انگریز کو ماجوج کو قرار دیا
پھر حضرت مرزا صاحب نے نہ صرف یہ کہ انگریز ی قوم کو ’’دجّال‘‘ قرار دیا۔ بلکہ ان کو ’’ماجوج‘‘ بھی ثابت کیا اور فرمایا کہ آخری زمانہ میں جو یاجوج اور ماجوج نامی دو خطرناک قوموں کے خروج کی پیش گوئی قرآن شریف اور حدیث میں کی گئی ہے وہ روسؔ اور انگریزؔ یعنی یاجوج سے مراد روسی قوم اور ماجوج سے مراد انگریز قوم ہے۔ (دیکھو ازالہ اوہام مطبوعہ۱۸۹۱ء ۱۳۰۸ھ صفحہ ۵۰۲ طبع اوّل)
پس حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے انگریزوں کو ’’دجّال‘‘ اور ’’ماجوج‘‘ قرار دے کر ان کی روحانی اور دینی لحاظ سے مکروہ شکل کو اس کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔
دو نہریں:۔
انگریز کے پاس دینی اور دنیوی نقطۂ نگاہ سے دو نہریں تھیں۔ وہ ہندو ستان میں سیاسی تفوق کے باعث دنیوی حکومت کرنا چاہتا تھا اور دینی نقطۂ نگاہ سے وہ اہل ہند کو نوکِ شمشیر سے نہیں بلکہ تبلیغ ترغیب و تحریص وغیرہ ذرائع سے عیسائی بنانا چاہتا تھا۔ ہندوستانی عوام اور مسلمان انگریز وں کی تبلیغی مساعی کی طرف تو کوئی توجہ ہی نہ کرتے تھے اور نہ اس کے خطرہ کو محسوس کرتے تھے ECCLESLASTICAL DEPARTMENTکو جو انگریزی حکومت کا ایک شعبہ تھا اور جس کی سر پرستی میں تمام مشنری نظام چل رہا تھا مسلمانوں نے کبھی بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا اور نہ اس کے خلاف کبھی آواز اٹھائی۔ انہوں نے اگر کبھی کوئی آواز اٹھائی تو وہ انگریزوں کے سیاسی تفوق اور اقتدار کے خلاف تھی۔ گویا انگریز کی پیش کردہ دو نہروں (دینی اور دنیوی سرگرمیوں) میں سے اکثر مسلمانوں نے دینی نہر کو کبھی محلِ اعتراض نہ ٹھہرایا ،لیکن دنیوی نہر کو اپنے لئے ناقابل برداشت قرا ر دیتے ہوئے انگریز کے سیاسی و دنیوی اقتدار کو قبول کرنا اپنے لئے موت سمجھا۔ حالانکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمثیلی زبان میں یہ ہدایت فرمائی تھی:۔
’’مَعَہٗ نَھْرَانِ تَجْرِیَانِ اَحَدُھُمَا رَأْیَ الْعَیْنِ مَآءٌ اَبْیَضٌ وَالْاٰخَرُ رَأْیَ الْعَیْنِ نَارٌ تَأَجُّجٌ فَاَمَّا اَدْرَکَنَّ وَاحِدًا مِنْکُمْ فَلْیَاْتِ النَّھْرَ الَّذِیْ یَرَاہٗ نَارًا ثُمَّ لِیُغْمِضْ ثُمَّ لِیَطَأَطّٰی رَأْسَہٗ فَلْیَشْرِبْ مِنْہُ فَاَنَّہٗ مَآءٌ بَارِدٌ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالْبَیْھَقِیُّ وَ اَبُوْدَاؤٗدَ عَنْ حُذَیْفَۃَ وَاَبِیْ مَسْعُوْدٍ مَعًا۔ ‘‘
(کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۱۹۵ حدیث نمبر ۲۰۶۲۔ ابوداؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجّال واقتراب الساعۃ از نواب نورالحسن خان صاحب صفحہ۱۳۵)
کہ دجّال اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ دو جاری رہنے والی نہریں ہوں گی۔ ایک تو بظاہر سفید پانی کی نظر آنے والی ہوگی اور دوسری بظاہر شعلہ بار آگ نظر آئے گی پس جو تم میں سے دجال کا زمانہ پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس نہر پر جائے جو بظاہر آگ نظر آنے والی ہوگی۔ پھرکُلّی کرے پھر سر نیچا کر کے پانی سر پر ڈالے اور پی لے کیونکہ وہ ٹھنڈا پانی ہوگا۔
حدیث کی تشریح
اس حدیث میں بھی دراصل اس دوسری تمثیل ہی کو نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس میں یہ بتایاگیا تھا کہ دجّال کی دو آنکھوں میں سے ایک کی بصارت تیز تر ہوگی، لیکن دوسری آنکھ نابینا ہوگی۔ پس مندرجہ بالا حدیث میں بھی دو نہروں سے مراد دجّال کی دینی اور دنیوی تحریکیں ہی ہیں اور حضور کا منشا یہ ہے کہ جہاں تک اس کی دینی اور مذہبی کارروائیوں کا تعلق ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان سے اغماض نہ برتیں بلکہ پورے زور سے ان کا مقابلہ کریں اور دین اسلام کا روحانی تفوق بدلائل قویہ دجّال کے مذہب پر ثابت کریں۔ لیکن جہاں تک اس کی دنیاوی کوششوں کا تعلق ہے گو اس وجہ سے کہ اس نے نام کی مسلمان مغل حکومت سے ہندوستان کی زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی ہوگی، مسلمان اس کے سیاسی اقتدار کے آگے جھکنے کو اپنے لئے آگ میں کودنا تصور کریں گے۔ پھر بھی اس نظام کے ساتھ تعاون کرنے ہی میں مسلمانوں کا فائدہ مضمر ہوگا۔ اسی لئے حضورؐ نے فرمایا کہ ’’دجّال کے اس پانی کو سر نیچا کرکے اپنے سر پر ڈال لینا، یعنی اس کی حکومت کو قبول کر لینا اور ’’فَلْیَشْرِبْ مِنْہُ‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ اس کے ساتھ تعاون کرنا۔
جیسا کہ ابتدائی سطور میں بتایا جا چکا ہے کہ ۱۸۵۷ ء کے سانحہ کے بعد کے حالات کا طبعی اقتضاء یہی تھا کہ مشرکین یعنی ہندو اور سکھوں کے مقابلہ میں مسلمانان ہند نصرانی حکومت کو ترجیح دیتے اور ہندوکی جاری کردہ تحریک عدمِ تعاون میں شامل نہ ہوتے ۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کسی خوشامد کے خیال سے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تعمیل میں جہاں تک انگریز کی دنیاوی سیاست کا تعلق تھا اس کی حکومت کو جو آپ کے مامور ہونے سے بیسیوں سال پہلے قائم اور استوار ہوچکی تھی اور جس نے سکھوں کے مظالم کا قلع قمع کر کے مسلمانوں کے لئے مذہبی اور معاشرتی آزادی کا اعلان کردیا تھا اور جس نے دنیاوی علم وفنون کا راستہ مسلمانوں کے لئے کھولا تھا اپنے تعاون کا یقین دلاتے۔ لیکن جہاں تک انگریز کی پیش کردہ دوسری نہر ( عیسائیت کی تبلیغ) کا تعلق ہے آپ نے دوسرے مسلمانوں کی طرح اس سے اغماض نہیں کرتا بلکہ تن تنہا اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہ کی کہ انگریز آپ کی عیسائیت کے خلاف کوششوں سے ناراض ہوتا ہے یا نہیں۔
آپ نے انگریز کے خداکو مردہ ثابت کیا
آپ نے عیسائیت کے مقابلہ میں جو سب سے زبردست اور فیصلہ کن حربہ استعمال فرمایا وہ انگریزوں کے ’’خدا‘‘ مسیح ناصری کی وفات کا مسئلہ تھا۔ آپ نے بدلائل قویہ ثابت کیا کہ مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں اور سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہیں۔
آپ نے کوئی کتاب بھی ایسی تصنیف نہیں فرمائی جس میں اس مسئلہ پر زور نہ دیا ہو۔ احراری معترضین ’’پچاس الماریوں‘‘ کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن اُن کتابوں میں نصرانیت کے جھوٹا اورناقابل قبول مذہب ہونے کے بارے میں جو دلائل قویہ مذکور ہیں ان کا کیوں ذکر نہیں کرتے ؟ کیا یہ انگریز کی خوشامد کا نتیجہ تھا کہ:۔
۱۔ آپ نے انگریزکو دجّال قراردیا۔
۲۔آپ نے انگریزکو ماجوج ثابت کیا۔
۳۔ آپ نے انگریزکے خدا کی وفات بدلائل قویہ ثابت کر کیصلیب کو توڑ دیا۔
۴۔آپ نے امریکہ اور نگلستان میں تبلیغی لٹریچر شائع کیا اور کئی انگریزوں اور امریکنوں کو حلقہ عیسائیت سے نکال کر حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زنجیر غلامی میں جکڑ دیا۔
ملکہ وکٹوریہ کو دعوتِ اسلام دی
اس ضمن میں یہ امر خاص طور پر قابل توجہ ہے آپ کے زمانہ میں ہندوستان میں اور تمام دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان موجود تھے۔ کئی اسلامی سلطنتیں موجود تھیں۔لاکھوں کی تعداد میں علماء بھی موجود تھے۔ مصر میں، دیوبند میں فرنگی محل میں، بریلی میں، سہارن پور میں، دہلی میں، لکھنؤوغیرہ میں ہزاروں اسلامی ادارے تھے۔ بڑے بڑے مسلمان نواب اور بادشاہ موجود تھے۔ لیکن کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ ان کروڑوں مسلمانوں میں سے سوائے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ ملکۂ وکٹوریہ کو دعوتِ اسلام دے سکے یا بیرونی عیسائی ممالک میں تبلیغِاسلام کا فریضہ ادا کرے؟
حضرت بانی ٔسلسلہ ملکہ وکٹوریہ کو مخاطب کر کے تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اس (خدا) نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے……لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے۔‘‘
(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۷۲، ۲۷۳)
’’میرا شوق مجھے بیتاب کر رہا ہے کہ میں ان آسمانی نشانوں کی حضرت عالی قیصرہ ہند میں اطلاع دوں۔ میں حضرت یسوع مسیح کی طرف سے ایک سچے سفیر کی حیثیت میں کھڑا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ آجکل عیسائیت کے بارے میں سکھایا جاتا ہے یہ حضرت یسوع مسیح کی حقیقی تعلیم نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح دنیا میں پھر آتے تو وہ اس تعلیم کو شناخت بھی نہ کر سکتے۔‘‘
(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۷۳،۲۷۴)
’’اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن نے ان باریک پہلوؤں کا لحاظ کیا ہے جو انجیل نے نہیں کیا……اسی طرح قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے۔ اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کیلئے آگے قدم رکھتا ہے۔ بالخصوص سچّے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی۔دوبارہ قائم ہوگئی۔‘‘
(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۸۲)
پھر اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں:۔
’’اے قادر و توانا!…… قیصرۂ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰ ہِ‘‘ پر اس کا خاتمہ کر۔‘‘
(اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحہ۱۳۲)
غرضیکہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے جہاں انگریزی حکومت کے اس پہلو کی تعریف کی کہ وہ دین میں مداخلت نہیں کرتی اور رعایا کے مختلف الخیال اور مختلف العقیدہ عناصر کے مابین عدل و انصاف کی پالیسی پر عمل کرتی ہے وہاں آپ نے اس کے دینی اور روحانی پہلو کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کیا اور اس شان سے کیا کہ اس میدان میں آپ کے سوا ساری دنیا کے مسلمانوں میں سے ایک شخص بھی نظر نہیں آتا۔
پس جس طرح باوجود اس امر کے کہ شراب ’’امّ الخبائث‘‘ ہے یعنی بدترین چیز ہے قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے جہاں اس کی برائیوں کی مذمت فرمائی ہے، وہاں اس کی خوبیوں کا اعتراف بھی فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے انگریزوں کے اچھے اور قابل تعریف کاموں کو جہاں سراہا ہے وہاں ان کے بُرے قابلِ نفرت واصلاح کاموں کی پر زور مذمت بھی فرمائی ہے۔
خلاصہ کلام:۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں انگریزی دور کی تعریف میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے سکھوں کے جبر و استبداد اور ان کے وحشیانہ مظالم کی طویل داستان ۱۸۵۷ء کا سانحہ اور اس کے ماسبق و ما بعد کا تاریخی پس منظر، مسلمانوں کی مذہبی و روحانی، تعلیمی و اقتصادی حالت کا علم ہونا ضروری ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ وہ سب تحریرات جو مخالفین کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں، مخالفین کی طرف سے عائد کردہ بغاوت کے جھوٹے الزام کے جواب میں بطور ’’ذبّ‘‘ ہیں۔ پھر یہ کہ حضور علیہ السلام یا حضورؑ کی جماعت یا اولاد نے انگریزی حکومت سے ایک کوڑی کا بھی نفع حاصل نہیں کیا۔ نہ کوئی جاگیر لی، نہ خطاب، نہ مربعے، بلکہ جو حق بات تھی اس کا ضرورتاً اظہار کیا گیا۔
پھر یہ ضروری پہلو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جہاں حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کی دنیوی اور مادی ترقیات کے لئے ان کی تعریف کی ہے وہاں اُن کے روحانی اور مذہبی نقائص کی اس سے زیادہ زور کے ساتھ مذمت بھی فرمائی ہے۔( اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی نظم مندرجہ نور الحق حصہ اوّل۔روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۱۲۳ تا ۱۳۱ و درثمین عربی صفحہ ۱۰۹ یا صفحہ ۱۱۸ بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں حضرت نے اﷲ تعالیٰ سے ہندوستان میں عیسائیوں کے غلبہ اور تسلط کے خلاف فریاد کرکے ان کی تباہی اور ہلاکت کے لیے بد دعا فرمائی ہے۔)
پھر حضرت مرزا صاحب نے نہ صرف یہ کہ انگریز ی قوم کو ’’دجّال‘‘ قرار دیا۔ بلکہ ان کو ’’ماجوج‘‘ بھی ثابت کیا اور فرمایا کہ آخری زمانہ میں جو یاجوج اور ماجوج نامی دو خطرناک قوموں کے خروج کی پیش گوئی قرآن شریف اور حدیث میں کی گئی ہے وہ روسؔ اور انگریزؔ یعنی یاجوج سے مراد روسی قوم اور ماجوج سے مراد انگریز قوم ہے۔ (دیکھو ازالہ اوہام مطبوعہ۱۸۹۱ء ۱۳۰۸ھ صفحہ ۵۰۲ طبع اوّل)
پس حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے انگریزوں کو ’’دجّال‘‘ اور ’’ماجوج‘‘ قرار دے کر ان کی روحانی اور دینی لحاظ سے مکروہ شکل کو اس کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا۔
دو نہریں:۔
انگریز کے پاس دینی اور دنیوی نقطۂ نگاہ سے دو نہریں تھیں۔ وہ ہندو ستان میں سیاسی تفوق کے باعث دنیوی حکومت کرنا چاہتا تھا اور دینی نقطۂ نگاہ سے وہ اہل ہند کو نوکِ شمشیر سے نہیں بلکہ تبلیغ ترغیب و تحریص وغیرہ ذرائع سے عیسائی بنانا چاہتا تھا۔ ہندوستانی عوام اور مسلمان انگریز وں کی تبلیغی مساعی کی طرف تو کوئی توجہ ہی نہ کرتے تھے اور نہ اس کے خطرہ کو محسوس کرتے تھے ECCLESLASTICAL DEPARTMENTکو جو انگریزی حکومت کا ایک شعبہ تھا اور جس کی سر پرستی میں تمام مشنری نظام چل رہا تھا مسلمانوں نے کبھی بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا اور نہ اس کے خلاف کبھی آواز اٹھائی۔ انہوں نے اگر کبھی کوئی آواز اٹھائی تو وہ انگریزوں کے سیاسی تفوق اور اقتدار کے خلاف تھی۔ گویا انگریز کی پیش کردہ دو نہروں (دینی اور دنیوی سرگرمیوں) میں سے اکثر مسلمانوں نے دینی نہر کو کبھی محلِ اعتراض نہ ٹھہرایا ،لیکن دنیوی نہر کو اپنے لئے ناقابل برداشت قرا ر دیتے ہوئے انگریز کے سیاسی و دنیوی اقتدار کو قبول کرنا اپنے لئے موت سمجھا۔ حالانکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمثیلی زبان میں یہ ہدایت فرمائی تھی:۔
’’مَعَہٗ نَھْرَانِ تَجْرِیَانِ اَحَدُھُمَا رَأْیَ الْعَیْنِ مَآءٌ اَبْیَضٌ وَالْاٰخَرُ رَأْیَ الْعَیْنِ نَارٌ تَأَجُّجٌ فَاَمَّا اَدْرَکَنَّ وَاحِدًا مِنْکُمْ فَلْیَاْتِ النَّھْرَ الَّذِیْ یَرَاہٗ نَارًا ثُمَّ لِیُغْمِضْ ثُمَّ لِیَطَأَطّٰی رَأْسَہٗ فَلْیَشْرِبْ مِنْہُ فَاَنَّہٗ مَآءٌ بَارِدٌ رَوَاہُ اَحْمَدُ وَالْبَیْھَقِیُّ وَ اَبُوْدَاؤٗدَ عَنْ حُذَیْفَۃَ وَاَبِیْ مَسْعُوْدٍ مَعًا۔ ‘‘
(کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۱۹۵ حدیث نمبر ۲۰۶۲۔ ابوداؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجّال واقتراب الساعۃ از نواب نورالحسن خان صاحب صفحہ۱۳۵)
کہ دجّال اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ دو جاری رہنے والی نہریں ہوں گی۔ ایک تو بظاہر سفید پانی کی نظر آنے والی ہوگی اور دوسری بظاہر شعلہ بار آگ نظر آئے گی پس جو تم میں سے دجال کا زمانہ پائے تو اسے چاہیے کہ وہ اس نہر پر جائے جو بظاہر آگ نظر آنے والی ہوگی۔ پھرکُلّی کرے پھر سر نیچا کر کے پانی سر پر ڈالے اور پی لے کیونکہ وہ ٹھنڈا پانی ہوگا۔
حدیث کی تشریح
اس حدیث میں بھی دراصل اس دوسری تمثیل ہی کو نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے جس میں یہ بتایاگیا تھا کہ دجّال کی دو آنکھوں میں سے ایک کی بصارت تیز تر ہوگی، لیکن دوسری آنکھ نابینا ہوگی۔ پس مندرجہ بالا حدیث میں بھی دو نہروں سے مراد دجّال کی دینی اور دنیوی تحریکیں ہی ہیں اور حضور کا منشا یہ ہے کہ جہاں تک اس کی دینی اور مذہبی کارروائیوں کا تعلق ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان سے اغماض نہ برتیں بلکہ پورے زور سے ان کا مقابلہ کریں اور دین اسلام کا روحانی تفوق بدلائل قویہ دجّال کے مذہب پر ثابت کریں۔ لیکن جہاں تک اس کی دنیاوی کوششوں کا تعلق ہے گو اس وجہ سے کہ اس نے نام کی مسلمان مغل حکومت سے ہندوستان کی زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی ہوگی، مسلمان اس کے سیاسی اقتدار کے آگے جھکنے کو اپنے لئے آگ میں کودنا تصور کریں گے۔ پھر بھی اس نظام کے ساتھ تعاون کرنے ہی میں مسلمانوں کا فائدہ مضمر ہوگا۔ اسی لئے حضورؐ نے فرمایا کہ ’’دجّال کے اس پانی کو سر نیچا کرکے اپنے سر پر ڈال لینا، یعنی اس کی حکومت کو قبول کر لینا اور ’’فَلْیَشْرِبْ مِنْہُ‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ اس کے ساتھ تعاون کرنا۔
جیسا کہ ابتدائی سطور میں بتایا جا چکا ہے کہ ۱۸۵۷ ء کے سانحہ کے بعد کے حالات کا طبعی اقتضاء یہی تھا کہ مشرکین یعنی ہندو اور سکھوں کے مقابلہ میں مسلمانان ہند نصرانی حکومت کو ترجیح دیتے اور ہندوکی جاری کردہ تحریک عدمِ تعاون میں شامل نہ ہوتے ۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے کسی خوشامد کے خیال سے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تعمیل میں جہاں تک انگریز کی دنیاوی سیاست کا تعلق تھا اس کی حکومت کو جو آپ کے مامور ہونے سے بیسیوں سال پہلے قائم اور استوار ہوچکی تھی اور جس نے سکھوں کے مظالم کا قلع قمع کر کے مسلمانوں کے لئے مذہبی اور معاشرتی آزادی کا اعلان کردیا تھا اور جس نے دنیاوی علم وفنون کا راستہ مسلمانوں کے لئے کھولا تھا اپنے تعاون کا یقین دلاتے۔ لیکن جہاں تک انگریز کی پیش کردہ دوسری نہر ( عیسائیت کی تبلیغ) کا تعلق ہے آپ نے دوسرے مسلمانوں کی طرح اس سے اغماض نہیں کرتا بلکہ تن تنہا اس کا دلیرانہ مقابلہ کیا اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہ کی کہ انگریز آپ کی عیسائیت کے خلاف کوششوں سے ناراض ہوتا ہے یا نہیں۔
آپ نے انگریز کے خداکو مردہ ثابت کیا
آپ نے عیسائیت کے مقابلہ میں جو سب سے زبردست اور فیصلہ کن حربہ استعمال فرمایا وہ انگریزوں کے ’’خدا‘‘ مسیح ناصری کی وفات کا مسئلہ تھا۔ آپ نے بدلائل قویہ ثابت کیا کہ مسیح ناصری وفات پاچکے ہیں اور سری نگر محلہ خانیار میں مدفون ہیں۔
آپ نے کوئی کتاب بھی ایسی تصنیف نہیں فرمائی جس میں اس مسئلہ پر زور نہ دیا ہو۔ احراری معترضین ’’پچاس الماریوں‘‘ کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن اُن کتابوں میں نصرانیت کے جھوٹا اورناقابل قبول مذہب ہونے کے بارے میں جو دلائل قویہ مذکور ہیں ان کا کیوں ذکر نہیں کرتے ؟ کیا یہ انگریز کی خوشامد کا نتیجہ تھا کہ:۔
۱۔ آپ نے انگریزکو دجّال قراردیا۔
۲۔آپ نے انگریزکو ماجوج ثابت کیا۔
۳۔ آپ نے انگریزکے خدا کی وفات بدلائل قویہ ثابت کر کیصلیب کو توڑ دیا۔
۴۔آپ نے امریکہ اور نگلستان میں تبلیغی لٹریچر شائع کیا اور کئی انگریزوں اور امریکنوں کو حلقہ عیسائیت سے نکال کر حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زنجیر غلامی میں جکڑ دیا۔
ملکہ وکٹوریہ کو دعوتِ اسلام دی
اس ضمن میں یہ امر خاص طور پر قابل توجہ ہے آپ کے زمانہ میں ہندوستان میں اور تمام دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان موجود تھے۔ کئی اسلامی سلطنتیں موجود تھیں۔لاکھوں کی تعداد میں علماء بھی موجود تھے۔ مصر میں، دیوبند میں فرنگی محل میں، بریلی میں، سہارن پور میں، دہلی میں، لکھنؤوغیرہ میں ہزاروں اسلامی ادارے تھے۔ بڑے بڑے مسلمان نواب اور بادشاہ موجود تھے۔ لیکن کیا یہ امر تعجب خیز نہیں کہ ان کروڑوں مسلمانوں میں سے سوائے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نصیب نہ ہوئی کہ ملکۂ وکٹوریہ کو دعوتِ اسلام دے سکے یا بیرونی عیسائی ممالک میں تبلیغِاسلام کا فریضہ ادا کرے؟
حضرت بانی ٔسلسلہ ملکہ وکٹوریہ کو مخاطب کر کے تحریر فرماتے ہیں:۔
’’اس (خدا) نے مجھے اس بات پر بھی اطلاع دی ہے کہ درحقیقت یسوع مسیح خدا کے نہایت پیارے اور نیک بندوں میں سے ہے……لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے۔‘‘
(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۷۲، ۲۷۳)
’’میرا شوق مجھے بیتاب کر رہا ہے کہ میں ان آسمانی نشانوں کی حضرت عالی قیصرہ ہند میں اطلاع دوں۔ میں حضرت یسوع مسیح کی طرف سے ایک سچے سفیر کی حیثیت میں کھڑا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ آجکل عیسائیت کے بارے میں سکھایا جاتا ہے یہ حضرت یسوع مسیح کی حقیقی تعلیم نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت مسیح دنیا میں پھر آتے تو وہ اس تعلیم کو شناخت بھی نہ کر سکتے۔‘‘
(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۷۳،۲۷۴)
’’اس میں کچھ شک نہیں کہ قرآن نے ان باریک پہلوؤں کا لحاظ کیا ہے جو انجیل نے نہیں کیا……اسی طرح قرآن عمیق حکمتوں سے پُر ہے۔ اور ہر ایک تعلیم میں انجیل کی نسبت حقیقی نیکی کے سکھلانے کیلئے آگے قدم رکھتا ہے۔ بالخصوص سچّے اور غیر متغیر خدا کے دیکھنے کا چراغ تو قرآن ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دنیا میں نہ آیا ہوتا تو خدا جانے دنیا میں مخلوق پرستی کا عدد کس نمبر تک پہنچ جاتا۔ سو شکر کا مقام ہے کہ خدا کی وحدانیت جو زمین سے گم ہوگئی تھی۔دوبارہ قائم ہوگئی۔‘‘
(تحفہ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد۱۵ صفحہ ۲۸۲)
پھر اﷲ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں:۔
’’اے قادر و توانا!…… قیصرۂ ہند کو مخلوق پرستی کی تاریکی سے چھڑا کر ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰ ہِ‘‘ پر اس کا خاتمہ کر۔‘‘
(اشتہار ۲۵ جون ۱۸۹۷ء تبلیغ رسالت جلد ۶ صفحہ۱۳۲)
غرضیکہ حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ نے جہاں انگریزی حکومت کے اس پہلو کی تعریف کی کہ وہ دین میں مداخلت نہیں کرتی اور رعایا کے مختلف الخیال اور مختلف العقیدہ عناصر کے مابین عدل و انصاف کی پالیسی پر عمل کرتی ہے وہاں آپ نے اس کے دینی اور روحانی پہلو کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کیا اور اس شان سے کیا کہ اس میدان میں آپ کے سوا ساری دنیا کے مسلمانوں میں سے ایک شخص بھی نظر نہیں آتا۔
پس جس طرح باوجود اس امر کے کہ شراب ’’امّ الخبائث‘‘ ہے یعنی بدترین چیز ہے قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے جہاں اس کی برائیوں کی مذمت فرمائی ہے، وہاں اس کی خوبیوں کا اعتراف بھی فرمایا ہے۔ اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے انگریزوں کے اچھے اور قابل تعریف کاموں کو جہاں سراہا ہے وہاں ان کے بُرے قابلِ نفرت واصلاح کاموں کی پر زور مذمت بھی فرمائی ہے۔
خلاصہ کلام:۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں انگریزی دور کی تعریف میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے سکھوں کے جبر و استبداد اور ان کے وحشیانہ مظالم کی طویل داستان ۱۸۵۷ء کا سانحہ اور اس کے ماسبق و ما بعد کا تاریخی پس منظر، مسلمانوں کی مذہبی و روحانی، تعلیمی و اقتصادی حالت کا علم ہونا ضروری ہے۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ وہ سب تحریرات جو مخالفین کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں، مخالفین کی طرف سے عائد کردہ بغاوت کے جھوٹے الزام کے جواب میں بطور ’’ذبّ‘‘ ہیں۔ پھر یہ کہ حضور علیہ السلام یا حضورؑ کی جماعت یا اولاد نے انگریزی حکومت سے ایک کوڑی کا بھی نفع حاصل نہیں کیا۔ نہ کوئی جاگیر لی، نہ خطاب، نہ مربعے، بلکہ جو حق بات تھی اس کا ضرورتاً اظہار کیا گیا۔
پھر یہ ضروری پہلو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ جہاں حضرت مرزا صاحب نے انگریزی قوم کی دنیوی اور مادی ترقیات کے لئے ان کی تعریف کی ہے وہاں اُن کے روحانی اور مذہبی نقائص کی اس سے زیادہ زور کے ساتھ مذمت بھی فرمائی ہے۔( اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی نظم مندرجہ نور الحق حصہ اوّل۔روحانی خزائن جلد۸ صفحہ۱۲۳ تا ۱۳۱ و درثمین عربی صفحہ ۱۰۹ یا صفحہ ۱۱۸ بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں حضرت نے اﷲ تعالیٰ سے ہندوستان میں عیسائیوں کے غلبہ اور تسلط کے خلاف فریاد کرکے ان کی تباہی اور ہلاکت کے لیے بد دعا فرمائی ہے۔)
Last edited: