’’ہمارا مسیح ابنِ مریم‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن کا ذکر قرآن کریم میں ہے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’ ہمارا مسیح ابن مریم ‘‘ لکھا ہے اور’’ اپنا بھائی ‘‘کہا ہے اور خود کو ’’ان کا مثیل‘‘ قرار دیا ہے ۔ اس مسیح علیہ السلام کی آپ ؑ نے تکریم وتعظیم فرمائی ہے ۔ آپ ؑ نے اس سچے مسیح عیسیٰ ابن مریم کی توہین کے الزام کو بار بار رد فرمایا ہے ۔ آپ نے فرمایا
۱۔ ’’ ہم لوگ جس حالت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا نبی اور نیک اور راستباز مانتے ہیں تو پھر کیونکر ہمارے قلم سے ان کی شان میں سخت الفاظ نکل سکتے ہیں۔ ‘‘ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۹)
۲۔ ’’ ہم اس بات کے لئے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں۔ سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شان بزرگ کے برخلاف ہو۔ اور اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ دھوکہ کھانے والا اور جھوٹا ہے۔ ‘‘(ایام الصلح ٹائیٹل پیج۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۲۲۸)
۳۔ ’’ مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے ۔ ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کاملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں ۔ ‘‘ (تحفہ قیصریہ ، روحانی خزائن جلد۱۲صفحہ۲۷۲)
۴۔ ’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسیٰ مسیح خدا کا پیارا ،خدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور جناب الہی کا مقرّب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے سچّی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایات کے کاربند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے۔ ‘‘(ضمیمہ رسالہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد ۔روحانی خزائن جلد نمبر ۱۷صفحہ ۲۶)
۵۔ ’’ میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں اور میں نے اسے بارہا دیکھا ہے ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا۔ اس لئے میں اور وہ ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے ہیں۔ ‘‘(ملفوظات جلد ۳صفحہ ۳۳۰ )
۶۔ ’’ میں نے بارہا عیسیٰ علیہ السلام کوخواب میں دیکھا اور بارہا کشفی حالت میں ملاقات ہوئی۔ اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اس نے کھایا اور ایک دفعہ میں نے اس کو دیکھا او راس فتنہ کے بارے میں پوچھا جس میں اس کی قوم مبتلا ہو گئی ہے۔ پس اس پر دہشت غالب ہو گئی اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا اس نے ذکر کیا اور اس کی تسبیح اور تقدیس میں لگ گیا اور زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میں تو صرف خاکی ہوں اور ان تہمتوں سے بری ہوں جو مجھ پر لگائی جاتی ہیں۔ پس میں نے اس کو ایک متواضع اور کسر نفسی کرنے والا آدمی پایا۔‘‘(نور الحق حصہ اول ۔روحانی خزائن جلد۸صفحہ ۵۶ ،۵۷)
۷۔ <span class="naskh">’’ انّا نکرم المسیح ونعلم انّہ کان تقیّاً ومن الانبیاء الکرام ‘‘</span> (البلاغ فریاد درد ۔ روحانی خزائن جلد ۱۳صفحہ ۴۵۱ حاشیہ )
ترجمہ ۔ ہم یقیناًمسیح علیہ السلام کی تکریم وتعظیم کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ وہ پاکباز تقویٰ شعار تھا اور انبیاء کرام علیہم السلام میں سے تھا۔
مذکورہ بالا ان وضاحتوں کے ہوتے ہوئے کوئی منصف مزاج یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے نعوذ باللہ قرآن کریم میں مذکور حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کی توہین کی ہے اور ان کو ان کے مقام سے گرایا ہے۔
متکلمین کا ہمیشہ سے یہ طریق چلا آیا ہے کہ وہ فریق مخالف کے مسلمات کی بنا پر بطور الزامی جواب کلام کرتے ہیں حالانکہ ان کا اپنا وہ عقیدہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر چند علماء اہل سنت والجماعت کے اقوال ذیل میں درج کئے جاتے ہیں جو اہل سنت کے مقتداء مانے جاتے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں عموماً ان سب عبارتوں کا جواب مل جاتا ہے جو راشد علی اور اس کے پیر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کے لئے پیش کی ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
(۱) کتاب ’’ ازالۃ الاوہام ‘‘ جوعلمائے اہلِ سنّت کے مقتدا مولوی رحمت اللہ مہاجر مکّی کی تصنیف ہے اور سنّیوں میں ایک مستند مقام کی حامل ہے ۔ اس میں وہ لکھتے ہیں :۔
(i) ’’ اکثر معجزاتِ عیسویہ را معجزات ندانند زیرا کہ مثل آنہا ساحراں ہم میسازند ویہود آنجناب راچوں نبی نمے دانندو ہمچو معجزات ساحر میگویند ۔ ‘‘( صفحہ ۱۲۹)
کہ اکثر معجزات عیسویہ کو معجزات قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایسے کام تو جادوگر بھی کر لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہود آپ کو نبی تسلیم نہیں کرتے اور ان کے معجزات کو ساحروں کے معجزے قرار دیتے ہیں۔
(ii) ’’ جناب مسیح اقرار میفر مایند کہ یحیٰ نہ نان میخورایندند نہ شراب مے آشامیدند وآنجناب شراب ہم مے نو شید ندویحیٰ در بیابان مے ماندند وہمراہ جناب مسیح بسیار زنان ہمراہ مے گشتندند ومال خودرا مے خورانیدند وزناں فاحشہ پاۂا آنجناب را بوسیدندو آنجناب مرتا ومریم رادوست مید اشتند وخود شراب برائے نوشید ند دیگر کساں عطا مے فرمودند۔ ‘‘( صفحہ ۳۷۰)
کہ جناب مسیحؑ خود اقرار فرماتے ہیں کہ یحیٰؑ بیابان میں قیام پذیر تھے۔ نہ عورتوں سے میل رکھتے تھے اور نہ شراب پیتے تھے لیکن مسیحؑ خود شراب پیتے تھے ۔ اور آپ کے ہمراہ کئی عورتیں چلتی پھرتی تھیں اور آپ ان کی کمائی سے کھاتے تھے اور بدکار عورتیں آپ کے پاؤں کو بوسے دیتی تھیں اور مرتا اور مریم آپ کی دوست تھیں۔ آپ خود بھی شراب پیتے اور دوسروں کو بھی دیتے تھے۔
(iii) ’’ ونیز وقتیکہ یہود افرزند سعادت مند شاں از زوجہ پسر خود زنا کرد وحاملہ گشت وفارض راکہ از آباء واجداد وسلیمان وعیسیٰ علیہما السلام بود ۔ ‘‘ (صفحہ ۴۰۵)
کہ یہودا نے اپنے بیٹے کی بیوی سے زنا کیا۔ جس سے وہ حاملہ ہو گئی اور فارض پیدا ہوا جو کہ حضرت سلیمانؑ اور حضرت عیسی ؑ کے آباء واجداد میں سے ہے۔
(۲) یہ کتاب ایسی باتوں سے بھری ہوئی ہے اور عیسائیوں کو الزامی جواب دینے کی غرض سے مرتب کی گئی ۔ اس کتاب کے حاشیہ پر اہلسنت والجماعت کے جیّد عالم مولوی آل حسن صاحب نے کتاب استفسار لکھی ۔ جس میں وہ رقمطراز ہیں :۔
(i) ’’ اور ذرے گریبان میں سر ڈال کر دیکھو کہ معاذ اللہ حضرت عیسیٰ کے نسب نامہ مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتے ہو۔ ‘‘(یعنی تاماراوراوریا) (صفحہ۷۳)
(ii) ’’ دوسرے یہ کہ حضرت عیسیٰ اپنے مخالفوں کو کتّا کہتے تھے۔ اگر ہم بھی ان کے مخالفوں کو کتّا کہیں تو دینی تہذیب اخلاق سے بعید نہیں بلکہ عین تقلیدِعیسوی ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۹۸)
(iii) ’’ عیسیٰ بن مریم کہ آخر در ماندہ ہو کر دنیا سے انہوں نے وفات پائی۔ ‘(صفحہ ۲۳۲)
(iv) ’’ اور سب عقلاء جانتے ہیں کہ بہت سے اقسام سحر کے مشابہ ہیں۔ معجزات سے خصوصاً معجزات موسویہ اور عیسویہ سے۔ ‘‘( صفحہ ۳۳۶)
(v) ’’ یسوع نے کہا ۔ میرے لئے کہیں سر رکھنے کی جگہ نہیں۔ دیکھو یہ شاعرانہ مبالغہ ہے اور صریح دنیا کی تنگی سے شکایت کرنا کہ اقبح ترین ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۳۴)
(vi) ’’ ان (پادری صاحبان ) کا اصل دین وایمان آکر یہ ٹھیرا ہے کہ خدا مریم کے رحم میں جنین بن کر خون حیض کا کئی مہینے تک کھاتا رہا اور علقہ سے مضغہ بنا ، مضغہ سے گوشت اور اس میں ہڈیاں بنیں اور اس کے مخرج معلوم سے نکلا اور ہگتا موتتا رہا ۔ یہاں تک کہ جوان ہو کر اپنے بندے یحیٰ کا مرید ہوا۔ اور آخر کار ملعون ہو کر تین دن دوزخ میں رہا۔ ‘‘ (صفحہ ۳۵۰ ، ۳۵۱)
(vii) ’’ انجیل اول کے باب یاز دہم کے درس نوز دہم میں لکھا ہے کہ بڑے کھاؤ اور بڑے شرابی تھے۔ ‘‘ (صفحہ ۳۵۳)
(viii) ’’ جس طرح اشعیاہ اور عیسیٰ علیہما السلام کی بعضی بلکہ اکثر پیشگوئیاں ہیں جو صرف بطور معمے اور خواب کے ہیں جس پر چاہو منطبق کر لو یا باعتبار ظاہری معنوں کے محض جھوٹ ہیں۔ یا مانند کلام یوحنا کے محض مجذوبوں کی سی بڑیں۔ ویسی پیشگوئیاں البتہ قرآن میں نہیں ہیں۔ ‘‘ (صفحہ ۳۶۶)
(ix) ’’ پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ کا سب بیان معاذ اللہ جھوٹ ہے اور کرامتیں اگر بالفرض ہوئی بھی ہوں تو ایسی ہی ہوں گی ۔ جیسی مسیح دجال کی ہونے والی ۔ ‘‘(صفحہ۳۶۹)
(x) ’’ تیسری انجیل کے آٹھویں باب کے دوسرے اور تیسرے درس سے ظاہر ہے کہ بہتیری رنڈیاں اپنے مال سے حضرت عیسیٰ کی خدمت کرتی تھیں پس اگر کوئی یہودی ازراہ خباثت اور بدباطنی کے کہے کہ حضرت عیسیٰ خوشرو نوجوان تھے۔ رنڈیاں ان کے ساتھ صرف حرامکاری کے لئے رہتی تھیں اس لئے حضرت عیسیٰ نے بیاہ نہ کیا اور ظاہر یہ کرتے تھے کہ مجھے عورت سے رغبت نہیں کیا جواب ہو گا ؟ اور پہلی انجیل کے باب یاز دہم کے درس نوز دہم میں حضرت عیسیٰ نے مخالفوں کا خیال اپنے حق میں قبول کر کے کہا کہ میں تو بڑا کھاؤ اور شرابی ہوں۔ پس دونوں باتوں کے ملانے سے اور شراب کی بدمستیوں کے لحاظ سے جو کوئی کچھ بدگمانی نہ کرے سو تھوڑا ہے اور دشمن کی نظر میں کیسی تن آسانی اور بے ریاضتی حضرت عیسیٰ کی بوجھی جاتی ہے۔ ‘‘ (صفحہ ۳۹۰ ، ۳۹۱)