مکتوبات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 1
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر
اَلْمَکَتُوْبُ نَصْفُ الْمُلاقَاتُ
مکتوبات احمدیہ
(جلداوّل)
حضرت حجۃ اللہ امام ربانی میرزا غلام احمد قادیانی (مغفور) مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکتوبات بنام میر عباس علی شاہ لودہانوی
جنکو
خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم نے مرتب کر کے اپنے کارخانہ انوار احمدیہ مشین پریس قادیان میں چھاپ کر شائع کیا
۲۹ ؍ دسمبر ۱۹۰۸ء
(حقوق محفوظ ہیں)
تعداد جلد ۱۰۰۰ قیمت فی جلد ۸؍
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مکتوب نمبر۱
مکرمی مخدومی میر عباس علی صاحب زاد عنائۃ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر باعث خوشی ہوا۔جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ آپ اللہ اور رسول کی محبت میں جس قدر کوشش کریں وہ جوش خود آپ کی ذات میں پایا جاتا ہے۔ حاجت تاکید نہیں چونکہ یہ کام خالصاً خدا کیلئے اور خود حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے اس لئے آپ اس کے خریداروں کی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید فروخت پر نظر ہو۔ بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں اُنہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے کیونکہ درحقیقت یہ کوئی خرید فروخت کا کام نہیں بلکہ سرمایۂ جمع کرنے کیلئے یہ ایک تجویز ہے۔ مگر جن کا اصول محض خریداری ہے۔ اُن سے تکلیف پہنچتی ہے اور اپنے روپیہ کو یاد دلا کر تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ سو ایسے صاحب اگر خریداری کے سلسلہ میں داخل نہ ہو اور نہ وہ روپیہ بھیجیں اور نہ کچھ مدد کریں تو یہ اُن کے لئے اس حالت سے بہتر ہے کہ کسی وقت بدگمانی اور شتابکاری سے پیش آویں۔ اس کام میں جیسے جیسے عرصہ میں خداوندکریم سرمایۂ کافی کسی حصہ کے چھپنے کیلئے حسب حکمت کاملہ خود میسر کرتا ہے اُسی عرصہ میں یہ کتاب چھتی ہے۔ پس کسی وقت کچھ دیر ہوتی ہے تو بعض صاحب جن کی خریداری پر نظر ہے۔ طرح طرح کی باتیں لکھتے ہیں جن سے رنج پہنچتا ہے۔ غرض آن مخدوم اسی سعی اور کوشش میں خداوند کریم پر توکّل کر کے صادق الاردات لوگوں سے مدد لیں۔ اور اگر ایسے نہ ملیں تو آپ کی طرف سے دعا ہی مدد ہے۔ ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حیثیت اور کیا قدر رکھتے ہیں۔ وہ جو قادر مطلق ہے۔ وہ جب چاہے گا تو اسباب کاملہ خود بخود میسر کر دے گا۔ کونسی بات ہے جو اُس کے آگے آسان نہ ہوئی ہو۔
(۲۸؍ اکتوبر ۱۹۸۲ء؍ ۱۵؍ ذالحجہ ۱۲۹۹ ہجری)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مکتوب نمبر۲
مشفقی مکرمی حضرت میر عباس علی شاہ صاحب زاد عنائۃ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بعد ہذا دوقطعہ ہنڈوی… پہنچ گئے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ امور خمسہ کی بابت جو آپ نے حسب الارشادمنشی احمد جان صاحب تاکید لکھی ہے۔ مناسب ہے۔ جو آپ بعد سلام مسنون منشی صاحب مخدوم کی خدمت میںاس عاجز کی طرف سے عرض کر دیں کہ حتی الوسع آپ کے فرمودہ پر تعمیل ہوگی۔ اور آپ کو خدا جزاخیر بخشے۔ یہ بھی گزارش کی جاتی ہے کہ حصہ سوم کتاب براہین احمدیہ میں جو دس وسوسوں کا بیان ہے وہ آریہ سماج والوں کے متعلق نہیں۔ آریا سماج ایک اور فرقہ ہے جو وید کو خدا کا کلام جانتے ہیںاور دوسری کتابوں کو نَعُوْذُبِاللّٰہٖ انسان کا اختراع سمجھتے ہیں۔ اس فرقہ کے ردّ کے لئے کتاب براہین احمدیہ میں دوسرا مقام ہے۔ لیکن دس وساوس جو حصہ سوم میں لکھے گئے ہیں۔ وہ برہموسماج والوں کا ردّ ہے۔ یہ ایک اور فرقہ ہے جو کلکتہ اور ہندوستان کے اکثر مقامات میں پھیلا ہوا ہے اور لاہور میں بھی موجود ہے۔ یہ لوگ کتب الہامیہ کا انکار کرتے ہیں اور اگرچہ ہندو ہیں مگر وید کو نہیں مانتے۔ نہ اُس کی تعلیم کو عمدہ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ آریہ سماج والوں کی نسبت بہت ذی علم اور دانا ہوتے ہیں۔ اور کئی اصول اُن کے اسلام سے ملتے ہیں۔ مثلاً یہ تناسخ کے قائل نہیں۔ بُت پرستی کو بُرا سمجھتے ہیں۔ خدا کو صاحب اولاد اور متولد ہونے سے پاک سمجھتے ہیں۔ مگر کتب الہامیہ کے مُنکر ہیں اور الہام صرف ایسی باتوں کا نام رکھتے ہیں جن کو انسان خود عقل یا فکر کے ذریعہ سے پیدا کرے۔ یا معمولی طور پر اُس کے دل میں گزر جائیں اور انبیاء کی متابعت کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف عقل کو کامل قرار دیتے ہیں۔ الہام ربانی سے انکار کرنا اُن کا ایک مشہور اصول ہے جیسا رسالہ برادر ہند میں جو پنڈت شیونارائن کی طرف سے شائع ہوتا تھا۔ چھپتا رہا ہے چونکہ ہندوستان میں اُن کی جماعت بہت پھیل گئی ہے اور اُن کے وساوس کے ضرر کا نو تعلیم یافتہ لوگوں کو بہت اثر پہنچتا ہے اور پہنچ رہا ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ ان کا ردّ لکھا جاوے۔ اور اُن کا کتب الہامیہ سے انکار کرنا ایسا جزو مذہب ہے جیسا ہمارا لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ غرض آریہ سماج ایک الگ فرقہ ہے۔ جو بہت ذلیل اور ناکارہ خیال رکھتا ہے اور وہ عقل کے پابند نہیں۔ بلکہ صرف وید پر چلتے ہیں اور بہت سے واہیات اور مزخرفات کے قائل ہیں۔ مگر برہمو سماج کا فرقہ دلائل عقلیہ پر چلتا ہے اور اپنی عقل ناتمام کی وجہ سے کتب الہامیہ سے منکر ہے۔ چونکہ انسان کا خاصہ ہے جو معقولات سے زیادہ اور جلد تر متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے اطفال مدارس اور بہت سے نو تعلیم یافتہ ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہوگئے اور سید احمد خاں بھی اُنہیں کی ایک شاخ ہے اور ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہے۔ پس اُن کے زہرناک وساوس کی بیخ کنی کرنا از حد ضرورتھا۔ لاہور کے برہموسماج نے پرچہ رفاہ میں بہ نیت ردّ حصہ سیوم کچھ لکھنا بھی شروع کیا ہے۔ مگر حق محض کے آگے اُن کی کوششیں ضائع ہیں۔ عنقریب خدا اُن کو ذلیل اور رسوا کرے گا اور اپنے دین کی عظمت اور صداقت ظاہر کردے گا۔ جو منشی احمد جان صاحب نے یہ نصیحت فرمائی کہ تعریف میں مبالغہ نہ ہو۔ اس کا مطلب اس عاجز کو معلوم نہیں ہوا۔ اس کتاب میں تعریف قرآن شریف اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ سو وہ دونوں وہ دریائے بے انتہا ہیں کہ اگر تمام دنیا کے عاقل اور فاضل اُن کی تعریف کرتے رہیں۔ تب بھی حق تعریف کا ادا نہیں ہو سکتا۔ چہ جائیکہ مبالغہ تک نوبت پہنچے۔ ہاں الہامی عبارت میں کہ جو اس عاجز پر خداوند کریم کی طرف سے القا ہوئی کچھ کچھ تعریفیں ایسی لکھی ہیں کہ جو بظاہر اس عاجز کی طرف منسوب ہوتی ہیں مگر حقیقت میں وہ سب تعریفیں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں اور اسی وقت تک کوئی دوسرا اُن کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب تلک اس نبی کریم کی منابعت کرے اور متابعت سے ایک ذرّہ منہ پھیرے۔ تو بھر تحت الثری میں گر جاتا ہے۔ اُن الہامی عبارتوں میں خداوند کریم کا یہی منشاء ہے کہ تا اپنے نبی اور اپنی کتاب کی عظمت ظاہر کرے۔
(۸؍ نومبر ۱۸۸۲ء مطابق ۲۶ ذالحجہ ۱۲۹۹ ہجری)
مکتوب نمبر۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مشفقی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ آپ کا عنایت نامہ معہ ایک ہنڈوی مبلغ… بابت خریداری دو جلد کتاب پہنچا۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خیرا وھویسمع ویرا۔ میں آپ کی مساعی پر نظر کر کے آپ کی قبولیت کا بہت امیدوار ہوں۔ خصوص ایک عجیب کشف سے مجھ کو ۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۲ء بروز شنبہ کو یکدفعہ ہوا۔ آپ کے شہر کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص نام الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی۔ جو باشندہ لودہیانہ ہے۔ اس عالم کشف میں اُس تمام پتہ و نشان، سکونت بتلا دیا جو اب مجھ کو یاد نہیں رہا۔ صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لودہیانہ اُس کے بعد اُس کی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا۔ سچا ارادت مند اصلہا ثابت و فرعہافی السماء۔ یہ اُس کی ارادت ایسی قومی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ نزلزل ہے نہ نقصان۔ کئی پادریوں اور ہندؤں اور برہمو لوگوں کو کتابیں دی گئی ہیں اور وہ کچھ جان کنی کر رہے ہیں۔
مکتوب نمبر۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
بعد ہذا خداوند کریم آپ بہت جزا خیر دیوے۔ آپ سرگرمی سے تائید دین کیلئے مصروف ہیں۔ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ قاضی باجی خان صاحب نے محض بطور امداد دس روپیہ بھیجے ہیں۔ خداوند اُن کو اجر بخشے۔ اس پُرآشوب وقت میں ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں کہ اللہ اور رسول کی تائید کیلئے اور غیرت دینی کے جوش سے اپنے مالوں میں سے کچھ خرچ کریں اور ایک وہ بھی وقت تھا کہ جان کا خرچ کرنا بھی بھاری نہ تھا۔ لیکن جیسا کہ ہر ایک چیز پُرانی ہو کر اُس پر گردوغبار بیٹھ جاتا ہے۔ اب اسی طرح اکثر دلوں پر جب دنیا کا گردہ بیٹھاہوا ہے۔ خدا اس گرد کو اُٹھاوے۔ خدا اس ظلمت کو دور کرے۔ دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے۔ مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے اور چونکہ ہر یک عسر کے بعد یسر اور ہر یک جذر کے بعد مد اور ہر ایک رات کے بعد دن بھی ہے۔ اس لئے تفضلات الٰہیہ آخر فرو ماندہ بندوں کی خبر لے لیتے ہیں۔ سو خداوند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے اُنہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اُٹھائے ہیں۔ ویسا ہی اُن کو مرہم عطا فرماوے اور اُن کو ذلیل اور رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کو نور سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز اُن لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے جنہوں نے حضرت احدیّت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی۔ غنیمت نہیں سمجھا اور اُس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے۔ سو اگراس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں۔ جو نور محمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلا دیں۔ اس عاجز کے صادق دوستوں کی تعداد بھی تین چار سے زیادہ نہیں جن میں سے ایک آپ ہیں اور باقی لوگ لاپروا اور غافل ہیں بلکہ اکثر کے حالات ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ اپنی تیرہ باطنی کے باعث سے اس کارخانہ کو کسی مکر اور فریب پر مبنی سمجھتے ہیں اور اس کا مقصود اصلی دنیا ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ خود جیفہ دنیا میں گرفتار ہیں۔ اس لئے اپنے حال پر قیاس کر لیتے ہیں۔ سو اُن کی روگردانی بھی خداوند کریم کی حکمت سے باہر نہیں۔ اس میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں جو پیچھے سے ظاہر ہوں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ مگر اپنے دوستوں کی نسبت اس عاجز کی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اُن کے صدق کا اجر بخشے اور اُن کو اپنی استقامت میں بہت مضبوط کرے چونکہ ہر طرف ایک زہرناک ہوا چل رہی ہے اس لئے صادقوں کو کسی قدر غم اُٹھانا پڑے گا اور اُس غم میں اُن کے لئے بہت اجر ہیں۔
(۹؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۳۰؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ و نظر اللہ سرحمایۃٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بعد ہذا آنمخدوم کی سعی و کوششوں سے اس عاجز کو بہت مدد ملی ہے۔ یہ خداوند کریم کی عنایات میں سے ہے کہ اُس نے اپنے مخلص بندوں کو اس طرف ایمانی جوش بخشا ہے۔ سو چونکہ عمل وہی معتبر ہے جس کا خاتمہ بالخیر ہو اور صدق اور وفاداری سے انجام پذیر ہو اور اس پُر فتنہ زمانہ میں اخیر تک صدق اور وفا کو پہنچانا اور بدباطن لوگوں کے وساوس سے متاثر نہ ہونا سخت مشکل ہے۔ اس لئے خداوند کریم سے التجا ہے کہ وہ اس عاجز کے دوستوں کو جو ابھی تین چار سے زیادہ نہیں۔ آپ سکینت اور تسلی بخشے۔ زمانہ نہائت پُرآشوب ہے اور فریبوں اور مکاریوں کی افراط نے بدظنیوں اور بدگمانیوں کو افراط تک پہنچا دیا ہے۔ ایسے زمانہ میں صداقت کی روشنی ایک نئی بات ہے اور اُس پر وہ ہی قائم رہ سکتے ہیں جن کے دلوں کو خداوند کریم آپ مضبوط کرے اور چونکہ خداوند کریم کی بشارتوں میں تبدیلی نہیں اس لئے امید ہے کہ وہ اس ظلمت میں سے بہت سے نورانی دل پیدا کر کے دکھلا دے گا کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آنمخدوم کی تحریرات کے پڑھنے سے بہت کچھ حال صداقت و نجابت آنمخدوم ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرتبہ بنظر کشفی بھی کچھ ظاہر ہوا تھا۔ شاید کسی زمانہ میں خداوند کریم اس سے زیادہ اور کچھ ظاہر کرے۔ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْر وَرْحَمْہُ اللّٰہ وَاِیَّاکُمْ وھُوَ مَوْلٰنٰا نِعْمُ المُوْلٰی وَیغْمُ النَصِیر۔
۱۷؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۸؍ ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ
مکتوب نمبر ۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرم اخویم میر علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بعد ہذا آپ کا خط جو آپ نے لودہیانہ سے لکھا تھا، پہنچ گیا۔ جس کے مطالعہ سے بہت خوشی حاصل ہوئی۔ بالخصوص اس وجہ سے کہ جس روز آپ کا خط آیا اُسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں اور وہ فقرات زیادہ آپ کے دل میں ہوں گے۔ یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک رابطہ بخشی ہے۔ خداوند کریم اس رابطہ کو زیادہ کرے۔ آپ نے اپنے خط میں تحریر فرمایا تھاکہ ایک برہمو صاحب ملے جن کا یہ بیان تھا کہ گویا اس عاجز نے اُن کی اصلیت کو سمجھا نہیں۔ یہ بیان سراسر بناوٹ ہے۔ برہمو سماج والوں کے عقائد کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ الہام اور وحی سے مُنکر ہیں اور خدا کے پیغمبروں کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مفتری اور کذاب سمجھتے ہیں اور خدا کی کتابوں کو اختراع انسان کا خیال کرتے ہیں۔ وہ الہام اور وحی کے ہرگز قائل نہیں ہیں اور اپنی اصطلاح میں الہام اور وحی اُن خیالات کا نام رکھتے ہیں کہ جو عادتی طور پر انسان کے دل میں گزرا کرتے ہیں۔ جیسے کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر رحم آنا یا کوئی بُرا کام کر کے پچھتانا کہ ایسا کیوں کیا۔ یہ اُن کے نزدیک الہام ہے۔ مگر وہ الہام اور وحی جو خداوند کریم کے فرشتے کسی انسان سے کلام کریں اور حضرت احدیّت کسی سے مخاطبت کریں۔ اس پاک الہام سے وہ قطعاً منکر ہیں اور اپنے رسائل اور تصانیف میں ہمیشہ انکار کرتے رہتے ہیں۔ مگر اب وقت آ پہنچا ہے کہ خدا اُن کو اور اُن کے دوسرے بھائیوں کو ذلیل اور رُسوا کرے۔ مجھ یاد ہے کہ پنڈت شیونارائن٭ نے جو برہموسماج کا ایک منتخب معلم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصہ سیوم کا ردّ لکھنا چاہتا ہوں۔ ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ خدا نے بطور مکاشفات مضمون اس خط کا ظاہر کر دیا۔ چنانچہ کئی ہندوؤں کو بتلایا گیا اور شام کو ایک ہندو کو ہی جو آریا ہے ڈاکخانہ میں بھیجا گیا تا گواہ رہے۔ وہی ہندو اُس خط کو ڈاکخانہ سے لایا۔ پھر میں نے پنڈت شیونارائن کو لکھا کہ جس الہام کا تم ردّ لکھنا چاہتے ہو خدا نے اُسی کے ذریعہ سے تمہارے خط کی اطلاع دی اور اُس کے مضمون سے مطلع کیا۔ اگر تم کو شک ہے تو خود قادیان میں آ کر اُس کی تصدیق کر لو کیونکہ تمہارے ہندو بھائی اس کے گواہ ہیں۔ ردّ لکھنے میں بہت سی تکلیف ہوگی اور اس طرح جلدی فیصلہ ہو جائے گا۔ مَیں نے یہ بھی لکھا کہ اگر تم صدق دل سے بحث کرتے ہو تو تمہیں اس جگہ ضرور آنا چاہئے کہ اس جگہ خود اپنے بھائیوںکی شہادت سے حق الامر تم پر کھل جائے گا لیکن باوجود ان سب تاکیدوں کے پنڈت صاحب نے کچھ جواب نہ لکھا اور اس بارے میں دَم بھی نہ مارا اور وہ الہام پورا ہوا جو حصہ سیوم میں چھپ چکا ہے سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُّ الرُّعْبِ اب دیکھئے۔ اس سے زیادہ اور کیا صفائی ہوگی کہ خداوندکریم مخالفین کو نہ صرف شنیدہ پر رکھنا چاہتا ہے بلکہ دیدہ کے مرتبہ پر پہنچانا چاہتا ہے۔ کل صوابی ضلع پشاور سے اس جگہ کے آریہ سماج کے نام صوابی آریہ سماج نے ایک خط بھیجا ہے کہ حصہ سیوم براہین احمدیہ میں تمہاری شہادتیں درج ہیں۔ اس کی اصلیت کیا ہے۔ سو اگرچہ یہ ہندو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں مگر ممکن نہیں کہ سچ کو چھپا سکیں۔ اس لئے فکر میں ہوئے ہیںکہ اپنے بھائیوں کو کیا لکھیں۔ اگر شرارت سے جھوٹ لکھیں گے تو اس میں روسیاہی ہے اور آخر پردہ فاش ہوگا اور سچ لکھنے میں مصلحت اپنے مذہب کی نہیں دیکھتے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ کیونکر پیچھا چھڑاتے ہیں۔ شاید جواب سے خاموش رہیں۔ یہ اسرار جو خداوند کریم اس عاجز کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر اُس کی عادت نہیں تھی جو ان کے اظہار کی اجازت دے بلکہ اسرار ربانی کے ظاہر کرنے میں اندیشہ سلب ولایت ہے لیکن اس زمانہ میں ان باتوں کا ظاہر کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ظلمت اپنے کمال کو پہنچ گئی۔ گو دوسرے لوگ اپنی نافہمی سے اس اظہار کو ریاکاری میں داخل کریں یا کچھ اور سمجھیں مگر یہ عاجز اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیںگے اور خداوند کریم نے اس عاجز کو عام فقرا کے برخلاف طریقہ بخشا ہے جس میں ظاہر کرنا بعض اسرار ربّانی کا عین فرض ہے۔ والسلام علیکم وعلٰی اخوانکم عن المؤمنین۔
(۳؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۲۲ ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی مکرمی میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
آپ کی خواب کے آثار یوں ہی نظر آتے ہیں کہ انشاء اللہ رؤیا صالحہ و واقع صحیحہ ہوگا۔ مگر اس بات کے لئے کہ مضمون خواب حیز قوت سے حدفعل میں آوے۔ بہت سی محنتیں درکار ہیں۔ خواب کے واقعات اُس پانی سے مشابہ ہیں جو ہزاروں من مٹی کے نیچے زمین کے رنگ میں واقعہ ہے۔ جس کے وجود میں تو کچھ شک نہیں لیکن بہت سی جان کنی اور محنت چاہئے تا وہ مٹی پانی کے اوپر سے بکُلّی دور ہو جائے اور نیچے سے پانی شیریں اور مصفا نکل آوے۔ ہمت مردان مدد خدا۔ صدق اور وفا سے خدا کو طلب کرنا موجب فتحیابی ہے۔ والذین جاھدوافینا لنھدینھم سبلنا
گونید سنگ لعل شود در مقام صبر
آری شود ولیک بخون جگر شود
گرچہ و صالش نہ بکوشش وہند
ہر قدر ایدل کہ توانی بکوش
آپ کی ملاقات کے لئے میں بھی چاہتا ہوں مگر وقت مناسب کا منتظر ہوں۔ بیوقت حج بھی فائدہ نہیں کرتا۔ اکثر حاجی جو بڑی خوشی سے حج کرنے کے لئے جاتے ہیں اور پھر دل سخت ہو کر آتے ہیں۔ اُس کا یہی باعث ہے کہ انہوں نے بیوقت بیت اللہ کی زیادت کی اور بجز ایک کوٹھ کے اور کچھ نہ دیکھا اور اکثر مجاورین کو صدق اور صلاح پر نہ پایا۔ دل سخت ہو گیا۔ علیٰ ھذا القیاس ملاقات جسمانی میں بھی ایک قسم کی ابتلاء پیش آ جاتے ہیں۔ الاّ ماشاء اللّٰہ۔ آپ کے سوالات کا جواب جو اس وقت میرے خیال میں آیا ہے مختصر طور پر عرض کیا جاتا ہے۔ آپ نے پہلے یہ سوال کیا کہ پورا پورا علم جیسا بیداری میں ہوتا ہے۔ خواب میں کیوں نہیں ہوتا اور خواب کا دیکھنے والا اپنی خواب کو خواب کیوں نہیں سمجھتا۔ سو آپ پر واضح ہو کہ خواب اُس حالت کا نام ہے کہ جب بباعث غلبہ رطوبت مزاجی کہ جو دماغ پر طاری ہوتی ہے۔ حواس ظاہری و باطنی اپنے کاروبار معمولی سے معطل ہو جاتے ہیں۔ پس جب خواب کو تعطل حواس لازم ہے تو ناچار جو علم اور امتیازاور تیفظ بذریعہ حواس انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ حالتِ خواب میں بباعث تعطل حواس نہیں کیونکہ جب حواس بوجہ غلبہ رطوبت مزاحی معطل ہو جاتے ہیں تو بالضرورت اُس فعل میں بھی فتور آ جاتا ہے۔ پھربعلت اس فتور کے انسان نہیں سمجھ سکتا کہ مَیں خواب میں ہوں یا بیداری میں۔ لیکن ایک اور حالت ہوتی ہے کہ جس سے ارباب طلب اور اصحاب سلوک کبھی متمتع اور محظوظ ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بباعث دوام مراقبہ و حضور و ام و حضور و استیلاء شوق و غلبہ محبت ایک حالت غیبت حواس اُس پر وارد ہو جاتی ہے۔ جس کا یہ باعث نہیں ہوتا کہ دماغ پر رطوبت مستولیٰ ہو بلکہ اس کا باعث صرف ذکر اور شہود کا استیلاء ہوتا ہے۔ اُس حالت میں چونکہ تعطل حواس بہت کم ہوتا ہے۔ اس جہت سے انسان اس بات پر متنبہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر بیدار ہے۔ خواب میں نہیں اور نیز اپنے مکان اور اُس کی تمام وضع پر بھی اطلاع رکھتا ہے۔ یعنی جس مکان میں ہے اُس مکان کو برابر شناخت کرتا ہے حتیّٰ کہ لوگوں کی آواز بھی سنتا ہے اور کُل مکان کو بچشم خود دیکھتا ہے۔ صرف کسی قدر بجذیہ غیبی، غیبت حس ہوتی ہے اور جو انسان خواب کی حالت میں اپنے رؤیا میں اپنے تئیں بیدار معلوم کرتا ہے۔ یہ علم بذریعہ حواس نہیں بلکہ اس علم کا منشاء فقط روح ہے۔ دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ فناء اتم اعنی غایت المعراج و نہایت الوصال میں علم حق رہتا ہے یا نہیں۔ اوّل سمجھنا چاہئے کہ فناء اتم عین وصال کا نام نہیں بلکہ امارت اور آثار وصال میں سے ہے کیونکہ فناء اتم مراد اُس حالت سے ہے کہ طالبِ حق خلق ارادت اور نفس سے بکلی باہر ہو جاوے اور فعل اور ارادت اپنی میں بکلی کھویا جاوے۔ یہاں تک کہ اُسی کے ساتھ دیکھتا ہو اور اُسی کے ساتھ سنتا ہو۔ اور اُسی کے ساتھ پکڑتا ہو اور اسی کے ساتھ چھوڑتا ہو۔ پس یہ تمام آثار وصال کے ہیں نہ عین وصال اور عین وصال ایک بیچون اور بیچگون نور ہے کہ جس کو اہل وصول شناخت کرتے ہیں مگر بیان نہیں کر سکتے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب طالبِ کمال وصول کا خدا کے لئے اپنے تمام وجود سے الگ ہو جاتا ہے اور کوئی حرکت اور سکون اس کا اپنے لئے نہیں رہتا بلکہ سب کچھ دا کے لئے ہو جاتا ہے تو اس حالت میں اس کو ایک روحانی موت پیش آتی ہے جو بقاء کو مستلزم ہے۔ پس اس حالت میں گویا وہ بعد موت کے زندہ کیا جاتا ہے اور غیر اللہ کا وجود اُس کی آنکھ میں باقی نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ غلبہ شہود ہستی الٰہی سے وہ اپنے وجود کو بھی نابود ہی خیال کرتا ہے۔ پس یہ مقام عبودیت و فناء اتم ہے جو غایت سیر اولیاء ہے اور اسی مقام میں غیب باذن اللہ ایک نور سالک کے قلب پر نازل ہوتا ہے جو تقریر اور تحریر سے باہر ہے۔ غلبہ شہود کی ایک ایسی حالت ہے کہ جو علم الیقین اور عین الیقین کے مرتبہ سے برتر ہے۔ صاحب شہود تام کو ایک علم تو ہے مگر ایسا علم جو اپنے ہی نفس پر وارد ہو گیا ہے جیسے کوئی آگ میں جل رہا ہے۔ سو اگرچہ وہ بھی جلنے کا ایک علم لکھتا ہے مگر وہ علم الیقین اور عین الیقین سے برتر ہے۔ کبھی شہود تام بیخبری تک بھی نوبت پہنچا دیتا ہے اور حالت سکر اور بیہوشی کی غلبہ کرتی ہے۔ اُس حالت سے یہ آیت مشابہ ہے۔ فلما تجلی ربہ للجیل جعلہ وکاد خرموسیٰ صعقا۔ لیکن حالت تام وہ ہے جس کی طرف اشارہ ہے وما زاغ البصرو ماطغی۔ یہ حالت اہل جنت کے نصیب ہوگی۔ پس غایت یہی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرمایا ہے وجوہ یومئذٍ فاضرہ الی ربھا ناظرۃ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
(۱۸؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۸ جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا والا نامہ پہنچا۔ خداوند کریم آپ کو خوش و خورم رکھے۔ آپ دقائق متصوفین میں سوالات پیش کرتے ہیں اور یہ عاجز مفلس ہے۔ محض حضرت ارحم الراحمین کی ستاری نے اس ہیچ اور ناچیز کو مجالس صالحین میں فروغ دیا ہے۔ ورنہ منہ آنم کہ من دانم۔ کاروبار قادر مطلق سے سخت حیرانی ہے کہ نہ عابد، نہ عالم، نہ زاہد کیونکر اخوان مومنین کی نظر میں بزرگی بخشتا ہے۔ اس کی عنایات کی کیا ہی بلند شان ہے۔ اور اُس کے کام کیسے عجیب ہیں۔
پسندید گانے بجائے رسند
زما کہترا نش چہ آمد پسند
میں آپ کے سوال کا جواب لکھتا ہوں۔ آپ نے حالت فنا فی الفناء کے یہ تعریف لکھ کر کہ وہ ایک ایسی حالت ہے کہ جس میں شعول سے بھی بے شعوری ہوتی ہے۔ یہ سوال پیش کیا ہے کہ اس مرتبہ فناء میں کہ جو چہارم مرتبہ منجملہ مراتب فنا ہے اور حالت سکریت میں کیا فرق ہے اور سکریت سے مراد آپ نے خواب غرقی لی ہے۔ یعنی ایسا سونا جس میں کچھ خبر نہ رہے۔ سو جو کچھ خدا نے میرے دل میں اس کا جواب ڈالا ہے وہ یہ ہے کہ سکریت اور فنا فی الفنا میں موجب اور علت کا فرق یعنی سکریت کی حالت میں موجب اور علت ایک ظلمت ہے۔ جو سکریت کے پیدا ہونے کا باعث ہے۔ وجہ یہ کہ سکریت اسی سے پیدا ہوتی ہے کہ رطوبت مزاجی دماغ پر سخت غلبہ کر لیتی ہے یہاں تک کہ دماغی قوتوں کو ایسا دبا لیتی ہے کہ انسان بے ہوش ہو کر سو جاتا ہے اور کچھ ہوش نہیں رہتی۔ پس وہ چیز جس سے سکریت وجود پکڑتی ہے۔ ایک ظلمت ہے جو اپنی اصل حقیقت میں مغائر اور منافی حواس انسانی کے ہے۔ جس کا غلبہ ایک ظلماتی حالت نفس پر طاری کر دیتا ہے اور آلات احساس کو اس قدر تعطل اور بیکاری میں ڈالتا ہے کہ اُن کو عجائبات روحانی کا ماجرا کچھ یاد بھی نہیں رہتا لیکن فنا فی الفنا کی حالت کا موجب اور علت یعنی سبب ایک نور ہے۔ یعنی تجلیات صفات الٰہیہ جو بعض اوقات بعض نفوس خاصہ میں یکلخت ایک ربودگی پیدا کرتے ہیں جس کے باعث سے شعور سے بے شعوری پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسے ایک نہایت لطیف اور تیز عطر بکثرت ایک مکان میں رکھا ہوا ہو تو ضعیف الدماغ آدمی کی بعض اوقات قوت شامہ کثرت خوشبو سے مغلوب ہو کر ایسی بے حس ہو جاتی ہے کہ کچھ شعور اُس خوشبو کا باقی نہیں رہتا۔ غرض سکریت کی حالت پیدا ہونے کے مؤثر اور موجب ایک ظلمت ہے اور فنا فی الفناء کی حالت کے پیدا ہونے کے لئے مؤثر اور موجب ایک نور ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ چشم بینا کیلئے دو طور کے مانع رؤیت ہوتے ہیں۔ یعنی دو سبب سے ایک سوجاکھے انسان کی آنکھ دیکھنے سے رہ جاتی ہے۔ ایک تو سخت اندھیرا جس کی وجہ سے نور بینائی محجوب ہو جاتا ہے اور دیکھنے سے رک جاتا ہے اور کچھ دیکھ نہیں سکتا۔ یہ حالت تو سکریت کی حالت سے مشابہ ہے۔ دوسر ی مانع بصارت سخت روشنی ہے کہ جو بوجہ اپنی شدت اور تیزی شاع کے آنکھوں کو رؤیت کے فعل سے روکتی ہے اور دیکھنے سے بند کر دیتی ہے جیسے یہ صورت اس حالت میں پیش آتی ہے کہ جب عضو بصارت کو ٹھیک ٹھیک سورج کے مقابلہ پر رکھا جائے یعنی جب آنکھوں کو آفتاب کے سامنے کیا جائے کیونکہ یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ جب آنکھ آفتاب کے محاذات میں ٹکٹکی باندھے یعنی آفتاب کی آنکھ اور انسان کی آنکھ آمنے سامنے ہو جائیں تو اُس صورت میں بھی انسان کی آنکھ فعل بصارت سے بکلی معطل ہو جاتی ہے اور روشنی کی شوکت اور ہیبت اُس کو ایسا دباتی ہے کہ اُس کی تمام قوت بینائی اندر کی طرف بھاگتی ہے۔ پس یہ حالت فنا فی الفناء کی حالت سے مشابہ ہے اور اس فقدان رؤیت میں جو دونوں طور ظلمت اور نور کی وجہ سے ظہور میں آتا ہے۔ سکریت اور فنا فی الفناء کا فرق سمجھنے کیلئے بڑا نمونہ ہے۔ مگر بایں ہمہ باطنی کیفیت جس کا موجب تجلیات الٰہیہ اور جذبات غیبیہ ہوتے ہیں۔ بیچون اور بیچگون ہی۔ جس میں اجتماع ضدین بھی ممکن ہے۔ باوجود بے شعوری کے شعور بھی ہو سکتا ہے اور باوجود شعور کے بے شعوری بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ظلماتی حالات میں اجتماع ضدین ممکن نہیں اور باوجود شعور کے بے شعوری بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ظلماتی حالات میں اجتماع ضدین ممکن نہیں۔ وہ عالم اس عالم سے بکلی امتیاز رکھتا ہے۔ ولاتضربوا للّٰہ الامثال۔ اسی جہت سے پہلے بھی لکھا گیا تھا۔ فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکاوخر موسیٰ صعقا۔ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ کا بیہوش ہو کر گرنا ایک واقعہ نورانی تھا۔ جس کا موجب کوئی جسمانی ظلمت نہ تھی بلکہ تجلیات صفات الٰہیہ جو بغایت اشراق نور ظہور میں آئی تھیں۔ وہ اُس کا موجب اور باعث تھیں۔ جن کی اشراق تام کی وجہ سے ایک عاجز بندہ عمران کا بیٹا بیہوش ہو کر گر پڑا اور اگر عنایت الٰہیہ اُس کا تدارک نہ کرتیں تو اُسی حالت میں گداز ہو کر نابود ہو جاتا۔ مگر یہ مرتبہ ترقیات کاملہ کا انتہائی درجہ نہیں ہے۔ انتہائی درجہ وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے کہ مازاغ البصرو ماطغی۔ انسان زمانہ سیر سلوک میں اپنے واقعات کشفیہ میں بہت سے عجائبات دیکھتا ہے اور انواع و اقسام کی واردات اُس پر وارد ہوتی ہیں۔ مگر اعلیٰ مقام اُس کا عبودیت ہے جس کا لازمہ صحو اور ہوشیاری سے اور سکر اور شطح سے بکلی بیزاری ہے۔ ھذانا اللّٰہ ایانا وایاکم صراط المستقیم الذی انعم علی النبین والصدیقین والشھداء والصلحین واخردعونا ان الحمدللّٰہ رب العٰلمین۔ والسلام علیکم وعلی اخوانکم المومنین۔
(۲۵؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۱۵؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ باعث اطمینان ہوا۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے بہت درست اور بجا لکھا ہے جو کچھ بطور رسم اور عادت کیا جاوے۔ وہ کچھ چیز نہیں ہے اور نہ اُس سے کچھ مرحلہ طے ہو سکتا ہے۔ سچا طریق اختیار کرنے سے گو طالب صادق آگ میں ڈالاجاوے۔ مگر جب اپنے مطلب کو پائے گا، سچائی سے پائے گا۔راست باز آدمی نہ کچھ عزت سے کام رکھتا ہے، نہ ننگ سے، نہ خلقت سے، نہ اُن کے لعن سے نہ اُن کے طعن سے، نہ اُن کی مدح سے، نہ اُن کی ذم سے۔جب سچی طلب دامنگیر ہو جاتی ہے تواُس کی یہی علامت ہے کہ غیر کا بیم اور امید بکلی دل سے اُٹھ جاتاہے اور توحید کی کامل نشانی یہ ہے کہ محب صادق کی نظر میں غیر کا وجود اور نمود کچھ باقی نہ رہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔ آپ اتباع طریقہ مسنونہ میں یہ لحاظ بدرجہ غایت رکھیں کہ ہر ایک عمل رسم اور عادت کی آلودگی سے بکُلی پاک ہو جائے اور دلی محبت کے پاک فوارہ سے جوش مارے۔ مثلاًدرود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطی کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ اُن کو جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور تام سے اپنے رسول مقبول کیلئے برکات الٰہی مانگتے ہیں بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہر گز اپنا دل یہ تجویز نہ کر سکے کہ ابتداء زمانہ سے انتہاء تک کوئی ایسا فردِ بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا ذکر آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ جو کچھ محبان صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اُٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اُٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کر سکتی ہے۔ وہ سب کچھ اُٹھانے سے دل رک جائے اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اُس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو اور جب یہ مذہب قائم ہو گیا تو درود شریف جیسا کہ میں نے ربانی بھی سمجھایا تھا۔ اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے اور اُس کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کابناوے اور اُس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اس عالم اور اُس عالم میں ظاہر کرے۔ یہ دعا حضور تام سے ہونی چاہئے جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے بلکہ اُس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے مجھ کو ثواب ہوگا یا درجہ ملے گا بلکہ خاص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کاملہ الٰہیہ حضرت رسول مقبول پر نازل ہوں اور اُس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمت چاہئے اور دن رات دوام توجہ چاہئے یہاں تک کہ کوئی مراد اپنی دل میں اس سے زیادہ نہ ہو۔ پس جب اس طور پر درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلاشبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے اور حضور تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گریہ و بکا ساتھ شامل ہو۔ اور یہاں تک یہ توجہ رگ اور ریشہ میںتاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہو جاوے۔ علی ہذا القیاس۔ نماز جس کے لئے خداوند کریم نے صدہا مرتبہ قرآن شریف میںتاکید فرمائی ہے اور اپنے تقرب کے لئے فرمایا ہے۔ وَاسْتَعِیْنُوْ بِالصّبْرِ وَالصّٰلٰوۃُ۔ یہ بھی رسم اور عادت کے پیرایہ میں کچھ چیز نہیں ہے۔ اس میں بھی ایسی صورت پیدا ہونی چاہئے کہ مُصلّی اپنی صلوٰۃ کی حالت میں ایک سچا دعا کنندہ ہو۔ سو نماز میں بالخصوص دعائے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمِ میں دلی آہوں سے، دلی تضرعات سے، دلی خضوع سے، دلی جوش سے حضرت احدیّت کا فیض طلب کرنا چاہئے اور اپنے تئیں ایک مصیبت زدہ … اور عاجز اور لاچار سمجھ کر حضرت احدیّت کو قادر مطلق اور رحیم کریم یقین کر کے رابطۂ محبت اور قرب کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ اُس جناب میں خشک ہونٹوں کی دعا قابل پزیرائی نہیں۔ فیضان سماوی کے لئے سخت بیقراری اور جوش و گریہ و زاری شرط ہے۔ اور استعداد قریبہ پیدا کرنے کیلئے اپنے دل کو ماسوا اللہ کے شغل اور فکر سے بکلی خالی اور پاک کر لینا چاہئے۔ کسی کا حسد اور تفاؤل دل میں نہ رہے۔ بیداری بھی پاک باطنی کے ساتھ ہو اور خواب بھی۔ بے مغز باتیں سب فضول ہیں اور جو عمل روح کی روشنی سے نہیں وہ تاریکی اور ظلمت ہے۔ خذوالتوحید والتفرید والتمجید وموتوا فبل ان تموتوا۔ آج حسب تحریر آپ کی ہر سہ حصہ روانہ کئے گئے۔
مکتوب نمبر۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آپ کا خط ثالث بھی پہنچا۔ آپ کی دلی توجہات پر بہت ہی شکر گزار ہوں۔ خدا آپ کو آپ کے دلی مطالب تک پہنچاوے۔ آمین۔ یارب العٰلمین۔ غرباء سے چندہ لینا ایک مکروہ امر ہے۔ جب خدا اس کا وقت لائے گا تو پردۂ غیب سے کوئی شخص پیدا ہو جاوے گا۔ جو دینی محبت اور دلی ارادت سے اس کام کو انجام دے۔ تجویز چندہ کو موقوف رکھیں۔ اب بالفعل لودہیانہ میں اس عاجز کا آنا ملتوی رہنے دیں۔ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد چند ہندؤں کی طرف سے سوالات آئے ہیں اور ایک ہندو صوابی ضلع پشاور … میں کچھ ردّ لکھ رہا ہے۔ پنڈت شیونرائن بھی شاید عنقریب اپنا رسالہ بھیجے گا۔ سو اب چاروں طرف سے مخالف جنبش میں آ رہے ہیں۔ غفلت کرنا اچھا نہیں۔ ابھی دل ٹھہرنے نہیں دیتا کہ میں اس ضروری اور واجب کام کو چھوڑ کر کسی اور طرف خیال کروں۔ اِلاماشاء اللہ ربی۔ اگر خدا نے چاہا تو آپ کا شہر کسی دوسرے وقت میں دیکھیں گے۔ آپ کے تعلق محبت سے دل کو نہایت خوشی ہے۔ خدا اس تعلق کو مستحکم کرے۔ انسان ایسا عاجز اور بیچارہ ہے کہ اُس کا کوئی کام طرح طرح کے پردوں اور حجابوں سے خالی نہیں اور اس کے کسی کام کی تکمیل بجز حضرت احدیّت کے ممکن نہیں۔ ایک بات واجب الاظہار ہے اور وہ یہ ہے کہ وقت ملاقات ایک گفتگو کی اثناء میں بنظر کشفی آپ کی حالت ایسی معلوم ہوئی کہ کچھ دل میں انقباض ہے اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے تھے۔ حضرت احدیّت کی نظر میں درست نہیں تو اُس پر یہ الہام ہوا قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔ سو الحمدللہ! آپ جوہر صافی رکھتے ہیں۔ غبار ظلمت آثار کو آپ کے دل میں قیام نہیں۔ اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھاگیا۔ مگر بہت ہی سعی کی گئی کہ خداوند کریم اُس کو دور کرے۔ مگر تعجب نہیں کہ آئندہ بھی کوئی ایسا انقباض پیش آوے۔ جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اُس گھر کی وضع قطع میں بعض امور اُس کو حسب مرضی اور بعض خلاف مرضی معلوم ہوں۔ اس لئے مناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بھی چاہیں اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب ہوں تا یہ محبت کمال کے درجہ تک پہنچ جائے یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حالت رکھتا ہے۔ جو زمانہ کی رسمیات سے بہت ہی دور پڑی ہوئی ہے اور ابھی تک ہر ایک رقیق کو یہی جواب روح کی طرف سے ہے۔ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیُعَ مَعِیَ صَبَرَا وَکَیْفَ تَصْبِرَ عَلٰی مَالَمْ تُحِطْ بِہٖ خَیْرا۔ لیکن خداوند کریم سے نہایت قوی امید رکھتا ہے کہ وہ اس غربت اور تنہائی کے زمانہ کو دور کر دے گا۔ آپ کی حالت قویہ پر بھی امید کی جاتی ہے کہ آپ ہر ایک انقباض پر غالب آویں گے۔ وَالْاَمْرُ بِیَدِاللّٰہِ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَائُ اِلٰی صِراطٍ مُّسْتَقِیْمْ۔ والسلام علیکم اخوانکم من المومنین
مکتوب نمبر۱۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی مکرم میر عباس علی شاہ صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج ہرسہ حصہ کتاب آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں۔ چند ہندو اور بعض پادری عناد قدیم کی وجہ سے ردّ کتاب کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ مگر آپ تسلی رکھیں اور مسلمانوں کو بھی تسلی دیں کہ یہ حرکت اُن کی خالی از حکمت نہیں۔ میں اُمید رکھتا ہوں کہ اُن کی اس حرکت اور شوخی کی وجہ سے خداوندکریم حصہ چہارم میں کوئی ایسا سامان میسر کر دے گا کہ مخالفین کی بدرجہ غایت رسوائی کا موجب ہوگا۔ آسمانی سامان شیطانی حرکات سے رُک نہیں سکتے بلکہ اور بھی زیادہ چمکتے ہیں اور مخالفین کے اُٹھنے کی یہی حکمت سمجھتا ہوں کہ تا آسمانی باتیں زیادہ چمکیں اور جو کچھ خدا نے ابتدا سے مقدر کر رکھتا ہے وہ ظہور میں آ جائے۔ آپ مومنین کو جو آپ سے متنفر ہیں سمجھا دیں کہ آپ کچھ عرصہ توقف کریں۔ زیادہ تر دیر اسی سے ہے کہ تا خیالات معاندانہ مخالفین کے چھپ کر شائع ہو جاویں۔ سو آپ براہ مہربانی کبھی کبھی حالات خیریت آیات سے یاد و شاد فرماتے رہیں۔
والسلام
مکتوب نمبر۱۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی و مکرمی میرعباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دس روپیہ کا منی آرڈر پہنچ گیا۔ خداوند کریم آپ کی سعی کا اجر بخشے جو کچھ فساد زمانہ کا حال لکھا ہے سب واقعی امر ہے۔ اس عاجز کی دانست میں اُمت محمدیہ پر ایسا فاسد زمانہ کوئی نہیں آیا۔ تمام زمانوں سے زیادہ تر ظلماتی وہ زمانہ تھا جس کی تنویر کے لئے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت پڑی۔ وہ ایسا ظلماتی زمانہ تھا جس کی نظیر دنیا میں کوئی نہیں گزری اور اس زمانہ کی حالت موجودہ ایک بڑے نبی کے مبعوث ہونے کو چاہتی تھی جس کا ثانی کوئی نہیں گزرا اور جس پر تمام کمالات نبوت ختم ہوگئے اور جس کی بعثت کے زمانہ نے اُن تمام تاریکیوں کو دور کر دیا اور وحدانیت کو زمین پر پھیلا دیا اور جو کچھ کفر اور شرک میں باقی رہا وہ ذلّت اور مغلوبیت کی حالت کے ساتھ باقی رہا۔ لیکن چونکہ یہ زمانہ جس میں ہم لوگ ہیں۔ نبوت کے زمانہ سے بہت دور جا پڑا ہے۔اس لئے دو طور کر خرابی یعنی اندرونی اور بیرونی اس پر محیط ہو رہی ہے۔ اندرونی یہ کہ بہت سے لوگوں نے مختلف فرقہ بنائے ہیں جو حقیقت میں خدا اور رسول کے دشمن ہیں۔ بہتوں پر اباحت اور الحاد کا غلبہ ہے کہ خدا کے وجود کو اور اُس مدبر عالم کی ہستی کو کوئی مستقل شَے نہیں سمجھتے بلکہ اپنے ہی وجود کو خدا سمجھے بیٹھے ہیں اور اسی خیال کے غلبہ سے احکام الٰہی کی تعمیل سے بکلّی فارغ ہیں اور شریعت حقانی کو بتر استحفاف دیکھتے ہیں اور صوم اور صلوٰۃ پر ٹھٹھا کرتے ہیں۔ ایک دوسرا فرقہ ہے جو بہت، دوزخ، ملائک، شیطان وغیرہ سب کے منکر ہیں اور وحی الٰہیہ سے انکاری ہیں باایں ہمہ مسلمان کہلاتے ہیں۔غرض اندرونی فساد بھی نہایت درجہ تک پہنچ گئے ہیں اور بیرونی فسادوں کا یہ حال ہے کہ چاروں طرف سے دشمن اپنے اپنے تیر چھوڑ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بالکل اسلام کو نیست و نابود کر دیں۔ حقیقت میں یہ ایسا پُر آشوب زمانہ ہے کہ اسلامی زمانوں میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے لوگ صرف غفلت اور کم توجہی سے اسلام کے مخالف تھے۔ مگر اب دو فرقہ اسلام سے مخالف ہیں۔ ایک تو وہی غافل اور کم توجہ لوگ۔ دوسرے وہ لوگ پیدا ہوگئے کہ جو شرارت اور خبث سے، عقل کی بداستعمالی سے اسلام پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو علوم کے لئے روشنی کا دعویٰ کرتے ہیں اور متبعین شریعت اسلام کو کہتے ہیں کہ یہ پُرانے … کے آدمی ہیں اور یہ سادہ لوح اور ہم دانا ہیں۔ پس ایسے دنوں میں خداوند کریم کا یہ نہایت فضل ہے کہ اپنے عاجز بندہ کو اس طرف توجہ دی ہے اور دن رات اُس کی مدد کر رہا ہے تا باطل پرستوں کو ذلیل اور رسوا کرے چونکہ ہر حملہ کی مدافعت کے لئے اس سے زبردست حملہ چاہئے اور قوی تاریکی کے اُٹھانے کیلئے قوی روشنی چاہئے۔ اس لئے یہ امید کی جاتی ہے اور آسمانی بشارات بھی ملتے ہیں کہ خداوند کریم اپنے زبردست ہاتھ سے اپنے عاجز بندہ کی مدد کرے گا اور اپنے دین کو روشن کر دے گا۔ اب انشاء اللہ تعالیٰ حصہ چہارم کچھ تھوڑے توقف کے بعد شروع کیا جاوے گا۔ چونکہ یہ تمام کام قوت الٰہی کر رہی ہے اور اُسی کی مصلحت سے اس میں توقف ہے۔ اس لئے مومنین مخلصین نہایت مطمئن رہیں کہ جیسے خداوند کریم کے کامل اور قوی کام ہیں اسی طرح وہ وقتاً فوقتاً کتاب کی حصص کو نکالے گا۔ وھواحسن الخالقین والسلام علیکم وعلی اخوانکم من المومنین۔
(۲۲؍ جنوری ۸۳ء۔ ۱۲؍ربیع الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے عنایت نامجات کو پڑھ کر نہایت خوشی ہوئی۔خداوند تعالیٰ حقیقی استقامت سے حظِ وافر آپ کو بخشے۔ میں آپ کی ذات میں بہت ہی نیک طنیتی اور سلامت روشنی پاتا ہوں اور میں خداوند کریم کی نعمتوں میں سے اس نعمت کا بھی شکرگزار ہوں کہ آپ جیسے خالص دوست سے رابطہ پیدا ہوا ہے۔ خداوندکریم اس رابطہ کو اُس مرتبہ پر پہنچا دے جس مرتبہ پر وہ راضی ہے۔ نماز تہجد اور اوراد معمولی میں آپ مشغول رہیں۔ تہجد میں بہت سے برکات ہیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں۔ بیکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا۔ وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنّٰھُمْ سُبُلَنَا۔ درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَوَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ ابْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلے ہیں۔ اُن میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے۔ پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پرہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے اُس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا وِرَدْ ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں۔ اخلاص اور غبّت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اُس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقت اور بیخودی اور تاثر کی پیدا ہوجائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و دیگر اخوان مومنین سلام مسنون برسد۔
(۲۶؍ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۸؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آن مخدوم مکتوب چہارم بھی پہنچا۔ جزاکم اللہ علی سعیکم و اعظم اجرکم علی بذل جہدکم۔ آج اگر ٹکٹ میسر آئے تو یقین ہے کہ ہرسہ حصہ بنام ہرسہ خریداران کے نام روانہ کئے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ آپ اور ادواشغال معمولہ بدستور کئے جائیں کہ کثرت ذکر مدار فلاح و نجات ہے۔ درود شریف خط سابق میں لکھ دیا گیا ہے۔ ہر باب میں حضور اور توجہ اور خضوع اور خشوع اور اخلاص شرط ہے۔ من جاء بالا خلاص جعل من الخواص۔ اگر کوئی ہندو فی الحقیقت طالبِ حق ہے تو اُس سے رعایت کرنا واجب ہے بلکہ اگر ایسا شخص بے استطاعت ہو تو اس کو مفت بلا قیمت کتاب دے سکتے ہیں۔ غرض اصلی اشاعت دین ہے۔ نہ خرید و فروخت۔ جیسی صورت ہو اس سے اطلاع بخشیں تا کتاب بھیجی جاوے۔ والسلام بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و قاضی خواجہ علی صاحب و دیگر اخوان مومنین سلام پہنچا دیں۔
مکتوب نمبر۱۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہرسہ بخدمت چوہدری گامے خان و جیوے خان صاحب روانہ کئے جائیں گے۔ اب حصہ چہارم کے طبع کرانے میں کچھ تھوڑی توقف باقی ہے اور موجب توقف یہی ہے کہ جو تین جگہ سے بعض سوالات لکھے ہوئے آئے ہیں۔ اُن سب کا جواب لکھا جائے۔ یہ عاجز صعیف الدماغ آدمی ہے۔ بہت محنت نہیں ہوتی آہستہ آہستہ کام کرنا پڑتا ہے۔ آپ کی خواب انشاء اللہ تعالیٰ نہایت مطابق واقعہ اور درست معلوم ہوتی ہے اور تعبیر صحیح ہے۔ جن لوگوں کو تاویل رؤیا کا علم نہیں اُن کو ان تعبیرات میں کچھ تکلف معلوم ہوگا۔ مگر صاحب تجربہ خوب جانتے ہیں کہ رؤیا کے بارے میں اکثر عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ حقیقت کو ایسے ایسے پردوں اور تمثیلات میں بیان فرماتا ہے۔ مسلم نے انس سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خواب دیکھی کہ عقبہ بن رافع کے گھر کہ جو ایک صحابی تھا آپ تشریف رکھتے ہیں۔ اُسی جگہ ایک شخص ایک طبق رطب ابن طاب کا لایا اور صحابہ کو دیا اور رطب ابن طاب ایک خرما قسم کا ہے کہ جن کو ابن طاب نام ایک شخص نے پہلے پہل کہیں سے لا کر اپنے باغ میں لگایا تھا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی یہ تعبیر کی کہ دنیا و آخرت میں صحابہ کی عاقبت بخیرو عافیت ہے اور حلاوت ایمان سے وہ خوشحال اور متمتع ہیں سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کے لفظ سے عاقبت نکالا اور رافع خدا کا نام ہے۔ اُس سے رفعت کی بشارت سمجھ لی اور خرما کی حلاوت سے حلاوت ایمانی لی اور ابن طاب میں طاب کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں خوشحال ہوا۔ پس اس سے خوشحال ہونے کی بشارت سمجھ لی۔ غرض تعبیر رؤیا میں ایسی تاویلات واقعی اور صحیح ہیں اور آپ کی خواب بہت ہی عمدہ بشارت ہے۔ محافظ دفتر کے لفظ سے یاد آتا ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالیشان حاکم یا بادشاہ کا ایک جگہ خیمہ لگا ہوا ہے اور لوگوں کے مقدمات فیصل ہو رہے ہیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ عاجز محافظ دفتر کا عہدہ رکھتا ہے اور جیسے دفتروں میں مثلیں ہوتی ہیں بہت سی مثلیں پڑی ہوئی ہیں اور اس عاجز کے تحت میں ایک شخص نائب محافظ دفتر کی طرح ہے۔ اتنے میں ایک اردلی دوڑتا آیا کہ مسلمانوں کی مثل پیش ہونے کا حکم ہے وہ جلد نکالو۔ پس یہ رؤیا بھی دلالت کر رہی ہے کہ عنایت الٰہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں اور یقین کامل ہے کہ اُس قوت ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہو گئے ہیں پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتع کرے گا کہ ہر یک برکت ظاہری اور باطنی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس عاجز نے پہلے لکھ دیا تھا کہ آپ اپنے تمام اوراد معمولہ کو بدستور لازم اوقات رکھیں۔ صرف ایسے طریقوں سے پرہیز چاہئے جن میں کسی نوع کا شرک یا بدعت ہو۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اشراق پر مداومت ثابت نہیں۔ تہجد کے فوت ہونے پر یا سفر سے واپس آ کر پڑھنا ثابت ہے لیکن تعبد میں کوشش کرنا اور کریم کے دروازہ پر پڑے رہنا عین سنت ہے واذکر واللّٰہ کثیرا لعلکم تفلحون۔ مکرمی مخدومی مولوی عبدالقادر صاحب کی خدمت میں اس عاجز کا سلام مسنون پہنچا دیں۔خداوندکریم کا ہر یک شخص سے الگ الگ معاملہ ہوتا ہے اور ہر ایک بندہ سے جس طور کا معاملہ ہوتا ہے اسی طور سے اُس کی فطرت بھی واقع ہوتی ہے۔ اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تقویض الی اللہ غالب ہے اور معاملہ حضرت احدیّت بھی یہی ہے کہ خود روی کے کاموں سے سخت منع کیا جاتا ہے۔ یہ مخاطبت حضرت احدیّتسے بارہا ہو چکی ہے لاققف مالیس لک بہ علم ولاتقل لشیئٍ انی فاعل ذالک غدا۔ سوچونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوندکریم کی طرف کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلیف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں لعل اللّٰہ یحدث بعد ذالک امرا۔ مولوی صاحب اخوت دینی کے بڑھانے میں کوشش کریں اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودہ کی پرورش میں مشغول رہیں۔ تو یہی طریق انشاء اللہ تعالیٰ بہت مفید ہوگا۔ خلقتم من نفس واحدۃ جزاء البدن مستفیض لما استفاض البدن کلہ وکونوامع الصادقین ھم قوم لایشقی اجلیسم والسلام۔ بخدمت خواجہ علی صاحب سلام علیک۔ ابھی مولوی صاحب کا اس جگہ تشریف لانا بیوقت ہے۔ یہ عاجز حصہ چہارم کے کام سے کسی قدر فراغت کر کے اگر خدا نے چاہا اور نیت صحیح میسر آ گئی تو غالباً امید کی جاتی ہے کہ آپ بھی حاضر ہوگا والامر کلہ فی یداللّٰہ وما اعلم ما ارید فی الغیب
مکتوب نمبر۱۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ خداوندکریم کا کیسا شکر کیا چاہئے کہ اُس نے اپنے تفضلات قدیم سے آپ جیسے ولی دوست بہم پہنچائے۔ اگرچہ آپ کا اخلاص کامل اس درجہ پر ہے کہ اس عاجز کا دل بلااختیار آپ کی دعا کیلئے کھینچا چلا جاتا ہے پر جس ذات قدیم نے آپ کو یہ اخلاص بخشا ہے اُس نے خود آپ کو چُن لیا ہے۔ تب ہی یہ اخلاص بخشا ہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء بخدمت مخدومی مولوی عبدالقادر صاحب بعد سلام مسنون عرض یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سمجھا ہے نہایت بہتر ہے۔ دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں۔ الدعاء فخ العبادۃ۔ یہ عاجز اپنی زندگی کامقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو ربّ العرش تک پہنچ جائیں اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آ جایا کرے۔ مگر یہ بات اپنے اختیار میں نہیں۔ سو اگر خداوند کریم چاہے گا تو یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرتا رہے گا۔ یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ سچا تعلق وہی ہے جس میں سرگرمی سے دعا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی بزرگ کا مرید ہے مگر اُس بزرگ کے دل میں اس شخص کی مشکل کشائی کیلئے جوش نہیںاور ایک دوسرا شخص ہے جس کے دل میں بہت جوش ہے اور وہ اُسی کام کے لئے ہو رہا ہے کہ حضرت احدیّت سے اُس کی رستگاری حاصل کرے۔ سو خدا کے نزدیک سچا رابطہ یہ شخص رکھتا ہے۔ غرض پیری مریدی کی حقیقت یہی دعا ہی ہے۔ اگر مرشد عاشق کی طرح ہو اور مرید معشوق کی طرح تب کام نکلتا ہے۔ یعنی مرشد کو اپنے مرید کی سلامتی کے لئے ایک ذاتی جوش ہو تا وہ کام کر دکھاؤے۔ سرسری تعلقات سے کچھ ہو نہیں سکتا۔ کوئی نبی اور ولی قوت عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا۔ یعنی اُن کی فطرت میں حضرت احدیّت نے بندگان خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہوا ہوتا ہے۔ پس وہی عشق کی آگ اُن سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر اُن کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غمخواری خلق اللہ نہ کرو تو تمہارے اجر میں کچھ قصور نہیں۔ تب بھی وہ اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتا اور اُن کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو جان کنی سے کیا اجر ملے گا۔ کیونکہ اُس کے جوشوں کی بِنا کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے۔ اُس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لعلک باخعٌ نفصکِ ان الا یکونوا مومنین۔ خدا اپنے نبی کو سمجھاتا ہے کہ اس قدر غم اور درد کہ تو لوگوں کے مومن بن جانے کے لئے اپنے دل پر اُٹھاتا ہے۔ اسی میں تیری جان جاتی رہے گی۔ سو وہ عشق ہی تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان جانے کی کچھ پرواہ نہ کی۔ پس حقیقی پیری مریدی کا یہی اصول ہے اور صادق اسی سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ خدا کا قدیمی اصول ہے کہ قوت عشقیہ صادقوں کے دلوں میں ضرور ہوتی ہے تا وہ سچے غمخوار بننے کے لائق ٹھہریں۔ جیسے والدین اپنے بچہ کے لئے ایک قوت عشقیہ رکھتی ہیں۔ تو اُن کی دعا بھی اپنے بچوں کی نسبت قبولیت کی استعداد زیادہ رکھتی ہے۔ اسی طرح جو شخص صاحب قوت عشقیہ ہے وہ خلق اللہ کے لئے حکم والدین رکھتا ہے اور خواہ نخواہ دوسروں کا غم اپنے گلے ڈال لیتا ہے کیونکہ قوت عشقیہ اُس کو نہیں چھوڑتی اور یہ خداوندکریم کی طرف سے ایک انتظامی بات ہے کہ اُس نے بنی آدم کو مختلف فطرتوں پر پیدا کیا ہے۔ مثلاً دنیا میں بہادروں اور جنگجو لوگوں کی ضرورت ہے کہ جن کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح ہوا کرے۔ سو بعض فطرتیں یہی استعداد لے کر آتی ہیں اور قوت عشقیہ سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ فالحمدللّٰہ علیٰ الاء ظاہرھا و باطنھا۔ مولوی صاحب اگر رسالہ بھیج دیں تو بہتر ہے شاہدین صاحب رئیس لودہیانہ کی طرف اُنہیں دنوں میں کتاب بھیجی گئی ۔ جب آپ نے لکھا تھا مگر اُنہوں نے پیکٹ واپس کیا اور بغیر کھولنے کے اوپر بھی لکھ دیا کہ ہم کو لینا منظور نہیں۔ چونکہ ایک خفیف بات تھی اس لئے آپ کو اطلاع دینے سے غفلت ہوگئی۔ آپ کوشش میں توکل رعایت رکھیں اور اپنے حفظ مرتبت کے لحاظ سے کارروائی فرماویں اور جو شخص اس کام کا قدر نہ سمجھتا ہو یا اہلیت نہ رکھتا ہو اُس کو کچھ کہنا نامناسب نہیں۔
(۲۱؍مئی ۱۸۸۳ء مطابق رجب ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب زاد اللہ فی برکاتہم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ سبحان اللہ کیا جوش ہے کہ خداوندکریم نے آپ کے دل میں ڈال دیا اور ایسا ہی آپ کے دوست مولوی عبدالقادر صاحب کے دل میں۔ خداوند کریم بندوں کے فعل اور اُن کی نیات کو خوب جانتا ہے جو شخص اُس کے لئے کوئی درد اُٹھاتا ہے۔ اُس کا عمل کبھی ضائع نہیں ہوگا۔ اُس کی نظر عنایت اگرچہ دیر سے ظاہر ہو مگر جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ کام کر دکھاتی ہے جس کی عاجز بندہ کو کچھ امید نہیں ہوتی۔ خداوند کریم آپ کو اس دلی جوش میں مدد کرے اور اپنی عنایت خاص سے ثابت قدمی بخشے اور ابتلا سے محفوظ رکھے اور آپ بھی ثابت قدمی کیلئے دعا کرتے رہیں کیونکہ بڑے کاموں میں ابتلا بھی بڑے بڑے پیش آتے ہیں اور انسان ضعیف البنیان کی کیا طاقت ہے کہ خود بخود بغیر عنایت و حمایت حضرت احدیّت کے کسی ابتلا کا مقابلہ کر سکے۔ پس ثبت اقدام اُسی سے مانگنا چاہئے اور اُسی کے حول اور قوت پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ ہم سب لوگ بغیر اُس کے لطف اور احسان کے کچھ بھی نہیں۔
آپ نے لکھا تھا کہ بعض لوگ یاوہ گوئی کرتے ہیں۔ سو آپ جانتے ہیں کہ ہر یک امر خداوندکریم کے ہاتھ میں ہے۔ کسی کی فضول گوئی سے کچھ بگڑتا نہیں۔ اسی طرح پر عادت اللہ جاری ہے کہ ہر یک مہم عظیم کے مقابلہ پر کچھ معاند ہوتے چلے آئے ہیں۔ خدا کے نبی اور اُن کے تابعین قدیم سے ستائے گئے ہیں۔ سو ہم لوگ کیونکر سنت اللہ سے الگ رہ سکتے ہیں۔ وہ ایذا کی باتیں جو مجھ پر ظاہر کی جاتی ہیں۔ ہنوز اُن میں سے کچھ بھی نہیں۔ کئی مکروحات درپیش ہیں جس میں خدا کی حفاظت درکار ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اُس کا فعل قابل اعتراض نہیں جو کچھ کرتا ہے بہت اچھا کرتا ہے۔ کسی کی کیا طاقت ہے کہ کچھ بول سکتے۔ جب تک اُس بولنے میں اُس کی کچھ حکمت نہ ہو اور کم سے کم یہی حکمت ہے۔ جن مردوں نے سچائی کی راہ پر قدم مارا ہے۔ اُن کے لئے یہ ابتلا پیش آیا ہے اور اس ابتلا پر ثابت قدم رہنے سے وہ اجر پاتے ہیں۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا وھم لایفتنون۔ آج قبل تحریر اس خط کے یہ الہام ہوا۔ کذب علیکم الخبیث کذب علیکم الخنریر عنایت اللّٰہ حافظک انی معک اسمع واری۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ فبراء اللّٰہ مما قالوا وکان عنداللّٰہ وجیھا۔ ان الہامات میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی ناپاک طبع آدمی اس عاجز پر کچھ جھوٹ بولے گا یا جھوٹ بولا ہو مگر عنایت الٰہی حافظ ہے۔ اب سوچنا چاہئے کہ جب ہر یک موذی اور معاند اور دروغ گو اور بہتان طراز کے شر سے خود خداوندکریم بچانے کا وعدہ کرتا ہے تو پھر کس سے بجز اُس کے خوف کریں۔ چند روز ہوئے کہ خداوندکریم کی طرف سے ایک اور الہام ہوا تھا۔ کچھ حصہ اُس میں سے پہلے بھی الہام ہوچکا ہے۔ مگر یہ الہام مفصل ہوا اور اُس سے خداوند کریم کی جو کچھ عنایت اس عاجز اور اس عاجز کے دوستوں پر ہے وہ ظاہر ہے اور وہ یہ ہے۔ قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ انی متوفیک ورافعک الی وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ۔ وقالو انی لک ھذا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب یجتبی من یشاء من عبادہ۔ وتلک الایام ندا ولھا بین الناس۔ اور یہ آیت کہ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ بار بار الہام ہوئی اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے اور اس قدر زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہوگئی۔ اس سے یقینا معلوم ہوا کہ خداوندکریم اُن سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا اور اُن کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے اور جو مخالف قدم مارے گا اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی۔ یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلف نہیں کرے گا اور کفر کے لفظ سے اس جگہ شرعی کفر مراد نہیں بلکہ صرف انکار سے مراد ہے۔ غرض یہ وہ سچا طریقہ ہے جس میں ٹھیک ٹھیک حضرت نبی کریم کے قدم پر قدم ہے۔ اللھم صلی علیہ وآلہ وسلم۔ آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اُس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں۔ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔ جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اُس شخص کے وجود کے ایک جز ہو جاتا ہے۔ پس جو فیضان شخص مدعو پر ہوتا ہے۔ وہی فیضان اُس پر ہوتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیّت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے۔ مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی طول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔ دوسرے اوراد بھی بدستور محفوظ رکھیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں ہے ہر وقت سرگرمی کی توفیق خداوندکریم سے مانگنی چاہئے۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و قاضی خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچا دیں۔
(۱۲؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۶ شعبان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا سعی اور کوشش کے لئے جالندھر میں تشریف لے جانا خط آمدہ آں مخدوم سے معلوا ہوا۔ خداوند تعالیٰ ان کوششوں کو قبول فرماوے۔ جس آیت کو ایک مرتبہ بنظر کشفی دیکھا گیا تھا۔ اصلحھا ثابت و فرعھا فی السماء۔ اس شجرہ طیبہ کے آثار ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء نیچریوں کا جو آپ نے حال لکھا ہے یہ لوگ حقیقت میں دشمن دین ہیں یریدون ان یفرقوا بین اللّٰہ ورسلہ۔ لیکن خداوند قادر مطلق کے کام عقل اور قیاس سے باہر ہیں۔ وہ ہمیشہ عاجزوں اور ضعیفوں اور کمزوروں کو متکبروں اور مغروروں پر غالب کرتا رہا ہے اور آخر کار اُنہیں کی فتح ہوتی رہی ہے جو خدا کے لئے متکبروں کے ہاتھ سے ستائے گئے اور اگر خدا چاہتا تو ستائے نہ جاتے لیکن یہ اس لئے ضروری ہوا کہ تا خداوند کریم اپنے الطاف خفیہ کو بصورت جلال اُن پر متجلی کرے اور نفس کے پوشیدہ عیبوں سے اُن کو خلاصی بخشے اور اُن پر اُس کا تنہا ہونا، بیکس ہونا، غریب ہونا، ذلیل ہونا، بے اقتدار ہونا ثابت کر کے عبودیت حقیقی کی اعلیٰ مرابت تک پہنچاوے۔ کسی بشر کی طاقت نہیں کہ جو اپنے منہ کی واہیات باتوں سے خدا تعالیٰ کے ارادہ کو نافذ ہونے سے روک رکھے۔ اگر اُس کی حکمت کا تقاضا نہ ہوتا تو مزاحمین اور مخالفین کا وجود نابود ہو جاتا۔ پر ان لوگوں کے وجود میں گروہ ثانی کے لئے بڑے بڑے مصالحہ ہیں اور بعض کمالات اُن کے اس پر موقوف ہیں کہ ایسے لوگ بھی موجود ہوں۔ درود شریف پڑھنے کی مفصل کیفیت پہلے لکھ چکا ہوں۔ وہی کیفیت آپ لکھ دیں۔ کسی تعداد کی شرط نہیں۔ اس قدر پڑھا جائے کہ کیفیت صلوٰۃ سے دل مملو ہو جائے اور ایک انشراح اور لذت اور حیواۃ قلب پیدا ہو جائے اور اگر کسی وقت کم پیدا ہو تب بھی بیدل نہیں ہونا چاہئے اور کسی دوسرے وقت کا منتظر رہنا چاہئے اور انسان کو وقت صفا ہمیشہ میسر نہیں آ سکتا۔ سو جس قدر میسر آوے اُس کو کبریت احمد سمجھے اور اُس میں دل و جان سے مصروفیت اختیار کرے۔ پہلے اس سے آپ کی طرف ایک خط لکھا گیا تھا سو جیسا کچھ اُس میں لکھا گیا تھا آپ مبلغ… روپیہ بھیج دیں۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب سلام مسنون۔
(۲؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۲۵؍ رجب ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آں مخدوم کے دو عنایت نامہ دوسرے بھی پہنچ گئے۔ الحمدللہ کہ کام طبع کا شروع ہے۔ یہ سب اُسی کریم کی عنایات اور تفضلات ہیں کہ اس نابکار اور عاجز کے کاموں کا آپ متولی ہو رہا ہے۔ ع
اگر ہر موے من گردو ربانے
از و رانم بہرک داستانے
پنڈت دیانند نے کتاب طلب نہیں کی اور نہ راستی اور صدق کے راہ سے جواب لکھا بلکہ اُن لوگوں کی طرح جو شرارت اور تمسخر سے گفتگو کرنا اپنا ہنر سمجھتے ہیں۔ ایک خط بھیجا اور خط رجسٹری کرا کر بھیجا گیا۔ جس کا خلاصہ صرف اس قدر تھا مجھ کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلام پر یقین کامل بخشا ہے اور ظاہری اور باطنی دلائل سے مجھ پر کھول دیا ہے کہ دنیا میں سچا دین دین محمدی ہے اور اسی جہت سے مَیں نے محض خیر خواہی خلق اللہ کی رو سے کتاب کو تالیف کیا ہے اور اُس میں بہت سے دلائل سے ثابت کر کے دکھلایا ہے کہ تعلیم حقانی محض قرآنی تعلیم ہے پس کوئی وجہ نہیں کہ میں آپ کے پاس حاضر ہوں بلکہ اس بات کا بوجھ آپ کر گردن پر ہے کہ جن قوی دلیلوں سے آپ کے مذہب کی بیخ کنی کی گئی ہے اُن کو توڑ کر دکھلاویں یا اُن کو قبول کریں اور ایمان لاویں اور میں ہر وقت کتاب کو مفت دینے کو حاضر ہوں۔ اس خط کا جواب نہیں آیا۔ انشاء اللہ تعالیٰ اسی حصہ چہارم میں اُن کے مذہب اور اصول کے متعلق بہت کچھ لکھا جائے گا اور آپ اگر خط کو چھپوا دیں تو آپ کو اختیار ہے۔ مولوی عبدالقادر صاحب کی خدمت میں اور نیز قاضی خواجہ علی صاحب کی خدمت میں سلام مسنون پہنچے۔
(۱۵؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۹؍ شعبان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ ربہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آن مخدوم کے دو عنایت نامہ پے در پے پہنچے۔ باعث مسرت اور خوشی ہوا۔ آپ کی کوششوں سے بار بار دل خوش ہوتا ہے او ربار بار دعا کے لئے اور آپ کی معاونوں کے لئے دل سے نکلتی ہے۔ خداوند کریم نہایت مہربان ہے۔ اُس کے تفضلات سے بہت سی امیدیں ہیں۔ اس کی راہ میں کوئی محنت ضائع نہیں ہوتی۔ آپ نے لکھا تھا کہ ایک عالم نے فیروز پور میں اعتراض کیا ہے کہ رسول مقبول نے سیر ہو کر بھی کھایا ہے۔ لیکن اس بزرگ عالم نے اس عاجز کی تقریر کامنشاء نہیں سمجھا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سیر ہونے کے معنی سمجھے ہیں۔ طیبین اور طاہرین کا سیر ہو کر کھانا اُس قسم کا سیر ہونا نہیں ہے جو اُن لوگوں کا ہوا کرتا ہے جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے کھاتے ہیں جیسے چار پائے کھایا کرتے ہیں اور آگ اُن کا کھانا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت سیر ہو کر کھانا اور ہی نور ہے اور اگر اُس سیری کو اُن لوگوں کی طرف نسبت دی جائے جن کا اصل مقصد احتظاظ اور تمتع ہے اور جن کی نگاہیں نفسانی شہوات کے استیفا تک محدود ہیں تو اُس سیری کو ہم ہرگز سیری نہیں کہہ سکتے۔ سیری کی تعریف میں پاکوں اور مقدسوں کی اصطلاح اور ناپاکوں اور شکم پرستوں کی اصطلاح الگ الگ ہے اور پاک لوگ اُسی قدر غذا کھانے کا نام سیری رکھ لیتے ہیں کہ جب فی الجملہ حرقت جوع دور ہو جائے اور حرکات و سکنات پر قوت حاصل ہو جائے۔ غرض مومن کی سیری یہی ہے کہ اس قدر غذا کھاوے جو اُس کی پشت کو قائم رکھے اور حقوق واجبہ ادا کر سکے۔ پس جو سید المومنین ہے۔ اُس کی سیری کا قیاس عام لوگوں کی سیری پر قیاس مع الفارق ہے۔ اسی طرح بہت لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عظیم کو نہیں سمجھا اور الفاظ کے مورد استعمال کو ملحوظ نہیں رکھا اور اپنے تئیں غلطی میں ڈال لیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت یہ فرمانا کہ میں سیر ہو گیا ہوں ہرگز اُس قول کا مترادف نہیں کہ جو دنیا کے منہ سے نکلتا ہے جنہوں نے اصل مقصد اپنی زندگی کا کھانا ہی سمجھا ہوا ہوتا ہے۔ غرض پاکوں کا کام اور کلام پاکوں کے مراتبہ عالیہ کے موافق سمجھنا چاہئے۔ اور اُن کے امور کادوسروں پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ وہ درحقیقت اس عالم سے باہر ہوتے ہیں۔ گو بصورت اسی عالم کے اندر ہوں اور بہرام خان صاحب کی کوشش سے طبیعت بہت خوش ہوئی۔ خدا اُن کو اجر بخشے۔ کتاب سات سو جلد چھپی ہے لیکن اب میں نے تجویز کی ہے کہ ہزار جلد چھپے تو بہتر۔ منشی فضل رسول کا خط مَیں نے پڑھا۔ منشی صاحب کے پاس جس نے یہ بیان کیا ہے کہ وید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے اُس نے بہت دھوکہ کھایا ہے۔ وید میں تو خدا کا بھی اُس کی شان کے لائق ذکر نہیںچہ جائیکہ اُس کے رسول کا بھی ذکر ہو۔ جن باتوں سے وید بھرا ہوا ہے وہ آتش پرستی اور شمس پرستی اور اِندر پرستی وغیرہ ہے اور مدار المہام تمام دنیا کا انہیں چیزوں کو وید نے سمجھا ہے اور انہیں کی پرستش کے لئے وید نے ترغیب کی ہے اور کی دفعہ اس عاجز کو نہایت صراحت سے الہام ہوا ہے کہ وید گمراہی سے بھرا ہوا ہے اور وید کاایک حصہ ترجمہ شدہ اس عاجز کے پاس موجود بھی ہے اور پنڈت دیانند کے وید بھاس میں سے بھی سنتا رہا ہوں اور جو کچھ اُردو میں وید بھاش لکھا گیا وہ بھی دیکھتا رہا ہوں۔ اس صورت میں وید کوئی ایسی عجیب چیز نہیں ہے جس کی حقیقت پوشیدہ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اظہر من الشمس ہے۔ ویدوں کے پُر ظلمت بیان کی محتاج نہیں اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ویدوں میں کسی قسم کی پیشین گوئی نہیں اور نہ کسی معجزہ کا ذکر ہے۔ جہاں تک دریافت ہوتا ہے وید کی یہی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی پُرانے زمانہ کے شاعروں کے شعر ہیں کہ جو مخلوق چیزوں کی تعریف میں بنائے ہوئے ہیں۔ ابتدا میں جب یہ کتاب چھپنی شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور مدد کے لئے لکھا گیا تھا بلکہ کتابیں بھی ساتھ بھیجی گئی تھیں۔ سو اس میں سے صرف ابراہیم علی خان صاحب نواب مالیر کوٹلہ اور محمود علی خ ان صاحب رئیس چھتاری اور مدارالمہام جونہ گڑھ نے کچھ مدد کی تھی۔ دوسروں نے اوّل توجہ ہی نہیں کی اور اگر کسی نے کچھ وعدہ بھی کیا تو اُس کا ایفا نہیں کیا بلکہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ خط لکھا۔ آپ ان ریاستوں سے نااُمید رہیں اور اس کام کی امداد کے لئے مولیٰ کریم کو کافی سمجھیں۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ
اور میں آپ کو یہ بھی تحریر کرتا ہوں کہ جو شخص اپنی رائے کے موافق کتاب کو واپس کرے یا لینا منظور نہ کرے یا کتاب اور کتاب کے مؤلف کی نسبت کچھ مخالفانہ رائے ظاہر کرے۔ اس کو ایک دفعہ اپنے وسیع خلق سے محروم نہ کریں۔
(۲۱؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۱۵؍ شعبان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا عنایت نامہ آن مخدوم پہنچا۔ جس قدر نیچریوں کا جوش و خروش ہے اُس کو دیکھ کر اور نیز دوسرے مخالفین و معاندین کی معاندانہ کوششوں کو ملاحظہ کر کے جو کچھ مومنوں کے دلوں پر صدمہ پہنچتا ہے بِلاشُبہ وہ بیان سے باہر ہے۔ ہماری قوتیں کیا چیز ہیں؟ اور ہماری طاقتیں کیا حقیقت رکھتی ہیں؟ اور ہم کیا ہیں؟ کہ کچھ دَم مار سکیں۔ خداوند کریم خود اس طوفان کو فرو کرے اور اس کے فضل و کرم پر ہی امیدیں ہیں۔ کچھ معلوم نہ ہوا کہ سردار بکرما سنگھ نے کیا اعتراض پیش کئے۔ اگر آپ کو معلوم ہو تو ضرور مطلع فرماویں۔ بدقسمت لوگوں کو تعصب اور حب دنیا نے حق کے قبول سے روک رکھا ہے ورنہ عقائد حقہ اسلام کے اس قدر روشن اور بدیہی الصدق ہیں کہ کسی منصف اور طالب حق کو اُن میں کلام نہیں۔ سبحان اللہ کیا ہی مبارک دین ہے کہ اس کے سچے تابعین کی طرف رحمت الٰہی یوں دوڑتی ہے کہ جیسے پانی اوپر سے نیچے کو آتا ہے اور مخالفین کا وجود بھی عبث نہیں۔ یہ اس لئے دنیا میں زندہ رکھے گئے ہیں کہ تا مومنین کو ستاویں اور طرح طرح کے اُن کو دکھ دیں اور اپنے قول فعل سے درپے آزار رہیں اور اس طرح پر مومنوں کی ترقی اور مراتب کمال تک پہنچنے کا ذریعہ ٹھہر جائیں۔ فالحمدللّٰہ علی الطافھا التجلیۃ والخفیۃ آپ کو کُلی اختیار ہے کہ جو کچھ قیمت کتاب میں جمع ہو اُس کو حسب ضرورت خرچ کرتے رہیں۔ خداوند کریم نے آپ کی سعی میں برکت ڈالی ہے اور آپ وہ کام کر رہے ہیں کہ جس میں ہر یک کو آپ کی طرح توفیق نہیں دی گئی۔
خداوندکریم آپ کو دنیا و دین میں اس کا اجر بخش کر اس عاجز کو دکھاوے اور وہ تو بغایت درجہ کریم و رحیم ہے اور ہرگز ممکن نہیں کہ ایک انسان اخلاص سے، صدق سے، استقامت سے، خالصاً اُس کے لئے کوئی محنت اختیار کرے اور وہ اُس کی محنت کو ضائع کرے اور اُس کا کچھ اجر نہ دے۔ اس جناب میں راستبازوں کی محنتیں ہرگز ضائع نہیں ہوتیں اور مخلصانہ کوشش ہرگز برباد نہیں جاتی۔ جب ایک انسان تمام تر اخلاص سے خالصاً للہ سعی بجا لاوے اور ایک مدت تک اُس کی سعی اور کوشش اور محنت اور مشقت کا سلسلہ جاری رہے اور ثابت قدمی اور استقامت اور وفا اور حسن ظن میں کچھ فرق نہ آوے بلکہ اپنے سینہ میں انشراح اور اپنی طبیعت میں انبساط پاوے اور اپنے کاموں سے خداوندکریم پر کچھ احسان نہ سمجھے تو جاننا چاہئے کہ اُس کے اجر کا وقت نزدیک ہے۔ وَاللّٰہُ لَاْ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحَسْنِیْنِ۔ مبارک وہ لوگ جو خدمت سے سیر نہ ہوں اور جلدی نہ کریں۔ پھر دیکھیں کہ مولیٰ کریم کیسا خادم نواز ہے۔ عیالداری کے ترددات آپ کو ہوں گے۔ مگر اُن ترددات سے خداوند کریم بے خبر نہیں۔ جن فکر کی باتوں کو ایک عاجز بندہ رات کو اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا سوچا کرتا ہے یا دن کو اپنے گھر میں جا کر بعض وقت یہ تنگیاں اس پر آ پڑتی ہیں ان سب تنگیوں اور تکلیفوں کو خداوندکریم اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور کچھ دنوں تک اپنے بند ہ کو ابتلا میں رکھتا ہے۔ پھر یک مرتبہ نظر عنایت سے دیکھتا ہے اور اُس پر وہ دروازے کھولے جاتے ہیں جن کی اُس کو کچھ خبر نہیں تھی وھویتولی الصالحین۔ کیا جس کا خدا حي، قیوم، قادر، مہربان موجود ہے وہ کچھ غم کر سکتا ہے۔ غم اور ایمان کامل ایک جگہ کبھی جمع نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون۔
والسلام
۲۵؍ جولائی ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ رمضان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
منشی فضل رسول صاحب کے خط کی نقل معہ کارڈ پہنچ گئے اور میں نے اُس دل آزار تقریر کو تمام و کمال پڑھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ جب میں نے منشی صاحب کے اس فقرہ کو پڑھا کہ اس میں تو بیان توحید ایسا ہے کہ اور کتابوں میں بھی نہیں ہے تو یہ یاد کر کے کہ منشی صاحب نے وید کو توحید میں بے مثال و مانند قرار دے کر قرآن شریف کی عظمت کا ایک ذرّہ پاس نہیں کیا اور دلیری سے کہہ دیا کہ جو وید میں توحید ہے وہ کسی دوسری کتاب میں نہیں پائی جاتی۔ اس فقرہ کے پڑھنے سے عجیب حالت ہوئی کہ گویا زمین و آسمان آنکھوں کے آگے سیاہ نظر آتا تھا۔ اللھم اصلح امت محمد۔ پھر بعد اس کے منشی صاحب اس عاجز ذلیل، غریب تنہا سے پوچھتے ہیں کہ وید پڑھے ہیں یا نہیں اور اگر وید کو نہیں پڑھا تو اب تحقیق سے کسی وید دان سے دریافت کرنا چاہئے تو اس بات کا جواب منشی صاحب کو کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا معرض بیان میں لاویں۔ جس حالت میں پہلے خط میں لکھا گیا تھا کہ جو کچھ یہ بیان کیا گیا ہے بِلا تحقیق نہیں تو اگر منشی صاحب ایک ذرّہ اس عاجز سے حسن ظن رکھتے تو بلا فائدہ تقریر کو طول نہ دیتے۔ لیکن اس پُر آشوب زمانہ میں ہم غریبوں پر کسی کا حسن ظن کہاں۔ جب خداوندکریم دلوں کو اس طرف پھیرے گا تب نیک دل لوگ اس طرف پھریں گے۔ اس وقت رگوید جو چاروں ویدوں میں پہلا وید ہے اور سب سے زیادہ متبرک اور معتبر اور مستند الیہ سمجھا گیا ہے میرے سامنے رکھا ہوا ہے جس کے ساتھ پروفیسر ولسن صاحب کی ایک مختصر شرح بھی ہے۔ اس میں صاحب موصوف نے بعد بہت سی تحقیق کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ آپ نشدین جو وید کے ساتھ شامل ہیں۔ وید میں سے نہیں ہیں بلکہ وید کے تصنیف کے بہت مدت کے بعد تالیف پائے ہیں اور یہ رائے محقق پنڈتوں کی ہے کہ آپ نشدین وید میں سے نہیں ہیں۔ یہ برہمن پشتک ہیں جو انسانوں نے یعنی برہمنوں نے اور اور وقتوں میں اپنے خیال سے لکھے ہیں۔ یہاں تک کہ پنڈت دیانند نے بھی اپنے وید بھاش میں جو ان دنوں میں چھپ رہا ہے اور ایک پرچہ اُس کا قادیان میں بھی ایک آریہ کے نام آتا ہے یہی رائے لکھی ہے اور پنڈت دیانند علانیہ لکھتا ہے کہ آپ نشدین ہر گز وید میں داخل نہیں اور نہ وید کی جز ہے۔ وہ تو لوگوں نے پیچھے سے باتیں بنائی ہیں۔ چونکہ پنڈت دیانند اب تک مقام شاہ پور ضلع ارل میں زندہ موجود ہے اور آج پنڈتوں میں وہ دعویدار ہے کہ میرا ثانی اور کوئی پنڈت نہیں۔ اُسی سے منشی صاحب دریافت کر سکتے ہیں کہ آپ نشدین جن کا بطور مختصر ترجمہ دارالشکوہ نے کیا یہ حقیقت میں وید ہی ہیں۔ یہ کیا چیز ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دارالشکوہ کے وقت میں وید ایک مدفون اور مخفی چیز کی طرح تھا اور مسلمانوںکو اُس کی حقیقت کی خبر نہیں تھی۔ سو جب دارالشکوہ نے ہندو پنڈتوں سے کچھ وید کا ترجمہ چاہا تو انہوں نے اندیشہ کیا کہ اگر ہم مسلمانوں پر اصل وید کی حقیقت ظاہر کریں گے تو ہمارا پردہ اوڑ جائے گا بہتر ہے کہ اکبر بادشاہ کی طرح اُس کو بھی دام میں لاویں اور جہاں تک ہو سکے اس کے مزاج میں بھی کچھ الحاد ڈالیں تو اُنہوں نے اُس کو ناواقف سمجھ کر بعض اُپ نشدوں کا ترجمہ کروایا اور اب کھل گیا کہ وہ ترجمہ بھی صحیح نہیں۔بہرحال دارالشکوہ نے کمال غلطی کھائی کہ اُپ نشدون کو وید سمجھ بیٹھا اور اُس کے بہت سے خیالات پریشان تھے جن کی منشی صاحب کو خبر نہیں۔ چغتائی سلطنت پر پہلے آفت یہی نازل ہوئی تھی کہ اکبر اور اُس کے بعض بدنصیب نسل نے کلام الٰہی کو جیسا کہ چاہے قدر نہیں کی تھی اور ہندؤں کے شرک آمیز اور غلط گیان کی تلاش میں پڑ گئے۔
اب ہم اس بات کو چھوڑ کر پروفیسر مذکور کی وید کی نسبت رائے لکھتے ہیں۔ وہ اپنی تمہیدی تقریر میں جو وید کی تفسیر کے پہلے لکھی ہے تحریر کرتے ہیں کہ
حقیقت میں وید کے کسی فقرہ سے جو ہم کے اب تک دیکھے ہیں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ وید کے مصنّف پیدا کنندہ عالم کے معتقد تھے اور ہندؤں کے پرستش کے دیوتاؤں کی جو وید میں لکھے ہیں۔ جیسے آگ، پانی، چاند، سورج اُن کی تعریفوں کی عبارت ایسی ہے جس میں صریح مخلوق کی صفتیں پائی جاتی ہیں اور پھر وہ لکھتے ہیں کہ لفظ آدم کہ جو پہلے زمانہ کے مذہب ہنوذ کی نشانی ہے اُس کا وید میں بالکل ذکر نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ان تینوں دیوتاؤں کے نام کا خلاصہ ہے۔ یعنی برہما کے اخیر کا الف لیا گیا اور وشن کی واؤ ڈالی گئی اور مہادیو کا میم لیا گیا۔ ان تینوں کے جوڑ سے آدم بن گیا اور تمام پنڈتوں کا بھی یہی اعتقاد ہے کہ اوم کا لفظ ترہمورتی مذہب کا ایجاد ہے۔ مگر ترہمورتی مذہب یعنی جس میں تین مورتوں کی پرستش کا ذکر ہے وید میں نہیں ہے کیونکہ یوں تو وید میں بیسیوں دیوتاؤں کی پرستش کا ذکر ہے لیکن برہما، وشن، مہادیو کا کہیں نشان نہیں۔ ہاں وشن کی پرستش کے لئے ایک شُرتی آئی ہے مگر وہاں وشن کے معنی سورج ہیں۔ سورج وید کے دیوتاؤں میں سے ایک اوسط درجہ کا دیوتا ہے جس کا مرتبہ اگنی دیوتا سے کچھ نیچا اور بعض دوسرے دیوتاؤںسے کچھ اونچا ہے۔ اب دیکھئے منشی صاحب اپنے خط میں فرماتے ہیں کہ ہندؤں میں باوجود حق کے لئے اوم کا لفظ جو اسم ذات ہی قرار دیا گیا ہے کیاافسوس کا مقام ہے کہ منشی صاحب نے ایک ناواقف آدمی کی تحریر فضول پر اعتماد کلی کر کے اوم کے لفظ کو اسم ذات مقرر کر دیا۔ حالانکہ ابھی ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ اوم کا لفظ ان متاخر مشرکین ہنوذ کا ایجاد ہے جنہوں نے برہما، وشن، مہادیو کی صورتوں کے پرستش اختیار کی تھی اور اب کرتے ہیں۔ان کی دانشمند پنڈتوں میں سے کوئی بھی اس بات سے ناواقف نہیں کہ اوم کا لفظ اسی ترہمورتی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختراع کیا گیا ہے۔ خدا سے اور خدا کی ذات سے اس کو کچھ علاقہ نہیں۔ بھلا اگر منشی صاحب کے نزدیک یہ اسم ذات ہی ہے تو پھر کئی پنڈت جیسے دیانند، کھڑک سنگھ، پنڈت شاستری صاحب وغیرہ جو اب تک جیتے جاگتے موجود ہیں۔ اُن کی شہادت اپنے بیان پر پیش کریں۔ واضح رہے کہ ہندوؤں میں دو قسم کے مخلوق پرست ہیں۔ ایک تو وہ جو صرف وید کے دیوتاؤں کو مانتے ہیں اور یہ فرقہ بہت کم پایا جاتا ہے اور دوسرے وہ گروہ جنہوں نے ترہمورتی کا مذہب ہزاروں برس کے بعد وید کے نکالا ہے۔ وہ برہما، وشن، مہادیو کو مانتے ہیں اور ادم کے لفظ کو بڑا مقدس سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان دیوتاؤں کے ناموں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بہرحال ہماری بحث صرف وید سے متعلق ہے اور ہر چند ہم جانتے ہیں کہ اُپ نشدوں میں بہت سی غلطیاں ہیں اور ہم نے اوّل سے آخر تک اُپ نشدین غور سے پڑھے ہیں اور اُن کے ذلیل اور غلط خیالات پر بفضل خداوند ہادی مطلق اطلاع پائی ہے لیکن ہم کو ان کتابوں کی تفتیش سے کچھ بھی غرض نہیں۔ جس حالت میں خود ہندوؤں کے محققین اُن اُپ نشدوں کو برہمن پشتک جانتے ہیں تو پھر ہم کوکیا ضرور ہے کہ ان میں کچھ زیادہ طول کلام کریں۔ رہا وید سو ان میں جس قدر مخلوق پرستی ہے اُس کو تمام جاننے والے جانتے ہیں۔ پہلا وید اگنی کی ہی تعریف سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ ۳۷ منتر تو اُس کی تعریف میں لکھے گئے ہیں اور پینتالیس منتر اندر کے مہابرنن میں ہیں۔ ایسا ہی ہوا اور پانی اور چاند اور سورج وغیرہ کی تعریف میں کئی منتر وید میں مندرج ہیں اور اگر منشی صاحب بطور نمونہ چاہیں تو ہم رگوید سنگتہا اشٹک اوّل پہلا ادہیائے اشلوک ایک میں سے چند شرتیاں لکھ دیتے ہیں تا منشی صاحب اپنے اُس کلمہ کو پھر یاد کریں کہ جو اُنہوں نے قرآن شریف کی عظمتوں اور بزرگیوں اور ہمارے ربّ کریم کے پاک اور کامل کلام کی شوکتوں اور شانوں کو یکبارگی نظر انداز کرکے جلد تر منہ سے نکال دیا اور کہا کہ وید میں بیان توحید ایسا ہے کہ اور کتابوں میں نہیں ہے اور میں قبل از بیان یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ سخت ابتلا منشی صاحب کو ایسی عادت کی وجہ سے پیش آ گیا ہے کہ جو اپنے خط میں آپ لکھتے ہیں کہ میں مذہبی جھگڑوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ گویا منشی صاحب اس کام کو بنظر تحقیر دیکھتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ سارا قرآن شریف مذہبی جھگڑوں کے ہی ذکر میں ہے اور جو لوگ خدا کے بڑے پیارے ٹھہرے اُنہوں نے اُنہیں جھگڑوں میں جانیں دی تھیں۔ جب تک طالب حق ان جھگڑوں میں نہ پڑے دل کا صاف ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ علم عقاید اور علم فقہ اور علم تفسیر اور علم حدیث مذہبی جھگڑے ہیں جو شخص مذہبی جھگڑوں میں سے نفرت کر کے علم قرآن حاصل نہیں کرتا اور حق اور باطل میں تمیز کرنے کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا وہ بڑی خطرناک حالت میں ہے اور اُس کی سوخاتمہ کا سخت اندیشہ ہے۔ اب وہ شرتیاں جن کاو عدہ کیا گیا تھا یہ ہیں۔
(۱) میں اگنی دیوتا کے جو ہوم کا بڑا گروکارکن اور دیوتاؤں کو نظریں پہنچانے والا بڑا ثروت والا ہے مہا کرتا ہوں۔
اب اس جگہ اگنی کو ایک ایسا دیوتا مقرر کیا کہ جو بطور وکیل کے دوسرے دیوتاؤں کو نذریں پہنچاتا ہے۔
(۲) ایسا ہو کہ اگنی جس کا مہا زمانہ قدیم اور زمانہ حال کے رشی کرتے چلے آئے ہیں۔ دیوتاؤں کو اس طرف متوجہ کرے۔
اس میں بھی آگ کو وکیل ٹھہرا کر اُس سے یہ چاہا ہے کہ وہ دیوتاؤں کو بھی ہندوؤں پر مہربان کرے۔
(۳) اے اگنی دیوتاؤں کو یہاں لا۔ اُن کو تین جگہ بٹھا آراستہ کر۔
اب دیکھئے! ان شرتیوں میں کچھ خدا تعالیٰ کا بھی پتہ لگتا ہے اور پھر اُن کے بعد اِندر کی بھی مہا لکھی ہے اور ایک شرتی میں اِندر کو کوشیکا کا بیٹا ٹھہرایا ہے اور کوشیکا گزشتہ زمانہ میں ایک رشی تھا۔ شارح اس کے یہ معنی لکھتا ہے کہ کوشیکا رشی کے گھر میں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ تب اُس نے اِندر دیوتا کی اشنٹ شروع کی اور بہت تپ جپ کیا اور چونکہ کوشیکا کے گھر میں بیٹا ہونا مقدر نہیں تھا مگر اِندر کو اُس پر رحم آیا۔ تب اِندر آپ ہی اُس کی عورت کے رحم میں جا پڑا اور تولد پا کر اُس کا بیٹا بن گیا۔ تب سے اِندر کا کوشیکا کا بیٹا نام رکھا گیا۔ اب مناسب ہے کہ منشی صاحب عبدالمعبود صاحب سے جو اُن کے زعم میں وید کے … ہیں۔ ان شرتیوں کے معنی پوچھیںکہ کیونکر ایک خدا کئی دیوتاؤں پر منقسم ہو گیا اور آگ و ہوا، پانی، سورج، چاند کا جسم پکڑا اور کیونکر وہ کوشیکا کے گھر میں پیدا ہوا۔ کیا یہ ایسا امر ہے جو چھپ سکتا ہے۔ پنڈت دیانند نے ناخنوں تک زور لگایا کہ وید میں توحید ثابت کرے۔ مگر آخر ناکام رہا۔ شاید ۱۸۷۶ء کا ذکر ہے کہ پنڈت دیانند نے کچھ اجزا وید بھاش کے تیار کر کے گورنمنٹ میں مع اپنے عریضہ کے بھیجے اور یہ درخواست کی کہ اُس کا یہ بھاش جس میں جا بجا سودائیوں کی طرح دیوتاپرستی کی دو راز کار تاویلیں لکھی ہیں اور خواہ نخواہ وید کو معلم التوحید قرار دینا چاہا ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھایا جائے۔ گورنمنٹ نے بعض نامی گرامی پنڈتوں سے کیفیت طلب کی کہ آیا وید میں مخلوق پرستی ہے یا نہیں تو اُن سب نے بالاتفاق یہ کیفیت لکھی کہ وید میں دیوتا پرستی کی تعلیم ضرور ہے اور دیانند جو کچھ تاویلیں کرتا ہے یہ صحیح نہیں ہیں۔ اُن دنوں میں یہ تذکرہ اخبار وکیل شہر امرتسر میں بھی چھپ گیا تھا اور پھر اس عاجز نے بھی پنڈت دیانند کو لکھا کہ وید کی مخلوق پرستی کی تعلیم میں اگر کچھ عذر ہے تو کسی جگہ یہ ثابت کر کے دکھلاویں کہ وید میں آگ اور پانی اور سورج اور چاند وغیرہ مخلوق چیزوں کی پرستش سے کسی جگہ ممانعت بھی لکھی ہے اور کسی جگہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ اے بندگان خدا جو کچھ رگووید وغیرہ میں مخلوق چیزوںکی پرستش کا حکم پایا جاتا ہے اور اُن سے مرادیں مانگی گئی ہیں اور پانی اور آگ اور سورج اور چاند وغیرہ سے خدا ہی مراد ہے تم نے دھوکہ نہ کھانا اورخدا کو واحد لاشریک سمجھنا اور ویدوں میں جو مخلوق پرستی کی تعلیم ہے اُس پر کچھ اعتبار نہ کرنا۔ لیکن پنڈت صاحب نے ہرگز ثابت نہ کیا اور کیونکر ثابت کر سکتے۔ ویدوں میں تو اس قدر مخلوق پرستی کھلی کھلی بیان ہے کہ کسی کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتی۔ ابتدا میں برہمو سماج والوں نے ویدوں کے پڑھنے میں بڑی کوشش کی اور اُن کے بعض نامی گرامی آدمیوں نے بڑی محنت سے ویدوں کو پڑھا۔ سو آخر کار انہوں نے بھی یہ رائے ظاہر کی کہ وید مخلوق پرستی سے بھرا ہوا ہے۔ ابھی پنڈت شیونرائن نے تنقیح سے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں مفصل طور پر بیان کیا ہے کہ وید میں مخلوق پرستی کی تعلیم بکثرت ہے اور نیز کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ گورنر بمبئی نے ہندؤوں کی تاریخ میں ایک کتاب لکھی ہے اور یہ گورنر اپنی قوم میں فضیلت علمی سے نہایت مشہور ہے اور آنریبل کے لقب سے ملقب ہے۔ اُس نے اپنی کتاب کے صفحہ ۶۹ میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
اکثر مقامات میں بید میں خداکا ذکر بھی ہے۔ لیکن بید کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے بعض کو انسان سے برتر پیدا کیا ہے۔ سُو اُن دیوتاؤں کی پرستش کرنی چاہئے اور وہ دیوتا جن کی پرستش کا وید میں حکم ہے۔ پانی اور آگ اور خاک اور ستاری وغیرہ ہیں۔
اب دیکھئے! کہ اس آنریبل نے بھی ہماری رائے سے اتفاق کیا۔ پھر پنڈت سردہا رام پھلوری نے ایک رسالہ بنایا ہے اس میں تو علاوہ مخلوق پرستی کے مورتی پوجا یعنی بت پرستی کا ثبوت بھی دیا ہے لیکن برہمو سماج والوں نے ان دلائل کو قبول نہیں کیا اُن کا بیان ہے کہ ویدوں میں دیوتا پرستی تو ضرور ہے اور بِلاشُبہ آگ و پانی وغیرہ چیزوں کی پرستش کے لئے اس میں صریح حکم ہے اور اُن چیزوں کی حمدو ثنا ہے لیکن مورتی پوجا کا صریح طور پر اس میں حُکم نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ بابو نوین چند رائے نے جو اَب لاہور میں موجود ہیں اور ویدوں کو سنسکرت میں پڑھا ہوا ہے اپنی کتاب اکشاستک میں اُس کو بہ تفصیل لکھا ہے اُن کی یہ اپنی عبارت ہے کہ برتمالو جن کا بدہان بیدوں میں نہیں پایا جاتا۔ مخلوق پرستی کی تعلیم بھی اور کسی جگہ نہیں۔ اس کا یہ باعث ہے کہ وید ایک شخص کی تالیف نہیں ہے۔ وید متفرق لوگوں کے خیالات ہیں۔ پس جن پر مخلوق پرستی غالب ہے اُنہوں نے اپنے کلام میں مخلوق پرستی کی تعلیم کے اور جو لوگ کچھ توحید پسند کرتے تھے اُنہوں نے توحید میں گفتگو کی لیکن جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں پروفیسر ولسن صاحب کی یہ رائے ہے کہ جہاں تک ہم نے ویدوں کو دیکھا ہے ان تمام مواضع میں مخلوق پرستی بھری ہوئی ہے اور خالق الکائنات کا نام و نشان۔ اب قصہ کوتاہ یہ کہ جن ویدوں کا یہ حال ہے کہ باتفاق تمام محققین کے مخلوق پرستی کی تعلیم کرتے ہیں۔ اُن کی تعریف کرتے وقت خدا سے ڈرنا چاہئے اور جو منشی صاحب لکھتے ہیں کہ ویدوں میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی بشارت ہے ان باتوں کو منشی صاحب پوشیدہ رکھیں تو بہتر ہے تا مخالف خواہ نخواہ ہنسی نہ کریں۔ ان دنوں میں وید کوئی ایسی چیز نہیں کہ کسی جگہ دستیاب نہ ہو۔ جا بجا کتب فروشوں کی دوکان میں پائے جاتے ہیں۔ صدہا آدمی وید خوان ہیں۔ یہاں تک کہ اس عاجز کے گاؤں کے قریب ایک دہقان چاروں وید پڑھ کر آ گیا ہے اور وید اُس کے پاس مجوود ہیں۔ کئی دفعہ اُس کا مجھ سے مباحثہ بھی ہوا ہے۔ رگوید اس عاجز کے پاس بھی موجود ہے اور پنڈت دیانند اور بعض اور پنڈتوں کے کچھ کچھ اجزا وید بھاش کے بھی موجود ہیں اور انگریزوں نے بھی بڑی محنت سے ویدوں کو ترجمہ کیا ہے۔ منشی صاحب کا خیال مجھ کو اس قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ جو ابوالفضل نے آئین اکبری میں ایک قصہ لکھا کہ
اکبر بادشاہ کے وقت دکھن کی طرف سے ایک پنڈت آیا اور اُس کا دعویٰ تھا کہ ویدوں میں کلمہ شریف لکھا ہوا ہے۔ بادشاہ نے بڑے بڑے پنڈت اکٹھے کئے، تاویلیں دیکھیں کہ اگر فی الحقیقت کلمہ طیبہ وید میں لکھا ہوا ہے تو ہندوؤں کی ہدایت کے لئے یہ بڑی حجت ہوگی۔ جب پنڈت جمع ہوئے اور اُن کو وہ متوقع دکھایا گیا تو اُس کے کچھ اور ہی معنی نکلے۔ جس کو کلمہ طیبہ سے کچھ علاقہ نہیں۔ تب بڑی ہنسی ہوئی اور وہ پنڈت جو ایسا دعویٰ کرتا تھا بڑا شرمندہ ہوا۔ آپ کی تاکید کی وجہ سے یہ لکھا گیا۔ نواب محمد علی خان صاحب کو کسی اور موقعہ پر اس عاجز کی طرف سے تعزیت کریں۔ دنیا مصیبت خانہ ہے۔ خداوند کریم اس مصیبت عظمیٰ کا اُن کو اجر بخشے اور صبر جمیل عطا فرماوے۔
(۱۱؍ جولائی ۱۸۸۳ء مطابق ۶؍ رمضان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
منشی صاحب کے خیالات اگرچہ بہت ہی حیرت انگیز ہیں پر اُس پُر فتنہ زمانہ میں جائے تعجب نہیں۔ خداوندکریم رحم کرے۔ منشی صاحب جو ہندؤوں کی کئی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ اُن کو یہ بھی خبر نہیں کہ اکثر ان کتابوں میں سے اُردو میں بھی ترجمہ ہوچکی ہیں اور منوکادہرم شاستر تو سرکاری طور پر ترجمہ ہو کر وکلا کی امتحانی کتابوں میں داخل ہے اور گیتا اُردو میں ترجمہ کی ہوئی جا بجا موجود ہے اور ایک ہندو نے اُس کو نظم میں بھی کر دیا ہے اور شام وید اور تھرین وید بھی کچھ پوشیدہ کتابیں نہیں ہیں۔ آج کل آریہ سماج والوں کی ستاویز بھی یہی کتابیںہیں اور یہ شام اور اتھرین اور رگ اور یجر دیانند کے پاس موجود ہیں اور اس کے وید بھاش ماہ بماہ چھپتے ہیں۔ ایک طرف انگریزوں نے بھی ویدوں کو انگریزی میں ترجمہ کر دیا ہے برہمو سماج والے بھی ویدوں کی حقیقت پر بکلی ماہر ہیں۔ کچھ حصہ وید کا اُردو میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے اب کیا یہ ممکن ہے کہ یہ تمام لوگ اتفاق کر کے ایک پیشگوئی جو وید میں صریح وارد ہوچکی تھی چھپاتے۔ ہرگز ممکن نہیں۔ وید کے محققوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وید میں کسی قسم کی پیشگوئی نہیں یہاں تک کہ پنڈت دیانند کا مقولہ ہے کہ وید میں رام چندر و کرشن وغیرہ کے پیدا ہونے کی بابت بھی کوئی تذکر نہیں اور یہ بات اور بھی عجیب ہے کہ پہلے منشی صاحب نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور و بعثت کی خبر ویدوں میں لکھی ہے۔ پھر اب یہ دعویٰ ہے کہ وہ خبر پورانوں اور پوتھیوں میں بھی لکھی ہے یہ اچھا ہوا کہ منشی صاحب کو بحث مباحثہ کا شوق نہیں ورنہ پنڈتوں اور انگریزوں اور برہمو سماج والوں کے روبرو بڑی ندامتیں اُٹھاتے۔ اب آپ اس تذکرہ کو طول نہ دیں اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں اور جو کچھ منشی صاحب نے کلمات الحاد آمیر لکھے ہیں اور اُن کی تائید میں شعروں کا حوالہ دیا ہے۔ اُن کے جواب میں بجز اس کے کیا لکھا جائے کہ اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اُمَّتِ مَحَمَدَّ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ان الذین عند اللّٰہ الاسلام ومن یتبغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھوفی الاخرۃ من الخسرین
سچا رہنما قرآن شریف ہے اور اُس کی پیروی اسی جہان میں نجات کے انوار دکھلاتی ہے اور سعادت عظمی تک پہنچاتی ہے مَن کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی واضل سبیلا۔ جومعارف حصہ کے حصول کے لئے پوری پوری کوشش کرے اور صرف قیل و قال میں بہت پھنسا نہ رہے۔ اُس پر بخوبی واضح ہو جائے گا کہ باطنی نعمتوں کے حاصل کرنے کیلئے ایک ہی راہ ہے۔ یعنی یہ کہ متابعت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اختیار کی جائے اور تعلیم قرآنی کو اپنا مُرشد اور رہبر بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ہندؤوں اور عیسائیوں میں کئی لوگ ریاضت اور جوگ میں محنت کرتے ہیںکہ جس سے اُن کا جسم خشک ہو جاتا ہے اور برسوں جنگلوں میںکاٹتے ہیںاور ریاضاتِ شدیدہ بجا لاتے ہیں۔ لذات سے بکلّی کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ انوارِ خاصہ اُن نصیب نہیں ہوتے کہجو مسلمانوں کو باوجود قلت ریاضت اور ترک رہبانیت کے نصیب ہوتے ہیں۔
پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ صراطِ مستقیم وہی ہے جس کی تعلیم قرآن شریف کرتا ہے۔ بلاشُبہ یہ سچ بات ہے کہ اگر کوئی توبہ نصوح اختیار کر کے دس روز بھی قرآنی منشاء کے بموجب مشغولی اختیار کرے تو اپنے قلب پر نور نازل ہوتا دیکھے گا یہ خصوصیت دین اسلام کی بلا استعمال نہیں۔ صدہا پاک باطنوں نے اسی راہ سے فیض پایا ہے۔ جو لوگ سچے دل سے یہ راہ اختیار کرتے ہیں خدا اُن کو ہرگز ضائع نہیںکرتا اور اُن میں وہ انوار پیدا کر دیتا ہے جس سے ایک عالم حیران رہ جاتا ہے۔ بجز اس کے سب حجاب ہیں جو اُن لوگوں کو پیش آئے جن کا سلوک کمال تک نہیں پہنچا تھا۔ کاش! اگر وہ زندہ ہوتے تو انکی حقیقت ان کے تابعین پر کھل جاتی۔ کئی ایسے مُردے ہیں جن کی بیہودہ تعریفیں کی گئی ہیں لیکن کاملوں کا نشان یہی ہے کہ وہ اپنے نبی معصوم کی پوری پوری متابعت اختیار کرتے ہیں اور اُس کی محبت میں محو ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم میں صریح فرق ہے اور کوئی ایسا طالب نہیں جس پر یہ فرق ظاہر نہ ہو سکے۔ پھر مشکل تو یہ ہے کہ بعض لوگ طالب ہی نہیں ہیں۔ دُنیا کے لئے کچھ محنت نہیںکرتے۔ ایک پیسہ کا برتن بھی دیکھ بھال اور ٹھوک بجا کر لیتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی ٹوٹا ہوا نکلے لیکن دین کا کام صرف زبان کے حوالہ کر رکھا ہے اور فعل کے سچے امتحان سے اس کو نہیں آزماتے اور آنکھ کھول کر نہیں دیکھتے اور دلی اخلاص سے طالب بن کر جستجو نہیں کرتے۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔ وسلام علیکم وعلی کل من اتبع الھدی۔
(یکم اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۲۷؍ رمضان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا عنایت نامہ عین انتظاری کی حالت میں پہنچا۔ خداوند کریم کے تفضلات اور احسانات کا کہاں تک شکر کروں اور کیونکر اُس کی نعمتوں کا حق بجا لاؤں کہ اس پر ظلمتِ زمانہ میں مجھ جیسے غریب، تنہا، نالائق، بے ہُنر کے لئے آپ جیسے مخلص دوست اُس نے میسر کئے۔ سو اُسی سے میں یہ بھی دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو اپنے الطاف جلیہ اور خفیہ سے متمتع کرے اور اپنے توجہات خاصہ سے دستگیری فرماوے اور اپنی طرف انقطاع کامل اور تبتل تام بخشے۔ آمین ثم آمین۔ اور یہ تبتل تام جس کی آپ تشریح دریافت بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا مقام اعلیٰ ہے جو بغیر فنائے اَتم کے کامل طور پر حاصل نہیںہوتا بلکہ فی الحقیقت اسی کا نام فنائے اَتم ہے جو تبتل تام حاصل ہو جائے اور تبتل تام تب حاصل ہوتا ہے کہ جب ہر یک حجاب کا خرق ہو کر رابطہ انسان کا محبت ذاتی تک پہنچ جائے۔ حجاب دو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو بدیہی طور پر معلوم ہوتے ہیں اور کچھ نظر اور فکر کی حاجت نہیں۔ جیسے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی طرف توجہ کرنا۔ مخلوق سے مرادیں اور حاجات مانگنا اور مخلوق کا اپنا تکیہ گاہ اور پناہ سمجھنا۔ اپنے ننگ اور ناموس اور عزت اور نام کی حفاظت میں مبتلا رہنا اور بجز ایک متصرف حقیقی کے کسی سے خوف یا کسی پر کچھ امید رکھنا اور زید عمرو کے وجود کو وجود سمجھنا کسی کو کارخانہ الوہیت کا شریک سمجھ کر حق الوہیت میں شریک ٹھہرا دینا۔ عبادات یا اعتقادات میں کسی کو خدا تعالیٰ کی طرح خیال کرنا۔ حضرت باری کے امر اور نہی کو توڑ کر اپنے نفس کی خواہشوں کا تابع ہونا اور نفس امّارہ کی پیروی کرنا اور بندی اور فرمانبرداری کی حد پر نہ ٹھہرنا۔ یہ تو وہ سب حجب ہیں جو بدیہی ہیں جو عام طور پر ہر یک کو سمجھ آ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ فطرت صحیحہ میں کچھ خلل نہ ہو۔ دوسری قسم کے حجاب وہ ہیں جو نظری ہیں۔ جن کے سمجھنے کے لئے کامل درجہ پر عقل سلیم اور فہم مستقیم چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اسماء اور صفات الٰہیہ تک رابطہ محدود رہے اور ذات بحت سے حقیقی طور پر تعلق حاصل نہ ہو۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی عبادت بغرض حصول اُس کے انعام و اکرام کے کرتا رہے وہ ہنوز اسماء و صفات الٰہیہ پر نظر رکھتا ہے اور محبت ذاتی کے شربت عذب سے ابھی کچھ اُسے نصیب نہیں اور اس کا رابطہ معرض خطر میں ہے کیونکہ اسماء و صفات الٰہیہ ہمیشہ ایک ہی رنگ میں تجلی نہیں فرماتیں اور کبھی جلال کبھی جمال اور کبھی قد اور کبھی لطف ہوتا ہے۔ غرض ان دونوں قسموں کے حجابوں سے جو شخص باہر آ جائے اور اپنے مولیٰ حقیقی سے ذاتی طور پر محبت پیدا ہو جس کو کوئی چیز روک نہ سکے اور منجملہ ظاہری اور باطنی اور افاقی اور انفسی حجابوں کے کوئی حجاب باقی نہ رہے تو یہ وہ مرتبہ ہے جس کو تبتل تام کہناچاہئے۔ اس مرتبہ کا خاصہ ہے کہ انعام اور ایلام محبوب کا ایک ہی رنگ میں دکھائے دیتا ہے بلکہ بسا اوقات ایلام سے اور بھی زیادہ محبت بڑھتی ہے اور پہلی حالت سے آگے قدم بڑھتا ہے۔ بات یہ ہے کہ جب محبت ذاتی کی موجیں جوش میںآتی ہیںتو اسماء اور صفات پر نظر نہیں رہتی اور انسان کا سارا آرام محبوب حقیقی کی یاد میں ہو جاتا ہے اور وجہ اللہ کا تعلق ذات باری کی بیچون اور بیچگون ہوتا ہے اور محب صادق کسی کو اس بات کی وجہ نہیں بتلا سکتا کہ کیوں وہ اس محبوب سے محبت رکھتا ہے اور کیوں اس کے لئے بدل و جان فدا ہو رہا ہے اور اس محبت اور اطاعت اور جاں فشانی سے اُس کے غرض کیا ہے کیونکہ وہ ایک جذبہ الٰہی ہے جو بطور موہیت خاصہ محب صادق پر پڑتا ہے ۔ کوئی مصنوعی بات نہیں جس کی وجہ بیان ہو سکے۔ یہی انقطاع حقیقی اور تبتل تام کی حالت ہے اور یہی وہ موت روحانی ہے جس کی اہل اللہ کے نزدیک فناء سے تعبیر کی جاتی ہے کیونکہ اس مرتبہ پر نفس امّارہ کا بکلّی تزکیہ ہو جاتا ہے اور بباعث محبت ذاتی کے اپنے مولیٰ کریم کی ہر یک تقدیر سے موافقت تامہ پیدا ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس دوست کے ہاتھ سے پہنچتا ہے پیار ا معلومہوتا ہے اور اس کا قہر اور لطف سب لطف ہی دکھائی دیتا ہے اور حقیقت میں وہ سب لطف ہی ہوتا ہے۔ ہر محب صادق نہ قہر سے غرض رکھتا ہے نہ لطف سے۔
غریق ورطۂ بحر محبت
نہ بر مہرش نظر باشد نہ برکیں
چناں رویش خوش افتد ارسر عشق
کہ قرباں میکند بردے دل و دین
شب و روزش بدیں سرکار باشد
دل و جانش شودآں یار شیریں
بسوز دہر چہ غیر یار باشد
ہمیں ایں عشق را رسم است و آئین
اور اس عاجز کا یہ مصرع کہ
قربان میکند بروے دل و دین
یہ معنی رکھتا ہے کہ قبل از جذبہ عشق جو کچھ انسان کے دل میں رسوم اور عادات بھری ہوئی ہوتی ہیں اور کچھ جو جہل مرکب کی باتیں اوپر تعصب خیالات اس کے سینہ میں جمع ہوئے ہیں۔ اصل میں وہی اس کا دین ہوتا ہے جس کو کسی حالت میں چھوڑنا نہیں چاہتا اور جب جذبۂ عشق اس پر غالب آتا ہے تو وہ خیالات کو جو تپ دِق کی طرح رگ و ریشہ سے ملے ہوئے ہوتے ہیں بآسانی چھوٹ جاتے ہیں اور بعد اس کے عشق الٰہی ایک پاک دین تعلیم کرتا ہے کہ جو عادت اور رسم کی آلودگی سے منزہ ہے اور تعصبات کے لوث سے پاک ہے۔ بس نافع اور مبارک دین یہی ہوتا ہے جو عشق کے بعد آتا ہے اور جو عشق کے اوّل خیالات ہیں۔ وہ بہت ہی زہروں سے بھری ہوئے ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ اسی لائق ہیں کہ عشق پر فدا کئے جائیں اور اُن کے عوض میں وہ پاک خیال کہ جو عشق کے صافی چشمہ سے نکلے ہیں اور جو ہر یک تعصب اور رسم اور عادت سے منزہ ہیں حاصل کئے جائیں اور خیالات ایسی سختی سے نفس پر قابض ہوتے ہیں کہ بغیر جذبۂ عشق کے ہرگز ممکن ہی نہیں کہ اُٹھ سکیں۔ مدار کار جذبہ عشق پر ہے جو قلب پر مستولی ہوتا ہے اور جب وہ مستولی ہوتا ہے تو نفس اپنی اندرونی آلائش سے پاک ہو جاتا ہے اور نفس کے چھپے ہوئے جو عیب تھے اُس سے دور ہوتے ہیں کہ جب عشق الٰہی کے بھڑکتے ہوئے آگ دل پر وارد ہوتی ہے۔ نقد اعمال صالحہ جن پر کشود کار موقوف ہے تب ہی صادر ہوتے ہیں کہ جب اُن کو حرکت دینے والا عشق ہوتا ہے کوئی اور غرض فاسد نہیں ہوتی اور مجرد اعمال صوری اور عبادات رسمی سے کوئی عقدہ نہیں کھلتا بلکہ جب تک سالک رسم اور عادت کی بدبودار مزبلہ سے باہر نہیں آتا مورد غضب الٰہی رہتا ہے کیونکہ وہ خدا کی طرف سے منہ پھیر رہا ہے اور اُس کے غیر کی طرف متوجہ ہے۔ وجہ یہ کہ رسم اور عادت بھی ماسوا اللہ ہے اور ہر یک ماسوا اللہ خدا سے دور ڈالتا ہے اور سلامتی قلب میں خلل انداز ہے۔ سو سالک کے لئے جو بات سب سے پہلے لازم ہے وہ یہی ہے کہ رسم اور عادت سے باہر ہو اور پھر خلوص نیت سے مااتاکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھو پر عمل کرے تا شفا پاوے اور ایمان حقیقی سے حصہ حاصل کرے مگر افسوس کہ بہت سے علماء ظاہری اسی سے تباہ ہو رہے ہیں کہ رسوم اور عادات کے رنگ میں ایک دوسرے سے لڑتے مرتے ہیں اور اس حقیقت اور حق بینی سے انسان کا دل منور ہوتا ہے اور جس دولت اور سعادت سے باطنی افلاس دور ہوتا ہے اس کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے کیا بدقسمتی ہے۔ ہائے! ہائے!
خلق و عالم جملہ در شور و شراند
عشق بازاں در مقام دیگر اند
گرد لازیں کوچہ بیرون نگذریم
ہم سگان کوچہ از ما بہتراند
خداایسا نہیں کہ دھوکا کھا سکے۔ اس کی دلوں پر نظر ہے اور حقیقتوں پر نگاہ ہے۔ وہ رسموں اور عادتوں سے ہرگز خوش نہیں ہوتا اور جب تک بندہ مقام اخلاص کا حاصل نہ کرے۔ یعنی مرنے سے پہلے ہی نہ مرے اور افاقی اور انفسی شرکوں سے بکلّی باہر نہ آوے تب تک الطاف اللہ اس کی طرف ہرگز متوجہ نہیں ہوتیں۔ تب ہی کمال ایمان میسر آتا ہے کہ جب وہ موت کو جس کو ابھی میں نے اخلاق سے تعبیر کیا ہے اور حقیقت اسلام بھی تبھی اپنا چہرہ مصفا دکھاتی ہے کہ جب یہ موت حاصل ہو جائے۔ حق تعالیٰ ہم کو اور آپ کو اور ہر یک کو جو طالب ہے اس اخلاص سے بہرہ مند کرے۔ زمانہ سخت زہرناک ہوائیں چلا رہا ہے جس سے تمام کاروبار منقلب ہوا جاتا ہے۔ ہر یک بات مالک حقیقی کے اختیار میں ہے۔ ہم عاجز بندوں کا کام عبودیت ہے۔ فتح اور شکست سے مطلب نہیں۔ عبدویت سے مطلب ہے۔ اس راہ میں جنہوں نے بہت سی خدمتیں کیں پھر بھی وہ سیر نہ ہوئے پھر ہمیں کیونکر آرام ہو جنہوں نے اب تک کچھ بھی نہیں کیا۔ سو ہمارا سب غم اور حزن خدا کے سامنے ہے۔ ابھی وہ حال ہے کہ جو صرف بیرونی حملوں پر کفایت نہیں بلکہ بعض ناشناس بھائی اندرونی حملے بھی کر رہے ہیں لیکن ہم عاجز بندوں کی کیا حقیقت اور بضاعت ہے۔ وہی ایک ہے جس نے اپنے عاجز اور ناتوان بندہ کو ایک خدمت کے لئے مامور کیا ہے۔ اب دیکھئے کہ کب تک اس ربّ العرش تک اس عاجز کی آہیں پہنچتی ہیں۔ آپ نے لکھا تھا کہ بعض احباب علماء کی طرف سے یہ فتویٰ لائے ہیں کہ اتباع قال اللہ وقال الرسول اور ترجیح اُس کی دوسرے لوگوں پر کفر ہے مگر یہ بندہ عاجز کہتا ہے کہ زہے سعادت کہ کسی کو یہ کفر حاصل ہو۔
گر ایں کفرم بدست آید برو قربان کنم صد دین
خداوندا بمیرانم بریں کفرو بریں آئین
حضرت افضل الرسل خیر الرسل فخر الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اور اس کے پاک اور کامل حدیث اور خدا کا سچا نور اور بلاریب کلام ترک کر کے پھر اور کونسی پناہ ہے جس کی طرف رُخ کریں اور اُس سے زیادہ کون سا چہرہ پیارا ہے جو ہماری دلبری کرے۔
گر مہر خویش برکنم از روئے دلبرم
آن مہر برکہ افگنم آن دل کُجا برم
من آں نیم کہ چشم بہ بندم زردے دوست
دربینم ایں کہ تیر بیاید برابرم
آپ کسی کی بات کی طرف متوجہ نہ ہوں اور عاشق صادق کی طرح قول اور فعل سے، مدح سے، ثنا سے، متابعت سے فنا فی الرسول ہو جائیں کہ سب برکات اس میں ہیں۔ اکثر لوگوں پر عادت اور رسم غالب ہو رہی ہے اور بڑی بڑی زنجریں پانوں میں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی اس طرح آ نہیں سکتا۔ مگر جس کو خدا کھینچ کر لاوے۔ سو صبر سے استقامت سے اُن کے جوروجفا کا تحمل کرنا چاہئے دنیا اُنہیں سے دوستی رکھتی ہے جو دنیا سے مشابہ ہوتے ہیں مگر جو خدا کے بندہ ہیں گو وہ کیسے ہی تنہا اور غریب ہوں تب بھی خدا اُن کے ساتھ ہے اِنَّ اللّٰہَ لَاْیَھْدِیْ مِنْ ھُوْ مُسْرِفُ کَذَّابُ۔ آپ کے سب دوستوں کو سلام مسنون پہنچے۔
(۱۹؍ اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۱۹؍ شوال ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز دعا سے غافل نہیں مگر ہر ایک امر وقت پر موقوف ہے اور آپ میں آثار سعادت اور رُشد کے ظاہر ہیں کہ آپ کی حقیقت بینی پر نظر ہے اور صدق اور وفا اور حسن ظن کا خلق موجود ہے۔ پس یہ وہ چیزیں ہیں جس کو مولیٰ کریم کی طرف سے عطا کی جاتی ہیں۔ اس کے لئے استقامت کا عطا ہونا ساتھ ہی مقدر ہوتا ہے۔ خداوند تعالیٰ بغایت درجہ کریم و رحیم ہے۔ وہ جس دل میں ایک ذرّہ بھی اخلاص اور صدق پاتا ہے اُس کو ضائع نہیں کرتا۔ آپ بعض اپنے دوستوں کے تغیر حالت سے دل شکستہ نہ ہوں۔ مولوی صاحب کی وہ حالت ہے کہ نہ اُنہوں نے ارادت کے وقت اس عاجز کو شناخت کیا اور نہ فتح ارادت کے وقت پہچانا۔ سو اُن کی نہ ارادت قابل اعتبار تھی نہ اب فتح ارادت معتبر ہے۔ ارادت اور فتح ارادت وہی معتبر ہے جو علیٰ وجہ البصیرت ہو اور اگر علی وجہ البصیرت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ مسجد کا زینہ تیار ہو گیا ہے۔ عجب فضل الٰہی ہے کہ شاید پرسوں کے دن یعنی بروز شنبہ مسجد کی طرف نظر کی گئی ہے تو اُسی وقت خداوند کریم کی طرف سے ایک اور فقرہ الہام ہوا اور وہ یہ ہے فِیْہِ بَرَکات للناس۔ یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذالِکَ ہرسہ حصہ کی کتابیں اگرچہ اس وقت زبانی یاد نہیں مگر شاید قریب دو سَو کے کتاب باقی ہوگی۔ وَاللّٰہ اَعْلَمُ صفحہ۳۱ فتوح الغیب کی شرح یہ ہے کہ سالک کا چار حالتوں پر گذر ہوتا ہے اور حالت چہارم سب سے اعلیٰ ہے اور وہی ترقیات قُرب کا انتہائی درجہ ہے جس پر سلسلہ کمالات ولایت کا ختم ہو جاتا ہے۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ پہلی حالت وہ حالت ہے کہ جب انسان ناسوتی آلائشوں میں مبتلا ہوتا ہے اور شتر بے مہار کی طرح جو چاہتا ہے کھاتا ہے اور جو چاہتا ہے پیتا ہے اور جس طرف چاہتا ہے چلتا ہے۔ سو وہ اسی حالت میں ہوتا ہے کہ ناگاہ حضرت خداوندکریم اُس پر نظر کرتا ہے اور باطنی اور ظاہری طور پر توبہ کا سامان اس کے لئے میسر کر دیتا ہے۔ باطنی طور پر یہ کہ ایک جذبہ قویہ خداوندکریم کی طرف سے اس کے شامل حال ہو جاتا ہے اور وہی جذبہ درحقیقت واعظ باطنی ہے اور اُسی سے فسق و فجور کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں اور انسان اپنے نفس میں قوت پاتا ہے کہ تا نفس امّارہ کی پیروی سے دستکش ہو جائے اور اگرچہ پہلے اس سے ایک اور کمزور جیسا واعظ بھی انسان کے نفس میں موجود ہے جو کو لمۃ الملک سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ بھی نیکی کیلئے سمجھاتا رہتا ہے اور نیک کام کرنے پر فی الفور گواہی دیتا ہے کہ تو نے یہ اچھا کام کیا ہے اور بَد کام کرنے پر فی الفور گواہی دیتا ہے کہ تو نے یہ بَد کام کیا ہے۔ یہاں تک کہ چور چوری کرنے کے بعد اور زانی زنا کرنے کے بعد اور خونی خون کرنے کے بعد کبھی کبھی باوجود اُن سخت پردوں کے اُس لمۃ الملک کی آواز سن لیتا ہے۔ یعنی اُس کا دل فی الفور اُسے کہتا ہے کہ یہ تو نے اچھا کام نہیں کیا۔ بُرا کیا ہے لیکن چونکہ یہ ضعیف واعظ ہے اس لئے اُس کا وعظ اکثر بے فائدہ جاتا ہے اور اگرچہ اس کے ساتھ کوئی واعظ ظاہری بھی مل جائے یعنی کوئی صالح انسان نصیحت بھی کرے تب بھی کچھ کار براری کی امید نہیں کیونکہ نفس سخت اژدھا ہے کمزوروں سے وہ قابو میں نہیں آتا اور اگر کچھ مغلوب بھی ہو جاتا ہے تو صرف اس قدر کہ عارضی اور بے بنیاد توبہ توبہ کرتا ہے اور حقیقی سعادت کی تبھی نسیم چلتی ہے کہ جب جذبہ الٰہی شامل حال ہو۔ سو کامل واعظ جو باطنی طور پر بھیجا جاتا ہے جذبہ ہے اور ظاہری طور پر توبہ کا یہ سامان میسر ہو جاتا ہے کہ کسی صالح کی صحبت میسر آ جاتی ہے اور فسق و فجور کی مہلک زہر سے اطلاع ہو جاتی ہے۔ سو یہ دونوں مل کر چکی کے دو پاٹ کی طرح نفس امّارہ کو پیس ڈالتے ہیں اور باجبرواکراہ معاصی اور فسق فجور سے جدا کرتے ہیں۔ سو یہ دوسری حالت ہے کہ جو ترقیات قرب کے راہ میں سالک کو پیش آتی ہیں اور دوسرے لفظوں میں اس حالت کا نام جبروتی حالت ہے کیونکہ وہ جبر اور اِکراہ کے ساتھ نفسانی خواہشوں سے باہر آتا ہے اور جذبہ باطنی اپنے طور پر اور واعظ ظاہری اپنے طور پر اُس پر جبر کرتا ہے اور مالوفات نفسانیہ سے سختی اور درشتی کے طور پر الگ کر دیتے ہیں۔ پھر جب اُس پر صفایت الٰہیاس کو قائم کر دیتی ہے تو اس کے لئے خدا کے حکموں پر چلنا اور اس کی نہی سے پرہیز کرنا آسان کیا جاتا ہے اور شوق اور ذوق اور اُنس سے اُس کو حصہ دیا جاتا ہے۔ پس وہ اس جنت سے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری بلاتکلف اس سے صادر ہوتی ہے اور جو حالتِ دوم میں بوجھ اور ثقل تھا وہ دور ہو جاتا ہے اس لئے وہ ملائک سے تشبہ پیدا کر لیتا ہے اور یہ حالت ملکوتی حالت ہے اور اس حالت میں سامل کا اکل و شرب اور ہر یک مابہ مابہ الاحتظاظ امر سے وابستہ ہوتا ہے۔ یعنی ہوا و ہوس کے اتباع سے بکلّی رستگار ہو جاتا ہے اور وہی بجا لاتا ہے جس کے بجا لانے کے لئے شرعا یا الہاماً مامور ہو اور پھر بعد اس کے حالت چہارم ہے جس کو لاہوتی حالت سے تعبیر کرنا چاہئے اور جب سالک اس حالت تک پہنچ جاتا ہے تو صرف یہی بات نہیں کہ اپنے ہوا ہوس سے خلاصی پاتا ہے بلکہ بکلّی اپنے ہوا و ہوس سے اور نیز اپنے ارادہ سے محو ہو جاتا ہے۔ تب انسان خدا کے ہاتھ میں ایساہوتا ہے جیسا مردہ بدست زندہ ہوتا ہے اور الوہیت اس فانی پر اپنے تجلیات تامہ ڈالتی ہے اور ارادت ربّانی علی وجہ البصیرت اس پر ظاہر کئے جاتے ہیں اور وہ خدا کی طرف سے صاحب علم صحیح ہوتا ہے اور ہر یک ابتلا اور آزمائش سے باہر آ جاتا ہے اور یہ مرتبہ ملائک سے برتر ہے۔ ملائک کو یہ حالت چہارم جو غلبہ مشق سے پیداہوتی ہے عطا نہیں ہوتی یہ خاص انسان کے حصہ میں آئی ہے۔ وَذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ اور جیسی بصیرت کاملہ ایسی حالت سے مخصوص ہے۔ ایساہی صلاحیت کاملہ بھی اسی حالت سے وابستہ ہے کیونکہ پہلی حالت میں نقصان علمی و عملی سے خالی نہیں ہیں بلکہ نقصان علمی و عملی ان کے لازم حال پڑا ہوا ہے کیونکہ خدا میں اور اُن میں اپنا وجود حائل ہے۔ بس وہی وجود ایک حجاب بن کر علم اور اخلاص کے ناقص رہنے کاموجب ہے لیکن حالت چہارم میں وجود بشری بکلّی اُٹھ جاتا ہے اور کوئی حجاب درمیان میں نہیں رہتا اور اس حالت میں عارف کااَکل و شرب اور ہر یک مابہ الاحتطاظ اور اُس کے شعور اور ارادہ سے نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک پودے کی طرح بے حس و حرکت ہے اور مالک جب مناسب مناسب دیکھتا ہے تو اُس کی آبپاشی کرتا ہے۔ اُس کو اس طرف خیال بھی نہیں آتا کہ کیا کاؤں گا اور کیا پیوں گا اور جیسے ایک بے ہوش کو خواہ کوئی لات مار جائے۔ خواہ پیار دے جائے۔ یکساں ہوتا ہے ایسا ہی جامِ عشق سے مست وہ ہوش ہے اور اپنے نفس کے انتظاموں سے فارغ ہے۔ سو جیسے مادر مہربان اپنے نادان بچے کو وقت پر آپ دودھ پلاتی ہے اور اس کی بالشت نابالشت کی آپ خبر رکھتی ہے ایسا ہی خداوندکریم اس ضعیف اور عاجز بشر کا کہ جو اس کی محبت کے سخت جذبہ سے یکبارگی اپنے وجود سے اور اُس کے نفع و نقصان کے فکر سے کھویا گیا ہے آپ متولی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے دوستوں کا آپ دوست اور اُس کے دشمنوں کا آپ دشمن بن جاتا ہے اور جو کچھ اُس کو اپنے دوستوں اور دشمنوں سے معاملہ کرنا چاہئے تھا وہ اُس کی جگہ آپ کرتا ہے۔ غرض اُس کے سب کاموں کو آپ سنبھالتا ہے اور اُس کی سب شکست ریخت کی آپ مرمت کرتا ہے اور وہ درمیان نہیں ہوتا اور نہ کسی بات کا خواستگار ہوتا ہے اور یہ جو صفحہ۲۳۰ کے سر پر عبارت ہے۔ فیسا کل بالامر یعنی تیسری حالت کا سالک امر حق کے ساتھ کھاتا ہے اور پھر صفحہ۲۳۱ میں حالت چہارم کے مقرب کی نسبت بھی لکھا ہے۔ فیقال لہ تلبس بانعم والفضل یعنی اس کو بھی کھانے پینے کے لئے امر ہوتا ہے تو ان دونوں امروں میں فرق یہ ہے کہ حالت سیوم میں تو سالک کے نفس میں ارادہ مخفی ہوتا ہے اور اس کا یہ مشرب ہوتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ فلاں حظ کے اُٹھانے کے لئے مجھ کو اجازت فرما دے تو میں اس کو اُٹھاؤں گا اور گو وہ اتباع نفس سے پاک کیا جاتا ہے لیکن متابعت امر کے پیرایہ میں وہ حظ حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ بقایا نفس کے ابھی موجود ہوتے ہیں۔ مگر حالت چہارم میں مقرب کامل کی طرف سے بالکل ارادہ نہیں ہوتا۔ خود خدا تعالیٰ بطور تلطف و احسان کے کسی مابہ الاحتظاظ کو اُس کے لئے میسر کر یتا ہے اور جیسے مادر مہربان اپنے بچے کو جگا کر دودھ پینے کیلئے ہدایت کرتی ہے ویسا ہی وہ اس کوجگا کر کسی حظ کے اُٹھانے کے لئے تحریک کرتا ہے۔ سو وہ تحریک سراسر اُسی کی شفقت سے اور فضل اور عنایت سے ہوتی ہے۔
(۳۰؍ اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۲۶؍ شوال ۱۳۲۶ھ)
مکتوب نمبر۲۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذامحبت نامہ آنمخدوم پہنچا۔ موجب شکر و سپاس ہوا۔ خداوند کریم مقدرات مکروہہ سے آپ کو امن میں رکھے اور آپ کی سعیوں اور کوششوں میں کہ جو آپ خالصاً للہ کر رہے ہیں بہت سی برکتیں بخشے اور بہت سے اجر اُس پر مترتب کرے۔ آمین۔ صفحہ۲۴ فتوح الغیب کی نسبت جو آنمخدوم نے دریافت فرمایا ہے یہ مقام بَین المعنی ہے۔ کوئی عمیق حقیقت نہیں جو کچھ شارح نے لکھا ہے وہ صحیح اور درست ہے۔ حضرت مخدومنا شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ اس مقام میں یہ تعلیم فرماتے ہیں کہ سالک میں حقیقت فنا کی تب محقق ہوتی ہے اور تب ہی وہ اس لائق ہوتا ہے کہ مورد معارف الٰہیہ ہو۔ جب تین طور کا انقطاع حاصل ہو جائے۔
اوّل انقطاع خلق اللہ ہے اور وہ اس طرح پر حاصل ہوتا ہے کہ حکم الٰہی کو جو قضا و قدر ہے۔ تمام مخلوقات پر نافذ سمجھے اور ہر یک بندہ کو پنجہ تقدیر کے نیچے مقہور اور مغلوب یقین کرے لیکن اس جگہ یہ عاجز صرف اس قدر کہنا چاہتا ہے کہ ایسا یقین کہ فی الحقیقت تمام مخلوقات کو کالعدم خیال کرے اور ہر یک حکم خدا کے ہاتھ میں دیکھے اور ہر یک نفع اور ضرر اُسی کی طرف سے سمجھے صرف اپنی ہی تکلیف اور نفع سے حاصل نہیں ہوسکتا اور اگر تکلیف سے اس قدر خیال قائم بھی ہو تو وہ بے بقا ہے اور ادنیٰ ابتلا سے لغزش پیش آ جاتی ہے بلکہ یہ مقام عالی شان اس بصیرت کاملہ سے حاصل ہوتا ہے کہ جو خاص خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ جب عنایات الٰہیہ کسی کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس کے لمبے قضیہ کو آپ ہی کوتاہ کر دیتے ہیں اور وہ بوجھ جو اس سے اُٹھائے نہیں جاتے دست غیبی ان کو آپ اُٹھا لیتا ہے۔
پس اسی طرح سے جب بذریعہ علوم لدنیہ و کشوف صادق و الہامات صحیحہ و تائیدات صریحہ انسان پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ تمام نفع و ضرر خدا کے اختیار میں ہے اور مخلوق کچھ چیز ہی نہیں تو ایک نہایت کامل یقین سے وہ سمجھ جاتا ہے کہ جو کچھ نفع یا نقصان اور عزت یا ذلت ہے سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور مخلوق کو مردہ کی طرح دیکھتا ہے لیکن اس جگہ اعتراض یہ ہے کہ حضرت مخدومنا شیخ عبدالقادر قدس سرہ نے علوم و معارف الٰہیہ کے حاصل ہونے کا ذریعہ فنا عن الخق وغیرہ اقسام فنا کو ٹھہرایا ہے۔ پس جب کہ فنا کا حاصل ہونا ان علوم کے حاصل ہونے پر موقوف ہے تو اس سے دور لازم آتا ہے۔ سو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ علوم لدنیہ و کشوف صادقہ و تائیدات خاصہ الٰہیہ وتوجہات جلیلہ صمدیہ غیر فانی کو ذاتی طور پر حاصل نہیں ہو سکتے ہیں۔ لیکن بتوسط صحبت شیخ فانی بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ یعنی اگرچہ براہ راست نہیں لیکن سالک اپنے شیخ کامل میں ان تمام تائیدات سماوہ کو معائنہ و مشاہدہ کرتا ہے۔ پس یہی مشاہدہ اس کے یقین کی کمالیت کا موجب ہو جاتا ہے۔ اگر جلدی نہیں تو ایک زمانۂ دراز کی صحبت سے ضرور شکوک و شبہات کے تاریکی دل پر سے اُٹھ جاتی ہے۔ اسی جہت سے فانیوں کی معیت کے لئے قرآن شریف میں سخت تاکید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ اے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقُوْنَ ھُمْ اَلْفَانُوْنَ لَاْغَیْرِھِمْ اور جو شخص نہ فانی ہے اور نہ فانیوں سے اُس کا کچھ تعلق اور محبت ہے۔ وہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کے سوء خاتمہ کا سخت اندیشہ ہے اور اس کے ایمان کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ الا ان یتدارکہ اللّٰہ برحمۃ۔ دوسری شرط مورد معارف الٰہیہ ہونے کیلئے یہ ہے کہ ہوائے نفس سے انقطاع ہو جائے۔ یعنی سالک پر لازم ہے کہ اپنے تمام حرکت و سکون و قول و فعل میں اوامر اور نواہی میں اللہ کی متابعت اختیار کرے اور کسی حالت میں قَالَ اللّٰہُ وَقَالَ الرَّسُوْلَسے باہر نہ جائے اور کچھ دوسرے لوگ اپنے نفس کی متابعت سے کرتے ہیں۔ وہ اپنے رسول کی متابع سے بجالاوے اور اپنے اعمال اور اقوال میں کوئی ایسی جگہ خالی نہ چھوڑے جس میں نفس کو کچھ دخل دینے کی گنجائش ہو۔ پس جب کہ کامل طور پر اتباع سنت میسر آ جائے گا اور ایک ذرّہ ہوائے نفس کی پیروی نہیں رہے گی بلکہ ظاہر و باطن متابعت رسول کریم سے منور ہو جائے گا تو یہ وہ حالت ہے جس کا نام فنا بامر اللہ ہے۔ مگر ہائے افسوس کہ اس پر ظلمت زمانہ میں بجائے اس کے کبریت احمر کا قدر کریں۔ اکثروں کو اس طریق سے بغض ہے اور اتباع سنت سے ایک چِڑ ہے۔ حالانکہ دوسری قسم فنا کی بجز اس کے ہرز میسر نہیں ہو سکتی۔ اللھم اصلح امۃ محمد اللھم ارحم امۃ محمد اللھم انزل علینابرکات محمد و صل علی محمد و بارک وسلم۔
تیسری شرط مورد معارفِ الٰہیہ ہونے کے لئے یہ ہے کہ رضا بقضاء ہو اور ایسا انشراح صدر میسر آ جائے کہ جو کچھ ارادت ِ الٰہیہ سالک پر نافذ ہوں۔ عاشق صادق کی طرح ان سے متلذذ ہو اور انقباض پیدا نہ ہو بلکہ یہاں تک موافقت تامہ پیدا ہو جائے کہ اُس محبوب حقیقی کی مراد اپنی ہی مراد معلوم ہو اور اس کی خواہش اپنی خواہش دکھلائی دے۔ اس جگہ بھی وہی سوال لزوم دور کا لازم آتا ہے جو پہلی قسم میں لازم آیا تھا اور جو اَب بھی وہی ہے جو پہلے دیا گیا ہے۔انسان کا کام بجز صحبت صادقین کے سراسر خام ہے اور بجز طریق فنا یا صحبت فانیوں کے ایمان کا سلامت لے جانا نہایت مشکل ہے۔ پس سعید وہی ہے کہ جو سب سے پہلے ایمان کی سلامتی کا فکر کرے اور ناحق کے ظاہری جھگڑوں اور بے فائدہ خرخشوں سے دست کش ہو کر اس جماعت کی رفاقت اختیار کرے۔ جن کو خدا تعالیٰ نے اپنا درد عطاکیا ہے اور یقینا سمجھے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو عمدہ نعمت دنیا کیلئے لائے وہ یہی درد اور محبت الٰہی ہے جس کو خدا اور رسول کی محبت دی گئی۔ اس نے اپنی اصل مراد کو پا لیاہے اور بِلاشبہ وہ سعید ہے اور نارجہنم کو اس سے مس کرنا حرام ہے لیکن جس کو وہ محبت عطا نہ ہوئی اور اُس نے اپنے خدا اور اپنی نبی کا قدر شناخت نہیں کیا۔ اُس کا زبانی طور پر مسلمان کہلانا کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ نماز وروزہ بھی بجز ذاتی محبت کے اپنی اصل حقیقت سے خالی ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے۔یاتی علی امتی زمانہ یصلون و یصومون ویجمعون فی المساجد ولیس ففیھم مسلم۔ یعنی ایک زمانہ وہ آئے گا کہ لوگ نمازیں بھی پڑہیں گے اور روزے بھی رکھیں گے اور مسجدوں میں اکٹھے ہوں گے پر اُن میں سے ایک بھی مسلم نہ ہوگا۔ یعنی مومن حقیقی نہ ہوگا۔ اپنی دنیا اور اپنی رسوم میں گرفتار ہوں گے اور دین بھی رسم کے طور پر بجا لائیں گے۔ سو اَب ایسے وقت کا اندیشہ ہے خداوند کریم رحم کرے۔ بخدمت مولوی صاحب و خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچادیں اگر ملاقات میسر ہو۔
(تاریخ ۶؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۳؍ ذیعقد ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ حدیث نبوی یعرفھم غیری کے معنی جو اس عاجز کے دل میں ڈالے گئے ہیں یہ ہیں کہ غیر کے لفظ سے نفی ماسوا اللہ مراد نہیں بلکہ نفی نااہل و ناآشنا مراد ہے۔ مگر جو لوگ مومن حقیقی ہیں وہ بباعث استعداد فنا اور زوال حجب کے کبریائی دامن کے اندر ہیں اور غیر نہیں ہیں خود خدا تعالیٰ نے بعض صالح اہل کتاب کے حق میں اپنی کتاب مجید میں یہ فرمایا ہے یفرفونہ کما یعرفون ابناء ھم یعنی وہ لوگ پیغمبر آخر الزمان کو جو امام الانبیاء اور سید الاولیا ہے اس طرح پر شناخت کرتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو شناخت کر رہے ہیں اور اسی طرح روحانی روشنی کی برکت سے اولیا اولیا کو شناخت کر لیتے ہیں۔ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اویس کے وجود کو یمن میں شناخت کر لیا اور بارہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یمن کی طرف سے رحمان کی خوشبو آ رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کے مراتب معلوم تھے اور ہریک کی نورانیت باطنی کا اندازہ اس قلب منور پر مکشوف تھا۔ ہاں جو لوگ بیگانہ ہیں وہ یگانہ حضرت احدیّت کو شناخت نہیں کر سکتے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ینظرون الیک وھم لا یبصرون یعنی وہ تیری طرف (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نظر اُٹھا کر دیکھتے ہیں پر تو اُنہیں نظر نہیں آتا اور وہ تیری صورت کو دیکھ نہیں سکتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انوار روحانی کا سخت چمکارابیگانہ محض پر بھی جا پڑتا ہے۔ جیسے ایک عیسائی نے جب کہ مبالہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حسین و حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنھم عیسائیوں کے سامنے آئے دیکھ کر اپنے بھائیوں کو کہا کہ مباہلہ مت کرو۔ مجھ کو پروردگار کی قسم ہے کہ میں ایسے منہ دیکھ رہا ہوں کہ اگر اس پہاڑ کو کہیں گے کہ یہاں سے اُٹھ جا تو فی الفور اُٹھ جائے گا۔ سو خدا جانے کہ اس وقت نور نبوت وہ ولایت کیسا جلال میں تھا کہ اس کافر، بدباطن، سیہ دل کو بھی نظر آ گیا اور عام طور پر باستثناء خواص اہل اللہ و اکابر اولیا کی حقیقت ولایت کو جو قرب الٰہی کا نام ہے بجز حضرت احدیّت کے کسی کو اس پر اطلاع نہیں ہو سکتی۔ ہاں اس حقیقت کے انوار و آثار جیسے استقامت صبر، رضا، جودوسخا، صدق، وفا، شجاعت حیا اور نیز خوارق و دیگر علامات قبولیت لوگوں پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ سب آثار ولایت ہیں اور حقیقت ولایت ایک مخفی امر ہے۔ جس پر غیر اللہ کو ہرگز اطلاع نہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب اور جو آپ نے دریافت کیا ہے کہ خوارق و کرامات ریاضات شاقہ کا نتیجہ ہے یا کیا حال ہے اس میں تحقیق یہ ہے کہ بِلاشُبہ ریاضات شاقہ کو کشوف وغیرہ خوارق میں دخل عظیم ہے بلکہ اس میں کسی خاص مذہب بلکہ توحید کی بھی شرط نہیں اور اسی جہت سے فلاسفہ یونان اور اس ملکِ ہند کے جوگی اپنے تپوں جپوں کے ذریعہ سے صفائی نفس حاصل کرتے رہے ہیں اور اُن کا قلب اپنے معبودات باطلہ پر جاری ہوتا رہا ہے اور مکاشفات بھی اُن سے ظہور میں آتے رہے ہیں۔ چنانچہ کسی تاریخ دان اور صاحب تجبرہ پر یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ اب بے خبر کو بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ جب کشوف و خوارق باطل پرستوں اور استدارج دانوں سے بھی ہو سکتے ہیں تو پھر اُن میں اور اہل حق لوگوں میں کیا فرق باقی رہا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت احدیّت کے برگزیدہ بندے تین علامات خاصہ سے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ علامتیں ایسی ہیں کہ گویا باطل پرست لوگ اپنی کجروی کی محنتوں سے گداز بھی ہو جائیں تب بھی وہ علامات ان میں متحقق نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ اوّل ان میں ایک یہ ہے کہ اہل حق کو صرف کشفی صفائی نہیں اخلاقی صفائی بھی عطا ہوتی ہے اور وہ اخلاق فاضلہ میں اس قدر پایہ عالیہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ جیسے خدا کو اپنے اخلاق پیارے ہیں۔ ویسا ہی وہ ربّانی اخلاق اُن کو پیارے ہو جاتے ہیں اور اُن کی سرشت میں ربوبیت کے تجلیات گھر کر جاتے ہیں اور بشریت کی آلودگیاں اور تنگیاں اُٹھ جاتی ہیں۔ پس اُن سے نیک اور پاک خلق ایسے عجیب اور خارق العادت و طور پر صادر ہوتے ہیں کہ بشریٰ طاقتوں سے بجز خاص تائید الٰہی کے اُن کا صادر ہونا ممکن نہیں۔ انسان بشریت کے تعلقات اور نفس امّارہ کی زنجیروں میں اور ننگ و ناموس کی قیدوں میں اور خانہ داری کے جانگداز فکروں میں اور شداید اور آلام کے حملوں میں اور وساوس اور اوہام کی نیش زنیوں میں سخت عاجز ہو رہا ہے اور اگر دعویٰ کرے کہ میں اپنی ہی قوت سے ان بھاڑی بوجھوں سے نکل سکتا ہوں تو وہ جھوٹا ہے۔ پس اہل اللہ میں یہ بزرگی ہے کہ وہ توفیق یافتہ ہوتے ہیں اور دست غیبی اپنی خاص حمائت اور قوت سے اُن کواِن تمام بوجھوں کے نیچے سے باہر نکال لیتا ہے سو اُن سے ایسا توکّل اور ایسا صبر اور ایسا سخا اور ایسا ایثار اور ایسا صدق اور ایسا رضا بقضاء صادر ہوتا ہے کہ دوسروں سے ہرگز ممکن نہیں کیونکہ درپردہ الٰہی ستاری ان کی مددگار ہوتی ہے اور وہ لغزشوں سے بچائے جاتے ہیں اور جس کی محبت میں وہ دنیا کو کھو بیٹھتے ہیں اور دنیوی عزتوں اور ناموں سے بیزار ہوگئے ہیں۔ وہی محبوب حقیقی اُن کا متولی ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اہل حق مکالمات ومخاطبات حضرت احدیّت پاتے ہیں جو تائیدات خاصہ کی بشارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور نیز اُن میں وہ مراتب عالیہ اُن پر ظاہر کئے جاتے ہیں کہ جو اُن کو حضرت احدیّت میں حاصل ہوئے ہیں اور یہ نعمت غیروں کو ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس جگہ بتوجہ یاد رکھنا چاہئے کہ الہامات و مکالمات الٰہیہ کو جو ایسی پیشگوئی پر مشتمل ہوں جن میں شخص ملہم کی تائیدات عظیمہ کا وعدہ ہے۔ وہ اہل اللہ کی شناخت کے لئے نہایت روشن علامت ہیں اور کوئی خارق عادت ان سے برابر نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندہ سے کلام کرنا اور پھر اُس کے کلام کا ایسی پیشگوئیوں پر مشتمل ہونا کہ جو تائیدات عظیمہ کے مواعید ہیں اور پھر اُن مواعید کا اپنے وقتوں پر پورا ہونا معیت اللہ کا ایک روشن نشان ہے۔ تیسری علامت یہ ہے کہ خواص اولیاء یاضات شاقہ کے محتاج بھی نہیں ہوتے۔ ایک قسم ولائت کی ہے جو وہ ثبوت سے بہت مشابہ ہے۔ اس قسم کے لوگ جب دنیا میں آتے ہیں تو ہوش پکڑتے ہی عنایات الٰہیہ اُن کی متولی ہو جاتی ہے۔ اُن کو سالکوں کی پُر تکلف حالت سے کچھ مناسبت نہیں ہوتی۔ اُن کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کب فنا آئی اور کب بقا حاصل ہوئی کیونکہ دست غیبی نے اُن کو فطرت میں ہی درست کر لیا ہوتا ہے اور بیفہ بشریت میں داخل بھی نہیں ہوتے۔ تعلقات شیدہ عشق الٰہی کے ان کی فطرت سے لگے ہوئے ہوتے ہیں اور ابتدائی فطرت سے کسی ریاضت کے محتاج نہیں ہوتے وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائِ اور ایسے لوگوں سے بغیر حاجت ریاضات شاقہ کے خوارق عجیبہ ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ شان نبوت اُن پر غالب ہے۔
سو اگر اکابر نقشبندیہ نے ظہور خوارق کے لئے ریاضات شاقہ کو شرط ٹھہرایا ہے تو ایسے مکمل لوگوں کو مستثنیٰ رکھ لیا ہوگا اور ایسے لوگ نہایت قلیل الوجود اور نادر الظہور ہیں۔ کبھی کبھی شدت حاجت کے وقت خلق اللہ کی بھلائی کے لئے دنیا میں بھیجے جاتے ہیں اور اُن کا آنا لوگوں کیلئے ایک رحیمت عظیم ہوتا ہے اور اُمت مرحومہ محمدیہ پر حضرت احدیّت کی یہ رحمت ہے۔ کبھی کبھی آخر صدی پر اصلاح اور تجدید دین کیلئے اس شان کے لوگ مبعوث ہوتے ہیں اور دنیا اُن کے وجود سے نفع اُٹھاتی ہے اور دین زندہ ہوتا ہے اور یہ بات کہ ظہور خوارق ولایت شرط ہے یا نہیں۔ اکثر صوفیا کا اتفاق اسی پر ہے کہ شرط نہیں۔ پر اس عاجز کے نزدیک ولایت تامہ کاملہ کے لئے ظہور خوارق شرط ہے۔ ولایت کی حقیقت قرب اور معرفت الٰہی ہے سو جو شخص صرف منقولی یا معقولی طور پر خدا پر ایمان لاتا ہے اور وہ کشوف عالیہ اور زوالِ حجب اس کو نصیب نہیں ہوا۔ جس سے ایمان اُس کا تقلید سے تحقیق کے ساتھ مبدل ہو جاتا تو کیونکر کہا جائے کہ اُس کو ولایت تامہ نصیب ہوگئی ہے۔ بعض بزرگوں نے جیسے حضرت مجدد الف ثانی صاحب نے اپنی مکتوبات میں لکھا ہے کہ یقین کے لئے معجزات نبویہ کافی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ کافی نہیں کیونکہ وہ معجزات اب اس شخص کے حق میں کہ جو صدہا سال بعد میں پیدا ہوا ہے منقولات کا حکم رکھتے ہیں اور دید اور شنید میں جس قدر فرق ہے۔ ظاہر ہے علماء محدثین سے زیادہ اور کون معجزات سے واقف ہوگا۔ مگر وہ معجزات کہ جن کی رویت سے ہزار ہا صحابہ یقین کامل تک پہنچ گئے تھے۔ اب ان کے ذریعہ سے علماء ظاہر کو اس قدر اثر بھی نصیب نہیں ہوا کہ اور نہیں تو اُن معجزات کی ہیبت سے اخراج نفسانیت ہی ہو۔ مگر یہ بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ سماوی نشانوں کو ازدیادِ ایمان میں دخل عظیم ہے اور خود ولایت تامہ کی حقیقت جب کہ قرب تام ہے تو پھر ظاہر ہے کہ قرب اور مشاہدہ عجائبات لازم و ملزوم ہے جو شخص ہمارے مکان پر آتا ہے اُسے ضرور ہے کہ مکان کی وضع اور اس کی کیفیت کمیت سے اطلاع پیدا کرے۔ لیکن اگر بعد از وصول بھی ایسا ہے جو قبل از وصول تھا تو گویا اُس نے مکان کو دیکھا ہی نہیں۔ انبیاء کے یقین کو بھی خدا نے نشانوں سے ہی بڑھایا ہے اور قرآن شریف میں رب ارنی کیف تحی الموتی حضرت ابراہیم کا سوال موجود ہے۔ پھر کیونکر کہاجائے کہ ولایت بغیر خوارق کے حاصل ہو سکتی ہے۔بِلاشُبہ جس قدر مشاہدہ خوارق کا زیادہ ہے۔ اُسی قدر قوت یقین زیادہ ہے۔ اسی قدر قوبت زیادہ ہے۔ اُسی قدر علم زیادہ ہے۔ خدا تعالیٰ خود اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرماتا ہے کہ ہم نے اس کو مسجد اقصیٰ اور آسمان کا سیرا کرایا تا اُس کو اپنی آیات خاصہ سے مطلع کریں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جس ولی کو منصب ارشاد اور ہدایت کا عطا نہیں کیا گیا۔ اُس کے خوارق اور لوگوں پر ظاہر ہونا ضرور نہیں ہے کیونکہ اُس کو لوگوں سے کچھ واسطہ اور تعلق نہیں ہے لیکن خود اُس پر تو ظاہر ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ حقیقت ولایت تک اس کا قدم پہنچنا اسی سے وابستہ ہے۔
مسجد کے بارہ میں جو فقرہ خداوندکریم کی طرف سے الہام ہوا تھا جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ مادہ تاریخ موجود ہے یہ فقرہ ہے مبارک و مبارک وکل امرٍ مبارک یجعل فیہ۔ خداوند تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ اس مسجد مبارک کے بارے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا۔ منجملہ ان کے ایک نہایت عظیم الشان الہام ہے جس کے ایک فقرہ سے آپ کو پہلے اطلاع دے چکا ہوں مگر بعد اس کے ایک دوسرا فقرہ بھی الہام ہوا اور وہ دونوں فقرہ یہ ہیں۔ فیہ برکات للنا و من دخلہ کان امنا۔ یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں آ گیا۔ علماء ظاہر شاید اس پر اعتراض کریں کہ یہ تو بیت اللہ خانہ کعبہ کی شان میں وارد ہے۔ مگر وہ لوگ برکات و سعیہ حضرت احدیّت سے بے خبر ہیں اور معذور ہیں اور نیز ایک الہام یعنی مکالمہ حضرت احدیّت اس ذلیل ناچیز عاجز سے واقع ہوا۔ بباعث رابطہ اتحاد آپ کو لکھتا ہوں اور چونکہ یہ عاجز اعلان کا اِذن بھی پاتا ہے اس لئے کتاب میں یعنی حصہ چہارم میں درج بھی کیا جائے گا۔ خداوندتعالیٰ کی الوہیت کی موجیں ہیں کہ اس ناکارہ بندہ کو کہ جو فی الواقعہ بے ہنر اور تہی دست ہے۔ ایسے مکالمات سے یاد کرتا ہے روحی فداء سبیلہ مایشان من جلیلہ اور وہ الہام یہ ہے بشریٰ لک یا احمدی انت مرادی و معی غرمت کرامتک بیدی۔
بشارت باد ترایا احمد من۔ تو مراد منی و بامنی۔ نشاندم درخت بزرگی ترابدست خود۔ بخدمت خواجہ علی صاحب و مولوی عبدالقادر صاحب و منشی بہرام خان صاحب وغیرہ احباب آں صاحب سلام مسنون پہنچے۔ (تاریخ ۱۳؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۱۰؍ ذیقعد ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذاآنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے جو سوالات کئے ہیں ان کی حقوقت خداوندکریم ہی کو معلوم ہے۔ اس حقر کے خیال میں جو گزرتا ہے وہ یہ ہے (۱) صوفی باعتبار اس حالت کے سالک کا نام ہے کہ جب وہ اپنے زور اور تمام توجہ اور تمام عقل اور تمام اطاعت اور تمام مشغولی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قدم اُٹھاتا ہے اور اپنی جانفشانیوں اور محنتوں اور صدقوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس حالت میں تمام کاروبار اُس کا وابستہ اوقات ہوتا ہے۔ اگر اپنے وقتوں کو ہریک لہو و لعب سے بچا کر یاد الٰہی سے معمور کرتا ہے تو اگر خدا نے چاہا ہے تو کسی منزل تک پہنچ جاتا ہے لیکن اگر حفظ اوقات میں خلل ہوتا ہے تو اس کا سارا کام درہم برہم ہو جاتا ہے جیسے اگر مسافر چلتا بھی رہے تو جائے مقصود تک پہنچتا ہے۔ پر اگر چلنا چھوڑ دے بلکہ جنگل میں آرام کرنے کی نیت سے سو جائے تو قطع نظر عدم وصول سے جان کا بھی خطرہ ہے۔ سو جیسے مسافر ابن السبیل ہے۔ سبیل کوقطع نہ کرے تو کیسے ٹھکانہ تک پہنچے۔ ایسا ہی صوفی ابن الوقت ہے۔ اپنے وقت کو خدا کی راہ میں لگاوے تو مقصود کو پاوے۔ پس جب کہ حفظ وقت صوفی کے لازم حال ہی پڑا ہے تو اپنے کام کو فردا یا پس فردا پر ڈالنا اس کے حق میں مہلک ہے اور نیز صوفی کیلئے یہ بھی لازم ہے کہ اسی جہان میں اپنی نجات کے آثار نمایاں کا طالب ہو اور اپنے کام کے دن میں بھی اپنی اُجرت کا خواستگار ہو۔ فردا یعنی قیامت پر صوفی اپنا حساب نہیں ڈالتا اور نسیہ اور ادھار کا روا وار نہیں ہوتا بلکہ دست بدست مزدوری مانگتا ہے۔ اور اس آیت شریفہ پر اُس کا عمل ہوتا ہے۔ من کان فی ھذہٖ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی۔ پس صوفی ان علماء ظاہری کی طرح نہیں ہوتا کہ جو صرف ظاہری اعمال بطور عادت اور رسم کے بجا لا کر اور تزکیہ نفس اور تنویر قلب سے بکلّی محروم رہ کر پھر بہشت کی امیدیں باندھ رہے ہیں بلکہ صوفی اسی جہان میں اپنے بہشت کو دیکھنا چاہتا ہے اور صرف وعدوں پر قناعت نہیں کرتا۔ سو صوفی عمل کی رو سے بھی ابن الوقت ہے جو حفظ اوقات ہی سے اس کے سارے کام نکلتے ہیں اور حاضر الویت نعمتوں کو پاتا ہے لیکن چونکہ ہنوز اپنی ہی قوتوں اور طاقتوں اور اخلاصوں اور صوقوں اور محنتوں اور مجاہدات پر اُس کا مدار ہے اور مسافر کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ قدم رکھنا اس کا کام ہے۔ اس لئے وہ صاحب حال ہے صاحب مقام نہیں کیونکہ حال وہ ہے جو تغیر پذیر ہو اور مقام وہ ہے جس کو ثبات اور قرار ہو۔ سو صوفی ابھی مسافر کی طرح ہے۔ ایک جگہ چھوڑتا ہے دوسری جگہ جاتا ہے۔ دوسری چھوڑتا ہے تیسری جگہ جاتا ہے لیکن صافی وہ ہے جس کو بعد حصول فنا اَتم کے عنایات الٰہیہ نے اپنی گود میں لے لیا ہے۔ اب اس کو ان محنتوں اور مشقتوں سے کچھ غرض نہیں کہ جو صوفی کو پیش آتی ہیں کیونکہ وہ کاسات وصال سے بہرہ یاب ہو گیا ہے اور دست غیبی نے اُن کو ہر ایک بشریت کے لوث سے مصفٰی اورمطہر کر دیا ہے اور جو اعمال دوسروں کے لئے بوجھ ہیں وہ اس کے حق میں سرور اور لذت ہوگئے ہیں۔ اور وہ تکلفات حفظ اوقات اور دوام مراقبہ و مشغولی سے برتر و اعلیٰ ہے بلکہ رجال لاتلیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللّٰہ میں داخل ہے اور اس کا سونا اور اس کا کھانا اور اُس کا ہنسنا اور کھیلنا اور دنیا کے کاموں کو بجا لانا سب عبادت ہے کیونکہ وہ منقطع اور مفرد ہے اور عنایت الٰہیہ نے اُس کو اُس کے نفس کے پنجہ سے چھین لیا ہے اور اس کی سرشت کو بدلا دیا ہے۔ اب اُس کا غیر پر قیاس کرنا اور غیر کا اُس پر قیاس کرنا ناجائز ہے۔ صوفی بھی اُس کو نہیں پہنچان سکتا کیونکہ وہ بہت ہی دور نکل گیا ہے اور وہ صاحب مقام ہے اور خدا نے اُس کو اپنی ذات سے تعلق شدید بخشا ہے اور وہ ہر ایک وقت اور حال سے فارغ ہے کیونکہ بجائے اُس کے عنایت الٰہیہ کام کر رہے ہیں اور وہ مست اور مدہوش کی طرح پڑا ہے اور تمام آلام اُس کے حق میں بصورت انعام ہوگئے ہیں۔ صوفی میں اجر کی خواہش ہے۔ اُس میں اجر کی خواہش نہیں۔ صوفی معمور الاوقات ہے اور وہ فانی الذات ہے۔ پھر معموری کیا اور وقت کیا۔ صیقل زدم آہ قدر کہ آئینہ نماند۔ اس تحقیق میں دوسرے سوال کا جواب بھی آ گیا۔
(۳) موسیٰ اور فرعون سے روح اور نفس امّارہ کا جنگ و جدال مراد ہے جو نور روح ہے جس کو نور قلب بھی کہتے ہیں۔ وہ ہر وقت قالوبیٰ کا نعرہ مار رہا ہے اور بارگاہ خدا میں اپنی لذت اور سرور چاہتا ہے اور موسیٰ کی طرح شر کا دشمن ہے اور نفس امّارہ سرور کا خواہاں ہے اور شہوات کا طالب ہے ان دونوں میں موسیٰ اور فرعون کی طرح جنگ ہو رہا ہے۔ یہ جنگ اسی وقت تک رہتا ہے جب انسان اپنی ہستی کو مقصود ٹھہرا کر فنا فی اللہ کی حالت سے گرا ہوا ہوتا ہے لیکن جب انسان اپنی ہستی سے بالکل کھویا جاتا ہے تو وہ پہلی بیرنگی جو عالم ہستی میں اُس کو حاصل تھی پھر حاصل ہو جاتی ہے اور کوئی شائبہ وجود کا باقی نہیں رہتا۔ اس مرتبہ پر نفس امّارہ اور نور قلب کا جنگ ختم ہو جاتا ہے اور شہوات نفسانی حظوظ کا حکم پیدا کر لیتی ہیں اور فانی کا کھانا پینا، ازدواج متعددہ کرنا وغیرہ امور جائے اعتراض نہیں ٹھہرتا اور نہ کچھ اُس کو ضرر کرتا ہے کیونکہ وہ فانی ہے اور اب یہ کام خدا کے ہیں جو اُس پر جاری ہوتے ہیں۔ سو اِس مقام پر آ کر موسیٰ اور فرعون کی صلح ہو جاتی ہے۔
(۴) حرص و ہوا سے اوّل چیز جو انسان کو روکتی ہے جذبہ الٰہی ہے۔ وہی جذبہ انسان کو صالحین کی صحبت کی طرف کھینچتا ہے۔ وہی اُس کو کسی صالح کا مرید کراتا ہے۔ صحیح حدیث میں وار دہے کہ انسان گناہ کرتا ہے۔ پھر حضرت خداوندی میں روتا ہے کہ مجھ سے گناہ ہو گیا۔ خدا تعالیٰ اُس کو بخش دیتا ہے اور اپنے فرشتوں کے روبرو اُس کی تعریف کرتا ہے۔ پھر چند روز پا کر اُس بندہ عاجز سے گناہ ہو جاتا ہے۔ پھر وہ جناب الٰہی میں روتا اور چلاتا ہے اور ہر بار خدا تعالیٰ اُس کو بخشتا جاتا ہے اور فرشتوں کر روبرو اُس کی تعریف کرتا ہے آخر اُس کو کہتا ہے اعمل ماشئت فانی غفرت لک۔ یعنی اب جو تیری مرضی ہے کہ مَیں نے تجھ کو بخش دیا ہے سو اُسی روز سے وہ محفوظ ہو جاتا ہے اور پھر ہوا و ہوس اس پر غالب نہیں ہو سکتے غرض جیسے جسمانی پیدائش کی ابتدا خدا ہی کی طرف سے ہے۔ روحانی پیدائش کی ابتدا بھی خدا کی ہی طرف سے ہے۔ یھدی من یشاء و یضل من یشاء۔ جس کو وہ بُلاتا ہے وہ دوسرے کی بھی سن لیتا ہے مگر جس کو وہ نہیں بُلاتا وہ کسی کی نہیں سنتا۔ جیسا کہ خود اُس نے فرمایا ہے۔ من یھدی اللّٰہ فھوا المھتدی ومن یضلل لن تجدالہ ولیاً مرشداً (سورہ کہف الجزو:۱۵) یعنی ہدایت وہ پاتا ہے جس کو خدا گمراہ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کو مرشد ہدایت نہیں دے سکتا چند انگریزی فقرات جو الہام ہوئے تھے وہ مطبع میں بھیجے گئے ہیں۔ اس جگہ کوئی انگریزی خوان نہیں۔ ایک ہندو لڑکا قادیان کا لاہور پڑھتا ہے اُس نے دیکھے تھے۔
مکتوب نمبر۲۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعض کتب میں من عرف نفسہ فقد عرف ربہ حدیث نبوی کر کے بیان کیا گیا ہے۔ احیاء العلوم میں اس قسم کی بہت سی احادیث ہیں جن میں محدثین کو اپنے قواعد مقررہ کے رو سے کلام ہے۔ مگر اس قول میں کوئی ایسی بات نہیں کہ جو قال اللّٰہ و قال الرسول سے منافی ہو۔ وقال اللّٰہ تعالٰی۔ وفی النفسکم افلاتبصرون (الجزو:۲۷) حضرت ربّ العالمین نے تمام عالم کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ تا وہ شناخت کیا جاوے۔ نفس انسانی ایک نسخہ جامع جمیع اسرار عالم ہے اور کچھ شک نہیں کہ جس کو کماحقہٗ علم نفس حاصل ہو۔ اُس کو وہ معرفت حاصل ہوگی کہ جو جمیع عالم کی حقیقت دریافت کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے پس یہ طریق نہایت قریب اور آسان ہے کہ انسان اپنے نفس کی شناخت کے لئے کوشش کریں۔ اُسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام میں اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے۔ والشمس والضحا ھا والقمر اذا تلاھا والنھارا جلاھا والیل اذا یغشہاھا والسماء مابناھا والارض وما طحاھا و نفس وما سواھا قد افلح من زکھا وقدخاب من دسھا۔ سو خدا نے شمس اور قمراور دن اور رات اور آسمان اور زمین کی خو بیان فرما کر پھر بعد اس کے ونفس وما سواھا فرمایا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ نفس انسانی میں وہ سب استعدادات موجود ہیں کہ جو متفرق طور پر عالم کے جمیع اجزا میں پائے جاتے ہیں۔ اگر خواہی کہ دربینی تمامی وضع عالم رائیکے درنفس خودینگر ہمہ و شعش تماشا کُن۔ پھر بعد اُس کے فرمایا قدافلح من زکھا یعنی وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کا کیا نجات پا گیا۔ سو نجات سے حصول معرفت تامہ مراد ہے کیونکہ تمام عذاب اور ہریک قسم کے عقوبات جہل اور ضلالت پر ہی مرتب ہونگے۔ من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الامرہ اعمی (الجزو:۱۵) اور تزکیہ نفس دو قسم پر ہے تزکیہ من حیث العلم اور وہ یہ ہے کہ نفس کو حضرت باری عزو جل اور دارآخرت کی نسبت علم یقینی قطعی حاصل ہو اور شکوک اور شبہات اور عقائد غلط اور فاسد سے نجات پا جائے۔ تزکیہ من حیث العمل وہ یہ ہے کہ جیسے فی الحقیقت حضرت باری غراسمہٗ اس بات کامستحق ہے کہ اُسی سے محبت ذاتی ہو اور جیسے فی الحقیقت اُس کے وجود کے مقابل اور سب وجود ہیچ اور کالعدم ہیں۔ ایسے ہی سالک کے لئے حالت حاصل ہو جائے اور جب انسان کو حالت فنا حاصل ہوگئی تو وہ تمام اسرار قدرت اور دقائق حکمت جو زمین اور آسمان میں مخفی ہیںاُس کے نفس پر باذن اللہ تعالیٰ کھلنے شروع ہو جائیں گے اور کشفی طور پر اُن کی کیفیت اُس پر ظاہر ہوتی جائے گی کیونکہ اسرار جمیع عالم بعینہٖ اسرار نفس ہیں۔ پس جب نفس ببرکت فناء اَتم اپنے حجاب سے خلاصی پائے گا تو جو کچھ خدا نے اُس میں انوار مہیا رکھیں ہیں اُن سب کو ظاہر کرے گا۔ سو یہ معرفت تامہ ہے جو انسان کو بقا کے درجہ پر حاصل ہوتی ہے لیکن یہ معرفت انسان کے اپنے اختیار میں نہیں۔ تمام انسانی کوششیں فنا کے درجہ تک ختم ہو جاتی ہیں اور پھر آگے موہیت الٰہی ہے اور جس پر موہیت کی نسیم چلتی ہے اسی پر وہ سب انوار ظاہر کئے جاتے ہیں جو اس کی روح میں مودع ہیں۔ انسان کی روح میں ایک بڑا سلیقہ یہ ہے کہ وہ اس قدر خدا کے سہارے کی محتاج ہے کہ اُس کے بغیر جی ہی نہیں سکتی۔ الوہیت اُس پر ایک ایسے طور سے محیط ہو رہی ہے کہ جو نہ تقریراً نہ تحریراً نہ صراحۃً نہ کنایۃً نہ تو ضیحاً نہ تمثیلاً بیان میں آ سکتی ہے بلکہ سالک جب بقا کا مرتبہ موہیت حضرت الٰہی سے پاتا ہے تو وہ کیفیت کہ جو بیچون اور بیچگون ہیں۔ اُس پر متجلی ہوتی ہے اور باوجود تحقق تجلی کے پھر بھی اُس کو بیان نہیں کر سکتا۔ من عرف کل لسانہٖ۔ آہ راکہ خبر شد خبرش باز نیامد۔ غرض الٰہی تجلی کا نام معرفت تامہ ہے اور من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کا مقصود حقیقی بھی ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ آنمخدوم نے جو سوالات لکھنے کا طریق نکالا ہے بہت اچھا ہے۔ مگر چاہئے کہ تکلف درمیان نہ ہو یعنی خواہ نخواہ سوال نہ تراشا جاوے بلکہ جب خدا کی طرف سے کوئی موقعہ پیش آوے تب سوال کیا جاوے۔ سلف صالح کا مکتوبات اکابر کے لکھنے میں بھی طریق رہا ہے اور جس کی معرفت کو خدا تعالیٰ ترقی دینا چاہتا ہے اس کی زندگی میں خود ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں اور ایسے موقعہ نکلتے آتے ہیں جن سے اُس کو سوال کرنے کا استحقاق پیدا ہو جاتا ہے۔ قرآن شریف جو جامع تمام معارف اور حقائق ہے عبث طور پر نہیں ہوا بلکہ جب حاجت پیش آئی نازل ہوا ہے اور ہر ایک آیت محکم اس کی ایک ضروری شان نزول رکھتی ہے۔ والسلام بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و خواجہ علی صاحب و دیگر صاحبان سلام برسد۔
(بتاریخ ۴؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲؍ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا جن امور میں خلق کی بھلائی ہے۔ اُن کا دریافت کرنا مضائقہ نہیں۔ صرف مجھے خوف تھا کہ تکلف نہ ہو کہ وہ اس راہ میں مذموم ہے اور مولوی گل حسن صاحب کا سوال کریم مطلق کی جناب میں کچھ سؤادب کی رائحہ رکھتا ہے۔ اس لئے اُس کی طرف توجہ نہیں کی گئی۔ بندہ وفادار کو رشد یا عدم رشد سے کیا مطلب ہے۔ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی رحمۃ اللہ نے کیا اچھا کیا ہے۔
من ایستادہ ام اینک بخدمت مشغول
مرا ازیں چہ کہ خدمت قبول یا نہ قبول
گر بنا شد بددست رہ بردن
شرط عشق است در طلب مردن
اس راہ کے لائق وہ شخص ہوتا ہے کہ وصال اور بقا سے کچھ مطلب نہ رکھے اور اُن تمام واقعات اور مکاشفات سے کچھ سروکار نہ ہو کہ جو سالکوں پر کھلتے ہیں۔ کرامات اور خوارق عادات کا خواہاں نہ ہو اور مقامات واصلین کا جو یاں نہ ہو اور باایں ہمہ سعی اور مجاہدہ میں ہمت نہ ہارے اور خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے فی الواقعہ ایک ذلیل بندہ اپنے تئیں خیال کرتا ہے اور اپنی زندگی کا اصل مقصد اسی راہ میں جان دینا ٹھہراوے گو کچھ راہ پاوے یا نہ پاوے راستبازوں کا یہی راستہ ہے۔ ان کو اس سے کیا کام کہ حضرت احدیّت سے اس بات کا پہلے تصفیہ کرالیں کہ ہم کو آخر راہ ملے گا یا محض محروم رکھنا ہے۔ صادقوں کو ملنے نہ ملنے سے کچھ کام نہیں۔ اگر بالفرض پردہ غیب سے ہزار *** سنیں تو وہ اُس سے دل برداشتہ نہیں۔ محبوب کی *** بھی محبوب ہے۔ کل یوم ھو فی شان۔ مسجد میں ابھی کام سفیدی کا شروع نہیں ہوا۔ خدا تعالیٰ چاہے گا تو انجام کو پہنچ جائے گا۔ آج رات کیا عجیب خواب آئی کہ بعض اشخاص ہیں جن کو اس عاجز نے شناخت نہیں کیا وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد کے دروازہ کی پیشانی پر کچھ آیات رکھتے ہیں۔ ایسا سمجھا گیا ہے کہ فرشتے ہیں اور سبز رنگ اُن کے پاس ہے جس سے وہ بعض آیات تحریر کرتے ہیں اور خط ریحانی میں جو پہچان اور مسلسل ہوتا ہے لکھتے جاتے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن آیات کو پڑھنا شروع کیا جن میں سے ایک آیت یاد رہی اور وہ یہ ہے لارادلفضلہ اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے۔ جس عمارت کو وہ بنانا چاہے اُس کو کون مسمار کرے اور جس کو وہ عزت دینا چاہے اُس کو کون ذلیل کرے۔
(۹؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۷؍ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا خط پہنچا۔ جس قدر آنمخدوم نے کوشش اور سعی اُٹھائی ہے اور اپنے نفس پر مشقت اور تحمل مکروہات روا رکھا ہے یہ سب خداوند کریم کی ہی عنایت ہے تا آپ کو اُس کے عوض میں وہ اجر عطا فرماوے جس کا عطا ہونا اُنہیں کوششوں پر موقوف تھا۔ جس کریم رحیم نے اس عاجز نالائق کو اپنے غیر متناہی احسانوں سے بغیر عوض کسی عمل اور محنت کے ممنون و پرورش فرمایا ہے۔ وہ محنت کرنے والوں کی محنت کو ہرگز ضائع نہیں کرتا۔ خدا کی راہ میں انسان ایک ذرّہ بات منہ سے نہیں نکالتا اور ایک قدم زمین پر نہیں رکھتا جس کا اس کو ثواب نہیں دیا جاتا لیکن میں اس جگہ یہ بھی ظاہر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کو اپنے جوش دلی کے باعث جو ایسے لوگوں کے پاس بھی جاتے ہیں جو ظنون فاسدہ اپنے دل پر رکھتے ہیں اور غرور اور استکبار نفس سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں چاہئے اس کام کی خداوند کریم نے اپنے ہاتھ سے بِنا ڈالی ہے اور ارادہ الٰہی اس بات کے متعلق ہو رہا ہے کہ شوکت اور شان دین کی ظاہر کرے اور اس بارہ میں اس کی طرف سے کھلی کھلی بشارتیں عطا ہو چکی ہیں سو جس بات کو خدا انجام دینے والا ہے اُس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ دنیا مردار ہے اور جس قدر کوئی اُس سے نزدیک ہے اسی قدر ناپاکی میں گرفتار ہے اور بدباطن اور بدبودار ہے اور حدیث شریف میں وارد ہے کہ مومن کے لئے لازم ہے کہ دنیا دار کے سامنے تذلل اختیار نہ کرے اور اُس کی شان باطل کو تحقیر کی نظر سے دیکھے۔ انسان دنیا دار کے سامنے نرمی اور تواضع اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ حضرت خداوند عزوجل کے نزدیک مشرک ٹھہرتا ہے۔ سمجھناچاہئے کہ بجز حضرت قادر و توانا کے کوئی کام کسی کے اختیار میں نہیں اور تمام آسمان و زمین اور تمام دل اُس کے قبضہ میں ہیں اور قدرتِ الٰہیہ سخت درجہ پر متصرف ہے اور اگر وہ کسی کام میں توقف کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ وہ اُس کے کرنے سے عاجز ہے بلکہ اس توقف میں اُس کی حکمتیں ہوتی ہیں۔ مخلوق سب ہیچ اور لاشَے اور مُردہ ہیں نہ اُن سے کچھ نقصان متصور ہے اور نہ نفع۔ دنیا داروں سے مطلب براری کے لئے نرمی کرنا دنیا داروں کا کام ہے اور یہ کام خالق السموات والارض کا ہے مجھ کو یا آپ کو لازم نہیں کہ ایک بدنصیب دنیا دار سے ایسی لجاجت کریں کہ جس سے اپنے مولیٰ کی کسر شان لازم آوے جو لوگ ذات کبریا کا دامن پکڑتے ہیں وہ منکروں کے دروازہ پر ہرگز نہیں جاتے اور لجاجت سے بات نہیں کرتے۔ سو آپ اس طریق کو ترک کر دیں اگر کسی دنیا دار مالدار کو کچھ کہنا ہو تو کلمہ مختصر کہیں اور آزادی سے کہیں اور صرف ایک بار پر کفایت رکھیں اور یار محمد کو روپے بھیجنے سے منع کر دیں اور مناسب ہے کہ آپ یہ سلسلہ غریب مسلمانوں میں جاری رکھیں۔ دوسرے لوگوں کا خیال چھوڑ دیں۔ اس میں ذرّہ تردّد نہ کیا کریں۔ تعجب ہے کہ آپ جیسے آدمی متردّد ہو جائیں۔ اگر ایک کافر بے دین جو دولتمند ہو کسی کو وعدہ دے جو میں تیری مشکلات پر تیری مدد کروں گا تو وہ اُس کے وعدے سے تسلی پکڑ جاتا ہے۔ پر خداوند تعالیٰ کا وعدہ جو اصدق الصادقین ہے کیونکر موجب تسلی نہ ہو۔
لکھا ہے کہ اوّل حال میں جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کو برعایت ظاہر اپنی جان کی حفاظت کیلئے ہمراہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی واللّٰہ یعصمک من الناس۔ یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب کو رخصت کر دیا اور فرمایا کہ اب مجھ کو تمہاری حفاظت کی حاجت نہیں۔ سو اسی طرح سمجھیں کہ ایک مرتبہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو میں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اوپر سے مدد کر سکتا ہوں‘‘۔ پھر جب وہ قادر رحمن رحیم ساتھ ہے اور اُس کی طرف سے مواعید ہیں تو کیا غم ہے دنیا دار کیا چیز ہیں اور کیا حقیقت تا ان کے سامنے لجاجت کی جائے اور اگر خدا چاہتا تو اُن کو ایسا سخت دل نہ کرتا۔ پر اُس نے بھی چاہا تا اُس کے نشان ظاہر ہو۔
(تاریخ ۲۴؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا خط عنایت نامہ پہنچ کر باعث مسرت خاطر ہوا۔ آپ نے بہت کچھ کوشش کی ہے اور مجھ کو یقین ہے کہ خدا تعالیٰ اس کا اجر ضائع نہیں کرے گا سو گو آپ نے کیسی ہی تکلیف اُٹھائی ہوں پھر جب کہ مولیٰ کریم کی راہ میں ہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ اُس کریم مطلق نے اس تکلیف کشی کے لائق سمجھا۔ اس عاجز کو خداوند کریم نے ایک خبر دی تھی جس کو حصہ ثالث میں چھاپ دیا تھا یعنی یہ کہ بنصرک رجالٌ نوحی الیھم من السماء یعنی تیری مدد وہ مردان دین کریں گے جن کے دل میں ہم آسمان سے آپ ڈالیں گے۔ سو الحمدللہ والمنتہ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو سب سے زیادہ اس عاجز کے انصار میں سے بنایا اور اس ناچیز کو آپ کے وجود سے فخر ہے اور اپنے خداوندکریم کی طرف سے آپ کو ایک رحمت مجسم خیال کرتا ہے اگر لوگ روگردان ہیں اور متوجہ نہیں ہوتے تو آپ اس سے ذرا متکفر نہ ہوں۔ خدا تعالیٰ ہر یک دل پر متصرف ہے اور اُس کا قوی ہاتھ ذرّہ ذرّہ پر قابض ہو رہا ہے اگر وہ چاہتا تو دلوں میں ارادت پیدا کر دیتا۔ مخلوق کیا چیز ہے اور اُس کی ہستی کیا حقیقت ہے لیکن اُس نے یہ نہیں چاہا بلکہ توقف اور آہستگی سے کام کرنا چاہا ہے۔ سب کچھ وہی کرتا ہے وہ دوسرا کون ہے جو اُس کا حارج ہو رہا ہے۔ بارہا اس عاجز کو حضرت احدیّت کے مخاطبات میں ایسے کلمات فرمائے گئے ہیں جن کا ماحصل یہ تھا کہ سب دنیا پنجۂ قدرت احدیّت سے مقہور اور مغلوب ہے اور تصرفات الٰہیہ زمین و آسمان میں کام کر رہے ہیں۔ چند روز کا ذکر ہے کہ یہ الہام ہوا۔ ان تمسمسک بضرٍ فلا کاشف لہٗ الاَّ ھووان یردک بخیرٍ فلا رادلفضلہ الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شی قدیر ان وعد اللّٰہ لات۔ سو خدا تعالیٰ اپنے کلمات مقدسہ سے اس قدر اس عاجز کو تقویت دیتا ہے کہ پھر اُس کے غیر سے نہ کچھ خوف باقی رہتا ہے اور نہ اس کو امید گاہ بنایا جاتا ہے۔ جب یہ عاجز اپنے معروضات میں لطف اور لذیذ کلمات میں جواب پاتا ہے اور بسا اوقات ہر سوال کے بعد جواب سنتا ہے اور کلمات احدیّت میں بہت سے تلطفات پاتا ہے تو تمام ہموم و غموم بکلّی دل سے دور ہو جاتے ہیں اور جیسے کوئی نہایت تیز شراب سے مست اور دنیا و مافہیا سے بے خبر ہوتا ہے ایسی ہی حالت سرور کی طاری ہوتی ہے۔ جس میں دوسرے ہموم و غموم تو کیا چیز ہیں موت بھی کچھ حقیقت نظر نہیں آتی خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر کھول دیا ہے کہ زید و عمر کچھ چیز نہیں۔ ہر ایک کام اُس کے اختیار میں ہے۔ پھر جب کہ ایسا ہے تو دوسروں کی شکایت عبث ہے۔ اس عاجز پر جو کچھ تفضلات و احسانات حضرت خداوندکریم ہیں وہ حدوشمار سے خارج ہیں کیونکہ یہ اذّل عباد اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ بھی چیز نہیں اور بغیر اُس کے کہ تکلف سے کوئی کسر نفسی کی جائے فی الحقیقت سخت درجہ کاناکارہ اور ہیچ ہے۔ نہ زاہدوں میں سے ہے نہ عابدوں میں سے، نہ پارساؤں میں سے نہ مولویوں میں سے سخت حیران ہے کہ کس چیز پر نظر عنایت ہے۔ یفعل اللّٰہ مایشاء
(۲۹؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۷؍ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا یہ عاجز چند روز سے ملاحظہ کام طبع کتاب کیلئے امرتسر چلا گیا تھا آج واپس آ کر آنمخدوم کا خط ملا۔ یہاں سے ارادہ کیا گیا تھا کہ امرتسر جا کر بعد اطلاع دہی ایک دو دن کے لئے آپ کی طرف آؤں مگر چونکہ کوئی ارادہ بغیر تائید الٰہی انجام پذیر نہیں ہو سکتا اس لئے یہ خاکسار امرتسر جا کر کسی قدر علیل ہو گیا۔ ناچار وہ ارادہ ملتوی کیا گیا۔ سو اِس طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک روک واقع ہوگئی۔ اُس کے کام حکمت سے خالی نہیں۔ مولوی عبدالقادر صاحب کی حالت سے دل خوش ہے۔ طلب عرفان بھی ایک عرفان ہے۔ حضرت خداوندکریم کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ سو اگر خداوندکریم نے چاہا تو یہ عاجز بھی دعا کرے گا غنیمت ہے کہ بفضلہ مولوی صاحب صاحبِ علم ہیں۔ طالب نادان شیطان کا بازی گاہ ہوتا ہے لیکن اس فقیر کی راہ میں مولویت بھی ایک حجاب عظیم ہے۔ انسان خاک ہے اور جب تک اپنی اصل کی طرف عود کر کے خاک ہی نہ ہو جائے تب تک مولیٰ کریم کی اس پر نظر نہیں پڑتی۔ سو اِس خاکساری اور نیستی کو اُسی قادر مطلق سے طلب کرنا چاہئے۔ اھدنا الصراط المستقیم میں جو مانگا گیا ہے وہ بھی خاکسار اور نیستی ہے۔ انسان کے نفس میں بہت سی رعونتیں اور نخوتیں اور عجب اور ریا اور خود بینی اور بزرگی چھی ہوئی ہے۔ جب تک خدا ہی اُس کو دور نہ کرے دور نہیں ہوتی۔ پس یہ بلا ہے جو نیستی اور خاکساری کے منافی ہے۔ سو تضرع اور زاری سے جناب الٰہی میں التجا چاہئے تا جس نے یہ بلا پیدا کی ہے وہی اُس کو دور کرے اور ظاہری جھگڑوں میں بہت ہی نرم ہو جانا چاہئے۔ قلت اعتراض سالکیں شعار میں سے ہے انسان جب تک پاک نفس نہ ہو جائے اُس کے جھگڑے نفسانیت سے خالی نہیں۔ قال اللّٰہ عزو جل یاایھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یفرکم من ضل اذا ھتدیتھم
(۸؍محرم ۱۳۰۱ء مطابق ۹؍ نومبر ۱۸۸۳ء)
مکتوب نمبر۳۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا مکتوب محبت اسلوب پہنچ کر باعث مسرت ہوا۔ خداوندکریم آپ کی تائید میں رہے اور مکروہات زمانہ سے بچاوے اس عاجز سے تعلق اور ارتباط کرنا کسی قدر ابتلا کو چاہتا ہے۔ سو اِس ابتلا سے آپ بچ نہیں سکتے۔
گربمجنوں صبحتے خواہی بہ بینی زود تر
خار ہائے دشت و تنہائی و طعن عالمے
عرفت ربی بربی صحیح المضمون ہے۔ اس بارے میں بہت سی احادیث آ چکی ہیں۔ خداوندکریم نے پہلے ہی سورۃ فاتحہ میں یہ تعلیم دی ہے اِیَّاک نَعْبُدُ وَاِیَّکَ نَسْتَعِیْنَ اس جگہ عبادت سے مراد پُرسش اور معرفت دونوں ہیں اور دونوں میں بندہ کا عجز ظاہر کیا گیاہے۔ اسی طرح دوسری جگہ بھی حضرت خداوندکریم نے فرمایا ہے۔ اللّٰہ نورالسموات والارض لایدرکہ الا بصار وھو یدرک الابصار جب تک خدا کی معرفت کا خدا ہی وسیلہ نہ ہو تب تک وہ معرفت شرک کے رگ و ریشہ سے خالی نہیں اور نہ کامل ہے بلکہ بجز تجلیات خاصہ حضرت احدیّت کے معرفت خالصہ کاملہ کا حاصل ہونا ممکن ہی نہیں۔ خدا کے شناخت کرنے کے لئے خدا ہی کا نور چاہئے۔ پس حقیقت میں وہی عارف اور وہی معروف ہے اور نیز یہ بھی جاننا چاہئے کہ تجلیت ربوبیت یکساں نہیں۔ ہر یک شخص کے لئے تجلی ربی الگ الگ ہے اور جس قدر ربانی تجلی ہے اسی قدر معرفت ہے۔ کوئی ظرف وسیع اور کوئی منقبض اور کوئی نہایت صافی اور کوئی اُس سے کم ہے۔ پس تجلی بہ حسب حیثیت ظروف ہے۔ ایک کی معرفت دوسرے کی نسبت حکم عدم معرفت کا پیدا کر سکتی ہے اور معارف غیر متناہی ہیں کوئی کنارہ نہیں۔ اُس ناپید اکنار دریا سے ہر یک شخص بقدر اپنے ظرف کے حصہ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے انزل من السماء ماء فضالت ادویتہ بقدر ھا یعنی خدا نے آسمان سے پانی (اپنا کلام) اُتارا سو ہر یک نالی حسب قدر اپنے بہہ نکلی جس قدر پیاس ہے اسی قدر پانی ملتا ہے اور آپ نے دعا کے بارے میں جو دریافت فرمایا ہے کہ جو اوّل سے ہی مقدر ہے دعا کیوں کی جاتی ہے۔ سو اس میں تحقیق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر یک مقدر میں قانون قدیم یہی ہے کہ اگرچہ اس نے ہر امر کے بارے میں جو انسان کے مقسوم میں ہے اُس کا حاصل ہونا مقدر کر دیا ہے۔ لیکن اُس کے حاصل کرنے کے طریق بھی ساتھ ہی رکھے ہیں اور یہ قانون الٰہی تمام اشیاء میں جاری اور ساری ہے جو شخص مثلاً پیاس بجھانا چاہتا ہے اس کو لازم پڑا ہوا ہے کہ پانی پیوے اور جو شخص روشنی کو ڈھونڈھتا ہے اُس کو مناسب حال یہ ہے کہ آفتاب کے سامنے آوے اور اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھا نہ رہے۔ اسی طرح دعا اور صدقات و خیرات و دیگر تمام اعمال صالح کو شرط حصول مرادات ٹھہرا رکھا ہے اور جیسے ایبتدا سے کسی چیز کا حصول مقدر ہوتا ہے ساتھ ہی اُس کے یہ بھی مقدر ہوتا ہے کہ وہ دعا یا صدقہ وغیرہ بجا لاوے گا تو وہ چیز اُس کو حاصل ہوگی۔ پس جس شخص کا مطلب روز ازل میں دعا پر موقوف کر رکھا ہے سو اگر تقدیر مبرم اُس کے حق میں یہ ہے کہ اُس کا مطلب حاصل ہو جائے گا تو ساتھ ہی اُس کے حق میں یہ بھی تقدیر مبرم ہے کہ وہ دعا بھی ضرور کرے گا اور ممکن نہیں کہ وہ دعا سے رک جائے۔ تقدیر ضرور ہی پوری ہو رہے گی اور بہرحال اُس کو دعا کرنی پڑے گی اور دعا میں ضرور نہیں کہ صرف زبان سے ہی کرے بلکہ دعا دل کی اُس عاجزانہ التجا کانام ہے کہ جب دل نہایت بے قرار اور مضطرب ہو کر رہ بخدا ہو جاتا ہے اور جس بلا کو آپ دور نہیں کر سکتا۔ اُس کا دور ہونا طاقت الوہیت سے چاہتا ہے۔ پس حقیقت میں دعا انسان کے لئے ایک طبعی امر ہے کہ جو اُس کی سرشت میں مخمر ہے۔ یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی اپنی گرسنگی کی حالت میں گریہ و زاری سے اپنا ایسا انداز بنا لیتا ہے کہ جس کو عین دعا کی حالت کہنا چاہئے غرض بذریعہ دعا کے خدا سے مدد ڈھونڈنا کوئی بناوٹ کی بات نہیں بلکہ یہ فطرتی امر ہے اور قوانین معینہ مقررہ میں سے ہے۔ جو شخص دعا کی توفیق دیا جاتا ہے اُس کے حق میں قبولیت اور استجابت بھی مقدر ہوتی ہے مگر یہ ضرور نہیں کہ اُسی صورت میں استجابت ہو کیونکہ ممکنہے کہ انسان کسی مطلوب کے مانگنے میں غلطی کرے جیسے بچہ کبھی سانپ کو پکڑنا چاہتا ہے اور والدہ مہربان جانتی ہے کہ سانپ کے پکڑنے میں اُس کی ہلاکت ہے۔ پس وہ بجائے سانپ کے کوئی خوبصورت کھلونا اُس کو دے دیتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ دعا کا مانگنا مقدرات ازلیہ کے نقیض نہیں ہے بلکہ خود مقدرات ازلیہ میں سے ہے اور اسی جہت سے انسان بالطبع نزول حوادث کے وقت دعا کی طرف جھک جاتا ہے اور عارفین کا ذاتی تجربہ ہے کہ جو مانگتا ہے اُس کو ملتا ہے۔ ہر یک زمانہ میں خدا کی مقبولین کی دعا کے ذریعہ سے عجیب طوروں پر مشکل کشائیاں کیں ہیں اور اپنے فضلوں کو منکشف کیا ہے۔ بعض لوگ مستجاب الدعوات ہوتے ہیں اور اُس کی اصلیت یہ ہے کہ حکیم مطلق نے مقدر کیا ہوتا ہے کہ بہت سے اہل حاجات اُن کی دعاؤں سے اپنے مطلب کو پہنچ گئے۔ سو وہی اہل حاجات اُس شخص مستجاب الدعوات کو آ ملتے ہیں اور امر مقدر پورا ہو جاتا ہے۔ سو مستجاب الدعوات کی طرف جھکنا ایک نیک فال ہے۔ کیونکہ غالباً جو شخص مستجاب الدعوات کی طرف آیا ہے اور اس کی طرف میل کرنا اُس کو توفیق دیا گیا ہے وہ اُنہیں لوگوں میں سے ہوگا کہ جن کے حق میں قلم ازلی نے کامیاب ہونا اس کی دعا سے لکھا ہے۔ مگر یہ بات نہیں کہ جو مستجاب الدعوات مانگتا ہے وہ بعینہٖ پورا ہو جاوے۔ اُس کی وجہ پہلے لکھ چکا ہوں۔ پانچ کتابیں راونہ کی گئی ہیں۔ بخدمت خواجہ علی صاحب و مولوی عبدالقادر صاحب سلام مسنون پہنچے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اگرخدا نے چاہا تو لودہیانہ میں مولوی صاحب کی ملاقت ہوگی۔ والامرکلہ فی ید اللّٰہ ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔ والسلام
۲۲؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ ذیقعدہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ عین انتظاری کے وقت میں پہنچا۔ خداوندکریم آنمخدوم کو مکروہات زمانہ سے اپنے ظل رحمت میں رکھے۔ جس قدر آپ اس عاجز سے محبت رکھتے ہیں وہی محبت اور تعلق اس عاجز کو آپ سے ہے۔ یہ سچ ہے کہ مقام تعلقات محبت میں انسان یہی چاہتا ہے کہ دیر تک اس دارفانی میں اتفاق ملاقات رہے لیکن اس مسافر خانہ کی بنیاد نہایت ہی خام اور متزلزل ہے۔اب تک اس عاجز پر جو مکشوف ہوا ہے اُن میں سے کوئی ایسا کشف نہیں جس میں طول عمر مفہوم ہوتا ہے بلکہ اکثر الہام ذومعنین ہوتے ہیں جن کے ایک معنی کی رو سے تو قرب وفات سمجھا جاتا ہے اور دوسری معنی اتمام نعمت ہیں۔ اس بات کو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سے معنی مراد ہیں۔ یہ الہام انی متوفیک ورافعک الی اس قدر ہوا ہے جس کاخدا ہی شمار جانتا ہے۔ بعض اوقات نصف شب کے بعد فجر تک ہوتا رہا ہے اس کی بھی دو ہی معنی ہیں۔ رات کو ایک اور عجیب الہام ہوا اور وہ یہ ہے قل لضیفک انی متوفیک قل لا خیک انی متوفیک۔ یہ الہام بھی چند مرتبہ ہوا اس کے معنی بھی دو ہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو تیرا مورد فیض یا بھائی ہے اس کو کہہ دے کہ میں تیرے پر اِتمام نعمت کروں گا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں وفات دوں گا۔ معلوم نہیں کہ یہ شخص کون ہے۔ اس قسم کے تعلقات کے کم و بیش کوئی لوگ ہیں۔ اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتے ہیں جن میں اپنی نسبت اور بعض احباب کی نسبت۔ اُن کی عسر یسر کی نسبت اُن کے حوادث کی نسبت۔ ان کی عمر کی نسبت ظاہر ہوتا رہتا ہے اور میرا اصول یہ ہے کہ انسانوںکو بالکل اپنے مولیٰ کی مرضی کے موافق رہنا چاہئے اور جو کچھ وہ اختیار کرے وہ بہتر ہے کیونہ تمام خیر اُسی بات میں ہے جو وہ اختیار کرے۔ دل میں ارادہ تو ہے کہ ایک دو روز کے لئے آپ کے شہر میں آؤں مگر بجز مرضی باری تعالیٰ کیونکر پوراہو۔ مولوی عبدالقادر صاحب موتکو بہت یاد رکھیں اور دلی اخلاص کے حصول میں کوشش کریں اور یہ عاجز بھی کوشش کرے گا۔ والسلام
۲۰؍ نومبر ۱۸۸۳ء مطابق ۱۹؍ محرم ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا چونکہ اس ہفتہ میںبعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں اور اگرچہ بعض ان میں سے ایک ہندو لڑکے سے دریافت کئے ہیں مگر قابل اطمینان نہیں اور بعض منجانب اللہ بطور ترجمہ الہام ہوا تھا اور بعض کلمات شاید عبرانی ہیں۔ ان سب کی تحقیق تنقیح ضرور ہے تا بعد تنقیح جیسا کہ مناسب ہو آخیر جزو میں کہ اب تک چھپی نہیں درج کئے جائیں۔ آپ جہاں تک ممکن ہو بہت جلد دریافت کر کے صاف خط میں جو پڑھا جاوے اطلاع بخشیں اور وہ کلمات یہ ہیں۔
پریشن، عمر ہراطوس، با پلاطوس یعنی پڑطوس لفظ ہے یا پلاطوس لفظ ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور عمر عربی لفظ ہے اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنی دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں۔ پھر دو لفظ اور ہیں۔ ھوشعنا نعسا معلوم نہیں کس زبان کے ہیں اور انگریزی یہ ہیں۔
اوّل عربی فقرہ ہے یا داؤد عامل بالناس رنقا و احساناً۔ ’’یو مسٹ ڈڈ وَہاٹ آئی ٹولڈ یو‘‘۔ تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے یہ اُردو عبارت بھی الہامی ہے۔ پھر بعد اس کے ایک اور انگریزی الہام ہے اور ترجمہ اُس کا الہامی نہیں۔ بلکہ اُس ہندو لڑکے نے بتلایا ہے۔ فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدم تاخر بھی ہو جاتا ہے اُس کو غور سے دیکھ لینا چاہئے اور وہ الہام یہ ہیں۔
’’دَو آل من شُڈ بی انگری بٹ گاڈ اِز وِد یو‘‘۔’’ ہی شل ہلپ یو‘‘۔ ’’واڑڈس آف گاؤ ناٹ کین ایکسچینج‘‘۔ ترجمہ اگر تمام آدمی ناراض ہونگے لیکن خدا تمہارے ساتھ ہوگا وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ کے کلام بدل نہیں سکتے پھر بعد اس کے ایک دو اور الہام انگریزی ہیں جن میں سے کچھ تو معلوم ہے اور وہ یہ ہیں۔
’’آئی شل ہلپ یو‘‘۔ مگر بعد اس کے یہ ہے۔ ’’یوہیو ٹو گو امرتسر‘‘۔ پھر ایک فقرہ ہے جس کے معنی معلوم نہیں اور وہ یہ ہے۔ ’’ہی ہل ٹس اِن دی ضلع پشاور‘‘۔ یہ فقرات ہیں ان کو تنقیح سے لکھیں اور براہ مہربانی جلد تر جواب بھیج دیں تا اگر ممکن ہو تو اخیر جزو میں بعض فقرات بموضع مناسب درج ہو سکیں۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچے۔
(۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۳ء بمطابق ۱۱؍ صفر ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ موجب ممنونی ہوا آج میراارادہ تھا کہ صرف ایک دن کے لئے آنمخدوم کی ملاقات کے لئے لودہیانہ کا قصد کرو لیکن خط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ حال طبع کتاب کا ابتر ہو رہا ہے اگر اُس کا جلدی سے تدارک نہ کیا جائے تو کاپیاں کہ جو ایک عرصہ کی لکھی ہوئی ہیں خراب ہو جائیں گی۔ بات یہ ہے کہ کاپیوں کی چھ سات جزیں مطبع ریاض ہند سے بباعث کم استطاعتی مطبع کے مطبع چشمہ نور میں دی گئی تھیں اور مہتمم چشمہ نور نے وعدہ کیا تھا کہ اِن کاپیوں کو جلد تر چھاپ دیں گے اور قبل اس کے جو پُرانی اور خراب ہوں چھپ جائیں گی۔ سو خط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ وہ کاپیاں اب تک نہیں چھپیں اور خراب ہوگئیں ہیں کیونکہ اُن کے لکھے جانے پر عرصہ دراز گزر گیا ہے ناچار اس بندوبست کے لئے کچھ دن امرتسر ٹھہرنا پڑے گا اور دوسری طرف یہ ضرورت درپیش ہے کہ ۲۶؍ دسمبر ۱۸۸۳ء تک بعض احباب بطور مہمان قادیان میں آئیں گے اور اُن کے لئے خاکسار کا یہاں ہونا ضروری ہے سو یہ عاجز بنا چاری امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہے اور معلوم نہیں کہ کیاپیش آوے۔ اگر زندگی اور فرصت اور توفیق ایزدی یاور ہوئی اور کچھ وقت میسر آ گیا تو انشاء اللہ القدیر ایک دن کے لئے امرتسر میں فراغت پا کر آنمخدوم کی طرف روانہ ہوں گا۔ مگر وعدہ نہیں اور کچھ خبر نہیں کہ کیاہوگا اور خداوند کے فضل و کرم ربوبیت سے اس عاجز کو فرصت مل گئی تو اس بات کو آنمخدوم اس بات کو پہلے سے یادرکھیں کہ صرف ایک رات رہنے کی گنجائش ہوگی کیونکہ بشرط زندگی و خیریت کہ جو حضرت خداوندکریم کے ہاتھ میں ہے۔ ۲۶؍ دسمبر ۱۸۸۳ء تک قادیان واپس آجانا ہے۔ اُن سے وعدہ ہو چکا ہے۔ والامرکلہ فی ید اللّٰہ اور ایک دن کے لئے آنا بھی ہنوز ایک خیال ہے واللّٰہ اعلم بخفیقتہ المال۔ اگر خداوندکریم نے فرصت دی اور زندگی اور امن عطا کیا اور امرتسر کے مخمصہ سے صفائی اور راحت حاصل ہوئی اور تاریخ مقررہ پر واپس آنے کی گنجائش بھی ہوئی تو یہ عاجز آنے سے کچھ فرق نہیں کرے گا مگر آپ ریل پر ہرگز تشریف نہ لاویں کہ یہ تکلف ہے۔ یہ احقر عباد سخت ناکارہ اور بے ہنر ہے اور اس لائق ہرگز نہیں کہ اس کے لئے کچھ تکلف کیا جائے۔ مولیٰ کریم کی ستاریوں اور پردہ پوشیوں نے کچھ کا کچھ ظاہر کر رکھا ہے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم (۱۹؍ دسمبر ۸۸۳ء مطابق ۱۸؍ صفر ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ مجھ کو آپ کا اخلاص بہت شرمندہ کر رہا ہے۔ خداوندکرم آپ کو بہت ہی اجر بخشے اور ہی عاجز تفضلات الٰہیہ پر بہت بھروسہ رکھتا ہے اور یقینا سمجھتا ہے کہ اُس کی رحمتیں اس اخلاص اور سعی کے صلہ میں آثار نمایاں دکھلائیں گی۔ یہ عالم فانی تو کچھ چیز نہیں اور اس کی آرزو کرنے والے سخت غلطی پر ہیں۔ مومن کے لئے اس سے بہتر اور کوئی نعمت نہیں کہ اس کا مولیٰ کریم اُس پر راضی ہو۔ آپ کے نفس میں قبولیت دعا کی شرائط پیدا ہیں اور اس عاجز نے دوسروں میں اس قسم کی استقامت کم پائی ہے۔ نیک ظن بننا آسان ہے مگر اُس کا نبھانا بہت مشکل۔ سو خدا نے استقامت اور حسن ظن کی سالیت آپ کے نفس میں رکھی ہے۔ یہ بڑی خوبی ہے کہ جس سے انسان اپنی مراد کو پہنچتا ہے اور نہایت بدنصیب وہ انسان ہے جس کاانجام آغاز کا جوش نہیں رکھتا اور بدظنی اُس کو ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے اور سعید وہ انسان ہے جس پر نیک ظن غالب ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ٹھوکر کھانے سے بچتے ہیں اور اُس کا فطرتی نور اُن کو شیطانی تاریکی سے بچا لیتا ہے اور تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں اور الحمدللہ کہ میں آپ کو اُن تھوڑوں کے اوّل درجہ میں دیکھتا ہوں۔ بخدمت تمام احباب سلام مسنون پہنچے۔ (یکم جنوری ۱۸۸۴ء مطابق یکم ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ اب یہ عاجز یوم شنبہ امرسترجانے کو تیار ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہیں سے آپ کی خدمت میں خط لکھے گا۔ آپ نے جو خواب دیکھی۔ انشاء اللہ القدیر بہت بہتر ہے۔ انسان کو بغیر راست گوئی چارہ نہیں اور انسان سے خدا تعالیٰ ایسی کوئی بات پسند نہیں کرتا جیسے اُس کی راست گوئی کو اور راست یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس عاجز سے ایک عجیب معاملہ ہے کہ اِس جیسے شخص پر اُس کا تفضل اور احسان ہے کہ اپنی ذاتی حالت میں احقر اور ارزل عباد ہے۔ زہد سے خالی اور عبادت سے عاری اور معاصی سے پُر ہے۔ سو اُس کے تفضلات تحیر انگیز ہیں۔ خدا تعالیٰ کا معاملہ اپنے بندوں سے طرزِ واحد پر نہیں اور توجہات اور اقبال اور فتوح حضرت احدیّت کی کوئی ایک راہ خاص نہیں۔ اگرچہ طرق مشہورہ ریاضات اور عبادات اور زُہد اور تقویٰ ہے مگر ماسوا اس کے ایک اور طریق ہے جس کے خدا تعالیٰ کبھی کبھی آپ بنیاد ڈالتا ہے۔ کچھ دن گزرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمع زاہدین اور عابدین ہے اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے کے وقت ایک شعر موزوں اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور مشہود وغیرہ آتا ہے جیسے یہ مصرع
تمام شب گزرا نیم در قیام و سجود
چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھتے ہیں … اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی اور جو شعر اُس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا وہ بطور الہام زبان پر جاری ہو گیا اور وہ ہے
طریق زہد و تعید ندانم اے زاہد
خدائے من قدمم را… براہِ داؤد
سو سچ ہے کہ یہ ناچیز زہد اور تعبد سے خالی ہے اور بجز عجز و نیستی اور کچھ اپنے دامن میں نہیں اور وہ بھی خدا کے فضل سے نہ اپنے زور سے جو لوگ تلاش کرتے ہیں وہ اکثر زاہدین اورعابدین کو تلاش کرتے ہیں اور یہ بات اس جگہ نہیں۔ آپ کے مبلغ پچاس روپیہ عین ضرورت کے وقت پہنچے۔ بعض آدمیوں کے بے وقت تقاضا سے بالفعل پچاس روپیہ کی سخت ضرورت تھی دعا کے لئے یہ الہام ہوا۔ بحسن قبولی دعاء بنگر کہ چہ زود دعا قبول میکنم۔ ۳؍ جنوری ۱۸۸۴ء کو یہ الہام ہوا۔ ۶؍ تاریخ کو آپ کا روپیہ آ گیا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذالک۔ (۷؍ جنوری ۱۸۸۴ء ۔ ۷؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۴۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔
بعد سلام مسنون آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز اگرچہ بہت چاہتا ہے کہ آنمخدوم کے بار بار لکھنے کی تعمیل کی جائے مگر کچھ خداوندکریم ہی کی طرف سے ایسے اسباب آ پڑتے ہیں کہ رک جاتا ہوں۔ نہیں معلوم کہ حضرت احدیّت کی کیا مرضی ہے۔ عاجز بندہ بغیر اُس کی مشیت کے قدم اُٹھا نہیں سکتا۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں رہا یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن سے سابق تعارف نہیں، ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ بھی ان کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے۔ اُن لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو اُن کو ناگوار گزری ہے سو اُن سب کے دل منقطع ہوگئے۔ آپ نے اُس وقت مجھ کو کہا کہ وضع بدل لو۔ مَیں نے کہا کہ نہیں بدعت ہے۔ سو وہ لوگ بیزار ہوگئے اور ایک دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جا کر بیٹھ گئے۔ تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں۔ مَیں اُن کے پاس گیا تا اپنی امامت سے ان کو نماز پڑھاؤں پھر بھی اُنہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن سے علیحدہ ہونا اور کنارہ کرنا چاہا اور باہر نکلنے کے لئے قدم اُٹھایا معلوم ہوا کہ اُن سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے تو تقدیرات معلقہ کو مبدّل بھی کر دیتا ہے لیکن اندیشہ گزرتا ہے کہ خدانخواستہ وہ آپ ہی کا شہر نہ ہو۔ لوگوں کے شوق اور ارادت پر آپ خوش نہ ہوں۔ حقیقی شوق اور ارادت کو جو لغزش اور ابتلا کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے لاکھوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے ورنہ اکثر لوگوں کے دل تھوڑی تھوڑی بات میں بدظنی کی طرف جھک جاتے ہیں اور پھر پہلے حال سے پچھلا حال اُن کا بدتر ہو جاتا ہے۔ صدق الارادت وہ شخص ہے کہ جو رابطہ توڑنے کیلئے جلد تر تیار نہ ہو جائے اور اگر ایسا شخص جس پر ارادت کبھی کسی فسق اور معصیت میں مبتلا نظر آوے یا کسی اور قسم کا ظلم اور تعدی اس کے ہاتھ سے ظاہر ہوتا دیکھے یا کچھ اسباب اور اشیاء منہیات کے اُس کے مکان پر موجود پاوے تو جلد تر اپنے جامہ سے باہر نہ آوے اور اپنی دیرینہ خدمت اور ارادت کو ایک ساعت میں برباد نہ کرے بلکہ یقینا دل میں سمجھے کہ یہ ایک ابتلاہے کہ جو میرے لئے پیش آیا اور اپنی ارادت اور عقیدت میں ایک ذرّہ فتور پیدا نہ کرے اور کوئی اعتراض پیش نہ کرے اور خدا سے چاہے کہ اس کو اُس ابتلا سے نجات بخشے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کسی نہ کسی وقت اُس کے لئے ٹھوکر درپیش ہے۔ جن پر خدا کی نظر لطف ہے اُن کو خدا نے ایک مشرب پر نہیں رکھا۔ بعض کو کوئی مشرب بخشا اور بعض کو کوئی اور اُن لوگوں میں ایسے بھی مشرب ہیں کہ جو ظاہری علماء کی سمجھ سے بہت دور ہیں۔ حضرت موسیٰ جیسے اولوالعزم مرسل خضر کے کاموں کو دیکھ کر سراسیمہ اور حیران ہوئے اور ہر چند وعدہ بھی کیا کہ میں اعتراض نہیں کروں گا پر جوش شریعت سے اعتراض کر بیٹھے اور وہ اپنے حال میں معذور تھے اور خضر اپنے حال میں معذور تھا۔ غرض اس مشرب کے لوگوں کی خدمت میں ارادت کے ساتھ آنا آسان ہے مگر ارادت کو سلامت لے جانا مشکل ہے۔ بات یہ ہے کہ خدا کو ہر ایک زائر کا ابتلا منظور ہے تا وہ اُن پر اُن کی چھپی ہوئی بیماریاں ظاہر کرے۔ سو نہایت بدقسمت وہ شخص ہے کہ جو اُس ابتلا کے وقت تباہ ہو جائے۔ کاش! اگر وہ دور کا دور ہی رہتا تو اُس کے لئے اچھا ہوتا۔ ابوجہل کچھ سب سے زیادہ شریر نہ تھا۔ پر رسالتہ کے زمانہ نے اُس کا پردہ فاش کیا۔ اگر کسی بعد کی صدی میں کسی مسلمان کے گھر پیدا ہو جاتا تو شاید وہ خبث اُس کی چھپی رہتی۔ سو خبث امتحان ہی سے ظاہر ہوتی ہیں۔ بہتر ہے کہ آنمخدوم ابھی اس عاجز کی تکلیف کشی کے لئے بہت زور نہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے۔ یہ عاجز معمولی زاہدوں اورعابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ اُن کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے بلکہ اُن کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ اور دور ہے۔ سیفعل اللّٰہ مایشاء اگر خدانے چاہا تو وہ قادر ہے کہ اپنے خاص ایماء سے اجازت فرماوے ہر یک کو اس جگہ کے آنے سے روک دیں اور جو پردہ غیب میں مخفی ہے اُس کے ظہور کے منتظر رہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ (۱۸؍جنوری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۸؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۴۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر صاحب سلمہ ۔ بعد سلام مسنون
آنمخدوم کا خط آج امرتسر میں مجھ کو ملا۔ پانچ جلدیں حصہ اوّل و دوئم و سوئم روانہ ہو چکی ہیں۔ ایک خط دہلی کے علماء کی طرف اس اس خاکسار کو آیا تھا کہ مولوی محمد نے تکفیر کا فتویٰ بہ نسبت اس خاکسار کے طلب کیا ہے۔ نہایت رفق اور ملائمیت سے رہنا چاہئے۔ آج حضرت خداوندکریم کی طرف سے الہام ہوا۔ یا عبدالرافع انی رافعک الی۔ انی معزک لامانع لما اعطی۔ شاید پرسوں مکرر الہام ہوا تھا۔ یایحی خذالکتاب بقوۃ۔ خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتھا الاولٰی۔ یہ آخری فقرہ پہلے بھی الہام ہو چکا ہے۔
(۱۵؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۶؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۴۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بعد ہذا آپ نے جو قول وحدت وجود کی نسبت استفسار فرمایا ہے اُس میں یہ بہتر تھا کہ اوّل آپ اُن وساوس اور اوہام کو لکھتے جن کو قائلین اس قول سقیم کے بطور دلیل آپ کے روبرو پیش کرتے ہیں کیونکہ اس عاجز نے ہر چند ایک مدت دراز تک غور کی اور کتاب اللہ اور احادیث نبوی کو بتدبر و تفکر تمام دیکھا اور محی الدین عربی وغیرہ کی تالیفات پر بھی نظر ڈالی کہ جو اس طور کے خیالات سے بھرے ہوئے ہیں اور خود عقل خداداد کی رُو سے بھی خوب سوچا اور فکر کیا لیکن آج تک اس دعویٰ کی بنیاد پر کوئی دلیل اور صحیح حجت ہاتھ نہیں آئی اور کسی نوع کی برہان اس کی صحت پر قائم نہیں ہوئی بلکہ اس کے ابطال پر براہین قویہ اور حجج قطعیہ قائم ہوتے ہیں کہ جو کسی طرح اُٹھ نہیں سکتیں۔ اوّل بڑی بھاری دلیل مسلمانوں کے لئے بلکہ ہر یک کے لئے کہ جو حق پر قدم مارنا چاہتا ہے۔ قرآن شریف ہے کیونکہ قرآن شریف کی آیات محکمات میں بار بار اور تاکیدی طور پر کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ جو کچھ مافی السموات والارض ہے۔ وہ سب مخلوق ہے اور خدا اور انسان میں ابدی امتیاز ہے کہ جو نہ اس عالم میں اور نہ دوسرے عالم میں مرتفع ہوگی۔ اس جگہ بھی بندگی بیچارگی ہے اور وہاں بھی بندگی بیچارگی ہے۔ بلکہ اُس پاک کلام میں نہایت تصریح سے بیان فرمایا گیا ہے کہ انسان کی روح کے لئے عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اُس کی پیدائش کی عبودیت ہی علت غائی ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون یعنی میں نے جن اور انس کو پرستش دائمی کے لئے پیدا کیا اور پھر انسان کامل کی روح کو اُس کے آخری وقت پر مخاطب کر کے فرمایا یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃً مرضیۃ فادخلی فی عبادی و ادخلی جنتی۔ یعنی اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے ربّ کی طرف واپس چلا آ تو اُس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ سو میرے بندوں میں داخل ہو اور میرے بہشت میں اندر آ جا۔ ان دونوں آیات جامع البرکات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انسان کی روح کے لئے بندگی اور عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اسی عبودیت کی غرض سے وہ پیدا کیا گیا ہے بلکہ آیت مؤخر الذکر میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو انسان اپنی سعادت کاملہ کو پہنچ جاتا ہے اور اپنے تمام کمالات فطرتی کو پا لیتا ہے اور اپنی جمیع استعدادات کو انتہائی درجہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اُس کو اپنی آخری حالت پر عبودیت کا ہی خطاب ملتا ہے اور فادخلی فی عبادی کے خطاب سے پکارا جاتا ہے۔ سو اب دیکھئے اس آیت سے کسی قدر بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا کمال مطلوب عبودیت ہی ہے اور سالک کا انتہائی مرتبہ عبودیت تک ہی ختم ہوتا ہے۔ اگر عبودیت انسان کے لئے ایک عارضی جامعہ ہوتا اور اصل حقیقت اس کی الوہیت ہوتی تو چاہئے تھا کہ بعد طے کرنے تمام مراتب سلوک کے الوہیت کے نام سے پکارا جاتا۔ لیکن فادخلی فی عبادی کے لفظ سے ظاہر ہے کہ عبودیت اُس جہان میں بھی دائمی ہے۔ جو ابدالاباد رہے گی اور یہ آیت بآواز بلند پکار رہی ہے کہ انسان گو کیسے ہی کمالات حاصل کرے مگر وہ کسی حالت میں عبودیت سے باہر ہو ہی نہیں اور ظاہر ہے کہ جس کیفیت سے کوئی شَے کسی حالت میں باہر نہ ہو سکے وہ کیفیت اُس کی حقیقت اور ماہیت ہوتی ہے۔ پس چونکہ از روئے بیان واضح قرآن شریف کے انسان کے نفس کے لئے عبودیت ایسی لازمی چیز ہے کہ نہ نبی بن کر اور نہ رسول بن کر اور نہ صدیق بن کر اور نہ شہید بن کر اور نہ اس جہان اور نہ اُس جہان میں الگ ہو سکے۔ جو مہتر اور بہتر انبیا تھے۔ انہوں نے عبدہ و رسولہ ہونا اپنا فخر سمجھا تو اس سے ثابت ہے کہ انسان کی اصل حقیقت و ماہیت عبودیت ہی ہے الوہیت نہیں اور اگر کوئی الوہیت کا مدعی ہے تو بمقابلہ اس محکم اور بین آیت کے جو فادخلی فی عبادیہے۔ کوئی دوسری آیت ایسی پیش کرے کہ جس کا مفہوم فادخلی فی ذاتی ہو اور خود قرآن شریف اور جا بجا اپنے نزول کی حلت غائی بھی یہی ٹھہراتا ہے کہ تا عبودیت پر لوگوں کو قائم کرے اور خدا نے اپنی کتاب عزیز میں اُن لوگوں پر *** کی ہے جنہوں نے مسیح اور بعض دوسرے نبیوں کو خدا سمجھا تھا۔ پس کیونکر وہ لوگ رحمت کے مستحق ہو سکتے ہیں جنہوں نے تمام جہان کو یہاں تک کہ ناپاک اور پلید روحوں کو بھی کہ جو شرارت اور فسق اور فجور سے بھری ہیں خدا سمجھ لیا ہے۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم کی رُو سے توحید تین مرتبہ پر منقسم ہے۔ ایک ادنیٰ اور ایک اوسط اور ایک اعلیٰ۔ تفصیل اُس کی یہ ہے کہ ادنیٰ مرتبہ توحید کا کہ جس کے بغیر ایمان متحقق ہو ہی نہیں سکتا۔ نفی شرک رکھا ہے یعنی اس شرک سے بیزار ہونا کہ جو مشرکین محض ظلم اور زیادتی کی راہ سے مخلوق چیزوں کو خدا کے کاموں میں شریک سمجھتے ہیں یعنی کسی قوم نے سورج اور چاند یا آگ اور پانی کو دیو تے قرار دے لیا ہے اور اُن سے مرادیں مانگتے ہیں اور کسی قوم نے بعض انسانوں کو خدائی کا مرتبہ دے رکھا ہے اور خداوندکریم کی طرح اُن کو قادر مطلق اور قاضی الحاجات خیال کر رکھا ہے۔ سو یہ شرک صریح اور ظلم بدیہی ہے کہ جو ہر یک عاقل کو یہ ہدایت نظر آتا ہے لیکن دوسری قسم شرک کی جو قرآن شریف میں بیان کی ہے جس کو چھوڑنے پر توحید کی دوسری قسم موقوف ہے وہ اس کی نسبت کچھ باریک ہے کہ عوام کالانعام اس کو سمجھ نہیں سکتے۔ یعنی اسباب کو کارخانہ قدرت حضرت احدیّت میں شریک سمجھنا اور فاعل اور مؤثر حقیقی خدا ہی کو نجاننا۔ مثلاً ایک دوکاندار مسلمان جب عین ہجوم خریداروں کے وقت میں بانگ نماز جمعہ سنتا ہے تو دل میں خیال کرتا ہے کہ اگر میں اس وقت جمعہ کی نماز کے لئے اپنی دکان بند کر کے گیا تو مرا بڑا ہی ہرج ہوگا۔ جمعہ کی نماز میں خطبہ سننے اور نماز پڑھنے اور پھر شاید وعظ سننے میں ضرور دیر لگے گی اور اس عرصہ میں سب خریدار چلے جائیں گے اور جو آمدنی اب یہاں ٹھہرے رہنے سے متصور ہے اُس سے محروم رہوں گا۔ سو یہ شرک فی الاسباب ہے کیونکہ اگر وہ دوکاندار جانتا کہ مرا ایک رازق قادر و متصرف مطلق ہے جس کے ہاتھ میں تمام قبض و بسط رزق ہے اور اُس کی اطاعت کرنے میں کوئی نقصان عائد حال نہیں ہو سکتا اور اُس کے ارادہ کے برخلاف کوئی تدبیر و حیلہ رزق کو فراخ نہیں کر سکتا تو وہ اس شرک میں ہرگز مبتلا نہ ہوتا اور یہ قسم دوئم شرک کی چونکہ باریک ہے اس وجہ سے ایک عالم اس میں مبتلا ہو رہا ہے اور اکثر لوگ اسباب پرستی پر اس قدر جھک رہے ہیں کہ گویا وہ اپنے اسباب کو اپنا خدا سمجھ رہے ہیں اور یہ شرک دِق کی بیماری کی طرح ہے کہ جو اکثر نظروں سے مخفی اور محتجب رہتا ہے اور تیسری قسم شرک کی جو قرآن شریف میں بیان کی گئی ہے جس کے چھوڑنے پر تیسری قسم توحید کی موقوف ہے وہ نہایت ہی باریک ہے کہ بجز خاص بالغ نظروں کے کسی کو معلوم نہیں ہوتی اور بغیر افراد کامل کے کوئی اس سے خلاصی نہیں پاتا اور وہ یہ ہے کہ ماسوا اللہ کے یادداشت دل پر غالب رہنا اور اُن کی محبت اور اُن کی محبت یا عداوت میں اپنی اوقات ضائع کرنا اور اُن کی ناچیز ہستی کو کچھ چیز سمجھنا اور اس شرک کا چھوڑنا جس پر توحید کامل موقوف ہے۔ تب محقق ہوتا ہے کہ جب محب صادق پر اس قدر محبت اور محبت الٰہی کا استیلاء ہو جائے کہ اُس کی نظر شہود میں ہر یک موجود ماسوا اللہ موجود ہونے کے معدوم دکھائی دے۔ یہاں تک کہ اپنا وجود بھی فراموش ہو جائے اور محبوب حقیقی کا نور ایسا کامل طور پر چمکے سو اُس کے آگے کسی چیز کی ہستی اور حقیقت باقی نہ رہے اور اس توحید کا کمال اس بات پر موقوف ہے کہ ماسوا اللہ واقعی طور پر موجود تو ہو مگر سالک کی نظر عاشقانہ میں کہ جو محبت الٰہیہ سے کامل طور پر بھڑک گئی ہے وہ وجود غیر کا کالعدم دکھائی دے اور غلبہ محبت احدیتّ کی وجہ سے اس کے ماسوا کو منفی اور معدوم خیال کرے کیونکہ اگر وجود ماسوا کافی الحقیقت منفی اور معدوم ہی ہو تو پھر اس توحید درجہ سوئم کی تمام خوبی برباد ہو جائے گی وجہ یہ کہ ساری خوبی اس توحید درجہ سوئم میں یہ ہے کہ محبوب حقیقی کی محبت اور عظمت اس قدر دل پر استیلاء کرے کہ بوجہ غلبہ اس شہود تام کے دوسری چیزیں معدوم دکھائی دیں۔ اب اگر دوسری چیزیں فی الحقیقت معدوم ہی ہیں تو پھر اس استیلاء محبت اور غلبہ شہود عظمت کی تاثیر کیا ہوئی اور کون کمال اس توحید میں ثابت ہوا کیونکہ جو چیز فی الواقعہ معدوم ہے اس کو معدوم ہی خیال کرنا یہ ایسا امر نہیں ہے کہ جو استیلاء محبت پر موقوف ہو بلکہ محبت اور شہود عظمت تامہ کی کمالیت اسی حالت میں ثابت ہوگی کہ جب عاشق دلدادہ محض استیلاء عشق کی وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے اپنے معدوم کے ماسوا کو معدوم سمجھے اور اپنے معشوق کے غیر کو کالعدم خیال کرے گو عقل شرع اُس کو سمجھاتی ہوں کہ وہ چیزیں حقیقت میں معدوم نہیں ہیں۔ جیسے ظاہر ہے کہ جب دن چڑھتا ہے اور لوگوں کی آنکھوں پر نور آفتاب کا استیلاء کرتا ہے تو باوجود اس کے کہ لوگ جانتے ہیں کہ ستارے اس وقت معدوم نہیں مگر پھر بھی بوجہ استیلاء اُس نور کے کہ ستاروں کو دیکھ نہیں سکتے۔ ایسا ہی استیلاء محبت اورعظمت اللہ کا محب صادق کی نظر میں ایسا ظاہر کرتا ہے کہ گویا تمام عالم بجز اس کے محبوب کے معدوم ہے اور اگرچہ عشق حقیقی میں یہ تمام انوار کامل اور اَتم طور پر ظاہر ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی عشق مجازی کا مبتلا بھی اس غایت درجہ عشق پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنے معشوق کے غیر کو یہاں تک کہ خود اپنے نفس کو کالعدم سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ منقول ہے کہ مجنون جس کا نام قیس ہے اپنے عشق کی آخری حالت میں ایسا دیوانہ ہو گیا کہ یہ کہنے لگا کہ میں آپ ہی لیلیٰ ہوں۔ سو یہ بات تو نہیں کہ فی الحقیقت وہ لیلیٰ ہی ہو گیا تھا بلکہ اس کا یہ باعث تھا کہ چونکہ وہ مدت تک تصور لیلیٰ میں غرض رہا۔ اس لئے آہستہ آہستہ اس میں خود فراموشی کا اثر ہونے لگا۔ ہوتے ہوتے اس کا استغراق بہت ہی کمال کو پہنچ گیا اور محویت کی اس حد تک جا پہنچا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جنون عشق سے انا الیلیٰ کا دعویٰ کرنے لگا اور یہ خیال دل میں بندہ گیا کہ فی الحقیقت میں ہی لیلیٰ ہوں۔ غرض غیر کو معدوم سمجھنا لوازم کمال عشق میں سے ہے اور اگر غیر فی الحقیقت معدوم ہی ہے تو پھر وہ ایسا امر نہیں ہے کہ جس کو استیلاء محبت اور جنون عشق سے کچھ بھی تعلق ہو اور غلبہ عشق کی حالت میں محویّت کے آثار پیدا ہو جانا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو انسان مشکل سے سمجھ سکے۔ شیخ مصلح الدین شیرازی نے خوب کہا ہے۔
نہ از چینم حکایت کن نہ از روم
کہ دارم دلستانے اندریں بوم
چو روئے خوب او آید ببادم
فراموشتم شود موجود و معدوم
اور پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
باتو مشغول و باتو ہم اہم
دانہ تو بخشایش تو میخواہم
تا مرا از تو آگہی دادند
بوجودت گرانہ خود اگاہم
اور خود وہ محویت کا ہی اثر تھا جس سے زلیخا کی سہیلیوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن شریف میں کمال توحید کا یہی درجہ بیان کیا گیا ہے کہ محب صادق بوجہ استیلاء محبت اور شہود عظمت محبوب حقیقی کی غیر کے وجود کو کالعدم خیال کرے نہ کہ فی الواقعہ غیر معدوم ہی ہو کیونکہ معدوم کو معدوم خیال کرنا ترقیات عشق اور محبت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ سوعاشق صادق کے لئے توحید ضروری اور لابدی ہے کہ جو اُس کے کمال عشق کی علامت ہے۔ یہی توحید ہے کہ جو اُس کا شہود بجز ایک کے نہ ہو نہ یہ کہ عقلی طور پر بھی فی الواقعہ ہی موجود سمجھتا ہو کیونکہ وہ اپنے عقل میں ہو کر ایسی باتیں ہرگز منہ پر نہیں لاتا اور حق الیقین کے مرتبہ کے لحاظ سے جب دیکھتا ہے تو حقائق اشیاء سے انکار نہیں کر سکتا بلکہ جیسا کہ اشیاء فی الواقعہ موجود ہیں ایسا ہی اُن کی موجودیت کا اقرار رکھتا ہے اور چونکہ یہ توحید شہودی فنا کے لئے لازمی اور ضروری ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنے پاک کلام میں بسط سے فرمایا ہے اور نادان جب اُن بعض آیات کو دیکھتا ہے تو اس دھوکہ میں پڑ جاتا ہے کہ گویا وہ آیات توحید وجودی کی طرف اشارہ ہے اور اس بات کونہیں سمجھتا کہ خداوند کے کلام میں تناقص نہیں ہو سکتا۔ جس حالت میں اُس نے صدہا آیات بینّات اور نصوص صریحہ میں اپنے وجود اور مخلوق کے وجود میں امتیاز کلی طور پر ظاہر کر دیا ہے اور اپنے مصنوعات کو موجود واقعی قرار دے کر اپنی صانعیت اُس سے ثابت کی ہے اور اپنے غیر کو شقی اور سعید کی قسموں میں تقسیم کیا ہے اور بعض کے لئے خلود جنت اور بعض کے لئے خلود جہنم قرار دیا ہے اور اپنے تمام نبیوں اور مرسلوں اور صدیقوں کو بندہ کے لفظ سے یاد کیا ہے اور آخرت میں اُن کی عبودیت دائمی غیر منقطع کا ذکر فرمایا ہے تو پھر ایسے صاف صاف اور کھلے کھلے بیان کے مقابلہ پر کہ جو بالکل عقلی طریق سے بھی مطابق ہے بعض آیات کی کسی اور طرح پر معنی کرنا صرف اُن لوگوں کا کام ہے کہ جو راہ راست کے طالب نہیں۔ بلکہ آرام پسند اور آزاد طبع ہو کر صرف الحاد اور زندقہ میں اپنی عمر بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر انسان صرف عقل کی رُو سے بھی نظر کرے تو وہ فی الفور معلوم کرے گا کہ مشت خاک کو حضرت پاک سے کچھ بھی نسبت نہیں۔ انسان دنیا میں آ کر بہت سے مکروہات اپنی مرضی کے برخلاف دیکھتا ہے اور بہت سے مطالب باوجود دعا اور تضرع کے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ پس اگر انسان فی الحقیقت خدا ہی ہے تو کیوں صرف کن فیکون کے اشارہ سے اپنے تمام مقاصد حاصل نہیں کر لیتا اور کیوں صفات الوہیت اس میں محقق نہیں ہوتیں کیا کوئی حقیقت اپنے لوازم ذاتی سے معرا ہو سکتی ہے۔ پس اگر انسان کی حقیقت الوہیت ہے تو کیوں آثار الوہیت اس سے ظاہر نہیں ہوتے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام چالیس بر تک روتے رہے مگر اپنے فرزند عزیز کا کچھ پتہ نہ ملا۔ مگر اسی وقت کہ جب خدا نے چاہا۔ پس جب کہ صفات الوہیت نبیوں میں ظاہر نہیں ہوئے تو اور کون ہے جس میں ظاہر ہوں گے اور جب کہ اب تک کوئی ایسا مرد پیدا نہیں ہوا کہ جس نے میدان میں آ کر تمام مخالفوں اور موافقوں کے سامنے الوہیت کی طاقتیں دکھلائی ہوں تو پھر آئندہ کیونکر امید رکھیں۔ ماسوا اس کے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ انسان سے کیسے کیسے بُرے اور ناپاک کام صادر ہوتے ہیں۔ پس کیا عقل کسی عاقل کی تجویز کر سکتی ہے کہ یہ سب ناپاکیاں خدا کی روح کر سکتی ہے۔ پھر علاوہ اس کے مخلوق کے وجود سے انکار کرنا دوسرے لفظوں میں اس بات کا دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ قادر مطلق نہیں کیونکہ اگر اس کو قادر مطلق مان لیا ہے تو پھر اُس کی قدرت تامہ کا اسی بات پر ثبوت موقوف ہے کہ جو چاہے پیدا کرے نہ کہ ہندؤوں کے اوتاروں کی طرح ہر جگہ بُرے بھلے کام کرنے کے لئے آپ ہی جنم لیتا رہے۔ سو خدا کی ذات سے سلب قدرت کرنا اور اُس کو طرح طرح کے گناہوں اور پاپوں اور بے ایمانیوں کا مورد ٹھہرانا اور انواع اقسام کی جہالتوں کو اُس پر روا رکھنا اسی توحید وجودی کا نتیجہ ہے جس کو وجودی لوگ نہیں سمجھتے۔ عقلمند انسان کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ایسا دعویٰ ہرگزنہیں کرتا جس دعویٰ کا ثبوت اس کے پاس موجود نہیں ہوتا۔ پس اگر یہ لوگ عاقل ہوتے تو ایسا دعویٰ کرنے سے متہاشی ہوتے۔ زیادہ تر خرابی ان میں یہ ہے کہ اُن کی زبان اُن کے فعل اور عمل پر غالب ہو رہی ہے۔ ذرا خیال کرتے اور انسانی ترقیات کو حال کے ذریعہ سے دیکھتے۔ نہ صرف قال کے ذریعہ سے تو یہ تمام اوہام اُن کے خود بخود اُٹھ جاتے مثلاً ایک عاقل سیاح کے پاس یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی سیاح فلاں جزیرہ میں پہنچتا ہے تو بجائے دو آنکھ کے اُس کی چار آنکھیں ہو جاتی ہیں اور منہ سے سنتا ہے اور کانوں کے ساتھ دیکھ سکتا ہے تو ایسی خلاف قیاس خبر پر صرف اسی حالت میں عقلمند یقین کرے گا کہ جب بیان کنندہ اس خبر کا خود اس جزیرہ میں ہو کر آیا ہو اور یہ چار آنکھیں اور ایسا منہ اور ایسے کام اس نے دکھلائے ہوں یا کوئی اور انسان پیش کر دیا ہو جس میں یہ صفتیں موجود ہوں اور اگر ایسا نہیں کیا تو ہرگز وہ عاقل اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا اور غایت کار اُس احمق کو یہ جواب دے گا کہ بھائی میں بھی تو اُسی جزیرہ کی طرف چلا جاتا ہوں۔ سو اگر ایسی ہی اس جزیرہ میں خاصیت ہے تو میری بھی وہاں جا کر چار آنکھیں ہو جائیںگی اور میں بھی منہ سے سنوں گا اور کانوں سے دیکھوں گا۔ تب خود میں تیرے اس بیان کو قبول کر لوں گا۔ اب میں بلا ثبوت کیوں کر قبول کر سکتا ہوں۔ سو سمجھنا چاہئے کہ جو انسان اپنے نفس کو دھوکہ نہیں دیتا اور اپنے خیال کو گمراہی میں ڈالنا نہیں چاہتا وہ باتیں چھوڑ دیتا ہے اور کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور سرگرمی سے منزل مقصود کی طرف قدم رکھتا ہے۔ پھر اُس راہ کے تمام عجائبات بالضرورت اُس کو دیکھنے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے حق الامر اُس پر کھل جاتا ہے مگر جو کوئی صرف باتوں میں مقید رہتا ہے اور محض سنے سنائے قصوں پر کہ جو عقل اور شرع سے بکلی منافی ہیں جم جاتا ہے وہ اپنے نفس کو آپ ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ حقیقت میں ایسے لوگ خدا تعالیٰ سے بالکل بے غرض ہیں اور وسیع مشربی کے پردہ میں اپنے نفس امّارہ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں اگر اُن کی سرشت میں کچھ بو صدق کی ہے تو پہلے انسان بن کر ہی دکھلا دیں۔ پیچھے سے الوہیت کا دعویٰ کریں کیونکہ انسان بننے کے ہی ایسے لوازم ہیں جن کی ابھی تک بو اُن میں نہیں آئی نہ اُس کے حصول کی کچھ پرواہ رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُمّتِ محمدیہ کی آپ اصلاح کرے۔ عجب خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اور یہ عاجز بباعث اپنی علالت طبع کے اس مضمون کو تفصیل اور بسط سے نہیں لکھ سکا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ طالب حق کے لئے اسی قدر کافی ہے مگر جس شخص کا مقصد خدا نہیں اس کو کوئی دقیقہ معرفت اور کوئی نشان مفید نہیں۔ ولا تبغنی الایات والنذر عن قوم لایومنون اور یہ عاجز دو دن کے رفع انتظار کی غرض سے یہ خط لکھا گیا اور اب میں توکلاً علی اللّٰہ امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہوں۔ والسلام
(۱۳؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۴؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ بعد سلام مسنون
آنمخدوم کا خط بعد واپسی از امرتسر مجھ کو ملا ۔ آنمخدوم کچھ تفکر اور تردّد نہ کریں اور یقینا سمجھیں کہ وجود مخالفوں کا حکمت سے خالی نہیں۔ بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے۔ اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی لوگ نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے۔ کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر نہیں ہوتے جب تک وہ کامل طور پر ستایا نہیں گیا اگر لوگ خدا کے بندوں کو کہ جو اُس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یوں ہی اُن کی شکل ہی دیکھ کر قبول کر لیتے تو بہت عجائبات تھے کہ اُن کا ہرگز دنیا میں ظہور نہ ہوتا۔
(تاریخ ۲۶؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ بذریعہ محمد شریف صاحب مجھ کو ملا۔ سو آپ کو میں اطلاع دیتا ہوں کہ میں نے حصہ سوئم و چہارم بخدمت علماء دہلی بھیج دیئے ہیں۔ آپ نے جو لکھا ہے کہ چوتھے حصہ کے صفحہ ۴۹۶ پر مخالف اعتراض کرتے ہیں آپ نے مفصل نہیں لکھا کہ کیا اعتراض کرتے ہیں۔ صرف آپ نے یہ لکھا ہے کہ یامریم اسکن میں نحوی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ اسکن کی جگہ اسکنی چاہئے تھا۔ سو آپ کو مطلع کرتا ہوں کہ جس شخص نے ایسا اعتراض کیا ہے اس نے خود غلطی کھائی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ نحو اور صرف سے آپ ہی بے خبر ہے کیونکہ عبارات کا سیاق دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ مریم سے مریم اُم عیسیٰ مراد نہیں ہے اور نہ آدم سے آدم ابولبشر مراد ہے اور نہ احمد سے اس جگہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور ایسا ہی ان الہامات کے تمام مقامات میں کہ جو موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں اُن ناموں سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں ہے بلکہ ہر یک جگہ یہی عاجز مراد ہے اب جب کہ اس جگہ مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد نہیں ہے بلکہ مذکر مراد ہے تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کے لئے صیغہ مذکر ہی لایا جائے یعنی یامریم اسکن کہا جائے نہ یہ کہ یا مریم اسکنی۔ ہاں اگر مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد ہوتی تو پھر اس جگہ اسکنی آتا لیکن اس جگہ تو صریح مریم مذکر کا نام رکھا گیا ہے اس لئے برعایت مذکر مذکر کا صیغہ آیا اور یہی قاعدہ ہے کہ جو نحویوں اور صرفیوں میں مسلم ہے اور کسی کو اس میں اختلاف نہیں ہے اور زوج کے لفظ سے رفقاء اور قرباء مراد ہیں۔ زوج مراد نہیں ہے اور لغت میں یہ لفظ دونوں طور پر اطلاع پاتا ہے اور جنت کا لفظ اس عاجز کے الہامات میں کبھی اُسی جنت پر بولا جاتا ہے کہ جو آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور کبھی دنیا کی خوشی اور فتحیابی اور سرور اور آرام پر بولا جاتا ہے اور یہ عاجز اس الہام میں کوئی جائے گرفت نہیں دیکھتا۔
(۲۱؍فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۲۲؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا یہ عاجز یہ دعا کرتا ہے کہ خواوندکریم اپنے فضل و کرم سے آنمخدوم کی عمر میں برکت بخشے۔ زیادہ تر اس بات میں کوشش کرنی چاہئے کہ کسی طرح مولیٰ کریم راضی ہو جائے۔ ہر یک سعادت اس کی رضا سے حاصل ہوتی ہے۔ دنیا میں جو کچھ انسان رسوم کے طور پر کرتا ہے وہ کچھ چیز نہیں ہے۔ مگر جو کچھ خالصاً مرضات اللہ کے حاصل کرنے کے لئے صدق قدم سے کیا جاتا ہے وہ عمل صالح ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ عمل صالح بڑی ہی نعمت ہے خداوندکریم عمل صالح سے راضی ہو جاتاہے اور قرب حضرت احدیّت حاصل ہوتا ہے مگر جس طرح شراب کے آخری گھونٹ میں نشہ ہوتا ہے اسی طرح عمل صالح کے برکات اُس کی آخری خیر میں مخفی ہوتے ہیں جو شخص آخر تک پہنچتا ہے اور عمل صالح کو اپنے کمال تک پہنچاتا ہے وہ اُس برکات سے متمتع ہو جاتا ہے لیکن جو شخص درمیان سے ہر عمل صالح کو چھوڑ دیتا ہے اور اُس کو اپنے کمال مطلوب تک نہیں پہنچاتا وہ اُن برکات سے محروم رہ جات ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ باوجود اس کے کہ کچھ کچھ عمل صالح بجا لاتے ہیں مگر برکات ان اعمال کے ان میں نمایاں نہیں ہوتے کیونکہ جب تک کوئی میوہ خام ہے وہ پختہ اور رسیدہ میوہ کی لذت نہیں بخش سکتا۔ سب برکتیں کمال میں ہیں اور عمل ناتمام میں کوئی برکت نہیں بلکہ بسا اوقات ناقص العمل انسان کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جات ہے اور اُن لوگوں میں جا ملتا ہے کہ خسرۃ الدنیا والاخرۃ ہیں۔ سو حقیقی طور پر عمل صالح اس عمل کو کہا جاتا ہے کہ جو ہر یک قسم کے فساد سے محفوظ رہ کر اپنے کمال کو پہنچ جائے اور اپنے کمال تک کسی عمل صالح کا پہنچنا اس بات پر موقوف ہے کہ عامل کی ایسی نیت صالح ہو کہ جس میں بجز حق ربوبیت بجا لانے کی کوئی اور غرض مخفی نہ ہو یعنی صرف اُس کے دل میں یہ ہو کہ وہ اپنے ربّ کی اطاعت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور گو اطاعت بجا لانے پر ثواب مترتب یا عذاب مترتب ہو اور گو اُس کا نتیجہ آرام اور راحت ہو یا نکبت اور عقوبت ہو لیکن بہرحال وہ اپنے مالک کی اطاعت میں رہے گا کیونکہ وہ بندہ ہے۔ پس جو شخص اس اصول پر خدا کی عبادت کرتا ہے وہ اس راہ کی آفات سے امن میں ہے اور امید ہے کہ اس پر فضل ہو لیکن اسے لازم ہے کہ کسی امید پر بنیاد نہ رکھے اور اطاعت اور عبودیت کو ایک حق ربوبیت کا سمجھے کہ جو بہرحال ادا کرنا ہے اور سرگرمی سے خدمت میں لگا رہے اور اپنی کارگزاری اور خدمت کو کچھ چیز نہ سمجھے اور مولیٰ کریم پر احسان خیال نہ کرے دنیا مزرعہ آخرت ہے اور فارغ باشی کچھ چیز نہیں۔ وہی لوگ مبارک ہیں کہ جو دن رات اپنے زور سے اپنے تمام اخلاص سے، اپنے تمام رجوع سے رضائے مولیٰ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ (۲۸؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۲۹؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آپ نے جو اپنے عنایت نامہ مرقومہ ۲۹؍ فروری ۱۸۸۴ء میں ایک سوال تحریر فرمایا تھا۔ آج تک میں نے بباعث علالت طبع اُس کی طرف توجہ نہیں کی اور اب بھی بباعث ضعف دماغ و درد سر طبیعت حاضر نہیں ہے لیکن جو آنمخدوم کا وہ خط دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سوال صرف ایک نزاع لفظی ہے کیونکہ جس مرتبہ توحید کو آنمخدوم ابتدائی مرتبہ تصور فرماتے ہیں وہ مرتبہ اس عاجز کے نزدیک ان معنوں کر کے انتہائی مرتبہ توحید کا ہے کہ وہ سیر اولیاء کا منتہا اور آخری حد ہے۔ جس سے فنائے اتم کا چشمہ جوش مارتا ہے۔ اگرچہ درگاہ احدیّت بے نہایت ہے لیکن جس کمال توحید کو انسان اپنے مجاہدہ سے، اپنی کوشش سے اپنے تزکیہ نفس سے، اپنے سیر و سلوک سے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ یہیں تک ہے پھر بعد اس کے مخفی تفضلات الٰہیہ اور مواہب لدنیہ ہیں جن تک کوششوں کو راہ نہیں۔ ساری کوششیں اور محنتیں صرف اس حد تک ہیں کہ انسان اپنے نفس اور تمام خلق کو ہیچ اور لاشَے سمجھ کر اور اپنے ہوا اور ارادہ سے باہر ہو کر بکلی خدا تعالیٰ کے لئے ہو جائے اور اپنی ناچیز ہستی، شہود ہستی حقیقی حضرت باری تعالیٰ کے نابود اور معدوم دکھائی دے اور جیسا فی الواقعہ انسان محبت وجود حضرت قادر مطلق کے ہیچ اور ناچیز ہے ایسی ہی حالت پیدا ہو جائے گویا اب بھی وہ نیست ہی ہے۔ جیسا پہلے نیست تھا۔ سو یہ مرتبہ عبودیت کی آخری حد ہے اور یہی اس توحید کا انتہائی مقام ہے کہ جو سعی اور کوشش اور سیرو سلوک سے حاصل کرنا چاہئے۔ یہ سچ ہے کہ بعد اس کے مرتبہ سیر فی اللہ ہے لیکن اس مرتبہ کے حصول کے لئے کوشش کو دخل نہیں بلکہ یہ محض بطریق فضل اور موہیت کے حاصل ہوتا ہے اور کوششیں صرف اُسی مرتبہ فنا تک ختم ہو جاتی ہیں کہ جو اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک شخص کئی منزلیں طَے کر کے بادشاہ کے ملنے کیلئے آیا ہے اور جس قدر ا راہ میں مانع تھے سب سے خلاصی پاکر بادشاہ کے خیمہ تک پہنچ گیا ہے اب خیمہ کے اندر جانا اُس کا کام نہیں ہے بلکہ وہ اپنا کام سب کر چکا ہے اور خیمہ میں داخل کرنا اور بارگاہ میں دخل دینا یہ خاص بادشاہ کا کام ہے کہ جو ایک خاص اجازت بادشاہی پر موقوف ہے۔ ناچیز بندہ کیا حقیقت رکھتا ہے کہ جو اپنی بشری طاقتوں کے ذریعہ سے اور اپنے اختیار سے خود بخود بلا اجازت بارگاہ میں داخل ہو جائے اور اب بباعث ضعف زیادہ لکھ نہیں سکتا۔ آپ نے جو کئی شعروں کے معنی دریافت فرمائے ہیں وہ کسی اور وقت اگر خدا نے چاہا تحریرکروں گا اور امرتسر سے واپس آ گیا ہوں اور واپس آ کر میر مردان علی صاحب کا خط ملا سو اُن کی نسبت اور آنمخدوم کے لخت جگر کی نسبت دعاء خیر کر کے حوالہ بخدا کرتا ہوں جب طبیعت رو بصحت ہوئی انشاء اللہ تعالیٰ بشرط یاد آنمخدوم کے سوال معنی اشعار کے معنوں کی بابت لکھا جائے گا۔
(۱۱؍ مارچ ۱۸۸۴ء مطابق ۱۲؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مع مبلغ … روپیہ پہنچا۔ یہ عاجز آپ کا بغایت درجہ شکر گزار ہے اور اپنے مولیٰ کریم جل شانہ سے یہ چاہتا ہے کہ آپ کو جزائے عظیم بخشے۔ آج اسی وقت میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلا میں پڑا ہوں اور میں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مواخذہ کرتا ہے۔ میں نے اُس کو کہا کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے۔ اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہے کہ گرایا جائے گا۔ میں نے کہا کہ میں اپنے خداوند تعالیٰ جلہ شانہٗ کے تصرف میں ہوں۔ جہاں مجھ کوبیٹھائے گا، بیٹھ جاؤں گا اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا کھڑا ہو جاؤں گا اور یہ الہام ہوا۔ یدعون لک ابدال الشام و عباد اللّٰہِ من العرب یعنی تیرے لئے ابدال شامل کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں۔ خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس کا ظہور ہو۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ مناسب سمجھا تھا آپ کو اطلاع دوں۔
(۶؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق ۱۹؍ جمادی الثانی ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدوم مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا اخلاص اور جوش محبت اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔ خداوندکریم سے چاہتا ہوں کہ آپ کا نشست خاطر بہ جمعیت مبدل ہو۔ آمین
(۱۹؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق ۳؍ رجب ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی ام میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا چونکہ آنمخدوم کی روح کو اس عاجز کی روح سے بشدت مناسبت ہے اسی وجہ سے تعلقات روحانی کا غلبہ ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی حالت کاملہ ابتلاء کے خطرات سے امن میں ہے۔ یہ عاجز بوجہ قلت فرصت تحریر جواب سے قاصر رہا اور مستعد تحریر تھا کہ اسی میں خط پہنچ گیا۔ دہلی کی طرف جانے کے لئے ابھی کچھ معلوم نہیں۔ ہندوستان میں اکثر اطراف بیماری بہت پھیل رہی ہے اگر کسی وقت بطریق عجلت سفر اُس طرف کا پیش آیا۔ تب تو مجبوری ہے ورنہ بہر طرح خواہ ایک ساعت کے لئے ہو۔ انشا ء اللہ ملاقات آنمخدوم کی ہوگی۔ آگے ہر ایک امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ پردہ غیب میں جو کچھ مخفی ہے کسی کو اس پر اطلاع نہیں۔ آنمخدوم اپنی اصلی صحت پر آگئے ہوں تو اطلاع بخشیں۔ (۴؍ جون ۱۸۸۵ء مطابق دہم رمضان المبارک ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از خاکسار غلاماحمد باخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط آنمخدوم پہنچا۔ یہ عاجز بباعث درد سر و درد پہلو اس قدر بیمار رہا کہ بعض اوقات یہ عارضہ مقدمہ موت جو ہریک بشر کیلئے ضروری ہے معلوم ہوتا تھا۔ اب افاقہ ہے مگر کچھ درد باقی ہے۔ اسی وجہ سے تحریر جواب سے معذور رہا۔ آپ کا خط جو استفسار اختلافات نماز میں ہے وہ بھی اس عاجز کے پاس رکھا ہے مگر کیا کِیا جائے صحت پر موقوف ہے۔ بمبئی والے سوداگر کی بدمعاملگی ایک ابتلاء ہے اس میں صبر بہتر ہے۔ مقدمہ سازی و مقدمہ بازی دنیا داروں کا کام ہے جس کو خدا تعالیٰ نے بصیرت بخشی ہے وہ سب امور خدا تعالیٰ کی طرف سے دیکھتا ہے۔ سو اس میں حضرت خداوند کریم کی کچھ حکمت ہے۔ آپ صبر کریں اور خدا تعالیٰ پر توکّل رکھیں اور جو کچھ حالت عسر و تنگدستی درپیش ہے۔ یہ بھی ابتلا ہے۔ ایسے وقتوں میں مردان خدا اُس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دعا اور استغفار اور تضرع سے استقامت و مشکل کشائی چاہتے ہیں اور حضرت ارحم الراحمین غراسمہٗ و قادر کریم و رحیم ہے۔ جب بندہ عاجز اپنے کرب اور قلق کے وقت میں ہر یک طرف سے قطع امید کر کے اُس کے دروازہ پر گرتا ہے اور پورے پورے رجوع سے دعا کرتا ہے اور دعا کرنے سے تھکتا نہیں۔ سو خدا تعالیٰ اُس پر رحم فرماتا ہے اور اس کی مخلصی بخشتا ہے۔ تب اُس کو دو لذتیںملتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنے کرب و قلق سے نجات پاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ دعا کے قبول ہونے میں جو ایک لذت ہے۔ اس سے بھی وہ متمتع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت کریم و رحیم ہے جب بندہ یقین کامل اپنے دردوں اور تکلیفوں کے وقت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو ضرور وہ اُس کی سنتا ہے۔ اس عاجز کو اس بات سے افسوس ہے کہ آپ کے چند خطوط جو علوم دین کے استفسار میں تھے۔ اُس کا جواب مجھ سے نہیں لکھا گیا اور اب ضعف دماغ و درد سر کا یہ حال ہے کہ جو کچھ کھایا جاتا ہے۔ اُس کی تبخیر ہو کر درد شروع ہو جاتا ہے۔ اس بات کی ابھی تسلی نہیں کہ عمر کا کیا حال ہے۔ بعض عوارض لاحقہ میں اندیشہ موت کا پیدا ہو جاتا ہے۔ کام کتاب کا ہنوز شروع نہیں کیا گیا۔ اگر خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ کتاب پوری ہو جائے گی۔
(۲۴؍جون۱۸۸۵ء مطابق ۱۰ رمضان ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدوم ومکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز چند روز سے امرتسر گیا ہوا تھا۔ آج بروز چار شنبہ بعد روانہ ہو جانے ڈاک کے یعنی تیسرے پہر قادیان پہنچا اور مجھ کو ایک کارڈ میر امداد علی صاحب کا ملا۔ جس کے دیکھنے سے بمقتضائے بشریت بہت تفکر اور تردّد لاحق ہوا۔ اگرچہ میں بھی بیمار تھا مگر اس بات کے معلوم کرنے سے کہ آپ کی بیماری غایت درجہ کی سختی پر پہنچ گئی ہے مجھ کو اپنی بیماری بھول گئی اور بہت سی تشویش پیدا ہوگئی۔ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے عمر بخشے اور آپ کو جلد تر صحت عطا فرماوے۔ اسی تشویش کی جہت سے آج بذریعہ تار آپ کی صحت دریافت کی اور میں بھی ارادہ رکھتا ہوں کہ بشرط صحت و عافیت ۱۴؍اکتوبر تک وہیں آ کر آپ کو دیکھوں اور میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو صحت عطا فرماوے۔ آپ کے لئے بہت دعا کروں گا اور اب توکلاً علی اللّٰہ آپ کی خدمت میں یہ خط لکھا گیا۔ آپ اگر ممکن ہو تو اپنے دستخط خاص سے مجھ کو مسرور الوقت فرماویں۔
(۸؍ اکتوبر ۱۸۸۴ء مطابق ۱۷؍ ذوالحجہ ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدوم ومکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ خطوط کے چھپنے کے لئے اس عاجز نے ایک خاص معتبر لاہور میں بھیجا ہوا ہے۔ اگرچہ ارادہ تھا کہ دو ہزار خط چھاپا جائے مگر دو ہزار نوٹس کے بھیجنے میں پانچ سَو روپیہ خرچ آتا ہے کیونکہ ہر ایک خط رجسٹری ہو کر بصرف چار آنا جائے گا۔ اس لئے بعض دوستوں کے مشورہ سے قریب مصلحت معلوم ہوا کہ بالفعل صرف پانچ سَو خط چھپوایا جائے۔ جس میں کچھ انگریزی اور کچھ اُردو ہوں گے۔ ان خطوط کے چھپوانے اور روانہ کرنے میں بھی ایک سَو پچاس یا کچھ زیادہ روپیہ خرچ آ جائے گا۔ مگر یہ کام اتمام حجت کے لئے کیا گیا ہے تا ہر یک ضلع میں بڑے بڑے پادریوں اور پنڈتوں کی طرف اور بعض راجوں اور رئیسوں کی طرف بھی اور بعض علماء اور گدی نشینوں کی طرف بھی روانہ کئے جائیں اور پھر جب اُن سب کی اطلاع یابی ہوکر آجائے تو اُن سبکے نام بغرض اظہار اِتمام حجت حصہ پنجم میں درج کئے جائیں۔ سو اگر خدا تعالیٰ نے چاہا اور اُس کے ارادہ میں ہوا تو یہ کام انجام پذیر ہو جائے گا ورنہ ہرچہ مرضی مولیٰ ہمان اولیٰ۔ مکتوب حضرت یحیٰ منیری کا مضمون جو آپ نے لکھا ہے بہت ہی عمدہ ہے اور منصف کے لئے کافی۔ والسلام
(دوم مارچ ۱۸۸۵ء ۔ ۱۲؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از عاجزعایذبااللہ الصمد غلام احمدبخدمت اخویم مخدوم و مکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا عنایت نامہ آنمخدوم پہنچا۔ حال معلوم ہوا۔ جس قدر آنمخدوم نے اشاعت دین اور اعلاء کلمہ اسلام کے لئے رنج اُٹھایا ہے خدا تعالیٰ اُس کے عوض میں آپ پر اس طور سے راضی ہو کہ جیسا اپنے سچے خادموں اور مقبولوں پر راضی ہوا کرتا ہے۔ آمین ثم آمین۔ فی الحقیقت مسلمانوں کی عجیب نازک حالت ہو رہی ہے جس عظمت اور بزرگی کو خدا اور رسول میں ماننا تھا۔ وہ اور اور چیزوں کو دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ رحم کرے اور اپنے سچے دین کی حمایت میں وہ تائید دکھلاوے جن سے ان کور باطنوں کی آنکھوں کھلیں۔ ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حقیقت اور کیا کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاتھوں میں توفیق ایزدی کچھ ہے تو صرف تضرعات ہیں اگر ربّ العرش تک پہنچ جائیں لیکن دل پُر درد کا یہ حال ہے کہ نہ بہشت کے نعماء کے لئے طبیعت کو جوش ہے اور نہ دوزخ کے آلام کی فرک ہے بلکہ دل اور جان اسی تمنا میں غرق ہو رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان بدعات کے داغوں کو اسلام کی خوبصورت شکل سے دور کرے اور اپنی خاص حمایت اور نصرت سے عظمت اور بزرگی اپنے کلام کی لوگوں پر ظاہر فرما دے۔ آمین!
مرزا جان جانان صاحب کے خط کا ردّ کچھ مشکل نہیں۔ مرزا صاحب مرحوم ہندوؤں کے اصولوں سے بکلّی ناواقف معلوم ہوتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ کسی فرصت کے وقت ان کی نسبت کچھ تحریر کیا جائے گا۔ اس عاجز کا یہ حال ہے کہ بعض گذشتہ اور تازہ الہامات سے قرب اجل کے آثار پائے جاتے ہیں گو صفائی سے نہیں بلکہ مشتبہ اور ذومعنیں الہام ہیں تا ہم فکر سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ اسی وجہ سے میں نے اپنی تمام ہمت کو اس طرح مصروف کیا ہے۔ حصہ پنجم کی عبارت کو جلد مرتب اور بامحاورہ کر کے اور جو کچھ اس میں زائد داخل کرنا ہے وہ داخل کر کے توکلاً عَلٰی اللّٰہ چھپوانا شروع کر دوں کہ اس ناپائیدار اور ہیچ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ آپ بھی دعا کریں اور اخومی منشی احمد جان صاحب کو بھی لکھیں کیونکہ بعض تقدیرات بعض دعاؤں سے ٹل جاتی ہیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ عاجز بدل و جان حضرت خداوندکریم سے آپ کے لئے دعا مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں آپ کو خوش رکھے۔ جس قدر انسان عالی ہمت اور صابر ہوتا ہے۔ اُسی قدر تکالیف سے آزمایا جاتا ہے۔ بیگانہ جس میں زہر کا تخم ہے۔ اس لائق ہرگز نہیں ہونا کہ خدا تعالیٰ اُس کو ایسے ابتلا میں ڈالے جس میں صادقوں کو ڈالتا ہے۔ سو مبارک وہی ہیں جن کوخدا درجات عطا کرنے کیلئے دنیا کی تلخیوں کا کچھ مزہ چکھاتا ہے۔ دنیا کی حالت یکساں نہیں رہتی جس طرح دن گزر جاتا ہے۔ آخر رات بھی اسی طرح گزر جاتی ہے۔ سو جو شخص خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتا ہے وہ مصیبت کی رات کو ایسی کاٹتا ہے جیسے کوئی سونے کی حالت میں رات کو کاٹتا ہے اگر پروردگار ایمان کو بچائے رکھے تو مصیبت کچھ چیز نہیں لیکن اگر مصیبت کچھ بھی ہو اور مدد ایمانی منقطع ہو جائے تو نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔ یہ عاجز تو حضرت خداوندکریم سے امید بھی رکھتا ہے کہ آپ کے ہموم و غموم بفضلہ تعالیٰ دور ہوں اور اجر حاصل اور غم زائل ہو۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ چند اشتہارات ارسال خدمت میں۔ والسلام
(۹؍جون ۱۸۸۵ء۔ ۲۴ ؍ شعبان ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا ان دنوںمیں ایک شخص اندر من نام جو ایک سخت مخالف اسلام ہے اور کئی کتابیں ردّ اسلام میں اُس نے لکھی ہیں۔ مراد آباد سے اوّل نابھہ میں آیا اور راجہ صاحب نابھہ کی تحریک سے میرے مقابلہ کیلئے لاہور میں آیا اور لاہور میں آ کر اس عاجز کے نام خط لکھا کہ اگر چوبیس سَو روپیہ نقد میرے لئے سرکار میں جمع کرا دو تو میں ایک سال تک قادیان میں ٹھہروں گا سو یہ خط اُس کا بعض دوستوں کی خدمت میں لاہور میں بھیجا گیا۔ سو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دولتمند مسلمان نے ایک سال تک ادا ہو جانے کی شرط سے چوبیس سَو روپیہ نقد اس عاجز کے کارپردازوں کو بطور قرضہ کے دے دیا اور قریب دو سَو مسلمان کے جن میں بعض رئیس بھی تھے جمع ہو گئے اور وہ روپیہ مع ایک خط کے جس کی ایک کاپی آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کا اندرمن کے مکان پر جہاں وہ فروکش تھا لے گیا مگر اندرمن غالباً اس انتظام کی خبر پا کر فرید کوٹ کی طرف بھاگ گیا۔ آخر وہ خط بطور اشتہار کے چھپوایا گیا اور شہر میں تقسیم کیا گیا اور دو رجسٹری شدہ خط راجہ صاحب نابھہ اور راجہ صاحب فرید کوٹ کے پاس بھیجے گئے اور بعض آریہ سماجوں میں بھی وہ خطوط بھیجے گئے۔ شاید اگر یہ کسی راجہ کے کہنے کہانے سے اندر من نے اس طرف رُخ کیا تو پھر اطلاع دی جائے گی۔ بالفعل اللہ تعالیٰ نے میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں رکھا۔ فالحمدللہ علی ذالک
نقل اشتہار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوع خط (جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے رؤساء و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھاکہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور نہ موعود اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے جواب میں خاکسار نے رقمیہ ذیل معہ دو ہزار چار سَو روپیہ نقد ایک جمعیت اہل اسلام کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں روانہ لاہور کیا۔ جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود میں پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا۔ وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام خط روانہ کیا تھا۔ اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں باوجودیکہ اُس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریر کیا تھا۔ یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا لہٰذا یہ قرار پای کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اس کی ایک کاپی مشفقی اِندر من صاحب۔ آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے۔ جس کی اجابت مجھ کو اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے۔ میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرادے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو۔ اب اُس کے جواب میں اوّل تو مجھے اپنا (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کیلئے۔ اس پر طفہ یہ کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا۔ اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے۔ بہ بین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ لہٰذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کو آپ کو مشاہدہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سَو روپیہ دے دونگا اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر بھی اصرار ہو تو مجھے اس سے بھی دریغ وعذر نہیں بلکہ آپ کے اطمینان کیلئے سردست چوبیس سَو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شروط آپ سے لوں جن کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے۔
(۱) جب تک آپ کا سال گذر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زرموعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے۔
(۲) اگر آپ مشاہدہ نشان آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دو امر سے ایک امر ضرور ہو۔
(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی اور مربی ہیں اپنا عجز اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں۔ وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں۔ پھر اس پر اپنے دستخط کریں۔
(ب) درصورت تخلف وعدہ جانب سامی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کی اور آپ کے مربیوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تا کہوہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے (ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو) آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے صرف مباحثہ کیلئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اُمّتِ محمدیہ میں علماء اور فضلا اور بہت ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو تیار ہیں میں جس امر سے مامور ہوچکا ہوں اُس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے ہی منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں۔ یہ صورت مباحثہ کی عمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے۔ بجائے چوبیس سَو روپیہ کے دس ہزار روپیہ۔
(۳۰؍ مئی ۱۸۸۵ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا ایک خط وید کی حقیقت میں معہ چند اشعار مولوی عبدالمجید صاحب بذریعہ پمفلٹ آپ کی خدمت میں ارسال ہیں۔ ویدوں کی نسبت ہندوؤں کی طرف سے کبھی یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ اُن کی تعلیم شرک اور مخلوق پرستی سے خالی ہے بلکہ سب ہندو جو تقریباً چودہ یا پندرہ کروڑ پنجاب اور ہندوستان میں رہتے ہیں۔ بڑے پیار سے اُن دیوتاؤں کو مانتے ہیں جو وید میں لکھے گئے ہیں اور جس ہندو سے اُس کی بُت پرستی یا آتش پرستی یا دوسری ہزاروں دیوتاؤں کی پوجا کی نسبت سوال کیا جائے کہ کسی کتاب کے حکم سے یہ کام اختیار کیا گیا ہے تو وہ جھٹ یہی جواب دیتا ہے کہ یہ سب طریق پرستش کا وید میں درج ہے اور اس کی ہدایت کی موافق ہم اُن چیزوںکی پرستش کر رہے ہیں اور درحقیقت یہ جواب اُس کا سچ ہے کیونکہ جس قدر ہندوؤں کی آتش پرستی و آب پرستی و آفتاب پرستی وغیرہ پرستشیں جاری ہیں۔ اُن سب پرستشوں کا حکم وید ہی میں مندرج ہے اور نہ ایک اور نہ دو جگہ بلکہ صدہا جگہ اُن چیزوں کی پوجا کے لئے تاکید ہے اور وید کا کوئی ایسا صفحہ نہیں جو مخلوق پرستی کی تعلیم سے خالی ہو۔ جیسا کہ یہ بات اُس شخص پر کھل سکتی ہے کہ جو وید کو اپنے ہاتھ میں لے کر کسی جگہ سے اُس کو پڑھتے۔ غرض کہ وید کا یہ مقصود ہرگز نہیں ہے کہ وہ خلق اللہ کو توحید پر قائم کرے بلکہ اوّل سے آخر تک وید میں یہی تاکید پائی جاتی ہے کہ آگ اور ہوا اور سورج اور چاند اور ستاروں اور پانی وغیرہ کی پرستش کرنی چاہئے اور ان ہی چیزوں سے اپنی مرادیں مانگنی چاہئے۔ یہی باعث ہے کہ جو کچھ آج تک وید کی تعلیم کاہندؤوں کے دلوں پر اثر پڑا ہے۔ وہ یہی مخلوق پرستی ہے کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ کسی حصہ پنجاب یا ہندوستان میں ایسے ہندو بھی پائے جاتے ہیں جو مخلوق پرستی سے بیزار اور اپنے تمام عقاید اور عبادات میں موحد ہیں۔ حاشا وکلا ہرگز ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ جہاں جاؤ اور جس ملک میں دیکھو جا بجا ہندو لوگ سخت درجہ کے شرک اور مخلوق پرستی میں گرفتار ہیں یہاں تک کہ انسان سے لے کر حیوانات اور نباتات تک ان نادانوں نے اپنے معبود ٹھہرائے ہیں۔ نہ پانی چھوڑا، نہ آگ، نہ ہوا، نہ پتھر بلکہ دنیا میں جو چیز از قسم اجرام علوی میں یا اجسام سفلی میں نظر آتی ہے وہ سب کے سب ہندوؤں کے معبود اور دیوتے ہیں اور جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں اس قدر مخلوق پرستی میں ہندوؤں کا قصور نہیں ہے بلکہ یہ تمام قصور وید اور اُس کے شائع کرنے والوں کا ہے۔ غرض وید جس جنس سے بھرا ہوا ہے وہ سب شرک ہے اور جو کچھ وید نے دنیا کو فائدہ پہنچایا وہ مشرکانہ تعلیم ہے جس میں آج تک سب ہندو مبتلا اور گرفتار ہیں اور کوئی ہندو اس مشرکانہ حالت میں اپنی غلطی اور قصور کا اقرار نہیں کرتا بلکہ سارے کے سارے یہی کہتے ہیں کہ یہ تحفہ ہمارے وید مقدس سے ہم کو ملا ہے اور اُس نے اس راہ پر ہم کو چلایا ہے اور جب ہم بذات خود وید کو کھول کر دیکھتے ہیں تو ہندوؤں کو اُن کے اس بیان میں راست گو پاتے ہیں اور ہندوؤں کی مشرکانہ حالت جو ہزاروں برس سے چلی آتی ہے وہ اُن کی خود تراشیدہ معلوم نہیں ہوتی بلکہ وید کی پیروی کے نتائج ہیں جو بطور داغ ملامت یا کلنک کے ٹیکے کے وید کی اندرونی حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔ تھوڑے دنوں سے پنڈت دیانند سورستی نے (جو اَب اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں) اس خیال سے کہ اَب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ مشرکانہ تعلیم ہر یک سلیم القلب کو بُری معلوم ہوتی ہے۔ اس بے بنیاد خیال کے ثابت کرنے کیلئے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ کسی طرح داغ مخلوق پرستی کی تعلیم کا وید کی پیشانی سے دھویا جائے اور بر خلاف اپنی تمام قوم کے یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ اگرچہ وید میں بظاہر مشرکانہ تعلیم معلوم ہوتی ہے۔ مگر درپردہ اُس کی اندر کی تہہ میں توحید چھپی ہوئی ہے لیکن وہ اس اپنے مطلب کے پورا کرنے کیلئے کامیاب نہ ہو سکے۔ ہندوستان و پنجاب کے تمام محقق پنڈتوں نے آپ کے خیالی وید بھاش کو ردّ اور نامنظور کیا اور اُس پر یہ ریویو لکھے کہ پنڈت صاحب کا یہ وید بھاش اصل میں ویدوں کی تفسیر نہیں ہے بلکہ اُس کو ایک نیا وید سمجھنا چاہئے جس کو پنڈت صاحب اپنے من گھڑت سے بنا رہے ہیں۔ ہندوؤں کے وید سے اُس کو کچھ تعلق نہیں بلکہ اُس سے سراسر مخالف اور منافی ہے اور جب پنڈت صاحب نے دیکھا کہ ہندوستان اور پنجاب کے پنڈتوںمیں ہماری دال نہیں گلتی اور کوئی ہمارے دھوکہ میں نہیں آتا تو پھر انہوں نے ایک اور تدبیر سوچی کہ وہ مصنوعی وید بھاش یونیورسٹی میں درسی کتاب بنانے کے لئے سرکار انگریزی میں پیش کیا جائے تو پنڈت صاحب نے ایسا ہی کیا اور صاحب لفٹنٹ گورنر پنجاب کی خدمت میں ایک درخواست معہ چند جز اپنے وید بھاش کے بدیں التماس مرسل کئے کہ یہ وید بھاش میرا یونیورسٹی لڑکوں کو پڑھایا جائے کیونکہ میں نے بڑی ہمت اور بہادری کر کے وید میں توحید ثابت کر دکھائی ہے اور وہ لاکھوں پنڈت جھوٹے ہیں جو وید کو توحید سے خالی سمجھتے ہیں۔ اس پر صاحب لفٹنٹ بہادر کو درخواست کے سننے سے بہت تعجب ہوا کہ کیونکر اور کیسے ممکن ہے کہ وید جو اپنی مشرکانہ تعلیم میں سارے جہان میں اعتراضوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور ضرب المثل ہے وہ شرک اور دیوتا پرستی سے خالی ہو۔ سو اُنہوں نے وہ درخواست یونیورسٹی کے چیدہ اور منتخب پنڈتوں کے پاس بھیج دی کہ وہ پنڈت دیانند کے وید بھاش کو دیکھ کر اپنی اپنی رائے لکھیں۔ اب قصہ کوتاہ یہ کہ سب کے سب پنڈتوں نے بالاتفاق یہ رائے لکھی کہ یہ وید بھاش دیانند کا سرا سر غلط اور پوچ اور لغو ہے وید کی مخلوق پرستی کی تعلیم اور جابجا دیوتاؤں کی پوجا کے لئے ترغیب اور تحریک ایسا امر نہیں ہے کہ اُس کو چھپا سکیں یا پوشیدہ رکھ سکیں۔ سو دیانند کا وید بھاش ویدوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ ہاں اُس کو ایک نیا وید کہیں جس کے پنڈت صاحب بھی مصنف ہیں تو یہ کہنا بجا اور درست ہے اس رائے کے پہنچنے سے صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر نے پنڈت دیانند کی درخواست کو نامنظور کر کے اُن کو اطلاع دے دی کہ یہ وید بھاش تمہارا عام رائے پنڈتوں سے برخلاف ہے۔ اس لئے قابل منظوری نہیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ اگر وید میں ایک ذرّہ بھی توحید کی بُو پائی جاتی تو کیونکر تمام ہندوستان کے پنڈت اُس سے انکاری یا غافل رہتے اور اگر بفرض محال یہ بھی تسلیم کر لیں کہ وید میں بطور معما یا چیستان اور پھیلی کے ایک چھپی ہوئی توحید ہے جس پر صرف پنڈت دیانند کو اطلاع ہوئی اور دوسری تمام دنیا اس سے بے خبر رہی تو پھر یہ سوال عاید ہو گا کہ ایسی پیچیدہ اور سربمہر توحید سے دنیا کو کیا فائدہ ہوا اور بجز اس کے کہ لاکھوں بندگانِ خدا وید کے اُلٹے معنی سمجھ کر دیوتا پرستی میںمبتلا ہوئے اور کیا نتیجہ ایسے پیچیدہ بیان سے نکلا۔ کیا ہندوؤں کے پرمیشر کو بات کرنے کا سلیقہ بھی یاد نہیں کہ بجائے اس کے جو توحید کو کہ جو اُس کا اصل مطلب تھا واضح تقریر سے بیان کرتا ایسے بے سروپا اور غیر فصیح لفظوں میں بیان کیا کہ جس سے لوگ کچھ کا کچھ سمجھنے لگے اور ہزاروں دیوتاؤں کی ہندوؤں میں پوجا شروع ہوگئی اور مخلوق پرستی اُس حد تک پہنچ گئی جس کی نظر دنیا میں نہیں پائی جاتی اور یہ تو ہم نے بطور مثال لکھا ہے اور ایک فرضی طور پر بیان کیا ہے ورنہ اگر کوئی ذرا آنکھ کھول کر ایک صفحہ وید کا بھی پڑھے تو بہ یقین تمام اُس کو معلوم ہو جائے گا کہ وید کی عبارت کا اصلی مقصد اور مطلب یہی ہے کہ دیوتاؤں کی پوجا کرائی جاوے۔ مگر پنڈت دیانند نے اس بدیہی بات کو چھپانے کے لئے کوشش کرنا چاہا۔ آخر ناکام رہے اور بجائے اس کے کہ وید میں توحید ثابت کرتے اور اس عیب سے مبرا ہونا اُس کا بہ پایا ثبوت پہنچاتے کئی ایک اور عیب بھی جو وید میں پائے جاتے ہیں اُنہوں نے ظاہر کر دکھائے اور یک نہ شُد دو شُد کا معاملہ ہو گیا۔ جس کو ہم اپنی کتاب براہین احمدیہ کے حصہ پنجم میں انشاء اللہ بہ تفصیل بیان کریں گے۔ اب صرف اجمالی طور پر لکھا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے وید نعمت توحید سے بالکل بے نصیب اور تہی دست اور محروم ہیں۔ اس جگہ یہ ذکر کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں کہ وہ کتابیں جو وید سے موسوم کی گئی ہیں۔ ایک شخص کی تالیف نہیں ہیں بلکہ مختلف لوگوں نے مختلف وقتوں میں اُن کو تالیف کیا ہے اور مؤلفین کے نام اب تک منتروں کے سر پر جدا جدا لکھے ہوئے پائے جاتے ہیں اور وہ منتر بطور شعر کے ہیں جو دیوتاؤں کی تعریف میں خوش اعتقاد لوگوں نے بنائے تھے ان کتابوں کے پڑھنے سے ہرگز یہ پایا نہیں جاتا کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو کسی ایک یا چند پیغمبروں پر نازل کیا تھا بلکہ منجانب اللہ ہونے کا ذکر بھی نہیں۔ جابجا منتروں کے سر پر یہی لکھاہوا نظر آتا ہے کہ یہ منتر فلاںشخص نے تالیف کیا ہے اور یہ فلاں شخص نے اور یہی وجہ ہے کہ زمانہ حال کے مصنفوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وید ایسی کتاب نہیں جو یہ دعویٰ کرتی ہو کہ میں آسمانی کتا ہوں اور فلاں فلاں پیغمبر پر اُتری تھی بلکہ ایک مجموعہ اشعار ہے جس کو کئی ایک شاعروں نے اوقات مختلفہ میں جوڑا ہے۔ ماسوائے اس کے وید میں یہ بات بھی نہیں کہ جیسے ربّانی کتاب ربّانی قدرتوں اور صفتوں کا ایک آئینہ ہونی چاہئے اور خدا تعالیٰ کے وجود اور اُس کی قدرت تامہ اور اُس کی غیبت بینی اور اُس کی خالقیت اور عزاقیت وغیرہ صفات کو صرف عقلی طورپر ثابت نہ کرے بلکہ آسمانی نشان کے طور پر طالبِ حق کو مشاہدہ کروائے کہ خدا فی الحقیقت موجود اور اُس میں یہ صفات موجود ہیں کیونکہ درحقیقت ربّانی کتابوں کے نازل ہونے سے عمدہ فائدہ یہی ہے کہ خدا اور اُس کی صفات کو نہ صرف عقلی اور قیاسی طور پر شناخت کیا جائے بلکہ آسمانی کتاب خدا تعالیٰ کی ہستی اور صفات کو ایسا ثابت کر کے دکھلاوے کہ اُس کے پیروان تمام امور میں گویا رویت کے گواہ ہو جائیں اور اس طرح پر وہ اپنے ایمان کو اس کمال کے درجہ تک پہنچا دیں جس پر مجرد عقل کی پیروی سے انسان پہنچ نہیں سکتا۔ مثلاً خدا تعالیٰ میں جو صفت غیب دانی ہے اگرچہ عقلی طور پر انسان یہ خیال کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ غیب دان ہونا چاہئے لیکن ربّانی کتاب میں شہودی طور پر اس بات کا ثبوت دینا از بس ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ حقیقت میں غیب دان ہے اور وہ ثبوت اس طرح پر میسر آ سکتا ہے کہ ربّانی کتاب میں بہت سی پیشگوئیاں اور اخبار غیبیہ درج ہوں جو لوگوں کے سامنے پوری ہو چکی ہوں۔ علیٰ ہذا القیاس خدا تعالیٰ کا قادر ہونا اور اپنے نبیوں اور مرسلوں کا حامی اور ناصر اور مؤید ہونا اگرچہ عقلی طورپر بھی ضروری اور محمود سمجھا جاتا ہے لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام مشہودی طور پر اپنی قدرت کاملہ اور حمایت اور نصرت خاصہ کا ایسا عمدہ اور کامل نمونہ دکھلاوے جس کو لوگ دیکھ کر اپنے ایمان اور اعتقاد پر قوی ہو جائیں۔
اسی طرح خدا تعالیٰ کی دوسری صفات بھی اسی طورپر خداتعالیٰ کے کلام میں ثابت ہو جانی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی ذات اور صفات کے پہچاننے کے لئے ایک نہایت صاف اور شفاف آئینہ ہے جو ہم عاجز اور بے خبر بندوں کو اس غرض سے عنایت ہوتا ہے تا کہ ہماری معرفت صرف عقلی اور قیاسی خیالات تک محدود نہ رہے۔ بلکہ ہم اُن تمام پاک صداقتوں کو بچشم خود دیکھ بھی لیں کیونکہ اگر خدا تعالیٰ نے صرف اسی قدر ہم کو بذریعہ اپنی کتاب کے معفرت اور بصیرت عنایت کری جس قدر بذریعہ عقل بھی ہم کو حاصل ہو سکتی ہے تو پھر ربّانی تعلیم اور عقلی تفہیم میں کیا فرق رہا اور اس بات میں خدا تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے والوںکو برہمو سماج والوں پر (جو صرف عقلی اٹکلوں پر چلتے ہیں) کونسی ترجیح ہوئی۔ سو اِس تحقیق سے یہ ہدایت عقل ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں یہی عمدہ خوبی ہے کہ جن صداقتوں کو ہماری عقل ناقص صرف قیاسی طور پر پیش کرتی ہے اُن صداقتوں کو خدا کا کلام ہماری آنکھوں کے سامنے لا کر دکھلا بھی دیتا ہے۔ مثلاً جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ عقل یہ تجویز کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ غیب دان ہونا چاہئے۔ سو خدا تعالیٰ کا کلام صدہا پیشگوئیوں سے جو صحیح طور پر پوری ہوگئیں ہم پر اس صداقت کو یقینی اور قطـعی طور پر کھول دیتا ہے لیکن وید اس مرتبہ اعلیٰ سے جو خدا کی ذات اور صفات کا آئینہ ہو سکے۔ ہزاروں کوس دور اور مہجور ہے بلکہ مجرد عقلی طور سے بھی خدا اور اُس کی صفات کا ثبوت دینے سے ویدعاجز ہے کیونکہ وید کا پہلا اصول یہ ہے کہ عالم بجمیع اجزائیہ انادی یعنی قدیم اور غیر مخلوق اور پرمیشر کی طرح واجب الوجود ہے اور پرمیشر نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا اور نہ پیدا کرنے کی اُس کو طاقت و لیاقت ہے بلکہ اُس کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ بعض چیزوں کو بعض سے جوڑتا ہے مثلاً جسم کا قالب بنا کر روح کو اس میں داخل کر دیتا ہے یا کبھی قالب سے روح کو نکال دیتا ہے۔ سو یہی تالیف اور تفریق پرمیشر سے ہو سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں یعنی اگر پرمیشر کچھ کام کر سکتا ہے تو بس یہی ہے کہ بعض اجزائے عالم کو بعض سے جوڑتا ہے اور کبھی بعض سے بعض کو الگ کر دیتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس اعتقاد میں صرف اتنی ہی خرابی نہیں کہ پرمیشر کو قادر مطلق ہونا چاہئے۔ عاجز اور ناتواں سمجھا گیا ہے اور قدیم اور غیر مخلوق ہونے میں کل اجزاء عالم کے اس کے شریک اور حصہ دار اور بھائی بند ٹھہرائے گئے ہیں اور ہر یک موجود اپنے اپنے نفس کا آپ مالک قرار دیا گیا ہے گویا پٹی داری گانوں کی طرح قدامت اور وجوب و جود کی جنس پر سب ارواح اور پُر خیر کا برابر اور یکساں دخل اور قبضہ چلا آیا ہے بلکہ ایک بڑی بھاری خرابی وید کے اصول سے یہ بھی پیش آئی کہ عقلی طور پر پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل باقی نہ رہی کیونکہ جس حالت میں تمام عالم بجمیع اجزائیہ خود بخود قدیم سے موجود ہے اور پرمیشر کا کام صرف تالیف اور تفریق ہے تو پھر اس سے وجود پرمیشر کا کیونکر ثابت ہو سکے۔ بھلا تم آپ ہی غور سے دیکھو اور انصاف کرو کہ دنیا کی تمام چیزوں میں سے کوئی چیز بھی اپنے وجود کی پیدائش میں پرمیشر کی محتاج نہیں تو پھر اُس پر کیا دلیل ہے کہ اپنی تفریق یا اتصال میں پرمیشر کی محتاج ہے۔ ظاہر ہے کہ ماسوا اللہ کے وجود سے صانع عالم کے وجود پر اسی وجہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ ماسوا اللہ کا وجود خود بخود ہونا بہ بداہت عقل محال ہے اور جس حالت میں یہ تسلیم کیا جائے اور قبول کیا جائے کہ ماسوا اللہ بھی خود بخود ہو سکتا ہے تو عقل کو خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین کرنے کیلئے کون سی راہ باقی رہے گی۔ کیا ایسے ایسے ناپاک اعتقادوں سے دہریہ مذہب والوں کو مدد نہیں پہنچے گی۔ غرض یہ وید کی ایک ایسی فاش غلطی ہے کہ اس کے تابعین کو اُس کے جواب میں کوئی بات نہیں آتی اور وہ لوگ کسی طور سے پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل بیان نہیں کر سکتے اور کیوں کر بیان کر سکیں جب آپ ہی پرمیشر کی طرح قدیم اور واجب الوجود ٹھہرے تو پرمیشر سے اُن کو کیا تعلق اور غرض رہا اور اُس کے وجود کی کونسی ضرورت اور حاجت رہی۔
اب دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف تو وید خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے ثابت کرنے کے لئے آئینہ ہونے کی لیاقت نہیں رکھتا یعنی طالبان حق کو شہودی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر یقین نہیں دلا سکتا بلکہ طرح طرح کی بدگمانیوں میں ڈالتا ہے اور پھر دوسری طرف اُس میں یہ خرابی پیدا ہوگئی کہ عقلی طور پر بھی وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دینے سے بے نصیب اور بے بہرہ ہے تو اب منصف سوچ سکتا ہے کہ معرفت الٰہی کے دونوں طریقوں عقلی اور شہودی سے ہندوؤں کا وید کس قدر دور اور مہجور ہے اور جس قدر ہم نے اب تک بیان کیا کچھ یہی ایک اصول وید کا ایسا نہیں ہے کہ جو عقل کے برخلاف ہو بلکہ وید کے سارے اصول جو بنیاد دھرم کی سمجھے جاتے ہیں ایسے ہی ہیں۔ہاں وید کی رو سے پہلی ہدایت تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کسی چیز کا خالق نہیں۔ مگر اس کے سوا وید کی دوسری ہدایتیں بھی ایسی ہی ہیں۔ جن کے پڑھنے سے عاقل کو ضرور یہ شک پڑے گا کہ شاید وید کا زمانہ کوئی ایسا زمانہ تھا جس میںہنوز ایک دو اصول وید کے اور بھی لکھتے ہیں تا جو جو لوگ وید کی اندرونی حقیقت سے بے خبر ہیں اُن کو اس عجیب کتاب کے حالات کسی قدر معلوم ہو جائیں۔ سو منجملہ اُن کے ایک یہہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں ایک ذرا رحم اور عفو نہیں اور کسی گناہ گار کے گناہ کو اُس کے توبہ و استغفار سے ہرگز نہیں بخشتا اور جب تک ایک گناہ کی سزا میں چوراسی لاکھ جون میں ڈال کر شخص مجرم کو دنیا کی عمر سے ہزار ہا درجہ زیادہ عذاب نہ پہنچاوے اُس کا غصہ فرو نہیں ہوتا اور گو انسان اپنے گناہ سے باز آ کر پرمیشر کی محبت اور اطاعت میں فنا ہو جائے تب بھی جب تک پرمیشر اُس کو لاکھوں جونوں میں ڈالنے سے سزا نہ دے۔ تب تک ہرگز اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اب دیکھنا چاہئے کہ اس اصول میں صرف اتنی ہی قباحت نہیں کہ پرمیشر کو ایک ایسا شخص ماننا پڑتا ہے کہ جو نہایت درجہ کا سنگدل اور بے رحم ہے کہ جوجھکنے والوں کی طرف ہرگز نہیں جھکتا اور محبت کرنے والوں سے ہرگز محبت نہیں کرتا اور ایک ادنیٰ خطا یا قصور سے ایسا چِڑ جاتاہے کہ پھر کوئی بھی طریق اُس کے راضی ہونے کا نہیں بلکہ ایک بڑی قباحت یہ بھی ہے کہ اس اصول کے رُو سے نجات پانے کا راستہ بکُلی مسدود ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں محنت اور مجاہدہ کرنا اور اس کی اطاعت اور عبادت میں دل لگانا سرا سر لغو اور بے فائدہ ٹھہرتا ہے کیونکہ جس حالت میں پرمیشر ایسا کینہ ور اور پُر غضب ہے کہ کسی خطا کے سرزد ہونے سے بجز لاکھوں برسوں تک جونوں میںڈالنے کے ہرگز کسی بندہ پر رحم نہیں کر سکتا تو پھر اس حالت میں وہ نومید بندہ کہ گویا ایک گناہ کر کے جیتے جی ہی مر گیا ہے کیونکر اس کی زندگی میں دل لگائے گا اور کس امید پر عبادت اور زُہد اور رجوع الی اللہ اختیار کرے گا اور پھر زیادہ تر مشکل بات (جس کو عاجز بندہ اپنے ضعف اور کمزور حالت پر نظر کرنے سے بخوبی جانتا ہے) یہ ہے کہ بعد چوراسی لاکھ جون بھگتنے کے پھر بھی ایسی پاک اور مصفا حالت کہ جس میں ایک ذرا حظ یا غفلت سرزد نہ ہو اس کو نصیب نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے قصور اور حظ سے محفوظ نہیں رہ سکتا اور ادنیٰ سے ادنیٰ بات جو بشر کے لئے لازم غیر منفک کی طرح ہے ، غفلت ہے جو انسانی شرشت کا پہلا گناہ اور سب گناہوں کی جڑ ہے مگر دنیا میں کوئی ایسا آدمی کہاں اور کدھر ہے جو ایک طرفۃ العین کے لئے بھی اپنے مولیٰ کے ذکر سے غافل نہیں رہ سکتا اور ایک لحظہ کے لئے قبض کی حالت اُس پر طاری نہیں ہوتی۔ ماسوا اس کے جہاں تک ہم انسانوں کی عام حالتوں پر نظر ڈالتے ہیں اور اُن کے سلسلہ زندگی کو اوّل سے آخر تکر دیکھتے ہیں تو ہم پر صاف کھل جاتا ہے کہ کوئی انسان خاص کر اپنے بلوغ کے ابتدائی زمانہ میں کس قدر خاص یا ذلت یا لغزش یا غفلت یا لہوو لعب سے خالی نہیں رہ سکتا اور نہ جب کہ نعماء الٰہی اس پر وارد ہوئے ہیں اُن کا پورا پورا شکر کر سکتاہے اور یہ ایسی صاف اور واشگاف صداقت ہے جو خود ہمارے کوائف زندگی اور واقعات عمری اس پر شہادت دے رہے ہیں اور موجودات کا ہر یک ذرّہ اور قدرت کا ہر یک قانون اس کی تصدیق کر رہا ہے اور ہماری روحیں پکار پکار کر ہمیں بھی کہتی ہیں کہ ہم بوجہ مخلوق اور ضعیف اور کمزور اور ممنون منت ہونے کے ایسی فتح عظیم اپنے خالق اور محسن حقیقی اور مربی بے علت پر ہرگز حاصل نہیں کر سکتے کہ جو اُس کو یہ کہہ سکیں کہ جو کچھ تیرے حقوق ہمارے گردن پر تھے وہ سب ہم نے جیسا کہ چاہئے ادا کر دیئے ہیں اور اب ہم تیرے حساب سے فارغ اور تیرے مطالبہ سے امن میں ہیں اور جب ہم لوگ ایسی فارغ خطی حاصل نہیں کر سکتے تو پھر صاف ظاہر ہے کہ اگر خداوندکریم ہمارے گناہوں پر ہمیشہ ہم کو سزا دیتا رہے اور درگذر اور عفو کسی حالت پر نہ کرے تو پھر ہرگز ممکن نہیں کہ ہم کسی زمانہ میں نجات کا منہ دیکھ سکیں کیونکہ جب گناہ غیر محدود ٹھہرے تو پھر سزا بھی درصورت لازمی اور ضروری ہونے کے غیر محدود اور دائمی چاہئے۔ سو یہ اصول نہایت منحوس اور نامبارک ہے اور اگر یہی بات سچ ہے تو انسان غایت درجہ کا بدبخت اور بے نصیب ہوگا جس کے لئے سخت دل پرمیشر کا ہمیشہ ارادہ ہے کہ جب تک وہ بکلّی گناہوں کے صادر ہونے سے (کہ جو انسان کی سرشت سے لازم ہوئے ہیں) محفوظ نہ رہے تب تک مختلف جونوں کا تختہ مشق رہے گا اب دیکھنا چاہئے کہ اس کے مقابل پر یہ اصول قرآن شریف کا کیسا بابرکت اور پیارا اور تسلی بخش اور انسانی فطرت کے لئے ضروری اور مناسب حال ہے کہ گناہ کا تدارک توبہ اور استغفار سے ہو سکتا ہے اور بدیوں کی تلافی نیکیوں سے ممکن ہے۔ یہ ایسا ضروری اور لابدی اصول ہے کہ انسان کی مغفرت اور نجات یابی بجز اس کے ممکن ہی نہیں۔ خیال کرنا چاہئے کہ اکثر تمام انسانوں کا یہی حال ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنی ابتدائی عمروں میں کسی قدر غفلت اور لہو و لعب یا نالائق باتوں اور بدچلنیوں میں رہ کر پھر کسی نیک صحبت کی برکت سے یا کسی واعظ اور ناصح کے سمجھانے سے یا اپنے ہی انصاف دلی کے جوش سے اس بات کے مشتاق ہو جایا کرتے ہیں کہ اب خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور بُرے کاموں اور خراب راہوں کو چھوڑ دیں۔
اب سوچنا چاہئے کہ اگر ایسے طالب حق کے لئے جناب الٰہی میں باریابی کا کوئی سبیل نہیں اور تو یہ منظور ہی اور استغفار قبول ہی نہیں تو پھر وہ بیچارہ اپنی آخری بہبودی کیلئے اگر کچھ کوشش بھی کرے تو کیا کرے اور کیونکر کرے اور کدھر جائے۔ ممکن ہے کہ وہ ایسے پرمیشر سے سخت نومید اور شکستہ دل ہو کر اور اُس کی رحمت سے بکلّی ہاتھ دھو کر پھر اپنے گناہوں کی طرف رجعت … کرے اور خوب دل کھول کر ہر قسم کے گناہ اور بدمعاشی سے تمتع اور حظ اُٹھاوے۔ غرض یہ ایسا اصول ہے کہ نہ بندہ اُس سے اپنی نجات تک پہنچ سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کی رحمت اس سے قائم رہتی ہے کیا یہ بات اللہ تعالیٰ کی عادت کریمانہ کے موافق ہے کہ وہ انسان کی کامیابی میں اس قدر مشکلات ڈالے اور اس کی نجات کو معلق یا محال کر کے اس کے گناہ کو ہمیشہ یاد رکھے۔ مگر اس کے رجوع محبت اور توبہ اور استغفار کا ایک ذرا قدر نہ کرے اور چوراسی لاکھ جون میں سے ایک جون کی تخفیف کرنے سے بھی دریغ کرتا رہے کیا ایسے پر کوئی امید ہو سکتی ہے۔ ہرگز نہیں۔
پھر تیسرا اصول وید کا جو عقل کے برخلاف ہے یہ ہے کہ نجات ابدی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ بلکہ لوگ کچھ مدت محدود تک نجات پا کر پھر مکی خانہ سے ناکردہ گناہ باہر نکالے جاتے ہیں اور پرمیشر ہرگز قادر نہیں کہ اُن کو ہمیشہ کے لئے نجات دے سکے۔ اب جو لوگ عشق الٰہی کی ایک چنگاری بھی اپنے اندر رھتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ایسی بے مروّتی اُس محبوب حقیقی سے ہرگز نہیں ہو سکتی کہ عزت دے کر پھر بے عزت کرے اور ایک چیز بخش کر پھر اُس کو چھین لے اور ایک دفعہ اپنا پیارا اور مقرب بنا کر پھر ناکردہ گناہ کیڑوں مکوڑوں اور کتوں بلوں کی جونوں میں ڈالتا رہے۔ جس شخص کو محبت الٰہی کے جام سے ایک گھونٹ بھی میسر ہے اُس نی عارف اللہ روح جو اس جواد مطلق پر بڑی بڑی امیدیں رکھتی ہے اور سب کچھ کھوہ کر اُسی کی ہو رہی ہے ہرگز اس کو یہ فتویٰ نہیں دیتی کہ اس کا پیارا اور محبوب جانی آخر اُس سے ایسا معاملہ کرے گا کہ اس کی سب امیدیں خاک میں ملا کر اور اُس کی خوشحالی دائمی کی خواہش جو اُس کے دل میں ڈالی گئی ہے نظر انداز کر کے اُس مصروع کی طرح جو بار بار دورہ صرع سے دُکھ اُٹھاتا ہے مختلف جونوں کے عذاب سے معذب کرتا رہے گا۔ اُس کے صدق اور وفا پر اُس کو کچھ بھی خیال نہیں آئے گا اور اس کی خالص محبتوں پر اُس کو کچھ بھی نظر نہیں ہوگی۔ افسوس کہ ہندو لوگ ایسا اعتقاد رکھنے سے خود اپنے اوتاروں اور رشیوں کی عزت کو خاک میں ملاتے ہیں کہ اوّل ان کو بڑے مقبول الٰہی بلکہ خدا کا اوتار سمجھ کر پھر اُن کے لئے یہ تجویز کرتے ہیں کہ اُن بیچاروں کو بھی نجات ابدی نہیں اور وہ کیڑے مکوڑے اور کتے بلے بننے سے مستثنیٰ نہیں رہ سکتے جن لوگوں کو ان مقدس ویدوں کی خبر نہیں وہ تعجب کریں گے کہ یہ کیسے اصول ہیں جو ویدوں کی طرف نسبت دیئے گئے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ وہ بدگمانی سے یہ خیال کریں کہ یہ ویدوں پر تہمت ہے۔ سو واضح ہو کہ ہم نے ان اصولوںکو کمال تحقیق اور تدقیق سے لکھا ہے اور اس وقت وید ہمارے سامنے پڑا ہے اور اُس کے بھاش ہمارے پاس موجود ہیں اگر کسی کو شک ہو تو ہر طرح ہم سے تسلی کر سکتا ہے اور خود ویدوں کے ماننے والے اس سے بے خبر اور انکاری نہیں ہیں اور اگر کوئی ہم تک نہ پہنچ سکے اور نہ پنڈتوں سے دریافت کر سکے تو ہم اس کو صلاح دیتے ہیں کہ وہ رِگ وید کو جو دہلی سوسائٹی میں بکمال تصحیح و تحقیق چھپا ہے ذرا نظر غور اور تدبر سے مطالعہ کرے اور پھر یہ بھی مناسب ہے کہ پنڈت دیانند کی ستیاارتھ پرکاش اور وید بھاش کا بھی درشن کر لے تا اُسے معلوم ہو کہ وید کیا شَے ہے اور اُس کی تعلیم کیسی ہے۔
بعض جاہل ہندو اور مسلمان اپنشدوں کو جو براہم پشتک ہیں اور صدہا سال ویدوں کے بعد لکھے گئے ہیں وید ہی سمجھتے ہیں جیسے داراشکوہ نے بعض اپنشدوں کا ترجمہ بھی کسی پنڈت سے لکھوا کر ایک رسالہ تالیف کیا ہے لیکن جاننا چاہئے کہ یہ لوگ صریح غلطی پر ہیں۔ ویدوں اور اپنشدوں کے مضامین میں کچھ تعلق بھی نہیں بلکہ وہ خیالات جو اُپنشدوں میں درج ہیں صرف برہمنوں کے دلوں کی تراش خراش ہیں اور ان خیالات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان وغیرہ مخلوق پرمیشر کے وجود کا ایک ٹکڑہ ہے اور اسی سے نکلتا ہے اور اُسی میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ صورت دخول اور خروج کی ہمیشہ بنی رہتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیالات برہمنوں نے ایک مدت کے بعد بدھ مذہب والوں سے لئے ہیں اور یہ اس زمانہ کے خیالات ہیں کہ جب برہمن لوگ وید کی تعلیم سے بیزار ہو چکے تھے اور ان کا منشاء تھا کہ بجائے تعلیم وید کے ان خیالات کو جو اُپنشدوں میں درج ہیں شائع کیا جائے مگر باوجود اس کے پھر بھی برہمن وید کے دیوتاؤں سے الگ نہیں ہوئے اور اُن کی پرستش سے کنارہ نہیں کیا بلکہ صدہا طرح کی اور اور مشرکانہ باتیں حاشیہ کے طور پر چڑہا دیں اور کئی طرح کے جھوٹے قصے اور کتھا کہانیاں برمہا اور بشن اور مہادیو اور اِندر وغیرہ کے بارہ میں لکھ ڈالیں اور کئی پُستک اپنی طرف سے تالیف کر کے یہ مشہور کرنا چاہا کہ یہ بھی وید اٹک یعنی وید کی خبریں ہیں۔ چنانچہ انہیں میں سے وہ اُپنشدین بھی ہیں جن کا بعض ناواقف مسلمانوں نے ترجمہ بھی کیا تھا اور اپنی اوپری واقفیت سے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہی وید ہیں۔ مگر اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ کوئی امر مشتبہ نہیں رہ سکتا۔ وہی وید کہ برہمنوں کے تہہ خانوں میں چھپے ہوئے تھے اب کتب فروشوں کی دوکانوں پرچھپے ہوئے رکھے ہیں۔ اس مقام پر ہم بڑے افسوس سے لکھتے ہیں کہ مرزا جان جاناں صاحب نے کہ جو نقشبندی فقیروں سے ایک نامی اور مشہور بزرگوں میں خواہ نخواہ دخل درمعقولات کر کے ویدوں کے بارہ میں ایک مکتوب کسی اپنے مرید کے نام لکھا ہے اور اس میں ویدوں کی تعریف کی ہے کہ وہ شرک اور مخلوق پرستی سے پاک ہیں اور توحید کی تعلیم ان میں بھری ہوئی ہے۔ اب جب ہم ایک طرف ویدوں کی مشرکانہ تعلیم اور ملحدانہ عقائد کو بخشم سر دیکھتے ہیں اور پندرہ کروڑ ہندو کو اُس میںمبتلا پاتے ہیں اور دوسری طرف مرزا صاحب کا یہ مکتوب پڑھتے ہیں جس کو انہوں نے نہایت سادہ دلی اور لاعلمی سے لکھاہے تو ہم بجز اس کے کہ حضرت مرزا صاحب کے حق میں دعا مغفرت کریں اور خدا تعالیٰ سے اُن کی خطا کی معافی چاہیں اور کسی طرح سے اُن کے کلام پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ مرزا صاحب نے نہایت بے جا اور نامناسب کام کیا کہ بے خبر محض ہونے کی حالت میں وید دانی کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اُن کے لئے یہی بہت فخر کی بات تھی کہ وہ اپنے فقیرانہ اشغال اور اذکار میں مشغول رہتے اور جس کوچہ میں ایک ذرّہ بھی اُن کی رسائی نہیں تھی اس کی نامعلوم خبریں لوگوں کو نہ بتلاتے۔ پھر مرزا صاحب اپنے مکتوبات میں یہ لکھتے ہیں کہ ہندوؤں کا وید چار دفتر ہیں جو احکام امرونہی و اخبار ماضیۂ مستقلبلہ پر مشتمل ہے اور یہ وید بذریعہ ایک فرشتہ کے جس کا نام برہما تھا بحوالہ ایجاد عام ہندوؤں کو پہنچا ہے اُسی وید میں سے اُن کے پُران اور شاستر نکالے گئے ہیں اس وید میں بلحاظ عمر طولانی عالم کی چار طور کی مختلف ہدایت رکھی گئی ہیں جن میں سے بعض ہدایتیں ست جگ کے مناسب حال اور بعض ہدایتیں کل جگ کے مناسب حال ہیں اور ہندو اگرچہ مختلف فرقے ہیں مگر وہ سب کے سب توحید باری پر اتفاق رکھتے ہیں اور عالم کو مخلوق سمجھتے ہیں اور روز حشر کے قائل ہیں اور معارف اور مکاشفات میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اور اُن کی بُت پرستی حقیقت میں بُت پرستی نہیں ہے بلکہ وہ بعض ملائکہ کو جو بامرالٰہی عالم کون و فساد میں تصرف رکھتے ہیں یا بعض کاملین کی ارواح کو جن کا تصرف بعد گذر جانے کے اس نشہ دنیا سے باقی ہے یا بعض زندوں کو جو اُن کے زعم میں خضر کی طرح ہمیشہ زندہ رہتے ہیں قبلہ توجہ کر لیتے ہیں۔ یعنی صوفیہ اسلامیہ کی طرح اُن کی خیالی صورتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جیسے صوفیہ اسلامیہ اپنے پیر کی صورت کا تصور کرتے ہیں اور اُس سے فیض اُٹھاتے ہیں مگر صرف اتنا فرق ہے کہ اسلامی صوقی طاہر میں کوئی تصویر شیخ کی اپنے آگے نہیں رکھتے اور یہ لوگ رکھ لیتے ہیں۔ سو اُن کی یہ صورت عبادت کفّار عرب کی بُت پرتسی سے مشابہ نہیں ہے کیونکہ کفّار عرب اپنے بتوں کو متصرف و مؤثر بالذات مانتے تھے اور اُن کو خدائے زمین سمجھتے تھے اور خدا تعالیٰ کو خدائے آسمان سمجھتے تھے۔ اسی طرح ہندو لوگ جو اُن تصویروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ سجدہ بھی سجدہ عبادت نہیں بلکہ سجدہ تحیت ہے۔ اُن کی شرح میں باپ اور پیر اور اُستاد کے لئے بجائے سلام کے بھی سجدہ مرسوم اور معمول ہے۔ انتی۔
اب مرزا صاحب نے اپنے اس بیان میں جس قدر غلطیاں کی ہیں اور دھوکے کھائے ہیں اور خلاف واقعہ لکھا ہے ہم کس کس کی اطلاح کریں۔ مرزا صاحب نے صرف کسی نادان ہندو کی زبان سن کر بغیر اپنی ذاتی تحقیق کے یہ خس و خاشاک غلطیوں کا اس حظ میں بھر دیا ہے نہ معلوم کہ اُنہوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ ہندوؤں کے یہی خیالات اور عقاید ہیں یا جو اُن کے محققوں نے اپنی معتبر کتابوں میں لکھے ہیں۔ کیونکہ اوّل مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ وید کے چار دفتر ہیں۔ سو مرزا صاحب کی پہلی غلطی یہی ہے کہ وید کو ایک کتاب قرار دے کر اُس کے چار دفتر خیال کرتے ہیں بلکہ حق بات جس کا ثبوت امر بدیہی کی طرح حال کے زمانہ میں کھل گیا ہے کہ وید کی مجموعہ چار کتابیں ہیں جو چار مختلف زمانوں میں کئی لوگوں نے اُن کو بنایا ہے۔ چنانچہ چوتھا وید جو اتھرون سے موسوم ہے اُس کی نسبت اکثر پنڈتوں کی یہی رائے ہے کہ وہ پیچھے سے ویدوں کے ساتھ ملایا گیا ہے اور کسی برہمن نے اُس کو لکھا ہے اور اُس کے سوائے جو تین وید ہیں وہ الگ الگ کتابیں ہیں جن کو الگ الگ رشیوں نے جمع کیا ہے اور ہندوؤں کے محققوں کے نزدیک برہما کچھ چیز نہیں ہے بلکہ وید اگنی اور وایو اور سورج پر اُترے ہیں اور محقق ہندو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو اَٹھارہ پُران اور شاستر وغیرہ اور اُپنشدین ہندوؤں کے ہاتھ میں ہیں وہ وید کے مضمون سے بہت سی مخالفت رکھتے ہیں اور بہت سے زواید اُن کتابوں میں پائے جاتے ہیں جو وید میں نہیں ہیں۔ مثلاً یہی خیال چاروں وید برہما کے چاروں مُکھ سے نکلے ہیں۔ اس کا کوئی اصل صحیح وید میں نہیں پایا جاتا۔ ایسا ہی یہ کہنا کہ دنیا کا کوئی خالق ہے وید کی رُو سے بڑا گناہ اور پاپ کی بات ہے بلکہ وید کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ دنیا خود بخود قدیم سے ایسی ہی چلی آتی ہے۔ جیسا پرمیشر چلا آتا ہے اور پرمیشر کے وجود سے دنیا کے وجود کو کسی قسم کا فیض نہیں پہنچتا۔ یہاں تک کہ اگر پرمیشر کا مرنا بھی فرض کر لیا جائے تو دنیا کا اس میں کچھ بھی حرج نہیں اور ایسا ہی ہندوؤں کے محقق یہ بھی کہتے ہیں کہ حشر اجساد کچھ چیز نہھیں اور وید پر عمل کرنے سے ہرگز کسی کا گناہ عفو نہیں ہو سکتا اور نہ توبہ و استغفار کچھ کام آتی ہے بلکہ ایک گناہ کے عیوض میں ہر ایک شخص کو چوراسی جون سزا میں بھگتنی پڑے گی اُن کا یہ بھی قول ہے کہ وید اخبار راضیہ اور مستقبل سے بالکل خالی ہے اور کوئی امر خوارق عادت جو نبیوں سے ظہور میں آتا ہے اس میں درج نہیں اور مکاشفات کا تو ذکر تک نہیں اور اُن کے نزدیک مکاشفات اور خوارق اور پیشگوئیاں اور اخبار غیبیہ از قبیل محالات ہیں جن کا وجود ہرگز ممکن نہیں اور جن لوگوں پر وید نازل ہوا وہ لوگ بکلی ان باتوں سے محروم تھے اور وید کی رُو سے ان باتوں کا ظہور میں آنا قطعی طور پر ناجائز اور غیر ممکن ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ ہندوؤں کے محقق تو اپنے وید کو اخبار ماضیہ اور مستقبلہ سے بکلی عاری اور مکاشفات سے بکلی بے نصیب اور خداتعالیٰ کی خالقیت اور حشر اجساد سے بکلی انکاری قرار دیتے ہیں اور مرزا صاحب ایک قدم آگے بڑھ کر ہندوؤں کے ویدوںکی نسبت اُن سب چیزوں کو مانتے ہیں۔ اب دیکھئے کہ بقول شخص کہ مدعی سست اور گواہ چشت کیا نالائق غلو مرزا صاحب کے بیان میں پایا جاتا ہے جس پر اگر آج کل کے محقق اطلاع پاویں تو مرزا صاحب کو ایک غایت درجہ کا سادہ لوح قرار دیں اور اُن کی باتوں پر قہقہہ مار کر ہنسیں۔ پھر دیکھنا چاہئے کہ مرزا صاحب اپنے اسی مکتوب میںہندوؤں بُت پرستی سے بھی بری قرار دینا چاہتے ہیں یہ کس قدر بے خبری اور لاعلمی مرزا صاحب کی ہے کہ ہندوستان میں پرورش پا کر پھر ہندوؤں کے عقائد سے کس قدر بے خبر اور غافل ہیں۔ اُنہیں معلوم نہیں کہ ہندو لوگ تو عرب کے بُت پرستوں سے اپنے شرک میں کئی درجہ بڑھ کر ہیں کیونکہ عرب کے بُت پرست اگرچہ اپنی مرادیں بتوں سے مانگتے تھے مگراُن کا یہ قول ہر گز نہ تھا کہ دنیا کے خالق و مالک وہ وہی دیوتا ہیں جن کی تصویریں اور مورتیں پتھر یا دہانت وغیرہ سے متشکل کر کے پوجے جاتے ہیں لیکن ہندوؤں کا اصول جیسا کہ ابھی ہم نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ پرمیشر دنیا کا خالق نہیں ہے بلکہ اُن کے دیوتا دنیا کے خالق ہیں اور اُنہیں سے مرادیں مانگنی چاہئے اس بات کو کون نہیں جانتا کہ ہندو لوگ اپنے بتوں سے مرادیں مانگنے میں بڑے سرگرم ہیں۔ مرزا صاحب نے شاید کسی تہہ خانہ میں پرورش پائی ہوگی کہ اُن کو اپنی مدت العمر تک یہ بھی خبر نہ ہوئی کہ ہندو لوگ اپنے پُرانے بُت خانوں کے درشن کے لئے کس جوش و خروش میں جایا کرتے ہیں یہاں تک کہ جگناتھ وغیرہ بُت خانوں کے بڑے بڑے بتوں کے راضی اور خوش کرنے کیلئے بعض بعض ہندو اپنی زبانیں بھی کاٹ کر چڑہا دیتے ہیں اور گنگا مائی کے درشن کرنے والے جو ہر سال ہزار ہا جاتے ہیں اور پکار پکار کر مرادیں مانگتے ہیں۔ یہ بات بھی مرزا صاحب سے چھپی رہی اور اسی طرح وہ صدہا کتابیں ہندوؤں کی جنہوں نے خود اپنی بُت پرستی کا اقرار کیا ہے اور اپنے دیوتاؤں اور بتوں وغیرہ سے مرادیں مانگنے کے طریق لکھے ہیں اگر اُن میں سے کوئی کتاب مرزا صاحب کی نظر میں سے گزر جاتی تو میں خیال کرتا ہوں کہ مرزا صاحب موصوف بہت ہی شرمندہ ہوتے۔ مگر بالآخر مجھکو یہ بھی خیال آتا ہے کہ غالباً یہ مکتوب کسی اور شخص نے لکھ کر مرزا صاحب کی طرف نسبت کر دیا ہے کیونکہ یہ بات عام طور پر چلی آتی ہے کہ اکثر اہل غرض اپنی تحریروں کو بعض اکابر کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں تا اُن کی مقبولیت کی وجہ سے وہ تحریریں بِلا عذر قبول کی جائیں۔ بہرحال اب ہم اس حظ کو دعا پر ختم کرتے ہیں اور مرزا صاحب کے معتقدین کو برادرانہ نصیحت دیتے ہیں کہ وہ ایسے خیالات دور از صداقت و دیانت مرزا صاحب کی طرف منسوب نہ کریں۔
ربنا اغفرلنا ذنوبنا ولا اخواننا الذین سبقونا بالایمان وصل علی نبیک وحییک محمدٍ وآلہٖ وسلم وتوفنا فی امتواتبعنا فی امۃٍ واٰتنا ما وعدت لا امۃٍ بنا أتنا امنا فاکتبنافی عبادک المومنین ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فمن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ لمن الخاسرین۔ خاکسار
غلام احمد ۔ از قادیان ضلع گورداسپور
(بتاریخ ہشتم ماہ رمضان المبارک ۱۳۰۲ھ مطابق ۲۲؍ جون ۱۸۸۵ء)
خاتمہ از مرتب
یہ مجموعہ مکتوبات احمدیہ کی پہلی جلد ہے اور یہاں ختم کی جاتی ہے لیکن میں اس کو ناتمام سمجھوں گا اگر میر عباس علی شاہ صاحب کے بعد کے واقعات اور حالات کا یہاں ذکر نہ کروں۔ میر عباس علی شاہ صاحب لودہانہ کے رہنے والے تھے اور حضرت اقدس مسیح علیہ السلام کی تالیف براہین احمدیہ کے زمانہ میں ایک مخلص مددگار تھے۔ مسیح موعود کے دعویٰ کے وقت اُنہیں ابتلاء آیا اور اسی ابتلاء میں اُن کا خاتمہ ہوا۔ اُنہوں نے اپنی مخالفت کا اظہار بذریعہ اشتہار بھی کیا اور حضرت حجۃ اللہ نے نہایت رُفق و ملائمیت سے اُن کو جواب بھی دیا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ارادہ کر لیا تھا اُن کا خاتمہ انکار پر ہوا اس معاملہ میں مَیں زیادہ کچھ بھی لکھنا نہیں چاہتا ہاں ناظرین کو اسی مجموعہ مکتوبات کے مکتوب نمبر۳۴ اور ۴۰ پر خصوصیت سے توجہ کرنے سے صلاح دیتا ہوں۔ وہ ان مکتوبات کو پڑھیں گے تو اُنہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت حجۃ اللہ نے پہلے سے پیشگوئی کی تھی۔ بہرحال میں حضرت اقدس علیہ السلام کی اس کے بعد کی تحریریں عباس علی شاہ صاحب کے متعلق درج کر دیتا ہوں اور اس کے بعد اور کوئی تحریر ملی یا مکتوبات ملے جو میر عباس علی ہی کے نام ہیں وہ بطور تتمہ اس جلد کے چھاپ دیئے جاویں گے (بہرحال وہ تحریریں یہ ہیں)
’’(۹) حبی فی اللہ میر عباس علی لودہانوی۔ یہ میرے وہ اوّل دوست ہیں جن کے دل میں خداتعالیٰ نے سب سے پہلے میری محبت ڈالی اور جو سب سے پہلے تکلیف سفر اُٹھا کر ابرار اختیار کی سنت پر بقدم تجرید محض للہ قادیان میں میرے ملنے کے لئے آئے۔ وہی یہی بزرگ ہیں میں اس بات کو کبھی بھول نہیں سکتا کہ بڑے سچے جوشوں کے ساتھ اُنہوں نے وفاداری دکھلائی اور میرے لئے ہر ایک قسم کی تکلیفیں اُٹھائیں اور قوم کے منہ سے ہر ایک قسم کی باتیں سنیں۔ میر صاحب نہایت عمدہ حالات کے آدمی اور اس عاجز سے روحانی تعلق رکھنے والے ہیں اور اُن کے مرتبہ اخلاص کے ثابت کرنے کیلئے یہ کافی ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز کو اُن کے حق میں الہام ہوا تھا۔ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء وہ اس مسافر خانہ میں محض متوکلانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اپنے اوائل ایام میں وہ بیش برس تک انگریزی دفتر میں سرکاری ملازم رہے مگر بباعث غربت و درویشی کے اُن کے چہرہ پر نظر ڈالنے سے ہرگز خیال نہیں آتا کہ وہ انگریزی خوان بھی ہیں لیکن دراصل وہ بڑے لائق اور مستقیم الاحوال اور دقیق الفہم ہیں۔ مگر بایں ہمہ سادہ بہت ہیں۔ اسی وجہ سے بعض موسوسین کے وساوس اُن کے دل کو غم میں ڈال دیتے ہیں لیکن اُن کی قوت ایمانی جلد اُن کو دفع کر دیتی ہے‘‘۔
اس کے بعد مخالفت کے اظہار پر حضرت اقدس نے مندرجہ ذیل مضمون لکھا:۔
میر عباس علی صاحب لدہانوی
چوں بشنوی سخنِ اہل دل مگو کہ خطا است
سخن شناس نہٖ دلبرا خطا اینجا است
یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کا ذکر بالخیر مَیں نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۷۹۰ میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں لکھا ہے۔ افسوس کہ وہ بعض مسوسوسین کی وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آگئے بلکہ جماعت اعدا میں داخل ہو گئے۔ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ اُن کی نسبت تو الہام ہوا تھا کہ اصلحا ثابت و فرعھا فی السماء۔ اس کا یہ جواب ہے کہ الہام کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ اصل اُس کا ثابت ہے اور آسمان میں اُس کی شاخ ہے اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں۔ بِلا شُبہ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے جس پر وہ ہمیشہ ثابت اور مستقل رہتا ہے اور اگر ایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تو وہ فطرتی خوبی ساتھ ہی لاتا ہے اور اگر پھر اسلام سے پھر کفر کی طرف انتقال کرے تو اُس خوبی کو ساتھ ہی لے جاتا ہے کیونکہ فطرت اللہ اور خلق اللہ میں تبدل اور تغیر نہیں۔ افراد نوع انسان مختلف طورکی کانوں کی طرح ہیں کوئی سونے کی کان، کوئی چاندی کی کان، کوئی پیتل کی کان۔ پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے۔ بِلاشبہ یہ مسلم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض اخلاق اُن کو فطرتاً حاصل ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجسم ظلمت اور سرا سر تاریکی میں کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ کوئی فطرتی خوبی بجز حصول صراط مستقیم کے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ موجب نجات اُخروی نہیں ہو سکتی کیونکہ اعلیٰ درجہ کی خوبی ایمان اور خدا شناسی اور راست روی اور خدا ترسی ہے… اگر وہی نہ ہوئی تو دوسری خوبیاں ہیچ ہیں۔ علاوہ اس کے یہ الہام اُس زمانہ کاہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی موجود تھی۔ زبردست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اور اپنے دل میں بھی وہ یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت رہوں گا۔ سو خدا تعالیٰ نے اُن کی اُس وقت کی حالت موجودہ سے خبر دے دی۔ یہ بات خدا تعالیٰ کی وحی میں شائع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبر دیتا ہے۔ کسی کے کافر ہونے کی حالت میں اُس کا نام کافر ہی رکھتا ہے اور اُس کے مومن اور ثابت قدم ہونے کی حالت میں اُس کا نام مومن اور مخلص اور ثابت قدم ہی رکھتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ میری صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجزکے مخلصوں میں شامل رہے اور خلوص کے جوش کی وجہ سے بیعت کے وقت نہ صرف آپ اُنہوں نے بیعت کی بلکہ اپنے دوسرے عزیزوں اور رفیقوں اور دوستوں اور متعلقوں کو بھی اس سلسلہ میں داخل کیا اور اس دس سال کے عرصہ میں جس قدر اُنہوں نے اخلاص اور ارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے۔ اُن کا اس وقت میں اندازہ بیان نہیں کر سکتا۔ لیکن دو سَو کے قریب اب بھی اُن کے ایسے خطوط موجود ہوں گے جن میں اُنہوں نے انتہائے درجہ کے عجز اور انکسار سے اپنے اخلاص اور ارادت کا بیان کیا ہے بلکہ بعض خطوط میں اپنی وہ خوابیں لکھی ہیں جن میں گویا روحانی طور پر اُن کو تصدیق ہوئی ہے کہ یہ عاجز من جانب اللہ ہے اور اس عاجز کے مخالف باطل پر ہیں اور نیز وہ اپنی خوابوں کی بنا پر اپنی معیت دائمی ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اس جہان اور اُن جہان میں ہمارے ساتھ ہیں۔ ایسا ہی لوگوں میں بکثرت اُنہوں نے یہ خوابیں مشہور کی ہیں اور اپنے مریدوں اور مخلصوں کی بتلائیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس قدر جوش سے اپنا اخلاص ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگرخدا تعالیٰ کا الہام ہو کہ یہ شخص اس وقت ثابت قدم ہے متزلزل نہیں توکیا اس الہام کو خلاف واقعہ کہا جائے گا۔ بہت سے الہامات صرف موجودہ الہامات جو حالات کے آئینہ ہوتے ہیں۔ عواقب امور سے اُن کو کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نیز یہ بات بھی ہے کہ جب ک انسان زندہ ہے اُس کے سوء خاتمہ پر حکم نہیں کر سکتے کیونکہ انسان کا دل اللہ جل شانہٗ کے قبضہ میں ہے۔ میر صاحب تو میر صاحب ہیں اگر وہ چاہے تو دنیا کے ایک بڑے سنگدل اور مختوم القلب آدمی کو ایک دم میں حق کی طرف پھیر سکتا ہے۔ غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتا ہے۔ مآل پر ضروری طور پر اُس کی دلالت نہیں ہے اور مآل ابھی ظاہر بھی نہیں ہے۔ بہتوں نے راستبازوں کو چھوڑ دیا اور پکے دشمن بن گئے مگر بعد میں پھر کوئی کرشمہ قدرت دیکھ کر پشیمان ہوئے اور زار زار روئے اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور رجوع لائے۔ انسان کا دل خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اُس حکیم مطلق کی آزمائشیں ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ سو میر صاحب کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلا کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پیدا ہوئی اور پھر قبض سے خشکی اور اجنبیت اور اجنبیت سے ترکِ ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جہری عداوت اور ارادہ تحقیر و استحقاق و توہین پیدا ہو گیا۔ عبرت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہوگا۔ مالک الملک جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ میرے دوستوں کو چاہئے کہ اُن کے حق میں دعا کریں اور اپنے بھائی فرد ماندہ اور درگذشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں اور میں بھی انشاء اللہ لکریم دعا کروں گا۔ میں چاہتا تھا کہ اُن کے چند خطوط بطور نمونہ اس رسالہ میں نقل کر کے لوگوں پر ظاہر کروں کہ میری عباس علی کا اخلاص کس درجہ پر پہنچا تھا اور کس طور کی خوابیں وہ ہمیشہ ظاہر کیا کرتے تھے اور کن انکساری الفاظ اور تعظیم کے الفاظ سے وہ خط لکھتے تھے لیکن افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں۔ انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے وقت میں حسبِ ضرورت ظاہر کیا جائے گا۔ یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہبیت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفۃ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا آج اس کی کیا حالت ہے۔ پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے۔ اپنی استقامتوں پر بھروسہ مت کرو۔ استقامت میں کوئی فاروق رضی اللہ عنہ سے کوئی بڑھ کر ہوگا جن کو ایک ساعت کے لئے ابتلا پیش آ گیا تھا اور اگر خدا تعالیٰ کاہاتھ اُن کو نہ تھامتا تو خدا جانے کیا حالت ہو جاتی۔ مجھے اگرچہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج بہت ہوا لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض رعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو اُن کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے جن کی تعریف میں وحی الٰہی بھی ہوگئی تھی۔ آخر حضرت مسیح علیہ السلام سے منحرف ہوگئے تھے۔ یہودا اسکریوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کاتھا جو اکثر ایک ہی پیالہ میں حضرت مسیح کے ساتھ کھاتا اور بڑے پیار کا دَم مارتا تھا جس کو بہشت کے بارہویں تخت کی خوشخبری بھی دی گئی تھی اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے جن کی نسبت حضرت مسیح نے فرمایا تھاکہ آسمان کی گنجیاں اُن کے ہاتھ میں ہیں جن کو چاہیں بہشت میں داخل کریں اور جن کو چاہیں نہ کریں۔ لیکن آخرمیاں صاحب موصوف نے جو کرتوت دکھائی وہ انجیل پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہو کر اور اُن کی طرف اشارہ کر کے نعوذ باللہ بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پر *** بھیجتا ہوں۔ میر صاحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں کل کی کس کو خبر ہے کہ کیا ہو۔ میر صاحب کی قسمت میں اگرچہ یہ لغزش مقدر تھی اور اصلہا ثابت کی ضمیر ثابت بھی اُس کی طرف ایک اشارہ کر رہی تھی۔ لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میر صاحب کی حالت کو لغزش میں ڈالا۔ میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جن کو مسائل دقیقہ دین کی کچھ بھی خبر نہیں۔ حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے۔ مَیں نے سنا ہے کہ شیخ بٹالوی اس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ لاغوینھم اجمعین۔ اور اس قدر غلوہے کہ شیخ نجدی کا استثنا بھی اُن کے کلام میں نہیں پایا جاتا۔ تاصالحین کو باہر رکھ لیتے اگرچہ وہ بعض روگردان ارادت مندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں مگر اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہو جانے سے سارا باغ برباد نہیں ہو سکتا۔ جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خشک کر دیتا ہے اورکاٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا کر دیتا ہے۔ بٹالوی صاحب یاد رکھیں کہ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدا تعالیٰ اُس کی جگہ بیس لائے گا۔ اور اس آیت پر غور کریں۔ فسوف یاتی اللّٰہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلۃ علی المؤمنین اعزۃ علی الکفرین۔
بالآخر ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ میری عباس علی صاحب نے ۱۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء میں مخالفانہ طور پر ایک اشتہار بھی شائع کیا ہے جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے۔ سو اُن الفاظ سے تو ہمیں کچھ غرض نہیں جب دل بگڑتا ہے تو زبان ساتھ ہی بگڑ جاتی ہے لیکن اُس اشتہار کی تین باتوں کا جواب دینا ضروری ہے۔
اوّل: یہ کہ میر صاحب کے دل میں دہلی کے مباحثات کا حال خلاف واقعہ جم گیا ہے سو اُس وسوسہ کے دور کرنے کیلئے میرا یہی اشتہار کافی ہے بشرطیکہ میر صاحب اس کو غور سے پڑھیں۔
دوم: یہ کہ میر صاحب کے دل میں سراسر فاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا مَیں ایک نیچری آدمی ہوں۔ معجزات کا منکر اور لیلۃ القدر سے انکاری اور نبوت کا مدعی اور انبیا علیہم السلام کی اہانت کرنے والا اور عقاید اسلام سے منہ پھیرنے والا۔ سو ان اوہام کے دور کرنے کے لئے میں وعدہ کرچکا ہوں کہ عنقریب میری طرف سے اس بارہ میں رسالہ مستقلہ شائع ہوگا اگر میر صاحب توجہ سے اس رسالہ کو دیکھیں گے تو بشرط توفیق ازلی اپنی بے بنیاداور بے اصل بدظنیوں سے سخت ندامت اُٹھائیں گے۔
سوم: یہ کہ میر صاحب نے اپنے اس اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر فرما کر تحریر فرمایا ہے کہ گویا اُن کو رسول نمائی کی طاقت ہے۔ چنانچہ وہ اس اشتہار میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں میرا مقابلہ نہیں کیا۔ مَیں نے کہا تھا کہ ہم دونوں کسی ایک مسجد میں بیٹھ جائیں اور پھر یا تو مجھ کو رسول کریم کی زیارت کرا کر اپنے دعاوی کی تصدیق کرادی جائے اور یا میں زیارت کرا کر اس بارہ میں فیلہ کرادونگا۔ میر صاحب کی اس تحریر نے نہ صرف مجھے ہی تعجب میں ڈالا بلکہ ہر ایک واقفِ حال سخت متعجب ہو رہا ہے کہ اگر میر صاحب میں یہ قدرت اور کمال حاصل تھا کہ جب چاہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیں اور باتیں پوچھ لیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھلا دیں تو پھر انہوں نے اس عاجز سے بدوں تصدیق نبوی کے کیوں بیعت کر لی اور کیوں دس سال تک برابر خلوص نماؤں کے گروہ میں رہے۔ تعجب کہ ایک دفعہ بھی رسول کریم اُن کی خواب میں نہ آئے اور ان پر ظاہر نہ کیا کہ اس کذاب اور مکار اور بے دین سے کیوں بیعت کرتا ہے اور کیوں اپنے تئیں گمراہی میں پھنساتا ہے۔ کیا کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کو یہ اقتدار حاصل ہے کہ بات بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری میں چلا جاوے اور اُن کے فرمودہ کے مطابق کاربند ہو اور اُن سے صلاح مشورہ لے لے وہ دس برس تک برابر ایک کذاب اور فریبی کے پنجہ میں پھنسا رہے اور ایسے شخص کا مرید ہو جاوے جو اللہ اور رسول کا دشمن اور آنحضرت کی تحقیر کرنے والا اور تحت الثری میں گرنے والا ہو۔ زیادہ تر تعجب کا مقام یہ ہے کہ میر صاحب کے بعض دوست بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بعض خوابیں ہمارے پاس بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ میں رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھا اور آنحضرت نے اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ وہ شخص واقعی طور پر خلیفۃ اللہ اور مجدد دین ہے اور اسی قسم کے بعض خط جن میں خوابوں کا بیان اور تصدیق اس عاجز کے دعویٰ کی تھی میر صاحب نے اس عاجز کو بھی لکھے۔ اب ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اگر میر صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں تو جو کچھ اُنہوں نے پہلے دیکھا وہ بہرحال اعتبار کے لائق ہوگا اور اگر وہ خوابیں اُن کے اعتبار کے لائق نہیں اور اضغاث احلام میں داخل ہوں تو ایسی خوابیں آئندہ بھی قابلِ اعتبار نہیں ٹھہر سکیں۔ ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ رسول نمائی کا قادرانہ دعویٰ کس قدر فضول بات ہے۔ حدیث صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی سے مبرا ہو سکتی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے حلیہ پر دیکھا گیا ہو۔ ورنہ شیطان کا تمثل انبیاء کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے اور شیطان لعین تو خدا تعالیٰ کا تمثل اور اُس کے عرض کے تجلی دکھلا دیتا ہے۔ پھر انبیاء کا تمثل اُس پر کیا مشکل ہے۔ اب جب کہ یہ بات ہے تو فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر کیونکر مطمئن ہوں کہ وہ زیارت درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک حلیہ نبوی پر اطلاع نہیں اور غیر حلیہ پر تمثل شیطان جائز ہے۔ پس اس زمانہ کے لوگوں کے لئے زیارت حقّہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اُس زیارت کے ساتھ بع ایسے خوارق اور علامات خاصہ ہوں جن کی وجہ سے اُس رؤیا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض بشارتیں پیش از وقوع بتلا دیں یا بعض قضاء قدر کی نزول کی باتوں سے پیش از وقوع مطلع کر دیں یا بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقائق و معارف بتلاویں جو پہلے قلمبند اور شائع نہیں ہو چکے تو بِلاشُبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی۔ ورنہ اگر ایک شخص دعویٰ کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری خواب میں آئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ فلاں شخص بیشک کافر اور دجال ہے۔ اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے یا شیطان کا یا خود اُس خواب بین نے چالاکی کی راہ سے یہ خواب اپنی طرف سے بنا لی ہے۔ سو اگر میر صاحب میں درحقیقت یہ قدرت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو خواب میں آ جاتے ہیں تو ہم میر صاحب کو یہ تکلیف دینا نہیں چاہتے کہ وہ ضرور ہمیں دکھاویں بلکہ وہ اگر اپنا ہی دیکھنا ثابت کر دیں اور علامات اربعہ مذکورہ بالا کے ذریعہ اس بات کو بپایہ ثبوت پہنچاویں کہ درحقیقت اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے تو ہم قبول کر لیں گے اور اگر اُنہیں مقابلہ کا ہی شوق ہے تو اُس سیدھے طور سے مقابلہ کرلیں جس کا ہم نے اس اشتہار میں ذکر کیا ہے۔ ہمیں بالفعل اُن کی رسول بینی ہی میں کلام ہے۔ چہ جائیکہ اُن کی رسول نمائی کے دعویٰ کو قبول کیا جائے۔ پہلا مرتبہ آزمائش کا تو یہی ہے کہ آیا میر صاحب رسول بینی کے دعویٰ میں صادق ہیں یا کاذب۔ اگر صادق ہیں تو پھر اپنی کوئی خواب یا کشف شائع کریں جس میں یہ بیان ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ نے اپنی زیارت کی علامت فلاں فلاں پیشگوئی اور قبولیت دعا اور انکشاف حقائق و معارف کو بیان فرمایا۔ پھر بعد اس کے رسول نمائی کی دعوت کریں اور یہ عاجز حق کی تائید کی غرض سے اس بات کے لئے بھی حاضر ہے کہ میر صاحب رسول نمائی کا اعجوبہ بھی دکھلادیں۔ قادیان میں آ جائیں مسجد موجود ہے۔ اُن کے آنے جانے اور خوراک کا تمام خرچ اس عاجز کے ذمہ ہوگا اور یہ عاجز تمام ناظرین پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف لاف گزاف ہے اور کچھ نہیں دکھلا سکتے۔ اگر آئیں گے تو اپنی پردہ دری کرائیں گے۔ عقلمند سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے بیعت کی۔ مریدوں کے حلقہ میں داخل ہوا اور مدت دس سال سے اس عاجز کو خلیفۃ اللہ اور امام او رمجدد کہتارہا اور اپنی خوابیں بتلاتا رہا کیا وہ اس دعویٰ میں صادق ہے۔ میر صاحب کی حالت نہایت قابل افسوس ہے خدا اُن پر رحم کرے۔ پیشگوئیوں کے … رہیں جو ظاہر ہوں گی۔ ازالہ اوہام کے صفحہ۸۵۵ کو دیکھیں۔ ازالہ اوہام کے صفہ۶۳۵ اور ۳۹۶ کو بغور … کریں۔ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے۔
ویسئلونک احق ھو قل ای ورلبی انہ لحق و ما انتم بمعجزین۔ زوجنا اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ ہاں مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ کھالا مبدل اکلماتی وان یرایۃٍ بعرضواو ہم نے خود اُس سے تیرا عقد نکاح باندھ یا ہے میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کرمنہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور یقولوا سحر مستمر کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے‘‘۔
عرض حال
جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے محض فضل سے اس چشمہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے اور میرے ہاتھ میں قلم اور سلسلہ کی قلمی خدمت کیلئے ایک جوش دیا ہے اسی وقت سے مجھے یہ دھن اور آرزو رہی ہے کہ میں اپنے سید و مولیٰ امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان تحریروں اور نوشتوں کو جمع کر کے شائع کروں جو ایسے وقت اور حال کی ہیں جب دنیا میں ایک گمنام انسان کی طرح زندگی بسر کرتے تھے اور میری غرض ایسی تحریروں کے جمع کرنے سے یہ تھی اور ہے کہ اس طرح پر آپ کی سوانح کے لئے ایک مواد جمع ہو جاوے چنانچہ اس جوش اور شوق کا نتیجہ تھا کہ میں نے ۱۸۹۹ء میں ’’پرانی تحریریں‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں ۱۸۸۷ء کے وہ مضامین تھے جو آپ نے برادر ہند، آفتاب پنجاب وغیرہ اخبارات میں شائع فرمائے تھے اس کے بعد میں اس سلسلہ میں ایک مبسوط مجوعہ آپ کے مکتوبات کا شائع کرتا ہوں اور یہ پہلی جلد ہے مکتوبات کی ترتیب میں مجھے بہت عرصہ تک غور کرنا پڑا کبھی بلحاظ سنین کے ترتیب کرتا اور کبھی بلحاظ مضامین۔ آخر بڑے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ رسم وار ہو جاوے تو اچھا ہے اورجہاں تک مکتوبات ایک شخص کے نام بہت ہی کم ہونگی وہاں ایک جلد متفرق مکتوبات کی مرتب کی جاوے بہرحال اس سلسلہ میں سب سے پہلی جلد میر عباس علی شاہ کے نام شائع کرتا ہوں ان مکتوبات میں حضرت حجۃ اللہ نے عجیب و غریب مسائل تصوف کی فلاسفی اور اسرار ناظرین پائیں گے اور معرفت حقیقی کا ایک مصفا چشمہ انہیں ملے گا اور … پیشگوئیاں انہیں نظر آئیں گی میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ اپنے محبوب … اس کے محبوب دوستوں تک پہنچانے کا فخر حاصل کروں اس کے بعد دوسری جگہ …… خلیفۃ المسیح کے نام کی مکتوبات کی ہوگی خدا ہی کے فضل سے امید ہے کہ وہ … ہے مکتوبات حضرت حکیم الامۃ کے نام کی میرے پاس موجود ہیں… حبیب سمجھ کر اس کی قدر کریں گے۔ واللّٰہ الحمد
احقر الناس یعقوب علی تراب احمدی
ایڈیٹر الحکم قادیان
حاشیہ جلد 1
٭ اب یہ شخص منکر خدا ہے۔ (مرتب)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرانی تحریروں کا سلسلہ نمبر
اَلْمَکَتُوْبُ نَصْفُ الْمُلاقَاتُ
مکتوبات احمدیہ
(جلداوّل)
حضرت حجۃ اللہ امام ربانی میرزا غلام احمد قادیانی (مغفور) مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مکتوبات بنام میر عباس علی شاہ لودہانوی
جنکو
خاکسار یعقوب علی تراب احمدی ایڈیٹر الحکم نے مرتب کر کے اپنے کارخانہ انوار احمدیہ مشین پریس قادیان میں چھاپ کر شائع کیا
۲۹ ؍ دسمبر ۱۹۰۸ء
(حقوق محفوظ ہیں)
تعداد جلد ۱۰۰۰ قیمت فی جلد ۸؍
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مکتوب نمبر۱
مکرمی مخدومی میر عباس علی صاحب زاد عنائۃ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا عنایت نامہ پہنچ کر باعث خوشی ہوا۔جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ آپ اللہ اور رسول کی محبت میں جس قدر کوشش کریں وہ جوش خود آپ کی ذات میں پایا جاتا ہے۔ حاجت تاکید نہیں چونکہ یہ کام خالصاً خدا کیلئے اور خود حضرت احدیت کے ارادہ خاص سے ہے اس لئے آپ اس کے خریداروں کی فراہمی میں یہ ملحوظ خاطر شریف رکھیں کہ کوئی ایسا خریدار شامل نہ ہو جس کی محض خرید فروخت پر نظر ہو۔ بلکہ جو لوگ دینی محبت سے مدد کرنا چاہتے ہیں اُنہیں کی خریداری مبارک اور بہتر ہے کیونکہ درحقیقت یہ کوئی خرید فروخت کا کام نہیں بلکہ سرمایۂ جمع کرنے کیلئے یہ ایک تجویز ہے۔ مگر جن کا اصول محض خریداری ہے۔ اُن سے تکلیف پہنچتی ہے اور اپنے روپیہ کو یاد دلا کر تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ سو ایسے صاحب اگر خریداری کے سلسلہ میں داخل نہ ہو اور نہ وہ روپیہ بھیجیں اور نہ کچھ مدد کریں تو یہ اُن کے لئے اس حالت سے بہتر ہے کہ کسی وقت بدگمانی اور شتابکاری سے پیش آویں۔ اس کام میں جیسے جیسے عرصہ میں خداوندکریم سرمایۂ کافی کسی حصہ کے چھپنے کیلئے حسب حکمت کاملہ خود میسر کرتا ہے اُسی عرصہ میں یہ کتاب چھتی ہے۔ پس کسی وقت کچھ دیر ہوتی ہے تو بعض صاحب جن کی خریداری پر نظر ہے۔ طرح طرح کی باتیں لکھتے ہیں جن سے رنج پہنچتا ہے۔ غرض آن مخدوم اسی سعی اور کوشش میں خداوند کریم پر توکّل کر کے صادق الاردات لوگوں سے مدد لیں۔ اور اگر ایسے نہ ملیں تو آپ کی طرف سے دعا ہی مدد ہے۔ ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حیثیت اور کیا قدر رکھتے ہیں۔ وہ جو قادر مطلق ہے۔ وہ جب چاہے گا تو اسباب کاملہ خود بخود میسر کر دے گا۔ کونسی بات ہے جو اُس کے آگے آسان نہ ہوئی ہو۔
(۲۸؍ اکتوبر ۱۹۸۲ء؍ ۱۵؍ ذالحجہ ۱۲۹۹ ہجری)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مکتوب نمبر۲
مشفقی مکرمی حضرت میر عباس علی شاہ صاحب زاد عنائۃ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ بعد ہذا دوقطعہ ہنڈوی… پہنچ گئے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ امور خمسہ کی بابت جو آپ نے حسب الارشادمنشی احمد جان صاحب تاکید لکھی ہے۔ مناسب ہے۔ جو آپ بعد سلام مسنون منشی صاحب مخدوم کی خدمت میںاس عاجز کی طرف سے عرض کر دیں کہ حتی الوسع آپ کے فرمودہ پر تعمیل ہوگی۔ اور آپ کو خدا جزاخیر بخشے۔ یہ بھی گزارش کی جاتی ہے کہ حصہ سوم کتاب براہین احمدیہ میں جو دس وسوسوں کا بیان ہے وہ آریہ سماج والوں کے متعلق نہیں۔ آریا سماج ایک اور فرقہ ہے جو وید کو خدا کا کلام جانتے ہیںاور دوسری کتابوں کو نَعُوْذُبِاللّٰہٖ انسان کا اختراع سمجھتے ہیں۔ اس فرقہ کے ردّ کے لئے کتاب براہین احمدیہ میں دوسرا مقام ہے۔ لیکن دس وساوس جو حصہ سوم میں لکھے گئے ہیں۔ وہ برہموسماج والوں کا ردّ ہے۔ یہ ایک اور فرقہ ہے جو کلکتہ اور ہندوستان کے اکثر مقامات میں پھیلا ہوا ہے اور لاہور میں بھی موجود ہے۔ یہ لوگ کتب الہامیہ کا انکار کرتے ہیں اور اگرچہ ہندو ہیں مگر وید کو نہیں مانتے۔ نہ اُس کی تعلیم کو عمدہ سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ آریہ سماج والوں کی نسبت بہت ذی علم اور دانا ہوتے ہیں۔ اور کئی اصول اُن کے اسلام سے ملتے ہیں۔ مثلاً یہ تناسخ کے قائل نہیں۔ بُت پرستی کو بُرا سمجھتے ہیں۔ خدا کو صاحب اولاد اور متولد ہونے سے پاک سمجھتے ہیں۔ مگر کتب الہامیہ کے مُنکر ہیں اور الہام صرف ایسی باتوں کا نام رکھتے ہیں جن کو انسان خود عقل یا فکر کے ذریعہ سے پیدا کرے۔ یا معمولی طور پر اُس کے دل میں گزر جائیں اور انبیاء کی متابعت کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف عقل کو کامل قرار دیتے ہیں۔ الہام ربانی سے انکار کرنا اُن کا ایک مشہور اصول ہے جیسا رسالہ برادر ہند میں جو پنڈت شیونارائن کی طرف سے شائع ہوتا تھا۔ چھپتا رہا ہے چونکہ ہندوستان میں اُن کی جماعت بہت پھیل گئی ہے اور اُن کے وساوس کے ضرر کا نو تعلیم یافتہ لوگوں کو بہت اثر پہنچتا ہے اور پہنچ رہا ہے۔ اس لئے ضرور تھا کہ ان کا ردّ لکھا جاوے۔ اور اُن کا کتب الہامیہ سے انکار کرنا ایسا جزو مذہب ہے جیسا ہمارا لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ غرض آریہ سماج ایک الگ فرقہ ہے۔ جو بہت ذلیل اور ناکارہ خیال رکھتا ہے اور وہ عقل کے پابند نہیں۔ بلکہ صرف وید پر چلتے ہیں اور بہت سے واہیات اور مزخرفات کے قائل ہیں۔ مگر برہمو سماج کا فرقہ دلائل عقلیہ پر چلتا ہے اور اپنی عقل ناتمام کی وجہ سے کتب الہامیہ سے منکر ہے۔ چونکہ انسان کا خاصہ ہے جو معقولات سے زیادہ اور جلد تر متاثر ہوتا ہے۔ اس لئے اطفال مدارس اور بہت سے نو تعلیم یافتہ ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہوگئے اور سید احمد خاں بھی اُنہیں کی ایک شاخ ہے اور ان کی سوفسطائی تقریروں سے متاثر ہے۔ پس اُن کے زہرناک وساوس کی بیخ کنی کرنا از حد ضرورتھا۔ لاہور کے برہموسماج نے پرچہ رفاہ میں بہ نیت ردّ حصہ سیوم کچھ لکھنا بھی شروع کیا ہے۔ مگر حق محض کے آگے اُن کی کوششیں ضائع ہیں۔ عنقریب خدا اُن کو ذلیل اور رسوا کرے گا اور اپنے دین کی عظمت اور صداقت ظاہر کردے گا۔ جو منشی احمد جان صاحب نے یہ نصیحت فرمائی کہ تعریف میں مبالغہ نہ ہو۔ اس کا مطلب اس عاجز کو معلوم نہیں ہوا۔ اس کتاب میں تعریف قرآن شریف اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ سو وہ دونوں وہ دریائے بے انتہا ہیں کہ اگر تمام دنیا کے عاقل اور فاضل اُن کی تعریف کرتے رہیں۔ تب بھی حق تعریف کا ادا نہیں ہو سکتا۔ چہ جائیکہ مبالغہ تک نوبت پہنچے۔ ہاں الہامی عبارت میں کہ جو اس عاجز پر خداوند کریم کی طرف سے القا ہوئی کچھ کچھ تعریفیں ایسی لکھی ہیں کہ جو بظاہر اس عاجز کی طرف منسوب ہوتی ہیں مگر حقیقت میں وہ سب تعریفیں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں اور اسی وقت تک کوئی دوسرا اُن کی طرف منسوب ہو سکتا ہے کہ جب تلک اس نبی کریم کی منابعت کرے اور متابعت سے ایک ذرّہ منہ پھیرے۔ تو بھر تحت الثری میں گر جاتا ہے۔ اُن الہامی عبارتوں میں خداوند کریم کا یہی منشاء ہے کہ تا اپنے نبی اور اپنی کتاب کی عظمت ظاہر کرے۔
(۸؍ نومبر ۱۸۸۲ء مطابق ۲۶ ذالحجہ ۱۲۹۹ ہجری)
مکتوب نمبر۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ
مشفقی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔ آپ کا عنایت نامہ معہ ایک ہنڈوی مبلغ… بابت خریداری دو جلد کتاب پہنچا۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خیرا وھویسمع ویرا۔ میں آپ کی مساعی پر نظر کر کے آپ کی قبولیت کا بہت امیدوار ہوں۔ خصوص ایک عجیب کشف سے مجھ کو ۳۰؍ دسمبر ۱۸۸۲ء بروز شنبہ کو یکدفعہ ہوا۔ آپ کے شہر کی طرف نظر لگی ہوئی تھی اور ایک شخص نام الاسم کی ارادت صادقہ خدا نے میرے پر ظاہر کی۔ جو باشندہ لودہیانہ ہے۔ اس عالم کشف میں اُس تمام پتہ و نشان، سکونت بتلا دیا جو اب مجھ کو یاد نہیں رہا۔ صرف اتنا یاد رہا کہ سکونت خاص لودہیانہ اُس کے بعد اُس کی صفت میں یہ لکھا ہوا پیش کیا گیا۔ سچا ارادت مند اصلہا ثابت و فرعہافی السماء۔ یہ اُس کی ارادت ایسی قومی اور کامل ہے کہ جس میں نہ کچھ نزلزل ہے نہ نقصان۔ کئی پادریوں اور ہندؤں اور برہمو لوگوں کو کتابیں دی گئی ہیں اور وہ کچھ جان کنی کر رہے ہیں۔
مکتوب نمبر۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
بعد ہذا خداوند کریم آپ بہت جزا خیر دیوے۔ آپ سرگرمی سے تائید دین کیلئے مصروف ہیں۔ آپ کی تحریر سے معلوم ہوا کہ قاضی باجی خان صاحب نے محض بطور امداد دس روپیہ بھیجے ہیں۔ خداوند اُن کو اجر بخشے۔ اس پُرآشوب وقت میں ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں کہ اللہ اور رسول کی تائید کیلئے اور غیرت دینی کے جوش سے اپنے مالوں میں سے کچھ خرچ کریں اور ایک وہ بھی وقت تھا کہ جان کا خرچ کرنا بھی بھاری نہ تھا۔ لیکن جیسا کہ ہر ایک چیز پُرانی ہو کر اُس پر گردوغبار بیٹھ جاتا ہے۔ اب اسی طرح اکثر دلوں پر جب دنیا کا گردہ بیٹھاہوا ہے۔ خدا اس گرد کو اُٹھاوے۔ خدا اس ظلمت کو دور کرے۔ دنیا بہت ہی بے وفا اور انسان بہت ہی بے بنیاد ہے۔ مگر غفلت کی سخت تاریکیوں نے اکثر لوگوں کو اصلیت کے سمجھنے سے محروم رکھا ہے اور چونکہ ہر یک عسر کے بعد یسر اور ہر یک جذر کے بعد مد اور ہر ایک رات کے بعد دن بھی ہے۔ اس لئے تفضلات الٰہیہ آخر فرو ماندہ بندوں کی خبر لے لیتے ہیں۔ سو خداوند کریم سے یہی تمنا ہے کہ اپنے عاجز بندوں کی کامل طور پر دستگیری کرے اور جیسے اُنہوں نے اپنے گزشتہ زمانہ میں طرح طرح کے زخم اُٹھائے ہیں۔ ویسا ہی اُن کو مرہم عطا فرماوے اور اُن کو ذلیل اور رسوا کرے جنہوں نے نور کو تاریکی اور تاریکی کو نور سمجھ لیا ہے اور جن کی شوخی حد سے زیادہ بڑھ گئی اور نیز اُن لوگوں کو بھی نادم اور منفعل کرے جنہوں نے حضرت احدیّت کی توجہ کو جو عین اپنے وقت پر ہوئی۔ غنیمت نہیں سمجھا اور اُس کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ جاہلوں کی طرح شک میں پڑے۔ سو اگراس عاجز کی فریادیں رب العرش تک پہنچ گئی ہیں تو وہ زمانہ کچھ دور نہیں۔ جو نور محمدی اس زمانہ کے اندھوں پر ظاہر ہو اور الٰہی طاقتیں اپنے عجائبات دکھلا دیں۔ اس عاجز کے صادق دوستوں کی تعداد بھی تین چار سے زیادہ نہیں جن میں سے ایک آپ ہیں اور باقی لوگ لاپروا اور غافل ہیں بلکہ اکثر کے حالات ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ وہ اپنی تیرہ باطنی کے باعث سے اس کارخانہ کو کسی مکر اور فریب پر مبنی سمجھتے ہیں اور اس کا مقصود اصلی دنیا ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ خود جیفہ دنیا میں گرفتار ہیں۔ اس لئے اپنے حال پر قیاس کر لیتے ہیں۔ سو اُن کی روگردانی بھی خداوند کریم کی حکمت سے باہر نہیں۔ اس میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں جو پیچھے سے ظاہر ہوں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ مگر اپنے دوستوں کی نسبت اس عاجز کی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو اُن کے صدق کا اجر بخشے اور اُن کو اپنی استقامت میں بہت مضبوط کرے چونکہ ہر طرف ایک زہرناک ہوا چل رہی ہے اس لئے صادقوں کو کسی قدر غم اُٹھانا پڑے گا اور اُس غم میں اُن کے لئے بہت اجر ہیں۔
(۹؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۳۰؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ و نظر اللہ سرحمایۃٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بعد ہذا آنمخدوم کی سعی و کوششوں سے اس عاجز کو بہت مدد ملی ہے۔ یہ خداوند کریم کی عنایات میں سے ہے کہ اُس نے اپنے مخلص بندوں کو اس طرف ایمانی جوش بخشا ہے۔ سو چونکہ عمل وہی معتبر ہے جس کا خاتمہ بالخیر ہو اور صدق اور وفاداری سے انجام پذیر ہو اور اس پُر فتنہ زمانہ میں اخیر تک صدق اور وفا کو پہنچانا اور بدباطن لوگوں کے وساوس سے متاثر نہ ہونا سخت مشکل ہے۔ اس لئے خداوند کریم سے التجا ہے کہ وہ اس عاجز کے دوستوں کو جو ابھی تین چار سے زیادہ نہیں۔ آپ سکینت اور تسلی بخشے۔ زمانہ نہائت پُرآشوب ہے اور فریبوں اور مکاریوں کی افراط نے بدظنیوں اور بدگمانیوں کو افراط تک پہنچا دیا ہے۔ ایسے زمانہ میں صداقت کی روشنی ایک نئی بات ہے اور اُس پر وہ ہی قائم رہ سکتے ہیں جن کے دلوں کو خداوند کریم آپ مضبوط کرے اور چونکہ خداوند کریم کی بشارتوں میں تبدیلی نہیں اس لئے امید ہے کہ وہ اس ظلمت میں سے بہت سے نورانی دل پیدا کر کے دکھلا دے گا کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آنمخدوم کی تحریرات کے پڑھنے سے بہت کچھ حال صداقت و نجابت آنمخدوم ظاہر ہوتا ہے اور ایک مرتبہ بنظر کشفی بھی کچھ ظاہر ہوا تھا۔ شاید کسی زمانہ میں خداوند کریم اس سے زیادہ اور کچھ ظاہر کرے۔ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْر وَرْحَمْہُ اللّٰہ وَاِیَّاکُمْ وھُوَ مَوْلٰنٰا نِعْمُ المُوْلٰی وَیغْمُ النَصِیر۔
۱۷؍ فروری ۱۸۸۳ء مطابق ۸؍ ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ
مکتوب نمبر ۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرم اخویم میر علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ
بعد ہذا آپ کا خط جو آپ نے لودہیانہ سے لکھا تھا، پہنچ گیا۔ جس کے مطالعہ سے بہت خوشی حاصل ہوئی۔ بالخصوص اس وجہ سے کہ جس روز آپ کا خط آیا اُسی روز بعض عبارتیں آپ کے خط کی کسی قدر کمی بیشی سے بصورت کشفی ظاہر کی گئیں اور وہ فقرات زیادہ آپ کے دل میں ہوں گے۔ یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک رابطہ بخشی ہے۔ خداوند کریم اس رابطہ کو زیادہ کرے۔ آپ نے اپنے خط میں تحریر فرمایا تھاکہ ایک برہمو صاحب ملے جن کا یہ بیان تھا کہ گویا اس عاجز نے اُن کی اصلیت کو سمجھا نہیں۔ یہ بیان سراسر بناوٹ ہے۔ برہمو سماج والوں کے عقائد کا خلاصہ یہی ہے کہ وہ الہام اور وحی سے مُنکر ہیں اور خدا کے پیغمبروں کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مفتری اور کذاب سمجھتے ہیں اور خدا کی کتابوں کو اختراع انسان کا خیال کرتے ہیں۔ وہ الہام اور وحی کے ہرگز قائل نہیں ہیں اور اپنی اصطلاح میں الہام اور وحی اُن خیالات کا نام رکھتے ہیں کہ جو عادتی طور پر انسان کے دل میں گزرا کرتے ہیں۔ جیسے کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر رحم آنا یا کوئی بُرا کام کر کے پچھتانا کہ ایسا کیوں کیا۔ یہ اُن کے نزدیک الہام ہے۔ مگر وہ الہام اور وحی جو خداوند کریم کے فرشتے کسی انسان سے کلام کریں اور حضرت احدیّت کسی سے مخاطبت کریں۔ اس پاک الہام سے وہ قطعاً منکر ہیں اور اپنے رسائل اور تصانیف میں ہمیشہ انکار کرتے رہتے ہیں۔ مگر اب وقت آ پہنچا ہے کہ خدا اُن کو اور اُن کے دوسرے بھائیوں کو ذلیل اور رُسوا کرے۔ مجھ یاد ہے کہ پنڈت شیونارائن٭ نے جو برہموسماج کا ایک منتخب معلم ہے لاہور سے میری طرف ایک خط لکھا کہ میں حصہ سیوم کا ردّ لکھنا چاہتا ہوں۔ ابھی وہ خط اس جگہ نہیں پہنچا تھا کہ خدا نے بطور مکاشفات مضمون اس خط کا ظاہر کر دیا۔ چنانچہ کئی ہندوؤں کو بتلایا گیا اور شام کو ایک ہندو کو ہی جو آریا ہے ڈاکخانہ میں بھیجا گیا تا گواہ رہے۔ وہی ہندو اُس خط کو ڈاکخانہ سے لایا۔ پھر میں نے پنڈت شیونارائن کو لکھا کہ جس الہام کا تم ردّ لکھنا چاہتے ہو خدا نے اُسی کے ذریعہ سے تمہارے خط کی اطلاع دی اور اُس کے مضمون سے مطلع کیا۔ اگر تم کو شک ہے تو خود قادیان میں آ کر اُس کی تصدیق کر لو کیونکہ تمہارے ہندو بھائی اس کے گواہ ہیں۔ ردّ لکھنے میں بہت سی تکلیف ہوگی اور اس طرح جلدی فیصلہ ہو جائے گا۔ مَیں نے یہ بھی لکھا کہ اگر تم صدق دل سے بحث کرتے ہو تو تمہیں اس جگہ ضرور آنا چاہئے کہ اس جگہ خود اپنے بھائیوںکی شہادت سے حق الامر تم پر کھل جائے گا لیکن باوجود ان سب تاکیدوں کے پنڈت صاحب نے کچھ جواب نہ لکھا اور اس بارے میں دَم بھی نہ مارا اور وہ الہام پورا ہوا جو حصہ سیوم میں چھپ چکا ہے سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِھِمُّ الرُّعْبِ اب دیکھئے۔ اس سے زیادہ اور کیا صفائی ہوگی کہ خداوندکریم مخالفین کو نہ صرف شنیدہ پر رکھنا چاہتا ہے بلکہ دیدہ کے مرتبہ پر پہنچانا چاہتا ہے۔ کل صوابی ضلع پشاور سے اس جگہ کے آریہ سماج کے نام صوابی آریہ سماج نے ایک خط بھیجا ہے کہ حصہ سیوم براہین احمدیہ میں تمہاری شہادتیں درج ہیں۔ اس کی اصلیت کیا ہے۔ سو اگرچہ یہ ہندو لوگ اسلام کے سخت مخالف ہیں مگر ممکن نہیں کہ سچ کو چھپا سکیں۔ اس لئے فکر میں ہوئے ہیںکہ اپنے بھائیوں کو کیا لکھیں۔ اگر شرارت سے جھوٹ لکھیں گے تو اس میں روسیاہی ہے اور آخر پردہ فاش ہوگا اور سچ لکھنے میں مصلحت اپنے مذہب کی نہیں دیکھتے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ کیونکر پیچھا چھڑاتے ہیں۔ شاید جواب سے خاموش رہیں۔ یہ اسرار جو خداوند کریم اس عاجز کے ہاتھ پر ظاہر کرتا ہے۔ عام طور پر اُس کی عادت نہیں تھی جو ان کے اظہار کی اجازت دے بلکہ اسرار ربانی کے ظاہر کرنے میں اندیشہ سلب ولایت ہے لیکن اس زمانہ میں ان باتوں کا ظاہر کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ظلمت اپنے کمال کو پہنچ گئی۔ گو دوسرے لوگ اپنی نافہمی سے اس اظہار کو ریاکاری میں داخل کریں یا کچھ اور سمجھیں مگر یہ عاجز اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کیا کہیںگے اور خداوند کریم نے اس عاجز کو عام فقرا کے برخلاف طریقہ بخشا ہے جس میں ظاہر کرنا بعض اسرار ربّانی کا عین فرض ہے۔ والسلام علیکم وعلٰی اخوانکم عن المؤمنین۔
(۳؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۲۲ ربیع الثانی ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی مکرمی میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔
آپ کی خواب کے آثار یوں ہی نظر آتے ہیں کہ انشاء اللہ رؤیا صالحہ و واقع صحیحہ ہوگا۔ مگر اس بات کے لئے کہ مضمون خواب حیز قوت سے حدفعل میں آوے۔ بہت سی محنتیں درکار ہیں۔ خواب کے واقعات اُس پانی سے مشابہ ہیں جو ہزاروں من مٹی کے نیچے زمین کے رنگ میں واقعہ ہے۔ جس کے وجود میں تو کچھ شک نہیں لیکن بہت سی جان کنی اور محنت چاہئے تا وہ مٹی پانی کے اوپر سے بکُلّی دور ہو جائے اور نیچے سے پانی شیریں اور مصفا نکل آوے۔ ہمت مردان مدد خدا۔ صدق اور وفا سے خدا کو طلب کرنا موجب فتحیابی ہے۔ والذین جاھدوافینا لنھدینھم سبلنا
گونید سنگ لعل شود در مقام صبر
آری شود ولیک بخون جگر شود
گرچہ و صالش نہ بکوشش وہند
ہر قدر ایدل کہ توانی بکوش
آپ کی ملاقات کے لئے میں بھی چاہتا ہوں مگر وقت مناسب کا منتظر ہوں۔ بیوقت حج بھی فائدہ نہیں کرتا۔ اکثر حاجی جو بڑی خوشی سے حج کرنے کے لئے جاتے ہیں اور پھر دل سخت ہو کر آتے ہیں۔ اُس کا یہی باعث ہے کہ انہوں نے بیوقت بیت اللہ کی زیادت کی اور بجز ایک کوٹھ کے اور کچھ نہ دیکھا اور اکثر مجاورین کو صدق اور صلاح پر نہ پایا۔ دل سخت ہو گیا۔ علیٰ ھذا القیاس ملاقات جسمانی میں بھی ایک قسم کی ابتلاء پیش آ جاتے ہیں۔ الاّ ماشاء اللّٰہ۔ آپ کے سوالات کا جواب جو اس وقت میرے خیال میں آیا ہے مختصر طور پر عرض کیا جاتا ہے۔ آپ نے پہلے یہ سوال کیا کہ پورا پورا علم جیسا بیداری میں ہوتا ہے۔ خواب میں کیوں نہیں ہوتا اور خواب کا دیکھنے والا اپنی خواب کو خواب کیوں نہیں سمجھتا۔ سو آپ پر واضح ہو کہ خواب اُس حالت کا نام ہے کہ جب بباعث غلبہ رطوبت مزاجی کہ جو دماغ پر طاری ہوتی ہے۔ حواس ظاہری و باطنی اپنے کاروبار معمولی سے معطل ہو جاتے ہیں۔ پس جب خواب کو تعطل حواس لازم ہے تو ناچار جو علم اور امتیازاور تیفظ بذریعہ حواس انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ حالتِ خواب میں بباعث تعطل حواس نہیں کیونکہ جب حواس بوجہ غلبہ رطوبت مزاحی معطل ہو جاتے ہیں تو بالضرورت اُس فعل میں بھی فتور آ جاتا ہے۔ پھربعلت اس فتور کے انسان نہیں سمجھ سکتا کہ مَیں خواب میں ہوں یا بیداری میں۔ لیکن ایک اور حالت ہوتی ہے کہ جس سے ارباب طلب اور اصحاب سلوک کبھی متمتع اور محظوظ ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ بباعث دوام مراقبہ و حضور و ام و حضور و استیلاء شوق و غلبہ محبت ایک حالت غیبت حواس اُس پر وارد ہو جاتی ہے۔ جس کا یہ باعث نہیں ہوتا کہ دماغ پر رطوبت مستولیٰ ہو بلکہ اس کا باعث صرف ذکر اور شہود کا استیلاء ہوتا ہے۔ اُس حالت میں چونکہ تعطل حواس بہت کم ہوتا ہے۔ اس جہت سے انسان اس بات پر متنبہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر بیدار ہے۔ خواب میں نہیں اور نیز اپنے مکان اور اُس کی تمام وضع پر بھی اطلاع رکھتا ہے۔ یعنی جس مکان میں ہے اُس مکان کو برابر شناخت کرتا ہے حتیّٰ کہ لوگوں کی آواز بھی سنتا ہے اور کُل مکان کو بچشم خود دیکھتا ہے۔ صرف کسی قدر بجذیہ غیبی، غیبت حس ہوتی ہے اور جو انسان خواب کی حالت میں اپنے رؤیا میں اپنے تئیں بیدار معلوم کرتا ہے۔ یہ علم بذریعہ حواس نہیں بلکہ اس علم کا منشاء فقط روح ہے۔ دوسرا سوال آپ کا یہ ہے کہ فناء اتم اعنی غایت المعراج و نہایت الوصال میں علم حق رہتا ہے یا نہیں۔ اوّل سمجھنا چاہئے کہ فناء اتم عین وصال کا نام نہیں بلکہ امارت اور آثار وصال میں سے ہے کیونکہ فناء اتم مراد اُس حالت سے ہے کہ طالبِ حق خلق ارادت اور نفس سے بکلی باہر ہو جاوے اور فعل اور ارادت اپنی میں بکلی کھویا جاوے۔ یہاں تک کہ اُسی کے ساتھ دیکھتا ہو اور اُسی کے ساتھ سنتا ہو۔ اور اُسی کے ساتھ پکڑتا ہو اور اسی کے ساتھ چھوڑتا ہو۔ پس یہ تمام آثار وصال کے ہیں نہ عین وصال اور عین وصال ایک بیچون اور بیچگون نور ہے کہ جس کو اہل وصول شناخت کرتے ہیں مگر بیان نہیں کر سکتے۔ خلاصہ کلام یہ کہ جب طالبِ کمال وصول کا خدا کے لئے اپنے تمام وجود سے الگ ہو جاتا ہے اور کوئی حرکت اور سکون اس کا اپنے لئے نہیں رہتا بلکہ سب کچھ دا کے لئے ہو جاتا ہے تو اس حالت میں اس کو ایک روحانی موت پیش آتی ہے جو بقاء کو مستلزم ہے۔ پس اس حالت میں گویا وہ بعد موت کے زندہ کیا جاتا ہے اور غیر اللہ کا وجود اُس کی آنکھ میں باقی نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ غلبہ شہود ہستی الٰہی سے وہ اپنے وجود کو بھی نابود ہی خیال کرتا ہے۔ پس یہ مقام عبودیت و فناء اتم ہے جو غایت سیر اولیاء ہے اور اسی مقام میں غیب باذن اللہ ایک نور سالک کے قلب پر نازل ہوتا ہے جو تقریر اور تحریر سے باہر ہے۔ غلبہ شہود کی ایک ایسی حالت ہے کہ جو علم الیقین اور عین الیقین کے مرتبہ سے برتر ہے۔ صاحب شہود تام کو ایک علم تو ہے مگر ایسا علم جو اپنے ہی نفس پر وارد ہو گیا ہے جیسے کوئی آگ میں جل رہا ہے۔ سو اگرچہ وہ بھی جلنے کا ایک علم لکھتا ہے مگر وہ علم الیقین اور عین الیقین سے برتر ہے۔ کبھی شہود تام بیخبری تک بھی نوبت پہنچا دیتا ہے اور حالت سکر اور بیہوشی کی غلبہ کرتی ہے۔ اُس حالت سے یہ آیت مشابہ ہے۔ فلما تجلی ربہ للجیل جعلہ وکاد خرموسیٰ صعقا۔ لیکن حالت تام وہ ہے جس کی طرف اشارہ ہے وما زاغ البصرو ماطغی۔ یہ حالت اہل جنت کے نصیب ہوگی۔ پس غایت یہی ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے آپ اشارہ فرمایا ہے وجوہ یومئذٍ فاضرہ الی ربھا ناظرۃ واللّٰہ اعلم بالصواب۔
(۱۸؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۸ جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا والا نامہ پہنچا۔ خداوند کریم آپ کو خوش و خورم رکھے۔ آپ دقائق متصوفین میں سوالات پیش کرتے ہیں اور یہ عاجز مفلس ہے۔ محض حضرت ارحم الراحمین کی ستاری نے اس ہیچ اور ناچیز کو مجالس صالحین میں فروغ دیا ہے۔ ورنہ منہ آنم کہ من دانم۔ کاروبار قادر مطلق سے سخت حیرانی ہے کہ نہ عابد، نہ عالم، نہ زاہد کیونکر اخوان مومنین کی نظر میں بزرگی بخشتا ہے۔ اس کی عنایات کی کیا ہی بلند شان ہے۔ اور اُس کے کام کیسے عجیب ہیں۔
پسندید گانے بجائے رسند
زما کہترا نش چہ آمد پسند
میں آپ کے سوال کا جواب لکھتا ہوں۔ آپ نے حالت فنا فی الفناء کے یہ تعریف لکھ کر کہ وہ ایک ایسی حالت ہے کہ جس میں شعول سے بھی بے شعوری ہوتی ہے۔ یہ سوال پیش کیا ہے کہ اس مرتبہ فناء میں کہ جو چہارم مرتبہ منجملہ مراتب فنا ہے اور حالت سکریت میں کیا فرق ہے اور سکریت سے مراد آپ نے خواب غرقی لی ہے۔ یعنی ایسا سونا جس میں کچھ خبر نہ رہے۔ سو جو کچھ خدا نے میرے دل میں اس کا جواب ڈالا ہے وہ یہ ہے کہ سکریت اور فنا فی الفنا میں موجب اور علت کا فرق یعنی سکریت کی حالت میں موجب اور علت ایک ظلمت ہے۔ جو سکریت کے پیدا ہونے کا باعث ہے۔ وجہ یہ کہ سکریت اسی سے پیدا ہوتی ہے کہ رطوبت مزاجی دماغ پر سخت غلبہ کر لیتی ہے یہاں تک کہ دماغی قوتوں کو ایسا دبا لیتی ہے کہ انسان بے ہوش ہو کر سو جاتا ہے اور کچھ ہوش نہیں رہتی۔ پس وہ چیز جس سے سکریت وجود پکڑتی ہے۔ ایک ظلمت ہے جو اپنی اصل حقیقت میں مغائر اور منافی حواس انسانی کے ہے۔ جس کا غلبہ ایک ظلماتی حالت نفس پر طاری کر دیتا ہے اور آلات احساس کو اس قدر تعطل اور بیکاری میں ڈالتا ہے کہ اُن کو عجائبات روحانی کا ماجرا کچھ یاد بھی نہیں رہتا لیکن فنا فی الفنا کی حالت کا موجب اور علت یعنی سبب ایک نور ہے۔ یعنی تجلیات صفات الٰہیہ جو بعض اوقات بعض نفوس خاصہ میں یکلخت ایک ربودگی پیدا کرتے ہیں جس کے باعث سے شعور سے بے شعوری پیدا ہوجاتی ہے۔ جیسے ایک نہایت لطیف اور تیز عطر بکثرت ایک مکان میں رکھا ہوا ہو تو ضعیف الدماغ آدمی کی بعض اوقات قوت شامہ کثرت خوشبو سے مغلوب ہو کر ایسی بے حس ہو جاتی ہے کہ کچھ شعور اُس خوشبو کا باقی نہیں رہتا۔ غرض سکریت کی حالت پیدا ہونے کے مؤثر اور موجب ایک ظلمت ہے اور فنا فی الفناء کی حالت کے پیدا ہونے کے لئے مؤثر اور موجب ایک نور ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ چشم بینا کیلئے دو طور کے مانع رؤیت ہوتے ہیں۔ یعنی دو سبب سے ایک سوجاکھے انسان کی آنکھ دیکھنے سے رہ جاتی ہے۔ ایک تو سخت اندھیرا جس کی وجہ سے نور بینائی محجوب ہو جاتا ہے اور دیکھنے سے رک جاتا ہے اور کچھ دیکھ نہیں سکتا۔ یہ حالت تو سکریت کی حالت سے مشابہ ہے۔ دوسر ی مانع بصارت سخت روشنی ہے کہ جو بوجہ اپنی شدت اور تیزی شاع کے آنکھوں کو رؤیت کے فعل سے روکتی ہے اور دیکھنے سے بند کر دیتی ہے جیسے یہ صورت اس حالت میں پیش آتی ہے کہ جب عضو بصارت کو ٹھیک ٹھیک سورج کے مقابلہ پر رکھا جائے یعنی جب آنکھوں کو آفتاب کے سامنے کیا جائے کیونکہ یہ بات نہایت بدیہی ہے کہ جب آنکھ آفتاب کے محاذات میں ٹکٹکی باندھے یعنی آفتاب کی آنکھ اور انسان کی آنکھ آمنے سامنے ہو جائیں تو اُس صورت میں بھی انسان کی آنکھ فعل بصارت سے بکلی معطل ہو جاتی ہے اور روشنی کی شوکت اور ہیبت اُس کو ایسا دباتی ہے کہ اُس کی تمام قوت بینائی اندر کی طرف بھاگتی ہے۔ پس یہ حالت فنا فی الفناء کی حالت سے مشابہ ہے اور اس فقدان رؤیت میں جو دونوں طور ظلمت اور نور کی وجہ سے ظہور میں آتا ہے۔ سکریت اور فنا فی الفناء کا فرق سمجھنے کیلئے بڑا نمونہ ہے۔ مگر بایں ہمہ باطنی کیفیت جس کا موجب تجلیات الٰہیہ اور جذبات غیبیہ ہوتے ہیں۔ بیچون اور بیچگون ہی۔ جس میں اجتماع ضدین بھی ممکن ہے۔ باوجود بے شعوری کے شعور بھی ہو سکتا ہے اور باوجود شعور کے بے شعوری بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ظلماتی حالات میں اجتماع ضدین ممکن نہیں اور باوجود شعور کے بے شعوری بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ظلماتی حالات میں اجتماع ضدین ممکن نہیں۔ وہ عالم اس عالم سے بکلی امتیاز رکھتا ہے۔ ولاتضربوا للّٰہ الامثال۔ اسی جہت سے پہلے بھی لکھا گیا تھا۔ فلما تجلی ربہ للجبل جعلہ دکاوخر موسیٰ صعقا۔ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ کا بیہوش ہو کر گرنا ایک واقعہ نورانی تھا۔ جس کا موجب کوئی جسمانی ظلمت نہ تھی بلکہ تجلیات صفات الٰہیہ جو بغایت اشراق نور ظہور میں آئی تھیں۔ وہ اُس کا موجب اور باعث تھیں۔ جن کی اشراق تام کی وجہ سے ایک عاجز بندہ عمران کا بیٹا بیہوش ہو کر گر پڑا اور اگر عنایت الٰہیہ اُس کا تدارک نہ کرتیں تو اُسی حالت میں گداز ہو کر نابود ہو جاتا۔ مگر یہ مرتبہ ترقیات کاملہ کا انتہائی درجہ نہیں ہے۔ انتہائی درجہ وہ ہے جس کی نسبت لکھا ہے کہ مازاغ البصرو ماطغی۔ انسان زمانہ سیر سلوک میں اپنے واقعات کشفیہ میں بہت سے عجائبات دیکھتا ہے اور انواع و اقسام کی واردات اُس پر وارد ہوتی ہیں۔ مگر اعلیٰ مقام اُس کا عبودیت ہے جس کا لازمہ صحو اور ہوشیاری سے اور سکر اور شطح سے بکلی بیزاری ہے۔ ھذانا اللّٰہ ایانا وایاکم صراط المستقیم الذی انعم علی النبین والصدیقین والشھداء والصلحین واخردعونا ان الحمدللّٰہ رب العٰلمین۔ والسلام علیکم وعلی اخوانکم المومنین۔
(۲۵؍ مارچ ۱۸۸۳ء مطابق ۱۵؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ باعث اطمینان ہوا۔ آپ نے جو کچھ لکھا ہے بہت درست اور بجا لکھا ہے جو کچھ بطور رسم اور عادت کیا جاوے۔ وہ کچھ چیز نہیں ہے اور نہ اُس سے کچھ مرحلہ طے ہو سکتا ہے۔ سچا طریق اختیار کرنے سے گو طالب صادق آگ میں ڈالاجاوے۔ مگر جب اپنے مطلب کو پائے گا، سچائی سے پائے گا۔راست باز آدمی نہ کچھ عزت سے کام رکھتا ہے، نہ ننگ سے، نہ خلقت سے، نہ اُن کے لعن سے نہ اُن کے طعن سے، نہ اُن کی مدح سے، نہ اُن کی ذم سے۔جب سچی طلب دامنگیر ہو جاتی ہے تواُس کی یہی علامت ہے کہ غیر کا بیم اور امید بکلی دل سے اُٹھ جاتاہے اور توحید کی کامل نشانی یہ ہے کہ محب صادق کی نظر میں غیر کا وجود اور نمود کچھ باقی نہ رہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔ آپ اتباع طریقہ مسنونہ میں یہ لحاظ بدرجہ غایت رکھیں کہ ہر ایک عمل رسم اور عادت کی آلودگی سے بکُلی پاک ہو جائے اور دلی محبت کے پاک فوارہ سے جوش مارے۔ مثلاًدرود شریف اس طور پر نہ پڑھیں کہ جیسا عام لوگ طوطی کی طرح پڑھتے ہیں۔ نہ اُن کو جناب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ کامل خلوص ہوتا ہے اور نہ وہ حضور تام سے اپنے رسول مقبول کیلئے برکات الٰہی مانگتے ہیں بلکہ درود شریف سے پہلے اپنا یہ مذہب قائم کر لینا چاہئے کہ رابطہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ ہر گز اپنا دل یہ تجویز نہ کر سکے کہ ابتداء زمانہ سے انتہاء تک کوئی ایسا فردِ بشر گزرا ہے جو اس مرتبہ محبت سے زیادہ محبت رکھتا تھا یا کوئی ایسا ذکر آنے والا ہے جو اس سے ترقی کرے گا اور قیام اس مذہب کا اس طرح پر ہو سکتا ہے کہ جو کچھ محبان صادق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں مصائب اور شدائد اُٹھاتے رہے ہیں یا آئندہ اُٹھا سکیں یا جن جن مصائب کا نازل ہونا عقل تجویز کر سکتی ہے۔ وہ سب کچھ اُٹھانے سے دل رک جائے اور کوئی ایسا مخلوق دل میں جگہ نہ رکھتا ہو جو اُس جنس کی محبت میں حصہ دار ہو اور جب یہ مذہب قائم ہو گیا تو درود شریف جیسا کہ میں نے ربانی بھی سمجھایا تھا۔ اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم پر نازل کرے اور اُس کو تمام عالم کے لئے سرچشمہ برکتوں کابناوے اور اُس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اس عالم اور اُس عالم میں ظاہر کرے۔ یہ دعا حضور تام سے ہونی چاہئے جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے بلکہ اُس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے مجھ کو ثواب ہوگا یا درجہ ملے گا بلکہ خاص یہی مقصود چاہئے کہ برکات کاملہ الٰہیہ حضرت رسول مقبول پر نازل ہوں اور اُس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمت چاہئے اور دن رات دوام توجہ چاہئے یہاں تک کہ کوئی مراد اپنی دل میں اس سے زیادہ نہ ہو۔ پس جب اس طور پر درود شریف پڑھا گیا تو وہ رسم اور عادت سے باہر ہے اور بلاشبہ اس کے عجیب انوار صادر ہوں گے اور حضور تام کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ اکثر اوقات گریہ و بکا ساتھ شامل ہو۔ اور یہاں تک یہ توجہ رگ اور ریشہ میںتاثیر کرے کہ خواب اور بیداری یکساں ہو جاوے۔ علی ہذا القیاس۔ نماز جس کے لئے خداوند کریم نے صدہا مرتبہ قرآن شریف میںتاکید فرمائی ہے اور اپنے تقرب کے لئے فرمایا ہے۔ وَاسْتَعِیْنُوْ بِالصّبْرِ وَالصّٰلٰوۃُ۔ یہ بھی رسم اور عادت کے پیرایہ میں کچھ چیز نہیں ہے۔ اس میں بھی ایسی صورت پیدا ہونی چاہئے کہ مُصلّی اپنی صلوٰۃ کی حالت میں ایک سچا دعا کنندہ ہو۔ سو نماز میں بالخصوص دعائے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمِ میں دلی آہوں سے، دلی تضرعات سے، دلی خضوع سے، دلی جوش سے حضرت احدیّت کا فیض طلب کرنا چاہئے اور اپنے تئیں ایک مصیبت زدہ … اور عاجز اور لاچار سمجھ کر حضرت احدیّت کو قادر مطلق اور رحیم کریم یقین کر کے رابطۂ محبت اور قرب کے لئے دعا کرنی چاہئے۔ اُس جناب میں خشک ہونٹوں کی دعا قابل پزیرائی نہیں۔ فیضان سماوی کے لئے سخت بیقراری اور جوش و گریہ و زاری شرط ہے۔ اور استعداد قریبہ پیدا کرنے کیلئے اپنے دل کو ماسوا اللہ کے شغل اور فکر سے بکلی خالی اور پاک کر لینا چاہئے۔ کسی کا حسد اور تفاؤل دل میں نہ رہے۔ بیداری بھی پاک باطنی کے ساتھ ہو اور خواب بھی۔ بے مغز باتیں سب فضول ہیں اور جو عمل روح کی روشنی سے نہیں وہ تاریکی اور ظلمت ہے۔ خذوالتوحید والتفرید والتمجید وموتوا فبل ان تموتوا۔ آج حسب تحریر آپ کی ہر سہ حصہ روانہ کئے گئے۔
مکتوب نمبر۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آپ کا خط ثالث بھی پہنچا۔ آپ کی دلی توجہات پر بہت ہی شکر گزار ہوں۔ خدا آپ کو آپ کے دلی مطالب تک پہنچاوے۔ آمین۔ یارب العٰلمین۔ غرباء سے چندہ لینا ایک مکروہ امر ہے۔ جب خدا اس کا وقت لائے گا تو پردۂ غیب سے کوئی شخص پیدا ہو جاوے گا۔ جو دینی محبت اور دلی ارادت سے اس کام کو انجام دے۔ تجویز چندہ کو موقوف رکھیں۔ اب بالفعل لودہیانہ میں اس عاجز کا آنا ملتوی رہنے دیں۔ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد چند ہندؤں کی طرف سے سوالات آئے ہیں اور ایک ہندو صوابی ضلع پشاور … میں کچھ ردّ لکھ رہا ہے۔ پنڈت شیونرائن بھی شاید عنقریب اپنا رسالہ بھیجے گا۔ سو اب چاروں طرف سے مخالف جنبش میں آ رہے ہیں۔ غفلت کرنا اچھا نہیں۔ ابھی دل ٹھہرنے نہیں دیتا کہ میں اس ضروری اور واجب کام کو چھوڑ کر کسی اور طرف خیال کروں۔ اِلاماشاء اللہ ربی۔ اگر خدا نے چاہا تو آپ کا شہر کسی دوسرے وقت میں دیکھیں گے۔ آپ کے تعلق محبت سے دل کو نہایت خوشی ہے۔ خدا اس تعلق کو مستحکم کرے۔ انسان ایسا عاجز اور بیچارہ ہے کہ اُس کا کوئی کام طرح طرح کے پردوں اور حجابوں سے خالی نہیں اور اس کے کسی کام کی تکمیل بجز حضرت احدیّت کے ممکن نہیں۔ ایک بات واجب الاظہار ہے اور وہ یہ ہے کہ وقت ملاقات ایک گفتگو کی اثناء میں بنظر کشفی آپ کی حالت ایسی معلوم ہوئی کہ کچھ دل میں انقباض ہے اور نیز آپ کے بعض خیالات جو آپ بعض اشخاص کی نسبت رکھتے تھے۔ حضرت احدیّت کی نظر میں درست نہیں تو اُس پر یہ الہام ہوا قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔ سو الحمدللہ! آپ جوہر صافی رکھتے ہیں۔ غبار ظلمت آثار کو آپ کے دل میں قیام نہیں۔ اس وقت یہ بیان کرنا مناسب نہیں سمجھاگیا۔ مگر بہت ہی سعی کی گئی کہ خداوند کریم اُس کو دور کرے۔ مگر تعجب نہیں کہ آئندہ بھی کوئی ایسا انقباض پیش آوے۔ جب انسان ایک نئے گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کے لئے ضرور ہے کہ اُس گھر کی وضع قطع میں بعض امور اُس کو حسب مرضی اور بعض خلاف مرضی معلوم ہوں۔ اس لئے مناسب ہے کہ آپ اس محبت کو خدا سے بھی چاہیں اور کسی نئے امر کے پیش آنے میں مضطرب ہوں تا یہ محبت کمال کے درجہ تک پہنچ جائے یہ عاجز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حالت رکھتا ہے۔ جو زمانہ کی رسمیات سے بہت ہی دور پڑی ہوئی ہے اور ابھی تک ہر ایک رقیق کو یہی جواب روح کی طرف سے ہے۔ اِنَّکَ لَنْ تَسْتَطِیُعَ مَعِیَ صَبَرَا وَکَیْفَ تَصْبِرَ عَلٰی مَالَمْ تُحِطْ بِہٖ خَیْرا۔ لیکن خداوند کریم سے نہایت قوی امید رکھتا ہے کہ وہ اس غربت اور تنہائی کے زمانہ کو دور کر دے گا۔ آپ کی حالت قویہ پر بھی امید کی جاتی ہے کہ آپ ہر ایک انقباض پر غالب آویں گے۔ وَالْاَمْرُ بِیَدِاللّٰہِ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَائُ اِلٰی صِراطٍ مُّسْتَقِیْمْ۔ والسلام علیکم اخوانکم من المومنین
مکتوب نمبر۱۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی مکرم میر عباس علی شاہ صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج ہرسہ حصہ کتاب آپ کی خدمت میں روانہ کرتا ہوں۔ چند ہندو اور بعض پادری عناد قدیم کی وجہ سے ردّ کتاب کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ مگر آپ تسلی رکھیں اور مسلمانوں کو بھی تسلی دیں کہ یہ حرکت اُن کی خالی از حکمت نہیں۔ میں اُمید رکھتا ہوں کہ اُن کی اس حرکت اور شوخی کی وجہ سے خداوندکریم حصہ چہارم میں کوئی ایسا سامان میسر کر دے گا کہ مخالفین کی بدرجہ غایت رسوائی کا موجب ہوگا۔ آسمانی سامان شیطانی حرکات سے رُک نہیں سکتے بلکہ اور بھی زیادہ چمکتے ہیں اور مخالفین کے اُٹھنے کی یہی حکمت سمجھتا ہوں کہ تا آسمانی باتیں زیادہ چمکیں اور جو کچھ خدا نے ابتدا سے مقدر کر رکھتا ہے وہ ظہور میں آ جائے۔ آپ مومنین کو جو آپ سے متنفر ہیں سمجھا دیں کہ آپ کچھ عرصہ توقف کریں۔ زیادہ تر دیر اسی سے ہے کہ تا خیالات معاندانہ مخالفین کے چھپ کر شائع ہو جاویں۔ سو آپ براہ مہربانی کبھی کبھی حالات خیریت آیات سے یاد و شاد فرماتے رہیں۔
والسلام
مکتوب نمبر۱۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مشفقی و مکرمی میرعباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
دس روپیہ کا منی آرڈر پہنچ گیا۔ خداوند کریم آپ کی سعی کا اجر بخشے جو کچھ فساد زمانہ کا حال لکھا ہے سب واقعی امر ہے۔ اس عاجز کی دانست میں اُمت محمدیہ پر ایسا فاسد زمانہ کوئی نہیں آیا۔ تمام زمانوں سے زیادہ تر ظلماتی وہ زمانہ تھا جس کی تنویر کے لئے حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ضرورت پڑی۔ وہ ایسا ظلماتی زمانہ تھا جس کی نظیر دنیا میں کوئی نہیں گزری اور اس زمانہ کی حالت موجودہ ایک بڑے نبی کے مبعوث ہونے کو چاہتی تھی جس کا ثانی کوئی نہیں گزرا اور جس پر تمام کمالات نبوت ختم ہوگئے اور جس کی بعثت کے زمانہ نے اُن تمام تاریکیوں کو دور کر دیا اور وحدانیت کو زمین پر پھیلا دیا اور جو کچھ کفر اور شرک میں باقی رہا وہ ذلّت اور مغلوبیت کی حالت کے ساتھ باقی رہا۔ لیکن چونکہ یہ زمانہ جس میں ہم لوگ ہیں۔ نبوت کے زمانہ سے بہت دور جا پڑا ہے۔اس لئے دو طور کر خرابی یعنی اندرونی اور بیرونی اس پر محیط ہو رہی ہے۔ اندرونی یہ کہ بہت سے لوگوں نے مختلف فرقہ بنائے ہیں جو حقیقت میں خدا اور رسول کے دشمن ہیں۔ بہتوں پر اباحت اور الحاد کا غلبہ ہے کہ خدا کے وجود کو اور اُس مدبر عالم کی ہستی کو کوئی مستقل شَے نہیں سمجھتے بلکہ اپنے ہی وجود کو خدا سمجھے بیٹھے ہیں اور اسی خیال کے غلبہ سے احکام الٰہی کی تعمیل سے بکلّی فارغ ہیں اور شریعت حقانی کو بتر استحفاف دیکھتے ہیں اور صوم اور صلوٰۃ پر ٹھٹھا کرتے ہیں۔ ایک دوسرا فرقہ ہے جو بہت، دوزخ، ملائک، شیطان وغیرہ سب کے منکر ہیں اور وحی الٰہیہ سے انکاری ہیں باایں ہمہ مسلمان کہلاتے ہیں۔غرض اندرونی فساد بھی نہایت درجہ تک پہنچ گئے ہیں اور بیرونی فسادوں کا یہ حال ہے کہ چاروں طرف سے دشمن اپنے اپنے تیر چھوڑ رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بالکل اسلام کو نیست و نابود کر دیں۔ حقیقت میں یہ ایسا پُر آشوب زمانہ ہے کہ اسلامی زمانوں میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ پہلے لوگ صرف غفلت اور کم توجہی سے اسلام کے مخالف تھے۔ مگر اب دو فرقہ اسلام سے مخالف ہیں۔ ایک تو وہی غافل اور کم توجہ لوگ۔ دوسرے وہ لوگ پیدا ہوگئے کہ جو شرارت اور خبث سے، عقل کی بداستعمالی سے اسلام پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو علوم کے لئے روشنی کا دعویٰ کرتے ہیں اور متبعین شریعت اسلام کو کہتے ہیں کہ یہ پُرانے … کے آدمی ہیں اور یہ سادہ لوح اور ہم دانا ہیں۔ پس ایسے دنوں میں خداوند کریم کا یہ نہایت فضل ہے کہ اپنے عاجز بندہ کو اس طرف توجہ دی ہے اور دن رات اُس کی مدد کر رہا ہے تا باطل پرستوں کو ذلیل اور رسوا کرے چونکہ ہر حملہ کی مدافعت کے لئے اس سے زبردست حملہ چاہئے اور قوی تاریکی کے اُٹھانے کیلئے قوی روشنی چاہئے۔ اس لئے یہ امید کی جاتی ہے اور آسمانی بشارات بھی ملتے ہیں کہ خداوند کریم اپنے زبردست ہاتھ سے اپنے عاجز بندہ کی مدد کرے گا اور اپنے دین کو روشن کر دے گا۔ اب انشاء اللہ تعالیٰ حصہ چہارم کچھ تھوڑے توقف کے بعد شروع کیا جاوے گا۔ چونکہ یہ تمام کام قوت الٰہی کر رہی ہے اور اُسی کی مصلحت سے اس میں توقف ہے۔ اس لئے مومنین مخلصین نہایت مطمئن رہیں کہ جیسے خداوند کریم کے کامل اور قوی کام ہیں اسی طرح وہ وقتاً فوقتاً کتاب کی حصص کو نکالے گا۔ وھواحسن الخالقین والسلام علیکم وعلی اخوانکم من المومنین۔
(۲۲؍ جنوری ۸۳ء۔ ۱۲؍ربیع الاوّل ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے عنایت نامجات کو پڑھ کر نہایت خوشی ہوئی۔خداوند تعالیٰ حقیقی استقامت سے حظِ وافر آپ کو بخشے۔ میں آپ کی ذات میں بہت ہی نیک طنیتی اور سلامت روشنی پاتا ہوں اور میں خداوند کریم کی نعمتوں میں سے اس نعمت کا بھی شکرگزار ہوں کہ آپ جیسے خالص دوست سے رابطہ پیدا ہوا ہے۔ خداوندکریم اس رابطہ کو اُس مرتبہ پر پہنچا دے جس مرتبہ پر وہ راضی ہے۔ نماز تہجد اور اوراد معمولی میں آپ مشغول رہیں۔ تہجد میں بہت سے برکات ہیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں۔ بیکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا۔ وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنّٰھُمْ سُبُلَنَا۔ درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَوَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ ابْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلے ہیں۔ اُن میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے۔ پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پرہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے اُس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے۔ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا وِرَدْ ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں۔ اخلاص اور غبّت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اُس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقت اور بیخودی اور تاثر کی پیدا ہوجائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و دیگر اخوان مومنین سلام مسنون برسد۔
(۲۶؍ اپریل ۱۸۸۳ء مطابق ۱۸؍ جمادی الثانی ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آن مخدوم مکتوب چہارم بھی پہنچا۔ جزاکم اللہ علی سعیکم و اعظم اجرکم علی بذل جہدکم۔ آج اگر ٹکٹ میسر آئے تو یقین ہے کہ ہرسہ حصہ بنام ہرسہ خریداران کے نام روانہ کئے جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ آپ اور ادواشغال معمولہ بدستور کئے جائیں کہ کثرت ذکر مدار فلاح و نجات ہے۔ درود شریف خط سابق میں لکھ دیا گیا ہے۔ ہر باب میں حضور اور توجہ اور خضوع اور خشوع اور اخلاص شرط ہے۔ من جاء بالا خلاص جعل من الخواص۔ اگر کوئی ہندو فی الحقیقت طالبِ حق ہے تو اُس سے رعایت کرنا واجب ہے بلکہ اگر ایسا شخص بے استطاعت ہو تو اس کو مفت بلا قیمت کتاب دے سکتے ہیں۔ غرض اصلی اشاعت دین ہے۔ نہ خرید و فروخت۔ جیسی صورت ہو اس سے اطلاع بخشیں تا کتاب بھیجی جاوے۔ والسلام بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و قاضی خواجہ علی صاحب و دیگر اخوان مومنین سلام پہنچا دیں۔
مکتوب نمبر۱۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہرسہ بخدمت چوہدری گامے خان و جیوے خان صاحب روانہ کئے جائیں گے۔ اب حصہ چہارم کے طبع کرانے میں کچھ تھوڑی توقف باقی ہے اور موجب توقف یہی ہے کہ جو تین جگہ سے بعض سوالات لکھے ہوئے آئے ہیں۔ اُن سب کا جواب لکھا جائے۔ یہ عاجز صعیف الدماغ آدمی ہے۔ بہت محنت نہیں ہوتی آہستہ آہستہ کام کرنا پڑتا ہے۔ آپ کی خواب انشاء اللہ تعالیٰ نہایت مطابق واقعہ اور درست معلوم ہوتی ہے اور تعبیر صحیح ہے۔ جن لوگوں کو تاویل رؤیا کا علم نہیں اُن کو ان تعبیرات میں کچھ تکلف معلوم ہوگا۔ مگر صاحب تجربہ خوب جانتے ہیں کہ رؤیا کے بارے میں اکثر عادت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ حقیقت کو ایسے ایسے پردوں اور تمثیلات میں بیان فرماتا ہے۔ مسلم نے انس سے روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خواب دیکھی کہ عقبہ بن رافع کے گھر کہ جو ایک صحابی تھا آپ تشریف رکھتے ہیں۔ اُسی جگہ ایک شخص ایک طبق رطب ابن طاب کا لایا اور صحابہ کو دیا اور رطب ابن طاب ایک خرما قسم کا ہے کہ جن کو ابن طاب نام ایک شخص نے پہلے پہل کہیں سے لا کر اپنے باغ میں لگایا تھا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی یہ تعبیر کی کہ دنیا و آخرت میں صحابہ کی عاقبت بخیرو عافیت ہے اور حلاوت ایمان سے وہ خوشحال اور متمتع ہیں سو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ کے لفظ سے عاقبت نکالا اور رافع خدا کا نام ہے۔ اُس سے رفعت کی بشارت سمجھ لی اور خرما کی حلاوت سے حلاوت ایمانی لی اور ابن طاب میں طاب کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں خوشحال ہوا۔ پس اس سے خوشحال ہونے کی بشارت سمجھ لی۔ غرض تعبیر رؤیا میں ایسی تاویلات واقعی اور صحیح ہیں اور آپ کی خواب بہت ہی عمدہ بشارت ہے۔ محافظ دفتر کے لفظ سے یاد آتا ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک عالیشان حاکم یا بادشاہ کا ایک جگہ خیمہ لگا ہوا ہے اور لوگوں کے مقدمات فیصل ہو رہے ہیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بادشاہ کی طرف سے یہ عاجز محافظ دفتر کا عہدہ رکھتا ہے اور جیسے دفتروں میں مثلیں ہوتی ہیں بہت سی مثلیں پڑی ہوئی ہیں اور اس عاجز کے تحت میں ایک شخص نائب محافظ دفتر کی طرح ہے۔ اتنے میں ایک اردلی دوڑتا آیا کہ مسلمانوں کی مثل پیش ہونے کا حکم ہے وہ جلد نکالو۔ پس یہ رؤیا بھی دلالت کر رہی ہے کہ عنایت الٰہیہ مسلمانوں کی اصلاح اور ترقی کی طرف متوجہ ہیں اور یقین کامل ہے کہ اُس قوت ایمان اور اخلاص اور توکل کو جو مسلمانوں کو فراموش ہو گئے ہیں پھر خداوند کریم یاد دلائے گا اور بہتوں کو اپنے خاص برکات سے متمتع کرے گا کہ ہر یک برکت ظاہری اور باطنی اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ اس عاجز نے پہلے لکھ دیا تھا کہ آپ اپنے تمام اوراد معمولہ کو بدستور لازم اوقات رکھیں۔ صرف ایسے طریقوں سے پرہیز چاہئے جن میں کسی نوع کا شرک یا بدعت ہو۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے اشراق پر مداومت ثابت نہیں۔ تہجد کے فوت ہونے پر یا سفر سے واپس آ کر پڑھنا ثابت ہے لیکن تعبد میں کوشش کرنا اور کریم کے دروازہ پر پڑے رہنا عین سنت ہے واذکر واللّٰہ کثیرا لعلکم تفلحون۔ مکرمی مخدومی مولوی عبدالقادر صاحب کی خدمت میں اس عاجز کا سلام مسنون پہنچا دیں۔خداوندکریم کا ہر یک شخص سے الگ الگ معاملہ ہوتا ہے اور ہر ایک بندہ سے جس طور کا معاملہ ہوتا ہے اسی طور سے اُس کی فطرت بھی واقع ہوتی ہے۔ اس عاجز کی فطرت پر توحید اور تقویض الی اللہ غالب ہے اور معاملہ حضرت احدیّت بھی یہی ہے کہ خود روی کے کاموں سے سخت منع کیا جاتا ہے۔ یہ مخاطبت حضرت احدیّتسے بارہا ہو چکی ہے لاققف مالیس لک بہ علم ولاتقل لشیئٍ انی فاعل ذالک غدا۔ سوچونکہ بیعت کے بارے میں اب تک خداوندکریم کی طرف کچھ علم نہیں۔ اس لئے تکلیف کی راہ میں قدم رکھنا جائز نہیں لعل اللّٰہ یحدث بعد ذالک امرا۔ مولوی صاحب اخوت دینی کے بڑھانے میں کوشش کریں اور اخلاص اور محبت کے چشمہ صافی سے اس پودہ کی پرورش میں مشغول رہیں۔ تو یہی طریق انشاء اللہ تعالیٰ بہت مفید ہوگا۔ خلقتم من نفس واحدۃ جزاء البدن مستفیض لما استفاض البدن کلہ وکونوامع الصادقین ھم قوم لایشقی اجلیسم والسلام۔ بخدمت خواجہ علی صاحب سلام علیک۔ ابھی مولوی صاحب کا اس جگہ تشریف لانا بیوقت ہے۔ یہ عاجز حصہ چہارم کے کام سے کسی قدر فراغت کر کے اگر خدا نے چاہا اور نیت صحیح میسر آ گئی تو غالباً امید کی جاتی ہے کہ آپ بھی حاضر ہوگا والامر کلہ فی یداللّٰہ وما اعلم ما ارید فی الغیب
مکتوب نمبر۱۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ خداوندکریم کا کیسا شکر کیا چاہئے کہ اُس نے اپنے تفضلات قدیم سے آپ جیسے ولی دوست بہم پہنچائے۔ اگرچہ آپ کا اخلاص کامل اس درجہ پر ہے کہ اس عاجز کا دل بلااختیار آپ کی دعا کیلئے کھینچا چلا جاتا ہے پر جس ذات قدیم نے آپ کو یہ اخلاص بخشا ہے اُس نے خود آپ کو چُن لیا ہے۔ تب ہی یہ اخلاص بخشا ہے۔ وذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء بخدمت مخدومی مولوی عبدالقادر صاحب بعد سلام مسنون عرض یہ ہے کہ جو کچھ آپ نے سمجھا ہے نہایت بہتر ہے۔ دنیا میں دعا جیسی کوئی چیز نہیں۔ الدعاء فخ العبادۃ۔ یہ عاجز اپنی زندگی کامقصد اعلیٰ یہی سمجھتا ہے کہ اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کیلئے ایسی دعائیں کرنے کا وقت پاتا رہے کہ جو ربّ العرش تک پہنچ جائیں اور دل تو ہمیشہ تڑپتا ہے کہ ایسا وقت ہمیشہ میسر آ جایا کرے۔ مگر یہ بات اپنے اختیار میں نہیں۔ سو اگر خداوند کریم چاہے گا تو یہ عاجز آپ کے لئے دعا کرتا رہے گا۔ یہ عاجز خوب جانتا ہے کہ سچا تعلق وہی ہے جس میں سرگرمی سے دعا ہے۔ مثلاً ایک شخص کسی بزرگ کا مرید ہے مگر اُس بزرگ کے دل میں اس شخص کی مشکل کشائی کیلئے جوش نہیںاور ایک دوسرا شخص ہے جس کے دل میں بہت جوش ہے اور وہ اُسی کام کے لئے ہو رہا ہے کہ حضرت احدیّت سے اُس کی رستگاری حاصل کرے۔ سو خدا کے نزدیک سچا رابطہ یہ شخص رکھتا ہے۔ غرض پیری مریدی کی حقیقت یہی دعا ہی ہے۔ اگر مرشد عاشق کی طرح ہو اور مرید معشوق کی طرح تب کام نکلتا ہے۔ یعنی مرشد کو اپنے مرید کی سلامتی کے لئے ایک ذاتی جوش ہو تا وہ کام کر دکھاؤے۔ سرسری تعلقات سے کچھ ہو نہیں سکتا۔ کوئی نبی اور ولی قوت عشقیہ سے خالی نہیں ہوتا۔ یعنی اُن کی فطرت میں حضرت احدیّت نے بندگان خدا کی بھلائی کے لئے ایک قسم کا عشق ڈالا ہوا ہوتا ہے۔ پس وہی عشق کی آگ اُن سے سب کچھ کراتی ہے اور اگر اُن کو خدا کا یہ حکم بھی پہنچے کہ اگر تم دعا اور غمخواری خلق اللہ نہ کرو تو تمہارے اجر میں کچھ قصور نہیں۔ تب بھی وہ اپنے فطرتی جوش سے رہ نہیں سکتا اور اُن کو اس بات کی طرف خیال بھی نہیں ہوتا کہ ہم کو جان کنی سے کیا اجر ملے گا۔ کیونکہ اُس کے جوشوں کی بِنا کسی غرض پر نہیں بلکہ وہ سب کچھ قوت عشقیہ کی تحریک سے ہے۔ اُس کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لعلک باخعٌ نفصکِ ان الا یکونوا مومنین۔ خدا اپنے نبی کو سمجھاتا ہے کہ اس قدر غم اور درد کہ تو لوگوں کے مومن بن جانے کے لئے اپنے دل پر اُٹھاتا ہے۔ اسی میں تیری جان جاتی رہے گی۔ سو وہ عشق ہی تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جان جانے کی کچھ پرواہ نہ کی۔ پس حقیقی پیری مریدی کا یہی اصول ہے اور صادق اسی سے شناخت کئے جاتے ہیں کیونکہ خدا کا قدیمی اصول ہے کہ قوت عشقیہ صادقوں کے دلوں میں ضرور ہوتی ہے تا وہ سچے غمخوار بننے کے لائق ٹھہریں۔ جیسے والدین اپنے بچہ کے لئے ایک قوت عشقیہ رکھتی ہیں۔ تو اُن کی دعا بھی اپنے بچوں کی نسبت قبولیت کی استعداد زیادہ رکھتی ہے۔ اسی طرح جو شخص صاحب قوت عشقیہ ہے وہ خلق اللہ کے لئے حکم والدین رکھتا ہے اور خواہ نخواہ دوسروں کا غم اپنے گلے ڈال لیتا ہے کیونکہ قوت عشقیہ اُس کو نہیں چھوڑتی اور یہ خداوندکریم کی طرف سے ایک انتظامی بات ہے کہ اُس نے بنی آدم کو مختلف فطرتوں پر پیدا کیا ہے۔ مثلاً دنیا میں بہادروں اور جنگجو لوگوں کی ضرورت ہے کہ جن کے ہاتھ پر خلق اللہ کی اصلاح ہوا کرے۔ سو بعض فطرتیں یہی استعداد لے کر آتی ہیں اور قوت عشقیہ سے بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ فالحمدللّٰہ علیٰ الاء ظاہرھا و باطنھا۔ مولوی صاحب اگر رسالہ بھیج دیں تو بہتر ہے شاہدین صاحب رئیس لودہیانہ کی طرف اُنہیں دنوں میں کتاب بھیجی گئی ۔ جب آپ نے لکھا تھا مگر اُنہوں نے پیکٹ واپس کیا اور بغیر کھولنے کے اوپر بھی لکھ دیا کہ ہم کو لینا منظور نہیں۔ چونکہ ایک خفیف بات تھی اس لئے آپ کو اطلاع دینے سے غفلت ہوگئی۔ آپ کوشش میں توکل رعایت رکھیں اور اپنے حفظ مرتبت کے لحاظ سے کارروائی فرماویں اور جو شخص اس کام کا قدر نہ سمجھتا ہو یا اہلیت نہ رکھتا ہو اُس کو کچھ کہنا نامناسب نہیں۔
(۲۱؍مئی ۱۸۸۳ء مطابق رجب ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب زاد اللہ فی برکاتہم۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ سبحان اللہ کیا جوش ہے کہ خداوندکریم نے آپ کے دل میں ڈال دیا اور ایسا ہی آپ کے دوست مولوی عبدالقادر صاحب کے دل میں۔ خداوند کریم بندوں کے فعل اور اُن کی نیات کو خوب جانتا ہے جو شخص اُس کے لئے کوئی درد اُٹھاتا ہے۔ اُس کا عمل کبھی ضائع نہیں ہوگا۔ اُس کی نظر عنایت اگرچہ دیر سے ظاہر ہو مگر جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ کام کر دکھاتی ہے جس کی عاجز بندہ کو کچھ امید نہیں ہوتی۔ خداوند کریم آپ کو اس دلی جوش میں مدد کرے اور اپنی عنایت خاص سے ثابت قدمی بخشے اور ابتلا سے محفوظ رکھے اور آپ بھی ثابت قدمی کیلئے دعا کرتے رہیں کیونکہ بڑے کاموں میں ابتلا بھی بڑے بڑے پیش آتے ہیں اور انسان ضعیف البنیان کی کیا طاقت ہے کہ خود بخود بغیر عنایت و حمایت حضرت احدیّت کے کسی ابتلا کا مقابلہ کر سکے۔ پس ثبت اقدام اُسی سے مانگنا چاہئے اور اُسی کے حول اور قوت پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ ہم سب لوگ بغیر اُس کے لطف اور احسان کے کچھ بھی نہیں۔
آپ نے لکھا تھا کہ بعض لوگ یاوہ گوئی کرتے ہیں۔ سو آپ جانتے ہیں کہ ہر یک امر خداوندکریم کے ہاتھ میں ہے۔ کسی کی فضول گوئی سے کچھ بگڑتا نہیں۔ اسی طرح پر عادت اللہ جاری ہے کہ ہر یک مہم عظیم کے مقابلہ پر کچھ معاند ہوتے چلے آئے ہیں۔ خدا کے نبی اور اُن کے تابعین قدیم سے ستائے گئے ہیں۔ سو ہم لوگ کیونکر سنت اللہ سے الگ رہ سکتے ہیں۔ وہ ایذا کی باتیں جو مجھ پر ظاہر کی جاتی ہیں۔ ہنوز اُن میں سے کچھ بھی نہیں۔ کئی مکروحات درپیش ہیں جس میں خدا کی حفاظت درکار ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور اُس کا فعل قابل اعتراض نہیں جو کچھ کرتا ہے بہت اچھا کرتا ہے۔ کسی کی کیا طاقت ہے کہ کچھ بول سکتے۔ جب تک اُس بولنے میں اُس کی کچھ حکمت نہ ہو اور کم سے کم یہی حکمت ہے۔ جن مردوں نے سچائی کی راہ پر قدم مارا ہے۔ اُن کے لئے یہ ابتلا پیش آیا ہے اور اس ابتلا پر ثابت قدم رہنے سے وہ اجر پاتے ہیں۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا آمنا وھم لایفتنون۔ آج قبل تحریر اس خط کے یہ الہام ہوا۔ کذب علیکم الخبیث کذب علیکم الخنریر عنایت اللّٰہ حافظک انی معک اسمع واری۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ فبراء اللّٰہ مما قالوا وکان عنداللّٰہ وجیھا۔ ان الہامات میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کوئی ناپاک طبع آدمی اس عاجز پر کچھ جھوٹ بولے گا یا جھوٹ بولا ہو مگر عنایت الٰہی حافظ ہے۔ اب سوچنا چاہئے کہ جب ہر یک موذی اور معاند اور دروغ گو اور بہتان طراز کے شر سے خود خداوندکریم بچانے کا وعدہ کرتا ہے تو پھر کس سے بجز اُس کے خوف کریں۔ چند روز ہوئے کہ خداوندکریم کی طرف سے ایک اور الہام ہوا تھا۔ کچھ حصہ اُس میں سے پہلے بھی الہام ہوچکا ہے۔ مگر یہ الہام مفصل ہوا اور اُس سے خداوند کریم کی جو کچھ عنایت اس عاجز اور اس عاجز کے دوستوں پر ہے وہ ظاہر ہے اور وہ یہ ہے۔ قل ان کنتم تحبون اللّٰہ فاتبعونی یحببکم اللّٰہ انی متوفیک ورافعک الی وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ۔ وقالو انی لک ھذا۔ قل ھو اللّٰہ عجیب یجتبی من یشاء من عبادہ۔ وتلک الایام ندا ولھا بین الناس۔ اور یہ آیت کہ وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ بار بار الہام ہوئی اور اس قدر متواتر ہوئی کہ جس کا شمار خدا ہی کو معلوم ہے اور اس قدر زور سے ہوئی کہ میخ فولادی کی طرح دل کے اندر داخل ہوگئی۔ اس سے یقینا معلوم ہوا کہ خداوندکریم اُن سب دوستوں کو جو اس عاجز کے طریق پر قدم ماریں بہت سی برکتیں دے گا اور اُن کو دوسرے طریقوں کے لوگوں پر غلبہ بخشے گا اور یہ غلبہ قیامت تک رہے گا اور اس عاجز کے بعد کوئی مقبول ایسا آنے والا نہیں کہ جو اس طریق کے مخالف قدم مارے اور جو مخالف قدم مارے گا اُس کو خدا تباہ کرے گا اور اُس کے سلسلہ کو پائیداری نہیں ہوگی۔ یہ خدا کی طرف سے وعدہ ہے جو ہرگز تخلف نہیں کرے گا اور کفر کے لفظ سے اس جگہ شرعی کفر مراد نہیں بلکہ صرف انکار سے مراد ہے۔ غرض یہ وہ سچا طریقہ ہے جس میں ٹھیک ٹھیک حضرت نبی کریم کے قدم پر قدم ہے۔ اللھم صلی علیہ وآلہ وسلم۔ آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اُس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں۔ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔ جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اُس شخص کے وجود کے ایک جز ہو جاتا ہے۔ پس جو فیضان شخص مدعو پر ہوتا ہے۔ وہی فیضان اُس پر ہوتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیّت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے۔ مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی طول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔ دوسرے اوراد بھی بدستور محفوظ رکھیں۔ بیکاری کچھ چیز نہیں ہے ہر وقت سرگرمی کی توفیق خداوندکریم سے مانگنی چاہئے۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و قاضی خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچا دیں۔
(۱۲؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۶ شعبان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا سعی اور کوشش کے لئے جالندھر میں تشریف لے جانا خط آمدہ آں مخدوم سے معلوا ہوا۔ خداوند تعالیٰ ان کوششوں کو قبول فرماوے۔ جس آیت کو ایک مرتبہ بنظر کشفی دیکھا گیا تھا۔ اصلحھا ثابت و فرعھا فی السماء۔ اس شجرہ طیبہ کے آثار ظاہر ہوتے جاتے ہیں۔ وذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء نیچریوں کا جو آپ نے حال لکھا ہے یہ لوگ حقیقت میں دشمن دین ہیں یریدون ان یفرقوا بین اللّٰہ ورسلہ۔ لیکن خداوند قادر مطلق کے کام عقل اور قیاس سے باہر ہیں۔ وہ ہمیشہ عاجزوں اور ضعیفوں اور کمزوروں کو متکبروں اور مغروروں پر غالب کرتا رہا ہے اور آخر کار اُنہیں کی فتح ہوتی رہی ہے جو خدا کے لئے متکبروں کے ہاتھ سے ستائے گئے اور اگر خدا چاہتا تو ستائے نہ جاتے لیکن یہ اس لئے ضروری ہوا کہ تا خداوند کریم اپنے الطاف خفیہ کو بصورت جلال اُن پر متجلی کرے اور نفس کے پوشیدہ عیبوں سے اُن کو خلاصی بخشے اور اُن پر اُس کا تنہا ہونا، بیکس ہونا، غریب ہونا، ذلیل ہونا، بے اقتدار ہونا ثابت کر کے عبودیت حقیقی کی اعلیٰ مرابت تک پہنچاوے۔ کسی بشر کی طاقت نہیں کہ جو اپنے منہ کی واہیات باتوں سے خدا تعالیٰ کے ارادہ کو نافذ ہونے سے روک رکھے۔ اگر اُس کی حکمت کا تقاضا نہ ہوتا تو مزاحمین اور مخالفین کا وجود نابود ہو جاتا۔ پر ان لوگوں کے وجود میں گروہ ثانی کے لئے بڑے بڑے مصالحہ ہیں اور بعض کمالات اُن کے اس پر موقوف ہیں کہ ایسے لوگ بھی موجود ہوں۔ درود شریف پڑھنے کی مفصل کیفیت پہلے لکھ چکا ہوں۔ وہی کیفیت آپ لکھ دیں۔ کسی تعداد کی شرط نہیں۔ اس قدر پڑھا جائے کہ کیفیت صلوٰۃ سے دل مملو ہو جائے اور ایک انشراح اور لذت اور حیواۃ قلب پیدا ہو جائے اور اگر کسی وقت کم پیدا ہو تب بھی بیدل نہیں ہونا چاہئے اور کسی دوسرے وقت کا منتظر رہنا چاہئے اور انسان کو وقت صفا ہمیشہ میسر نہیں آ سکتا۔ سو جس قدر میسر آوے اُس کو کبریت احمد سمجھے اور اُس میں دل و جان سے مصروفیت اختیار کرے۔ پہلے اس سے آپ کی طرف ایک خط لکھا گیا تھا سو جیسا کچھ اُس میں لکھا گیا تھا آپ مبلغ… روپیہ بھیج دیں۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب سلام مسنون۔
(۲؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۲۵؍ رجب ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۱۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آں مخدوم کے دو عنایت نامہ دوسرے بھی پہنچ گئے۔ الحمدللہ کہ کام طبع کا شروع ہے۔ یہ سب اُسی کریم کی عنایات اور تفضلات ہیں کہ اس نابکار اور عاجز کے کاموں کا آپ متولی ہو رہا ہے۔ ع
اگر ہر موے من گردو ربانے
از و رانم بہرک داستانے
پنڈت دیانند نے کتاب طلب نہیں کی اور نہ راستی اور صدق کے راہ سے جواب لکھا بلکہ اُن لوگوں کی طرح جو شرارت اور تمسخر سے گفتگو کرنا اپنا ہنر سمجھتے ہیں۔ ایک خط بھیجا اور خط رجسٹری کرا کر بھیجا گیا۔ جس کا خلاصہ صرف اس قدر تھا مجھ کو خدا تعالیٰ نے حقیقت اسلام پر یقین کامل بخشا ہے اور ظاہری اور باطنی دلائل سے مجھ پر کھول دیا ہے کہ دنیا میں سچا دین دین محمدی ہے اور اسی جہت سے مَیں نے محض خیر خواہی خلق اللہ کی رو سے کتاب کو تالیف کیا ہے اور اُس میں بہت سے دلائل سے ثابت کر کے دکھلایا ہے کہ تعلیم حقانی محض قرآنی تعلیم ہے پس کوئی وجہ نہیں کہ میں آپ کے پاس حاضر ہوں بلکہ اس بات کا بوجھ آپ کر گردن پر ہے کہ جن قوی دلیلوں سے آپ کے مذہب کی بیخ کنی کی گئی ہے اُن کو توڑ کر دکھلاویں یا اُن کو قبول کریں اور ایمان لاویں اور میں ہر وقت کتاب کو مفت دینے کو حاضر ہوں۔ اس خط کا جواب نہیں آیا۔ انشاء اللہ تعالیٰ اسی حصہ چہارم میں اُن کے مذہب اور اصول کے متعلق بہت کچھ لکھا جائے گا اور آپ اگر خط کو چھپوا دیں تو آپ کو اختیار ہے۔ مولوی عبدالقادر صاحب کی خدمت میں اور نیز قاضی خواجہ علی صاحب کی خدمت میں سلام مسنون پہنچے۔
(۱۵؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۹؍ شعبان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ ربہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آن مخدوم کے دو عنایت نامہ پے در پے پہنچے۔ باعث مسرت اور خوشی ہوا۔ آپ کی کوششوں سے بار بار دل خوش ہوتا ہے او ربار بار دعا کے لئے اور آپ کی معاونوں کے لئے دل سے نکلتی ہے۔ خداوند کریم نہایت مہربان ہے۔ اُس کے تفضلات سے بہت سی امیدیں ہیں۔ اس کی راہ میں کوئی محنت ضائع نہیں ہوتی۔ آپ نے لکھا تھا کہ ایک عالم نے فیروز پور میں اعتراض کیا ہے کہ رسول مقبول نے سیر ہو کر بھی کھایا ہے۔ لیکن اس بزرگ عالم نے اس عاجز کی تقریر کامنشاء نہیں سمجھا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سیر ہونے کے معنی سمجھے ہیں۔ طیبین اور طاہرین کا سیر ہو کر کھانا اُس قسم کا سیر ہونا نہیں ہے جو اُن لوگوں کا ہوا کرتا ہے جن کے حق میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایسے کھاتے ہیں جیسے چار پائے کھایا کرتے ہیں اور آگ اُن کا کھانا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت سیر ہو کر کھانا اور ہی نور ہے اور اگر اُس سیری کو اُن لوگوں کی طرف نسبت دی جائے جن کا اصل مقصد احتظاظ اور تمتع ہے اور جن کی نگاہیں نفسانی شہوات کے استیفا تک محدود ہیں تو اُس سیری کو ہم ہرگز سیری نہیں کہہ سکتے۔ سیری کی تعریف میں پاکوں اور مقدسوں کی اصطلاح اور ناپاکوں اور شکم پرستوں کی اصطلاح الگ الگ ہے اور پاک لوگ اُسی قدر غذا کھانے کا نام سیری رکھ لیتے ہیں کہ جب فی الجملہ حرقت جوع دور ہو جائے اور حرکات و سکنات پر قوت حاصل ہو جائے۔ غرض مومن کی سیری یہی ہے کہ اس قدر غذا کھاوے جو اُس کی پشت کو قائم رکھے اور حقوق واجبہ ادا کر سکے۔ پس جو سید المومنین ہے۔ اُس کی سیری کا قیاس عام لوگوں کی سیری پر قیاس مع الفارق ہے۔ اسی طرح بہت لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان عظیم کو نہیں سمجھا اور الفاظ کے مورد استعمال کو ملحوظ نہیں رکھا اور اپنے تئیں غلطی میں ڈال لیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت یہ فرمانا کہ میں سیر ہو گیا ہوں ہرگز اُس قول کا مترادف نہیں کہ جو دنیا کے منہ سے نکلتا ہے جنہوں نے اصل مقصد اپنی زندگی کا کھانا ہی سمجھا ہوا ہوتا ہے۔ غرض پاکوں کا کام اور کلام پاکوں کے مراتبہ عالیہ کے موافق سمجھنا چاہئے۔ اور اُن کے امور کادوسروں پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ وہ درحقیقت اس عالم سے باہر ہوتے ہیں۔ گو بصورت اسی عالم کے اندر ہوں اور بہرام خان صاحب کی کوشش سے طبیعت بہت خوش ہوئی۔ خدا اُن کو اجر بخشے۔ کتاب سات سو جلد چھپی ہے لیکن اب میں نے تجویز کی ہے کہ ہزار جلد چھپے تو بہتر۔ منشی فضل رسول کا خط مَیں نے پڑھا۔ منشی صاحب کے پاس جس نے یہ بیان کیا ہے کہ وید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے اُس نے بہت دھوکہ کھایا ہے۔ وید میں تو خدا کا بھی اُس کی شان کے لائق ذکر نہیںچہ جائیکہ اُس کے رسول کا بھی ذکر ہو۔ جن باتوں سے وید بھرا ہوا ہے وہ آتش پرستی اور شمس پرستی اور اِندر پرستی وغیرہ ہے اور مدار المہام تمام دنیا کا انہیں چیزوں کو وید نے سمجھا ہے اور انہیں کی پرستش کے لئے وید نے ترغیب کی ہے اور کی دفعہ اس عاجز کو نہایت صراحت سے الہام ہوا ہے کہ وید گمراہی سے بھرا ہوا ہے اور وید کاایک حصہ ترجمہ شدہ اس عاجز کے پاس موجود بھی ہے اور پنڈت دیانند کے وید بھاس میں سے بھی سنتا رہا ہوں اور جو کچھ اُردو میں وید بھاش لکھا گیا وہ بھی دیکھتا رہا ہوں۔ اس صورت میں وید کوئی ایسی عجیب چیز نہیں ہے جس کی حقیقت پوشیدہ ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اظہر من الشمس ہے۔ ویدوں کے پُر ظلمت بیان کی محتاج نہیں اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ویدوں میں کسی قسم کی پیشین گوئی نہیں اور نہ کسی معجزہ کا ذکر ہے۔ جہاں تک دریافت ہوتا ہے وید کی یہی حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی پُرانے زمانہ کے شاعروں کے شعر ہیں کہ جو مخلوق چیزوں کی تعریف میں بنائے ہوئے ہیں۔ ابتدا میں جب یہ کتاب چھپنی شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور مدد کے لئے لکھا گیا تھا بلکہ کتابیں بھی ساتھ بھیجی گئی تھیں۔ سو اس میں سے صرف ابراہیم علی خان صاحب نواب مالیر کوٹلہ اور محمود علی خ ان صاحب رئیس چھتاری اور مدارالمہام جونہ گڑھ نے کچھ مدد کی تھی۔ دوسروں نے اوّل توجہ ہی نہیں کی اور اگر کسی نے کچھ وعدہ بھی کیا تو اُس کا ایفا نہیں کیا بلکہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ خط لکھا۔ آپ ان ریاستوں سے نااُمید رہیں اور اس کام کی امداد کے لئے مولیٰ کریم کو کافی سمجھیں۔ الیس اللّٰہ بکاف عبدہ
اور میں آپ کو یہ بھی تحریر کرتا ہوں کہ جو شخص اپنی رائے کے موافق کتاب کو واپس کرے یا لینا منظور نہ کرے یا کتاب اور کتاب کے مؤلف کی نسبت کچھ مخالفانہ رائے ظاہر کرے۔ اس کو ایک دفعہ اپنے وسیع خلق سے محروم نہ کریں۔
(۲۱؍ جون ۱۸۸۳ء مطابق ۱۵؍ شعبان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا عنایت نامہ آن مخدوم پہنچا۔ جس قدر نیچریوں کا جوش و خروش ہے اُس کو دیکھ کر اور نیز دوسرے مخالفین و معاندین کی معاندانہ کوششوں کو ملاحظہ کر کے جو کچھ مومنوں کے دلوں پر صدمہ پہنچتا ہے بِلاشُبہ وہ بیان سے باہر ہے۔ ہماری قوتیں کیا چیز ہیں؟ اور ہماری طاقتیں کیا حقیقت رکھتی ہیں؟ اور ہم کیا ہیں؟ کہ کچھ دَم مار سکیں۔ خداوند کریم خود اس طوفان کو فرو کرے اور اس کے فضل و کرم پر ہی امیدیں ہیں۔ کچھ معلوم نہ ہوا کہ سردار بکرما سنگھ نے کیا اعتراض پیش کئے۔ اگر آپ کو معلوم ہو تو ضرور مطلع فرماویں۔ بدقسمت لوگوں کو تعصب اور حب دنیا نے حق کے قبول سے روک رکھا ہے ورنہ عقائد حقہ اسلام کے اس قدر روشن اور بدیہی الصدق ہیں کہ کسی منصف اور طالب حق کو اُن میں کلام نہیں۔ سبحان اللہ کیا ہی مبارک دین ہے کہ اس کے سچے تابعین کی طرف رحمت الٰہی یوں دوڑتی ہے کہ جیسے پانی اوپر سے نیچے کو آتا ہے اور مخالفین کا وجود بھی عبث نہیں۔ یہ اس لئے دنیا میں زندہ رکھے گئے ہیں کہ تا مومنین کو ستاویں اور طرح طرح کے اُن کو دکھ دیں اور اپنے قول فعل سے درپے آزار رہیں اور اس طرح پر مومنوں کی ترقی اور مراتب کمال تک پہنچنے کا ذریعہ ٹھہر جائیں۔ فالحمدللّٰہ علی الطافھا التجلیۃ والخفیۃ آپ کو کُلی اختیار ہے کہ جو کچھ قیمت کتاب میں جمع ہو اُس کو حسب ضرورت خرچ کرتے رہیں۔ خداوند کریم نے آپ کی سعی میں برکت ڈالی ہے اور آپ وہ کام کر رہے ہیں کہ جس میں ہر یک کو آپ کی طرح توفیق نہیں دی گئی۔
خداوندکریم آپ کو دنیا و دین میں اس کا اجر بخش کر اس عاجز کو دکھاوے اور وہ تو بغایت درجہ کریم و رحیم ہے اور ہرگز ممکن نہیں کہ ایک انسان اخلاص سے، صدق سے، استقامت سے، خالصاً اُس کے لئے کوئی محنت اختیار کرے اور وہ اُس کی محنت کو ضائع کرے اور اُس کا کچھ اجر نہ دے۔ اس جناب میں راستبازوں کی محنتیں ہرگز ضائع نہیں ہوتیں اور مخلصانہ کوشش ہرگز برباد نہیں جاتی۔ جب ایک انسان تمام تر اخلاص سے خالصاً للہ سعی بجا لاوے اور ایک مدت تک اُس کی سعی اور کوشش اور محنت اور مشقت کا سلسلہ جاری رہے اور ثابت قدمی اور استقامت اور وفا اور حسن ظن میں کچھ فرق نہ آوے بلکہ اپنے سینہ میں انشراح اور اپنی طبیعت میں انبساط پاوے اور اپنے کاموں سے خداوندکریم پر کچھ احسان نہ سمجھے تو جاننا چاہئے کہ اُس کے اجر کا وقت نزدیک ہے۔ وَاللّٰہُ لَاْ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحَسْنِیْنِ۔ مبارک وہ لوگ جو خدمت سے سیر نہ ہوں اور جلدی نہ کریں۔ پھر دیکھیں کہ مولیٰ کریم کیسا خادم نواز ہے۔ عیالداری کے ترددات آپ کو ہوں گے۔ مگر اُن ترددات سے خداوند کریم بے خبر نہیں۔ جن فکر کی باتوں کو ایک عاجز بندہ رات کو اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا سوچا کرتا ہے یا دن کو اپنے گھر میں جا کر بعض وقت یہ تنگیاں اس پر آ پڑتی ہیں ان سب تنگیوں اور تکلیفوں کو خداوندکریم اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور کچھ دنوں تک اپنے بند ہ کو ابتلا میں رکھتا ہے۔ پھر یک مرتبہ نظر عنایت سے دیکھتا ہے اور اُس پر وہ دروازے کھولے جاتے ہیں جن کی اُس کو کچھ خبر نہیں تھی وھویتولی الصالحین۔ کیا جس کا خدا حي، قیوم، قادر، مہربان موجود ہے وہ کچھ غم کر سکتا ہے۔ غم اور ایمان کامل ایک جگہ کبھی جمع نہیں ہوئے اور نہ ہو سکتے ہیں۔ الا ان اولیاء اللّٰہ لا خوف علیھم ولاھم یحزنون۔
والسلام
۲۵؍ جولائی ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ رمضان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
منشی فضل رسول صاحب کے خط کی نقل معہ کارڈ پہنچ گئے اور میں نے اُس دل آزار تقریر کو تمام و کمال پڑھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ جب میں نے منشی صاحب کے اس فقرہ کو پڑھا کہ اس میں تو بیان توحید ایسا ہے کہ اور کتابوں میں بھی نہیں ہے تو یہ یاد کر کے کہ منشی صاحب نے وید کو توحید میں بے مثال و مانند قرار دے کر قرآن شریف کی عظمت کا ایک ذرّہ پاس نہیں کیا اور دلیری سے کہہ دیا کہ جو وید میں توحید ہے وہ کسی دوسری کتاب میں نہیں پائی جاتی۔ اس فقرہ کے پڑھنے سے عجیب حالت ہوئی کہ گویا زمین و آسمان آنکھوں کے آگے سیاہ نظر آتا تھا۔ اللھم اصلح امت محمد۔ پھر بعد اس کے منشی صاحب اس عاجز ذلیل، غریب تنہا سے پوچھتے ہیں کہ وید پڑھے ہیں یا نہیں اور اگر وید کو نہیں پڑھا تو اب تحقیق سے کسی وید دان سے دریافت کرنا چاہئے تو اس بات کا جواب منشی صاحب کو کیا کہیں اور کیا لکھیں اور کیا معرض بیان میں لاویں۔ جس حالت میں پہلے خط میں لکھا گیا تھا کہ جو کچھ یہ بیان کیا گیا ہے بِلا تحقیق نہیں تو اگر منشی صاحب ایک ذرّہ اس عاجز سے حسن ظن رکھتے تو بلا فائدہ تقریر کو طول نہ دیتے۔ لیکن اس پُر آشوب زمانہ میں ہم غریبوں پر کسی کا حسن ظن کہاں۔ جب خداوندکریم دلوں کو اس طرف پھیرے گا تب نیک دل لوگ اس طرف پھریں گے۔ اس وقت رگوید جو چاروں ویدوں میں پہلا وید ہے اور سب سے زیادہ متبرک اور معتبر اور مستند الیہ سمجھا گیا ہے میرے سامنے رکھا ہوا ہے جس کے ساتھ پروفیسر ولسن صاحب کی ایک مختصر شرح بھی ہے۔ اس میں صاحب موصوف نے بعد بہت سی تحقیق کے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ آپ نشدین جو وید کے ساتھ شامل ہیں۔ وید میں سے نہیں ہیں بلکہ وید کے تصنیف کے بہت مدت کے بعد تالیف پائے ہیں اور یہ رائے محقق پنڈتوں کی ہے کہ آپ نشدین وید میں سے نہیں ہیں۔ یہ برہمن پشتک ہیں جو انسانوں نے یعنی برہمنوں نے اور اور وقتوں میں اپنے خیال سے لکھے ہیں۔ یہاں تک کہ پنڈت دیانند نے بھی اپنے وید بھاش میں جو ان دنوں میں چھپ رہا ہے اور ایک پرچہ اُس کا قادیان میں بھی ایک آریہ کے نام آتا ہے یہی رائے لکھی ہے اور پنڈت دیانند علانیہ لکھتا ہے کہ آپ نشدین ہر گز وید میں داخل نہیں اور نہ وید کی جز ہے۔ وہ تو لوگوں نے پیچھے سے باتیں بنائی ہیں۔ چونکہ پنڈت دیانند اب تک مقام شاہ پور ضلع ارل میں زندہ موجود ہے اور آج پنڈتوں میں وہ دعویدار ہے کہ میرا ثانی اور کوئی پنڈت نہیں۔ اُسی سے منشی صاحب دریافت کر سکتے ہیں کہ آپ نشدین جن کا بطور مختصر ترجمہ دارالشکوہ نے کیا یہ حقیقت میں وید ہی ہیں۔ یہ کیا چیز ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ دارالشکوہ کے وقت میں وید ایک مدفون اور مخفی چیز کی طرح تھا اور مسلمانوںکو اُس کی حقیقت کی خبر نہیں تھی۔ سو جب دارالشکوہ نے ہندو پنڈتوں سے کچھ وید کا ترجمہ چاہا تو انہوں نے اندیشہ کیا کہ اگر ہم مسلمانوں پر اصل وید کی حقیقت ظاہر کریں گے تو ہمارا پردہ اوڑ جائے گا بہتر ہے کہ اکبر بادشاہ کی طرح اُس کو بھی دام میں لاویں اور جہاں تک ہو سکے اس کے مزاج میں بھی کچھ الحاد ڈالیں تو اُنہوں نے اُس کو ناواقف سمجھ کر بعض اُپ نشدوں کا ترجمہ کروایا اور اب کھل گیا کہ وہ ترجمہ بھی صحیح نہیں۔بہرحال دارالشکوہ نے کمال غلطی کھائی کہ اُپ نشدون کو وید سمجھ بیٹھا اور اُس کے بہت سے خیالات پریشان تھے جن کی منشی صاحب کو خبر نہیں۔ چغتائی سلطنت پر پہلے آفت یہی نازل ہوئی تھی کہ اکبر اور اُس کے بعض بدنصیب نسل نے کلام الٰہی کو جیسا کہ چاہے قدر نہیں کی تھی اور ہندؤں کے شرک آمیز اور غلط گیان کی تلاش میں پڑ گئے۔
اب ہم اس بات کو چھوڑ کر پروفیسر مذکور کی وید کی نسبت رائے لکھتے ہیں۔ وہ اپنی تمہیدی تقریر میں جو وید کی تفسیر کے پہلے لکھی ہے تحریر کرتے ہیں کہ
حقیقت میں وید کے کسی فقرہ سے جو ہم کے اب تک دیکھے ہیں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ وید کے مصنّف پیدا کنندہ عالم کے معتقد تھے اور ہندؤں کے پرستش کے دیوتاؤں کی جو وید میں لکھے ہیں۔ جیسے آگ، پانی، چاند، سورج اُن کی تعریفوں کی عبارت ایسی ہے جس میں صریح مخلوق کی صفتیں پائی جاتی ہیں اور پھر وہ لکھتے ہیں کہ لفظ آدم کہ جو پہلے زمانہ کے مذہب ہنوذ کی نشانی ہے اُس کا وید میں بالکل ذکر نہیں ہے بلکہ یہ لفظ ان تینوں دیوتاؤں کے نام کا خلاصہ ہے۔ یعنی برہما کے اخیر کا الف لیا گیا اور وشن کی واؤ ڈالی گئی اور مہادیو کا میم لیا گیا۔ ان تینوں کے جوڑ سے آدم بن گیا اور تمام پنڈتوں کا بھی یہی اعتقاد ہے کہ اوم کا لفظ ترہمورتی مذہب کا ایجاد ہے۔ مگر ترہمورتی مذہب یعنی جس میں تین مورتوں کی پرستش کا ذکر ہے وید میں نہیں ہے کیونکہ یوں تو وید میں بیسیوں دیوتاؤں کی پرستش کا ذکر ہے لیکن برہما، وشن، مہادیو کا کہیں نشان نہیں۔ ہاں وشن کی پرستش کے لئے ایک شُرتی آئی ہے مگر وہاں وشن کے معنی سورج ہیں۔ سورج وید کے دیوتاؤں میں سے ایک اوسط درجہ کا دیوتا ہے جس کا مرتبہ اگنی دیوتا سے کچھ نیچا اور بعض دوسرے دیوتاؤںسے کچھ اونچا ہے۔ اب دیکھئے منشی صاحب اپنے خط میں فرماتے ہیں کہ ہندؤں میں باوجود حق کے لئے اوم کا لفظ جو اسم ذات ہی قرار دیا گیا ہے کیاافسوس کا مقام ہے کہ منشی صاحب نے ایک ناواقف آدمی کی تحریر فضول پر اعتماد کلی کر کے اوم کے لفظ کو اسم ذات مقرر کر دیا۔ حالانکہ ابھی ہم ظاہر کر چکے ہیں کہ اوم کا لفظ ان متاخر مشرکین ہنوذ کا ایجاد ہے جنہوں نے برہما، وشن، مہادیو کی صورتوں کے پرستش اختیار کی تھی اور اب کرتے ہیں۔ان کی دانشمند پنڈتوں میں سے کوئی بھی اس بات سے ناواقف نہیں کہ اوم کا لفظ اسی ترہمورتی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اختراع کیا گیا ہے۔ خدا سے اور خدا کی ذات سے اس کو کچھ علاقہ نہیں۔ بھلا اگر منشی صاحب کے نزدیک یہ اسم ذات ہی ہے تو پھر کئی پنڈت جیسے دیانند، کھڑک سنگھ، پنڈت شاستری صاحب وغیرہ جو اب تک جیتے جاگتے موجود ہیں۔ اُن کی شہادت اپنے بیان پر پیش کریں۔ واضح رہے کہ ہندوؤں میں دو قسم کے مخلوق پرست ہیں۔ ایک تو وہ جو صرف وید کے دیوتاؤں کو مانتے ہیں اور یہ فرقہ بہت کم پایا جاتا ہے اور دوسرے وہ گروہ جنہوں نے ترہمورتی کا مذہب ہزاروں برس کے بعد وید کے نکالا ہے۔ وہ برہما، وشن، مہادیو کو مانتے ہیں اور ادم کے لفظ کو بڑا مقدس سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ ان دیوتاؤں کے ناموں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بہرحال ہماری بحث صرف وید سے متعلق ہے اور ہر چند ہم جانتے ہیں کہ اُپ نشدوں میں بہت سی غلطیاں ہیں اور ہم نے اوّل سے آخر تک اُپ نشدین غور سے پڑھے ہیں اور اُن کے ذلیل اور غلط خیالات پر بفضل خداوند ہادی مطلق اطلاع پائی ہے لیکن ہم کو ان کتابوں کی تفتیش سے کچھ بھی غرض نہیں۔ جس حالت میں خود ہندوؤں کے محققین اُن اُپ نشدوں کو برہمن پشتک جانتے ہیں تو پھر ہم کوکیا ضرور ہے کہ ان میں کچھ زیادہ طول کلام کریں۔ رہا وید سو ان میں جس قدر مخلوق پرستی ہے اُس کو تمام جاننے والے جانتے ہیں۔ پہلا وید اگنی کی ہی تعریف سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ ۳۷ منتر تو اُس کی تعریف میں لکھے گئے ہیں اور پینتالیس منتر اندر کے مہابرنن میں ہیں۔ ایسا ہی ہوا اور پانی اور چاند اور سورج وغیرہ کی تعریف میں کئی منتر وید میں مندرج ہیں اور اگر منشی صاحب بطور نمونہ چاہیں تو ہم رگوید سنگتہا اشٹک اوّل پہلا ادہیائے اشلوک ایک میں سے چند شرتیاں لکھ دیتے ہیں تا منشی صاحب اپنے اُس کلمہ کو پھر یاد کریں کہ جو اُنہوں نے قرآن شریف کی عظمتوں اور بزرگیوں اور ہمارے ربّ کریم کے پاک اور کامل کلام کی شوکتوں اور شانوں کو یکبارگی نظر انداز کرکے جلد تر منہ سے نکال دیا اور کہا کہ وید میں بیان توحید ایسا ہے کہ اور کتابوں میں نہیں ہے اور میں قبل از بیان یہ بھی ظاہر کرتا ہوں کہ یہ سخت ابتلا منشی صاحب کو ایسی عادت کی وجہ سے پیش آ گیا ہے کہ جو اپنے خط میں آپ لکھتے ہیں کہ میں مذہبی جھگڑوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ گویا منشی صاحب اس کام کو بنظر تحقیر دیکھتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ سارا قرآن شریف مذہبی جھگڑوں کے ہی ذکر میں ہے اور جو لوگ خدا کے بڑے پیارے ٹھہرے اُنہوں نے اُنہیں جھگڑوں میں جانیں دی تھیں۔ جب تک طالب حق ان جھگڑوں میں نہ پڑے دل کا صاف ہونا ہرگز ممکن نہیں۔ علم عقاید اور علم فقہ اور علم تفسیر اور علم حدیث مذہبی جھگڑے ہیں جو شخص مذہبی جھگڑوں میں سے نفرت کر کے علم قرآن حاصل نہیں کرتا اور حق اور باطل میں تمیز کرنے کی کچھ پرواہ نہیں رکھتا وہ بڑی خطرناک حالت میں ہے اور اُس کی سوخاتمہ کا سخت اندیشہ ہے۔ اب وہ شرتیاں جن کاو عدہ کیا گیا تھا یہ ہیں۔
(۱) میں اگنی دیوتا کے جو ہوم کا بڑا گروکارکن اور دیوتاؤں کو نظریں پہنچانے والا بڑا ثروت والا ہے مہا کرتا ہوں۔
اب اس جگہ اگنی کو ایک ایسا دیوتا مقرر کیا کہ جو بطور وکیل کے دوسرے دیوتاؤں کو نذریں پہنچاتا ہے۔
(۲) ایسا ہو کہ اگنی جس کا مہا زمانہ قدیم اور زمانہ حال کے رشی کرتے چلے آئے ہیں۔ دیوتاؤں کو اس طرف متوجہ کرے۔
اس میں بھی آگ کو وکیل ٹھہرا کر اُس سے یہ چاہا ہے کہ وہ دیوتاؤں کو بھی ہندوؤں پر مہربان کرے۔
(۳) اے اگنی دیوتاؤں کو یہاں لا۔ اُن کو تین جگہ بٹھا آراستہ کر۔
اب دیکھئے! ان شرتیوں میں کچھ خدا تعالیٰ کا بھی پتہ لگتا ہے اور پھر اُن کے بعد اِندر کی بھی مہا لکھی ہے اور ایک شرتی میں اِندر کو کوشیکا کا بیٹا ٹھہرایا ہے اور کوشیکا گزشتہ زمانہ میں ایک رشی تھا۔ شارح اس کے یہ معنی لکھتا ہے کہ کوشیکا رشی کے گھر میں اولاد نہیں ہوتی تھی۔ تب اُس نے اِندر دیوتا کی اشنٹ شروع کی اور بہت تپ جپ کیا اور چونکہ کوشیکا کے گھر میں بیٹا ہونا مقدر نہیں تھا مگر اِندر کو اُس پر رحم آیا۔ تب اِندر آپ ہی اُس کی عورت کے رحم میں جا پڑا اور تولد پا کر اُس کا بیٹا بن گیا۔ تب سے اِندر کا کوشیکا کا بیٹا نام رکھا گیا۔ اب مناسب ہے کہ منشی صاحب عبدالمعبود صاحب سے جو اُن کے زعم میں وید کے … ہیں۔ ان شرتیوں کے معنی پوچھیںکہ کیونکر ایک خدا کئی دیوتاؤں پر منقسم ہو گیا اور آگ و ہوا، پانی، سورج، چاند کا جسم پکڑا اور کیونکر وہ کوشیکا کے گھر میں پیدا ہوا۔ کیا یہ ایسا امر ہے جو چھپ سکتا ہے۔ پنڈت دیانند نے ناخنوں تک زور لگایا کہ وید میں توحید ثابت کرے۔ مگر آخر ناکام رہا۔ شاید ۱۸۷۶ء کا ذکر ہے کہ پنڈت دیانند نے کچھ اجزا وید بھاش کے تیار کر کے گورنمنٹ میں مع اپنے عریضہ کے بھیجے اور یہ درخواست کی کہ اُس کا یہ بھاش جس میں جا بجا سودائیوں کی طرح دیوتاپرستی کی دو راز کار تاویلیں لکھی ہیں اور خواہ نخواہ وید کو معلم التوحید قرار دینا چاہا ہے۔ یونیورسٹی میں پڑھایا جائے۔ گورنمنٹ نے بعض نامی گرامی پنڈتوں سے کیفیت طلب کی کہ آیا وید میں مخلوق پرستی ہے یا نہیں تو اُن سب نے بالاتفاق یہ کیفیت لکھی کہ وید میں دیوتا پرستی کی تعلیم ضرور ہے اور دیانند جو کچھ تاویلیں کرتا ہے یہ صحیح نہیں ہیں۔ اُن دنوں میں یہ تذکرہ اخبار وکیل شہر امرتسر میں بھی چھپ گیا تھا اور پھر اس عاجز نے بھی پنڈت دیانند کو لکھا کہ وید کی مخلوق پرستی کی تعلیم میں اگر کچھ عذر ہے تو کسی جگہ یہ ثابت کر کے دکھلاویں کہ وید میں آگ اور پانی اور سورج اور چاند وغیرہ مخلوق چیزوں کی پرستش سے کسی جگہ ممانعت بھی لکھی ہے اور کسی جگہ یہ بھی بیان کیا ہے کہ اے بندگان خدا جو کچھ رگووید وغیرہ میں مخلوق چیزوںکی پرستش کا حکم پایا جاتا ہے اور اُن سے مرادیں مانگی گئی ہیں اور پانی اور آگ اور سورج اور چاند وغیرہ سے خدا ہی مراد ہے تم نے دھوکہ نہ کھانا اورخدا کو واحد لاشریک سمجھنا اور ویدوں میں جو مخلوق پرستی کی تعلیم ہے اُس پر کچھ اعتبار نہ کرنا۔ لیکن پنڈت صاحب نے ہرگز ثابت نہ کیا اور کیونکر ثابت کر سکتے۔ ویدوں میں تو اس قدر مخلوق پرستی کھلی کھلی بیان ہے کہ کسی کے چھپانے سے چھپ نہیں سکتی۔ ابتدا میں برہمو سماج والوں نے ویدوں کے پڑھنے میں بڑی کوشش کی اور اُن کے بعض نامی گرامی آدمیوں نے بڑی محنت سے ویدوں کو پڑھا۔ سو آخر کار انہوں نے بھی یہ رائے ظاہر کی کہ وید مخلوق پرستی سے بھرا ہوا ہے۔ ابھی پنڈت شیونرائن نے تنقیح سے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں مفصل طور پر بیان کیا ہے کہ وید میں مخلوق پرستی کی تعلیم بکثرت ہے اور نیز کچھ تھوڑا عرصہ ہوا ہے کہ گورنر بمبئی نے ہندؤوں کی تاریخ میں ایک کتاب لکھی ہے اور یہ گورنر اپنی قوم میں فضیلت علمی سے نہایت مشہور ہے اور آنریبل کے لقب سے ملقب ہے۔ اُس نے اپنی کتاب کے صفحہ ۶۹ میں لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
اکثر مقامات میں بید میں خداکا ذکر بھی ہے۔ لیکن بید کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے بعض کو انسان سے برتر پیدا کیا ہے۔ سُو اُن دیوتاؤں کی پرستش کرنی چاہئے اور وہ دیوتا جن کی پرستش کا وید میں حکم ہے۔ پانی اور آگ اور خاک اور ستاری وغیرہ ہیں۔
اب دیکھئے! کہ اس آنریبل نے بھی ہماری رائے سے اتفاق کیا۔ پھر پنڈت سردہا رام پھلوری نے ایک رسالہ بنایا ہے اس میں تو علاوہ مخلوق پرستی کے مورتی پوجا یعنی بت پرستی کا ثبوت بھی دیا ہے لیکن برہمو سماج والوں نے ان دلائل کو قبول نہیں کیا اُن کا بیان ہے کہ ویدوں میں دیوتا پرستی تو ضرور ہے اور بِلاشُبہ آگ و پانی وغیرہ چیزوں کی پرستش کے لئے اس میں صریح حکم ہے اور اُن چیزوں کی حمدو ثنا ہے لیکن مورتی پوجا کا صریح طور پر اس میں حُکم نہیں پایا جاتا۔ چنانچہ بابو نوین چند رائے نے جو اَب لاہور میں موجود ہیں اور ویدوں کو سنسکرت میں پڑھا ہوا ہے اپنی کتاب اکشاستک میں اُس کو بہ تفصیل لکھا ہے اُن کی یہ اپنی عبارت ہے کہ برتمالو جن کا بدہان بیدوں میں نہیں پایا جاتا۔ مخلوق پرستی کی تعلیم بھی اور کسی جگہ نہیں۔ اس کا یہ باعث ہے کہ وید ایک شخص کی تالیف نہیں ہے۔ وید متفرق لوگوں کے خیالات ہیں۔ پس جن پر مخلوق پرستی غالب ہے اُنہوں نے اپنے کلام میں مخلوق پرستی کی تعلیم کے اور جو لوگ کچھ توحید پسند کرتے تھے اُنہوں نے توحید میں گفتگو کی لیکن جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں پروفیسر ولسن صاحب کی یہ رائے ہے کہ جہاں تک ہم نے ویدوں کو دیکھا ہے ان تمام مواضع میں مخلوق پرستی بھری ہوئی ہے اور خالق الکائنات کا نام و نشان۔ اب قصہ کوتاہ یہ کہ جن ویدوں کا یہ حال ہے کہ باتفاق تمام محققین کے مخلوق پرستی کی تعلیم کرتے ہیں۔ اُن کی تعریف کرتے وقت خدا سے ڈرنا چاہئے اور جو منشی صاحب لکھتے ہیں کہ ویدوں میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی بشارت ہے ان باتوں کو منشی صاحب پوشیدہ رکھیں تو بہتر ہے تا مخالف خواہ نخواہ ہنسی نہ کریں۔ ان دنوں میں وید کوئی ایسی چیز نہیں کہ کسی جگہ دستیاب نہ ہو۔ جا بجا کتب فروشوں کی دوکان میں پائے جاتے ہیں۔ صدہا آدمی وید خوان ہیں۔ یہاں تک کہ اس عاجز کے گاؤں کے قریب ایک دہقان چاروں وید پڑھ کر آ گیا ہے اور وید اُس کے پاس مجوود ہیں۔ کئی دفعہ اُس کا مجھ سے مباحثہ بھی ہوا ہے۔ رگوید اس عاجز کے پاس بھی موجود ہے اور پنڈت دیانند اور بعض اور پنڈتوں کے کچھ کچھ اجزا وید بھاش کے بھی موجود ہیں اور انگریزوں نے بھی بڑی محنت سے ویدوں کو ترجمہ کیا ہے۔ منشی صاحب کا خیال مجھ کو اس قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ جو ابوالفضل نے آئین اکبری میں ایک قصہ لکھا کہ
اکبر بادشاہ کے وقت دکھن کی طرف سے ایک پنڈت آیا اور اُس کا دعویٰ تھا کہ ویدوں میں کلمہ شریف لکھا ہوا ہے۔ بادشاہ نے بڑے بڑے پنڈت اکٹھے کئے، تاویلیں دیکھیں کہ اگر فی الحقیقت کلمہ طیبہ وید میں لکھا ہوا ہے تو ہندوؤں کی ہدایت کے لئے یہ بڑی حجت ہوگی۔ جب پنڈت جمع ہوئے اور اُن کو وہ متوقع دکھایا گیا تو اُس کے کچھ اور ہی معنی نکلے۔ جس کو کلمہ طیبہ سے کچھ علاقہ نہیں۔ تب بڑی ہنسی ہوئی اور وہ پنڈت جو ایسا دعویٰ کرتا تھا بڑا شرمندہ ہوا۔ آپ کی تاکید کی وجہ سے یہ لکھا گیا۔ نواب محمد علی خان صاحب کو کسی اور موقعہ پر اس عاجز کی طرف سے تعزیت کریں۔ دنیا مصیبت خانہ ہے۔ خداوند کریم اس مصیبت عظمیٰ کا اُن کو اجر بخشے اور صبر جمیل عطا فرماوے۔
(۱۱؍ جولائی ۱۸۸۳ء مطابق ۶؍ رمضان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
منشی صاحب کے خیالات اگرچہ بہت ہی حیرت انگیز ہیں پر اُس پُر فتنہ زمانہ میں جائے تعجب نہیں۔ خداوندکریم رحم کرے۔ منشی صاحب جو ہندؤوں کی کئی کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ اُن کو یہ بھی خبر نہیں کہ اکثر ان کتابوں میں سے اُردو میں بھی ترجمہ ہوچکی ہیں اور منوکادہرم شاستر تو سرکاری طور پر ترجمہ ہو کر وکلا کی امتحانی کتابوں میں داخل ہے اور گیتا اُردو میں ترجمہ کی ہوئی جا بجا موجود ہے اور ایک ہندو نے اُس کو نظم میں بھی کر دیا ہے اور شام وید اور تھرین وید بھی کچھ پوشیدہ کتابیں نہیں ہیں۔ آج کل آریہ سماج والوں کی ستاویز بھی یہی کتابیںہیں اور یہ شام اور اتھرین اور رگ اور یجر دیانند کے پاس موجود ہیں اور اس کے وید بھاش ماہ بماہ چھپتے ہیں۔ ایک طرف انگریزوں نے بھی ویدوں کو انگریزی میں ترجمہ کر دیا ہے برہمو سماج والے بھی ویدوں کی حقیقت پر بکلی ماہر ہیں۔ کچھ حصہ وید کا اُردو میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے اب کیا یہ ممکن ہے کہ یہ تمام لوگ اتفاق کر کے ایک پیشگوئی جو وید میں صریح وارد ہوچکی تھی چھپاتے۔ ہرگز ممکن نہیں۔ وید کے محققوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وید میں کسی قسم کی پیشگوئی نہیں یہاں تک کہ پنڈت دیانند کا مقولہ ہے کہ وید میں رام چندر و کرشن وغیرہ کے پیدا ہونے کی بابت بھی کوئی تذکر نہیں اور یہ بات اور بھی عجیب ہے کہ پہلے منشی صاحب نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور و بعثت کی خبر ویدوں میں لکھی ہے۔ پھر اب یہ دعویٰ ہے کہ وہ خبر پورانوں اور پوتھیوں میں بھی لکھی ہے یہ اچھا ہوا کہ منشی صاحب کو بحث مباحثہ کا شوق نہیں ورنہ پنڈتوں اور انگریزوں اور برہمو سماج والوں کے روبرو بڑی ندامتیں اُٹھاتے۔ اب آپ اس تذکرہ کو طول نہ دیں اور ان کے حق میں دعائے خیر کریں اور جو کچھ منشی صاحب نے کلمات الحاد آمیر لکھے ہیں اور اُن کی تائید میں شعروں کا حوالہ دیا ہے۔ اُن کے جواب میں بجز اس کے کیا لکھا جائے کہ اَللّٰھُمَّ اَصْلِحْ اُمَّتِ مَحَمَدَّ ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ان الذین عند اللّٰہ الاسلام ومن یتبغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھوفی الاخرۃ من الخسرین
سچا رہنما قرآن شریف ہے اور اُس کی پیروی اسی جہان میں نجات کے انوار دکھلاتی ہے اور سعادت عظمی تک پہنچاتی ہے مَن کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی واضل سبیلا۔ جومعارف حصہ کے حصول کے لئے پوری پوری کوشش کرے اور صرف قیل و قال میں بہت پھنسا نہ رہے۔ اُس پر بخوبی واضح ہو جائے گا کہ باطنی نعمتوں کے حاصل کرنے کیلئے ایک ہی راہ ہے۔ یعنی یہ کہ متابعت حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اختیار کی جائے اور تعلیم قرآنی کو اپنا مُرشد اور رہبر بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ہندؤوں اور عیسائیوں میں کئی لوگ ریاضت اور جوگ میں محنت کرتے ہیںکہ جس سے اُن کا جسم خشک ہو جاتا ہے اور برسوں جنگلوں میںکاٹتے ہیںاور ریاضاتِ شدیدہ بجا لاتے ہیں۔ لذات سے بکلّی کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی وہ انوارِ خاصہ اُن نصیب نہیں ہوتے کہجو مسلمانوں کو باوجود قلت ریاضت اور ترک رہبانیت کے نصیب ہوتے ہیں۔
پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ صراطِ مستقیم وہی ہے جس کی تعلیم قرآن شریف کرتا ہے۔ بلاشُبہ یہ سچ بات ہے کہ اگر کوئی توبہ نصوح اختیار کر کے دس روز بھی قرآنی منشاء کے بموجب مشغولی اختیار کرے تو اپنے قلب پر نور نازل ہوتا دیکھے گا یہ خصوصیت دین اسلام کی بلا استعمال نہیں۔ صدہا پاک باطنوں نے اسی راہ سے فیض پایا ہے۔ جو لوگ سچے دل سے یہ راہ اختیار کرتے ہیں خدا اُن کو ہرگز ضائع نہیںکرتا اور اُن میں وہ انوار پیدا کر دیتا ہے جس سے ایک عالم حیران رہ جاتا ہے۔ بجز اس کے سب حجاب ہیں جو اُن لوگوں کو پیش آئے جن کا سلوک کمال تک نہیں پہنچا تھا۔ کاش! اگر وہ زندہ ہوتے تو انکی حقیقت ان کے تابعین پر کھل جاتی۔ کئی ایسے مُردے ہیں جن کی بیہودہ تعریفیں کی گئی ہیں لیکن کاملوں کا نشان یہی ہے کہ وہ اپنے نبی معصوم کی پوری پوری متابعت اختیار کرتے ہیں اور اُس کی محبت میں محو ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم میں صریح فرق ہے اور کوئی ایسا طالب نہیں جس پر یہ فرق ظاہر نہ ہو سکے۔ پھر مشکل تو یہ ہے کہ بعض لوگ طالب ہی نہیں ہیں۔ دُنیا کے لئے کچھ محنت نہیںکرتے۔ ایک پیسہ کا برتن بھی دیکھ بھال اور ٹھوک بجا کر لیتے ہیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی ٹوٹا ہوا نکلے لیکن دین کا کام صرف زبان کے حوالہ کر رکھا ہے اور فعل کے سچے امتحان سے اس کو نہیں آزماتے اور آنکھ کھول کر نہیں دیکھتے اور دلی اخلاص سے طالب بن کر جستجو نہیں کرتے۔ وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔ وسلام علیکم وعلی کل من اتبع الھدی۔
(یکم اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۲۷؍ رمضان ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آن مخدوم کا عنایت نامہ عین انتظاری کی حالت میں پہنچا۔ خداوند کریم کے تفضلات اور احسانات کا کہاں تک شکر کروں اور کیونکر اُس کی نعمتوں کا حق بجا لاؤں کہ اس پر ظلمتِ زمانہ میں مجھ جیسے غریب، تنہا، نالائق، بے ہُنر کے لئے آپ جیسے مخلص دوست اُس نے میسر کئے۔ سو اُسی سے میں یہ بھی دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو اپنے الطاف جلیہ اور خفیہ سے متمتع کرے اور اپنے توجہات خاصہ سے دستگیری فرماوے اور اپنی طرف انقطاع کامل اور تبتل تام بخشے۔ آمین ثم آمین۔ اور یہ تبتل تام جس کی آپ تشریح دریافت بھی کرتے ہیں۔ یہ ایک بڑا مقام اعلیٰ ہے جو بغیر فنائے اَتم کے کامل طور پر حاصل نہیںہوتا بلکہ فی الحقیقت اسی کا نام فنائے اَتم ہے جو تبتل تام حاصل ہو جائے اور تبتل تام تب حاصل ہوتا ہے کہ جب ہر یک حجاب کا خرق ہو کر رابطہ انسان کا محبت ذاتی تک پہنچ جائے۔ حجاب دو قسم کے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو بدیہی طور پر معلوم ہوتے ہیں اور کچھ نظر اور فکر کی حاجت نہیں۔ جیسے خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی طرف توجہ کرنا۔ مخلوق سے مرادیں اور حاجات مانگنا اور مخلوق کا اپنا تکیہ گاہ اور پناہ سمجھنا۔ اپنے ننگ اور ناموس اور عزت اور نام کی حفاظت میں مبتلا رہنا اور بجز ایک متصرف حقیقی کے کسی سے خوف یا کسی پر کچھ امید رکھنا اور زید عمرو کے وجود کو وجود سمجھنا کسی کو کارخانہ الوہیت کا شریک سمجھ کر حق الوہیت میں شریک ٹھہرا دینا۔ عبادات یا اعتقادات میں کسی کو خدا تعالیٰ کی طرح خیال کرنا۔ حضرت باری کے امر اور نہی کو توڑ کر اپنے نفس کی خواہشوں کا تابع ہونا اور نفس امّارہ کی پیروی کرنا اور بندی اور فرمانبرداری کی حد پر نہ ٹھہرنا۔ یہ تو وہ سب حجب ہیں جو بدیہی ہیں جو عام طور پر ہر یک کو سمجھ آ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ فطرت صحیحہ میں کچھ خلل نہ ہو۔ دوسری قسم کے حجاب وہ ہیں جو نظری ہیں۔ جن کے سمجھنے کے لئے کامل درجہ پر عقل سلیم اور فہم مستقیم چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اسماء اور صفات الٰہیہ تک رابطہ محدود رہے اور ذات بحت سے حقیقی طور پر تعلق حاصل نہ ہو۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی عبادت بغرض حصول اُس کے انعام و اکرام کے کرتا رہے وہ ہنوز اسماء و صفات الٰہیہ پر نظر رکھتا ہے اور محبت ذاتی کے شربت عذب سے ابھی کچھ اُسے نصیب نہیں اور اس کا رابطہ معرض خطر میں ہے کیونکہ اسماء و صفات الٰہیہ ہمیشہ ایک ہی رنگ میں تجلی نہیں فرماتیں اور کبھی جلال کبھی جمال اور کبھی قد اور کبھی لطف ہوتا ہے۔ غرض ان دونوں قسموں کے حجابوں سے جو شخص باہر آ جائے اور اپنے مولیٰ حقیقی سے ذاتی طور پر محبت پیدا ہو جس کو کوئی چیز روک نہ سکے اور منجملہ ظاہری اور باطنی اور افاقی اور انفسی حجابوں کے کوئی حجاب باقی نہ رہے تو یہ وہ مرتبہ ہے جس کو تبتل تام کہناچاہئے۔ اس مرتبہ کا خاصہ ہے کہ انعام اور ایلام محبوب کا ایک ہی رنگ میں دکھائے دیتا ہے بلکہ بسا اوقات ایلام سے اور بھی زیادہ محبت بڑھتی ہے اور پہلی حالت سے آگے قدم بڑھتا ہے۔ بات یہ ہے کہ جب محبت ذاتی کی موجیں جوش میںآتی ہیںتو اسماء اور صفات پر نظر نہیں رہتی اور انسان کا سارا آرام محبوب حقیقی کی یاد میں ہو جاتا ہے اور وجہ اللہ کا تعلق ذات باری کی بیچون اور بیچگون ہوتا ہے اور محب صادق کسی کو اس بات کی وجہ نہیں بتلا سکتا کہ کیوں وہ اس محبوب سے محبت رکھتا ہے اور کیوں اس کے لئے بدل و جان فدا ہو رہا ہے اور اس محبت اور اطاعت اور جاں فشانی سے اُس کے غرض کیا ہے کیونکہ وہ ایک جذبہ الٰہی ہے جو بطور موہیت خاصہ محب صادق پر پڑتا ہے ۔ کوئی مصنوعی بات نہیں جس کی وجہ بیان ہو سکے۔ یہی انقطاع حقیقی اور تبتل تام کی حالت ہے اور یہی وہ موت روحانی ہے جس کی اہل اللہ کے نزدیک فناء سے تعبیر کی جاتی ہے کیونکہ اس مرتبہ پر نفس امّارہ کا بکلّی تزکیہ ہو جاتا ہے اور بباعث محبت ذاتی کے اپنے مولیٰ کریم کی ہر یک تقدیر سے موافقت تامہ پیدا ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس دوست کے ہاتھ سے پہنچتا ہے پیار ا معلومہوتا ہے اور اس کا قہر اور لطف سب لطف ہی دکھائی دیتا ہے اور حقیقت میں وہ سب لطف ہی ہوتا ہے۔ ہر محب صادق نہ قہر سے غرض رکھتا ہے نہ لطف سے۔
غریق ورطۂ بحر محبت
نہ بر مہرش نظر باشد نہ برکیں
چناں رویش خوش افتد ارسر عشق
کہ قرباں میکند بردے دل و دین
شب و روزش بدیں سرکار باشد
دل و جانش شودآں یار شیریں
بسوز دہر چہ غیر یار باشد
ہمیں ایں عشق را رسم است و آئین
اور اس عاجز کا یہ مصرع کہ
قربان میکند بروے دل و دین
یہ معنی رکھتا ہے کہ قبل از جذبہ عشق جو کچھ انسان کے دل میں رسوم اور عادات بھری ہوئی ہوتی ہیں اور کچھ جو جہل مرکب کی باتیں اوپر تعصب خیالات اس کے سینہ میں جمع ہوئے ہیں۔ اصل میں وہی اس کا دین ہوتا ہے جس کو کسی حالت میں چھوڑنا نہیں چاہتا اور جب جذبۂ عشق اس پر غالب آتا ہے تو وہ خیالات کو جو تپ دِق کی طرح رگ و ریشہ سے ملے ہوئے ہوتے ہیں بآسانی چھوٹ جاتے ہیں اور بعد اس کے عشق الٰہی ایک پاک دین تعلیم کرتا ہے کہ جو عادت اور رسم کی آلودگی سے منزہ ہے اور تعصبات کے لوث سے پاک ہے۔ بس نافع اور مبارک دین یہی ہوتا ہے جو عشق کے بعد آتا ہے اور جو عشق کے اوّل خیالات ہیں۔ وہ بہت ہی زہروں سے بھری ہوئے ہوتے ہیں اور حقیقت میں وہ اسی لائق ہیں کہ عشق پر فدا کئے جائیں اور اُن کے عوض میں وہ پاک خیال کہ جو عشق کے صافی چشمہ سے نکلے ہیں اور جو ہر یک تعصب اور رسم اور عادت سے منزہ ہیں حاصل کئے جائیں اور خیالات ایسی سختی سے نفس پر قابض ہوتے ہیں کہ بغیر جذبۂ عشق کے ہرگز ممکن ہی نہیں کہ اُٹھ سکیں۔ مدار کار جذبہ عشق پر ہے جو قلب پر مستولی ہوتا ہے اور جب وہ مستولی ہوتا ہے تو نفس اپنی اندرونی آلائش سے پاک ہو جاتا ہے اور نفس کے چھپے ہوئے جو عیب تھے اُس سے دور ہوتے ہیں کہ جب عشق الٰہی کے بھڑکتے ہوئے آگ دل پر وارد ہوتی ہے۔ نقد اعمال صالحہ جن پر کشود کار موقوف ہے تب ہی صادر ہوتے ہیں کہ جب اُن کو حرکت دینے والا عشق ہوتا ہے کوئی اور غرض فاسد نہیں ہوتی اور مجرد اعمال صوری اور عبادات رسمی سے کوئی عقدہ نہیں کھلتا بلکہ جب تک سالک رسم اور عادت کی بدبودار مزبلہ سے باہر نہیں آتا مورد غضب الٰہی رہتا ہے کیونکہ وہ خدا کی طرف سے منہ پھیر رہا ہے اور اُس کے غیر کی طرف متوجہ ہے۔ وجہ یہ کہ رسم اور عادت بھی ماسوا اللہ ہے اور ہر یک ماسوا اللہ خدا سے دور ڈالتا ہے اور سلامتی قلب میں خلل انداز ہے۔ سو سالک کے لئے جو بات سب سے پہلے لازم ہے وہ یہی ہے کہ رسم اور عادت سے باہر ہو اور پھر خلوص نیت سے مااتاکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھو پر عمل کرے تا شفا پاوے اور ایمان حقیقی سے حصہ حاصل کرے مگر افسوس کہ بہت سے علماء ظاہری اسی سے تباہ ہو رہے ہیں کہ رسوم اور عادات کے رنگ میں ایک دوسرے سے لڑتے مرتے ہیں اور اس حقیقت اور حق بینی سے انسان کا دل منور ہوتا ہے اور جس دولت اور سعادت سے باطنی افلاس دور ہوتا ہے اس کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے کیا بدقسمتی ہے۔ ہائے! ہائے!
خلق و عالم جملہ در شور و شراند
عشق بازاں در مقام دیگر اند
گرد لازیں کوچہ بیرون نگذریم
ہم سگان کوچہ از ما بہتراند
خداایسا نہیں کہ دھوکا کھا سکے۔ اس کی دلوں پر نظر ہے اور حقیقتوں پر نگاہ ہے۔ وہ رسموں اور عادتوں سے ہرگز خوش نہیں ہوتا اور جب تک بندہ مقام اخلاص کا حاصل نہ کرے۔ یعنی مرنے سے پہلے ہی نہ مرے اور افاقی اور انفسی شرکوں سے بکلّی باہر نہ آوے تب تک الطاف اللہ اس کی طرف ہرگز متوجہ نہیں ہوتیں۔ تب ہی کمال ایمان میسر آتا ہے کہ جب وہ موت کو جس کو ابھی میں نے اخلاق سے تعبیر کیا ہے اور حقیقت اسلام بھی تبھی اپنا چہرہ مصفا دکھاتی ہے کہ جب یہ موت حاصل ہو جائے۔ حق تعالیٰ ہم کو اور آپ کو اور ہر یک کو جو طالب ہے اس اخلاص سے بہرہ مند کرے۔ زمانہ سخت زہرناک ہوائیں چلا رہا ہے جس سے تمام کاروبار منقلب ہوا جاتا ہے۔ ہر یک بات مالک حقیقی کے اختیار میں ہے۔ ہم عاجز بندوں کا کام عبودیت ہے۔ فتح اور شکست سے مطلب نہیں۔ عبدویت سے مطلب ہے۔ اس راہ میں جنہوں نے بہت سی خدمتیں کیں پھر بھی وہ سیر نہ ہوئے پھر ہمیں کیونکر آرام ہو جنہوں نے اب تک کچھ بھی نہیں کیا۔ سو ہمارا سب غم اور حزن خدا کے سامنے ہے۔ ابھی وہ حال ہے کہ جو صرف بیرونی حملوں پر کفایت نہیں بلکہ بعض ناشناس بھائی اندرونی حملے بھی کر رہے ہیں لیکن ہم عاجز بندوں کی کیا حقیقت اور بضاعت ہے۔ وہی ایک ہے جس نے اپنے عاجز اور ناتوان بندہ کو ایک خدمت کے لئے مامور کیا ہے۔ اب دیکھئے کہ کب تک اس ربّ العرش تک اس عاجز کی آہیں پہنچتی ہیں۔ آپ نے لکھا تھا کہ بعض احباب علماء کی طرف سے یہ فتویٰ لائے ہیں کہ اتباع قال اللہ وقال الرسول اور ترجیح اُس کی دوسرے لوگوں پر کفر ہے مگر یہ بندہ عاجز کہتا ہے کہ زہے سعادت کہ کسی کو یہ کفر حاصل ہو۔
گر ایں کفرم بدست آید برو قربان کنم صد دین
خداوندا بمیرانم بریں کفرو بریں آئین
حضرت افضل الرسل خیر الرسل فخر الرسل محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اور اس کے پاک اور کامل حدیث اور خدا کا سچا نور اور بلاریب کلام ترک کر کے پھر اور کونسی پناہ ہے جس کی طرف رُخ کریں اور اُس سے زیادہ کون سا چہرہ پیارا ہے جو ہماری دلبری کرے۔
گر مہر خویش برکنم از روئے دلبرم
آن مہر برکہ افگنم آن دل کُجا برم
من آں نیم کہ چشم بہ بندم زردے دوست
دربینم ایں کہ تیر بیاید برابرم
آپ کسی کی بات کی طرف متوجہ نہ ہوں اور عاشق صادق کی طرح قول اور فعل سے، مدح سے، ثنا سے، متابعت سے فنا فی الرسول ہو جائیں کہ سب برکات اس میں ہیں۔ اکثر لوگوں پر عادت اور رسم غالب ہو رہی ہے اور بڑی بڑی زنجریں پانوں میں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی اس طرح آ نہیں سکتا۔ مگر جس کو خدا کھینچ کر لاوے۔ سو صبر سے استقامت سے اُن کے جوروجفا کا تحمل کرنا چاہئے دنیا اُنہیں سے دوستی رکھتی ہے جو دنیا سے مشابہ ہوتے ہیں مگر جو خدا کے بندہ ہیں گو وہ کیسے ہی تنہا اور غریب ہوں تب بھی خدا اُن کے ساتھ ہے اِنَّ اللّٰہَ لَاْیَھْدِیْ مِنْ ھُوْ مُسْرِفُ کَذَّابُ۔ آپ کے سب دوستوں کو سلام مسنون پہنچے۔
(۱۹؍ اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۱۹؍ شوال ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز دعا سے غافل نہیں مگر ہر ایک امر وقت پر موقوف ہے اور آپ میں آثار سعادت اور رُشد کے ظاہر ہیں کہ آپ کی حقیقت بینی پر نظر ہے اور صدق اور وفا اور حسن ظن کا خلق موجود ہے۔ پس یہ وہ چیزیں ہیں جس کو مولیٰ کریم کی طرف سے عطا کی جاتی ہیں۔ اس کے لئے استقامت کا عطا ہونا ساتھ ہی مقدر ہوتا ہے۔ خداوند تعالیٰ بغایت درجہ کریم و رحیم ہے۔ وہ جس دل میں ایک ذرّہ بھی اخلاص اور صدق پاتا ہے اُس کو ضائع نہیں کرتا۔ آپ بعض اپنے دوستوں کے تغیر حالت سے دل شکستہ نہ ہوں۔ مولوی صاحب کی وہ حالت ہے کہ نہ اُنہوں نے ارادت کے وقت اس عاجز کو شناخت کیا اور نہ فتح ارادت کے وقت پہچانا۔ سو اُن کی نہ ارادت قابل اعتبار تھی نہ اب فتح ارادت معتبر ہے۔ ارادت اور فتح ارادت وہی معتبر ہے جو علیٰ وجہ البصیرت ہو اور اگر علی وجہ البصیرت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ مسجد کا زینہ تیار ہو گیا ہے۔ عجب فضل الٰہی ہے کہ شاید پرسوں کے دن یعنی بروز شنبہ مسجد کی طرف نظر کی گئی ہے تو اُسی وقت خداوند کریم کی طرف سے ایک اور فقرہ الہام ہوا اور وہ یہ ہے فِیْہِ بَرَکات للناس۔ یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں۔ فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذالِکَ ہرسہ حصہ کی کتابیں اگرچہ اس وقت زبانی یاد نہیں مگر شاید قریب دو سَو کے کتاب باقی ہوگی۔ وَاللّٰہ اَعْلَمُ صفحہ۳۱ فتوح الغیب کی شرح یہ ہے کہ سالک کا چار حالتوں پر گذر ہوتا ہے اور حالت چہارم سب سے اعلیٰ ہے اور وہی ترقیات قُرب کا انتہائی درجہ ہے جس پر سلسلہ کمالات ولایت کا ختم ہو جاتا ہے۔
تفصیل اس کی یہ ہے کہ پہلی حالت وہ حالت ہے کہ جب انسان ناسوتی آلائشوں میں مبتلا ہوتا ہے اور شتر بے مہار کی طرح جو چاہتا ہے کھاتا ہے اور جو چاہتا ہے پیتا ہے اور جس طرف چاہتا ہے چلتا ہے۔ سو وہ اسی حالت میں ہوتا ہے کہ ناگاہ حضرت خداوندکریم اُس پر نظر کرتا ہے اور باطنی اور ظاہری طور پر توبہ کا سامان اس کے لئے میسر کر دیتا ہے۔ باطنی طور پر یہ کہ ایک جذبہ قویہ خداوندکریم کی طرف سے اس کے شامل حال ہو جاتا ہے اور وہی جذبہ درحقیقت واعظ باطنی ہے اور اُسی سے فسق و فجور کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں اور انسان اپنے نفس میں قوت پاتا ہے کہ تا نفس امّارہ کی پیروی سے دستکش ہو جائے اور اگرچہ پہلے اس سے ایک اور کمزور جیسا واعظ بھی انسان کے نفس میں موجود ہے جو کو لمۃ الملک سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ بھی نیکی کیلئے سمجھاتا رہتا ہے اور نیک کام کرنے پر فی الفور گواہی دیتا ہے کہ تو نے یہ اچھا کام کیا ہے اور بَد کام کرنے پر فی الفور گواہی دیتا ہے کہ تو نے یہ بَد کام کیا ہے۔ یہاں تک کہ چور چوری کرنے کے بعد اور زانی زنا کرنے کے بعد اور خونی خون کرنے کے بعد کبھی کبھی باوجود اُن سخت پردوں کے اُس لمۃ الملک کی آواز سن لیتا ہے۔ یعنی اُس کا دل فی الفور اُسے کہتا ہے کہ یہ تو نے اچھا کام نہیں کیا۔ بُرا کیا ہے لیکن چونکہ یہ ضعیف واعظ ہے اس لئے اُس کا وعظ اکثر بے فائدہ جاتا ہے اور اگرچہ اس کے ساتھ کوئی واعظ ظاہری بھی مل جائے یعنی کوئی صالح انسان نصیحت بھی کرے تب بھی کچھ کار براری کی امید نہیں کیونکہ نفس سخت اژدھا ہے کمزوروں سے وہ قابو میں نہیں آتا اور اگر کچھ مغلوب بھی ہو جاتا ہے تو صرف اس قدر کہ عارضی اور بے بنیاد توبہ توبہ کرتا ہے اور حقیقی سعادت کی تبھی نسیم چلتی ہے کہ جب جذبہ الٰہی شامل حال ہو۔ سو کامل واعظ جو باطنی طور پر بھیجا جاتا ہے جذبہ ہے اور ظاہری طور پر توبہ کا یہ سامان میسر ہو جاتا ہے کہ کسی صالح کی صحبت میسر آ جاتی ہے اور فسق و فجور کی مہلک زہر سے اطلاع ہو جاتی ہے۔ سو یہ دونوں مل کر چکی کے دو پاٹ کی طرح نفس امّارہ کو پیس ڈالتے ہیں اور باجبرواکراہ معاصی اور فسق فجور سے جدا کرتے ہیں۔ سو یہ دوسری حالت ہے کہ جو ترقیات قرب کے راہ میں سالک کو پیش آتی ہیں اور دوسرے لفظوں میں اس حالت کا نام جبروتی حالت ہے کیونکہ وہ جبر اور اِکراہ کے ساتھ نفسانی خواہشوں سے باہر آتا ہے اور جذبہ باطنی اپنے طور پر اور واعظ ظاہری اپنے طور پر اُس پر جبر کرتا ہے اور مالوفات نفسانیہ سے سختی اور درشتی کے طور پر الگ کر دیتے ہیں۔ پھر جب اُس پر صفایت الٰہیاس کو قائم کر دیتی ہے تو اس کے لئے خدا کے حکموں پر چلنا اور اس کی نہی سے پرہیز کرنا آسان کیا جاتا ہے اور شوق اور ذوق اور اُنس سے اُس کو حصہ دیا جاتا ہے۔ پس وہ اس جنت سے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری بلاتکلف اس سے صادر ہوتی ہے اور جو حالتِ دوم میں بوجھ اور ثقل تھا وہ دور ہو جاتا ہے اس لئے وہ ملائک سے تشبہ پیدا کر لیتا ہے اور یہ حالت ملکوتی حالت ہے اور اس حالت میں سامل کا اکل و شرب اور ہر یک مابہ مابہ الاحتظاظ امر سے وابستہ ہوتا ہے۔ یعنی ہوا و ہوس کے اتباع سے بکلّی رستگار ہو جاتا ہے اور وہی بجا لاتا ہے جس کے بجا لانے کے لئے شرعا یا الہاماً مامور ہو اور پھر بعد اس کے حالت چہارم ہے جس کو لاہوتی حالت سے تعبیر کرنا چاہئے اور جب سالک اس حالت تک پہنچ جاتا ہے تو صرف یہی بات نہیں کہ اپنے ہوا ہوس سے خلاصی پاتا ہے بلکہ بکلّی اپنے ہوا و ہوس سے اور نیز اپنے ارادہ سے محو ہو جاتا ہے۔ تب انسان خدا کے ہاتھ میں ایساہوتا ہے جیسا مردہ بدست زندہ ہوتا ہے اور الوہیت اس فانی پر اپنے تجلیات تامہ ڈالتی ہے اور ارادت ربّانی علی وجہ البصیرت اس پر ظاہر کئے جاتے ہیں اور وہ خدا کی طرف سے صاحب علم صحیح ہوتا ہے اور ہر یک ابتلا اور آزمائش سے باہر آ جاتا ہے اور یہ مرتبہ ملائک سے برتر ہے۔ ملائک کو یہ حالت چہارم جو غلبہ مشق سے پیداہوتی ہے عطا نہیں ہوتی یہ خاص انسان کے حصہ میں آئی ہے۔ وَذٰالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ اور جیسی بصیرت کاملہ ایسی حالت سے مخصوص ہے۔ ایساہی صلاحیت کاملہ بھی اسی حالت سے وابستہ ہے کیونکہ پہلی حالت میں نقصان علمی و عملی سے خالی نہیں ہیں بلکہ نقصان علمی و عملی ان کے لازم حال پڑا ہوا ہے کیونکہ خدا میں اور اُن میں اپنا وجود حائل ہے۔ بس وہی وجود ایک حجاب بن کر علم اور اخلاص کے ناقص رہنے کاموجب ہے لیکن حالت چہارم میں وجود بشری بکلّی اُٹھ جاتا ہے اور کوئی حجاب درمیان میں نہیں رہتا اور اس حالت میں عارف کااَکل و شرب اور ہر یک مابہ الاحتطاظ اور اُس کے شعور اور ارادہ سے نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک پودے کی طرح بے حس و حرکت ہے اور مالک جب مناسب مناسب دیکھتا ہے تو اُس کی آبپاشی کرتا ہے۔ اُس کو اس طرف خیال بھی نہیں آتا کہ کیا کاؤں گا اور کیا پیوں گا اور جیسے ایک بے ہوش کو خواہ کوئی لات مار جائے۔ خواہ پیار دے جائے۔ یکساں ہوتا ہے ایسا ہی جامِ عشق سے مست وہ ہوش ہے اور اپنے نفس کے انتظاموں سے فارغ ہے۔ سو جیسے مادر مہربان اپنے نادان بچے کو وقت پر آپ دودھ پلاتی ہے اور اس کی بالشت نابالشت کی آپ خبر رکھتی ہے ایسا ہی خداوندکریم اس ضعیف اور عاجز بشر کا کہ جو اس کی محبت کے سخت جذبہ سے یکبارگی اپنے وجود سے اور اُس کے نفع و نقصان کے فکر سے کھویا گیا ہے آپ متولی ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے دوستوں کا آپ دوست اور اُس کے دشمنوں کا آپ دشمن بن جاتا ہے اور جو کچھ اُس کو اپنے دوستوں اور دشمنوں سے معاملہ کرنا چاہئے تھا وہ اُس کی جگہ آپ کرتا ہے۔ غرض اُس کے سب کاموں کو آپ سنبھالتا ہے اور اُس کی سب شکست ریخت کی آپ مرمت کرتا ہے اور وہ درمیان نہیں ہوتا اور نہ کسی بات کا خواستگار ہوتا ہے اور یہ جو صفحہ۲۳۰ کے سر پر عبارت ہے۔ فیسا کل بالامر یعنی تیسری حالت کا سالک امر حق کے ساتھ کھاتا ہے اور پھر صفحہ۲۳۱ میں حالت چہارم کے مقرب کی نسبت بھی لکھا ہے۔ فیقال لہ تلبس بانعم والفضل یعنی اس کو بھی کھانے پینے کے لئے امر ہوتا ہے تو ان دونوں امروں میں فرق یہ ہے کہ حالت سیوم میں تو سالک کے نفس میں ارادہ مخفی ہوتا ہے اور اس کا یہ مشرب ہوتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ فلاں حظ کے اُٹھانے کے لئے مجھ کو اجازت فرما دے تو میں اس کو اُٹھاؤں گا اور گو وہ اتباع نفس سے پاک کیا جاتا ہے لیکن متابعت امر کے پیرایہ میں وہ حظ حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ بقایا نفس کے ابھی موجود ہوتے ہیں۔ مگر حالت چہارم میں مقرب کامل کی طرف سے بالکل ارادہ نہیں ہوتا۔ خود خدا تعالیٰ بطور تلطف و احسان کے کسی مابہ الاحتظاظ کو اُس کے لئے میسر کر یتا ہے اور جیسے مادر مہربان اپنے بچے کو جگا کر دودھ پینے کیلئے ہدایت کرتی ہے ویسا ہی وہ اس کوجگا کر کسی حظ کے اُٹھانے کے لئے تحریک کرتا ہے۔ سو وہ تحریک سراسر اُسی کی شفقت سے اور فضل اور عنایت سے ہوتی ہے۔
(۳۰؍ اگست ۱۸۸۳ء مطابق ۲۶؍ شوال ۱۳۲۶ھ)
مکتوب نمبر۲۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذامحبت نامہ آنمخدوم پہنچا۔ موجب شکر و سپاس ہوا۔ خداوند کریم مقدرات مکروہہ سے آپ کو امن میں رکھے اور آپ کی سعیوں اور کوششوں میں کہ جو آپ خالصاً للہ کر رہے ہیں بہت سی برکتیں بخشے اور بہت سے اجر اُس پر مترتب کرے۔ آمین۔ صفحہ۲۴ فتوح الغیب کی نسبت جو آنمخدوم نے دریافت فرمایا ہے یہ مقام بَین المعنی ہے۔ کوئی عمیق حقیقت نہیں جو کچھ شارح نے لکھا ہے وہ صحیح اور درست ہے۔ حضرت مخدومنا شیخ عبدالقادر رضی اللہ عنہ اس مقام میں یہ تعلیم فرماتے ہیں کہ سالک میں حقیقت فنا کی تب محقق ہوتی ہے اور تب ہی وہ اس لائق ہوتا ہے کہ مورد معارف الٰہیہ ہو۔ جب تین طور کا انقطاع حاصل ہو جائے۔
اوّل انقطاع خلق اللہ ہے اور وہ اس طرح پر حاصل ہوتا ہے کہ حکم الٰہی کو جو قضا و قدر ہے۔ تمام مخلوقات پر نافذ سمجھے اور ہر یک بندہ کو پنجہ تقدیر کے نیچے مقہور اور مغلوب یقین کرے لیکن اس جگہ یہ عاجز صرف اس قدر کہنا چاہتا ہے کہ ایسا یقین کہ فی الحقیقت تمام مخلوقات کو کالعدم خیال کرے اور ہر یک حکم خدا کے ہاتھ میں دیکھے اور ہر یک نفع اور ضرر اُسی کی طرف سے سمجھے صرف اپنی ہی تکلیف اور نفع سے حاصل نہیں ہوسکتا اور اگر تکلیف سے اس قدر خیال قائم بھی ہو تو وہ بے بقا ہے اور ادنیٰ ابتلا سے لغزش پیش آ جاتی ہے بلکہ یہ مقام عالی شان اس بصیرت کاملہ سے حاصل ہوتا ہے کہ جو خاص خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ جب عنایات الٰہیہ کسی کی تکمیل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اس کے لمبے قضیہ کو آپ ہی کوتاہ کر دیتے ہیں اور وہ بوجھ جو اس سے اُٹھائے نہیں جاتے دست غیبی ان کو آپ اُٹھا لیتا ہے۔
پس اسی طرح سے جب بذریعہ علوم لدنیہ و کشوف صادق و الہامات صحیحہ و تائیدات صریحہ انسان پر یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ تمام نفع و ضرر خدا کے اختیار میں ہے اور مخلوق کچھ چیز ہی نہیں تو ایک نہایت کامل یقین سے وہ سمجھ جاتا ہے کہ جو کچھ نفع یا نقصان اور عزت یا ذلت ہے سب خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور مخلوق کو مردہ کی طرح دیکھتا ہے لیکن اس جگہ اعتراض یہ ہے کہ حضرت مخدومنا شیخ عبدالقادر قدس سرہ نے علوم و معارف الٰہیہ کے حاصل ہونے کا ذریعہ فنا عن الخق وغیرہ اقسام فنا کو ٹھہرایا ہے۔ پس جب کہ فنا کا حاصل ہونا ان علوم کے حاصل ہونے پر موقوف ہے تو اس سے دور لازم آتا ہے۔ سو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ یہ علوم لدنیہ و کشوف صادقہ و تائیدات خاصہ الٰہیہ وتوجہات جلیلہ صمدیہ غیر فانی کو ذاتی طور پر حاصل نہیں ہو سکتے ہیں۔ لیکن بتوسط صحبت شیخ فانی بھی حاصل ہو سکتے ہیں۔ یعنی اگرچہ براہ راست نہیں لیکن سالک اپنے شیخ کامل میں ان تمام تائیدات سماوہ کو معائنہ و مشاہدہ کرتا ہے۔ پس یہی مشاہدہ اس کے یقین کی کمالیت کا موجب ہو جاتا ہے۔ اگر جلدی نہیں تو ایک زمانۂ دراز کی صحبت سے ضرور شکوک و شبہات کے تاریکی دل پر سے اُٹھ جاتی ہے۔ اسی جہت سے فانیوں کی معیت کے لئے قرآن شریف میں سخت تاکید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ اے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقُوْنَ ھُمْ اَلْفَانُوْنَ لَاْغَیْرِھِمْ اور جو شخص نہ فانی ہے اور نہ فانیوں سے اُس کا کچھ تعلق اور محبت ہے۔ وہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کے سوء خاتمہ کا سخت اندیشہ ہے اور اس کے ایمان کا کچھ ٹھکانا نہیں۔ الا ان یتدارکہ اللّٰہ برحمۃ۔ دوسری شرط مورد معارف الٰہیہ ہونے کیلئے یہ ہے کہ ہوائے نفس سے انقطاع ہو جائے۔ یعنی سالک پر لازم ہے کہ اپنے تمام حرکت و سکون و قول و فعل میں اوامر اور نواہی میں اللہ کی متابعت اختیار کرے اور کسی حالت میں قَالَ اللّٰہُ وَقَالَ الرَّسُوْلَسے باہر نہ جائے اور کچھ دوسرے لوگ اپنے نفس کی متابعت سے کرتے ہیں۔ وہ اپنے رسول کی متابع سے بجالاوے اور اپنے اعمال اور اقوال میں کوئی ایسی جگہ خالی نہ چھوڑے جس میں نفس کو کچھ دخل دینے کی گنجائش ہو۔ پس جب کہ کامل طور پر اتباع سنت میسر آ جائے گا اور ایک ذرّہ ہوائے نفس کی پیروی نہیں رہے گی بلکہ ظاہر و باطن متابعت رسول کریم سے منور ہو جائے گا تو یہ وہ حالت ہے جس کا نام فنا بامر اللہ ہے۔ مگر ہائے افسوس کہ اس پر ظلمت زمانہ میں بجائے اس کے کبریت احمر کا قدر کریں۔ اکثروں کو اس طریق سے بغض ہے اور اتباع سنت سے ایک چِڑ ہے۔ حالانکہ دوسری قسم فنا کی بجز اس کے ہرز میسر نہیں ہو سکتی۔ اللھم اصلح امۃ محمد اللھم ارحم امۃ محمد اللھم انزل علینابرکات محمد و صل علی محمد و بارک وسلم۔
تیسری شرط مورد معارفِ الٰہیہ ہونے کے لئے یہ ہے کہ رضا بقضاء ہو اور ایسا انشراح صدر میسر آ جائے کہ جو کچھ ارادت ِ الٰہیہ سالک پر نافذ ہوں۔ عاشق صادق کی طرح ان سے متلذذ ہو اور انقباض پیدا نہ ہو بلکہ یہاں تک موافقت تامہ پیدا ہو جائے کہ اُس محبوب حقیقی کی مراد اپنی ہی مراد معلوم ہو اور اس کی خواہش اپنی خواہش دکھلائی دے۔ اس جگہ بھی وہی سوال لزوم دور کا لازم آتا ہے جو پہلی قسم میں لازم آیا تھا اور جو اَب بھی وہی ہے جو پہلے دیا گیا ہے۔انسان کا کام بجز صحبت صادقین کے سراسر خام ہے اور بجز طریق فنا یا صحبت فانیوں کے ایمان کا سلامت لے جانا نہایت مشکل ہے۔ پس سعید وہی ہے کہ جو سب سے پہلے ایمان کی سلامتی کا فکر کرے اور ناحق کے ظاہری جھگڑوں اور بے فائدہ خرخشوں سے دست کش ہو کر اس جماعت کی رفاقت اختیار کرے۔ جن کو خدا تعالیٰ نے اپنا درد عطاکیا ہے اور یقینا سمجھے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو عمدہ نعمت دنیا کیلئے لائے وہ یہی درد اور محبت الٰہی ہے جس کو خدا اور رسول کی محبت دی گئی۔ اس نے اپنی اصل مراد کو پا لیاہے اور بِلاشبہ وہ سعید ہے اور نارجہنم کو اس سے مس کرنا حرام ہے لیکن جس کو وہ محبت عطا نہ ہوئی اور اُس نے اپنے خدا اور اپنی نبی کا قدر شناخت نہیں کیا۔ اُس کا زبانی طور پر مسلمان کہلانا کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ نماز وروزہ بھی بجز ذاتی محبت کے اپنی اصل حقیقت سے خالی ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے۔یاتی علی امتی زمانہ یصلون و یصومون ویجمعون فی المساجد ولیس ففیھم مسلم۔ یعنی ایک زمانہ وہ آئے گا کہ لوگ نمازیں بھی پڑہیں گے اور روزے بھی رکھیں گے اور مسجدوں میں اکٹھے ہوں گے پر اُن میں سے ایک بھی مسلم نہ ہوگا۔ یعنی مومن حقیقی نہ ہوگا۔ اپنی دنیا اور اپنی رسوم میں گرفتار ہوں گے اور دین بھی رسم کے طور پر بجا لائیں گے۔ سو اَب ایسے وقت کا اندیشہ ہے خداوند کریم رحم کرے۔ بخدمت مولوی صاحب و خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچادیں اگر ملاقات میسر ہو۔
(تاریخ ۶؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۳؍ ذیعقد ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ حدیث نبوی یعرفھم غیری کے معنی جو اس عاجز کے دل میں ڈالے گئے ہیں یہ ہیں کہ غیر کے لفظ سے نفی ماسوا اللہ مراد نہیں بلکہ نفی نااہل و ناآشنا مراد ہے۔ مگر جو لوگ مومن حقیقی ہیں وہ بباعث استعداد فنا اور زوال حجب کے کبریائی دامن کے اندر ہیں اور غیر نہیں ہیں خود خدا تعالیٰ نے بعض صالح اہل کتاب کے حق میں اپنی کتاب مجید میں یہ فرمایا ہے یفرفونہ کما یعرفون ابناء ھم یعنی وہ لوگ پیغمبر آخر الزمان کو جو امام الانبیاء اور سید الاولیا ہے اس طرح پر شناخت کرتے ہیں جیسے وہ اپنے بیٹوں کو شناخت کر رہے ہیں اور اسی طرح روحانی روشنی کی برکت سے اولیا اولیا کو شناخت کر لیتے ہیں۔ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اویس کے وجود کو یمن میں شناخت کر لیا اور بارہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یمن کی طرف سے رحمان کی خوشبو آ رہی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ کے مراتب معلوم تھے اور ہریک کی نورانیت باطنی کا اندازہ اس قلب منور پر مکشوف تھا۔ ہاں جو لوگ بیگانہ ہیں وہ یگانہ حضرت احدیّت کو شناخت نہیں کر سکتے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ینظرون الیک وھم لا یبصرون یعنی وہ تیری طرف (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نظر اُٹھا کر دیکھتے ہیں پر تو اُنہیں نظر نہیں آتا اور وہ تیری صورت کو دیکھ نہیں سکتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انوار روحانی کا سخت چمکارابیگانہ محض پر بھی جا پڑتا ہے۔ جیسے ایک عیسائی نے جب کہ مبالہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حسین و حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنھم عیسائیوں کے سامنے آئے دیکھ کر اپنے بھائیوں کو کہا کہ مباہلہ مت کرو۔ مجھ کو پروردگار کی قسم ہے کہ میں ایسے منہ دیکھ رہا ہوں کہ اگر اس پہاڑ کو کہیں گے کہ یہاں سے اُٹھ جا تو فی الفور اُٹھ جائے گا۔ سو خدا جانے کہ اس وقت نور نبوت وہ ولایت کیسا جلال میں تھا کہ اس کافر، بدباطن، سیہ دل کو بھی نظر آ گیا اور عام طور پر باستثناء خواص اہل اللہ و اکابر اولیا کی حقیقت ولایت کو جو قرب الٰہی کا نام ہے بجز حضرت احدیّت کے کسی کو اس پر اطلاع نہیں ہو سکتی۔ ہاں اس حقیقت کے انوار و آثار جیسے استقامت صبر، رضا، جودوسخا، صدق، وفا، شجاعت حیا اور نیز خوارق و دیگر علامات قبولیت لوگوں پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ مگر یہ سب آثار ولایت ہیں اور حقیقت ولایت ایک مخفی امر ہے۔ جس پر غیر اللہ کو ہرگز اطلاع نہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب اور جو آپ نے دریافت کیا ہے کہ خوارق و کرامات ریاضات شاقہ کا نتیجہ ہے یا کیا حال ہے اس میں تحقیق یہ ہے کہ بِلاشُبہ ریاضات شاقہ کو کشوف وغیرہ خوارق میں دخل عظیم ہے بلکہ اس میں کسی خاص مذہب بلکہ توحید کی بھی شرط نہیں اور اسی جہت سے فلاسفہ یونان اور اس ملکِ ہند کے جوگی اپنے تپوں جپوں کے ذریعہ سے صفائی نفس حاصل کرتے رہے ہیں اور اُن کا قلب اپنے معبودات باطلہ پر جاری ہوتا رہا ہے اور مکاشفات بھی اُن سے ظہور میں آتے رہے ہیں۔ چنانچہ کسی تاریخ دان اور صاحب تجبرہ پر یہ امر پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ اب بے خبر کو بڑی مشکل یہ پیش آتی ہے کہ جب کشوف و خوارق باطل پرستوں اور استدارج دانوں سے بھی ہو سکتے ہیں تو پھر اُن میں اور اہل حق لوگوں میں کیا فرق باقی رہا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت احدیّت کے برگزیدہ بندے تین علامات خاصہ سے شناخت کئے جاتے ہیں اور وہ علامتیں ایسی ہیں کہ گویا باطل پرست لوگ اپنی کجروی کی محنتوں سے گداز بھی ہو جائیں تب بھی وہ علامات ان میں متحقق نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ اوّل ان میں ایک یہ ہے کہ اہل حق کو صرف کشفی صفائی نہیں اخلاقی صفائی بھی عطا ہوتی ہے اور وہ اخلاق فاضلہ میں اس قدر پایہ عالیہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ جیسے خدا کو اپنے اخلاق پیارے ہیں۔ ویسا ہی وہ ربّانی اخلاق اُن کو پیارے ہو جاتے ہیں اور اُن کی سرشت میں ربوبیت کے تجلیات گھر کر جاتے ہیں اور بشریت کی آلودگیاں اور تنگیاں اُٹھ جاتی ہیں۔ پس اُن سے نیک اور پاک خلق ایسے عجیب اور خارق العادت و طور پر صادر ہوتے ہیں کہ بشریٰ طاقتوں سے بجز خاص تائید الٰہی کے اُن کا صادر ہونا ممکن نہیں۔ انسان بشریت کے تعلقات اور نفس امّارہ کی زنجیروں میں اور ننگ و ناموس کی قیدوں میں اور خانہ داری کے جانگداز فکروں میں اور شداید اور آلام کے حملوں میں اور وساوس اور اوہام کی نیش زنیوں میں سخت عاجز ہو رہا ہے اور اگر دعویٰ کرے کہ میں اپنی ہی قوت سے ان بھاڑی بوجھوں سے نکل سکتا ہوں تو وہ جھوٹا ہے۔ پس اہل اللہ میں یہ بزرگی ہے کہ وہ توفیق یافتہ ہوتے ہیں اور دست غیبی اپنی خاص حمائت اور قوت سے اُن کواِن تمام بوجھوں کے نیچے سے باہر نکال لیتا ہے سو اُن سے ایسا توکّل اور ایسا صبر اور ایسا سخا اور ایسا ایثار اور ایسا صدق اور ایسا رضا بقضاء صادر ہوتا ہے کہ دوسروں سے ہرگز ممکن نہیں کیونکہ درپردہ الٰہی ستاری ان کی مددگار ہوتی ہے اور وہ لغزشوں سے بچائے جاتے ہیں اور جس کی محبت میں وہ دنیا کو کھو بیٹھتے ہیں اور دنیوی عزتوں اور ناموں سے بیزار ہوگئے ہیں۔ وہی محبوب حقیقی اُن کا متولی ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اہل حق مکالمات ومخاطبات حضرت احدیّت پاتے ہیں جو تائیدات خاصہ کی بشارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور نیز اُن میں وہ مراتب عالیہ اُن پر ظاہر کئے جاتے ہیں کہ جو اُن کو حضرت احدیّت میں حاصل ہوئے ہیں اور یہ نعمت غیروں کو ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس جگہ بتوجہ یاد رکھنا چاہئے کہ الہامات و مکالمات الٰہیہ کو جو ایسی پیشگوئی پر مشتمل ہوں جن میں شخص ملہم کی تائیدات عظیمہ کا وعدہ ہے۔ وہ اہل اللہ کی شناخت کے لئے نہایت روشن علامت ہیں اور کوئی خارق عادت ان سے برابر نہیں ہو سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندہ سے کلام کرنا اور پھر اُس کے کلام کا ایسی پیشگوئیوں پر مشتمل ہونا کہ جو تائیدات عظیمہ کے مواعید ہیں اور پھر اُن مواعید کا اپنے وقتوں پر پورا ہونا معیت اللہ کا ایک روشن نشان ہے۔ تیسری علامت یہ ہے کہ خواص اولیاء یاضات شاقہ کے محتاج بھی نہیں ہوتے۔ ایک قسم ولائت کی ہے جو وہ ثبوت سے بہت مشابہ ہے۔ اس قسم کے لوگ جب دنیا میں آتے ہیں تو ہوش پکڑتے ہی عنایات الٰہیہ اُن کی متولی ہو جاتی ہے۔ اُن کو سالکوں کی پُر تکلف حالت سے کچھ مناسبت نہیں ہوتی۔ اُن کو کچھ خبر نہیں ہوتی کہ کب فنا آئی اور کب بقا حاصل ہوئی کیونکہ دست غیبی نے اُن کو فطرت میں ہی درست کر لیا ہوتا ہے اور بیفہ بشریت میں داخل بھی نہیں ہوتے۔ تعلقات شیدہ عشق الٰہی کے ان کی فطرت سے لگے ہوئے ہوتے ہیں اور ابتدائی فطرت سے کسی ریاضت کے محتاج نہیں ہوتے وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائِ اور ایسے لوگوں سے بغیر حاجت ریاضات شاقہ کے خوارق عجیبہ ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ شان نبوت اُن پر غالب ہے۔
سو اگر اکابر نقشبندیہ نے ظہور خوارق کے لئے ریاضات شاقہ کو شرط ٹھہرایا ہے تو ایسے مکمل لوگوں کو مستثنیٰ رکھ لیا ہوگا اور ایسے لوگ نہایت قلیل الوجود اور نادر الظہور ہیں۔ کبھی کبھی شدت حاجت کے وقت خلق اللہ کی بھلائی کے لئے دنیا میں بھیجے جاتے ہیں اور اُن کا آنا لوگوں کیلئے ایک رحیمت عظیم ہوتا ہے اور اُمت مرحومہ محمدیہ پر حضرت احدیّت کی یہ رحمت ہے۔ کبھی کبھی آخر صدی پر اصلاح اور تجدید دین کیلئے اس شان کے لوگ مبعوث ہوتے ہیں اور دنیا اُن کے وجود سے نفع اُٹھاتی ہے اور دین زندہ ہوتا ہے اور یہ بات کہ ظہور خوارق ولایت شرط ہے یا نہیں۔ اکثر صوفیا کا اتفاق اسی پر ہے کہ شرط نہیں۔ پر اس عاجز کے نزدیک ولایت تامہ کاملہ کے لئے ظہور خوارق شرط ہے۔ ولایت کی حقیقت قرب اور معرفت الٰہی ہے سو جو شخص صرف منقولی یا معقولی طور پر خدا پر ایمان لاتا ہے اور وہ کشوف عالیہ اور زوالِ حجب اس کو نصیب نہیں ہوا۔ جس سے ایمان اُس کا تقلید سے تحقیق کے ساتھ مبدل ہو جاتا تو کیونکر کہا جائے کہ اُس کو ولایت تامہ نصیب ہوگئی ہے۔ بعض بزرگوں نے جیسے حضرت مجدد الف ثانی صاحب نے اپنی مکتوبات میں لکھا ہے کہ یقین کے لئے معجزات نبویہ کافی ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ کافی نہیں کیونکہ وہ معجزات اب اس شخص کے حق میں کہ جو صدہا سال بعد میں پیدا ہوا ہے منقولات کا حکم رکھتے ہیں اور دید اور شنید میں جس قدر فرق ہے۔ ظاہر ہے علماء محدثین سے زیادہ اور کون معجزات سے واقف ہوگا۔ مگر وہ معجزات کہ جن کی رویت سے ہزار ہا صحابہ یقین کامل تک پہنچ گئے تھے۔ اب ان کے ذریعہ سے علماء ظاہر کو اس قدر اثر بھی نصیب نہیں ہوا کہ اور نہیں تو اُن معجزات کی ہیبت سے اخراج نفسانیت ہی ہو۔ مگر یہ بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ سماوی نشانوں کو ازدیادِ ایمان میں دخل عظیم ہے اور خود ولایت تامہ کی حقیقت جب کہ قرب تام ہے تو پھر ظاہر ہے کہ قرب اور مشاہدہ عجائبات لازم و ملزوم ہے جو شخص ہمارے مکان پر آتا ہے اُسے ضرور ہے کہ مکان کی وضع اور اس کی کیفیت کمیت سے اطلاع پیدا کرے۔ لیکن اگر بعد از وصول بھی ایسا ہے جو قبل از وصول تھا تو گویا اُس نے مکان کو دیکھا ہی نہیں۔ انبیاء کے یقین کو بھی خدا نے نشانوں سے ہی بڑھایا ہے اور قرآن شریف میں رب ارنی کیف تحی الموتی حضرت ابراہیم کا سوال موجود ہے۔ پھر کیونکر کہاجائے کہ ولایت بغیر خوارق کے حاصل ہو سکتی ہے۔بِلاشُبہ جس قدر مشاہدہ خوارق کا زیادہ ہے۔ اُسی قدر قوت یقین زیادہ ہے۔ اسی قدر قوبت زیادہ ہے۔ اُسی قدر علم زیادہ ہے۔ خدا تعالیٰ خود اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرماتا ہے کہ ہم نے اس کو مسجد اقصیٰ اور آسمان کا سیرا کرایا تا اُس کو اپنی آیات خاصہ سے مطلع کریں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جس ولی کو منصب ارشاد اور ہدایت کا عطا نہیں کیا گیا۔ اُس کے خوارق اور لوگوں پر ظاہر ہونا ضرور نہیں ہے کیونکہ اُس کو لوگوں سے کچھ واسطہ اور تعلق نہیں ہے لیکن خود اُس پر تو ظاہر ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ حقیقت ولایت تک اس کا قدم پہنچنا اسی سے وابستہ ہے۔
مسجد کے بارہ میں جو فقرہ خداوندکریم کی طرف سے الہام ہوا تھا جس میں خیال کیا جاتا ہے کہ مادہ تاریخ موجود ہے یہ فقرہ ہے مبارک و مبارک وکل امرٍ مبارک یجعل فیہ۔ خداوند تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ اس مسجد مبارک کے بارے میں پانچ مرتبہ الہام ہوا۔ منجملہ ان کے ایک نہایت عظیم الشان الہام ہے جس کے ایک فقرہ سے آپ کو پہلے اطلاع دے چکا ہوں مگر بعد اس کے ایک دوسرا فقرہ بھی الہام ہوا اور وہ دونوں فقرہ یہ ہیں۔ فیہ برکات للنا و من دخلہ کان امنا۔ یعنی اس میں لوگوں کے لئے برکتیں ہیں جو اس میں داخل ہوا وہ امن میں آ گیا۔ علماء ظاہر شاید اس پر اعتراض کریں کہ یہ تو بیت اللہ خانہ کعبہ کی شان میں وارد ہے۔ مگر وہ لوگ برکات و سعیہ حضرت احدیّت سے بے خبر ہیں اور معذور ہیں اور نیز ایک الہام یعنی مکالمہ حضرت احدیّت اس ذلیل ناچیز عاجز سے واقع ہوا۔ بباعث رابطہ اتحاد آپ کو لکھتا ہوں اور چونکہ یہ عاجز اعلان کا اِذن بھی پاتا ہے اس لئے کتاب میں یعنی حصہ چہارم میں درج بھی کیا جائے گا۔ خداوندتعالیٰ کی الوہیت کی موجیں ہیں کہ اس ناکارہ بندہ کو کہ جو فی الواقعہ بے ہنر اور تہی دست ہے۔ ایسے مکالمات سے یاد کرتا ہے روحی فداء سبیلہ مایشان من جلیلہ اور وہ الہام یہ ہے بشریٰ لک یا احمدی انت مرادی و معی غرمت کرامتک بیدی۔
بشارت باد ترایا احمد من۔ تو مراد منی و بامنی۔ نشاندم درخت بزرگی ترابدست خود۔ بخدمت خواجہ علی صاحب و مولوی عبدالقادر صاحب و منشی بہرام خان صاحب وغیرہ احباب آں صاحب سلام مسنون پہنچے۔ (تاریخ ۱۳؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۱۰؍ ذیقعد ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۲۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذاآنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ آپ نے جو سوالات کئے ہیں ان کی حقوقت خداوندکریم ہی کو معلوم ہے۔ اس حقر کے خیال میں جو گزرتا ہے وہ یہ ہے (۱) صوفی باعتبار اس حالت کے سالک کا نام ہے کہ جب وہ اپنے زور اور تمام توجہ اور تمام عقل اور تمام اطاعت اور تمام مشغولی سے خدا تعالیٰ کی راہ میں قدم اُٹھاتا ہے اور اپنی جانفشانیوں اور محنتوں اور صدقوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس حالت میں تمام کاروبار اُس کا وابستہ اوقات ہوتا ہے۔ اگر اپنے وقتوں کو ہریک لہو و لعب سے بچا کر یاد الٰہی سے معمور کرتا ہے تو اگر خدا نے چاہا ہے تو کسی منزل تک پہنچ جاتا ہے لیکن اگر حفظ اوقات میں خلل ہوتا ہے تو اس کا سارا کام درہم برہم ہو جاتا ہے جیسے اگر مسافر چلتا بھی رہے تو جائے مقصود تک پہنچتا ہے۔ پر اگر چلنا چھوڑ دے بلکہ جنگل میں آرام کرنے کی نیت سے سو جائے تو قطع نظر عدم وصول سے جان کا بھی خطرہ ہے۔ سو جیسے مسافر ابن السبیل ہے۔ سبیل کوقطع نہ کرے تو کیسے ٹھکانہ تک پہنچے۔ ایسا ہی صوفی ابن الوقت ہے۔ اپنے وقت کو خدا کی راہ میں لگاوے تو مقصود کو پاوے۔ پس جب کہ حفظ وقت صوفی کے لازم حال ہی پڑا ہے تو اپنے کام کو فردا یا پس فردا پر ڈالنا اس کے حق میں مہلک ہے اور نیز صوفی کیلئے یہ بھی لازم ہے کہ اسی جہان میں اپنی نجات کے آثار نمایاں کا طالب ہو اور اپنے کام کے دن میں بھی اپنی اُجرت کا خواستگار ہو۔ فردا یعنی قیامت پر صوفی اپنا حساب نہیں ڈالتا اور نسیہ اور ادھار کا روا وار نہیں ہوتا بلکہ دست بدست مزدوری مانگتا ہے۔ اور اس آیت شریفہ پر اُس کا عمل ہوتا ہے۔ من کان فی ھذہٖ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی۔ پس صوفی ان علماء ظاہری کی طرح نہیں ہوتا کہ جو صرف ظاہری اعمال بطور عادت اور رسم کے بجا لا کر اور تزکیہ نفس اور تنویر قلب سے بکلّی محروم رہ کر پھر بہشت کی امیدیں باندھ رہے ہیں بلکہ صوفی اسی جہان میں اپنے بہشت کو دیکھنا چاہتا ہے اور صرف وعدوں پر قناعت نہیں کرتا۔ سو صوفی عمل کی رو سے بھی ابن الوقت ہے جو حفظ اوقات ہی سے اس کے سارے کام نکلتے ہیں اور حاضر الویت نعمتوں کو پاتا ہے لیکن چونکہ ہنوز اپنی ہی قوتوں اور طاقتوں اور اخلاصوں اور صوقوں اور محنتوں اور مجاہدات پر اُس کا مدار ہے اور مسافر کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ قدم رکھنا اس کا کام ہے۔ اس لئے وہ صاحب حال ہے صاحب مقام نہیں کیونکہ حال وہ ہے جو تغیر پذیر ہو اور مقام وہ ہے جس کو ثبات اور قرار ہو۔ سو صوفی ابھی مسافر کی طرح ہے۔ ایک جگہ چھوڑتا ہے دوسری جگہ جاتا ہے۔ دوسری چھوڑتا ہے تیسری جگہ جاتا ہے لیکن صافی وہ ہے جس کو بعد حصول فنا اَتم کے عنایات الٰہیہ نے اپنی گود میں لے لیا ہے۔ اب اس کو ان محنتوں اور مشقتوں سے کچھ غرض نہیں کہ جو صوفی کو پیش آتی ہیں کیونکہ وہ کاسات وصال سے بہرہ یاب ہو گیا ہے اور دست غیبی نے اُن کو ہر ایک بشریت کے لوث سے مصفٰی اورمطہر کر دیا ہے اور جو اعمال دوسروں کے لئے بوجھ ہیں وہ اس کے حق میں سرور اور لذت ہوگئے ہیں۔ اور وہ تکلفات حفظ اوقات اور دوام مراقبہ و مشغولی سے برتر و اعلیٰ ہے بلکہ رجال لاتلیھم تجارۃ ولا بیع عن ذکر اللّٰہ میں داخل ہے اور اس کا سونا اور اس کا کھانا اور اُس کا ہنسنا اور کھیلنا اور دنیا کے کاموں کو بجا لانا سب عبادت ہے کیونکہ وہ منقطع اور مفرد ہے اور عنایت الٰہیہ نے اُس کو اُس کے نفس کے پنجہ سے چھین لیا ہے اور اس کی سرشت کو بدلا دیا ہے۔ اب اُس کا غیر پر قیاس کرنا اور غیر کا اُس پر قیاس کرنا ناجائز ہے۔ صوفی بھی اُس کو نہیں پہنچان سکتا کیونکہ وہ بہت ہی دور نکل گیا ہے اور وہ صاحب مقام ہے اور خدا نے اُس کو اپنی ذات سے تعلق شدید بخشا ہے اور وہ ہر ایک وقت اور حال سے فارغ ہے کیونکہ بجائے اُس کے عنایت الٰہیہ کام کر رہے ہیں اور وہ مست اور مدہوش کی طرح پڑا ہے اور تمام آلام اُس کے حق میں بصورت انعام ہوگئے ہیں۔ صوفی میں اجر کی خواہش ہے۔ اُس میں اجر کی خواہش نہیں۔ صوفی معمور الاوقات ہے اور وہ فانی الذات ہے۔ پھر معموری کیا اور وقت کیا۔ صیقل زدم آہ قدر کہ آئینہ نماند۔ اس تحقیق میں دوسرے سوال کا جواب بھی آ گیا۔
(۳) موسیٰ اور فرعون سے روح اور نفس امّارہ کا جنگ و جدال مراد ہے جو نور روح ہے جس کو نور قلب بھی کہتے ہیں۔ وہ ہر وقت قالوبیٰ کا نعرہ مار رہا ہے اور بارگاہ خدا میں اپنی لذت اور سرور چاہتا ہے اور موسیٰ کی طرح شر کا دشمن ہے اور نفس امّارہ سرور کا خواہاں ہے اور شہوات کا طالب ہے ان دونوں میں موسیٰ اور فرعون کی طرح جنگ ہو رہا ہے۔ یہ جنگ اسی وقت تک رہتا ہے جب انسان اپنی ہستی کو مقصود ٹھہرا کر فنا فی اللہ کی حالت سے گرا ہوا ہوتا ہے لیکن جب انسان اپنی ہستی سے بالکل کھویا جاتا ہے تو وہ پہلی بیرنگی جو عالم ہستی میں اُس کو حاصل تھی پھر حاصل ہو جاتی ہے اور کوئی شائبہ وجود کا باقی نہیں رہتا۔ اس مرتبہ پر نفس امّارہ اور نور قلب کا جنگ ختم ہو جاتا ہے اور شہوات نفسانی حظوظ کا حکم پیدا کر لیتی ہیں اور فانی کا کھانا پینا، ازدواج متعددہ کرنا وغیرہ امور جائے اعتراض نہیں ٹھہرتا اور نہ کچھ اُس کو ضرر کرتا ہے کیونکہ وہ فانی ہے اور اب یہ کام خدا کے ہیں جو اُس پر جاری ہوتے ہیں۔ سو اِس مقام پر آ کر موسیٰ اور فرعون کی صلح ہو جاتی ہے۔
(۴) حرص و ہوا سے اوّل چیز جو انسان کو روکتی ہے جذبہ الٰہی ہے۔ وہی جذبہ انسان کو صالحین کی صحبت کی طرف کھینچتا ہے۔ وہی اُس کو کسی صالح کا مرید کراتا ہے۔ صحیح حدیث میں وار دہے کہ انسان گناہ کرتا ہے۔ پھر حضرت خداوندی میں روتا ہے کہ مجھ سے گناہ ہو گیا۔ خدا تعالیٰ اُس کو بخش دیتا ہے اور اپنے فرشتوں کے روبرو اُس کی تعریف کرتا ہے۔ پھر چند روز پا کر اُس بندہ عاجز سے گناہ ہو جاتا ہے۔ پھر وہ جناب الٰہی میں روتا اور چلاتا ہے اور ہر بار خدا تعالیٰ اُس کو بخشتا جاتا ہے اور فرشتوں کر روبرو اُس کی تعریف کرتا ہے آخر اُس کو کہتا ہے اعمل ماشئت فانی غفرت لک۔ یعنی اب جو تیری مرضی ہے کہ مَیں نے تجھ کو بخش دیا ہے سو اُسی روز سے وہ محفوظ ہو جاتا ہے اور پھر ہوا و ہوس اس پر غالب نہیں ہو سکتے غرض جیسے جسمانی پیدائش کی ابتدا خدا ہی کی طرف سے ہے۔ روحانی پیدائش کی ابتدا بھی خدا کی ہی طرف سے ہے۔ یھدی من یشاء و یضل من یشاء۔ جس کو وہ بُلاتا ہے وہ دوسرے کی بھی سن لیتا ہے مگر جس کو وہ نہیں بُلاتا وہ کسی کی نہیں سنتا۔ جیسا کہ خود اُس نے فرمایا ہے۔ من یھدی اللّٰہ فھوا المھتدی ومن یضلل لن تجدالہ ولیاً مرشداً (سورہ کہف الجزو:۱۵) یعنی ہدایت وہ پاتا ہے جس کو خدا گمراہ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کو مرشد ہدایت نہیں دے سکتا چند انگریزی فقرات جو الہام ہوئے تھے وہ مطبع میں بھیجے گئے ہیں۔ اس جگہ کوئی انگریزی خوان نہیں۔ ایک ہندو لڑکا قادیان کا لاہور پڑھتا ہے اُس نے دیکھے تھے۔
مکتوب نمبر۲۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعض کتب میں من عرف نفسہ فقد عرف ربہ حدیث نبوی کر کے بیان کیا گیا ہے۔ احیاء العلوم میں اس قسم کی بہت سی احادیث ہیں جن میں محدثین کو اپنے قواعد مقررہ کے رو سے کلام ہے۔ مگر اس قول میں کوئی ایسی بات نہیں کہ جو قال اللّٰہ و قال الرسول سے منافی ہو۔ وقال اللّٰہ تعالٰی۔ وفی النفسکم افلاتبصرون (الجزو:۲۷) حضرت ربّ العالمین نے تمام عالم کو اسی غرض سے پیدا کیا ہے کہ تا وہ شناخت کیا جاوے۔ نفس انسانی ایک نسخہ جامع جمیع اسرار عالم ہے اور کچھ شک نہیں کہ جس کو کماحقہٗ علم نفس حاصل ہو۔ اُس کو وہ معرفت حاصل ہوگی کہ جو جمیع عالم کی حقیقت دریافت کرنے سے حاصل ہو سکتی ہے پس یہ طریق نہایت قریب اور آسان ہے کہ انسان اپنے نفس کی شناخت کے لئے کوشش کریں۔ اُسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام میں اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ ہے۔ والشمس والضحا ھا والقمر اذا تلاھا والنھارا جلاھا والیل اذا یغشہاھا والسماء مابناھا والارض وما طحاھا و نفس وما سواھا قد افلح من زکھا وقدخاب من دسھا۔ سو خدا نے شمس اور قمراور دن اور رات اور آسمان اور زمین کی خو بیان فرما کر پھر بعد اس کے ونفس وما سواھا فرمایا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ نفس انسانی میں وہ سب استعدادات موجود ہیں کہ جو متفرق طور پر عالم کے جمیع اجزا میں پائے جاتے ہیں۔ اگر خواہی کہ دربینی تمامی وضع عالم رائیکے درنفس خودینگر ہمہ و شعش تماشا کُن۔ پھر بعد اُس کے فرمایا قدافلح من زکھا یعنی وہ شخص جس نے تزکیہ نفس کا کیا نجات پا گیا۔ سو نجات سے حصول معرفت تامہ مراد ہے کیونکہ تمام عذاب اور ہریک قسم کے عقوبات جہل اور ضلالت پر ہی مرتب ہونگے۔ من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الامرہ اعمی (الجزو:۱۵) اور تزکیہ نفس دو قسم پر ہے تزکیہ من حیث العلم اور وہ یہ ہے کہ نفس کو حضرت باری عزو جل اور دارآخرت کی نسبت علم یقینی قطعی حاصل ہو اور شکوک اور شبہات اور عقائد غلط اور فاسد سے نجات پا جائے۔ تزکیہ من حیث العمل وہ یہ ہے کہ جیسے فی الحقیقت حضرت باری غراسمہٗ اس بات کامستحق ہے کہ اُسی سے محبت ذاتی ہو اور جیسے فی الحقیقت اُس کے وجود کے مقابل اور سب وجود ہیچ اور کالعدم ہیں۔ ایسے ہی سالک کے لئے حالت حاصل ہو جائے اور جب انسان کو حالت فنا حاصل ہوگئی تو وہ تمام اسرار قدرت اور دقائق حکمت جو زمین اور آسمان میں مخفی ہیںاُس کے نفس پر باذن اللہ تعالیٰ کھلنے شروع ہو جائیں گے اور کشفی طور پر اُن کی کیفیت اُس پر ظاہر ہوتی جائے گی کیونکہ اسرار جمیع عالم بعینہٖ اسرار نفس ہیں۔ پس جب نفس ببرکت فناء اَتم اپنے حجاب سے خلاصی پائے گا تو جو کچھ خدا نے اُس میں انوار مہیا رکھیں ہیں اُن سب کو ظاہر کرے گا۔ سو یہ معرفت تامہ ہے جو انسان کو بقا کے درجہ پر حاصل ہوتی ہے لیکن یہ معرفت انسان کے اپنے اختیار میں نہیں۔ تمام انسانی کوششیں فنا کے درجہ تک ختم ہو جاتی ہیں اور پھر آگے موہیت الٰہی ہے اور جس پر موہیت کی نسیم چلتی ہے اسی پر وہ سب انوار ظاہر کئے جاتے ہیں جو اس کی روح میں مودع ہیں۔ انسان کی روح میں ایک بڑا سلیقہ یہ ہے کہ وہ اس قدر خدا کے سہارے کی محتاج ہے کہ اُس کے بغیر جی ہی نہیں سکتی۔ الوہیت اُس پر ایک ایسے طور سے محیط ہو رہی ہے کہ جو نہ تقریراً نہ تحریراً نہ صراحۃً نہ کنایۃً نہ تو ضیحاً نہ تمثیلاً بیان میں آ سکتی ہے بلکہ سالک جب بقا کا مرتبہ موہیت حضرت الٰہی سے پاتا ہے تو وہ کیفیت کہ جو بیچون اور بیچگون ہیں۔ اُس پر متجلی ہوتی ہے اور باوجود تحقق تجلی کے پھر بھی اُس کو بیان نہیں کر سکتا۔ من عرف کل لسانہٖ۔ آہ راکہ خبر شد خبرش باز نیامد۔ غرض الٰہی تجلی کا نام معرفت تامہ ہے اور من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کا مقصود حقیقی بھی ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ آنمخدوم نے جو سوالات لکھنے کا طریق نکالا ہے بہت اچھا ہے۔ مگر چاہئے کہ تکلف درمیان نہ ہو یعنی خواہ نخواہ سوال نہ تراشا جاوے بلکہ جب خدا کی طرف سے کوئی موقعہ پیش آوے تب سوال کیا جاوے۔ سلف صالح کا مکتوبات اکابر کے لکھنے میں بھی طریق رہا ہے اور جس کی معرفت کو خدا تعالیٰ ترقی دینا چاہتا ہے اس کی زندگی میں خود ایسے اسباب پیدا ہو جاتے ہیں اور ایسے موقعہ نکلتے آتے ہیں جن سے اُس کو سوال کرنے کا استحقاق پیدا ہو جاتا ہے۔ قرآن شریف جو جامع تمام معارف اور حقائق ہے عبث طور پر نہیں ہوا بلکہ جب حاجت پیش آئی نازل ہوا ہے اور ہر ایک آیت محکم اس کی ایک ضروری شان نزول رکھتی ہے۔ والسلام بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و خواجہ علی صاحب و دیگر صاحبان سلام برسد۔
(بتاریخ ۴؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲؍ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا جن امور میں خلق کی بھلائی ہے۔ اُن کا دریافت کرنا مضائقہ نہیں۔ صرف مجھے خوف تھا کہ تکلف نہ ہو کہ وہ اس راہ میں مذموم ہے اور مولوی گل حسن صاحب کا سوال کریم مطلق کی جناب میں کچھ سؤادب کی رائحہ رکھتا ہے۔ اس لئے اُس کی طرف توجہ نہیں کی گئی۔ بندہ وفادار کو رشد یا عدم رشد سے کیا مطلب ہے۔ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی رحمۃ اللہ نے کیا اچھا کیا ہے۔
من ایستادہ ام اینک بخدمت مشغول
مرا ازیں چہ کہ خدمت قبول یا نہ قبول
گر بنا شد بددست رہ بردن
شرط عشق است در طلب مردن
اس راہ کے لائق وہ شخص ہوتا ہے کہ وصال اور بقا سے کچھ مطلب نہ رکھے اور اُن تمام واقعات اور مکاشفات سے کچھ سروکار نہ ہو کہ جو سالکوں پر کھلتے ہیں۔ کرامات اور خوارق عادات کا خواہاں نہ ہو اور مقامات واصلین کا جو یاں نہ ہو اور باایں ہمہ سعی اور مجاہدہ میں ہمت نہ ہارے اور خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے فی الواقعہ ایک ذلیل بندہ اپنے تئیں خیال کرتا ہے اور اپنی زندگی کا اصل مقصد اسی راہ میں جان دینا ٹھہراوے گو کچھ راہ پاوے یا نہ پاوے راستبازوں کا یہی راستہ ہے۔ ان کو اس سے کیا کام کہ حضرت احدیّت سے اس بات کا پہلے تصفیہ کرالیں کہ ہم کو آخر راہ ملے گا یا محض محروم رکھنا ہے۔ صادقوں کو ملنے نہ ملنے سے کچھ کام نہیں۔ اگر بالفرض پردہ غیب سے ہزار *** سنیں تو وہ اُس سے دل برداشتہ نہیں۔ محبوب کی *** بھی محبوب ہے۔ کل یوم ھو فی شان۔ مسجد میں ابھی کام سفیدی کا شروع نہیں ہوا۔ خدا تعالیٰ چاہے گا تو انجام کو پہنچ جائے گا۔ آج رات کیا عجیب خواب آئی کہ بعض اشخاص ہیں جن کو اس عاجز نے شناخت نہیں کیا وہ سبز رنگ کی سیاہی سے مسجد کے دروازہ کی پیشانی پر کچھ آیات رکھتے ہیں۔ ایسا سمجھا گیا ہے کہ فرشتے ہیں اور سبز رنگ اُن کے پاس ہے جس سے وہ بعض آیات تحریر کرتے ہیں اور خط ریحانی میں جو پہچان اور مسلسل ہوتا ہے لکھتے جاتے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن آیات کو پڑھنا شروع کیا جن میں سے ایک آیت یاد رہی اور وہ یہ ہے لارادلفضلہ اور حقیقت میں خدا کے فضل کو کون روک سکتا ہے۔ جس عمارت کو وہ بنانا چاہے اُس کو کون مسمار کرے اور جس کو وہ عزت دینا چاہے اُس کو کون ذلیل کرے۔
(۹؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۷؍ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۱
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا خط پہنچا۔ جس قدر آنمخدوم نے کوشش اور سعی اُٹھائی ہے اور اپنے نفس پر مشقت اور تحمل مکروہات روا رکھا ہے یہ سب خداوند کریم کی ہی عنایت ہے تا آپ کو اُس کے عوض میں وہ اجر عطا فرماوے جس کا عطا ہونا اُنہیں کوششوں پر موقوف تھا۔ جس کریم رحیم نے اس عاجز نالائق کو اپنے غیر متناہی احسانوں سے بغیر عوض کسی عمل اور محنت کے ممنون و پرورش فرمایا ہے۔ وہ محنت کرنے والوں کی محنت کو ہرگز ضائع نہیں کرتا۔ خدا کی راہ میں انسان ایک ذرّہ بات منہ سے نہیں نکالتا اور ایک قدم زمین پر نہیں رکھتا جس کا اس کو ثواب نہیں دیا جاتا لیکن میں اس جگہ یہ بھی ظاہر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ کو اپنے جوش دلی کے باعث جو ایسے لوگوں کے پاس بھی جاتے ہیں جو ظنون فاسدہ اپنے دل پر رکھتے ہیں اور غرور اور استکبار نفس سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ ہرگز نہیں چاہئے اس کام کی خداوند کریم نے اپنے ہاتھ سے بِنا ڈالی ہے اور ارادہ الٰہی اس بات کے متعلق ہو رہا ہے کہ شوکت اور شان دین کی ظاہر کرے اور اس بارہ میں اس کی طرف سے کھلی کھلی بشارتیں عطا ہو چکی ہیں سو جس بات کو خدا انجام دینے والا ہے اُس کو کوئی روک نہیں سکتا۔ دنیا مردار ہے اور جس قدر کوئی اُس سے نزدیک ہے اسی قدر ناپاکی میں گرفتار ہے اور بدباطن اور بدبودار ہے اور حدیث شریف میں وارد ہے کہ مومن کے لئے لازم ہے کہ دنیا دار کے سامنے تذلل اختیار نہ کرے اور اُس کی شان باطل کو تحقیر کی نظر سے دیکھے۔ انسان دنیا دار کے سامنے نرمی اور تواضع اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ حضرت خداوند عزوجل کے نزدیک مشرک ٹھہرتا ہے۔ سمجھناچاہئے کہ بجز حضرت قادر و توانا کے کوئی کام کسی کے اختیار میں نہیں اور تمام آسمان و زمین اور تمام دل اُس کے قبضہ میں ہیں اور قدرتِ الٰہیہ سخت درجہ پر متصرف ہے اور اگر وہ کسی کام میں توقف کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ وہ اُس کے کرنے سے عاجز ہے بلکہ اس توقف میں اُس کی حکمتیں ہوتی ہیں۔ مخلوق سب ہیچ اور لاشَے اور مُردہ ہیں نہ اُن سے کچھ نقصان متصور ہے اور نہ نفع۔ دنیا داروں سے مطلب براری کے لئے نرمی کرنا دنیا داروں کا کام ہے اور یہ کام خالق السموات والارض کا ہے مجھ کو یا آپ کو لازم نہیں کہ ایک بدنصیب دنیا دار سے ایسی لجاجت کریں کہ جس سے اپنے مولیٰ کی کسر شان لازم آوے جو لوگ ذات کبریا کا دامن پکڑتے ہیں وہ منکروں کے دروازہ پر ہرگز نہیں جاتے اور لجاجت سے بات نہیں کرتے۔ سو آپ اس طریق کو ترک کر دیں اگر کسی دنیا دار مالدار کو کچھ کہنا ہو تو کلمہ مختصر کہیں اور آزادی سے کہیں اور صرف ایک بار پر کفایت رکھیں اور یار محمد کو روپے بھیجنے سے منع کر دیں اور مناسب ہے کہ آپ یہ سلسلہ غریب مسلمانوں میں جاری رکھیں۔ دوسرے لوگوں کا خیال چھوڑ دیں۔ اس میں ذرّہ تردّد نہ کیا کریں۔ تعجب ہے کہ آپ جیسے آدمی متردّد ہو جائیں۔ اگر ایک کافر بے دین جو دولتمند ہو کسی کو وعدہ دے جو میں تیری مشکلات پر تیری مدد کروں گا تو وہ اُس کے وعدے سے تسلی پکڑ جاتا ہے۔ پر خداوند تعالیٰ کا وعدہ جو اصدق الصادقین ہے کیونکر موجب تسلی نہ ہو۔
لکھا ہے کہ اوّل حال میں جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کو برعایت ظاہر اپنی جان کی حفاظت کیلئے ہمراہ رکھا کرتے تھے۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی واللّٰہ یعصمک من الناس۔ یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب کو رخصت کر دیا اور فرمایا کہ اب مجھ کو تمہاری حفاظت کی حاجت نہیں۔ سو اسی طرح سمجھیں کہ ایک مرتبہ اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’اگر تمام لوگ منہ پھیر لیں تو میں زمین کے نیچے سے یا آسمان کے اوپر سے مدد کر سکتا ہوں‘‘۔ پھر جب وہ قادر رحمن رحیم ساتھ ہے اور اُس کی طرف سے مواعید ہیں تو کیا غم ہے دنیا دار کیا چیز ہیں اور کیا حقیقت تا ان کے سامنے لجاجت کی جائے اور اگر خدا چاہتا تو اُن کو ایسا سخت دل نہ کرتا۔ پر اُس نے بھی چاہا تا اُس کے نشان ظاہر ہو۔
(تاریخ ۲۴؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا خط عنایت نامہ پہنچ کر باعث مسرت خاطر ہوا۔ آپ نے بہت کچھ کوشش کی ہے اور مجھ کو یقین ہے کہ خدا تعالیٰ اس کا اجر ضائع نہیں کرے گا سو گو آپ نے کیسی ہی تکلیف اُٹھائی ہوں پھر جب کہ مولیٰ کریم کی راہ میں ہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ اُس کریم مطلق نے اس تکلیف کشی کے لائق سمجھا۔ اس عاجز کو خداوند کریم نے ایک خبر دی تھی جس کو حصہ ثالث میں چھاپ دیا تھا یعنی یہ کہ بنصرک رجالٌ نوحی الیھم من السماء یعنی تیری مدد وہ مردان دین کریں گے جن کے دل میں ہم آسمان سے آپ ڈالیں گے۔ سو الحمدللہ والمنتہ کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو سب سے زیادہ اس عاجز کے انصار میں سے بنایا اور اس ناچیز کو آپ کے وجود سے فخر ہے اور اپنے خداوندکریم کی طرف سے آپ کو ایک رحمت مجسم خیال کرتا ہے اگر لوگ روگردان ہیں اور متوجہ نہیں ہوتے تو آپ اس سے ذرا متکفر نہ ہوں۔ خدا تعالیٰ ہر یک دل پر متصرف ہے اور اُس کا قوی ہاتھ ذرّہ ذرّہ پر قابض ہو رہا ہے اگر وہ چاہتا تو دلوں میں ارادت پیدا کر دیتا۔ مخلوق کیا چیز ہے اور اُس کی ہستی کیا حقیقت ہے لیکن اُس نے یہ نہیں چاہا بلکہ توقف اور آہستگی سے کام کرنا چاہا ہے۔ سب کچھ وہی کرتا ہے وہ دوسرا کون ہے جو اُس کا حارج ہو رہا ہے۔ بارہا اس عاجز کو حضرت احدیّت کے مخاطبات میں ایسے کلمات فرمائے گئے ہیں جن کا ماحصل یہ تھا کہ سب دنیا پنجۂ قدرت احدیّت سے مقہور اور مغلوب ہے اور تصرفات الٰہیہ زمین و آسمان میں کام کر رہے ہیں۔ چند روز کا ذکر ہے کہ یہ الہام ہوا۔ ان تمسمسک بضرٍ فلا کاشف لہٗ الاَّ ھووان یردک بخیرٍ فلا رادلفضلہ الم تعلم ان اللّٰہ علی کل شی قدیر ان وعد اللّٰہ لات۔ سو خدا تعالیٰ اپنے کلمات مقدسہ سے اس قدر اس عاجز کو تقویت دیتا ہے کہ پھر اُس کے غیر سے نہ کچھ خوف باقی رہتا ہے اور نہ اس کو امید گاہ بنایا جاتا ہے۔ جب یہ عاجز اپنے معروضات میں لطف اور لذیذ کلمات میں جواب پاتا ہے اور بسا اوقات ہر سوال کے بعد جواب سنتا ہے اور کلمات احدیّت میں بہت سے تلطفات پاتا ہے تو تمام ہموم و غموم بکلّی دل سے دور ہو جاتے ہیں اور جیسے کوئی نہایت تیز شراب سے مست اور دنیا و مافہیا سے بے خبر ہوتا ہے ایسی ہی حالت سرور کی طاری ہوتی ہے۔ جس میں دوسرے ہموم و غموم تو کیا چیز ہیں موت بھی کچھ حقیقت نظر نہیں آتی خدا تعالیٰ نے اس عاجز پر کھول دیا ہے کہ زید و عمر کچھ چیز نہیں۔ ہر ایک کام اُس کے اختیار میں ہے۔ پھر جب کہ ایسا ہے تو دوسروں کی شکایت عبث ہے۔ اس عاجز پر جو کچھ تفضلات و احسانات حضرت خداوندکریم ہیں وہ حدوشمار سے خارج ہیں کیونکہ یہ اذّل عباد اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ بھی چیز نہیں اور بغیر اُس کے کہ تکلف سے کوئی کسر نفسی کی جائے فی الحقیقت سخت درجہ کاناکارہ اور ہیچ ہے۔ نہ زاہدوں میں سے ہے نہ عابدوں میں سے، نہ پارساؤں میں سے نہ مولویوں میں سے سخت حیران ہے کہ کس چیز پر نظر عنایت ہے۔ یفعل اللّٰہ مایشاء
(۲۹؍ اکتوبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۷؍ ذوالحجہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا یہ عاجز چند روز سے ملاحظہ کام طبع کتاب کیلئے امرتسر چلا گیا تھا آج واپس آ کر آنمخدوم کا خط ملا۔ یہاں سے ارادہ کیا گیا تھا کہ امرتسر جا کر بعد اطلاع دہی ایک دو دن کے لئے آپ کی طرف آؤں مگر چونکہ کوئی ارادہ بغیر تائید الٰہی انجام پذیر نہیں ہو سکتا اس لئے یہ خاکسار امرتسر جا کر کسی قدر علیل ہو گیا۔ ناچار وہ ارادہ ملتوی کیا گیا۔ سو اِس طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک روک واقع ہوگئی۔ اُس کے کام حکمت سے خالی نہیں۔ مولوی عبدالقادر صاحب کی حالت سے دل خوش ہے۔ طلب عرفان بھی ایک عرفان ہے۔ حضرت خداوندکریم کے کام آہستگی سے ہوتے ہیں۔ سو اگر خداوندکریم نے چاہا تو یہ عاجز بھی دعا کرے گا غنیمت ہے کہ بفضلہ مولوی صاحب صاحبِ علم ہیں۔ طالب نادان شیطان کا بازی گاہ ہوتا ہے لیکن اس فقیر کی راہ میں مولویت بھی ایک حجاب عظیم ہے۔ انسان خاک ہے اور جب تک اپنی اصل کی طرف عود کر کے خاک ہی نہ ہو جائے تب تک مولیٰ کریم کی اس پر نظر نہیں پڑتی۔ سو اِس خاکساری اور نیستی کو اُسی قادر مطلق سے طلب کرنا چاہئے۔ اھدنا الصراط المستقیم میں جو مانگا گیا ہے وہ بھی خاکسار اور نیستی ہے۔ انسان کے نفس میں بہت سی رعونتیں اور نخوتیں اور عجب اور ریا اور خود بینی اور بزرگی چھی ہوئی ہے۔ جب تک خدا ہی اُس کو دور نہ کرے دور نہیں ہوتی۔ پس یہ بلا ہے جو نیستی اور خاکساری کے منافی ہے۔ سو تضرع اور زاری سے جناب الٰہی میں التجا چاہئے تا جس نے یہ بلا پیدا کی ہے وہی اُس کو دور کرے اور ظاہری جھگڑوں میں بہت ہی نرم ہو جانا چاہئے۔ قلت اعتراض سالکیں شعار میں سے ہے انسان جب تک پاک نفس نہ ہو جائے اُس کے جھگڑے نفسانیت سے خالی نہیں۔ قال اللّٰہ عزو جل یاایھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یفرکم من ضل اذا ھتدیتھم
(۸؍محرم ۱۳۰۱ء مطابق ۹؍ نومبر ۱۸۸۳ء)
مکتوب نمبر۳۴
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا مکتوب محبت اسلوب پہنچ کر باعث مسرت ہوا۔ خداوندکریم آپ کی تائید میں رہے اور مکروہات زمانہ سے بچاوے اس عاجز سے تعلق اور ارتباط کرنا کسی قدر ابتلا کو چاہتا ہے۔ سو اِس ابتلا سے آپ بچ نہیں سکتے۔
گربمجنوں صبحتے خواہی بہ بینی زود تر
خار ہائے دشت و تنہائی و طعن عالمے
عرفت ربی بربی صحیح المضمون ہے۔ اس بارے میں بہت سی احادیث آ چکی ہیں۔ خداوندکریم نے پہلے ہی سورۃ فاتحہ میں یہ تعلیم دی ہے اِیَّاک نَعْبُدُ وَاِیَّکَ نَسْتَعِیْنَ اس جگہ عبادت سے مراد پُرسش اور معرفت دونوں ہیں اور دونوں میں بندہ کا عجز ظاہر کیا گیاہے۔ اسی طرح دوسری جگہ بھی حضرت خداوندکریم نے فرمایا ہے۔ اللّٰہ نورالسموات والارض لایدرکہ الا بصار وھو یدرک الابصار جب تک خدا کی معرفت کا خدا ہی وسیلہ نہ ہو تب تک وہ معرفت شرک کے رگ و ریشہ سے خالی نہیں اور نہ کامل ہے بلکہ بجز تجلیات خاصہ حضرت احدیّت کے معرفت خالصہ کاملہ کا حاصل ہونا ممکن ہی نہیں۔ خدا کے شناخت کرنے کے لئے خدا ہی کا نور چاہئے۔ پس حقیقت میں وہی عارف اور وہی معروف ہے اور نیز یہ بھی جاننا چاہئے کہ تجلیت ربوبیت یکساں نہیں۔ ہر یک شخص کے لئے تجلی ربی الگ الگ ہے اور جس قدر ربانی تجلی ہے اسی قدر معرفت ہے۔ کوئی ظرف وسیع اور کوئی منقبض اور کوئی نہایت صافی اور کوئی اُس سے کم ہے۔ پس تجلی بہ حسب حیثیت ظروف ہے۔ ایک کی معرفت دوسرے کی نسبت حکم عدم معرفت کا پیدا کر سکتی ہے اور معارف غیر متناہی ہیں کوئی کنارہ نہیں۔ اُس ناپید اکنار دریا سے ہر یک شخص بقدر اپنے ظرف کے حصہ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ فرمایا ہے انزل من السماء ماء فضالت ادویتہ بقدر ھا یعنی خدا نے آسمان سے پانی (اپنا کلام) اُتارا سو ہر یک نالی حسب قدر اپنے بہہ نکلی جس قدر پیاس ہے اسی قدر پانی ملتا ہے اور آپ نے دعا کے بارے میں جو دریافت فرمایا ہے کہ جو اوّل سے ہی مقدر ہے دعا کیوں کی جاتی ہے۔ سو اس میں تحقیق یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ہر یک مقدر میں قانون قدیم یہی ہے کہ اگرچہ اس نے ہر امر کے بارے میں جو انسان کے مقسوم میں ہے اُس کا حاصل ہونا مقدر کر دیا ہے۔ لیکن اُس کے حاصل کرنے کے طریق بھی ساتھ ہی رکھے ہیں اور یہ قانون الٰہی تمام اشیاء میں جاری اور ساری ہے جو شخص مثلاً پیاس بجھانا چاہتا ہے اس کو لازم پڑا ہوا ہے کہ پانی پیوے اور جو شخص روشنی کو ڈھونڈھتا ہے اُس کو مناسب حال یہ ہے کہ آفتاب کے سامنے آوے اور اندھیری کوٹھڑی میں بیٹھا نہ رہے۔ اسی طرح دعا اور صدقات و خیرات و دیگر تمام اعمال صالح کو شرط حصول مرادات ٹھہرا رکھا ہے اور جیسے ایبتدا سے کسی چیز کا حصول مقدر ہوتا ہے ساتھ ہی اُس کے یہ بھی مقدر ہوتا ہے کہ وہ دعا یا صدقہ وغیرہ بجا لاوے گا تو وہ چیز اُس کو حاصل ہوگی۔ پس جس شخص کا مطلب روز ازل میں دعا پر موقوف کر رکھا ہے سو اگر تقدیر مبرم اُس کے حق میں یہ ہے کہ اُس کا مطلب حاصل ہو جائے گا تو ساتھ ہی اُس کے حق میں یہ بھی تقدیر مبرم ہے کہ وہ دعا بھی ضرور کرے گا اور ممکن نہیں کہ وہ دعا سے رک جائے۔ تقدیر ضرور ہی پوری ہو رہے گی اور بہرحال اُس کو دعا کرنی پڑے گی اور دعا میں ضرور نہیں کہ صرف زبان سے ہی کرے بلکہ دعا دل کی اُس عاجزانہ التجا کانام ہے کہ جب دل نہایت بے قرار اور مضطرب ہو کر رہ بخدا ہو جاتا ہے اور جس بلا کو آپ دور نہیں کر سکتا۔ اُس کا دور ہونا طاقت الوہیت سے چاہتا ہے۔ پس حقیقت میں دعا انسان کے لئے ایک طبعی امر ہے کہ جو اُس کی سرشت میں مخمر ہے۔ یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی اپنی گرسنگی کی حالت میں گریہ و زاری سے اپنا ایسا انداز بنا لیتا ہے کہ جس کو عین دعا کی حالت کہنا چاہئے غرض بذریعہ دعا کے خدا سے مدد ڈھونڈنا کوئی بناوٹ کی بات نہیں بلکہ یہ فطرتی امر ہے اور قوانین معینہ مقررہ میں سے ہے۔ جو شخص دعا کی توفیق دیا جاتا ہے اُس کے حق میں قبولیت اور استجابت بھی مقدر ہوتی ہے مگر یہ ضرور نہیں کہ اُسی صورت میں استجابت ہو کیونکہ ممکنہے کہ انسان کسی مطلوب کے مانگنے میں غلطی کرے جیسے بچہ کبھی سانپ کو پکڑنا چاہتا ہے اور والدہ مہربان جانتی ہے کہ سانپ کے پکڑنے میں اُس کی ہلاکت ہے۔ پس وہ بجائے سانپ کے کوئی خوبصورت کھلونا اُس کو دے دیتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ دعا کا مانگنا مقدرات ازلیہ کے نقیض نہیں ہے بلکہ خود مقدرات ازلیہ میں سے ہے اور اسی جہت سے انسان بالطبع نزول حوادث کے وقت دعا کی طرف جھک جاتا ہے اور عارفین کا ذاتی تجربہ ہے کہ جو مانگتا ہے اُس کو ملتا ہے۔ ہر یک زمانہ میں خدا کی مقبولین کی دعا کے ذریعہ سے عجیب طوروں پر مشکل کشائیاں کیں ہیں اور اپنے فضلوں کو منکشف کیا ہے۔ بعض لوگ مستجاب الدعوات ہوتے ہیں اور اُس کی اصلیت یہ ہے کہ حکیم مطلق نے مقدر کیا ہوتا ہے کہ بہت سے اہل حاجات اُن کی دعاؤں سے اپنے مطلب کو پہنچ گئے۔ سو وہی اہل حاجات اُس شخص مستجاب الدعوات کو آ ملتے ہیں اور امر مقدر پورا ہو جاتا ہے۔ سو مستجاب الدعوات کی طرف جھکنا ایک نیک فال ہے۔ کیونکہ غالباً جو شخص مستجاب الدعوات کی طرف آیا ہے اور اس کی طرف میل کرنا اُس کو توفیق دیا گیا ہے وہ اُنہیں لوگوں میں سے ہوگا کہ جن کے حق میں قلم ازلی نے کامیاب ہونا اس کی دعا سے لکھا ہے۔ مگر یہ بات نہیں کہ جو مستجاب الدعوات مانگتا ہے وہ بعینہٖ پورا ہو جاوے۔ اُس کی وجہ پہلے لکھ چکا ہوں۔ پانچ کتابیں راونہ کی گئی ہیں۔ بخدمت خواجہ علی صاحب و مولوی عبدالقادر صاحب سلام مسنون پہنچے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اگرخدا نے چاہا تو لودہیانہ میں مولوی صاحب کی ملاقت ہوگی۔ والامرکلہ فی ید اللّٰہ ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔ والسلام
۲۲؍ ستمبر ۱۸۸۳ء مطابق ۲۰؍ ذیقعدہ ۱۳۰۰ھ)
مکتوب نمبر۳۵
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ عین انتظاری کے وقت میں پہنچا۔ خداوندکریم آنمخدوم کو مکروہات زمانہ سے اپنے ظل رحمت میں رکھے۔ جس قدر آپ اس عاجز سے محبت رکھتے ہیں وہی محبت اور تعلق اس عاجز کو آپ سے ہے۔ یہ سچ ہے کہ مقام تعلقات محبت میں انسان یہی چاہتا ہے کہ دیر تک اس دارفانی میں اتفاق ملاقات رہے لیکن اس مسافر خانہ کی بنیاد نہایت ہی خام اور متزلزل ہے۔اب تک اس عاجز پر جو مکشوف ہوا ہے اُن میں سے کوئی ایسا کشف نہیں جس میں طول عمر مفہوم ہوتا ہے بلکہ اکثر الہام ذومعنین ہوتے ہیں جن کے ایک معنی کی رو سے تو قرب وفات سمجھا جاتا ہے اور دوسری معنی اتمام نعمت ہیں۔ اس بات کو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سے معنی مراد ہیں۔ یہ الہام انی متوفیک ورافعک الی اس قدر ہوا ہے جس کاخدا ہی شمار جانتا ہے۔ بعض اوقات نصف شب کے بعد فجر تک ہوتا رہا ہے اس کی بھی دو ہی معنی ہیں۔ رات کو ایک اور عجیب الہام ہوا اور وہ یہ ہے قل لضیفک انی متوفیک قل لا خیک انی متوفیک۔ یہ الہام بھی چند مرتبہ ہوا اس کے معنی بھی دو ہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جو تیرا مورد فیض یا بھائی ہے اس کو کہہ دے کہ میں تیرے پر اِتمام نعمت کروں گا۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ میں وفات دوں گا۔ معلوم نہیں کہ یہ شخص کون ہے۔ اس قسم کے تعلقات کے کم و بیش کوئی لوگ ہیں۔ اس عاجز پر اس قسم کے الہامات اور مکاشفات اکثر وارد ہوتے رہتے ہیں جن میں اپنی نسبت اور بعض احباب کی نسبت۔ اُن کی عسر یسر کی نسبت اُن کے حوادث کی نسبت۔ ان کی عمر کی نسبت ظاہر ہوتا رہتا ہے اور میرا اصول یہ ہے کہ انسانوںکو بالکل اپنے مولیٰ کی مرضی کے موافق رہنا چاہئے اور جو کچھ وہ اختیار کرے وہ بہتر ہے کیونہ تمام خیر اُسی بات میں ہے جو وہ اختیار کرے۔ دل میں ارادہ تو ہے کہ ایک دو روز کے لئے آپ کے شہر میں آؤں مگر بجز مرضی باری تعالیٰ کیونکر پوراہو۔ مولوی عبدالقادر صاحب موتکو بہت یاد رکھیں اور دلی اخلاص کے حصول میں کوشش کریں اور یہ عاجز بھی کوشش کرے گا۔ والسلام
۲۰؍ نومبر ۱۸۸۳ء مطابق ۱۹؍ محرم ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۶
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا چونکہ اس ہفتہ میںبعض کلمات انگریزی وغیرہ الہام ہوئے ہیں اور اگرچہ بعض ان میں سے ایک ہندو لڑکے سے دریافت کئے ہیں مگر قابل اطمینان نہیں اور بعض منجانب اللہ بطور ترجمہ الہام ہوا تھا اور بعض کلمات شاید عبرانی ہیں۔ ان سب کی تحقیق تنقیح ضرور ہے تا بعد تنقیح جیسا کہ مناسب ہو آخیر جزو میں کہ اب تک چھپی نہیں درج کئے جائیں۔ آپ جہاں تک ممکن ہو بہت جلد دریافت کر کے صاف خط میں جو پڑھا جاوے اطلاع بخشیں اور وہ کلمات یہ ہیں۔
پریشن، عمر ہراطوس، با پلاطوس یعنی پڑطوس لفظ ہے یا پلاطوس لفظ ہے۔ بباعث سرعت الہام دریافت نہیں ہوا اور عمر عربی لفظ ہے اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنی دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں۔ پھر دو لفظ اور ہیں۔ ھوشعنا نعسا معلوم نہیں کس زبان کے ہیں اور انگریزی یہ ہیں۔
اوّل عربی فقرہ ہے یا داؤد عامل بالناس رنقا و احساناً۔ ’’یو مسٹ ڈڈ وَہاٹ آئی ٹولڈ یو‘‘۔ تم کو وہ کرنا چاہئے جو میں نے فرمایا ہے یہ اُردو عبارت بھی الہامی ہے۔ پھر بعد اس کے ایک اور انگریزی الہام ہے اور ترجمہ اُس کا الہامی نہیں۔ بلکہ اُس ہندو لڑکے نے بتلایا ہے۔ فقرات کی تقدیم تاخیر کی صحت بھی معلوم نہیں اور بعض الہامات میں فقرات کا تقدم تاخر بھی ہو جاتا ہے اُس کو غور سے دیکھ لینا چاہئے اور وہ الہام یہ ہیں۔
’’دَو آل من شُڈ بی انگری بٹ گاڈ اِز وِد یو‘‘۔’’ ہی شل ہلپ یو‘‘۔ ’’واڑڈس آف گاؤ ناٹ کین ایکسچینج‘‘۔ ترجمہ اگر تمام آدمی ناراض ہونگے لیکن خدا تمہارے ساتھ ہوگا وہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ کے کلام بدل نہیں سکتے پھر بعد اس کے ایک دو اور الہام انگریزی ہیں جن میں سے کچھ تو معلوم ہے اور وہ یہ ہیں۔
’’آئی شل ہلپ یو‘‘۔ مگر بعد اس کے یہ ہے۔ ’’یوہیو ٹو گو امرتسر‘‘۔ پھر ایک فقرہ ہے جس کے معنی معلوم نہیں اور وہ یہ ہے۔ ’’ہی ہل ٹس اِن دی ضلع پشاور‘‘۔ یہ فقرات ہیں ان کو تنقیح سے لکھیں اور براہ مہربانی جلد تر جواب بھیج دیں تا اگر ممکن ہو تو اخیر جزو میں بعض فقرات بموضع مناسب درج ہو سکیں۔ بخدمت مولوی عبدالقادر صاحب و خواجہ علی صاحب سلام مسنون پہنچے۔
(۱۲؍ دسمبر ۱۸۸۳ء بمطابق ۱۱؍ صفر ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۷
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ موجب ممنونی ہوا آج میراارادہ تھا کہ صرف ایک دن کے لئے آنمخدوم کی ملاقات کے لئے لودہیانہ کا قصد کرو لیکن خط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ حال طبع کتاب کا ابتر ہو رہا ہے اگر اُس کا جلدی سے تدارک نہ کیا جائے تو کاپیاں کہ جو ایک عرصہ کی لکھی ہوئی ہیں خراب ہو جائیں گی۔ بات یہ ہے کہ کاپیوں کی چھ سات جزیں مطبع ریاض ہند سے بباعث کم استطاعتی مطبع کے مطبع چشمہ نور میں دی گئی تھیں اور مہتمم چشمہ نور نے وعدہ کیا تھا کہ اِن کاپیوں کو جلد تر چھاپ دیں گے اور قبل اس کے جو پُرانی اور خراب ہوں چھپ جائیں گی۔ سو خط آمدہ مطبع ریاض ہند سے معلوم ہوا کہ وہ کاپیاں اب تک نہیں چھپیں اور خراب ہوگئیں ہیں کیونکہ اُن کے لکھے جانے پر عرصہ دراز گزر گیا ہے ناچار اس بندوبست کے لئے کچھ دن امرتسر ٹھہرنا پڑے گا اور دوسری طرف یہ ضرورت درپیش ہے کہ ۲۶؍ دسمبر ۱۸۸۳ء تک بعض احباب بطور مہمان قادیان میں آئیں گے اور اُن کے لئے خاکسار کا یہاں ہونا ضروری ہے سو یہ عاجز بنا چاری امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہے اور معلوم نہیں کہ کیاپیش آوے۔ اگر زندگی اور فرصت اور توفیق ایزدی یاور ہوئی اور کچھ وقت میسر آ گیا تو انشاء اللہ القدیر ایک دن کے لئے امرتسر میں فراغت پا کر آنمخدوم کی طرف روانہ ہوں گا۔ مگر وعدہ نہیں اور کچھ خبر نہیں کہ کیاہوگا اور خداوند کے فضل و کرم ربوبیت سے اس عاجز کو فرصت مل گئی تو اس بات کو آنمخدوم اس بات کو پہلے سے یادرکھیں کہ صرف ایک رات رہنے کی گنجائش ہوگی کیونکہ بشرط زندگی و خیریت کہ جو حضرت خداوندکریم کے ہاتھ میں ہے۔ ۲۶؍ دسمبر ۱۸۸۳ء تک قادیان واپس آجانا ہے۔ اُن سے وعدہ ہو چکا ہے۔ والامرکلہ فی ید اللّٰہ اور ایک دن کے لئے آنا بھی ہنوز ایک خیال ہے واللّٰہ اعلم بخفیقتہ المال۔ اگر خداوندکریم نے فرصت دی اور زندگی اور امن عطا کیا اور امرتسر کے مخمصہ سے صفائی اور راحت حاصل ہوئی اور تاریخ مقررہ پر واپس آنے کی گنجائش بھی ہوئی تو یہ عاجز آنے سے کچھ فرق نہیں کرے گا مگر آپ ریل پر ہرگز تشریف نہ لاویں کہ یہ تکلف ہے۔ یہ احقر عباد سخت ناکارہ اور بے ہنر ہے اور اس لائق ہرگز نہیں کہ اس کے لئے کچھ تکلف کیا جائے۔ مولیٰ کریم کی ستاریوں اور پردہ پوشیوں نے کچھ کا کچھ ظاہر کر رکھا ہے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم (۱۹؍ دسمبر ۸۸۳ء مطابق ۱۸؍ صفر ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ مجھ کو آپ کا اخلاص بہت شرمندہ کر رہا ہے۔ خداوندکرم آپ کو بہت ہی اجر بخشے اور ہی عاجز تفضلات الٰہیہ پر بہت بھروسہ رکھتا ہے اور یقینا سمجھتا ہے کہ اُس کی رحمتیں اس اخلاص اور سعی کے صلہ میں آثار نمایاں دکھلائیں گی۔ یہ عالم فانی تو کچھ چیز نہیں اور اس کی آرزو کرنے والے سخت غلطی پر ہیں۔ مومن کے لئے اس سے بہتر اور کوئی نعمت نہیں کہ اس کا مولیٰ کریم اُس پر راضی ہو۔ آپ کے نفس میں قبولیت دعا کی شرائط پیدا ہیں اور اس عاجز نے دوسروں میں اس قسم کی استقامت کم پائی ہے۔ نیک ظن بننا آسان ہے مگر اُس کا نبھانا بہت مشکل۔ سو خدا نے استقامت اور حسن ظن کی سالیت آپ کے نفس میں رکھی ہے۔ یہ بڑی خوبی ہے کہ جس سے انسان اپنی مراد کو پہنچتا ہے اور نہایت بدنصیب وہ انسان ہے جس کاانجام آغاز کا جوش نہیں رکھتا اور بدظنی اُس کو ہلاکت کے قریب پہنچا دیتی ہے اور سعید وہ انسان ہے جس پر نیک ظن غالب ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ٹھوکر کھانے سے بچتے ہیں اور اُس کا فطرتی نور اُن کو شیطانی تاریکی سے بچا لیتا ہے اور تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں اور الحمدللہ کہ میں آپ کو اُن تھوڑوں کے اوّل درجہ میں دیکھتا ہوں۔ بخدمت تمام احباب سلام مسنون پہنچے۔ (یکم جنوری ۱۸۸۴ء مطابق یکم ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۳۹
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا مبلغ پچاس روپیہ مرسلہ آپ کے پہنچ گئے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہ خَیْرَا۔ اب یہ عاجز یوم شنبہ امرسترجانے کو تیار ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ وہیں سے آپ کی خدمت میں خط لکھے گا۔ آپ نے جو خواب دیکھی۔ انشاء اللہ القدیر بہت بہتر ہے۔ انسان کو بغیر راست گوئی چارہ نہیں اور انسان سے خدا تعالیٰ ایسی کوئی بات پسند نہیں کرتا جیسے اُس کی راست گوئی کو اور راست یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس عاجز سے ایک عجیب معاملہ ہے کہ اِس جیسے شخص پر اُس کا تفضل اور احسان ہے کہ اپنی ذاتی حالت میں احقر اور ارزل عباد ہے۔ زہد سے خالی اور عبادت سے عاری اور معاصی سے پُر ہے۔ سو اُس کے تفضلات تحیر انگیز ہیں۔ خدا تعالیٰ کا معاملہ اپنے بندوں سے طرزِ واحد پر نہیں اور توجہات اور اقبال اور فتوح حضرت احدیّت کی کوئی ایک راہ خاص نہیں۔ اگرچہ طرق مشہورہ ریاضات اور عبادات اور زُہد اور تقویٰ ہے مگر ماسوا اس کے ایک اور طریق ہے جس کے خدا تعالیٰ کبھی کبھی آپ بنیاد ڈالتا ہے۔ کچھ دن گزرے ہیں کہ اس عاجز کو ایک عجیب خواب آیا اور وہ یہ ہے کہ ایک مجمع زاہدین اور عابدین ہے اور ہر ایک شخص کھڑا ہو کر اپنے مشرب کا حال بیان کرتا ہے اور مشرب کے بیان کرنے کے وقت ایک شعر موزوں اُس کے منہ سے نکلتا ہے جس کا اخیر لفظ قعود اور سجود اور مشہود وغیرہ آتا ہے جیسے یہ مصرع
تمام شب گزرا نیم در قیام و سجود
چند زاہدین اور عابدین نے ایسے ایسے شعر اپنی تعریف میں پڑھتے ہیں … اخیر پر اس عاجز نے اپنے مناسب حال سمجھ کر ایک شعر پڑھنا چاہا ہے مگر اس وقت وہ خواب کی حالت جاتی رہی اور جو شعر اُس خواب کی مجلس میں پڑھنا تھا وہ بطور الہام زبان پر جاری ہو گیا اور وہ ہے
طریق زہد و تعید ندانم اے زاہد
خدائے من قدمم را… براہِ داؤد
سو سچ ہے کہ یہ ناچیز زہد اور تعبد سے خالی ہے اور بجز عجز و نیستی اور کچھ اپنے دامن میں نہیں اور وہ بھی خدا کے فضل سے نہ اپنے زور سے جو لوگ تلاش کرتے ہیں وہ اکثر زاہدین اورعابدین کو تلاش کرتے ہیں اور یہ بات اس جگہ نہیں۔ آپ کے مبلغ پچاس روپیہ عین ضرورت کے وقت پہنچے۔ بعض آدمیوں کے بے وقت تقاضا سے بالفعل پچاس روپیہ کی سخت ضرورت تھی دعا کے لئے یہ الہام ہوا۔ بحسن قبولی دعاء بنگر کہ چہ زود دعا قبول میکنم۔ ۳؍ جنوری ۱۸۸۴ء کو یہ الہام ہوا۔ ۶؍ تاریخ کو آپ کا روپیہ آ گیا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذالک۔ (۷؍ جنوری ۱۸۸۴ء ۔ ۷؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۴۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔
بعد سلام مسنون آنمخدوم کا عنایت نامہ پہنچا۔ یہ عاجز اگرچہ بہت چاہتا ہے کہ آنمخدوم کے بار بار لکھنے کی تعمیل کی جائے مگر کچھ خداوندکریم ہی کی طرف سے ایسے اسباب آ پڑتے ہیں کہ رک جاتا ہوں۔ نہیں معلوم کہ حضرت احدیّت کی کیا مرضی ہے۔ عاجز بندہ بغیر اُس کی مشیت کے قدم اُٹھا نہیں سکتا۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ کسی مکان پر جو یاد نہیں رہا یہ عاجز موجود ہے اور بہت سے نئے نئے آدمی جن سے سابق تعارف نہیں، ملنے کو آئے ہوئے ہیں اور آپ بھی ان کے ساتھ موجود ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اور مکان ہے۔ اُن لوگوں نے اس عاجز میں کوئی بات دیکھی ہے جو اُن کو ناگوار گزری ہے سو اُن سب کے دل منقطع ہوگئے۔ آپ نے اُس وقت مجھ کو کہا کہ وضع بدل لو۔ مَیں نے کہا کہ نہیں بدعت ہے۔ سو وہ لوگ بیزار ہوگئے اور ایک دوسرے مکان میں جو ساتھ ہے جا کر بیٹھ گئے۔ تب شاید آپ بھی ساتھ ہیں۔ مَیں اُن کے پاس گیا تا اپنی امامت سے ان کو نماز پڑھاؤں پھر بھی اُنہوں نے بیزاری سے کہا کہ ہم نماز پڑھ چکے ہیں۔ تب اس عاجز نے اُن سے علیحدہ ہونا اور کنارہ کرنا چاہا اور باہر نکلنے کے لئے قدم اُٹھایا معلوم ہوا کہ اُن سب میں سے ایک شخص پیچھے چلا آتا ہے تو تقدیرات معلقہ کو مبدّل بھی کر دیتا ہے لیکن اندیشہ گزرتا ہے کہ خدانخواستہ وہ آپ ہی کا شہر نہ ہو۔ لوگوں کے شوق اور ارادت پر آپ خوش نہ ہوں۔ حقیقی شوق اور ارادت کو جو لغزش اور ابتلا کے مقابلہ پر کچھ ٹھہر سکے لاکھوں میں سے کسی ایک کو ہوتا ہے ورنہ اکثر لوگوں کے دل تھوڑی تھوڑی بات میں بدظنی کی طرف جھک جاتے ہیں اور پھر پہلے حال سے پچھلا حال اُن کا بدتر ہو جاتا ہے۔ صدق الارادت وہ شخص ہے کہ جو رابطہ توڑنے کیلئے جلد تر تیار نہ ہو جائے اور اگر ایسا شخص جس پر ارادت کبھی کسی فسق اور معصیت میں مبتلا نظر آوے یا کسی اور قسم کا ظلم اور تعدی اس کے ہاتھ سے ظاہر ہوتا دیکھے یا کچھ اسباب اور اشیاء منہیات کے اُس کے مکان پر موجود پاوے تو جلد تر اپنے جامہ سے باہر نہ آوے اور اپنی دیرینہ خدمت اور ارادت کو ایک ساعت میں برباد نہ کرے بلکہ یقینا دل میں سمجھے کہ یہ ایک ابتلاہے کہ جو میرے لئے پیش آیا اور اپنی ارادت اور عقیدت میں ایک ذرّہ فتور پیدا نہ کرے اور کوئی اعتراض پیش نہ کرے اور خدا سے چاہے کہ اس کو اُس ابتلا سے نجات بخشے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کسی نہ کسی وقت اُس کے لئے ٹھوکر درپیش ہے۔ جن پر خدا کی نظر لطف ہے اُن کو خدا نے ایک مشرب پر نہیں رکھا۔ بعض کو کوئی مشرب بخشا اور بعض کو کوئی اور اُن لوگوں میں ایسے بھی مشرب ہیں کہ جو ظاہری علماء کی سمجھ سے بہت دور ہیں۔ حضرت موسیٰ جیسے اولوالعزم مرسل خضر کے کاموں کو دیکھ کر سراسیمہ اور حیران ہوئے اور ہر چند وعدہ بھی کیا کہ میں اعتراض نہیں کروں گا پر جوش شریعت سے اعتراض کر بیٹھے اور وہ اپنے حال میں معذور تھے اور خضر اپنے حال میں معذور تھا۔ غرض اس مشرب کے لوگوں کی خدمت میں ارادت کے ساتھ آنا آسان ہے مگر ارادت کو سلامت لے جانا مشکل ہے۔ بات یہ ہے کہ خدا کو ہر ایک زائر کا ابتلا منظور ہے تا وہ اُن پر اُن کی چھپی ہوئی بیماریاں ظاہر کرے۔ سو نہایت بدقسمت وہ شخص ہے کہ جو اُس ابتلا کے وقت تباہ ہو جائے۔ کاش! اگر وہ دور کا دور ہی رہتا تو اُس کے لئے اچھا ہوتا۔ ابوجہل کچھ سب سے زیادہ شریر نہ تھا۔ پر رسالتہ کے زمانہ نے اُس کا پردہ فاش کیا۔ اگر کسی بعد کی صدی میں کسی مسلمان کے گھر پیدا ہو جاتا تو شاید وہ خبث اُس کی چھپی رہتی۔ سو خبث امتحان ہی سے ظاہر ہوتی ہیں۔ بہتر ہے کہ آنمخدوم ابھی اس عاجز کی تکلیف کشی کے لئے بہت زور نہ دیں کہ کئی اندیشوں کا محل ہے۔ یہ عاجز معمولی زاہدوں اورعابدوں کے مشرب پر نہیں اور نہ اُن کی رسم اور عادت کے مطابق اوقات رکھتا ہے بلکہ اُن کے پیرایہ سے نہایت بیگانہ اور دور ہے۔ سیفعل اللّٰہ مایشاء اگر خدانے چاہا تو وہ قادر ہے کہ اپنے خاص ایماء سے اجازت فرماوے ہر یک کو اس جگہ کے آنے سے روک دیں اور جو پردہ غیب میں مخفی ہے اُس کے ظہور کے منتظر رہیں۔ باقی سب خیریت ہے۔ (۱۸؍جنوری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۸؍ ربیع الاوّل ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۴۲
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر صاحب سلمہ ۔ بعد سلام مسنون
آنمخدوم کا خط آج امرتسر میں مجھ کو ملا۔ پانچ جلدیں حصہ اوّل و دوئم و سوئم روانہ ہو چکی ہیں۔ ایک خط دہلی کے علماء کی طرف اس اس خاکسار کو آیا تھا کہ مولوی محمد نے تکفیر کا فتویٰ بہ نسبت اس خاکسار کے طلب کیا ہے۔ نہایت رفق اور ملائمیت سے رہنا چاہئے۔ آج حضرت خداوندکریم کی طرف سے الہام ہوا۔ یا عبدالرافع انی رافعک الی۔ انی معزک لامانع لما اعطی۔ شاید پرسوں مکرر الہام ہوا تھا۔ یایحی خذالکتاب بقوۃ۔ خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتھا الاولٰی۔ یہ آخری فقرہ پہلے بھی الہام ہو چکا ہے۔
(۱۵؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۶؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
مکتوب نمبر۴۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
بعد ہذا آپ نے جو قول وحدت وجود کی نسبت استفسار فرمایا ہے اُس میں یہ بہتر تھا کہ اوّل آپ اُن وساوس اور اوہام کو لکھتے جن کو قائلین اس قول سقیم کے بطور دلیل آپ کے روبرو پیش کرتے ہیں کیونکہ اس عاجز نے ہر چند ایک مدت دراز تک غور کی اور کتاب اللہ اور احادیث نبوی کو بتدبر و تفکر تمام دیکھا اور محی الدین عربی وغیرہ کی تالیفات پر بھی نظر ڈالی کہ جو اس طور کے خیالات سے بھرے ہوئے ہیں اور خود عقل خداداد کی رُو سے بھی خوب سوچا اور فکر کیا لیکن آج تک اس دعویٰ کی بنیاد پر کوئی دلیل اور صحیح حجت ہاتھ نہیں آئی اور کسی نوع کی برہان اس کی صحت پر قائم نہیں ہوئی بلکہ اس کے ابطال پر براہین قویہ اور حجج قطعیہ قائم ہوتے ہیں کہ جو کسی طرح اُٹھ نہیں سکتیں۔ اوّل بڑی بھاری دلیل مسلمانوں کے لئے بلکہ ہر یک کے لئے کہ جو حق پر قدم مارنا چاہتا ہے۔ قرآن شریف ہے کیونکہ قرآن شریف کی آیات محکمات میں بار بار اور تاکیدی طور پر کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ جو کچھ مافی السموات والارض ہے۔ وہ سب مخلوق ہے اور خدا اور انسان میں ابدی امتیاز ہے کہ جو نہ اس عالم میں اور نہ دوسرے عالم میں مرتفع ہوگی۔ اس جگہ بھی بندگی بیچارگی ہے اور وہاں بھی بندگی بیچارگی ہے۔ بلکہ اُس پاک کلام میں نہایت تصریح سے بیان فرمایا گیا ہے کہ انسان کی روح کے لئے عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اُس کی پیدائش کی عبودیت ہی علت غائی ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون یعنی میں نے جن اور انس کو پرستش دائمی کے لئے پیدا کیا اور پھر انسان کامل کی روح کو اُس کے آخری وقت پر مخاطب کر کے فرمایا یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃً مرضیۃ فادخلی فی عبادی و ادخلی جنتی۔ یعنی اے نفس بحق آرام یافتہ اپنے ربّ کی طرف واپس چلا آ تو اُس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی۔ سو میرے بندوں میں داخل ہو اور میرے بہشت میں اندر آ جا۔ ان دونوں آیات جامع البرکات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انسان کی روح کے لئے بندگی اور عبودیت دائمی اور لازمی ہے اور اسی عبودیت کی غرض سے وہ پیدا کیا گیا ہے بلکہ آیت مؤخر الذکر میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ جو انسان اپنی سعادت کاملہ کو پہنچ جاتا ہے اور اپنے تمام کمالات فطرتی کو پا لیتا ہے اور اپنی جمیع استعدادات کو انتہائی درجہ تک پہنچا دیتا ہے۔ اُس کو اپنی آخری حالت پر عبودیت کا ہی خطاب ملتا ہے اور فادخلی فی عبادی کے خطاب سے پکارا جاتا ہے۔ سو اب دیکھئے اس آیت سے کسی قدر بصراحت ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا کمال مطلوب عبودیت ہی ہے اور سالک کا انتہائی مرتبہ عبودیت تک ہی ختم ہوتا ہے۔ اگر عبودیت انسان کے لئے ایک عارضی جامعہ ہوتا اور اصل حقیقت اس کی الوہیت ہوتی تو چاہئے تھا کہ بعد طے کرنے تمام مراتب سلوک کے الوہیت کے نام سے پکارا جاتا۔ لیکن فادخلی فی عبادی کے لفظ سے ظاہر ہے کہ عبودیت اُس جہان میں بھی دائمی ہے۔ جو ابدالاباد رہے گی اور یہ آیت بآواز بلند پکار رہی ہے کہ انسان گو کیسے ہی کمالات حاصل کرے مگر وہ کسی حالت میں عبودیت سے باہر ہو ہی نہیں اور ظاہر ہے کہ جس کیفیت سے کوئی شَے کسی حالت میں باہر نہ ہو سکے وہ کیفیت اُس کی حقیقت اور ماہیت ہوتی ہے۔ پس چونکہ از روئے بیان واضح قرآن شریف کے انسان کے نفس کے لئے عبودیت ایسی لازمی چیز ہے کہ نہ نبی بن کر اور نہ رسول بن کر اور نہ صدیق بن کر اور نہ شہید بن کر اور نہ اس جہان اور نہ اُس جہان میں الگ ہو سکے۔ جو مہتر اور بہتر انبیا تھے۔ انہوں نے عبدہ و رسولہ ہونا اپنا فخر سمجھا تو اس سے ثابت ہے کہ انسان کی اصل حقیقت و ماہیت عبودیت ہی ہے الوہیت نہیں اور اگر کوئی الوہیت کا مدعی ہے تو بمقابلہ اس محکم اور بین آیت کے جو فادخلی فی عبادیہے۔ کوئی دوسری آیت ایسی پیش کرے کہ جس کا مفہوم فادخلی فی ذاتی ہو اور خود قرآن شریف اور جا بجا اپنے نزول کی حلت غائی بھی یہی ٹھہراتا ہے کہ تا عبودیت پر لوگوں کو قائم کرے اور خدا نے اپنی کتاب عزیز میں اُن لوگوں پر *** کی ہے جنہوں نے مسیح اور بعض دوسرے نبیوں کو خدا سمجھا تھا۔ پس کیونکر وہ لوگ رحمت کے مستحق ہو سکتے ہیں جنہوں نے تمام جہان کو یہاں تک کہ ناپاک اور پلید روحوں کو بھی کہ جو شرارت اور فسق اور فجور سے بھری ہیں خدا سمجھ لیا ہے۔ ہاں یہ بات سچ ہے کہ قرآن شریف کی تعلیم کی رُو سے توحید تین مرتبہ پر منقسم ہے۔ ایک ادنیٰ اور ایک اوسط اور ایک اعلیٰ۔ تفصیل اُس کی یہ ہے کہ ادنیٰ مرتبہ توحید کا کہ جس کے بغیر ایمان متحقق ہو ہی نہیں سکتا۔ نفی شرک رکھا ہے یعنی اس شرک سے بیزار ہونا کہ جو مشرکین محض ظلم اور زیادتی کی راہ سے مخلوق چیزوں کو خدا کے کاموں میں شریک سمجھتے ہیں یعنی کسی قوم نے سورج اور چاند یا آگ اور پانی کو دیو تے قرار دے لیا ہے اور اُن سے مرادیں مانگتے ہیں اور کسی قوم نے بعض انسانوں کو خدائی کا مرتبہ دے رکھا ہے اور خداوندکریم کی طرح اُن کو قادر مطلق اور قاضی الحاجات خیال کر رکھا ہے۔ سو یہ شرک صریح اور ظلم بدیہی ہے کہ جو ہر یک عاقل کو یہ ہدایت نظر آتا ہے لیکن دوسری قسم شرک کی جو قرآن شریف میں بیان کی ہے جس کو چھوڑنے پر توحید کی دوسری قسم موقوف ہے وہ اس کی نسبت کچھ باریک ہے کہ عوام کالانعام اس کو سمجھ نہیں سکتے۔ یعنی اسباب کو کارخانہ قدرت حضرت احدیّت میں شریک سمجھنا اور فاعل اور مؤثر حقیقی خدا ہی کو نجاننا۔ مثلاً ایک دوکاندار مسلمان جب عین ہجوم خریداروں کے وقت میں بانگ نماز جمعہ سنتا ہے تو دل میں خیال کرتا ہے کہ اگر میں اس وقت جمعہ کی نماز کے لئے اپنی دکان بند کر کے گیا تو مرا بڑا ہی ہرج ہوگا۔ جمعہ کی نماز میں خطبہ سننے اور نماز پڑھنے اور پھر شاید وعظ سننے میں ضرور دیر لگے گی اور اس عرصہ میں سب خریدار چلے جائیں گے اور جو آمدنی اب یہاں ٹھہرے رہنے سے متصور ہے اُس سے محروم رہوں گا۔ سو یہ شرک فی الاسباب ہے کیونکہ اگر وہ دوکاندار جانتا کہ مرا ایک رازق قادر و متصرف مطلق ہے جس کے ہاتھ میں تمام قبض و بسط رزق ہے اور اُس کی اطاعت کرنے میں کوئی نقصان عائد حال نہیں ہو سکتا اور اُس کے ارادہ کے برخلاف کوئی تدبیر و حیلہ رزق کو فراخ نہیں کر سکتا تو وہ اس شرک میں ہرگز مبتلا نہ ہوتا اور یہ قسم دوئم شرک کی چونکہ باریک ہے اس وجہ سے ایک عالم اس میں مبتلا ہو رہا ہے اور اکثر لوگ اسباب پرستی پر اس قدر جھک رہے ہیں کہ گویا وہ اپنے اسباب کو اپنا خدا سمجھ رہے ہیں اور یہ شرک دِق کی بیماری کی طرح ہے کہ جو اکثر نظروں سے مخفی اور محتجب رہتا ہے اور تیسری قسم شرک کی جو قرآن شریف میں بیان کی گئی ہے جس کے چھوڑنے پر تیسری قسم توحید کی موقوف ہے وہ نہایت ہی باریک ہے کہ بجز خاص بالغ نظروں کے کسی کو معلوم نہیں ہوتی اور بغیر افراد کامل کے کوئی اس سے خلاصی نہیں پاتا اور وہ یہ ہے کہ ماسوا اللہ کے یادداشت دل پر غالب رہنا اور اُن کی محبت اور اُن کی محبت یا عداوت میں اپنی اوقات ضائع کرنا اور اُن کی ناچیز ہستی کو کچھ چیز سمجھنا اور اس شرک کا چھوڑنا جس پر توحید کامل موقوف ہے۔ تب محقق ہوتا ہے کہ جب محب صادق پر اس قدر محبت اور محبت الٰہی کا استیلاء ہو جائے کہ اُس کی نظر شہود میں ہر یک موجود ماسوا اللہ موجود ہونے کے معدوم دکھائی دے۔ یہاں تک کہ اپنا وجود بھی فراموش ہو جائے اور محبوب حقیقی کا نور ایسا کامل طور پر چمکے سو اُس کے آگے کسی چیز کی ہستی اور حقیقت باقی نہ رہے اور اس توحید کا کمال اس بات پر موقوف ہے کہ ماسوا اللہ واقعی طور پر موجود تو ہو مگر سالک کی نظر عاشقانہ میں کہ جو محبت الٰہیہ سے کامل طور پر بھڑک گئی ہے وہ وجود غیر کا کالعدم دکھائی دے اور غلبہ محبت احدیتّ کی وجہ سے اس کے ماسوا کو منفی اور معدوم خیال کرے کیونکہ اگر وجود ماسوا کافی الحقیقت منفی اور معدوم ہی ہو تو پھر اس توحید درجہ سوئم کی تمام خوبی برباد ہو جائے گی وجہ یہ کہ ساری خوبی اس توحید درجہ سوئم میں یہ ہے کہ محبوب حقیقی کی محبت اور عظمت اس قدر دل پر استیلاء کرے کہ بوجہ غلبہ اس شہود تام کے دوسری چیزیں معدوم دکھائی دیں۔ اب اگر دوسری چیزیں فی الحقیقت معدوم ہی ہیں تو پھر اس استیلاء محبت اور غلبہ شہود عظمت کی تاثیر کیا ہوئی اور کون کمال اس توحید میں ثابت ہوا کیونکہ جو چیز فی الواقعہ معدوم ہے اس کو معدوم ہی خیال کرنا یہ ایسا امر نہیں ہے کہ جو استیلاء محبت پر موقوف ہو بلکہ محبت اور شہود عظمت تامہ کی کمالیت اسی حالت میں ثابت ہوگی کہ جب عاشق دلدادہ محض استیلاء عشق کی وجہ سے نہ کسی اور وجہ سے اپنے معدوم کے ماسوا کو معدوم سمجھے اور اپنے معشوق کے غیر کو کالعدم خیال کرے گو عقل شرع اُس کو سمجھاتی ہوں کہ وہ چیزیں حقیقت میں معدوم نہیں ہیں۔ جیسے ظاہر ہے کہ جب دن چڑھتا ہے اور لوگوں کی آنکھوں پر نور آفتاب کا استیلاء کرتا ہے تو باوجود اس کے کہ لوگ جانتے ہیں کہ ستارے اس وقت معدوم نہیں مگر پھر بھی بوجہ استیلاء اُس نور کے کہ ستاروں کو دیکھ نہیں سکتے۔ ایسا ہی استیلاء محبت اورعظمت اللہ کا محب صادق کی نظر میں ایسا ظاہر کرتا ہے کہ گویا تمام عالم بجز اس کے محبوب کے معدوم ہے اور اگرچہ عشق حقیقی میں یہ تمام انوار کامل اور اَتم طور پر ظاہر ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی عشق مجازی کا مبتلا بھی اس غایت درجہ عشق پر پہنچ جاتا ہے کہ اپنے معشوق کے غیر کو یہاں تک کہ خود اپنے نفس کو کالعدم سمجھنے لگتا ہے۔ چنانچہ منقول ہے کہ مجنون جس کا نام قیس ہے اپنے عشق کی آخری حالت میں ایسا دیوانہ ہو گیا کہ یہ کہنے لگا کہ میں آپ ہی لیلیٰ ہوں۔ سو یہ بات تو نہیں کہ فی الحقیقت وہ لیلیٰ ہی ہو گیا تھا بلکہ اس کا یہ باعث تھا کہ چونکہ وہ مدت تک تصور لیلیٰ میں غرض رہا۔ اس لئے آہستہ آہستہ اس میں خود فراموشی کا اثر ہونے لگا۔ ہوتے ہوتے اس کا استغراق بہت ہی کمال کو پہنچ گیا اور محویت کی اس حد تک جا پہنچا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ جنون عشق سے انا الیلیٰ کا دعویٰ کرنے لگا اور یہ خیال دل میں بندہ گیا کہ فی الحقیقت میں ہی لیلیٰ ہوں۔ غرض غیر کو معدوم سمجھنا لوازم کمال عشق میں سے ہے اور اگر غیر فی الحقیقت معدوم ہی ہے تو پھر وہ ایسا امر نہیں ہے کہ جس کو استیلاء محبت اور جنون عشق سے کچھ بھی تعلق ہو اور غلبہ عشق کی حالت میں محویّت کے آثار پیدا ہو جانا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو انسان مشکل سے سمجھ سکے۔ شیخ مصلح الدین شیرازی نے خوب کہا ہے۔
نہ از چینم حکایت کن نہ از روم
کہ دارم دلستانے اندریں بوم
چو روئے خوب او آید ببادم
فراموشتم شود موجود و معدوم
اور پھر ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
باتو مشغول و باتو ہم اہم
دانہ تو بخشایش تو میخواہم
تا مرا از تو آگہی دادند
بوجودت گرانہ خود اگاہم
اور خود وہ محویت کا ہی اثر تھا جس سے زلیخا کی سہیلیوں نے اپنی انگلیاں کاٹ لیں۔
اب خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن شریف میں کمال توحید کا یہی درجہ بیان کیا گیا ہے کہ محب صادق بوجہ استیلاء محبت اور شہود عظمت محبوب حقیقی کی غیر کے وجود کو کالعدم خیال کرے نہ کہ فی الواقعہ غیر معدوم ہی ہو کیونکہ معدوم کو معدوم خیال کرنا ترقیات عشق اور محبت سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ سوعاشق صادق کے لئے توحید ضروری اور لابدی ہے کہ جو اُس کے کمال عشق کی علامت ہے۔ یہی توحید ہے کہ جو اُس کا شہود بجز ایک کے نہ ہو نہ یہ کہ عقلی طور پر بھی فی الواقعہ ہی موجود سمجھتا ہو کیونکہ وہ اپنے عقل میں ہو کر ایسی باتیں ہرگز منہ پر نہیں لاتا اور حق الیقین کے مرتبہ کے لحاظ سے جب دیکھتا ہے تو حقائق اشیاء سے انکار نہیں کر سکتا بلکہ جیسا کہ اشیاء فی الواقعہ موجود ہیں ایسا ہی اُن کی موجودیت کا اقرار رکھتا ہے اور چونکہ یہ توحید شہودی فنا کے لئے لازمی اور ضروری ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا ذکر اپنے پاک کلام میں بسط سے فرمایا ہے اور نادان جب اُن بعض آیات کو دیکھتا ہے تو اس دھوکہ میں پڑ جاتا ہے کہ گویا وہ آیات توحید وجودی کی طرف اشارہ ہے اور اس بات کونہیں سمجھتا کہ خداوند کے کلام میں تناقص نہیں ہو سکتا۔ جس حالت میں اُس نے صدہا آیات بینّات اور نصوص صریحہ میں اپنے وجود اور مخلوق کے وجود میں امتیاز کلی طور پر ظاہر کر دیا ہے اور اپنے مصنوعات کو موجود واقعی قرار دے کر اپنی صانعیت اُس سے ثابت کی ہے اور اپنے غیر کو شقی اور سعید کی قسموں میں تقسیم کیا ہے اور بعض کے لئے خلود جنت اور بعض کے لئے خلود جہنم قرار دیا ہے اور اپنے تمام نبیوں اور مرسلوں اور صدیقوں کو بندہ کے لفظ سے یاد کیا ہے اور آخرت میں اُن کی عبودیت دائمی غیر منقطع کا ذکر فرمایا ہے تو پھر ایسے صاف صاف اور کھلے کھلے بیان کے مقابلہ پر کہ جو بالکل عقلی طریق سے بھی مطابق ہے بعض آیات کی کسی اور طرح پر معنی کرنا صرف اُن لوگوں کا کام ہے کہ جو راہ راست کے طالب نہیں۔ بلکہ آرام پسند اور آزاد طبع ہو کر صرف الحاد اور زندقہ میں اپنی عمر بسر کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر انسان صرف عقل کی رُو سے بھی نظر کرے تو وہ فی الفور معلوم کرے گا کہ مشت خاک کو حضرت پاک سے کچھ بھی نسبت نہیں۔ انسان دنیا میں آ کر بہت سے مکروہات اپنی مرضی کے برخلاف دیکھتا ہے اور بہت سے مطالب باوجود دعا اور تضرع کے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ پس اگر انسان فی الحقیقت خدا ہی ہے تو کیوں صرف کن فیکون کے اشارہ سے اپنے تمام مقاصد حاصل نہیں کر لیتا اور کیوں صفات الوہیت اس میں محقق نہیں ہوتیں کیا کوئی حقیقت اپنے لوازم ذاتی سے معرا ہو سکتی ہے۔ پس اگر انسان کی حقیقت الوہیت ہے تو کیوں آثار الوہیت اس سے ظاہر نہیں ہوتے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام چالیس بر تک روتے رہے مگر اپنے فرزند عزیز کا کچھ پتہ نہ ملا۔ مگر اسی وقت کہ جب خدا نے چاہا۔ پس جب کہ صفات الوہیت نبیوں میں ظاہر نہیں ہوئے تو اور کون ہے جس میں ظاہر ہوں گے اور جب کہ اب تک کوئی ایسا مرد پیدا نہیں ہوا کہ جس نے میدان میں آ کر تمام مخالفوں اور موافقوں کے سامنے الوہیت کی طاقتیں دکھلائی ہوں تو پھر آئندہ کیونکر امید رکھیں۔ ماسوا اس کے یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ انسان سے کیسے کیسے بُرے اور ناپاک کام صادر ہوتے ہیں۔ پس کیا عقل کسی عاقل کی تجویز کر سکتی ہے کہ یہ سب ناپاکیاں خدا کی روح کر سکتی ہے۔ پھر علاوہ اس کے مخلوق کے وجود سے انکار کرنا دوسرے لفظوں میں اس بات کا دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ قادر مطلق نہیں کیونکہ اگر اس کو قادر مطلق مان لیا ہے تو پھر اُس کی قدرت تامہ کا اسی بات پر ثبوت موقوف ہے کہ جو چاہے پیدا کرے نہ کہ ہندؤوں کے اوتاروں کی طرح ہر جگہ بُرے بھلے کام کرنے کے لئے آپ ہی جنم لیتا رہے۔ سو خدا کی ذات سے سلب قدرت کرنا اور اُس کو طرح طرح کے گناہوں اور پاپوں اور بے ایمانیوں کا مورد ٹھہرانا اور انواع اقسام کی جہالتوں کو اُس پر روا رکھنا اسی توحید وجودی کا نتیجہ ہے جس کو وجودی لوگ نہیں سمجھتے۔ عقلمند انسان کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ایسا دعویٰ ہرگزنہیں کرتا جس دعویٰ کا ثبوت اس کے پاس موجود نہیں ہوتا۔ پس اگر یہ لوگ عاقل ہوتے تو ایسا دعویٰ کرنے سے متہاشی ہوتے۔ زیادہ تر خرابی ان میں یہ ہے کہ اُن کی زبان اُن کے فعل اور عمل پر غالب ہو رہی ہے۔ ذرا خیال کرتے اور انسانی ترقیات کو حال کے ذریعہ سے دیکھتے۔ نہ صرف قال کے ذریعہ سے تو یہ تمام اوہام اُن کے خود بخود اُٹھ جاتے مثلاً ایک عاقل سیاح کے پاس یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی سیاح فلاں جزیرہ میں پہنچتا ہے تو بجائے دو آنکھ کے اُس کی چار آنکھیں ہو جاتی ہیں اور منہ سے سنتا ہے اور کانوں کے ساتھ دیکھ سکتا ہے تو ایسی خلاف قیاس خبر پر صرف اسی حالت میں عقلمند یقین کرے گا کہ جب بیان کنندہ اس خبر کا خود اس جزیرہ میں ہو کر آیا ہو اور یہ چار آنکھیں اور ایسا منہ اور ایسے کام اس نے دکھلائے ہوں یا کوئی اور انسان پیش کر دیا ہو جس میں یہ صفتیں موجود ہوں اور اگر ایسا نہیں کیا تو ہرگز وہ عاقل اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا اور غایت کار اُس احمق کو یہ جواب دے گا کہ بھائی میں بھی تو اُسی جزیرہ کی طرف چلا جاتا ہوں۔ سو اگر ایسی ہی اس جزیرہ میں خاصیت ہے تو میری بھی وہاں جا کر چار آنکھیں ہو جائیںگی اور میں بھی منہ سے سنوں گا اور کانوں سے دیکھوں گا۔ تب خود میں تیرے اس بیان کو قبول کر لوں گا۔ اب میں بلا ثبوت کیوں کر قبول کر سکتا ہوں۔ سو سمجھنا چاہئے کہ جو انسان اپنے نفس کو دھوکہ نہیں دیتا اور اپنے خیال کو گمراہی میں ڈالنا نہیں چاہتا وہ باتیں چھوڑ دیتا ہے اور کام کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور سرگرمی سے منزل مقصود کی طرف قدم رکھتا ہے۔ پھر اُس راہ کے تمام عجائبات بالضرورت اُس کو دیکھنے پڑتے ہیں اور بڑی آسانی سے حق الامر اُس پر کھل جاتا ہے مگر جو کوئی صرف باتوں میں مقید رہتا ہے اور محض سنے سنائے قصوں پر کہ جو عقل اور شرع سے بکلی منافی ہیں جم جاتا ہے وہ اپنے نفس کو آپ ہلاکت میں ڈالتا ہے۔ حقیقت میں ایسے لوگ خدا تعالیٰ سے بالکل بے غرض ہیں اور وسیع مشربی کے پردہ میں اپنے نفس امّارہ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہیں اگر اُن کی سرشت میں کچھ بو صدق کی ہے تو پہلے انسان بن کر ہی دکھلا دیں۔ پیچھے سے الوہیت کا دعویٰ کریں کیونکہ انسان بننے کے ہی ایسے لوازم ہیں جن کی ابھی تک بو اُن میں نہیں آئی نہ اُس کے حصول کی کچھ پرواہ رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُمّتِ محمدیہ کی آپ اصلاح کرے۔ عجب خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں اور یہ عاجز بباعث اپنی علالت طبع کے اس مضمون کو تفصیل اور بسط سے نہیں لکھ سکا لیکن میں امید رکھتا ہوں کہ طالب حق کے لئے اسی قدر کافی ہے مگر جس شخص کا مقصد خدا نہیں اس کو کوئی دقیقہ معرفت اور کوئی نشان مفید نہیں۔ ولا تبغنی الایات والنذر عن قوم لایومنون اور یہ عاجز دو دن کے رفع انتظار کی غرض سے یہ خط لکھا گیا اور اب میں توکلاً علی اللّٰہ امرتسر کی طرف روانہ ہوتا ہوں۔ والسلام
(۱۳؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۴؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ بعد سلام مسنون
آنمخدوم کا خط بعد واپسی از امرتسر مجھ کو ملا ۔ آنمخدوم کچھ تفکر اور تردّد نہ کریں اور یقینا سمجھیں کہ وجود مخالفوں کا حکمت سے خالی نہیں۔ بڑی برکات ہیں کہ جن کا ظاہر ہونا معاندوں کے عنادوں پر ہی موقوف ہے۔ اگر دنیاوی معاند اور حاسد اور موذی لوگ نہ ہوتے تو بہت سے اسرار اور برکات مخفی رہ جاتے۔ کسی نبی کے برکات کامل طور پر ظاہر نہیں ہوتے جب تک وہ کامل طور پر ستایا نہیں گیا اگر لوگ خدا کے بندوں کو کہ جو اُس کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں یوں ہی اُن کی شکل ہی دیکھ کر قبول کر لیتے تو بہت عجائبات تھے کہ اُن کا ہرگز دنیا میں ظہور نہ ہوتا۔
(تاریخ ۲۶؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۱۷؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آنمخدوم کا عنایت نامہ بذریعہ محمد شریف صاحب مجھ کو ملا۔ سو آپ کو میں اطلاع دیتا ہوں کہ میں نے حصہ سوئم و چہارم بخدمت علماء دہلی بھیج دیئے ہیں۔ آپ نے جو لکھا ہے کہ چوتھے حصہ کے صفحہ ۴۹۶ پر مخالف اعتراض کرتے ہیں آپ نے مفصل نہیں لکھا کہ کیا اعتراض کرتے ہیں۔ صرف آپ نے یہ لکھا ہے کہ یامریم اسکن میں نحوی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ اسکن کی جگہ اسکنی چاہئے تھا۔ سو آپ کو مطلع کرتا ہوں کہ جس شخص نے ایسا اعتراض کیا ہے اس نے خود غلطی کھائی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ نحو اور صرف سے آپ ہی بے خبر ہے کیونکہ عبارات کا سیاق دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ مریم سے مریم اُم عیسیٰ مراد نہیں ہے اور نہ آدم سے آدم ابولبشر مراد ہے اور نہ احمد سے اس جگہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور ایسا ہی ان الہامات کے تمام مقامات میں کہ جو موسیٰ اور عیسیٰ اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں اُن ناموں سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں ہے بلکہ ہر یک جگہ یہی عاجز مراد ہے اب جب کہ اس جگہ مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد نہیں ہے بلکہ مذکر مراد ہے تو قاعدہ یہی ہے کہ اس کے لئے صیغہ مذکر ہی لایا جائے یعنی یامریم اسکن کہا جائے نہ یہ کہ یا مریم اسکنی۔ ہاں اگر مریم کے لفظ سے کوئی مؤنث مراد ہوتی تو پھر اس جگہ اسکنی آتا لیکن اس جگہ تو صریح مریم مذکر کا نام رکھا گیا ہے اس لئے برعایت مذکر مذکر کا صیغہ آیا اور یہی قاعدہ ہے کہ جو نحویوں اور صرفیوں میں مسلم ہے اور کسی کو اس میں اختلاف نہیں ہے اور زوج کے لفظ سے رفقاء اور قرباء مراد ہیں۔ زوج مراد نہیں ہے اور لغت میں یہ لفظ دونوں طور پر اطلاع پاتا ہے اور جنت کا لفظ اس عاجز کے الہامات میں کبھی اُسی جنت پر بولا جاتا ہے کہ جو آخرت سے تعلق رکھتا ہے اور کبھی دنیا کی خوشی اور فتحیابی اور سرور اور آرام پر بولا جاتا ہے اور یہ عاجز اس الہام میں کوئی جائے گرفت نہیں دیکھتا۔
(۲۱؍فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۲۲؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا یہ عاجز یہ دعا کرتا ہے کہ خواوندکریم اپنے فضل و کرم سے آنمخدوم کی عمر میں برکت بخشے۔ زیادہ تر اس بات میں کوشش کرنی چاہئے کہ کسی طرح مولیٰ کریم راضی ہو جائے۔ ہر یک سعادت اس کی رضا سے حاصل ہوتی ہے۔ دنیا میں جو کچھ انسان رسوم کے طور پر کرتا ہے وہ کچھ چیز نہیں ہے۔ مگر جو کچھ خالصاً مرضات اللہ کے حاصل کرنے کے لئے صدق قدم سے کیا جاتا ہے وہ عمل صالح ہے جس کی انسان کو ضرورت ہے۔ عمل صالح بڑی ہی نعمت ہے خداوندکریم عمل صالح سے راضی ہو جاتاہے اور قرب حضرت احدیّت حاصل ہوتا ہے مگر جس طرح شراب کے آخری گھونٹ میں نشہ ہوتا ہے اسی طرح عمل صالح کے برکات اُس کی آخری خیر میں مخفی ہوتے ہیں جو شخص آخر تک پہنچتا ہے اور عمل صالح کو اپنے کمال تک پہنچاتا ہے وہ اُس برکات سے متمتع ہو جاتا ہے لیکن جو شخص درمیان سے ہر عمل صالح کو چھوڑ دیتا ہے اور اُس کو اپنے کمال مطلوب تک نہیں پہنچاتا وہ اُن برکات سے محروم رہ جات ہے یہی وجہ ہے کہ اکثر لوگ باوجود اس کے کہ کچھ کچھ عمل صالح بجا لاتے ہیں مگر برکات ان اعمال کے ان میں نمایاں نہیں ہوتے کیونکہ جب تک کوئی میوہ خام ہے وہ پختہ اور رسیدہ میوہ کی لذت نہیں بخش سکتا۔ سب برکتیں کمال میں ہیں اور عمل ناتمام میں کوئی برکت نہیں بلکہ بسا اوقات ناقص العمل انسان کا پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جات ہے اور اُن لوگوں میں جا ملتا ہے کہ خسرۃ الدنیا والاخرۃ ہیں۔ سو حقیقی طور پر عمل صالح اس عمل کو کہا جاتا ہے کہ جو ہر یک قسم کے فساد سے محفوظ رہ کر اپنے کمال کو پہنچ جائے اور اپنے کمال تک کسی عمل صالح کا پہنچنا اس بات پر موقوف ہے کہ عامل کی ایسی نیت صالح ہو کہ جس میں بجز حق ربوبیت بجا لانے کی کوئی اور غرض مخفی نہ ہو یعنی صرف اُس کے دل میں یہ ہو کہ وہ اپنے ربّ کی اطاعت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور گو اطاعت بجا لانے پر ثواب مترتب یا عذاب مترتب ہو اور گو اُس کا نتیجہ آرام اور راحت ہو یا نکبت اور عقوبت ہو لیکن بہرحال وہ اپنے مالک کی اطاعت میں رہے گا کیونکہ وہ بندہ ہے۔ پس جو شخص اس اصول پر خدا کی عبادت کرتا ہے وہ اس راہ کی آفات سے امن میں ہے اور امید ہے کہ اس پر فضل ہو لیکن اسے لازم ہے کہ کسی امید پر بنیاد نہ رکھے اور اطاعت اور عبودیت کو ایک حق ربوبیت کا سمجھے کہ جو بہرحال ادا کرنا ہے اور سرگرمی سے خدمت میں لگا رہے اور اپنی کارگزاری اور خدمت کو کچھ چیز نہ سمجھے اور مولیٰ کریم پر احسان خیال نہ کرے دنیا مزرعہ آخرت ہے اور فارغ باشی کچھ چیز نہیں۔ وہی لوگ مبارک ہیں کہ جو دن رات اپنے زور سے اپنے تمام اخلاص سے، اپنے تمام رجوع سے رضائے مولیٰ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ (۲۸؍ فروری ۱۸۸۴ء مطابق ۲۹؍ ربیع الثانی ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا آپ نے جو اپنے عنایت نامہ مرقومہ ۲۹؍ فروری ۱۸۸۴ء میں ایک سوال تحریر فرمایا تھا۔ آج تک میں نے بباعث علالت طبع اُس کی طرف توجہ نہیں کی اور اب بھی بباعث ضعف دماغ و درد سر طبیعت حاضر نہیں ہے لیکن جو آنمخدوم کا وہ خط دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سوال صرف ایک نزاع لفظی ہے کیونکہ جس مرتبہ توحید کو آنمخدوم ابتدائی مرتبہ تصور فرماتے ہیں وہ مرتبہ اس عاجز کے نزدیک ان معنوں کر کے انتہائی مرتبہ توحید کا ہے کہ وہ سیر اولیاء کا منتہا اور آخری حد ہے۔ جس سے فنائے اتم کا چشمہ جوش مارتا ہے۔ اگرچہ درگاہ احدیّت بے نہایت ہے لیکن جس کمال توحید کو انسان اپنے مجاہدہ سے، اپنی کوشش سے اپنے تزکیہ نفس سے، اپنے سیر و سلوک سے حاصل کرنا چاہتا ہے وہ یہیں تک ہے پھر بعد اس کے مخفی تفضلات الٰہیہ اور مواہب لدنیہ ہیں جن تک کوششوں کو راہ نہیں۔ ساری کوششیں اور محنتیں صرف اس حد تک ہیں کہ انسان اپنے نفس اور تمام خلق کو ہیچ اور لاشَے سمجھ کر اور اپنے ہوا اور ارادہ سے باہر ہو کر بکلی خدا تعالیٰ کے لئے ہو جائے اور اپنی ناچیز ہستی، شہود ہستی حقیقی حضرت باری تعالیٰ کے نابود اور معدوم دکھائی دے اور جیسا فی الواقعہ انسان محبت وجود حضرت قادر مطلق کے ہیچ اور ناچیز ہے ایسی ہی حالت پیدا ہو جائے گویا اب بھی وہ نیست ہی ہے۔ جیسا پہلے نیست تھا۔ سو یہ مرتبہ عبودیت کی آخری حد ہے اور یہی اس توحید کا انتہائی مقام ہے کہ جو سعی اور کوشش اور سیرو سلوک سے حاصل کرنا چاہئے۔ یہ سچ ہے کہ بعد اس کے مرتبہ سیر فی اللہ ہے لیکن اس مرتبہ کے حصول کے لئے کوشش کو دخل نہیں بلکہ یہ محض بطریق فضل اور موہیت کے حاصل ہوتا ہے اور کوششیں صرف اُسی مرتبہ فنا تک ختم ہو جاتی ہیں کہ جو اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً ایک شخص کئی منزلیں طَے کر کے بادشاہ کے ملنے کیلئے آیا ہے اور جس قدر ا راہ میں مانع تھے سب سے خلاصی پاکر بادشاہ کے خیمہ تک پہنچ گیا ہے اب خیمہ کے اندر جانا اُس کا کام نہیں ہے بلکہ وہ اپنا کام سب کر چکا ہے اور خیمہ میں داخل کرنا اور بارگاہ میں دخل دینا یہ خاص بادشاہ کا کام ہے کہ جو ایک خاص اجازت بادشاہی پر موقوف ہے۔ ناچیز بندہ کیا حقیقت رکھتا ہے کہ جو اپنی بشری طاقتوں کے ذریعہ سے اور اپنے اختیار سے خود بخود بلا اجازت بارگاہ میں داخل ہو جائے اور اب بباعث ضعف زیادہ لکھ نہیں سکتا۔ آپ نے جو کئی شعروں کے معنی دریافت فرمائے ہیں وہ کسی اور وقت اگر خدا نے چاہا تحریرکروں گا اور امرتسر سے واپس آ گیا ہوں اور واپس آ کر میر مردان علی صاحب کا خط ملا سو اُن کی نسبت اور آنمخدوم کے لخت جگر کی نسبت دعاء خیر کر کے حوالہ بخدا کرتا ہوں جب طبیعت رو بصحت ہوئی انشاء اللہ تعالیٰ بشرط یاد آنمخدوم کے سوال معنی اشعار کے معنوں کی بابت لکھا جائے گا۔
(۱۱؍ مارچ ۱۸۸۴ء مطابق ۱۲؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۱ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ
مخدومی مکرمی اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ تعالیٰ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ مع مبلغ … روپیہ پہنچا۔ یہ عاجز آپ کا بغایت درجہ شکر گزار ہے اور اپنے مولیٰ کریم جل شانہ سے یہ چاہتا ہے کہ آپ کو جزائے عظیم بخشے۔ آج اسی وقت میں نے خواب دیکھا ہے کہ کسی ابتلا میں پڑا ہوں اور میں نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا اور جو شخص سرکاری طور پر مجھ سے مواخذہ کرتا ہے۔ میں نے اُس کو کہا کیا مجھ کو قید کریں گے یا قتل کریں گے۔ اس نے کچھ ایسا کہا کہ انتظام یہ ہوا ہے کہ گرایا جائے گا۔ میں نے کہا کہ میں اپنے خداوند تعالیٰ جلہ شانہٗ کے تصرف میں ہوں۔ جہاں مجھ کوبیٹھائے گا، بیٹھ جاؤں گا اور جہاں مجھ کو کھڑا کرے گا کھڑا ہو جاؤں گا اور یہ الہام ہوا۔ یدعون لک ابدال الشام و عباد اللّٰہِ من العرب یعنی تیرے لئے ابدال شامل کے دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں۔ خدا جانے یہ کیا معاملہ ہے اور کب اور کیونکر اس کا ظہور ہو۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ مناسب سمجھا تھا آپ کو اطلاع دوں۔
(۶؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق ۱۹؍ جمادی الثانی ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدوم مکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا اخلاص اور جوش محبت اپنے کمال کو پہنچ گیا۔ ذالک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء۔ خداوندکریم سے چاہتا ہوں کہ آپ کا نشست خاطر بہ جمعیت مبدل ہو۔ آمین
(۱۹؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق ۳؍ رجب ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدومی ام میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آں مخدوم کا عنایت نامہ پہنچا چونکہ آنمخدوم کی روح کو اس عاجز کی روح سے بشدت مناسبت ہے اسی وجہ سے تعلقات روحانی کا غلبہ ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی حالت کاملہ ابتلاء کے خطرات سے امن میں ہے۔ یہ عاجز بوجہ قلت فرصت تحریر جواب سے قاصر رہا اور مستعد تحریر تھا کہ اسی میں خط پہنچ گیا۔ دہلی کی طرف جانے کے لئے ابھی کچھ معلوم نہیں۔ ہندوستان میں اکثر اطراف بیماری بہت پھیل رہی ہے اگر کسی وقت بطریق عجلت سفر اُس طرف کا پیش آیا۔ تب تو مجبوری ہے ورنہ بہر طرح خواہ ایک ساعت کے لئے ہو۔ انشا ء اللہ ملاقات آنمخدوم کی ہوگی۔ آگے ہر ایک امر خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ پردہ غیب میں جو کچھ مخفی ہے کسی کو اس پر اطلاع نہیں۔ آنمخدوم اپنی اصلی صحت پر آگئے ہوں تو اطلاع بخشیں۔ (۴؍ جون ۱۸۸۵ء مطابق دہم رمضان المبارک ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از خاکسار غلاماحمد باخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خط آنمخدوم پہنچا۔ یہ عاجز بباعث درد سر و درد پہلو اس قدر بیمار رہا کہ بعض اوقات یہ عارضہ مقدمہ موت جو ہریک بشر کیلئے ضروری ہے معلوم ہوتا تھا۔ اب افاقہ ہے مگر کچھ درد باقی ہے۔ اسی وجہ سے تحریر جواب سے معذور رہا۔ آپ کا خط جو استفسار اختلافات نماز میں ہے وہ بھی اس عاجز کے پاس رکھا ہے مگر کیا کِیا جائے صحت پر موقوف ہے۔ بمبئی والے سوداگر کی بدمعاملگی ایک ابتلاء ہے اس میں صبر بہتر ہے۔ مقدمہ سازی و مقدمہ بازی دنیا داروں کا کام ہے جس کو خدا تعالیٰ نے بصیرت بخشی ہے وہ سب امور خدا تعالیٰ کی طرف سے دیکھتا ہے۔ سو اس میں حضرت خداوند کریم کی کچھ حکمت ہے۔ آپ صبر کریں اور خدا تعالیٰ پر توکّل رکھیں اور جو کچھ حالت عسر و تنگدستی درپیش ہے۔ یہ بھی ابتلا ہے۔ ایسے وقتوں میں مردان خدا اُس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دعا اور استغفار اور تضرع سے استقامت و مشکل کشائی چاہتے ہیں اور حضرت ارحم الراحمین غراسمہٗ و قادر کریم و رحیم ہے۔ جب بندہ عاجز اپنے کرب اور قلق کے وقت میں ہر یک طرف سے قطع امید کر کے اُس کے دروازہ پر گرتا ہے اور پورے پورے رجوع سے دعا کرتا ہے اور دعا کرنے سے تھکتا نہیں۔ سو خدا تعالیٰ اُس پر رحم فرماتا ہے اور اس کی مخلصی بخشتا ہے۔ تب اُس کو دو لذتیںملتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اپنے کرب و قلق سے نجات پاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ دعا کے قبول ہونے میں جو ایک لذت ہے۔ اس سے بھی وہ متمتع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نہایت کریم و رحیم ہے جب بندہ یقین کامل اپنے دردوں اور تکلیفوں کے وقت میں اس کی طرف رجوع کرتا ہے تو ضرور وہ اُس کی سنتا ہے۔ اس عاجز کو اس بات سے افسوس ہے کہ آپ کے چند خطوط جو علوم دین کے استفسار میں تھے۔ اُس کا جواب مجھ سے نہیں لکھا گیا اور اب ضعف دماغ و درد سر کا یہ حال ہے کہ جو کچھ کھایا جاتا ہے۔ اُس کی تبخیر ہو کر درد شروع ہو جاتا ہے۔ اس بات کی ابھی تسلی نہیں کہ عمر کا کیا حال ہے۔ بعض عوارض لاحقہ میں اندیشہ موت کا پیدا ہو جاتا ہے۔ کام کتاب کا ہنوز شروع نہیں کیا گیا۔ اگر خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ کتاب پوری ہو جائے گی۔
(۲۴؍جون۱۸۸۵ء مطابق ۱۰ رمضان ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدوم ومکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ عاجز چند روز سے امرتسر گیا ہوا تھا۔ آج بروز چار شنبہ بعد روانہ ہو جانے ڈاک کے یعنی تیسرے پہر قادیان پہنچا اور مجھ کو ایک کارڈ میر امداد علی صاحب کا ملا۔ جس کے دیکھنے سے بمقتضائے بشریت بہت تفکر اور تردّد لاحق ہوا۔ اگرچہ میں بھی بیمار تھا مگر اس بات کے معلوم کرنے سے کہ آپ کی بیماری غایت درجہ کی سختی پر پہنچ گئی ہے مجھ کو اپنی بیماری بھول گئی اور بہت سی تشویش پیدا ہوگئی۔ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے عمر بخشے اور آپ کو جلد تر صحت عطا فرماوے۔ اسی تشویش کی جہت سے آج بذریعہ تار آپ کی صحت دریافت کی اور میں بھی ارادہ رکھتا ہوں کہ بشرط صحت و عافیت ۱۴؍اکتوبر تک وہیں آ کر آپ کو دیکھوں اور میں خدا تعالیٰ سے دعا مانگتا ہوں کہ آپ کو صحت عطا فرماوے۔ آپ کے لئے بہت دعا کروں گا اور اب توکلاً علی اللّٰہ آپ کی خدمت میں یہ خط لکھا گیا۔ آپ اگر ممکن ہو تو اپنے دستخط خاص سے مجھ کو مسرور الوقت فرماویں۔
(۸؍ اکتوبر ۱۸۸۴ء مطابق ۱۷؍ ذوالحجہ ۱۳۰۲ھ)
٭٭٭
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مخدوم ومکرم اخویم میر عباس علی شاہ صاحب ۔بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا عنایت نامہ پہنچا۔ خطوط کے چھپنے کے لئے اس عاجز نے ایک خاص معتبر لاہور میں بھیجا ہوا ہے۔ اگرچہ ارادہ تھا کہ دو ہزار خط چھاپا جائے مگر دو ہزار نوٹس کے بھیجنے میں پانچ سَو روپیہ خرچ آتا ہے کیونکہ ہر ایک خط رجسٹری ہو کر بصرف چار آنا جائے گا۔ اس لئے بعض دوستوں کے مشورہ سے قریب مصلحت معلوم ہوا کہ بالفعل صرف پانچ سَو خط چھپوایا جائے۔ جس میں کچھ انگریزی اور کچھ اُردو ہوں گے۔ ان خطوط کے چھپوانے اور روانہ کرنے میں بھی ایک سَو پچاس یا کچھ زیادہ روپیہ خرچ آ جائے گا۔ مگر یہ کام اتمام حجت کے لئے کیا گیا ہے تا ہر یک ضلع میں بڑے بڑے پادریوں اور پنڈتوں کی طرف اور بعض راجوں اور رئیسوں کی طرف بھی اور بعض علماء اور گدی نشینوں کی طرف بھی روانہ کئے جائیں اور پھر جب اُن سب کی اطلاع یابی ہوکر آجائے تو اُن سبکے نام بغرض اظہار اِتمام حجت حصہ پنجم میں درج کئے جائیں۔ سو اگر خدا تعالیٰ نے چاہا اور اُس کے ارادہ میں ہوا تو یہ کام انجام پذیر ہو جائے گا ورنہ ہرچہ مرضی مولیٰ ہمان اولیٰ۔ مکتوب حضرت یحیٰ منیری کا مضمون جو آپ نے لکھا ہے بہت ہی عمدہ ہے اور منصف کے لئے کافی۔ والسلام
(دوم مارچ ۱۸۸۵ء ۔ ۱۲؍ جمادی الاوّل ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از عاجزعایذبااللہ الصمد غلام احمدبخدمت اخویم مخدوم و مکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا عنایت نامہ آنمخدوم پہنچا۔ حال معلوم ہوا۔ جس قدر آنمخدوم نے اشاعت دین اور اعلاء کلمہ اسلام کے لئے رنج اُٹھایا ہے خدا تعالیٰ اُس کے عوض میں آپ پر اس طور سے راضی ہو کہ جیسا اپنے سچے خادموں اور مقبولوں پر راضی ہوا کرتا ہے۔ آمین ثم آمین۔ فی الحقیقت مسلمانوں کی عجیب نازک حالت ہو رہی ہے جس عظمت اور بزرگی کو خدا اور رسول میں ماننا تھا۔ وہ اور اور چیزوں کو دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ رحم کرے اور اپنے سچے دین کی حمایت میں وہ تائید دکھلاوے جن سے ان کور باطنوں کی آنکھوں کھلیں۔ ہم عاجز اور ذلیل بندے کیا حقیقت اور کیا کر سکتے ہیں۔ اگر ہمارے ہاتھوں میں توفیق ایزدی کچھ ہے تو صرف تضرعات ہیں اگر ربّ العرش تک پہنچ جائیں لیکن دل پُر درد کا یہ حال ہے کہ نہ بہشت کے نعماء کے لئے طبیعت کو جوش ہے اور نہ دوزخ کے آلام کی فرک ہے بلکہ دل اور جان اسی تمنا میں غرق ہو رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان بدعات کے داغوں کو اسلام کی خوبصورت شکل سے دور کرے اور اپنی خاص حمایت اور نصرت سے عظمت اور بزرگی اپنے کلام کی لوگوں پر ظاہر فرما دے۔ آمین!
مرزا جان جانان صاحب کے خط کا ردّ کچھ مشکل نہیں۔ مرزا صاحب مرحوم ہندوؤں کے اصولوں سے بکلّی ناواقف معلوم ہوتے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ کسی فرصت کے وقت ان کی نسبت کچھ تحریر کیا جائے گا۔ اس عاجز کا یہ حال ہے کہ بعض گذشتہ اور تازہ الہامات سے قرب اجل کے آثار پائے جاتے ہیں گو صفائی سے نہیں بلکہ مشتبہ اور ذومعنیں الہام ہیں تا ہم فکر سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ اسی وجہ سے میں نے اپنی تمام ہمت کو اس طرح مصروف کیا ہے۔ حصہ پنجم کی عبارت کو جلد مرتب اور بامحاورہ کر کے اور جو کچھ اس میں زائد داخل کرنا ہے وہ داخل کر کے توکلاً عَلٰی اللّٰہ چھپوانا شروع کر دوں کہ اس ناپائیدار اور ہیچ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ آپ بھی دعا کریں اور اخومی منشی احمد جان صاحب کو بھی لکھیں کیونکہ بعض تقدیرات بعض دعاؤں سے ٹل جاتی ہیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ عاجز بدل و جان حضرت خداوندکریم سے آپ کے لئے دعا مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں آپ کو خوش رکھے۔ جس قدر انسان عالی ہمت اور صابر ہوتا ہے۔ اُسی قدر تکالیف سے آزمایا جاتا ہے۔ بیگانہ جس میں زہر کا تخم ہے۔ اس لائق ہرگز نہیں ہونا کہ خدا تعالیٰ اُس کو ایسے ابتلا میں ڈالے جس میں صادقوں کو ڈالتا ہے۔ سو مبارک وہی ہیں جن کوخدا درجات عطا کرنے کیلئے دنیا کی تلخیوں کا کچھ مزہ چکھاتا ہے۔ دنیا کی حالت یکساں نہیں رہتی جس طرح دن گزر جاتا ہے۔ آخر رات بھی اسی طرح گزر جاتی ہے۔ سو جو شخص خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتا ہے وہ مصیبت کی رات کو ایسی کاٹتا ہے جیسے کوئی سونے کی حالت میں رات کو کاٹتا ہے اگر پروردگار ایمان کو بچائے رکھے تو مصیبت کچھ چیز نہیں لیکن اگر مصیبت کچھ بھی ہو اور مدد ایمانی منقطع ہو جائے تو نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔ یہ عاجز تو حضرت خداوندکریم سے امید بھی رکھتا ہے کہ آپ کے ہموم و غموم بفضلہ تعالیٰ دور ہوں اور اجر حاصل اور غم زائل ہو۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ چند اشتہارات ارسال خدمت میں۔ والسلام
(۹؍جون ۱۸۸۵ء۔ ۲۴ ؍ شعبان ۱۳۰۲ھ)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد ہذا ان دنوںمیں ایک شخص اندر من نام جو ایک سخت مخالف اسلام ہے اور کئی کتابیں ردّ اسلام میں اُس نے لکھی ہیں۔ مراد آباد سے اوّل نابھہ میں آیا اور راجہ صاحب نابھہ کی تحریک سے میرے مقابلہ کیلئے لاہور میں آیا اور لاہور میں آ کر اس عاجز کے نام خط لکھا کہ اگر چوبیس سَو روپیہ نقد میرے لئے سرکار میں جمع کرا دو تو میں ایک سال تک قادیان میں ٹھہروں گا سو یہ خط اُس کا بعض دوستوں کی خدمت میں لاہور میں بھیجا گیا۔ سو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دولتمند مسلمان نے ایک سال تک ادا ہو جانے کی شرط سے چوبیس سَو روپیہ نقد اس عاجز کے کارپردازوں کو بطور قرضہ کے دے دیا اور قریب دو سَو مسلمان کے جن میں بعض رئیس بھی تھے جمع ہو گئے اور وہ روپیہ مع ایک خط کے جس کی ایک کاپی آپ کی خدمت میں بھیجی جاتی ہے ایک گروہ کثیر مسلمانوں کا اندرمن کے مکان پر جہاں وہ فروکش تھا لے گیا مگر اندرمن غالباً اس انتظام کی خبر پا کر فرید کوٹ کی طرف بھاگ گیا۔ آخر وہ خط بطور اشتہار کے چھپوایا گیا اور شہر میں تقسیم کیا گیا اور دو رجسٹری شدہ خط راجہ صاحب نابھہ اور راجہ صاحب فرید کوٹ کے پاس بھیجے گئے اور بعض آریہ سماجوں میں بھی وہ خطوط بھیجے گئے۔ شاید اگر یہ کسی راجہ کے کہنے کہانے سے اندر من نے اس طرف رُخ کیا تو پھر اطلاع دی جائے گی۔ بالفعل اللہ تعالیٰ نے میدان مسلمانوں کے ہاتھ میں رکھا۔ فالحمدللہ علی ذالک
نقل اشتہار
منشی اندر من صاحب مراد آبادی نے میرے اس مطبوع خط (جس کی ایک ایک کاپی غیر مذاہب کے رؤساء و مقتداؤں کے نام خاکسار نے روانہ کی تھی) جس کے جواب میں پہلے نابھہ سے پھر لاہور سے یہ لکھا تھاکہ تم ہمارے پاس آؤ اور ہم سے مباحثہ کر لو اور نہ موعود اشتہار پیشگی بنک میں داخل کرو۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس کے جواب میں خاکسار نے رقمیہ ذیل معہ دو ہزار چار سَو روپیہ نقد ایک جمعیت اہل اسلام کے ذریعہ سے ان کی خدمت میں روانہ لاہور کیا۔ جب وہ جماعت منشی صاحب کے مکان موعود میں پہنچی تو منشی صاحب کو وہاں نہ پایا۔ وہاں سے اُن کو معلوم ہوا کہ جس دن منشی صاحب نے خاکسار کے نام خط روانہ کیا تھا۔ اُسی دن سے وہ فرید کوٹ تشریف لے گئے ہوئے ہیں باوجودیکہ اُس خط میں منشی صاحب نے ایک ہفتہ تک منتظر جواب رہنے کا وعدہ تحریر کیا تھا۔ یہ امر نہایت تعجب اور تردّد کا موجب ہوا لہٰذا یہ قرار پای کہ اس رقیمہ کو بذریعہ اشتہار مشتہر کیا جاوے اور اس کی ایک کاپی مشفقی اِندر من صاحب۔ آپ نے میرے خط کا جواب نہیں دیا ایک نئی بات لکھی ہے۔ جس کی اجابت مجھ کو اپنے عہد کے رُو سے واجب نہیں ہے۔ میری طرف سے یہ عہد تھا کہ جو شخص میرے پاس آوے اور صدق دل سے ایک سال میرے پاس ٹھہرے اس کو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی آسمانی نشان مشاہدہ کرادے گا جس سے قرآن اور دین اسلام کی صداقت ثابت ہو۔ اب اُس کے جواب میں اوّل تو مجھے اپنا (نابھہ میں پھر لاہور میں) بُلاتے ہیں اور خود آنے کا ارادہ ظاہر فرماتے ہیں تو مباحثہ کے لئے نہ آسمانی نشان دیکھنے کیلئے۔ اس پر طفہ یہ کہ روپیہ اشتہار پیشگی طلب فرماتے ہیں جس کا میں نے پہلے وعدہ نہیں دیا۔ اب آپ خیال فرما سکتے ہیں کہ میری تحریر سے آپ کا جواب کہاں تک متفاوت و متجاوز ہے۔ بہ بین تفاوت راہ از کجاست تابکجا۔ لہٰذا میں اپنے اسی پہلے اقرار کی رُو سے پھر آپ کو لکھتا ہوں کہ آپ ایک سال رہ کر آسمانی نشانوں کا مشاہدہ فرماویں اگر بالفرض کسی آسمانی نشان کو آپ کو مشاہدہ ہو تو میں آپ کو چوبیس سَو روپیہ دے دونگا اور اگر آپ کو پیشگی لینے پر بھی اصرار ہو تو مجھے اس سے بھی دریغ وعذر نہیں بلکہ آپ کے اطمینان کیلئے سردست چوبیس سَو روپیہ نقد ہمراہ رقیمہ ہذا ارسال خدمت ہے مگر چونکہ آپ نے یہ ایک امر زائد چاہا ہے اس لئے مجھے بھی حق پیدا ہو گیا ہے کہ میں امر زائد کے مقابلہ میں کچھ شروط آپ سے لوں جن کا ماننا آپ پر واجبات سے ہے۔
(۱) جب تک آپ کا سال گذر نہ جائے کوئی دوسرا شخص آپ کے گروہ سے زرموعود پیشگی لینے کا مطالبہ نہ کرے کیونکہ ہر شخص کو زر پیشگی دینا سہل و آسان نہیں ہے۔
(۲) اگر آپ مشاہدہ نشان آسمانی کے بعد اظہار اسلام میں توقف کریں اور اپنے عہد کو پورا نہ کریں تو پھر حرجانہ یا جرمانہ دو امر سے ایک امر ضرور ہو۔
(الف) سب لوگ آپ کے گروہ کے جو آپ کو مقتدا جانتے ہیں یا آپ کے حامی اور مربی ہیں اپنا عجز اور اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کا بے دلیل ہونا تسلیم کر لیں۔ وہ لوگ ابھی سے آپ کو اپنا وکیل مقرر کر کے اس تحریر کا آپ کو اختیار دیں۔ پھر اس پر اپنے دستخط کریں۔
(ب) درصورت تخلف وعدہ جانب سامی سے اس کا مالی جرمانہ یا معاوضہ جو آپ کی اور آپ کے مربیوں اور حامیوں اور مقتدیوں کی حیثیت کے مطابق ہو ادا کریں تا کہوہ اس مال سے اس وعدہ خلافی کی کوئی یادگار قائم کی جائے (ایک اخبار تائید اسلام میں جاری ہو یا کوئی مدرسہ تعلیم نو مسلم اہل اسلام کے لئے قائم ہو) آپ ان شرائط کو تسلیم نہ کریں تو آپ مجھ سے پیشگی روپیہ نہیں لے سکتے اور اگر آپ آسمانی نشان کے مشاہدہ کے لئے نہیں آنا چاہتے صرف مباحثہ کیلئے آنا چاہتے ہیں تو اس امر سے میری خصوصیت نہیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس اُمّتِ محمدیہ میں علماء اور فضلا اور بہت ہیں جو آپ سے مباحثہ کرنے کو تیار ہیں میں جس امر سے مامور ہوچکا ہوں اُس سے زیادہ نہیں کر سکتا اور اگر مباحثہ بھی مجھ سے ہی منظور ہے تو آپ میری کتاب کا جواب دیں۔ یہ صورت مباحثہ کی عمدہ ہے اور اس میں معاوضہ بھی زیادہ ہے۔ بجائے چوبیس سَو روپیہ کے دس ہزار روپیہ۔
(۳۰؍ مئی ۱۸۸۵ء)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ
از عاجز عایذ باللہ الصمد غلام احمد بخدمت اخویم مخدوم ومکرم میر عباس علی شاہ صاحب سلمہ ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا ایک خط وید کی حقیقت میں معہ چند اشعار مولوی عبدالمجید صاحب بذریعہ پمفلٹ آپ کی خدمت میں ارسال ہیں۔ ویدوں کی نسبت ہندوؤں کی طرف سے کبھی یہ دعویٰ نہیں ہوا کہ اُن کی تعلیم شرک اور مخلوق پرستی سے خالی ہے بلکہ سب ہندو جو تقریباً چودہ یا پندرہ کروڑ پنجاب اور ہندوستان میں رہتے ہیں۔ بڑے پیار سے اُن دیوتاؤں کو مانتے ہیں جو وید میں لکھے گئے ہیں اور جس ہندو سے اُس کی بُت پرستی یا آتش پرستی یا دوسری ہزاروں دیوتاؤں کی پوجا کی نسبت سوال کیا جائے کہ کسی کتاب کے حکم سے یہ کام اختیار کیا گیا ہے تو وہ جھٹ یہی جواب دیتا ہے کہ یہ سب طریق پرستش کا وید میں درج ہے اور اس کی ہدایت کی موافق ہم اُن چیزوںکی پرستش کر رہے ہیں اور درحقیقت یہ جواب اُس کا سچ ہے کیونکہ جس قدر ہندوؤں کی آتش پرستی و آب پرستی و آفتاب پرستی وغیرہ پرستشیں جاری ہیں۔ اُن سب پرستشوں کا حکم وید ہی میں مندرج ہے اور نہ ایک اور نہ دو جگہ بلکہ صدہا جگہ اُن چیزوں کی پوجا کے لئے تاکید ہے اور وید کا کوئی ایسا صفحہ نہیں جو مخلوق پرستی کی تعلیم سے خالی ہو۔ جیسا کہ یہ بات اُس شخص پر کھل سکتی ہے کہ جو وید کو اپنے ہاتھ میں لے کر کسی جگہ سے اُس کو پڑھتے۔ غرض کہ وید کا یہ مقصود ہرگز نہیں ہے کہ وہ خلق اللہ کو توحید پر قائم کرے بلکہ اوّل سے آخر تک وید میں یہی تاکید پائی جاتی ہے کہ آگ اور ہوا اور سورج اور چاند اور ستاروں اور پانی وغیرہ کی پرستش کرنی چاہئے اور ان ہی چیزوں سے اپنی مرادیں مانگنی چاہئے۔ یہی باعث ہے کہ جو کچھ آج تک وید کی تعلیم کاہندؤوں کے دلوں پر اثر پڑا ہے۔ وہ یہی مخلوق پرستی ہے کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ کسی حصہ پنجاب یا ہندوستان میں ایسے ہندو بھی پائے جاتے ہیں جو مخلوق پرستی سے بیزار اور اپنے تمام عقاید اور عبادات میں موحد ہیں۔ حاشا وکلا ہرگز ثابت نہیں ہو سکتا بلکہ جہاں جاؤ اور جس ملک میں دیکھو جا بجا ہندو لوگ سخت درجہ کے شرک اور مخلوق پرستی میں گرفتار ہیں یہاں تک کہ انسان سے لے کر حیوانات اور نباتات تک ان نادانوں نے اپنے معبود ٹھہرائے ہیں۔ نہ پانی چھوڑا، نہ آگ، نہ ہوا، نہ پتھر بلکہ دنیا میں جو چیز از قسم اجرام علوی میں یا اجسام سفلی میں نظر آتی ہے وہ سب کے سب ہندوؤں کے معبود اور دیوتے ہیں اور جیسا کہ ہم ابھی بیان کر چکے ہیں اس قدر مخلوق پرستی میں ہندوؤں کا قصور نہیں ہے بلکہ یہ تمام قصور وید اور اُس کے شائع کرنے والوں کا ہے۔ غرض وید جس جنس سے بھرا ہوا ہے وہ سب شرک ہے اور جو کچھ وید نے دنیا کو فائدہ پہنچایا وہ مشرکانہ تعلیم ہے جس میں آج تک سب ہندو مبتلا اور گرفتار ہیں اور کوئی ہندو اس مشرکانہ حالت میں اپنی غلطی اور قصور کا اقرار نہیں کرتا بلکہ سارے کے سارے یہی کہتے ہیں کہ یہ تحفہ ہمارے وید مقدس سے ہم کو ملا ہے اور اُس نے اس راہ پر ہم کو چلایا ہے اور جب ہم بذات خود وید کو کھول کر دیکھتے ہیں تو ہندوؤں کو اُن کے اس بیان میں راست گو پاتے ہیں اور ہندوؤں کی مشرکانہ حالت جو ہزاروں برس سے چلی آتی ہے وہ اُن کی خود تراشیدہ معلوم نہیں ہوتی بلکہ وید کی پیروی کے نتائج ہیں جو بطور داغ ملامت یا کلنک کے ٹیکے کے وید کی اندرونی حالت کو ظاہر کرتے ہیں۔ تھوڑے دنوں سے پنڈت دیانند سورستی نے (جو اَب اس دنیا سے کوچ کر گئے ہیں) اس خیال سے کہ اَب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ مشرکانہ تعلیم ہر یک سلیم القلب کو بُری معلوم ہوتی ہے۔ اس بے بنیاد خیال کے ثابت کرنے کیلئے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ کسی طرح داغ مخلوق پرستی کی تعلیم کا وید کی پیشانی سے دھویا جائے اور بر خلاف اپنی تمام قوم کے یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ اگرچہ وید میں بظاہر مشرکانہ تعلیم معلوم ہوتی ہے۔ مگر درپردہ اُس کی اندر کی تہہ میں توحید چھپی ہوئی ہے لیکن وہ اس اپنے مطلب کے پورا کرنے کیلئے کامیاب نہ ہو سکے۔ ہندوستان و پنجاب کے تمام محقق پنڈتوں نے آپ کے خیالی وید بھاش کو ردّ اور نامنظور کیا اور اُس پر یہ ریویو لکھے کہ پنڈت صاحب کا یہ وید بھاش اصل میں ویدوں کی تفسیر نہیں ہے بلکہ اُس کو ایک نیا وید سمجھنا چاہئے جس کو پنڈت صاحب اپنے من گھڑت سے بنا رہے ہیں۔ ہندوؤں کے وید سے اُس کو کچھ تعلق نہیں بلکہ اُس سے سراسر مخالف اور منافی ہے اور جب پنڈت صاحب نے دیکھا کہ ہندوستان اور پنجاب کے پنڈتوںمیں ہماری دال نہیں گلتی اور کوئی ہمارے دھوکہ میں نہیں آتا تو پھر انہوں نے ایک اور تدبیر سوچی کہ وہ مصنوعی وید بھاش یونیورسٹی میں درسی کتاب بنانے کے لئے سرکار انگریزی میں پیش کیا جائے تو پنڈت صاحب نے ایسا ہی کیا اور صاحب لفٹنٹ گورنر پنجاب کی خدمت میں ایک درخواست معہ چند جز اپنے وید بھاش کے بدیں التماس مرسل کئے کہ یہ وید بھاش میرا یونیورسٹی لڑکوں کو پڑھایا جائے کیونکہ میں نے بڑی ہمت اور بہادری کر کے وید میں توحید ثابت کر دکھائی ہے اور وہ لاکھوں پنڈت جھوٹے ہیں جو وید کو توحید سے خالی سمجھتے ہیں۔ اس پر صاحب لفٹنٹ بہادر کو درخواست کے سننے سے بہت تعجب ہوا کہ کیونکر اور کیسے ممکن ہے کہ وید جو اپنی مشرکانہ تعلیم میں سارے جہان میں اعتراضوں کا نشانہ بنا ہوا ہے اور ضرب المثل ہے وہ شرک اور دیوتا پرستی سے خالی ہو۔ سو اُنہوں نے وہ درخواست یونیورسٹی کے چیدہ اور منتخب پنڈتوں کے پاس بھیج دی کہ وہ پنڈت دیانند کے وید بھاش کو دیکھ کر اپنی اپنی رائے لکھیں۔ اب قصہ کوتاہ یہ کہ سب کے سب پنڈتوں نے بالاتفاق یہ رائے لکھی کہ یہ وید بھاش دیانند کا سرا سر غلط اور پوچ اور لغو ہے وید کی مخلوق پرستی کی تعلیم اور جابجا دیوتاؤں کی پوجا کے لئے ترغیب اور تحریک ایسا امر نہیں ہے کہ اُس کو چھپا سکیں یا پوشیدہ رکھ سکیں۔ سو دیانند کا وید بھاش ویدوں سے کچھ تعلق نہیں رکھتا۔ ہاں اُس کو ایک نیا وید کہیں جس کے پنڈت صاحب بھی مصنف ہیں تو یہ کہنا بجا اور درست ہے اس رائے کے پہنچنے سے صاحب لفٹنٹ گورنر بہادر نے پنڈت دیانند کی درخواست کو نامنظور کر کے اُن کو اطلاع دے دی کہ یہ وید بھاش تمہارا عام رائے پنڈتوں سے برخلاف ہے۔ اس لئے قابل منظوری نہیں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ اگر وید میں ایک ذرّہ بھی توحید کی بُو پائی جاتی تو کیونکر تمام ہندوستان کے پنڈت اُس سے انکاری یا غافل رہتے اور اگر بفرض محال یہ بھی تسلیم کر لیں کہ وید میں بطور معما یا چیستان اور پھیلی کے ایک چھپی ہوئی توحید ہے جس پر صرف پنڈت دیانند کو اطلاع ہوئی اور دوسری تمام دنیا اس سے بے خبر رہی تو پھر یہ سوال عاید ہو گا کہ ایسی پیچیدہ اور سربمہر توحید سے دنیا کو کیا فائدہ ہوا اور بجز اس کے کہ لاکھوں بندگانِ خدا وید کے اُلٹے معنی سمجھ کر دیوتا پرستی میںمبتلا ہوئے اور کیا نتیجہ ایسے پیچیدہ بیان سے نکلا۔ کیا ہندوؤں کے پرمیشر کو بات کرنے کا سلیقہ بھی یاد نہیں کہ بجائے اس کے جو توحید کو کہ جو اُس کا اصل مطلب تھا واضح تقریر سے بیان کرتا ایسے بے سروپا اور غیر فصیح لفظوں میں بیان کیا کہ جس سے لوگ کچھ کا کچھ سمجھنے لگے اور ہزاروں دیوتاؤں کی ہندوؤں میں پوجا شروع ہوگئی اور مخلوق پرستی اُس حد تک پہنچ گئی جس کی نظر دنیا میں نہیں پائی جاتی اور یہ تو ہم نے بطور مثال لکھا ہے اور ایک فرضی طور پر بیان کیا ہے ورنہ اگر کوئی ذرا آنکھ کھول کر ایک صفحہ وید کا بھی پڑھے تو بہ یقین تمام اُس کو معلوم ہو جائے گا کہ وید کی عبارت کا اصلی مقصد اور مطلب یہی ہے کہ دیوتاؤں کی پوجا کرائی جاوے۔ مگر پنڈت دیانند نے اس بدیہی بات کو چھپانے کے لئے کوشش کرنا چاہا۔ آخر ناکام رہے اور بجائے اس کے کہ وید میں توحید ثابت کرتے اور اس عیب سے مبرا ہونا اُس کا بہ پایا ثبوت پہنچاتے کئی ایک اور عیب بھی جو وید میں پائے جاتے ہیں اُنہوں نے ظاہر کر دکھائے اور یک نہ شُد دو شُد کا معاملہ ہو گیا۔ جس کو ہم اپنی کتاب براہین احمدیہ کے حصہ پنجم میں انشاء اللہ بہ تفصیل بیان کریں گے۔ اب صرف اجمالی طور پر لکھا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے وید نعمت توحید سے بالکل بے نصیب اور تہی دست اور محروم ہیں۔ اس جگہ یہ ذکر کرنا بھی فائدہ سے خالی نہیں کہ وہ کتابیں جو وید سے موسوم کی گئی ہیں۔ ایک شخص کی تالیف نہیں ہیں بلکہ مختلف لوگوں نے مختلف وقتوں میں اُن کو تالیف کیا ہے اور مؤلفین کے نام اب تک منتروں کے سر پر جدا جدا لکھے ہوئے پائے جاتے ہیں اور وہ منتر بطور شعر کے ہیں جو دیوتاؤں کی تعریف میں خوش اعتقاد لوگوں نے بنائے تھے ان کتابوں کے پڑھنے سے ہرگز یہ پایا نہیں جاتا کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو کسی ایک یا چند پیغمبروں پر نازل کیا تھا بلکہ منجانب اللہ ہونے کا ذکر بھی نہیں۔ جابجا منتروں کے سر پر یہی لکھاہوا نظر آتا ہے کہ یہ منتر فلاںشخص نے تالیف کیا ہے اور یہ فلاں شخص نے اور یہی وجہ ہے کہ زمانہ حال کے مصنفوں نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ وید ایسی کتاب نہیں جو یہ دعویٰ کرتی ہو کہ میں آسمانی کتا ہوں اور فلاں فلاں پیغمبر پر اُتری تھی بلکہ ایک مجموعہ اشعار ہے جس کو کئی ایک شاعروں نے اوقات مختلفہ میں جوڑا ہے۔ ماسوائے اس کے وید میں یہ بات بھی نہیں کہ جیسے ربّانی کتاب ربّانی قدرتوں اور صفتوں کا ایک آئینہ ہونی چاہئے اور خدا تعالیٰ کے وجود اور اُس کی قدرت تامہ اور اُس کی غیبت بینی اور اُس کی خالقیت اور عزاقیت وغیرہ صفات کو صرف عقلی طورپر ثابت نہ کرے بلکہ آسمانی نشان کے طور پر طالبِ حق کو مشاہدہ کروائے کہ خدا فی الحقیقت موجود اور اُس میں یہ صفات موجود ہیں کیونکہ درحقیقت ربّانی کتابوں کے نازل ہونے سے عمدہ فائدہ یہی ہے کہ خدا اور اُس کی صفات کو نہ صرف عقلی اور قیاسی طور پر شناخت کیا جائے بلکہ آسمانی کتاب خدا تعالیٰ کی ہستی اور صفات کو ایسا ثابت کر کے دکھلاوے کہ اُس کے پیروان تمام امور میں گویا رویت کے گواہ ہو جائیں اور اس طرح پر وہ اپنے ایمان کو اس کمال کے درجہ تک پہنچا دیں جس پر مجرد عقل کی پیروی سے انسان پہنچ نہیں سکتا۔ مثلاً خدا تعالیٰ میں جو صفت غیب دانی ہے اگرچہ عقلی طور پر انسان یہ خیال کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ غیب دان ہونا چاہئے لیکن ربّانی کتاب میں شہودی طور پر اس بات کا ثبوت دینا از بس ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ حقیقت میں غیب دان ہے اور وہ ثبوت اس طرح پر میسر آ سکتا ہے کہ ربّانی کتاب میں بہت سی پیشگوئیاں اور اخبار غیبیہ درج ہوں جو لوگوں کے سامنے پوری ہو چکی ہوں۔ علیٰ ہذا القیاس خدا تعالیٰ کا قادر ہونا اور اپنے نبیوں اور مرسلوں کا حامی اور ناصر اور مؤید ہونا اگرچہ عقلی طورپر بھی ضروری اور محمود سمجھا جاتا ہے لیکن یہ بھی ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام مشہودی طور پر اپنی قدرت کاملہ اور حمایت اور نصرت خاصہ کا ایسا عمدہ اور کامل نمونہ دکھلاوے جس کو لوگ دیکھ کر اپنے ایمان اور اعتقاد پر قوی ہو جائیں۔
اسی طرح خدا تعالیٰ کی دوسری صفات بھی اسی طورپر خداتعالیٰ کے کلام میں ثابت ہو جانی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام اس کی ذات اور صفات کے پہچاننے کے لئے ایک نہایت صاف اور شفاف آئینہ ہے جو ہم عاجز اور بے خبر بندوں کو اس غرض سے عنایت ہوتا ہے تا کہ ہماری معرفت صرف عقلی اور قیاسی خیالات تک محدود نہ رہے۔ بلکہ ہم اُن تمام پاک صداقتوں کو بچشم خود دیکھ بھی لیں کیونکہ اگر خدا تعالیٰ نے صرف اسی قدر ہم کو بذریعہ اپنی کتاب کے معفرت اور بصیرت عنایت کری جس قدر بذریعہ عقل بھی ہم کو حاصل ہو سکتی ہے تو پھر ربّانی تعلیم اور عقلی تفہیم میں کیا فرق رہا اور اس بات میں خدا تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لانے والوںکو برہمو سماج والوں پر (جو صرف عقلی اٹکلوں پر چلتے ہیں) کونسی ترجیح ہوئی۔ سو اِس تحقیق سے یہ ہدایت عقل ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں یہی عمدہ خوبی ہے کہ جن صداقتوں کو ہماری عقل ناقص صرف قیاسی طور پر پیش کرتی ہے اُن صداقتوں کو خدا کا کلام ہماری آنکھوں کے سامنے لا کر دکھلا بھی دیتا ہے۔ مثلاً جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ عقل یہ تجویز کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ غیب دان ہونا چاہئے۔ سو خدا تعالیٰ کا کلام صدہا پیشگوئیوں سے جو صحیح طور پر پوری ہوگئیں ہم پر اس صداقت کو یقینی اور قطـعی طور پر کھول دیتا ہے لیکن وید اس مرتبہ اعلیٰ سے جو خدا کی ذات اور صفات کا آئینہ ہو سکے۔ ہزاروں کوس دور اور مہجور ہے بلکہ مجرد عقلی طور سے بھی خدا اور اُس کی صفات کا ثبوت دینے سے ویدعاجز ہے کیونکہ وید کا پہلا اصول یہ ہے کہ عالم بجمیع اجزائیہ انادی یعنی قدیم اور غیر مخلوق اور پرمیشر کی طرح واجب الوجود ہے اور پرمیشر نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا اور نہ پیدا کرنے کی اُس کو طاقت و لیاقت ہے بلکہ اُس کا صرف اتنا ہی کام ہے کہ بعض چیزوں کو بعض سے جوڑتا ہے مثلاً جسم کا قالب بنا کر روح کو اس میں داخل کر دیتا ہے یا کبھی قالب سے روح کو نکال دیتا ہے۔ سو یہی تالیف اور تفریق پرمیشر سے ہو سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں یعنی اگر پرمیشر کچھ کام کر سکتا ہے تو بس یہی ہے کہ بعض اجزائے عالم کو بعض سے جوڑتا ہے اور کبھی بعض سے بعض کو الگ کر دیتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس اعتقاد میں صرف اتنی ہی خرابی نہیں کہ پرمیشر کو قادر مطلق ہونا چاہئے۔ عاجز اور ناتواں سمجھا گیا ہے اور قدیم اور غیر مخلوق ہونے میں کل اجزاء عالم کے اس کے شریک اور حصہ دار اور بھائی بند ٹھہرائے گئے ہیں اور ہر یک موجود اپنے اپنے نفس کا آپ مالک قرار دیا گیا ہے گویا پٹی داری گانوں کی طرح قدامت اور وجوب و جود کی جنس پر سب ارواح اور پُر خیر کا برابر اور یکساں دخل اور قبضہ چلا آیا ہے بلکہ ایک بڑی بھاری خرابی وید کے اصول سے یہ بھی پیش آئی کہ عقلی طور پر پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل باقی نہ رہی کیونکہ جس حالت میں تمام عالم بجمیع اجزائیہ خود بخود قدیم سے موجود ہے اور پرمیشر کا کام صرف تالیف اور تفریق ہے تو پھر اس سے وجود پرمیشر کا کیونکر ثابت ہو سکے۔ بھلا تم آپ ہی غور سے دیکھو اور انصاف کرو کہ دنیا کی تمام چیزوں میں سے کوئی چیز بھی اپنے وجود کی پیدائش میں پرمیشر کی محتاج نہیں تو پھر اُس پر کیا دلیل ہے کہ اپنی تفریق یا اتصال میں پرمیشر کی محتاج ہے۔ ظاہر ہے کہ ماسوا اللہ کے وجود سے صانع عالم کے وجود پر اسی وجہ سے استدلال کیا جاتا ہے کہ ماسوا اللہ کا وجود خود بخود ہونا بہ بداہت عقل محال ہے اور جس حالت میں یہ تسلیم کیا جائے اور قبول کیا جائے کہ ماسوا اللہ بھی خود بخود ہو سکتا ہے تو عقل کو خدا تعالیٰ کے وجود پر یقین کرنے کیلئے کون سی راہ باقی رہے گی۔ کیا ایسے ایسے ناپاک اعتقادوں سے دہریہ مذہب والوں کو مدد نہیں پہنچے گی۔ غرض یہ وید کی ایک ایسی فاش غلطی ہے کہ اس کے تابعین کو اُس کے جواب میں کوئی بات نہیں آتی اور وہ لوگ کسی طور سے پرمیشر کے وجود پر کوئی دلیل بیان نہیں کر سکتے اور کیوں کر بیان کر سکیں جب آپ ہی پرمیشر کی طرح قدیم اور واجب الوجود ٹھہرے تو پرمیشر سے اُن کو کیا تعلق اور غرض رہا اور اُس کے وجود کی کونسی ضرورت اور حاجت رہی۔
اب دیکھنا چاہئے کہ ایک طرف تو وید خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے ثابت کرنے کے لئے آئینہ ہونے کی لیاقت نہیں رکھتا یعنی طالبان حق کو شہودی طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر یقین نہیں دلا سکتا بلکہ طرح طرح کی بدگمانیوں میں ڈالتا ہے اور پھر دوسری طرف اُس میں یہ خرابی پیدا ہوگئی کہ عقلی طور پر بھی وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت دینے سے بے نصیب اور بے بہرہ ہے تو اب منصف سوچ سکتا ہے کہ معرفت الٰہی کے دونوں طریقوں عقلی اور شہودی سے ہندوؤں کا وید کس قدر دور اور مہجور ہے اور جس قدر ہم نے اب تک بیان کیا کچھ یہی ایک اصول وید کا ایسا نہیں ہے کہ جو عقل کے برخلاف ہو بلکہ وید کے سارے اصول جو بنیاد دھرم کی سمجھے جاتے ہیں ایسے ہی ہیں۔ہاں وید کی رو سے پہلی ہدایت تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کسی چیز کا خالق نہیں۔ مگر اس کے سوا وید کی دوسری ہدایتیں بھی ایسی ہی ہیں۔ جن کے پڑھنے سے عاقل کو ضرور یہ شک پڑے گا کہ شاید وید کا زمانہ کوئی ایسا زمانہ تھا جس میںہنوز ایک دو اصول وید کے اور بھی لکھتے ہیں تا جو جو لوگ وید کی اندرونی حقیقت سے بے خبر ہیں اُن کو اس عجیب کتاب کے حالات کسی قدر معلوم ہو جائیں۔ سو منجملہ اُن کے ایک یہہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات میں ایک ذرا رحم اور عفو نہیں اور کسی گناہ گار کے گناہ کو اُس کے توبہ و استغفار سے ہرگز نہیں بخشتا اور جب تک ایک گناہ کی سزا میں چوراسی لاکھ جون میں ڈال کر شخص مجرم کو دنیا کی عمر سے ہزار ہا درجہ زیادہ عذاب نہ پہنچاوے اُس کا غصہ فرو نہیں ہوتا اور گو انسان اپنے گناہ سے باز آ کر پرمیشر کی محبت اور اطاعت میں فنا ہو جائے تب بھی جب تک پرمیشر اُس کو لاکھوں جونوں میں ڈالنے سے سزا نہ دے۔ تب تک ہرگز اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اب دیکھنا چاہئے کہ اس اصول میں صرف اتنی ہی قباحت نہیں کہ پرمیشر کو ایک ایسا شخص ماننا پڑتا ہے کہ جو نہایت درجہ کا سنگدل اور بے رحم ہے کہ جوجھکنے والوں کی طرف ہرگز نہیں جھکتا اور محبت کرنے والوں سے ہرگز محبت نہیں کرتا اور ایک ادنیٰ خطا یا قصور سے ایسا چِڑ جاتاہے کہ پھر کوئی بھی طریق اُس کے راضی ہونے کا نہیں بلکہ ایک بڑی قباحت یہ بھی ہے کہ اس اصول کے رُو سے نجات پانے کا راستہ بکُلی مسدود ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں محنت اور مجاہدہ کرنا اور اس کی اطاعت اور عبادت میں دل لگانا سرا سر لغو اور بے فائدہ ٹھہرتا ہے کیونکہ جس حالت میں پرمیشر ایسا کینہ ور اور پُر غضب ہے کہ کسی خطا کے سرزد ہونے سے بجز لاکھوں برسوں تک جونوں میںڈالنے کے ہرگز کسی بندہ پر رحم نہیں کر سکتا تو پھر اس حالت میں وہ نومید بندہ کہ گویا ایک گناہ کر کے جیتے جی ہی مر گیا ہے کیونکر اس کی زندگی میں دل لگائے گا اور کس امید پر عبادت اور زُہد اور رجوع الی اللہ اختیار کرے گا اور پھر زیادہ تر مشکل بات (جس کو عاجز بندہ اپنے ضعف اور کمزور حالت پر نظر کرنے سے بخوبی جانتا ہے) یہ ہے کہ بعد چوراسی لاکھ جون بھگتنے کے پھر بھی ایسی پاک اور مصفا حالت کہ جس میں ایک ذرا حظ یا غفلت سرزد نہ ہو اس کو نصیب نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ بات نہایت ظاہر ہے کہ انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے قصور اور حظ سے محفوظ نہیں رہ سکتا اور ادنیٰ سے ادنیٰ بات جو بشر کے لئے لازم غیر منفک کی طرح ہے ، غفلت ہے جو انسانی شرشت کا پہلا گناہ اور سب گناہوں کی جڑ ہے مگر دنیا میں کوئی ایسا آدمی کہاں اور کدھر ہے جو ایک طرفۃ العین کے لئے بھی اپنے مولیٰ کے ذکر سے غافل نہیں رہ سکتا اور ایک لحظہ کے لئے قبض کی حالت اُس پر طاری نہیں ہوتی۔ ماسوا اس کے جہاں تک ہم انسانوں کی عام حالتوں پر نظر ڈالتے ہیں اور اُن کے سلسلہ زندگی کو اوّل سے آخر تکر دیکھتے ہیں تو ہم پر صاف کھل جاتا ہے کہ کوئی انسان خاص کر اپنے بلوغ کے ابتدائی زمانہ میں کس قدر خاص یا ذلت یا لغزش یا غفلت یا لہوو لعب سے خالی نہیں رہ سکتا اور نہ جب کہ نعماء الٰہی اس پر وارد ہوئے ہیں اُن کا پورا پورا شکر کر سکتاہے اور یہ ایسی صاف اور واشگاف صداقت ہے جو خود ہمارے کوائف زندگی اور واقعات عمری اس پر شہادت دے رہے ہیں اور موجودات کا ہر یک ذرّہ اور قدرت کا ہر یک قانون اس کی تصدیق کر رہا ہے اور ہماری روحیں پکار پکار کر ہمیں بھی کہتی ہیں کہ ہم بوجہ مخلوق اور ضعیف اور کمزور اور ممنون منت ہونے کے ایسی فتح عظیم اپنے خالق اور محسن حقیقی اور مربی بے علت پر ہرگز حاصل نہیں کر سکتے کہ جو اُس کو یہ کہہ سکیں کہ جو کچھ تیرے حقوق ہمارے گردن پر تھے وہ سب ہم نے جیسا کہ چاہئے ادا کر دیئے ہیں اور اب ہم تیرے حساب سے فارغ اور تیرے مطالبہ سے امن میں ہیں اور جب ہم لوگ ایسی فارغ خطی حاصل نہیں کر سکتے تو پھر صاف ظاہر ہے کہ اگر خداوندکریم ہمارے گناہوں پر ہمیشہ ہم کو سزا دیتا رہے اور درگذر اور عفو کسی حالت پر نہ کرے تو پھر ہرگز ممکن نہیں کہ ہم کسی زمانہ میں نجات کا منہ دیکھ سکیں کیونکہ جب گناہ غیر محدود ٹھہرے تو پھر سزا بھی درصورت لازمی اور ضروری ہونے کے غیر محدود اور دائمی چاہئے۔ سو یہ اصول نہایت منحوس اور نامبارک ہے اور اگر یہی بات سچ ہے تو انسان غایت درجہ کا بدبخت اور بے نصیب ہوگا جس کے لئے سخت دل پرمیشر کا ہمیشہ ارادہ ہے کہ جب تک وہ بکلّی گناہوں کے صادر ہونے سے (کہ جو انسان کی سرشت سے لازم ہوئے ہیں) محفوظ نہ رہے تب تک مختلف جونوں کا تختہ مشق رہے گا اب دیکھنا چاہئے کہ اس کے مقابل پر یہ اصول قرآن شریف کا کیسا بابرکت اور پیارا اور تسلی بخش اور انسانی فطرت کے لئے ضروری اور مناسب حال ہے کہ گناہ کا تدارک توبہ اور استغفار سے ہو سکتا ہے اور بدیوں کی تلافی نیکیوں سے ممکن ہے۔ یہ ایسا ضروری اور لابدی اصول ہے کہ انسان کی مغفرت اور نجات یابی بجز اس کے ممکن ہی نہیں۔ خیال کرنا چاہئے کہ اکثر تمام انسانوں کا یہی حال ہوا کرتا ہے کہ وہ اپنی ابتدائی عمروں میں کسی قدر غفلت اور لہو و لعب یا نالائق باتوں اور بدچلنیوں میں رہ کر پھر کسی نیک صحبت کی برکت سے یا کسی واعظ اور ناصح کے سمجھانے سے یا اپنے ہی انصاف دلی کے جوش سے اس بات کے مشتاق ہو جایا کرتے ہیں کہ اب خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور بُرے کاموں اور خراب راہوں کو چھوڑ دیں۔
اب سوچنا چاہئے کہ اگر ایسے طالب حق کے لئے جناب الٰہی میں باریابی کا کوئی سبیل نہیں اور تو یہ منظور ہی اور استغفار قبول ہی نہیں تو پھر وہ بیچارہ اپنی آخری بہبودی کیلئے اگر کچھ کوشش بھی کرے تو کیا کرے اور کیونکر کرے اور کدھر جائے۔ ممکن ہے کہ وہ ایسے پرمیشر سے سخت نومید اور شکستہ دل ہو کر اور اُس کی رحمت سے بکلّی ہاتھ دھو کر پھر اپنے گناہوں کی طرف رجعت … کرے اور خوب دل کھول کر ہر قسم کے گناہ اور بدمعاشی سے تمتع اور حظ اُٹھاوے۔ غرض یہ ایسا اصول ہے کہ نہ بندہ اُس سے اپنی نجات تک پہنچ سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کی رحمت اس سے قائم رہتی ہے کیا یہ بات اللہ تعالیٰ کی عادت کریمانہ کے موافق ہے کہ وہ انسان کی کامیابی میں اس قدر مشکلات ڈالے اور اس کی نجات کو معلق یا محال کر کے اس کے گناہ کو ہمیشہ یاد رکھے۔ مگر اس کے رجوع محبت اور توبہ اور استغفار کا ایک ذرا قدر نہ کرے اور چوراسی لاکھ جون میں سے ایک جون کی تخفیف کرنے سے بھی دریغ کرتا رہے کیا ایسے پر کوئی امید ہو سکتی ہے۔ ہرگز نہیں۔
پھر تیسرا اصول وید کا جو عقل کے برخلاف ہے یہ ہے کہ نجات ابدی کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی۔ بلکہ لوگ کچھ مدت محدود تک نجات پا کر پھر مکی خانہ سے ناکردہ گناہ باہر نکالے جاتے ہیں اور پرمیشر ہرگز قادر نہیں کہ اُن کو ہمیشہ کے لئے نجات دے سکے۔ اب جو لوگ عشق الٰہی کی ایک چنگاری بھی اپنے اندر رھتے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ ایسی بے مروّتی اُس محبوب حقیقی سے ہرگز نہیں ہو سکتی کہ عزت دے کر پھر بے عزت کرے اور ایک چیز بخش کر پھر اُس کو چھین لے اور ایک دفعہ اپنا پیارا اور مقرب بنا کر پھر ناکردہ گناہ کیڑوں مکوڑوں اور کتوں بلوں کی جونوں میں ڈالتا رہے۔ جس شخص کو محبت الٰہی کے جام سے ایک گھونٹ بھی میسر ہے اُس نی عارف اللہ روح جو اس جواد مطلق پر بڑی بڑی امیدیں رکھتی ہے اور سب کچھ کھوہ کر اُسی کی ہو رہی ہے ہرگز اس کو یہ فتویٰ نہیں دیتی کہ اس کا پیارا اور محبوب جانی آخر اُس سے ایسا معاملہ کرے گا کہ اس کی سب امیدیں خاک میں ملا کر اور اُس کی خوشحالی دائمی کی خواہش جو اُس کے دل میں ڈالی گئی ہے نظر انداز کر کے اُس مصروع کی طرح جو بار بار دورہ صرع سے دُکھ اُٹھاتا ہے مختلف جونوں کے عذاب سے معذب کرتا رہے گا۔ اُس کے صدق اور وفا پر اُس کو کچھ بھی خیال نہیں آئے گا اور اس کی خالص محبتوں پر اُس کو کچھ بھی نظر نہیں ہوگی۔ افسوس کہ ہندو لوگ ایسا اعتقاد رکھنے سے خود اپنے اوتاروں اور رشیوں کی عزت کو خاک میں ملاتے ہیں کہ اوّل ان کو بڑے مقبول الٰہی بلکہ خدا کا اوتار سمجھ کر پھر اُن کے لئے یہ تجویز کرتے ہیں کہ اُن بیچاروں کو بھی نجات ابدی نہیں اور وہ کیڑے مکوڑے اور کتے بلے بننے سے مستثنیٰ نہیں رہ سکتے جن لوگوں کو ان مقدس ویدوں کی خبر نہیں وہ تعجب کریں گے کہ یہ کیسے اصول ہیں جو ویدوں کی طرف نسبت دیئے گئے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ وہ بدگمانی سے یہ خیال کریں کہ یہ ویدوں پر تہمت ہے۔ سو واضح ہو کہ ہم نے ان اصولوںکو کمال تحقیق اور تدقیق سے لکھا ہے اور اس وقت وید ہمارے سامنے پڑا ہے اور اُس کے بھاش ہمارے پاس موجود ہیں اگر کسی کو شک ہو تو ہر طرح ہم سے تسلی کر سکتا ہے اور خود ویدوں کے ماننے والے اس سے بے خبر اور انکاری نہیں ہیں اور اگر کوئی ہم تک نہ پہنچ سکے اور نہ پنڈتوں سے دریافت کر سکے تو ہم اس کو صلاح دیتے ہیں کہ وہ رِگ وید کو جو دہلی سوسائٹی میں بکمال تصحیح و تحقیق چھپا ہے ذرا نظر غور اور تدبر سے مطالعہ کرے اور پھر یہ بھی مناسب ہے کہ پنڈت دیانند کی ستیاارتھ پرکاش اور وید بھاش کا بھی درشن کر لے تا اُسے معلوم ہو کہ وید کیا شَے ہے اور اُس کی تعلیم کیسی ہے۔
بعض جاہل ہندو اور مسلمان اپنشدوں کو جو براہم پشتک ہیں اور صدہا سال ویدوں کے بعد لکھے گئے ہیں وید ہی سمجھتے ہیں جیسے داراشکوہ نے بعض اپنشدوں کا ترجمہ بھی کسی پنڈت سے لکھوا کر ایک رسالہ تالیف کیا ہے لیکن جاننا چاہئے کہ یہ لوگ صریح غلطی پر ہیں۔ ویدوں اور اپنشدوں کے مضامین میں کچھ تعلق بھی نہیں بلکہ وہ خیالات جو اُپنشدوں میں درج ہیں صرف برہمنوں کے دلوں کی تراش خراش ہیں اور ان خیالات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان وغیرہ مخلوق پرمیشر کے وجود کا ایک ٹکڑہ ہے اور اسی سے نکلتا ہے اور اُسی میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ صورت دخول اور خروج کی ہمیشہ بنی رہتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیالات برہمنوں نے ایک مدت کے بعد بدھ مذہب والوں سے لئے ہیں اور یہ اس زمانہ کے خیالات ہیں کہ جب برہمن لوگ وید کی تعلیم سے بیزار ہو چکے تھے اور ان کا منشاء تھا کہ بجائے تعلیم وید کے ان خیالات کو جو اُپنشدوں میں درج ہیں شائع کیا جائے مگر باوجود اس کے پھر بھی برہمن وید کے دیوتاؤں سے الگ نہیں ہوئے اور اُن کی پرستش سے کنارہ نہیں کیا بلکہ صدہا طرح کی اور اور مشرکانہ باتیں حاشیہ کے طور پر چڑہا دیں اور کئی طرح کے جھوٹے قصے اور کتھا کہانیاں برمہا اور بشن اور مہادیو اور اِندر وغیرہ کے بارہ میں لکھ ڈالیں اور کئی پُستک اپنی طرف سے تالیف کر کے یہ مشہور کرنا چاہا کہ یہ بھی وید اٹک یعنی وید کی خبریں ہیں۔ چنانچہ انہیں میں سے وہ اُپنشدین بھی ہیں جن کا بعض ناواقف مسلمانوں نے ترجمہ بھی کیا تھا اور اپنی اوپری واقفیت سے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہی وید ہیں۔ مگر اب وہ زمانہ آ گیا ہے کہ کوئی امر مشتبہ نہیں رہ سکتا۔ وہی وید کہ برہمنوں کے تہہ خانوں میں چھپے ہوئے تھے اب کتب فروشوں کی دوکانوں پرچھپے ہوئے رکھے ہیں۔ اس مقام پر ہم بڑے افسوس سے لکھتے ہیں کہ مرزا جان جاناں صاحب نے کہ جو نقشبندی فقیروں سے ایک نامی اور مشہور بزرگوں میں خواہ نخواہ دخل درمعقولات کر کے ویدوں کے بارہ میں ایک مکتوب کسی اپنے مرید کے نام لکھا ہے اور اس میں ویدوں کی تعریف کی ہے کہ وہ شرک اور مخلوق پرستی سے پاک ہیں اور توحید کی تعلیم ان میں بھری ہوئی ہے۔ اب جب ہم ایک طرف ویدوں کی مشرکانہ تعلیم اور ملحدانہ عقائد کو بخشم سر دیکھتے ہیں اور پندرہ کروڑ ہندو کو اُس میںمبتلا پاتے ہیں اور دوسری طرف مرزا صاحب کا یہ مکتوب پڑھتے ہیں جس کو انہوں نے نہایت سادہ دلی اور لاعلمی سے لکھاہے تو ہم بجز اس کے کہ حضرت مرزا صاحب کے حق میں دعا مغفرت کریں اور خدا تعالیٰ سے اُن کی خطا کی معافی چاہیں اور کسی طرح سے اُن کے کلام پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔ مرزا صاحب نے نہایت بے جا اور نامناسب کام کیا کہ بے خبر محض ہونے کی حالت میں وید دانی کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اُن کے لئے یہی بہت فخر کی بات تھی کہ وہ اپنے فقیرانہ اشغال اور اذکار میں مشغول رہتے اور جس کوچہ میں ایک ذرّہ بھی اُن کی رسائی نہیں تھی اس کی نامعلوم خبریں لوگوں کو نہ بتلاتے۔ پھر مرزا صاحب اپنے مکتوبات میں یہ لکھتے ہیں کہ ہندوؤں کا وید چار دفتر ہیں جو احکام امرونہی و اخبار ماضیۂ مستقلبلہ پر مشتمل ہے اور یہ وید بذریعہ ایک فرشتہ کے جس کا نام برہما تھا بحوالہ ایجاد عام ہندوؤں کو پہنچا ہے اُسی وید میں سے اُن کے پُران اور شاستر نکالے گئے ہیں اس وید میں بلحاظ عمر طولانی عالم کی چار طور کی مختلف ہدایت رکھی گئی ہیں جن میں سے بعض ہدایتیں ست جگ کے مناسب حال اور بعض ہدایتیں کل جگ کے مناسب حال ہیں اور ہندو اگرچہ مختلف فرقے ہیں مگر وہ سب کے سب توحید باری پر اتفاق رکھتے ہیں اور عالم کو مخلوق سمجھتے ہیں اور روز حشر کے قائل ہیں اور معارف اور مکاشفات میں یدطولیٰ رکھتے ہیں اور اُن کی بُت پرستی حقیقت میں بُت پرستی نہیں ہے بلکہ وہ بعض ملائکہ کو جو بامرالٰہی عالم کون و فساد میں تصرف رکھتے ہیں یا بعض کاملین کی ارواح کو جن کا تصرف بعد گذر جانے کے اس نشہ دنیا سے باقی ہے یا بعض زندوں کو جو اُن کے زعم میں خضر کی طرح ہمیشہ زندہ رہتے ہیں قبلہ توجہ کر لیتے ہیں۔ یعنی صوفیہ اسلامیہ کی طرح اُن کی خیالی صورتوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جیسے صوفیہ اسلامیہ اپنے پیر کی صورت کا تصور کرتے ہیں اور اُس سے فیض اُٹھاتے ہیں مگر صرف اتنا فرق ہے کہ اسلامی صوقی طاہر میں کوئی تصویر شیخ کی اپنے آگے نہیں رکھتے اور یہ لوگ رکھ لیتے ہیں۔ سو اُن کی یہ صورت عبادت کفّار عرب کی بُت پرتسی سے مشابہ نہیں ہے کیونکہ کفّار عرب اپنے بتوں کو متصرف و مؤثر بالذات مانتے تھے اور اُن کو خدائے زمین سمجھتے تھے اور خدا تعالیٰ کو خدائے آسمان سمجھتے تھے۔ اسی طرح ہندو لوگ جو اُن تصویروں کو سجدہ کرتے ہیں وہ سجدہ بھی سجدہ عبادت نہیں بلکہ سجدہ تحیت ہے۔ اُن کی شرح میں باپ اور پیر اور اُستاد کے لئے بجائے سلام کے بھی سجدہ مرسوم اور معمول ہے۔ انتی۔
اب مرزا صاحب نے اپنے اس بیان میں جس قدر غلطیاں کی ہیں اور دھوکے کھائے ہیں اور خلاف واقعہ لکھا ہے ہم کس کس کی اطلاح کریں۔ مرزا صاحب نے صرف کسی نادان ہندو کی زبان سن کر بغیر اپنی ذاتی تحقیق کے یہ خس و خاشاک غلطیوں کا اس حظ میں بھر دیا ہے نہ معلوم کہ اُنہوں نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ ہندوؤں کے یہی خیالات اور عقاید ہیں یا جو اُن کے محققوں نے اپنی معتبر کتابوں میں لکھے ہیں۔ کیونکہ اوّل مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ وید کے چار دفتر ہیں۔ سو مرزا صاحب کی پہلی غلطی یہی ہے کہ وید کو ایک کتاب قرار دے کر اُس کے چار دفتر خیال کرتے ہیں بلکہ حق بات جس کا ثبوت امر بدیہی کی طرح حال کے زمانہ میں کھل گیا ہے کہ وید کی مجموعہ چار کتابیں ہیں جو چار مختلف زمانوں میں کئی لوگوں نے اُن کو بنایا ہے۔ چنانچہ چوتھا وید جو اتھرون سے موسوم ہے اُس کی نسبت اکثر پنڈتوں کی یہی رائے ہے کہ وہ پیچھے سے ویدوں کے ساتھ ملایا گیا ہے اور کسی برہمن نے اُس کو لکھا ہے اور اُس کے سوائے جو تین وید ہیں وہ الگ الگ کتابیں ہیں جن کو الگ الگ رشیوں نے جمع کیا ہے اور ہندوؤں کے محققوں کے نزدیک برہما کچھ چیز نہیں ہے بلکہ وید اگنی اور وایو اور سورج پر اُترے ہیں اور محقق ہندو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو اَٹھارہ پُران اور شاستر وغیرہ اور اُپنشدین ہندوؤں کے ہاتھ میں ہیں وہ وید کے مضمون سے بہت سی مخالفت رکھتے ہیں اور بہت سے زواید اُن کتابوں میں پائے جاتے ہیں جو وید میں نہیں ہیں۔ مثلاً یہی خیال چاروں وید برہما کے چاروں مُکھ سے نکلے ہیں۔ اس کا کوئی اصل صحیح وید میں نہیں پایا جاتا۔ ایسا ہی یہ کہنا کہ دنیا کا کوئی خالق ہے وید کی رُو سے بڑا گناہ اور پاپ کی بات ہے بلکہ وید کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں۔ دنیا خود بخود قدیم سے ایسی ہی چلی آتی ہے۔ جیسا پرمیشر چلا آتا ہے اور پرمیشر کے وجود سے دنیا کے وجود کو کسی قسم کا فیض نہیں پہنچتا۔ یہاں تک کہ اگر پرمیشر کا مرنا بھی فرض کر لیا جائے تو دنیا کا اس میں کچھ بھی حرج نہیں اور ایسا ہی ہندوؤں کے محقق یہ بھی کہتے ہیں کہ حشر اجساد کچھ چیز نہھیں اور وید پر عمل کرنے سے ہرگز کسی کا گناہ عفو نہیں ہو سکتا اور نہ توبہ و استغفار کچھ کام آتی ہے بلکہ ایک گناہ کے عیوض میں ہر ایک شخص کو چوراسی جون سزا میں بھگتنی پڑے گی اُن کا یہ بھی قول ہے کہ وید اخبار راضیہ اور مستقبل سے بالکل خالی ہے اور کوئی امر خوارق عادت جو نبیوں سے ظہور میں آتا ہے اس میں درج نہیں اور مکاشفات کا تو ذکر تک نہیں اور اُن کے نزدیک مکاشفات اور خوارق اور پیشگوئیاں اور اخبار غیبیہ از قبیل محالات ہیں جن کا وجود ہرگز ممکن نہیں اور جن لوگوں پر وید نازل ہوا وہ لوگ بکلی ان باتوں سے محروم تھے اور وید کی رُو سے ان باتوں کا ظہور میں آنا قطعی طور پر ناجائز اور غیر ممکن ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ ہندوؤں کے محقق تو اپنے وید کو اخبار ماضیہ اور مستقبلہ سے بکلی عاری اور مکاشفات سے بکلی بے نصیب اور خداتعالیٰ کی خالقیت اور حشر اجساد سے بکلی انکاری قرار دیتے ہیں اور مرزا صاحب ایک قدم آگے بڑھ کر ہندوؤں کے ویدوںکی نسبت اُن سب چیزوں کو مانتے ہیں۔ اب دیکھئے کہ بقول شخص کہ مدعی سست اور گواہ چشت کیا نالائق غلو مرزا صاحب کے بیان میں پایا جاتا ہے جس پر اگر آج کل کے محقق اطلاع پاویں تو مرزا صاحب کو ایک غایت درجہ کا سادہ لوح قرار دیں اور اُن کی باتوں پر قہقہہ مار کر ہنسیں۔ پھر دیکھنا چاہئے کہ مرزا صاحب اپنے اسی مکتوب میںہندوؤں بُت پرستی سے بھی بری قرار دینا چاہتے ہیں یہ کس قدر بے خبری اور لاعلمی مرزا صاحب کی ہے کہ ہندوستان میں پرورش پا کر پھر ہندوؤں کے عقائد سے کس قدر بے خبر اور غافل ہیں۔ اُنہیں معلوم نہیں کہ ہندو لوگ تو عرب کے بُت پرستوں سے اپنے شرک میں کئی درجہ بڑھ کر ہیں کیونکہ عرب کے بُت پرست اگرچہ اپنی مرادیں بتوں سے مانگتے تھے مگراُن کا یہ قول ہر گز نہ تھا کہ دنیا کے خالق و مالک وہ وہی دیوتا ہیں جن کی تصویریں اور مورتیں پتھر یا دہانت وغیرہ سے متشکل کر کے پوجے جاتے ہیں لیکن ہندوؤں کا اصول جیسا کہ ابھی ہم نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ پرمیشر دنیا کا خالق نہیں ہے بلکہ اُن کے دیوتا دنیا کے خالق ہیں اور اُنہیں سے مرادیں مانگنی چاہئے اس بات کو کون نہیں جانتا کہ ہندو لوگ اپنے بتوں سے مرادیں مانگنے میں بڑے سرگرم ہیں۔ مرزا صاحب نے شاید کسی تہہ خانہ میں پرورش پائی ہوگی کہ اُن کو اپنی مدت العمر تک یہ بھی خبر نہ ہوئی کہ ہندو لوگ اپنے پُرانے بُت خانوں کے درشن کے لئے کس جوش و خروش میں جایا کرتے ہیں یہاں تک کہ جگناتھ وغیرہ بُت خانوں کے بڑے بڑے بتوں کے راضی اور خوش کرنے کیلئے بعض بعض ہندو اپنی زبانیں بھی کاٹ کر چڑہا دیتے ہیں اور گنگا مائی کے درشن کرنے والے جو ہر سال ہزار ہا جاتے ہیں اور پکار پکار کر مرادیں مانگتے ہیں۔ یہ بات بھی مرزا صاحب سے چھپی رہی اور اسی طرح وہ صدہا کتابیں ہندوؤں کی جنہوں نے خود اپنی بُت پرستی کا اقرار کیا ہے اور اپنے دیوتاؤں اور بتوں وغیرہ سے مرادیں مانگنے کے طریق لکھے ہیں اگر اُن میں سے کوئی کتاب مرزا صاحب کی نظر میں سے گزر جاتی تو میں خیال کرتا ہوں کہ مرزا صاحب موصوف بہت ہی شرمندہ ہوتے۔ مگر بالآخر مجھکو یہ بھی خیال آتا ہے کہ غالباً یہ مکتوب کسی اور شخص نے لکھ کر مرزا صاحب کی طرف نسبت کر دیا ہے کیونکہ یہ بات عام طور پر چلی آتی ہے کہ اکثر اہل غرض اپنی تحریروں کو بعض اکابر کی طرف منسوب کرتے رہے ہیں تا اُن کی مقبولیت کی وجہ سے وہ تحریریں بِلا عذر قبول کی جائیں۔ بہرحال اب ہم اس حظ کو دعا پر ختم کرتے ہیں اور مرزا صاحب کے معتقدین کو برادرانہ نصیحت دیتے ہیں کہ وہ ایسے خیالات دور از صداقت و دیانت مرزا صاحب کی طرف منسوب نہ کریں۔
ربنا اغفرلنا ذنوبنا ولا اخواننا الذین سبقونا بالایمان وصل علی نبیک وحییک محمدٍ وآلہٖ وسلم وتوفنا فی امتواتبعنا فی امۃٍ واٰتنا ما وعدت لا امۃٍ بنا أتنا امنا فاکتبنافی عبادک المومنین ومن یبتغ غیر الاسلام دیناً فمن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ لمن الخاسرین۔ خاکسار
غلام احمد ۔ از قادیان ضلع گورداسپور
(بتاریخ ہشتم ماہ رمضان المبارک ۱۳۰۲ھ مطابق ۲۲؍ جون ۱۸۸۵ء)
خاتمہ از مرتب
یہ مجموعہ مکتوبات احمدیہ کی پہلی جلد ہے اور یہاں ختم کی جاتی ہے لیکن میں اس کو ناتمام سمجھوں گا اگر میر عباس علی شاہ صاحب کے بعد کے واقعات اور حالات کا یہاں ذکر نہ کروں۔ میر عباس علی شاہ صاحب لودہانہ کے رہنے والے تھے اور حضرت اقدس مسیح علیہ السلام کی تالیف براہین احمدیہ کے زمانہ میں ایک مخلص مددگار تھے۔ مسیح موعود کے دعویٰ کے وقت اُنہیں ابتلاء آیا اور اسی ابتلاء میں اُن کا خاتمہ ہوا۔ اُنہوں نے اپنی مخالفت کا اظہار بذریعہ اشتہار بھی کیا اور حضرت حجۃ اللہ نے نہایت رُفق و ملائمیت سے اُن کو جواب بھی دیا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ارادہ کر لیا تھا اُن کا خاتمہ انکار پر ہوا اس معاملہ میں مَیں زیادہ کچھ بھی لکھنا نہیں چاہتا ہاں ناظرین کو اسی مجموعہ مکتوبات کے مکتوب نمبر۳۴ اور ۴۰ پر خصوصیت سے توجہ کرنے سے صلاح دیتا ہوں۔ وہ ان مکتوبات کو پڑھیں گے تو اُنہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت حجۃ اللہ نے پہلے سے پیشگوئی کی تھی۔ بہرحال میں حضرت اقدس علیہ السلام کی اس کے بعد کی تحریریں عباس علی شاہ صاحب کے متعلق درج کر دیتا ہوں اور اس کے بعد اور کوئی تحریر ملی یا مکتوبات ملے جو میر عباس علی ہی کے نام ہیں وہ بطور تتمہ اس جلد کے چھاپ دیئے جاویں گے (بہرحال وہ تحریریں یہ ہیں)
’’(۹) حبی فی اللہ میر عباس علی لودہانوی۔ یہ میرے وہ اوّل دوست ہیں جن کے دل میں خداتعالیٰ نے سب سے پہلے میری محبت ڈالی اور جو سب سے پہلے تکلیف سفر اُٹھا کر ابرار اختیار کی سنت پر بقدم تجرید محض للہ قادیان میں میرے ملنے کے لئے آئے۔ وہی یہی بزرگ ہیں میں اس بات کو کبھی بھول نہیں سکتا کہ بڑے سچے جوشوں کے ساتھ اُنہوں نے وفاداری دکھلائی اور میرے لئے ہر ایک قسم کی تکلیفیں اُٹھائیں اور قوم کے منہ سے ہر ایک قسم کی باتیں سنیں۔ میر صاحب نہایت عمدہ حالات کے آدمی اور اس عاجز سے روحانی تعلق رکھنے والے ہیں اور اُن کے مرتبہ اخلاص کے ثابت کرنے کیلئے یہ کافی ہے کہ ایک مرتبہ اس عاجز کو اُن کے حق میں الہام ہوا تھا۔ اصلھا ثابت و فرعھا فی السماء وہ اس مسافر خانہ میں محض متوکلانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اپنے اوائل ایام میں وہ بیش برس تک انگریزی دفتر میں سرکاری ملازم رہے مگر بباعث غربت و درویشی کے اُن کے چہرہ پر نظر ڈالنے سے ہرگز خیال نہیں آتا کہ وہ انگریزی خوان بھی ہیں لیکن دراصل وہ بڑے لائق اور مستقیم الاحوال اور دقیق الفہم ہیں۔ مگر بایں ہمہ سادہ بہت ہیں۔ اسی وجہ سے بعض موسوسین کے وساوس اُن کے دل کو غم میں ڈال دیتے ہیں لیکن اُن کی قوت ایمانی جلد اُن کو دفع کر دیتی ہے‘‘۔
اس کے بعد مخالفت کے اظہار پر حضرت اقدس نے مندرجہ ذیل مضمون لکھا:۔
میر عباس علی صاحب لدہانوی
چوں بشنوی سخنِ اہل دل مگو کہ خطا است
سخن شناس نہٖ دلبرا خطا اینجا است
یہ میر صاحب وہی حضرت ہیں جن کا ذکر بالخیر مَیں نے ازالہ اوہام کے صفحہ ۷۹۰ میں بیعت کرنے والوں کی جماعت میں لکھا ہے۔ افسوس کہ وہ بعض مسوسوسین کی وسوسہ اندازی سے سخت لغزش میں آگئے بلکہ جماعت اعدا میں داخل ہو گئے۔ بعض لوگ تعجب کریں گے کہ اُن کی نسبت تو الہام ہوا تھا کہ اصلحا ثابت و فرعھا فی السماء۔ اس کا یہ جواب ہے کہ الہام کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ اصل اُس کا ثابت ہے اور آسمان میں اُس کی شاخ ہے اس میں تصریح نہیں ہے کہ وہ باعتبار اپنی اصل فطرت کے کس بات پر ثابت ہیں۔ بِلا شُبہ یہ بات ماننے کے لائق ہے کہ انسان میں کوئی نہ کوئی فطرتی خوبی ہوتی ہے جس پر وہ ہمیشہ ثابت اور مستقل رہتا ہے اور اگر ایک کافر کفر سے اسلام کی طرف انتقال کرے تو وہ فطرتی خوبی ساتھ ہی لاتا ہے اور اگر پھر اسلام سے پھر کفر کی طرف انتقال کرے تو اُس خوبی کو ساتھ ہی لے جاتا ہے کیونکہ فطرت اللہ اور خلق اللہ میں تبدل اور تغیر نہیں۔ افراد نوع انسان مختلف طورکی کانوں کی طرح ہیں کوئی سونے کی کان، کوئی چاندی کی کان، کوئی پیتل کی کان۔ پس اگر اس الہام میں میر صاحب کی کسی فطرتی خوبی کا ذکر ہو جو غیر متبدل ہو تو کچھ عجب نہیں اور نہ کچھ اعتراض کی بات ہے۔ بِلاشبہ یہ مسلم مسئلہ ہے کہ مسلمان تو مسلمان ہیں کفار میں بھی بعض فطرتی خوبیاں ہوتی ہیں اور بعض اخلاق اُن کو فطرتاً حاصل ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجسم ظلمت اور سرا سر تاریکی میں کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کیا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ کوئی فطرتی خوبی بجز حصول صراط مستقیم کے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے۔ موجب نجات اُخروی نہیں ہو سکتی کیونکہ اعلیٰ درجہ کی خوبی ایمان اور خدا شناسی اور راست روی اور خدا ترسی ہے… اگر وہی نہ ہوئی تو دوسری خوبیاں ہیچ ہیں۔ علاوہ اس کے یہ الہام اُس زمانہ کاہے کہ جب میر صاحب میں ثابت قدمی موجود تھی۔ زبردست طاقت اخلاص کی پائی جاتی تھی اور اپنے دل میں بھی وہ یہی خیال رکھتے تھے کہ میں ایسا ہی ثابت رہوں گا۔ سو خدا تعالیٰ نے اُن کی اُس وقت کی حالت موجودہ سے خبر دے دی۔ یہ بات خدا تعالیٰ کی وحی میں شائع متعارف ہے کہ وہ موجودہ حالت کے مطابق خبر دیتا ہے۔ کسی کے کافر ہونے کی حالت میں اُس کا نام کافر ہی رکھتا ہے اور اُس کے مومن اور ثابت قدم ہونے کی حالت میں اُس کا نام مومن اور مخلص اور ثابت قدم ہی رکھتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے کلام میں اس کے نمونے بہت ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ میری صاحب موصوف عرصہ دس سال تک بڑے اخلاص اور محبت اور ثابت قدمی سے اس عاجزکے مخلصوں میں شامل رہے اور خلوص کے جوش کی وجہ سے بیعت کے وقت نہ صرف آپ اُنہوں نے بیعت کی بلکہ اپنے دوسرے عزیزوں اور رفیقوں اور دوستوں اور متعلقوں کو بھی اس سلسلہ میں داخل کیا اور اس دس سال کے عرصہ میں جس قدر اُنہوں نے اخلاص اور ارادت سے بھرے ہوئے خط بھیجے۔ اُن کا اس وقت میں اندازہ بیان نہیں کر سکتا۔ لیکن دو سَو کے قریب اب بھی اُن کے ایسے خطوط موجود ہوں گے جن میں اُنہوں نے انتہائے درجہ کے عجز اور انکسار سے اپنے اخلاص اور ارادت کا بیان کیا ہے بلکہ بعض خطوط میں اپنی وہ خوابیں لکھی ہیں جن میں گویا روحانی طور پر اُن کو تصدیق ہوئی ہے کہ یہ عاجز من جانب اللہ ہے اور اس عاجز کے مخالف باطل پر ہیں اور نیز وہ اپنی خوابوں کی بنا پر اپنی معیت دائمی ظاہر کرتے ہیں کہ گویا وہ اس جہان اور اُن جہان میں ہمارے ساتھ ہیں۔ ایسا ہی لوگوں میں بکثرت اُنہوں نے یہ خوابیں مشہور کی ہیں اور اپنے مریدوں اور مخلصوں کی بتلائیں۔ اب ظاہر ہے کہ جس شخص نے اس قدر جوش سے اپنا اخلاص ظاہر کیا ایسے شخص کی حالت موجودہ کی نسبت اگرخدا تعالیٰ کا الہام ہو کہ یہ شخص اس وقت ثابت قدم ہے متزلزل نہیں توکیا اس الہام کو خلاف واقعہ کہا جائے گا۔ بہت سے الہامات صرف موجودہ الہامات جو حالات کے آئینہ ہوتے ہیں۔ عواقب امور سے اُن کو کچھ تعلق نہیں ہوتا اور نیز یہ بات بھی ہے کہ جب ک انسان زندہ ہے اُس کے سوء خاتمہ پر حکم نہیں کر سکتے کیونکہ انسان کا دل اللہ جل شانہٗ کے قبضہ میں ہے۔ میر صاحب تو میر صاحب ہیں اگر وہ چاہے تو دنیا کے ایک بڑے سنگدل اور مختوم القلب آدمی کو ایک دم میں حق کی طرف پھیر سکتا ہے۔ غرض یہ الہام حال پر دلالت کرتا ہے۔ مآل پر ضروری طور پر اُس کی دلالت نہیں ہے اور مآل ابھی ظاہر بھی نہیں ہے۔ بہتوں نے راستبازوں کو چھوڑ دیا اور پکے دشمن بن گئے مگر بعد میں پھر کوئی کرشمہ قدرت دیکھ کر پشیمان ہوئے اور زار زار روئے اور اپنے گناہ کا اقرار کیا اور رجوع لائے۔ انسان کا دل خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اُس حکیم مطلق کی آزمائشیں ہمیشہ ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ سو میر صاحب کسی پوشیدہ خامی اور نقص کی وجہ سے آزمائش میں پڑ گئے اور پھر اس ابتلا کے اثر سے جوش ارادت کے عوض میں قبض پیدا ہوئی اور پھر قبض سے خشکی اور اجنبیت اور اجنبیت سے ترکِ ادب اور ترک ادب سے ختم علی القلب اور ختم علی القلب سے جہری عداوت اور ارادہ تحقیر و استحقاق و توہین پیدا ہو گیا۔ عبرت کی جگہ ہے کہ کہاں سے کہاں پہنچے کیا کسی کے وہم یا خیال میں تھا کہ میر عباس علی کا یہ حال ہوگا۔ مالک الملک جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ میرے دوستوں کو چاہئے کہ اُن کے حق میں دعا کریں اور اپنے بھائی فرد ماندہ اور درگذشتہ کو اپنی ہمدردی سے محروم نہ رکھیں اور میں بھی انشاء اللہ لکریم دعا کروں گا۔ میں چاہتا تھا کہ اُن کے چند خطوط بطور نمونہ اس رسالہ میں نقل کر کے لوگوں پر ظاہر کروں کہ میری عباس علی کا اخلاص کس درجہ پر پہنچا تھا اور کس طور کی خوابیں وہ ہمیشہ ظاہر کیا کرتے تھے اور کن انکساری الفاظ اور تعظیم کے الفاظ سے وہ خط لکھتے تھے لیکن افسوس کہ اس مختصر رسالہ میں گنجائش نہیں۔ انشاء اللہ القدیر کسی دوسرے وقت میں حسبِ ضرورت ظاہر کیا جائے گا۔ یہ انسان کے تغیرات کا ایک نمونہ ہے کہ وہ شخص جس کے دل پر ہر وقت عظمت اور ہبیت سچی ارادت کی طاری رہتی تھی اور اپنے خطوط میں اس عاجز کی نسبت خلیفۃ اللہ فی الارض لکھا کرتا تھا آج اس کی کیا حالت ہے۔ پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ وہ محض اپنے فضل سے تمہارے دلوں کو حق پر قائم رکھے اور لغزش سے بچاوے۔ اپنی استقامتوں پر بھروسہ مت کرو۔ استقامت میں کوئی فاروق رضی اللہ عنہ سے کوئی بڑھ کر ہوگا جن کو ایک ساعت کے لئے ابتلا پیش آ گیا تھا اور اگر خدا تعالیٰ کاہاتھ اُن کو نہ تھامتا تو خدا جانے کیا حالت ہو جاتی۔ مجھے اگرچہ میر عباس علی صاحب کی لغزش سے رنج بہت ہوا لیکن پھر میں دیکھتا ہوں کہ جب کہ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے نمونہ پر آیا ہوں تو یہ بھی ضرور تھا کہ میرے بعض رعیان اخلاص کے واقعات میں بھی وہ نمونہ ظاہر ہوتا۔ یہ بات ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعض خاص دوست جو اُن کے ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے جن کی تعریف میں وحی الٰہی بھی ہوگئی تھی۔ آخر حضرت مسیح علیہ السلام سے منحرف ہوگئے تھے۔ یہودا اسکریوطی کیسا گہرا دوست حضرت مسیح کاتھا جو اکثر ایک ہی پیالہ میں حضرت مسیح کے ساتھ کھاتا اور بڑے پیار کا دَم مارتا تھا جس کو بہشت کے بارہویں تخت کی خوشخبری بھی دی گئی تھی اور میاں پطرس کیسے بزرگ حواری تھے جن کی نسبت حضرت مسیح نے فرمایا تھاکہ آسمان کی گنجیاں اُن کے ہاتھ میں ہیں جن کو چاہیں بہشت میں داخل کریں اور جن کو چاہیں نہ کریں۔ لیکن آخرمیاں صاحب موصوف نے جو کرتوت دکھائی وہ انجیل پڑھنے والوں پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے سامنے کھڑے ہو کر اور اُن کی طرف اشارہ کر کے نعوذ باللہ بلند آواز سے کہا کہ میں اس شخص پر *** بھیجتا ہوں۔ میر صاحب ابھی اس حد تک کہاں پہنچے ہیں کل کی کس کو خبر ہے کہ کیا ہو۔ میر صاحب کی قسمت میں اگرچہ یہ لغزش مقدر تھی اور اصلہا ثابت کی ضمیر ثابت بھی اُس کی طرف ایک اشارہ کر رہی تھی۔ لیکن بٹالوی صاحب کی وسوسہ اندازی نے اور بھی میر صاحب کی حالت کو لغزش میں ڈالا۔ میر صاحب ایک سادہ آدمی ہیں جن کو مسائل دقیقہ دین کی کچھ بھی خبر نہیں۔ حضرت بٹالوی وغیرہ نے مفسدانہ تحریکوں سے ان کو بھڑکا دیا کہ دیکھو فلاں کلمہ عقیدہ اسلام کے برخلاف اور فلاں لفظ بے ادبی کا لفظ ہے۔ مَیں نے سنا ہے کہ شیخ بٹالوی اس عاجز کے مخلصوں کی نسبت قسم کھا چکے ہیں کہ لاغوینھم اجمعین۔ اور اس قدر غلوہے کہ شیخ نجدی کا استثنا بھی اُن کے کلام میں نہیں پایا جاتا۔ تاصالحین کو باہر رکھ لیتے اگرچہ وہ بعض روگردان ارادت مندوں کی وجہ سے بہت خوش ہیں مگر اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایک ٹہنی کے خشک ہو جانے سے سارا باغ برباد نہیں ہو سکتا۔ جس ٹہنی کو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے خشک کر دیتا ہے اورکاٹ دیتا ہے اور اس کی جگہ اور ٹہنیاں پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی پیدا کر دیتا ہے۔ بٹالوی صاحب یاد رکھیں کہ اگر اس جماعت سے ایک نکل جائے گا تو خدا تعالیٰ اُس کی جگہ بیس لائے گا۔ اور اس آیت پر غور کریں۔ فسوف یاتی اللّٰہ بقوم یحبھم ویحبونہ اذلۃ علی المؤمنین اعزۃ علی الکفرین۔
بالآخر ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ میری عباس علی صاحب نے ۱۲؍ دسمبر ۱۸۹۱ء میں مخالفانہ طور پر ایک اشتہار بھی شائع کیا ہے جو ترک ادب اور تحقیر کے الفاظ سے بھرا ہوا ہے۔ سو اُن الفاظ سے تو ہمیں کچھ غرض نہیں جب دل بگڑتا ہے تو زبان ساتھ ہی بگڑ جاتی ہے لیکن اُس اشتہار کی تین باتوں کا جواب دینا ضروری ہے۔
اوّل: یہ کہ میر صاحب کے دل میں دہلی کے مباحثات کا حال خلاف واقعہ جم گیا ہے سو اُس وسوسہ کے دور کرنے کیلئے میرا یہی اشتہار کافی ہے بشرطیکہ میر صاحب اس کو غور سے پڑھیں۔
دوم: یہ کہ میر صاحب کے دل میں سراسر فاش غلطی سے یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ گویا مَیں ایک نیچری آدمی ہوں۔ معجزات کا منکر اور لیلۃ القدر سے انکاری اور نبوت کا مدعی اور انبیا علیہم السلام کی اہانت کرنے والا اور عقاید اسلام سے منہ پھیرنے والا۔ سو ان اوہام کے دور کرنے کے لئے میں وعدہ کرچکا ہوں کہ عنقریب میری طرف سے اس بارہ میں رسالہ مستقلہ شائع ہوگا اگر میر صاحب توجہ سے اس رسالہ کو دیکھیں گے تو بشرط توفیق ازلی اپنی بے بنیاداور بے اصل بدظنیوں سے سخت ندامت اُٹھائیں گے۔
سوم: یہ کہ میر صاحب نے اپنے اس اشتہار میں اپنے کمالات ظاہر فرما کر تحریر فرمایا ہے کہ گویا اُن کو رسول نمائی کی طاقت ہے۔ چنانچہ وہ اس اشتہار میں اس عاجز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس بارہ میں میرا مقابلہ نہیں کیا۔ مَیں نے کہا تھا کہ ہم دونوں کسی ایک مسجد میں بیٹھ جائیں اور پھر یا تو مجھ کو رسول کریم کی زیارت کرا کر اپنے دعاوی کی تصدیق کرادی جائے اور یا میں زیارت کرا کر اس بارہ میں فیلہ کرادونگا۔ میر صاحب کی اس تحریر نے نہ صرف مجھے ہی تعجب میں ڈالا بلکہ ہر ایک واقفِ حال سخت متعجب ہو رہا ہے کہ اگر میر صاحب میں یہ قدرت اور کمال حاصل تھا کہ جب چاہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیں اور باتیں پوچھ لیں بلکہ دوسروں کو بھی دکھلا دیں تو پھر انہوں نے اس عاجز سے بدوں تصدیق نبوی کے کیوں بیعت کر لی اور کیوں دس سال تک برابر خلوص نماؤں کے گروہ میں رہے۔ تعجب کہ ایک دفعہ بھی رسول کریم اُن کی خواب میں نہ آئے اور ان پر ظاہر نہ کیا کہ اس کذاب اور مکار اور بے دین سے کیوں بیعت کرتا ہے اور کیوں اپنے تئیں گمراہی میں پھنساتا ہے۔ کیا کوئی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جس شخص کو یہ اقتدار حاصل ہے کہ بات بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری میں چلا جاوے اور اُن کے فرمودہ کے مطابق کاربند ہو اور اُن سے صلاح مشورہ لے لے وہ دس برس تک برابر ایک کذاب اور فریبی کے پنجہ میں پھنسا رہے اور ایسے شخص کا مرید ہو جاوے جو اللہ اور رسول کا دشمن اور آنحضرت کی تحقیر کرنے والا اور تحت الثری میں گرنے والا ہو۔ زیادہ تر تعجب کا مقام یہ ہے کہ میر صاحب کے بعض دوست بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بعض خوابیں ہمارے پاس بیان کی تھیں اور کہا تھا کہ میں رسول اللہ صلعم کو خواب میں دیکھا اور آنحضرت نے اس عاجز کی نسبت فرمایا کہ وہ شخص واقعی طور پر خلیفۃ اللہ اور مجدد دین ہے اور اسی قسم کے بعض خط جن میں خوابوں کا بیان اور تصدیق اس عاجز کے دعویٰ کی تھی میر صاحب نے اس عاجز کو بھی لکھے۔ اب ایک منصف سمجھ سکتا ہے کہ اگر میر صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں تو جو کچھ اُنہوں نے پہلے دیکھا وہ بہرحال اعتبار کے لائق ہوگا اور اگر وہ خوابیں اُن کے اعتبار کے لائق نہیں اور اضغاث احلام میں داخل ہوں تو ایسی خوابیں آئندہ بھی قابلِ اعتبار نہیں ٹھہر سکیں۔ ناظرین سمجھ سکتے ہیں کہ رسول نمائی کا قادرانہ دعویٰ کس قدر فضول بات ہے۔ حدیث صحیح سے ظاہر ہے کہ تمثل شیطان سے وہی خواب رسول بینی سے مبرا ہو سکتی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے حلیہ پر دیکھا گیا ہو۔ ورنہ شیطان کا تمثل انبیاء کے پیرایہ میں نہ صرف جائز بلکہ واقعات میں سے اور شیطان لعین تو خدا تعالیٰ کا تمثل اور اُس کے عرض کے تجلی دکھلا دیتا ہے۔ پھر انبیاء کا تمثل اُس پر کیا مشکل ہے۔ اب جب کہ یہ بات ہے تو فرض کے طور پر اگر مان لیں کہ کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی تو اس بات پر کیونکر مطمئن ہوں کہ وہ زیارت درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں کو ٹھیک ٹھیک حلیہ نبوی پر اطلاع نہیں اور غیر حلیہ پر تمثل شیطان جائز ہے۔ پس اس زمانہ کے لوگوں کے لئے زیارت حقّہ کی حقیقی علامت یہ ہے کہ اُس زیارت کے ساتھ بع ایسے خوارق اور علامات خاصہ ہوں جن کی وجہ سے اُس رؤیا یا کشف کے منجانب اللہ ہونے پر یقین کیا جائے مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض بشارتیں پیش از وقوع بتلا دیں یا بعض قضاء قدر کی نزول کی باتوں سے پیش از وقوع مطلع کر دیں یا بعض دعاؤں کی قبولیت سے پیش از وقت اطلاع دے دیں یا قرآن کریم کی بعض آیات کے ایسے حقائق و معارف بتلاویں جو پہلے قلمبند اور شائع نہیں ہو چکے تو بِلاشُبہ ایسی خواب صحیح سمجھی جاوے گی۔ ورنہ اگر ایک شخص دعویٰ کرے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری خواب میں آئے ہیں اور کہہ گئے ہیں کہ فلاں شخص بیشک کافر اور دجال ہے۔ اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے یا شیطان کا یا خود اُس خواب بین نے چالاکی کی راہ سے یہ خواب اپنی طرف سے بنا لی ہے۔ سو اگر میر صاحب میں درحقیقت یہ قدرت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کو خواب میں آ جاتے ہیں تو ہم میر صاحب کو یہ تکلیف دینا نہیں چاہتے کہ وہ ضرور ہمیں دکھاویں بلکہ وہ اگر اپنا ہی دیکھنا ثابت کر دیں اور علامات اربعہ مذکورہ بالا کے ذریعہ اس بات کو بپایہ ثبوت پہنچاویں کہ درحقیقت اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے تو ہم قبول کر لیں گے اور اگر اُنہیں مقابلہ کا ہی شوق ہے تو اُس سیدھے طور سے مقابلہ کرلیں جس کا ہم نے اس اشتہار میں ذکر کیا ہے۔ ہمیں بالفعل اُن کی رسول بینی ہی میں کلام ہے۔ چہ جائیکہ اُن کی رسول نمائی کے دعویٰ کو قبول کیا جائے۔ پہلا مرتبہ آزمائش کا تو یہی ہے کہ آیا میر صاحب رسول بینی کے دعویٰ میں صادق ہیں یا کاذب۔ اگر صادق ہیں تو پھر اپنی کوئی خواب یا کشف شائع کریں جس میں یہ بیان ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ نے اپنی زیارت کی علامت فلاں فلاں پیشگوئی اور قبولیت دعا اور انکشاف حقائق و معارف کو بیان فرمایا۔ پھر بعد اس کے رسول نمائی کی دعوت کریں اور یہ عاجز حق کی تائید کی غرض سے اس بات کے لئے بھی حاضر ہے کہ میر صاحب رسول نمائی کا اعجوبہ بھی دکھلادیں۔ قادیان میں آ جائیں مسجد موجود ہے۔ اُن کے آنے جانے اور خوراک کا تمام خرچ اس عاجز کے ذمہ ہوگا اور یہ عاجز تمام ناظرین پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ صرف لاف گزاف ہے اور کچھ نہیں دکھلا سکتے۔ اگر آئیں گے تو اپنی پردہ دری کرائیں گے۔ عقلمند سوچ سکتے ہیں کہ جس شخص نے بیعت کی۔ مریدوں کے حلقہ میں داخل ہوا اور مدت دس سال سے اس عاجز کو خلیفۃ اللہ اور امام او رمجدد کہتارہا اور اپنی خوابیں بتلاتا رہا کیا وہ اس دعویٰ میں صادق ہے۔ میر صاحب کی حالت نہایت قابل افسوس ہے خدا اُن پر رحم کرے۔ پیشگوئیوں کے … رہیں جو ظاہر ہوں گی۔ ازالہ اوہام کے صفحہ۸۵۵ کو دیکھیں۔ ازالہ اوہام کے صفہ۶۳۵ اور ۳۹۶ کو بغور … کریں۔ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۷ء کی پیشگوئی کا انتظار کریں جس کے ساتھ یہ بھی الہام ہے۔
ویسئلونک احق ھو قل ای ورلبی انہ لحق و ما انتم بمعجزین۔ زوجنا اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات سچ ہے کہ ہاں مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے کہ یہ سچ ہے اور تم اس بات کو وقوع میں آنے سے روک نہیں سکتے۔ کھالا مبدل اکلماتی وان یرایۃٍ بعرضواو ہم نے خود اُس سے تیرا عقد نکاح باندھ یا ہے میری باتوں کو کوئی بدلا نہیں سکتا اور نشان دیکھ کرمنہ پھیر لیں گے اور قبول نہیں کریں گے اور یقولوا سحر مستمر کہیں گے کہ یہ کوئی پکا فریب یا پکا جادو ہے‘‘۔
عرض حال
جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے محض فضل سے اس چشمہ ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائی ہے اور میرے ہاتھ میں قلم اور سلسلہ کی قلمی خدمت کیلئے ایک جوش دیا ہے اسی وقت سے مجھے یہ دھن اور آرزو رہی ہے کہ میں اپنے سید و مولیٰ امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ان تحریروں اور نوشتوں کو جمع کر کے شائع کروں جو ایسے وقت اور حال کی ہیں جب دنیا میں ایک گمنام انسان کی طرح زندگی بسر کرتے تھے اور میری غرض ایسی تحریروں کے جمع کرنے سے یہ تھی اور ہے کہ اس طرح پر آپ کی سوانح کے لئے ایک مواد جمع ہو جاوے چنانچہ اس جوش اور شوق کا نتیجہ تھا کہ میں نے ۱۸۹۹ء میں ’’پرانی تحریریں‘‘ کے نام سے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں ۱۸۸۷ء کے وہ مضامین تھے جو آپ نے برادر ہند، آفتاب پنجاب وغیرہ اخبارات میں شائع فرمائے تھے اس کے بعد میں اس سلسلہ میں ایک مبسوط مجوعہ آپ کے مکتوبات کا شائع کرتا ہوں اور یہ پہلی جلد ہے مکتوبات کی ترتیب میں مجھے بہت عرصہ تک غور کرنا پڑا کبھی بلحاظ سنین کے ترتیب کرتا اور کبھی بلحاظ مضامین۔ آخر بڑے غور و فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ رسم وار ہو جاوے تو اچھا ہے اورجہاں تک مکتوبات ایک شخص کے نام بہت ہی کم ہونگی وہاں ایک جلد متفرق مکتوبات کی مرتب کی جاوے بہرحال اس سلسلہ میں سب سے پہلی جلد میر عباس علی شاہ کے نام شائع کرتا ہوں ان مکتوبات میں حضرت حجۃ اللہ نے عجیب و غریب مسائل تصوف کی فلاسفی اور اسرار ناظرین پائیں گے اور معرفت حقیقی کا ایک مصفا چشمہ انہیں ملے گا اور … پیشگوئیاں انہیں نظر آئیں گی میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے توفیق دی کہ اپنے محبوب … اس کے محبوب دوستوں تک پہنچانے کا فخر حاصل کروں اس کے بعد دوسری جگہ …… خلیفۃ المسیح کے نام کی مکتوبات کی ہوگی خدا ہی کے فضل سے امید ہے کہ وہ … ہے مکتوبات حضرت حکیم الامۃ کے نام کی میرے پاس موجود ہیں… حبیب سمجھ کر اس کی قدر کریں گے۔ واللّٰہ الحمد
احقر الناس یعقوب علی تراب احمدی
ایڈیٹر الحکم قادیان
حاشیہ جلد 1
٭ اب یہ شخص منکر خدا ہے۔ (مرتب)