قاتلین حضرت امام حسینؓ کون تھے؟
اہل کوفہ پکے شیعہ تھے:۔
۱۔ ’’وبا لجملہ اہل تشیع اہل کوفہ حاجت باقامت دلیل ندارد ۔ وسُنّی بودن کوفی الاصل خلافِ اصل محتاج بدلیل است۔‘‘ (مجالس المومنین مجلس اوّل صفحہ ۳۵ مطبوعہ ایران) یعنی اہل کوفہ کا شیعہ ہونا محتاج دلیل نہیں بلکہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے ۔ ہاں کسی کوفی الاصل کو سُنی قرار دینے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے ۔
۲۔ مجالس المومنین میں حضرت امام جعفر صادق ؒ سے روایت ہے :۔
اَلَا اِنَّ لِلّٰہِ حَرَمًا وَھُوَ مَکَّۃُ وَاَلَااِنَّ لِرَسُولِ اللّہِ حَرَماً وَھُوَ الْمَدِیْنَۃُ واَلَااِنَّ لِاَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَمًا وَھُوَ الْکُوْفَۃُ۔ (مجالس المومنین مجلس اول صفحہ۳۶)
۳۔کوفہ وہ زمین ہے جس نے حضرت علیؓ کی محبت ابتدائے آفرینش سے قبول کی تھی۔
(جلاء العیون ترجمہ اردو جلد ۱ باب۳ ۔فصل ۲ بیان اخبار شہادت حیدر کرار صفحہ ۲۲۷)
۴۔اہل کوفہ سلیمان بن خرد خزاعی کے گھر جمع ہوئے تو ان کو مخاطب کرکے سلیمان بن خرد نے کہا ’’اَنْتُمْ شِیْعَتُہٗ وَشِیْعَۃُ اَبِیْہِ۔‘‘ (ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب نمبر ۲ صفحہ ۱۳۰) کہ اے اہل کوفہ تم امام حسین ؓ اور ان کے باپ حضرت علیؓ کے شیعہ ہو۔
اہل کوفہ کا خط حضرت امام حسینؓ کے نام
جب حضرت امام حسینؓ نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا تو پہلے مکہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا۔ (جلاء العیون مترجم اُردو مطبوعہ لکھنؤ جلد ۲باب ۵ فصل نمبر ۱۲ صفحہ ۴۲۶) مگر شیعان اہلِ کوفہ کی طرف سے مندرجہ ذیل عریضہ حضرت امام حسین ؓ کو پہنچا:۔
ـِ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ یہ عریضہ شیعوں اور فدایوں اور مخلصوں کی طرف سے بخدمت امام حسین بن علیؓ بن ابی طالب ہے ۔ اما بعد،بہت جلد آپ اپنے دوستوں، ہوا خواہوں کے پاس تشریف لائیے کہ جمیع مرد مانِ ولایت منتظر قدوم میمنت لزو م ہیں اور بغیر آپ کے دوسرے شخص کی طرف لوگوں کو رغبت نہیں ہے البتہ بہ تعجیل تمام ہم مشتاقوں پاس تشریف لائیے۔‘‘
(جلاء العیون جلد ۲باب ۵ فصل نمبر۱۳ مترجم اُردوصفحہ۴۳۱)
اہل کوفہ کی طرف سے دعوت کے ۱۲ہزار خطوط حضرت امام حسین ؓ کو ملے تھے۔
(ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲صفحہ ۱۳۱)
حضرت امام حسین ؓ کا جواب
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔یہ خط حسین بن علیؓ کا مومنوں، مسلمانوں، شیعوں کی طرف ہے امابعد! بہت سے قاصدوں اور خطوط بیشمار آنے کے بعد جو تم نے مجھے خط ہانی وسعید کے ہاتھ بھیجا مجھے پہنچا تمہارے سب خطوط کے مضامین سے مطلع ہوا …… واضح ہو کہ میں بالفعل تمہارے پاس اپنے برادر و پسرعم و محل اعتماد مسلم بن عقیل کو بھیجتا ہوں۔اگر مسلم مجھے لکھیں کہ جو کچھ تم نے مجھے خطوط میں لکھا ہے بمشورۂ عقلا و دانایان و اشراف و بزرگان قوم لکھا ہے اس وقت میں انشاء اﷲ بہت جلد تمہارے پاس چلا آؤں گا۔‘‘
(جلاء العیون ترجمہ اردو صفحہ۴۳۱جلد ۲باب ۵ فصل نمبر۱۳ وناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب دوم صفحہ ۱۳۱)
امام مسلم کا کوفہ پہنچنا
امام مسلم کی اہل کوفہ میں سے ۸۰ہزارآدمیوں نے بیعت کی ۔
(بر وایت ابو مخنف دیکھو ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲صفحہ۱۳۳)
’’بروایت ابو مخنف ہشتاد ہزار کس بامسلم بیعت کرد‘‘۔
امام مسلم کی شہادت اور وصیّت
شیعان اہل کوفہ نے امام مسلم کے ساتھ کس طرح غداری کرکے ان کو اور ان کے دونوں بچوں کو شہید کیا۔بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔امام مسلم نے بوقت شہادت عمر بن سعد کو مخاطب کرکے مندرجہ ذیل وصیت کی:۔
’’میری وصیّت اوّل یہ ہے کہ اس شہر میں سات سو درہم کا میں قرض دار ہوں لازم ہے کہ شمشیر و زرہ میری فروخت کرکے میرا قرض ادا کر دے۔دوسری وصیّت یہ ہے کہ جب مجھے قتل کریں تو ابن زیاد سے اجازت لے کر مجھے دفن کر دینا۔ تیسری وصیّت یہ ہے کہ امام حسین کو اس مضمون کا خط لکھ کر کہ کوفیوں نے مجھ سے بے وفائی کی اور آپ کے پسر عم کی نصرت و یاوری نہ کی۔ان کے وعدوں پر اعتماد نہیں ہے آپ اس طرف نہ آئیں۔‘‘
(جلاء العیون جلد ۲باب ۵ فصل نمبر۱۳صفحہ۴۴۲و۴۴۳مترجم اردو)
ناسخ التواریخ جلد ۶ کتاب ۲صفحہ۱۴۲میں ہے:۔
وَالثَّالِثَۃُ اَنْ تَکْتُبُوْا اِلٰی سَیِّدِ الْحُسَیْنِ اَنْ یَرْجِعَ عَنْکُمْ فَقَدْ بَلَغَنِیْ اِنَّہُ خَرَجَ بِنِسَاءِ ہٖ وَ اَوْلَادِہٖ فَیُصِیْبُہُ مَا اَصَابَنِیْ ثُمَّ یَقُوْلُ اِرْجِعْ فِدَاکَ اَبِیْ وَ اُمِّیْ بِاَھْلِ بَیْتِکَ فَلَا یَغْرُرْکَ اَھْلُ الْکُوْفَۃِفَاِنَّھُمْ اَصْحَابُ اَبِیْکَ الَّذِیْ تَمَنّٰی فِرَاقُھُمْ بِالْمَوْتِ۔
کہ میری تیسری وصیّت یہ ہے کہ تم میرے آقا حضرت امام حسینؓ کو لکھنا کہ وہ تمہارے پاس نہ آئیں کیونکہ میں نے سنا ہے کہ وہ مع عورتوں اور بچّوں کے تشریف لا رہے ہیں۔ایسا نہ ہو کہ ان کو بھی وہی مصیبت پہنچے جو مجھے پہنچی ہے۔پھر انہیں لکھنا کہ مسلم کہتا ہے کہ اے امام حسینؓ! (میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں) اپنے اہل بیت سمیت واپس لوٹ جائیے اور اہل کوفہ کے وعدے آپ کو دھوکے میں نہ ڈالیں‘کیونکہ وہ آپ کے والد (حضرت علیؓ) کے وہی صحابی ہیں جن سے جُدائی کے لئے آپ کے باپ نے موت کی خواہش کی تھی۔
امام حسین ؓکی روانگی جانب کوفہ
لیکن حضرت امام حسین ؓ کوفہ کی طرف بڑھتے چلے آرہے تھے۔ان کو امام مسلم کی شہادت کی خبر مقام ثعلبیہ پر پہنچی۔منزل زبالہ پر اپنے قاصد عبداﷲ بن یقطر کی شہادت کی خبر بھی آپ کو ملی۔اس پر آپ نے اپنے تمام اصحاب کو جمع کر کے فرمایا:۔
’’خبر پہنچی ہے کہ مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ اور عبداﷲ بن یقطر کو شہید کیا ہے اور ہمارے شیعوں نے ہماری نصرت سے ہاتھ اُٹھا لیا ہے جِسے منظور ہو مجھ سے جُدا ہو جائے۔ کوئی حرج نہیں ہے ۔ ‘‘ پس ایک گروہ جو بہ طمع مال و غنیمت و راحت و عزّتِ دنیا حضرت کے رفیق ہوئے تھے ان اخبار کے استماع سے متفرق ہو گئے اور اہل بیت وخویشان آنحضرت اور ایک جماعت کہ ازروئے ایمان ویقین رفیق حضرت تھے باقی رہ گئے۔
(جلاء العیون مترجم اردو جلد ۲ باب ۵ فصل نمبر ۱۴صفحہ ۴۵۲)
خلاصۃ المصائب میں ہے :۔
بَلَغَنِیْ خَبَرُ قََتْلِ مُسْلِمَ وَ عَبْدَ اللّٰہِ ابْنِ یَقْطُرَ وَقَدْ َخذَ لَنَا شِیْعَتُنَا۔ (خلاصۃ المصائب مطبوعہ نو لکشور روایت ہفتم صفحہ ۵۶) کہ مجھے مسلم اور عبد اﷲ بن یقطر کی شہادت کی خبر پہنچی ہے اور ہم کو ہمارے شیعوں نے ہی ذلیل و بیکس کیا ہے۔
نوٹ :۔ اس عبارت میں قَدْ خَذَ لَنَا شِیْعَتُنَا کے الفاظ خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہیں کیونکہ حضرت امام حسین ؓ نے اپنی زبان سے فرمادیا ہے کہ ہماری ان تمام مصیبتوں کا موجب ہمارے شیعوں کے سوااور کوئی نہیں ۔
حضرت امام حسین ؓ کا خط اہل کوفہ کے نام
امام مسلم بن عقیل اور عبد اﷲ بن یقطر کی شہادت کی اطلاع ملنے سے قبل حضرت امام حسینؓ نے مندرجہ ذیل خط اہل کوفہ کو لکھا: ’’ بسم اﷲ الرحمن الرحیم ۔ یہ خط حسین بن علی ؓکی طرف سے برادران مومن مسلم کو ہے ۔ تم پر سلام الہٰی ہو …… امابعد بدر ستیکہ خط مسلم بن عقیل کا میرے پاس پہنچا ۔ اس خط میں لکھا تھا کہ تم لوگوں نے میری نصرت اور دشمنوں سے میرا حق طلب کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔ میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا احسان مجھ پر تمام کرے اور تم کو تمہارے حُسنِ نیت وکردار پر بہترین جزائے ابرار عطا فرمائے۔ بدرستیکہ میں آٹھویں ماہ ذی الحجہ روز سہ شنبہ کو مکہ سے باہر آیا اور تمہاری جانب آتا ہوں۔ جب میرا قاصد تم تک پہنچے لازم ہے کہ کمر متابعت مضبوط باندھو اور اسباب کا رزار آمادہ رکھو اور میری نصرت کے مہیا رہو کہ مَیں اب بہت جلد تم تک پہنچتا ہوں۔ والسّلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔‘‘
(جلاء العیون مترجم جلد۲ باب۵ فصل نمبر۱۴ صفحہ ۴۴۹)
نوٹ :۔ اس خط میں دو باتیں معلوم ہوتی ہیں :۔
۱۔ بقول شیعیان امام حسین ؓ کی روانگی بجانب کوفہ لڑائی اور کارزار کے لئے تھی نہ کہ پُرامن رہنے کی نیت سے۔
۲۔ امام حسین ؓ کو علم غیب نہ تھا اور نہ انہیں امام مسلم بن عقیل کی شہادت کا علم ہو سکا اور نہ اہل کوفہ کی غداری کا علم ان کو ہوا۔ حالانکہ اس خط کی تحریر سے قبل امام مسلم بن عقیل انہی کوفیوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے تھے ۔
نزول کربلا اور اس کے بعد:
جب حضرت امام حسین ؓمیدانِ کربلا میں اُترے تو ابنِ زیاد نے (جو یزید کی فوج کا سپہ سالار تھا) مندرجہ ذیل مکتوب حضرت امام حسین ؓ کو لکھا :۔
’’ میں نے سنا ہے آپ کربلا میں اُترے ہیں اور یزید بن معاویہ نے مجھے خط لکھا ہے کہ آپ کو مہلت نہ دوں یا آ پ سے بیعت لوں اور اگر انکار کیجئے تو یزید پاس بھیج دوں‘‘۔
(جلا ء العیون مترجم اُردو جلد ۲باب ۵ فصل نمبر ۱۴ صفحہ ۴۵۶)
نوٹ :۔ اس خط سے معلوم ہو تا ہے کہ ابنِ یزید کی طرف سے حضرت امام حسین ؓ کو شہید کرنے کی ہدایت یا اجازت نہ تھی ۔
اس خط کو حضرت امام حسین ؓ نے پھاڑ دیا ۔بعد ازاں جب قرۃ بن قیس کوفی آپ سے ملنے کے لئے آیا تو آپ نے فرمایا:۔
ـ’’ تمہا رے شہر کے لوگوں نے نامہ ہائے بیشمار مجھے لکھے اور بہت مبالغہ اور اصرار کر کے بلایا۔ اگر میرا آنا اب منظور نہیں تو مجھے واپس جانے دو ‘‘۔ (ناسخ التواریخ جلد۶ کتاب نمبر ۲صفحہ ۱۷۵)