غیر احمدی اعتراضات
تحریرات پر اعتراضات کے جوابات
۱۔شاعر ہوناتحریرات پر اعتراضات کے جوابات
اعتراض۔ قرآن مجید میں ہے نیز(الشعراء:۲۲۵)نبی شاعر نہیں ہوتا۔ مرزا صاحب شاعر تھے۔
الجواب:۔(۱)بیشک قرآن مجید میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم شاعر نہ تھے اور قرآن مجید نے شاعر کی تعریف بھی کردی ہے۔ فرمایا: ۔ (الشعراء: ۲۲۶،۲۲۷) کہ کیا تو نہیں دیکھتا کہ شاعر ہر وادی میں سرگردان پھرتے ہیں۔ یعنی ہوائی گھوڑے دوڑاتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں وہ کرتے نہیں۔ گویا شاعر وہ ہے۔
۱۔جو ہوائی گھوڑے دوڑائے ۔خیالی پلاؤ پکائے۔
۲۔اس کے قول او ر فعل میں مطابقت نہ ہو۔
فرمایا:۔’’‘‘(یٰس:۷۰) ہم نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہوائی گھوڑے دوڑانا اور محض باتیں بنانا نہیں سکھایا ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں بھی یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں تھیں۔
اور( ۲)لغت میں ہے:۔ وَقَوْلُہٗ تَعَالیٰ حِکَایَۃً عَنِ الْکُفَّارِ (بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ھُوَ شَاعِرٌ) وَقَوْلُہٗ شَاعِرٌ مَجْنُوْنٌ۔…… لَمْ یَقْصِدُوْا ھٰذَاالْمَقْصِدَ فِیْمَا رَمَوْہُ بِہٖ وَ ذٰلِکَ اَنَّہٗ ظَاہِرٌ مِنَ الْکَلَامِ اَنَّہٗ لَیْسَ عَلٰی اَسَالِیْبِ الشِّعْرِ وَلاَ یَخْفٰی ذَالِکَ عَلَی الْاِغْتَامِ مِنَ الْعَجَمِ فَضْلًا عَنْ بُلَغَاءِ الْعَرَبِ وَ اِنَّمَا رَمَوْہُ بِالْکَذِبِ فَاِنَّ الشِّعْرَ یُعَبَّرُ بِہٖ عَنِ الْکَذِبِ وَالشَّاعِرُ الْکَاذِبُ…… قِیْلَ اَحْسَنُ الشِّعْرِ اَکْذَبُہٗ۔ (مفردات راغب زیر لفظ شعر)
کہ قرآن مجید میں جو یہ آتا ہے کہ کافر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو شاعر اور مجنون کہتے ہیں۔ اس سے مراد کافروں کی کلام موزوں کہنا نہ تھی۔ بلکہ جس بات کا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراض کیا جاتا تھا وہ اور تھی۔ کیونکہ قرآن کا نثر ہونا توایسی بات ہے کہ کلام سے خود ہی ظاہر ہے (کہ یہ شعروں کی طرز پر نہیں) اور یہ امر ایک عام آدمی پر بھی مخفی نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ بلغاء عرب نثر اور نظم میں تمیز نہ کرسکتے ہوں۔ پس اصل بات یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا تھا۔ کیونکہ شعر سے مراد ’’جھوٹ‘‘ لی جاتی ہے اور شاعر کے معنے ہیں ’’کاذب‘‘ (جھوٹا) عربی ضرب المثل ہے کہ سب سے اچھا شعر وہ ہے جس میں سب سے زیادہ جھوٹ ہو۔
۳۔منطق کے امام علامہ شریفؒ کہتے ہیں ۔وَالشِّعْرُ……اِنَّ مَدَارَہٗ عَلَی الْاَکَاذِیْبِ وَمِنْ ثَمَّۃٍ قِیْلَ اَحْسَنُ الشِّعْرِ اَکْذَبُہٗ (الحاشیۃ الکبری علی شرح المطابع صفحہ۷۷۴مصری) کہ شعر کا مدار جھوٹ پر ہوتا ہے او ر ضرب المثل میں ہے کہ سب سے اچھا وہ شعر ہے جس میں بہت جھوٹ ہو۔
۴۔قرآن مجید میں ہے ’’‘‘(یٰسٓ:۷۰)کہ ہم نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو شعر نہیں سکھایا۔ اب اگر ’’شعر‘‘ سے مراد کلامِ موزوں لیا جائے تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ قرآن جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو سکھایا گیا ہے اس میں کلام موزوں بھی ہے جیسا کہ یہ آیت:۔
(بنی اسرائیل:۸۲)
(۵)۔حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقعہ پر فرمایا:۔
اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
(بخاری کتاب المغازی باب قول اللّٰہ تعالٰی وَ یَوْمَ حُنَیْنٍ……)
’’کہ میں نبی ہوں جھوٹا نہیں ۔اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘
اب وزن کے لحاظ سے یہ بحر رَجَز محذوف ہے اور قافیہ بھی ملتا ہے۔
۶۔پھر حدیث شریف میں ہے کہ ایک جنگ کے موقعہ پر جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی انگلی پر زخم آگیا تو آپؐ نے اس انگلی کو مخاطب کرکے یہ شعر پڑھا۔
ھَلْ اَنْتِ اِلاَّ اِصْبَعٌ دَمِیْتِ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَالَقِیْتِ
(بخاری کتاب الجہاد والسیر باب من ینکب او یَطْعِنُ فی سبیل اللّٰہ)
’’کہ سوائے اس کے نہیں کہ تو ایک انگلی ہے جس میں سے کہ خون بہہ رہا ہے اور یہ جو کچھ تجھے ہوا خدا کی راہ میں ہوا ہے۔‘‘
اب یہ بھی کلام موزوں ہے۔بس اگر شعر سے مراد کلام موزوں لیا جائے تو یہ بالبداہت باطل ہے کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر اس کی زد پڑتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ شعر سے مراد جھوٹ ہی ہے۔ پس نفس شعر بلحاظ کلام موزوں کے بری چیز نہیں ۔ورنہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم شعر نہ کہتے اور نہ پڑھتے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں تعلق اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
(درثمین اردو نیا ایڈیشن صفحہ ۸۳)
نیز حضرت اقدس علیہ السلام کا الہام ہیـ:۔
’’در کلامِ تو چیزے است کہ شعراء را دراں دخلے نیست‘‘
(تذکرہ صفحہ۵۰۸مطبوعہ ۲۰۰۴ء)
۲۔غلط حوالے اور جھوٹ کے الزامات
مرزا صاحب نے اپنی کتابوں میں بعض حوالے غلط دیئے ہیں مثلاً ’’ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللّٰہِ الْمَھْدِیُّ ‘‘ بخاری میں نہیں ہے۔
الجواب:۔نبی کو ہم سہو اور نسیان سے پاک نہیں مانتے۔
۱۔قرآن میں ہے:۔(طٰہٰ:۱۱۶) کہ آدم بھول گیا۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق ’’‘‘(الکہف:۶۲) کہ وہ مچھلی بھول گئے اور آگے لکھا ہے کہ شیطان نے انہیں بھلادیا۔ خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (الکہف:۱۱۱) نیز اُصِیْبُ وَ اُخْطِیءُ (نبراس شرح الشرح لعقائد نسفی صفحہ ۳۹۳) کہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں۔ بعض دفعہ خطا کرتا ہوں۔
۲۔بخاری میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء یا عصر کی نماز پڑھائی اور دو(۲) رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا’’ وَ رَجُلٌ یَدْعُوْہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَاالْیَدَیْنِ فَقَالَ اَنَسِیْتَ اَمْ قُصِرَتْ؟ فَقَالَ ’’لَمْ اَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ قَالَ بَلٰی قَدْ نَسِیْتَ فَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ۔ ‘‘دوسری روایت میں ہے فَقَالَ اَ کَمَا یَقُوْلُ ذُوالْیَدَیْنِ؟ فَقَالُوْا نَعَمْ فَتَقَدَّمَ فَصَلَّی مَا تَرَکَ ( بخاری کتاب السہو باب یکبر فی السجدتی السھو و باب تشبیک الاصابع فی المسجدوغیرہ) کہ ایک شخص وہاں موجود تھا جس کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ذوالیدین کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ اس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ بھول گئے ہیں یا نماز قصر کرکے حضورؐ نے پڑھی ہے؟ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ نہ تو میں بھولا ہوں اور نہ نماز قصر کی گئی ہے ۔اس پر اس صحابی ؓ نے جواب دیا کہ حضور ؐ بھول گئے ہیں۔‘‘ دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے باقی صحابہ سے پوچھا کہ کیا ذوالیدین ٹھیک کہتا ہے؟ تو سب نے جواب دیا کہ ہاں! وہ ٹھیک کہتا ہے۔پس آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم قبلہ رُوکھڑے ہوئے اور دو رکعتیں جو آپ نے چھوڑ دی تھیں پڑھیں اور بعد میں سجدہ سہو بھی کیا۔
(نیز دیکھو صحیح مسلم کتاب الصلٰوۃ باب السہو فی الصلٰوۃ و السجود لہٗ )
اب کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قول ’’لَمْ اَنْسَ وَ لَمْ تُقْصَرْ‘‘ کو کوئی جھوٹ قرار دے سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔
۴۔ صحیح ترمذی کتاب المناقب میں ہے۔ عَنْ اُبَیِّ ابْنِ کَعْبٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَہٗ اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَقْرَءَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ فَقَرَءَ عَلَیْہِ (سورۃ البینہ:۲)وَقَرَءَ فِیْھَا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ الْمُسْلِمَۃُ وَ لَا الْیَہُوْدِیَّۃُ وَلَاا لنَّصْرَانِیَّۃُ وَلَا الْمَجُوْسِیَّۃُ مَنْ یَّعْمَلْ خَیْرًا فَلَنْ یُّکْفَرَہٗ وَقَرَأَ عَلَیْہِ لَوْ اَنَّ لِاِبْنِ اٰدَمَ وَادِیًا مِّنْ مَّالٍ لَّابْتَغٰی اِلَیْہِ ثَانِیًا وَلَوْ کَانَ لَہٗ ثَانِیًا لَّابْتَغٰی اِلَیْہِ ثَالِثًا وَلَا یَمْلَا ءُ جَوْفَ ابْنَ اٰدَمَ اِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ اِلَی اللّٰہِ ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔
(ترمذی ابواب مناقب فی فضل ابی ابن کعب )
کہ حضرت ابی کعب ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تجھ کو قرآن پڑھ کر سناؤں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’‘‘والی سورۃ پڑھی اور اس میں یہ بھی پڑھا کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں دین صرف خالص اسلام ہے۔ نہ یہودیت نہ نصرانیت اور نہ مجوسیّت۔ پس جو اچھا کام کرے اس کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اور اگر بنی آدم (انسان ) کے لئے ایک وادی مال و دولت سے بھری ہوتی تو ضرور وہ ایک دوسری وادی چاہتا ۔ اور اگر اس کو دوسری وادی بھی مل جاتی تو وہ تیسری کی تلاش کرتا اور انسان کے پیٹ کو سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی ۔ اورخدا تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ اور یہ حدیث صحیح ہے ۔
اب اس حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْحَنِیْفِیَّۃُ الْمُسْلِمَۃُ الخ کو قرآن مجید والی سورۃ کی آیات قرار دیا ہے ذرا کوئی مولوی صاحب والی سورۃ میں تو کجا سارے قرآن میں سے کسی جگہ سے نکال کر دکھائیں۔[/div2][/div2]
Last edited: