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ابتلاء ہے ۔اس سے پاک عقائد پر اثر نہیں پڑنا چاہیے ۔ ان باتوں سے اس متبرک مقام کی عظمت دلوں میں کم نہ ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بدتر ایک زمانہ گذرا ہے کہ یہی مقدس مقام نجس مشرکوں کے قبضہ میں تھا اور انہوںنے اسے بت خانہ بنارکھا تھا۔ بلکہ یہ تمام مشکلات اور مصائب خوش آئندہ زمانے اورزندگی کے درجات ہیں ۔ دیکھو آنحضرت ﷺ کے مبعوث ہونے سے پہلے بھی زمانہ کی حالت کتنی خطر ناک ہوگئی تھی اور کفروشرک اورفساد اور ناپاکی حد سے بڑھ گئے تھے تو اس ظلمت کے بعد بھی ایک نور دنیا میں ظاہر ہوا تھا ۔ اسی طرح اب بھی امید کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان مشکلات کے بعد کوئی بہتری کے سامان بھی پیدا کردے گا اور خداتعالیٰ کوئی سامان اصلاح پیداکردیگا بلکہ اسی متبرک اور مقدس مقام پر ایک اوربھی ایسا ہی خطرناک اورنازک وقت گذر چکا تھا جس کی طرف آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی تھی ۔اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحَابِ الْفِیْلِ (الفیل:۲)غرض یہ اب تیسرا واقعہ ہے۔ ا س کی طرف بھی اللہ تعالیٰ ضرور توجہ کرے گا اورخداکا توجہ کرنا تو پھر قہری رنگ میں ہی ہوگا۔ (الحکم 22؍اپریل 1908ء صفحہ1)
مسیح موعود کی زیارت کو حج پر ترجیح دینا
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے متعلق فرمایا :
چونکہ وہ میری نسبت شناخت کر چکے تھے کہ یہی شخص مسیح موعود ہے۔ اس لئے میری صحبت میں رہنا اُن کو مقدم معلوم ہوا اوربموجب نص اَطِیْعُوااللّٰہَ وَ اَطِیعُوْا الرَّسُوْلَ (النسائ:60) حج کا ارادہ انہوں نے کسی دوسرے سال پر ڈال دیا اور ہر ایک دل اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ ایک حج کے ارادہ کرنے والے کے لئے اگر یہ بات پیش آ جائے کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو برس سے اہل اسلام میں انتظار ہے توبموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جا سکتا۔ ہاں باجازت اس کے کسی دوسرے وقت میں جا سکتا ہے۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد20صفحہ49)
مامور من اللہ کی صحبت کا ثواب نفلی حج سے زیادہ ہے
حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے بعض استفسارات کے جواب میں حضورؑ نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
اگر آپ چالیس روز تک رُو بحق ہو کر بشرائط مندرجہ نشان آسمانی استخارہ کریں تو میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ کیا خوب ہو کہ یہ استخارہ میرے روبرو ہو تا میری توجہ زیادہ ہو۔ آپ پر کچھ ہی مشکل نہیں لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ نفلی حج سے ثواب زیادہ ہے اور غافل رہنے میں نقصان اور خطر کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربّانی۔
(آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ351،352 )
حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے حج بدل
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیاکہ ایک دفعہ آخری ایام میں حضرت مسیح موعود نے میرے سامنے حج کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ چنانچہ میں نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی طرف سے حج کروادیا۔ (حضرت والدہ صاحبہ نے حافظ احمداللہ صاحب مرحوم کو بھیج کر حضرت صاحب کی طرف سے حج بدل کروایا تھا)۔ اورحافظ صاحب کے سارے اخراجات والدہ صاحبہ نے خود برداشت کئے تھے۔ حافظ صاحب پرانے صحابی تھے اور اب عرصہ ہوا فوت ہوچکے ہیں۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ45)
ایک اور روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حافظ احمداللہ خان صاحب حج بدل سے پہلے خود بھی حج کرچکے تھے۔ (سیرت حضرت اماں جان حصہ دوم از شیخ محموداحمدصاحب عرفانی صفحہ 249 )
حضرت مسیح موعود ؑ سے حج بدل کے بارہ میں ایک سوال بھی پوچھا گیا تھا ۔چنانچہ خوشاب سے ایک مرحوم احمدی کے ورثاء نے حضرت کی خدمت میں خط لکھا کہ مرحوم کا ارادہ پختہ حج پر جانے کا تھا مگر موت نے مہلت نہ دی۔ کیا جائز ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی آدمی خرچ دے کر بھیج دیا جاوے؟ فرمایا:
جائز ہے ۔ اس سے متوفّی کو ثواب حج کا حاصل ہوجائے گا۔ (بدر 2مئی1907ء صفحہ2)
قربانی کے مسائل
قربانی کی حکمت
فرمایا:
خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو ۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (الحج :38) یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اس کو پہنچتی ہے ۔ یعنی اس سے اتنا ڈرو کہ گویا اس کی راہ میں مر ہی جائو اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو ۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جائو ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے ۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ99 حاشیہ)
دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے
(الحج:38)یعنی دلوں کی پاکیزگی سچی قربانی ہے گوشت اور خون سچی قربانی نہیں جس جگہ عام لوگ جانوروں کی قربانی کرتے ہیں خاص لوگ دلوں کو ذبح کرتے ہیں۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم ۔ روحانی خزائن جلد 21صفحہ424)
قربانی میںدیگرمذاہب پر اسلام کی فضیلت
عیدالاضحیہ کا خطبہ دیتے ہوئے(جو خطبہ الہامیہ کے نام سے معروف ہے) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
(عربی عبارت سے ترجمہ)میرا گمان ہے کہ یہ قربانیاں جو ہماری اس روشن شریعت میں ہوتی ہیں احاطہ شمار سے باہر ہیں۔ اور ان کو اُن قربانیوں پر سبقت ہے کہ جو نبیوں کی پہلی امتوں کے لوگ کیاکرتے تھے اورقربانیوں کی کثرت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کے خونوں سے زمین کا منہ چھپ گیا ہے۔ یہاں تک کہ اگر اُن کے خون جمع کئے جائیں اور اُن کے جاری کرنے کا ارادہ کیا جائے تو البتہ ان سے نہریں جاری ہو جائیں اور دریا بہہ نکلیںاور زمین کے تمام نشیبوں اور وادیوں میں خون رواں ہونے لگے ۔ اور یہ کام ہمارے دین میں ان کاموں میں سے شمار کیا گیا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا موجب ہوتے ہیں ۔
(خطبہ الہامیہ ۔ روحانی خزائن جلد16صفحہ32۔33)
قربانی صرف صاحبِ استطاعت پر واجب ہے
ایک شخص کا خط حضور ؑ کی خدمت میں پیش ہوا کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی ، مگر اُن لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کردیاہے۔کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو میری قربانی ہوجائے گی؟ فرمایا:
قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہوسکتی۔ اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکراقربانی کرو۔ اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیںتو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں۔ (بدر 14فروری 1907ء صفحہ8)
غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر قربانی کرنا
ایک شخص نے سوال کیا کہ کیا ہم غیراحمدیوں کے ساتھ مل کر یعنی تھوڑے تھوڑے روپے ڈال کر کوئی جانور مثلًا گائے ذبح کریں تو جائز ہے؟ فرمایا:
ایسی کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ تم غیروں کے ساتھ شامل ہوتے ہو۔اگر تم پر قربانی فرض ہے تو بکرا ذبح کرسکتے ہواوراگر اتنی بھی توفیق نہیں تو تم پر قربانی فرض ہی نہیں۔ وہ غیر جو تم کو اپنے سے نکالتے ہیں اور کافر قرار دیتے ہیں وہ تو پسند نہیں کرتے کہ تمہارے ساتھ شامل ہوں تو تمہیں کیا ضرورت ہے کہ اُن کے ساتھ شامل ہو۔ خدا پر توکل کرو۔ (بدر14فروری1907ء صفحہ8)
بکرے کی عمر کتنی ہو ؟
سوال پیش ہوا ایک سال کا بکرا بھی قربانی کے لئے جائز ہے ؟
فرمایا: مولوی صاحب سے پوچھ لو۔ اہلحدیث و حنفاء کا اس میں اختلاف ہے۔
نوٹ ایڈیٹر صاحب بدر: مولوی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ دو سال سے کم کا بکراقربانی کے لئے اہلحدیث کے نزدیک جائز نہیں۔ (بدرمورخہ23جنوری 1908ء صفحہ2)
کیا ناقص جانور بھی قربانی کے لئے ذبح کیا جاسکتا ہے؟
ایک شخص نے حضرت سے دریافت کیا کہ اگر جانور مطابق علامات مذکورہ درحدیث نہ ملے تو کیا ناقص کو ذبح کرسکتے ہیں؟
فرمایا: مجبوری کے وقت تو جائز ہے مگر آج کل ایسی مجبوری کیا ہے ۔ انسان تلاش کرسکتا ہے اوردن کافی ہوتے ہیں خواہ مخواہ حجت کرنا یا تساہل کرنا جائز نہیں۔
(بدر23جنوری 1908ء صفحہ2)
عیدالاضحی کاروزہ
عیدالاضحیہ کے دن قربانی کرکے اُس کا گوشت کھانے تک جوروزہ رکھا جاتا ہے اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا:
مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری نے مجھے لکھا ہے کہ جو روزہ اس عید کے موقع پر رکھاجاتا ہے وہ سنت نہیں، اس کا اعلان کر دیا جائے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق ثابت ہے کہ آپ صحت کی حالت میں قربانی کرکے کھاتے تھے تاہم یہ کوئی ایسا روزہ نہیں کہ کوئی نہ رکھے تو گنہگار ہوجائے یہ کوئی فرض نہیں بلکہ نفلی روزہ ہے اورمستحب ہے جو رکھ سکتا ہو رکھے مگر جو بیمار، بوڑھا یا دوسرا بھی نہ رکھ سکے وہ مکلّف نہیں اورنہ رکھنے سے گنہگار نہیں ہوگا مگر یہ بالکل بے حقیقت بھی نہیں جیسا کہ مولوی بقاپوری صاحب نے لکھا ہے مَیں نے صحت کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس پر عمل کرتے دیکھا ہے پھر مسلمانوں میںیہ کثرت سے رائج ہے اور یہ یونہی نہیں بنالیا گیا بلکہ مستحب نفل ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعامل رہا اور جس پر عمل کرنے والا ثواب پاتا ہے مگر جونہ کرسکے اسے گناہ نہیں۔
(روزنامہ الفضل 17 جنوری 1941ء صفحہ4)
عقیقہ کس دن کرنا چاہیے؟
عقیقہ کی نسبت سوال ہوا کہ کس دن کرنا چاہیے؟
فرمایا:۔ ساتویں دن۔ اگر نہ ہوسکے تو پھر جب خدا توفیق دے۔ ایک روایت میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا عقیقہ چالیس سال کی عمر میں کیا تھا۔ ایسی روایات کو نیک ظن سے دیکھنا چاہیے جب تک قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف نہ ہوں۔
(بدر 13فروری 1908ء صفحہ10)
حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک دوست کی طرف سے عقیقہ کرنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ منشی ظفراحمدصاحب کپورتھلوی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ مَیں قادیان میں تقریبًا ایک ماہ تک ٹھہرا رہا۔ مولوی عبداللہ صاحب سنوری بھی وہاں تھے۔ مولوی صاحب نے میرے لئے جانے کی اجازت چاہی اورمیں نے اُن کے لئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ابھی نہ جائیں۔ اس عرصہ میں مولوی صاحب کو ان کے گھر سے لڑکے کی ولادت کا خط آیا۔ جس پر مولوی صاحب نے عقیقہ کی غرض سے جانے کی اجازت چاہی۔ حضور نے فرمایا ۔ اس غرض کے لئے جانالازمی نہیں۔ آپ ساتویں دن ہمیں یاد دلادیں اورگھر خط لکھ دیں کہ ساتویں دن اس کے بال منڈوادیں۔ چنانچہ ساتویں روز حضور نے دو بکرے منگوا کر ذبح کرادئیے اورفرمایا گھر خط لکھ دو۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ38)
عقیقہ کے واسطے کتنے بکرے مطلوب ہیں؟
ایک صاحب کا حضرت اقدس کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ اگر کسی کے گھر میں لڑکا پیدا ہو تو کیا یہ جائز ہے کہ وہ عقیقہ پر صرف ایک بکرا ہی ذبح کرے؟
فرمایا: عقیقہ میں لڑکے کے واسطے دو بکرے ہی ضروری ہیں۔ لیکن یہ اس کے واسطے ہے جو صاحبِ مقدرت ہے ۔ اگر کوئی شخص دو بکروں کے خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا اور ایک خرید سکتا ہے تو اس کے واسطے جائز ہے کہ ایک ہی ذبح کرے اوراگر ایسا ہی غریب ہو کہ وہ ایک بھی قربانی نہیں کرسکتا تو اس پر فرض نہیں کہ خواہ مخواہ قربانی کرے۔ مسکین کو معاف ہے۔
(بدر 26دسمبر1907ء صفحہ2)
عقیقہ کی سنت دو بکرے ہی ہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میں نے تولد فرزند کے عقیقہ کے متعلق سوال کیا۔ فرمایا:
’’ لڑکے کے عقیقہ کے لئے دو بکرے قربان کرنے چاہئیں‘‘
میں نے عرض کی کہ ایک بکرا بھی جائز ہے ؟ حضور نے جواب نہ دیا ۔ میرے دوبارہ سوال پر ہنس کر فرمایا: ’’اس سے بہتر ہے کہ عقیقہ نہ ہی کیا جاوے۔‘‘ ایک بکرا کے جواز کا فتویٰ نہ دیا۔ میری غرض یہ تھی کہ بعض کم حیثیت والے ایک بکرا قربانی کرکے بھی عقیقہ کرسکیں۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ155)
نکاح
نکاح کی اغراض
فرمایا:
اسلام نے نکاح کرنے سے علت غائی ہی یہی رکھی ہے کہ تا انسان کو وجہ حلال سے نفسانی شہوات کا وہ علاج میسر آوے جو ابتدا سے خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میںرکھا گیا ہے اور اس طرح اس کو عفت اور پرہیزگاری حاصل ہوکر ناجائز اور حرام شہوت رانیوں سے بچا رہے کیا جس نے اپنی پاک کلام میں فرمایاکہ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ (البقرہ:224) یعنی تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیںاس کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ اس کی غرض صرف یہ تھی کہ تا لوگ شہوت رانی کریں اور کوئی مقصد نہ ہو کیا کھیتی سے صرف لہو و لعب ہی غرض ہوتی ہے یا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو بیج بویا گیا ہے اس کو کامل طور پر حاصل کرلیں۔ پھر میں کہتا ہوں کہ کیا جس نے اپنی مقدس کلام میں فرمایا مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسَافِحِیْنَ(النسائ:45) یعنی تمہارے نکاح کا یہ مقصود ہونا چاہئے کہ تمہیں عفت اور پرہیزگاری حاصل ہو اور شہوات کے بدنتائج سے بچ جائو۔ یہ نہیں مقصود ہونا چاہئے کہ تم حیوانات کی طرح بغیر کسی پاک غرض کے شہوت کے بندے ہو کر اس کام میں مشغول ہو کیا اس حکیم خدا کی نسبت یہ خیال کر سکتے ہیں کہ اس نے اپنی تعلیم میں مسلمانوں کو صرف شہوت پرست بنانا چاہا اور یہ باتیں فقط قرآن شریف میں نہیں بلکہ ہماری معتبر حدیث کی دو کتابیں بخاری اور مسلم میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہی روایت ہے اور اعادہ کی حاجت نہیں ہم اسی رسالہ میں لکھ چکے ہیںقرآن کریم تو اسی غرض سے نازل ہوا کہ تا ان کو جو بندہ شہوت تھے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع دلا وے اور ہریک بے اعتدالی کو دور کرے۔ (آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ44)
عورتوں کو کھیتی کہنے کی حکمت
فرمایا:۔
قرآن شریف میں۔۔۔ یہ آیت ہے۔ نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ أَ نّٰی شِئْتُمْ (البقرۃ:224)یعنی تمہاری عورتیں تمہاری اولاد پیدا ہونے کے لئے ایک کھیتی ہیں۔ پس تم اپنی کھیتی کی طرف جس طور سے چاہو آئو۔ صرف کھیتی ہونے کا لحاظ رکھو یعنی اس طور سے صحبت نہ کرو جو اولاد کی مانع ہو۔ بعض آدمی اسلام کے اوائل زمانہ میں صحبت کے وقت انزال کرنے سے پرہیز کرتے تھے اور باہر انزال کر دیتے تھے۔ اس آیت میں خدا نے اُن کو منع فرمایا اور عورتوں کانام کھیتی رکھا یعنی ایسی زمین جس میں ہر قسم کا اناج اُگتا ہے پس اس آیت میں ظاہر فرمایا کہ چونکہ عورت درحقیقت کھیتی کی مانند ہے جس سے اناج کی طر ح اولاد پیدا ہوتی ہے سو یہ جائز نہیں کہ اُس کھیتی کو اولاد پیدا ہونے سے روکا جاوے۔ ہاں اگرعورت بیمار ہو اور یقین ہوکہ حمل ہونے سے اُس کی موت کا خطرہ ہوگا ایسا ہی صحتِ نیّت سے کوئی اور مانع ہو تو یہ صورتیں مستثنیٰ ہیں ورنہ عند الشرع ہرگز جائز نہیں کہ اولاد ہونے سے روکا جائے۔
غرض جب کہ خدا تعالیٰ نے عورت کا نام کھیتی رکھا تو ہر ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اسی واسطے اُس کا نام کھیتی رکھا کہ اولاد پیدا ہونے کی جگہ اُس کو قرار دیا اور نکاح کے اغراض میں سے ایک یہ بھی غرض رکھی کہ تااس نکاح سے خدا کے بندے پیدا ہوں جو اُس کو یاد کریں۔ دوسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بھی قرار دی ہے کہ تا مرد اپنی بیوی کے ذریعہ اور بیوی اپنے خاوند کے ذریعہ سے بدنظری اور بدعملی سے محفوظ رہے۔ تیسری غرض یہ بھی قرار دی ہے کہ تا باہم اُنس ہوکر تنہائی کے رنج سے محفوظ رہیں۔ یہ سب آیتیں قرآن شریف میں موجود ہیں ہم کہاں تک کتاب کو طول دیتے جائیں۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزئن جلد23صفحہ292، 293 )
منگنی نکاح کے قائم مقام نہیں
سوال:۔ ہمارے ملک کا رواج ہے کہ جب باقاعدہ منگنی ہو جائے اور لڑکی کو زیور اورکپڑے پہنا دئیے جائیں تو وہ نکاح کا قائم مقام سمجھی جاتی ہے اس واسطے اس لڑکی کا کسی اور جگہ نکاح نہیں ہوسکتا؟
جواب:۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا:۔
’’ یہ کوئی دعویٰ نہیں۔ نہ منگنی کوئی شرعی بات ہے جب والدین راضی اور لڑکی راضی ہے تو کسی تیسرے شخص کو بولنے کا حق نہیں۔ ‘‘ (رجسٹر ہدایات حضرت خلیفۃ المسیح الثانی۔۔۔۔۔ ۵۴۔۶۔۲۶)
(فیصلہ بلوغ کی صورت میں) اگر لڑکی چاہتی ہے کہ اس کا نکاح توڑ دیا جاوے تو۔۔۔۔۔ اس قدر جھگڑے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ ابھی دونوں آپس میں ملے نہ تھے۔ اس وقت اگر باہمی تنازع پیدا ہو گیا تھا تو ان کو خوشی سے اس نکاح کو توڑ دینا چاہئے تھا کیونکہ ایسا نکاح درحقیقت ایک رنگ منگنی کا رکھتا ہے اور یہی فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مجھے زبانی پہنچا ہے۔
(فرمودات ِمصلح موعوددربارہ فقہی مسائل صفحہ191،192)
نکاح میں لڑکی کی رضامندی ضروری ہے
ایک لڑکی کے دوبھائی تھے اور ایک والدہ ۔ ایک بھائی اور والدہ ایک لڑکے کے ساتھ اس لڑکی کے نکاح کے لئے راضی تھے مگر ایک بھائی مخالف تھا۔ وہ اَور جگہ رشتہ پسند کرتا تھا اورلڑکی بھی بالغ تھی۔ اس کی نسبت مسئلہ دریافت کیا گیا کہ اس لڑکی کا نکاح کہا ں کیا جاوے۔ حضرت اقد س علیہ السلام نے دریافت کیا کہ وہ لڑکی کس بھائی کی رائے سے اتفاق کرتی ہے؟ جواب دیا گیاکہ اپنے اس بھائی کے ساتھ جس کے ساتھ والدہ بھی متفق ہے۔ فرمایا :
پھر وہاں ہی اس کا رشتہ ہو جہاں لڑکی اور اس کا بھائی دونوں متفق ہیں۔
(الحکم 10جولائی 1903ء صفحہ1)
احمدی لڑکی کاغیر احمدی سے نکاح جائز نہیں
سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی لڑکی ہے جس کے والدین غیراحمدی ہیں۔والدین اس کی غیراحمدی کے ساتھ شادی کرناچاہتے تھے اورلڑکی ایک احمدی کے ساتھ کرنا چاہتی تھی ۔ والدین نے اصرار کیا، عمر اس کی اسی اختلاف میںبائیس سال تک پہنچ گئی۔ لڑکی نے تنگ آکر والدین کی اجازت کے بغیر ایک احمدی سے نکاح کرلیا ۔ نکاح جائز ہوا یا نہیں؟ فرمایا :
’’ نکاح جائز ہوگیا۔ ‘‘
(بدر 31؍اکتوبر1907ء صفحہ7)
غیر احمدی کو لڑکی دینے میں گناہ ہے
فرمایا :
غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے ۔ کیونکہ اہلِ کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائزہے بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتا ہے ۔ اپنی لڑکی کسی غیر احمدی کو نہ دینی چاہیے۔ اگر ملے تو لے بیشک لو۔ لینے میں حرج نہیں اوردینے میں گناہ ہے۔
(الحکم 14؍اپریل 1908ء صفحہ2)
مخالفوں کو لڑکی ہرگز نہ دو
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں فضل محمد صاحب دوکاندار محلّہ دارالفضل نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میرا بیٹا عبدالغفور ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کی نانی اپنی پوتی کا رشتہ اس کو دینے کے لئے مجھے زور دے رہی تھی اور میں منظور نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ ایک دن موقعہ پاکر حضور ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئی اورکہا کہ حضور ؑ میں اپنی پوتی کا رشتہ اپنے نواسہ کو دیتی ہوں اور یہ میرا بیٹا پسند نہیں کرتا۔ حضور ؑ نے مجھے بلایا اورکہا کہ ’’ یہ رشتہ تم کیوں نہیں لیتے؟‘‘ میں نے عرض کی کہ حضور! یہ لوگ مخالف ہیں اورسخت گوئی کرتے ہیں اس واسطے میں انکار کرتا ہوں۔ حضور ؑنے فرمایا کہ ’’مخالفوں کی لڑکی لے لواور مخالفوں کو دو نہیں‘‘ یعنی مخالفوں کی لڑکی لے لو اور مخالفوں کو دینی نہیں چاہیے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ170،171)
رشتہ کے لئے لڑکیوں کا دِکھانا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بیان کیا کہ مدت کی بات ہے کہ جب میاں ظفراحمدصاحب کپورتھلوی کی پہلی بیوی فوت ہوگئی اور اُن کو دوسری کی تلاش ہوئی تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے اُن سے کہا کہ ہمارے گھر میں دولڑکیاں رہتی ہیں ۔ ان کو میں لاتا ہوں، آپ اُن کو دیکھ لیں۔ پھر اُن میں سے جو آپ کوپسند ہو اس سے آپ کی شادی کردی جاوے۔ چنانچہ حضرت صاحب گئے اور ان دو لڑکیوں کو بُلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کردیا۔ اورپھر اندر آکر کہا کہ وہ باہر کھڑی ہیں۔ آپ چِک کے اندر سے دیکھ لیں۔ چنانچہ میاں ظفراحمدصاحب نے اُن کو دیکھ لیا اورپھر حضرت صاحب نے اُن کو رخصت کردیا اور اس کے بعد میاں ظفراحمدصاحب سے پوچھنے لگے کہ اب بتاؤ تمہیں کون سی لڑکی پسند ہے۔ وہ نام تو کسی کا جانتے نہ تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے۔ اس کے بعد حضرت صاحب نے میری رائے لی ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور میں نے تو نہیں دیکھا۔ پھر آپ خود فرمانے لگے کہ ہمارے خیال میں تو دوسری لڑکی بہتر ہے جس کا منہ گول ہے۔ پھر فرمایا جس شخص کا چہرہ لمبا ہوتا ہے وہ بیماری وغیرہ کے بعد عمومًا بد نما ہوجاتا ہے مگر گول چہرہ کی خوبصورتی قائم رہتی ہے۔ میاں عبداللہ صاحب نے بیان کیا کہ اس وقت حضرت صاحب اور میاں ظفراحمدصاحب اورمیرے سوا اورکوئی شخص وہاں نہ تھا۔ اور نیز یہ کہ حضرت صاحب ان لڑکیوں کو کسی احسن طریق سے وہاں لائے تھے۔ اورپھر ان کو مناسب طریق پر رخصت کردیا تھا، جس سے ان کو کچھ معلوم نہیں ہوا۔ مگر ان میں سے کسی کے ساتھ میاں ظفراحمد صاحب کا رشتہ نہیں ہوا۔ یہ مدت کی بات ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ 240،241)
ہم کفو رشتہ بہتر ہے لیکن لازمی نہیں
ایک دوست کا سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی اپنی ایک لڑکی غیر کفو کے ایک احمدی کے ہاں دینا چاہتا ہے حالانکہ اپنی کفو میں رشتہ موجود ہے۔اس کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟
اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
اگر حسبِ مراد رشتہ ملے تو اپنی کفو میں کرنابہ نسبت غیر کفو کے بہتر ہے لیکن یہ امر ایسا نہیں کہ بطور فرض کے ہو۔ ہر ایک شخص ایسے معاملات میں اپنی مصلحت اور اپنی اولاد کی بہتری کو خوب سمجھ سکتا ہے۔اگر کفو میں وہ کسی کو اس لائق نہیں دیکھتا تو دوسری جگہ دینے میں حرج نہیں اور ایسے شخص کو مجبور کرنا کہ وہ بہرحال اپنی کفو میں اپنی لڑکی دیوے ،جائز نہیں ہے۔
(بدر11اپریل 1907ء صفحہ3)
نکاح طبعی ا وراضطراری تقاضاہے
پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
آپ حضرت عائشہ صدیقہؓ کانام لے کر اعتراض کرتے ہیں کہ جناب مقدس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن سے بدن لگانا اور زبان چوسنا خلاف شرع تھا۔ اب اس ناپاک تعصب پر کہاں تک روویں۔ اے نادان! جو حلال اور جائز نکاح ہیں ان میں یہ سب باتیں جائز ہوتی ہیں۔ یہ اعتراض کیسا ہے۔ کیا تمہیں خبر نہیں کہ مردی اور رجولّیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے۔ ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت نہیں ہے۔ جیسے بہرہ اور گونگاہونا کسی خوبی میں داخل نہیں۔ ہاں! یہ اعتراض بہت بڑا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مردانہ صفات کی اعلیٰ ترین صفت سے بے نصیب محض ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حُسنِ معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے سکے۔ اس لئے یورپ کی عورتیں نہایت قابل شرم آزادی سے فائدہ اُٹھا کر اعتدال کے دائرہ سے اِدھر اُدھر نکل گئیں اور آخر ناگفتنی فسق و فجور تک نوبت پہنچی۔
اے نادان! فطرت انسانی اوراس کے سچے پاک جذبات سے اپنی بیویوں سے پیار کرنا اور حُسنِ معاشرت کے ہر قسم جائز اسباب کو برتنا انسان کا طبعی اور اضطراری خاصہ ہے۔ اسلام کے بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اُسے برتا اور اپنی جماعت کو نمونہ دیا۔ مسیح نے اپنے نقص تعلیم کی وجہ سے اپنے ملفوظات اور اعمال میں یہ کمی رکھ دی۔ مگر چونکہ طبعی تقاضا تھا اس لئے یورپ اور عیسویت نے خود اس کے لئے ضوابط نکالے۔ اب تم خود انصاف سے دیکھ لو کہ گندی سیاہ بدکاری اور ملک کا ملک رنڈیوں کا ناپاک چکلہ بن جانا، ہائیڈ پارکوں میں ہزاروں ہزار کا روز روشن میںکتوں اور کتیوں کی طرح اوپر تلے ہونا اور آخر اس ناجائز آزادی سے تنگ آ کر آہ و فغاں کرنا اور برسوں دَیُّوثیوں اور سیاہ روئیوں کے مصائب جھیل کر اخیر میں مسودۂ طلاق پاس کرانا، یہ کس بات کا نتیجہ ہے؟ کیا اس مقدّس مطہّر، مزکّی، نبیٔ اُمّیصلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرت کے اس نمونہ کا جس پر خباثت باطنی کی تحریک سے آپ معترض ہیں، یہ نتیجہ ہے اور ممالک اسلامیہ میں یہ تعفّن اور زہریلی ہوا پھیلی ہوئی ہے یا ایک سخت ناقص، نالائق کتاب، پولوسی انجیل کی مخالف فطرت اور ادھوری تعلیم کا یہ اثر ہے؟اب دو زانو ہو کر بیٹھو اور یوم الجزاء کی تصویر کھینچ کر غور کرو۔ (نورالقرآن روحانی خزائن جلد 9صفحہ392، 393)
کم عمری کی شادی جائز ہے
پادری فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
آپ نے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرکے نو برس کی رسم شادی کا ذکر لکھا ہے۔ اول تو نو برس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ثابت نہیں اور نہ اس میں کوئی وحی ہوئی اور نہ اخبار متواترہ سے ثابت ہوا کہ ضرور نو برس ہی تھے۔ صرف ایک راوی سے منقول ہے۔ عرب کے لوگ تقویم پترے نہیں رکھا کرتے تھے کیونکہ اُمّی تھے اور دو تین برس کیکمی بیشی ان کی حالت پر نظر کر کے ایک عام بات ہے۔ جیسے کہ ہمارے ملک میں بھی اکثر ناخواندہ لوگ دو چار برس کے فرق کو اچھی طرح محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ پھر اگر فرض کے طور پر تسلیم بھی کر لیں۔ کہ فی الواقع دن دن کا حساب کر کے نوبرس ہی تھے۔ لیکن پھر بھی کوئی عقلمند اعتراض نہیں کرے گا مگر احمق کا کوئی علاج نہیں ہم آپ کو اپنے رسالہ میں ثابت کر کے دکھا دیں گے کہ حال کے محقق ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہوچکا ہے کہ نوبرس تک بھی لڑکیاں بالغ ہوسکتی ہیں۔ بلکہ سات برس تک بھی اولاد ہوسکتی ہے اور بڑے بڑے مشاہدات سے ڈاکٹروں نے اس کو ثابت کیا ہے اور خود صدہا لوگوں کی یہ بات چشم دید ہے کہ اسی ملک میں آٹھآٹھ نو نو برس کی لڑکیوں کے یہاں اولاد موجود ہے مگر آپ پر تو کچھ بھی افسوس نہیں اور نہ کرنا چاہئے کیونکہ آپ صرف متعصب ہی نہیں بلکہ اول درجہ کے احمق بھی ہیں۔ آپ کو اب تک اتنی بھی خبر نہیں کہ گورنمنٹ کے قانون عوام کی درخواست کے موافق ان کی رسم اور سوسائٹی کی عام وضع کی بِنا پر تیار ہوتے ہیں۔ ان میں فلاسفروں کی طرز پر تحقیقات نہیں ہوتی اور جو بار بار آپ گورنمنٹ انگریزی کا ذکر کرتے ہیں یہ بات بالکل سچ ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے شکر گذار ہیں اور اس کے خیرہ خواہ ہیں اور جب تک زندہ ہیں رہیں گے مگر تاہم ہم اس کو خطا سے معصوم نہیں سمجھتے اور نہ اس کے قوانین کو حکیمانہ تحقیقاتوں پر مبنی سمجھتے ہیں بلکہ قوانین بنانے کا اصول رعایا کی کثرت رائے ہے۔ گورنمنٹ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوتی تا وہ اپنے قوانین میں غلطی نہ کرے اگر ایسے ہی قوانین محفوظ ہوتے تو ہمیشہ نئے نئے قانون کیوں بنتے رہتے انگلستان میں لڑکیوں کے بلوغ کا زمانہ (۱۸) برس قرار دیا ہے اور گرم ملکوں میں تو لڑکیاں بہت جلد بالغ ہو جاتی ہیں۔ آپ اگر گورنمنٹ کے قوانین کو کالوحی من السماء سمجھتے ہیں کہ ان میں امکان غلطی نہیں۔ تو ہمیں بواپسی ڈاک اطلاع دیں تا انجیل اور قانون کا تھوڑا سا مقابلہ کر کے آپ کی کچھ خدمت کی جائے۔ غرض گورنمنٹ نے اب تک کوئی اشتہار نہیں دیا کہ ہمارے قوانین بھی توریت اور انجیل کی طرح خطا اور غلطی سے خالی ہیں اگر آپ کو کوئی اشتہار پہنچا ہو تو اس کی ایک نقل ہمیں بھی بھیج دیں پھر اگر گورنمنٹ کے قوانین خدا کی کتابوں کی طرح خطا سے خالی نہیں تو ان کا ذکر کرنا یا تو حمق کی وجہ سے ہے یا تعصب کے سبب سے مگر آپ معذور ہیں اگر گورنمنٹ کو اپنے قانون پر اعتماد تھا تو کیوں ان ڈاکٹروں کو سزا نہیں دی جنہوں نے حال میں یورپ میں بڑی تحقیقات سے نو۹ برس بلکہ سات برس کو بھی بعض عورتوں کے بلوغ کا زمانہ قرار دے دیا ہے اور نو ۹برس کی عمر کے متعلق آپ اعتراض کر کے پھر توریت یا انجیل کا کوئی حوالہ نہ دے سکے صرف گورنمنٹ کے قانون کا ذکر کیا اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا توریت اور انجیل پر ایمان نہیں رہا۔ ورنہ نو برس کی حرمت یا تو توریت سے ثابت کرتے یا انجیل سے ثابت کرنی چاہئے تھی۔
(نورالقرآن۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ377تا379)
حضرت عائشہؓ کی آنحضرت ﷺ کے ساتھ شادی پر اعتراض کا جواب
ہندوؤں کے اس اعتراض ،کہ حضرت رسول خدا محمدؐ صاحب کا اپنی بیوی حضرت عائشہ نو سالہ سے ہم بستر ہونا کیا اولاد پیدا کرنے کی نیت سے تھا، کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:۔
یہ اعتراض محض جہالت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ کاش اگر نادان معترض پہلے کسی محقق ڈاکٹر یا طبیب سے پوچھ لیتا تو اس اعتراض کرنے کے وقت بجز اس کے کسی اور نتیجہ کی توقع نہ رکھتا کہ ہریک حقیقت شناس کی نظر میں نادان اور احمق ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر مون صاحب جو علوم طبعی اور طبابت کے ماہر اور انگریزوں میں بہت مشہور محقق ہیں وہ لکھتے ہیں کہ گرم ملکوں میں عورتیں آٹھ یا نو برس کی عمر میں شادی کے لائق ہو جاتی ہیں۔ کتاب موجود ہے تم بھی اسی جگہ ہو اگر طلب حق ہے تو آکر دیکھ لو۔ اور حال میں ایک ڈاکٹر صاحب جنہوںنے کتاب معدن الحکمت تالیف کی ہے۔ وہ اپنی کتاب تدبیر بقاء نسل میں بعینہ یہی قول لکھتے ہیں جو اوپر نقل ہو چکا اور صفحہ ۴۶ میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی تحقیقات سے یہ ثابت ہے کہ نو یا آٹھ یا پانچ یا چھ برس کی لڑکیوں کو حیض آیا۔ یہ کتاب بھی میرے پاس موجود ہے جو چاہے دیکھ لے۔ ان کتابوں میں کئی اور ڈاکٹروں کا نام لے کر حوالہ دیا گیا ہے اور چونکہ یہ تحقیقاتیں بہت مشہور ہیں اور کسی دانا پر مخفی نہیں اس لئے زیادہ لکھنے کی حاجت نہیں۔ اور حضرت عائشہ کا نو سالہ ہونا تو صرف بے سروپا اقوال میں آیا ہے۔ کسی حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں لیکن ڈاکٹر واہ صاحب کا ایک چشم دید قصہ لینسٹ نمبر ۱۵ مطبوعہ اپریل ۱۸۸۱ء میں اس طرح لکھا ہے کہ انہوں نے ایسی عورت کو جنایا جس کو ایک برس کی عمر سے حیض آنے لگا تھا اور آٹھویں برس حاملہ ہوئی اور آٹھ۸ برس دس۱۰ مہینہ کی عمر میں لڑکا پیدا ہوا۔ (آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ63،64)
تعدّدِازدواج میں عدل کے تقاضے
ایک احمدی نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ تعدّد ازدواج میں جو عدل کا حکم ہے کیا اس سے یہی مراد ہے کہ مرد بحیثیت اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ (النساء : 35) کے خود ایک حاکم عادل کی طرح جس بیوی کو سلوک کے قابل پاوے ویسا سلوک اس سے کرے یا کچھ اور معنی ہیں؟حضرت اقدس ؑ نے فرمایا:
محبت کو قطع نظر بالائے طاق رکھ کر عملی طور پر سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئے مثلاً پارچہ جات، خرچ خوراک ،معاشرت حتیٰ کہ مباشرت میں بھی مساوات بَرتے۔یہ حقوق اس قسم کے ہیں کہ اگر انسان کو پورے طور پر معلوم ہوں تو بجائے بیاہ کے وہ ہمیشہ رنڈوارہنا پسند کرے۔خدا تعالیٰ کی تہدید کے نیچے رہ کر جو شخص زندگی بسر کرتا ہے وہی اُن کی بجا آوری کا دم بھر سکتا ہے۔ایسے لذات کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے،تلخ زندگی بسر کر لینی ہزار ہا درجہ بہتر ہے۔تعدّد ازدواج کی نسبت اگر ہم تعلیم دیتے ہیں تو صرف اس لیے کہ معصیت میں پڑنے سے انسان بچا رہے اور شریعت نے اسے بطور علاج کے ہی رکھا ہے کہ اگر انسان اپنے نفس کامیلان اور غلبہ شہوات کی طرف دیکھے اور اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہو تو زنا سے بچنے کے لیے دوسری شادی کر لے لیکن پہلی بیوی کے حقوق تلف نہ کرے۔تو رات سے بھی یہی ثابت ہے کہ اُس کی دلداری زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ اُس نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق خاوند کا اس کے ساتھ ہوتا ہے۔پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہانتک کرنی چاہیے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواجِ ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو اور نہ کسی شرعی ضرورت کا اُس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر اُن اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لیے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔۔۔۔
خدا کے قانون کو اس کی منشاء کے برخلاف ہرگز نہ برتنا چاہئے اور نہ اُس سے ایسا فائدہ اُٹھانا چاہئے جس سے وہ صرف نفسانی جذبات کی ایک سِپربن جاوے ۔ یاد رکھو کہ ایسا کرنا معصیت ہے خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے کہ شہوات کا تم پر غلبہ نہ ہوبلکہ تمہاری غرض ہر ایک امر میں تقویٰ ہو۔اگر شریعت کوسِپر بناکرشہوات کی اتباع کے لئے بیویاں کی جاویں گی تو سوائے اس کے اور کیا نتیجہ ہوگا کہ دوسری قومیں اعتراض کریں کہ مسلمانوں کو بیویاں کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔ زناکانام ہی گناہ نہیں بلکہ شہوات کا کھلے طورپر دِل میں پڑ جانا گناہ ہے۔ دنیاوی تمتع کا حصہ انسانی زندگی میں بہت ہی کم ہونا چاہئے ،تاکہ فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّالْیَبْکُوْا کَثِیْرًا (توبہ :82) یعنی ہنسو تھوڑا اور روؤ بہت، کا مصداق بنو۔ لیکن جس شخص کی دنیاوی تمتع کثرت سے ہیں اور وہ رات دن بیویوں میں مصروف ہے اُس کو رقّت اور رونا کب نصیب ہوگا۔ اکثر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایک خیال کی تائید اور اتباع میں تمام سامان کرتے ہیں اور اس طرح سے خدا تعالیٰ کے اصل منشاء سے دور جاپڑتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اگرچہ بعض اشیاء جائز تو کردی ہیں مگر اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ عمر ہی اس میں بسر کی جاوے۔خدا تعالیٰ تو اپنے بندوں کی صفت میں فرماتا ہے یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًاوَّقِیَامًا (الفرقان:65) کہ وہ اپنے رب کے لئے تمام تمام رات سجدہ اور قیام میں گزارتے ہیں۔اب دیکھو رات دن بیویوں میں غرق رہنے والا خدا کے منشاء کے موافق رات کیسے عبادت میں کاٹ سکتا ہے۔ وہ بیویاں کیا کرتا ہے گویا خدا کے لئے شریک پیدا کرتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کی نوبیویاں تھیں اورباوجود اُن کے پھر بھی آپ ؐ ساری ساری رات خدا کی عبادت میں گزارتے تھے۔ایک رات آپؐ کی باری عائشہ صدیقہ ؓکے پاس تھی ، کچھ حصہ رات کا گزر گیا تو عائشہؓ کی آنکھ کھلی۔ دیکھا کہ آپ ؐ موجود نہیں، اُسے شبہ ہوا کہ شاید آپ ؐ کسی اور بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ اُس نے اُٹھ کر ہرایک کے گھر میں تلاش کیا مگر آپؐ نہ ملے ۔آخر دیکھا کہ آپؐ قبرستان میں ہیں اورسجدہ میں رو رہے ہیں۔ اب دیکھو کہ آپؐ زندہ اور چہیتی بیوی کو چھوڑ کر مُردوں کی جگہ قبرستان میں گئے اور روتے رہے تو کیا آپؐ کی بیویاں حظّ نفس یا اتباع شہوت کی بناء پر ہوسکتی ہیں؟ غرض کہ خوب یادرکھوکہ خدا کااصل منشاء یہ ہے کہ تم پر شہوات غالب نہ آویں اور تقوٰی کی تکمیل کے لئے اگر ضرورت حقہ پیش آوے تو اور بیوی کرلو۔
(البدر 8جولائی 1904ء صفحہ2)
اسلام نے کثرتِ ازدواج کا راستہ روکا ہے
کثرتِ ازدواج کے اعتراض میں ہماری طرف سے وہی معمولی جواب ہوگا کہ اسلام سے پہلے اکثر قوموں میں کثرت ازدواج کی سینکڑوں اورہزاروں تک نوبت پہنچ گئی تھی اور اسلام نے تعدّد ازدواج کو کم کیا ہے نہ زیادہ۔بلکہ یہ قرآن میں ہی ایک فضیلت خاص ہے کہ اس نے ازدواج کی بے حدی اور بے قیدی کو ردّ کردیا ہے۔ (حجۃ الاسلام۔روحانی خزائن جلد6صفحہ47)
تعدّد ازدواج کی ضرورت اور حکمت
آریہ سماج والے تعدّد ازدواج کونظر نفرت سے دیکھتے ہیں مگر بلا شبہ وہ اس ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں جس کے لئے اکثر انسان تعدد ازدواج کے لئے مجبور ہوتا ہے ۔ اور وہ یہ کہ انسان جو اشرف المخلوقات ہے اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ اپنی نسل باقی رہنے کے لئے کوئی احسن طریق اختیار کرے اور لاولد رہنے سے اپنے تئیں بچاوے اور یہ ظاہر ہے کہ بسا اوقات ایک بیوی سے اولاد نہیں ہوتی اور یاہوتی ہے اور بباعث لاحق ہونے کسی بیماری کے مر مرجاتی ہے اور یا لڑکیاں ہی پیدا ہوتی ہیںاورایسی صورت میں مرد کو دوسری بیوی کی نکاح کے لئے ضرورت پیش آتی ہے۔خاص کر ایسے مرد جن کی نسل کا مفقود ہونا قابلِ افسوس ہوتا ہے اوراُن کی ملکیت اورریاست کو بہت حرج اور نقصان پہنچتا ہے ۔ ایسا ہی اور بہت سے وجوہ تعدد نکاح کے لئے پیش آتے ہیں۔۔۔۔۔۔قرآن شریف میں انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے تعددازدواج کو روا رکھا ہے اور من جملہ ان ضرورتوں کے ایک یہ بھی ہے کہ تابعض صورتوں میں تعددازدواج نسل قائم رہنے کا موجب ہو جائے کیونکہ جس طرح قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے اسی طرح نسل سے بھی قومیں بنتی ہیں اوراس میں کچھ شک نہیں کثرتِ نسل کے لئے نہایت عمدہ طریق تعدّد ازدواج ہے۔پس وہ برکت جس کا دوسرے لفظوں میں نام کثرتِ نسل ہے اس کا بڑا بھاری ذریعہ تعدد ازدواج ہی ہے ۔ ۔۔۔۔ہندوؤں کے وہ بزرگ جو اوتار کہلاتے تھے ان کا تعدّد ازدواج بھی ثابت ہے ۔ چنانچہ کرشن جی کی ہزاروںبیویاں بیان کی جاتی ہیںاور اگر ہم اس بیان کو مبالغہ خیال کریں تو اس میں شک نہیں کہ دس بیس تو ضرور ہوں گی۔راجہ رام چندر کے باپ کی بھی دو بیویاں تھیں اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے وید میں کہیں تعدد ازدواج کی ممانعت نہیں پائی جاتی ورنہ یہ بزرگ لوگ ایسا کام کیوں کرتے جو وید کے برخلاف تھا۔ایساہی باوانانک صاحب جو ہندو قوم میں ایک بڑے مقدس آدمی شمار کئے گئے ہیں ان کی بھی دو بیویاں تھیں۔
اس جگہ مخالفوں کی طرف سے یہ اعتراض ہوا کرتا ہے کہ تعدد ازدواج میں یہ ظلم ہے کہ اعتدال نہیں رہتا۔ اعتدال اسی میں ہے کہ ایک مرد کے لئے ایک ہی بیوی ہومگر مجھے تعجب ہے کہ وہ دوسروں کے حالات میں کیوں خوانخواہ مداخلت کرتے ہیں جبکہ یہ مسئلہ اسلام میں شائع متعارف ہے کہ چار تک بیویاں کرنا جائز ہے۔مگر جبر کسی پر نہیںاورہر ایک مرد اور عورت کو اس مسئلہ کی بخوبی خبر ہے تویہ ان عورتوں کا حق ہے کہ جب کسی مسلمان سے نکاح کرنا چاہیں تو اول شرط کرالیں کہ ان کا خاوند کسی حالت میں دوسری بیوی نہیں کرے گا اوراگر نکاح سے پہلے ایسی شرط لکھی جائے تو بے شک ایسی بیوی کا خاوند اگر دوسری بیوی کرے تو جُرم نقضِ عہد کا مرتکب ہوگا۔لیکن اگر کوئی عورت ایسی شرط نہ لکھاوے اورحکم شرع پر راضی ہووے تواس حالت میں دوسرے کا دخل دینا بے جا ہوگااوراس جگہ یہ مثل صادق آئے گی کہ میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ہرایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ خدا نے تعدّد ازدواج فرض واجب نہیں کیا ہے ۔خدا کے حکم کی رو سے صرف جائز ہے۔پس اگر کوئی مرد اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے اس جائز حکم سے فائدہ اُٹھانا چاہے جو خدا کے جاری کردہ قانون کی رُو سے ہے اوراس کی پہلی بیوی اس پر راضی نہ ہو تواس بیوی کے لئے یہ راہ کشادہ ہے کہ وہ طلاق لے لے اور اس غم سے نجات پاوے اوراگر دوسری عورت جس سے نکاح کرنے کا ارادہ ہے اس نکاح پر راضی نہ ہو تواس کے لئے بھی یہ سہل طریق ہے کہ ایسی درخواست کرنے والے کو انکاری جواب دے دے۔کسی پر جبر تو نہیں لیکن اگر وہ دونوں عورتیں اس نکاح پر راضی ہو جاویں اس صورت میں کسی آریہ کو خوانخواہ دخل دینے اور اعتراض کرنے کا کیاحق ہے۔۔۔۔۔یہ مسئلہ حقوق عباد کے متعلق ہے اور جو شخص دو بیویاں کرتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کا حرج نہیں۔ اگر حرج ہے تو اس بیوی کا جو پہلی بیوی ہے یادوسری بیوی کا ۔پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پاسکتی ہے اوراگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکمِ وقت وہ خلع کراسکتی ہے۔ اوراگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج سمجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھتی ہے ۔ پس یہ اعتراض کرنا کہ اس طور سے اعتدال ہاتھ سے جاتا ہے خوانخواہ کا دخل ہے اوربایں ہمہ خدا تعالیٰ نے مردوں کو وصیت فرمائی ہے کہ اگر ان کی چند بیویاں ہوں تو ان میں اعتدال رکھیں ورنہ ایک ہی بیوی پر قناعت کریں۔
اور یہ کہنا کہ تعدد ازدواج شہوت پرستی سے ہوتا ہے یہ بھی سراسر جاہلانہ اورمتعصبانہ خیال ہے ۔ہم نے تو اپنی آنکھوں کے تجربہ سے دیکھا ہے کہ جن لوگوں پر شہوت پرستی غالب ہے اگر وہ تعدّد ازدواج کی مبارک رسم کے پابند ہوجائیں تب تو وہ فسق و فجور اورزناکاری اور بدکاری سے رک جاتے ہیں اور یہ طریق ان کو متقی اور پرہیزگار بنادیتا ہے۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ244تا247)
عرب میں صدہا بیویوں تک نکاح کر لیتے تھے اور پھر ان کے درمیان اعتدال بھی ضروری نہیں سمجھتے تھے ایک مصیبت میں عورتیں پڑی ہوئی تھیں جیسا کہ اس کا ذکر جان ڈیون پورٹ اور دوسرے بہت سے انگریزوں نے بھی لکھا ہے۔ قرآن کریم نے ان صدہا نکاحوں کے عدد کو گھٹا کر چار تک پہنچا دیا بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا (النسائ:4)یعنی اگر تم ان میں اعتدال نہ رکھو تو پھر ایک ہی رکھو۔ پس اگر کوئی قرآن کے زمانہ پر ایک نظر ڈال کر دیکھے کہ دنیا میں تعدد ازدواج کس افراط تک پہنچ گیا تھا اور کیسی بے اعتدالیوں سے عورتوں کے ساتھ برتائو ہوتا تھا تو اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ قرآن نے دنیا پر یہ احسان کیا کہ ان تمام بے اعتدالیوں کو موقوف کر دیا لیکن چونکہ قانون قدرت ایسا ہی پڑا ہے کہ بعض اوقات انسان کو اولاد کی خواہش اور بیوی کے عقیمہ ہونے کے سبب سے یا بیوی کے دائمی بیمار ہونے کی وجہ سے یا بیوی کی ایسی بیماری کے عارضہ سے جس میں مباشرت ہرگز ناممکن ہے جیسی بعض صورتیںخروج رحم کی جن میں چھونے کے ساتھ ہی عورت کی جان نکلتی ہے اور کبھی دس دس سال ایسی بیماریاں رہتی ہیں اوریا بیوی کا زمانہ پیری جلد آنے سے یا اس کے جلد جلد حمل دار ہونے کے باعث سے فطرتاً دوسری بیوی کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے اس قدر تعدد کے لئے جواز کا حکم دے دیا اور ساتھ اس کے اعتدال کی شرط لگا دی سو یہ انسان کی حالت پر رحم ہے تا وہ اپنی فطری ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت الٰہی حکمت کے تدارک سے محروم نہ رہے جن کو اس بات کا علم نہیں کہ عرب کے باشندے قرآن شریف سے پہلے کثرت ازدواج میں کس بے اعتدالی تک پہنچے ہوئے تھے ایسے بیوقوف ضرور کثرت ازدواجی کا الزام اسلام پر لگائیں گے مگر تاریخ کے جاننے والے اس بات کا اقرار کریں گے کہ قرآن نے ان رسموں کو گھٹایا ہے نہ کہ بڑھایا۔ (آریہ دھرم روحانی خزائن جلد 10صفحہ44،45)
کسی خاندان کا سلسلہ صرف ایک ایک بیوی سے ہمیشہ کیلئے جاری نہیں رہ سکتا بلکہ کسی نہ کسی فرد سلسلہ میں یہ دقت آ پڑتی ہے کہ ایک جورو عقیمہ اور ناقابل اولاد نکلتی ہے۔ اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ دراصل بنی آدم کی نسل ازدواج مکرر سے ہی قائم و دائم چلی آتی ہے۔ اگر ایک سے زیادہ بیوی کرنا منع ہوتا تو اب تک نوع انسان قریب قریب خاتمہ کے پہنچ جاتی۔ تحقیق سے ظاہر ہوگا کہ اس مبارک اور مفید طریق نے انسان کی کہاں تک حفاظت کی ہے اور کیسے اس نے اجڑے ہوئے گھروں کو بیک دفعہ آباد کردیا ہے اور انسان کے تقویٰ کیلئے یہ فعل کیسا زبردست ممدومعین ہے۔ خاوندوں کی حاجت براری کے بارے میں جو عورتوں کی فطرت میں ایک نقصان پایا جاتا ہے جیسے ایام حمل اور حیض نفاس میں یہ طریق بابرکت اس نقصان کا تدارک تام کرتا ہے اور جس حق کا مطالبہ مرد اپنی فطرت کی رو سے کرسکتا ہے وہ اسے بخشتا ہے۔ ایسا ہی مرد اور کئی وجوہات اور موجبات سے ایک سے زیادہ بیوی کرنے کیلئے مجبور ہوتا ہے مثلاً اگر مرد کی ایک بیوی تغیر عمر یا کسی بیماری کی وجہ سے بدشکل ہوجائے تو مرد کی قوت فاعلی جس پر سارا مدار عورت کی کاروائی کا ہے بے کار اور معطل ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر مرد بدشکل ہو تو عورت کا کچھ بھی حرج نہیں کیونکہ کاروائی کی َکل مرد کو دی گئی ہے اور عورت کی تسکین کرنا مرد کے ہاتھ میں ہے۔ ہاں اگر مرد اپنی قوت مردی میں قصور یا عجز رکھتا ہے تو قرآنی حکم کے رو سے عورت اس سے طلاق لے سکتی ہے۔ اور اگر پوری پوری تسلی کرنے پر قادر ہو تو عورت یہ عذر نہیں کرسکتی کہ دوسری بیوی کیوں کی ہے۔ کیونکہ مرد کی ہر روزہ حاجتوں کی عورت ذمہ دار اور کار برار نہیں ہوسکتی اور اس سے مرد کا استحقاق دوسری بیوی کرنے کیلئے قائم رہتا ہے۔ جو لوگ قوی الطاقت اور متقی اور پارسا طبع ہیں ان کیلئے یہ طریق نہ صرف جائز بلکہ واجب ہے۔
(آئینہ کمالاتِ اسلام ۔ روحانی خزائن جلد5صفحہ281،282)
تعدد ازدواج ،حکم نہیں بلکہ اجازت ہے
ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اسلا م میں جو چا ر بیو یا ںرکھنے کا حکم ہے یہ بہت خراب ہے اور سا ری بد اخلا قیو ں کا سر چشمہ ہے ۔ فر ما یا :
چا ر بیو یا ں رکھنے کا حکم تو نہیں دیا بلکہ اجا زت دی ہے کہ چا ر تک رکھ سکتا ہے اس سے یہ تو لا زم نہیں آتا کہ چا ر ہی کو گلے کا ڈھو ل بنا لے۔ قر آن کا منشا ء تو یہ ہے کہ چو نکہ انسا نی ضروریات مختلف ہو تی ہیں اس واسطے ایک سے لیکر چا ر تک اجا زت دی ہے ایسے لو گ جو ایک اعتر اض کو اپنی طر ف سے پیش کر تے ہیں اور پھر وہ خو د اسلا م کا دعو یٰ بھی کر تے ہیں میں نہیں جا نتا کہ ان کا ایما ن کیسے قائم رہ جا تا ہے ۔وہ تو اسلا م کے معتر ض ہیں ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک مقنن کو قانو ن بنا نے کے وقت کن کن با تو ں کا لحا ظ ہو تا ہے ۔ بھلا اگرکسی شخص کی ایک بیو ی ہے اسے جذا م ہو گیا ہے یا آتشک میں مبتلا ہے یا اند ھی ہو گئی ہے یا اس قا بل ہی نہیں کہ اولاد اس سے حا صل ہو سکے وغیر ہ وغیر ہ عوارض میں مبتلا ہوجا وے تو اس حا لت میں اب اس خاوند کو کیا کر نا چا ہیئے کیا اسی بیو ی پر قنا عت کر ے ؟ایسی مشکلا ت کے وقت کیا تد بیر پیش کرتے ہیں ۔ یا بھلا اگر وہ کسی قسم کی بد معا شی زنا وغیر ہ میں مبتلا ہو گئی تو کیا اب اس خا وند کی غیر ت تقا ضا کر ے گی کہ اسی کو اپنی پر عصمت بیو ی کا خطا ب دے رکھے ؟ خدا جا نے یہ اسلا م پر ا عتر اض کر تے وقت اندھے کیو ں ہو جا تے ہیں ۔ یہ با ت ہما ر ی سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ مذہب ہی کیا ہے جو انسا نی ضروریا ت کو ہی پو را نہیں کر سکتا ۔ اب ان مذکو رہ حالتوں میںعیسویت کیا تدبیر بتا تی ہے ؟ قرآن شریف کی عظمت ثا بت ہو تی ہے کہ انسا نی کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کا پہلے سے ہی اس نے قا نو ن نہ بنا دیا ہو ۔ اب تو انگلستا ن میں بھی ایسی مشکلات کی وجہ سے کثر ت از دواج اور طلا ق شروع ہو تا جا تا ہے ۔ ابھی ایک لا رڈ کی بابت لکھا تھا کہ اس نے دوسر ی بیو ی کر لی آخر اسے سزا بھی ہو ئی مگر وہ امریکہ میںجا رہا۔
غو ر سے دیکھو کہ انسا ن کے واسطے ایسی ضر ور تیں پیش آتی ہیں یا نہیں کہ یہ ایک سے زیادہ بیویاں کر لے جب ایسی ضرور تیں ہو ں اور انکا علا ج نہ ہو تو یہی نقص ہے جس کے پو را کر نے کو قرآن شر یف جیسی اتم اکمل کتا ب بھیجی ہے ۔
(الحکم 28فروری 1903ء صفحہ15)
بیویوں کے درمیان اعتدال ضروری ہے
کثرت ازدواج کے متعلق صاف الفاظ قرآن کریم میں دودو ،تین تین،چار چار کر کے ہی آرہے ہیں مگر اسی آیت میں اعتدال کی بھی ہدایت ہے۔اگر اعتدال نہ ہو سکے اور محبت ایک طرف زیادہ ہو جاوے یا آمدنی کم ہو اور یا قوائے رجولیت ہی کمزورہوں تو پھر ایک سے تجاوز کرنا نہیں چاہیے۔ہمارے نزدیک یہی بہتر ہے کہ انسان اپنے تئیں ابتلاء میں نہ ڈالے،کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (البقرہ:۱۹۱)۔۔۔۔غرض اگر حلال کو حلال سمجھ کر انسان بیویوں ہی کا بندہ ہو جائے ،تو بھی غلطی کرتا ہے۔ہر ایک شخص اللہ تعالیٰ کی منشاء کو نہیں سمجھ سکتا۔اس کا یہ منشاء نہیں کہ بالکل زن مرید ہو کر نفس پرست ہی ہو جائو اوروہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ رہبانیت اختیار کرو بلکہ اعتدال سے کام لو اور اپنے تئیں بے جا کار وائیوں میں نہ ڈالو۔
انبیاء علیہم السلام کے لئے کوئی نہ کوئی تخصیص اگر اللہ تعالیٰ کر دیتا ہے،تو یہ کوتاہ اندیش لوگوں کی ابلہ فریبی اور غلطی ہے کہ اس پر اعتراض کرتے ہیں۔دیکھو تورایت میں کاہنوں کے فرقے کے ساتھ مراعات ملحوظ رکھی گئی ہیںاور ہندوؤں کے برہمنوں کے لئے خاص رعائتیں ہیں۔پس یہ نادانی ہے کہ انبیا ء علیہم السلام کی کسی تخصیص پر اعتراض کیا جاوے۔ان کا نبی ہونا ہی سب سے بڑی خصوصیت ہے جو اور لوگوں میں موجود نہیں۔
(الحکم 6مارچ1898ء صفحہ2 )
عورتوں کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے
فرمایا :
ہم اپنی جماعت کو کثرتِ ازدواج کی تاکید کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ کثرتِ ازدواج سے اولاد بڑھاؤ تاکہ اُمت زیادہ ہو۔ نیز بعض اشخاص کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ وہ بدکاری اوربد نظری سے بچنے کے واسطے ایک سے زیادہ شادی کریں یا کوئی اور شرعی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ کثرتِ ازدواج کی اجازت بطور علاج اور دوا کے ہے۔ یہ اجازت عیش وعشرت کی غرض سے نہیں ہے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ انسان کے ہر امر کا مدار اُس کی نیت پر ہے۔ اگر کسی کی نیت لذات کی نہیں بلکہ نیت یہ ہے کہ اس طرح خدامِ دین پیدا ہوںتو کوئی حرج نہیں۔ محبت کو قطع نظر کرکے اور بالائے طاق رکھ کر یہ اختیاری امر نہیں، باقی امور میں سب بیویوں کوبرابر رکھنا چاہیے مثلًا پارچات، خرچ، خوراک، مکان،معاشرت حتّٰی کہ مباشرت میں مساوات ہونی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان حقوق کو پورے طورپر ادا نہیں کرسکتا تواس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کثرتِ ازدواج کرے۔ بلکہ عورتوں کے حقوق ادا کرنا ایسا تاکیدی فرض ہے کہ اگر کوئی شخص ان کو ادا نہیں کرسکتا تواس کے واسطے بہتر ہے کہ وہ مجرد ہی رہے۔ ایسے لذات میں پڑنے کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پررہے یہ بہتر ہے کہ اِنسان تلخ زندگی بسر کرے اور معصیت میں پڑنے سے بچا رہے۔ اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوت کی طرف دیکھے کہ اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہے تو اس معصیت سے بچنے کے واسطے بھی جائز ہے کہ انسان دوسری شادی کرلے۔ لیکن اس صورت میں پہلی بیوی کے حقوق کو ہرگز تلف نہ کرے بلکہ چاہیے کہ پہلی بیوی کی دلداری پہلے سے زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ انسان نے اس کے ساتھ گذاراہوا ہوتا ہے ۔ اورایک گہرا تعلق اس کے ساتھ قائم ہوچکا ہوا ہوتا ہے۔ پہلی بیوی کی رعایت اوردلداری یہاں تک ضروری ہے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دُوسری بیوی کے کرنے سے اُس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اورحد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے ۔ تو اگر وہ صبر کرسکے اورمعصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو اورکسی شرعی ضرورت کا اس سے خون نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر انسان اپنی ضرورتوں کی قربانی اپنی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کردے اورایک ہی بیوی پر اکتفاء کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ اس صورت میں دوسری شادی نہ کرے۔ قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو تقویٰ پر قائم رکھے اور دوسرے اغراض مثل اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اورخویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو۔ اورانہی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چارعورتوں تک نکاح کرلو۔ لیکن اگر اُن میں عدل نہ کرسکو تو پھر یہ فسق ہوگا اوربجائے ثواب کے عذاب حاصِل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے۔دل دکھانا بڑا گناہ ہے اورلڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں۔ جب والدین اُن کو اپنے سے جدا اوردوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا اُمیدیں اُن کے دِلوں میں ہوتی ہیں۔
(ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 205،206)
تعدد ازدواج برائیوں سے روکنے کا ذریعہ ہے
(مخالفینِ اسلام)اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام نے بہت عورتوں کی اجازت دی ہے۔ہم کہتے ہیں کہ کیا کوئی ایسا دلیر اور مرد میدان معترض ہے جو ہم کو یہ دکھلا سکے کہ قرآن کہتا ہے کہ ضرور ضرور ایک سے زیادہ عورتیں کرو۔ ہاں یہ ایک سچی بات ہے اور بالکل طبعی امر ہے کہ اکثر اوقات انسان کو ضرورت پیش آجاتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ عورتیں کرے۔مثلاً عورت اندھی ہو گئی ہے یا اور کسی خطر ناک مرض میں مبتلا ہو کر اس قابل ہو گئی کہ خانہ داری کے امور سر انجام نہیں دے سکتی اور مرد از راہ ہمدردی یہ بھی نہیں چاہتا کہ اسے علیحدہ کرے یا رحم کی خطر ناک بیماریوں کا شکار ہو کر مرد کی طبعی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتی تو ایسی صورت میں نکاح ثانی کی اجازت نہ ہوتو بتلاؤ کہ کیا اس سے بدکاری اور بد اخلاقی کو ترقی نہ ہو گی؟پھر اگر کوئی مذہب یا شریعت کثرت ازواج کو روکتی ہے تو یقیناً وہ بد کاری اور بداخلاقی کی مؤید ہے لیکن اسلام جو دنیا سے بد اخلاقی اور بد کاری کو دور کرنا چاہتا ہے، اجازت دیتا ہے کہ ایسی ضرورتوں کے لحاظ سے ایک سے زیادہ بیویاں کرے۔ایسا ہی اولاد کے نہ ہونے پر جبکہ لا ولد کے پس مرگ خاندان میں بہت سے ہنگامے اور کشت وخون ہونے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ایک ضروری امر ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بیویاں کر کے اولاد پیدا کرے بلکہ ایسی صورت میں نیک اور شریف بیبیاں خود اجازت دے دیتی ہیں،پس جس قدر غور کرو گے یہ مسئلہ صاف اور روشن نظر آئے گا۔عیسائی کو تو حق ہی نہیں پہنچتا کہ اس مسئلہ پر نکتہ چینی کرے کیونکہ ان کے مسلمہ نبی اور ملہم بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بزرگوں نے سات سات سو اور تین تین سو بیبیاں کیں اور اگر وہ کہیں کہ وہ فاسق فاجر تھے،تو پھر ان کو اس بات کا جواب دینا مشکل ہو گا کہ ان کے الہام خدا کے الہام کیوں کر ہو سکتے ہیں؟عیسائیوں میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو نبیوں کی شان میں ایسی گستاخیاں جائز نہیں رکھتے ۔علاوہ ازیں انجیل میں صراحت سے اس مسئلہ کو بیان ہی نہیں کیا گیا۔لنڈن کی عورتوں کا زور ایک باعث ہو گیا کہ دوسری عورت نہ کریں۔پھر اس کے نتائج خود دیکھ لو کہ لنڈن اور پیرس میں عفت اور تقویٰ کی کیسی قدر ہے۔
(الحکم 10جنوری 1899ء صفحہ8 )
پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے رشتہ کرنے کو معیوب سمجھنا ٹھیک نہیں
سوال پیش ہوا کہ بعض لوگ یہ عذرکرتے ہیں کہ جس کی عورت آگے موجود ہو اس کو ہم ناطہ نہیں دیتے۔ فرمایا :
’’ پھر وہ اس سے تو مَثْنٰی وثُلََاثَ وَ رُبَاعَ کو بند کرنا چاہتے ہیں ۔‘‘
(الحکم 10فروری 1907ء صفحہ4)
مہر کی مقدار
مہر کے متعلق ایک شخص نے پو چھا کہ اس کی تعداد کس قدر ہو نی چا ہیے ؟فر ما یا
تر اضی طرفین سے جو ہو اس پر کو ئی حرف نہیں آتا اور شرعی مہر سے یہ مراد نہیں کہ نصوص یا احادیث میں کوئی اس کی حد مقر ر کی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس وقت کے لو گوں کے مر وجہ مہر سے ہوا کر تی ہے ہمارے ملک میں یہ خرابی ہے کہ نیت اور ہو تی ہے اور محض نمود کے لیے لا کھ لا کھ رو پے کا مہر ہو تا ہے صرف ڈراوے کے لیے یہ لکھا جا یا کرتاہے کہ مردقابو میں رہے اور اس سے پھر دوسرے نتائج خراب نکل سکتے ہیں نہ عورت والوں کی نیت لینے کی ہو تی ہے اور نہ خاوند کی دینے کی ۔
میر امذہب یہ ہے کہ جب ایسی صورت میں تنا زعہ آپڑے تو جب تک اس کی نیت یہ ثابت نہ ہو کہ ہاں رضا ورغبت سے وہ اسی قدر مہر پر آمادہ تھا جس قدر کہ مقر ر شدہ ہے تب تک مقررشدہ نہ دلا یا جاوے اور اس کی حیثیت اور رواج وغیرہ کو مد نظر رکھ کر پھر فیصلہ کیا جاوے کیو نکہ بد نیتی کی اتباع نہ شریعت کر تی ہے اور نہ قانون ۔
(بدر8مئی1903ء صفحہ123)
حق مہر خاوند کی حیثیت کے مطابق ہو
سوال:۔ ایک عورت اپنا مہرنہیں بخشتی ۔
جواب:۔ یہ عورت کا حق ہے اسے دینا چا ہیے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کر نا چاہیے،پنجاب اور ہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر اپنا مہر خاوند کو بخش دیتی ہیں۔یہ صرف رواج ہے جو مروت پر دلالت کرتا ہے۔
سوال:۔ اور جن عورتوں کا مہر مچھر کی دومن چربی ہو وہ کیسے ادا کیا جاوے ؟
جواب:۔ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا (البقرۃ:۲۸۷)
اس کا خیال مہر میں ضرور ہو نا چاہیئے خاوند کی حیثیت کو مد نظر رکھنا چاہیئے اگر اس کی حیثیت دس روپے کی نہ ہو تو وہ ایک لاکھ روپے کا مہر کیسے ادا کر یگا اور مچھروں کی چربی تو کوئی مہر ہی نہیں یہ لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا میںداخل ہے ۔
(البدر 16؍مارچ1904ء صفحہ6)
واجب الادا مہر کی ادائیگی لازمی ہے
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ ایک شخص اپنی منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتی تھی تُو اپنی نصف نیکیاں مجھے دے دے تو بخش دُوں۔ خاوند کہتا رہا کہ میرے پاس حسنات بہت کم ہیں بلکہ بالکل ہی نہیں ہیں۔ اب وہ عورت مرگئی ہے خاوند کیا کرے؟
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا کہ :۔
اسے چاہیے کہ اس کا مہر اس کے وارثوں کو دے دے۔ اگر اس کی اولاد ہے تو وہ بھی وارثوں میں شرعی حصہ لے سکتی ہے اور علی ہٰذا القیاس خاوند بھی لے سکتا ہے ۔
(البدر 5مارچ1905ء صفحہ2)
مہر کی ادائیگی سے قبل مہر کی معافی نہیں ہوسکتی
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
عورت کو مہر ادا کئے جانے سے پہلے معافی کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔وہ مال اس کا حق ہے اس کو پہلے وہ مال ملنا چاہئے۔ پھر اگر وہ چاہے تو واپس کردے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی فتویٰ ہے۔ آپ نے حکیم فضل دین صاحب مرحوم کے بیان کرنے پر کہ ان کی بیویوں نے مہر معاف کردیا ہے۔ فرمایا کہ پہلے ان کو مہر دے دو۔ پھر وہ واپس دے دیں تو سمجھو کہ معاف کردیا ہے۔ جب انہوں نے روپیہ دیا تو بیویوں نے لے لیا اورکہا کہ اب تو ہم معاف نہیں کرتیں۔
بعض فقہاء کا قول ہے کہ مہر دے کر فورًا بھی واپس ہوجائے تو جائز نہیں کچھ مدت تک عورت کے پاس رہے ۔ تب واپس کرے توجائز سمجھا جائے گا۔
( فرمودات مصلح موعودؓ دربارہ فقہی مسائل صفحہ209)
ایک مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے تحریرفرمایا:۔
میں فیصلہ کرتا ہوں کہ مہرسالم پانچ سو روپیہ مدعیہ کو دلایا جائے کیونکہ شریعت کی رو سے عورت کا حق ہے اور بسا اوقات اس کی معافی بھی قابل تسلیم نہیں کیونکہ اس کی ایک رنگ میں ماتحت حالت اس کی معافی کی وقعت کو اصول شرعیہ کے رو سے بہت کچھ گرادیتی ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ ہے۔ پس قبل از ادائیگی مہر معافی کوئی حقیقت نہیں رکھتی خصوصًا جبکہ ہمارے ملک میں عورتوں میں یہ عام خیال ہو کہ مہر صرف نام کا ہوتا ہے بلکہ بعض اس کی وصولی کو ہتک خیال کرتی ہیں۔ ( فرمودات مصلح موعود ؓ دربارہ فقہی مسائل۔ صفحہ212)
اعلانِ نکاح ضروری ہے
میاں اﷲ بخش صاحب امرتسری نے عرض کیا کہ حضور یہ جو براتوں کے ساتھ باجے بجائے جاتے ہیں۔اس کے متعلق حضور کیا حکم دیتے ہیں۔فرمایا :
فقہاء نے اعلان بالدف کو نکاح کے وقت جائز رکھا ہے اور یہ اس لیے کہ پیچھے جو مقدمات ہوتے ہیں تو اس سے گویا ایک قسم کی شہادت ہو جاتی ہے۔ہم کو مقصودبالذات لینا چاہئے ۔اعلان کے لئے یہ کام کیا جاتا ہے یا کوئی اپنی شیخی اور تعلّی کااظہار مقصود ہے۔دیکھا گیا ہے کہ بعض چپ چاپ شادیوں میں نقصان پیدا ہوئے ہیں۔یعنی جب مقدمات ہوئے ہیں تو اس قسم کے سوال اُٹھائے گئے ہیں۔غرض ان خرابیوں کو روکنے کے لیے اور شہادت کے لیے اعلان بالدّف جائز ہے اور اس صورت میں باجا بجانا منع نہیں ہے،بلکہ نسبتوں کی تقریب پر جو شکر وغیرہ بانٹتے ہیں۔دراصل یہ بھی اسی غرض کے لیے ہوتی ہے کہ دوسرے لوگوں کو خبر ہو جاوے اور پیچھے کوئی خرابی پیدا نہ ہو۔مگراب یہ اصل مطلب مفقود ہو کر اس کی جگہ صرف رسم نے لے لی ہے اور اس میں بھی بہت سی باتیں اور پیدا کی گئی ہیں۔پس ان کو رسوم نہ قرار دیا جاوے بلکہ یہ رشتہ ناطہ کو جائز کرنے کے لیے ضروری امور ہیں۔یاد رکھو جن امور سے مخلوق کو فائدہ پہنچتاہے،شرع اس پر ہرگز زد نہیں کرتی۔کیونکہ شرع کی خود یہ غرض ہے کہ مخلوق کو فائدہ پہنچے۔
آتشبازی اور تماشا وغیرہ یہ بالکل منع ہیں،کیونکہ اس سے مخلوق کو کوئی فائدہ بجز نقصان کے نہیں ہے۔اور باجابجانا بھی اسی صورت میں جائز ہے،جبکہ یہ غرض ہو کہ اس نکاح کا عام اعلان ہو جاوے اور نسب محفوظ رہے،کیونکہ اگر نسب محفوظ نہ رہے تو زنا کا اندیشہ ہوتا ہے۔جس پر خدا نے بہت ناراضی ظاہر کی ہے۔یہاں تک کہ زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔اس لیے اعلان کا انتظام ضروری ہے؛البتہ ریاکاری،فسق فجور کے لیے یا صلاح و تقویٰ کے خلاف کوئی منشا ہو تو منع ہے۔شریعت کا مدار نرمی پر ہے سختی پر نہیں ہے۔
لَایُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّاوُسْعَھَا (البقرہ:۲۸۷)باجا کے متعلق حرمت کا کوئی نشان بجز اس کے کہ وہ صلاح وتقویٰ کے خلاف اور ریاکاری اور فسق و فجور کے لیے ہے،پایا نہیں جاتا اور پھر اعلان بالدّف کو فقہاء نے جائز رکھا ہے اور اصل اشیاء حلّت ہے،اس لیے شادی میں اعلان کے لیے جائز ہے۔ (الحکم17؍اکتوبر1902ء صفحہ7،8 )
ولیمہ
تعریفِ ولیمہ پوچھی گئی تو فرمایا :
ولیمہ یہ ہے کہ نکاح کرنے والا نکاح کے بعد اپنے احباب کو کھانا کھلائے۔
(الحکم 10فروری 1907ء صفحہ11)
اسی طرح ایک اور موقعہ پر فرمایا:
نکاح میں کوئی خرچ نہیں، طرفین نے قبول کیا اور نکاح ہوگیا۔ بعدازاں ولیمہ سنت ہے۔ سو اگر اس کی استطاعت بھی نہیں تو یہ بھی معاف ہے۔
(بدر 6فروری 1908ء صفحہ6)
شادی کے موقعہ پر لڑکیوں کا گانا
سوال کیا گیا کہ لڑکی یا لڑکے والوں کے ہاں جو جوان عورتیں مل کر گھر میں گاتی ہیں۔وہ کیسا ہے؟ فرمایا :
اصل یہ ہے کہ یہ بھی اسی طرح پر ہے۔اگر گیت گندے اور ناپاک نہ ہوں،تو کوئی حرج نہیں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لے گئے تو لڑکیوں نے مل کر آپ کی تعریف میں گیت گائے تھے۔
مسجد میں ایک صحابی نے خوش الحانی سے شعر پڑھے تو حضرت عمرؓ نے ان کو منع کیا۔اس نے کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے ہیں۔تو آپؐ نے منع نہیں کیابلکہ آپؐ نے ایک بار اس کے شعر سنے تو آپؐ نے اس کے لیے ’’رحمت اﷲ‘‘ فرمایا اور جس کو آپؐ یہ فرمایا کرتے تھے وہ شہید ہو جایا کرتا تھا۔غرض اس طرح پر اگر فسق و فجور کے گیت نہ ہوںتو منع نہیں۔مگر مردوں کو نہیں چاہیے کہ عورتوں کی ایسی مجلسوں میں بیٹھیں۔یہ یادرکھو کہ جہاں ذرا بھی مظنّہ فسق و فجور کا ہو وہ منع ہے۔
بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفیٰ
یہ ایسی باتیں ہیں کہ انسان ان میں خود فتویٰ لے سکتا ہے جو امر تقویٰ اور خدا کی رضا کے خلاف ہے،مخلوق کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے وہ منع ہے۔اور پھر جو اسراف کرتا ہے،وہ سخت گناہ کرتا ہے۔اگر ریاکاری کرتا ہے،تو گناہ ہے۔غرض کوئی ایسا امر جس میں اسراف، ریا،فسق،ایذائے خلق کا شائبہ ہو وہ منع ہے اور جو اُن سے صاف ہو وہ منع نہیں،گناہ نہیں۔ کیونکہ اصل اشیاء کی حلّت ہے۔ (الحکم 17؍اکتوبر1902ء صفحہ8)
نکاح پر باجا اور آتش بازی
نکاح پرباجا بجانے اورآتش بازی چلانے کے متعلق سوال ہوا فر ما یا کہ :۔
ہما رے دین کی بنایُسر پر ہے عسرپرنہیں اور پھر اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ ضروری چیزہے باجوں کا وجود آنحضرت ﷺکے زما نہ میں نہ تھا۔اعلان نکاح جس میں فسق وفجورنہ ہو۔جائزہے بلکہ بعض صورتوں میںضروری شے ہے کیونکہ اکثر دفعہ نکاحوں کے متعلق مقدمات تک نوبت پہنچتی ہے پھر وراثت پراثر پڑتا ہے ۔اس لیے اعلان کر نا ضروری ہے مگر اس میںکو ئی ایسا امرنہ ہو جو فسق و فجور کا موجب ہو۔رنڈی کا تما شا یاآتش با زی فسق وفجوراور اسراف ہے یہ جائزنہیں ۔
با جے کے ساتھ اعلان پر پوچھا گیا کہ جب برات لڑکے والوں کے گھرسے چلتی ہے کیا اسی وقت سے با جا بجتا جاوے یا نکاح کے بعد ؟فر ما یا :۔ایسے سوالات اورجزو دَر جزو نکالنابے فائدہ ہے۔اپنی نیت کو دیکھو کہ کیا ہے اگر اپنی شان وشوکت دکھانا مقصود ہے تو فضول ہے اور اگر یہ غرض ہے کہ نکاح کا صرف اعلان ہو تو اگر گھر سے بھی با جا بجتا جاوے توکچھ حرج نہیںہے۔ اسلامی جنگوں میں بھی توباجابجتا ہے وہ بھی ایک اعلان ہی ہو تا ہے ۔(الحکم24؍اپریل1903ء صفحہ10)
مہرنامہ رجسٹری کروانا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح حضرت صاحب نے نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ کیا تو مہر چھپن ہزار (۵۶۰۰۰)روپیہ مقرر کیا گیا تھا اور حضرت صاحب نے مہرنامہ کوباقاعدہ رجسٹری کرواکر اس پر بہت سے لوگوں کی شہادتیں ثبت کروائی تھیں اورجب حضرت صاحب کی وفات کے بعد ہماری چھوٹی ہمشیرہ امۃ الحفیظ بیگم کا نکاح خان محمد عبداللہ خان صاحب کے ساتھ ہوا تو مہر(۱۵۰۰۰) مقرر کیا گیا اوریہ مہرنامہ بھی باقاعدہ رجسٹری کرایا گیا تھا۔ لیکن ہم تینوں بھائیوں میں سے جن کی شادیاں حضرت صاحب کی زندگی میں ہوگئی تھیں کسی کا مہرنامہ تحریرہوکر رجسٹر ی نہیں ہوا اور مہر ایک ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا تھا۔ دراصل مہرکی تعداد زیادہ تر خاوند کی موجودہ حیثیت اورکسی قدر بیوی کی حیثیت پر مقرر ہوا کرتی تھی اورمہرنامہ کا باقاعدہ لکھا جانا اور رجسٹری ہونا یہ شخصی حالات پر موقوف ہے۔ چونکہ نواب محمد علی خان صاحب کی جائیداد سرکار انگریزی کے علاقہ میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اوراس کے متعلق بعض تنازعات کے پیدا ہونے کا احتمال ہوسکتا تھا۔ اس لئے حضرت صاحب نے مہرنامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا اور ویسے بھی دیکھا جاوے تو عام حالات میں یہی بہتر ہوتا ہے کہ مہرنامہ اگر رجسٹری نہ بھی ہوتو کم از کم باقاعدہ طورپر تحریر میں آجاوے اور معتبر لوگوں کی شہادتیں اس پر ثبت ہوجاویں۔ کیونکہ دراصل مہر بھی ایک قرضہ ہوتا ہے جس کی ادائیگی خاوند پر فرض ہوتی ہے۔ پس دوسرے قرضہ جات کی طرح اس کے لئے بھی عام حالات میں یہی مناسب ہے کہ وہ ضبطِ تحریر میں آجاوے۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ338،339)
نکاح کے موقع پر زائد شرط رکھنا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہمیاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مسماۃ تابی حضرت مسیح موعود ؑ کی ایک خادمہ تھی۔ اس کی ایک نواسی کا نکاح ایک شخص مسمی فقیرمحمد سکنہ قادیان سے تجویز ہوا۔ حضرت صاحب نے فقیرمحمد کو ایک اشٹام کا کاغذ لانے کی ہدایت فرمائی۔ جب وہ کاغذ لے آیا تو حضرت صاحب نے گول کمرہ میں میری موجودگی میں فقیر محمد کی طرف سے تحریر ہونے کے لئے مضمون بنایا۔ کہ میں اس عورت سے نکاح کرتا ہوں اور ۔/۵۰۰ روپیہ مہر ہوگا اور اس کے اخراجات کا مَیں ذِمہ دار ہوں گا اور اس کی رضامندی کے بغیر (یا یہ فقرہ تھا کہ اس کی حیات تک) دوسرا نکاح نہ کروں گا۔ یہ کاغذ آپ نے مجھے اشٹام پر نقل کرنے کے لئے دیا۔ چنانچہ مَیں نے وہیں نقل کردیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ نکاح میں زائد شرائط مقرر کرنا جائز ہے اور حضرت صاحب نے لکھا ہے ۔۔۔۔کہ نکاحِ ثانی کے متعلق عورت کی طرف سے یہ شرط بھی ہوسکتی ہے کہ میرا خاوند میرے ہوتے ہوئے نکاح ثانی نہیں کرے گا۔ کیونکہ تعدد ازدواج اسلام میں جائز ہے نہ یہ کہ اس کا حکم ہے ۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ590)
حضرت مسیح موعود ؑ کا ایک لڑکی کی طرف سے ولی بننا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں رحمت اللہ صاحب ولد میاں عبداللہ صاحب سنوری نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میر ے نکاح کا خطبہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پڑھا تھا لیکن حضرت مسیح موعود ؑ نے خود میری اہلیہ کی طرف سے اپنی زبان مبارک سے ایجاب و قبول کیا تھا۔ کیونکہ حضور ولی تھے۔ میں اس کو اپنی نہایت ہی خوش قسمتی سمجھتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ نکاح تو حضور نے کئی ایک کے پڑھائے ہوں گے لیکن اس طرح کا معاملہ شاید ہی کسی اور سے ہوا ہو۔ سب کچھ والد صاحب مرحوم و مغفور پر حضرت اقدس کی خاص شفقت کانتیجہ تھا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ125،126)
بیوگان کا نکاح کرلینا بہتر ہے
عورتوں کو خصوصی نصائح کرتے ہوئے فرمایا:۔
اگر کسی عورت کا خاوند مر جائے تو گو وہ عورت جوان ہی ہو۔ دوسرا خاوند کرنا ایسا برا جانتی ہے جیساکوئی بڑا بھار ا گناہ ہوتا ہے اور تمام عمر بیوہ یا رانڈ رہ کر یہ خیال کرتی ہے کہ میں نے بڑے ثواب کا کام کیا ہے اور پاک دامن بیوی ہو گئی ہوں حالانکہ اس کے لئے بیوہ رہنا سخت گناہ کی بات ہے۔عورتوں کے لئے بیوہ ہونے کی حالت میں خاوند کرلینا نہایت ثواب کی بات ہے۔ ایسی عورت حقیقت میں بڑی نیک بخت اور ولی ہے جو بیوہ ہونے کی حالت میں برے خیالات سے ڈر کر کسی سے نکاح کر لے اور نابکار عورتوں کے لعن طعن سے نہ ڈرے۔ ایسی عورتیں جو خدا اور رسول کے حکم سے روکتی ہیں خود *** اور شیطان کی چیلیاں ہیں۔ جن کے ذریعہ سے شیطان اپنا کام چلاتا ہے۔ جس عورت کو اللہ اور رسول پیارا ہے، اس کو چاہیے کہ بیوہ ہونے کے بعد کوئی ایماندار اور نیک بخت خاوند تلا ش کرے اور یاد رکھے کہ خاوند کی خدمت میں مشغول رہنا بیوہ ہونے کی حالت کے وظائف سے صد ہا درجہ بہتر ہے۔ ( الحکم 10جولائی 1902ء صفحہ7)
ایک شخص کا سوال حضرت اقدس کی خدمت میں پیش ہوا کہ بیوہ عورتوں کا نکاح کن صورتوں میں فرض ہے ۔اس کے نکاح کے وقت عمر، اولاد، موجودہ اسباب ، نان ونفقہ کا لحاظ رکھنا چاہیے یاکہ نہیں؟یعنی کیا بیوہ باوجود عمر زیادہ ہونے کے یا اولاد بہت ہونے کے یا کافی دولت پاس ہونے کے ہر حالت میں مجبور ہے کہ اس کا نکاح کیا جائے؟ فرمایا:۔
ُُبیوہ کے نکاح کا حکم اسی طرح ہے جس طرح کہ باکرہ کے نکا ح کا حکم ہے ۔ چونکہ بعض قومیں بیوہ عورت کا نکاح خلاف عزت خیال کرتے ہیں اور یہ بدرسم بہت پھیلی ہوئی ہے ۔اس واسطے بیوہ کے نکاح کے واسطے حکم ہوا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہر بیوہ کا نکا ح کیا جائے ۔ نکاح تو اسی کا ہو گا جو نکاح کے لائق ہے ۔ اور جس کے واسطے نکاح ضروری ہے ۔بعض عورتیں بوڑھی ہو کر بیوہ ہو تی ہیں۔بعض کے متعلق دوسرے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ نکاح کے لائق نہیں ہوتیں۔ مثلاً کسی کو ایسا مرض لاحق حال ہے کہ وہ قابل نکاح ہی نہیں یاایک بیوہ کافی اولاد اور تعلقات کی وجہ سے ایسی حالت میں ہے کہ اس کا دل پسند ہی نہیں کر سکتا کہ وہ اب دوسرا خاوند کرے ۔ ایسی صورتوں میں مجبوری نہیں کہ عورت کو خواہ مخواہ جکڑکر خاوند کرایا جاوے ۔ ہاں اس بدرسم کو مٹا دینا چاہیے کہ بیوہ عورت کو ساری عمر بغیر خاوند کے جبراً رکھا جاتا ہے۔
(بدر 10؍اکتوبر 1907ء صفحہ11)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مغلانی نورجان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ بیواؤں کے نکاح ثانی کے متعلق جب پشاور سے چارعورتیں آئی تھیں دو اُن میں سے بیوہ، جوان اور مال دار تھیں۔ مَیں ان کو حضرت ؑ کے پاس لے گئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ جوان عورتوں کو نکاح کرلینا چاہیے‘‘میں نے کہا جن کا دِل نہ چاہے وہ کیا کریں؟ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کا کون ذمہ دار ہو؟آپ نے فرمایااگر عورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اورتقویٰ سے گذارسکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کرلے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ231)
سکھ عورت مسلمان کے نکاح میں رہ سکتی ہے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میاں خیرالدین صاحب سیکھوانی نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ سردار سُندرسنگھ صاحب ساکن دھرم کوٹ بگہ تحصیل بٹالہ جب مسلمان ہوگئے تو ان کا اسلامی نام فضل حق رکھا گیا تھا۔ ان کی بیوی اپنے آبائی سکھ مذہب پر مصر تھی ۔ سردار فضل حق صاحب چاہتے تھے کہ وہ بھی مسلمان ہوجائے۔ ایک دن حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ اگر وہ مسلمان نہیں ہوتی تو نہ ہووے ، اپنے مذہب پر رہتے ہوئے آپ کے گھر میں آباد رہے، اسلام میں جائز ہے ۔ ‘‘ کوشش کی گئی لیکن وہ سردار صاحب کے پاس نہ آئی۔ آخر سردار فضل حق صاحب کی شادی لاہور میں ہوگئی جس سے اولاد ہوئی۔
(سیرت المہدی جلد 2صفحہ257)
صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کاکم عمری میں نکاح
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ اہلیہ محترمہ ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ جب صاحبزادہ میاں مبارک احمد صاحب مرحوم کا نکاح سیدہ مریم بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب مرحوم و مغفور(حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) سے ہوا تو میں آگر ہ سے آئی ہوئی تھی۔ مغرب کے بعد نکاح ہوا۔ مَیں مبارک دینے آئی تو کوئی عورت سیدہ مریم بیگم کو گود میں اٹھاکر حضور ؑ کے پاس لائی۔ حضور علیہ السلام اس وقت اُمّ ناصراحمدصاحب کے صحن میں پلنگ پر استراحت فرماتھے۔ حضور علیہ السلام نے سیدہ مریم بیگم کے سرپر ہاتھ پھیرا اورمسکرائے۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ244،245)
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمار ے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے۔ میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسّو کو طلاق دے دی ہوئی تھی۔ حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جاکر رات رہے اوردوبارہ نکاح کرادیا اوررات کو دیر تک وعظ بھی کیا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ116،117)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دے دی۔ پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں ۔ چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے۔ اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہوگیا۔ (یہاں رجعی اور بائن کے الفاظ اصطلاحی معنوں میں استعمال نہیں ہوئے۔ یہاں بائن سے مراد دراصل طلاق بتّہ ہے۔ناقل )
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اورحضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہوجائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک کرکے شادی کروائی تھی۔ (سیرت المہدی جلد1 صفحہ761 )
حلالہ حرام ہے
اسلام سے پہلے عرب میں حلالہ کی رسم تھی لیکن اسلام نے اس ناپاک رسم کو قطعاً حرام کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسے لوگوں پر *** بھیجی ہے جو حلالہ کے پابند ہوں چنانچہ ابن عمر سے مروی ہے کہ حلالہ زنا میں داخل ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حلالہ کرنے کرانے والے سنگسار کئے جاویں۔ اگر کوئی مطلقہ سے نکاح کرے تو نکاح تب درست ہوگا کہ جب واقعی طور پر اس کو اپنی جورو بنا لے اور اگر دل میں یہ خیال ہوکہ وہ اس حیلہ کے لئے اس کو جورو بناتا ہے کہ تا اس کی طلاق کے بعد دوسرے پر حلال ہو جائے تو ایسا نکاح ہرگز درست نہیں اور ایسا نکاح کرنے والا اس عورت سے زنا کرتا ہے اور جو ایسے فعل کی ترغیب دے وہ اس سے زنا کرواتا ہے۔ غرض حلالہ علمائے اسلام کے اتفاق سے حرام ہے اور اَئمہ اور علماء سلف جیسے حضرت قتادہ۔ عطا اور امام حسن اور ابراہیم نخعی اور حسن بصری اور مجاہد اور شعبی اور سعید بن مسیب اور امام مالک، لیث، ثوری، امام احمد بن حنبل وغیرہ صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اور سب محققین علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں اور شریعت اسلام اور نیز لغت عرب میں بھی زوج اس کو کہتے ہیں کہ کسی عورت کو فی الحقیقت اپنی جورو بنانے کے لئے تمام حقوق کو مدنظر رکھ کر اپنے نکاح میں لاوے اور نکاح کا معاہدہ حقیقی اور واقعی ہو نہ کہ کسی دوسرے کے لئے ایک حیلہ ہو اور قرآن شریف میں جو آیا ہے حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ( البقرۃ:231 ) اس کے یہی معنے ہیں کہ جیسے دنیا میںنیک نیتی کے ساتھ اپنے نفس کی اغراض کے لئے نکاح ہوتے ہیں ایسا ہی جب تک ایک مطلقہ کے ساتھ کسی کا نکاح نہ ہو اور وہ پھر اپنی مرضی سے اس کو طلاق نہ دے تب تک پہلے طلاق دینے والے سے دوبارہ اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ ( نوٹ۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ شرط جو ہے کہ اگر تین طلاق تین طہر میں جو تین مہینہ ہوتے ہیں دی جائیں۔ تو پھر ایسی عورت خاوند سے بالکل جدا ہو جاوے گی اور اگر اتفاقاً کوئی دوسرا خاوند اس کا اس کو طلاق دیدے تو صرف اسی صورت میں پہلے خاوند کے نکاح میں آ سکتی ہے ورنہ نہیں یہ شرط طلاق سے روکنے کے لئے ہے تا ہریک شخض طلاق دینے میں دلیری نہ کرے اور وہی شخص طلاق دے جس کو کوئی ایسی مصیبت پیش آگئی ہے جس سے وہ ہمیشہ کی جدائی پر راضی ہوگیا اور تین مہینے بھی اس لئے رکھے گئے تا اگر کوئی مثلاً غصہ سے طلاق دینا چاہتا ہو تو اس کا غصہ اتر جائے۔ منہ) ۔ سو آیت کا یہ منشاء نہیں ہے کہ جورو کرنے والا پہلے خاوند کے لئے ایک راہ بنادے اور آپ نکاح کرنے کے لئے سچی نیت نہ رکھتا ہو بلکہ نکاح صرف اس صورت میں ہوگا کہ اپنے پختہ اور مستقل ارادہ سے اپنے صحیح اغراض کو مدنظر رکھ کر نکاح کرے ورنہ اگر کسی حیلہ کی غرض سے نکاح کرے گا تو عندالشرع وہ نکاح ہرگز درست نہیں ہوگا اور زنا کے حکم میں ہوگا۔ لہٰذا ایسا شخص جو اسلام پر حلالہ کی تہمت لگانا چاہتا ہے اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام کا یہ مذہب نہیں ہے اور قرآن اور صحیح بخاری اور مسلم اور دیگر احادیث صحیحہ کی رو سے حلالہ قطعی حرام ہے اور مرتکب اس کا زانی کی طرح مستوجب سزا ہے۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ66،67)
نکاح خواں کو تحفہ دینا
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے بیان کیا کہ میری شادی سے پہلے حضرت صاحب کومعلوم ہوا تھا کہ آپ کی دوسری شادی دلّی میں ہوگی ۔ چنانچہ آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس اس کا ذکر کیا تو چونکہ اس وقت اس کے پاس تمام اہل حدیث لڑکیوں کی فہرست رہتی تھی اورمیرصاحب بھی اہلِ حدیث تھے اور اس سے بہت میل ملاقات رکھتے تھے ۔ اس لئے اس نے حضرت صاحب کے پاس میر صاحب کا نام لیا۔ آپ نے میر صاحب کو لکھا۔ شروع میں میر صاحب نے اس تجویز کو بوجہ تفاوتِ عمر ناپسند کیا مگر آخر رضامند ہوگئے اورپھر حضرت صاحب مجھے بیاہنے دلّی گئے۔ آپ کے ساتھ شیخ حامد علی اور لالہ ملاوامل بھی تھے۔ نکاح مولوی نذیر حسین نے پڑھا تھا۔ یہ ۲۷؍محرم ۱۳۰۲ھ بروز پیر کی بات ہے ۔ اس وقت میری عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت صاحب نے نکاح کے بعد مولوی نذیر حسین کو پانچ روپے اور ایک مصلّٰی نذردیا تھا۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود کی عمر پچاس سال کے قریب ہوگی۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تمہارے تایا میرے نکاح سے ڈیڑھ دو سال پہلے فوت ہو چکے تھے ۔خاکسار عرض کرتا ہے کہ تایاصاحب ۱۸۸۳ء میں فوت ہوئے تھے جو کہ تصنیف براہین کا آخری زمانہ تھا اور والدہ صاحبہ کی شادی نومبر ۱۸۸۴ء میں ہوئی تھی اورمجھے والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا ہے کہ پہلے شادی کا دن اتوار مقرر ہوا تھا مگر حضرت صاحب نے کہہ کر پیر کروادِیا تھا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ51)
حیض کے دنوں میں عورتوں سے کیسے تعلقات ہوں
سوال : مسلمان حیض کے دنوں میں بھی عورت سے جدا نہیں ہوتے۔
الجواب۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ ان بہتان طراز لوگوں کا یہ کیسا اعتراض ہے یہ لوگ جھوٹ بولنے کے وقت کیوںخدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِی الْمَحِیْضِ وَ لَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ ( البقرۃ :۲۲۳) یعنی حیض کے دنوں میں عورتوں سے کنارہ کرو اور ان کے نزدیک مت جائو یعنی صحبت کے ارادہ سے جب تک کہ وہ پاک ہولیں۔ اگر ایسی صفائی سے کنارہ کشی کا بیان وید میں بھی ہو تو کوئی صاحب پیش کریں لیکن ان آیات سے یہ مراد نہیں کہ خاوند کو بغیر ارادہ صحبت کے اپنی عورت کو ہاتھ لگانا بھی حرام ہے یہ تو حماقت اور بیوقوفی ہوگی کہ بات کو اس قدر دور کھینچا جائے کہ تمدن کے ضرورات میں بھی حرج واقع ہو اور عورت کو ایام حیض میں ایک ایسی زہر قاتل کی طرح سمجھا جائے جس کے چھونے سے فی الفور موت نتیجہ ہے۔ اگر بغیر ارادہ صحبت عورت کو چھونا حرام ہوتا تو بیچاری عورتیں بڑی مصیبت میں پڑ جاتیں۔ بیمار ہوتیں تو کوئی نبض بھی دیکھ نہ سکتا، گرتیں تو کوئی ہاتھ سے اٹھا نہ سکتا اگر کسی درد میں ہاتھ پیر دبانے کی محتاج ہوتیں تو کوئی دبا نہ سکتا اگر مرتیں تو کوئی دفن نہ کر سکتا کیونکہ ایسی پلید ہوگئیں کہ اب ہاتھ لگانا ہی حرام ہے سو یہ سب نافہموں کی جہالتیں ہیں اور سچ یہی ہے کہ خاوند کو ایام حیض میں صحبت حرام ہو جاتی ہے لیکن اپنی عورت سے محبت اور آثار محبت حرام نہیں ہوتے۔
(آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ48،49 )
وٹے سٹے کی شادی اگر مہر دے کر ہو تو جائز ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
اسلام نے اس قسم کی شادی کو ناپسند کیا ہے کہ ایک شخص اپنی لڑکی دوسرے شخص کے لڑکے کو اس شرط پر دے کہ اس کے بدلہ میں وہ بھی اپنی لڑکی اس کے لڑکے کو دے۔ لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے اگر طرفین کے فیصلے الگ الگ اوقات میں ہوئے ہوں اور ایک دوسرے کو لڑکی دینے کی شرط پر نہ ہوئے ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
(الفضل 15جنوری 1918ء صفحہ 4)
نکاح متعہ کی ممانعت
خدا نے قرآن شریف میں بجز نکاح کے ہمیں اور کوئی ہدایت نہیں دی ،ہاں شیعہ مذہب میں سے ایک فرقہ ہے کہ وہ موقّت طورپر نکاح کر لیتے ہیں یعنی فلاں وقت تک نکاح اور پھر طلاق ہوگی اور اس کا نام متعہ رکھتے ہیں۔ مگرخدا تعالیٰ کے کلام سے ان کے پاس کوئی سند نہیں بہرحال وہ تو ایک نکاح ہے جس کی طلاق کا زمانہ معلوم ہے اور نیوگ کو طلاق کے مسئلہ سے کچھ تعلق نہیں۔
(نسیم دعوت روحانی خزائن جلد19صفحہ442،443)
ایسا نکاح بھی جس کا وقت طلاق ٹھیرایا جائے ہمارے مذہب میں منع ہے ۔ قرآن شریف صاف اس کی ممانعت فرماتا ہے۔ عرب کے لوگوں میں اسلام سے پہلے ایک وقت تک ایسے نکاح ہوتے تھے قرآن شریف نے منع کردیا اور قرآن شریف کے اترنے سے وہ حرام ہوگئے۔ صرف بعض شیعوں کے فرقے اس کے پابندہیں مگر وہ جاہلیت کی رسم میں گرفتار ہیں اور کسی دانشمند کے لئے جائز نہیں کہ اپنی غلطی کی پردہ پوشی کے لئے کسی دوسرے کی غلطی کا حوالہ دیں۔
(سناتن دھرم۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ470)
اسلام میں متعہ کا کوئی حکم نہیں
متعہ صرف اس نکاح کا نام ہے جو ایک خاص عرصہ تک محدود کر دیا گیا ہو پھر ماسوا اس کے متعہ اوائل اسلام میں یعنی اس وقت میں جبکہ مسلمان بہت تھوڑے تھے صرف تین دن کے لئے جائز ہوا تھا اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ وہ جواز اس قسم کا تھا جیسا کہ تین دن کے بھوکے کے لئے مردارکھانا نہایت بے قراری کی حالت میں جائز ہو جاتا ہے اور پھر
متعہ ایسا حرام ہوگیا جیسے سؤر کا گوشت اور شراب حرام ہے اور نکاح کے احکام نے متعہ کے لئے قدم رکھنے کی جگہ باقی نہیں رکھی۔ قرآن شریف میں نکاح کے بیان میں مردوں کے حق عورتوں پر اور عورتوں کے حق مردوں پر قائم کئے گئے ہیں اورمتعہ کے مسائل کا کہیں ذکر بھی نہیں۔ اگر اسلام میں متعہ ہوتا تو قرآن میں نکاح کے مسائل کی طرح متعہ کے مسائل بھی بسط اور تفصیل سے لکھے جاتے لیکن کسی محقق پر پوشیدہ نہیں کہ نہ تو قرآن میں اور نہ احادیث میں متعہ کے مسائل کا نام و نشان ہے لیکن نکاح کے مسائل بسط اور تفصیل سے موجود ہیں۔۔۔۔۔ قرآن اور حدیث کے دیکھنے والوں پر ظاہر ہوگا کہ اسلام میں متعہ کے احکام ہرگز مذکور نہیں نہ قرآن میں اور نہ احادیث میں۔ اب ظاہر ہے کہ اگر متعہ شریعت اسلام کے احکام میں سے ایک حکم ہوتا تو اس کے احکام بھی ضرور لکھے جاتے اور وراثت کے قواعد میں اس کا بھی کچھ ذکر ہوتا۔ پس اس سے ظاہر ہے کہ متعہ اسلامی مسائل میں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر بعض احاد حدیثوں پر اعتبار کیا جائے تو صرف اس قدر معلوم ہوتا ہے کہ جب بعض صحابہ اپنے وطنوں اور اپنی جورئوں سے دور تھے تو ایک دفعہ ان کی سخت ضرورت کی وجہ سے تین دن تک متعہ ان کے لئے جائز رکھا گیا تھا اور پھر بعد اس کے ایسا ہی حرام ہوگیا جیسا کہ اسلام میں خنزیر و شراب وغیرہ حرام ہیں اور چونکہ اضطراری حکم جس کی ابدیت شارع کا مقصودنہیں شریعت میں داخل نہیں ہوتے اس لئے متعہ کے احکام قرآن اور حدیث میں درج نہیں ہوئے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے متعہ عرب میں نہ صرف جائز بلکہ عام رواج رکھتا تھا اور شریعت اسلامی نے آہستہ آہستہ عرب کی رسوم کی تبدیلی کی ہے سو جس وقت بعض صحابہ متعہ کے لئے بیقرار ہوئے سو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتظامی اور اجتہادی طور پر اس رسم کے موافق بعض صحابہ کو اجازت دے دی کیونکہ قرآن میں ابھی اس رسم کے بارے میں کوئی ممانعت نہیں آئی تھی پھر ساتھ ہی چند روز کے بعد نکاح کی مفصل اور مبسوط ہدایتیں قرآن میں نازل ہوئیں جو متعہ کے مخالف اور متضاد تھیں
اس لئے ان آیات سے متعہ کی قطعی طور پر حرمت ثابت ہوگئی۔ یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ گو متعہ صرف تین دن تک تھا مگر وحی اور الہام نے اس کے جواز کا دروازہ نہیں کھولا بلکہ وہ پہلے سے ہی عرب میں عام طور پر رائج تھا اور جب صحابہ کو بے وطنی کی حالت میں اس کی ضرورت پڑی تو آنحضرتؐ نے دیکھا کہ متعہ ایک نکاح مؤقّت ہے۔ کوئی حرام کاری اس میں نہیں کوئی ایسی بات نہیں کہ جیسی خاوند والی عورت دوسرے سے ہم بستر ہو جاوے بلکہ درحقیقت بیوہ یا باکرہ سے ایک نکاح ہے جو ایک وقت تک مقرر کیا جاتا ہے تو آپ نے اس خیال سے کہ نفس متعہ میں کوئی بات خلاف نکاح نہیں۔ اجتہادی طور پر پہلی رسم کے لحاظ سے اجازت دیدی لیکن خدا تعالیٰ کا یہ ارادہ تھا کہ جیسا کہ اور صدہا عرب کی بیہودہ رسمیں دور کر دی گئیں ایسا ہی متعہ کی رسم کو بھی عرب میں سے اٹھا دیا جاوے سو خدا نے قیامت تک متعہ کو حرام کر دیا۔ ماسوا اس کے یہ بھی سوچنا چاہئے۔ کہ نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت ہے نیوگ پر تو ہمارا یہ اعتراض ہے کہ اس میں خاوند والی عورت باوجود زندہ ہونے خاوند کے دوسرے سے ہم بستر کرائی جاتی ہے۔ لیکن متعہ کی عورت تو کسی دوسرے کے نکاح میں نہیں ہوتی۔ بلکہ ایک باکرہ یا بیوہ ہوتی ہے جس کا ایک مقررہ وقت تک ایک شخص سے نکاح پڑھا جاتا ہے۔ سو خود سوچ لو کہ متعہ کو نیوگ سے کیا نسبت ہے اور نیوگ کو متعہ سے کیا مناسبت۔
(آریہ دھرم ۔روحانی خزائن جلد10صفحہ67تا70)
اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا
عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
نادان عیسائیوں کو معلوم نہیں کہ اسلام نے متعہ کو رواج نہیں دیا بلکہ جہاں تک ممکن تھا اس کو دنیا میں سے گھٹایا۔ اسلام سے پہلے نہ صرف عرب میں بلکہ دنیا کی اکثر قوموں میں متعہ کی رسم تھی یعنی یہ کہ ایک وقت خاص تک نکاح کرنا پھر طلاق دے دینا اور اس رسم کے پھیلانے والے اسباب میں سے ایک یہ بھی سبب تھا کہ جو لوگ لشکروں میں منسلک ہوکر دوسرے ملکوں میں جاتے تھے یا بطریق تجارت ایک مدت تک دوسرے ملک میں رہتے تھے۔ ان کو مؤقت نکاح یعنی متعہ کی ضرورت پڑتی تھی اور کبھی یہ بھی باعث ہوتا کہ غیرملک کی عورتیں پہلے سے بتلا دیتی تھیں کہ وہ ساتھ جانے پر راضی نہیں اس لئے اسی نیت سے نکاح ہوتا تھا کہ فلاں تاریخ طلاق دی جائے گی۔ پس یہ سچ ہے کہ ایک دفعہ یا دو دفعہ اس قدیم رسم پر بعض مسلمانوں نے بھی عمل کیا۔مگر وحی اور الہام سے نہیں بلکہ جو قوم میں پرانی رسم تھی معمولی طور پر اس پر عمل ہوگیا لیکن متعہ میں بجز اس کے اور کوئی بات نہیں کہ وہ ایک تاریخ مقررہ تک نکاح ہوتا ہے اور وحی الٰہی نے آخر اس کو حرام کر دیا۔
(نورالقرآن نمبر2 ۔ روحانی خزائن جلد9صفحہ450)
متبنّٰی حقیقی بیٹے کی طرح نہیں ہوتا
آریوں کے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے آپ ؑ نے فرمایا:
اب ہم ان آریوں کے اس پر افترا اعتراض کی بیخ کنی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو انہوں نے زینب کے نکاح کی نسبت تراشا ہے۔ ان مفتری لوگوں نے اعتراض کی بنا دو باتیں ٹھہرائی ہیں (ا) یہ کہ متبنّٰی اگر اپنی جورو کو طلاق دے دیوے تو متبنّٰی کرنے والے کو اس عورت سے نکاح جائز نہیں (۲) یہ کہ زینب آنحضرت کے نکاح سے ناراض تھی تو گویا آنحضرت نے زینب کے معقول عذر پر یہ بہانہ گھڑا کہ مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے سو ہم ان دو باتوں کا ذیل میں جواب دیتے ہیں۔
امر اوّل کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ متبنّٰیکرتے ہیں ان کا یہ دعویٰ سراسر لغو اور باطل ہے کہ وہ حقیقت میں بیٹا ہو جاتا ہے اور بیٹوں کے تمام احکام اس کے متعلق ہوتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ قانون قدرت اس بیہودہ دعویٰ کو رد کرتا ہے اس لئے کہ جس کا نطفہ ہوتا ہے اسی کے اعضاء میں سے بچہ کے اعضاء حصہ لیتے ہیں اسی کے قویٰ کے مشابہ اس کے قویٰ ہوتے ہیں اور اگر وہ انگریزوں کی طرح سفیدرنگ رکھتا ہے تو یہ بھی اس سفیدی سے حصہ لیتا ہے اگر وہ حبشی ہے تو اس کو بھی اس سیاہی کا بخرہ ملتا ہے اگر وہ آتشک زدہ ہے تو یہ بیچارہ بھی اسی بلا میں پھنس جاتا ہے۔ غرض جس کا حقیقت میں نطفہ ہے اسی کے آثار بچہ میں ظاہر ہوتے ہیں جیسی گیہوں سے گیہوں پیدا ہوتی ہے اور چنے سے چنا نکلتا ہے پس اس صورت میں ایک کے نطفہ کو اس کے غیر کا بیٹا قرار دینا واقعات صحیحہ کے مخالف ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف منہ کے دعویٰ سے واقعات حقیقیہ بدل نہیں سکتے مثلاً اگر کوئی کہے کہ میں نے سم الفار کے ایک ٹکڑہ کو طباشیر کا ٹکڑہ سمجھ لیا تو وہ اس کے کہنے سے طباشیر نہیں ہو جائے گا اور اگر وہ اس وہم کی بناء پر اسے کھائے گا تو ضرور مرے گا جس حالت میں خدا نے زید کو بکر کے نطفہ سے پیدا کر کے بکر کا بیٹا بنا دیا تو پھر کسی انسان کی فضول گوئی سے وہ خالد کا بیٹا نہیں بن سکتا اور اگر بکر اور خالد ایک مکان میں اکٹھے بیٹھے ہوں اور اس وقت حکم حاکم پہنچے کہ زید جس کا حقیقت میں بیٹا ہے اس کو پھانسی دیا جائے تو اس وقت خالد فی الفور عذر کر دے گا کہ زید حقیقت میں بکر کا بیٹا ہے میرا اس سے کچھ تعلق نہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ کسی شخص کے دو باپ تو نہیں ہو سکتے پس اگر متبنٰی بنانے والا حقیقت میں باپ ہوگیا ہے تو یہ فیصلہ ہونا چاہئے کہ اصلی باپ کس دلیل سے لا دعویٰ کیا گیا ہے۔
غرض اس سے زیادہ کوئی بات بھی بیہودہ نہیں کہ خدا کی بنائی ہوئی حقیقتوں کو بدل ڈالنے کا قصد کریں۔۔۔۔ اب چونکہ عقل کسی طرح قبول نہیں کر سکتی کہ متبنیٰ درحقیقت اپنا ہی لڑکا ہو جاتا ہے اس لئے ایسے اعتراض کرنے والے پر واجب ہے کہ اعتراض سے پہلے اس دعوے کو ثابت کرے اور درحقیقت اعتراض تو ہمارا حق ہے کہ کیونکر غیر کا نطفہ جو غیر کے خواص اپنے اندر رکھتا ہے اپنا نطفہ بن سکتا ہے پہلے اس اعتراض کا جواب دیں اور پھر ہم پر اعتراض کریں اور یہ بھی یاد رہے کہ زید جو زینب کا پہلا خاوند تھا وہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام تھا آپ نے اپنے کرم ذاتی کی وجہ سے اس کو آزاد کر دیا اور بعض دفعہ اس کو بیٹا کہا تا غلامی کا داغ اس پر سے جاتا رہے چونکہ آپ کریم النفس تھے اس لئے زید کو قوم میں عزت دینے کے لئے آپ کی یہ حکمت عملی تھی مگر عرب کے لوگوں میں یہ رسم پڑ گئی تھی کہ اگر کسی کا استاد یا آقا یا مالک اس کو بیٹا کر کے پکارتا تو وہ بیٹا ہی سمجھا جاتا یہ رسم نہایت خراب تھی اور نیز ایک بیہودہ وہم پر اس کی بنا تھی کیونکہ جبکہ تمام انسان بنی نوع ہیں تو اس لحاظ سے جو برابر کے آدمی ہیں وہ بھائیوں کی طرح ہیں اور جو بڑے ہیں وہ باپوں کی مانند ہیں اور چھوٹے بیٹوں کی طرح ہیں لیکن اس خیال سے اگر مثلاً کوئی ہندو ادب کی راہ سے قوم کے کسی مُسِنّ آدمی کو باپ کہہ دے یا کسی ہم عمر کو بھائی کہہ دے تو کیا اس سے یہ لازم آئے گا کہ وہ قول ایک سند متصور ہو کر اس ہندو کی لڑکی اس پر حرام ہوجائے گی یا اس کی بہن سے شادی نہیں ہو سکے گی اور یہ خیال کیا جائے گا کہ اتنی بات میں وہ حقیقی ہمشیرہ بن گئیں اور اس کے مال کی وارث ہوگئیں یا یہ ان کے مال کا وارث ہوگیا۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک شریر آدمی ایک لاولد اور مالدار کو اپنے منہ سے باپ کہہ کر اس کے تمام مال کا وارث بن جاتا کیونکہ اگر صرف منہ سے کہنے کے ساتھ کوئی کسی کا بیٹا بن سکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ صرف منہ سے کہنے سے باپ نہ بن جائے پس اگر یہی سچ ہے تو مفلسوں ناداروں کے لئے نقب زنی یا ڈاکہ مارنے سے بھی یہ عمدہ تر نسخہ ہو جائے گا یعنی ایسے لوگ کسی آدمی کو دیکھ کر جو کئی لاکھ یا کئی کروڑ کی جائیداد رکھتا ہو اور لاولد ہو کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تجھ کو باپ بنایا پس اگر وہ حقیقت میں باپ ہوگیا ہے تو ایسے مذہب کی رو سے لازم آئے گا کہ اس لاولد کے مرنے کے بعد سارا مال اس شخص کو مل جائے اور اگر وہ باپ نہیں بن سکا تو اقرار کرنا پڑے گا کہ یہ مسئلہ ہی جھوٹا ہے اور نیز ایسا ہی ایک شخص کسی کو بیٹا کہہ کر ایسا ہی فریب کر سکتا ہے۔
(آریہ دھرم۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 55تا58 )
متبنّٰی کی مطلقہ سے نکاح کا جواز
خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے ہی یہ حکم فرما دیا تھا کہ تم پر صرف ان بیٹوں کی عورتیں حرام ہیں جو تمہارے صلبی بیٹے ہیں۔ جیسا کہ یہ آیت ہے۔
(النسائ:24)یعنی تم پر فقط ان بیٹوں کی جورؤان حرام ہیں جو تمہاری پشت اور تمہارے نطفہ سے ہوں۔ پھر جبکہ پہلے سے یہی قانون تعلیم قرآنی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہو چکا ہے اور یہ زینب کا قصہ ایک مدت بعد اس کے ظہور میں آیا۔ تو اب ہریک سمجھ سکتا ہے کہ قرآن نے یہ فیصلہ اسی قانون کے مطابق کیا جو اس سے پہلے منضبط ہو چکا تھا۔ قرآن کھولو اور دیکھو کہ زینب کا قصہ اخیری حصہ قرآن میں ہے مگر یہ قانون کہ متبنّٰی کی جورو حرام نہیں ہوسکتی یہ پہلے حصہ میں ہی موجود ہے اور اس وقت کا یہ قانون ہے کہ جب زینب کا زید سے ابھی نکاح بھی نہیں ہوا تھا تم آپ ہی قرآن شریف کو کھول کر ان دونوں مقاموں کو دیکھ لو اور ذرہ شرم کو کام میں لائو۔
اور پھر بعد اس کے سورۃ الاحزاب میں فرمایا مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْْنِ فِیْ جَوْفِہِ وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَکُمُ اللَّا ئِیْ تُظَاہِرُوْنَ مِنْہُنَّ أُمَّہَاتِکُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِیَآئَ کُمْ أَبْنَائَ کُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُم بِأَفْوَاہِکُمْ وَاللَّہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَہُوَ یَہْدِیْ السَّبِیْلَ اُدْعُوہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللّٰہِ (الاحزاب:5 ، 6) یعنی خدا تعالیٰ نے کسی کے پیٹ میں دو دل نہیں بنائے پس اگر تم کسی کو کہو کہ تو میرا دل ہے تو اس کے پیٹ میں دو دل نہیں ہو جائیں گے دل تو ایک ہی رہے گا اسی طرح جس کو تم ماں کہہ بیٹھے وہ تمہاری ماں نہیں بن سکتی اور اسی طرح خدا نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو حقیقت میں تمہارے بیٹے نہیں کر دیا۔ یہ تو تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور خدا سچ کہتا ہے اور سیدھی راہ دکھلاتا ہے۔ تم اپنے منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو یہ تو قرآنی تعلیم ہے مگر چونکہ خدا تعالیٰ کو منظور تھا کہ اپنے پاک نبی کا نمونہ اس میں قائم کر کے پورانی رسم کی کراہت کو دلوں سے دور کر دے سو یہ نمونہ خدا تعالیٰ نے قائم کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے غلام آزاد کردہ کی بیوی کی اپنے خاوند سے سخت ناسازش ہوگئی آخر طلاق تک نوبت پہنچی۔ پھر جب خاوند کی طرف سے طلاق مل گئی تو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ پیوند نکاح کردیا۔ اور خدا تعالیٰ کے نکاح پڑھنے کے یہ معنی نہیں کہ زینب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایجاب قبول نہ ہوا اور جبرًا خلاف مرضی زینب کے اس کو گھر میں آباد کر لیا یہ تو ان لوگوں کی بدذاتی اور ناحق کا افترا ہے جو خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرتے بھلا اگر وہ سچے ہیں تو اس افترا کا حدیث صحیح یا قرآن سے ثبوت تو دیں۔ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اسلام میں نکاح پڑھنے والے کو یہ منصب نہیں ہوتا کہ جبرًا نکاح کردے بلکہ نکاح پڑھنے سے پہلے فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔ اب خلاصہ یہ کہ صرف منہ کی بات سے نہ تو بیٹا بن سکتا ہے نہ ماں بن سکتی ہے۔ مثلاً ہم آریوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی شخص غصہ میں آکر یا کسی دھوکہ سے اپنی عورت کو ماں کہہ بیٹھے تو کیا اس کی عورت اس پر حرام ہوجائے گی اور طلاق پڑ جائے گی اور خود یہ خیال بالبداہت باطل ہے کیونکہ طلاق تو آریوں کے مذہب میں کسی طور سے پڑ ہی نہیں سکتی خواہ اپنی بیوی کو نہ ایک دفعہ بلکہ ہزار دفعہ ماں کہہ دیں یا دادی کہہ دیں تو پھر جبکہ صرف منہ کے کہنے سے کوئی عورت ماں یا دادی نہیں بن سکتی تو پھر صرف منہ کی بات سے کوئی غیر کا نطفہ بیٹا کیونکر بن سکتا ہے اور کیونکر قبول کیا جاتا ہے کہ درحقیقت بیٹا ہوگیا اور اس کی عورت اپنے پر حرام ہوگئی۔ خدا کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا پس بلاشبہ یہ بات صحیح ہے کہ اگر صرف منہ کی بات سے ایک آریہ کی عورت اس کی ماں نہیں بن سکتی تو اسی طرح صرف منہ کی بات سے غیر کا بیٹا بیٹابھی نہیں بن سکتا۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد 10 صفحہ58تا60 )
طلاق
طلاق کی اجازت دینے میں حکمت
اگر کوئی عورت اذیت اور مصیبت کا باعث ہو تو ہم کو کیونکر یہ خیال کرنا چاہئے کہ خدا ہم سے ایسی عورت کے طلاق دینے سے ناخوش ہوگا۔ میں دل کی سختی کو اس شخص سے منسوب کرتا ہوں جو اس عورت کو اپنے پاس رہنے دے نہ اس شخص سے جو اس کو ایسی صورتوں میں اپنے گھر سے نکال دے ناموافقت سے عورت کو رکھنا ایسی سختی ہے جس میں طلاق سے زیادہ بے رحمی ہے۔ طلاق ایک مصیبت ہے جو ایک بدتر مصیبت کے عوض اختیار کی جاتی ہے۔ تمام معاہدے بدعہدی سے ٹوٹ جاتے ہیں پھر اس پر کون سی معقول دلیل ہے کہ نکاح کا معاہدہ ٹوٹ نہیں سکتا۔اور کیا وجہ کہ نکاح کی نوعیت تمام معاہدوں سے مختلف ہے۔ عیسیٰ نے زنا کی شرط سے طلاق کی اجازت دی مگر آخر اجازت تو دیدی۔ نکاح ملاپ کے لئے ہے اس لئے نہیں کہ ہم دائمی تردد اور نزاع کے باعث سے پریشان خاطر رہیں۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ54-53حاشیہ)
طلاق کا اختیار مرد کو کیوں دیا؟
(معترض نے۔ ناقل) ایک یہ اعتراض قرآن شریف پر پیش کیا کہ خاوند کی مرضی پر طلاق رکھی ہے، اس سے شاید اس کا یہ مطلب معلوم ہوتا ہے کہ عقل کی رُو سے مرد اور عورت درجہ میں برابر ہیں تو پھر اس صورت میں طلاق کا اختیار محض مرد کے ہاتھ میں رکھنا بلاشبہ قابل اعتراض ہوگا۔ پس اس اعتراض کا یہی جواب ہے کہ مرد اورعورت درجہ میں ہرگز برابر نہیں۔ دنیا کے قدیم تجربہ نے یہی ثابت کیا ہے کہ مرد اپنی جسمانی اور علمی طاقتوں میں عورتوں سے بڑھ کر ہیں اور شاذ و نادر حکم معدوم کا رکھتا ہے پس جب مرد کا درجہ باعتبار اپنے ظاہری اور باطنی قوتوں کے عورت سے بڑھ کر ہے تو پھر یہی قرین انصاف ہے کہ مرد اور عورت کے علیحدہ ہونے کی حالت میں عنانِ اختیار مرد کے ہاتھ میں ہی رکھی جائے ۔۔۔۔
تمام دنیا میں انسانی فطرت نے یہی پسند کیا ہے کہ ضرورتوں کے وقت میں مرد عورتوں کو طلاق دیتے ہیں اورمرد کا عورت پر ایک حق زائد بھی ہے کہ مرد عورت کی زندگی کے تمام اقسام آسائش کا متکفّل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ(البقرہ : 234) یعنی یہ بات مردوں کے ذمہ ہے کہ جوعورتوں کو کھانے کے لئے ضرورتیں ہوں یا پہننے کے لئے ضرورتیں ہوں وہ سب اُن کے لئے مہیا کریں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مرد عورت کا مربی اور محسن او رذمہ وار آسائش کا ٹھہرایا گیا ہے اور وہ عورت کے لئے بطور آقا اور خداوند نعمت کے ہے اسی طرح مرد کو بہ نسبت عورت کے فطرتی قویٰ زبردست دئیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے مرد عورت پر حکومت کرتا چلا آیا ہے اور مرد کی فطرت کو جس قدر باعتبار کمال قوتوں کے انعام عطا کیا گیا ہے وہ عورت کی قوتوں کو عطا نہیں کیا گیا اور قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ اگرمرد اپنی عورت کو مروّت اور احسان کی رُو سے ایک پہاڑ سونے کا بھی دے تو طلاق کی حالت میں واپس نہ لے۔ اس سے ظاہر ہے کہ اسلام میں عورتوں کی کس قدر عزت کی گئی ہے ایک طور سے تو مردوں کو عورتوں کا نوکر ٹھہرایا گیا ہے اور بہرحال مردوں کے لئے قرآن شریف میں یہ حکم ہے کہ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النسائ:20) یعنی تم اپنی عورتوں سے ایسے حسن سلوک سے معاشرت کرو کہ ہر ایک عقلمند معلوم کرسکے کہ تم اپنی بیوی سے احسان اور مروّت سے پیش آتے ہو۔
(چشمۂ معرفت۔روحانی خزائن جلد23صفحہ286تا288)
عورت خود بخود نکاح توڑنے کی مجاز کیوں نہیں ؟
مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خودبخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خودبخود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کرا سکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے ۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ37)
طلاق کا موجب صرف زنا نہیں
انجیل کہتی ہے کہ اپنی بیوی کو بجز زنا کے ہرگز طلاق نہ دے۔ مگر قرآن شریف اس بات کی مصلحت دیکھتاہے کہ طلاق صرف زنا سے مخصوص نہیں بلکہ اگرمرد اورعورت میں باہم دشمنی پیدا ہوجاوے اور موافقت نہ رہے یا مثلاً اندیشہء جان ہو یا اگرچہ عورت زانیہ نہیں مگر زنا کے مقدمات اُس سے صادر ہوتے ہیں اور غیر مردوں کو ملتی ہے تو اِن تمام صورتوں میں خاوند کی رائے پر حصر رکھا گیا ہے کہ اگر وہ مناسب دیکھے تو چھوڑ دے۔ مگر پھر بھی تاکید ہے اور نہایت سخت تاکید ہے کہ طلاق دینے میں جلدی نہ کرے۔ اب ظاہر ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم انسانی حاجات کے مطابق ہے اور اُن کے ترک کرنے سے کبھی نہ کبھی کوئی خرابی ضرور پیش آئے گی۔اسی وجہ سے بعض یورپ کی گورنمنٹوں کوجواز طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا۔
(چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ413،414)
طلاق کے بعد مہر عورت کا حق ہے
اگر یہ کہو کہ مسلمان بے وجہ بھی عورتوں کو طلاق دے دیتے ہیں تو تمہیں معلوم ہے کہ ایشر نے مسلمانوں کو لغو کام کرنے سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(المومنون: 4)اور قرآن میں بے وجہ طلاق دینے والوں کو بہت ہی ڈرایا ہے۔ ماسوا اس کے تم اس بات کو بھی تو ذرا سوچو کہ مسلمان اپنی حیثیت کے موافق بہت سا مال خرچ کر کے ایک عورت سے شادی کرتے ہیں اور ایک رقم کثیر عورت کے مہر کی ان کے ذمہ ہوتی ہے اور بعضوں کے مہر کئی ہزار اور بعض کے ایک لاکھ یا کئی لاکھ ہوتے ہیں اور یہ مہر عورت کا حق ہوتا ہے اور طلاق کے وقت بہرحال اس کا اختیار ہوتا ہے کہ وصول کرے اور نیز قرآن میں یہ حکم ہے کہ اگر عورت کو طلاق دی جائے تو جس قدر مال عورت کو طلاق سے پہلے دیا گیا ہے وہ عورت کا ہی رہے گا۔ اور اگر عورت صاحب اولاد ہو تو بچوں کے تعہد کی مشکلات اس کے علاوہ ہیں اسی واسطے کوئی مسلمان جب تک اس کی جان پر ہی عورت کی وجہ سے کوئی وبال نہ پڑے تب تک طلاق کا نام نہیں لیتا ۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ40)
طلاق کا قانون باعث رحمت ہے
انجیل میں طلاق کے مسئلہ کی بابت صرف زنا کی شرط تھی اور دوسرے صدہا طرح کے اسباب جو مرد اور عورت میں جانی دشمنی پیدا کردیتے ہیں ان کا کچھ ذکر نہ تھا۔ اس لئے عیسائی قوم اس خامی کی برداشت نہ کرسکی اور آخر امریکہ میں ایک طلاق کا قانون پاس کرنا پڑا۔سو اب سوچو کہ اس قانون سے انجیل کدھر گئی۔اوراے عورتو! فکر نہ کرو جو تمہیں کتاب ملی ہے وہ انجیل کی طرح انسانی تصرف کی محتاج نہیں اور اس کتاب میں جیسے مردوں کے حقوق محفوظ ہیں عورتوں کے حقوق بھی محفوظ ہیں۔ اگر عورت مرد کے تعدّد ازدواج پر ناراض ہے تو وہ بذریعہ حاکم خلع کراسکتی ہے۔ (کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ80،81 )
طلاق کی ضرورت
قدرتی طور پر ایسی آفات ہریک قوم کے لئے ہمیشہ ممکن الظہور ہیں جن سے بچنا بجز طلاق کے متصور نہیں۔ مثلاً اگر کوئی عورت زانیہ ہو تو کس طرح اس کے خاوند کی غیرت اس کو اجازت دے سکتی ہے کہ وہ عورت اس کی بیوی کہلا کر پھر دن رات زناکاری کی حالت میں مشغول رہے۔ ایسا ہی اگر کسی کی جورو اس قدر دشمنی میں ترقی کرے کہ اس کی جان کی دشمن ہو جاوے اور اس کے مارنے کی فکر میں لگی رہے تو کیا وہ ایسی عورت سے امن کے ساتھ زندگی بسر کر سکتا ہے۔ بلکہ ایک غیرت مند انسان جب اپنی عورت میں اس قدر خرابی بھی دیکھے کہ اجنبی شہوت پرست اس کو پکڑتے ہیں اور اس کا بوسہ لیتے ہیں اور اس سے ہم بغل ہوتے ہیں اور وہ خوشی سے یہ سب کام کراتی ہے تو گو تحقیق کے رو سے ابھی زنا تک نوبت نہ پہنچی ہو بلکہ وہ فاسقہ موقع کے انتظار میں ہو تاہم کوئی غیرت مند ایسی ناپاک خیال عورت سے نکاح کا تعلق رکھنا نہیں چاہتا۔۔۔۔ عورت کا جوڑاا پنے خاوند سے پاکدامنی اور فرماں برداری اور باہم رضامندی پر موقوف ہے اور اگر ان تین۳ باتوں میں سے کسی ایک بات میں بھی فرق آجاوے تو پھر یہ جوڑ قائم رہنا محالات میں سے ہو جاتا ہے۔ انسان کی بیوی اس کے اعضاء کی طرح ہے۔ پس اگر کوئی عضو سڑ گل جائے یا ہڈی ایسی ٹوٹ جائے کہ قابل پیوند نہ ہو تو پھر بجز کاٹنے کے اور کیا علاج ہے۔ اپنے عضو کو اپنے ہاتھ سے کاٹنا کوئی نہیں چاہتا کوئی بڑی ہی مصیبت پڑتی ہے تب کاٹپا جاتا ہے۔(٭ حاشیہ۔ خدا تعالیٰ نے جو ضرورتوں کے وقت میں مرد کو طلاق دینے کی اجازت دی اور کھول کر یہ نہ کہا کہ عورت کی زناکاری سے یا کسی اور بدمعاشی کے وقت اس کو طلاق دی جاوے اس میں حکمت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ستّاری نے چاہا کہ عورت کی تشہیر نہ ہو۔ اگر طلاق کے لئے زنا وغیرہ جرائم کا اعلان کیا جاتا تو لوگ سمجھتے کہ اس عورت پر کسی بدکاری کا شبہ ہے یا فلاں فلاں بدکاری کی قسموں میں سے ضرور اس نے کوئی بدکاری کی ہوگی مگر اب یہ راز خاوند تک محدود رہتا ہے۔) پس جس حکیم مطلق نے انسان کے مصالح کے لئے نکاح تجویز کیا ہے اور چاہاہے کہ مرد اور عورت ایک ہو جائیں۔ اُسی نے مفاسد ظاہر ہونے کے وقت اجازت دی ہے کہ اگر آرام اس میں متصور ہو کہ کرم خوردہ دانت یا سڑے ہوئے عضو یا ٹوٹی ہوئی ہڈی کی طرح موذی کو علیحدہ کر دیا جائے تو اسی طرح کاربند ہوکر اپنے تئیں فوق الطاقت آفت سے بچالیں کیونکہ جس جوڑ سے وہ فوائد مترتب نہیں ہو سکتے کہ جو اس جوڑ کی علت غائی ہیں بلکہ ان کی ضد پیدا ہوتی ہے تو وہ جوڑ درحقیقت جوڑ نہیں ہے۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ65،66)
وجوہ طلاق ظاہر کرنا ضروری نہیں
ایک صاحب نے اپنی عورت کو طلاق دی عورت کے رشتہ داروں نے حضرت کی خد مت میں شکایت کی کہ بے وجہ اور بے سبب طلاق دی گئی ہے مرد کے بیانوں سے یہ بات پا ئی گئی کہ اگر اسے کو ئی ہی سزا دی جاوے مگر وہ اس عورت کو بسانے پر ہرگز آمادہ نہیں ہے عورت کے رشتہ داروں نے جو شکا یت کی تھی ان کا منشا ء تھا کہ پھر آبادی ہو اس پر حضرت اقدس نے فر ما یا کہ :۔
عورت مرد کا معاملہ آپس میں جو ہو تا ہے اس پر دوسرے کو کا مل اطلاع نہیں ہو تی بعض وقت ایسا بھی ہو تا ہے کہ کو ئی فحش عیب عورتوں میں نہیں ہو تا مگرتا ہم مزاجوں کی نا موافقت ہو تی ہے جو کہ با ہمی معاشرت کی مخل ہو تی ہے ایسی صورت میں مرد طلاق دے سکتا ہے۔بعض وقت عورت گو ولی ہو اور بڑی عابد اور پر ہیز گار اور پاکدامن ہو۔۔۔۔ اور اس کو طلاق دینے میں خاوند کو بھی رحم آتا ہو بلکہ وہ روتا بھی ہو مگر پھر بھی چو نکہ اس کی طرف سے کراہت ہو تی ہے اس لیے وہ طلاق دے سکتا ہے مزاجوں کا آپس میں موافق نہ ہو نا یہ بھی ایک شرعی امر ہے اس لیے ہم اب اس میںدخل نہیں دے سکتے جو ہوا سوہوا ۔مہر کا جو جھگڑا ہووہ آپس میں فیصلہ کر لیا جاوے ۔
(البدریکم مئی 1903ء صفحہ117)
کیا بوڑھی عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے؟
اور یہ اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سودہ کو پیرانہ سالی کے سبب سے طلاق دینے کے لئے مستعد ہوگئے تھے۔ سراسر غلط اور خلاف واقعہ ہے اور جن لوگوں نے ایسی روائتیں کی ہیں وہ اس بات کا ثبوت نہیں دے سکے کہ کس شخص کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ارادہ ظاہر کیا پس اصل حقیقت جیسا کہ کتب معتبرہ احادیث میں مذکور ہے یہ ہے کہ خود سودہ نے ہی اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے دل میں یہ خوف کیا کہ اب
میری حالت قابل رغبت نہیں رہی ایسا نہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بباعث طبعی کراہت کے جو منشاء بشریت کو لازم ہے مجھ کو طلاق دے دیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی امر کراہت کا بھی اس نے اپنے دل میں سمجھ لیا ہو اور اس سے طلاق کا اندیشہ دل میں جم گیا ہو۔ کیونکہ عورتوں کے مزاج میں ایسے معاملات میں وہم اور وسوسہ بہت ہوا کرتا ہے اس لئے اس نے خود بخود ہی عرض کر دیا کہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی کہ آپ کی ازواج میں میر احشر ہو۔ چنانچہ نیل الاوطار کے ص۱۴۰ میں یہ حدیث ہے: اِنَّ ا لسَّوْدَۃَ بِنْت زَمعۃ حِیْنَ اَسَنَّتْ وَ خَافَتْ اَنْ یُفَارِقَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ قَالَتْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَھَبْتُ یَوْمِیْ لِعَائِشَۃَ فَقَبِلَ ذٰلِکَ مِنْہَا۔۔۔ و رواہ ایضًا سعد و سعید ابن منصور والترمذی و عبد الرزاق قال الحافظ فی الفتح فتواردت ھذہ الروایات علٰی انھا خشیت الطلاق۔ یعنی سودہ بنت زمعہ کو جب اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے اس بات کا خوف ہوا کہ اب شائد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو جائوں گی تو اس نے کہا یا رسول اللہ میں نے اپنی نوبت عائشہ کو بخش دی۔ آپ نے یہ اس کی درخواست قبول فرما لی۔ ابن سعد اور سعید ابن منصور اور ترمذی اور عبد الرزاق نے بھی یہی روایت کی ہے اور فتح الباری میں لکھا ہے کہ اسی پر روایتوں کا توارد ہے کہ سودہ کو آپ ہی طلاق کا اندیشہ ہواتھا۔ اب اس حدیث سے ظاہر ہے کہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ارادہ ظاہر نہیں ہوا بلکہ سودہ نے اپنی پیرانہ سالی کی حالت پر نظر کرکے خود ہی اپنے دل میں یہ خیال قائم کر لیا تھا اور اگر ان روایات کے توارد اور تظاہر کو نظر انداز کر کے فرض بھی کر لیں کہ آنحضرتؐ نے طبعی کراہت کے باعث سودہ کو پیرانہ سالی کی حالت میں پاکر طلاق کا ارادہ کیا تھا تو اس میںبھی کوئی برائی نہیں۔ اور نہ یہ امر کسی اخلاقی حالت کے خلاف ہے۔ کیونکہ جس امر پر عورت مرد کے تعلقات مخالطت موقوف ہیں۔ اگر اس میں کسی نوع سے کوئی ایسی روک پیدا ہو جائے کہ اس کے سبب سے مرد اس تعلق کے حقوق کی بجا آوری پر قادر نہ ہوسکے تو ایسی حالت میں اگر وہ اصول تقویٰ کے لحاظ سے کوئی کاروائی کرے تو عند العقل کچھ جائے اعتراض نہیں۔
(نورالقرآن ۔روحانی خزائن جلد9صفحہ380تا382)
طلاق میں جلدی نہ کرو
حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:۔
روحانی اور جسمانی طورپر اپنی بیویوں سے نیکی کرو ان کے لئے دعا کرتے رہو اورطلاق سے پرہیز کرو کیونکہ نہایت بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو۔
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد17صفحہ75)
ایڈیٹرصاحب بدر تحریرکرتے ہیں کہ
بار ہا دیکھا گیا اور تجر بہ کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص خفیف عذرات پر عورت سے قطع تعلق کر نا چاہتا ہے تو یہ امر حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے ملال کا موجب ہو تا ہے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شخص سفر میں تھا اس نے اپنی بیوی کو لکھا کہ اگر وہ بدیدن خط جلدی اس کی طرف روانہ نہ ہو گی تو اُسے طلاق دے دی جاوے گی ۔
سُنا گیا ہے کہ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فر مایا تھا کہ :۔
جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم کیسے اُمید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکا تعلق ہے ۔
ایساہی ایک واقعہ اب چند دنوں سے پیش تھا کہ ایک صاحب نے اوّل بڑے چاہ سے ایک شریف لڑکی کے ساتھ نکاح ثانی کیا مگر بعد ازاں بہت سے خفیف عذر پر دس ماہ کے اندر ہی انہوں نے چاہا کہ اس سے قطع تعلق کر لیا جاوے ۔اس پر حضرت اقدس علیہ السلام کو بہت سخت ملال ہو ا اور فر مایا :
مجھے اس قدر غصہ ہے کہ میَں اسے بر داشت نہیں کر سکتا اور ہماری جماعت میں ہو کر پھر یہ ظالمانہ طریق اختیار کرنا سخت عیب کی بات ہے ۔چنانچہ دوسرے دن پھر حضورعلیہ السلام نے یہ فیصلہ صادر فر مایا کہ وہ صاحب اپنی اس نئی یعنی دوسری بیوی کو علیحدہ مکان میں رکھیں جو کچھ زوجہ اوّل کو دیویں وہی اسے دیویں ایک شب اُدھر رہیں تو ایک شب اِدھر رہیں اور دوسری عورت کوئی لونڈی غلام نہیں ہے بلکہ بیوی ہے اُسے زوجہ اوّل کا دستِ نگر کر کے نہ رکھا جاوے ۔
ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پیشتر کئی سال ہوئے گزر چکا ہے کہ ایک صاحب نے حصولِ اولاد کی نیت سے نکاح ثانی کیا اور بعد نکاح رقابت کے خیال سے زوجہ اوّل کو جو صد مہ ہوا ۔اور نیز خانگی تنازعات نے ترقی پکڑی تو انہوں نے گھبرا کر زوجہ ثانی کو طلاق دے دی ۔اس پر حضرت اقدس نے ناراضگی ظاہر فر مائی ۔چنانچہ اس خاوندنے پھر اس زوجہ کی طرف میلان کر کے اسے اپنے نکاح میں لیا اور وہ بیچاری بفضل خدا اس دن سے اب تک اپنے گھر میں آباد ہے۔ (البدر 26جون1903ء صفحہ178)
شرطی طلاق
فرمایا :۔
اگر شرط ہو کہ فلاں بات ہو تو طلاق ہے اوروہ بات ہوجائے تو پھر واقعی طلاق ہوجاتی ہے ۔ جیسے کوئی شخص کہے کہ اگر فلاں پھل کھاؤں تو طلاق ہے اورپھر وہ پھل کھالے تو طلاق ہوجاتی ہے۔ (البدر12جون1903ء صفحہ162)
حضرت پیر سراج الحق ؓ صاحب نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ مباحثے کے دوران ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
مولوی صاحب کا یہ عقیدہ کسی طرح بھی صحیح اور درست نہیں ہے کہ حدیث قرآن شریف پر مقدم ہے۔ ناظرین !سننے کے لائق یہ بات ہے کہ چونکہ قرآن شریف وحی متلو ہے اور تمام کلام مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جمع ہوچکا تھا اور یہ کلامِ الٰہی تھا اور حدیث شریف کا ایسا انتظام نہیں تھا اور نہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لکھی گئی تھیں اور وہ مرتبہ اوردرجہ جو قرآن شریف کو حاصل ہے وہ حدیث کو نہیں ہے کیونکہ یہ روایت درروایت پہنچی ہیں اگر کوئی شخص اس بات کی قسم کھاوے کہ قرآن شریف کا حرف حرف کلامِ الٰہی ہے اور جو یہ کلام الٰہی نہیں ہے تو میری بیوی پر طلاق ہے تو شرعًا اس کی بیوی پر طلاق وارد نہیں ہوسکتا۔ اورجو حدیث کی نسبت قسم کھالے اورکہے کہ لفظ لفظ حرف حرف حدیث کا وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے نکلا ہے ۔ اگر نہیں ہے تو میری جورو پر طلاق ہے تو بے شک و شبہ اس کی بیوی پر طلا ق پڑ جاوے گا۔ یہ حضرت اقدس کی زبانی تقریر کا خلاصہ ہے۔ (تذکرۃ المہدی صفحہ161)
طلاق اور حلالہ
ایک صاحب نے سوال کیا کہ جو لوگ ایک ہی دفعہ تین طلا ق لکھ دیتے ہیںان کی وہ طلا ق جائزہو تی ہے یا نہیں ؟اس کے جو اب میں فرما یا :
قرآن شریف کے فر مو دہ کی رُو سے تین طلاق دی گئی ہوںاور ان میںسے ہر ایک کے درمیان اتناہی وقفہ رکھا گیا جو قرآن شریف نے بتایا ہے تو ان تینوںکی عدّت کے گذرنے کے بعداس خاوند کا کوئی تعلق اس بیوی سے نہیں رہتا ہا ں اگر کوئی اور شخص اس عورت سے عدت گزرنے کے بعد نکاح کرے اور پھراتفاقًا وہ اس کو طلاق دیدے تو اس خاوند اوّل کو جائزہے کہ اس بیوی سے نکاح کرلے مگر اگر دوسرا خاوند ،خاوندِاوّل کی خاطر سے یا لحاظ سے اس بیوی کو طلاق دے تا وہ پہلا خاوند اس سے نکاح کرلے تو یہ حلالہ ہوتا ہے اور یہ حرام ہے ۔ لیکن اگر تین طلاق ایک ہی وقت میںدی گئی ہو ں تو اس خاوند کو یہ فائدہ دیا گیا ہے کہ وہ عدت کے گذرنے کے بعد بھی اس عورت سے نکاح کر سکتا ہے کیونکہ یہ طلاق ناجائزطلاق تھااور اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کے موافق نہ دیا گیا تھا۔
دراصل قرآن شریف میںغور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ کو یہ امر نہایت ہی ناگوار ہے کہ پُرانے تعلقات والے خاوند اور بیوی آپس کے تعلقات کو چھوڑکر الگ الگ ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے طلاق کے واسطے بڑے بڑے شرائط لگائے ہیں۔ وقفہ کے بعدتین طلاق کا دینااور ان کا ایک ہی جگہ رہناوغیرہ یہ امور سب اس واسطے ہیں کہ شاید کسی وقت اُن کے دلی رنج دورہو کرآپس میںصلح ہو جاوے ۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ کبھی کوئی قریبی رشتہ دار وغیرہ آپس میں لڑائی کرتے ہیں اور تازے جوش کے وقت میںحکام کے پاس عرضی پرچے لے کر آتے ہیں توآخر دانا حکام اس وقت ان کو کہہ دیتے ہیں کہ ایک ہفتہ کے بعد آنا ۔اصل غر ض ان کی صرف یہی ہو تی ہے کہ یہ آپس میں صلح کر لیں گے اور ان کے یہ جو ش فروہوںگے تو پھر ان کی مخالفت با قی نہ رہے گی ۔اسی واسطے وہ اس وقت ان کی وہ درخواست لینا مصلحت کے خلاف جانتے ہیں۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی مرداور عورت کے الگ ہو نے کے واسطے ایک کا فی موقعہ رکھ دیا ہے یہ ایک ایسا موقعہ ہے کہ طرفین کو اپنی بھلا ئی برائی کے سوچنے کا موقعہ مل سکتا ہے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے: اَلطَّلََاقُ مَرَّتَانَ (البقرۃ:۲۳۰) یعنی دودفعہ کی طلا ق ہو نے کے بعدیا اسے اچھی طرح سے رکھ لیا جا وے یا احسا ن سے جداکردیا جا وے۔ اگر اتنے لمبے عرصہ میں بھی ان کی آپس میں صلح نہیں ہوتی تو پھر ممکن نہیں کہ وہ اصلا ح پذیرہوں۔
(الحکم 10؍اپریل 1903ء صفحہ14)
طلاق وقفے وقفے سے دی جائے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم میں مذکور طلاق کے متعلق درج ذیل آیات درج فرماکر ان کی تفسیر بیان فرمائی:۔
وَالْمَطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْئٍ( البقرۃ:230،233) اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ۔۔۔۔(الطلاق:2 تا 6) ۔۔۔۔اور چاہئے کہ جن عورتوں کو طلاق دی گئی وہ رجوع کی امید کے لئے تین حیض تک انتظار کریں اور ان تین حیض میں جو قریباً تین مہینے ہیں دو دفعہ طلاق ہوگی یعنی ہر یک حیض کے بعد خاوند عورت کو طلاق دے اور جب تیسرا مہینہ آوے تو خاوند کو ہوشیار ہو جانا چاہئے کہ اب یا تو تیسری طلاق دے کر احسان کے ساتھ دائمی جدائی اور قطع تعلق ہے اور یا تیسری طلاق سے رک جائے اور عورت کو حسن معاشرت کے ساتھ اپنے گھر میں آباد کرے اور یہ جائز نہیں ہوگا کہ جو مال طلاق سے پہلے عورت کو دیا تھا وہ واپس لے لے اور اگر تیسری طلاق جو تیسرے حیض کے بعد ہوتی ہے دیدے تو اب وہ عورت اس کی عورت نہیں رہی اور جب تک وہ دوسرا خاوند نہ کرلے تب تک نیا نکاح اس سے نہیں ہوسکتا۔
(آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ53-52)
ایک ہی مرتبہ تین طلاقیں دینا ناجائز ہے
ایک شخص کے سوال پر فرمایا :
طلا ق ایک وقت میں کا مل نہیں ہو سکتی ۔طلاق میں تین طہرہو نے ضروری ہیں۔فقہاء نے ایک ہی مرتبہ تین طلاق دے دینی جائزرکھی ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ رعایت بھی ہے کہ عدّت کے بعد اگر خاوند رجوع کرنا چاہے تو وہ عورت اسی خاوند سے نکاح کرسکتی ہے اور دوسرے شخص سے بھی کرسکتی ہے ۔
قرآن کریم کی روسے جب تین طلاق دے دی جاویں تو پہلاخاوند اس عورت سے نکاح نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ کسی اور کے نکا ح میں آوے اور پھر وہ دوسرا خاوند بِلاعمداُسے طلاق دیدے ۔اگر وہ عمدًا اسی لیے طلاق دیگا کہ اپنے پہلے خاوند سے و ہ پھر نکاح کرلیوے تویہ حرام ہوگا کیونکہ اسی کانا م حلالہ ہے جوکہ حرام ہے ۔فقہاء نے جو ایک دم کی تین طلاقوں کو جائز رکھا ہے اور پھر عدّت کے گذرنے کے بعد اسی خاوند سے نکاح کا حکم دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اوّل اسے شرعی طریق سے طلاق نہیں دی۔
قرآن شریف سے معلوم ہو تا ہے کہ خدا تعالیٰ کو طلاق بہت ناگوارہے کیونکہ اس سے میاں بیوی دونوں کی خا نہ بربادی ہو جا تی ہے اس واسطے تین طلاق اور تین طہر کی مدت مقررکی ہے کہ اس عرصہ میںدونوںاپنا نیک وبدسمجھ کراگر صلح چاہیں توکرلیں۔
(البدر 24؍اپریل1903ء صفحہ105)
ایک شخص نے حضرت مسیح موعود ؑ کو خط لکھا اور فتویٰ طلب کیا کہ ایک شخص نے ازحد غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو تین دفعہ طلاق دی، دلی منشاء نہ تھا۔اب ہر دو پریشان اوراپنے تعلقات کو توڑنا نہیں چاہتے۔ حضرت نے جواب میں تحریرفرمایا :
فتویٰ یہ ہے کہ جب کوئی ایک ہی جِلسہ میں طلاق دے تو یہ طلاق ناجائز ہے اور قرآن کے برخلاف ہے اس لئے رجوع ہوسکتا ہے۔صرف دوبارہ نکاح ہو جانا چاہئے اوراسی طرح ہم ہمیشہ فتویٰ دیتے ہیں اور یہی حق ہے ۔
(بدر31جنوری 1907ء صفحہ4)
طلا ق کے بعد دوبارہ نکاح
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ رسول بی بی بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمار ے گاؤں موضع کرالیاں میں تشریف لائے۔ میاں چراغ دین ساکن تھہ غلام نبی نے اپنی بیوی مسماۃ حسّو کو طلاق دے دی ہوئی تھی۔ حضرت جی وہاں صلح کرانے گئے تھے تو وہاں جاکر رات رہے اوردوبارہ نکاح کرادیا اور رات کو دیر تک وعظ بھی کیا۔
(سیرت المہدی جلد2صفحہ116،117)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے دوسری شادی کی تو کسی وجہ سے جلدی ہی اس بیوی کو طلاق دے دی۔ پھر بہت مدت شاید سال کے قریب گزر گیا۔ تو حضرت صاحب نے چاہا کہ وہ اس بی بی کو پھر آباد کریں ۔ چنانچہ مسئلہ کی تفتیش ہوئی اور معلوم ہوا کہ طلاق بائن نہیں ہے بلکہ رجعی ہے۔ اس لئے آپ کی منشاء سے ان کا دوبارہ نکاح ہوگیا۔ (یہاں بائن سے مراد دراصل طلاق بتّہ ہے۔ناقل )
خاکسار عرض کرتا ہے کہ پہلی بیوی سے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے اولاد نہیں ہوتی تھی اورحضرت صاحب کو آرزو تھی کہ ان کے اولاد ہوجائے۔ اسی لئے آپ نے تحریک کرکے شادی کروائی تھی۔
(سیرت المہدی جلد1 صفحہ761 )
نابالغ کی طرف سے اس کا ولی طلاق دے سکتا ہے
سوال : اگر نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح اس کا ولی کردے اور ہنوز وہ نابالغ ہی ہو اور ایسی ضرورت پیش آوے تو کیا طلاق بھی ولی دے سکتا ہے؟
جواب : فرمایا:
’’دے سکتا ہے۔ ‘‘
(بدر 25 جولائی 1907ء صفحہ 11)
خلع
عورت کو خلع کا اختیار حاصل ہے
فرمایا:۔
شریعت اسلام نے صرف مرد کے ہاتھ میں ہی یہ اختیار نہیں رکھا کہ جب کوئی خرابی دیکھے یا ناموافقت پاوے تو عورت کو طلاق دے دے بلکہ عورت کو بھی یہ اختیاردے دیا ہے کہ وہ بذریعہ حاکم وقت کے طلاق لے لے۔ اور جب عورت بذریعہ حاکم کے طلاق لیتی ہے تواسلامی اصطلاح میں اس کانام خُلع ہے۔ جب عورت مرد کو ظالم پاوے یا وہ اُس کو ناحق مارتا ہو یا اور طرح سے ناقابلِ برداشت بدسلوکی کرتا ہو یا کسی اور وجہ سے ناموافقت ہو یا وہ مرد دراصل نامرد ہو یا تبدیل مذہب کرے یا ایسا ہی کوئی اور سبب پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے عورت کو اُس کے گھر میں آباد رہنا ناگوار ہو تو ان تمام حالتوں میں عورت یا اُس کے کسی ولی کو چاہئے کہ حاکم وقت کے پاس یہ شکایت کرے اور حاکم وقت پر یہ لازم ہوگا کہ اگر عورت کی شکایت واقعی درست سمجھے تو اس عورت کو اس مرد سے اپنے حکم سے علیحدہ کردے اور نکاح کو توڑ دے لیکن اس حالت میں اس مرد کو بھی عدالت میں بلانا ضروری ہوگا کہ کیوں نہ اُس کی عورت کو اُس سے علیحدہ کیا جائے۔
اب دیکھو کہ یہ کس قدر انصاف کی بات ہے کہ جیسا کہ اسلام نے یہ پسند نہیں کیا کہ کوئی عورت بغیر ولی کے جو اُس کا باپ یا بھائی یا اور کوئی عزیز ہوخود بخود اپنانکاح کسی سے کرلے ایسا ہی یہ بھی پسند نہیں کیا کہ عورت خود بخود مرد کی طرح اپنے شوہر سے علیحدہ ہو جائے بلکہ جدا ہونے کی حالت میں نکاح سے بھی زیادہ احتیاط کی ہے کہ حاکم وقت کا ذریعہ بھی فرض قرار دیا ہے تا عورت اپنے نقصان عقل کی وجہ سے اپنے تئیں کوئی ضرر نہ پہنچا سکے۔
(چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ288،289)
تعدد ازدواج پر ہونے والے اعتراض کے ضمن میں عورت کے حق خلع کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
جو شخص دو بیویاں کرتاہے اس میں خدا تعالیٰ کاحرج نہیں اگر حرج ہے تو اس بیوی کاجو پہلی بیوی ہے یادوسری بیوی کا۔ پس اگر پہلی بیوی اس نکاح میں اپنی حق تلفی سمجھتی ہے تو وہ طلاق لے کر اس جھگڑے سے خلاصی پاسکتی ہے اور اگر خاوند طلاق نہ دے تو بذریعہ حاکم وقت وہ خلع کراسکتی ہے اور اگر دوسری بیوی اپنا کچھ حرج سمجھتی ہے تو وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھتی ہے ۔
(چشمۂ معرفت ۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ247)
حاکم وقت کے ذریعے خلع حاصل کرنے کی وجہ ؟
فرمایا:۔
مسلمانوں میں نکاح ایک معاہدہ ہے جس میں مرد کی طرف سے مہر اور تعہد نان و نفقہ اور اسلام اور حسن معاشرت شرط ہے اور عورت کی طرف سے عفت اور پاکدامنی اور نیک چلنی اور فرمانبرداری شرائط ضروریہ میں سے ہے اور جیسا کہ دوسرے تمام معاہدے شرائط کے ٹوٹ جانے سے قابل فسخ ہو جاتے ہیں ایسا ہی یہ معاہدہ بھی شرطوں کے ٹوٹنے کے بعد قابل فسخ ہو جاتا ہے صرف یہ فرق ہے کہ اگر مرد کی طرف سے شرائط ٹوٹ جائیں تو عورت خودبخود نکاح کے توڑنے کی مجاز نہیں ہے جیسا کہ وہ خودبخود نکاح کرنے کی مجاز نہیں بلکہ حاکم وقت کے ذریعہ سے نکاح کو توڑا سکتی ہے جیسا کہ ولی کے ذریعہ سے نکاح کو کرا سکتی ہے اور یہ کمی اختیار اس کی فطرتی شتاب کاری اور نقصان عقل کی وجہ سے ہے ۔ (آریہ دھرم ۔ روحانی خزائن جلد10صفحہ37)
خلع میں جلدی نہیں کرنی چاہئے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں معراج الدین صاحب عمر کے ساتھ ایک نومسلمہ چوہڑی لاہور سے آئی۔ اس کے نکاح کا ذکر ہوا تو حافظ عظیم بخش صاحب مرحوم پٹیالوی نے عرض کی کہ مجھ سے کردیا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دے دی اورنکاح ہوگیا۔ دوسرے روز اس مسماۃ نے حافظ صاحب کے ہاں جانے سے انکارکردیا اور خلع کی خواہش مند ہوئی۔ خلیفہ رجب دین صاحب لاہوری نے حضرت صاحب کی خدمت میں مسجد مبارک میں یہ معاملہ پیش کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اتنی جلدی نہیں۔ ابھی صبر کرے ۔ پھر اگر کسی طرح گذارہ نہ ہو تو خلع ہوسکتاہے اس پر خلیفہ صاحب نے جو بہت بے تکلف آدمی تھے حضرت صاحب کے سامنے ہاتھ کی ایک حرکت سے اشارہ کرکے کہا کہ حضور وہ کہتی ہے کہ حافظ صاحب کی یہ حالت ہے۔ (یعنی قوتِ رجولیت بالکل معدوم ہے) اس پر حضرت صاحب نے خلع کی اجازت دے دی ۔ مگر احتیاطًا ایک دفعہ پھر دونوں کو اکٹھا کیا گیا۔ لیکن وہ عورت راضی نہ ہوئی۔ بالآخر خلع ہوگیا۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ740،741)
وراثت
فاسقہ کا حقِ وراثت
ایک شخص نے بذریعہ خط حضرت سے دریافت کیا کہ ایک شخص مثلاً زید نام لا ولد فوت ہوگیا ہے۔ زید کی ایک ہمشیرہ تھی جو زید کے حین ِ حیات میں بیاہی گئی تھی۔ بہ سبب اس کے کہ خاوند سے بن نہ آئی اپنے بھائی کے گھر میں رہتی تھی اور وہیں رہی یہاں تک کہ زید مرگیا ۔ زید کے مرنے کے بعد اس عورت نے بغیر اس کے کہ پہلے خاوند سے باقاعدہ طلاق حاصل کرتی ایک اور شخص سے نکاح کر لیا جو کہ ناجائز ہے ۔ زید کے ترکہ میں جو لوگ حقدار ہیں کیا ان کے درمیان اس کی ہمشیرہ بھی شامل ہے یا اس کو حصہ نہیں ملنا چاہئے؟
حضرت نے فرمایا کہ:۔
اس کو حصہ شرعی ملنا چاہیے کیونکہ بھائی کی زندگی میں وہ اس کے پاس رہی اور فاسق ہو جانے سے اس کا حق وراثت باطل نہیں ہوسکتا۔ شرعی حصہ اس کو برابر ملنا چاہئے باقی معاملہ اس کا خدا کے ساتھ ہے۔ اس کا پہلا خاوند بذریعہ گورنمنٹ باضابطہ کارروائی کرسکتاہے۔ اس کے شرعی حق میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ (بدر26ستمبر1907ء صفحہ6)
متبنّٰی کو وارث بنانا جائز نہیں
کسی کا ذکر تھا کہ اس کی اولاد نہ تھی اور اس نے ایک اور شخص کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا کر اپنی جائیداد کا وارث کردیا تھا۔
فرمایا:۔ یہ فعل شرعًا حرام ہے ۔
شریعتِ اسلام کے مطابق دوسرے کے بیٹے کو اپنا بیٹا بناناقطعًا حرام ہے ۔
(بدر 17؍اکتوبر1907ء صفحہ7)
یتیم پوتے کا مسئلہ
رنگون سے تشریف لائے ہوئے دوست مکرم ابو سعید عرب صاحب نے سوال کیا کہ ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا تھا کہ شریعت اسلام میں پوتے کے واسطے کوئی حصہ وصیت میں نہیں ہے۔اگرایک شخص کا پوتا یتیم ہے توجب وہ مرتا ہے تو اس کے دوسرے بیٹے حصہ لیتے ہیں اور اگر چہ وہ بھی اس کے بیٹے کی اولاد ہے مگر وہ محروم رہتا ہے۔
حضرت اقدس نے فرمایا کہ:۔
دادے کا اختیار ہے کہ وصیت کے وقت اپنے پوتے کو کچھ دیدے بلکہ جو چاہے دیدے اور باپ کے بعد بیٹے وارث قرار دیئے گئے ہیں کہ تا ترتیب بھی قائم رہے اور اگر اس طرح نہ کیاجاتا تو پھر ترتیب ہرگز قائم نہ رہتی کیونکہ پھر لازم آتا ہے کہ پوتے کا بیٹا بھی وارث ہو اور پھر آگے اس کی اولاد ہو تو وہ وارث ہو۔اس صورت میں دادے کا کیا گناہ ہے۔یہ خدا کا قانون ہے اور اس سے حرج نہیں ہوا کرتا ورنہ اس طرح تو ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور جس قدر سلاطین ہیں وہ بھی آدم کی اولاد ہیں تو ہم کو چاہئے کہ سب کی سلطنتوں سے حصہ بٹانے کی درخواست کریں۔چونکہ بیٹے کی نسبت سے آگے پوتے میں جا کر کمزوری ہو جاتی ہے اور آخر ایک حد پر آکر تو برائے نام رہ جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو یہ علم تھا کہ اس طرح کمزوری نسل میں اور ناطہ میں ہو جاتی ہے اس لئے یہ قانون رکھا ہے۔ہاں ایسے سلوک اور رحم کی خاطر خدا تعالیٰ نے ایک اور قانون رکھا ہے جیسے قرآن شریف میں ہے
وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ أُوْلُوْا الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنُ فَارْزُقُوہُمْ مِّنْہُ وَقُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(النسائ:۹)
(یعنی جب ایسی تقسیم کے وقت بعض خویش و اقارب موجود ہوں اور یتیم اور مساکین تو انکو کچھ دیا کرو) تو وہ پوتا جس کا باپ مرگیا ہے وہ یتیم ہونے کے لحاظ سے زیادہ مستحق اس رحم کا ہے اور یتیم میں اور لوگ بھی شامل ہیں (جن کا کوئی حصہ مقرر نہیں کیا گیا) خدا تعالیٰ نے کسی کا حق ضائع نہیں کیا مگر جیسے جیسے رشتہ میں کمزوری بڑھتی جاتی ہے حق کم ہوتا جاتا ہے۔
(البدر2جنوری 1903ء صفحہ76 )
لڑکی کو نصف حصہ دینے کی حکمت
قرآن کریم کا حکم ہے کہ تمہاری اولاد کے حصوں کے بارے میں خدا کی یہ وصیت ہے کہ لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ دیا کرو۔ اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا:۔
یہ اس لئے ہے کہ لڑکی سسرال میں جاکر ایک حصہ لیتی ہے۔ پس اس طرح سے ایک حصہ ماں باپ کے گھر سے پاکر اور ایک حصہ سُسرال سے پاکر اس کا حصہ لڑکے کے برابر ہوجاتا ہے۔ (چشمۂ معرفت۔ روحانی خزائن جلد23صفحہ212حاشیہ)
پردہ
پردہ کی فلاسفی
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غضِ بصر اور پردہ کی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:۔
خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم نہیں دی کہ ہم نامحرم عورتوں کو بلا تکلف دیکھ تو لیا کریں اور ان کی تمام زینتوں پر نظر ڈال لیں اور ان کے تمام انداز ناچنا وغیرہ مشاہدہ کرلیں لیکن پاک نظر سے دیکھیں اور نہ یہ تعلیم ہمیں دی ہے کہ ہم ان بیگانہ جوان عورتوں کا گانا بجانا سن لیں اور ان کے حسن کے قصے بھی سنا کریں لیکن پاک خیال سے سنیں بلکہ ہمیں تاکید ہے کہ ہم نامحرم عورتوں کو اور ان کی زینت کی جگہ کو ہرگز نہ دیکھیں۔ نہ پاک نظر سے اور نہ ناپاک نظر سے۔ اور ان کی خوش الحانی کی آوازیں اور ان کے حسن کے قصے نہ سنیں۔ نہ پاک خیال سے اور نہ ناپاک خیال سے۔ بلکہ ہمیں چاہئے کہ ان کے سننے اور دیکھنے سے نفرت رکھیں جیسا کہ مردار سے تا ٹھوکر نہ کھاویں۔ کیونکہ ضرور ہے کہ بے قیدی کی نظروں سے کسی وقت ٹھوکریں پیش آویں۔ سو چونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہماری آنکھیں اور دل اور ہمارے خطرات سب پاک رہیں اس لئے اس نے یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم فرمائی۔ اس میں کیا شک ہے کہ بے قیدی ٹھوکر کا موجب ہو جاتی ہے۔ اگر ہم ایک بھوکے کتے کے آگے نرم نرم روٹیاں رکھ دیں اور پھر امید رکھیں کہ اس کتے کے دل میں خیال تک ان روٹیوں کا نہ آوے تو ہم اپنے اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ سو خدا تعالیٰ نے چاہا کہ نفسانی قویٰ کو پوشیدہ کارروائیوں کا موقع بھی نہ ملے اور ایسی کوئی بھی تقریب پیش نہ آوے جس سے بدخطرات جنبش کر سکیں۔
اسلامی پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے۔ خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے۔ یہ ان نادانوں کا خیال ہے جن کو اسلامی طریقوں کی خبر نہیں۔ بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے۔ بالآخر یاد رہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غضِّ بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پرہیزگار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہئے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غضِّ بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ وہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی اور اس کی تمدنی ضرورت میں بھی فرق نہیں پڑے گا ۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ343،344)
پردہ پر ہونے والے اعتراض کا جواب
اسلامی پردہ پر اعتراض کرنا اُن کی جہالت ہے اللہ تعالیٰ نے پردہ کا ایسا حکم دیا ہی نہیں،جس پر اعتراض واردہو۔
قرآن مسلمان مردوں اور عورتوںکو ہدایت کرتا ہے کہ وہ غض بصر کریں۔جب ایک دوسرے کو دیکھیں گے ہی نہیں،تو محفوظ رہیں گے۔یہ نہیں کہ انجیل کی طرح یہ حکم دے دیتا کہ شہوت کی نظر سے نہ دیکھ۔افسوس کی بات ہے کہ انجیل کے مصنف کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ شہوت کی نظر کیا ہے؟نظر ہی تو ایک ایسی چیز ہے جو شہوت انگیز خیالات کو پیدا کرتی ہے۔اس تعلیم کا جو نتیجہ ہوا ہے وہ اُن لوگوں سے مخفی نہیںہے جو اخبارات پڑھتے ہیں اُن کو معلوم ہوگا کہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں کے کیسے شرمناک نظارے بیان کیے جاتے ہیں۔
اسلامی پردہ سے یہ ہر گز مراد نہیں ہے کہ عورت جیل خانہ کی طرح بند رکھی جاوے۔قرآن شریف کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں ستر کریں۔وہ غیر مرد کو نہ دیکھیں۔جن عورتوں کو باہر جانے کی ضرورت تمدنی اُمور کے لیے پڑے،اُن کو گھر سے باہر نکلنا منع نہیںہے،وہ بیشک جائیں،لیکن نظر کا پردہ ضروری ہے۔مساوات کے لیے عورتوں کے نیکی کرنے میں کوئی تفریق نہیں رکھی گئی ہے اور نہ اُن کو منع کیا گیا ہے کہ وہ نیکی میںمشابہت نہ کریں۔اسلام نے یہ کب بتایا ہے کہ زنجیر ڈال کر رکھو۔اسلام شہوات کی بناء کو کاٹتا ہے۔یورپ کو دیکھو کیا ہو رہا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ کتوں اور کتیوں کی طرح زنا ہوتا ہے اور شراب کی اس قدر کثرت ہے کہ تین میل تک شراب کی دکانیں چلی گئی ہیں۔یہ کس تعلیم کا نتیجہ ہے؟کیا پردہ داری یاپردہ دری کا۔
(تقریرجلسہ سالانہ 28دسمبر1899ء ۔ملفوظات جلد1صفحہ297،298 )
خاص حالات میں پردہ کی رعایت
فرمایا:۔
ایسی صورت اور حالت میں کہ قہر خدا نازل ہو رہا ہو اور ہزاروں لوگ مر رہے ہوں۔پردہ کا اتنا تشدد جائز نہیںہے۔کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ کی بیوی مر گئی،تو کوئی اس کو اٹھانے والا بھی نہ رہا۔اب اس حالت میں پردہ کیا کر سکتا تھا۔مثل مشہور ہے۔مرتا کیا نہ کرتا۔مردوں ہی نے جنازہ اٹھایا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر بچہ رحم میں ہو تو کبھی مرد اس کو نکال سکتا ہے۔دین اسلام میں تنگی و حرج نہیں۔جو شخص خوا مخواہ تنگی وحرج کرتا ہے،وہ اپنی نئی شریعت بناتا ہے۔گورنمنٹ نے بھی پردے میں کوئی تنگی نہیں کی اور اب قواعد بھی بہت آسان بنا دئے ہیں۔جو جو تجاویز اور اصلاحات لوگ پیش کرتے ہیں گورنمنٹ اسے توجہ سے سنتی اور ان پر مناسب اور مصلحت وقت کے موافق عمل کرتی ہے۔کوئی شخص مجھے یہ تو بتائے کہ پردہ میں نبض دکھانا کہاں منع کیا ہے۔ (رسالہ الانذار،تقریرحضرت اقدس ؑ 2مئی1898ء بحوالہ ملفوظات جلداوّل صفحہ171)
پردہ میں حد درجہ تکلّف ضروری نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی روایت کرتے ہیں کہ سیدنا امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام قیام لاہور کے ایام میں سیر کے لئے تشریف لے جانے سے قبل مجھ غلام کو یاد فرماتے اور جب میں اطلاع کرتا ، تشریف لاتے تھے۔ یہی حضور کا معمول تھا اور میں بھی نہایت پابندی اور تعہّد سے ان اوقا ت کا انتظام اورانتظار کیا کرتا تھا۔ رتھ کے پیچھے میرے واسطے حضور نے حکم دے کر ایک سیٹ بنوادی تھی تو فٹن کی سواری میں پیچھے کی طرف کا پائیدان میرا مخصوص مقام تھا جہاں ابتداء ً مَیں پیچھے کو منہ کرکے الٹاکھڑا ہوا کرتا تھا۔ ایسا کہ میری پیٹھ حضرت اوربیگمات کی طرف ہوا کرتی تھی۔ اس خیال سے کہ بیگمات کو تکلیف نہ ہو۔ کیونکہ عمومًا سیدۃ النساء اورکوئی اور خواتین مبارکہ بھی حضرت کے ساتھ کوچوان کی طرف والی نشست پر تشریف فرما ہوتیں تو ان کی تکلیف یا پردہ کا خیال میرے الٹا کھڑے ہونے کا موجب و محرک ہوا کرتا تھا۔ مگر ایک روز کہیں حضور کا خیال میری اس حرکت کی طرف مبذول ہو گیا تو حکم دیا کہ میاں عبدالرحمن !یوں تکلّف کرکے اُلٹا کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ سفروں میں نہ اتنا سخت پردہ کرنے کا حکم ہے اور نہ ہی اس تکلف کی ضرورت۔ اَلدِّیْنُ یُسْرٌ اور جس طرح عورتوں کو پردہ کا حکم ہے اسی طرح مردوں کو بھی غضِ بصر کرکے پردہ کی تاکید ہے۔ آپ بے تکلف سیدھے کھڑے ہوا کریں۔
چنانچہ اس کے بعد پھرمیں ہمیشہ سیدھا کھڑا ہوا کرتا تھا برعائت پردہ۔ بعض بیگمات کی گودی میں بچے ہوا کرتے تھے۔ گاڑی سے اُترتے وقت ان کے اُٹھانے میں بھی میں بہت حد تک تکلف کیا کرتا تھا مگر اس سے بھی حضورؑ نے روک دیا اورمیں بچوں کو محتاط طریق سے بیگمات کی گودیوں میں سے بسہولت لے دے لیا کرتا تھا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ384،385)
پردہ کی حدود
حضرت نواب محمد علی خان صاحب روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پردہ کے متعلق دریافت کیا۔۔۔۔۔ حضور نے اپنی دستار کے شملہ سے مجھے ناک کے نیچے کا حصّہ اور مُنہ چھپا کر بتایا کہ ماتھے کو ڈھانک کر اس طرح ہونا چاہئے ۔ گویا آنکھیں کھُلی رہیں اور باقی حصہ ڈھکا رہے۔ اس سے قبل حضرت مولانا نورالدین صاحب سے میں نے ایک دفعہ دریافت کیا تھا تو آپ نے گھونگھٹ نکال کر دکھلایا تھا۔ (سیرت المہدی جلد2صفحہ48)
امہات المومنین کا پردہ
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک لیکچر میں فرمایا کہ یہ پردہ جو گھروں میں بند ہوکربیٹھنے والا ہے جس کے لئے وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ امہات المومنین سے خاص تھا۔ دوسری مومنات کے لئے ایسا پردہ نہیں ہے ۔ بلکہ ان کے لئے صرف اخفاء زینت والا پردہ ہے۔ (سیرت المہدی جلد1صفحہ766)
پردے میں بے جا سختی نہ کی جائے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ بیان کیا حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اولؓ نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ؑ کسی سفر میں تھے۔سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیرتھی۔ آپ بیوی صاحبہ کے ساتھ سٹیشن کے پلیٹ فارم پر ٹہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اورپھر غیر لوگ ادھراُدھر پھرتے ہیں ۔ آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ ناچار مولوی عبدالکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں۔ بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا جاؤ جی میں ایسے پردہ کا قائل نہیں ہوں۔مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب سر نیچے ڈالے میری طرف آئے ۔ میں نے کہا مولوی صاحب ! جواب لے آئے؟
(سیرت المہدی جلد1صفحہ56)
نامحرم عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمدؓ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ ڈاکٹرمحمد اسماعیل خان صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود ؑ سے عرض کیا کہ میرے ساتھ شفاخانہ میں ایک انگریز لیڈی ڈاکٹر کام کرتی ہے اور وہ ایک بوڑھی عورت ہے۔ وہ کبھی کبھی میرے ساتھ مصافحہ کرتی ہے ۔ اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ حضرت صاحب نے فرمایا کہ یہ تو جائز نہیں ہے۔ آپ کو عذر کردینا چاہئے کہ ہمارے مذہب میں یہ جائز نہیں۔
(سیرت المہدی جلد1صفحہ362،363)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں :
عورتوں کو ہاتھ لگانا منع ہے۔ احسن طریق سے پہلے لوگوں کو بتا دیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب ایک یورپین عورت ملنے آئی تو آپ نے اسے یہی بات کہلا بھیجی تھی۔ رسول کریم ﷺ سے بھی عورتوں کا ہاتھ پکڑ کر بیعت لینے کا سوال ہوا تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ یہ ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ اس میں عورتوں کی ہتک نہیں۔
(الفضل 14 ستمبر 1915ء صفحہ 5)
اضطرار میں پردہ کی رعایت
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں:۔
اگر کسی موقعہ پر انتہائی مجبوری کی وجہ سے مردار یا سؤر کا گوشت استعمال کر لیا جائے تو جن زہریلے اثرات کی وجہ سے شریعت نے اِن چیزوں کو حرام قراردیا ہے وہ بہرحال ایک مومن کے لئے بھی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج کا تدارک اسی صورت میں ہو سکتاہے کہ انسان غفور اوررحیم خدا کا دامن مضبوطی سے پکڑ لے اوراُسے کہے کہ اے خدا!مَیں نے تو تیری اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لئے اِس زہریلے کھانے کو کھا لیا ہے لیکن اب تُو ہی فضل فرمااوراُن مہلک اثرات سے میری رُوح اور جسم کو بچا جو اُس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اِسی حکمت کے باعث آخر میں اِنَّ اللَّہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ کہا گیا ہے تاکہ انسان مطمئن نہ ہو جائے بلکہ بعد میں بھی وہ اُس کی تلافی کی کوشش کرتا رہے اور خدا تعالیٰ سے اُس کی حفاظت طلب کرتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے غالبًا شریعت کی اِسی رخصت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کسی حاملہ عورت کی حالت ایسی ہوجائے کہ مرد ڈاکٹر کی مددکے بغیر اُس کا بچہ پیدا نہ ہو سکتا ہو اوروہ ڈاکٹر کی مدد نہ لے اوراُسی حال میں مر جائے تو اس عورت کی موت خود کشی سمجھی جائے گی ۔ اِسی طرح اگر انسان کی ایسی حالت ہو جائے کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگے اور وہ سؤر یا مردار کا گوشت کسی قدر کھالے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔
(تفسیر کبیر جلد2صفحہ345،346)
خریدوفروخت اور کاروباری امور
ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے
کسی نے پوچھا کہ بعض آدمی غلہ کی تجارت کرتے ہیں اور خرید کر اُسے رکھ چھوڑتے ہیں جب مہنگا ہو جاوے تو اسے بیچتے ہیں کیا ایسی تجارت جائز ہے؟
فرمایا:اس کو مکروہ سمجھا گیا ہے۔ میں اس کو پسند نہیں کرتا۔ میرے نزدیک شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے۔ ایک آن کی بدنیتی بھی جائز نہیں اور یہ ایک قسم کی بد نیتی ہے۔ ہماری غرض یہ ہے کہ بد نیتی دور ہو۔
امام اعظم رحمۃاﷲ علیہ کی بابت لکھاہے کہ آپ ایک مرتبہ بہت ہی تھوڑی سی نجاست جواُن کے کپڑے پر تھی دھورہے تھے۔کسی نے کہا کہ آپ نے اس قدر کے لیے توفتویٰ نہیں دیا۔ اس پر آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ آن فتویٰ است وایں تقویٰ۔پس انسان کو دقائق تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہیے، سلامتی اسی میں ہے ۔اگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروانہ کرے تو پھر ایک دن وہی چھوٹی چھوٹی باتیں کبائر کا مرتکب بنادیں گی اور طبیعت میں کسل اور لاپروائی پیدا ہو کر ہلاک ہو جائے گا۔ تم اپنے زیرِ نظر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج کو حاصل کرنا رکھو اور اس کے لیے دقائق تقویٰ کی رعایت ضروری ہے۔ (الحکم10نومبر1905ء صفحہ5)
بیع و شراء میں عرف کی حیثیت
ایک شخص نے سوال کیا کہ ریلی برادرز وغیرہ کارخانوں میں سرکاری سیر ۸۰ روپیہ کا دیتے ہیں اور لیتے ۸۱ روپے کا ہیں۔ کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا:۔
جن معاملات میں بیع و شراء میں مقدمات نہ ہوں ۔ فساد نہ ہوں۔ تراضی فریقین ہو اور سرکارنے بھی جُرم نہ رکھا ہو۔ عُرف میں جائز ہو ۔ وہ جائز ہے۔ (الحکم 10؍اگست 1903ء صفحہ19)
بیچنے والے کو اپنی چیز کی قیمت مقرر کرنے کا اختیار ہے
سوال پیش ہوا کہ بعض تاجر گلی کوچوں میں یا بازار میں اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ ایک ہی چیز کی قیمت کسی سے کم لیتے ہیں اور کسی سے زیادہ،کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا
مالک شے کو اختیار ہے کہ اپنی چیز کی قیمت جو چاہے لگائے اورمانگے ،لیکن وقتِ ضرورت تراضی طرفین ہواور بیچنے والا کسی قسم کا دھوکہ نہ کرے۔ مثلًا ایسا نہ ہو کہ چیز کے خواص وہ نہ ہوں جو بیان کئے جاویںیااورکسی قسم کا دغا خریدار سے کیا جاوے اور جھوٹ بولا جاوے اور یہ بھی جائز نہیں کہ بچے یا ناواقف کو پائے تودھوکہ دے کر قیمت زیادہ لے لے اورجس کو اس ملک میں ’’لگادا‘‘ لگانا کہتے ہیں یہ ناجائز ہے۔ (بدر16مئی1907ء صفحہ10)
تجارتی روپیہ پر منافع
ایک صاحب کی خاطر حضرت حکیم نورالدین صاحبؓ نے ایک مسئلہ حضرت اقدس ؑ سے دریافت کیا کہ یہ ایک شخص ہیں جن کے پاس بیس بائیس ہزار کے قریب روپیہ موجود ہے۔ایک سکھ ہے وہ ان کا روپیہ تجارت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور ان کے اطمینان کے لیے اس نے تجویز کی ہے کہ یہ روپیہ بھی اپنے قبضہ میں رکھیں لیکن جس طرح وہ ہدایت کرے۔اسی طرح ہر ایک شے خرید کر جہاں کہے وہاں روانہ کریں اور جو روپیہ آوے وہ امانت رہے۔سال کے بعد وہ سکھ دو ہزار چھ سو روپیہ ان کو منافع کا دے دیا کرے گا۔یہ اس غرض سے یہاں فتویٰ دریافت کرنے آئے ہیں کہ یہ روپیہ جو اُن کو سال کے بعد ملے گا اگر سود نہ ہو تو شراکت کرلی جاوے۔
حضرت اقدس ؑ نے فرمایا :
چونکہ اُنہوں نے خود بھی کام کرنا ہے اور ان کی محنت کو دخل ہے اور وقت بھی صرف کریں گے اس لئے ہر ایک شخص کی حیثیت کے لحاظ سے اس کے وقت اور محنت کی قیمت ہوا کرتی ہے۔دس دس ہزار اور دس دس لاکھ روپیہ لوگ اپنی محنت اور وقت کا معاوضہ لیتے ہیں۔لہٰذا میرے نزدیک تو یہ روپیہ جو اُن کو وہ دیتا ہے سود نہیں ہے۔اور میں اس کے جواز کا فتویٰ دیتا ہوں۔سود کا لفظ تو اس روپیہ پر دلالت کرتا ہے جو مفت بلا محنت کے (صرف روپیہ کے معاوضہ میں) لیا جاتا ہے۔اب اس ملک میں اکثر مسائل زیروزبر ہو گئے ہیں۔کل تجارتوں میں ایک نہ ایک حصہ سود کا موجود ہے۔اس لئے اس وقت نئے اجتہاد کی ضرورت ہے۔ (البدر یکم و 8نومبر1904ء صفحہ8)
نیک نیتی میں برکت ہے
ایک زرگرکی طرف سے سوال ہو اکہ پہلے ہم زیوروں کے بنانے کی مزدوری کم لیتے تھے اور ملاوٹ ملادیتے تھے ۔اب ملاوٹ چھوڑدی ہے اور مزدوری زیا دہ مانگتے ہیں تو بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم مزدوری وہی دینگے جو پہلے دیتے تھے تم ملاوٹ ملالو۔ایسا کا م ہم ان کے کہنے سے کریں یا نہ کریں ؟فر ما یا :۔
کھوٹ والا کام ہرگز نہیں کر نا چاہئے اور لوگوں کو کہہ دیا کروکہ اب ہم نے تو بہ کرلی ہے جو ایسا کہتے ہیں کہ کھوٹ ملادو وہ گناہ کی رغبت دلاتے ہیں ۔پس ایسا کام اُن کے کہنے پر بھی ہرگز نہ کرو ۔بر کت دینے والا خدا ہے اور جب آدمی نیک نیتی کے ساتھ ایک گناہ سے بچتا ہے تو خدا ضرور بر کت دیتا ہے۔ (الحکم24؍اپریل1903ء صفحہ10)
رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانا جائز ہے
رہن کے متعلق سوال ہو ا۔ آپ ؑ نے فر مایا کہ :۔
موجودہ تجاویز رہن جائز ہیں گذشتہ زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر فصل ہو گئی تو حکا م زمینداروں سے معاملہ وصول کر لیا کر تے تھے اگر نہ ہوتی تو معاف ہو جا تا اور اب خواہ فصل ہو یا نہ ہو حکام اپنا مطالبہ وصول کر ہی لیتے ہیں پس چونکہ حکامِ وقت اپنا مطالبہ کسی صورت میں نہیں چھوڑتے تو اسی طر ح یہ رہن بھی جائز رہا کیو نکہ کبھی فصل ہو تی اور کبھی نہیں ہو تی تو دونوں صورتوں میں مر تہن نفع ونقصان کا ذمہ دار ہے ۔پس رہن عدل کی صورت میں جائز ہے ۔آجکل گور نمنٹ کے معاملے زمینداروں سے ٹھیکہ کی صورت میں ہو گئے ہیں اور اس صورت میں زمینداروں کو کبھی فائدہ اور کبھی نقصان ہو تا ہے توایسی صورت عدل میں رہن بیشک جائز ہے ۔
جب دودھ والا جانور اور سواری کا گھوڑا رہن با قبضہ ہو سکتا ہے اور اس کے دودھ اور سواری سے مر تہن فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو پھر زمین کا رہن تو آپ ہی حاصل ہو گیا ۔
پھر زیور کے رہن کے متعلق سوال ہوا تو فر مایا :۔
زیور ہو کچھ ہو جب انتفا ع جائز ہے تو خواہ نخواہ تکلفات کیوں بناتے جاویں ۔اگر کوئی شخص زیور کو استعمال کرنے سے اس سے فائدہ اُٹھا تا ہے تو اس کی زکوٰۃبھی اس کے ذمہ ہے زیور کی زکوٰۃ بھی فر ض ہے چنانچہ کل ہی ہمارے گھر میں زیور کی زکوٰۃ ڈیڑھ سو روپیہ دیا ہے۔پس اگر زیور استعمال کر تا ہے تو اس کی زکوٰۃ دے اگر بکری رہن رکھی ہے اور اس کا دودھ پیتا ہے تو اس کو گھاس بھی دے۔ (الحکم24؍اپریل 1903ء صفحہ11)
رہن میں وقت مقرر کرنا
سوال:۔ ایک شخص دو ہزار روپے میں ایک مکان رہن لیتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ دو سال تک راہن سے روپیہ واپس نہ لے۔ کیا رہن کرتے وقت اس قسم کی شرط رکھی جاسکتی ہے یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں۔
فقہاء کا مذہب تو یہ ہے کہ وقت کی پابندی جائز نہیں ۔ جب بھی راہن روپیہ دے وہ مکان مرتہن سے چھڑا سکتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پابندی کو جائز قراردیا ہے۔ چنانچہ جب مرزا نظام الدین صاحب کی دوکانیں حضرت ام المومنین نے رہن لیں تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت فرمایا کہ کیا وقت معین کیا جاسکتا ہے تو آپ ؑ نے اسے جائز قرار دیا۔ پس یہ شرط میرے نزدیک جائز ہے بشرطیکہ رہن جائز ہو۔ اگر رہن ہی ناجائز ہے تو پھر سال دو سال وغیرہ کی مدت کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ وہ پہلے دن سے ہی ناجائز ہے۔