چار سوال اہل پیغام سے
اہلِ پیغام کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نبی اور رسول نہ تھے اور یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب میں جواپنی نسبت نبوت غیر تشریعی کا دعویٰ پایا جاتا ہے۔ اس سے مراد صرف محدثیت اور مجددیت ہے نہ کہ نبوت۔ کیونکہ آنحضرت صلعم کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہے۔ اس پر ہماری طرف سے چار لاینحل سوالات ہیں جو مختلف مواقع پر کئے جاتے رہے ہیں۔
پہلا سوال:۔ یہ کہ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔
’’شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے ۔ ‘‘
(تجلیات الٰہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۴۱۲)
اس حوالہ سے صاف طور پر ثابت ہوا کہ ’’نبوت تشریعی‘‘ اور ’’نبوت غیر تشریعی‘‘ آپس میں نقیضین ہیں جن کا اجتماع کسی صورت میں ممکن نہیں۔ گویا دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ ’’نبوت تشریعی‘‘ اور ’’نبوت غیر تشریعی‘‘ کا کسی ایک شخص میں ایک ہی وقت میں جمع ہونا غیر ممکن ہے۔ پس جو شخص تشریعی نبی ہو گا اس کیلئے ممکن نہیں کہ اس کے ساتھ ہی وہ غیر تشریعی نبی بھی ہو۔ پس اہلِ پیغام کے عقیدہ کے مطابق ’’غیر تشریعی نبی‘‘ سے مراد مجدد اور محدث لی جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تشریعی نبی مجدد یا محدث نہیں ہوسکتا کیونکہ تشریعی نبوت نقیض ہے غیر تشریعی نبوت کی اور غیر تشریعی نبوت سے مراد مجددیت اور محدثیت ہے بقول اہل پیغام۔ پس تشریعی نبوت نقیض ہوئی مجددیت اور محدثیت کی۔ دونوں چیزوں کا ایک وقت میں اجتماع محال اور غیر ممکن ٹھہرا۔ نتیجہ صاف ہے کہ تشریعی نبی کا مجدد یا محدث ہونا محال ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے صاف طور پر ثابت ہے کہ ہر تشریعی نبی محدث ہوتا ہے اور مجدد بھی اور اس طرح سے مجددیت اور محدثیت ہمیشہ تشریعی نبی کے ساتھ جمع ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم (جو تشریعی نبی تھے) کی نسبت تحریر فرمایا ہے:۔
’’پس ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدّد اعظم تھے ۔‘‘
(لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۰۶)
پس اگراہل پیغام کے خیال کے مطابق غیر تشریعی نبوت سے مراد مجددیت اور محدثیت لی جائے تو اجتماع نقیضین لازم آتا ہے جو محال ہے اور جو مستلزم محال ہو۔ وہ بھی محال اور باطل ہوتا ہے۔ پس غیر تشریعی نبوت سے مراد مجددیت اور محدثیت لینا علمی اور عقلی طور پر محال اور باطل ہے۔ فَتَدَبَّرُوْا اَیُّھَا الْعَاقِلُوْنَ۔
پس ماننا پڑے گا کہ غیر تشریعی نبوت سے مراد ہر گز ہرگز مجددیت اور محدثیت نہیں ہے بلکہ اس سے وہ نبوت مراد ہے جو بغیر کتاب کے ہواور یہ ظاہر ہے کہ ایک نبی ایک ہی وقت میں شریعت لانے والا او ر نہ لانے والا نہیں ہو سکتا۔ پس ثابت ہو ا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام حضورؑ کی اپنی تحریرات کے رو سے مجددیت اور محدثیت کے اوپر والا مقام ہے جو مقامِ نبوت ہے۔ وَھُوَ الْمُرَادُ۔
یہ ایک علمی سوال ہے جو سالہا سال سے غیر مبایع مبلغین اور مناظرین کے سامنے پیش ہوتا رہا ہے۔ مگر وہ اس کا کوئی حل نہیں کر سکے۔
دوسرا سوال:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔
’’خدا نے اِس اُمّت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اُس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔ ‘‘ (ریویو جلد ۱ صفحہ ۴۷۸ نمبر ۶ و حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۲)
اس حوالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح ناصریؑ پر اپنی کلی فضلیت کا دعویٰ کیا ہے اس کے متعلق ہمارا اہل پیغام سے یہ سوال ہے کہ:۔
ا۔ کیا ایک غیر نبی کو نبی پر ’’کلی فضلیت‘‘ ہو سکتی ہے؟ جواب معہ حوالہ اور عبارت ہونا چاہیے۔
ب۔ اس ضمن میں خاص طور پر قابلِ غور امر یہ ہے کہ ایک نبی کی سب سے بڑی شان ’’شانِ نبوت‘‘ ہی ہوتی ہے۔ باقی تمام شانیں اس کے بعد اور اس کے ماتحت ہوتی ہیں۔ پس یہ تو ممکن ہے کہ کسی غیر نبی کو نبی پر جزوی فضیلت حاصل ہو مگر یہ ممکن نہیں کہ ایک غیر نبی (جس کو شانِ نبوت ملی ہی نہیں) وہ ایک نبی پر شانِ نبوت میں بھی صرف بڑھ کر ہی نہ ہو بلکہ ’’بہت بڑھ کر‘‘ ہو؟
تودوسرا سوال اس حوالہ کے متعلق یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’’نبی‘‘ نہیں تھے تو آپ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام سے ’’شانِ نبوت‘‘ میں کیونکر بڑھ کر ہیں؟ ہاں ایک بات جواب دیتے وقت مدِّ نظر رکھنی چاہییاور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۴۹۔۱۵۰ میں یہ تسلیم فرما لیا ہے کہ محولہ بالا عبارت میں حضرت مسیح ناصریؑ پر جزوی فضیلت سے بڑھ کر آپ کو دعویٰ ہے اس لئے اس عبارت کا کوئی ایسا مفہوم بیان کرنے کی کوشش کرنا جس سے صرف جزوی فضیلت کا دعویٰ نکلتا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح کے صریح خلاف ہو گا۔ اور اس لئے ناقابلِ قبول ہے۔
اس ضمن میں یہ بھی مدنظر رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح ناصری پر اپنی فضیلت کو آیت (البقرۃ:۲۵۴) کے ماتحت قرار دیا ہے۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۶)
نیز آپ نے فطرتی استعدادوں کے لحاظ سے بھی اپنے آپکو مسیح سے افضلقرار دیا ہے۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۵)
’’کارناموں‘‘ کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو افضل بتایا ہے۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۹)
پھرجلال اور قوی نشانوں کے لحاظ سے بھی اپنے آپ کو افضل قرار دیا ہے۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۸)
پھر ’’معارف‘‘ اور ’’معرفت‘‘ میں بھی مسیح ناصریؑ پر اپنی فضیلت بتائی ہے۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۵)
اور یہ بھی حضورؑ نے فرمایا ہے کہ میرے دل پر جو خدا تعالیٰ کی تجلی ہوئی۔ وہ مسیحؑ پر نہیں ہوئی۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۵۶)
غرضیکہ نبوت کے تمام اجزاء میں آپ مسیح ناصری سے افضل ہیں حضور علیہ السلام نے نزول المسیح حاشیہ صفحہ ۳ تا صفحہ ۶ پر اپنے آپ میں شانِ نبوت بھی تسلیم فرمائی ہے۔ غرضیکہ مسیح ناصری پر کلّی فضیلت حضورؑ کی ’’نبوت‘‘ کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔
تیسرا سوال:۔ وہی وزنی پتھر ہے جو پچھلے تیس سال سے اہلِ پیغام کے مقاصدِ مذمومہ کے آگے سدِّ راہ ہے اور جس کو باوجود ایڑی چوٹی کا زور لگانے سے ہلا نہیں سکے۔ یعنی حقیقۃ الوحی کا صفحہ ۳۹۱۔
’’غرض اس حصہ کثیر وحی الٰہی اور امور غیبیہ میں اس اُمت میں سے مَیں ہی ایک فرد مخصوص ہوں اور جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس اُمّت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے مَیں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اِس نام کے مستحق نہیں کیونکہ کثرتِ وحی اور کثرت امور غیبیہ اس میں شرط ہے اور وہ شرط اُن میں پائی نہیں جاتی ۔‘‘
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۴۰۶،۴۰۷)
اس عبارت کے متعلق ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعد کی تحریرات میں بمطابق اشتہار فروری ۱۸۹۲ء نبی بمعنی محد ث ہی ہے اور ۱۹۰۱ء کی بعد کی تحریرات میں بجائے نبی کے لفظ کے محدث کا لفظ سمجھنا چاہیے۔ تو حقیقۃ الوحی صفحہ ۳۹۱ کی مندرجہ بالا عبارت میں ’’نبی‘‘ کی بجائے ’’محدث‘‘ کا لفظ لگا کر عبارت کا مفہوم شائع فرمائیں۔ جو ہر اہل انصاف کی عقل کے مطابق یہ بنے گا کہ ۱۳۰۰ سال میں محدث کا نام پانے کے لئے صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی مخصو ص ہوئے اور آپ سے پہلے کوئی محدث اس امت میں نہیں گذرا۔
اس ضمن میں دوسرا حل طلب امر یہ ہے کہ بقول مولوی محمد علی صاحب ’’نبی‘‘ ہونا اور ہے اور ’’نبی کا نام پانا‘‘ شے دیگر ہے۔ ان کے نزدیک ’’نبی‘‘ کا نام پانے سے کوئی شخص فی الواقعہ نبی نہیں بن جاتا۔ تو جب حقیقۃ الوحی کی مندرجہ بالا عبارت میں ’’نبی‘‘ کی جگہ ’’محدث‘‘ کا لفظ لگایا جائے گا۔ تو عبارت یوں بن جائے گی ’’پس محدث کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا۔‘‘ اس سے مولوی محمد علی صاحب کی تحریرات کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلے گا:۔
۱۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام صرف محدث کانام پانے والے ہیں۔ حقیقی طور پر محدث بھی نہیں ہیں۔
۲۔ اُمتِ محمدیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوا کوئی غیر حقیقی محدث بھی نہیں ہوا۔ چہ جائیکہ اصلی محدث!