• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

غیر احمدی اعتراضات ۔ تحریرات پر اعتراضات کے جوابات

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
غیر احمدی اعتراضات
تحریرات پر اعتراضات کے جوابات

۱۔شاعر ہونا

اعتراض۔ قرآن مجید میں ہے نیز(الشعراء:۲۲۵)نبی شاعر نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب شاعر تھے۔



الجواب:۔(۱)بیشک قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم شاعر نہ تھے اور قرآن مجید نے شاعر کی تعریف بھی کردی ہے۔ فرمایا: ۔ (الشعراء: ۲۲۶،۲۲۷) کہ کیا تو نہیں دیکھتا کہ شاعر ہر وادی میں سرگردان پھرتے ہیں۔ یعنی ہوائی گھوڑے دوڑاتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ گویا شاعر وہ ہے۔

۱۔جو ہوائی گھوڑے دوڑائے ۔خیالی پلاؤ پکائے۔

۲۔اس کے قول او ر فعل میں مطابقت نہ ہو۔

فرمایا:۔’’‘‘(یٰس:۷۰) ہم نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہوائی گھوڑے دوڑانا اور محض باتیں بنانا نہیں سکھایا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تھیں۔

اور( ۲)لغت میں ہے:۔ وَقَوْلُہٗ تَعَالیٰ حِکَایَۃً عَنِ الْکُفَّارِ (بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ھُوَ شَاعِرٌ) وَقَوْلُہٗ شَاعِرٌ مَجْنُوْنٌ۔…… لَمْ یَقْصِدُوْا ھٰذَاالْمَقْصِدَ فِیْمَا رَمَوْہُ بِہٖ وَ ذٰلِکَ اَنَّہٗ ظَاہِرٌ مِنَ الْکَلَامِ اَنَّہٗ لَیْسَ عَلٰی اَسَالِیْبِ الشِّعْرِ وَلاَ یَخْفٰی ذَالِکَ عَلَی الْاِغْتَامِ مِنَ الْعَجَمِ فَضْلًا عَنْ بُلَغَاءِ الْعَرَبِ وَ اِنَّمَا رَمَوْہُ بِالْکَذِبِ فَاِنَّ الشِّعْرَ یُعَبَّرُ بِہٖ عَنِ الْکَذِبِ وَالشَّاعِرُ الْکَاذِبُ…… قِیْلَ اَحْسَنُ الشِّعْرِ اَکْذَبُہٗ۔ (مفردات راغب زیر لفظ شعر)

کہ قرآن مجید میں جو یہ آتا ہے کہ کافر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو شاعر اور مجنون کہتے ہیں۔ اس سے مراد کافروں کی کلام موزوں کہنا نہ تھی۔ بلکہ جس بات کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراض کیا جاتا تھا وہ اور تھی۔ کیونکہ قرآن کا نثر ہونا توایسی بات ہے کہ کلام سے خود ہی ظاہر ہے (کہ یہ شعروں کی طرز پر نہیں) اور یہ امر ایک عام آدمی پر بھی مخفی نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ بلغاء عرب نثر اور نظم میں تمیز نہ کرسکتے ہوں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا۔ کیونکہ شعر سے مراد ’’جھوٹ‘‘ لی جاتی ہے اور شاعر کے معنے ہیں ’’کاذب‘‘ (جھوٹا) عربی ضرب المثل ہے کہ سب سے اچھا شعر وہ ہے جس میں سب سے زیادہ جھوٹ ہو۔

۳۔منطق کے امام علامہ شریفؒ کہتے ہیں ۔وَالشِّعْرُ……اِنَّ مَدَارَہٗ عَلَی الْاَکَاذِیْبِ وَمِنْ ثَمَّۃٍ قِیْلَ اَحْسَنُ الشِّعْرِ اَکْذَبُہٗ (الحاشیۃ الکبری علی شرح المطابع صفحہ۷۷۴مصری) کہ شعر کا مدار جھوٹ پر ہوتا ہے او ر ضرب المثل میں ہے کہ سب سے اچھا وہ شعر ہے جس میں بہت جھوٹ ہو۔

۴۔قرآن مجید میں ہے ’’‘‘(یٰسٓ:۷۰)کہ ہم نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو شعر نہیں سکھایا۔ اب اگر ’’شعر‘‘ سے مراد کلامِ موزوں لیا جائے تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ قرآن جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو سکھایا گیا ہے اس میں کلام موزوں بھی ہے جیسا کہ یہ آیت:۔

(بنی اسرائیل:۸۲)

(۵)۔حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقعہ پر فرمایا:۔

اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

(بخاری کتاب المغازی باب قول اللّٰہ تعالٰی وَ یَوْمَ حُنَیْنٍ……)

’’کہ میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ۔اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘

اب وزن کے لحاظ سے یہ بحر رَجَز محذوف ہے اور قافیہ بھی ملتا ہے۔

۶۔پھر حدیث شریف میں ہے کہ ایک جنگ کے موقعہ پر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی انگلی پر زخم آگیا تو آپؐ نے اس انگلی کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھا۔ ؂

ھَلْ اَنْتِ اِلاَّ اِصْبَعٌ دَمِیْتِ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَالَقِیْتِ

(بخاری کتاب الجہاد والسیر باب من ینکب او یَطْعِنُ فی سبیل اللّٰہ)

’’کہ سوائے اس کے نہیں کہ تو ایک انگلی ہے جس میں سے کہ خون بہہ رہا ہے اور یہ جو کچھ تجھے ہوا خدا کی راہ میں ہوا ہے۔‘‘

اب یہ بھی کلام موزوں ہے۔بس اگر شعر سے مراد کلام موزوں لیا جائے تو یہ بالبداہت باطل ہے کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر اس کی زد پڑتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ شعر سے مراد جھوٹ ہی ہے۔ پس نفس شعر بلحاظ کلام موزوں کے بری چیز نہیں ۔ورنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم شعر نہ کہتے اور نہ پڑھتے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ؂

کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے

(درثمین اردو نیا ایڈیشن صفحہ ۸۳)

نیز حضرت اقدس علیہ السلام کا الہام ہیـ:۔

’’در کلامِ تو چیزے است کہ شعراء را دراں دخلے نیست‘‘

(تذکرہ صفحہ۵۰۸مطبوعہ ۲۰۰۴ء)

۲۔غلط حوالے اور جھوٹ کے الزامات

مرزا صاحب نے اپنی کتابوں میں بعض حوالے غلط دیئے ہیں مثلاً ’’ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ ‘‘ بخاری میں نہیں ہے۔



الجواب:۔نبی کو ہم سہو اور نسیان سے پاک نہیں مانتے۔

۱۔قرآن میں ہے:۔(طٰہٰ:۱۱۶) کہ آدم بھول گیا۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ’’‘‘(الکہف:۶۲) کہ وہ مچھلی بھول گئے اور آگے لکھا ہے کہ شیطان نے انہیں بھلادیا۔ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (الکہف:۱۱۱) نیز اُصِیْبُ وَ اُخْطِیءُ (نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی صفحہ ۳۹۳) کہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں۔ بعض دفعہ خطا کرتا ہوں۔

۲۔بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو(۲) رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا’’ وَ رَجُلٌ یَدْعُوْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاالْیَدَیْنِ فَقَالَ اَنَسِیْتَ اَمْ قُصِرَتْ؟ فَقَالَ ’’لَمْ اَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ قَالَ بَلٰی قَدْ نَسِیْتَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ۔ ‘‘دوسری روایت میں ہے فَقَالَ اَ کَمَا یَقُوْلُ ذُوالْیَدَیْنِ؟ فَقَالُوْا نَعَمْ فَتَقَدَّمَ فَصَلَّی مَا تَرَکَ ( بخاری کتاب السہو باب یکبر فی السجدتی السھو و باب تشبیک الاصابع فی المسجدوغیرہ) کہ ایک شخص وہاں موجود تھا جس کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ذوالیدین کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز قصر کرکے حضورؐ نے پڑھی ہے؟ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز قصر کی گئی ہے ۔اس پر اس صحابی ؓ نے جواب دیا کہ حضور ؐ بھول گئے ہیں۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے باقی صحابہ سے پوچھا کہ کیا ذوالیدین ٹھیک کہتا ہے؟ تو سب نے جواب دیا کہ ہاں! وہ ٹھیک کہتا ہے۔پس آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم قبلہ رُوکھڑے ہوئے اور دو رکعتیں جو آپ نے چھوڑ دی تھیں پڑھیں اور بعد میں سجدہ سہو بھی کیا۔

(نیز دیکھو صحیح مسلم کتاب الصلٰوۃ باب السہو فی الصلٰوۃ و السجود لہٗ )

اب کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول ’’لَمْ اَنْسَ وَ لَمْ تُقْصَرْ‘‘ کو کوئی جھوٹ قرار دے سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔

۴۔ صحیح ترمذی کتاب المناقب میں ہے۔ عَنْ اُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَقْرَءَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ فَقَرَءَ عَلَیْہِ (سورۃ البینہ:۲)وَقَرَءَ فِیْھَا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ الْمُسْلِمَۃُ وَ لَا الْیَہُوْدِیَّۃُ وَلَاا لنَّصْرَانِیَّۃُ وَلَا الْمَجُوْسِیَّۃُ مَنْ یَّعْمَلْ خَیْرًا فَلَنْ یُّکْفَرَہٗ وَقَرَأَ عَلَیْہِ لَوْ اَنَّ لِاِبْنِ اٰدَمَ وَادِیًا مِّنْ مَّالٍ لَّابْتَغٰی اِلَیْہِ ثَانِیًا وَلَوْ کَانَ لَہٗ ثَانِیًا لَّابْتَغٰی اِلَیْہِ ثَالِثًا وَلَا یَمْلَا ءُ جَوْفَ ابْنَ اٰدَمَ اِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ اِلَی اللّٰہِ ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔

(ترمذی ابواب مناقب فی فضل ابی ابن کعب )

کہ حضرت ابی کعب ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو قرآن پڑھ کر سناؤں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’‘‘والی سورۃ پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں دین صرف خالص اسلام ہے۔ نہ یہودیت نہ نصرانیت اور نہ مجوسیّت۔ پس جو اچھا کام کرے اس کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اور اگر بنی آدم (انسان ) کے لئے ایک وادی مال و دولت سے بھری ہوتی تو ضرور وہ ایک دوسری وادی چاہتا ۔ اور اگر اس کو دوسری وادی بھی مل جاتی تو وہ تیسری کی تلاش کرتا اور انسان کے پیٹ کو سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی ۔ اورخدا تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ اور یہ حدیث صحیح ہے ۔

اب اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ الْمُسْلِمَۃُ الخ کو قرآن مجید والی سورۃ کی آیات قرار دیا ہے ذرا کوئی مولوی صاحب والی سورۃ میں تو کجا سارے قرآن میں سے کسی جگہ سے نکال کر دکھائیں۔[/div2][/div2]
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
نوٹ:۔یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ’’یہ آیات‘‘ منسوخ ہوگئی ہیں ۔ کیونکہ یہ بات کہ خدا کے نزدیک دین حنفیۃ المسلمہ ہے اور یہ کہ انسان بڑا حریص ہے ۔یہ سب اخبار ہیں نہ کہ احکام۔ اور اس پر سب غیر احمدی علماء کا اتفاق ہے کہ اخبا ر میں نسخ جائز نہیں۔

۲۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب خدا کے نزدیک دین ’’حنفیۃ المسلمہ‘‘ نہیں بلکہ یہودیت اور نصرانیت ہوگیا ہے؟

۳۔ان آیا ت کی ناسخ کونسی آیت ہے جس کی وجہ سے یہ آیات منسوخ ہوگئی ہیں۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ حدیث مذکور بالا میں لفظ ’’قَرَءَ فِیْھَا ‘‘ہے یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سورۃ میں یہ عبارت پڑھی تھی اس کو سورۃ کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا ورنہ ’’قَالَ فِیْھَا ‘‘ کہنا چاہیے تھا ۔

۴۔علامہ سعد الدین تفتا زانی، ملا خسرو، ملا عبد الحکیم ان تینوں نے لکھا ہے کہ حدیث تَکْثُرُ لَکُمُ الْاَحَادِیْثُ بَعْدِیْ بخاری میں ہے۔ حالانکہ یہ حدیث موجودہ بخاری میں نہیں ہے۔

(توضیح مع حاشیہ التلویح شرح الشرح مطبع کریمیہ قزان ۱۳۳۱ھ جلد ۱ صفحہ۴۳۳)

اسی طرح سے حدیث خَیْرُ السَّوْدَانِ ثَلَاثَۃٌ لُقْمَانُ وَ بَلَالٌ وَ مَھْجَعْ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ فِیْ صَحِیْحِہٖ۔عَنْ وَاثِلَۃَ بْنِ الْاَسْقَعِ بِہٖ مَرْفُوْعًا کَذَا ذَکَرَہُ ابْنُ الرَّبِیْعِ لٰکِنْ قَوْلُ الْبُخَارِیِّ سَھْوُ قَلَمٍ اَمَّا مِنَ النَّاسِخِِ اَوْ مِنَ الْمُصَنَّفِ فَاِنَّ الْحَدِیْثَ لَیْسَ مِنَ الْبُخَارِیِّ۔

(موضوعات کبیر ازمولانا علی القاری صفحہ ۶۴ناشر نور محمد اصح المطابع کارخانہ تجارت آرام باغ کراچی مطبع ایجوکیشنل پریس کراچی)

کہ ’’حدیث سوڈان کے بہترین آدمی تین ہیں یعنی(۱) لقمان(۲) بلال (۳) مہجع جو آنحضرت صلعم کے غلام تھے ۔ یہ حدیث بخاری میں واثلہ بن الاسقع ؓ سے مرفوعاً مروی ہے۔ حضرت مُلَّا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ علامہ ابن ربیع کا یہ کہنا کہ یہ حدیث بخاری میں ہے یہ یا تو مصنف کا سہو قلم ہے اور یا کاتب کا۔ کیونکہ یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے۔

وہ مولوی جو ’’فَاِنَّہٗ خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ ‘‘(ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی ) والی حدیث کے بخاری میں نہ ملنے پر حضرت مسیح موعود ؑ پر کاذب ہونے کا الزام لگاتے ہیں کیا وہ اپنے علامہ سعد الدین تفتازانی۔ ملّا و علامہ خسرو، ملّا عبد الحکیم اور علامہ ابن الربیع کو بھی کاذب کہیں گے؟

۶۔امام بیہقی ؒ کی کتاب ’’الاسماء والصفات‘‘ ناشر دار احاء التراث العربی صفحہ ۴۲۴ میں لکھا ہے کہ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ مِنَ السَّمَآءِ فِیْکُمْ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ۔رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ کہ بخاری میں ہے کہ کَیْفَ اَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ……مِنَ السَّمَآءِ ۔ حالانکہ قطعاً بخاری میں مِنَ السَّمَآءِ کا لفظ نہیں ہے۔

(وَھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ )حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب شہادۃ القرآن صفحہ ۴۱ ایڈیشن اوّل میں جو یہ لکھا ہے کہ یہ حدیث بخاری میں ہے۔ اس کے متعلق بھی ہم وہی جواب دیتے ہیں جو حضرت ملا علی قاری ؒ نے امام ابن الربیع کی طر ف سے دیا تھا ۔ وَلٰکِنْ قَوْلُ الْبُخَارِیِّ سَھْوُ قَلَمٍ اَمَّا مِنَ النَّاسِخِ اَوْ مِنَ الْمُصَنَّفِ (موضوعات کبیر صفحہ۶۴) کہ یہ قول کہ یہ حدیث بخاری میں ہے یا تو سہو کتابت ہے یا سبقتِ قلمِ مصنف۔ ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ازالہ اوہام میں صاف طور پر فرمادیاہے:۔

’’میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں اِسی وجہ سے امامین حدیث(بخاری و مسلم۔ خادمؔ) نے ان کو نہیں لیا۔‘‘

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۴۰۶)

گویا بخاری ومسلم میں مہدی کے متعلق احادیث نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ ’’ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ ‘‘ (آسمان سے آواز آنا کہ یہ خدا کا خلیفہ مہدی ہے) بہرحال مہدی کے متعلق ہے۔ پس حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اپنے صاف بیان کے مطابق یہ حدیث بخاری میں نہیں۔ ہاں یہ حدیث اسی طرح صحیح ہے جس طرح بخاری کی دوسری احادیث کیونکہ کَذَا ذَکَرَہُ السُّیُوْطِیْ وَفِی الزَّوَائِدِ: ھٰذَا اَسْنَادٌ صَحِیْحٌ۔ رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ۔ وَرَوَاہُ الْحَاکِمُ فِی الْمُسْتَدْرِکِ وَقَالَ صَحِیْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّیْخَیْنِ۔ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی)کہ حدیث ’’ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ ‘‘ کو امام سیوطیؒ نے بھی ذکر کیا ہے اور زوائد میں ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں اس کو اما م حاکم ؒ نے مستدرک کتاب التاریخ باب تذکرۃ الانبیاء ھبوط عیسٰی…… میں درج کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق بھی صحیح ہے۔ نیز یہ حدیث ابو نعیم اور تلخیص المتشابہ و حجج الکرامۃ صفحہ ۳۶۶ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال پر درج ہے۔

بھلا تم لوگ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جھوٹ بولنے کا الزام لگا سکتے ہو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کو تم نبی مانتے ہو اور جن کے متعلق قرآن مجیدمیں ہے(مریم: ۴۲) کہ وہ سچ بولنے والے نبی تھے تم ان کے متعلق بھی یہ کہتے اور مانتے ہو کہ انہوں نے تین جھوٹ بولے۔

بخاری میں ہے:۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِی اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاہِیْمُ اِلَّا ثَلَاثًا…… عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ اِلَّا ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ (بخاری کتاب بدء الخلق باب قول اﷲ تعالیٰ واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا و مشکوٰۃ باب بد ء الخلق وذکر الانبیاء علیہم السلام پہلی فصل نیز مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل ابراہیم خلیل اﷲ) کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہ بولا مگر تین جھوٹ۔

۲۔صحیح ترمذی میں ہے:۔ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکْذِبْ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ فِیْ شَیْءٍ قَطُّ اِلَّا فِیْ ثَلَاثٍ قَوْلُہٗ اِنِّیْ سَقِیْمٌ وَلَمْ یَکُنْ سَقِیْمًا وَقَوْلُہٗ لِسَارَۃَ اُخْتِیْ وَقَوْلُہٗ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُ ھُمْ …… ھٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔(ترمذی ابواب التفسیر سورۃ الانبیاء)

کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کبھی کسی چیز میں جھوٹ نہ بولا۔ مگر صرف تین موقعوں پر۔ ان کا کہنا کہ میں بیمار ہوں حالانکہ وہ بیمار نہ تھے ۔ پھر ان کا کہنا کہ یہ بُت ان کے بڑے بُت نے توڑے ہیں اور ان کا اپنی بیوی سارہ کو کہنا کہ یہ میری بہن ہے……یہ حدیث صحیح ہے۔

۳۔بخاری میں ہے کہ قیامت کے دن جب سخت گھبراہٹ طاری ہوگی اور لوگ بھاگے بھاگے سب انبیاء کے پاس جائیں گے کہ وہ ان کی خداتعالیٰ کے حضور شفاعت کریں۔ توسب انکار کردیں گے۔ جب وہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو فَیَقُوْلُ لَھُمْ اِنَّ رَبِّیْ قَدْ غَضِبَ الْیَوْمَ غَضْبًا لَمْ یَغْضَبْ قَبْلَہٗ مِثْلَہٗ وَلَنْ یَّغْضَبَ بَعْدَہٗ مِثْلَہٗ وَاِنِّیْ قَدْ کُنْتُ کَذَبْتُ ثَلَاثَ کَذِبَاتٍ فَذَکَرَ ھُنَّ اَبُوْ حَیَّانَ فِی الْحَدِیْثِ نَفْسِیْ نَفْسِیْ نَفْسِیْ اِذْھَبُوْا اِلٰی غَیْرِیْ۔ ‘‘

(بخاری کتاب التفسیر باب ذریّۃ من حملنا مع نوح)

حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو جواب دیں گے کہ میرا ربّ آج سخت غصہ میں ہے کہ ا س سے قبل کبھی اتنا غضبنا ک نہ ہواتھا اور نہ آج کے بعد کبھی ایسا غضبناک ہوگا او ر میں نے تین جھوٹ بولے تھے (ابو حیان نے ایک حدیث میں ان تینوں جھوٹوں کی تفصیل دی ہے)پس مجھے تو اپنے نفس کی فکر ہے تم میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ۔

جس نبی کو قرآن کریم سچا کہتا ہے تم اس کے متعلق کہتے ہو کہ اس نے نعوذ باﷲ تین جھوٹ بولے۔ گویا تمہارے نزدیک جھوٹ بولنا معیار صداقت ہے۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام پر اگر تم اعتراض کرو تو تم معذور ہو۔ ؂

مجھ کو کیا تم سے گلہ ہو کہ مرے دشمن ہو

جب یونہی کرتے چلے آئے ہو تم پیروں سے

۳۔قرآن و حدیث میں طاعون

اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ قرآن و حدیث میں طاعون کی پیشگوئی ہے۔ یہ جھوٹ ہے؟



الجواب:۔قرآن مجید میں ہے:۔ (النمل:۸۳) کہ جب ان پر اتمام حجت ہوجائے گی تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک کیڑا نکالیں گے جو ان کو کاٹے گا۔ کیونکہ لوگ خدا کی آیات پر یقین نہیں کرتے تھے ۔کے معنے کاٹنے کے ہی ہیں۔ جیسا کہ لغت کی کتاب منجد زیر لفظ کَلَمَ میں ہے۔

کَلَّمَہٗ تَکْلِیْمًا:جَرَحَہٗ یعنی اس نے اس کو زخم لگایا ۔

کَلَمَ……کَلْمً ا کے معنی بھی زخم لگانے کے ہیں۔

۲۔بخاری میں ہے:۔ ’’عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ کُلُّ کَلْمٍ یُکْلَمُہُ الْمُسْلِمُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَکُوْنُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَھَیْئَتِھَا۔ (بخاری کتاب الوضوء باب مَایَقَعُ مِنَ النَّجَاسَاتِ فی السمن والماء )کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ہر ایک زخم جو کسی مسلم کو خدا کی راہ میں لگے قیامت کے دن اپنی اسی حالت میں ہوگا۔

چنانچہ طاعون کا کیڑا انسانوں کو کاٹتا ہے ۔جس سے طاعون ہوتی ہے۔

حدیث صحیح مسلم میں ہے:۔ فَیَرْغَبُ نَبِیُّ اللّٰہِ عِیْسٰی وَ اَصْحَابُہٗ فَیُرْسِلُ اللّٰہُ عَلَیْھِمُ النَّغَفَ فِیْ رِقَابِھِمْ فَیُصْبِحُوْنَ فَرْسَیْ کَمَوْتِ نَفْسٍ وَاحِدَۃٍ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر صفت الدجال وما معہٗ و مسلم شرح نووی کتاب الفتن باب ذکر صفت الدجال وما معہٗ) پس خدا کا نبی مسیح موعود ؑ اور اس کے صحابی متوجہ ہوں گے اور خدا تعالیٰ ان کے مخالفوں کی گردنوں میں ایک پھوڑا (طاعون)ظاہر کرے گا۔ پس وہ صبح کو ایک آدمی کی موت کی طرح ہوجائیں گے۔(نغف کے معنے پھوڑا اور طاعون ہے۔ دیکھو عربی ڈکشنری مصنفہ LANEجلد ۸ صفحہ ۲۸۱۸و ضمیمہ صفحہ ۳۰۳۶)

۳۔بحار الانوار میں ہے:۔’’قُدَّامُ الْقَائِمِ…… مَوْتَانِ مَوْتٌ اَحْمَرُ وَ مَوْتٌ اَبْیَضُ…… فَالْمَوْتُ الْاَحْمَرُ السَّیْفُ وَالْمَوْتُ الْاَبْیَضُ الطَّاعُوْنُ۔ ‘‘(بحار الانوار مصنفہ علامہ محمد باقر مجلسی جلد ۵۲ باب علامۃ ظھورہ علیہ السلام من السفیانی والدجال۔ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)کہ امام مہدی ؑ کی علامات میں ہے کہ اس کے سامنے دو قسم کی موتیں ہوں گی۔ پہلی سرخ موت اور دوسری سفید موت۔ پس سرخ موت تو تلوار (لڑائی) ہے اور سفیدموت طاعون ہے۔

۴۔مندرجہ بالا جواب میں جو ہم نے قرآن مجید کی آیت (النمل:۸۳) کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ اس زمانہ میں ایک کیڑا نکلے گا جو ان کو کاٹے گا ۔ اس کی تائید بحار الانوار کے مندرجہ ذیل حوالہ سے بھی ہوتی ہے۔ ’’ثُمَّ قَالَ (ابو عبد اللّٰہ امام حسین ؓ) وَقَرَءَ تُکَلِّمُھُمْ مِنَ الْکَلِمِ وَ ھُوَالْجُرْحُ وَالْمُرَادُ بِہٖ الْوَسْمُ یعنی امام باقر ؒ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی مندرجہ بالا دابۃ الارض والی آیت کے متعلق حضرت امام حسینؓ نے فرمایا کہ اس آیت میں سے مراد یہ ہے کہ وہ کیڑا ان کو کاٹے گا اور زخم پہنچائے گا۔

(بحار الانوار از علامہ محمد باقر مجلسی جلد۵۳ باب تاریخ الامام۔ الثانی عشر۔ دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان و نیز دیکھو اقتراب الساعۃ از نواب نورالحسن خان صاحب مطبع مفید عام الکائنہ فی الرواۃ ۱۳۰۱ھ صفحہ ۱۹۷)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں قرآن مجید کی آیا ت اور احادیث کا حوالہ دیا ہے ۔چنانچہ حضور ؑ فرماتے ہیں:۔

’’ خدا تعالیٰ کی کتابوں میں بہت تصریح سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسیح موعود کے زما نہ میں ضرور طاعون پڑے گی اور اِس مَرِی کا انجیل میں بھی ذکر ہے اور قرآن شریف میں بھی اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے الخ(بنی اسرائیل:۵۹) یعنی کوئی بستی ایسی نہیں ہو گی جس کو ہم کچھ مدت پہلے قیامت سے یعنی آخری زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہے ہلاک نہ کر دیں یا عذاب میں مبتلا نہ کریں۔‘‘

(نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۳۹۶)

’’یہی طاعون ہے اور یہی وہ دابّۃ الارض ہے جس کی نسبت قرآن شریف میں وعدہ تھا کہ آخری زمانہ میں ہم اس کو نکالیں گے اور وہ لوگوں کو اس لئے کاٹے گا کہ وہ ہمارے نشانوں پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ جیساکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ (النمل:۸۳)اور جب مسیح موعود کے بھیجنے سے خدا کی حجت اُن پر پوری ہو جائے گی تو ہم زمین میں سے ایک جانور نکال کر کھڑا کریں گے وہ لوگوں کو کاٹے گا اور زخمی کرے گا اس لئے کہ لوگ خدا کے نشانوں پر ایمان نہیں لائے تھے۔ دیکھو سورۃ النمل الجزو نمبر ۲۰۔‘‘

(نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۴۱۵،۴۱۶)

’’یہ جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا کہ وہ دابّۃ الارض یعنی طاعون کا کیڑا زمین میں سے نکلے گا اس میں یہی بھید ہے کہ تا وہ اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ وہ اُس وقت نکلے گا کہ جب مسلمان اور ان کے علماء زمین کی طرف جھک کر خود دابّۃ الارض بن جائیں گے۔ ہم اپنی بعض کتابوں میں یہ لکھ آئے ہیں کہ اس زمانہ کے ایسے مولوی اور سجادہ نشین جو متقی نہیں ہیں اور زمین کی طرف جھکے ہوئے ہیں یہ دابّۃ الارض ہیں اوراب ہم نے اِس رسالہ میں یہ لکھا ہے کہ دابّۃ الارض طاعون کا کیڑا ہے۔ ان دونوں بیانوں میں کوئی شخص تناقض نہ سمجھے۔ قرآن شریف ذوالمعارف ہے اور کئی وجوہ سے اس کے معنی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد نہیں۔‘‘

(نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۴۲۱)

’’یاد رہے کہ اہلِ سنّت کی صحیح مُسلم اور دُوسری کتابوں اور شیعہ کی کتاب اکمال الدین میں بتصریح لکھا ہے کہ مسیح موعود کے وقت میں طاعون پڑے گی بلکہ اکمال الدین جو شیعہ کی بہت معتبر کتاب ہے اُس کے صفحہ ۳۴۸ میں…… لکھا ہے کہ یہ بھی اس کے ظہور کی ایک نشانی ہے کہ قبل اس کے کہ قائم ہو یعنی عام طورپر قبول کیا جائے دنیا میں سخت طاعون پڑے گی ۔‘‘

(نزول المسیح ۔روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ ۳۹۶،۳۹۷)

۴۔تورات و انجیل میں طاعون کی پیشگوئی

مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ تورات اور انجیل (زکریا ۱۴/۱۲ پرانا عہد نامہ) میں طاعون کی پیشگوئی ہے۔ یہ جھوٹ ہے۔



جواب:۔جھوٹ نہیں بلکہ تمہاری اپنی بد قسمتی ہے کہ بے و جہ نبی کے منکر ہوگئے ہو۔ انجیل متی کا حوالہ حضرت ؑ نے دیا ہے اور یہ حوالہ درست ہے ۔ انجیل مطبوعہ ۱۸۵۷ء میں متی۲۴/۸پر مذکور ہے کہ مسیح کی ایک نشانی مری کا پڑنا بھی ہے۔ لیکن بعد میں عیسائیوں نے اس کو متی ۲۴/۸سے نکال دیا ہے۔ (النساء: ۴۷) لیکن اگر تم نے مزید تسلی کرنی ہو تو انجیل لوقا ۲۱/۱۰پر جو ۱۹۲۸ء میں چھپی ہے اس میں بھی موجود ہے۔ جابجا کال اور مری پڑے گی۔‘‘

(تفصیل دیکھو زیر عنوان ’’مسیح کی آمد ثانی کی علامات‘‘ پاکٹ بک ہذا)

توراتؔ:حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے تورات میں بھی طاعون کی پیشگوئی کا ذکر کیا ہے۔(کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ۵ )چنانچہ اس کے لئے زکریا ۱۴/۱۲ دیکھو اور انگریزی بائیبل مطبوعہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ۱۸۸۵ء صفحہ۱۰۰۷میں تو لفظ پلیگ(PLAGUE)بھی موجود ہے۔

"And this shall be the plague where with the Lord will smite (زکریا ۱۴/۱۲)all the people."

یعنی یہ پلیگ ہوگی جس سے خدا تعالیٰ خدا کے گھر کے خلاف لڑائی کرنے والوں کو ہلاک کرے گا۔

نوٹ:۔(۱)بائیبل کے اس حوالہ میں جو لفظ ’’پلیگ‘ ‘ استعمال ہوا ہے اس کا ترجمہ طاعون ہی ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو انگریزی عربی ڈکشنری موسومہ بہ ’’القاموس العصری الانکلیزی عربی مؤلفہ الیاس انطون زیر لفظ طعن‘‘جہاں لکھا ہے۔طاعون PLAGUEیعنی پلیگ کے معنے طاعون ہیں۔

۲۔اسی طرح عربی سے انگریزی اور فارسی سے انگریزی ڈکشنریوں میں لفظ ’’طاعون ‘‘ کا ترجمہ پلیگ اور Pestilences لکھا ہے اور عجیب با ت یہ ہے کہ لفظ پلیگ تو تورات زکریا۱۴/۱۲ میں آتا ہے اور لفظ Pestilences مسیح کی آمد ثانی کی علامات میں لوقا ۲۱/۱۱ میں ہے۔

(دیکھو ’’مسیح کی آمد ثانی کی علامات‘‘ پاکٹ بک ہذا)

نیز حضرت اقدس ؑ نے متی ۲۴/۸کا حوالہ دیا ہے جو انگریزی انجیل متی۲۴/۸میں اب بھی موجو دہے۔ اور جیسا کہ ثابت ہوا ہر دو لفظوں کا ترجمہ طاعون ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو بائبل کا حوالہ درست دیا ہے۔ ذرا لگتے ہاتھ’’‘‘(الصّفّ:۷)اور (الاعراف:۱۵۸) کے مطابق تورات اور انجیل سے ’’احمد‘‘ کا نام اور ایک ’’اُمی نبی‘‘ کی پیشگوئی نکال دینا تاکہ تمہیں معلوم ہو کہ انجیل وتورات محرفہ سے اگر کوئی حوالہ نہ ملے تو یہ مصنف کی غلطی نہیں۔ بلکہ عیسائیوں کی ہشیاری کا نتیجہ ہے کہ وہ ہر دس سال کے بعدانجیل کو تبدیل کردیتے ہیں۔ (دیکھو مضمون ’’تحریف بائیبل‘‘پاکٹ بک ہذا)

۵۔غلام دستگیر قصوری کا مباہلہ

اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ غلام دستگیر قصوری نے بددعا کی تھی ۔یہ جھوٹ ہے۔ اس کے ساتھ کوئی مباہلہ نہ ہوا تھا۔



الجواب:۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم۔روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ۷۰پر جن علماء کو مباہلہ کیلئے مقابل پر بلایا ہے اور اپنی طر ف سے ان کے لیے بد دعا کردی ہے ان میں مولوی غلام دستگیر کا نام بھی ہے۔(انجام آتھم ۔روحانی خزائن جلد۱۱صفحہ۷۰)اس کے بالمقابل ان میں سے جو شخص بھی بددعا کرے گا اس کا مباہلہ حضرت ؑ کے ساتھ متحقق ہوجائے گا۔ چنانچہ مولوی غلام دستگیر قصوری نے بددعا کی۔ اَللّٰھُمَّ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ یَامَالِکَ الْمُلْکِ جیسا کہ تو نے ایک عالم ربّانی حضرت محمد طاہر مؤلف مجمع بحار الانوار کی دعا اور سعی سے اس مہدی کاذب اور جعلی مسیح کا بیڑا غرق کیا (جو ا ن کے زمانہ میں پیدا ہوا تھا)ویسا ہی دعا اور التجاء اس فقر قصوری کی ہے جو سچے دل سے تیرے دین متین کی تائید میں حتی الوسع ساعی ہے کہ تو مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو توبۃ النصوح کی توفیق عطا فرما۔ اور اگر یہ مقدر نہیں تو ان کو مورد اس آیت قرآنی کا بنا (الانعام:۴۶) اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ وَبِالْاِجَابَۃِ جَدِیْرٌ تَبًّا لَہٗ وَلِاَ تْبَاعِہٖ۔ ‘‘

(فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی لدھیانہ مطبع احمدی ۱۳۱۵ھ مؤلفہ غلام دستگیر قصوری صفحہ۲۷ و صفحہ ۲۸ و نیز حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۵۴)

۶۔مولوی محمد اسمعیل علیگڑھی کی بددعا

اعتراض۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۳۴۳ حاشیہ پر لکھا ہے۔
’’مولوی اسمٰعیل نے اپنے ایک رسالہ میں میری موت کے لئے بد دعا کی تھی پھر بعد اس بددعا کے جلد مر گیا اور اس کی بد دعا اُسی پر پڑگئی۔‘‘



جواب:۔تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیوں یہ حوالہ طلب نہ کیا ۔ جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ تم کو اصل بات کا علم ہے۔ بات یہ تھی کہ مولوی اسمٰعیل علیگڑھی نے ایک کتاب لکھی جس میں یہ بددعا تھی ۔ابھی وہ کتاب چھپ رہی تھی کہ علیگڑھی مر گیا۔ مولویوں نے اس کی کتاب میں سے وہ سب بددعائیں نکال ڈالیں تاکہ حضرت مسیح موعود ؑ کی صداقت پر گواہ نہ بن جائے۔ وہ کتاب جو ابھی زیر طبع تھی مولوی عبداﷲ صاحب سنوری نے دیکھی تھی اور انہوں نے اس کے متعلق شہادت بھی دی تھی کہ اس کتاب کا سائز ’’فتح اسلام‘‘ (مؤلفہ حضرت مسیح موعود ؑ )کا سائز تھا ۔ اگر اس نے کوئی ایسی بددعا نہ کی تھی تو تم نے حضرت مسیح موعو دؑ سے کیوں حوالہ نہ مانگا۔تمہاری تحریف کی تویہ حالت ہے کہ شرح فقہ اکبر مطبوعہ مصر کے صفحہ۹۹پر ’’لَوْ کَانَ مُوْسٰی حَیًّا ‘‘ لکھ دیا ہے تاکہ کسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ثابت نہ ہو۔ ع کچھ تو لوگو خدا سے شرماؤ

۷۔حدیث سو سال کے بعد قیامت

اعتراض۔ حدیث سو سال کے بعد قیامت آجائے گی اس کا حوالہ دو۔



جواب:۔یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں ہے۔ (۱) عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ قَالَ لَمَّا رَجَعْنَا مِنْ تَبُوْکٍ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَتَی السَّاعَۃُ فَقَالَ لَا یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ مِائَۃُ سَنَۃٍ وَ عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ نَفْسٌ مَنْفُوْسَۃٌ الْیَوْمَ

(معجم صغیر طبرانی جز اوّل صفحہ ۳۱۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت)

ابو سعید ؓ کہتے ہیں کہ جب ہم جنگ تبوک سے واپس آئے تو ایک شخص نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ قیامت کب ہوگی؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام بنی آدم پر سو سال نہ گزرے گا مگر آج کے زندوں میں سے ایک بھی روئے زمین پر نہ ہوگا۔ یاد رہے کہ سائل کا سوال قیامت کے متعلق ہے۔

(۲)فَقَالَ اَرَأَ یْتَکُمْ لَیْلَتَکُمْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَأْسِ مِائَۃِ سَنَۃٍ مِنْھَآ لَا یَبْقٰی مِمَّنْ ھُوَ الْیَوْم عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ اَحَدٌ۔ ‘‘(ترمذی ابواب الفتن باب لا تاتی مائۃ سنۃ و علی الارض نفس منفوسۃ الیوم) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آج کی اس رات سے سو سال نہ گزرے گا کہ روئے زمین کے موجودہ زندوں میں سے کوئی باقی نہ رہے گا۔

(۳)اس حدیث پر یہ حاشیہ لکھاہے : ۔’’اِنَّ الْغَالِبَ عَلٰی اَعْمَارِھِمْ اَنْ لَّا تَتَجَاوَزَ ذٰلِکَ الْاَمْرُ الَّذِیْ اَشَارَ اِلَیْہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَکُوْنُ قِیَامَۃُ اَھْلِ ذٰلِکَ الْعَصْرِ قَدْ قَامَتْ۔ ‘‘ (ترمذی ابواب الفتن باب ۶۴ حدیث نمبر ۲۲۵۷ داراحیاء التراث العربی)

کہ ان کی عمر کے لئے غالب امر یہی تھا کہ وہ اس مدت سے جس کی تعیین آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کی تھی تجاوز نہ کریں۔ پس اس زمانہ کے تمام لوگوں پر قیامت آگئی۔

(۴)صحیح مسلم میں ہے۔ ’’مَامِنْ نَفْسٍ مَنْفُوْسَۃٍ الْیَوْمَ یَأْتِیْ عَلَیْھَا مِائَۃُ سَنَۃٍ وَھِیَ یَوْمَئِذٍ حَیَّۃٌ۔ ‘‘(کنز العمال کتاب القیامۃ من قسم الاقوال حدیث نمبر ۳۸۳۴۰ ومسلم کتاب الفتن باب قرب الساعۃ)یعنی ’’سو سال نہیں گزرے گا کہ آج کے زندوں میں سے کوئی بھی زندہ جان باقی نہ ہوگی۔‘‘

(۵)مولوی ثناء اﷲ امرتسری لکھتا ہے:۔ آنحضرت فداہ امی وابی نے فوت ہوتے وقت فرمایا تھا کہ جو جاندار زمین پر ہیں ۔ آج سے سو سال تک کوئی بھی زندہ نہ رہے گا۔‘‘

(تفسیر ثنائی جلد ۲ صفحہ ۱۰۵)

۸۔ ’’دجال‘‘یا ’’رجال‘‘

اعتراض:۔مرزا صاحب نے تحفہ گولڑویہ۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۷۳میں یَخْرُجُ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالٌ یَخْتَلُوْنَ الدُّنْیَا بِالدِّیْنِ۔ کو حدیث قرار دیا ہے اور یہ ’’دَجَّال‘‘ نہیں بلکہ ’’رجال‘‘ رؔکے ساتھ ہے۔



الجواب:۔ یہ ’’دَجَّال‘‘ دال کے ساتھ ہی ہے ۔چنانچہ کنز العمال کتاب القامۃ من قسم الاقوال حدیث نمبر ۳۸۴۴۱ میں ’’دال‘‘ ہی کے ساتھ ہے۔

۲۔قلمی نسخہ میں بھی ’’دال‘‘ہی کے ساتھ ہے۔ چنانچہ مولانا مخدوم بیگ صاحب نائب شیخ الحدیث لکھتے ہیں:۔(کنز العمال کتاب القامۃ من قسم الاقوال حدیث نمبر ۳۸۴۴۱) یَخْرُجُ فِیْ اٰخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالٌ یَخْتَلُوْنَ الدُّنْیَا بِالدِّیْنِ الخ، عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرۃَ ؓ قلمی نسخہ میں دجّال بالدّال صاف طور پر لکھا ہے۔

(مخدوم بیگ عفی عنہ مدرس مدرسہ نظامیہ منقول از تجلیات رحمانیہ از مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب مطبوعہ سٹیم پریس دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ۹۲)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۹۔قرآن پیشگوئی دربارہ تکفیر مسیح موعودؑ

بعض غیر احمدی مولوی یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرے مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں یہ پیشگوئی ہے کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس پر کفر کا فتویٰ لگایا جائے گا ۔ یہ جھوٹ ہے۔



الجواب:۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن آیات قرآنی سے استنباط فرما کر یہ تحریر فرمایا ہے کہ مسیح موعود پر کفر کا فتویٰ لگے گا حضور ؑ نے اپنی تحریرا ت میں ان آیات کا حوالہ بھی دیا ہے۔

۱۔’’قرآن نے بہت سے امثال بیان کرکے ہمارے ذہن نشین کردیا ہے کہ وضع عالم دوری ہے اور نیکوں اور بدوں کی جماعتیں ہمیشہ بروزی طور پر دُنیا میں آتی رہتی ہیں وہ یہودی جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں موجود تھے۔ خدا نے دُعا سکھلاکر اشارہ فرمادیا کہ وہ بروزی طور پر اس اُمّت میں بھی آنے والے ہیں تا بروزی طورپر وہ بھی اس مسیح موعود کو ایذا دیں جو اِس اُمّت میں بروزی طور پر آنے والا ہے۔‘‘

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۴۸۳،۴۸۴)

۲۔’’(النور:۵۶)…… پس اس آیت سے سمجھا جاتا ہے کہ مسیح موعود کی بھی تکفیر ہوگی کیونکہ وہ خلافت کے اس آخری نقطہ پر ہے ۔‘‘

(تحفہ گولڑویہ۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۱۹۰،۱۹۱بقیہ حاشیہ)

۳۔نیز دیکھو تحفہ گولڑویہ صفحہ۵۶،۱۰۳،۱۳۶ طبع اوّل

۴۔مفصل و مزید بحث دیکھو پاکٹ بک صفحہ۷۰۷ پر۔

۱۰۔مفتری جلد پکڑا جاتا ہے

اعتراض:۔حضرت نے لکھا ہے:۔ ’’ دیکھو خدائے تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ جو میرے پر افترا کرے اس سے بڑھ کر کوئی ظالم نہیں اور میں جلد مفتری کو پکڑتا ہوں۔‘‘(نشان آسمانی۔ روحانی خزائن جلد۴ صفحہ۳۹۷)……’’حالانکہ قرآن پاک میں کہیں نہیں لکھاکہ میں مفتری کو جلد ہلاک کرتا ہوں بلکہ اس کے الٹ ہے۔(یونس:۷۰،۷۱) (محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۱۵۱و صفحہ ۱۷۴ مطبوعہ یکم مارچ ۱۹۳۵ء)



الجواب:۔(۱)افترا علی اللّٰہ کرنے والے کو پکڑنے کے متعلق الٰہی قانون پر ہم نے مفصل بحث صداقت حضرت مسیح موعود ؑ کی دوسری دلیل کے ضمن میں کردی ہے۔ (دیکھو پاکٹ بک ہٰذ ا صفحہ۳۳۵)

(۲)مگر اس جگہ جو آیت تم نے پیش کی ہے اس کے مفہوم کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا ہے۔

سے مراد معترض نے غالباً ’’لمبی مہلت‘‘لی ہے تبھی تو اس کو ’’جلد پکڑے جانے‘‘ کے ’’الٹ‘‘ قرار دیا ہے ۔حالانکہ یہ قطعاً غلط ہے۔تم خود اپنی محمد یہ پاکٹ بک صفحہ ۲۷۲وصفحہ ۲۴۷ مطبوعہ ۱۹۳۵ء پر اپنے ہاتھ کاٹ چکے ہو۔ جہاں پر قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت نقل کی ہے:۔

(النحل:۱۱۷،۱۱۸)

اور خود ہی یہ ترجمہ بھی کیا ہے۔ ’’تحقیق مفتری نجات نہیں پائیں گے انہیں نفع تھوڑا ہے۔ عذاب دردناک‘‘گویا پہلی آیت میں جو صرف ’’‘‘ کا لفظ تھا جس سے تم نے مغالطہ دینا چاہا کہ گویا مفتری کو ’’لمبی مہلت‘‘ ملتی ہے۔ اس آیت نے صاف کردیا کہ ’’‘‘ کہ لمبی مہلت نہیں بلکہ ’’تھوڑی مہلت‘‘ ملتی ہے۔

ہاں تمہارا یہ کہنا کہ ۲۳برس کی مہلت کو’’جلد‘ ‘(محمدیہ پاکٹ بک صفحہ۲۴۹)کیونکر قرار دیا جاتا ہے اور کیا ۲۳ سال کا ’’جلد‘‘ ہوتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ۲۳ برس تو زیادہ سے زیادہ مہلت ہے جس تک کسی صورت میں بھی کوئی مفتری نہیں پہنچ سکتا۔ اور سچیکے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے خواہ سو سال جیئے۔ مگر ہاں بعض دفعہ ۲۳ سال کیا ۱۴۰۰ سال کا ’’جلد‘ ‘ہوا کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو:۔

۱۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:۔ اَنَا وَالسَّاعَۃُ کَھَاتَیْنِ (ابن ماجہ کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ) کہ میں اور قیامت اس طرح ہیں جس طرح دو جڑی ہوئی انگلیاں۔ مگر ۱۳۷۲سا ل گزرگئے ابھی تک وہ ’’جلد‘ ‘ختم نہیں ہوا۔

۲۔ہاں سنو ! قرآن مجید میں ہے۔ ’’‘‘(القمر: ۲)کہ قیامت ’’قریب‘‘ آگئی اور چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے ۔ ۱۴۰۰ سال گزرنے کو آئے مگر ابھی تک قیامت نہ آئی۔ فرمائیے یہ ’’جلد‘ ‘کتنا طویل ہوگیا۔

۱۱۔انبیاء گزشتہ کے کشوف


اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے اربعین نمبر ۲۔روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۳۷۱میں لکھا ہے کہ:۔
’’اسلام کے موجودہ ضعف اور دشمنوں کے متواتر حملوں نے اُس کی ضرورت ثابت کی اور اولیاء گذشتہ کے کشوف نے اس بات پر قطعی مہر لگا دی کہ وہ چودھویں صدی کے سر پر پیدا ہوگا۔‘‘کسی نبی کے کشف کا حوالہ دو۔



جواب:۔ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’اربعین نمبر ۲‘‘ یاکسی دوسری کتاب میں اس ضمن میں ’’انبیاء گزشتہ‘ ‘کا لفظ نہیں لکھا بلکہ ’’اولیاء گزشتہ‘ ‘ لکھا ہے۔ چنانچہ اربعین (جو حضرت اقدس ؑ کے زمانہ میں چھپی تھی)اس کے دونوں ایڈیشنوں میں علی الترتیب صفحہ ۲۳ وصفحہ ۲۵ پر ’’اولیاء گزشتہ‘‘ہی کا لفظ ہے، ہاں اربعین نمبر ۲ کے ایک نئے ایڈیشن میں جو ’’بک ڈپو‘ ‘ نے شائع کیا ہے کاتب کی غلطی سے لفظ ’’اولیاء‘ ‘کی بجائے ’’انبیاء‘‘ لکھا گیا ہے۔ و ہ حجت نہیں۔ تمہیں شر م آنی چاہیے کہ محض کتابت کی غلطیوں کی بناء پر مخلوق خدا کو دھوکا دے کر حق کے راستہ میں روکاوٹیں پیداکرتے ہو۔ حالانکہ تم کو بارہا مناظرات میں اربعین نمبر ۲ ایڈیشن اوّل علیحدہ صفحہ ۲۳ اور مجموعہ نمبر ۱ و نمبر ۲ صفحہ ۲۵سے لفظ ’’اولیاء‘ ‘دکھایا بھی جاچکا ہے۔

۱۲۔انبیاء گزشتہ کی پیشگوئی

اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ہر نبی نے مسیح موعود کی آمد کی خبر دی ہے اس کا حوالہ دو؟



الجواب:۔بخاری شریف میں ہے:۔ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم مَا بُعِثَ نَبِیٌّ اِلَّا اَنْذَرَ اُمَّتَہُ الْاَعْوَرَ الْکَذَّابَ (بخاری کتاب الفتن باب ذکر الدجال )کہ ’’آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اپنی امت کو دجّال سے نہ ڈرایا ہو۔‘‘

پس جہاں تمام انبیاء دجّال کا ذکر کرتے رہے ضروری ہے کہ اس کے قاتل مسیح موعود کا بھی اس کے ساتھ ہی ذکر کرتے رہے ہوں۔

۲۔ذرا مہربانی کرکے پہلے تمام نبیوں کی کتابوں سے ’’کانے دجال‘ ‘ کا ذکر نکال کر دکھا دو۔ ہم وہیں سے مسیح موعود کی آمد کی پیشگوئی بھی نکال دیں گے۔

۳۔ہم نے ذکر کیا ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ انبیاء گزشتہ اپنی امتوں کے سامنے دجّال کی آمد کا ذکر تو کریں مگر اس کے قاتل مسیح موعود کا ذکر نہ کریں۔ اس کی تائید دلائل النبوت کے مندرجہ ذیل حوالہ سے ہوتی ہے۔

عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ……قَالَ (مُوْسٰی ) یَا رَبِّ اِنِّیْ اَجِدُ فِی الْاَلْوَاحِ اُمَّۃً یُؤْتَوْنَ الْعِلْمَ الْاَوَّلَ وَالْاٰخِرَ فَیَقْتَلُوْنَ قُرُوْنَ الضَّلَالَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ فَاجْعَلْھَا اُمَّتِیْ قَالَ تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدَ۔ ‘‘

(دلائل النبوۃ لابی نعیم جلد۱ صفحہ ۱۴مطبوعہ ۱۳۲۰ھ )

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ نے اﷲ تعالیٰ کے سامنے عرض کی کہ اے اﷲ! میں نے اپنی الواح میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک ایسی قوم ہوگی جن کو اگلا او رپچھلا سب علم دیا جائے گا اور وہ گمراہی کی طاقتوں یعنی ’’دجال‘ ‘کو قتل کریں گے۔ اے خدا ! میری امت کو وہ قوم بنادے۔ اﷲ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ’’نہیں‘ ‘وہ قوم تو احمدؔ کی جماعت ہے۔

اس روایت میں دجالؔ کے خروج اور مسیح موعود کی بعثت کو علت و معلول اور لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔ نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ دجّال کا مقابلہ کرنے والی جماعت ’’احمدؔ‘ ‘کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہوگی۔ یعنی ’’جماعت احمدیہ‘‘ کہلائے گی۔

۱۳۔مکتوبات کا حوالہ

اعتراض۔ بعض مخالفین کہا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حقیقۃا لوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۴۰۶ پر جو حوالہ مکتوبات کا دیا ہے کہ جس پر کثر ت سے امور غیبیہ ظاہر ہوں۔ وہ نبی ہوتا ہے۔ یہ غلط ہے۔ مکتوبات میں لفظ نبی نہیں بلکہ محدث کا ہے۔



الجواب:مکتوباتِ امام ربّانی حضرت مجدد الف ثانی ؒ سرہندی رحمۃ اﷲ علیہ کی زبان فارسی ہے مگر حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقۃا لوحی۔روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۴۰۶ پر اردو عبارت لکھی ہے۔ پس حضرت اقدس علیہ السلام نے مکتوبات کی اصل عبارت نقل نہیں فرمائی۔ بلکہ مکتوبات کی کسی عبارت کا مفہوم درج فرمایا ہے اور مکتوبات میں ایسی عبارت موجود ہے جس کا مفہوم وہی ہے، جو حضرت اقدس علیہ السلام نے حقیقۃ الوحی میں تحریر فرمایا ہے۔ چنانچہ وہ عبارت در ج ذیل کی جاتی ہے:۔

’’متشابہات قرآنی نیز از ظاہر مصروف اند و بر تاویل محمول قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَمَا یَعْلَمُ تَأْوِیْلَہٗ اِلَّا اللّٰ ہُ یعنی تاویل آں متشابہ را ہیچ کس نمے داند مگر خدائے عز و جل ۔پس معلوم شد کہ متشابہ نزد خدائے جل وعلا نیز محمول بر تاویل ست و از ظاہر مصروف و علمائے راسخین را نیز از علم ایں تاویل قلبی عطا می فرمائد۔ چنانچہ بر علم غیب کہ مخصوص بادست سبحانہٗ خاص رسل را اطلاع می بخشد آں تاویل را خیال نکنی کہ در رنگِ تاویل بدست بقدرت و تاویل ’’و جہ‘‘بذات حاشا وکلّا آن تاویل از اسرار است کہ بہ اخص خواص علم آں عطا می فرمائد۔‘‘ (مکتوبات امام ربانی ؒ جلد ۱ صفحہ۴۴۶ مطبع نو لکشور مکتوب نمبر ۳۱۰)

یعنی قرآن مجید کے متشابہات بھی ظاہر ی معنی سے پھر کر محمول بر تاویل ہیں ۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ’’ان کی تاویل سوائے خدا کے اور کوئی نہیں جانتا ۔‘‘ پس معلوم ہوا کہ متشابہات خدا ئے بزرگ و برتر کے نزدیک بھی محمود بر تاویل ہیں اور ان کے ظاہری معنے مرا د نہیں اور خدائے تعالیٰ علمائے راسخین کو بھی اس علم کی تاویل سے حصہ عطا فرماتا ہے۔چنانچہ اس سے بڑھ کر علم غیب جو خدا تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اس کی اطلاع صرف رسولوں کو ہی عطا فرماتا ہے۔ اس تاویل کو ویسی نہ سمجھنا چاہیے جیسی کہ ’’ہاتھ‘ ‘سے مراد ’’قدرت‘‘ اور ’’وجہ‘ ‘سے مراد ’’ذات الٰہی‘ ‘ہے ۔ حاشا و کلّا ایسا نہیں۔ بلکہ اس تاویل کا علم تو وہ اپنے خاص الخاص بندوں کو ہی عطا فرماتا ہے۔

اس عبا رت میں حضرت امامِ ربانی مجدد الف ثانی ؒ نے بتصریح تحریر فرمایا ہے کہ اسرار قرآنی کو اﷲ تعالیٰ اپنے الہام سے خواصِ امت پر کھولتا ہے ۔مگر جن کو اپنے مخصوص علم غیب سے اطلاع دیتا ہے وہ ’’رسول‘‘ ہوتے ہیں ۔پس تمہارا اعتراض بے محل ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۴۔تفسیر ثنائی اور ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ

اعتراض۔ حضرت نے حمامۃ البشریٰ صفحہ ۴۷ طبع اوّل میں تفسیر ثنائی (از مولانا ثناء اﷲ پانی پتی)کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی درایت کمزور تھی۔ حالانکہ تفسیر ثنائی مصنفہ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری میں یہ کہیں نہیں ملتا۔



الجواب:۔تجاہل عارفانہ سے کام نہ لو۔ تفسیر ثنائی سے مراد مولوی ثناء اﷲ امرتسری کی نام نہاد تفسیر نہیں۔ بلکہ جناب مولانا ثناء اﷲ صاحب پانی پتی کی مشہور و معروف تفسیر ہے۔ چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوسری جگہ معترض کی محولہ کتاب (براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۲۳۴ طبع اوّل) سے کئی سال پہلے تصریح فرماچکے ہیں۔

’’قَالَ صَاحِبُ التَّفْسِیْرِ الْمَظْہَرِیِّ اَنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ صَحَابِیٌّ جَلِیْلُ الْقَدْرِ، وَلٰکِنَّہُ أَخْطَأَ فِیْ ہٰذَا التَّأْوِیْلِ۔ ‘‘ (حمامۃ البشریٰ۔روحانی خزائن جلد۷ صفحہ۲۴۰)

کہ مصنف تفسیر مظہری نے لکھا ہے کہ گو حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں لیکن انہوں نے ’’اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ ‘‘ والی آیت میں اپنی طرف سے تاویل کرنے میں غلطی کھائی ہے۔

پس حضرت اقدس علیہ السلام نے جس تفسیر کا حوالہ دیا ہے وہ مولوی ثناء اﷲ امرتسری کی تفسیر نہیں بلکہ تفسیر مظہری مؤلفہ جناب مولوی ثناء اﷲ صاحب پانی پتی ہے۔ اس تفسیر میں بعینہٖ آیت محولہ ’’وَ اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ‘‘کے نیچے لکھا ہے:۔

’’ تَأْوِیْلُ الْاٰیَاتِ بِاِرْجَاِع الضَّمِیْرِ الثَّانِیْ اِلٰی عِیْسٰی مَمْنُوْعٌ۔اِنَّمَا ھُوَ زَعْمٌ مِنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ لَیْسَ ذٰلِکَ فِیْ شَیْءٍ فِی الْاَحَادِیْثِ الْمَرْفُوْعَۃِ وَکَیْفَ یَصِحُّ ھٰذَا التَّأْوِیْلُ مَعَ اِنَّ کَلِمَۃَ’’اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ‘‘شَامِلٌ لِلْمَوْجُوْدِیْنَ فِیْ زَمَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ……وَلَا وَجْہَ اَنْ یُّرَادَ بِہٖ فَرِیْقٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ یُوْجَدُوْنَ حِیْنَ نُزُوْلِ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلامُ۔ ‘‘(تفسیرمظہری تفسیر سورۃ النساء زیر آیت و ان من اھل الکتاب الا لیومننّ بہ(النساء:۱۶۰)یعنی آیت اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ میں قَبْلَ مَوْتِہٖ کی ضمیر کو عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھیرنا ممنوع ہے۔(حضرت ابو ہریرہ ؓ نے اس سے حضرت عیسیٰ مراد لئے ہیں تو )یہ حضرت ابوہریرہ ؓ کا اپنا زعم ہے جس کی تصدیق کسی حدیث سے نہیں ہوتی اور ان کا یہ خیال درست ہو کیونکر سکتا ہے جبکہ کلمہ ’’اِنْ مِّنْ ‘‘میں تمام وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں موجود تھے اور اس بات کی کوئی وجہ نہیں کہ اس سے مراد صرف وہ یہودی لئے جائیں جو حضرت عیسیٰ کے نزول کے وقت موجود ہوں گے۔

۱۵۔ حضرت ابوہرؓیرۃ کا اجتہاد

اعتراض۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت ابوہریرہؓ کے اجتہاد کو جو مردود قرار دیا ہے


باقی عبارت محولہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت ابوہریرہؓ کے اجتہاد کو جو مردود قرار دیا ہے تو یہ درست ہے۔ ملاحظہ ہو:۔

۱۔ اصول حدیث کی مستند کتاب اصول شاشی (علامہ نظام الدین اسحاق بن ابراہیم الشاشی) میں ہے۔

’’اَلْقِسْمُ الثَّانِیْ مِنَ الرُّوَاۃِ ھُمُ الْمَعْرُوْفُوْنَ بِالْحِفْظِ وَالْعَدَالَۃِ دُوْنَ الْاِجْتِھَادِ وَالْفَتْوٰی کَاَبِیْ ھُرَیْرَۃَ وَاَنْسٍ ابْنِ مَالِکٍ۔ ‘‘ (اصول شاشی مع شرح از محمد فیض الحسن الاصل الثانی بحث تقسیم الراوی ولی قسمین مطبوعہ کانپور صفحہ ۷۵) کہ راویوں میں سے دوسری قسم کے راوی وہ ہیں جو حافظہ اور دیانتداری کے لحاظ سے تو مشہور ہیں۔ اجتہاد اور فتویٰ کے لحاظ سے قابل اعتبار نہیں۔ جیسے ابوہریرہؓ اور انس بن مالکؓ۔

۲۔ ’’عَنْ اَبِیْ حَسَّانٍ اَنَّ رَجُلَیْنِ دَخَلَا عَلٰی عَائِشَۃَ فَحَدَّثَہَا اَنَّ اَبَا ہُرَیْرَۃَ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَلطَّیْرَۃُ فِی الْمَرْءَ ۃِ وَالْفَرْسِ وَالدَّارِ فَغَضِبَتْ غَضْبًا شَدِیْدًا فَقَالَتْ مَا قَالَہٗ اِنَّمَا قَالَ کَانَ اَھْلُ الْجَاھِلِیَّۃِ یَتَطَیَّرُوْنَ مِنْ ذَالِکَ۔ ‘‘ (اصول الشاشی مَا ثَبَتَ بِالسُّنَّۃِ صفحہ۲۹) کہ دو شخص حضرت عائشہؓ کے پاس آئے اور کہا کہ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ عورت، گھوڑے اور گھر میں بد شگونی ہوتی ہے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سخت ناراض ہوئیں اور فرمایا کہ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قطعا ً نہیں فرمایا۔ بلکہ آپ نے تو یہ فرمایا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ان کو بد شگون سمجھتے تھے۔

۳۔ حضرت ابوہریرہؓ بے شک روزہ دار کے حق میں فتویٰ دیتے تھے کہ صبح ہونے سے پہلے غسل کر چکے اور عائشہ صدیقہؓ کی روایت چونکہ مرفوع ہے۔ اس لیے بحکم اصول حدیث وہ مقد م ہے۔ کیونکہ شارع علیہ السلام کا فعل ہے اور ابوہریرہ ؓ کا فتویٰ ان کا اجتہادی ہے۔

(اہلحدیث ۱۸؍ جولائی ۱۹۳۰ء)

۴۔ فقہاء میں بعض اس بات کے قائل ہیں کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کے کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ کے سامنے جب اس مسئلہ کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا۔ تو حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ نے کہا۔ اگر یہ صحیح ہو تو اس پانی کے پینے سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا جو آگ پر گرم کیا گیا ہو۔

حضرت عبداﷲ بن عباس ؓحضرت ابوہریرہؓ کو ضعیف الروایت نہیں سمجھتے تھے لیکن چونکہ ان کے نزدیک یہ روایت درائت کے خلاف تھی اس لیے انہوں نے تسلیم نہیں کی اور یہ خیال کیا کہ سمجھنے میں غلطی ہو گی۔

(اہلحدیث ۲۲؍ نومبر ۱۹۲۹ء)

۱۶۔ مبارک احمد کی وفات کی پیشگوئی

اعتراض۔ صاحبزادہ مبارک احمد کی وفات پر حضرت مرزا صاحب نے لکھا تھا کہ اس کی وفات کے متعلق میں پہلے سے پیشگوئی کر چکا ہوں کہ وہ بچپن میں فوت ہو جائے گا (تریاق القلوب طبع اول صفحہ ۴۰ حاشیہ) یہ جھوٹ ہے (نعوذ باﷲ)



جواب:۔ مبارک احمد کی وفات پر حضرت اقدس علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا۔ اسی حوالہ میں موجود ہے۔

’’اﷲ تعالی نے اس کی پیدائش کے ساتھ ہی موت کی خبر دے رکھی تھی۔ تریا ق القلوب روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۱۳میں لکھا ہے۔ ’’اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَاُصِیْبُہٗ ۔‘‘ تذکرہ صفحہ ۲۷۸ مطبوعہ ۲۰۰۴ء مگر قبل از وقت ذہول رہتا ہے اور ذہن منتقل نہیں ہوا کرتا‘‘۔ (الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۴ مورخہ ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵)

۱۔ تریا ق القلوب۔روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۱۳(جس کا حوالہ حضرتؑ نے دیا ہے) اس میں ہے۔

’’اِنِّیْ اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَاُصِیْبُہٗ۔ ‘‘ کہ میں اﷲ تعالی کی طرف سے آیا ہوں اور اسی کی طرف چلا جاؤں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تریاق القلوب میں اس الہام کو مع ترجمہ درج فرما کر اپنی طرف سے لکھتے ہیں:۔ ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لڑکا چھوٹی عمر میں فوت ہو جائے گا۔ یا یہ رجوع بحق ہو گا‘‘۔

( تریا ق القلوب۔روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۱۳)

۲۔ ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۶ء:۔ ’’دیکھا کہ ہمارے باغ (بہشتی مقبرہ) میں کچھ لوگ ایک جڑھ لگا رہے ہیں ساتھ ہی الہام ہوا ’’مبارک‘‘

(الحکم جلد ۱۰ نمبر ۴۰۔ ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱)

۳۔ ’’خواب میں دیکھا کہ میں نے ایک عورت کو تین روپے دیئے ہیں اور اس سے کہتا ہوں کہ کفن کے لئے میں آپ دوں گا۔ گویا کوئی مر گیا ہے ۔ اس کی تجہیز و تکفین کے لئے تیاری کی ہے‘‘۔

(الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۷۔ ۳۱؍ جولائی ۱۹۰۷ء صفحہ ۳)

حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ۱۶؍ ستمبر ۱۹۰۷ء کو فو ت ہوئے۔

۴۔ ’’میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک گڑھا قبر کے اندازہ کی مانند ہے اور ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اس میں ایک سا نپ ہے۔ اور پھر ایسا خیال آیا کہ وہ سانپ گڑھے میں سے نکل کر کسی طرف بھاگ گیا ہے اس خیال کے بعد مبارک احمد نے اس گڑھے میں قدم رکھا اس کے قدم رکھنے کے وقت محسوس ہوا کہ وہ سانپ ابھی گڑھے میں ہے اور اس سانپ نے حرکت کی‘‘۔

(الحکم جلد ۱۱ نمبر ۶۔ ۱۷؍ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۱)

۵۔ ’’اِنَّ خَبَرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ وَاقِعٌ ‘‘ رسول اﷲ نے جو خبر بتلائی تھی وہ واقع ہونے والی ہے۔ فرمایا:۔ کسی پیشگوئی کے ظہور کا وقت قریب آگیا ہے …… ایک بڑا ستارہ ٹوٹا ہے۔ ‘‘

(الحکم جلد ۱۱ نمبر ۲۸۔ ۲۴؍ اگست ۱۹۰۷ ء صفحہ ۳)


۱۷۔ کَانَ فِی الْھِنْدِ نَبِیًّا


ٍ

اعتراض۔ ا۔ مرزا صاحب نے چشمۂ معرفت ضمیمہ صفحہ ۱۰ میں حدیث لکھی ہے کہ ’’کَانَ فِی الْھِنْدِ نَبِیًّا اَسْوَدَ الْلَوْنِ اِسْمُہٗ کَاھِنًا اس کا حوالہ دو۔ ب۔ مرزا صاحب نے ایسے شخص کو نبی کہا جس کا قرآن میں نام نہیں۔



الجواب:۔ (ا) یہ حدیث تاریخ ہمدان دیلمی باب الکاف میں ہے۔

(ب) قرآن مجید میں ہے ۱۔ ’’‘‘ (النحل:۳۷) کہ ہم نے ہر قوم میں نبی بھیجے ہیں۔

۲۔ (فاطر:۲۵)

۳۔ (الرعد:۸)

پس ان آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ قرآن مجید کے قبل بھی ہندوستان میں کوئی نبی ہو چکا ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
(ج) باقی رہا ان کو نبی قرار دینا جس کا نام قرآن مجید میں بطور نبی نہ لکھا ہوا ہو تو آپ ہی کے علماء نے مندرجہ ذیل بزرگوں کو نبی کیسے قرار دیا۔

۱۔ ذوالقرنین نبی تھا۔ (تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت ۔ الکہف:۸۳)

حالانکہ قرآن مجید میں کہیں نہیں لکھا کہ ذوالقرنین نبی تھا۔

۲۔ خضر (تفسیر کبیر زیر آیت ۔ الکہف:۶۵) حالانکہ قرآن مجید میں خضر کا نام تک نہیں۔

۳۔ لقمان (ابن جریر زیر آیت ۔ لقمان:۱۳)

۴۔ ’’‘‘ والی آیت سورۃ یٰسین کے متعلق مفسرین نے (خصوصاً حضرت ابن عباسؓ نے) (ا) یوحنا (۲) پولوس (۳) شمعون کو ’’ھُمْ رُسُلُ اللّٰہِ ‘‘ کہا ہے۔ (روح المعانی زیرآیت ۔یٰسٓ:۱۵)

۵۔ خالد بن سنان نبی تھا (جمل لابی بقاء جلد ۱ صفحہ ۴۹۹ و تفسیر حسینی جلد ۱ صفحہ ۱۲۹)

۶۔ نیز مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے بھی کرشن کو نبی مانا ہے۔

(دیکھو دھرم پرچار صفحہ ۸ و مباحثہ شاہجہان پور صفحہ ۳۱)

۱۸۔ ایں مشت خاک را گر نہ بخشم چہ کنم

اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے (البد ر جلد ۱ نمبر ۱۰ مورخہ ۲؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷۸) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو فارسی زبان میں مندرجہ بالا الہام ہوا۔ اس کا حوالہ دو؟



جواب:۔ یہ حدیث کتاب کوثر النبی ؐباب الفاء میں ہے جو قادیان کے کتب خانہ میں موجود ہے۔

باقی رہا نبی کو غیر زبان میں الہام ہونا۔ تو اس کا جواب بالتفصیل الہامات پر اعتراضات کے جوابات میں گز ر چکا ہے۔

۱۹۔ طاعون کے وقت شہر سے نکلنا

اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ حدیث میں ہے جس شہر میں وبا ہو۔ اس شہر کے لوگ بلا توقف شہر سے باہر نکل آئیں۔



(ریویو جلد ۶ نمبر ۹ ماہ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳۶۵)

جواب:۔ (الف) ’’یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ ھٰذَا الطَّاعُوْنَ رِجْسٌ فَتَفَرَّقُوْا عَنْہُ فِی الشِّعَابِ ‘‘۔ اے لوگو! یہ طاعو ن نہایت خبیث ہے۔ پس تم گھاٹیوں اور میدانوں میں پھیل جاؤ۔

(قول عمرو بن عبسہ کنز العمال جلد ۲ صفحہ ۲۲۴ بڑی تختی والی، مسند احمد بن حنبل حدیث شرجیل بن مسنہ حدیث ۱۷۷۵۳)

(ب) قرآن مجید میں ہے۔ (قٓ :۱۲) پس شہر یا گاؤں کی ملحقہ زمینیں شہر ہی میں شامل ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جو منع فرمایا ہے۔ وہ شہر سے باہر نکلنے سے ہے۔ اس امر سے منع نہیں فرمایا کہ شہر یا گاؤں کی ملحقہ اراضیات میں بھی نہ جایا جائے۔

۲۰۔ چاند و سورج کو دو (۲) دفعہ گرہن

اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۹۵ طبع اول میں لکھا ہے کہ حدیث میں ہے کہ مہدی کے وقت میں کسوف خسوف رمضان دو دفعہ ہو گا۔ چنانچہ امریکہ اور ہندوستان میں دو دفعہ یہ کسوف خسوف ہوا۔ جو میری صداقت کی دلیل ہے۔ حدیث و کتاب کا حوالہ دو جہاں دو مرتبہ خسوف کا ذکر ہو۔



الجواب:۔ اس کے حوالہ کے لیے دیکھو حجج الکرامۃ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپالی صفحہ ۳۴۴۔

’’پیش ازیں کہ ماہ رمضان گذشتہ باشد۔ دودے دو کسوفِ شمس و قمر شدہ باشد۔ انتہیٰ و دراشاعت گفتہ دو بار در رمضان خسوف قمر شود‘‘


وَکَمْ نَدِمْتَ عَلٰی مَا کُنْتَ قُلْتَ بِہٖ

وَمَا نَدِمْتَ عَلٰی مَا لَمْ تَکُنْ تَقُلٖ


۲۱۔ معیارِ طہارت

حضرت مرزا صاحب نے اپنے ایک مکتوب محررہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۰۳ء میں جو الفضل ۲۲؍ فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ میں شائع ہوا صحابہؓ کے متعلق لکھا ہے کہ ’’اگر کپڑے پر منی گرتی تھی تو خشک ہونے کے بعد اس کو جھاڑ دیتے تھے …… ایسے کنواں سے پانی پیتے تھے جس میں حیض کے لتّے پڑتے تھے …… عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے حالانکہ مشہور تھا کہ سؤر کی چربی اس میں پڑتی ہے …… کسی مرض کے وقت میں اونٹ کا پیشاب بھی پی لیتے تھے۔ (اخبار الفضل قادیان ۲۲ ؍فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹) ان امور کا ثبوت دو؟



جواب:۔ یہ سب امور حضرت اقدس علیہ السلام نے یہ ثابت کرنے کے لیے تحریر فرمائے ہیں کہ محض شک اور شبہ کی بناء پر آدمی کو غسل کرنے اور کپڑے دھونے کا وہم نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام اسی خط میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’اسی طرح شک و شبہ میں پڑنا بہت منع ہے۔ شیطان کا کام ہے جو ایسے وسوسے ڈالتا رہتا ہے۔ ہر گز وسوسہ میں نہیں پڑنا چاہیے گناہ ہے اور یاد رہے کہ شک کے ساتھ غسل واجب نہیں ہوتا اور نہ صرف شک سے کوئی چیز پلید ہو سکتی ہے۔…… آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب ؓوہمیوں کی طرح ہر وقت کپڑا صاف نہیں کرتے تھے‘‘۔ (اخبار الفضل قادیان ۲۲؍ فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹)

اس کے بعد آپ نے وہ مثالیں درج فرمائی ہیں جن کا حوالہ معترض نے دیا ہے۔ باقی رہا ان امور کا جن کا حضورؑ نے ذکر فرمایا ثبوت۔ تو سنو:۔

۱۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی سمجھے کہ اسے رات کو احتلام ہوا تھا مگر تری نہ دیکھے تو اسے غسل کے متعلق کیا حکم ہے؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر غسل نہیں ہے۔ (منتقٰی لابن تیمیہ صفحہ ۱۳۸ طبع اولیٰ مطبع رحمانیہ بمصر)

۲۔ ’’کُنْتُ اُفْرِکُ الْمَنِیَّ مِنْ ثَوْبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلّٰی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ اِذَا کَانَ یَابِسًا ‘‘(منتقی لابن تیمیہ صفحہ ۲۸ باب ما جاء فی المنی طبع اولیٰ مطبع رحمانیہ بمصر) یعنی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کپڑے پر سے خشک شدہ منی کھرچ دیتی تھی۔

۳۔ حضرت ابو سعید الخدری ؓ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ہم بئر بضاعۃ کے پانی سے وضو کر لیا کریں۔ تو حضور صلعمنے فرمایا اَلْمَاءُ طَھُوْرٌ لَا یُنَجِّسُہٗ شَیْءٌ کہ یہ پانی پاک ہے پلید نہیں۔ پس بے شک وضو کر لیا کرو۔ حالانکہ وہیں پر لکھا ہے:۔

’’ھِیَ بِئْرٌ تُلْقٰی فِیْھَا الْحِیَضُ وَلُحُوْمُ الْکِلَابِ ‘‘ کہ یہ وہ کنواں تھا جس میں خون حیض اور کتوں کا گوشت پڑتا تھا۔ وہیں پر ابو داؤد کی روایت کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کنوئیں کا پانی صحابہ ؓ پی بھی لیا کرتے تھے۔ (منتقیٰ مؤلفہ ابن تیمیہ صفحہ۱۴ باب حکم الماء اذا لاقتہ النجاسۃ طبع اولیٰ مطبع رحمانیہ بمصر)

۴۔ عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھانے میں کوئی قابل اعتر اض بات نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں ہے۔ ’’‘‘ (المائدۃ) کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاتھ کا یا ان کا بنا ہوا کھانا حلال ہے۔ باقی رہا اس کے متعلق یہ مشہور ہونا کہ اس میں سؤر کی چربی ہوتی تھی۔ تو اس کے متعلق حضرت اقدس علیہ السلا م کا مکمل فقرہ یوں ہے:۔

’’عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھا لیتے تھے۔ حالانکہ مشہور تھا کہ اس میں سؤر کی چربی پڑتی ہے اصول یہ تھا کہ جب تک یقین نہ ہو ہر ایک چیز پاک ہے۔ محض شک سے کوئی چیز پلید نہیں ہو جاتی‘‘۔

(اخبار الفضل قادیان ۲۲؍ فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ مکتوب محررہ ۲۵؍ نومبر ۱۹۰۳ء)

پس یہ کہنا کہ اس پنیر میں فی الواقعہ سؤر کی چربی ہوتی تھی حضرت اقدس علیہ السلام پر افتراء ہے حضرت اقدسؑ نے تو یہ فرمایا ہے کہ بات غلط طور پر لوگ مشہور کرتے ہیں۔ مگر چونکہ یہ بات غلط تھی اور صحابہ ؓکے علم کے رو سے بھی اس پنیر میں سؤر کی چربی نہ ہوتی تھی۔ اس لیے وہ اس کو استعمال کر لیتے تھے۔ غرضیکہ اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ اور صحابہ ؓ کا یہ فعل قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت کے عین مطابق تھا، لیکن ممکن ہے کہ معترض کی تسلی بغیر حوالے کے نہ ہو۔ اس لیے مندرجہ ذیل حوالجات ملاحظہ ہوں ـ:۔

ا۔ ’’وَجُوْخٌ اِشْتَھَرَ عَمَلُہٗ بِشَحْمِ الْخِنْزِیْرِ وَ جُبْنٌ شَامِیٌّ اِشْتَھَرَ عَمَلُہٗ بِالْفَحْتِ الْخِنْزِیْرِ وَقَدْ جَآءَ ہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جُبْنَۃٌ مِنْ عِنْدِھِمْ فَاکَلَ مِنْھَا وَلَمْ یَسْئَلْ عَنْ ذَالِکَ۔ ذَکَرَہٗ شَیْخُنَا فِی شَرْحِ الْمِنْھَاجِ ‘‘۔

(فتح العین شرح قرۃ العین مصنفہ علامہ شیخ زین الدین بن عبد العزیز مطبوعہ ۱۳۱۱ ھ صفحہ ۱۴ باب الصلوٰۃ)

ب۔ جوخ جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ چربی سؤر کے۔ اور پنیر شام کا جو مشہور ہے بنانا اس کا ساتھ مایۂ سؤر کے۔ اور آیا جناب سرور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاس پنیر ان کے پاس سے۔ پس کھایا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے۔ اور نہ پوچھا اس سے۔‘‘

(رسالہ اظہار حق در باب ’’جواز طعام اہل کتاب‘‘ شائع کردہ خان احمد شاہ صاحب قائمقام اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ہوشیار پور مطبوعہ مطبع اتالیق ہند لاہور صفحہ ۱۶ جس پر مولوی سید نذیر حسین دہلوی۔ مولوی محمد حسین بٹالوی۔ مولوی عبد الحکیم کلانوری، مولوی غلام علی قصوری اور دیگر علماء ہند کے دستخط و مواہیر ثبت ہیں مطبوعہ ۱۸۷۵ء)

۵۔ حضرت ام قبیس بنت محض اپنا ایک شیر خوار بچہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائیں۔ بچہ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا۔ لکھا ہے کہ فَدَعَا بِمَآءٍ فَنَضَحَہٗ عَلَیْہِ وَ لَمْ یَغْسِلْہُ۔ (منتقیٰ مؤلفہ ابن تیمیہ صفحہ ۲۳) کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے پانی منگایا اور اپنے کپڑے پر اس کا چھینٹا دیا۔ مگر کپڑے کو نہ دھویا۔

۶۔ عکل یا عرینہ کے چند مسلمان آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئے مدینہ میں بباعث نا موافقت آب و ہوا وہ بیمار ہو گئے۔ تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو اونٹوں کا پیشاب اور اونٹنیوں کا دودھ پینے کا حکم دیا۔‘‘ (منتقیٰ مؤلفہ ابن تیمیہ صفحہ ۲۵)

غرضیکہ حضرت اقدس علیہ السلام نے جو اس ضمن میں تحریر فرمایا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی یا اعتراض کی گنجائش نہیں۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۲۔ تورات کے چار سو نبی

اعتراض:۔ حضرت مرزا صاحب نے ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ ۶۲۹ طبع اوّل میں لکھا ہے کہ تورات میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبیوں کو شیطانی الہام ہوا تھا۔ ا۔ سلاطین باب ۲ ۲ آیت ۶ تا ۱۹۔ تورات میں ہر گز یہ نہیں لکھا۔ بلکہ وہاں تو یہ لکھا ہے کہ وہ بعل بت کے پجاری تھے۔



(۱۔ سلاطین باب ۱۶ آیت ۳۱، ۲۔ سلاطین باب ۱۰ آیت ۱۹)

الجواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن چار سو نبیوں کا ذکر فرمایا ہے وہ جھوٹے نبی نہیں تھے۔ اور نہ وہ بعل بت کے پجاری تھے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے خود تورات کا حوالہ دیا ہے۔

’’مجموعہ توریت میں سے سلاطین اول باب ۲۲ آیت ۱۹ میں لکھاہے کہ ایک بادشاہ کے وقت میں چار سو نبی نے اس کی فتح کے بارہ میں پیشگوئی کی اور وہ جھوٹے نکلے اور بادشاہ کو شکست آئی ۔‘‘

(ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۴۳۹)

مگر جو جھوٹے نبی بعل بت کے پجاری تھے ان کا ذکر باب ۲۲ میں نہیں بلکہ ۱۶ میں ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے حوالہ باب ۲۲ کا دیا ہے۔ نہ کہ باب ۱۶ کا۔

۲۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ہے:۔

’’بائبل میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ چار سو نبی کو شیطانی الہام ہوا تھا …… اور ایک پیغمبر جس کو حضرت جبرائیل سے الہام ملا تھا …… سو یہ خبر سچی نکلی۔ مگر اس چار سو نبی کی پیشگوئی جھوٹی ظاہر ہوئی۔‘‘

(ضرورۃ الامام۔ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۴۸۸)

اور یہ سب کچھ ۱۔ سلاطین باب ۲۲ آیت ۵ تا ۲۸ میں لکھا ہوا موجود ہے۔ اور یہوسفط نے شاہِ اسرائیل سے کہا۔ آج کے دن خداوند (نہ کہ بعل۔ خادم) کی مرضی الہام سے دریا فت کیجئے۔ تب شاہِ اسرائیل نے اس روز نبیوں کو جو چار سو کے قریب تھے اکھٹا کیا۔ اور ان سے پوچھا۔ پھر یہوسفط بولا۔ ان کے سوا خداوند کا کوئی نبی ہے؟ (اس کے بعد لکھا ہے کہ میکایاہ نبی کو بلایا گیا۔ خادم) اس نے (میکایاہ نے) جواب میں کہا …… دیکھ خداوند تیرے نے ان سب نبیوں کے منہ میں جھوٹی روح ڈالی ہے اور خداوند ہی نے تیری بابت (مجھ کو) خبر دی ہے۔‘‘ (ا۔ سلا طین باب ۲۲)

غرض باب ۲۲ والے نبی بعل والے نبی نہیں ہیں۔ بعل والے نبیوں کا ذکر باب ۱۶ میں الگ طور پر درج ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا ذکر نہیں فرمایا۔ اور ان کی تعداد چار سو نہیں بلکہ چار سو پچاس تھی۔ (ا۔ سلاطین ۲۲؍۱۸) پس حضر ت اقدس علیہ السلام نے ان کا ذکر نہیں فرمایا۔

۳۔ جہا ں تک حوالہ کا تعلق تھا وہ گذر چکا، لیکن ہمیں حیرت ہے کہ تورات کے ان نبیوں پر شیطانی الہام کے ذکر سے تم اتنا کیوں چمکتے ہو جبکہ تم ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کے سردار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق بھی مانتے ہو کہ ایک دفعہ آپؐ کو بھی شیطانی الہام ہو گیا تھا (نعوذ باﷲ) (دیکھو جلالین مجتبائی صفحہ ۲۸۲ و زرقانی شرح مواہب الدنیہ جلد ا صفحہ ۳۴۰ مفصل بحث کے لیے دیکھو پاکٹ بک ہذا مضمون حضرات انبیاء علیہم السلام پر غیر احمدی علماء کے بہتانات‘‘ آخری حصہ)

۲۳۔ وعدہ خلافی

اعتراض۔ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کا اشتہار دیا۔ لوگوں سے روپے لیے کہ تین سو دلائل (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ۵) لکھوں گا۔ مگر سب روپے کھا گئے اور دلائل شائع نہ کئے۔ جس سے قومی نقصان ہوا۔ اور وعدہ خلافی بھی۔



الجواب:۔ اس اعتراض کے تین حصے ہیں۔

(۱) وعدہ خلافی (۲) روپیہ (۳) قومی نقصان۔

یعنی اگر وہ دلائل شائع ہوتے۔ تو ان سے بہت فائدہ پہنچتا۔ سو وعدہ خلافی کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا ارادہ تو فی الواقع تین سو دلائل براہین احمدیہ نامی کتاب ہی میں لکھنے کا تھا۔ مگر ابھی چار حصے ہی لکھنے پائے تھے کہ اﷲ تعالی نے آپ کو مامور فرما دیا۔ اور اس سے زیادہ عظیم الشان کام کی طرف متوجہ کر دیا۔ اس لیے حضورؑ کو مجبوراً براہین احمدیہ کی تالیف کا کام چھوڑنا پڑا۔ اور یہ بات اہل اسلام کے ہاں مسلم ہے کہ حالات کے تبدیل ہونے کے ساتھ وعدہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ اﷲ تعالی مومن مردوں اور مومن عورتوں کے ساتھ جنت کا وعدہ کرتا ہے۔ اب اگر ایک مومن مرتد ہو جائے تو گو پہلے خدا کا اس کے ساتھ وعدہ جنت کا تھا مگر اب وہ دوزخ کے وعدہ کا مستحق ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک ہندؤ بعد میں مسلمان ہو جائے تو گو اس کے ساتھ پہلے وعدہ جہنم کا تھا۔ مگر اب تبدیلی حالات کی وجہ سے وہ جنت کا مستحق بن جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبدیلی حالات کا ذکر براہین احمدیہ حصہ چہارم کے ٹائیٹل پیج کے آخری صفحہ پر زیر عنوان ’’ہم اور ہماری کتاب‘‘ فرمایا ہے۔

۲۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ رات آنے کا وعدہ کر گئے۔ مگر حسب وعدہ نہ آئے۔ دوسرے دن جب آئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ ’’لَقَدْ کُنْتَ وَعَدَتَّنِیْ اَنْ تَلْقَانِیْ فِی الْبَارِحَۃِ قَالَ اَجَلْ وَلٰکِنَّا لَا نَدْخُلُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْبٌ وَلَا صُوْرَۃٌ۔ ‘‘ (مشکوۃ کتاب اللباس باب التصویر الفصل الاول)

کہ آپ تو کل آنے کا وعدہ کر گئے تھے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں وعدہ تو کر گئے تھے مگر ہم ایسے مکان میں داخل نہیں ہوا کرتے جس میں کتا یا صورت ہو۔

۳۔ عَنْ مُجَاھِدٍ اَنَّہٗ قَالَتِ الْیَھُوْدُ لِقُرَیْشٍ اِسْأَلُوْہُ عَنِ الرُّوْحِ وَ عَنْ اَصْحَابِ الْکَھْفِ وَذِی الْقَرْنَیْنِ فَسَئَلُوْہُ فَقَالَ اِیْتُوْنِیْ غَدًا اُخْبِرُکُمْ وَلَمْ یَسْتَثْنِ فَاَبْطَاَ عَنْہُ الْوَحْیُ بِضْعَۃَ عَشَرَ یَوْمًا حَتّٰی شَقَّ عَلَیْہِ وَ کَذَّبَتْہُ قُرَیْشٌ۔ ‘‘

(تفسیر کمالین بر حاشیہ جلالین زیر آیت بنی اسرائیل:۸۵)

مجاھد سے روایت ہے کہ ایک دفعہ یہودیوں نے قریش سے کہا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے روح،اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوال کرو۔ پس انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا۔ کل آنا۔ میں تم کو بتاؤں گا اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوئی استثناء نہ کی۔ یعنی آپ نے انشاء اﷲ بھی نہ فرمایا۔ پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے قریبًا عشرہ تک وحی رُکی رہی۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر یہ امر شاق گذرا۔ اور آنحضرت صلعم کو قریش نے جھوٹا آدمی قرار دیا۔ (نعوذباﷲ)

دوسرا سوال براہین احمدیہ کا روپیہ:۔ اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا یہ اعلان پڑھو:۔

’’ایسے لوگ جو آئندہ کسی وقت جلد یا بدیر اپنے روپیہ کو یاد کر کے اس عاجز کی نسبت کچھ شکوہ کرنے کو تیار ہیں۔ یا ان کے دل میں بھی بدظنی پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ براہِ مہربانی اپنے ارادہ سے مجھ کو بذریعہ خط مطلع فرما دیں اور میں ان کا روپیہ واپس کرنے کے لئے یہ انتظام کروں گا کہ ایسے شہر میں یا ان کے قریب اپنے دوستوں میں سے کسی کو مقرر کر دوں گا کہ تا چاروں حصے کتاب کے لے کر روپیہ ان کے حوالے کرے اور میں ایسے صاحبوں کی بد زبانی اور بد گوئی اور دشنام دہی کو بھی محض ﷲ بخشتا ہوں کیو نکہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی میرے لئے قیا مت میں پکڑا جائے اور اگر ایسی صورت ہو کہ خریدار کتب فوت ہو گیا ہو اور وارثوں کو کتاب بھی نہ ملی ہو۔ تو چاہیے کہ وارث چار معتبر مسلمانوں کی تصدیق خط میں لکھوا کر کہ اصلی وارث وہی ہے، وہ خط میری طرف بھیج دے۔ تو بعد اطمینان وہ روپیہ بھی بھیج دیا جائے گا۔‘‘ (تبلیغ رسا لت جلد ۳ صفحہ ۳۵ ،۳۶ نیز دیکھو اربعین نمبر ۴ صفحہ ۲۸ پر حضر ت اقدسؑ کا عام اشتہار و تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ ۷۷ اشتہار یکم مئی ۱۸۹۳ء و کتاب ایام الصلح صفحہ ۱۷۳) اس بات کا ثبوت کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے محض اعلان پر ہی اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ اس کے مطابق عملی طور پر روپیہ واپس بھی کیا دشمنِ سلسلہ ڈاکٹر عبد الحکیم خان کا مندرجہ ذیل معاندانہ بیا ن ہیــ:۔

’’پوری قیمت وصول کر کے اور سوا سو آدمیوں کو قیمت واپس دے کر کل کی طرف سے اپنے آپ کو فارغ البال سمجھا جائے۔‘‘ (الذکر الحکیم نمبر ۶ عرف کانا دجال صفحہ ۴۰ آخری سطر)

گویا شدید سے شدید دشمن بھی تسلیم کرتا ہے کہ قیمت واپس دی گئی گو وہ اپنے دجالانہ فریب سے حق کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تا ہم حق بات اس کے قلم سے نکل گئی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:۔

’’پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں اکثر نے گالیاں بھی دیں اور اپنی قیمت بھی واپس لی۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۹)

۲۔ ’’ہم نے …… دو مرتبہ اشتہار دے دیا کہ جو شخص براہین احمدیہ کی قیمت واپس لینا چاہے وہ ہماری کتابیں ہمارے حوالے کرے اور اپنی قیمت لے لے۔ چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس قسم کی جہالت اپنے اندر رکھتے تھے انہوں نے کتابیں بھیج دیں اور قیمت واپس لے لی۔ اور بعض نے کتابوں کو بہت خراب کر کے بھیجا مگر پھر بھی ہم نے قیمت دے دی …… خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایسے دنی الطبع لوگوں سے خدا تعالیٰ نے ہم کو فراغت بخشی۔‘‘ (تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ ۸۷ و ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۲۲)

باقی رہا تیسرا سوال کہ تین سو دلائل لکھتے تو اسلام کو فائدہ ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ براہین احمدیہ کے پہلے چار حصوں میں حضرت اقدس علیہ السلام نے اسلام کی صداقت پر دو قسم کے دلائل دیئے ہیں۔

ا۔ اعلیٰ تعلیمات ۲۔ زندہ معجزات

اور حقیقت یہ ہے کہ یہی دونوں ہزارہا دلائل پر حاوی ہیں۔ چنانچہ خود حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے:۔

’’میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ اثبات حقیقت اسلام کے لئے تین سو دلیل براہین احمدیہ میں لکھوں لیکن جب میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ دو قسم کے دلائل ہزارہا نشانوں کے قائمقام ہیں۔ پس خدا نے میرے دل کو اس ارادہ سے پھیر دیا۔ اور مذکورہ بالا دلائل کے لکھنے کے لئے مجھے شرح صدر عنایت کیا۔‘‘ ( براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۶)

نیز حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی متعدد کتب میں جو اَسّی(۸۰) سے بھی زیادہ ہیں ان میں صداقت اسلام کے تین سو سے بھی زائد دلائل بیان فرما دئیے ہیں۔ اگر غیر احمدی علماء مقابل پر آئیں تو ہم ان کتابوں میں سے وہ دلائل نکال کر دکھا سکتے ہیں۔

۲۴۔ پانچ (۵۰)پچاس (۵۰)کے برابر

اعتراض۔ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ حصہ پنجم۔روحانی خزائن جلد۲۱ صفحہ ۹ پر لکھا ہے کہ میں نے براہین احمدیہ کے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ کیا تھا۔ مگراب صرف پانچ ہی لکھتا ہوں۔ پانچ بھی پچاس ہی کے برابر ہیں۔ صرف ایک نقطے کا فرق ہے۔



جواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو پانچ کو پچاس کے برابر قرار دیا ہے تو یہ حساب اپنی طرف سے نہیں لگایا۔ بلکہ خدا تعالی کا بتایا ہوا حساب ہے۔ اگر اعتبار نہ ہو تو بخاری کی یہ حدیث پڑھو۔

’’فَقَالَ ھِیَ خَمْسٌ وَ ھِیَ خَمْسُوْنَ ‘‘ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب کیف فرضت الصلاۃ فی الاسراء) کہ معراج کی رات جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے پچاس نمازوں میں تخفیف کرانے کے لیے آخری مرتبہ اﷲ تعالیٰ کے پاس حاضر ہوئے تو خدا تعالیٰ نے فرمایا ’’لیجیئے یہ پانچ! یہ پچاس ہیں۔‘‘

اور مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ میں حدیث معراج کے یہ الفاظ ہیں ـ:۔

’’قَالَ ھٰذِہٖ خَمْسُ صَلٰوۃٍ لِکُلِّ وَاحِدٍ عَشْرٌ فَھٰذِہِ خَمْسُوْنَ صَلٰوۃً ‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ حدیث معراج) کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ پانچ نمازیں ہیں۔ ہر ایک دس کے برابر ہے۔ پس یہ پچاس نمازیں ہو گئیں۔ فلا اعتراض۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۵۔ مبالغہ کا الزام

اعتراض۔ مرزا صاحب نے مبالغے کئے ہیں۔ لکھا ہے کہ میرے شائع کردہ اشتہارات ساٹھ ہزار کے قریب ہیں۔ (اربعین نمبر۳۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ ۴۱۸) اور میری کتابیں پچاس الماریوں میں سما سکتی ہیں؟ ( تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۱۵۵ )



جواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اربعین نمبر۳۔ روحانی خزائن جلد۱۷ صفحہ۴۱۸ کی محولہ عبارت میں یہ نہیں لکھا کہ میں نے ساٹھ ہزار اشتہار تحریر یا تصنیف کیا ہے۔ بلکہ لکھا ہے کہ ’’شائع‘‘ کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں۔ کہ اربعین کی تحریر (۱۹۰۰ء) تک جس قدر اشتہارات حضور علیہ السلام نے شائع فرمائے تھے ان کی ’’مجموعی تعداد اشاعت‘‘ ساٹھ ہزار کے قریب تھی۔ جو درست ہے۔ کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کل اشتہارات جو میر قاسم علی صاحب کو دستیاب ہو سکے وہ ۲۶۱ ہیں۔ میر صاحب نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ تبلیغ رسالت میں مطبوعہ اشتہارات کے سوا اور کوئی اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا شائع کردہ نہیں۔ ان مطبوعہ اشتہارات میں سے اکثر اشتہارات کی ’’تعداد اشاعت‘‘ سات سات سو ہے۔ جیسا کہ ان میں سے بعض اشتہارات کے آخر میں درج ہے۔

(تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ ۵۰ ،صفحہ ۷۰ و جلد ۸ صفحہ ۳۸، صفحہ ۴۶ جلد ۱۰ صفحہ ۸)

بعض اشتہارات کی تعداد اشاعت چھ ہزار بھی ہے (تبلیغ رسا لت جلد ۱۰ صفحہ ۸۲) اور بعض کی تین ہزار (جلد ۸ صفحہ۸۸) اور بعض کی دو ہزار (جلد۷ صفحہ ۴۸) اور بعض کی چودہ صد (جلد ۷ صفحہ ۵۵) اور بعض کی ایک ہزار بھی ہے (جلد ۷ صفحہ ۸۸و جلد۸ صفحہ ۸۲)

غرضیکہ ’’تعداد اشاعت‘‘ اشتہارات کی مختلف ہے۔ اگر فی اشتہار تین صد اوسط سمجھ لی جائے اور اس حساب سے تبلیغ رسالت میں مجموعہ ۲۶۱ اشتہارات کی تعداد اشاعت ۷۸۳۰۰ بنتی ہے اور اربعین ۱۵؍ دسمبر ۱۹۰۰ء تک ۲۲۶ اشتہارات کی تعداد اشاعت ۶۷۸۰۰ بنتی ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’ساٹھ ہزار‘‘ کے قریب قرار دیا ہے۔

اسی طرح اپنی کتب کی تصنیف کے لحاظ سے تعداد حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمہاری محولہ تریا ق القلوب صفحہ ۱۵ کی عبارت میں نہیں بتائی۔ بلکہ حضور علیہ السلام نے اپنے رسائل اور کتب کی اشاعت کے لحاظ سے تعداد مد نظر رکھ کر تحریر فرمایا ہے کہ

’’اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں۔ ‘‘

(تریا ق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحہ ۱۵۵)

اور یہ درست ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیف کردہ کتب کی تعداد خود مصنف محمدیہ پاکٹ بک نے بھی اَسّی تسلیم کی ہے۔ جن میں سے براہین احمدیہ۔ تحفہ گولڑویہ۔ ازالہ اوہام۔ آئینہ کمالات اسلام۔ حقیقۃ الوحی۔ چشمۂ معرفت جیسی ضخیم کتابیں لکھی ہیں۔ جن کی تعداد اشاعت ۲۹۰۰ (نزول المسیح) تذکرۃ الشہادتین ۸۰۰۔ تریا ق القلوب ۷۰۰۔ ایام الصلح ۷۰۰۔ اربعین ۷۰۰۔ براہین احمدیہ حصہ پنجم ۱۶۰۰ وغیرہ ہیں۔ پس ان کتب کے جملہ نسخوں کو اگر الماریوں میں رکھا جائے تو پچاس سے زائد الماریاں بھر سکتی ہیں۔ لہٰذا کوئی مبالغہ نہیں۔

اسی طرح اپنے نشانات کی تعداد کے بارے میں جو حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات ہیں۔ ان میں بھی کوئی مبالغہ نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو اپنے نشانات کی تعداد دس لاکھ قرار دی ہے اس کی تشریح بھی خود ہی فرمائی ہے۔ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:۔

’’یہ سات قسم کے نشان ہیں جن میں سے ہر ایک نشان ہزارہا نشانوں کا جامع ہے۔ مثلاً یہ پیشگوئی کہ یَأْ تِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق جس کے یہ معنے ہیں کہ ہر ایک جگہ سے اور دور دراز ملکوں سے نقد اور جنس کی امداد آئے گی اور خطوط بھی آئیں گے۔ اب اس صورت میں ہر ایک جگہ سے جواب تک کوئی روپیہ آتا ہے یا پارچات اوردوسرے ہدیے آتے ہیں یہ سب بجائے خود ایک ایک نشان ہیں۔ کیونکہ ایسے وقت میں ان باتوں کی خبر دی گئی تھی جبکہ انسانی عقل اس کثرتِ مدد کو دُور از قیاس و محال سمجھتی تھی۔

ایسا ہی یہ دوسری پیشگوئی یعنی یَأْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْق …… اس زمانہ میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی چنانچہ اب تک کئی لاکھ انسان قادیان میں آچکے ہیں اور اگر خطوط بھی اس کے ساتھ شامل کئے جائیں …… تو شاید یہ اندازہ کروڑ تک پہنچ جائے گا مگر ہم صرف مالی مدد اور بیعت کنندوں کی آمد پرکفایت کرکے ان نشانوں کو تخمیناً دس لاکھ نشان قرار دیتے ہیں۔ بے حیا انسان کی زبان کو قابو میں لانا تو کسی نبی کیلئے ممکن نہیں ہوا ۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۷۵)

پس نشانات کی تعداد کے متعلق حضور علیہ السلام کی تحریر ات میں مختلف طریق سے اندازہ لگایا گیا ہے مبالغہ نہیں ہے۔

اسی طرح کشتی نوحؑ کی محولہ عبارت کہ

’’دیکھو زمین پر ہر روز خدا کے حکم سے ایک ساعت میں کروڑہا انسان مر جاتے ہیں ۔‘‘

(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۴۱)

یہ محاورۂ زبان ہے جو کثرت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ گنتی کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا۔ تمہا رے جیسا عقلمند تو قرآن مجید کی آیت ’’‘‘پڑھ کر ان اندھوں کے لئے ’’سرمۂ تریاق چشم‘‘ تجویز کرنے بیٹھ جائے گا۔ یا کفار کے لیے ’’‘‘ (البینۃ:۷) کا لفظ دیکھ کر ان کے فی الواقعہ جانور ہونے کا تصور کر لے گا؟

یہ تو تھا حقیقی جواب۔ لیکن ذرا یہ تو بتاؤ کہ ’’لَا عَیْشَ اِلَّا عَیْشُ الْآخِرَۃِ ‘‘ (بخاری کتاب الرقاق باب الصحۃ والفراغ) کے کیا معنے ہیں؟ کیا تم اور تمہارے سب لواحقین مردہ ہو؟ کیا دنیا کے جملہ انسانوں میں سے ایک بھی زندہ نہیں ہے؟لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم تو فرماتے ہیں کہ یہ زندگی ہی نہیں ہے۔

پھر ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:۔ اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ (مسند احمد بن حنبل مسند انس بن مالک جلد۴ صفحہ ۲۹حدیث نمبر ۱۲۴۸۹ مطبع دارالاحیاء التراث بیروت لبنان) کہ امام اور امیر کے لئے قریشی النسل ہونا ضروری ہے۔ پھر فرمایا:۔

’’لَا یَزَالُ ھٰذَا الْاَمْرُ فِیْ ھٰذِ الْحَیِّ مِنْ قُرَیْشٍ۔ ‘‘ (بخاری کتاب الاحکام باب الامراء من قریش) یعنی امیر کا قریشی ہونا ضروری ہے۔

مگر دوسری جگہ فرماتے ہیں:۔

’’اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاِنِ اسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبْشِیٌّ۔ ‘‘

(بخاری کتاب الاحکام باب السمع والطاعۃ للامام)

سو ان ہر دو اقوال کو نقل کر کے ابن خلدون لکھتا ہے:۔

’’قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاِنْ وُلِیَّ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبْشِیٌّ ذُوْ زَبِیْبَۃٍ وَھٰذَا لَا تَقُوْمُ بِہٖ حُجَّۃٌ فِیْ ذَالِکَ فَاِنَّہٗ خَرَجَ مَخْرَجَ التَّمْثِیْلِ وَالْفَرْضِ لِلْمُبَالِغَۃِ فِیْ اِیْجَابِ السَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ۔ ‘‘

(مقدمہ ابن خلدون مصری صفحہ ۱۶۲ فصل الخامس والعشرون فی معنی الخلافۃ والامامۃ)

یعنی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ قول کہ اگر تم پر کوئی حبشی بھی حکمران بنایا جائے تو تم پر فرض ہے کہ تم اس کی اطاعت کرو۔ اس امر کی حجت نہیں ہو سکتا کہ امیر کے لئے قریشی النسل ہونا ضروری نہیں۔ کیونکہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اطاعت اور فرما نبرداری پر زور دینے کے لئے تمثیل اور مبالغہ سے کام لیا ہے۔

پس ثابت ہوا کہ کسی چیز پر زور دینے کے لئے مبالغہ سنت نبویؐ ہے۔ پس تمہارا اعتراض باطل ہو گیا۔

تمہارے جیسا معترض تو شاید قرآن مجید کی آیت ’’(الاعراف:۴۱) کو پڑھ کر ایسی سوئی کی تلاش میں نکل کھڑا ہو کہ جس کے ناکے میں سے اونٹ گذر سکے اور نہ مل سکنے پر قرآن مجید پر مبالغہ آمیزی کا الزام لگانے لگ جائے۔

اسی طرح حدیث شریف ’’مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ ‘‘(مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا) اور دوسری مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔

۲۶۔ تناقضات ( تضادات )

اعتراض:۔ حضرت مرزا صاحب کے اقوال میں تناقض ہے؟



جواب:۔ حضرت مرزا صاحب علیہ السلام کے اقوال میں کوئی تناقض نہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ نبی پہلے ایک بات اپنی طرف سے کہے۔ مگر اس کے بعد خدا تعالیٰ اس کو بتا دے کہ یہ بات غلط ہے اور درست اس طرح ہے۔ تو دوسرا قول نبی کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گا۔ لہٰذا تناقض نہ ہوا۔ تناقض کے لئے ضروری ہے کہ ایک ہی شخص کے اپنے دو اقوال میں تضاد ہو۔

۲۔ قرآن مجید میں ہے:۔

’’‘‘ (النساء:۸۳)

کہ اگر یہ خدا تعالیٰ کا کلام نہ ہوتا۔ بلکہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا۔ تو اس میں اختلا ف ہوتا۔ پس ثابت ہوا کہ کلام اﷲ کے سوا باقی سب کے کلام میں اختلاف ہونا چاہیے۔

نبی بھی انسان ہے اور وہ بھی (طٰہ :۱۱۵) کی دعا کرتا ہے۔ جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی کہ اے اﷲ! میرا علم بڑھا۔ پس جو کلام نبی خدا کے بتائے ہوئے علم سے پہلے کرے گا وہ ہو سکتا ہے کہ اس کلام کے مخالف ہو جو اﷲ تعالی کی طرف سے اسے دیا جائے۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کا قول قرآن مجید میں ہے کہــ:۔

(ھود :۴۶) کہ یقینا میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے۔

مگر خدا تعالیٰ نے فرمایا:۔

(سورۃ ہود:۴۷) کہ وہ یقینا آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔

اب اس وحی الٰہی کے بعد اگر حضرت نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو اہل میں شمار نہ کریں (جیسا کہ واقعہ ہے) تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ پہلا قول حضرت نوح علیہ السلام کا اپنا خیا ل تھا۔ مگر دوسرا قول خدا کے بتائے ہوئے علم کی بناء پر ہے ہاں الہام الٰہی میں اختلاف نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ علیم کل ہستی کی طرف سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے:۔

(النساء:۱۱۴) کہ اﷲ تعالی نے آپ کو وہ علم دیا ہے جو پہلے آپ کو نہ تھا۔ اب ظاہر ہے کہ آپ کے زمانہ قبل از علم کے کلام اور زمانہ بعد از علم کے کلام میں اختلاف ہونا ضروری ہے۔ مگر یہ امر آپ کی نبوت کے منافی نہیں بلکہ ایک لحاظ سے دلیلِ صداقت ہے کیونکہ یہ عدم تصنع پر دلالت کرتا ہے۔

اسی قسم کا اختلاف وفات مسیحؑ کے مسئلہ کے متعلق ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے پہلے اپنا خیال براہین احمدیہ ہر چہارم حصص صفحہ ۳۶۱ حاشیہ صفحہ ۵۲۰ در حاشیہ طبع اول میں لکھ دیا۔ لیکن بعد میں جو اﷲ تعالیٰ نے آپ پر منکشف فرمایا۔ وہ بھی کچھ براہین احمدیہ اور کچھ بعد کی تحریرات میں درج فرما دیا۔ اب ظاہر ہے کہ وہ پہلا قول جس میں حضرت مسیح ناصریؑ کو زندہ قرار دیا گیا ہے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے۔ مگر جس میں ان کو وفات یافتہ قرار دیا گیا ہے (کشتی نوح صفحہ ۹۱ طبع اول) وہ اﷲ تعالیٰ کا ہے۔ پس ان میں تناقض نہ ہوا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۔ مندرجہ بالا قسم کی مثالیں حدیث میں بھی ہیں ـ:۔

۱۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:۔ لَا تُخَیِّرُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی (بخاری فی الخصومات باب ما ذکر فی الاشخاص والخصومۃ بین المسلم والیھودی) کہ مجھ کو موسی ؑ سے اچھا نہ کہو۔

پھر فرماتے ہیں:۔

’’مَنْ قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی فَقَدْ کَذِبَ ‘‘ (بخاری کتاب التفسیر باب …… یونس الخ سورۃ النساء) کہ جو یہ کہے کہ میں یونسؑ بن متی سے افضل ہوں وہ جھوٹا ہے۔

مسلم شریف کی حدیث میں آتا ہے:۔ ’’جَآءَ رَجُلٌ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا خَیْرَ الْبَرِیَّۃِ! فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاکَ اِبْرَاہِیْمُ عَلَیْہِ السَّلَامُ ‘‘(مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ) کہ ایک آدمی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا۔ اور حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کر کے کہا۔ اے تمام انسانوں سے افضل! اس پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’وہ تو ابراہیم علیہ السلام ہیں۔‘‘ یعنی ابراہیم علیہ السلام تمام انسانوں سے افضل ہیں نہ کہ میں۔ ‘‘

مشکوٰۃ صفحہ ۴۱۷ باب المفاخرۃ والعصبیۃ فصل الاول مطبع اصح المطابع پر اس حدیث کی شرح میں حضرت ملا علی قاری لکھتے ہیں:۔ ’’قَوْلُہٗ ذَاکَ اِبْرَاہِیْمُ قِیْلَ ذَاکَ تَوَاضَعٌ مِنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقِیْلَ کَانَ قَبْلَ عِلْمِہٖ بِاَنَّہٗ سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ۔ ‘‘ (مرقا ۃ بر حاشیہ مشکوٰۃ اصح المطابع صفحہ ۴۱۷ حاشیہ نمبر ۸) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا کہ ’’وہ ابراہیم ہے۔‘‘ کہا گیا ہے کہ حضور ؐکا یہ فرمانا ازراہ انکسار تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب یہ فرمایا تھا اس وقت تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو ابھی یہ اطلاع نہ ملی تھی کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سب انسانوں سے افضل ہیں۔ بعد میں خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اَنَا سَیِّدُ وُلْدِ اٰدَمَ وَلَا فَخْرَ (ترمذی ابواب التفسیر سورۃ بنی اسرائیل ابواب المناقب) (کہ میں تمام انسانوں کا سردار ہوں اور یہ فخر نہیں ہے) اَنَا سَیِّدُ النَّاسِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ (مسلم بحوالہ مشکوۃ اصح المطابع صفحہ ۵۱۱ باب فضائل سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم) میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں گا۔ پھر فرمایا:۔ اَنَا اِمَامُ النَّبِیِّیْنَ‘‘ ’’اَنَا سَیِّدُ النَّبِیِّیْنَ‘‘ (فردوس الاخباردیلمی صفحہ ۳۳۱ جلد ۳ نیا ایڈیشن) میں تمام نبیوں کا امام ہوں۔ میں تمام نبیوں کا سردار ہوں۔

۴۔ اس ضمن میں حجۃ اﷲ البالغۃ (حضرت سید شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی) کا مندرجہ ذیل حوالہ فیصلہ کن ہے:۔

’’اِعْلَمْ اَنَّ النَّسْخَ قِسْمَانِ اَحَدُھُمَا اَنْ یَّنْظُرَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْاِرْتِفَاقَاتِ اَوْ وُجُوْہِ الطَّاعَاتِ فَیَضْبِطَھَا بِوُجُوْہِ الضَّبْطِ عَلٰی قَوَانِیْنِ التَّشْرِیْعِ وَھُوَ اِجْتِھَادُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ لَا یُقَرِّرُہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ بَلْ یَکْشِفُ عَلَیْہِ مَا قَضَی اللّٰہُ فِی الْمَسْئَلَۃِ مِنَ الْحُکْمِ اَمَّا بِنُزُوْلِ الْقُرْآنِ حَسَبَ ذَالِکَ اَوْ تَغْیِیْرِ اجْتِھَادِہٖ اِلٰی ذَالِکَ وَتَقْرِیْرِہٖ عَلَیْہِ مِثَالُ الْاَوَّلِ مَا أَمْرُ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْاِسْتِقْبَالِ قِبَلَ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ ثُمَّ نَزَلَ الْقُرْاٰنُ بِنَسْخِہٖ وَ مِثَالُ الثَّانِیْ اَنَّہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَھٰی عَنِ الْاِنْتِبَاذِ اِلَّا فِی السِّقَآءِ ثُمَّ اَبَاحَ لَھُمْ الاِنْتِبَاذَ فِیْ کُلِّ اٰنِیَّۃٍ …… وَعَلٰی ھٰذَا التَّخْرِیْجِ ھٰذَا مِثَالُ لِاِخْتِلَافِ الْحُکْمِ حَسَبُ اِخْتِلَافِ الْمُظَنَّاتِ وَفِیْ ھٰذَا الْقِسْمِ قَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اللّٰہِ وَ کَلَامُ اللّٰہِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ۔ ‘‘

(حجۃ اﷲ البالغۃ مترجم جلد ۱ صفحہ ۲۳۷ و صفحہ ۲۳۸ باب اسباب النسخ)

اس عربی عبارت کا ترجمہ بھی اسی کتاب سے نقل کیا جاتا ہے۔ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں:۔

’’جاننا چاہیے کہ نسخ کی دو قسمیں ہیں (۱) یہ کہ پیغمبرؐ امور نافع اور عبادات کے طریقوں میں خوض کر کے شریعت کے قوانین کے ڈھنگ پر ان کو کردیتے ہیں۔ ایسا آنحضرتؐکے اجتہاد سے ہوا کرتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ اس حکم و اجتہاد کو باقی نہیں رکھتا بلکہ اس حکم کو آنحضرتؐ پر ظاہر کر دیتا ہے جوخدا نے اس مسئلہ کے متعلق قرار دیا ہے اس حکم کا اظہار یا یوں ہوتا ہے کہ قرآ ن میں وہ وارد کیا جائے یا اس طرح پر کہ آنحضرتؐکے اجتہاد ہی میں تبدیلی ہو جائے اور دوسرا اجتہاد آپ کے ذہن میں قرار پا جائے۔ پہلی صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرتؐنے نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا تھا پھر قرآ ن میں اس حکم کی منسوخیت نازل ہوئی اور دوسری صورت کی مثال یہ ہے کہ آنحضرتؐ نے بجز چھاگل کے ہر برتن میں نبیذ بنانے سے ممانعت کر دی تھی۔ پھر ہر ایک برتن میں نبیذ بنانا لوگوں کے لیے جائز کر دیا۔…… اس توجیہہ کے لحاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ موقعوں کے بدلنے سے حکم بدل جایا کرتا ہے۔ اسی قسم کے متعلق آ پ نے فرمایا کہ میرا کلام، کلامِ الٰہی کو نسخ نہیں کر سکتا اور کلام الٰہی میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے۔‘‘

(کتاب حجۃاﷲ البالغہ مع اردو ترجمہ المسمی بہ شموس اﷲ البازغۃ مطبوعۃ مطبع حمایت اسلام پریس لاہور جلد ۱ صفحہ ۲۳۷ و صفحہ۲۳۸ باب ۷۴)

اس عبارت میں جو دوسری قسم نسخ کی بیان ہوئی ہے وہ خاص طور پر قابل غور ہے۔ کیونکہ اس میں ضروری نہیں کہ وحی کے ذریعہ نبی کے پہلے حکم کو منسوخ کیا جائے۔ بلکہ خود اﷲ تعالی کا تصرف قلب ملہم پر ہی ایسا ہو سکتا ہے۔ کہ وہ اپنے پہلے اجتہاد کو منسوخ کر دے۔ مگر یہ پھر بھی تناقض نہ ہو گا کیونکہ پہلا خیال ملہم کا اپنا تھا۔ مگر دوسرا خیا ل خدا تعالی کی طرف سے ہے۔

۵۔ حدیث شریف میں ہے:۔ ’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْسَخُ حَدِیْثُہٗ بَعْضُہٗ بَعْضًا ‘‘ (مسلم کتاب الطہارۃباب الحیض) کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے ایک قول سے اپنے ایک گذشتہ قول کو منسوخ کر دیتے تھے۔

۶۔ بعض اوقات نبی اپنے اجتہاد اور خیال سے اپنی وحی یا الہام کے ایک معنے بیان کرتا ہے مگر بعد میں واقعات سے اس کے دوسرے معنے ظاہر ہوجا تے ہیں۔ جو وحی الٰہی کے تو مطابق ہوتے ہیں مگر نبی کے اپنے خیال یا اجتہاد کے مطابق نہیں ہوتے۔ مثلاً حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ آپ کی ہجرت ایسے شہر کی طرف ہو گی۔ جہاں بہت کھجوریں ہیں۔ آپ صلعم نے سمجھا کہ اس سے مراد یمامہ یا ہجر ہیں۔ لیکن وہ در حقیقت مدینہ شریف تھا۔ جیسا کہ بعد کے واقعات سے معلوم ہوا۔ (بخاری کتاب التعبیر باب اذا رأی بقرْا تُنْحَرُ)

۷۔ بعض دفعہ تحقیقات کے بعد نبی کی رائے بدل جاتی ہے۔ مثلاً بخاری شریف میں حدیث ہے:۔ ’’اَتَی النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَنِیْ حَارِثَۃَ فَقَالَ اَرٰکُمْ یَا بَنِیْ حَارِثَۃَ قَدْ خَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَمِ ثُمَّ الْتَفَتَ فَقَالَ بَلْ اَنْتُمْ فِیْہِ ‘‘

(بخاری کتاب الحج باب حرم مدینہ ۔ وتجرید بخاری مترجم اردو مع متن حصہ اول صفحہ ۳۵۶)

یعنی ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک قبیلہ بنو حارث کے ہاں گئے اور فرمایا کہ بنی حارثہ! میرا خیال ہے کہ ’’تم لوگ حرم سے باہر نکل گئے ہو۔‘‘ پھر حضور (صلعم) نے ادھر ادھر دیکھا اور فرمایا۔ ’’نہیں تم حرم کے اندر ہی ہو۔‘‘

اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پہلے خیال کہ قَدْخَرَجْتُمْ مِنَ الْحَرَمِ اور دوسرے خیال کہ ’’بَلْ اَنْتُمْ فِیْہِ‘‘ میں تناقض ہے یا نہیں؟یہ اسی طرح کا تناقض ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے ایک انگریز مؤرخ کی تحقیق کے پیش نظر مسیح ناصری علیہ السلام کی قبر شام میں لکھی، لیکن بعد میں تحقیقات اور الہام الٰہی سے معلوم ہوا کہ قبر مسیحؑ کشمیر میں ہے۔ تب آپ نے پہلے خیال کی تردید کر دی۔

نوٹ:۔ مندرجہ بالا حدیث کے جواب میں یہ کہنا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے جو بنو حارثہ کو حرم سے باہر قرار دیا تو یہ ’’ظن اور گمان کے تحت فرمایا۔‘‘ (محمدیہ ؐ پاکٹ بک صفحہ ۱۷۲) محض دفع الوقتی ہے۔ کیونکہ ہمارا مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ بعض اوقات نبی ایک خیال کا اظہار کرتا ہے مگر بعد میں تحقیق سے وہ خیال غلط ثابت ہونے پر نبی اس کی تردید کر دیتا ہے اور یہ امر خلاف نبوت نہیں۔

۸۔ حدیث میں ہے کہ:۔

’’کَانَ…… یُحِبُّ مَوَافَقَۃَ اَہْلِ الْکِتَابِ فِیْمَا لَمْ یُؤْمَرْ بِہٖ ‘‘

(مسلم کتاب الفضائل باب صفۃ شعرہؐ وصفاتہ وحلیتہ)

کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان تمام امور میں یہود اور نصاریٰ کی موافقت کرتے تھے جن کے متعلق حضور صلعم کو کوئی حکم نہ ملا تھا۔

۹۔ قرآن مجید کی آیات کے متعلق بھی مخالفینِ اسلام نے اعتراض کیا ہے کہ ان میں اختلاف ہے۔ جماعت احمدیہ تو خدا کے فضل سے نہ قرآن مجید میں تناقض اور اختلاف کی قائل ہے۔ نہ ناسخ منسوخ فی القرآن کو ہم مانتے ہیں۔ لیکن ان اعتراضات کے وزنی ہونے کایہ ثبوت ہے کہ تم لوگوں نے تنگ آ کر اور لا جواب ہو کر یہ تسلیم کر لیا کہ قرآ ن مجید کی بعض آیات بعض کی ناسخ ہیں۔ گویا جن آیات کے مضمون میں اختلاف نظر آیا اور جن میں باہم تطبیق نہ ہو سکی۔ ان میں سے جو پہلے نازل ہوئی وہ منسوخ اور جو بعد میں نازل ہوئی وہ اس کی ناسخ قرار دی۔ چنانچہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں:۔

’’عَلٰی مَا حَرَّرْتُ لَا تَتَعَیَّنُ النَّسْخُ اِلَّا فِیْ خَمْسِ مَوَاضِعٍ ‘‘ (الفوز الکبیر صفحہ ۱۸،۲۱ مطبع مجتبائی دہلی مطبوعہ ۱۹۲۲ء) کہ میری تحریر کی رو سے قرآنِ مجید کی صرف پانچ آیات منسوخ ثابت ہوتی ہیں۔

قرآن مجید کی منسوخ قرار دی جانے والی آیات میں سے چند درج ذیل ہیں ـ:۔

(۱)’’‘‘ (الانفال:۱۶)

(تفسیر قادری مترجم جلد ۱ صفحہ ۳۶۰ مطبع نولکشور لکھنؤ)

(۲)۔’’ ‘‘ (الانفال :۶۶)

(تفسیر قادری جلد ۱ صفحہ ۳۰۴ مطبع نولکشور لکھنؤ)

(دیگر آیات کے لیے دیکھو تفسیر حسینی جلد ۱ صفحہ ۳۹۰ و صفحہ ۴۵۳ مطبع نولکشور لکھنؤ)

پس تم لوگوں کے منہ سے (جو قرآن مجید میں بھی اختلاف اور تناقض کے قائل ہیں) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے اقوال میں تناقض کا الزام کچھ بھلا معلوم نہیں دیتا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۰۔ مولوی ثناء ﷲ صاحب امرتسری لکھتے ہیں:۔

’’آپ (آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم) نے لوگوں کی مشرکانہ عادت دیکھ کر قبرستان کی زیارت سے منع فرمایا تھا اور بعد اصلاح اجازت دے دی اور ان کے بخل کو مٹانے کی غرض سے قربانیوں کے گوشت تین دن زائد رکھنے سے منع کر دیا تھا جس کی بعد میں اجازت دے دی۔ ایسا ہی شراب کے برتنوں میں کھانا پینا منع کیا تھا مگر بعد میں ان کے استعمال کی اجازت بخشی‘‘

(تفسیر ثنائی مؤلفہ مولوی ثناء اﷲ امرتسری جلد ۱ صفحہ ۱۰۶ سورۃ البقرۃ)

۱۱۔ ہم ضمن نمبر ۹ میں اشارہ کر آئے ہیں کہ قرآ ن مجید کی آیات کے متعلق بھی منکرین اسلام نے تمہاری طرح یہ کہہ کر کہ ان میں اختلاف ہے اپنی بد باطنی کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ پنڈت دیانند بانی آریہ سماج اپنی کتاب ستیارتھ پرکاش میں لکھتا ہے:۔

’’کہیں خدا کو محیطِ کل لکھا ہے اور کہیں محدود المکان۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن ایک شخص کا بنایا ہوا نہیں ہے بلکہ بہت لوگوں کا بنا یا ہوا ہے۔‘‘ (ستیا رتھ باب ۱۴ دفعہ ۶۲ صفحہ ۷۳۰ )

’’کہیں قرآن میں لکھا ہے کہ اونچی آواز سے اپنے پروردگار کو پکارو اور کہیں لکھا ہے کہ دھیمی آواز سے خدا کو یاد کرو۔ اب کہئے کون سی بات سچی اور کونسی جھوٹی ہے۔ ایک دوسرے کے متضاد باتیں پاگلوں کی بکواس کی مانند ہوتی ہیں۔‘‘ (ستیا رتھ پرکاش باب ۱۴ دفعہ ۷۵ )

چنانچہ چند آیات قرآنی بطور نمونہ لکھی جاتی ہیں۔ جن میں تمہارے جیسے بد باطن دشمنوں کو اپنی کوتاہ فہمی سے تناقض اور اختلاف معلوم ہوتا ہے۔

(۱) ‘‘ (التوبۃ :۷۳) یعنی اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد کر۔ اور ان پر سختی کر۔

اور دوسرے مقام پر فرماتا ہے:۔ ’’ ‘‘ (البقرۃ :۲۵۷) کہ دین میں جبر جائز نہیں۔

(۲) ’’‘‘ (الضحٰی :۸) کہ اے نبی! ہم نے آپ کو ’’ضال‘‘ پایا اور ہدایت دی۔ مگر دوسری جگہ فرمایا:۔ ’’‘‘ (النجم :۳) کہ آنحضرت صلعم ضال نہیں ہوئے۔

نوٹ:۔ محمدیہ پاکٹ بک کے مصنف نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ پہلی آیت میں ضال بمعنی گمراہ نہیں۔ بلکہ ’’طالب خیر‘‘ اور متلاشی کے معنوں میں ہے۔ مگر دوسری آیت میں بمعنی ’’گمراہ‘‘ ہے۔ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے ثابت ہو گیا کہ بعض دفعہ دو عبارتوں میں ایک ہی لفظ کا استعمال ایک جگہ بصورت ایجاب مگر دوسری جگہ بصورت سلب ہوتا ہے۔ مگر اس لفظ کے مختلف معانی ہونے کے باعث دونوں جگہ اس کے دو الگ الگ مفہوم ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان میں تنا قض قرار دینا تمہارے جیسے ’’سیاہ باطن‘‘ انسانوں ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ بعینہٖ اسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریرات میں مسیحؑ یا انجیل یا نبوت کے الفاظ دو مختلف مفہوموں کے لحاظ سے استعمال ہوئے ہیں۔ کسی جگہ مسیح سے مراد انجیلی یسوع ہے اور کسی جگہ قرآنی مسیح علیہ السلام۔ اسی طرح کسی جگہ انجیل سے مراد محرف ومبدل انجیل ہے اور کسی جگہ اصل انجیل جو مسیح علیہ لسلام پر نازل ہوئی تھی۔ کسی جگہ نبوت سے مراد تشریعی براہ راست نبوت ہے (اور اس کی اپنے متعلق نفی فرمائی ہے) مگر دوسری جگہ نبوت سے مراد بالواسطہ غیر تشریعی نبوت ہے (اور اس کو اپنے وجود میں تسلیم فرمایا ہے) پس ایسی تحریرات کو متناقض اور متخالف قرار دینا بھی انتہائی سیہ باطنی ہے۔ (خادم)

(۳) اﷲ تعالی ایک جگہ فرماتا ہے:۔ ’’‘‘(الانفال :۳) کہ جب مومنوں کے سامنے اﷲ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے تو ان کے دل جوش مارنے لگ جاتے ہیں۔ مگر دوسری جگہ فرمایا:۔ (الرعد :۲۹) کہ اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے دل میں سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے۔

(۴) ایک جگہ فرمایا:۔ ’’‘‘ (الضحٰی:۷) کہ اے نبی! ہم نے تجھے یتیم پایا اور تجھے اپنی پناہ میں لے لیا۔ مگر دوسری جگہ فرمایا:۔ ’’‘‘(سورۃ بنی اسرائیل:۲۴) کہ تو اپنے والدین کو اف تک نہ کہہ۔

(۵) ایک جگہ فرمایا:۔ ’’…… ‘‘(النساء :۴) کہ دو دو چار چار بیویاں کر لو۔ اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم عدل نہ کر سکو گے۔ تو پھر ایک ہی کرو۔ مگر دوسری جگہ فرمایا :۔ (النساء :۱۳۰) کہ تم ہر گز اپنی بیویو ں میں انصاف نہیں کر سکو گے۔ خواہ تم کتنی خواہش کرو۔

غرضیکہ اور بھی بہت سی آیات ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ گو بظاہر ان میں اختلاف اور تناقض معلوم ہوتا ہے۔ مگر درحقیقت تناقض نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ان میں تناقض کی وحدتیں پائی نہیں جاتیں۔ ہر ایک ان میں سے مختلف مواقع پر مختلف حالات کے لحاظ سے مختلف مضامین کی حامل ہیں۔ لہٰذا بوجہ عدمِ تحقق وحدت ان میں تناقض نہیں بعینہٖ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال میں بھی درحقیقت کوئی تناقض یا اختلاف نہیں۔ مگر جس طرح دشمنانِ اسلام نے قرآن مجید پر تناقض اور اختلاف کا جھوٹا الزام لگایا تھا۔ اسی طرح دشمنانِ احمدیت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال کے متعلق تناقض کا الزام لگایا ہے۔ پس ’’‘‘ (البقرۃ :۱۱۹) کے مطابق دونوں اعتراض کنند گان غلطی پر ہیں۔ نہ قرآن مجید میں اختلا ف اور نہ خادمِ قرآن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اقوا ل میں حقیقی تناقض ہے۔

اب ہم ذیل میں ان مقامات کو لیتے ہیں جن کو پیش کر کے مخالفین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال میں تناقض ثابت کرنے کی ناکام کوشش کیا کرتے ہیں۔

تناقض کی تعریف

لیکن قبل اس کے کہ ہم مفصل بحث کریں۔ تناقض کی تعریف از روئے منطق درج کرتے ہیں۔ مشہور شعر ہیں ؂

در تناقض ہشت وحدت شرط واں

Gوحدتِ موضوع(۱) و محمول (۲)و مکاں(۳)

Cوحدتِ (۴)شرط واضافت(۵)۔ جزو کل(۶)

E قوت(۷) و فعل است در آخر زماں (۸)

éیعنی موضوع، محمول، مکان، شرط، اضافت، جزو کل اور بالقوۃ و با لفعل اور زمانہ کے لحاظ سے اگر دو قضیۓ متفق ہوں۔ مگر ان میں ایجاب و سلب کا اختلاف بلحاظِ حکم اور مؤجہ میں کیفیت اور محصورہ میں کمیت کا اختلا ف ہو تو وہ دونوں قضیۓ متناقض کہلائیں گے۔

۲۷۔ کسی سے قرآن پڑھنا

اعتراض۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’ایام الصلح‘‘ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴ پر تحریر فرمایا ہے:۔
’’کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے ‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴)
لیکن دوسری جگہ کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ پر رقم فرماتے ہیں:۔
’’جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلّم میرے لئے نوکر رکھا گیا۔ جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں ‘‘
(کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ)



جواب:۔ اس کے متعلق گذارش یہ ہے کہ اعترا ض کرتے وقت علمائے بنی اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے از راہ تحریف ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴ کی نصف عبارت پیش کرتے ہیں۔ اصل حقیقت کو واضح کرنے کے لئے عبارت متنازعہ کا مکمل فقرہ درج ذیل ہے:۔

’’سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اِس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی اُستاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو مَیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسّر یا محدّث کی شاگردی اختیار کی ہے۔ پس یہی مہدویّت ہے جو نبوّت محمدیّہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرارِ دین بلاواسطہ میرے پر کھولے گئے۔ ‘‘

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴)

معترض کی پیش کردہ عبارت کے سیاق میں ’’علم دین‘‘ اور سیاق میں ’’اسرارِ دین‘‘ کے الفاظ صاف طور پر مذکور ہیں۔ جن سے ہر اہلِ انصاف پر یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس عبارت میں قرآن کریم کے ناظرہ پڑھنے کا سوال نہیں۔ بلکہ اس کے معانی و مطالب، حقائق و معارف کے سیکھنے کا سوال ہے اور عبارت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے آنے والے موعود کا نام جو مہدی رکھا۔ تو وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہ علوم واسرارِ دین کسی انسان سے نہیں سیکھے گا۔ گویا حقائق ومعارف قرآن مجید میں اس کا کوئی استاد نہیں ہو گا۔ چنانچہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اس لحاظ سے میرا بھی کوئی استاد نہیں۔ جس سے میں نے ’’علم دین‘‘ یا ’’اسرار دین‘‘ کی تعلیم پائی ہو اور ظاہر ہے کہ قرآنِ مجید کے الفاظ کا بلا ترجمہ و تشریح کسی شخص سے پڑھنا۔ علم و اسرارِ دین سیکھنے کے مترادف نہیں ہے کیونکہ ’’الفاظ قرآن‘‘ اور ’’علمِ قرآن‘‘ میں خود قرآن مجید نے فرق کیا ہے۔ جیسا کہ اﷲ تعالی فرماتا ہے ’’‘‘ (سورۃ الجمعہ :۳) کہ رسول عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے۔ آپ لوگوں کے سامنے اﷲ تعالیٰ کی آیات (یعنی الفاظ قرآن) پڑھتے، ان کا تزکیہ نفس کرتے اور ان کو کتاب (یعنی قرآن مجید) اور حکمت کا ’’علم‘‘ بھی دیتے ہیں۔

اس آیت میں کے الفاظ میں ’’الفاظ قرآن‘‘ کا ذکر فرمایا ہے اور فرما کر قرآن مجید کے مطالب و معانی اور حقائق و معارف کا تذکرہ فرمایا ہے پس مندرجہ بالا آیت سے صاف طور پر ثابت ہو گیا کہ صرف ’’قرآن کا پڑھنا‘‘ علمِ قرآن حاصل کرنا نہیں ہے۔ یا یوں کہو کہ الفاظِ قرآن کے کسی شخص سے پڑھنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ علمِ دین بھی اس شخص سے حاصل کیا گیا۔

دوسری عبارت جو معترضین کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ سے پیش کرتے ہیں۔ اس میں صرف اس قدر ذکر ہے کہ چھ برس کی عمر میں ایک استاد سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید پڑھا۔ اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ حضور ؑ نے ’’علم دین‘‘ یا ’’اسرار دین‘‘ یا قرآن مجید کے حقائق و معارف یا معانی و مطالب کسی شخص سے پڑھے تا یہ خیال ہو سکے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی دونوں عبارتوں میں تناقض ہے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ کتاب البریۃ کی عبارت میں چھ برس کی عمر میں ایک استاد سے قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کا ذکر ہے اور ایام الصلح صفحہ ۱۴۷ کی عبارت میں کسی شخص سے قرآن مجید کے مطالب و معارف سیکھنے کی نفی کی گئی ہے۔ گویا جس چیز کی نفی ہے وہ اور ہے اور دوسری جگہ جس چیز کا اثبات ہے وہ اور ہے۔

ایک شُبہ اور اس کا ازالہ

ممکن ہے کوئی معترض یہ کہے کہ سیا ق و سباق دیکھنے کی کیا ضرورت ہے دونوں عبارتوں میں قرآن مجیدہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ہم تو دونوں جگہ اس کے ایک ہی معنے لیں گئے۔ اس شبہ کا جواب یہ ہے۔ کہ یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک جگہ ایک لفظ بول کر نفی کی ہو۔ اور دوسری جگہ اسی لفظ کا استعمال کر کے اس کا اثبات کیا گیا ہو۔ مگر اس کے باوجود مفہوم اس لفظ کا دونوں جگہ مختلف ہو۔ بغرض تشریح دو مثالیں لکھتا ہوں۔

ایک مثال

۱۔ قرآن مجید کی رو سے بحالت روزہ بیوی سے مباشرت ممنوع ہے۔ مگر بخاری، مسلم و مشکوٰۃ تینوں میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی مندرجہ ذیل روایت درج ہے:۔ ’’عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِّلُ وَ یُبَاشِرُ وَ ھُوَ صَائِمٌ وَ کَانَ اَمْلَکَکُمْ لِاِرْبِہٖ ‘‘

(بخاری جلد۱کتاب الصوم باب المباشرۃ للصائم و مشکوٰۃ کتاب الصوم باب تنزیہ الصوم و تجرید بخاری جلد ۱ صفحہ ۳۷۰)

کہ حضرت عائشۃ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم روزہ میں ازواج کے بوسے لے لیا کرتے تھے۔ اور ان سے مباشرت کرتے تھے۔ اس حالت میں کہ آپ کا روزہ ہوتا تھا۔ مگر آپ اپنی خواہش پر تم سب سے زیادہ قابو رکھتے تھے۔

اب کیا قرآن کریم کے حکم ’’‘‘ (البقرۃ :۱۸۸) کو مندرجہ بالا روایت کے الفاظ یُبَاشِرُ وَھُوَ صَائِمٌ کے بالمقابل رکھ کر کوئی ایماندار شخص یہ کہنے کی جرأت کر سکتا ہے کہ دونوں جگہ ایک ہی چیز کی نفی اور ایک ہی چیز کا اثبات کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حدیث مندرجہ بالا میں ’’مباشرت‘‘ سے مراد مجامعت نہیں۔ بلکہ محض عورت کے قریب ہونا ہے اور اس پر قرینہ اسی روایت کا اگلا جملہ وَکَانَ اَمْلَکَکُمْ لِاِرْبَہٖ ہے۔ لیکن اس کے بر عکس قرآن مجید میں لفظ مباشرت آیا ہے وہاں اس سے مراد ’’ــمجامعت‘‘ ہے۔ پس گو دونوں جگہ لفظ ایک ہی استعمال ہوا ہے مگر اس کا مفہوم دونوں جگہ مختلف ہے اور سیاق و سباق عبارت سے ہمارے لئے اس فرق کا سمجھنا نہایت آسان ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
دوسری مثال

قرآن مجید میں ہی ہے۔ ایک جگہ اﷲ تعالی فرماتا ہے ’’ ‘‘ (النجم :۳) کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم ’’ضال‘‘ نہیں ہوئے اور نہ راہ راست سے بھٹکے، لیکن دوسری جگہ فرمایا۔ (الضحٰی :۸) کہ اے رسول!ہم نے آپ کو ’’ضال‘‘ پایا اور آ پ کو ہدایت دی۔

دونوں جگہ ’’ضال‘‘ ہی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ اس کی نفی کی گئی ہے مگر دوسری جگہ اس کا اثبات ہے کیا کوئی ایماندار کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں عبارتوں میں تناقض ہے۔ ہر گز نہیں، کیونکہ ہر اہلِ علم دونوں عبارتوں کے سیاق و سباق سے سمجھ سکتا ہے کہ دونوں جگہ لفظ ’’ضال‘‘ ایک معنے میں استعمال نہیں ہوا۔ بلکہ دونوں جگہ اس کا مفہوم مختلف ہے۔ ایک جگہ اگر ’’گمراہ‘‘ مراد ہے اور اس کی نفی ہے۔ تو دوسری طرف تلاش کرنے والا قرار دینا مقصود ہے اور اس امرکا اثبات ہے۔ پس ہمارے مخالفین کا یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرنا کہ لفظ دونوں جگہ ایک ہی ہے سیاق و سباق عبارت دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ حد درجہ کی نا انصافی ہے۔

قرآنِ کریم کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی سے نہیں پڑھا

ہم معترض کی پیش کردہ دونوں عبارتوں پر ان کے سیاق و سباق کے لحاظ سے جب غور کرتے ہیں۔ تو صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ کتاب البریۃ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ ۱۸۰ حاشیہ کی عبارت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ میری چھ سات سال کی عمر میں میرے والد صاحب نے میرے لئے ایک استاد مقرر کیا۔ جن سے میں نے قرآن مجید پڑھا۔ اور ہر عقلمند انسان بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ چھ سات سال کے عرصہ میں بچہ قرآن مجید کے معانی و مطالب اور حقائق و معارف سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ پس یہ امر تسلیم ہی نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت کے والد بزرگوار نے چھ سات سال کی عمر کے بچہ کو معارفِ قرآنیہ سکھانے کے لیے ایک استاد مقرر کیا ہو۔ پس اس عبارت میں چھ سات سال کی عمر کا قرینہ ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ حضورؑ نے ا س حوالہ میں قرآن مجید کے مجرد الفاظ کااستاد سے پڑھنا تسلیم فرمایا ہے۔ مگر حضور ؑ کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قرآن مجید کا ترجمہ یا قرآنی مطالب بھی حضور ؑ نے خدا کے سوا کسی استاد سے پڑھے ہوں۔ اس کے بالمقابل معترض کی پیش کردہ عبارت از ’’ایام الصلح‘‘ صفحہ۱۴۷ طبع اول میں حضرت ؑ نے صاف لفظوں میں یہ فرمایا ہے۔ علمِ دین اور ’’اسرار دین‘‘ کے لحاظ سے قرآن مجید کسی سے نہیں پڑھا۔ اور یہ حقیقت ہے جس کی نفی کسی دوسری عبارت میں نہیں کی گئی۔

اس امر کے ثبوت میں کہ ’’ایام الصلح‘‘ کی عبارت میں قرآن مجید کے الفاظ کا ذکر نہیں۔ بلکہ قرآن مجید کے معانی و مطالب کے کسی انسان سے سیکھنے کی نفی ہے۔ ہم ایام الصلح کی عبارت کا سیاق و سباق اور اس کا مضمون دیکھتے ہیں۔ ایام الصلح کو دیکھنے سے یہ معلوم ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس موقعہ پر اپنے دعویٰ مہدویت کی صداقت کے دلائل کے ضمن میں ایک دلیل ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

(ا)’’ آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا ہے سو اِس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی اُستاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو مَیں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مَیں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسّر یا محدّث کی شاگردی اختیار کی ہے۔ پس یہی مہدویّت ہے جو نبوّت محمدیّہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرارِ دین بلاواسطہ میرے پر کھولے گئے۔ ‘‘

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۴)

(ب) اس مضمون پر بحث کرتے ہوئے ذرا آگے چل کر فرماتے ہیں:۔

’’مہدویت سے مراد وہ بے انتہا معارفِ الٰہیہ اور علومِ حکمیہ اور علمی برکات ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بغیر واسطہ کسی انسان کے علم دین کے متعلق سکھلائے گئے۔ ‘‘

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۶)

اس عبارت میں بعینہٖ وہی مضمون ہے جومعترض کی پیش کردہ عبارت میں ہے اور اس کے ساتھ ہی اس میں ان الفاظ کی مکمل تشریح بھی موجود ہے جن کے اجمال سے معترض نے ناجائز فائدہ اٹھانے کی ناکام کوشش کی ہے۔

(ج) اگلے صفحہ پراسی مضمون کو مندرجہ ذیل الفاظ میں سہ کرّر بیان فرمایا ہے۔

’’رُوحانی اور غیر فانی برکتیں جو ہدایتِ کاملہ اور قوتِ ایمانی کے عطا کرنے اور معارف اور لطائف اور اسرار الٰہیہ اور علومِ حکمیہ کے سکھانے سے مراد ہے اُن کے پانے کے لحاظ سے وہ مہدی کہلائے گا۔ ’’

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۹۷)

اس عبارت میں بھی ’’مہدویت‘‘ کی تعریف کو دہرایا گیا ہے۔ ’’معارف‘‘۔ ’’لطائف‘‘ اور اسرارِ الٰہیہ اور علوم حکمیہ‘‘ کے الفاظ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ معترض کی پیش کردہ صفحہ ۱۴۷ والی عبارت میں بھی انہی امور کا ذکر ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ پڑھنے کا ذکر نہیں۔ جیسا کہ اس عبارت میں ’’علم دین اور اسرارِ دین‘‘ کے الفاظ اس پر گواہی دے رہے ہیں اور جن کے متعلق اوپر لکھا جا چکا ہے۔

(د) اسی دلیل کو اور زیادہ وضاحت سے بیان کرتے ہوئے صفحہ ۱۵۶ پر حضرت اقدس ؑ فرماتے ہیں:۔

’’ہزار ہا اسرار علمِ دین کھل گئے۔ قرآنی معارف اور حقائق ظاہر ہوئے۔کیا اِن باتوں کا پہلے نشان تھا؟‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۰۴)

ـاس عبارت میں بھی حضور ؑ نے جن چیزوں کے خدا تعالیٰ سے سیکھنے کا ذکر فرمایا ہے وہ قرآنی معارف و حقائق ہیں۔ نہ کہ الفاظ قرآنی!

(ھ) آگے چل کر بطور نتیجہ تحریر فرماتے ہیں:۔’’سو میری کتابوں میں اُن برکات کا نمونہ بہت کچھ موجود ہے۔ براہین احمدیہ سے لے کر آج تک جس قدر متفرق کتابوں میں اسرار اور نکات دینی خدا تعالیٰ نے میری زبان پر باوجود نہ ہونے کسی اُستاد کے جاری کئے ہیں ……اُس کی نظیر اگر موجود ہے تو کوئی صاحب پیش کریں۔ ‘‘ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۰۶)

(و) پھر فرماتے ہیں:۔

’’جو دینی اور قرآنی معارف حقائق اور اسرار مع لوازم بلاغت اور فصاحت کے میں لکھ سکتا ہوں دوسرا ہر گز نہیں لکھ سکتا۔ اگر ایک دنیا جمع ہو کر میرے اس امتحان کے لئے آوے تو مجھے غالب پائے گی ۔‘‘ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۴۰۷)

(ز) اس عبارت پر حاشیہ لکھتے ہیں:۔ ’’مہوتسو کے جلسہ میں بھی اس کا امتحان ہو چکا ہے۔‘‘ (ایضاً حاشیہ)

(ح) اسی طرح صفحہ ۱۶۰ پر بھی حقائق و معارف اور نکات اور اسرارِ شریعت کے الفاظ موجود ہیں غرضیکہ ’’ایام الصلح‘‘ کے مندرجہ بالا اقتباسات سے جو سب کے سب معترضین کی پیش کردہ عبارت کے ساتھ ملحق ہیں یہ امر روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی انسان سے جس چیز کے پڑھنے کی نفی فرمائی ہے۔ وہ قرآنی الفاظ نہیں بلکہ حقائق و معارف قرآنیہ ہیں۔ حضرت اقدسؑ نے ’’ایام الصلح‘‘ یا کسی اور کتاب میں ایک جگہ بھی یہ تحریر نہیں فرمایا کہ میں نے قرآن مجید ناظرہ بھی کسی شخص سے نہیں پڑھا۔ نہ یہ چیلنج دیا ہے کہ میں استاد نہ ہونے کے باوجود قرآن مجید کے الفاظ اچھی طرح پڑھ سکتا ہوں۔ اور یہ کہ فن قرأت میں میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہاں حضور ؑ نے یہ دعویٰ ضرور فرمایا ہے کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف،مطالب اور نکات حضور ؑ کے الہام ’’اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنُ‘‘ (تذکرہ صفحہ۴۴ایڈیشن سوم) کے مطابق حضور کو براہ راست اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوئے اور اس لحاظ سے یقینا حضور علیہ السلام نے قرآن مجید کسی انسان سے نہیں پڑھا۔ اور اسی امر کا دعویٰ حضور علیہ السلام نے ایام الصلح صفحہ ۱۴۷ پر بھی کیا ہے۔ جس کو معاندین جماعت احمدیہ انتہائی نا انصافی سے بطور اعتراض پیش کر کے نا واقف لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ؂


وَمِنْ تَلْبِیْسِہِمْ قَدْ حَرَّفُوْا الْأَلْفَاظَ تَفْسِیْرًا

وَقَدْ بَانَتْ ضَلَالَتُہُمْ وَلَوْ أَلْقُوْا الْمَعَاذِیْرًا


(المسیح الموعود ؑ)

(نور الحق۔ روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۱۷۸)

۲۸۔ حضرت مسیحؑ کی چڑیوں کی پرواز

اعتراض۔ مرزا صا حب نے آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۶۸ طبع اول میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑ کی چڑیوں کی پرواز قرآن مجید سے ثابت ہے، لیکن ازالہ اوہام صفحہ ۳۰۷ طبع اوّل حاشیہ پر لکھا ہے کہ پرواز ثابت نہیں؟



جواب:۔ اصل عبارتیں درج ذیل ہیں:۔

’’اس فن (علم الترب) کے ذریعہ سے ایک جماد میں حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ جانداروں کی طرح چلنے لگتا ہے تو پھر اگر اس میں پرواز بھی ہو تو بعید کیا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا جانور جو مٹی یالکڑی وغیرہ سے بنایا جاوے اور عمل التِّرب سے اپنی روح کی گرمی اس کو پہنچائی جائے وہ درحقیقت زندہ نہیں ہوتا بلکہ بدستور بے جان اور جماد ہوتا ہے صرف عامل کے روح کی گرمی بارُوت کی طرح اُس کو جنبش میں لاتی ہے۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان پرندوں کا پرواز کرنا قرآن شریف سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا بلکہ ان کا ہلنا اور جنبش کرنا بھی بپایہ ثبوت نہیں پہنچتا اورنہ درحقیقت ان کا زندہ ہوجانا ثابت ہوتا ہے۔‘‘

(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۲۵۶۔۲۵۷حاشیہ )

آئینہ کمالاتِ اسلام کی عبارت مندرجہ ذیل ہے:۔

’’حضرت مسیح ؑ کی چڑیاں باوجودیکہ معجزہ کے طور پر ان کا پرواز قرآن کریم سے ثابت ہے۔ مگر پھر بھی مٹی کی مٹی تھیں اور کہیں خدا تعالی نے یہ نہ فرمایا کہ وہ زندہ بھی ہو گئیں۔‘‘ (صفحہ ۶۸ طبع اول ۱۸۹۳؁ء)

پس کوئی اختلاف نہیں۔ کیونکہ انکار حقیقی زندگی کے ساتھ سچ مچ کے پرواز کا ہے اور اقرار غیر حقیقی اور عارضی پرواز کا۔

۲۹۔ مُریدوں کی تعداد

اعتراض۔ مرزا صاحب نے پہلے اپنے مُریدوں کی تعداد پانچ ہزار (انجام آتھم صفحہ ۶۴) بیان کی، لیکن جب ایک سال کے بعد ہی انکم ٹیکس کا سوال ہوا۔ تو جھٹ لکھ دیا کہ میرے مریدوں کی تعداد دو صد ہے۔



(ضرورت الامام صفحہ ۴۳ طبع اول)

جواب:۔ پہلی تعداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے مریدوں کی عورتوں اور بچوں سمیت مجموعی لکھی ہے اور دوسری ’’ضرورت الامام صفحہ ۴۳ طبع اول‘‘ والی تعداد صرف چندہ دینے والوں کی ہے۔ اس میں چندہ نہ دینے والے بچے اور عورتیں شامل نہیں ہیں۔ کیا اس فہرست میں حضرت ام المؤمنین رضی اﷲ عنہا حضر ت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ وغیرہ کے نام بھی درج ہیں؟ ظاہر ہے کہ مؤخر الذکر موقعہ پر سوال آمدنی کا تھا اور وہی لسٹ مطلوب تھی جو ان لوگوں کی ہو جو خود کماتے اور چندہ دیتے ہیں۔ پس جب مجسٹریٹ نے ان لوگوں کی لسٹ طلب کی جو چندہ دیتے تھے۔ تو کیا اس کے جواب میں ان لوگوں کی فہرست دے دی جاتی جو چندہ نہیں دیتے تھے؟

بریں عقل ودانش ببائید گریست
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۰۔ منکرین پر فتویٰ ٔ کفر

اعتراض:۔ مرزا صاحب تریاق القلوب صفحہ ۱۳۰ طبع اول متن و حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ:۔
’’میرے دعویٰ کے انکار سے کوئی کافر یا دجال نہیں ہو سکتا۔‘‘ مگر عبد الحکیم مرتد کو لکھتے ہیں کہ جس شخص کو میری دعوت پہنچی ہے اور وہ مجھے نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہے؟



جواب:۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود اس اعتراض کا مفصل جواب حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۵ تا صفحہ۷ ۱۶ طبع اول پر دیا ہے۔ وہاں سے دیکھا جائے۔

۲۔ پہلی عبارت میں لکھا ہے کہ میرے دعویٰ کے انکار سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ کیونکہ ’’اپنے دعویٰ کے انکار کرنے والے کو کافر کہنا‘‘…… انہی نبیوں کی شان ہے۔ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نئی شریعت لاتے ہیں۔ گویا صرف تشریعی نبی کا انکار کفر ہے۔ اب حقیقۃ الوحی میں حضرت نے اپنے دعویٰ کے متعلق لکھا ہے کہ:۔

’’جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشگوئی موجود ہے۔ ‘‘

(حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۸)

’’جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا …… تو وہ مومن کیونکر ہو سکتا ہے۔ ‘‘

(حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۱۶۸)

پس ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انکار خواہ اپنی ذات میں کفر نہ ہو۔ مگر بوجہ اس کے کہ آپ کا انکار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم (جو تشریعی نبی ہیں) کے انکار کو مستلزم ہے لہٰذا کفر ہے۔ پس دونوں عبارتوں میں کوئی تناقض نہیں۔ کیونکہ ’’تریاق القلوب‘‘ صفحہ ۱۳۰ طبع اوّل کی عبارت میں بتایا گیا ہے کہ غیر تشریعی انبیاء کا انکار بالذات کفر نہیں ہوتا۔ اور حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۶۳ طبع اول کی عبارت میں بتایا گیا ہے کہ چونکہ غیر تشریعی نبی کا انکار مستلزم ہوتا ہے۔ تشریعی نبی کے انکار کو اس لئے وہ بالواسطہ کفر ہے۔

۳۱۔ تشریعی نبوت کا دعویٰ

اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے اپنی متعدد تصانیف میں تحریر فرمایا ہے کہ میں غیر تشریعی نبی ہوں۔ صاحب شریعت نہیں۔ مگر اربعین نمبر ۴ صفحہ ۶ طبع اول متن و حاشیہ پر لکھا ہے کہ میں صاحبِ شریعت نبی ہوں۔



جواب:۔ سراسر افتراء ہے۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے ہر گز اربعین چھوڑ کسی اور کتاب میں بھی تحریر نہیں فرمایا۔ کہ میں تشریعی نبی ہوں بلکہ حضور علیہ السلام نے اپنی آخری تحریر میں بھی شدّت کے ساتھ اس الزام کی تردید فرمائی ہے۔ جیسا کہ فرماتے ہیں:۔

’’یہ الزام جو میرے ذمہ لگایا جاتا ہے کہ میں اپنے تئیں ایسا نبی سمجھتا ہوں کہ قرآن کریم کی پیروی کی کچھ حاجت نہیں سمجھتا۔ اور اپنا علیحدہ کلمہ اور علیحدہ قبلہ بناتا ہوں اور شریعت اسلام کو منسوخ کی طرح قرار دیتا ہوں۔ یہ الزام میرے پر صحیح نہیں۔ بلکہ ایسا دعویٰ میرے نزدیک کفر ہے اور نہ آج سے بلکہ ہمیشہ سے اپنی ہر ایک کتاب میں یہی لکھتا آیا ہوں کہ اس قسم کی نبوت کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں اور یہ سراسر میرے پر تہمت ہے۔‘‘ (اخبار عام ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء)

سو جو حوالہ تم اربعین نمبر ۴ صفحہ ۶ طبع اول متن و حاشیہ سے پیش کرتے ہو۔ اس میں ہر گز یہ نہیں لکھا ہوا کہ میں تشریعی نبی ہوں۔ آپ نے تو مخالفین کو ملزم کرنے کے لیے کی بحث کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے کہ اگر کہو کہ والا ۲۳ سالہ معیار تشریعی انبیاء کے متعلق ہے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔

پھر معترض کو مزید ملزم اور لاجواب کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ:۔

’’تمہاری مراد ’’صاحبِ شریعت‘‘ سے کیا ہے اگر کہو ’’صاحب شریعت‘‘ سے مراد وہ ہے جس کی وحی میں امر اور نہی ہو تو اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔‘‘

گویا حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے مخالفین کو محض ’’اس تعریف کی رو سے ’’ملزم‘‘ کیا ہے۔ نہ یہ کہ صاحبِ شریعت نبی کی تعریف اپنی مسلمہ پیش کی ہے۔ چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے آگے جو اپنی وحی ہو پیش کی ہے۔

’’‘‘ (سورۃالنور :۳۱)

(اربعین نمبر ۴ روحانی خزائن جلد ۱۷صفحہ ۴۳۵۔۴۳۶)

یہ قرآن مجید کی آیت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ’’تجدید‘‘ کے رنگ میں نازل ہوئی ہے۔ پس حضرت اقدس علیہ السلام کی وحی قرآنی شریعت کی ’’تجدید‘‘ کر کے از سرِ نو اس کو دنیا میں شائع کرنے کے لئے ہے۔ مستقل طور پر اس میں نہ کوئی نئے اوامر ہیں نہ نواہی۔ پس آپ کا دعویٰ ’’صاحب شریعت‘‘ ہونے کا نہ ہوا۔ بلکہ شریعت کے مجدد ہونے کا ہوا۔

چنانچہ اسی صفحہ ۶ اربعین نمبر ۴ طبع اوّل دسمبر ۱۹۰۰ء کے حاشیہ پر حضرت اقدس علیہ السلام نے صاف طور پر تحریر فرما دیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے امر اور نہی میری وحی میں ’’تجدید‘‘ کے رنگ میں نازل فرمائے ہیں۔

اب ظاہر ہے کہ صاحب شریعت نبی اس کو کہتے ہیں۔ جس کی وحی میں نئے اوامر اور نئے نواہی ہوں۔ جو پہلی شریعت کے اوامر ونواہی کو منسوخ کرنے والے ہوں۔ مگر حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وحی میں ہرگز ایسا نہیں۔

لہٰذا یہ کہنا کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے تشریعی نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ محض افتراء اور بہتان ہے کہاں الزامی جواب جو حضرت اقدس علیہ السلام نے محولہ عبارت میں دیا ہے۔ اور کہاں اپنی طرف سے اپنا ایک عقیدہ بیان کرنا ہے ؂

کہا ہم نے جو دل کا درد تم اس کو گلہ سمجھے

تصدّق اس سمجھ کے مرحبا سمجھے تو کیا سمجھے

۳۲۔ دعوٰئے نبوت اور اسکی نفی

اعتراض ۔ ایک جگہ دعویٰ نبوت کیا اور دوسری جگہ نبوت کے دعویٰ کا انکار فرما دیا۔



اس کے متعلق ہم مفصل بحث مسئلہ ختم نبوت کے ضمن میں کر آئے ہیں۔ وہاں سے ملاحظہ ہو۔

۳۳۔ یسوع کی مذمت اور حضرت مسیح ؑ کی تعریف

اعتراض۔ ایک جگہ یسوع کی مذمت کی اور دوسری جگہ یسوع کی تعریف کی



۱۔ اس کے متعلق بحث دیکھو مضمون ’’قرآنی مسیح اور انجیلی یسوع‘‘ پاکٹ بک ہذا۔

۲۔ ہم اصولی طور پر تناقضات کے مضمون کے شروع میں صفحہ ۵۴۳ تا صفحہ ۵۵۰ پاکٹ بک ہذا پر ثابت کر آئے ہیں کہ محض ایک لفظ کے دو جگہ استعمال ہونے اور اس کے ایجاب و سلب سے تناقض ثابت نہیں ہوتا۔ جہاں یسوع کی مذمت ہے اور اس کی تعلیم کو ناقص قرار دیا گیا ہے۔ وہاں عیسائیوں کے بالمقابل انجیلی مسلمات پر اعتراض کیا ہے اور جہاں مسیح، عیسیٰ یا یسوع کی تعریف کی ہے۔ وہا ں اسلامی تعلیم کے لحاظ سے اہل اسلام کو مخاطب کیا ہے۔ پس دونوں عبارتوں میں تناقض نہیں۔ اسی طرح حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۵ پر جو ایک شریر کے جسم میں ’’یسوع‘‘ کی روح قرار دی ہے وہاں ’’انجیلی یسوع‘‘ مراد ہے۔ مگر تحفۂ قیصریہ صفحہ ۱۲ تا ۲۱ طبع اول میں حقیقی اور اسلامی مسیح مراد ہیں۔ لہٰذا کوئی تناقض نہیں ہے۔

۳۴۔ حیات مسیحؑ میں اختلاف

اعتراض۔ کہیں مسیح علیہ السلام کے زندہ ہونے اور دوبارہ آنے کا کہا اور کہیں مسیح علیہ السلام کے وفات پا جانے کا کہہ دیا۔



مسیحؑ کی زندگی اور موت اور دوبارہ نزول کے متعلق مفصل بحث مسئلہ وفات مسیح کے ضمن میں (پاکٹ بک ہذا) ملاحظہ ہو۔

۳۵۔ مسیحؑ کی بادشاہت

اعتراض۔ مسیح علیہ السلام کی بادشاہت کی تاویل ایک جگہ کچھ کہ ہے اور دوسری جگہ کچھ اور کی ہے ۔



مسیح کی بادشاہت کی جو تاویل حضرت اقدس نے براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۷۹ طبع اول پر کی ہے وہ حضور کی اپنی طرف سے ہے جو اسلامی نقطۂ نگاہ ہے اور اعجاز احمدی صفحہ ۱۳ و صفحہ ۱۴ پر حضرت نے یہودیوں کا اعتراض نقل کیا ہے وہ اپنی طرف سے نہیں۔ ظاہر ہے کہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۷۹ والی تاویل میں حضرت صاحب نے اپنی طرف سے ’’بادشاہت‘‘ کو ’’آسمانی بادشاہت‘‘ قرار دے کر حضرت مسیح کی اجتہادی غلطی تسلیم فرمائی ہے اب یہ تاویل یہودی معترضین پر حجت نہیں۔ نہ ان کو مسلم ہے اسی وجہ سے اعجاز احمدی صفحہ ۱۳ طبع اوّل پر حضرت صاحب نے اپنے مخالفین کو کہا ہے کہ بتاؤ یہودیوں کو ان اعتراضات کا تم کیا جواب دے سکتے ہو۔ پس دونوں عبارتوں میں کوئی تناقض نہ ہوا۔

۳۶۔ سخت کلامی کا جواب

اعتراض۔ رزا صاحب نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں۔ مثلاً ’’اے بدذات فرقہ مولویاں۔‘‘



(انجام آتھم روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۱)

الجواب:۔ حضرت مرزا صاحب نے ہرگز ہرگز شریف اور مہذب مولویوں یا دوسرے مسلمانوں کو گالی نہیں دی۔ یہ محض احراریوں کی شر انگیزی ہے کہ وہ عوام الناس اور شریف علماء کو ہمارے خلاف اشتعال دلانے کی غرض سے اصل عبارات کو ان کے سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے اور کانٹ چھانٹ کر پیش کر کے کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے تمام مسلمانوں کو گالیاں دی ہیں۔ حالانکہ حضرت مرزا صاحب کی ان تحریرات کے مخاطب وہ چند گنتی کے مولوی۔ پادری یا پنڈت تھے جو حضرت صاحب کو نہایت فحش اور ننگی گالیاں دیتے تھے چنانچہ انہوں نے حضرت صاحب اور حضور کے اہل بیت کے گندے اور توہین آمیز کارٹون بھی بنا کر شائع کئے ان کی گالیوں کی کسی قدر تفصیل حضرت صاحب کی کتاب کتاب البریہ صفحہ ۱۲۳ تا صفحہ ۱۳۳ اور کشف الغطاء صفحہ ۱۵ تا صفحہ ۳۱ میں موجود ہے۔

ان لوگوں میں محمد بخش جعفر زٹلی، شیخ محمد حسین، سعد اﷲ لدھیانوی اور عبد الحق امرتسری خاص طور پر گالیاں دینے میں پیش پیش تھے۔ سعد اﷲ لدھیانوی کی صرف ایک نظم بعنوان ’’نظم حقانی مسمٰی بہ سرائرِ کادیانی‘‘ میں حضرت صاحب کی نسبت ’’روسیاہ بے شرم، احمق، بھانڈ، یاوہ گو، غبی، بدمعاش، لالچی، جھوٹا، کافر، دجال، حمار وغیرہ الفاظ موجود ہیں۔ اسی طرح رسالہ اعلان الحق و اتمام الحجۃ و تکملہ صفحہ ۳۰ پر آپ کی نسبت ’’حرامزدہ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے۔

پس حضرت مرزا صاحب کے سخت الفاظ اس قسم کے بد زبان لوگوں کی نسبت بطور جواب کے ہیں لیکن تعجب ہے کہ وہ معدودے چند مخصوص لوگ جو ان تحریرات کے اصل مخاطب تھے۔ عرصہ ہوا فوت بھی ہو چکے اور آج ان کا نام لیوا بھی کوئی باقی نہیں، لیکن احراری آج سے ۶۰،۷۰ برس پہلے کی شائع شدہ تحریریں پیش کر کے موجودہ لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ یہ تحریرات تمہارے متعلق ہیں۔ حالانکہ بسااوقات بے خود احراری اور ان کے سامعین وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان تحریروں کی اشاعت کے وقت ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔

۲۔ پھر یہ بات تو ہر شخص تسلیم کرے گا کہ اس قسم کی گندی اور فحش گالیاں جیسی حضرت صاحب کے مخالفین نے آپ کو دیں سن کر کوئی شریف یا نیک فطرت انسان ان گالیاں دینے والوں کو پسندیدگی کی نگاہ سے کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ پس اگر ایسے لوگوں کی نسبت حضرت صاحب نے جوابی طور پر بظاہر سخت الفاظ استعمال فرمائے ہوں تو بموجب ارشاد خداوندی ’’‘‘(النساء :۱۴۹) حضرت صاحب کی کسی تحریر کو بھی سخت یا نا مناسب نہیں کہا جا سکتا۔

۳۔ پھر حضرت صاحب نے ان گالیاں دینے والے گندے دشمنوں کو بھی کوئی گالی نہیں دی بلکہ آپ نے ان کی نسبت جو کچھ فرمایا۔ دراصل وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کا بڑا نرم ترجمہ کیا ہے۔ حدیث میں ہے۔ ’’عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَّنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِ‘ ‘ (مشکوۃ کتاب العلم الفصل الثالث) کہ وہ علماء آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے۔ گویا اگر آسمان کے نیچے بد ذات بھی رہتے ہیں تو فرمایا ’’شَرُّھُمْ‘‘ یعنی ان سے بھی وہ بد تر ہوں گے۔ پس حضرت نے تو نرم الفاظ استعمال فرمائے ہیں ورنہ آنحضرت صلعم نے تو تفضیل کل کا صیغہ بولا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دیا ہے۔ (ا) ’’لَیْسَ کَلَامُنَا ھٰذَا فِیْ اَخْیَارِھِمْ بَلْ فِیْ اَشْرَارِھِمْ۔ ‘‘ (الہدٰی روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۳۱۴ حاشیہ) کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہے یہ صرف شریر علماء کی نسبت لکھا ہے ورنہ غیر احمدیوں میں سے جو علماء شریر نہیں۔ ہم نے ان کی نسبت یہ نہیں لکھا۔ فرماتے ہیں:۔

(۴) ’’نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ہَتْکِ الْعُلَمَاءِ الصَّالِحِیْنَ، وَقَدْحِ الشُّرَفَاءِ الْمُہَذَّبِیْنَ، سَوَاءً کَانُوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ أَوِ الْمَسِیْحِیِیْنَ أَوِ الآرِیَۃِ ، (لجۃ النور روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۴۰۹) ہم نیک علماء کی ہتک اور شرفاء کی توہین سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔ خواہ ایسے لوگ مسلمان ہوں یا عیسائی یا آریہ۔

(۵) ’’صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے یا عیسائی ہیں جو حدِّ اعتدال سے بڑھ گئے ہیں اور ہماری ذاتیات پر گالی اور بد گوئی سے حملہ کرتے یا ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شان بزرگ میں توہین اور ہتک آمیز باتیں مُنہ پر لاتے اور اپنی کتابوں میں شائع کرتے ہیں۔ سو ہماری اس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معزز لوگوں کی طرف نہیں ہے جو بدزبانی اور کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے۔ ‘‘

(اشتہار مشمولہ ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ۲۲۸ اردو ٹائیٹل و تبلیغ رسالت جلد ۷ صفحہ ۷۷)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
علماء کی حالت اور غیر احمدی گواہیاں

۱۔ نواب نور الحسن خاں صاحب آف بھوپال لکھتے ہیں۔ ’’اب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے …… علماء اس امت کے بدتر ان کے ہیں جو نیچے زمین کے ہیں۔ انہیں سے فتنے نکلتے ہیں۔ انہیں کے اندر پھر کر جاتے ہیں۔ــ ‘‘ (اقتراب الساعۃ ۱۲)ـ

۲۔ ’’اگر نمونہ یہود خواہی کہ بینی علماء سوء کہ طالبِ دنیا باشند۔‘‘

(الفوز الکبیر صفحہ ۱۰ مصنفہ شاہ ولی اﷲ صاحب دہلوی مطبع مجتبائی دہلی)

۳۔ آج کل تھرڈ کلاس مولوی جو ذرہ ذرہ بات پر عدم جواز اقتداء کا فتویٰ دے دیا کرتے ہیں۔ سو ان کی بابت بہت عرصہ ہوا فیصلہ ہو چکا ہے ؂

ھَلْ اَفْسَدَ النَّاسَ اِلَّا الْمُلُوْکُ وَعُلَمَاءُ سُوْءٍ وَ رُھْبَانُھَا

(اہلحدیث ۷؍ جون ۱۹۱۲ء)

شعر کا مطلب یہ ہے کہ کیا بادشاہوں۔ علماء سوء اور رہبان کے سوا کسی اور چیز نے لوگوں کو خراب کیا ہے؟

۴۔افسوس ہے ان مولویوں پر جن کو ہم ہادی رہبر ورثۃ الانبیاء سمجھتے ہیں۔ ان میں یہ نفسانیت یہ شیطنت بھری ہوتی ہے۔ تو پھر شیطان کو کس لئے برا بھلا کہنا چاہیے۔ (اہلحدیث ۱۷؍ نومبر ۱۹۱۱ء)

۵۔ ’’مولوی اب طالبِ جیفۂ دنیا ہو گئے۔ وارثِ علم پیمبر کا پتہ لگتا نہیں۔‘‘

(اہلحدیث ۳؍ مئی ۱۹۱۲ء)

۶۔ ’’بعینہٖ وہی عقائد باطلہ جن کی تکذیب کے لئے خدا نے ہزارہا پیغمبر بھیجے تھے۔ ان نام کے مسلمانوں نے اختیار کر لئے ہیں۔‘‘

(تفسیر ثنائی از مولوی ثناء اﷲ امرتسری سورۃ البقرۃزیر آیت واتبعوا ما تتلوا الشیاطین……)

۷۔ ’’نام کے بنی اسرائیل تو آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور صفحۂ دنیا سے نام غلط کی طرح مٹ گئے مگر آہ! کام کے بنی اسرا ئیل اب بھی موجود و ترقی پزیر ہیں۔ ہم نے سجادہ نشینی کا فخر حاصل کیا اور عنانی اسرائیلی ہاتھ میں لے لی اور اپنا گھوڑا گھوڑ دوڑ میں بنی اسرائیل سے بھی آگے بڑھا دیا۔ صادق و مصدوق فداہ ابی و امی رسول کریم علیہ التحیۃو التسلیم نے آج سے ساڑھے تیرہ سو برس قبل ہماری اس شہ سواری اور گوئے سبقت کی پیش بری کی ان الفاظ میں پیشگوئی فرمائی تھی۔ کہ یقینا میری امت کے بھی لوگ ہو بہو بنی اسرائیل کی طرح افعال بد میں منہمک ہوں گے۔ حتیٰ کہ اگر اس میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ماں سے زنا کرنے والے افراد موجود ہوں گے واقعہ یہ ہے کہ آج ہم مدعی اہلحدیث بھی حذو النعل با لنعل بنی اسرائیل کی طرح ہر معاملہ میں مصلحت دور اندیشی ضرورت وقت و پالیسی، زرپرستی، کاسہ لیسی، خوشامد و چاپلوسی کو معبودِ حق سمجھ کر اسی کی پوجا کرنے لگے۔‘‘

(اہلحدیث ۲۵؍ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۱)

۸۔ مشکوٰۃ صفحہ ۳۰ میں حضرت علی ؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ رسول صلعم نے فرمایا کہ لوگوں پرعنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا نام رہ جائے گا۔ اور قرآن کا رسم خط۔ اس وقت مولوی آسمان کے تلے بد ترین مخلوق ہوں گے (اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۲) سارا فتنۂ و فساد انہی کی طرف سے ہو گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل وہی زمانہ آگیا ہے۔ (اہلحدیث ۲۵؍ اپریل ۱۹۳۰ء صفحہ ۵)

۹۔ مولوی ثناء اﷲ صاحب امرتسری لکھتے ہیں:۔

’’قرآن مجید میں یہودیوں کی مذمت کی گئی ہے کہ کچھ حصہ کتاب کو مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے افسوس ہے کہ آج ہم اہلحدیثوں میں بالخصوص یہ عیب پایا جاتا ہے۔‘‘ (اہلحدیث ۱۹؍ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۹)

گالی اور سخت کلامی میں فرق



۱۔ گالی اور ہے اور اظہار واقعہ اور چیز۔ اگر کوئی شخص جو خود اندھا ہو اور دوسرے کو کانا کہے۔ تو دوسرے آدمی کا حق ہے کہ اسے کہے کہ میں تو کانا نہیں۔ چونکہ تم اندھے ہو۔ اس لئے تمہیں میری آنکھ نظر نہیں آتی اب یہ اظہار واقعہ ہے مگر گالی نہیں۔ خود قرآن مجید نے اپنے منکروں کو (البینۃ: ۷) (بد ترین مخلوق)۔ (الاعراف:۱۸۰) (چوپائیوں کی طرح) قرار دیا ہے بلکہ (القلم:۱۴) (حرامزادہ) بھی قرار دیا ہے۔

نوٹ:۔ ا۔ زَنِیْمٌکے معنی ہیں حرامزادہ دیکھو تفسیر کبیر لامام رازی زیر آیت (القلم:۱۱) فَالْحَاصِلُ اَنَّ الزَّنِیْمَ ھُوَ وَلَدُ الزِّنَا۔ ‘‘یعنی نتیجہ یہ نکلا کہ ’’‘‘ ولد الزنا کو کہتے ہیں۔

ب۔ تفسیر حسینی قادری مترجم اردو جلد ۲ صفحہ ۵۶۴ پر سورۃ ن و سورۃ القلم:۱۴۔ میں ’’‘‘ کا ترجمہ یہ لکھا ہے۔

’’‘‘ حرامزادہ نطفۂ نا تحقیق کہ ُاس کا باپ معلوم نہیں۔

ج۔ ــــ’’‘‘ کے معنی عربی لغات فیروزی صفحہ ۱۴۰ پر ’’حرامزادہ‘‘ درج ہیں۔

د۔ اَلْمُنْجِدُ (لغت کی کتاب) میں زنیم کے معنے لکھے ہیں ’’اَللَّئِیْمُ‘‘ زیر مادہ زنماور ’’اَللَّئِیْمُ‘‘ کے معنی اس لغت میں زیر مادہ لأم پر ’’ اَلدَّنِیُ الْاَصْلُ ‘‘یعنی ’’ بد اصل‘‘ لکھے ہیں۔

ر۔ الفرائد الدریۃ عربی انگریزی ڈکشنری FALLONS انگریزی و اردو ڈکشنری زیر مادہ زنم میں بھی زنیم کے معنی ’’IGNOBLE‘‘ درج ہیں جس کے معنی ولد الحرام یا بد اصل کے ہیں۔

۲۔ بخاری میں ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پرکفارِ مکہ کا سفیر عروہ بن مسعود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہا تھا کہ حضرت ابوبکرؓ نے اسے مخاطب کر کے کہا:۔

’’اُمْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ ‘‘ ( بخاری کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد و المصالحۃ و تجرید بخاری مترجم اردو شائع کردہ مولوی فیروز الدین اینڈ سنز لاہور جلد ۲ صفحہ ۱۳)

ــ’’حضرت ابوبکر ؓ نے عروہ سے کہا کہ لات کی شرمگاہ چوس (یہ عرب میں نہایت سخت گالی سمجھی جاتی تھی) یاد رہے کہ حضرت ابوبکرؓ نے یہ الفاظ آنحضرت صلعم کی موجودگی میں فرمائے مگر حضور صلعم نے انہیں منع نہیں فرمایا بلکہ خاموش رہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شخص حضرت ابوبکرؓ سے نہیں۔ بلکہ آنحضرتؐ سے باتیں کر رہا تھا اور اس نے آنحضرت صلعم کو گالی نہیں دی تھی۔ بلکہ صرف اتنا کہا تھا کہ اے محمدؐ! یہ مسلمان اگر ذرا سی بھی تیز لڑائی ہوئی تو آپ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ ا س پر حضرت ابوبکرؓ نے اُمْصُصْ بِبَظْرِ اللَّاتِ کہا آنحضرت صلعم حضرت ابوبکرؓ کے فقرے کو بھی سن رہے تھے۔ مگر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کو منع نہیں فرمایا۔

۳۔ گو مندرجہ بالا حدیث ’’حدیث تقریر‘‘ کا درجہ رکھتی ہے۔ مگر پھر بھی ایک اور حدیث درج کی جاتی ہے۔ ’’عَنْ اُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ تَعَزَّا بِعَزَاءِ الْجَاھِلِیَّۃِ فَاَعِضُّوْہُ بِھَنِ اَبِیْہِ وَلَا تَکْنُوْا ‘‘ (مشکوٰۃ کتاب الآداب باب المفاخرۃ و العصبیہ الفصل الثانی) اس حدیث کا اردو ترجمہ اَلْمُلْتَقَطَاتُ شرح مشکوٰۃ سے درج کیا جاتا ہے۔ روایت ہے ابی بن کعبؓ سے کہ کہا۔ سنا میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرماتے تھے کہ جو کوئی کہ نسبت کرے ساتھ نسبت جاہلیت کے۔ پس کٹواؤ اس کو سَتر باپ اس کے کا اور کنایہ نہ کرو یعنی یوں کہو کہ اپنے باپ کا ستر کاٹ کر اپنے منہ میں لے لے۔ اس حدیث میں نہایت تشدید ہے فخر بالاباء پر اور حقیقت میں اپنی قوم کی بڑائی کرنا عبث ہے۔ (المشکوٰۃ بالملتقطات کتاب الآداب باب المفاخرۃ والعصیۃ)

۴۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

’’اَلْعَضُّ اَخْذُ الشَّیْءِ بِالْاَسْنَانِ بِھَنِ اَبِیْہِ بِفَتْحِ الْھَاءِ وَ تَخْفِیْفِ النُّوْنِ کِنَایَۃٌ عَنِ الْفَرْجِ اَیْ قُوْلُوْا لَہٗ۔ اُعْضُضْ بِذَکَرِ اَبِیْکَ وَ اَیْرِہٖ اَوْ فَرْجِہٖ وَلَا تَکْنُوْا بِذِکْرِ الْھَنِ مِنَ الْاَیْرِ بَلْ صَرِّحُوْا لَہٗ۔ (مرقاۃ بر حاشیہ مشکوٰۃ صفحہ ۳۵۶ مطبع انصاری) کہ عَضُّ کے معنی ہیں کسی چیز کا دانتوں سے پکڑنا …… الخ۔ غیر احمدی علماء نے حضرت مسیح موعودؑ کو جو گالیا ں دیں۔ ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ عبد الحکیم نے اپنے رسالہ ’’اعلان الحق‘‘ صفحہ ۳۰ میں حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کی جماعت کو ’’حرامزادہ‘‘ لکھا ہے۔ (لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ قَالَ مِثْلَ ذٰلِکَ۔ خادم)نیز محمد علی بوپڑی نے اپنے رسالہ ’’ صوتِ ربانی بر سر دجال قادیانی‘‘ میں بھی یہی لفظ لکھا ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۷۔ ذُرِّیَۃُ الْبَغَایَا (ذریۃ البغایا )

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے غیر احمدی مسلمانوں کو ذریۃ البغایہ یعنی کنجریوں کی اولاد کہا ہے ۔


(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۴۸ )

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قطعاً غیر احمدیوں کو ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا نہیں کہا۔ بوجوہات ذیل:۔

جواب:۔ آئینہ کمالات اسلام کی اشاعت تک تو حضرت غیر احمدیوں کو کافر بھی نہیں کہتے تھے۔ چہ جائیکہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا کہتے۔ آپ کی طرف سے جوابی فتویٰ حقیقۃ الوحی ۱۵؍ مئی ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۲۰،۱۲۱ طبع اول میں شائع ہوا ہے۔

۲۔ اس عبارت میں حضور نے اپنی خدمات اسلامی کاذکر کیا ہے اور فرمایا ہے۔ قَدْ حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُ دَنَوْتُ الْعِشْرِیْنَ اَنْ اَنْصُرَ الدِّیْنَ وَ اُجَادِلَ الْبَرَاھَمَۃَ وَالْقِسِّیْسِیْنَ۔ ’’ کہ جب میں بیس سال کا ہوا تبھی سے میری یہ خواہش رہی کہ میں آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کروں چنانچہ میں نے براہین احمدیہ اور سرمہ چشم آریہ اور آئینہ کمالات اسلام وغیرہ کتابیں لکھیں جو اسلام کی تائید میں ہیں۔ کُلُّ مُسْلِمٍ (آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۴۷) (یعنی ہر مسلمان) ان کتابوں کو بنظر استحسان دیکھتا۔ اور ان کے معارف سے مستفید ہوتا اور میری دعوت اسلام کی تائید کرتا ہے مگر یہ ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا جن کے دلوں پر خدا نے مہر کردی ہے وہ ان کے مخالف ہیں۔ چنانچہ براہین احمدیہ اور سرمہ چشمہ آریہ کے جواب میں لیکھرام آریہ نے ’’خبطِ احمدیہ اور تکذیب براہین احمدیہ‘‘ شائع کیں مگر مسلمان حضرت ؑ کی تائید میں تھے۔ چنانچہ محمد حسین بٹالوی نے براہین پر ریویو (رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد ۷ صفحہ ۱۶۹) لکھا۔ مسلم بک ڈپو لاہور نے سرمہ چشمہ آریہ (پر مولوی محمد حسین بٹالوی کا تبصرہ اشاعۃ السنۃ جلد ۹ صفحہ ۱۴۹ تا ۱۵۸ شائع ہوا) کو اپنے خرچ پر شائع کیا۔

۳۔ اس امر کا ثبوت کہ آئینہ کمالاتِ اسلام کی محولہ بالا عبارت میں غیر احمدی مسلمانوں کو مخاطب نہیں کیا گیا یہ ہے کہ حضرت صاحب نے اسی آئینہ کمالات اسلام میں جس کے صفحہ ۵۴۰ کا تم نے حوالہ دیا ہے صفحہ ۵۳۵ پر ملکہ وکٹوریا آنجہانی قیصرۂ ہند کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں۔ ’’وَ فِیْ آخِرِ کَلَامِیْ اَنْصَحُ لَکِ یَا قَیْصَرَۃُ خَالِصًًا لِلّٰہِ وَ ھُوَ اَنَّ الْمُسْلِمِیْنَ عَضُدُکِ الْخَاصُ وَ لَھُمْ فِیْ مُلْکِکِ خَصُوْصِیَّۃٌ تَفْھِمِیْنَھَا فَانْظُرِیْ اِلَی الْمُسْلِمِیْنَ بِنَظْرٍ خَاصٍ وَ أَقَرِّیْ اَعْیُنَہُمْ وَ أَلَّفِیْ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَاجْعَلِیْ اَکْثَرَھُمْ مِنَ الَّذِیْنَ یُقَرِّبُوْنَ التَّفْضِیْلَ التَّفْضِیْلَ۔ التَّخْصِیْصَ التَّخْصِیْصَ۔ ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۳۵)

یعنی اے ملکہ میں تجھے نصیحت کرتاہوں کہ مسلمان تیرا بازو ہیں۔ پس تو ان کی طرف نظر خاص سے دیکھ اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا اور ان کی تالیف قلوب کر اور ان کو اپنا مقرب بنا۔ اور بڑے سے بڑے خاص عہدے مسلمانوں کو دے۔

غرضیکہ اسی آئینہ کمالات اسلام میں مخالفین کی پیش کردہ عبارت سے پہلے تو یہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ اور ان کی تالیف قلوب لازمی ہے پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ اسی جگہ ان کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کئے گئے ہوں جو ان کی دل شکنی کا باعث ہوں۔

۴۔ علاوہ ازیں ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا والی عبارت میں الفاظ یعنی یَقْبُلُنِیْ وَ یُصَدِّقُ دَعْوَتِیْ۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۵۴۷۔۵۴۸) کے مجھے قبول کرتا اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے تو اس جگہ دعوت سے مراد دعوت الی الاسلام اور اسی کا قبول کرنا ہے۔ (ملاحظہ ہو آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۳۸۹)

فرماتے ہیں:۔

’’وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اِنِّیْ عَاشِقُ الْاِسْلَامِ وَ فَدَاءُ حَضْرَۃِ خَیْرِ الْاَنَامِ وَ غُلَامُ اَحْمَدِنِ الْمُصْطَفٰی حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُ صَبُوْتُ اِلَی الشَّبَابِ …… اَنْ اَدْعُوَالْمُخَالِفِیْنَ اِلٰی دَیْنِ اللّٰہِ الْاَجْلٰی۔ فَارْسَلْتُ اِلٰی کُلِّ مُخَالَفٍ کِتَابًا۔ وَ دَعَوْتُ اِلَی الْاِسْلَامِ شَیْخًا وَ شَابًا۔ ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۸۸،۳۸۹)

اس عبارت کا فارسی ترجمہ آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۳۹۳ و ۳۹۴ حاشیہ میں حسب ذیل درج ہے۔

’’خدا تعالیٰ خوب میداند کہ من عاشق اسلام و فدائے حضرت سیّد انام و غلام احمد مصطفی (صلی اﷲ علیہ وسلم) میباشم۔ از عنفوان وقتے کہ بالغ بسنّ شباب و موفّق بتالیف کتاب شدہ ام دوستدار آن بودہ ام کہ مخالفین را بسوئے دین روشن خدا دعوت کنم۔ بنا برآن بسوئے ہر مخالفے مکتوبے فرستادم و جوان و پیر را ندائے قبول اسلام در دادم۔ ‘‘

’’یعنی خدا کی قسم! میں عاشق اسلام اور فدائے حضرت خیر الانام ہوں اور حضرت احمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کا غلام ہوں۔ اور جب سے میں جوان ہوا اور مجھے کتاب لکھنے کی توفیق ملی میری یہی دلی خواہش رہی کہ میں اﷲ تعالیٰ کے روشن دین کی طرف مخالفین کو دعوت دوں چنانچہ میں نے ہر ایک مخالف کی طرف مکتوب روانہ کیا اور چھوٹے بڑے کو اسلام کی طرف دعوت دی۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۳۹۳۔۳۹۴)

یہ عبارت آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۳۹۳۔۳۹۴کی ہے اور مخالفین کی پیش کردہ ’’ ذریۃ البغایا‘‘ والی عبارت صفحہ ۵۴۷،۵۴۸ پر ہے جو ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:۔’’وَ قَدْ حُبِّبَ اِلَیَّ مُنْذُ دَنَوْتُ الْعِشْرِیْنَ اَنْ اَنْصُرَ الدِّیْنَ۔ وَ اُجَادِلَ الْبَرَاھِمَۃَ وَ الْقِسِّیْسِیْنَ۔ وَقَدْ اَلَّفْتُ فِیْ ھَذِہِ الْمُنَاظَرَاتِ مُصَنَّفَاتٍ عَدِیْدَۃً۔ ‘‘ (جس کا ترجمہ پچھلے صفحہ پر دیا جا چکا ہے) اب ان دونوں عبارتوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو بالکل ایک ہی مضمون ہے۔ پس ثابت ہوا کہ صفحہ ۵۴۸ پر لفظ ’’دعوتی‘‘ میں جس ’’دعوت‘‘ کا ذکر ہے وہ صفحہ ۳۸۹ پر مذکور ’’دعوتِ اسلام‘‘ ہی ہے نیز دیکھو ازالہ اوہام حصہ اوّل خورد صفحہ ۱۱۲ حاشیہ۔

۵۔ تاج العروس زیر مادہ بغی میں ہے اَلْبَغْیُ اَلْاَمَۃُ فَاجِرَۃً کَانَتْ اَوْ غَیْرَ فَاجِرَۃٍ کہ ’’بغی‘‘کے معنی لونڈی کے ہیں۔ خواہ وہ بدکار نہ ہو۔ تب بھی یہ لفظ اس پر بولا جاتا ہے۔ اَلْبَغِیَّۃُ فِی الْوَلَدِ نَقِیْضُ الرُّشْدِ وَیُقَالُ ھُوَ ابْنُ بَغِیَّۃٍ (تاج العروس زیر مادہ بغی) کہ کسی کو یہ کہنا کہ وہ ابن بغیّہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہدایت سے دور ہے کیونکہ لفظ ’’بغیّہ ‘‘ ’’رُشد‘‘ یعنی صلاحیت کا مخالف ہے۔ گویا ذُرِّیَّۃُ الْبَغَایَا کا ترجمہ ہو گا ’’ہدایت سے دور‘‘۔

۶۔ حضرت مسیح موعودؑ نے خود ابن البغاء کا ترجمہ ’’سرکش انسان‘‘ کیا ہے۔ سعد اﷲ لدھیانوی کا ذکر ہوا تو فرمایا کہ میں نے اپنے قصیدہ انجام آتھم میں اس کے متعلق لکھا تھا ؂

آذَیْـتَنِیْ خُبْثًا فَلَسْتُ بِصَادِقٍ إِنْ لَمْ تَمُتْ بِالْخِزْیِ یَا ابْنَ بَغَاءِ

(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد ۱۱ صفحہ ۲۸۲)

’’یعنی خباثت سے تو نے مجھے ایذاء دی ہے۔ پس اگر تو اب رسوائی سے ہلاک نہ ہوا تو میں اپنے دعویٰ میں سچا نہ ٹھہروں گا اے سرکش انسان۔‘‘ (الحکم جلد۱۱نمبر۷ بابت ۲۴ فروری ۱۹۰۷ء صفحہ۱۲)معلوم ہوا کہ ’’ابن البغاء‘‘ کا ترجمہ ’’سرکش انسان‘‘ ہے۔ نہ کہ کنجری کا بیٹا اور اس سے وہ اعتراض بھی دور ہوگیا جو بعض غیر احمدی انجام آتھم و روحانی خزائن جلد۱۱ صفحہ ۲۸۲ کے عربی قصیدہ کے فارسی ترجمہ سے ’’اے نسلِ بدکاراں‘‘ کے الفاظ پیش کرکے کرتے ہیں کیونکہ انجام آتھم کی عربی عبارت کے نیچے جو ترجمہ ہے وہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کا ہے۔ مگر ہمارا پیش کردہ ترجمہ خود حضرت مسیح موعودؑ کا بیان فرمودہ ہے۔ جو بہرحال مقدم ہے۔

۷۔حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ :۔مَنْ شَہِدَ عَلَیْھَا بِالزِّنَا فَہُوَ وَلَدُ الزِّنَا (کتاب الوصیۃ صفحہ۳۹ مطبوعہ حیدر آباد )کہ جو حضرت عائشہ ؓ پر زنا کی تہمت لگائے وہ حرامزادہ ہے اس موقعہ پر جو حل طلب معمہ ہے وہ یہ کہ حضرت عائشہ ؓ پر تہمت زنا لگانے سے ایک انسان کی اپنی ولادت پر ( جو سالہا سال پہلے واقعہ ہو چکی ہو) کس طرح اثر پڑتا ہے؟ مَا ھُوَ جَوَابُکُمْ فَھُوَ جَوَابُنَا۔

۸۔شیعوں کی معتبر ترین کتاب کافی کلینی کے حصہ سوم موسومہ بہ فروع کافی مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ کے آخری حصہ یعنی کتاب الروضہ صفحہ ۱۳۵ میں ہے۔ عَنْ اَبِیْ حَمْزَۃَ عَنْ اَبِیْ جَعْفَرَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالَ قُلْتُ لَہٗ اِنَّ بَعْضَ اَصْحَابِنَا یَفْتَرُوْنَ وَ یَقْذِفُوْنَ مَنْ خَالَفَھُمْ فَقَالَ الْکَسَّفُ عَنْھُمْ اَجْمَلُ ثُمَّ قَالَ وَاللّٰہِ یَا اَبَا حَمْزَۃَ اِنَّ النَّاسَ کُلَّھُمْ اَوْلَادُ الْبَغَایَا مَاخَلَا شِیْعَتِنَا ۔ابو حمزہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام باقر ؓ سے کہا کہ بعض لوگ اپنے مخالفین پر کئی کئی طرح کے بہتان لگاتے اور افتراء کرتے ہیں آپ نے فرمایا ایسے لوگوں سے بچ کر رہنا اچھا ہے پھر آپ نے فرمایا۔ اے ابو حمزہ خدا کی قسم! ہمارے شیعوں کے سوا باقی تمام لوگ اولاد بغایا ہیں۔

۹۔حضرت امام جعفر صادق ؓ کا مندرجہ ذیل قول بھی ملاحظہ ہو۔’’مَنْ اَحَبَّنَا کَانَ نُطْفَۃَ الْعَبْدِ وَمَنْ اَبْغَضَنَا کَانَ نُطْفَۃَ الشَّیْطَانِ۔ ‘‘(فروغ کافی جلد ۲ کتاب النکاح صفحہ ۲۱۶ مطبوعہ نولکشور لکھنؤ) کہ جو شخص ہمارے ساتھ محبت کرتا ہے وہ تو اچھے آدمی کا نطفہ ہے مگر وہ جو ہم سے عداوت رکھتا ہے وہ نطفہ شیطان ہے۔‘‘

اب ایک طرف امام ابو حنیفہ ؓ کا فتویٰ پڑھو۔کہ حضرت عائشہ ؓ پر زنا کی تہمت لگانے والے سب حرامزادے ہیں اور دوسری طرف حضرت امام باقر ؓ کا فتویٰ پڑھو کہ سوائے شیعوں کے باقی سب لوگ اولادِ بغایا ہیں اور ہم سے نفرت کرنے والے شیطان کا نطفہ ہیں۔پھر بتاؤ اگر ان الفاظ کا لفظی ترجمہ کیا جائے۔تو ان فقرات کے کوئی معنے بنتے ہیں؟ اور اس طرح روئے زمین کا کوئی انسان ولد الزنا ہونے سے بچ سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔

۱۰۔چنانچہ احراریوں کا سرکاری آرگن اخبار ’’مجاہد‘‘ لاہور ۴مارچ۱۹۳۶ء مندرجہ بالا حوالجات از ’’ فروغِ کافی‘‘ کے جواب میں رقمطراز ہے:۔

ولد البغایا۔ابن الحرام اور ولد الحرام۔ابن الحلال۔بنت الحلال وغیرہ یہ سب عرب کا اورساری دنیا کا محاورہ ہے۔جو شخص نیکو کاری کو ترک کر کے بد کاری کی طرف جاتا ہے اس کو باوجودیکہ اس کا حسب ونسب درست ہو۔صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام۔ولد الحرام کہتے ہیں۔اس کے خلاف جو نیکو کارہوتے ہیں۔ان کو ابن الحلال کہتے ہیں۔اندریں حالات امام علیہ السلام کا اپنے مخالفین کو ’’اولادِبغایا‘‘ کہنا بجا اور درست ہے۔‘‘ ( اخبار مجاہد لاہور ۴ مارچ ۱۹۳۶ء)

پس آئینۂ کمالاتِ اسلام وغیرہ کی عبارات میں بھی مراد ہدایت سے دور یا سرکش یا بد فطرت انسان ہی ہیں نہ کہ ولد الزنا یا حرامزادے!

۱۱۔حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کی نسبت لکھا ہے۔’’ ایک دفعہ لڑکے گیند کھیل رہے تھے کہ اتفاقاًگیند اچھل کر مجلس میں آپڑا۔کسی کو جا کر لانے کی جرأت نہ ہوئی۔ آخر ایک لڑکا گستا خانہ اندر آیا اور گیند اٹھا کر لے گیا۔ آپ ( حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ)نے دیکھ کر فرمایا کہ شاید یہ لڑکا حلال زادہ نہیں ہے۔چنانچہ دریافت پر ایسا ہی معلوم ہوا۔لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوگیا ؟ فرمایا!اگر یہ حلال زادہ ہوتا تو اس میں شرم و حیا ہوتی۔‘‘

(تذکرہ اولیاء باب اٹھارھواں۔مترجم اردو شائع کردہ شیخ برکت علی اینڈ سنز بار سوم صفحہ۱۴۶)

ثابت ہوا کہ جس میں شرم و حیا نہ ہووہ ’’حلال زادہ‘‘ نہیں ہوتا۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۸۔جنگل کے سؤر


إِنَّ الْـعَـدَا صَـارُوْا خَنَازِیرَ الْـفَـلَا

وَنِـسَـاءُ ہُـمْ مِـنْ دُونِہِنَّ الْأَکْلَبُ


اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد علیہ السلام نے غیر احمدی مسلمانوں کو جنگلوں کے سور کہا ۔



(نجم الہدی۔روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۵۳)

جواب:یہ عام خطاب نہیں بلکہ صرف ان دشمنوں کو ہے جو گندی گالیاں دیتے تھے۔خواہ وہ مرد ہوں۔خواہ عورتیں۔۔چنانچہ اس کا اگلا شعر ہے ؂

سَـبُّـوْا وَمَـا أَدْرِیْ لِاَیِّ جــَرِیمَـۃٍ

(نجم الہدی۔روحانی خزائن جلد۱۴ صفحہ۵۴)

کہ وہ مجھ کو گالیاں دیتے ہیں اور میں نہیں جانتا کہ وہ کیوں اور کس جرم کے بدلے گالیاں دیتے ہیں۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:۔

ا۔’’ دشنام دہی اور چیز ہے اور بیان واقعہ کا گو وہ کیسا ہی تلخ اور سخت ہو دوسری شے ہے ہریک محقق اور حق گو کا یہ فرض ہوتا ہے کہ سچی بات کو پورے پورے طور پر مخالف گُم گشتہ کے کانوں تک پہنچا دیوے پھر اگر وہ سچ کو سن کر افروختہ ہو تو ہوا کرے۔‘‘

(ازالۂ اوہام۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ ۱۱۲)

ب۔ مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی۔ لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں۔ مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی۔ اس کا ثبوت اس مقابلہ سے ہوتا ہے جو میں نے اپنی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کے سخت الفاظ اکٹھے کر کے کتاب مثل مقدمہ مطبوعہ کے ساتھ شامل کئے ہیں جس کا نام میں نے کتاب البریّۃ رکھا ہے اور با ایں ہمہ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ میرے سخت الفاظ جوابی طور پر ہیں ابتدا سختی کی مخالفوں کی طرف سے ہے۔

اور میں مخالفوں کے سخت الفاظ پر بھی صبر کر سکتا تھا لیکن دو مصلحت کے سبب سے میں نے جواب دینا مناسب سمجھا تھا۔ اوّل یہ کہ تا مخالف لوگ اپنے سخت الفاظ کا سختی میں جواب پاکر اپنی روش بدلالیں اور آئندہ تہذیب سے گفتگو کریں۔ دوم یہ کہ تا مخالفوں کی نہایت ہتک آمیز اور غصہ دلانے والی تحریروں سے عام مسلمان جوش میں نہ آویں اور سخت الفاظ کا جواب بھی کسی قدر سخت پاکر اپنی پُرجوش طبیعتوں کو اس طرح سمجھالیں کہ اگر اس طرف سے سخت الفاظ استعمال ہوئے تو ہماری طرف سے بھی کسی قدر سختی کے ساتھ ان کو جواب مل گیا اور اس طرح وہ وحشیانہ انتقاموں سے دستکش رہیں……یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر سخت الفاظ کے مقابل پر دوسری قوم کی طرف سے کچھ سخت الفاظ استعمال نہ ہوں تو ممکن ہے کہ اس قوم کے جاہلوں کا غیظ و غضب کوئی اور راہ اختیار کرے۔ مظلوموں کے بخارات نکلنے کے لئے یہ ایک حکمت عملی ہے کہ وہ بھی مباحثات میں سختؔ حملوں کا سخت جواب دیں۔

(کتاب البریہ۔روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ ۱۱،۱۲)

(نیز دیکھو ازالہ اوہام صفحہ۳۴،صفحہ۳۵ طبع اوّل،تقطیع کلاں صفحہ۱۷ طبع اوّل حصہ اوّل، کتاب البریہ صفحہ۹۳ طبع اوّل صفحہ۱۱۱تا ۱۱۸، تبلیغ رسالت جلدنمبر ۷ صفحہ ۹۷ و تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ۲۰تا ۲۳ طبع اوّل)

۳۹۔مبارک احمد کا قبل از ولادت بولنا

اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ میرے بچے مبارک احمد نے اپنی والدہ کے شکم میں باتیں کیں۔



جواب:۔مبارک احمد کے جس کلام کا ذکر تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد۱۵صفحہ۲۱۳،۲۱۴ پر ہے وہ براہ راست بچے کا کلام نہیں۔بلکہ الہام الٰہی ہے جو خدا تعالی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوا۔یعنی اﷲ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا کہ ’’اِنِّی اَسْقُطُ مِنَ اللّٰہِ وَ اُصِیْبُہٗ ‘‘ (تذکرہ صفحہ ۲۷۶ مطبوعہ ۲۰۰۴ء)(یعنی میں اﷲ تعالی کی طرف سے آیا ہوں اور جلد ہی خدا تعالیٰ کی طرف واپس چلا جاؤں گا) یہ الفاظ اﷲ تعالیٰ نے حضور کو مبارک احمد کی ولادت سے پہلے الہام کئے اور یہ کلام حکایتاً مبارک احمد کی طرف سے تھا۔جیسا کہ قرآن کریم کی آیت ’’‘‘کہ خدا تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی طرف سے یہ الفاظ الہام کئے ہیں۔پس اسی طرح چونکہ الہامی فقرہ میں اﷲ تعالیٰ نے یہ کلام مبارک احمد کی طرف سے کیا تھا اور جملہ کا متکلم بالواسطہ مبارک احمد تھا۔اس لئے حضرت اقدس نے استعارۃً لکھا ہے کہ گویا اس کے بچے ہی نے باتیں کیں۔یہ قول صاحبزادہ مبارک احمد کا ایسا ہی ہے جیسے قرآن مجید سورۃ آل عمرآن رکوع ۵ میں ہے کہ جب فرشتہ حضرت مریم ؑ کے پاس حضرت مسیحؑکی ولادت کی بشارت لے کر آیا تو اس کی بشارت کے ساتھ ہی’’‘‘ (اٰل عمران :۵۰) شروع ہو جاتا ہے(کہ میں آیا ہوں تمہاری طرف، خدا کی طرف سے نشان لے کر) مختصر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کی رو سے وہ آواز مبارک احمد کی طرف سے نہ آئی تھی بلکہ الہامی کلام میں اﷲ تعالی نے حکایتاً اس کی طرف سے کلام کیا تھا۔

۲۔لیکن تمہارے ہاں تو یہاں تک لکھا ہے کو ایک دفعہ حضرت ’’پیران پیر‘‘سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کی والدہ نے آپ سے کچھ بات کہی تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا۔اے اماں!کیا تجھے یاد نہیں کہ جب میں تیر ے پیٹ میں تھاتو ان دنوں ایک سائل فقیر بھیک مانگنے تیرے دروازہ پر آیا۔تو اسے ایک شیر کھانے کے لئے دوڑا تھا۔جس سے ڈر کر وہ سائل بھاگ گیا تھا۔کیا تجھے معلوم نہیں کہ وہ شیر میں ہی تھا ؟ (گلدستہ کرامات صفحہ ۲۱۵از سید عبدالقادر جیلانی ؒ)

۳۔ لواور سنو !بحار الانوار جلد ۱۰ میں علامہ مجلسی علیہ الرحمۃ مصباح الانوارسے اور امالی شیخ صادق سے روایت کرتے ہیں جس کے ترجمہ پر اکتفا کی جاتی ہے۔

’’مفضل ابن عمر بیان کرتے ہیں میں نے حضرت صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ جناب سیّدہ ( حضرت فاطمہؓ۔خادمؔ)کی ولادت کس طرح ہوئی۔آپ نے فرمایا کی جب خدیجہ ؓسے جناب رسول اﷲ نے شادی کی تو مکہ کی عورتوں نے انھیں چھوڑ دیا۔نہ وہ ان کے پاس آتی تھیں نہ ان کو سلام کرتی تھیں اور نہ کسی اور عورت کو ان کے پاس آنے دیتی تھیں۔اس بات سے جناب خدیجہ ؓ کو بہت دہشت ہوئی۔اور ادھر جناب رسول اﷲؐ کی طرف سے بھی خوف دامن گیر تھا۔اس حالت میں جناب سیّدہ کا حمل قرار پایا۔جناب سیّدہ۔ خدیجہ ؓ سے باتیں کیا کرتی تھیں اور انھیں تسلی و دلاسا دیتی رہتی تھیں۔ اور صبر کی تلقین فرماتی تھیں۔خدیجہ ؓ نے رسول اﷲؐ سے یہ بات چھپا رکھی تھی۔ ایک روز رسول اﷲؐ تشریف لائے تو آپؐ نے سنا کہ خدیجہؓ جناب فاطمہ ؓ سے باتیں کر رہیں ہیں پوچھا! یہ کس سے باتیں کرتی ہیں خدیجہ ؓ نے عرض کیا کہ یہ بچہ جو میرے شکم میں ہے مجھ سے باتیں کرتا ہے اور میری وحشت کو دور کرتا ہے آپ ؐ نے فرمایا ’’اے خدیجہؓ۔ جبر ئیل ؑ نے مجھے بشارت دی ہے کہ یہ بچہ لڑکی ہے۔‘‘

(سیرۃ الفاطمہ اعنی سوانح عمری حضرت سیّدہ صلوٰۃ اﷲ علیہاتصنیف سیّد حکیم ذاکر حسین صاحب مترجم نہج البلاغہ مطبوعہ۱۹۲۱ء صفحہ۲۹،صفحہ۳۰)

۴۰۔بکر ے کا دودھ

اعتراض۔ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ مظفر گڑھ میں ایک بکرے نے اڑھائی سیر دودھ دیا۔ سرمہ چشمہ آریہ۔روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۹۹



جواب:۔الف۔امام ابن جوزی فرماتے ہیں:۔فَبُعِثَ بِہٖ اِلَی الْخَلِیْفَۃِ الْمُقْتَدِرِ وَ اُھْدِیَ مَعَہٗ تَیْسًا لَہٗ ضَرْعٌ یُحْلَبُ لَبْنًا حَکَاہُ الصَّوْلِیُّ وَابْنُ کَثِیْرٍ ( حجج الکرامہ صفحہ۲۵۹ از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال)کہ ایک لمبے قد کا آدمی خلیفہ مقتدر کے پاس بھیجا گیااور اس کے ساتھ ہی ایک بکرا بھی ہدیۃً بھیجا گیا اس بکرے کے تھن تھے اور وہ دودھ دیتا تھا،اس واقعہ کو صولی اور حا فظ ابن کثیر نے بیان کیا ہے۔

ب۔مولوی شبلی نعمانی لکھتے ہیں:۔’’جہانگیر کا جانورخانہ حقیقت میں ایک عجائب خانہ تھا۔ اس میں ایسے بھی بہت سے جانور تھے جن کی خلقت غیر معمولی خلقت تھی۔ ان میں ایک بکرا تھا جو بقدر ایک پیالہ کے دودھ دیتا تھا۔‘‘ (مقالات شبلی صفحہ ۱۹۰ نیز تزک جہانگیری صفحہ۷۲)

نوٹ:۔جماعت احمدیہ آنبہ ضلع شیخو پورہ نے خاص طور پر ایک دودھ دینے والا بکرا خریدا تھا اور مولوی صاحبان کے لئے ’’الفضل‘‘ میں اشتہار دیا گیا تھا کہ وہ اس بکرے کو دیکھ کر تسلی کر لیں……۲۸نومبر ۱۹۳۴ء تک وہ بکرا جماعت کے پاس موجود رہا۔(خادمؔ)

ج۔امام سیو طی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں:۔ ’’۳۰۰ ھ میں ایک خچر نے بچہ جنا۔‘‘

(تاریخ الخلفاء مترجم اردوصفحہ۳۸۰مطبع جیّد برقی پریس دہلی)

نوٹ:۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم وفاتِ مسیح کے اس لئے قائل نہیں کہ گویا ہمارے نزدیک خدا کسی کو زندہ رکھنے پر قادر نہیں۔ بلکہ اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن مجیدمیں فرمایا ہے کہ فوت ہو چکے ہیں اور یہ کہ کوئی انسان آسمان پر نہیں جا سکتا۔چونکہ خدا تعالی جھوٹ نہیں بول سکتا اور نہ وعدہ خلافی کر سکتا ہے اس لئے بھی زندہ نہیں رہ سکتے نیز اگر ’’ ‘‘(البقرۃ:۲۱) کا وہ مفہوم درست ہو جو تم لوگ لیتے ہو تو ذرا یہ تو بتا دو کہ کیا خدا اگر چاہے تو اپنے جیسا ایک خدا بنا سکتا ہے؟یاد رکھنا کہ خدا غیر مخلوق اور قدیم ہے اور جو پیدا ہوگا وہ بہر حال مخلوق ہوگا۔

۴۱۔عورت مرد ہو گئی

اعتراض۔ حضرت مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ ایک مرد نے اپنے بچہ کو اپنا دودھ پلایا۔ سرمہ چشم آریہ۔روحانی خزائن جلد۲ صفحہ۹۹



الجواب:۱۔حجج الکرامہ میں لکھا ہے:۔ وَفِیْ ۷۷۶ھ اَحْضَرَ وَالِیٌ لِاَشْمُوْنِیْنَ اِلَی الْاَمِیْرِ مِنْجَکَ بِنْتًا عُمْرُھَا خَمْسُ عَشْرَ سَنَۃٍ فَذَکَرَ اَنَّھَا لَمْ تَزِلْ بِنْتًا اِلٰی ھٰذِہِ الْغَایَۃِ فَاسْتَدَّ الْفَرْجُ وَظَھَرَ لَھَا ذَکَرٌ وَاُنْثَیَانِ وَاِحْتَمَلَتْ فَشَاھَدُوْھَا وَسَمُّوْھَا مُحَمَّدًا وَ لِھٰذِہِ القَضِیَّۃِ نَظِیْرٌ ذَکَرَھَا ابْنُ کَثِیْرٍ فِیْ تَارِیْخِہٖ وَقَالَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ وَقَعَ فِیْ عَصْرِنَا نَظِیْرُ ذٰلِکَ فِیْ ۸۴۲ ھ (حجج الکرامہ صفحہ ۲۹۳ سطر ۱از نواب صدیق حسن خان صاحب مطبع شاہجہانی بھوپال)کہ ۷۷۶ھ میں والئی اشمونین نے امیر منجک کے سامنے ایک لڑکی پیش کی۔جس کی عمر پندرہ سال کی تھی اور اس نے ذکر کیا کہ اب تک تو لڑکی رہی مگر بعد میں اس کی شرمگاہ مفقود ہو گئی اور اعضاء مردمی ظاہر ہو گئے۔ پھر وہ محتلم ہوئی اور انہوں نے یہ سب باتیں اس میں مشاہدہ کیں اور اس کا نام محمد رکھا اور اسی قسم کا ایک اور واقعہ بھی ہے جس کو ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے کہاہے کہ ہمارے زمانہ میں ۸۴۲ھ میں اسی قسم کا ایک واقعہ ظہور میں آیا ہے۔

۲۔ حضرت امام سیوطی ؒ لکھتے ہیں:۔ کہ المعتضد باﷲ ابو الفتح خلیفۂ بنو عباس کے عہد خلافت میں:۔

’’۷۵۴ہجری میں…… طرابلس میں ایک لڑکی تھی جس کا نام نفیسہ تھا۔…… تین مردوں سے اس کا نکاح ہوا مگر کوئی اس پر قادر نہ ہو سکا……جب اس لڑکی کی عمر پندرہ برس کی ہوئی تو اس کے پستان غائب ہو گئے اور پھر اس کی شرمگاہ سے گوشت بلند ہونا شروع ہوا اور بڑھتے بڑھتے مرد کا آلہ تناسل بن گیا اور خصیتین بھی ظاہر ہو گئے۔‘‘

(تاریخ الخلفاء مصنفہ حضرت امام سیوطی باب المحتضد باﷲ ابو الفتح۔ منقول از محبوب العلماء اردو تاریخ الخلفاء۔ مطبوعہ پبلک پرنٹنگ پریس لاہور(ترجمہ کردہ مولوی محمد بشیر صاحب صدیقی) مولوی فاضل علی پوری صفحہ ۶۰۰)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۴۲۔مرزا صاحب نے بد دعائیں دیں

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے غیر احمدی مسلمانوں کو بد دعائیں دیں۔



الجواب:۱۔قر آن مجید سے حضرت نوحؑ کی بددعا سورۃ نوح میں پڑھو۔ (نوح:۲۷)کہ میرے رب زمین پر ایک بھی کافر نہ چھوڑیو۔

۲۔آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جو رحمۃ للعالمین ہیں انہوں نے بھی بد دعا کی۔ بخاری شریف میں ہے۔ ’’قَالَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِقُرَیْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَشَقَّ عَلَیْھِمْ اِذْ دَعَا عَلَیْھِمْ……ثُمَّ سَمّٰی اَللّٰھُمَّ عَلَیْکَ بِاَبِیْ جَھْلٍ وَ عَلَیْکَ بِعُتْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ وَ شَیْبَۃَ بْنِ رَبِیْعَۃَ۔ ‘‘(بخاری کتاب الوضوء باب اِذَا اُلْقِیَ عَلٰی ظَھَرَ الْمُصَلِّیْ ……)کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلمنے فرمایا کہ اے اﷲ قریش کو ضرور ہلاک کر۔ آپؐ نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔ پس قریش پر یہ شاق گذرا کیونکہ آپؐ نے ان کو بددعا دی تھی…… پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نام لے کر فرمایا۔ اے اﷲ! ابو جہل کو ضرور ہلاک کر۔ اے اﷲ! عتبہ بن ربیعہ او ر شیبہ بن ربیعہ کو ہلاک کر (۳)اسی طرح قریش ہی کے متعلق آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بد دعا کا ذکر بخاری جلد ۱ کتاب الاذان باب یَھْوِیْ بِالتَّکْبِیْرِ حِیْنَ یَسْجُدُ میں بھی ہے :۔

قَالَ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِیْنَ یَرْفَعُ رَأْسَہٗ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ…… فَیَقُوْلُ اَللّٰھُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَکَ عَلٰی مُضَرَ وَاجْعَلْھَا عَلَیْھِمْ سِنِیْنَ کَسِنِّیْ یُوْسُفَ وَاَھْلُ الْمَشْرِقِ یَوْمَئِذٍ مِنْ مُضَرَمُخَالِفُوْنَ لَہٗ۔ ‘‘ حدیث ہذا کا اردو ترجمہ تجرید البخاری مترجم اردو سے نقل کیا جاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلمجب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو کہتے سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ ……چنانچہ آپ فرماتے اے اﷲ اپنی گرفت قبیلہ مضر پر سخت کر دے۔ اور ان پر قحط سالیاں ڈال دے جیسے یوسف ؑ کے عہد کی قحط سالیاں تھیں۔ اس زمانہ میں قبیلہ مضر کے مشرقی لوگ آپ کے مخالف تھے۔‘‘

(تجرید البخاری مترجم جلد ۱ صفحہ ۱۸۴ شائع کردہ مولوی فیروزالدین اینڈ سنز لاہو ر)

(۴) بخاری شریف میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبیلہ بنی سُلَیم کے بعض آدمیوں کو قبیلۂ بنی عامر کی طرف بغرض سفارت و تبلیغ بھیجا۔ مگر انہوں نے دھوکہ سے قتل کر دیا صرف ایک لنگڑے صحابی بچ گئے اس واقعہ کی خبر جب آنحضرتؐ کو ملی تو آپ چالیس دن تک قبیلہ بنی عامر کے لئے بد دعا فرماتے رہے۔

’’فَدَعَا عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا عَلٰی رَعْلٍ وَذَکْوَانَ وَ بَنِیْ لَحْیَانَ وَ بَنِیْ عُصَیَّۃَ الَّذِیْنَ عَصَوُا ا للّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ۔ ‘‘

(بخاری باب الحُوَرُ الْعِیْن وَ صِفَتُھُن و تجرید البخاری مطبوعہ فیروز الدین اینڈ سنز لاہور حصہ دوم صفحہ ۴۵ وصفحہ ۴۶ )

ترجمہ۔ پھرآپؐ نے چالیس دن تک قبیلہ رعل او ر ذکوان اور بنی لحیان بنی عصیہ (کے لوگوں) پر جنہوں نے اﷲ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کی تھی بد دعا کی۔

۵۔ بخاری شریف کتاب الاذان باب فصل اللّٰھم ربنا لک الحمد میں ہے کہ حضورصلی اﷲ علیہ وسلم بَعْدَ مَا یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ فَیَدْعُوْا لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ یَلْعَنُ الْکُفَّارَ۔ ‘‘ یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہر روز نماز میں بعد از رکوع سمع اﷲ لمن حمدہ کہنے کے بعد بالالتزام مسلمانوں کے حق میں دعا فرماتے تھے اور کافروں پر *** بھیجا کرتے تھے۔

۴۳۔ انگریز کی خوشامد کا الزام

اعتراض ۔ انگریز کا خود کاشتہ پودا یا انگریز کی تعریف کیوں کی ؟



مجلس احرار کی طرف سے باربار الزام لگایا جاتا ہے کہ حضرت بانی ٔ جماعت احمدیہ علیہ السلام نے انگریز کی خوشامد کی اور اس غرض سے تریاق القلوب۔ کتاب البریہ۔ نورالحق اور تبلیغ رسالت کے حوالجات پیش کئے جاتے ہیں۔ ذیل کی سطور میں ان کے اس الزام کا کسی قدر تفصیل سے جواب عرض کیا گیا ہے۔

خوشامد کی تعریف :۔

افسوس ہے کہ معترضین حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام پر خوشامد کا الزام لگاتے وقت ایک ذرہ بھی خدا کا خوف نہیں کرتے کیونکہ اوّل تو آپ کی تحریرات کے اس حصہ پر جس میں انگریزی حکومت کے ماتحت مذہبی آزادی حکومت کی مذہبی امور میں غیر جانبدار ی اور قیام امن و انصاف کے لئے عادلانہ قوانین کے نفاذ کی تعریف کی گئی ہے۔ لفظ ’’خوشامد‘‘ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ بر محل سچی تعریف کو ’’خوشامد‘‘ نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ ’’خوشامد‘‘ جھوٹی تعریف کو کہتے ہیں جو کسی نفع کے حصول کی غرض سے کی جائے۔ پس حضرت مرزا صاحب پر انگریز کی خوشامد کا الزام لگانے والوں پر لازم ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ آپ نے انگریز ی حکومت کے بارے میں جو تعریفی الفاظ استعمال فرمائے وہ حقیقت پر مبنی نہ تھے بلکہ خلاف واقعات تھے اوریہ کہ آپ نے انگریز سے فلاں نفع حاصل کیا ، لیکن ہم یہ بات پورے وثوق اور کامل تحدی سے کہہ سکتے ہیں اور مخالف سے مخالف بھی ضرور یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو گا کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے دور میں مذہبی آزادی ، تبلیغ کی آزادی اور قیام امن و انصاف کی جو تعریف فرمائی وہ بالکل درست تھی۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جو مذہبی آزادی انگریزی نظام کے ماتحت رعایا کو حاصل تھی۔ اس کی مثال موجودہ زمانہ میں کسی او ر حکومت میں پائی نہیں جاتی۔

حضرت سیّد احمد بریلوی کے ارشادات

چنانچہ حضرت سید احمد بریلوی مجد د صدی سیز دہم رحمۃ اﷲ علیہ نے بھی انگریزی حکومت کے اس قابل تعریف پہلو کی بے حد تعریف فرمائی ہے۔ فرماتے ہیں :۔

الف۔’’سرکار انگریزی کہ ُاو مسلمانان رعایائے خود را برائے ادائے فرائضِ مذہبی شان آزادی بخشیدہ است۔‘‘ (سوانح احمدی مصنفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھانیسری صفحہ۱۱۵مطبع سٹیم پریس لاہور)

ب۔’’سرکار انگریزی…… مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں کرتی اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے۔ ہم ان کے ملک میں علانیہ وعظ کہتے اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی بلکہ اگر ہم پر کوئی زیادتی کرتا ہے تو اس کو سزا دینے کو تیار ہیں۔‘‘

(سوانح احمدی مصنفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری صفحہ۷۱مطبع سٹیم پریس لاہور)

ج۔’’سید صاحب (حضرت سید احمد بریلوی)رحمۃ اﷲ علیہ کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا۔ وہ اس آزاد عملداری کو اپنی عملداری سمجھتے تھے۔‘‘ (ایضاً صفحہ۱۳۹)

د۔حضرت مولانا سید اسمٰعیل صاحب شہید رحمۃ اﷲ علیہ انگریزی حکومت کے متعلق فرماتے ہیں :۔

’’ایسی بے رو ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں۔‘‘

(سوانح احمدی مصنفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری صفحہ۵۷مطبع سٹیم پرس لاہور)

غرضیکہ ان ہر دو قابل فخر مجاہد ہستیوں نے بھی انگریزی حکومت کی بعینہٖ وہی تعریف کی جو حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے کی۔ بلکہ حضرت سید احمد بریلوی ؒ تو حکومت انگریزی کو ’’اپنی ہی عملداری‘‘ سمجھتے تھے۔ کیا احراری شعبدہ باز جوشِ خطابت میں ان بزرگان اسلام پر بھی ’’انگریزی حکومت کی خوشامد‘‘ کا الزام لگائیں گے؟

پس یہ حقیقت ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کے حق میں جو کچھ لکھا وہ بطور خوشامد نہیں بلکہ مبنی بر صداقت تھا۔ چنانچہ حضرت مرزا صاحب تحریر فرماتے ہیں:۔

۱۔ ’’ بعض نادان مجھ پر اعتراض کرتے ہیں جیسا کہ صاحب المنار نے بھی کیا کہ یہ شخص انگریزوں کے ملک میں رہتا ہے اس لئے جہاد کی ممانعت کرتا ہے یہ نادان نہیں جانتے کہ اگر میں جھوٹ سے اس گورنمنٹ کو خوش کرنا چاہتا تو میں بار بار کیوں کہتا کہ عیسیٰ بن مریم صلیب سے نجات پا کر اپنی موت طبعی سے بمقام سری نگر کشمیر مر گیا اور نہ وہ خدا تھا اور نہ خدا کا بیٹا۔کیا انگریز مذہبی جوش والے میرے اِس فقرہ سے مجھ سے بیزار نہیں ہوں گے؟ پس سنو! اے نادانوں مَیں اِس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلواریں چلاتی ہے قرآن شریف کے رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے۔‘‘

(کشتی نوح۔روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۷۵حاشیہ)

۲۔ ’’یہ گورنمنٹ مسلمانوں کے خونوں اور مالوں کی حمایت کرتی ہے اورہریک ظالم کے حملہ سے ان کو بچاتی ہے…… مَیں نے یہ کام گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امید وار ہوکر کیا ہے بلکہ یہ کام محض ﷲ اورنبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کیا ہے ۔‘‘

(نورالحق حصہ اول۔ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۴۰،۴۱)

۳۔بے شک میں جیساکہ میرے خدا نے میرے پر ظاہر کیا صرف اسلام کو دنیا میں سچا مذہب سمجھتا ہوں لیکن اسلام کی سچی پابندی اسی میں دیکھتا ہوں کہ ایسی گورنمنٹ جو درحقیقت محسن اور مسلمانوں کے خون اور آبرو کی محافظ ہے اس کی سچی اطاعت کی جائے۔ میں گورنمنٹ سے ان باتوں کے ذریعہ سے کوئی انعام نہیں چاہتا۔ میں اس سے درخواست نہیں کرتا کہ اس خیر خواہی کی پاداش میں میرا کوئی لڑکا کسی معزز عہدہ پر ہوجائے۔‘‘

(اشتہار۲۱اکتوبر۱۸۹۹ء تبلیغ رسالت جلد ۴صفحہ۴۶)

۴۔’’میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ انمتواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں۔ کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھا۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد ۷صفحہ۱۰)

۵۔’’میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا جیسا کہ نادان لوگ خیال کرتے ہیں نہ اس سے کوئی صلہ چاہتا ہوں۔ بلکہ میں انصاف اور ایمان کے رو سے اپنا فرض دیکھتا ہوں کہ اس گورنمنٹ کی شکر گزاری کروں۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد۱۰صفحہ۱۲۳)
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
آپ یا آپ کی اولاد نے حکومت سے کوئی نفع حاصل نہیں کیا !

ان تحریرات سے واضح ہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریزکے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا وہ کسی لالچ یا طمع یا خوف کے زیر اثر نہیں تھا اور یہ محض دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس کو واقعات کی تائید بھی حاصل ہے۔ کیونکہ یہ امر واقعہ ہے اور کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی یہ نہیں کہہ سکتا حضرت مرزا صاحب یا حضور کے خلفاء میں سے کسی نے گورنمنٹ سے کوئی مربعہ یا جاگیر حاصل کی یا کوئی خطاب حاصل کیا۔ بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے خلاف عیسائی پادریوں نے اور بعض اوقات حکومت کے بعض کارندوں نے بھی آپ اورآپ کی جماعت کو نقصان پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ پس جب یہ ثابت ہے کہ حضور نے کوئی مادی فائدہ گورنمنٹ انگریزی سے حاصل نہیں کیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آپ نے انگریزی حکومت کی غیرجانبداری اور امن پسندی اور مذہب میں عدم مداخلت کی پالیسی کے حق میں جو کچھ لکھا وہ مبنی بر حقیقت تھا۔ تو پھر آ پ پر ’’خوشامد‘‘کا الزام لگانامحض تعصب اور تحکم نہیں تو اور کیا ہے؟

زور دار الفاظ میں تعریف کی وجہ:۔

اس جگہ ایک سوال ہوسکتا ہے کہ گو یہ درست ہے کہ جو کچھ حضرت مرزا صاحب نے انگریزی حکومت کے حق میں لکھا وہ خلاف واقعہ نہ تھا لیکن پھر بھی حضرت مرزا صاحب کو اس قدر زور سے بار بار انگریز کی تعریف کرنے کی ضرورت کیا تھی ؟آ پ خاموش بھی رہ سکتے تھے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وسوسہ صرف ان ہی لوگوں کے دل میں پیدا ہوسکتا ہے جن کو اس پس منظر کا علم نہیں جس میں وہ تحریرات لکھی گئیں۔

پس منظر:۔

اس ضمن میں سب سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ۱۸۵۷ء کے سانحہ کے حالات اور تفصیلات کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے وہ زمانہ کس قدر ابتلاء اور مصائب کا زمانہ تھا۔ وہ تحریک ہندوؤں کی اٹھائی ہوئی تھی، لیکن اس کو جنگِ آزادی کا نام دیا گیا اور یہ اثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس میں ہندوستانی مسلمان بھی من حیث القوم پس پردہ شامل ہیں۔سلطنتِ مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں نے زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ اس لئے نئی حکومت کے دل میں متقدم حکومت کے ہم قوم لوگوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا اس پر۱۸۵۷ء کا حادثہ مستزاد تھا۔ دوسری طرف ہندو قوم تھی جو تعلیم و تربیت، صنعت و حرفت، سیاست و اقتصاد۔ غرضیکہ ہر شعبۂ زندگی میں مسلمانوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ مسلمانوں کا انہوں نے معاشرتی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے۔ یہ دور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نازک تریں دور تھا۔ پنجاب میں انگریزی تسلط سے پہلے سکھ دور کے جبر و استبداد اور وحشیانہ مظالم کی داستان حد درجہ المناک ہے۔ مسلمانوں کو اس زمانہ میں انتہائی صبر آزما حالات سے گزرنا پڑا۔ انہیں جبراً ہندو یا سکھ بنایا گیا۔ اذانیں حکمًاممنوع قرار دی گئیں۔ مسلمان عورتوں کی عصمت دری مسلمانوں کا قتل اور ان کے سازوسامان کی لوٹ مار سکھوں کا روز مرہ کا مشغلہ تھا۔ سکھوں کے انہی بے پناہ مظالم کے باعث مجدد صدی سیزدہم (تیرھویں) حضرت سیداحمد بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ کو ان کے خلاف علم جہاد بلند کرنا پڑا تھا۔

پس ایک طرف ہندو قوم کی ریشہ دوانیاں، مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ، مسلمانوں پر ان کا علمی سیاسی اور اقتصادی تفوّق اور ان کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے اور اس کے ساتھ ساتھ سکھوں کے جبر و استبداد اور وحشیانہ مظالم کے لرزہ خیز واقعات تھے ان حالات میں انگریزی دورِ حکومت شروع ہوا۔ انگریزوں نے اپنی حکومت کی ابتداء اس اعلان سے کی کہ رعایا کے مذہبی معاملات میں نہ صرف حکومت کی طرف سے کوئی مداخلت ہوگی بلکہ دوسری قوموں کی طرف سے بھی ایک دوسرے کے مذہبی معاملات میں مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ایسے قانون بنادیئے گئے جن کے نتیجہ میں رعایا کے باہمی تنازعات کا فیصلہ عدل وانصاف سے ہونے لگا۔ ہندوؤں اور سکھوں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کے آگے حکومت حائل ہوگئی اور سکھوں کے جبر واستبداد سے بالخصوص پنجابی مسلمانوں کو اس طرح نجات مل گئی گویا کہ وہ ایک دہکتے ہوئے تنور سے یکدم باہر نکل آئے۔

قرآن مجید کی واضح ہدایت:۔

ایک طرف دو مشرک قومیں( ہندو اورسکھ) مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھیں تو دوسری طرف ایک عیسائی حکومت تھی جس کے ساتھ تعاون یا عدم تعاون کا مسلمانوں کو فیصلہ کرنا تھا۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لئے قرآن مجید کی اس تعلیم پر عمل کرنے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ تھا کہ’’ ‘‘(المائدۃ:۸۳)ترجمہـ :۔یقینا یقیناتو دیکھے گا کہ مسلمانوں کے بدترین دشمن یہودی اور مشرک ہیں اور یقینا یقینا تو دیکھے گا کہ دوستی اور محبت کے لحاظ سے سب سے زیادہ مسلمانوں کے قریب عیسائی کہلانے والے ہیں۔

اس واضح حکم میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی تھی کہ یہود یا ہنود اگر ایک طرف ہوں اور دوسری طرف عیسائی ہوں تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دوستی اور مودّۃ کا ہاتھ عیسائیوں کی طرف بڑھائیں۔ چنانچہ عملاً یہی مسلمانوں نے کیا اور ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ قرآنی تعلیم مشعل راہ نہ بھی ہوتی تو پھر بھی مسلمانوں کا مفاد اسی میں تھا۔ اور یہی حالات کا اقتضائتھا کہ ہندوؤں اور سکھوں کے مقابلہ میں انگریزوں کے ساتھ تعاون کرتے اور انگریزوں کی مذہبی رواداری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوؤں کے تباہ کن منصوبوں سے محفوظ رہ کر اپنی پر امن تبلیغی مساعی کے ذریعہ سے اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرتے۔ بعد کے حالات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انگریزی عملداری کے ابتداء میں مسلمانوں کی تعداد برعظیم ہندو پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب تھی، لیکن انگریزوں کے انخلاء (۱۹۴۷ء)کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ تھی۔ گویا کہ تین صدیوں کی اسلامی حکومت کے دوران میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد تھی صرف ایک صدی سے بھی کم زمانے میں اس سے دس گنا بڑھ گئی۔ چنانچہ سر سید احمد خاں صاحب علی گڑھی، مولانا شبلی نعمانی، نواب محسن الملک بہادر ،نواب صدیق حسن خاں صاحب اور دوسری عظیم الشان شخصیات نے دور اوّل میں اور قائد اعظم محمد علی جناح نے دورآخر میں ہندو کی غلامی پر انگریز کے سا تھ تعاون کو ترجیح دی۔ اور مندرجہ بالا قرآنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے انگریزوں کی طرف دست تعاون بڑھایا۔ سر سید مرحوم نے انگریزی حکومت کو مسلمانوں کی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے متعدد کتب ورسائل تصنیف کئے۔ مسلمانوں کی مغربی علوم میں ترقی کے لئے شبانہ روز کوششیں کیں جن کا نمونہ علیگڑھ یونیورسٹی کی صورت میں موجود ہے۔ چنانچہ احمدیت کے ذلیل ترین معاند اخبار’’زمیندار‘‘لاہور کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ’’ان دنوں سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ انگریز کی حمایت کی جاتی۔‘‘

(زمیندار ۲۷/۱۱/۵۲ صفحہ۳ کالم نمبر۵)

مہدی سوڈانی

پھر یہ بات بھی مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ مہدی سوڈانی کی تحریک ۱۸۷۹ء اور اس کے برطانوی حکومت کے ساتھ تصادم کے باعث انگریزی قوم کے دل و دماغ پر یہ چیز گہرے طور پر نقش ہوچکی تھی کہ ہر مہدویت کے علمبردار کے لئے ضروری ہے کہ وہ تیغ و سناں کو ہاتھ میں لے کر غیر مسلموں کو قتل کرے۔

حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ مہدویت

یہی وہ دور تھا جس میں حضرت مرز صاحب نے اﷲ تعالیٰ کی وحی سے مامور ہو کر مسیح اور مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ قرآنی تعلیم کے پیشِ نظر آپ اگرچہ حکومت انگریزی کے ساتھ تعاون اور وفاداری کو ضروری سمجھتے تھے، لیکن بد قسمتی سے دور انحطاط کے مسلمان علماء نے مہدیٔ موعود کا یہ غلط تصور دنیا کے سامنے پیش کر رکھا تھا کہ وہ آتے ہی جنگ و پیکار کا علم بلند کر دے گا اور ہاتھ میں تلوار لے کر غیرمسلموں کو قتل کرے گا اور بزور شمشیر اسلامی حکومت قائم کردے گا۔ اس لئے اور مہدی سوڈانی کا تازہ واقعہ اس کا ایک بین ثبوت تھا۔ اس لئے جب آپ نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تو ضروری تھا کہ انگریزی حکومت آپ اورآپ کی تحریک کو شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتی۔ لیکن اس پر مستزاد یہ ہوا کہ مخالف علماء نے جہاں ایک طرف اولیاء امت کی پیشگوئیوں کے عین مطابق ( کہ امام مہدی پر علمائے وقت کفر کا فتویٰ دیں گے) آپ پر کفر کا فتویٰ لگا کر مسلمانوں میں آپ کے خلاف اشتعال پھیلایا تو دوسری طرف حکومت انگریزی کو بھی یہ کہہ کر اکسایا کہ یہ شخص امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے در پردہ حکومت کا دشمن ہے اور اندر ہی اندر ایک ایسی جماعت تیار کر رہا ہے جو طاقت پکڑتے ہی انگریزی حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دے گی۔ پھر نہ صرف یہ کہ یہ جھوٹا پراپیگنڈہ مخالف علماء کی طرف سے کیا گیا بلکہ عیسائی پادریوں کی طرف سے بھی حکومت کے سامنے اور پریس میں بار بار یہ الزام لگایا گیا کہ یہ شخص مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور اس کا اراداہ یہ ہے کہ خفیہ طور پر ایک فوج تیار کر کے گورنمنٹ انگریزی کے خلاف مناسب موقع پر اعلان جنگ کر دے۔ دراصل یہ شخص اور اس کی جماعت حکومت انگریزی کے ’’غدار‘‘ ہیں اور ان کا وجود انگریزی حکومت کے لئے سخت خطرناک ہے۔ چونکہ یہ الزامات محض بے بنیاد اور بے حقیقت تھے اس لئے حضرت مرزا صاحب کے لئے ضروری تھا کہ ان کی پر زور الفاظ میں تردید فرما کر حقیقت حال کو آشکار ا کرتے۔

تعریفی عبارتیں بطور’’ذبّ‘‘ تھیں نہ بطور’’مدح‘‘

پس تعریفی الفاظ بطور مدح نہ تھے بلکہ بطور ’’ذبّ‘‘ یعنی بغرض رفعِ التباس تھے۔

۱۔اس کی مثال قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔ قرآن مجید میں حضرت مریم ؓ کی عفت اور عصمت کی بار بار اور زور دار الفاظ میں تعریف بیان کی گئی ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدۂ ماجدہ اور حضور کی مقدس صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہا کی عفت اورعصمت کا قرآن مجید میں خصوصیت سے ذکر نہیں کیا گیا۔ حالانکہ وہ اپنی عفت اور عصمت کے لحاظ سے حضرت مریم ؑ سے کسی رنگ میں بھی کم نہیں ہیں۔بلکہ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ اپنے مدارجِ عظمت کے لحاظ سے حضرت مریم ؑ سے افضل ہیں۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد’’فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَآءِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔‘‘

(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب مناقب قرابۃ رسول اللّٰہ صلی اﷲ علیہ وسلم و منقبۃ فاطمۃ علیھا السلام بنت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم)

۲۔لیکن ظاہر ہے کہ حضرت مریم ؑ صدیقہ کی پاکیزگی اور عفت و عصمت کا قرآن مجید میں بار بار زور دار الفاظ میں ذکر ہونا اور ان کے مقابل پر حضرت فاطمۃ الزہرا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدۂ ماجدہ کا قرآن مجید میں ذکر نہ ہونا ہر گز ہرگز اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ حضرت مریمؑ کو ان پر کوئی فضیلت حاصل تھی کیونکہ حضرت مریم ؑ پر زنا اوربدکاری کی تہمت لگی اس لئے ان کی بریت اور رفع التباس کے لئے بطور ’’ذبّ‘‘ ان کی تعریف کی ضرورت تھی۔ مگر چونکہ حضرت فاطمۃ الزہرا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی والدۂ ماجدہ پر ایسا کوئی الزام نہ تھا اس لئے باوجود ان کی عظمت شان کے ان کی تعریف و توصیف کی ضرورت نہ تھی۔ بعینہٖ اسی طرح چونکہ حضرت مرزا صاحب پر آپ کے مخالفین کی طرف سے آ پ کے دعویٰ مہدویت کے باعث حکومت سے غداری اور اس کے خلاف تلوار کی لڑائی کی خفیہ تیاریوں کا الزام تھا اس لئے ضروری تھا کہ اظہارِ حقیقت کے لئے زور دار الفاظ میں ان الزامات کی تردید کی جاتی۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
احراریوں کی پیش کردہ عبارتوں پر تفصیلی بحث

سول اینڈ ملٹری گزٹ (جو انگریزی حکومت کا ایک مشہور آرگن تھا ) کی اشاعت ستمبر، اکتوبر۱۸۹۴ء میں ایک مضمون شائع ہوا۔ جس میں لکھا گیا کہ ’’یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا بد خواہ اور مخالفانہ ارادے اپنے دل میں رکھتا ہے۔‘‘ چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے اس مضمون کا ذکر اپنے اشتہار ۱۰دسمبر۱۸۹۴ء مطبوعہ تبلیغ رسالت جلد۳صفحہ۱۹۲،صفحہ۱۹۳میں کر کے اس کی تردید فرمائی ہے۔ یہی وہ اشتہار ہے جس کی جوابی عبارتوں کا حوالہ احراری معترضین دیا کرتے ہیں لیکن بددیانتی سے اس اشتہارکی مندرجہ ذیل ابتدائی سطور کو حذف کر دیتے ہیں۔

’’سول ملٹری گزٹ کے پرچہ ستمبر یا اکتوبر۱۸۹۴ء میں میری نسبت ایک غلط اور خلاف واقعہ رائے شائع کی گئی جس کی غلطی گورنمنٹ پر کھولنا ضروری ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ صاحب راقم نے اپنی غلط فہمی یا کسی اہل غرض کے دھوکہ دینے سے ایسا اپنے دل میں میری نسبت سمجھ لیاہے کہ گورنمنٹ انگریزی کا بد خواہ اور مخالفانہ ارادے اپنے دل میں…… رکھتا ہوں۔ لیکن یہ خیال ان کا سراسر باطل اور دور از انصاف ہے ۔‘‘……

’’سکھوں کے زمانہ میں ہمارے دین اور دنیا دونوں پر مصیبتیں تھیں۔……ان مصیبتوں سے اس گورنمنٹ کے عہد دولت نے ایک دم میں ہمیں چھوڑ ا دیا…… (اور ہم نے اگر کسی کتاب میں پادریوں کا نام دجّال رکھا ہے یا اپنے تئیں مسیح موعود قرار دیا ہے تو اس کے وہ معنی مراد نہیں جو بعض ہمارے مخالف مسلمان سمجھتے ہیں۔ ہم کسی ایسے دجّال کے قائل نہیں جو اپنا کفر بڑھانے کے لئے خونریزیاں کرے اور نہ کسی ایسے مسیح اور مہدی کے قائل ہیں جو تلوار کے ذریعہ سے دین کی ترقی کرے۔ یہ اس زمانہ کے بعض کوتہ اندیش مسلمانوں کی غلطیاں ہیں جو کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کے منتظر ہیں اورچاہیے کہ گورنمنٹ ہماری کتابوں کو دیکھے کہ کس قدر ہم اس اعتقاد کے دشمن ہیں۔‘‘

’’مجھے افسوس ہے کہ سول ملٹری گزٹ کے ایڈیٹر کو ان واقعات کی کچھ بھی اطلاع ہوتی تو وہ ایسی تحریر جو انصاف اور سچائی کے برخلاف ہے ہر گز شائع نہ کرتا۔‘‘(تبلیغ رسالت جلد۳ صفحہ۱۹۲ تا صفحہ ۱۹۹)

علاوہ ازیں شیخ محمد حسین بٹالوی نے کئی رسائل شائع کئے جن میں یہ لکھا ہے کہ یہ شخص گورنمنٹ انگریزی کا ’’باغی‘‘ ہے۔ چنانچہ اس کا ذکر حضرت مرزا صاحب نے مختلف کتب اور اشتہارات میں کیا ہے۔ چند عبارتیں ملاحظہ ہوں۔

الف۔’’چونکہ شیخ محمد حسین بٹالوی اور دوسرے خود غرض مخالف واقعات صحیحہ کو چھپا کر عام لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ایسے ہی دھوکوں سے متاثر ہوکر بعض انگریزی اخبارات جن کو واقعات صحیحہ نہیں مل سکے ہماری نسبت اور ہماری جماعت کی نسبت بے بنیاد باتیں شائع کرتے ہیں۔ سو ہم اسی اشتہار کے ذریعہ سے اپنی محسن گورنمنٹ اور پبلک پر یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ہنگامہ اور فتنہ کے طریقوں سے بالکل متنفر ہیں۔‘‘ (اشتہار ۲۷ فروری ۱۸۹۵ء تبلیغ رسالت جلد۴ صفحہ۱)

پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں :۔

’’آپ نے جو میرے حق میں گورنمنٹ کے باغی ہونے کا لفظ استعمال کیا ہے یہ شاید اس لئے کیا ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ نالش اور استغاثہ کرنے کی میری عادت نہیں ورنہ آپ ایسے صریح جھوٹ سے ضرور بچتے۔‘‘ (تبلیغ رسالت ۴ صفحہ ۴۵ نیز دیکھو تبلیغ رسالت جلد ۳ صفحہ ۹۲)

۴۴۔ تریاق القلوب کی پچاس الماریوں والی عبارت

اسی طرح احراری معترضین تریاق القلوب۔روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۱۵۵ کی عبارت بھی خوشامد کے الزام کی تائید میں پیش کیا کرتے ہیں۔ اس میں’’ پچاس الماریوں‘‘ کے الفاظ کو خاص زور سیپیش کرتے ہیں لیکن جو شخص اصل کتاب نکال کر اس میں سے یہ عبارتیں پڑھے گا اسے فی الفور معلوم ہوجائے گا کہ حضرت مرزا صاحب ؑ نے وہاں بھی انگریزی حکومت کی تائید میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ بطور ’ذبّ‘‘ کے ہے۔ یعنی مخالفین کے الزام ’’بغاوت‘‘ کی تردید میں لکھا ہے۔ چنانچہ تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۵ ۱۵کی وہ عبارت جسے احراری معترضین پیش کرتے ہیں اس سے پہلے یہ الفاظ ہیں:۔

’’ اور تم میں سے جو ملازمت پیشہ ہیں وہ اِس کوشش میں ہیں کہ مجھے اِس محسن سلطنت کا باغی ٹھہراویں۔میں سنتا ہوں کہ ہمیشہ خلافِ واقعہ خبریں میری نسبت پہنچانے کے لئے ہر طرف سے کوشش کی جاتی ہے حالانکہ آپ لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ میں باغیانہ طریق کا آدمی نہیں ہوں۔‘‘

(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ۱۵۵)

اس کے آگے وہ عبارت شروع ہوتی ہے جس کا حوالہ احراری معترضین دیا کرتے ہیں۔

نور الحق حصہ اوّل کی عبارت

احراری معترضین نور الحق حصہ اوّل۔روحانی خزائن جلد۸ کے صفحہ۴۰ و صفحہ ۴۱کا حوالہ بھی اس الزام کی تائید میں پیش کرتے ہیں۔لیکن جو شخص کتاب نور الحق حصہ اوّل۔ روحانی خزائن جلد۸ کا صفحہ۳۳ و صفحہ۳۴ پڑھے گا اس کو علم ہوجائے گا کہ یہ عبارتیں بھی پادری عماد الدین کی طرف سے عائد شدہ الزام بغاوت کے جواب میں لکھی گئیں۔چنانچہ حضورؑ ملکہ وکٹوریہ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:۔

’’ایک شخص نے ایسے لوگوں میں سے جو اسلام سے نکل کر عیسائی ہوگئے ہیں یعنی ایک عیسائی جو اپنے تئیں پادری عماد الدین کے نام سے موسوم کرتا ہے ایک کتاب ان دنوں میں عوام کو دکھوکہ دینے کے لئے تالیف کی ہے اور اس کا نام توزین الاقوال رکھا ہے اور اس میں ایک خالص افترا کے طور پر میرے بعض حالات لکھے ہیں اور بیان کیا ہے کہ یہ شخص ایک مفسد آدمی اور گورنمنٹ کا دشمن ہے اور مجھے اس کے طریق چال چلن میں بغاوت کی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ایسے ایسے کام کرے گا اور وہ مخالفوں میں سے ہے۔……اب ہم گورنمنٹ عالیہ کو ان باتوں کی اصل حقیقت سے مطلع کرتے ہیں جو ہم پر اس نے افترا کیں اور گمان کیا کہ گویا ہم دولت برطانیہ کے بدخواہ ہیں۔‘‘

(نور الحق حصہ اوّل۔ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۳۳ و ۳۴)

اس کے آگے وہ عبارتیں شروع ہوتی ہیں جو احراری معترضین پیش کرتے ہیں۔ لیکن ص۳۰ طبع اول کی عبارت کو نقل کرنے میں یہ صریح تحریف اور بددیانتی کرتے ہیں کہ درمیان سے یہ عبارت حذف کر دیتے ہیں:۔

’’ اور مَیں نے یہ کام گورنمنٹ سے ڈر کر نہیں کیا اور نہ اس کے کسی انعام کا امید وار ہوکر کیا ہے۔‘‘

(نور الحق حصہ اوّل۔ روحانی خزائن جلد۸ صفحہ ۴۱)

پس ظاہر ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی یہ سب عبارتیں بھی دشمن کے جھوٹے الزام کی تردید میں ہیں نہ کہ بطور ’’خوشامد‘‘جیسا کہ احراری معترضین ظاہر کرتے ہیں۔

کتاب البریّہ کی عبارت

اب ہم کتاب البریہ۔روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۳ کی عبارت کو لیتے ہیں جو احراری معترضین کی طرف سے بار بار پیش کی جاتی ہے وہ ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے:۔

’’یہ بھی ذکر کے لائق ہے کہ ڈاکٹر کلارک صاحب نے اپنے بیان میں کہیں اشارۃً اور کہیں صراحتًا میری نسبت بیان کیا ہے کہ گویا میرا وجود گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے۔‘‘

(کتاب البریہ۔روحانی خزائن جلد۱۳ صفحہ۳)

یاد رہے کہ پادری مارٹن کلارک ایک بہت بڑا عیسائی پادری تھا اور انگریز حکام اس کی عزت کرتے تھے اس نے حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ پر اقدام قتل کا ایک جھوٹا استغاثہ دائر کیا تھا اس مقدمہ کے دوران میں اس نے بطور مستغیث عدالت میں جو بیان دیا اس میں یہ کہا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ انگریزوں کا باغی ہے اور اس کا وجود انگریزوں کے لئے خطرناک ہے۔

خود کا شتہ پودہ والی عبارت

اعتراض۔ مسیح و مہدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے کہا کہ میں انگریز کا خود کاشتہ پودا ہوں۔



آخری عبارت جو احراریوں کی طرف سے اس الزام کی تائید میں پیش کی جاتی ہے اشتہار ۲۴فروری ۱۸۹۸ء مندرجہ تبلیغ رسالت جلد ہفتمصفحہ۱۹ کی ہے۔ یہ اشتہار تبلیغ رسالت صفحہ۷ سے شروع ہو کر صفحہ ۲۸ پر ختم ہوتا ہے۔ اس اشتہار کے صفحہ ۱۹ کے حوالہ سے احراری ’’خود کاشتہ پودہ‘‘ کا لفظ اپنے سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کرتے ہیں۔ اس الزام کا مفصل جواب تو آگے آتا ہے لیکن اس جگہ یہ بتانا مقصود ہے کہ معترضین اس عبارت کو بھی پیش کرتے وقت دیانت سے کام نہیں لیتے اور اپنی پیش کردہ عبارت سے اوپر کی مندرجہ ذیل عبارت حذف کر جاتے ہیں۔

’’مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بد اندیش جو بو جہ اختلاف عقیدہ یا کسی اورو جہ سے مجھ سے بغض او ر عداوت رکھتے ہیں……میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امورگورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں ا س لئے اندیشہ ہے کہ ان کی ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بد گمانی پیدا ہو‘‘……’’اس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ (تبلیغ رسالت جلد ہفتم صفحہ ۱۹)

علاوہ ازیں اس اشتہار کے شروع ہی میں اس اشتہار کی اشاعت کی غرض ان الفاظ میں تحریر فرماتے ہیں:۔

’’بسا اوقات ایسے نئے فرقہ (جماعت احمدیہ ) کے دشمن اور خود غرض جن کی عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے۔ گورنمنٹ میں خلاف واقع خبریں پہنچاتے ہیں۔ اور مفتریانہ مخبریوں سے گورنمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں۔ پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے ا س لئے ممکن ہے کہ گورنمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بد ظنی پید اکرے یا بدظنی کی طرف مائل ہوجائے۔لہٰذا گورنمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے چند ضروری امور ذیل میں لکھتا ہوں۔‘‘

(تبلیغ رسالت جلد۷ صفحہ ۸سطر۱)

غرضیکہ ا س اشتہار کی اشاعت کے لئے بھی یہی ضرورت پیش آئی تھی کہ مخالفین نے گورنمنٹ کو بانی ٔسلسلہ احمدیہ اور حضور کی جماعت کے خلاف یہ کہہ کر بد ظن کرنا چاہا تھا کہ یہ لوگ گورنمنٹ کے باغی ہیں۔

احراریوں کی پیش کردہ تمام عبارتوں کو ان کے محولہ اصل مقام سے نکال کر دیکھ لو۔ ہر جگہ یہی ذکر ہو گا کہ چونکہ مخالفوں نے مجھ پر حکومت سے بغاوت کا جھوٹا الزام لگایا ہے ا س لئے میں ان کی تردید میں یہ لکھتا ہوں کہ یہ الزام محض جھوٹا اور بے بنیاد ہے اور میں در حقیقت گورنمنٹ کاخیرخواہ ہوں۔

پس حضرت مرزا صاحب نے جس جس جگہ انگریزی حکومت کی تعریف کی ہے وہ تعریف بطور ’’مدح‘‘ نہیں بلکہ بطور ’’ذبّ‘‘ کے ہے۔ یعنی رفعِ التباس کے لئے ہے جس طرح قرآن مجید میں حضرت مریم کی عصمت و پاکیزگی کا بالخصوص ذکر بطور مدح نہیں بلکہ بطور ’’ذبّ‘‘ کے ہے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ہجرت حبشہ کی مثال :۔

اس کی ایک اور واضح مثال تاریخ اسلام میں ہجرت حبشہ کی صورت میں موجود ہے۔حبشہ میں عیسائی حکومت تھی۔ مکہ میں مشرکوں کے مظالم نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مشرکوں کے استبداد پر عیسائی حکومت کو ترجیح دیتے ہوئے صحابہؓ کو اپنی بعثت کے پانچویں سال حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت فرمائی۔سیرت ابن ہشام میں اس واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔

’’جب رسول خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس شدتِ بلا کو ملاحظہ فرمایا جو ان کے اصحاب پر کفاروں کی طرف سے نازل ہوئی تھی اگرچہ خود حضور بباعث حفاظت الٰہی اور آپ کے چچا ابو طالب کے سبب سے مشرکوں کی ایذاء رسانی سے محفوظ تھے۔مگر ممکن نہ تھا کہ اپنے اصحاب کو بھی محفوظ رکھ سکتے۔ اس واسطے آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ملک حبشمیں چلے جاؤ تو بہتر ہے۔کیونکہ وہاں کا بادشاہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور وہ صدق اور راستی سرزمین ہے۔

( سیرت ابن ہشام مترجم اردو مطبوعہ رفاہ عام سٹیم پریس لاہور ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۰۶ )

پس حضور کے حکم کے مطابق مسلمان ایک مشرک نظام سے نکل کر ایک عیسائی حکومت کے سایہ میں جا کر آباد ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ وہ وہاں حاکم ہو کر نہیں بلکہ محکوم ہو کر رہنے کے لئے گئے تھے اور فی الواقعہ محکوم ہو کر ہی رہے۔

ان مہاجرین میں علاوہ بہت سے دیگر صحابہ اور صحابیات کے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ اور حضرت جعفر ؓ (جو حضرت علی ؓ کے بھائی تھے)آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اﷲ عنہا، حضرت اسماء رضی اﷲ عنہا رزجہ حضرت جعفر ؓ ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ ، حضرت ابو حذیفہؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ ، حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ ،حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح اور حضرت امّ المومنین ام سلمہ رضی اﷲ عنہا جیسے جلیل القدر صحابہ اور صحابیات شامل تھیں۔

حضرت امّ المومنین امّ سلمہ رضی اﷲ عنہا روایت فرماتی ہیں کہ ’’جب ہم حبشہ میں تھے۔ نجاشی بادشاہ حبش کے پاس تو ہم بہت امن سے تھے۔ کوئی برائی کی بات ہمارے سننے میں نہ آئی تھی اور ہم اپنے دین کے کام بخوبی انجام دیتے تھے پس قریش نے اپنے میں سے دو بہادر شخصوں کو جو عبداﷲ بن ربیعہ اور عمرو بن عاص ہیں نجاشی کے پاس مکہ کی عمدہ عمدہ چیزیں تحفہ کے واسطے دے کر روانہ کیا۔ پس یہ دونوں شخص نجاشی کے پاس آئے اور پہلے اس کے ارکان سلطنت سے مل کر ان کو تحفے اور ہدئیے دئے اور ان سے کہا کہ ہمارے شہر سے چند جاہل نوعمر لوگ اپنا قدیمی دین و مذہب ترک کر کے یہاں چلے آئے ہیں اور تمہارے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں اور ایک ایسا نیا مذہب اختیار کیا ہے کہ جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ تم جانتے ہو اب ہم بادشاہ کے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ان لوگوں کو بادشاہ ہمارے ساتھ روانہ کر دے……پھر ان دونوں نے وہ ہدیے جو بادشاہ کے واسطے لائے تھے اس کے حضور پیش کیے۔ اس نے قبول کئے پھر ان سے گفتگو کی۔ انہوں نے عرض کیا اے بادشاہ ! ہماری قوم میں سے چند نو عمر جہلا اپنے قومی مذہب کو ترک کر کے یہاں چلے آئے ہیں اور آپ کا مذہب بھی اختیار نہیں کیا ہے ایک ایسے نئے مذہب کے پیرو ہوئے ہیں جس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ جانتے ہیں…… آپ ان کو ہمارے ساتھ روانہ کر دیں۔ نجاشی کے افسرانِ سلطنت اور علماء مذہب نے بھی ان دونوں کے قول کی تائید کی…… نجاشی بادشاہ حبش…… نے کہا میں ان سے ان دونوں شخصوں کے قول کی نسبت دریافت کرتا ہوں کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ اگر واقعی یہی بات ہے تو جو یہ دونوں کہتے ہیں تو میں ان کو ان کے حوالے کر دوں گا اور ان کی قوم کے پاس بھیج دوں گا۔ اور اگر کوئی اور بات ہے تو نہ بھیجوں گا۔ حضرت امّ سلمہ فرماتی ہیں کہ پھر نجاشی نے اصحاب رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کو بلوایا…… جب یہ لوگ (صحابہؓ) پہنچے۔ نجاشی نے ان سے کہا وہ کونسا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے اور اپنی قوم کا مذہب چھوڑ دیا ہے اور کسی اور مذہب میں بھی داخل نہیں ہوئے۔ امّ سلمہؓ فرماتی ہیں صحابہؓ میں سے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب نے گفتگو کی اور عرض کیا کہ اے بادشاہ ! ہم لوگ اہلِ جاہلیت تھے۔ بتوں کی پرستش ہمارا مذہب تھا۔ مردار خواری ہم کرتے تھے۔ فواحش اور گناہ کا ارتکاب ہمارا وطیرہ تھا۔ قطع رحم اور پڑوس کی حق تلفی اور ظلم و ستم کو ہم نے جائز رکھا تھا۔ جو زبردست ہوتا وہ کمزور کو کھا جاتا تھا۔پس ہم ایسی ہی ذلیل حالت میں تھے جو اﷲ نے ہم پر کرم کیا اور اپنا رسول ہم میں ارسال فرمایا…… ہماری قوم نے اس دین حق کے اختیار کرنے پر ہم کو تکلیفیں دیں اور ہم کو ستایا تا کہ ہم اس دین کو ترک کردیں اور بتوں کی پرستش اختیار کریں اور جس طرح افعال خبیثہ کو وہ حلال سمجھتے ہیں ہم بھی حلال سمجھیں۔ پس جب ان کا ظلم حد سے زیادہ ہوا اور انہوں نے ہمارا وہاں رہنا دشوار کر دیا ہم وہاں سے نکل کھڑے ہوئے۔ اور آپ کے ملک کو ہم نے پسند کیا اور آپ کے پڑوس کی ہم نے رغبت کی اور اے بادشاہ ہم کو امید ہوئی کہ یہاں ہم ظلم سے محفوظ رہیں گے۔ نجاشی نے جعفر ؓ سے پوچھا کہ جوکچھ تمہارے نبی پر نازل ہوتا ہے اس میں سے کچھ تمہارے پاس ہے ؟ یعنی تم کویاد ہے؟ جعفرؓ نے کہا ہاں یاد ہے۔ نجاشی نے کہا پڑھو۔ پس جعفرؓ نے سورۃ مریم شروع کی۔‘‘

(سیرۃ ابن ہشام مترجم اردو صفحہ۱۱۱وصفحہ۱۱۲ جلد ۲)

حضرت جعفر رضی اﷲ عنہ نے نجاشی کے دربار میں سورۃ مریم بھی صرف آیت (مریم:۳۵) تک پڑھی تھی(دیکھو تفسیر مدارک التنزیل مصنفہ امام نسفی جلد ۱ صفحہ۲۳۱ مطبع السَّعادۃ مصر زیر آیت الخ سورۃ المائدۃ :۸۳ ع۱۱ پ ۶ رکوع آخری)

ایک قابل غور سوال

اب یہاں ایک قابلِ غور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب نجاشی نے قرآن مجید سننے کی فرمائش کی تو حضرت جعفرؓ نے سارے قرآن مجید میں سے سورۃ مریم کو کیوں منتخب کیا؟ ظاہر ہے کہ سورۃ مریم قرآن مجید کی پہلی سورۃنہیں تھی۔ حضرت جعفرؓ سورۃ فاتحہ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف بھی پڑھ کر سنا سکتے تھے جو ہجرت حبشہ سے پہلے نازل ہوچکی تھیں اور ان تینوں سورتوں میں عیسائیت کا بالخصوص ذکر ہے۔ سورۃ فاتحہ کی آخری آیت ’’‘‘ میں یہود اور نصاریٰ کی دینی اتباع سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور سورۃ بنی اسرائیل اور کہف میں حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی فضیلت ثابت کرنے کے علاوہ عیسائی قوم کی تباہی کی بھی خبر دی گئی ہے۔ پس اگر محض قرآن شریف کے سنانے کا سوال تھا تو پھر اوّل تو حضرت جعفر ؓ کو سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے تھی کیونکہ وہ امّ القرآن ہے اور سارے قرآن کا خلاصہ۔ لیکن سورۃ مریم قرآن مجید کا خلاصہ نہیں۔ پھر اگر عیسائیت کے متعلق اسلامی نظریہ کا بیان مقصود تھا تو سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف سے بڑھ کر اور کوئی بہتر انتخاب نہ ہوسکتا تھا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ حضرت جعفرؓ نے نجاشی کے دربار میں پڑھنے کے لئے سورۃ مریم کو منتخب فرمایا اور اس میں سے بھی دو رکوع بھی پورے نہیں بلکہ قریباً رکوع کی تلاوت کی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپؑ کی والدہ حضرت مریم ؑ کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے اور جس حصہمیں عیسائیت کے بارے میں کوئی اختلافی عقیدہ بیان نہیں کیا گیا۔ پھر حضرت جعفر ؓ خاص طور پر آیت (مریم:۳۵) پر آکر رک جاتے ہیں جس سے اگلی آیت یہ ہے (مریم:۳۶)کہ اﷲ تعالیٰ کے شانِ شایان نہیں کہ وہ کسی کو اپنا بیٹا بنائے وہ اس سے پاک ہے۔ اس آیت میں ابنیت مسیح کی نفی کی گئی ہے اور عیسائیت کے ساتھ سب سے بڑا اختلافی مسئلہ بیان کر کے اگلی آیات میں عیسائیوں کی تباہی اور اسلامی حکومت کے قیام کی پیشگوئی کی گئی ہے۔ لیکن حضرت جعفرؓ مصلحتاً پچھلی آیت پر آکر رک جاتے ہیں اور صرف اسی حصہ پر اکتفا کرتے ہیں جس کے سننے سے ہر ایک عیسائی کا دل خوش ہوتا ہے۔

پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ وفد قریش کا اعتراض تو یہ تھا کہ یہ لوگ ایک نئے دین کے متبع ہیں جو عیسائیت سے مختلف ہے اور نجاشی نے بھی یہی اعلان کیا تھاکہ اگر ان کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا تو میں مسلمانوں کو قریش کے حوالے کردوں گا اور اسی دعویٰ کی تائید یا تردید حضرت جعفر ؓ سے مطلوب تھی لیکن انہوں نے جو آیات تلاوت فرمائیں ان سے کسی رنگ میں بھی وفد قریش کے دعویٰ کی نہ تائید ہوتی ہے نہ تردید پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت جعفر ؓ نے اس موقعہ پر بجائے یہ کہنے کے کہ ہاں یہ درست ہے کہ ہم ایک نئے دین کے علمبردار ہیں اور ایک نئی شریعت کے حامل ہیں جس نے توراۃ اور انجیل کو منسوخ کر دیا ہے ہم حضرت مسیح کے ابن اﷲ ہونے کے عقیدہ کو ایک جھوٹا اور مشرکانہ عقیدہ سمجھتے اور عیسائی مذہب کو ایک محرف ومبدل اور غلط مذہب سمجھتے ہیں اور یہ کہ ہمارا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑ بلکہ تمام انبیاء گذشتہ سے ہر لحاظ سے افضل ہے۔ آپ نے سورۃ مریم کی صرف وہ آیات تلاوت فرمائیں جن میں حضرت مسیح ؑ اور حضرت مریم ؑ کا تقدس اورپاکیزگی بیان کی گئی ہے لیکن ان سب سوالوں کا جواب یہی ہے کہ چونکہ وفد قریش کا مقصد تحقیق حق نہیں تھا بلکہ احراریوں کی طرح محض اشتعال انگیزی تھا اور وہ اختلافی امور میں بحث الجھا کر نجاشی، اس کے درباریوں اور عیسائی درباریوں اور عیسائی پادریوں کو (جو اس وقت دربار میں حاضر تھے) مسلمانوں کے خلاف بھڑکانا چاہتے تھے۔ اس لئے حضرت جعفر ؓ نے ان کی اس شر انگیز اور مفسدانہ سکیم کو ناکام بنانے کے لئے بجائے اختلافی امور میں الجھنے کے قرآن مجید کی اس تعلیم پر زور دیا جس میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ اسی طرح انہوں نے نجاشی کی حکومت کی (جو ایک غیر مسلم نصرانی حکومت تھی) جو تعریف کی وہ سراسر درست اور حق تھی اور بطور ’’ذبّ‘‘یعنی بغرضِرفعِ التباس تھی۔ اس لئے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا اور نہ اس کو ’’خوشامد‘‘ کہا جاسکتا ہے۔ نیز نجاشی کی حکومت کی تعریف اس وجہ سے بھی ’’خوشامد‘‘ نہیں کہلاسکتی کہ قریش مکہ کے جبرو استبداد اور ظلم وتعدی اور احیاء فی الدین کے مقابلہ میں حبشہ کی عیسائی حکومت کے اندر مذہبی آزادی اور عدل و انصاف کا دور تھا۔ پس اس تقابل کے نتیجہ میں حضرت جعفرؓ اور دیگر مہاجر صحابہ کے دل میں جنہوں نے قریش مکہ کے بھڑکائے ہوئے جلتے تنور سے نکل کر حبشہ کی عیسائی حکومت کے ماتحت امن وامان اور سکون و آرام پایاتھا نجاشی کے لئے جذباتِ تشکر و امتنان کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔ اور پھر نجاشی کے سامنے ان جذبات کا اظہار بموجبِ حکم ’’مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ۔ ‘‘ (ابو داؤد کتاب الادب باب فی شکر المعروف ترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی الشکر لمن احسن الیک) ضروری تھا۔

انگریزی حکومت کی تعریف سکھوں کے ظلم و ستم سے تقابل کے باعث تھی

بعینہٖ اسی طرح حضرت مرزا صاحب کے زمانے میں بھی جب بعض مخالف علماء اور پادریوں نے حکومت وقت کو آپ اور آپ کی جماعت کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی اور ’’آپ‘‘ پر باغی ہونے کا جھوٹا الزام لگایا تو ضروری تھا کہ حضرت مرزا صاحب اس الزام کی تردید پر زور الفاظ میں کرتے اور حکومت کو اپنے ان جذبات امتنان سے اطلاع دیتے جو سکھوں کے وحشیانہ مظالم سے نجات حاصل ہونے کے بعد انگریزی حکومت کے پر امن دور میں آجانے کے باعث آپ کے دل میں موجود تھے۔
 
Last edited:

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حضرت مرزا صاحب کی تحریرات

چنانچہ حضرت مرزا صاحب نے اپنی ان تحریرات میں جن میں آپ نے انگریزی حکومت کی امن پسندانہ پالیسی کی تعریف فرمائی ہے بار بار اس پہلو کا ذکر فرمایا ہے۔

فرماتے ہیں:۔

الف۔’’مسلمانوں کو ابھی تک وہ زمانہ نہیں بھولا جبکہ وہ سکھوں کی قوم کے ہاتھوں ایک دہکتے ہوئے تنور میں مبتلا تھے اور ان کے دست تعدی سے نہ صرف مسلمانوں کی دنیا ہی تباہ تھی بلکہ ان کے دین کی حالت اس سے بھی بدتر تھی۔ دینی فرائض کا ادا کرنا تو در کنار بعض اذانِ نماز کہنے پر جان سے مارے جاتے تھے۔ ایسی حالت زار میں اﷲ تعالیٰ نے دور سے اس مبارک گورنمنٹ کو ہماری نجات کے لئے ابرِ رحمت کی طرح بھیج دیا۔ جس نے آن کر نہ صرف ان ظالموں کے پنجہ سے بچایا بلکہ ہر طرح کا امن قائم کرکے ہر قسم کے سامان آسائش مہیا کئے اور مذہبی آزادی یہاں تک دی کہ ہم بلا دریغ اپنے دینِ متین کی اشاعت نہایت خوش اسلوبی سے کر سکتے ہیں۔‘‘

(اشتہار ۱۰ جولائی ۱۹۰۰ء تبلیغ رسالت جلد ۹ صفحہ ۱،۲)

ب۔’’رہی یہ بات کہ اس (شیخ محمد حسین بٹالوی) نے مجھے گورنمنٹ انگریزی کا باغی قرار دیا۔ سو خدا تعالیٰ کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ عنقریب گورنمنٹ پر بھی یہ بات کھل جائے گی کہ ہم دونوں میں سے کس کی باغیانہ کارروائیاں ہیں……اگر یہ گورنمنٹ ہمارے دین کی مخافظ نہیں تو پھر کیونکر شریروں کے حملوں سے ہم محفوظ ہیں۔ کیا یہ امر کسی پر پوشیدہ ہے کہ سکھوں کے وقت میں ہمارے دینی امور کی کیا حالت تھی اور کیسے ایک بانگ نماز کے سننے سے ہی مسلمانوں کے خون بہائے جاتے تھے۔ کسی مسلمان مولوی کی مجال نہ تھی کہ ایک ہندو کو مسلمان کرسکے۔‘‘

(اشتہار ۲۷ دسمبر ۱۸۹۸ء تبلیغ رسالت جلد۷ صفحہ ۶۸)

پھر فرماتے ہیں:۔

ج۔’’ان احسانات کا شکر کرنا ہم پر واجب ہے جو سکھوں کے زوال کے بعد ہی خدا تعالیٰ کے فضل نے اس مہربان گورنمنٹ کے ہاتھ سے ہمارے نصیب کئے……اگرچہ گورنمنٹ کی عنایات سے ہر یک کو اشاعت مذہب کے لیے آزادی ملی ہے۔ لیکن اگر سوچ کر دیکھا جائے تو اس آزادی کا پورا پورا فائدہ محض مسلمان اٹھا سکتے ہیں۔ اور اگر عمداً فائدہ نہ اٹھائیں تو ان کی بدقسمتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ گورنمنٹ نے……کسی کو اپنے اصولوں کی اشاعت سے نہیں روکا، لیکن جن مذہبوں میں سچائی قوت اور طاقت نہیں…… کیونکر ان مذہبوں کے واعظ اپنی ایسی باتوں کو وعظ کے وقت دلوں میں جما سکتے ہیں؟……اس لیے مسلمانوں کو نہایت ہی گورنمنٹ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ گورنمنٹ کے اس قانون کا وہی اکیلے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘‘

(اشتہار ۲۲ ستمبر ۱۸۹۵ء تبلیغ رسالت جلد۴ صفحہ ۲۰تا۲۳) (نیز ملاحظہ ہو تبلیغ رسالت جلد۳ صفحہ ۴۹۱)

تنور سے نکل کر دھوپ میں

پس مطابق مقولہ ع

وَ بِضِدِّھَا تَتَبَیَّنُ الْاَشْیَآءٗ

انگریزی نظام حکومت قابلِ تعریف تھا لیکن اس لئے نہیں کہ وہ اپنی ذات میں آئیڈئیل نظام تھا بلکہ اس لئے کہ اپنے پیشرو سکھ نظام کے مسلمانوں پر ننگِ انسانیت مظالم اور جبر و استبداد کے مقابلہ میں اس نظام کی مذہبی رواداری اور شہری حقوق میں عدل و انصاف کا قیام عمدہ اور لائق شکریہ تھا۔ مسلمانان ہند کی مثال اس شخص کی سی تھی جو بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پڑا جل رہا ہے اور اس کو کوئی ہاتھ اس آگ میں سے نکال کر دھوپ میں ڈال دے۔ اب اگرچہ وہ شخص دھوپ میں ہے لیکن آگ کے شعلوں کی تپش کے تصور سے وہ اس ہاتھ کو رحمت خداوندی جان کر اس کا شکریہ ادا کرے گا اور اگر ایسا نہ کرے تو کافر نعمت ہوگا۔ پھر یہ جذبات تشکر اسی طرح کے تھے جس طرح مہاجرین حبشہ نے قریش مکہ کے جبر و استبداد کے مقابلہ میں حبشہ کے عیسائی نظام کو ایک فضل خداوندی اور نعمت غیر مترقبہ سمجھا۔ یہاں تک کہ دشمنوں کے مقابلہ میں نجاشی کی کامیابی اور کامرانی کے لئے صحابہ رو رو کر دعائیں بھی کرتے رہے۔ چنانچہ حضرت امّ المؤمنین امّ سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:۔

’’ہم نے وہاں (حبشہ میں) نہایت اطمینان سے زندگانی بسر کی۔ پھر تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ نجاشی کی سلطنت میں کوئی دعویدار پیدا ہوا اور اس نے نجاشی پر لشکر کشی کی۔ فرماتی ہیں اس خبر کو سن کر ہم لوگ بہت رنجیدہ ہوئے اور یہ خیال کیا کہ اگر خدانخواستہ وہ مدعی غالب ہوا تو نامعلوم ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے۔فرماتی ہیں۔نجاشی بھی اپنا لشکر لے کر اس کے مقابلہ کو گیا اور دریائے نیل کے اس پار جنگ واقع ہوئی۔ فرماتی ہیں صحابہ نے آپس میں کہا کوئی ایسا شخص ہو جو دریا کے پار جاکر جنگ کی خبر لائے……زبیر بن عوامؓ نے کہا میں جاتا ہوں۔ صحابہ نے ایک مشک میں ہوا بھر کر ان کے حوالے کی اور وہ اس کو سینے کے تلے دبا کر تیرتے ہوئے دریا کے پار گئے اور وہاں سے سب حال تحقیق کر کے واپس آئے۔ فرماتی ہیں ہم یہاں نجاشی کی فتح کے واسطے نہایت تضرع و زاری کے ساتھ خدا سے دعا مانگ رہے تھے کہ اتنے میں زبیر بن عوامؓ واپس آئے اور کہا کہ اے صحابہ! تم کو خوشخبری ہو کہ نجاشی کی فتح ہوئی اور اﷲ تعالیٰ نے اس کے دشمن کو ہلاک کیا۔ فرماتی ہیں پھر تو نجاشی کی سلطنت خوب مستحکم ہو گئی اور جب تک ہم وہاں رہے نہایت چین اور آرام سے رہے۔ یہاں تک کہ پھر حضورؐ کی خدمت میں مکہ میں حاضر ہو ئے۔ ‘‘ (سیرت ابن ہشام مترجم اردو صفحہ ۱۱۳ جلد ۲)

پس اگر کوئی انصاف پسند اور غیر متعصب انسان سکھ نظام کے صبر آزما دور ۱۸۵۷ء کے سانحہ اور اس کے بعد کے تاریخی حالات کو مد نظر رکھ کر ان عبارات کو پڑھے اور اس امر کو بھی پیش نظر رکھے کہ وہ تحریرات مخالفین کی طرف سے انگریزی گورنمنٹ کا باغی ہو نے کے جھوٹے الزام کی تردید میں ضرورتاً لکھی گئی تھیں۔ تو وہ کبھی ان کو محل اعتراض قرار نہیں دے سکتا۔

تصویر کا دوسرا رخ

پھر یہ امر بھی لائق توجہ ہے کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے انگریز کی جتنی تعریف کی ہے وہ صرف مادی اور دنیوی امور میں اس کی قابل تعریف خوبیوں کی ہے ، لیکن جہاں تک دینی اور روحانی پہلو کا تعلق ہے آپ نے انتہائی صفائی کے ساتھ لگی لپٹی رکھے بغیر بے خوف ہو کر اس کی انتہائی مذمت کی ہے اور آپ نے کبھی اس امر کی پرواہ نہیں کی کہ انگریز آپ کی ان تحریرات سے ناراض ہوتا ہے یا نہیں ؟

آپ نے انگریز کو دجّال قرار دیا

چنانچہ آپ وہ پہلے انسان ہیں جس نے انگریزی قوم کو ’’دجّال موعود‘‘ قرار دیا اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی اس امر میں ا ختلاف نہیں کر سکتا کہ عربی زبان میں دجّال سے زیا دہ ذلیل نام اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ آپ نے دعویٰ مسیحیت کے بعد جو سب پہلی کتاب ’’ازالہ اوہام‘‘ لکھی اسی میں آپ نے بدلائل بیّنہ یہ ثابت کیا کہ احادیثِ نبویؐ میں جس دجّال کے آخری زمانہ میں ظہور کی خبر دی گئی تھی وہ یہی انگریز قوم ہے۔ آپ نے ریل گاڑی کو ’’خر دجّال‘‘ قرا ر دیا۔ کیونکہ احادیثِ نبویؐ اور روایات میں جو علامات ’’دجّال‘‘ اور اس کے گدھے کی بتائی گئی تھیں وہ انگریز اور ان کی ایجاد کردہ ریل گاڑی میں پائی جاتی تھیں۔

دجّال کے کانا ہونے کی تشریح

احادیثِ نبوی میں یہ بتایا گیا تھا کہ ’’دجّال‘‘ دائیں آنکھ سے کانا ہو گا، لیکن اس کی بائیں آنکھ کی نظر غیر معمولی طور پر تیز ہو گی۔ اور اس کی تشریح علماء گزشتہ نے یہ کی تھی کہ دائیں آنکھ سے دین اور بائیں آنکھ سے دنیا مراد ہے۔ دائیں آنکھ سے دجّال کانا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین اور روحانیت سے یکسر بے بہرہ ہوگا، لیکن اس کی بائیں آنکھ کے اچھا اور عمدہ ہونے بلکہ بموجب حدیث مسنداحمد (باب خروج دجّال) بروایت ابن عباس کَاَنَّہٗ کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ‘‘(چمکتے ستارے کی طرح ) ہونے سے مراد یہ تھی کہ وہ دنیوی اور مادی امور میں ترقی کرے گا اور دنیوی نقطہ نگاہ سے اس کے کام قابل تعریف ہوں گے۔ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے ہمیشہ اپنی تحریرات میں انگریزوں کے ان دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھا۔ یعنی ان کے دنیوی نظام کے قابل تعریف حصہ کو سراہا، لیکن دینی اور روحانی امور میں ان کی ضلالت وگمراہی کی سخت سے سخت الفاظ میں مذمت کی۔

خرِ دجّال کی علامات

پھر خر دجّال کی علاما ت میں سے ایک علامت یہ بھی تھی کہ وہ ایک ایسی سواری ہوگی جو آگ اور پانی کے یکجا بند کرنے سے (بھاپ سے چلے گی) تَخْرُجُ نَارٌ مِّنْ حَبْسِ سَیْلٍ تَسِیْرُ مَطِیْئَۃَ الْاِبِلِ تَسِیْرُ بِالنَّھَارِ وَ تُقِیْمُ بِاللَّیْلِ تَغْدُوْا وَ تَرُوْحُ مَنْ اَدْرَکَتْہُ اَکَلَتْہُ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْ یَعْلٰی وَالْبَقْوِیُّ وَالْبَاوَرْدِیُّ وَابْنُ قَانِعٍ وَابْنُ حَبَّانَ وَالطَّبْرَانِیُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ نُعَیْمٍ وَالْبَیْھَقِیُّ۔

(کنز العمال با ب منتخب علامات کبریٰ قیامت و مسک العارف صفحہ۵۰مطبع ضیاء الاسلام پریس قادیان مؤلّف سید محمد احسن)

ترجمہ:۔’’ وہ سواری پانی اور آگ کے بند کر نے سے اونٹوں کی طرح چلے گی۔ کبھی دن کو چلے گی اور رات کو ٹھہرے گی۔ اور کبھی دن کو بھی رات کوبھی چلے گی۔ جو اس کے پاس جائے گا اسے اپنے اندر نگل جائے گی۔‘‘

پھر لکھا تھا :۔

’’رَکَبٌ ذَوَاتِ الْفُرُوْجِ وَالسُّرُوْجِ ۔ ‘‘

(بحاراالانواراز علامہ باقر مجلسی جزء ۵۲ صفحہ ۱۹۲ تاریخ الامام الثانی عشر مطبع دار احیاء التراث بیروت)

کہ وہ ایسی ہوگی جس میں بہت سے چراغ روشن ہوں گے۔ اور اس کے اند ر بہت سے دروازے اور کھڑکیاں ہوں گی۔

حدیث میں اسے گدھا قرار دیا گیا ہے۔ لَہٗ حَمَارٌ مَا بَیْنَ عَرْضِ اُذُنَیْہِ اَرْبَعِیْنَ بَاعًا رَوَاہُ الْحَاکِمُ وَابْنُ عَسَاکِرٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ (کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۲۰۰ حدیث نمبر۲۱۱۰ واقتراب الساعۃ از نواب نورالحسن خان صاحب صفحہ ۱۲۴)

کہ دجّال کے ساتھ گدھا ہو گا جس کے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ چالیس باع ہوگا۔ پس ایسا گدھا جس کے دو کانوں کے درمیان ستر اسی گز کا فاصلہ ہو گا آگ اور پانی کے بند کرنے سے چلے اور جس کے اندر بہت سے چراغ روشن ہوں۔ کھڑکیاں اور دروازے ہوں اور لوگوں اور سامان کو اپنے پیٹ کے اندر ڈال دے گدھی کا بچہ تو ہو نہیں سکتا وہ یقینا ریل گاڑی ہی ہے۔
 
Last edited:
Top