مسیح روح اﷲ ہو کر خدا نہیں بن سکتا
بارہویں دلیل:۔قرآن مجید میں مسیح کو روح اﷲ کہا گیا ہے۔قرآن مجید میں مسیح کی نسبت روح منہ (النساء:۱۷۲) کا لفظ آیا ہے۔دوسری جگہ آتا ہے۔ (التحریم:۱۳)
يَـٰٓأَهۡلَ ٱلۡڪِتَـٰبِ لَا تَغۡلُواْ فِى دِينِڪُمۡ وَلَا تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ إِلَّا ٱلۡحَقَّۚ إِنَّمَا ٱلۡمَسِيحُ عِيسَى ٱبۡنُ مَرۡيَمَ رَسُولُ ٱللَّهِ وَڪَلِمَتُهُ ۥۤ أَلۡقَٮٰهَآ إِلَىٰ مَرۡيَمَ وَرُوحٌ۬ مِّنۡهُۖ فَـَٔامِنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦۖ وَلَا تَقُولُواْ ثَلَـٰثَةٌۚ ٱنتَهُواْ خَيۡرً۬ا لَّڪُمۡۚ إِنَّمَا ٱللَّهُ إِلَـٰهٌ۬ وَٲحِدٌ۬ۖ سُبۡحَـٰنَهُ ۥۤ أَن يَكُونَ لَهُ ۥ وَلَدٌ۬ۘ لَّهُ ۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَمَا فِى ٱلۡأَرۡضِۗ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَڪِيلاً۬ (١٧١) (النساء:۱۷۲)
وَمَرۡيَمَ ٱبۡنَتَ عِمۡرَٲنَ ٱلَّتِىٓ أَحۡصَنَتۡ فَرۡجَهَا فَنَفَخۡنَا فِيهِ مِن رُّوحِنَا وَصَدَّقَتۡ بِكَلِمَـٰتِ رَبِّہَا وَكُتُبِهِۦ وَكَانَتۡ مِنَ ٱلۡقَـٰنِتِينَ (١٢) (التحریم:۱۳)
جواب:۔ ہمارا یہ مذہب نہیں اور نہ اسلام نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ سوائے خدا کے مسیح یا کسی اور کو ہم خدا مانیں بلکہ اسلامی تعلیم اس کے صریح خلاف ہے۔چنانچہ مندرجہ بالا آیات میں سے دوسری آیت کے آخر میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (النساء:۱۷۲)کہ تین خدا مت کہو۔ایسے عقیدہ سے باز آجاؤ کہ تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔اسی طرح ایک جگہ فرماتا ہے ۔(المائدۃ:۱۸و۷۳) نیز (المائدۃ:۷۴) کہ ان لوگوں نے کفر کیاجنہوں نے کہا کہ مسیح خدا ہے۔نیز ان لوگوں نے بھی کفر کیا جنہوں نے کہا کہ خدا تین میں سے ایک ہے۔
لَّقَدۡ ڪَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلۡمَسِيحُ ٱبۡنُ مَرۡيَمَۚ قُلۡ فَمَن يَمۡلِكُ مِنَ ٱللَّهِ شَيۡـًٔا إِنۡ أَرَادَ أَن يُهۡلِكَ ٱلۡمَسِيحَ ٱبۡنَ مَرۡيَمَ وَأُمَّهُ ۥ وَمَن فِى ٱلۡأَرۡضِ جَمِيعً۬اۗ وَلِلَّهِ مُلۡكُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَمَا بَيۡنَهُمَاۚ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُۚ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ۬ (١٧) (المائدۃ:۱۸)
لَقَدۡ ڪَفَرَ ٱلَّذِينَ قَالُوٓاْ إِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلۡمَسِيحُ ٱبۡنُ مَرۡيَمَۖ وَقَالَ ٱلۡمَسِيحُ يَـٰبَنِىٓ إِسۡرَٲٓءِيلَ ٱعۡبُدُواْ ٱللَّهَ رَبِّى وَرَبَّڪُمۡۖ إِنَّهُ ۥ مَن يُشۡرِكۡ بِٱللَّهِ فَقَدۡ حَرَّمَ ٱللَّهُ عَلَيۡهِ ٱلۡجَنَّةَ وَمَأۡوَٮٰهُ ٱلنَّارُۖ وَمَا لِلظَّـٰلِمِينَ مِنۡ أَنصَارٍ۬ (٧٢) (المائدۃ:۷۳)
علاوہ ازیں اگر کوئی روح اﷲ کے لفظ سے خدا بن جاتا ہے تو اس میں حضرت مسیح کی خصوصیّت نہیں۔اس طرح سے تو پھر قرآن مجید کے رو سے ہزارو ں کروڑوں بلکہ سب ہی خدا بن جائیں گے۔دیکھو:۔
الف۔خدا تعالیٰ آدم کے متعلق فرماتا ہے۔(السجدۃ:۱۰)
ثُمَّ سَوَّٮٰهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِۦۖ وَجَعَلَ لَكُمُ ٱلسَّمۡعَ وَٱلۡأَبۡصَـٰرَ وَٱلۡأَفۡـِٔدَةَۚ قَلِيلاً۬ مَّا تَشۡڪُرُونَ (٩) (السجدۃ:۱۰)
(الحجر:۳۰، صٓ:۷۴) گویا آدم میں بھی بعینہٖ مسیح کی طرح خدا کی روح پھونکی گئی ۔کیا وہ بھی خدا بن گیا۔
فَإِذَا سَوَّيۡتُهُ ۥ وَنَفَخۡتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُواْ لَهُ ۥ سَـٰجِدِينَ (٢٩) (الحجر:۳۰)
فَإِذَا سَوَّيۡتُهُ ۥ وَنَفَخۡتُ فِيهِ مِن رُّوحِى فَقَعُواْ لَهُ ۥ سَـٰجِدِينَ (٧٢) ( صٓ:۷۴)
ب۔جبرائیل کے حق میں (مریم:۱۸)
فَٱتَّخَذَتۡ مِن دُونِهِمۡ حِجَابً۬ا فَأَرۡسَلۡنَآ إِلَيۡهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرً۬ا سَوِيًّ۬ا (١٧) (مریم:۱۸)
ج۔پھر (حزقیال ۱۴؍۳۷) عربی بائیبل میں ان لوگوں کے متعلق جو اپنے گھروں سے ہزاروں کی تعداد میں نکالے گئے تھے اور ان کو مار دیا گیا تھا اور پھر زندہ کیا۔تو اس زندہ کرنے کو ان الفاظ میں ذکر کیا ہے فَاُعْطِیْ فِیْکُمْ رُوْحِیْ ( حزقیال ۱۴؍۳۷عربی بائیبل )جس کے مقابل اردو بائیبل میں یہ الفاظ ہیں:۔
’’اور میں اپنی روح تم میں ڈالوں گا اور تم جیؤگے۔‘‘الغرض اس طرح صرف مسیح خدا نہ ہوا بلکہ سب سے پہلے آدم ؑ پھر اس کی اولاد اور جبرائیل ؑ وغیرہ تمام خدا ہوئے۔
د۔خود بائیبل میں ’’روح اﷲ ‘‘اور’’خدا کی روح‘‘ کا لفظ غیر خدا کے لئے بے شمار مرتبہ استعمال ہوا ہے بلکہ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد نبوت ہے۔ملاحظہ ہو:۔
۱۔ بادشاہ مصر نے حضرت یوسف کے متعلق کہا۔کیا ہم ایسا جیسا کہ یہ مرد ہے کہ جس میں خدا کی روح ہے پا سکتے ہیں۔‘‘ (پیدائش ۳۸؍۴۱)
۲۔ دیکھو خداوند نے بضلی ایل کو……حکمت اور فہم اور دانش اور سب طرح کی کاریگریوں میں روح اﷲ سے معمور کیا۔ (خروج ۳۰۔۳۱؍۳۵)
۳۔ نیز دیکھو حزقی ایل ۱۴؍۳۷،گنتی۲؍۲۴،۱۸؍۲۷و خروج ۳؍۳۱و دانیال ۸،۹،۱۸؍۴ ویسعیاہ۱؍۶۱و نحمیاہ ۳۰؍۹ نئے عہد نامے میں یہ الفاظ بکثرت استعمال ہوئے ہیں۔
۱۔ ’’بولنے والے تم (حواری)نہیں بلکہ تمہارے باپ کی روح مجھ میں بھی ہے۔‘‘ (۱کرنتھیوں ۴۰؍۷)
۲۔انجیل کا مندرجہ ذیل حوالہ سب سے صاف ہے:۔
’’خدا نے کہا۔آخری دنوں میں ایسا ہوگا کہ میں اپنی روح میں سے ہر بشر پر ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں نبوت کریں گی۔‘‘ (اعمال ۲/۱۷)
۳۔انجیل کے مندرجہ ذیل مقامات دیکھو:۔
لوقا۳۵؍۱ و ۴۱؍۱ و ۶۷؍۱ و ۲۵؍۲ و ۱۵؍۱۔اعمال ۴؍۲ و ۱کرنتھیوں۴تا۱۱؍۱۲
تیرھویں دلیل:۔مسیح کو قرآن مجید میں کلمۃ اللّٰہ کہا گیا ہے۔لہٰذا وہ خدا ہے۔
جواب:۔قرآن مجید میں ہے :۔(الکھف:۱۱۰)
قُل لَّوۡ كَانَ ٱلۡبَحۡرُ مِدَادً۬ا لِّكَلِمَـٰتِ رَبِّى لَنَفِدَ ٱلۡبَحۡرُ قَبۡلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَـٰتُ رَبِّى وَلَوۡ جِئۡنَا بِمِثۡلِهِۦ مَدَدً۬ا (١٠٩) (الکھف:۱۱۰)
پس خدا کے کلمات کی تو کوئی حد ہی نہیں۔اگر خدا کے کلمے خدا ہونے لگے تو پھر دنیا کا ذرہ ذرہ خدا بن جائے گا۔
خدا تعالیٰ ایک دوسری جگہ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ اگر تمام درخت قلمیں او ر سب سمندر سیاہی بن جائیں(لقمٰن:۲۸) پھر بھی کلماتُ اﷲ شمار نہ ہوسکیں۔
وَلَوۡ أَنَّمَا فِى ٱلۡأَرۡضِ مِن شَجَرَةٍ أَقۡلَـٰمٌ۬ وَٱلۡبَحۡرُ يَمُدُّهُ ۥ مِنۢ بَعۡدِهِۦ سَبۡعَةُ أَبۡحُرٍ۬ مَّا نَفِدَتۡ كَلِمَـٰتُ ٱللَّهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۬ (٢٧) (لقمٰن:۲۸)
چودہویں دلیل:۔ انجیل میں مسیح کی نسبت’’وسیلہ‘‘لفظ استعمال ہوا ہے۔جس سے ثابت ہوا کہ وہ خدا ہے۔ایسا ہی نئے عہد کا درمیانی کہا گیا ہے۔
جواب:۔ چہ خوش گفت است سعدی در زلیخا اَلَا یا ایّہا السّاقی اَدر کاسًاوناوِلَہا
انجیل میں ’’وسیلہ‘‘کا لفظ بمعنی معرفت استعمال ہوا ہے۔ملاحظہ ہو:۔
’’کیونکہ اس نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دنیا کی عدالت اس آدمی کی معرفت کرے گا جسے اس نے مقرر کیاہے۔‘‘ (اعمال:۳۱؍۱۷)
اب دیکھیے بائیبل میں کیا لکھا ہے:۔
’’تب بھی تو بہت برس تک ان کی برداشت کرتا رہا اور اپنی روح سے یعنی اپنے نبیوں کی معرفت سے انہیں سمجھاتا رہا ہے۔‘‘ (نحمیاہ ۹/۳۰)
پس تمام انبیاء ہی خدا اور انسانوں کے درمیان وسیلہ ثابت ہوئے۔مسیح کی خصوصیت کیا رہی؟نیز ملاحظہ ہو ’’تو نے روح القدس کے وسیلہ سے ہمارے باپ اپنے خادم داؤد کی زبانی فرمایا۔‘‘ (اعمال ۲۵؍۴)
لغت میں بھی ہے :۔اَلْوَسِیْلۃُ :وَالْوَسِیْلَۃُ مَا یُتَقَرَّبُ بِہٖ اِلَی الْغَیْرِ۔الْمَنْزَلَۃُ عِنْدَ الْمُلُوْکِ۔ الدَّرَجَۃُ۔
پس وسیلہ کے معنے مقرب الٰہی اور صاحب درجہ ہونے کے ہیں نہ کہ خدا ہو نے کے۔